diff --git "a/urdu-assamese/train.csv" "b/urdu-assamese/train.csv" new file mode 100644--- /dev/null +++ "b/urdu-assamese/train.csv" @@ -0,0 +1,1340 @@ +source_url,target_url,text,summary +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D8%A8%DB%8C%D8%B1-%D9%88%D9%90%DA%A9%D8%B1%D9%85-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,نئی دہلی،04؍جنوری؍2022: بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! تریپورہ کے گورنر جناب ستیہ آریہ جی، یہاں کے نوجوان اور پُرجوش وزیر اعلیٰ جناب بپلب دیو جی، تریپورہ کے نائب وزیر اعلیٰ جناب جشنو دیو ورما جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاونین بہن پرتما بھومک جی، جناب جیوترادتیہ سندھیا جی، ریاستی سرکار میں وزیر جناب این سی دیب برما جی، جناب رتن لال ناتھ جی، جناب پرنجیت سنگھا رائے جی، جناب منوج کانتی دیب جی، دیگر عوامی نمائندگان اور بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں! شبائی کے نموشکار! شکل کے دُو ہزار بائیس ورشیر آنیک –آنیک شوبھیکشا۔ جاتونو کھونوم کھا، جاتونو بیشی کاتالنی کھا کاہام یافر او۔ سال کی شروعات میں ہی تریپورہ کو ماں ترپور سندری کے آشیرواد سے آج تین تحفے مل رہے ہیں۔پہلا تحفہ-کنکٹی وٹی کا، دوسرا تحفہ-مشن 100 وِدیا جیوتی اسکولوں کااور تیسرا تحفہ-تریپورہ گرام سمردھی یوجنا کا۔ آج سینکڑوں کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد یہاں رکھا گیا ہے۔آپ سب کو ان تینوں ہی تحفوں کے لئے بہت بہت مبارکباد۔ ساتھیوں، 21ویں صدی کا بھارت، سب کو ساتھ لے کر، سب کے وِکاس اور سب کے پریاس سے ہی آگے بڑھے گا۔کچھ ریاستیں پیچھے رہیں، کچھ ریاست کے لوگ بنیادی سہولیات کے لئے ترستے رہے، یہ غیر متوازن ترقی قوم کی ترقی کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔تریپورہ کے لوگوں نے دہائیوں تک یہاں یہی دیکھا ہے، یہی تجربہ کیا ہے۔ پہلے یہاں بدعنوانی کی گاڑی رکنے کا نام نہیں لیتی تھی اور ترقی کی گاڑی پر بریک لگا ہوا تھا۔پہلے جو سرکار یہاں تھی، اس میں تریپورہ کی ترقی کا نہ وژن تھا اور نہ ہی اس کی نیت تھی۔غریبی اور پسماندگی کو تریپورہ کے نصیب کے ساتھ چپکا دیاگیا تھا۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لئے ہی میں نے تریپورہ کے لوگوں کو ایچ آئی آرے اے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ایچ سے ہائی وے، آئی سے انٹرنیٹ وے، آر سے ریلوے اور اے ایئرویز ۔ آج ہیرا ماڈل پر تریپورہ اپنی کنکٹی وٹی میں بہتری لارہا ہے اور بڑھا رہا ہے۔یہاں آنے سے پہلے سے میں مہاراجہ بیر وِکرم ایئرپورٹ کی نوتعمیر شدہ ٹرمنل بلڈنگ اور دوسری سہولیات کو دیکھنے گیا تھا۔ تریپورہ کی ثقافت ، یہاں کی وراثت، یہاں کا آرکیٹکچر، ایئرپورٹ پر اترنے والے ہر مسافر کو اب سب سے پہلے نظرآئے گا۔تریپورہ کی قدرتی خوبصورتی ہو، اُونا کوٹی ہِلس کے قبائل ساتھیوں کا فن ہو، پتھر کی مورتیاں ہوں، ایسا لگتا ہے کہ ایئرپورٹ پر پورا تریپورہ سمٹ آیا ہے۔نئی سہولتوں کے بعد مہاراجہ ویر وِکرم ایئرپورٹ کی صلاحیت پہلے کے مقابلےمیں تین گنا زیادہ ہوگئی ہے۔اب یہاں درجن بھر طیاروں کو کھڑا کیا جاسکتا ہے۔اس سے تریپورہ کے ساتھ ساتھ پورے شمال مشرق کی ہوائی کنکٹی وٹی بڑھانے میں بہت مدد ملے گی۔جب یہاں ڈومسٹک کارگو ٹرمنل کا، کولڈ اسٹوریج کا کام پورا ہوجائے گا تو پورے شمال مشرق کے کاروبار –تجارت کو نئی طاقت ملے گی۔ہمارے مہاراجہ بیر وِکرم جی نے تعلیم کے شعبے میں ، آرکیٹکچر کے شعبے میں تریپورہ کو نئی اونچائی دی تھی۔ آج وہ تریپورہ کی ترق�� ہوتے دیکھ کر ، یہاں کے لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ ساتھیوں، آج تریپورہ کی کنکٹی وٹی کو بڑھانے کے ساتھ ہی اسے نارتھ ایسٹ کے گیٹ وے کی شکل میں ترقی یافتہ بنانے کے لئے تیزی سے کام چل رہا ہے۔روڈ ہو، ریل ہو، ایئر ہو یا پھر واٹر وے کنکٹی وٹی، جدید بنیادی ڈھانچے پر جتنی سرمایہ کاری ہماری سرکار کررہی ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ اب تریپورہ اس خطے میں تجارت و کاروبار کا نیا ہب بن رہا ہے۔ٹریڈکوریڈور بن رہا ہے، روڈ اور ریلوے سے جڑے درجنوں پروجیکٹ اور بنگلہ دیش کے ساتھ انٹرنیشنل واٹر وے کنکٹی وٹی نے یہاں انقلابی تبدیلی لانا شروع کردیا ہے۔ ہماری سرکار اگرتلہ –اکھورا ریل لنک کو بھی تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بھائیوں اور بہوں، مرکز اور ریاست میں جب ترقی کو سب سے اوپر رکھنے والی سرکار ہوتی ہے، تو ددگنا تیزی سے کام بھی ہوتا ہے، اس لئے ڈبل انجن کی سرکار کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار یعنی وسائل کا صحیح استعمال۔ ڈبل انجن کی سرکار یعنی بھرپور حساسیت، ڈبل انجن کی سرکار یعنی لوگوں کی صلاحیت کو بڑھاوا، ڈبل انجن کی سرکار یعنی خدمت اور وقف کا جذبہ، ڈبل انجن کی سرکار یعنی عہد کی تکمیل اور ڈبل انجن کی سرکار یعنی خوشحالی کی طرف متحدہ کوشش ۔ آج یہاں جس مکھیہ منتری تریپورہ گرام سمردھی یوجنا کی شروعات ہورہی ہے، وہ اسی کی مثال ہے۔ جب ہر گھر میں نل سے پانی کا کنکشن ہوگا ، جب ہر غریب کے پاس پختہ چھت ہوگی اور ابھی میں کچھ مستفدین سے مل کر آیا، ان کا خود کا تجربہ کیا ہے۔ ان منصوبوں سے میں اسے سمجھنے کی کوشش کررہاتھا، لیکن ایک بیٹی جس کو گھر ملنا طے ہو ا ہے، وہاں ابھی صرف فلور کا ہی کام ہوا ہے، دیواریں باقی ہیں، لیکن وہ اتنی خوش تھی، اتنی خوش کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بند نہیں ہورہے تھے۔ یہ سرکار عوام الناس کی خوشی کے لئے وقف ہے۔ جب اہل خاندان کے پاس آیوشمان یوجنا کا کارڈ ہوگا۔ ایک ایسا خاندان مجھے ملا جہاں ماں اوراس کے نوجوان بیٹے دونوں کو کینسر ہوا تھا، آیوشمان بھارت یوجنا کے سبب ماں کی زندگی ، بیٹے کی زندگی ،اس کو دوبارہ مل پائے گی۔جب ہر غریب کے پاس بیمہ تحفظ کوچ ہوگا، جب ہر بچے کے پاس پڑھنے کا موقع ہوگا، ہر کسان کے پاس کے سی سی کارڈ ہوگا، ہر گاؤں میں اچھی سڑکیں ہوں گی ، تو غریب کی خود اعتمادی بڑھے گی اور غریب کی زندگی آسان ہوگی۔ میرے ملک کا ہر شہری بااختیار بنے گا، میرا غریب با اختیار ہوگا۔ یہی خود اعتمادی خوشحالی کی بنیاد ہے۔اسی لئے میں نے لال قلعے سے یہ کہا تھا کہ اب ہمیں منصوبوں کے ہر مستفدین تک خود پہنچنا ہوگا۔منصوبوں کی تکمیل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ ا ٓج تریپورہ نے اس سمت میں بہت بڑا قدم اٹھایا ہے۔ایسے سال میں جب تریپورہ اپنے مکمل ریاست کے درجےکے 50سال پورے کر رہا ہے، یہ عہد اپنے آپ میں بہت بڑی حصولیابی ہے۔گاؤں اور غریب کی فلاح کے لئے چل رہے منصوبوں کو عام لوگوں تک پہنچانے میں تریپورہ پہلے ہی ملک کی اولین ریاست میں ہے۔ گرام سمردھی یوجنا تریپورہ کے اس ریکارڈ کو اور بہتر بنائے گی۔20 سے زیادہ بنیادی سہولتیں ہر گاؤں ، ہرغریب خاندان کو ملے، اسے یقینی بنایا جائے گا۔مجھے یہ بات بھی پسند آئی کہ جو گاؤں صدفیصد اہداف پہلے حاصل کریں گے، ان کو لاکھوں کی حوصلہ افزائی رقم بھی دی جائے گی۔ اس سے ترقی کے لئےایک صحت مند مسابقت بھی پیدا ہوگی۔ ساتھیوں، آج تریپورہ میں جو سرکار ہے، وہ غریب کا دکھ بھی سمجھتی ہے اور غریب کے لئے حساس بھی ہے۔ہمارے میڈیا کے ساتھی اس کی بہت چرچا نہیں کرتے، اس لئے میں آج ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ جب تریپورہ میں پی ایم گرامین آواس یوجنا پر کام شروع ہوا تو ایک مشکل آئی کچے گھر کے مفہوم سے۔پہلے جو سرکار یہاں تھی، اس نے یہ انتظام کیا تھا کہ جس گھر میں لوہے کی چادر سے بنی چھت ہوگی، اسے کچا گھر نہیں مانا جائے گا، یعنی گھر کے اندر کی سہولتیں بھلے ہی خستہ ہوں، دیواریں مٹی کی ہوں، لیکن چھت پر لوہے کی چادر ہونے بھر سے اُس گھر کو کچا نہیں ماناجائے گا۔اس وجہ سے تریپورہ کے ہزاروں دیہی خاندان پی ایم آواس یوجنا کے فائدے سے محروم تھے۔میں تعریف کروں گا میرے ساتھی بپلب دیو جی کی، کیونکہ وہ اس معاملے کو لے کر میرے پاس آئے۔ مرکزی سرکار کے سامنے انہوں نے ثبوتوں کےساتھ تمام چیزیں رکھیں۔ اس کے بعد بھارت سرکار نے بھی اپنے ضابطے بدلے ، تاریخ کو بھی بدل دیا اور اس وجہ سے تریپورہ کے ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ غریب خاندانوں کو پختہ گھر کا حقدار بنایا گیا۔ اب تک تریپورہ کے 50 ہزار سے زیادہ ساتھیوں کو پختہ گھر مل بھی چکا ہے۔1.5لاکھ سے زیادہ خاندانوں کو حال ہی میں گھر بنانے کے لئے پہلی قسط بھی جاری ہوئی ہے۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پہلے کی سرکار کیسے کام کرتی تھی اور ہماری ڈبل انجن کی سرکار کیسے کام کررہی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، کسی بھی خطے کی ترقی کے لئے وسائل کے ساتھ ہی وہاں کے شہریوں کی اہلیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں ہم سے بھی زیادہ اہل بنیں، یہ وقت کی مانگ ہے۔بہت ضروری ہے۔ 21ویں صدی میں بھارت کو جدید بنانے والے دور اندیش نوجوان ملیں، اس کے لئے ملک میں نئی قومی تعلیمی پالیسی لاگو کی جارہی ہیں۔اس میں مقامی زبان میں پڑھائی پر بھی زور دیاگیا ہے۔تریپورہ کے طلباء کو اب مشن -100’وِدیا جیوتی مہم‘سے بھی مدد ملنے والی ہے۔ اسکولوں میں سینکڑوں کروڑ روپے سے تعمیر ہونے والی جدید سہولیات پڑھائی کو اور آسان اور قابل عمل بنائیں گی۔خاص طور سے اسکولوں کو جس طرح اٹل ٹنکرنگ لیب، آئی سی ٹی لیب اور ووکیشنل لیب سے لیس کیا جارہا ہے، وہ اینوویشن ، اسٹارٹ اَپس اور یونیکارنس سے مزئین آتم نر بھر بھارت کے لئے تریپورہ کے نوجوانوں کو تیار کرے گا۔ ساتھیوں، کورونا کے اس مشکل عہد میں بھی ہمارے نوجوانوں کو تعلیم کا نقصان نہ ہو، اس کے لئے متعدد کوششیں کی گئیں ہیں۔ کل سے ملک بھر میں 15 سے 18سال کی عمر کے بچوں کے لئے مفت ٹیکہ کاری مہم بھی شروع کی گئی ہے۔طلباء بے فکر ہوکر اپنی تعلیم حاصل کرسکیں، اپنا امتحان کسی فکر کے بغیر دے پائیں ، یہ بہت ضروری ہے۔تریپورہ میں تیزی سے ٹیکہ کاری مہم چل رہی ہے ۔ 80 فیصد سے زیادہ لوگوں کو پہلی خوراک اور 65 فیصد سے زیادہ لوگوں کو دوسری خوراک لگ چکی ہے۔مجھے مکمل یقین ہے کہ 15 سے 18سال کے نوجوانوں کے مکمل ٹیکہ کار ی کا ہدف بھی تریپورہ تیزی سے حاصل کرے گا۔ ساتھیوں، آج ڈبل انجن کی سرکار گاؤں ہو، شہر ہو، مکمل اور مستحکم ترقی کے لئے کوشش کررہی ہے۔ کھیتی سے لے کر جنگلاتی پیداوار اور سیلف ہیلپ گروپ سے لے کر تمام شعبوں میں جو کام ہورہا ہے، وہ بھی ہمارے اسی عہد کا ثبوت ہے۔ چھوٹے کسان ہوں، خواتین ہوں یا پھر جنگلاتی پیداوار پر منحصر ہمارے قبائل ساتھی۔ آج انہیں منظم کرکے ایک بڑی طاقت بنایا جارہا ہے۔ آج اگر تریپورہ پہلی بار مولی بنبو کوکیز ، جیسے پیکیجڈ پروڈکٹ لانچ کررہا ہے تو اس کے پیچھے تریپورہ کی ہماری ماؤں ، ��ہنوں کا بہت بڑا رول ہے۔ملک کو سنگل یوز پلاسٹک کا متبادل دینے میں بھی تریپورہ ایک اہم کردار نبھا سکتا ہے۔ یہاں کے بنے بانس کے جھاڑو، بانس کی بوتلیں، ایسی مصنوعات کے لئے بہت بڑا بازار ملک میں بن رہا ہے۔ اس سے بانس کے سامان کی تعمیر میں ہزاروں ساتھیوں کو روزگار ، خود کا روزگار مل رہا ہے۔ بانس سے جڑے قانون میں تبدیلی کا بہت زیادہ فائدہ تریپورہ کو ملا ہے۔ ساتھیوں، یہاں تریپورہ میں آرگینک فارمنگ کو لے کر بھی اچھاکام ہورہا ہے۔ پائن ایپل ہو، خوشبودار چاول ہوں، ادرک ہو، ہلدی ہو، مرچ ہو اس سے جڑے کسانوں کے لئے ملک اور دنیا میں آج بہت بڑا بازار بن چکا ہے۔ تریپورہ کے چھوٹے کسانوں کی یہ پیداوار آج کسان ، کسان ریل کے ذریعے اگرتلہ سے دہلی سمیت ملک کے کئی شہروں تک کم بھاڑے اور کم وقت میں پہنچا رہے ہیں۔ مہاراجہ بیر وِکرم ایئرپورٹ پر جو بڑا کارگو سینٹر بن رہا ہے، اس سے سے یہاں کی آگینک زرعی مصنوعات غیر ملکی بازاروں تک بھی آسانی سے پہنچنے والی ہے۔ ساتھیوں، ترقی کے ہر شعبے میں آگے رہنے کی تریپورہ کی جو عادت بن رہی ہے، اس کو ہمیں بنائے رکھنا ہے۔ملک کا عام آدمی ، ملک کے دور دراز کونے میں رہنے والا شخص ، ملک کی اقتصادی ترقی میں شراکت دار بنے، با اختیار بنے، طاقتور بنے، یہی ہمارا عہد ہے۔ اِنہی عہدوں سے تحریک لیتے ہوئے ہم اور دو گنا یقین کے ساتھ کام میں مصروف ہوں گے۔آپ لوگوں کا پیار ، آپ کی محبت اور آ پ کا یقین یہ ہمارے لئے بہت بڑا اثاثہ ہے۔آج میں ایئرپورٹ پر آتے ہوئے دیکھ رہا تھا، راستوں پر سب آواز دے رہے تھے۔ میں آپ کو ڈبل انجن کی طاقت کے حساب سے، آپ کے اس پیار کو ڈبل ترقی کرکے لوٹاؤں گا اور مجھے یقین ہے کہ جتنا پیاراور محبت تریپورہ کے لوگوں نے ہمیں دی ہے، وہ آگے بھی ملتی رہے گی۔ آپ کو ایک بار پھر ان ترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ماں تریپورہ شندرِر نکاٹ،آپنار پریواریر شامردھی، اُراجیر، شاربک بکاش کامنا کورچھی۔ شکول کے دھنباد …….جاتونو ہمبائی۔ بھارت ماتا کی جے!,ত্ৰিপুৰাত মহাৰাজা বীৰ বিক্ৰম বিমানবন্দৰ আৰু অন্যান্য প্ৰকল্পৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D9%82%D8%A7%D8%A8%D9%84-%D9%82%D8%A8%D9%88%D9%84-%DA%AF%D8%A7%D8%B1%D9%86%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%B8%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم (ای سی ایل جی ایس)کی حد کو 50000 کروڑروپے کا اضافہ کرتے ہوئے 4.5 لاکھ کروڑروپے سے بڑھاکر 5 لاکھ کروڑروپے کرنے کو منظوری دی ہے۔ ساتھ ہی خصوصی طور پر مہمان نوازی اور متعلقہ شعبوں کی صنعتوں کے لئے اضافی رقم مقرر کی گئی ہے ۔یہ اضافہ مہمان نوازی اور متعلقہ صنعتوں کے کووڈ -19 عالمی وبا کی وجہ سے ہونے والے سخت نقصانا ت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ نفاذ کا پروگرام : ای سی ایل جی ایس ایک جاری اسکیم ہے۔مہمان نوازی اور متعلقہ شعبوں کی صنعتوں کے لئے نافذ ہونے والی اسکیم کی رقم میں 50000 کروڑروپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اسکیم 31 مارچ 2023 تک جاری رہے گی۔ اثر ات : ای سی ایل جی ایس پہلے سے ہی جاری ایک اسکیم ہے اور مہمان نوازی اور متعلقہ شعبوں ��و کووڈ-19 عالمی وبا سے ہونے والے نقصانات کے پیش نظر حکومت نے ان شعبوں کی صنعتوں کے لئے خصوصی طور پر 50000 کروڑ روپے کی رقم مقرر کی ہے۔اس اضافے سے ان شعبوں کی صنعتوں کو راحت ملنے کی امید ہے ،جس کی کہ بہت زیادہ ضرورت تھی۔ اس میں قرض فراہم کرانے والے ادارے کم لاگت پر 50000 کروڑروپے تک کا اضافی قرض فراہم کرائیں گے ،جس سے یہ کاروباری ادارے اپنی کام کاجی ضرورتوں کو پورا کرسکیں اور اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں ۔ ای سی ایل جی ایس کے تحت پانچ اگست 2022 تک تقریباََ 3.67 لاکھ کروڑروپے کے قرض منظور کئے گئے ہیں۔ پس منظر : اس عالمی وبا نے زیادہ قریبی رابطے والے شعبوں ،خصوصی طورپر مہمان نوازی اور متعلقہ شعبوں کو بری طر ح متاثر کیا ہے۔دوسرے شعبے تو بحالی کے راستے پر تیزی سے بڑھ گئے ، لیکن ان شعبوں کے لئے مزید مدت تک تعاون کی مانگ جاری رہی،جس کا تقاضہ تھا کہ ان کے باقی رہنے اور بحالی کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔ اس کےعلاوہ ان شعبوں میں بہت زیادہ لوگوں کے روز گار کی وجہ سے دیگر شعبوں کے ساتھ بھی اس کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہے،اس لئے مجموعی اقتصادی بحالی کی مدد کے لئے ان کی بحالی بھی ضروری ہے۔اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے مرکزی بجٹ 23-2022 میں ای سی ایل جی ایس کی مدت کو مارچ 2023 تک آگے بڑھانے اور ای سی ایل جی ایس کے گارنٹی کَور کی حد میں 50000 کروڑروپے کا اضافہ کرکے مجموعی کور کو پانچ لاکھ کروڑروپے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ساتھ ہی مہمان نوازی اور متعلقہ شعبے کی صنعتوں کے لئے خصوصی طور پر اضافی رقم مقررکی گئی ۔ ٹیکہ کاری کی سطح میں اضافے، پابندیوں کو بتدریج ہٹائے جانے اور مجموعی اقتصادی بحالی کی وجہ سے ان شعبوں کے لئے بھی مانگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس اضافی گارنٹی کَور سے ان شعبوں کی بھی بحالی میں تعاون کی توقع ہے۔,কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাই স্বীকাৰ্য গেৰাণ্টীসমূহৰ সীমা বঢ়াবলৈ জৰুৰীকালীন ক্ৰেডিট লাইন গেৰাণ্টী আঁচনিৰ কোষ বৃদ্ধিত অনুমোদন দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%DA%86%D8%B1%D9%84-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%D9%86%DA%AF-%DA%A9%D9%86%DA%A9%D9%84%DB%8C%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,نئی دہلی۔ 10 جولائی گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی،گجرات کے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ، جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، حکومت گجرات کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ اوراراکین اسمبلی ، سورت کے میئر اور ضلع پریشد کے صدر، سبھی موجود سرپنچ، شعبہ زراعت کے ماہر ین ساتھیوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی ، گجرات کے صدر جناب سی آر پاٹل اور میرے تمام پیارے کسان بھائیو اور بہنو! چند مہینے پہلے، گجرات میں قدرتی کاشتکاری کے موضوع پر ایک قومی کانکلیو کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس انعقاد میں ملک بھر کے کسان شامل تھے۔ کہ ملک میں قدرتی کھیتی کے حوالے سے کتنی بڑی مہم چل رہی ہے اس کی یہ ایک جھلک تھی ۔ آج ایک بار پھر سورت میں یہ اہم پروگرام کا انعقاد اس بات کی علامت ہے کہ کس طرح گجرات ملک کے امرت عزائم کو تحریک دے رہا ہے۔ ہر گرام پنچایت میں 75 کسانوں کو قدرتی کھیتی سے جوڑنے کے مشن میں سورت کی کامیابی پورے ملک کے لیے ایک مثال بننے والی ہے اور اس کے لیے سورت کے لوگوں کا خیر مقدم کرتا ہوں، سورت کے کسانوں کا خیر مقدم کرتا ہوں، حکومت کے تمام ساتھیوں کا استقبال کرتا ہوں۔ ’قدرتی زراعت کانفرنس‘ کے اس موقع پر، میں اس مہم میں شامل ہر فرد کو، اپنے تمام کسان ساتھیوں کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ جن کسان ساتھیوں کو ،سرپنچ ساتھیوں کو آج اعزاز سے نوازا گیا ، میں انہیں بھی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور خاص طور پر کسانوں کے ساتھ ساتھ سرپنچوں کے کردار کی بھی بہت ستائش کرتا ہوں۔ انہوں نے یہ پہل کی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے تمام سرپنچ بھائیوں اور بہنیں یکساں طور پر ستائش کے مستحق ہیں۔ کسان تو ہے ہی۔ ساتھیوں، آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے بعد ملک نے ایسے متعدد اہداف پر کام شروع کر دیا ہے، جو آنے والے وقت میں بڑی تبدیلیوں کی بنیاد بنیں گے۔ امرت کال میں ملک کی ترقی و پیشرفت کی بنیاد سب کی کاوش کا جذبہ ہے جو ہمارے اس ترقی کے سفر کو آگے بڑھا رہا ہے۔ خاص طور پر گاوں کے غریبوں اور کسانوں کے لیے جو بھی کام ہو رہے ہیں ان کی قیادت بھی ہم وطنوں اور گاؤں کی پنچایتوں کو دی گئی ہے۔ میں گجرات میں قدرتی کھیتی کے اس مشن کو مسلسل قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ اور اس کی پیشرفت کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہےاور خاص طور پر کسان بھائیوں اور بہنوں نے اس بات کو اپنے ذہن میں اتار لیا ہے اور دل سے اپنا لیا ہے، اس سے بہتر کوئی اورواقعہ نہیں ہو سکتاہے۔ سورت کے ہر گاؤں پنچایت سے 75 کسانوں کو منتخب کرنے کے لیے گاؤں کی کمیٹیاں، تعلقہ کمیٹیاں اور ضلعی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ گاؤں کی سطح پر ٹیمیں بنائی گئیں، ٹیم لیڈر بنائے گئے، نوڈل افسروں کو تعلقہ میں ذمہ داری دی گئی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس دوران باقاعدہ تربیتی پروگرام اور ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اور آج اتنے کم وقت میں 550 سے زیادہ پنچایتوں سے 40 ہزار سے زیادہ کسان قدرتی کھیتی کے مہم میں شامل ہو چکے ہیں۔ یعنی ایک چھوٹے سے علاقے میں اتنا بڑا کام، یہ بہت اچھی شروعات ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا آغاز ہے اور یہ ہر کسان کے دل میں اعتماد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ آنے والے وقت میں پورے ملک کے کسان آپ سب کی کوششوں سے، آپ سب کے تجربات سے بہت کچھ جانیں گے، سمجھیں گے، سیکھیں گے۔ سورت سے نکلنے والی قدرتی زراعت کا ماڈل بھی پورے ہندوستان کے لیے نمونہ بن سکتا ہے۔ بھائیو اور بہنو، جب اہل وطن خود ہی کسی مقصد کے حصول کے لیے پرعزم ہو جائیں تو اس مقصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ہمیں کبھی تھکن کا احساس ہوتا ہے۔ جب بڑے سے بڑا کام عوامی شراکت کی طاقت سے کیا جاتا ہے تو اس کی کامیابی ملک کے عوام بذات خود یقینی بناتے ہیں۔ جل جیون مشن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ گاؤں گاؤں صاف پانی فراہم کرنے کے لیے اتنے بڑے مشن کی ذمہ داری ملک کے گاؤں اور گاؤں کے لوگ، گاؤں میں بنی پانی کمیٹیاں یہی لوگ تو سنبھال رہے ہیں۔ سوچھ بھارت جیسی اتنی بڑی مہم کی کامیابی، جس کی آج تمام عالمی تنظیمیں ستائش کر رہی ہیں، اس کا بھی بڑا سہرا ہمارے گاؤں کے سر ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل انڈیا مشن کی غیر معمولی کامیابی بھی ان لوگوں کو ملک کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ گاؤں میں تبدیلی لانا آسان نہیں ہے۔ لوگوں نے اپنا ذہن بنا لیا تھا بھائی، انہیں گاؤں میں توایسے ہی رہنا ہے، ایسے ہی گزر بسر کرنا ہے۔ گاؤں میں کوئی تبدیلی آ ہی نہیں سکتی ہے، یہ تصور کر کے بیٹھے تھے۔ ہمارے گاؤں نے دکھایا ہے کہ گاؤں نہ صرف تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ تبدیلی کی قیادت بھی کر سکتے ہیں۔ قدرتی کھیتی کے حوالے سے ملک کی یہ عوامی تحریک آنے والے ��الوں میں بھی بڑے پیمانے پر کامیاب ہوگی۔ جو کسان اس تبدیلی میں جتنی جلدی شامل ہوں گے، وہ اتنی ہی زیادہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچیں گے۔ ساتھیوں، ہماری زندگی، ہماری صحت، ہمارا معاشرہ ہمارے زرعی نظام کی بنیاد ہے۔اپنے یہاں کہتے ہیں جیسی غذا ، ویسی طبیعت۔ ہندوستان فطرت اور ثقافت کے اعتبار سے زراعت پر مبنی ملک رہا ہے۔ اس لیے جیسے جیسے ہمارا کسان ترقی کرے گا، جیسے جیسے ہماری زراعت ترقی کرے گی ، ویسےویسے ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا۔ اس پروگرام کے ذریعہ میں ملک کے کسانوں کو ایک اور بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ قدرتی کاشتکاری معاشی کامیابی کا ایک ذریعہ بھی ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہماری ماں، ہماری ماں دھرتی، ہمارے لیےتو یہ دھرتی ماں، جس کی ہم ہر روز پوجا کرتے ہیں، صبح بستر سے اٹھ کر پہلے دھرتی ماں سے معافی مانگتے ہیں، یہ ہمارے سنسکار ہیں۔ یہ دھرتی ماں اور دھرتی ماں کی خدمت کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آج، جب آپ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں، تو آپ زراعت اور اس سے متعلقہ مصنوعات سے کاشتکاری کے لیے ضروری وسائل جمع کرتے ہیں۔ آپ گائے اور مویشیوں سے 'جیوامرت' اور 'گھن جیوامرت' تیار کرتے ہیں۔ اس سے کاشتکاری کی لاگت کم ہوتی ہے۔ خرچ کم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مویشیوں سے آمدنی کے اضافی ذرائع بھی کھلتے ہیں۔ ان مویشیوں کو پہلے جس سے آمدنی سے حاصل ہو رہی تھی ، اس سے اندر ہی اندر آمدن بڑھتی ہے۔ اسی طرح، جب آپ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں، تو آپ دھرتی ماتا کی خدمت کرتے ہیں، مٹی کے معیار، زمین کی صحت، اس کی پیداواری صلاحیت کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب آپ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں، تو آپ فطرت اور ماحول کی بھی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ قدرتی کھیتی میں شامل ہوتے ہیں، تو آپ کو آسانی سے گائے ماں کی خدمت کرنے کی سعادت مل جاتی ہے، آپ کو ذی روح کی خدمت کی سعادت بھی ملتی ہے۔ اب مجھے بتایا گیا کہ سورت میں 40-45 گوشالوں کو ٹھیکہ دے کر گائے جیوامرت تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ سوچیں اس سے کتنی گایوں کی خدمت کی جائے گی۔ اس سب کے ساتھ قدرتی کھیتی سے پیدا کیا جانے والا اناج ، جو لاکھوں لوگوں کا پیٹ پالتی ہے، وہ جراثیم کش ادویات اور کیمیکلز سے ہونے والی مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ صحت مندی کا یہ فائدہ کروڑوں لوگوں کو ملتا ہے، اور یہاں ہم نے خوراک سے صحت کا براہ راست تعلق تسلیم کیا ہے۔ آپ کے جسم کی صحت اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس قسم کی خوراک کھاتے ہیں۔ ساتھیوں، زندگی کا یہ تحفظ ہمیں خدمت اور نیکی کے بے شمار مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا، قدرتی کاشتکاری نہ صرف انفرادی خوشحالی کا راستہ کھولتی ہے، بلکہ یہ 'سروے بھونتو سکھینہ، سرو سنتو نرمایہ' کے اس جذبے کو بھی مجسم کرتی ہے۔ ساتھیوں، آج پوری دنیا ’پائیدار طرز زندگی ‘کی بات کر رہی ہے، خالص کھانے پینے کی بات کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہندوستان کے پاس ہزاروں سال کا علم اور تجربہ ہے۔ ہم نے صدیوں تک اس سمت میں دنیا کی قیادت کی ہے۔ اس لیے آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم قدرتی کاشتکاری جیسی مہمات میں آگے بڑھ کر زراعت سے متعلق عالمی امکانات کے کام سبھی تک اس کا فائدہ پہنچائیں۔ ملک گزشتہ آٹھ سالوں سے اس سمت میں سنجیدگی سے کام کر رہا ہے۔ آج کسانوں کو ’روایتی زرعی ترقی یوجنا‘اور’ہندوستانی زرعی نظام‘جیسے پروگراموں کے ذریعہ آج کسانوں کو وسائل، سہولیات اور مدد دی جا رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ملک میں 30 ہزار کلسٹر بنائ�� گئے ہیں، لاکھوں کسان اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ’روایتی زرعی ترقی یوجنا‘کے تحت ملک میں تقریباً 10 لاکھ ہیکٹر اراضی کا احاطہ کیا جائے گا۔ قدرتی کاشتکاری کے ثقافتی، سماجی اور ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم نے اسے نمامی گنگے پروجیکٹ سے بھی جوڑا ہے۔ قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے آج ملک میں گنگا کے کنارے ایک الگ مہم چلائی جا رہی ہے، راہداری بنائی جا رہی ہے۔ مارکیٹ میں قدرتی کھیتی کی پیداوار کی الگ سے مانگ ہوتی ہے، اس کی قیمت بھی زیادہ ملتی ہے۔ ابھی میں داہود آیا تھا، تو میں نے داہود میں مجھے اپنی قبائلی بہنوں سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ قدرتی کاشتکاری کرتی ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہمارا آرڈر تو ایک مہینہ پہلے بک ہوجاتا ہے۔ اور ہمارے ہاں جو سبزیاں روزانہ ہوتی ہیں، وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر گنگا کے آس پاس پانچ پانچ کلومیٹر تک قدرتی کھیتی کی مہم شروع کی گئی ہے۔ تاکہ کیمیکل دریا میں نہ جائے، پینے میں بھی کیمیکل والا پانی پیٹ میں نہ جائے۔ مستقبل میں، ہم یہ تمام تجربات تاپی کے دونوں طرف، ماں نرمدا کے دونوں طرف کر سکتے ہیں۔ اور اس لیے قدرتی کاشتکاری کی پیداوار کو سرٹیفائی کرنے کے لیے، کیونکہ اس سے جو پیداوار ہوگی ، اس کی خصوصیت ہونی چاہیے، اس کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور اس کے لیے کسانوں کو زیادہ رقم ملنی چاہیے، اس لیے ہم نے اس کی تصدیق کے لیے انتظامات کیے ہیں۔ اس کی تصدیق کے لیے کوالٹی ایشورنس کا نظام بھی بنایا گیا ہے۔ ہمارے کسان ایسی تصدیق شدہ فصلیں اچھی قیمت پر برآمد کر رہے ہیں۔ آج کیمیکل سے پاک مصنوعات عالمی منڈی میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ہمیں اس کا فائدہ ملک کے زیادہ سے زیادہ کسانوں تک پہنچانا ہے۔ ساتھیوں، حکومت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اس سمت میں اپنے قدیم علم کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔ ہمارے یہاں ویدوں سے لے کر کرشی گرنتھوں اور کوٹلیہ، وراہ میہر جیسے دانشوروں تک ، قدرتی کھیتی سے وابستہ علم کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ آچاریہ دیوورت جی ہمارے درمیان ہیں، وہ بھی اس موضوع کے بارے میں بہت زیادہ علم رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کا منتر بنایا ہے، خود بھی بہت تجربہ کرکے کامیابی حاصل کی ہے اور اب اس کامیابی کا فائدہ گجرات کے کسانوں کو ملے ، اس لیے وہ ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ لیکن ساتھیو، جتنا میں جانتا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے شاستر سے لے کر عوامی معلومات تک ، عوامی بولی میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، اس سے اتنے گہرے دھاگے پوشیدہ ہیں۔ میری جانکاری کے مطابق اپنے یہاں گھاگھ اور بھڈری جیسے دانشوروں نے زراعت کے منتر عام لوگوں کے لیے آسان زبان میں دستیاب کرائے ہیں۔ جیسا کہ ایک کہاوت ہے، اب ہر کسان اس کہاوت کو جانتا ہے یعنی 'گوبر وغیرہ اور نیم کی کیک اگر کھیت میں ڈالی جائے تو فصل دوگنی ہوگی۔ اسی طرح ایک اور مشہور کہانی ہے، جملہ ہے- ’چھوڑے کھاد جوت گہرائی، پھر کھیتی کا مزہ دکھائی‘ یعنی کھیت میں کھاد چھوڑ کر پھر ہل چلانے سے کھیتی باڑی کا مزہ نظر آتا ہے، اس کی طاقت معلوم ہوتی ہے۔ میں چاہوں گا کہ جو تنظیمیں، غیر سرکاری ادارے اور ماہرین یہاں بیٹھے ہیں، وہ اس طرف توجہ دیں۔ کھلے ذہن کے ساتھ ایک بار اپنے تصورات پر نظر ثانی کریں۔ اس پرانے تجربے سے کیا نکل سکتا ہے، میری سائنسدانوں سے خصوصی درخواست ہے کہ ہمت کر کے آگے آئیں۔ ہمیں اپنے دستیاب وسائل کی بنیاد پر نئی تحقیق کرنی چاہیے، اپنے کسان کو کیسے مضبوط بنایا جائے، اپنی زراعت کو کیسے اچھا بنایا جائے، اپنی دھرتی ماں کو کیسے محفوظ رکھا جائے، اس کے لیے ہمارے سائنسدان ، ہمارے تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے آگے آئیں۔ یہ سب چیزیں وقت کے مطابق کسانوں تک کیسے پہنچائی جا سکتی ہیں، لیبارٹری میں تسلیم شدہ سائنس کسان کی زبان میں کسان تک کیسے پہنچائی جا سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قدرتی کھیتی کے ذریعہ ملک نے شروعات کی ہے ، اس سے نہ صرف کسانوں کی زندگی خوشحال ہوگی بلکہ ایک نئے ہندوستان کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ میں کاشی کے علاقے سے لوک سبھا کا ممبر ہوں، اس لیے جب بھی مجھے کاشی کے کسانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، بات چیت ہوتی ہے، مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے کاشی کے کسان قدرتی کھیتی کے حوالے سے کافی معلومات اکٹھا کرتے ہیں، وہ تجربہ کرتے ہیں۔ خود دن رات محنت کرتے ہیں اور انہیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اب جو پیداوار انہوں نے تیار کی ہے وہ عالمی منڈی میں فروخت ہونے کے لیے تیار ہے اور اسی لیے میں چاہوں گا اور سورت تو ایسا ہے، شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہو گا جہاں لوگ بیرون ملک نہ ہوں۔ سورج کی بھی ایک خاص پہچان ہے اور اس لیے سورت کی پہل، یہ اپنے آپ میں جگمگا اٹھے گی۔ ساتھیوں، آپ نے جو مہم چلائی ہے وہ ہر گاؤں میں 75 کسان اور مجھے پختہ یقین ہے کہ اگر آج آپ نے 75 کا ہدف مقرر کیا ہے تو ہر گاؤں میں 750 کسان تیار ہوجائیں گے اور ایک بار جب پورا ضلع اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا تودنیا کے جو خریدار ہیں وہ ہمیشہ آپ کے پاس پتہ ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے کہ یہاں کوئی کیمیکل نہیں ہے، کوئی دوائیاں نہیں ہیں، سادہ قدرتی مصنوعات ہیں، تو لوگ اپنی صحت کے لیے دو پیسے زیادہ دے کر یہ سامان لیں گے۔ سورت شہر میں تمام سبزیاں اپنی جگہ سے جاتی ہیں، اگر سورت شہر کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کی سبزی قدرتی کھیتی کی ہے، تو مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے سورتی لوگ اس بار کی پیداوار تو اسی بار کا اوندھیو آپ کی قدرتی کھیتی کی سبزی میں سے ہی بنائیں گے۔ اور پھر سورت کے لوگ بورڈ لگائیں گے، قدرتی کھیتی کی سبزی والی اوندھیو۔ آپ دیکھیں گے اس علاقے میں ایک مارکیٹ بن رہی ہے۔ سورت کی اپنی طاقت ہے، سورت کے لوگ جس طرح ہیروں کو تیل لگاتے ہیں ، ویسے اس کو تیل لگائیں گے۔ سورت میں چل رہی اس مہم کا فائدہ اٹھانے کے لیے سب لوگ آگے آئیں گے۔ آپ سب کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا، اتنی اچھی مہم شروع کی ہے، میں اس کے لیے آپ سب کو دوبارہ مبارکباد دیتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,প্ৰাকৃতিক কৃষি সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া ৰূপান্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D8%A7%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B4%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%9F%E0%A7%8D/,نئی دہلی،12۔اپریل ،وزیراعظم جناب نریندرمودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے آندھرپردیش میں وشاکھاپٹنم میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعے قومی اہمیت کے انسٹی ٹیوٹ کے طورپر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پیٹرولیم اور توانائی (آئی آئی پی ای) کے قیام کو منظوری دے دی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کو اسی طرح ڈگریاں دینے کے لئے حکمرانی ڈھانچہ اور قانونی اختیارحاصل ہوگا، جس طرح آئی آئی ٹی کو حاصل ہے۔ کابینہ نے آئی آئی پی ای کے قیام کے لئے 655.46کروڑروپے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ آندھرپردیش حکومت نے وشاکھاپٹنم ضلع میں سیباورم منڈل میں آئی آئی پی ای کے قیام کے لئے مفت 200 ایکڑزمین مختص کی ہے۔ آئی آئی پی ای کا 18اپریل 2016 کو اے پی سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے ایک سوسائٹی کےطورپراندراج ہوا ہے۔ آندھرایونیورسٹی کیمپس سے 17-2016 کے تعلیمی سال سے آئی آئی پی ای کا ایک عارضی کیمپس قائم کیاگیا ہے۔ م ن ۔ ح ا ۔ ک ا ),অন্ধ্ৰপ্ৰদেশৰ বিশাখাপট্টনমত ইণ্ডিয়ান ইনষ্টিটিউট অৱ পেট্র’লিয়াম এণ্ড এনার্জি(আইআইপিই) স্থাপনৰ সিদ্ধান্তত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B4%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D8%A7-%D9%BE%D9%B9%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%9F%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج آندھرا پردیش کے وشاکھا پٹنم میں 10500 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف النوع پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب کا آغاز اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کیا جب انہیں وپلو ویرودو الورو سیتارام راجو کی پیدائش کی 125ویں سالگرہ کے موقع پر آندھراپردیش کا دورہ کرنے کا موقع حاصل ہوا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وشاکھا پٹنم ایک بہت ہی خاص شہر ہے جس سے تجارت و کاروبار کی ازحد مالامال روایات وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وشاکھاپٹنم ،جو کہ قدیم ہندوستان میں ایک اہم بندرگاہ والا شہر تھا، وہ ہزاروں برس قبل مغربی ایشیا اور روم کے تجارتی راستے کا حصہ تھا اور یہ شہر آج کے دور میں بھی بھارتی تجارت کا مرکزی مقام ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 10500 کروڑ روپئے کے بقدر کے پروجیکٹس جنہیں قوم کے نام وقف کیا جا رہا ہے اور جن کا سنگ بنیاد آج رکھا جا رہا ہے، یہ پروجیکٹس بنیادی ڈھانچہ، زندگی بسر کرنا آسان بنانے اور آتم نربھر بھارت کے لیے نئے زاویے پیداکرکے، وشاکھاپٹنم اور آندھراپردیش کی امیدوں اور آرزوؤں کی حصولیابی کے لیے ایک وسیلہ کے طور پر کام کریں گے۔ وزیر اعظم نے بھارت کے سابق نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ آندھراپردیش کے تئیں ان کی محبت اور ایثار بے مثال ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ خواہ تعلیم ہو یا صنعت کاری، تکنالوجی ہو یا طبی پیشہ، آندھرا پردیش کے عوام نے ہر میدان میں خوب نام کمایا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ آندھرا پردیش کے عوام کو یہ قبولیت محض ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دوستانہ اور خوش مزاج رویے کی وجہ سے بھی حاصل ہے۔ وزیر اعظم نے ان پروجیکٹوں پر خوشی کا اظہار کیا جنہیں آج قوم کے نام وقف کیا جا رہا ہے اور جن کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ریاست میں ترقی کی رفتار میں مزید تیزی آئے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’اس امرت کال کے دوران ، ملک ترقی یافتہ بھارت کے مقصد کے ساتھ تیزی سے ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ ‘‘ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ترقی کاراستہ کثیر جہتی ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ راستہ عام شہریوں کی ضرورتوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور جدید بنیادی ڈھانچہ کے لیے ایک خاکہ پیش کرتا ہے۔ انہوں نے مبنی بر شمولیت نمو کے حکومت کے خواب کو اجاگر کیا۔ و��یر اعظم نے بنیادی ڈھانچہ ترقی کو لے کر سابقہ حکومتوں کی الگ تھلگ سوچ پر افسوس کا اظہار کیا جس کے نتیجہ میں سپلائی چین کے نظام کو نقصان پہنچا اور لاجسٹکس کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے مطلع کیا کہ حکومت نے ترقی کے مربوط نظریہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بنیادی ڈھانچہ ترقی کے ایک نئے نقطہ نظر کو اپنایا کیونکہ سپلائی چین اور لاجسٹکس کثیر ماڈل کنکٹیویٹی پر منحصر ہوتے ہیں ۔ آج شروع کیے گئے پروجیکٹوں سے ترقی کے مربوط نظریہ کی مثال پیش کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے مجوزہ اقتصادی گلیارہ پروجیکٹ میں چھ لینوں والی سڑکوں، بندرگاہ کنکٹیویٹی کے لیے ایک علیحدہ سڑک، وشاکھا پٹنم ریلوے اسٹیشن کی تزئین کاری اور جدید ماہی گیری بندرگاہ کی تعمیر کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے ترقی کے اس مربوط نظریہ کا سہرا پی ایم گتی شکتی قوم ماسٹر پلان کے سر باندھا اور کہا کہ اس نے نہ صرف بنیادی ڈھانچہ تعمیرات کی رفتار کو مہمیز کیا بلکہ پروجیکٹوں کی لاگت میں بھی تخفیف کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کثیر ماڈل نقل و حمل نظام ہر شہر کا مستقبل ہے اور وشاکھا پٹنم نے اس سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ آندھرا پردیش اور اس کے ساحلی علاقے نئی رفتار اور توانائی کے ساتھ ترقی کی اس دوڑ میں آگے بڑھیں گے۔ وزیر اعظم نے بحران زدہ عالمی موسمیات کا ذکر کیا ، اور اہم مصنوعات اور توانائی ضرورتوں کے لیے سپلائی چین کی رخنہ اندازیوں کے بارے میں بات کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ، تاہم بھارت نے ان مشکل حالات میں ترقی کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ دنیا نے اسے تسلیم کیا ہے اور ماہرین بھارت کی حصولیابیوں کی تعریف کر رہے ہیں، اور بھارت پوری دنیا کے لیے امید کا مرکز بن چکا ہے۔یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کیونکہ بھارت اپنے شہریوں کی امنگوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے۔ ہر پالیسی اور فیصلہ عام شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔ وزیر اعظم نے بھارت میں افزوں سرمایہ کاری کی وجہ پی ایل آئی اسکیم، جی ایس ٹی، آئی بی سی اور قومی بنیادی ڈھانچہ پائپ لائن جیسی اسکیموں کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ، اس کے ساتھ ساتھ ناداروں کی فلاح و بہبود سے متعلق اسکیموں کو بھی توسیع دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وہ علاقے جو پہلے حاشیے پر موجود تھے، آج ترقی کے اس سفر میں انہیں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ امنگوں والے اضلاع پروگرام کے توسط سے ازحد پسماندہ اضلاع میں بھی ترقیاتی اسکیمیں نافذ کی جا رہی ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے گذشتہ ڈھائی برسوں کے دوران عوام کے لیے مفت راشن، ہر کاشتکار کے کھاتے میں سالانہ 6 ہزار روپئے، اور ڈرون، گیمنگ اور اسٹارٹ اپ سے متعلق قواعد میں نرمی جیسے متعدد اقدامات کا ذکر کیا۔ واضح ہدف کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے آندھرا پردیش میں جدید تکنالوجی کے ذریعہ سمندر کی گہرائی سے توانائی حاصل کرنے کی مثال پیش کی۔انہوں نے بحری معیشت پر حکومت کے ذریعہ دی جانے والی توجہ کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’پہلی مرتبہ بحری معیشت اتنی بڑی ترجیح بن کر ابھری ہے۔‘‘ انہوں نے ماہی گیروں کے لیے کسان کریڈٹ کارڈس اور وشاکھاپٹنم ماہی گیری بندرگاہ کی جدید کاری جیسے اقدامات کا ذکر کیا ، جس کا آغاز آج ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے اس امر کو اجاگر کیا کہ سمندر صدیوں سے بھارت کے لیے خوشحالی کا وسیلہ رہا ہے اور ہمارے سمندری کنارے اس خوشحالی کے داخلی دروازے کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دی�� کہ بندرگاہوں کے لیے ہزاروں کروڑ روپئے کے بقدر کے جاری پروجیکٹوں سے ملک میں ترقی رونما ہوئی ہے اور آج ان پروجیکٹوں کو مزید توسیع سے ہمکنار کیا جائے گا۔ اپنے خطاب کے آخر میں وزیر اعظم نے کہا، ’’21ویں صدی کا بھارت ترقی سے متعلق جامع نظریہ کو زمینی سطح پر لا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آندھرا پردیش ملک کی اس ترقیاتی مہم میں ایک اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب وائی ایس آر جگن ریڈی، آندھرا پردیش کے گورنر جناب بسوا بھوشن ہری چندن، مرکزی وزیر اشونی ویشنو، پارلیمنٹ اور آندھرا پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے اراکین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تقریباً 450 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے وشاکھاپٹنم ریلوے اسٹیشن کی ازسر نوتعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھا۔ ازسر نو تعمیر شدہ اسٹیشن یومیہ 75000 مسافرین کو سہولت بہم پہنچائے گا اور جدید سہولتیں فراہم کراتے ہوئے مسافرین کے تجربہ کو بہتر بنائے گا۔ وزیر اعظم نے وشاکھاپٹنم ماہی گیری بندرگاہ کی جدید کاری کے لیے بھی سنگ بنیاد رکھا۔ اس پروجیکٹ کی مجموعی لاگت تقریباً 150 کروڑ روپئے کے بقدر ہے۔ اپنی جدیدکاری کے بعد اس ماہی گیری بندرگاہ کی صلاحیت میں دوگنا اضافہ رونما ہوگا اور یہ یومیہ 150 ٹن نقل و حمل سے بڑھ کر یومیہ 300 ٹن نقل و حمل کے بقدر ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ بحری جہاز کی محفوظ لینڈنگ اور اسے اس کے مختص ٹھکانے پر پہنچانا، بندرگاہ میں جہاز کے واپس لوٹنے کے وقت میں تخفیف ، فضلے میں تخفیف اور لاگت کی صحیح منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے چھ لین والے گرین فیلڈ رائے پور – وشاکھاپٹنم اقتصادی گلیارے کے آندھراپردیش سیکشن کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس کی تعمیر 3750 کروڑ روپئے سے زائد کی لاگت سے عمل میں آئے گی۔ اقتصادی گلیارہ چھتیس گڑھ اور اڈیشہ سے وشاکھاپٹنم بندرگاہ اور چنئی کولکاتا قومی شاہراہ کے صنعتی مراکز کے درمیان تیزرفتار کنکوٹیویٹی فراہم کرائے گا۔ اس کے ذریعہ آندھرا پردیش اور اڈیشہ کے قبائلی اور پسماندہ علاقوں میں کنکٹیویٹی میں بہتری واقع ہوگی۔ وزیر اعظم نے وشاکھا پٹنم میں کانوینٹ جنکشن سے شیلا نگر جنکشن تک ایک کلی طور پر وقف بندرگاہ راستے کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ مقامی اور بندرگاہ جانے والے کارگو کو الگ الگ کرکے وشاکھاپٹنم شہر میں نقل و حمل کی بھیڑ بھاڑ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔وزیر اعظم نے قومی شاہراہ 326 اے کے نرسناپیٹ سے پتھاپتنم سیکشن کو بھی قوم کے نام وقف کیا۔ اس کی تعمیر 200 کروڑ روپئے سے زائد کی لاگت سے کی گئی ہے اور یہ شری کاکولم-گجپتی گلیارے کا حصہ ہے۔ یہ پروجیکٹ علاقہ میں بہتر کنکٹیویٹی فراہم کرائے گا۔ وزیر اعظم نے آندھرا پردیش میں او این جی سی کے یو – فیلڈ آن شور ڈیپ واٹر بلاک پروجیکٹ کو قوم کے نام وقف کیا، جس کی ترقی 2900 کروڑ روپئے سے زائد کی لاگت سے عمل میں آئی ہے۔ یہ پروجیکٹ گہرے پانی میں گیس کی تلاش سے متعلق ہے، جس کے ذریعہ یومیہ تقریباً تین ملین میٹرک اسٹینڈرڈ کیوبک میٹر (ایم ایم ایس سی ایم ڈی) گیس کی پیداواری صلاحیت حاصل ہوگی۔ وزیر اعظم گیل کے شری کاکولم انگول قدرتی گیس پائپ لائن پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جس کی صلاحیت 6.65 ایم ایم ایس سی ایم ڈی کے بقدر ہوگی۔ اس 745 کلو میٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر 2650 کروڑ روپئے سے زائد کی لاگت سے عمل میں آئے گی۔ قدرتی گیس گرڈ (این جی جی) کا حصہ ہونے کے ناطے، ��ائپ لائن آندھراپردیش اور اڈیشہ کے مختلف اضلاع کے رہائشی علاقوں ، صنعتوں، کاروباری اکائیوں اور موٹرگاڑی شعبوں کے لیے قدرتی گیس کا ایک اہم بنیادی ڈھانچہ تیار کرے گی۔پائپ لائن آندھراپردیش کے شری کاکولم اور وجی نگر اضلاع میں شہری گیس تقسیم نیٹ ورک کو قدرتی گیس سپلائی کرے گی۔,"অন্ধ্ৰ প্ৰদেশৰ বিশাখাপট্টনমত ১০,৫০০ কোটি টকাৰো অধিক মূল্যৰ একাধিক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন আৰু দেশবাসীৰ নামত উচৰ্গা প্ৰধানমন্ত্ৰী" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-54%D9%88%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%AA%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95/,نئی دہلی،28 دسمبر 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج آئی آئی ٹی کانپور کی 54ویں تقسیم اسناد تقریب میں شرکت کی اور اِن ہاؤس بلاک چین پر مبنی ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل ڈگری جاری کی۔ ادارے کے طلباء اور فیکلٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا دن کانپور کے لیے ایک بڑا دن ہے کیونکہ اِس شہر کو میٹرو کی سہولت مل رہی ہے اور ساتھ ہی یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء کی شکل میں کانپور دنیا کو ایک بیش قیمتی تحفہ دینے جارہا ہے۔ اس نامور ادارے میں طلباء کے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آئی آئی ٹی کانپور میں داخلہ سے لے کر یہاں سے فارغ ہونے تک’’آپ اپنے اندر ایک بڑی تبدیلی محسوس کر رہے ہوں گے ، یہاں آنے سے پہلے آپ کے اندر نامعلوم کا خوف رہا ہوگا یا نامعلوم کو جاننے کی خواہش رہی ہوگی اب نامعلوم کا کوئی خوف نہیں ہے، اب آپ کے اندر پوری دنیا کو دریافت کرنے کا حوصلہ ہے۔ اب نامعلوم کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے، بلکہ بہترین کو حاصل کرنے کا تجسس، پوری دنیا پر چھا جانے کا خواب ہے‘‘۔ کانپور کی تاریخی اور سماجی وراثت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کانپور بھارت کے اُن چنندہ شہروں میں سے ایک ہے جو اتنا مختلف النوع ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ستی چورا گھاٹ سے لے کر مداری پاسی تک، نانا صاحب سے لے کر بٹوکیشور دت تک جب ہم اس شہر کی سیر کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم جدوجہد آزادی کی قربانیوں کے اُس شاندار ماضی کی سیر کر رہے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم نے یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء کی زندگی کے موجودہ مرحلہ کی اہمیت کو نمایاں کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے 1930 کی دہائی کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ اس وقت 20 سے 25 سال کے نوجوان تھے، 1947 تک ان کا سفر اور 1947 میں آزادی کا حصول ان کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔ آج آپ بھی ایک طرح سے اُس جیسے ہی سنہرے دور میں قدم رکھ رہے ہیں۔ جیسے یہ ملک کی زندگی کا امرت کال ہے ویسے ہی یہ آپ کی زندگی کا بھی امرت کال ہے۔ آئی آئی ٹی کانپور کی حصولیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آج کے دور میں پیشہ وروں کو حالیہ ٹیکنالوجی کے منظرنامے کے امکانات پر روشنی ڈالی۔اے آئی، توانائی، ماحولیاتی حل، صحت سے متعلق حل اور ڈیزاسٹرمینجمنٹ میں ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’یہ صرف آپ کی ہی ذمے داریاں نہیں ہیں بلکہ کئی نسلوں کے خواب ہیں جنھیں پورا کرنے کا آپ کو ایک بہتر موقع ملا ہے۔ یہ دور حوصلہ افزا مقاصد سے متعلق فیصلے لینے اور ا��ھیں حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری قوت لگانے کا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ 21ویں صدی پوری طرح سے ٹیکنالوجی پر مبنی ہے اس دہائی میں بھی ٹیکنالوجی الگ الگ شعبوں میں اپنا دبدبہ مزید بڑھانے والی ہے۔ ٹیکنالوجی کے بغیر زندگی اب ایک طرح سے ادھوری ہی ہوگی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ زندگی اور ٹیکنالوجی کے مقابلہ کا دور ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس میں آپ ضرور آگے نکلیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج جو سوچ اور رویّہ آپ کا ہے وہی رویّہ ملک کا بھی ہے۔ پہلے اگر سوچ کام چلانے کی ہوتی تھی تو آج سوچ کچھ کر گزرنے کی، کام کرکے نتیجے لانے کی ہے۔ پہلے اگر مسائل سے پیچھا چھڑانے کی کوشش ہوتی تھی تو آج مسائل کے حل کے لیے عہد کئے جاتے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم نے افسوس کا اظہار کیا کہ آزادی کی 25ویں سالگرہ سے جس وقت کو ملک کی تعمیر میں استعمال کیا جانا چاہئے تھا وہ وقت ہم نے گنواں دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب ملک کی آزادی کو 25 سال ہوئے، تب تک ہمیں بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے بہت کچھ کر لینا چاہئے تھا، تب سے لے کراب تک بہت دیر ہوچکی ہے، ملک بہت وقت گنواں چکا ہے۔ درمیان میں دو نسلیں چلیں گئیں اس لیے ہمیں دو پل بھی نہیں گنوانا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’میری باتوں میں آپ کو بے چینی نظر آرہی ہوگی لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اسی طرح آتم نربھر بھارت کے لیے بے چین بنیں۔ آتم نربھر بھارت مکمل آزادی کی بنیادی شکل ہی ہے، جہاں ہم کسی پر بھی منحصر نہیں رہیں گے۔ وزیر اعظم نے سوامی وویکانند کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر ملک کے پاس اپنا ایک پیغام ہوتا ہے، ایک مشن پورا کرنا ہوتا ہے، ایک منزل تک پہنچنا ہوتا ہے‘‘ اگر ہم خود کفیل نہیں ہوں گے تو ہمارا ملک اپنے مقاصد کو کیسے پورا کرے گا، اپنی منزل پر کیسے پہنچے گا‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اٹل انوویشن مشن، پی ایم ریسرچ فیلو شپ اور قومی تعلیمی پالیسی جیسی پہل سے ایک نئی سوچ اور نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ کاروبار کرنے میں آسانی اور پالیسی سے متعلق رکاوٹوں کو ہٹانے کے نتائج واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے اس 75ویں سال میں ملک کے پاس 75 یونیفارم، 50000 سے زیادہ اسٹارٹ اپس ہیں۔ ان میں سے 10000 سے زیادہ کی شروعات گزشتہ 6 مہینوں میں ہوئی ہے۔ آج بھارت پوری دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ مرکز ہے۔ بہت سےاسٹارٹ اپ آئی آئی ٹی کے نوجوانوں کے ذریعے شروع کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے طلباء کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ملک کو سنہرے دور میں پہنچانے میں اپنا تعاون دیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’کون ہندوستانی یہ نہیں چاہے گا کہ ہندوستانی کمپنیاں اور ہندوستانی مصنوعات کو عالمی درجہ حاصل ہو۔ جو لوگ آئی آئی ٹی جو جانتے ہیں وہ یہاں کی صلاحیتوں سے بھی پوری طرح واقف ہیں، وہ یہاں کے پروفیسروں کی کڑی محنت سے واقف ہیں اور انھیں یقین ہے کہ یہ آئی آئی ٹی کے نوجوان کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے‘‘۔ وزیر اعظم نے طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ چیلنج کے سامنے سہولت کو ترجیح نہ دیں کیونکہ بقول وزیر اعظم ’’آپ چاہیں یا نہ چاہیں زندگی میں چیلنجز آنے ہی ہیں۔ جو لوگ ان سے بھاگتے ہیں وہ ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو چیلنج کی تلاش ہے تو آپ شکاری ہیں اور چیلنج شکار‘‘۔ وزیر اعظم نے طلباء کو ذاتی مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اندر حساسیت، تجسس، خیال آرائی اور تخلیقی صلاحیت کو زندہ رکھیں اور اُن سے زندگی کے غیر ٹیکنالوجی گوشوں کے تئیں بھی حساس رہنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کہا کہ جب خوشی اور رحمدلی کو بانٹنے کا موقع ملے تو کسی قسم کی تنگدلی سے کام نہ لے کر کھلے دل سے زندگی کا لطف اٹھائیں‘‘۔,আইআইটি কানপুৰৰ ৫৪সংখ্যক সমাৱর্তন অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ কৰি প্রধানমন্ত্রীয়ে ব্লকচেন-ভিত্তিক ডিগ্রী প্রদান ব্যৱস্থাৰ শুভাৰম্ভ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%A7-%D8%B3%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%8C-%D8%B9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%94%E0%A6%B7%E0%A6%A7-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئی دہلی،18 نومبر، 2021/وزیراعظم جناب نریندر مودی نے دوا سازی کے شعبے کی پہلی عالمی اختراع سمٹ کا افتتاح کیا۔ مرکزی وزیر ڈاکٹر منسکھ مانڈاویا اس موقعے پر موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عالمی وبا کی وجہ سے دوا سازی کا شعبہ خاص توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ خواہ وہ طرز زندگی ہو یا دوائیں، دواؤں سے متعلق ٹکنالوجی ہو یا ویکسین ، حفظاں صحت کے ہر پہلو کو پچھلے دو سال میں عالمی توجہ حاصل ہوئی ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کی دوا سازی کی صنعت میں چیلنج کو قبول کرنے تک کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے۔ جناب مودی نے کہا ’’بھارت کے حفظان صحت کے شعبے کو جو عالمی اعتماد حاصل ہوا ہے اس کی وجہ سے حالیہ دنوں میں بھارت کو دوا سازی کی دنیا کہا جا رہا ہے۔ ‘‘ وزیر اعظم نے وضاحت کی ’’تندرستی کی ہماری تاریخ محض جسمانی حدوں تک محدود نہیں ہے ۔ ہم پورے بنی نوع انسان کی خوشحالی میں یقین رکھتے ہیں۔ اور ہم نے اس جذبے کا اظہار کووڈ – 19 عالمی وبا کے دوران پوری دنیا کے سامنے کیا ہے۔ ‘‘وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی وبا کے دوران ’’ہم نے زندگی بچانے والی دوائیں اور طبی سامان عالمی وبا کے ابتدائی مرحلے میں 150 سے زیادہ ملکوں کو برآمد کیا ۔ ہم نے اس سال تقریباً 100 ملکوں کو 65 ملین سے زیادہ کووڈ ویکسین برآمد بھی کی ہیں۔‘‘ وزیراعظم نے اختراع کے لیے ایک نظام تیار کرنے کا خاکہ پیش کیا جس سے بھارت دوا کی دریافت کرنے اور اختراعی طبی آلات ایجاد کرنے میں ایک رہنما ملک بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سبھی متعلقہ فریقوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر صلاح مشورے پر مبنی پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے پاس ایسے سائنسداں اور ٹکنالوجی کے ماہرین موجود ہیں جن میں صنعت کو اور زیادہ اونچائیوں پر لے جانے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’اس طاقت کو بھارت نے موقعے تلاش کرنے اور مصنوعات سازی کو فروغ دینے نئے موقعوں کی تلاش اور میک اِن انڈیا کے لیے اس طاقت کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ وزیراعظم نے دیسی صلاحیتوں کو فروغ دینے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا ’’آج جب بھارت کے 1.3 ارب لوگوں نے بھارت کو خود کفیل بنانے کی ذمہ داری لے لی ہے ہمیں ویکسین اور دواؤں کے لیے کلیدی اجزاء کی گھریلو مینوفیکچرنگ میں اضافہ کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا محاذ ہے جسے بھارت کو فتح کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ وزیراعظم نے متعلقہ فریقوں کو بھارت میں نت نئے خیالات پیش کرنے ، بھارت میں اختراع کرنے ، بھارت میں مصنوعات سازی اور دنیا کے لیے مصنوعات سازی کی دعوت دی ۔ اپنی ذاتی طاقت کو پہچانئے اور دنیا کو خدمات فراہم کی��یے۔ ۔۔۔ م ن ۔ اس۔ ت ح ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ঔষধ ক্ষেত্ৰৰ প্ৰথম বৈশ্বিক নৱোন্মেষণ শীৰ্ষ সন্মিলনৰ উদ্ঘাটন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%84%D9%85%D8%A8%D9%88%D8%8C-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D9%84%D9%86%DA%A9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B2%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے کثیر شعبہ جاتی تکنیکی اور اقتصادی تعاون کے لیے خلیج بنگال پہل قدمی (بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) تکنالوجی منتقلی سہولت (ٹی ٹی ایف) کے قیام کے لیے بھارت کے ذریعہ تعاون و اشتراک کی عرضداشت (ایم او اے) کو منظوری دے دی ہے۔ سری لنکا کے کولمبو میں 30 مارچ 2022 کو منعقدہ پانچویں بی آئی ایم ایس ٹی ای سی سربراہ ملاقات میں بمسٹیک کے رکن ممالک کے ذریعہ اس سلسلے میں دستخط کیے گئے تھے۔ بمسٹیک ٹی ٹی ایف کا اہم مقصد تکنالوجیوں کی منتقلی، تجربات ساجھا کرنے اور صلاحیت سازی کو فروغ دے کر بمسٹیک اراکین ممالک کے درمیان تکنالوجی منتقلی میں تال میل، سہولت اور تعاون کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ ٹی ٹی ایف دیگر باتوں کے علاوہ، بمسٹیک کے رکن ممالک کے درمیان مندرجہ ذریل ترجیحات والے شعبوں میں تکنالوجیوں کی منتقلی کی سہولت فراہم کرے گا۔ یہ ترجیحاتی شعبے ہیں: بایوتکنالوجی، نینو تکنالوجی، انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن تکنالوجی، خلائی تکنالوجی ایپلی کیشنز، زرعی تکنالوجی، خوراک ڈبہ بندی تکنالوجی، فارماسیوٹیکل تکنالوجی آٹومیشن، نئی اور قابل احیاء توانائی تکنالوجی آٹومیشن، نئی اور قابل احیاء توانائی تکنالوجی، بحری جغرافیہ، نیوکلیئر تکنالوجی ایپلی کیشنز، ای۔ فضلہ اور ٹھوس فضلہ انتظام کاری تکنالوجی، صحتی تکنالوجیاں، تباہکاری کے خطرات میں تخفیف اور موسمیاتی تبدیلی کی موافقت سے متعلق تکنالوجیاں۔ اس ٹی ٹی ایف کا ایک گورننگ بورڈ ہوگا اور اس کی سرگرمیوں کا مکمل کنٹرول گورننگ بورڈ کے تحت ہوگا۔ گورننگ بورڈ میں ہر ایک رکن ملک کی جانب سے ایک نامزد شخص شامل ہوگا۔ بمسٹیک ٹی ٹی ایف سے مندرجہ ذیل نتائج متوقع ہیں: بمسٹیک ممالک میں دستیاب تکنالوجیوں کا ڈاٹا بینک تکنالوجی منتقلی انتظام، معیارات، منظوری، علم پیمائش، جانچ اور تعین کے طریقہ کار کی سہولتوں سے متعلق شعبوں میں اچھے طور طریقوں سے جڑی معلومات کا مخزن صلاحیت سازی، ترقی کے کاموں سے متعلق تجربات اور اچھے طور طریقوں کو ساجھا کرنا، اور بمسٹیک ممالک کے درمیان تکنالوجیوں کا تبادلہ اور ان کا استعمال,শ্ৰীলংকাৰ কলম্বোত বিমষ্টেক প্ৰযুক্তি হস্তান্তৰ কেন্দ্ৰ স্থাপনৰ বাবে ভাৰতৰ সহযোগিতাৰ চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%D8%B3-%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%9A%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,04 مئی 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے دوسری بھارت نارڈک سربراہ کانفرنس کے موقع پر کوپن ہیگن میں آئس لینڈ کی وزیر اعظم محترمہ کیترین جیکوبسڈوٹیر سے دو طرفہ ملاقات کی۔ دونوں وزرائے اعظم نے اپریل 2018 میں اسٹاک ہوم میں پہلی بھارت نارڈک سربراہ کانفرنس کے دوران اپنی پہلی ملاقات کو گرم جوشی سے یاد کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سال دونوں ممالک سفارتی تعلقات کے اپنے قیام کی 50ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے خاص طور پر جیوتھرمل توانائی، بلیو اکانومی، آرکٹک، قابل تجدید توانائی، ماہی گیری، فوڈ پروسیسنگ، ڈیجیٹل یونیورسٹیوں سمیت تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ خاص طور پر جیوتھرمل توانائی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں آئس لینڈ کو خصوصی مہارت حاصل ہے اور دونوں فریقوں نے اس شعبے میں دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں کے مابین اشتراک پر بات کی۔ وزیر اعظم نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے وزیر اعظم جیکوبسڈوٹیر کی ذاتی کوششوں کی ستائش کی اور انھیں اس سلسلے میں بھارت کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ بھارت ای ایف ٹی اے تجارتی مذاکرات میں تیزی لانے پر بھی بات چیت ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کے مابین علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی گفت و شنید ہوئی۔,আইচলেণ্ডৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-23%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE-%E0%A6%AA/,دیوالی کے موقع پر وزیراعظم جناب نریندر مودی 23اکتوبر کو ایودھیا(اترپردیش ) جائیں گے۔ شام میں کوئی پانچ بجے وزیراعظم بھگوان شری رام للا وِراجمان کا درشن اور پوجا کریں گے، اس کے بعد شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر علاقے کا جائزہ لیں گے۔ شام 5:45 بجے وہ علامتی بھگوان شری رام کا راجیہ ابھیشیک انجام دیں گے۔شام ساڑھے چھ بجے وزیراعظم سریو ندی کے نئے گھاٹ پر آرتی کامعائنہ کریں گے جس کے بعد وہ عظیم دیپ اُتسو تقریبات کاآغاز کریں گے۔ اس سال چھٹا دیپ اُتسو منایا جارہا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم ان تقریبات میں ذاتی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ اس موقع پر 15لاکھ سے زیادہ دیے روشن کیے جائیں گے۔ دیپ اُتسو کے دوران مختلف ریاستوں سے پانچ انیمیٹڈجھانکیوں اور گیارہ رام لیلا جھانکیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیراعظم سریو ندی کے کنارے رام کی پوڑی پر 3ڈی ہولوگرافک پروجیکشن میپنگ شو بھی دیکھیں گے۔ اس موقع پر موسیقی ریز لیزر شو کاابھی اہتمام کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ع س۔ ع ن۔,"দীপাৱলীৰ পূৰ্ব সন্ধ্যা, প্ৰধানমন্ত্ৰী ২৩ অক্টোবৰত অযোধ্যালৈ যা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-7-%D9%84%D9%88%DA%A9-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%97%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%BF-%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AF/,نئی دہلی، 25 اپریل، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی 7 لوک کلیان مارگ پر 26 اپریل ، 2022 کو صبح ساڑھے دس بجے سیواگیری یاترا کی 90ویں سالگرہ اور برہما ودیالیہ کی گولڈن جوبلی کی ایک سالہ مشترکہ تقریبات کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔ وہ ان ایک سالہ مشترکہ تقریبات کے لوگو کا بھی آغاز کریں گے۔ سیواگیری یاترا اور برہما ودیالیہ دونوں عظیم سماجی مصلح شری نارائن گرو کے آشرواد اور رہنمائی سے شروع ہوئے تھے۔ ��یواگیری یاترا ہر سال 30 دسمبر سے یکم جنوری تک تیرواننتھا پورم کے سیواگیری میں تین دن تک منعقد ہوتی ہے ۔ شری نارائن گرو کے مطابق یاترا کا مقصد لوگوں میں جامع معلومات پیدا کرنا ہے اور یاترا سے ان کی مجموعی ترقی اور خوشحالی میں مدد ملنی چاہیے ۔ لہذا یاترا میں آٹھ موضوعات پر توجہ دی جاتی ہے ، تعلیم، صفائی ستھرائی، پاکیزگی ، دستکاری ، تجارت اور کامرس ، زراعت، سائنس و ٹکنالوجی اور منظم کوشش۔ یہ یاترا 1933 میں چند عقیدت مندوں نے شروع کی تھی۔ لیکن اب یہ جنوبی بھارت میں کچھ بڑی تقریبات میں سے ایک بن گئی ہے۔ ہر سال ذات پات، مذہب اور زبان سے قطع نظر یہاں پوری دنیا سے لاکھوں عقیدت مند یاترا میں شرکت کے لیے سیواگیری آتے ہیں۔ شری نارائن گرو نے تمام مذہبوں کے اصولوں کی مساویانہ طور پر تدریس کا تصور کیا تھا۔ سیوا گیری کا برہما ودیالیہ اس تصور کو حقیقت کی شکل دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ برہما ودیالیہ بھارتی فلسفے پر سات سال کا ایک کورس پیش کرتا ہے جس میں شری نارائن گرو کے کاموں اور دنیا کے سبھی اہم مذہبوں کی کتابیں بھی شامل ہیں۔,‘শিৱগিৰি তীৰ্থযাত্ৰা’ৰ ৯০ বৰ্ষপূৰ্তি আৰু ‘ব্ৰহ্ম বিদ্যালয়’ৰ সোণালী জয়ন্তী উপলক্ষে যুটীয়াভাবে ‘৭ লোক কল্যাণ মাৰ্গ’ত অনুষ্ঠিত কৰা বছৰজোৰা কাৰ্যক্ৰমৰ শুভাৰম্ভ অনুষ্ঠানত অংশ গ্ৰহণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%8E%E0%A6%AE%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A6/,نئی دہلی،16/ فروری وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج مہاراشٹر میں یوتمال کا دورہ کیا۔ انھو ں نے ریاست میں کئی پروجیکٹوں کی نقاب کشائی کی ۔ اس موقع پر مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم نے پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے منتخبہ استفادہ کنندگان کو مکانات کی چابیاں سپرد کیں۔ انھو ں نے کہا ‘‘پی ایم اے وائی کے تحت یوتمال میں تقریبا 14500 نئے مکانات تعمیر کئے گئے ہیں۔ سبھی کو مکان فراہم کرانے کا نشانہ ہم 2022 تک پورا کرلیں گے۔ یہ پکے مکانات اُن میں رہنے والوں کے خوابوں کو بھی مستحکم کریں گے’’۔ انھوں نے مہاراشٹر ریاستی دیہی روزگار مشن کے تحت اپنی مدد آپ کرنے والے خواتین کے گروپوں(ایس ایچ جیز) کو سندیں / چیک تقسیم کئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یوتمال کا پروگرام ترقی کی تمام اور ہر ایک پنچ دھارافراہم کرانے کی ہماری کوششوں کی ایک توسیع ہے یعنی بچوں کے لیے تعلیم، نوجوانوں کے لیے روزگار، بزرگ شہریوں کے لیے دوائیں، کسانوں کے لیے آب پاشی اور عوامی شکایات کا حل۔ وزیر اعظم نے ایک بٹن دباکر 500 کروڑ روپئے مالیت کے سڑک پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ انھوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے ہمسفر اجنی (ناگپور)-پُنے ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ انھو ں نے اس بات پر زور دیا کہ کنیکٹیویٹی ترقی کی کلید ہے اورسڑک اور ریلوے پروجیکٹ یوتمال اور اس کے آس پاس کے خطے کی مجموعی ترقی میں مددگار ہوں گے۔ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ‘‘پلوامہ حملے پر ہم گہرے دُکھ اور غم وغصے کی حالت سے گزر رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے دو بہادر بیٹوں نے بھی قوم کے لیے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ ہم غمزدہ خاندانوں کے غم میں شریک ہیں۔ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہم نے حفاظتی دستوں کو پوری آزادی دے دی ہے کہ وہ مستقبل کی اپنی کارروائی کےوقت، مقام اور طریقے کا خود ہی فیصلہ کریں۔ اگر ہم خوابوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہم نے ملک کی ترقی کی خواہش کی تو یہ ہمارے بہادر سپاہیوں کی وجہ سے ہی ہوا ہے’’۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سِکل سیل بیماری کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے چندرپور میں ایک تحقیقی مرکز کی تعمیر کی جارہی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے سہسترکنڈ ایکلوّیہ ماڈل ریزیڈنشیل اسکول کا افتتاح کیا۔ اسکول کا کیمپس 15 ایکڑ میں پھیلا ہے اور اس میں تمام جدید سہولیات ہیں۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا یہ اسکول قبائلی بچوں کی توقعات کو پورا کرے گا۔ یہ قبائلی علاقوں میں ایک ہزار ایکلوّیہ ماڈل ریزیڈنشیل اسکول قائم کرنے کے ان کےمشن کا ایک حصہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘ہم جن دھن سے لے کر وَن دھن تک قبائلیوں کی مجموعی ترقی کے مقصد کے حصول کے لیے خصوصی طور پر عہد بند ہیں۔ جن دھن نے جہاں غریبوں کو معیشت میں شامل کرنے میں مدد دی ہے وہیں وَن دھن چھوٹی موٹی جنگلی پیداوار کے ذریعے غریبوں کو اضافی آمدنی فراہم کرانے میں مدد دے رہا ہے۔ ہم چھوٹی موٹی جنگلی پیداوار کی اچھی قیمت دلانے کے لیے وَن دھن کیندر قائم کر رہے ہیں تاکہ قبائلیوں کو اپنی پیداوار کی بہتر قیمت مل سکے۔ہم نے بانس کو ایک پیڑ تسلیم کرنے والے نوٹیفکیشن کو بھی مسترد کیا ہے جس سے بانس اور اُس کی مصنوعات کے ذریعے قبائلی اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں’’۔ جنگ آزادی میں قبائلی بہادروں کے ذریعے کی گئی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ملک بھر میں اپنے میوزیموں اور یادگاروں میں ان کی یاد کو محفوظ کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔اگ ۔ را ۔ 16 – 02 – 2019),"মহাৰাষ্ট্রৰ যাবাৎমল পৰিদর্শন প্রধানমন্ত্রীৰ, ২০২২ চনৰ ভিতৰত দেশৰ সকলোৱে পাব ঘৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D9%88%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%84%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نمسکار! نوجوانوں کو روزگار دینے کی سمت میں آج گوا کی حکومت نے اہم قدم اٹھایا ہے۔ حکومت گوا کے مختلف محکموں نے بہت سےنوجوانوں کو اجتماعی طو ر پر تقرر نامے سپرد کئےجائیں گے۔ تقرر نامے پانے والے سبھی نوجوانوں کو اور ان کے والدین کو بہت بہت مبارک باد۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آنے والےکچھ مہینوں میں گوا پولیس سمیت دیگر محکمو ں میں بھی بھرتیاں ہونے والی ہیں اس سے گوا پولیس اور مضبوط ہوگی اور شہریوں ، خاص کر سیاحوں کی حفاظت کے شعبے میں بہت بڑی سہولت بڑھنے والی ہے۔ ساتھیوں پچھلے کچھ ہفتوں سے ملک کی الگ الگ ریاستوں سے لگاتار روزگار میلے کااہتمام کیا جارہا ہے ۔ مرکزی حکومت بھی روزگار میلے کے توسط سے حکومت ہند ہر مہینے ہزاروں نوجوانوں کو ملازمت دے رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی سرکاریں ہیں، ڈبل انجن کی سرکاریں ہیں وہاں ریاستی سرکاریں بھی اپنی سطح پر ایسے روزگار میلے کااہتمام کررہی ہیں۔ ساتھیوں گزشتہ 8 برسوں کے عرصےمیں مرکزی سرکار نے گو ا کی ترقی کے لئے ہزاروں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ تقریباً تین ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے موپا میں بنےنئے ہوائی اڈہ کا افتتاح بھی جلد ہونے جارہا ہے۔ اس ہوائی اڈہ کی تعمیر سے جڑےکاموں میں گوا کے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ اسی طرح آج جو گوا میں کنیکٹی ویٹی کے پروجیکٹ چل رہے ہیں، بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹ چل رہے ہیں، ان سے بھی گوا کے نوجوانوں کو روزگار کے موقع ملتے ہیں۔ مکمل گوا کا وژن گوا میں بنیادی سہولتوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ہی ریاست میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنارہا ہے۔ گوا ٹورازم ماسٹر پلان اور اسی کے ذریعہ ریاستی سرکار نے گوا کی ترقی کا نیا خاکہ بھی تیار کیا ہے ۔ اس سے سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری اور بڑی تعداد میں روزگار بڑھنے کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ ساتھیوں گوا کے دیہی علاقوں کو بھی اقتصادی طور سے مضبوطی فراہم کرنے اور روایتی کھیتی میں روزگار بڑھانے کے لئے قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ دھان ، فروٹ پروسیسنگ ، ناریل ، جوٹ اور مسالوں کی پیداوار کرنے والے کسانوں کو سیلف ہیلپ گروپ سے جوڑا جارہا ہے۔ یہ ساری کوششیں گوا میں روزگار اور خود روزگار کے متعدد نئے موقعہ بنارہا ہے۔ ساتھیوں، آج جن نوجوانوں کو گوا میں تقرر نامے ملے ہیں، ان سے میں ایک بات اور کہوں گا اب آپ کے زندگی کے سب سے اہم 25 سال شروع ہونے جارہے ہیں۔ اب آپ کے سامنے گوا کی ترقی کے ساتھ ہی 2047 کے نئے ہندستان کا بھی مقصد ہے۔ آپ کو گوا کی ترقی کے لئے بھی کام کرنا ہے۔ ملک کی ترقی کے لئےبھی کام کرنا ہے۔ مجھے بھروسہ ہے کہ آپ سبھی پوری لگن اور ایمانداری سے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیتے رہیں گے۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو مبارک باد اور نیک خواہشات! شکریہ! .,গোৱা ৰোজগাৰ মেলাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%84-%D9%B9%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F/,نئیدہلی،8؍نومبر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت مرکزی کابینہ نے آندھرا پردیش میں سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ ’’سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی آف آندھرا پردیش ‘‘ کا قیام آندھرا پردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ، 2014 (نمبر 6 آف 2014) کے 13ویں شیڈیول کے تحت وِزیانگرم کے ریلی گاؤں میں عمل آئے گا ۔ کابینہ نے سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں پہلے مرحلے میں ہونے والے اخراجات کے لئے 420کروڑ روپے کے فنڈ کی فراہمی کو بھی منظوری دے دی ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ن ا ۔ک ا,"অন্ধ্ৰপ্ৰদেশত কেন্দ্রীয় জনজাতি বিশ্ববিদ্যালয় স্থাপনৰ বাবে কেন্দ্রীয় বিশ্ববিদ্যালয় আইন, ২০০৯ৰ সংশোধনৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%81%D8%B6%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D9%81%D8%B6%D8%A7%D8%A6%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے یوم فضائیہ کے موقع پر بھارتی فضائیہ کے ارکان اور ان کی اہل خانہ کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’یوم فضائیہ پر، فضائیہ کے جرأت مند جوانوں اور ان کے اہل خانہ کو میری نیک خواہشات۔ नभः स्पृशं दीप्तम् کے پرمعنی نعرے کے مطابق، ہندوستان فضائیہ نے کئی دہائیوں سے اپنی غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے ملک کی حفاظت کی اور آفات کے دوران بھی قابل ذکر انسانی جذبے کا اظہار کیا۔‘‘,বায়ু সেনা দিৱসত ভাৰতীয় বায়ু সেনাক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%D9%88%DA%BA%D8%8C-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیلوں ،2022 میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر ویٹ لفٹر وکاس ٹھاکر کو مبارکباددی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘دولت مشترکہ کھیلوں ، سی ڈبلیو جی میں مزید ناموری ،ا س مرتبہ وکاس ٹھاکر کی وجہ سے ہوئی ہے ، جنہوں نے ویٹ لفٹنگ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ان کی اس کامیابی سے خوشی ہوئی ہے ۔کھیلو ں کے تئیں ان کی لگن قابل ستائش ہے ۔ ان کی آنے والی کوششوں کے لئے بہترین خواہشات پیش کرتا ہوں ۔’’,"কমনৱেল্থ গেমছ, ২০২২ৰ ভাৰত্তোলনত ৰূপৰ পদক অৰ্জন কৰাৰ বাবে বিকাশ ঠাকুৰক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AD%D8%A7%D9%84-%DB%81%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D8%A7%D9%86%DA%86-%DA%A9%DB%8C%DB%92-%DA%AF%D8%A6%DB%92-%D8%A7%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%B2%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%87%E0%A6%85%E0%A6%8F%E0%A6%9B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے حال ہی میں لانچ کیے گئے ای او ایس- 06 سیٹلائٹ سے لی گئیں تصاویر مشترک کی ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ خلائی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہونے والی یہ پیش رفت سمندری طوفانوں کی بہتر پیشین گوئی کرنے اور ساحلی معیشت کو بھی فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’کیا آپ نے حال ہی میں لانچ کیے گئے ای او ایس – 06 سیٹلائٹ سے لی گئیں دم بخود کردینے والی تصاویر دیکھی ہیں؟ گجرات کی کچھ خوبصورت تصاویر شیئر کر رہا ہوں۔ خلائی ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ پیش رفت ہمیں طوفانوں کی بہتر پیش گوئی کرنے اور اپنی ساحلی معیشت کو بھی فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی۔‘‘,অলপতে উৎক্ষেপণ কৰা ইঅ’এছ-০৬ উপগ্ৰহে লোৱা ছবি শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D9%88%DA%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D9%88%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%AA-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%8F%E0%A6%9B-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95/,اس تاریخی تقریب میں موجود کیرالہ کے گورنر جناب عارف محمد خان، کیرالہ کے وزیر اعلیٰ جناب پنارائی وجین، ملک کے وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ، مرکزی کابینہ کے میرے دیگر رفقاء، بحریائی عملے کے سربراہ ایڈمرل آر ہری کمار، ایم ڈی کوچین شپ یارڈ، تمام معزز مہمانوں، اور اس پروگرام میں شامل میرے پیارے ہم وطنو! آج، یہاں کیرالہ کے سمندری ساحل پر، ہر ہندوستانی ایک نئے مستقبل کے طلوع آفتاب کا گواہ بن رہا ہے۔ آئی این ایس وکرانت پر منعقد ہونے والی یہ تقریب عالمی افق پر ہندوستان کے بلند حوصلے کی ایک للکار ہے۔ آزادی کی تحریک میں ہمارے مجاہدین آزادی نے جس قابل ،اہل اور طاقتور ہندوستان کا خواب دیکھا تھا ، اس کی ایک مضبوط تصویر آج یہاں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ وکرانت – بہت بڑا ہے، وسیع ہے، عظیم ہے۔ وکرانت خاص ہے، وکرانت مخصوص بھی ہے۔ وکرانت صرف ایک جنگی جہاز نہیں ہے۔ یہ 21ویں صدی کے ہندوستان کی محنت، ہنر، اثر و رسوخ اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر اہداف طویل ہیں، سفر طویل ہیں، سمندر اور چیلنجز لامتناہی ہیں – تو ہندوستان کا جواب ہے وکرانت۔ آزادی کے امرت مہوتسو کا بے مثال امرت وکرانت ہے۔ وکرانت ہندوستان کے خود انحصار ہونے کا ایک انوکھا عکس ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے لیے فخر کا ایک قیمتی موقع ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کی عزت نفس کو بڑھانے کا موقع ہے۔ میں اس کے لیے ملک کے ہرباشندوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیوں، اہداف کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، چیلنجز کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، جب ہندوستان پرعزم ہو تو کوئی بھی ہدف ناممکن نہیں ہے۔ آج ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو دیسی ٹیکنالوجی سے اتنا بڑا طیارہ بردار بحری جہاز تیار کرتے ہیں۔ آج آئی این ایس وکرانت نے ملک کو ایک نئے اعتماد سے بھر دیا ہے، ملک میں ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے۔ آج وکرانت کو دیکھ کر سمندر کی یہ لہریں پکار رہی ہیں امرتھ ویر پتر ہو، درڑ پرتگیہ سوچ لو پرشست پنیہ پنتھ ہے، بڑھے چلو،بڑھے چلو ساتھیوں، اس تاریخی موقع پر، میں ہندوستانی بحریہ، کوچین شپ یارڈ کے تمام انجینئروں، سائنسدانوں اور اپنے مزدور بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ ملک کو یہ کامیابی کیرالہ کی مقدس سرزمین پر ایک ایسے وقت میں ملی ہے جب اونم کا مقدس تہوار بھی چل رہا ہے۔ میں اس موقع پر تمام ہم وطنوں کو اونم کی مبارکباد بھی دیتا ہوں۔ ساتھیوں، آئی این ایس وکرانت کے ہر حصے کی اپنی ایک خوبی ہے، ایک طاقت ہے، اس کا اپنا ایک ترقی کا سفربھی ہے۔ یہ مقامی صلاحیت، مقامی وسائل اور مقامی مہارتوں کی علامت ہے۔ اس کے ایئربیس میں نصب اسٹیل بھی دیسی ہے۔ یہ اسٹیل ڈی آر ڈی او کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے، جسے ہندوستانی کمپنیوں نے پروڈیوس کیا۔ یہ ایک جنگی جہاز سے زیادہ ایک تیرتا ہوا ایئرفیلڈ اور ایک تیرتا ہوا شہر ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی بجلی 5000 گھروں کو روشن کر سکتی ہے۔ اس کا فلائٹ ڈیک بھی دو فٹ بال گراؤنڈز کے برابر ہے۔ وکرانت میں جتنے بلبس اور تاریں استعمال ہوئے ہیں وہ کوچی سے شروع ہو کر کاشی تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس مشکل کام کی انجام دہی ہمارے انجینئروں کی کامیابی کی شاندار مثال ہے۔ میگا انجینئرنگ سے لے کر نینو سرکٹس تک، جو پہلے ہندوستان کے لیے ناقابل تصور تھا وہ حقیقت میں بدل رہا ہے۔ ساتھیوں، اس بار یوم آزادی پر میں نے لال قلعہ سے ‘پنچ پرن’ کی اپیل کی ہے اور ہمارے ہری جی نے بھی اب اس کا ذکر کیا ہے۔ ان پانچ پرنوں میں سے پہلا ایک ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم ہے! دوسرا غلامانہ ذہنیت سے مکمل دستبرداری ہے۔ تیسرا اپنے ورثے پر فخر کرنا ہے۔ چوتھا اور پانچواں عہد ہے – اتحاد، یکجہتی، اور ملک کے شہری کے فرائض! آئی این ایس وکرانت کی تعمیر اور اس کے سفر میں ہم ان تمام پنچ پرانوں کی توانائی دیکھ سکتے ہیں۔ آئی این ایس وکرانت اس توانائی کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ اب تک ایسے طیارہ بردار جہاز صرف ترقی یافتہ ممالک ہی بنتے تھے۔ آج ہندوستان نے اس لیگ میں شامل ہوکر ایک ترقی یافتہ ملک کی طرف ایک اور قدم بڑھایا ہے۔ ساتھیوں، آبی نقل و حمل کے شعبے میں ہندوستان کی ایک بہت ہی قابل فخر تاریخ رہی ہے، ہماری خوشحال وراثت رہی ہے۔ ہمارے یہاں کشتیوں اور جہازوں سے متعلق معلومات کا تذکرہ شلوکوں میں آیا ہے۔ دیرگھیکا ترنی: لولا، گتورا گامنی تارہ جنگلھالا پلاوینی چیو، دھارینی ویگنی اور یہ ہمارے صحیفوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ دیرگھیکا ترنی: لولا، گتورا گامنی ،جنگلھالا پلاوینی ، دھارینی ویگنی… ہمارے پاس مختلف سائز اور اقسام کے بحری جہاز اور کشتیاں تھیں۔ ہمارے ویدوں میں بھی کشتیوں، جہازوں اور سمندر سے متعلق بہت سے منتر موجود ہیں۔ ویدک دور سے لے کر گپتا دور اور موریہ دور تک ہندوستان کی سمندری طاقت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا۔ چھترپتی ویر شیواجی مہاراج نے اسی سمندری طاقت کے بل بوتے ایسی بحریہ بنائی جس نے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو وہ ہندوستانی جہازوں اور ان کے ذریعے ہونے والی تجارت کی طاقت سے خوفزدہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کی سمندری طاقت کی کمر توڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں ایک قانون بنا کر ہندوستانی جہازوں اور تاجروں پر کس طرح سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ ہندوستان کے پاس ہنر، تجربہ تھا۔ لیکن ہمارے لوگ اس خمیدگی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ ہم کمزور ہوتے گئے اور پھر غلامی کے دور میں رفتہ رفتہ اپنی طاقت کو بھول گئے۔ اب آزادی کے امرت کال میں، ہندوستان اس کھوئی ہوئی طاقت کو واپس لا رہا ہے، اس توانائی کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ ساتھیوں، آج 2 ستمبر 2022 کی تاریخی تاریخ کو تاریخ بدلنے والا ایک اور کام ہوا ہے۔ آج ہندوستان نے غلامی کا نشان، غلامی کا بوجھ اتار دیا ہے۔ ہندوستانی بحریہ کو آج سے نیا پرچم مل گیا ہے۔ اب تک غلامی کی پہچان ہندوستانی بحریہ کے جھنڈے پر تھی۔ لیکن آج سے چھترپتی شیواجی مہاراج سے متاثر ہو کر بحریہ کا نیا پرچم سمندر اور آسمان میں لہرائے گا۔ ایک بار رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی نظم میں لکھا تھا- نوین سوریہ کی نئی پربھا نمو، نمو، نمو! نمو، سوتنتر بھارت کی دھوجا، نمو، نمو، نمو! آج، اس پرچم کی تعظیم کے ساتھ، میں یہ نیا پرچم بحریہ سے متعلق خدمات کی شروعات کرنے والے، چھترپتی ویر شیواجی مہاراج کو وقف کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستانیت کے جذبے سے لبریز یہ نیا پرچم ہندوستانی بحریہ کے خود اعتمادی اور عزت نفس کو نئی توانائی دے گا۔ ساتھیوں، تمام اہل وطن کے سامنے میں ایک اور اہم پہلو رکھنا چاہتا ہوں کہ ہماری افواج میں کس طرح کی تبدیلی آرہی ہے۔ جب وکرانت ہمارے میری ٹائم زون کی حفاظت کے لیے اترے گا تو بحریہ کی کئی خواتین سپاہی بھی وہاں تعینات ہوں گی۔ سمندر کی بے پناہ طاقت، بے پناہ خواتین کی طاقت کے ساتھ، یہ نئے ہندوستان کی بلند شناخت بن رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس وقت بحریہ میں تقریباً 600 خواتین افسران ہیں۔ لیکن، اب ہندوستانی بحریہ نے خواتین کے لیے اپنی تمام شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو پابندیاں تھیں وہ اب ہٹائی جا رہی ہیں۔ جس طرح قابل موجوں کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں اسی طرح ہندوستان کی بیٹیوں کے لیے بھی کوئی سرحدیں یا پابندیاں نہیں ہیں۔ صرف ایک یا دو سال قبل خواتین اہلکاروں نے تارینی کشتی کے ذریعے پوری زمین کا دورہ کیا تھا۔ آنے والے وقت میں کتنی بیٹیاں ایسے کارنامے کے لیے آگے آئیں گی، دنیا کو ان کی طاقت سے روشناس کرائیں گی۔ بحریہ کی طرح، تینوں مسلح افواج میں خواتین کو جنگی کرداروں میں شامل کیا جا رہا ہے، ان کے لیے نئی ذمہ داریوں کے راستے کھولے جارہے ہیں۔ ساتھیوں، کہا جاتا ہے کہ خود انحصاری اور آزادی ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک ملک جتنا زیادہ دوسرے ملک پر منحصر ہوتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔ کوئی ملک جتنا زیادہ خود انحصار ہوتا ہے، اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ کورونا کے بحران میں ہم سب نے خود انحصاری کی اس طاقت کو دیکھا، سمجھا، تجربہ کیا ہے۔ اس لیے آج ہندوستان خود انحصار بننے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ آج اگر آئی این ایس وکرانت ناقابل تسخیر سمندر میں ہندوستان کی طاقت کا اعلان کرنے کے لیے تیار ہے تو ہمارا تیجس لامحدود آسمان میں گرج رہا ہے۔ اس بار 15 اگست کو پورے ملک نے لال قلعہ سے دیسی توپوں کی گرج بھی سنی ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد فوجوں میں اصلاحات کرکے، ہندوستان اپنی افواج کو مسلسل جدید بنا رہا ہے، اسے خود انحصار بنا رہا ہے۔ ہماری افواج نے ایسے آلات کی ایک لمبی فہرست بھی بنالی ہے، جو اب صرف دیسی کمپنیوں سے ہی خریدی جائیں گی۔ دفاعی شعبے میں تحقیق اور ترقی کے لیے بجٹ کا 25 فیصد صرف ملک کی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تمل ناڈو اور اتر پردیش میں دو بڑے دفاعی کوریڈور بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ دفاعی شعبے میں خود انحصاری کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات سے ملک میں روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ساتھیوں، ایک بار لال قلعہ سے، میں نے شہری فرض کے بارے میں بھی بات کی تھی۔ اس بار بھی میں نے اسے دہرایا ہے۔ قطرہ قطرہ پانی ایک وسیع سمندر کی طرح بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہندوستان کا ہر شہری ‘ووکل فار لوکل’ کے منتر کو جینا شروع کردے تو ملک کو خود انحصار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ جب تمام اہل وطن لوکل کیلئے ووکل ہوں ں گے تو اس کی بازگشت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں سنائی دے گی اور دنیا کے صنعت کار یہ دیکھ کر وہ بھی ہندوستان آکر مینوفیکچرنگ کی راہ پر چلنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ طاقت ہر شہری کے تجربے میں ہے۔ ساتھیوں، آج تیزی سے عالمی ماحول بدل رہا ہے، عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے، اس نے دنیا کو کثیر قطبی بنا دیا ہے۔ اس لیے اس بات کا وژن ہونا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ آنے والے وقت میں مستقبل کی سرگرمیوں اور فعالیت کا مرکز کہاں ہو گا۔ مثال کے طور پر، ماضی میں، ہند-بحرالکاہل کے علاقے اور بحر ہند میں سلامتی کے خدشات کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن، آج یہ علاقے ہمارے لیے ملک کی اہم دفاعی ترجیح ہیں۔ اسی لیے ہم بحریہ کے لیے بجٹ بڑھانے سے لے کر اس کی صلاحیت بڑھانے تک ہر سمت میں کام کر رہے ہیں۔ آج چاہیں ساحل پر گشتی جہاز ہوں، آبدوزیں ہوں یا طیارہ بردار جہازہچ۔ آج ہندوستانی بحریہ کی طاقت بے مثال رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں ہماری بحریہ مزید مضبوط ہوگی۔ زیادہ محفوظ ‘سی لینس’، بہتر نگرانی اور بہتر تحفظ سے ہماری برآمدات، بحری تجارت اور بحری پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک اور خاص طور پر ہمارے پڑوسی اتحادی ممالک کے لیے تجارت اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ ساتھیوں، ہمارے یہاں صحیفوں میں کہا جاتا ہے، اور بہت اہم باتیں کہی گئی ہیں اور جو کچھ ہمارے لوگوں نے سنسکار کی شکل میں گزارا ہے۔ یہاں ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے- ودیا ویوادیا دھانم مدائے، شکتی: پرشن پریپیڈنائے خلسیہ سادھو: ویپریتما ایتد، گانیہ دانائے چارخشنائے یعنی بدکرار کاعلم جھگڑا کرنا، دولت اور طاقت کا گھمنڈ کرنا دوسروں پر ظلم کرنا ہے۔ لیکن شریف آدمی کے لیے یہ علم، عطیہ اور کمزوروں کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ یہ ہندوستان کی ثقافت ہے، اسی لیے دنیا کو ایک مضبوط ہندوستان کی زیادہ ضرورت ہے۔ میں نے ایک بار پڑھا تھا کہ ایک بار جب ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے کسی نے پوچھا کہ آپ بہت پرامن شخصیت ہیں، آپ بہت پرسکون انسان لگتے ہیں، تو آپ کو ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے؟ کلام صاحب نے کہا تھا کہ طاقت اور امن ایک دوسرے کے لیے ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان طاقت اور تبدیلی دونوں کو ایک ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک مضبوط ہندوستان ایک پرامن اور محفوظ دنیا کی راہ ہموار کرے گا۔ اسی جذبے کے ساتھ، اپنے بہادر سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، بہادر جنگجوؤں کی عزت کرتے ہوئے اور اس اہم موقع کو ان کی بہادری کے لیے وقف کرتے ہوئے، میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جئے ہند!,কেৰালাৰ কোচিত আইএনএছ বিক্ৰান্তক নৌসেনাত চামিল কৰাৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D8%B2%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%B9%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7/,نئیدہلی۔10 مارچ، 2018 ؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں قومی قانون سازوں کی کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر ایک ریاست میں کچھ اضلاع ہیں جہاں ترقیاتی پیمانے مستحکم ہیں۔ ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے اور کمزور اضلاع میں کام کرنا چاہیے۔ مسابقتی اور تعاون پر مبنی وفاق کا جذبہ ملک کے لیے بہت اچھا ہے۔ عوامی شرکت سے بہتر مدد پہنچتی ہے۔ جہاں بھی حکام نے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے اور انہیں ترقی کے عمل میں شا مل رکھا ہے وہاں نتائج بہت اچھے رہے ہیں۔ اضلاع میں ان شعبوں کی نشاندہی کرنا ضروری ہے جہاں بہتری کی ضرورت ہے اور ان خامیوں کا ازالہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایسے اضلاع میں اگر ایک پہلو کو بھی ہم تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں دوسری کمیوں پر کام کرنے میں رفتار حاصل ہوگی۔ ہمارے پاس افرادی قوت ہے ۔ ہمارے پاس ہنر اور وسائل ہیں۔ ہمیں ایک مشن کے طور پر کام کرنے اور مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہمارا مقصد سماجی انصاف ہے۔ ضروری اضلاع میں کام کرنے سے ہندوستان کے ایچ ڈی آئی مقام میں بہتری آئے گی۔ قانون سازوں کی یہ کانفرنس لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کا قابل ستائش اقدام ہے۔ یہ بہت ہی اچھا ہے کہ اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے متعدد ریاستوں کے قانون ساز ایک جگہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,সংসদৰ চেণ্ট্ৰেল হলত অনুষ্ঠিত ৰাষ্ট্ৰীয় বিধায়িনী সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/26%DB%9411%DB%942017-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%93%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%B1%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A7%AC-%E0%A7%A7%E0%A7%A7-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AD%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار! کچھ وقت پہلے، مجھے کرناٹک کے بالمتروں کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کا موقع ملا۔ ٹائمس گروپ کے ‘وجے کرناٹکا’ اخبار نے بچوں کے دن کے موقعے پر ایک پہل کی، جس میں انہوں نے بچوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم کو خط لکھیں۔ اور پھر انہوں نے اس میں سے کچھ منتخبہ خطوط کو شائع کیا ۔ میں نے ان خطوط کو پڑھا، میں نے انہیں بہت پسند کیا یہ ننھے-منهے لڑکے بھی، ملک کے مسائل سے واقف ہیں، ملک میں چل رہی بات چیت سے بھی واقف ہیں۔ کئی موضوعات پر ان بچوں نے لکھا۔ شمالی کنڑ کی، کیرتی ہیگڑے نے، ڈیجیٹل انڈیا اور اسمارٹ انڈیا منصوبہ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں اپنی تعلیم کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج کل بچے کلاس روم ریڈنگ کرنا پسند نہیں کرتے، انہیں فطرت کے بارے میں جاننا اچھا لگتا ہے۔ اور اگر، ہم بچوں کو فطرت کی رپورٹس دیں گے تو شاید ماحول کے تحفظ میں، وہ آگے چل کر کے کام آ سکتے ہیں۔ لکشمیسورا سے ریڈا نداف ، اس بچے نے لکھا ہے کہ وہ ایک فوجی کی بیٹی ہے اور اس پر اسے فخر ہے۔ کون ہندوستانی ہو گا، جس کو فوجی پر فخر نہ ہو! اور آپ ایک سپاہی کی بیٹی ہیں، یہ فخر کرنے کے لئے بہت فطری بات ہے۔ کلبرگی سے عرفان بیگم نے لکھا ہے کہ اس کا اسکول ان کے گاؤں سے 5 کلومیٹر دور واقع ہے، جس کی وجہ سے انہیں گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور گھر واپس آنے میں بہت دیر رات ہو جاتی ہے۔ اور، اس نے کہا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتا ہوں۔ اور انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ نزدیک میں ایک اسکول ہونا چاہئے۔ لیکن ہم وطنوں، مجھے اچھا لگا کہ ایک اخبار نے پہل کی اور مجھ تک یہ پہنچے اور مجھے ان خطوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ میرے لیے بھی یہ ایک اچھا تجربہ تھا۔ میرے عزیز ہم وطنوں، آج 26/11 ہے۔ 26 نومبر، یہ ہمارے آئین کا دن ہے۔ 1949 ء میں آج ہی کے دن ، اسمبلی نے ہندوستان کے آئین کو منظور کیا تھا۔ 26 جنوری 1950 کو، آئین نافذ ہوا اور اس لیے تو ہم ، اس کو یوم جمہوریہ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہندوستان کے آئین ، ہمارے جمہوریت کی روح ہے۔ آج کا دن، اسمبلی کے ارکان کو یاد کرنے کا دن ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی آئین بنانے کے لیے تقریباً تین سال تک سخت محنت کی۔ اور جو بھی اس بحث کو پڑھتا ہے، ہمیں فخر ہوتا کہ قوم کو وقف زندگی کی سوچ کیا ہوتی ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مختلف نوعیت سے بھرے اپنے ملک کی آئین بنانے کے لیے انہوں نے کتنی سخت محنت کی ہوگی؟ سوجھ بوجھ، مستقبل پر نظر ڈالے ہوں گے اور وہ بھی اس وقت، جب ملک غلامی کی زنجیر سے آزاد ہو رہا تھا۔ اسی آئین کی روشنی میں آئین سازوں، ان عظیم شخصیتوں کے خیالات کی روشنی میں ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرنا، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا آئین بہت وسیع ہے۔ شاید زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے، فطرت کا کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو اس سے چھوٹ گیا ہو۔ سبھی کے لیے یکساں اور سبھی کے تئیں حساسیت، ہمارے آئین کی شناخت ہے۔ یہ ہر شہری ، غریب ہو یا دلت، پسماندہ ہو یا محروم، قبائلی، خواتین سبھی کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم آئین کا حرف بہ حرف عمل کریں۔ شہری ہوں یا منتظم ، آئین کے اقدار کے مطابق آگے بڑھیں۔ کسی کو کسی بھی طرح سے نقصان نہ پہنچے۔ یہی تو آئین کا پیغام ہے۔ آج، یوم آئین کے موقعے پر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یاد آنا تو بہت فطری بات ہے۔ اس پارلیمنٹ میں اہم موضوعات پر 17 مختلف کمیٹیوں کو تشکیل دی گئی تھی۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم کمیٹیوں میں سے ایک، ڈرافٹنگ کمیٹی تھی۔ اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ، پارلیمنٹ کی اس ڈرافٹنگ کمیٹی کے صدر تھے۔ ایک بہت بڑی اہم ذمہ دری کو نبھا رہے تھے۔ آج ہم بھارت کے جس آئین پر فخر کرتے ہیں، اس کی تعمیر میں بابا صاحب امبیڈکر کی موثر قیادت کا ناقابل یقین اثر ہے۔ انہوں نے اس بات کا یقین کیا کہ معاشرے کے ہر حصے کی فلاح و بہبودہو۔ 6 دسمبر کو اپنے مہاپری نروان دوس کے موقعے پر، ہم ہمیشہ کی طرح انہیں یاد کرتے ہیں۔ ملک کو خوشحال اور طاقتور بنانے میں بابا صاحب کا تعاون ناقابل فراموش ہے۔ 15 دسمبر کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سالگرہ ہے۔ کسان کے بیٹے سے ملک کے مرد آہن بنے سردار پٹیل نے، ملک کو منظم کرنے کا غیر معمولی کام کیا تھا۔ سردار پٹیل صاحب بھی پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ وہ بنیادی حقوق، فنڈامینٹل رائٹس ، اقلیتوں اور قبائلیوں پر بنی مشاورتی کمیٹی کے بھی صدر تھے۔ 26/11 ہمارے آئین کا دن ہے لیکن یہ ملک کیسے بھول سکتا ہے کہ نو سال پہلے 26/11 کو، دہشت گردوں نے ممبئی پر حملہ کیا تھا۔ ملک ان جانباز شہریوں، پولیس والوں، حفاظتی دستوں، ہر کسی کو یاد کرتا ہے، ان کو نمن کرتا ہے جنہوں نے جان گنوائی۔ یہ ملک کبھی ان کی قربانی کو نہیں بھول سکتا۔ دہشت گردی آج ملک کے ہر حصے میں اور ایک طرح سے روزانہ ہونے والے حادثات کا ، ایک خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ ہم، ہندوستان میں تو پچھلے 40 سال سے دہشت گردی کی وجہ سے بہت کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ ہزاروں ہمارے بے قصور لوگوں نے اپنی جان گنواےئی ہے۔ لیکن کچھ سال پہلے، ہندوستان جب دنیا کے سامنے دہشت گردی کے بارے میں بولتا تھا، دہشت گردی سے مشکل دور کے متعلق بات کرتا تھو تو دنیا کے بہت لوگ تھے، جو اس کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن جب آج، دہشت گرد ان کے اپنے درزاوں پر دستک دے رہا ہے تب دنیا کی ہر حکومت، انسانیت میں یقین رکھنے والا، جمہوریت میں بھروسہ کرنے والی حکومتیں، دہشت گردی کو ایک بہت بڑا چیلنج کے طور میں دیکھ رہی ہیں۔ دہشت گردی نے ملک کی انسانیت کو چیلنج کیا ہے۔ وہ انسانی قوت کو ختم کرنے پر نبرد آزما ہے۔ اور اس لیے، صرف ہندوستان ہی نہیں، ملک کی سبھی انسانی قوت کو یکجا ہو کر ، دہشت گرد کو شکست دے کر ہی رہنا ہوگا۔ بھگوان بدھ، بھگوان مہاویر، گرو نانک ، مہاتما گاندھی یہ ہی تو کرۂ عرض ہےجس نے عدم تشدد اور محبت کا پیغام دنیا کو دیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی ، ہمارے سماجی ڈھانچہ کو کمزور کر کے، انہیں تباہ و برباد کرنے کا ناپاک کوشش کرتے ہیں۔ اور اس لیے ، انسانی قوت کا زیادہ بیدار ہونا وقت کی مانگ ہے۔ میرے پیارے ہم وطنوں، 4 دسمبر کو ہم سب یوم بحریہ، منائیں گے۔ ہندوستانی بحریہ، ہمارے ساحل سمندر کی حفاظت کر اسے تحفظ دیتا ہے۔ میں، بحریہ سے جڑے سبھی لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہماری تہذیب ندیوں کے ساحل پر فروغ پائی ہے۔ خواہ وہ سندھو ہو، گنگا ہو، جمنا ہو، سرسوتی ہو – ہماری ندیاں اور سمندر، اقتصادی اور اسٹریٹیجیک ، دونوں مقصد کے لیے اہم ہیں۔ یہ پوری دنیا کےلیے ہمارا گیٹ وے ہے۔ اس ملک کا، ہماری اسی سرزمین کا اوقیانوس کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ اور جب ہم، تاریخ کی جانب نظر ڈالتے ہیں تو 900-800 سال پہلے چول ونش کے وقت ، چول نیوی کو سب سے طاقتور بحریہ میں سے ایک مانا جاتا تھا۔ چول سامراج کی توسیع میں، اسے اپنے وقت کی اقتصادی سپر پاور بنانے میں ان کی بحریہ کا بہت بڑا حصہ تھا۔ چول بحریہ کی مہم، کھوج دورے کے بہت سی مثال ، سنگم ساہتیہ میں آج بھی دستیاب ہیں۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ ملک میں زیادہ تر بحریہ فوج نے بہت دیر کے بعد جنگی جہاوں پر خواتین کو جانے دیا جاتا تھا۔ لیکن چول بحریہ میں اور وہ بھی 900-800 سال پہلے، بہت بڑی تعداد میں خواتین نے اہم کردار ادا کی تھی۔ اور یہاں تک کہ خواتین، لڑائی میں بھی شامل ہوتی تھیں۔ چول راجاؤں کے پاس شپ بلڈنگ ، جہازوں کی تعیر کے بارے میں بہت سی وسیع معلومات ہوتی تھیں۔ جب ہم بحریہ کی بات کرتے ہیں تو چھترپتی شیواجی مہاراج اور بحریہ کی ان کے اہلیت کو کو کون بھول سکتا ہے۔ کونکن ساحل شعبے، جہاں سمندر کا اہم رول ہے، شیواجی مہاراج کی ریاست میں تھا۔ شیواجی مہاراج سے جڑے کئی قلعے جیسے سندھو درگ، مروڑ جنجیرا، سورن دُرگ وغیرہ یا تو ساحل سمندر کے ساحل پر واقع تھے یا تو سمندر سے گھرے ہوئے تھے۔ ان قلعوں کی حفاظت کی ذمہ داری مراٹھا بحریہ کرتی تھی۔ مراٹھا بحریہ میں بڑے بڑے جہازوں اور چھوٹی چھوٹی کشتیوں کا کامبینیشن تھا۔ ان کی بحریہ کسی بھی دشمن پر حملہ کرنے اور ان سے محفوظ رہنے میں بیحد ماہر تھی۔ اور ہم مراٹھا بحریہ کی بات کریں اور کانھوجی آنگرے کو یاد نہ کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مراٹھابحریہ کو ایک نئی سطح پر پہنچایا اور کئی جگہوں پر مراٹھا بحریہ فوج کے اڈے قائم کیے۔ آزادی کے بعد ہماری ہندوستانی بحریہ نے مختلف موقعوں پر اپنی بہادری دکھائی – خواہ وہ گوا کی آزادی کی لڑائی ہو یا 1971 کا ہندوستانی-پاکستان جنگ ہو۔ جب ہم بحریہ کی بات کرتے ہیں تو صرف ہمیں جنگ ہی نظر آتی ہے لیکن ہندوستان کی بحریہ، انسانیت کے کام میں بھی اتنی ہی بڑھ چڑھ کر کے آگے آئی ہے۔ اس سال جون کے مہینے میں بنگلہ دیش اور میانمار میں سائیکلون مورا کا خطرہ آیا تھا، تب ہماری بحریہ کی شپ ، آئی این ایس سمترا نے فوری طور پر ریسکیو کے لیے مدد کی تھی اور کئی ماہی گیروں کو پانی سے باہر محفوظ بچاکر بنگلہ دیش کے سپرد کیا تھا۔ س سال مئی جون میں جب سری لنکا میں سیلاب کی خطرناک آفت آئی تھی ، تب ہماری بحریہ کے تین جہازوں نے فوراً ہی وہاں پہنچ کر وہاں کی حکومت اور وہاں کے عوام کو مدد پہنچائی تھی۔ بنگلہ دیش میں ستمبر مہینے میں روہنگیا کے معاملے میں ہماری بحریہ کی شپ، آئی این ایس گھڑیال نے انسانی مدد پہنچائی تھی۔ جون مہینے میں پاپوا نیو گینی کی حکومت نے ہمیں ایس او ایس پیغام دیا تھا اور ان کے فشنگ بوٹ کے ماہی گیروں کو بچانے میں ہماری بحریہ نے مدد کی تھی۔ 21 نومبر کو مغرب خلیج میں ایک مرچنٹ وسیل میں قزاق کے حادثے میں بھی، ہمارا بحریہ کا جہاز آئی این ایس تری کھنڈ مدد کے لیے پہنچ گیا تھا۔ فیجی تک طبی خدمات پہنچانی ہو، فوری طور پر راحت پہچانی ہو، پڑوسی ملک کو مشکل وقت میں انسای مدد پہنچانی ہو، ہماری بحریہ ہمیشہ فخرآموز کام کرتی رہی ہے۔ ہم ہندستانی، ہمارے حفاظتی دستوں کے تئیں ہمیشہ فخر اور عزت کا احساس رکھتے ہیں – چاہے وہ آرمی ہو، نیوی ہو، ایئر فورس ہو، ہمارے جوانوں کی ہمت، بہادری، دلیری ، قربانی ہر شہری ان کو سلام کرتا ہے۔ سو کروڑ شہری امن و سکون کی زندگی جی سکیں اس لیے وہ اپنی جوانی، ملک کے لیے قربان کر دیتا ہے۔ ہر سال 7 دسمبر کو آرمڈ فورسز فلیگ ڈے مناتا ہے۔ یہ ملک کے آرمڈ ��ورسز کے تئیں فخر کرنے اور عزت دینے کا دن ہے۔ مجھے خوشی ہے، اس بار وزارت دفاع نے 1 سے 7 دسمبر تک مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے – ملک کے شہریوں کے پاس پہنچ کر آرمڈ فورسز سے متعلق لوگوں کو جانکاری دینا، لوگوں کو بیدار کرنا۔ ہفتہ بھر بچے بڑے، ہر کوئی فلیگ لگائیں۔ ملک میں فوج کے تئیں عزت کی ایک تحریک کھڑی ہو جائے۔ اس موقعے پر ہم آرمڈ فورسز فلیگ تقسیم کر سکتے ہیں۔ اپنے آس پاس میں، اپنی جان پہچان میں جو آرمڈ فورسز سے جڑےہیں، ان کے تجربہ کو، ان کی بہادری بھرے کام کو ، اس سے جڑے ویڈیوز اور تصاویر ، #armedforcesflagday پر پوسٹ کر سکتے ہیں۔ اسکولوں میں، کالج میں، فوج کے لوگوں کو بلا کر کے، ان سے فوج سے متعلق جانکاریاں لے سکتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو فوج سے متعلق جانکاریاں حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع بن سکتا ہے۔ یہ موقع ہمارے آرمڈ فورسز کے سبھی جوانوں کی بہبود کے لیے رقم جمع کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ رقم ، فوج کی فلاح بورڈ کے ذریعے سے جنگ میں شہید ہوئے فوجیوں کے کنبوں کو، زخمی فوجیوں کی فلاح کے لیے ان کے اوپر خرچ کی جاتی ہے۔ اقتصادی تعاون دینے کے لیے آپ مختلف ادائیگی کے بارے مین جانکاری ksb.gov.in سے لے سکتے ہیں۔ آپ اس کے لیے کیش لیس پیمنٹ بھی کر سکتے ہیں۔ آیئے، اس موقعے پر ہم بھی کچھ ایسا کریں، جس سے ہمارے مسلح افواج کی حوصلہ افزائی میں اضافہ کرے گا۔ ہم بھی ان کی فلاح کے لیے اپنا تعاون دیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں، 5 دسمبر کو مٹی کا عالمی دن ہے۔ میں اپنے کسان بھائیوں بہنوں سے بھی کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ زمین کا ایک اہم حصہ ہے مٹی۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ اس مٹی سے ہی تو جڑا ہوا ہے۔ ایک طرح سے پورا فوڈ چین، مٹی سے جڑا ہوا ہے۔ تصور کیجیے، اگر اس ملک میں کہیں بھی زرخیز مٹی نہ ہو تو کیا ہوگا؟ سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے۔ نہ مٹی ہوگی، نہ درخت ہوں گے۔ انسانی زندگی کہاں ممکن ہے؟ حیاتیات کہاں ممکن ہے؟ ہماری تہذیب میں اس پر بہت پہلے سوچا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم مٹی کی اہمیت کے تئیں، قدیم وقت سے بیدار رہے ہیں۔ ہماری تہذیب میں ایک جانب کھیتوں کے تئیں، مٹی کے تئیں، لوگوں میں بنا رہے ایسی کوشش ہے تو دوسری جانب ایسی سائنسی طریقہ ، زندگی کا حصہ رہی کہ اس مٹی کی غذائیت ہوتی رہی۔ میں ہماچل پردیش کے حمیرپور ضلعے کے ٹوہو گاؤں ، بھورنج بلاک اور وہاں کے کسانوں کے بارے میں میں نے سنا تھا۔ یہاں کے کسان پہلے غیرمتوازی طریقے سے فرٹیلائزر کا استعمال کر رہے تھے اور جس کی وجہ سے زمین کی صحت خراب ہوتی گئی۔پیداوار کم ہوتی گئی اور پیداوار کم ہونے سے آمدنی بھی کم ہو گئی اور مٹی کی بھی پیداواریت آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی تھی۔ گاؤں کے کچھ بیدار کسانوں نے اس حالات کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے بعد گاؤں کے کسانوں نے وقت پر اپنی مٹی کی جانچ کرائی اور جتنے فرٹیلائزر ، کھاد، مائیکرو نیوٹرینٹ اور نامیاتی کھاد کا استعمال کرنے کے لیے انہیں کہا گیا، انہوں نے اس مشورے کو مانا۔ اور آپ یہ نتیجہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ سوائل ہیلتھ کے ذریعے کسانوں کو جو جانکاری ملی اور اس سے ان کو رہنمائی ملی، اسکو نافذ کرنے کا نتیجہ کیا آیا؟ ربیع 17-2016 میں گیہوں کی پیداواری میں فی ایکڑ تین سے چار گنا کا ضافہ ہوا اور آمدنی میں بھی فی ایکڑ چار ہزار سے لے کر کے چھ ہزار روپئے تک کا اضافہ ہوا۔ اس کےساتھ ساتھ مٹی کی کوالٹی میں بھی بہتری آئی۔ فرٹیلائزر کا استعمال کم ہونے کی وجہ سے مالیاتی بچت بھی ہوئی۔ مجھے یہ دیکھ کر کافی ��وشی ہوئی ہے کہ میرے کسان بھائی سوئل ہیلتھ کارد، دیئے گئے مشورے پر عمل کرنے کے لیے آگے آئے ہیں اور جیسے جیسے نتیجہ مل رہے ہیں، ان کا جوش بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اب کسان کو بھی لگ رہا ہے کہ اگر فصل کی فکر کرنی ہے تو پہلے دھرتی ماں کا خیال رکھنا ہوگا اور اگر دھرتی ماں کا خیال ہم رکھیں گے تو دھرتی ماں ، ہم سب کو خیال رکھیں گی۔ ملک بھر میں ہمارے کسانوں نے 10 کروڑ سے زیادہ سوئل ہیلتھ کارڈ بنا لیے ہیں تاکہ وہ اپنی مٹی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اس کے مطابق فصل بھی بو سکیں۔ یہ تمام قسم کے سائنسی طریقوں سے ثابت ہوا ہے کہ دھرتی ماں کی ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے دھرتی ماں کو سنگین نقصان پہنچا ہے۔ کسان زمین کا بیٹا ہے، ایک کسان کس طرح دھرتی ماں کی بیماری کو دیکھ سکتا ہے؟ وقت کا مطالبہ ہے، اس ماں بیٹے کے تعلقات کو پھر سے ایک بار بیدار کرنے کی۔ کیا ہمارے کسان، ہمارے دھرتی کے بیٹے ، ہمارے دھرتی کے سنتان یہ عہد کر سکتے ہیں کیا کہ آج وہ اپنے کھیت میں جتنا یوریا کا استعمال کرتا ہے 2022 ، جب آزادی کے 75 سال ہوں گے، نصف استعمال بند کر دے گا؟ ایک بار اگر ماں دھرتی کا بیٹا، میرا کسان بھائی، یہ عہد کر لین تو دیکھیے کہ دھرتی ماں کی صحت میں بہتری آجائے گی، پیدواریت بڑھ جائے گی۔ کسان کی زندگی میں بدلاؤ آنا شروع ہو جائے گا؟ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلی اب ہم سب لوگ محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ بھی ایک وقت تھا کہ دیوالی کے پہلے موسم سرما میں آ جاتا تھا۔ اب دسمبر دستک دے رہا ہے اور سردی بہت آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی ہے۔ لیکن جیسے ہی سردی شروع ہو جاتی ہے، ہم سب کا تجربہ ہے کہ رزائی سے باہر نکلنا ذرا بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔ لیکن، ایسے موسم میں بھی مسلسل بیدار رہنے والے لوگ کیسا نتیجہ لاتے ہیں اور یہ مثال ہم سب کے لیے تحریک دیتی ہے۔ آپ کو بھی سن کر کے حیرت ہوگی کہ مدھیہ پردیش کے ایک 8 سالہ معذور بچہ تشار، اس نے اپنے گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت سے آزاد کرانے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ اتنی وسیع سطح کا کام اور اتنا چھوٹا بچہ! لیکن جذبہ اور عہد، اس سے کئی گنا بڑے تھے، وسیع تھے اور مضبوط تھے۔ 8 سالہ بچہ بول نہیں سکتا لیکن اس نے سیٹی کو اپنا ہتھیار بنایا اور صبح 5 بجے اٹھ کر ، اپنے گاؤں میں گھر گھر جا کر لوگوں کو سٹی سے بیدار کر کے، ہاتھ کے ایکشن سے کھلے میں رفع حاجت نہ کرنے کے لیے تعلیم دینے لگا۔ ہر دن 40-30 گھروں مین جا کر کے سوچھتا کی تعلیم دینے والے اس بچے کی بدولت کمہاری گاؤں ، کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہو گیا۔ سوچھتا کو بڑھاوا دینے کی سمت میں اس ننھے بچے تشار نے تحریک دینے والا کام کیا۔ یہ دکھاتا ہے کہ سوچھتا کی نہ کوئی عمر ہوتی ہے، نہ کوئی سرحد۔ ہر لمحہ ہمیں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ آج وہ ہر ایک شعبے میں اچھا کر رہے ہیں۔ چاہے کھیل کا شعبہ ہو، کوئی کمپٹیشن کا ہو، کوئی سماجی پہل ہو – ہمارے معزور بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے ہیں۔ آپ سب کو یاد ہوگا ہمارے معزور کھلاڑیوں نے رئیو اولمپک میں بہتر مظاہر کرتے ہوئے 4 تمغہ جیتے تھے اور بلائنڈ ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں بھی چمپئن بنے تھے۔ ملک بھر میں الگ الگ طرح کی مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اودے پور میں 17ویں نیشنل پارا سویمنگ مقابلہ منعقد ہوئی۔ ملک بھر کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے ہمارے نوجوان معزور بھائی بہنوں نے اس میں حصہ لیا اور اپنے ہنر کا مظاہرہ کرایا۔ انہیں میں سے ایک ہیں گجرات کے 19 سال کے جگر ٹھکّکر، ان کے جسم کے 80 فیص�� حصے میں پٹھے نہیں ہیں لیکن ان کی ہمت ، عہد اور ان کی محنت کو دیکھیے۔ نیشنل پیرا سوئیمنگ مقابلہ میں 19 سال کے جگر ٹھککر جس کے جسم میں 80 فیصد پٹھے نہ ہوں اور 11 میڈل جیت جائے۔ 70ویں نیشنل پیرا سوئیمنگ مقابلہ میں بھی انہوں نے گولڈ جیتا۔ ان کے اسی ہنر کا نتیجہ ہے کہ وہ ہندوستان کے اسپارٹس اتھارٹی آف انڈیا کے ذریعے 20-20 پارالیمپکس کے لیے منتخب ہوئے، 32 پارا تیراکوں مین سے ایک ہیں جنہیں گجرات کے گاندھی نگر میں سینٹر فار ایکسی لینس میں ٹریننگ دی جائے گی۔ میں نوجوان جگر ٹھککر کے جذبے کو سلام کرتا ہوں اور انہیں اپنی مبارکباد دیتا ہوں۔ آج معزور افراد کے لیے رسائی اور مواقعے پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ ہماری کوشش ہے کہ ملک میں ہر شخص بااختیار ہو۔ ایک جامع سماج کی تعمیر کریں۔ سم’ اور مم کے خیال سے سماج میں ہم آہنگی بڑھے اور سب ایک ساتھ مل کر کے آگے بڑھے۔ کچھ دن بعد عید میلادالنبی کا تہوار منایا جائے گا۔ اس دن پیغمبر محمد صاحب کا یوم پیدائش ہے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ عید کا یہ تہوار ، سماج میں امن اور ہم آہنگی کو بڑھانے کے لیے ہم سب کو نئی تحریک دے، نئی توانائی دے، نیا عہد کرنے کے قابل بنائے۔ (فون کال) نمستے وزیراعظم جی ، میں کانپور سے نرجا سنگھ بول رہی ہوں۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ اس پورے سال مین جو آپ نے اپنی من کی بات میں جو باتیں کہی ہیں، ان مین سے جو دس سب سے اچھی باتیں ہے ان کو آپ ہم سے دوبارہ شیئر کریں۔ جس سے کہ ہم سب کو پھر سے ان باتوں کو یاد ہو اور ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے ۔ شکریہ۔ (فون کال ختم) آپ کی بات درست ہے 2017 مکمل ہونے والا ہے، 2017 دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ لیکن آپ نے اچھا مشورہ دیا ہے۔ لیکن آپ ہی کی بات سے مجھے، کچھ اور اس میں جوڑنے کا اور تبدیل کرنے کا من کرتا ہے۔ اور ہمارے یہاں تو گاؤں کے اندر جو ہمارے سینئر لوگ ہوتے ہیں، گاؤں میں جو بزرگ لوگ ہوتے ہیں، بڑے – بوڑھے ہمیشہ کہا کرتے ہیں – دکھ کو بھولو اور سکھ کو بھولنے مت دو۔ دکھ کو بھولیں، سکھ کو بھولنے نہ دیں۔ مجھے لگتا ہے، اس بات کو ہمیں عوام تک پہنچانی چاہیے۔ ہم بھی 2018میں اچھا یاد کرتے ہوئے، درست عہد کرتے ہوئے داخل ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو ، شائد دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ سال کے آخر میں جب حساب کتاب کرتے ہیں، سوچ فکر کرتے ہیں، غور کرتے ہیں اور اگلے سال کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں میڈیا میں تو، گزرے سال کی کئی دلچسپ واقعات کو پھر سے ایک بار دوبارہ یاد کرانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس میں مثبت بھی ہوتی ہے ، اور نفی بھی ہوتی ہیں۔ لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ 2018 میں ہم داخل اچھی چیزوں کو یاد کر کے کریں، اچھا کرنے کے لیے کریں؟ میں آپ سب کو ایک مشورہ دیتا ہوں کہ آپ سب 10-5 اچھی پوزیٹیو باتیں جو آپ نے سنیں ہو، آپ نے دیکھی ہوں، آپ نے محسوس کی ہوں ور جس کو اگر اور لوگ جانیں تو ان کو بھی ایک اچھا اثر پیدا ہوا۔ کیا آپ اس میں تعادن دے سکتے ہیں؟ کیا اس بار ہم اس سال کی اپنی زندگی کے 5 مثبت تجربہ شیئر کر سکتے ہیں؟ چاہے وہ فوٹو کے ذریعے سے ہو، چھوٹی سی کوئی کہانی کے طور پر ہو، اسٹوری کے طور پر ہو، چھوٹے سے ویڈیو کے طور میں ہو، میں مدعو کرتا ہوں کہ 2018 کا استقبال ہمیں خوشگوار ماحول میں کرنا ہے۔ اچھی یادوں کے ساتھ کرنا ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ کرنا ہے۔ مثبت باتوں کو یاد کر کے کرنا ہے۔ آیئے، نریندر مودی ایپ پر ، مائی گوو پر یا سوشل میڈیا ��ر #PositiveIndia کے ساتھ مثبت باتوں کو شیئر کریں۔ دوسروں کو تحریک دینے والے واقعات کو یاد کریں۔ اچھی باتوں کو یاد کریں گے تو اچھا کرنے کا موڈ بنے گا۔ اچھی چیزیں، اچھا کرنے کے لیے توانائی دے دیتی ہیں۔ اچھی –سوچ، اچھا – عہد کا مقصد بنتا ہے۔ اچھی عہد، اچھے نتائج کے لیے آگے لے جاتا ہے۔ آیئے، اس مرتبہ کوشش کریں #PositiveIndia دیکھیے، ہم سب مل کر کیا زبردست پازیٹیو وائب پیدا کر کے، آنے والے سال کا استقبال کریں گے۔ اس اجتماعی رفتار کی طاقت اور اس کا اثر ہم سب مل کر کے دیکھیں گے۔ اور میں ضرور اگلے من کی بات میں آپ کے ان #PositiveIndia پر آئی ہوئی چیزوں کو ہم وطنوں کے درمیان پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، اگلے مہینے ، اگلی من کی بات کے لے پھر آپ کے درمیان آؤں گا۔ بہت سی باتیں کرنے کا موقع ملے گا۔ بہت بہت شکریہ!,আকাশবাণীত ২৬.১১.২০১৭ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ৩৮সংখ্যক ‘মন কী বাত’ অনুষ্ঠানত আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A3%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A6%95/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج میسورو میں ناگن پلّی ریلوے اسٹیشن پر سب- اربن ٹریفک کے لئے ایک کوچنگ ٹرمنل کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ کوچنگ ٹرمنل میسورو کے مہاراجہ کالج گراؤنڈ کے مقام پر ایک تقریب میں سنگ بنیاد رکھا۔ یہ ٹرمنل 480 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔ کوچنگ ٹرمنل میں ایک ایم ای ایم یو شیڈ بھی ہوگا اور اس کی بدولت موجودہ میسورو یارڈ میں ٹرینوں کا رش کم ہوگا اور میسورو سے مزید ایم ای ایم یو ٹرین خدمات اور طویل فاصلے کی ٹرینیں چلانے میں سہولت ہوگی اور اس کے ساتھ ہی خطے میں کنکٹی وٹی اور سیاحت دونوں کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ اس سے شہر کے اندر یومیہ سفر کرنے والوں کے ساتھ ساتھ طویل دوری کے مقامات تک کا سفر کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ پروگرام کے دوران، وزیراعظم نے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف اسپیچ اینڈ ہیئرنگ (اے آئی آئی ایس ایچ) کے مقام پر قوت گویائی سے متاثرہ افراد کے لئے عمدگی کے ایک مرکز کو بھی قوم کے نام وقف کیا۔ یہ مرکز جدید ترین لیبارٹریوں سے آراستہ ہے اور اس میں امراض کی تشخیص، تجزیہ اور قوت گویائی سے متاثرہ افراد کی باز آباد کاری سے متعلق سہولتیں دستیاب ہیں۔ کرناٹک کے گورنر ، جناب تھاور چند گہلوت، وزیراعلیٰ جناب بسوراج بومئی اور مرکزی وزیر جناب پرہلاد جوشی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیراعظم جناب نریند رمودی نے کہا کہ کرناٹک ایک ایسی ریاست ہے کہ جہاں ملک کی اقتصادی اور روحانی خوشحالی کو ایک ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک اس بات کی ایک مکمل اور بہترین مثال ہے کہ ہم اپنی قدیم ثقافت کو مالا مال بنا کر اکیسویں صدی کے اپنے عزائم کو کس طریقے سے حقیقت کی شکل دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس سرزمین نے ملک کو نلواڈی کرشنا ووڈیار، سر ایم وسِویسریا اور راشٹریہ کوی کوویمپو جیسی عظیم شخصیات دی ہیں۔ ان عظیم شخصیات نے بھارت کی وراثت اور ترقی میں گراں قدر تعاون کیا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈبل انجن کی سرکار، عام آدمی کو بنیادی سہولتوں اور وقار کی زندگی کے ساتھ جوڑنے اور ان ��ظیم شخصیات کے نظریات کو آگے لے جانے کی غرض سے پوری توانائی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے فلاح وبہبود سے متعلق کوششیں، بہت چنندہ طبقے تک محدود تھیں۔ انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ گزشتہ 8 برسوں میں ان کی حکومت کے ذریعہ بنائی گئی اسکیموں میں اس جذبے کو ترجیح دی گئی ہے، کہ ان اسکیموں سے معاشرے کے سبھی طبقات اور سبھی شعبے مستفید ہوسکیں۔ ایک جانب، ہم نے اسٹارٹ اپ پالیسی کے تحت نوجوانوں کو ترغیبات فراہم کی ہیں، تو دوسری جانب، ہم پی ایم کسان سمان ندھی کے ذریعہ کسانوں کو رقم بھی دستیاب کرا رہے ہیں (کرناٹک کے 56 لاکھ چھوٹے کسانوں کے کھاتوں میں 10ہزار کروڑ ر وپے سے زیادہ فراہم کئے گئے ہیں)۔ ایک ملک – ایک راشن کارڈ جیسی پہل قدمیوں کے ذریعہ، اب یہ اسکیمیں پورے بھارت کا احاطہ کر رہی ہیں۔ کرناٹک کے 4.25 کروڑ سے زیادہ غریب لوگ، گزشتہ دو سال سے بھی زیادہ عرصے سے مفت راشن حاصل کر رہے ہیں۔ آیوشمان کے تحت، ریاست کے 29 لاکھ سے زیادہ غریب مریضوں کا مفت علاج کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے، جنہوں نے اس تقریب سے پہلے مستفید افراد سے بات چیت بھی کی تھی، اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ حکومت کا پیسہ ، عوام میں اعتماد پیدا کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 8 برسوں کے دوران، حکومت نے ہر شخص تک خدمات کی رسائی کو یقینی بنا کر ، سماجی انصاف کو بااختیار بنایا ہے۔ فلاح وبہبود سے متعلق اسکیموں کو پوری طرح بروئے کار لانے کی کوششوں کی بدولت، بھارت کے عام شہریوں میں، بغیر کسی تفریق کے فوائد حاصل کرنے سے متعلق یقین مزید مستحکم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت اس بات کی مسلسل کوششیں کر رہی ہے کہ ہمارے معذوری سے متاثرہ ساتھیوں کو دوسروں پر کم سے کم انحصار کرنا پڑے۔ اس لئے، ہماری کرنسی میں دویانگ افراد کی سہولت کی غرض سے نئی خصوصیات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں معذوری سے متاثرہ افراد کی تعلیم سے متعلق کورسز کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ سُگمیا بھارت، کے ذریعہ ان افراد کی دفاتر تک رسائی میں سہولت پیدا کی جارہی ہے اور اس عمل کو شفاف بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اسٹارٹ اپ ایکو نظام کو دعوت دی کہ وہ دویانگ افراد کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے کام کریں۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف اسپیچ اینڈ ہیئرنگ (اے آئی آئی ایس ایچ) کو دویانگ انسانی وسائل کو ملک کی ترقی میں ایک کلیدی ساجھیدار بنانے میں معاونت کے مقصد سے، قوت گویائی سے متاثرہ افراد کے لئے عمدگی کے ایک مرکز کو آج قوم کے نام وقف کیا گیا ہے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے، اس بات کو نمایاں کیا کہ گزشتہ 8 برسوں میں، مرکزی حکومت نے، کرناٹک میں 5 ہزار کلو میٹر قومی شاہراہوں کی تعمیر کے مقصد سے تقریبا 70 ہزار کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ آج بینگلورو میں قومی شاہراہوں کے پروجیکٹوں میں سے ایک کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، جس پر 7 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈبل انجن کی سرکار، عام ٓدمی کے رہن سہن میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے، ان پروجیکٹوں کو جلد سے جلد مکمل کرنے پر کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے مطلع کیا کہ سال 2014 سے پہلے کرناٹک میں ریلوے کے لئے اوسطاً 800 کروڑ روپے مختص کئے جاتے تھے اور اب اس کے مقابلے اس سال ہی اس کام کے لئے 7000 کروڑ روپے مختص کئے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست میں 34000 کروڑ روپے مالیت کے ریلوے پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ وزیراعظم نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ 2014 سے پہلے 10 سالوں میں محض 16 کلو میٹر طویل ریلوے لائن کی بجلی کاری ہوئی تھی اور اس کے مقابلے گزشتہ 8 سالوں میں ہی 1600 کلو میٹر طویل ریلوے لائن کی بجلی کاری کی جا چکی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک کے عوام کی دعاؤں کی بدولت، ڈبل انجن کی سرکار کو ترغیب ملتی رہے گی کہ وہ ریاست کی ترقی کی خاطر انتھک کام کر تی رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- ع م- ق ر),মহীশূৰত এলানি উন্নয়ণমূলক প্ৰকল্পৰ শুভৰম্ভ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D9%81%D8%B8-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%A6%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%DB%81%D8%AF-%D8%A8%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%B0/,نئی دلّی ، 22 مارچ؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پانی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں پانی کے تحفظ کے تئیں اپنی عہد بستگی کا از سرنو اعادہ کرتے ہو ئے کہا ہے کہ پانی کا عالمی دن جل شکتی کی اہمیت کو اجاگرکرنے اور پانی کے تحفظ کے تئیں ہماری عہد بستگی کا از سر نو اعادہ کرنے کا موقع ہے ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جب ہم پانی کی بچت کرتے ہیں تو ہمارے شہر ، گاؤں اور محنت کش کسان زبردست فیض یاب ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,পানী সংৰক্ষণৰ প্ৰতি পুনৰ অংগীকাৰবদ্ধ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%D9%88%D8%A7%DA%A9%D9%86%DA%AF-%DA%86%D9%85%D9%BE%D8%A6%D9%86-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%86%DA%A9%D8%A7-%DA%AF%D9%88%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9A-%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ریس واکنگ چمپئن پرینکا گوسوامی کو برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 میں باوقار چاندی کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ہماری قومی ریس واکنگ چمپئن پرینکا گوسوامی کو باوقار چاندی کا تمغہ جیتنے پر مبارک باد۔ اس تمغے سے انھوں نے بھارت میں کئی نوجوانوں کو اس کھیل کو اپنانے کے لئے راغب کیا ہے۔ وہ آنے والے وقت میں کامیابی کی نئی بلندیوں کو سَر کرتی رہیں۔ #Cheer4India ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰেচ ৱাকিং চেম্পিয়ন প্ৰিয়ংকা গোস্বামীক ৰূপৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে অভিনন্দন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D9%88%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D9%85%D8%B9%D8%A7%DB%81%D8%AF%DB%92-%DA%A9%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,نئی دہلی ،14جون : مرکزی کابینہ نے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی صدارت میں ہندوستان اور پیروکےمابین ایک معاہدے کو اپنی منظوری دے دی ہے ، جس پر مئی ،2018میں لیما میں پیروپردستخط کئے گئے تھے ۔ اس معاہدے کا مقصد نئے اورقابل احیأ موضوعات کے سلسلے میں تکنیکی باہمی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنااوراسے فروغ دینا ہے ۔یہ کام باہمی مفاد اورمساوات و ایک دوسرے کے ساتھ افہام تفہیم بناکر انجام دیاجائیگا۔ اس معاہدے کے تحت معاہدے کے نفاذ کے لئے ایک مشترکہ کمیٹی کی تشکیل کی جائیگی تاکہ ایک ورک پلان تشکیل دیاجاسکے ۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین ب��ہمی تعاون کو مستحکم بنانے میں مدد گارہوگا۔,ভাৰত আৰু পেৰুৰ মাজৰ চুক্তি কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DA%86%DB%8C%D8%A6%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 23 مئی، 2022 کو ٹوکیو میں این ای سی کارپوریشن کے چیئرمین، ڈاکٹر نوبوہیرو اینڈو سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے ہندوستانی مواصلات کے شعبہ میں، خاص طور پر چنئی-انڈومان اور نکوبار جزائر (سی اے این آئی) اور کوچی-لکشدیپ جزائر (کے ایل آئی) او ایف سی پروجیکٹوں میں این ای سی کے رول کی تعریف کی۔ انہوں نے پروڈکشن لنکڈ انسینٹو (پی ایل آئی) اسکیم کے تحت سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم جناب مودی اور ڈاکٹر اینڈو نے صنعتی ترقی، ٹیکس کے نظام اور محنت و مزدوری سمیت بھارت میں کاروبار کرنے کو آسان بنانے کے لیے کی جا رہی مختلف اصلاحات پر گفتگو کی۔ دونوں معزز شخصیات نے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے شعبے میں بھارت میں دستیاب مواقع کے بارے میں بھی بات چیت کی۔,এনইচি কৰ্প’ৰেচনৰ অধ্যক্ষ ড০ নোবুহিৰো এণ্ডোৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE/,نئی دہلی،25/جنوری۔ ہمارچل پردیش کے عوام کو ریاست کے یوم تاسیس کے موقع پر وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مبارک باد دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’’ہماچل پردیش کے یوم تاسیس پر ریاست کے عوام کو بہت سی نیک خواہشات۔ میں ریاست کی مجموعی ترقی اور فروغ کی خواہش کرتا ہوں۔‘‘ (م ن ۔ اس۔ م ر(,হিমাচল প্ৰদেশৰ প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা জ্ঞাপন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%B1%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,نئی دہلی، 12 مارچ 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج احمدآباد میں راشٹریہ رکشا یونیورسٹی کی عمارت قوم کے نام وقف کی اور اس کے اولین جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کیا۔ مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر، جناب امیت شاہ، گجرات کے گورنر آچاریہ دیورت، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل اس موقع پر موجود تھے۔ شروعات میں، وزیر اعظم نے مہاتما گاندی اور دانڈی مارچ میں حصہ لینے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس عظیم مارچ کا آغاز اِسی دن ہوا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’انگریزوں کی ناانصافیوں کے خلاف گاندھی جی کی قیادت میں چلائی گئی تحریک نے برطانوی حکومت کو ہم بھارتیوں کی اجتماعی قوت کا احساس دلایا۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ نوآبادیاتی دور میں داخلی سلامتی سے متعلق ابتدائی تصور نوآبادیاتی آقاؤں کے لیے امن و امان قائم رکھنے کے لیے عوام کے درمیان خوف پیدا ��رنے پر مبنی تھا۔ اسی طرح، پہلے کا منظرنامہ مختلف تھا کیونکہ سلامتی دستوں کے پاس تیاری کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، تاہم یہ صورتحال تکنالوجی ، نقل و حمل اور مواصلات کے شعبہ میں زبردست طور پر بہتری رونما ہونے کے ساتھ ہی اب یکسر طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج پولیس فورس کو بات چیت اور دیگر سافٹ اسکلز اپنانے کی ضرورت ہے جو کہ جمہوری منظرنامہ میں کام کاج کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے پولیس اور سلامتی اہلکاروں کی شبیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عام معاشرے میں پولیس کی جو عکاسی کی گئی ہے، اس نے بھی اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کی ہے۔ انہوں نے وبائی مرض کے دوران پولیس اہلکاروں کے ذریعہ انسانی ہمدردی پر مبنی کیے گئے کاموں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’مابعد آزادی، ملک کے سلامتی نظام میں اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت تھی۔ یہ تصور پیدا کیا گیا تھا کہ ہمیں باوردی اہلکاروں سے محتاط رہنا چاہئے۔ لیکن اب یہ تصور بدل چکا ہے۔ اب لوگ جب باوردی اہلکار کی جانب دیکھتے ہیں تو انہیں مدد کی یقین دہانی ہوتی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے نوکری کے تناؤ سے نمٹنے میں پولیس اہلکاروں کے لیے مشترکہ خاندان کی جانب سے گھٹتے تعاون کے نیٹ ورک کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے پولیس فورس میں یوگا ماہرین سمیت تناؤ سے نمٹنے اور راحت فراہم کرانے کے لیے دیگر ماہرین کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سلامتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے تناؤ سے مبرا سرگرمیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے سلامتی اور پولیس کے کام کاج میں تکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجرمین تکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں، انہیں پکڑنے کے لیے بھی تکنالوجی کوہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تکنالوجی پر زور دینے سے اس میدان میں دیویانگ افراد کو بھی اپنا تعاون دینے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی نگر علاقہ میں نیشنل لاء یونیورسٹی، رکشا یونیورسٹی اور فارینسک سائنس یونیورسٹی موجود ہیں۔ انہوں نے ان متعلقہ میدانوں میں ایک جامع علم پیدا کرنے کی غرض سے باقاعدہ طور پر مشترکہ سمپوزیئم کے ذریعہ ان اداروں کے درمیان بہتر تال میل پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ’’اسے پولیس یونیورسٹی سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرنا۔ یہ ایک رکشا یونیورسٹی ہے جو پورے ملک کی سلامتی کا خیال رکھتی ہے۔‘‘ انہوں نے مجمع اور بھیڑ کی نفسیات، بات چیت، تغذیہ اور تکنالوجی جیسے موضوعات کی اہمیت کا ازسر نو اعادہ کیا۔ انہوں نے طلبا سے اپیل کی کہ وہ انسانی اقدار کو ہمیشہ اپنی وردی کے اہم جزو کے طو رپر برقرار رکھیں اور اپنی کوششوں میں خدمات کا جذبہ کبھی کم نہ ہونے دیں۔ انہوں نے سلامتی کے شعبہ میں لڑکیوں اور خواتین کی بڑھتی تعداد کے بارے میں اطمیان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’ہم دفاعی شعبہ میں بڑی تعداد میں خواتین کی شراکت داری ملاحظہ کر رہے ہیں۔ خواہ سائنس ہو، تعلیم ہو یا سلامتی، خواتین آگے آکر قیادت کر رہی ہیں۔‘‘ وزیر اعظم مودی نے ادارے کی تصوریت کو آگے لے جانے میں اس طرح کے کسی بھی ادارے کے پہلے بیچ کے کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ادویہ کے میدان میں ریاست گجرات کو قائد کے طور پر شناخت دلانے کے لیے گجرات میں واقع پرانے فارما کالج کے تعاون کا ذکر کیا۔ اسی طرح آئی آئی ایم احمد آباد نے ملک میں ایم بی اے کی تعلیم کا بہترین نظام قائم کرنے کے لیے نمایاں طور پر کام کیا۔ راشٹریہ رکشا یونیورسٹی (آر آر یو) پولیس ، فوجداری انصاف اور کریکشنل ایڈمنسٹریشن کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ معیاری تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ حکومت نے رکشا شکتی یونیورسٹی ، جسے 2010 میں حکومت گجرات کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا، کی جدیدکاری کے ذریعہ راشٹریہ رکشا یونیورسٹی نام کی ایک قومی پولیس یونیورسٹی قائم کی۔ یونیورسٹی، جوکہ قومی اہمیت کا حامل ایک ادارہ ہے، نے یکم اکتوبر 2020 سے اپنے کام کاج کا آغاز کیا۔ یہ یونیورسٹی صنعت کی معلومات اور وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئےنجی شعبہ کے ساتھ تال میل قائم کرے گی اور پولیس و سلامتی سے متعلق مختلف شعبوں میں عمدگی کے مراکز قائم کرے گی۔ راشٹریہ رکشا یونیورسٹی (آر آر یو) پولیس اور داخلی سلامتی جیسے ، پولیس سائنس اور انتظام کاری، فوجداری قانون و انصاف ، سائبر نفسیات، انفارمیشن تکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور سائبر سلامتی، جرم کی تفتیش، حکمت عملی پر مبنی زبانیں، داخلی دفاع اور حکمت عملیاں، فزیکل ایجوکیشن اور کھیل کود، ساحلی اور بحری سلامتی سے متعلق ڈپلومہ سے لے ڈاکٹریٹ کی سطح کے تعلیمی پروگرام پیش کرتی ہے۔ فی الحال، 18 ریاستوں کے 822 طلبا ان پروگراموں کے تحت درج رجسٹر ہیں۔,ৰাষ্ট্ৰীয় ৰক্ষা বিশ্ববিদ্যালয়ৰ ভৱন ৰাষ্ট্ৰলৈ উৎসৰ্গা আৰু ইয়াৰ প্ৰথম সমাৱৰ্তন সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D9%86%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9%DB%92%D9%BE%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A7%B1%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔25اگست 2018؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اونم کے مقدس موقعے پر کیرالہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا، ’ایشور کرے، اونم کا یہ مقدس تہوار کیرالہ کے عوام کو ان مصیبتوں کو برداشت کرنے کی مزید قوت عطا کرے جن کامقابلہ گزشتہ کچھ دنوں سے وہ کر رہے ہیں۔ پورا ملک کیرالہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے اور کیرالہ کے عوام کی خوشی اور خوشحالی کے لیے دعا کر رہاہے۔‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,অ’নাম উৎসৱত কেৰালাবাসীৰ সৈতে একত্ব হৈছে প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B2%D9%84%D8%B2%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%DA%A9%DA%86%DA%BE%D9%91-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے زلزلے کے بعد کچھّ، گجرات کے ترقی کرنے کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے وہ اب صنعتوں، زراعت، سیاحت وغیرہ کا ایک پھلتا پھولتا مرکز بن چکا ہے۔ اس ویڈیو کو ’مودی اسٹوری‘ ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کیا گیا ہے، جس میں لوگ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ، جناب نریندر مودی کے شاندار کاموں کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ لوگوں نے زلزلے کے بعد کچھّ کی شکل و صورت کو بدلنے کے لیے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ کی قیادت کی تعریف کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’سال 2001 کے زلزلہ کے بعد، کچھ لوگوں نے لکھا تھا کہ کچھّ اب تباہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کچھّ اب دوبارہ کھڑا نہیں ہو ��کتا، لیکن ان لوگوں نے کچھّ کے جذبے کا کم تر اندازہ لگایا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں، کچھّ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا اور یہ سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے ضلعوں میں سے ایک بن گیا۔‘‘,ভূমিকম্পৰ পিছত কুচ্চৰ উত্থানৰ ভিডিঅ’ শ্বেয়াৰ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D9%81-%DA%A9%D8%A7%D9%85%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%88-%D8%B3%D8%B1%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%8C%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%95-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے معروف کامیڈین راجو سریواستو کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’راجو سریواستو نے ہنسی، مزاح اور مثبتیت سے ہماری زندگیوں کو منور کیا۔ وہ بہت جلد ہم سے رخصت ہو گئے لیکن وہ اپنے برسوں کے بھرپور کام کی بدولت لاتعداد لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کا انتقال افسوسناک ہے۔ ان کے اہل خانہ اور مداحوں کے تئیں تعزیت۔ اوم شانتی‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ م م ۔ ن ا۔,প্ৰখ্যাত কৌতুক অভিনেতা ৰাজু শ্ৰীবাস্তৱৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%DA%AF%D9%81%D9%B9-%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%B3%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%86/,نمسکار! پروگرام میں موجود گجرات کے وزیر اعلیٰ محترم بھوپیندر بھائی، مرکزی وزیر خزانہ محترمہ نرملا جی، کابینہ کے میرے دیگر ساتھی، بزنس ورلڈ کے سبھی معزز ساتھی، یہاں موجود دیگر تمام افراد، خواتین و حضرات! آج بھارت کی بڑھتی اقتصادی صلاحیت، بھارت کی بڑھتی تکنیکی صلاحیت اور بھارت پر دنیا کے بڑھتے اعتماد کے لیے یہ دن بہت اہم ہے، ایک اہم دن ہے۔ ایسے وقت میں جب بھارت اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، جدید ہوتے بھارت کے نئے ادارے اور نئے نظام، بھارت کے وقار میں اضافہ کر رہے ہیں۔ آج گفٹ سٹی میں، انٹرنیشنل فائنانشیل سروسز سنٹرز اتھارٹی – آئی ایف ایس سی اے ہیڈکوارٹرز بلڈنگ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ عمارت اپنے آرکی ٹیکچر میں جتنی شاندار ہوگی، اتنی ہی بھارت کو اقتصادی سپر پاور بنانے کے لامحدود مواقع فراہم کرے گی۔ آئی ایف ایس سی اے ایک این ایبلر بھی بنے گا، انوویشن کو سپورٹ کرے گا، اور ان سب کے ساتھ گروتھ اپارچونٹیز کے لیے ایک کیٹالسٹ کا کام بھی کرے گا۔ گفٹ سٹی میں این ایس ای آئی ایف ایس سی-ایس جی ایکس کنکٹ کی لانچنگ کے ذریعے آج یہ شروعات ہو رہی ہے۔ ساتھیوں، آج انڈیا انٹرنیشنل بولین ایکسچینج اس کو بھی لانچ کیا گیا ہے۔ نیو ڈیولپمنٹ بینک کے انڈین ریجنل آفس، 3 فارین بینکس، اور 4 انٹرنیشنل ٹریڈ فائنانسنگ سروسز پلیٹ فارمز، ان سب کے ساتھ متعدد اہم پڑاؤ کو آج ہم نے پار کیا ہے۔ ان سے ملک کے 130 کروڑ شہریوں کو جدید عالمی اقتصادیات سے جڑنے میں مزید ملے گی۔ بھارت اب یو ایس اے، یو کے اور سنگاپور جیسے دنیا کے ان ممالک کی قطار میں کھڑا ہو رہا ہے جہاں سے گلوبل فائنانس کو سمت دی جاتی ہے۔ میں اس موقع پر آپ سبھی کو، اور ملک کے سبھی شہریوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میں خاص طور سے سنگاپور کے اپنے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے دونوں ممالک کے لیے امکانات کے دروازے کھل رہے ہیں۔ ساتھیوں، گجرات میں رہتے ہوئے جب میں نے گفٹ سٹی کا تصور کیا تھا، تو وہ صرف تجارت و کاروبار یا اقتصادی سرگرمیوں تک محدود نہیں تھا۔ گفٹ سٹی کے تصور میں ملک کے عام انسانوں کی آرزوئیں جڑی ہیں۔ گفٹ سٹی میں بھارت کے مستقبل کا وژن جڑا ہے، بھارت کے سنہرے ماضی کے خواب بھی جڑے ہیں۔ مجھے یاد ہے،جنوری 2013 میں جب میں ’گفٹ وَن‘ کے افتتاح کے لیے یہاں آیا تھا، تب لوگ اسے گجرات کی سب سے اونچی بلڈنگ کہتے تھے۔ کئی لوگوں کے لیے یہی اس کی پہچان تھی۔ لیکن، گفٹ سٹی ایک ایسا آئڈیا تھا، جو اپنے وقت سے بھی بہت آگے تھا۔ آپ یاد کیجئے، 2008 میں ورلڈ اکنامک کرائسس اور ری سیشن کا دور تھا۔ بھارت میں بھی بدقسمتی سے وہ وقت پالیسی پیرالیسس کا ماحول تھا۔ لیکن، اس وقت، یعنی تصور کیجئے اس وقت کی دنیا کی حالت، اس وقت گجرات فن ٹیک کے شعبے میں نئے اور بڑے قدم اٹھا رہا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ آئڈیا آج اتنا آگے بڑھ چکا ہے۔ گفٹ سٹی کامرس اور ٹیکنالوجی کے ہب کی شکل میں اپنی مضبوط پہچان بنا رہا ہے۔ گفٹ سٹی ویلتھ اور وزڈم، دونوں کو سیلبریٹ کرتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی اچھا لگتا ہے کہ گفٹ سٹی کے ذریعے بھارت، عالمی سطح پر سروس سیکٹر میں مضبوط دعویداری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیوں، گفٹ سٹی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹرائی سٹی اپروچ کا بنیادی ستون ہے۔ احمد آباد، گاندھی نگر اور گفٹ سٹی، تینوں ایک دوسرے سے صرف 30 منٹ کی دوری پر ہیں۔ اور تینوں کی ہی اپنی ایک خاص پہچان ہے۔ احمد آباد، ایک قابل فخر تاریخ کو اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے ہے، گاندھی نگرھ انتظامیہ کا مرکز ہے، پالیسی اور فیصلوں کا بنیادی مرکز ہے اور گفٹ سٹی اقتصادی نظام کا بنیادی مرکز ہے۔ یعنی اگر آپ ان تینوں میں سے کسی بھی شہر میں جاتے ہیں تو ماضی، حاصل اور مستقبل سے صرف تیس منٹ کی دوری پر ہیں۔ ساتھیوں، گفٹ سٹی سے جڑی پہلی، ’کاروبار کرنے میں آسانی‘، اور ’زندگی میں آسانی‘ کی سمت میں ہماری کوششوں کا حصہ بھی ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ایک وائبرینٹ فن ٹیک سیکٹر کا مطلب صرف آسان کاروباری ماحول، اصلاحات اور ریگولیشنز تک ہی محدود نہیں ہوتا۔ یہ الگ الگ شعبوں میں کام کر رہے پروفیشنلز کو ایک بہتر زندگی اور نئے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ گفٹ سٹی ایک ایسی جگہ بن رہا ہے، جہاں سے نئے نئے آئڈیاز نکل رہے ہیں، ویلتھ کرئیشن ہو رہا ہے، اور دنیا کے سب سے بہتر مائنڈز آ کر یہاں سیکھ رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں۔ یعنی گفٹ سٹی ایک طرح سے بھارت کے پرانے اقتصادی وقار کو حاصل کرنے کا بھی ایک ذریعہ بن رہا ہے۔ یہاں انڈسٹریز کے جو قائد ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بھارت کے لوگ سینکڑوں سالوں سے تجارت و کاروبار کے لیے پوری دنیا میں جاتے رہے ہیں۔ دنیا کا ایسا شاید ہی کوئی حصہ ہو جہاں ہندوستانی نہ پہنچے ہوں۔ ہندوستانی تاجر انوویٹو فائنانسنگ ٹیکنیک، اس کا بھی استعمال کرتے تھے۔ میں جس جگہ سے آتا ہوں، میری جو جائے پیدائش ہے – وڈ نگر، وہاں کھدائی چل رہی ہے اور وہاں بھی کھدائی میں زمانہ قدیم کے سکے مل رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا تجارتی نظام اور تعلقات کتنے بڑے پیمانے پر تھے۔ لیکن، آزادی کے بعد ہم خود ہی اپنی وراثت کو، اپنی اس طاقت کو پہچاننے سے کترانے لگے۔ شاید یہ غلامی اور کمزور خوداعتمادی کا اثر تھا کہ ہم نے اپنے تجارتی، ثقافتی اور دوسرے تعلقات کو جتنا ہو سکا محدود کر دیا۔ لیکن، اب نیا بھارت اس پرانی سوچ کو بھی بدل رہا ہے۔ آج انٹیگریشن ہمارے لیے سب سے بڑا اہم ایجنڈا ہے۔ ایک گلوبل مارکیٹ کے ساتھ، گلوبل سپلائی چین کے ساتھ تیزی سے انٹیگریٹ کر رہے ہیں۔ اور گفٹ سٹی بھارت کے ساتھ ساتھ گلوبل مواقع سے جڑنے کا ایک اہم گیٹ وے ہے۔ جب آپ گفٹ سٹی کے ساتھ انٹیگریٹ کریں گے، تو آپ پوری دنیا کے ساتھ انٹیگریٹ کریں گے۔ ساتھیوں، آج بھارت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادیات میں سے ایک ہے۔ اس لیے، مستقبل میں جب ہماری اقتصادیات آج سے بھی کہیں زیادہ بڑی ہوگی، ہمیں اس کے لیے ابھی سے تیار ہونا ہوگا اور بڑا ہونا طے ہے۔ ہمیں اس کے لیے ایسے ادارے چاہیے، جو عالمی اقتصادیات میں ہمارے آج کے اور مستقبل کے رول کو کیٹر کر سکے۔ انڈیا انٹرنیشنل بولین ایکسچینج – آئی آئی بی ایکس اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ گولڈ کے لیے بھارت کے لوگوں کا پیار کسی سے چھپا نہیں ہے۔ سونا بھارت میں خواتین کی اقتصادی طاقت کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ خواتین کے خصوصی پیار کی وجہ سے گولڈ ہمارے سماجی اور ثقافتی نظام کا بھی اتنا ہی اہم حصہ رہا ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ بھارت آج سونے چاندی کے شعبے کا ایک بہت بڑا مارکیٹ ہے۔ لیکن، کیا بھارت کی پہچان صرف اتنی ہی ہونی چاہیے؟ بھارت کی پہچان ایک مارکیٹ میکر کی بھی ہونی چاہیے۔ آئی آئی بی ایکس اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ ہماری گولڈ سے جڑی انڈسٹری کے پلیئرز کو، خاص طور پر جویلرز کو، یہ توسیع کرنے میں مدد کرے گا، ان کے لیے نئے مواقع کی راہ ہموار کرے گا۔ وہ ڈائریکٹ اور ٹرانس پیرنٹ طریقے سے سیدھے بولین خرید سکیں گے، اور انٹرنیشنل پرائس ڈسکوری میں شرکت بھی کریں گے۔ ساتھ ہی، آئی آئی بی ایکس ایکسچینج کے ذریعے سیدھے گولڈ میں ٹریڈ کرنےکا موقع بھی دے گا۔ جیسے جیسے گولڈ ٹریڈنگ کی مارکیٹ آرگنائزڈ ہوگی، بھارت میں گولڈ کی ڈیمانڈ گولڈ پرائسز کو بھی متاثر کرے گی، اور طے بھی کرے گی۔ ساتھیوں، آنے والے وقت میں بھارت میں جو کچھ بھی ہوگا، اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا، اس سے پوری دنیا کو سمت ملے گی۔ ہم لوکل ایسپریشنز کو بھی اہمیت دیتے ہیں، اور گلوبل کوآپریشن کی اہمیت بھی سمجھتے ہیں۔ اور طرف، ہم گلوبل کیپٹل کو لوکل ویلفیئر کے لیے لا رہے ہیں، تو دوسری طرف ہم لوکل پروڈکٹیوٹی کو گلوبل ویلفیئر کے لیے ہارنیس بھی کر رہے ہیں۔ آج بھارت میں ریکارڈ فارین ڈائریکٹ انویسٹ منٹ آ رہا ہے۔ یہ انویسٹ منٹ ملک میں نئے مواقع پیدا کر رہا ہے، نوجوانوں کی آرزوؤں کوپورا کر رہا ہے۔ یہ ہماری انڈسٹری کو توانائی بخش رہا ہے، ہماری پروڈکٹیوٹی کو بڑھا رہا ہے۔ اور یہ پروڈکٹیوٹی صرف بھارت کی ہی طاقت نہیں بن رہی ہے، اس کا فائدہ پوری دنیا کو ہو رہا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ، آج جو انویسٹرز کر بھارت میں انویسٹ کر رہے ہیں، وہ اپنے انویسٹ منٹ پر اچھے رٹرنز کما رہے ہیں۔ لیک، اس کے اثرات، اس سے جڑے امکانات اس سے بھی کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ آج ہمارے ایکسپورٹس ریکارڈ لیول کو چھو رہے ہیں۔ ہمارے پروڈکٹس نئے نئے ملکوں میں، نئے نئے مارکیٹس میں پہنچ رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت اور وہ وقت ایسا ہے جب گلوبل سپلائی چین غیر یقینی کا شکار ہیں، دنیا ایک غیر یقینی صورتحال سے خوفزدہ ہے، بھارت دنیا کو کوالٹی پروڈکٹس اور سروسز کا بھروسہ دے رہا ہے۔ اسی لیے، جیسا کہ میں نے کہا، یہ لوکل ویلفیئر کے لیے گلوبل کیپٹل اور گلوبل ویلفیئر کے لیے لوکل پروڈکٹیوٹی کا ایک شاندار کمبی نیشن ہے۔ گفٹ سٹی سے جڑے سبھی ادارے اس بانڈ کو اور مضبوط کرنے کا کام کریں گے۔ یہاں کئی انسٹی ٹیوشنز ایسے ہیں جن کے پاس گلوبل فٹ پرنٹس بھی ہیں، اور لوکل کنیکٹس بھی ہیں۔ ساتھیوں، نئے بھارت کے نئے اداروں سے، نئے نظام سے میری بہت سی توقعات بھی جڑی ہوئی ہیں اور آپ پر میرا پورا بھروسہ بھی ہے۔ آج 21ویں صدی میں فائنانس اور ٹیکنالوجی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اور بات جب ٹیکنالوجی کی ہو، بات سائنس اور سوفٹ ویئر کی ہو، تو بھارت کے پاس ایج بھی ہے، اور ایکسپیرئنس بھی ہے۔ آج ریئل ٹائم ڈیجیٹل پیمنٹس میں پوری دنیا میں 40 فیصد حصہ داری اکیلے بھارت کی ہے۔ آج ہم اس میں لیڈر ہیں۔ فن ٹیک کے شعبے میں بھارت کی یہ طاقت پوری دنیا کو متوجہ کر رہی ہے۔ اس لیے، میری آپ سب سے امید ہے کہ فن ٹیک میں آپ نئے نئے انوویشنز کے لیے ٹارگیٹ کریں۔ گفٹ آئی ایف ایس سی فن ٹیک کی گلوبل لیباریٹری بن کر ابھریں۔ ساتھیوں، میں ایک اور اہم پہلو کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ بھارت کے لیے سکسیس اور سروس، کامیابی اور خدمت ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ عوامی بہبود سے عالمی بہبود، یہ ہمارا جذبہ ہے۔ اسی لیے، آج بھارت سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کے شعبے میں عالمی امکانات کی قیادت کر رہا ہے۔ ہم نے اپنے لیے نیٹ زیرو کاربن ایمیشن کا ہدف طے کیا ہے۔ قومی سطح پر ہم گتی شکتی ماسٹر پلان کو آگے بڑھا رہے ہیں، قابل تجدید توانائی اور ای موبلیٹی کے نئے ریکارڈز بنا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہماری خود سپردگی لامحدود امکانات کو کھولے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ گفٹ آئی ایف ایس سی، سسٹین ایبل اور کلائمیٹ پروجیکٹس کے لیے گلوبل ڈیٹ اور ایکوئٹی کیپٹل کا ایک گیٹ وے بنے۔ اسی طرح، بھارت کو ایئرکرافٹ لیزنگ، شپ فائنانسنگ، کاربن ٹریڈنگ، ڈیجیٹل کرنسی، اور آئی رائٹس سے انویسٹ منٹ مینجمنٹ تک کئی فائنانشیل انوویشنز کی ضرورت ہے۔ آئی ایف ایس سی اے کو اس سمت میں کام کرنا چاہیے۔ آئی ایف ایس سی اے کو ریگولیشن اور آپریشن کاسٹ کو بھی نہ صرف بھارت بلکہ دبئی سنگاپور جیسے ممالک کے مقابلے میں بھی کمپٹیٹو بنانا چاہیے۔ آپ کا ہدف ہونا چاہیے کہ آئی ایف ایس سی اے ریگولیشنز میں لیڈر بنے، رول آف لاء کے لیے ہائی اسٹینڈرڈز سیٹ کرے، اور دنیا کے لیے پسندیدہ آربٹریشن سنٹر بن کرکے ابھرے۔ ساتھیوں، بینکنگ سیکٹر کے جو ساتھی یہاں ہیں، ان کے تعاون سے پچھلے 8 سالوں میں ملک نے فائنانشیل انکلوژن کی ایک نئی لہر دیکھی ہے۔ یہاں تک کہ غریب سے غریب بھی آج فارمل فائنانس انسٹی ٹیوشنز سے جڑ رہا ہے۔ آج جب ہماری ایک بڑی آبادی فائنانس سے جڑ گئی ہے، یہ وقت کی مانگ ہے کہ سرکاری ادارے اور پرائیویٹ پلیئرز، مل کر قدم آگے بڑھائیں۔ مثال کے طور پر، آج بیسک بینکنگ سے اوپر اٹھ کر فائنانشیل لٹریسی کے شعبے میں، فائنانشیل ایجوکیشن کے لیے بڑا اسکوپ ہے۔ آج بھارت میں ایک بڑا ایسپی ریشنل کلاس ہے جو گروتھ کے لیے انویسٹ کرنا چاہتا ہے۔ اگر ان کے لیے ایسے فائنانشیل کورسز ہوں جو انہیں الگ الگ فائنانشیل انسٹرومنٹس اور ان کے فیچرز، اس کے بارے میں سکھا سکیں، تو اس سے انہیں بہت مدد ملے گی۔ ایک مثال میوچوئل فنڈز کی بھی ہے۔ ایسوسی ایشن آف میوچوئل فنڈز کے مطابق 2014 میں بھارت میں میوچوئل فنڈز انڈسٹری کی ایسیٹس انڈر مینجمنٹ تقریباً 10 لاکھ کروڑ تھی۔ ان آٹھ سالوں میں، جون 2022 تک یہ 250 فیصد بڑھ کر 35 لاکھ کروڑ ہو گئی ہے۔ یعنی، لوگ انویسٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے لیے ایجوکیشن اور انفا��میشن کو یقینی بنائیں۔ میں تو کہوں گا کہ ہمارے فائنانشیل ایکو سسٹم کو نان فائنانس کالجز کے ساتھ ٹائی اپ کرنا چاہیے، نوجوانوں کو ایجوکیٹ کرنا چاہیے۔ آخرکار، یہ نوجوان ہی ہیں جو آنے والے وقت میں ارنرز اور انویسٹرز بنیں گے۔ ان کورسز میں لوگوں کا بھروسہ پیدا ہو، اس کے لیے انہیں ناٹ فار پروفٹ موڈ پر چلایا جانا چاہیے۔ گفٹ سٹی بھی پرائیویٹ پلیئرز کے کام کاج کو دیکھ کر اس کے لیے ایک اچھا روڈ میپ اور گراؤنڈ رولز تیار کرنے پر کام کر سکتا ہے۔ اس سال بجٹ میں گفٹ سٹی میں فارین یونیورسٹیز کو لے جر جو اعلانات ہوئے ہیں، اس سے بھی اسے مدد ملے گی۔ ساتھیوں، مجھے یقین ہے کہ آپ ملک کی صلاحیت کا پوری طرح صحیح استعمال کریں گے، اور امرت کال میں ملک کی آرزوؤں پر کھرا اتریں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! میں حکومت گجرات کا بھی شکریہ ادا کروں گا کہ گفٹ سٹی کے اتنے بڑے مشن میں حکومت گجرات کی پالیسیاں بہت ہی مددگار اور معاون بن رہی ہیں۔ اور اس کے لیے بھی میں حکومت گجرات کی سبھی پہل کو اس کی سراہنا کرتا ہوں، گجرات کے وزیر اعلیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہاں میں دیکھ رہا ہوں جی ای ایم اور جویلری کی دنیا کے لوگ بھی بڑی تعداد میں نظر آ رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس موقع کو بھی وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے کتنا بڑا موقع پیدا ہوا ہے اس کا انداز ان کو اچھی طرح آتا ہے اور اس کا فائدہ وہ بہت بھرپور اٹھائیں گے۔ اسی اعتماد کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ شکریہ۔,গান্ধীনগৰত গিফ্ট চিটীত আইএফএছচিএ মুখ্য কাৰ্যালয়ৰ শিলান্যাস সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%DA%86%D9%85%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%86-%D8%B3%D8%AA%DB%8C%DB%81-%DA%AF%D8%B1%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DB%81-%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3-%E0%A6%B8%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A7%B0/,نئی دہلی 11 اپریل ۔بہار کے موتیہاری میں چمپارن ستیہ گرہ کی صد سالہ یادگاری تقریبات کے آخری اجتماع سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن حسب ذیل ہے: میں کہوں گا مہاتما گاندھی ! آپ سب بولیں گے امر رہے امررہے مہاتما گاندھی امر رہے امر رہے امررہے مہاتما گاندھی امررہےامررہے امررہے مہاتما گاندھی امررہےامررہےامررہے چمپارن کی مقدس دھرتی پر ملک کے کونے کونے سے آئے ستیہ گرہی بھائی بہنو اور آپ سبھی پیار کرنے والے معزز لوگوں کو میرا سلام آپ سبھی جانتے ہیں کہ چمپارن کی اسی مقدس دھرتی سے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ستیہ گرہ کی تحریک کا آغاز کیاتھا ۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لئے عدم تشدد پر مبنی یہ پُر امن تحریک ہمارے لئے ستیہ گرہ کا موثر طریقہ ثابت ہوئی ۔ ستیہ گرہ کے 100 برس گزر جانے کے بعد آج کے حالات کی مانگ ہے کہ ستیہ گرہ سے سوچھاگرہ کے مشن پر موثر طریقے سے کام کرکے اسے کامیاب بنایا جائے ۔ چمپارن ستیہ گرہ کے موقع پر مہاتما گاندھی نے ہمارے بزرگ لکھن سین کے ساتھ ستیہ گرہ کی تحریک کا آغاز کیا تھا ۔ آج ہم ستیہ گرہ سے سوچھاگرہ کے وسیلے سے جناب ست پال ملک جی یہاں کے ہردلعزیز وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار جی ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی روی شنکرپرساد جی ، رام ولاس پاسوان جی ، محترمہ اوما بھارتی جی ،رادھا موہن سنگھ جی ،گریراج سنگھ جی ،��ناب رام کرپال یادوجی ،جناب ایس ایس آہلووالیہ جی ،جناب اشونی کمار چوبے جی ، بہار کے نائب وزیر اعلیٰ جناب سشیل کمار مودی جی ، ریاستی کابینہ کے جناب شرون کمار جی ، جناب ونود نرائن جھا جی ، جناب پرمود کمار جی اوریہاں موجود ہزاروں ستیہ گرہی اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اس پروگرام سے جُڑے سبھی ساتھیو دیویو اور سجنو! جن لوگوں کا کہنا ہے تاریخ خود کو نہیں دہراتی ، وہ یہاں آکر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح 100 برس پہلے کی تاریخ آج ہمارے سامنے من وعن موجود ہے ۔ میرے سامنے جو ستیہ گرہی بیٹھے ہیں ، ان کے داخل میں آنجہانی مہاتما گاندھی کے نظریات ، ان کے اصول اور ان کے آدرشوں کے اثرات آج بھی زندہ ہیں۔ میں یہاں موجود ایسے سبھی ستیہ گرہیوں میں موجود گاندھی جی کے آدرشوں کے اسی جزو کو سَو سَو سلام کرتا ہو ں ۔ چمپارن کی اسی مقدس دھرتی پر ایسی ہی عوامی تحریک 100 برس قبل شروع ہوئی تھی ، آج ہم اس کی من وعن تصویر یہاں دیکھ رہے ہیں اور آج ایک بار پھر دنیا اس منظر کو دیکھ کر عزت مآب باپو کو ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے یاد کررہی ہے۔ اب سے 100 برس قبل چمپارن میں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ یہاں آئے تھے ۔ انہوں نے گاندھی جی قیادت میں گلی گلی جاکر تحریک کا کام کیا تھا۔ آج اسی جذبے پر چلتے ہوئے ملک کے مختلف گوشوں سے یہاں آنے والے لوگوں نے یہاں کے جوشیلے نوجوان ستیہ گرہیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر دن رات کام کیا ہے ۔ آج اس زبردست عوامی جلسے میں کوئی کستوربا ہے ، کوئی راج کمار شُکل ہے ، کوئی گورکھ پرساد ہے ، کوئی شیخ گلاب ہے ، لوم راج سنگھ ہے ، ہری ونش رائے ہے ،شیتل رائے ہے ، بن محمد مونس ہے ، کوئی ڈاکٹر راجندر بابو ہے ، کوئی دھرتی دھر بابو ہے ، کوئی رام نومی بابو ہے اور کوئی جے پی کرپلانی جی ہے ۔ 100 بر س پہلے ستیہ گرہ نے ایسے عظیم اشخاص کی زندگی کو نئی راہ دے دی ، ویسے ہی آج کا یہ ستیہ گرہ آپ جیسے ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگی کو نئی سمت دے رہا ہے ۔ چلوچمپارن کے نعرے کے ساتھ ہزاروں ستیہ گرہی دیش کے کونے کونے سے یہاں آکر جمع ہوئے ہیں ۔ آپ کے اس حوصلے ، اس امنگ ،اس توانائی ،ملک وقوم کی تعمیر کے تئیں آپ کا یہ اضطراب اور بہار کے لوگوں کے عزائم اورتصورات کو میں سر جھکاکرسلام کرتا ہوں ۔ یہاں اسٹیج پر آنے سے پہلے میں نے ایک نمائش بھی دیکھی ۔اس نمائش میں نئی ٹکنالوجی اور نئے کاروبار کو تفصیل سے سمجھایا گیا ہے ۔ چمپارن ستیہ گرہ کے 100 برس پورے ہونے پر ستیہ گرہ کے جو پروگرام ہورہے تھے ،ان کے تمام ہونے کا بھی وقت یہی ہے ۔لیکن یہ اختتام سے زیادہ آغاز ہے ۔ صفائی کے تئیں ہمارے عزائم اور لگن کو آگے بڑھانے کا آغاز ہے ۔ بھائیو بہنو! پچھلے 100 برس کی مدت کے دوران ہندوستان کو جن تین کسوٹیوں بھرے حالات سے گزرنا پڑا ، ان میں بہار نے ہی ملک کی رہنمائی کی ہے ۔ جب ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تو بہار نے موہن داس کرم چند گاندھی جی کو مہاتما بنادیا ۔ باپو بنادیا تھا ۔ آزادی کے بعد جب کروڑوں کسانوں کے سامنے زمین سے محرومی کی مصیبت آئی تو ونوبا جی نے بھودان کی تحریک شروع کی اور تیسری بار جب ملک کی جمہوریت پر مصیبت آئی تو اسی دھرتی کے قائد بابو جے پرکاش جی نے اٹھ کر جمہوریت کو بچایا ۔ مجھے انتہائی فخرہے کہ ستیہ گرہ سے سوچھاگرہ کے اس سفر میں بہار کے لوگوں نے ایک بار پھر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو قائم کیا ہے ،راہ دکھائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ سوچھتا کے معاملے میں بہار کے حالات دیکھنے کے باوجود یہ مودی جی ایسی بات کیوں کررہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ ہے ۔ نتیش جی اور سشیل جی کی قیادت میں بہار نے پچھلے دنوں جو کام کردکھایا ہے ، اس نے سبھی کے حوصلہ بلند کردئے ہیں ۔ ساتھیو ! ملک میں بہار واحد ایسی ریاست تھی ، جہاں سوچھتا کا دائرہ 50 فیصد سے بھی کم تھا ۔لیکن مجھے آج ہمارے سکریٹری جناب پرمیشورجی نے بتایا کہ ایک ہفتے کی سوچھاگرہ مہم کے بعد بہار نے اس بیرئیر کو توڑدیا ہے ۔ پچھلے ایک ہفتے کی مدت میں بہار میں آٹھ لاکھ 50 ہزار سے زائد بیت الخلاؤں کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا ہے ۔ کام کی یہ تیز رفتاری معمولی نہیں ہے ۔ یہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ بہار بہت جلد ہی سوچھتا کا دائرہ بڑھاکر قومی اوسط کی برابری کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ۔ میں بہار کے لوگوں کو ، ہر سوچھاگرہی کو اور ریاستی سرکار کو اس بھاگیرتھ کوشش کے لئے اس قیادت کے لئے دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اس سے کچھ دیر قبل مجھے کچھ ستیہ گرہی ساتھیوں کو اعزاز پیش کرنے کا موقع ملا ۔ میں ان کی کوششوں کی ستائش کرتا ہوں ، انہیں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ، ان لوگوں کو بھی جن میں خواتین زیادہ تعداد میں شامل ہیں ، بڑھ چڑھ کر کام کرنے کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ سوچھتا کی اہمیت کیا ہے ،اسے ہماری مائیں بہنیں اچھی طرح جانتی ہیں ۔ لیکن آج مجھے جس ایک خاص شخص کو اعزاز پیش کرنے کا موقع ملا ، میرا جی چاہتا ہے کہ میں آج انتظامی پابندیوں کو توڑ کر اس کا ذکر کروں ۔ سرکا ر میں کام کرنے والے افسران کا کوئی مخصوص نام نہیں ہوتا ہے ۔ نہ ان کی کوئی شناخت ہوتی ہے نہ ان کا کوئی نام ہوتا ہے ۔ وہ کبھی پردے کے سامنے نہیں آتے ، لیکن میراجی چاہتا ہے کہ میں کچھ باتیں بتاؤں ۔ بھارت سرکار میں میرے سکریٹری جناب پرمیشور ائیر جی ہیں ۔ نیچے بیٹھے ہوں گے وہی اس کام کو دیکھ رہے ہیں ۔وہ آئی اے ایس کی ملازمت چھوڑ کر امریکہ چلے گئے تھے ۔ وہاں سکھ چین کی زندگی گزاررہے تھے ۔ ہماری سرکار بننے کے بعد ہم نے بہت سے لوگوں کو دعوت دی اور مجھے خوشی ہے کہ وہ امریکہ کی وہ شاندار زندگی چھوڑ کر ہندوستان واپس آگئے ۔ آپ نے دیکھا ابھی ٹی وی پر انہیں دکھایا جارہا تھا ، ٹی وی والے ایک بار پھر انہیں دکھائیں ۔ میں نے انہیں ایک بار پھر سرکار میں شامل کرلیا ۔ وہ خود جگہ جگہ جاکر بیت الخلاؤں کی صفائی کرتے ہیں ۔ پرمیشور جی جیسے میرے ساتھی ہوں اور ملک کے گوشے گوشے سے آئے ہزاروں سوچھاگرہی ہوں تو میرا یہ یقین مضبوط ہوجاتا ہے کہ باپو کی 150 ویں جینتی منائے جانے تک ہم باپو کے خوابوں کی عملی تعبیر پیش کرسکیں گے ۔ میری سرکار کا کام کرنے کا اپنا خاص طریقہ ہے ۔ اب اٹکانے لٹکانے اوربھڑکانے والا کام نہیں ہوتا ۔ اب فائلوں کو دبانے والا کلچر ختم ہوگیا ہے ۔سرکار اپنے ہر مشن اور ہر عزم کو عوام کے تعاون سے پورا کررہی ہے لیکن اس سے ان لوگوں کو دقت ہونے لگی ہے جو اس تبدیلی کو قبول نہیں کرپارہے ہیں ، وہ غریب کو بااختیار ہوتے نہیں دیکھ سکتے ۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر غریب مضبوط ہوگیا تو جھوٹ نہیں بول پائیں گے ، اسے ورغلا نہیں پائیں گے اس لئے سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک سرکار کے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ۔ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ یہ وہ منتر ہے ،جس سے عہد بستہ ہوکر قومی جمہوری اتحاد کی سرکار کام کررہی ہے ۔ پہلے کی سرکاروں نے بھلے ہی وقت کی پابندی کو اہمیت نہ دی ہو ، لیکن گاندھی جی ہمیشہ ستیہ گرہ اورسوچھا گرہ کے ساتھ کام وقت پر پورا کرنے پر زور دیتے تھے ۔ ان کے پاس ایک پاکٹ واچ رہتی تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ وہ چاول کا ایک دانہ اور کاغذ کا ایک ٹکڑا تک برباد نہیں کرسکتے تو وقت کو کیسے برباد کیا جائے ۔ یہ وقت ہمارا نہیں ملک کا ہے اور ملک کے کام آنا چاہئے ۔ گاندھی جی کے اسی جذبے کے ساتھ جیتے ہوئے ملک کے سواسو کروڑ عوام مشن موڈ میں کام کررہے ہیں ۔ پچھلے سال اقوام متحدہ کے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ جن گھروں میں بیت الخَلا نہیں ہوتا ، ان گھروں کو اوسط 50 ہزارروپے سالانہ کی بچت ہوتی ہے لیکن یہی پیسے بیماریوں کے علاج ، اسپتال آنے جانے اور دفتر سے چھٹی لینے میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بھگوان کے ہزار ہاتھ ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ وزیر اعظم بھی ہزار ہاتھ والا ہوتا ہے۔ لیکن میں آج انتہائی ادب کے ساتھ یہ بات کہنا چاہوں گا کہ میرے سامنے بیٹھے ہزاروں سوچھاگرہیوں نے وزیراعظم کو ہزار ہاتھ والا باہوبلی بنادیا ہے ۔ یہاں اس اسٹیج سے مجھے بہار کی ترقی اورفروغ سے وابستہ 6 ہزار 600 کروڑ روپے کی اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھن اور آغاز کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ پانی ہو ،ریل ہو ،سڑک ہو، پٹرولیم ہو ، ایسے متعدد منصوبے بہار اور خاص طور سے چمپارن کے لئے اہم ثابت ہونے والے ہیں ۔ سوچھتا سے ہی جڑا ہمارا ایک اور بھی زبردست عزم زندگی دینے والی گنگاماں کو صاف کرنے کا ہے ۔سرکار گنگوتری سے گنگاساگر تک ماں گنگا کو صاف کرنے کے عز م کے ساتھ کام کررہی ہے ۔ بہار اس مشن کا اہم حصہ ہے ۔ گھریا فیکٹری کے پلید پانی کو گنگامیں جانے سے روکنے کے لئے اب بہار میں تین ہزار کروڑروپے سے زیادہ کے منصوبوں کو منظوری دی جاچکی ہے ۔ اس رقم سے 1100 میٹر طویل سیور لائن بچھائے جانے کا منصوبہ ہے ۔ ان میں سے آج چار منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ اتراکھنڈ ، اترپردیش ، بہار ، جھارکھنڈ اورمغربی بنگال نامی جن پانچ ریاستوں سے گنگا جی ہوکر گزرتی ہیں، وہاں ان کے کنارے آباد اس مشن میں پہلے ہی کامیاب ہوچکے ہیں ۔ گنگا کے کنارے آباد مواضعات میں کچرے کے انتظام وانصرام کی اسکیم نافذ کی جارہی ہے تاکہ گاؤں کا کچرا بھی ندی میں نہ بہایا جاسکے ۔ بھائیو بہنو! آج مدھے پورہ میں الیکٹر ک لوکو موٹیو فیکٹری کے پہلے مرحلے کا بھی کام مکمل ہوچکا ہے اور اسے ملک وقوم کے لئے وقف کیا جاچکا ہے۔ یہ کارخانہ دو وجوہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ایک تو یہ کہ یہ کارخانہ میک ان انڈی کی بہترین مثال ہے ۔ دوئم یہ کہ یہ کارخانہ اس علاقے میں روزگار کا بھی بڑا وسیلہ ثابت ہورہا ہے ۔ ہندوستانی ریلوے فرانس کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر اس پروجیکٹ پر کام کررہی ہے ۔ اس فیکٹری میں انتہائی طاقتور ریلوے انجن بنائے جائیں گے ۔ مجھے ابھی ابھی اس فیکٹری میں تیار کئے گئے 12 ہزار ہارس پاور کے انجن کو ہری جھنڈی دکھانے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ۔ ساتھیو ! سوچھ بھارت مہم جس طرح عوامی تحریک کی شکل اختیار کرکے ملک کے گوشے گوشے میں پہنچی ہے، وہ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے لئے ایک کیس اسٹڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اکیسویں صدی میں اب تک انسانی عادات واطوار کو بدلنے والی ایسی کوئی عوامی تحریک اب تک وجود میں نہیں آئی تھی ۔یقینی طورسے ہندوستان بدل رہا ہے ۔عادات واطوار میں تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ لیکن یہاں گاندھی میدان میں موجود ہر سوچھاگرہی کو چھوٹے بچوں سے لے کربزرگوں تک اس چیلنج کا سامنا کرنا ہے ۔ جب تک ملک کا ہرفرد اپنی سطح سے صفائی یعنی سوچھتا کے لئے کوشش نہیں کرے گا تب تک سوچھ بھارت مشن پورا نہیں ہوپائے گا۔ بھائیو بہنو ! ملک وقوم کی تعمیر کے کام میں آپ کی خدمات آنے وای نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی ۔ہر ستیہ گرہی صحت مند ،صاف ستھرے اور خوشحال ملک کے لئے کام کررہا ہے ۔ چمپارن ستیہ گرہ میں ہم شامل نہیں تھے لیکن سوچھاگرہ کو کامیاب بنانے کے لئے ہم دن رات ایک کرسکتے ہیں۔ ہم سبھی مل کر یہ کوشش بھی کرسکتے ہیں کہ آج سے اگلے سال دو اکتوبرتک ملک میں جو بھی اہم تاریخ آئے کسی کا بھی یوم پیدائش ہو ،کسی کی بھی برسی ہو اورکوئی بھی تہوار ہو، اس میں لوگوں کو خاص طور سے سوچھ بھارت کے تئیں بیدا ر کیا جائے ۔ کل یعنی گیارہ اپریل کو عظیم سماج سدھاری قائد مہاتما جیوتی با پھلے کا یوم پیدائش ہے ۔ 14 اپریل کو باباصاحب امبیڈ کر کا یوم پیدائش ہے ۔ ایسے خاص ایام میں ان عظیم شخصیات کے بارے میں بتائے جانے کے ساتھ ہی صفائی ستھرائی رکھے جانے پر بھی زوردیا جاسکتا ہے ۔ میں اس موقع پر آپ سب کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ مرکزی سرکار 14 اپریل سے گرام سوراج ابھیان شروع کررہی ہے ۔ اسی مہم کے تحت 18 اپریل کو ہمارے سبھی ممبران پارلیمنٹ ، ممبران اسمبلی ، منتخب عوامی نمائندے ، پنچایتوں ، نگر پالیکا اور مہانگر پالیکا کے ممبران اپنے اپنے علاقے میں سوچھ بھارت مشن سے جُڑے کسی نہ کسی کام کو شروع کرنا چاہئے ۔ گھر گھر جاکر لوگوں کو سمجھائیے ، ان سے گزارش کیجئے اور ان کے آس پاس کے علاقوں کو صاف ستھرا بنائے جانے کی کوشش کی جائے ۔ ساتھیو! آنجہانی مہاتما گاندھی جی نے چمپارن میں کسان ،مزدور ،وکیل ، ڈاکٹر اورانجنئیر سبھی کو ایک ہی قطار میں کھڑا کردیا تھا تب جاکر یہ ستیہ گرہ کامیاب ہوپایا تھا ۔ ہم سوچھاگرہی ہیں ،اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارارول بھی ویسا ہی ہونا چاہئے ۔ صفائی ستھرائی کا یہ پیغام سماج کے ہرفرد اور ہرطبقے تک پہنچایا جان چاہئے ۔اسی لئے میں یہاں موجود ہر سوچھاگرہی سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو جو ہدایت نامہ دیا گیا ہے ان میں شامل باتوںکی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں ۔آپ جس قدر لوگوں کو بیدار کریں گے سوچھ بھارت کی مہم اتنی ہی زیادہ کامیاب ہوگی ۔ سرکار یہ بھی کوشش کررہی ہے کہ ملک کے ہر گاؤں میں کم از کم ایک سوچھتا چیمپین ضرور موجود ہو ۔ آج ملک میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ سوچھتا چیمپین ملک کے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں سوچھتا کو شامل کررہے ہیں ۔ یہ لوگ ان کی زندگیوں میں شامل ہوکر یہ کام کریں گے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ملک میں غریبوں کو گھر دینے کا کام بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ بہار نے بھی جس تیز ی کے ساتھ بیت الخلاؤ ں کی تعمیر کا کا م آگے بڑھایا ہے ، مجھے یقین ہے کہ غریب کنبوں کو مکان دینے کا کام بھی اتنی ہی تیزی سے آگے بڑھے گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ صفائی ستھرائی یعنی سوچھتا کے تئیں ہماری یہ ان تھک کوششیں ایک صاف ستھر ے خوبصورت اور خوشحال ہندوستان کا ایک نیا باب رقم کریں گی ۔ یہاں اس عظیم الشان پروگرام میں آنے والے سبھی سوچھا گرہیوں کو نیک خواہشات ! اس کے ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ سال 2022 میں ہندوستان کی آزادی کے 75 سال مکمل ہورہے ہیں ۔ اس لئے 2 اکتوبر 2018 سے اکتوبر 2019 تک مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم ولادت کی جینتی منائے جانے کے موقع پر نیا بھارت یعنی نیو انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کے لئے ہمارے سماج میں جو خامیاں اوربرائیا�� ہیں ، اُن کو ختم کرنا ہوگا ، ملک کو گندگی سے پاک بنانا ہوگا ۔ بدعنوانیوں سے نجات دلانی ہوگی ۔ ذات پات ، اونچ نیچ اور چھوا چھات جیسی وباؤں سے ملک کو نجات دلانی ہوگی ۔ اس ملک کو فرقہ وارانہ کشیدگی اور فرقہ پرستی سے پاک کرنا ہوگا ۔ ملک کے سبھی سواسو کروڑ ہندوستانیوں کو مل کر یہ کام کرنا ہوگا ۔ساتھ چل کر اس خواب کو پورا کرنا ہوگا ۔ اسی جذبے کے تحت اتنے بڑے ملک کے لئے کام کرنے والے نوجوانوں کو ادب سے سلام کرتے ہوئے مبارکباد پیش کرتے ہوئے میں ایک بار پھر آپ سبھی اہالیان وطن سے گزارش کروں گا کہ ملک وقوم کے لئے عظیم خدمات انجام دینے والے بابائے قوم آنجہانی مہاتما گاندھی کے خواب سوچھ بھارت کو پورا کرنے کے لئے ہم سب بھی مل جل کر کوششیں کریں ۔ اسی جذبے کے ساتھ میں ایک بار پھر یہاں موجود سبھی سوچھاگرہیوں کو دل ک گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک بار پھر نعرہ لگائیں ۔ میں کہوں گا مہاتما گاندھی ! آپ دو بار بولیں گے امر رہے امر رہے ۔ مہاتماگاندھی امر رہے امر رہے پوری طاقت سے بولئے مہاتما مر رہے امر رہے مہاتما گاندھی امر رہے امر رہے بہت بہت شکریہ ! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ س ش ۔رم,"চাম্পাৰণ সত্যাগ্ৰহৰ শতবৰ্ষ সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোডীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণমতিহাৰী, বিহাৰ, ১০ এপ্ৰিল,২০১৮" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%B1%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%AF%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B9%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A6%BE/,۰سنگل برانڈ خوردہ تجارت کیلئے صد فی صد بنیاد پر خود کار راستے سے غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ۰تعمیرات ، ترقیات کے شعبے میں خود کار راستے سے 100 فیصد غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ۰ایئر انڈیا میں غیر ملکی ایئر لائنوں کے ذریعے منظوری کے راستے سے 49 فیصد تک کی سرمایہ کاری کی اجازت ۰ایف آئی آئی؍ ایف پی آئی کو بنیادی منڈی کی توسط سے پاور ایکسچینجوں میں سرمایہ کاری کی اجازت ۰ایف ڈی آئی پالیسی کے تحت ’طبی آالات‘ کی اصطلاح میں ترمیم کی گئی وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے ایف ڈی آئی پالیسی میں متعدد ترامیم کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ ان تمام ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ ایف ڈی آئی پالیسی کو لچکدار اور سہل بنایا جائے تاکہ ملک میں کاروبار کرنا آسان ہوجائے۔ اس کے بدلے میں یہ پالیسی بڑے پیمانے پر غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی آمد کا راستہ کھولے گی اور سرمایہ کاری میں اضافہ کا باعث ثابت ہوگی، جس کے نتیجے میں آمدنی اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ (ایف ڈی آئی)، اقتصادی شرح نمو کا ایک وسیلہ ہے اور ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے قرض سے مبرا سرمایہ فراہمی کا ذریعہ حکومت نے ایف ڈی آئی کے تحت سرمایہ کاروں سے متعلق ماحول دوست پالیسی متعارف کرائی ہے جس کے تحت صد فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت خودکار راستے سے بیشتر شعبوں؍ سرگرمیوں کے لئے فراہم ہوگی۔ ماضی قریب میں حکومت نے متعدد شعبوں مثلاً دفاع، تعمیرات ترقیات، بیمہ، پنشن، دیگر مالی خدمات، اثاثہ تشکیل نو کمپنیوں، نشریات، شہرہ ہوابازی، فارما سیوٹیکل، ٹریڈنگ وغیرہ میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری پالیسی میں متعدد اصلاحات کی ہیں۔ حکومت کی جانب سے جو اقدامات کئے گئے ہیں اُن کے نتیجے میں ملک میں ایف ڈی آئی کی آمد میں اضافہ ہوا ہے ۔ 2014-15 کے دوران مجموعی طور پر 45.15 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کے سرمایہ کی آمد ہوئی جبکہ 2013-14میں 36.05 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ 2015-16 کے دوران ملک میں مجموعی طور پر 55.46 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد ہوئی۔ 2016-17 کے مالی سال کےد وران 60.08 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کی مجموعی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کی آمد ہوئی ہے جو اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ ملک میں اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری متوجہ کرنے کے بھر پور مضمرات موجود ہیں اور ان مضمرات سے ایف ڈی آئی کے دائرہ کار میں مزید نرمی لاکر اور اسے مزید سہل بناکر استفادہ کیا جاسکتا ہے، لہذا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایف ڈی آئی پالیسی میں متعدد ترامیم متعارف کرائی جائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,মুখ্য খণ্ডসমূহত অধিক উদাৰ হ’ল এফডিআই নীতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D9%85%D8%B5%D9%86%D9%81-%D8%AA%DA%BE%DB%8C%D8%B1%D9%88-%D8%A7%D8%B2%DB%81%D8%A7-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%96%E0%A6%95-%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نامور تمل مصنف تھیرو ازہا ولی اپّا کوان کی صد سالہ جینتی پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ : ’’میں نےتھیرو ازہا ولی اپّا کو اُن کی صدسالہ جینتی پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی بے مثال تحریروں اور شاعری کے لئے یاد کئے جائیں گے بلکہ بچوں کے مابین تاریخ، ثقافت اور ادب کو مقبول بنانے میں اُن کی کوششوں کو بھی یاد رکھا جائے گا۔ ان کی کوششیں آج کے دور میں بھی مختلف لوگوں کومسلسل تحریک دیتی رہیں گی۔,প্ৰসিদ্ধ তামিল লেখক থিৰু আজহা ভাল্লিয়াপ্পাৰ জন্ম শতবাৰ্ষিকীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাৰ্ঘ্ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DB%8C%D9%86%DA%A9-%DA%88%D9%BE%D8%A7%D8%B2%D9%B9-%D8%A8%DB%8C%D9%85%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%DA%A9%D9%86%D9%86%D8%AF%DA%AF%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%95-%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A7%80/,نئی دہلی:12 دسمبر،2021۔اسٹیج پر تشریف فرما وزیر خزانہ جی، خزانہ کے وزیر مملکت جی، آر بی آئی کے گورنر، نبارڈ کے چیئرمین،ڈپازٹ انشورنس اینڈ کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن اور ملک کے سب سے بڑے بینکنگ گروپوں کے افسران، مختلف ریاستوں میں الگ الگ جگہوں پر موجود وزراء کی کونسل کے میرے ساتھی، وہاں کے اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی اور وہاں رہنے والے سارے ڈپازیٹر، ہمارے سارے جمع کنندگان بھائیو اور بہنوں، آج ملک کے لئے بینکنگ سیکٹر کیلئے اور ملک کے کروڑوں بینک اکاؤنٹ ہولڈرس کیلئے بہت ہی اہم دن ہے۔ دہائیوں سے چلا آرہا ایک بڑے مسئلے کا کیسے حل نکالا گیا ہے، آج کا دن اس کا گواہ بنا ہے۔ آج کی تقریب کا جو نام دیا گیا ہے اس میں ڈپازیٹر فرسٹ، جمع کنندگان سب سے پہلے کے جذبے کو سب سے پہلے رکھنا، اور اسے اور مضبوط بنارہا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ڈپازیٹرس کو برسوں سے پھنسا ہوا ان کا پیسہ ان کے کھاتے میں جمع ہوگیا ہے اور یہ رقم تقریباً 1300 کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہے۔ ابھی آج یہاں اس پروگرام میں اور ا س کے بعد بھی 3 لاکھ اور ایسے ڈپازیٹرس کو بینکوں میں پھنسا ان کا پیسہ ان کے کھاتے میں جمع ہونے والا ہے، پیسہ ان کو ملنے والا ہے۔ یہ اپنے آپ میں چھوٹی بات نہیں ہے اور میں خاص کر ہمارے ملک کو ہمارے جو میڈیا کے ساتھی ہیں، آج میں ان سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں اور میرا تجربہ ہے جب سوچھتا ابھیان چل رہا تھا، میڈیا کے دوستوں کو گزارش کی آج بھی اس کو وہ برابر میری مدد کررہے ہیں۔ آج میں پھر سے ان سے گزارش کررہا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ بینک ڈوب جائے تو کئی دنوں تک خبریں پھیلی رہتی ہیں ٹی وی پر اخباروں میں، فطری بھی ہے، واقعہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی ہیڈلائنس بھی بن جاتی ہیں۔ بہت فطری ہے۔ دیکھئے آج جب ملک نے ایک بہت بڑا ریفارم کیا ، ایک بہت بڑا مضبوط انتظام شروع کیا ہے۔ ڈپازیٹر س کو، جمع کنندگان کو ان کا پیسہ واپس دلایا جارہا ہے۔ میں چاہتا ہوں اس کی بھی اتنی ہی چرچا میڈیا میں ہو، باربار ہو۔ اس لئے نہیں کہ مودی نے کیا ہے اس لئے کررہا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملک کے ڈپازیٹرس میں اعتماد پیدا ہو۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے غلط وجوہات سے، غلط عادتوں سے بینک ڈوبے گا، ہوسکتا ہے، لیکن جمع کنندگان کا پیسہ نہیں ڈوبے گا، جمع کنندگان کا پیسہ محفوظ رہے گا۔ اس پیغام سے ملک کے جمع کنندگان میں اعتماد پیدا ہوگا۔ بینکنگ بندوبست پر بھروسہ ہوگا، اور یہ بہت ضروری ہے۔ بھائیو اور بہنوں، کوئی بھی ملک وقت پر مسائل کا حل کرکے ہی انہیں بڑا ہونے سے بچا سکتا ہے۔ لیکن آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ برسوں تک ہمارے یہاں ایک ہی روایت رہی کہ بھائی مسئلہ ہے ٹال دو۔ دری کے نیچے ڈال دو۔ آج کا نیا بھارت، مسائل کے حل پر زور دیتا ہے، آج بھارت مسائل کو ٹالتا نہیں ہے۔ آپ ذرا یاد کیجئے، کہ ایک وقت تھا جب کوئی بینک بحران میں آجاتا تھا تو ڈپازیٹرس کو جمع کنندگان کو اپنا ہی پیسہ، یہ پیسہ ان کا خود کا ہے، جمع کنندگان کا پیسہ ہے۔ ان کا خود کا پیسہ پانے میں ناکوں دم نکل جاتا تھا۔ کتنی پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ اور چہار جانب جیسے ہاہاکار مچ جاتا تھا۔ اور یہ بہت فطری بھی تھا۔ کوئی بھی شخص بہت یقین کے ساتھ بینک میں پیسہ جمع کراتا ہے۔ خاص کر ہمارے متوسط طبقے کے خاندان، جو فکسڈ سیلری والے لوگ ہیں وہ، فکسڈ انکم والے لوگ ہیں، ان لوگوں کی زندگی میں تو بینک ہی ان کا آسرا ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی غلط پالیسیوں کے سبب جب بینک ڈوبتا تھا، تو صرف ان خاندانوں کو صرف پیسہ نہیں پھنستا تھا، ایک طرح سے ان کی پوری زندگی ہی پھنس جاتی تھی۔ پوری زندگی ، سارا ایک طرح سے اندھیرا سا لگتا تھا۔ اب کیا کریں گے۔ بیٹے- بیٹی کے کالج کی فیس بھرنی ہے۔ کہاں سے بھریں گے؟ بیٹے-بیٹی کی شادی کرنی ہے کہاں سے پیسے آئیں گے؟ کسی بزرگ کا علاج کرانا ہے، کہاں سے پیسہ لائیں گے ؟ ابھی بہن جی مجھے بتا رہی تھی کہ ان کے خاندان میں دل کا آپریشن کرانا تھا۔ کیسی دقت آئی اور اب یہ کیسا کام ہوگیا۔ ان سوالوں کا پہلے کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کو بینک سے اپنا ہی پیسہ حاصل کرنے میں نکلوانے میں برسوں لگ جاتے تھے۔ ہمارے غریب بھائی- بہنوں نے، متوسط طبقے کے لوگوں نے، ہمارے متوسط طبقے نے دہائیوں تک ایسی صورتحال کا سامنا کیا ہے، سہا ہے۔ خاص طور سے کو-آپریٹیو بینکوں کے معاملے میں مسائل اور زیادہ ہوجاتے تھے۔ آج جو لوگ الگ- الگ شہروں سے اس پروگرام میں جڑے ہیں، وہ اس درد، اس تکلیف کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے ہی ، ہماری سرکار نے نہایت حساسیت کے ساتھ فیصلے لئے، اصلاحات کیے، قانون میں تبدیلی کی۔ آج کایہ پروگرام ان فیصلوں کا ہی ایک نتیجہ ہے۔ اور مجھے برابر یاد ہے میں وزیراعلیٰ رہا ہوں اور بینک میں طوفان کھڑا ہوجاتا تھا تو لوگ ہمارا ہی گلا پکڑتے تھے۔ یہ تو فیصلہ بھارت سرکار کو کرنا ہوتا تھایا ان بینک والوں کو کرنا تھا لیکن پکڑتے تھے وزیراعلیٰ کو۔ ہمارے پیسوں کا کچھ کرو، مجھے کافی پریشانیاں اس وقت رہتی تھی، اور ان کا درد بھی بہت فطری تھا۔ اور اس وقت میں بھارت سرکار کو بار بار درخواست کرتا تھا کہ ایک لاکھ روپئے کی رقم ہمیں پانچ لاکھ بڑھانی چاہئے تاکہ زیادہ خاندانوں کو ہم مطمئن کرسکیں۔ لیکن خیر، میری بات نہیں مانی گئی۔ انہوں نے نہیں کیا تو لوگوں نے ہی کیا، مجھے بھیج دیا یہاں۔ میں نے کر بھی دیا۔ ساتھیو، ہمارے ملک میں بینک ڈپازیٹرس کے لئے بیمہ کا بندوبست کی60کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔ یعنی اس میں بھی قریب 60 سال ہوگئے۔ پہلے بینک میں جمع رقم میں سے صرف 50 ہزار روپئے تک کی رقم پر ہی گارنٹی تھی۔ پھر اسے بڑھا کر ایک لاکھ روپئے کردیا گیا تھا۔ یعنی اگر بینک ڈوبا، تو ڈپازیٹرس کو، جمع کنندگان کو صرف ایک لاکھ روپئے تک ہی ملتا تھا، لیکن وہ بھی گارنٹی نہیں کب ملے گا۔ 8-8 اور 10-10 سال تک معاملہ لٹکا رہتا تھا۔ کوئی وقت کی پابندی نہیں تھی۔ غریب کی تشویش اور فکر کو سمجھتے ہوئے، متوسط طبقے کی فکر کو سمجھتے ہوئے، ہم نے اس رقم کو ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپئے کردیا ہے۔ یعنی آج کی تاریخ میں کوئی بھی بینک بحران میں آتا ہے، تو ڈپازیٹرس کو، جمع کنندگان کو، پانچ لاکھ روپئے تک تو ضرور واپس ملے گا۔اور اس بندوبست سے لگ بھگ 98 فیصد لوگوں کے اکاؤنٹس پوری طرح سے کور ہوچکے ہیں۔ یعنی دوفیصد کا ہی تھوڑا تھوڑا رہ جائیگا۔ 98فیصد لوگوں کا جتنا پیسہ ان کا ہے سارا کور ہورہا ہے۔ اور آج ڈپازیٹرس کا لگ بھگ، یہ عدد بھی بہت بڑا ہے۔ آزادی کا 75واں سال چل رہا ہے۔ امرت مہوتسو چل رہا ہے، یہ جو ہم فیصلے کررہے ہیں، اس سے 76 لاکھ کروڑ روپئے پوری طرح بیمہ شدہ ہے۔ اتنا وسیع حفاظتی کوچھ تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں ہے۔ ساتھیو، قانون میں ترمیم کرکے، اصلاحات کرکے ایک اور مسئلے کا حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے جہاں پیسہ واپسی کی کوئی وقت کی حد نہیں تھی، اب ہماری سرکار نے اسے 90دن یعنی تین مہینے کے اندر یہ کرنا ہی ہوگا، یہ قانوناً طے کرلیا ہے۔ یعنی ہم نے ہی سارے بندھن ہم پر ڈالے ہیں۔ کیوں کہ اس ملک کے عام آدمی، اس ملک کے متوسط طبقے ہی، اس ملک کے غریب کی ہمیں فکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بینک کمزور ہوجاتا ہے، بینک اگر ڈوبنے کی حالت میں بھی ہے، تو 90 دن کے اندر جمع کنندگان کو ان کا پیسہ واپس مل جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ قانون میں ترمیم کے 90 دن کے اندر ہی، ہزاروں ڈپازیٹرس کے دعووں کا بھی تصفیہ کیا جاچکا ہے۔ ساتھیو، ہم سب بڑے دانشور، عقلمند، ماہرمعاشیات تو بات کو اپنے اپنے طریقے سے بتاتے ہیں۔ میں اپنی سیدھی سادھی زبان میں بتاتا ہوں۔ ہر کوئی ملک ترقی چاہتا ہے، ہر ملک ترقی چاہتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں یاد رکھنی ہوگی۔ ملک کی خوشحالی میں بینکوں کا بڑا کردار ہے۔ اور بینکوں کی خوشحالی کیلئے ڈپازیٹرس کا پیسہ محفوظ رہنا وہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں بینک بچانے ہیں تو ڈپازیٹرس کو تحفظ دینا ہی ہوگا، اور ہم نے یہ کام کرکے بینکوں کو بھی بچایا ہے، ڈپازیٹرس کو بھی بچایا ہے۔ ہمارے بینک، جمع کنندگان کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کیلئے بھی اعتماد کے عکاس ہیں۔ اسی بھروسے، اسی اعتماد کو مستحکم کرنے کیلئے گزشتہ برسوں سے ہم مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ پچھلے برسوں میں متعدد چھوٹے سرکاری بینکوں کو بڑے بینکوں کے ساتھ انضمام کرکے، ان کی کیپسٹی، کیپبلٹی اور ٹرانسپیرنسی ، پرطرح سے مضبوط کیا گیا ہے۔ جب آر بی آئی، کو-آپریٹیو بینکوں کی نگرانی کرے گا تو اس سے بھی ان کے تئیں عام ڈپازیٹرس کا بھروسہ اور بڑھے گا، ہم نے کو-آپریٹیو کا ایک نیا بندبست کیا ہے، ہم نے نئی وزارت بنائی ہے۔ اس کے پیچھے بھی کو-آپریٹیو اداروں کو طاقتور بنانے کاارادہ ہے۔ کو-آپریٹیو وزارت کے طور مزید انتظام کرنے سے بھی کو-آپریٹیو بینک مزید مستحکم ہونے والے ہیں۔ ساتھیو، دہائیوں دہائیوں تک ملک میں یہ مانا جاتا تھا کہ بینک صرف زیادہ پیسے والوں کیلئے ہوتے ہیں یہ امیروں کا گھرانہ ہے، ایسا لگتا تھا۔ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہی جمع کرتا ہے۔ جس کے پاس بڑا بزنس ہے، اسی کو جلدی اور زیادہ لون ملتاہے۔ یہ بھی مان لیاجاتا تھا کہ پنشن اور بیمہ جیسی سہولتیں بھی اسی کے لئے ہے، جس کے پاس پیسہ ہے، دھن ہے۔ دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت کیلئے یہ ٹھیک نہیں تھا۔ نہ یہ بندوبست ٹھیک ہے نہ یہ سوچ ٹھیک ہے۔ اور اس کو بدلنے کیلئے بھی ہم مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ آج کسان، چھوٹے دوکاندار، کھیت مزدور، کنسٹرکشن اور گھروں میں کام کرنے والے مزدور ساتھیوں کو بھی پنشن کی سہولت سے جوڑاجارہا ہے۔ آج ملک کے کروڑوں غریبوں کو 2-2 لاکھ کے حادثہ اور جیون بیمہ کے حفاظتی کوچ کی سہولت ملتی ہے۔ پی ایم جیون جیوتی بیمہ یوجنا اور پی ایم سرکشا بیمہ یوجنا کے تحت لگ بھگ 37 کروڑ ملک کے شہری اس حفاظتی کوچ کے دائرے میں آچکے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے اب جاکر ملک کے فائنانشیل سیکٹر کا، ملک کے بینکنگ سیکٹر کا صحیح معنی میں جمہوری ہوا ہے۔ ساتھیو، ہمارے یہاں مسئلہ صرف بینک اکاؤنٹ کا ہی نہیں تھا، بلکہ دور دراز کے گاؤں میں بینکنگ خدمات پہنچانے کی بھی تھی۔ آج ملک کے قریب قریب ہر گاؤں میں 5کلو میٹر کے دائرے میں بینک برانچ یا بینکنگ کراسپانڈنٹ کی سہولت پہنچ چکی ہے۔ پورے ملک میں آج لگ بھگ ساڑھے آٹھ لاکھ بینکنگ ٹچ پوائنٹس ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیاکے توسط سے ہم نے ملک میں بینکنگ اور مالیاتی شمولیت کو نئی بلندی دی ہے۔ آج بھارت کاعام شہری کبھی بھی، کہیں بھی، ساتوں دن، 24 گھنٹے، چھوٹے سے چھوٹا لین دین بھی ڈیجیٹل طریقے سے کر پارہا ہے۔ کچھ سال پہلے تک اس بارے میں سوچنا تو دور، بھارت کی طاقت پر اعتماد نہ کرنے والے لوگ اس بات کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ساتھیو، بھارت کے بینکوں کی طاقت ملک کے شہریوں کی طاقت بڑھائے، اس سمت میں ہماری سرکار لگاتار کام کررہی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ریہڑی، ٹھیلے، فیری-پٹری والے کو بھی، اسٹریٹ وینڈرس کو بھی بینک سے قرض مل سکتا ہے؟ نہ اس نے کبھی سوچا نہ ہم بھی سوچ سکتے۔ لیکن آج مجھے بڑے اطمینان کے ساتھ کہنا ہے۔ آج ایسے لوگوں کو سوندھی یوجنا سے قرض بھی مل رہا ہے اور وہ اپنے کاروبار کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ آج مدرا یوجنا، ملک کے ان علاقوں، ان خاندانوں کو بھی خودروزگار سے جوڑ رہے ہیں، جنہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ آپ سبھی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں، چھوٹی زمین والے کسان، ہمارے ملک میں 85 فیصد کسان چھوٹے کسان بہت چھو��ا سازمین کا ٹکڑا ہے ان کے پاس، اتنے بینکوں کے ہوتے ہوئے بھی ہمارا چھوٹا کسان بازار سے کسی تیسرے سے، مہنگی شرح سود پر قرض لینے کیلئے مجبور تھا۔ ہم نے ایسے کروڑوں چھوٹے کسانوں کو بھی کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے جوڑا اور اس کا دائرہ مویشی پالن اور ماہی پروروں تک ہم نے بڑھا دیا۔ آج بینکوں سے ملا لاکھوں کروڑ روپئے کا آسان اور سستا قرض ، ان ساتھیوں کی زندگی آسان بنارہا ہے۔ ساتھیو، زیادہ سے زیادہ ملک کے شہریوں کو بینک سے جوڑنا ہو، بینک لون آسانی سے نکالناہو، ڈیجیٹل بینکنگ، ڈیجیٹل پیمنٹ کا تیزی سے توسیع کرنی ہو، ایسے متعدد اصلاحات ہیں جنہوں نے 100 سال کی سب سے بڑی مصیبت میں بھی بھارت کے بینکنگ نظام کو آسانی سے چلانے میں مدد کی ہے۔ میں بینک کے ہر ساتھی کو مبارکباد دیتا ہوں اس کام کے لئے، کہ بحران کی گھری میں انہوں نے لوگوں کو اکیلانہیں چھوڑا۔ جب دنیا کے مضبوط ملک اپنے شہریوں تک مدد پہنچانے میں جدوجہد کا سامنا کررہے تھے، تب بھارت نے تیز رفتار سے ملک کے قریب قریب ہر طبقے تک براہ راست مدد پہنچائی۔ ملک کے بینکنگ سیکٹر میں جو طاقت پچھلے برسوں میں ہم نے تیار کی ہے، اسی خوداعتمادی کے سبب ملک کے شہریوں کی زندگی بچانے کیلئے سرکار بڑے فیصلے لے پائی۔ آج ہماری معیشت تیزی سے سدھری تو ہے ہی بلکہ مستقبل کیلئے بہت مثبت اشارے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ بھائیو اور بہنوں، فائنانشیل انکلوزن اور یعنی مالیاتی شمولیت اور ایز آف ایکسس ٹو کریڈٹ یعنی قرض تک آسان رسائی کا سب سے بڑا فائدہ اگر ہوا ہے تو ہماری بہنوں کو ہوا ہے، ہماری ماؤں ، ہماری بیٹیوں کو ہوا ہے۔ یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ آزادی کے اتنے برسوں تک ہماری زیادہ بہنیں -بیٹیاں اس فائدے سے محروم رہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ مائیں اور بہنیں اپنی چھوٹی بچت کو رسوئی میں راشن کے ڈبوں میں رکھتی تھیں۔ اس کے لئے پیسہ رکھنے کی جگہ وہی تھی، اناج کے اندر رکھے رکھنا، کچھ لوگ تو اسے بھی سلیبریٹ کرتے تھے۔ جس بچت کو محفوظ رکھنے کیلئے بینک بنائے گئے ہیں، اس کا استعمال آدھی آبادی نہ کرپائے، یہ ہمارے لئے بہت بڑی فکر کی بات تھی۔ جن دھن یوجنا کے پیچھے اسی فکر کو حل کرنے کابھی اہم رول رہا ہے۔ آج اس کی کامیابی سب کے سامنے ہے۔ جن دھن یوجنا کے تحت کھلے کروڑوں بینک اکاؤنٹس میں سے آدھے سے زیادہ بینک اکاؤنٹ ہماری ماؤں اور بہنوں کے ہیں، خواتین کے ہیں۔ ان بینک اکاؤنٹس کا خواتین کے اقتصادی بااختیاری پر جو اثر ہوا ہے، وہ ہم نے حال میں آئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بھی دیکھا ہے۔ جب یہ سروے کیا گیا، تب تک ملک میں لگ بھگ 80 فیصد خواتین کے پاس اپنا خود کا بینک اکاؤنٹ تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جتنے بینک اکاؤنٹ شہری خواتین کیلئے کھلے ہیں، لگ بھگ اتنے ہی دیہی خواتین کیلئے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ جب اچھی اسکیمیں ڈلیور کرتی ہیں تو سماج میں جو نابرابری ہے ان کو دور کرنے میں بھی بہت بڑی مدد ملتی ہے۔ اپنا بینک اکاؤنٹ ہونے سے خواتین میں معاشی بیداری تو بہت بڑھی ہی ہے، خاندان میں معاشی فیصلے لینے کی ان کی حصہ داری میں بھی توسیع ہوئی ہے۔ اب خاندان کچھ فیصلے کرتا ہے تو ماں-بہنوں کو بٹھاتا ہے، ان کی رائے لیتا ہے۔ ساتھیو، مدرا یوجنا میں بھی لگ بھگ 70 فیصد مستفیدین خواتین ہیں۔ ہمارا یہ بھی تجربہ رہا ہےجب خواتین کو قرض ملتا ہے تو اس کو لوٹانے میں بھی ان کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی قابل تعریف ہے۔ ان کو اگر بدھ کو پیسہ جمع کرنے کی آخری تاریخ ہے تو پیر کو جاکر کے دے آتی ہیں۔ اسی طرح سے سیلف ہیلپ گروپ، خود امدادی گروپوں کی کارکردگی، یہ بھی بہت بہترین ہے۔ ایک طرح سے پائی۔ پائی جمع کرادیتی ہیں ہماری مائیں-بہنیں۔ مجھے یقین ہے کہ سب کی کوشش سے ، سب کی حصہ داری سے، اقتصادی سطح پر بااختیار بنانے کا یہ ابھیان بہت تیزی سے آگے بڑھنے والا ہے۔ اور ہم سب اس کو بڑھانے والے ہیں۔ ساتھیو، آج وقت کی مانگ ہے کہ بھارت کا بینکنگ سیکٹر، ملک کے اہداف کو حاصل کرنے میں پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ہر بینک برانچ، 75 سال میں انہوں نے کیے ہیں، ان سارے ریکارڈوں کو پیچھے چھوڑ کر، اس کو ڈیڑھ گنا، دو گنا کرنے کا ہدف، لیکر کے چلیں۔ دیکھئے صورتحال بدلتی ہے کہ نہیں بدلتی ہے۔ پرانے تجربات کی وجہ سے، قرض دینے میں آپ کی جو بھی جھجک رہی ہے، اس سے اب باہر نکلنا چاہیے۔ ملک کے دور-دراز علاقوں میں گاؤں قصبوں میں بڑی تعداد میں ملک کے شہری اپنے خواب پورا کرنے کیلئے بینکوں سے جڑناچاہتے ہیں، آپ اگر آگے بڑھ کر لوگوں کی مدد کریں گے تو، زیادہ سے زیادہ لوگوں کی اقتصادی طاقت بھی بڑھے گی اور اس سے آپ کی خود کی طاقت میں بھی اضافہ ہوگا۔ آپ کی یہ کوشش، ملک کو خودکفیل بنانے میں، ہماری چھوٹی صنعتوں، متوسط طبقے کے نوجوانوں کوآگے بڑھنے میں مدد کریں گے۔ بینک اور جمع کنندگان کا بھروسہ نئی بلندی پر پہنچے گا اور آج کا یہ موقع ہر ایک ڈپازیٹرس میں ایک نیا اعتماد بھرنے والا موقع ہے۔ اور اس سے بینکوں کی رسک ٹیکنگ کیپسٹی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ اب بینکوں کے لئے بھی موقع ہے، ڈپازیٹرس کے بھی موقع ہے۔ ایسے مبارک موقع پر میری آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات، بہت۔ بہت نیک تمنائیں! شکریہ! ———————– ش ح۔م ع۔ ع ن,জমাকৰ্তাসকলৰ বেংক জমা বীমা কাৰ্যক্ৰমত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D8%AF%DB%8C%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے راجستھان دیوس کے موقع پر راجستھان کے عوام کو مبارک باد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘شوریہ سوابھیمان اور بلیدان کی دھرتی راجستھان کے سمست نواسیوں کو راجستھان دیوس کی کوٹی کوٹی شبھ کامنائیں ، پردیش پرگتی کے پتھ پر آگے بڑھے۔ یہی کامنا ہے۔’’,ৰাজস্থান দিৱস উপলক্ষে ৰাজস্থানৰ জনসাধাৰণক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%81%D9%88%D8%AC-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%85%D8%B4%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%8F%E0%A6%AB%E0%A6%8F%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے فخر کا اظہار کیا ہے کیونکہ ہندوستانی فوج نے اقوام متحدہ کے مشن ابی، یو این آئی ایس ایف اے میں خواتین امن دستوں کے اپنی سب سے بڑے دستے کو تعینات کیا ہے۔ جناب مودی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی اقوام متحدہ کے امن مشن میں فعال شرکت کی روایت رہی ہے۔ اے ڈی جی– پی آئی انڈین آرمی کے ایک ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’یہ دیکھ کر فخر ہے۔ ہندوستان کی اقوام متحدہ کے امن مشن میں فعال شرکت کی روایت رہی ہے۔ ہماری ناری شکتی کی شرکت اور بھی خوش کن ہے‘‘۔,ইউএনএছএফএৰ আবেইত ৰাষ্ট্ৰসংঘৰ অভিযানত ভাৰতীয় সেনাই নিজৰ সৰ্ববৃহৎ মহিলা শান্তিৰক্ষী বাহিনী মোতায়েন কৰা কাৰ্যক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D9%86%DA%88%DA%BE%D8%B1-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%DB%81%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%87/,رام کرشنا ہری رام کرشنا ہری پروگرام میں ہمارے ساتھ موجود مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی ، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب ادھو ٹھاکرے جی، وزارتی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نتن گڈکری جی، میرے دیگر ساتھی نارائن رانے جی، راؤ صاحب دانوے جی، رام داس اٹھاولے جی، کپل پاٹل جی، ڈاکٹر بھاگوت کراڑجی، ڈاکٹر بھارتی پوارجی، جنرل وی کے سنگھ جی، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار جی، مہاراشٹر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور میرے دوست جناب دیویندر فڑنویس جی، قانون ساز کونسل کے چیئرمین رام راجے نائک جی، مہاراشٹر سرکار کے تمام معزز وزراء، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی پارلیمنٹ ارکان ، مہاراشٹر کے ارکان اسمبلی ، دیگر تمام عوامی نمائندے ، یہاں ہمیں آشرواد دینے کے لئے موجود ہمارے تمام پوجیہ سادھو سنت اور عقیدت مند ساتھیو! دو دن پہلے مجھے ایشور کی مہربانی سے کیدار ناتھ میں آدی شنکر اچاریہ جی کی نوتعمیر شدہ سمادھی کی سیوا کا موقع ملا اور آج بھگوان وٹھل نے اپنے استھان پنڈھرپور سے مجھے آپ سب کے بیچ جوڑلیا۔اس سے زیادہ خوشی کی اور بھگوان کی کرپا کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ آدی شنکر اچاریہ جی نے خود کہا ہے۔ مہایوگ پیٹھے/تٹے بھیم رتھیام/ورم پنڈری کائے/داتم مونیندرے/سماگتیہ تیسٹھنتم/ آنند کنند/پربرہما لنگم/ بھجے پانڈورنگم۔ اس کا مطلب ہے کہ شنکر اچاریہ جی نے کہا ہے کہ پنڈھرپور کی اس مقدس زمین میں وٹھل بھگوان سراپا مسرت ہیں۔ اس لئے پنڈھر پور تو آنند کی ہی علامت ہے۔ اور آج تو اس میں سیوا کا آنند بھی ساتھ میں جڑرہا ہے۔ ملااتشے آنند ہوتو آہیں کی، سنت گیا نوباماؤلی انڈی سنت تکوبارا یانچیا،پالکھی مارگاچے آج اود گھاٹن ہوتے آہے۔وارک یاننا ادھک سودھا ترمٹھنارآہے تچ،پڑآپڑ جسے مہڑتوکی ، رستے ہے وکاساچے دوار استے۔ تسے پنڈھری- کڑے جاڑارے ہے مارگ بھاگوت دھرماچی پتا کا آڑکھی اونچ فڈکویڑارے مہامارگ ٹھرتیل۔ پوترمارگ کڑے نیڑارے تے مہادوار ٹھریل۔ ساتھیو! آج یہاں شری سنت گیا نیشور مہاراج پالکھی مارگ اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، شری سنت گیانیشور مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر ابھی آپ نے ویڈیو میں بھی دیکھی ہے۔ نتن جی کی تقریر میں بھی سنا ہے، یہ پانچ مرحلوں میں ہوگا اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر تین مرحلوں میں مکمل کی جائے گی۔ ان سبھی مرحلوں میں 350 کلو میٹر سے زیادہ لمبائی کے ہائی وے بنیں گے۔اور اس پر گیارہ ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا خرچ آئے گا۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان شاہراہوں کے دونوں طرف پالکھی یاترا کے لئے پیدل چلنے والے عقیدت مندوں کے لئے مخصوص راستے بنائے جائیں گے۔ اس کے علاو�� آج پنڈھر پور کو جوڑنے والی تقریبا سوا دو سو کلو میٹر طویل قومی شاہراہ کا بھی مبارک آغازہوا ہے۔ اس کی تعمیر پر تقریبا بارہ سو کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ ستارا، کولیارپور، سانگلی،بیجا پور، مراٹھواڑہ کا علاقہ، ان سبھی مقامات سے پنڈھر پور آنے والے عقیدت مندوں کو یہ قومی شاہراہیں بہت مدد پہنچائیں گی۔ایک طرح سے یہ شاہراہیں بھگوان وٹھل کے بھکتوں کی سیوا کے ساتھ ساتھ اس پورے علاقہ کی ترقی کا بھی وسیلہ بنیں گی۔ خاص طورسے اس کے ذریعہ جنوبی ہندوستان کے لئے کنکٹوٹی اور بہتر ہوگی۔ اس سے اب اور زیارہ شردھالو یہاں آسانی سے آسکیں گے اور اس خطے کی ترقی سے متعلق سرگرمیاں بھی تیز ہوں گی۔ میں ان مقدس کاموں سے جڑے ہر شخص کا ابھینندن کرتا ہوں۔ یہ ایسی کوششیں ہیں جو ہمیں روحانی سکون بخشتی ہیں اور ہمیں زندگی کے معنیٰ پتہ چلتے ہیں۔ میں بھگوان وٹھل کے تمام بھکتوں کو اس علاقے سے جڑے سبھی لوگوں کو پنڈھرپور علاقے کی ترقی کی اس مہم کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتاہوں۔ می سرووارک یاننا نمن کرتو، تیانا کوٹی کوٹی ابھیوادن کرتو۔ میں اس کرپا کے لئے بھگوان وٹھل جی کے چرنوں میں اپنا نمن کرتا ہوں، انھیں پوری عقیدت کے ساتھ پرنام کرتا ہوں۔ میں تمام سنتوں کے چرنوں میں بھی اپنا نمن کرتا ہوں۔ ساتھیو! ماضی میں ہمارے بھارت پر کتنے ہی حملے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں سال کی غلامی میں یہ ملک جکڑگیا۔ قدرتی آفات آئیں،آزمائشوں کا سامنا ہوا۔ دشواریاں سامنے آئیں، لیکن بھگوان وٹھل دیو میں ہماری آستھا ایسے ہی ملتی رہی آ ج بھی یہ یاترا دنیا کی قدیم ترین اور سب سے بڑی عوامی یاتراؤں کی شکل میں عوامی تحریک کے طورپر دیکھی جاتی ہے۔ آشاڑھ ایکادشی پر پنڈھر پور یاترا کا نادر منظرکون بھول سکتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں شردھالو بس کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ہر طرف رام کرشن ہری، پنڈلک وردے ہاری وٹھل اور گیانباتکارام کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ پورے 21 دن تک ایک انوکھا نظم وضبط ایک غیر معمولی تحمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ یاترائیں الگ الگ پالکھی راستوں سے چلتی ہیں لیکن سب کی منزل مقصود ایک ہی ہوتی ہے۔ یہ ہندوستان کی اس عظیم تعلیم کی علامت ہے جو ہماری آستھا کو باندھتی نہیں بلکہ آزاد کرتی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ راستے الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ طور طریقے اور سوچ الگ الگ ہوسکتی ہے لیکن ہمارا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ آخر میں تمام پنتھ بھگوان پنتھ ہی ہیں اور اس لئے ہمارے یہاں تو بڑے یقین کے ساتھ شاستروں میں کہا گیا ہے۔ایک ست وپرا:بہودھاودنتی۔ ساتھیو! سنت تکارام مہاراج جی نے ہمیں منتر دیا ہے اور تکارام مہاراج جی نے کہا ہے :۔وشنومے جگ ویشناوانچا دھرم، بھیدابھید بھرم امنگٹھ ایکاجی تمہی بھگت بھاگوت، کرال تیں ہت ستیہ کرا۔ کونا ہی جواچانہ گھڑو متسر، ورم سرویشور پوجناچے۔ یعنی دنیا میں سب کچھ وشنو مے ہے، اس لئے جیو جیو میں فرق کرنا، بھید بھاؤ رکھنا ہی غلط ہے۔ آپس میں حس نہ ہو، ناراضگی نہ ہو، ہم تمام لوگوں کو برابر مانیں، یہی سچا دھرم ہے۔ اس لئے دنڈی میں کوئی ذات پات نہیں ہوتی، کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا، ہر وار کری یکساں ہے۔ ہروار کری ایک دوسرے کا گروبھاؤہے، گروبہن ہے۔ سب ایک وٹھل کی اولاد ہیں اس لئے سب کی ایک ذات ہے ایک گوتر ہے۔ وٹھل گوتر، بھگوان وٹھل کا دربار سب کے لئے یکساں طور پر کھلا ہوا ہے اور جب میں سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کہتا ہوں تو اس کے پیچھے بھی تو اسی عظیم روایت کی تحریک ہے، یہی جذبہ ہے۔ یہی جذ��ہ ہمیں ملک کی ترقی کے لئے ترغیب دیتا ہے۔ ساتھیو! پنڈھرپور کی آبھااور پنڈھر پور کا تجربہ، سب کچھ ماورائی ہے۔ آپن مہونتو، ماجھے ماہیر پنڈھری ، آہے بھیوریچیا تیری، واقعی پنڈھر پور ماں کے گھر کی طرح ہے۔ لیکن میرے لئے پنڈھر پور سے دو اور بھی بہت خاص رشتے ہیں اور میں سنتوں کے سامنے کہنا چاہتا ہوں، میرا خاص رشتہ ہے۔ میرا پہلا رشتہ ہے گجرات کا، دوارکا کا۔ بھگوان دوارکا دھیش ہی یہاں آکروٹھل کی شکل میں براجمان ہوئے ہیں اور میرا دوسرا رشتہ ہے کاشی کا۔ میں کاشی سے ہوں اور یہ پنڈھر پور ہماری جنوبی کاشی ہے۔اس لئے پنڈھر پور کی خدمت میرے لئے شری نارائن ہری کی خدمت ہے۔ یہ وہ زمین ہے جہاں بھکتوں کے بھگوان آج بھی مجسم براجتے ہیں۔ یہ وہ زمین ہے جس کے بارے میں سنت نام دیوجی مہاراج نے کہا ہے کہ پنڈھر پور تب سے ہے جب دنیا بھی نہیں بنی تھی۔ ایسا اسلئے کہ پنڈھر پور مادی طور سے ہی نہیں بلکہ روحانی طور سے بھی ہمارے اندر بستا ہے۔ یہ وہ زمین ہے جس نے سنت گیانیشور ، سنت نام دیو، سنت تکارام اور سنت ایک ناتھ جیسے کتنے ہی سنتوں کو یُگ سنت بنایا ہے۔ اس زمین نے ہندوستان کو ایک نئی توانائی دی، ہندوستان کو پھر سے بیدار کیا اور ہندوستان کی سرزمین کی یہ خاصیت ہے کہ وقتاً فوقتاً، الگ الگ علاقوں میں ایسی عظیم ہستیاں ظاہر ہوتی رہیں، ملک کو راہ دکھاتی رہیں۔ آپ دیکھئے جنوب میں مدھوا چاریہ ، نمباکارچاریہ، رامانجاچاریہ ہوئے، مغرب میں نرسی مہتا، میرا بائی دھیروبھگت، بھوجا بھگت پریتم ، توشمال میں رامانند، کبیر داس، گوسوامی، تلسی داس، سورداس، گورونانک دیو، سنت ریداس ہوئے۔ مشرق میں چیتنیہ ماپربھو اور شنکر دیو جیسے سنتوں کے خیالات کےمالک کو مالا مال کیا، الگ الگ مقامات، الگ الگ زمانے ، لیکن ایک ہی مقصد۔ سب نے ہندوستان کے عوام میں ایک نئی چیتنا پھونکی۔پورے ہندوستان کو بھکتی کی شکتی سے واقف کرایا۔ اسی جذبے میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ متھرا کے کرشن، گجرات میں دواریکا دھیش بنتے ہیں، اڈپی میں بال کرشن بنتے ہیں اور پنڈھرپور میں آکر وٹھل کے روپ میں پدھارتے ہیں۔ وہی بھگوان وٹھل جنوبی ہندوستان میں کنک داس اور پرندرداس جیسے سنت شاعروں کے ذریعہ ہر شخص سے جڑجاتے ہیں یہی تو بھکتی ہے۔ جس کی طاقت جوڑنے والی طاقت ہے۔ یہی تو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی بے مثال نظیر ہے۔ ساتھیو! وارکری آندرلن کی ایک اور خاصیت رہی اور وہ ہے مردوں کے قدم سے قدم ملا کر واری میں چلنے والی ہماری بہنیں، ملک کی ماتر شکتی ، ملک کی استری شکتی پنڈھر کی واری مواقع کی مساوات کی علامت ہے۔ وارکری آندولن کا خاص جملہ ہے ’’بھیدبھاؤامنگٹھ‘‘۔ یہ سماجی ہم آہنگی کا مقصد ہے اور اس یکجہتی میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ بہت سے وار کری مردوعورت بھی ایک دوسرے کو ماؤلی نام سے پکارتے ہیں۔ بھگوان وٹھل اور سنت گیانیشور کا روپ ایک دوسرے میں دیکھتے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ماؤلی کا مطلب ہے’ماں‘۔ یعنی ماتر شکتی کا بھی اعتراف ہے۔ ساتھیو! مہاراشٹر کی زمین میں مہاتما پھولے ویرساورکر جیسے عظیم انسان اپنے کام کو کامیابی کے ساتھ جس مقام تک پہنچاپائے۔ اس سفر میں وارکری آندولن نے جو زمین بنائی تھی اس کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ وارکری آندولن میں کون نہیں تھے؟ سنت ساوتا مہاراج، سنت چوکھا، سنت نام دیو مہاراج، سنت گوروبا،سین جی مہاراج، سنت نرہری مہاراج، سنت کانہوپاترا، سماج کا ہر طبقہ وارکری آندولن کا حصہ تھا۔ ساتھیو! پنڈھر پور انسانیت کو نہ صرف بھگتی اور راشٹر بھگتی کی راہ دکھاتی ہے بلکہ شکتی کی شکتی سے انسانیت کا تعارف بھی کرایا ہے۔ یہاں اکثر لوگ بھگوان سے کچھ مانگنے نہیں آتے۔ یہاں وٹھل بھگوان کا درشن ان کی شکتی ہی زندگی کا مقصد ہے۔ تبھی تو بھگوان یہاں خود بھکتوں کی ہدایت پر صدیوں سے کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہیں۔ بھکت پنڈولیک نے اپنے ماں باپ میں ایشور کو دیکھا تھا۔ ’نرسیوا نارائن سیوا ‘مانا تھا۔ آج تک وہی آدرش ہمارا سماج جی رہا ہے۔ سیوادنڈی کے ذریعہ انسان کی خدمت کو عبارت مان کر چل رہا ہے۔ ہروارکری جس بے لوث جذبے سے بھکتی کرتا ہے اسی جذبے سے بے لوث سیوا بھی کرتا ہے۔’ امرت کلش دان- انّ دان ‘سے غریبوں کی سیوا کا سلسلہ تو یہاں چلتا ہی رہتا ہے، تعلیم اور صحت کے میدان میں آپ سبھی کی سیوا سماج کی طاقت کی ایک مثال ہے ۔ ہمارے یہاں آستھا اور بھکتی کس طرح راشٹر سیوا اور راشٹر بھکتی سے جڑی ہے۔ سیوا دِنڈی اس کی بھی بہت بڑی مثال ہے۔ گاؤں کی ترقی گاؤں کی بہتری، اس کے لئے بھی سیوا دِنڈی بہت بڑا وسیلہ بن چکی ہے۔ ملک آج گاؤں کی ترقی کے لئے جتنے بھی عزم لے کر آگے بڑھ رہا ہے، ہمارے وارکری بھائی بہن اسکی بہت بڑی طاقت ہیں۔ ملک نے سوچھ بھارت ابھیان شروع کیا تھا تو آج وٹھووا کے بھکت نرمل واری ابھیان کے ساتھ اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ابھیان ہو، پانی بچانے کے لئے ہماری کوششیں ہوں، ہماری روحانی چیتنا ہمارے قومی ارادوں کو توانائی دے رہی ہے ، اور آج جب میں اپنے وار کری بھائی بہنوں سے بات کررہا ہوں تو آپ سے آشرواد کی شکل میں تین چیزیں مانگنا چاہتا ہوں، مانگ لوں کیا؟ ہاتھ اوپر کرکے بتایئے، مانگ لو ں کیا؟ آپ دیں گے؟ دیکھئے جس طرح سے آپ سب نے ہاتھ اونچا کرکے ایک طرح سے مجھے آشروار دیئے ہیں، آپ کا ہمیشہ مجھ سے اتنا پیار رہا ہے، کہ میں خود کو روک نہیں پارہا ۔ مجھے پہلا آشرواد وہ چاہئے کہ ایک شری سنت گیا نیشور پالکھی مارگ کی تعمیر ہوگی، جس سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر ہوگی، اس کے کنارے جو خصوصی پیدل راستہ بن رہا ہے اس کے دونوں طرف ہر کچھ میٹر پر سایہ دار درخت ضروری لگائے جائیں۔ یہ کریں گے کیا آپ کام؟ میرا تو سب کی کوشش منتر ہی ہے۔ جب یہ سڑکیں بن کر تیار ہوں گی تو یہ پیڑ بھی اتنے بڑے ہوجائیں گے کہ پورا پیدل راستہ درختوں کے سائے تلے ہوگا۔ میرا ان پالکھی مارگوں کے کنارے پڑنے والے گاؤوں سے اس آندولن کی قیادت کرنے کی درخواست ہے۔ ہرگاؤں اپنے علاقے سے گزرنے والے پالکھی مارگ کی ذمہ داری سنبھالے، وہاں پڑے لگائے، تو بہت جلد یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ ساتھیو! مجھے آپ کا دوسرا آشرواد چاہئے اور دوسرا ٓشرواد مجھے یہ چاہئے کہ اس پیدل مارگ پر ہر کچھ دوری پر پینے کے پانی کی اور وہ بھی پینے کے صاف پانی کی سہولت دی جائے۔ ان مارگوں پر بہت سے پیاؤ بنائے جائیں ، بھگوان وٹھل کی بھکتی میں غرق شردھالو جب پنڈھر پور کی طرف بڑھتے ہیں تو 21 دن تک اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ پینے کے پیاؤ ایسے بھکتوں کے بہت کام آئیں گے، اور تیسرا ٓشرواد مجھے آج آپ سے ضرور لینا ہے اور مجھے آپ مایوس کبھی نہیں کریں گے۔ تیسرا آشرواد مجھے جو چاہئے وہ پنڈھر پور کے لئے ہے۔ میں مستقبل میں پنڈھر پور کو ہندوستان کے سب سے صاف ستھرے تیرتھ مقام کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان میں جب بھی کوئی دیکھے کہ بھائی سب سے صاف ستھرا تیرتھ ستھان کون سا ہے تو سب سے پہلے نام میرے وٹھوبا��ا، میرے وٹھل کی بھومی کا ، میرے پنڈھر پور کا ہونا چاہئے۔ یہ چیز میں آپ سے چاہتا ہوں اور یہ کام بھی جن بھاگیداری سے ہی ہوگا، جب مقامی لوگ صفائی ستھرائی کی مہم کی قیادت اپنی کمان میں لیں گے تبھی ہم اس سپنے کو پورا کرسکیں گے اور میں ہمیشہ جس بات کی وکالت کرتا ہوں ، سب کا پریاس کہتا ہوں، اس کا حصول ایسے ہی ہوگا۔ ساتھیو! ہم جب پنڈھر پور جیسے اپنے تیرتھ ستھانوں کی ترقی کرتے ہیں۔تو اس سے صرف تہذیبی ترقی ہی نہیں ہوتی بلکہ پورے علاقہ کی ترقی کی راہ کھلتی ہے۔ جو سڑکیں یہاں چوڑی ہورہی ہیں، جو نئی شاہراہیں فروغ دی جارہی ہیں، اس سے یہاں مذہبی سیاحت بڑھے گی، نئے روزگار آئیں گے اور سیوا ابھیان کو بھی رفتار ملے گی۔ہم سبھی کے لئے عقیدت کا مرکز جناب اٹل بہاری واجپئی جی مانتے بھی تھے کہ جہاں ہائی وے پہنچ جاتے ہیں، سڑکیں پہنچ جاتی ہیں وہاں ترقی کا نیا باب کھل جاتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ انھوں نے سورنم چتر بھج کی شروعات کرائی ، ملک کے گاؤں کو سڑکوں سے جوڑنے کی مہم شروع کی۔ آج اپنے اصولوں پر ملک میں جدید ترین بنیادی ڈھانچے پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ملک میں صحت کے بنیادی ڈھانچےکو بڑھاوا دینے کے لئے ویلنیس سینٹر کھولے جارہے ہیں، میڈیکل کالج کھولے جارہے ہیں، ڈیجیٹل نظام کو بڑھایا جارہا ہے۔ ملک میں آج نئے ہائی ویز، واٹرویز، نئی ریل لائنیں ، میٹرو لائنیں، جدید ریلوے اسٹیشن، نئے ہوائی اڈے نئے ہوائی راستوں کا ایک بڑا وسیع نیٹ ورک بن رہا ہے۔ ملک کے ہر گاؤں تک آپٹکل فائبر نیٹ ورک پہنچانے کے لئے بھی تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ان سارے پروجیکٹوں میں اور تیزی لانے کے لئے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کی بھی شروعات کی گئی ہے۔ آج ملک سو فی صد کوریج کے ویژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر غریب کو پکامکان، ہر گھر میں بیت الخلاء، ہر کنبے کو بجلی کنکشن، ہر گھر کو نل سے جل اور ہماری ماؤں بہنوں کو گیس کنکشن، یہ سپنے آج سچ ہورہے ہیں، سماج کے غریب ، محروم، دلت ، پسماندہ، درمیانی طبقے کو ان کا سب سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔ ساتھیو! ہمارے زیادہ تر وارکری گرو بھاؤتو کسان کنبوں سے آتے ہیں ۔ گاؤں غریب کے لئے ملک کی کوششوں سے آج عام آدمی کی زندگی میں کس طرح سے تبدیلیاں آرہی ہیں آپ سب اسے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں غریب سے، زمین سے جڑا ان داتا ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ دیہی اقتصادی بندوبست کا بھی سارتھی ہوتا ہے اور سماج کی ثقافت، قوم کی ایکتا کو بھی مضبوطی دیتا ہے۔ ہندوستان کی سنسکرتی کو، ہندوستان کے آدرشوں کو صدیوں سے یہاں کے دھرتی کے سپوت ہی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک سچا ان داتا سماج کو جوڑتا ہے ، سماج کو جیتاہے۔ سماج کے لئے جیتا ہے۔آپ سے ہی سماج کی ترقی ہے اور آپ ہی کی ترقی میں سماج کی ترقی ہے۔ اس لئے امرت کال میں ملک کے قراردادوں میں ہمارے ان داتا ہماری ترقی کی اہم بنیاد ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو! سنت گیانیشور جی نے ایک بہت بڑھیا بات ہم سب کو کہی ہے۔ سنت گیانیشور مہاراج نے کہا ہے۔ دری تانچے تمرجاوو،وشوسرودھرم سوریو پاہو۔ جو جے وانچھل تو تیں لاہو،پرانی جات۔ یعنی کہ دنیا سے برائیوں کا اندھیرا ختم ہو، دھرم کا ، فرض کا سورج پوری دنیا میں طلوع ہو اور ہرجاندار کی خواہش پوری ہوں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم سب کی بھکتی ، ہم سب کی کوشش سنت گیانیشور جی کے ان جذبوں کو ضرور ثابت کریں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں پھر ایک بار سبھی سنتوں کو نمن کرتے ہوئے وٹھوبا کے چرنوں میں نمن کرتے ہوئے آپ تمام لوگوں کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جے جے رام کرشن ہری جے رام کرشن ہری,পন্ধাৰপুৰত ৰাষ্ট্ৰীয় ঘাইপথ সম্পৰ্কীয় এলানি প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰদান কৰা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%AA%DA%BE-%DB%8C%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے رتھ یاترا کے موقع پر عوام کو مبارکبادپیش کی ہے۔وزیراعظم جناب مودی نے حالیہ من کی بات میں ہندوستانی ثقافت میں یاترا کی اہمیت پر اظہار کئے گئے اپنے خیالات کا ایک ویڈیو بھی شیئر کیا ۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ‘‘ رتھ یاترا کے خصوصی دن پر مبارکباد ۔ ہم بھگوان جگن ناتھ کی مستقل مہربانیوں کے لئے دعاگو ہیں۔ہماری اچھی صحت اور خوشیوں کے لئے ان کی مہربانی قائم رہے ۔ حالیہ # من کی بات میں ہماری ثقافت میں رتھ یاترا اور یاترا کی اہمیت کے بارے میں ، میں نے جو کہا تھا اسے شئیر کررہا ہوں۔’’,ৰথযাত্ৰা উপলক্ষে জনসাধাৰণলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভকামনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D8%B4%D8%B1%D8%A7%DA%A9%D8%AA-%D9%81%D9%88%D8%B1%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%BF/,نئی دہلی، 12دسمبر / اسٹیج پر تشریف فرما معزز شخصیات ، بھارت اور غیر ممالک سے آئے ہوئے مندوبین ، خواتین و حضرات ، نمستے پارٹنر فورم ، 2018 ء میں دنیا بھر سے آئے تمام مندوبین کا دِلی خیر مقدم ہے ۔ صرف شراکت داری سے ہم اپنے اہداف کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ شہریوں کے مابین شراکت داری ، برادریوں کے مابین شراکت داری ، ممالک کے مابین شراکت داری ہمہ گیر ترقی ایجنڈا اس کی جھلک ہے ۔ ملک متحدہ کوششوں سے آگے بڑھ چکے ہیں ۔ وہ تمام برادیوں کو با اختیار بنانے ، صحت اور تعلیم میں سدھار کرنے ، ناداری کے خاتمے ، اقتصادی ترقی میں تیزی لانے اور آخر میں کسی کو بھی پسماندہ نہ رہنے دینے کے لئے پابند ِ عہد ہیں ۔ ماں کی صحت سے بچوں کی صحت کا تعین ہوتا ہے اور بچوں کی صحت سے آنے والے کل کی صحت کا تعین ہوتا ہے ۔ ہم یہاں صحت میں سدھار کرنے اور ماؤں اور بچوں کی حفظانِ صحت میں ترقی لانے کے ذرائع پر گفت و شنید کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔ ہماری گفت و شنید کے نتائج سے ہمارے آنے والے کل پر گہرا اثر پڑے گا ۔ پارٹنر فورم کا ویژن بھارت کے پوری دنیا ایک کنبہ ہے ، کے نظریے سے مماثل ہے ۔ یہ میری حکومت کے اصول ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس ’ کے بھی مطابق ہے ، جس کا مطلب شمولیت پر مبنی ترقی کے لئے اجتماعی کوشش اور شراکت داری ہے ۔ زچہ اور بچہ نیز اطفال ترقیات کے لئے شراکت داری ایک منفرد اور موثر اسٹیج ہے ۔ ہم صرف بہتر صحت کی بات نہیں کرتے ، ہم تیز رفتار ترقی کے لئے بھی بات کرتے ہیں ۔ جہاں پوری دنیا تیز ترقی کے نئے نئے طریقے تلاش رہی ہے ، وہیں اس کام کو کرنے کا سب سے اچھا طریقہ خواتین کے لئے بہتر صحت کو یقینی بنانا ہے ۔ اس سمت میں گذشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے بہت پیش رفت حاصل کی ہے ۔ اس کے باوجود ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ بڑے بجٹ سے بہتر نتیجوں تک اور اندازِ فکر میں تبدیلی سے کڑی نگرانی تک بہت کچھ کیا جانا ہے ۔ بھارت کی داستان امیدوں والی ہے ۔ امید ہے کہ رکاوٹیں دور ہوں گی ۔ امید ہے کہ برتاؤ میں تبدیلی لائی جا سکے گی ۔ امید ہے کہ تیز رفتار ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ جب الفی ترقیات اہداف پر اتفاق رائے قائم ہوا تھا ، اُس وقت بھارت میں خواتین اور بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ تھی ۔ لگاتار مصروفِ عمل رہتے ہوئے گذشتہ کچھ برسوں کے دوران شرح اموات میں تیزی سے آنے والی کمی کی قوت پر بھارت زچہ اور بچوں کی صحت کے لئے ایس ڈی جی اہداف کو حاصل کرنے کی سمت میں چل پڑھا تھا ۔ یہ 2030 ء کی منظور شدہ تاریخ سے بہت آگے ہے ۔ بھارت اُن پہلے ممالک میں شامل ہے ، جو نو خیزی کی عمر پر خصوصی توجہ دینے کی بات کہتے ہیں اور نو خیزوں کے لئے جامع صحتی ترقیات اور فروغ نیز روک تھام پروگرام نافذ کرتے ہیں ۔ ہماری کوششوں سے یہ یقینی ہو سکا ہے کہ 2015 ء میں اپنائی جانے والی خواتین ، بچوں اور نو خیزوں کی صحت سے متعلق عالمی حکمت عملی میں اُن کی شناخت قائم ہو سکے ۔ مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی ہے کہ اس اسٹیج کے اہتمام کے دوران لاطینی امریکہ ، کیربی یارڈ خطے اور بھارت عالمی حکمت عملی کو اپنانے کے سلسلے میں اپنی جانب سے پیشکش کر رہے ہیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس طرح کے تال میل سے یکساں حکمت عملیاں وضع کرنے کے لئے دیگر ممالک اور علاقوں کو بھی ترغیب حاصل ہو گی ۔ دوستو ، ہمارے مذہبی صحائف کہتے ہیں ‘ جہاں خواتین کی پرستش ہوتی ہے ، وہاں دیوتا قیام کرتے ہیں ’ ۔ یعنی جہاں خواتین کا احترام ہوتا ہے وہاں دیوتاؤں کا قیام ہوتا ہے ۔ میرا پکا یقین ہے کہ ایک ملک تبھی خوشحال ہوتا ہے ، جب وہاں کے عوام خصوصاً خواتین اور بچے تعلیم یافتہ ہوں اور وہ آزاد ، با اختیار اور صحت مند زندگی گزارنے پر قادر ہوں ۔ مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی ہے کہ بھارت کے ٹیکا کرن پروگرام کو اس فورم میں بھارت کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ موضوع میرے دل کے بہت قریب ہے ۔ اندر دھنش مشن کے تحت گذشتہ تین برسوں کے دوران ہم 32.8 ملین بچوں اور 8.4 ملین حاملہ خواتین تک رسائی حاصل کر سکے ہیں ۔ ہم نے عوامی ٹیکہ کرن کے تحت ٹیکوں کی تعداد 7 سے بڑھا کر 12 کر دی ہے ۔ ہمارے ٹیکوں کے دائرے میں نمونیاں اور ڈائریا جیسے مہلک مرض بھی شامل ہیں ۔ دوستو ، جب 2014 ء میں میری حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا ، اُس وقت ہر سال زچگی کے دوران 44.000 سے زائد ماؤں کو ہم کھو دیتے تھے۔ ہم نے حمل کے دوران خواتین کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے لئے پردھان منتری سورکشِت ماترتو ابھیان کی شروعات کی تھی ۔ ہم نے اپنے ڈاکٹروں سے اصرار کیا تھا کہ وہ اس مہم کے لئے ہر ماہ ایک دن خدمت فراہم کرنے کا عہد کریں ۔ اس مہم کے تحت 16 ملین ما قبل زچگی جانچ کی گئیں ۔ ملک میں 25 ملین نو زائیدہ بچے ہیں ۔ ہمارے یہاں نو زائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کا شاندار نظام موجود ہے ، جو 794 ترقی یافتہ خصوصی نو زائیدہ بچوں سے متعلق سہولتوں کی اکائیوں کی ذریعے 10 لاکھ سے زائد نو زائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ یہ ہمارا ایک کامیاب نظام ہے ۔ ہماری اس پہل سے 4 برس قبل کے مقابلے میں یومیہ 5 سال سے کم عمر والے 840 اضافی اطفال کی زندگی کی حفاظت ہوتی ہے ۔ بچوں کے لئے تغذیہ سے بھر پور خوراک کے مسئلے کا حل تغذیہ مہم کے ذریعے نکالا جا رہا ہے ۔ اس میں مختلف النوع اسکیمیں شامل ہیں، جو بھارت کو سوئے تغذیہ سے مبرا بنانے کے یکساں ہدف کی سمت ��یں کام کر ہی ہیں ۔ بچوں کی زندگی کی عمدگی میں اصلاح لانے کے لئے ہم قومی اطفال صحت پروگرام لاگو کر رہے ہیں ۔ گذشتہ چار برسوں میں اس سے 800 ملین بچوں کی صحت کی جانچ ہوئی ہے اور 20 ملین بچے علاج کے لئے مفت ریفر کئے گئے ہیں ۔ علاج و معالجے پر کنبوں کے ذریعے اپنے پاس سے زائد اخراجات کئے جانے کی تشویش ہمیشہ ہمیں ستاتی رہی ۔ اس لئے ہم نے آیوشمان اسکیم کا آغاز کیا ۔ آیوشمان بھارت کی دوہری حکمت عملی ہے ۔ پہلی ، اس میں معاشرے کے نزدیک وسیع ابتدائی صحت سہولتوں کی تجویز شامل ہے ، جس میں صحت مند اندازِ حیات اور صحت اور چاق و چوبند رہنے کے مراکز کے توسط سے یوگ شامل ہے ۔ صحت اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے فِٹ انڈیا اور اِیٹ رائٹ مہم بھی ہماری حکمتِ عملی کے اہم عناصر ہیں ۔ اس سے معاشرے کو تناؤ سے مبرا ، ذیابیطس اور پستانوں کے کینسر ، بچہ دانی اور منہ کے کینسر سمیت عام امراض کی مفت جانچ اور معالجے میں مدد ملے گی ۔ مریض اپنے گھر کے نزدیک مفت دوائیں اور معالجاتی امداد حاصل کر سکیں گے ۔ ہماری اسکیم 2022 ء تک ایسے 150 ہزار صحت اور چاق و چوبند مراکز شروع کرنے کی ہے ۔ آیوشمان بھارت اسکیم کا دوسرا عنصر پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا ہے ۔ اس کے تحت ہر سال فی کنبہ 5 لاکھ روپئے کی غیر نقد صحت انشورنس کی سہولت کی تجویز ہے ۔ اس کے تحت سب سے غریب اور کمزور طبقے کے 500 ملین شہریوں کو زیر احاطہ لایا جائےگا ۔ یہ تعداد کنیڈا ، میکسیکو اور امریکہ کی مجموعی آبادی کے تقریباً برابر ہے ۔ ہم نے اس اسکیم کے آغاز کے 10 ہفتوں کے اندر مفت معالجہ خدمات فراہم کرنے کے لئے 700 کروڑ روپئے 5 لاکھ کنبوں کو فراہم کئے ہیں ۔ آج عالمی آفاقی صحت احاطہ کا دن ہے ۔ اس موقع پر میں پھر کہتا ہوں کہ ہم سبھی کے لئے وسیع صحتی احاطہ فراہم کرنے کی سمت میں عہد بند ہیں ۔ ہمارے پاس ایک ملین درج رجسٹر سماجی صحتی کارکنان یا آشا کارکنان اور 2.32 لاکھ آنگن واڑی نرسیں ہیں ، جو ہراول دستے کی خواتین صحت کارکنان کی فورس ہے ۔ یہ ہمارے پروگرام کی قوت ہے ۔ بھارت ایک وسیع ملک ہے ۔ کچھ ریاستوں اور ضلعوں نے ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ کارکردگی کا مظہر کیا ہے ۔ دیگر کو اب بھی یہ کام کرکے دکھانا ہے ۔ میں نے اپنے افسروں کو 117 توقعاتی اضلاع کی شناخت کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ۔ ایسے ہر ایک ضلع کو ایک ٹیم دستیاب کرائی گئی ہے ، جو تعلیم ، پانی اور صفائی ، دیہی ترقیات کے شعبے میں صحت اور تغذیہ سے بھر پور خوراک کو اعلیٰ ترین ترجیح دیتے ہوئے کام کرے گی ۔ ہم دیگر محکموں کے توسط سے خواتین پر مرکوز اسکیموں پر کام کر رہے ہیں ۔ 2015 ء تک بھارت کی نصف سے زیادہ خواتین کے پاس رسوئی کے لئے صاف ستھرا ایندھن نہیں تھا ۔ ہم نے اجولا یوجنا کے توسط سے اس میں تبدیلی کی ۔ اجولا یوجنا نے 58 ملین خواتین کو صاف ستھرے باورچی خانے کا متبادل دستیاب کرایا ۔ ہم جنگی پیمانے پر سووچھ بھارت مشن چلا رہے ہیں تاکہ 2019 ء تک کھلے میں رفع حاجت سے مبرا ہو جائے ۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی احاطہ 39 فی صد سے بڑھ کر 95 فی صد تک ہو گیا ہے ۔ ہم سبھی یہ کہاوت جانتے ہیں کہ اگر آپ ایک مرد کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں تو محض ایک فرد کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں ۔ لیکن اگر آپ ایک خاتون کو تعلیم یافتہ کرتے ہیں تو آپ پورے کنبے کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں ۔ ہم نے بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کی شکل میں اسے اپنایا ہے ۔ اس پروگرام کی توجہ لڑکی پر اور اسے سب سے اچھی زندگی اور تعلیم فراہم کرنے پر مرکوز ہے ۔ اس کے علاوہ ہم نے لڑکیوں کے لئے جمع بچت اسکیم – سُکنیا سمردھی یوجنا – شروع کی ہے ۔ اس اسکیم کے تحت 12.6 ملین کھاتے کھولے گئے ہیں اور یہ اسکیم لڑکی کا مستقبل یقینی بنانے میں ہماری مدد کر رہی ہے ۔ ہم نے پردھان منتری ماترتو وندنا یوجنا بھی شروع کی ہے ۔ اس اسکیم سے 50 لاکھ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو فائدہ حاصل ہو گا ۔ یہ اسکیم تنخواہ میں ہونے والے خسارے ، بچے کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بہتر خوراک اور وافر آرام کے لئے اُن کے کھاتوں میں براہ راست فائدہ منتقلی کے توسط سے رقم فراہم کرنے کی اہل ہے ۔ ہم نے زچگی سے متعلق رخصت کو پہلے کے 12 ہفتوں سے بڑھا کر 26 ہفتے کر دیا ہے ۔ ہم 2025 ء تک مجموعی گھریلو پیداوار کی 2.5 فی صد رقم صحت پر خرچ بڑھانے کے لئے عہد بند ہیں ۔ یہ 100 بلین امریکی ڈالر سے زائد ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صرف 8 برسوں میں موجودہ حصے سے 345 فی صد کا اصل اضافہ ہو گا ۔ ہم لوگوں کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں گے ۔ ہر ایک پالیسی ، پروگرام اور پہل کے مرکز میں خواتین ، بچوں اور نو جوانوں کو رکھیں گے ۔ میں کامیابی کے حصول کے لئے متعدد حصص داروں کی شراکت داری کی ضرورت پر زور دینا چاہوں گا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ کارگر صحت دیکھ بھال ، خصوصاً خواتین اور بچوں کی صحت کے لئے ملی جلی کارروائی سب سے اچھا قدم ہے ۔ دوستو ، میں سمجھتا ہوں کہ اگلے دو تین دنوں میں یہ فورم پوری دنیا کی 12 کامیاب کہانیوں پر گفت و شنید کرے گا ۔ در اصل یہ مختلف ممالک کے مابین گفت و شنید کا موقع ہے ۔ یہ ایک دوسرے کے نظریات ساجھا کرنے کا موقع ہے ، جب ہم ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں ۔ بھارت ہنر مندی اور تربیتی پروگراموں ، رعایتی ادویہ کی تجویز اور ٹیکہ کرن ، علم کی منتقلی اور باہم تبادلے کے پروگراموں کے توسط سے معاون ممالک کو اُن کی ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں حمایت دینے کے لئے عہد بستہ ہے ۔ میں وزراء کے سطح کے اجلاسات کے نتائج کو سننا چاہوں گا ۔ یہ فورم ایک زندہ جاوید اسٹیج کی شکل میں ہمیں ‘ سروائیو –تھرائیو – ٹرانسفارم ’ کے تئیں استحکام فراہم کرے گا ۔ ہمارے پروگرام طے ہیں اور ہم بیشتر طور پر پوری لگن کے ساتھ سبھی کے لئے صحتی سہولت فراہم کرنے کے لئے کام کرتے رہیں گے ۔ بھارت سبھی معاونین کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہے گا ۔ یہاں میں آپ سبھی سے اصرار کرتا ہوں کہ اسے صحیح جذبے سے اپنائیں تاکہ ہم پوری بنی نوع انسانی کو اپنی حمایت فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔ آئیے ، ہم سب ایک ساتھ مل کر اس نیک کام کے لئے اپنے عہد کا اظہار کریں ۔ شکریہ ۔ 6205o.,নতুন দিল্লীত অনুষ্ঠিত পিএমএনচিএইচ পাৰ্টনাৰ ফ’ৰামত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D8%A8%DA%BE%DA%AF%D8%AA-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%A6-%E0%A6%AD%E0%A6%97%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے شہید بھگت سنگھ کو ان کے یوم پیدائش پر سلام پیش کیا۔ جناب مودی نے شہید بھگت سنگھ کے بارے میں اپنے خیالات کا ایک ویڈیو بھی مشترک کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں جناب مودی نے کہا: ‘‘میں شہید بھگت سنگھ جی کو ان کی جینتی پر سلام پیش کرتا ہوں۔ ان کا حوصلہ ہمیں زبردست تحریک دیتا ہے۔ ہم اپنے ملک کے لئے ان کے نقش راہ کو عمل میں لانے کے پابند ہیں۔’’,জন্ম জয়ন্তীত শ্বহীদ ভগত সিঙলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%86%DB%8C%D9%85%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87/,نئی دہلی،27؍جولائی،وزیراعظم جناب نریندر مودی نے عوام الناس کو گورو پورنیما کے موقع پر مبارک باد پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گورو پورنیما کے مقدس موقع پر اہل وطن کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں ہر کس وناکس کو گورو پورنیما کی بدھائی دیتا ہوں، ہمارا سماج ایک ایسا سماج ہے جہاں اساتذہ کو ازحد احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم اپنے اساتذہ یا گوروؤں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمیں عرفان ذات یا اپنے اندر سے بہترین چیزوں کو باہر لانے کا حوصلہ دیتے ہیں۔,গুৰু পূৰ্ণিমা উপলক্ষে দেশবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D9%88%D9%B9%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D9%88%D8%B1%D9%84%DA%88-%DA%A9%D9%86%D9%88%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AC-2/,دنیا بھر کے روٹیرینز کا وسیع خاندان، پیارے دوستو، نمستے! مجھے روٹری انٹرنیشنل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ اس پیمانے کا ہر روٹری اجتماع ایک چھوٹی عالمی اسمبلی کی طرح ہوتا ہے۔ اس اجتماع میں تنوع اور حرکت پذیری ہے۔ آپ تمام روٹیرینز اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہیں۔ پھر بھی، آپ نے خود کو صرف کام تک محدود نہیں رکھا۔ ہمارے سیارے کو بہتر بنانے کی آپ کی خواہش نے آپ کو اس پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے۔ یہ کامیابی اور خدمت کا حقیقی امتزاج ہے۔ دوستو، اس ادارے کے دو اہم اصول ہیں۔ پہلا ہے- اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خدمت۔ دوسرا ہے- سب سے زیادہ نفع وہ کماتا ہے جو بہترین خدمت کرتا ہے۔ یہ پوری انسانیت کی فلاح کے لیے اہم اصول ہیں۔ ہزاروں سال پہلے ہمارے سنتوں اور بزرگوں نے ہمیں ایک طاقتور دعا دی تھی۔ ‘سروے بھونتو سکھینہ ’ ‘سروے سنتو نرامیہ’ اس کا مطلب ہے کہ ہر جاندار خوش رہے اور ہر جاندار صحت مند زندگی گزارے۔ ہمارے کلچر میں یہ بھی کہا جاتا ہے۔ ‘‘پروپ کارائے ستام وبھوتیہ’’ اس کا مطلب ہے، عظیم روحیں کام کرتی ہیں اور صرف دوسروں کی بھلائی کے لیے زندہ رہتی ہیں۔ ہم بدھ اور مہاتما گاندھی کی سرزمین ہیں جنہوں نے عملی طور پر دکھایا کہ دوسروں کے لیے جینا کیا ہوتاہے۔ دوستو، ہم سب ایک دوسرے پر منحصر، ایک دوسرے سے وابستہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی دنیا میں موجود ہیں۔ سوامی وویکانند نے اس کا بہت اچھا اظہار کیا جب انہوں نے کہا اور جس کااقتباس میں نقل کررہا ہوں۔ ‘‘اس کائنات کا ایک زرہ پوری دنیا کو اپنے ساتھ لیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا’’۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ افراد، تنظیمیں اور حکومتیں مل کر ہمارے سیارے کو مزید خوشحال اور پائیدار بنانے کے لیے کام کریں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ روٹری انٹرنیشنل کئی ایسے کاز پر سخت محنت کر رہا ہے جن کا زمین پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ماحولیاتی تحفظ کو لے لیں۔ پائیدار ترقی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کے ہمارے صدیوں پرانے اخلاق سے متاثر ہو کر، 1.4 بلین بھارتی ہماری زمین کو صاف ستھرا اور سرسبز بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی بھارت میں ایک اُبھرتا ہوا شعبہ ہے۔ عالمی سطح پر بھارت نے بین الاقوامی شمسی اتحاد کی تشکیل میں قائدانہ کردارادا کیا ہے۔ بھارت – ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ کی سمت میں کام کر رہا ہے۔ حال ہی میں گلاسگو میں منعقدہ کوپ- 26 سربراہی اجلاس میں، میں نے LIFE یعنی طرز زندگی برائے ماحولیات کے بارے میں بات کی تھی۔ اس سے مراد ہر وہ انسان ہے جو ماحولیاتی طور پر باشعور زندگی گزار رہا ہے۔ 2070 تک نیٹ زیرو کے تئیں بھارت کی عہدبستگی کی عالمی برادری نے بھی تعریف کی۔ دوستو، مجھے خوشی ہے کہ روٹری انٹرنیشنل پینے کے صاف پانی،صفائی اور حفظان صحت کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل ہے۔بھارت میں، ہم نے 2014 میں سووچھ بھارت مشن یا کلین انڈیا موومنٹ شروع کی۔ پانچ سالوں میں ہم نے صفائی کا تقریباً پورا احاطہ کیا ہے ۔ اس سے غریبوں اور خاص طور پر بھارت کی خواتین کو فائدہ ہوا۔ اس وقت بھارت نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی ملنے کا 75 واں سال منارہا ہے۔ پانی بچانے کے لیے ایک نئی اجتماعی تحریک نے ایک شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ تحریک پانی کے تحفظ کے ہمارے پرانے طریقوں سے متاثر ہے جس میں نئے حل کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔ دوستو، آپ کے دیگر اہم کازمیں سے ایک یعنی مقامی معیشتوں کا فروغ کووڈ کے بعد کی دنیا میں نہایت موزوں ہے۔ بھارت میں آتم نر بھر بھارت تحریک ایک شکل اختیار کر رہی ہے۔ اس کا مقصد بھارت کو خود کفیل بنانا اور عالمی خوشحالی میں بھی حصہ ڈالنا ہے۔ مجھے یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ بھارت دنیا کے سب سے بڑے اور تیزی سے بڑھنے والے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں شامل ہے۔ ان میں سے بہت سے اسٹارٹ اپس عالمی چیلنجوں کا حل فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوستو، ہم بھارت میں عالمی بہترین طور طریقوں کو سیکھنے اور دوسروں کے ساتھ اپنے طور طریقوں کااشتراک کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔ بھارت انسانی آبادی کے ساتویں حصے کامسکن ہے۔ ہمارا پیمانہ ایسا ہے کہ بھارت کی کسی بھی کامیابی کا دنیا پر مثبت اثر پڑے گا۔ مجھے کووڈ- 19 ٹیکہ کاری کی مثال پیش کرنے دیں۔ جب صدی کی سب سے بڑی وبا کووڈ- 19 آئی تو لوگوں کا خیال تھا کہ بھارت، اپنی بڑی آبادی کے سبب اس وبائی مرض کے خلاف جنگ میں اتنا کامیاب نہیں ہوپائیگا۔تاہم بھارتی عوام نے انہیں غلط ثابت کردیا۔ بھارت نے اپنے لوگوں کو تقریباً 2 بلین خوراکیں دی ہیں۔ اسی طرح بھارت 2025 تک ٹی بی کے خاتمے کے لیے کام کررہا ہے۔ یہ 2030 کے عالمی ہدف سے 5 سال پہلے کی بات ہے۔ میں نے صرف چند مثالیں دی ہیں۔ میں روٹری خاندان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ زمینی سطح پر ان کوششوں میں ساتھ دیں۔ دوستو، اس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں میں پورے روٹری خاندان سے ایک درخواست کروں گا۔ تقریباً دو ہفتوں میں، 21 جون کو دنیا میں یوگا کا عالمی دن منایا جائے گا۔ یوگا، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، ذہنی، جسمانی، فکری اور روحانی تندرستی کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ کیا روٹری خاندان پوری دنیا میں بڑی تعداد میں یوم یوگا منا سکتا ہے؟ کیا روٹری خاندان بھی اپنے اراکین میں یوگا کی باقاعدہ مشق کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے؟ آپ ایسا کرنے کے فائدے دیکھیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس اجتماع سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ پوری روٹری انٹرنیشنل فیملی کے لیے میری نیک خواہشات۔ شکریہ! بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ م م۔ ع ن۔,ৰ’টাৰী আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় বিশ্ব সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C-%D9%81%DB%8C%DA%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج روسی فیڈریشن کے صدر عزت مآب ولادیمیر پوتن کے ساتھ فون پر بات کی۔ دونوں رہنماوں نے یوکرین کی پیداہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر پوتن نےیوکرین اور روس کی ٹیموں کے درمیان بات چیت کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم مودی نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری مذاکرات کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے تنازعہ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ صدر پوتن اور صدر زیلنسکی کے درمیان براہ راست بات چیت امن کے لئے جاری کوششوں کے لئے بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم جناب مودی نے سومی میں باقی بھارتی طلبا کی حفاظت کے لئے گہری تشویش ظاہر کی ۔ صدر پوتن نے وزیراعظم کو بھارتی طلبا سمیت شہریوں کے انخلا کی سہولت کے لئے انسانی ہمدردی کے تحت راہداری سے متعلق اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔,ৰাছিয়ান ফেডাৰেচনৰ সভাপতি মহামান্য ভ্লাদিমিৰ পুটিনৰ সৈতে বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%B9%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%D8%AD%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 18 جولائی 2022 کو شام 4:30 بجے ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹرواقع نئی دہلی میں این آئی آئی او (بحری اختراعی اور درونِ ملک تیاری کی تنظیم) کے سیمینار 'سوولمبن' (خود انحصاری) سے خطاب کریں گے۔ آتم نربھر بھارت کا ایک اہم ستون دفاعی شعبے میں خود انحصاری حاصل کر رہا ہے۔اس کوشش کو آگے بڑھانے کے لئے، پروگرام کے دوران، وزیر اعظم 'اسپرنٹ چیلنجز' کی نقاب کشائی کریں گے جس کا مقصد ہندوستانی بحریہ میں مقامی ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔ 'آزادی کے امرت مہوتسو' کے ایک حصے کے طور پر این آئی آئی او، دفاعی اختراعی تنظیم (ڈی آئی او) کے ساتھ مل کر، ہندوستانی بحریہ میں کم از کم 75 نئی مقامی ٹیکنالوجیز / مصنوعات کو شامل کرنا ہے۔ اس باہمی تعاون کے منصوبے کا نام اسپرنٹ (آئی ڈی ای ایکس، این آئی آئی او اور ٹی ڈی اے سی کے ذریعے تحقیق و ترقی میں پول والٹنگ کی معاونت) ہے۔ سیمینار کا مقصد دفاعی شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی صنعت اور تعلیمی اداروں کو شاملِ عمل کرنا ہے۔ دو روزہ سیمینار (18-19 جولائی) صنعت، متعلقہ تعلیمی برادری، خدمات فراہم کرنے والے اداروں اور حکومت کے رہنماؤں کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا تاکہ وہ دفاعی شعبے کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر یکجا ہوں اور تجاویز پیش کریں۔ اجلاس اختراعی عمل، درونِ ملک تیاریوں، فوجی ساز و سامان اور ہوابازی کے لئے وقف ہوں گے۔ سیمینار کا دوسرا دن حکومت کے (خطے میں سب کے لئے سلامتی اور ترقی) کے وژن ساگر کے لحاظ سے بحر ہند کے علاقے تک رسائی میں گزرے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৮ জুলাইত এনআইআইঅ’ আলোচনা চক্ৰ ‘স্বাৱলম্বন’ সম্বোধন কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%DB%81%D9%85-%D9%88%D8%B7%D9%86%D9%88%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9B%E0%A6%BE-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دیوالی کے موقع پر ہم وطنوں کو مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ روشنی کا یہ تہوار سبھی کی زندگی میں خوشیاں اور صحت و تندرستی لے کر آئے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’آپ سبھی کو دیوالی کی بے شمار مبارکباد۔ دیوالی کا تعلق روشنی اور چمک سے ہے۔ یہ مقدس تہوار ہم سبھی کی زندگی میں خوشی اور فلاح و بہبود کے جذبے کو آگے بڑھائے۔ مجھے امید ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ یہ آپ کی ایک شاندار دیوالی ہوگی۔‘‘,দীপাৱলীৰ শুভেচ্ছা জনালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84-%D8%B1%D8%AA%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%88%D8%8C%D8%A7%D8%A8-%D9%85%DB%8C%D8%AC%D8%B1-%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DA%86%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%81%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%95-%E0%A6%8F%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%B0/,"نئی دہلی، 06؍اگست2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ انہیں باشندگان ملک کی جانب سے کھیل رتن ایوارڈ کو میجر دھیان چند کے نام سے منسوب کرنے کی بہت سی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ، کھیل رتن ایوارڈ، اب ' میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ' کہلائے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ میجر دھیان چند، ہندوستان کے صف اول کے کھلاڑیوں میں شامل تھے جو ہندوستان کے لیے اعزاز اور فخر کا باعث بنے۔ یہ ہر لحاظ سے مناسب ہوگا کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا کھیل اعزاز ان کے نام سے موسوم کیا جائے۔ سلسلہ وار ٹویٹس میں ، وزیر اعظم نے کہا: ""مردوں اور عورتوں کی ہاکی ٹیم کی غیر معمولی کارکردگی نے ہماری پوری قوم کے تخیل کو نئی پرواز دی ہے اور ان میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پروان چڑھایا ہے۔ ان ہونہار کھلاڑیوں نے ہاکی کے بارے میں ایک نئی دلچسپی پیدا کی ہے جو ہندوستان کے طول و عرض میں مثبت انداز میں ابھر رہی ہے۔ یہ آنے والے وقتوں کے لیے ایک بہت ہی مثبت علامت ہے۔ مجھے ملک بھر کے شہریوں کی طرف سے کھیل رتن ایوارڈ کو میجر دھیان چند کے نام سے منسوب کرنے کی بہت سی درخواستیں مل رہی ہیں۔ میں اس مثبت آراء اور خیالات کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ، کھیل رتن ایوارڈ، اب میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ کہلائے گا۔'' جئے ہند! میجر دھیان چند ہندوستان کے صف اول کے کھلاڑیوں میں شامل تھے جو ہندوستان کے لیے اعزاز اور فخر کا باعث بنے۔ یہ انتہائی مناسب ہے کہ ہماری قوم کا سب سے بڑا کھیل اعزاز ان کے نام پر رکھا جائے گا۔ اولمپک کھیلوں میں ہندوستانی کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی سے ہم سب انتہائی مسرور ہیں۔خاص طور سے ہاکی میں ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں نے جس طرح کی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ہے، جیت کے تئیں جس طرح کی وارفتگی اورجوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے، وہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیےبہت زیادہ حوصلہ افزاہے۔ ملک کو فخر کرنے کا موقع فراہم کرنے والے لمحات کے درمیان کئی ہم وطنوں کی یہ بھی درخواست آئی ہے کہ کھیل رتن ایوارڈ کا نام میجر دھیان چند جی کے نام سے وقف کیا جائے۔ لوگوں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے اب اس کا نام بدل کر میجر دھیان چند کھیل رتن ایوارڈ رکھا جا رہا ہے۔ جئے ہند!",খেল ৰত্ন বঁটাক এতিয়াৰে পৰা মেজৰ ধ্যান চাঁদ খেল ৰত্ন বঁটা হিচাপে জনা যাবঃ প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D8%B1%D9%88%D9%85%D9%86%DB%8C-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%A8%D9%86%D8%AF%DA%BE%DA%A9-%DA%A9%D9%85%DB%8C%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D9%81%D8%AF-%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A4%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%A3-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97/,نئی دہلی، 08 جون ۔شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی ) کے ایک وفد نے فوڈ پراسیسنگ کی صنعتوں کی وزیر محترمہ ہر سمرن کور بادل کی قیادت میں آج وزیراعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ اس موقع پر ایس جی پی سی کے وفد نے مرکزی سرکار کی ’’سیوا بھوج یوجنا‘‘ کے لئے وزیر اعظم نریندرمودی کا شکریہ ادا کیا ۔ اس اسکیم کے تحت گوردواروں سمیت فلاحی مذہبی اداروں کے ذریعہ مفت فراہم کرائے جانے والے لنگر اور پرشاد کی اشیا پر سی جی ایس ٹی اورآئی جی ایس ٹی کے محصولات ادا کئے جائیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی وفد نے گناّ کسانوں کے بار کو کم کرنے کے لئے مرکزی سرکار کے ذرریعہ کئے گئے اقدام کے لئے بھی وزاعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,খাদ্য প্ৰস্তুতকৰণ উদ্যোগ মন্ত্ৰী নেতৃত্বত এছজিপিচিৰ প্ৰতিনিধি দলে সাক্ষাৎ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%DA%AF%D9%86%D9%B9%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A6%97/,نئی دہلی،10/ فروری وزیر اعظم نریندر مودی نے آندھرا پردیش میں گنٹور کا دورہ کیا اور آج تین اہم منصوبوں کا افتتاح کیا۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے گورنر ای. ایس. ایل نرسمہن اور صنعت و تجارت اور شہری ہوا بازی کے مرکزی وزیر جناب سریش پربھو بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملک کی توانائی سکیورٹی کے فروغ کے پیش نظر وزیر اعظم نے انڈین اسٹرٹیجک پیٹرولیم ریزرو لمیٹڈ(آئی ایس پی آر ایل) کے 1.33 ایم ایم ٹی وشاکھاپٹنم اسٹرٹیجک پیٹرولیم ریزرو (ایس پی آر) سہولیات کو قوم کے نام وقف کیا۔ اس پروجیکٹ پر 1125 کروڑ روپئے کی لاگت آئی ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا زیر زمین اسٹوریج کمپاٹمنٹ ہے۔ انھوں نے کرشنا پٹنم میں بھارت پیٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (بی پی سی ایل) ساحلی تنصیبی پروجیکٹ کے قیام کے لیے سنگ بنیاد رکھا۔ 100 ایکڑ میں پھیلی اس پروجیکٹ کی لاگت 580 کروڑ روپئے کا تخمینہ ہے۔ یہ پروجیکٹ نومبر 2020 تک شروع ہوجائے گا۔ پوری طرح خودکار اور جدید سہولیات سے لیس یہ ساحلی تنصیبی پروجیکٹ آندھراپردیش میں پیٹرولیم پیداوار کی سکیورٹی کو یقینی بنائے گا۔ گیس پر مبنی معیشت کو تیزرفتاری دیتے ہوئے وزیر اعظم نے آندھراپردیش کے کرشنا گوداوری (کے جی) کے ساحلی علاقے میں واقع او این جی سی کے ایس 1 وسشٹھ ترقیاتی پروجیکٹ کو قوم کے نام وقف کیا۔ اس پروجیکٹ کی لاگت تقریباً 5700 کروڑ روپئے ہے۔ اس پروجیکٹ سے 2020 تک 10 فیصد تیل کی درآمدات میں کمی کے وزیر اعظم کے وژن کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔رض۔ را ۔ 10 – 02 – 2019),শক্তি সুৰক্ষা খণ্ডলৈ উদগনি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%86%D8%AF%DA%BE%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%9C%E0%A7%88%E0%A7%B1-%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95/,نئی دہلی،10اگست2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں حیاتیاتی ایندھن کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کیا۔ انہوں نے کسانوں، سائنسدانوں، صنعت کاروں، طلباء، سرکاری افسران اور قانون سازوں پر مشتمل ایک گونا گوں اجتماع سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حیاتیاتی ایندھن اکیسویں صدی میں ہندوستان کو نئی رفتار فراہم کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فصلوں سے پیدا کیا جانے والا ایندھن ہے جو کہ گاؤں اور شہروں، دونوں میں ہی لوگوں کی زندگیوں کو بدل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیاتیاتی ایندھن سے ایتھانول کی پیداوار کرنے کے منصوبے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب جناب اٹل بہاری واجپئی ملک کے وزیر اعظم تھے۔ 2014ء کے بعد ایتھانول کی آمیزش کے پروگرام کے لئے ایک روڈ میپ تیار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعہ کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ گزشتہ سال 4000کروڑ روپے کی مالیت کے غیر ملکی زر مبادلہ کی بچت کرنے میں مدد ملی ہے۔ اگلے چار برسوں کے دوران اس بچت کو تقریباً 12ہزار کروڑ روپے تک پہنچانے کا نشانہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت بایوماس کو بایو فیول میں منتقل کرنے کی کوشش کے تئیں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہی ہے۔ 12جدید ترین ریفائنریاں قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس عمل کے دوران بڑے پیمانے پرروزگار کے موقع پیدا ہوں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جن دھن، وندھن اور گوبردھن جیسی اسکیمیں ملک کے غریبوں، قبائلی آبادیوں اور کسانوں کی زندگیوں کو بدلنے میں تعاون فراہم کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیاتیاتی ایندھن کی تبدیلی کی صلاحیتوں اور امکانات کو صرف طلباء ، اساتذہ، سائنسدانوں، صنعت کاروں اور عوام کی شراکت داری کے ذریعہ ہی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اجتماع میں موجود ہر ایک فرد سے زور دے کر کہا کہ وہ حیاتیاتی ایندھن کے فوائد کو دیہی علاقوں تک پہنچانے میں تعاون کریں۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اس موقع پر ‘‘حیاتیاتی ایندھن سے متعلق قومی پالیسی 2018’’پر ایک کتابچہ کا بھی اجرا ءکیا۔۔ علاوہ ازیں انہوں نے ‘‘پرو ایکٹیو اینڈ ریسپانسیوفیسیلئیشن بائی انٹریکٹیو اینڈ ورچوس انوارنمنٹل سنگل ونڈو ہب’’ (پریویش) کو بھی لانچ کیا۔ م ن۔م ع۔ن ع,বিশ্ব জৈৱ ইন্ধন দিৱস উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%86%D8%B1-%D8%AC%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A6%BE/,نئی دہلی۔08 جولائی وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے میگھالیہ کے سابق گورنر جناب ایم ایم جیکب کی رحلت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘ میگھالیہ کے سابق گورنر جناب ایم ایم جیکب کے انتقال سے دکھ ہوا ہے ۔ انہوں نے رکن پارلیمنٹ، وزیر اور گورنر کی حیثیت سے قوم کی نمایاں خدمات کی ہیں۔ انہوں نے کیرالہ کی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ۔میں رنج و غم کی اس گھڑی میں ان کے خاندان اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,মেঘালয়ৰ প্ৰাক্তন ৰাজ্যপাল শ্ৰীযুত এম.এম. জেকবৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DA%88%D9%88%DA%86%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-25%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D8%AA%DA%BE-%D9%81%DB%8C%D8%B3%D9%B9%D9%88%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A7%AB-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 12/جنوری 2022 ۔ پڈوچیری کے لیفٹیننٹ گورنر تمل سائی جی، وزیر اعلیٰ این رنگا سامی جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نارائن رانے جی، جناب انوراگ ٹھاکر جی، جناب نشیت پرمانک جی، جناب بھانو پرتاپ سنگھ ورما جی، پڈوچیری حکومت کے سینئر وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، ملک کی دیگر ریاستوں کے وزراء اور میرے نوجوان ساتھیو! ونکم! آپ سبھی کو راشٹریہ یوا دیوس کی بہت بہت مبارک باد! بھارت ماں کے عظیم سپوت سوامی وویکانند جی کو ان کی جینتی پر میں سلام پیش کرتا ہوں۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ان کا یوم پیدائش اور زیادہ باعث تحریک ہوگیا ہے۔ یہ سال دو وجہوں سے بھی اور خاص ہوگیا ہے۔ ہم اسی سال جناب اربندو کا 150واں یوم پیدائش منارہے ہیں اور اس سال مہاکوی سبرامنیہ بھارتی جی کی بھی 100ویں برسی ہے۔ ان دونوں منیشیوں کا پڈوچیری سے خاص رشتہ رہا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے تاریخی اور روحانی سفر کے شراکت دار رہے ہیں۔ لہٰذا پڈوچیری میں منعقد کیا جارہا نیشنل یوتھ فیسٹول مادر ہند کے ان عظیم سپوتوں کے نام منسوب ہے۔ دوستو، آج پڈوچیری میں ایم ایس ایم ای ٹیکنالوجی سینٹر کا افتتاح کیا جارہا ہے۔ آتم نربھر بھارت کی تعمیر میں ایم ایس ایم ای شعبے کا بہت اہم رول ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ہمارے ایم ایس ایم ای اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں جو آج دنیا کو بدل رہی ہے۔ اس لئے ملک میں آج ٹیکنالوجی سینٹر سسٹمز پروگرام کی بہت بڑی مہم چلائی جارہی ہے۔ پڈوچیری میں بنا ایم ایس ایم ای ٹیکنالوجی سینٹر اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ ساتھیو! آج پڈوچیری کے نوجوانوں کو کامراج جی کے نام پر منی منڈپپم، ایک طرح کی جلسہ گاہ، کثیر مقاصد میں استعمال ہونے والا ایک اور تحفہ مل رہا ہے۔ یہ آڈیٹوریم کامراج جی کے تعاون کی یاد تو دلائے گا ہی، ہمارے نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا ایک پلیٹ فارم دے گا۔ ساتھیو! آج دنیا بھارت کو ایک امید کی نظر سے، ایک اعتماد کی نظر سے دیکھتی ہے، کیونکہ بھارت کی آبادی بھی جوان ہے اور بھارت کا من بھی جوان ہے۔ بھارت اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی جوان ہے، بھارت اپنے خوابوں کے اعتبار سے بھی جوان ہے، بھارت اپنی فکر کے اعتبار سے بھی جوان ہے، بھارت اپنے شعور کے اعتبار سے بھی جوان ہے۔ بھارت جوان ہے کیونکہ بھارت کے نقطہ نظر نے ہمیشہ جدیدیت کو قبول کیا ہے۔ بھارت کے فلسفے نے تبدیلی کو گلے لگایا ہے۔ بھارت تو وہ ہے جس کی قدامت میں بھی جدت ہے۔ ہمارے ہزاروں سال پرانے ویدوں نے کہا ہے: ’’اپی یتھا یوانو متستھا، نو وِشوہ جگتہ، ابھی پتوے منیشا‘‘ یعنی یہ نوجوان ہی ہیں جو دنیا میں سکھ سے تحفظ تک کی ترسیل کرتے ہیں۔ نوجوان ہی ہمارے بھارت کے لئے، ہمارے قوم کے لئے سکھ اور سرکشا یعنی تحفظ کے راست�� ضرور بنائیں۔ اسی لئے بھارت نے جن جن سے جگ تک یوگ کی یاترا ہو، ریوولیوشن یا ایوولیوشن ہو، راہ سیوا کی ہو یا سمرپن (سپردگی) کی، بات پریورتن کی ہو یا پراکرم کی، راہ سہیوگ کی ہو یا سدھار کی، بات جڑوں سے جڑنے کی ہو یا دنیا میں توسیع کی، ایسی کوئی راہ نہیں جس میں ہمارے ملک کے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو۔ اگر کبھی بھارت کا شعور منقسم ہوتا ہے تو ایسے وقت شنکر جیسا کوئی نوجوان، آدی شنکراآچاریہ بن کر ملک کو وحدت کے دھاگے میں پرو دیتا ہے۔ جب بھارت کو بے انصافی اور ظلم سے لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تو گرو گوبند سنگھ جی کے بیٹے نوجوانوں کی قرانی آج بھی راستہ دکھاتی ہے۔ جب بھارت کو آزادی کے لئے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے تو سردار بھگت سنگھ سے لے کر چندر شیکھر آزاد اور نیتاجی سبھاش تک کتنے ہی نوجوان ملک کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں۔ جب بھارت کو روحانیت کی، تخلیقی قوت کی ضرورت ہوتی ہے تو جناب اربندو سے لے کر سبرامنیہ بھارتی سے ہم روبرو ہوتے ہیں۔ اور جب بھارت کو اپنا کھویا ہوا عزت نفس پھر سے پانے کی، اپنے وقار کو دنیا میں پھر سے قائم کرنے کی بے چینی ہوتی ہے تو سوامی وویکانند جیسا ایک نوجوان بھارت کے علم سے، سناتن اپیل سے دنیا کے ذہن کو بیدار کردیتا ہے۔ ساتھیو! دنیا نے اس بات کو مانا ہے کہ آج بھارت کے پاس دو لامحدود قوتیں ہیں – ایک ڈیموگرافی اور دوسری ڈیموکریسی۔ جس ملک کے پاس نوجوانوں کے پاس جتنی آبادی ہے اس کی کو اتنا ہی بڑا مانا جاتا ہے، اس کے امکانات کو اتنا ہی وسیع مانا جاتا ہے۔ لیکن بھارت کے نوجوانوں کے پاس ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کے ساتھ ساتھ جمہوری اقدار بھی ہیں، ان کا ڈیموکریٹک ڈیویڈنڈ بھی بے نظیر ہے۔ بھارت اپنے نوجوانوں کو ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کے ساتھ ساتھ ڈیولپمنٹ ڈرائیور بھی مانگتا ہے۔ آج بھارت کا نوجوان ہمارے ڈیولپمنٹ کے ساتھ ساتھ ہماری ڈیموکریٹک ویلیوز کو بھی لیڈ کررہا ہے۔ آپ دیکھئے، آج بھارت کے نوجوان میں اگر ٹیکنالوجی کا چادو ہے تو جمہوریت کا شعور بھی ہے۔ آج بھارت کے نوجوانوں میں محنت کی اہلیت ہے تو مستقبل کی وضاحت بھی ہے۔ اسی لئے بھارت آج جو کہتا ہے، دنیا اسے آنے والے کل کی آواز مانتی ہے۔ آج بھارت جو سپنے دیکھتا ہے، جو عزم کرتا ہے، اس میں بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا کا مستقبل دکھائی دیتا ہے۔ اور بھارت کے اس مستقبل کی، دنیا کے مستقبل کی تعمیر آج ہورہی ہے۔ یہ ذمہ داری ، یہ خوش بختی آپ جیسے کروڑوں کروڑ ملک کے نوجوانوں کو ملی ہے۔ سال 2022 کا یہ سال آپ کے لئے بھارت کی نوجوانوں نسل کے لئے بہت اہم ہے۔ آج ہم 25واں نیشنل یوتھ فیسٹول منارہے ہیں۔ یہ نیتاجی سبھاش بابو کی 125ویں جینتی کا سال بھی ہے۔ اور 25 سال بعد ملک آزادی کے 100 سال بھی منائے گا۔ یعنی 25 کا یہ اتفاق یقیناً بھار ت کی شاندار اور روشن تصویر بنانے کا اتفاق بھی ہے۔ آزادی کے وقت جو نوجوانوں نسل کی تھی اس نے ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے میں ایک پل نہیں لگایا تھا، لیکن آج کے نوجوانوں کو ملک کے لئے جینا ہے اور ہمارے مجاہدین آزادی کے سپنوں کو پورا کرنا ہے۔ مہارشی جناب اربندو نے کہا تھا – ایک بہادر، بیباک، صاف دل، حوصلہ مند اور بلند عزائم رکھنے والا نوجوان واحد بنیاد ہے، جس پر ملک کے مستقبل کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ ان کی یہ بات آج 21ویں صدی کے بھارت کے نوجوانوں کے لئے زندگی کے اصول کی طرح ہے۔ آج ہم ایک قوم کے طور پر دنیا کے سب سے بڑے نوجوانن ملک کے طور پر ایک پڑا ��ر ہیں۔ یہ بھارت کے لئے نئے سپنوں، نئے عزائم کا پڑاؤ ہے۔ ایسے میں بھارت کے نوجوانوں کی صلاحیت بھارت کو نئی بلندی پر لے جائے گی۔ ساتھیو، جناب اربندو نوجوانوں کے لئے کہا کرتے تھے – نوجوان ہی ہیں جنھیں نئی دنیا کا معمار ہونا چاہئے۔ ریوولیوشن اور ایوالیوشن کے اردگرد ہی انھوں نے اپنے جس فلسفے کو رکھا تھا، وہ نوجوانوں کی بھی اصل پہچان ہے۔ یہی دو خوبی ایک وائبرینٹ نیشن کی بھی بڑی طاقت ہے۔ نوجوانوں میں وہ صلاحیت ہوتی ہے، وہ اہلیت ہوتی ہے کہ وہ قدیم رسوم کا بوجھ لے کر نہیں چلتا، وہ انھیں جھٹکنا جانتا ہے۔ یہی نوجوان خود کو، سماج کو، نئے چیلنجوں، نئے مطالبوں کے حساب سے ایوولو کرسکتا ہے، نئی تخلیق کرسکتا ہے۔ اور آج ہم ملک میں یہی ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اب بھارت کا نوجوان ایوالیوشن پر سب سے زیادہ فوکس کررہا ہے۔ آج ڈسرپشن ہورہا ہے، لیکن ڈسرپشن، ڈیولپمنٹ کے لئے ہورہا ہے۔ آج بھارت کا نوجوان اینوویشن کررہا ہے، مسائل کے حل کے لئے متحد ہورہا ہے۔ دوستو، آج کے نوجوانوں میں ’’کین ڈو‘‘ (یعنی کرسکتے ہیں) کی روح ہے، جو ہر نسل کے لئے تحریک کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ بھارت کے نوجوانوں کی ہی طاقت ہے کہ آج بھارت ڈیجیٹل پیمنٹ کے معاملے میں دنیا میں اتنا آگے نکل گیا ہے۔ آج بھارت کا نوجوان، گلوبل پراسپیریٹی کے کوڈ لکھ رہا ہے۔ پوری دنیا کے یونیکارن ایکو سسٹم میں بھارتی نوجوانوں کا جلوہ ہے۔ بھارت کے پاس آج 50 ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپس کا مضبوط ایکو سسٹم ہے۔ اس میں سے 10 ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپس تو کورونا کے چیلنجوں کے درمیان گزشتہ 6-7 مہینوں میں بنے ہیں۔ یہی بھارت کے نوجوانوں کی طاقت ہے، جس کے دم پر ہمارا ملک اسٹارٹ اپس کے سنہرے دور میں داخل ہورہا ہے۔ ساتھیو! نئے بھارت کا یہی منتر ہے – کمپیٹ اینڈ کنکوئیر، یعنی جٹ جاؤ اور جیتو۔ جٹ جاؤ اور جنگ جیتو۔ پیرالمپکس میں بھارت نے جتنے میڈل جیتے اتنے بھارت نے اب تک کی تاریخ میں نہیں جیتے تھے۔ اولمپک میں بھی ہماری کارکردگی بہترین رہی، کیونکہ ہمارے نوجوانوں میں جیت کا اعتماد پیدا ہوا۔ ہمارے کووڈ ٹیکہ کاری پروگرام کی کامیابی میں تو نوجوانوں کا رول، ایک الگ ہی سطح پر نظر آیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح 15 سے 18 سال کے نوجوان تیزی سے اپنی ٹیکہ کاری کرارہے ہیں۔ اتنے کم وقت میں 2 کروڑ سے زیادہ بچوں کی ٹیکہ کاری ہوچکی ہے۔ میں آج کے نوعمروں میں جب فرض کے تئیں وفاداری دیکھتا ہوں تو ملک کے روشن مستقبل کے تئیں میرا یقین اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے نوعمروں، 15 سے 18 سال کے اطفال ساتھیوں میں جو احساس ذمے داری ہے، اور یہ پورے کورونا کے دور میں بھارت کے نوجوانوں میں نظر آئی ہے۔ ساتھیو! حکومت کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کی اسی طاقت کے لئے انھیں جگہ ملے، حکومت کا دخل کم سے کم ہو۔ حکومت کی کوشش انھیں صحیح ماحول دینے کی ہے، وسائل فراہم کرنے کی ہے، ان کی اہلیت بڑھے، اس کا نظم کرنے کی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کےتوسط سے سرکاری طریقہ کار کو آسان بنانا، ہزاروں کمپلائنسیز کے بوجھ سے آزادی، اسی جذبے کو تقویت دیتی ہے۔ مدرا، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اَپ انڈیا ایسے جیسی مہموں سے نوجوانوں کو بہت مدد مل رہی ہے۔ اسکل انڈیا، اٹل اینوویشن مشن اور نئی قومی تعلیمی پالیسی، نوجوانوں کی اہلیت کو بڑھانے کی ہی کوشش ہے۔ ساتھیو! ہم جانتے ہیں کہ بیٹے – بیٹی ایک جیسے ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ حکومت نے بیٹیوں کی بہتری کے لئے شادی کی عمر کو 21 سال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیٹ��اں بھی اپنا کیریئر بنا پائیں، انھیں زیادہ وقت ملے، اس سمت میں یہ ایک بہت اہم قدم ہے۔ ساتھیو! آزادی کے اس امرت کال میں اپنے قومی عزائم کی تکمیل ہمارے آج کے عمل سے طے ہوگی۔ یہ عمل ہر سطح پر، ہر شعبے کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیا ہم ووکل فار لوکل کے فروغ کے لئے مشن کے ساتھ کام کرسکتے ہیں؟ خریداری کرتے وقت آپ کی پسند میں کسی بھارتی کے محنت کی، بھارتی مٹی کی مہک ہو، اس بات کو کبھی مت بھولنا، ہر بار اسی ترازو پر چیزوں کو تولنا اور کچھ بھی خریدنے کا فیصلہ کرنے سے قبل اس ترازو سے تول کر دیکھیں کہ اس میں میرے ملک کے مزدور کے پسینے کی مہک ہے کہ نہیں۔ اس میں جناب اربندو، جناب وویکانند جیسی عظیم شخصیات نے جس مٹی کو ماں کی طرح مانا ہے۔ اس بھارت ماں کی مٹی کی مہک ہے کہ نہیں۔ ووکل فار لوکل، ہمارے بہت سے مسائل کا حل خودکفالت میں ہے۔ ہمارے ملک میں بنی ہوئی چیزوں کو خریدنے میں ہے۔ روزگار بھی اسی سے پیدا ہونے والا ہے۔ معیشت بھی اسی سے تیز رفتار سے بڑھنے والی ہے۔ ملک کے غریب سے غریب شخص کو احترام بھی اسی سے حاصل ہونے والا ہے۔ اور اس لئے ووکل فار لوکل ہمارے ملک کا نوجوان اسے اپنی زندگی کا اصول بنالے۔ تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آزادی کے 100 سال کیسے شاندار ہوں گے، کیسے روشن ہوں گے۔ اہلیت سے بھرے ہوئے ہوں گے۔ عزائم کی تکمیل کے پل ہوں گے۔ ساتھیو! ہر بار ایک موضوع کے بارے میں، میں ضرور کہتا ہوں۔ دوبارہ کہنا چاہوں گا اور آپ لوگوں کے درمیان کہنے کا من اس لئے کرتا ہے، کیونکہ آپ لوگوں نے اس پر لیڈرشپ لی ہے، اور وہ ہے سوچھتا یعنی صفائی ستھرائی۔ سوچھتا کو بھی لائف اسٹائل کا حصہ بنانے میں آپ سبھی نوجوانوں کا تعاون بہت اہم ہے۔ آزادی کی لڑائی میں ہمارے ایسے متعدد مجاہدین آزادی رہے ہیں، جن کے تعاون کو وہ پہچان نہیں مل پائی، جس کے وہ حقدار تھے۔ ان کے ایثار، تپسیا، قربانی میں کوئی کمی نہیں تھی، لیکن انھیں وہ حق نہیں ملا۔ ایسے افراد کے بارے میں ہمارے نوجوان جتنا زیادہ لکھیں گے، ریسرچ کریں گے، تاریخ کے ان اوراق کو کھوج کھوج کر نکالیں گے، اتنی ہی ملک کی آنے والی نسلوں میں بیداری بڑھےگی۔ ہمارے جدوجہد آزادی کی تاریخ زیادہ تندرست ہوگی، زیادہ طاقت ور ہوگی، زیادہ باعث تحریک ہوگی۔ ساتھیو! پڈوچیری ایک بھارت – سریشٹھ بھارت کی خوبصورت مثال ہے۔ الگ الگ علاقوں سے الگ الگ دھارائیں آکر اس جگہ کو متحدہ پہچان دیتی ہیں۔ یہاں جو گفت و شنید ہوگی، وہ ایک بھارت – سریشٹھ بھارت کے جذبے کو اور مضبوط کرے گی۔ آپ کے خیالات سے کچھ نیا نکلے اور جو کچھ نئی چیزیں آپ یہاں سے سیکھ کر جائیں وہ برسہا برس تک ملک کی خدمت کے لیے تحریک کا باعث بنیں گے۔ مجھے نیشنل یوتھ فیسٹول پر پورا بھروسہ ہے اور یہ ہماری امنگوں کی تکمیل کی راہ دکھائے گا۔ ساتھیو! یہ تہواروں کا بھی وقت ہے۔ ان گنت تہوار، ہندوستان کے ہر کونے میں تہوار۔ کہیں مکر سنکرانتی، کہیں لوہڑی، کہیں پونگل، کہیں اتراین، کہیں بیہو، ایسے سبھی تہواروں کی آپ سب کو پیشگی مبارک باد۔ کورونا سے پوری احتیاط اور چوکسی کے ساتھ ہمیں تہوار منانے ہیں۔ آپ خوشں رہیں، صحت مند رہیں۔ بہت بہت مبارک باد۔ شکریہ!,পুডুচেৰীত ২৫ সংখ্যক ৰাষ্ট্ৰীয় যুৱ মহোৎসৱৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DA%A9-%D8%A8%DA%BE%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BF/,نئی دہلی؍24اکتوبر2018 ءوزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت مرکزی کابینہ نے ملک بھر میں متعدد مقامات پر سرکاری نجی شراکت داری کے ذریعے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکلس کے قیام کو منظوری دی ہے،جو مانگ اور دستیاب بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر منتخب مقامات پر آئی آئی ایس کی ترقی کے مواقع تلاش کرے گا۔ فوائد: آئی آئی ایس کے قیام سے بھارتی معیشت کے کلیدی شعبوں کے لئے عالمی مسابقہ آرائی کو تقویت ملے گی اور اس کے لئے اعلیٰ معیار کی ہنرمندی کی ٹریننگ اوراپلائیڈ ریسرچ تعلیم دی جائے گی اورصنعت سے براہ راست اور معنی خیزرابطہ فراہم ہوگا۔اس سے ملک بھر کے آرزو مند نوجوانوں کو موقع ملے گا کہ وہ اعلیٰ معیار کی ہنرمندی کی ٹریننگ تک رسائی حاصل کریں اور صنعت سےرابطہ کے ذریعے جواب دہی کے دائرے میں اضافہ کریں۔ سرکاری زمین کے حوالے سے نجی شعبے کی صنعت اور عوامی سرمایہ کا فائدہ اٹھاکر یہ مہارت ، علم اور مسابقہ آرائی کے نئے ادارے قائم کرے گا۔,দেশৰ বিভিন্ন স্থানত পিপিপি আৰ্হিত ভাৰতীয় দক্ষতা প্ৰতিষ্ঠান স্থাপনৰ বাবে আঁচনি গ্ৰহণত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%B3%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C%D8%A7-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A2%D8%A8%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ کو مکان اور شہری امور کی وزارت (ایم او ایچ یو اے)، حکومت ہند اور غیر ملکی اور تجارتی محکمہ (ڈی ایف اے ٹی)، حکومت آسٹریلیا کے درمیان شہری پانی کے انتظام میں تکنیکی تعاون کے لیے مفاہمت نامہ سے واقف کرایا گیا۔ مفاہمت نامہ پر دسمبر، 2021 میں دستخط کیے گئے تھے۔ مفاہمت نامہ شہری آبی تحفظ کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعاون کو مضبوط کرے گا۔ یہ شہری پانی کے انتظام کے لیے تمام سطحوں پر ادارہ جاتی صلاحیتوں کو مضبوط کرے گا؛ پانی اور صفائی سے متعلق خدمات کی رسائی، استطاعت اور معیار میں بہتری؛ پانی اور پانی کی دستیابی والے شہروں کی سرکولر اقتصادیات کو فروغ دینے؛ ماحولیات کے موافق پانی کے انتظامی کاموں کی حوصلہ افزائی کرنے؛ پانی کے انتظام میں کمیونٹی کی حصہ داری کو بڑھانے اور قابل رسائی بنیادی ڈھانچے کے لیے پہل کے توسط سے سماجی شمولیت میں بہتری کا کام کرے گا۔ مفاہمت نامہ دونوں فریقین کو شہری آبی تحفظ کے اہم شعبوں میں دونوں ممالک کے ذریعے حاصل کردہ تکنیکی پیش رفت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے قابل بنائے گا اور علم کے تبادلہ، بہترین طور طریقوں اور اداروں کی صلاحیت سازی کو فروغ دے گا۔ اس سے آتم نربھر بھارت کے خواب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔,অষ্ট্ৰেলিয়া-ভাৰত জল সুৰক্ষা পদক্ষেপৰ বাবে কাৰিকৰী সহযোগিতাৰ বাবে ভাৰত আৰু অষ্ট্ৰেলিয়াৰ মাজত বুজাবুজিৰ চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DB%8C%DA%86-%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%B1%DB%8C%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AD/,نمسکار! مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، وزیر اعلیٰ جناب ادھو ٹھاکرے جی، مرکزی کابینہ میں میرے رفقا اشونی ویشنو جی، راؤ صاحب دانوے جی، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار جی، مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس جی، اراکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی ، بھائیو اور بہنو! کل چھترپتی شیواجی مہاراج کا یوم پیدائش ہے۔ سب سے پہلے، میں بھارت کے فخر، بھارت کی شناخت اور ثقافت کے محافظ ملک کے مہانائک کےقدموں میں احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔ شیواجی مہاراج کی جینتی سے ایک دن پہلے، تھانے-دیوا کے بیچ نئی بنی پانچویں اور چھٹی ریل لائن کے افتتاح کے موقع پر ہر ممبئی کر کو بہت بہت مبارکباد۔ یہ نئی ریل لائنیں ممبئی کے باشندوں کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائیں گی، ان کی از آف لیوننگ بڑھائیں گی ۔ یہ نئی ریل لائن ممبئی کی کبھی نہ رکنے والی زندگی کو مزید رفتار دیں گی۔ ان دو دونوں لائنز کے شروع ہونے سے ممبئی کے لوگوں کو براہ راست چار فائدے ہوں گے۔ پہلا– اب لوکل اور ایکسپریس ٹرینوں کے لیے الگ الگ لائنیں ہوجائیں گی۔ دوسرا– دوسری ریاستوں سے ممبئی آنے جانے والی ٹرینوں کو اب لوکل ٹرینوں کی پاسنگ کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ تیسرا– کلیان سے کرلا سیکشن میں میل/ایکسپریس گاڑیاں اب بغیر کسی رکاوٹ کے چلائی جا سکیں گی۔ اور چوتھا– ہر اتوار کو ہونے والے بلاک کی وجہ سے کلاوا اور ممبرا کے ساتھیوں کی پریشانی بھی اب دور ہو گئی ہے۔ ساتھیو، آج سے سنٹرل ریلوے لائن پر 36 نئی لوکل چلنے جارہی ہیں ۔ ان میں سے بھی بیشتر اے سی ٹرینیں ہیں۔ یہ لوکل کی سہولت کو توسیع دینے ، لوکل کو جدید بنانے کے مرکزی حکومت کے کمٹمینٹ کا حصہ ہے۔ گزشتہ 7 سال میں ممبئی میں میٹرو کی بھی توسیع کی گئی ہے۔ ممبئی سے ملحق سب- اربن سنٹرز میں میٹرو نیٹ ورک کو تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، دہائیوں سےممبئی کی خدمت کررہی لوکل کی توسیع کرنے، اس کو جدید بنانے کی مانگ کا فی پرانی تھی ۔ 2008 میں اس 5ویں اور چھٹی لائن کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اس کو 2015 میں پورا ہونا تھا ،لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ 2014 تک یہ پروجیکٹ الگ الگ اسباب کی بنا پر لٹکتا رہا۔ اس کے بعد ہم نے اس پر تیزی سے کام کرنا شروع کیا، مسائل کو حل کیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ 34 مقام تو ایسے تھے جہاں نئی ریل لائن کو پرانی ریل لائن سے جوڑا جانا تھا۔ کئی چیلنجز کے باوجود، ہمارے مزدوروں، ہمارے انجینئرز نے اس پروجیکٹ کو پورا کیا۔ درجنوں پل بنائے ، فلائی اوور بنائے، سرنگ تیار کی۔ ملک کی تعمیر کے لیے ایسے کمٹمینٹ کو میں تہ دل سے سلام بھی کرتا ہوں ، مبارکباد بھی دیتا ہوں۔ بھائیو اور بہنو، ممبئی مہانگر نے آزاد بھارت کی ترقی میں اہم تعاون دیا ہے۔ اب کوشش ہے کہ آتم نربھر بھارت کی تعمیر میں بھی ممبئی کی استطاعات کئی گنا بڑھے۔ اس لئے ممبئی میں 21ویں صدی کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر ہماری خصوصی توجہ ہے۔ ریلوے کنکٹوٹی کی ہی بات کریں گو یہاں ہزاروں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ممبئی سب- اربن ریل نظام کو جدید اور اعلیٰ ٹیکنالوجی سے لیس کیا جا رہا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ابھی جو ممبئی سب اربن کی صلاحیت ہے اس میں تقریباً 400 کلومیٹر کا مزید اضافہ کیا جائے۔ سی بی ٹی سی جیسے جدید سگنل نظام کے ��اتھ ساتھ 19 اسٹیشنوں کی جدید کاری کا بھی منصوبہ ہے۔ بھائیو اور بہنو، ممبئی کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں سے ممبئی کی ریل کنکٹیوٹی میں بھی اسپیڈ کی ضرورت ہے، جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے احمد آباد-ممبئی ہائی اسپیڈ ریل آج ممبئی کی، ملک کی ضرورت ہے۔یہ ممبئی کی صلاحیت کو ، سپنوں کے شہر کے طور پر ممبئی کی شناخت کو مستحکم کرے گی ۔یہ پروجیکٹ تیزی سے مکمل ہو ، یہ ہم سبھی کی ترجیح ہے۔ اسی طرح ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور بھی ممبئی کو نئی طاقت دینے والا ہے۔ ساتھیو، ہم سبھی جانتے ہیں کہ جتنے لوگ بھارتی ریلوے میں ایک دن میں سفر کرتے ہیں ، اتنی تو کئی ملکوں کی آبادی بھی نہیں ہے۔ بھارتی ریل کو محفوظ، سہولت سے آراستہ اور جدید بنانا ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ ہماری اس عہدبستگی کو کورونا عالمی وبا بھی متزلزل نہیں کرپائی ہے۔ گزشتہ 2 برسوں میں ریلوے نے فریٹ ٹرانسپورٹیشن میں نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 8000 کلومیٹر ریل لائنوں کا الیکٹریفکیشن بھی کیا گیا ہے۔ تقریباً ساڑھے ہزار کلومیٹر نئی لائن بنانے یا ڈبل کرنے کا کام بھی ہوا ہے۔ کورونا کے دور میں ہی ہم نے کسان ریل کے ذریعے ملک کے کسانوں کو ملک بھر کے بازاروں سے جوڑا ہے۔ ساتھیو، ہم سبھی یہ بھی جانتے ہیں کہ ریلوے میں اصلاح ہمارے ملک کے لاجسٹک سیکٹر میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ اسی لیے گزشتہ 7 برسوں میں مرکزی حکومت ریلوے میں ہر طرح کے ری فارمس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ماضی میں، انفرااسٹرکچر پروجیکٹ سالہ سال تک اس لئے چلتے تھے کیونکہ پلاننگ سے لے کر ایگزیکیوشن تک تال میل کی کمی تھی۔ اس اپروچ سے 21ویں صدی کے بھارت کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان بنایا ہے۔ اس میں مرکزی حکومت کےہر محکمہ ، ریاستی حکومت، مقامی بلدیاتی ادارے اور پرائیویٹ سیکٹر سبھی کو ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش ہے۔ کوشش یہ ہے کہ انفرااسٹرکچر کے کسی بھی پروجیکٹ سے جڑی ہر جانکاری ، ہرفریق کے پاس پہلے سے ہو۔ تبھی سبھی اپنے اپنے حصہ کا کام م اس کا پلان صحیح طریقہ سے کرسکیں گے۔ ممبئی اور ملک کے دیگر ریلوے پروجیکٹز کے لیے بھی ہم گتی شکتی کے جذبے سے ہی کام کرنے والے ہیں۔ ساتھیو، برسوں سے ہمارے یہاں ایک سوچ حاوی رہی کہ جو ذرائع -وسائل غریب استعمال کرتا ہے ، مڈل کلاس استعمال کرتا ہے ، اس میں سرمایہ کاری نہ کرو۔ اس وجہ سے بھارت کے پبلک ٹرانسپورٹ کی چمک ہمیشہ پھیکی ہی رہی ۔ لیکن اب بھارت اس پرانی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے ۔ آج گاندھی نگر اور بھوپال کے جدید ریلوے اسٹیشن ریلوے کی شناخت بن رہے ہیں۔ آج 6000 سے زیادہ ریلوے اسٹیشن وائی فائی سہولت سے جڑ چکے ہیں۔ وندے بھارت ایکسپریس ٹرینیں ملک کی ریل کو رفتار اور جدید سہولت فراہم کررہی ہیں۔ آنے والے برسوں میں 400 نئی وندے بھارت ٹرینیں ملک کے باشندوں کی خدمت کرنا شروع کریں گی۔ بھائیو اور بہنو، ایک اور پرانی اپروچ جو ہماری حکومت نے تبدیل کی ہے، وہ ہے ریلوے کی اپنی صلاحیت پر بھروسہ۔ 8-7 سال پہلے تک ملک کی جوریل کوچ فیکٹریاں تھیں، ان کے تعلق سے کافی بے حسی تھی۔ان فیکٹریوں کی جو حالت تھی ، ان کو دیکھتے ہوئے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ فیکٹریاں اتنی جدید ٹرینیں بناسکتی ہیں۔ لیکن آج وندے بھارت ٹرینیں اور گھریلو وسٹاڈوم کوچ انہی فیکٹریوں میں بن رہے ہیں۔ آج ہم اپنے سنگلنگ سسٹم کو سودیشی سمادھان سے جدید بنانے پر بھی مسلسل کام کررہے ہیں۔ سودیشی سمادھان چاہئے، ہمیں غیرملکی انحصار سے نجات چاہئے۔ ساتھیو، نئی سہولیات کو فروغ دینے کی ان کوششوں کا بہت بڑا فائدہ ، ممبئی اور آس پاس کے شہروں کو ہونے والا ہے۔ غریب اور مڈل کلاس خاندانوں کو ان نئی سہولیات سے آسانی بھی ہوگی اور آمدنی کے نئے وسائل بھی ملیں گے۔ ممبئی کی مسلسل ترقی کے کمٹمینٹ کے ساتھ ایک بار پھر سبھی ممبئی کروں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت -بہت شکریہ ۔,থানে আৰু দিৱাৰ মাজত আৰম্ভ কৰিব খোজা ৰে’লপথছোৱাৰ উদ্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%B1-%D8%A7%DB%92-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D9%88%D8%A8%D9%84%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%82%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%80-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%A6/,نمسکار،مرکزی کابینہ میں میرے ساتھ جناب اشونی ویشنو جی، جناب دیوو سنگھ چوہان جی، ڈاکٹر ایل مرگن جی ، ٹیلی کام اور براڈ کاسٹنگ سیکٹر سے منسلک سبھی لیڈروں ،بہنو ں اور بھائیوں ۔ ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا –ٹی آر اے آئی اور اس سے منسلک سبھی ساتھیوں کو سلور جوبلی کی بہت بہت مبارکباد ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ آج آپ کے ادارے نے 25 سال مکمل کئے ہیں ایک ایسے وقت میں جب ملک آزادی کے امرت کال میں اپنے 25 سالوں کے روڈ میپ پر کام کررہا ہے ،نئے اہداف طے کررہا ہے ،کچھ دیر قبل ہی مجھے اپنے ملک میں 5 جی ٹیسٹ بیڈ کو قوم کے نام وقف کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ ٹیلی کام سیکٹر میں کریٹیکل اور جدید ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ میں اس پروجیکٹس سے منسلک سبھی ساتھیوں کو خاص طور سے آئی آئی ٹیز کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں،ساتھ ہی ملک کے نوجوان ساتھیوں کو، محققین کواورکمپنیوں کو مدعوکرتا ہوں کہ وہ اس ٹیسٹنگ سہولیت کا استعمال 5 جی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لئے کریں ،خاص طور پر ہمارے اسٹارٹ اپس کے لئے اپنی اشیاءجانچنے کا یہ بہت بڑا موقع ہے۔ اتنا ہی نہیں 5 جی کی شکل میں جو ملک کا اپنا 5 جی معیار بنایا گیا ہے وہ ملک کے لئے بہت ہی فخر کی بات ہے۔یہ ملک کے گاؤوں میں 5 جی ٹیکنالوجی پہنچانے اور اس سے منسلک کام میں بڑا کردار ادا کرےگا۔ ساتھیوں، 21ویں صدی کے بھارت میں کنکٹوٹی ملک کی ترقی کی رفتار کو طے کرےگی اس لئے ہر سطح پر کنکٹوٹی کو جدید بناناہی ہوگا اورجدید بنیادی ڈھانچے تیار کرنا ،جدید ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال اس کی بنیاد کا کام کریں گے۔5 جی ٹیکنالوجی بھی ملک کی حکمرانی میں زندگی میں سہولت ،کاروبار میں آسانی جیسے مختلف معاملوں میں مثبت تبدیلی لانے والی ہے۔اس سے کھیتی باڑی ،صحت، تعلیم ،بنیادی ڈھانچے اور لاجسٹکس ہر سیکٹر میں ترقی کو بڑھاوا ملے گا ،اس سے سہولیات بھی بڑھیں گی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ 5 جی سےآنے والی ڈیڑھ دہائی میں بھارت کی معیشت میں 450 بلین ڈالر کا اضافہ ہوگایعنی یہ صرف انٹر نیٹ کی رفتار ہی نہیں بلکہ روزگار پیدا کرنے کی رفتار کو بھی بڑھانے والا ہے ،اس لئے 5 جی کی تکمیل رول آؤٹ ہو اس کے لئے سرکار اور صنعت دونوں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔اس دہائی کے آخر تک ہم 6جی بھی لانچ کرپائیں اس کے لئے ہماری ٹاسک فورس کام کرناشروع کرچکی ہے۔ ساتھیوں، ہماری کوشش ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر اور5 جی ٹیکنالوجی میں ہمارے اسٹارٹ اپس تیزی سے تیار ہوں ، گلوبل چیمپئن بنیں، ہم مختلف سیکٹروں میں دنیا کے ایک بڑے ڈیزائن پاور ہاؤس ہیں۔ ٹیلی کام آلات مارکٹ میں بھی بھارت کے ڈیزائین چیمپئنس کی اہلیت ہم سبھی جانتے ہیں اب اس کے لئے ضروری آر این ڈی بنیادی ڈھانچے اور عمل کو آسان بنانے پر ہماری خاص توجہ ہے اور اس میں آپ سب کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ساتھیوں، خود کفالت اور صحت مند مسابقت سماج میں معیشت میں کس طرح کثیر رخی اثرات پیدا کرتی ہیں اس کی ایک بہترین مثال ہے کہ ہم سب فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ٹیلی کام سیکٹر ہے۔ہم ذرا گزرے وقتوں پر نظر ڈالیں 2 جی کا کال 2 جی کا کال یعنی ناامیدی اوربے چینی ،بدعنوانی ،پالیسیوں کا لڑ کھڑاناتھا اور آج اس دور سےباہر نکل کر ملک نے 3جی سے 4جی اور اب 5جی اور6جی کی طرف قدم بڑھائے ہیں۔ یہ تبدیلی بہت آسانی سے بہت ہی شفافیت کے ساتھ ہورہی ہے اور اس میں ٹی آر اے آئی کا بہت اہم کردا رہا ہے۔ریٹ روسپیکٹو ٹیکسیشن ہو یا اے جی آر جیسے معاملات جب بھی صنعت کے سامنے چلینجز آئے ہیں تو ہم نےاتنی ہی تیزی سے کارروائی کرنے کی کوشش کی ہےاور جہاں جہاں ضرورت پڑی ہم نے اصلاحات بھی کی ہیں۔ ایسی ہی کوششوں نے ایک نیا بھروسہ پیدا کیا ہے ،اسی کانتیجہ ہے کہ 2014 سے پہلے ایک دہائی سے زیادہ وقت میں جتنا ایف ڈی آئی ٹیلی کام سیکٹر میں آیا ہے اس سے ڈیڑھ گنا سے زیادہ ان 8 سالوں میں آیا ہے۔ بھارت کی صلاحیت پر سرمایہ کاروں کے اسی جذبہ کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری ہم سبھی کی ہے۔ ساتھیوں، گزرے سالوں میں حکومت جس طرح نئی سوچ اور موقف کے ساتھ کام کررہی ہے اس سے آپ سبھی بہت اچھی طرح واقف ہیں ۔دقیہ نوسی سوچ سے آگے نکل کر اب ملک حکومت کے مکمل موقف کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔آج ہم ملک میں ٹیلی ڈینسٹی اور انٹر نیٹ کے استعمال کے معاملے میں دنیا میں سب سے تیزی سے آگے آرہے ہیں تواس میں ٹیلی کام سمیت کئی سیکٹروں کا رول رہا ہے ۔سب سے بڑا رول انٹر نیٹ کا ہے 2014 میں جب ہم آئے تو ہم نے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اس کے لئے ٹیکنالوجی کے وسیع تر استعمال کو اپنی ترجیح بنایا۔ اس کے لئے سب سے ضروری یہ تھا کہ ملک کے کروڑوں لوگ آپس میں جڑیں ،حکومت سے بھی جڑیں ، حکومت کی سبھی اکائیوں چاہے مرکز ہو ،ریاست ہو ،بلدیاتی خود مختار ادارے ہوں وہ بھی ایک طرح سے ایک نامیاتی اکائی بن کر کے آگے بڑھیں ۔آسانی سے کم سے کم خرچ میں جڑیں ، بغیر بدعنوانی سے سرکاری سہولتوں کا فائدہ لے سکیں اسی لئے ہم نے جن دھن، آدھار ، موبائل کی ٹرینٹی کو ڈائیریکٹ گورننس کا ذریعہ بناناطے کیا۔ موبائل غریب سے غریب کنبے کی بھی پہنچ میں ہواس کے لئے ہم نے ملک میں ہی موبائل فون کی مینو فیکچرنگ پر زور دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موبائل مینو فیکچرنگ یونٹ دو سے بڑھ کر دوسو سے زیادہ ہوگئی۔ آج بھارت دنیا کا سب سے بڑا موبائل فون مینو فیکچرر ہے اور جہاں ہم اپنی ضرورت کے لئے فون درآمد کرتے ہیں آج ہم موبائل فون برآمد کے نئے ریکارڈس بنارہے ہیں۔ ساتھیوں، موبائل کنکٹوٹی بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ کال اور ڈاٹا مہنگا نہ ہو۔اس لئے ہم نے ٹیلی کام مارکیٹ میں مثبت مقابلوں کی حوصلہ افزائی کی،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم دنیا کے سب سے سستے ڈاٹا فراہم کرنے والوں میں سے ایک ہیں ۔آج بھارت دنیا کے ہر گاؤں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑنے میں جڑا ہے۔ آپ کو بھی پتہ ہے کہ 2014 سے پہلے بھارت میں سو گرام پنچایتیں بھی آپٹیکل فائبر کنکٹوٹی سے ��ہیں جڑی تھیں آج ہم قریب قریب پونے دو لاکھ گرام پنچایتوں تک براڈ بینڈ کنکٹوٹی پہنچاچکے ہیں۔ کچھ وقت پہلے ہی حکومت نے ملک کے نکسل سے متاثرہ مختلف قبائلی ضلعوں میں بھی 4جی کنکٹوی پہنچانے کی بہت بڑے منصوبے کو منظوری دی ہے۔ یہ 5جی اور6جی ٹیکنالوجی کے لئے بھی اہم ہے اوراس سے موبائل اور انٹر نیٹ کا دائرہ بھی بڑھے گا۔ ساتھیوں، فون اور انٹر نیٹ تک بھارتیوں کی زیادہ سے زیادہ رسائی نے بھارت کی ایک بہت بڑی صلاحیت کو سامنے لا دیا ہے اس نے ملک میں مضبوط ڈیجیٹل ڈھانچے کی بنیاد رکھی ہے ، اس نے ملک میں سروس کی ایک بہت بڑی مانگ پیدا کی ہے ،اس کی ایک بہت بڑی مثال ملک کے کونے کونے میں بنائے گئے 4لاکھ کامن سروس مرکز ہیں۔ ان کامن سروس مرکز سے آج سرکار کی سیکڑوں خدمات گاؤں کے لوگوں تک پہنچ رہی ہیں یہ کامن سروس سینٹرس لاکھوں نوجوانوں کے لئے روزگار کا بھی ذریعہ بنے ہیں ۔ میں پچھلے دنوں گجرات میں ایک پروگرام میں گیا تھا وہاں داہوڑ ضلع جو ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں آدیواسیوں کی بڑی تعداد ہے وہاں ایک دیویانگ جوڑا مجھے ملا وہ کامن سروس سینٹر چلاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں دیویانگ تھا تو مجھے یہ تھوڑی مدد مل گئی اور میں نے شروع کیااور آج وہ 28،30ہزار روپے قبائلی علاقے کے دور دراز علاقوں میں کامن سروس سینٹر سے کمارہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبائلی لوگ بھی یہ خدمات کیاں ہیں، یہ خدمات کیسے حاصل کی جاتی ہیں ، یہ خدمات کتنی معاون ہیں اس کو بھی جانتے ہیں اور ایک دیو یانگ جوڑا وہاں چھوٹے سے گاؤں میں لوگوں کی خدمت بھی کرتا ہے ،روزی روٹی بھی کماتا ہے ،یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کس طرح سے بدلاؤ لارہی ہے۔ ساتھیوں، ہماری سرکار ٹیکنالوجی کو مسلسل اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے ڈلیوری سسٹم کو بھی لگاتار بہتر بنارہی ہے۔ اس نے ملک میں سروس اور مینو فیکچرنگ دونوں سے جڑے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو بدل دیا ہے ،یہ بھارت کو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم بنانے کی پیچھے ایک اہم وجہ ہے۔ ساتھیوں ، حکومت کا مکمل موقف ہمارے ٹی آر اے آئی جیسے تمام ضابطہ کاروں کے لئے بھی موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں کے لئے نمٹنے کے لئے بھی اہم ہے۔آج ریگو لیشن صرف ایک سیکٹر کے دائرے تک ہی محدود نہیں ہے ،ٹیکنالوجی الگ الگ سیکٹر کو ایک دوسرے سے مربوط کررہی ہے اس کے لئے آج مشترکہ ریگو لیشن کی ضرورت ہر کوئی فطری طور ر پرمحسوس کررہا ہے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ریگولیٹر ساتھ آئیں کامن پلیٹ فارم تیار کریں اور بہتر تال میل کے ساتھ حل نکالیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ اس کانفرنس سے اس سمت میں اہم حل نکل کر آئیں گے۔آپ کو ملک کے ٹیلی کام صارفین کے مفادات کا بھی تحفظ کرنا ہے اور دنیا کے سب سے پر کشش ٹیلی کام مارکیٹ کی ترقی کی بھی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ ٹرائی کی سلور جوبلی کانفرنس ہماری آزادی کے امرت کال کی ترقی کو رفتار دینے والی ہو ،توانائی دینے والی ہو،نیا بھروسہ پیدا کرنے والی ہو،ایک نئی چھلانگ کے خواب دیکھنے والی ہواور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے والی ہو۔اسی امید کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ ! آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔بہت بہت شکریہ ۔,ট্ৰাইৰ ৰূপালী জয়ন্তী উদযাপনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D9%88%D9%84%D8%A7-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A6%AE/,نئی دلّی ، 10 جنوری ؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گزشتہ روز شولا پور میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اس موقع پر ان کے خطاب کا متن درج ذیل ہے : ۔ بھارت ماتا کی جے ، بھارت ماتا کی جے ، بھارت ماتا کی جے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسٹیج پر موجود مہاراشٹر کے گورنر محترم ودیا ساگر راؤ جی ، یہاں کے توانا اور مقبول وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑ نویس جی ، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نتن گڈ کری جی ، پارلیمنٹ کے میرے تمام ساتھی ، مہاراشٹر کے وزراء اور کونسلر اور یہاں بھاری تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو ۔ بہنو اور بھائیو ، حال کے برسوں میں مجھے تیسری بار شولا پور آنے کا موقع ملا ہے ۔ جب جب میں آپ سے آشیر واد مانگنے آیا ہوں ۔ آپ نے مجھے بھر پور پیار دیا ہے ۔ آشیر واد کی بہت بڑی طاقت دی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ بار میں جب یہاں آیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ یہاں جو بی ایس پی یعنی بجلی ، پانی اور سڑک کے مسائل ہیں ، انہیں سلجھانے کی بھر پور کوشش کی جائے گی ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلے میں مختلف کوششیں کی گئی ہیں ۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا یو یا نیشنل ہائی وے ہو یا پھر سو بھاگیہ یوجنا کے تت ہر گھر تک بجلی پہنچانے کا کام ہو ، یہاں سبھی پر تیز رفتار سے کام ہو رہا ہے ۔ میں فڑ نویس جی کی حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ ہر گھر کو بجلی دینے کے لئے بہت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے ۔ بھائیو اور بہنو ، آج اسی کام کو مزید توسیع دینے کے لئے پھر ایک بھر آپ کے درمیان آیا ہوں ۔ کچھ دیر قبل اسمارٹ سٹی ، غریبوں کے گھر سڑک اور پانی سے وابستہ ہزاروں کروڑ روپئے کی اسکیموں کو قوم کے نام وقف اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ میں آپ کو یہ بھی آگاہی دینا چاہتا ہوں کہ حکومت نے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپئے کی لاگت سے بننے والی شولا پور عثمان آباد وایا تلجا پور ریل لائن کو منظوری دے دی ہے ۔ ماں تلجا پور بھوانی کے آشیر واد سے جلد ہی یہ لائن بن کر تیار ہو جائے گی ۔ جس سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ دیش بھر سے ماتا کے درشن کرنے کے لئے آنے والے شردھالوؤں کو سہولت ہو گی ۔ ان تمام اسکیموں کے لئے میں آپ سب کو بہت بہت شبھ کامنائیں دیتا ہوں ۔ بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں ۔ ان تمام اسکیموں پر تفصیل سے بات کرنے سے قبل آج میں شولا پور کی اس سر زمین سے پورے دیش کو بھی مبارک باد دینا چاہتا ہوں ۔ کل دیر رات لوک سبھ امیں ایک تاریخی بل پاس ہوا ہے ۔ آپ کی تالیوں کی آواز سے مجھے لگ رہا ہے کہ آپ بھی کل دیر رات تک ٹی وی دیکھنے کے لئے بیٹھے تھے ۔ عام طبقے کے غریبوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے ۔ نا انصافی کا جذبہ ختم ہو ۔ غریب بھلے ہی وہ کسی بھی علاقے کا ہو ، اسے ترقی کا بھر پور فائدہ ملے ، مواقع میں ترجیح ملے ، اس عہد کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی آپ کے روشن مستقبل کے لئے وقف ہے ۔ بہنو اور بھائیو ، کتنے جھوٹ پھیلائے جاتے ہیں ، کیسے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔ کل کے پارلیمنٹ کے ہمارے فیصلے سے اور میں امید کرتا ہوں جیسے بہت ہی صحت مند ماحول میں کل لوک سبھا میں بحث ہوئی ، دیر رات تک بحث ہوئی اور قریب قریب عام اتفاق رائے سے کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اختلاف کیا لیکن اس کے با وجود بھی قانون کے لئے ایک اہم فیصلہ کل لوک سبھا نے کیا ۔ میں امید کرتا ہوں کہ آج راجیہ سبھا میں خاص طور سے ایک دن کے لئے راجیہ سبھا کا وقت بڑھایا گیا ہے ۔ راجیہ سبھا میں بھی ہمارے جتنے نمائندے بیٹھے ہیں ، وہ بھی ان چند جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے سماج کی ایکتا اور اتحاد کو تقویت دینے کے لئے سماجی انصاف کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری مثبت بحث و مباحثہ بھی کریں گے اور کل کی طرح ہی خوش گوار فیصلہ بھی فوراً ہو جائے گا ۔ ایسی میں امید کرتا ہوں ۔ بہنو اور بھائیو ، ہمارے ملک میں ایسا جھوٹ پھیلایا جاتا تھا اور کچھ لوگ ریزرویشن کے نام پر دلتوں کو جو ملا ہے ، اس میں سے کچھ نکالنا چاہتے تھے ، قبائل کو ملا ہے ، اس میں سے کچھ نکالنا چاہتے تھے ، اور ووٹ بینک کی اقلیت کرنے کی سیاست کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔ ہم نے دکھا دیا جو دلتوں کو ملتا ہے اس میں سے کچھ نہیں لے سکتا ہے ، او بی سی کو ملتا ہے ، اس میں سے کوئی کچھ نہیں لے سکتا ہے ۔ یہ مزید دس فیصد دے کر ہم نے سب کو انصاف دینے کی سمت میں کام میا ہے ۔ اور اس لئے ہم اِس کا لے لیں گے ، اُس کا لے لیں گے ۔ یہ جھوٹ پھیلانے والوں کو کل دلّی میں پارلیمنٹ نے ایسا کرارا جواب دیا ہے ، ایسا ان کے منہ پر چوٹ ماری ہے کہ اب جھوٹ پھیلانے کی ان کی طاقت نہیں بچے گی ۔ بہنو اور بھائیو ، اس کے علاوہ ایک اور اہم ، ایک اور بل بھی کل لوک سبھا میں پاس ہوا ہے ۔ یہ بل بھی بھارت ماں میں عقیدت رکھنے والے ہرشخص کے لئے بہت ہی اہم ہے ۔ شہریت ترمیمی بل کو لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوئے ماں بھارت کے بیٹے بیٹیوں کو بھارت ماں کی جے بولنے والوں کو ، وندے ماترم بولنے والوں کو ، اس دیش کی مٹی سے پیار کرنے والوں کو بھارت کی شہریت کا راستہ صاف ہو گیا ہے ۔ تاریخ کے تمام اتار چڑھاؤ دیکھنے کے بعد ، تمام ظلم سہنے کے بعد ہمارے یہ بہن بھائی بھارت ماں کے آنچل میں جگہ چاہتے تھے ۔ انہیں تحفظ ہی دینا ہر بھارتی کا فرض ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا کام بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی دلّّ کی حکومت نے کیا ہے ۔ ساتھیو ، آزادی کے بعد کے دہوں میں ہر حکومت اپنے اپنے حساب سے کام کرتی رہی ہے ۔ لیکن جب بھاجپا کی قیادت میں یہ کام ہوتا ہے تو زمین اور عوام تک اس کا اثر پہنچتا ہے ۔ بہنو اور بھائیو ، کل جب یہ قانون پاس ہوا ہے ۔ پارلیمنٹ میں لوک سبھا نے اپنا کام کر دیا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں آج راجیہ سبھا بھی ہمارے ملک کے پیار کرنے والے لوگوں کے لئے ضروری آج بھی راجیہ سبھا میں اس کو پاس کر کے لاکھوں لاکھوں کنبوں کی زندگی بچانے کا کام کریں گے ۔ بہنو اور بھائیو ، میں خاص طور سے آسام کے بھائی بہنوں کو شمال مشرق کے بھائیو بہنوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ کل کے اس فیصلے سے آسام ہو ، شمال مشرق ہو ، وہاں کے نوجوان ہوں ، ان کے حقوق کو رتی بھر بھی آنچ نہیں آنے دوں گا ۔ ان کے مواقع میں کوئی رکاوٹ پیدا ہونے نہیں دوں گا ۔ یہ میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ بہنو اور بھائیو ، پہلے کے مقابلے میں جو بڑا فرق آیا ہے ۔ وہ نیت کا ہے ، صحیح نیت کے ساتھ پالیسی کا کام ہے ، ٹکڑوں میں سوچنے کے بجائے اکثریت کے ساتھ فیصلے لینے کا ہے ۔ قومی مفاد اور عوامی مفاد میں سخت اور بڑے فیصلے لینے کا ہے ۔ سیاست کی اچھی طاقت کا ہے ۔ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ہماری حکومت کی سنسکرتی ہے ، ہمارے سنسکار ہیں اور یہی ہمارا سروکار بھی ہے ۔ ہماری پرمپرا بھی ہے ۔ گاؤں ، غریب سے لے کر شہروں تک اسی سنستھا کے ساتھ نئے بھارت کی نئی ویوستھاؤں کی تعمیر کرنے کا بیڑا بھی بھاجپا حکومت نے اٹھایا ہے ۔ جس سطح پر اور جس رفتار سے کام ہو رہا ہے ، اس سے عام زندگی کو س��ل بنانے میں بھی تیزی آئی ہے ۔ ساتھیو ، بنیادی ڈھانچے کی مثال لے لیجئے ، شولا پور سے عثمان آباد تک کا یہ نیشنل چار لین کا ہو گیا ہے اور آج ملک کے لئے وقف بھی ہو گیا ہے ۔ قریب ایک ہزار کروڑ روپئے کے اس پروجیکٹ سے ہر طبقے ، ہر فرقے اور ہر علاقے کے لوگوں کو سہولت ہو گی ۔ ساتھیو ، آزادی کے بعد سے 2014 تک ملک میں 90 ہزار کلو میٹر قریب قریب نیشنل ہائی وے تھے اور آج چار سال بعد ایک لاکھ 30 ہزار کلو میٹر سے زیادہ کے ہیں ۔ گزرے ہوئے ساڑھے چار برسوں میں ہی قریب 40 ہزار کلو میٹر کے نیشنل ہائی وے جوڑے جا چکے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ کروڑ کی لاگت سے قریب 52 ہزار کلو میٹر نیشنل ہائی وے پر کام چل رہا ہے ۔ بہنو اور بھائیو ، نیشنل ہائی وے کے یہ پروجیکٹ مقامی لوگوں کے روزگار کے لئے بھی بہت بڑا وسیلہ ہیں ۔ ملک میں قومی شاہراہوں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے لئے بھارت مالا یو جنا چل رہی ہے ۔ اس کے تحت ہی روزگار کے متعدد نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور جب میں شولا پور میں سنگ بنیاد کے لئے آیا تھا ، تب بھی میں نے کہا تھا کہ جس کا سنگ بنیاد ہم رکھتے ہیں ، اس کا افتتاح بھی ہم ہی کرتے ہیں ۔ ہم دکھاوے کے لئے کام نہیں کرتے ، پتھر رکھ دو ، چناؤ نکال دو پھر تم تمہارے گھر ، ہم ہمارے گھر ، یہ سیاست دانوں نے جو روایت بنائی تھی ، ہم نے اس کو پوری طرح ختم کر دیا ہے اور میں آج بھی بتاتا ہوں ۔ یہ 30 ہزار کنبوں کے لئے جو گھر بن رہے ہیں نہ آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ، چابی دینے کے لئے ہم ہی آئیں گے ، سب سے بڑا پل ہو ، سب سے بڑی سرنگ ہو ، سب سے بڑے ایکسپریس وے ہو ، سب کچھ اسی حکومت کے دور میں یا تو بن چکے ہیں یا پھر ان پر تیز رفتاری سے کام چل رہا ہے ۔ بہنو اور بھائیو ، یہ سب سے بڑے اور سب سے لمبے ہیں صر اس لئے اس کی اہمیت ہے ، ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ وہاں بن رہے ہیں جہاں حالات مشکل تھے ، جہا کام آسان نہیں تھا ۔ بہنو اور بھائیو ، یہ کام کیوں نہیں ہوتے تھے ، باتیں ہوتی تھیں ، 40-50 سال پہلے باتیں ہوئی ہیں ، لیکن ایک آدھ پارلیمنٹ کی سیٹ ہوتی تھی ، ووٹ نہیں پڑے ہوئے تھے تو ان کو لگتا تھا کہ وہا جا کر کیا نکالیں گے ، اسی کی وجہ سے پوربی حصے کا بہت جو وکاس ہونا چاہئیے تھے وہ اٹک گیا ۔ اگر مغربی بھارت کی جو ترقی ہوئی ہے ویسے ہی مشرقی بھارت کی ہوتی تو آج ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہوتا لیکن بہنو اور بھائیو ، وہاں ووٹ زیادہ نہیں ہیں ۔ ایک آدھ دو سیٹ کے لئے کیا خرچہ کریں ، یہ ووٹ بینک کی سیاست نے ترقی میں بھی روڑے اٹکانے کا گناہ کیا تھا ۔ ہم نے اس میں سے باہر نکل کے وہاں ووٹ ہو یا نہ ہو بھاجپا کے لئے مواقع ہوں یا نہ ہوں ، آبادی کم ہو یا زیادہ ہو ، ملک کی بھلائی کے لئے جو کرنا چاہئیے ، وہ کرنے میں کبھی ہم رکتے نہیں ہیں ۔ ساتھیو ، یہی صورت حال ریلوے اورایئر وے کو لے کر کے ہے ، آج ملک میں ریلوے پر غیر معمولی کام ہو رہا ہے ۔ پہلے کے مقابلے میں دو گنا رفتار سے ریل لائن کی تعمیر اور چوڑا کرنے کا کام ہو رہا ہے ۔ تیز رفتار سے برق کاری ہو رہی ہے ۔ وہیں آج ہوائی سفر صرف خاص لوگوں کے لئے ہی محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس کو ہم نے عام شہریوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ ہوائی چپل پہننے والے کو ہوائی سفر کا مزہ لینے کے لئے اڑان جیسہ اہم اسکیمیں چل رہی ہیں ۔ ملک کے ٹیئر ۔ 2 ، ٹیئر ۔ 3 شہروں میں ہوائی اڈے اور ہیلی پیڈ بنائے جا رہے ہیں ۔ اس میں مہاراشٹر کے بھی چار ہوائی اڈے ہیں ، آنے والے وقت میں شولا پور سے بھی اڑاج کی اسکیم کے تحت فلائٹ اڑے اس کے لئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ ساتھیو ، جب کنکٹی وٹی اچھی ہوتی ہے تو گاؤ ں اور شہر دونوں کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں میں سدھار آتا ہے ۔ ہمارے شہر تو اقتصادی سرگرمیوں کے روزگار کے بڑے سینٹر شولا پور کے ساتھ ملک کے دیش کے دیگر شہروں کی ترقی دہوں کی ایک مسلسل کوشش سے ہوئی ہے ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو ترقی ہوئی ہے وہ منصوبہ بند ترقی سے ہو تی تو آج ہم کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ۔ لیکن یہ ہوئی نہیں ۔ ملک کے بہت ہی کم ایسے شہر ہیں جہاں منصوبہ بندی کے ساتھ ایک مکمل انتظام کیا گیا ہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ شہروں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی نہیں ہو پائی ۔ سڑکیں اور گلیاں تنگ ہو رہی ہیں ، سیو ریج کی لائن لیک ہوتی رہیں ، کوئی آواز اٹھاتا تھا ، تو ہلکا پھلکا کام کرکے بات ٹال دی جاتی تھی ۔ بہنو اور بھائیو ، ہماری حکومت نے ان عارضی انتظامات کے بجائے مستقل حل کا راستہ چنا ہے ۔ اسی سوچ کے تحت ملک کے شمسی شہروں کو اسمارٹ بنانے کا ایک مشن چل رہا ہے جس میں یہ ہمارا شولا پور بھی ہے ۔ ان شہروں میں رہنے والے لوگوں کے رائے سے ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر عوامی حصہ داری کی ایک مہم کے بعد اپنے شہروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کا بیڑا ہم نے اٹھایا ہے ۔ ہماری ان کوششوں کے چرچے اب دنیا میں ہو رہے ہیں ۔ حال میں ایک بین الاقوامی ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے دہوں میں دنیا میں سب سے تیز ترقی یافتہ ہونے والے شہروں میں، دس شہروں میں سبھی دس شہر بھارت کے ہوں گے ۔ کسی بھی بھارتی کے لئے یہ فخر کی بات ہے ۔ دنیا کے دس شہروں اور دس شہر بھارت کے ۔۔۔ بھارت کتنا آگے بڑھے گا ، اس کا اس میں اشارہ ہے ۔ بہنو اور بھائیو ، دنیا کو یہ دکھ رہا ہے ، لیکن ملک کے کچھ لوگ ہیں جنہیں سیاست کے سوائے کچھ نہیں سمجھ میں آتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جن کی پارٹی کی حکومت کے دوران ہمارے شہروں کی حالت بگڑتی چلی گئی ۔ آج یہی لوگ اسمارٹ سٹی مشن کا مذاق اڑانے میں لگے ہیں ۔ کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ ساتھیو ، یہ مشن ملک کی تاریخ میں شہر کاری کی ترقی کو نیا زاویہدینے کی کوشش ہے ۔ شہر کی ہر سہولت ملک کو مربوط کرنے کی کوشش ہے ۔ شہر کے عام لوگوں کی زندگیوں سے پریشانیوں کو دور کرنے کی ایک ایمان دارانہ کوشش ہے ہے ۔ گزشتہ تین برسوں میں اس مشن کے تحت ملک کے تقریباً دو لاکھ کروڑ روپئے کے پروجیکٹ کا خاکہ تیار ہو چکا ہے ۔ اس میں سے بھی قریب ایک لاکھ کروڑ روپئے کے پروجیکٹ پر کام تیزی سے پورا کیا جا رہا ہے ۔ اسی کڑی میں آج شولا پور اسمارٹ سٹی سے جڑے متعددپروجیکٹوں کا وقف کیا جانا اور سنگ بنیاد یہاں کیا گیا ہے ۔ اس میں پانی اور سیوریج سے جڑی اسکیمیں ہیں ۔ ساتھیو ، اسمارٹ سٹی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں امرت مشن کے تحت بنیادی سہولیات فراہم کرائی جا رہی ہیں ۔ اس میں بھی قریب قریب 60ہزار کروڑ روپئے کے پروجیکٹوں پر کام تیز رفتاری سے جاری ہے ۔ یہاں شولا پور میں بھی امرت یوجنا کے تحت پانی کی فراہمی اور سیویج سے جڑے متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ جب یہ کام پورے ہو جائیں گے تو شہر کے متعدد علاقوں میں پا نی کی لیک ہونے کے مسئلہ سے نکات مل سکے گی ۔ وہی جو اجنی ڈیم سے پینے کے پانی کا پروجیکٹ ، اس کے بننے سے شہروں میں پانی کا مسئلہ بھی کافی حد تک کم ہو جائے گا ۔ ساتھیو ، بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ شہر کے غریب اور بے گھر لوگوں کے لئے بھی ایک نئی سوچ کے ساتھ ہماری حکومت کام کر رہی ہے ۔ ملک کا ہر فرد گواہ رہا ہے کہ کیسے ایک طرف چمچماتی سوسائٹی بن گئی اور دوسری جانب جھگی جھونپڑیاں بڑھ رہی ہیں ۔ ہمارے یہاں انتظام ایسا رہا ہے کہ جو گھر بناتے ہیں ، کارخانے چلاتے ہیں ، صنعتوں کو توانائی دیتے ہیں وہ جھگیوں میں رہنے کو مجبور ہو گئے ہیں ۔ اس حالت کو بدلنے کی کوشش اٹل جی نے شروع کی ۔ شہروں کے غریبوں کے گھر بنانے کی ایک مہم چلائی گئی ۔ اس کے تحت سال 2000 میں یہاں شولا پور میں رہنے والے کام کرنے والو ں کو جھگی اور گندگی کی زندگی سے نجات دلانے کی کوشش ہوئی ۔ قریب قریب دس ہزار کام کرنے والے کنبوں نے ایک کو آپریٹیو سوسائٹی بنا کر اٹل جی کی حکومت کو تجویز بھیجی اور پانچ چھ برسوں کے اندر انہیں اچھے اور پکے گھروں کی چابی بھی کل گئی ۔ مجھے خوشی ہے کہ 18 سال قبل جو کام اٹل جی نے کیا تھا اس کو توسیع دینے کا ، آگے بڑھانے کا موقع پھر ایک بار ہماری حکومت کو ملا ہے ۔ آج غریب کام کرنے والے کنبوں کے 30 ہزار گھروں کے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد آج یہاں ہوا ہے ۔ اس سے جو استفادہ کرنے والے ہیں وہ کارخانوں میں کام کرتے ہیں ، رکشہ چلاتے ہیں ، ریہڑی چلاتے ہیں ۔ میں آپ سبھی کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں آپ کے اپنے گھر کی چابی ہو گی ، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ۔ بھائیو اور بہنو ،یہ یقین میں آپ کو اس لئے دے پا رہا ہوں کہ گزششتہ ساڑھے چار برسوں میں پردھان منتری آواس یوجنا شہری اس کی رفتار نے لاکھوں غریب کنبوں کی زندگی کی سطح کو بلند کیا ہے ۔ شہروں میں پہلے کیسے گھر بنتے تھے ، اور اب کیسے گھر بن رہے ہیں ۔ پہلے حکومت کس رفتار سے کام کرتی تھی ، ہم کس طرح کام کر رہے ہیں ۔ آج تھوڑا میں اس کی بھی مثال دینا چاہتا ہوں ۔ ساتھیو ، 2004 سے 2014 کے دس برس دلّی میں ریموٹ کنٹرول والی حکومت چلتی تھی ۔ 2002 سے 2014 دس برسوں میں شہروں میں رہنے والے غریب بھائیو بہنو کے لئے صرف 13 لاکھ گھر بنانے کا کاغذ پر فیصلہ ہوا ، کاغذ پر اور اس میں سے 13لاکھ یعنی کچھ نہیں ہے ۔ اتنے بڑے ملک میں ، وہ بھی فیصلہ کاغذ پر ہوا ۔ کام کتنے کا ہوا ، اتنے بڑے ملک میں صرف 8 لاکھ گھروں کا کام ہوا ۔ دس سال میں 8 لاکھ یعنی ایک سال میں 80 ہزار ، اتنے بڑے ملک میں ایک سال میں 80 ہزار ۔ یہ مودی حکومت دیکھئے اکیلے شولال پور میں 30 ہزار ۔ جبکہ بھاجپا حکومت کے دوران گزرے ہوئے ساڑھے چار برسوں میں ان کے وقت 13 لاکھ کاغذ پر طے ہوا تھا ۔ ہم نے 70 لاکھ شہری غریبوں کے گھروں کو منظوری دی جا چکی ہے ۔ اور جو اب تک دس سال میں جو نہیں کر پائے ۔ ہم نے چار سال میں 14 لاکھ گھر بنا کر کے تیار ہو چکے ہیں ۔ بچوں کے بچے ، بچوں کے بچوں کا بھی گھر بنتا کہ نہیں ہم کہہ نہیں سکتے ۔ یہ فرق ہی دکھاتا ہے کہ انہیں غریبوں کی کتنی فکر رہی ہو گی ۔ اس سے پورا اندازہ آ جاتا ہے ۔ ساتھیو ، ہماری حکومت شہر کے غریبوں کی ہی نہیں ، بلکہ درمیانہ طبقے کی بھی فکر کر رہی ہے ۔ اس کے لئے بھی پرانے طور طریقوں میں بڑی تبدیلی کی گئی ہے ۔ بھائیو اور بہنو ،کم آ مدنی والے طبقے کے لوگوں کے سااتھ ساتھ 18لاکھ روپئے سالانہ تک کمانے والے درمیانہ طبقے کے کنبوں کو ہم منصوبے کے تحت لائے ہیں ۔ اس کے تحت استفادہ کرنے والوں کو 20 سال تک ہم ہوم لون پر لگ بھگ چھ لاکھ روپئے تک کی بچت طے کی گئی ہے ۔ چھ لاکھ کی یہ بچت درمیانہ طبقے کے کنبے اپنے بچو ں کی پرورش اور پڑھائی لکھلائی میں خرچ کر سکتے ہیں ۔ یہی ایز آف لیونگ یہی سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہے ۔ بھائیو اور بہنو ،یہاں پر آ کر کام کرنے والے ساتھیوں کو میں یہ بھی نتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے گھر تو بن ہی جائیں گے اس کے علاوہ آپ سبھی کے لئے بیمہ اور پنشن کی بہترین اسکیمیں حکومت چلا رہی ہے ۔ اٹل پنشن یوجنا کے تحت آپ سبھی کو ایک ہزار سے پانچ ہزار روپۂے تک کی پنشن کا حق بہت ہی کم حصہ داری پر دیا جا رہا ہے ۔ اس منصوبے سے ملک کے سوا کر وڑ سے زیادہ کام کرنے والے جڑ چکے ہیں ۔ جس میں سے 11 لاکھ کام کرنے والے ہمارے اس مہاراشٹر کے ہی ہیں ۔ اس کے علاوہ پردھان منتری جیون جیوتی یوجنا 90 پیسے فی دن ، 90 پیسے کا ایک روپیہ بھی نہیں ، چائے بھی آج ایک روپئے میں نہیں ملتی ہے ، یہ چائے والے کو پتہ رہتا ہے ۔ 90 پیسے فی دن اور پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا فی ماہ ایک روپیہ یعنی ایک دن کا صرف 3-4 پیسہ ۔ ایک روپیہ فی ماہ کے پریمیم پر یہ بہت بڑیدو اسکیمیں چل رہی ہیں۔ ان دونوں اسکیموں سے دو دو لاکھ رپوئے کا بیمہ غریب کے لئے طے ہو جاتا ہے ۔ ان اسکیموں سے ملک میں 21 کروڑ لوک جڑ چکے ہیں ۔ جس میں سوا کروڑ سے زیادہ ہمارے مہاراشٹر کے غریب ہیں ۔ ان اسکیموں کی وجہ سے خطرے کے وقت تین ہزار روپئے سے زیادہ کا فائدہ لوگوں کو مل چکا ہے ۔ دو دو لاکھ کے حساب سے جن کے کنبوں پر خطرہ آیا ہے ان کو پیسے ملے اور اتنے کم وقت میں تین ہزار کروڑ روپیہ ان کنبوں کے پاس پہنچ چکے ، مصیبت کے وقت پہنچ چکے ، اگر مودی نے تین ہزار کروڑ روپئے کا بڑا اعلان کیا ہوتا تو ہندوستان کے سبھی اخباروں میں ہیڈ لائن ہو تی کہ مودی نے غریبوں کے لئے تین ہزار کروڑ رپئے دے دیا ۔ بغیر بولے بغیر ہیڈ لائن چھپے ، بغیر ڈھول پیٹے ، غریبوں کے گھر میں تین ہزار کروڑ روپئے پہنچ گیا ، اس کے کھاتے میں پہنچ گیا ۔ آج مشکلیں حل ہوتی ہیں ۔ پریشانیوں میں حکومت کام آتی ہے ۔ تب ہی صحیح وکاس ہوتا ہے ، اور نیت صاف ہونے کا یہی تو جیتا جاگتا ثبوت ہوتاہے۔ ساتھیو ، آپ کی حکومت یہ سبھی کام کر پا رہی ہے تو اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہے ۔ آپ کو معلوم ہے یہ سب کیسے ہو رہا ہے ۔ آپ بتائیے ، یہ سارا اتنا سارا پیسہ ہم خرچ کر رہے ہیں ، اتنی اسکیمیں چلارہے ہیں ۔ یہ کیسے ہو رہا ہے ۔ بھائی کیا وجہ ہے ۔ بتا پائیں گے آپ ۔۔ مودی نہیں ، یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ پہلے ملائی بچولئے کھاتے تھے ۔ آج وہ سارا بند ہو گیا ہے ۔ چوری ، لوٹ کی دوکانوں کو تالے لگ گئے ہیں ۔ غریب کے حق کا غریب کو مل رہا ہے ۔ اور اس لئے پائی پائی کا صحیح استعمال ہو رفہا ہے ۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ بچولئے گئے ، کمیشن خوروں کے خلاف ایک صفائی مہم چلائی گئی ہے ۔ جب میں شہر کی صفائی کی بات کرتا ہوں ، گاؤں کی صفائی کی بات کرتا ہوں تو میں نے حکومت میں بھی صفائی چلائی ہے ۔ دلّی میں حکومت کے گلیاروں سے لے کر کسانوں کی منڈیوں ، راشن کی دوکانں تک بچولیوں کو ہٹانے کی مہم یہ چوکیدار نے چھیڑ رکھی ہے ۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جو حکومت کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے ۔ نسل در نسل یہ حکومت کی روایت کی طرح یہ کرسی انہیں کے کھاتے لکھی گئی تھی ۔ یہی وہ سمجھ بیٹھے تھے ایسے بڑے بڑے دگج بھی آج قانون کے کٹ گھرے میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ بھائی رکشا سودوں میں رشوت خوری کے جواب آج ان کو دینے پڑ رہے ہیں ۔ پسینہ چھوٹ رہا ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔ بھائیو اور بہنو ،پہلے کی حکومت نے بچولیوں کے جس کلچر کو سسٹم کا حصہ بنا دیا تھا ، انہیں نے غریبوں کا حق تو چھینا ہی تھا ، ملک کی حفاظت کے ساتھ بھی بڑا کھلواڑ کیا ۔ میں کل کے اباروں میں دیکھ رہا تھا کہ ہیلی کاپٹر گھوٹا��ے کے جس بچولیوں کو حکومت تلاش کر رہی ہے ۔ ان بچولیوں میں سے ایک کو ودیش سے اٹھا کر لایا گیا ہے ۔ آج جیل میں بند ہے ۔ اس نے ایک چونکانے والا خلاصہ کیا ہے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وہ صرف ہیلی کاپٹر ڈیل میں ہی شامل نہیں تھا ۔ بلکہ پہلے کی حکومت کے وقت والا لڑاکو جہازوں کا جو سودا جہاں ہوتا تھا ، اس میں بھی اس کا رول تھا ۔ میڈیا والے کہہ رہے ہیں کہ یہ مشیل ماما کسی دوسری کمپنی کے جہازو ں کے لئے لابنگ کر رہا تھا ۔ اب اس سوال کا جواب ملنا ضروری ہے کہ کانگریس کے لیڈر جو شور ابھی کر رہے ہیں اس کا مشیل ماما سے کیا کنکشن ہے ۔ یہ کانگریس کو جواب دینا پڑے گا کہ نہیں دینا پڑے گا ۔ دینا چاہئیے کہ نہیں دینا چاہئیے ۔ یہ مشیل ماما سے کس کا ناطہ یہ بتانا چاہئیے کہ نہیں بتانا چاہئیے ۔ ذرا بتائیے ملک کو لٹنے دینا چاہئیے کیا ۔۔۔ پائی پائی کا حساب مانگنا چاہئیے کہ نہیں مانگنا چاہئیے ۔۔۔۔ چوکیدار ہمت کے ساتھ آگے بڑھے کہ نہ بڑھے ۔۔۔ چوکیدار کو آپ کا آشیر واد ہے کہ نہیں ہے ۔ آپ کا آشیر واد ہے ۔ اسی لئے چوکیدار لڑ رہا ہے ۔ بڑے بڑے دگجوں کے ساتھ لڑ رہا ہے ۔ کہیں مشیل ماما کی سودے بازی سے ہی تو اس وقت کیا ڈیل رک نہیں گئی تھی ۔ ساتھیو ، ان تمام سوالوں کے جواب جانچ ایجنسی تو ڈھونڈ رہی ہے ، ملک کے عوام بھی جواب مانگ رہے ہیں ۔ بچولیوں کے یہ جو بھی ہمدرد ہیں ، ان کو ملک کے تحفظ سے کئے گئے کھلواڑ کا جواب دینا ہو گا ۔ کمیشن خوروں کے سارے دوست اکٹھے ہو کر چوکیدار کو ڈرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن مودی ہے دوسری مٹی کا بنا ہوا ہے ۔۔ نہ اسے خرید پاؤ گے ، نہ ڈرا پاؤ گے ، یہ ملک کے لئے وہ پائی پائی کا حساب لے کر رہے گا ۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ ان کو بہت نا امیدی ہاتھ لگنے والی ہے ، کیونکہ یہ چوکیدار نہ سوتا ہے اور کتنا ہی اندھیرا کیوں نہ ہو وہ اندھیرے کو پار کر کے چوروں کو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ بھائیو اور بہنو ،چوکیدار کو یہ طاقت ، یہ چوکیداری کی طاقت کی وجہ کیا ہے ۔۔۔ میں آپ سے پوچھتاہوں یہ چوکیدار کی طاقت کی وجہ کیا ہے ۔۔۔ وہ کون سے طاقت ہے ۔ بھائیو اور بہنو ،آپ کے آشیر واد ، یہی چوکیدار کی طاقت ہے ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں وہ لوگ لاکھ مجھے گالی دی ، لگا تار جھوٹ بولیں ، بار بار جھوٹ بولیں ، جہا چاہے وہاں جھوٹ بولیں ، زور زور سے جھوٹ بولیں ، لیکن چوکیدار یہ صفائی مہم کو بند نہیں کرے گا ۔ نیو انڈیا کے لئے بچولیوں سے مکت انتظام ہونا چاہئیے ۔ اسی یقین کے ساتھ ایک بار پھر تما م وکاس کی اسکیموں کے لئے میں آپ سبھی کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں ۔ شبھ کامنائیں دیتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,ছোলাপুৰত বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D9%84%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%86%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%D9%85%D8%A7%DA%AF%D9%8F%D9%86%DA%88%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA9500%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A7%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج تلنگانہ کے رام گُنڈم میں 9500کروڑ سے زیادہ کے متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور قوم کو وقف کیا۔ اس سے قبل وزیر اعظم نے رام گُنڈم فرٹیلائزرز اینڈ کیمیکلز لمٹیڈ (آر ایف سی ایل)پلانٹ کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیاگیا اور جن کے لئے آج سنگ بنیاد رکھا گیا ، وہ زراعت اور زرعی ترقی کو بڑھاوا دیں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ایک طرف جہاں پوری دنیا کورونا وباءسے جوجھ رہی ہے اور جنگ و فوجی کارروائی کی مشکل حالات سے متاثر ہورہی ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ ان سب کے درمیان ماہرین پیش گوئی کررہے ہیں کہ ہندوستان تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 90کی دہائی سے 30سال کے مساوی ترقی آنے والے کچھ برسوں میں ہوگی۔ انہوں نے کہا’’اس نظریے کا اہم سبب پچھلے 8برسوں کے دوران ملک میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ ہندوستان نے پچھلے 8سالوں میں کام کرنے کے اپنے نظریے کو بدل دیا ہے۔ان 8برسوں میں سوچ اور حکمرانی کے نظریے میں تبدیلی آئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بنیادی ڈھانچہ سرکاری عمل آوری ، کاروبار کرنے میں آسانی اور ہندوستان کے اولو العزم معاشرے سے مملو تبدیلیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا’’ایک نیا ہندوستان خود کو خود اعتمادی اور ترقی کی للک کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتاہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی ایک مسلسل مشن ہے، جو ملک میں سال کے 365دن چلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ایک پروجیکٹ کو وقف کیا جاتا ہے تو کئی نئے پروجیکٹوں پر کام ایک ساتھ شروع ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان کی ترقی میں تیزی لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور رام گُنڈم پروجیکٹ اس کا ایک واضح مثال ہے۔ رام گُنڈم پروجیکٹ کا سنگ بنیاد 7؍اگست 2016 کو وزیر اعظم کے ذریعے رکھا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 21ویں صدی کا ہندوستان اولو العزم اہداف کو حاصل کرکے آگے بڑھ سکتا ہے۔وزیر اعظم نے تبصرہ کیا ’’جب مقاصد بلند نظر ہوں تو ہمیں نئے اصولوں کے ساتھ آنا ہوگا اور نئی سہولتوں کی تعمیر کرنی ہوگی۔‘‘جناب مودی نے کہا کہ فرٹیلائزر سیکٹر مرکزی سرکار کی ایماندارانہ کوششوں کا ثبوت ہے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ، جب ہندوستان کھاد کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے غیر ممالک پر منحصر تھا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ کئی فرٹیلائزر پلانٹ جو پہلے قائم کئے گئے تھے،رام گُنڈم پلانٹ سمیت فرسودہ ٹیکنالوجی کے سبب بند ہونے کے لئے مجبور ہوگئے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ یوریا جو زیادہ شرحوں پر درآمد کیا گیا تھا، کسانوں تک پہنچنے کے بجائے دیگر مقاصد کے لئے اس کی کالابازاری کی گئی تھی۔ کھاد کی دستیابی میں بہتری لانے کے لئے اقدامات یوریا کی 100فیصد نیم کوٹنگ۔ بند پڑے 5بڑے پلانٹوں کے کھلنے سے 60 لاکھ ٹن سے زیادہ یوریا کی پیداوار ہوگی۔ نینو یوریا کو بڑھایا۔ سنگل پین –انڈیا برانڈ ’بھارت برانڈ‘ کھادوں کو کفایتی رکھنے کے لئے 8سال میں 9.5لاکھ کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ اس سال 2.5لاکھ سے زیادہ خرچ کئے گئے۔ یوریا بیگ کی بین الاقوامی قیمت 2000روپے ہے، کسان 270روپے ادا کرتے ہیں۔ ہر ڈی اے پی کھاد کی بوری پر 2500کی سبسڈی ملتی ہے۔ باخبر کھاد کے فیصلے کے لیے سوائل ہیلتھ کارڈ پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت 2.25 لاکھ کروڑ روپے کی منتقلی۔ 2014 کے بعد مرکزی سرکار کے ذریعے کئے گئے اقدامات میں سے ایک یوریا کی 100نیم کوٹنگ کو یقینی بنانا اور کالابازاری کو روکنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوائل ہیلتھ کارڈ مہم نے کسانوں کے درمیان ان کے کھیتوں کی فوری اور اہم ضرورتوں کے بارے میں معلومات کو یقینی بنایا۔ برسوں سے ��ند 5بڑے فرٹیلائزر پلانٹوں کو پھر سے شروع کیا جارہا ہے۔اترپردیش میں گورکھپور پلانٹ نے پیداوار شروع کردی ہےاور رام گُنڈم پلانٹ قوم کے نام وقف کیا جاچکا ہے۔ جب یہ 5پلانٹ پوری طرح سے کام کرنے لگیں گے،تو ملک کو 60لاکھ ٹن یوریا دستیاب ہوگا، جس سے درآمد ات پر بھاری بچت ہوگی اور یوریا کی دستیابی آسان ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رام گُنڈم فرٹیلائزر پلانٹ تلنگانہ ، آندھراپردیش، کرناٹک، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر میں کسانوں کی خدمت کرے گا۔ پلانٹ آس پاس کے علاقوں کی معیشت کو رفتار دے گا اور خطے میں رسد سے متعلق کاروبار کو بڑھاوا دے گا۔ انہوں نے کہا’’مرکزی سرکار کے ذریعے خرچ کئے گئے 6000کروڑ روپے تلنگانہ کے نوجوانوں کو کئی ہزار روپے کا فائدہ دیں گے۔‘‘وزیر اعظم نے فرٹیلائزر سیکٹر میں تکنیکی پیش رفت کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ نینو یوریا اس سیکٹر میں وسیع تبدیلی لائے گا۔ وزیر اعظم نے آتم نربھرتا کی اہمیت پر زور دیا اور ذکر کیا کہ کیسے وباء اور جنگ کی وجہ سے کھادوں کی قیمت میں عالمی سطح پر ہوا اضافہ کسانوں کو منتقل نہیں ہوا۔ کسانوں کو 2000روپے کی بوری یوریا 270روپے میں مہیا کرائی جاتی ہے۔اسی طرح بین الاقوامی بازار میں 4000 روپے کی قیمت والے ڈی اے پی کے ایک بیگ پر 2500روپے فی بیگ کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ ’’پچھلے 8برسوں میں ‘‘، وزیر اعظم نے مطلع کیا ،’’مرکزی سرکار پہلے ہی تقریباً 10لاکھ کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے،تاکہ کسانوں پر کھادوں کا بوجھ نہ پڑے۔‘‘ انہوں نے آگے کہا کہ ہندوستان کے کسانوں کو سستی کھاد مہیا کرانے کے لئے مرکزی سرکار نے اس سال اب تک 2.5لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔وزیر اعظم نے بتایا کہ مرکزی سرکار نے پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت کسانوں کے بینک کھاتوں میں تقریباً 2.25لاکھ روپے منتقل کئے ہیں۔ وزیر اعظم نے بازار میں دستیاب کھادوں کے مختلف برانڈوں پر بھی روشنی ڈالی ، جو دہائیوں سے کسانوں کے لئے تشویش کا موضوع بن گئے تھے۔ انہوں نے تبصرہ کیا’’یوریا کا اب ہندوستان میں صرف ایک بڑانڈ ہوگا اور اسے بھارت برانڈ کہا جائے گا۔اس کا معیار اور قیمت پہلے سے ہی مقرر ہے۔ وزیر اعظم نے کنکٹی وٹی بنیادی ڈھانچے کے چیلنج کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ سرکار ہر ریاست کو جدید قومی شاہراہ ، ہوائی اڈے، آبی شاہراہ، ریلوے اور انٹرنیٹ قومی شاہراہ مہیا کراکراس چیلنج سے نمٹنے کے لئے کام کررہی ہے۔پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان سے اسے نئی توانائی مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تال میل اور منظم کام کے طریقے سے پروجیکٹوں کے طویل عرصے تک لٹکے رہنے کا امکان ختم ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھدرادری کوٹھاگودیم ضلع اور کھمم کو جوڑنے والی ریلوے لائن 4سال میں تیار ہوئی ہےاور اس سے مقامی آبادی کو بہت فائدہ ہوگا۔ اسی طرح آج جن تین قومی شاہراہوں پر کام شروع ہے، اس سے صنعتی علاقے ، گنا اور ہلدی پیدا کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ ملک میں ترقیاتی کاموں کی رفتار پر اٹھنے والے افواہ کی گردش پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کچھ طاقتیں سیاسی فائدے کے لئے رُکاوٹ ڈالتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں تلنگانہ میں ’سِنگ رینی کولیریز کمپنی لمٹیڈ-ایس سی سی ایل‘اور مختلف کوئلہ کانوں کو لے کر ایسی ہی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی’’تلنگانہ سرکار کی ایس سی سی ایل میں 51فیصد حصے داری ہے، جبکہ مرکزی سرکار کی حصے داری 49فیصد ہے۔ مرکزی سرکار اپنی سطح پر ایس سی سی ایل نجکاری سے متعلق کوئی بھی فیصلہ نہیں لے سکتی ہے۔ ‘‘انہوں نے ایک بارپھر دوہرایا کہ مرکزی سرکار کے پاس ایس سی سی ایل کی نجکاری کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کوئلہ کانوں کے سلسلے میں ملک کو حیرت زدہ کردینے والے ہزاروں کروڑ روپے کے کئی گھپلوں کو یاد کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کے ساتھ ساتھ مزدوروں، غریبوں اور جن علاقوں میں یہ کانیں واقع ہیں، انہیں زبردست نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں کوئلے کی بڑھتی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے پوری شفافیت کے ساتھ کوئلہ کانوں کی نیلامی کی جارہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا’’ہماری سرکار نے معدنیات نکالنے والے علاقوں میں خطوں میں رہنے والے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کےلئے ڈی ایم ایف ، یعنی ضلعی معدنیاتی فنڈ بھی قائم کیا ہے۔ اس فنڈ کے تحت ریاستوں کو ہزاروں کروڑ روپے جاری کئے گئے ہیں۔‘‘ خطاب کا اختتام کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا’’ہم ’سب کاساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے منتر پر عمل کرکے تلنگانہ کو آگے لے جاناچاہتے ہیں۔ اس موقع پر تنگانہ کے گورنر ڈاکٹر تمیلی سائی سندرا راجن، مرکزوزیر جی کشن ریڈی، ممبران پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں کے ممبران موجود تھے۔ اس انعقاد سے 70اسمبلی حلقو ں کے کسان بھی جڑے ہوئے تھے۔ پس منظر وزیر اعظم نے رام گُنڈم میں فرٹیلائزر پلانٹ قوم کو وقف کیا۔ اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی 7؍اگست 2016 کو وزیر اعظم کے ذریعے رکھا گیا تھا۔یوریا کی پیداوار میں رام گُنڈم پلانٹ سودیشی نیم-کوٹیڈ یوریا پیداوار کا 12.7ایل ایم ٹی فی سال دستیاب کرائے گا۔ یہ پروجیکٹ رام گُنڈم فرٹیلائزر اینڈ کیمیکلز لمٹیڈ(آر ایف سی ایل)کی نگرانی میں قائم کیا گیا ہے، جو نیشنل فرٹیلائزرز لمیٹڈ (این ایف ایل)، انجینئرز انڈیا لمٹیڈ(ای آئی ایل)اور فرٹیلائزرز کارپوریشن آف انڈیا لمٹیڈ(ایف سی آئی ایل)کی ایک مشترکہ کاروباری کمپنی ہے۔ آر ایف سی ایل کو 6300کروڑ روپے سے زیادہ کی سرکاری کے ساتھ نیو امونیا –یوریا پلانٹ قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ آرایف سی ایل پلانٹ کو گیس کی سپلائی جگدیش پور-پھول پور-ہلدیا پائپ لائن کے توسط سے کی جائے گی۔ پلانٹ تلنگانہ ریاست کے ساتھ ساتھ آندھراپردیش، کرناٹک، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر میں کسانوں کو یوریا کھاد کی وافر اور وقت پر سپلائی یقینی بنائے گا۔پلانٹ نہ صرف کھاد کی دستیابی میں بہتری لائے گا، بلکہ سڑک، ریلوے، معاون صنعت وغیرہ جیسے بنیادی ڈھانچے کی ترقی سمیت خطے میں مجموعی اقتصادی ترقی کو بھی بڑھاوا دے گا۔ اس کے علاوہ سپلائی کے لئے ایم ایس ایم ای فروخت کاروں کی ترقی سے خطے کو فائدہ ہوگا۔ آر ایف سی ایل کا ’بھارت یوریا ‘نہ صرف درآمدات کو کم کرکے ، بلکہ کھادوں اور توسیعی خدمات کی وقت پر سپلائی کے توسط سے مقامی کسانوں کی حوصلہ افزائی کرکے معیشت کو زبردست بڑھاوا دے گا۔ وزیر اعظم نے بھدرا چلم روڈ-ستّو پلّی ریل لائن کو بھی قوم کے نام وقف کیا ، جو تقریباً 1000کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی ہے۔ انہوں نے 2200کروڑ روپے سے زیادہ کے مختلف سڑک پروجیکٹوں ، جیسے این ایچ-765ڈی جی؛کے میدک –سِدی پیٹ-ایلکاتھورتھی سیکشن، این ایچ-161بی بی؛ کے بودھن –باسر-بھینسا سیکشن، این ایچ -353سی کے سیرونچا سے مہادیو پور سیکشن کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔,তেলেংগানাৰ ৰামাগুণ্ডমত ৯৫০০ কোটি টকাৰো অধিক মূল্যৰ একাধিক প্ৰকল্প দেশৰ নামত উ���ৰ্গা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%AC%DB%8C-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%8C%DA%88%D9%85%D9%86%D9%B9%D9%86-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سی ڈبلیو جی 2022، برمنگھم میں بیڈمنٹن میں گولڈ میڈل جیتنے پر لکشیہ سین کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ”@lakshya_sen کی کامیابی سے بے حد خوش ہوں۔ بیڈمنٹن میں گولڈ میڈل جیتنے پر مبارکباد۔ انھوں نے سی ڈبلیو جی میں شاندار کھیل دکھایا اور فائنل کے دوران شاندار لچک کا مظاہرہ کیا۔ وہ ہندوستان کا فخر ہیں۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔“,"চিডব্লিউজি, ২০২২ ৰ বেডমিন্টনত সোণৰ পদক লাভ কৰা লক্ষ্য সেনক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D9%85%DB%8C%D9%84%D9%86-%D8%8C-%D8%B4%D9%85%D9%84%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC-%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF/,بھارت ماتا کی، جے۔ بھارت ماتا کی، جے۔ ہماچل پردیش کے گورنر جناب راجندر جی، یہاں کے مقبول اور محنتی وزیر اعلیٰ میرے دوست جناب جئے رام ٹھاکر جی، ریاست کے صدر ہمارے پرانے ساتھی جناب سریش جی، مرکز کی وزارتی کونسل کے میرے ساتھیوں، اراکین پارلیمنٹ ، ایم ایل اے، ہماچل کے تمام عوامی نمائندے۔ آج میری زندگی میں ایک خاص دن بھی ہے اور اس خاص دن پراس دیوبھومی کو پرنام کرنے کا موقع ملے، اس سے بڑی زندگی میں خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے۔ آپ اتنی بڑی تعداد میں ہمیں آشیرواد دینے کے لیے آئے میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ابھی، ملک کے کروڑوں -کروڑ کسانوں کو ان کے کھاتے میں پی ایم کسان سمان ندھی کا پیسہ ٹرانسفر ہوگیا، پیسے ان کو مل بھی گیا، اور آج مجھے شملہ کی سرزمین سے ملک کے 10 کروڑ سے بھی زیادہ کسانوں کے کھاتے میں پیسے پہنچانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ وہ کسان بھی شملہ کو یاد کریں گے، ہماچل کو یاد کریں گے، اس دیو بھومی کو یاد کریں گے۔ میں ان سبھی کسان بھائیو اور بہنو کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت سی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، یہ پروگرام شملہ میں ہے، لیکن ایک طرح سے یہ پروگرام آج پورے ہندوستان کا ہے۔ہماری یہاں بات چیت چل رہی تھی کہ سرکار کے آٹھ سال ہونے پر کیسا پروگرام کیا جائے، کون سا پروگرام کیا جائے۔ تو ہمارے نڈا جی، جو ہماچل کے ہی ہیں، ہمارے جےرام جی؛ ان کی طرف سے ایک تجویز آئی اور دونوں تجاویز مجھے بہت اچھی لگیں ۔ ان آٹھ سال کی بدولت کل مجھے کورونا دور میں جن بچوں نے اپنی ماں اور باپ دونوں کو کھو دیا، ایسے بچوں کا ذمہ سنبھالنے کا موقع کل مجھے ملا۔ ملک کے ان ہزاروں بچوں کی دیکھ بھال کا فیصلہ سرکار نے کیا، اور کل ان کو میں نے کچھ پیسے بھی بھیج دیئے ڈیجیٹل طریقے سے۔آٹھ سال مکمل ہونے پر ایسا پروگرام ہونا من کو بہت سکون دیتا ہے،خوشی دیتا ہے۔ اور پھر میرے سامنے تجویز آئی کہ ہم ایک پروگرام ہماچل میں کریں، تو میں نے آنکھ بند کرکے ہاں کہہ دیا ۔ کیونکہ میری زندگی میں ہماچل کا مقام اتنا بڑا ہے، اتنا بڑا ہے اور خوشی کے لمحے اگر ہماچل میں آکر کے گزارنے کا مو��ع ملے تو پھر تو بات ہی کیا بنتی ہے جی۔ آج اس لئے میں نے کہا آٹھ سال کے لئے ملک کا یہ اہم پروگرام آج شملہ کی سرزمین پر ہورہا ہے، جو کبھی میری کرم بھومی رہی، میرے لئے جو دیوبھومی ہے، میرے لئے جو مقدس سرزمین ہے۔ وہا ں پر مجھے آج اہل وطن کو اس دیوبھومی سے بات کرنے کا موقع ملے، یہ اپنے آپ میں میرے لئے خوشی کئی گنا بڑھا دینے والا کام ہے۔ ساتھیو، 130 کروڑ بھارتیوں کے سیوک کے طور پر کام کرنے کا مجھے آپ سب نے جو موقع دیا ، مجھے جو اچھا موقع ملا ہے، سبھی بھارتیوں کا جو اعتماد مجھے ملا ہے، اگر آج میں کچھ کر پاتا ہوں، دن-رات دوڑ پاتا ہوں، تو یہ مت سوچئے کہ مودی کرتا ہے، یہ مت سوچئے کہ مودی دوڑتا ہے۔ یہ سب تو 130 کروڑ اہل وطن کی مہربانی سے ہورہا ہے، آشرواد سے ہورہا ہے، ان کی بدولت ہی ہورہا ہے، ان کی طاقت سے ہورہا ہے۔ خاندان کے ایک ممبر کے طور پر میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اس عہدے پر دیکھا نہیں، تصور بھی نہیں کیا ہے، اور آج بھی نہیں کررہا ہوں کہ میں کوئی وزیراعظم ہوں۔ جب فائل پر سائن کرتا ہوں، ایک ذمہ داری ہوتی ہے، تب تو وزیراعظم کی ذمہ داری کے طور پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فائل جیسے ہی چلی جاتی ہے تو میں وزیراعظم نہیں رہتا ہوں، میں صرف اور صرف 130 کروڑ اہل وطن کے پریوار کا ممبر بن جاتا ہوں۔ آپ ہی کے پریوار کے ممبر کے طور پر میں ایک پردھان سیوک کے طور پر جہاں بھی رہتا ہوں، کام کرتا ہوں اور آگے بھی ایک پریوار کے ممبر کے ناطے ، پریوار کی امیدوں- آرزووں سے جڑنا، 130 کروڑ اہل وطن کا پریوار، یہی سب کچھ ہے میری زندگی میں ۔ آپ ہی ہیں سب کچھ میری زندگی میں اور یہ زندگی بھی آپ ہی کے لئے ہے۔ اور جب ہماری سرکار اپنے آٹھ سال مکمل کررہی ہے ، تو آج میں پھر سے ، میں اس دیوبھومی سےاپنے عزم کا پھر سے اعادہ کروں گا، کیونکہ سنکلپ کو بار بار یاد کرتے رہنا چاہئے، سنکلپ کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے، اور میرا سنکلپ تھا، آج ہے ، آگے بھی رہے گا۔ جس سنکلپ کے لئے جیؤں گا، جس سنکلپ کے لئے لڑتا رہوں گا، جس سنکلپ کے لئے آپ سب کے ساتھ چلتا رہوں گا، اور اس لئے میرا یہ سنکلپ ہے اہل وطن کی عزت و احترام کے لئے ، ہر اہل وطن کی حفاظت، اس ہر اہل وطن کی خوشحالی کیسے بڑھے، اہل وطن کو امن-سکون کی زندگی کیسے ملے، اس ایک جذبے سے غریب سے غریب ہو، دلت ہو، مظلوم ہو،استحصال کیا گیاہو، دوردراز جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہوں، پہاڑی کی چوٹیوں پر رہنے والے اکا دکا رہنے والےچند پریوار ہوں، ہر کسی کی فلاح و بہبود کے لئے ، جتنا زیادہ کام کرسکتا ہوں، اس کو کرتا رہوں، اسی جذبے کو لے کر میں آج پھر سے ایک بار اس دیوبھومی سے اپنے آپ کو عہدبند کرتا ہوں ۔ ساتھیو، ہم سبھی مل کر بھارت کو اس بلندی تک پہنچائیں گے، جہاں پہنچنے کا خواب آزادی کے لئے مر مٹ جانے والے لوگوں نے دیکھا تھا۔ آزادی کے اس امرت مہوتسو میں، بھارت کے بہت روشن مستقبل کے یقین کے ساتھ ، بھارت کی نوجوان طاقت، ، بھارت کی خواتین کی طاقت، اس پر پورا اعتماد رکھتے ہوئے میں آج آپ کے بیچ آیا ہوں۔ ساتھیو، زندگی میں جب ہم بڑے اہداف کی طرف آگے بڑھتے ہیں، تو کئی مرتبہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم چلے کہاں سے تھے، شروعات کہاں سے کی تھی۔ اور جب اس کو یاد کرتے ہیں تبھی تو حساب-کتاب کا پتہ چلتا ہے کہ کہاں سے نکلے اور کہاں پہنچے، ہماری رفتار کیسی رہی، ہماری ترقی کیسی رہی، ہماری کامیابیاں کیا رہیں۔ ہم اگر 2014 سے پہلے کے دنوں کو یاد کریں، ان دنوں کو بھولنا مت ساتھیو، تب جا کرکے ہی آج کے دنوں کی قدر سمجھ میں آئے گی۔ آج کی صورتحال کو دیکھیں، پتہ چلے گا ساتھیو، ملک نے بہت لمبا سفر طے کیا ہے۔ 2014 سے پہلے اخبار کی سرخیوں میں بھری رہتی تھی، ہیڈلائن بنی رہتی تھی، ٹی وی پر بحث ہوتی رہتی تھی۔ بات کیا ہوتی تھی، بات ہوتی تھی لوٹ اور کھسوٹ کی، بات ہوتی تھی بدعنوانی کی، بات ہوتی تھی گھپلے کی، بات ہوتی تھی بھائی-بھتیجاواد کی، بات ہوتی تھی افسرشاہی کی، بات ہوتی تھی اٹکی -لٹکی بھٹکی اسکیموں کی۔لیکن وقت بدل چکا ہے، آج بحث ہوتی ہے سرکاری اسکیموں سے ملنے والے فائدے کی۔ سرمور سے ہماری کوئی سمادیوی کہہ دیتی ہے کہ مجھے یہ فائدہ مل گیا۔ آخر گھر تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ غریبوں کے حق کا پیسہ سیدھے ان کے کھاتوں میں پہنچنے کی بات ہوتی ہے، آج بحث ہوتی ہے، دنیا میں بھارت کے اسٹارٹ اپ کی، آج بحث ہوتی ہےورلڈبینک بھی ذکر کرتا ہے بھارت کے از آف ڈوئنگ بزنس کا ، آج ہندوستان کے بے قصور شہری ذکر کرتے ہیں مجرموں پر شکنجہ کسنے کی ہماری طاقت کا، بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹال رینس کےساتھ آگے بڑھنے کا۔ 2014 سے پہلے کی سرکار نے بدعنوانی کو سسٹم کا ضروری حصہ مان لیا تھا، تب کی سرکار بدعنوانی سے لڑنے کی بجائے ، اسکے آگے گُھٹنے ٹیک چکی تھی، تب ملک دیکھ رہا تھا کہ اسکیموں کا پیسہ ضرورت مند تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ جاتا ہے۔ لیکن آج بحث جن-دھن کھاتوں سے ملنے والے فوائد کی ہورہی ہے، جن دھن-آدھار اور موبائل سے بنی تہری طاقت کی ہورہی ہے۔ پہلے رسوئی میں دھواں سہنے کی مجبوری تھی، آج اجول یوجنا سے سلنڈر حاصل کرنے کی سہولت ہے۔ پہلے کھلے میں رفع حاجت کی بے بسی تھی ، آج گھر میں بیت الخلا بنواکر عزت سے جینے کی آزادی ہے۔ پہلے علاج کے لئے پیسے جمع کرنے کی بے بسی تھی ، آج ہر غریب کو آیوشمان بھارت کا سہارا ہے۔ پہلے ٹرپل طلاق کا ڈر تھا ، اب اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ہے۔ ساتھیو، 2014 سے پہلے ملک کی حفاظت کو لے کر فکر تھی، آج سرجیکل اسٹرائیک ، ایئر اسٹرائیک کا فخر ہے، ہماری سرحد پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں۔ پہلے ملک کا نارتھ ایسٹ اپنے غیرمتوازن ترقی سے ، سوتیلے برتاؤ سےپریشان تھا، دکھی تھا۔ آج ہمارا نارتھ ایسٹ دل سے بھی جڑا ہے اور جدید انفراسٹرکچر سے بھی جڑرہا ہے۔ سیوا، سُشاسن اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنی ہماری اسکیموں نے لوگوں کے لئے سرکار کے معنی ہی بدل دئے ہیں۔ اب سرکار مائی -باپ نہیں ہے، وہ وقت چلا گیا، اب سرکار سیوک ہے سیوک ، جنتا-جناردن کی سیوک۔ اب سرکار زندگی میں دخل دینے کے لئے نہیں بلکہ زندگی کو سہل بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہم ترقی کی سیاست کو ، ملک کے مرکزی دھارے میں لائے ہیں۔ ترقی کی اس آرزو میں لوگ مستحکم سرکار منتخب کررہے ہیں، ڈبل انجن کی سرکار منتخب کررہے ہیں۔ ساتھیو، ہم لوگ اکثر سنتے ہیں کہ سرکاریں آتی ہیں، جاتی ہیں، لیکن سسٹم وہی رہتا ہے۔ ہماری سرکار نے اس سسٹم کو ہی غریبی کے لئے زیادہ حساس بنایا، اس میں مسلسل اصلاح کی۔ پی ایم آواس یوجنا ہو، اسکالرشپ دینا ہو یا پھر پنشن یوجنائیں، ٹکنالوجی کی مدد سے ہم نے بدعنوانی کا اسکوپ کم سے کم کردیا ہے۔جن مسائل کو پہلے پرماننٹ مان لیا گیا تھا، ہم اس کے پرماننٹ سالیوشن دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب سیوا،سشاسن اور غریبوں کی فلاح وبہبود کا ہدف ہو، تو کیسے کام ہوتا ہے، اس کی ایک مثال ہے ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر اسکیم، ابھی میں جو کہہ رہا تھا ، ڈی بی ٹی کے ذریعہ سے، ڈائرکٹ بینیفٹ اسکیم کے توسط سے ، دس کروڑ سے زیادہ کسان کنبوں کے بینک کھاتے میں براہ راست 21 ہزار کروڑ روپئے ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔ یہ ہمارے چھوٹے کسانوں کی خدمت کے لئے ہیں ، ان کے سمّان کی ندھی ہے۔ گزشتہ 8 سال میں ایسے ہی ڈی بی ٹی کے ذریعہ ہم نے 22 لاکھ کروڑ روپئے سے براہ راست ملک کے لوگوں کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کئے ہیں ۔ اور ایسا نہیں ہوا کہ 100 پیسہ بھیجا تو پہلے 85 پیسہ لاپتہ ہوجاتا تھا۔ جتنے پیسے بھیجے، وہ پورے کے پورے صحیح پتہ پر ، صحیح مستفیضین کے بینک کھاتوںمیں بھیجے گئے ہیں۔ ساتھیو، آج اس یوجنا کی وجہ سے سوا دو لاکھ کروڑ روپئے کی لیکج رکی ہے۔ پہلے یہی سوا دو لاکھ کروڑ روپئے بچولیوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے تھے، دلالوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے تھے۔ اسی ڈی بی ٹی کی وجہ سے ملک میں سرکاری اسکیموں کا غلط فائدہ اٹھانے والے 9 کروڑ سے زیادہ فرضی ناموں کو ہم نے لسٹ سے ہٹایا ہے ۔ آپ سوچئے، فرضی نام کاغذوں میں چڑھا کر گیس سبسڈی، بچوں کی تعلیم کے لئے بھیجی گئی فیس، تغذیہ کی کمی سے نجات کے لئے بھیجی گئی رقم، سب کچھ لوٹنے کا ملک میں کھلا کھیل چل رہا تھا۔ یہ کیا ملک کے غریب کے ساتھ ناانصافی نہیں تھی، جو بچے روشن مستقبل کی امید کرتے ہیں، ان بچوں کے ساتھ ناانصافی نہیں تھی، کیا یہ گناہ نہیں تھا؟ اگر کورونا کے وقت یہی 9 کروڑفرضی نام کاغذوں میں رہتے تو کیا غریب کو سرکار کی کوششوں کا فائدہ مل پاتا کیا ؟ ساتھیو، غریب کی جب روزمرہ کی جدوجہد کم ہوتی ہے، جب وہ بااختیار ہوتا ہے، تب وہ اپنی غریبی دور کرنے کے لئے نئی توانائی کے ساتھ جٹ جاتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ہماری سرکار پہلے دن سے غریب کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ ہم نے اس کی زندگی کی ایک ایک پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ملک کے 3 کروڑ غریبوں کے پاس ان کے پکے اور نئے گھر بھی، جہاں آج وہ رہنے لگے ہیں۔ آج ملک کے 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پاس پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت ہے۔ آج ملک کے 25 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پاس دو،دو لاکھ روپئے کا ایکسی ڈنٹ انشورنس اور ٹرم انشورنس ہے، بیمہ ہے۔ آج ملک کے تقریباً 45 کروڑ غریبوں کے پاس جن دھن بینک کھاتہ ہے۔ میں آج بہت فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہوگا جو سرکار کی کسی نہ کسی اسکیم سے منسلک نہ ہو، اسکیم اسے فائدہ نہ پہنچاتی ہو۔ ہم نے دور دراز تک پہنچ کر لوگوں کو ویکسین لگائی ہے، ملک تقریباً 200 کروڑ ویکسین ڈوز کے ریکارڈ سطح پر پہنچ رہا ہے اور میں جے رام جی کو مبارکباد دوں گا، کورونا دور میں جس طرح سے ان کی سرکار نے کام کیا ہے، اور انہوں نے یہ ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن ہونے کی وجہ سے ٹورزم کے لئے تکلیف نہ ہو، اس لئے انہوں نے ویکسی نیشن کو اتنی تیزی سے چلایا،ہندوستان میں سب سے پہلے ویکسی نیشن کا کام پورا کرنے والوں میں جے رام جی کی سرکار صف اول میں رہی۔ ساتھیو، ہم نے گاوں میں رہنے والے چھ کروڑ خاندانوں کو صاف پانی کے کنکشن سے جوڑا ہے، نل سے جل۔ ساتھیو، ہم نے 35 کروڑ مُدرا لون دے کر گاوں اور چھوٹے شہروں میں کروڑوں نوجوان کو خود روزگار کا موقع دیا ۔ مدرا لون لے کر کوئی ٹیکسی چلا رہا ہے، کوئی ٹیلرنگ کی دکان کھول رہا ہے، کوئی بیٹی اپنا خود کا کاروبار شروع کررہی ہے۔ ریہڑی- ٹھیلے- پٹری پر کام کرنے والے تقریباً 35 لاکھ ساتھیوں کو بھی پہلی بار بنکوں سے قرض ملا ہے، اپنے کام کو بڑھانے کا راستہ ملا ہے۔ اور جو پردھ��ن منتری مدرا یوجنا ہے نہ ، میرے لئے اطمینان کی بات ہے۔ اس میں 70 فیصد، بینک سے پیسہ حاصل کرنے والوں میں 70 فیصد ہماری مائیں-بہنیں ہیں جو انٹرپریونور بن کرکے آج لوگوں کو روزگار دے رہی ہیں۔ ساتھیو، یہاں ہماچل پردیش کے تو ہر گھر سے ، شاید ہی کوئی پریوار ایسا ہوگا جس پریوار سے کوئی فوجی نہ نکلا ہو۔ یہ بہادروں کی سرزمین ہے جی۔ یہ ویر ماتاؤں کی سرزمین ہے جو اپنی گود سے بہادروں کو جنم دیتی ہے۔ جو ویر ماتربھومی کے تحفظ کے لئے 24 گھنٹے اپنے آپ کو وقف کرتے رہتے ہیں۔ ساتھیو، یہ فوجیوں کی سرزمین ہے، یہ فوجی پریواروں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے لوگ کبھی بھو ل نہیں سکتے کہ پہلے کی سرکاروں نے ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا، ون رینک- ون پنشن کے نام پر انہیں کیسے دھوکہ دیا۔ ابھی ہم لداخ کے ایک سابق فوجی سےبات کررہے تھے۔ انہوں نے زندگی فوج میں گزاری تھی، ان کو پکا گھر ہمارے آنے کے بعد مل رہا ہے ساتھیو۔ ان کے ریٹائرڈ ہوئے بھی 40-30 سال ہوگئے ۔ ساتھیو، فوجی پریوار ہمارے حساسیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ یہ ہماری ہی سرکار ہے جس نے چار دہائیوں کے انتظار کے بعد ون-رینک ون -پنشن کو نافذ کیا ، ہمارے سابق فوجیوں کو ایریر کا پیسہ دیا گیا۔ اس کا بہت بڑا فائدہ ہماچل کے ہر پریوار کو ہوا ہے۔ ساتھیو، ہمارے ملک میں دہائیوں تک ووٹ بنک کی سیاست ہوئی ہے۔ اپنا اپنا ووٹ بینک بنانے کی سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ووٹ بینک بنانے کے لئے نہیں، ہم نئے بھارت کو بنانے کے لئے کام کررہے ہیں۔ جب مقصد ملک کی تعمیر نو کا ہو، جب ہدف آتم نربھر بھارت کا ہو، جب ارادہ 130 کروڑ اہل وطن کی خدمت اور ا ن کی فلاح و بہود کا ہو تو ووٹ بینک نہیں بنائے جاتے، سبھی اہل وطن کا اعتماد جیتا جاتا ہے۔ اس لئے، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے جذبے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سرکار کی اسکیموں کا فائدہ سب کو ملے، ہر غریب کو ملے، کوئی غریب چھوٹے نہیں، اب یہی سرکار کی سوچ ہے، اور اسی اپروچ سے ہم کام کررہے ہیں۔ ہم نے صد فیصد فائدہ، صد فیصدمستفیضین تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ،مستفیضین کے سیچوریشن کا عہد کیا ہے۔ صد فیصد بااختیار بنانا یعنی امتیازی سلوک ختم، سفارشات ختم، خوشنودی ختم۔ صد فیصد بااختیار یعنی ہر غریب کو سرکاری اسکیموں کا پورا فائدہ ۔ مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ جے رام جی کی قیادت میں ہماچل پردیش اس سمت میں بہت اچھا کام کررہا ہے۔ ہر گھر جل یوجنا میں بھی ہماچل 90 فیصد گھروں کا احاطہ کرچکا ہے۔ کنور، لاہول-اسپتی ، چمبا، ہمیرپور جیسے اضلاع میں تو صدفیصد کوریج حاصل کی جاچکی ہے۔ ساتھیو، مجھے یاد ہے ، 2014 سے پہلے جب میں آپ کے بیچ آتا تھا تو کہتا تھا کہ بھارت دنیا سے آنکھ جھکاکر نہیں، آنکھ ملا کر بات کرے گا۔ آج بھارت، مجبوری میں دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتا ہے، اور جب مجبوری میں دوستی کا ہاتھ بڑھتا ہے نہ تو ایسے بڑھاتا ہے، بلکہ مدد کرنے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے اور ہاتھ ایسے کرکے لے جاتا ہے۔ کورونا دور میں بھی ہم نے 150 سے زیادہ ممالک کو دوائیاں بھیجی ہیں، ویکسین بھیجی ہے۔ اور اس میں ہماچل پردیش کے فارمہ ہب-بددی کا بھی اہم رول رہا ہے۔ بھارت نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے پاس پوٹینشیل بھی ہے اور ہم پرفارمر بھی ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں بھی مان رہی ہیں کہ بھارت میں غریبی کم ہورہی ہے، لوگوں کے پاس سہولیات بڑھ رہی ہیں۔ اس لئے اب بھارت کو صرف اپنے لوگوں کی ضرورت ہی پوری نہیں کرنی ہے بلکہ لوگوں کی جاگ�� ہوئی آرزووں کو بھی ہمیں پورا کرنا ہے ۔ہمیں 21 ویں صدی کے بلند بھارت کے لئے ، آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے۔ ایک ایسا بھارت جس کی پہچان کمی نہیں بلکہ جدت پسندی ہو۔ ایک ایسا بھارت جس میں لوکل مینوفیکچرر، لوکل ڈیمانڈ کو بھی پورا کرے اور دنیا کے بازاروں میں بھی اپنا سامان فروخت کرے۔ ایک ایسا بھارت جو آتم نربھر ہو، جو اپنے لوکل کے لئے ووکل ہو، جسے اپنے مقامی پروڈکٹ پر فخر ہو۔ ہمارے ہماچل کی تو دستکاری، یہاں کا فن تعمیر ، ویسا ہی اتنا مشہور ہے ۔ چمبا کا میٹل ورک، سولن کی پائن آرٹ، کانگڑا کی منی ایچر پینٹنگز کے لوگ، اور اسے دیکھنے آئیں تو ٹورسٹ لوگ دیوانے ہو جاتے ہیں۔ ایسے پروڈکٹ، ملک کے کونے کونے میں پہنچے، بین الاقوامی بازاروں کی رونق بڑھائیں اس کے لئے ہم کام کررہے ہیں۔ ویسے بھائیو اور بہنو، ہماچل کے مقامی پروڈکٹ کی چمک تو اب کاشی میں بابا وشوناتھ کے مندر تک پہنچ گئی ہے۔ کلو میں بنی، ہماری مائیں اور بہنیں بناتی ہیں، کلو میں بنی پُہلیں صدی کے موسم میں کاشی وشوناتھ مندر کے پجاریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی مددگار بن رہی ہے۔ بنارس کاممبرپارلیمنٹ ہونے کے ناطے میں اس تحفے کے لئے ہماچل پردیش کے لوگوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ساتھیو، گزشتہ 8 برسوں کی کوششوں کے جو نتیجے ملے ہیں، ان سے میں بہت اعتماد سے پرہوں، خوداعتمادی سےمعمور ہوا ہوں۔ ہم بھارت کے لوگوں کی طاقت کے آگے کوئی بھی ہدف ناممکن نہیں۔ آج بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی معیشتوں میں ایک ہے۔ آج بھارت میں ریکارڈ غیرملکی سرماریہ کاری ہورہی ہے ، آج بھارت ریکارڈ ایکسپورٹ کررہا ہے۔ آٹھ سال پہلے اسٹارٹ اپس کے معاملے میں ہم کہیں نہیں تھے ، آج ہم دنیا کے تیسرے بڑے اسٹارٹ اپ ایکوسسٹم ہیں، تیسرے بڑے۔ قریب قریب ہر ہفتے ہزاروں کروڑ روپئے کی کمپنی ہمارے نوجوان تیار کررہے ہیں۔ آنے والے 25 سال کےبڑے عزائم ں کی تکمیل کے لئے ملک نئی معیشت کے نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی تیزی سے کررہا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے والی ملٹی موڈل کنکٹیوٹی پر فوکس کررہے ہیں۔ اس بجٹ میں ہم نے جو پربت مالا یوجنا کا اعلان کیا ہے، وہ ہماچل جیسی پہاڑی ریاست میں کنکٹیوٹی کو اور مضبوط کرے گی۔ اتنا ہی نہیں ہم نے وائی برنٹ بارڈر ویلج ،اس کی جو یوجنا بجٹ میں رکھی ہے، اس کی وجہ سرحد پر آباد جو گاؤں ہیں، یہ گاوں وائی برنٹ بنے ، ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بنیں، اکٹیویٹی کے سنٹر بنے۔ سرحد سے متصل گاوں، ان کی ترقی کے لئے بھارت سرکار نے ایک خصوصی منصوبہ بنایا ہے۔ یہ وائی برنٹ بارڈر ویلج کے منصوبے کا فائدہ میرے ہماچل کے سرحدی گاوں کو فطری طور پر ملنے والا ہے۔ ساتھیو، آج جب ہم دنیا کا بہترین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنانے پر فوکس کررہے ہیں۔ ہم ملک بھر میں صحت خدمات کو جدید بنانے پر کام کررہے ہیں۔ آیوش مان بھارت ، ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے تحت ضلع اور بلاک سطح پر کریٹکل ہیلتھ کیئر سہولیات ہم تیار کررہے ہیں۔ ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج ہو اس سمت میں کام چل رہا ہے۔ اور اتنا ہی نہیں غریب ماں کا بیٹا بیٹی بھی اب ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ پہلے تو حال یہ تھا کہ اگر اس کو اسکولی تعلیم انگریزی میں نہیں ہوئی تو ڈاکٹر ہونے کا خواب ادھورا رہ جاتا تھا ۔ اب ہم نے طے کیا ہے کہ میڈیکل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ہم مادری زبان میں کرنے کو پرموٹ کریں گے تاکہ غریب سے غریب کا بچہ ، گاوں کا بچہ بھی ڈاکٹر بن سکے۔ اور اس لئے اسے انگریزی کا غلام ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ساتھیو، ملک میں ایمس جیسے بہترین اداروں کا دائرہ ملک کے دور دراز کی ریاستوں تک بڑھایا جارہا ہے۔ بلاس پور میں بن رہا ایمس اس کی زندہ مثال ہے۔ اب ہماچل والوں کو چنڈی گڑھ یا دہلی جانے کی مجبوری نہیں رہے گی۔ ساتھیو، یہ ساری کوشش ہماچل پردیش کی ترقی کو بھی رفتار دینے کا کام کررہی ہیں۔ اب معیشت مضبوط ہوتی ہے، روڈ کنکٹیویٹی ، انٹرنیٹ کنکٹی وٹی بڑھتی ہے،ہیلتھ سروسز بہتر ہوتی ہیں ، تو یہ ٹورزم کو بھی بڑھاتی ہیں۔ بھارت اپنے یہاں جس طرح ڈرون کی مینوفیکچرنگ بڑھا رہا ہے، ڈرون کا استعمال بڑھا رہا ہے، اس سے ہمارے دوردراز کے جو علاقے ہیں، ہندوستان کے دوردراز کے جو بھی علاقے ہیں ، چاہے پہاڑی ہو، جنگل کے علاقوں ہوں ،جیسے ہماچل کے بھی دوردراز کے علاقے ہیں وہاں پر ان ڈرون خدمات کا بہت بڑا فائدہ ملنے والا ہے۔ بھائیو اور بہنو، گزشتہ آٹھ برسوں میں آزادی کے 100 ویں سال کے لئے یعنی 2047 کے لئے مضبوط بنیاد تیار ہوئی ہے۔ اس امرت کال میں سدھیوں کے لئے ایک ہی منتر ہے – سب کا پریاس ۔ سب جڑیں، سب جٹیں اور سب بڑھیں۔ اسی جذبے کے ساتھ ہمیں کام کرنا ہے۔ کتنی صدیوں کے بعد، اور کتنی نسلوں کے بعد یہ خوش قسمتی ہمیں ملی ہے، ہماری آپ کی نسل کو ملی ہے۔ اس لئے آئیے، ہم سنکلپ کریں، ہم سب ’ہم سب کا پریاس‘ کی اس اپیل پر اپنی سرگرم حصہ داری نبھائیں گے، اپنا ہر فرض نبھائیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ، آج جو ہماچل نے آشرواد دیئے ہیں اور ملک کے ہر بلاک میں آج اس پروگرام سے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ آج پورا ہندوستان شملہ سے جڑا ہوا ہے۔ کروڑوں -کروڑوں لوگ آج جڑے ہوئے ہیں۔ اور آج میں آج شملہ کی سرزمین سے ملک کے ان کروڑوں لوگوں سے بات کررہا ہوں۔ میں ان کروڑوں کروڑوں لوگوں کوبہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے آشرواد بنے رہیں، ہم اور زیادہ کام کرتے رہیں، دن رات کام کرتے رہیں، جی -جان سے جٹے رہیں۔ اسی ایک جذبے کو آگے لیتے ہوئے آپ سب کے آشرواد کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ سب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بولئے۔ بھارت ماتا کی -جے بھارت ماتا کی -جے بھارت ماتا کی -جے بہت بہت شکریہ !,ছিমলাত গৰিব কল্যান সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%DB%81%D8%B1%D8%A7%DB%81-66%D9%BE%D8%B1-%DA%A9%D9%88%D9%84%D9%85-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%AA%E0%A6%A5%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%AE/,کیرالہ کی بہنوں اور بھائیوں! مجھے بھگوان کے مجھے ان کے گھر کا دورہ کرکے بڑی روحانیت محسوس ہورہی ہے۔آشتا مودی لیک کے کناروں پر کولم میں میں پچھلے سال کے سیلاب سے بحالی کا احساس ہورہا ہے، لیکن ہمیں کیرالہ کی تعمیر نو کے لئے اور زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ میں آپ کو اس بائی پاس کے مکمل ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں، جس سے لوگوں کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ لوگوں کی زندگی کو آسان بنانا میری حکومت کا عہد ہے۔ہم‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ میں یقین رکھتے ہیں۔ اس عہد بندی کے ساتھ میری حکومت نے جنوری 2015 ء میں اس پروجیکٹ کو قطعی منظوری دی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ ریاستی حکومت کے رول اس کے تعاون سے ہم نے اس پروجیکٹ کو مؤثر طورپر مکمل کیا ہے۔ 2014ء سے جبکہ میری حکومت نے کام کاج سنبھالا تھا، ہم نے ک��رالہ میں بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے کو اعلیٰ ترجیح دی تھی۔بھارت مالاکے تحت ممبئی – کنیاکماری کوریڈور کے بارے میں ایک مفصل پروجیکٹ رپورٹ تیار کی جارہی ہے۔ اس طرح کے بہت سے پروجیکٹ پیش رفت کے مختلف مراحل میں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹ اکثر اعلان کے بعد مختلف وجوہات سے التوا میں پڑ جاتے ہیں۔ لاگت بڑھنے اور وقت زیادہ لگنے کی وجہ سے عوام کا بہت سا روپیہ ضائع ہوجاتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ عوامی روپے کے ضائع ہونے کا یہ کلچر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ پرگتی کے ذریعے ہم پروجیکٹوں کی رفتار تیز کررہے ہیں اور اس مسئلے پر قابو پا رہے ہیں۔ ہرمہینے کے آخری بدھ کو میں مرکزی حکومت کے تمام سیکریٹریوں اور ریاستی حکومتوں کے چیف سیکریٹریوں کے ساتھ میٹنگ کرتا ہوں اور التوا میں پڑے ہوئے اس طرح کے پروجیکٹوں کا جائزہ لیتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ بعض پروجیکٹ20 سے 30سال پرانے ہیں اور ان میں بہت زیادہ دیر ہوچکی ہے۔ عام آدمی کو کسی پروجیکٹ یا اسکیم کے فائدوں سے اتنی مدت تک محروم رکھنا ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔اب تک میں نے پرگتی کے تحت 12لاکھ کروڑروپے کے 250 سے زیادہ پروجیکٹوں کو جائزہ لیا ہے۔ دوستو! اٹل جی کنکٹی ویٹی کی طاقت میں یقین رکھتے تھے اور ہم ان کے وژن کو آگے لے جارہے ہیں۔ پچھلی حکومت کے مقابلے میں قومی شاہراہوں سے لے کر دیہی سڑکوں تک تعمیر کی رفتار تقریباً دوگنی ہوچکی ہے۔ جب ہم نے حکومت تشکیل دی تھی تو صرف 56فیصد دیہی بستیاں سڑک سے جڑی ہوئی تھیں اور آج 90 فیصد سے زیادہ دیہی بستیاں سڑک کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی 100 فیصد کا نشانہ یقینی طورپر حاصل کرلیں گے۔ سڑک سیکٹر کی طرح میری حکومت نے ریلویز ، آبی راستوں اور فضائی راستوں کو بھی ترجیح دی ہے۔ وارانسی سے ہلدیہ تک قومی آبی راستہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔یہ آبی راستہ ٹرانسپورٹیشن کے ایک صاف ستھرے طریقے کو یقینی بنائے گا اورآنے والی نسلوں کے لئے ماحولیات کا تحفظ کرے گا۔ پچھلے چار برسوں میں علاقائی فضائی کنکٹی ویٹی میں بھی زبردست بہتری آئی ہے۔ نئی ریلوے لائنیں بچھانے اور دوہری لائنوں کی برق کاری میں بھی زبردست بہتری پیدا ہوئی ہے۔ اس سب کی بدولت روزگار کے مواقع میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب ہم سڑکیں اور پُل تعمیر کرتے ہیں تو ہم صرف قصبوں اور گاوؤں کو ہی ایک ساتھ نہیں جوڑتے، بلکہ ہم توقعات کو کامیابیوں ، رجائیت اور مواقع نیز امیدوں اور خوشی سے بھی جوڑتے ہیں۔ میری عہد بندی ہر ایک ہم وطن کی ترقی کے ساتھ ہے۔ قطار میں کھڑا ہوا آخری شخص میری ترجیح کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری حکومت نے ماہی پروری کے سیکٹر کے لئے 7500کروڑ روپے کا ایک نیا فنڈ منظور کیا ہے۔ آیوش مان بھارت کے تحت ہم غریبوں کے لئے فی کنبہ 5لاکھ روپے کی کیش لیس صحت بیمہ فراہم کررہے ہیں۔8 لاکھ سے زیادہ مریض اس اسکیم سے اب تک فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ حکومت اب تک 1100کروڑ روپے سے زیادہ منظور کرچکی ہے۔ میں کیرالہ کی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس اسکیم پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کریں ، تاکہ کیرالہ کے لو گ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ سیاحت کیرالہ اقتصادی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور ریاست کی معیشت میں اس کا ایک بڑا حصہ ہے۔میری حکومت نے سیاحت کے سیکٹر میں سخت محنت کی ہے اور اس کے نتائج بڑے نمایاں رہے ہیں۔ ہندوستان کو ورلڈ ٹریول اینڈ ٹوریزم کونسل کی 218 کی رپورٹ میں درجہ بندی میں تیسرا مقام دیا گیا ہے۔یہ ایک بڑی کامیابی ہے، جس سے پورے ملک کے سیاحت کے سیکٹر کے لئے پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے ٹریول اینڈ ٹوریزم کمپیٹیٹیو اشاریے کی درجہ بندی میں بھارت 65ویں پوزیشن سے اوپر اٹھ کر40ویں پوزیشن پر آگیا ہے۔ 2013ء میں ہندوستان میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔2013ء میں ہندوستان آنے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 70لاکھ تھی، جو 2017ء میں بڑھ کر تقریباً ایک کروڑ ہوگئی۔ یہ 42 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاحت کے سبب ہندوستان نے جو غیر ملکی زر مبادلہ کمایا تھا،وہ 2013ء میں 18ارب ڈالر سے بڑھ کر 2017ء میں 27ارب ڈالر ہوگیا ۔ یہ 50 فیصد کی چھلانگ ہے۔درحقیقت ہندوستان 2017ء میں دنیا میں ان ملکوں میں سے ایک ہوگیا جو سیاحت کے معاملے میں سب سے تیز رفتاری سے آگے بڑھے ہیں۔ہندوستان سیاحت کے معاملے میں 2016ء میں 14فیصد آگے بڑھا، جبکہ اُس سال پوری دنیا میں اوسط اضافہ7فیصد رہا ۔ ای-ویزا کی شروعات ہندوستانی سیاحت کے لئے ایک زبردست تبدیلی لانے والا عنصر ثابت ہوا۔ اب یہ سہولت پوری دنیا کے 166 ملکوں کو حاصل ہے۔ میری حکومت نے سیاحتی ورثے والے اور مذہبی مقامات کے اطراف ابتدائی ڈھانچے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے دو اہم پروگرام شروع کئے ہیں۔ سودیش درشن جو موضوع پر مبنی ٹورسٹ سرکٹوں کی ترقی سے مربوط اور پرساد ۔ کیرالہ میں سیاحت کے امکانات کا اعتراف کرتے ہوئے ہم نے سودیش درشن اور پرساد اسکیموں کے تحت 7 پروجیکٹوں کی منظوری دی ہے، جن پر اندازاً 550 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ آج بعد میں ، میں تھرواننتاپورم میں سری پدمانابھا سوامی مندر میں اس طرح کے ایک پروجیکٹ کا افتتاح کروں گا۔ میں کیرالہ کے عوام اور ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کے لئے بھگوان پدما نابھا سوامی سے پرارتھنا کروں گا ۔ میں نے ‘‘کولم کنڈلی لموینڈا ’’ کا محاورہ سنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایک مرتبہ آپ کولم چلے جائیں تو کبھی وطن کی یاد نہیں آئے گی۔مجھے بھی اس طرح کا احساس ہورہا ہے۔ میں کولم اور کیرالہ کے لوگوں کا ان کی محبت اور پیار کے لئے شکریہ ادا کرتاہوں۔ میں ایک ترقی یافتہ اور مضبوط کیرالہ کے لئے دعا کرتا ہوں۔,ৰাষ্ট্ৰীয় ঘাইপথক কোল্লাম বাইপাছ উদ্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DB%8C%D9%85%DB%8C-%DA%A9%D9%86%DA%88%DA%A9%D9%B9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%A4-%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ نے ہندوستان میں سیمی کنڈکٹرز اور ڈسپلے مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کی ترقی کے پروگرام میں درج ذیل ترامیم کو منظوری دی ہے۔ ہندوستان میں سیمی کنڈکٹر فیبس کے قیام کے لئے اسکیم کے تحت سبھی ٹیکنالوجی نوڈس کے لئے مساوی (پاری پاسو) بنیاد پر پروجیکٹ لاگت کے 50فیصدتک مالی معاونت۔ ڈسپلے فیبس کے قیام کے لیے اسکیم کے تحت مساوی (پاری پاسو) بنیاد پر پراجیکٹ لاگت کے 50 فیصد تک مالی معاونت۔ ہندوستان میں کمپاؤنڈ سیمی کنڈکٹرز / سلیکون فوٹونکس / سینسرز فیب اور سیمی کنڈکٹر اے ٹی ایم پی / او ایس اے ٹی مراکز کے قیام کے لئے اسکیم کے تحت مساوی (پاری پاسو) بنیاد پر پروجیکٹ لاگت کے 50 فیصد تک مالی معاونت۔ مزید برآںاسکیم کے تحت ٹارگٹ ٹیکنالوجیز میں ڈسکریٹ سیمی کنڈکٹر فیبسشامل ہوں گے۔ ترمیم شدہ پروگرام کے تحت، سیمی کنڈکٹر فیبس کے قیام کے لیے تمام ٹکنالوجی نوڈس پر پروجیکٹ لاگت کے 50 فیصدتک یکساں مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ کمپاؤنڈ سیمی کنڈکٹرز اور اعلی درجے کی پیکیجنگ کی مخصوص ٹیکنالوجی اور نوعیت کے پیش نظر، ترمیم شدہ پروگرام کمپاؤنڈ سیمی کنڈکٹرز/سلیکون فوٹونکس/سینسرز ڈسکریٹ سیمی کنڈکٹرز فیبس اور اے ٹی ایم پی/او ایس اے ٹی کے قیام کے لیے پاری پاسو موڈ میں سرمایہ جاتی اخراجات کے 50 فیصد تک کی مالی معاونت بھی فراہم کرے گا۔ اس پروگرام نے بہت سے عالمی سیمی کنڈکٹر پلیئرز کو ہندوستان میں فیبس قائم کرنے کے لیے راغب کیا ہے۔ ترمیم شدہ پروگرام، ہندوستان میں سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کو تیز کرے گا۔ ممکنہ سرمایہ کاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کی بنیاد پر توقع ہے کہ پہلے سیمی کنڈکٹر مرکز کے قیامکے تعلق سے کام جلد شروع ہو جائے گا۔ انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن جو کہ ہندوستان میں سیمی کنڈکٹرز اور ڈسپلے مینوفیکچرنگ ماحولیاتی نظام کی ترقی کے پروگرام کے لیے نوڈل ایجنسی ہے کو مشورہ دینے کے لیے ایک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں صنعت اور اکیڈمی کے عالمی ماہرین شامل تھے ۔ مشاورتی کمیٹی نے متفقہ طور پر سلیکون سیمی کنڈکٹر فیبس / سلیکون فوٹونکس / سینسرز / ڈسکریٹ سیمی کنڈکٹر فیبس اور اے ٹی ایم پی / او ایس اے ٹی کے تمام ٹیکنالوجی نوڈس کے لیے اتفاق رائے سے یکساں تعاون کی سفارش کی ہے جسے حکومت نے قبول کر لیا ہے۔ 45 این ایم اور اس سے اوپر کے ٹکنالوجی نوڈس کی بہت زیادہ مانگ ہے جو کہ آٹوموٹیو، پاور اور ٹیلی کام ایپلی کیشنز کے ذریعے چلتی ہے۔ مزید یہ کہ یہسیگمنٹ کل سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کا تقریباً 50فیصد ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔م م ۔ ن ا,কেবিনেটে ভাৰতত ছেমিকণ্ডাক্টৰ আৰু ডিচপ্লে উৎপাদনৰ উপযোগী পৰিৱেশ গঢ়ি তুলিবলৈ সংশ্লিষ্ট কাৰ্যসূচীৰ সংশোধনৰ প্ৰস্তাৱত অনুমোদন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-5-%D8%B3%D8%AA%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%AA%D8%B0%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%AB-%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,یوم اساتذہ کے موقع پر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی 5 ستمبر 2022 کو شام 4:30 بجے 7 لوک کلیان مارگ میں اساتذہ کے لئے قومی ایوارڈز 2022 جینتے والوں سے بات چیت کریں گے۔ اساتذہ کے قومی ایوارڈز کا مقصد ملک کے چند بہترین اساتذہ کی منفرد خدمات اعتراف کرنا اور ان کا اعزاز بخشنا ہے جنہوں نے اپنے عزم اور محنت سے نہ صرف اسکولی تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا بلکہ اپنے طلباء کی زندگیوں کو بھی سنوارا۔ اساتذہ کے قومی ایوارڈز ایلیمنٹری اور سیکنڈری اسکولوں میں کام کرنے والے باصلاحیت اساتذہ کو عوامی شناخت سے نوازتے ہیں۔ اس سال ایوارڈ کے لیے ملک بھر سے 45 اساتذہ کا انتخاب ایک سخت اور شفاف آن لائن تین مرحلے کے عمل کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৫ ছেপ্টেম্বৰত ৰাষ্ট্ৰীয় শিক্ষক বঁটা, ২০২২ প্ৰাপকসকলৰে মত-বিনিময় কৰি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%D9%88%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DA%88%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%98%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%8B/,جھارکھنڈ کے گورنر جناب رمیش بیس جی، وزیر اعلیٰ جناب ہیمنت سورین جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب جیوترادتیہ سندھیا جی، جھارکھنڈ حکومت کے وزراء، رکن پارلیمنٹ نشی کانت جی، دیگر اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی، خواتین و حضرات، بابا دھام آنے کے بعد سب کا دماغ خوش ہوجاتا ہے۔ آج ہم سب کو دیوگھر سے جھارکھنڈ کی ترقی کو تیز کرنے کی خوش بختی حاصل ہوئی ہے۔ بابا ویدناتھ کے آشیرواد سے آج 16 ہزار کروڑ سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ یہ جھارکھنڈ کے جدید کنکٹیوٹی، توانائی، صحت، آستھا اور سیاحت کو کافی حوصلہ دینے والے ہیں۔ دیوگھر ایئرپورٹ اور دیوگھر ایمس کا خواب ہم سب نے طویل عرصے سے دیکھا ہے۔ یہ خواب بھی اب پورا ہونے والا ہے۔ ساتھیو، ان پروجیکٹوں سے نہ صرف جھارکھنڈ کے لاکھوں لوگوں کی زندگی آسان ہوگی بلکہ کاروبار، سیاحت، روزگار اور خود کے روزگار کے کئی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ میں ان تمام ترقیاتی منصوبوں کے لیے جھارکھنڈ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں، بہت سی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ یہ پروجیکٹ جھارکھنڈ میں شروع کیے جا رہے ہیں، لیکن جھارکھنڈ کے علاوہ بہار اور مغربی بنگال کے کئی علاقوں کو بھی ان سے براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ یعنی یہ پروجیکٹ مشرقی بھارت کی ترقی کو بھی تقویت دیں گے۔ ساتھیو، ریاستوں کی ترقی سے قوم کی ترقی، ملک اسی سوچ کے ساتھ گزشتہ 8 سال سے کام کر رہا ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں جھارکھنڈ کو ہائی ویز، ریلوے، ایئرویز، آبی گزرگاہوں کے ذریعے جوڑنے کی کوششوں میں بھی یہی جذبہ نمایاں رہا ہے۔ جن 13 ہائی وے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان سے جھارکھنڈ کا بہار اور مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ ملک کے باقی حصوں کے ساتھ رابطہ مضبوط ہوگا۔ مرزا چوکی اور فرکا کے درمیان بننے والی چار لین والی شاہراہ پورے سنتھال پرگنہ کو جدید سہولیات فراہم کرے گی۔ رانچی-جمشید پور ہائی وے اب راجدھانی اور انڈسٹریل سٹی کے درمیان سفر کے وقت اور ٹرانسپورٹ کی لاگت دونوں میں نمایاں کمی کرے گا۔ پالما گملا سیکشن سے چھتیس گڑھ تک رسائی بہتر ہو گی، پارا دیپ پورٹ اور ہلدیہ سے پٹرولیم مصنوعات جھارکھنڈ تک لانا بھی آسان اور سستا ہوجائے گا۔ آج ریل نیٹ ورک میں جو توسیع ہوئی ہے اس سے پورے خطے میں نئی ٹرینوں کے لئے راہیں کھلی ہیں، ریل نقل و حمل کے مزید تیز ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ان تمام سہولیات کا جھارکھنڈ کی صنعتی ترقی پر مثبت اثر پڑے گا۔ ساتھیو، مجھے چار سال پہلے دیوگھر ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا تھا۔ کورونا کی مشکلات کے باوجود اس پر تیزی سے کام ہوا اور آج جھارکھنڈ کو دوسرا ہوائی اڈہ مل رہا ہے۔ دیوگھر ہوائی اڈہ ہر سال تقریباً 5 لاکھ مسافروں کو سنبھال سکے گا۔ اس سے بہت سارے لوگوں کو بابا کے درشن کرنا آسان ہوجائے گا۔ ساتھیو، ابھی جیوتی رادتیہ جی کہہ رہے تھے کہ ہوائی چپل پہننے والا بھی ہوائی سفر کا لطف اٹھا سکتا ہے، اسی سوچ کے ساتھ ہماری حکومت نے اڑان (یو ڈی اے این) اسکیم شروع کی۔ حکومت کی کاوشوں کے ثمرات آج ملک بھر میں نظر آرہے ہیں۔ اڑان اسکیم کے تحت، پچھلے 5-6 سالوں میں، اس کے ذریعے 70 سے زیادہ نئے مقامات کو ہوائی اڈوں، ہیلی پورٹ اور واٹر ایروڈوم سے جوڑا گیا ہے۔ آج عام شہریوں کو 400 سے زائد نئے روٹس پر ہوائی سفر کی سہولت مل رہی ہے۔ اڑان اسکیم کے تحت اب تک ایک کروڑ مسافروں نے بہت کم قیمت پر ہوائی سفر کیا ہے۔ ان میں سے لاکھوں ایسے ہیں جنھوں نے پہلی بار ایئرپورٹ دیکھا، پہلی بار جہاز میں سوار ہوئے۔ میرے غریب اور متوسط طبقے کے بھائی بہن، جو کبھی کہیں آنے جانے کے لیے بسوں اور ریلوے پر انحصار کرتے تھے، اب انھوں نے کرسی کی پٹی باندھنا سیکھ لیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج دیوگھر سے کولکاتہ کی فلائٹ شروع ہو گئی ہے۔ رانچی، پٹنہ اور دہلی کے لیے بھی جلد از جلد پروازیں شروع کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دیوگھر کے بعد بوکارو اور دمکا میں بھی ہوائی اڈوں کی تعمیر پر کام جاری ہے۔ یعنی آنے والے وقتوں میں جھارکھنڈ میں کنکٹیوٹی مسلسل اور بہتر ہونے والی ہے۔ ساتھیو، کنکٹیوٹی کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت ملک کے عقیدے/ آستھا اور روحانیت سے متعلق اہم مقامات پر سہولیات پیدا کرنے پر بھی زور دے رہی ہے۔ بابا بیدناتھ دھام میں بھی پرساد اسکیم کے تحت جدید سہولیات کو بڑھایا گیا ہے۔ اس طرح جب ہمہ گیر سوچ کے ساتھ کام کیا جاتا ہے تو سماج کے ہر طبقے، ہر شعبے کو سیاحت کی صورت میں آمدنی کے نئے ذرائع ملتے ہیں۔ قبائلی علاقے میں ایسی جدید سہولیات اس علاقے کی تقدیر بدلنے والی ہیں۔ ساتھیو، پچھلے 8 سالوں میں جھارکھنڈ کو سب سے بڑا فائدہ گیس پر مبنی معیشت کی طرف بڑھنے والی ملک کی کوششوں سے بھی ہوا ہے۔ مشرقی بھارت میں جس طرح کا بنیادی ڈھانچہ موجود تھا اس کی وجہ سے یہاں گیس پر مبنی زندگی اور صنعت کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پردھان منتری اورجا گنگا یوجنا پرانی تصویر بدل رہی ہے۔ ہم کمی کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے کئی نئے تاریخی فیصلے کر رہے ہیں۔ بوکارو-انگول سیکشن کا آج افتتاح جھارکھنڈ اور اڈیشہ کے 11 اضلاع میں سٹی گیس ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو وسعت دے گا۔ اس سے نہ صرف گھروں میں پائپ سے سستی گیس ملے گی بلکہ سی این جی پر مبنی ٹرانسپورٹ، بجلی، کھاد، اسٹیل، فوڈ پروسیسنگ، کولڈ اسٹوریج وغیرہ جیسی بہت سی صنعتوں کو بھی تقویت دے گی۔ ساتھیو، ہم سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے منتر پر عمل کر رہے ہیں۔ انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرکے ترقی کی نئی راہیں، روزگار، خود کے روزگار کی تلاش کی جارہی ہے۔ ہم نے ترقی کی خواہش پر زور دیا ہے، توقعاتی اضلاع پر توجہ مرکوز کی ہے۔ آج جھارکھنڈ کے کئی اضلاع کو اس کا فائدہ مل رہا ہے۔ ہماری حکومت مشکل سمجھے جانے والے علاقوں، جنگلوں، پہاڑوں سے گھرے قبائلی علاقوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد جن 18 ہزار دیہاتوں میں بجلی پہنچی ان میں سے زیادہ تر ناقابل رسائی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جو علاقے اچھی سڑکوں سے محروم تھے، ان میں دیہی، قبائلی، ناقابل رسائی علاقوں کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ گزشتہ 8 سالوں میں، ناقابل رسائی علاقوں میں گیس کنکشن، پانی کے کنکشن کی فراہمی کے لیے مشن موڈ پر کام شروع کیا گیا ہے۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ صحت کی بہتر سہولیات صرف بڑے شہروں تک محدود تھیں۔ اب دیکھیں کہ ایمس کی جدید سہولیات اب جھارکھنڈ کے ساتھ بہار اور مغربی بنگال کے بڑے قبائلی علاقوں میں بھی دستیاب ہیں۔ یہ تمام منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب ہم عوام کی سہولت کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو قوم کی دولت بھی بنتی ہے اور ترقی کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہے حقیقی ترقی۔ ہمیں مل کر اس طرح کی ترقی کی رفتار کو تیز کرن�� ہے۔ ایک بار پھر، میں جھارکھنڈ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!,দেওঘৰ বিমান বন্দৰৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পূৰ্ণ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D9%88%D8%A7%DB%81%D8%B4-%D9%85%D9%86%D8%AF-%D9%85%D8%B9%DB%8C%D8%B4%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%86%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%80-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5/,نمسکارجی ! کابینہ کے میرے تمام ساتھیوں، فائننس اور اکونومی سے تعلق رکھنے والے تمام ماہرین، متعلقین، خواتین و حضرات! سب سے پہلے تو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر آپ سب کو مبارک باد اور یہ بھی فخر کی بات ہے کہ ہم آج جب بجٹ کے بارے میں چرچہ کر رہے ہیں توبھارت جیسے وسیع و عریض ملک کی وزیر خزانہ بھی ایک خاتون ہیں، جنہوں نے اس بار ملک کا بڑا ترقی پسند بجٹ دیا ہے۔ ساتھیو، سو برسوں میں آنے والی سب سے بڑی عالمی وباکے درمیان، بھارت کی معیشت پھر سے رفتار پکڑ رہی ہے۔ یہ ہمارے اقتصادی فیصلوں اور ہماری معیشت کی مضبوط بنیاد کا عکس ہے۔ اس بار کے بجٹ میں حکومت نے تیز رفتار ترقی کے اس مومنٹم کو جاری رکھنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ غیر ملکی سرمائے کی آمد کی حوصلہ افزائی کرکے، انفراسٹرکچر سرمایہ کاری پر ٹیکس کم کرکے، این آئی آئی ایف، گفٹ سٹی اور نئے ڈی ایف آئیز جیسے ادارے قائم کرکے ہم نے فائننشیل اور اقتصادی ترقی کو تیز رفتار دینے کی کوشش کی ہے۔ فائننس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے وسیع استعمال کو لیکر ملک کی عہد بندی اب نیکسٹ لیول پر پہنچ رہی ہے۔ 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹس ہوں یا سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سیز)، یہ ہمارے وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ساتھیو، اکیسویں صدی کے بھارت کی ترقی کو تیز رفتار دینے کے لیے ہمیں اپنے تمام ترجیحی شعبوں میں مالیاتی اعتبار سے قابل عمل ماڈلوں کواولیت دینی ہوگی۔ آج ملک کی جو خواہشات ہیں، ملک جن عزائم کو لیکر آگے بڑھنے کے لیے پرجوش ہے، جس سمت میں آگے بڑھنا چاہتا ہے، ملک کی جو ترجیحات ہیں، اس میں ہمارے لئے مالیاتی اداروں کی حصے داری اہم ہے۔ آج ملک آتم نربھر بھارت مہم چلا رہا ہے۔ ہمارے ملک کا انحصار دوسرے ممالک پر ہو، اس جڑے پروجیکٹوں کی فائننسنگ کے کیا مختلف ماڈل بنائے جا سکتے ہیں، اس بارے میں غور خوض کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک مثال پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان ہے۔ اس سے جڑے پروجیکٹوں کی کامیابی میں آپ کا مرکزی رول ہے۔ ملک کی متوازن ترقی کی سمت میں حکومت ہند کی اسکیمیں جیسے خواہش مند اضلاع پروگرام ، ملک میں قریب 100 سے زیادہ اضلاع منتخب کئے گئے ہیں، جو ریاست کی اوسط سے بھی پیچھے ہیں۔ تو ہم نے یہ مالیاتی ادارے وہاں کے کوئی بھی پراجیکٹ ہیں تو اس کو ترجیح دے کر کے یہ ہمارے خواہش مند اضلاع ہیں جو ابھی پیچھے ہیں، ان کو آگے لانے کے لئے کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح سے ہمارا ملک، ہم دیکھیں تو مغربی ہندوستان بہت سی اقتصادی سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ مشرقی بھارت ہے، جہاں سب طرح کے قدرتی وسائل ہیں، لیکن معاشی ترقی کے اعتبار سے وہاں صورت حال کی بہت اصلاح ہوسکتی ہے۔بنیادی ڈھانچہ بہت بہتر ہو سکتا ہے۔ ہم مشرقی بھارت کی ترقی کے لیے، اسی طرح سے پورے شمال مشرق، اس کی ترقی، یہ ایسی چیزیں ہیں، جن کو جغرافیائی اعتبار سے ہم دیکھیں تو ہمارے لیے ترجیح دینے کی بات ہے۔ ان علاقوں میں آپ کی حصے داری میں اضافہ کرنے کی سمت میں ا بھی غور کرنا ضروری ہے۔ آج بھارت کی خواہشات ہمارے ایم ایس ایم ایز کی مضبوطی سے وابستہ ہیں۔ ایم ایس ایم ای کو مضبوط کرنے کے لیے، ہم نے بہت سی بنیادی اصلاحات کی ہیں اور نئی اسکیمیں بنائی ہیں۔ ان اصلاحات کی کامیابی، ان کی فائننسنگ کو مضبوط کرنے پر منحصر ہے۔ ساتھیو، انڈسٹری 4.0 تب تک، ہم جو چاہتے ہیں وہ نتیجہ آنے میں وقت لگ سکتا ہے، تو اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ ہم اگر چاہتے ہیں کہ جب دنیا کی انڈسٹری 4.0 کی بات کرتی ہے تو ہمیں اس کے جو اہم ستون ہیں، فنٹیک ہو، ایگری ٹیک ہو، میڈی ٹیک ہو، اس کے مطابق ہنر مندی کی ترقی ہو، یعنی 4.0 ہنر مندی کے فروغ کی ضرورت ہے۔ جیسے ہی یہ جو اہم ستون ہیں، ان ستونوں کو بھی 4.0 کی روشنی میں ہم ڈیولپ کرنے کے لیے مالیاتی ادارے کیسے ترجیح دے سکتے ہیں؟ ایسے بہت سے شعبوں کو مالیاتی اداروں کی مدد انڈسٹری 4.0 میں بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔ ساتھیو، آپ نے دیکھا ہے کہ جب کوئی کھلاڑی گولڈ میڈل لے کر آتا ہے اولمپکس میں، تو ملک کا نام دنیا میں کس روشن ہوتا ہے۔ ملک میں بھی کتنا بڑا اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ میڈل تو ایک شخص لاتا ہے لیکن پورا ماحول بدل دیتا ہے۔ کیا ہم ملک میں ایسے تجربات سے سوچ نہیں سکتے ہیں کہ ہم کوئی 8 یا 10 ایسے شعبوں کو شناخت کریں اور ہم اس میں طاقت لگائیں اور بھارت ان شعبوں میں پہلے تین میں نمبر لے سکتا ہے کیا؟ یہ نجی شعبے کی حصے داری سے ہو گا۔ اب جیسے، بھارت میں جو، کیا ایسی کنسٹرکشن کمپنیاں نہیں ہوسکتی ہیں جو دنیا کی ٹاپ 3 میں ان کا نام ہو؟ تو اسی طرح ہمارے اسٹارٹ اپس کی تعداد کی سمت میں تو ہم آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن ان کی جو مصنوعات ہیں، ان کی جو کوالٹی ہے، اس کی انفرادیت ہے ، اس کی جو ٹیکنولوجیکل بنیاد ہے ، کیا ہمارے اسٹارٹ اپ، منفرد اسٹارٹ اپس ،ٹاپ 3 کے اندر ہم جگہ بنا سکتے ہیں کیا؟ ابھی ہم نے ڈرون سیکٹر کو کھولا ہے، اسپیس سیکٹر کو کھولا ہے، جیو اسپیشل سیکٹر کو کھولا ہے۔ یہ بہت بڑے پالیسی سے متعلق فیصلےہوئے ہیں، جو ایک طرح سے گیم چینجر ہیں۔ کیا اس میں بھارت کے نئی نسل کے لوگ اسپیس سیکٹر میں آرہے ہیں، ڈرون میں آرہے ہیں، کیا اس میں بھی ہم دنیا کے ٹاپ 3 میں جگہ بنانے کا خواب نہیں دیکھ سکتے ہیں کیا؟ کیا اس کے لئے ہمارے سارے ادارے ان کی مدد نہیں کر سکتے ہیں کیا؟ لیکن یہ سب ہونے کے لیے بہت ضروری ہے کہ جو کمپنیاں، جو صنعت ان شعبوں میں آگے ہیں، انہیں ہمارے مالیاتی شعبے پر اور اس کی جانب سے فعال، پورا ساتھ ملنا چاہیے۔ ہمارے پاس مہارت بھی ہونی چاہیے کہ اس طرح کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی اداروں کے پاس صلاحیت کیسے تیار ہو؟ ورنہ آگے پتہ ہی نہیں چلے گا، وہ لے آیا ہے، وہ پتہ نہیں، ہم جو پہلے کرتے تھے، اس میں تو میل بیٹھتا ہی نہیں ہے۔ ہماری کمپنیوں، ہمارے اسٹارٹ اپس کی توسیع تبھی ہوگی جب کاروباری پہل کو ہم آگے بڑھائیں گے، اختراو پر زور دیں گے، نئی ٹیکنالوجی – نئے بازار تلاش کریں گے، نئے بزنس آئیڈیاز پر کام کریں گے اور اتنا کچھ کرنے کے لیے، جو انہیں فائننس کرتے ہیں ان میں بھی مستقبل کے ان آئیڈیاز کے بارے میں ایک گہری سمجھ ہونا ضروری ہے۔ ہمارے فائننسنگ سیکٹر کو بھی نئے مستقبل کے آئیڈیاز اور اقدامات کی اختراعی فائننسنگ اور پائیدار رسک مینجمنٹ پر بھی غور کرنا ہوگا۔ ساتھیو، یہ آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج ملک کی ترجیح بھارت کی ضرورت میں یہ بھی ہے کہ آتم نربھرتا اور ساتھ ساتھ ایکسپورٹ میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ کیسے آگے بڑھیں۔ ایکسپورٹرس کی مالیاتی ضرورتیں علیحدہ ہوتی ہیں۔ ان ضروریات کے مطابق، کیا آپ اپنی مصنوعات اور خدمات کو ڈیولپ کر سکتے ہیں تاکہ ایکسپورٹر کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ آپ انہیں اولیت دیں گے تو ان کی طاقت اضافہ ہوگا اور جب ان کی طاقت اضافہ ہوگا تو ملک کے ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔ اب جیسے ان دنوں دنیا میں بھارت کے گیہوں کی طرف رغبت میں اضافے کی خبریں آرہی ہیں۔ تو گیہوں کے جو ایکسپورٹرز ہوں گے؟ کیا ہمارے مالیاتی اداروں کی ان کی طرف توجہ ہے کیا؟ ہمارے امپورٹم ایکسپورٹ کرنے والے محکمے کی اس طرف توجہ ہے کیا؟ ہماری جوجہاز رانی کی صنعت ہے، ان کے اندر اس کی ترجیح کی فکر ہے کیا؟ یعنی ایک طرح سے جامع کوشش ہوگی اور یہ مانو دنیا میں گیہوں کا ہمارے لیے موقع آیا ہے، تو اس کو وقت سے پہلے اچھی کوالٹی ، اچھی سروس کے ساتھھ ہم پرووائڈ کریں تو آہستہ آہستہ وہ پرماننٹ بن جائے گا۔ ساتھیو، بھارت کی معیشت کی بڑی بنیاد اس لئے میں کہتا ہوں دیہی معیشت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے، اس سے انکار نہیں کرسکتے اور دیہی معیشت اتنی بڑی وسیع و عریض بنیاد ہوتی ہے جو تھوڑا تھوڑا کرکے جب اس کو مرتب کرتے ہیں تو بہت بڑی ہو جاتی ہے۔ دیہی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے چھوٹی کوششیں ہوتی ہیں لیکن نتیجے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ جیسے اپنی مدد آپ گروپوں کو فروغ دینا، کیا ہم فعال ہو کرکے اپنی مدد آپ گروپ ہو، فائننس ہو، ٹیکنالوجی ہو، مارکیٹنگ ہو، ایک بڑی جامع مدد کر سکتے ہیں، اب جیسے کسان کریڈٹ کارڈ کا کام ہے، کیا ہم مشن موڈ پر کسان کریڈٹ کار ہر کسان کو کیسے ملے، ماہی گیر کو کیسے ملے، مویشی پالنے والے کو کیسے ملے، اس پر ہم اصرار کرتے ہیں کیا؟ ملک میں ہزاروں فارمر پروڈیوسر تنظیمیں آج بن رہی ہیں اور بڑی پہل بھی کی جا رہی ہے۔ کچھ ریاستوں میں تو اچھے نتائج بھی نظر آرہے ہیں۔ ہم نے اس سمت میں کام … اب جیسے زراعت میں، پہلے ہماری طرف شہد پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، اب ہمارے یہاں شہد پر بہت اچھا کام چل رہا ہے۔ لیکن اب اس کی گلوبل مارکیٹ، اِس کے لیے، اُس کی برانڈنگ، مارکیٹنگ، اس کو مالیاتی مدد، ان ساری چیزوں میں ہم کیسے کام کر سکتے ہیں؟ اسی طرح آج ملک کے لاکھوں گاؤوں میں کامن سروس سینٹرز بنائے جا رہے ہیں۔ انہیں بھی اپنی پالیسیوں کی ترجیحات میں رکھو گے تو ملک کی دیہی معیشت کو بہت طاقت ملے گی۔ ایک طرح سے، سروس سینٹر، اس کا سب سے بڑا فائدہ آج گاؤں کے جیسے ریلوے ریزرویشن کرنا ہے، گاؤں سے کسی کو شہر نہیں جانا پڑتا ہے۔ وہ جاتا ہے، سروس سینٹر پر جاتا ہے، اپنا ریزرویشن کروا دیتا ہے اور آپ پتہ ہے کہ آج ہم آپٹیکل فائبر نیٹ ورک بچھا کر گاؤں گاؤں تک براڈ بینڈ کنکٹی وٹی پہنچا رہے ہیں۔ حکومت نے ایک طرح سے ڈیجیٹل ہائی وے اور میں سادی زبان میں کہوں گا کہ ڈیجیٹل سڑک ، ڈیجیٹل سڑک میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ گاؤں میں مجھے ڈیجیٹل لے جانا ہے۔ اور اس لئے ڈیجیٹل سڑک بنا رہے ہیں۔ ہم بڑے ڈیجیٹل ہائی ویز کی بات تو کرتے ہیں، ہمیں نیچے کی طرف جانا ہے، گاؤں تک جانا ہے، عام لوگوں تک پہنچنا ہے اور اس لیے ڈیجیٹل سڑک، ہم اس مہم کو تقویت پہنچا سکتے ہیں۔ مالیاتی شمولیت کے مختلف پروڈکٹ کو ہم گاؤں گاؤں تک لے جا سکتے ہیں کیا؟ اسی طرح زرعی شعبے سے فوڈ پروسیسنگ جڑاہے، ویئر ہاؤسنگ ہے، ایگری لاجسٹکس بھی اہم ہے۔ بھارت کی خواہشات قدرتی زراعت سے، آرگینک زراعت سے منسلک ہیں۔ اگر کوئی ان میں نیا کام کرنے کے لیے آگے آرہا ہے تو ہمارے مالیاتی ادارے اس کی کیسے مدد کریں، اس کے بارے میں سوا جانا بہت ضروری ہے۔ ساتھیو، آج کل صحت کے شعبے میں بھی بہت کام ہو رہا ہے۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے پر حکومت اتنی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ہمارے یہاں میڈیکل ایجوکیشن سے جڑے چیلنجوں کو دور کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ میڈیکل اداروں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیا ہمارے جو مالیاتی ادارے، جو بینک ہیں، وہ بھی اپنی بزنس پلاننگ میں ان شعبوں کو ترجیحات میں شامل کرسکتے ہیں کیا؟ ساتھیو، آج کی تاریخ میں گلوبل وارمنگ ایک بہت ہی اہم موضوع ہے اور بھارت نے 2070 تک نیٹ زیرو کا نشانہ رکھا ہے۔ ملک میں اس کے لیے کام شروع ہو چکا ہے۔ ان کاموں کو رفتار دینے کے لیے ماحولیات موافق پروجیکٹوں کو رفتار دینا ضروری ہے۔ گرین فائننسنگ اور ایسے نئے پہلوؤں کا مطالعہ اور نفاذ آج وقت کا تقاضہ ہے۔ جیسے شمسی توانائی کے شعبے میں بھارت بہت کچھ کر رہا ہے، بھارت اپنے یہاں آفات کا مقابلہ کرنے والے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے۔ ہم جو ملک میں ہاؤسنگ سیکٹر کے 6 لائٹ ہاؤس پروجیکٹس چلا رہے ہیں، ان میں بھی آفات کا مقابلہ کرنے والے انفراسٹرکچر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان شعبوں میں ہونے والے کاموں کو آپ کا تعاون، وہ تو ابھی ایک لائٹ ہاؤس پراجیکٹس ماڈل کی شکل میں ہے، لیکن اس طرح کے شعبے میں کام کرنے والوں کو مالیاتی مدد ملے گی، تو اس ماڈل کو وہ اس لیے وہ اس ماڈل کی نقل تیار کے گااور چھوٹے چھوتے شہروں میں لے کر جائیں گے۔ تو ہماری ٹیکنالوجی بہت تیزی سے پھیلنی شروع ہو جائے گی، کام کی رفتار بڑھ جائے گی اور میں سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کا تعاون بہت معنی رکھتا ہے۔ ساتھیو، مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی ان موضوعات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور اس ویبینار سے قابل عمل سولیوشنز ، آئیڈیاز نیں ، بہت بڑا وژن اور 2023 کا بجٹ آج ہمیں طے نہیں کرنا ہے۔ آج تو مجھے 2022-2023 مارچ مہینے کا جو بجٹ ہےاس کو کیسے نافذ کروں، جلدی نافذ کیسے کروں، نتیجہ کیسے ملے اور حکومت کو ایک آپ کے جو روزمرہ کے تجربات ہیں، اس کا فائدہ ملےتاکہ ہم فائلوں میں فل اسٹاپ، ادھر ادھر ہمارا نہ ہوجائےجس کی وجہ سے 6 – 6 مہینے تک یہ فیصلہ لٹکتا رہے، یہ اگر ہم کرنے سے پہلے چرچہ کرتے ہیں تو فائدہ ہو گا۔ ایک نئی پہل ہم نے کی ہے۔ اور جو میں سب کا پریاس کہتا ہوں نہ، اس سب کا پریاس کی ہی ایک مثال ہے کہ بھارت میں بجٹ آنا، اس سے پہلے آپ سب سے چرچہ، بجٹ پیش ہونے کے بعدچرچہ، وہ چرچہ، نفاذ کے لیےچرچہ، یہ اپنے آپ میں جمہوریت کا ایک بے مثال تجربہ ہے۔ مالیاتی دنیا میں اس قسم کی جمہوری کوشش، تمام متعلقین سے مل کرکے کام کرنا، یہ کوئی ہم بجٹ کی جو بھی خصوصیات ہیں، جو بھی طاقت ہے، اسے کی بھرپور تعریف ہوچکی ہے۔ لیکن واہ واہی کرکے مجھے رکنا نہیں ہے۔ اس بار بجٹ چاروں طرف واہ واہی ہوئی ہے۔ لیکن مجھے اس سے رکنا نہیں ہے۔ مجھے تو آپ کی مدد چاہیے آپ کا فعال رول چاہیے۔ میں تو ریاستی حکومتوں کو بھی کہوں گا کہ اس کے لیے وہ اپنی پالیسی سے متعلق جو چیزیں ہیں، جو فیصلے کرنے ہیں، پالیسیاں تیار کرنی ہیں، ان کو بھی کیا ایک اپریل سے پہلے بنا سکتے ہیں کیا؟آپ جتنی جلدی بازار میں آئیں گے، زیادہ لوگ آپ کی ریاست میں آئیں گے، تو آپ کی ریاست کو فائدہ ہوگا۔ ریاستوں کے درمیان میں بھی ایک بہت بڑی مسابقت ہونی چاہیے کہ اس بجٹ کا زیادہ کا سب سے زیادہ فائدہ کونسی ریاست لے جاتی ہے؟ کون سی ��یاست ایسی پروگیسیو پالیسیاں لے کر آتی ہے کہ تمام مالیاتی اداروں میں وہ وہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کی مدد کرنے کا من کرجائے۔ ایک بڑا ترقی پذیر ایکو سسٹم ہم ڈیولپ کریں۔ کچھ نیا کرنے کے مزاج سے ہم پہل کریں۔ مجھے پکا یقین ہے، آپ تجربہ کار لوگ ہیں، روزمرہ کی مشکلات کو آپ جاتے ہیں، روزمرہ کی مشکلات کے حل کو آپ جاتے ہیں۔ ہم اس حل کے لیے آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ بجٹ کی چرچہ سے زیادہ پوسٹ بجٹ کی چرچہ زیادہ ہے اورنفاذ کے لئے ہے یہ چرچہ، ہمیں آپ سے نفاذ کے لئے مشورہ چاہئے ۔ مجھے پکا یقین ہے، آپ کا تعاون بہت فائدے مند ہوگا۔ بہت شکریہ ! بہت بہت نیک خواہشات! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,‘বিকাশ আৰু আকাংক্ষী অৰ্থনীতিৰ বাবে বিত্তীয়কৰণ’ সন্দৰ্ভত অনুষ্ঠিত বাজেট-উত্তৰ ৱে’বিনাৰ সম্বোধন কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%B3%D8%B1%D8%8C-%D8%A8%D9%88%D8%AF%DA%BE-%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D8%8C-%D9%86%D8%A7%DA%AF%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D8%B3%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%9A%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%83%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%97%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%B8/,نئی دہلی، 5 ستمبر 2018، وزیراعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت، مرکزی کابینہ نے امرتسر، بودھ گیا، ناگپور، سمبل پور، سرمور، وشاکھا پٹنم اور جموں میں سات نئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (آئی آئی ایم) اداروں کے مستقل کیمپس کے قیام اور اس کے کام کاج کو منظوری دی ہے۔ 3775.42 کروڑ روپے کی کل لاگت میں ان کے تکریری اخراجات (2999.96 کروڑ روپے غیر تکریری اور 775.46 کروڑ روپے تکریری اخراجات ہوں گے)۔ ان آئی آئی ایم اداروں کا قیام 16۔2015، 17۔2016 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ ادارے فی الحال اپنے ٹرانزٹ کیمپس سے چل رہے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ان پر کل لاگت 3775.42 کروڑ روپے آئے گی جن میں سے درج ذیل تفصیلات کے مطابق ان اداروں کے مستقل کیمپس کی تعمیر پر 2804.09 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ نمبر شمار آئی آئی ایم اداروں کے نام رقم (کروڑ روپے میں) 1۔ آئی آئی ایم امرتسر 348.31 2۔ آئی آئی ایم بودھ گیا 411.72 3۔ آئی آئی ایم ناگپور 379.68 4۔ آئی آئی ایم سمبل پور 401.94 5۔ آئی آئی ایم سرمور 392.51 6۔ آئی آئی ایم وشاکھا پٹنم 445.00 7۔ آئی آئی ایم جموں 424.93 میزان 2804.09 ان آئی آئی ایم اداروں میں سے ہر ایک کے لئے 60384 مربع میٹر کے رقبے میں تعمیرات کی جائیں گی، جس میں ہر ایک آئی آئی ایم میں 600 طلبا کے لئے بنیادی ڈھانچے کی مکمل سہولتیں ہوں گی۔ ان اداروں کے لئے تکریری گرانٹ کی منظوری بھی پانچ سال کے لئے فی سال فی طلبا پر 5 لاکھ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔لہذا توقع ہے کہ ادارے داخلی طور پر فنڈ جٹا کر اپنے کام کاج کے اخراجات اور رکھ رکھاؤ کے اخراجات کو پورا کریں۔ ان اداروں کے لئے مستقل کیمپس کی تعمیر کا کام جون 2021 تک مکمل ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ تمام 20 آئی آئی ایم اداروں کا اپنا مستقل کیمپس ہوجائے گا۔ آئی آئی ادارے پیشہ ورانہ منیجر بننے کے لائق ہونے کے لئے طلبا کو تعلیم دیں گے۔ اس منظوری سے ملک کی معاشی اور صنعتی ترقی کو فروغ ملے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ن ا۔ن ا۔,"অমৃতচৰ, বৃদ্ধগয়া, নাগপুৰ, সম্বলপুৰ, ছিৰমুৰ, বিশাখাপট্টনম আৰু জম্মুসহ ৭খন নতুন আইআইএমৰ স্থায়ী চৌহদৰ স্থাপন আৰু কাৰ্যকৰীকৰণত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AC%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83/,2 مئی 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے وفاقی جمہوریہ جرمنی کے چانسلر عزت مآب اولاف شلز کے ساتھ بھارت جرمنی کے درمیان ہونے والی چھٹی بین حکومتی مشاورت کے مکمل اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات کے اہم پہلوؤں کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی امور پر مشترکہ نقطہ نظر پر روشنی ڈالی۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت اور جرمنی کی شراکت داری ایک پیچیدہ دنیا میں کامیابی کی نظیر بن سکتی ہے۔ انہوں نے بھارت کی آتم نربھر بھارت مہم میں جرمنی کو شرکت کی دعوت بھی دی۔ دونوں اطراف کے شریک وزرا اور عہدیداروں نے آئی جی سی کے مختلف ٹریک پر اپنی ملاقاتوں کے بارے میں مختصر رپورٹیں پیش کیں: خارجہ امور اور سلامتی اقتصادی، مالیاتی پالیسی، سائنسی اور سماجی تبادلہ آب و ہوا، ماحولیات، پائیدار ترقی اور توانائی وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتارامن، وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ارتھ سائنسز کے لیے وزیر مملکت (آئی سی) ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور سکریٹری ڈی پی آئی آئی ٹی جناب انوراگ جین نے بھارت کی طرف سے پریزنٹیشنز پیش کیں۔ مکمل اجلاس گرین اینڈ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پارٹنر شپ کے قیام کے مشترکہ ڈیلیریشن آف انٹنٹ (جے ڈی آئی) کے وزیر اعظم اور چانسلر شلز کے دستخط کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس شراکت داری میں ایس ڈی جیز اور ماحولیاتی پہل پر بھارت اور جرمنی کے تعاون کے بارے میں حکومت کی ہمہ جہت سوچ کا تصور کیا گیا ہے جس کے تحت جرمنی نے 2030 تک 10 ارب یورو کی نئی اور اضافی ترقیاتی امداد کا پیشگی عہد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ جے ڈی آئی شراکت داری کو اعلی سطحی ہم آہنگی اور سیاسی سمت فراہم کرنے کے لیے آئی جی سی کے فریم ورک کے اندر ایک وزارتی طریقہ کار بھی تشکیل دے گی۔ آئی جی سی کے بعد ایک مشترکہ بیان اختیار کیا گیا جسے یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ وزارتی دو طرفہ ملاقاتوں کے دوران متعدد معاہدے تکمیل پذیر ہوئے۔ جن کی فہرست یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔,৬ষ্ঠ ভাৰত-জাৰ্মানী আন্তঃচৰকাৰী পৰামৰ্শৰ পূৰ্ণাংগ অধিৱেশনত সহ-অধ্যক্ষতা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D8%B4%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE-2/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اروناچل پردیش میں پرشورم کنڈ فیسٹیول کی کچھ جھلکیاں مشترک کی ہیں۔ اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو کے ٹویٹ تھریڈ کو مشترک کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ""ایک خوشگوار تجربہ لگتا ہے، اروناچل پردیش کے بارے میں جاننے کا ایک منفرد موقع۔""",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে অৰুণাচল প্ৰদেশৰ পৰশুৰাম কুণ্ড উৎসৱৰ আভাস ভাগ বতৰা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-150%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF%D8%B1%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%A7%E0%A7%AB%E0%A7%A6%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%A8/,نئی دہلی،18 جولائی 2018؍وزیر اعظم جناب نریندرمودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے آج مہاتماگاندھی کی 150 ویں سالگرہ کے موقع پر قیدیوں کو خاص معافی دینے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔مہاتماگاندھی کی 150 ویں سالگرہ کی یاد گار حصے کے طورپر حسب ذیل زمروں کے قیدیوں کو خاص معافی دی جائے گی اور انہیں تین مرحلوں میں رہا کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 2 اکتوبر2018ء (مہاتماگاندھی کی سالگرہ) کو رہا کیا جائے گا ۔ دوسرے مرحلے میں قیدیوں کو 10 اپریل 2019ء (چمپارن ستیا گرہ کی سالگرہ) پر رہا کیا جائے گا اور تیسرے مرحلے میں قیدیوں کو 2 اکتوبر 2019ء(مہاتماگاندھی کی سالگرہ) پر رہا کیا جائے گا۔ خاتون قیدی جس کی عمر 55 سال یا اس سے زیادہ ہو اور جس نے اپنی 50 فیصدی سزا کی مدت پوری کرلی ہو۔ ایسے مخّس قیدی جس کی عمر 55 سال یا اس سے زیادہ ہو اور جس نے اپنی 50 فیصدی سزا کی مدت پوری کرلی ہو۔ ایسے مرد قیدی جس کی عمر 60سال یا اس سے زیادہ ہو اور جس نے اپنی 50 فیصدی سزا کی مدت پوری کرلی ہو۔ ایسے70 فیصد جسمانی ؍معذور قیدی جس نے اپنی 50 فیصدی سزا کی مدت پوری کرلی ہو۔ میعادی بیمار قیدی۔ مجرم قرار دیئے گئے قیدی جس نے اپنی دو تہائی(66 فیصد) سزا کی مدت پوری کرلی ہو۔ ایسے قیدیوں کو مخصوص معافی نہیں دی جائے گی ، جس سزائے موت کی سزا کاٹ رہے ہیں یا جن کی موت کی سزا کو تا عمر قید میں بدل دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جہیز سے ہونے والی موت، عصمت دری ، انسانی اسمگلنگ اور پوٹا ، یو اے پی اے ، ٹاڈا، ایف آئی سی این، پی او سی ایس او قانون ، منی لانڈرنگ، فیما، این ڈی پی ایس ، بدعنوانی کے روک تھام کے قانون جیسے قصورواروں کو بھی اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ امور داخلہ کی وزارت تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ایڈوائس جاری کرے گی اور ان سے کہے گی کہ وہ اہل قیدی کے معاملوں کی پہچان کرے۔ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ کو یہ بھی مشورہ دیا جائے گا کہ وہ ایسے کیسوں کی جانچ پڑتال کے لئے وہ ایک کمیٹی تشکیل دیں۔ ریاستی سرکاریں آئین کی دفعہ 161 کے تحت منظوری اور غوروخوض کے لئے گورنر کے سامنے کمیٹی کی سفارشات رکھیں گے۔ منظوری کے بعد قیدیوں کو 2 اکتوبر 2018ء ، 10 اپریل 2018ء اور 2 اکتوبر 2019ء کو رہا کیا جائے گا۔ م ن۔ح ا۔ن ع,মহাত্মা গান্ধীৰ ১৫০তম জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে কয়দীসকললৈ বিশেষ ৰেহাইত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%B9%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%D9%84%D9%85%D9%B9%DB%8C%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D8%B0/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BF-%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%A4%E0%A7%87/,نئی دہلی؍25 اپریل2018،وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے ایم ایم ٹی سی لمٹیڈ کے ذریعے یکم اپریل 2018 سے 31مارچ 2023 تک یعنی مزید پانچ سال کے لئے جاپان کی فولاد ملوں(جے ایس ایم) اور جنوبی کوریا کی پوسکو کو گریڈ پلس کے 64 فیصد سے زیادہ لوہے کے سامان کی اقسام (لمس اینڈ فائنس) کی سپلائی کے لئے طویل مدتی سمجھوتوں کی تجدید کو منظوری دے دی ہے۔ تفصیلات: موجودہ طویل مدتی سمجھوتے 31 مارچ 2018 تک ویلڈ ہیں۔جاپان کی اسٹیل ملوں اور جنوبی کوریا کی پوسکو کے ساتھ ت��دید شدہ طویل مدتی سمجھوتے یکم اپریل 2018 سے 31 مارچ 2023 تک کی پانچ سال کی مدت کے لئے ہوں گے۔ طویل مدتی سمجھوتے کے تحت ہر سال برآمد کئے جانے والے خام لوہے کی مقدار کی رینج کم سے کم سالانہ 3.80 ملین ٹن سے لے کر 5.50 ملین ٹن (زیادہ سے زیادہ) سالانہ ہوگی اور اس کے تحت این ایم ڈی سی اور غیر این ایم ڈی سی دونوں ہی اصل خام لوہے کے ساتھ ہوگی۔جبکہ بیلاڈیلا لپمس(گولے) کی برآمدکی مقدار کی حدسالانہ 1.81 ملین میٹرک ٹن اور بیلا ڈیلا فائنس(باریک) کی برآمد کی مقدار کی حد سالانہ 2.71 ملین میٹرک ٹن ہوگی۔ ان طویل مدتی سمجھوتوں کے تحت ایم ایم ٹی سی لمٹیڈ کے ذریعے جاپان کی اسٹیل ملوں اور جنوبی کوریا کی پوسکو کو سپلائی کے لئے مجوزہ خام لوہے کی مقدار کی حد 64 فیصد سے زیادہ ہوگی۔اس کی تفصیل نیچے دی گئی ہے۔ جاپان کی اسٹیل ملیں 4.30-3.00ملین ٹن سالانہ جنوبی کوریا کی پوسکو 1.20-0.80ملین ٹن سالانہ ایف او بی قیمت کے 2.8 فیصد کے کاروباری مارجنگ کے ساتھ ایم ایم ٹی سی کے ذریعے واحد ایجنسی آپریشن اور برآمدات کی موجودہ پالیسی آگے بھی جاری رہے گی۔ فائدے: طویل مدتی سمجھوتوں کے تحت خام لوہے کی برآمدات سے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے مضبوط ساجھیدار ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی اور برآمداتی بازارحاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی زر مبادلہ ملک میں آسکے گا۔ مذکورہ سمجھوتے سے ہندوستان کو اپنے خام لوہے کے لئے بین الاقوامی بازار حاصل کرنے اورمضبوط معاشی ، ایکو نظام قائم کرنے میں مدد ملے گی، جو کانکنی ، لوجسٹک اور متعلقہ شعبوں میں براہ راست اور بلاواسطہ روزگار فراہم کراتا ہے۔ پس منظر: ہندوستان سے جاپان کو خام لوہے کی برآمد کی تاریخ لگ بھگ 6دہائی پرانی ہے اوریہ جاپان کے ساتھ ہندوستان کے باہمی تعلقات کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ ایم ایم ٹی سی 1963 سے جاپان کی اسٹیل ملوں کو خام لوہا سپلائی کررہی ہے اور جنوبی کو ریا کو 1973 سے خام لوہا سپلائی کررہی ہے۔خام لوہے کی سپلائی کے لئے جاپان کی اسٹیل ملوں اور جنوبی کوریا کی پوسکو کے ساتھ موجودہ طویل مدتی سمجھوتے تین سال کی مدت کے لئےتھے، جو 31 مارچ 2018 کو ختم ہوگئے۔مرکزی کابینہ نے 24 جون 2015 کو منعقد اپنی میٹنگ میں ایم ایم ٹی سی لمٹیڈ کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ 18-2015 تک تین سال کی مدت کے لئے خام لوہے کی سپلائی کے لئے جاپان کی اسٹیل ملوں اور جنوبی کوریا کی پوسکو کے ساتھ سمجھوتے کرے۔ م ن۔ح ا۔ن ع,এমএমটিচি লিমিটেডৰ জৰিয়তে জাপান আৰু দক্ষিণ কোৰিয়ালৈ লো আকৰ যোগানৰ দীৰ্ঘম্যাদী চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%DA%88%D8%A8%D9%84%D8%B2-%D9%B9%DB%8C%D8%A8%D9%84-%D9%B9%DB%8C%D9%86%D8%B3-%D9%85%D9%82%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A6%9B-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%B2-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9B/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں مردوں کے ڈبلز ٹیبل ٹینس مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر شرد کمل اورساتھیان گناشیکھرن کو مبارکباددی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے: ‘‘ ٹیم ورک کے لئے زیادہ قوت ! دیکھ کرخوشی ہوئی کہ مردوں کے ڈبلز مقابلے میں شرد کمل اور ساتھیان کی فعال ٹیم نے چاندی کا تمغہ جیتا ہے ۔ان شاندار کھلاڑیوں کے لئے نیک خواہشات ۔# Cheer 4 India’’,পুৰুষৰ ডাবলছ টেবুল টেন���ছত ৰূপৰ পদক জয়ৰ বাবে শৰথ কমল আৰু সাথিয়ান জ্ঞানচেকৰণক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B3%D8%B3%D9%B9%D9%86%D9%B9-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D8%B2-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AF%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%8C-2016-%D8%A1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 27 ستمبر / اسسٹنٹ سکریٹری کے طور پر اپنے اختتامی اجلاس کے حصے کے طور پر 2016 ء بیچ کے آئی اے ایس افسروں نے آج وزیر اعظم جناب نریندر مودی کو مقالہ پیش کیا ۔ افسران نے کھیتی سے آمدنی میں اضافہ ، سوائل ہیلتھ کارڈ ، شکایات کا ازالہ ، شہریوں پر مرکوز خدمات ، بجلی کے شعبے میں اصلاحات ، سیاحت میں سہولت ، ای – نیلامی اور اسمارٹ شہری ترقی سولیوشن جیسے مرکزی خیال پر 8 مقالات پیش کئے ۔ اس موقع پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا کہ اسسٹنٹ سکریٹریز پروگرام آفیسر ، جو سب سے جونیئر اور سب سے سینئر ہوتے ہیں ، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ وزیر اعظم نے نوجوان آفیسروں کو ، اُن تجربات کی بہترین باتوں کو ، جو انہوں نے اس پروگرام کے حصے کے طور پر مختلف وزارتوں میں حاصل کئے ہیں ، انہیں اپنائیں ۔ انہوں نے نو جوان آفیسروں کو زور دے کر کہا کہ وہ حکومت کے تعلق سے عوام کی توقعات کو اپنے ذہن میں رکھیں اور ان توقعات کی تکمیل کے لئے اپنے طور پر بہترین کام کریں ، خواہ وہ اپنے کیریئر کے دوران ، جس عہدے پر بھی فائزہوں ۔ وزیر اعظم نے ان آفیسروں کی اپنے ارد گرد کے عوام سے ، جن کے لئے اپنی ڈیوٹی کے دوران ، انہوں نے کام کیا ، ان کے ساتھ رابطہ بنانے کی حوصلہ افزائی کی ۔ انہوں نے کہاکہ عوام کے ساتھ قریبی رابطہ بنانا اپنے کام اور مقاصد کے حصول میں کامیابی کی اہم کلید میں سے ایک ہے ۔ وزیر اعظم نے ان آفیسروں کے ذریعے پیش کئے گئے مقالوں کی تعریف کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ش س ۔ ع ا ) ( 27 – 09 – 2018 ),সহকাৰী সচিবসকলৰ অনুষ্ঠানৰ সামৰণী অধিৱেশনঃ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সন্মুখত উপস্থাপন আগবঢ়ালে ২০১৬ত উত্তীৰ্ণ আইএএছ বিষয়াই +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%8C-%D9%85%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88-%D9%81%D8%B6%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA/,نئی دہلی،12۔فروری ۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے روس کے شہر ماسکو میں ہوئے فضائی حادثے میں ہونے والے جانی نقصان پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے ۔ جناب مودی نے اپنے پیغام تاسف میں کہا :’’ ماسکومیں ہوئے فضائی حادثے میں ہونے والے جانی نقصان پر دلی تعزیت پیش کرتا ہوں ۔ ہماری تمام تر ہمدردیاں اس حادثے میں ہلا ک ہونےوالوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں ۔‘‘ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش۔ رم,মস্কোত বিমান দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱাসকলৰ বাবে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%DA%88%DA%BE%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%8C-%D9%85%DB%81%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%81%D8%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%B9%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج مہسانہ کے موڈھیرا میں 3900 کروڑ روپے سے زیادہ کے مختلف پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے موڈھیرا گاؤں کو ہندوستان کا پہلا x724 شمسی توانائی کے استعمال والا گاؤں بھی قرار دیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا دن موڈھیرا، مہسانہ اور پورے شمالی گجرات کے لیے ترقی کے میدان میں نئی توانائی کے آغاز کا پتہ دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بجلی اور پانی سے لے کر ریلوے اور روڈ ویز تک، ڈیری سے لے کر اسکل ڈویلپمنٹ اور صحت تک کے متعدد منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ہے یا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ان کے فوائد بیان کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ منصوبے خطے میں روزگار کا ذریعہ بنیں گے، اور کسانوں اور مویشی پالنے کے شعبے میں لوگوں کی آمدنی بڑھانے میں مدد کریں گے، جبکہ ریاست میں تاریخی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم نے قوم کو شرد پورنیما اور والمیکی جینتی کی مبارکباد بھی دی اور کہا کہ مہارشی والمیکی نے ہمیں بھگوان رام کی ‘سمرس’ زندگی سے متعارف کرایا اور ہمیں مساوات کا سبق سکھایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے موڈھیرا سوریا مندر کے لیے جانا جاتا تھا لیکن اب سوریا مندر نے سور گرام کے جذبے کو اُبھارا ہے اور اس نے دنیا کے ماحولیات اور توانائی کے نقشے پر جگہ بنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدیوں سے موڈھیرا کو زمین بوس کرنے کی کئی کوششوں کے باوجود، اب موڈھیرا قدیم اور جدید کے امتزاج کی مثال بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘موڈھیرا کا ذکرہمیشہ پوری دنیا میں شمسی توانائی کے بارے میں ہونے والی کسی بھی بحث میں کیا جائے گا’’، ۔ وزیر اعظم نے شمسی توانائی اور بجلی کی کوریج کے شعبے میں کامیابیوں کا سہرا مرکز اور ریاست کی حکومتوں پر گجرات کے لوگوں کے اعتماد کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ لگن اور دوررس سوچ اور صاف نیت کے ساتھ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ موڈھیرا میں سولر انرجی، ہاؤس لائٹس، زرعی ضروریات کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو بھی بجلی فراہم کرے گی۔ جناب مودی نے مزید کہا ‘‘21ویں صدی کے خود انحصار ہندوستان کے لیے ہمیں اپنی توانائی کی ضروریات سے متعلق ایسی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا’’، ۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس سمت میں کام کر رہے ہیں جہاں بجلی پیدا کرنے والے اور صارف خود عوام ہوں۔ انہوں نے مزید کہا۔ ‘‘اپنی ضرورت کی توانائی استعمال کریں اور اضافی بجلی حکومت کو فروخت کریں ’’،اس سے بجلی کے بلوں سے بھی نجات ملے گی اور اضافی آمدنی بھی ہو گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب تک معمول یہ تھا کہ حکومت بجلی پیدا کرتی تھی اور عوام ان سے خریدتے تھے، لیکن آج مرکزی حکومت ایسی پالیسیوں پر کام کر رہی ہے جس کے تحت لوگ اپنے گھروں میں اور کسان اپنے کھیتوں میں سولر پینل لگا کر اور آبپاشی کے لیے سولر پمپ لگا کر بجلی پیدا کر سکیں۔ گزشتہ مشکل وقت کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بچیوں کی تعلیم تھی جو بجلی کی عدم موجودگی سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ وزیر اعظم نے یہ بھی اظہار خیال کیا کہ مہسانہ کے لوگ فطری طور پر ریاضی اور سائنس میں اچھے ہیں۔ اگر آپ امریکہ جائیں تو وہاں ریاضی کے میدان میں شمالی گجرات کا معجزہ نظر آئے گا۔ اگر آپ پورے کَچھ کا دورہ کریں تو آپ کو مہسانہ ضلع کے اساتذہ نظر آئیں گے، انہوں نے مزید کہا، ‘‘یہ بجلی کی کمی تھی جس نے ان کی قابلیت کی بلندیوں کو حاصل کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔’’ وزیر اعظم نے مزید ریمارکس دیئے کہ گجرات نے گزشتہ دو دہائیوں میں حکومت میں عوام کے اعتماد کی وجہ سے ہندوستان میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے جب وزیر اعظم نے بطور وزیر اعلیٰ گجرات کی قیادت کی، جناب مودی نے کہا کہ ریاستی بجٹ کا ایک بڑا حصہ پانی کے لیے مختص کرنا پڑا کیونکہ گجرات دس میں سے سات سالوں کے دوران قحط سے پریشان تھا۔ انہوں نے مزید کہا ‘‘اور یہی وجہ ہے کہ ہم پنچامرت اسکیم لے کر آئے جس میں گجرات میں پانی کے بحران پر توجہ مرکوز کی گئی تھی’’، ۔ وزیر اعظم نے جیوتی گرام اسکیم کی کامیابی کو یاد کیا جو انجھا میں شروع ہوئی تھی جس کے تحت ہر گاؤں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی گئی تھی اور حکومت نے اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ایک ہزار دن مختص کیے تھے۔ سوجالم سفالم اسکیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے زمین کے کسانوں کے تئیں بے حد شکریہ ادا کیا جنہوں نے آج شمالی گجرات کے کھیتوں کو سیراب کرنے والی سوجالم سفالم نہر کے لیے اپنی زمین دے دی۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ آج پانی سے متعلق اسکیموں کے افتتاح سے خاندانوں، ماؤں اور بہنوں کی صحت کو فائدہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں حکومت نے رابطہ کاری پر زور دیا ہے اور ڈبل انجن والی حکومت کے ساتھ نریندر اور بھوپیندر ایک ہو گئے ہیں۔ جناب مودی نے نشاندہی کی کہ 1930 میں انگریزوں نے مہیسانہ-امباجی-ترنگا-ابوروڈ ریلوے لائن کی ترقی کا روڈ میپ بنایا تھا، لیکن اس کے بعد کی حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے مزید کہا۔ ‘‘ہم اس سب کو سامنے لے کر آئے۔ تمام منصوبے بنائے، اور آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس سے کتنی مالی خوشحالی آنے والی ہے’’۔ وزیر اعظم نے پردھان منتری جن اوشدھی کیندر کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا جو رعایتی شرح پر ادویات فراہم کرتا ہے۔ جناب مودی نے ہر ایک شخص پر اس بات کے لئے زور دیا کہ وہ اپنی دوائیں ان جن اوشدھی کیندروں سے خریدیں جہاں عام دوائیں جو پہلے 1000 روپے کی ہوتی تھیں اب ان کی قیمت 100-200 روپے ہے۔ سیاحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ صنعت بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔ جناب مودی نے کہا، ‘‘ذرا وڈ نگر میں کی گئی کھدائی کو دیکھو!، ہزاروں سال پرانے آثار ملے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس بات کا ذکر کیا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں گجرات کے مندروں اور شکتی پیٹھوں کی بحالی کے لیے مخلصانہ کوششیں کی گئی ہیں۔ ‘‘سومناتھ، چوٹیلا اور پاوا گڑھ کی بہتر صورتحال اس کی مثالیں ہیں’’، انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘پاوا گڑھ نے 500 سال تک اپنا جھنڈا نہیں لہرایا، یہاں تک کہ وہ دن آیا جب میں وہاں پہنچا اور 500 سال بعد جھنڈا لہرایا۔’’ خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس’ کے منتر پر تبصرہ کیا جو ڈبل انجن والی حکومت کی بنیاد ہے۔ وزیراعظم نے کہا۔‘‘سورج کی روشنی کی طرح جو تفریق نہیں کرتی، ترقی کی روشنی بھی ہر گھر اور جھونپڑی تک بلا تفریق پہنچتی ہے’’، اس موقع پر گجرات کے چیف منسٹر جناب بھوپیندر پٹیل، ممبران پارلیمنٹ، شری سی آر پاٹل، شری بھراسنھ دھابی، محترمہ شاردابین پٹیل اور جوگنجی لوکھنڈ والا بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم کی طرف سے قوم کو وقف کیے جانے والے پروجیکٹوں میں دیگر کے علاوہ احمد آباد-مہسانہ گیج کنورژن پروجیکٹ کے سابرمتی-جگودان حصے کا گیج کنورژن ۔ او این جی سی کا ننداسن جیولوجیکل آئل پروڈکشن پروجیکٹ؛ کھیراوا سے شنگوڈا جھیل تک سجالم سُفلم نہر ؛ دھروئی ڈیم پر مبنی وڈ نگر کھیرالو اور دھروئی گروپ ریفارم اسکیم؛ بیچراجی موڈھیرا-چناسما ریاستی شاہراہ کے ایک حصے کو چار لین کرنے کا منصوبہ۔ انجا-دساج اوپرا لاڈول (بھانکھر اپروچ روڈ) کے ایک حصے کو پھیلانے کا منصوبہ؛ علاقائی تربیتی مرکز کی نئی عمارت، سردار پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (ایس پی آئی پی اے) ، مہسانہ؛ اور موڈھیرا کے سورج مندر میں پروجیکشن میپنگ، شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جن میں این ایچ- 68 کے ایک حصے کو پٹن سے گوزریا تک چار لین بنانا شامل ہے۔ ضلع مہسانہ کے جوٹانہ تعلقہ کے چلاسان گاؤں میں ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ؛ دودھ ساگر ڈیری میں ایک نیا خودکار دودھ پاؤڈر پلانٹ اور یو ایچ ٹی دودھ کارٹن پلانٹ؛ جنرل ہسپتال مہسانہ کی تعمیر نو اور مہسانہ اور شمالی گجرات کے دیگر اضلاع کے لیے نئے سرے سے تقسیم شدہ سیکٹر اسکیم (آر ڈی ایس ایس) شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے موڈھیرا گاؤں کو ہندوستان کا پہلا x724 شمسی توانائی کے استعمال والا گاؤں قرار دیا۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا منصوبہ موڈھیرا کے سورج مندر کے شہر کو شمسی توانائی کا حامل بنانے کے وزیر اعظم کے وژن کو پورا کرتا ہے۔ اس میں ایک زمین پر نصب شدہ شمسی توانائی پلانٹ اور رہائشی اور سرکاری عمارتوں پر 1300 سے زیادہ چھتوں پر نصب کیا جانے والا سولر سسٹم تیار کرنا شامل ہے، یہ سب بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹم(بی ای ایس ایس) کے ساتھ مربوط ہیں۔ اس پروجیکٹ سے اس بات کا پتہ چلے گا کہ ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کس طرح نچلی سطح پر زندگی گزارنے والےلوگوں کو بااختیار بنا سکتی ہے۔,"গুজৰাটৰ মেহছানাৰ মোধেৰাত ৩,৯০০ কোটিতকৈ অধিক টকা মূল্যৰ বিভিন্ন প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন আৰু ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DB%8C%D9%B9%DB%81-%D9%86%DA%AF%D8%B1%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں طلوع ہوتا سورج، توانائی، امید اور خواہشات کی علامت ہوتی ہے۔ اروناچل کا تو نام ہی سورج ہے۔ یہ طلوع ہوتے سورج کی سر زمین ہے۔ اس وجہ سے یہ زمین پورے ملک کے عقیدے کی علامت بھی ہے۔ اروناچل ہمارے اعتماد کی علامت بھی ہے۔ اروناچل ہمارے یقین طاقت بخشتا ہے، ہمارے عزم اور مضبوط بناتا ہے۔ گزشتہ 55 مہینوں میں کئی بار میں آپ سبھی کے درمیان آیا ہوں۔ اس کی ایک وجہ آپ سبھی کا آشیرواد لینے کی خواہش تو ہے ہی ، ساتھ میں ملک کے لیے مسلسل نئی توانائی اور تازگی سے کام کرنے کی تحریک ملے،اس کے لیے بھی اروناچل پردیش آنے سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اور ہرشہری جب ملتا ہے، جے ہند بول کر مبارکباد دیتا ہے۔ اس سے دل کو سکون ملتا ، اتنی توانائی ملتی ہے اور یہ جے ہند کو زندگی کا حصہ بنانے والی اس سرزمین کو میں ایک بار پھر سلام کرتا ہ��ں۔ ساتھیوں، گزشتہ 55 مہینوں سے مرکز کی این ڈی اے حکومت اور یہاں پر ہمارے دوست کھانڈو جی کی قیادت میں چل رہی بی جے پی کی حکومت اروناچل کو مضبوط کرنے کے لیے آپ سبھی لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے پورے اخلاص، پوری ایمانداری سے مصروف ہے۔ آج بھی مجھے اروناچل پردیش کو مضبوطی دینے والی 4 ہزار کروڑ روپئے سے بھی زیادہ روپئے کے منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان منصوبوں کے علاوہ آپ کے پردیش میں تقریباً 13 ہزار کروڑ روپئے کے منصوبوں پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ آج کے منصوبوں سے اروناچل پردیش کی کنیکوٹیویٹی تو بہتر ہوگی ہی ریاست کے بجلی کے شعبے کو بھی مضبوطی ملے گی۔ ان منصوبوں سے جہاں ایک ریاست کی صحت خدمات بہتر ہوگی تو وہیں دوسری طرف اروناچل پردیش کی ثقافت کو بھی فروغ ملے گا۔ ان سبھی منصوبوں کے لیے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ بھائیوں اور بہنوں، آج آزادی کے بعد ایک ہی پارٹی کے 55 سالوں کو ایک طرف رکھئے اور دوسری طرف مرکز میں ہمارے گزرے 55 مہینے کو رکھ کر موازنہ کیجئے۔ اروناچل پردیش اور پورے شمال مشرق کے لیے کیا کام ہوئے ہیں، اس کی تصویر آپ کے سامنے صاف ہوجائے گی۔ اروناچل پردیش کے پاس تو خوشحال آبی وسائل ہے۔ یہاں بجلی پیدا کرنے کی بے مثال صلاحیت ہے، لیکن ترقی اُس رفتار سے نہیں ہو پارہی تھی، جیسی ہونی چاہیے تھی۔ یہ ملک کی سلامتی سے جڑا ایک اہم علاقہ رہا ہے۔ اسٹرٹیجک کے لحاظ سے اہم علاقہ ہے، پھر بھی یہاں ضروری سہولیات کی تعمیر نہیں ہوئی ہے۔ صورتحال یہ تھی کہ نہ تو یہاں نوجوانوں کی پرواہ کی گئی اور نہ ہی سرحد پر ڈٹے جوانوں کی۔ ساتھیوں، پہلے کی حکومتوں نے اس بات پر کم ہی دھیان دیا کہ اس علاقے کو نظر انداز کرنے سے یہاں کے لوگوں کو کتنی پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے۔ ملک کو۔۔۔۔ اور آپ دیکھتے ہوئے دہائیوں سے مانگ ہی رہے تھے کہ اروناچل پردیش سمیت یہاں کے تمام علاقوں میں جدید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے، لیکن پہلے والوں نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ساتھیوں، اس حکومت کے ذریعے ان حالات کو بدلنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ میں بار بار کہتا آیا ہوں کہ نیو انڈیا تبھی اپنی پوری طاقت سے تیار ہوپائے گا جب مشرقی ہندوستان میں شمال مشرق کی تیز رفتاری سے ترقی ہوگی۔ یہ ترقی وسائل کی بھی ہے اور ثقافت کی شان بھی ہے۔ یہ ترقی الگ الگ علاقوں کو جوڑنے کی بھی ہے اور لوگوں کو بھی جوڑنے کی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، سب کا ساتھ، سب کا وکاس، اس منتر پر چلتے ہوئے گزشتہ 55 مہینوں میں اروناچل پردیش اور شمال مشرق کی ترقی کے لیے نہ تو کبھی فنڈ کی کمی آنے دی گئی اور نہ ہی عزم کی کمی آئی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ریاستوں کو 44 ہزار کروڑ روپیوں کا فنڈ دیا گیا، جو پچھلی حکومتوں کے مقابلے لگ بھگ دوگنی ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت یہاں ہزاروں کروڑ کے دوسرے پروجیکٹ پر بھی کام کر رہی ہے۔ ترقی کی اس کڑی میں آج اروناچل میں ایک ساتھ تو ایئرپورٹ کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی ریاست میں ایک ایئرپورٹ پر کام پورا ہوا ہو اور دوسرے پر کام شروع ہوا ہو۔ اروناچل پردیش کے لیے تو یہ اور بھی اہم موقع ہے کیوں کہ آزادی کے اتنے سالوں تک یہاں ایک بھی ایسا ایئرپورٹ نہیں تھا جہاں باقاعدگی سے بڑے مسافر جہاز اترپائیں۔ گواہاٹی تک ایئرپورٹ کی کنیکٹیویٹی تھی اور وہاں سے یا تو سڑک کے راستے آپ کو آنا جانا ہوتا تھا، یا پھر مجبوری میں، یا ایمرجنسی میں ہیلی کاپٹر کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ساتھیوں، آج سے تیجو ایئرپورٹ عام لوگوں سے جڑی مسافر خدمات دینے کے لیے تیار ہے۔ تیجو ہوائی اڈے کو لگ بھگ 50 سال پہلے بنایا گیا تھا اور اس کے بعد کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس کا استعمال یہاں کے لوگوں کو ملک سے جوڑنے کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت نے اس چھوٹے ایئرپورٹ کی تقریباً سوا سو کروڑ روپئے خرچ کرکے توسیع کی ہے۔ یہاں کی جدید سہولیات اکٹھا کی۔ اب اس کے بعد اروناچل پردیش کی ایئر کنیکٹیویٹی گواہاٹی، جورہاٹ اور والونگ سے ہو جائے گی۔ اور یہ بھی میں بتاؤں، اروناچل پردیش قدرتی طور پر اتنی بڑی خوشحال ریاست ہے۔ اگر دلّی اور بڑے شہر کے لوگوں کو یہاں کے مختلف رنگوں کے پھول ، تازے پھول اگر دیکھنے کو بھی مل جائے تو شاید دن بھر وہ وہی دیکھتے رہیں گے۔ اب یہ ہوائی اڈہ بننے سے ہم کچھ ہی گھنٹوں میں یہاں سے پھل پھول ہندوستان کے بڑے بازاروں میں لے جاسکتے ہیں۔ میرا کسان کمائی کرسکتا ہے۔ ساتھیوں، کچھ مہینوں پہلے ہی اروناچل پردیش کے لیے تجارتی پرواز شروع کی گئی تھی اب اس ایئرپورٹ کی توسیع سے آپ کو دوگنا فائدہ ہونے والا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اڑان یوجنا کے تحت بہت ہی سستا ہوائی سفر کا اور زیادہ فائدہ اروناچل پردیش کے آپ سبھی لوگوں کو مل سکے۔ ساتھیوں، تقریباً ایک ہزار کرور روپئے کی لاگت سے ہولونگی گرین فیلڈ ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد بھی آج رکھا گیا ہے۔ کچھ مہینے پہلے ہی ملک کی ایک سوویں اور شمال مشرق کے پہلے گرین فیلڈ پاکیونگ ایئرپورٹ کا افتتاح کرنے کی خوش قسمتی مجھے حاصل ہوئی تھی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شمال مشرق کے اس دوسرے گرین فیلڈ ایئرپورٹ کا افتتاح بھی وقت سے ہی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جس کا سنگ بنیاد کرتے ہیں افتتاح بھی ہم ہی کرتے ہیں۔ ساتھیوں، ایئروے کے ساتھ ساتھ روڈ وے اور ریلوے سے بھی اروناچل پردیش کی ہندوستان سے کنیکٹیویٹی مضبوط کی جارہی ہے۔تقریباً 7 کروڑ روپئے کی لاگت سے بننے والی ۔۔۔۔۔ سرنگ کو بھی جلد سے جلد تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جب یہ سرنگ بن جائے گی تو بالی پاڑا سے توانگ تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔ سال بھر ہر موسم میں آپ کے آنے جانے کے مسائل کا حل ہوسکے گا۔ حال ہی میں برہم پتر، ریاست کے سب سے بڑے ریل روڈ برج بوگی بل پُل کا بھی افتتاح کیا جاچکا ہے۔ اس سے بھی اروناچل پردیش کے کئی علاقوں کو بہت فائدہ مل رہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، اروناچل پردیش میں کنیکٹیویٹی چاہے گاؤں کی ہو، شہر کی ہو یا پھر ملک کے دوسرے حصوں سے مرکزی حکومت ہزاروں، کروڑوں روپئے کے منصوبوں پر آج کام کر رہی ہے۔ اس میں لگ بھگ 50 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرکے نئی قومی شاہراہ تو بنائی ہی جارہی ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ہی تقریباً ایک ہزار گاؤں کو بھی سڑکوں سے جوڑا گیا ہے۔ تقریباً 4 ہزار کرور روپئے کی لاگت سے بن رہی ٹرانس اروناچل شاہراہ اُس پر بھی بہت تیزی سے کام چل رہا ہے۔ ساتھیوں، سڑک رابطے کے علاوہ ریلوے کو لے کر بھی غیر معمولی کام اروناچل پردیش میں کیا جارہا ہے۔ شمال مشرق کی ہر ریاست کی راجدھانی کو ریلوے سے جوڑنے کی مہم کے تحت ایٹہ نگر بھی ریلوے سے جڑ چکا ہے۔ ناہر لانگون اور دلّی کے درمیان چلنے والی اروناچل اے سی ایکسپریس اب ہفتے میں دو بار چلتی ہے۔ اس کے علاوہ پورے اروناچل پردیش میں ریلوے نیٹ ورک کی توسیع کرنے کے لیے 7 جگہوں پر سروے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ اس میں سے تین جگہوں پر سروے کا ��ام پورا بھی ہوچکا ہے۔ توانگ کو بھی ریل نیٹ ورک سے جوڑنے کی بڑی یوجنا پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، ہائی وے، ریلوے، ایئروے کے ساتھ ساتھ بجلی کی کنیکٹیویٹی بھی اہم ہے۔ آج میں اروناچل پردیش کو سوبھاگیہ یوجنا کے تحت تقریباً ہر کنبے تک بجلی پہنچانے والی ریاست بننے کے لیے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جناب وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آج اروناچل پردیش نے جو حاصل کیا ہے وہ بہت ہی جلد پورے ملک میں بھی حاصل ہونے والا ہے۔ سوبھاگیہ یوجنا کے تحت گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں ہی ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ خاندانوں کے گھروں، اُن گھروں سے اندھیروں کو مٹایا گیا ہے، دور کیا جاچکا ہے، مفت میں بجلی کا کنکشن دیا جاچکا ہے۔ ساتھیوں، ہر گھر تک بجلی پہنچانے کے ساتھ ساتھ وافر بجلی بھی پہنچے اس کے لیے بھی ہماری حکومت بجلی کی پیداوار پر بھی زور دے رہی ہے۔ آج ایک 110 میگاواٹ ایئر پن بجلی پلانٹ کا افتتاح کیا ہے ۔ اس سے اروناچل پردیش کو تو بجلی ملے گی ہی، شمال مشرق کی دوسری ریاستوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ وہیں یہاں ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے تقریباً 3 ہزار کروڑ روپئے کا کام بھی آج سے شروع ہوا ہے۔ اس سے ریاست کے دور دراز علاقوں کو بجلی مل سکے گی۔ ساتھ ہی ایک اور بڑا کام یہ ہوگا کہ یہاں کا بجلی نظام گرڈ سے جڑ جائے گا۔ ساتھیوں ، کنیکٹیویٹی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات جب کسی ریاست میں فراہم ہوتی ہے تو وہاں عام لوگوں کی تو زندگی خوشحال ہوتی ہی ہے۔ سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔ سیاحت تو ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہر کوئی کماتا ہے۔ گائڈ کماتا ہے، ہوٹل والا کماتا ہے، ٹیکسی والا کماتاہے، دکاندار کماتا ہے، کھلونے والا کماتا ہے، پھول والا کماتا ہے اور چائے والا بھی کماتا ہے۔ کل میں نے ایک ٹوئٹ کیا تھا، شمال مشرق کی خوبصورتی کے حوالے سے، شمال مشرق کی سیاحت کے امکانات کے حوالے سے اور میں نے لوگوں سے درخواست کی تھی کہ آپ اگر شمال مشرق میں گئے ہوں تو وہاں کے مشاہدات کی ایک فوٹو شیئر کیجئے۔ میں حیران ہوں کچھ ہی سیکنڈ میں ہزاروں لوگوں نے ٹوئٹ کیا وہ شمال مشرق گئے تھے کیا مشاہدہ کیا، اپنی تصاویر ٹوئٹ کردی۔ سیاحت کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے اور جس طرح سے ہم وطنوں نے یعنی غیرملکوں سے بھی لوگوں نے ٹوئٹ کیا۔ آپ بھی اگر اُس ہیش ٹیگ پر جاکر دیکھیں گے آپ بھی حیران ہوجائیں گے کہ کیسے ملک اور دنیا آپ کے تئیں فخر محسوس کرتی ہے۔ اروناچل پردیش کے لیے نہ تو فطرت نے کوئی کمی چھوڑی ہے اور نہ ہی روحانیت اور اعتقاد سے جڑی مقامات کی یہاں کمی ہے۔ نیا ایئرپورٹ بننے سے، نئی ریل لائن بچھانے سے یہاں ملک اور بیرون ملک کے سیاحوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔ اس سے یہاں کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے متعدد نئے مواقع پیدا ہوں گے اور اروناچل کی معیشت کو بھی طاقت ملے گی۔ بھائیوں اور بہنوں، مرکزی حکومت ملک کے ہر علاقے کی ثقافت، زبان،کھانے پینے، رہنے سہنے کو تحفظ فراہم کرکے اُن کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ یہ تنوع ہندوستان کا انمول خزانہ ہے۔ یہ ہمارا فخر ہے اور بھاجپا کے تو نظریے میں ہی ہندوستان کی ثقافت کے تئیں ہماری اپیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت نے اروناچل پردیش کے ثقافت کو طاقت بخشنے کے لیے یہاں کے اپنے 24 گھنٹے کے ٹی وی چینل ارون پربھا کو لانچ کیا ہے۔ آپ کے اس چینل کے لیے یہاں ساری جدید سہولیات مہیا کرائی گئی ہیں۔ اس چینل کی وجہ سے اب ریاست کے دور دراز علاقوں کی خبریں بھی آپ تک اور جلدی پہنچا کرے گی۔ مجھے امید ہے کہ چینل یہاں کی ثقافت، یہا ں کی روایت کا ایک شاندار علمبردار بنے گا۔ پورے ملک کے لوگوں کو اروناچل پردیش کی خوبصورتی سے متعارف کرائے گا۔ اسی طرح جوٹے میں بننے والے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ سے یہاں کے نوجوانوں کو نئے مواقع ملیں گے ہی۔ یہاں کی ثقافت کو ایک بہتر اظہار بھی ملے گا۔ بھائیوں اور بہنوں، ہماری حکومت ترقی کی پنچ دھارا یعنی بچوں کی پڑھائی، نوجوانوں کی کمائی، بزرگوں کو دوائی، کسانوں سینچائی اور عوام کی سنوائی یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ خاص طور پر کھیل کے شعبہ میں ملک کے ہر فرد تک سستی اور عمدہ صحت کی خدمات پہنچانے کے لیے ملک میں تاریخ ساز کام ہو رہا ہے۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر بنائے جارہے ہیں اور سنگین بیماریوں کے لیے بڑے اسپتالوں میں غریبوں کے مفت علاج کویقینی بنایا جارہا ہے۔ ساتھیوں، آج یہاں جو 50 ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر کا افتتاح ہوا ہے اس سے دور دراز کے علاقوں میں صحت کی اچھی سہولیات تو مل ہی پائیں گی، ساتھ ہی سنگین بیماریوں کی تشخیص شروعاتی دور میں ہی ہو پائے گی۔ خاص طور پر حاملہ خواتین اور ایمرجنسی جیسی صورتحال کے لیے یہ ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر بہت کام آنے والا ہے۔ ساتھیوں، اروناچل پردیش کے غریب خاندانوں کو بھی ملک کے باقی حصوں کی طرح ہی آیوشمان بھارت پی ایم جے اے وائی یعنی مودی کیئر کا فائدہ مل رہا ہے۔ اس یوجنا کے تحت سنگین بیماریوں کی صورت میں غریب خاندانوں کو پانچ لاکھ روپئے تک کا مفت علاج دستیاب کرایا جارہا ہے۔ اب اس یوجنا کو ڈیڑھ سو دن بھی نہیں ہوئے ہیں تقریباً 11 لاکھ لوگوں کو ملک بھر میں علاج کا فائدہ مل چکا ہے۔ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ پیماکھانڈو جی حکومت اِن کوششوں کو اور وسعت دینے میں مصروف عمل ہوئی ہے۔ ساتھیوں، عام انسان کی صحت کے ساتھ ساتھ ملک کے کسان کی صحت کو اقتصادی قوت دینے کے لیے بھی اس سال کے بجٹ میں کسانوں کے لیے بہت بڑا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ پی ایم کسان سماّن نِدھی۔ اس پی ایم کسان سمّان نِدھی کے تحت ہر اُس کسان خاندان کو جس کے پاس پانچ ایکڑ یا اُس سے کم زمین ہے ہر سال اس کے بینک کھاتے میں 6 ہزار روپیہ دلّی سے مرکزی حکومت اُس کے کھاتے میں براہِ راست جمع کرائے گی۔ اور یہ ہر سال ہوگا۔ سال میں تین بار دو دو ہزار روپیہ پہنچائے جائیں گے تاکہ کھیتی کے ساتھ اس کو جوڑا جاسکے۔ اس سے اروناچل پردیش کے بھی متعدد کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ بھائیوں اور بہنوں، کھیتی کو تو ہم طاقت بخشنے کی کوشش کر رہی رہے ہیں ساتھ میں آرگینک کھیتی کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں کی حکومت اس سمت میں بہت تیزی سے کام کر رہی ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مرکز کی طرف سے جو بھی مدد آپ کو چاہیے وہ مدد پوری طرح دستیاب کرائی جائے گی۔ بھائیوں اور بہنوں، اروناچل پردیش ملک کا فخر ہے، یہ ہندوستان کی ترقی کا، ہندوستان کی سلامتی کا گیٹ وے بھی ہے۔ اس گیٹ وے کو طاقت بخشنے کا کام بھاجپا کی حکومتیں کرتی رہیں گی۔ آپ سبھی کے آشیرواد سے آپ کا یہ پردھان سیوک اروناچل سمیت اس پورے خطے کو ترقی کا انچل بنانے میں مصروف ہے۔ ایک بار پھر آج شروع ہوئے منصوبوں کے لیے میں سبھی اروناچل کے اپنے پیارے بھائیوں بہنوں کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جے ہند کا نعرہ جن کی زبان پر ہر پل رہتا ہے ایسے میرے اروناچل کے لوگوں میرے ساتھ بولئے۔ جے ہند۔۔۔۔۔۔ جے ہند جے ہند۔۔۔۔۔۔ جے ہند جے ہند۔۔۔۔۔۔ جے ہند بہت بہت شکریہ!,অৰুণাচল প্ৰদেশৰ ইটানগৰত কেইবাটাও উন্নয়নমূলক প্ৰকল্প উদ্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%88%DB%8C%DA%88-19-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D8%A7-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج یہاں کوویڈ-19 کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزرائے اعلیٰ سے بات چیت کی۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کچھ ریاستوں میں کوویڈ کے معاملات میں حالیہ اضافے اور ٹیسٹ، ٹریک، ٹریٹ، ویکسینیشن پر عمل کرنے اور کوویڈ مناسب طرز عمل کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ مرکزی سکریٹری صحت نے ایک پریزنٹیشن دی جس میں انھوں نے دنیا کے متعدد ممالک میں کیسز کے اضافے پر بات کی جبکہ بھارت کی کچھ ریاستوں میں کیسز کے اضافے پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے ریاستوں کو باقاعدگی سے اعداد و شمار کی نگرانی اور رپورٹ کرنے، موثر نگرانی برقرار رکھنے، بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے اور مرکز کی جانب سے دیئے گئے فنڈز کا استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزرائے اعلیٰ نے وبا کے آغاز سے بروقت رہنمائی اور تعاون پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ جائزہ اجلاس وزیر اعظم نے صحیح وقت پر طلب کیا ہے۔ انھوں نے اپنی ریاستوں میں کوویڈ کے کیسز اور ویکسینیشن کی صورتحال کا جائزہ پیش کیا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی نے کہا کہ وزیر اعظم کی زندگی اور روزی روٹی کے منتر پر ریاست عمل کر رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ این سی آر کے شہروں میں زیادہ تعداد میں معاملات دیکھے جارہے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دہلی میں مثبتیت کی شرح زیادہ دیکھی گئی ہے۔ انھوں نے ماسک کو دوبارہ لازمی قرار دینے کے بارے میں بھی بات کی۔ میزورم کے وزیر اعلی نے کہا کہ وزیر اعظم کے مضبوط تعاون اور رہنمائی نے ریاست کو پچھلی لہروں پر قابو پانے میں مدد کی ہے۔ انھوں نے صحت کے دیگر معاملات اور ترقیاتی امور میں معاونت کے لیے بھی مرکزی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ کرناٹک کے وزیر اعلی نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے دی گئی رہنمائی بعد کی کوویڈ کی لہروں سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے معاون رہی ہے۔ انھوں نے کوویڈ مناسب طرز عمل کو یقینی بنانے کے لیے آگاہی مہم چلانے کا ذکر کیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلی نے کہا کہ ریاست میں زیادہ تعداد میں کیسز بنیادی طور پر دہلی کے آس پاس، گروگرام اور فرید آباد شہروں میں دیکھے جارہے ہیں۔ اپنے اختتامی خطاب میں وزیر اعظم نے تمل ناڈو کے تھنجاور میں سڑک حادثے میں ہونے والے جانی اتلاف پر تعزیت کا آغاز کیا۔ جناب مودی نے اس حادثے کے متاثرین کے لیے وزیر اعظم قومی امدادی فنڈ (پی ایم این آر ایف) سے امداد کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کورونا کے خلاف لڑائی میں مرکز اور ریاستوں کی اجتماعی کوششوں پر زور دیتے ہوئے وزرائے اعلیٰ، افسران اور تمام کورونا واریئرز کی کوششوں کی ستائش کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ کورونا کا چیلنج مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ اومیکرون اور اس کی ذیلی شکلیں یورپ کے بہت سے ممالک کے معاملے سے واضح طور پر مسئلہ پیدا کرسکت�� ہیں۔ ذیلی شکلیں بہت سی ریاستوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت بہت سے ممالک کے مقابلے بہتر طور سے صورتحال سے نمٹنے میں کامیاب رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بعض ریاستوں میں بڑھتے ہوئے معاملات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اومیکرون لہر کو عزم اور خوف و ہراس کے بغیر سنبھالا گیا اور گزشتہ دو سالوں میں کورونا کی لڑائی کے تمام پہلوؤں کو تقویت ملی ہے چاہے وہ صحت کا بنیادی ڈھانچہ ہو، آکسیجن کی فراہمی ہو یا ویکسینیشن۔ تیسری لہر میں کسی بھی ریاست میں صورتحال کو قابو سے باہر نہیں دیکھا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ویکسین ہر شخص تک پہنچا اور یہ فخر کی بات ہے کہ 96 فیصد بالغ آبادی کو کم از کم ایک خوراک کا ٹیکہ لگایا جاچکا ہے اور 15 سال سے زیادہ عمر کے تقریبا 84 فیصد افراد نے دونوں خوراکیں حاصل کی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ماہرین کے مطابق ویکسین کورونا کے خلاف سب سے بڑی حفاظت ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ طویل عرصے کے بعد اسکول کھل چکے ہیں اور کچھ مقامات پر کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد سے کچھ والدین پریشان ہیں۔ انھوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ زیادہ سے زیادہ بچے ویکسین حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مارچ میں 12 سے 14 سال کی عمر کے ٹیکے لگانے کی مہم شروع کی گئی تھی اور گزشتہ روز ہی 6 سے 12 سال کے بچوں کے لیے ویکسین کی منظوری دے دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری ترجیح تمام اہل بچوں کو جلد از جلد ٹیکہ لگانا ہے۔ اس کے لیے پہلے کی طرح اسکولوں میں بھی خصوصی مہمات کی ضرورت ہوگی۔ اساتذہ اور والدین کو اس بارے میں آگاہ ہونا چاہیے""، وزیر اعظم نے کہا۔ ویکسین کی حفاظتی ڈھال کو مضبوط بنانے کے لیے ملک کے تمام بالغوں کے لیے احتیاطی خوراک دستیاب ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اساتذہ، والدین اور دیگر اہل افراد احتیاطی خوراک لے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تیسری لہر کے دوران بھارت میں روزانہ 3 لاکھ تک معاملات آتے تھے اور تمام ریاستوں نے صورتحال کو سنبھالا اور سماجی و معاشی سرگرمی کو بھی جاری رکھا۔ انھوں نے کہا کہ اس توازن سے مستقبل میں بھی ہماری حکمت عملی سے آگاہ ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ سائنسدانوں اور ماہرین کے ذریعے صورتحال کی مسلسل نگرانی کی جارہی ہے اور ہمیں ان کی تجاویز پر سرگرمی سے کام کرنا ہوگا۔ ""شروع میں ہی انفیکشن کی روک تھام ہماری ترجیح تھی اور اب بھی اسے برقرار رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ کی اپنی حکمت عملی پر اسی طرح عمل کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے انفلوئنزا کے سنگین کیسز کی فیصد جانچ اور مثبت کیسز کی جینوم سیکوئنسنگ، عوامی مقامات پر کوویڈ مناسب طرز عمل اور خوف و ہراس سے بچنے پر زور دیا۔ انھوں نے صحت کے بنیادی ڈھانچے اور طبی پیشے سے منسلک افرادی قوت کی مسلسل اپ گریڈیشن پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے کورونا کے خلاف آئین میں درج کوآپریٹو فیڈرلزم کے جذبے کے ساتھ طویل جنگ لڑی ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ عالمی منظر نامے میں بھارت کی معیشت کی مضبوطی کے لیے اقتصادی فیصلوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی واقعات کے تناظر میں وفاقیت کا یہ جذبہ مزید اہم ہو جاتا ہے۔ انھوں نے اس کی وضاحت پٹرول اور ڈیزل کی ق��متوں کے تناظر میں کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی ہے اور ریاستوں سے بھی ٹیکس کم کرنے کی درخواست کی ہے۔ کچھ ریاستوں نے ٹیکسوں میں کمی کی لیکن کچھ ریاستوں نے اس کے فوائد عوام کو نہیں دیئے جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں پٹرول اور ڈیزل پر زیادہ لاگت آئی۔ یہ نہ صرف ریاست کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ پڑوسی ریاستوں کو بھی اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کرناٹک اور گجرات جیسی ریاستوں نے محصولات کے نقصان کے باوجود عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ٹیکس میں کمی کی جبکہ ان کی پڑوسی ریاستوں نے ٹیکس میں کمی نہ کرکے آمدنی حاصل کی۔ اسی طرح وزیر اعظم نے کہا کہ گذشتہ نومبر میں وی اے ٹی کو کم کرنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن مہاراشٹر، مغربی بنگال، تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کیرالہ، جھارکھنڈ جیسی بہت سی ریاستوں نے کسی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مرکز میں آمدنی کا 42 فیصد ریاستی حکومتوں کو جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے درخواست کی کہ میں تمام ریاستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تعاون پر مبنی وفاقیت کے جذبے کے ساتھ عالمی بحران کے اس دور میں ایک ٹیم کے طور پر کام کریں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ جنگلات اور عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے خصوصی طور پر اسپتالوں کے فائر سیفٹی آڈٹ کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمارے انتظامات جامع ہونے چاہئیں اور ہمارا رسپانس ٹائم کم سے کم ہونا چاہیے۔",কভিড-১৯ পৰিস্থিতিৰ পৰ্যালোচনা কৰিবলৈ মুখ্যমন্ত্ৰীসকলৰ সৈতে বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جرمنی میں تھیٹر ایم پوٹس ڈیمر پلیٹز برلن میں ہندوستانی برادری سے خطاب کیا اور ان کے ساتھ بات چیت کی۔ جرمنی میں متحرک ہندوستانی برادری کے 1600 سے زیادہ ارکان نے تقریب میں شرکت کی جن میں طلباء، محققین اور پروفیشنلز شامل تھے۔ وزیر اعظم نے جرمنی کی معیشت اور معاشرے کےلئے ان کی خدمات کا ذکر کیا اور ان سے کہا کہ وہ عالمی سطح پر ہندوستانی مصنوعات کو فروغ دے کر ہندوستان کی ’’وکل فار لوکل‘‘ پہل کے لئے تعاون کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,জার্মানীত ভাৰতীয় সমূদায়ৰ সৈতে বাৰ্তালাপ প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%88%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 6 جون 2018، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ کو اپریل 2018 میں پائیدار اور اسمارٹ شہری ترقی کے شعبے میں تکنیکی امداد باہمی سے متعلق بھارت اور ڈنمارک کے درمیان دستخط کئے گئے ایک مفاہمت نامے (ایم او یو) سے مطلع کیا گیا۔ تفصیلات اس مفاہمت نامے کا مقصد معلومات کے تبادلے�� ادارہ جاتی امداد باہمی، تحقیق و ترقی اور متعلقہ امور پر تجارتی تعلقات کے ذریعہ باہمی مفاد کی بنیاد پر پائیدار اور اسمارٹ شہری ترقی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینا ہے۔ امداد باہمی کے شعبوں میں اسمارٹ شہری حل، قابل سکونت، پائیدار اور مربوط شہری منصوبہ بندی، از سر نو ترقی اور زمین کا استعمال، مربوط ٹھوس فضلہ انتظام اور وہ دیگر متعلقہ شعبے شامل ہیں، جن پر دونوں ملکوں نے اتفاق رائے کرلیا ہے۔ نفاذ کی حکمت عملی اس مفاہمت نامے کے تحت ایک مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کی تشکیل کی جائے گی تاکہ وہ مفاہمت نامے کے فریم ورک کے تحت امداد باہمی سے متعلق پروگراموں کا نفاذ کرسکے اور حکمت عملی تیار کرسکے۔ یہ مشترکہ ورکنگ گروپ وقفے وقفے سے کبھی ڈنمارک میں اور کبھی بھارت میں ملاقات کرتا رہے گا جیسا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق ہوجائے۔ بڑا اثر یہ مفاہمت نامہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار اور اسمارٹ شہری ترقی کے شعبے میں دو طرفہ امداد باہمی کو فروغ دے گا۔ اس مفاہمت نامے سے مربوط ٹھوس فضلہ انتظام کے شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ن ا۔ن ا۔,বহনযোগ্য আৰু স্মাৰ্ট নগৰ উন্নয়নৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু ডেনমাৰ্কৰ মাজত কাৰিকৰী সহযোগিতা সন্দৰ্ভত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%B4%D9%88%DA%A9%D8%B1%D9%85%D8%A7-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%95%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے وشو کرما جینتی کے موقع پر لوگوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی مہارت اور فرض شناسی اس امرت کال کے دوران ملک کو نئی بلندیوں تک لے جائے گی۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’اہل وطن کو بھگوان وشو کرما جینتی کے موقع پر نیک خواہشات۔ نو تعمیر اور تخلیق کے ساتھ ہر قسم کے تخلیقی کاموں سے وابستہ کرم یوگیوں کو میری دلی مبارکباد۔ آپ کی مہارت اور فرض شناسی امرت کال میں ملک کو نئی دبلندیوں تک لے جانے والی ہے۔‘‘ देशवासियों को भगवान विश्वकर्मा जयंती की अनंत शुभकामनाएं। इस अवसर पर नवनिर्माण और नवसृजन के साथ ही सभी प्रकार के रचनात्मक कार्यों से जुड़े कर्मयोगियों का मेरा हार्दिक अभिनंदन। आपका कौशल और कर्तव्यभाव अमृतकाल में देश को नई ऊंचाइयों पर ले जाने वाला है,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বিশ্বকৰ্মা জয়ন্তীত জনসাধাৰণক অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DA%88%D8%BA%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D8%AF%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%BE/,"05 مئی 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مڈغاسکر کے صدر ای آندری نیرینا راجولینا کے ذریعے اتحاد کے ذریعے آب و ہوا اور آفات کی لچک کو فروغ دینے میں بھارت کی قیادت کا اعتراف کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ مڈغاسکر کے صدر کے ٹویٹ کے جواب میں وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا: ""صدر SE_Rajoelina آپ کا شکریہ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جزائری ریاستوں کو درپیش چیلنج لیلے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے سی ڈی آر آئی پہل کے تحت ہماری کوششوں کا کلیدی مرکز ہیں۔"" (ش ح – ع ا – ع ر)",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মাদাগাস্কাৰৰ ৰাষ্ট্ৰপতিক ধন্যবাদ জ্ঞাপন কৰে আৰু জলবায়ু পৰিৱৰ্তনৰ ফলত দ্বীপ ৰাষ্ট্ৰসমূহে সন্মুখীন হোৱা সমস্যাৰ সমাধানৰ ক্ষেত্ৰত চিডিআৰআইৰ প্ৰচেষ্টাৰ ওপৰত আলোকপাত কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے مہالیہ کے موقع پر عوام کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘شوبھو مہالیہ! ہم ماں درگا کے آگے سربہ سجود ہوتے ہیں اوراس کرۂ ارض اور ہمارے شہریوں کی خیروعافیت کے لئے ان کے آشیرواد کے خواستگار ہیں۔ خداکرے کہ آنے والے دنوں میں ہر شخص خوش وخرم اور صحت مندر ہے۔’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ ع م۔ش ) (06-10-2021 ),মহালয়াৰ উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%DA%A9%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D9%86%DA%AF-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%9F%E0%A6%82-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0/,نئی دہلی،24/ستمبر۔ سکم کے گورنر جناب گنگا پرساد جی، ریاست کے وزیر اعلیٰ جناب پون چاملنگ جی، مرکز میں کابینہ کے میرے ساتھی جناب سریش پربھو جی، ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، ایس ایس اہلووالیہ جی، ریاستی اسمبلی کے اسپیکر جناب کے این رائے جی، ریاستی سرکار میں وزیر جناب دورجی شیرنگ لیپچیا جی، یہاں موجود دیگر سبھی معززین اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔ ساتھیو، میں گزشتہ تین دنوں سے ہندوستان کے مشرقی علاقے میں، مشرقی ہندوستان میں دورے کررہا ہوں اور اس دوران بنیادی ڈھانچے اور انسانیت کی خدمت سے وابستہ بہت بڑے بڑے پروجیکٹوں کو ملک کے نام وقف کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔؎ کل جھارکھنڈ میں پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا، پی ایم جے اے وائی کی شروعات آیوشمان بھارت یوجنا کو لانچ کرنے کے بعد کل شام کو میں سکم آگیا تھا اور آج صبح سکم میں سکم کی صبح، اگتا سورج، ٹھنڈی ہوا، پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی، تو میں بھی آج صبح کیمرے پر ہاتھ لگانے لگ گیا تھا۔ یہاں کی خوبصورتی، عظمت کو کون پسند نہیں کرتا ہوگا۔ ہر کوئی اس کا مرید ہے۔ قدرت نے آپ کو اتنا سب دیا ہے، اس کو پانے کے لئے ہر کوئی یہاں دوڑا آتا ہے۔ بھائیو – بہنو، مشرقی سمت کا ہماری ثقافت اور روایات میں کیا اہمیت ہے، اس سے آپ بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ملک بھی اچھی جانتا ہے۔ مشرق میں بھی شمال مشرق کی تو الگ ہی اہمیت ہے۔ اس خوبصورت مشرقی ریاست میں رہنے والے آپ سبھی لوگوں کو میں احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں اور سکم کا، آپ سبھی کا پہلا پاکیانگ ہوائی اڈہ آپ کو نذر کرتا ہوں۔ آج کا یہ دن سکم کے لئے تو تاریخی ہے ہی، ملک کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ پاکیانگ ہوائی اڈے کے کھلتے ہی آپ کو بھی فخر ہوگا۔ کرکٹ کے میدان میں لوگ سنچری لگاتے ہیں، آج ہندوستان نے سنچری لگائی ہے۔ یعنی اس ہوائی اڈے کے کھلنے کے بعد پورے ہندوستان میں سو ہوائی اڈے کام کرنے لگ گئے ہیں اور اس معنی میں ملک نے آج سنچری لگائی ہے۔ اور ملک کیسے بدل رہا ہے یہ ہمارا سکم فٹ بال کے لئے جانا جاتا ہے، ہر کوئی فٹبال کھیلتا ہے، لیکن وہی سکم اب کرکٹ میں بھی ہاتھ آزمانے لگا ہے۔ اور میں نے کل، آج کے اخبار میں پڑھا کہ یہاں کے کیپٹن نلیش لامیچھا نے سنچری لگائی۔ اگر سکم جب فٹبال کھیلتا تھا وہاں کا نلیش سنچری لگاتا، کرکٹ میں پہلا سکم باسی سنچری لگانے والا بن سکتا ہے تو یہاں کا ہوائی اڈہ ملک کے ہوائی اڈوں کی سنچری لگارہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، یہ ہوائی اڈہ آپ کی زندگی کو اور آسان کرنے میں بہت اہم رول ادا کرنے والا ہے۔ آج تک ہم سبھی کو اگر ملک کے دوسرے حصے سے سکم آنا ہو اور پھر یہاں سے دوسرے علاقے میں جانا ہو، تو کتنی مشکل ہوتی تھی۔ یہ کہاں کے لوگ بھی جانتے ہیں اور یہاں آنے والے لوگ بھی جانتے ہیں۔ پہلے مغربی بنگال کے باغ ڈورہ تک ہوائی جہاز سے اترو، پھر وہاں سے تقریباً سوا سو کلومیٹر تک کے اونچے نیچے راستے پر پانچ چھ گھنٹہ تھکا دینے والا سفر اور تب جا کر کے گنگٹوک پہنچ پاتے تھے، لیکن اب پاکیانگ ہوائی اڈہ اس تھکا دینے والی دوری کو منٹوں میں سمیٹنے والا ہے۔ بھائیو اور بہنو، اس سے سفر تو آسان اور کم ہوا ہی ہے، حکومت نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ یہاں سے آنا جانا عام انسان کی پہنچ میں بھی رہے۔ اور اس لئے اس ہوائی اڈے کو اڑان منصوبے سے جوڑا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2500 سے 2600 روپئے تک ہی دینے ہوتے ہیں، ڈھائی ہزار روپئے قریب قریب۔ حکومت کے اسی ویژن اور کوششوں کی وجہ سے آج ہوائی جہاز کا سفر ریلوے کے ایئر کنڈیشنڈ کلاس جتنا سستا ہوگیا ہے اور ہمارے یہاں کہتے ہیں نا، ٹائم اِز منی، سنتے آئے ہیں نا! ٹائم از منی۔ ہوائی جہاز میں جانے سے ٹائم بچتا ہے۔ مطلب منی بچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے لاکھوں متوسط طبقے کے کنبے آج ہوائی سفر کرنے کے اہل ہوئے ہیں۔ ساتھیو، ابھی تو ہوائی اڈے کی شروعات ہوئی ہے، ابھی ابھی مجھے ہوائی اڈے کا افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے، لیکن آئندہ ایک دو ہفتے کے اندر ہی یہاں سے گوہاٹی اور کولکاتہ کے لئے ریگولر فلائٹ شروع ہوجائے گی۔ آنے والے دنوں میں ملک کے دوسرے حصوں میں اور پڑوسی ملکوں کو بھی یہاں سے کنکٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ساتھیو، پاکیانگ ہوائی اڈہ نہ صرف خوبصورتی بلکہ ہماری انجینئرنگ صلاحیت کی بھی علامت ہے۔ جو لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہوں گے، انھوں نے گزشتہ تین دن سے اس ہوائی اڈے کی تصویر اور قدرت کی گود میں کس طرح سے جہاز اتر رہا ہے، یہ تصویریں شاید سوشل میڈیا میں اتنی وائرل ہوئی ہیں، کہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا۔ افتتاح تو آج ہوا ہے لیکن لوگوں نے اس کا جے جے کار لگانا شروع کردیا ہے۔ ساڑھے پانچ سو کروڑ روپئے کی لاگت سے بنا یہ ہوائی اڈہ ہمارے انجینئروں، ورکروں اور ان کی صلاحیت کا ایک قابل فخر پہلو ہے۔ کیسے پہاڑوں کو کاٹا گیا، اس کے ملبے سے کھائی کو بھرا گیا، بھاری بارش کے چیلنجوں سے نمٹا گیا۔ یہاں سے گزرنے والی پانی کی دھاروں کو ہوائی اڈے کے نیچے سے گزارا گیا۔ سچ میں یہ غیرمعمولی انجینئرنگ کا کمال ہے۔ آج اس موقع پر میں ہوائی اڈے کی منصوبہ بندی اور تعمیر سے جڑے سبھی انجینئروں، سبھی محنت کشوں کو اس شاندار کام کے لئے دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سبھی نے واقعی کمال کرکے دکھایا ہے۔ بھائیو اور بہنو، سکم کو اور شمال مشرق میں بنیادی ڈھانچے اور جذباتی، دونوں ہی طرح کی کنیکٹیوٹی کو وسعت دینے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران مختلف مواقع پر میں خود شمال مشرق کی ریاستوں میں آپ سبھی کا آشیرواد لینے، یہاں کی ترقی کی جانکاری لینے کے لئے آتا رہا ہوں۔ اتنا ہی نہیں، ہر ہفتے دو ہفتے میں کوئی نہ کوئی مرکزی حکومت کا وزیر شمال مشرق کے کسی نہ کسی ریاست کا دورہ کرتا ہے، آتا ہے، پوچھ تاچھ کرتا ہے، کام کاج کا حساب لیتا ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوا، یہ بھی آپ سبھی آج زمین پر دیکھ رہے ہیں۔ سکم ہو، اروناچل پردیش ہو، میگھالیہ ہو، منی پور ہو، ناگالینڈ ہو، آسام ہو، تری پورہ ہو، میزورم ہو، شمال مشرق کی سبھی ریاستوں میں بہت سے کام آزادی کے بعد، بہت سے کام پہلی بار ہورہے ہیں۔ ہوائی جہاز پہلی بار پہنچے ہیں۔ ریل کنیکٹیوٹی پہلی بار پہنچی ہے۔ کئی جگہ بجلی بھی پہلی بار پہنچی ہے۔ چوڑے نیشنل ہائی وے بن رہے ہیں، گاؤں کی بھی سڑکیں بن رہی ہیں، ندیوں پر بڑے بڑے پل بن رہے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا کی توسیع ہورہی ہے۔ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے اصول پر چل رہی ہماری حکومت علاقائی عدم توازن، اس کو دور کرنے اور شمال مشرق اور مشرقی ہندوستان کی گروتھ اسٹوری کا انجن بنانے کے لئے پرجوش محنت کررہی ہے، ہم اس کے لئے پابند عہد ہیں۔ اسی ویژن کے تحت سکم کو ہم اپنا ایئر پورٹ دینے کا کام تیز کیا ۔ اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا اور آج کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ہے ۔ ورنہ آپ بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ تقریباً 6 دہائی قبل ایک چھوٹے سے جہاز نے یہاں سے پرواز کی تھی اور اس کے بعد 6 دہائی تک آپ کو اپنے ہوائی اڈے کے لئے انتظار کرنا پڑا ۔ دوستوں ، سکم ہی نہیں اروناچل پردیش سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں ہوائی اڈے بنے ہیں ، جیسا کہ میں نے پہلے شروع میں بتایا کہ آج ہمارے 100 ایئر پورٹ چالو ہو گئے ہیں اور آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ اس میں سے 35 ہوائی اڈے پچھلے چار سالوں میں بنے ہیں ۔ آزادی کے بعد سے 2014 ء تک تیز رفتار سے کام ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، چاروں سمت کام ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، ویژن کے ساتھ کام کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، اس ایک مثال سے آپ سمجھ پاؤگے کہ آزادی کے بعد 2014 ء تک یعنی 67 سالوں میں 65 ایئرپورٹ بنے تھے ۔ 65 ، 67 سالوں میں 65 ایئر پورٹ یعنی کہ ایوریج ایک سال میں ایک ہوائی اڈہ ، بات سمجھ میں آ رہی ہے آپ کو ۔ میری بات آپ کو سمجھ میں آ رہی ہے ، ایک سال میں ایک ہوائی اڈہ ، یہ اُن کی سوچ تھی ۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران نئے ایئر پورٹ اڑان کے لئے تیار ہیں ۔ نو گنی رفتار سے یعنی اسی کام کو پورا کرنا ہوتا تو شاید وہ 40 سال اور لگا دیتے ، جو ہم نے چار سال میں کر دکھایا ہے ۔ بھائیو بہنو ، آج بھارت گھریلو پرواز کے معاملے میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا مارکٹ بن گیا ہے ، دنیا کا تیسرا ۔ بھارت میں ہوائی سیوا دینے والی کمپنیوں کے پاس طیارے کم پڑ گئے ہیں ، نئے طیاروں کے لئے آڈر دیئے جا رہے ہیں ۔ آپ کو ایک آنکڑا میں دیتا ہوں ۔ اس پر بھی آپ کو تعجب ہو گا ، آزادی کے 70 سالوں میں ملک میں قریب 400 ہوائی سروسز تھیں ۔ 400 طیارے تھے ۔ 70 سال میں 400 طیارے ۔ اب طیاروں کی سروسز دینے والی کمپنیوں نے اس ایک سال میں 1000 نئے طیاروں کے آڈر دیئے ہیں ۔ 70 سال میں 400 اور ایک سال میں 1000 نئے ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں اور اسی سے پتہ چلتا ہے کہ جو میرا خواب ہے ، ہوائی چپل پہننے والے عام شخص کو ہوائی سفر کرانے کا ہمارا خواب کتنی تیزی سے شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے ۔ بھائیو بہنو ، آپ کا اپنا ہوائی اڈہ بننے سے آپ سبھی کو ملک کے دوسرے حصے میں آنے جانے کی سہولت تو ملے گی ہی ، آپ کی آمدنی بھی بڑھے گی ، انکم میں بھی اضافہ ہو گا ۔ سکم تو ویسے ہی دیسی اور غیر ملکی سیاحوں کی پسندیدہ جگہ رہا ہے ۔ یہاں کی آبادی سے زیادہ یہاں سیاح آتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کی ایئر پورٹ نہ ہونے کے باوجود ریاست کی کُل آبادی سے ڈیڑھ گنا زائد سیاح یہاں آتے ہیں ۔ اب یہ ہوائی اڈہ بن جانے کے بعد سیاحوں کی تعداد اتنی ہی محدود رہنے والی نہیں ہے ۔ یہ مان کر چلیئے ۔ اس دیوالی میں ہی دکھائی دے گا، اس درگا پوجا میں ہی دکھائی دے گا کہ کس طرح سے ٹورسٹوں کا میلہ یہاں لگنے والا ہے ۔ ایئر پورٹ سکم کے نو جوانوں کے لئے روز گار کا نیا گیٹ وے ثابت ہونے والا ہے اور اس کی وجہ سے یہاں ہوٹل ، موٹل ، گیسٹ ہاؤس، کیمپنگ سائٹس ، ہوم اسٹے ، ٹورسٹ ، گائڈ ، ریستوراں کتنے ہی اور ٹورازم ایسا ہے ، غریب سے غریب آدمی بھی کماتا ہے ، سینگھ – چنا بیچنے والا بھی کمائے گا ، پھول پودے بیچنے والا بھی کمائے گا ، آٹو رکشا والا بھی کمائے گا ، گیسٹ ہاؤس والا بھی کمائے گا اور چائے بیچنے والا بھی کمائے گا ۔ دوستو ، ٹرانسپورٹ اور ٹورازم کو حکومت نے ٹرانسفارمیشن کا ذریعہ بنایا ہے ۔ آستھا سے جڑے مقامات ہوں ، ادھیاتم ( روحانیت ) سے جڑے مقامات ہوں ، آدی واسی پہچان کے علاقے ہوں ، ان سبھی علاقوں پر خاص طور سے توجہ دی جا رہی ہے ۔ یہاں شردھالوؤں کے لئے ، سیاحوں کے لئے بنیادی ڈھانچے تعمیر کئے جا رہے ہیں ۔ اس خطے میں تو سب سے اونچی چوٹی کنچن چنگا بھی ہے اور یہاں پر ناتھولا درہ بھی ہے ، جسے ہماری حکومت نے ہی کیلاش مانسروور کی یاترا کے لئے کھولا ہے ۔ یہاں شردھالوؤں کے لئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی غرض سے 40 کروڑ روپئے سے زائد کی مزدوری دی گئی ہے ۔ یہاں کے ماحول کو محفوظ رکھنے کے لئے سکم کو ہرا بھرا بنائے رکھنے کے لئے بھی ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مرکزی حکومت نے نیشنل ریور کنزرویشن پلان کے تحت 350 کروڑ روپئے سے زائد کی رقم منظور کی ہے ۔ اس کے تحت ، جو 9 پروجیکٹ منظور کئے گئے ہیں ، ان میں سے 8 گینگٹاک اور سِنگٹم کے لئے ہیں ۔ تقریباً 150 کروڑ روپئے کے پروجیکٹ رانی چو ندی کو آلودگی سے بچانے والے ہیں ۔ اس کے علاوہ ، ماحولیات کے تحفظ کے لئے پورے شمال مشرق کے لئے تقریباً سوا سو کروڑ روپئے کی منظوری دی جا چکی ہے ، جس میں سے 50 کروڑ روپئے سے زائد کی رقم جاری بھی کی جا چکی ہے ۔ دوستو ، ماحول ، ٹرانسپورٹ اور سیاحت ، اس کا آپس میں گہرا رشتہ ہے ۔ اس لئے سکم کے لئے صرف ایئر کنکٹی وٹی پر ہی زور نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ دوسرے وسائل بھی مستحکم کئے جا رہے ہیں ۔ تقریباً 1500 کروڑ روپئے سے زائد نیشنل ہائی وے پروجیکٹ پر بھی یہاں کام چل رہا ہے ۔ اس کے علاوہ ، تقریباً 250 کروڑ روپئے کی لاگت سے چھوٹی چھوٹی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اور ان کی توسیع کی جا رہی ہے ۔ سڑک کے ساتھ ساتھ سکم میں ریلوے کو بھی مضبوط بنایا جا رہا ہے ۔ گینگٹاک کو براڈ گیج سے جوڑنے کا کام تیزی سے چل رہا ہے ۔ سکم میں بجلی کا نظام بہتر بنانے کے لئے ٹرانسمیشن لائن کو ٹھیک کرنے کی غرض سے 1500 کروڑ روپئے سے زائد کی امداد دی گئی ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہےکہ اس سال دسمبر تک اس کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے معاملے میں بھی سکم کو ملک کے اولین ریاستوں میں کھڑا کرنے کی جانب ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ تقریباً 14ہزار کروڑ روپئے کی لاگت سے 6ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹوں پر یہاں کام چل رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو میں آپ سبھی سکم کے باشندوں کو، یہاں کی سرکار کو اور بالخصوص یہاں کے کسانوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نامیاتی زراعت کو لے کر ملک میں مثال بن کرکے سامنے آئے ہے۔سکم صد فی صد نامیاتی زراعت والی ریاست بننے والی پہلی ریاست ہے۔ نامیاتی زراعت کو ملک بھر میں بڑھاوا دینے کے لئے سرکار متعدد کوششیں کررہی ہے۔اس کے لئے روایتی ، زرعی ترقی کے منصوبے کے تحت کام کیا جارہا ہے نہ صرف نامیاتی زراعت پر زور دیا جارہا ہے بلکہ اس کے ویلیو ایڈیشن اور بازار کا انتظام بھی کیاجارہا ہے اور یہ جو ہوائی اڈہ ہے ، آج تو مسافروں کے لئے شروع ہورہا ہے لیکن وہ دن دور نہیں ہوگا جب یہاں سے پھل، گھنٹے بھر میں دہلی کے بازار میں پہنچ جائیں گے وہ دن دور نہیں ہوگا۔ ہندوستان کے کئی بھگوان ہوں گے۔ جن کے قدموں میں سکم کے کسانوں نے جو پھول تیار کئے ہیں وہ پہنچنے والے ہے۔ شمال مشرق کی ریاستوں میں سرکار نے مشن آرگینگ ویلیو ڈیولپمنٹ فار نارتھ ایسٹرن ریجن نام سے ایک خصوصی ا سکیم بھی چلائی ہے۔اس کے لئے تقریباً 400 کروڑ روپے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ ساتھیو! نامیاتی پیداوار نہ صرف ہمارے ماحولیات کے لئے ، ہماری دھرتی کے لئے بھی محفوظ ہیں۔بلکہ ہمیں بیماریوں سے بھی دور رکھتے ہیں۔ ملک کے باشندوں کی صحت کی دیکھ بھال سرکار کی سب سے بڑی ترجیح ہے اور مجھے کل وزیراعلی بتا رہے تھے کہ یہاں پر پچھلے دس سال میں اس نامیاتی کی کامیابی کا ایک سیدھا رزلٹ دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں آمدنی میں اب بڑھ رہی ہے۔پہلے کی دنیا میں پچھلے دس سال میں زندگی جینے کے عمر کی حد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس میں بھی مردوں سے زیادہ خواتین کی بڑھ رہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ ملک کے لوگ بھی یہ کیمیکل فرٹیلائزر سے نجات حاصل کرکے، کتنی بہتر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔وہ ضرور سکم سے سیکھیں گے،سمجھیں گے، مجھے جانکاری ہے کہ سووچھتا ہی سیوا کی مہم کو سکم کے باشندوں نے ایک طرح سے گلے لگا لیا ہے بہت آگے بڑھایا ہے۔آپ سبھی کی کوششوں، آپ کی بیداری کی وجہ سے سکم نے 2016 میں سب سے پہلے سکم کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک اور ممبرا ہونے کااعلان کیا۔کھلے میں رفع حاجت سے پاک، اتنا ہی نہیں پلاسٹک کے کچرے سے نجات کے لئے بھی آپ لوگوں نے بے حد قابل تعریف کام کئے ہیں۔ بھائیو اور بہنو! جیسے میں نے پہلے کہا کل ملک میں آیوشمان کی شکل میں دنیا کی سب سے بڑی حفظان صحت کی اسکیم، اس کاآغاز ہوا اور سکم کی بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کے سبب سکم کے غریب خاندانوں کو فی سال پانچ لاکھ روپے تک بیماری ،مہلک بیماری کا خرچہ اب سرکار کی طرف سے دیا جائے گا اور یہاں کا باشندہ ہندوستان کے کسی بھی کونے میں جائے، اس کو وہاں اس کو اسپتال کی ضرورت پڑی تو وہاں بھی وہ پیسہ دیاجائے گا۔ بیمار شخص جہاں بھی جائے گا یہ جو آیوشمان بھارت کا حفاظتی ڈھال ہے،یہ اس کے ساتھ ساتھ چلے گا۔ ساتھیو! بیتے چار برسوں میں عام آدمی کےطرز زندگی کو اوپر اٹھانے کے لئے متعدد قسم کی اسکیمیں مرکزی سرکار چلارہی ہے۔جس کا سکم کو بھی فائدہ مل حاصل ہورہا ہے۔ جن دھن یوجنا کی وجہ سے یہاں کے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کے بینک کھاتے کھلے ہیں۔ لگ بھگ80ہزار بھائی بہنو کو صرف ایک روپیہ مہینہ اور 90 پیسے فی دن زندگی بیمہ منصوبوں سے جوڑا گیا ہے۔ اجولا یوجنا کے تحت تقریبا ً 38 غریب کنبوں کو کچن تک مفت میں گیس کنکشن پہنچایا گیا ہے۔ ساتھیو! مشرقی بھارت شمال مشرق کی ریاستوں کی زندگی کو آسان بنانے یہاں کے مشکل حالت کو آسان بنانے کے لئے، آسان زندگی کو یقینی بنانے کے لئے این ڈی اے کی سرکار پورے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ہم اس خطے کو ترقی کے لئے نئے عہد کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں۔ نیو انڈیا کی نئی شکل بنانا چاہتے ہیں۔ اس ہوائی اڈے کی وجہ سے یہاں متعدد آسانیاں یہاں فروغ پائیں گے جو سکم کو ترقی میں نئی اونچائی دیں گی۔ آپ سبھی کو پہلے یہ ہوائی اڈے کے لئے میں ایک بار دل سے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ وزیر اعلیٰ جی نے کئی موضوعات کا ذکر کیا ہے، ان سارے موضوعات پر میری ان کے ساتھ ذاتی طور پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور اس لئے اس کو منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، سکم کو بھی آگے بڑھانا ہے، سکم کے ہر سماج کو، ہر شخص کو، ہر نوجوان کو، اس کے سپنوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش کی جائے گی۔ اس یقین کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ م م۔ ش س۔ م ع۔ م ر۔ ع ا۔ر ض(,ছিকিমত পাকয়ং বিমানবন্দৰ মুকলি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%88%DA%86%DA%BE%D8%AA%D8%A7-%DB%81%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%D9%88%D8%A7-%D9%85%DB%81%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%B8/,نئی دہلی۔15ستمبر 2018 ؛ وزیراعظم نریندر مودی نے سوچھتا ہی سیوا مہم میں آج شرکت کی اور دلی کے ایک اسکول میں شرمدان کیا۔ وزیراعظم نے ملک کے 17 مقامات پر لوگوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ تبادلہ خیال کرتے ہوئے مہم کی ابتدا کی۔ وہ بابا صاحب امبیڈکر ہائر سیکنڈری اسکول جو کہ سنٹرل دلی کے رانی جھانسی روڈ پر واقع ہے، تک کا سفر کیا۔ وہاں انہوں نے بابا صاحب کے مجسمہ پر گلہائے عقیدت پیش کیا اور صفائی مہم میں شرکت کی۔ انہوں نے اسکول میں طلبہ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور ان کی صفائی کی اہمیت پر توجہ دلائی۔ وزیراعظم نے اسکول جانے اور وہاں سے واپسی کا سفر عام ٹریفک کے ذریعہ کیا۔ اس دورہ کے لیے کوئی خصوصی ٹریفک انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ 1946 میں ڈاکٹر امبیڈکر نے خود مذکورہ اسکول کے احاطے کو خریدا تھا جس کا مقصد درج فہرست ذات کی تعلیمی، سماجی اور معاشی بہتری تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,দিল্লীৰ এখন বিদ্যালয়ত “স্বচ্ছতাই প্ৰকৃত সেৱা” অভিযানত শ্ৰমদান কাৰ্যসূচীত অংশ ল’লে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,خواتین و حضرات! بھگوان شیو جی کا پسیندیدہ مہینہ ساون شروع ہوچکا ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں بھولے کے بھکت کانوڑ لے کر کے نکل چکے ہیں۔ ایک طرح سے اب سے لے کر کے دیوالی ت�� تہوار کا ماحول ہوتا ہے اور آنے والے تہواروں کے لئے میں آپ سبھی کو اور ہم وطنوں کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں! تہوار کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے حصے میں اچھی برسات بھی ہورہی ہے۔ موسم کی مہربانی کھیتی کے لیے معیشت کے لیے امیدوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن بھاری بارش کے دوران ملک کے کچھ حصوں میں لوگوں کو تکلیف بھی ہورہی ہے۔ حکومت ہر صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے،ریاستی سرکاروں کے ساتھ ملک کر پوری کوشش کررہی ہے کہ مصیبت میں گھرے ملک کے ہر باشندے تک مدد پہنچے۔ ساتھیو! ایک حساس حکومت ہونے کے ناطے عام آدمی کی زندگی کو مصیبت سے نکالنا اُسے آسان اور سادہ بنانا یہ میں مانتا ہوں کہ ریاست کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے اور ہمارا بھی یہی واحد مقصد ہے۔ پچھلے چار برس میں لگاتار اسی خیال کے ساتھ ہم آگے بڑھتے رہے ہیں اور آج یہاں لکھنؤ کی اس تقریب گا ہ میں جمع ہونا بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ مجھےلکھنؤ سے یہاں شہری زندگی کواسمارٹ اور سہولتوں سے لیس بنانے کے لیے منعقدہ پروگرام میں آنے کا موقع ملا تھا۔ اترپردیش کے شہر اور شہروں سے متعلق کئی اہم پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد اور غریب بے گھر بھائیوں بہنوں کو ان کے اپنے گھر کی چابی سونپنے کا بھی مجھے موقع ملا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آج اترپردیش کے کونے کونی کی کایا پلٹ کرنے ، تبدیلی لانے کے لیے یہاں ہم سب مل کر عزم کر کے آگے بڑھنے کی سمت گامزن ہے۔ ساتھیوں، پانچ مہینے میں یہ دوسری بار جب صنعتی دنیا سے وابستہ ساتھیوں کے ساتھ میں یہاں لکھنؤ میں مل رہا ہوں۔ اس سے پہلے فروری میں یوپی سرمایہ کاروں کی چوٹی میٹنگ کے لیے بھی میں آیا تھا۔ اور مجھے جانکاری دی گئی ہے کہ اُس چوٹی میٹنگ کے دوران یوپی میں سوا چار لاکھ کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں عزم کو زمین پر اتارنے کی اس کڑی میں آج تک بہت بڑا قدم اٹھایا جارہا ہے۔ ہمارے ستیش جی، پتہ نہیں آج کیوں شک و شبہ میں بات کررہے ہیں۔ بڑی عاجزی اور انکسار سے ایسا کہہ رہے تھے جیسے ساٹھ ہزار صرف ساٹھ ہزار ہوں۔ آپ کو بھوک زیادہ ہو، مجھے لگ رہا تھا نا۔ لیکن میں لمبے عرسے تک وزیراعلیٰ رہ کر آیا ہوں اور صنعتی سرگرمیوں سے وابستہ ریاست سے آیا ہوں۔ ساٹھ ہزار کم نہیں ہوتا ہے۔ ساٹھ ہزار کروڑ بہت بڑا ہوتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں آپ نے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ میں یہاں کے افسروں کو بھی مبارکبار پیش کرتا ہوں۔ یہ آپ نے بہت ہی عمدہ کام کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ حصص کی فروخت میں کیسی کیسی چیزیں آڑے آتی ہیں جی۔ ایک کورٹ کچہری میں کاغذ چلا جائے، دو دو سال تک کام اٹک جاتاہے جی۔ ماحولیات والوں کے پاس چلا جائے تو اوپر بیٹھ جاتا ہے اور کسی اخبار والے کے ہتھے چڑھ گیا : سبھاش جی پھر تو سرکار بھی ڈر جاتی ہے، اس کو کام دیں یا نہ دیں۔ کرنے دیں نہ کرنے دیں۔ کیونکہ حریف گروپ کے لوگ طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں۔ ان ساری مصیبتوں کو پاس کرتے ہوئے پانچ مہینے کے اندر اندر یہ رفتار لانا۔ 100 ہزار کروڑ روپے سرمایہ کاری کا کام شروع ہونا یہ عجیب و غریب کامیابی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں تو کہہ رہا ہوں۔ کہ آپ کی پوری ٹیم پوری ٹیم بہت بہت مبارکباد کی مستحق ہے ۔ میں ان کسانوں کو بھی مبارکباد دوں گا، جنھوں نے، جہاں زمین کی ضرورت پڑی ہوگی، زمین دی ہوگی۔ میں ان چھوٹے چھوٹے ملازم، وہاں کا پٹواری بھی وہ بھی آڑے نہیں آیا ہوگا، تب ہوا ہوگا جی۔ ملک یا تو وزیراعظم چلا سکتا ہے یا پٹواری چلا سکتا ہے اور اس لیے یہ قیادت کی کامیابی ہے کہ اتنے کم وقت میں وزیراعلیٰ سے لے کرکے پٹواری تک ساری ٹیم برابر ملک میں سوچ کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔ مجھے دوسری خوشی کی بات ہے کہ آپنے ان ساری چیزوں کو کسی فرد واحد کے بھروسے نہیں چھوڑ رکھا ہے۔ آپ نے الگ الگ شعبوں کے لیے پالیسی بنائی ہے۔ بلیک اینڈ وہائٹ میں چیزیں رکھی ہیں۔ آن لائن کوئی بھی اس کو دیکھ سکتا ہے اور جس کو وہ لگے گا، ہاں بھئی یہ میں اپنےآپ کو فٹ کرسکتا ہوں، ہاں وہ آئے گا۔ یہ پالیسیوں کی بنیاد پر چلائی جانے والی ریاست، یہ اترپردیش کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور اس لیے مہربانی کرکے ان ساٹھ ہزار کو ساٹھ ہزار کروڑ کو کم مت مانئے۔ آپ نے عجیب و غریب کامیابی حاصل کی ہے جی۔ کیوں کہ میں اس کام کو لمبے عرصے تک کرکے آیا ہوں تو مجھے پتہ ہے کہ کتنی محنت لگتی ہے ان میں کتنے اقدامات کرنے پڑتے ہیں، کتنی پیروی کرنی پڑتی ہے اور کتنی گالیاں کھانی پڑتی ہیں، لیکن ریاست کے لیے پرعزم ہوتے ہیں تو راستے بھی نکلتے ہیں۔ دوسری خوشی کی بات ہے، دیکھئے سائیکل کی ٹیوب میں اتنے پوائنٹ ہوا بھرنے سے معقول ہوا بھر جاتی ہے تو سائیکل چلتی ہے، لیکن کبھی کبھی اس ٹیوب میں ایک کونے میں پھگگا ہوجاتا ہے، غبارہ ہوجاتا ہے۔ اب میٹر دیکھوگے تو میٹر تو ٹھیک لگے گا۔ ہاں اتنا پوائنٹ ہوا ہوگئی، لیکن وہ سائیکل چل نہیں پاتی، وہ ہوا ہی رُکاوٹ بن جاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اترپردیش میں وزیراعلیٰ جی نے ہمہ گیر ترقی پر دھیان دیا ہے۔ اترپردیش کے سبھی زمینی حصوں کو موقع ملے، متوازن ترقی ہو، متوازن ترقی ہی اترپردیش کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ صرف نوئیڈا، غازی آباد کی ترقی سے نمبر تو اوپر جائے گا لیکن اترپردیش کی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوگی۔ اس اُس کام کو جس طرح سے کیا ہے اور آج مجھے خوشی ہے کہ ساری چیزوں کو ب عوام کے سامنے باریکیوں سے یہاں بتایا گیا ہے ۔ ان سارے پہلوؤں کو میں سمجھتا ہوا، مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کچھ لوگ اسے آغاز کی تقریب کہہ رہے ہیں۔ ویسے تو روایت وہ ہی ہے۔ لیکن یہ سب دیکھنے کے بعد میں کہتا ہوں۔ یہ ریکارڈ کو توڑنے والی تقریب ہے۔ اتنے کم وقت میں جس طرح سے ان سرگرمیوں کو تیزی سے بڑھایا گیا ہے، پرانے طور طریقوں کو تبدیل کیا گیا ہے، ایسے اترپر دیش میں، میں نہیں مانتا ہوں، پہلے کوئی بھی شخص اٹھ کر کہہ سکتا ہے، جو آج اعتماد پیدا ہوا۔ یہاں کے لیے تو یہ انتظامیہ کی بالکل نئی چیز ہے جی۔ اور مجھے خوشی ہے کہ یوگی جی کی قیادت میں حکومت نے سرمایہ کاروں سے مسلسل بات چیت قائم رکھی اور ارادے کو سرمایہ کاری میں تبدیل کرنے کا ماحول تیار کیا۔ آن لائن معاہدوں، ٹریکر ہو یا پھر منظوری کے لیے سرمایہ کاری دوست جیسی سنگل ونڈو ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہو، یہ بدلا ہوا طریقہ کار اور یو پی میں بزنس کے لیےبنےمناسب ماحول کا مظہر ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب یوپی میں سرمایہ کاری کرنے کو لوگ چنوتی مانتے تھے۔ آج وہ چنوتی مواقع کی صورت میں ابھر کرکے آرہی ہے۔ مواقع روزگار کے ہوں، تجارت کے ہوں، اچھی سڑکوں کے ہوں، معقول بجلی کے ہوں ، بہتر مستقبل کے اور روشن مستقبل کے ہوں۔ آج کا یہ انعقاد یوپی پر بڑھتے بھروسے کی علامت ہے۔ پرواز کی علامت ہے۔ یوپی کی ترقی کی علامت ہے۔ مجھے امید ہے جس رفتار سے آپ آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے اترپردیش کو ایک ٹریلین ڈالر کی معاشی چنوتی پار کرنے میں بہت وقت نہیں لگے گا۔ یہ میری روح کہتی ہے۔ اترپردیش سرکار کو صنعتی دنیا کے آپ صحیح ساتھیوں کو اس عزم کے لیے بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ہم وہ لوگ نہیں ہیں جی، جو صنعت کاروں کی بغل میں کھڑے رہنے سے ڈرتے ہیں، ورنہ کچھ لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا، ان کی ایک تصویر آپ نہیں کھینچ سکتے کسی صنعت کار کے ساتھ، لیکن ایک ملک کا صنعت کار ایسا نہیں ہو، جنھوں نے ان کے گھروں میں جاکرکے قدم بوسی نہ کی ہو۔ یہ امر سنگھ یہاں بیٹھے ہیں، اُن کے پاس سارا، وہ تاریخ نکال دیں گے۔ لیکن جب نیت صاف ہو، ارادے نیک ہوں، تو کسی کے بھی ساتھ کھڑے ہونے سے داغ نہیں لگتے ہیں جی۔ مہاتما گاندھی کی زندگی جتنی پاک تھی، ان کو برلا جی کے گھر خاندان میں، جاکر رہنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی، برلا جی کے ساتھ کھڑے رہنے میں اُن کو کبھی جھجک نہیں ہوئی۔ نیت صاف تھی۔ جن لوگوں کو عوام میں تو ملنا نہیں ہے، پردے کے پیچھے سب کچھ کرنا ہے، وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ اگر ہندوستان کو بنانے میں ایک کسان کی محنت کام کرتی ہے، ایک کاریگر ی محنت کام کرتی ہے، ایک بینکر فائنانسر کی محنت کام کرتی ہے، ایک سرکار کے ملازم کی محنت کام کرتی ہے، ایک مزدور کی محنت کام کرتی ہے ویسے ہی ملک کے صنعتکاروں کا بھی ملک کو بنانے میں رول ہوتا ہے۔ ہم ان کو بے عزت کریں گے، چور لٹیرے کہیں گے، یہ کونسا طریقہ ہے۔ ہاں جو غلط کرے گا، اس کو یا تو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا یا جیلوں میں زندگی گزارنی پڑے گی۔ لیکن یہ بھی پہلے اس لیے نہیں ہوتا تھا ، کیونکہ پردے کے پیچھے پہلے بہت کچھ ہوتا ہے۔ کس کے جہاز میں لوگ گھومتے ہیں، پتہ نہیں ہے کیا۔ اور اس لیے ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ہر کسی کے ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہے اور ملک کے سوا سو کروڑ شہریوں کو وقار بخشنا یہ ہم سب ملک کے شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ جو پروجیکٹ آج شروع ہوئے ہیں، ان میں آگے دو لاکھ سے زیادہ نوجوانو کو سیدھا روزگار ملنے والا ہے اور اس کے علاوہ جہاں یہ صنعتیں لگیں گی، فیکٹریاں لگیں گی ، وہاں کے لوگوں کو بلا مقابلہ روزگار بھی ملے گا۔ ان پروجیکٹوں سے کسان ہو، مزدور ہو، نوجوان ہو، ہر کسی کو فائدہ ہونے والا ہے۔ ساتھیو، میں یوپی کے 22 کروڑ عوام سے عہد کیا تھا کہ اُن کے پیار کو سود سمیت واپس کروں گا، آج یہاں جو پروجیکٹ شروع ہورہے ہیں، وہ اسی عہد بستگی کا ایک اہم جامع قدم ہے۔ یہ پروجیکٹ اترپردیش میں معاشی اور صنعتی عدم توازن کو دور کرنے میں بھی مددگار ہوں گے، کیونکہ یہ ریاست کے کچھ مخصوص علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ان کی توسیع نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا، میرٹھ، مظفر نگر سے لے کر جھانسی، ہردوئی، امیٹھی، رائے بریلی اور جونپور، مرزا پور، گورکھپور تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ پروجیکٹ ڈیجیٹل انڈیا اور میک ان انڈیا مہم کو نئی شکل دینے کی سمت میں بھی بہت بڑے قدم ثابت ہونے والے ہیں۔ پورے اترپردیش میں تیز انٹر نیٹ سروس پہنچانے کے لیے آپٹیکل فائبر بچھانا ہو، یا پھر آئی ٹی سینٹر قائم کرنے کا کام یہ ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ یوپی کی ترقی کو نئی مہمیز ، نئی سمت اور نوجوانوں کو نیا موقع دینے والا ہے یہ ہماری سرکاری کے اُس جامع منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت ہم ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال کھڑی کرنا چاہتے ہیں، جہاں کسی طرح کی تفریق کی گنجائش نہ ہو۔ ردعمل میں رفتار بھی نظر آئے اور حساسیت بھی دکھائی دے۔ نہ اپنا نہ پرایا، نہ چھوٹا نہ بڑا، سب کے ساتھ مساوی رویہ یعنی کل ملاکر سب کا ساتھ سب کا وکاس۔ ساتھیو! سروسز کی تیز اور شفاف فرا��می کو یقینی بنانے کے لئے ڈیجیٹل انڈیا مہم آج بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔ گاؤں گاؤں میں پھیلے تین لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر آج ہماری گاؤں کی زندگی کو بدل رہے ہیں۔ ٹکٹ بکنگ، بجلی ، ٹیلی فون کے بل، ٹیلی میڈیسن، عام دوائیں آدھار خدمات جیسی سینکڑوں خدمات کے لیے اب گاؤں کے لوگ سرکاری دفتروں کے چکر لگانے کے لیے مجبور نہیں ہیں۔ گاؤں میں کامن سروس سینٹر، تو شہروں میں فری وائی فائی ہاٹ اسپاٹ، سستا موبائل انٹر نیٹ، غریب اوسط درجے کی زندگی کو آسان بنانے میں بہت بڑی مدد کررہا ہے۔ ساتھیوں! آئی ٹی صنعتیں برسوں سے ہماری طاقت رہی ہیں۔ آج آئی ٹی ایکسپورٹ ریکارڈ سطح پر ہے۔ 40 لاکھ سے زیادہ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں، لیکن ملک کی یہ طاقت بڑے شہروں، میٹروں شہروں، وہاں تک محدود رہ گئی۔ ہماری سرکار اس طاقت کو ملک ے چھوٹے شہر اور گاؤوں تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ کام کررہی ہے۔ ساتھیو! ٹکڑوں میں سوچنے کی سرکاری روایت اب ختم ہوچکی ہے۔ اب سیلوز کو ختم کرکے، حل نکالنے کے عمل کو اور تال میل کو فروغ دیا جارہا ہے۔ حکومت کا ایک نیا منصوبہ ایک ایکشن کا دوسرے سے سیدھا کنکشن ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم اور میک ان انڈیا مہم اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ آج ڈیجیٹل انڈیا ڈیجیٹل لین دین کا جو اضافہ ہورہا ہے، اس کے پیچھے سستے ہوتے موبائل فون، بھی ایک سبب ہیں۔ موبائل فون اس لیے سستے ہوئے، کیونکہ اب بڑی تعداد میں بھارت میں فون کی مصنوعات سازی ہونے لگی ہے، بننے لگے ہیں۔ آزاد ملک دنیا کے لیے موبائل مصنوعات سازی کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ آج ہم دنیا میں موبائل فون بنانے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ اس مصنوعات سازی کے انقلاب کی قیادت اترپردیش کررہا ہے۔ یوپی میں پچاس سے زائد موبائل فون بنانے والی فیکٹریاں آج کام کررہی ہیں۔ حال میں ہی دنیا کی سب سے بڑی مینوفیکچرنگ یونٹ کی شروعات بھی اسی اترپردیش میں ہوئی ہے۔ آج بھی یہاں جن نئی فیکٹریوں کی بنیاد رکھی گئی ہے، ان میں موبائل مینو فیکچرنگ سے تعلق رکھنے والی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔ ساتھیو! آج جو ماحول بنا ہے، اس کے لیے پچھلے چار سال میں بہت سے فیصلے سرکار نے کئے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری سے متعلق فیصلے ہوں۔ ملک میں مینو فیکچرنگ کے لیے ترغیبات دینے کا فیصلہ ہو، یا پھر کام کرنے کےعمل کو آسان بنانے کا فیصلہ ہو، یہ سب روزگار کے لیے سازگار ماحول بنانے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ برسوں سے جو جی ایس ٹی اٹکا ہوا تھا، اُس نے ملک کو ٹیکس کے جال سے آزاد کیا اور اس کا بھی فائدہ صنعتی دنیا کو ہوا ہے۔ پچھلے برس ملک میں مصنوعات سازی کو فروغ دینے کے لیے ایک بہت اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ میک ان انڈیا میں سرکاری خریداری کی ترجیح کے حکم کے ذریعے سرکار کے تمام محکموں اور ادروں میں خریدی جارہی اشیا اور خدمات کے گھریلو وسیلے سے خریدنے پر زور دیا جارہا ہے۔ میڈ ان انڈیا کو تقویت دی جارہی ہے۔ اس حکم کا فائدہ ملک کی چھوٹی صنعتوں کو بھی مل رہا ہے۔ پچھلے ایک سال میں یہاں یوگی جی کی قیادت میں جو تبدیلی آئی، پالیسیاں بنیں، جرائم پر کنٹرول ہوا، اس سے یوپی کو دوہرا فائد ہ ہوا ہے۔ ساتھیو! بھاجپا حکومت مجموعی نظریے، شمولیت والی کارروائی، مجموعی نظریے اور شمولیت والی کارروائی اس طرز پر کام کررہ رہی ہے۔ اس اسٹیج سے یہاں موجود صنعتی دنیا کے سبھی ساتھیو! آپ سبھی کو اور تمام سرمایہ کاروں کو بھروسہ دلانا چاہتا ہوں کہ ترقی کی ہماری یہ جو دوڑ ہے نا میرے لیے تو یہ ایک شروعات ہے۔ بہت دوڑنا باقی ہے۔ تیز رفتار سے دوڑنا ہے، آپ قومی تعمیر کی ایک اہم اکائی ہیں اور آپ کے عزائم ملک کے کروڑوں نوجوانوں کے خوابوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کرنے پڑیں گے وہ مستقبل میں بھی پوری مضبوطی کے ساتھ لینا کا ہم میں ارادہ بھی ہے، طاقت بھی ہے۔ جیسے جیسے بنیادی ڈھانچے سے جڑے ہمارے بڑے پروجیکٹ تیار ہوجائیں گے، ملک میں حصص کی فروخت کرنا اور زیادہ آسان ہونے والا ہے۔ خاص طور پر لاجسٹک پر ہونے والا خرچ بہت کم ہونے والا ہے۔ اگلی پیڑھی کے بنیادی ڈھانچے سے عام آدمی کے ساتھ ساتھ صنعتی دنیا کو بھی بہت فائدہ ہونے والا ہے۔ ساتھیو! اطلاعاتی ٹیکنالوجی صارفین الیکٹرانک، الیکٹرانکس مینو فیکچرنگ کے لیے یو پی میں بہت امکانات ہیں۔ یہاں کے ایم ایس ایم ای شعبے کو بھی آنے والے وقت میں اس نئے بنیادی ڈھانچے کا فائدہ ملنے والا ہے۔ یہاں کے چھوٹے بیوپاریوں، چھوٹے اور درمیانے صنعتکاروں سے میری درخواست ہے کہ جو اب بھی نقد کے کاروبار کررہے ہیں، وہ ڈیجیٹل لین دین کی طرف ذرا آگے جائیں۔ ساتھیو! دیرپا ترقی اور لگاتار کوشش ہی سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے خوابوں کو پورا کرنے والی ہے۔ دیرپا ترقی کی جب ہم بات کرتے ہیں، تب بجلی کی صورتحال اس کا ایک بہت اہم حصہ ہوتی ہے۔ سستی اور لگاتار بجلی عام زندگی کی بھی بنایدی ضرورت ہے تو زراعت اور صنعت کے لیے بھی بجلی اُتنی ہی لازمی ہے۔ اور اس لیے بجلی پر اس حکومت کی بہت بڑی توجہ ہے۔ آج روایتی توانائی سے ملک سبز توانائی کی طرف تیزی سے برھ رہا ہے۔ خاص طور پر شمسی توانائی پر حکومت خصوصی دھیان دے رہی ہے۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد کے قدم کو آج دنیا بھر میں حمایت حاصل ہورہی ہے۔ شمسی توانائی کے میدان میں بھی یو پی بہت بڑا مرکز بننے والا ہے۔ مرزا پور میں ہی کچھ مہینے پہلے ایک بہت بڑے پلانٹ کا افتتاح کیا گیا تھا۔ آج ایک اور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ بھائیو اور بہنو! آج بھارت ہی نہیں افریقہ سمیت دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ملکوں کو شمسی ٹیکنالوجی، شمسی پمپ، جیسی مشینوں کی ضرورت ہے۔ میری آپ سبھی سے یہ بھی درخواست ہے، کہ سبز اور صاف ستھری توانائی کے میدان میں بھارت میں بنتے ہوئے نہ ختم ہونے والے ماحول اور عالمی حالات کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہماری صنعتی دنیا کے سب ساتھی آگے آئے ہیں۔ ساتھیو! بجلی کی پیداوار سے لے کر گھر گھر تک بجلی پہنچانے کا کام آج نہ رُکنے والی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 14-2013 میں جہاں ہمارا توانائی کا خسارہ چار اعشاریہ دو فیصد تھا، چار سال کے اندر اندر آج ہمارا خسارہ ایک فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے۔ جو کوئلہ ، کوئلے کا نام سنتے ہی ملک میں جو کوئلہ کبھی کالک کی وجہ بنا تھا، وہ آج ریکارڈ سطح پر پیدا ہورہا ہے۔ آج کوئلے کی کمی سے چلتے ہوئے پاور گرڈ فیل نہیں ہوتے۔ اتنا ہی نہیں بجلی کے شعبے میں بھی اصلاحات کی گئی ہیں۔اُن سے ملک اور ملک کے عوام کے ہزاروں کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ اُدے اسکیم نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو نئے سرے سے جلا بخشی ہے۔ اُجالا کے تحت گھر گھر میں جو ایل ای ڈی بلب لگائے گئے ہیں، اس سے تین برسوں کے دوران بجلی کے بل میں قریب ، اور یہ میرے خاص کرکے درمیانہ طبقے کے خاندان، جو بجلی کے خریدار ہیں، نگر پالیکا، مہانگر پالیکا، جو اسٹریٹ لائٹ کی بجلی کا بل بھرتے ہیں۔ بجلی کے بل میں پچھلے تین سال میں پچاس ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ پچاس ہزار کر��ڑ روپے اور انہی پچاس ہزار کروڑ روپے کی کسی رعایت کا مودی نے اعلان کیا ہوتا تو شاید ہفتہ بھر سرخی بنی رہتی۔ واہ واہ مودی، واہ واہ۔ ہم نے اسکیم ایسی بنائی کہ لوگوں کی جیب میں پچاس ہزار کروڑ روپے بچے۔ دیش کیسے بدل رہا ہے۔ جب صاف نیت سے کام ہوتا ہے تو اسی طرح یہی ترقی بھی کرتا ہے۔ ساتھیو! آج ملک میں بجلی کی دستیابی بہت آسان ہوئی ہے۔ عالمی بینک کی بجلی کاری میں آسانی کی رینکنگ میں بھارت نے گذشتہ چار برسوں میں تقریباً 82 پائیدانوں کی چھلانگ لگائی ہے۔ اتنا بہتری ہوئی ہے۔ آج ملک کے ہر گاؤں تک بجلی پہنچائی جاچکی ہے۔ اگلے سال مارچ تک ہر گھر تک بجلی پہنچانے کا ہدف بناکر کے ہم تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں – کچھ لوگ ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں، ہم کہتے ہیں ایساکیا تو وہ بس لگ جاتے ہیں۔ نہیں، نہیں کیا ہے۔ لیکن جو لوگ مودی کی تنقید کرتے ہیں ، وہ لکھ رکھیں- آپ جب مودی کی تنقید کرنے کے لیے چیزوں کی تلاش کررہے ہوں گے – تو جو 70 سے سال سے باقی پڑی تھیں، وہ ہی نکلیں گی۔ میرے کھاتے میں چار سال ہیں، دوسروں کے کھاتے میں 70 سال ہیں۔ اس کے بعد ہمارا ہدف ملک کو بلا رکاوٹ بجلی فراہم کرنے کا بھی ہے۔ اس کے لیے ٹرانسمیشن کےنیٹ ورک کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ آج جو گھاٹم پور- ہاپوڑ ٹرانسمیشن لائن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، وہ اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ یوپی میں پہلے کی حکومتوں کے دوران جس طرح ٹرانسمیشن کا انتظام و انصرام فرسودہ ہوچکا تھا، اس میں نئی روح پھونکنے کے لیے یوگی جی کی سرکار کو پوری تحریک دی جارہی ہے۔ ساتھیو! یوپی کے طویل عرصے تک ممبر پارلیمنٹ رہے اور ہمارے قابل احترام سابق وزیر اعظم جانب اٹل بہاری واجپئی جی کہتے رہتے ہیں کہ وہ ایسا بھارت دیکھنا چاہتے ہیں جو خوشحال ہو، باصلاحیت ہو اور حساس ہو۔ جہاں گاؤں اور شہروں کے درمیان کوئی کھائی نہ ہو۔ جہاں مرکز اور ریاست میں محنت اور اثاثے میں انتظامیہ اور شہری کے میں فرق نہ ہو۔ اٹل جی نے نہ صرف خواب دیکھا بلکہ عوام کو اس کو پورا کرنے کے لئے ان کا خاکہ بھی واضح کررہی ہے۔ اٹل جی نے کبھی کہا تھا کہ سڑکیں، ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ہوتی ہیں۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دی ہے۔ اٹل جی کی سوچ کو 21ویں صدی کی ضروریات کے مطابق اگلی سطح پر لے جانے کی کوشش ہم پوری طاقت سے کررہے ہیں۔ یوپی میں پوروانچل ایکسپریس جیسے ملک کے سب سے بڑے ایکسپریس ہوں، بندیل کھنڈ میں ڈیفنس انڈسٹریل کوریڈور کا قیام ہو، ایسے تمام پروجیکٹو ں کو تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھیو! دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی بہترین طریقہ کوئی بھی بہتر سہولت، دستیاب ہے تو اس کو اپنے نوجوان ساتھیوں تک سوا سو کروڑ باشندوں تک پہنچانے کے لیے سرکار ہر ممکن کوشش کرر ہی ہے۔ جوق در جوق امنگوں کو عوام کی شراکت سے پورا کرنا ہی ہمارا راستہ ہے۔ نیو انڈیا کا خاکہ ہے۔اترپردیش کے لیے، دیش کے لیے، آپ سبھی جو کچھ کررہے ہیں، اس کے لیے میں آپ کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں پچھلے دو، ایک مہینے پہلے ممبئی گیا تھا۔ تو میں نے ممبئی میں صنعتی دنیا کے لوگوں کو مدعو کیا تھا۔ اور لوگ بلاتے ہیں ، لیکن بتانے کی ہمت نہیں کرتے، میں نے بلایا تھا۔ اور میں نے ان کے سامنے پرزنٹیشن دیا کہ آپ اتنے بڑے دھنوان لوگ ہیں، اتنی بڑی صنعت چلاتے ہیں، اتنے کاروبار کرتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں یہ جو صنعتی دنیا ہے۔ پوری اتنی بڑی دنیا ��یں اس کے زراعتی شعبے میں ، کارپوریٹ دنیا کی سرمایہ کاری صرف اور صرف ایک فیصد ہے، جو دنیا کے کسی ملک میں اتنا کم نہیں ہوتا۔ اور میں نے ان سے آدھا دن لگایا تھا کہ ہماری کارپوریٹ دنیا کی سرمایہ کاری زراعت میں کیسے آئے اور یہ ایک فیصد میں بھی کیا ہوتا ہے۔ ٹریکٹر بنانے والے یا یوریا بنانے والے، وہ ہی زیادہ ہیں۔ ظاہری طور پر کسان کو فائدہ ہو اور میں صنعتی دنیا کے لوگوں سے درخواست بھی کی ہے، شعبے بھی سمجھائے ہیں۔ ویلیو ایڈیشن کیسے ہو، زراعت میں ٹیکنالوجی کیسے لائیں، وئیر ہاؤسز، کولڈ اسٹوریج، پیکجنگ، کئی ایسے شعبے ہیں جو ہمارے کاشتکاروں کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اور اس سمت میں کام کرنے کے لیے میں نے ملک کے صنعت کاروں سے خصوصی درخواست کی ہے کہ آپ اپنے یہاں ایک چھوٹی سی غور و خوض کرنے والی ٹیم بنائیے۔ ایک ٹیم تشکیل دیجئے، کس شعبے میں کیا کام کرسکتے ہیں، سوچئے۔ ملک کے زرعی دنیامیں جتنا کارپوریٹ سرمایہ ہم لاپائیں گے، ہمارے کسان کی طاقت، جو پیداوار کبھی کبھی تو ہماری پیداوار اتنی ضائع ہوجاتی ہے، جیسا ابھی سوریہ جی بتا رہے تھے، کہ اب ہم اپنے ملک میں جو پھل پیدا ہوتے ہیں، اسی کے گودے سے جوس بناکرکے بیچنے کا ہم نے فیصلہ کیا، مطلب کسان کو فائدہ ہونے والا ہے۔ اور جو جوس پینے والا ہے وہ بھی مضبوط ہوگا۔ اور وہ مضبوط ہوگا تو ملک بھی مضبوط ہوگا۔ کہنے کا میرا مطلب ہے کہ ہمیں دیہی زندگی کے ساتھ اپنی ان صنعتوں کو کیسے لے جائیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ، دیہی زندگی میں کیسے لے جائیں، یہ آنے والی زندگی میں بہت ضروری ہے، اور اس پر میں زور دے رہا ہوں۔۔ سب سے میں بات کررہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ اس کا بھی نتیجہ ملے گا اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آج جس طرح ساٹھ ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹ زمین پر اترے ہیں، باقی کے عزائم بھی جیسا یوگی جی کہہ رہے تھے کہ پچاس ہزار کروڑ روپے کا کام تو قریب قریب تکمیل پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کام آپ نے کیا ہے۔ پوری ٹیم آپ کی ایک بار پھر مبارکباد کی مستحق ہے۔ میری طرف سے آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ اور اترپردیش کے ایم پی کے ناطے بھی اترپردیش کی ترقی کی خبریں مجھے بہت خوشی دیتی ہیں۔ اور میرا فرض بھی بنتا ہے، اترپردش کے لوگوں کا مجھ پر قرض بھی بنتا ہے اور اس لیے میں دو بار آؤں، پانچ بار آؤں، پندرہ بارآؤں، آپ ک ہی کاہوں، میں آتا نہیں ہوں، تو بھی آپ ہی کا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ বিভিন্ন প্ৰকল্পৰ ভূমি পূজন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%DB%8C-%D8%AA%D9%86%D8%A7%D8%B2%D8%B9%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D8%AD%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%AA%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87/,نئی دہلی۔20فروری؛ مرکزی کابینہ نے وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مہا ندی دریائی پانی سے متعلق تنازعہ کے عدالتی حل کے لیے ایک تجویز کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ اس تجویز کے تحت ایک خصوصی عدالت طاس والی ریاستوں کے مابین آبی تقسیم کے مسئلے کا حل نکالے گی۔ یہ معاملہ پورے مہاندی طاس میں دستیاب پانی ، ہر ایک ریاست کے تعاون، ہر ایک ریاست میں آبی وسائل کے موجودہ استعمال کی نوعیت اور مستقبل کی ترقیات کے مضمرات کو بنیاد بناکر حل کیا جائے گا۔ بین ریاستی دریائی پانی تنازعات (آئی ایس آر ڈبلیو ڈی) ایکٹ 1956 کی تجاویز کے مطابق مذکورہ خصوصی عدالت، بھارت کے چیف جسٹس کی جانب سے نامزد کیے جانے والے ایک چیئرمین اور دو اراکین پر مشتمل ہوگی اور یہ تمام تر عہدیداران سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج حضرات ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایسے دو معاونین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی جو حساس اور پانی سے متعلق تنازعات کو سمجھنے اور ان کا حل نکالنے میں ماہر ہوں گے۔ یہ معاونین مذکورہ خصوصی عدالت کو اس کی کارروائیوں میں درکار ضروری مشورے فراہم کریں گے۔ آئی ایس آر ڈبلیو ڈی ایکٹ مجریہ 1956 کی تجاویز کے مطابق مذکورہ خصوصی عدالت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ تین سال کی مدت کے اندر اندر اپنی رپورٹ اور اپنا فیصلہ پیش کردے گی۔ خصوصی عدالت کی اس مدت کار میں ناقابل احتراز وجوہات کی بنیاد پر دو سال کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ مذکورہ خصوصی عدالت کے ذریعے اس تنازعے کا قانونی حل ضرور نکل آئے گا اور اس طریقےسے اڈیشہ اور چھتیس گڑھ دونوں ریاستوں کو مہاندی دریا کے پانی کے سلسلے میں جو بھی اعتراضات ہیں، ان کا حتمی بندوبست ہوسکے گا۔,মহানদীৰ পানী বিবাদৰ বাবে উৰিষ্যা চৰকাৰৰ অনুৰোধ মৰ্মে ১৯৫৬ চনৰ আন্তঃৰাজ্যিক নদীৰ পানী বিবাদ আইনৰ অধীনত এখন প্ৰাধিকৰণ গঠনৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B4-%DB%81%D8%B4%D9%86%D8%A7-%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%80-%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے روش ہشناہ کے موقع پر اسرائیل کے وزیر اعظم یائر لیپڈ، اسرائیل کے دوست نواز لوگوں اور دنیا بھر کی یہودی برادری کو دلی مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’میرے دوست @yairlapid،اسرا ئیل کے دوست نواز لوگوں اور دنیا بھر کی یہودی برادری کو روش ہشناہ کی دلی مبارکباد۔ دعا ہے کہ نیا سال سب کے لئے اچھی صحت،امن اور خوشحالی لائے۔ شانا تووا!‘‘,সমগ্ৰ বিশ্বৰ ইহুদী লোকসকলক ৰোচে হাছানাহৰ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%A4-%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9C/,مرکزی کابینہ نے آج وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں غیر مرکزی گھریلو گندے پانی کے انتظام کے شعبوں میں جل شکتی کی وزارت کے محکمہ آبی وسائل، دریا کے فروغ اور گنگا کی بحالی اور جاپان کی ماحولیات کی وزارت کے درمیان ایک تعاون نامے پر دستخط کرنے کے لئے اپنی ایکس پوسٹ فیکٹو منظوری دے دی۔ نفاذ کی حکمت عملی اور اہداف: ایک مجلسِ منتظمہ تشکیل دی جائے گی جو تعاون کی مفصّل سرگرمیوں کی تیاری اور اس کی پیش رفت کی نگرانی کرتے ہوئے تعاون نامے کے نفاذ کی ذمہ دار ہوگی۔ اہم اثرات: تعاون نامے کے ذریعے جاپان کے ساتھ تعاون غیر مرکزی گھریلو گندے پانی کے انتظام اور جوہکاسو ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے صاف کردہ گندے پانی کا مؤثر طور پر دوبارہ استعمال جیسے شعبوں میں بہت مفید ثابت ہوگا۔ گندے پانی کے انتظام کے رُخ پر غیر مرکزی جوہکاسو نظام بستیوں سے جل جیون مشن کے تحت کوریج کے ساتھ نکلے بھورے/کالے پانی کے انتظام نیز مشن کے تحت تازہ پانی کے ذرائع کی پائیداری کے علاوہ نمامی گنگے پروگرام کے تحت بھی ایسی ہی صورتحال کے لئے زیادہ مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس سے شہری بلدیاتی اداروں کو گندے پانی کو صاف کرنے کے پیچیدہ مسئلے کے لئے بہتر منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملے گی۔ شامل اخراجات: اس تعاون نامے کے تحت دونوں فریقوں پر کوئی مالی ذمہ داریاں نہیں ہوں گی۔ اس تعاون نامے کے تحت سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لئے معاملات رُخی تفصیلی دستاویزات جیسے منجملہ اور چیزوں کے پری فزیبلٹی رپورٹس، فزیبلٹی رپورٹس، اور مفصّل پروجیکٹ رپورٹس، دیگر کے علاوہ، تیار کی جا سکتی ہیں۔ ان میں متعلقہ شعبوں کی مفصّل وضاحتوں کے علاوہ دیگر متعلقہ معاملات جیسے لازمی صورت میں اس طرح کے معاملات رُخی پروگرام اور پروجیکٹ کے مالی انتظام کا احاطہ کیا جائے گا۔ نکتہ بہ نکتہ تفصیلات: جل شکتی کی وزارت کے آبی وسائل، دریاؤں کے فروغ اور گنگا کی بحالی کے محکمے اور جاپان کی وزارت ماحولیات کے درمیان غیر مرکزی گھریلو فضلے کے پانی کے شعبوں میں ایک تعاون نامے پر 19.03.2022 کو دستخط کئے گئے۔ تعاون نامے پرعوامی پانی کے علاقوں میں پانی کے ماحول کو محفوظ رکھنے کے لئے غیر مرکزی گھریلو گندے پانی کے انتظام کی خاطر تعاون کو فروغ دینے کے لئے دستخط کئے گئے تھے۔ اس میں دونوں ممالک کے درمیان مساوات اور باہمی فائدے کے اصولوں پر مبنی صحت عامہ کی بہتری بھی شامل ہے۔ اس تعاون نامے پر ڈی او ڈبلیو آر، آر ڈی اینڈ جی آر، جمہوریہ ہند کی جل شکتی کی وزارت اور جاپان کی وزارت ماحولیات کے درمیان غیر مرکزی گھریلو گندے پانی کے انتظام کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کیلئے دستخط کئے گئے۔ تعاون کا دائرہ زیادہ ترغیر مرکزی گھریلو گندے پانی کے انتظام اور اس تعاون نامے کے تحت صاف کردہ گندے پانی کے مؤثر طریقے سے دوبارہ استعمال تعاون کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ اس تعاون نامے کے تحت سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لئے معاملات رُخی تفصیلی دستاویزات جیسے منجملہ اور چیزوں کے پری فزیبلٹی رپورٹس، فزیبلٹی رپورٹس، اور مفصّل پروجیکٹ رپورٹس، دیگر کے علاوہ، تیار کی جا سکتی ہیں۔ ان میں متعلقہ شعبوں کی مفصّل وضاحتوں کے علاوہ دیگر متعلقہ معاملات جیسے لازمی صورت میں اس طرح کے معاملات رُخی پروگرام اور پروجیکٹ کے مالی انتظام کا احاطہ کیا جائے گا۔دونوں فریق ایک مجلسِ منتظمہ تشکیل دیں گی جو تعاون کی مفصّل سرگرمیوں کی تیاری اور اس کی پیش رفت کی نگرانی کرتے ہوئے تعاون نامے کے نفاذ کی ذمہ دار ہوگی۔ پس منظر: آبی وسائل، دریائی فروغ اور گنگا کی بحالی کی وزارت کے نزدیک آبی وسائل کی فروغ اور انتظام میں دوسرے ممالک کے ساتھ پالیسی اور تکنیکی مہارت کے اشتراک کے ذریعے دوطرفہ تعاون زیر غور تھا۔ اس میں تربیتی کورسیز، ورکشاپس، سائنسی اور تکنیکی سمپوزیموں، ماہرین کے تبادلے اور مطالعاتی دورے بھی شامل ہیں۔ ہندوستان اورجاپان کے مابین جاری تعاون کے پیش نظر ڈی سینٹرلائزڈ ٹریٹمنٹ کے شعبے میں تجربے اور مہارت کے تبادلے کے لئے جاپان کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔,বিকেন্দ্ৰীভূত ঘৰুৱা বৰ্জিতপানী ব্যৱস্থাপনাৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু জাপানৰ মাজত স্বাক্ষৰিত সহযো��িতামুলক চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%D8%AA%D9%88%D9%88%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%AA%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A6%A5/,آج کے اس تاریخی پروگرام پر پورے ملک کی نظر ہے، اہل وطن اس وقت اس پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں تمام ہم وطنوں کو دل سے خوش آمدید اور مبارکباد دیتا ہوں جو اس تاریخی لمحے کے گواہ ہیں۔ اس تاریخی لمحے میں، میرے کابینہ کے رفقاء جناب ہردیپ پوری جی، جناب جی کشن ریڈی جی، جناب ارجن رام میگھوال جی، محترمہ میناکشی لیکھی جی، جناب کوشل کشور جی بھی آج میرے ساتھ اسٹیج پر موجود ہیں۔ ملک کی متعدد معزز شخصیات بھی آج یہاں موجود ہیں۔ ساتھیوں، آزادی کے امرت مہوتسو میں آج ملک کو ایک نئی تحریک اور ایک نئی توانائی ملی ہے۔ آج ہم ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آنے والے کل کی تصویر میں نئے رنگ بھر رہے ہیں۔ آج یہ نئی چمک جو ہر طرف نظر آرہی ہے، نئے ہندوستان کے اعتماد کی چمک ہے۔ غلامی کی علامت کنگز وے یعنی راج پتھ آج سے تاریخ کا معاملہ بن چکا ہے، ہمیشہ کے لیے مٹ گیا ہے۔ آج کرتوویہ پتھ کے طور پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ میں تمام ہم وطنوں کو آزادی کے اس امرت کال میں غلامی کی ایک اور شناخت سے آزادی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آج انڈیا گیٹ کے قریب ہمارے قومی رہنما نیتا جی سبھاش چندر بوس کا ایک بہت بڑا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ غلامی کے وقت یہاں برطانوی راج کے نمائندے کا مجسمہ تھا۔ آج اسی مقام پر نیتا جی کا مجسمہ قائم کرکے ملک نے ایک جدید اور مضبوط ہندوستان کی بنیاد بھی قائم کی ہے۔ یقیناً یہ ایک موقع ہے، یہ موقع بے مثال ہے۔ یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں اور اس کے گواہ بن رہے ہیں۔ ساتھیوں، سبھاس چندر بوس ایسے عظیم انسان تھے جو مقام اور وسائل کے چیلنج سے الگ تھے۔ ان کی مقبولیت ایسی تھی کہ ساری دنیا انہیں لیڈر مانتی تھی۔ ان میں ہمت اور خودداری تھی۔ ان کے پاس خیالات اور وژن تھے۔ ان میں قائدانہ صلاحیت تھی اور وہ پالیسی ساز بھی تھے ۔ نیتا جی سبھاش کہا کرتے تھے – ہندوستان ایسا ملک نہیں ہے جو اپنی شاندار تاریخ کو بھول جائے۔ ہندوستان کی شاندار تاریخ ہر ہندوستانی کے خون میں، اس کی روایات میں شامل ہے۔ نیتا جی سبھاش کو ہندوستان کے ورثے پر فخر تھا اور وہ جلد از جلد ہندوستان کو جدید بنانا چاہتے تھے۔ اگر آزادی کے بعد ہمارا ہندوستان سبھاش بابو کے راستے پر چلتا تو آج ملک کتنی بلندیوں پر ہوتا! لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس عظیم ہیرو کو آزادی کے بعد بھلا دیا گیا۔ ان کے نظریات حتیٰ کہ ان سے جڑی علامتوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ مجھے سبھاش بابو کے 125ویں یوم پیدائش کے موقع پر کولکتہ میں ان کے گھر جانے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے اس مقام پرلامحدود توانائی کو محسوس کیا جو نیتا جی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ آج ملک کی کوشش ہے کہ نیتا جی کی وہ توانائی ملک کی رہنمائی کرے۔ کرتویہ پتھ پر نیتا جی کا مجسمہ اس کا ذریعہ بنے گا۔ ملک کی پالیسیوں اور فیصلوں میں سبھاش بابو کی چھاپ رہے، یہ مجسمہ اس کے لیے تحریک کا ذریعہ بنے گا۔ بھائیو اور بہنو، پچھلے آٹھ سالوں میں، ہم نے یکے بعد دیگرے کئی ایسے فیصلے کئے ہیں، جو نیتا جی کے اصولوں اور خوابوں کے نقوش ہیں۔ نیتا جی سبھاش متحدہ ہند��ستان کے پہلے سرکردہ رہنما تھے جنہوں نے 1947 سے پہلے ہی انڈمان کو آزاد کروا کر ترنگا لہرایا تھا۔ اس وقت انہوں نے تصور کیا تھا کہ لال قلعہ پر ترنگا پھہرانا کیسا ہوگا۔ مجھے ذاتی طور پر اس احساس کا تجربہ اس وقت ہوا جب مجھے آزاد ہند حکومت کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر لال قلعہ پر ترنگا پھہرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہماری اپنی حکومت کی کوششوں سے لال قلعہ میں نیتا جی اور آزاد ہند فوج سے متعلق ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ ساتھیوں، میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب 2019 میں یوم جمہوریہ پریڈ میں آزاد ہند فوج کے سپاہیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ وہ کئی دہائیوں سے اس اعزاز کے منتظر تھے۔ انڈمان میں نیتا جی نے جہاں ترنگا لہرایا تھا، مجھے وہاں بھی جانا تھا، جانے کا موقع ملا، ترنگا پھہرانے کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ لمحہ ہر اہل وطن کے لیے قابل فخر لمحہ تھا۔ بھائیو اور بہنو، انڈمان کے وہ جزیرے جسے نیتا جی نے سب سے پہلے آزادی دلائی تھی، وہ بھی کچھ عرصہ پہلے تک غلامی کی نشانیاں اٹھانے پر مجبور تھے! آزاد ہندوستان میں بھی ان جزائر کا نام برطانوی حکمرانوں کے نام پر رکھا گیا تھا۔ غلامی کی ان نشانیوں کو مٹا کر ہم نے ان جزیروں کو نیتا جی سبھاش سے جوڑ کر ہندوستانی نام، ہندوستانی شناخت دی۔ ساتھیوں، آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر ملک نے اپنے لیے ‘پنچ پران’ کا ویژن رکھا ہے۔ ان پانچوں پرانوں میں ترقی کے بڑے اہداف کا عہد ہے، فرائض کے لیے تحریک ہے۔ اس میں غلامانہ ذہنیت ترک کرنے کی اپیل ہے اور اپنے ورثے پر فخر پر زورہے۔ آج ہندوستان کے اپنے اصول اور ضوابط ہیں۔ آج ہندوستان کے عہد اور اہداف اپنے ہیں۔ آج ہمارے راستے اور علامتیں اپنی ہیں۔ اور ساتھیوں، آج اگر راج پتھ کا وجود ختم ہو کر کرتویہ بن گیا ہے، آج اگر جارج پنجم کے مجسمہ کے نشان کو ہٹاکر وہاں نیتا جی کے مجسمے کو نصب کردیا گیا ہے، تو یہ غلامانہ ذہنیت کو چھوڑنے کی پہلی مثال نہیں ہے۔ یہ نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ یہ عزم و ہمت کا ایک مسلسل سفر ہے، جب تک ذہن اور نفس کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہو جاتا۔ جس جگہ پر ملک کے وزیر اعظم رہتے آئے ہیں، اس جگہ کا نام ریس کورس روڈ سے بدل کر لوک کلیان مارگ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں اب ہندوستانی آلات کی موسیقی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ بیٹنگ ریٹریٹ تقریب میں اب حب الوطنی کے گیت سن کر ہر ہندوستانی محظوظ ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندوستانی بحریہ نے بھی غلامی کا نشان اتارتے ہوئے چھترپتی شیواجی مہاراج کی علامت کو اپنا لیا ہے۔ نیشنل وار میموریل بنا کر ملک نے تمام اہل وطن کی دیرینہ خواہش بھی پوری کر دی ہے۔ ساتھیوں، یہ تبدیلی صرف علامتوں تک محدود نہیں، یہ تبدیلی ملکی پالیسیوں کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ آج ملک میں سینکڑوں ایسے قوانین بدل چکے ہیں جو انگریزوں کے دور سے چلے آرہے تھے۔ ہندوستانی بجٹ کا وقت اور تاریخ، جو اتنی دہائیوں سے برطانوی پارلیمنٹ کے اوقات کے مطابق چل رہی تھی، کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے اب ملک کے نوجوانوں کو غیر ملکی زبان کی مجبوری سے نجات دلائی جا رہی ہے۔ یعنی آج ملک کا تصور اور ملک کا طرز عمل دونوں غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہو رہے ہیں۔ یہ آزادی ہمیں ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف تک لے جائے گی۔ ساتھیوں، عظیم شاعر بھرتیار نے ہندوستان کی عظمت کے بارے میں تمل زبان میں ایک بہت ہی خوبصورت نظم لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان ہے – پاروکُلے نلل ناڈا-یئنگل، بھارت ناڈ-اے، عظیم شاعر بھرتیار کی یہ نظم ہر ہندوستانی کو فخر سے لبریز کرنے والی ہے۔ ان کی نظم کا مطلب ہے، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں سب سے عظیم ہے۔ علم میں، روحانیت میں، وقار میں، کھانے کے عطیہ میں، موسیقی میں، لازوال نظموں میں، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں سب سے عظیم ہے۔ بہادری میں، فوجوں کی شجاعت میں، ہمدردی میں، دوسروں کی خدمت میں، زندگی کی سچائی تلاش کرنے میں، سائنسی تحقیق میں، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں سب سے عظیم ہے۔ اس تمل شاعر بھرتیار کے ہر لفظ، ہر جذبات کو محسوس کریں۔ ساتھیوں، غلامی کے اس دور میں پوری دنیا کے لیے ہندوستان کی للکار تھی۔ یہ ہمارے مجاہدین آزادی کی اپیل تھی۔ جس ہندوستان کا تذکرہ بھرتیار نے اپنی نظم میں کیا ہے، ہمیں اس بہترین ہندوستان کی تعمیر کرکے ہی رہنا ہے۔ اور اس کا راستہ اس کرتویہ پتھ سے گزرتا ہے۔ ساتھیوں، کرتویہ پتھ صرف اینٹوں اور پتھروں کا راستہ نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے جمہوری ماضی اور ہمہ وقتی نظریات کا راستہ ہے۔ جب ملک کے لوگ یہاں آئیں گے، نیتا جی کا مجسمہ، قومی جنگی یادگار، یہ سب انہیں بڑا حوصلہ دے گا، ان میں فرض کا احساس پیدا ہوگا! ملک کی حکومت اس جگہ کام کر رہی ہے۔ آپ سوچیں، ملک نے جنہیں عوامی کی خدمت کی ذمہ داری سونپی ہے ،انہیں راج پتھ عوام کی خدمت کا کیسے احساس دلا رہا ہے ؟ اگر پتھ ہی راج پتھ ہو تو سفر کیسے ہوگا؟ راج پتھ برطانوی راج کے لیے تھا، جس کے لئے ہندوستان کے لوگ غلام تھے۔ راج پتھ کی روح بھی غلامی کی علامت تھی، اس کی ساخت بھی غلامی کی علامت تھی۔ آج اس کا فن تعمیر بھی بدل گیا ہے اور اس کی روح بھی بدل گئی ہے۔ اب جب ملک کے ارکان پارلیمنٹ، وزراء، افسران اس راستے سے گزریں گے،توانہیں کرتویہ پتھ سے ملک کے تئیں ذمہ داری کا احساس ہوگا، انہیں نئی توانائی اور تحریک ملے گی۔ قومی جنگی یادگار سے لے کر کرتویہ پتھ تک راشٹرپتی بھون کا یہ پورا علاقہ ہر لمحہ نیشن فرسٹ، ملک ہی اول کے اس احساس کو جگائے گا۔ ساتھیوں، آج اس موقع پر میں ان مزدور ساتھیوں کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے نہ صرف کرتویہ پتھ بنایا بلکہ اپنی محنت سے ملک کو کرتویہ پتھ دکھایا بھی ہے۔ مجھے ابھی ان کارکنوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں محسوس کر رہا تھا کہ ملک کے غریبوں، مزدوروں اور عام انسانوں کے اندر ہندوستان کا کتنا عظیم خواب بسا ہوا ہے! اپنا پسینہ بہاتے وقت وہ اسی خواب کو زندہ کرتے ہیں اور آج میں اس موقع پر ملک کے ہر غریب مزدور کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو ملک کی بے مثال ترقی میں مدد کر رہے ہیں، ہمارے مزدور بھائی ترقی کو رفتار دے رہے ہیں اور آج جب میں ان مزدور بھائیوں اور بہنوں سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ اس بار 26 جنوری کو جو لوگ یہاں کام کر چکے ہیں، جو مزدور بھائی ہیں، 26 جنوری کے پروگرام میں کنبے سمیت میرے مہمان خصوصی ہوں گے۔ مجھے اطمینان ہے کہ نئے ہندوستان میں آج مزدوروں اور محنت کشوں کے احترام کا کلچر بن رہا ہے، ایک روایت کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ اور دوستو، جب پالیسیوں میں حساسیت کی بات آتی ہے تو فیصلے بھی اتنے ہی حساس ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اب محنت کشوں پر فخر کر رہا ہے۔ ‘شرم اور جیتے’ آج ملک کا منتر بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنارس میں، کاشی میں، وشوناتھ دھام کے افتتاح کا کوئی مافوق الفطرت موقع ہوتا ہے، وہاں محنت کشوں کے اعزاز میں پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔ جب پریاگ راج کمبھ کا مقدس تہوار ہوتا ہے، تو صفائی ستھرائی کے مزدوروں سے اظہار تشکر کیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک کو دیسی طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت ملا ہے۔ تب بھی مجھے ان مزدور بھائیوں اور بہنوں اور ان کے خاندانوں سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے آئی این ایس وکرانت کی تعمیر میں دن رات کام کیا۔ میں نے ان سے مل کران کا شکریہ ادا کیا۔ محنت کشوں کے احترام کی یہ روایت ملکی ثقافت کا انمٹ حصہ بنتا جا رہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ نئی پارلیمنٹ کی تعمیر کے بعد اس میں کام کرنے والے کارکنوں کو بھی ایک خصوصی گیلری میں جگہ دی جائے گی۔ یہ گیلری آنے والی نسلوں کو یہ بھی یاد دلائے گی کہ ایک طرف آئین جمہوریت کی بنیاد ہے تو دوسری طرف کارکنوں کا حصہ بھی ہے۔ یہ ترغیب ہر اہل وطن کو یہ کرتویہ پتھ بھی دے گا۔ یہ تحریک محنت کشوں کے ذریعے کامیابی کی راہ ہموار کرے گا۔ ساتھیوں، ہمارے رویے میں، ہمارے ذرائع میں، ہمارے وسائل میں، ہمارے انفراسٹرکچر میں، جدیدیت کے اس امرت کال کا اصل ہدف ہے۔ اور دوستو، جب ہم انفراسٹرکچر کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی تصویر جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہ سڑکیں یا فلائی اوور ہیں۔ لیکن ایک جدید ہندوستان میں انفراسٹرکچر کی توسیع اس سے کہیں زیادہ ہے، اس کے کئی پہلو ہیں۔ آج ہندوستان سماجی انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ثقافتی انفراسٹرکچر پر بھی اتنی ہی تیزی سے کام کر رہا ہے۔ میں آپ کو سماجی انفراسٹرکچر کی مثال دیتا ہوں۔ آج ملک میں ایمس کی تعداد پہلے کی نسبت تین گنا بڑھ گئی ہے۔ میڈیکل کالجوں کی تعداد میں بھی پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان آج کس طرح اپنے شہریوں کو جدید طبی سہولیات فراہم کرکے ان کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ آج نئے آئی آئی ٹی، ٹرپل آئی ٹی، سائنسی اداروں کے جدید نیٹ ورک کی مسلسل توسیع کی جارہی ہے،جو ملک میں ہی تیار کیا جا رہا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں 6 کروڑ سے زیادہ دیہی گھرانوں کو پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ آج ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنانے کی ایک عظیم الشان مہم بھی چل رہی ہے۔ ہندوستان کا یہ سماجی ڈھانچہ سماجی انصاف کو مزید تقویت بخش رہا ہے۔ ساتھیوں، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر آج ہندوستان جتنا کام کر رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آج ایک طرف ملک بھر میں دیہی سڑکوں کا ریکارڈ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ریکارڈ تعداد میں جدید ایکسپریس ویز بن رہے ہیں۔ آج ملک میں ریلوے کی برقی کاری تیز رفتاری سے ہو رہی ہے، اسی طرح مختلف شہروں میں میٹرو کی بھی توسیع ہورہی ہے۔ آج، ملک میں بہت سے نئے ہوائی اڈے بنائے جا رہے ہیں، نیز آبی گزرگاہوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ آج، ہندوستان نے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر میں پوری دنیا کے سرکردہ ممالک میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ملک نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ پنچایتوں تک آپٹیکل فائبر پہنچانے کے ساتھ ڈیجیٹل ادائیگی کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں اور دنیا بھر میں ہندوستان کی ڈیجیٹل ترقی پر بحث ہورہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، انفراسٹرکچر کے ان کاموں میں، ہندوستان میں ثقافتی انفراسٹرکچر پر کیے گئے کاموں پر اتنی بات نہیں کی گئی۔ پرساد اسکیم کے تحت ملک میں بہت سے زیارت گاہوں کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔ کاشی-کیدارناتھ-سومناتھ سے کرتارپور صاحب کوریڈور کے لیے ج�� کام کیا گیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اور دوستو، جب ہم ثقافتی انفراسٹرکچر کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف مذہبی مقامات سے متعلق انفراسٹرکچر نہیں ہوتا۔ انفراسٹرکچر جس کا تعلق ہماری تاریخ سے ہے، جس کا تعلق ہمارے قومی ہیروز اور ملک کے جانبازوں سے ہے، جس کا تعلق ہمارے ورثے سے ہے، اس کی تعمیر بھی اتنی ہی عجلت سے کی جا رہی ہے۔ سردار پٹیل اسٹیچو آف یونٹی ہو یا قبائلی مجاہدین آزادی کو وقف میوزیم، پی ایم میوزیم ہو یا بابا صاحب امبیڈکر میموریل، نیشنل وار میموریل یا نیشنل پولیس میموریل، یہ ثقافتی انفراسٹرکچر کی مثالیں ہیں۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری ثقافت کیا ہے، ہمارے اقدار کیا ہیں اور ہم ان کی حفاظت کیسے کر رہے ہیں۔ ایک خواہش مند ہندوستان صرف سماجی انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ثقافتی انفراسٹرکچر کو رفتار دیتے ہوئے تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کرتوویہ پتھ کے طور پر ملک کو ثقافتی انفراسٹرکچر کی ایک اور عظیم مثال مل رہی ہے۔ فن تعمیر سے لے کر اصولوں تک، آپ کو یہاں ہندوستانی ثقافت بھی دیکھنے کو ملے گی، اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ میں ملک کے ہر شہری سے اپیل کرتا ہوں، میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں، آئیں اور اس نوتعمیر شدہ کرتوویہ پتھ کا دیدار کریں۔ اس تعمیر میں آپ کے مستقبل کا ہندوستان نظر آئے گا۔ یہاں کی توانائی آپ کو ہماری وسیع قوم کے لیے ایک نیا وژن، ایک نیا یقین فراہم کرے گی اور کل سے اگلے تین دن یعنی جمعہ ، سنیچر اور اتوار ،یہاں تین دن نیتا جی سبھاش بابو کی زندگی پر مبنی سمے ڈرون شو کا بھی انعقاد ہوگا۔ آپ یہاں آئیں، اپنی اور اپنے خاندان کی تصاویر لیں، سیلفی لیں۔ آپ انہیں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کرتویہ پتھ کے ساتھ اپ لوڈ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ پورا علاقہ دہلی کے لوگوں کے دل کی دھڑکن ہے، یہاں شام کے وقت بڑی تعداد میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں، وقت گزارتے ہیں۔ کرتویہ پتھ کی پلاننگ، ڈیزائننگ اور لائٹنگ بھی اسی کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کرتویہ پتھ کی یہ تحریک ملک میں فرض کی روانی کی لہر پیدا کرے گی، یہ لہرہمیں ایک نئے اور ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کی تکمیل تک پہنچائے گا۔ اس یقین کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ! میرے ساتھ بولیں گے، میں کہوں گا نیتا جی، آپ بولیں گے امررہے! امر رہے! نیتا جی امر رہے! نیتا جی امر رہے! نیتا جی امر رہے! بھارت ماتا کے جے ! بھارت ماتا کے جے! وندے ماترم! وندے ماترم! وندے ماترم! بہت بہت شکریہ!,নতুন দিল্লীত ‘কৰ্তব্য পথ’ উদ্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%88%DA%88%DA%BE%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%8C-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE-5/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گجرات کے موڈھیرا میں سوریہ مندر کا دورہ کیا۔ وزیر اعظم کی آمد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جناب مودی نے سوریہ مندر میں ہیریٹیج لائٹنگ کا افتتاح کیا جو اسے ہندوستان کا پہلا ایسا ورثہ بناتا ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ انھوں نے موڈھیرا سوریہ مندر کی تھری ڈی پروجیکشن میپنگ کا بھی افتتاح کیا۔ وز��ر اعظم نے مندر کی تاریخ کو دکھانے والے ثقافتی پروگرام کا بھی مشاہدہ کیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل، رکن پارلیمنٹ جناب سی آر پاٹل، گجرات حکومت کے وزرا، جناب پورنیش بھائی مودی اور جناب اروند بھائی ریانی وزیر اعظم کے دورے پر ان کے ساتھ تھے۔ اس سے قبل آج، وزیر اعظم نے گجرات کے موڈھیرا، مہسانہ میں 3900 کروڑ روپے سے زیادہ کے متعدد منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انھیں ملک کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے موڈھیرا کو ہندوستان کا پہلا 24X7 شمسی توانائی سے چلنے والا گاؤں بھی قرار دیا۔ جناب مودی نے گجرات کے موڈھیرا میں مودھیشوری ماتا مندر میں درشن اور پوجا بھی کی۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুজৰাটৰ মোধেৰাত সূৰ্য মন্দিৰ পৰিদৰ্শন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-9%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%AF-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%86%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A6-%E0%A6%95%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 9ویں عالمی آیوروید کانگریس کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا۔ انھوں نے تین قومی آیوش اداروں کا بھی افتتاح کیا۔ تینوں ادارے – آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید (AIIA)، گوا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن (NI,নৱম বিশ্ব আয়ুৰ্বেদ কংগ্ৰেছৰ সামৰণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%88%E0%A6%A6-%E0%A6%89%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%B9%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے عید الاضحی کے موقع پر عوام کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا؛ ’’عید مبارک! عید الاضحی کے موقع پر مبارک باد۔ یہ تہوار انسانیت کی بھلائی کے لئے اجتماعی خیر و عافیت اور خوشحالی کے جذبے کو مزید فروغ دینے کے تئیں کام کرنے کے لئے ہمیں تحریک دے ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ح ا۔ن ا۔,ঈদ-উল-আজহা উপলক্ষে দেশবাসীক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%AB%DB%8C%D8%B1-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D8%A2%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%B9%DB%8C%D9%88-%D8%B3%D9%88%D8%B3%D8%A7%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%8F/,محترم وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت مرکزی کابینہ نے کثیر ریاستی کوآپریٹیو سوسائٹیز (ایم ایس سی ایس )ایکٹ 2002 کے تحت ایک قومی سطح کی کثیر ریاستی کوآپریٹیو سیڈ سوسائٹی کے قیام اور اسے فروغ دینے کے ایک تاریخی فیصلے کو منظوری دے دی ہے۔ یہ سوسائٹی متعلقہ وزارتوں، خصوصاً زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت، زرعی تحقیق کی بھارتی کونسل (آئی سی اے آر) اور نیشنل سیڈ کارپوریشن (این ایس سی) کے تعاون اور ان کی اسکیموں اور ایجنسیوں کے ذریعہ ملک بھر کی مختلف کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے توسط سے ’مکمل سرکاری نقطہ نظر‘ پر عمل کرتے ہوئے کوالٹی بیجوں کی پیداوار، خریداری، پروسیسنگ، برانڈنگ، لیبلنگ، پیکجنگ، ذخیرہ اندوزی، مارکیٹنگ اور تقسیم؛ کلیدی تحقیق و ترقی؛ اور دیسی قدرتی بیجوں کے تحفظ و فروغ کی غرض سے ایک نظام تیار کرنے کے لیے ایک اعلیٰ تنظیم کے طور پر کام کرے گی۔ محترم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کوآپریٹیو سوسائٹیوں کی قوت سے مستفید ہونے کی ہر ممکنہ کوشش کی جانی چاہئے اور انہیں ’’سہکار سے سمردھی‘‘ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے کامیاب اور فعال کاروباری صنعتوں میں تبدیل کیا جانا چاہئے، کیونکہ کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے پاس ملک کے زرعی اور وابستہ شعبوں میں دیہی اقتصادی تبدیلی کی کلید موجود ہے۔ پی اے سی ایس سے اے پی ای ایکس تک: بنیادی سے قومی سطح کی کوآپریٹیو سوسائٹیاں جن میں بنیادی سوسائٹیاں، ضلع، ریاستی اور قومی سطح کی تنظیمیں اور کثیر ریاستی کوآپریٹیو سوسائٹیاں شامل ہیں، اس کی رکن بن سکتی ہیں۔ اس کے ضمنی قوانین کے مطابق، سوسائٹی کے بورڈ میں ان تمام کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے منتخبہ نمائندگان ہوں گے۔ قومی سطح کی یہ کثیر ریاستی سوسائٹی متعلقہ وزارتوں، خصوصاً زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت، زرعی تحقیق کی بھارتی کونسل (آئی سی اے آر) کے تعاون اور ان کی اسکیموں اور ایجنسیوں کے ذریعہ ملک بھر کی مختلف کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے توسط سے کوالٹی بیجوں کی پیداوار ، خریداری، پروسیسنگ، برانڈنگ، لیبلنگ، پیکجنگ، ذخیرہ اندوزی، مارکیٹنگ اور تقسیم؛ کلیدی تحقیق و ترقی، اور دیسی قدرتی بیجوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک نظام تیار کرنے کے لیے ایک اعلیٰ تنظیم کے طور پر کام کرے گی۔ مجوزہ سوسائٹی تمام سطحوں کی کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے نیٹ ورک کا استعمال کرکے بیج متبادل شرح کو بڑھانے، کوالٹی بیج کی کھیتی اور بیج کی قسم کی آزمائش میں کاشتکاروں کے کردار کو یقینی بنانے، واحد برانڈ نام کے ساتھ تصدیق شدہ بیجوں کی پیداوار اور تقسیم میں مدد فراہم کرے گی۔ کوالٹی بیجوں کی دستیابی سے زرعی پیداوار بڑھانے اور خوراک سلامتی کو مضبوط بنانے اور کاشتکاروں کی آمدنی میں بھی اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے اراکین کو کوالٹی بیجوں کی پیداوار سے بہتر قیمتوں کی حصولیابی، اعلیٰ پیداواری قسم (ایچ وائی وی) کے بیجوں کے استعمال سے فصلوں کی اعلیٰ پیداوار اور سوسائٹی کے ذریعہ پیدا کیے گئے سرپلس سے تقسیم کیے گئے منافع، دونوں سے فائدہ حاصل ہوگا۔ سیڈ کوآپریٹیو سوسائٹی بیج کی کھیتی اور بیج قسم کی آزمائش، واحد برانڈ نام کے ساتھ تصدیق شدہ بیجوں کی پیداوار اور تقسیم میں کاشتکاروں کے کردار کو یقینی بناکر ایس آر آر، وی آر آر کو بڑھانے کے لیے تمام طرح کے کوآپرٹیو ڈھانچوں اور دیگر تمام وسائل کو شامل کرے گی۔ قومی سطح کی اس کوآپریٹیو سوسائٹی کے توسط سے کوالٹی بیج پیداوار سے ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اس سے زراعت اور امدادِ باہمی کے شعبہ میں روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے، درآمدشدہ بیجوں پر انحصار میں تخفیف واقع ہوگی اور دیہی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا، ’’میک ان انڈیا‘‘ کو بڑھاوا ملے گا اور اس کے نتیجہ میں آتم نربھر بھارت کا راستہ ہموار ہوگا۔,"বহুৰাজ্যিক সমবায় সমিতি (এমএছচিএছ) আইন, ২০০২-ৰ অধীনত এখন ৰাষ্ট্ৰীয় পৰ্যায়ৰ বহুৰাজ্যিক সমবায় বীজ সমিতি স্থাপনত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DB%8C%DA%A9%D9%85-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D9%88%D9%88%DA%86%DA%BE-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A6%E0%A7%A7-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B/,ایک تاریخی پہل کے تحت وزیراعظم جناب نریندر مودی یکم اکتوبر 2021 کو دن میں گیارہ بجے نئی دلی کے ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر کے مقام پر سووچھ بھارت مشن۔ اربن 2.0 اور اٹل مشن برائے احیاء اور شہری تغیر۔2.0 کا آغاز کریں گے۔ وزیراعظم کے نظریہ کے عین مطابق ایس بی ایم۔ یو 2.0 اور امرت 2.0 مشن ہمارے سبھی شہروں کو ’’کوڑا کرکٹ سے مبرا‘‘ اور ’’پانی کی یقینی فراہمی‘‘ والے شہر بنانے سے متعلق خواہشات کو حقیقت کی شکل دینے کی غرض سے وضع کئے گئےہیں۔ یہ اہم ترین مشن، بھارت کی تیزی سے ہورہی شہر کاری سے متعلق چنوتیوں سے موثر طور پر نمٹنے کی جانب ہمارے سفر میں ایک قدم کی علامت ہیں اور ان سے پائیدار ترقیاتی مقاصد 2030 کی حصولیابی کی جانب تعاون میں بھی مدد ملے گی۔ مکانات اور شہری امور کے مرکزی وزیر اور وزیر مملکت اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے شہری ترقی کے وزراء بھی اس موقع پر موجود رہیں گے۔ سووچھ بھارت مشن۔ اربن 2.0 کے بارے میں ایس بی ایم۔ یو 2.0 کے تحت تمام شہروں کو کوڑا کرکٹ سے مبرا بنانے اور امرت کے تحت احاطہ کئے جاچکے شہروں کو چھوڑکر تمام شہروں میں نسبتاً کم غلیظ (گرے) اور انتہائی غلیظ (بلیک) پانی کے بندوبست کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے علاوہ تمام شہری بلدیاتی اداروں کو او ڈی ایف+ کے طور پر بنانے اور ایک لاکھ سے کم آبادی والے شہروں کو او ڈی ایف ++ کے طور پر بنانے کی بھی بات کہی گئی ہے تاکہ شہری علاقوں میں محفوظ طریقے سے صفائی ستھرائی کےنظریئے کو حاصل کیا جاسکے۔ مشن کے تحت ٹھوس فضلے کی علیحدگی کے ذریعہ، تین آر سی (کم کرنا، پھر سے استعمال کرنا اور دوبارہ قابل استعمال بنانا) کے اصولوں کو بروئے کار لانے، تمام قسموں کے میونسپل ٹھوس فضلے کو سائنسی طریقے سے پروسیز کرنے اور ٹھوس فضلے کے موثر بندوبست کی غرض سے پرانے زمانے سے جن مقامات پر کوڑا ڈالا جاتارہا ہے، ان مقامات کی بحالی کی گنجائش ہے۔ ایس بی ایم۔ یو 2.0 کے تخمینہ جاتی اخراجات لگ بھگ ایک لاکھ 41 ہزار کروڑ روپے کے بقدر ہیں۔ امرت 2.0کے بارے میں امرت 2.0 کا مقصد لگ بھگ 4700 شہری بلدیاتی ادروں کے 100 فیصد گھروں کو پائپ کےذریعہ پانی کی سپلائی کرنا ہے۔ اس کےلئے 500 امرت شہروں میں تقریباً 2.64 کروڑ سیور کے کنکشن اور فلش کےلئے کھودے گئے گڑھوں کے کنکشن فراہم کرکے پائپ کےذریعہ پانی کی سپلائی کے تقریباً 2.68 کروڑ کنکشن فراہم کئے جائیں گےجس سے شہری علاقوں میں 10.5 کروڑ سے زیادہ افراد کو فائدہ ہوگا۔ امرت 2.0 ، دائرہ نما معیشت کے اصول اپنائے گا اور سطح کے اوپر اور زیر زمین پانی کےذخائر کے تحفظ اور احیاء کو فروغ دے گا۔ مشن کے تحت پانی کے بندوبست اور ٹیکنالوجی ذیلی مشن میں ڈاٹا پر مبنی حکمرانی کو فروغ ملے گا تاکہ جدید ترین عالمی ٹیکنالوجیز اور صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔ ’’پے جل سرویکشن‘‘ شہروں کےمابین ترقی پسند مقابلے کو فروغ دینےکےلئے منعقد کیا جائے گا۔ امرت 2.0 کے تخمینہ جاتی اخراجات تقریباً 2.87 لاکھ کروڑ روپے کے بقدر ہیں۔ ایس بی ایم۔ یو اور امرت کے اثرات ایس بی ایم۔ یو اور امرت نے گزشتہ سات برسوں کے دوران شہری علاقوں میں بہتری لانے کےلئےخاطرخواہ تعاون کیا ہے۔ دونوں اہم ترین مشنوں کی بدولت شہریوں کو پانی کی سپلائی اور صفائی ستھرائی جیسی بنیادی خدمات فراہم کرنے سے متعلق صلاحیت میں بھی اضافہ ہو اہے۔ آج سووچھتا ایک جن آندولن بن چکا ہے۔ تمام شہری بلدیاتی اداروں کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا (او ڈی ایف) علاقے قرار دیا گیا ہے اور 70 فیصد ٹھوس فضلے کو اب سائنسی بنیاد پر ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ امرت مشن سے 1.1 کروڑ گھروں کو پائپ کے ذریعہ پانی کے کنکشن اور 85 لاکھ سیور کنکشن فراہم کرکے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس طرح چار کروڑ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ০১ অক্টোবৰত স্বচ্ছ ভাৰত মিছন- চহৰীয়া ২.০ আৰু অমৃত ২.০ৰ শুভাৰম্ভ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%85%D8%B9%D9%86%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C%D8%8C-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%9C%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی، 6 جون 2018، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ کو اپریل 2018 میں بامعنی منصوبہ بندی، پانی کے انتظام اور نقل و حمل کے انتظام کے شعبے میں تکنیکی امداد باہمی سے متعلق بھارت اور نیدر لینڈ کے درمیان ہوئے مفاہمت نامے (ایم او یو) سے مطلع کردیا گیا ہے۔ تفصیلات اس مفاہمت نامے کا مقصد پانی کی سپلائی اور نکاسی کا نظام، گندے پانی کے دوبارہ استعمال اور ری سائیکل، ایکوفائر کے آرٹی فیشیل ری چارج کے ذریعہ تازہ پانی کے تحفظ کے لئے برابری، کم خرچ پر مکانات، اسمارٹ سٹی ڈیولپمنٹ، جغرافیائی اطلاعاتی نظام (جی آئی ایس) کی بنیاد پر بامعنی منصوبہ بندی، پانی کے انتظام اور نقل و حمل کے انتظام کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اور مضبوط کرنا ہے۔ نفاذ کی حکمت عملی اس مفاہمت نامے کے تحت ایک مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کی تشکیل کی جائے گی تاکہ وہ مفاہمت نامے کے فریم ورک کے تحت امداد باہمی سے متعلق پروگراموں کے لئے حکمت عملی بناسکے اور ان کا نفاذ کرسکے۔ یہ مشترکہ ورکنگ گروپ سال میں ایک بار ملاقات کرے گا۔ کبھی نیدر لینڈ میں اور کبھی بھارت میں۔ بڑا اثر یہ مفاہمت نامہ بامعنی منصوبہ بندی ، پانی کے انتظام اور نقل و حمل کے انتظام کے شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان، دو طرفہ تعاون کو فروغ دے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ن ا۔ن ا۔,"স্থানিক পৰিকল্পনা, জল ব্যৱস্থাপনা আৰু চলমান ব্যৱস্থাপনাৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু নেদাৰলেণ্ডছৰ মাজত স্বাক্ষৰিত কাৰিকৰী সহযোগিতা সম্পৰ্কীয় বুজাবুজি চুক্তিৰ ম্যাদ সম্প্ৰসাৰণত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%88%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%DB%8C%DB%81%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DA%AF%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B9%E0%A7%81-%E0%A6%AA/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پونے کے دیہو میں جگت گرو سری سنت تکا رام مہاراج مندر کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر عوام کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دیہو کی مقدس سرزمین پر اپنی موجودگی پر مسرت کا اظہار کیا۔وزیر اعظم نے شاستروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سنتوں کا ستسنگ انسانی پیدائش کی ایک کمیاب خوش نصیبی ہے۔اگر سنتوں کی کِرپا کا احساس ہوتا ہے تو ایشور خود بخود مل جاتاہے۔انہوں نے کہا ’’آج دیہو کی اس مقدس تیرتھ –بھومی پرآکر میں بھی ایسا محسوس کررہا ہوں۔‘‘وزیر اعظم نے مزید کہا کہ دیہو کا شلا مندر نہ صرف بھکتی کی طاقت کا مرکز ہے، بلکہ اس سے ہندوستان کے ثقافتی مستقبل کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔میں اس مقدس مقام کی ازسر نو تعمیر کے لئے مندر ٹرسٹ اور تمام بھکتوں کے تئیں ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ انہوں نے چند ماہ پہلے پالکی مارگ پر دو قومی شاہراہوں کو چار لین کا بنانے کا افتتاح کرنے کی خوش نصیبی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سری سنت گیانیشور مہاراج پالکی مارگ پانچ مرحلوں میں اور سنت تکارام مہاراج پالکی مارگ کو تین مرحلوں میں پورا کیا جائے گا۔ان مرحلوں میں 11000کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے 350کلومیٹر سے زیادہ لمبی قومی شاہراہوں کی تعمیر کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کو دنیا کی سب سے قدیم زندہ تہذیبوں میں سے ایک ہونے پر فخر کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ’’اس کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ ہندوستان کی سنت روایت اور سنتوں کو جاتا ہے۔ ‘‘وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ ہندوستان مطمئن ہے ، کیونکہ ہندوستان سنتوں کی سرزمین ہے۔ہمارے ملک اور سماج کو سمت دینے کے لئے ہر عہد میں کوئی نہ کوئی عظیم شخصیت اوتار لیتی رہی ہے۔آج ملک سنت کبیر داس کی جینتی منا رہا ہے۔انہوں نے سری سنت گیانیشور مہاراج ، سنت نیورتی ناتھ، سنت سوپان دیو اور آدی-شکتی مکتا بائی جی جیسے سنتوں کی اہم جینتیوں کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سنت تکارام جی کی دَیا ، رحم دلی، اور خدمت ان کے ’ابھنگ‘کی شکل میں آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔ان ’ابھنگوں‘نے نسلوں کو تحریک دی ہے، جو وقت کے ساتھ مطمئن اور ہوتا ہے و ہ ’ابھنگ‘ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج بھی جب ملک اپنے ثقافتی اقدار کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے ، سنت تکارام کے ’ابھنگ‘ہمیں توانائی دے رہے ہیں۔وزیر اعظم نے روایت کے عظیم اور باوقار سنتوں ، ابھنگوں کی باوقار روایتوں کو خراج عقیدت پیش کی۔وزیر اعظم نے انسانوں کے درمیان امتیاز کے خلاف اُپدیش دینے والی تعلیمات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اُپدیش ملک اور سماج کی بھکتی کے لئے یکساں طور سے روحانی بھکتی کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیغام وارکری بھکتوں کی سالانہ پنڈھر پوریاترا کو ظاہر کرتا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وَشواس اور سب کا پریاس کی روح ایسی ہی عظیم روایتوں سے متحرک ہے۔ انہوں نے خاص طورسے صنفی عدم مساوات کے جذبے اور وارکری روایت کے درمیان یکسانیت کے جذبے کو ایک تحریک کے طورپر ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا ’’دلت، محروم طبقات، پسماندہ طبقات، قبائل، محنت کشوں کی فلاح و بہبود ملک کی اولین اولیت ہے۔ وزیر اعظم نے چھترپتی شواجی مہاراج جیسے قومی ہیروز کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرنے کا کریڈٹ تکا رام جیسے سنتوں کو دیا۔وزیر اعظم نے یاد کیا کہ جب جنگ آزادی میں ویر ساورکر سزا ہوئی تو جیل میں چپلی کی طرح ہتھکڑی بجاتے ہوئے وہ تکارام جی کے ابھنگ گاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سنت تکارام نے الگ الگ وقت پر ملک میں جوش اور توانائی فراہم کی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنڈھر پور ، جگناتھ، متھرا میں برج پریکرما یا کاشی پنچ کوشی پریکرما، چار دھام یا امرناتھ یاترا جیسی یاتراؤں نے ہمارے ملک کی تکسیریت کو مجتمع کیا اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا جذبہ پیدا کیا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ہماری قومی ایکتا کو مضبوط کرنے کے لئے ہماری قدیم شناخت روایتوں کو زندہ رکھنا ہماری ذ��ہ داری ہے۔ اس لئے آج جب جدید ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچہ ہندوستان کی ترقی کا سبب بن رہا ہے، ہم یہ یقینی بنارہے ہیں کہ ترقی اور وراثت دونوں ایک ساتھ آگے بڑھیں۔انہوں نے پالکی یاترا کی جدید کاری، چار دھام یاترا کے لئے نئی قومی شاہراہ، ایودھیا میں عظیم رام مندر، کاشی وشوناتھ دھام کی جدید کاری اور سومناتھ میں ترقیاتی کاموں کی مثال دے کر اپنی بات کو واضح کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پرساد یوجنا کے مذہبی مقامات کی ترقی کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ رامائن سرکٹ اور بابا صاحب کے پنچ تیرتھ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر سب کی کوشش صحیح سمت ہو تو بڑے سے بڑے مسئلے کا بھی حل نکالاجاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج ملک آزادی کے 75ویں سال میں فلاحی منصوبوں کے نفاذ سے صد فیصد بااختیار ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان منصوبوں کو غریبوں کی بنیادی ضرورتوں سے جوڑا جارہا ہے۔انہوں نے سوچھ بھارت مہم میں سب کی حصے داری پر زور دیا اور زندگی کے ہر شعبے میں صاف صفائی کو بنائے رکھنے کا عہد دیا۔ انہوں نے لوگوں سے اس قومی عہد کو اپنے روحانی عہد کا حصہ بنانے کو کہا۔ انہوں نے قدرتی کھیتی اور یوگا کو مقبول بنانے اور یوگا دِوس کے جشن کے لئے سب کو تحریک دینے پر اصرار بھی کیا ۔ سنت تکا رام ایک وارکری سنت اور کوی تھے اور جو ابھنگ بھکتی شاعری اور کیرتن کی شکل میں روحانی گیتوں کی ذریعے پوجا کے لئے مشہور تھے۔وہ دیہو میں رہتے تھے، ان کی موت کے بعد ایک شلا مندر کی تعمیر ہوئی تھی، لیکن اس کا فن تعمیر مندر کی طرح کا نہیں تھا۔ اب پتھروں سے اس کی ازسر نو تعمیر ہوئی ہے، جس میں 36عدد بلند گنبد ہے اور اس میں سنت تکارام کی ایک مورتی بھی نصب کی گئی ہیں۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দেহু, পুণেত জগদ্গুৰু শ্ৰীসন্ত তুকাৰাম মহাৰাজ শিলা মন্দিৰ উদ্ঘাটন কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3-%D9%85%D8%A7%DB%81%D9%90-%D8%B1%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A2%D9%85%D8%AF-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B9-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئی دہلی، 02 اپریل 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مقدس ماہِ رمضان کی آمد کے موقع پر اپنی جانب سے مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’مقدس ماہِ رمضان کی آمد پر نیک ترین خواہشات۔ خدا کرے کہ یہ ماہِ مبارک عوام کو ناداروں کی خدمت کرنے کے لیے ترغیب فراہم کرے۔ خدا کرے کہ یہ مہینہ ہمارے معاشرے میں امن، ہم آہنگی اور غم خواری کے جذبہ کو مزید تقویت بہم پہنچائے۔‘‘,পবিত্ৰ ৰমজান মাহ উপলক্ষে দেশবাসীক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D9%88%DA%A9%D8%B1%D9%85-%DA%AF%D9%88%DA%A9%DA%BE%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE-%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A6%96%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اداکار وکرم گوکھلے کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے ٹویٹ کیا: وکرم گوکھلے جی ایک تخلیقی اور ہمہ جہت اداکار تھے۔ انہیں اپنے طویل اداکاری کیرئیر میں کئی دلچسپ کرداروں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ان کے انتقال پر غمزدہ ہوں۔ ان کے اہل خانہ، دوستو�� اور مداحوں سے اظہارتعزیت کرتا ہوں ۔ اوم شانتی۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 12998",অভিনেতা বিক্ৰম গোখলেৰ প্ৰয়াণত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%85%DB%8C%D9%88%D9%86%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%9F-%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%AE/,نئی دہلی، 01 جون ۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 31 مئی 2018 کو سنگاپور میں کاروبار اور کمیونٹی کی تقریب میں درج ذیل تقریر کی : نمستے سنگاپور سلام شام سلامت دتانگ وڑکّم وزیر محترم ایشورن کاروباری لیڈر ز میرے سنگاپور کے دوستو سنگاپور میں آباد ہندوستانی برادری کے بھائیو بہنو! آپ سب کو میرا سلام ! آج یہاں اس شاندار تقریب میں ہندوستان اور سنگا پور کے تعلقات کی طاقت بین طور سے دیکھی جارہی ہے ۔ یہ ہماری وراثت ہے ۔ ہمارے عوام اور ہمارے دور میں عظیم شراکتداری کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ دراصل دو بڑے شہروں کی شان اور فضل خداوندی کی علامت ہے۔ سنگاپور واپسی ہمیشہ خوشگوار رہی ہے ۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جو ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا رہتا ہے ۔ یہ محض ایک چھوٹاسا جزیرہ تو ضرور ہے لیکن اس کے آفا ق عالمی حیثیت کے حامل ہیں ۔اس عظیم قوم نے ہمیں سکھا یا ہے کہ دنیا میں قوم کی آواز کے استحکام اور کامیابیوں کی راہ میں ملک کی جسامت کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ سنگاپور کی کامیابی اس کے ہمہ ثقافتی سماج کی ہم آہنگی میں اور اس کے تنوع کی تقریب میں بھی موجود ہے ، جو سنگاپورکی منفرد شناخت اورممتاز حیثیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ دوستو! جنوب مشرقی ایشیا میں ہندوستان کا وجود اور خدمات صدیوں قدیم ہیں ۔ ہندوستان کا یہ تعلق سنگا پور سے بھی براہ راست رہا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان انسانی رابطے نہ صرف گہرے بلکہ انتہائی فعال ہیں ۔ یہ جذبہ سنگاپورمیں آباد ہندوستانی برادری میں سانس لیتا ہے اور آج کی شام آپ کی خوبصورت موجودگی ، آپ کی توانائی ،آپ کی صلاحیت اور آپ کی کامیابیوں سے روشن ہے ۔ یہاں خواہ آپ تاریخی اتفاق کے طور پر موجود ہوں یا عالمگیریت کے دستیاب کردہ مواقع کے نتیجے میں آپ یہاں موجود ہوں ۔ خواہ آپ کے اجداد صدیوں پہلے یہاں آئے ہوں یا آپ یہاں جاری صدی میں آئے ہوں ۔ آپ میں سے ہر شخص سنگاپور کے منفرد تانے بانے اور اس کی ترقی کے جزو کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے بدلے میں سنگاپور نے آپ کو آپ کی لیاقت واہلیت اور سخت محنت کو گلے لگایا ہے آپ یہاں سنگا پور میں ہندوستان کی ہمہ جہتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر آپ ہندوستان کے تمام تہواروں کو ایک ہی شہر میں منانا چاہتے ہوں یا انہیں ہفتو ں تک منانا چاہتے ہوں تو اس کے لئے سنگا پور کا سفر بہترین موقع فراہم کرتا ہے ۔ یہی بات یہاں دستیاب کرائے جانے والوں ہندوستانی کھانوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔ مجھے آج بھی لٹل انڈیا میں محترم وزیراعظم لی کی جانب سے میرے لئے اہتمام کی جانے والی شاندار دعوت آج بھی یاد ہے ۔ تامل یہاں کی ایک سرکاری زبان ہے ، لیکن یہاں کے اسکولوں میں پانچ دیگر ہندوستانی زبانوں کی تدریس سنگاپور کے منفرد جذبے کا ثبوت ہے ۔ اس شہر میں ہندوستان کی نفیس ترین تہذیب وثقافت موجود ہے ۔ یہ دراصل یہاں کی باصلاحیت ہندوستانی برادری اور انہیں سنگا پور کی سرکار کی معاونت اور حمایت کے نتیجے میں ممکن ہوسکا ہے ۔ یہاں آپ نے روایتی ہندوستانی کھیلوں کے زبردست مقابلوں کا اہتمام بھی شروع کردیا ہے ۔ جو آپ کو آپ کی جوانی کی یاددلانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو کھو کھو اور کبڈی کے کھیل سے بھی متعارف کراتا ہے ۔ 2017 میں اس شہر کے 70 مراکز میں بین الاقوامی یوگا دوس کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ دنیا کے کسی بھی شہر میں یوگا سے اس قدر دلچسپی نہیں پائی جاتی جتنی کہ یہاں سنگاپور میں پائی جاتی ہے۔ شری راما کرشنا مشن اور شری نرائنا مشن جیسے ادارے یہاں متعدد دہائیوں سے مصروف کار ہی اور بلا تقریق وامتیاز ان کی عوامی خدمات ہندوستان اور سنگاپور کی ایک دوسرے سے وابستگی کی قدروں کی علامت ہیں ۔ عظیم ہندوستانی مفکر سوامی وویکا نند اور عظیم شاعر گرودیو رویندر ناتھ ٹیگو ر نے سنگا پور اور اس خطے کے سفر کے دوران ہندوستان کو مشرقی دنیا سے جوڑنے کے تانے بانے اور رابطوں کا شدت سے احساس کیا تھا ۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس نے بھی ہندوستان کی آزادی کے لئے مارچ کا نعرہ دنگا پور کی دھرتی سے ہی دیا تھا۔’’ دلی چلو ‘‘ ایک ایسی شمع ہے جو ہرہندوستانی کے دل میں ہمیشہ روشن رہتی ہے ۔ 1948 میں مہاتما گاندھی کی ارتھی کی راکھ یہاں کی خلیج کے اس پار شفارڈ پئیر میں بہائی گئی تھی ۔ ہزاروں افراد نے اس تقریب کو دیکھا تھا ۔ جب یہ راکھ بہائی جارہی تھی ، اس وقت ایک طیارہ آسمان سے گلاب کی پنکھڑیاں برسا رہا تھا۔ دوستو! ہماری انسانی رابطہ کاری کی دولت اورہماری مشترکہ قدروں پر مبنی ہماری غیر معمولی عظیم وراثت کی بنیاد پر ہندوستان اور سنگاپور ہمارے عہد کی عظیم شراکتدرای کی تعمیرکررہے ہیں ۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو حکمتی شراکتداری کی کسوٹی پر پوری طرح سے کھرا اترتا ہے ۔ جب دنیا ہندوستان سے متعارف ہوئی اور دنیا نے مشرق کی طرف رخ کیا تو سنگا پور ہندوستان اور آسیان (اے ایس ای اے این ) ملکوں کے درمیان شراکتدار اور پُل کی حیثیت اختیار کرلی ۔ ہندوستان اور سنگا پور کے درمیان سیاسی مراسم انتہائی گرم جوش اورقریبی ہوتے جارہے ہیں ۔ ہمارے درمیان کسی بھی قسم کا اختلاف یامقابلہ ،دعویٰ یا شک وشبہ موجود نہیں ہے ۔ یہ دراصل مشترکہ تصورات کی شراکتداری ہے ۔ ہمارے دفاعی تعلقات انتہائی مضبوط اور طاقتور ہیں ۔ ہماری مسلح افواج سنگاپور کی مسلح افواج کی ازحد مداح ہے اور اس کا انتہائی احترام کرتی ہے ۔ ہندوستان کی سب سے طویل مدتی بحری مشق سنگاپورکے ساتھ ہی رہی ہے ۔ اب ان دونوں ملکوں کی مسلح افواج اپنے تعلقات کی سلور جوبلی منارہی ہیں ۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندوستان میں سنگاپور کی بری اور فضائی فوج کے افسران کو تربیت دے رہے ہیں ۔ ہمارے دونوں ملکوں کے بحری جہاز بھی ایک دوسرے کا سفر مسلسل کرتے رہتے ہیں ۔ آپ میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں ہماری بحریہ کے جہاز پر سفر کرنے کا موقع ملا ہوگا ۔میں خود بھی سنگاپور کی بحریہ کے جہاز پرسفرکرنے کا خواہشمند ہوں اور پرسوں ہندوستان کا ایک بحری جہاز چھانگنی بحری اڈے پر لنگر انداز ہوگا ۔ ہم بین الاقوامی جماعت میں قاعدے پر مبنی نظام ، سبھی ملکوں کی خودمختار مساوات اور کاروباراورتعلقات کے آزاد اورکھلے رابطوں پر ایک ہی زبان میں بولتے ہیں ۔دراصل اقتصادیات ، ہمارے مراسم کے دل کی دھڑکن کی حییثت رکھی ہیں ۔ یہ ایک ایسی شراکتداری ہے جو ہندوستان کی عالمی رابطہ کاری میں سرفہرست ہے ۔ سنگاپور ہندوستان کے لئے سرمایہ کاری کے ایک بڑے وسیلے اور منزل کی حیثیت رکھتاہے ۔ سنگاپور وہ پہلا ملک ہے جس کے ساتھ ہم نے جامع معاشی تعاون معاہدے (کمپری ہینسیو اکانومک کوآپریشن ایگریمنٹ ) پر دستخط کئے تھے ۔ ہر ہفتہ مخلتف سمتوں کو ہونے والی تقریباََ 250 پروازیں سنگاپور کو ہندو ستان کے 16 شہروں سے جوڑتی ہیں اور اس میں مزید اضافے کی امید کی جارہی ہے ۔ہندوستان سنگاپورمیں سیاحت کے تیسرے بڑے ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے او ر اس میں تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے ۔ہماری آئی ٹی کمپنیاں سنگا پورکو اسمارٹ اور مقابلہ جاتی بنے رہنے میں مدد کررہی ہیں ۔ سنگا پور ہندوستان کی متعدد ترقیاتی ترجیحات میں کلید ی شراکتدار کی حیثیت سے شامل ہے ۔ جن میں اسمارٹ سٹیز ، اربن سولیوشن ، مالیاتی شعبے ، ہنر مندی کی فروغ ، بندرگاہی ،ڈھانچہ جاتی ، ہوابازی اور صنعتی پارک شامل ہیں ۔ اس طرح ہندوستان اور سنگاپور ایک دوسر ے کی خوشحالی میں معاونت کررہے ہیں اور اب ہم ڈجیٹل ورلڈ کے لئے ایک نئی شراکتداری تعمیر کررہے ہیں ۔ میں نے محترمہ وزیر اعظم لی کے ساتھ ٹکنالوجی ،جدت طرازی اورکاروباری امور پر ایک شاندار نمائش دیکھی ۔ یہاں ہندوستان اور سنگا پور کے درخشاں نوجوان موجود ہیں ۔ ان میں سے متعدد بے حد ذہین ہیں اورانہوں نے سنگاپور کو ہندوستان کی عظیم صلاحیتیں فراہم کرائی ہیں ۔ یہ لوگ ہندوستان ،سنگا پور اور آسیان ملکوں کے درمیان جدت طرازی اورکاروبار کے ایک عظیم پُل کا کام کریں گے ۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے ہم نے روپئے ، بھیم اور یوپی آئی کا بین الاقوامی افتتاح دیکھا ۔ سنگاپور میں ان کا آغاز فطری امر ہے ۔ ہم حکمرانی اور مجموعیت کے لئے موبائل اور ڈجیٹل ٹکنالوجی کی طاقت کے ساتھ مل کر کا م کریں گے۔ ہم نئے دورمیں ایک عظیم معاشی شراکتداری قائم کریں گے ۔ آج ہندوستان تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ۔ ایک نیا ہندوستان جنم لے رہا ہے ۔ اس کے متعدد اسباب ہیں ۔جن میں سے پہلا تو یہ ہے کہ معاشی اصلاحات انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کی جارہی ہیں ۔ ہماری مرکزی اور ریاستی سرکاروں نے پچھلے دو برسوں کے دوران جو اقدامات کئے ہیں ان سے 42 مقامات پر کاروبار کی آسانی میں معاونت ہوئی ہے ۔ ہندوستان میں دو قسمی ٹیکس نظام تبدیل ہوچکا ہے ۔ ٹیکس کی کم شرحوں سے استحکام میں اضافہ ہوا ہے ۔ ٹیکس تنازعات کے تیز رفتار فیصلوں میں مد د ملی ہے اور الیکٹرانک فائلنگ نظام میں بھی معاونت حاصل ہوئی ہے ۔ گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی ) کو آزادی کے بعدسے اب تک کی سب سے بڑی ٹیکس اصلاحات کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس نے ملک کو ایک واحد بازار میں یکجا کیا ہے اور ٹیکس کی بنیاد میں اضافہ کیا ہے ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا ہے ۔ اس سے نئے معاشی مواقع پیدا ہوئے ۔اس کے ساتھ ہی ہمارے ذاتی انکم ٹیکس کی اساس میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور اس کی تعداد تقریباََ دو کروڑ ہوگئی ہے ۔ ہمارے ڈھانچہ جاتی سہولیات کے شعبے میں بھی ریکارڈ تیزرفتاری کے ساتھ توسیع ہورہی ہے ۔ پچھلےسال ہم نے 27 کلومیٹر یومیہ کے حساب سے تقریباََ دس ہزار کلومیٹر سڑکیں تعمیر کیں ۔ اس کے ساتھ ہی ہماری ریل پٹریوں کی تعداد بھی اضافے کے ساتھ دوگنی ہوگئی ہے ۔ مختلف شہروں میں میٹرو ریل کی خدمات دستیاب ہیں۔ 7 تیز رفتار ریل منصوبے (ہائی اسپیڈ ریل پروجیکٹ ) ، مال اور سازوسامان کی بار برداری کے ڈیڈیکیٹڈ فرائٹ کوریڈور اور 400 اسٹیشنوں کی جدید کاری سے ہمارے ریلوے کے شعبے میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوں گی ۔ مزید برآں ہمارے دیگر منصوبوں میں د س گرین فیلڈ ائیر پ��رٹس (سرسبز وشاداب ہوائی اڈے ) ، پانچ نئی بڑی بندرگاہیں ، 111 نامزد قومی آبی شاہراہیں اور تقریباََ 300 لوگسٹکس پارک شامل ہیں ۔ ہم نے محض تین برس کی مدت میں 80 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی ہے ۔ اس کے ساتھ قابل تجدید توانائی کے میدان میں ہم آج دنیا کے چھٹے بڑے پیداکار ملک کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں ۔یہ دراصل سرسبز اور پائیدار مستقبل کے لئے ہماری عہد بستگی کی مظہر ہے ۔ دوسری طرف ہمار ے مال اور سازوساما ن کی تیاری کے شعبے میں بھی پھر سے تیزرفتاری پیداہورہی ہے اور گزشتہ تین برسو ں کے دوران ہماری راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اس کی مقدار 14-2013 کے 36 ارب امریکی ڈالر سے بڑھ کر 17-2016 میں 60 ارب ہوگئی ہے اس کے ساتھ ہی ہمارے بہت چھوٹے ، چھوٹے اور اوسط درجے (مائیکرو ،اسمال اور میڈیم ) کے کاروبار کے شعبے پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی جارہی ہے ۔ ہم نے جو شعبہ وار جدید کاری اور پیداواریت کے پروگرام شروع کئے ہیں ان سے کارپوریٹ ٹیکسوںکی شرح میں کمی آئی ہے اور ٹیکس کے فوائد مزید پُر کشش اور آسان ہوگئے ہیں ۔ ہندوستان کا اسٹارٹ اپ شعبہ تیزرفتاری کے ساتھ ابھرتے ہوئے دنیا کے تیسرے بڑے شعبے کی حثییت اختیار کرچکا ہے ۔ مجھے سب سے زیادہ مدرا اسکیم سے دلچسپی ہے ،جس کے تحت غریبوں اور حاشئے پر پڑے ہوئے لوگوں کو مائکرو قرض فراہم کرائے جاتے ہیں ۔ پچھلے تین برس کی مدت میں 90 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کے 12 کروڑ 80 لاکھ قرض دئے جاچکے ہیں ۔ان میں سے 74 فیصد قرض صرف اور صرف خواتین کو دئے گئے ہیں ۔ ہم مالیاتی مجموعیت پر خصوصیت کے ساتھ توجہ مرکوز کررہے ہیں ۔ہم نے پچھلے تین برسوں کے دوران ان لوگوں کے لئے 3 کروڑ 16 لاکھ بینک کھاتے کھولے ہیں جن کا کبھی کوئی بینک کھاتہ نہیں تھا ۔اب99 فیصد ہندوستانی کنبے بینکوں کے کھاتے دار ہیں ۔ یہ ہر ہندوستانی شہری کے لئے وقار اور شناخت کے ایک نئے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے ، یہ شمولیت اور بااختیار بنائے جانے کی ایک یادگار کہانی ہے ۔ ان کھاتوں میں 12 ارب امریکی ڈالرسے زیادہ کی رقم جمع کرائی جاچکی ہے ۔ فائدہ یافتگان کو 50 ارب ڈالرکی مالیت کے سرکاری فوائد فراہم کرائے جاچکے ہیں ۔ اب انہیں پنشن اوربیمے تک رسائی حاصل ہوگئی ہے یعنی اب ان کی رسائی اب اس شے تک ہوگئی ہے جو کبھی خواب وخیال ہوا کرتی تھی ۔ یہاں بینکوں کی توسیع کاری وجودمیں آرہی ہے ۔ آج سارا ہندوستان ڈجیٹل انقلاب کے فائدوں سے بہرہ ور ہے ۔ہرشخص کی ایک بایومیٹرک شناخت کے ذریعہ ہر جیب میں ایک موبائل اورہر ہندوستانی کی ایک بینک کھاتے تک رسائی کے ذریعہ ہندوستان میں زبردست تبدیلیاں ہورہی ہیں ۔ ان باتوں سے ہندوستان کے ہر میدان میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں خواہ وہ انتظامیہ و حکمرانی ہو ٹ عوامی خدمات ہوں ٹ،غریبوں کو فوائد کی فراہمی ہو یا غریب ترین لوگوں کو بینکوں اور پنشن تک کی رسائی حاصل کرنا ہو ۔ ان تمام شعبوںمیں زبردست تبدیلیاں ہورہی ہیں ۔ مثال کے طور پر ملک میں ڈجیٹل سودوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ 2017 میں یوپی آئی پر مبنی سودوں کی تعداد میں سات ہزار فیصد اضافہ ہوا تھا ۔جنوری میں ڈجیٹل سودوں کی مالیت دو کھرب امریکی ڈالررہی اور اب ہم ملک کے 250 ہزار مواضعات کو براڈ بینڈ کی رابطہ کاری کی سہولت فراہم کرارہے ہیں اور ایسی ہر دیہی کونسل میں ایک کامن سروس سینٹر قائم کیا جارہا ہے ۔ان اقدامات سے نہ صرف متعدد ڈجیٹل خدمات دستیاب کرائی جاسکیں گی بلکہ دیہی علاقوں میں روز گار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوسکیں گے۔ ہم انوویشن مشن کے تحت 100 انکیوبیشن سینٹر ز قائم کررہے ہیں اورملک بھر میں 2400 ٹنکرنگ لیبس کھولی جاچکی ہیں جو ہمارے بچوں کے لئے زبردست فائدہ مندثابت ہوں گی ۔وہ اس سے فائدہ حاصل کرکے نہ صرف جدت طراز بلکہ روزگار کے مواقع حاصل کے کرنے کے اہل ہوسکیں گے ۔ ہندوستان اگلی دو دہائیوں کے دوران دنیا میں شہر کاری کی زبردست لہر کا موجد ہوگا۔ یہ ایک چیلنج تو ہے لیکن ایک بڑی ذمہ داری اور مواقع کا وسیلہ بھی ہے ۔ہم ہندوستان کے 100 شہروں کو اسمارٹ شہروں میں تبدیل کررہے ہیں اور 115 ایسپیریشنل ڈسٹرکٹس کے طور پر نامزد کیا گیا ہے ۔یہ اضلاع ترقی کے مراکز کے طور پر کام کریں گے ۔ علاوہ ازیں ہم ہنر مندی کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری کررہے ہیں او ر تعلیم کے معیار کو بلند کیا جارہا ہے تاکہ ہمارے آٹھ سو ملین نوجوانوںکو باوقار زندگی اور مواقع حاصل ہوسکیں ۔ ہم سنگا پورسے علم حاصل کررہے ہیں ۔ ہم انسٹی ٹیوٹ آف اسکل ڈیولپمنٹ قائم کررہے ہیں ۔ جاری مالی سال کے دوران اعلیٰ تعلیمی نظام کو مزید مستحکم بنانے کی غرض سے 15 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ ہم ملک کے زراعت کے شعبے پر بھی وہ غیر معمولی توجہ مرکوز کررہے ہیں جو اس شعبے کو سبز انقلاب کی کئی دہائیوں کے بعدتک بھی نہیں حاصل ہوسکی تھی۔ ہم نے 2022 تک اپنے کسانو ں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا نشانہ معین کیا ہے ۔ یہ وہ وقت ہوگا جب ہندوستان کی آزادی کے 75 سال پورے ہوچکے ہوں گے اورایک نیا ہندوستان جنم لے گا ۔اس کے لئے ہم ٹکنالوجی ،ریموٹ سینسنگ ، انٹر نیٹ ، ڈجیٹل فائننشیل سسٹم ،آسان قرض ، بیمہ ، مٹی کی صحت میں سدھار ،آبپاشی ، قیمتوں کی تعین کاری اور رابطہ کاری جیسے اہم اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک کےہرشہری کو 2022 تک آسان زندگی کی سہولت فراہم کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ مثال کے طور پر اس کا مقصد ہے کہ 50 ملین نئے مکانات تعمیر کئے جائیں تاکہ 2022 تک ملک کے ہرشہری کو اس کے سر پر چھت فراہم ہوسکے ۔ پچھلے ماہ ہم نے اس وقت ایک سنگ میل حاصل کیا جب ہمارے 600 ہزار مواضعات میں سے ہر ایک کو بجلی کی سہولت فراہم کرائی گئی اورانہیں بجلی کے گرڈ سے جوڑ دیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہر کبنے کو بجلی کا کنکشن فراہم کرانے کے لئے بھی کام کررہے ہیں ۔ اس سال ہم نے آیشمان بھارت کے عنوا ن سے قومی صحت بیمہ اسکیم شروع کی ہے ۔ اس اسکیم کے دائرہ کار میں 100 ملین کنبوں کے 500 ملین ہندوستانی شہریوں کو شامل کیا جائے گا ، جس پر 8 ہزار ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئے گی۔ یہ دنیا میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کی عظیم ترین اسکیم ہے ۔ دوستو! ہندوستان میں معاشی اصلاحات کی سمت اور رفتار اظہرالمن الشمس ہے ۔ ہم اسے ہندوستان میں کاروبارکرنے کے لئے مزید سہل بنائیں گے۔ ہم ایک کھلے م،ستحکم اور بہتر بین الاقوامی تجارتی نظام قائم کریں گے اور مشرق کے تئیں ہماری وابستگی ہمارے مضبوط ترین عزائم میں شامل ہوگی ۔ ہم تجارت اور سرمایہ کاری میں اچھال پر ایک ایسے جامع کھلے او ر متوازن معاہدے کے خواہشمند ہیں جو تمام ملکوں کو ایک سطح پر لاسکے ۔ دوستو! آخر میں ، میں کہنا چاہوں گا کہ سنگا پور میں ہندوستان کے مقابلے بہتر امکانات موجود ہیں ۔دنیا کے کم ملک ایسے ہوں گے جن کے درمیان اس قدر باتیں مشترک ہوں گی ۔ کیونکہ ہندوستان اور سنگا پور میں وسیع تر امکانات موجود ہیں ۔ ہم ایک دوسرے کے سماجوں کا آئینہ دکھاتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے خطے کا مستقبل بھی اسی طرح کا ہو ۔ مستقبل کی دنیا لامحدود امکانات کی دنیا ہے ۔ یہ ہماری دنیا ہے ۔ اب اس بات کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اسے حاصل کرنے کے لئے کس قدر باعز م اور مضبوط ہیں ۔آج کی شام ہمیں بتارہی ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں ۔ دو شیر ملک کر مستقبل کی شاہراہ پر گامزن ہوں گے ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,ছিংগাপুৰত ব্যৱসায় তথা সম্প্ৰদায়ৰ অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ (৩১ মে’ ২০১৮) +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%DA%86%D8%A7%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D9%88%D9%86%D9%88%D8%A8%D8%A7-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D9%88%DB%92-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آچاریہ ونوبا بھاوے کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’آچاریہ ونوبا بھاوے کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کر رہا ہوں۔ ان کی زندگی گاندھی وادی اصولوں کی مظہر تھی۔ وہ سماجی اختیارکاری کو لے کر بہت پرجوش تھے اور انہوں نے ’جے جگت‘ کا نعرہ دیا۔ ہم ان کے نظریات سے متاثر ہیں اور ہمارے ملک کے تئیں ان کے خوابوں کی تکمیل کے لیے عہد بند ہیں۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আচাৰ্য বিনোৱা ভাৱেক তেওঁৰ জয়ন্তীত স্মৰণ কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-11-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%AF%D9%88%D8%A7-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A7-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,"صبح تقریباً 9:30 بجے وزیر اعظم ناگپور ریلوے اسٹیشن پہنچیں گے جہاں وہ وندے بھارت ایکسپریس کو روانہ کریں گے۔ صبح تقریباً 10 بجے وزیر اعظم فریڈم پارک میٹرو اسٹیشن سے کھاپری میٹرو اسٹیشن تک میٹرو کی سواری کریں گے، جہاں وہ 'ناگپور میٹرو فیز 1' کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ پروگرام کے دوران وہ 'ناگپور میٹرو فیز ٹو' کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ صبح تقریباً 10: 45 بجے وزیر اعظم ناگپور اور شرڈی کو جوڑنے والے سمردھی مہامارگ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کریں گے اور شاہراہ کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم صبح تقریباً 11: 15 بجے ایمس ناگپور کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ ناگپور میں ایک عوامی تقریب میں تقریباً 11: 30 بجے وزیر اعظم سنگ بنیاد رکھیں گے اور 1500 کروڑ روپے سے زیادہ کے ریل پروجیکٹوں کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ وہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ون ہیلتھ (این آئی او)، ناگپور اور ناگ ندی آلودگی میں کمی کے پروجیکٹ، ناگپور کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ اس پروگرام کے دوران وزیر اعظم 'سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف پیٹرو کیمیکلز انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی (سی آئی پی ای ٹی)، چندرپور' کو قوم کے نام وقف کریں گے اور 'سینٹر فار ریسرچ، مینجمنٹ اینڈ کنٹرول آف ہیموگلوبینوپیتھیز، چندرپور' کا افتتاح بھی کریں گے۔ گوا میں تقریباً 3: 15 بجے وزیر اعظم نویں عالمی آیوروید کانگریس کی اختتامی تقریب سے خطاب کریں گے۔ وہ اس پروگرام کے دوران تین قومی آیوش اداروں کا بھی افتتاح کریں گے۔ شام تقریباً 5: 15 بجے وزیر اعظم گوا کے موپا بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کریں گے۔ وزیر اعظم ناگپور میں سمردھی مہامارگ وزیر اعظم سمردھی مہامارگ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کریں گے، جو 520 کلومیٹر طویل ہے اور ناگپور اور شرڈی کو جوڑتا ہے۔ سمردھی مہامارگ یا ناگپور-ممبئی سپر کمیونیکیشن ایکسپریس وے پروجیکٹ، ملک بھر میں بہتر کنکٹیویٹی اور بنیادی ڈھانچے کے وزیر اعظم کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ تقریباً 55،000 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا 701 کلومیٹر ایکسپریس وے – مہامرگ کے سب سے طویل ایکسپریس وے میں سے ایک ہے، جو مہاراشٹر کے 10 اضلاع اور امراوتی، اورنگ آباد اور ناسک کے اہم شہری علاقوں سے گزرتا ہے۔ ایکسپریس وے سے ملحقہ 14 دیگر اضلاع کے رابطے کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی، اس طرح ودربھ، مراٹھواڑہ اور شمالی مہاراشٹر کے علاقوں سمیت ریاست کے تقریباً 24 اضلاع کی ترقی میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم گتی شکتی کے تحت مربوط منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کے رابطے کے منصوبوں کے مربوط نفاذ کے وزیر اعظم کے وژن کو آگے بڑھاتے ہوئے سمردھی مہامارگ دہلی ممبئی ایکسپریس وے، جواہر لال نہرو پورٹ ٹرسٹ اور اجنتا ایلورا غاروں، شرڈی، ویرول، لونار وغیرہ جیسے سیاحتی مقامات سے منسلک ہوگا۔ سمردھی مہامارگ مہاراشٹر کی اقتصادی ترقی کو ایک بڑا فروغ فراہم کرنے میں تبدیلی آفریں ثابت ہوگا۔ ناگپور میٹرو شہری نقل و حرکت میں انقلاب لانے والے ایک اور قدم کے طور پر وزیر اعظم 'ناگپور میٹرو فیز 1' کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ وہ کھاپری میٹرو اسٹیشن پر کھاپری سے آٹوموٹو اسکوائر (اورنج لائن) اور پرجاپتی نگر سے لوک مانیہ نگر (ایکوا لائن) تک دو میٹرو ٹرینوں کو روانہ کریں گے۔ ناگپور میٹرو کا پہلا مرحلہ 8560 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم ناگپور میٹرو فیز 2 کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے، جسے 6700 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیا جائے گا۔ ایمس ناگپور ملک بھر میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے وزیر اعظم کے عزم کو ایمس ناگپور کو قوم کے نام وقف کیا جائے گا۔ یہ اسپتال، جس کا سنگ بنیاد بھی جولائی 2017 میں وزیر اعظم نے رکھا تھا، مرکزی سیکٹر اسکیم پردھان منتری صحت سرکشا یوجنا کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ ایمس ناگپور، جو 1575 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیا جا رہا ہے، جدید سہولیات کے ساتھ ایک ہسپتال ہے، جس میں او پی ڈی، آئی پی ڈی، تشخیصی خدمات، آپریشن تھیٹر اور 38 محکموں میں میڈیکل سائنس کے تمام اہم خصوصی اور سپر اسپیشلٹی مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اسپتال مہاراشٹر کے ودربھ علاقے کو صحت کی جدید سہولیات فراہم کرتا ہے اور گڑھ چرولی، گوندیا اور میل گھاٹ کے آس پاس کے آدیباسی علاقوں کے لیے ایک نعمت ہے۔ ریل منصوبے ناگپور ریلوے اسٹیشن پر وزیر اعظم ناگپور اور بلاس پور کے درمیان چلنے والی وندے بھارت ایکسپریس کو روانہ کریں گے۔ ناگپور میں ایک عوامی تقریب میں وزیر اعظم ناگپور ریلوے اسٹیشن اور اجنی ریلوے اسٹیشن کی تعمیر نو کے لیے سنگ بنیاد رکھیں گے، جسے بالترتیب تقریباً 590 کروڑ روپے اور 360 کروڑ روپے کی لاگت سے دوبارہ تیار کیا جائے گا۔ وزیر اعظم گورنمنٹ مینٹیننس ڈپو، اجنی (ناگپور) اور ناگپور کے کوہلی-نرکھیر سیکشن- اٹارسی تھرڈ لائن پروجیکٹ کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ ان منصوبوں کو بالترتیب تقریباً 110 کروڑ روپے اور تقریباً 450 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ون ہیلتھ، ناگپور وزیر اعظم کے ذریعے ناگپور میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ون ہیلتھ (این آئی او) کا سنگ بنیا�� رکھنا 'ون ہیلتھ' اپروچ کے تحت ملک میں صلاحیت اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی سمت میں ایک قدم ہے۔ 'ون ہیلتھ' اپروچ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ انسانوں کی صحت جانوروں اور ماحول کی صحت سے منسلک ہے۔ یہ اپروچ تسلیم کرتی ہے کہ انسانوں کو متاثر کرنے والی زیادہ تر متعدی بیماریاں فطرت میں زونوٹک (جانور سے انسان) ہیں۔ 110 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے قائم کیا جانے والا یہ انسٹی ٹیوٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون اور تال میل قائم کرے گا اور ملک بھر میں 'ون ہیلتھ' نقطہ نظر میں تحقیق اور صلاحیت سازی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اتپریرک کے طور پر کام کرے گا۔ دیگر منصوبے وزیر اعظم ناگپور میں دریائے ناگ کی آلودگی کو کم کرنے کے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ نیشنل ریور کنزرویشن پلان (این آر سی پی) کے تحت 1925 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ودربھ علاقے میں، خاص طور پر آدیباسی آبادی میں، سکل سیل بیماری کا پھیلاؤ نسبتا زیادہ ہے۔ تھیلیسیمیا اور ایچ بی ای جیسے دیگر ہیموگلوبین پیتھیوں کے ساتھ یہ بیماری ملک میں بیماری کا بڑا سبب بنتی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وزیر اعظم نے فروری، 2019 میں 'سینٹر فار ریسرچ، مینجمنٹ اینڈ کنٹرول آف ہیموگلوبینوپیتھیز، چندرپور' کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ وزیر اعظم اب اس مرکز کو قوم کے نام وقف کریں گے، جسے ملک میں ہیموگلوبینوپیتھی کے شعبے میں اختراعی تحقیق، ٹکنالوجی کی ترقی، انسانی وسائل کی ترقی کے لیے ایک سینٹر آف ایکسیلینس بننے کا تصور کیا گیا ہے۔ وزیراعظم چندرپور کے سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف پیٹرو کیمیکلز انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی (سی آئی پی ای ٹی) کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ انسٹی ٹیوٹ کا مقصد پولیمر اور متعلقہ صنعتوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہنر مند انسانی وسائل تیار کرنا ہے۔ وزیر اعظم گوا میں موپا بین الاقوامی ہوائی اڈا، گوا وزیر اعظم کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ ملک بھر میں عالمی معیار کے بنیادی ڈھانچے اور نقل و حمل کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس سمت میں ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم گوا کے موپا بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کریں گے۔ ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نے نومبر 2016 میں رکھا تھا۔ تقریباً 2,870 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کردہ اس ہوائی اڈے کو پائیدار بنیادی ڈھانچے کے موضوع پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں شمسی توانائی کا پلانٹ، سبز عمارتیں، رن وے پر ایل ای ڈی لائٹس، بارش کے پانی کی کٹائی، ری سائیکلنگ کی سہولیات کے ساتھ جدید سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور اس طرح کی دیگر سہولیات موجود ہیں۔ اس میں کچھ بہترین ٹکنالوجیوں کو اپنایا گیا ہے جیسے تھری ڈی مونولیتھک پریکاسٹ عمارتیں، اسٹیبل روڈ، روبومیٹک ہولو پریکاسٹ دیواریں، 5 جی مطابق آئی ٹی انفراسٹرکچر۔ ہوائی اڈے کی کچھ خصوصیات میں رن وے دنیا کے سب سے بڑے ہوائی جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے، 14 پارکنگ بے کے ساتھ ساتھ ہوائی جہازوں کے لیے نائٹ پارکنگ کی سہولت، سیلف بیگیج ڈراپ سہولیات، جدید ترین اور آزاد ایئر نیویگیشن انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر، ہوائی اڈے کا پہلا مرحلہ سالانہ تقریباً 4.4 ملین مسافروں (ایم پی پی اے) کو پورا کرے گا، جسے 33 ایم پی پی اے کی سیچوریشن صلاحیت تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ ہوائی اڈہ ریاست کی سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا اور سیاحت کی صنعت کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ یہ ایک اہم لاجسٹکس مرکز کے طور پر خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو بہت سے گھریلو اور بین الاقوامی مقامات کو براہ راست منسلک کرتا ہے. ہوائی اڈے کے لیے ملٹی ماڈل کنیکٹوٹی کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ عالمی معیار کا ہوائی اڈہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہوائی اڈہ سیاحوں کو گوا کا احساس اور تجربہ بھی فراہم کرے گا۔ ہوائی اڈے نے بڑے پیمانے پر ازولیجوس ٹائلوں کا استعمال کیا ہے، جو گوا کے مقامی ہیں۔ فوڈ کورٹ ایک عام گوان کیفے کی دل کشی کی بھی بازتخلیق کرتا ہے۔ اس میں کیوریٹڈ فلی مارکیٹ کے لیے ایک مخصوص علاقہ بھی ہوگا جہاں مقامی کاریگروں کو اپنے سامان کی نمائش اور مارکیٹنگ کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ نویں عالمی آیوروید کانگریس اور قومی آیوش انسٹی ٹیوٹ وزیر اعظم تین قومی آیوش اداروں کا بھی افتتاح کریں گے اور نویں عالمی آیوروید کانگریس کی اختتامی تقریب سے بھی خطاب کریں گے۔ تین ادارے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید (اے آئی آئی اے)، گوا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن (این آئی یو ایم)، غازی آباد اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہومیوپیتھی (این آئی ایچ)، دہلی – تحقیق اور بین الاقوامی تعاون کو مزید مستحکم کریں گے اور لوگوں کے لیے سستی آیوش خدمات کی سہولت بھی فراہم کریں گے۔ تقریباً 970 کروڑ روپے کی کل لاگت سے تیار کردہ ادارے مل کر تقریباً 500 اسپتالوں کے بستروں کے اضافے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تعداد میں تقریباً 400 کا اضافہ کریں گے۔ ورلڈ آیوروید کانگریس (ڈبلیو اے سی) اور آروگیہ ایکسپو کے نویں ایڈیشن میں 50 سے زیادہ ممالک، بین الاقوامی طلبہ اور آیوروید کے مختلف دیگر اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کرنے والے 400 سے زیادہ غیر ملکی مندوبین کی فعال شرکت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ڈبلیو اے سی کے نویں ایڈیشن کا موضوع "" آیوروید فار ون ہیلتھ"" ہے۔",১১ ডিচেম্বৰত মহাৰাষ্ট্ৰ আৰু গোৱা ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86-%D8%B4%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC/,"نئی دہلی۔ 17 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے من کی بات کے گزشتہ قسط پر مبنی ایک میگزین شیئر کیا ہے۔ وزیر اعظم نے لوگوں سے 24 اپریل کومن کی بات کی اگلی قسط میں شامل ہونے کے لیے بھی کہا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: “گزشتہ ماہ کے #من کی بات پرمبنی یہ ایک دلچسپ میگزین ہے جس میں ہم نے ہندوستان کی برآمدات میں چھلانگ، آیوروید اسٹارٹ اپ، پانی کے تحفظ اور روایتی میلوں جیسے متنوع موضوعات پر گفتگو کی۔ 24 تاریخ کو اگلی قسط میں بھی شامل ہوں۔ http://davp.nic.in/ebook/mib/MannKiBaat_Hindi/index.html "" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মন কী বাতৰ ওপৰত আধাৰিত এখন আলোচনী শ্বেয়াৰ কৰে ২৪ এপ্ৰিলত পৰৱৰ্তী মন কী বা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D9%88%D9%86%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A6%83-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%81/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ڈاکٹرپرمود ساونت اوران کے وزراء کی کونسل کو گوا کے وزیراعلیٰ اور وزرا ء ک�� حیثیت سے حلف لینے پر مبارکباد دی ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری ٹیم گوا کے عوام کو ایک بہتر حکمرانی فراہم کرسکے گی۔ وزیراعظم نے ٹویٹ میں کہا: ‘‘ڈاکٹرپرمود ساونت جی اور دیگر تمام ان لوگوں کو میری مبارکباد جنہوں نے آج گوا میں حلف لیا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یہ پوری ٹیم گوا کے عوام کو بہترحکمرانی فراہم کرے گی اور گزشتہ دہائی میں عوام کے لئے کئے گئے کاموں کو آگے بڑھائے گی ’’۔,ডঃ প্রমোদ সাৱন্ত আৰু তেওঁৰ মন্ত্রী পৰিষদৰ সদস্যসকলক শপত গ্রহণৰ বাবে অভিনন্দন জনাইছে প্রধানমন্ত্রীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C%D8%B3%D9%81%DA%A9-%D9%BE%D9%86%D8%B4%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D9%86%DA%88-%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C%D8%B3%D9%B9%D9%85%D9%86%D9%B9-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%B9-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%A8-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%9F/,نئی دہلی، 6 نومبر 2017، پیسفک پنشن اینڈ انویسٹمنٹ (پی پی آئی) انسٹی ٹیوٹ کے ایک وفد نے اس کے صدر جناب لائنیل سی جونسن کی قیادت میں آج وزیراعظم جنا ب نریندرمودی سے ملاقات کی۔ وفد کے اراکین نے ہندستان میں اقتصادی اصلاحات کے رفتار کی ستائش کی اور ملک میں موجود ترقی کے امکانات پر زور دیا۔ معیشت کے مختلف پہلوؤں جیسے ایف ڈی آئی، جی ایس ٹی وغیرہ پر تبادلہ خیال ہوا۔ وزیراعظم نے ہندستان میں سرمایہ کاری کے متعدد امکانات کو نمایاں کیا۔ انہوں نے حالیہ اصلاحات اور کاروبار کو آسان بنانے کے لئے کئے گئے اقدامات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندستانی عوام کی بڑھتی ہوئی توقعات اور مضبوط معاشی مبادیات سرمایہ کاری کے لئے قابل ذکر مواقع کی ترجمان ہیں۔ انہوں نے قابل تجدید توانائی اور نامیاتی زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات پر زور دیا۔ انہوں نے اس حقیقت کی ستائش کی کہ پی پی آئی انسٹی ٹیوٹ کی تعداد پاس ایسے فنڈز ہیں جن کی سرمایہ کاری یہ ٹرسٹی کے طور پر کررہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرسٹی شپ کا تصور ہندستان میں جانا اور سمجھا ہوا ہے اور مہاتما گاندھی نے بھی واضح طو رپر اس کا ذکر کیا ہے۔ م ن۔م م ۔ ج۔,পেচিফিক পেন্সন আৰু বিনিয়োগ প্ৰতিষ্ঠানৰ প্ৰতিনিধিবৰ্গৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সাক্ষাৎ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%A7%DA%AF-%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C-2/,"بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، یوپی کے توانائی سے بھرپور اور کرم یوگی وزیر اعلی جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی ، نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ جی، مرکزی کابینہ میں میری ساتھی سادھوی نرنجن جیوتی جی، محترمہ انوپریا پٹیل جی، حکومت اترپردیش کے وزرا، ڈاکٹر مہندر سنگھ جی، راجندر پرتاپ سنگھ موتی جی، جناب سدھارتھ ناتھ سنگھ جی، نند گوپال گپتا نندی جی، محترمہ سواتی سنگھ جی، محترمہ گلابو دیوی جی، محترمہ محترمہ نیلما کٹیار جی، پاریمینٹ میں میری ساتھی بہن ریتا بہوگنا جی، محترمی ہیما مالنی جی، محترمہ کیشری دیوی پٹیل جی، ڈاکٹر سنگھ مترا موریہ جی، محترمہ گیتا شاکیہ جی، محترمی کانتا کردم جی، محترمہ سیما دویویدی جی، ڈاکٹر رمیش چند بند جی، پریاگ راج کی میئر محترمہ ابھیلاشا گپتا جی، ضلعی پنچایت کے صدر ڈاکٹر وی کے سنگھ جی، تمام ایم ایل اے صاحبان، دیگر عوامی نمائندگان، اور یہاں موجود یوپی کی صلاحیت کو بڑھانے والے یہاں کی صلاحیت کی علامت میری ماؤں، بہنو! آپ سب کو میرا پرنام۔ ماں گنگا جمنا سرسوتی کے مقدس کنارے پر آباد ہوئی، پریاگ راج کی سرزمین پر ہم سر جھکاکر پرنام کرتے ہیں۔ یہی وہ دھارا ہے، جہاں دھر م، علم اور انصاف کی تریوینی بہتی ہے۔ پریاگ راج میں آکر ہمیشہ ایک الگ ہی پاکیزگی اور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ پچھلے سال فروری میں جب ہم کمبھ میں اس مقدس سرزمین پر آئے تھے تو ہم نے سنگم میں ڈبکی لگاکر ایک روحانی خوشی کا تجربہ کیا تھا۔ میں تیرتھ راج پریاگ کی ایسی مقدس سرزمین کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتا ہوں۔ آج ہندی ادب کی دنیا کے وسیع پیمانے پر معروف آچاریہ مہاویر پرساد دویدی جی کی برسی بھی ہے۔ پریاگ راج کے ادب کی جو سرسوتی بہی، دویدی جی طویل عرصے تک اس کے ایڈیٹر بھی رہے۔ میں انھیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ماؤں اور بہنو، پریاگ راج ہزاروں برسوں سے ہماری مادری قوت کی علامت ماں گنگا جمنا سرسوتی کے سنگم کی سرزمین رہا ہے۔ آج اس تیرتھ نگری میں ناری شکتی کا اتنا شاندار سنگم بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ آپ سب ہمیں اپنا آشیرباد اور اپنی محبت دینے آئی ہیں۔ ماؤں اور بہنو، اسٹیج پر یہاں آنے سے پہلے میں نے بینکنگ سکھیوں سے، سیلف ہیلپ گروپس سے تعلق رکھنے والی بہنوں اور کنیا سرمنگلا اسکیم کی مستفید بیٹیوں سے بات کی تھی۔ ایسے ایسے جذبات، ایسی ایسی خود اعتمادی بھری باتیں! ماؤں اور بہنو، ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے: ""پرتکشیے کم پرمانم""۔ یعنی جو ظاہر ہے، جو آپ کے سامنے ہے اسے ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ پورا ملک یوپی میں ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیے گئے کاموں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اب یہاں مجھے وزیر اعلیٰ کی کنیا سرمنگلا یوجنا کی ایک لاکھ سے زائد مستفید بیٹیوں کے کھاتوں میں کروڑوں روپے منتقل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اسکیم گاؤں اور غریبوں، بیٹیوں کے لیے اعتماد کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنتی جارہی ہے۔ یوپی نے بینک سکھی کی بھی جو مہم شروع کی ہے وہ خواتین کے روزگار کے مواقع کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی لا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے مختلف اسکیموں کا پیسہ جو ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کے ذریعے براہ راست اکاؤنٹ میں آتا ہے اس کے لیے اب بینک میں جانے ضرورت نہیں ہے۔ بینک سکھی کی مدد سے یہ رقم گاؤں میں، گھر میں ہی مل جایا کرتی ہے۔ یعنی بینک سکھی بینک کو گاؤں تک لے کر آگئی ہیں۔ اور میں ان لوگوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں جو یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا کام ہے، بینک سکھیوں کا کام کتنا بڑا ہے۔ یوپی حکومت نے ان بینک سکھیوں کو تقریباً 75,000 کروڑ روپے کی رقم کے لین دین کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اس گاؤں میں رہنے والی میری بیٹیاں 75,000 کروڑ روپے کا کاروبار کر رہی ہیں۔ گاؤں میں جتنا زیادہ لین دین ہوگا، وہ اتنا ہی زیادہ کمائیں گی۔ ان میں سے زیادہ تر بینک سکھیاں وہ بہنیں ہیں جن کے کچھ سال پہلے تک اپنے بینک کھاتے بھی نہیں تھے۔ لیکن آج ان خواتین کے پاس بینکنگ، ڈیجیٹل بینکنگ کی طاقت ہے۔ چناں چہ ملک دیکھ رہا ہے کہ یوپی میں کس طرح کام ہو رہا ہے۔ اور تبھی تو میں کہتا ہوں، ""پرتیکشیے کم پرمانم""۔ ماؤں بہنو، یوپی نے ٹیک ہوم راشن، زچہ و بچہ کو دی جانے وال�� غذائیت کی تیاری کی ذمہ داری بھی خواتین کو سونپی ہے۔ یہ غذائیت سے بھرپور راشن اور غذا اب خود خواتین سیلف ہیلپ گروپ میں مل کر بنائیں گی۔ یہ بھی ایک بڑا کام ہے، سالانہ ہزاروں کروڑ روپے کا کام ہے۔ آج جو متوازن غذاؤں کے 202 پیداواری یونٹس کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ان سے سیلف ہیلپ گروپوں کی خواتین کو بھی آمدنی ہوگی اور گاؤں کے کسانوں کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ گاؤں کی خواتین فیکٹری میں خوراک بنانے کے لیے گاؤں سے ہی فصلیں اور اناج خریدنے جارہی ہیں۔ یہ بااختیار بنانے کی کوششیں ہیں جنہوں نے یوپی میں خواتین کی زندگیوں کو بدلنا شروع کردیا ہے۔ آج مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ حکومت مختلف شعبوں میں ایس ایچ جیز کو جو تعاون دے رہی ہے اس کی ایک قسط کے طور پر ایک ہزار کروڑ روپے منتقل کیے جائیں۔ یوپی کی ترقی کا دھارا اب کسی کے رکنے سے رکنے والا نہیں ہے۔ یہ اترپردیش کی خواتین، ماؤں اور بہنو اور بیٹیوں کا عزم ہے – اب وہ پچھلی حکومتوں کو واپس نہیں آنے دیں گی۔ ڈبل انجن حکومت نے یوپی کی خواتین کو جو سیکورٹی دی ہے، انھوں نے جو احترام دیا ہے، ان کا وقار بے مثال ہے۔ بھائیو اور بہنو، ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی ایسی زندگی ہے جو نسلوں کو متاثر کرتی ہے، نسلیں پیدا کرتی ہے۔ بیٹی کی طاقت، اس کی تعلیم، اس کی مہارت، نہ صرف خاندان بلکہ معاشرے، قوم کی سمت کا بھی تعین کرتی ہے۔ چناں چہ 2014 میں جب ہم نے ماں بھارتی کے بڑے خوابوں اور بڑی امنگوں کو پورا کرنے کی پہل کی تو ہم نے سب سے پہلے ملک کی بیٹی کے اعتماد کو ایک نئی توانائی دینے کی کوشش شروع کی۔ چناں چہ ہم نے بیٹی کی پیدائش ہی سے زندگی میں ہر مرحلے پر خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبے، مہمات بنائیں۔ ساتھیو، ہم نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کے ذریعے معاشرے کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی تاکہ بیٹیوں کو کوکھ میں قتل نہ کیا جائے، وہ پیدا ہوں۔ آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کی بہت سی ریاستوں میں بیٹیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ خواتین کی چھٹی میں 6 ماہ کی توسیع کردی گئی ہے تاکہ ماں زچگی کے بعد بھی بغیر کسی پریشانی کے اپنے بچے کی ابتدائی دیکھ بھال کرکے اپنا کام جاری رکھ سکے۔ ساتھیو، حمل کے دوران غریب خاندانوں میں زچگی کی صحت تشویش کا ایک بڑا سبب رہی ہے۔ لہذا ہم نے حاملہ خواتین کو ٹیکہ لگانے، اسپتالوں میں ڈلیوری اور حمل کے دوران غذائیت پر خصوصی توجہ دی۔ پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا کے تحت حمل کے دوران خواتین کے بینک کھاتوں میں پانچ ہزار روپے جمع کرائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی مناسب خوراک کا خیال رکھ سکیں۔ اب تک 2 کروڑ سے زائد بہنوں کو تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں۔ ساتھیو، ہم نے اس بات پر بھی مسلسل کام کیا ہے کہ بیٹیاں کس طرح صحیح طریقے سے تعلیم حاصل کریں، انھیں اسکول چھوڑنا نہ پڑے۔ چاہے وہ اسکولوں میں بیٹیوں کے لیے علیحدہ بیت الخلاء تعمیر کرنا ہو، یا غریب ترین لوگوں کو سنیٹری پیڈ فراہم کرنا ہو، ہماری حکومت کسی بھی کام میں پیچھے نہیں رہی ہے۔ سوکنیا سمردھی یوجنا کے تحت تقریباً ڈھائی کروڑ لڑکیوں کے کھاتے کھولے گئے ہیں۔ اس رقم پر شرح سود بھی زیادہ رکھی گئی ہے تاکہ یہ پیسہ بڑے ہونے کے بعد ان کے خوابوں کو پورا کرسکے۔ اسکول اور کالج کے بعد کیریئر سے لے کر گھر تک ہر قدم پر خواتین کی سہولت اور صحت کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ سوچھ بھارت مشن کے تحت کروڑوں بیت الخلاء کی تعمیر، اجوولا اسکیم کے تحت غریب ترین لوگوں کو گیس کنکشن فراہم کرنے، گھر میں نل کا پانی فراہم کرنے، بہنوں کی زندگیاں بھی آسان ہوئیں ہیں اور ان کے وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ساتھیو، آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت بھی اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے تو وہ ہماری بہنیں ہیں۔ اسپتالوں میں ڈلیوری ہو یا دوسرا علاج، اس سے پہلے پیسوں کی کمی کی وجہ سے بہنوں کی زندگیوں میں بحران پیدا ہو جاتا تھا۔ اب پانچ لاکھ روپے تک کے مفت علاج کے ساتھ ان کی تشویش دور کردی گئی ہے۔ بھارتی معاشرے میں ماؤں اور بہنوں کو ہمیشہ سب سے بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ لیکن آج میں آپ کی، پورے ملک کی توجہ ایک سچائی کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، صدیوں سے ہمارے پاس ایک ایسا نظام تھا کہ گھر اور گھر کی ہر جائیداد کو صرف مردوں کا حق سمجھا جاتا تھا۔ گھر کس کا نام ہے؟ مردوں کے نام۔ کھیت کس کے نام ہے؟ مردوں کے نام۔ ملازمت، دکان کا حق کس کا ہے؟ مردوں کا۔ آج ہماری حکومت کی اسکیمیں اس تفاوت کو دور کر رہی ہیں۔ پردھان منتری آواس یوجنا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت فراہم کیے جانے والے مکانات ترجیحی بنیادوں پر خواتین کے نام سے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ اگر میں یوپی کی بات کروں تو یوپی میں پی ایم آواس یوجنا کے تحت 30 لاکھ سے زیادہ مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 25 لاکھ گھر خواتین کے نام ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں یوپی میں پہلی بار 25 لاکھ خواتین کے نام سامنے آئے ہیں۔ وہ مکانات جن میں نسل در نسل عورت کے نام پر کوئی جائیداد نہیں رہی، آج وہ پورے گھر کسی عورت کے نام ہیں۔ یہی تو ہوتا خواتین کو بااختیار بنانا، حقیقی شکل می۹ں بااختیار بنانا ہے، یہی تو ہوتی ہے ترقی۔ ماؤں اور بہنو، میں آج آپ کو ایک اور منصوبے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ اسکیم مرکزی حکومت کی ملکیت اسکیم ہے۔ ملکیت اسکیم کے تحت ملک بھر کے دیہات میں ڈرون سے تصاویر لے کر مکانات، زمین کے مالکان کو جائیداد کے کاغذات دیے جارہے ہیں۔ گھر کی خواتین کو اس ملکیت کے دینے میں ترجیح دی جارہی ہے۔ اگلے چند برسوں میں یوگی جی کی حکومت اترپردیش کے دیہات میں ہر گھر کی نقشہ بندی اور اس طرح کی ملکیت دینے کا کام مکمل کرے گی۔ پھر جو مکانات تعمیر کیے گئے ہیں ان کے کاغذات میں گھر کی خواتین کا نام بھی ہوگا، گھر کی ماؤں کے نام بھی ہوں گے۔ ساتھیو، روزگار کے لیے خاندانی آمدنی بڑھانے کے لیے ملک کے ذریعے چلائی جانے والی اسکیموں میں خواتین کو بھی مساوی طور پر شریک بنایا جارہا ہے۔ مدرا یوجنا آج دیہاتوں اور دیہاتوں میں غریب خاندانوں کی نئی خواتین کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت حاصل ہونے والے کل قرضوں میں سے تقریباً 70 فیصد قرضے خواتین کو دیے گئے ہیں۔ دین دیال انتودیا یوجنا کے ذریعے ملک بھر میں خواتین کو سیلف ہیلپ گروپوں اور دیہی تنظیموں سے بھی جوڑا جارہا ہے۔ میں مہیلا شویتا گروپ کی بہنوں کو خود کفیل بھارت مہم کا چیمپئن سمجھتا ہوں۔ یہ سیلف ہیلپ گروپ درحقیقت نیشنل ہیلپ گروپ ہیں۔ اس لیے 2014 سے پہلے کے 5 برسوں میں قومی روزی روٹی مشن کے تحت فراہم کی جانے والی مدد میں گذشتہ 7 برسوں میں تقریباً 13 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ حد بھی دوگنی کر کے 20 لاکھ کر دی گئی ہے۔ ماؤں اور بہنو، شہر ہو یا گاؤں، ہماری حکومت چھوٹی بڑی ہر مشکل کو نظر میں رکھتے ہوئے خواتین کے لیے فیصلے لے رہی ہے۔ ہماری ہی حکومت نے مفت راشن فراہم کرنے کا انتظام کیا تاکہ کورونا کے اس دور میں آپ کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ ہماری ہی حکومت نے قوانین کو آسان بنانے کا کام کیا ہے تاکہ خواتین رات کی شفٹوں میں بھی کام کر سکیں۔ ہماری ہی حکومت نے کانوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے بعض بندشیں ہٹا ئی ہیں۔ ہماری ہی حکومت نے لڑکیوں کے لیے ملک بھر میں فوجی اسکولوں کے دروازے کھولنے کا کام کیا ہے۔ ہماری ہی حکومت نے عصمت دری جیسے گھناؤنے جرائم کے معاملات کو تیز رفتاری سے ٹریک کرنے کے لیے ملک بھر میں تقریباً 700 فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی ہیں۔ ہماری ہی حکومت نے مسلم بہنوں کو مظالم سے بچانے کے لیے طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنایا ہے۔ ساتھیو، کسی امتیاز کے بغیر، کسی تعصب کے بغیر ، ڈبل انجن حکومت بیٹیوں کے مستقبل کو بااختیار بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مرکزی حکومت نے ایک اور فیصلہ لیا ہے۔ اس سے پہلے بیٹوں کی شادی کی عمر 21 سال تھی لیکن بیٹیوں کے لیے یہ عمر صرف 18 سال تھی۔ بیٹیاں یہ بھی چاہتی تھیں کہ انھیں اپنی تعلیم لکھنے، آگے بڑھنے، مساوی مواقع حاصل کرنے کا وقت ملے۔ اس لیے بیٹیوں کی شادی کی عمر 21 سال تک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک بیٹیوں کے لیے یہ فیصلہ لے رہا ہے، لیکن کس کو اس سے تکلیف ہے، دیکھ رہے ہیں بھائیو بہنو!",উত্তৰ প্ৰদেশৰ প্ৰয়াগৰাজত মহিলা-কেন্দ্ৰীক পদক্ষেপসমূহৰ শুভাৰম্ভ ঘোষণা কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%AE%DB%8C%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 27 نومبر 2022 کو صبح 11 بجے من کی بات کے آنے والے ایپی سوڈ کے لیے لوگوں کو خیالات اور تجاویز کا اشتراک کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔ خیالات کو مائی گو، نمو ایپ پر شیئر کیا جا سکتا ہے، یا پیغام ریکارڈ کرنے کے لیے 1800-11-7800 نمبر ڈائل کیا جا سکتا ہے۔ مائی گو دعوت نامہ کا اشتراک کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘میں اس ماہ کے # من کی بات کے لیے آپ کے بصیرت انگیز خیالات اور تجاویز حاصل کرنے کا منتظر ہوں، جو کہ 27 تاریخ کو ہوگا۔ انہیں مائی گو، نمو ایپ پر شیئر کریں یا 1800-11-7800 ڈائل کرکے اپنا پیغام ریکارڈ کریں۔’’,মন কী বাতলৈ চিন্তা আৰু পৰামৰ্শৰ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-19%DA%A9%DB%92-%D9%88%D9%82%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%8C%D9%88%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%A8%D8%AD%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82/,نئی دہلی:16؍اپریل2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نےبی اے پی ایس کے بزرگ سادھوؤں ایشور چرن سوامی اور برہما وہاری سوامی سے ملاقات کی اور کووڈ -19 کے وقت وہ یوکرین بحران کے دوران بی اے پی ایس کے راحت کے کاموں کی ستائش کی۔ جناب مودی نے عزت مآب سوامی مہاراج جی کے آنے والے صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات پر بھی بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا کہ؛ ’’بزرگ بی اے پی ایس سادھوؤں ایشور چرن سوامی اور برہما وہاری سوامی سے ملاقات کی۔کووڈ-19کے وقت اور یوکرین بحران کے دورا ن بی اے پی ایس کے راحت کے کاموں کی ستائش کی۔عزت مآب سوامی مہاراج جی کے آنے والے صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات کو لے کر بھی گفتگو کی اور سماج کے لئے ان کے قیمتی تعاون کو یاد کیا۔‘‘ Met senior BAPS Sadh and during the ),ক’ভিড-১৯ আৰু ইউক্ৰেইনৰ সংকটৰ সময়ত বিএপিএছৰ সাহায্য কাৰ্য্যক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7-%D9%BE%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-21/,سنگا پور کے نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ جناب لارنس اُونگ، تجارت اور صنعت کے سنگاپور کے وزیر جناب گین کِم یونگ اور بھارت کی وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن پر مشتمل بھارت –سنگاپور مشترکہ وزارتی وفد نے آج وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ وزرا نے نئی دلی میں 17 ستمبر 2022 کو ہوئی ہندوستان –سنگاپور وزارتی گول میز کانفرنس (آئی ایس ایم آر) کے افتتاحی اجلاس کے نتائج کے بارے میں وزیراعظم کو جانکاری دی۔ یہ نائب وزیراعظم کی حیثیت سے جناب لارنس اُونگ کا بھارت کے لئے پہلا دورہ ہے۔ آئی ایس ایم آر کا قیام ایک مثبت پہل ہے، جس کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی نے سوچا تھا اور یہ ہندوستان –سنگاپور باہمی تعلقات کے منفرد نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر موصوف نے وزیراعظم کو اُن وسیع تر گفتگو کے بارے میں بھی آگاہ کیا، جو ڈیجیٹل رابطے کے ابھرتے ہوئے شعبوں، فِن ٹیک ، گرین معیشت ، ہنرمندی کے فروغ اور خوراک کی یقینی فراہمی کے بارے میں خاص طور پر منعقد ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے اپنی ستائش سے انہیں آگاہ کیا اور امید ظاہر کی کہ آئی ایس ایم آر جیسے اقدامات دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ وزیراعظم نے سنگاپور کے وزیراعظم اور وہاں کے عوام کے لئے اپنی نیک خواہشات سے بھی آگاہ کیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ ভাৰত-ছিংগাপুৰৰ মন্ত্ৰীগোটৰ যুটীয়া প্ৰতিনিধি দল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%8F%DA%BE%D9%88%D9%84%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%A2%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF/,نئی دہلی، 18فروری 2019؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج مہاراشٹر میں دُھولے کا دورہ کیا۔ انہوں نے ریاست میں متعدد پروجیکٹوں کی نقاب کشائی کی۔مہاراشٹر کے گورنر جناب سی ودیہ ساگر راؤ، مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری ، ڈاکٹر سبھاش بھامرے، دفاع کے مرکزی وزیر مملکت اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پُلوامہ میں اپنی جانیں نچھاور کرنے والے بہادروں کی ستائش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دکھ اور ماتم کی اس گھڑی میں پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ دہشت گردانہ حملے کی سازش رچنے والوں کو سخت پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا ہندوستان کی پالیسی رہی ہے۔تاہم اگر کوئی ہندوستان کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے تو اسے بخشا نہیں جائے گا۔میں نہ صرف ہندوستان کے بہادر سپوتوں کو سلام کرتا ہوں، بلکہ ایسے بہادرسپوتوں کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی سلام کرتا ہوں۔ پُلوامہ حملے کے سازش کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور دنیا یہ محسوس کرے گی کہ موجودہ ہندوستان ایک نیا ہندوستان ہے، جس کا تصور نیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر آنسو کا انتقام لیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے پی ایم کے ایس وائی کے تحت لوور پنازرا میڈیم پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا ہے۔اس سے دُھولے اور اس کے ملحقہ علاقوں کے 21 گاؤں کے 7585 ہیکٹیئر علاقے کو سینچائی کی سہولت ملے گی، جو پانی کی قلت والے اس علاقے کے لئے لائف لائن کا کام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سینچائی پروجیکٹ کا آغاز دُھولے سمیت مہاراشٹر اور ملک کے دیگر حصوں میں سینچائی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں 99سینچائی پروجیکٹوں کی تکمیل کے کام میں تیزی لائی گئی ہے۔ان میں سے 26پروجیکٹوں کا تعلق تو صرف مہاراشٹر سے ہے۔ پنازرا پروجیکٹ ان میں سے ایک ہے۔اس کا آغاز 25سال قبل محض 21کروڑ روپے کی لاگت سے ہوا تھا ، لیکن اب اس کی تکمیل 500کروڑ روپے کی لاگت سے ہوگی۔ یہ مہاراشٹر کے خشک سالی متاثرہ علاقوں تک پانی پہنچانے کی ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعظم نے جلگاؤں –اُڈھانہ دوسری لائن اور برق کاری ریل پروجیکٹ کو قوم کے نام وقف کیا۔2400کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کی تکمیل کے کام میں گزشتہ چار برسوں کے دوران تیزی لائی گئی ہے، تاکہ سامانوں اور لوگوں کی نقل و حمل کو سہل بنایا جاسکے۔شمالی اور جنوبی ہندوستان کو جوڑنے والی اس ریل لائن سے ملحقہ علاقوں میں ترقی کو فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم نے ویڈیو لنک کے ذریعے بھُساول –باندرہ خاندیش ایکسپریس ٹرین کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔اس ٹرین سے ممبئی اور بھُساول کے درمیان براہ راست رابطے کی سہولت دستیاب ہوگی۔وزیر اعظم نے نن دربار –اُڈھانہ ایم ای ایم یو ٹرین اور اُڈھانہ-پلاڈی ایم ای ایم یو ٹرین کو بھی ہری جھنڈی دکھائی۔ وزیر اعظم نے بٹن دبا کر 51کلومیٹر طویل دُھولے-نردانہ ریلوے لائن اور 107کلو میٹر طویل جلگاؤں-منماڈ تیسری ریلوے لائن کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان پروجیکٹوں سے وقت اور ریل ٹریفک کے بہتر بندوبست میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان پروجیکٹوں سے اس خطے میں کنکٹی ویٹی اور ترقی کی صورتحال بہتر بنے گی اورجلد ہی ترقی کے معاملے میں دُھولے سورت کو ٹکر دینے لگے گا۔ وزیر اعظم نے سُلواڑے جمپھال کنولی لفٹ ایریگیشن اسکیم کی بھی نقاب کشائی کی۔ یہ دریائے تاپی سے پانی لائے گی اور متصلہ باندھوں، تالابوں اور نہروں کو پانی سپلائی کرے گی، جس سے 100 گاوؤں کے ایک لاکھ کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے دُھولے شہر کے لئے اَمرُت (اے ایم آر یو ٹی) کے تحت واٹر سپلائی اسکیم اور انڈر گراؤنڈ سیور پروجیکٹ کا سنگ رکھا، جن پر تقریباً 500کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔یہ واٹر سپلائی اسکیم پینے کے لائق محفوظ پانی دستیاب کرائے گا، جس سے پانی کی قلت کے شکار دُھولے خطے کے پانی سے متعلق مسائل حل ہوں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت ملک کے ہر شہری کی زندگی کو آسان اور بہتر بنانے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آیوشمان بھارت اسکیم سے اتنے مختصر عرصے میں تقریباً 12لاکھ لوگوں کو فائدہ ہوا ہے، جن میں 70ہزار مہاراشٹر کے مریض اور 1800دُھولے کے مریض شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسکیم غریب اور محرومی کے شکار لوگوں کے لئے امید کی ایک کرن ثابت ہوئی ہے۔,"মহাৰাষ্ট্ৰৰ ঢুলেত উপস্থিত প্ৰধানমন্ত্ৰী, মুকলি কৰিলে ভালেমান উন্নয়নমূলক প্ৰকল্প" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%8C%D9%81%DA%A9-%D8%A7%D9%82%D8%AA%D8%B5%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%85-%D9%88%D8%B1%DA%A9-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%B4%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%8B-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%87%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ٹوکیو میں ہند-پیسیفک اقتصادی فریم ورک برائے خوشحالی (آئی پی ای ایف) سے متعلق مذاکرات کی شروعات کے لیے منعقد کیے گئے ایک پروگرام میں شرکت کی۔ اس پروگرام میں امریکی صدر ہز ایکسی لینسی جناب جوزف آر بائڈن اور جاپانی وزیر اعظم ہز ایکسی لینسی جناب کشیدا فومیو موجود تھے، اور آسٹریلیا، برونئی، انڈونیشیا، جمہوریہ کوریا، ملیشیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام جیسے دیگر پارٹنر ممالک کے لیڈران نے ورچوئل طریقے سے شرکت کی۔ ایک مشترکہ اعلانیہ جاری کیا گیا، جس میں آئی پی ای ایف میں شامل کلیدی عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آئی پی ای ایف کی کوشش شرکت کرنے والے ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو مضبوطی کرنا ہے، تاکہ ہند-پیسیفک خطہ میں لچک، پائیداری، شمولیت، اقتصادی ترقی، انصاف پسندی اور مسابقت میں اضافہ کیا جا سکے۔ افتتاحی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں، وزیر اعظم نے کہا کہ آئی پی ای ایف کا اعلان ہند-پیسیفک خطہ کو عالمی اقتصادی ترقی کا انجن بنانے کی مشترکہ خواہش کا اعلان ہے۔ گجرات کے لوتھل میں دنیا کی سب سے پرانی تجارتی بندرگاہ کے ساتھ، بھارت تاریخی طور پر ہند-پیسیفک خطہ میں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ہند-پیسیفک خطہ کے اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اور تخلیقی حل تلاش کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے آئی پی ای ایف، جو کہ شمولیتی اور لچکدار دونوں ہی ہے، کے لیے تمام ہند-پیسیفک ممالک کے ساتھ کام کرنے کے بھارت کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لچکدار سپلائی چین کی بنیاد ’3 ٹی‘– ٹرسٹ (اعتماد)، ٹرانس پیرنسی (شفافیت) اور ٹائم لائنیس (بر وقت) – پر ہونی چاہیے۔ بھارت ایک آزاد، کھلا، اور شمولیتی ہند-پیسیفک خطہ کے لیے پابند عہد ہے اور اس کا ماننا ہے کہ شراکت داروں کے درمیان اقتصادی بات چیت کے عمل کو تیز کرنا مسلسل ترقی، امن، اور خوشحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بھارت آئی پی ای ایف کے تحت پارٹنر ممالک کے ساتھ تعاون کرنے اور علاقائی اقتصادی رابطہ، اتحاد کو آگے بڑھانے اور خطہ کے اندر تجارت و سرمایہ کاری کو مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔ آج آئی پی ای ایف کے قیام کی کارروائی شروع ہونے کے بعد، پارٹنر ممالک اقتصادی تعاون کو مضبوط کرنے اور مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے پر مرکوز بات چیت کا آغاز کریں گے۔,ইণ্ডো-পেচিফিক ইকনমিক ফ্ৰেমৱৰ্ক ফৰ প্ৰচপাৰিটিৰ উদ্বোধনী কাৰ্য্যসূচীত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%B3%D9%BE%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-100%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86-%DA%88%D8%B1%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A1%E0%A6%BC-%E0%A6%8F%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A7%A7/,نئی دہلی:19؍فروری2022: نمسکار! اگر پالیسیاں درست ہوں، تو ملک کتنی اونچی اڑان بھر سکتا ہے۔ آج کا دن اس کی بڑی مثال ہے۔ کچھ سال پہلے تک ملک میں جب ڈرون کا نام لیا جاتا تھا تو لگتا تھا کہ وہ فوج سے جڑا ہوا کوئی سسٹم ہے۔ وہ دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے استعمال میں آنے والی چیز ہے۔ اسی دائرے میں سوچا جاتا تھا، لیکن آج ہم مانیسر میں کسان ڈرون سہولتوں کی مثال پیش کررہے ہیں۔ یہ 21ویں صدی کے جدید زرعی انتظام کی سمت میں ایک نیا باب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شروعات نہ صرف ڈرون سیکٹر کی ترقی میں میل کا پتھرثابت ہوگی، بلکہ اس میں امکانات کا ایک لامحدود آسمان وا کھلا ہوگا۔مجھے بھی بتایا گیا ہے کہ گروڑایرواسپیس میں اگلے دو برسوں میں ایک لاکھ میڈاِن انڈیا ڈرون بنانے کا ہدف رکھا ہے۔ اس سے متعدد نوجوانوں کو نئے روزگار اور نئے مواقع ملیں گے۔ میں اس کے لئے گروڑ ایرواسپیس کی ٹیم کو، تمام نوجوان ساتھیوں کا مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیوں، ملک کے لئے یہ وقت آزادی کے امرت کال کا عہد ہے۔ یہ نوجوان بھارت کا عہد ہے اور بھارت کے نوجوانوں کا عہد ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ملک کے میں جو اصلاحات نافذ ہوئی ہیں، نوجوانوں اور پرائیویٹ سیکٹر کو ایک نئی طاقت دی ہے۔ ڈرون کو لے کر ہی بھارت نے خدشات میں وقت نہیں ضائع کیا۔ ہم نے نوجوان صلاحیت پر بھروسہ کیا اور نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس بار کے بجٹ میں ہوئے اعلانات سے لے کر دیگر پالیسی ساز فیصلوں میں ملک میں کھل کر ٹیکنالوجی اور اختراعات کو اولیت دی ہے۔اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ موجودہ وقت میں ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈرون کا کس قدر گونا گوں استعمال ہونے لگا ہے۔ابھی بیٹنگ ریٹیریٹ کے دوران ایک ہزار ڈرون کی شاندار کارکردگی پورے ملک نے دیکھا۔ آج سوامتو یوجنا کے تحت گاؤں میں ڈرون کے ذریعے زمین کا، گھروں کا حساب کتاب تیار ہورہا ہے۔ ڈرون کے ذریعے دواؤں کی سپلائی ہورہی ہے۔ دشوار گزار علاقوں میں ویکسین پہنچ رہی ہے۔کئی جگہ کھیتوں میں دواؤں کا چھڑکاؤ بھی ڈرون سے شروع ہوگیا ہے۔کسان ڈرون اب اس سمت میں ایک نئے عہد کے انقلاب کی شروعات ہے۔ مثال کے طورپر آنے والے وقت میں اعلیٰ صلاحیت کے ڈرون کی مدد سے کسانوں اپنے کھیتوں میں تازہ سبزیاں، پھل، پھول بازار بھیج سکتے ہیں۔ ماہلی پروری سے جڑے لوگ تالاب، ندی اور سمندر سے سیدھے تازہ مچھلیاں بازار بھیج سکتے ہیں۔ کم وقت میں کم سے کم نقصان کے ساتھ ماہی گیروں کا، کسانوں کا سامان بازار پہنچے گا ، تو میرے کسان بھائیوں کی، میرے ماہی گیر بھائی بہنوں کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ ایسے متعدد امکانات ہمارے سامنے دستک دے رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں کئی اور کمپنیاں اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں ڈرون اسٹارٹ اَپس کا ایک نیا ایکو سسٹم تیار ہورہا ہے۔ ابھی ملک میں 200 سے زیادہ ڈرون اسٹارٹ-اَپ کام کررہے ہیں۔ بہت جلد ہی اِن کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے گی۔ اِس سے روزگار کے بھی لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں بھارت کی یہ بڑھتی ہوئی صلاحیت پوری دنیا کو ڈرون کے سیکٹر میں نئی قیادت دے گی۔اسی یقین کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔میری بہت بہت نیک خواہشات ہے۔نوجوان کے حوصلے کو میری نیک خواہشات ہے۔آج جو اسٹارٹ-اَپ کی دنیا کھڑی ہوئی ہے۔ یہ جو نوجوان حوصلہ کررہے ہیں، رسک لے رہے ہیں، ان کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور بھارت سرکار پالیسیوں کے ذریعے مسلسل آپ کے ساتھ رہ کر کاندھے سے کاندھا ملا کر آپ کو آگے بڑھنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں آنے دے گی۔ میں بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,গৰুড় এৰোস্পেচৰ দ্ব���ৰা ১০০ খন কৃষক ড্ৰোনৰ উৰণ উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C-7-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%81%D8%AA%D8%B1-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%AD-2/,معزز حاضرین، بدقسمتی سے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے ترقیاتی اہداف اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان بنیادی تصادم ہے۔ ایک اور غلط فہمی یہ بھی ہے کہ غریب ممالک اور غریب لوگ ماحول کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کی ہزاروں سال سے زیادہ کی تاریخ اس نظریے کی مکمل تردید کرتی ہے۔ قدیم ہندوستان نے بے پناہ خوشحالی کا وقت دیکھا ہے۔ پھر ہم نے صدیوں کی غلامی بھی برداشت کی اور اب آزاد ہندوستان پوری دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت میں سے ایک ہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں ہندوستان نے ماحولیات کے تئیں اپنی وابستگی کو ایک ذرہ بھر بھی کم نہیں ہونے دیا۔ دنیا کی 17 فیصد آبادی ہندوستان میں رہتی ہے۔ لیکن، عالمی کاربن کے اخراج میں ہمارا حصہ صرف 5 فیصد ہے۔ اس کے پیچھے کی بنیادی وجہ ہمارا طرز زندگی ہے جو کہ فطرت کے ساتھ بقائے باہمی کے نظریہ پر مبنی ہے۔ آپ سب اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ توانائی تک رسائی صرف امیروں کا استحقاق نہیں ہونا چاہیے- ایک غریب خاندان کا بھی توانائی پر یکساں حق ہے۔ اور آج جب جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے توانائی کی قیمتیں آسمان پر ہیں، اس چیز کو یاد رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ اس اصول سے تحریک لے کر، ہم نے ہندوستان میں ایل ای ڈی بلب اور صاف کھانا پکانے والی گیس گھر گھر پہنچائی ہے اور دکھایا ہے کہ غریبوں کے لیے توانائی کو یقینی بناتے ہوئے لاکھوں ٹن کاربن کے اخراج کو بچایا جا سکتا ہے۔ آب و ہوا کے وعدوں کے تئیں ہماری لگن ہماری کارکردگی سے ظاہر ہے۔ ہم نے وقت سے 9 سال پہلے غیر فوسل ذرائع سے 40 فیصد توانائی کی صلاحیت کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ پیٹرول میں 10 فیصد ایتھنول ملاوٹ کا ہدف مقررہ وقت سے 5 ماہ پہلے حاصل کر لیا گیا ہے۔ ہندوستان کے پاس دنیا کا پہلا مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلنے والا ہوائی اڈہ ہے۔ ہندوستان کا بہت بڑا ریلوے نظام اس دہائی میں خالص صفر ہو جائے گا۔ معزز حاضرین، جب ہندوستان جیسا بڑا ملک اس طرح کے عزائم کا مظاہرہ کرتا ہے تو دوسرے ترقی پذیر ممالک کو بھی تحریک ملتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جی-7 کے امیر ممالک ہندوستان کی کوششوں کی حمایت کریں گے۔ آج، ہندوستان میں صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ابھر رہی ہے۔ جی-7 ممالک اس شعبے میں تحقیق، اختراع اور مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ہندوستان ہر نئی ٹیکنالوجی کے لیے جو پیمانہ فراہم کر سکتا ہے وہ اس ٹیکنالوجی کو پوری دنیا کے لیے سستی بنا سکتا ہے۔ سرکلر اکانومی کے بنیادی نظریات ہندوستانی ثقافت اور طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ سال گلاسگو میں لائف – لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ – کے نام سے ایک تحریک شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سال ماحولیات کے عالمی دن پر، ہم نے گلوبل انیشیٹو فار لائف مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کا مقصد ماحول دوست طرز زندگی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ہم اس تحریک کے پیروکاروں کو Triple-P یعنی 'pro planet People' کہہ سکتے ہیں، اور ہم سب کو اپنے اپنے ملکوں میں Triple-P لوگوں کی تعداد ��ڑھانے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمارا سب سے بڑا تعاون ہوگا۔ معزز حاضرین، انسان اور سیارے کی صحت ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔ اس لیے ہم نے ایک دنیا، ایک صحت کے نقطہ نظر کو اپنایا ہے۔ عالمی وبا کے دوران، ہندوستان نے صحت کے شعبے میں ڈجیٹل ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے بہت سے تخلیقی طریقے تلاش کیے۔ جی-7 ممالک ان اختراعات کو دوسرے ترقی پذیر ممالک تک لے جانے میں ہندوستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں ہم سب نے یوگا کا عالمی دن منایا ہے۔ کووڈ بحران کے وقت، یوگا پوری دنیا کے لوگوں کے لیے حفاظتی صحت کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا ہے، اس سے بہت سے لوگوں کو اپنی جسمانی اور ذہنی صحت برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔ یوگا کے علاوہ، ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں روایتی ادویات کا ایک قیمتی اثاثہ موجود ہے، جسے مجموعی صحت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حال ہی میں ڈبلیو ایچ او نے ہندوستان میں اپنا عالمی مرکز برائے روایتی ادویات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مرکز نہ صرف پوری دنیا میں مختلف روایتی ادویات کے نظام کا ذخیرہ بن جائے گا بلکہ اس شعبے میں مزید تحقیق کی حوصلہ افزائی بھی کرے گا۔ اس سے دنیا کے تمام شہریوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ آپ سب کا شکریہ,"জাৰ্মানীত অনুষ্ঠিত ‘জি-৭ শীৰ্ষ সন্মিলন’ত ‘এক উন্নত ভৱিষ্যতত বিনিয়োগ : জলবায়ু, শক্তি, স্বাস্থ্য’ সম্পৰ্কীয় অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা অভিম" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D9%86%D8%A7%D8%B1%DA%88%DA%A9-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0/,نئی دہلی،4 مئی 2022/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دوسری ہند-نارڈک سربراہ کانفرنس میں ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹے فریڈریکسن، آئس لینڈ کے وزیر اعظم کیٹرین جیکوبسٹیر، ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور، سویڈن کے وزیر اعظم میگدالینا اینڈرسن اور فن لینڈ کے وزیر اعظم سانا مارین کے ساتھ شرکت کی۔ اس سربراہ کانفرنس نے اسٹاک ہوم میں 2018 میں منعقد ہونے والی پہلی انڈیا-نارڈک چوٹی کانفرنس کے بعد سے ہندوستان-نارڈک تعلقات کی پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کیا۔ وبائی امراض کے بعد معاشی بحالی، موسمیاتی تبدیلی، پائیدار ترقی، اختراع، ڈیجیٹلائزیشن، اور سبز اور صاف نمو میں کثیر الجہتی تعاون پر بات چیت ہوئی۔ پائیدار سمندری انتظام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بحری شعبے میں تعاون پر بھی بات چیت کی گئی۔ وزیر اعظم نے نورڈک کمپنیوں کو بلیو اکانومی سیکٹر میں اور خاص طور پر ہندوستان کے ساگرمالا پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے مدعو کیا۔ آرکٹک خطے میں نارڈک خطے کے ساتھ ہندوستان کی شراکت داری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ ہندوستان کی آرکٹک پالیسی آرکٹک خطے میں ہندوستان-نارڈک تعاون کی توسیع کے لئے ایک اچھا فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے نورڈک ممالک کے خودمختار مالی فنڈز کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی۔ علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی بات چیت ہوئی۔ سربراہی اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان منظور کیا گیا، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ https://mea.gov.in/bilateral-doc ش ح۔ ش ت ۔ج,দ্বিতীয় ভাৰত-ন’ৰ���ডিক শীৰ্ষ সন্মিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%8C-%D8%A7%D9%8F%D9%86-%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%AC%D8%A7%DB%81%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اُن سبھی مجاہدین آزادی کو یاد کیا، جنھوں نے باپو کی قیادت میں بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لیا تھا اور ہماری جدوجہد آزادی کو تقویت دی تھی۔ ایک سلسلہ وار ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ان سبھی مجاہدین کو یاد کررہا ہوں، جنھوں نے باپو کی قیادت میں بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لیا تھا اور ہماری جدوجہد آزادی کو تقویت بخشی تھی۔‘‘ ’’مہاتما گاندھی کی یہ تصویر اس وقت کی ہے جب بامبے میں بھارت چھوڑو تحریک کے آغاز ہوا۔ (نہرو میموریل کلیکشن سے ماخذ)‘‘ لوک نائک جے پی نے کہا تھا، کہ’’ 9 اگست ہمارے قومی انقلاب کی چنگاری کی علامت بن گیا۔‘‘ باپو سے ترغیپ پاکر ، بھارت چھوڑو تحریک میں جے پی اور ڈاکٹر لوہیا جیسی عظیم شخصیات سمیت سماج کےسبھی طبقات کی قابل ذکرحصہ داری دیکھی گئی۔‘‘,"বাপুৰ নেতৃত্বত ভাৰত ত্যাগ আন্দোলনত যিসকলে অংশগ্ৰহণ কৰিছিল, সেই সকলোকে স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰী" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%8C-%DA%AF%D9%88%D9%84%DA%88%D9%86-%D8%AC%D9%88%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9A/,نئی دلّی ،20 فروری / وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اروناچل پردیش کی گولڈن جوبلی اور 36ویں ریاستی یوم تاسیس کی تقریبات پر اروناچل پردیش کے لوگوں کو مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے ، اُن کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ابھرتے سورج کی ، اِس پہچان کو ، اِس نئی توانائی کو ، اِن 50 برسوں میں آپ سبھی محنتی اور محب وطن بہنوں اور بھائیوں نے مسلسل مستحکم کیا ہے ۔ انہوں نے نامور بھارت رتن ڈاکٹر بھوپین ہزاریکا کے مشہور گیت ’ اروناچل ہمارا‘ کی سطروں کو بھی دوہرایا ۔ وزیر اعظم آج اروناچل پردیش کی گولڈن جوبلی اور 36ویں ریاستی یوم تاسیس کی تقریبات کے موقع پر خطاب کررہے تھے۔ وزیر اعظم نے حب الوطنی اور سماجی ہم آہنگی کے احساس کو فروغ دینے اور ملک کی ثقافتی وراثت کے تحفظ کے لئے اروناچل پردیش کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ حب الوطنی اور سماجی ہم آہنگی کے ، جس جذبے کو اروناچل پردیش نے نئی اونچائی دی ہے ، اپنی ثقافتی وراثت کو ، جس طرح آپ نے سجایا – سنوارا ہے ، روایت اور ترقی کو ، جس طرح آپ ساتھ لے کر چل رہے ہیں ، وہ ملک کے لئے باعث تحریک ہے ۔ انہوں نے اروناچل پردیش کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا ، جنہوں نے ملک کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ اینگلو آبور جنگ ہو یا آزادی کے بعد سرحد کا تحفظ ، اروناچل کے لوگوں کی بہادری کی داستانیں بھارت کے ہر شہری کے لئے انمول وراثت ہیں ۔ وزیر اعظم نے ریاست کے اپنے کئی دوروں کو یاد کیا اور وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو کی قیادت میں ڈبل انجن والی حکومت کے تحت ترقی کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کا راستہ اروناچل پردیش کے بہتر مستقبل کو یقینی بنائے گا ‘‘ ۔ وزیر اعظم نے اپنے ، اِس اعتماد کو دوہراتے ہوئے کہا کہ میرا پختہ یقین رہا ہے کہ مشرقی بھارت ، خاص طور پر شمال مشرقی بھارت 21ویں صدی میں ملک کی ترقی کا انجن بنے گا ۔ اسی جذبے کے ساتھ ، اروناچل پردیش کی ترقی کو رفتار دینے کے لئے گزشتہ سات برسوں میں بے مثال کام کیا گیا ہے ۔ کنکٹیوٹی اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں وسیع کام جاری ہے اور اس سے اروناچل پردیش میں زندگی اور کاروبار آسان ہو رہا ہے۔ خطے کے تمام دارالحکومتوں کو ترجیحی بنیادوں پر ریل سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ ہم اروناچل کو مشرقی ایشیا کا ایک اہم گیٹ وے بنانے کے لئے پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ قومی سکیورٹی کے لحاظ سے بھی اروناچل کے کردار کے پیش نظر، ریاست میں جدید بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا جا رہا ہے ‘‘ ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اروناچل فطرت اور ثقافت کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے ترقی کی جانب گامزن ہے ۔ وزیر اعظم نے اروناچل پردیش کے لوگوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی کوششوں کی وجہ سے اروناچل حیاتیاتی تنوع کے سب سے اہم خطوں میں سے ایک ہے ۔ جناب مودی نے صحت، تعلیم، ہنرمندی کی ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے اور خود امدادی گروپوں کے شعبوں میں ترقی کے لئے ، وزیر اعلیٰ کی کوششوں پر بھی خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے ریاست کی ترقی کے لئے مسلسل کام کرنے کے لئے مرکزی وزیر قانون جناب کرن رجیجو کی بھی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے عالمی سطح پر اروناچل کی سیاحتی صلاحیت کو حاصل کرنے کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে অৰুণাচল প্ৰদেশৰ সোণালী জয়ন্তী আৰু ৩৬ সংখ্যক প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উদযাপনত ভাষণ দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-75/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A6-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A6%A0%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%AD%E0%A7%AB%E0%A6%B8/,نئی دہلی،21/ اکتوبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ذریعہ قائم کی گئی آزاد ہند حکومت کے قیام کی 75ویں سالگرہ منانے کے لیے لال قلعے میں قومی پرچم لہرایا۔ وزیر اعظم نے آج ہند حکومت کے قیام کی 75ویں سالگرہ کے قابل فخر موقع پر قوم کو مبارکباد دی ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آزاد ہند حکومت سبھاش چندر بوس کے ایک مستحکم غیر منقسم نظریہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آزاد ہند حکومت قوم کی تعمیر میں سرگرم تھی یہاں تک کہ اس نے اپنا بینک، کرنسی اور ڈاک ٹکٹ بھی شروع کردیا تھا۔ نیتاجی کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ سبھاش چندر بوس ایک وژنری تھے، جنھوں نے طاقتور نو آبادیاتی برطانوی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے ہندوستانیوں کو متحد کیا۔ انھوں نے کہا کہ نوعمری میں ہی بوس میں حب الوطنی کی جھلک ملنے لگی تھی۔ یہ بات ان خطوط سے واضح ہوتی ہے جو انھوں نے اپنی والدہ کو لکھے تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نیتاجی محض ہندوستانیوں کے لیے ہی تحریک کا ذریعہ نہیں تھے بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں خودمختاری اور آزادی کے لیے جنگ کرنے والے تمام لوگوں کے لیے تحریک کا ذریعہ تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈ��لا کو نیتاجی سے تحریک ملی تھی۔ قوم کو یہ یاد دلاتے ہوئے کہ سبھاش چند ر بوس کے نظریے کے مطابق نیو انڈیا کی تعمیر سے قبل ابھی ایک طویل سفر کیا جانا ہے، وزیر اعظم نے ہندوستانی شہریوں سے کہا کہ وہ نیتاجی سے تحریک حاصل کریں اور ملک کی ترقی کے لیے کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان نے متعدد قربانیوں کے بعد آزادی حاصل کی ہے اور اب یہ شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اس آزادی کو برقرار رکھیں۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سبھاش چندر بوس نے رانی جھانسی ریجیمنٹ قائم کرکے مسلح افواج میں خواتین کے لیے مساوی مواقع کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ان کی وراثت کو صحیح معنوں میں آگے لے جارہی ہے اور مسلح افواج میں مستقل کمیشن کے لیے خواتین کو بھی مساوی مواقع فراہم کرائے جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ا گ ۔ را ۔ 21 – 10 – 2018),আজাদ হিন্দ চৰকাৰ গঠনৰ ৭৫সংখ্যক বৰ্ষপূৰ্তিৰ স্মৃতিচাৰণ অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-17500-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%B1%D9%88%D9%BE%DB%92-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%96/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اتراکھنڈ میں 17500 کروڑ روپے سے زیادہ کے 23 پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے لکھوار کثیر مقصدی پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جس کا تصور پہلی بار 1976 میں کیا گیا تھا اور کئی سالوں سے زیر التوا تھا۔ انھوں نے 8700 کروڑ روپے کے سڑک سیکٹر کے منصوبوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ یہ سڑک منصوبے دور دراز، دیہی اور سرحدی علاقوں میں رابطے کو بہتر بنانے کے وزیر اعظم کے وژن کو پورا کریں گے۔ کیلاش مانسروور یاترا کو بھی بہتر کنیکٹیویٹی ملے گی۔ انہوں نے ادھم سنگھ نگر میں ایمس رشیکیش سیٹلائٹ سنٹر اور پتھورا گڑھ میں جگ جیون رام گورنمنٹ میڈیکل کالج کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ یہ سیٹلائٹ مراکز ملک کے تمام حصوں میں عالمی معیار کی طبی سہولیات فراہم کرنے کی وزیر اعظم کی کوششوں کے مطابق ہوں گے۔ انھوں نے کاشی پور میں اروما پارک اور ستار گنج میں پلاسٹک انڈسٹریل پارک اور ریاست بھر میں رہائش، صفائی ستھرائی اور پینے کے پانی کی فراہمی میں متعدد دیگر اقدامات کا سنگ بنیاد رکھا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کماؤں کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کو یاد کیا اور انھیں اتراکھنڈی ٹوپی سے نوازنے کے لیے علاقے کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے اس بات کی وضاحت کی کہ وہ کیوں سوچتے ہیں کہ یہ دہائی اتراکھنڈ کی دہائی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اتراکھنڈ کے لوگوں کی طاقت اس دہائی کو اتراکھنڈ کی دہائی بنا دے گی۔ اتراکھنڈ میں بڑھتا ہوا جدید انفراسٹرکچر، چار دھام پروجیکٹ، نئے ریل راستے بنائے جا رہے ہیں جو اس دہائی کو اتراکھنڈ کی دہائی بنا دیں گے۔ انھوں نے ہائیڈرو پاور، صنعت، سیاحت، قدرتی زراعت اور کنیکٹوٹی کے شعبوں میں اتراکھنڈ کی طرف سے کی گئی پیش رفت کا بھی حوالہ دیا جو اس دہائی کو اتراکھنڈ کی دہائی بنا دے گی۔ وزیر اعظم نے اس فکر کو جس نے پہاڑی علاقوں کو ترقی سے دور رکھا اس فکر سے ممتاز کیا جو پہاڑی علاقوں کی ترقی کے لیے انتھک محنت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترقی اور سہولتوں کی عدم موجودگی میں بہت سے لوگ علاقے سے دوسری جگہوں پر چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس کے جذبے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ادھم سنگھ نگر میں ایمس رشی کیش سیٹلائٹ سنٹر اور پتھورا گڑھ میں جگ جیون رام گورنمنٹ میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد ریاست میں طبی بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج شروع ہونے والے پروجیکٹوں سمیت ریاست میں کنیکٹیویٹی کو بہتر بنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ آج جو سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے وہ عہد کے پتھر ہیں جن پر پورے عزم کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کی محرومیوں اور پریشانیوں کو اب سہولتوں اور ہم آہنگی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہر گھر جل، بیت الخلا، اجولا اسکیم، پی ایم اے وائی کے ذریعے گزشتہ سات سالوں سے خواتین کی زندگیوں کو نئی سہولتیں اور وقار مل رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سرکاری اسکیموں میں تاخیر ان لوگوں کا مستقل ٹریڈ مارک رہا ہے جو پہلے حکومت میں تھے۔ ”لکھوار پروجیکٹ، جو آج یہاں اتراکھنڈ میں شروع ہوا ہے، اس کی بھی وہی تاریخ ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں پہلی بار 1976 میں سوچا گیا تھا۔ آج 46 سال بعد ہماری حکومت نے اس کے کام کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ یہ تاخیر کسی جرم سے کم نہیں ہے""“، انہوں نے کہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت گنگوتری سے گنگا ساگر تک مشن میں مصروف ہے۔ بیت الخلا کی تعمیر، سیوریج کے بہتر نظام اور پانی کی صفائی کی جدید سہولیات سے گنگا میں گرنے والے گندے نالوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اسی طرح نینتل جھیل کا بھی کام جاری ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت نے نینی تال کے دیوستھل میں ہندوستان کی سب سے بڑی آپٹیکل دوربین بھی قائم کی ہے۔ اس سے نہ صرف ملک اور بیرون ملک کے سائنسدانوں کو ایک نئی سہولت ملی ہے بلکہ اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج دہلی اور دہرادون میں حکومتیں اقتدار کی خواہش سے نہیں بلکہ خدمت کے جذبے سے چلتی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ”اتراکھنڈ ترقی کی رفتار کو تیز کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے خواب ہمارے عزم ہیں۔ آپ کی خواہش ہماری تحریک ہے؛ اور آپ کی ہر ضرورت کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔“ انھوں نے کہا کہ اتراکھنڈ کے لوگوں کا عزم اس دہائی کو اتراکھنڈ کی دہائی بنا دے گا۔",প্রধানমন্ত্রীয়ে উত্তৰাখণ্ডত ১৭৫০০ কোটি টকাৰো অধিক আর্থিক মূল্যৰ ২৩টা প্রকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A7%B1-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%97/,نئی دہلی،14 اپریل / وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ملک کے عوام کو مختلف تہواروں کی مبارکباد دی ہے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اپنی مبارکباد کے پیغام میں کہا‘‘ہندوستان کے لوگ آنے والے دنوں میں مختلف تہواروں کے موقع پر کثرت میں وحدت ، اتحاد و ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارے کےجذبے کی تقریبات منا رہے ہیں۔ تمام اہلیان وطن کو مقدس مواقع کی مبارکباد۔ خدا کرے کہ ہر ایک کی زندگی میں مسرت اور خوشحالی آئے’’۔ آپ سبھی کو بیساکھی کی مبارکباد آپ کو بیساکھی کی خوشیاں مبارک ہو۔ خدا کرے کہ یہ مبارک دن ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں صحت اور کامیابیاں لائے۔ ہم اس موقع پر ملک و قوم کا پیٹ بھرنے والے محنت کش کسانوں کو سلام کرتے ہیں۔ ‘‘ملک کی فعال اوڑیا برادری کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ‘‘ ایک نیا سال ، نئے حوصلے اور نئی امیدیں ،خدا کرے کہ یہ مہا وشوبا سنکرانتی آپ سبھی کی تمنائیں پوری کرے۔ سبھی کی خوشحالی اور خوشیوں کی دعائیں ’’۔ تمل عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ ‘‘ عزیز تمل بہنو اور بھائیو۔آپ کو ایک انتہائی خوشگوار نئے سال کی دعائیں پیش کرتا ہوں ۔ میری بہنو اور بھائیوں کو پوٹھانڈو کی مبارکباد۔خدا کرے کہ آنے والا سال آپ کی تمام امیدیں اور آرزوئیں پوری کرے ۔ خدا کرے کہ ہر شخص صحت مند اور خوشحال رہے۔,বিভিন্ন উৎসৱ উপলক্ষে সমগ্ৰ দেশৰ জনতাক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা জ্ঞাপন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D9%84%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%86%DB%81%D8%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%D8%A2%D8%B1-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%A4-icrisat/,نئی دہلی، 05 فروری 2022: تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تملسائی سوندر راجن جی، مرکزی کابینہ کے میرے رفیق نریندر سنگھ تومر جی، جی کرشن ریڈی جی، آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی ڈائرکٹر جنرل، اور آن لائن توسط سے ملک اور بیرونِ ملک سے، خصوصاً افریقی ممالک سے جڑے معززین، یہاں موجود خواتین و حضرات! آج بسنت پنچمی کا مبارک تیوہار ہے۔ آج ہم علم کی دیوی، ماں سرسوتی کی پوجا کرتے ہیں۔ آپ تمام حضرات جس شعبے میں ہیں، اس کی بنیاد علم اور سائنس، اختراع و تخلیق ہی ہے اور اس لیے بسنت پنچمی کے دن اس تقریب کی ایک خاص اہمیت ہو جاتی ہے۔ آپ تمام حضرات کو گولڈن جوبلی جشن کی بہت بہت مبارکباد! ساتھیو، 50 سال ایک بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اور اس 50 برس کے سفر میں جب اور جس نے، جو تعاون دیا ہے وہ سبھی لوگ مبارکباد کے حقدار ہیں۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے جن جن لوگوں نے کوشش کی ہے، میں ان کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75ویں برس کا جشن منا رہا ہے، تو آپ کا ادارہ 50 برس مکمل کر رہا ہے۔ جب بھارت اپنی آزادی کے 100 برس مکمل کرے گا تو آپ 75ویں برس میں ہوں گے۔ جیسے بھارت نے آئندہ 25 برسوں کے لیے نئے اہداف طے کیے ہیں، ان پر کام کرنا شروع کر دیا ہے، ویسے ہی آئندہ 25 برس آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کے لیے بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ ساتھیو، آپ کے پاس 5 دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ان 5 دہائیوں میں آپ نے بھارت سمیت دنیا کے ایک بڑے حصے میں زرعی شعبے کی مدد کی ہے۔ آپ کی تحقیق، آپ کی تکنالوجی نے مشکل صورتحال میں کھیتی کو آسان اور ہمہ گیر بنایا ہے۔ ابھی میں نے جو تکنالوجی کا مظاہرہ دیکھا، اس میں آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی کوششوں کی کامیابی نظر آتی ہے۔ پانی اور مٹی کی انتظام کاری ہو، فصلوں کی اقسام اور پروڈکشن کے طور طریقوں میں بہتری ہو، آن فارم ڈائیورسٹی میں اضافہ ہو، لائیو اسٹاک انٹیگریشن ہو، اور کاشتکاروں کو منڈی سے جوڑنا ہو، یہ جامع نقطہ نظر یقینی طور سے زراعت کو ہمہ گیر بنانے میں مدد کرتا ہے۔تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں دالوں، خصوصاً چنا کو لے کر اس علاقے میں جو وسعت پیدا ہوئی ہے، اس میں آپ کا تعاون اہم رہا ہے۔ کاشتکاروں کے ساتھ اکری سیٹ کا تعاون پر مبنی نقطہ نظر کھیتی کو اور مضبوطی اور خوشحالی فراہم کرے گا۔ آج پودوں کے تحفظ پر تبدیلی موسمیات سے متعلق تحقیقی سہولت اور ریپڈ جنریشن ایڈوانسمنٹ فیسلٹی کے طور پر نئی سہولتوں کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ تحقیقی سہولتیں، تبدیلی موسمیات کی چنوتی کا سامنا کرنے میں زرعی شعبہ کی بہت مدد کریں گی۔ اور آپ کو پتہ ہوگا، بدلتی ہوئی آب وہوا میں ہمارے زرعی طور طریقوں میں کیا تبدیلیاں لانی چاہئے، اس طرح سے بھارت نے ایک بہت بڑی پہل قدمی کی ہے کہ تبدیلی موسمیات کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، جو قدرتی آفات آتی ہیں، اس میں انسانوں کی اموات لاحق ہونے کی بات تو سامنے آتی ہے۔ تاہم بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان لاحق ہوتا ہے، وہ پورے نظام کو چرمرا دیتا ہے۔ اور اس لیے حکومت ہند نے موسمیاتی مزاحمت والے بنیادی ڈھانچہ کے لیے، اس پر غور و فکر اور اسکیمیں بنانے کے لیے عالمی سطح کا ادارہ قائم کیا ہے۔ آج ویسا ہی ایک کام اس زرعی شعبہ کے لیے ہو رہا ہے۔ آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ساتھیو، موسمیاتی تبدیلی ویسے تو دنیا کی ہر آبادی کو متاثر کرتی ہے، تاہم اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو سماج کے آخری پائیدان پر ہوتے ہیں ۔ جن کے پاس وسائل کی کمی ہے، جو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں ہمارے چھوٹے کاشتکار ہیں۔ اور بھارت میں 80 سے 85 فیصد کاشتکار چھوٹے کاشتکار ہیں۔ ہمارے چھوٹے کاشتکاروں کے لیے تبدیلی موسمیات کی بات بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس لیے، بھارت نے تبدیلی موسمیات سے نمٹنے کے لیے دنیا سے اس پر خصوصی توجہ دینے کی گذارش کی ہے۔ بھارت نے 2070 تک خالص صفر کا نصب العین تو طے کیا ہی ہے، ہم نے لائف– لائف مشن – لائف اسٹائل فار اِنوائرمنٹ ، اس لائف مشن کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح سے پرو –پلانیٹ پیپل ایک ایسی تحریک ہے جو تبدیلی موسمیات سے نمٹنے کے لیے ہر ایک برادری کو، ہر فرد کو موسمیاتی ذمہ داری سے جوڑتی ہے۔ یہ صرف باتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ حکومت ہند کے اقدامات میں بھی اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سال کے بجٹ میں کلائمیٹ ایکشن کو بہت زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ یہ بجٹ ہر سطح پر، ہر شعبہ میں سبز مستقبل کی بھارت کی عہد بستگی کو ترغیب فراہم کرنے والا ہے۔ ساتھیو، آب و ہوا اور دیگر وجوہات کی بنا پر بھارت کے زرعی شعبے کے سامنے جو چنوتیاں ہیں، ان سے نمٹنے میں بھارت کی کوششوں سے آپ تمام ماہرین، سائنس داں حضرات، تکنیکی ماہرین بخوبی واقف ہیں۔ آپ میں سے زیادہ تر افراد یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت میں 15 زرعی موسمیاتی حلقے ہیں۔ ہمارے یہاں، بسنت، گرمی، برسات، شرد، ہیمنت اور شِشِر، یہ چھ موسم بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارے پاس زراعت سے متعلق بہت تنوع ہے اور بہت قدیم تجربہ بھی ہے۔ اس تجربے کا فائدہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی حاصل ہو، اس کے لیے اکری سیٹ جیسی تنظیموں کو بھی اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ آج ہم ملک کے تقریباً 170 اضلاع کو خشک سالی سے بچاؤ کے حل پیش کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے اپنے کاشتکاروں کو بچانے کے لیے ہماری توجہ بنیادی چیزوں کو اپناکر مستقبل کے لیے آگے بڑھنا ہے۔ ہماری توجہ ملک کے ان 80 فیصد سے زائد چھوٹے کاشتکاروں پر ہے، جن کو ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس بجٹ میں بھی آپ نے غور کیا ہوگا کہ قدرتی طریقہ کاشت اور ڈجیٹل زراعت پر غیر معمولی طور پر زور دیا گیا ہے۔ ایک جانب ہم باجرا–موٹے اناج کا دائرہ بڑھانے پر توجہ مرکوز ک�� رہے ہیں، کیمیا سے مبرا کھیتی پر زور دے رہے ہیں، تو دوسری جانب شمسی پمپوں سے لے کر کسان ڈرونس تک کھیتی میں جدید تکنالوجی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آزادی کے امرت کال یعنی آنے والے 25 برسوں کے لیے زرعی نمو کے لیے ہماری تصوریت کا یہ بہت اہم حصہ ہے۔ ساتھیو، تبدیل ہوتے بھارت کا ایک اہم پہلو ہے– ڈجیٹل زراعت۔ یہ ہمارا مستقبل ہے اور اس میں بھارت کے باصلاحیت نوجوان، بہت بہترین کام کر سکتے ہیں۔ ڈجیٹل تکنالوجی سے کیسے ہم کاشتکاروں کو بااختیار بنا سکتے ہیں، اس کے لیے بھارت میں کوششیں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ فصلوں کا تجزیہ ہو، زمین کے ریکارڈس کو ڈجیٹل شکل دینا ہو، ڈرون کے توسط سے کیڑے کش دواؤں اور زرخیزی میں اضافے کے عناصر کے چھڑکاؤ کی بات ہو، ایسی متعدد خدمات میں تکنالوجی کا استعمال، آرٹی فیشل انٹلی جینس کا استعمال بڑھایا جا رہا ہے۔ کاشتکاروں کو قابل استطاعت اور ہائی ٹیک خدمات فراہم کرانے کے لیے، زرعی تحقیق سے وابستہ ایکو نظام اور نجی ایگری ٹیک اداروں کے ساتھ مل کر کام ہو رہا ہے۔ آب پاشی کے فقدان والے علاقوں میں کاشتکاروں کو بہتر بیج، زیادہ پیداوار، پانی کی انتظام کاری کو لے کر آئی سی اے آر اور اکری سیٹ کی شراکت داری کامیاب رہی ہے۔ اس کامیابی کو ڈجیٹل زراعت میں بھی توسیع دی جا سکتی ہے۔ ساتھیو، آزادی کے امرت کال میں ہم اعلیٰ زرعی نمو پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مبنی بر شمولیت ترقی کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ زراعت کے شعبے میں خواتین کا تعاون بہت اہم ہے۔ انہیں ہر طرح کی مدددینے کے لیے سیلف ہیلپ گروپوں کے توسط سے بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ زراعت ملک کی بہت بڑی آبادی کو غریبی سے باہر نکال کر بہتر طرزِ حیات کی جانب لے جانے کے مضمرات کی حامل ہے۔ یہ امرت کال، مشکل جغرافیائی حالات میں کھیتی کرنے والے کاشتکاروں کو مصیبتوں سے باہر نکالنے کے نئے راستے بھی مہیا کرائے گا۔ ہم نے دیکھا ہے، آب پاشی کے فقدان میں ملک کا ایک بہت بڑا حصہ سبز انقلاب کا حصہ نہیں بن پایا تھا۔ اب ہم دوہری حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ایک طرف ہم آبی تحفظ کے ذریعہ، ندیوں کو جوڑ کر ایک بڑے علاقے کو آبپاشی کے دائرے میں لا رہے ہیں، اور ابھی جب میں شروعات میں یہاں کی تمام حصولیابیوں کو دیکھ رہا تھا، تو اس میں بندیل کھنڈ میں کس طرح سے پانی کی انتظام کاری کو اور ’فی قطرہ زیادہ فصل‘ کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے کیسے کامیابی حاصل کی گئی ہے، اس کا تفصیلی ذکر سائنس داں حضرات میرے سامنے کر رہے تھے۔ وہیں دوسری جانب، ہم کم آبپاشی والے علاقوں میں پانی کے استعمال کی اثرانگیزی میں اضافہ کے لیے مائیکرو آبپاشی پر زور دے رہے ہیں۔ جن فصلوں کو پانی کی ضرورت کم ہوتی ہے، اور جو پانی کی کمی سے متاثر نہیں ہوتیں انہیں بھی جدید اقسام کی ترقی سے ترغیب فراہم کی جا رہی ہے۔ خوردنی تیل میں آتم نربھرتا کے لیے جو قومی کمیشن ہم نے شروع کیا ہے، وہ بھی ہماری نئی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ آنے والے 5 برسوں میں ہمارا ہدف پام آئل کے شعبے میں ساڑھے چھ لاکھ ہیکٹیئر کا اضافہ کرنے کا ہے۔ اس کے لیے حکومت ہند کاشتکاروں کو ہر سطح پر مدد دے رہی ہے۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کے کاشتکاروں کے لیے بھی یہ مشن بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ مجھے بتایا گیا ہے، تلنگانہ کے کاشتکاروں نے پام آئل کی پلانٹیشن سے وابستہ بڑے نصب العین طے کیے ہیں۔ ان کو تعاون فراہم کرنے کےلیے مرکزی حکومت ہر ممکن مدد کرے گی۔ ساتھیو، گذشتہ چند برسوں میں بھارت م��ں پوسٹ ہارویسٹ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں 35 ملین ٹن کی کولڈ چین اسٹوریج صلاحیت تیار کی گئی ہے۔ حکومت نے جو ایک لاکھ کروڑ روپئے کا زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ بنایا ہے، اس کی وجہ سے بھی پوسٹ ہارویسٹ بنیادی ڈھانچہ کی تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ آج بھارت اہم میں ایف پی او اکائیوں اور زرعی ویلیو چین قائم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ملک کے چھوٹے کاشتکاروں کو ہزاروں ایف پی او میں منظم کرکے ہم انہیں ایک بیدار اور بڑی مارکیٹ طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ ساتھیو، بھارت کے نیم بنجر علاقوں میں کام کرنے کا اکری سیٹ کے پاس ایک زبردست تجربہ ہے۔ اس لیے نیم بنجر علاقوں کے لیے ہمیں مل کر کاشتکاروں کو جوڑ کر ہمہ گیر اور متنوع پیداواری نظام قائم کرنا ہوگا۔ اپنے تجربات کو مشرقی اور جنوبی افریقہ کے ممالک کے ساتھ ساجھا کرنے کے لیے ایکسچینج پروگرام بھی شروع کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارا ہدف محض اناج کی پیداوار میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ آج بھارت کے پاس اضافی غذائی اجناس ہے، جس کے بل بوتے پر ہم دنیا کا اتنا بڑا خوراک سلامتی پروگرام چلا رہے ہیں۔ اب ہم خوراک سلامتی کے ساتھ ساتھ تغذیائی سلامتی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اسی تصوریت کے ساتھ گذشتہ 7 برسوں میں ہم نے متعدد بایو فورٹیفائیڈ ویرایٹیز تیار کی ہیں۔ اب اپنی کھیتی کو متنوع بنانے کے لیے، خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ پیداواریت کے لیے، بیماریوں اور کیڑوں سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے والی لچک دار اقسام پر ہمیں زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔ ساتھیو، اکری سیٹ، آئی سی اے آر اور زرعی یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر ایک اور پہل قدمی پر کام کر سکتا ہے۔ یہ شعبہ ہے حیاتیاتی ایندھن کا۔ آپ تو میٹھے سرغو پر کام کرتے رہے ہیں۔ آپ ایسے بیج تیار کر سکتے ہیں جس سے خشک سالی سے متاثر کاشتکار، یا کم زمین والے کاشتکار زیادہ حیاتیاتی ایندھن فراہم کرنے والی فصلیں اُگا سکیں۔ بیچوں کی مؤثر ڈلیوری کیسے ہو، ان کے تئیں یقین کیسے پید اہو، اس کے لیے بھی ہمیں مل کر ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھیو، میرا یقین ہے کہ آپ جیسے اختراعی اذہان کی مدد سے، عوامی شراکت داری سے، اور معاشرے کی عہدبستگی سے ہم زراعت سے وابستہ تمام چنوتیوں پر فتح حاصل کر پائیں گے۔ بھارت اور دنیا کے کاشتکاروں کی زندگی بہتر بنانے میں آپ زیادہ اہل ہو، بہتر سے بہتر تکنیکی حل فراہم کرتے رہیں، اسی امید کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اکری سیٹ کو اس اہم موقع پر، ان کے شاندار ماضی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے، روشن مستقبل کی امید کرتے ہوئے، ملک کے کاشتکاروں کی شان و شوکت کے طور پر آپ کی کوششیں کام آئیں، اس کے لیے میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت مبارکباد! شکریہ!,তেলেংগানাৰ হায়দৰাবাদত ICRISAT ৰ ৫০ তম বাৰ্ষিকী উদযাপনৰ শুভাৰম্ভণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D8%AF%D9%90%D9%88%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,ملک کے مختلف کونے سے یہاں کیوڈیا کے اس ایکتا نگر میں آئے پولیس دستہ کے ساتھی، این سی سی کے نوجوان، فن سے جڑے ہوئے تمام آرٹسٹ اور ملک کے مختلف حصوں میں ایکتا دوڑ (رن آف یونٹ) میں شامل ہورہے تمام شہ��ی بھائی بہن، ملک کے سبھی اسکولوں کے طلبا و طالبات، دیگر حضرات ات اور تمام ہم وطنو، میں ایکتا نگر میں ہوں، لیکن میرا من موربی کے متاثرین سے جڑا ہوا ہے۔ شاید ہی زندگی میں بہت کم ایسا درد میں نے محسوس کیا ہوگا۔ ایک طرف درد سے بھرا غمزدہ دل ہے اور دوسری طرف ذمہ داری اور فرائض کا راستہ ہے۔ فرائض کے اس راستے کی ذمہ داریوں کو لیتے ہوئے میں آپ کے درمیان میں ہوں لیکن غم سے بھرا دل ، ان متاثرہ خاندانوں کے درمیان میں ہے۔ حادثے میں جن لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے، میں ان کے اہل خانہ کے تئیں اپنی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ دکھ کی اس گھڑی میں سرکار ہر طرح سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے۔ گجرات سرکار پوری طاقت سے، کل شام سے ہی راحت اور بچاؤ کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے بھی ریاستی حکومت کو پوری مدد دی جارہی ہے۔ بچاؤ کے کام میں این ڈی آر ایف کی ٹیموں کو لگایا گیا ہے۔ فوج اور فضائیہ بھی راحت کے کام میں لگی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کا اسپتال میں علاج چل رہا ہے وہاں بھی پوری مستعدی برتی جارہی ہے۔ لوگوں کی دقتیں کم سے کم ہوں، اسے ترجیح دی جارہی ہے۔ حادثے کی خبر ملنے کے بعد ہی گجرات کے وزیراعلی جناب بھوپیندر بھائی رات کو ہی موربی پہنچ گئے تھے۔ کل سے ہی وہ راحت اور بچاؤ کے کاموں کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت کی طرف سے اس حادثے کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی بھی بنادی گئی ہے۔ میں ملک کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ راحت اور بچاؤ کے کاموں میں کوئی کمی نہیں آنے دی جائے گی۔ آج راشٹریہ ایکتا دوس کا یہ موقع کا بھی ہمیں متحد ہوکر اس مشکل گھڑی کا سامنا کرنے، فرائض کے راستے پر بنے رہنے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں سردار پٹیل کا صبر و تحمل، ان کی تیزی سے سیکھ لیتے ہوئے ہم کرتے رہے، آگے بھی کرتے رہیں گے۔ ساتھیو، سال 2022 میں راشٹریہ ایکتا دوس کے بہت ہی خاص موقع کے طور پر میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ یہ وہ سال ہے ، جب ہم نے اپنی آزادی کے 75 سال پورے کئے ہیں۔ ہم نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج ایکتا نگر میں یہ جو پریڈ ہوئی ہے، ہمیں اس بات کا احساس بھی دلا رہی ہے کہ جب سب ایک ساتھ چلتے ہیں، ایک سات آگے بڑھتےہیں، تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ آج یہاں ملک بھر سے آئے کچھ آرٹسٹ ثقافتی پروگرام بھی کرنے والے تھے۔ بھارت کے مختلف رقص کو بھی پرفام کرنے والے تھے لیکن کل کا حادثہ اتنا افسوسناک تھا کہ آج کے اس پروگرام میں سے اس پروگرام کو ہٹا دیا گیا۔ میں ان سبھی فن کاروں سے، ان کا یہاں تک آنا، انہوں نے جو پچھلے دنوں محنت کی ہے لیکن آج ان کو موقع نہیں ملا ۔ میں ان کے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں لیکن کچھ حالات ایسے ہی ہیں۔ ساتھیو، یہ اتحاد، یہ شائستگی، فیملی، سماج، گاؤں، ریاست اور ملک، ہر سطح پر ضروری ہے اور اس کے درشن آج ہم ملک کے کونے کونے میں کر بھی رہے ہیں۔ آج ملک بھر میں 75 ہزار ایکتا دوڑ (رن فار یونٹی) ہورہی ہے، لاکھوں لوگ جڑ رہے ہیں۔ ملک کا ہر ایک آدمی مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قوت ارادی سے حوصلہ حاصل کررہا ہے۔ آج ملک کا ہر ایک آدمی امرت کال کے ’پنچ پرنوں‘ کو بیدار کرنے کے لئے قوم کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے عزم کررہا ہے۔ ساتھیو، راشٹریہ ایکتا دوس، یہ موقع کیوڈیا- ایکتا نگر کی یہ سرزمین، اور اسٹیچو آف یونٹی، ہمیں یہ احساس مسلسل دلاتے ہیں کہ آزادی کے وقت اگر بھارت کے پاس سردار پٹیل جیسی قیادت نہیں ہوتی تو کیا ہوتا؟ کیا ہوتا گر ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ریاستیں متحد نہیں ہوئی ہوتیں؟ کیا ہوتا اگر ہمارے زیادہ راجے رجواڑے قربان کا جذبہ نہیں دکھاتے، مادر وطن میں عقیدہ نہیں دکھاتے؟ آج ہم جیسا بھارت دیکھ رہے ہیں، ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ مشکل ، یہ ناممکن کام، صرف اور صرف سردار پٹیل نے ہی مکمل کیا۔ ساتھیو، سردار صاحب کا یوم پیدائش اور’راشٹریہ ایکتا دوس‘ یہ ہمارے لئے صرف تاریخ بھر نہیں ہے۔ یہ بھارت کی ثقافتی صلاحیت کا ایک بڑا جشن بھی ہے۔ بھارت کے لئے اتحاد کبھی بھی مجبوری نہیں رہا ہے۔ بھارت کے لئے اتحاد ہمیشہ سے ایک خصوصیت رہی ہے۔ اتحاد ہماری خاصیت رہی ہے۔ اتحاد کا جذبہ ہندوستان کے شہریوں میں، ہمارے دل میں اتنا رچا بسا ہے، اپنی اس خوبی کا اکثر احساس نہیں ہوتا ہے، کبھی کبھی اوجھل ہوجاتا ہے ۔ لیکن آپ دیکھئے جب بھی ملک میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو پورا ملک ایک ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ آفت شمال میں ہو یا جنوب میں، مشرق میں ہو یا مغربی حصے میں، یہ معنی نہیں رکھتا ہے، پورا بھارت متحد ہوکر، خدمت، تعاون اور جذبے کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ کل ہی دیکھ لیجئے نا موربی میں حادثہ ہوا، اس کے بعد ہر ایک شہری حادثے کا شکار ہوئے لوگوں کی حفاظت کے لئے دعا کررہا ہے۔ مقامی لوگ حادثے کی جگہ پر، اسپتالوں میں، ہر ممکن مدد کے لئے خود آگے آرہے تھے۔ یہی تو اتحاد کی طاقت ہے۔ کورونا کی اتنی بڑی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ تالی، تھالی کے جذباتی اتحاد سے لے کر راشن، دوائی اور ویکسن کے تعاون تک ملک ایک فیملی کی طرح آگے بڑھا۔ سرحد پر یا سرحد کے پار جب بھارت کی فوج بہادری دکھاتی ہے تو پورے ملک میں ایک جیسے جذبات ہوتے ہیں، ایک جیسا جذبہ ہوتا ہے۔ جب اولمپکس میں بھارت کے نوجوان ترنگے کی شان بڑھاتے ہیں تو پورے ملک میں ایک جیسا جشن منایا جاتا ہے۔ جب ملک کرکٹ کا میچ جیتتا ہے تو ملک میں ایک جیسا جنون ہوتا ہے۔ ہمارے جشن کے ثقافتی طور طریقے الگ الگ ہوتے ہیں لیکن جذبہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ملک کا یہ اتحاد، یہ یکجہتی، ایک دوسرے کے لئے یہ اپنا پن، یہ بتاتا ہے کہ ملک کے طور پر بھارت کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اور ساتھیو، بھارت کا یہی اتحاد ہمارے دشمنوں کو کھٹکتا ہے۔ آج سے نہیں بلکہ سینکڑوں برسوں پہلے غلامی کے لمبے دور میں بھی بھارت کا اتحاد ہمارے دشمنوں کو چبھتا رہا ہے۔ اس لئے غلامی کے سینکڑوں برسوں میں ہمارے ملک میں جتنے بھی بیرونی حملہ آور آئے، انہوں نے بھارت میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے بھات کو بانٹنے کے لئے، بھارت کو توڑنے کے لئے سب کچھ کیا۔ ہم پھر بھی اس کا مقابلہ کرسکے، کیونکہ اتحاد کا امرت ہمارے اندر موجود تھا، تازہ موج کی طرح بہہ رہا تھا لیکن وہ دور لمبا تھا۔ جو زہر اس دور میں گھولا گیا، اس کا نقصان ملک آج بھی برداشت کررہا ہے۔ اس لئے ہم نے بٹوارہ بھی دیکھا اور بھارت کے دشمنوں کو اس کا فائدہ اٹھاتے بھی دیکھا۔ اس لئے ہمیں آج بہت ہوشیار بھی رہنا ہے، ماضی کی طرح ہی، ہندوستان کی ترقی اور عروج سے پریشان ہونے والی طاقتیں آج بھی موجود ہیں۔ وہ آج بھی ہمیں توڑنے کی، ہمیں باٹنے کی ہر کوشش کرتی ہیں۔ ہمیں ذاتوں کے نام پر لڑانے کے لئے طرح طرح کے نیریٹیو گڑھے جاتے ہیں۔ صوبوں کے نام پر ہمیں بانٹنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کبھی ایک ہندوستانی زبان کو دوسری ہندوستانی زبان کا دشمن بتانے کے لئے کیمپین چلائے جاتے ہیں۔ تاریخ کو بھی اس طرح پیش کیا جاتا ہے تاکہ ملک کے لوگ جڑے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے دور ہوں۔ اور بھائیو، ��ہنو، ایک اور بات ہمارے لئے دھیان رکھنی ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ملک کو کمزور کرنے والی طاقت ہمیشہ ہمارے کھلے دشمن کے طور پر ہی آئے۔ کئی بار یہ طاقت غلامی کی ذہنیت کے طور پر ہمارے اندر گھر کر جاتی ہے۔ کئی بار یہ طاقت ہمارے ذاتی مفادات کے ذریعہ نقب لگاتی ہے۔ کئی بار یہ کسی کو خوش کرنے کے طور پر ، کبھی اقربا پروری کے طور پر، کبھی لالچ اور بد عنوانی کے طور پر دروازے پر دستخط دے دیتی ہے، جو ملک کو بانٹتی اور کمزور کرتی ہے لیکن ہمیں انہیں جواب دینا ہوگا۔ ہمیں جواب دینا ہوگا – بھارت ماں کی ایک سنتان کے طور پر ۔ ہمیں جواب دینا ہوگا- ایک ہندوستانی کے طور پر۔ ہمیں متحد رہنا ہوگا، ایک ساتھ رہنا ہوگا۔ اختلاف کے زہر کا جواب ہمیں اتحاد کے اسی امرت سے دینا ہے۔ یہی نئے بھارت کی طاقت ہے۔ ساتھیو، آج راشٹریہ ایکتا دوس پر ، میں سردار صاحب کے ذریعہ ہمیں سونپی ذمہ داری کو پھر سے دہرانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہمیں یہ ذمہ داری بھی دی تھی کہ ہم ملک کے اتحاد کو مضبوط کریں، ایک قوم کے طور پر ملک کو مضبوط کریں۔ یہ اتحاد تب مضبوط ہوگا جب ہر شہری ایک جیسے ذمہ داری کے احساس سے اس ذمہ داری کو سنبھالے گا۔ آج ملک اسی ذمہ داری کے احساس سے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ، اس متر کو لے کر ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ملک میں ہر کونے میں، ہر گاؤں میں، ہر طبقے کے لئے اور ہر آدمی کے لئے بغیر بھید بھاؤ کے ایک جیسی پالیسیاں پہنچ رہی ہیں۔ آج اگر گجرات کے سورت میں عام لوگوں کو مفت ویکسین لگ رہی ہے تو اروناچل کے سیانگ میں بھی اتنی ہی آسانی سے مفت ویکسین دستیاب ہے۔ آج اگر ایمس گورکھپور میں ہے تو بلاسپور، دربھنگہ اور گوہاٹی اور راج کوٹ سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہے۔ آج ایک طرف تمل ناڈو میں ڈیفنس کوریڈور بن رہا ہے تو اترپردیش میں بھی ڈیفنس کوریڈور کا کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آج نارتھ ایسٹ کے کسی باورچی خانے میں کھانا بن رہا ہو یا تمل ناڈو کی کسی ’سمیئل ارئی‘ میں کھانا بن رہا ہو، زبان بھلے الگ ہو، کھانا بھلے الگ ہو، لیکن ماؤں بہنوں کو دھوئیں سے نجات دلانے والا اجولا سلینڈر ہر جگہ ہے۔ ہماری جو بھی پالیسیاں ہیں، سب کی نیت ایک ہی ہے- آخری پائیدان پر کھڑے شخص تک پہنچنا، اسی ترقی کے مرکزی دھارے سے جوڑنا۔ ساتھیو، ہمارے ملک کے کروڑوں لوگوں نے کئی دہائیوں تک اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی لمبا انتظار کیا ہے۔ بنیادی سہولیات کے درمیان کی خلیج، جتنی ہم ہوگی، اتنا ہی اتحاد بھی مضبوط ہوگا۔ اس لئے آج ملک میں سیچوریشن کے اصول پر کام ہورہا ہے۔ مقصد یہ کہ ہر اسکیم کا فائدہ ، ہر استفادہ کرنے والے تک پہنچے، اس لئے آج ہاؤسنگ فار آل، ڈیجیٹل کنکٹی وٹی فار آل، کلین کوکنگ فار آل، الیکٹری سٹی فار آل، ایسی کئی مہم چلائی جارہی ہیں۔آج سو فیصد شہریوں تک پہنچنے کا یہ مشن صرف ایک جیسی سہولیات کا ہی مشن نہیں ہے، یہ مشن متحدہ ہدف،متحدہ ترقی اور متحدہ کوشش کابھی مشن ہے۔ آج زندگی کی بنیادی ضرورتوں کےلئے سو فیصد کوریج ملک اور آئین میں عام انسانوں کے اعتماد کا ذریعہ بن رہا ہے۔ یہ عام انسانوں کی خود اعتمادی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ یہی سردار پٹیل کے بھارت کا وژن ہے، جس میں ہر ہندوستانی کے لئے یکساں مواقع ہوں گے، برابری کا جذبہ ہوگا۔ آج ملک اس وژن کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ ساتھیو، گزشتہ 8 برسوں میں ملک نے ہر اس سماج کو ترجیح دی ہے جسے دہائیوں تک اندیکھی کا شکار ہونا پڑا تھا۔ ��سی لئے ملک نے آدیواسیوں کے امتیاز کو یاد کرنے کے لئے جن جاتیہ گورو دوس منانے کی روایت شروع کی ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں جنگ آزادی میں آدیواسیوں کے رول کو لے کر میوزیم بھی بنائے جارہے ہیں۔ کل میں مان گڑھ جانے والا ہوں۔ اس کے بعد میں جامبو گھوڑا بھی جاؤں گا۔ میری ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ مان گڑھ دھام اور جامبو گھوڑا کی تاریخ کو بھی ضرور جانیں۔ بیرونی حملہ آوروں کے ذریعہ کئے گئے کتنے ہی قتل عام کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں آزادی ملی ہے، آج کی نو جوان نسل کو یہ سب جاننا بھی بہت ضروری ہے، تبھی ہم آزادی کی قیمت سمجھ پائیں گے، اتحاد کی قیمت بھی جان پائیں گے۔ ساتھیو، ہمارے یہاں کہا بھی گیا ہے: ऐक्यं बलं समाजस्य तद्भावे स दुर्बलः। तस्मात् ऐक्यं प्रशंसन्ति दृढं राष्ट्र हितैषिणः॥ یعنی کسی بھی سماج کی طاقت اس کا اتحاد ہوتا ہے۔ اسی لئے مضبوط قوم کے خواہش مند اتحاد کے اس جذبے کی تعریف کرتے ہیں، اس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ملک کا اتحاد اور یکجہتی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ ایکتا نگر، بھارت کا ایک ایسا ماڈرن شہر تیار ہورہا ہے جو ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مثالی ہوگا۔ لوگوں کے اتحاد سے، عوامی حصے داری کی طاقت سے تیار ہوتا ایکتا نگر، آج شاندار بھی ہورہا ہے اور ظاہر بھی ہورہا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی کے طور پر دنیا کے سب سے بڑے مجسمہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مستقبل میں ایکتا نگر بھارت کا ایک ایسا شہر بننے جارہا ہے جو غیر معمولی بھی ہوگا اور ناقابل یقین بھی ہوگا۔ جب ملک میں ماحولیات کی حفاظت کے لئے کسی ماڈرن شہری کی بات ہوگی، ایکتا نگر کا نام آئے گا۔ جب ملک میں بجلی بچانے والے ایل ای ڈی سے روشن کسی ماڈرن شہر کی بات ہوگی، سب سے پہلے ایکتا نگر کا نام آئے گا۔ جب ملک میں سولر پاور سے چلنے والے کلین ٹرانسپورٹ سسٹم کی بات آئے گی تو سب سے پہلے ایکتا نگر کا نام آئے گا۔ جب ملک میں چرندو پرند کی حفاظت کی بات ہوگی، مختلف قسم کے جانداروں کے تحفظ کی بات ہوگی تو سب سے پہلے ایکنا نگر کا نام آئے گا۔ کل ہی مجھے یہاں میاواکی فاریسٹ اور میز گارڈن کا افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہاں کا ایکتا مال، ایکتا نرسری کثرت میں وحدت کو ظاہر کرنے والا وشو ون، ایکتا پھیری، ایکتا ریلوے اسٹیشن، یہ سارے انتظامات قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کی طاقت ہیں۔ اب تو ایکتا نگر میں ایک اور نیا ستارہ بھی جرنے جارہا ہے۔ آج میں اس بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اور ابھی جب ہم سردار صاحب کو سن رہے تھے، انہوں نے جس جذبے کا اظہار کیا، اس جذبے کی اس میں ترجمانی ہم کررہے ہیں۔ آزادی کے بعد ملک کے اتحاد میں سردار صاحب نے جو رول نبھایا،اس میں بہت بڑا تعاون ملک کے راجے رجواڑےنے بھی کیا تھا۔ شاہی خاندانوں نے صدیوں تک اقتدار سنبھالا، ملک کے اتحاد کے لئے ایک نئے نظام میں انہوں نے اپنے اختیارات کو ذمہ داری کے احساس سے وقف کردیا۔ ان کے اس تعاون کی آزادی کے بعد دہائیوں تک اندیکھی ہوئی ہے۔اب ایکتا نگر میں ان شاہی خاندانوں کے ، ان شاہی نظام کی قربانی کو وقف ایک میوزیم بنایا جائے گا۔ یہ ملک کے اتحاد کے لئے قربانی کی روایت کو نئی نسلوں تک پہنچائے گا، اور میں گجرات سرکار کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس سمت میں کافی گراؤنڈ ورک پورا کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سردار صاحب کی مثال قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل ہم سب کی رہنمائی کرے گی۔ ہم سب مل کر طاقتور بھارت کا خ��اب پورا کریں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں آپ سب سے اپیل کروں گا ، میں جب کہوں گا سردار پٹیل- آپ دو بار بولیں گے، امر رہے ، امر رہے۔ سردار پٹیل- امر رہے، امر رہے۔ سردار پٹیل- امر رہے، امر رہے۔ سردار پٹیل- امر رہے، امر رہے۔ بھارت ماتا کی- جے، بھارت ماتا کی- جے، بھارت ماتا کی- جے، بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ق ت۔ ن ا۔,"গুজৰাটৰ কেভাদিয়াত ৰাষ্ট্ৰীয় একতা দিৱস পেৰেড, ২০২২ ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%84-%D8%AC%DB%8C%D9%88%D9%86-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D8%A2%D8%AC-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%B2-%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B1%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%A8%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A6%95/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ جل جیون مشن آج ملک ککی ترقی کو نئی تحریک دے رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ گذشتہ تین برسوں سے کم وقت میں جس طرح کروڑوں گھروں میں پانی پہنچا ہے، وہ عوام کی خواہشات اور عوامی شراکت داری ایک بڑی مثال ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’جل جیون مشن آج ملک کی ترقی کو ایک نئی تحریک دے رہا ہے۔ پچھلے 3 برسوں سے بھی کم وقت میں جس طرح کروڑوں گھروں میں نل کے ذریعے پانی پہنچا ہے، وہ عوام کی خواہشات اور عوامی شراکت داری کی ایک بڑی مثال ہے‘‘,জল জীৱন মিছনে দেশৰ বিকাশক নতুন গতি প্ৰদান কৰিছে: প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B5%D9%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,نئی دہلی ،3اکتوبر :عالیجناب ،اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انٹونیوگوٹیرس ، صفائی ستھرائی کے عہدبندگی میں ساتھ دینے کے لئے دنیا بھرسے آئے ہوئے مختلف ممالک کے معززوزرأ ، کابینہ کی رفقائے کارسشماجی ، اوما بھارتی جی ، ہردیپ پوری ، رمیش جی ، ملک اوردنیابھرسے آئے خصوصی مہمان ، بھائیواوربہنو، بھارت میں ، لائق صداحترام باپوکی اس سرزمین میں آپ سب کا دل سے بہت بہت خیرمقدم ہے ۔ سواسو کروڑہندوستانیوں کے طرف سے آپ سبھی کو نمسکار۔صفائی ستھرائی جیسے اہم موضوع پراپنی عہد بندگی اور اس عہد بندگی کو مجموعی طورپرانسانی برادری کے سامنے پیش کرنا ، ترغیب کرنے کا اور اس کے لئے آپ سبھی عالمی رہنماؤں ، صفائی اور ہمہ گیرترقی سے جڑی دنیا کی عظیم ہستیوں کے درمیان ، آپ سب کے درمیان ہونا میرے لئے ایک بہت خوش نصیبی کا لمحہ ہے ۔ مہاتماگاندھی بین الاقوامی صفائی کنونشن میں حصہ لینے اور اپنے ممالک کے تجربات کو ساجھاکرنے کے لئے اورایک طرح سے اس چوٹی کانفرنس کو اپنے تجربے سے ، اپنے خیالات سے ، اپنے نظریات سے کامیاب بنانے کے لئے میں آپ کا بہت بہت ممنون ہوں ۔ آج جب دنیا متعدد چیلنجوں سے گذررہی ہے ، تب انسانیت سے جڑے ایک اہم موضوع پراتنے ممالک کا یکجاہوا ، اس پر غوروفکرکرنا اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی واقعہ ہے ۔ آج کا یہ اجلاس عالمی صفائی ستھرائی کے سمت میں میرایقین ہے کہ آپ سب نے جو وقت دیاہے ، آپ سب شریک ہوئے ہیں ، یہ موقع آنے والے دنو ں میں انسانی مفاد کے ساتھ جڑا ہوا ایک میل کا پتھرثابت ہونے جارہاہے ۔ ساتھیو، آج ہی ہم مہاتماگاندھی کے 150ویں یوم ولادت سال میں ، اور 150سال پورے عالم میں بڑے پیمانے پرمنانے کے سمت میں ہم قدم رکھ رہے ہیں ۔ لائق صداحترام باپو کو میں سبھی کی طرف سے صد احترام خراج عقیدت پیش کرتاہوں ۔ اورمیں دیکھتاہوں کہ لائق صداحترام باپو کا خواب صفائی سے عہد کا تھا۔ اور آج اس صفائی سے جڑے الگ الگ بڑے تجربوں کا عمل کرنے کا موقع ملا توایک طرح سے خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ ان پرعملی طورپرحصہ لینے کا بھی موقع نصیب ہوا۔ آپ سب نے بھی باپوکے آشرم میں بھی گذاراایک دن ۔ سابرمتی کے کنارے پر، جہاں لائق صد احترام باپونے ملک کی آزادی کی جنگ کے لئے تیارکیاتھا ۔ وہاں کی سادگی ، وہاں کے جیون کو اپنے نزدیک سے دیکھاہے ۔ مجھے یقین ہے کہ باپو کے خیالات ہی صفائی کے مشن کے ساتھ جڑے لوگوں کے لئے ایک نئی توانائی ، نئی بیداری، نئی ترغیب کا لازمی ایک عنصربنے ہوں گے ۔ اوریہ بھی بہت بامعنی ہے کہ آج ہی ہم مہاتماگاندھی بین الاقوامی صفائی کنونشن کے اس اجلاس کے اختتام کے موقع پراکٹھاہوئے ہیں ۔ کچھ وقت پہلے مجھے یہاں کچھ سوچھ گرہیوں کی عزت افزائی اورانعام دینے کا موقع ملا۔ میں سبھی انعام پانے والوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتاہوں ، لائق صد احترام اماں کو خاص طورسے سلام کرتاہوں ، کیونکہ جب سے اس کام کو شروع کیا، لائق صد احترام اماں نے جوش کے طورپر، اس پوری مہم کو اپنے کاندھے پرلے لیا ۔ ایسے متعدد بے شمارلوگوں نے ایسے عظیم مردوں کے ، انسانوں کے ، بڑے لوگوں کے ، منیشیوں کی زندگی سے ترغیب پاکرکے آج اس صفائی کی مہم کو عوامی تحریک بنادیا، ایک بہت بڑی طاقت بنادی ۔ میں ان سب کوبھی آج اس اسٹیج سے سلام کرتاہوں ۔ ساتھیوں ، آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے گاندھی جی نے ایک بارکہاتھا کہ وہ آزادی اور صفائی میں سے اگرکوئی پوچھے گا تو صفائی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ گاندھی جی ، جس نے آزادی کی جنگ کے لئے ایک عمرگنوادی ،لیکن انھوں نے آزادی اور صفائی میں سے صفائی کوترجیح دینے کا عہد کیاتھا۔ انھوں نے 1945میں اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ عطاکیاتھا ، لکھاتھا اوراس اشاعت ورژن میں انھوں نے تعمیری پروگرام کے روپ میں اس کوپیش کیاتھا۔ میں نے جن ضروری باتوں کا ذکرکیاتھا ، ان میں مہاتماگاندھی کے اس ڈاکومنٹ میں دیہی صفائی بھی ایک اہم پہلوتھا۔ سوال یہ ہے کہ آخرگاندھی جی بار بارصفائی پراتنا زورکیوں دے رہے تھے ؟کیاصرف اس لئے کہ گندگی سے بیماریاں ہوتی ہیں ؟میری روح کہتی ہے ، نہیں۔ اتنا محدود مقصد نہیں تھا۔ ساتھیو، اگرآپ بہت باریکی سے غورکریں گے ، تصورکریں گے ، توپائیں گے کہ جب ہم میل کو ، گندگی کو دورنہیں کرتے تووہی میل ہم میں حالات کو قبول کرنے کی روایت پیداکرنے کی وجہ بن جاتا ہے ، ویسی ہی روایت قائم ہونے لگتی ہے ۔کوئی چیز گندگی سے گھری ہوئی ہے ، اور وہاں پرموجود انسان اگراسے بدلتانہیں ہے ، صاف صفائی نہیں کرتاہے توپھردھیرے دھیرے وہ اس گندگی کو قبول کرنے لگ جاتاہے ۔ کچھ وقت بعد ایسی صورت حال ہوجاتی ہے ، ایسی دل کی حالت ہوجاتی ہے کہ وہ گندگی اسے گندگی لگتی ہی نہیں ہے ۔یعنی ایک طرح سے میل انسان کی بیداری کو ، اس کے نظریاتی عمل میں بس جاتا ہے ، جکڑلیتا ہے ۔ اب اس کے برعکس دوسری صورت حال کے بارے میں غورکیجئے ، جب انسان گندگی کوقبول نہیں کرتا ، اسے صاف کرنے کے لئے کوشش کرتاہے تو اس کی بیداری بھی مہمیز ہوجاتی ہے ۔ اس میں ایک عادت آتی ہے کہ وہ حالات کو ایسے ہی قبول نہیں کریگا ۔ لائق صداحترام باپونے صفائی کو جب عوامی تحریک میں تبدیل کیا ، تواس کے پیچھے جو ایک دلی جذبہ ، وہ دلی جذبہ بھی انسان کی اس ذہنیت کو بدلنے کاتھا۔ جمود سے حرکت کی جانب بڑھنے کا اوروہ جمود کوختم کرنے کے لئے بیداری ، یہی توان کی کوشش تھی ۔ جب ہم بھارتیوں میں یہی بیداری پیداہوئی توپھراس آزادی کی تحریک جیسا اثرہم نے دیکھا اور ملک آزاد ہوا۔ آج میں آپ کے سامنے ، دنیا کے سامنے یہ تسلیم کرتاہوں کہ اگرہم بھارت کے لوگ اور میرے جیسے متعدد لوگ لائق صد احترام باپوکے نظریات سے واقف نہ ہوئے ہوتے، ان کے درشن کوجاننے سمجھنے کی ایک طالب علم کی حیثیت سے کوشش نہ کی ہوتی ، انھوں نے کہی باتوں کو دنیا کو دے کرکے تولانہ ہوتا، اسے سمجھانہ ہوتا ، توشاید کسی حکومت کے لئے یہ پروگرام ترجیح کا باعث نہ ہوتا۔ آج یہ ترجیح کے باعث اس لئے بنا، ہم نے 15اگست کو لال قلعے پرسے اس بات کوکرنے کا من اس لئے کرلیاکیونکہ گاندھی جی کے خیالوں ، اصولوں کا من پرایک اثرتھا۔ اوریہی وجہ ہے کہ جو اس کام کے لئے بغیرکسی اختلاف کے صدہا لوگوں کو ترغیب دے رہاہے ، جوڑرہاہے ۔ آج مجھے فخرہے گاندھی جی کے دکھائے راستے پرچلتے ہوئے سواسوکروڑہندوستانیوں نے شفاف بھارت ابھیان کو دنیا کی سب سے بڑ ی تحریک بنادیاہے ۔ اسی انسانی جذبہ کا نتیجہ ہے کہ 2014سے پہلے دیہی صفائی کا جو دائرہ تقریباً38فیصد ی تھا ، وہ آج 94فیصد ہوچکاہے ۔ چارسال میں 38فیصد سے 94فیصد پرپہنچنا ، یہ عام انسان کی ذمہ داریوں کو جڑنے کی سب سے کامیاب مثال ہے ۔ بھارت میں کھلے میں رفع حاجت سے نجات (ODF)دیہاتوں کی تعداد آج 5لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ۔ بھارت کے 25صوبے خود کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرااعلان کرچکے ہیں ۔ ساتھیو،چارسا ل قبل کھلے میں رفع حاجت والی عالمی آبادی کا 60فیصد حصہ ہندوستان میں تھا۔ آج یہ 60فیصد سے کم ہوکر20فیصد سے بھی کم ہوچکاہے ۔ یعنی ایک طرح سے ہماری یہ محنت عالمی نقشے میں بھی ایک نیاجوش ، نئی امنگ پیداکررہی ہے اوربڑی بات یہ بھی ہے کہ ان چاربرسوں میں صرف بیت الخلأ ہی نہیں بنے ، دیہات ، شہر،اوڈی ایف سے پاک ہی نہیں بلکہ 90فیصد سے زائد بیت الخلأ کا مستقل طورپراستعمال ہورہاہے ۔ حکومت لگاتار اس بات کا بھی جائزہ لے رہی ہے کی جو دیہات۔ شہرخود کو او ڈی ایف سے پاک ہونے کا اعلان کررہے ہیں ، وہ پھرسے پرانی عادت کی طرف نہ لگ جائیں ۔ اس کے لئے مزاجی تبدیلی ، اوروہی سب سے بڑاکام ہوتاہے ، اس پرلگاتارزوردیاجارہاہے ۔ اس پرانویسٹ منٹ کیاجارہاہے ۔ ساتھیو، جب ہم نے یہ تحریک شروع کی تھی ، تب یہ بھی سوال اٹھاتھا کہ اس کے لئے بہت پیسہ خرچ کرنا پڑیگا۔ لیکن پیسے سے زیادہ حکومت ہند نے اس معاشی تبدیلی کو ترجیح دی ، اس کی اہمیت پرزوردیااور اگردل کی حالت پلٹتی ہے توحقیقت میں حالت پلٹنے کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں رہتی ہے ، لوگ اپنے آپ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ آج میں سنتاہوں ، دیکھتاہوں کہ شفاف بھارت تحریک نے بھارت کے لوگوں کا مزاج بدل دیاہے ۔ کس طرح سے بھارت کے دیہاتوں میں بیماریاں کم ہوئی ہیں ۔ علاج پرہونے والاخرچ کم ہواہے ۔ اورجب ایسی خبرملتی ہے تو کتنا سکون ملتاہے ۔ اقوام متحدہ سے جڑی الگ الگ تنظیموں نے مطالعہ بھی کیاہے اورمطالعہ میں بھی اس تحریک کے نئے نئے زاویے کودنیا کے سامنے مطالعہ کے ذریعہ انھوں نے ظاہرکیاہے ۔ بھائیواوربہنو، کروڑوں ہندوستانیوں نے اس تحریک کو امید اور تبدیلی کا نشانہ بنادیاہے ۔ سوچھ بھارت ابھیان آج دنیا کا سب سے بڑا ڈومینوافیک�� ثابت ہورہاہے ۔ ساتھیو، آج مجھے اس بات کا بھی فخرہے کہ سوچھ بھارت مشن کی وجہ سے بھارت صفائی کے نزدیک ، اپنے قدیم طرز حیات کے نزدیک بیدارہواہے ۔ سوچھتاسے یہ سنسکارہماری پرانی روایت ، تہذیب اورفکر میں پوشیدہ ہے ،خرابیاں بعد میں آئی ہیں ۔انسان کی زندگی جینے کا صحیح طریقے کے وضاحت کرتے وقت اشٹانگ یوگ کے بارےمیں مہارشی پتانجلی نے کہاتھا: ‘شوچ سنتوش تپ سوادھیائے ایشورپرنی دھان نی نیم’ مطلب، خوشحال زندگی گذارنے کے پانچ اصول ہیں :انفرادی طورپرصفائی ستھرائی ، توکل ، ریاضت ، ازخود اپنا محاسبہ اورخدا کی قدرت کا احساس ۔ان میں سے بھی ، ان پانچوں میں بھی سب سے پہلااصول صفائی ، یہ پتانجلی نے وکالت کی ۔خدا کی عبادت اور ریاضت بھی صفائی کے بعد ہی ممکن ہے ۔ ابھی جب میں اس ہال میں آرہاتھا ، توعالیجناب محترم انٹونیوگوٹریس کے ساتھ مجھے نمائش دیکھنے کا موقع ملاتھا۔ اس میں دکھایاگیاہے کہ کس طرح سندھ گھاٹی سبھیتا میں بیت الخلا کی ، سیوریج کا کتنا عمدہ انتظام تھا۔ ساتھیو،عالیجناب انٹونیوگوٹریس کی رہنمائی میں اقوام متحدہ ہمہ گیرترقیاتی نشانے حاصل کرنے کی طرف آگے بڑھ رہاہے ۔ اس کے تحت 2030تک دنیا میں سوچھتا ، کھلے میں رفع حاجب سے نجات ، شفاف توانائی جیسے 17مقاصد طے کئے ہیں ۔ ان کوحاصل کرنے کا عہد کیاگیاہے ۔ محترم جنرل سکریٹری ، میں آج آپ کو یقین دلارہاہوں کہ بھارت میں اس کا سرکردہ کردارہوگا ، ہم ہماری چیزوں کو وقت سے پہلے آگے بڑھائیں گے ۔ خوشحال درشن ، قدیمی ترغیب ،جدید تقریراو ربااثر پروگراموں کے سہارے ، عوامی حصہ داری کے سہارے آج بھارت ہمہ گیرترقیاتی نشانے کے مقاصد حاصل کرنے کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہاہے ۔ ہماری حکومت صفائی کے ساتھ ہی تغذیہ پربھی یکساں طورپر زوردے رہی ہے ۔ بھارت میں اب ناقص تغذیہ کے خلاف بھی عوامی تحریک کی شروعات کی جاچکی ہے ۔ وسوویدھ کٹمبھ ۔ یعنی پوری دنیا کو ایک کنبہ مانتے ہوئے ہم جو کام کررہے ہیں ، وہ کام ہمارا سمپرن ،آج دنیا کے سامنے ہے ، انسانی برادری کے سامنے ہے ۔ ساتھیو، میں اس بات کے لئے آپ کو مبارکباد دیناچاہتاہوں کہ چارروزقبل اس اجلاس کے بعد ہم سب اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ دنیا کو صاف ستھرابنانے کے لئے چار‘پی ’کی ضرورت ہے ، اوریہ چار‘پی’ ہمارا منترہے ۔پالیٹیکل لیڈرشپ ، پبلک فنڈنگ ، پارٹنرشپ ، پیوپلز پارٹی سیپیشن ۔ دہلی ڈیکلئریشن کے مادھیم سے آپ لوگوں نے جو سروویاپی سوچھتا میں ان چاراہم منتروں کو منظوری دی ہے ۔ اس کے لئے میں آپ سبھی کا شکریہ اداکرتاہوں ۔ اس موقع پرمیں سوچھ بھارت مشن کو آگے بڑھانے والے لوگوں کو ، کروڑوں ۔کروڑوں سوچھ گرہیوں کو ، میڈیا کے میرے ساتھیوں کو اورمیں میڈیا کا ذکر اس لئے کرتاہوں کہ صفائی کی تحریک نے میڈیا کے معاملے میں جو جنرل پارٹیسپشن ہے ، اس کو بدل دیاہے ۔ میراملک فخرکے ساتھ کہہ سکتاہے کہ میرے ملک کے میڈیا کی ہرچھوٹی موٹی اکائی نے ۔ چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، انھوں نے صفائی کے لئے کام کرنے والے لوگوں کا برابرچرچاکیاہے ، اچھی چیزوں کی چرچاکی ہے ، اس کی زبردست نشرواشاعت کی ہے اوریہ خبروں سے ایک طرح سے ترغیب کا ماحول بھی بناہے ۔اور اس لئے میں میڈیا کا بھی اوراس کے سرگرم تعاون کا اصرار کے ساتھ شکریہ اداکرناچاہوں گا۔ آپ سبھی کے مشترکہ تعاو ن ، حصہ داری سے ویسے یہ مشکل کام لگ رہاتھا ، لیکن اس مشکل دیکھنے والے کام کامقصد کو سادھنے کی طرف آج ملک آگے بڑھ ر��اہے ۔ ابھی ہمارا کام باقی ہے ۔ہم یہاں سنتوش ماننے کے لئے اکٹھانہیں ہوئے ہیں ۔ ہم اکٹھے ہوئے ہیں ، ابھی جو باقی ہے اس کو اورتیزی سے کرنے کی ترغیب پانے کے لئے ۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے اور راشٹرپتامہاتماگاندھی کو ان کے 150ویں یوم ولادت پرصاف اورصحت مند مند بھارت کی بھویہ کاریانجلی ارپن کرنی ہے ۔ مجھے امید ہے ، پورایقین ہے کہ ہم بھارت کے لوگ اس خواب کو پوراکرکے رہیں گے ، اس عہد کو ثابت کرکے رہیں گے اور اوراس کے لئے جو بھی ضروری محنت کرنی پڑیگی ، جو بھی ذمہ داریاں اٹھانی ہونگی ، کوئی ہندوستانی پیچھے نہیں رہے گا۔ آپ سبھی اس اہم موقع پریہاں تشریف لائے ، بھارت کو آپ نے میزبانی کرنے کا موقع دیا، اس کے لئے میں ا ٓپ سب کا ، سبھی مہمانوں کا بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں ۔ آج صحت کے شعبے میں جونتائج ملے ہیں ، یہ نتائج زیادہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاہے کہ ہم نے سب کچھ کرلیاہے ۔ لیکن ہمارا یقین پیداہواہے کہ جس چیز سے ہم ڈرتے تھے ، ہاتھ لگاتے نہیں تھے ، دو ر بھاگتے تھے ، اس گندگی کو ہاتھ لگاکرکے ہم نے سوچھتا کا سرجن کرنے میں کامیابی پائی ہے ، اور زیادہ کامیابی پاسکتے ہیں ۔عام آدمی کو گندگی پسند نہیں ہے ۔ عام آدمی سوچھتا کے ساتھ جڑنے کے لئے تیار ہے ، اس یقین کو قوت ملی ہے ۔ اوراس کام کے لئے اومابھارتی جی ، ان کا محکمہ ، ان کی پوری ٹیم ، ملک بھر کے ناگرکوں نے ، الگ الگ تنظیموں نے یہ کام کیاہے ، آج و ہ مبارکباد کے مستحق ہیں ، شکریے کے لائق ہیں ۔ میں اوماجی کو ، رمیش جی کو اور ان کی پوری ٹیم کو ، جس قربانی کے جذبے سے کام ہورہاہے کوئی تصورنہیں کرسکتاہے باہر بیٹھ کرکے کہ سرکاری دفترمیں بابووں کی چھوی کچھ بھی ہو ۔ اس کام میں میں کہہ سکتاہوں کہ وہاں کوئی بابوگیری نہیں ہے ، صرف اورصرف ، گاندھی گیری ، سوچھتاگیری دکھائی دیتی ہے ۔ اتنابڑا کام ایک ٹیم کے روپ میں کیاگیاہے ۔ چھوٹے موٹے ہرملازم نے ، افسرنے اسے اپنا پروگرام بنالیاہے ۔ یہ بہت ریئرہوتاہے جی۔ اورمیں اس کو بڑی اموشنلی اٹیچ ہونے کی وجہ ، میں باریکی سے دیکھتاہوں تب مجھے پتہ چلتاہے کہ کتنی محنت لوگ کررہے ہیں ، کتنی کوشش کررہے ہیں ، جی جان سے جٹے ہوئے ہیں ۔ تب جاکرکے ملک میں تبدیلی ہمیں نظرآنے لگتی ہے ۔ آج میرے لئے ایک عہد کابھی موقع ہے ۔ جب میرے ملک کے باشندوں نے لائق صد احترام باپو کو حقیقی معنوں میں خراج عقیدت کے کاریانجلی کے روپ میں سوچھتاکی کامیابی کو آگے بڑھایاہے ۔ میں پھرایک بار سب کا بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں ۔ سکریٹری جی خود وقت نکال کرکے قابل صد احترام باپوکی یوم ولادت پرہمارے درمیان آئے اوریواین کے جو گولس ہیں وہ گولس کو ہم بھارت میں کیسے آگے بڑھارہے ہیں اور دنیا کے اتنے دوست جب اس کام میں جڑے ہوئے تو اس میں خود آکرکے اس کی رونق بڑھائی ہے ، اس کے لئے میں ان کا بھی آج دل سے بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں ۔ بہت بہت دھنیہ واد آپ سب کا ۔,নতুন দিল্লীৰ ৰাষ্ট্ৰপতি ভৱনত মহাত্মা গান্ধী ইণ্টাৰনেচনেল ছেনিটেচন কনভেনচনৰ সমাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D9%85-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%B4%D9%86%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%9C%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے شیام جی کرشنا ورما کو ان کی پنیہ تیتھی( برسی) پر خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری آزادی کی جدوجہد میں شیام جی کرشنا ورما کے یادگار اور پیش قیمتی تعاون دینے پر ہر شہری کو فخر ہے۔ انہوں نے 2003 میں جینوا سے عظیم مجاہد آزادی کی استھیا ں واپس لانے کا بھی ذکر کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘ حوصلہ مند اور جرات مند شیام جی کرشنا ورما کو ان کی پنیہ تیتھی پر یاد کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد میں ان کے مثالی اور یادگار تعاون پر فخر ہے۔2003 میں جینوا سے ان کی استھیا ں واپس لانامیری زندگی کا سب سے خصوصی لمحہ ہوگا’’۔,পূণ্য তিথিত শ্যামজী কৃষ্ণ বাৰ্মাক স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%DB%8C%D9%85%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-2022-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%A8-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8/,نمسکار! نمسکار بنگلورو! نمسکار سیمی کون انڈیا! وزراء کی کونسل کے میرے ساتھیوں، الیکٹرانکس اور سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کے لیڈروں؛ سرمایہ کاروں، ماہرین تعلیم، ڈپلومیٹک کور کے ارکان اور دوستو، آج سیمی-کون انڈیا کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر آپ سبھی کا خیر مقدم کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بھارت میں ایسی کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ سیمی کنڈکٹرز دنیا میں جس طرح کے اہم رول ادا کر رہے ہیں اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارا اجتماعی مقصد بھارت کو عالمی سیمی کنڈکٹر سپلائی چینز میں ایک کلیدی پارٹنر کے طور پر قائم کرنا ہے۔ ہم ہائی ٹیک، ہائی کوالٹی اور ہائی ریلائےبلیٹی کے اصول کی بنیاد پر اس سمت میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ دوستو، میرے خیال میں سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجیز کے لیے بھارت کو سرمایہ کاری کا ایک پرکشش مقام بنانے کی چھ وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم 1.3 بلین سے زیادہ بھارت کے شہریوں کو کنکٹ کرنے کے لیے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ تیار کررہے ہیں۔ آپ سب نے بھارت کے مالیاتی شمولیت، بینکنگ اور ڈیجیٹل ادائیگی کے انقلاب کے بارے میں سنا ہوگا۔ آج یو پی آئی دنیا کا سب سے موثر ادائیگی کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہم صحت اور بہبود سے لے کر شمولیت اور باختیار بنانے تک حکمرانی کے تمام شعبوں میں زندگیوں کو بدلنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ ہم فی کس ڈیٹا کے معاملے میں دنیا کے سب سے بڑے صارفین میں شامل ہیں اور ہماری ترقی جاری ہے۔ دوسری یہ کہ ہم آئندہ ٹیکنالوجی انقلاب کی قیادت کے لئے بھارت کے واسطے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ہم چھ لاکھ گاؤں کو براڈ بینڈ سے جوڑنے کے راستے پر ہیں۔ ہم 5 جی ، آئی او ٹی اور کلین انرجی ٹیکنالوجیز میں صلاحیتوں کو فروغ دینے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ہم ڈیٹا، اے آئی اور دیگر ٹیکنالوجیز میں اختراع کی آئندہ لہر شروع کرنے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ تیسری کہ کہ بھارت زبردست اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے تیز ترقی کرنے والا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم ہے۔ کچھ ہفتوں کی مدت میں ہی نئے یونیکورن پیدا ہورہے ہیں۔ بھارت نے سیمی کنڈکٹرز کی کھپت سال 2026 تک 80 بلین ڈالر سے تجاوز کرجانے اور 2030 تک 110 بلین ڈالر سے تجاوز کرجانے کی توقع ہے۔ چوتھی یہ کہ بھارت میں کاروبار کرنے میں آسانی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہم نے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ہیں۔ گزشتہ سال ہم نے 25000 سے زیادہ ضابطوں کی تعمیل کو ختم کیا اور لائسنسوں کے خود کار طریقے سے ری نیوئل کو فروغ دیا ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹائزیشن بھی ریگولیٹری فریم ورک میں رفتار اور شفافیت لا رہا ہے۔ آج ہمارے پاس دنیا کا سب سے زیادہ سازگار ٹیکزیشن کا نظام ہے۔ پانچویں یہ کہ ہم 21ویں صدی کی ضرورتوں کے لیے بھارت کے نوجوان شہریوں کو ہنر مند بنانے اور تربیت کے لئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایک غیر معمولی سیمی کنڈکٹر ڈیزائن ٹیلنٹ پول ہے جو دنیا کے 20 فیصد تک سیمی کنڈکٹر ڈیزائن انجینئرز تیار کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً تمام سرفہرست 25 سیمی کنڈکٹر ڈیزائن کمپنیوں کے ڈیزائن یا آر اینڈ ڈی مراکز ہیں۔ چھٹی یہ کہ ہم نے بھارت کے مینوفیکچرنگ شعبے کی کایا پلٹ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ایسے وقت میں جب نوع انسانی ایک صدی میں ایک بار آنےوالی عالمی وبا سے جنگ کررہی تھی، بھارت نہ صرف اپنے عوام کی صحت کو بلکہ اپنی معیشت کی صحت کو بھی بہتر بنا رہا تھا۔ دوستو، ہماری ’’پروڈکشن سے منسلک تحریکات ‘‘ کی اسکیمیں، 14 اہم شعبوں میں 26 بلین ڈالر سے زیادہ کی تحریکات دیتی ہیں۔ آئندہ 5 برسوں میں الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ شعبے میں ریکارڈ ترقی کی توقع ہے۔ ہم نے حال ہی میں 10 بلین ڈالر سے زیادہ کے مجموعی اخراجات والے سیمی کان انڈیا پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد سیمی کنڈکٹرز، ڈسپلے مینوفیکچرنگ اور ڈیزائن ایکو سسٹم میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو مالی مدد فراہم کرانا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم کو فروغ پانے کے لیے حکومت کی جانب سے خاطر خواہ مدد کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ مجھے سیمی کنڈکٹرز کی زبان میں ہی اپنے نقطہ نظر کو رکھنے کی اجازت دیں۔ پرانے وقتوں میں صنعتیں اپنا کام کرنے کے لئے تیار تھیں۔ لیکن حکومت ایک ’’ناٹ گیٹ‘‘ کی طرح تھی۔ جب ’’ناٹ گیٹ‘‘ سےکوئی مادخل نکلتا تو اس کی نفی ہو جاتی تھی۔ بہت سے غیر ضروری ضوابط کی تعمیل اور کوئی ’کاروبار کرنے میں کوئی آسانی‘ نہیں تھی۔ لیکن ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ’’اینڈ گیٹ‘‘ کی طرح ہونا چاہیے۔ جبکہ صنعت سخت محنت کرتی ہے، تو حکومت کو اس سے بھی سخت محنت کرنی چاہیے۔ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم مستقبل میں بھی صنعت کی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ سیمی کان انڈیا پروگرام کے ذریعہ ایکو سسٹم کے مختلف حصوں جیسے سیمی کنڈکٹر فیب، ڈسپلے فیب، ڈیزائن، اسمبلی، ٹیسٹ، مارکنگ اور سیمی کنڈکٹرز کی پیکجنگ کے مسائل کو حل کیا جائے۔ دوستو، ایک نیا عالمی نظار قائم ہورہا ہے اور ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہم نے ترقی کو فروغ دینے کےلئے ایک ماحول تیار کرنے کے واسطے سخت محنت کی ہے۔ بھارت ٹیک اور جوکھم اٹھانے کا خواہش مند ہے۔ ہم نے ایک تعاون والے پالیسی ماحول کے ذریعے ناموافق معاملات کو آپ کے لئے ساز گار بنایا ہے۔ ہم نے دکھایا ہے کہ بھارت کا مقصد کاروبار کرنا ہے! اب معاملہ آپ کےاوپر ہے۔ دوستو، میں آپ سب سے عملی تجاویز کا منتظر ہوں کہ ہم ایک ایسے بھارت کی طرف کس طرح بڑھیں جو آنے والے برسوں میں دنیا کے لیے سیمی کنڈکٹرز کا ایک مرکز ہو۔ اس کانفرنس کے ذریعے ہمارا مقصد اس دائرہ کار کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے کے لئے متعلقین کے ساتھ کام کریں گے کہ ایک ��اندار سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم تیار کرنے کے لئے مزید کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کانفرنس میں با مقصد مذاکرات ہوں گے جو بھارت کو نئے مستقبل کی جانب لے جانے میں مدد کریں گے۔ شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ا گ۔ن ا۔,ছেমিকন ইণ্ডিয়া সন্মিলন ২০২২ৰ উদ্বোধনী অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%85%D8%A8%D9%88%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-49/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے آج کمبوڈیا کے وزیراعظم عالیجناب سام ڈیچ اکاموہا سیناپاڈیہی ٹیکہو ہون سین کے ساتھ ورچوئل میٹنگ کی ۔ دونوں لیڈروں نے باہمی امور کے تمام تر پہلوؤں نیز تجارت اورسرمایہ کاری ،انسانی وسائل کی ترقی ،دفاع اور سکیورٹی، ترقی میں تعاون ، کنکٹوٹی ،عالمی وبا کے بعد معاشی بحالی اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے باہمی تعاون کی رفتار پرتسلی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہون سین نے اس اہمیت پر زور دیا کہ کمبوڈیا ،بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو کافی اہمیت دیتا ہے۔ وزیراعظم مودی نے بھارت کی مشرق نواز پالیسی میں کمبوڈیا کے نمایاں رول کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس جذبے کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے صلاحیت سازی کے پروگراموں، میکاؤنگ – گنگا کوآپریشن فریم ورک کے تحت کوئک امپیکٹ پروجیکٹس سمیت دونوں ملکوں کے درمیان جامع ترقیاتی شراکتداری کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم مودی نے بھارت اور کمبوڈیا کے درمیان تاریخی اور تہذیبی رشتوں کو بھی اجاگر کیا اور کمبوڈیا میں انگ کور واٹ اور پریہا ویہر مندروں کی بحالی میں بھارت کے شامل ہونے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔جس میں دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی اور لسانی رابطے کو نمایاں کیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہون سین نے کواڈ ویکسین پہل کے تحت کمبوڈیا کے لئے ہندوستان میں تیار ہونے والی کووی شیلڈ ویکسین کی 3.25 لاکھ خوراکیں فراہم کرنے کے لئے بھارت کا شکریہ ادا کیا۔ دونو ں لیڈروں نے بھارت اور کمبوڈیا کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے 70 سال پورے ہونے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور اس کی ستائش کی ۔دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے 70سال پورے ہونے کا جشن اس سال منایا جارہا ہے۔ ان تقریبات کے حصے کے طور پر وزیراعظم نے کمبوڈیا کے شہنشاہ اور وہاں کی ملکہ کو بھارت آنے کی دعوت دی اور کہا کہ دونوں اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے بھارت کادورہ کریں ۔ دونو ں لیڈروں نے مشترکہ مفادات کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم مودی نے آسیان کی قیادت سنبھالنے پرکمبوڈیا کو مبارکباددی اور یقین دلایا کہ بھارت ان کی قیادت کو کامیاب بنانے کے لئے کمبوڈیا کی پوری امداد کرے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু কম্বোডিয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী চামদেচ আক্কা মোহা সেনা পাদেই টেচো হুন সেনৰ মাজত ভাৰ্চুৱেল বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%AA%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B1-%D8%B1%D9%82%D8%A7%D8%B5%DB%81-%D9%85%D8%AD%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%95%E0%A6%A5%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%BF-%E0%A6%A8%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A7%9F/,"نئی دہلی:26 جنوری،2022۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کتھا کلی کی نامور رقاصہ محترمہ ملینا سالوینی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ پیغام میں وزیر اعظم نے کہا: ""محترمہ ملینا سالوینی کو ہندوستانی ثقافت کے تئیں ان کے جذبے کے لئے یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے فرانس میں کتھاکلی کو مزید مقبول بنانے کی بے شمار کوششیں کیں۔ مجھے ان کے انتقال سے گہرا رنج ہوا ہے۔ میں ان کے اہل خانہ اور خیر خواہوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ ان کی روح کو سکون ملے۔"" ———————– ش ح۔ع ر۔ ع ا",বিশিষ্ট কথকলি নৃত্য পটিয়সী শ্ৰীমতী মিলেনা সাল্বিনীৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D8%B4%DA%A9%D8%AA%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%A7%D9%85%D9%84-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%D8%AF%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AE-4/,نئی دہلی،27؍ مارچ،آج قوم کے نام اپنے خطاب کے فوراً بعد وزیراعظم نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اُن سائنس دانوں سے بات چیت کی جو مشن شکتی کی کامیاب تکمیل میں شامل رہے۔ مشن شکتی کی کامیاب تکمیل نے ہندوستان کو پوری دنیا میں چوتھا ملک بنادیا ہے، جس کے پاس اینٹی سٹیلائٹ میزائل کے ذریعے مصنوعی سیاروں کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ سائنس دانوں کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم سائنس دانوں پر اس کام کے لئے فخر محسوس کرتی ہے جو انہوں نے کامیابی کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میک ان انڈیا ‘‘ پالیسی کے عین مطابق سائنس دانوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان وسودھیوا کٹم بکم یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے، کے فلسفے کی پیروی کرتا ہے۔ البتہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جو طاقتیں امن اور خیرسگالی کے لئے کام کرتی ہیں انہیں امن کے حصول کے لئے ہمیشہ ہی طاقت ور رہنا چاہئے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی امن اور علاقائی امن کے لئے ہندوستان کو باصلاحیت اور مضبوط ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس دانوں نے بڑی لگن کے ساتھ اس کوشش میں اپنا رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے پوری کابینہ کی طرف سے سائنس دانوں کو مبارک باد دی۔ سائنس دانوں نے وزیراعظم کا اس بات کے لئے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں اپنی صلاحیت کو ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (م ن-ج- ق ر),ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সৰ মাধ্যমেৰে মিছন শক্তিৰ সৈতে জড়িত বিজ্ঞানীসকলৰ সৈতে মত বিনিময় প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%D8%A7-%D9%81%D8%A7%D8%A4%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%81-%D9%85%D9%86%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%B6%E0%A6%BE-%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A6%89%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7/,وزیر اعظم نے ابتدا میں عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر حاضرین کےلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ’مٹی بچاؤ تحریک‘ کی تعریف کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ایسے وقت میں جب آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران ملک نئے عہد کررہا ہے، ا�� طرح کی تحریکیں ایک نئی اہمیت حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ گزشتہ 8 برسوں کے کلیدی پروگراموں میں ماحولیاتی تحفظ کا زاویہ موجود ہے۔ انہوں نے سوچھ بھارت مشن یا فضلے سے دولت حاصل کرنے سے متعلق پروگرام، سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال کمی، ایک سورج ایک زمین یا ایتھنول بلینڈنگ کے پروگرام کی ماحولیات کے تحفظ کے لیے بھارت کی کثیر جہتی کوششوں کی مثالوں کے طور پر پیش کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے بھارت کی کوششیں کثیر جہتی رہی ہیں۔ بھارت یہ کوشش اس وقت کر رہا ہے جب آب و ہوا کی تبدیلی میں بھارت کا رول نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا کے بڑے جدید ممالک نہ صرف زمین کے زیادہ سے زیادہ وسائل کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ کاربن کا اخراج ان کے کھاتے میں جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا میں کاربن اوسط فوٹ پرنٹ تقریباً 4 ٹن فی شخص سالانہ ہے جبکہ بھارت میں یہ محض 0.5 ٹن فی شخص سالانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ماحولیات کے تحفظ اور کولیشن فار ڈیزاسٹر ریسیلینٹ انفراسٹرکچر، انٹرنیشنل سولر الائنس جیسی تنظیمیں کے قیام کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر ایک طویل مدتی وژن پر کام کر رہا ہے ، وزیر اعظم نے 2070 تک بھارت کے نیٹ زیرو کے ہدف کو دہرایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مٹی کو بچانے کے لیے ہم نے پانچ اہم چیزوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سب سے پہلے مٹی کو کیمیکل سے پاک کیسے بنایا جائے۔ دوسرا- مٹی میں رہنے والے آرگینکزم کو کیسے بچایا جائے، جنہیں تکنیکی زبان میں سوائل آرگینک میٹر کہتے ہیں۔ تیسرا: زمین کی نمی کیسے برقرار رکھی جائے، اس تک پانی کی دستیابی کو کیسے اضافہ کیا جائے۔ چوتھا- زیر زمین پانی کم ہونے کی وجہ سے مٹی کو جو نقصان ہو رہا ہے اسے کیسے دور کیا جائے اور پانچواں، جنگلات کی کمی کی وجہ سے مٹی کے مسلسل کٹاؤ کو کیسے روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں مٹی کے مسائل کے خاتمے کے لیے اہم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے ہمارے ملک کے کسانوں کو مٹی کی قسم، مٹی کی خامی، پانی کی مقدار کے بارے میں معلومات نہیں تھیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ملک میں کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ دینے کے لیے ایک بڑی مہم چلائی گئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت بارش کے پانی کو جمع کرنے جیسی مہمات کے ذریعے ملک کے لوگوں کو پانی کے تحفظ سے جوڑ رہی ہے۔ اس سال مارچ میں ہی ملک میں 13 بڑے دریاؤں کے تحفظ کی مہم بھی شروع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں پانی میں آلودگی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ندیوں کے کنارے جنگلات لگانے کا کام بھی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تخمینہ یہ ہے کہ اس سے 7400 مربع کلومیٹر کے فاریسٹ کور کا اضافہ ہو گا جو کہ گزشتہ 8 برسوں میں بھارت کے فاریسٹ کور میں کئے گئے 20 ہزار مربع کلومیٹر کے علاوہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات سے متعلق جن پالیسیوں پر بھارت آج عمل پیرا ہے ان سےبھی جنگلی جانوروں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ آج چاہے شی ہو، ببر شیر ہو،تیندواہو یا ہاتھی، ملک میں سب کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سووچھتا، ایندھن میں خود کفیلی سے متعلق پہلی بار پہل کی گئی ہے۔ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور مٹی کی صحت سے متعلق پروگرام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گوبردھن یوجنا کی مثال دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قدرتی کاشتکاری میں ہمارے چند بڑے مسائل کا بڑا حل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کے بجٹ میں حکومت نے گنگا کے کنارے واقع گاؤوں میں قدرتی کھیتی کی حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے قدرتی کھیتی کے لئے ایک بڑا کوریڈور تیار ہوگا۔ اس سے نہ صرف ہمارے کھیت کیمیکل سے پاک ہو جائیں گے بلکہ نمامی گنگا مہم کو بھی نئی طاقت ملے گی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ بھارت 2030 تک 26 ملین ہیکٹر اراضی کو بحال کرنے کے ہدف پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے بی ایس VI کے اصولوں کو اختیار کئےجانے اور ایل ای ڈی بلب مہم کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ بھارت نے مقررہ وقت سے 9 سال قبل اپنی نصب شدہ بجلی پیداوار کرنے صلاحیت کا 40 فیصد غیر فوسل فیول سے حاصل کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کی صلاحیت میں 18 گنا اضافہ ہوا ہے اور ہائیڈروجن مشن اور سرکلر اکانومی سے متعلق پالیسیاں، اسکریپج پالیسی جیسی پالیسیاں ماحولیات کے تحفظ کے لیے ہمارے عزم کی مثالیں ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ آج بھارت نے مقررہ وقت سے 5 ماہ قبل 10 فیصد ایتھنول بلینڈنگ کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ کامیابی کی وسعت کے بارے میں بتاتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 میں ایتھنول بلینڈنگ 1.5 فیصد تھی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے تین واضح فوائد ہیں، جن کی انہوں نے وضاحت کی۔ سب سے پہلے، اس سے کاربن کے اخراج میں 27 لاکھ ٹن کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسرے، اس سے 41 ہزار کروڑ کا غیر ملکی زرمبادلہ بچایا گیا ہے اور تیسرے، ایتھنول کی بلینڈنگ میں اضافے کی وجہ سے ملک کے کسانوں نے گزشتہ 8 برسوں میں 40 ہزار 600 کروڑ روپے کمائے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس کامیابی پر ملک کے عوام، کسانوں اور تیل کمپنیوں کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پی ایم نیشنل گتی شکتی ماسٹر پلان کی وجہ سے لاجسٹک سسٹم اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو مضبوط کیا جائے گا اور اس سے آلودگی میں کمی آئے گی۔ 100 سے زیادہ آبی گزر گاہوں پر ملٹی ماڈل کنیکٹی ویٹی کا کام بھی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ وزیراعظم نے گرین جابز کے پہلو پر حاضرین کی توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ پر بھارت کی رفتار بڑی تعداد میں سبز ملازمتوں کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے ماحولیات اور مٹی کے تحفظ کے بارے میں بیداری میں اضافےپر زور دیا اور ہر ضلع میں 75 امرت سروور تیار کرنے کے لیے عوامی تحریک چلائے جانے کی اپیل کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔ ’مٹی بچاؤ تحریک‘ ایک عالمی تحریک ہے جس کا مقصد مٹی کی بگڑتی صحت کے بارے میں بیداری میں اضافہ کرنا اور اس کو بہتر بنانے کے لیے ایک شعوری ردعمل پیدا کرنا ہے۔ یہ تحریک مارچ 2022 میں سدھ گرو نے شروع کی،جس کا آغاز 27 ممالک سے گزری والی 100 دن کے موٹر سائیکل یاتری سے کیا گیا۔ 5 جون کو 100 دن کی یاتراکا 75 واں دن ہے۔ پروگرام میں وزیر اعظم کی شرکت بھارت میں مٹی کی صحت کو بہتر بنانے کے مشترکہ سروکار اور عزم کی عکاسی کرتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,‘ইশা ফাউণ্ডেশ্যন’য়ে অনুষ্ঠিত কৰা ‘ছেভ ছইল’ কাৰ্যক্ৰমত ভাষণ দিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D9%85%D8%AC%D8%A7%DB%81%D8%AF-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D8%B3%D9%85%D9%BE%D9%88%D9%86-%D9%85%D8%AA%DA%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%9C/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مجاہد آزادی پاسمپون متھرا ملنگا تھیورکو ان کی گرو پوجا کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’میں عظیم مجاہد آزادی پاسمبون متھراملنگا تھیور کو ان کی گرو پوجا کے موقع پرخراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک کے لیے خاص طور پر سماجی طور پر بااختیار بنانے ، کسانوں کی فلاح و بہبود اور غربت کے خاتمے میں ان کی عظیم خدمات کو بھی یاد کرتا ہوں۔ ان کے نظریات ہمیشہ ہمیں متاثر کرتے رہیں گے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 12005,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুৰু পূজা উপলক্ষে স্বাধীনতা সংগ্ৰামী পাসুমপোন মুথুৰামলিং থেৱাৰক শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88%DA%AF%D8%A7-%D8%8C-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%BE%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1-%D8%B2%D8%A8%D8%B1%D8%AF%D8%B3%D8%AA-%D9%85%D9%82%D8%A8%D9%88%D9%84%DB%8C%D8%AA-%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BF-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%A4%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC/,وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ یوگا کو عالمی پیمانے پر زبردست مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیڈران ، سی ای اوز ، کھیل کودسے متعلق افراد اور اداکاروں سمیت زندگی کے مختلف زمروں کے لوگ باقاعدگی کے ساتھ یوگ کررہے ہیں۔جناب مودی نے یوگا سے متعلق ایک ویڈیو شئیر کیا ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ‘‘ گزشتہ چند برسوں میں یوگا کو عالمی پیمانے پر زبردست مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔لیڈران ، سی ای اوز ، کھیل کودسے متعلق افراد اور اداکاروں سمیت زندگی کے مختلف زمروں کے لوگ باقاعدگی کے ساتھ یوگ کررہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس نے کس طرح ان کی مدد کی ۔’’,বিশ্বজুৰি যোগে অভূতপূর্ব জনপ্রিয়তা অর্জন কৰিছে : প্রধানমন্ত্র +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B1%D9%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%96%E0%A6%B2%E0%A6%A8/,نئی دہلی،8فروری 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اروناچل پردیش میں برفانی تودے گرنے سے ہندستانی فوج کے اہلکاروں کے جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہاکہ’اروناچل پردیش میں برفانی تودے گرنے سے ہندستانی فوج کے جوانوں کی جانوں کے ضیاع پر بے حد دکھ ہوا ہے۔ ہم اپنی قوم کے لئے ان کی مثالی خدمات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ سوگوار خاندانوں سے تعزیت۔‘‘,অৰুণাচল প্ৰদেশত হিমস্খলনত ভাৰতীয় সেনাৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%B9-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%B9-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A7%B0-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شیروں کے عالمی دن کے موقع پر شیروں کا تحفظ کرنے والے ماہرین کی کوششوں کی ستائش کی ہے۔ ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے مرکزی وزیر جناب بھوپیندر یادو کے ٹویٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ”#WorldLionDay کے موقع پر، میں ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو شیروں کی حفاظت کے سلسلے میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ ہندوستان ہمیشہ عظیم الشان ایش��ائی شیر کے لیے ایک متحرک گھر رہے گا۔“,বিশ্ব সিংহ দিৱসত সিংহ সংৰক্ষণবিদসকলৰ প্ৰচেষ্টাক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%82%D8%AF%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DA%AF%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,کابینہ پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر اور مالیات کے وزیر کو بین الاقوامی مقابلہ جاتی بوریوں (آئی سی بی) کے بعد ایچ ای ایل پی /او اے ایل پی کے تحت کامیاب بولی لگانے والوں کو بلاکس/ٹھیکے والے علاقے دینے کو منظوری دینے کے لئے اختیارات سونپنے کو منظوری دی نئی دہلی، 11 اپریل 2018/کاروبار کرنے کو آسان بنانے کے حکومت کے اقدام کے مطابق وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر مالیات کے وزیر کو سکریٹریوں کی بااختیار کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر بین الاقوامی مقابلہ جاتی بولی (آئی سی بی) کے بعد ہائیڈرو کاربن ایکسپلوریشن اور لائسنسنگ پالیسی (ایچ ای ایل ٹی) کے تحت کامیاب بولی لگانے والوں کو بلاگس /کانٹریکٹ علاقے دینے کے لئے اختیار دینے کو منظوری دے دی۔ ایچ ای ایل پی کے تحت بلاکس ایک سال میں دو مرتبہ دیئے جائیں گے۔ اس لئے اختیار سونپنے سے بلاگس دینے کے بارے میں فیصلہ دینے کے عمل میں تیز ی آئے گی اور کاروبار کرنے کو آسان بنانے کی پہل کو تقویت ملے گی۔ اثر: این ای ایل پی پالیسی کے تحت سکریٹریوں کی بااختیار کمیٹی (ای سی ایس )بولی کا تخمینہ ضابطہ (بی ای سی) پر غور کرتا ہے جہاں کہیں بھی ضروری ہو بولی لگانے والوں کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے اور بلاگ دینے کے بارے میں سی سی ای اے کو سفارش کرتا ہے ۔ سی سی اے بلاگس دینے کی منظوری دیتا ہے ۔ کابینہ میں صلا ح و مشورہ سمیت تمام عمل کافی لمبا ہوتا ہے اوراس میں کافی وقت لگتا ہے۔ حکومت کی کاروبار کو آسان بنانے کی پہل کے ساتھ تا ل میل قائم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ بلاگس / ٹھیگے دینے کی وقت کی مدت میں کمی لائی جائے۔ نئی ہائیڈرو کاربن ایکسپلوریشن اور لائسنسنگ پالیسی کے تحت مقابلہ جاتی بولی جاری رہے گی اور سال میں دو مرتبہ بلاگس دیئے جائیں گے۔ پس منظر: حکومت ہند نے 2016 میں ہائیڈرو کاربن ایکسپولریشن اور لائسنسنگ پالیسی کے نام سے کھوج اور پیداوار (ای این پی) سیکٹر کے لئے ایک نئی پالیسی نظام قائم کیا جو اس سے پہلے کہ پالیسی نظام سے ہٹ کر مثالی نظام ہے۔ نئی پالیسی نظام کی اہم خصوصیتوں میں ریونیو شیئر کرنے کا سمجھوتہ کھوج کے لئے لائسنس اور روایتی کے ساتھ ساتھ غیر روایتی ہائیڈرو کاربن وسائل کاروبار مارکیٹنگ اور قیمت طے کرنے کی آزادی شامل ہیں۔ ایچ ای ایچ پی کے تحت کھلے ایکڑ لائسنسنگ پالیسی اہم نیا نطام ہے جس میں سرمایہ کار اپنی دلچسپی کے بلاک نکال سکتا ہے اور پورے سال دلچسپی لے سکتا ہے اور جن علاقوں کے لئے دلچسپی ظاہر کرنے کو کہا گیا ہے وہاں پر ہر چھ مہینے میں بولی لگائی جائے گی۔ حکومت کو او اے ایل پی کے پہلے دلچسپی دکھانے کے سلسلہ میں زبردست ردعمل حاصل ہوا جو 1 جولائی 2017 کو شروع ہوا تھا اور 15 نومبر 2015 کو بند ہوگیا۔ بولی کے پہلے دور میں 11 ریاستوں میں پھیلے 59282 مربع کلو میٹر علاقے والے 55 بلاگس میں بولی کی پیش کش کی گئی بولی کا عمل ایک محفوظ اور وقف کرنے والے ای ��ولی والے پورٹل کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ح ا ۔ ج۔,পেট্ৰ’লিয়াম আৰু প্ৰাকৃতিক গেছ খণ্ডত সহজ ব্যৱসায়ত সঁহাৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-36/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی اور ماریشس کے وزیر اعظم جناب پروند کمار جگن ناتھ نے آج ماریشس میں مشترکہ طور پر سوشل ہاؤسنگ یونٹس پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ یہ پروجیکٹ ہندوستان اور ماریشس کے درمیان متحرک ترقیاتی شراکت داری کے حصے کے طور پر عمل میں لایا گیا ہے۔ اس موقع پر دونوں وزرائے اعظم نے دو دیگر پروجیکٹوں کے لئے سنگ بنیاد رکھنے کی ورچوئل تقریب میں بھی حصہ لیا -ان میں سے کا تعلق ایک جدید ترین سول سروس کالج ہے اور دوسرا 8 میگاواٹ کا سولر پی وی فارم ہے۔ ان کی تعمیر ہندستان کی ترقیاتی امداد کے حصے کے طور پر کی جا رہی ہے۔ تقریب کا انعقاد ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کیا گیا۔ ماریشس میں یہ تقریب ماریشس کے پی ایم او احاطے میں کابینہ کے وزراء اور حکومت ماریشس کے سینئر عہدیداروں سمیت معززین کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے ہندستان کی ترقیاتی امداد کو تقویت دینے والے خیالات پر روشنی ڈالی جو دوستوں کی ضروریات اور ترجیحات اور خودمختاری کے احترام سے متشرح ہیں اور ساتھ ہی اس کا مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود اور ملک کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔ وزیر اعظم نے قوم کی تعمیر میں سول سروس کالج پروجیکٹ کی اہمیت کا اعتراف کیا اور مشن کرم یوگی کے علم میں شراکت کی پیشکش کی۔ وزیر اعظم نے ون سن ون ورلڈ ون گرڈ (او ایس او او او جی) پہل کو یاد کیا جو انہوں نے اکتوبر 2018 میں انٹرنیشنل سولر الائنس کی پہلی اسمبلی میں کی تھی اور کہا کہ 8 میگاواٹ سولر پی وی فارم پراجیکٹ سے آب و ہوا کے محاذ پر13,000 ٹن سی او2 کے اخراج سے بچنے کی آزمائشوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس کا ماریشس کو سامنا ہے۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم پروند جگن ناتھ نے ماریشس کو مالی امداد سمیت وسیع پیمانے پر امداد کے لئے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ہندوستان اور ماریشس کے تعلقات نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ حکومت ہند نے مئی 2016 میں ماریشس کی حکومت کو خصوصی اقتصادی پیکیج کے طور پر 353 ملین امریکی ڈالر کی مدد کی تھی تاکہ دیگر منصوبوں کے علاوہ ماریشس کی حکومت کی طرف سے شناخت کردہ پانچ ترجیحی پروجیکٹوں کو انجام تک لایا جائے۔ یہ پروجیکٹ حسب ذیل تھے: میٹرو ایکسپریس پروجیکٹ، سپریم کورٹ کی عمارت، نیو ای این ٹی ہسپتال، پرائمری اسکول کے بچوں کو ڈیجیٹل ٹیبلٹس کی فراہمی اور سوشل ہاؤسنگ پروجیکٹ۔ آج سوشل ہاؤسنگ پروجیکٹ کے افتتاح کے ساتھ ہی ایس ای پی کے تحت تمام ہائی پروفائل پروجیکٹ عمل میں لے آئے گئے ریڈوئٹ میں واقع سول سروس کالج پروجیکٹ کو 4.74 ملین امریکی ڈالر کے گرانٹ کے ذریعے 2017 میں ماریشس کے وزیر اعظم پراوِند جگن ناتھ کے ہندستان کے دورے کے دوران دستخط کردہ ایک مفاہمت نامے کے تحت مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے۔ ایک بار تعمیر ہونے کے بعد، یہ مختلف تربیتی اور ہنرمندی کے فروغ کے پروگرام شروع کرنے کے لئے ماریشس کے سرکاری ملازمین کے لئے مکمل طور پر فعال سہولت فراہم کرے گا۔ اس سے ہندوستان کے ساتھ ادارہ جاتی روابط مزید مضبوط ہوں گے۔ آٹھ میگاواٹ سولر پی وی فارم پروجیکٹ میں 25,000 پی وی سیلز کی تنصیب شامل ہے تاکہ سالانہ تقریباً 14 جی ڈبلیو ایچ سبز توانائی پیدا کی جا سکے۔ اس کا مقصد تقریباً 10,000 ماریشیائی گھرانوں کو بجلی فراہم کرنا ہے۔ اس سے ہر سال تقریباً 13,000 ٹن سی او2 کے اخراج سے بچا جا سکے گا اور ماریشس کو آب و ہوا میں منفی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ آج کی تقریب میں دو کلیدی دو طرفہ معاہدوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ ایک معاہدہ ہندوستان کی حکومت کی جانب سے ماریشش کی حکومت کو میٹرو ایکسپریس اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں کیلئے 190 میلن ڈالر کے لائن آف کریڈٹ سے متعلق اور دوسرا چھوٹ ترقیاتی منصوبوں پر عمل در آمد کے بارے میں مفاہمت نامہ ہے۔ کوویڈ۔19 سے پیدا آزمائشوں کے باوجود ہندوستان اور ماریشش کے ترقیاتی ساجھیداری کے پروجیکٹوں کی تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے۔ 2019 میں وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم جگن ناتھ نے ورچوئل طریقے سے ماریشش میں میاترو ایکسپریس پروجیکٹ اور ایک نئے ای این ٹی اسپتال کا افتتاح کیا تھا۔ اسی طرح جولائی 2020 میں ماریشش کی سپریم کورٹ کی نئی عمارت کا افتتاح بھی دونوں وزرائے اعظم نے مشترکہ طور پر ورچوئل طریقے سے کیا تھا۔ ہندوستان اور ماریشش کے قریبی تعلقات کی جڑیں ہماری تاریخ، نسل و نسب، ثقافت اور زبان کی یکسانیت کے سبب مضبوط ہیں۔ اس کی عکاسی دونوں ملکوں کے درمیان کی ترقیاتی ساجھیداری سے ہوتی ہے کیونکہ ماریشش بحر ہند خطے میں ہندوستان کا کلیدی ترقیاتی ساجھیدار ہے۔ آج کی تقریب سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے جذبے کا مظہر ، اور اس کامیاب قدیم ساجھیداری میں ایک اور سنگ میل ہے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু মৰিচাছৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী প্ৰবীন্দ যুগনাথে যুটীয়াভাৱে মৰিচাছত সামাজিক আৱাস গোট প্ৰকল্প উদ্বোধন কৰে আৰু ভাৰ্চুৱেল পদ্ধতিত অসামৰিক সেৱা মহাবিদ্যালয় আৰু ৮ মেগাৱাট সৌৰ পিভি ফাৰ্ম প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%DB%81%D9%84-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8B-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ان تمام لوگوں سے کووڈ کی احتیاطی خوراک لینے کی اپیل کی ہے، جو اس کے اہل ہیں۔ وزیر اعظم نے ان تمام لوگوں کی تعریف کی جنہوں نے آج ٹیکے لگوائے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا ہے: ""بھارت میں احتیاطی ڈوز لگانی شروع کر دی گئی ہے۔ ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں نے آج ٹیکہ لگوایا ہے۔ میں ٹیکہ لگوانے کے اہل لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹیکے لگوالیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کووڈ-19 سے لڑنے میں ویکسینیشن سب سے مؤثر طریقہ ہے۔’’",যোগ্যতা সম্পন্ন সকলো ব্যক্তিকে ‘ক’ভিড সাৱধানতা পালি’ লোৱাৰ বাবে আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81%D8%8C-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔31؍اکتوبر۔صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند ، نائب صدر جمہوریہ جناب وینکیانائیڈو اور وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج سردار ولبھ بھائی پٹیل کے یوم پیدائش کے موقع پر نئی دہلی کے پٹیل چوک پر سردار پٹیل کے مجسمے پر گلہائے عقیدت نذر کیے۔ وزیراعظم نے بعد میں میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم سے ’رن فار یونٹی‘ کو ہری جھنڈی دکھاکر روانہ کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے سردارولبھ بھائی پٹیل کے خاص طور پر قوم کے اتحاد میں تعاون کو یاد کیا۔ وزیراعظم نے زور دیکر کہا کہ بھارت کے نوجوان سردار پٹیل اور ہماری قوم کی تعمیر میں ان کے تعاون کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اپنے تنوع پر فخر کرتا ہے اور رن فار یونٹی جیسے مواقع اس فخر اور اتحاد کے جذبے کو دوبارہ بیدار کرنے کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں۔ جناب نریندر مودی نے سابق وزیراعظم محترمہ اندراگاندھی کو بھی یاد کیا جن کی برسی بھی آج منائی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے اس تقریب میں شرکت کرنےو الوں کو حلف دلایا۔,"জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে চৰ্দাৰ পেটেললৈ ৰাষ্ট্ৰপতি, উপ-ৰাষ্ট্ৰপতি, প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি; প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শুভাৰম্ভ কৰিলে ‘একতাৰ বাবে দৌৰ’ কাৰ্যসূচীৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%85%D8%AA%D8%A7%D8%B2-%D9%85%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7-%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 29 جنوری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ممتاز ماہر تعلیم بابا اقبال سنگھ جی کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’بابا اقبال سنگھ جی کی رحلت پر غمزدہ ہوں۔ انہیں نوجوانوں کے درمیان تعلیم کو فروغ دینے کی ان کی کوششوں کے لیے یاد کیا جائے گا۔ انہوں نے بغیر تھکے سماجی اختیار کاری کے لیے کام کیا۔ غم کی اس گھڑی میں میرے خیالات ان کے کنبے اور ان کے مداحین کے ساتھ ہیں۔ واہے گورو ان کی روح کو سکون دے۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰখ্যাত শিক্ষাবিদ বাবা ইকবাল সিং জীৰ মৃত্যুত গভীৰ শোক প্ৰকাশ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85%D9%90-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-4/,وزیر اعظم نے جھارکھنڈ کے یوم تاسیس کے موقع پر ریاست کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ انہوں نے ریاست کےلئے ترقی کی نئی بلندیوں کےلئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا: جھارکھنڈ کے سبھی لوگوں کو ریاست کے یوم تاسیس کی بہت بہت مبارکباد ۔میری خواہش ہے کہ قدرتی وسائل اور قبائلی فن اور ثقافت سے مالامال یہ ریاست ترقی کی نئی بلندیوں سے ہمکنار ہو۔,ঝাৰখণ্ডৰ প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত ৰাজ্যবাসীক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A7%B0-%E0%A7%A7-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95/,نئی دہلی۔29؍اگست۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے مرکزی حکومت کے ملازمین کے لئے مہنگائی بھتے اور پنشن یافتگان کیلئے مہنگائی ریلیف کی ایک اضافی قسط جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔ جس کا اطلاق یکم جولائی 2018 سے ہوگا۔ یہ اضافہ قیمتوں کے بڑھنے کے عوض بیسک پے / پنشن کی 7 فیصد موجودہ شرح کے علاوہ دو فیصد ہوگی۔ مہنگائی بھتے اور مہنگائی ریلیف دونوں کو ملاکر خزانے پر 6112.20 کروڑ روپئے سالانہ اور مالی سال 19-2018 میں 4074.80 کروڑ روپئے (جولائی 2018 سے فروری 2019 تک آٹھ مہینے کےعرصے میں) بار پڑے گا۔ اس سے تقریباً 48 لاکھ 41 ہزار مرکزی سرکاری ملازمین اور 62 لاکھ 3 ہزار پنشن یافتگان کو فائدہ حاصل ہوگا۔ تنخواہوں اور پنشن میں یہ اضافہ منظور شدہ فارمولے کے مطابق ہے جو ساتویں مرکزی تنخواہ کمیشن کی سفارشات پر مبنی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ اس ۔ ع ن,২০১৮ৰ ১ জুলাইৰ পৰা কাৰ্যকৰী হোৱাকৈ কেন্দ্ৰীয় চৰকাৰৰ কৰ্মচাৰীৰ মৰগীয়া বানচ আৰু পেন্সনাৰসকলৰ মগৰীয়া সাহায্যৰ অতিৰিক্ত ২ শতাংশকৈ বৃদ্ধিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%86%D9%88-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%8B-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,آج چیتا ہندوستان کی سرزمین پر لوٹ آیا ہے جب ہم اپنی جڑوں سے دور ہوتے ہیں تو ہم بہت کچھ کھو دیتے ہیں امرت میں مردہ کو بھی زندہ کرنے کی طاقت ہے بین الاقوامی رہنما خطوط پر عمل کیا جا رہا ہے اور ہندوستان ان چیتاوں کو آباد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی سیاحت کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے ہندوستان کے لیے، فطرت اور ماحول، اس کے جانور اور پرندے، صرف پائیداری اور سلامتی سے متعلق نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کی حساسیت اور روحانیت کی بنیاد ہیں آج ہمارے جنگل اور زندگی میں ایک بڑا خلا چیتا کے ذریعے پر کیا جا رہا ہے ایک طرف ہم دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہیں، وہیں ملک کے جنگلاتی علاقے بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں سال 2014 سے، ملک میں تقریباً دو سو پچاس نئے محفوظ علاقے شامل کیے گئے ہیں ہم نے وقت سے پہلے شیروں کی تعداد دگنی کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے گزشتہ چند سالوں میں ہاتھیوں کی تعداد بھی تیس ہزار سے بڑھ گئی ہے آج ملک میں 75 ویٹ لینڈز کو رامسر سائٹس قرار دیا گیا ہے، جن میں سے گزشتہ چار سالوں میں چھبیس سائٹس کا اضافہ کیا گیا ہے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج کونو نیشنل پارک میں جنگلی چیتوں کو رہا کیا جو کہ ہندوستان میں معدوم ہو چکے تھے۔ نامیبیا سے لائے گئے چیتے کو پروجیکٹ چیتا کے تحت ہندوستان میں متعارف کرایا جا رہا ہے، جو دنیا کے پہلے بین بر اعظمی بڑے جنگلی گوشت خوروں کی نقل مکانی کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ خاص طور پر، میں اپنے دوست ملک نامیبیا اور وہاں کی حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جن کے تعاون سے یہ چیتے دہائیوں کے بعد ہندوستانی سرزمی�� پر واپس آئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کونو نیشنل پارک میں دو ریلیز پوائنٹس پر چیتے چھوڑے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر چیتا مترا، چیتا بحالی مینجمنٹ گروپ اور طلبا سے بھی بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے اس تاریخی موقع پر قوم سے خطاب کیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے ان مواقع کو اجاگر کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا جو انسانیت کو ماضی کو سنوارنے اور ایک نئے مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ جناب مودی نے کہا کہ آج ہمارے سامنے ایسا ہی ایک لمحہ ہے۔ ”دہائیوں قبل حیاتیاتی تنوع کا پرانا ربط جو ٹوٹ گیا تھا اور معدوم ہو گیا تھا، آج ہمارے پاس اسے بحال کرنے کا موقع ہے“، انھوں نے کہا، ”آج چیتا ہندوستان کی سرزمین پر لوٹ آیا ہے۔“ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اس یادگار موقع نے ہندوستان کے فطرت سے محبت کرنے والے شعور کو پوری طاقت کے ساتھ بیدار کیا ہے۔ جناب مودی نے نامیبیا اور وہاں کی حکومت کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے اس تاریخی موقع پر تمام ہم وطنوں کو مبارکباد پیش کی جن کے تعاون سے چیتے کئی دہائیوں کے بعد ہندوستانی سرزمین پر واپس آئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ چیتے نہ صرف ہمیں فطرت کے تئیں ہماری ذمہ داریوں سے آگاہ کرائیں گے بلکہ ہمیں ہماری انسانی اقدار اور روایات سے بھی آگاہ کریں گے۔ آزادی کئ امرت کال کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ’پنچ پران‘ کو یاد کیا اور ’اپنے ورثے پر فخر کرنے‘ اور ’غلامی کی ذہنیت سے آزادی‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جب ہم اپنی جڑوں سے دور ہوتے ہیں تو ہم بہت کچھ کھو دیتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پچھلی صدیوں میں فطرت کے استحصال کو طاقت اور جدیدیت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا، ”1947 میں، جب ملک میں صرف آخری تین چیتے رہ گئے تھے، ان کا بھی سال کے جنگلات میں بے رحمی اور غیر ذمہ داری کے ساتھ شکار کیا گیا“۔ وزیر اعظم نے اپنے تبصرے میں کہا کہ 1952 میں بھارت سے چیتے نا پید ہونے کے باوجود گزشتہ سات دہائیوں سے ان کی بحالی کے لیے کوئی با معنی کوشش نہیں کی گئی۔ وزیر اعظم نے خوشی کا اظہار کیا کہ آزادی کا امرت مہوتسو میں ملک نے نئی توانائی کے ساتھ چیتوں کی بحالی شروع کر دی ہے۔ ”امرت میں مردہ کو بھی زندہ کرنے کی طاقت ہے“، جناب مودی نے کہا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو میں فرض اور ایمان کا یہ امرت نہ صرف ہمارے ورثے کو زندہ کر رہا ہے بلکہ اب چیتے بھی ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھ چکے ہیں۔ اس بحالی کو کامیاب بنانے کے پیچھے برسوں کی محنت کی طرف سب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ انتہائی توانائی ایسے علاقے کے لیے لگائی گئی جسے زیادہ سیاسی اہمیت نہیں دی جاتی۔ انھوں نے بتایا کہ چیتا کا ایک تفصیلی ایکشن پلان تیار کیا گیا جبکہ ہمارے با صلاحیت سائنسدانوں نے جنوبی افریقہ اور نامیبیا کے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے وسیع تحقیق کی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ چیتوں کے لیے موزوں ترین علاقے کا پتہ لگانے کے لیے ملک بھر میں سائنسی سروے کیے گئے اور پھر اس مبارک آغاز کے لیے کونو نیشنل پارک کا انتخاب کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج ہماری محنت ہمارے سامنے ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جب فطرت اور ماحولیات کی حفاظت ہوتی ہے تو ہمارا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے اور ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھلتی ہیں۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ جب کونو نیشنل پارک میں چیتے دوڑیں گے تو جنگلات کا ماحولیاتی نظام بحال ہو جائے گا اور یہ حیاتیاتی تنوع میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ جناب مودی نے روشنی ڈالی کہ علاقے میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی سیاحت کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور اس طرح ترقی کے نئے امکانات کھلیں گے۔ وزیر اعظم نے تمام ہم وطنوں سے گزارش کی کہ وہ صبر سے کام لیں اور کونو نیشنل پارک میں چھوڑے گئے چیتوں کو دیکھنے کے لیے چند ماہ انتظار کریں۔ ”آج یہ چیتے مہمان بن کر آئے ہیں، اور اس علاقے سے نا واقف ہیں“ انھوں نے کہا، ”ان چیتوں کو کونو نیشنل پارک کو اپنا گھر بنانے کے لیے، ہمیں انھیں چند ماہ کا وقت دینا ہوگا۔“ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی رہنما خطوط پر عمل کیا جا رہا ہے اور ہندوستان ان چیتوں کو آباد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ”ہمیں اپنی کوششوں کو ناکام نہیں ہونے دینا چاہیے“، وزیر اعظم نے مزید کہا۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ آج جب دنیا فطرت اور ماحول کو دیکھتی ہے تو وہ پائیدار ترقی کی بات کرتی ہے۔ ”ہندوستان کے لیے، فطرت اور ماحول، اس کے جانور اور پرندے، صرف پائیداری اور سلامتی کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کی حساسیت اور روحانیت کی بنیاد ہیں“، انھوں نے کہا۔ ”ہمیں اپنے ارد گرد رہنے والی سب سے چھوٹی مخلوق کا خیال رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہماری روایات ایسی ہیں کہ اگر کسی جاندار کی جان بغیر کسی وجہ کے چلی جائے تو ہم احساس جرم سے بھر جاتے ہیں۔ پھر ہم یہ کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ ہماری وجہ سے ایک پوری نوع کا وجود ختم ہو گیا ہے؟“، انھوں نے مزید کہا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ آج افریقہ کے کچھ ممالک میں چیتے پائے جاتے ہیں اور ایران میں بھی تاہم اس فہرست سے ہندوستان کا نام بہت پہلے نکال دیا گیا تھا۔ ”بچوں کو آنے والے سالوں میں اس ستم ظریفی سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے، وہ کونو نیشنل پارک میں اپنے ہی ملک میں چیتا کو دوڑتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ آج ہمارے جنگل اور زندگی میں ایک بڑا خلا چیتا کے ذریعے پُر کیا جا رہا ہے“، جناب مودی نے کہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 21ویں صدی کا ہندوستان پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ معیشت اور ماحولیات متضاد میدان نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ملک کی اقتصادی ترقی بھی ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج ایک طرف ہم دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہیں، وہیں ملک کے جنگلاتی علاقے بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کیے گئے کاموں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 میں ہماری حکومت کے قیام کے بعد سے ملک میں تقریباً 250 نئے محفوظ علاقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایشیائی شیروں کی تعداد میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے اور گجرات ملک میں ایشیائی شیروں کا ایک غالب حلقہ بن کر ابھرا ہے۔ اس کے پیچھے کئی دہائیوں کی محنت، تحقیق پر مبنی پالیسیاں اور عوامی شرکت کا بڑا کردار ہے، جناب مودی نے مزید کہا، ”مجھے یاد ہے، ہم نے گجرات میں ایک عہد لیا تھا – ہم جنگلی جانوروں کے لیے احترام بڑھائیں گے، اور تنازعات کو کم کریں گے۔ آج اسی سوچ کا اثر ہمارے سامنے ہے۔“ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے وقت سے پہلے شیروں کی تعداد کو دو گنا کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے یاد کیا کہ جب آسام میں ایک سینگ والے گینڈے کا وجود خطرے میں تھا، لیکن آج ان کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہاتھیوں کی تعداد بھی 30 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ جناب مودی نے گیلی زمینوں کی توسیع میں ہندوستان کے نباتات اور حیوانات کے تحفظ کے لیے کیے گئے کام کی بھی نشاندہی کی۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگی اور ضروریات ویٹ لینڈ ایکولوجی پر منحصر ہیں۔ ”آج ملک میں 75 ویٹ لینڈ کو رامسر سائٹس قرار دیا گیا ہے، جن میں سے گزشتہ 4 سالوں میں 26 سائٹس کا اضافہ کیا گیا ہے“، وزیر اعظم نے کہا، ”ملک کی ان کوششوں کا اثر آنے والی صدیوں تک نظر آئے گا، اور ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔“ وزیر اعظم نے ان عالمی مسائل کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کروائی جن پر ہندوستان آج توجہ دے رہا ہے۔ انھوں نے عالمی مسائل، ان کے حل اور یہاں تک کہ ہماری زندگیوں کا جامع انداز میں تجزیہ کرنے کی ضرورت کو دہرایا۔ زندگی کے منتر یعنی دنیا کے لیے ماحولیات کے لیے طرز زندگی اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان دنیا کو ایک پلیٹ فارم دے رہا ہے۔ ان کوششوں کی کامیابی دنیا کی سمت اور مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ وہ وقت آ گیا ہے جب ہمیں عالمی چیلنجوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اپنے انفرادی چیلنج اور ہماری زندگی میں ایک چھوٹی سی تبدیلی پوری زمین کے مستقبل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ”مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کی کوششیں اور روایات اس سمت میں پوری انسانیت کی رہنمائی کریں گی، اور ایک بہتر دنیا کے خواب کو تقویت دیں گی“، وزیر اعظم نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ پس منظر کونو نیشنل پارک میں وزیر اعظم کے ذریعہ جنگلی چیتوں کی رہائی ہندوستان کی جنگلی حیات اور اس کے رہائش گاہ کو زندہ کرنے اور متنوع بنانے کی ان کی کوششوں کا حصہ ہے۔ چیتا کو 1952 میں بھارت سے نا پید قرار دیا گیا تھا۔ جن چیتوں کو رہا کیا جائے گا ان کا تعلق نامیبیا سے ہے اور انھیں اس سال کے شروع میں دستخط کیے گئے ایک ایم او یو کے تحت لایا گیا ہے۔ ہندوستان میں چیتا کا تعارف پروجیکٹ چیتا کے تحت کیا جا رہا ہے، جو دنیا کا پہلا بین بر اعظمی بڑے جنگلی گوشت خوروں کی نقل مکانی کا منصوبہ ہے۔ چیتے بھارت میں کھلے جنگل اور گھاس کے میدان کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے میں مدد کریں گے۔ اس سے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ماحولیاتی نظام کی خدمات کو بڑھانے میں مدد ملے گی جیسے پانی کی حفاظت، کاربن کی تلاش اور مٹی میں نمی کا تحفظ، جس سے معاشرے کو بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچے گا۔ یہ کوشش، ماحولیاتی تحفظ اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے وزیر اعظم کے عزم کے مطابق، ماحولیات کی ترقی اور ماحولیاتی سیاحت کی سرگرمیوں کے ذریعے مقامی کمیونٹی کے لیے روزی روٹی کے بہتر مواقع کا باعث بھی بنے گی۔,মধ্যপ্ৰদেশৰ কুনো ৰাষ্ট্ৰীয় উদ্যানত বনৰীয়া চিতা মুকলি কৰি দিয়াক লৈ দেশবাসীক উদ্দেশ্যি ভাষণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D9%86-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B2-2018-%DA%A9%DB%92-65-%DA%A9%D9%84%D9%88-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%AF/,نئیدہلی۔20؍اگست۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ایشین گیمز 2018 میں 65 کلو گرام کے فری اسٹائل کشتی مقابلے میں گولڈ میڈل جیتنے پر بجرنگ پونیا کو مبارکباد دی ہے۔ وزیراعظم نے اپنی مبارکباد کے پیغام میں کہا ،’’ بجرنگ پونیا ! ایشین گیمز 2018 میں 65 کلو گرام کے فری اسٹائل کشتی مقابلے میں یادگار کامیابی پر مبارکباد ۔ یہ کامیابی اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ ایشین گیمز 2018 میں ہندوستان نے پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ آپ کے مستقبل کی کوششوں کیلئے نیک خواہشات۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔س ش۔ع ن,২০১৮ৰ এছিয়ান গেমছত মল্লযুঁজৰ ৬৫ কেজি ফ্ৰীষ্টাইল শাখাত স্বৰ্ণ পদক জয় কৰা বজৰং পুনিয়াক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-19-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA-%D8%AD%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0-5/,نئی دہلی، 13/جنوری 2022 ۔ پہلی میٹنگ ہے 2022 کی۔ سب سے پہلے تو آپ سبھی کو لوہڑی کی بہت بہت مبارک باد۔ مکر سنکرانتی، پونگل، بھوگلی بیہو، اتراین اور پوش پرو کی بھی پیشگی مبارک باد۔ 100 سال کی سب سے بڑی وبا سے بھارت کی لڑائی اب تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ محنت ہمارا واحد راستہ ہے اور جیت واحد متبادل۔ ہم 130 کروڑ بھارت کے لوگ اپنی کوششوں سے کورونا سے فتح یاب ہوکر ضرور نکلیں گے اور آپ سب سے جو باتیں میں نے سنی ہیں، اس میں بھی وہی اعتماد ظاہر ہورہا ہے۔ ابھی اومیکرون کی شکل میں جو نیا چیلنج آیا ہے، معاملات کی جو تعداد بڑھ رہی ہے، اس کے بارے میں صحت سکریٹری کی طرف سے تفصیل سے ہمیں جانکاری دی گئی ہے۔ امت شاہ جی نے بھی ابتدا میں کچھ باتیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ آج متعدد وزرائے اعلیٰ برادری کی طرف سے بھی اور وہ بھی ہندوستان کے الگ الگ کونے کی کافی اہم باتیں ہم سب کے سامنے آئی ہیں۔ ساتھیو! اومیکرون کے تعلق سے پہلےجو پس و پیش کی صورت حال تھا وہ اب رفتہ رفتہ واضح ہورہی ہے۔ پہلے جو ویرینٹ تھے، ان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تیزی سے اومیکرون ویرینٹ عوام الناس کو متاثر کررہا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں ایک دن میں 14 لاکھ تک نئے معاملات سامنے آئے ہیں۔ بھارت میں ہمارے سائنس داں اور صحت ماہرین، ہر صورت حال اور اعداد و شمار کا مسلسل مطالعہ کررہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے، ہمیں چوکس رہنا ہے، محتاط رہنا ہے لیکن گھبرانے کی صورت حال نہ آئے، اس کا بھی ہمیں دھیان رکھنا ہی ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تہواروں کے اس موسم میں لوگوں کی اور انتظامیہ کی چوکسی کہیں سے بھی کم نہ ہو۔ پہلے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے جس طرح پری-ایمپٹیو، پرو- ایکٹیو اور کولیکٹیو ایپروچ اپنائی ہے وہی اس وقت کی جیت کا منتر ہے۔ کورونا انفیکشن کو ہم جتنا محدود رکھ پائیں گے، پریشانی اتنی ہی کم ہوگی۔ ہمیں بیداری کے محاذ پر، سائنس پر مبنی معلومات کو تقویت دینے کے ساتھ ہی اپنے طبی بنیادی ڈھانچے کو، میڈیکل افرادی قوت کو بڑھاتے ہی رہنا پڑے گا۔ ساتھیو! دنیا کے زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ ویرینٹ چاہے کوئی بھی ہو، کورونا سے لڑنے کا سب سے مؤثر ہتھیار ویکسین ہی ہے۔ بھارت میں تیار ویکسین تو دنیا بھر میں اپنی عمدگی ثابت کررہی ہیں۔ یہ ہر بھارتی کے لئے فخر کی بات ہے کہ آج بھارت تقریباً 92 فیصد بالغ آبادی کو پہلی ڈوز دے چکا ہے۔ ملک میں دوسری ڈوز کی کوریج بھی 70 فیصد کے آس پاس پہنچ چکی ہے۔ اور ہماری ٹیکہ کاری مہم کو ایک سال پورا ہونے میں ابھی تین دن باقی ہیں۔ 10 دن کے اندر ہی بھارت اپنے تقریباً 3 کروڑ نوجوانوں کی ٹیکہ کاری کرچکا ہے۔ یہ بھارت کی اہلیت کو دکھاتا ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کی ہماری تیاری کو دکھاتا ہے۔ آج ریاستوں کے پاس خاطرخواہ مقدار میں ٹیکے دستیاب ہیں۔ فرنٹ لائن ورکرس اور بزرگ شہریوں کو احتیاطی خوراک جتنی جلد لگے گی، اتنی ہی ہمارے حفظان صحت کے نظام کی اہلیت بڑھے گی۔ صد فیصد ٹیکہ کاری کے لئے ہر گھر دستک مہم کو ہمیں اور تیز کرنا ہے۔ میں آج اپنے ان صحت کارکنان، ہماری آشا بہنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو موسم کی دشوار صورت حال کے درمیان ٹیکہ کاری مہم کو رفتار دینے میں مصروف ہیں۔ ساتھیو! ٹیکہ کاری کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کو ہمیں ٹکنے نہیں دینا ہے۔ کئی بار ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ٹیکے کے باوجود انفیکشن ہورہا ہے تو کیا فائدہ؟ ماسک کو لے کر بھی ایسی افواہیں ہوتی ہیں کہ اس سے فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسی افواہوں کا توڑ کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ساتھیو! کورونا سے اس لڑائی میں ہمیں ایک اور بات کا بہت خیال رکھنا ہوگا۔ اب ہمارے پاس کورونا سے لڑائی کا دو سال کا تجربہ ہے، ملک گیر تیاری بھی ہے۔ عام لوگوں کی روزی روٹی، اقتصادی سرگرمیوں کو کم سے کم نقصان ہو، معیشت کی رفتار برقرار رہے، کوئی بھی حکمت عملی تیار کرنے وقت ہم ان باتوں کو ضرور پیش نظر رکھیں۔ یہ بہت ضروری ہے اور اس لئے لوکل کانٹینمنٹ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا بہتر ہوگا۔ جہاں سے زیادہ معاملے آرہے ہیں، وہاں زیادہ سے زیادہ اور تیزی سے جانچ ہو، یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہوم آئیسولیشن میں ہی زیادہ سے زیادہ علاج ہوسکے۔ اس کے لئے ہوم آئیسولیشن سے متعلق رہنما ہدایات کو، پروٹوکول پر عمل کرنا اور صورت حال کے مطابق بہتری لانا بھی بہت ضروری ہے۔ ہوم آئیسولیشن کے دوران ٹریکنگ اور ٹریٹمنٹ کا انتظام جتنا بہتر ہوگا، اتنی ہی اسپتالوں میں جانے کی ضرورت کم ہوگی۔ انفیکشن کا پتہ چلنے پر لوگ سب سے پہلے کنٹرول روم سے رابطہ کرتے ہیں، لہٰذا مناسب رسپانس اور پھر مریض کی مسلسل ٹریکنگ کانفیڈنس بڑھانے میں بہت مدد کرتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ کئی ریاستی حکومتیں اس سمت میں بہت اچھی طرح نئی نئی اختراعاتی کوششیں بھی کررہی ہیں، تجربات بھی کررہی ہیں۔ مرکزی حکومت نے ٹیلی میڈیسن کے لئے بھی کافی سہولتیں تیار کی ہیں۔ اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال، کورونا سے متاثر مریضوں کی بہت مدد کرے گا۔ جہاں تک ضروری دواؤں اور ضروری بنیادی ڈھانچے کی بات ہے تو مرکزی حکومت ہر بار کی طرح ہر ریاست کے ساتھ کھڑی ہے۔ پانچ سے چھ مہینہ قبل 23 ہزار کروڑ روپئے کا جو خصوصی پیکیج دیا گیا تھا، اس کا بہتر استعمال کرتے ہوئے کئی ریاستوں نے صحت بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا ہے۔ اس کے تحت ملک بھر میں میڈیکل کالج اور ضلع اسپتالوں میں بچوں کے لئے 800 سے زیادہ خصوصی پیڈیاٹرک کیئر یونٹس منظور کئے گئے ہیں، تقریباً ڈیڑھ لاکھ نئے آکسیجن، آئی سی یو اور ایچ ڈی یو بیڈ تیار کئے جارہے ہیں، 5 ہزار سے زیادہ خصوصی ایمبولینس اور ساڑھے نو سو سے زیادہ لیکویڈ میڈیکل آکسیجن اسٹوریج ٹینک کی صلاحیت کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایمرجنسی انفرااسٹرکچر کی کیپیسٹی بڑھانے کے لئے ایسی متعدد کوششیں ہوئی ہیں، لیکن ہمیں اس انفراسٹرکچر میں توسیع کرتے رہنا ہے۔ کورونا کو ہرانے کے لئے ہمیں اپنی تیاریوں کو کورونا کے ہر ویرینٹ سے آگے رکھنا ہوگا۔ اومیکرون سے نمٹنے کے ساتھ ہی ہمیں آنے والے کسی اور ممکنہ ویرینٹ کے لئے بھی ابھی سے تیاری شروع کردینی ہے۔ مجھے یقین ہے، ہم سبھی کا آپسی تعاون، ایک حکومت کا دوسری حکومت کے ساتھ تال میل، کورونا سے لڑائی میں ملک کو ایسے ہی طاقت دیتا رہے گا۔ ایک بات ہم بخوبی جانتے ہیں، ہمارے ملک میں ہر گھر میں یہ روایت ہے۔ جو آیورویدک چیزیں ہیں، کاڑھا وغیرہ پینے کی جو روایت ہے، وہ اس موسم میں فائدہ مند ہیں۔ اس کا ذکر میں کسی میڈیسن کے طور پر نہیں کررہا ہوں، لیکن اس کا استعمال ہے۔ اور میں تو اہل وطن سے بھی درخواست کروں گا کہ یہ جو ہماری روایتی گھریلو چیزیں ہیں، ایسے وقت میں ان سے بھی کافی مدد ملتی ہے۔ اس پر بھی ہم توجہ مرکوز کریں۔ ساتھیو! آپ سبھی نے وقت نکالا، ہم سب نے تشاویش مشترک کیں اور ہم سب نے مل کر کہ بحران کتنا ہی بڑا کیوں نہ آئے، ہماری تیاریاں، ہمارا مقابلہ کرنے کا اعتماد اور کامیاب ہونے کے عزم کے ساتھ ہر ایک کی باتوں سے نکل رہا ہے، اور یہی عام شہریوں کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اور عام شہریوں کے تعاون سے ہم اس صورت حال سے بھی کامیابی کے ساتھ گزریں گے۔ آپ سبھی نے وقت نکالا اس کے لئے میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,ক’ভিড-১৯ পৰিস্থিতি সন্দৰ্ভত মুখ্যমন্ত্ৰীসকলৰ সৈতে বৈঠকত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সামৰণি ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-12-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DB%8C%D9%88%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D9%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A8-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%98%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE/,"نئی دہلی۔ 09 جولائی وزیر اعظم جناب نریندر مودی 12 جولائی 2022 کو دیوگھر اور پٹنہ کا دورہ کریں گے۔دوپہر تقریباً 1:15 بجے، وزیر اعظم دیوگھر میں 16,800 کروڑ روپے سے زیادہ کے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس کے بعد تقریباً 2:40 بجے ، وہ بارہ جیوترلنگوں میں سے ایک بابا بید ناتھ مندر میں درشن اور پوجا کریں گے۔ شام 6 بجے کے قریب، وزیر اعظم پٹنہ میں بہار قانون ساز اسمبلی کی صد سالہ تقریبات کی اختتامی پروگرام سے خطاب کریں گے۔ دیوگھر میں وزیر اعظم بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینے، کنکٹویٹی بڑھانے اور خطے میں زندگی آسان بنانے کی سمت میں ایک قدم بڑھاتے ہوئے ، وزیر اعظم دیوگھر میں 16,800 کروڑ روپے سے زیادہ کے مختلف پروجیکٹوں کا سنگ بنیادرکھیں گے اور انہیں قوم کے نام وقف کریں گے۔ ان منصوبوں سے خطے میں سماجی و اقتصادی خوشحالی کو نمایاں طور پر بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ بابا بید ناتھ دھام ملک بھر کے عقیدت مندوں کے لیے ایک اہم مذہبی مقام ہے، جہاں سے براہ راست رابطہ فراہم کرنے کے ایک اہم قدم کے طور پر وزیر اعظم دیوگھر ہوائی اڈے کا افتتاح کریں گے۔ اس کی تعمیر تقریباً 400 کروڑ روپے کی لاگت سے کی گئی ہے۔ ہوائی اڈے کی ٹرمینل کی عمارت کی صلاحیت سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ مسافروں کی ہے۔ دیوگھر میں واقع ایمس پورے خطے کےحفظان صحت کے شعبے کے لیے ایک اعزاز ہے۔ ایمس دیوگھر میں خدمات کو مزید فروغ ملے گا کیونکہ وزیر اعظم ایمس، دیوگھر میں مریضوں کے شعبہ (آئی پی ڈی) اور آپریشن تھیٹر کی خدمات کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ یہ ملک کے تمام حصوں میں حفظان صحت کی بہترین سہولیات تیار کرنے کے وزیر اعظم کے وژن کےعین مطابق ہے۔ ملک بھر میں مذہبی اہمیت کے حامل مقامات پر عالمی معیار کے بنیادی ڈھانچے تیار کرنے اور ایسے تمام مقامات پر سیاحوں کے لیے سہولیات کو بہتر بنانے کے وزیر اعظم کے عزم کووزارت سیاحت کی اسکیم پرساد کے تحت منظور شدہ پروجیکٹ ’’بیدیا ناتھ دھام، دیوگھر کی ترقی” کے اجزاء کے طور پر مزید فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم کے ذریعہ افتتاح کیے جانے والے ان منصوبوں میں 2000 زائرین کی گنجائش والے زائرین کے دو بڑے اجتماعی ہال کی تعمیر جلسر جھیل کے سامنے اور شیو گنگا تالاب کی ترقی وغیرہ شامل ہیں ۔ نئی سہولیات سے ہر سال بابا بید ناتھ دھام آنے والے لاکھوں عقیدت مندوں کے لیے سیاحت کے تجربے میں مزید بہتری آئے گی۔ وزیر اعظم 10,000 کروڑ روپے سے زائد کے متعدد سڑکوں کے منصوبوں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ جن منصوبوں کا افتتاح کیا جا رہا ہے ان میں این ایچ – 2 کے گورہر سے برواڑا سیکشن تک چھ لین کی تعمیر شامل ہیں۔ راج گنج-چاس سے این ایچ-32 کے مغربی بنگال سرحدی حصے تک کو چوڑا کرنا اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جن بڑے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے ان میں این ایچ -80 کے مرزا چوکی-پھرکا سیکشن کو چار لین کا بنانا، این ایچ -98 کے ہری ہر گنج سے پروا موڑ سیکشن تک چار لین بنانا، این ایچ -23 کے کے پالما سے گملا سیکشن تک چار لین بنانا؛ این ایچ -75 کے کوچیری چوک سے پسکا موڑ سیکشن پر ایلیویٹڈ کوریڈور وغیرہ شامل ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں رابطے کو مزید فروغ دیں گے اور عام لوگوں کے لیے نقل و حرکت میں آسانی کو یقینی بنائیں گے۔ وزیر اعظم خطے میں تقریباً 3000 کروڑ روپے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے مختلف منصوبوں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ ان میں گیل (جی اے آئی ایل) کی جگدیش پور-ہلدیہ-بوکارو-دھامرا پائپ لائن کا بوکارو-انگول سیکشن ،برہی، ہزاری باغ میں ایچ پی سی ایل کا نیا ایل پی جی بوٹلنگ پلانٹ اور بی پی سی ایل کے بوکارو ایل پی جی بوٹلنگ پلانٹ کا افتتاح شامل ہے۔اس کے علاوہ جھریا بلاک میں پربت پور گیس کلیکٹنگ اسٹیشن، او این جی سی کے کول بیڈ میتھین (سی بی ایم) اثاثہ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم ریلوے کے دو منصوبوں گوڈا-ہنسڈیہا الیکٹریفائیڈ سیکشن اور گڑھوا-مہوریہ کو قوم ڈبلنگ پروجیکٹ قوم کے نام وقف کریں گے۔ یہ منصوبے صنعتوں اور بجلی گھروں کو سامان کی بغیر کسی رکاوٹ کے نقل و حرکت کو آسان بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ وہ دمکا سے آسنسول تک ٹرین کی آمدورفت میں آسانی کو بھی یقینی بنائیں گے۔ وزیر اعظم ریلوے کے تین منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ رانچی ریلوے اسٹیشن کی تجدید ؛ جسی ڈیہہ بائی پاس لائن اور ایل ایچ بی کوچ منٹنینس ڈپو، گوڈا کا افتتاح بھی کریں گے۔ رانچی کے مجوزہ سٹیشن میں عالمی معیار کی مسافر سہولیات ہوں گی جن میں فوڈ کورٹ، ایگزیکٹو لاؤنج، کیفے ٹیریا، ایئر کنڈیشنڈ ویٹنگ ہال وغیرہ شامل ہیں ۔ اس سے مسافروں کی آمد و رفت میں آسانی اور آرام کو یقینی بنایا جا سکےگا۔ پٹنہ میں پی ایم وزیر اعظم بہار قانون ساز اسمبلی کی صد سالہ تقریبات کے اختتامی پروگرام سے خطاب کریں گے۔ وزیر اعظم شتابدی اسمرتی استمبھ کا افتتاح کریں گے جو بہار ودھان سبھا کے 100 سال کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم ودھان سبھا میوزیم کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔اس میوزیم میں مختلف گیلریاں بہار میں جمہوریت کی تاریخ اور موجودہ شہری ڈھانچے کے ارتقاء کا مظہرہوں گی۔ اس میں ایک کانفرنس ہال بھی ہوگا جس میں 250 سے زائد افراد کی گنجائش ہوگی۔ وزیر اعظم اس موقع پر ودھان سبھا گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",১২ জুলাইত দেওঘৰ আৰু পাটনা ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-28-%D8%A7%D9%88%D8%B1-29-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D9%84%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A7%8C-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE/,نئی دہلی،27 جولائی 2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی 28 اور29 جولائی کو لکھنؤ کا دورہ کریں گے۔ 28 جولائی کو وہ ‘‘شہری منظر نامے میں تبدیلی’’ کی تقریب میں شرکت کریں گے۔یہ تقریب شہری ترقی سے متعلق حکومت کے تین اہم اقدامات کی تیسری سالگرہ پر منعقد کی جائے گی۔ ان میں پردھان منتری آواس یوجنا(شہری)، اٹل مشن برائے شہری تبدیلی کا احیاء(اَمرُت) اور اسمارٹ سٹی مشن شامل ہیں۔ وزیر اعظم شہری ترقی کے اہم مشنوں پر ایک نمائش کا دورہ کریں گے ۔ وہ ہر ریاست ؍مرکز کے زیر انتظام علاقے کے پی ایم اے وائی(یو) اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے 35افراد کے ساتھ گفتگو بھی کریں گے۔ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اترپردیش کے مختلف شہروں سے پی ایم اے وائی سے فائدہ اٹھانے والوں سے ان کی رائے حاصل کریں گے۔ وہ اترپردیش کی ریاست میں اہم مشن کے تحت مختلف پروجیکٹوں کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے اور عوامی اجتماع سے بھی خطاب کریں گے۔ اترپردیش حکومت نے سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور صنعت کاری کو فروغ دینے کی اپنی کوشش کے تحت فروری 2018ء میں یوپی انویسٹر سمٹ کا انعقاد کیا تھا۔ اس سے قابل تجدید توانائی، بنیادی ڈھانچہ،بجلی، آئی ٹی اور الیکٹرونک مینوفیکچرنگ اور سیاحت وغیرہ کے شعبوں میں 4.5لاکھ کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا رجحان ملا ہے۔ چند مہینوں میں 81پروجیکٹوں کے لئے تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تجاویز پر اب تک موصول ہوئی ہیں، جن کے لئے سنگ بنیاد رکھا جانا ہے۔ وزیر اعظم 29جولائی کو لکھنؤ میں ان پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کریں گے۔ م ن۔و ا۔ن ع,২৮-২৯ জুলাইত লক্ষ্ণৌ ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D8%A7%D9%84%D8%B5%DB%81-%D8%B3%D8%A7%D8%AC%D9%86%D8%A7-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%9A%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے خالصہ ساجنا دیوس کے موقع پر سبھی کو، خصوصاً سکھوں کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ خالصہ عقیدہ دنیا بھر کے لاتعداد افراد کو ترغیب فراہم کرتا ہے۔ اس سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے سکھوں نے عالمی سطح پر مختلف میدانوں میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’خالصہ ساجنا دیوس کے موقع پر سبھی کو، خصوصاً سکھوں کو بہت بہت مبارکباد۔ خالصہ عقیدہ دنیا میں لاتعداد افراد کو ترغیب فراہم کرتا ہے۔ اس سے ترغیب حاصل کرکے سکھوں نے دنیا بھر میں مختلف میدانوں میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔‘‘,খালচা সাজনা দিৱস উপলক্ষে সকলোকে শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D9%84-%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DA%88-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%DA%86%D8%AF%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%85%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%9A-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شریمتی اوما سچدیوا سے ملاقات کی۔ 90 سالہ خاتون نے، وزیر اعظم کو اپنے آنجہانی شوہر کرنل (ریٹائرڈ) ایچ کے سچدیوا کی لکھی ہوئی 3 کتابوں کی کاپیاں پیش کیں۔ ٹویٹس کی ایک سیریز میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’آج میں نے محترمہ اوما سچدیوا جی کے ساتھ ایک یادگار بات چیت کی۔ وہ 90 سال کی ہیں اوربھگوان نے انہیں بہت زیادہ توانائی اور رجائیت کے جذبے سے نوازا ہے۔ ان کے شوہر، کرنل (ریٹائرڈ) ایچ کے سچدیوا، ایک قابل احترام وسیع تجربہ کارشخص تھے۔ اوما جی جنرل ویدملک جی کی موسی ہیں‘‘۔ ’’اوما جی نے مجھے اپنے آنجہانی شوہر کی لکھی ہوئی 3 کتابوں کی کاپیاں دیں۔ ان میں سے دو گیتا سے وابستہ ہیں اور تیسری کتاب، جس کا عنوان ہے 'خون اور آنسو' ،کرنل (ریٹائرڈ) ایچ کے سچدیوا کےتقسیم کے ہولناک دورکے تجربات اوران کی زندگی پر اس کے اثرات کا ایک متحرک بیان ہے‘‘۔ ’’ہم نے، ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے طور پر جنہوں نے، تقسیم کی وجہ سے مصائب کا سامنا کیا، اپنی زندگیوں کی ازسرنو تعمیر کی اور قومی ترقی میں اپنی حصہ رسدی کی، 14 اگست کو تقسیم کے ہولناک یادگاری دن کے طور پر منانے کے ہندوستان کے فیصلے پر تبادلہ خیال کیا ۔وہ انسانی لچک اور استقامت کا مظہر ہیں‘‘۔,কৰ্ণেল (অৱসৰপ্ৰাপ্ত) এইচ কে সুচদেৱাৰ পত্নী শ্ৰীমতী উমা সুচদেৱাক সাক্ষাৎ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF%D9%88-%DA%A9%DB%8C-150%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%DA%A9%DB%8C-%DB%8C%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A7%A7%E0%A7%AB%E0%A7%A6%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE/,نمسکار، سری اروبندو کے 150ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ اس اہم پروگرام پر میں آپ سب کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس پر مسرت موقع پر میں تمام ہم وطنوں کو بھی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ سری اروبندو کی 150ویں یوم پیدائش پورے ملک کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ ملک نے اس سال کو منانے کا تہیہ کیا تھا خاص طور پر ان کے خیالات اور نظریات کو ہماری نئی نسل تک پہنچانے کے لیے۔ اس کے لیے ایک خصوصی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ وزارت ثقافت کی قیادت میں بہت سے مختلف پروگرام بھی منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں، پڈوچیری کی سرزمین پر، جو مہارشی کی اپنی تپسیا بھی رہی ہے، آج ملک انھیں ایک اور شاندار خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ آج سری اروبندو پر ایک یادگاری سکہ اور ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سری اروبندو کی زندگی اور تعلیمات سے تحریک لے کر قوم کی یہ کوششیں ہماری قراردادوں کو نئی توانائی اور طاقت دیں گی۔ ساتھیوں، تاریخ میں کئی بار ایک ہی عرصے میں کئی حیرت انگیز واقعات ایک ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لیکن، انھیں عام طور پر محض ایک اتفاق سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب ایسے اتفاقات ہوتے ہیں تو ان کے پیچھے کچھ یوگک طاقت کام کرتی ہے۔ یوگا شکتی کا مطلب ہے ایک اجتماعی طاقت، ایک ایسی طاقت جو سب کو متحد کرتی ہے! آپ نے دیکھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے عظیم آدمی گزرے ہیں جنھوں نے آزادی کے جذبے کو تقویت بخشی اور روح کو زندہ کیا۔ ان میں سے تین، سری اروبندو، سوامی وویکانند اور مہاتما گاندھی، وہ عظیم آدمی ہیں جن کی زندگیوں میں سب سے اہم واقعات ایک ہی وقت میں رونما ہوئے۔ ان واقعات نے ان عظیم انسانوں کی زندگیاں بدل دیں اور قوم کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلیاں لائیں ۔ سری اروبندو 14 سال بعد 1893 میں انگلینڈ سے ہندوستان واپس آئے۔ اسی سال 1893 میں سوامی وویکانند عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ میں اپنی مشہور تقریر کے لیے امریکہ گئے تھے۔ اور، اسی سال، گاندھی جی جنوبی افریقہ گئے جہاں سے ان کا مہاتما گاندھی بننے کا سفر شروع ہوا، اور بعد میں اس ملک کو آزادی کا مجاہد ملا۔ بھائیو بہنوں، آج ایک بار پھر ہمارا ہندوستان بیک وقت ایسے کئی اتفاقات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ آج جب ملک نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر لیے ہیں، امرت کال کی طرف ہمارا سفر شروع ہو رہا ہے، اسی وقت ہم سری اروبندو کی 150ویں یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ اس عرصے میں، ہم نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں یوم پیدائش جیسے مواقع کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ ساتھیوں، سری اروبندو کی زندگی ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی عکاس ہے۔ وہ بنگال میں پیدا ہوئے تھے لیکن بنگالی، گجراتی، مراٹھی، ہندی اور سنسکرت سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ بنگال میں پیدا ہوئے تھے، لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گجرات اور پڈوچیری میں گزارا۔ وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اپنی شخصیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ آج آپ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، مہا رشی اروبندو کے آشرم، ان کے پیروکار، ان کے مداح ہر جگہ ملیں گے۔ انھوں نے ہمیں دکھایا کہ جب ہم اپنی ثقافت کو جان لیتے ہیں اور جیتے ہیں تو ہمارا تنوع ہماری زندگی کا ایک بے ساختہ جشن بن جاتا ہے۔ ساتھیوں، یہ آزادی کی لافانیت کے لیے ایک عظیم محرک ہے۔ ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے لیے اس سے بہتر حوصلہ افزائی کیا ہو سکتی ہے؟ کچھ دن پہلے میں کاشی گیا تھا۔ وہاں کاشی تامل سنگم پروگرام کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ یہ ایک شاندار واقعہ ہے۔ ہمیں اس تہوار میں یہ دیکھنے کو ملا کہ ہندوستان اپنی روایت اور ثقافت کے ذریعے کس طرح اٹوٹ، ثابت قدم ہے۔ آج کا نوجوان کیا سوچتا ہے، یہ کاشی تامل سنگم میں دیکھا گیا۔ آج پورے ملک کے نوجوان ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کی قومی پالیسی سے متاثر ہو کر زبان اور لباس کی بنیاد پر تفریق کرنے والی سیاست کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ آج جب ہم سری اروبندو کو یاد کر رہے ہیں، آزادی کا امرت کا تہوار منا رہے ہیں، تو ہمیں کاشی تامل سنگم کے جذبے کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ساتھیوں، اگر ہم مہا رشی اروبندو کی زندگی کو قریب سے دیکھیں تو ہمیں ہندوستان کی روح اور ہندوستان کی ترقی کے سفر کا بنیادی فلسفہ ملتا ہے۔ اروبندو ایک ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی میں جدید تحقیق بھی تھی، سیاسی مزاحمت بھی تھی اور برہما بودھ بھی۔ انھوں نے انگلستان کے بہترین اداروں میں تعلیم پائی۔ انھیں اس دور کا جدید ترین ماحول ملا، عالمی شہرت ملی۔ انھوں نے خود جدیدیت کو مساوی کھلے ذہن کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن، جب وہی اروبندو ملک واپس آتے ہیں، تو وہ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کا ہیرو بن جاتے ہیں۔ انھوں نے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ ان پہلے آزادی پسندوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کھل کر مکمل سوراج کی بات کی، کانگریس کی انگریز نواز پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ”اگر ہم اپنی قوم کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے روتے ہوئے ��چے کی طرح التجا کرنا چھوڑنا ہوگا“۔ بنگال کی تقسیم کے وقت، اروبندو نے نوجوانوں کو بھرتی کیا، اور نعرہ دیا – کوئی سمجھوتہ نہیں! کوئی سمجھوتہ نہیں! انھوں نے ’بھوانی مندر‘ کے نام سے پمفلٹ چھاپے، مایوسی میں گھرے لوگوں کو ملک کی ثقافت کا نظارہ کرایا۔ ایسی نظریاتی وضاحت، ایسی ثقافتی پختگی اور ایسی حب الوطنی! یہی وجہ ہے کہ اس دور کے عظیم آزادی پسند جنگجو سری اروبندو کو اپنا سر چشمہ تصور کرتے تھے۔ نیتا جی سبھاش جیسے انقلابی انھیں اپنی قراردادوں کا محرک سمجھتے تھے۔ دوسری طرف جب آپ ان کی زندگی کی فکری اور روحانی گہرائی میں جھانکیں گے تو وہ آپ کو اتنے ہی سنجیدہ اور سنت نظر آئیں گے۔ وہ روح اور خدا جیسے گہرے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، برہما تتوا اور اپنشدوں کی وضاحت کرتے تھے۔ انھوں نے جیو اور ایش کے فلسفے میں سماجی خدمت کا فارمولا شامل کیا۔ آپ سری اروبندو کے الفاظ سے آسانی سے سیکھ سکتے ہیں کہ نار سے نارائن تک کیسے سفر کیا جائے۔ یہ ہندوستان کا پورا کردار ہے، جس میں دھرم یعنی فرض کے لیے شاندار لگن ہے، اور نجات ہے، یعنی روحانیت کا برہمن ادراک۔ اسی لیے، آج امرت کال میں، جب ملک ایک بار پھر اپنی تعمیر نو کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، یہ تکمیل ہمارے ’پنچ پران‘ میں جھلکتی ہے۔ آج ہم ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے لیے تمام جدید نظریات، بہترین طریقوں کو قبول کر رہے اور اپنا رہے ہیں۔ ہم ’انڈیا فرسٹ‘ کے منتر کو سامنے رکھتے ہوئے بغیر کسی سمجھوتے کے کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آج ہم فخر کے ساتھ اپنے ورثے اور اپنی شناخت کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ بھائیو بہنوں، مہا رشی اروبندو کی زندگی ہمیں ہندوستان کی ایک اور طاقت کا احساس دلاتی ہے۔ ملک کی یہ طاقت، ’یہ روح آزادی‘ اور غلامی کی ذہنیت سے آزادی! مہا رشی اروبندو کے والد، ابتدائی طور پر انگریزی کے زیر اثر انھیں ہندوستان اور ہندوستانی ثقافت سے مکمل طور پر دور رکھنا چاہتے تھے۔ وہ انگریزی ماحول میں ہندوستان سے ہزاروں میل دور ملک سے بالکل کٹ کر رہ گئے۔ لیکن، جب وہ ہندوستان واپس آئے، جب وہ جیل میں گیتا سے رابطہ میں آئے، تو یہی اروبندو تھے جو ہندوستانی ثقافت کی سب سے بلند آواز بن کر ابھرے۔ انھوں نے صحیفوں کا مطالعہ کیا۔ رامائن، مہا بھارت اور اپنشدوں سے لے کر کالیداس، بھاو بھوتی اور بھر تھری تک کے متون کا ترجمہ کیا۔ اروبندو جنھیں جوانی میں ہندوستانیت سے دور رکھا گیا تھا، اب لوگ ان کے خیالات میں ہندوستان کو دیکھنے لگے۔ یہ ہندوستان اور ہندوستانیت کی اصل طاقت ہے۔ کوئی اسے مٹانے کی کتنی ہی کوشش کرے، کیوں نہ اسے اپنے اندر سے مٹانے کی کوشش کرے! ہندوستان وہ لا فانی بیج ہے جو غیر مساعد حالات میں تھوڑا سا دب جائے، تھوڑا سا سوکھ جائے، لیکن وہ مر نہیں سکتا، وہ لا فانی ہے، لا فانی رہے گا۔ کیونکہ، ہندوستان انسانی تہذیب کا سب سے بہتر نظریہ ہے، انسانیت کی سب سے فطری آواز ہے۔ یہ مہا رشی اروبندو کے زمانے میں بھی لا فانی تھا، اور یہ آزادی کی لافانیت میں آج بھی لا فانی ہے۔ آج ہندوستان کا نوجوان اپنی ثقافتی عزت نفس کے ساتھ ہندوستان کی تعریف کر رہا ہے۔ آج دنیا میں سنگین چیلنجز ہیں۔ ان چیلنجوں کو حل کرنے میں ہندوستان کا کردار اہم ہے۔ اس لیے ہمیں مہا رشی اروبندو سے تحریک لے کر خود کو تیار کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے سب کی کوششیں ہیں۔ مہا رشی اروبندو کو ایک بار پھر سلام کرتے ہوئے، آپ سب کا دل کی گہ��ائیوں سے بہت بہت شکریہ!,শ্ৰী অৰবিন্দৰ ১৫০তম জন্ম জয়ন্তী উপলক্ষে আয়োজিত কাৰ্যক্ৰমত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%85%D9%88%DA%BA-%D9%88-%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B7%D8%A8%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%BE-%E0%A6%B6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں طبی تعلیم کے نئے دور کی ستائش کی ہے۔ وزیر اعظم نے 20 ضلعی سرکاری ہسپتالوں میں 265 ڈی این بی پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سیٹیں دینے کے حکومت کے فیصلے کی ستائش کی اور کہا کہ یہ ایک اہم کوشش ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور جموں و کشمیر میں طبی بنیادی ڈھانچہ کو آگے بڑھانا ہے۔ صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر جناب منسکھ منڈاویہ کا ایک ٹویٹ شیئر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘یہ ایک اہم کوشش ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور جموں و کشمیر میں طبی انفراسٹرکچر کو آگے بڑھانا ہے!’’,জম্মু-কাশ্মীৰত চিকিৎসা শিক্ষাৰ নতুন যুগৰ সূচনাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সন্তো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%D8%A8%DB%81%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95/,نئیدہلی۔24جون ، 2018؛ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بہادر گڑھ – منڈکا میٹرو لائن کا افتتاح کیا۔ دلی میٹرو کے اس نئے حصے کے شروع ہونے پر ہریانہ اور دلی کے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ بہادر گڑھ دلی میٹرو سے جڑ گیا ہے۔ گرو گرام اور فرید آباد کے بعد دلی میٹرو سے جڑنے والا ہریانہ کا یہ تیسرا مقام ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ کس طرح دلی میں میٹرو نے شہریوں کی زندگی پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ یہ ذکر کرتے ہوئے کہ بہادر گڑھ شاندار مالیاتی ترقی کر رہا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ وہاں کئی تعلیمی مراکز ہیں اور وہاں کے کئی طلبہ دلی تک کا سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میٹرو سے انھیں اور زیادہ آسانی ہوگی۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ کنیکٹیویٹی اور ترقی کے درمیان براہ راست رابطہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میٹروکے معنی ہیں علاقے کے لوگوں کے لیے اور زیادہ روزگار کے مواقع دستیاب ہونا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت نے ملک بھر میں میٹرو ریل نیٹ ورک میں یکسانیت لانے کے لیے میٹرو سے متعلق ضوابط تیار کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ہمارے شہروں میں آسان، آرامدہ اور کفایتی شہری ٹرانسپورٹ نظام تیار کرنا ہے۔ نیو انڈیا کے لیے نئے اور اسمارٹ انفراسٹرکچر کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت سڑکوں، ریلوے، قومی شاہراہ، فضائی راستوں، آبی راستوں اور آئی – ویز پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا فوکس کنکٹیویٹی بڑھانے اور یہ یقینی کرنے پر ہے کہ ترقی کے منصوبے صحیح وقت پر مکمل ہو جائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সযোগে শুভাৰম্ভ কৰিলে বাহাদুৰগড়-মুণ্ডকা মেট্ৰো লাই��� +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%81/,ئی دلّی ،30 جنوری، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مہاتما گاندھی کو ان کے یوم وفات پر خراج عقیدت پیش کیا ہے، وزیراعظم نے آج یوم شہید پر ان تمام عظیم ہستیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا، جنھوں نے اپنی جرأت و شجاعت سے ہمارے ملک کا تحفظ کیا۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’باپو کو ان کے یو م وفات پر یاد کررہا ہوں۔ ہماری اجتماعی کوشش ہے کہ ان کے عظیم نظریات مزید مقبول عام ہوں۔ آج یوم شہید کے موقع پر ان تمام عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، جنھوں نے ہمارے ملک کا جرأت مندی کے ساتھ تحفظ کیا۔ ان کی خدمات اور ان کی شجاعت کو ہمیشہ یاد رکھ جائے گا۔ ‘‘,মহাত্মা গান্ধীক তেওঁৰ পুণ্য তিথিত স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DA%A9-%D8%A8%DA%BE%D8%B1-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%81%D9%85-%D8%B3%DA%A9%DA%BE-%D8%B4%D8%AE%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%A6/,نئی دہلی:18؍فروری2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج صبح 7لوک کلیان مارگ پر ملک بھر سے آنے والی اہم سکھ شخصیات سے ملاقات کی۔وفد نے 26دسمبر کو ویر بال دِوس اعلان کرنے کے فیصلے اور خاص طورپر چار صاحبزادوں کا اعزاز کرنے کےلئے اور سکھ فرقے کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل اقدامات کے لئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔وفد کے ہر ممبر نے وزیر اعظم کو ’سروپاؤ‘اور‘ سری صاحب‘کے اعزاز سے نوازا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے متعدد خطوں میں لوگ چار صاحبزادوں کی خدمات اور قربانی کے بارے میں نہیں جانتے۔انہوں نے یاد کیا کہ جب بھی انہیں اسکولوں میں اور بچوں کےد رمیان بولنے کا موقع ملتا ہے ، وہ ہمیشہ چار صاحبزادوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ 26دسمبر کو ویر بال دِوس کے طورپر منانے کا فیصلہ ، بلکہ کونے کونے کے بچوں کو ان کے بارے میں آگاہ کرنے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔وزیر اعظم نے ملاقات کے لئے آنے والے سکھ فرقے کے قائدین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اُن کے گھر کے دروازےان کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں اپنی رہائش کے دوران ان کے ساتھ اپنے تعلق اور ایک ساتھ گزارے ہوئے وقت کو یاد کیا۔ وزیر اعظم نے سکھ فرقے کی خدمت کے جذبے کی ستائش کی اور کہا کہ دنیا کہ اس کے بارے میں مزید آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت سکھ فرقے کی فلاح و بہبود کے لئے پوری طرح سے عہد بند ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت کے ذریعے اٹھائے کئی قدموں کے بارے میں بتایا۔انہوں نے پورے اعزاز کے ساتھ افغانستان سے گروگرنتھ صاحب کو واپس لانے کےلئے کئے گئے خصوصی انتظامات پر بھی گفتگو کی۔انہوں نے سکھ عقیدت مندوں کے لئے کرتارپور صاحب کوریڈور کھولنے کے لئے سفارتی چیلنوں کے توسط سے حکومت کے ذریعے کئے گئے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا۔ جناب منجندر سنگھ سِرسا نے کہا کہ ویر بال دِوس منانے کا فیصلہ ملک بھر کے بچوں کو چار صاحبزادوں کی قربانی کے تئیں آگاہ کرے گا ۔ سنگھ ساحب گیانی رنجیت سنگھ، جتھے دار تخت سری پٹنہ صاحب نے کارتارپور صاحب کوریڈور کو دوبارہ کھولنے اور لنگرپر سے جی ایس ٹی ہٹانے جیسے قدم اٹھانے کےلئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ذریعے سکھ فرقے کے لئے کئے گئے اقدامات یہ بتاتے ہیں کہ وہ دل سے سکھ ہیں۔قومی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر ترلوچن سنگھ نے نے کہا کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب ملک کی تقسیم کے دوران بڑی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانی دینے والے سکھ فرقے کے تعاون کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے سکھ فرقے کے تعاون کو عالمی پلیٹ فارم پر لے جانے کےلئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সমগ্ৰ দেশৰ বিশিষ্ট শিখ নেতাসকলক সাক্ষাৎ কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B1%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%A8%DA%BE-%D9%BE%D9%86%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%DB%81%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%8B%E0%A6%B7%E0%A6%AD-%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کرکٹر ریشبھ پنت کے ساتھ ہوئے سڑک حادثے پر گہرے دُکھ کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’مشہور کرکٹر ریشبھ پنت کے ساتھ ہوئے حادثے سے دُکھی ہوں۔ میں اُن کی بہتر صحت اور تندرستی کے لئے دعا گو ہوں۔@ریشبھ پنت17‘‘۔,ক্ৰিকেটাৰ ঋষভ পন্তৰ দুৰ্ঘটনাক লৈ ব্যথিত প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D9%88%D9%81%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-%E0%A6%AA/,نئی دلّی ، 12 اپریل؍صحت وخاندانی بہبود کے وزیر جناب جے پی نڈا، چلی کے سابق صدر اور پارٹنر شپ فار میٹرنل ، نیو بورن اینڈ چائلڈ ہیلتھ ( پی ایم این سی ایچ ) کے آئندہ چیئر مین ڈاکٹر مائیکل بیچلیٹ ، نامور اداکارہ اور یونیسیف کی خیر سگالی سفیر محترمہ پرینکا چوپڑہ ،پی ایم این سی ایچ پارٹنر فورم کے تین چیمپئن جناب اے کے چوبے ، وزیر مملکت ( صحت و کنبہ بہبود ) اور محترمہ پریتی سودن ، سکریٹری ( صحت و کنبہ بہبود ) پر مشتمل پارٹنر شپ فار میٹرنل ، نیو بورن اینڈ چائلڈ ہیلتھ ( پی ایم این سی ایچ ) پر مشتمل پارٹنرشپ فورم کے ایک وفد نے گزشتہ روز یہاں وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی اور انہیں پارٹنرس فورم 2018 کے لئے دعوت دی جو کہ 12-13 دسمبر ، 2018 کو نئی دلّی میں منعقد ہو گا ۔ مختلف ممالک کے سربراہان مملکت اور وزراء صحت اور 1200 وفود اس فورم میں شرکت کریں گے ۔ پی ایم این سی ایچ 92 ممالک اور زائداز 1000 تنظیموں پر مشتمل ایک عالمی ساجھے دار پارٹنر شپ ہے ۔ پی ایم این سی ایچ کے وفد نے وزیر اعظم کو فورم میں شرکت کی دعوت دی اور پارٹنر فورم 2018 کو لوگو پیش کیا جسے وزیر اعظم نے بخوشی قبول کر لیا ۔ فورم کے آئندہ چیئر مین ڈاکٹر مائیکل بیچلیٹ نے وزیر اعظم کو خواتین کو با اختیار بنانے ، بچوں اور نو جوانوں کو آگے لانے کے چیلنج سے نمٹنے کے بارے میں خیالات سے آگاہ کیا ۔ وزیر اعظم نے انہیں گجرات میں نجی شعبے اور برادریوں کو منظم کر کے دیہاتوں میں غریب اور حاملہ خواتین کو تغذیہ بخش خوراک فراہم کر کے زچگیوں میں اضافہ کے ذاتء تجربات اور پہل قدمیوں سے واقف کرایا ۔ وزیر اعظم نے مشورہ دیا کہ ہمیں اہم معاملات مثلاً تغذیہ ، شادی کی عمر ، زچگی سے قبل اور بعد میں دیکھ بھال کے لئے عالمی سطح پر لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو عورتوں ، بچوں اور نوجواں کے لئے موثر پروگراموں عمل درآمد کے سلسلے میں شامل کیا جاناچاہئیے ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ دسمبر ، 2018 میں ہونے والی آئندہ پارٹنر فورم میٹنگ میں ان موضوعاتپر ایک آن لائن کوئز مقابلہ منعقد کیاجانا چاہئیے جس میں مقابلہ جیتنے والوں کو ایوارڈ دیا جانا چاہئیے ۔,"প্রধানমন্ত্রীক সাক্ষাৎ পিএমএনচিএইচৰ প্ৰতিনিধি দলৰ, মঞ্চৰ ল’গ’ উপহাৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں ایٹہ نگر کے ہولونگی مقام پر گرین فیلڈ ایئرپورٹ کا نام ‘‘ڈونئی پولو ایئرپورٹ، ایٹہ نگر’’ کرنے کو منظوری دی ہے۔ اروناچل پردیش کی حکومت نے ہوائی اڈے کا نام ‘‘ڈونئی پولو ایئرپورٹ، ایٹہ نگر ’’رکھنے کے لئے قرارداد منظور کی تھی۔ یہ نام ریاست کی مالا مال روایات اور وراثت کا عکاس ہے، کیونکہ اس سے سورج (ڈونئی) اور چاند ( پولو) سے ریاست کے عوام کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ حکومت ہند نے جنوری 2019میں ہولونگی گرین فیلڈ ایئر پورٹ کے فروغ کے لئے‘‘ اصولی طور پر ’’ منظوری دی تھی۔ یہ پروجیکٹ ایئرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا (اے اے آئی) کے ذریعے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی مدد سے 646 کروڑ روپے کی لاگت سے چلایا جا رہا ہے۔,"অৰুণাচল প্ৰদেশৰ ৰাজধানী ইটানগৰৰ হোলংগীস্থিত গ্ৰীনফিল্ড বিমানবন্দৰক “ডনি-প’ল’ বিমানবন্দৰ, ইটানগৰ” হিচাপে নামকৰণত কেবিনেটৰ অনুমোদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%DA%A9%D8%B1%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7/,نئیدہلی۔26؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج لکھنؤ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کرشی کمبھ سے خطاب کیا۔ وزیراعظم نے اعتماد کا اظہا رکیا کہ کسانوں کے اس اجتماع سے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی راہ ہموار ہوگی۔ نیز زرعی شعبے میں بہتر مواقع پیدا کرنے کی بھی راہ ہموار ہوگی۔ وزیراعظم نے اترپردیش سرکار کی تعریف کی کہ اس نے اناج کی خریداری کو خاطر خواہ فروغ دینے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ یہ کسان ہی ہیں جو ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے ، 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے عہد کو دوہرایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے اقدامات کاذکر کیا جو حکومت لاگت کو کم کرنے اور منافع کو بڑھانے کے مقصد سے کررہی ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ مستقبل قریب میں پورے ملک میں کھیتوں میں بڑی تعداد میں شمسی پمپ نصب کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سائنس کے فائدے زراعت کو پہنچیں، اس پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وارانسی میں جو چاول سے متعلق تحقیق کا مرکز قائم کیا جارہا ہے وہ اسی جانب ایک قدم ہے۔ وزیراعظم نے زراعت میں اس کی قدر وقیمت میں اضافے ک�� اہمیت کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے خوراک کو ڈبہ بند کرنے کے شعبے میں کیے جانے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ سبز انقلاب کے بعد اب توجہ دودھ کی پیداوار ، شہد کی پیداوار اور انڈا مرغی ا ور ماہی پروری پر دی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے کرشی کمبھ کے دوران آبی وسائل کے جائز استعمال ، ذخیرہ کرنے کیلئے بہتر ٹیکنالوجی اور زراعت میں تازہ ترین ٹیکنالوجی کے استعمال جیسے موضوعات پر بحث ومباحثے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ایسی نئی ٹیکنالوجی اور طور طریقے ایجاد کرنے کی ضرورت پر زور دیا جن سے کسانوں کو پرالی جلانے کی ضرورت نہ پڑے یا اس میں انہیں کوئی مدد مل سکے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সযোগে কৃষি কুম্ভ অনুষ্ঠানত ভাষণ আগবঢ়ালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DA%BE%D9%86%D9%88%DB%8C%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A7%E0%A6%A8%E0%A7%81-%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AD-%E0%A6%B9%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دھنو یاتراکے آغاز پر سبھی کو مبارکباد دی ہے۔شاندار دھنو یاترا اُڈیشہ کی ثقافت سے جڑی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’ اس یاترا کے شروع ہونے پر سبھی کو میری مبارکباد۔ میری دعا ہے کہ یہ یاترا ہمارے سماج میں ہم آہنگی اور خوشی کے جذبے کو آگے بڑھائے۔‘‘,ধনু যাত্রা আৰম্ভ হোৱাৰ বাবে সকলোকে শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-30-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A9%E0%A7%A6-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87/,"نئی دہلی، 28 دسمبر 2021: وزیراعظم جناب نریندر مودی 30 دسمبر 2021 کو اتراکھنڈ کے ہلدوانی کا دورہ کریں گے۔ وہ یہاں 17,500 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 23 پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے نیز سنگ بنیاد رکھیں گے۔ 23 پروجیکٹوں میں سے 14100 کروڑ روپے کے 17 پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ یہ پروجیکٹ آبپاشی، شاہراہیں، ہاؤسنگ، صحت کے بنیادی ڈھانچے، صنعت، صفائی ستھرائی، پینے کے پانی کی فراہمی سمیت متعدد شعبوں میں شروع کیے جارہے ہیں۔ اس تقریب میں شاہراہوں کی توسیع کے منصوبے، پتھورا گڑھ میں پن بجلی کا ایک پروجیکٹ اور نینی تال میں سیوریج نیٹ ورک کی بہتری سمیت چھ پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جائے گا۔ ان پروجیکٹوں کی جملہ لاگت 3400 کروڑ روپے ہے۔ وزیر اعظم تقریباً 5750 کروڑ روپے کی مالیت کے لکھوار کثیر المقاصد پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس منصوبے کا تصور پہلی بار 1976 میں کیا گیا تھا اور یہ کئی برسوں سے زیر التوا پڑا پوا تھا۔ طویل عرصے سے ٹھنڈے بستے میں پڑے منصوبوں کو ترجیح دینے کے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے۔ قومی اہمیت کے اس پروجیکٹ سے اتراکھنڈ، اترپردیش، ہریانہ، دہلی، ہماچل پردیش اور راجستھان کی چھ ریاستوں کو تقریباً 34,000 ہیکٹر اضافی اراضی، 300 میگاواٹ پن بجلی کی پیداوار اور پینے کے پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں رابطے کو بہتر بنانے کے وزیر اعظم کے وژن سے ہم آہنگ تقریباً 8700 کروڑ روپے کی مالیت کے متع��د سڑک پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جائے گا نیز ان کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ 4000 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی 85 کلومیٹر مراد آباد-کاشی پور شاہراہ کو چار لین کا بنانا، غدر پور-دنیش پور-مڈکوٹا-ہلدوانی روڈ (ایس ایچ-5) کے 22 کلومیٹر کے حصے کو دو لین کا بنانا اور کیچا سے پنت نگر (ایس ایچ -44) تک 18 کلومیٹر کے حصے کو دو لین کا بنانا؛ ادھم سنگھ نگر میں 8 کلومیٹر طویل کھٹیما بائی پاس کی تعمیر؛ اس میں 175 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے چار لین والی قومی شاہراہ (این ایچ 109 ڈی) کی تعمیر بھی شامل ہے۔ یہ سڑک پروجیکٹ گڑھوال، کماؤں اور ترائی کے علاقے میں سڑک کے رابطے اور اتراکھنڈ اور نیپال کے درمیان سڑک کے رابطے کو بہتر بنائیں گے۔ جم کاربیٹ نیشنل پارک تک رسائی کو بہتر بنانے کے علاوہ رودرپور اور لال کواں کے صنعتی علاقوں کو بھی سڑک کے بہتر رابطے سے فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ریاست بھر میں متعدد سڑک پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی وزیر اعظم رکھیں گے۔ ان پروجیکٹوں میں 625 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے کل 1157 کلومیٹر لمبی 133 دیہی سڑکوں کی تعمیر اور تقریباً 450 کروڑ روپے کی لاگت سے 151 پلوں کی تعمیر شامل ہے۔ وزیر اعظم کے ذریعہ افتتاح کئے جانے والے سڑک پروجیکٹوں میں نگینہ سے کاشی پور (این ایچ 74) تک 99 کلومیٹر سڑک کی توسیع کے پروجیکٹ اور ہر موسم کے لیے سازگار سڑک پروجیکٹ کے تحت تعمیر کی جانے والی ٹنک پور پتھورا گڑھ شاہراہ (این ایچ 125) کے تین حصے شامل ہیں جن پر 2000 کروڑ روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ تین سیکشن ہیں – چورانی سے انچولی (32 کلومیٹر)، بلکھیت سے چمپاوت ( 29 کلومیٹر) اور تیلون سے چورانی (28 کلومیٹر)۔ سڑک توسیعی منصوبوں سے نہ صرف دور دراز کے علاقوں کے رابطے بہتر ہوں گے بلکہ خطے میں سیاحت، صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔ اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ٹنک پور پیتھورا گڑھ سڑک سے اب ہر موسم میں رابطہ؛ سرحدی علاقوں میں فوج کی بلا رکاوٹ نقل و حرکت اور کیلاش مانسروور یاترا کے لیے بہتر رابطے کی سہولت ہوگی۔ ریاست کے طبی بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے اور ملک کے تمام حصوں میں لوگوں کو عالمی معیار کی طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش میں وزیر اعظم ادھم سنگھ نگر ضلع میں ایمس رشیکیش سیٹلائٹ سینٹر اور پتھورا گڑھ میں جگجیون رام گورنمنٹ میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ دونوں اسپتال بالترتیب 500 کروڑ روپے اور 450 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ بہتر طبی بنیادی ڈھانچے سے نہ صرف کماوں اور ترائی علاقوں کے لوگوں کو بلکہ اترپردیش کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کو بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم ادھم سنگھ نگر ضلع کے ستار گنج اور کاشی پور علاقوں میں معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے تقریباً 2400 مکانات کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ مکانات پردھان منتری آواس یوجنا (شہری) کے تحت تعمیر کئے جائیں گے جن کی کل لاگت 2000 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگی۔ جناب مودی ریاست کے دیہی علاقوں میں نل کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم کے جل جیون مشن کے تحت ریاست کے 13 اضلاع میں پانی کی فراہمی کی 73 اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان اسکیموں پر مجموعی طور پر تقریباً 1250 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی اور اس سے ریاست کے 1.3 لاکھ سے زیادہ دیہی گھرانوں کو فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم ہری دوار اور نینی تال کے شہری علاقوں کو صاف پانی کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ان دونوں شہروں کے لیے واٹر سپلائی اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان پروجیکٹوں سے ہری دوار میں تقریباً 14500 نل کے پانی کے کنکشن اور ہلدوانی میں 2400 سے زائد نل کے پانی کے کنکشن فراہم ہوں گے جس سے ہری دوار کی تقریباً ایک لاکھ آبادی اور ہلدوانی کی تقریباً 12 ہزار آبادی کو فائدہ ہوگا۔ کسی بھی خطے کی بنیادی صلاحیت سے جامع استعمال کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق کاشی پور میں 41 ایکڑ اروما پارک اور ستار گنج میں پلاسٹک انڈسٹریل پارک کے 40 ایکڑ حصے کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ یہ دونوں پروجیکٹ ریاستی بنیادی ڈھانچے اور صنعتی ترقیاتی کارپوریشن اتراکھنڈ لمیٹڈ (ایس آئی آئی ڈی سی یو ایل) کے ذریعہ تیار کیے جائیں گے جن کی جملہ لاگت تقریباً 2000 کروڑ روپے ہے۔ اتراکھنڈ کے منفرد جغرافیائی حالات کے پیش نظر اروما پارک میں پھولوں کی نشوونما کے بے پناہ امکانات کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائے گا۔ پلاسٹک انڈسٹریل پارک ریاست کی صنعتی مہارتوں کو ثابت کرنے اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہوگا۔ وزیراعظم نینی تال کے رام نگر میں تقریباً 50 کروڑ روپے کی لاگت سے 7 ایم ایل ڈی اور 1.5 ایم ایل ڈی کی گنجائش والے دو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کا بھی افتتاح کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم ادھم سنگھ نگر میں تقریباً 2000 کروڑ روپے کی لاگت سے نو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس (ایس ٹی پیز) کی تعمیر اور نینیتال میں سیوریج نظام کی اپ گریڈیشن کے لیے 78کروڑ روپے کی مالیت کے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم 5 میگاواٹ کی گنجائش اور آݨی ذخیرے کے بغیر سرنگڈ-2 ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کا افتتاح بھی کریں گے جو اتراکھنڈ ہائیڈرو پاور کارپوریشن (یو جے وی این) لمیٹڈ نے پتھورا گڑھ ضلع کے منسیاری میں تقریباً 50 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا ہے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৩০ ডিচেম্বৰত উত্তৰাখণ্ড ভ্ৰমণ কৰিব আৰু ১৭৫০০ কোটি টকাৰ অধিক মূল্যৰ ২৩ টা প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা উদ্বোধন কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%AF%D9%85-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%88-%DB%8C%D8%A7%D9%81%D8%AA%DB%81-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B6%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%97%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پدم شری ایوارڈ یافتہ ریاضی داں جناب آر ایل کشیپ کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’جناب آر ایل کشیپ کثیر جہتی شخصیت کے مالک ایک عظیم عالم تھے۔ انہیں ریاضی اور سائنس کے زبردست علم سے نوازا گیا تھا۔ انہیں بھارتی ثقافت کی جڑوں پر بہت فخر تھا اور ویدک علوم میں امتیاز حاصل تھا۔ ان کی رحلت پر غمزدہ ہوں۔ ان کے کنبہ کے لیے اظہار تعزیت۔ اوم شانتی۔‘‘,বিশিষ্ট গণিতজ্ঞ আৰু পদ্মশ্ৰী সন্মান প্ৰাপক শ্ৰী আৰ এল কাশ্যপৰ দেহাৱসানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%AF%D9%88%D9%84%D9%81%D8%B1-%D8%A7-%D8%AF%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D8%B4%D9%88%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AB-%E0%A6%96%E0%A7%87%E0%A6%B2/,نئی دہلی،7 اگست 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گولف کھلاڑی ادیتی اشوک کو اولمپکس میں اپنی شاندار کامیاب کے دوران اپنی مہارتوں اور عزم کے لیے ستائش کی ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ’’بہت اچھا کھیلیں@aditigolf! #ٹوکیو 2020 کے دوران آپ نے شاندار مہارت اور عزم کا اظہار کیا ہے۔ ایک میڈل ذرا سی چوک سے حاصل کرنا رہ گیا، البتہ آپ ، اب کسی بھی ہندوستانی سے زیادہ آگے بڑھ گئیں اور شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا۔ آپ کو مستقبل کی کامیابیوں کے لیے بہترین خواہشات‘‘۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে গল্ফ খেলুৱৈ অদিতি অশোকৰ ক্রীড়া নৈপুণ্য আৰু দৃঢ়তাৰ প্রশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%D9%B9-29%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DA%86%DB%92-%DA%A9%D9%88-%D9%84%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%8F%E0%A6%9A-%E0%A6%8F-%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی،14نومبر 2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جی سیٹ -29سیارچہ لے جانے والے جی ایس ایل وی ایم کےIII-ڈی 2 کے کامیاب لانچ پر اسرو کے سائنسدانوں کو مبارکباد ی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ‘‘نے جی سیٹ -29سیارچہ لے جانے والے جی ایس ایل وی ایم کےIII-ڈی 2 کے کامیاب لانچ پرہمارے سائنسدانوں کو میری طرف سے دلی مبارکباد۔ایک بھارتی لانچ وہیکل کے ذریعے سب سے بھاری سیارچے کو مدار میں پہنچانے کا یہ نیا ریکارڈ دوہری کامیابی ہے۔ یہ سٹیلائٹ ہمارے ملک کے دور دراز ترین کونوں تک مواصلات اور انٹرنیٹ خدمات فراہم کرے گا۔ م ن۔و ا۔ن ع,জি এচ এ টি-২৯ কৃত্ৰিম উপগ্ৰহক কঢ়িয়াই নিয়া জি এচ এল ভি এম কে ৩-ডি২ ৰ সফল প্ৰক্ষেপণৰ বাবে ইছৰোৰ বিজ্ঞানীসকললৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-12-%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AF%D9%84%D8%AC-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%A8-%E0%A6%8F%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی:11؍اپریل2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی 12 اپریل کو صبح گیارہ بجے گجرات کے ادلج میں شری انّاپوردنا دھام ٹرسٹ کے ہاسٹل و تعلیمی کمپلیکس کا ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ افتتاح کریں گے۔پروگرام کے دوران وزیر اعظم جن سہائک ٹرسٹ کے ہیرامنی آروگیہ دھام کا بھومی پوجن بھی کریں گے۔ ہاسٹل اور تعلیمی کمپلیکس میں 600 طلباء کے لئے 150کمرے میں رہنے اور کھانے پینے کے سہولت ہے۔دیگر سہولتوں میں جی پی ایس سی کے لئے تربیتی مرکز ، یو پی ایس سی امتحان، ای –لائبریری، کانفرنس ہال ، کھیل کا کمرہ، ٹی وی کمرہ اور طلباء کے لئے ابتدائی صحت سہولتیں وغیرہ شامل ہیں۔ جن سہائک ٹرسٹ ہیرامنی آروگیہ دھام کی ترقی کا فریضہ انجام دے گا، اس میں ایک بار میں 14 لوگوں کے ڈائیلیسس کی سہولت ، 24 گھنٹے خون کی دستیابی کے ساتھ بلڈ بینک، 24گھنٹے کام کرنے والا میڈیکل اسٹور، جدید پیتھولوجی لیباریٹری اور صحت جانچ کے لئے اعلیٰ درجے کے آلات سمیت جدید طبی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ یہ آیوروید ، ہومیوپیتھی، ایکیو پنکچر، یوگا تھریپی وغیرہ کے لئے جدید سہولتوں والا ایک ڈے-کیئر سنٹر ہوگا۔یہ ابتدائی طبی تربیت ، تکنیکی تربیت اور ڈاکٹروں کی تربیت کی سہولتوں کی بھی میزبانی کرے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১২ এপ্ৰিল��� গুজৰাটৰ আদালাজত শ্ৰী অন্নপূৰ্ণাধম ন্যাসৰ হোষ্টেল আৰু শিক্ষা কমপ্লেক্স উদ্বোধন কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%DB%8C-%D9%88%D8%AF%D9%88%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کاشی ودوت پریشد کے صدر پروفیسر رام یتنا شکلا کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے پروفیسر شکلا کے انتقال کو علمی، روحانی اور ثقافتی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا: ’’کاشی ودوت پریشد کے صدر پروفیسر رام یتنا جی کا انتقال تعلیمی، روحانی اورثقافتی دنیا کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ انہوں نے سنسکرت زبان اور روایتی شاستروں کےتحفظ میں اہم رول ادا کیا۔ دکھ کی اس گھڑی میں ان کے متعلقین کے تئیں میری ہمدردیاں ہیں۔اوم شا نتی‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কাশী বিদ্বৎ পৰিষদৰ সভাপতি অধ্যাপক ৰাম যত্ন শুক্লাৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%A8%D8%AD%D8%B1-%D8%A7%D9%84%DA%A9%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%A7%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%85%DA%A9-%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%85-%D9%88%D8%B1%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%8B-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%87%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AB%E0%A7%8D/,صدر بائیڈن اور صدر کیشیدا ورچوئل میڈیم کے ذریعہ جڑے ہوئے ہمارے تمام رہنما عالیجناب، آج کی اس اہم تقریب میں آپ سب کے ساتھ جڑ کر مجھے خوشی ہو رہی ہے۔ ہند-بحر الکاہل اکنامک فریم ورک اس خطے کو عالمی اقتصادی ترقی کا انجن بنانے کے لیے ہماری اجتماعی خواہش کا اعلان ہے۔ میں اس اہم اقدام کے لیے صدر بائیڈن کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہند-بحرالکاہل خطہ مینوفیکچرنگ، اقتصادی سرگرمیوں، عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کا مرکز ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان صدیوں سے ہند-بحر الکاہل خطے کے تجارتی بہاؤ کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم تجارتی بندرگاہ ہندوستان کی میری آبائی ریاست گجرات، کے لوتھل میں تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خطے کے معاشی چیلنجوں کے لیے مشترکہ اور تخلیقی حل تلاش کریں۔ جناب عالی، ہندوستان ایک جامع اور لچکدار ہند-بحر الکاہل اقتصادی فریم ورک بنانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ میرا ماننا ہے کہ لچکدار سپلائی چین کے تین اہم ستون ہونے چاہئیں: اعتماد، شفافیت اور وقت کی پابندی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ فریم ورک ان تین ستونوں کو مضبوط بنانے میں مدد کرے گا، اور ہند-بحر الکاہل خطے میں ترقی، امن اور خوشحالی کی راہ ہموار کرے گا۔,ইণ্ডো – পেচিফিক ইকনমিক ফ্রেমৱৰ্কৰ সূচনাত প্রধানমন্ত্রী শ্রী নৰেন্দ্র মোদীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%AC%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D8%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A7-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8/,نئیدہلی،12۔فروری۔ میرے لئے یہ انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے کہ مجھے ایک بار پھر آپ سب کے درشن کرنے کا موقع ملا ہے ۔ 2016 میں عزت مآب ولیعہد ابوظہبی ہندوستان آئے تھے ۔ وہ 2017 میں ہمارے انتہائی اہم جمہوری تہوار کے مہمان خصوصی تھے۔ شاید کئی دہائیو ں کے بعد خلیجی ملکوں کے ساتھ ہندوستان کا اتنا گہرا ، اتنا وسیع اور اتنا فعال رشتہ قائم ہوا ہے ۔ آج یہی وہ خلیج کے دیگر ممالک ہیں ۔ ہمارا رشتہ صرف خریدار او ر بیچنے والے کا نہیں رہا ۔ ایک پارٹنر شپ کا بنا ہے ۔ ہندوستا ن اس پر فخر کرتا ہے کہ خلیجی ملکوں میں ہندوستانی برادری کے 30 لاکھ سے زائد لوگ یہاں کے سفر ترقی کے شراکتدار ہوئے ہیں ۔ میں خلیجی ملکوں کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں ۔ انہوں نے ہمارے ملک کے 30 لاکھ سے زائد لوگوں کو ہندوستان سے باہر یہاں ان کے اپنے گھر جیسی فضا ہموار کی ہے۔ ہندوستانی برادری نے بھی اسے اپنا ہی گھر مان کر اسی عہد بستگی کے ساتھ اتنی ہی محنت کے ساتھ یہاں کے لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے خوابوں کو بھی یہاں بویا ہے ۔ یہ ایک طرح سے انسانی برادری میں پارٹنر شپ کی ایک بہترین مثال ہے ۔ ہم خلیجی ملکوں میں اس کا تجربہ کررہے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات میں ہمیں یہ تجربہ ہوا ہے ۔ یہی تجربہ بہت سے لوگوں کو اس وقت زبردست حیرت ہوئی تھی جب میں پچھلی بار یہاں آیا تھا تو میں نےعزت مآب ولیعہد ابوظہبی سے ابوظہبی میں مندر بنانے کی بات کو آگے بڑھایا تھا ۔ میں سوا سو کروڑ ہندوستانیو ں کی طرف سے ولیعہد ابوظہبی کے تئیں دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں ۔ یہاں مندر کی تعمیر اور وہ بھی رواداری کے پُل کی شکل میں ۔ ہم اس روایت میں پلے بڑھے ہیں ، جہاں مندر کو انسانیت کا وسیلے کی حیثیت حاصل ہے ۔ مقام مقدس ہیومنٹی اور ہارمنی کا ایک کیتھولک ایجنٹ ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جدید ٹکنالوجی ،میسجنگ اورخاکہ سازی کے اعتبار سے یہ مندر اپنے آپ میں منفرد تو ہوگا ہی ،اس کے ساتھ ہی پوری عالمی برادری کو وسودھیو کٹم بکم یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے ، اس نظریہ کا تجربہ کرانے کا بھی موقع حاصل ہوگا ۔ اسی کی وجہ سے یہ مندر ہندوستان کی اپنی ایک شناخت بننے کا بھی وسیلہ بنے گا۔ میں اس مندر کی تعمیر میں سبھی لوگوں سے درخواست کروں گا کہ یہاں کے حکمرانوں نے ہندوستان کی اتنی عزت افزائی کی ہے ، ہندوستان کی ثقافتی روایتوں کے فخروانبساط کو محسوس کیا ہے ۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سے اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہ ہوجائے ، کوئی غلطی نہ ہوجائے ، انسانیت کے روشن آدرشوں اور نظریات کو کہیں کوئی خراش نہ آجائے ، اس کی ذمہ داری اس مندر کے تعمیراتی کاموں سے جُڑے اور مندر سے جُڑنے والے مستقبل کے بھگتوں کے لئے بھی انتہائی لازمی ہوگی ۔ میں آپ سب سے یہی امید رکھتا ہوں ۔ آج ملک ترقی کی نئی بلندیاں سر کررہا ہے ۔ یہ ہندوستان کے لئے فخر واعزاز کی بات ہے کہ آج عالمی سطح کے سربراہ اجلاس میں ہندوستان کو خصوصی اعزا ز دیا گیا ہے ۔ مجھے وہاں تقریر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ یہاں آپ سب کے لئے ہندوستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مشکل نہیں ہے ۔ اگر میں اپنی تقریر میں دو باتیں کہوں گا تو آپ دس چیزیں بتائیں گے ۔ آٖ پ کو ہندوستان کی اتنی معلومات ہے ۔ ایک طرح یہاں ایک چھوٹا ہندوستان آباد ہے ۔ ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا جس کی نمائندگی یہاں نہ پائی جاتی ہو ، اس لئے آپ اس بات کا بخوبی اندازہ او ر تجربہ کرسکتے ہیں کہ ہندوستان کس تیزی سے بدل رہا ہے ، سواسو کروڑ ہندوستانی اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے کس خود اعتمادی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ہم نے وہ ��ن بھی دیکھے ہیں جب کہا جاتا تھا ، چلو چھوڑو یار کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ چلو یار بستر اٹھاؤ اورکہیں چلے جاؤ۔ ہم مایوسی اور پس وپیش اورغیر یقینی کے شدید دور سے گزرے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب ملک میں ایک عام آدمی سوال پوچھتا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے ،کیا یہ ہوگا ، کیا یہ ہمارے یہاں بھی ہوسکتا ہے ، عام آدمی ایسے ہی سوالات میں الجھا رہتا تھا ۔وہاں سے چلتے چلتے محض چار برس کی مدت کے اندر آج ملک اس مقام پر پہنچا ہے ، جہاں کوئی یہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے نہ یہ سوچ رہا کہ ہوگا کہ نہیں ہوگا ۔ نہ یہ پوچھ رہا کہ کیا یہ ممکن ہے یا نہیں ! چلو یار کون دماغ کھپائے اس ذہنی کشمکش کے دور سے آج ہماری ذہنی کیفیت یہاں تک پہنچی ہے ، جب سوال کیا جاتا ہے ’’ مودی جی بتاؤ کب ہوگا ۔‘‘ اس سوال میں شکایت نہیں ہے ۔ اس سوال میں یہ بھروسہ ہے کہ ہوگا تو ابھی ہوگا ۔ 2014 میں ہم کاروبار کرنے کی آسانی کی صف میں 142 ویں نمبر پر کھڑے تھے ۔یعنی اگر پیچھے سے گنتی کی جائے تو ذرا آسان ہوجائے گا ۔آگے سے گنتی کرنے میں تو بہت دیر لگے گی ۔ دنیا کے کوئی بھی ملک کاروبار کرنے کی آسانی کی صف میں 42 جست لگاکر 100 ویں مقام پر پہنچنے کی کامیابی حاصل نہیں کی ہے ۔ یہ کامیابی سوائے ہندوستان کے کسی کے بھی حصے میں نہیں آئی ہے ۔لیکن کوئی یہ نہ سوچے کہ ہم یہاں رُکنے کے لئے آئے ہیں ۔ ہم اور زیادہ بلندی پر جانا چاہتے ہیں ۔ اس کے لئے جہاں پالیسیوں میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہوگی ، جہاں حکمت عملی میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہوگی اور جہاں عمل آوری کے روڈ میپ میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہوگی ، جہاں وسائل کی عمل آوری میں تبدیلی کرنی ہوگی ، جہاں بھی ضروری ہوگا ، یہ اقدامات کرتے ہوئے ہندوستان کو جلد از جلد گلوبل بینچ مارک کے برابر لانا ہوگا ۔ عالمگیریت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم جہاں بیٹھے ہوئے ہیں ،وہیں سے دنیا کا فائد ہ حاصل کرتے چلے جائیں ۔ گلوبلائزیشن یعنی عالمگیریت وہ عمل ہے ، جس میں اس گلوب کے سبھی لوگوں نے اپنی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے سب کے ساتھ جُڑتے ہوئے ،سب سے سیکھ حاصل کرتے ہوئے اور سبھی کو ساتھ لے کر ان بلندیوں کو سر کرنا ہے ،جو دنیا کے آخری کونے پرواقع ملک یا شخص کی فلاح کے لئے بھی کام آئے ۔ تبھی تو وسودھیوکٹم بکم کا عملی مظاہرہ ممکن ہوسکے گا اور ہم یہ فتحیابی حاصل کرکے دکھاسکتے ہیں ۔ قدرت نے ہندوستان کو جو عالمی ذمہ داری تفویض کی ہے ، اس میں متعدد ذمہ داریاں شامل ہیں ۔ آج پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صدی ایسے ہی آجائے گی ۔ٹپک پڑے گی ۔ اکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی بنانے کے لئے محنت کرنی پڑے گی ۔ خواہ وقتی فائد ہ ہو یا نہ ہو ۔ لیکن مستقبل کی فلاح کے لئے ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے ۔ مہاتما گاندھی ہمیشہ کسی کام کی کامیابی کے سہرے اور پسند کی بات کیا کرتے تھے ۔ کیا وہ کام کرنا جو پسندیدہ نہ ہو، وہ کام کرنا جس کی کامیابی کا سہرا ہمارے سر نہ باندھا جائے ،پسندیدہ عمل ہوگا ۔ ہماری کوشش ہے کہ کاموں کی کامیابی کی طرف قدم بڑھاتے چلیں ۔شاید وقتی طور پر وہ کام ہمیں پسندیدہ نہ محسوس ہو لیکن ایک وقت آئے گا کہ اس کی کامیابی کا سہرا بھی ہمارے سر بندھے گا اور ہمیں وہ پسندیدہ بھی محسوس ہونے لگیں گے ۔ کچھ لوگ صاحب استطاعت ہوتے ہیں ۔ انہیں کوئی بھی کام فوری طور سے پسندیدہ محسوس ہوتا ہے ۔ کچھ لوگوں کو دشواری ہوتی ہے ۔ کچھ وقت لگتا ہے ، نوٹ بندی کرتا ہوں تو ملک کا غریب طبقہ اس کو فو��اََ سمجھ لیتا ہے کہ یہ صحیح سمت میں مضبوط قدم ہے ۔ لیکن جن کی راتوں کی نیندیں چلی گئی ہوں ، وہ لوگ دوسال کے بعد اب بھی روتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہندوستان میں سات سال سے یہ پس وپیش جاری تھا کہ جی ایس ٹی کے قانون کا نفاذ ہوگا کہ نہیں ۔ لیکن یہ نفاذ ہوگیا ۔ اب یہ بات الگ ہے کہ ہم بھی ایک مکان میں رہتے ہیں کہ ہم برسوں سے جس مکان میں رہتے آرہے ہیں ،اسے چھوڑ کر دوسرے مکان میں چلے جائیں ۔ رات کو بڑی خوشیاں اور لطف لیا جائے ۔ نیا مکان ہے اچھا بنایا ہے لیکن صبح نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو عادتاََ یا مجبوراََ بائیں جانب باتھ روم سمجھ کر وہیں چلے جاتےہیں اوردیوار سے ٹکراجاتے ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو نیا گھر ہے ۔ یہاں تو باتھ روم دائیں طرف ہے ۔ ایسے تجربات سب کو ہوتے رہتے ہیں ۔اگر ایک انسان کی زندگی میں بھی تبدیلی سے اتنی دشواری ہوتی ہے تو 70 سال پرانا نظام ہو یا سواسو کروڑ افراد کا ملک ہو ، ذہن میں عادتیں ہوں تو دو دو تین تین نسلیں تو عادتوں میں ہی گزر جاتی ہیں ۔ تبدیلی پیدا کرنی ہے تو دشواری کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا ۔ لیکن اس کامیابی کا سہرا ہمارے سر ہوگا ۔ مہاتما گاندھی نے جو راستہ دکھایا تھا وہ راستہ ہے ، اتنے کم وقت میں جی ایس ٹی کی دشواریوں کو دور کرتے کرتے آج ایک نظام کے تحت منظوری پاکر آگے کا سفر طے کیا جارہا ہے ، ملک بدل رہا ہے ۔ کل میں ابوظہبی میں تھا ۔ وہاں کئی معاہدے ہوئے ۔ Lower Zak گھنٹوں میں پانچ ملکوں کا سفر کرکے واپس لوٹنے والا ہوں ۔ اردن ،فلسطین ، ابوظہبی اور ابھی دبئی کا پروگرام کرنے کے بعد مجھے عمان جانا ہے۔ وہاں بھی آج شام بہت بڑی تعداد میں ہندوستانی برادری کے لوگ جمع ہوں گے ۔ مجھے ان کا درشن کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوگی ، ان کو بھی کچھ نہ کچھ باتیں بتانی ہیں ۔ میں ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے آپ کا ممنون ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ جو خواب دیکھ رہے ہیں ، آپ کے اپنے جو خواب بھارت کی دھرتی پر دیکھ رہے ہیں ہم ، ہم سب کو مل کر وقت کی حدود میں رہتے ہوئے ان خوابوں کو پورا کرنا ہوگا ۔ میں آپ کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ ! نمسکار! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰,১১ ফেব্ৰুৱাৰীত ডুবাইত অনুষ্ঠিত প্ৰবাসী ভাৰতীয়ৰ আদৰণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ ইংৰাজী সংস্কৰণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%DA%BE%D8%B1%D9%88%D9%88%D9%84%D9%88%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A6%AC%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئی دلّی ،15 جنوری، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے یوم تھوولوور کے موقع پر عظیم تھروولوور کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’یوم تھروولوور پر میں عظیم تھروولوو کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کے نظریات بصیرت افروز اور عملی ہیں… وہ اپنی متنوع فطرت اور عمیق فکر و آگہی کے لئے نمایاں ہیں۔ گذشتہ سال لیا گیا کنیا کماری میں تھروولوور کے مجسمے اور وویکانند راک میموریل کا ایک ویڈیو شئیر کررہا ہوں۔ https://t.co/B7Jo‘‘,তিৰুবল্লুবৰ দিৱস উপলক্ষে মহান তিৰুবল্লুবৰলৈ শ্ৰদ্ধা নিবেদন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-75-%D8%A7%D8%B6%D9%84%D8%A7%D8%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-75-%DA%88%DB%8C%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84-%D8%A8%DB%8C%D9%86%DA%A9%D9%86%DA%AF-%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AD%E0%A7%AB-%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AD%E0%A7%AB-%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ملک کے 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹوں (ڈی بی یو) کو قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے اجتماع سے خطاب کا آغاز اس بات پر زور دیتے ہوئے کیا کہ 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹیں (ڈی بی یو) مالیاتی شمولیت کو مزید آگے بڑھائیں گی اور شہریوں کے بینکنگ کے تجربے میں اضافہ کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈی بی یو عام شہریوں کے لئے آسان زندگی کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ بینکاری کے اس طرح کے نظم کے ذریعہ حکومت چاہتی ہے کہ کم سے کم بنیادی ڈھانچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خدمات فراہم کی جائیں اور یہ سب کچھ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے ڈیجیٹل طور پر ہو۔ یہ بینکنگ کے طریقہ کار کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور بینکاری کا ایک محفوظ نظام بھی فراہم کرے گا۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کو قرض حاصل کرنے کے لئے رقم کی منتقلی جیسے فوائد ملیں گے۔ ڈیجیٹل بینکنگ یونٹیں اس رُخ پر ایک اور بڑا قدم ہیں جس پر ملک میں ہندوستان کے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے کام چل رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کا مقصد عام شہریوں کو بااختیار اور انہیں طاقتور بنانا ہے۔اس طرح آخری فرد کو ذہن میں رکھ کر پالیسیاں بنائی گئی ہیں اور پوری حکومت ان کی فلاح و بہبود کی سمت میں گامزن ہے۔ انہوں نے ان دو شعبوں کی نشاندہی کی جن پر حکومت نے بیک وقت کام کیا ہے۔ پہلے شعبے کا تعلق اصلاحات، مضبوطی، اور بینکاری کے نظام کو شفاف بنانے سے ہے اور دوسرامالیاتی شمولیت کا ہے۔ ماضی کے روایتی طریقوں کو یاد کرتے ہوئے جب لوگوں کو بینک جانا پڑتا تھا وزیر اعظم نے کہا کہ اس حکومت نے بینک کو لوگوں تک پہنچا کر نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کو اولین ترجیح دی ہے کہ بینکنگ خدمات آخری منزل تک پہنچیں۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ پہلے یہ توقع کی جاتی تھی کہ غریب بینک جائیں گے اور اب منظر نامہ یہ ہے کہ بینک غریبوں کی دہلیز پر جا رہے ہیں۔ اس تبدیل میں غریبوں اور بینکوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنا شامل تھا۔ ہم نے نہ صرف جسمانی فاصلہ ختم کیا بلکہ اس سے بڑھ کر ہم نے نفسیاتی فاصلہ بھی ختم کیا۔ بینکنگ کے ساتھ دور دراز کے علاقوں کا احاطہ کرنے کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ آج ہندوستان کے 99 فیصد سے زیادہ دیہات میں 5 کلومیٹر کے دائرے میں بینک کی شاخ، بینکنگ آؤٹ لیٹ یا 'بینکنگ متر' موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام شہریوں کو بینکنگ کی ضروریات فراہم کرنے کے لئے انڈیا پوسٹ بینکوں کے ذریعے وسیع پوسٹ آفس نیٹ ورک کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہندوستان میں فی ایک لاکھ بالغ شہری بینکوں کی شاخوں کی تعداد جرمنی، چین اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک سے زیادہ ہے۔ کچھ طبقوں میں ابتدائی غلط فہمیوں کے باوجود وزیر اعظم نے کہا کہ آج پورا ملک جن دھن بینک کھاتوں کی طاقت کا تجربہ کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کو ان کھاتوں نے انتہائی کم پریمیم پر کمزور افراد کو انشورنس فراہم کرنے کے قابل بنایا۔ اس سے غریبوں کے لئے بغیر ضمانت کے قرضوں کا راستہ کھل گیا اور ہدف سے فائدہ اٹھانے والوں کے کھاتوں میں براہ راست فائدہ کی منتقلی فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھاتے گھر، بیت الخلا، گیس سبسڈی فراہم کرنے کا کلیدی طریقہ تھے اور کسانوں کے لیے اسکیموں کے فوائد کو بغیر کسی رکاوٹ کے یقینی بنایا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کے ڈیجیٹل بینکنگ انفراسٹرکچر کی عالمی پہچان کا اعتراف کیا۔ آئی ایم ایف نے ہندوستان کے ڈیجیٹل بینکنگ انفراسٹرکچر کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس کا سہرا ہندوستان کے غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے سر بندھتا ہے جنہوں نے نئی ٹیکنالوجی کو اپنایا اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے کہ یو پی آئی نے ہندوستان کے لئے نئے امکانات کے در کھولے ہیں کہا کہ جب مالیاتی شراکتیں ڈیجیٹل پارٹنرشپ کے ساتھ مل جاتی ہیں تو امکانات کی ایک پوری نئی دنیا کھل جاتی ہے۔ یو پی آئی جیسی بڑی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہندوستان کو اس پر فخر ہے کیونکہ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی ٹیکنالوجی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج 70 کروڑ دیسی روپے کارڈ کام کر رہے ہیں جو غیر ملکی عاملوں کے دور اور اس طرح کی مصنوعات کی اشرافیہ کی نوعیت والے عہد سے بہت مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور معیشت کا یہ امتزاج غریبوں کے وقار اور استطاعت کو بڑھا رہا ہے اور متوسط طبقے کو بااختیار بنا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ملک کی ڈیجیٹل فرق کو بھی ختم کر رہا ہے۔ انہوں نے بدعنوانی کو ختم کرنے میں ڈی بی ٹی کے کردار کی بھی تعریف کی اور کہا کہ ڈی بی ٹی کے ذریعے مختلف اسکیموں میں 25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی منتقلی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اگلی قسط کل کسانوں کو منتقل کر دیں گے۔ آج پوری دنیا اس ڈی بی ٹی اور ہندوستان کی ڈیجیٹل طاقت کی تعریف کر رہی ہے۔ آج اسے عالمی ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ورلڈ بینک نے یہاں تک کہا دیا ہے کہ ہندوستان ڈیجیٹائزیشن کے ذریعہ سماجی تحفظ کو یقینی بنانے میں ایک رہنما بن گیا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ فن ٹیک ہندوستان کی پالیسیوں اور کوششوں کا محور ہے اور یہ مستقبل کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ یونٹیں فن ٹیک کی اس صلاحیت کو مزید وسعت دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر جن دھن کھاتوں نے ملک میں مالی شمولیت کی بنیاد رکھی تھی تو فن ٹیک مالیاتی انقلاب کی بنیاد بنے گا۔ بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیجیٹل کرنسی کے اجراء کے سرکاری اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ آنے والے وقت میں ڈیجیٹل کرنسی ہو یا آج کے دور میں ڈیجیٹل لین دین، معیشت کے علاوہ کئی اہم پہلو اس سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بچت، فزیکل کرنسی کی پریشانی کے خاتمے اور ماحولیاتی فوائد کو کلیدی فوائد کے طور پر درج کیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ کرنسی کی چھپائی کے لئے کاغذ اور سیاہی درآمد کی جاتی ہے اور ڈیجیٹل معیشت کو اپنا کر ہم خود کفیل ہندوستان میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ کاغذ کی کھپت کو کم کر کے ماحول کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ آج بینکنگ مالیاتی لین دین سے آگے بڑھ چکی ہے اور ’گڈ گورننس‘ اور ’بہتر سروس ڈیلیوری‘ کا ذریعہ بھی بن چکی ہے۔ آج اس نظام نے نجی شعبے اور چھوٹی صنعتوں کے لیے بھی ترقی کے بے پناہ امکانات پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں ٹیکنالوجی کے ذریعے مصنوعات اور خدمات کی فراہمی نئی صنعتوں کا ماحولیاتی نظام ت��کیل نہ دے رہی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل معیشت آج ہماری معیشت، ہماری اسٹارٹ اپ دنیا، میک ان انڈیا اور خود انحصار ہندوستان کی ایک بڑی طاقت ہے۔ آج ہماری چھوٹی صنعتیں، ہماری بہے چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتیں بھی جی ای ایم جیسے نظام کے ذریعے سرکاری ٹینڈرعں میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہیں کاروبار کے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ اب تک، جی ای ایم پر 2.5 لاکھ کروڑ روپے کے آرڈر کئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب اس سمت میں ڈیجیٹل بینکنگ یونٹوں کے ذریعے بہت سے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی بھی ملک کی معیشت اُتنی ہی ترقی یافتہ ہوتی ہے جتنا اس کا بینکاری ک نظام مضبوط ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ملک گزشتہ 8 برسوں میں 2014 سے پہلے کے 'فون بینکنگ' سسٹم سے ڈیجیٹل بینکنگ کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہندوستان کی معیشت تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ پرانے طریقوں کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ 2014 سے پہلے بینک اپنے کام کاج کا فیصلہ کرنے کے لئے فون کال کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فون بینکنگ کی سیاست نے بینکوں کو غیر محفوظ بنا دیا تھا اور ہزاروں کروڑ کے گھپلوں کے بیج بو کر ملک کی معیشت کو غیر محفوظ کر کے رکھ دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے نظام کو کس طرح تبدیل کیا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ شفافیت پر بنیادی توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے جاری رکھا، این پی ایز کی شناخت میں شفافیت لانے کے بعد لاکھوں کروڑوں روپے کو بینکنگ سسٹم میں واپس لایا گیا۔ ہم نے بینکوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کی، جان بوجھ کر نادہندگی اختیار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی اور بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ میں اصلاحات کیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شفاف اور سائنسی نظام کی تشکیل کی خاطر قرضوں کے لئے ٹیکنالوجی اور تجزیات کے استعمال کو فروغ دیتے ہوئے آئی بی سی کی مدد سے این پی اے سے متعلقہ مسائل کے حل کو تیز کیا گیا ہے۔ بینکوں کے انضمام جیسے فیصلے جو پالیسی فالج کا شکار تھے انہیں ملک نے بڑی دلیری کئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان فیصلوں کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل بینکنگ یونٹس جیسے نئے اقدامات اور فن ٹیک کے جدید استعمال کے ذریعے بینکنگ سسٹم کے لئے اب ایک نیا خود کار طریقہ کار تیار کیا جا رہا ہے۔ صارفین کے لئے جتنی خود مختاری ہے بینکوں کے لئے بھی اتنی ہی سہولت اور شفافیت ہے۔ انہوں نے ذمہ داران سے کہا کہ اس تحریک کو مزید آگے لے جایا جائے۔ اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دیہی علاقوں کے چھوٹے کاروباریوں پر زور دیا کہ وہ مکمل طور پر ڈیجیٹل لین دین کی طرف بڑھیں۔ انہوں نے بینکوں پر بھی زور دیا کہ وہ ملک کے فائدے کے لئے مکمل طور پر ڈیجیٹل طریقے اپنانے کے لئے 100 تاجروں کو اپنے ساتھ جوڑیں۔ جناب مودی نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ مجھے یقین ہے کہ یہ اقدام ہمارے بینکاری کے نظام اور معیشت کو ایک ایسے اسٹیج پر لے جائے گا جو مستقبل رُخی ہو گا اور اس میں عالمی معیشت کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ مرکزی وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر جناب شکتی کانتا داس اس موقع پر موجود لوگوں میں شامل تھے۔ وزرائے اعلیٰ، مرکزی وزرا، ریاستی وزرا، پارلیمانی اراکین ، بینکار رہنمایان، ماہرین اور استفادہ کنندگان ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پروگرام سے وابستہ رہے۔ بیک گراؤنڈ مالی شمولیت کو مستحکم بنانے کے لئے ایک قدم کے طور پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعہ 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹوں کو قوم کے لئے وقف کیا۔ 23-2022 کی مرکزی بجٹ کی اپنی تقریر میں وزیر خزانہ نے ہمارے ملک کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کے موقع پر 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹیں، ڈی بی یو قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان یونٹوں کے قیام کا مقصد ڈیجیٹل بینکنگ کے فائدوں کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانا ہے، اور یہ ہر ریاست اور ہر مرکزی انتظام والے علاقے کا احاطہ کریں گی۔ گیارہ پبلک سیکٹر بینک، بارہ پرائیویٹ بینک اور ایک اسمال فائنانس پبلک اس اقدام میں حصہ لے رہا ہے۔ ڈی بی یوز ایسے مراکز ہوں گے جہاں عوام کو کئی طرح کی ڈیجیٹل بینکنگ خدمات فراہم کی جائیں گی جن میں بچت کھاتے کھولنا، بیلنس چیک، پرنٹ پاس بک، رقومات کی منتقلی، فکسڈ ڈپازٹ میں سرمایہ لگانا، قرض کی درخواست دینا، جاری کئے گئے چیک کی ادائیگی کو روکنا، کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے لئے درخواست دینا، ٹیکس ادا کرنا، بل ادا کرنا اور نامزدگیوں جیسی خدمات شامل ہیں۔ ڈی بیو یوز پورے سال صارفین کو کم خرچ آسان رسائی اور بینک مصنوعات اور خدمات کے زیادہ ڈیجیٹل طریقوں کے ذریعہ خدمات فراہم کریں گی۔ یہ یونٹیں ڈیجیٹل مالی خواندگی پھیلائیں گی اور صارفین کو سائبر سیکورٹی کے بارے میں بیدار کریں گی۔ ان کے ذریعہ صارفین کی شکایات کے ازالے کے لئے خاطر خواہ ڈیجیٹل طریقہ کار موجود ہوگا۔,৭৫ খন জিলাৰ ৭৫ টা ডিজিটেল বেংকিং ইউনিট ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1/,وزیر اعظم جناب نریندرمودی نے چھتیس گڑھ کے یوم تاسیس کے موقع پر ریاست کے عوام کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ‘‘چھتیس گڑھ کے یوم تاسیس کے موقع پر ریاست کے سبھی لوگوں کو دلی مبارکباد۔ میری خواہش ہے کہ لوک گیت ، مقامی رقص اور فن و ثقافت کیلئے خاص شناخت رکھنے والی یہ ریاست ، ترقی کے نئے نئے پیمانے قائم کرے۔,ছত্তীশগড়ৰ প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত ইয়াৰ লোকসকলক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা জ্ঞাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DA%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%81-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%81%D8%AE%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%B1-%D8%A8%D9%84%D9%86%D8%AF%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%A4%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F/,نئی دلّی ، 31 جنوری ؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 31 اکتوبر ، 2016 کو ’ ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت ‘ کو لانچ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ سردار پٹیل نے ہمیں ایک بھارت دیا تھا ، اب 125 کروڑ بھارتیوں کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے مجموعی طور پر شریشٹھ بھارت بنائیں ۔ ‘‘ یہ وہ آئیڈیا ہے ، جس کی رہنمائی نریندر مودی نے کی تھی ، یہاں تک کہ بھارت کا وزیر اعظم بننے سے بھی قبل ۔ نریندر مودی قومی ہیروز کی عزت افزائی میں یقین رکھتے ہیں ، وہ ہیرو جنہوں نے ہماری قوم کی ترقی سا لمیت ، تحفظ اور اتحاد کے لئے گراں قدر قربانیاں دیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ ہماری تاریخ اور ہمارا ورثہ ہمارے فخر اور ہمارے احساسات کا حصہ بنیں ۔ ڈانڈی میں قومی نمک ستیہ گرہ میموریل اس کی ایک مثال ہے ۔ یہ 1930 میں مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں ان کے 80 ساتھی ستیہ گرہ کرنے والوں کے جوش ، جذبے اور توانائی کی سر فرازی تھی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا 182 میٹر اونچا مجسمہ اتحاد ،اس کی ایک روشن مثال ہے ۔ آج کیا ہے ، دنیا کا بلند ترین مجسمہ نریندر مودی کا اس وقت کا پہلا نظریہ تھا جب کہ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ یہ مجسمہ نہ صرف بھارت کے مرد آہن کے نام معنون ہے ، جنہوں نے بھارت کو متحد کیا بلکہ یہ تمام بھارتیوں کے لئے بھی ایک بہت بڑے فخر کی بات ہے ۔ کئی دہائیوں سے ، نیتا جی سبھاش چندر بوس کے کنبے کی مانگ تھی کہ ان کی زندگی سے متعلق واقعات سے وابستہ فائلیں منظر عام پر لائی جائیں ۔ سابق حکومتیں اس موضوع پر کوئی جامع فیصلہ لینے سے انکار کرتی رہی ہیں ۔یہاں تک کہ اکتوبر ، 2015 ، جب نریندر مودی نے نیتا جی کے کنبے سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ مجھے تاریخ کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اپنی تاریخ کو فراموش کر دیتے ہیں ، وہ اپنی تخلیقی توانائی کو بھی ضائع کر دیتے ہیں ۔ وہ فائلیں تیزی کے ساتھ منظر عام پر لائی گئیں اور ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر رکھی گئیں ۔ 1940 کے وسط میں لال قلعے میں آئی این اے کی جانچ نے قوم کو دہلا کر رکھ دیا ۔ تاہم ، دہوں سے وہ عمارت جس میں مقدمہ چلایا گیا تھا ، لال قلعہ کمپلیکس کے اندرونی حصے میں، بھلا دیا گیا تھا ، اس سال سبھاش بوس کی جینتی کے موقع پر وزیر اعظم نے اسی بلڈنگ میں میوزیم کا افتتاح کیا ، نیتا جی اور انڈین نیشنل آرمی کے نام وقف کیا ۔ یہ میوزیم چار حصوں پر مشتمل ہے جو کہ کرانتی مندر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ عجائب گھر 1857 کی جنگ آزادی اور جلیاں والا قتل عام کے نام وقف ہے نریندر مودی نے قدرتی آفات سے مقابلہ کرنے والے آپریشنوں میں شامل پولیس عملے کے لئے نیتا جی سبھاش چندر بوس کے نام سے ایوارڈ دینے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران متعدد دیگر میموریل بھی قائم کئے گئے ہیں تاکہ اپنی تاریخ کے متعدد اہم رہنماؤں کے تعاون کو یاد کیا جائے ۔ نریندر مودی کے کلیدی افکار میں سے ایک ہے پنچ تیرتھ ۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے نام پانچ عجائب گھر وقف ۔ ان میں ان کی جائے پیدائش مہو ، لندن میں وہ مقام جہاں وہ ٹھہرے جب کہ برطانیہ عظمیٰ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ، ناگ پور میں دیکشا بھومی ، دلّی میں مہا پرنوارن اور ممبئی میں چیتیا بھومی ۔ گجرات میں وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ، انہوں نے کچھ میں شیام جی کرشنا ورما کے نام وقت کئے گئے میموریل کا افتتاح کیا ۔ ہریانہ میں انہوں نے عظیم سماجی مصلح سر چھوٹو رام کے مجسمے کی نقاب کشائی کی ۔ انہوں نے بحر عرب میں ممبئی کے ساحل پر شیواجی میموریل کا سنگ بنیاد رکھا ۔ وزیر اعظم نے دلّی میں نیشنل سائنس سینٹر میں سردار پٹیل گیلری کا افتتاح کیا ۔ حال ہی میں انہوں نے قوم کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے 33 ہزار پولیس عملے کی قربانیوں کو سلامی دیتے ہوئے نیشنل پولیس میموریل کو قوم کے نام وقف کیا ۔ چند ہفتوں میں ، ایک نیشنل وار میموریل بھی آزادی کے بعد سے جنگوں اور آپریشنوں میں اپنی جانیں گنوانے والوں کی یادگار کی نقاب کشائی کی جائے گی ۔ میموریل ہمیں ان کی قربانیو کی یاد دہانی کراتے ہیں ، جن کی جانوں کی قربانی کی بدولت ہم بہتر زندگی گزارنے کے اہل ہو سکے �� وہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے تحریک کا ایک وسیلہ ہیں ۔ یہ میموریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی رہنمائی میں تعمیر کئے گئے ہیں ، جو کہ ہماری قومیت کی یادگار ہیں ، ہماری ایکتا کا احساس دلاتی ہیں اور قابل فخر ہیں ۔,স্মাৰকৰ জৰিয়তে ৰাষ্ট্ৰীয় গৌৰৱৰ স্থাপন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-g20-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%D8%8C-%D8%AA%DA%BE%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87/,نمسکار، میرے پیارے ہم وطنوں اور عالمی برادری کے تمام اہل خانہ، کچھ دنوں بعد یکم دسمبر سے، ہندوستان G-20 کی صدارت کرے گا۔ یہ ہندوستان کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ آج اس تناظر میں اس سربراہی اجلاس کی ویب سائٹ، تھیم اور لوگو کا اجرا کیا گیا ہے۔ میں اس موقع پر تمام ہم وطنوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، G-20 ایسے ممالک کا ایک گروپ ہے جن کی اقتصادی صلاحیت دنیا کی جی ڈی پی کا 85 فیصد ہے۔ G20 بیس ممالک کا ایک گروپ ہے جو دنیا کی 75 فیصد تجارت کی نمائندگی کرتا ہے جو دنیا کی دو تہائی آبادی پر مشتمل ہے۔ اور ہندوستان، اب اس G20 گروپ کی قیادت کرنے جا رہا ہے، اس کی صدارت کرنے جا رہا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آزادی کے امرت دور میں ملک کے سامنے کتنا بڑا موقع آیا ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے لیے فخر کی بات ہے، یہ اس کے فخر کو بڑھانے کی بات ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ G-20 سربراہی اجلاس، ہندوستان میں ہونے والے پروگراموں کے بارے میں تجسس اور سرگرمی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس لوگو کی تخلیق میں اہل وطن نے بڑا کردار ادا کیا ہے جسے آج لانچ کیا گیا ہے۔ ہم نے لوگو کے لیے اہل وطن سے ان کی قیمتی تجاویز مانگی تھیں۔ اور مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہزاروں لوگوں نے اپنے تخلیقی خیالات حکومت کو بھیجے۔ آج وہ خیالات، وہ تجاویز اتنے بڑے عالمی ایونٹ کا چہرہ بن رہے ہیں۔ میں اس کوشش کے لیے سب کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، G-20 کا یہ لوگو صرف ایک لوگو نہیں ہے۔ یہ ایک پیغام ہے۔ یہ ایک احساس ہے جو ہماری رگوں میں ہے۔ یہ ایک قرارداد ہے، جو ہماری سوچ میں شامل ہے۔ ’واسودھیو کٹمبکم‘ کے منتر کے ذریعے، عالمگیر بھائی چارے کا جذبہ جسے ہم جیتے آئے ہیں، وہ خیال اس لوگو اور تھیم میں جھلک رہا ہے۔ اس لوگو میں کمل کا پھول ہندوستانی ورثے، ہمارے عقیدے، ہماری ذہانت کی عکاسی کر رہا ہے۔ دوستوں، ہندوستان کی G20 صدارت دنیا میں بحران اور افراتفری کے وقت میں ملی ہے۔ دنیا ایک صدی میں ایک بار آنے والی تباہ کن وبائی بیماری، تنازعات اور بہت سی معاشی بے یقینی کے بعد کے اثرات سے گزر رہی ہے۔ G20 لوگو میں کمل کی علامت ان دنوں میں امید کی نمائندگی کرتی ہے۔ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، کنول پھر بھی کھلتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دنیا ایک گہرے بحران میں ہے، تب بھی ہم ترقی کر سکتے ہیں اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ ہندوستانی ثقافت میں، علم اور خوشحالی کی دیوی دونوں ایک کمل پر بیٹھی ہیں۔ آج دنیا کو اس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے: مشترکہ علم جو ہمارے حالات پر قابو پانے میں ہماری مدد کرتا ہے، اور مشترکہ خوشحالی جو آخری میل پر آخری شخص تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ G20 لوگو میں زمین کو بھی کمل پر رکھا گیا ہے۔ لوگو میں کنول کی سات پنکھڑیاں بھی نمایاں ہیں۔ وہ سات ��ر اعظموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ موسیقی کی عالمگیر زبان میں سروں کی تعداد بھی سات ہے۔ موسیقی میں، جب سات سر ایک ساتھ آتے ہیں، تو وہ کامل ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ہر سر کی اپنی انفرادیت ہے۔ اسی طرح G20 کا مقصد تنوع کا احترام کرتے ہوئے دنیا کو ہم آہنگی میں لانا ہے۔ ساتھیوں، یہ سچ ہے کہ دنیا میں جب بھی G-20 جیسے بڑے پلیٹ فارموں کی کانفرنس ہوتی ہے تو اس کے اپنے سفارتی اور جیو پولیٹیکل معنی ہوتے ہیں۔ یہ بھی فطری بات ہے۔ لیکن ہندوستان کے لیے یہ سربراہی اجلاس محض ایک سفارتی ملاقات نہیں ہے۔ ہندوستان اسے اپنے لیے ایک نئی ذمہ داری کے طور پر دیکھتا ہے۔ ہندوستان اسے اپنے آپ پر دنیا کے اعتماد کے طور پر دیکھتا ہے۔ آج دنیا میں ہندوستان کو جاننے، ہندوستان کو سمجھنے کا ایک بے مثال تجسس ہے۔ آج ہندوستان کا ایک نئی روشنی میں مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ ہماری موجودہ کامیابیوں کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ ہمارے مستقبل کے بارے میں بے مثال امیدوں کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے اہل وطنوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان امیدوں اور توقعات سے کہیں زیادہ بہتر کام کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو ہندوستان کی سوچ اور صلاحیت سے، ہندوستان کی ثقافت اور سماجی طاقت سے واقف کرائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ہزاروں سال پرانی ثقافت اور اس میں موجود جدیدیت کی حکمت سے دنیا کے علم میں اضافہ کریں۔ جس طرح ہم صدیوں اور ہزار سال سے ’جے جگت‘ کے تصور کو جی رہے ہیں، آج ہمیں اسے زندہ کر کے جدید دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ ہمیں سب کو جوڑنا ہے۔ عالمی فرائض سے سب کو آگاہ کرنا ہوگا۔ انہیں بیدار کرنا ہوگا، دنیا کے مستقبل میں ان کی شرکت کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ ساتھیوں، آج جب ہندوستان G20 کی صدارت کرنے جا رہا ہے، یہ تقریب ہمارے لیے 130 کروڑ ہندوستانیوں کی طاقت اور صلاحیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ آج ہندوستان اس مقام پر پہنچ چکا ہے۔ لیکن، اس کے پیچھے ہمارا ہزاروں سالوں کا ایک بہت بڑا سفر ہے، اس سے جڑے لا محدود تجربات ہیں۔ ہم نے ہزاروں سال کی دولت اور رونق بھی دیکھی ہے۔ ہم نے دنیا کے تاریک ترین دور بھی دیکھے ہیں۔ ہم نے صدیوں کی غلامی اور اندھیروں میں جینے کے مجبوری کے دن دیکھے ہیں۔ بہت سے حملوں اور مظالم کا سامنا کرتے ہوئے، ہندوستان ایک متحرک تاریخ پر فخر کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں وہ آج ہے۔ وہ تجربات آج ہندوستان کی ترقی کے سفر میں سب سے بڑی طاقت ہیں۔ آزادی کے بعد ہم نے صفر سے شروع ہونے والا ایک بڑا سفر شروع کیا، جس کا مقصد سب سے اوپر ہے۔ اس میں گزشتہ 75 سالوں میں تمام حکومتوں کی کوششیں شامل ہیں۔ تمام حکومتوں اور شہریوں نے اپنے اپنے طریقے سے ہندوستان کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں آج اس جذبے کے ساتھ ایک نئی توانائی کے ساتھ پوری دنیا کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہے۔ ساتھیوں، ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی ثقافت نے ہمیں ایک اور چیز سکھائی ہے۔ جب ہم اپنی ترقی کے لیے کوشش کرتے ہیں تو ہم عالمی ترقی کا بھی تصور کرتے ہیں۔ آج ہندوستان دنیا کی ایک ایسی زر خیز اور زندہ جمہوریت ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی رسومات بھی ہیں اور مادر جمہوریت کی شکل میں ایک شاندار روایت بھی۔ ہندوستان میں جتنی انفرادیت ہے جتنی تنوع ہے۔ یہ جمہوریت، یہ تنوع، یہ مقامی نقطہ نظر، یہ جامع سوچ، یہ مقامی طرز زندگی، یہ عالمی افکار، آج دنیا اپنے تمام چیلنجوں کا حل ان نظریات میں دیکھ رہی ہے۔ ہم دنیا کے ہ�� انسان کو یقین دلاتے ہیں کہ ترقی اور فطرت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ ہمیں پائیدار ترقی کو بھی محض نظام حکومت کے بجائے انفرادی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا، اسے وسعت دینا ہوگی۔ ماحولیات کو ایک عالمی وجہ کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے ذاتی ذمہ داری بننا چاہیے۔ ساتھیوں، آج دنیا علاج کی بجائے صحت کی تلاش میں ہے۔ ہمارا آیوروید، ہمارا یوگا، جس کے بارے میں دنیا میں ایک نیا یقین اور جوش ہے، ہم اس کی توسیع کے لیے ایک عالمی نظام بنا سکتے ہیں۔ اگلے سال دنیا جوار کا عالمی سال منانے جا رہی ہے لیکن ہم نے صدیوں سے اپنے گھر کے کچن میں بہت سے موٹے اناج کو جگہ دی ہے۔ ساتھیوں، کئی شعبوں میں ہندوستان کی کامیابیاں ایسی ہیں، جو دنیا کے دیگر ممالک کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہندوستان نے جس طرح سے ترقی کے لیے، شمولیت کے لیے، بدعنوانی کے خاتمے کے لیے، کاروبار کرنے میں آسانی اور زندگی کی آسانی کو بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا ہے، یہ تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے نمونہ ہیں۔ اسی طرح آج ہندوستان خواتین کو با اختیار بنانے میں ترقی کر رہا ہے، خواتین نے اس میں اضافہ کرکے ترقی کی قیادت کی۔ ہمارے جن دھن اکاؤنٹس اور مدرا جیسی اسکیموں نے خواتین کی مالی شمولیت کو یقینی بنایا ہے۔ اس طرح کے مختلف شعبوں میں ہمارا تجربہ دنیا کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اور G20 میں ہندوستان کی صدارت ان تمام کامیاب مہمات کو دنیا تک لے جانے کے لیے ایک اہم ذریعہ کے طور پر آ رہی ہے۔ ساتھیوں، آج کی دنیا اجتماعی قیادت کی طرف بڑی امید سے دیکھ رہی ہے۔ چاہے وہ G-7 ہو، G-77 ہو یا,"ভাৰতৰ জি-২০ নেতৃত্বৰ বাবে লোগো, থীম আৰু ৱেবছাইট উন্মোচন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অনুবা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D9%88%D8%B1%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%85%D8%A7-%D9%85-%D8%AD%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%B9%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%9B/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے یوم عاشورہ پر حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کو یاد کیا اور کہا کہ ان کو سچائی کے تئیں ان کی غیر متزلزل عہد بستگی اور ناانصافی کے خلاف جنگ کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’آج کا دن حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کو یاد کرنے کا دن ہے۔ انھیں سچائی کے تئیں ان کی متزلزل عہد بستگی ااور ناانصافی کے خلاف جنگ کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ مساوات اور بھائی چارے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔‘‘,আশুৰাৰ দিনা হজৰত ইমাম হুছেইন (এএছ) ৰ ত্যাগক স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D8%A7%DB%8C-%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%B1%D9%88%D9%B9%D9%88-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%DB%8C%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی نے ایچ ای ولیم ایس روٹو کو کینیا کا صدر منتخب کئےجانے پر مبارکباد دی ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا: ولیم روٹو کو کینیا کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد۔ میں ہمارے تاریخی دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔’�� ٹویٹ –نریندر مودی) @نریندر مودی (ستمبر 7،2022,কেনিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতি হিচাপে নিৰ্বাচনৰ বাবে মহামান্য উইলিয়াম এছ ৰুটোক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D9%BE%D8%B1%D9%85%DA%A9%DA%BE-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%9A-%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%9A-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%96-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F/,نئی دہلی۔27؍نومبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ایچ ایچ پرمکھ سوامی مہاراج کو اُن کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کیا۔ ’’میں دنیا بھر کے اُن لاکھوں عقیدتمندوں کے ساتھ ہوں جو ایچ ایچ پرمکھ سوامی مہاراج کو اُن کی جینتی پر اُن کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ وہ ایک قابل تعریف روح پیکر تھے۔ جن کی مثالی خدمات اور انسانیت کیلئے اُن کی کوششوں کا بے شمار لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر پڑا۔ ایچ ایچ پر مکھ سوامی مہاراج کے گراں قدر خیالات سے لوگ رہنمائی پاتے رہیں گے، ہم ضرورت مندوں ، غریبوں اور پسماندہ طبقوں کی زندگیوں کی کایاپلٹ کر دینے کے اُن کے ویژن سے ہمیشہ ہی متاثر رہے ہیں۔ ایچ ایچ پرمکھ سوامی مہاراج کے ساتھ میرے تعلقات خصوصی نوعیت کے تھے۔ جو وقت میں نے ان کے ساتھ گزارا وہ میرے لئے قابل یادگار ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ میں نے ان سے آشیرواد لیا ہے۔ میں نے پچھلے سال سارنگ پور میں اُن کے بارے میں جو کچھ بھی کہا تھا وہ مندرجہ ذیل ہے: https://www.yog‘‘,এইচ এইচ প্ৰমূখ মহাৰাজৰ জয়ন্তী উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%BE%D9%86%D8%AF%D8%B1%DB%81-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D8%A7%D8%AA-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%95%E0%A7%88-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7/,وجے دشمی کے با برکت موقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی وزارت دفاعی کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں ویڈیو کے زریعے خطاب کرینگے۔ سات نئی دفاعی کمپنیوں کو قوم کے لیے وقف کرنے کا یہ پروگرام پندرہ اکتوبر 2021 کو ہوگا اور وزیر اعظم دن میں تقریبًا بارہ بج کر دس منٹ پر خطاب کرینگے۔ وزیر دفاع، وزیر مملکت برائے دفاع اور دفاعی صنعتی تنظیموں کے نمائندے اس موقع پر موجود رہیں گے۔ سات نائی دفاعی کمپنیوں کے بارے میں حکومت نے آرڈنس فیکٹری بورڈ کو سرکاری محکمے سے سات سو فیصد سرکاری ملکیت کورپوریٹ اداروں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد ملک میں دفاعی تیاریوں میں خود کفالت کو بہتر بنانا ہے۔ اس اقدام سے کام کاج اور کا وائیوں کی خود مختاری اور کارکردگی بڑھے گی اور اس سے ترقی کے نئے امکانات ملیں گے اور جدت طرازی کو فروغ ملے گا۔ ساتئ نئی دفاعی کمپنیاں جنہیں شامل کیا گیا ہے وہ ہیں۔ میونیشن انڈیا لمیٹڈ (MIL)، آرمڈ وھیکل نگم لمیٹڈ (AVANI) اینڈ دانس ویپن اینڈ ایکیوپمنٹ انڈیا لمیٹڈ (اے ڈبلو ای۔ انڈیا)، ٹروپ کمفرٹ لمٹڈ (TCL)، ینترا انڈیا لمٹڈ (YIL)، انڈیا اوپٹیل لمٹڈ (IOL) اور گلائیڈرس انڈیا لمٹڈ (GIL) <><><><><> ش ح،ع س، ج,নতুনকৈ স্থাপিত প্ৰতিৰক্ষা বাহিনীৰ ৭টা প্ৰতিষ্ঠানক ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰি এক অনুষ্ঠানত ভিডিঅ যোগে ভাষণ প্ৰদান কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%85%D8%BA%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%B2-%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایشین کپ میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر ٹیبل ٹینس کھلاڑی منیکا بترا کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا; ’’ایشین کپ میں کانسے کا تمغہ جیت کر بھارتی ٹیبل ٹینس کے لیے تاریخ رقم کرنے پر میں منیکا بترا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی کامیابی بھارت بھر کے متعدد ایتھلیٹوں کو ترغیب فراہم کرے گی اور ٹیبل ٹینس کا کھیل مزید مقبول عام بنے گا۔@manikabatra_TT ‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে টেবুল টেনিছ খেলুৱৈ মণিকা বাত্ৰাক এছিয়ান কাপত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাত অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%AF%D9%88%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DB%94-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,نئی دہلی ،15؍مارچ :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی صدارت میں روایتی نظام ادویہ کے شعبے میں بھارت ۔ ایران تعاون کے لئے مفاہمتی عرضداشت کو مرکزی کابینہ نے منظوری دے دی ہے ۔ فوائد: یہ مفاہمتی عرضداشت، روایتی نظام ادویہ کے شعبے میں دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون میں اضافہ کریگی ۔ یہ چیزدونوں ممالک کے مشترکہ ثقافتی ورثے کے پیش نظر،دونوں کے لئے ازحداہمیت کی حامل ہوگی ۔ پس منظر: بھارت ادویہ جاتی پودوں سمیت روایتی ادویہ کے باقاعدہ نظام سے مالامال ہے ،جوعالمی صحتی منظرنامے کے لحاظ سے زبردست مضمرات کا حامل ہے ۔ بھارت اور ایران لسانیات ، ثقافت اورروایات کے معاملے میں متعدد مشترکہ نکات کے حامل ہیں اور جڑی بوٹیوں کے ادویہ جاتی استعمال کی مشترکہ وراثت کے بھی حامل ہیں ۔ دونوں ممالک میں بڑی تعداد میں حیاتیاتی گوناگونی کے عوامل موجود ہیں اور ان دونوں ممالک میں ادویہ جاتی پودے پائے جاتے ہیں ، جن میں اکثر کا استعمال روایتی نظام ادویہ کے تحت کیاجاتاہے ۔ اس کے علاوہ ، ایران نے روایتی نظام ادویہ کے معاملے میں بھارت کی حیثیت کو باقاعدہ طورپرتسلیم بھی کیاہے ،کیونکہ یہاں وسیع پیمانے پرمضبوط بنیادی ڈھانچہ اورجدیدترین پیداواری اکائیاں موجود ہیں ۔ وزارت آیوش، حکومت ہند، اس امرکی ذمہ دارہے کہ وہ آیوروید ،یوگ، قدرتی طریقہ علاج ، یونانی ، سدھ، سوا۔رگپااورہومیوپیتھی سمیت روایتی نظام ادویہ کو فروغ دے اور اس کی ترویج واشاعت کی کوشش کرے ۔ اس کے لئے وزارت نے چین ، ملیشیا ، ترینیداد اینڈ،ٹوبیکو، ہنگری ، بنگلہ دیش ، نیپال ، ماریشس اور منگولیاکے ساتھ روایتی طریقہ ادویہ کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لئے مفاہمتی عرضداشت کے ذریعہ موثر اقدامات کئے ہیں ، ایک دیگرمفاہمتی عرضداشت سری لنکاکے ساتھ دستخط کئے جانے کے لئے مجوزہ ہے ۔ (م ن ۔ ع آ۔820115.03.),পৰম্পৰাগত চিকিৎসা পদ্ধতিৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা আগবঢ়োৱাৰ অৰ্থে ভাৰত আৰু ইৰাণৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DA%A9%D9%8F%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%D8%B3%D8%B1%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%AE%E0%A7%88%E0%A6%B9%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے دریائے کُشیارہ کی مشترکہ سرحد سے ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں میں سے ہر ایک کے ذریعہ 153 کیوسک تک پانی حاصل کرنے سے متعلق جمہوریہ ہند اور جمہوریہ بنگلہ دیش کی حکومتوں کے درمیان کئے گئے مفاہمت نامے پر بعد از وقوع واقعہ آج منظوری دی ہے۔ اپنی پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خشک موسم (یکم نومبر سے 31 مئی تک) کے دوران دریائے کُشیارہ کی مشترکہ سرحد سے ہند وستان اور بنگلہ دیش میں سے ہر ایک کے ذریعہ 153 کیو سک تک پانی حاصل کرنے کے بارے میں کئے جانے والے مفاہمت نامے پر 6 ستمبر 2022 کو حکومت جمہوریہ ہند کی جل شکتی کی وزارت اور حکومت عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی آبی وسائل کی وزارت نے دستخط کئے تھے۔ اس مفاہمت نامے کے بعد آسام کی حکومت اپنی پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خشک موسم (یکم نومبر سے 31 مئی تک) کے دوران دریائے کشیارہ کی مشترکہ سرحد سے 153 کیوسک پانی حاصل کرسکتی ہے۔ خشک موسم کے دوران دونوں فریقوں کے ذریعہ پانی کے حصول کی نگرانی کے مقصد سے دونوں ممالک کے درمیان ایک مشترکہ مونیٹرنگ ٹیم قائم کی جائے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح- ا گ- ق ر),উমৈহতীয়া সীমান্তৱৰ্তী নদী কুশিয়াৰাৰপৰা ভাৰত আৰু বাংলাদেশে ১৫৩ কিউছেকলৈকে পানী প্ৰত্যাহাৰৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু বাংলাদেশৰ মাজৰ বুজাবুজিৰ চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%B1%D8%AC-%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA-%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%97%E0%A7%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B8%E0%A7%82%E0%A6%9A%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0/,نئی دہلی ،14فروری :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترمیم ( شیڈولڈ کاسٹ اینڈ شیڈولڈ ٹرائبس ) آرڈر( ترمیمی ) بل 2016میں سرکاری ترمیم کی تجویز پرمرکزی کابینہ کے مراسلے ( نوٹ ) کی منظوری دے دی ۔ جس کی روسے چھتیس گڑھ کے درج فہرست قبائل کی فہرست میں ترمیم کی جاسکے گی ۔ چھتیس گڑھ کے درج فہرست قبائل کی فہرست میں درج ذیل تبدیلیاں کی جائیں گی ۔ 1-پانچ نمبر کی انٹری میں ‘‘بھریا بھومیا’’ میں درج ذیل الفاظ جوڑے جائیں گے ۔‘‘ بھوئیاں ، بھوئین ، بھویان’’ 2-14نمبرکی انٹری کی جگہ درج ذیل انٹری درج کی جائیگی ۔ ‘‘14دھنوار، دھنوہار، دھنووار’’ 3-32اور 33نمبر کی انٹری کی جگہ درج ذیل انٹریاں درج کی جائیں گی ۔ ‘‘32ناگیشیا ، ناگیشیا ، کسان 33۔ اوراوں ،دھنکا، دھانگڈ’’ (4)41نمبر کی انٹری کے لئے درج ذیل انٹری درج کی جائیگی ، ‘‘ساور، ساوارا، سونرا، ساونرا’’ اور 43۔ کے بعد 42نمبر کی انٹری کی جگہ درج ذیل انٹری درج کی جائیگی ، ‘‘43، بھنجیا’’۔ یہ ایکٹ کانسٹی ٹیوشن ( شیڈولڈ کاسٹ اینڈ شیڈولڈ ٹرائبس ) آرڈر ( ترمیمی ) بل 2019 کے نام سے موسوم کیاجائیگا۔ اس بل کو قانونی شکل حاصل ہوجانے کے بعد چھتیس گڑھ کے درج فہرست قبائل کی نظرثانی شدہ فہرست نے نئی شامل فہرست برادریوں کے افراد کو بھی شیڈولڈٹرائبس کے ل��ے سرکارکی جاری اسکیموں سےفائدہ حاصل ہوسکے گا۔ ان میں سے بعض اہم اسکیموں میں میٹرک کے بعد وظیفہ (اسکالرشپ ) ، قومی غیرملکی اسکالرشپ ، نیشنل فیلو شپ ، اعلیٰ تعلیم ، رعایتی شرح سود پرنیشنل شیڈولڈٹرائبس فائننس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن سے قرض کی سہولت اور شیڈولڈ ٹرائبس لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے ہوسٹل جیسی سہولیات شامل ہیں ۔ مزید برآں انھیں سرکاری پالیسی کے مطابق ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے ریزرویشن کافائدہ بھی حاصل ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,ছত্তিশগড়ৰ অনুসূচীত জাতিৰ তালিকাখন সংশোধনৰ প্রস্তাৱলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-7-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%8C%D8%A6%D8%B1%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%AD-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 7 اکتوبر 2021 کو صبح 11 بجے ایمس رشی کیش ، اتراکھنڈ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں 35 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پی ایم کیئرز کے تحت قائم 35 پریشر سوئنگ ایڈسورپشن (پی ایس اے) آکسیجن پلانٹس قوم کو وقف کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ، ملک کے تمام اضلاع میں اب پی ایس اے آکسیجن پلانٹس لگائے جائیں گے۔ وزیراعظم اس موقع پر اجتماع سے خطاب بھی کریں گے۔ اب تک ، ملک بھر میں پی ایم کیئرز کے تحت کل 1224 پی ایس اے آکسیجن پلانٹس کی مالی اعانت کی گئی ہے ، جن میں سے 1100 سے زائد پلانٹس کو کمیشن دیا گیا ہے ، جو روزانہ 1750 میٹرک ٹن سے زیادہ آکسیجن کی پیداوارکرتے ہیں۔ یہ حکومت کی طرف سے عالمی وبا کووڈ-19 کے آنے کے بعد سے بھارت کی طبی آکسیجن پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اٹھائے گئے فعال اقدامات کا بین ثبوت ہے۔ ملک کے ہر ضلع میں پی ایس اے آکسیجن پلانٹ لگانے کا منصوبہ پہاڑی علاقوں ، جزیروں اور دشوار گزار علاقوں میں حائل پیچیدہ اور مشکل ترین چیلنجوں سے نمٹنے کے دوران عمل میں لایا گیا۔ سات ہزار سے زائد اہلکاروں کو تربیت دے کر ان پلانٹس کے آپریشن اور دیکھ بھال کو یقینی بنایا گیا ہے۔ انہیں ایک امبیڈیڈ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) ڈیوائس کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جس کی ایک اپڈیٹیڈ اور تکنیک سے لیس ویب پورٹل کے ذریعے کام کاج اور کارکردگی کی حقیقی وقت میں نگرانی کی جائے گی۔ اتراکھنڈ کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ مرکزی وزیر صحت بھی اس موقع پر موجود ہوں گے۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে ৭ অক্টোবৰত পিএম কেয়াৰ্ছ তহবিলত নির্মিত অক্সিজেন প্লাণ্ট জাতিৰ উদ্দেশ্যে উৎসর্গ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%93%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%B1%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%D9%BE%D8%B1-%D9%86%D8%B4%D8%B1-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,"نئی دہلی۔25 مارچ میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ! آج رام نومی کا مقدس تہوار ہے ۔ رام نومی کے اس مقدس تہوار پر ہم وطنوں کو میری جانب سے بہت بہت مبارکباد۔ قابل پرستش باپو کی زندگی میں ‘رام نومی’ کی طاقت کتنی تھی وہ ہم نے ان کی زندگی میں ہر پل دیکھا ہے ۔ پچھلے دنوں 26 جنوری کو جب آسیان ممالک کے سبھی قائدین یہاں تھے تو اپنے ساتھ کلچرل ٹروپ لے کر آئے تھے اور بڑے فخر کی بات ہے کہ اس میں زیادہ تر ملک رامائن کو ہی ہمارے سامنے پیش کر رہے تھے ۔ یعنی رام اور رامائن ، نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے اس جغرافیائی خطے میں آسیان ممالک میں آج بھی اتنی ہی ترغیب اور اثر پیدا کر رہے ہیں ۔ میں پھر ایک بار آپ سبھی کو رام نومی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، ہر بار کی طرح اس بار بھی مجھے آپ سبھی کے ڈھیر سارے خطوط ، ای میل، فون کال اور تبصرے بہت بڑی تعداد میں موصول ہوئے ہیں ۔ کومل ٹھاکر جی نے مائی گو پر اپنی سنسکرت کے آن لائن کورس شروع کرنے کے بارے میں جو لکھا وہ میں نے پڑھا۔ آئی ٹی پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ سنسکرت کے تئیں آپ کا پریم دیکھ کر بہت اچھا لگا ۔ میں نے متعلقہ شعبے اس سمت میں ہو رہی کوششوں کی جانکاری آپ تک پہنچانے کے لیے کہا ہے ۔ ‘من کی بات’ کے سامعین جو سنسکرت کو لے کر فعال ہیں ، میں ان سے بھی درخواست کروں گا کہ اس پر غور کریں کہ کومل جی کے مشورے کو کیسے آگے بڑھایا جائے ۔ شریمان گھنشیام کمار جی ، گاؤں براکر، ضلع نالندہ ، بہار – آپ کے نریندر مودی ایپ پر لکھے تبصرے پڑھا ۔ آپ نے زمین میں گھٹتی آبی سطح پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، وہ یقینی طور پر بہت ہی اہم ہے ۔ شریمان شکل شاستری جی ، کرناٹک – آپ نے الفاظ کے بہت ہی خوبصورت تال میل کے ساتھ لکھا کہ ‘آیوش مان بھارت ’تبھی ہوگا جب ‘آیوش مان بھومی ’ ہوگی اور ‘آیوش مان بھومی’ تبھی ہوگی جب ہم اس سرزمین پر رہنے والے ہر ذی روح کی فکر کریں گے ۔ آپ نے گرمیوں میں چرندوں پرندوں کے لیے پانی رکھنے کے لیے بھی سبھی سے استدعا کی ہے ۔ شکل جی ، آپ کے جذبات کو میں نے سبھی سامعین تک پہنچا دیا ہے ۔ شریمان یوگیش بھدریش جی ، ان کا کہنا ہے کہ میں اس بار نوجوانوں سے ان کی صحت کے بارے میں بات کروں ۔ انہیں لگتا ہے کہ آسیان ممالک میں موازنہ کریں تو ہمارے نوجوان جسمانی لحاظ سے کمزور ہیں ۔ یوگیش جی، میں نے سوچا کہ اس بار صحت کو لے کر کے سبھی کے ساتھ تفصیل سے بات کروں ۔ صحت مند ہندوستان کی بات کروں اور آپ سبھی نوجوان مل کر صحت مندہندوستان کی تحریک بھی چلا سکتے ہیں ۔ پچھلے دنوں فرانس کے صدر کاشی کے دورے پر گئے تھے ۔ بنارس کے آنجناب پرشانت کمار نے لکھا ہے کہ اس دورے کے سارے مناظر ، دل کو چھو لینے والے تھے ۔ اور انہوں نے درخواست کی تھی کہ وہ سبھی فوٹوگرافس، سارے ویڈیو، سوشل میڈیا پر نشر کیا جانا چاہیے ۔ پرشانت جی حکومت ہند نے وہ سارے فوٹو گرافس اسی دن سوشل میڈیا اور نریندر مودی ایپ پر شیئر کر دیے تھے ۔ اب آپ ان کو لائک کریں اور ری ٹویٹ کریں ، اپنے دوستوں کو پہنچائیں ۔ چننئی سے انگھا ، جئیش اور بہت سارے بچوں نے ایگزام واریر کتاب کے پیچھے جو مبارکباد کے کارڈ دیے ہیں ان پر انہوں نے اپنے دل میں جو بات آئی ، اسے لکھ کر مجھے ہی بھیج دیے ہیں ۔ انگھا ، جئیش ، میں آپ سبھی بچوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے ان خطوط سے میرے دن بھر کی تھکان چھو منتر ہو جاتی ہے ۔ اتنے سارے خطوط، اتنے سارے فون کال ، تبصرے ، ان میں سے جو کچھ بھی میں پڑھ پایا ، جو بھی میں سن پایا اور اس میں بہت سی چیزیں ہیں جو میرے من کو چھو گئی – صرف ان کے بارے میں ہی بات کروں گا تو بھی شاید مہینوں تک مجھے لگاتار کچھ نہ کچھ کہتے ہی جانا پڑے گا۔ اس بار زیادہ تر خطوط بچوں کے ہیں جنھوں نے ایگزام کے بارے میں لکھا ہے ۔ چھٹیوں کے اپنے پلان شیئر کیے ہیں ۔ گرمیوں میں جانوروں –پرندوں کے پانی کی فکر کی ہے ۔ کسان میلوں اور کھیتی کو لے کر جو سرگرمیاں ملک بھر میں چل رہی ہیں اس کے بار میں کسان بھائی بہنوں کے خطوط آئے ہیں ۔ پانی کے تحفظ کو لے کر کچھ سرگرم شہریوں نے صلاح بھیجے ہیں ۔ جب سے ہم لوگ آپس میں ‘من کی بات’ ریڈیو کے ذریعہ کر رہے ہیں تب سے میں نے ایک پیٹرن دیکھا ہے کہ گرمیوں میں زیادہ تر خطوط ، گرمیوں کے موضوع کے بارے میں آتے ہیں ۔ امتحان سے پہلے طالب علم دوستوں کی تشویش کو لے کر خطوط آتے ہیں ۔ فیسٹول کے موسم میں ہمارے تہوار ، ہماری ثقافت، ہماری روایات سے متعلق باتیں آتی ہیں ۔ یعنی من کی باتیں ، موسم کے ساتھ بدلتی بھی ہیں اور شاید یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے من کی باتیں ، کہیں کسی کی زندگی میں موسم بھی بدل دیتی ہیں۔ اور کیوں نہ بدلے ! آپ کی ان باتوں میں ، آپ کے ان احساسات میں ، آپ کے ان مثالوں ، اتنی تحریک ، اتنی توانائی ، اتنا اپنا پن ، ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رہتا ہے ۔ یہ تو پورے ملک کا ہی موسم بدلنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ جب مجھے آپ کے خطوط میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ کیسے آسام کے کریم گنج کے لیے رکشہ چلانے والے احمد علی نے اپنے عزم مصم سے غریب بچوں کے لیے 9 اسکول بنوائے ہیں – تب اس ملک کے انسانی عزم کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ جب مجھے کانپور کے ڈاکٹر اجیت موہن چودھری کی کہانی سننے کو ملی کہ وہ فٹ پاتھ پر جا کر غریبوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں مفت دوا بھی دیتے ہیں – تب اس ملک کے دوستی کے جذبے کو محسوس کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ 13 سال پہلے ، وقت پر علاج نہ ملنے کے سبب کولکاتہ کے کیب چلانے والے سیدل لسکر کی بہن کی موت ہو گئی – انہوں نے اسپتال بنانے کی ٹھان لی تاکہ علاج کی کمی سے کسی غریب کی موت نہ ہو۔ سیدل نے اپنے اس مشن میں گھر کے زیور فروخت کئے ، عطیات کے ذریعہ روپے جمع کیے۔ ان کی کیب میں سفر کرنے والے کئی مسافروں نے دل کھول کر عطیہ دیے ۔ ایک انجینئر بیٹی نے تو اپنی پہلی تنخواہ ہی دے دی ۔ اس طرح سے روپیہ جمع کر کے 12 سالوں بعد آخرکار سیدل لسکر نے جو انتھک کوشش کی ، وہ رنگ لائی اور آج انہی کی اس کڑی محنت کے باعث ، ان ہی کے عزم کے سبب کولکاتہ کے پاس پنری گاؤں میں لگ بھگ 30 بستر کی صلاحیت والا اسپتال بن کر تیار ہے ۔ یہ ہے نئے ہندوستان کی طاقت ۔ جب اتر پردیش کی ایک خاتون بے شمار جد و جہد کے باوجود 125 بیت الخلاء کی تعمیر کراتی ہے اور خواتین کو ان کے حق کے لیے ترغیب دیتی ہے ۔ تب مادرانہ طاقت کے درشن ہوتے ہیں ۔ ایسے ان گنت قابل ترغیب مثالیں میرے ملک کا تعارف کراتی ہیں ۔ آج پوری دنیا میں ہندوستان کی جانب دیکھنے کا نظریہ بدلا ہے ۔ آج جب ہندوستان کا نام بڑے عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے ماں بھارتی کے ان بیٹے بیٹیوں کا عزم چھپا ہے ۔ آج ملک بھر میں نوجوانوں میں ، خواتین میں ، پچھڑوں میں ، غریبوں میں، متوسط طبقوں میں ، ہر طبقے میں یہ اعتماد جاگا ہے کہ ہاں ، ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ، ہمارا ملک آگے بڑھ سکتا ہے ۔ آشا اور امیدوں سے بھری ایک خود اعتماد ی کا مثبت ماحول بنا ہے ۔ یہی خود اعتمادی ، یہی مثبت رویہ جدید ہندوستان کے ہمارے تصور کو پورا کرے گی ، خواب شرمندہ تعبیر کرے گی۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، آنے والے کچھ مہینے کسان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بہت ہی اہم ہیں ۔ اسی وجہ سے ڈھیر سارے خطوط، زراعت سے متعلق آئے ہیں ۔ اس بار میں نے دور درشن کا ڈی ڈی کسان چینل پر جو کسانوں کے ساتھ بحثیں ہوتی ہیں ، ان کے ویڈیو بھی منگوا کر دیکھے اور مجھے لگتا ��ے کہ ہر کسان کو دور درشن کے یہ ڈی ڈی چینل سے جڑنا چاہیے ، اسے دیکھنا چاہیے اور ان تجربات کو اپنے کھیتوں میں لاگو کرنا چاہیے ۔ مہاتما گاندھی سے لے کر شاستری جی ہوں ، لوہیا جی ہوں ، چودھری چرن سنگھ جی ہوں ، چودھری دیوی لال جی ہوں – سبھی نے زراعت اور کسانوں کو ملک کی معیشت اور عام عوامی زندگی کا ایک اہم جزو مانا ہے ۔ مٹی ، کھیت کھلیان اور کسان سے مہاتما گاندھی کو کتنا لگاؤ تھا ، یہ احساس ان کی اس سطر میں جھلکتا ہے ، جب انہوں نے کہا تھا – ‘‘To forget how to dig the earth and to tend the soil, is to forget o مئی تک گرام سوراج ابھیان منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت پورے ہندوستان میں دیہی – ترقی، غریب کلیان اور سماجی انصاف پر الگ الگ پروگرام ہوں گے۔ میرا، آپ سبھی سے گزارش ہے کہ اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں، اگلے کچھ دنوں میں کئی تہوار آنے والے ہیں۔ بھگوان مہاویر کی یوم پیدائش، ہنومان جینتی، اسٹر، بیساکھی۔ بھگوان مہاویر کی یوم پیدائش ،ان کی قربانی اور تپسیہ کو یاد کرنے کا دن ہے۔ عدم تشدد کا پیغام دینے والے بھگوان مہاویر جی کی زندگی، فلسفہ ہم سبھی کے لیے ترغیب دے گی۔ سبھی ہم وطنوں کو مہاویر جینتی کی مبارکباد۔ ایسٹر کا ذکر آتے ہی بھگوان عیسیٰ مسیح کے ترغیب دلانے والے خطبہ یاد آتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہی انسانوں کو امن، ہم آہنگی، انصاف، رحم اور شفقت کا پیغام دیا ہے۔ اپریل میں پنجاب اور مغربی ہندوستان میں بیساکھی کا تہوار منایا جائے گا، تو انہیں دنوں، بہار میں جڑشیتل و ستووائن، آسام میں بیہو تو مغربی بنگال میں پوئلا ویساکھ کی خوشیاں چھائی رہے گی۔ یہ سارے تہوار کسی نہ کسی طور پر ہمارے کھیت کھلیانوں اور اناج دینے والوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تہواروں کے ذریعہ ہم اپج کی شکل میں ملنے والے انمول تحائف کے لیے ماحولیات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر آپ سب کو آنے والے سبھی تہواروں کی ڈھیروں مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔","আকাশবাণীত মন কী বাত অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ (২৫ মাৰ্চ, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AD%D9%82-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%AF%DB%81%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 106 سالہ بزرگ شیام سرن نیگی کی 34ویں بار حق رائے دہی کا استعمال کرنے پر ان کی تعریف کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ""یہ قابل تعریف ہے۔ اور یہ انتخابات میں حصہ لینے اور ہماری جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوان ووٹروں کے لیے ایک تحریک کا کام کرے گا""",ভোটাধিকাৰ সাব্যস্ত কৰাৰ বাবে ১০৬ বছৰীয়া শ্যাম চৰণ নেগীক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%84%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,نمسکار! میں، سب سے پہلے، آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں! مجھے بہت خوشی ہے کہ آج آپ میں سے کچھ کو تقرری کے خط مل رہے ہیں۔ میں اس کے لیے آپ سب کو نیک خواہش��ت پیش کرتا ہوں! آج ملک کے نوجوانوں کو سرکاری محکموں میں اجتماعی طور پر تقرری خط دینے کی مہم میں مہاراشٹر کا نام بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ دھنتیرس کے دن مرکزی حکومت نے 10 لاکھ نوکریاں فراہم کرنے کی مہم شروع کی تھی ۔ تب میں نے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں مختلف ریاستی حکومتیں بھی اسی طرح کے روزگار میلے منعقد کریں گی۔ اسی سلسلے میں آج مہاراشٹر میں سینکڑوں نوجوانوں کو ایک ساتھ تقرری خط دیے جا رہے ہیں۔ میں ان نوجوان اور خواتین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہیں آج یہ تقرر نامہ مل رہا ہے۔ میں مہاراشٹر کے وزیر اعلی جناب ایکناتھ شندے جی اور نائب وزیر اعلی بھائی دیویندر فڑنویس جی کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ اتنے کم وقت میں روزگار میلے کے انعقاد سے یہ واضح ہے کہ مہاراشٹر حکومت نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی سمت میں مضبوط عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ مستقبل قریب میں مہاراشٹر میں اس طرح کی ملازمتوں میں اضافہ ہوگا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مہاراشٹر کے محکمہ داخلہ میں ہزاروں پولیس کانسٹیبلوں کی بھرتی کی جائے گی اور دیہی ترقی کے محکمے میں بھی بھرتی مہم چلائی جائے گی۔ دوستو، اس وقت ملک کی آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے۔ ملک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کی سمت کام کر رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں ہمارے نوجوانوں کا بڑا کردار ہے۔ بدلتے وقت میں جس طرح نوکری کی نوعیت تیزی سے بدل رہی ہے، حکومت بھی مختلف قسم کی ملازمتوں کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ خود روزگار کے لیے بناگارنٹی کے قرض دینے والی مدرا اسکیم کے تحت حکومت نے نوجوانوں کو 20 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد کی ہے۔ مہاراشٹر کے نوجوانوں کو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ حکومت اسٹارٹ اپس، چھوٹے پیمانے کی صنعتوں – ایم ایس ایم ایز کو ہر ممکن مالی تعاون دے رہی ہےتاکہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا پورا موقع ملے۔ دوستو، حکومت کی کوششوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزگار اور خود روزگار کے یہ مواقع دلتوں، پسماندہ، قبائلیوں، عام طبقات اور خواتین کو یکساں طور پر دستیاب کرائے جا رہے ہیں۔ حکومت دیہی علاقوں میں سیلف ہیلپ گروپس کی بھی مدد کررہی ہے ۔ پچھلے 8 سالوں میں 8 کروڑ خواتین سیلف ہیلپ گروپس میں شامل ہوئی ہیں۔ ان سیلف ہیلپ گروپ کو 5.5 لاکھ کروڑ روپے کی مالی امداد دی گئی ہے۔ اب ان گروپوں سے وابستہ خواتین اپنی مصنوعات خود بنا رہی ہیں اور دوسری خواتین کو روزگار بھی دے رہی ہیں۔ دوستو، آج حکومت ملک بھر میں انفراسٹرکچر، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہی ہے، جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر ہم صرف مہاراشٹر کی بات کریں تو مرکزی حکومت نے 2 لاکھ کروڑ سے زیادہ کے تقریباً سوا دو سو پروجیکٹوں کو منظوری دی ہے۔ ان منصوبوں پر یا تو کام جاری ہے یا کام بہت جلد شروع ہونے والا ہے۔ جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں، مہاراشٹر میں ریلوے میں 75 ہزار کروڑ روپے اور جدید سڑکوں کے لیے 50 ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ جب حکومت انفراسٹرکچر پر اتنی بڑی رقم خرچ کرتی ہے تو اس سے روزگار کے لاکھوں نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ دوستو، مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں مہاراشٹر میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے رہیں گے۔ ایک بار پھر، میں ان تمام نوجوانوں اور خواتین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہیں آج تقرری کے خط ملے ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔,মহাৰাষ���ট্ৰ ৰোজগাৰ মেলাত প্ৰধানমন্ত্ৰী ভিডিঅ’ বাৰ্তাৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%86%D9%88%D8%AF%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%B3-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%B6-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%9B-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8-%E0%A7%A8%E0%A7%A6/,عالی مرتبت صدر شی، عالی مرتبت صدر رامافوسا، عالی مرتبت صدر بولسونارو، عالی مرتبت صدر پوتن، سب سے پہلے یوگا کے عالمی دن کے موقع پر میں آپ سب کو برکس ممالک میں منعقدہ شاندار تقریبات کے لیے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ آپ کی ٹیموں سے ملنے والے تعاون کے لئے بھی میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ عالی مرتبت صدور آج مسلسل تیسرے سال ہم ورچوئل طور پر کووڈ وبا کے چیلنجوں کے درمیان مل رہے ہیں۔ حالانکہ عالمی سطح پر اس وبا کے پھیلنے میں پہلے کے مقابلے میں کمی آئی ہے، تاہم اس کے بہت سے مضر اثرات اب بھی عالمی معیشت میں نظر آرہے ہیں۔ عالمی معیشت کی گورننس کے حوالے سے ہمارے برکس کے رکن ممالک کا نقطہ نظر بالکل ایک جیسا ہے۔ اور اس لئے ہمارا باہمی تعاون کووڈ کے بعد کی عالمی بحالی میں مفید کردار ادا کر سکتا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم نے برکس میں کئی ادارہ جاتی اصلاحات کی ہیں، جس سے اس تنظیم کی تاثیر میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے نیو ڈیولپمنٹ بینک کی رکنیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ہمارا باہمی تعاون براہ راست ہمارے شہریوں کی زندگیوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ جیسے ٹیکہ تحقیقی و ترقیاتی مرکز کا قیام، کسٹم محکموں کے درمیان تال میل، مشترکہ سیٹلائٹ نکشتر کا قیام، ادویاتی مصنوعات کی باہمی شناخت وغیرہ۔ اس طرح کے عملی اقدامات برکس کو ایک منفرد بین الاقوامی تنظیم بنا دیتے ہیں جس کی توجہ صرف بات چیت تک محدود نہیں ہے۔ برکس یوتھ سمٹ، برکس اسپورٹس، اور اپنی سول سوسائٹی تنظیموں اور تھنک ٹینکس کے درمیان رابطے بڑھاکر ہم نے عوام سے عوام کے رابطے کو بھی مضبوط کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی بات چیت سے ہمارے برکس تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بہت سی تجاویز حاصل ہوں گی۔ شکریہ,দ্বাদশ ব্ৰিকছ সন্মিলন ২০২২ত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ উদ্বোধনী মন্তব্যৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%DB%81%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%8C%D9%86%D8%B3%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%B9%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A6%BF/,"پنجاب کے گورنر جناب بنواری لال پروہت جی، وزیر اعلیٰ بھگونت مان جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی منیش تیواری جی، تمام ڈاکٹر، محققین، نیم طبی عملہ ، دیگر ملازمین اور پنجاب کے کونے کونے سے آئے ہوئے میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں ! آزادی کے امرت کال میں ملک نئے عزائم کو حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آج کا پروگرام بھی ملک کی حفظانِ صحت کی بہتر ہوتی خدمات کا عکاس ہے۔ ہومی بھابھا کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹر سے پنجاب، ہریانہ کے ساتھ ہی ہماچل پردیش کے لوگوں کو فائدہ ہونے والا ہے۔ میں آج اس سرزمین کا ایک اور وجہ سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ پنجاب مجاہدینِ آزادی ، انقلابیوں، قوم پرستی اور روایات کی مقدس سرزمین رہی ہے۔ اپنی اس روایت کو پنجاب نے ہر گھر ترنگا مہم کے دوران بھی قائم رکھا ہے۔ آج میں پنجاب کے عوام کا ، خاص طور سے یہاں نو جوانوں کا ہر گھر ترنگا مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، کچھ دن پہلے ہی لال قلعہ سے ہم سب نے اپنے ملک کو ترقی یافتہ بھارت بنانے کا عہد لیا ہے۔ بھارت کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے ، اس کی صحت کی خدمات کو ترقی دینا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جب بھارت کے لوگوں کو علاج کے لئے جدید اسپتال، جدید سہولیات ملیں گی، تب وہ جلد صحت یاب ہوں گے، ان کی توانائی صحیح سمت میں لگے گی، وہ زیادہ پروڈیکٹیو ہوں گے۔ آج ملک کو ہومی بھابھا کینسر اسپتال اور ریسرچ سنٹر کی شکل میں ایک جدید اسپتال ملا ہے۔ مرکزی حکومت کے ٹاٹا میموریل سینٹر نے اس جدید سہولت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ سنٹر ملک اور بیرون ملک اپنی خدمات فراہم کر کے کینسر کے مریضوں کی زندگیاں بچا رہا ہے۔ حکومت ہند ، ملک میں کینسر کی جدید سہولیات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اب ٹاٹا میموریل سینٹر میں ہر سال 1.5 لاکھ نئے مریضوں کا علاج کرنے کی سہولت دستیاب ہو گئی ہے۔ کینسر کے مریضوں کے لئے یہ بہت راحت دینے والا کام ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے، یہاں چنڈی گڑھ میں ہماچل کے دور دراز علاقوں سے لوگ پی جی آئی میں کینسر سمیت کئی سنگین بیماریوں کے علاج کے لئے آتے تھے۔ پی جی آئی میں کافی بھیڑ کی وجہ سے مریض کے ساتھ ساتھ اس کے اہل خانہ کو بھی کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اب ہماچل پردیش کے بلاس پور میں ایمس بن گیا ہے اور یہاں کینسر کے علاج کے لئے اتنی بڑی سہولت بن گئی ہے، جو بلاس پور سے قریب ہے وہ وہاں جائے گا اور جو موہالی سے قریب ہے وہ یہاں آئے گا۔ ساتھیو، طویل عرصے سے ملک میں یہ تمنا رہی ہے کہ ہمارے ملک میں حفظانِ صحت کا ایسا نظام ہونا چاہیے ، جو غریب سے غریب کی بھی فکر کرتا ہو۔ ایسا حفظانِ صحت کا ایسا نظام ، جو غریب کی صحت کی فکر کرے ، غریب کو بیماریوں سے بچائے ، اگر وہ بیمار ہو جائے تو اسے بہترین علاج مہیا کرائے۔ صحت کی دیکھ بھال کے اچھے نظام کا مطلب صرف چار دیواری نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کا ہیلتھ کیئر سسٹم ، اسی وقت مضبوط ہوتا ہے ، جب وہ ہر طرح سے مسائل کو حل کرے ، قدم قدم پر اس کا ساتھ دے۔ اس لئے گزشتہ آٹھ سالوں میں مجموعی صحت کی دیکھ بھال کو ملک میں اولین ترجیحات میں رکھا گیا ہے۔ بھارت میں صحت کے شعبے میں پچھلے 7-8 سالوں میں جتنا کام ہوا ہے ، اتنا پچھلے 70 سالوں میں نہیں ہوا ہے۔ آج غریب سے غریب کی صحت کے لئے ایک نہیں، دو نہیں، چھ محاذوں پر مل کر کام کر کے ملک کی صحت کی سہولیات کو بہتر اور مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ پہلا محاذ احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کا فروغ ہے۔ دوسرا محاذ دیہاتوں میں چھوٹے اور جدید اسپتال کھولنا ہے۔ تیسرا محاذ ہے شہروں میں میڈیکل کالجز اور میڈیکل ریسرچ والے بڑے ادارے کھولنے کا ، چوتھا محاذ ہے – ملک بھر میں ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی تعداد بڑھانے کا ۔ پانچواں محاذ ہے – مریضوں کو سستی دوائیاں ، سستے آلات دستیاب کرانے کا اور چھٹا محاذ ہے – ٹیکنا لوجی کا استعمال کرکے مریضوں کو ہونے والی پریشانیوں کو کم کرنے کا ۔ ان چھ محاذوں پر مرکزی حکومت آج ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہی ہے ، انویسٹمنٹ کر رہی ہے ، ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کر رہی ہے۔ ساتھیو، ہمیں ہمیشہ بتایا گیا ہے کہ بیماری سے بچاؤ بہترین علاج ہے۔ اس سوچ کے ساتھ ملک میں احتیاطی صحت کی دیکھ بھال پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک رپورٹ آئی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ جل جیون مشن کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں بہت زیادہ کمی آئی ہے یعنی جب ہم روک تھام کے لئے کام کرتے ہیں تو بیماری بھی کم ہوتی ہے۔ پہلے کی حکومتوں نے اس قسم کی سوچ پر کام نہیں کیا لیکن آج ہماری حکومت بہت سی مہمات چلا کر لوگوں کو بیدار بھی کر رہی ہے، عوامی آگاہی میں مہم چلا رہی ہے اور بیمار ہونے سے بھی بچا رہی ہے۔ یوگا اور آیوش کے تعلق سے ملک میں بے مثال بیداری پھیلی ہے۔ دنیا میں یوگا کے لئے کشش بڑھ گئی ہے۔ فٹ انڈیا مہم ملک کے نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان نے کئی بیماریوں کی روک تھام میں مدد کی ہے۔ پوشن ابھیان اور جل جیون مشن غذائی قلت پر قابو پانے میں مدد کر رہے ہیں۔ اپنی ماؤں اور بہنوں کو ایل پی جی کنکشن کی سہولت دے کر ہم نے انہیں دھوئیں سے ہونے والی بیماریوں، کینسر جیسے خطرات سے بھی بچایا ہے۔ ساتھیو، ہمارے گاؤں میں جتنے اچھے اسپتال ہوں گے ، جانچ کے لئے جتنی زیادہ سہولیات ہوں گی ، اتنی جلدی بیماریوں کا پتہ بھی چلے گا ۔ ہماری حکومت ، ملک بھر میں اس دوسرے محاذ پر بھی بہت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ ہماری حکومت گاؤں کو صحت کی جدید سہولیات سے جوڑنے کے لئے 1.5 لاکھ سے زیادہ صحت اور تندرستی کے مراکز تعمیر کر رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان میں سے تقریباً 1.25 لاکھ صحت اور تندرستی مراکز نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں پنجاب میں بھی تقریباً 3 ہزار ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹرز بھی کام کر رہے ہیں۔ ملک بھر کے ان ہیلتھ اینڈ ویلنس سنٹرز میں اب تک تقریباً 22 کروڑ لوگوں کی کینسر کی اسکریننگ کی جا چکی ہے، جن میں سے تقریباً 60 لاکھ اسکریننگ صرف میرے پنجاب میں کی گئی ہے۔ اس میں جتنے بھی ساتھیوں میں کینسر کی پہچان ، شروعاتی دور میں ہو سکی ہے ، ان کو سنگین خطروں سے بچانا ممکن ہو سکا ہے ۔ ساتھیو، ایک بار ، جب بیماری کا پتہ چلتا ہے تو ایسے اسپتالوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جہاں سنگین بیماریوں کا ٹھیک سے علاج ہو سکے۔ اسی سوچ کے ساتھ مرکزی حکومت ، ملک کے ہر ضلع میں کم از کم ایک میڈیکل کالج کے ہدف پر کام کر رہی ہے۔ آیوشمان بھارت ، ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے تحت ضلعی سطح پر صحت کی جدید سہولیات پیدا کرنے پر 64 ہزار کروڑ روپئے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ایک وقت میں ملک میں صرف 7 ایمس تھے۔ آج ان کی تعداد بھی بڑھ کر 21 ہو گئی ہے۔ یہاں پنجاب کے بھٹنڈہ میں بھی ایمس بہترین خدمات فراہم کر رہا ہے۔ اگر میں صرف کینسر اسپتالوں کی بات کروں تو ملک کے کونے کونے میں کینسر کے علاج کے جدید انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں یہ اتنا بڑا سینٹر بنا ہے۔ ہریانہ کے جھجر میں نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔ مشرقی بھارت کی طرف جائیں تو وارانسی اب کینسر کے علاج کا مرکز بن رہا ہے۔ کولکاتہ میں نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے دوسرے کیمپس نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے، مجھے ڈبرو گڑھ، آسام سے بیک وقت 7 نئے کینسر اسپتالوں کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ ہماری حکومت نے ملک بھر میں کینسر کے 40 خصوصی اداروں کو منظوری دی ہے، جن میں سے کئی اسپتالوں نے خدمات فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔ ساتھیو، اسپتال بنانا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی ضروری ہے کہ اچھے ڈاکٹروں کی وافر تعداد موجود ہو اور دوسرے نیم طبی عملہ بھی دستیاب ہونا چاہیئے ۔ اس کے لئے بھی آج ملک میں مشن موڈ پر کام کیا جا رہا ہے۔ 2014 ء سے پہلے ملک میں 400 سے کم میڈیکل کالج تھے یعنی 70 سالوں میں 400 سے کم میڈیکل کالج۔ اس کے ساتھ ہی، گزشتہ 8 سالوں میں ملک میں 200 سے زیادہ نئے میڈیکل کالج بنائے گئے ہیں۔ میڈیکل کالجز کی توسیع کا مطلب یہ ہے کہ میڈیکل کی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ میڈیکل کے طلباء کے لئے مواقع بڑھ گئے ہیں اور ملک کی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ہیلتھ پروفیشنلز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یعنی صحت کے شعبے میں بھی روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے 5 لاکھ سے زیادہ آیوش ڈاکٹروں کو بھی ایلو پیتھک ڈاکٹروں کی طرح منظوری دی ہے ۔ اس سے بھارت میں ڈاکٹر اور مریضوں کے درمیان تناسب میں بھی بہتری آئی ہے ۔ ساتھیو، یہاں بیٹھے ہم سبھی لوگ بہت عام کنبوں سے ہیں۔ ہم سب کا تجربہ ہے کہ جب غریب کے گھر بیماری آتی تھی تو گھر زمین تک بک جایا کرتا تھا ۔ اسی لئے ہماری حکومت نے مریضوں کو سستی ادویات، سستے علاج کی فراہمی پر یکساں زور دیا ہے۔ آیوشمان بھارت نے غریبوں کو 5 لاکھ روپئے تک کا مفت علاج کی سہولت فراہم کی ہے۔ اس کے تحت اب تک 3.5 کروڑ مریض اپنا علاج کروا چکے ہیں اور انہیں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا اور اس میں بہت سارے کینسر کے بھی مریض ہیں۔ آیوشمان بھارت کی وجہ سے اگر یہ انتظام نہ ہوتا تو غریبوں کے 40 ہزار کروڑ روپئے ان کی جیب سے نکل جاتے۔ وہ 40 ہزار کروڑ روپئے آپ جیسے خاندانوں کے بچے ہیں۔ یہی نہیں پنجاب سمیت ملک بھر میں جن اوشدھی کیندروں کا نیٹ ورک موجود ہے ، جو کہ امرت اسٹورز ہیں، وہاں بھی کینسر کی ادویات بھی انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ کینسر کی 500 سے زائد دوائیں، جو پہلے بہت مہنگی تھیں، ان کی قیمت میں تقریباً 90 فی صد تک کی کمی کی گئی ہے یعنی جو دوائی 100 روپئے میں آتی تھی، جن اوشدھی کیندر میں ، وہ دوائی 10 روپئے میں دستیاب کرائی جاتی ہے۔ اس سے بھی مریضوں کے ہر سال اوسطاً قریب ایک ہزار کروڑ روپئے بچ رہے ہیں۔ ملک بھر میں تقریباً 9,000 جن اوشدھی کیندروں پر بھی سستی ادویات غریب اور متوسط طبقے کے مسائل کو دور کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔ بھائیو اور بہنو، جدید ٹیکنالوجی نے حکومت کی مجموعی صحت کی دیکھ بھال کی مہم میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ صحت کے شعبے میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر جدید ٹیکنالوجی کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ آیوشمان بھارت ، ڈیجیٹل ہیلتھ مشن ، اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ ہر مریض کو صحت کی معیاری سہولیات، وقت پر، کم از کم پریشانی کے ساتھ ملیں۔ ٹیلی میڈیسن، ٹیلی کنسلٹیشن کی سہولت کی وجہ سے آج دور دراز گاؤں کا آدمی بھی شہروں کے ڈاکٹروں سے ابتدائی مشاورت حاصل کر رہا ہے۔ سنجیونی ایپ سے اب تک کروڑوں لوگ اس سہولت کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اب ملک میں میڈ ان انڈیا جی 5 خدمات شروع کی جا رہی ہیں۔ اس سے دور دراز کے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں انقلاب آئے گا۔ پھر گاؤں کے غریب گھرانوں کے مریضوں کی بار بار بڑے اسپتالوں میں جانے کی مجبوری بھی کم ہو جائے گی۔ ساتھیو، میں ملک کے کینسر سے متاثرہ اور ان کے اہلِ خانہ سے ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا ۔ آپ کی تکلیف میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں لیکن کینسر سے ڈرنے کی نہیں لڑنے کی ضرورت ہے ۔ اس کا علاج ممکن ہے۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں ، جو کینسر کے سامنے لڑائی جیت کر آج بڑی مستی سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس لڑائی میں ، آپ کو، جو بھی مدد چاہیئے ، مرکزی حکومت وہ آج دستیاب کرا رہی ہے۔ اس اسپتال سے جڑے آپ سبھی ساتھیوں سے بھی میری خصوصی اپیل ہے کہ کینسر کی وجہ سے ، جو ڈپریشن کی صورتِ حال بنتی ہے ، ان سے لڑنے میں بھی ، ہمیں مریضوں کی ، کنبوں کی مدد کرنی ہے ۔ ایک ترقی پسند سماج کے طور پر یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم دماغی صحت کو لے کر اپنی سوچ میں بدلاؤ اور کھلا پن لائیں ، تب ہی اس مسئلے کا صحیح حل نکلے گا۔ میں ہیلتھ کیئر سے وابستہ اپنے ساتھیوں سے بھی کہوں گا کہ جب آپ گاؤں میں کیمپ لگاتے ہیں تو اس مسئلے پر بھی ضرور توجہ دیں۔ سب کی کوشش سے، ہم کینسر کے خلاف ملک کی لڑائی کو مضبوط کریں گے، اسی یقین کے ساتھ ، پنجاب کے لوگوں کو اور جس کا فائدہ ہماچل کو بھی ملنے والا ہے ، آج یہ بہت بڑا تحفہ آپ کو سوپنتے ہوئے ، میں اطمینان محسوس کرتا ہوں ، فخر محسوس کرتا ہوں ۔ آپ سب کے لئے بہت بہت نیک خواہشات ، بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )",পঞ্জাৱৰ মোহলিস্থিত হোমি ভাবা কেন্সাৰ হাস্পতাল আৰু গৱেষণা কেন্দ্ৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D8%AF%DB%8C%DB%81%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%B9%D8%8C-%DA%88%D9%86%DA%88%DB%8C%DA%AF%D9%84-%DA%A9%DB%8C-3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%97/,"تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی جی، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ جناب ایم کے اسٹالن جی، چانسلر ڈاکٹر کے ایم اناملائی جی، وائس چانسلر پروفیسر گرمیت سنگھ جی، گاندھی گرام دیہی انسٹی ٹیوٹ کا عملہ اور معاون عملہ، با صلاحیت طلباء اور ان کے قابل فخر والدین , کڑکّم! تمام نوجوان ذہنوں کو مبارکباد جو آج فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ میں طلباء کے والدین کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کی قربانیوں نے آج کا دن دکھایا ہے۔ تدریسی اور غیر تدریسی عملہ بھی داد کا مستحق ہے۔ دوستو یہاں جلسہ تقسیم اسناد میں آنا میرے لیے بہت متاثر کن تجربہ ہے۔ گاندھی گرام کا افتتاح خود مہاتما گاندھی نے کیا تھا۔ قدرتی خوبصورتی، مستحکم دیہی زندگی، سادہ لیکن فکری ماحول، یعنی یہاں دیہی ترقی کے مہاتما گاندھی کے نظریات کی روح دیکھی جا سکتی ہے۔ میرے نوجوان دوستو، آپ سب ایک بہت اہم وقت پر فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ گاندھیائی اقدار بہت اہمیت کے حامل ہوتی جا رہی ہیں۔ چاہے تنازعات کو ختم کرنے کے بارے میں ہو، یا موسمیاتی بحران کے بارے میں، مہاتما گاندھی کے خیالات میں آج کے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل کے جوابات موجود ہیں۔ گاندھیائی طرز زندگی کے طالب علموں کے طور پر، آپ کے پاس بڑے کارنامے انجام دینے کا بہترین موقع ہے۔ دوستو مہاتما گاندھی کو بہترین خراج عقیدت ان کے ان خیالات پر کام کرنا ہے۔ جو ان کی نظروں میں بہت زیاادہ اہمیت کے حامل تھے کھادی کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا تھا اور اسے فراموش کیا گیا تھا۔ لیکن ‘کھادی فار نیشن، کھادی فار فیشن’ کی کال کے ذریعے یہ بہت مقبول ہوا ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں کھادی سیکٹر کی مصنوعات کی فروخت میں 300 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا۔ کھادی اور گاؤں کی صنعت کمیشن نے پچھلے سال ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا ریکارڈ کاروبار کیا ہے۔ اب تو عالمی فیشن برانڈز بھی کھادی کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ماحول دوست کپڑا ہے، جو کرہ ارض اور اس پر بسنے والوں کے لیے اچھا ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر پیداوار کا انقلاب نہیں ہے۔ بلکہ یہ عوام کی طرف سے پیداوار کا انقلاب ہے۔ مہاتما گاندھی نے کھادی کو دیہی علاقوں میں خود انحصاری کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔ دیہات کی خود انحصاری میں انہوں نے خود انحصار ہندوستان کے ابتدائی نقوش دیکھے۔ ان سے متاثر ہو کر، ہم آتم نربھر بھارت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تمل ناڈو سودیشی تحریک کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہ ایک بار پھر آتم نربھر بھارت پروگرام کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ دوستو مہاتما گاندھی کے دیہی ترقی کے وژن کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ گاؤں ترقی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ دیہی زندگی کی اقدار کو محفوظ کیا جائے۔ دیہی ترقی کے ہمارے ا وژن کو انہی سے تحریک حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا وژن ہے، آتما گاؤں کی، سہولت شہر کی یا گراماتین انما، نگرتین وسادی شہری اور دیہی علاقوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ٹھیک ہے۔ فرق ہونا ٹھیک ہے۔ لیکن نہ برابری ٹھیک نہیں ہے۔ ایک طویل عرصے تک شہری اور دیہی علاقوں میں عدم مساوات برقرار رہی۔ لیکن آج قوم اس کو درست کر رہی ہے۔ دیہی صفائی کی مکمل کوریج، 6 کروڑ سے زیادہ گھروں کو نل کا پانی، 2.5 کروڑ بجلی کنکشن، مزید دیہی سڑکیں، ترقی کو لوگوں کی دہلیز پر لے جا رہی ہیں۔ صفائی ستھرائی کا تصور مہاتما گاندھی کو بہت عزیز تھا۔ سوچھ بھارت کے ذریعے اس میں انقلاب آیا ہے۔ لیکن ہم نے اپنے اقدامات کو صرف بنیادی باتیں فراہم کرنے کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رکھا ہے۔ آج جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ثمرات بھی دیہات تک پہنچ رہے ہیں۔ تقریباً 2 لاکھ گرام پنچایتوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے 6 لاکھ کلومیٹر طویل آپٹک فائبر کیبل بچھائی گئی ہے۔ دیہی علاقوں نے انٹرنیٹ ڈیٹا کم قیمت میں دستیاب ہونے کی سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس سے مواقع کی دنیا کھل جاتی ہے۔ سوامتوا اسکیم کے تحت، ہم زمینوں کا نقشہ بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو پراپرٹی کارڈ بھی فراہم کرتے ہیں۔ کسان کئی ایپس سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں کروڑوں سوائل ہیلتھ کارڈ کی مدد مل رہی ہے۔ بہت کچھ ہو چکا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ آپ نوجوان، روشن خیال ہیں۔ آپ اس بنیاد پر تعمیر کرنے کی بہت صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوستو جب دیہی ترقی کی بات آتی ہے تو ہمیں پائیداری کا خیال رکھنا چاہیے۔ نوجوانوں کو اس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں کے مستقبل کے لیے پائیدار زراعت بہت ضروری ہے۔ قدرتی کاشتکاری کے لیے، کیمیائی مادوں سے پاک کھیتی کے لیے بڑا جوش و جذبہ ہے۔ اس سے کھاد کی درآمدات پر ملک کا انحصار کم ہوتا ہے۔ یہ مٹی کی زرخیز ی کی صلاحیت اور انسانی صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔ ہم نے اس سمت میں کام شروع کر دیا ہے۔ ہماری نامیاتی کاشتکاری کی اسکیم حیرت انگیز کام کر رہی ہے، خاص طور پر شمال مشرق میں۔ پچھلے سال کے بجٹ میں، ہم نے قدرتی کاشتکاری سے متعلق پالیسی متعارف کراسکتے ہیں۔آپ دیہات میں قدرتی کھیتی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پائیدار کاشتکاری کے حوالے سے، ایک اور اہم نکتہ ہے جس پر نوجوانوں کو توجہ دینی چاہیے۔ زراعت کو مونو کلچر سے بچانے کا وقت آگیا ہے۔ اناج، باجرا اور دیگر فصلوں کی بہت سی مقامی ��قسام کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سنگم کے دور میں بھی باجرے کی کئی اقسام کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم تمل ناڈو کے لوگ انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ یہ غذائیت سے بھرپور اور آب و ہوا کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ فصلوں کے تنوع سے مٹی اور پانی کو بچانے میں مدد ملتی ہے۔ آپ کی اپنی یونیورسٹی قابل تجدید توانائی استعمال کرتی ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں شمسی توانائی کی تنصیب کی صلاحیت میں تقریباً 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اگر گاؤں میں شمسی توانائی پھیل جائے تو ہندوستان بھی توانائی کے معاملے میں خود انحصار بن سکتا ہے۔ دوستو گاندھیائی مفکر ونوبا بھاوے نے ایک بار اس حوالے سے اپنے محسوسات کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں کی سطح پر ہونے والے اداروں کے انتخابات ٹکڑوں میں بانٹنے والے ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے برادریوں، یہاں تک کہ خاندانوں میں بھی اختلافات ہوجاتے ہیں۔ گجرات میں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، ہم نے سمرس گرام یوجنا شروع کی تھی۔ جن دیہاتوں نے اتفاق رائے سے قائدین کا انتخاب کیا انہیں کچھ مراعات دی گئیں۔ اس سے سماجی تنازعات بہت کم ہو گئے۔ نوجوان دیہاتیوں کے ساتھ مل کر پورے ہندوستان میں اسی طرح کا میکانزم تیار کر سکتے ہیں۔ اگر گاؤں متحد ہو جائیں تو وہ جرائم، منشیات اور سماج دشمن عناصر جیسے مسائل سے لڑ سکتے ہیں۔ دوستو مہاتما گاندھی نے ایک متحد اور آزاد ہندوستان کے لیے جدوجہد کی۔ گاندھی گرام خود ہندوستان کے اتحاد کی کہانی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں گاندھی جی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں دیہاتی ٹرین میں آئے تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان لوگوں کا تعلق ملک کے کن حصوں سے تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ گاندھی جی اور گاؤں والے دونوں ہندوستانی تھے۔ تمل ناڈو ہمیشہ سے قومی شعور کا گھر رہا ہے۔ یہاں، سوامی وویکانند کا مغرب سے واپسی پر شاہانہ کا استقبال کیا گیا۔ پچھلے سال بھی، ہم نے‘ویرا وانک’ کے نعرے دیکھے۔ جس طرح سے تامل لوگوں نے جنرل بپن راوت کے لیے اپنا احترام ظاہر کیا وہ دل کی گہرائیوں تک اُتر جانے والا تھا۔ اس دوران کاشی تمل سنگم جلد ہی کاشی میں ہونے والا ہے۔ اس میں کاشی اور تمل ناڈو کے درمیان بندھن کا جشن منائے گا۔ کاشی کے لوگ تمل ناڈو کی زبان، ثقافت اور تاریخ کا جشن منانے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ ایک بھارت شریشٹھ بھارت ہے، جس پر ہر طرف عمل کیاجارہا ہے۔ یہ محبت اور ایک دوسرے کا احترام ہمارے اتحاد کی بنیاد ہے۔ میں یہاں سے فارغ التحصیل نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خاص طور پر اتحاد کی حوصلہ افزائی پر توجہ دیں۔ دوستو آج میں ایک ایسے خطے میں ہوں جس نے ناری شکتی کی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رانی ویلو ناچیار اس وقت ٹھہری تھیں جب وہ انگریزوں سے لڑنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ میں یہاں گریجویٹ ہونے والی نوجوان خواتین کو سب سے بڑی تبدیلی کرنے والوں کے طور پر دیکھتا ہوں۔ آپ دیہی خواتین کی کامیابی میں مدد کریں گے۔ ان کی کامیابی ہی قوم کی کامیابی ہے۔ دوستو ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو ایک صدی میں ہونے والے بدترین بحران کا سامنا ہے، ہندوستان ایک ایسا ملک رہا ہے جہاں حالات بہتر رہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ویکسین مہم ہو، غریب ترین لوگوں کے لیے خوراک کی حفاظت ہو، یا دنیا کی ترقی کا انجن، ہندوستان نے یہ دکھایا ہے کہ یہ سب کامیابیاں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ۔ دنیا بھارت سے عظیم کاموں کی توقع رکھتی ہے۔ کیونکہ ہندوستان کا مستقبل نوجوانوں کی ‘ کچھ کر گزرنے والی ’ نسل کے ہاتھ میں ہے۔ نوجوان، جو نہ صرف چیلنجز کو قبول کرتے ہیں، بلکہ ان سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ نوجوان، جو نہ صرف سوال کرتے ہیں، بلکہ جواب بھی تلاش کرتے ہیں۔ نوجوان، جو نہ صرف نڈر ہیں، بلکہ انتھک بھی ہیں، نوجوان، جو نہ صرف خواہش رکھتے ہیں، بلکہ حاصل بھی کرتے ہیں۔ تو آج فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے میرا پیغام ہے، آپ نئے ہندوستان کے معمار ہیں۔ اگلے 25 سالوں میں ہندوستان کی اس کے امرت کال میں قیادت کرنے کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے۔ ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ہو۔ اور سب کچھ بہتر ہو!",ডিণ্ডিগুলৰ গান্ধীগ্ৰাম গ্ৰাম্য প্ৰতিষ্ঠানৰ ৩৬ তম সমাৱৰ্তন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86%D9%85%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D8%AE%D8%B7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE/,نمبر شمار معاہدے / مفاہمت نامے کا نام میانمار کی جانب سے ہندوستان کی جانب سے 1 حکومت جمہوریۂ ہند اور ری پبلک آف دی یونین آف میانمار حکومت کے درمیان سمندری تحفظ و سلامتی تعاون پر مفاہمت نامہ وزارت دفاع کے مستقل سکریٹری بریگیڈیئر جنرل سین وِن میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 2 حکومت جمہوریۂ ہند اور ری پبلک آف دی یونین آف میانمار حکومت کے درمیان ، سال 2020- 2017 کے لئے ثقافتی تبادلہ پروگرام پر معاہدہ وزارتِ مذہب اور ثقافتی امور کے مستقل سکریٹری یوہٹن اوہن میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 3 حکومت جمہوریۂ ہند اور ری پبلک آف دی یونین آف میانمار حکومت کے درمیان میانمار کے یامے تھِن میں خواتین تربیتی مرکز کی جدید کاری ( اپ گریڈیشن ) کے لئے تعاون میں توسیع میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 4 ہند بحریہ اور میانمار بحریہ کے درمیان وہائٹ شپنگ انفارمیشن کو مشترک کرنے کے لئے مفاہمت نامہ چیف آف اسٹاف ( میانمار بحریہ کے ) ریئر ایڈمرل موئے آنگ میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 5 حکومت جمہوریۂ ہند اور ری پبلک آف دی یونین آف میانمار حکومت کے درمیان ساحلی نگرانی / حفاظتی نظام فراہم کرانے کے لئے تکنیکی معاہدہ چیف آف اسٹاف ( میانمار بحریہ کے ) ریئر ایڈمیرل موئے آنگ میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 6 حکومت جمہوریۂ ہند کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی سینٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن ( سی ڈی ایس سی او ) اور میانمار کی وزارتِ صحت اور کھیل ، خوراک اور ادویات کے محکمے ( ایف ڈی اے ) کے درمیان طبی مصنوعات سے متعلق ضوابط پر اشتراک و تعاون حکومت میانمار کی صحت اور کھیلوں کی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تھان ہتوت میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 7 حکومت جمہوریۂ ہند کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت اور ری پبلک آف دی یونین آف میانمار کی صحت اور کھیلوں کی وزارت کے درمیان صحت اور ادویات کے میدان میں تعاون اور اشتراک پر مفاہمت نامہ حکومت میانمار کی صحت اور کھیلوں کی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تھان ہتوت میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 8 ایم آئی آئی تی کے قیام پر مفاہمت نامے کے توسیعی مکتوب کے تبادلے محکمۂ اعلیٰ تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تھیئن ون میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 9 ��نڈیا ۔ میانمار سینٹر فار اینہاسمنٹ آف آئی ٹی ۔ اسکل کے قیام پر مفاہمت نامے کے توسیعی مکتوب پر تبادلہ محکمۂ تحقیق اور اختراع کے ڈائریکٹر جنرل یووِن کھینگ موئے میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 10 ہندوستان کے انتخابی کمیشن اور میانمار کے انتخابی کمیشن کے درمیان انتخابات کے میدان میں مفاہمت نامے پر دستخط میانمار کے یونین الیکشن کمیشن کے سکریٹری یوٹن ٹن میانمار میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری 11 میانمار پریس کونسل اور پریس کونسل آف انڈیا کے درمیان تعاون اور اشتراک پر معاہدہ وائس چیئرمین ( آئی ) یوآنگ ہلاٹن پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جناب جسٹس چندرا مولی کمار,ম্যানমাৰ ভ্ৰমণকালত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে স্বাক্ষৰ কৰা বুজাবুজি চুক্তিৰ তালিকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,ہماچل کے گورنر جناب راجیندر ارلیکر جی، ہماچل کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب جے رام ٹھاکر جی، بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر، ہم سب اور اس دھرتی کے بچوں کے لیے رہنما، جناب جے پی نڈا جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی اور ہمارے رکن پارلیمنٹ جناب انوراگ ٹھاکر جی، ہماچل بی جے پی کے صدر اور پارلیمنٹ میں میرے ساتھی سریش کشیپ جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی کشن کپور جی، بہن اندو گوسوامی جی، ڈاکٹر سکندر کمار جی، دیگر وزرا، ایم پی اور ایم ایل اے، اور ہم سب کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنوں! وجے دشمی کے موقع پر آپ سب کو اور تمام ہم وطنوں کو ڈھیر ساری نیک خواہشات۔ یہ مقدس تہوار ہر برائی پر قابو پاتے ہوئے جس راستے پر چلنے کا ملک نے عزم کیا ہے، ان پر چلنے کی نئی توانائی دے گا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ وجے دشمی کے موقع پر ہماچل پردیش کے لوگوں کو صحت، تعلیم، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کے ہزاروں کروڑ کے پروجیکٹ تحفے میں دینے کا موقع ملا ہے۔ اور یہ اتفاق بھی دیکھیں، وجے دشمی ہو اور فتح کی شمع جلانے کا موقع ملے، یہ مستقبل کی ہر جیت کا آغاز لے کر آیا ہے۔ بلاسپور کو تعلیم اور صحت کا دوہرا تحفہ ملا ہے۔ بھائیو اور بہنوں، یہاں ترقیاتی منصوبوں کو آپ کو سونپنے کے بعد، جیسا کہ جے رام جی نے بتایا، میں ایک اور ثقافتی ورثے کا مشاہدہ کرنے جا رہا ہوں اور کئی سالوں کے بعد مجھے ایک بار پھر کلو دسہرہ کا حصہ بننے کا شرف حاصل ہوگا۔ میں بھی سینکڑوں دیوتاؤں کے ساتھ بھگوان رگھوناتھ جی کے سفر میں شامل ہو کر ملک کے لیے آشیرواد حاصل کروں گا۔ اور آج جب میں یہاں بلاس پور آیا ہوں تو پرانی یادوں کا تازہ ہونا فطری ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں پیدل ٹہلتے تھے۔ کبھی میں، دھومل جی، نڈا جی، پیدل یہاں سے بازار نکل جاتے تھے۔ ہم یہاں بلاس پور کی گلیوں سے بھی گزرے تھے جس میں ایک بہت بڑا رتھ یاترا پروگرام تھا۔ اور پھر سورنا جینتی رتھ یاترا یہاں سے گزری اور یہاں ایک جلسہ عام ہوا تھا۔ اور کئی بار یہاں آنا ہوا، آپ لوگوں کے درمیان رہنا ہوا ہے۔ ہماچل کی اس سرزمین پر کام کرتے ہوئے، مجھے ہماچل کی ترقی کے سفر میں مسلسل شریک مسافر بننے کا موقع ملا ہے۔ اور میں ابھی سن رہا تھا، انوراگ جی زور زور سے بول رہے تھے، یہ مودی جی نے کیا، یہ مودی جی نے کیا، یہ مودی جی نے کہا۔ ہمارے نڈا جی بھی کہہ رہے تھے، مودی جی نے یہ کیا، مودی جی نے یہ کیا اور ہمارے وزیر اعلیٰ جے رام جی بھی کہہ رہے تھے، مودی جی نے یہ کیا، مودی جی نے وہ کیا۔ لیکن مجھے سچ بتانے دو، سچائی بتاؤں یہ کس نے کیا، میں بتاؤں؟ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، یہ آپ نے کیا ہے۔ یہ آپ کی وجہ سے ہوا۔ یہ جے رام جی اور ان کی ٹیم ہے کہ جو کام میں دہلی سے لاتا ہوں، یہ لوگ اسے تیز رفتاری سے چلاتے ہیں، اسی لیے ایسا ہو رہا ہے۔ اور اگر یہ ایمس بنتا ہے تو یہ آپ کے ایک ووٹ کی طاقت ہے، اگر سرنگ بنتی ہے تو آپ کے ایک ووٹ کی طاقت ہے، اگر ہائیڈرو انجینئرنگ کالج بنتا ہے تو یہ آپ کے ووٹ کی طاقت ہے، اگر میڈیکل ڈیوائس پارک بن رہا ہے تو یہ بھی آپ کی طاقت ہے ایک ووٹ کی طاقت ہے اور اس لیے آج میں ہماچل کی توقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کے بعد ایک ترقیاتی کام کر رہا ہوں۔ ایک طویل عرصے سے ہم نے دیکھا ہے کہ ملک میں ترقی کے حوالے سے ایک مسخ شدہ ذہنیت رائج ہے۔ یہ سوچ کیا تھی؟ اگر اچھی سڑکیں ہوں گی تو کچھ ریاستوں میں ہوں گی اور کچھ بڑے شہروں میں، دہلی کے آس پاس ہوں گی۔ اچھے تعلیمی ادارے ہوں گے تو بڑے شہروں میں ہوں گے۔ اچھے اسپتال ہوں گے، دہلی میں ہی ہو سکتے ہیں، باہر نہیں ہو سکتے۔ اگر صنعتیں اور کاروبار بھی قائم ہوں گے تو وہ بڑی جگہوں پر لگیں گے اور خاص طور پر ملک کے پہاڑی علاقوں میں بنیادی سہولتیں برسوں کے انتظار کے بعد آخری حد تک پہنچتی تھیں۔ اسی پرانی سوچ کا نتیجہ تھا کہ اس نے ملک میں ترقی کا بہت بڑا عدم توازن پیدا کر دیا۔ اس کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا حصہ، وہاں کے لوگ تکلیف، تنگدستی میں رہتے تھے۔ گزشتہ 8 سالوں میں ملک اب اس پرانی سوچ کو چھوڑ کر نئی سوچ، جدید سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اب دیکھو بہت دنوں سے اور جب میں یہاں آتا تھا تو لگاتار دیکھتا تھا، یہاں ایک یونیورسٹی سے ہی گزارا ہوتا تھا۔ اور چاہے علاج ہو یا طبی تعلیم، آئی جی ایم سی شملہ اور ٹاٹا میڈیکل کالج پر انحصار تھا۔ سنگین بیماریوں کا علاج ہو یا تعلیم یا روزگار، چنڈی گڑھ اور دہلی جانا اس وقت ہماچل کی مجبوری بن چکی تھی۔ لیکن پچھلے آٹھ سالوں میں ہماری ڈبل انجن والی حکومت نے ہماچل کی ترقی کی کہانی کو ایک نئی جہت تک پہنچایا ہے۔ آج ہماچل میں ایک سنٹرل یونیورسٹی، آئی آئی ٹی، ٹرپل آئی ٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (IIM) بھی ہے۔ ملک میں طبی تعلیم اور صحت کا سب سے بڑا ادارہ ایمس بھی اب بلاس پور اور ہماچل کے لوگوں کا فخر بڑھا رہا ہے۔ بلاس پور ایمس بھی ایک اور تبدیلی کی علامت ہے اور اسے ایمس کے اندر گرین ایمس کے نام سے جانا جائے گا، مکمل طور پر ماحول سے محبت کرنے والا ایمس، فطرت سے محبت کرنے والا ایمس۔ ابھی ہمارے تمام ساتھیوں نے بتایا کہ پہلے حکومتیں سنگ بنیاد رکھتی تھیں اور الیکشن ختم ہونے کے بعد بھول جاتی تھیں۔ آج بھی آپ ہماچل جائیں گے، ہمارے دھومل جی نے ایک بار ایک پروگرام کیا تھا کہ پتھر کہاں کہاں پڑے ہیں، اور اس طرح کے کئی پروگرام جہاں پتھر پڑے تھے، کام نہیں ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک بار ریلوے کا جائزہ لے رہا تھا، آپ کے اونا کے قریب ریلوے لائن بچھائی جانی تھی۔ یہ فیصلہ آج سے 35 سال پہلے لیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ میں اعلان ہوا لیکن پھر فائل بند کر دی گئی۔ ہماچل کو کون پوچھے گا بھائی؟ لیکن یہ تو ہماچل کا بیٹا ہے اور ہماچل کو نہیں بھول سکتا۔ لیکن ہماری حکومت کی پہچان یہ ہے کہ وہ جس پروجیکٹ کو ہاتھ لگاتی ہے، ا��ے مکمل بھی کرتی ہے۔ اٹکنا، لٹکنا، بھٹکنا، وہ زمانہ چلا گیا، دوستو! ساتھیوں، ملک کے دفاع میں ہماچل کا ہمیشہ سے ہی بہت بڑا حصہ رہا ہے، ہماچل جسے ملک کے دفاع کے ہیرو کے طور پر ملک بھر میں جانا جاتا ہے، اس ہماچل کو اب اس ایمس کے بعد جان بچانے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے جانا جائے گا۔ سال 2014 تک ہماچل میں صرف 3 میڈیکل کالج تھے جن میں سے 2 سرکاری تھے۔ گزشتہ 8 سالوں میں ہماچل میں 5 نئے سرکاری میڈیکل کالج بنائے گئے ہیں۔ 2014 تک صرف 500 طلبا زیر تعلیم اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کر سکتے تھے، آج یہ تعداد بڑھ کر 1200 سے زیادہ ہو گئی ہے، یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ ہر سال ایمس میں کئی نئے ڈاکٹر بنیں گے، نرسنگ سے وابستہ نوجوان یہاں تربیت حاصل کریں گے۔ کورونا کی مشکل کے باوجود، حکومت ہند کی وزارت صحت اور جے رام جی کی ریاستی حکومت کی ٹیم نے جو کام کیا ہے، اس کے نتیجے میں آج ایمس یہاں موجود ہے، ایمس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ صرف میڈیکل کالج ہی نہیں، ہم ایک اور سمت بڑھ چکے ہیں، ادویات اور زندگی بچانے والی ویکسین بنانے والے کے طور پر بھی ہماچل کے کردار کو بہت وسیع کیا جا رہا ہے۔ بلک ڈرگس پارک کے لیے ملک کی صرف تین ریاستوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان میں سے ایک کون سی ریاست ہے بھائی، یہ کون سی ریاست ہے؟ یہ ہماچل ہے، آپ کو فخر ہے یا نہیں؟ کیا یہ آپ کے بچوں کے روشن مستقبل کا سنگ بنیاد ہے یا نہیں؟ کیا یہ آپ کے بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے یا نہیں؟ ہم بڑی طاقت کے ساتھ کام کرتے ہیں اور آج کی نسل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کے لیے بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل ڈیوائس پارک کے لیے چار ریاستوں کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں آج طب میں ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ خاص قسم کے اوزار بنانے کے لیے ملک میں چار ریاستوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اتنا بڑا ہندوستان، اتنی بڑی آبادی، ہماچل تو چھوٹی ریاست ہے، لیکن یہ ہیروز کی سرزمین ہے اور میں نے یہاں کی روٹی کھائی ہے، قرض بھی چکانا ہے۔ اور اس طرح چوتھا میڈیکل ڈیوائس پارک کہاں بنایا جا رہا ہے، یہ چوتھا میڈیکل ڈیوائس پارک کہاں بنایا جا رہا ہے – آپ کے ہماچل میں بن رہا ہے دوستو۔ دنیا بھر سے بڑے لوگ یہاں آئیں گے۔ نالہ گڑھ میں اس میڈیکل ڈیوائس پارک کا سنگ بنیاد اسی کا حصہ ہے۔ اس ڈیوائس پارک کی تعمیر کے لیے یہاں ہزاروں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس سے متعلق بہت سی چھوٹی صنعتیں آس پاس ترقی کریں گی۔ اس سے یہاں کے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ ساتھیوں، ہماچل کا ایک اور رخ بھی ہے، جس میں یہاں ترقی کے لا محدود امکانات پوشیدہ ہیں۔ یہ میڈیکل ٹورزم کا پہلو ہے۔ یہاں کی آب و ہوا، یہاں کا موسم، یہاں کا ماحول، یہاں کی جڑی بوٹیاں، یہاں کا ماحول اچھی صحت کے لیے بہت موزوں ہے۔ آج ہندوستان میڈیکل ٹورزم کے حوالے سے دنیا کا ایک بڑا پرکشش مرکز بن رہا ہے۔ جب ملک اور دنیا کے لوگ علاج کے لیے ہندوستان آنا چاہتے ہیں تو یہاں کی قدرتی خوبصورتی اس قدر لا جواب ہے کہ وہ یہاں آئیں گے تو ایک طرح سے انھیں صحت کا بھی فائدہ ہوگا اور سیاحت کو بھی فائدہ ہوگا۔ ہماچل کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔ ساتھیوں، مرکزی حکومت کی کوشش ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کا علاج، اس پر خرچ کم سے کم ہو، یہ علاج بھی بہتر ملے اور اس کے لیے انھیں دور تک نہ جانا پڑے۔ اس لیے آج ہم ایمس میڈیکل کالج، ضلع اسپتالوں میں اہم نگہداشت کی سہولیات اور دیہاتوں میں صحت اور فلاح و بہبود کے مراکز بنا کر ہموار رابطے پر کام کر رہے ہیں۔ اس پر زور دیا جا رہا ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ہماچل کے زیادہ تر خاندانوں کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج مل رہا ہے۔ اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں اب تک 3 کروڑ 60 لاکھ غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے اور اس میں سے 1.5 لاکھ مستفیدین ہماچل سے تعلق رکھنے والے میرے گھر کے افراد ہیں۔ اب تک حکومت ملک میں ان تمام ساتھیوں کے علاج پر 45 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر چکی ہے۔ اگر آیوشمان بھارت اسکیم نہ ہوتی تو اس کا تقریباً دوگنا یعنی تقریباً 90 ہزار کروڑ روپے ان مریضوں کے اہل خانہ کو ان کی جیبوں سے دینے پڑتے۔ یعنی اتنی بڑی بچت بھی غریب اور متوسط طبقے کے خاندان کو بہترین علاج کے ساتھ مل گئی ہے۔ ساتھیوں، میرے لیے ایک اور بات اطمینان بخش ہے۔ حکومت کی اس طرح کی اسکیموں کا سب سے زیادہ فائدہ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو ملا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں، ہماری ماں بہنوں کی ایک فطرت ہے، خواہ کتنا ہی درد ہو، جسم میں کتنا ہی درد کیوں نہ ہو، لیکن وہ خاندان میں کسی کو نہیں بتاتیں۔ وہ برداشت کرتی ہیں، کام بھی کرتی ہیں، پورے خاندان کا خیال رکھتی ہیں، کیونکہ ان کے ذہن میں یہ بات رہتی ہے کہ اگر گھر والوں کو بیماری کا علم ہو جائے، بچوں کو پتہ چل جائے تو وہ قرض ادا کر کے بھی میرا علاج کرائیں گے، اور ماں سوچتی ہے، ارے میں بیماری میں ہی کچھ وقت نکال لوں گی، لیکن بچوں کو قرض میں نہیں رہنے دوں گی، ہسپتال جا کر پیسے خرچ نہیں کروں گی۔ ان ماؤں کی پرواہ کون کرے گا؟ میری مائیں ایسی اذیتیں خاموشی سے سہتی رہیں۔ اس بیٹے کا کیا فائدہ، اور اسی جذبے سے آیوشمان بھارت اسکیم نے جنم لیا۔ تاکہ میری ماؤں بہنوں کو بیماری کے ساتھ نہ گزارنا پڑے۔ زندگی میں اس مجبوری کے ساتھ نہ جینا پڑے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت 50 فیصد سے زیادہ مستفید ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ ساتھیوں، چاہے ٹوائلٹ بنانے کا سوچھ بھارت ابھیان ہو، مفت گیس کنکشن دینے کی اجولا اسکیم ہو، مفت سینیٹری نیپکن فراہم کرنے کی مہم ہو، ماترو وندنا یوجنا کے تحت ہر حاملہ خاتون کو غذائیت سے بھر پور خوراک کے لیے ہزاروں روپے کی مدد ہو، یا اب ہر گھر پانی پہنچانے کی ہماری مہم ہو، ہم اپنی ماؤں اور بہنوں کو با اختیار بنانے کے لیے ایک کے بعد ایک یہ سارے کام کر رہے ہیں۔ ماؤں بہنوں بیٹیوں کی خوشی، سہولت، عزت، تحفظ اور صحت ڈبل انجن والی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ مرکزی حکومت، جے رام جی اور ان کی پوری ٹیم نے جو بھی اسکیمیں بنائی ہیں، ان کی حکومت نے انہیں بہت تیز رفتاری اور بڑے جذبے کے ساتھ زمین پر لایا ہے اور ان کا دائرہ بھی بڑھایا ہے۔ یہ ہم سب کے سامنے ہے کہ یہاں ہر گھر میں نل سے پانی پہنچانے کا کام کتنی تیزی سے ہوا ہے۔ ہم نے پچھلی 7 دہائیوں میں ہماچل میں نل کے کنکشن دگنے سے زیادہ دیے ہیں، صرف پچھلے 3 سالوں میں ہم لوگوں سے ملے ہیں۔ ان تین سالوں میں ساڑھے 8 لاکھ سے زیادہ نئے خاندانوں کو پائپ کے پانی کی سہولت ملی ہے۔ بھائیو اور بہنوں، جے رام جی اور ان کی ٹیم کی ایک اور معاملے میں ملک بہت تعریف کر رہا ہے۔ سماجی تحفظ کے حوالے سے مرکزی حکومت کی کوششوں کو وسعت دینے کے لیے یہ تعریف کی جا رہی ہے۔ آج ہماچل میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جہاں کسی ایک فرد کو پنشن کی سہولت نہ ملتی ہو۔ ایسے خاندانوں کو پنشن اور طبی اخراجات سے متعلق امداد فراہم کرنے کی کوششیں قابل تعریف ہیں، خاص طور پر بے سہارا افراد، جو سنگین بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ ون رینک ون پنشن کے نفاذ سے بھی ہماچل پردیش کے ہزاروں خاندانوں کو کافی فائدہ ہوا ہے۔ ساتھیوں، ہماچل مواقع کی سرزمین ہے۔ اور میں جے رام جی کو ایک بار پھر مبارکباد دینا چاہوں گا۔ پورے ملک میں ویکسینیشن کا کام جاری ہے، لیکن آپ کی جان کی حفاظت کے لیے، ہماچل ملک کی پہلی ریاست ہے جس نے 100 فیصد ٹیکہ کاری مکمل کی ہے۔ یہاں ہائیڈرو سے بجلی پیدا ہوتی ہے، یہاں پھلوں اور سبزیوں کے لیے زر خیز زمین ہے اور یہاں روزگار کے لامتناہی مواقع فراہم کرنے والی سیاحت ہے۔ بہتر رابطے کی کمی ان مواقع کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ 2014 سے ہماچل پردیش میں گاؤں گاؤں تک بہترین انفراسٹرکچر تک پہنچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج ہماچل کی سڑکوں کو چوڑا کرنے کا کام بھی چاروں طرف جاری ہے۔ اس وقت ہماچل میں کنیکٹیویٹی کے کاموں پر تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ جب پنجور تا نالہ گڑھ ہائی وے کو فور لین کرنے کا کام مکمل ہو جائے گا تو نالہ گڑھ اور بڈھی کے صنعتی علاقوں کو نہ صرف فائدہ پہنچے گا بلکہ چندی گڑھ اور امبالہ سے بلاس پور، منڈی اور منالی کی طرف جانے والے مسافروں کو بھی زیادہ سہولت ملے گی۔ یہی نہیں، ہماچل کے لوگوں کو گھماؤ دار سڑکوں سے نجات دلانے کے لیے سرنگوں کا جال بھی بچھایا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، ہماچل میں ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کے حوالے سے بھی بے مثال کام کیا گیا ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں میڈ ان انڈیا موبائل فون بھی سستے ہوئے ہیں اور نیٹ ورک بھی گاؤں گاؤں پہنچ گیا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کا سب سے زیادہ فائدہ اگر کسی کو مل رہا ہے تو میرے ہماچل بھائیوں اور بہنوں کو مل رہا ہے، میرے ہماچل کے شہریوں کو مل رہا ہے۔ ورنہ بلوں کی ادائیگی سے لے کر بینک سے متعلقہ کام، داخلے، درخواستیں، ایسے ہر چھوٹے موٹے کام کے لیے پہاڑ سے اتر کر دفتروں کو جانے میں پورا دن لگ جاتا تھا، کبھی رات کو ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اب ملک میں پہلی بار میڈ ان انڈیا 5 جی سروس بھی شروع ہو گئی ہے، جس کا فائدہ ہماچل کو بہت جلد ملنے والا ہے۔ ہماچل ملک کی پہلی ریاست ہے، جس نے ریاست کی ڈرون پالیسی بنائی ہے۔ اب ڈرون سے نقل و حمل کے لیے ڈرون کا استعمال بہت بڑھنے والا ہے۔ اور اگر ہمارے پاس اس میں کنور تک کے آلو موجود ہیں تو ہم انہیں وہاں سے ڈرون کے ذریعے اٹھا کر فوراً بڑی مارکیٹ میں لا سکتے ہیں۔ ہمارے پھل خراب ہو جاتے تھے، اب ڈرون کے ذریعے اٹھائے جا سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں کئی قسم کے فائدے ہونے والے ہیں۔ ہم اس قسم کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں، جس سے ہر شہری کی سہولت میں اضافہ ہو، ہر شہری خوشحالی سے جڑا ہو۔ یہ ترقی یافتہ ہندوستان، ترقی یافتہ ہماچل پردیش کے عزم کو ثابت کرے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ وجے دشمی کے پر مسرت تہوار پر مجھے رنسمہا پھونک کر فتح کی شروعات کرنے کا موقع ملا اور آپ سب کے بہت سارے آشیرواد کے درمیان یہ سب کرنے کا موقع ملا۔ میں ایک بار پھر آپ لوگوں کو ایمس سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ دونوں مٹھی بند کر کے میرے ساتھ بولیے- بھارت ماتا کی- جے۔ پوری طاقت سے آواز چاہیے۔ بھارت ماتا کی- جے بھارت ماتا کی- جے بھارت ماتا کی- جے بہت بہت شکریہ۔,হিমাচল প্ৰদেশৰ বিলাসপুৰত বিভিন্ন উন্নয়ণমূলক প্ৰকল্পৰ উদ্বোধনী সমাৰোহত প্ৰদান কৰা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B3-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A7%8B%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%B9/,نئی دلّی ، 25 مارچ ؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مہاراشٹر کے ضلع پال گھر میں رو نما ہوئے بس حادثے میں مرنے والوں کے تئیں تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ ’’ مہاراشٹر کے پال گھر میں رو نما ہوا بس حادثہ بد بختانہ ہے ۔ مرنے والوں کے کنبوں کے ساتھ میری ہمدردیاں ہیں اور جو لوگ اس حادثے میں زخمی ہوئے ہیں ، ان کے لئے میری دعائیں ہیں ‘‘۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’ مہاراشٹر حکومت متاثرین کو ہر ممکن امداد فراہم کرائے گی ۔ ‘‘,মহাৰাষ্ট্ৰত হোৱা শোকাবহ বাছ দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱা লোকৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সমবেদনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A8%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ، حیدر آباد میں آئی ایس بی کے 20 سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کی اور 2022 ء کی پی جی پی کلاس کی گریجویشن تقریب سے خطاب کیا۔ افتتاح میں، وزیر اعظم نے ، ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا ، جنہوں نے انسٹی ٹیوٹ کو ، اس کی موجودہ عظمت تک پہنچانے میں تعاون کیا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے 2001 ء میں ، اس ادارے کو ملک کے لئے وقف کیا تھا، تب سے اب تک 50 ہزار سے زیادہ ایگزیکٹوز آئی ایس بی سے کامیاب ہوکر نکل چکے ہیں۔ آج آئی ایس بی ایشیا کے سرفہرست کاروباری اسکولوں میں شامل ہے۔ آئی ایس بی سے کامیاب ہونے والے پیشہ ور اعلیٰ کمپنیوں کو سنبھال رہے ہیں اور ملک کے کاروبار کو رفتار دے رہے ہیں۔ یہاں کے طلباء نے سینکڑوں اسٹارٹ اپس تیار کئے ہیں اور یونیکورن تشکیل دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ آئی ایس بی کی ایک بڑی کامیابی ہے اور پورے ملک کے لئے فخر کا باعث ہے ۔ وزیر اعظم نے ، اس بات کو اجاگر کیا کہ آج بھارت کی معیشت جی 20 ممالک کے گروپ میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے۔ اسمارٹ فون ڈاٹا کنزیومر کے معاملے میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ اگر ہم انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد پر نظر ڈالیں تو بھارت ، دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلوبل ریٹیل انڈیکس میں بھی بھارت ، دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپس ماحولیاتی نظام بھارت میں ہے۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی صارفین کی مارکیٹ بھارت میں ہے۔ بھارت آج ترقی کے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ پچھلے سال بھارت میں سب سے زیادہ ایف ڈی آئی کی آمد درج کی گئی ۔ آج دنیا سمجھ رہی ہے کہ بھارت کا مطلب کاروبار ہے۔ وزیر اعظم نے ، اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بھارت کی اکثر تجاویز عالمی سطح پر نافذ کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے ’’ آج میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ذاتی اہداف کو ملک کے اہداف سے مربوط کریں ۔ ‘‘ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں اصلاحات کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی لیکن سیاسی قوت ارادی کی کمی ہمیشہ رہی۔ گزشتہ تین دہائیوں میں سیاس�� عدم استحکام رہنے کی وجہ سے ملک نے طویل عرصے تک سیاسی قوت ارادی میں کمی کا مشاہدہ کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے ملک اصلاحات کرنے اور بڑے فیصلے لینے سے بچتا رہا ہے ۔ 2014 ء کے بعد سے ہمارا ملک سیاسی عزم کا مشاہدہ کر رہا ہے اور اصلاحات بھی تسلسل کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ جب بھی ، عزم اور سیاسی قوت ارادی کے ساتھ اصلاحات کی جاتی ہیں تو عوامی حمایت اور مقبولیت کا تعاون یقینی ہوتا ہے ۔ انہوں نے لوگوں میں ڈیجیٹل ادائیگی کو اپنانے کی مثال پیش کی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وبا ء کے دوران صحت کے شعبے کی لچک اور قوت ثابت ہوئی ہے ۔ کووڈ ویکسین کے حوالے سے یہاں یہ خدشات پیدا ہو رہے تھے کہ آیا غیر ملکی ویکسین دستیاب ہوں گی یا نہیں لیکن بھارت نے اپنی ویکسین خود تیار کی۔ بہت سی ویکسین بنائی گئیں اور بھارت میں 190 کروڑ سے زیادہ ٹیکے لگائے گئے ہیں ۔ بھارت نے دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک کو ویکسین بھی مہیا کرائی ہے۔ وزیراعظم نے میڈیکل ایجوکیشن کو وسعت دینے کی بھی بات کی۔ وزیراعظم نے یہ بھی اجاگر کیا کہ اصلاحات کے عمل میں بیوروکریسی نے بھی بھرپور تعاون کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کی اسکیم کی کامیابی کا سہرا عوام کی شرکت کو دیا ۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگ تعاون کرتے ہیں تو فوری اور بہتر نتائج یقینی ہوتے ہیں ۔ اب نظام میں حکومت اصلاحات کرتی ہے ، بیوروکریسی عمل کرتی ہے اور عوام کی شرکت تبدیلی لاتی ہے۔ انہوں نے آئی ایس بی کے طلباء سے کہا کہ وہ اصلاح ، کارکردگی اور تبدیلی کے اس نظام کا مطالعہ کریں ۔ وزیراعظم نے ، اِس بات کو اجاگر کیا کہ 2014 ء کے بعد سے ہر کھیل میں شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور یہ ہمارے کھلاڑیوں کے اعتماد کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب درست صلاحیت کا پتہ لگایا جاتا ہے تو اعتماد پیدا ہوتا ہے اور جب صلاحیت سے تعاون کیا جاتا ہے تو شفاف انتخاب ہوتا ہے اور تربیت، مقابلے کے لئے ایک بہتر بنیادی ڈھانچہ موجود ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کھیلو انڈیا اور ٹاپس اسکیم جیسی اصلاحات کی وجہ سے کھیلوں میں زبردست تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح امنگوں والے اضلاع کا پروگرام کارکردگی، قدر میں اضافے ، پیداواریت اور عوامی پالیسی کے حلقے میں ترغیب کی ایک اہم مثال ہے ۔ بدلتے ہوئے کاروباری منظرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے ، جہاں رسمی، غیر رسمی، چھوٹے اور بڑے کاروبار اپنے شعبوں میں توسیع کر رہے ہیں اور لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں ، انہوں نے زور دے کہا کہ چھوٹے کاروباریوں کو ترقی کے مزید مواقع دینے کی ضرورت ہے ۔ نئی مقامی اور عالمی مارکیٹوں سے جڑنے میں ان کی مدد کریں۔ ان کی بے پناہ صلاحیت کو اجاگر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے زور دیا کہ بھارت کو مستقبل کے لئے تیار رکھنے کی خاطر ، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بھارت خود کفیل ہو ۔ انہوں نے آئی ایس بی جیسے اداروں کے طلباء کے لئے بہت بڑا رول ادا کرنے کی امید کا اظہار کیا ۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ’’ آپ تمام کاروباری پیشہ ور افراد کا ، اس میں ایک بڑا رول ہے اور یہ آپ کے لئے ملک کی خدمت کی ایک عظیم مثال ہو گی ‘‘ ۔ < ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),হায়দৰাবাদৰ আইএছবিত ২০২২ চনৰ পিজিপি শ্ৰেণীৰ স্নাতক অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A7%DB%8C%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی۔25اپریل؛وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور عالمی صحت تنظیم کے درمیان ایک معاہدے کو منظوری دی ہے۔ یہ معاہدہ بھارت میں اُس کے کنٹری آفس کے ذریعے جنوب مشرقی ایشیا کے علاقائی دفتر کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اس معاہدے پر 13 مارچ 2018 کو نئی دلی میں دستخط کئے گئے تھے۔ دو طرفہ معاہدے سے بھارت اور ڈبلیو ایچ او کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوگا۔ اس سے بھارت میں عوام کی صحت کی صورتحال میں بہتری لانے میں آسانی پیدا ہوگی۔,ভাৰত আৰু বিশ্ব স্বাস্থ্য সংস্থাৰ মাজত ইয়াৰ দক্ষিণ-পূব এছিয়াৰ আঞ্চলিক কাৰ্যালয়টো ভাৰতত দেশীয় কাৰ্যালয় হিচাপে কাম কৰাৰ দিশত বুজাবুজি চুক্তি সন্দৰ্ভত অৱগত কৰিলে কেবিনেটক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%84-%D9%BE%D9%88%D8%B3%D9%B9%D9%84-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%87%E0%A6%89/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی زیرصدارت مرکزی کابینہ نے یونیورسل پوسٹل یونین (یو پی یو) کے آئین میں شامل گیارہویں ایڈیشنل پروٹوکول کی توثیق کو منظوری دی۔ یہ آئین کے گیارہویں ایڈیشنل پروٹوکول کے جیسا ہی ہے جس پر 9سے 27 اگست 2021 کو عابدجان (کوٹ ڈی آئیوری) میں منعقدہ یونیورسل پوسٹل یونین کی 27ویں کانگریس کے دوران دستخط کئے گئے تھے۔ یہ منظوری محکمہ ڈاک، حکومت ہند کو ایک ’’انسٹرومنٹ آف ریٹی فکیشن‘‘ حاصل کرنے کا اہل بناتی ہے، جس پر صدر جمہوریہ ہند کے دستخط ہوتے ہیں اور جسے یونیورسل پوسٹل یونین کے بین الاقوامی بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے یہاں جمع کرایا جاتا ہے۔ کابینہ کا یہ فیصلہ یو پی یو آئین کے آرٹیکل 25 اور 30 میں متعین کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرے گا، جس میں رکن ممالک کی طرف سے کسی بھی کانگریس کی طرف سے آئین میں منظور کی گئی ترمیم کی جلد از جلد توثیق کی بات کہی گئی ہے۔ مختصراً، 27ویں یو پی یو کانگریس کے ذریعے یو پی یو کے آئین میں منظور کی گئی ترامیم، معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن 1969 کے جذبے کے مطابق اس یونین کے قوانین کے بارے میں اور زیادہ قانونی وضاحت اور استحکام کو یقینی بناتی ہیں۔ اس کی اصطلاحات میں یکسانیت لاتی ہیں۔ اس کے متن میں طویل عرصے سے پائے جانے والے مختلف تضادات کو دور کرتی ہیں اور قوانین کی ’قبولیت یا منظوری‘ کے التزامات کو جگہ دیتی ہیں۔,কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাই ইউনিভাৰ্চেল পোষ্টেল ইউনিয়নৰ সংবিধানৰ একাদশ অতিৰিক্ত প্ৰটোকলৰ অনুমোদনত মঞ্জুৰি দিছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-5%D8%8D%D8%A7%DA%A9%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-2/,بھارت-روس : بدلتی دنیا میں ایک پائیدار شراکت داری 1۔ جمہوریہ بھارت کے وزیراعظم جناب نریندر مودی اور روسی فیڈریشن کے صدر جناب ولادیمیر وی پوتن نے 4؍5؍اکتوبر 2018 کو نئی دلی میں سالانہ دو طرفہ اجلاس کی 19ویں ایڈیشن کیلئے ملاقات کی۔ بھارت -روس تعاون1971 کے امن معاہدہ، جمہوریہ بھارت اور یو ایس ایس آر ے درمیان دوستی اور تعاون، جمہوریہ بھارت اور روسی فیڈریشن کے درمیان 1993 کے دوستی اور تعاون معاہدہ ، جمہوریہ بھارت اور روسی فیڈریشن کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری سے متعلق 2000 اعلامیہ اور2010 کے مشترکہ بیان ، جس میں شراکت داری کو بڑھا کر ایک خصوصی اور اسٹریٹجک شراکت داری کردی گئی تھی، کی ٹھوس بنیادوں پر مبنی ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان امداد باہمی تمام شعبوں پر محیط ہے اور یہ سیاسی اور اسٹریٹجک تعاون، فوجی اور سکیورٹی تعاون، معیشت، توانائی، صنعت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ثقافتی اور انسانی بنیادوں پر تعاون کے شعبوں میں تعاون کے بنیادی ستونوں پر قائم ہے۔ 2۔ بھارت اور روس نے 21؍مئی 2018 کو سوچی میں غیر رسمی اجلاس کی معاصر مطابقت اور اہمیت کا اندازہ کیا۔ یہ عالمی سفارتکاری کاایک منفرد اجلاس تھا، جس سے وزیراعظم مودی اور صدر پوتن کے درمیان گہرے یقین اور اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے اور جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ممالک باہمی مفاد کے معاملوں پر مستقل رابطے میں رہیں اور اکثرو بیشتر صلاح و مشورے کرتے رہیں اور باہمی تال میل کو مزید مضبوط بنائیں۔ سوچی اجلاس نے ایک کثیرقطبی دنیا نظام کی تعمیر میں بھارت اور روس کے درمیان ملاقات اور تعاون کے رول کو اجاگر کیا۔ فریقین نے اس طرح کی مسلسل غیر رسمی ملاقاتیں کرنے اور مستقل بنیاد پر تمام سطحوں پر اسٹریٹجک کمیونکیشن برقرار رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 3۔ فریقین نے بھارت اور روس کے درمیان خصوصی اور استحقاقی اسٹریٹجک شراکت داری کے تئیں اپنی عہد بستگی کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی امن اور استحکام کے لئے یہ تعلق اہم ہے اور اور انہوں نے عالمی امن اور استحکام برقرار رکھنے سے متعلق مشترکہ ذمہ داریوں کے ساتھ بڑی طاقتوں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے متعلقہ رول کی ستائش کی۔ 4۔ طرفین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کے رشتے میں پختگی اور اعتماد ہے، جو تمام شعبوں کو محیط ہے اور وہ گہرے اعتماد، باہمی احترام اور ایک دوسرے کے موقف کو گہرائی سے سمجھنے پر برقرار ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کثیر ثقافتی ، کثیر لسانی اور کثیر مذہبی معاشرہ ہونے کے ناطے بھارت اور روس جدید دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تہذیبی شعور لائیں۔ 5۔ طرفین نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ عالمی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے کام کریں اور بین ملکی تعلقات میں رواداری، تعاون، شفافیت اور کھلے پن کو فروغ دیں۔ انہوں نے ا س بات پر زور دیا کہ دنیا کے بڑے حصوں میں بنیادی چیلنج تیز رفتار اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار معاشی ترقی کو یقینی بنانا، غربت کا خاتمہ کرنا، اپنے اور ملکوں کے درمیان عدم مساوات کو ختم کرنا اور بنیادی حفظان صحت فراہم کرنا ہے۔ بھارت اور روس نے ان مقاصد کےحصول کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا عہد کیا۔ 6۔ طرفین نےتمام شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کو تیز تر کرنے پر اظہار اطمینان کیا۔ وزارتی سطح پر 50 سے زائد دورے، جس سے دونوں ملکوں کے رشتے میں نیا جوش پیدا ہوا۔ 18-2017 کی مدت کے لئے غیر ملکی سفارت خانوں سے متعلق پروٹوکول کے کامیاب نفاذ کے بعد طرفین نے سفارتخانوں کی مدت میں مزید5سال (23-2019) تک توسیع کرنے پر رضام��د ظاہر کی اور اس سلسلے میں ایک پروٹوکول پر دستخط کئے۔ روس نے ایکٹرنگ بَرگ اور اَسترکھن میں بھارت کے اعزازی قونصل جنرل کی تقرری کا خیر مقدم کیا، جس سے دونوں ملکوں کے عوام کا ربط مزید گہرا ہوگا۔ 7۔ فریقین نے 2020-2018 کی مدت کے لئے نارکوٹکس کنٹرول بیورو، وزارت داخلہ، جمہوریہ ہنداور روسی فیڈریشن کی داخلی امور کی وزارت کے درمیان جوائنٹ ایکشن پلان سمیت داخلی سلامتی، منشیات کی اسمگلنگ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق امداد باہمی کے لئے دونوں ملکوں کی متعلقہ اتھارٹیز کے درمیان نومبر 2017 میں ہوئے معاہدوں کا خیر مقد م کیا۔ بھارت نے قدرتی آفات کے بندوبست کے میدان میں روس کی تکنیکی مہارت کا اعتراف کیا اور ٹریننگ حاصل کرنے والوں کی ٹریننگ اور ایمرجنسی رسپانس ڈھانچوں کی ترقی کے ذریعے امداد باہمی دریافت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 8۔ طرفین نے تسلیم کیا کہ بھارت اور روس کے بیچ سفارتی تعلقات کے قیام کی 70ویں سالگرہ تقریبات کے کامیاب اختتام سے دونوں ملکوں کے عوام میں زبردست جوش دیکھنے کو ملا اور اس سے دونوں ملکوں کے عوا م کے تعلقات میں مزید مضبوطی آئی۔ طرفین نے 2017 میں دستخط کئے گئے 19-2017 کیلئے ثقافتی تبادلہ پروگرام کے نفاذ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے بھارت میں سالانہ روسی فیسٹیول اور روس میں بھارتی فیسٹیول کا خیر مقدم کیااور جاری یوتھ ایکسچینج پروگرام ، مصنفین کے تبادلہ اور نیشنل فلم فیسٹیول میں دوطرفہ تعاون کی زبردست ستائش کی۔ طرفین نے گزشتہ دو سالوں میں سیاحت میں دوطرفہ ترقی کا خیر مقدم کیا اور اس مثبت رجحان کو آگے بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی۔ بھارت نے 2018 فیفا عالمی کپ کے کامیاب انعقاد کے لئے روس کی ستائش کی۔ طرفین نے گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت –روس تعلقات کو فروغ دینے کے لئے قائم انسٹی ٹیوٹ آف اورنٹیل اسٹڈیز آف دی رشین اکیڈمی آف سائنسز کی نمایاں خدمات کا اعتراف کیا۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ بھارت انسٹی ٹیوٹ کے200 سالہ سنگ بنیاد کی جشن تقریبات کی کامیابی میں تعاون دے گا۔ معیشت 9۔ طرفین نے 23ویں میٹنگ کے نتائج کا خیر مقدم کیا۔ اس میٹنگ کی مشترکہ صدارت روسی فیڈریشن کے نائب وزیراعظم یوری آئی بوریسوو اور جمہوریہ بھارت کی وزیرخارجہ سشما سوراج نے کی تھی۔ 14؍ستمبر 2018 کو ماسکو میں تجارت، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی اور ثقافتی امداد باہمی سے متعلق رشیا انٹر گورنمنٹل کمیشن منعقد ہوئی تھی۔ 10۔ طرفین نے 2025 تک دوطرفہ سرمایہ کاری میں 30 بلین امریکی ڈالر تک اضافہ کرنے کےہدف کے حصول سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں ملک اس ہدف کے حصول کی سمت میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2017 میں دوطرفہ تجارت میں 20فیصد سے زائد کا اضافہ ہواہے اور اس میں مزید اضافے کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ طرفین نے قومی کرنسیوں میں دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے پر اپنے تعاون کا اظہار کیا۔ 11۔ طرفین نے تسلیم کیا کہ بھارت کے نیتی آیوگ اور روس کے معاشی محکمے کی وزارت کے درمیان اسٹریٹجک معاشی ڈائیلاگ کی پہلی میٹنگ روس میں 2018 میں ہوگی۔ 12۔ طرفین نے جہاں ایک طرف یوریشیئن اکنامک یونین اور اس کے رکن ممالک کے درمیان اور دوسری طرف جمہوریہ بھارت کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے سے متعلق صلاح و مشورے کے آغاز کا خیر مقدم کیا اور بات چیت کے عمل میں تیزی لانے کے خیال کی حمایت کی۔ 13۔ طرفین نے تجارت اور معاشی تعلقات اور سرمایہ کاری میں تعاون کی ترقی کے لئے جوائنٹ اسٹریٹجی آف ایکشن تیار کرنے کے لئے جوائنٹ اسٹڈی کمیشن کی ستائش کی اور تسلیم کیا کہ اسے آگے لے جانے کے لئے طرفین نے بالترتیب انڈین انسٹی ٹیوٹ آ ف فارن ٹریڈ اور آل رشین اکیڈ می آف فارن ٹریڈ کو نامزد کیا ہے۔ 14۔ طرفین نے بھارت میں روسی سرمایہ کاروں کا راستہ ہموار کرنےکے لئے انویسٹ انڈیا کے ذریعے کئے گئے کام اور روس میں بھارتی کمپنیوں کے کام کاج کا راستہ ہموار کرنےکے لئے روس کے معاشی محکمے کی وزارت کے ذریعہ سنگل ونڈو سروس کے منصوبہ بند آغاز کی ستائش کی۔ 15۔ طرفین نے نئی دلی میں 5؍4 ؍اکتوبر 2018 کو 19ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر بھارت-روس تجارتی اجلاس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا۔ اس اجلاس میں دونوں ملکوں کے تجارتی وفود نے بڑی تعداد میں شرکت کی ، جس میں دوطرفہ تعاون کے اہم شعبوں کی نمائندگی کی گئی اور معاشی، تجارتی اور سرمایہ کاری شراکت داریوں کو مزید مضبوط کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے تجارتی شعبوں کی خواہش اور صلاحیت کا ایک مضبوط اشارہ دیا گیا۔ 16۔ طرفین نے کانکنی، بجلی، تیل اور گیس، ریلویز، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، کیمیا، بنیادی ڈھانچہ، آٹو موبائل، ہوابازی، خلا، جہاز سازی اور مختلف آلات کی مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں ترجیحی سرمایہ کاری کے پروجیکٹوں کے نفاذ میں ہوئی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ طرفین نے روس میں ایڈوانس فرما کمپنی کے ذریعے ادویہ سازی کے ایک پلانٹ کے قیام کا خیر مقدم کیا۔بھارت نے روس سے کھاد کی درآمد میں اضافہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ طرفین نے الومینیئم شعبے میں دوطرفہ تعاون کی توسیع کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ 17۔ انہوں نے نیشنل اسمال انڈسٹریز کارپوریشن آف انڈیا اور رشیئن اسمال اینڈ میڈیم بزنس کارپوریشن کے درمیان مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کا خیر مقدم کیا۔ 18۔ طرفین نے اس بات پر زور دیا کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی دونوں ملکوں کے لئے ایک اہم قومی ترجیح ہے، جس سے امداد باہمی کے زبردست مواقع ملتے ہیں۔ بھارت نے روسی کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ سڑک اور ریل بنیادی ڈھانچوں ، اسمارٹ سٹیزاور ریل گاڑی کے ڈبوں کی تعمیر کےشعبوں سمیت بھارت میں صنعتی کاریڈور کی ترقی میں شامل ہوں۔ روس نے عالمی مسابقتی بولیوں کے عمل میں شامل ہونے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی جب بھی ہندوستانی ریل وزارت ریلوے کی رفتار کو بڑھانے کے پروجیکٹوں کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرے گی۔ طرفین عالمی ٹرانسپورٹ کاریڈور کے نفاذ میں ٹرانسپورٹ ایجوکیشن ، عملہ کی تربیت اور سائنسی تعاون کے شعبے میں امداد باہمی کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ ان مقاصد کے لئے دونوں ممالک نیشنل ریل اور ٹرانسپورٹیشن انسٹی ٹیوٹ (وڈودرہ)جمہوریہ ہند اور رشیئن یونیورسٹی آف ٹرانسپورٹ (ایم آئی آئی ٹی) کے مابین تعاون برقرار رکھتے ہیں۔ 19۔ طرفین نے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی رابطہ کاری کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کوششیں تیز کر کے انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (آئی این ایس ٹی سی) کی ترقی کی ضرورت پر زور دیا اور اس کےلئے سب سے پہلے کسٹم اتھارٹیز سے متعلق زیر التوا مسائل کو حتمی شکل دینا ہوگا، سڑک اور ریل بنیادی ڈھانچے کی ترقی کرنی ہوگی اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مالی امداد کا راستہ ہموار کرنا ہوگااور اسی کے ساتھ جس قدر جلدی ہو سکے دیگر شریک ملکوں سے بھی بات چیت کرنی ہوگی۔ طرفین نے ایران کی سرزمین سے روس تک بھارتی اشیاء کے نقل و حمل کے مسئلے پر ماسکو میں ‘‘ٹرانسپورٹ ویک 2018’’ کے موقع پر جمہوریہ ہند، روسی فیڈریشن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان مجوزہ سہ فریقی ملاقات کا خیر مقدم کیا۔ طرفین نے ترجیحی بنیاد پر آئی این ایس ٹی سی وزارتی سطح کی اور کوآرڈینیشن میٹنگ طلب کرنےکی کوشش کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 20۔ تجارت کو فروغ دینے کے لئے طرفین نے باہمی طور پر اپنی اچھی کوشش کوشیئر کرنےپررضامندی ظاہر کی۔ اس کوشش کا تعلق کسی بھی سامان کی برآمدیا درآمدکے وقت لازمی جانچ اور ضوابط کی تکمیل سے ہے تاکہ اس طرح کی جانچ کے لئے ہونے والی تاخیرکوکم کیا جاسکے۔ 21۔ طرفین نے تجارتی نمائشوں اور میلوں کی فہرست شیئر کرنے اور اسی کے ساتھ اداروں، ایکسپورٹ پروموشن کونسلوں اور دیگر ایکسپورٹ سے متعلق اداروں کی فہرست ایک دوسرے کو شیئرکرنے سے اتفاق کیاتاکہ اس فہرست سے کسی بھی ملک کو برآمدکاروں اور درآمدکاروں کی تفصیلات حاصل ہو سکے۔ 22۔ طرفین نے آلودگی سے پاک کوریڈور پروجیکٹ کے جلد آغاز کی حمایت کی، جس کا مقصد بھارت اور روس کے درمیان بھیجی جانے والی اشیاء کے حوالے سے کسٹم کے کام کاج کو آسان بنانا ہے۔ نہوں نے اسے باہمی تجارت کو فروغ دینے کی سمت میں ایک اہم قدم سے تعبیر کیا۔ پروجیکٹ کے آغاز کے بعد دونوں ملکوں کی کسٹم انتظامیہ اس کی مزید توسیع کے لئے کوشش کرے گی۔ ­­­ 23۔ دونوں اطراف نے ہندستانی ریاستوں اور روسی خطوں کے درمیان سمینٹ اور ادارہ جاتی تعاون کے لئے جاری مزید کوششوں کی ستائش کی۔ جمہوریہ کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور روسی فیڈریشن کے خطوں کے درمیان تعاون کی رفتار کومزید بڑھانے کے لئے دونوں فریقین نے دونوں اطراف سے تجارت صنعت سازی او ر سرکاری اداروں کے مابین راست راست رابطوں میں اور زیادہ شدت پیدا کرنے کی ہدایت دی۔ دونوں فریقین نے آسام اورسکھا لن ، ہریانہ اور باشک کورتوستان ، گوا اور کینلنی گراد، اوڈیشہ اور ارکتسک ، وشاکھاپٹنم اور ولادودوستوک کے درمیان مفاہمت ناموں پر دستخط کرنے کی غرض سے جاری مزید کوششوں کا خیر مقدم کیا۔ دونو ں اطراف سے سینٹ پیٹرس برگ، بین الاقوامی اقتصادی فورم، مشرقی اقتصادی فورم اور شراکت داری/ سرمایہ کاری چوٹی کانفرنس جیسے اہم پروگراموں میں علاقائی نمائندہ وفود کے ذریعہ شراکت داری کی حوصلہ افزائی کرنے کے بعد معاہدے پر رضامند ہوئے اور ہند- روس بین علاقائی فورم کے قیام اور انعقاد کا بھی خیر مقدم کیا۔ 24۔ دونوں افراف سے قدرتی وسائل کے کفایتی او ر ماحول موافق استعمال کو یقینی بنانے کے لئے مناسب تکنیکوں کے استعمال کے ذریعہ ایک دوسرے کےملک میں قدرتی وسائل کی پیداواریت ، باصلاحیت اور اقتصادی استعمال کے لئے مشترکہ پروجیکٹوں کو تلاش کرنے کے لئے مل کر کام کرنے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ طرفین نے زراعت کے شعبے کو تعاون کے لئے ایک اہم شعبہ تسلیم کرتے ہوئے اور تجارت میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے ، زرعی پیداوار میں زیادہ پیداواریت کو بڑھانے اور زرعی مصنوعات کی تجارت میں باہمی تعاون کے لئے خود کو وقف کیا ۔ 25۔ دونوں فریقین نے ہیرے کے شعبے میں حاصل تعاون کی ستائش کی جس میں ہندستانی کمپنیوں کو پی جے ایس سی ایلروسا کے ذریعہ کچے ہیرے کی سپلائی کے لئے طویل معاہدوں پر دستخط کرنے ، ممبئی میں اے ایل آر ایس ایلروسا نمائندہ دفتر کھولنے اور ہندستانی بازار سمیت ہیرو کی جنیرک مارکٹنگ کے پروگرام کی ترقی کے لئے الروسا اور جیم اور جیولری ایکسپورٹ پرموشن آف انڈیا کے ذریعہ مشترکہ سرمایہ کاری سے اتفاق کیا ۔ دونوں طرفین نے مشترکہ سرمایہ ک��ری ، پیداوار، باصلاحیت/ ہنر مندی محنت یا مزدوری کے وسیلے سے لکڑی سمیت قیمتی دھاتوں، معدنیات ، قدرتی وسائل اور جنگلات کی پیداوار میں مشترکہ تعاون کے مواقعوں کا پتہ لگانے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ 26۔ روس کی جانب سے روسی دور دراز مشرق میں سرکاری کے لئے ہندستان کو مدعو کیا ۔ ہندستان نے ممبئی میں فارایسٹ ایجنسی کا دفتر کھولنے کا خیر مقدم کیا ۔ ہندستانی نمائندہ وفد جس کی قیادت کامرس و صنعت اور شہری ہوا بازی کے وزیر جناب سریش پربھو پربھاکر کررہے تھے۔ ولادوستووک میں ستمبر 2018 میں منعقد ہ ایسٹرن ایکونومک فورم میں شرکت کی۔ ایک اعلی سطحی روسی نمائندہ وفد ، دور دراز مشرق میں مزید بھارتی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری روڈ شو کے انعقاد کے لئے ہندستان آئے گا۔ 27۔ دونوں فریقین نے ریلوے، توانائی اور دیگر شعبوں جیسے مشترکہ پروجیکٹوں کی تیسرے ممالک میں سرگرم فروغ اور حوصلہ افزائی کے لئے باہمی رضامندی کا اظہار کیا۔ جہاں ٹکنالوجی اور وسائل کے سلسلہ میں ان کے مابین ایک تکملہ ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی 28۔ طریفین نے سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو مزید تیز کرنے کی ضرورت پر غور کیا اور سائنس اور ٹکنالوجی پر 10 ویں ہند-روس ورکنگ گروپ کے کامیاب انعقاد کا خیر مقدم کیا جس کا مشاہدہ اور نگرانی مشترکہ طور پر بھارتی سائنس اور ٹکنالوجی اور روسی فیڈریشن کی سائنس اور علمی تعلیم محکمے نے فروری 2018 میں کیا تھا۔ 29۔ طرفین نے ہندستان کے سائنس اور ٹکنالوجی محکمے اور روسی بنیادی تحقیق فاؤنڈیشن کے درمیان کامیاب تعاون کا ذکر کیا۔ جس نے جون 2017 میں بیسک اور ایپلائیڈ سائنسز کے میدان میں مشترکہ تحقیق کی اپنی دسویں سالگرہ منائی۔ طرفین نے ہندستان کے محکمے سائنس اور ٹکنالوجی اور روسی سائنس فاؤنڈیشن کے مابین اطمینان بخش تعاون کوتسلیم کیا ۔ دو ممالک تعاون کے مربوط طویل مدتی پروگرام کے تحت سائنس اور ٹکنالوجی کے نیز اختراع کے میدان میں حکومت جمہوریہ ہند اور روسی فیڈریشن حکومت کےمابین آپسی ترجیحی میدان سائنس اور ٹکنالوجی میں مختلف لیبارٹیز ، اکیڈمیوں ، اور تنظیموں کے درمیان مزید تعاون کے لئے رضامندی کا اظہار کیا۔ 30۔ طرفین ، اطلاعات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے میدان میں خصوصی طو ر پر الیکٹرانکس سسٹم ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ ، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ ، سپر کمیوٹنگ ، ای گورنمنٹ، پبلک سروسیز ڈیلوری، نیٹ ورک سیکورٹی ، سیکورٹی میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر رضامند ی کا اظہار کیا ۔ اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے میدان میں آپسی تعاون کے لئے تیار ہوئے۔ اس کے علاوہ فن ٹیک چیزوں کا انٹرنیٹ اسٹینڈرڈ رائزیشن ، ریڈیو کنٹرول او رریگولیشن آف ریڈیو فری کوینسی اسپیکٹرم پر رضامندی کا اظہار کیا۔ طرفین نے برکس اور آئی ٹی یو سمیت مختلف پلیٹ فارموں پر باہمی تعاون اور شراکت داری جاری رکھنے کا عزم کیا۔ 31۔ طرفین نے ہندستان کی جانب سے کامرس اور صنعت کے وزیر جناب سریش پربھواور روسی فیڈریشن کے اقتصادی ترقی کے وزیر میکسم اور یکشن کے ذریعہ نئی دہلی میں مارچ 2018، میں مشترکہ اعلامیہ انڈیا اور ایشیا ایکونومک کو آپریشن ، دا وے فارورڈ پر دستخط کا خیر مقدم کیا۔ انڈین انڈسٹریز اور اسکوکو و فاؤنڈیشن کے ذریعہ دسمبر 2018 میں پہلی مرتبہ ہند-روسی اسٹارٹ اپ سربراہ کانفرنس انعقاد کے فیصلے کی بے حد ستائش کی۔ طرفین نے ایک آن لائن پورٹل لانچ کرنے کے عزم کا خیر مقدم کیا جو اسٹارٹ ا�� ، سرمایہ کاروں انکیوبیٹرس اور دونوں ممالک کی پر عزم اور امید افزا صنعت سازی کو باصلاحیت بنانے میں مدد کرے گا اور دنوں ممالک کے اسٹارٹ اپ کو عالمی پیمانے پر فروغ دینے اور پھیلانے کے لئے متعلقہ وسائل کے لئے باہمی مذاکرات کے مواقع فراہم کرے گا۔ 32۔ طرفین نے باہری خلا میں لمبے عرصے تک اور ہند-روس کے آپسی مفاد کی اہمیت پر زور دیاا ور روسی علاقے کے نیو گیشن اور روسی نیوی گیشن سٹیلائٹ نظام گلوٹاس کے روسی حدود میں نیو گیشن او ر انڈین ریجنل نیوی گیشن سٹیلائٹ سسٹم این اے وی آئی سی کے مشیر رمنٹ ڈیٹا کلیکشن گرلونڈ اسٹیشن کے قیام کا خیر مقدم کیا۔ طرفین نے پرامن مقاصد کے لئے باہری خلا کی کھوج او ر استعمال کے میدان میں تعاون کو مزید تیز کرنے کے لئے اتفاق رائے کا اظہار کیا جس میں انسانی خلائی پرواز پروگرام ، سائنسی پروجیکٹس کے علاوہ برکس ریموٹ سینسنگ سیارچہ ، کانسٹیلیشن پر تعاون کو بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی۔ 33۔ طرفین نے بحرآرکٹک میں باہمی طور پر دونوں ممالک کے مفاد میں دیگر کے علاوہ مشترکہ سائنسی تحقیق کے میدان میں ترقی کے پروجیکٹوں میں دلچسپی ظاہر کی۔ بحر آرکٹک میں لمبے عرصے سے جاری ہند-روس کے مابین سائنسی پروجیکٹوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ 34۔ طرفین نے دونوں ملکوں کے اعلی تعلیم اداروں کے درمیان آپسی تعلقات کو توسیع دینے کو تسلیم کیا جو ہند-روس یونیورسٹی نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے لئے شکر گزاری ہے یہ 2015 میں اپنے قیام کے بعد 3 مرتبہ مل چکے ہیں۔ اور جن کی کل رکنیت 42 تک پہنچ گئی ہے ، طرفین نے اساتذہ اور طلبا کے اکیڈمک تبادلے کے ساتھ ساتھ مشترکہ سائنسی اور تعلیمی پروجیکٹوں پر کام کرنے میں گہری دلچسپی کااظہار کیا۔ توانائی 35 ۔ طرفین نے ہند-روس کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کو آگے بڑھانے کی اہمیت کو زیر غور رکھتے ہوئے قدرتی توانائی سمیت اثاثوں ہندستان کے مفاد کے پیش نظر قابل تجدید توانائی شعبے میں ممکنہ مشترکہ پروجیکٹوں کےنفاذ پر پیش رفت کی۔ 36۔ طرفین نے توانائی کے شعبے میں باہمی مفاد کے امکان کو تسلیم کیا اور اپنے ملکوں کی کمپنیوں کو طویل مدتی کانٹریکٹ کے لئے مشترکہ وینجر اور توانائی کے مشترکہ اثاثوں کے حصول کے ساتھ ساتھ ممکنہ تعاون کے لئے مواقع کے وسیع سلسلہ پر ملک میں غور کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ 37۔ طرفین نے روس اور بھارتی توانائی کمپنیوں کے مابین جاری تعاون کا خیرمقدم کیا۔ اس کے تحت ونکور نیفٹ اور تاس۔ یورا نیفتے گازودو بیاشا، روس میں بھارتی کنسورشیم کی سرمایہ کاری اور ایسار آئیل کیپیٹل میں، پی جے ایس سی روزنیفٹ آئل کمپنی کی شراکت داری بھی شامل ہے۔ طرفین نے اس بات کا ذکر کامل اطمینان کے ساتھ کیا کہ کمپنیوں نے جامع تعاون فراہم کرنے میں،خاطرخواہ تعاون کیا ہے۔ طرفین نے توقع ظاہر کی کہ جلد از جلد ونکور کلسٹر کے سلسلے میں جاری گفت وشنید کا سلسلہ جلد ہی مکمل کرلیا جائے گا۔ 38۔ طرفین نے روسی اور بھارتی کمپنیوں کی جانب سے ایل این جی کے شعبے میں تعاون کے سلسلے میں دکھائی گئی دلچسپی کا اعتراف کیا اور گزپوم گروپ اور جی اے آئی ایل انڈیا لمیٹیڈ کے مابین طویل المدت معاہدے کے تحت ایل این جی کی سپلائی کے آغاز کا خیر مقدم کیا۔ 39۔ طرفین نے پی جے ایس سی نووا ٹیک اور بھارت میں توانائی کمپنیوں کے مابین توسیع سے متعلق جاری گفت و شنید کے تئیں اپنی حمایت کا اظہار کیا اور ایل این جی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لئے مشترکہ ارادے کا بھی خیرم��دم کیا۔ 40۔ طرفین نے دونوں جانب سے روس کے آرکٹک شیلف سمیت روسی علاقے میں تیل کے کنوؤں کی مشترکہ ترقی کے مواقع تلاش کرنے اور تعاون بڑھانے کی حمایت کی اور پچورا اور اوکھوسٹ سمندر سے متعلق پروجیکٹوں کے مشترکہ فروغ میں دلچسپی دکھائی۔ 41۔ سال 2017 میں روس اور دیگر ممالک سے بھارت کو گیس پائپ لائن کے سپلائی کے راستوں کے سلسلے میں انجام دیئے گئے مشترکہ مطالعہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے طرفین نے بطور خاص اس بات کا ذکر کیا کہ بھارتی وزارتوں اور کمپنیوں کے مابین بھارت تک گیس پائپ لائن بچھانے کے امکانات کی تلاش کے لئے گفت و شنید جاری ہے۔ انہوں نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں وزارتوں کے مابین مفاہمتی عرضداشت کو ممکنہ طور پر حتمی شکل دینے کے لئے گفت و شنید جاری رکھی جانی چاہیے۔ 42۔ بھارت اور روس کے مابین نیوکلیائی تعاون کلیدی شراکت داری کا ایک اہم عنصر ہے جو پیرس معاہدے برائے موسمیاتی تبدیلی کے تحت بھارت کے لئے توانائی سلامتی سے متعلق ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کو اس کے تئیں پابند عہد بھی کرتا ہے۔ طرفین نے کوڈن کلم این پی پی میں 6 بجلی اکائیوں کی تعمیر کے سلسلے میں ہوئی پیش رفت کا ذکر کیا اور مقامی طور پر پرزوں کی مینو فیکچرنگ کے لئے کی جارہی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ طرفین نے بھارت میں روس کے ذریعہ تشخیص کرادہ این پی پی کے سلسلے میں گفت و شنید کا خیرمقدم کیا اور نیوکلیائی ساز و سامان کے سلسلے میں این پی پی پرزوں کی مشترکہ مینوفیکچرنگ اور دیگر ممالک میں اس شعبے میں ممکنہ تعاون کے پہلوؤں پر بھی بات چیت ہوئی۔ طرفین نے بنگلہ دیش میں روپ پور نیوکلیائی پاور پروجیکٹ کے نفاذ کے سلسلے میں سہ فریقی تعاون سے متعلق مفاہمتی عرضداشت کے سلسلے میں معاہدات کی تکمیل اور اس کی پیش رفت پر بھی روشنی ڈالی۔طرفین نے اس پہلو پر اطمینان کا اظہار کیا کہ نیوکلیائی شعبے میں جن موضوعات کو مشترکہ طور پر شناخت کیا گیا ہے، ان کے سلسلے میں ترجیحات کا تعین اور اس سے متعلق تعاون کے نفاذ کے سلسلے میں منصوبۂ عمل پر دستخط ہوئے ہیں۔ 43۔ طرفین نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے برعکس اثرات کو کم کرنے سمیت ہائیڈل اور قابل احیا توانائی وسائل، توانائی اثر انگیزی وغیرہ کے شعبوں میں بھی قریبی تعاون کے لئے مزید امکانات کی تلاش کی جانی چاہیے۔ فوجی۔ تکنیکی تعاون 44۔ طرفین نے اس بات کا ذکر کیا کہ دونوں ممالک کے مابین فوجی۔ تکنیکی تعاون کلیدی شراکت داری کا اہم ستون ہے۔ طرفین نے دسمبر 2018 میں منعقد ہونے والی فوجی تکنیکی تعاون سے متعلق بھارت۔ روس بین حکومتی کمیشن کی آئندہ میٹنگ کا بھی خیرمقدم کیا۔ فوجی تعاون کے سلسلے میں لائحہ عمل نے دونوں ممالک کی افواج کے مابین افزوں ربط و ضبط کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اس میں تربیت، فوجوں کے سینئر کارکنان کا باہم تبادلہ، عملے کی گفت و شنید اور مشقیں شامل ہیں۔ روس کی جانب سے آرمی کھیل کود 2018 میں بھارتی شراکت داری کے سلسلے میں مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی سلامتی کے موضوع پر ماسکو کانفرنس بھی زیر تذکرہ رہی۔ طرفین نے آئی این ڈی آر اے 2017 کی اولین سہ خدماتی مشق کی کامیاب تکمیل کی ستائش کی اور اس عہد کا اظہار کیا کہ وہ اپنی مشترکہ فوجی مشقیں یعنی آئی این ڈی آر اے بحریہ، آئی این ڈی آر اے بری فوج اور ایویا آئی این ڈی آر اے، 2018 میں بھی جاری رکھیں گے۔ 45۔ طرفین نے سطح سے فضا میں دور تک مار کرنے والی میزائل کے نظام یعنی ایس۔400 کی فراہمی کے سلسلے میں معاہدے کو حتمی شکل دیئے جانے کا خیر مقدم کیا۔ طرفین نےبھارت اور روس کے مابین فوجی تکنیکی تعاون میں اضافہ کرنے کی عہد بندگی دہرائی۔ اس تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے جو باہمی اعتماد اور باہمی فوائد سے مملو ہے۔ طرفین نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ فوجی تکنیکی تعاون کے سلسلے میں جاری پروجیکٹوں کے لئے اہم پیش رفت عمل میں آئی ہے اور طرفین نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ فوجی تکنیکی سازو سامان پر دونوں ممالک کے مابین تحقیق اور پیداوار کے لئے مثبت تبدیلیاں بھی رونما ہونی ہیں۔وفد نے فوجی سرکاری صنعتی کانفرنس کے عمل کو اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کی میک ان انڈیا پالیسی کو فروغ دینے کے لئے یہ ایک اہم میکانزم ہے۔ فریقین نے مثبت طریقے سے نومبر 2017 میں قائم کی گئی اعلی تکنالوجیوں کے سلسلے میں تعاون سےمتعلق اعلی سطحی کمیٹی کی میٹنگوں کا تجزیہ کیا اور مشترکہ تحقیق و ترقیات کے لئے باہمی مفادات والے شعبوں میں ٹھوس پروجیکٹوں کی شناخت کی۔ بین الاقوامی موضوعات 46۔ فریقین نے اقوام متحدہ کے چارٹر میں متذکرہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو ، جنہیں آفاقی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی مساوات، باہمی احترام اور عدم تشدد وغیرہ سے متعلق 1970 کے اعلانیہ کے تئیں اپنی عہد بندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ دوستانہ تعلقات اور یو این چارٹر کے مطابق مختلف ممالک کے مابین اس تعلق کا فروغ ہر لحاظ سے مناسب ہے۔ 47۔ جولائی 2018 میں جنوبی افریقہ میں برکس سربراہ ملاقات کی دسویں سالگرہ کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فریقین نے اس امر کا اعتراف کیا کہ بھارت اور روس اس تعلق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کلیدی شراکت داری بڑھانے کے لئے مفید گفت و شنید جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔طرفین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر پوری دیانتداری سے سختی کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ایک منصفانہ، مساویانہ اور کثیر النوع عالمی نظام کے قیام کے سلسلے میں ترجیحات کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ 48۔ فریقین نے اس امر کا بھی اعلان کیا کہ وہ افغانستان کی حکومت کو افغانیوں کی قیادت میں اور افغانیوں کے زیر تحویل قومی قیام امن اور افہام و تفہیم کے عمل کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی جانب سے معمول کے مطابق تعاون فراہم کرتے رہیں گے۔ افغانستان میں بلا روک ٹوک جاری تشدد اور بری طریقے سے متاثر سلامتی صورتحال اور اس خطے پر اس صورتحال کے مضر اثرات کے تئیں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقن نے عہد کیا کہ وہ ماسکو فارمیٹ، افغانستان سے متعلق ایس سی او رابطہ گروپ اور دیگر تسلیم شدہ فارمیٹس کے توسط سے کام کرتے رہیں گے اور افغانستان میں عرصے سے جاری اس خلفشار کو جلد از جلد ختم کرنے کے لئے اپنا تعاون دیں گے اور دہشت گردوں کی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ملک میں امن و امان کا ماحول قائم کرنے میں مدد دیں گے اور اس ملک یعنی افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے اور اس ملک میں منشیات کے بڑھتے ہوئے مسئلے کا سد باب کریں گے۔ فریقین نے بین الاقوامی برادری سے گزارش کی ہے کہ وہ افغانستان میں بیرونی عمل دخل کا راستہ بند کرنے کی کوششوں میں اپنا تعاون دے تاکہ اس ملک کی معیشت بحال ہوسکے۔ امن اور سلامتی کے قیام میں تعاون فراہم کیا جاسکے اور افغانستان پھر سے ایک مستحکم ، محفوظ، متحد، خوشحال اور خودمختار ملک کی شکل میں اپنا مقام حاصل کرسک��۔ فریقین اپنی سرگرمیوں کو صلاحیت سازی پروجیکٹوں کو بڑھاوا دینے کے لئے، اپنی جانب سے مشترکہ تعاون بھی کریں گے۔ 49۔ فریقین نے اپنے اس اردے کا اعاد ہ کیا کہ سیریا یعنی شام میں جاری انتشار کا سیاسی حل نکالنے کےلئے بھارت اور روس مل جل کر کام کریں گے اور اس کے لئے شمولیت پر مبنی سیریائی حکومت کی بحالی کے امکانات پر بھی کام کریں گے، سیریا کی تحویل والے سیاسی عمل تحت شام کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی اتحاد و سلامتی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 2254 (2015) کے مطابق یقینی بنایا جائے گا۔ فریقین نے اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جنیوا پروسیس میں اپنا تعاون دیں گے اور آستانہ پروسیس میں بھی اپنا تعاون دیں گے۔ فریقین نے زور دیکر کہا کہ دونوں پہل قدمیوں کے مابین متعلقہ امور ایک دوسرے کا تکملہ ہوں گے۔ طرفین نے تمام شراکت داروں سے گزارش کی ہے کہ وہ ایک پرامن مستحکم اور خود مختار شام بطور ملک قائم کرنے کے لئے سرگرمی سے اپنا تعاون دیں اور بین سریائی گفت و شنید کو بھی اپنی حمایت دیں اور اس سلسلے میں کسی طرح کی پیشگی شرطوں یا بیرونی عمل دخل پر ہرگز اصرار نہ کریں۔ فریقین نے سیریا کے عوام کی تکالیف کو،جو عرصے سے ان پر مسلط ہیں ، کم کرنے کے لئے ضروری انسانی امداد فراہم کرنے کی کوششوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے، شام کی عوام کی تکالیف دور ہونی چاہیئیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے کہ پناہ گزینوں اور داخلی طور پر بے گھر ہوئے افراد کی واپسی کے لئے بھی فوری تعمیراتی سرگرمیاں درکار ہیں۔ 50۔ فریقین نے بین الاقوامی امن و سلامتی کو تقویت پہنچانے کے لئے ایرانی نیوکلیائی پروگرام کے سلسلے میں مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے موثر و مکمل نفاذ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کی تحریک کو تقویت دینے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ ایران کے ساتھ عام زمرے کے اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔فریقین نے ایرانی نیوکلیائی پروگرام سے متعلق تمام تر موضوعات کو پرامن طریقے اور گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ 51۔ فریقین نے کوریائی جزیرہ نما میں رونما ہوئی مثبت پیش رفت کا خیرمقدم کیا اور اس ذیلی خطے میں سیاسی تدبر اور گفت و شنید کے ذریعہ پائیدار امن اور استحکام کے لئے کی جارہی کوششوں کے تئیں اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ فریقین نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ کوریائی جزیرہ نما کے موضوعات کو حل کرنے کے لئے ایک میکانزم وضع کرتے وقت نیوکلیائی ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق روابط اور اس میں مضمر خدشات کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے۔ 52۔ فریقین نے بیرونی خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے امکانات کے تئیں اپنی سنجیدہ تشویش کا اظہار کیا جو آخر کار فوجی کشمکش میں بدل سکتی ہے۔ طرفین نے از سر نو اس عزم کا اظہار کیا کہ بیرونی خلا میں ہتھیاروں کی مسابقت یا دوڑ کی روک تھام (پی اے آر او ایس) کے ذریعہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو لاحق ایک سنگین خطرے کو ٹالا جاسکے گا۔ فریقین نے منجملہ دیگر چیزوں سمیت بیرونی خلا میں ہتھیار نصب کرنے کی کوششوں کی روک تھام کی کوششوں کے سلسلے میں پی اے آر او ایس سے متعلق قانونی بندش لگانے کے لئے ممکنہ عناصر پر تبادلہ خیالات کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے گروپ برائے سرک��ری ماہرین کے اولین اجلاس کے دوران ہوئی گفت و شنید کا بھی خیرمقدم کیا۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ عملی شفافیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے توسط سے پی اے آر او ایس کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دی جاسکتی ہے۔ 53۔ فریقین نے اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ دونوں ممالک کیمیاوی ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی ، ان کی روک تھام اور ان کی تیاری کے خاتمے نیز ان ہتھیاروں کو تباہ کرنے اور کیمیاوی ہتھیاروں سے متعلق روک تھام کے اداروں کی سرگرمیوں کو سیاسی شکل دینے کی کوششوں کے سدباب کے سلسلے میں بھی اس طرح کے ہتھیاروں کی روک تھام اورتیاری کے سدبا ب سے متعلق کنونشن کے کردار کی بھی حفاظت کریں گے۔ بھارت کی جانب سے روسی فیڈریشن کے ذریعہ اپنے یہاں تیار کئے گئے کیمیاوی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے قدم کا بھی خیرمقدم کیا گیا جو کیمیاوی ہتھیاروں سے پاک دنیا کی تخلیق کے سلسلے میں طے شدہ ہدف کے حصول کے تئیں ایک اہم تعاون ہے۔ 54۔ فریقین نے دہشت گردی کی ہر شکل کے اظہار کی مذمت کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کا بغیر کسی دہرے معیار کے اجتماعی اور فیصلہ کن رد عمل کے ذریعہ سامنا کیا جانا چاہیے۔ فریقین نے اس امرپر اتفاق کیا کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لئے ان کی کوششوں کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کے لئے سرمائے کی فراہمی، ہتھیاروں اور جنگجوؤں کی فراہمی کے راستوں کو بند کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی سے متعلق فلسفے، پروپیگنڈےا ور بھرتی کے عمل کو بھی روکا جانا چاہیے۔ فریقین نے سرحد پار سے چلائی جانے والی دہشت گردی سمیت دہشت گردوں کو ایسے ممالک کی جانب سے ملنے والے تعاون کی بھی مذمت کی جو انہیں اور ان کے نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی دہشت گردی کے سلسلے میں جامع کنونشن جو اقوام متحدہ میں التوا میں ہے، کو اختیار کرنے اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے طرفین نے اتفاق کیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا ایک حصہ بنیں گے اور طرفین نے بین الاقوامی برادری کوتلقین کی کہ اس کا جلد از جلد حل نکالنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کرے۔ کیمیاوی اور حیاتیاتی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے فریقین نے اس امر کی حمایت کی اور اس پر زور دیا کہ اس سلسلے میں ترک اسلحہ سے متعلق کانفرنس کے دوران کثیر پہلوئی گفت و شنید کا اہتمام کیا جانا چاہیے جو کیمیاوی اور حیاتیاتی دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی کنونشن کا موضوع ہوگی۔ 55۔ فریقین نے اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے تئیں عہد بند رہیں گے اور بین الاقوامی تعلقات میں اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کریں گے۔ فریقین نے بین الاقوامی قوانین کے پس منظر میں عام طور پر تسلیم شدہ اصولوں کو خلوص نیت کے ساتھ نافذ کرنے کے سلسلے میں بھی اپنے خیالات ساجھا کئے اور اس کے تحت دوہرے میعارات سے احتراز کرنے اور کچھ ریاستوں یا ملکوں کے ذریعہ اسے اپنانے اور دیگر کے ذریعہ عدم دلچسپی کے طریقے سے بھی اپنی برات کا اظہار کیا۔فریقین نے اس امر پر بھی غور کرنے سے اتفاق کیا کہ ایسا کوئی طریقہ یا جبری قدم ایک طرفہ طور پر نہیں اٹھایا جانا چاہیے اور نہ ہی کسی ملک پر بین الاقوامی قانون کی آڑ میں اسے لادا جانا چاہیے۔ طرفین نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ وہ جمہوری عالمی نظام کو فروغ دینے کے لئے کوشاں رہیں گے جو عالمی اور ساجھا مفادات پر مبنی ہوگا۔ 56۔ طرفین نے ��ہ عہد دہرایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات درکار ہیں تاکہ موجودہ عالمی نظام کے تقاضوں کی بہتر نمائندگی ہوسکے اور سے ابھرتی ہوئی عالمی چنوتینوں سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لائق بنایا جاسکے۔ روس کی جانب سے کہا گیا کہ وہ توسیع شدہ یو این ایس سی میں بھارت کی مستقل رکنیت کی دعویداری کے تئیں اپنا تعاون جاری رکھے گا۔ طرفین نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ علاقائی اور عالمی سطح پر امن، سلامتی اور مساویانہ ترقی کے لئے قریبی تال میل بناکر کام جاری رکھیں گے اور تمام چنوتیوں کا سامنا کریں گے تاکہ عالمی نظام کو استحکام حاصل ہوسکے۔ 57۔ فریقین نے اس امر کا اعادہ کیا کہ وہ ہمہ گیر ترقیات کے لئے 2030 کے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے مکمل طور پر عہد بند ہیں۔ طرفین نے تین شعبوں یعنی اقتصادیات، سماجی اور ماحولیات میں ہمہ گیر ترقیات کے حصول کے لئے متوازن اور مربوط طریقے سے مساویانہ، کھلا ہوا اور چوطرفہ جدت طرازی پر مبنی اور شمولیت کی حامل ترقی والا طریقہ کار اپنائیں گے ۔ فریقین نے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہمہ گیر ترقیات کے سلسلے میں اعلی سطح سیاسی فورموں سمیت اقوام متحدہ کا بھی اہم کردار ہے۔ اقوام متحدہ 2030 کے ایجنڈے کے عالمی نفاذ کے سلسلے میں تال میل اور نظرثانی کے معاملے میں اہم کردار ادا کرے گی۔انہوں نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی نظام میں اصلاح کی ضرورت پر اتفاق کیا تاکہ اس کے 2030 کے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے رکن ریاستوں کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے۔ فریقین نے ترقی یافتہ ملکوں سے درخواست کی کہ انہوں نے ترقیاتی تعاو ن سے متعلق سرکاری طور پر جو وعدے کئے ہیں ، وقت پر اور مکمل طریقے سے ان کی تکمیل کریں اور ترقی پذیر ملکوں کو مزید ترقیاتی وسائل دستیاب کرائیں۔ 58۔ فریقوں نے پائیدار ترقی اور انسداد غریبی کے تناظر میں سبز ترقی اور کم کاربن والی معیشت کو مزید فروغ دینے کے تئیں عہد بستگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے یونائیٹیڈ نیشنز فریم ورک کنوینشن آن کلائمٹ چینج کے اپنائے گئے پیرس معاہدہ مکمل نفاذ کی سبھی ملکوں سے اپیل کی ۔ اس میں مشترکہ لیکن الگ الگ ذمہ داریاں اور متعلقہ اہلیتیں شامل ہیں۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ مالی ، تکنیکی اور صلاحیت سازی سے متعلق تعاون ترقی پذیر ملکوں کو دستیاب کرائیں۔ تاکہ وہ کاربن کے اخراج کو کم سے کم کرنے کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکیں اور اس کے ساتھ تال میل بٹھاسکیں۔ 59۔ فریقوں نے عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کو مزید تقویت دینے کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ روس نے نیوکلیئر سپلائر گرو پ میں ہندستان کی رکنیت کے لئے اپنے تعاون کا اظہار کیا۔ 60۔ فریقوں نے آئی سی ٹی کے استعمال کے تعلق سے ریاستوں کے ذریعہ ضابطوں اور ذمہ دارانہ سلوک سے متعلق اصولوں کو جلد از جلد اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مجرمانہ مقاصد کے لئے آئی سی ٹی کے استعمال کا توڑ کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون میں اضافہ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس کے لئے بین الاقوامی قانونی طریقہ کار کے فروغ کی بات کہی گئی۔ ا س سلسلہ میں فریقوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73 اجلاس کے دوران اپنائے گئے متعلقہ ریزولیوش کی اہمیت کو نمایاں کیا۔ فریقوں نے برکس ممالک کے دوران تعاون کے لئے ایک خاکہ تیار کئے جانے کی ضرورت کو تسلیم کیا تاکہ آئی سی ٹی کے استعمال میں سیکورٹی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ فریقوں نے اس معاملے میں برکس ممالک کی حکومتوں کے درمیان تعاون سے متعلق ایک معاہدہ کے لئے کام کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ 61۔ فریقوں نے آئی سی ٹی کے استعمال میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے اطلاعاتی و مواصلاتی ٹکنالوجیز کے استعمال سیکورٹی سے متعلق تعاون کے لئے بین حکومتی معاہدوں کو آگے بڑھانے کے لئے مختلف ایجنسیوں کے درمیان دو فریقی عملی بات چیت کی اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ 62۔ فریقوں نے ریجنل سیکورٹی آرکی ٹیکچر کے قیام کے تصور کی بھی حمایت کی جس سے ا یشیا اور بحرالکاہل اور بحر ہند خطے کے سبھی ملکوں میں مساوی اور غیر مرئی سیکورٹی فراہم ہوگی ۔ فریقوں نے ایسٹ ایشیا سمٹ اور دیگر علاقائی پلیٹ فارموں پر فریم ورک کے اندر اس موضوع پر کثیر جہتی بات چیت کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا ۔ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ علاقائی آرڈر کو مضبوط کرنے کے لئے سبھی نئے اقدامات کثیر جہتی ، شفافیت ، شفافیت پر مبنی اصولوں ، شمولیت ، باہمی احترام اور ترقی و خوشحالی کے لئے اصولوں پر مبنی ہوں اور اس کا نشانہ کسی ملک کے خلاف نہ ہو ، اس سلسلہ میں فریقین نے 28 اگست 2018 کو ماسکو میں روسی جمہوریہ کے نائب وزیر خارجہ ایگور مورگولوف اور جمہوریہ ہند کے خارجہ سکریٹری وجے گھوکھلے کے درمیان ہوئی تعمیری مشاورت کا خیر مقدم کیا۔ 63۔ فریقوں نے برکس ، جی -20 ، ایس سی او ، آر آئی سی اور ایسٹ ایشیا سمٹس جیسے علاقائی ملٹی لٹریرل پلیٹ فارموں پر اپنی بات چیت اور تال میل کی کوششوں کو آگے بڑھانے کی توثیق ہندستان نے یوریشین اکونومک یونین کے ساتھ اپنے تعاون کو وسیع تر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ 64۔ فریقوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ جمہوریہ ہند کے وزیراعظم نریند رمودی کی جولائی 2018 میں کنگ ڈاؤ میں منعقدہ ایس سی او سربراہوں کی اسٹیٹ کونسل میٹنگ میں شرکت سے اس تنظیم کے کام کاج میں مکمل رکن کی حیثیت سے ہندستان کی شرکت کا اظہار ہوا۔ فریقوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایس سی او چارٹر ، نوربین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے تئیں اپنی عہد بستگی سے سبھی سرگرمیوں میں اس تنظیم کی کارکردگی کے امکانات کو بہتر بنانے کے تئیں باہمی تال میل پر مبنی کوششوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سیکورٹی اور استحکام سے متعلق امور پر خصوصی توجہ دی جائے گی جن میں دہشت گردی سے جنگ ، غیر قانونی دواؤں کی اسمگلنگ اور منظم جرائم شامل ہیں ۔ اس طرح سے اس میں ایس سی او علاقائی دہشت گردی مخالف ڈھانچے کے اندر موثر تعاون میں اضافہ شامل ہے۔ روس میں دہشت گردی کے خلاف فوجی مشق ‘‘پیس مشن -2018’’ میں ہندستان کی شرکت کا خیر مقدم کیا۔ دونوں فریقوں نے ایس سی او کا ایک اقتصادی بازو تیار کرنے کے ہدف پر بھی غور کیا ہے۔ جس میں ٹرانسپورٹیشن اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق پروجیکٹوں کو حقیقت کا روپ دینا شامل ہے۔ جس کا مقصد ایس سی او تنظیم کے اندر باہمی رابطہ قائم کرنا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی امو ر میں ایس سی او کے رول میں اضافہ کرنے کا عہد کیا اور اسے اقوام متحدہ اور اس کے ڈھانچوں ، دیگر بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کے ساتھ ، ایس سی او کے روابط اور باہمی تعاون میں توسیع کے لئے ضروری خیال کیا۔ فریقین نے ایس سی او کے اندر ثقافتی اور انسانی رشتوں کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔ 65۔ فریقوں نے کھلے ، شمولیت پر مبنی ، شفاف ، عدم امتیاز پر مبنی اور ضوابط پر مبنی کثیر رخی تجارتی نظام کو تقویت دینے اور بین االاقوامی تجارتی رشتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے دیکھنے اور کسی بھی شکل میں تجارت کے سلسلہ میں تحفظاتی اقدامات کی روک تھام پر اتفاق کیا۔ 66۔ ہندستان نے وسیع تر یورویشن پارٹنر شپ کی تخلیق کے لئے روس کے اقدام کا خیر مقدم کیا۔ جس سے قومی ترقیات سے متعلق حکمت عملیوں اور کثیر رخی پروجیکٹوں میں تال میل بنانے میں مدد ملے گی۔ 67- فریقین نے ہند –روس تعلقات میں ہوئی پیش رفت ، مشترکہ مفادات دو فریقی نیز بین الاقوامی اہمیت کے حامل امور کے بارے میں یکساں موقف پر اطمینان کا اظہار کیا اور قریبی تعاون ، تال میل اور ہندستان اور روس کی خصوصی اور اختصاص یافتہ اسٹریٹیجک شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی حصولیابیوں کو ٹھوش شکل دینے پر اتفاق کیا تاکہ دونوں ملکوں کے عوام یکساں طور پر خوشحال بن سکیں۔ 68۔ روسی فیڈریشن کے صدر ولادیمر پوتن نے جمہوریہ ہند کے وزیراعظم نریندر مودی کا ضیافت اور میزبانی کے لئے شکریہ ادا کیا اور انہیں 2019 میں بیسویں سالانہ سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مسرت کے ساتھ ان کی دعوت کو قبول کیا۔,"ৰাছিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণ কালত ভাৰত-ৰাছিয়াৰ যুটীয়া বিবৃতি (৫ অক্টোবৰ, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%B1%D9%86%D8%AC%D9%86-%D8%AF%D8%A7%D8%B3-%D9%85%D9%86%D8%B4%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F-%E0%A7%B0%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی،20/نومبر۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سابق مرکزی وزیر جناب پریہ رنجن داس منشی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ جناب پریہ رنجن داس منشی مالامال سیاسی اور انتظامی تجربے کے ساتھ ایک مقبول رہنما تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں فٹبال کو مقبول بنانے کا قابل تعریف کام کیا اور انھیں ان کے انتقال کی خبر سن کر سخت افسوس ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میری دلی ہمدردی داس منشی اور ان کے سوگوار کنبے کے ساتھ ہے۔,শ্ৰী প্ৰিয় ৰঞ্জন দাসমুন্সিৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%B9%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A2%D8%A8-%D8%AC%DA%AF%D9%85%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A6%AE%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں بھوٹان کے راجہ عزت مآب جگمے کھیسر نام گیال وانگ چک سے ملاقات کی۔ دونوں قائدین نے بھارت – بھوٹان کے مابین قریبی اور منفرد تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مختلف خیالات پر گفت و شنید کی۔ جناب مودی نے بھارت اور بھوٹان کے مابین تعلقات کو نئی شکل دینے کے سلسلے میں بھوٹان کے متعدد قائدین کے ذریعہ فراہم کی گئی رہنمائی کی بھی ستائش کی۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’بھوٹان کے عزت مآب راجہ سے گرمجوشانہ ملاقات کی۔ بھارت-بھوٹان کے مابین قریبی اور منفرد تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مختلف تصورات پر تبادلہ خیالات کیے۔ ہمارے تعلقات کو نئی شکل دینے کے لیے بھوٹان کے متعدد قائدین کے ذریعہ فراہم کی گئی رہنمائی کی ستائش کی۔‘‘,ভূটানৰ ৰজা মহামহিম জিগমে খেছাৰ নামগ্যেল ৱাংচুকক সাক্ষাৎ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B0%D8%B4%D8%AA%DB%81-%D8%A2%D9%B9%DA%BE-%D8%A8%D8%B1%D8%B3%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%86%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A6%A4-%E0%A7%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%9B%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%95-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران نوجوانوں کی ترقی کے لیے حکومت کے ذریعہ کی گئی کوششوں کی تفصیلات ساجھا کی ہیں۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ، نمو ایپ اور مائی گَو سے مضامین اور مختلف ٹوئیٹ ساجھا کیے ہیں جن میں ان کوششوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ٹوئیٹ کیا : ’’بھارت کی یووا شکتی ہماری عظیم ترین طاقت ہے۔ ہمارا نوجوان مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ملک کی ترقی میں اپنا تعاون دے رہا ہے۔ ان مضامین میں نوجوانوں کی ترقی کے لیے کیے گئے چند اہم اقدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔ #8SaalYaam‘‘ ’’ملک کی نوجوان قوت نیو انڈیا کا ستون ہے اور گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران ہم نے اسے مضبوط بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی ہو یاآئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کی توسیع، نئے اسٹارٹ اپ ادارے اور یونیکارن سے لے کر کھیلو انڈیا مرکز تک، ان سب کے ساتھ نوجوانوں کے لیے ہر ضروری پہل قدمی کی گئی ہے۔‘‘,বিগত ৮ বছৰত যুৱক-যুৱতীসকলৰ বিকাশ সাধনৰ বাবে লোৱা পদক্ষেপৰ সবিশেষ শ্বেয়াৰ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A7%A7%E0%A7%A6-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95-%E0%A6%AD/,نئی دہلی۔28 اکتوبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی کل (29.10.2017) کرناٹک کا دورہ کریں گے اور تین عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے۔ وزیر اعظم اپنے دورہ کا آغاز دھرم استھل میں واقع شیر منجوناتھ سوامی مندر میں پوجا کرنے سے کریں گے ۔ وہ ایک عوامی میٹنگ سے خطاب کریں گے اور اجائر میں شری شیتر دھرم استھل دیہی ترقیاتی پروجیکٹ کے مستفیدین میں رو پے(Ray) کارڈ تقسیم کریں گے ۔ اس سے ‘اپنی مدد آپ’ گروپ کو بلا نقدی ڈیجیٹل لین شروع کرنے میں مدد ملے گی ۔ بعد ازاں وزیر اعظم بنگلورو جائیں گے جہاں وہ دشامہ میں منعقدہ سَوندریا لہاری پریانتسو مہاسرماپاکے اجتماد سے خطاب کریں گے ۔ سوندریا لہاری پریانتسو آدی شنکر آچاریہ پر ذریعہ ترتیب دیے گئے اشلوکوں کا ایک مجموعہ ہے ۔ اس تقریب کا اہتمام ایک ساتھ ملک ان اشلوکوں کو اجتماعی طور پڑھنے کے لیے کیا گیا ہے ۔ بعد ازاں بیدر میں وزیر اعظم بیدر –کلبرگی نئے ریلوے لائن کا افتتاح کریں گے اور ایک عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے ۔,কাইলৈ (২৯-১০-২০১৭) কৰ্ণাটক ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%81%D9%86%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%B4%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نئی دہلی میں چھتیس گڑھ کے ایک فنکار شری شرون کمار شرما سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ آرٹسٹ نے وزیر اعظم کو ان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ؤؤؤؤؤؤ پینٹنگ پیش کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ چھتیس گڑھ کے ایک باصلاحیت آرٹسٹ جناب شرون کمار شرما سے ملاقات ہوئی۔ وہ برسوں سے پینٹنگ کر رہے ہیں اور قبائلی آرٹ کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔,ছত্তিশগড়ৰ শিল্পী শ্ৰী শ্ৰৱণ কুমাৰ শৰ্মাৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সাক্ষা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88%D8%B1%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%A8%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%DB%81%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A1%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%A8-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,نئی دہلی،12۔اپریل ،وزیراعظم جناب نریندرمودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ہائیڈرو کاربن کے شعبے میں تعاون کیلئے ہندوستان اور بنگلہ دیش کےدرمیان مفاہمتی لائحہ عمل پر دستخط کئے جانے کو منظوری دے دی۔ مجوزہ مفاہمتی لائحہ عمل (ایف او یو) کا مقصد امداد باہمی پر مبنی ادارہ جاتی لائحہ عمل (فریم ورک) میکانزم تیار کرنا ہے تاکہ مساوات اورباہمی فائدے کی بنیا دپر ہائیڈروکاربن کے شعبے میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو فریقی تعاون میں اضافہ ہو سکے۔ مجوزہ مفاہمتی عمل (ایف او یو) اپنی نوعیت کے اعتبارسے ہرحال میں قابل عمل (لازمی)نہیں ہوگااور اس کی مدت جواز پانچ سال ہوگی۔ م ن ۔م م ۔ ک ا,হাইড্র’কার্বন খণ্ডত ভাৰত-বাংলাদেশৰ মাজত সহযোগিতামুলক পৰিকাঠামো চুক্তিৰ স্বাক্ষৰৰ বাবে কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%B1%D8%AA%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%AC%DB%8C-%D8%A2%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%95-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%81%E0%A7%B0-%E0%A6%9C/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھارت رتن ایم جی آر کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ""بھارت رتن ایم جی آر کو ان کے یوم پیدائش پر یاد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ایک موثر منتظم کے طور پر ان کی لاثانی خدمات کی بڑے پیمانے پرتعریف کی جاتی ہے، انہوں نے سماجی انصاف وتفویض اور معاشرے کو بااختیار بنانے میں اپنی گرانقدر خدمات انجام دیں ۔ ان کی نافذ کی گئی اسکیموں کے ذریعہ غریبوں اورپسماندہ طبقات کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئی ۔ سنیما اور فلموں میں ان کے ذریعہ پیش کی گئی خوبصورتی کو بھی بڑے پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔""",ভাৰতৰত্ন এমজিআৰক তেওঁৰ জন্ম জয়ন্তীত স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%D9%85%D8%A7%DA%86%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%DB%8C-%D8%B4%D8%AA%D8%A7%D8%A8%D8%AF%DB%8C-%D9%85%DB%81%D9%88%D8%AA%D8%B3%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AC/,مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ جناب ادھو ٹھاکرے جی، مہاراشٹر میں اپوزیشن لیڈر جناب دیویندر فڑنویس جی، ممبئی سماچار کے ایم ڈی جناب ایچ این کاما جی، جناب مہروان کاما جی، ایڈیٹر بھائی نلیش دیو جی، اخبار سے وابستہ سبھی ساتھی،خواتین و حضرات! پہلےتو نیلیش بھائی نے جو کہا اس پر میں اپنے اعتراض کا اظہار کرتا ہوں، انہوں نے کہا ��ہ بھارت بھاگیہ ودھاتا، لیکن بھارت کے بھاگیہ ودھاتا یہاں کے عوام ہیں ، 130 کروڑ ہم وطن ہیں، میں تو سیوک (خادم ) ہوں ۔ مجھے خیال آتا ہے کہ میں آج نہیں آیا ہوتا تو، تو میں نے بہت کچھ گنوایا ہوتا، کیونکہ یہاں سے دیکھنے کا شروع کروں تو تقریباً سبھی جانے مانے چہرے دکھ رہے ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کا دیدار کرنے کا موقع ملے اس سے زیادہ خوشی کا موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ وہاں سے کھچڑی ہاتھ اوپر کر-کر کے وندن کررہے ہیں۔ ممبئی سماچار کے سبھی قارئین، صحافیوں اور ملازمین کو اس تاریخی اخبار کی 200 ویں سالگرہ پر دل سے مبارکباد!! ان دو صدیوں میں کئی نسلوں کی زندگی کو، ان کے سروکاروں کو ممبئی سماچار نے آواز دی ہے۔ ممبئی سماچار نے آزادی کی تحریک کو بھی آواز دی اور پھر آزاد بھارت کے 75 برسوں کو بھی ہر عمر کے قارئین تک پہنچایا۔ زبان کا ذریعہ ضرور گجراتی رہا، لیکن سروکار قومی تھا۔ غیرملکیوں کے زیراثر جب یہ شہر بامبے ہوا، بمبئی ہوا، تب بھی اس اخبار نے اپنا مقامی رابطہ نہیں چھوڑا، اپنی جڑوں سے تعلق نہیں توڑا۔ یہ تب بھی ایک عام ممبئی کا اخبار تھا اور آج بھی وہی ہے – ممبئی سماچار! ممبئی سماچار کے پہلے ایڈیٹر مہر جی بھائی کے مضامین تواس وقت بھی بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل بھی اکثر ممبئی سماچار کا حوالہ دیتے تھے۔ آج یہاں جو پوسٹل اسٹیمپ جاری کیا گیا، بک کوور ریلیز ہوا ہے ، جو ڈاکیومنٹری دکھائی گئی ہے، ان کے ذریعے آپ کا یہ شاندار سفر ملک و دنیا تک پہنچنے والا ہے۔ ساتھیو، آج کے دور میں جب ہم یہ سنتے ہیں کہ کوئی اخبار 200 سال سے چل رہا ہے تو حیران ہونا فطری ہے۔ آپ دیکھئے ، جب یہ اخبار شروع ہوا تو ریڈیو کا ایجاد نہیں ہوا تھا، ٹی وی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پچھلے 2 برسوں میں، ہم سب نے کئی بار 100 سال پہلے پھیلے اسپینش فلو پر بات کی ہے۔ لیکن یہ اخبار اس عالمی وبا سے بھی 100 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ تیزی سے بدلتے وقت میں جب اس طرح کے حقائق منظر عام پر آتے ہیں تو ہمیں آج ممبئی سماچار کے 200 سال کی اہمیت اور بھی زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔ اور یہ بھی بہت خوشگوار ہے کہ ممبئی سماچار کے 200 سال اور بھارت کی آزادی کے 75 سال ہونے کا اتفاق اسی سال ہی ہوا ہے۔ اس لیے آج کے اس موقع پر ہم نہ صرف بھارت کی صحافت کے اعلیٰ معیار، حب الوطنی کی فکر سے وابستہ صحافت کا ہی اتسو نہیں منا رہے ہیں بلکہ یہ آزادی کے امرت مہوتسو کی بھی رونق بڑھا رہا ہے۔ جن اقدار ، جن عہدبستگیوں کے ساتھ آپ چل رہے ہیں ، مجھے یقین ہے کہ قوم کو بیدار کرنے کا آپ یہ مہایگ، بلاتعطل جاری رہے گا۔ ساتھیو، ممبئی سماچار صرف ایک خبر کا ذریعہ بھر ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ورثہ ہے۔ ممبئی سماچار بھارت کا فلسفہ ہے، بھارت کا اظہارخیال ہے۔بھارت کیسے ہر مشکلات کے باوجود مضبوطی سے کھڑا ہے، اس کی جھلک ہمیں ممبئی سماچار میں بھی ملتی ہے۔ وقتاً فوقتاً حالات کی ہر تبدیلی کے ساتھ بھارت نے خود کو بدلا ہے، اور اپنے بنیادی اصولوں کو اور مضبوط کیا ہے۔ ممبئی سماچار نے بھی ہر نئی تبدیلی کو تسلیم کیا۔ ہفتے میں ایک بار، ہفتے میں دو بار، پھر روزانہ اور اب ڈیجیٹل، اس اخبار نے ہر دور کے نئے چیلنجز کو اچھی طرح ڈھال لیا ہے۔ اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے، اپنی بنیاد پر فخر کرتے ہوئے، کیسے تبدیلی کو اپنایا جاسکتا ہے، ممبئی سماچار اس کا بھی ثبوت ہے۔ ساتھیو، ممبئی سماچار ��ب شروع ہوا تھا تب غلامی کااندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ ایسے دور میں گجراتی جیسی بھارتی زبان میں اخبار نکالنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ممبئی سماچار نے اس دور میں لسانی صحافت کو وسعت دی۔ اس کی کامیابی نے انہیں ایک ذرائع بنایا۔ لوک مانیہ تلک جی نے کیسری اور مراٹھا ہفتہ وار اخبارات کے ذریعے آزادی کی تحریک کو آگےبڑھایا۔ سبرامنیم بھارتی کی نظموں، ان کی تحریروں نے غیر ملکی اقتدار پر حملے کئے۔ ساتھیو، گجراتی صحافت بھی آزادی کی جدوجہد کا ایک بہت موثر ذریعہ بن چکی تھی۔ فردون جی نے گجراتی صحافت کی مضبوط بنیاد رکھی تھی ۔ گاندھی جی نے جنوبی افریقہ سے اپنا پہلا انڈین اوپینین شروع کیا تھا، جس کے ایڈیٹر جوناگڑھ کے مشہور منسکھ لال ناظر تھے۔ اس کے بعد پوجیہ باپو نے پہلی بار ایڈیٹر کے طور پر گجراتی اخبار نوجیون کی کمان سنبھالی جسے اندو لال یاگنک جی نے ان کو سونپا تھا۔ ایک زمانے میں اے ڈی گوروالا کی رائے دہلی میں اقتدار کے گلیاروں میں کافی مقبول تھی۔ ایمرجنسی کے دوران سنسر شپ کی وجہ سے پابندی عائد ہوئی تو اس کے سائکلو اسٹائل شائع ہونے لگ گئے تھے۔ آزادی کی لڑائی ہو یا پھرجمہوریت کی بحالی، صحافت کا ایک بہت اہم کردار رہا ہے۔ اس میں بھی گجراتی صحافت کا کرداراعلی درجے کا رہا ہے۔ ساتھیو، آزادی کے امرت میں بھی بھارتی زبانوں کا ایک اہم کردار رہنے والا ہے۔ جس زبان کو ہم جیتے ہیں، جس میں ہم سوچتے ہیں، اس کے ذریعے سے ہم قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتے ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں میڈیکل کی تعلیم ہو، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم ہو، وہ مقامی زبان میں کرانے کا متبادل دیا گیا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ بھارتی زبانوں میں دنیا کے بہترین مواد تیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ساتھیو، لسانی صحافت نے ، بھارتی زبانوں کے ادب نے آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ عام لوگوں تک اپنی باتوں کو پہنچانے کے لیے پوجیہ باپو نے بھی صحافت کو اہم ستون بنایا۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس نے ریڈیو کو اپنا ذرائع بنایا۔ ساتھیو، آج میں آپ سے ایک اور پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس اخبار کو فردون جی مرزبان نے شروع کیا تھا اور جب کوئی بحران آیا تو اسے کاما خاندان نے سنبھالا۔ اس خاندان نے اس اخبار کو نئی بلندی تک پہنچایا ۔ جس ہدف کے ساتھ اس کا آغاز کیا گیا تھا اس کو مضبوطی دی۔ ساتھیو، بھارت کی ہزاروں سال کی تاریخ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ یہاں جو بھی آیا، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، کمزور ہو یا مضبوط، سبھی کو ماں بھارتی نے اپنی گود میں پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع فراہم کیا اور پارسی برادری سے بہتر اس کی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ جو کبھی بھارت آئے تھے، آج وہ اپنے ملک کو ہر شعبے میں بااختیار بنا رہے ہیں۔ آزادی کی تحریک سے لے کر بھارت کے نو نرمان تک پارسی بہن –بھائیوں کا تعاون بہت بڑا ہے۔ تعداد کے لحاظ یہ برادری ملک کی سب سے چھوٹی آبادی میں سے ایک ہے،اس طرح سے مائیکرو مائنارٹی ہے، لیکن قابل برداشت اور خدمات کے لحاظ سے بہت بڑی ہے۔ بھارتی صنعت، سیاست، سماجی خدمت، عدلیہ، کھیل اور صحافت حتیٰ کہ فوج میں ہر شعبے میں پارسی برادری کی ایک چھاپ نظر آتی ہے۔ ساتھیو، یہ بھارت کی روایت ہے، یہی اقدار ہے، جو ہمیں بہترین بناتے ہیں۔ ساتھیو، جمہوریت میں چاہے وہ عوام کا نمائندہ ہو، سیاسی جماعت ہو، پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ، ہر جزو کا اپنا کردار ہوتا ہے، اس کا اپنا ایک متعین کردار ہوتا ہے۔ اس کردار کی مسلسل تکمیل بہت ضروری ہے۔ گجراتی میں ایک کہاوت ہے – जेनु काम तेनु थाय; बिज़ा करे तो गोता खाय یعنی جس کا جو کام ہے، اسی کو کرنا چاہئے۔ سیاست ہو، میڈیا ہو یا کوئی اور شعبہ، سبھی کے لئے یہ کہاوت موزوں ہے۔ اخبارات کا ، میڈیا کا کام خبریں پہنچانا ہے، تعلیم کو عام کرنا ہے، معاشرے اور حکومت میں اگر کچھ خامیاں ہیں تو ان کو سامنے لانا ہے۔ میڈیا کو تنقید کرنے کا جتنا حق ہے، اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مثبت خبروں کو سامنے لائے۔ گزشتہ برسوں میں میڈیا کے ایک بڑے حصے نے قومی مفاد، سماجی مفاد سے متعلق مہمات کو بڑھ چڑھ کر اپنایا، اس کا مثبت اثر آج ملک محسوس کر رہا ہے۔ سوچھ بھارت مہم سے اگر ملک کے گاؤں اورغریب کی زندگی، اس کی صحت بہتر ہو رہی ہے، تو اس میں میڈیا کے کچھ لوگوں نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، انہوں نے قابل ستائش کردار ادا کیا ہے۔ آج، بھارت اگر ڈیجیٹل ادائیگیوں کے معاملے میں دنیا میں آگے ہے، تو عوامی تعلیم کی جو مہم میڈیا نے چلائی ، اس سے ملک کی مدد ہوئی۔ آپ کو خوشی ہوگی،ڈیجیٹل لین دین دنیا کا 40 فیصد کاروبار اکیلا بھارت کرتا ہے۔ گزشتہ 2 برسوں میں کورونا وبا کے دوران جس طرح ہمارے صحافی ساتھیوں نے ملک کے مفاد میں ایک کرم یوگی کی طرح کام کیا، اس کو بھی ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ بھارت کے میڈیا کے مثبت تعاون سے بھارت کو 100 سال کے اس سب سے بڑے بحران سے نمٹنے میں کافی مدد کی۔ مجھے یقین ہے کہ آزادی کے امرت کال میں ملک کا میڈیا اپنے مثبت رول کو مزید وسعت دے گا۔ یہ ملک ڈیبیٹ اور ڈسکشن کے ذرائع سے آگے بڑھنے والی بھرپور روایت کا ملک ہے ۔ ہزاروں برسوں سے ہم نے صحت مند بحث، صحت مند تنقید کو، درست استدلال کو سماجی نظام کا حصہ بنایا ہے۔ ہم بہت مشکل سماجی موضوعات پر بھی کھل کر اور صحت مندانہ گفتگو کرتے ہیں۔ ہم بہت مشکل سماجی موضوعات پر کھلی اور صحت مندانہ گفتگو کرتے ہیں۔ یہ بھارت کا طرز عمل رہا ہے، جسے ہمیں تقویت بخشنا ہے۔ آج میں ممبئی سماچار کے مینیجرز، صحافیوں سے خصوصی طور پر درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے پاس 200 سال کا جو آرکائیو ہے، جس میں بھارت کی کی تاریخ کے کئی اہم ٹرننگ پوائنٹ درج ہیں، اسے ملک اور دنیا کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ممبئی سماچار، اپنے اس صحافت کے خزانے کو مختلف زبانوں میں کتابوں کی صورت میں، ضرور ملک کے سامنے لانے کی کوشش کرے۔ آپ نے مہاتما گاندھی کے بارے میں جو رپورٹ دی، سوامی وویکانند جی کو رپورٹ کیا، بھارت کی معیشت کے اتار چڑھاؤ کو تفصیل سے بیان کیا۔ یہ سب اب محض رپورٹیں نہیں ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جنہوں نے بھارت کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے آنے والی نسلوں کو ترغیب دینے کا بہت بڑا ذریعہ، بہت بڑا خزانہ کاما صاحب آپ کے پاس ہے اور ملک اس کا انتظار کررہا ہے۔مستقبل میں صحافت کے لئے بھی ایک بڑا سبق آپ کی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ اس سمت میں آپ سبھی ضرور کوشش کریں اور 200 سال پہلے بھی یہ سفر کتنا اتار چڑھاؤ والا ہوگا اور 200 سال تک مستقل چلنا، یہ بھی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ آپ سب نے مجھے اس اہم موقع پر بلایا، آپ سب کے بیچ میں آنے کا موقع ملا، اتنی بڑی کمیونٹی سے ملنے کا موقع ملا اور میں کبھی ایک بار یہاں ممبئی میں کسی ادب کے پروگرام میں آیا تھا، شاید ہمارے سورج بھائی دلال نے مجھے بلایا تھا۔ اس دن میں نے کہا تھا کہ ممبئی اور مہاراشٹر یہ گجرات کی زبان کا ننیہال ہے۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو ممبئی سماچار کے 200 سال ہونے کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ کاما خاندان آپ نے ملک کی بہت بڑی خدمت کی ہے، آپ کا پورا خاندان مبارکباد کا مستحق ہے اور میں ممبئی سماچار کے تمام قارئین کو بھی دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کاما صاحب نے جو کہا وہ صرف الفاظ نہیں تھے، 200 سال تک ، نسل در نسل ایک گھر میں ایک اخبار مستقل پڑھا جائے، دیکھا جائے، سنا جائے، یہ اپنے آپ میں ہی اس اخبار کی بہت بڑی طاقت ہے جی۔ اور اسے طاقت دینے والے آپ سب لوگ ہیں اور اس لئے میں گجراتیوں کی اس طاقت کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا ہوں، آج بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک شہر میں، میں بیرون ملک کی بات کر رہا ہوں، سب سے زیادہ سرکولیشن والا اخبار گجراتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گجراتی لوگ شاید جلدی سمجھ جاتے ہیں کہ کس چیز میں کہاں طاقت ہے۔ چلئے ہنسی –خوشی کی شام کے ساتھ بہت بہت شکریہ!,মুম্বাই সমাচাৰৰ দ্বিশতাব্দী মহোৎসৱত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%AC%DB%92-%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%B1-%D8%B4%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج وجے گھاٹ پر سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی کو ان کی جینتی پر گلہائے عقیدت نذر کئے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’وجے گھاٹ پر، لال بہادر شاستری جی کو خراج عقیدت پیش کیا، جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ میں انمٹ خدمات انجام دی ہیں ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,লাল বাহাদুৰ শাস্ত্ৰীৰ জয়ন্তীত বিজয় ঘাটত পুষ্পাঞ্জলি অৰ্পণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%AF%DB%81%D8%B4%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D8%B5%D9%88%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B8/,نئی دہلی، 15فروری 2019۔وزیراعظم جناب نریندرمودی نے کہا ہے کہ پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے قصورواروں کو سزا دی جائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ حملے کے قصورواروں اور دہشت گردوں کو مدد کرنے اور انہیں اُکسانے والوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور انہیں اس کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ وزیراعظم نے حفاظتی دستوں کو کارروائی کرنے کیلئے مکمل چھوٹ دینے کی بات کرتے ہوئے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس بھرم نہ رہے کہ وہ ہندوستان کو غیرمستحکم کرسکتا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بات نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے نئی دہلی اور وارانسی کے درمیان وندے بھارت ایکسپریس کو ہری جھنڈی دکھانے سے پہلے وہاں موجود لوگوں سے خطاب کے دوران کہی۔ اپنی تقریر کی شروعات میں پلوامہ میں دہشت گردانہ حملے کے بارے میں وزیراعظم کی تقریر کے کچھ حصے اس طرح ہیں: ‘‘سب سے پہلے میں پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے میں شہید جوانوں کو احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ملک کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردی ہیں۔ دکھ کی اس کی گھڑی میں میری اور ہر ہندوستانی کے جذبات ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ اس حملے کی وجہ سے ملک میں جتنا غم وغصہ ہ�� ، لوگوں کا خون کھول رہا ہے ، یہ میں بخوبی سمجھ پارہا ہوں۔ اس وقت جو ملک کی امیدیں ہیں، کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہے وہ فطری ہے۔ ہمارے حفاظتی دستوں کو مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔ ہمیں اپنے فوجیوں کی بہادری پر اُن کی شجاعت پر پورا بھروسہ ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ حب الوطنی کے رنگ میں رنگے لوگ صحیح معلومات بھی ہمارے یجنسیوں تک پہنچائیں گے تاکہ دہشت گردی کو کچلنے میں ہماری لڑائی اور تیز ہوسکے۔ میں دہشت گرد تنظیموں کو اور ان کے سرپرستوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بہت بڑی غلطی کرچکے ہیں، بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ میں ملک کو بھروسہ دیتا ہوں کہ حملے کے پیچھے جو طاقتیں ہیں ، اس حملے کے پیچھے جو بھی گنہگار ہیں ، انہیں ان کے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔ جو ہماری تنقید کررہے ہیں ، ان کے جذبات کی بھی میں عزت کرتا ہوں۔ ان کے جذبات کو میں بھی سمجھ پاتا ہوں اور تنقید کرنے کا ان کا پورا حق بھی ہے۔ لیکن میری سبھی ساتھیوں سے درخواست ہے کہ یہ وقت بہت حساس اور جذباتی پل ہے۔ اپوزیشن سمیت ہم سب کو سیاسی چھینٹا کشی سے دور رہنا چاہئے، اس حملے کا ملک متحد ہوکر مقابلہ کررہا ہے ، ملک ایک ساتھ ہے، ملک کی ایک ہی آواز ہے اور یہی دنیا میں سنائی دینا چاہئے کیوں کہ لڑائی ہم جیتنے کیلئے لڑرہے ہیں۔ پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑچکا ہمارا پڑوسی ملک اگر یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح کے وہ کام کررہا ہے ، جس طرح کی سازشیں وہ رچ رہا ہے، اس سے بھارت کو غیرمستحکم کرنے میں کام ہوجائے گا ، تو وہ خواب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دے۔ وہ بھی یہ نہیں کرپائے گا اور نہ کبھی یہ ہونے والا ہے۔ اس وقت بڑی اقتصادی بدحالی کے دور سے گزر رہے ہمارے پڑوسی ملک کو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ ایسی تباہی مچا کر ہندوستان کو بدحال کرسکتا ہے، اس کے منصوبے بھی کبھی پورے ہونے والے نہیں ہیں۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں وہ تباہی دیکھتے ہوئے چلے ہیں اور ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ترقی کرتا چلا جارہا ہے۔ 130 کروڑ ہندوستانی ایسی ہر سازش، ایسے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیگا۔ کئی بڑے ملکوں نے بہت ہی سخت الفاظ میں اس دہشت گردانہ حملے کی نکتہ چینی کی ہے اور ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی اور بھارت کو حمایت کرنے کا جذبہ ظاہر کیا ہے۔ 130 کروڑ ہندوستانی ایسے ہرسازش، ایسے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ میں ان سبھی اہل وطن کا احسان مند ہوں اور سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف سبھی انسانیت پسند طاقتوں کو ایک ہوکر لڑنا ہی ہوگا ، انسانیت پسند طاقتوں کومتحد ہوکر دہشت گردی کو شکست دینا ہی ہوگا۔ دہشت گردی سے لڑنے کیلئے جب سبھی ملک اتفاق رائے ، ایک سمت میں چلیں گے تو دہشت گردی کچھ پل سے زیادہ نہیں ٹک پائے گی۔ ساتھیو، پلوامہ حملے کے بعد ابھی ماحول دکھ کے ساتھ غصے سے بھرا ہوا ہے ۔ ایسے حملے کا ملک ڈٹ کر مقابلہ کرے گا۔ہمارے بہادر شہیدوں نے اپنی جانیں قربان کردی ہیں اور ملک کے لئے مرمٹنے والا ہر شہید دو خوابوں کیلئے زندگی گزارتا ہے۔ پہلا ، ملک کی حفاظت ، دوسرا ، ملک کی خوشحالی۔ میں سبھی بہادر شہیدوں کو ، ان کی روح کے سکون کو سلام کرتے ہوئے ، ان سے آشیرواد لیتے ہوئے، میں پھر ایک بار یقین دلاتا ہوں کہ جن دو خوابوں کو لیکر زندگیوں کو قربان کیا ہے ، ان خوابوں کو پورا کرنے کیلئے ہم زندگی کا پل پل لگا دیں گے۔ خوشحالی کے راستے کو بھی ہم اور زیادہ رفتار دیکر ، ترقی کے راستے کو اور زیادہ طاقت دیکر ہمارے ان بہادر شہیدوں کی روح کو سلام کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اسی سلسلے میں میں، وندے بھارت ایکسپریس کے نظریے او رڈیزائن سے لیکر اس کو زمین پر اتارنے والے ہر انجینئر ، ہر کامگار کیلئے احسان مند ہوں۔,ফুলৱামাত সংঘটিত সন্ত্ৰাসবাদীৰ আক্ৰমণ সন্দৰ্ভত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF-%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AE/,نئی دہلی۔ 26 جون وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے حکومت گجرات کے سابق وزیر جناب بھاگو بھائی پٹیل کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عوامی خدمات کے شعبہ میں جناب پٹیل کے تعاون کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا : ’’ میں گجرات کے سابق وزیر جناب بھاگو بھائی پٹیل کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں۔ عوامی خدمات میں ان کے تعاون کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی روح کو شانتی ملے اور سوگوار خاندان کے تئیں میری تعزیت۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,গুজৰাট চৰকাৰৰ প্ৰাক্তন মন্ত্ৰী ভাগুভাই পেটেলৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%AF-%D9%88-%D8%AC%DB%81%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%82%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%8D/,وزیر اعظم، جناب نریندر مودی نے کہا کہ ہمارے لوگوں کی جد و جہد اور قربانیوں کی یاد میں، 14 اگست کو تقسیم کے خوفناک یادگار دن کے طور پر منایا جائے گا۔ سلسلے وار ٹویٹس میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ”تقسیم کا درد کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہماری لاکھوں بہنیں اور بھائی بے گھر ہو گئے اور بہت سے لوگ ذہنی نفرت اور تشدد کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہمارے لوگوں کی جد و جہد اور قربانیوں کی یاد میں، 14 اگست کو تقسیم کے خوفناک یادگار دن کے طور پر منایا جائے گا۔ خدا کرنے کہ #تقسیم کی خوفناک یادگار کا دن ہمیں معاشرتی تقسیم، تفرقہ بازی کے زہر کو دور کرنے اور وحدت، سماجی ہم آہنگی اور انسانی عطائے اختیار کے جذبے کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت کی یاد دلاتا رہے۔“,আমাৰ দেশৰ জনসাধাৰণৰ সংগ্রাম আৰু আত্মত্যাগৰ স্মৃতিত ১৪ আগষ্টৰ দিনটো বিভাজন বিভীষিকা স্মৃতি দিৱস হিচাপে পালন কৰা হ’বঃ প্রধানমন্ত্র +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%8C-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86%DB%81-%D8%8C-%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B2-2/,نئی دہلی، 10 ستمبر / وزیر اعظم جناب نریندر مودی ، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ شیخ حسینہ ، مغربی بنگال کی کی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بنرجی اور تری پورہ کے وزیر اعلیٰ جناب بپلب کمار دیب نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مشترکہ طور پر بنگلہ دیش میں تین پروجیکٹوں کا افتتاح کیا ۔ وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج اور ب��گلہ دیش کے وزیر خارجہ بھی بالترتیب دلّی اور ڈھاکہ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ملے ۔ ان پروجیکٹوں میں ( الف ) بہرا مارا ( بنگلہ دیش ) – بہرام پور ( ہندوستان ) کے ذریعے ہندوستان سے بنگلہ دیش کو 500 میگا واٹ کی اضافہ بجلی کی فراہمی ، ( ب ) اکھوڑا – اگر تلہ ریل لنک ، ( ج ) بنگلہ دیش ریلوے کے کلورا – شاہباز پور سیکشن کو دوبارہ چالو کرنا ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہوں نے حالیہ دنوں میں کاٹھمنڈو میں منعقدہ بمسٹیک کانفرنس ، شانتی نکیتن میں اور لندن میں منعقدہ دولتِ مشترکہ سربراہ کانفرنس کے دوران بنگلہ دیش کی وزیر اعلیٰ محترمی شیخ حسینہ کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی ہیں ۔ اس موقع پر اپنے اِس خیال کو ایک بار پھر ظاہر کیا کہ پڑوسی ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان پڑوسیوں کی طرح رشتے ہونے چاہئیں اور پروٹوکول کی بندشوں کے بغیر ان کے بار بار دورے اور ملاقاتیں ہونی چاہئیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ قربت اُن کے اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے درمیان بار بار ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ شیخ حسینہ کے اس خواب کا ذکر کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اسی طرح رابطہ قائم ہونا چاہیئے ، جیسے یہ 1965 ء سے قبل تھا ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران اس سلسلے میں تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم نے اپنے بجلی رابطے میں اضافہ کیا ہے اور اپنے ریلوے کے رابطے کو بڑھانے سے متعلق دو پروجیکٹ شروع کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2015 ء میں اُن کے دورۂ بنگلہ دیش کے دوران بنگلہ دیش کو مزید 500 میگا واٹ بجلی کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے درمیان ترسیلی لنک کا استعمال کرتے ہوئے اِس فیصلے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بنرجی کا اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ، اُن کے تعاون کے لئے شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اِس پروجیکٹ کی تکمیل سے اب ہندوستان سے بنگلہ دیش کو 1.16 گیگا واٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ میگا واٹ سے گیگا واٹ تک کا ایک سفر ہے ، جو کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے رشتوں میں سنہرے عہد کی علامت ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اکھوڑا – اگرتلہ ریل رابطے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پار رابطے میں دوسرا لنک فراہم ہو گا ۔ اس موقع پر انہوں نے تری پورہ کے وزیر اعلیٰ جناب بپلب کمار دیب کا اِس کام کی تکمیل میں مدد کے لئے شکریہ ادا کیا ۔ وزیر اعظم مودی کو ، وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش کو 2021 ء تک مڈل انکم ملک بنانے اور 2041 ء تک ترقی یافتہ ملک بنانے کے اہداف کے بارے میں بتایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان قریبی رشتوں اور عوام سے عوام کے رشتوں سے ہماری ترقی اور خوشحالی نئی بلندیوں تک پہنچے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ش س ۔ ع ا ) ( 10 – 09 – 2018 ),"প্রধানমন্ত্রী মোদী, বাংলাদেশৰ প্রধানমন্ত্রী শ্বেইখ হাছিনা আৰু পশ্চিমবংগ আৰু ত্রিপুৰাৰ মুখ্যমন্ত্রীয়ে যুটীয়াভাৱে বাংলাদেশত শুভাৰম্ভ কৰিলে তিনিটা প্রকল্পৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D8%AA%D8%A7-%D8%AC%DB%8C-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B4-%DA%86%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%A8%D9%88%D8%B3-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%A8%DA%91%D8%A7-%D9%85%D8%AC%D8%B3%D9%85%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7-%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A7%B0-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کا ایک بڑا مجسمہ انڈیا گیٹ پر نصب کیا جائے گا۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کے بڑے مجسمے کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے وزیراعظم 23 جنوری 2022 کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر نیتاجی کے ہولوگرام مجسمہ کی نقاب کشائی کریں گے۔ اپنے سلسلہ وار ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ ؛ ‘‘ایسے وقت میں جب کہ پورا ملک نیتاجی سبھاش چندر بوس کا 125 واں یوم پیدائش منا رہا ہے، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ گرینائٹ سے بنا اُن کا مجسمہ انڈیا گیٹ پر نصب کیا جائے گا۔ یہ بھارت کے لئے ان کی قربانیوں کے تئیں خراج تحسین ہوگا۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کا بڑا مجسمہ بن کر تیار ہونے سے پہلے ان کا ایک ہولو گرام مجسمہ اسی جگہ پر پیش کیا جائے گا۔ میں نیتا جی کے یوم پیدائش پر، 23 جنوری کو اس ہولوگرام مجسمہ کی نقاب کشائی کروں گا’’۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح-ق ت – ق ر),নেতাজী সুভাষ চন্দ্ৰ বসুৰ বিশাল মূৰ্তি ইণ্ডিয়া গেটত স্থাপন কৰা হ’ব বুলি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔10 مارچ، 2018 ؛ مونامی مسیو – ل پریسندو میخواں، معزز وفد کے ارکان، میڈیا، نمسکار۔ میں صدر میخواں کا، اور ان کے ساتھ آئے وفود کا، ہندوستان میں گرم جوشی کے ساتھ استقبال کرتا ہوں۔ صدر جی، کچھ مہینے قبل گزشتہ سال آپ نے پیرس میں کھلے دل سے اور گلے مل کر بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کیا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آج مجھے ہندوستان کی سرزمین پر آپ کا استقبال کرنے کا موقع ملا۔ صدر محترم، آپ اور میں یہاں ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم صرف دو طاقتور آزاد ممالک اور دو متنوع جمہوریت پسندوں کے ہی رہنما نہیں ہیں ہم دو وسیع اور دو بہتر اور قابل وراثتوں کے جانشیں بھی ہیں۔ ہماری اسٹریٹیجک شراکت داری بھلے ہی 20 سال پرانی ہو، ہمارے ملک اور ہماری ثقافت کی روحانی شراکتداری صدیوں طویل ہے۔ 18ویں صدی سے لے کر آج تک، پنچ تنتر کی کہانیوں کے ذریعے ، وید، اُپ نشد، مہاکاویوں شری رام کرشن اور سری اربند جیسے عظیم شخصیتوں کے ذریعے ، فرانسیسی تجزیہ کاروں نے ہندوستان کی روح میں جھانک کر دیکھا ہے۔ وولتے، وکٹر ہیوگو، روما رولاں، رینے دومال، آندرے ملرو جیسے بہت سے زمانہ سازوں نے ہندوستان کے فلسفے میں اپنی نظریات کا مستقل اور ترغیب دینے والا پایا ہے۔ صدر محترم، آج ہماری یہ ملاقات صرف دو ملکوں کے لیڈروں کی ملاقات ہی نہیں، دو یکساں خیالات والی ثقافتوں اور ان کی سبھی ورثہ کا ملن ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ آزادی، مساوات، برادری – کی آواز فرانس میں ہی نہیں ، ہندوستان کے آئین میں بھی درج ہیں۔ ہمارے دونوں ملکوں کے سماج ان قدروں کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ ان قدروں کے لیے ہمارے بہادر فوجی نے دو عالمی جنگ میں اپنی قربانیاں دی ہیں۔ دوستوں، فرانس اور ہند��ستان کی ایک پلیٹ فارم پر موجود ایک شامل شدہ، کھلے ، اور طاقتور و پرامن عالم کے لیے سنہرا اشارہ ہے۔ ہمارے دونوں ملکوں کی خودمختار اور آزاد بیرونی پالیسیاں صرف اپنے اپنے مفاد پر ہی نہیں، اپنے ہم وطنوں کے مفات پر ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے انسانی اقدار کو یکجا کرنے پر بھی مرکوز ہے۔ اور آج، عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اگر کوئی دو ملک کندھے سے کندھا ملا کر چل سکتے ہیں، تو وہ ہیں ہندوستان اور فرانس، صدر محترم، آپ کی رہنمائی نے یہ ذمہ داری آسان کر دی ہے۔ جب 2015 میں انٹرنیشنل شمسی اتحاد کا آغاز ہوا تھا ، تو پیرس میں فرانس کے صدر محترم کے ساتھ ہوا تھا۔ کل انٹرنیشنل سولر الائنس فاؤنڈنگ کانفرنس کا انعقاد مشترکہ طور پر ذمہ داریوں کے تئیں ہماری کارکردگی ، بیداری کا جیتی جاگتی مثال ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ اچھا کام فرانس کے صدر محترم کے ساتھ ہی ہوگا۔ دوستوں، دفاع، تحفظ ، خلاء اور اعلیٰ ٹکنالوجی نے ہندوستان اور فرانس کے دوطرفہ تعاون کی تاریخ بہت طویل ہے۔ دونوں ممالک میں دوطرفہ رشتوں کے بارے میں باہمی رضامندی ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو، ہمارے تعلقات کا گراف صرف اور صرف اوپر ہی جاتا ہے۔ آج کی ہماری بات چیت میں جو بھی فیصلہ لیے گئے، ان کا ایک تعارف آپ کو ابھی ہوئے مفاہمت ناموں میں مل گیا ہے۔ اور اس لیے، میں صرف تین خصوصی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہوں گا۔ پہلا، دفاعی شعبے میں ہمارے تعلقات بہت گہرے ہیں، اور ہم فرانس کو سب سے پراعتماد دفای شراکتداروں میں ایک مانتے ہیں۔ ہماری فوجوں کے سبھی حصوں کے درمیان صلاح و مشورہ اور جنگی مشقوں کا مسلسل طور پر منعقد ہوتا ہے۔ دفاعی آلات اور پروڈکشن میں ہمارے تعلقات مضبوط ہیں۔ دفاعی شعبوں میں فرانس کے ذریعے میک ان انڈیا کے کمٹمنٹ کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ آج ہمارے افواج کے درمیان باہمی لاجسٹک کی حمایت کے معاہدے کو میں ہمارے اہم دفاعی تعاون کی تاریخ میں ایک بہترین قدم مانتا ہوں، دوسرا، ہم دونوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں دنیا میں امن، ترقی اور وسعت کے لیے ہندوستانی بحر ہند شعبے کی بہت اہم رول ہونے والی ہے۔ چاہے ماحولیات ہو، یا سمندری تحفظ، یا سمندری وسائل، یا نیویگیشن اور اوور فلائٹ کی آزادی، ان سبھی موضوعات پر ہم اپنا تعاون مضبوط کرنے کے لیے بندھے ہوئے ہیں۔ اور اس لیے، آج ہم بحر ہند کے شعبے میں اپنے تعاون کے لیے ایک مشترکہ اسٹریٹیجک ویژن جاری کر رہےہیں۔ اور تیسرا، ہم قبول کرتے ہیں کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کے روشن مشتقبل کے لیے سب سے اہم آیام ہے ہمارے لوگوں سے لوگوں کے تعلقات۔ خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کے درمیان۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان ایک دوسرے کے ملک کو جانیں، ایک دوسرے کے ملک کو دیکھیں، سمجھیں، وہاں رہیں، وہاں کام کریں، تاکہ ہمارے تعلقات کے لیے ہزاروں سفیر تیار ہوں۔ اور اس لیے، آج ہم نے دو اہم سمجھوتے کہے ہیں، ایک سمجھوتہ ایک دوسرے کی تعلیم کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنا ہے،اور دوسرا ہماری منتقلی اور متحرک شراکت داری کا ہے۔ یہ دونوں سمجھوتے ہمارے ہم وطنوں کے، ہمارے نوجوانوں کے درمیان قریبی تعلقات کا فریم ورک تیار کریں گے۔ دوستوں، ہمارے تعلقات کے دیگر کئی آیام ہیں، سبھی کا ذکر کروں گا تو شام ہو جائے گی۔ ریلوے، شہری ترقی، ماحولیات، تحفظ ، خلاء، یعنی زمین سے آسمان تک، ایسا کوئی موضوع نہیں ہے جس پر ہم ساتھ مل کر کام نہ کر رہے ہوں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ہم تعاون اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ افریقی ممالک سے ہندوستان اور فرانس کے مضبوط تعلقات رہے ہیں۔ یہ ہمارے تعاون کا ایک اور آیام کو تیار کرنے کا مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ کل انٹرنیشنل سولر الائنس کی فاؤنڈنگ کانفرنس کی صدارت صدر میخوں اور میں مشترکہ طور پر کریں گے۔ ہمارے ساتھ کئی دیگر ممالک کے ریاست کے سربراہ، حکومت اور وزراء کی کامیابی کے لیے عہد بستہ ہیں۔ صدر محترم، میں امید ہے کہ پرسوں وارانسی میں آپ کو ہندوستان کی اس قدیمی اور ساتھ ہی ابدی روح کا احساس ہوگا جس کی لچکداریت نے ہندوستان کی روایت کی آبپاشی کی ہے۔ اور جس نے فرانس کے کئی فلسفیوں، مصنفین اور فنکاروں کو راغب بھی کیا ہے۔ آنے والے دو دنوں میں صدر میخوں اور میں تبادلہ خیال جاری رکھیں گے۔ میں ایک بار پھر صدر میخوں کا، اور ان کے وفود کا ہندوستان میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ ی یو ریمرسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,"ফ্রান্সৰ ৰাষ্ট্রপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণকালত প্রধানমন্ত্রীৰ প্রেছ বিবৃতি (১০ মার্চ, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%DB%8C%D8%B1%D8%AC-%DA%86%D9%88%D9%BE%DA%91%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%9A%E0%A7%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نیرج چوپڑہ کو، مردوں کے نیزہ پھینکنے کی عالمی چمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کےایک ٹوئیٹ کے جواب میں وزیراعظم نے کہا: ’’ہمارے نامورایتھلیٹوں میں سے ایک کا ایک عظیم کارنامہ! #عالمی چمپئن شپ میں تاریخی چاندی کا تمغہ جیتنے پر @نیرج چوپڑہ کو مبارکباد۔یہ بھارتی کھیل کود کے لئے ایک خصوصی لمحہ ہے ۔ نیرج کو ان کی آئندہ کوششوں کے لئے نیک خواہشات۔‘‘,পুৰুষৰ জেভেলিনৰ বিশ্ব চেম্পিয়নশ্বিপত ৰূপৰ পদক জয় কৰা নীৰজ চোপ্ৰাক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-38/,نئی دہلی، 15/مارچ 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج آپریشن گنگا میں شامل حصص داروں کے ساتھ بات چیت کی۔ آپریشن گنگا نے کامیابی سے تقریباً 23000 بھارتی شہریوں کے ساتھ ساتھ 18 ممالک سے تعلق رکھنے والے 147 غیر ملکی شہریوں کو یوکرین سے نکالنے کا کام کیا ۔ بات چیت کے دوران، یوکرین، پولینڈ، سلوواکیہ، رومانیہ اور ہنگری میں بھارتی کمیونٹی اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں نے آپریشن گنگا کا حصہ بننے کے اپنے تجربات اور انہیں درپیش چیلنجوں کو بیان کیا اور اس پیچیدہ انسانی آپریشن میں تعاون کرنے پر اپنے اطمینان اور اعزاز کے احساس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے آپریشن کی کامیابی کے لیے انتھک محنت کرنے والے بھارتی کمیونٹی لیڈروں، رضاکار گروپوں، کمپنیوں، نجی افراد اور سرکاری اہلکاروں کی زبردست تعریف کی ۔انہوں نے آپریشن کی کامیابی کیلئے حب الوطنی کے جذبے، کمیونٹی سروس کے جذبے اور آپریشن گنگا میں شامل تمام حصص داروں کی طرف سے د کھائی گئی ٹیم اسپرٹ کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے خاص طور پر متعدد کمیونٹی تنظیموں کی ستائش کی ۔انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ ان کی بے لوث خدمات جنہیں وہ غیر ملکی ساحلوں میں بھی مجسم بنا رہے ہیں، بھارت کی تہذیبی قدروں کی نظیر پیش کرتی ہیں۔ بحران کے دوران بھارتی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے کی گئی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے یوکرین اور اس کے پڑوسی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی ذاتی بات چیت کو یاد کیا اور تمام غیر ملکی حکومتوں سے ملنے والے تعاون کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس اعلی ترجیح کا اعادہ کرتے ہوئے جو حکومت بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی حفاظت کو دیتی ہے، وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ بھارت نے ہمیشہ کسی بھی بین الاقوامی بحران کے دوران اپنے شہریوں کی مدد کے لئے پوری تندہی سے کام کیا ہے۔ بھارت کے پرانے فلسفے وسو دھیو کٹمبکم کی رہنمائی میں، بھارت نے ہنگامی حالات کے دوران دوسرے ممالک کے شہریوں کو انسانی امداد بھی فراہم کی ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে ইউক্ৰেইনৰ পৰা ভাৰতীয়সকলক স্থানান্তৰ কৰাৰ বাবে আৰম্ভ কৰা অপাৰেচন গংগাত জড়িত অংশীদাৰসকলক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%DB%8C%D8%AA%D9%86%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,نئیدہلی۔04 مارچ، 2018 ؛صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند کی دعوت پر سوشلسٹ جمہوریہ ویتنام اور ان کی اہلیہ نے 02 مارچ سے 04 مارچ ، 2018 تک ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا۔ ویتنام کے صدر کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی تھا جس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب فام بینہ مینہ، بہت سی وزارتوں اور ریاستوں کے لیڈران اور ایک بڑا تجارتی وفد شامل تھا۔ دورۂ ہندوستان کے دوران ویتنام کے صدر ٹران دائی کوانگ کا صدر جمہوریہ ہند نے خیر مقدم کیا اور راشٹرپتی بھون میں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ویتنام کے صدر نے راج گھاٹ میں مہاتما گاندھی میموریل پر گلہائے عقیدت پیش کیا اور گفت و شنید کی اور صدر جمہوریہ ہند کی طرف سے ضیافت میں شرکت کی۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ساتھ وفد سطح کی بات چیت کی گئی۔ ویتنام کے صدر ٹران دائی کوانگ نے لوک سبھا کی اسپیکر محترمہ سمترا مہاجن اور وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج کا خیرمقدم کیا اور دیگر کئی وزراء سے ملاقات کی۔ انہوں نے ویتنام – ہند بزنس فورم سے بھی خطاب کیا اور ہندوستانی صنعت و تجارت کے متعدد سرکردہ لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی۔ اس سے پہلے انہوں نے گیا کا دورہ کیا۔ ویتنام اور ہندوستان کے مابین دوستانہ ماحول میں بات چیت ہوئی یہ بات چیت وزیراعظم نریندر مودی کے سال 2016 میں دورۂ ویتنام کی کامیابی کے بعد دونوں ممالک کے گہرے ہوتے تعلقات اور کثیر جہتی روابط کی عکاس ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان اور ویتنام کے درمیان جامع حکمتی شراکت کی بھی ترجمان ہے۔ بات چیت کے بعد ٹران دائی کوانگ اور وزیراعظم نریندر مودی نے نیوکلیائی توانائی ، تجارت اور ماہی گیری وغیرہ سے متعلق سمجھوتے کے تبادلے کے گواہ بنے ۔ ویتنام کے ساتھ ٹران دائی کوانگ نے معاشی اور سماجی ترقی ، سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق حصولیابی اور عوام کے معیار ��ندگی بہتر بنانے کے لیے ہندوستان کی ستائش کی۔ انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے رول کو حمایت دینے کی خواہش ظاہر کی۔ صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی نے سماجی اور معاشی ترقی کے لیے ویتنام کو مبارکباد پیش کی اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ویتنام جلد ہی صنعتی ملک بننے کا مقصد حاصل کر لے گا اور خطے اور دنیا میں اس کا اہم رول اور درجہ ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,"ভিয়েটনামৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণকালত ভাৰত-ভিয়েটনামৰ যুটীয়া প্ৰেছ বিবৃতি(৩ মাৰ্চ, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%88%D8%B1%D8%AA-%D8%AA%D8%B1%D9%86%DA%AF%D8%A7-%DB%8C%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE-%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,آپ سب کو آزادی کے امرت مہوتسو کی بہت بہت مبارکباد۔ اب سے چند روز بعد ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے اور ہم سب اس تاریخی یوم آزادی کی بھرپور تیاری بھی کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہر کونے میں ترنگا ہی ترنگا چھایا ہوا ہے۔ گجرات کا کوئی گونا ایسا نہیں ہے جو امنگ سے بھرا ہوا نہ ہو اور سورت نے اس میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ آج پورے ملک کی توجہ سورت پر ہے۔ سورت کی ترنگا یاترا سے ایک طرح سے چھوٹا ہندوستان نظر آرہا ہے یا شاید ہی ہندوستان کا کوئی کونا ایسا ہو گا جس کے لوگ سورت میں نہ رہتے ہوں اور آج ایک طرح سے پورا ہندوستان سورت کی سرزمین پر ترنگا یاترا میں شامل ہواہے اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ اس میں شامل ہے۔ ترنگے میں جوڑنے کی کتنی طاقت ہے یہ آج سورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ سورت نے اپنےبیوپار۔ کاروبار، اپنی صنعتوں کی وجہ سے دنیا میں ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ سورت میں آج ہونے والی ترنگا یاترا دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنے گی۔ ساتھیو، آپ نے ترنگا یاترا میں بھارت ماتا کی جھانکی کے ساتھ ساتھ ملک کی ثقافت اور شناخت سے متعلق جھانکیوں بھی شامل کیا ہے۔ خاص طور پر بیٹیوں کے ذریعہ شجاعت کے مظاہرے اور نوجوانوں کی شراکت داری ہے وہ واقعی۔ واقعی حیرت انگیز ہے۔ سورت کے لوگوں نے ہماری جنگی آزادی کے جذبے کو ترنگا یاترا میں زندہ کردیا ہے۔ کوئی کپڑے بیچنے والا ہے، کوئی دکاندار ہے، کوئی کرگھے کا کاریگر ہے، کوئی سلائی یا امبرائڈری کا کاریگر ہے، کوئی ٹرانس]ورٹیشن سے وابستہ ہے، کوئی ہیرے اور جواہرات سے وابستہ ہے۔ سورت کی پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری، سورت کے لوگوں نے اس تقریب کو بہت شاندار بنادیا ہے۔ ہر گھر ترنگا مہم میں اس عوامی شراکت داری کے لئے اور اس خصوصی ترنگا یاترا کے لیے میں آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں خاص طور پر، سانور پرساد بدھیا جی، اور ’ساکیت – سیوا ہی لکشیہ‘ گروپ سے وابستہ تمام رضاکاروں کی تعریف کرتا ہوں جنہوں نے یہ پہل شروع کی۔ پارلیمنٹ میں میرے ساتھی سی آر پاٹل جی کا تعاون اس اقدام کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ ساتھیو، ہمارا قومی پرچم اپنے آپ میں ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، ملکی کھادی اور ہماری خود کفیلی کی ایک علامت رہا ہے۔ اس شعبے میں سورت نے ہمیشہ خود کفیل ہندوستان کے لئے بنیاد تیار کی ہے۔ سورت کی ٹیکسٹائل کی انڈسٹری نے ہندوستان کے صنعت کے جذبے کی ، ہندوستان کے اسکل اور ہندوستان کی خوشحالی کی نمائندگی کی ہے۔ اس لیے یہ ترنگا یاترا اپنے آپ اس شان اور تحریک کو بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ ساتھیو، ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں گجرات نے شاندار تعاوم کا اپنا ایک الگ ہی سنہری باب تحریر کیا ہے۔ گجرات نے باپو کی شکل میں جنگ آزادی کو قیادت فراہم کرائی۔ گجرات نے مرد آہن سردار پٹیل جی جیسے ہیرو دیئے جنہوں نے آزادی کے بعد ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی بنیاد رکھی۔ بارڈولی تحریک اور ڈانڈی یاترا سے نکلنے والے پیغام نے پورے ملک کو متحد کر دیا۔ گجرات کے اس شاندار ماضی کا ایک لازمی حصہ ہمارا سورت ہے اور اس کی وراثت ہے۔ ساتھیو، ہندوستان کا ترنگا محض تین رنگوں کو ہی اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے نہیں ہے۔ ہمارا ترنگا ہمارے ماضی کی شان و شوکت کاہمارے حال کی فرض شناسی کا اور مستقبل کے خوابوں کا بھی عکاس ہے۔ ہمارا ترنگا ہندوستان کے اتحاد، ہندوستان کی سالمیت اور ہندوستان کے تنوع کی بھی ایک علامت ہے۔ ہمارے مجاہدین آزادی نے ترنگے میں ملک کا مستقبل دیکھا، ملک کے خوابوں کو دیکھا اور اسے کبھی جھکنے نہیں دیا۔ آج آزادی کے 75 سال بعد، جب ہم ایک نئے ہندوستان کا سفر شروع کر رہے ہیں، تو ترنگا ایک بار پھر ہندوستان کے یکجہتی اور شعور کی نمائندگی کر رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک بھر میں منعقد ہونے والی ترنگا یاترا میں، ہر گھر ترنگا مہم میں ملک کی وہ طاقت اور عقیدت ایک ساتھ جھلک رہی ہے۔ 13 اگست سے 15 اگست کے درمیان ہندوستان کے ہر گھر میں ہوگا ، ہندوستان کے ہر گھر میں لہرائے گاترنگا ۔ سماج کے ہر طبقے، ہر ذات، عقیدہ، مسلک کے لوگ اپنے آپ ایک ایسے جذبے کے ساتھ ، اتحاد کی شناخت کے ساتھ، نئے خوابوں اور عزائم کے ساتھ پورا ملک جڑ رہا ہے۔ یہ پہچان ہے ہندوستان کے فرض شناس شہری کی ۔ یہ پہچان ہے ماں بھارتی کی سنتان کی۔ خواتین و مرد، نوجوان، بزرگ، جو جس رول ہے ہے ، اس مہم میں اپنا تعاون دے رہاہے، اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ مجھے اطمینان ہے کہ ہر گھر ترنگا مہم کی وجہ سے کتنے ہی غریبوں کی ، بُنکر اور ہینڈلوم ورکرز کی اضافی آمدنی بھی ہو رہی ہے۔ اس طرح کی تقریبات آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے عزائم کو ایک نئی توانائی بخشیں گی۔ عوامی شراکت کی یہ مہمات نئے ہندوستان کی بنیاد کو مضبوط کریں گی۔ اسی یقین کے ساتھ، میں آپ سب کو، گجرات کو، پورے ملک کو اور خاص طور پر میرے سورت کے لوگوں کو بہت بہت نیک خواہشات، اور سورتایک بار جو ٹھان لےتا ہے تو کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہے۔ یہ سورت کی خاصیت ہے، جس طرح سے سورت آگے بڑھ رہا ہے، جس طرح سے سورت ترقی کی نئی بلندیاں پار کر رہا ہے، اس کی بنیاد میں یہ میرے سورت کے لوگ ہیں، یہ میرے سورت کے بھائی بہن ہیں، آج یہ ترنگا یاترا کا حیرت انگیز منظر ملک کو بھی تحریک دے گا ۔ میری آپ سبھی کو بہت بہت نک خواہشات۔ شکریہ! وزیراعظم کے پیغام کا کچھ حصہ گجراتی زبان میں بھی ہے، جس کے مفہوم کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,সূৰত ত্ৰিৰংগা যাত্ৰাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মন্তব্যৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%DA%88%D9%88%D8%AF%D8%B1%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B7%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%B3%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%86%D9%B9-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%A6%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A3-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,گجرات کے گورنر، آچاریہ دیوورت جی، گجرات کے مقبول وزیر اعلی بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، ملک کے وزیر دفاع، جناب راجناتھ سنگھ، جنا�� جیوترادتیہ سندھیا، ٹاٹا سنز کے چیئرمین، ایئربس انٹرنیشنل کے چیف کمرشل آفیسر، دفاع اور ہوابازی کے شعبوں کی صنعتوں سے وابستہ سبھی ساتھیوں، خواتین و حضرات! نمسکار! اپنے یہاں گجرات میں تو دیوالی دیو دیوالی تک جاری رہتی ہے اور دیوالی کے اس تہوار کے دوران وڈودرا کو ،گجرات کو، ملک کو ایک انمول تحفہ ملا ہے۔ گجرات کے لیے تو نیا سال ہے، میں بھی نئے سال میں پہلی بار گجرات آیا ہوں۔ آپ سب کو نیا سال بہت بہت مبارک ہو۔ آج ہم ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ ہب بنانے کی طرف ایک بڑا قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہندوستان آج اپنا لڑاکا طیارہ بنا رہا ہے۔ آج ہندوستان اپنا ٹینک بنا رہا ہے، اپنی آبدوز بنا رہا ہے۔ اور یہی نہیں، ہندوستان میں بنی دوائیں اور ویکسین بھی آج دنیا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچا رہی ہیں۔ ہندوستان میں بنے الیکٹرانک گیجٹس، ہندوستان میں بنے موبائل فون، ہندوستان میں بنی کاریں، آج کئی ممالک میں چھائے ہوئے ہیں۔ میک ان انڈیا، میک فار دی گلوب ، اس منتر پر آگے بڑھتا رہا بھارت آج اپنی صلاحیت کو بڑھا رہا ہے۔ اب ہندوستان بھی ٹرانسپورٹ طیاروں کا بڑا مینوفیکچرر بن جائے گا۔ آج بھارت میں اس کی شروعات ہو رہی ہے۔ اور میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب دنیا کے سب سے بڑے مسافر طیارے بھی ہندوستان میں بنیں گے اور ان پر بھی لکھا ہوگا – میک ان انڈیا۔ ساتھیوں، آج وڈودرا میں جس مرکزکا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ملک کے دفاع اور ایرو اسپیس سیکٹر کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہندوستان کے دفاعی ایرو اسپیس سیکٹر میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ یہاں بنائے جانے والے ٹرانسپورٹ طیارے نہ صرف ہماری فوج کو طاقت دیں گے بلکہ یہ طیاروں کی تیاری کے لیے ایک نیا ماحولیاتی نظام بھی تیار کرے گا۔ تعلیم اور ثقافت کے مرکز کے طور پر مشہور، یہ ہمارا وڈودرا اب ہوا بازی کے شعبے کے مرکز کے طور پر ایک نئی شناخت لے کر دنیا کے سامنے اپنا سر بلند کرے گا۔ اگرچہ ہندوستان پہلے ہی کئی ممالک کو چھوٹے پرزے، طیاروں کے پرزے برآمد کرتا رہا ہے لیکن اب ملک میں پہلی بار ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے بننے جا رہے ہیں۔ میں اس کے لیے ٹاٹا گروپ اور ایئربس ڈیفنس کمپنی کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے 100 سے زیادہ ایم ایس ایم ای بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہوں گے۔ مستقبل میں یہاں سے دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایکسپورٹ آرڈر لیے جا سکتے ہیں۔ یعنی میک ان انڈیا، میک فار دی گلوب کا عزم بھی اس دھرتی سے مزید مضبوط ہونے والا ہے۔ ساتھیوں، آج ہندوستان میں، دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ہوا بازی کا شعبہ ہے۔ ہم ہوائی ٹریفک کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ تین ممالک میں پہنچنے والے ہیں۔ اگلے 4-5 سالوں میں کروڑوں نئے مسافر ہوائی سفر کرنے والے ہیں۔ فلائٹ پلاننگ بھی اس میں بہت مدد کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آنے والے 10-15 سالوں میں ہندوستان کو تقریباً 2000 مزید مسافر اور کارگو طیاروں کی ضرورت ہوگی۔ اکیلے بھارت کو 2000 طیاروں کی ضرورت ہے، یہ بتاتا ہے کہ ترقی کتنی تیزی سے ہونے والی ہے۔ بھارت پہلے ہی اس بڑی مانگ کو پورا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آج کا واقعہ بھی اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ ساتھیوں، آج کے اس واقعہ میں دنیا کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ آج ہندوستان دنیا کے سامنے ایک سنہری موقع لے کر آیا ہے۔ کورونا اور جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے باوجود ،سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باوجود ہندوستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ترقی کی رفتار برقرار ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوا۔ آج ہندوستان میں آپریٹنگ حالات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔ آج ہندوستان میں قیمت کی مسابقت پر زور ہے، معیار پربھی ہے۔ آج ہندوستان کم لاگت والی مینوفیکچرنگ اور زیادہ پیداوار کا موقع دے رہا ہے۔ آج ہندوستان کے پاس ہنر مند افرادی قوت کا ایک بہت بڑا ٹیلنٹڈ پول ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں ہماری حکومت کی طرف سے کی گئی اصلاحات نے ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کا بے مثال ماحول پیدا کیا ہے۔ ہندوستان نے کبھی بھی کاروبار کرنے میں آسانی پر اتنا زور نہیں دیا جتنا آج ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنانا ہو ، اسے عالمی سطح پر مسابقتی بنانا ہو ، کئی شعبوں میں خود کار طریقے سے 100فیصد ایف ڈی آئی کے لیے راستہ کھولنا ہو ، دفاع، کان کنی، خلا جیسے شعبوں کو نجی کمپنیوں کے لیے کھولنا ہو ، مزدور اصلاحات کرنی ہو ، 29 مرکزی لیبر قوانینکو صرف 4 کوڈز میں بدلنا ہو ، 33 ہزار سے زائد کمپلائنس کو ختم کرنا ہو ، درجنوں ٹیکسوں کا جال ختم کرکے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس بنانا ہو ، ہندوستان میں آج معاشی اصلاحات کی نئی داستان لکھی جا رہی ہے۔ ہمارے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ان اصلاحات کا بڑا فائدہ مل رہا ہے، اور دیگر شعبے تو یہ فایدہ اٹھا ہی رہے ہیں ۔ اور ساتھیوں، اس کامیابی کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ ہے، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ سب سے بڑی وجہ ہے اور وہ ہے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی، ذہنیت میں تبدیلی۔ ایک عرصے سے یہاں حکومتیں اسی ذہنیت کے ساتھ چل رہی ہیں کہ حکومت سب کچھ جانتی ہے، سب کچھ حکومت کو کرنا چاہیے۔ اس ذہنیت نے ملک کے ٹیلنٹ کو دبایا، ہندوستان کے نجی شعبے کو بڑھنے نہیں دیا۔ سبکا پریاس کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، ملک نے اب سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کو یکساں جذبے کے ساتھ دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ساتھیوں، پہلے کی حکومتوں میں ذہنیت ایسی تھی کہ مسائل سے گریز کیا جائے، مینوفیکچرنگ سیکٹر کو کچھ سبسڈی دے کر زندہ رکھا جائے۔ اس سوچ نے ہندوستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ جس کی وجہ سے نہ تو اس سے پہلے کوئی ٹھوس پالیسی بنائی گئی اور نہ ہی لاجسٹک، بجلی کی فراہمی پانی کی فراہمی جیسی ضروریات کو نظر انداز کیا گیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا، یہ میرے ملک کی نوجوان نسل بخوبی جان سکتی ہے۔ اب آج کا ہندوستان ایک نئی ذہنیت، ایک نئے ورک کلچر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ہم نے خود فیصلے کرنے کا طریقہ ترک کر دیا ہے اور سرمایہ کاروں کے لیے ،ترقی کے لیے مختلف مراعات لے کر آئے ہیں۔ ہم نے پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو اسکیم شروع کی، جس سے تبدیلی نظر آنے لگی ۔ آج ہماری پالیسی مستحکم، قابل پیشین گوئی اور مستقبل رخی ہے۔ ہم پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان اور قومی لاجسٹک پالیسیوں کے ذریعے ملک کے لاجسٹک نظام کو بہتر کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، اس سے پہلے ایک ذہنیت یہ بھی تھی کہ ہندوستان مینوفیکچرنگ میں بہتر کام نہیں کر سکتا، اس لیے اسے صرف سروس سیکٹر پر توجہ دینی چاہیے۔ آج ہم سروس سیکٹر کو بھی تیار کر رہے ہیں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کو خوشحال بنا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آج دنیا کا کوئی بھی ملک صرف سروس سیکٹر یا مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترقی دے کر ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں ترقی کا ایک جامع انداز اپنانا ہوگا۔ اور آج کا نیا ہندوستان اعتماد کے ساتھ اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ پہلے کی سوچ میں ایک اور غلطی تھی۔ ذہنیت یہ تھی کہ ہمارے پاس ہنر مند افرادی ق��ت کی کمی ہے، ملک کی ہنر پر اعتماد کا فقدان تھا ، ملک کے ٹیلنٹ پر اعتماد کا فقدان تھا اور اس لیے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی طرف ایک طرح کی بے حسی رہی ، اس پر کم توجہ دی گئی۔ لیکن آج بھارت بھی مینوفیکچرنگ میں سب سے آگے ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ سیمی کنڈکٹر سے لے کر ہوائی جہاز تک، ہم ہر طبقے میں سب سے آگے رہنے کے ارادے سے ترقی کر رہے ہیں۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے مہارت کی ترقی پر توجہ مرکوز کی اور اس کے لیے ایک ماحول بنایا۔ ان تمام تبدیلیوں کو سمیٹتے ہوئے آج مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ہندوستان کی ترقی کا سفر اس مرحلے پر پہنچ گیا ہے۔ ساتھیوں، ہماری حکومت کی سرمایہ کاری دوست پالیسیوں کے ثمرات ایف ڈی آئی میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں میں 160 سے زیادہ ممالک کی کمپنیوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ بیرونی سرمایہ کاری صرف کچھ صنعتوں میں آئی ہے۔ اس کا پھیلاؤ معیشت کے 60 سے زیادہ شعبوں پر محیط ہے، سرمایہ کاری 31 ریاستوں میں پہنچ چکی ہے۔ صرف ایرو اسپیس سیکٹر میں 3 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ سال 2000 سے 2014 تک اس شعبے میں سرمایہ کاری ہوئی ہے، یعنی 14 سالوں کے مقابلے ان آٹھ سالوں میں پانچ گنا زیادہ سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ آنے والے سالوں میں دفاع اور ایرو اسپیس کے شعبے اؤتم نربھر بھارت مہم کے بڑے ستون بننے جا رہے ہیں۔ ہمارا مقصد 2025 تک اپنی دفاعی پیداوار کو 25 بلین ڈالر سے زیادہ کرنا ہے۔ ہماری دفاعی برآمدات بھی 5 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی۔ اتر پردیش اور تمل ناڈو میں تیار کی جانے والی دفاعی راہداری اس شعبے کو بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ ویسے آج میں ملک کی وزارت دفاع کی تعریف کرتا ہوں اور حکومت گجرات کی بھی تعریف کرتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دن پہلے اس نے گاندھی نگر میں ایک بہت ہی شاندار ڈیف ایکسپو کا اہتمام کیا تھا۔ دفاع سے متعلق تمام آلات کا ایک بہت بڑا پروگرام تھا، اور مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے اور میں راج ناتھ جی کو مبارکباد دیتا ہوں، یہ اب تک کا سب سے بڑا ڈیف ایکسپو تھا اور اس میں سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ڈیف ایکسپو میں دکھائے گئے تمام آلات اور ٹیکنالوجیز ہندوستان میں بنائے گئے تھے۔ یعنی پروجیکٹ سی -295 کا عکس ہمیں آنے والے برسوں کے ڈیف ایکسپو میں بھی نظر آئے گا۔ میں ٹاٹا گروپ اور ایئربس کو اس کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آج اس تاریخی موقع پر میں انڈسٹری سے وابستہ ساتھیوں سے اپنی درخواست دہرانا چاہتا ہوں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام سینئر انڈسٹری لیڈرز آج اس اہم واقعہ کا مشاہدہ کرنے کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک میں سرمایہ کاری کے تئیں جو اعتماد پیدا ہوا ہے ،اس اعتماد کا بھرپور فائدہ اٹھائیں، جتنا ہو سکے جارحانہ انداز میں آگے بڑھنے کے اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ ملک کے اسٹارٹ اپسکے جو جمے جمائے پلیئرز ہیں ،سے درخواست کروں گا کہ ہم ملک کے اسٹارٹ اپس کو آگے بڑھنے میں کس طرح مدد کرسکتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ تمام بڑی انڈسٹریز اپنے یہاں ایک اسٹارٹ اپ سیل بنائیں اور ہمارے ان نوجوانوں کا مطالعہ کریں جو ملک بھر میں اسٹارٹ اپس میں کام کرتے ہیں۔وہ یہ بھی پتا کریں کہ ان کی تحقیق ان کے کام سے کیا مماثلت رکھتی ہے، ان کا ہاتھ پکڑیں، آپ دیکھیں گے کہ آپ بھی بہت تیزی سے ترقی کریں گےاور میرے جو نوجوان آج ہندوستان کا نام روشن کر رہے ہیں، اسٹارٹ اپس کی دنیا میں ان کی طاقت بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ تحقیق میں نجی شعبے کی شرکت ابھی تک محدود ہے۔ اگر ہم مل کر اسے بڑھاتے ہیں، تو ہم جدت، مینوفیکچرنگ کا ایک زیادہ مضبوط ماحولیاتی نظام تیار کر سکیں گے۔ سب کا پریاس کا منتر ہم سب کے لیے کارآمد ہوگا، ہم سب کے لیے رہنما ہوگا اور ہم سب ایک ہی راستے پر چلیں گے۔ ایک بار پھر، میں تمام ہم وطنوں کو اس جدید طیارہ سازی کی سہولت کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ ملک کے نوجوانوں کے لیے بہت سے نئے مواقع منتظر ہیں۔ میں ملک کی نوجوان نسل کو بھی خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ ! اعلان دستبرداری: وزیر اعظم کی تقریر کا کچھ حصہ گجراتی زبان میں بھی ہے، جس کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے۔,বদোদৰাত বিমান নিৰ্মাণ প্লাণ্টৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D9%88%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%85%D8%BA%DB%81-%D8%AC%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 8 نومبر 2017، وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتیہ باکسر میری کوم کو عورتوں کی ایشین کنفیڈریشن باکسنگ چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جیتنے پر مبارک باد دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ‘‘ اے ایس بی سی ایشین کنفیڈریشن وومین باکسنگ چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جیتنے پر میری کوم کو مبارک باد۔ آپ کی کامیابی سے بھارت کا سر فخر سے بلند ہوا ہے’’۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ و۔ ج۔,এছিয়ান কনফেডাৰেচন মহিলাৰ বক্সিং চেম্পিয়নশ্বিপত স্বৰ্ণ পদক জয়ৰ বাবে মেৰী কমক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D9%88%DB%8C-%DB%81%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D8%B0%D8%A8%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A1%E0%A7%A6-%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%9A/,"وزیراعظم جناب نریند رمودی نے ڈاکٹر ایچ-وی-ہانڈے کے جذبے اور توانائی کی ستائش کی ہےجنہوں نے 75سال پرانے اخبار کوٹویٹ کیا ہے جس میں آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ڈاکٹر ایچ –وی –ہانڈے جی جیسے لوگ غیر معمولی افراد ہیں جنہوں نے اپنی زندگی قومی تعمیر کے لئے وقف کردی۔ آزادی کا امرت مہوتسو پر ڈاکٹر ایچ –وی– ہانڈے کے ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا ہے: ‘‘ڈاکٹر ایچ– وی– ہانڈے جی ، جیسے لوگ غیر معمولی افراد ہیں جنہوں نے اپنی زندگی قوم کی تعمیر کے لئے وقف کردی ہے۔ ان کی توانائی اور جذبے کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ @DrHVHande1"" ش ح۔ و ا۔ ج",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ড০ এইচ ভি হাণ্ডেৰ আবেগক প্ৰশংসা কৰে যিয়ে স্বাধীনতা ঘোষণা কৰা ৭৫ বছৰ পুৰণি বাতৰি কাকতখন সাঁচি ৰাখিছিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%DB%81-%DA%86%D8%B1%DA%86%DB%81-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تمام لوگوں کو خاص طور پر امتحان کے سورماؤں ، والدین اور اساتذہ کو مدعو کیا ہے کہ وہ اس سال کی پریکشا پہ چرچا بات چیت کے لیے اپنے خیالات و نظریات کا اشتراک کریں۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا۔ ‘‘پریکشا پہ چرچا کو زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کی طرف سے موصول ہونے والی وسیع معلومات نے اور بھی یادگار بنا دیا ہے۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں، خاص طور پر امتحان کے سورماؤں # ، والدین اور اساتذہ کو کہ اس سال کی گفتگو کے لیے اپنی معلومات کا اشتراک کریں۔ in/ppc-2023/PPC2023 innovateindia.mygov # ’’,চলিত বৰ্ষৰ‘পৰীক্ষা পে চৰ্চা’ৰ বাবে দিহা-পৰামৰ্শৰ আহ্বানপ্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DB%81-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7%E2%80%8F%E2%80%8F-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AD/,نئی دہلی، 8/فروری 2022 ۔ ‏ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج راجیہ سبھا میں پارلیمنٹ سے صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریے کی تحریک کا جواب دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‏‏یہ سوچنے کا یہی اہم وقت ہے کہ جب قوم آزادی کے 100 سال منارہی ہوگی تو اس وقت قوم کو کہاں لے جانا ہے اور کیسے آگے لے جانا ہے۔ انھوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ اس کے لیے عزم بستگی کی خاطر ہمیں اجتماعی شراکت داری اور اجتماعی ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ ‏ ‏وزیر اعظم‏‏ نے کہا کہ دنیا اب بھی کووڈ-19 سے لڑ رہی ہے۔ انسانیت نے پچھلے سو برسوں میں اس طرح کا کوئی چیلنج نہیں دیکھا ہے۔ ‏‏ بھارت کے عوام نے ٹیکہ لیا ہے اور انھوں نے یہ کام صرف اپنی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی حفاظت کے لیے بھی کیا ہے۔ ویکسین کے خلاف بہت سی عالمی تحریکوں کے درمیان اس طرح کا طرز عمل قابل ستائش ہے۔‏ ‏وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ وبا کے اس دور میں بھارت کی پیش رفت کے بارے میں سوالات اٹھاتے رہے لیکن بھارت نے 80 کروڑ شہریوں کو مفت راشن کی رسائی کو یقینی بنایا۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ غریبوں کے لیے ریکارڈ مکانات تعمیر کیے جائیں، یہ مکانات پانی کے کنکشنوں سے لیس ہوں۔ اس وبا کے دوران ہم نے 5 کروڑ عوام کو نل کے پانی کے کنکشن فراہم کیے اور ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ ہماری منطقی اپروچ کی وجہ سے ہمارے کسانوں نے وبا کے دوران زبردست فصلیں پیدا کیں۔ ہم نے وبا کے دوران بنیادی ڈھانچے سے متعلق بہت سے منصوبے مکمل کیے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ وہ اس طرح کے مشکل وقت میں ملازمتوں کو یقینی بناتے ہیں۔ اس وبا کے دوران ہمارے نوجوانوں نے کھیلوں میں بہت بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور قوم کا نام روشن کیا ہے۔ بھارتی نوجوانوں نے اپنے اسٹارٹ اپس کے ساتھ بھارت کو دنیا کے تین اسٹارٹ اپس کی سرفہرست منزلوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔‏ ‏وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اس وبا کے دوران چاہے وہ کوپ 26 ہو یا جی 20 سے متعلق معاملہ ہو یا 150 سے زائد ممالک میں ادویات کی برآمد سے متعلق ہو، بھارت نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور پوری دنیا اس پر بات کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہم نے وبا کے دوران ایم ایس ایم ای شعبے اور زراعت کے شعبے پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔‏ ‏روزگار کے بارے میں اعداد و شمار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2021 میں ای پی ایف او پے رول کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ نئے عوام نے ای پی ایف او ��ورٹل پر اپنا اندراج کرایا ہے۔ یہ سب رسمی ملازمتیں ہیں اور ان میں سے تقریباً 60 سے 65 لاکھ افراد کی عمر 18 سے 25 سال کے درمیان ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ ان کا پہلا کام ہے۔ افراط زر پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے افراط زر کو روکنے کی پوری کوشش کی ہے اور جب ہم اس کا موازنہ دیگر معیشتوں سے کرتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج بھارت واحد بڑی معیشت ہے جو اوسط مہنگائی کے ساتھ اعلیٰ نمو کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ‏ ‏وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں عوام کے لیے کام کرنا ہوگا چاہے ہم کسی بھی جانب ہوں۔ یہ ذہنیت غلط ہے کہ اپوزیشن میں ہونے کا مطلب ہے عوام کے مسائل کو حل کرنے کا کام کرنا بند کر دینا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب کچھ معزز اراکین نے کہا کہ بھارت کی ویکسینیشن مہم کوئی بڑی بات نہیں ہے تو انہیں حیرت ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ وبا کے آغاز سے ہی حکومت نے ملک اور دنیا میں دستیاب وسائل کے حصول کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ انھوں نے سب کو یہ بھی یقین دلایا کہ جب تک وبا باقی رہے گی، ہم قوم کے غریبوں کا تحفظ کریں گے۔‏ ‏وزیر اعظم نے کہا کہ کووڈ-19 سے لڑنا بھی ایک مضبوط اور خوش گوار وفاقی ڈھانچے سے جڑا ہوا عمل ہے۔ اس معاملے پر معزز وزرائے اعلیٰ کے ساتھ 23 ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ انھوں نے کووڈ 19 پر کل جماعتی اجلاس میں شرکت کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ پر دکھ کا اظہار کیا۔‏ ‏وزیراعظم نے کہا کہ آیوشمان بھارت کے تحت آج ملک میں 80 ہزار سے زائد صحت اور تندرستی کے مراکز کام کر رہے ہیں۔ یہ مراکز گاؤں اور گھر کے قریب مفت ٹیسٹ سمیت بہتر بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔‏ ‏جمہوریت پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم 1975 میں جمہوریت کو پامال کرنے والوں سے جمہوریت کا سبق کبھی نہیں سیکھیں گے۔ ہماری جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خاندانی پارٹیاں ہیں۔ جب ایک خاندان کسی سیاسی جماعت میں بہت زیادہ رائج ہو جاتا ہے تو سیاسی صلاحیتوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‏ ‏وزیر اعظم نے کہا کہ ’’کچھ اراکین نے پوچھا ہے کہ اگر کانگریس نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟‘‘ انھوں نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر کانگریس نہ ہوتی تو ایمرجنسی نہ ہوتی، ذات پات کی سیاست نہ ہوتی، سکھوں کا کبھی قتل عام نہ ہوتا، کشمیری پنڈتوں کے مسائل نہ ہوتے۔ ‏ ‏وزیر اعظم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہمیں قومی ترقی اور علاقائی امنگوں کے درمیان کوئی تنازعہ نظر نہیں آتا۔ بھارت کی ترقی اس وقت مستحکم ہوگی جب وہ ملک کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقائی امنگوں کو پورا کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب ہماری ریاستیں ترقی کرتی ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔‏ ‏وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ ہمیں تفریق کی روایت کو ختم کرنا چاہیے اور اس ذہنیت کے ساتھ مل کر چلنا وقت کی ضرورت ہے۔ ایک سنہری دور اور پوری دنیا ایک امید کے ساتھ بھارت کی منتظر ہے اور ہمیں اس موقع کو کھونا نہیں چاہیے۔ ‏,ৰাজ্যসভাত ৰাষ্ট্ৰপতিৰ অভিভাষণ সন্দৰ্ভত উথ্থাপিত ধন্যবাদসূচক প্ৰস্তাৱৰ উত্তৰ দান প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%88%DB%8C%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95/,پچھلے کچھ دنوں سے مج��ے سرکار کی مختلف اسکیموں کے، ملک بھر کے جو فائدہ حاصل کرنے والے ہیں، ان سے سب سے روبرو ہونے کا، بات چیت کرنے کا، ان کو سننے کا موقع ملا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے لئے یہ ایک انوکھا تجربہ ہے۔ اور ہمیشہ اس بات کا قائل ہوں کہ فائلوں سے پرے، زندگی بھی ہوتی ہے اور زندگی میں جو تبدیلی آتی ہے، جب اس کو سیدھا لوگوں سے سنا، اُن کے تجربات کو جانا تو دل کو بہت ہی سکون ملتا ہے۔ اور کام کرنے کی ایک نئی توانائی بھی مجھے آپ لوگوں سے ملتی ہے۔ آج ڈیجیٹل انڈیا کی کچھ اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آج کے اس پروگرام میں ملک بھر کے قریب تین لاکھ مشترکہ سروس سینٹر ان کے سبھی منسلک ہونے کا مجھے موقع ملا ہے۔ ان سی ایس سی کو چلانے والے وی ایل ای اور شہری ان سے الگ الگ طرح کی خدمات لے رہے ہیں، وہ سب آج یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے این آئی سی سینٹر کے وسیلے سے ڈیجیٹل انڈیا سے فائدہ اٹھانے والے وہاں بھی جمع ہوئے ہیں۔ 1600 سے زیادہ تنظیمیں، جو نیشنل نالج نیٹ ورک، این کے این، اُن سے وابستہ ہیں۔ ان کے طلبا، محققین، سائنس داں، پروفیسر، یہ سب ہمارے ساتھ ہیں۔ ملک بھر میں سرکار کی اسکیموں سے جو بی پی او قائم ہوئے ہیں، اُن کے نوجوان اپنے اپنے بی پی او مرکز سے بھی اس پروگرام میں ہمارے ساتھ ہیں۔ اتنا ہی نہیں، موبائل مینوفیکچرنگ یونٹوں میں کام کرنے والے نوجوان بھی ہمیں اپنی اپنی یونٹس بھی دکھائیں گے اور وہ کچھ بات چیت ہم سے کریں گے۔ ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں mygove vol کسان بھائیوں اور بہنوں کو لاکر بٹھائیے۔ میں ان سے بات کروں گا اور ان سے چرچا کروں گا۔ زراعت کے میدان میں کیسے تبدیلی آرہی ہے۔ ایک گاؤں کا شخص بھی اس کا کیسے فائدہ اٹھاسکتا ہے، وہ باتیں میں کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں ان کے تجربے بھی سننا چاہتا ہوں۔ تو دوستو مجھے آج بہت اچھا لگا۔ میرے ہندوستان میں جو تبدیلی آرہی ہے، جو تبدیلی آپ لوگ لارہے ہیں اور اپنی انگلی کی طاقت سے لارہے ہیں۔ یہ ترقی، یہ اعتماد، یہ فروغ، اصلاح، کارکردگی، کایاپلٹ، اس کو پورا کرنے والا ہے۔ میں پھر ایک بار آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نمستے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,ডিজিটেল ইণ্ডিয়াৰ হিতাধিকাৰীকলৰ সৈতে বাৰ্তালাপৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D8%A7%D9%88-%DA%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B6%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ڈبلیو ایچ او ڈائریکٹر جنرل گلوبل ہیلتھ لیڈرس ایوارڈ حاصل کرنے پر آشا ورکروں کی پوری ٹیم کے لئے اپنی خوشی کااظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ آشا ورکر ایک صحت مند بھارت کو یقینی بنانے میں پیش پیش ہیں اور ان کا عزم اورجانفشانی قابل تعریف ہے۔ عالمی صحت تنظیم ڈبلیو ایچ او کی طرف سے کئے گئے ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم نے ٹویٹ کیا: ’’مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آشا ورکروں کی پوری ٹیم کو ڈبلیو ایچ او ڈائریکٹر جنرلس کلوبل ہیلتھ لیڈرس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے ۔ سبھی آشا ورکروں کو مبارکباد۔ وہ ایک صحت مند بھارت کو یقینی بنانے میں پیش پیش ��یں اوران کی فداکاری اور ان کاعزم قابل تعریف ہے۔,আশা কৰ্মীসকলে বিশ্ব স্বাস্থ্য সংস্থাৰ মহা নিৰ্দেশকৰ ‘গ্লবেল হেল্থ লিডাৰ্ছ’ বঁটা লাভ কৰাত আনন্দ প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%81%D9%88%D8%B1%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AB/,نئی دہلی،11 ؍اپریل؍وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج بین الاقوامی توانائی فورم کے وزارتی اجلاس سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں سعودی عرب کے وزیرتوانائی، پٹرولیم اور قدرتی گیس (بھارت) کے وزیر، بین الاقوامی توانائی فورم کے جنرل سکریٹری، مختلف وفود اور دیگر معزز شخصیات کو خطا ب کرتے ہوئے ہندوستان میں ان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا: ہندوستان میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ 16ویں بین الاقوامی توانائی فورم کے وزارتی اجلاس میں آپ کا خیر مقدم ہے۔مجھے توانائی پیداکرنے والے اور صارف ممالک کے توانائی وزراء کی شراکت، بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان اور سی ای اوز کی اتنی بڑی تعداد میں اس فورم میں شرکت پر بے حد مسرت ہے۔ جیسا کہ آج آپ یہاں تبادلۂ خیال کیلئے جمع ہوئے ہیں، دنیا، توانائی کی سپلائی اور اس کے صرف میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی ہے۔ صرف نمو (خرچ نمو)غیر او ای سی ڈی ممالک سے تبدیل ہو گئی ہے: مشرقی وسطیٰ، افریقہ اور ترقی پذیر ایشیاء۔ سولر فوٹو۔وولٹیک توانائی دیگر تمام توانائی وسائل کے مقابلے میں سستی ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے سپلائی پیراڈائم میں تبدیلی آئی ہے۔ وافر اور بہت زیادہ مقدار میں، ایل این جی کی اضافہ شدہ فی صد کے ساتھ قدرتی گیس کی عالمی سطح پر دستیابی اور قدرتی گیس بنیادی توانائی باسکٹ میں تعاون دے رہی ہے۔ جلد ہی امریکہ تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ یہ امکان ہے کہ وہ آئندہ چند دہائیوں میں کافی بڑے حصے کی تیل اضافی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔ کوئلے کی مانگ آہستہ آہستہ کم ہو جائے گی کیونکہ دنیا کے او ای سی ڈی ممالک میں بنیادی توانائی میں بڑا تعاون ان ممالک کا ہے اور بعد میں ترقی پذیر ممالک کا ہوگا۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں، آئندہ کچھ دہائیوں میں بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی،کیونکہ ٹرانسپورٹ میں الیکٹراک گاڑیوں کو اپنایا جا رہا ہے۔ دنیا، تبدیلیٔ آب و ہوا کے معاملے میں سی او پی-21 معاہدے کے ایجنڈا پر عہد بستہ ہے۔ توانائی کے استعمال میں تبدیلی آئے گی، کیونکہ مختلف معیشتوں کی توجہ سبز توانائی اور توانائی کی بچت پر مرکوز ہے۔ وزیراعظم نے کہا، گزشتہ ماہ مجھے، ایک ایجنسی کے ذریعہ تیار کردہ توانائی پیش گوئی کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے مطابق، ہندوستان، آئندہ 25 برسوں میں دنیا میں توانائی مانگ میں اہم ملک بن جائے گا۔ آئندہ 25 برس میں ہندوستان میں توانائی کی مانگ میں اضافہ ہوگا اور یہ 4.2 فیصد ہو جائے گی۔ یہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے تیز شرح ہے۔ رپورٹ میں 2040 تک گیس کی مانگ تین گنا تک بڑھ جانے کا ذکر کیا ہے۔ 2030 تک الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 320 ملین ہو جائے گی، جو آج محض 3 ملین ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا، ہم کھلی (آزاد)توانائی کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ تاہم اب بھی 1.2 بلین لوگوں کے پاس بجلی نہیں پہنچی ہے۔ بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں، جن ��ی رسائی صاف کھانا پکانے کے ایندھن تک نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس صورتحال سے محروم طبقے کا استحصال نہ ہو۔ لوگوں کو یکساں طور پر صاف، سستی ، پائیدار اور مساوی توانائی دستیاب کرانا ے۔ انہوں نے کہاکہ میں آپ کے ساتھ ہائیڈرو کاربن شعبے میں اپنی سوچ اور توانائی سلامتی یا تحفظ حاصل کرنے میں اپنی سوچ مشترک کرنا چاہتا ہوں۔ نیل اور گیس جہاں ایک طرف تجارتی اشیاء ہیں، وہیں دوسری جانب ضرورت بھی ہیں۔ خواہ وہ رسوئی کیلئے ہو یا ایک طیارے کیلئے، توانائی بے حد ضروری ہے۔ دنیا کافی لمبے عرصے سے ان کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ دیکھ رہی ہے۔ ہمیں ذمہ دار قیمت (نظام) کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے نظام کی جانب ، جس میں توازن کنزیومر اور پروڈیوسر دونوں کے حق میں ہو۔ ہمیں تیل اور گیس دونوں کیلئے شفاف ااور لچیلے بازاروں کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ صرف تب ہی ہم توانائی کی ضرورت اور اس کے سمجھداری ستعمال کو سمجھ سکیں گے۔ اگر دنیا کو مکمل طور پر ترقی کرنا ہے، توہمیں پروڈیوسر ممالک اور صارف ممالک کے درمیان رشتوں میں مزید تعاؤن کرنا ہوگا۔ یہ پروڈیوسر ممالک کے مفاد میں ہوگا کہ دیگر معیشتیں ترقی کرتی رہیں اور تیزی سے ترقی کریں۔ اس سے ان کے ترقی پذیرتوانائی بازاروں کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ جیسا کہ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے، قیمتوں میں اتارچڑھاؤ، کوششوں اور ترقی میں خلل ڈالتا ہے۔ اس کی وجہ سےترقی پذیرممالک اور سب سے کم ترقی یافتہ ممالک، جو پرامڈ کی تلی میں ہیں، کیلئے غیر ضروری سختی کا باعث بن جاتا ہے۔ آئیے سب مل کر ‘‘ ریسپونسبل پرائسنگ’’ پر عالمی رضامندی پر اس پلیٹ فارم کا استعمال کریں۔ یہ پروڈیوسر اور کنزیومر دونوں کیلئے سودمند ثابت ہوگا۔ عالمی غیر یقینی کے پیش نظر ہندوستان کو بھی توانائی کی سلامتی (تحفظ) کی ضرورت ہے۔ میرے نظریئے میں، مستقبل میں ہندوستان میں توانائی کے 4 ستون ہیں: توانائی تک رسائی، توانائی کی بحث، پائیدار اور مستحکم توانائی اور توانائی سلامتی۔ ہندوستان کے مستقبل کیلئے توانائی عام معنیٰ میں اور ہائیڈروکاربن خصوصی طور پر میرے نظریئے کا اہم حصہ ہیں۔ ہندوستان کو ایسی اینرجی کی ضرورت ہے، جو غرباء کیلئے قابلِ رسائی اور سستی ہو، توانائی کا استعمال سمجھداری سے کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایک ذمہ دار عالمی رکن ہونے کے ناطے، ہندوستان آب و ہوا میں تبدیلی کیخلاف اور کاربن کے اخراج کے خلاف جنگ لڑنے نیز پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے عہد بستہ ہے۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد، اس عزم کو پورا کرنے کی سمت میں ایک قدم ہے۔ انہوں نے کہا: دوستو! اس وقت ہندوستان دنیا کی سب سے تیز ترقی کرنے والی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ تمام رہنما ایجنسیاں جیسے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور اے ڈی بی، مستقبل قریب میں ہندوستان کی شرح ترقی کا 7 سے 8 فیصد ہونے کا امکان لگا رہی ہیں۔ ہماری حکومت اونچی جی ڈی پی اور کم افراط زر حاصل کرنے ، مالی خسارے میں کمی اور مستحکم زر مبادلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس میکرو یا بڑی معاشی پائیداری اور معیشت میں صرف (کھپت)اور سرمایہ کاری دونوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہندوستان، ڈیموگریفک ڈیویڈینٹ یعنی آبادی کے اعتبار سے بھی فائدے میں ہے۔ ہندوستان میں کام کرنے کی عمر پر مشتمل کُل آبادی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور ہمارا ملک دنیا میں سب سے زیادہ ایسے ممالک میں سے ہے۔ ہماری حکومت میک ان انڈیا کے ذریعہ مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور ٹیکسٹائل ، ہیروں، کیمیکل، دفاع، انجینئرنگ وغیرہ جیسی صنعتوں میں اسکل یوتھ انڈیا کے ذریعہ بڑھاوا دے رہی ہے۔ ہم نے ہائیڈرو کاربن ایکسپلوریشن اور لائسینسنگ پالیسی کے آغازکے ذریعہ اپنی پالیسیوں اور قواعد و ضوابط میں ترمیم کر کے مختلف شعبوں میں شفافیت اور مقابلہ جاتی سیرت لانے کی کوشش کی ہے۔ نیلامی کے معیار کو تبدیل کر کے ریوینیو شیئرنگ نظام میں تبدیل کر دی اہے، جو حکومت کی مداخلت کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔ فی الحال، نیلامی کا ایک دور جاری ہے، جو 2 مئی تک چلے گا۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ پروڈکشن میں اضافہ کیلئے کوششوں میں شریک ہوں۔ دی اوپن ایکریج اینڈ نیشنل ڈیٹا ریوزیٹری،کمپنیوں کو ان کی دلچسپی کے میدانوں کو سمجھنے میں مدد کرے گا۔ دی اینہانس آئل ریکوری پالیسی کا مقصد جدید ترین ٹیکنالوجیوں کا استعمال کر کے آپ سٹریم میدانوں میں پیداوار کو بہتر بنانا ہے۔ بازار کے رجحان پر مبنی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں ، کچے تیل کو ریفائن کرنا اوراس کے پروڈکٹس کی مارکیٹنگ اور اس کی تقسیم میں ہم مکمل طور پر لبرل ہو گئے ہیں۔ ہم ایندھن کے ریٹیل اور ادائیگی میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی جانب گامزن ہیں۔ ہماری حکومت نے مکمل تیل اور گیس ویلیو چین میں اپ اسٹریم سے لے کر ڈاؤن اسٹریم ریٹیل میں نجی شراکت داری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہماری حکومت ، توانائی کی منصوبہ بندی میں مربوط طریقۂ کار پر یقین رکھتی ہے اور ہندوستان میں ہمارا تو نسائی ایجنڈہ مکمل طور پر بازار پر مبنی اور آب و ہوا کے تئیں حساس ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اس سے اقوام متحدہ کے مسلسل ترقی ایجنڈا کے توانائی سے جڑے تین عوامل کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جو اس طرح ہیں۔ 2030 تک جدید ترین توانائی تک سب کی رسائی۔ تبدیلیٔ آب و ہوا سے نمٹنے کیلئے فوری کارروائی-پیرس سمجھوتے کی طرز پر ۔ آب و ہوا کے معیار میں سدھار۔ دوستو! ہمارا ماننا ہے کہ کھانا پکانے کیلئے صاف ستھرا یندھن ، لوگوں کے رہن سہن کے معیار کو سدھارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے خواتین کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے گھر کے اندر آلودگی کم ہوتی ہے اور لکڑی وغیرہ جیسے ایندھن کو حاصل کرنے میں درپیش مشکلات کم ہوتی ہیں۔ اس سے انہیں اپنے فروغ کیلئے وقت ملتا ہے اور وہ دیگر مالی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ ہندوستان میں اجولایوجنا کے ذریعہ ہم غریب کنبوں کی خواتین کو مفت میں ایل پی جی کنکشن فراہم کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد 8 کروڑ غریب کنبوں کو صاف ستھرا رسوئی گیس کنکشن فراہم کرنا ہے۔ دو سال سے بھی کم عرصے میں 3.5کروڑ کنکشن فراہم کئے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا اپریل 2020 تک بی ایس -6 ایندھن تک رسائی کی تجویز ہے۔ جو یورو-6 اسٹینڈرڈس کے مساوی ہے۔ ہمارے تیل صاف کرنے والے پلانٹس کو بڑے پیمانے پر اَپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ ان کا ہدف ، مقررہ مدت میں صاف ستھرا ایندھن فراہم کرانا ہے۔ نئی دلی میں ہم نے اس ماہ بی ایس -6 ایندھن کی شروعات کی ہے۔ ہم نے گاڑیوں کو ہٹانے کی پالیسی بھی شروع کی ہے، جس سے پرانی گاڑیوں کی جگہ صاف اور کم ایندھن خرچ کرنے والی گاڑیوں کو لایا جا سکے گا۔ ہماری تیل کمپنیاں، توانائی کی گونا گونیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے تمام سرمایوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ آج، تیل کمپنیاں، بادی اور شمسی صلاحیتوں، گیس سے متعلق بنیادی ڈھانچے میں بھی سرمایہ لگا رہی ہیں اور الیکٹرک گاڑیوں اور ذخیرے سے متعلق میدانوں میں سرکاری کرنے کے سلسلے میں غوروخوض کر رہی ہیں۔ دوستو! جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہم 4.0 انڈسٹری کی جانب دیکھ رہے ہیں، جس میں نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ مستقبل میں تجارت کرنے کے طریقے اور انٹرنیٹ جیسی سرگرمیوں، آرٹیفیشئل انٹلی جنس، روبوٹک پروسیس آٹومیشن، مشین سیکھنے، پریڈ کٹوانالیسس، 3 ڈی پر نٹنگ وغیرہ میں تبدیلی پر غوروخوض کو شامل کیا گیا ہے۔ ہماری کمپنیاں جدید ترین ٹیکنالوجی اپنا رہی ہیں۔ اس سے ہمارے پروڈکشن میں سدھار آئے گا اور تحفظ میں اضافے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ڈاؤن اسٹریم ریٹیل میں بلکہ اَپ اسٹریم تیل پیداوار، اثاثے کے رکھ رکھاؤ اور ریموٹ نگرانی میں ہونے والے خرچ میں کمی آئے گی۔ اس منظر نامے میں توانائی کے میدان کے مستقبل پر غوروخوض کرنے کیلئے ہندوستان نے اس پروگرام کی میزبانی کی ہے۔ عالمی تبدیلی، ٹرانزیشن پالیسی اور نئی ٹیکنالوجیاں کس طرح بازار کے استحکام اور مستقبل میں سرمایہ کاری کو متاثر کر تی ہیں۔ دوستو! آئی ای ایف-16 کا عنوان ‘‘ دا فیوچر آف گلوبل انرجی سکیورٹی’’ ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کا ایجنڈا پروڈیوسر-کنزیومر تعلقات میں عالمی تبدیلی، توانائی تک سب کی رسائی، قابل استطاعت توانائی اور تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینا جیسے موضوعات پر مبنی ہے تاکہ مستقبل کی مانگ کو پورا کیا جا سکے۔ توانائی کی سلامتی، ٹیکنالوجی کی سلامتی اور کو ایگزسٹینس پر غور و خوض کیا گیا ہے۔ یہ سبھی ہمارے مجموعی توانائی سلامتی کے موضوع ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس پلیٹ فارم پر ہونے والے تبادلۂ خیال سے دنیا کے باشندوں کو صاف ستھری، سستی اور مسلسل توانائی کا فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ میں اس وزارتی سطح کے سیمینار کی کامیابی کی تمنا کرتا ہوں۔ شکریہ,"আন্তঃৰা্ষ্ট্ৰীয় শক্তি ফ’ৰামৰ মন্ত্রীপর্যায়ৰ বৈঠকত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণ (১১ এপ্রিল, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%B9-%D8%A2%D9%81-%D8%B1%D9%88%D8%B1%D9%84-%DA%88%D9%88%DB%8C%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A1-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%A1%E0%A6%AE-%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 27 جولائی 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ترقی پذیر ممالک میں زراعت اور دیہی ترقی کے شعبے میں اشتراک کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف رورل ڈویلپمنٹ و پنچایتی راج (این آئی آر ڈی پی آر) اور یونیورسٹی آف ریڈنگ (یو او آر) برطانیہ (یوکے) کے درمیان دستخط شدہ مفاہمت نامے سے آگاہ کیا گیا۔ اس مفاہمت نامے پر مارچ 2022 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اثر: اس مفاہمت نامے سے این آئی آر ڈی پی آر فیکلٹی کو ان کے علم کے حصول اور توسیع میں مدد ملے گی اور زراعت، غذائیت اور دیہی ترقی میں ایک بین الاقوامی پیشہ ورانہ نیٹ ورک تیار کیا جائے گا۔ دونوں ادارے مل کر زرعی معاشیات، دیہی ترقی، روزگار اور تغذیہ کے مطالعے میں کافی حد تک تحقیقی مہارت لا سکتے ہیں جو تحقیق و صلاحیت سازی کے ابھرتے ہوئے بین شعبہ جاتی سیکٹر کے لیے مطلوب ہے۔ پس منظر: این آئی آر ڈی پی آر دیہی ترقی کے شعبے میں مختلف تحقیقی سرگرمیوں میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے ساتھ مختلف شعبوں جیسے توانائی کے اخراجات کی پیمائش کے ذریعے تغذیہ کی تشخیص میں بہتری، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں زرعی روزگار کی تحقیق میں ویئریب�� ایکسیلرومیٹرک اور سینسر پر مبنی آلات کا استعمال اور خواتین اور بچوں کی ترقی کے شعبے میں شامل رہا ہے۔,ইউনাইটেড কিংডম-ৰ ‘ইউনিভাৰ্ছিটী অব ৰিডিং’(ইউঅআৰ) আৰু ‘ৰাষ্ট্ৰীয় গ্ৰামোন্নয়ণ আৰু পঞ্চায়তীৰাজ প্ৰতিষ্ঠান’(এনআইআৰডিএণ্ডপিআৰ)ৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজিৰ চুক্তিলৈ কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1%D8%8C-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B4-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%AC%E0%A7%87/,نمستے، کیم چھو! (آپ سب کیسے ہیں؟) ماریشس کے محترم وزیر اعظم پروِند جگناتھ جی، ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس، گجرات کے پرجوش وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی سربانند سونووال جی، منسکھ بھائی منڈاویہ جی، مہندر بھائی مونجپرا جی، تمام سفارت کار، ملک اور بیرون ملک سے آئے سائنسدانوں، تاجروں اور ماہرین، خواتین و حضرات! میں گلوبل آیوش انویسٹمنٹ اینڈ انوویشن سمٹ میں آپ سب کا پرتپاک استقبال کرتا ہوں۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کاری کے سربراہی اجلاس منعقد ہوتے رہے ہیں اور خاص طور پر گجرات نے اس روایت کو بہت وسیع طریقے سے آگے بڑھایا ہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہو رہا ہے، جب آیوش سیکٹر کے لیے اس طرح کی سرمایہ کاری سمٹ منعقد ہو رہی ہے۔ ساتھیوں، اس طرح کی سرمایہ کاری سمٹ کا خیال مجھے ایسے وقت میں آیا جب پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے ہلچل مچی ہوئی تھی۔ اس دوران ہم سب دیکھ رہے تھے کہ کس طرح آیورویدک ادویات، آیوش کاڑھا اور اس طرح کی بہت سی مصنوعات لوگوں کی قوت مدافعت بڑھانے میں مدد فراہم کر رہی تھیں اور اس کے نتیجے میں جب یہ کورونا کا دور تھا، ہندوستان سے ہلدی کی برآمد میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا۔ یعنی یہ اس بات کا ثبوت ہے، اس دور میں ہم نے دیکھا کہ جدید فارما کمپنیاں، ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے جب مناسب وقت پر سرمایہ کاری کی تو انھوں نے بہت اچھا کام کیا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ اتنی جلد ہم کورونا کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میڈ ان انڈیا۔ جدت اور سرمایہ کاری کسی بھی شعبے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آیوش سیکٹر میں سرمایہ کاری کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ آج کا موقع، یہ سربراہی اجلاس، اس کا ایک بہترین آغاز ہے۔ ساتھیوں، آیوش کے میدان میں سرمایہ کاری اور اختراع کے امکانات لا محدود ہیں۔ ہم پہلے ہی آیوش ادویات، سپلیمنٹس اور کاسمیٹکس کی پیداوار میں بے مثال ترقی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ 2014 سے پہلے، جہاں آیوش سیکٹر میں 3 بلین ڈالر سے بھی کم کام تھا۔ آج یہ بڑھ کر 18 بلین ڈالر سے زیادہ ہو گیا ہے۔ جیسا کہ پوری دنیا میں آیوش مصنوعات کی مانگ بڑھ رہی ہے، اس لیے آنے والے سالوں میں یہ ترقی مزید بڑھے گی۔ غذائی سپلیمنٹس ہوں، ادویات کی سپلائی چین مینجمنٹ ہو، آیوش پر مبنی تشخیصی آلات ہوں یا ٹیلی میڈیسن، ہر جگہ سرمایہ کاری اور اختراع کے نئے مواقع موجود ہیں۔ ساتھیوں، آیوش کی وزارت نے روایتی ادویات کے شعبے میں اسٹارٹ اپ کلچر کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ کچھ دن پ��لے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید کے ذریعہ تیار کردہ انکیوبیشن سنٹر کا افتتاح کیا گیا ہے۔ اسٹارٹ اپ چیلنج میں جس طرح کا جوش و خروش دیکھا گیا ہے وہ بھی بہت حوصلہ افزا ہے اور آپ سب میرے نوجوان دوست زیادہ جانتے ہیں کہ ایک طرح سے ہندوستان کے اسٹارٹ اپ کا یہ سنہری دور شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرح سے، ہندوستان میں آج یونیکارن کا دور ہے۔ سال 2022 میں ہی یعنی 2022 کو ابھی چار مہینے بھی پورے نہیں ہوئے۔ سال 2022 میں ہی، اب تک ہندوستان سے 14 اسٹارٹ اپس یونیکارن کلب میں شامل ہو چکے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی بہت جلد ایک یونیکارن ابھر کر سامنے آئے گا۔ ساتھیوں، ہندوستان جڑی بوٹیوں کے پودوں کا خزانہ ہے اور ہمالیہ اس کے لیے جانا جاتا ہے، یہ ایک طرح سے ہمارا ’گرین گولڈ‘ ہے۔ ہمارے یہاں کہا بھی جاتا ہے، امنتر اکشرم ناستی، ناستی مولن انوشدھن۔ یعنی کوئی حرف ایسا نہیں جس سے کوئی منتر شروع نہ ہو، کوئی ایسی جڑ نہیں، کوئی جڑی بوٹی نہیں، جس سے کوئی دوا نہ بن سکے۔ اس قدرتی دولت کو انسانیت کے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے ہماری حکومت جڑی بوٹیوں اور ادویاتی پودوں کی پیداوار کی مسلسل حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ساتھیوں، جڑی بوٹیوں اور ادویاتی پودوں کی پیداوار کسانوں کی آمدنی اور روزی روٹی بڑھانے کا ایک اچھا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ اس میں روزگار پیدا کرنے کی بھی بہت گنجائش ہے۔ لیکن، ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے پودوں اور مصنوعات کی مارکیٹ بہت محدود، مخصوص ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ادویاتی پودوں کی پیداوار سے وابستہ کسانوں کو آسانی سے مارکیٹ سے جڑنے کی سہولت ملنی چاہیے۔ اس کے لیے حکومت آیوش ای-مارکیٹ کی جدید کاری اور توسیع پر بھی بہت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اس پورٹل کے ذریعے جڑی بوٹیوں اور ادویاتی پودوں کی کاشت سے وابستہ کسانوں کو آیوش کی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں سے جوڑ دیا جائے گا۔ ساتھیوں، آیوش مصنوعات کی برآمد کو فروغ دینے کے لیے بھی گزشتہ برسوں میں بے مثال کوششیں کی گئی ہیں۔ دیگر ممالک کے ساتھ آیوش کی دواؤں کی باہمی شناخت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے گزشتہ برسوں میں مختلف ممالک کے ساتھ 50 سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ہمارے آیوش ماہرین بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈز کے ساتھ مل کر آئی ایس او معیارات تیار کر رہے ہیں۔ اس سے 150 سے زیادہ ممالک میں آیوش کے لیے ایک بہت بڑا برآمدی بازار کھل جائے گا۔ اسی طرح ایف ایس ایس اے آئی نے بھی گزشتہ ہفتے اپنے ضوابط میں ’آیوش آہار‘ کے نام سے ایک نئے زمرے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہربل غذائی سپلیمنٹس کی مصنوعات کو بہت سہولت فراہم کرے گا۔ میں آپ کو ایک اور معلومات دینا چاہتا ہوں۔ ہندوستان ایک خاص آیوش نشان بھی بنانے جا رہا ہے، جس کی عالمی شناخت بھی ہوگی۔ یہ نشان ہندوستان میں بنی اعلیٰ ترین کوالٹی کی آیوش مصنوعات پر لاگو کیا جائے گا۔ یہ آیوش نشان جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوگا۔ اس سے پوری دنیا کے لوگوں کو معیاری آیوش مصنوعات کا اعتماد ملے گا۔ حال ہی میں تشکیل دی گئی آیوش ایکسپورٹ پروموشن کونسل بھی برآمدات کی حوصلہ افزائی کرے گی اور غیر ملکی منڈیوں کو تلاش کرنے میں مدد کرے گی۔ ساتھیوں، آج میں آپ کے درمیان ایک اور اعلان کر رہا ہوں۔ ملک بھر میں آیوش مصنوعات کے فروغ کے لیے ہماری حکومت تحقیق اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے آیوش پارکس کا نیٹ ورک تیار کرے گی۔ یہ آیوش پارکس ملک میں آیوش مینوفیکچرنگ کو ایک نئی سمت دی�� گے۔ ساتھیوں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیکل ٹورزم، آج ہندوستان دنیا کے کئی ممالک کے لیے میڈیکل ٹورزم کے لیے ایک پر کشش مقام بن گیا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، طبی سیاحت کے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ روایتی ادویات نے کیرالہ کی سیاحت کو بڑھانے میں کس طرح مدد کی ہے۔ یہ طاقت پورے ہندوستان میں ہے، ہندوستان کے کونے کونے میں ہے۔ ’ہیل ان انڈیا‘ اس دہائی کا سب سے بڑا برانڈ بن سکتا ہے۔ آیوروید، یونانی، سدھا وغیرہ پر مبنی فلاح و بہبود کے مراکز بہت مقبول ہو سکتے ہیں۔ ملک میں تیزی سے ترقی پذیر جدید کنیکٹیویٹی انفراسٹرکچر اس میں مزید مدد کرے گا۔ غیر ملکی شہری، جیسا کہ میں نے کہا، آج ہندوستان صحت کی سیاحت کے لیے ایک پر کشش مقام بنتا جا رہا ہے، اس لیے جب غیر ملکی شہری آیوش تھراپی کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستان آنا چاہتے ہیں، تو حکومت ایک اور پہل کر رہی ہے۔ بہت جلد، ہندوستان ایک خصوصی آیوش ویزا زمرہ متعارف کرانے جا رہا ہے۔ اس سے لوگوں کو آیوش تھراپی کے لیے ہندوستان کا سفر کرنے میں آسانی ہوگی۔ ساتھیوں، جب ہم آیوروید کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو میں آج آپ کو ایک بہت اہم معلومات دینا چاہتا ہوں۔ میں اپنے دوست اور کینیا کے سابق صدر رائلا اوڈنگا اور ان کی بیٹی روز میری کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ روز میری، کیا تم یہاں ہو؟ ہاں، وہ وہاں ہے۔ روز میری گجرات میں خوش آمدید۔ روز میری کا واقعہ بہت دلچسپ ہے، میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا۔ کچھ دن پہلے ان کے والد میرے بہت اچھے دوست ہیں، وہ مجھ سے ملنے اوڈنگا جی دہلی آئے تھے، اتوار کا دن تھا اور ہم بھی کافی دیر بیٹھنے کا فیصلہ کر کے گئے تھے، ہم دونوں کافی عرصے بعد ملے تھے۔ تو انھوں نے مجھے روز میری کی زندگی میں جو بڑی مصیبت آئی، یعنی وہ ایک طرح سے بہت جذباتی ہو گئے تھا اور روز میری کی زندگی کی پریشانی کا مجھ سے ذکر کرتے ہوئے انھوں نے مجھے بتایا کہ روز میری کی آنکھ میں کچھ تکلیف ہوئی تھی اور اس کا آپریشن ہوا ہے۔ شاید کہ اس کے دماغ میں ٹیومر کا مسئلہ تھا اور اس کی وجہ سے اس کی سرجری ہوئی اور روز میری اس سرجری میں اپنی آنکھیں کھو بیٹھیں۔ وہ دیکھ نہیں سکتی تھی، آپ سوچ سکتے ہیں، زندگی کے اس مرحلے پر نظریں چلی جائیں، تو بندہ مایوس ہو جائے گا، بد حواس ہو جائے گا۔ اور ایک باپ کے طور پر میرے دوست اوڈنگا جی نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ کینیا کے بہت سینیئر لیڈر تھے، ان کے لیے دنیا تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ دنیا کا کوئی بڑا ملک ایسا نہیں ہوگا جہاں روز میری کا علاج نہ ہوا ہو۔ لیکن روز میری کی آنکھوں میں روشنی واپس نہیں آئی۔ آخر کار اسے ہندوستان میں کامیابی ملی اور وہ بھی آیورویدک علاج کے بعد۔ آیورویدک علاج ہوا اور روز میری کی روشنی واپس آ گئی، وہ آج دیکھ رہی ہے۔ جب اس نے پہلی بار اپنے بچوں کو دوبارہ دیکھا تو اوڈنگا جی مجھے بتا رہے تھے، وہ لمحات ان کی زندگی کے سنہری لمحات تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ روز میری بھی آج اس سمٹ میں شرکت کر رہی ہے، اس کی بہن بھی آئی ہے۔ اس کی بہن تو اب روایتی طب میں پڑھا رہی ہے اور کل وہ بھی آپ کے ساتھ اپنا تجربہ شیئر کرنے والی ہے۔ ساتھیوں، 21ویں صدی کا ہندوستان اپنے تجربات، اپنے علم، اپنی آگہی کو دنیا کے سامنے بانٹ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ہمارا ورثہ پوری انسانیت کے لیے میراث کی مانند ہے۔ ہم وسودھیو کٹمبکم کے لوگ ہیں۔ ہم دنیا کے درد کو کم کرنے کے لیے پر عزم لوگ ہیں۔ سرو سنتو نرامیا: یہ ہماری زندگی کا منتر ہے۔ ہمارا آیوروید، جو ہزاروں سالوں کی روایت ہے، ہزاروں سالوں کی تپسیا کی علامت ہے اور جو ہم رامائن سے سنتے آئے ہیں، لکشمن جی بیہوش ہو گئے، پھر ہنومان جی ہمالیہ گئے اور وہاں سے جڑی بوٹیاں لے کر آئے۔ آتم نربھر بھارت اس وقت بھی تھا۔ آیوروید کی خوشحالی کے پیچھے ایک اہم وجہ اس کا اوپن سورس ماڈل رہا ہے۔ آج ڈجیٹل دنیا میں اوپن سورس کا بڑا چرچا ہے اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ان کی دریافت ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ اوپن سورس روایت اس مٹی میں ہزاروں سالوں سے موجود ہے اور آیوروید اس اوپن سورس روایت میں پوری طرح سے تیار ہوا ہے۔ جس دور میں جس نے محسوس کیا، جس نے پایا، جوڑا۔ یعنی ایک طرح سے آیوروید کی ترقی کی تحریک ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔ نئی چیزیں شامل کی گئی ہیں، کوئی بندھن نہیں ہے، اس میں نئے خیالات کا استقبال ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اسکالرز کے تجربے، ان کے مطالعہ نے آیوروید کو مزید تقویت بخشی۔ آج کے دور میں بھی ہمیں اپنے اسلاف سے سیکھتے ہوئے اس فکری کشادگی کے جذبے سے کام لینا ہوگا۔ روایتی ادویات سے متعلق علم کی ترقی اور توسیع اسی وقت ممکن ہے جب ہم انہیں سائنسی روح کے ساتھ دیکھیں، ملکی حالات کے مطابق ڈھالیں۔ ساتھیوں، ڈبلیو ایچ او- گلوبل سنٹر فار ٹریڈیشنل میڈیسن کا افتتاح کل ہی جام نگر میں ہوا ہے، یعنی گجرات کی سرزمین پر جام نگر میں دنیا کی روایتی ادویات کا مرکز بننا ہر ہندوستانی، ہر گجراتی کے لیے فخر کی بات ہے۔ اور آج ہم پہلی آیوش انوویشن اینڈ انویسٹمنٹ سمٹ میں حصہ لے رہے ہیں، یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہندوستان اپنی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کا تہوار، آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے 25 سالوں کا ہمارا امرت کا دور دنیا کے کونے کونے میں روایتی ادویات کا سنہری دور ہوگا۔ آج ایک طرح سے پوری دنیا میں روایتی ادویات کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی عالمی آیوش انویسٹمنٹ اینڈ انوویشن سمٹ آیوش کے میدان میں سرمایہ کاری، تجارت اور اختراع کے لیے نئی راہیں کھولے گی۔ میں یقیناً بیرونی ممالک کے مہمانوں سے گزارش کروں گا جو آج آئے ہیں اور جو پہلی بار ہندوستان کے دوسرے حصوں سے آئے ہیں، اس مہاتما مندر میں ایک ڈانڈی کٹیر ہے۔ مہاتما گاندھی روایتی ادویات کے علمبردار رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ وقت نکال کر ڈانڈی کُٹیر کا دورہ کریں۔ آزادی کے اس امرت میں مہاتما گاندھی کو قریب سے جاننے کی کوشش کریں۔ آیوروید کے ساتھ ساتھ کوئی موقع ضائع نہ کریں۔ آج میں ایک اور خوشخبری سنانا چاہتا ہوں۔ ڈبلیو ایچ او کے ہمارے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس میرے بہت اچھے دوست رہے ہیں اور جب بھی ہم ملتے تھے تو ایک بات کہتے تھے کہ مودی جی، میں جو بھی ہوں، مجھے بچپن سے سکھایا ہے، ہندوستان کے اساتذہ یہاں میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے سکھایا، میری زندگی کے دوران ہندوستانی اساتذہ نے اس اہم مرحلے پر ایک بڑا کردار ادا کیا ہے اور مجھے ہندوستان کے ساتھ وابستہ ہونے پر بہت فخر ہے۔ آج صبح جب وہ مجھ سے ملے تو انھوں نے کہا کہ دیکھو میں پکا گجراتی ہو گیا ہوں۔ تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ میرا نام گجراتی رکھ لو۔ اسٹیج پر بھی وہ مجھے دوبارہ یاد دلاتے رہے کہ بھائی میرے نام کا فیصلہ کیا ہے یا نہیں۔ تو آج مہاتما گاندھی کی اس پاک سرزمین پر میرے سب سے اچھے دوست تلسی بھائی بطور گجراتی، تلسی وہ پودا ہے جسے آج کی نسل بھول رہی ہے، لیکن نسل در نسل وہ پودا لگائیں جو ہندوستان کے اندر ہر گھر کے سامنے لگائیں، اس کی پوجا کریں۔ یہ ایک روایت رہی ہے۔ تلسی وہ پودا ہے جو ہندوستان کے روحانی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے اور اسی لیے جب آیوروید کا سمٹ کیا جا رہا ہے اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ دیوالی کے بعد ہمارے ملک میں اس تلسی کی شادی کی ایک بڑی تقریب ہوتی ہے۔ یعنی اس تلسی کا تعلق آیوروید سے ہے اور جب یہ گجراتی ہے تو بھائی کے بغیر بات نہیں بنتی اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ گجراتی میں کچھ نہ کچھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کا گجرات سے لگاؤ رہا ہے۔ جن گروؤں نے آپ کو سکھایا ہے، آپ مسلسل ان کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں، اس مہاتما مندر کی مقدس سرزمین سے آپ کو تلسی بھائی کہہ کر پکارنا میرے لیے خاص خوشی کی بات ہے۔ میں ایک بار پھر آپ دونوں معززین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس اہم تقریب میں ہمارے درمیان آئے۔ میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!,"গান্ধীনগৰ, গুজৰাটত গ্লবেল আয়ুষ ইনভেষ্টমেণ্ট এণ্ড ইন’ভেচন ছামিটত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DA%88%DB%8C%D8%B4%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%DA%A9%D8%A6%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A7%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%89/,نئی دہلی،15جنوری /2019 بھارت ماتا کی جے۔اڈیشہ کے گورنر پروفیسر گنیش لال جی ،مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب جوئل اورام جی، دھرمیندر پردھان جی، اڈیشہ سرکار میں وزیر، اسنیہا گنی چھوریا جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب کلی کیش نارائن سنگھ دیو جی اور یہاں تشریف فرما میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں ۔نئے سال میں ایک مرتبہ پھر اڈیشہ آنے کا موقع ملا ہے۔ مکرسنکرانتی کے موقع پر یہاں آنا اور ترقی کی نئی روشنی سے وابستہ ہونا اپنے آپ میں اہم ہے۔ تہواروں کے اس مقدس موقع پر اڈیشہ ریاست کے آپ سبھی افراد کو بہت بہت نیک خواہشات۔ ساتھیوں،مشرقی ہندوستان کی ترق کے لئے ، اڈیشہ کی ترقی کے لئے مرکزی حکومت کی کوششیں جاری ہیں۔ پچھلے ایک مہینے میں تیسری مرتبہ میں آپ کے درمیان آیا ہوں ۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں ساڑھے 15 کروڑ روپئے سے زیادہ کی اسکیموں کا افتتاح کیا گیا یاسنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ اسکیمیں تعلیم سے جڑی ہے،کنکٹیویٹی سے جڑی ہے، ثقافت اور سیاحت سے جڑی ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ آج کیندریہ ودیالیہ سونے پور کے مقامی بھون کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ جب یہ کام پورا ہو جائے گا تو سونے پور کے ساتھ ساتھ اس پورے علاقے کے ہزاروں طلبہ اور طالبات کو فائدہ پہنچے گا۔ اڈیشہ میں کیندریہ ودیالیہ میں ہزاروں لڑکے ،لڑکیاں پڑھتے ہیں ۔ یہاں کیندریہ ودیالیہ کی مطالبے کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے متعدد اقدام کئے ہیں ۔ 2014 کے بعد کئی نئے کیندریہ ودیالیوں کا افتتاح یہاں ہو چکا ہے اور کچھ پر کام آخری مرحلے میں چل رہا ہے۔ ساتھیوں ،تعلیم ،انسانی وسائل کو فروغ دیتی ہے۔ یہ وسائل اس وقت مواقع میں بدلتے ہیں جب کنکٹیویٹی کا بھی سہارا ہو۔ اسی خواہش کے تحت اڈیشہ میں کنکٹیویٹی کو ترقی دی جا رہی ہے۔ آج ریلوے سے جڑے 6 پروجیکٹوں کی شروعات یا افتتاح کیا گیا ہے۔ اس سے اڈیشہ کے اندر کی کنکٹیویٹی تو سدھرے گی ہی، ملک کی دوسری ریاستوں تک آمدورفت بھی آسان ہو جائے گی۔ اس سے آپ لوگوں کو آنے جانے کی سہولت تو ہوگی ہی کسان بھائیوں کو اپنی پیدا وار کو بڑی منڈیوں تک یا بڑے شہروں تک پہنچانے میں زیادہ آسانی بھی ہوگی۔ آنے –جانے اور مال برداری کے لئے سہولتیں مہیا ہونے سے یہاں صنعتوں کے لئے بھی ایک بہتر ماحول پیدا ہو گا۔ جب صنعتیں یہاں آنے لگیں گی تو نوجوانوں کے لئے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ ساتھیوں ،تھوڑی دیر پہلے بلانگیرسے بچھو پلّی کے درمیان جو نئی ریل لائن بنی ہے اس کا افتتاح ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر نئی ٹرین کو بھی ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ اس کے لئے میں آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ جھار سوگھڑا کے ملٹی مادل لاجسٹک پارٹی چھار سوگڑا وجے نگرم اور سانبھل پور انگُل لائن کے دوہرا بنانے ، بارپلی ڈگری پلّی اور بلانگیر دیو گاؤں کو وسیع کرنے اور ناگاولی ندی پر بنے پل کے لئے بھی آپ سب بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں ۔میں آپ کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ساتھیوں ، کنکٹیویٹی جب اچھی ہوتی ہے تو تقریباً ہر سیکٹر پر اس کے موثر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر ٹورزم کے لئے تو سب سے زیادہ امکانات بڑھتے ہیں ۔ اڈیشہ تو ویسے ہی ہر طرح سے سیاحوں کے لئے پر کشش مقام رہا ہے۔ یہاں جنگل بھی ہیں اور سمندر کا کنارا بھی ہے فطرت نے یہاں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ وہیں تاریخ اور عقیدت کا ایک طرح سے مرکز بھی رہا ہے۔ ساتھیوں،اسی جذبے کے تحت پچھلے چار برسوں سے مرکزی حکومت پرانی عمارتوں اور عقیدت کے مقامات کو ترقی دینے میں جڑی ہوئی ہے۔ اڈیشہ کے متعدد مندروں ،پرانے قلعوں اور دوسرے مقامات کی تزئین کاری انہیں سنوارنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں ۔ اسی سلسلے میں نیل مادھو اور سدھیشور مندروں کے احیاء اور ان کی تزئین کاری کے کام کا آج آغاز کیا گیا ہے۔ اسی طرح مغربی سومناتھ مندر ، بھونیشور مندر اور کپلیشور مندرکی بھی مرمت اور تزئین کاری کا کام پورا ہو چکا ہے اور آج اس کا بھی افتتاح ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کا جو ایک روایتی کاروباری راستہ رہا ہے اڈیشہ کو وسطی ہندوستان سے جوڑتا ہے۔ اس راستے میں مختلف تاریخی عمارتیں ہیں ۔ یہاں بلانگیر میں ہی رانی پور، جھریال جویادگاری عمارتوں کاجھنڈ ہے اس کو بھی سنوارا جا رہا ہے۔ وہاں 64 یوگینی مندر ہو یا پھر لہرا گونی سومیشور، رانی گونی یا پھر اندرالی مندر عقیدت اور ہمارے تاریخی مقام کا درشن دینے والے یہ تمام عمارتیں اپنی عظمت اور شان کو بڑھانے والی ہے۔ ساتھیوں ایک اور یادگار کی مرمت کی آج شروعا ت ہوئی ہے۔ کالا ہانڈی کا اسوراگڑھ قلع یہاں ہمارے ماضی کا عکاس تو رہا ہی ہے ساتھ میں ایک اہم سیاسی اور کاروباری مرکز بھی تھا۔ یہ مہاکنتارا کو کالنگ سے جوڑتا تھا۔ اپنی تاریخ کے ان سنہرے ابواب کے ساتھ دوبارہ جڑتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں قیمتی سہولتوں کی ترقی ہوئی ہے ۔ عقیدتمندوں اور سیاحوں کے لئے جو کام کیا گیا ہے، اس سے یہاں کی سیاحت کو ترقی ملے گی اور روزگار کے مواقع میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ ساتھیوں ، آج یہاں 6 نئے پوسٹ آفس پاسپورٹ مرکزوں کی شروعات بھی ہوئی ہے۔ بلانگیر کے علاوہ جگت سنگھ پور ، کیندرپاڑا ، پوری، پھولبنی، بارگڑھ میں یہ نئے مرکز کھلنے سے اب یہاں کے لوگوں کو پاسپورٹ کے لئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھیوں، آج آپ سبھی کو اڈیشہ کے لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے والے ان سبھی پروجیکٹوں کے لئے میں ایک بار پھر اڈیشائیوں ��و بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ آپ کو نئے سال کی دوبارہ بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ!,ওড়িশাৰ বলাংগীৰত একাধিক উন্নয়নমূলক প্রকল্পৰ উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80/,نئی دہلی ،14فروری :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ڈھانچہ جاتی سہولیات کے نظام کے قیام کے لئے ہندوستان اورسعودی عرب کے درمیان مفاہمتی عرضداشت کو منظوری دے دی گئی ۔ اس مفاہمتی عرضداشت سے ہندوستان کے ڈھانچہ جاتی سہولیات کے شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے حصول کے لئے سعودی عرب کے اداروں کی توجہ مبذول کرانے کی سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہوگی ، جس کے نتیجے میں ملک میں ڈھانچہ جاتی سہولیات کو زبردست فروغ حاصل ہوگا ، ملازمتوں کے زیادہ مواقع پیداہوں گے ، ذیلی صنعتوں اورشعبوں میں زبردست نموہوگی ، جس سے مجموعی گھریلو شرح نمومیں اضافہ ہوگا اور مجموعی معاشی خوشحالی آئیگی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,ভাৰতত বিনিয়োগ সংক্রান্তীয় পৰিকাঠামো গঢ়ি তুলিবৰ বাবে ভাৰত আৰু ছৌদি আৰৱৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D9%84-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%B0/,مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو جی، وزیر مملکت ایس پی سنگھ بگھیل جی، میٹنگ میں شامل تمام ریاستوں کے وزرائے قانون، سکریٹری حضرات، اس اہم کانفرنس میں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات، ملک کے اور تمام ریاستوں کے وزرائے قانون اور سکریٹری حضرات کی یہ اہم میٹنگ، مجسمہ اتحاد کی عظمت کے درمیان منعقد ہو رہی ہے۔ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تب مفاد عامہ کو لے کر سردار پٹیل کی ترغیب، ہمیں صحیح سمت میں بھی لے جائے گی اور ہمیں مقصد تک پہنچائے گی۔ ساتھیو، ہر معاشرے میں اس دور کے مطابق قانونی نظام اور مختلف ضابطے اور رواج پیدا ہوتے رہے ہیں۔ صحت مند معاشرے کے لیے، خود اعتمادی سے لبریز معاشرے کے لیے، ملک کی ترقی کے لیے قابل بھروسہ اور تیز رفتار قانونی نظام بہت ہی ضروری ہے۔ جب انصاف ملتے ہوئے نظر آتا ہے، تو آئینی اداروں کے تئیں اہل وطن کا بھروسہ مضبوط ہوتا ہے۔ اور جب انصاف ملتا ہے، تو ملک کے عوام الناس کی خوداعتمادی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے۔ اس لیے، ملک کے قانونی نظام کو مسلسل بہتر بنانے کے لیے اس طرح کے انعقاد ازحد اہم ہیں۔ ساتھیو، بھارت کے معاشرے کی ترقی کا سفر ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔ تمام تر چنوتیوں کے باوجود بھارتی سماج نے مسلسل ترقی کی ہے، تسلسل برقرار رکھا ہے۔ ہمارے سماج میں اخلاقیات کے تئیں اصرار اور بھرپور ثقافتی ریتی رواج موجود ہیں۔ ہمارے سماج کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ ترقی ک�� راستے پر بڑھتے ہوئے، خود کی اصلاح بھی کرتا چلتا ہے۔ ہمارا سماج غیر ضروری ہوچکے قوانین و ضوابط ، برے رواجوں، کو ہٹا دیتا ہے، پھینک دیتا ہے۔ ورنہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ رواج جب فرسودہ بن جاتا ہے ، تو سماج پر وہ ایک بوجھ بن جاتا ہے، اور سماج اس بوجھ کے تلے دب جاتا ہے۔ اس لیے ہر نظام میں مسلسل اصلاح ایک لازمی امر بن جاتی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا، میں اکثر کہتا ہوں کہ ملک کے لوگوں کو حکومت کے نہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہونا چاہئے اور ملک کے لوگوں کو حکومت کا دباؤ بھی محسوس نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کا دباؤ جن باتوں سے بھی بنتا ہے، اس میں غیر ضروری قوانین کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔ گذشتہ 8 برسوں میں بھارت کے شہریوں پر سے حکومت کا دباؤ ہٹانے پر ہماری خصوصی توجہ رہی ہے۔ آپ بھی واقف ہیں کہ ملک نے ڈیڑھ ہزار سے زائد پرانے اور فرسودہ قوانین کو منسوخ کر دیا ہے۔ ان میں سے بیشتر قوانین تو غلامی کے وقت سے چلے آرہے تھے۔ اختراع اور زندگی بسر کرنا آسان بنانے کے راستے سے قانونی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے 32 ہزار سے زائد ضوابط بھی کم کیے گئے ہیں۔ یہ تبدیلی عوام کی سہولت کے لیے ہے، اور وقت کے حساب سے بھی بہت ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ غلامی کے دور کے متعدد قدیم قوانین اب بھی ریاستوں میں چل رہے ہیں ۔ آزادی کے اس امرت کال میں، غلامی کے وقت سے چلے آرہے قوانین کو ختم کرکے نئے قوانین آج کی تاریخ کے حساب سے وضع کرنا ضروری ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس کانفرنس میں اس طرح کے قوانین کی تنسیخ کا راستہ بنانے پر ضرور غور و فکر ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ریاستوں کے جو موجودہ قوانین ہیں، ان کا جائزہ بھی بہت مددگار ثابت ہوگا۔ اس جائزے کے تحت ایز آف لیونگ پر توجہ دی جانی چاہئے اور ایز آف جسٹس پر بھی۔ ساتھیو، انصاف میں تاخیر ایک ایسا موضوع ہے، جو بھارت کے شہریوں کی سب سے بڑی چنوتیوں میں سے ایک ہے۔ ہماری عدالتیں اس سمت میں کافی سنجیدگی سے کام کر رہی ہیں۔ اب امرت کال میں ہمیں مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ بہت ساری کوششوں میں، ایک متبادل ’الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن‘ کا بھی ہے، جسے ریاستی حکومت کی سطح پر فروغ دیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے مواضعات میں اس طرح کا نظام بہت پہلے سے کام کرتا رہا ہے۔ وہ اپنا طریقہ ہوگا، اپنا نظام ہوگا، لیکن سوچ یہی ہے۔ ہمیں ریاستوں میں مقامی سطح پر اس نظام کو سمجھنا ہوگا، اسے کیسے قانونی نظام کا حصہ بنا سکتے ہیں، اس پر کام کرنا ہوگا۔ مجھے یاد ہے، جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو ہم نے ’ایوننگ کورٹس ‘کی شروعات کی تھی اور ملک میں اولین ایوننگ کورٹ کی شروعات وہاں ہوئی تھی۔ ایوننگ کورٹس میں بیشتر ایسے معاملات آتے تھے جو دفعات کے لحاظ سے بہت کم سنگین نوعیت کے ہوتے تھے۔ لوگ بھی دن بھر اپنا کام کاج نپٹاکر، ان عدالتوں میں آکر عدالتی کاروائی مکمل کرتے تھے۔ اس سے ان کا وقت بھی بچتا تھا اور معاملات کی سنوائی بھی تیزی سے ہو تی تھی۔ ایوننگ کورٹس کی وجہ سے گجرات میں گذشتہ برسوں میں 9 لاکھ سے زائد کیسوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ملک میں تیزرفتار انصاف کا ایک اور وسیلہ لوک عدالتیں بھی بنی ہیں۔ متعدد ریاستوں میں اسے لے کر بہت اچھا کام بھی ہوا ہے۔ لوک عدالتوں کے توسط سے ملک میں گذشتہ برسوں میں لاکھوں معاملات کو سلجھایا گیا ہے۔ ان سے عدالتوں کا بوجھ بھی بہت کم ہوا ہے اور خاص طور پر گاؤں میں رہنے والے لوگوں کو، غریبوں کو انصاف بھی ملنا آسان ہوا ہے۔ ساتھیو، ��پ میں سے بیشتر لوگوں کے پاس پارلیمانی امور کی وزارت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یعنی آپ تمام حضرات قانون بننے کے عمل سے بھی کافی قریب سے گزرتے ہیں۔ مقصد کتنا ہی اچھا ہو، لیکن اگر قانون میں ہی شبہ ہوگا، وضاحت کا فقدان ہوگا، تو اس کا بہت بڑا خمیازہ مستقبل میں عام شہریوں کو بھگتنا پڑے گا۔ قانون کی پیچیدگی، اس کی زبان ایسی ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے، پیچیدگی کی وجہ سے، عام شہریوں کو بہت سارا پیسہ خرچ کرکے انصاف کی حصولیابی کے لیے ادھر اُدھر دوڑنا پڑتا ہے۔ اس لیے قانون جب عوام الناس کی سمجھ میں آتا ہے، تو اس کا اثر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اس لیے کچھ ممالک میں جب پارلیمنٹ یا اسمبلی میں قانون وضع کیا جاتا ہے، تو دو طرح سے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔ ایک ہے قانون کی تعریف متعین کرنے میں تکنیکی الفاظ کا استعمال کرتےہوئے اس کی تفصیلی وضاحت کرنا ، اور دوسرا اُس زبان میں قانون کو لکھنا اور جو عام زبان میں لکھنا، اس ملک کے عام انسان کو سمجھ آئے، اس صورت میں لکھنا، قانون کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھنا۔ اس لیے قانون وضع کرتے وقت ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ غریب سے غریب بھی نئے بننے والے قانون کو اچھی طرح سمجھ پائے۔ کچھ ممالک میں ایسا بھی ضابطہ ہوتا ہے کہ قانون بنتے وقت ہی یہ طے کر دیا جاتا ہے کہ وہ قانون کب تک نافذ العمل رہے گا۔ یعنی ایک طرح سے قانون بنتے وقت ہی اس کی عمر، اس کے ختم ہونے کی تاریخ طے کر دی جاتی ہے۔ یہ قانون 5 برس کے لیے ہے، یہ قانون 10 برس کے لیے ہے، طے کر لیا جاتا ہے۔ جب وہ تاریخ آتی ہے تو اس قانون کا نئی صورتحال میں پھر سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی ہمیں اسی احساس کو آگے لے کر بڑھنا ہے۔ ایز آف جسٹس کے لیے قانونی نظام میں مقامی زبان کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ میں ہماری عدالتوں کے سامنے بھی اس موضوع کو مسلسل اٹھاتا رہا ہوں۔ اس سمت میں ملک کئی بڑی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ کسی بھی شہری کے لیے قانون کی زبان رکاوٹ نہ بنے، ہر ریاست اس کے لیے بھی کام کرے۔ اس لیے ہمیں لاجسٹکس اور بنیادی ڈھانچہ کی حمایت بھی درکار ہوگی، اور نوجوانوں کے لیے مادری زبان میں تعلیمی ایکونظام بھی بنانا ہوگا۔ قانون سے وابستہ کورسیز مادری زبان میں ہوں، ہمارے قانون آسان اور سہل زبان میں لکھے جائیں، ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے اہم معاملات کی ڈجیٹل لائبریری مقامی زبان میں ہو، اس کے لیے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ اس سے عوام الناس میں قانون کو لے کر معلومات میں بھی اضافہ ہوگا، اور بوجھل قانونی الفاظ کا خوف بھی کم ہوگا۔ ساتھیو، جب عدالتی نظام سماج کے ساتھ ساتھ وسعت اختیار کرلیتا ہے، جدیدیت کو قبول کرنے کی فطرت اس میں موجود ہوتی ہے تو سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، وہ انصاف کے نظام میں بھی نظر آتی ہیں۔ تکنالوجی کس طرح سے آج عدالتی نظام کا بھی اٹوٹ حصہ بن گئی ہے، اسے ہم نے کورونا کے دور بھی دیکھا ہے۔ آج ملک میں ای۔کورٹس مشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ورچووَل سنوائی اور ورچووَل پیشی جیسے نظام اب ہمارے عدالتی نظام کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، کیس کی ای-فائلنگ کو بھی بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اب ملک میں 5جی کے آنے سے ان انتظام کاریوں میں اور بھی تیزی آئے گی، اور بہت بڑی تبدیلیاں جو اس میں مضمر ہیں، ہونے والی ہیں۔ اس لیے ہر ریاست کو اسے مدنظر رکھتے ہوئے اپنے عدالتی نظام کو اپ ڈیٹ اور اپ گریڈ کرنا ہی پڑے گا۔ ہماری قانونی تعلیم کو تکنالوجی کے حساب سے تیار کرنا بھی ہمارا ایک اہم ہ��ف ہونا چاہئے۔ ساتھیو، مضبوط ملک اور یکساں سماج کے لیے حساس عدالتی نظام ایک لازمی شرط ہے۔ اسی لیے ، میں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حضرات کے مشترکہ اجلاس میں زیر سماعت معاملات کا موضوع اٹھایا تھا۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ معاملات کی تیزرفتار سماعت کے لیے ریاستی حکومت کے ذریعہ جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ ضرور کریں۔ زیر غور قیدیوں کو لے کر بھی ریاستی حکومتیں پورے انسانی نقطہ نظر کے ساتھ کام کریں، تاکہ عدالتی نظام ایک انسانی اصول کے ساتھ آگے بڑھے۔ ساتھیو، ہمارے ملک کے عدالتی نظام کے لیے آئین ہی بالاتر ہے۔ اسی آئین کی کوکھ سے عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکیوٹیو، تینوں کا ہی جنم ہوا ہے۔ حکومت ہو، پارلیمنٹ ہو، ہماری عدالتیں ہوں، یہ تینوں ایک طرح سے ایک ہی ماں یعنی آئین کی اولاد ہیں۔ اس لیے کام مختلف ہونے کے باوجود، اگر ہم آئین کے جذبے کو دیکھیں تو بحث و مباحثہ کے لیے،ایک دوسرے سے سبقت کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ایک ماں کی اولاد کی طرح ہی تینوں کو ماں بھارتی کی خدمت کرنی ہے، تینوں کو مل کر 21ویں صدی میں بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس میں جو غور و فکر ہوگا، اس سے ملک کے لیے قانونی اصلاحات کا امرت ضرور نکلے گا۔ آپ سب سے میری درخواست ہے کہ وقت نکال کر مجسمہ اتحاد اور اس کے پورے احاطے میں جو توسیع و ترقی ہوئی ہے، اس کو آپ ضرور ملاحظہ کریں۔ ملک اب بہت تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ آپ کے پاس جو بھی ذمہ داری ہے، اس کو آپ بخوبی ادا کریں۔ یہی میری آپ کو نیک خواہشات ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔,আইন মন্ত্ৰী আৰু সচিবসকলৰ সৰ্বভাৰতীয় সন্মিলনৰ উদ্বোধনী অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অনূদিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%DB%8C%D8%AA%D9%86%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%85/,نئی دہلی،28 فروری / وزیراعظم جناب نریندرمودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور ویتنام کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ یہ مفاہمت نامہ بھارت اور ویتنام کے درمیان باہمی ، تجارت اور اقتصادی تعاون کو وسیع کرے گا۔,ভাৰত আৰু ভিয়েটনামৰ মাজত অৰ্থনৈতিক আৰু বাণিজ্য ক্ষেত্ৰত বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-22-21-%D8%A7%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-4/,برطانیہ کے وزیراعظم عزت مآب بورس جانسن بھارتی وزیراعظم جناب نریندر مودی کی دعوت پر 22–21 اپریل 2022 کو بھارت کے سرکاری دورے پر ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کے طور پر یہ ان کا بھارت کا پہلا دورہ ہے۔ 2. وزیراعظم جانسن کا 22 اپریل 2022 کو راشٹرپتی بھون میں رسمی استقبال کیا گیا، جہاں وزیراعظم مودی نے ان کا خیرمقدم کیا۔وزیراعظم جانسن نے بعد میں راج گھاٹ کا دورہ کیا اور مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 3. وزیراعظم مودی نے حیدرآباد ہاؤس میں دورے پ��ر آئے وزیراعظم کے ساتھ دو طرفہ مشاورت کی اور ان کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ قبل ازیں وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے برطانیہ کے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ 4. دوطرفہ بات چیت میں دونوں وزرائے اعظم نے مئی 2021 میں ورچوئل سمٹ میں شروع کیے گئے روڈ میپ 2030 پر ہونے والی پیش رفت کو سراہا اور دوطرفہ تعلقات کے وسیع ترشعبوں میں مزید مضبوط اور عمل پر مبنی تعاون کو آگے بڑھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ایف ٹی اے کے جاری مذاکرات اور بہتر تجارتی شراکت داری کے نفاذ میں پیش رفت کو سراہا اور اکتوبر 2022 کے آخر تک ایک جامع اور متوازن تجارتی معاہدہ کرنے پر اتفاق کیا۔ ایف ٹی اے 2030 تک دو طرفہ تجارت کو دوگنا کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ 5. دونوں رہنماؤں نے دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو بھارت-برطانیہ جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے کلیدی عنصر کے طور پر تبدیل کرنے پر اتفاق کیا اور دونوں ممالک کی مسلح افواج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مشترکہ تیاری اور مشترکہ پروڈکشن سمیت دفاعی اشتراک کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقوں نے سائبر سکیورٹی پر تعاون کو مزید تیز کرنے کے لیے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، خاص طور پر سائبر گورننس، سائبر تدارک اور اہم قومی انفراسٹرکچر کے تحفظ کے شعبوں میں۔ انہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسلسل خطرے سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون پر بھی اتفاق کیا۔ 6. دونوں وزرائے اعظم نے باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جس میں بھارت -بحرالکاہل، افغانستان،اقوام متحدہ سلامتی کونسل ، جی 20 اور دولت مشترکہ میں تعاون شامل ہے۔ بھارت نے بحری سکیورٹی کے ایک اہم ستون کے تحت انڈو پیسیفک اوشینز انیشی ایٹو میں برطانیہ کی شمولیت کا خیرمقدم کیا اور بھارت -بحرالکاہل خطے میں روابط کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ 7. دونوں رہنماؤں نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری تصادم پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم مودی نے بڑھتے ہوئے انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور تشدد کے فوری خاتمے اور آگے بڑھنے کے واحد راستے کے طور پر براہ راست بات چیت اور سفارت کاری کی طرف واپسی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔ 8. وزیراعظم مودی نے گزشتہ سال سی او پی 26 کے کامیاب انعقاد کے لیے وزیر اعظم جانسن کو مبارکباد دی۔ انہوں نے پیرس معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے اورآب وہوا میں تبدیلی سے متعلق گلاسگو معاہدے کو نافذ کرنے کے لیے حوصلہ مندانہ موسمیاتی کارروائی کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے صاف ستھری توانائی کو تیز رفتار سے بروئے کار لانے کے تعلق سے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا جس میں آف شور ونڈ انرجی اور گرین ہائیڈروجن شامل ہیں اور آئی ایس اے کے تحت گلوبل گرین گرڈز-ون سن ون ورلڈ ون گرڈ انیشی ایٹیو (او ایس او ڈبلیو او جی) اور سی ڈی آر آئی کے تحت آئی آر آئی ایس پلیٹ فارم کے جلد آپریشنلائزیشن کے لیے مل کر کام کریں گے، جن کا آغاز ہندوستان اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر سی او پی 26 میں کیا تھا۔ 9. دورے کے دوران بھارت -برطانیہ گلوبل انوویشن پارٹنرشپ اور گلوبل سنٹر فار نیوکلیئر انرجی پارٹنرشپ (جی سی این ای پی) کے نفاذ پر دو مفاہمت ناموں کا تبادلہ ہوا۔ گلوبل انوویشن پارٹنرشپ کے ذریعے، بھارت اور برطانیہ نے تیسرے ممالک کو موسمیاتی اسمارٹ پائیدار اختراعات کی منتقلی اور اسے بڑھانے میں مدد کے لیے 75ملین پاونڈ تک تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس شراکت داری کے تحت بنائے گئے انوکھے جی آئی پی فنڈ کا مقصد بھارتی اختراعات کے تعاون کے لیے مارکیٹ سے اضافی100ملین پاونڈ اکٹھا کرنا بھی ہے۔ 10. درج ذیل اعلانات بھی کیے گئے – (I) اسٹریٹجک ٹیک ڈائیلاگ – نئی اور ابھرتی ہوئی مواصلاتی ٹیکنالوجیز جیسے 5جی ،اے آئی وغیرہ پر وزارتی سطح کی گفتگو۔ (II) مربوط الیکٹرک پرپلشن پر تعاون – دونوں بحریہ کے درمیان مشترکہ طورپر ٹیکنالوجی کا فروغ ۔ 11. وزیر اعظم جانسن نے اس سے قبل 21 اپریل کو احمدآباد، گجرات سے اپنا دورہ شروع کیا تھا جہاں انہوں نے سابرمتی آشرم، مسواڈ انڈسٹریل اسٹیٹ، وڈودرا میں جے سی بی پلانٹ اور گفٹ سٹی، گاندھی نگر میں گجرات بائیو ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ 12. وزیراعظم مودی نے وزیر اعظم جانسن کو 2023 میں بھارت کی صدارت میں ہونے والی جی 20 سربراہ کانفرنس کے لیے بھارت آنے کی دعوت دی ۔ وزیر اعظم جانسن نے وزیر اعظم مودی کو برطانیہ کے دورے کی اپنی دعوت کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم مودی نے دعوت قبول کرلی۔ مفاہمتی قراردادوں کے تبادلےکی فہرست,"ব্ৰিটেইনৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাৰত ভ্ৰমণ (২১-২২ এপ্ৰিল,২০২২" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-18%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-90%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%90%D9%86%D9%B9%D8%B1-%D9%BE%D9%88%D9%84-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 18اکتوبر کو سہ پہر تقریباً 1:45بجے پرگتی میدان، نئی دہلی میں 90ویں اِنٹرپول جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اِنٹر پول کی 90ویں جنرل اسمبلی 18 سے 21اکتوبر تک منعقد ہوگی۔ میٹنگ میں اِنٹر پول کے195ممبر ممالک کے نمائند شامل ہوں گے، جن میں وزراء، ممالک کے پولس سربراہان، نیشنل سینٹر بیورو کے سربراہان اور سینیئر پولس افسران شامل ہوں گے۔جنرل اسمبلی اِنٹر پول کی اعلیٰ ترین گورننگ باڈی ہے اور اس کے کام کاج سے متعلق اہم فیصلہ لینے کے لئے سال میں ایک بار میٹنگ کا انعقاد کرتی ہے۔ اِنٹر پول جنرل اسمبلی کی میٹنگ ہندوستان میں تقریباً 25سال کے وقفے کے بعد منعقد ہورہی ہے، اس سے قبل یہ 1997میں منعقد ہوئی تھی۔ہندوستان کی آزادی کے 75ویں سال کی تقریبات کے ساتھ نئی دہلی میں 2022 میں,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৮ অক্টোবৰত ইন্টাৰপোলৰ ৯০ সংখ্যক সাধাৰণ সভা সম্বোধন কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D9%88%DB%81%D9%86%D9%88-%D8%8C-%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%B3%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%8C-%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج قومی شاہراہ 105 پر پنجور سے نالا گڑھ تک قومی شاہراہ کو چار لین کا بنانے کے لئے 1690 کروڑ روپے کی لاگت والے تقریباً 31 کلو میٹر طویل پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیراعظم نے ایمس بلاسپور کو قوم کےلئے وقف کیا۔ وزیراعظم نے نالا گڑھ میں میڈیکل ڈیوائز پارک کا بھی سنگ بنیاد رکھا، جو 350 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کرایا جائے گا۔ وزیراعظم نے بندلا میں گورنمنٹ ہائیڈرو انجینئرنگ کالج کا افتتاح کیا۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے تمام لوگوں کو وجے دشمی کی مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مبارک تہوار ہر کسی کو ہر رکاوٹ کو پار کرتے ہوئےپنچ پرن کی راہ پر چلنے کے لئے نئی ��وانائی دے گا۔ انہوں نے کہا کہ وجے دشمی کے مبارک موقع پر ہماچل پردیش میں موجودگی آنے والی کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلاسپور کو صحت اور تعلیم کا دوہرا تحفہ ملا ہے۔ انہوں نے کلو دسہرہ میں شامل ہونے کا موقع ملنے پر اظہار تشکر کیااور کہا کہ وہ بھگوان رگھوناتھ جی سے قومی کی بہبود کے لئے دعاء کریں گے۔ وزیراعظم نے پرانے وقت کو یاد کیا، جب وہ اور ان کے ساتھی اس علاقے میں رہتے تھے اور یہاں کام کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ ہماچل پردیش کی ترقی کے سفر کا حصہ بننے پر وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں گزشتہ برسوں میں ہوئی ترقی کی بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ عوام کے ووٹ ہی ہیں، جو اس پوری ترقی کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں کہا کہ ریاستی عوام ریاست اور مرکز پر جس طرح سے اعتماد کرتے ہیں اس سے ترقی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت عرصے تک یہی سوچ پائی جاتی تھی کہ تعلیم، سڑکیں، صنعتیں اور اسپتال جیسی سہولیات صرف بڑے شہروں کے لئے ہیں۔ جہاں تک پہاڑی علاقوں کا تعلق ہے، بنیادی سہولیات سب سے آخر میں وہاں تک پہنچتی تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وجہ سے ملک کی ترقی میں زبردست عدم توازن آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماچل پردیش کے عوام کو چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے بھی چنڈی گڑھ یا دہلی جانا پڑتا تھا، لیکن گزشتہ 8 برسوں میں ڈبل انجن گورنمنٹ نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج ہماچل پردیش میں آئی آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور آئی آئی آئی ٹی جیسی مرکزی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ایمس، بلاسپور ہندوستان میں میڈیکل تعلیم کا اعلیٰ ترین ادارہ ہونے کی وجہ سے بلاسپور کے وقار کو بڑھائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 8 برسوں میں ہماچل پردیش نے ترقی کی نئی بلندیاں سر کی ہیں۔ وزیراعظم نے حکومت کے کام کاج میں تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب سنگ بنیاد طے شدہ مدت کے تحت رکھی جاتی ہے تاکہ وقت پر انہیں قوم کو وقف کیا جائے۔ قومی کی تعمیر میں ہماچل پردیش کے حصے کی بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے مطلع کیا کہ ریاست راشٹر رکشا میں کلیدی رول ادا کرتی ہے اور اب بلاسپور میں ایمس کا افتتاح ہونے سے یہ ریاست جیون رکشا میں بھی اہم رول ادا کرے گی۔ وزیراعظم نے وزارت صحت اور ریاستی حکومت کی تعریف کی کہ انہوں نے عالمی وبا کے باوجود بروقت تکمیل کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماچل پردیش کے عوام کے لئے فخر کا لمحہ ہے کہ وہ ان تین ریاستوں میں شامل ہے، جنہیں بَلک ڈرگس پارک کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ ہماچل پردیش کو ان چار ریاستوں میں سے ایک ہونے کا فخر بھی حاصل ہے، جنہیں میڈیکل ڈیوائز پارک کے لئے چنا گیا ہے اور نالاگڑھ ڈیوائز پارک اس کا حصہ ہے۔ یہ بہادروں کی دھرتی ہے اور میں اس سرزمین کا احسانمند ہوں۔ میڈیکل ٹورزم کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہماچل پردیش میں انگنت مواقع ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں کی ہوا، ماحول اور ریاست کی جڑی بوٹیاں ریاست کے لئے بے انتہا فائدوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ غریبوں اور متوسط طبقے کی زندگی میں آسانیاں لانے کی حکومت کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دوردراز کے علاقوں میں اسپتال دستیاب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ عوام کے طبی اخراجات کو کم کیا جا سکے۔ اسی وجہ سے ہم ڈسٹرکٹ اسپتالوں اور گاؤوں میں طبی نگہداشت مراکز کو ایمس سے جوڑنے پر کام کر رہے ہیں۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ریاس�� کے زیادہ تر کنبوں کو پانچ لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت ہے۔ ملک بھر میں تین کروڑ سے زیادہ مریضوں میں سے ڈیڑھ لاکھ مستفیدین ہماچل پردیش کے ہیں۔ حکومت نے ملک بھر میں 45 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے ہیں ناور اس طرح مریضوں کے تقریباً 90 ہزار کروڑ روپے بچائے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈبل انجن گورنمنٹ کی بنیاد ساری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی خوشی، رسائی، وقار اور صحت کو یقینی بنانے پر ہے۔ تمام لوگوں کو باوقار زندگی فراہم کرنا ہماری حکومت کی ترجیح ہے۔ انہوں نے ماؤں اور بہنوں کو بااختیار بنانے کے لئے بیت الخلاء کی تعمیر، مفت گیس کنکشن، سینٹری پیڈ کی مفت تقسیم کی اسکیم، ماتروندنا یوجنا اور ہر گھر جل مہم جیسے اقدامات کا ذکرکیا۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کواس بات کے لئے مبارکباد دی کہ انہوں نے مرکزی اسکیموں پر تندہی اور صدق دلی سے عمل درآمد کرایا۔ انہوں نے ہر گھر جل اور پنشن جیسی سوشل سکیورٹی اسکیموں پر تیزی سے عمل درآمد کی تعریف کی۔ اس کے علاوہ ہماچل پردیش کے متعدد کنبوں کو ایک عہدہ -ایک پنشن سے زبردست فائدہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے ریاست کی اس بات کے لئے ستائش کی کہ اس نے کورونا ٹیکہ کاری میں سو فیصد کا نشانہ مکمل کر لیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماچل مواقع کی سرزمین ہے۔ انہوں نے حاضرین کو مطلع کیا کہ ریاست بجلی پیدا کرتی ہے، یہ زرخیز ہے اور سیاحت کی وجہ سے یہاں انگنت روزگار کے مواقع ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بہتر کنکٹی ویٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان مواقع کے سامنے رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ 2014 کے بعد سے ہماچل پردیش میں گاؤں سے گاؤں تک بہترین بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماچل پردیش میں سڑکوں کو چوڑا کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ اس وقت ہماچل میں کنکٹوٹی پر 50 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ پنجور سے نالاگڑھ ہائی وے کا چار لین کا کام جب مکمل ہو جائے گا، تو نالاگڑھ صنعتی علاقوں کو ہی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ چنڈی گڑھ اور امبالا سے بلاسپور؍ منڈی اور منالی جانے والے مسافروں کو بھی اس کے فائدے ملیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماچل کے عوام کو تیز ہواؤں والی سڑکوں سے محفوظ کرنے کے لئے سرنگوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا میں تازہ ترین پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہماچل میں بھی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کے حوالے سے بے نظیر کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے 8 برسوں میں میڈ ان انڈیا موبائل فون بھی سستے ہو گئے ہیں اور نیٹ ورک کو بھی دیہاتوںتک پہنچا دیا گیا ہے۔ بہتر 4جی کنیکٹیویٹی کی وجہ سے ہماچل پردیش بھی ڈیجیٹل لین دین میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل انڈیا سے اگر کوئی سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے تو وہ آپ ہیں،یعنی ہماچل کے لوگ۔وزیر اعظم نے بتایا کہ اس ادائیگی کے ان بلوں کی وجہ سے، بینک سے متعلق کام کاج، داخلے، درخواستیں وغیرہ نمٹانے میں کم سے کم وقت لگتا ہے۔ ملک میں 5جی کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اب ملک میں پہلی بار میڈ ان انڈیا 5جی خدمات بھی شروع ہو گئی ہیں اور بہت جلد اس کے فوائد ہماچل کو بھی دستیاب ہوں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہندوستان میں ڈرون قوانین میں تبدیلی کے بعد نقل و حمل کے لئے ان کا استعمال بہت بڑھنے والا ہے جبکہ تعلیم، صحت، زراعت اور سیاحت کے شعبوں کو بھی اس سے کافی فائدہ حاصل ہوگا۔ انہوں نے ڈرون پالیسی اپنانے والی پہلی ریاست ہونے پر ہماچل پر��یش کی تعریف کی اور کہا کہ ہم ایک ایسی ترقی کے لئے کوشاں ہیں جس سے ہر شہری کی سہولت میں اضافہ ہو اور ہر شہری خوشحالی سے مربوط ہو۔ یہ ایک ترقییافتہ ہندوستان اور ترقییافتہ ہماچل پردیش کے عزم کو آئینہ دار ہو گا۔ اس موقع پر ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب جے رام ٹھاکر، ہماچل پردیش کے گورنر جناب راجندر وشواناتھ آرلیکر، مرکزی وزیر جناب انوراگ ٹھاکر، پارلیمانی رکن اور بی جے پی کے قومی صدر جناب جگت پرکاش نڈا اور پارلیمانی رکن اور بی جے پی کے ریاستی صدر جناب سریش کمار کشیپ بھی موجود تھے۔ پس منظر ہماچل پردیش میں متعدد پروجیکٹ قومی شاہ راہ-105 پر پنجور سے نالہ گڑھ تک قومی شاہراہ کو چار لین والی کرنے کا 31 کلومیٹر طویل منصوبہ جس کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، اس کی مالیت 1690 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ یہ پراجیکٹ روڈ امبالہ، چندی گڑھ، پنچکولہ اور سولن/شملہ سے بلاس پور، منڈی اور منالی کی طرف جانے والی ٹریفک کے لیے ایک اہم رابطہ ہے۔ اس چار لین والی قومی شاہراہ کا تقریباً 18 کلومیٹر کا حصہ ہماچل پردیش کے تحت آتا ہے اور باقی حصے ہریانہ میں آتے ہیں۔ یہ شاہ راہ ہماچل پردیش کے صنعتی مرکز نالہ گڑھ-بڈی میں نقل و حمل کی بہتر سہولیات کو یقینی بنائے گی اور اس سے علاقے میں مزید صنعتی ترقی کو تقویت ملے گی۔ نیز اس سے ریاست میں سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ ایمس بلاسپور ملک بھر میں صحت کی خدمات کو مضبوط بنانے کے وزیر اعظم کا وژن اور عزم ایمس بلاس پور کو قوم کے تئیں وقف کرنے سے ایک بار پھر سامنے آیا ہے۔ اس اسپتال کا سنگ بنیاد بھی وزیر اعظم نے اکتوبر 2017 میں رکھا تھا۔ اسے مرکزی سیکٹر کی اسکیم پردھان منتری سوستھیا سُرکشا یوجنا کے تحت قائم کیا جا رہا ہے۔ ایمس بلاسپور 1470 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیا گیا۔ یہ ایک جدید ترین اسپتال ہے جس میں 18 خصوصی اور 17 انتہائی خصوصی ڈیپارٹمنٹ، 18 ماڈیولر آپریشن تھیٹر اور 64 آئی سییو بستروں کے ساتھ 750 بستر ہیں۔ 247 ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ اسپتال 24 گھنٹے ایمرجنسی اور ڈائیلاسز، تشخیص کی جدید مشینیں جیسے الٹراسونگرافی، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی وغیرہ کی سہولیات سے لیس ہے۔ امرت فارمیسی اور جن اوشدھی کیندر اور 30 بستروںوالاآیوش بلاک بھی ہے۔ اسپتال نے ہماچل پردیش کے قبائلی اور ناقابل رسائی قبائلی علاقوں میں صحت کیخدمات فراہم کرنے کے لئے ڈیجیٹل ہیلتھ سینٹر بھی قائم کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسپتال کی طرف سے ناقابل رسائی قبائلی اور بلند ہمالیائی خطوں جیسے کازہ، سلونی اور کیلونگ میں ہیلتھ کیمپوں کے ذریعے ماہر صحت کی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ اسپتال ہر سال ایم بی بی ایس کورسز کے لئے 100 اور نرسنگ کورسز کے لئے 60 طلبہ کو داخل کرے گا۔ گورنمنٹ ہائیڈرو انجینئرنگ کالج، بندلہ وزیراعظم نے بندلہ میں گورنمنٹ ہائیڈرو انجینئرنگ کالج کا افتتاح کیا۔ تقریباً 140 کروڑ روپے کی لاگت سے یہ کالج ہائیڈرو پاور پروجیکٹوں کے لیے تربیتیافتہ افرادی قوت مہیا کرنے میں مدد کرے گا۔ اس میں ہماچل پردیشسرکردہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس سے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے اور پن بجلی کے شعبے میں روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ میڈیکل ڈیوائس پارک، نالہ گڑھ وزیر اعظم نے نالہ گڑھ میں میڈیکل ڈیوائس پارک کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ اسے تقریباً 350 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔ اس میڈیکل ڈیوائس پارک میں صنعتیں لگانے کے لئے 800 کروڑ روپے سے زائد کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے جا چکے ہیں۔ اس پروجیکٹ سے خطے میں روزگار کے مواقع نمایاں طور پر بڑھیں گے۔ ش ح۔ ع س۔ ک ا,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে হিমাচল প্ৰদেশৰ লুহনু, বিলাসপুৰত ৩৬৫০ কোটি টকাৰো অধিক ব্যয়ৰ একাধিক পৰিকল্পনাৰ শিলান্যাস আৰু লোকাৰ্পণ কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B3%D9%85%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D9%88%D9%8E%D9%86-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D9%82%D9%88%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%DA%AF%D8%B2%D8%B4%D8%AA-%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ عوام 2001 کے زلزلے میں افسوسناک طور پر اپنی زندگیاں گنواچکے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اسمرتی ون کا دورہ کر رہے ہیں۔ گجرات انفارمیشن کے ذریعہ کیے گئے ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’یہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اسمرتی وَن ان لوگوں کے لیے ایک خراج عقیدت ہے جنہوں نے 2001 کے زلزلے میں افسوسناک طور پر اپنی زندگیاں گنوادیں۔ یہ گجرات کی قوت کی سرگزشت بھی بیان کرتا ہے۔ آنے والے مہینے کچھ کا دورہ کرنے کے لیے بہترین ہوں گے۔ رَن اُتسو کے ساتھ ساتھ اب ہمارے پاس اسمرتی وَن بھی ہے۔‘‘,স্মৃতি বনে গুজৰাটৰ মানসিক সামৰ্থ প্ৰতিফলিত কৰেঃ প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%85%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%AA%D8%AD-%D8%B1%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D8%AC-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9C%E0%A7%87-%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گریمی ایوارڈ فاتح بھارتی موسیقار، رکی کیج سے اپنی ملاقات پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ انہیں مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا، ’’موسیقی کے تئیں آپ کا جوش و جذبہ مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’ @رکی کیج! آپ سے مل کر خوشی ہوئی! موسیقی کے تئیں آپ کا جوش و جذبہ مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔آپ کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک ترین خواہشات‘‘,গ্ৰেমী বিজেতা ৰিকী কেজে প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%BE-%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%DA%AF%D9%BE%D8%AA%D8%A7-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%AD%D9%84%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جموں وکشمیر کے مقبول عام قائد جناب کلدیپ راج گپتا کی رحلت پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جناب کلدیپ راج گپتا نے اپنی زندگی عوام کی فلاح و بہبود اور سماجی اختیارکاری کے لیے وقف کر دی تھی۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’جموں و کشمیر کے بھاجپا کے مقبول عام قائد کلدیپ راج گپتا جی کی رحلت سے بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے اپنی زندگی عوام کی فلاح و بہبود اور سماجی اختیارکاری کے لیے وقف کر دی تھی۔ ایشور رنج و غم کی اس گھڑی میں ان کے اہل خانہ اور مندوبین کو سہارا دے۔ اوم شانتی!‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শ্ৰী কুলদীপ ৰাজ গুপ্তাৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A2%D9%88%D8%A7%D8%B3-%DB%8C%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,نمسکار جی، وزیر اعلی شیوراج سنگھ جی چوہان، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، مدھیہ پردیش حکومت کے وزرا، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی، مدھیہ پردیش کے ایم ایل اے، دیگر معززین اور مدھیہ پردیش کے میرے پیارے بھائیو اور بہنوں! آج، مدھیہ پردیش کے تقریباً سوا 5 لاکھ غریب خاندانوں کو ان کے خوابوں کا پکا مکان مل رہا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں نیا سال وکرم سمبت 2079 شروع ہونے والا ہے۔ نئے سال کی شام ایک نئے گھر میں داخل ہونا، یہ اپنے آپ میں زندگی کا ایک انمول لمحہ ہے۔ میں اس وقت آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ساتھیوں، ہمارے ملک میں کچھ پارٹیوں نے غربت ہٹانے کے لیے بہت سے نعرے لگائے لیکن غریبوں کو با اختیار بنانے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا، اور میرا ماننا ہے کہ جب غریب با اختیار ہو جائیں تو پھر انھیں غربت سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ دیانت دار حکومت کی کوششیں، مضبوط غریب کی کوششیں، جب اکٹھی ہوتی ہیں تو غربت بھی شکست کھا جاتی ہے۔ اس لیے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہو یا ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے منتر پر چلتے ہوئے غریبوں کو با اختیار بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ آج کا پروگرام اسی مہم کا حصہ ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت دیہاتوں میں بنائے گئے یہ سوا پانچ لاکھ گھر محض ایک اعداد و شمار نہیں ہیں۔ یہ سوا پانچ لاکھ گھر ملک کے با اختیار غریبوں کی پہچان بن چکے ہیں۔ یہ سوا پانچ لاکھ گھر بی جے پی حکومت کی خدمت کی مثال ہیں۔ یہ سوا پانچ لاکھ گھر گاؤں کی غریب خواتین کو کروڑ پتی بنانے کی مہم کا عکس ہیں۔ مدھیہ پردیش کے دور دراز دیہاتوں میں یہ گھر ہمارے قبائلی علاقوں کے غریبوں کو دیے جا رہے ہیں۔ میں ان سوا پانچ لاکھ گھروں کے لیے مدھیہ پردیش کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ بھائیو اور بہنوں، غریبوں کو پکے گھر دینے کی یہ مہم صرف ایک سرکاری اسکیم نہیں ہے۔ یہ گاؤں کو، غریبوں کو یقین دینے کا عہد ہے۔ یہ غریبوں کو غربت سے نکالنے کا پہلا قدم ہے، انھیں غربت سے لڑنے کی ہمت فراہم کرنا ہے۔ جب غریب کے سر پر ٹھوس چھت ہو تو وہ اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم اور دیگر کاموں میں لگا سکتا ہے۔ جب غریب کو گھر ملتا ہے تو اس کی زندگی میں استحکام آتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ہماری حکومت پی ایم آواس یوجنا کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ پچھلی حکومت میں میرے آنے سے پہلے جو لوگ تھے، انھوں نے اپنے دور میں صرف چند لاکھ گھر بنائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہماری حکومت نے غریبوں کو تقریباً 2.5 کروڑ گھر دیے ہیں۔ اس میں دیہاتوں میں 2 کروڑ گھر بنائے گئے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں کورونا کی وجہ سے آنے والی رکاوٹوں کے باوجود اس کام کو سست نہیں ہونے دیا گیا۔ مدھیہ پردیش میں بھی تقریباً ساڑھے 30 لاکھ منظور شدہ مکانات میں سے 24 لاکھ سے زیادہ مکمل ہو چکے ہیں۔ اس کا بڑا فائدہ بیگا، سہریا اور بھریا جیسے سماج کے ان طبقوں کو بھی مل رہا ہے جو کبھی پکے گھر کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ بھائیو اور بہنوں، جہاں کہیں بھی بی جے پی کی حکومتیں ہیں، ان کی خاصیت یہی ہے کہ وہ زمین سے جڑی ہیں، غریبوں کی ضروریات، ان کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے دن رات کام کرتی ہیں۔ پی ایم آواس یوجنا میں بھی ہم نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ غریبوں کو فراہم کیے گئے مکان بھی ان کی باقی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوں۔ جیسے کہ اس گھر میں بیت الخلا ہے، اس میں سوبھاگیہ اسکیم کے تحت بجلی کا کنکشن، اجالا اسکیم کے تحت ایل ای ڈی بلب، اجولا اسکیم کے تحت گیس کنکشن، اور ہر گھر جل یوجنا کے تحت پانی کا کنکشن آتا ہے۔ یعنی غریب مستحقین کو اب ان سہولیات کے لیے الگ سے سرکاری دفاتر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ غریبوں کی خدمت کی سوچ ہے، جو آج ملک کے ہر شہری کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ساتھیوں، ہندوستان شکتی کی پوجا کرنے والا ملک ہے۔ نوراتری چند دنوں میں شروع ہونے والی ہے۔ ہماری دیوی دشمنوں کو تباہ کرنے والی ہیں۔ ہماری خواتین علم، فن اور ثقافت کی تحریک ہیں۔ 21ویں صدی کا ہندوستان ان سے تحریک لے کر خود کو اور اپنی خواتین کی طاقت کو با اختیار بنانے میں مصروف ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا اس مہم کا ایک اہم حصہ ہے۔ پی ایم آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے مکانات میں سے تقریباً دو کروڑ مکانات پر خواتین کے مالکانہ حقوق بھی ہیں۔ اس ملکیت نے گھر کے دیگر معاشی فیصلوں میں خواتین کی شرکت کو بھی تقویت دی ہے۔ یہ اپنے آپ میں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں کے لیے مطالعہ کا موضوع ہے، کیس اسٹڈی کا ایک ایسا موضوع ہے جو مدھیہ پردیش کی یونیورسٹیوں کو بھی کرنا چاہیے۔ بھائیو اور بہنوں، خواتین کی مشکلات دور کرنے کے لیے ہم نے ہر گھر تک پانی پہنچانے کا بیڑہ بھی اٹھایا ہے۔ پچھلے ڈھائی سالوں میں اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں 6 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو پینے کے صاف پانی کے کنکشن مل چکے ہیں۔ اسکیم کے آغاز کے وقت، مدھیہ پردیش میں 13 لاکھ دیہی گھروں میں پائپ سے پانی آتا تھا۔ آج ہم 50 لاکھ خاندانوں کو پائپ سے پانی فراہم کرنے کے سنگ میل کے بہت قریب ہیں۔ ہم مدھیہ پردیش کے ہر دیہی گھر کو پائپ سے پانی فراہم کرنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ ساتھیوں، آج میں مدھیہ پردیش سمیت ملک کے ان تمام غریبوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مکان بنانے کی مہم تیزی سے چل رہی ہے۔ اب بھی کچھ لوگوں کو پکے گھر نہیں ملے ہیں۔ میں اس سے پوری طرح واقف ہوں۔ اور میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ اس سال کے بجٹ میں ملک بھر میں 80 لاکھ سے زائد گھر بنانے کے لیے رقم مختص کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ان میں سے مدھیہ پردیش کے لاکھوں خاندانوں کو بھی فائدہ ہونا یقینی ہے۔ اس اسکیم پر اب تک 2.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ رقم دیہاتوں میں خرچ ہوئی ہے، اس سے دیہی معیشت کو تقویت ملی ہے۔ جب گھر بنتا ہے، تو اینٹ، ریت، بار سیمنٹ، گھر میں کام کرنے والے، سب کچھ مقامی ہوتا ہے۔ اس لیے پی ایم آواس یوجنا گاؤں میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کر رہی ہے۔ ساتھیوں، ہمارے ملک نے آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک کئی حکومتیں دیکھی ہیں۔ لیکن ملک کے عوام پہلی بار ایسی حکومت دیکھ رہے ہیں، جو ان کی خوشی اور غم میں ساتھی بن کر ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ کورونا کے اتنے بڑے بحران میں بی جے پی حکومت نے پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومت غریبوں کے لیے کتنی حساسیت سے کام کرتی ہے۔ غریبوں کی مفت ویکسینیشن ہو یا غریبوں کو مفت راشن، اور ابھی شیوراج جی نے اسے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ابھی دو دن پہلے ہی ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا کو آنے والے 6 ماہ تک آگے بڑھایا جائے گا، تاکہ غریب کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ پہلے دنیا کورونا کی وجہ سے مشکلات میں گھری تھی اور آج پوری دنیا میدان جنگ میں ہے۔ اس کی وجہ سے بھی کئی طرح کے معاشی نظاموں پر ایک نیا بحران پیدا ہو رہا ہے۔ ہندوستان کے شہریوں پر جتنا ہو سکے بوجھ کو کیسے کم کیا جائے۔ جتنا ہو سکے ملک کے شہریوں کو مدد فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بھائیو اور بہنوں، 100 سالوں میں آئی اس سب سے بڑی وبا میں ہماری حکومت نے غریبوں کو مفت راشن پر 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اس پر اگلے 6 ماہ میں مزید 80 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ جو لوگ پہلے عوام کی کمائی پر ڈاکہ ڈالتے تھے، جو عوام کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرتے تھے، وہ آج بھی اس اسکیم کے لیے ہلکے پھلکے مذاق، جھوٹ پھیلانے، انتشار پھیلانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ آج میں ملک کو ایک معلومات دینا چاہتا ہوں۔ آپ بھی اسے غور سے سنیں۔ ساتھیوں، جب ان لوگوں کی حکومت تھی تو ان کا 4 کروڑ، 4 کروڑ کا ہندسہ غریبوں کا راشن لوٹنے کے لیے بہت بڑا ہے۔ 4 کروڑ فرضی نام جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے، ایسے نام 4 کروڑ کاغذوں میں تعینات کر دیے گئے۔ ان 4 کروڑ فرضی لوگوں کے نام پر راشن اٹھایا جاتا تھا، پچھلے راستے سے بازار میں بیچا جاتا تھا، اور ان کا پیسہ ان لوگوں کے کالے کھاتوں میں پہنچ جاتا تھا۔ 2014 میں حکومت میں آنے کے بعد سے ہماری حکومت نے ان فرضی ناموں کی تلاش شروع کر دی اور انھیں راشن کی فہرست سے نکال دیا۔ تاکہ غریبوں کو ان کا حق مل سکے۔ آپ سوچیں پہلے زمانے میں غریبوں کے منہ سے کھانا چھین کر ہر ماہ ہزاروں کروڑ روپے لوٹتے تھے۔ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ راشن کی دکانوں میں جدید مشینیں لگا کر راشن چوری نہ ہو۔ آپ سب جانتے ہوں گے کہ ہم نے اس مشین کو لگانے کے لیے جو مہم شروع کی ہے اس کا بھی مذاق ان لوگوں نے بنایا ہے۔ کیوں، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ مشین آئے گی، اگر لوگ انگوٹھے کا نشان لگائیں گے تو سچائی غالب آئے گی اور اسے روکنے کے لیے ایسی ہوائیں چلائی گئیں، یہاں تک کہہ دیا کہ راشن لینے جاؤ اور انگوٹھا لگاؤ تو تمھیں کورونا ہو جائے گا۔ ایسے جھوٹ پھیلایا گیا۔ ہماری حکومت نے یہ سب جعلی کھیل بند کر دیے ہیں تو یہ لوگ دنگ رہ گئے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر راشن کی دکانوں میں شفافیت نہ ہوتی، اگر یہ 4 کروڑ فرضی نام نہ ہٹائے جاتے تو کورونا کے اس بحران میں غریبوں کا کیا حال ہوتا۔ غریبوں کے لیے وقف بی جے پی حکومت غریبوں کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔ بھائیو اور بہنوں، ہماری کوشش ہے کہ آزادی کے امرت میں ہم بنیادی سہولیات کو ہر مستحق تک تیزی سے پہنچا سکیں۔ اس طرح کے کام کی طاقت پر، ہم اسکیموں کی سیچوریشن یعنی ہر اسکیم کا 100 فیصد مستفیدین تک پہنچانے کے عزم پر کام کر رہے ہیں۔ گاؤں میں اسکیم کا جو فائدہ اٹھانے والا ہوگا، اسے اس کا حق اس کے گھر تک پہنچنا چاہیے، اس کے لیے ہم مصروف عمل ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کوئی بھی غریب اسکیموں کے فائدے سے محروم نہیں رہے گا، حکومت سب تک پہنچ جائے گی۔ اس سے تفریق کا امکان نہیں بچے گا، کرپشن کا امکان نہیں بچے گا۔ آج معاشرے میں آخری صف میں بیٹھے شخص کو فائدہ دینے کی پالیسی ہونی چاہیے۔ ساتھیوں، آج میں شیو راج جی کی حکومت کو ایک اور کام کے لیے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ اناج کی سرکاری خریداری میں ایم پی نے شاندار کام کیا ہے، نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، ملک کی کئی ریاستوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج ایم پی میں کسانوں کے بینک اکاؤ��ٹ میں پہلے سے زیادہ رقم دی جا رہی ہے، سرکاری خریداری مراکز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پی ایم کسان سمان ندھی چھوٹے کسانوں کی بھی بہت مدد کر رہی ہے۔ ایم پی کے تقریباً 90 لاکھ چھوٹے کسانوں کو ان کے چھوٹے اخراجات کے لیے 13 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم دی گئی ہے۔ ساتھیوں، اس وقت ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ہندوستان کے لاکھوں بہادر بیٹوں اور بہادر بیٹیوں نے ہمیں آزادی دلانے کے لیے اپنی جانیں، اپنی آسائشیں قربان کیں۔ اس قربانی نے ہمیں آج آزاد زندگی دی ہے۔ اس امرت مہوتسو میں ہمیں بھی اس عزم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کچھ دیں گے۔ اس عرصے میں ہم نے جو کام کیا، وہ آنے والی نسلوں کے لیے تحریک کا باعث بنے، انھیں اپنے فرائض کی یاد دلائیں، یہ بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اب ہم سب مل کر ایک کام کر سکتے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آج میں مدھیہ پردیش کے لاکھوں خاندانوں سے بات کر رہا ہوں۔ جب میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں سے بات کر رہا ہوں تو میں یقینی طور پر کوئی حل طلب کروں گا۔ آئیے ہم تہیہ کر لیں کہ اس سال جب یہ نیا سال شروع ہوگا، 2 سے 4 دن کے بعد، اس سال سے اگلے سال تک، یعنی ہمارے پاس 12 مہینے، 365 دن ہیں۔ آئیے ہم ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنانے کا عزم کریں تاکہ آزادی کے امرت مہوتسو کی یاد میں اپنی آنے والی نسلوں کو کچھ دینے کے اپنے عزم کو پورا کیا جا سکے اور میں چاہوں گا کہ اگر ممکن ہو تو یہ امرت سروور ہر ضلع میں نیا ہو۔ ان کی تعمیر میں حکومت سے آنے والے منریگا کے پیسے سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ہر ضلع میں 75 امرت سروور کی تعمیر آنے والی نسلوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔ ہماری دھرتی کو اس سے بہت فائدہ ملے گا، یہ ہماری ماں دھرتی پیاسی ہے۔ ہم نے اتنا پانی کھینچا ہے، اس ماں دھرتی کے بچوں کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس دھرتی کی پیاس بجھائیں۔ اور اس سے فطرت کی زندگی میں ایک نئی توانائی آئے گی، ایک نیا شعور آئے گا۔ اس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہو گا، خواتین کو فائدہ ہو گا، یہی نہیں بلکہ جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی یہ احسان مندی کا کام ہو گا۔ یعنی ہر ضلع میں 75 امرت کی جھیلوں کی تعمیر انسانیت کا بہت بڑا کام ہے، جو ہمیں کرنا چاہیے۔ میں تمام ریاستی حکومتوں، مقامی اداروں، پنچایتوں سے اس سمت میں کام کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ساتھیوں، یہ ہندوستان کے روشن مستقبل کی تعمیر کا وقت ہے۔ ہندوستان کا روشن مستقبل اسی وقت ممکن ہے جب غریب خاندان کا مستقبل بہتر ہو۔ یہ نیا گھر آپ کے خاندان کو ایک نئی سمت دے، آپ کو ایک نئے مقصد کی طرف بڑھنے کی طاقت دے، آپ کے بچوں میں تعلیم، ہنر اور اعتماد پیدا کرے، اس نئے گھر میں داخلے کے لیے آپ سبھی کو، تمام مستفیدین کو، ڈھیروں نیک خواہشات دیتا ہوں۔ بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں! شکریہ!,মধ্যপ্ৰদেশৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী আৱাস যোজনা-গ্ৰামীণ হিতাধিকাৰীসকলৰ ‘গৃহ প্ৰৱেশ’ অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-57-%DA%A9%D9%84%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%AD-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%87%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%A3/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں مردوں ��ے 57 کلوگرام زمرے کے مقابلے میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر ہندوستانی باکسر محمد حسام الدین کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ”محمد حسام الدین ایک بہترین باکسر ہیں جنھوں نے کھیلوں کے کئی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ شاندار تکنیک اور لچک کے جذبے سے چلنے والے، اس روشن کھلاڑی نے برمنگھم میں مردوں کے 57 کلوگرام زمرے کے مقابلے میں کانسے کا تمغہ جیتا ہے۔ انھیں بہت مبارک ہو۔ #Cheer4India“,পুৰুষৰ ৫৭ কিলোগ্ৰাম ইভেণ্টত ব্ৰঞ্জৰ পদক বিজয়ী ভাৰতীয় বক্সাৰ মহম্মদ হুচামুদ্দিনক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-15-%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%AC%D9%86-%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C%DB%81-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%97%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A6%9B%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج 15 نومبر کو جن جاتیہ گورو دیوس کے طور پر اعلان کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ یہ تین بہادر آدیواسی مجاہدین آزادی کی یادگار کو وقف ہے تاکہ آنے والی نسلیں ملک کے تئیں ان کی قربانیوں کے بارے میں جان سکیں۔ سنتھال، تامار، کول، بھیل، کھاسی اور میزو جیسی کئی قبائلی برادریوں کے ذریعے مختلف تحریکوں کے ذریعے بھارت کی جدوجہد آزادی کو مضبوط کیا گیا تھا۔ قبائلی برادریوں کی انقلابی تحریکوں اور جدوجہد کو ان کی بے پناہ ہمت اور اعلیٰ قربانیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں برطانوی نو آبادیات کے خلاف آدیواسی تحریکوں کو قومی جدوجہد آزادی سے جوڑا گیا اور اس نے پورے ملک میں ہندوستانیوں کو آزادہ کیا۔ حالانکہ، ملک کے زیادہ تر لوگوں کو ان آدیواسی شخصیات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے۔ سال 2016 کی یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی تقریر کے مطابق، حکومت ہند نے ملک بھر میں 10 قبائلی مجاہدین آزادی کے میوزیم کو منظوری دی ہے۔ 15 نومبر کو جناب برسا منڈا کی جینتی ہوتی ہے، جن کی ملک بھر کی آدیواسی برادریوں کے ذریعے بھگوان کے طور پر پوجا کی جاتی ہے۔ برسا منڈا نے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ظالمانہ نظام کے خلاف بہادری سے لڑائی لڑی اور ’اُلگولان‘ (انقلاب) کی اپیل کرتے ہوئے برطانوی استحصال کے خلاف تحریک کی قیادت کی۔ کابینہ کا آج کا یہ اعلان آدیواسی برادریوں کی قابل فخر تاریخ اور تہذیبی وراثت کو قبولیت فراہم کرتی ہے۔ یہ جن جاتیہ گورو دیوس ہر سال منایا جائے گا اور تہذیبی وراثت کے تحفظ اور شجاعت، مہمان نوازی اور قومی افتخار کی ہندوستانی قدروں کو فروغ دینے کے لیے آدیواسیوں کی کوششوں کو منظوری دے گی۔ رانچی میں قبائلی مجاہدین آزادی میوزیم کا افتتاح وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ذریعے کیا جائے گا جہاں بھگوان برسا منڈا نے آخری سانس لی تھی۔ حکومت ہند نے قبائلی لوگوں، ثقافت اور حصولیابیوں کی قابل افتخار تاریخ کے 75 سال پورے ہونے کا جشن اور اس کا اتسو منانے کے لیے 15 نومبر سے 22 نومبر 2021 تک ہفتہ بھر چلنے والی تقریب کے انعقاد کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس پروگرام کے حصہ کے طور پر، ریاستی حکومتوں کے ساتھ مشترکہ طور پر کئی سرگرمیوں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ہر ایک سرگرمی کا بنیادی موضوع ہندوستانی جدوجہد آزادی میں قبائلی لوگوں کی حصولیابیوں، حکومت ہند کے ذریعے تعلیم، صحت، معاش، ب��یادی ڈھانچے اور ہنرمندی کی تعمیر کے لیے کیے گئے متعدد فلاحی اقدام کو نمایاں کرنا ہے۔ ان پروگراموں میں بے مثال آدیواسی تہذیبی وراثت، جدوجہد آزادی میں ان کے تعاون، رسم و رواج، حقوق، روایات، پکوان، صحت، تعلیم اور معاش کو بھی نمایاں کیا جائے گا۔,ভগৱান বীৰছা মুণ্ডাৰ জন্মদিন ১৫ নৱেম্বৰক জনজাতীয় গৌৰৱ দিৱস হিচাপে ঘোষণাৰ সিদ্ধান্তক কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88%DA%AF-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A8%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D8%AF%DA%AF%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D9%86%DB%81%D8%A7%DA%BA-%DB%81%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%8C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%87%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A6%B2%E0%A6%A4%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ یوگ کی خوبصورتی اس کی سادگی میں پنہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوگ گھر کے علاوہ ، کام کاج کے وقفہ کے دوران یا کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوگ کے لیے ایک چٹائی اور خالی جگہ درکار ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’یوگ کی خوبصورتی اس کی سادگی میں پنہاں ہے۔ آپ کو یوگ کے لیے بس ایک چٹائی اور خالی جگہ درکار ہوتی ہے۔ یوگ کو گھر کے علاوہ آپ کام کاج کے وقفہ کے دوران یا پھر کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس کی باقاعدگی کے ساتھ مشق کریں گے۔۔۔۔‘‘,যোগৰ সৌন্দৰ্য ইয়াৰ সৰলতাত বিদ্যমান: প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%8C%D9%85%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کے کے، کے نام سے مشہور،معروف گلو کار کرشن کمار کناتھ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔جناب مودی نے کہا کہ ان کے گیت سبھی عمر کے لوگوں کے جذبات کے ایک وسیع سلسلے کی عکاسی کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا : ’’کے کے، کے نام سے مشہور ،معروف گلوکار کرشن کمار کناتھ کے بے وقت انتقال سے رنجیدہ ہوں۔ان کے گیتوں نے سبھی عمر کے لوگوں کے جذبات کے ایک وسیع سلسلے کی عکاسی کی۔ہم انہیں ان کے گیتوں کے توسط سے ہمیشہ یاد رکھیں گے ،ان کے اہل خانہ اور مداحوں کے تئیں میری تعزیت ۔اوم شانتی ‘‘,"কেকে নামেৰে জনপ্ৰিয়, বিশিষ্ট কণ্ঠশিল্পী কৃষ্ণকুমাৰ কুন্নাথৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%8E-%D9%BE%D9%91%D8%A7-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D8%A4%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%89%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کری اپا گراؤنڈ میں نیشنل کیڈٹ کورپس ریلی سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا، این سی سی دستوں کے مارچ پاسٹ کا جائزہ لیا اور این سی سی کیڈٹس کو آرمی ایکشن، سلیتھرنگ، مائیکرو لائٹ فلائنگ، پیرا سیلنگ کے ساتھ ساتھ ثقافتی پروگراموں میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ بہترین کیڈٹس نے وزیراعظم سے میڈل اور بیٹن (چھڑی) بھی وصول کی۔ مجمع سے خط��ب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے تقریبات میں جوش و خروش کی ایک مختلف سطح کو نوٹ کیا کیونکہ ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے این سی سی سے اپنےتعلق کو فخر کے ساتھ یاد کیا اور ایک این سی سی کیڈٹ کے طور پر ان کی تربیت کو قوم کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی طاقت فراہم کرنے کا سہرا دیا۔ وزیر اعظم نے لالہ لاجپت رائے اور فیلڈ مارشل کری اپا کو قوم کی تعمیر میں ان کے تعاون کے لیے خراج عقیدت پیش کیا۔ بھارت کے دونوں بہادر سپوتوں کا آج یوم پیدائش ہے۔ اُس دور میں جب ملک نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، وزیر اعظم نے ملک میں این سی سی کو مضبوط کرنے کے لیے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں بات کی۔ اس کے لیے ملک میں ایک اعلیٰ سطحی جائزہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں ملک کے سرحدی علاقوں میں 1 لاکھ نئے کیڈٹس بنائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے دفاعی اداروں کے دروازے کھولنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے گرلز کیڈٹس کی بڑی تعداد کی موجودگی کو نوٹ کیا اور اسے قوم کے بدلتے ہوئے رویے کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے گرلز کیڈٹس سے کہا کہ ’’ ملک کو آپ کے تعاون کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کافی مواقع موجود ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اب ملک کی بیٹیاں فوجی اسکولوں میں داخلہ لے رہی ہیں اور خواتین کو فوج میں بڑی ذمہ داریاں مل رہی ہیں۔ ملک کی بیٹیاں فضائیہ میں لڑاکا طیارے اڑا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایسی صورتحال میں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ بیٹیوں کو این سی سی میں شامل کیا جائے‘‘۔ کیڈٹس کے نوجوان پروفائل کو نوٹ کرتے ہوئے، جو زیادہ تر اس صدی میں پیدا ہوئے ہیں، وزیر اعظم نے ملک کو 2047 کی طرف لے جانے میں ان کے کردار کو اُجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ کی کوششیں اور عزائم اور ان عزائم کی تکمیل بھارت کی کامیابی ہوگی‘‘،وزیر اعظم نے کہا کہ جس ملک کا نوجوان ’سب سے پہلے قوم‘ کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کرے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کھیل کے میدان میں بھارت کی کامیابی اور اسٹارٹ اپ ایکو اسپیئر اس کی واضح مثال ہیں۔ امرت کال میں یعنی آج سے اگلے 25 سالوں تک، وزیر اعظم نے کیڈٹس پر زور دیا کہ وہ اپنی خواہشات اور اقدامات کو ملک کی ترقی اور توقعات کے ساتھ جوڑیں۔ وزیر اعظم نے اس اہم کردار پر بھی زور دیا جو آج کے نوجوان ’ووکل فار لوکل‘ مہم میں ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ’’اگر آج کے نوجوان صرف انہی اشیاء کو استعمال کرنے کا عزم کریں جو ایک بھارتی کی محنت اور پسینے سے بنی ہیں، تو ہندوستان کی تقدیر بدل سکتی ہے‘‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج ایک طرف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور معلومات سے متعلق اچھے امکانات ہیں تو دوسری طرف غلط معلومات کے خطرات بھی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے ملک کا عام آدمی کسی افواہ کا شکار نہ ہو۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ این سی سی کیڈٹس اس کے لیے بیداری مہم چلائیں۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ منشیات اس اسکول/کالج تک نہیں پہنچنی چاہیے جہاں این سی سی یا این ایس ایس ہے۔ انہوں نے کیڈٹس کو مشورہ دیا کہ وہ خود بھی منشیات سے دور رہیں اور ساتھ ہی اپنے کیمپس کو بھی منشیات سے پاک رکھیں۔ انہوں نے زور دیا کہ جو دوست این سی سی –این ایس ایس میں نہیں ہیں ان کی بھی اس بری عادت کو ترک کرنے میں مدد کریں۔ وزیر اعظم نے کی��ٹس سے کہا کہ وہ سیلف 4 سوسائٹی پورٹل سے منسلک ہو جائیں جو ملک کی اجتماعی کوششوں کو نئی توانائی دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ 7 ہزار سے زیادہ تنظیمیں اور 2.25 لاکھ لوگ اس پورٹل سے وابستہ ہیں۔,কাৰিয়াপ্পা গ্ৰাউণ্ডত এনচিচি পিএম ৰেলী সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-2022-23-%D8%B3%DB%92-2025-26-%D8%AA%DA%A9-15%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%85%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A7%A8%E0%A7%A9%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%AB-%E0%A7%A8%E0%A7%AC-%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر قیادت مرکزی کابینہ نے آج 2022-23 سے 2025-26 تک 15ویں مالیاتی کمیشن کے بقیہ چار برسوں کے لیے ایک نئی اسکیم ’شمال مشرقی خطے کے لیے وزیر اعظم کی ترقیاتی پہل قدمی‘ (پی ایم-ڈی ای وی آئی این ای) کو منظوری دے دی۔ نئی اسکیم، پی ایم –ڈی ای وی آئی این ای، 100 فیصد مرکزی فنڈنگ والی ایک مرکزی شعبہ کی اسکیم ہے اور اسے شمال مشرقی خطے کی ترقی کی وزارت (ڈی او این ای آر) کے ذریعہ نافذ کیا جائے گا۔ 2022-23 سے لے کر 2025-26 تک چاربرسوں کے لیے (15ویں مالیاتی کمیشن کے بقیہ برسوں کے لیے) پی ایم – ڈی ای وی آئی این ای اسکیم کا بجٹی تخمینہ 6600 کروڑ روپئے کے بقدر ہوگا۔ پی ایم- ڈی ای وی آئی این ای پروجیکٹوں کو 2025-26 تک مکمل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی تاکہ اس سال کے بعد کسی طرح کے واجبات نہ رہیں۔ اس کا مطلب بنیادی طور پر 2022-23 اور 2023-24 میں اسکیم کے تحت پابندیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا ہے، حالانکہ 2024-25 اور 2025-26 کے دوران خرچ جاری رہے گا، تاہم خصوصی توجہ منظورشدہ پی ایم – ڈیوائن پروجیکٹوں کی تکمیل پر دی جائے گی۔ پی ایم-ڈیوائن اسکیم بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، صنعتوں، سماجی ترقی سے متعلق پروجیکٹوں کو تعاون فراہم کرے گی اور نوجوانوں و خواتین کے لیے روزی روٹی کمانے سے متعلق سرگرمیوں میں اضافہ کرے گی، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پی ایم – ڈیوائن کو شمال مشرقی کونسل یا مرکزی وزارتوں/ایجنسیوں کے توسط سے ڈی او این ای آر کی وزارت کے ذریعہ نافذ کیا جائے گا۔ پی ایم – ڈیوائن کے تحت منظورشدہ اسکیموں کے مناسب آپریشن اور رکھ رکھاؤ کو یقینی بنانے کے لیے تدابیر کی جائیں گی تاکہ وہ پائیدار بنی رہیں۔ سرکاری پروجیکٹوں کے وقت اور لاگت میں اضافہ کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے، جہاں تک ممکن ہوگا، انہیں انجینئرنگ-خرید-تعمیر (ای پی سی) کی بنیاد پر نافذ کیا جائے گا۔ پی ایم-ڈیوائن کے مقاصد ہیں: پی ایم گتی شکتی کے جذبہ کے تحت مشترکہ طور پر بنیادی ڈھانچے کی فنڈنگ این آئی آر کے ذریعہ محسوس کی گئی ضرورتوں کی بنیاد پر سماجی ترقی سے متعلق پروجیکٹوں کو تعاون فراہم کرنا نوجوانوں اور خواتین کے لیے روزی روٹی سے متعلق کاموں کو مستحکم بنانا مختلف شعبوں میں ترقی کی خلاء کو پر کرنا شمال مشرقی خطے کی ترقی کے لیے ایم ڈی او این ای آر کی دیگر اسکیمیں بھی ہیں۔ ایم ڈی او این ای آر کی اسکیموں کے تحت پروجیکٹوں کا اوسط سائز تقریباً 12 کروڑ روپئے کے بقدر ہی ہے۔ پی ایم – ڈیوائن اسکیم بنیادی ڈھانچہ اور سماجی ترقی سے متعلق پروجیکٹوں کو تعاون فراہم کرے گی جو سائز میں بڑے ہو سکتے ہیں، اور علیحدہ علیحدہ پروجیکٹوں کے بجائے شروع سے آخر تک ترقی سے متعلق حل بھی فراہم کرے گی۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ پی ایم – ڈیوائن کے تحت ایم ڈی او این ای آر ��ا کسی دیگر وزارت/ محکمہ کی دیگر اسکیموں کے ساتھ پروجیکٹ تعاون کا دوہراؤ نہ ہو۔ شمال مشرقی خطے (این ای آر) میں ترقی کی خلاء کو دور کرنے کے لیے مرکزی بجٹ 2022-23 میں پی ایم – ڈیوائن کا اعلان کیا گیا تھا۔ پی ایم – ڈیوائن کا اعلان حکومت کے ذریعہ شمال مشرقی خطہ کی ترقی کو دی جانے والی اہمیت کی ایک دیگر مثال ہے۔ پی ایم – ڈیوائن شمال مشرقی خطے کی ترقی کے لیے دستیاب وسائل میں ایک اضافی وسیلہ ہے۔ یہ موجودہ مرکزی اور ریاستی اسکیموں کا متبادل نہیں ہوگی ۔ جہاں ایک جانب، پی ایم – ڈیوائن کے تحت 2022-23 کے لیے منظور کیے جانے والے کچھ پروجیکٹس بجٹی اعلان کا حصہ ہیں، وہیں عوام الناس کے لیے خاطرخواہ سماجی اقتصادی اثرات یا روزی روٹی کمانے کے ہمہ گیر مواقع فراہم کرنے والے پروجیکٹوں (جیسے، تمام بنیادی حفظانِ صحت مراکز میں بنیادی ڈھانچہ، سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں جامع سہولتیں، وغیرہ)پر مستقبل میں غور کیا جائے گا۔ پی ایم – ڈیوائن کے اعلان کا جواز یہ ہے کہ بنیادی کم از کم خدمات (بی ایم ایس) سے متعلق شمال مشرقی ریاستوں کے معیارات قومی اوسط سے کافی نیچے ہیں اور نیتی آیوگ، یو این ڈی پی اور ایم ڈی او این ای آر کے ذریعہ تیار کردہ بی ای آر ضلع ہمہ گیر ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) عدد اشاریہ 2021-22 کے مطابق ترقی سے متعلق کافی خلاء پائی جاتی ہے۔ ان بی ایم ایس کمیوں کو دور کرنے کے لیے نئی اسکیم، پی ایم – ڈیوائن کا اعلان کیا گیا تھا۔,২০২২-২৩ৰ পৰা ২০২৫-২৬ চনলৈ পঞ্চদশ বিত্ত আয়োগৰ বাকী থকা চাৰি বছৰৰ বাবে নতুন আঁচনি “উত্তৰ-পূব অঞ্চলৰ বাবে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ উন্নয়নমূলক পদক্ষেপ (পিএম-ডেভাইন)ত অনুমোদন কেবিনেট +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%AF%D9%85-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%B9%D8%A7%D9%85-%DB%8C%D8%A7%D9%81%D8%AA%DB%81-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%95-%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%A6-%E0%A6%B8%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پدم شری انعام یافتہ ڈاکٹر سوشوون بندوپادھیائے کے انتقال پر ملال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ڈاکٹر سوشوون بندو پادھیائے نے انسانی جذبے کی بہترین عکاسی کی ہے۔ انھیں ایک مہربان اور بڑےدل والے شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنھوں نے بہت لوگوں کی دیکھ بھال کی اور اُنھیں ٹھیک کیا ہے۔ پدم ایوارڈ کی تقریب میں مجھے اُن کے ساتھ اپنی بات چیت یاد آئی ۔ ان کے انتقال سے بہت دُکھ ہوا۔ اُن کے اہل خانہ سے میری تعزیت اور تشفی۔ اوم شانتی‘‘,‘পদ্মশ্ৰী’ প্ৰাপক ডা০ সুশোভন বন্দোপাধ্যায়ৰ দেহাৱসানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%A6%DB%8C-%D8%B6%D9%84%D8%B9%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D9%86%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%A8%E0%A7%8B-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%A7%E0%A7%81/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے بہار کے کئی اضلاع میں آندھی اور بجلی گرنے کے واقعات میں ہوئی ہلاکتوں پر اظہات تعزیت کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ راحت پہنچانے کا کام مستعدی سے کررہی ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’بہار کے کئی ضلعوں میں آندھی اور بجلی گرنے کے واقعات میں کئی لوگوں کی اموات سے بے حد رنج و ملال ہوا۔ ایشور سوگوار کنبوں کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی طاقت دے۔ ریاستی سرکار کی دیکھ ریکھ میں مقامی انتظامیہ راحت اور امدادی کام میں تندہی سے لگی ہوئی ہے۔‘‘,বিহাৰৰ কেইবাখনো জিলাত ধুমুহা আৰু বজ্ৰপাতৰ ফলত প্ৰাণহানি হোৱা ঘটনাত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%8C%D8%A6%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9B-%E0%A6%AB%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A1%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87/,آج میں بطور وزیر اعظم نہیں بلکہ آپ کے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں، آج آپ سبھی بچوں کے درمیان ہو کر بہت سکون اور خوشی ہوئی ہے۔ ساتھیو، زندگی بعض اوقات ہمیں غیر متوقع موڑ پرلا کھڑا کرتی ہے، ایسے حالات جن کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا، ہنستے کھیلتے اچانک اندھیرا چھا جاتا ہے، سب کچھ بدل جاتا ہے۔ کورونا نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں، بہت سے خاندانوں میں کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جو لوگ کورونا کی وجہ سے اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں ان کی زندگیوں میں یہ تبدیلی کتنی مشکل ہےاور کتنی دکھ بھری ہے۔ ہر روز کی جدوجہد، لمحہ بہ لمحہ جدوجہد، نئے چیلنجز، ہر روز کی تپسیا۔ ان بچوں کے درد کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے جو آج ہمارے ساتھ ہیں، جن کے لیے یہ پروگرام ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس صرف چند یادیں ہی رہ جاتی ہیں ۔ لیکن جو یادیں رہ جاتی ہیں اس کے سامنے چیلنجوں کا امبار رلگ جاتا ہے ۔ ایسے چیلنجز میں، پی ایم کیئرس فار چلڈرن، آپ سب کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے ایسے کورونا سے متاثرہ بچوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے، جن کے ماں اور باپ دونوں اب نہیں ہیں۔ ساتھیو، پی ایم کیئرس فار چلڈرن بھی اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ہر ہم وطن انتہائی حساسیت کے ساتھ آپ کے ساتھ ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ بچوں کی اچھی اور بلا رکاوٹ تعلیم کے لیے ان کا داخلہ ان کے گھروں کے قریب سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں کیا گیا ہے۔ ایسے بچوں کی کاپی ،کتابوں اور یونیفارم کے اخراجات بھی پی ایم کیئرز کے ذریعہ برداشت کیے جائیں گے۔ اگر کسی کو پیشہ ورانہ کورسز، اعلیٰ تعلیم کے لیے تعلیمی قرض کی ضرورت ہے، تو پی ایم کیئرس اس میں بھی مدد کرے گا۔ دیگر روزمرہ کی ضروریات کے لیے بھی 4000 روپے ماہانہ کی دیگر اسکیموں کے ذریعہ ان کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔ ساتھیو، جب ایسے بچے اسکول کی تعلیم مکمل کر لیں گے تو مستقبل کے خوابوں کے لیے مزید رقم درکار ہوگی۔ اس کے لیے 18 سال سے 23 سال تک کے نوجوانوں کو ہر ما ہ وظیفہ ملے گا۔ اور جب آپ کی عمر 23 سال ہوگی تو آپ کو ایک ساتھ 10 لاکھ روپے ملیں گے۔ ساتھیو، ایک اور اہم اوربڑی تشویش صحت سے جڑی ہے، کوئی بیماری ہو تو علاج کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں۔ لیکن کسی بھی بچے کو، ان کے سرپرستوں کو اس کے لیے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پی ایم کیئرز فار چلڈرن کے توسط سے آپ کو آیوشمان ہیلتھ کارڈ بھی دیا جا رہا ہے۔ اس کارڈ سے آپ کے بچوں کو پانچ لاکھ تک علاج کی مفت سہولت بھی ملے گی۔ ساتھیو، ان تمام کوششوں کے درمیان، ہم سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات بچوں کو جذباتی سہارے اور ذہنی رہنمائی کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔ خاندان میں بزرگ تو ہیں ہی لیکن سرکار نے ایک کوشش کوپورا کرنے کی سمت قدم بڑھایا ہے۔ اس کے لیے ایک خصوصی ’سمواد‘ سروس بھی شروع کی گئی ہے۔’سمواد ہیلپ لائن‘ پر، بچے نفسیاتی معاملات پر ماہرین سے مشورہ یا تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ ساتھیو، کورونا عالمی وبا کی آنچ پوری انسانیت نے برداشت کی ہے۔دنیا کا شاید ہی ایسا کوئی کونا ہوگا جہاں صدی کے اس سب سے بڑے سانحے نے نابھلانے والے زخم نہ دیئے ہوں۔ آپ نے جس ہمت اور حوصلے سے اس بحران کا سامنا کیا ہے اس حوصلے لئے یں آپ سبھی کو سلام کرتا ہوں۔ ملک کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں،قوم کے جذبات آپ کے ساتھ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پوری قوم آپ کے خوابوں کی تکمیل کے لیے آپ کے ساتھ ہے۔ اور میں ایک بات اور کہوں گا، میں جانتا ہوں، کوئی بھی کوشش، کسی بھی طرح کا تعاون آپ کے والدین کے پیار کی جگہ نہیں لے سکتا۔ لیکن، ماں بھارتی آپ کے والد، آپ کی ماں کی غیر موجودگی میں بحران کی اس گھڑی میں آپ سبھی بچوں کے ساتھ ہے۔ ملک پی ایم کیئرس فار چلڈرن کے ذریعہ اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہ کوششیں کسی ایک فرد، ایک ادارے یا حکومت کی محض کوششیں نہیں ہیں۔ پی ایم کیئرس میں ہمارے کروڑوں ہم وطنوں نے اپنی محنت اوراپنے پسینے کی کمائی کو جوڑا ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ خدمت اور قربانی کی کیسی کیسی مثالی ہمارے سامنے پی ش آئی ہیں۔ کسی نے اپنی ساری زندگی کی کمائی عطیہ کے طور پر دے دی تو کسی نے اپنے خوابوں کی جوڑی ہوئی رقم اس میں لگادی۔ اس فنڈ نے کورونا کے دور میں اسپتالوں کی تیاری، وینٹی لیٹر خریدنے، آکسیجن پلانٹس لگانے میں بہت مدد کی۔ جس کی وجہ سے کئی جانیں بچائی جا سکیں،کتنے ہی خاندانوں کا مستقبل محفوظ کیا جاسکا اور جو ہمیں بے وقت چھوڑ کرچلے گئے آج یہ فنڈ ان کے بچوں کے لیے آپ سب کے مستقبل کے لیے کام میں آرہا ہے۔ ساتھیو، ابھی آپ سب کو زندگی میں ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ آپ سبھی بہت ہمت سے زندگی میں آئی اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ ہوئے ہیں، چاہے وہ ہمارے ملک میں ہوں یا دنیا میں، انہوں نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی اوروہ کامیابی کے معراج پر پہنچ گئے۔ انہوں نے کبھی ہار کو تسلیم نہیں کیا اورکبھی مایوسی میں امید کا دامن نہیں چھوڑا۔زندگی کا یہی منتر آپ کو اپنی زندگی میں بہت بڑی رہنمائی کرے گا،مدد کرےگا اسے کبھی بھولنا نہیں ہےاور ایک اور بات کاآپ کو ہمیشہ دھیان رکھنا ہے کہ آپ کے پاس اچھے برے ، صحیح غلط اس کا بھید بتانے کے لئے آپ کے گھروالے اور اساتذہ ہی ہیں۔ اس لیے آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کی بات سنیں، آپ کا کوئی قابل اعتماد دوست ایسی بحرانی زندگی میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، اچھی کتابیں بھی دوست ثابت ہو سکتی ہیں، اچھی کتابیں نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ آپ کی رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ میں آپ کو ایک اور مشورہ دوں گا۔ ساتھیو، جب بیماری آتی ہے تو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن زندگی صحت سے متعلق ہونی چاہیے، علاج کے لیے نہیں۔ آج ملک میں بچوں کے لیے فٹ انڈیا اور کھیلو انڈیا مہم چل رہی ہے۔ آپ اس میں شامل ہوں، ان تمام مہمات کی قیادت کریں۔ کچھ ہی دنوں بعد یوگا ڈے بھی آنے والا ہے۔ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یوگا کو بھی آپ کی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے، یہ بھی بہت ضروری ہے۔ ساتھیو، مایوسی کی سب سے بڑی فضا میں بھی اگر ہم اپنے آپ پر یقین رکھیں تو روشنی کی کرن ضرور نظر آتی ہے۔ خود ہمارا ملک اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ہم اس وقت اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ سینکڑوں سالوں کی غلامی میں آزادی کی ہماری طویل جدوجہد میں ہماری سب سے بڑی طاقت کیا تھی؟ کبھی ہار نہ ماننا ہماری طاقت تھی! ہماری طاقت تھی- اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ملک، انسانیت کے لیے سوچنے اور جینے کی ہماری اقدار! آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔اس جذبے کو ملک نے کورونا کے خلاف اتنی بڑی لڑائی میں زندہ کیا ہے اور دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ڈھائی سال پہلے دنیا میں کوئی بھی کورونا وائرس کے بارے میں ٹھیک طرح سے نہیں جانتا تھا۔ ہر کوئی دنیا کے بڑے ممالک کی طرف دیکھتاتھا۔ بھارت کے بارے میں کوئی مثبت بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بلکہ ایسے حالات میں تباہی کی تاریخ کی وجہ سے لوگ ہندوستان کی طرف بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن،ناامیدی کے اس ماحول میں، ہندوستان نے اپنی طاقت پر بھروسہ کیا۔ ہم نے اپنے سائنسدانوں، اپنے ڈاکٹروں، اپنے نوجوانوں پر بھروسہ کیا اور ہم امید کی کرن بن کر نکلے ہیں، دنیا کے لیے کوئی پریشانی نہیں۔ ہم مسئلہ نہیں بنے بلکہ حل دینے والے بن گئے۔ ہم نے دنیا بھر کے ممالک کو دوائیں، ویکسین بھیجیں۔ اتنے بڑے ملک میں بھی ہم نے ویکسین ہر شہری تک پہنچائی۔ آج ملک میں ویکسین کی تقریباً 200 کروڑ ٹیکے لگائے گئے ہیں۔ اس تباہی کے درمیان ہم نے ’خود انحصار ہندوستان’ جیسی قرارداد بھی شروع کی تھی اور آج یہ قرارداد تیزی سے تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم کورونا کے برے اثرات سے نکل کر تیزی سے ترقی کرنے والی عالمی معیشتوں میں سے ایک بن چکے ہیں۔ دنیا آج ایک نئی امید، نئے اعتماد کے ساتھ ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ ساتھیو، آج جب ہماری حکومت اپنے 8 سال مکمل کر رہی ہے، ملک کا اعتماد، اہل وطن کا اپنے آپ پر اعتماد بھی بے مثال ہے۔ بدعنوانی، ہزاروں کروڑ کے گھپلے، اقربا پروری، ملک میں پھیلی ہوئی دہشت گرد تنظیمیں، علاقائی تفریق، 2014 سے پہلے ملک جس شیطانی دائرے میں پھنسا ہوا تھا، وہ اس سے اب باہر آ رہا ہے۔ یہ بھی آپ سب بچوں کے لیے ایک مثال ہے کہ مشکل ترین دن بھی گزر جاتے ہیں۔ سب کا ساتھ – سب کا وکاس، سب کا وشواس – سب کا پریاس کے منتر پر عمل کرتے ہوئے، ہندوستان اب تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔سوچھ بھارت مشن ہو، جن دھن یوجنا، اجولا یوجنا ہو یا ہر گھر جل ابھیان، پچھلے 8 سال غریبوں کی خدمت، غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔ ایک خاندان کے فرد کے طور پر، ہم نے غریبوں کی زندگی کی مشکلات کوکم کیا ہے،ان کی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح اہل وطن ان کے لیے سرگرم عمل ہو سکتے تھے، اس میں کوئی کمی نہیں تھی۔جس ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے سے پہلے حکومتیں بھی گھبراتی تھیں، لوگوں کو بھی عادت نہیں تھی اسی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا کر ہماری حکومت نے غریب کواس کے حقوق کو یقینی بنایا ہے۔ اب غریب سے غریب کو بھروسہ ہے کہ حکومت کی اسکیموں کا فائدہ اسے ملےگا ،لگاتار ملے گا۔ اس اعتماد کو بڑھانے کے لیے، ہماری حکومت اب 100 فیصد بااختیار بنانے کی مہم چلا رہی ہے۔ کوئی بھی غریب سرکاری اسکیموں کے فائدے سے محروم نہ رہے، ہر غریب کو اس کا حق ملنا چاہیے، یہ ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں ہندوستان نے جن بلندیوں کو چھوا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج دنیا میں ہندوستان کاوقار بڑھ گیا ہے، عالمی فورم�� میں ہمارے ہندوستان کی طاقت بڑھی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ بھارت کے اس سفر کی قیادت نوجوان طاقت کررہی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب، ہمارے بچے، ہمارے نوجوان اس ہمت اور انسانی حساسیت کے ساتھ ملک اور دنیا کو راستہ دکھائیں گےاور اسی طرح آگے بڑھتے رہیں گے۔ عزم کے ساتھ چلیں گے، عزم کے لیے زندگی وقف کرنے کی تیاری کریں، خواب شرمندہ تعبیر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے۔ آپ جہاں تک پہنچنا چاہیں، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو نہیں روک سکتی۔ اگر آپ کے اندر جذبہ، عزم اور عزم کو پورا کرنے کی طاقت ہے تو آپ کو کبھی رکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ویسے میں نے شروع میں کہا تھا کہ ایک خاندانی فرد کی حیثیت سے آج آپ سے بات کر رہا ہوں۔ آج ایک خاندان کے رکن کے طور پر میں آپ کو اپنی دعائیں دینا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے آشرواد دینے کا کوئی حق ہے یا نہیں، لیکن میں آپ میں طاقت دیکھ سکتا ہوں، میں آپ بچوں میں طاقت دیکھ سکتا ہوں۔ اور اسی لیے میں آشرواددے رہا ہوں، تم بہت آگے جاؤ۔میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت شکریہ!,পিএম কেয়াৰ্ছ ফৰ চিলড্ৰেন আঁচনিৰ জৰিয়তে মুনাফা জাৰি কৰিবলৈ দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D9%85%D9%84%DA%A9-%D9%88%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%B2%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8/,نئیدہلی08نومبر۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ملک وقوم کو دیوالی کے مقدس تیوہار کی مبارکباد دی ہے ۔ جناب نریندر مودی نے دیوالی پر اپنی مبارکباد کے پیغام میں کہا :’’ خدا کرے کہ دیوالی کا یہ مبارک تیوہار ہر ایک کی زندگی میں خوشیاں ،صحت اور خوشحالی پیدا کرے ۔ خدا کرے کہ اچھائی اور روشنی کی طاقت ہمیشہ قائم رہے ۔‘‘ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,দিপাৱলী উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰাষ্ট্ৰবাসীক জনালে শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D9%88%D9%86%DB%92%D8%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95/,نئی دہلی۔ 6 مارچ چھترپتی شیواجی مہاراج، مہاتما جیوتیبا پھولے، ساوتری بائی پھولے، مہارشی کروے ینچاسہ آشا، بہت سے باصلاحیت ادبی فنکار، سماجی کارکن، ینچیا واستویانے پاون جھاللیہ پونیہ نگری تیل ماجھا بندھو – بھاگینینا نمسکار! اس پروگرام موجود مہاراشٹر کے گورنر، جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق ، رام داس اٹھاولے جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب اجیت پوار جی، حکومت مہاراشٹر کے دیگر وزراء، سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی پرکاش جاوڈیکر جی، دیگر اراکین پارلیمنٹ، قانون ساز، پونے کے میئر مرلی دھر مہول جی، پمپری چنچوڑ کی میئر محترمہ مائی دھورے جی، یہاں موجود دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات، اس وقت ملک آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ہندوستان کی آزادی میں پونے کی تاریخی شراکت داری رہی ہے۔ لوک مانیہ تلک، چاپے کر برادران، گوپال گنیش اگرکر، سینا پتی باپت، گوپال کرشن دیشمکھ، آر۔ جی بھنڈارکر، مہادیو گووند راناڈے جی جیسے تمام اس سرزمین کے آزادی پسندوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج مہاراشٹر کی ترقی کے لیے خود کو وقف کر دینے والے رام بھاؤ مہالگی جی کی برسی بھی ہے۔ آج میں بابا صاحب پورندرے جی کو بھی بصد احترام یاد کر رہا ہوں۔ کچھ دیر پہلے مجھے چھترپتی شیواجی مہاراج جی کے عظیم الشان مجسمے کے افتتاح کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم سب کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والے چھترپتی شیواجی مہاراج جی کا یہ مجسمہ آنے والی نسلوں میں حب الوطنی کی تحریک پیدا کرے گا۔ آج پونے کی ترقی سے متعلق کئی اور پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پونے میٹرو کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے آپ نے مجھے دعوت دی تھی اور اب آپ نے مجھے اس کا افتتاح کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس سے قبل جب سنگ بنیاد رکھا جاتا تھا تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ افتتاح کب ہوگا۔ دوستو یہ واقعہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ منصوبے وقت پر مکمل ہو سکتے ہیں۔ آج مولا – مو ٹھا ندی کو آلودگی سے پاک بنانے کے لیے 1100 کروڑ روپے کے پروجیکٹ پر بھی کام شروع ہو رہا ہے۔ آج پونے کو ای بسیں بھی ملی ہیں، بانیر میں ای بس کے ڈپو کا افتتاح ہوا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ، اور میں اوشا جی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، آج پونے کی متعدد متنوع زندگیوں میں ایک شاندار تحفہ، آر کے لکشمن جی کے نام وقف ایک شاندار آرٹ گیلری میوزیم بھی پونے کو ملا ہے۔ میں اوشا جی کو ان کے پورے خاندان کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، کیونکہ میں ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا ہوں۔ ان کے جوش و جذبےاور دن رات کام کو مکمل کرنے کے لیے مصروف رہنے کے لیے ، میں واقعی پورے خاندان کو ، اوشا جی کو مبارکباد پیش کرتا ۔ آج، میں ان تمام خدمت کے کاموں کے لیے پونے کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے دونوں میئر صاحبان کو ، ان کی ٹیم کو دونوں کو بہت سے ترقیاتی کام تیز رفتاری سے کرنے کے لیے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بھائیو اور بہنو، پونے اپنے ثقافتی، روحانی اور حب الوطنی کے شعور کے لیے مشہوررہا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ، پونے نے تعلیم، تحقیق اور ترقی، آئی ٹی اور آٹوموبائل کے شعبہ میں مسلسل اپنی شناخت مضبوط کی ہے۔ ایسے میں جدید سہولیات پونے کے لوگوں کی ضرورت ہے اور ہماری حکومت پونے کے لوگوں کی اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی محاذوں پر کام کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے گروارے سے آنند نگر تک پونے میٹرو میں سفر کیا ہے۔ یہ میٹرو پونے میں نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرے گی، آلودگی اور اژدحام سے نجات دلائے گی، پونے کے لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرے گی۔ پانچ چھ سال پہلے جب ہمارے دیویندر جی یہاں کے وزیر اعلیٰ تھے تو وہ اس پروجیکٹ کے سلسلے میں مسلسل دہلی آتے تھے، بڑے جوش اور ولولے سے اس پروجیکٹ کے تئیں سرگرم تھے۔ میں ان کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ دوستو، کورونا وبا کے درمیان بھی یہ سیکشن آج خدمت کے لیے تیارہوا ہے۔ پونے میٹرو کے آپریشن کے لیے شمسی توانائی کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے ہر سال تقریباً 25 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج رک جائے گا۔ میں اس پروجیکٹ میں شامل تمام لوگوں بالخصوص تمام محنت کشوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا یہ تعاون پونے کے پیشہ ور افراد، یہاں کے طلباء، یہاں کے عام آدمی کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔ ساتھیوں، آپ ��ب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کس تیزی سے شہری کاری ہو رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سال 2030 تک ہماری شہری آبادی 60 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی اپنے ساتھ بہت سے مواقع لے کر آتی ہے لیکن ساتھ ساتھ چیلنج بھی در پیش ہوتے ہیں۔ شہروں میں ایک خاص حد کے اندر ہی فلائی اوور بنائے جا سکتے ہیں، آبادی بڑھنے سے کتنے فلائی اوور بنیں گے؟ آپ اسے کہاں کہاں بنائیں گے؟ کتنی سڑکیں چوڑی کریں گے؟ آپ اسے کہاں کریں گے؟ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے – عوامی نقل و حمل۔ بڑے پیمانے پر نقل و حمل کے انتظامات کی زیادہ سے زیادہ تعمیر۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری حکومت بڑے پیمانے پر نقل و حمل کے ذرائع اور خاص طور پر میٹرو رابطے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ 2014 تک، ملک کے صرف دہلی-این سی آر میں ہی میٹرو کی وسیع پیمانے پر توسیع ہوئی تھی۔ باقی اکّا دکّا شہروں میں میٹرو پہنچنا شروع ہی ہوا تھا۔ آج ملک کے 2 درجن سے زائد شہروں میں میٹرو یا تو آپریشنل ہو چکی ہے یا جلد ہی آپریشنل ہونے والی ہے۔ اس میں بھی مہاراشٹر کی حصہ داری ہے۔ ممبئی ہو، پونے – پمپری چنچوڑہو ، تھانے، ناگپور ہو، آج مہاراشٹر میں میٹرو نیٹ ورک کی بہت تیزی سے توسیع ہو رہی ہے۔ آج اس موقع پر میری پونے اور ہر اس شہر کے لوگوں سے ایک درخواست ہے جہاں میٹرو چل رہی ہے۔ میں خودمختار شہریوں سے خصوصی درخواست کروں گا، معاشرے کے بڑے لوگوں سے خصوصی درخواست کروں گا کہ ہم کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جائیں، معاشرے کے ہر طبقے کو میٹرو میں سفر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ آپ جتنا زیادہ میٹرو میں چلیں گے، اتنا ہی آپ اپنے شہر کی مدد کریں گے۔ بھائیو اور بہنو، 21ویں صدی کے ہندوستان میں ہمیں اپنے شہروں کو جدید بھی بنانا ہوگا اور ان میں نئی سہولتیں شامل کرنی ہوں گی۔ مستقبل کے ہندوستان کے شہر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہماری حکومت کئی منصوبوں پر ایک ساتھ کر کام کر رہی ہے۔ ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ ہر شہر میں زیادہ سے زیادہ گرین ٹرانسپورٹ، الیکٹرک بسیں، الیکٹرک کاریں، دو پہیاالیکٹرک گاڑی ہو، ہر شہر میں اسمارٹ موبیلیٹی ہو، لوگ ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے لیے ایک ہی کارڈ استعمال کریں۔ ہر شہر میں سہولت کو سمارٹ بنانے کے لیےمربوط کمانڈ اور کنٹرول سینٹر ہو، ہر شہر میں سرکلر اکانومی کو مضبوط بنانے کے لیے جدید ویسٹ مینجمنٹ سسٹم ہو، ہر شہر کو واٹر پلس بنانے کے لیے مناسب جدید سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ ہوں، پانی کے ذرائع کا بہتر انتظام ہو، ہر شہر میں ویسٹ ٹو ویلتھ بنانے کے لیے گوبردھن پلانٹ ہوں ، بائیو گیس پلانٹ ہوں ، ہر شہر میں توانائی کی بچت پر زور دیا جانا چاہیے، ہر شہر کی اسٹریٹ لائٹ سمارٹ ایل ای ڈی بلب سے روشن ہو جائیں ، اس نقطہ نظر کے ساتھ آگے ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ شہروں میں پینے کے پانی اور نکاسی آب کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے، ہم امرت مشن کو لے کر مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم نے ریرا (آر ای آر اے) جیسا قانون بھی بنایا تاکہ متوسط طبقہ اس قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے پریشان ہوتے تھے، پیسے دیتے دیتے، سالوں گزر جاتے تھے، انہیں مکان نہیں ملتا تھا۔ ان تمام مسائل کا حل، جو کاغذ میں بتایا جاتا تھا، وہ مکان نہیں ہوتاتھا، بہت سی بد انتظامیاں ہوتی تھیں۔ ایک طرح سے ہمارا متوسط طبقہ جو زندگی کی بہت بڑی پونجی سےاپنا ایک گھر بنانا چاہتا ہے، وہ گھر بننے سے پہلے ہی اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ ریرا (آر ای آر اے) قانون اس متوسط طبقے کے لوگوں کو گھر بنانے کی خواہش کرنے والوں کو حفاظت فراہم کرنے کے لیے بہت بڑا کام کر رہا ہے۔ ہم شہروں میں ترقی کے لیے صحت مند مقابلہ کو بھی فروغ دے رہے ہیں تاکہ بلدیاتی اداروں کی پوری توجہ صفائی پر ہو۔ شہری منصوبہ بندی سے متعلق ان موضوعات پر سال کے بجٹ میں بھی توجہ دی گئی ہے۔ بھائیو اور بہنو، پونے کی شناخت ماحول دوست ایندھن کے مرکز کے طور پر بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ ہم آلودگی سے نجات پانے، خام تیل کے لیے غیر ملکی انحصار کو کم کرنے اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے ایتھنول پر ، حیاتیاتی ایندھن پرتوجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ پونے میں بڑے پیمانے پر ایتھنول ملاوٹ کی سہولیات قائم کی گئی ہیں۔ اس سے یہاں کے گنے کے کاشتکاروں کو بھی بڑی مدد ملے گی۔ آج میونسپل کارپوریشن نے پونے کو صاف ستھرا اور خوبصورت بنانے کے لیے بہت سے کام شروع کیے ہیں۔ بار بار آنے والے سیلاب اور آلودگی سے پونے کو نجات دلانے میں یہ سیکڑوں کروڑ روپے کے پروجیکٹ بہت کارآمد ثابت ہوں گے۔ مرکزی حکومت بھی مولا موٹھا ندی کی صفائی اور جدید کاری کے لیےبھی پونے میونسپل کارپوریشن کو مکمل تعاون دے رہی ہے۔ندیاں پھر سے زندہ ہوں گی تو شہر کے لوگوں کو بھی راحت ملے گی ، انہیں بھی نئی توانائی ملے گی۔ اور میں تو شہروں میں رہنے والوں سے گزارش کروں گا کہ سال میں ایک بار تاریخ طے کر کے باقاعدہ ندی اتسو منائیں ۔ ندی کے تئیں تعظیم، ندی کی اہمیت، ماحولیاتی نقطہ نظر سے تربیت، پورے شہر میں ندی اتسو کا ماحول بنانا چاہیے، تب جاکر ہمیں اپنی ندیوں کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ ہم پانی کے ایک ایک قطرے کی اہمیت کو سمجھیں گے۔ ساتھیوں، کسی بھی ملک میں جدید انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیےجو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے ، وہ ہے رفتار اور پیمانہ ۔ لیکن کئی دہائیوں تک ہمارے پاس ایسے انتظامات رہیں کہ اہم منصوبوں کی تکمیل میں کافی وقت لگ جاتا تھا ۔ یہ سست رویہ ملک کی ترقی کو بھی متاثر کرتا رہا ہے۔ آج کے تیزی سے ترقی کرنے والے ہندوستان میں ہمیں رفتار اور پیمانے پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اسی لیے ہماری حکومت نے پی ایم-گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان تیار کیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر منصوبوں میں تاخیر کی وجہ مختلف محکموں، مختلف وزارتوں، حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی منصوبہ برسوں بعد مکمل بھی ہوتا ہے تو وہ پرانا ہو جاتا ہے، اس کی موزونیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان ان تمام تضادات کو دور کرنے کا کام کرے گا۔ جب کام ایک مربوط توجہ کے ساتھ کیا جائے گا، ہر شراکت دار کے پاس کافی معلومات ہوں گی، تب ہمارے پراجیکٹ کے وقت پر مکمل ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ اس سے عوام کی مشکلات بھی کم ہوں گی، ملک کا پیسہ بھی بچے گا اور لوگوں کو سہولتیں بھی زیادہ ملیں گی۔ بھائیو اور بہنو، میں اس بات سے بھی مطمئن ہوں کہ جدیدیت کے ساتھ ساتھ پونے کے افسانویت اور مہاراشٹر کے فخر کو شہری منصوبہ بندی میں وہی مقام دیا جا رہا ہے۔ یہ سرزمین سنت دنیشور اور سنت تکارام جیسے متاثر کن سنتوں کی رہی ہے۔ مجھے چند ماہ قبل ہی شری سنت دنیشور مہاراج پالکھی مارگ اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کا سنگ بنیاد رکھنے کا شرف حاصل ہواہے۔ اپنی تاریخ پر فخر کرتے ہوئے، جدیدیت کا یہ ترقی کا سفر اسی طرح جاری رہے، اس خواہش کے ساتھ پونے کے تمام شہریوں کو ایک بار پھر بہت بہت مبارکباد ۔ بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔��۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,মহাৰাষ্ট্ৰৰ পুনেত একাধিক উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন আৰু উদ্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%DA%AF%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-350-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9%E0%A7%AB%E0%A7%A6%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%89%E0%A6%AA/,نئی دہلی۔24 دسمبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 10 ویں سکھ گرو گرو گوبند سنگھ جی کو ان کے 350 ویں پرکاش پرو پر خراج عقیدت پیش کیا ۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘آج جب ہم 350 واں پرکاش پرو منا رہے ہیں ، میں شری گرو گوبند سنگھ جی کے تعظیم میں اپنا سر جھکا تا ہوں ۔ وہ وہ غیر معمولی جرأت اور زبردست حکمت کی علامت تھے ۔ ان کے جرأتمندانہ کارنامے اور عظیم افکار پوری نسل کے لیے ترغیب کا باعث رہے ہیں ۔ شری گرو گوبند سنگھ جی مساوات کی طاقت میں یقین رکھتے تھے ۔ انہوں نےہر قسم کے سماجی امتیاز کی مخالفت کی۔ وہ اپنے انصاف پسندی اور ایمانداری کے جذبے کے لیے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔,৩৫০সংখ্যক প্ৰকাশ পৰ্ব উপলক্ষে গুৰু গোৱিন্দ সিং জীক স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4/,نمبر شمار دستاویز کا نام بھارت کی طرف سے دستخط کرنے والے جمہوریہ کوریا کی طرف سے دستخط کرنے والے اہداف 1 اپگریڈ شدہ جامع معاشی شراکت داری معاہدہ (سی ای پی اے ) کے فصلوں کی جلد کٹائی کے پیکج پر مشترکہ بیان جناب سریش پربھو، تجارت و صنعت کے وزیر، بھارت عزت مآب کِم ہیونگ چونگ ، تجارت و صنعت اور توانائی کے وزیر، جمہوریہ کوریا جھینگے، مولیوسکس اور ڈبہ بند مچھلی سمیت تجارت کو آسان بنانے کے لئے کلیدی شعبوں کی نشاندہی کر کے بھارت-جمہوریہ کوریا سی ای پی اے کے اپگریڈ کے ذریعے جاری مذاکرات کا راستہ ہموار کرنا 2 تجارتی آسانیوں سے متعلق مفاہمت نامہ جناب سریش پربھو، تجارت و صنعت کے وزیر، بھارت عزت مآب کِم ہیونگ چونگ ، تجارت و صنعت اور توانائی کے وزیر، جمہوریہ کوریا سرکاری افسران اور ماہرین پر مشتمل امداد باہمی کمیٹی قائم کر کے مشاورت اور معلومات کے تبادلہ خیال کے ذریعے تجارتی آسانیوں مثلاً اینٹی ڈمپنگ، سبسڈی اور حفاظتی اقدامات کے شعبے میں باہمی تعاون کے لئے 3 مستقبل کے اسٹریٹجی گروپ سے متعلق مفاہمت نامہ جناب سریش پربھو، تجارت و صنعت کے وزیر، بھارت اور ڈاکٹر ہرش وردھن، سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر، بھارت عزت مآب کِم ہیونگ چونگ ، تجارت و صنعت اور توانائی کے وزیر، جمہوریہ کوریا اور جناب یو یانگ مِن، سائنس اور آئی سی ٹی کے وزیر، جمہوریہ کوریا چوتھی صنعتی انقلاب کے فوائد سے مستفیض ہونے کے لئے کمرشیلائزیشن کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی ترقی میں امداد باہمی کے لئے ۔جن شعبوں میں زیادہ توجہ دی جانی ہیں ان میں انٹر نیٹ آف تھنگس(آئی او ٹی)، آرٹیفشیل انٹلی جنس(اے آئی)، بگ ڈیٹا، اسمارٹ فیکٹری ، تھری ڈی پرنٹنگ ، الیکٹرکل وہیکل ، ایڈوانس ساز و سامان اور معمر اور معذور افراد کے لئے کم خرچ پر حفظان صحت 4 2022-2018 کی مدت کے لئے ثقافتی تبادلہ پروگرام جناب راگھویندر سنگھ ، سکریٹری وزارت ثقافت ،بھارت عزت مآب شن بونگ کل،بھارت میں جمہوریہ کوریا کے سفیر موسیقی اور رقص ، تھیٹر ، فنی نمائشوں ، آرکائیوز، انتھراپولوجی، ماس میڈیا پروگرام اور میوزیم نمائش کے شعبوں میں ادارہ جاتی امداد باہمی فراہم کر کے ثقافتی اور عوام سے عوام کے تعلقات کو گہرا کرنا 5 کونسل فار سائنسٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر)اور نیشنل ریسرچ کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این ایس ٹی ) کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی تحقیق کے شعبے میں امداد باہمی پر مفاہمت نامہ ڈاکٹر گریش ساہنی ، ڈائریکٹر جنرل، سی ایس آئی آر ڈاکٹر ہون کونگ یون، چیئرمین ، نیشنل ریسرچ کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(این ایس ٹی) کم خرچ پر پانی کی صفائی ٹیکنالوجی ، انٹلیجنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم ،نئے اور متبادل ساز و سامان، روایتی دوائیں اور ٹیکنالوجی پیکجنگ اور کمرشیلائزیشن کے شعبوں سمیت سائنسی اور ٹیکنالوجی تحقیق میں امداد باہمی کے لئے 6 ریسرچ ڈیزائن اور اسٹینڈرڈس آرگنائزیشن(آر ڈی ایس او) اور کوریا ریل روڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (کے آر آر آئی) کے درمیان امداد باہمی سے متعلق مفاہمت نامہ جناب ایم حسین، ڈائریکٹر جنرل ، آر ڈی ایس او جناب نا ہی-سیونگ ، صدر ،کے آر آر آئی ریلوے ریسرچ، ریلوے سے متعلق تجربات کے تبادلہ اور ریلوے صنعتوں کی ترقی میں امداد باہمی کے لئے۔ دونوں ممالک بھارت میں ایک ایڈوانسڈ ریلویز آر اینڈ ڈی سہولت قائم کرنے سمیت منصوبہ بندی اور مشترکہ ریسرچ پروجیکٹوں کے نفاذ کی دریافت کریں گے۔ 7 حیاتیات ٹیکنالوجی اور حیاتیاتی –معاشیات کے شعبے میں امداد باہمی سے متعلق مفاہمت نامہ ڈاکٹر ہرش وردھن، سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر، بھارت جناب یو یونگ من ، سائنس اور آئی سی ٹی کے وزیر، جمہوریہ کوریا صحت ، دوا،مچھلی پالن مصنوعات، ڈیجیٹل حفظان صحت، برین ریسرچ میں حیاتیاتی ٹیکنالوجی اور بایو بگ ڈیٹا کے اختیار کرنے میں امداد باہمی کے لئے 8 آئی سی ٹی اور مواصلات کے شعبے میں امداد باہمی سے متعلق مفاہمت نامہ جناب منوج سنہا، وزیر مملکت ، مواصلات کی وزارت، بھارت جناب یو یونگ من ، سائنس اور آئی سی ٹی کے وزیر، جمہوریہ کوریا جدید مواصلات؍ آئی سی ٹی خدمات اور اگلی جنریشن کے بغیر تار کے مواصلاتی نیٹ ورک مثلاً 5جی ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ ،بگ ڈیٹا، آئی او ٹی ، اے آئی اور خدمات ،ڈیزاسٹرمینجمنٹ، ایمرجنسی رسپانس اور سائبر سیکیورٹی میں ان کے انطباقات وغیرہ کی ترقی، تجدید کاری اور توسیع میں امداد باہمی کے لئے 9 بھارت اور جمہوریہ کوریا کے درمیان بہت چھوٹی ، چھوٹی اور متوسط درجے کی صنعتوں کے شعبے میں امداد باہمی سے متعلق مفاہمت نامہ(نوڈل ایجنسیز: این ایس آئی سی- نیشنل اسمال انڈسٹریز کارپوریشن آف انڈیا)ا ور (ایس بی سی – اسمال اینڈ میڈیم بزنس کارپوریشن آف آر او کے ) جناب رویندر ناتھ،چیئرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر، نیشنل اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز(این ایس آئی سی) جناب لی سانگ جک، صدر اسمال اینڈ میڈیم بزنس کارپوریشن دونوں ملکوں میں بہت چھوٹی ، چھوٹی اور متوسط درجے کی صنعتوں کی ترقی اور عالمی بازاروں میں ان کی مسابقتی اہلیت کو بہتر بنانے میں امداد باہمی کے لئے۔ دونوں ممالک بھارت –جمہوریہ کوریا ٹیکنالوجی تبادلہ مرکز قائم کرنے کے امکان کو بھی دریافت کریں گے۔ 10 گجرات کی ��کومت اور کوریا ٹریڈ پروموشن ایجنسی(کے او ٹی آر اے) کے درمیان مفاہمت نامہ جناب ایم کے داس، پرنسپل سکریٹری، صنعتوں اور کانوں ، حکومت گجرات جناب کون پیونگ-اوہ ، صدر اور سی ای او ، کورین ٹریڈ انویسٹمنٹ پروموشن ایجنسی شہری بنیادی ڈھانچہ، ڈبہ بند خوراک، زراعت سے متعلق صنعتوں ، اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم، ہنر مندی کی تربیت اور فروغ اور جدید اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں امداد باہمی کے ذریعے حکومت گجرات اور ساؤتھ کوریا کمپنیوں کے درمیان صنعتی اور سرمایہ کاری کے رشتوں کو مضبوط کرنا ۔ کے او ٹی آر اے احمدآباد میں ایک دفتر کھولے گا اور وائبرنٹ گجرات گلوبل سمٹ 2019کی شراکت دار تنظیموں میں سے ایک تنظیم بنے گا۔ 11 کوئین سوری رتنا میموریل پروجیکٹ کے سلسلے میں مفاہمت نامہ جناب اونیش کمار اوستھی، ایڈیشنل چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل ، سیاحت ، حکومت اترپردیش عزت مآب شن بونگ کل، سفیر جمہوریہ کوریا شہزادی سوری رتنا (ملکہ حر ہونگ اوک)، کی یاد میں موجودہ یادگار کی توسیع اور اس کو اپگریڈ کرنے کا راستہ ہموار کرنا۔ سوری رتنا ایودھیا کی ایک افسانوی شہزادی تھیں جو بعد از مسیح 48 میں کوریا گئیں تھیں اور وہاں کنگ کم سورو سے شادی کر لی تھیں۔ کوریا کے باشندوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس افسانوی شہزادی میں اپنا حسب و نسب تلاش کرتی ہے۔ یہ نیا یادگار بھارت اور جمہوریہ کوریا کے درمیان مشترکہ ثقافتی وراثت اور ایک طویل عرصے سے دیر پا دوستی کو ایک خراج عقیدت ہوگا۔,দক্ষিণ কোৰিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণ কালত ভাৰত আৰু দক্ষিণ কোৰিয়াৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তি/নথিসমূহৰ তালিকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ایک مقامی جاپانی اخبار میں بھارت اورجاپان کے درمیان درخشاں تعلقات پر ایک اوپیڈ تحریر کیا۔ وزیراعظم مودی جاپان کے سرکاری دورے پر ہیں۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ’’انہو ں نے بھارت اورجاپان کے درمیان درخشاں تعلقات پر ایک اوپیڈ تحریر کیا ہے۔ ہماری امن، استحکام اور خوشحالی کے لئے شراکت داری ہے ۔ میں اپنی خصوصی دوستی کے سفر پر نکلا ہوں جس کے شاندار 70 سال مکمل ہورہے ہیں ۔ @Yominline"" ’’کووڈ عالمی وبا کے بعد کی دنیا میں بھارت اورجاپان کے درمیان قریبا تعاون کافی اہم ہیں ، دونوں ممالک جمہوری قدروں کے تئیں پوری طرح پرعزم ہیں، ہم دونوں ایک مستحکم اور محفوظ بھارت بحر الکاہل خطے کے اہم ستون ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ ہم کثیر جہتی فورموں میں مل کر کام کررہے ہیں‘‘۔ ’’مجھے اس وقت سے جاپانی عوام کے ساتھ مستقل بات چیت کرنے کاموقع حاصل رہا ہے ، جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا ۔ جاپان نے جس طرح ترقی کی منزلیں طے کی ہیں وہ ہمیشہ قابل تعریف ہے۔ جاپان بنیادی ڈھابچے، ٹکنالوجی، اختراع، ا سٹارٹ اپس اورمزید کئی شعبوں سمیت کلیدی شعبوں میں بھارت کا شراکت دا ر ہے‘‘۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ভাৰত আৰু জাপানৰ প্ৰাণৱন্ত সম্পৰ্কক লৈ এক অ’প-এড লিখিছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%A1%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%9C-%E0%A6%86%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%AC%E0%A6%BF-2/,"نئی دہلی۔03 فروری وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گوہاٹی میں منعقدہ ایڈوانٹج آسام – عالمی سرمایہ کاروں کی چوٹی کانفرنس 2018 کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا ۔ چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے وفود کا استقبال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ شمال مشرق مرکزی حکومت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کے مرکز میں ہے ۔ ایکٹ ایسٹ پالیسی کا تصور سے آسیان ممالک کے ساتھ عوامی رابطے ، تجارتی اور دیگر تعلقات میں اضافہ ہوا ہے ۔ وزیر اعظم نے ہندوستان اور آسیان ممالک کے درمیان شراکت داری کے 25 سال مکمل ہونے کی تقریب ہند-آسیان یادگار چوٹی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور آسیان ممالک کے مابین تعلقات ہزاروں سال قدیم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہندوستان کے لیے باعث فخر ہے کہ اس نے نئی دہلی میں منعقدہ یوم جمہوریہ کی تقریب میں 10آسیان ممالک کے سربراہوں کی معزز مہمانوں کی حیثیت سے ضیافت کی۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان کی شرح ترقی شمال مشرقی خطے کی متوازن اور تیز رفتار ترقی سے مزید مستحکم ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکوت کی اسکیموں کا مقصد وہاں کے لوگوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی لانا اور عوامی سہولیات میں بہتری لانا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی بجٹ میں ‘‘ آیوش مان بھارت’’ اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ اپنی نوعیت کی دنیا کی سب سے بڑی اسکیم ہے ۔ انہوں نے کہا حفظان صحت کی اسکیم سے 45 سے 50 کروڑ لوگوں کو فائدہ پہنچے گا ۔ انہوں نےغریبوں کے لیے حفظان صحت کے ان دیگر اقدامات کا بھی ذکر کیا جنہیں مرکزی حکومت نے کیے ہیں ۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ مرکزی حکومت کسانوں کی اِن پٹ لاگت کم کر کے اور پیداوار کے لیے مناسب قیمت فراہم کر کے ان کی آمدنی دوگنی کرنے کے سمت میں کام کر رہی ہے۔ انہوں کسانوں کی بہبود کے لیے مرکزی حکومت کے دیگر اقدامات کا بھی ذکر کیا ۔ وزیر اعظم نے لوگوں کو قابل استطاعت مکانات فراہم کرنے کے اقدامات کا حوالہ دیا اور ایل ای ڈی بلب کی تقسیم کے لیے اجول یوجنا کا ذکر کیا جس سے بجلی کے بلوں میں خاطر خواہ بچت ہوتی ہے ۔ انہوں نے نیشنل بمبو مشن کی از سر نو تعمیر کا ذکر کیا ، جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ شمال مشرق کے لیے خاص طور پر بہت اہم ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت کے انتظامی ڈھانچے میں بہتری لانے سے پروجیکٹوں کے نفاذ میں زبردست تیزی آئی ہے ۔ وزیر اعظم نے مدرا یوجنا کے تحت کاروباریوں کو کولیٹرل فری قرض فراہم کے اقدامات کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایس ایم ای کو ٹیکس سے راحت دلانے کے لیے مرکزی بجٹ میں اقدامات کیے گئے ہیں ۔ وزیر اعظم نے کالے دھن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مرکزی حکومت کی عہد بستگی کا اعادہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں اہم اقتصادی اصلاحات کیے ہیں اور تجارت کرنے کے طریقہ کار کو آسان بنایا ہے ۔ یہ ان ہی اصلاحات کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان نے 190 ممالک میں کاروبار سے متعلق عالمی بینک کی رپورٹ میں45 کی چھلانگ لگا کر 100 واں مقام حاصل کیا ہے ۔ آسام کے عظیم موسیقار بھوپن ہزاریکا کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اپنے مجاہدین آزادی کے خوابوں اور تصورات کو بروئے کار لانا اور 2022 تک نئے ہندوستان کی تعمیر ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم نے شمال مشرق میں نقل و حمل کے نئے ڈھانچے کی تعمیر کے لیے اقدامات کا ذکر کیا ۔ انہوں نے آسام کے وزیر اعلی جناب سربھانند سونووال کاآسام میں کاروبار اور ترقی کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے مبارکباد پیش کی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح( ,",এডভান্টেজ আছাম – বিশ্ব বিনিয়োগকাৰী সন্মিলন ২০১৮ ৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B2%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%AF%D8%A7%DB%81%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%B5%D8%A7%D9%81-%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%B1%D8%A7-%D8%B1%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%B8/,وزیر اعظم نے عبادت گاہوں کو صاف ستھرا رکھنے کے سلسلے میں زائرین کے درمیان ابھرتے ہوئے جذبے کی ستائش کی۔ وزیر اعظم اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے ٹوئیٹ کے سلسلے پر ردعمل کا اظہار کررہے تھے، جس کے تحت وزیر اعلیٰ نے من کی بات پروگرام کے دوران ہماری عبادت گاہوں کو صاف ستھرا رکھنے سے متعلق وزیر اعظم کی اپیل کے ردعمل کے طور پر زیارت گاہوں کو صاف ستھرا رکھنے کے سلسلے میں عقیدت مندوں سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: زیارت گاہوں کی صفائی ستھرائی کے لیے عقیدت مندوں کا یہ جذبہ ہر کسی کو ترغیب فراہم کرنے والا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে তীৰ্থস্থানপৰিষ্কাৰ ৰখাৰ ভক্তসকলৰ মনোভাৱৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-29%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%A8%D9%84-%D9%BE%D8%A7%D9%B9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A8%D8%B2%D9%86%D8%B3-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A6%8F%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 29 اپریل2022 کو دوپہر 12 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سردار دھام کے ذریعے، منعقد کیے جانے والے گلوبل پاٹیدار بزنس سمٹ(جی پی بی ایس)کاافتتاح کریں گے۔ پاٹیدار برادری کی سماجی اور اقتصادی ترقی کو تحریک دینے کیلئے سردار دھام ‘مشن 2026’ کے تحت جی پی بی ایس کا اہتمام کررہا ہے۔ یہ سمٹ ہر دوسال میں منعقد کیا جاتا ہے۔ پہلی دو سمٹ 2018 اور 2020 میں گاندھی نگر میں منعقد ہوئی تھی اور موجودہ سمٹ اب سورت میں منعقد ہورہی ہے۔ جی پی بی ایس 2022 کا مرکزی موضوع ہے ‘‘آتم نربھر کمیونٹی سے آتم نربھر گجرات اور بھارت’’۔ اس سمٹ کا مقصد پاٹیدار کمیونٹی کے درمیان چھوٹی اوسط اور بڑی صنعتوں کو ایک ساتھ لانا ہے ، نئے صنعتکاروں کی مددکرنا اور انہیں فروغ دینا، نیز تعلیم یافتہ نوجوان کو تربیت فراہم کرنا اور روزگار میں مدد دینا ہے۔ 29اپریل سے یکم مئی تک منعقد ہونے والی تین روزہ سمٹ میں حکومت کی صنعتی پالیسی ، ایم ایس ایم ایز، اسٹارٹ-اپس، اختراعات اور دیگر شعبوں کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیاجائیگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔م ع۔ع ن (),২৯ এপ্ৰিলত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উদ্বোধন কৰিব ‘গ্লোবেল পাটিদাৰ বিজনেছ ছামিট +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-8-%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%AE-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D/,وزیراعظم 8 نومبر، 2022 کو شام ساڑھے چار بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہندوستان کی جی20 کی صدارت کے لوگو، تھیم اور ویب سائٹ کی رہنمائی کریں گے۔ وزیراعظم ویژن سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے، ہندوستان کی خارجہ پالیسی عالمی اسٹیج پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیاری کررہی ہے۔ اس سمت میں ایک اہم ترین اقدام کرتے ہوئے، ہندوستان یکم دسمبر 2022 سے جی 20 ممالک کی صدارت کے عہدے پر فائز ہوگا۔ جی 20 کی صدارت سے ہندوستان کو بین الاقوامی اہمیت کے حامل انتہائی شدید مسائل سے متعلق عالمی ایجنڈے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ جی 20 ممالک کی ہماری صدارت کے لوگو، تھیم اور ویب سائٹ سے ہندوستان کی اعلی ترجیحات کی دنیا کے سامنے عکاسی ہوگی۔ کی 20 بین الاقوامی اقتصادی تعاون کا وہ عظیم ترین فورم ہے جو عالمی جی ٹی پی کے 85 فیصد، عالمی تجارت کے 75 فیصد سے زیادہ اور دنیا کی کل آبادی کے دو تہائی سے زیادہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ جی 20 کی صدارت کی مدت کے دوران ہندوستان بھر میں بہت سے مقامات پر32 مختلف شعبوں میں تقریبا 200 اجلاس منعقد کئے جائیں گے۔اگلے سال منعقد ہونے والی جی20 چوٹی کانفرنس ہندوستان کے ذریعہ منعقد کی جانے والی سب سے اعلی درجے کا بین الاقوامی اجتماع ہوگا۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৮ নৱেম্বৰত ভাৰতৰ জি-২০ প্ৰেচিডেঞ্চিৰ ল’গো, থীম আৰু ৱেবছাইট উন্মোচন কৰি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D9%81%DB%8C%D9%84%DA%88-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DA%88%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A3%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%B2/,جئے ہند۔ جئے ہند۔ مادر ہند زندہ باد۔ مادر ہند زندہ باد۔ اروناچل پردیش کے گورنر جناب بی ڈی مشرا جی، اروناچل پردیش کے مقبول نوجوان وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو جی، میرے کابینہ کے رفیق کار کرن رجیجو جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب چونا مین جی، معزز اراکین پارلیمنٹ، ایم ایل اے، میئرز، دیگر تمام معززین اور اروناچل پردیش کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! میں نے کئی بار اروناچل کا دورہ کیا ہے۔ میں جب بھی آتا ہوں، نئی توانائی، نئے جوش، نئے ولولے کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں اروناچل میں اتنی بار آیا ہوں، شاید شمار کروں تو بھی کچھ غلطی ہو جائے، اتنی بار آیا ہوں۔ لیکن اتنا بڑا پروگرام پہلی بار دیکھا اور وہ بھی صبح ساڑھے 9 بجے۔ اروناچل میں پہاڑوں سے لوگوں کے آنے کا مطلب ہے کہ یہ آپ کی زندگی میں ترقیاتی کاموں کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور اسی لیے آپ اتنی بڑی تعداد میں آشیرواددینے آئے ہیں۔ بھائی بہنوں اروناچل کی عوام ، اروناچل کے لوگوں کی قربت، جب بھی آپ اروناچل کے لوگوں کو دیکھیں گے، وہ ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں، ان کے چہرے مسکراتے رہتے ہیں۔ اروناچل کے لوگوں کے چہروں پر کبھی بے حسی اور، مایوسی نہیں جھلکتی ہے۔ اور نظم و ضبط، مجھے لگتا ہے کہ سرحد پر نظم و ضبط کیسا ہوتا ہے، یہ میرے اروناچل کے ہر گھر، ہر خاندان، ہر فرد کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ ہمارے وزیر اعلی پیما جی کی قیادت میں یہ ڈبل انجن حکومت کی محنت، ترقی کا عزم آج اروناچل کو اس نئی بلندی پر لے جا رہا ہے۔ میں پیما جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا، اور��بھی پیما جی نے بھی بتایا کہ فروری 2019 میں اس ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور یہ خوش قسمتی مجھے نصیب ہوئی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہم ایسا ورک کلچر لے کر آئے ہیں، جس کا سنگ بنیاد ہم ہی رکھتے ہیں، اس کا افتتاح بھی ہم ہی کرتے ہیں۔ لٹکانا، لٹکنا، بھٹکانا، وہ وقت گزر گیا۔ لیکن میں کچھ اور بات کرنا چاہتا ہوں، میں نے فروری 2019 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا جب مئی 2019 میں الیکشن ہونے والے تھے۔ یہ سارے سیاسی مبصرین جن کی آنکھوں پر پرانے زمانے کی عینکیں لٹک رہی ہیں، یہ لوگ شور مچانے لگے، لکھنے لگے، بولنا شروع ہو گئے، ایئرپورٹ-ایئرپورٹ کچھ نہیں بننے والا، یہ تو الیکشن ہے، ہے نا؟ مودی یہاں پتھر رکھنے آئے ہیں۔ اور یہاں ایسا نہیں ہو رہا، وہ ہر چیز میں، ہر چیز میں الیکشن دیکھتے ہیں۔ ہر چیز میں کسی بھی اچھے کام کو الیکشن کے رنگ سے رنگنا فیشن بن گیا ہے۔ آج اس ہوائی اڈے کا افتتاح ان تمام لوگوں کے لیے کرارا جواب ہے، ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اور میری ان سیاسی مبصرین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے پرانے چشمے اتار دیں، یہ ملک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اسے سیاست کے ترازو سے تولنا چھوڑ دیں۔ جو تبصرہ نگار اسے انتخابی اعلان کہتے تھے، آج تین سالوں میں وہ ہمارے ایئرپورٹ کو اس جدید عظیم الشان شکل میں ڈھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کی موجودگی میں، لاکھوں لوگوں کے سامنے ، آج پورا اروناچل آن لائن جڑا ہوا ہے، پورا اروناچل جڑا ہوا ہے۔ یہ بھی بڑے فخر کی بات ہے۔ یہاں آج نہ الیکشن ہے اور نہ ہی کوئی الیکشن آنے والا ہے۔ اس کے باوجود یہ ہو رہا ہے، کیونکہ آج ملک میں جو حکومت ہے، اس کی ترجیح ملک کی ترقی، ملک کے عوام کی ترقی ہے۔ سال کے 365 دن، دن کے 24 گھنٹے، ہم صرف ملک کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اورآپ دیکھئے، ابھی میں جہاں سورج طلوع ہوتا ہے، اس اروناچل میں ہوں اور شام کو جہاں سورج غروب ہوتا ہے، دمن میں میں جا کر لینڈ کروں گا اور درمیان میں کاشی جاؤں گا۔ یہ محنت صرف ایک خواب کے ساتھ جاری ہے، ہم پورے دل سے کام کر رہے ہیں – میرا ملک آگے بڑھے ۔ ہم نہ تو انتخابی فائدے اور نقصانات کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ ہیں جو چھوٹے چھوٹے ارادوں سے کام کرتے ہیں تاکہ انتخابات کے فوائد حاصل ہوں۔ ہمارا خواب صرف اور صرف ماں بھارتی ہے ، ہندوستان ہے ، 130 کروڑ شہری ہیں۔ آج اس ہوائی اڈے کے ساتھ 600 میگاواٹ کامینگ ہائیڈرو پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ ترقی کی پرواز اور ترقی کے لیے توانائی کا یہ امتزاج اروناچل کو ایک نئی رفتار سے نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔ اس کامیابی کے لیے، میں اروناچل پردیش کے اپنے پیارے بھائیوں اور بہنوں، تمام شمال مشرقی ریاستوں کے بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، میں اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ آزادی کے بعد، شمال مشرق نے بالکل مختلف دور کا مشاہدہ کیا ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ غفلت اور بے حسی کا شکار رہا ہے۔ اس وقت جو لوگ دہلی میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے تھے ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ کسی طرح یہاں سے الیکشن جیت جائیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ صورتحال کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ جب اٹل جی کی حکومت بنی تو پہلی بار اسے بدلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ پہلی حکومت تھی جس نے شمال مشرق کی ترقی کے لیے ایک الگ وزارت بنائی۔ لیکن ان کے بعد آنے والی حکومت نے اس رفتار کو آگے نہیں بڑھایا۔ اس کے ب��د 2014 کے بعد تبدیلی کا ایک نیا دور شروع ہوا، جب آپ نے مجھے خدمت کا موقع دیا۔ پہلے کی حکومتیں سوچتی تھیں کہ اروناچل پردیش بہت دور ہے، شمال بہت دور ہے۔ دور دراز سرحد پر رہنے والے لوگوں کو پہلے آخری گاؤں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ہماری حکومت نے انہیں آخری گاؤں نہیں، آخری سرا نہیں بلکہ ملک کا پہلا گاؤں سمجھنے کا کام کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شمال مشرق کی ترقی ملک کی ترجیح بن گئی۔ اب یہ ثقافت ہو یا زراعت، تجارت ہو یا کنیکٹوٹی – شمال مشرق کو آخری نہیں بلکہ اولین ترجیح ملتی ہے۔ بات تجارت کی ہو یا سیاحت کی، ٹیلی کام کی ہو یا ٹیکسٹائل کی – شمال مشرق کو آخری نہیں بلکہ اولین ترجیح ملتی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی سے لے کر زرعی پروازوں تک، ہوائی اڈوں سے بندرگاہوں سے رابطے تک – شمال مشرق اب ملک کی ترجیح ہے۔ چاہے وہ ہندوستان کا سب سے لمبا پل ہو یا سب سے لمبا ریل روڈ پل، ریل لائن بچھانا ہو یا ریکارڈ رفتار سے شاہراہیں بنانی ہو – شمال مشرق ملک کے لیے سب سے پہلے ہے۔ اس کے نتیجے میں آج شمال مشرق میں امید اور مواقع کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے، ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ آج کا یہ پروگرام جدید ہندوستان کے اس نقطہ نظر کی ایک بہترین مثال ہے۔ ڈونی پولو ہوائی اڈہ اروناچل پردیش کا چوتھا آپریشنل ہوائی اڈہ ہے۔ آزادی کے بعد سات دہائیوں میں پورے شمال مشرق میں صرف 9 ہوائی اڈے تھے۔ جبکہ ہماری حکومت نے صرف آٹھ سالوں میں سات نئے ہوائی اڈے بنائے ہیں۔ یہاں ایسے بہت سے علاقے ہیں، جو آزادی کے 75 سال بعد اب فضائی رابطے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب شمال مشرق سے آنے اور جانے والی پروازوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ساتھیو، ایٹا نگر کا یہ ڈونی پولو ہوائی اڈہ اروناچل پردیش کے ماضی اور ثقافت کا بھی گواہ بن رہا ہے۔ اور مجھے بتایا گیا، پیما جی بتا رہے تھے کہ ڈونی کا مطلب سورج اور پولو کا مطلب ہے چاند۔ اور مجھے اروناچل کی ڈونی پولو ثقافت میں ترقی کا سبق بھی نظر آتا ہے۔ روشنی ایک ہی ہے لیکن سورج کی روشنی اور چاند کی ٹھنڈک، دونوں کی اپنی اہمیت ہے، اپنی اپنی طاقت ہے۔ اسی طرح جب ہم ترقی کی بات کرتے ہیں، چاہے وہ بڑے منصوبے ہوں یا عوامی بہبود کی اسکیمیں جو غریبوں تک پہنچتی ہیں، دونوں ہی ترقی کے اہم پہلو ہیں۔ آج جتنی اہمیت ایئرپورٹ جیسے بڑے انفراسٹرکچر کو دی جاتی ہے، اتنی ہی اہمیت غریبوں کی خدمت اور ان کے خوابوں کو دی جاتی ہے۔ آج اگر ایئرپورٹ بنتا ہے تو فلائٹ پلان پر بھی کام ہوتا ہے کہ عام آدمی کو اس کا فائدہ کیسے ملے۔ فلائٹ سروس شروع ہونے کے بعد ہم اس بات کے لیے کام کرتے ہیں کہ کس طرح سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو، چھوٹے تاجر، دکاندار، ٹیکسی ڈرائیور اس سے کیسے مستفید ہوں۔ ساتھیوں، آج اروناچل پردیش کے سرحدی علاقوں میں انتہائی ناقابل رسائی بلندیوں پر سڑکیں اور شاہراہیں بنائی جا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت سڑکوں کی تعمیر پر تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے مزید خرچ کرنے جا رہی ہے۔ جب اتنا انفراسٹرکچر ہوگا تو بڑی تعداد میں سیاح بھی آئیں گے۔ اروناچل کے ہر کونے میں قدرت نے بہت خوبصورتی عطا کی ہے۔ ہر گاؤں میں سیاحت کے بے پناہ امکانات ہیں۔ ہوم اسٹے اور مقامی مصنوعات کے ذریعہ ہر خاندان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گاؤں تک پہنچنے کا انتظام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج اروناچل پردیش کے 85 فیصد سے زیادہ گاؤں تک پردھان منتری گرام سڑک بنائی جا چکی ہیں۔ ساتھیوں، ہوائی اڈے اور بہتر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بعد، اروناچل میں کارگو کی سہولیات کے بہت زیادہ امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سے یہاں کے کسان آسانی سے اروناچل سے باہر بڑے بازاروں میں اپنی پیداوار فروخت کر سکیں گے، انہیں آج کے مقابلے کئی گنا زیادہ پیسے ملیں گے۔ اروناچل کے کسانوں کو بھی پی ایم کسان سمان ندھی کے بڑے فائدے مل رہے ہیں۔ ساتھیوں، بانس کی کاشت اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ ہماری حکومت شمال مشرق کے لیے کس طرح کام کر رہی ہے۔ بانس یہاں کے طرز زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آج بانس کی مصنوعات پورے ملک اور دنیا میں مقبول ہو رہی ہیں۔ لیکن انگریزوں کے دور سے ہی بانس کاٹنے پر ایسی قانونی پابندیاں تھیں کہ یہ ہمارے قبائلی بھائیوں اور بہنوں، ہمارے شمال مشرقی علاقے کے لوگوں کی زندگی میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ تو ہم نے اس قانون کو بدل دیا، اور اب آپ بانس اگا سکتے ہیں، بانس کاٹ سکتے ہیں، بانس بیچ سکتے ہیں، بانس کی قیمت بڑھا سکتے ہیں، اور کھلے بازار میں جا کر کاروبار کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم فصلیں اگاتے ہیں، ہم بانس بھی اگا سکتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، غریب جیسے ہی زندگی کی بنیادی افکار سے آزاد ہوتا ہے، وہ اپنے لیے اور ملک کے لیے ترقی کی نئی جہتیں پیدا کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج غریبوں میں سے غریب لوگ غفلت اور بدحالی سے باہر آئے ، انہیں باوقار زندگی ملے، یہی ملک کی ترجیح ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پہاڑوں میں تعلیم اور علاج ہمیشہ ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن اب صحت کی اچھی سہولیات کے ساتھ ساتھ آیوشمان بھارت اسکیم کے ذریعہ 5 لاکھ روپے کے مفت علاج کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ہر غریب کو پکا مکان دیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں، مرکزی حکومت 500 کروڑ روپے خرچ کرکے ایکلویہ ماڈل اسکول کھول رہی ہے، تاکہ کوئی بھی قبائلی بچہ پڑھائی میں پیچھے نہ رہ جائے ۔ کسی نہ کسی وجہ سے تشدد کی راہ پر چلے جانے والے نوجوانوں کو الگ پالیسی کے ذریعہ قومی دھارے میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کے لیے علیحدہ فنڈ بنایا گیا ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا کی طاقت میں شامل ہونے کے لیے، اروناچل پردیش بھی اروناچل اسٹارٹ اپ پالیسی کے ذریعہ قدم سے قدم ملا رہا ہے۔ یعنی ہماری ترقی کا لافانی دھارا، جو اوپر سے شروع ہوتا ہے، گاؤں کے غریبوں، نوجوانوں، عورتوں تک پہنچ کر آج ان کی طاقت بن رہا ہے۔ ساتھیوں، 2014 کے بعد ملک نے ہر گاؤں کو بجلی فراہم کرنے کی مہم شروع کی۔ اروناچل پردیش کے دیہاتوں کو بھی اس مہم سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ یہاں ایسے کئی گاؤں تھے، جہاں آزادی کے بعد پہلی بار بجلی پہنچی تھی۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے سوبھاگیہ اسکیم بنا کر ہر گھر کو بجلی کے کنکشن سے جوڑنے کی مہم شروع کی۔ یہاں اروناچل میں بھی ہزاروں گھرانوں کو مفت بجلی کے کنکشن سے جوڑا گیا۔ اور جب یہاں کے گھروں میں بجلی پہنچی تو نہ صرف گھروں میں روشنی پھیلی بلکہ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں بھی روشنی آئی ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہم اروناچل پردیش میں ترقی کے سفر کو ہر گاؤں اور ہر گھر تک لے جانے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سرحدی دیہات کو وائبرنٹ بارڈر ولیج کا درجہ دے کر بااختیار بنایا جائے۔ جب سرحد سے ملحق ہر گاؤں میں امکانات کے نئے دروازے کھلیں گے تو وہاں سے ہی خوشحالی کا آغاز ہو گا۔ وائبرینٹ بارڈر ولیج پروگرام کے تحت سرحدی گاؤں سے نقل مکانی روکنے اور وہاں سیاحت کو فروغ دینے کے منصوبے پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ سرحدی علاقوں کے نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کے لیے حکومت کی طرف سے ایک خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ این سی سی میں سرحد کے ساتھ واقع گاؤں کے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہو۔ این سی سی میں شامل ہونے والے ان گاؤں کے بچے فوجی افسران سے تربیت حاصل کریں گے۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کے روشن مستقبل کی راہ ہموار ہوگی بلکہ ان میں ملک کی خدمت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ ساتھیوں، سب کا ساتھ-سب کا وکاس کے منتر پر عمل کرتے ہوئے، ڈبل انجن کی حکومت اروناچل پردیش کی ترقی اور لوگوں کے لیے زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ کاش ترقی کا یہ ارون یہاں اسی طرح اپنی روشنی پھیلاتا رہے۔ میں ایک بار پھر پیما جی اور ان کی پوری حکومت کو حکومت ہند کی ان تمام اسکیموں کو آگے بڑھانے میں ان کے سرگرم تعاون کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور میں پورے شمال مشرق کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ہماری ماؤں اور بہنوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں، آپ کا بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 12710,অৰুণাচল প্ৰদেশত গ্ৰীণফিল্ড বিমানবন্দৰ ‘ডনি পোলো’ আৰু অন্যান্য উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%DB%92-%DA%86%D8%B1%DA%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ان لاکھوں لوگوں کے جوش و جذبے کی ستائش کی ہے ۔جنہوں نے اس سال کے پریکشا پے چرچا کے لئے بیش قیمتی معلومات مشترک کی ہیں۔ انہوں نے پریکشا پے چرچا میں تعاون دینے کے لئے طلباء و الدین اور اساتذہ کا بھی شکریہ ادا کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘ اس سال کی پریکشا پے چرچا کے تئیں جوش وجذبہ مثالی رہا ہے۔ لاکھوں لوگوں نے اپنے قیمتی تجربات اور معلومات مشترک کی ہیں۔ میں ان سبھی طلباء والدین اور اساتذہ کا شکر گزار ہوں ۔ جنہوں نے اس میں تعاون دیا ہے’’۔ پہلی اپریل کو اس پروگرام کا منتظر ہوں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে পৰীক্ষা পে চৰ্চাক লৈ জনসাধাৰণৰ আগ্ৰহক প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-5%D8%AC%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%88%D8%B3%D8%B2-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AB%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AD-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%87-%E0%A6%AA/,ایک نئے تکنیکی دور کا آغاز کرتے ہوئے ،وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلّی کے پرگتی میدان میں 5 جی خدمات کا آغاز کیا۔ وزیر اعظم نے انڈیا موبائل کانگریس کے چھٹے ایڈیشن کا افتتاح بھی کیا اور اس موقع پر منعقدہ آئی ایم سی نمائش کا مشاہدہ بھی کیا۔ اس تاریخی موقع پر صنعت کاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ریلائنس کمپنی کے چیئرمین جناب مکیش امبانی نے 2047 تک ایک ترقی یافتہ قوم کے ویژن کو متحرک کرنے کے لیے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے کہا’’حکومت کا ہر عمل اور پالیسی ہندوستان کو اس مقصد کی طرف لے جانے کے لیے مکمل مہارت سے تیار کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 5 جی کےدور میں ہندوستان کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے کئے گئے اقدامات ہمارے وزیر اعظم کے عزم کا پختہ ثبوت فراہم کرتے ہیں‘‘۔انھوں نے تعلیم، تعلیم اور آب و ہوا وغیرہ جیسے اہم شعبوں میں 5 جی کے روشن امکانات کو بیان کیا۔ جناب امبانی نے کہا ’’آپ کی قیادت میں ہندوستان کے وقار، پروفائل اور طاقت کو عالمی پیمانے پر اتنا بلند کیا ہے جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں دوبارہ ابھرنے والے ہندوستان کو سرفہرست ہونے سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا‘‘۔ بھارتی انٹرپرائز کے چیئرمین جناب سنیل بھارتی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 5 جی کا آغاز ایک نئے دور کا آغاز ہے اور چونکہ یہ آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ہو رہا ہے، اس لیے یہ اسے اور بھی زیادہ خاص بناتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’وزیر اعظم کی کوششوں سے ، یہ ملک میں ایک نئی توانائی کا آغاز کرے گا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وزیر اعظم کی شکل میں ایک ایسے لیڈر ہیں جو ٹیکنالوجی کی انتہائی باریک بینی رکھتے ہیں اور اسے ملک کی ترقی کے لیے بے مثال طریقے سے استعمال کرتے ہیں‘‘۔جناب متل نے مزید کہا کہ اس سے لوگوں کے لیے مواقع کا ایک بیکراں سمندر کھلے گا جو خاص طور پر ہمارے دیہی علاقوں میں وسیع مواقع فراہم کرے گا۔ انھوں نے ان کے گجرات وزیر اعلیٰ کے دنوں سے بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں وزیر اعظم کے اقدامات کی یاد دہانی کرائی۔انھوں نے کہا کہ وبا کے دوران ٹریفک، گاؤوں اور گھروں میں منتقل ہوگئی، البتہ ملک کے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکی۔ اس کا کریڈٹ ڈیجیٹل وژن کو جاتا ہے۔ انھوں نے میک ان انڈیا کے وژن کی بردباری اور کامیابی کی بھی تعریف کی۔ جناب متل نے مزید کہا ’’ڈیجیٹل ا نڈیا کے ساتھ ساتھ، وزیر اعظم نے اسٹارٹ اپ انڈیا مہم کو بھی آگے بڑھایا ہے اور بہت جلد ہندوستان نے یونیکورن پیدا کرنے شروع کردیئے‘‘۔ جناب متل نے مزید کہا ’’اس کے ساتھ 5 جی کی آمد، مجھے یقین ہے کہ ملک، دنیا میں مزید یونیکورن شامل کرے گا‘‘۔ آدتیہ برلا گروپ کے چیئرمین جناب کمار منگلم برلا نے ملک میں 5 جی کے آغاز کو ایک اہم تبدیلی کا واقعہ قرار دیا جو عالمی سطح پر ہندوستان کی صلاحیت کو ثابت کرتا ہے اور ہندوستان کی ترقی کی بنیاد کے طور پر ٹیلی کام ٹیکنالوجی کے کردار کا اعادہ کرتا ہے۔ انھوں نے ٹیکنالوجی میں نسل در نسل چھلانگ لگانے کے لیے، وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا ان کے ویژن اور قیادت کے لیے شکریہ ادا کیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا رہا ہے۔ انھوں نے جاری وبا کے دوران ٹیلی کام صنعت کی حمایت میں موثر کردار ادا کرنے اور صنعت میں اہم ٹیلی کام اصلاحات کے لیے ، وزیر اعظم کا شکریہ ادا بھی کیا۔جناب برلا نے کہا کہ 5 جی کا آغاز، ہندوستان کے ایک دلچسپ سفر کا آغاز ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’’ہم آنے والے سالوں میں 5 جی کی ترقی اور استعمال کے معاملات کے لیے لامحدود امکانات دیکھیں گے‘‘۔ ملک کے تین بڑے ٹیلی کام آپریٹرس نے وزیر اعظم کے سامنے ، ہندوستان میں 5 جی ٹیکنالوجی کی صلاحیت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک ایک کیس کا شو کیا۔ ریلائنس جیو نے ممبئی میں موجود ایک اسکول کے ایک استاد کو مہاراشٹر، گجرات اور اڈیشہ میں تین مختلف مقامات پر طلباء کے ساتھ کنیکٹ کیا۔ اس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ کس طرح 5 جی، اساتذہ کو طلباء کے قریب لاکر، ان کے درمیان جسمانی فاصلے کو فراموش کرکے، تعلیم کی سہولت فراہم کرے گا۔ اس مظاہرے نے اس��رین پر آگمینٹڈ ریئلٹی (اے آر) کی طاقت کا بھی مظاہرہ کیا اور یہ دکھایا کہ کس طرح اے آر ڈیوائسز کو،ملک بھر کے دور دراز علاقوں میں بچوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب ایکناتھ شنڈے کی موجودگی میں مہاراشٹر کے رائے گڑھ میں قائم دنایاجیوتی ساوتری بائی پھولے اسکول کے طلباء سے بات چیت کی۔ گجرات کے شہر گاندھی نگر میں روپڑا پرائمری اسکول کے طلباء سے، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل کی موجودگی میں رابطہ قائم کیا گیا۔ وزیر اعظم نے اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ جناب نوین پٹنایک کی موجودگی میں، اڈیشہ کے میوربھنج میں ایس ایل ایس میموریل اسکول کے طلباء سے بھی بات چیت کی۔ ممبئی کے بی کے سی کے دھیرو بھائی امبانی انٹراسکول میں بھی 5 جی ٹیکنالوجی کے استعمال کا مظاہرہ کیا۔وزیر اعظم نے تعلیم میں ٹیکنالوجی کے لیے طلباء کےجوش کو نوٹ کیا۔مصنف امیش ترپاٹھی نے اس حصے کا تعارف کرایا۔ ووڈا فون انڈیا ٹسٹ کیس نے دلّی میٹرو کی زیر تعمیر سرنگ میں مزدوروں کی حفاظت کا مظاہرہ کیا جس کے ذریعے ڈائس پر سرنگ کا ڈیجیٹل پرتو بنایا گیا تھا۔ ڈیجیٹل ٹوئن دور دراز مقام سے کارکنوں کو حقیقی وقت میں حفاظتی انتباہ دینے میں مدد کرے گا۔ وزیر اعظم نے وی آر اور مصنوعی ذہانت کے ا ستعمال کے ذریعے ، حقیقی وقت میں کام کی نگرانی کے لیے ڈائس سے ایک لائیو ڈیمو دیکھا۔ وزیر اعظم نے نئی دلّی میں دلّی میٹرول ٹنل دوارکا میں ایک کارکن جناب رنکو کمار کے ساتھ ، دلّی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب ونئے سکسینہ کی موجودگی میں بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے درکار صارف کے تجربے اور سیکھنے کے طریقے کے بارے میں دریافت کیا۔ انھوں نے کہا کہ حفاظت میں کارکنوں کا اعتماد ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے ملک کی ترقی میں ان کے تعاون کے لیے ، ہندوستان کے کارکنوں کی تعریف کی۔ ایئرٹیل کے ڈیمو میں ، اترپردیش کے دنکور سے طلباء نے ورچوئل ریئلٹی اور آگمینٹڈ ریئلٹی کی مدد سے نظام شمسی کے بارے میں جاننے کے لیے ایک براہ راست اور وسیع تعلیم وتجربہ دیکھا۔ خوشی نامی ایک طالبہ نے ہولوگرام کے ذریعے ، ڈائس پر نمودار ہوکر وزیر اعظم کے ساتھ سیکھنے کا اپنا تجربہ شراکت کیا۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ نے وارانسی کے رودراکش کنوینشن سینٹر سے رابطہ کیا۔ وزیر اعظم نے استفسار کیا کہ کیا وی آر تعلیم کے تجربے میں انھیں جامع انداز میں تصورات کو سمجھنے میں مدد کی ہے؟ طالبہ نے کہا کہ اس تجربے کے بعد وہ نئی چیزیں سیکھنے کے تئیں بہت زیادہ مائل ہوگئی ہیں۔ وزیر اعظم نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی سمٹ عالمی ہوسکتی ہے لیکن اس کے اثرات اور سمتیں مقامی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج کا دن اکسویں صدی کے تیزی سے ترقی کرنے والے ہندوستان کے لیے ایک خاص دن ہے۔ ’’آج، 130 کروڑ ہندوستانیوں کو ملک اور ملک کی ٹیلی کام صنعت سے ، 5 جی کی شکل میں ایک شاندار تحفہ مل رہا ہے۔ 5 جی ملک میں نئے دور کے دروازے پر دستخط دے رہا ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ 5 جی مواقعوں کے بیکراں آسمان کا آغاز ہے۔ میں اس کے لیے ہر ہندوستانی کو مبارکباد دیتا ہوں‘‘۔ انھوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 5 جی کے اس آغاز اور ٹیکنالوجی کے مارچ میں، دیہی علاقے اور کارکن برابر کے شریک ہیں۔ پانچ جی کے آغاز سے ایک ا ور پیغام پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’نیا ہندوس��ان، ٹیکنالوجی کا محض صارف نہیں رہے گا بلکہ ہندوستان اس ٹیکنالوجی کی ترقی اور نفاذ میں ایک فعال کردار ادا کرے گا ۔ ہندوستان مستقبل کی وائرلیس ٹیکنالوجی کو ڈیزائن کرنے اور اس سے تعلق رکھنے والے مینوفیکچرنگ میں ایک بڑا کردار ادا کرے گا‘‘۔وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ ہندوستان، 2 جی، 3 جی اور 4 جی ٹیکنالوجیوں کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتا ہے لیکن 5 جی کے آغاز کے ساتھ ، ہندوستان نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انھوں نے تبصرہ کیا ’’5 جی کے ساتھ، ہندوستان پہلی بار ٹیلی کام ٹیکنالوجی میں عالمی معیار قائم کر رہا ہے‘‘۔ ڈیجیٹل انڈیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ایک سرکاری اسکیم ہے۔ ’’لیکن ڈیجیٹل انڈیا صرف ا یک نام نہیں ہے، یہ ملک کی ترقی کے لیے ایک بڑا وژن ہے۔ اس وژن کا مقصد اس ٹیکنالوجی کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے، جو لوگوں کے لیے کام کرتی ہے،لوگوں سے جڑ کر کام کرتی ہے‘‘۔ ڈیجیٹل ا نڈیا کے لیے ایک جامع نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ ’’ہم نے ایک ساتھ چار سمتوں میں چار ستونوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سب سے پہلے، ڈیوائس کی قیمت، دوسرے ڈیجیٹل کنیکوٹیویٹی، تیسرا ڈیٹا کی قیمت، چوتھا اور سب سے اہم بات ’ڈیجیٹل فرسٹ‘ کا خیال ۔ پہلے ستون کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ آلات کی کم قیمت صرف آتم نربھر بھارت کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے یاد دہانی کرائی کہ آٹھ سال پہلے تک ہندوستان میں صرف دو موبائل مینوفیکچرنگ یونٹ تھے۔ جناب مودی نے کہا کہ ’’یہ تعداد اب 200 تک پہنچ گئی ہے‘‘۔وزیر اعظم نے ا س بات پر زور دیا کہ 2014 میں صرف موبائل فون برآمد کرنے سے، آج ہم ہزاروں کروڑ کی مالیت کے موبائل فون برآمد کرنے والا ملک بن چکے ہیں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا ’’ قدرتی طور پر ان تمام کوششوں کا اثر آلات کی قیمت پر پڑا ہے۔ اب ہم نے کم قیمت پر مزید خصوصیات حاصل کرنا شروع کردی ہیں‘‘۔ ڈیجیٹل کنیکٹی ویٹی کے دوسرے ستون کے متعلق ، وزیر اعظم نے بتایا کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 2014 میں 6 کروڑ تھی جو اب بڑھ کر 80 کروڑ ہوگئی ہے۔ 2014 میں 100 سے کم پنچایتوں سے اب 17 لاکھ پنچایتیں آپٹیل فائبر سے جڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’جس طرح حکومت نے گھر گھر بجلی فراہم کرنے کی مہم شروع کی، ہر گھر جل ابھیان کے ذریعے سب کو صاف پانی فراہم کرنے کے مشن پر کام کیا اور اجولا اسکیم کے ذریعے غریب ترین لوگوں تک گیس سلینڈر پہنچایا، ہماری حکومت اسی طرح سب کے لیے انٹرنیٹ کے ہدف پر کام کر رہی ہے‘‘۔ تیسرے ستون یعنی ڈیٹا کی لاگت کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ صنعت کو متعدد مراعات فراہم کی گئیں اور 4 جی جیسی ٹیکنالوجیوں کو پالیسی معاونت حاصل ہوئی۔ اس سے ڈیٹا کی قیمت میں کمی آئی اور ملک میں ڈیٹا انقلاب کا آغاز ہوا۔ انھوں نے کہ ان تینوں ستونوں نے اپناکثیر رخی اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ چوتھے ستون یعنی ’ڈیجیٹل فرسٹ‘ کے آئیڈیا کے موضوع پر وزیر اعظم نے اس وقت کو یاد کیا جب اشرافیہ کے مٹھی بھر طبقے نے سوال کیا تھا کہ کیا غریب بھی ڈیجیٹل کا مطلب سمجھیں گے اور ان کی صلاحیت پر شک کا اظہار کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ملک کے عام آدمی کی فہم، دانش اور جستجو پر ہمیشہ سے یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے ہمیشہ ملک کے غریبوں کو نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے تیار پایا۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے شعبوں میں حکومت ک�� کوششوں کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے رائے زنی کی کہ یہ حکومت ہی تھی جس نے آگے بڑھ کر ڈیجیٹل ادائیگیوں کے راستے کو سہل بنایا۔ جناب مودی نے مزید کہا ’’حکومت نے خود ہی ایپ کے ذریعے شہریوں پر مبنی ڈلیوری خدمت کو فروغ دیا، چاہے وہ کسان کے بارے میں ہو یا چھوٹے دوکاندار کے بارے میں، ہم نے ایپ کے ذریعے انھیں اپنی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے ایک طریقہ فراہم کیا ہے‘‘۔ انھوں نے وبا کے دوران ڈی بی ٹی، تعلیم، ٹیکہ کاری اور صحت کی خدمات کے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہنے اور گھر سے کام کرنے کا ذکر کیا ، جب بہت سے ممالک کو ان خدمات کو جاری رکھنا ہی مشکل ہو رہا تھا۔ ڈیجیٹل انڈیا کو ایک پلیٹ فارم دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ چھوٹے تاجر ، چھوٹی کاروباری، مقامی فنکار اور کاریگر اب کسی کو بھی مارکیٹ میں رسائی کرسکتے ہیں۔ جناب مودی نے مزید کہا ’’آج آپ کسی مقامی بازار یا سبزی منڈی میں جائیں اور دیکھیں، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا خوانچہ فروش بھی آپ سے کہے گا ’نقد میں نہیں بلکہ ’یو پی آئی‘ کے ذریعے لین دین کریں‘‘۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ’’یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب کوئی سہولت میسر ہوتی ہے تو سوچ کو بھی حوصلہ حاصل ہوتا ہے‘‘۔ وزیرا عظم نے کہا کہ جب حکومت صاف نیت سے کام کرتی ہے تو شہریوں کی نیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’یہ 2 جی اور 5 جی کی نیت کا کلیدی فرق ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ڈیٹا کی قیمت دنیا میں سب سے کم ہے یہ 300 روپئے فی جی بی سے کم ہوکر تقریباً 10 روپئے فی جی بی پر آگئی ہے۔ صارفین پر حکومت کی مرکوز کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ہندوستان میں ڈیٹا کی قیمت بہت کم رہی ہے۔ وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہاکہ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے کوئی ہنگامہ نہیں کیا اور بڑے اشتہارات نہیں چلائے۔ہم نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ کس طرح ملک کے لوگوں کی زندگی کی سہولت اور آسانی میں اضافہ ہو۔ انھوں نے مزید کہا ’’بھارت کو پہلے تین صنعتی انقلابوں سے شاید فائدہ نہ ہوا ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ ہندوستان، چوتھے صنعتی انقلاب کا پوری طرح فائدہ اٹھائے گا اور درحقیقت اس کی قیادت کرے گا‘‘۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ 5 جی ٹیکنالوجی کا استعمال، تیز رفتار انٹرنیٹ تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ زندگی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ٹیکنالوجی کے وعدوں کو اپنی زندگی میں پورا ہوتے دیکھیں گے۔ جناب مودی نے ٹیلی کام صنعت ایسوسی ایشن کے لیڈروں پر زور دیا کہ وہ اسکولوں اور کالجوں کا دورہ کریں اور اس نئی ٹیکنالوجی کے ہر پہلو کو مدنظر رکھیں۔ انھوں نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ ایم ایس ا یم ایز کے لیے الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کے لیے کل پرزے تیار کرنے کے لیے ایک قابل عمل ماحولیاتی نظام بنائیں۔ انھوں نے کہا کہ 5 جی ٹیکنالوجی کو ملک میں انقلاب لانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم نے ڈرون کے ٹیکنالوجی کے استعمال پر روشنی ڈالی جو حال ہی میں شروع کی گئی ڈون پالیسی کے بعد ممکن ہوئی ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ بہت سے کسانوں نے ڈرون اڑانے کا طریقہ سیکھ لیا ہے اور انھیں کھیتوں میں کیڑے مار ادویات اور کیڑے مار ادویات کے اسپرے کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے سب کو یقین دلایا کہ مستقبل کا ہندوستان ا ٓنے والے ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کی رہنمائی کرے گا اور اس کے نتیجے میں ہندوستان کو ایک عالمی لیڈر بنائے گا۔ مواصلات کے مرکزی وزیر جناب اشونی ویشنو، مواصلات کے مرکزی وزیر مملکت جناب دیوسنگھ چوہان، ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین جناب مکیش امبانی، بھارتی انٹرپرائز کے چیئرمین جناب سنیل متل، آدتیہ برلا گروپ کے چیئرمین جناب کمار منگلم برلا اور محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کے سکریٹری جناب کے راجا رمن بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر پانچ جی ٹیکنالوجی عام لوگوں کو وسیع فوائد فراہم کرے گی۔ یہ ہموار کوریج، اعلیٰ ڈیٹا ریٹ، کم تاثیر اور انتہائی قابل اعتماد مواصلات فراہم کرنے میں مدد کرے گی۔ مزید برآں، یہ توانائی کی کارکردگی، اسپیکٹرم کی کارکردگی اور نیٹ ورک کی کارکردگی میں اضافہ کرے گی۔ 5 جی ٹیکنالوجی اربوں انٹرنیٹ آف تھنکرز ڈیوائس کو جوڑنے میں مدد دے گی، تیز رفتاری سے نقل وحرکت کے ساتھ اعلیٰ معیار کی ویڈیو خدمات اور ٹیلی سرجری نیز خودمختار کاروں جیسی اہم خدمات کی فراہمی کی اجازت دے گی۔5 جی ، آفات کی حقیقی وقت میں نگرانی، درست زراعت اور خطرناک صنعتی کاموں جیسے گہری کانوں، سمندری ساحل سے دور کی سرگرمیوں وغیرہ میں انسانوں کے کردار کو کم سے کم کرنے میں مدد کرے گی۔ موجودگی موجودہ موبائل مواصلاتی نیٹ ورکس کے برعکس، 5 جی نیٹ ورک، ایک ہی نیٹ ورک کے ا ندراندر مختلف طرح کے کیسز میں ، ہر ایک کے لیے ضرورت کو پورا کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ آئی ایم سی 2022 کا انعقاد، یکم سے 4 اکتوبر تک ’’نیو ڈیجیٹل یونیورس‘‘ کے موضوع کے ساتھ ہونا ہے۔ یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپنانے اور وسعت پانے سے پیدا ہونے والے منفرد مواقع پر تبادلہ خیال کرنے اور نمائش کے لیے سرکردہ مفکرین، کاروباری افراد، اختراع کاروں اور سرکاری اہلکاروں کو یکجا کرے گا۔,৫জি সেৱা শুভাৰম্ভ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%85%DB%8C%D8%B2-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%81%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%89/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گریمیز میں بچوں کی بہترین موسیقی البم کے لئے ایوارڈ حاصل کرنے پر فگُنی شاہ کو مبارک باد دی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیراعظم نے کہا: ‘‘گریمیز میں بچوں کی بہترین موسیقی البم کے لئے ایوارڈ حاصل کرنے پر فگُنی شاہ کو مبارک باد، ان کی مستقبل کی جدوجہد کے لئے میری بہت بہت نیک خواہشات۔’’,গ্ৰেমীত শ্ৰেষ্ঠ শিশু মিউজিক এলবামৰ বঁটা লাভৰ বাবে ফাল্গুনী শ্বাহক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D8%A6%D9%BE%D8%A7-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D8%A4%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C-%D8%B3%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BE/,پروگرام میں موجود ملک کے وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ جی، این سی سی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل گربیر پال سنگھ جی، یہاں موجود تمام معزز شخصیات، افسران، یوم جمہوریہ کی پریڈ میں حصہ لینے والے فن کار، این ایس ایس-این سی سی کے ساتھیوں! اس وقت ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ اور جب ایک نوجوان ملک، اس طرح کے کسی تاریخی موقع کا گواہ بنتا ہے، تو اس کے جشن میں ایک الگ ہی جوش دکھائی دیتا ہے۔ یہی جوش میں ابھی کریئپا گراؤن�� میں بھی دیکھ رہا تھا۔ یہ بھارت کی اس نوجوان طاقت کا مظہر ہے جو ہمارے عزائم کو پورا کرے گی، جو 2047 میں جب ملک آزادی کے سو سال پورے کرے گا، 2047 کے عظیم بھارت کی تعمیر کرے گی۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھی کبھی آپ ہی کی طرح این سی سی کا سرگرم کیڈٹ رہا ہوں۔ لیکن جو خوش قسمتی آپ کو ملی ہے وہ مجھے بھی ملی تھی۔ مجھے این سی سی میں جو ٹریننگ ملی، جو جاننے سیکھنے کو ملا، آج ملک کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں مجھے ان آداب سے، اسے ٹریننگ سے بے انتہا طاقت ملتی ہے۔ ابھی کچھ ہی وقت پہلے مجھے این سی سی ایلومنی کا کارڈ بھی ملا تھا۔ آج ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ میں اس ناطے بھی آپ کا ساتھی ہوں، آپ سے جڑا ہوں۔ میں این سی سی کے تمام عہدیداروں کو، اور سبھی فیلو کیڈٹس کو اس موقع پر سیلوٹ کرتا ہوں۔ آج جن کیڈٹس کو انعام ملا ہے، انہیں بھی میں اپنی دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ آج عظیم مجاہد آزادی، پنجاب کیسری لالہ لاجپت رائے جی کی جینتی بھی ہے۔ آج ہی فیلڈ مارشل کریئپا کی بھی جینتی ہے۔ ملک کی تعمیر میں اہم رول نبھانے والے ملک کے ان جانباز سپوتوں کو میں پورے احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آج جب ملک نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، تب ملک میں این سی سی کو مضبوط کرنے کے لیے بھی ہماری کوششیں جاری ہیں۔ اس کے لیے ملک میں ایک ہائی لیول ریویو کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں ہم نے ملک کے سرحدی علاقوں میں ایک لاکھ نئے کیڈٹس بنائے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ این سی سی کیڈٹس کی ٹریننگ میں سیمولیشن جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ایجوکیشن سسٹم کو این سی سی سے جوڑنے کے لیے بھی ملک کئی قدم اٹھا رہا ہے۔ پوری طرح سے سیلف فائننس اسکیم کے تحت ایک لاکھ کیڈٹس کی توسیع ملک کے کالجوں میں کی گئی ہے۔ ایک لاکھ کیڈٹس کو لے کر یہی کوشش اب اسکولوں میں بھی شروع کی گئی ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت ملک کی 90 یونیورسٹیوں نے این سی سی کو الیکٹو سبجیکٹ کے طور پر بھی شروع کیا ہے۔ میں آج یہاں بڑی تعداد میں گرل کیڈٹس کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ ملک کے بدلتے مزاج کی علامت ہے۔ ملک کو آج آپ کے مخصوص تعاون کی ضرورت ہے۔ ملک میں آپ کے لیے آج بے شمار مواقع موجود ہیں۔ اب ملک کی بیٹیاں سینک اسکولوں میں ایڈمشن لے رہی ہیں۔ فوج میں خواتین کو بڑی ذمہ داریاں مل رہی ہیں۔ ایئر فورس میں ملک کی بیٹیاں فائٹر پلین اڑا رہی ہیں۔ ایسے میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ این سی سی میں بھی زیادہ سے زیادہ بیٹیاں شامل ہوں۔ جن بیٹیوں نے خود این سی سی جوائن کیا ہے، وہ اس کے لیے ایک مثال بن سکتی ہیں۔ ساتھیوں، ملک کے مشہور شاعر ماکھن لال چترویدی کی نظم اور اس نظم کے شعر میں انہوں نے کہا- بھوکھنڈ بچھا، آکاش اوڑھ، نے نودک لے، مودک پرہار برہمانڈ ہتھیلی پر اچھال، اپنے جیون دھن کو نہار یہ شعر، صلاحیت کی انتہا کو بیان کرتا ہے۔ طاقت ایسی ہو کہ زمین کو بچھا سکیں، آسمان کو اوڑھ سکیں، کائنات کو ہتھیلی پر اُچھال سکیں۔ طاقت ایسی ہو کہ مشکل سے مشکل حالات کا بھی ہنس کر، ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ آج ماں بھارتی، بھارت کے نوجوانوں سے یہی اپیل کر رہی ہے۔ بھوکھنڈ بچھا، آکاش اوڑھ، نے نودک لے، مودک پرہار برہمانڈ ہتھیلی پر اچھال، اپنے جیون دھن کو نہار آنے والے 25 سال کا امرت کال، حب الوطنی کے عروج کا ہے۔ اور آج چنوتی اس بات کی نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی اسے قبول کرے گا یا نہیں۔ آج اہمیت اس بات کی ہے کہ جب دنیا بھارت کو اتنی امیدوں کے ساتھ دیکھ رہی ہے، اتنے بھروسے کے ساتھ دیکھ رہی ہے، تو بھارت اپنی کوششوں میں کہیں سے بھی کمزور تو نہیں پڑ جائے گا۔ آج آزادی کے امرت مہوتسو میں بھارت نے جو عہد کیے ہیں، جو مہم شروع کی ہے، انہیں مسلسل نئی توانائی حاصل ہوتی رہے، اس کی بہت بڑی ذمہ داری ہمارے ملک کے کروڑوں نوجوانوں پر ہے۔ آج اس وقت جتنے بھی نوجوان لڑکے لڑکیاں این سی سی میں ہیں، این ایس ایس میں ہیں، اس میں سے زیادہ تر اس صدی میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ آپ کو ہی بھارت کو 2047 تک بڑے آن بان شان کے ساتھ لے کر جانا ہے۔ اس لیے آپ کی کوششیں، آپ کے عزائم، ان عزائم کی تکمیل، بھارت کی تکمیل ہوگی، بھارت کی کامیابی ہوگی۔ حب الوطنی سے بڑی کوئی عبادت نہیں ہوتی، قومی مفاد سے بڑا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ ملک کو سب سے آگے رکھتے ہوئے، آپ جو بھی کریں گے، وہ ملک کی ترقی میں مدد کرے گا۔ آج ہمارے نوجوانوں نے بھارت کو اسٹارٹ اپ کی دنیا میں ٹاپ تین میں پہنچا دیا ہے۔ کورونا کے اس بحرانی دور میں جتنے یونیکارن بنے ہیں، وہ بھارت کے نوجوانوں کی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں- 50 سے زیادہ یونیکارن کورونا دور کے دوران وجود میں آئے ہیں۔ اور آپ کو تو پتہ ہی ہوگا، ایک ایک یونیکارن، ایک ایک اسٹارٹ اپ کی پونجی ساڑھے سات ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ یہ استعداد، یہ صلاحیت بہت بڑا یقین پیدا کرتی ہے۔ اور جانتے ہیں، اس میں سب سے بڑی بات کیا ہے؟ یہ ہزاروں اسٹارٹ اپس، ملک کی کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بنے ہیں۔ کوئی زرعی شعبہ میں نیا کر رہا ہے، کوئی سپلائی چین بہتر کرنے کے لیے نیا کر رہا ہے، کوئی تعلیم کے شعبہ میں تبدیلی کے لیے کچھ نیا کر رہا ہے۔ ان میں ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ہے، کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے۔ ساتھیوں، جس ملک کا نوجوان، ملک سب سے پہلے کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے لگتا ہے، اسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے۔ آج کھیل کے میدان میں، بھارت کی کامیابی بھی اسی کی ایک بڑی مثال ہے۔ کھلاڑی کی صلاحیت، کھلاڑی کا عزم، ان ساری باتوں کی اپنی اہمیت تو ہے ہی، کھلاڑی کی محنت کی بھی بہت اہمیت ہے، لیکن اب اس کی ہار جیت کے ساتھ 130 کروڑ ملک کے شہری جڑ جاتے ہیں۔ بھارت کا نوجوان، کسی بھی میدان میں کسی سے ٹکر لے رہا ہے، تو پورا ملک اس کے پیچھے متحد ہو جاتا ہے۔ کھلاڑیوں میں بھی یہ جذبہ قوی ہے کہ میں انعام کے لیے نہیں، اپنے ملک کے لیے کھیل رہا ہوں۔ اسی جذبہ کے ساتھ ہر شعبہ میں بھارت کے نوجوانوں کو، ملک کی اگلی نسل کو آگے بڑھنا ہے۔ ساتھیوں، کورونا کے اس دور نے پوری دنیا کو ہم ہندوستانیوں کی شائستگی، ہم ہندوستانیوں کی سماجی طاقت کا ثبوت دیا ہے۔ جب عوام کرفیو کے دوران پورا ملک کورونا سے لڑنے کے لیے متحد ہو گیا، تو پوری دنیا حیران رہ گئی تھی۔ کچھ لوگ ہمارے سماج کو طعنے دیتے ہیں لیکن اسی سماج نے دکھا دیا کہ جب بات ملک کی ہو، تو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جب صحیح سمت ملے، صحیح مثال ملے، تو ہمارا ملک کتنا کچھ کرکے دکھا سکتا ہے، یہ اس کی مثال ہے۔ آپ این سی سی اور این ایس ایس کے نوجوانوں نے بھی کورونا کے اس بحران میں اپنی خدمت کے جذبے سے سبھی کا دل جیتا ہے۔ اب آپ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ آپ نے این سی سی میں سیکھا ہے، وہ صرف جب یونیفارم پہنا ہو تبھی کام میں آئے، ایسا نہیں ہوتا ہے۔ وہ آپ کی پوری زندگی میں، اسی طرح کیسے بنا رہے، وقت وقت پر کیسے ظاہر ہوتا رہے۔ آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک کیڈٹ کے طور پر جو سیکھا ہے، اس کا سماج کو کیسا فائد�� ہوگا۔ جیسے آپ اگر کسی گاؤں میں رہتے ہیں، تو آپ پتہ کر سکتے ہیں کہ کہیں اس گاؤں میں کوئی طالب علم اسکول چھوڑ کرکے ڈراپ آؤٹ تو نہیں ہے۔ آپ اس سے ملیں گے، اس کی دقت سمجھیں گے، اس کی پڑھائی پھر سے شروع ہو، اس کے لیے کوشش کریں گے، تو این سی سی کے جذبہ کو آپ آگے بڑھائیں گے۔ آپ سووچھتا ابھیان کو فروغ دینے کے لیے بھی اپنے گاؤں محلے، اپنے شہر قصبے میں الگ الگ ٹیمیں بنا سکتے ہیں۔ کیوں کہ آپ نے یہاں پر لیڈرشپ کے ہنر سیکھے ہیں، اب اس کو اپلائی کرنا ہے سماج میں۔ جس طرح آپ نے سمندری ساحلوں کی صفائی کے لیے ’پونیت ساگر ابھیان‘ چلایا تھا، بہت پذیرائی حاصل کی تھی، وہ این سی سی کے دور کے بعد بھی جاری رہنی چاہیے۔ جیسے آج کل ملک میں ’کیچ دی رین‘ اس کی ایک عوامی تحریک چل رہی ہے۔ بارش کے پانی کو ہم کیسے بچائیں، جو ہمارے تالاب ہیں، جو جھیلیں ہیں، انہیں کیسے صاف رکھیں، اس سلسلے میں بھی آپ لوگوں کو بیدار کر سکتے ہیں۔ ساتھیوں، آزادی کی لڑائی میں، مہاتما گاندھی نے ملک کے عام انسانوں کو ایسی ایسی چیزوں سے جوڑا تھا، جن سے لوگوں کی روزی روٹی بھی چلتی تھی، لیکن ساتھ ساتھ حب الوطنی کی تحریک بھی رفتار پکڑتی تھی۔ جیسے کوئی سوت کاتنے کا کام کرتا تھا، کوئی تعلیم بالغاں سے جڑا تھا، کوئی گئو پروری سے جڑ کر کام کرتا تھا، کوئی سووچھتا کا کام کرتا تھا، ان تمام موضوعات کو گاندھی جی نے آزادی کی تحریک سے جوڑ دیا تھا۔ اسی طرح آزادی کے امرت کال میں، آج سے لے کر اگلے 25 سال ہم سب کو، آپ کو اپنی عادتوں کو، اپنے کاموں کو ملک کی ترقی کے ساتھ، ملک کی امیدوں کے ساتھ، ملک کی آروزوؤں کے ساتھ جوڑنا ہے۔ آج ملک آتم نربھر کے عزم کے ساتھ چل رہا ہے۔ آپ سبھی نوجوان، ووکل فار لوکل کی مہم میں بہت بڑا رول ادا کر سکتے ہیں۔ اگر بھارت کے نوجوان ٹھان لیں کہ جس چیز کی تعمیر میں کسی ہندوستانی کی محنت لگی ہے، کسی ہندوستانی کا پسینہ بہا ہے، صرف وہی چیز استعمال کریں گے، تو بھارت کی تقدیر تیز رفتار سے بدل سکتی ہے۔ ووکل فار لوکل کا منتر سیدھے سیدھے نوجوانوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ جب لوگ مقامی پیداوار کو خریدیں گے، تو مقامی پیداوار بھی بڑھے گی، اس کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی جائے گی۔ جب مقامی پیداوار بڑھے گی تو اس وجہ سے مقامی سطح پر روزگار کے نئے وسائل بھی بڑھیں گے۔ ساتھیوں، یہ وقت ٹیکنالوجی اور انوویشن کا ہے۔ یہ وقت ڈیجیٹل انقلاب کا ہے۔ اس دور کا اگر کوئی ہیرو ہے، تو وہ آپ میرے سبھی نوجوان ساتھی ہیں۔ اس لیے، تبدیلی کے اس دور میں بطور کیڈٹ کئی نئی ذمہ داریاں آپ کے پاس ہیں۔ آپ کو اس انقلاب میں بھارت کو لیڈر بنانے کے لیے ملک کو اپنی قیادت فراہم کرنی ہے اور ساتھ ہی اس کی چنوتیوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ آج ایک طرف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور انفارمیشن سے جڑے اچھے امکانات ہیں، تو دوسری طرف مس انفارمیشن (غلط معلومات) کے خطرے بھی ہیں۔ ہمارے ملک کا عام انسان، کسی افواہ کا شکار نہ ہو یہ بھی ضروری ہے۔ این سی سی کیڈٹس اس کے لیے ایک بیداری مہم چلا سکتے ہیں۔ ایک اور چیلنج جو آج کے نوجوانوں کے سامنے ہے، وہ ہے ورچوئل اور ریئل لائف میں بگڑتا ربط! این سی سی اپنے کیڈٹس کے لیے اس ربط کی ٹریننگ کے طریقے تیار کر سکتی ہے، جو باقی لوگوں کے لیے بھی مددگار ہوں۔ ساتھیوں، ایک اور موضوع کو میں آپ کے سامنے اٹھانا چاہتا ہوں۔ یہ موضوع ہے ڈرگس کا، نشے کا۔ نشہ ہماری نوجوان نسل کو کتنا برباد کرتا ہے، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ تو پھر جس اسکول کالج می�� این سی سی ہو، این ایس ایس ہو وہاں پر ڈرگس کیسے پہنچ سکتی ہے۔ آپ کیڈٹ کے طور پر خود ڈرگس سے پاک رہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے کیمپس کو بھی ڈرگس سے پاک رکھیں۔ آپ کے ساتھی، جو این سی سی-این ایس ایس میں نہیں ہیں، انہیں بھی اس بری عادت کو چھوڑنے میں مدد کیجئے۔ ساتھیوں، ملک کی ایسی ہی مشترکہ کوششوں کو نئی توانائی دینے کے لیے کچھ سال پہلے ایک پورٹل بھی شروع کیا گیا تھا۔ یہ پورٹل ہے- سیلف4سوسائٹی پورٹل۔ اس پورٹل پر الگ الگ آدمی آکر، الگ الگ کمپنیاں آ کر، الگ الگ تنظیم آ کر، سماجی خدمت کے جو کام ہوتے ہیں، ان کاموں میں وہ تعاون کرتے ہیں۔ خاص کر بھارت کی آئی ٹی اور ٹیک کمپنیوں نے اس سمت میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ آج اس سے 7 ہزار تنظیمیں اور سوا دو لاکھ سے زیادہ لوگ جڑے ہوئے ہیں، جو کچھ نہ کچھ سماجی خدمت کرتے ہیں۔ این سی سی-این ایس ایس کے لاکھوں نوجوانوں کو بھی اس پورٹل سے ضرور جڑنا چاہیے۔ بھائیوں بہنوں، ہمیں ایک جانب این سی سی کیڈٹس کی توسیع کرنی ہے، تو دوسری جانب کیڈٹ اسپرٹ کو بھی آگے بڑھانا ہے۔ یہ اسپرٹ ہر ایک شہری تک پہنچانی ہے، گاؤں گاؤں تک اس کی گونج پہنچانی ہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں، اس میں، این سی سی ایلومنی کا بہت بڑا رول ہے۔ این سی سی ایلومنی ایسوسی ایشن اس کام میں ایک برج کا، ایک نیٹ ورک کا رول نبھائے گا۔ چونکہ میں خود اس ایسوسی ایشن کا ممبر ہوں، اس لیے میری ملک و بیرون ملک پھیلے سبھی ایلومنی ساتھیوں سے اپیل ہے کہ اس مشن کا سرگرم حصہ بنیں۔ کیوں کہ، ونس اے کیڈٹ، آلویز اے کیڈٹ! ہم جہاں کہیں بھی ہیں، جس کسی شعبے میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں، ہمارے تجربات ملک اور نئی نسل کے بہت کام آ سکتے ہیں۔ ہمارے تجربات ایک تنظیم کے طور پر این سی سی کو بھی پہلے سے بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس سے این سی سی کو اسپرٹ اور ذمہ داری کے جذبے کی سماج میں بھی توسیع ہوگی۔ مجھے پورا بھروسہ ہے، آزادی کے امرت مہوتسو میں ہماری یہ کوشش نئے بھارت کی تعمیر کی توانائی بنے گی، اور این سی سی کے کیڈٹس اس میں بہت بڑا رول نبھائیں گے۔ اسی اعتماد کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! بھارت ماتا کی، جے! بھارت ماتا کی، جے! بھارت ماتا کی، جے! وندے ماترم، وندے ماترم!,নতুন দিল্লীৰ ‘কাৰিয়াপ্পা গ্ৰাউণ্ড’ত অনুষ্ঠিত এনচিচি-ৰ সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%DB%81%D8%B4%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D9%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%A8/,مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، جناب امت شاہ، معززین، مختلف ممالک کے مندوبین، دنیا بھر سے تشریف لائے تفتیشی ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسزکے ارکان اور میرے عزیز ساتھیو! میں انسداد دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق تیسری وزارتی کانفرنس میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ساتھیو، یہ بڑی بات ہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ دنیا کی توجہ مرکوز ہونے سے کافی پہلے سے ہی ہمارا ملک دہشت گردی کی وبا جھیل رہا ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں دہشت گردی نے اپنے مختلف ناموں اور شکلوں کے ساتھ ہندوستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ سے ہم نے ہزاروں قیمتی جانیں گنوائی ہیں، لیکن ہم نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ یہاں تشریف لائے مندوبین کو اس ملک اور یہاں کے عوام سے بات چیت کرنے کا موقع مل رہا ہے، جس نے دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کا پختہ عزم کیا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایک بھی حملہ کئی حملوں کے برابر ہے۔ اگر ایک بھی آدمی کی زندگی جاتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ بہت سے لوگوں کی زندگی کا زیاں۔ اس لیے ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک کہ دہشت گرد ی کی جڑوں کو مکمل طور پر اکھاڑ کر نہ پھینک دیں۔ ساتھیو، یہ مجمع کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اسے صرف وزرا کا ہی مجمع نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسے موضوع سے ہے، جو پوری انسانیت کو متاثر کررہا ہے۔ دہشت گردی کا طویل مدتی اثر خاص کر غریب اور مقامی اقتصادیات کے لیے کافی مشکل رہا ہے۔ چاہے وہ سیاحت ہو یا تجارت، کوئی بھی ایسے علاقے کو پسند نہیں کرتا جس پر ہمیشہ دہشت گردی کا خطرہ رہتا ہو اور اسی لیے لوگوں کا معاش چھن جاتا ہے۔ اسی لیے دہشت گردی کی فنڈنگ کو جڑ سے اکھاڑنا زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ ساتھیو، آج کے دنیا میں کسی کو یہ بتانے کے ضرورت نہیں پڑنی چاہیے کہ دنیا کو دہشت گردی سے کتنا بڑا خطرہ ہے۔ تاہم کچھ حلقوں میں دہشت گردی کے بارے میں بعض غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مختلف قسم کے حملوں پر ردعمل کی شدت اس بات پر مبنی نہیں ہونی چاہیے کہ ایسے واقعات کہاں رونما ہورہے ہیں۔ تمام دہشت گردانہ حملوں کے خلاف ایک جیسا غصہ اور کارروائی کی جانی چاہیے۔ مزید برآں بعض دفعہ دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی کارروائی کو روکنے کےلیے بالواسطہ طور پر دہشت گردی کی حمایت میں دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ عالمی خطرے سے نمٹنے کے وقت غیرمبہم طریقہ اختیار کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ انسانیت پر حملہ ہے، لوگوں کی آزادی اور تہذیب پر حملہ ہے۔ اس میں سرحدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ صرف یکساں، متحدہ اور زیرو ٹالرینس کے ذریعے ہی دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ساتھیو، کسی دہشت گرد سے لڑنا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ دہشت گرد کو ہتھیاروں کے ذریعے قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فوری ٹیکٹیکل کارروائی ایک آپریشنل موضوع ہوسکتا ہے،لیکن اگر ان کی مالیات کو ختم کرنے کی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تو ٹیکٹیکل کامیابی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔ دہشت گرد ایک فرد ہوتا ہے، لیکن دہشت گردی افراد اور تنظیموں کا ایک بڑا نیٹ ورک ہوتا ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑے ردعمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہم اپنے دروازے پر دہشت گردی کے آنے کا انتظار نہیں کرسکتے۔ ہمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے امدادی نیٹ ورکوں اور ان کی فنڈنگ کو ختم کرنا پڑے گا۔ ساتھیو، یہ ایک معلوم حققیقت ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو مختلف ذرائع سے پیسے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک ذریعہ ریاستی حمایت ہے۔ کچھ ممالک اپنی خارجہ پالیسی کے حصہ کے طور پر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ انہیں سیاسی، نظریاتی اور مالی تعاون فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر کہیں جنگ نہیں ہورہی ہے تو وہاں پر امن ہے۔ درپردہ لڑائیاں بھی خطرناک اور پرتشدد ہوتی ہیں۔ اسی لیے دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے۔ جو تنظیمیں اور افراد دہشت گردوں کے لیے ہمدردی کا ماحول تیار کرتے ہیں، انہیں الگ تھلگ کیا جانا چاہیے۔ اس قسم کے معاملوں میں کسی قسم کے اگر مگر کی گنجائش نہیں ہے۔ پوری دنیا کو دہشت گردی کی ظاہری اور خفیہ شکلوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ساتھیو، دہشت گردی کا ایک ذریعہ منظم جرم کی فنڈنگ کرنا بھی ہے۔ منظم جرم کو کوئی الگ معاملہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اس قسم کے گینگ کا دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسلحہ کی خریدوفروخت، منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا پیسہ دہشت گردی میں لگایا جاتا ہے۔ یہ گروپ لوجسٹکس اور کمیونی کیشن کے ساتھ بھی مدد کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں منظم جرم کے خلاف کارروائی انتہائی اہم ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ اور مالیاتی جرائم سے دہشت گردوں کی فنڈنگ میں مدد کی جارہی ہے۔ اس کے خلاف عالمی پیمانے پر لڑنے کی ضرورت ہے۔ ساتھیو، اس قسم کے پیچیدہ ماحول میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل ، فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس، فائنانشیل انٹلیجنس یونٹ اور ایگمونٹ گروپ غیرقانونی طریقے سے فنڈ کی فراہمی کو روکنے، ان کا پتہ لگانے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی مخالف لڑائی میں کئی طریقے سے مدد ملی ہے۔ ساتھیو، اب دہشت گردی کی حرکیات میں تبدیلی آرہی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی ایک چیلنج بھی ہے اور ایک حل بھی۔ دہشت گردی کی فنڈنگ اور تقرری کے لیے نئی قسم کی ٹیکنالوجیوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ڈارک نیٹ ، پرائیویٹ کرنسی وغیرہ جیسے چیلنجز پیدا ہورہے ہیں۔ نئی مالیاتی ٹیکنالوجیز کو یکساں طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کوششوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت بھی کافی اہم ہے۔ یکساں سمجھ بوجھ سے چیکس، بیلنس اور ضابطےکا نیا نظام سامنے آسکتا ہے۔ لیکن ہمیں ایک چیز سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ٹیکنالوجی کی برائی نہیں کرنی ہے، بلکہ ہمیں دہشت گردی کا پتہ لگانے اور اس سے نمٹنے کےلیے ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھیو، آج صرف طبعی دنیا میں ہی نہیں بلکہ ورچوئل دنیا میں بھی تعاون کی ضرورت ہے۔ سائبر دہشت گردی اور آن لائن شدت پسندی میں استعمال ہونے والاانفراسٹرکچر بٹا ہوا ہے۔ کچھ لوگ دور دراز کے علاقوں اور آن لائن وسائل سے بھی اسلحوں کی ٹریننگ فراہم کررہے ہیں۔ کمیونی کیشن، سفر، لوجسٹکس اور اس قسم کے کئی طریقے مختلف ممالک میں جاری ہیں۔ ہر ایک ملک کو ایسے طریقوں کے خلاف کارروائی ضرور کرنی چاہیے۔ ساتھیو، مختلف ممالک کے اپنے قانونی اصول، طریقے اور پروسیس ہیں۔ خودمختار ممالک کو اپنے سسٹم کا استعمال کرنے کا حق ہے۔ تاہم ہمیں انتہا پسندوں کو ان سسٹمس کے درمیان موجود فرق کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اسے حکومتوں کے درمیان گہرے تعاون اور افہام و تفہیم کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔ مشترکہ تعاون، انٹلیجنس سے متعلق امداد اور دہشت گردوں کو متعلقہ ممالک کو سونپنے سے دہشت گردی مخالف لڑائی میں مدد ملتی ہے۔ ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انتہاپسندی اور شدت پسندی کے مسئلہ کا ایک ساتھ مل کر حل نکالا جائے۔ انتہا پسندی کی حمایت کرنے والوں کو کسی بھی ملک میں پناہ نہیں ملنی چاہیے۔ ساتھیو، گزشتہ کچھ مہینوں میں ہندوستان میں سکیورٹی سے متعلق مختلف موضوعات پر کئی کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں۔ ہندوستان میں نئی دہلی میں انٹرپول کی جنرل اسمبلی منعقد کی تھی۔ اسی طرح ممبئی میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیونٹی کا ایک خصوصی اجلاس ہوا تھا۔ اب ’دہشت گردی کےلی�� کوئی پیسہ نہیں‘ موضوع پر اس کانفرنس میں ہندوستان دہشت گردی کی فنڈنگ کے خلاف ایک عالمی تحریک شروع کرنے میں مدد کررہا ہے۔ ہمارا ارادہ دہشت گردی مخالف لڑائی کو اگلی سطح تک لے جانے میں دنیا کو متحد کرنا ہے۔ ساتھیو، میں تمام شرکا ممالک کو اگلے کچھ دنوں تک ہونے والی گفتگو میں کامیابی کی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مجھے پوری امید ہے کہ آپ لوگ دہشت گردی کی فنڈنگ کی تمام قسموں کو ختم کرنے میں مدد کریں گے۔ شکریہ بہت بہت شکریہ,নতুন দিল্লীত অনুষ্ঠিত ‘ন’ মানী ফৰ টেৰ’ৰ’ শীৰ্ষক সন্ত্ৰাসবাদৰ বিত্তীয় পৃষ্ঠপোষকতা প্ৰতিৰোধ সম্পৰ্কীয় তৃতীয় মন্ত্ৰী পৰ্যায়ৰ সন্মিলনত প্ৰদান কৰা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%81%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے فجی کا وزیر اعظم منتخب ہونے پر ستوینی رابوکا کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’فجی کے وزیر اعظم کے طورپر آپ کے انتخاب پر@ رابوکامبارکباد۔ میں ہندوستان اور فجی کے درمیان گہرے اور طویل عرصے سے چلے آرہے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی امید کرتا ہوں۔‘‘,ফিজিৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী হিচাপে নিৰ্বাচিত হোৱা ছিটিভেনি ৰাবুকাক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A8%DB%8C%DA%88%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A1%E0%A7%A6-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,"نئی دہلی۔ 14 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ""ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت۔ انہوں نے ہندوستان کی ترقی میں انمٹ خدمات پیش کی ہے۔ آج کا ہمارے ملک کے لیے ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے عزم کے اعادہ کا دن ہے۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ড০ বাবাচাহেব আম্বেদকাৰৰ জয়ন্তীত তেওঁলৈ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%A7%D8%B6%D9%84%D8%A7%D8%B9-%DA%A9%DB%92-%DA%88%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%86%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A6%B8%E0%A6%95/,نمسکار! پروگرام میں ہمارے ساتھ موجود ملک کی مختلف ریاستوں کے معزز وزرائے اعلیٰ، لیفٹیننٹ گورنر، مرکزی کابینہ میں میرے تمام ساتھی، تمام ریاستوں کے وزرا، مختلف وزارتوں کے سکریٹری اور ضلع مجسٹریٹ، کلکٹر-کمشنر، دیگر معززین، خواتین اور حضرات، زندگی میں اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی خواہشات کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور انھیں کسی حد تک پورا بھی کرتے ہیں۔ لیکن جب دوسروں کی خواہشیں ہماری اپنی خواہشات بن جاتی ہیں، جب دوسر��ں کے خوابوں کی تکمیل ہی ہماری کامیابی کا پیمانہ بن جاتی ہے، تو وہ فرض شناسی تاریخ رقم کرتی ہے۔ آج ہم ملک کے اضلاع میں یہی تاریخ بنتے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب یہ مہم 2018 میں شروع ہوئی تھی تو میں نے کہا تھا کہ جو علاقے کئی دہائیوں سے ترقی سے محروم ہیں وہاں کے عوام کی خدمت کا موقع ملنا اپنے آپ میں بہت بڑا اعزاز ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو آپ اس مہم کی بہت سی کامیابیوں کے ساتھ آج یہاں موجود ہیں۔ میں آپ سب کو آپ کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، آپ کے نئے اہداف کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میں وزراء اعلیٰ کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور خاص طور پر ریاستوں کو بھی کہ انھوں نے، میں نے دیکھا ہے کہ کئی اضلاع میں ہونہار اور بہت ذہین نوجوان افسران کو تعینات کیا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک درست حکمت عملی ہے۔ اسی طرح جہاں کوئی آسامی تھی اسے پر کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ تیسرے یہ کہ، میں نے دیکھا ہے کہ انھوں نے میعاد کو بھی مستحکم رکھا ہے۔ یعنی ایک طرح سے وزراء اعلیٰ نے ضرورت مند اضلاع میں امید افزا قیادت اور ٹیمیں فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔ آج ہفتہ ہے، چھٹی کا موڈ ہوتا ہے، پھر بھی تمام معزز وزراء اعلیٰ نے وقت نکال کر اس میں ہمارا ساتھ دیا۔ آپ سب لوگ بھی آج چھٹی منائے بغیر اس پروگرام میں شامل ہیں۔ اس سے وزراء اعلیٰ کے دلوں میں بھی ضرورت مند ضلع کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس طرح پیچھے رہ جانے والوں کو اپنی ریاست کے برابر لانے کے لیے کتنے پرعزم ہیں۔ ساتھیوں، ہم نے دیکھا ہے کہ ایک طرف بجٹ بڑھتا رہا، منصوبے بنتے رہے، اعداد و شمار میں معاشی ترقی بھی دکھائی گئی، لیکن آزادی کے 75 سال بعد بھی اتنے طویل سفر کے بعد بھی ملک کے کئی اضلاع پیچھے رہ گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان اضلاع پر پسماندہ اضلاع کا ٹیگ لگا دیا گیا۔ ایک طرف ملک کے سینکڑوں اضلاع ترقی کرتے رہے تو دوسری طرف یہ پسماندہ اضلاع پیچھے ہوتے رہے۔ یہ اضلاع پورے ملک کی ترقی کے اعداد و شمار کو بھی نیچے کر دیتے تھے۔ بحیثیت مجموعی جب تبدیلی نظر نہیں آتی تو اچھی کارکردگی دکھانے والے اضلاع کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے ملک نے ان پیچھے رہ جانے والے اضلاع پر خصوصی توجہ دی۔ آج ضرورت مند اضلاع ملک کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کر رہے ہیں۔ آپ سب کی کوششوں سے ضرورت مند اضلاع جمود کی بجائے تیز رفتاری کا باعث بن رہے ہیں۔ جن اضلاع کو کبھی تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے اضلاع سمجھا جاتا تھا، آج یہ ضرورت مند اضلاع ان اضلاع سے بہت سارے پیمانوں میں بہتر کام کر رہے ہیں۔ آج یہاں بہت سے معزز وزراء اعلیٰ وابستہ ہیں۔ وہ یہ بھی مانیں گے کہ ان ضرورت مند اضلاع نے حیرت انگیز کام کیا ہے۔ ساتھیوں، ضرورت مند اضلاع میں ترقی کی اس مہم نے کئی طریقوں سے ہماری ذمہ داریوں کو وسعت دی ہے اور نئے سرے سے ڈیزائن کیا ہے۔ ہمارے آئین کا تصور اور آئین کی روح اسے ایک ٹھوس شکل دیتی ہے۔ اس کی بنیاد مرکز- ریاست اور مقامی انتظامیہ کا ٹیم ورک ہے۔ اس کی پہچان وفاقی ڈھانچے میں تعاون کی بڑھتی ہوئی ثقافت ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی شرکت جتنی زیادہ ہوگی، نگرانی اتنی ہی مؤثر ہوگی، نتیجہ اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ساتھیوں، ضرورت مند اضلاع میں ترقی کے لیے، انتظامیہ اور عوام کے درمیان براہ راست رابطہ، جذباتی تعلق بہت ضروری ہے۔ اور اس مہم کا اہم پہلو ٹیکنالوجی اور اختراع ہے! جیسا کہ ہم نے ابھی حالیہ پیشکش میں دیکھا ہے، جتنے زیادہ اضلاع ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں، حکمرانی اور ترسیل کے جتنے زیادہ جدید طریقے وہ اختراع کر رہے ہیں، اتنا ہی بہتر کر رہے ہیں۔ آج ملک کی مختلف ریاستوں کے ضرورت مند اضلاع کی کامیابی کی بہت سی کہانیاں ہمارے سامنے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا، آج مجھے صرف پانچ ضلع کے عہدیداروں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ لیکن باقی جو یہاں بیٹھے ہیں، میرے سامنے سینکڑوں افسران بیٹھے ہیں۔ ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی کامیابی کی کہانی ہوتی ہے۔ اب ہمارے سامنے آسام میں درانگ، بہار میں شیخ پورہ، تلنگانہ میں بھدرادری کوٹھاگڈم کی مثال دیکھیں۔ ان اضلاع نے بچوں میں غذائیت کی کمی کو کافی حد تک کم کیا ہے۔ شمال مشرق میں آسام کے گولپارہ اور منی پور کے چندیل اضلاع میں 4 سالوں میں مویشیوں کی ویکسینیشن کی شرح 20 فیصد سے بڑھ کر 85 فیصد ہوگئی ہے۔ بہار کے جموئی اور بیگوسرائے جیسے اضلاع، جہاں کی 30 فیصد آبادی کے پاس بھی دن میں ایک بالٹی بھر پینے کا پانی ہوتا تھا، اب 90 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے غریبوں، کتنی خواتین، کتنے بچوں اور بزرگوں کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ اور میں کہوں گا کہ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں۔ اس کے پیچھے آپ سب کی استقامت اور پسینہ کارفرما ہے۔ میں سمجھتا ہوں، یہ تبدیلی، یہ تجربہ آپ کی پوری زندگی کا سرمایہ ہے۔ ساتھیوں، ضرورت مند اضلاع میں جو بھی کام ہوا ہے وہ دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹیوں کے لیے مطالعہ کا موضوع ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں ملک کے تقریباً ہر ضرورت مند ضلع میں جن دھن کھاتوں میں 4 سے 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً ہر خاندان میں بیت الخلا ہے، ہر گاؤں میں بجلی پہنچ چکی ہے۔ اور بجلی نہ صرف غریبوں کے گھر تک پہنچی ہے بلکہ عوام کی زندگیوں میں توانائی داخل ہوئی ہے، ان علاقوں کے عوام کا ملک کے نظام پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔ ساتھیوں، ہمیں ان کوششوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ایک ضلع کو دوسرے ضلع کی کامیابیوں سے سیکھنا ہوگا، دوسرے کے چیلنجز کا اندازہ لگانا ہوگا۔ مدھیہ پردیش کے چھتر پور ضلع میں 4 سال کے اندر حاملہ خواتین کی پہلی سہ ماہی رجسٹریشن 37 فیصد سے بڑھ کر 97 فیصد کیسے ہوئی؟ اروناچل کے نامسائی، ہریانہ کے میوات اور تریپورہ کے ڈھلائی میں ادارہ جاتی ترسیل 40-45 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصد کیسے ہوئی؟ رائچور، کرناٹک میں، باقاعدگی سے اضافی غذائیت حاصل کرنے والی حاملہ خواتین کی تعداد 70 فیصد سے بڑھ کر 97 فیصد کیسے ہوئی؟ چمبہ، ہماچل پردیش میں، گرام پنچایت کی سطح پر کامن سروس سینٹرز کی کوریج 67 فیصد سے بڑھ کر 97 فیصد کیسے ہوئی؟ یا سکما، چھتیس گڑھ میں، جہاں 50 فیصد سے کم بچوں کو ٹیکے لگائے جاتے تھے، اب 90 فیصد ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ کامیابی کی ان تمام کہانیوں میں پورے ملک کی انتظامیہ کے لیے بہت سی نئی چیزیں سیکھنے کے لیے ہیں، بہت سے نئے سبق بھی ہیں۔ ساتھیوں، آپ نے دیکھا ہے کہ ضرورت مند اضلاع میں رہنے والے لوگوں میں آگے بڑھنے کی کتنی تڑپ ہے، کتنی آرزو ہے۔ ان اضلاع کے لوگوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ محرومیوں، بہت سی مشکلات میں گزارا ہے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لیے انھیں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ انھوں نے اتنا اندھیرا دیکھا ہے کہ ان میں اس اندھیرے سے نکلنے کی زبردست بے صبری ہے۔ اسی لیے وہ لوگ ہمت دکھانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے، اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضرورت مند اضلاع میں رہنے والے جو لوگ ہیں، جو معاشرہ ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے، اس کی طاقت کو پہچاننا چاہیے۔ اور میں اتفاق کرتا ہوں، اس کا ان اضلاع میں ہونے والے کام پر بھی بہت اثر پڑتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ بھی آپ کے ساتھ آ کر کام کرتے ہیں۔ ترقی کی خواہش ساتھ چلنے کا راستہ بن جاتی ہے۔ اور جب عوام پُرعزم ہے، انتظامیہ پُرعزم ہے تو پھر کوئی کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ پھر آگے ہی جانا ہے، آگے ہی بڑھنا ہے۔ اور آج ضرورت مند اضلاع کے لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، پچھلے سال اکتوبر میں مجھے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے طور پر عوام کی خدمت کرتے ہوئے 20 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی دہائیوں تک میں نے ملک کے مختلف حصوں میں انتظامیہ کے کام کو، اس کے کام کرنے کے طریقے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ فیصلے کے عمل میں جو خلا ہوتا ہے، اس سے زیادہ نقصان عمل درآمد میں ہونے والے خلا سے ہوتا ہے۔ اور ضرورت مند اضلاع نے ثابت کیا ہے کہ عمل درآمد میں خلا کے خاتمے کی وجہ سے وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ضرورت مند اضلاع نے ثابت کیا ہے کہ اگر ہم گڈ گورننس کے بنیادی اصولوں پر عمل کریں تو کم وسائل کے باوجود بڑے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اور جس انداز کے ساتھ اس مہم پر کام کیا گیا وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ ضرورت مند اضلاع میں ملک کا پہلا نقطہ نظر یہ تھا کہ ان اضلاع کے بنیادی مسائل کی نشاندہی کے لیے خصوصی کام کیا گیا۔ اس کے لیے لوگوں سے براہ راست ان کے مسائل پوچھے گئے جو ان سے جڑے ہوئے تھے۔ ہمارا دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ – ضرورت مند اضلاع کے تجربات کی بنیاد پر، ہم نے کام کو مسلسل بہتر کیا۔ ہم نے کام کا طریقہ طے کیا ہے، جس میں قابل پیمائش اشارے کا انتخاب ہے، جس میں ضلع کی موجودہ حالت کا موازنہ ریاست اور ملک کی بہترین حالت سے کیا جاتا ہے، جس میں پیشرفت کی حقیقی وقت میں نگرانی ہوتی ہے۔ جس کا دوسرے اضلاع کے ساتھ صحت مند مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس مہم کے دوران تیسرا طریقہ یہ تھا کہ ہم نے ایسی گورننس اصلاحات کیں جس سے اضلاع میں ایک مؤثر ٹیم بنانے میں مدد ملی۔ مثال کے طور پر، نیتی آیوگ کے پریزنٹیشن میں بتایا گیا کہ افسران کی مستحکم مدت نے پالیسیوں کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے میں بہت مدد کی۔ اور اس کے لیے میں وزراء اعلیٰ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سب خود ان تجربات سے گزرے ہیں۔ میں نے یہ باتیں دہرائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ گڈ گورننس کا اثر کیا ہوتا ہے۔ جب ہم بنیادی باتوں پر زور دینے کے منتر پر عمل کرتے ہیں تو اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اور آج میں اس میں ایک اور بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ آپ سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ فیلڈ وزٹ، انسپیکشن اور نائٹ ہالٹ کے لیے بھی تفصیلی گائیڈ لائنز بنائی جائیں، ایک ماڈل تیار کیا جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس سے آپ سب کو کتنا فائدہ ہوگا۔ ساتھیوں، ضرورت مند اضلاع میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ملک نے اب اپنے اہداف کو مزید وسعت دی ہے۔ ہم نے اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان سے آگے ہمیں بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ اور بڑے پیمانے پر کام کرنا ہے۔ ہمارے ضلع کے ہر گاؤں تک سڑک کے ذریعے کیسے پہنچیں، ہر اہل شخص تک آیوشمان بھارت کارڈ کیسے پہنچے، بینک اکاؤنٹ کا بندوبست کیسے کیا جائے، کوئی غریب خاندان اجولا گیس کنکشن سے محروم نہ رہے، ہر اہل شخص کو سرکاری بیمہ کا فائدہ ملنا چاہیے۔ پنشن اور مکان جیسی سہولیات کے فوائد حاصل کرنے کے لیے ہر ضلع کے لیے ایک مقررہ ہدف ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہر ضلع کو اگلے دو سال کے لیے اپنا وژن طے کرنا چاہیے۔ آپ ایسے کسی بھی 10 کاموں کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں جو اگلے 3 مہینوں میں مکمل ہو سکتے ہیں، اور وہ عام آدمی کے لیے زندگی کی آسانی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح، آزادی کے امرت مہوتسو میں شامل ہو کر کوئی بھی 5 کام طے کریں جو آپ مکمل کر سکتے ہیں۔ یہ کام اس تاریخی دور میں آپ کی، آپ کے ضلع اور ضلع کے عوام کی تاریخی کامیابی بن جائے۔ جس طرح ملک خواہش مند اضلاع کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے، اسی طرح آپ ضلع میں بلاک کی سطح پر اپنی ترجیحات اور اہداف طے کر سکتے ہیں۔ آپ کو بھی اس ضلع کی خوبیوں کو پہچاننا چاہیے جس کے لیے آپ کو ذمہ داری ملی ہے، ان کا ساتھ دیں۔ ان خوبیوں میں ضلع کی صلاحیت پوشیدہ ہے۔ آپ نے دیکھا ہے، ’ایک ضلع، ایک پروڈکٹ‘ ضلع کی خوبیوں پر مبنی ہے۔ اپنے ضلع کو قومی اور عالمی شناخت دینا آپ کا مشن ہونا چاہیے۔ یعنی ووکل فار لوکل کے منتر کو اپنے اضلاع میں بھی نافذ کریں۔ اس کے لیے آپ کو ضلع کی روایتی مصنوعات کی شناخت، مہارتوں کی نشاندہی اور ویلیو چین کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ملک ڈجیٹل انڈیا کی شکل میں ایک خاموش انقلاب کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ ہمارا کوئی ضلع اس میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ڈجیٹل انفراسٹرکچر ہمارے ملک کے ہر گاؤں تک پہنچ جائے، جو خدمات اور سہولیات کی ڈور سٹیپ ڈیلیوری کا ذریعہ بنے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ میں جن اضلاع کی ترقی توقع سے کم رہی ہے، ان اضلاع کے ڈی ایم، مرکز کے انچارج افسران کو خصوصی کوششیں کرنی ہوں گی۔ میں نیتی آیوگ سے بھی کہوں گا کہ آپ کو ایسا طریقہ کار بنانا چاہیے تاکہ تمام اضلاع کے ڈی ایم کے درمیان باقاعدہ بات چیت ہو۔ ہر ضلع ایک دوسرے کے بہترین طریقوں کو نافذ کر سکتا ہے۔ مرکز کی تمام وزارتوں کو مختلف اضلاع میں سامنے آنے والے تمام چیلنجوں کو بھی دستاویز بند کرنا چاہیے۔ یہ بھی دیکھیں کہ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان اس میں کس طرح مدد کر سکتا ہے۔ ساتھیوں، آج کے پروگرام میں آپ کے سامنے ایک اور چیلنج رکھنا چاہتا ہوں، ایک نیا مقصد بھی دینا چاہتا ہوں۔ یہ چیلنج ملک کی 22 ریاستوں کے 142 اضلاع کے لیے ہے۔ یہ اضلاع ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ یہ ضرورت مند ضلع کے زمرے میں نہیں ہیں۔ وہ ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔ لیکن کئی پیرامیٹرز میں آگے ہونے کے باوجود ایک یا دو پیرامیٹرز ایسے ہیں جن میں وہ پیچھے ہیں۔ اور تب میں نے وزارتوں کو بتایا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں کیا ہے جو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کسی کو دس اضلاع مل گئے، کسی کو چار اضلاع مل گئے، کسی کو چھ اضلاع مل گئے، خیر اتنا کچھ آ گیا۔ جیسا کہ ایک ضلع ہے جہاں سب کچھ بہت اچھا ہے لیکن غذائیت کی کمی کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح ایک ضلع میں تمام اشاریے ٹھیک ہیں لیکن وہ تعلیم میں پیچھے ہے۔ حکومت کی مختلف وزارتوں، مختلف محکموں نے ایسے 142 اضلاع کی فہرست تیار کی ہے۔ ایک یا دو پیرامیٹرز پر جن پر یہ مختلف 142 اضلاع پیچھے ہیں، اب وہاں بھی ہمیں اسی اجتماعی نقطہ نظر کے ساتھ کام کرنا ہے جیسا کہ ہم ضرورت مند اضلاع میں کرتے ہیں۔ یہ ایک نیا موقع ہے، تمام حکومتوں، حکومت ہند، ریاستی حکومت، ضلع انتظامیہ، سرکاری مشینری کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔ اب ہمیں مل کر اس چیلنج کو پورا کرنا ہے۔ اس میں مجھے اپنے تمام وزیر اعلیٰ ساتھیوں کا تعاون ہمیشہ ملتا رہا ہے، مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی ملتا رہے گا۔ ساتھیوں، ابھی کورونا کا بھی دور چل رہا ہے۔ کورونا کی تیاری، اس کے انتظام اور کورونا کے درمیان بھی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے میں تمام اضلاع کا بڑا کردار ہے۔ ان اضلاع میں مستقبل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ابھی سے کام کیا جانا چاہیے۔ ساتھیوں، ہمارے رشیوں نے کہا ہے – ”جل بندو نپاتین کرمشہ: پوریتے گھٹہ“ یعنی بوند بوند سے ہی پورا گھڑا بھرتا ہے۔ اس لیے ضرورت مند اضلاع میں آپ کی ہر کوشش آپ کے ضلع کو ترقی کی نئی سطح پر لے جائے گی۔ میں یہاں سول سروسز کے ساتھیوں کو ایک اور بات یاد دلانا چاہوں گا۔ آپ کو وہ دن یاد ہوگا جب اس سروس میں آپ کا پہلا دن تھا۔ آپ ملک کے لیے کتنا کرنا چاہتے تھے، آپ میں کتنا جذبہ تھا، آپ کتنی خدمت سے معمور تھے۔ آج اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ آزادی کے اس امرت دور میں، بہت کچھ کرنا ہے، حاصل کرنا ہے۔ ہر ضرورت مند ضلع کی ترقی سے ملک کے خواب پورے ہوں گے۔ ایک نئے ہندوستان کا جو خواب ہم نے آزادی کے سو سال مکمل ہونے پر دیکھا ہے، اسے پورا کرنے کا راستہ ہمارے ان اضلاع اور دیہاتوں سے ہو کر ہی جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ جب ملک اپنے خواب پورے کرے گا تو اس کے سنہرے باب میں آپ سب دوست بڑا کردار ادا کریں گے۔ اس یقین کے ساتھ، میں تمام وزراء اعلیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ نے اپنی زندگی میں جو محنت کی ہے اور جو نتائج لائے ہیں اس کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ! 26 جنوری آنے والی ہے، اس کام کا دباؤ بھی ہے، ضلع مجسٹریٹس پر زیادہ دباؤ ہے۔ کورونا کے پچھلے دو سالوں سے آپ میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر ہیں۔ اور ایسے میں میں آپ کو ہفتہ کے دن آپ سب کے ساتھ بیٹھنے کی تھوڑی سی تکلیف دے رہا ہوں لیکن پھر بھی آج جس جوش اور ولولے سے آپ سب جڑے ہیں یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ کرتا ہوں! میں آپ سب کے لیے بہت نیک خواہشات رکھتا ہوں!,বিভিন্ন জিলাৰ দণ্ডাধীশসকলৰ সৈতে হোৱা কথোপকথনৰ পিচত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা সমৰণি মন্তব্যৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D8%B5%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DB%8C%D9%84%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,نئی دلّی ، 20 اگست؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب ایچ ڈی کمارا سوامی سے ریاست کے حصوں میں آئے سیلاب کی صورت حال پر بات چیت کی ۔ وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’ میں نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب ایچ ڈی کمارا سوامی جی سے ریاست کے حصوں میں آئے سیلاب کی صورت حال پر بات چیت کی ہے ۔ بچاؤ اور راحت آپریشن میں ہر ممکن مدد کا اعلان کیا ہے ۔میں سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے متاثرین کے سلامتی کے لئے دعا کرتا ہوں ۔‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,কৰ্ণাটকৰ বিভিন্ন প্ৰান্তত সৃষ্টি হোৱা বান পৰিস্থিতিৰ সন্দৰ্ভত ৰাজ্যখনৰ মুখ্যমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%B4%DA%A9%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%82-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%82%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 2022 میں کوئی غیر قانونی شکار نہ کئے جانے کی اطلاع کے بعد ریاست میں گینڈوں کے تحفظ کی کوششوں کے لیے آسام کے لوگوں کی ستائش کی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ جناب ہمنتا بسوا سرما کے ایک ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’یہ بہت اچھی خبر ہے! آسام کے لوگوں کو مبارکباد، جنہوں نے گینڈوں کے تحفظ کی اپنی کوششوں کے ذریعہ ایک راستہ دکھایا ہے اور سرگرم عمل رہے ہیں۔‘‘,২০২২ ত চোৰাং চিকাৰ শূন্যৰ ঘটনাক লৈ অসমৰ ৰাইজৰ গঁড় সংৰক্ষণৰ প্ৰচেষ্টাক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%DB%8C%D9%88%D9%BE%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D8%8C-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA-3/,"دوسو چھیانوے کلومیٹر چار قطاروں والی ایکسپریس وے کی تقریباً 14,850 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ایکسپریس وے سے خطے میں رابطے اور صنعتی ترقی کو زبردست فروغ ملے گا ’’یوپی ایکسپریس وے پروجیکٹوں سے ریاست کے بہت سے نظرانداز علاقے مربوط ہو رہے ہیں‘‘ ’’اتر پردیش کا ہر گوشہ نئے خوابوں اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار ہے‘‘ ’’ پورے ملک میں یوپی کی پہچان بدل رہی ہے اور یہ بہت سی ترقی یافتہ ریاستوں سے آگے نکل رہی ہے‘‘ ’’منصوبوں کو وقت سے پہلے مکمل کر کے ہم لوگوں سے حاصل اختیارات اور اُن کے اعتماد کا احترام کر رہے ہیں‘‘ ’’ہمیں اپنے مجاہدینِ آزادی کو یاد کرنا چاہیے اور آئندہ ایک ماہ میں مختلف تقریبات کا اہتمام کر کے نئے عزم کی فضا پیدا کرنی چاہیے‘‘ ’’ہر وہ چیز دور رکھنی ہے جو ملک کو نقصان پہنچاتی ہے اور ملک کی ترقی کو متاثر کرتی ہے‘‘ ’’ڈبل انجن والی حکومتیں مفت کی نوازشوں اور ’ریوڑی‘ بانٹنے کی روایت کو اپنانے کے بجائے محنت سے ثمرات سامنے لا رہی ہیں‘‘ ’’ملک کی سیاست سے مفت کی نوازشوں کی روایت کو شکست دیں اور ختم کریں‘‘ ’’متوازن ترقی سماجی انصاف کے مترادف ہے‘‘ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اتر پردیش کے جالون کی اورائی تحصیل کے کیتھری گاؤں میں بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، ریاستی وزرا، عوامی نمائندے موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بندیل کھنڈ خطے کی جانفشانی، بہادری اور مالا مال ثقافت کی شاندار روایت کو ذکر کیا اور کہا کہ ""اِس سرزمین نے لاتعداد سورما پیدا کئے۔ یہاں ہندوستان کے لئے عقیدت خون میں شامل ہے اور مقامی بیٹوں اور بیٹیوں کی قابلیت اور محنت نے ہمیشہ ملک کا نام روشن کیا ہے۔"" نئے ایکسپریس وے سے سامنے آنے والے فرق کی بابت اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ""بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی وجہ سے چترکوٹ سے دہلی کے مابین دوری جہاں 3-4 گھنٹے کم ہوئی ہے، وہیں اس کا فائدہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایکسپریس وے یہاں صرف گاڑیوں کی رفتار تیز نہیں کرے گی بلکہ پورے بندیل کھنڈ کی صنعتی ترقی میں تیزی لائے گی۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ وہ دن گئے جب اتنے بڑے انفراسٹرکچر اور سہولتیں صرف بڑے شہروں اور ممالک کے منتخب علاقوں تک محدود تھیں۔ اب سب کا ساتھ سب کا وکاس کے جذبے کے تحت دور افتادہ اور نظر انداز کردہ علاقے بھی بے نظیر طور پر مربوط ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایکسپریس وے کی وجہ سے اس خطے میں ترقی، روزگار اور اپنا روزگار آپ کرنے کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں کنیکٹیویٹی پروجیکٹوں سے بہت سے علاقوں کو مربوط کیا جا رہا ہے جنہیں ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ مثال کے طور پر بندیل کھنڈ ایکسپریس وے سات اضلاع سے یعنی چترکوٹ، بندہ، مہوبہ، حمیر پور، جالون، اوریا اور اٹاوہ گزرتی ہے۔ اسی طرح دیگر ایکسپریس ویز ریاست کے ہر کونے اور ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہیں۔ نتیجے میں ""اتر پردیش کا ہر کونا نئے خوابوں اور نئی عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے""۔ انہوں نے کہا کہ ڈبل انجن والی حکومت اس رُخ پر نئے ولولے کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ ریاست میں ہوائی رابطہ کو بہتر بنانے کے تعلق سے وزیر اعظم نے کہا کہ پریاگ راج میں نئے ہوائی اڈوں کے ٹرمینل سامنے آئے ہیں۔ کشی نگر میں نیا ہوائی اڈہ قائم کیا گیا اور جیور، نوئیڈا میں ایک نئے ہوائی اڈے کے لئے کام جاری ہے اور کئی اور شہروں کو ہوائی سفر کی سہولیات سے جوڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے سیاحت اور دیگر ترقی کے مواقع کو فروغ حاصل ہو گا۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ وہ خطے کے کئی قلعوں کے گرد ٹورازم سرکٹ تیار کریں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے یہ بھی کہا کہ متعلق بہ قلعہ تقریبات اور مقابلوں کے اہتمام کیا جائے۔ وزیر اعظم نے سلسلہ کلام جاریرکھتے ہوئے کہا کہ جس یوپی میں سرجو نہر کے منصوبے کو مکمل ہونے میں 40 سال لگے، جس یوپی میں گورکھپور فرٹیلائزر پلانٹ 30 سال سے بند تھا، جس یوپی میں ارجن ڈیم پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں 12 سال لگے، جس یوپی میں امیٹھی رائفل فیکٹری کا صرف ایک نام کا بورڈ تھا، جس یوپی میں رائے بریلی ریل کوچ فیکٹری میں صرف ڈبوں کو پینٹ کیا جاتا تھا، اس یوپی میں اب انفراسٹرکچر کا کام اتنی سنجیدگی سے کیا جا رہا ہے کہ وہ اچھی ریاستوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ یوپی کی پہچان پورے ملک میں بدل رہی ہے۔ جناب مودی نے رفتار کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے لائن کو دوگنا کرنے کی رفتار سالانہ 50 کلومیٹر سے بڑھا کر 200 کلومیٹر کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اتر پردیش میں کامن سروس سینٹرز کی تعداد جو 2014 میں 11,000 تھی اب 1 لاکھ 30 ہزار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 12 میڈیکل کالج والی ریاست یوپی میں آج 35 میڈیکل کالج ہیں اور مزید 14 زیر قیام ہیں۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ آج ملک جس ترقی کے دھارے پر گامزن ہے اس کے بنیادی طور پر دو پہلو ہیں۔ ایک ارادہ اور دوئم آداب (ارادہ اور مریادا)۔ ہم نہ صرف ملک کے حال کے لئے نئی سہولتیں پیدا کر رہے ہیں بلکہ ملک کا مستقبل تعمیر بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں 'مریادا' یعنی آخری تاریخ کی حد کا پوری طرح احترام کرتے ہوئےپروجیکٹ مکمل کئے گئے ہیں۔ بابا وشوناتھ دھام، گورکھپور ایمس، دہلی-میرٹھ ایکسپریس وے اور بندیل کھنڈ ایکسپریس وے میں سہولتوں کی تازہ کاری اور تزئین و آرائش جیسے منصوبے اس لحاظ سے اس کی مثالیں ہیں کہ موجودہ حکومت نے ہی ان پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ انہوں نے کہا کہ پروجیکٹوں کو وقت سے پہلے مکمل کر کے ہم لوگوں سے حاصل اختیارات اور ان کے اعتماد کا احترام کر رہے ہیں۔ انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ آئندہ یوم آزادی کے سلسلے میں بہت سی تقریبات کا اہتمام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے مجاہدینِ آزادی کو یاد کرنا چاہیے اور آئندہ ایک ماہ میں مختلف تقریبات کا اہتمام کر کے نئے عزم کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی دونوں کے پیچھے بڑی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ملک کی ترقی کو مزید تیز کرنی ہے۔ ہر وہ چیز جو ملک کو نقصان پہنچاتی ہو، ملک کی ترقی کو متاثر کرتی ہو، اس سے دور رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’امرت کال‘ ایک نادر موقع ہے اور ہمیں ملک کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے اس موقع کو نہیں گنوانا چاہیے۔ وزیراعظم نے ملک میں مفت نوازشوں کے ذریعہ ووٹ مانگنے کی روایت کی طرف توجہ دلائی اور خبردار کیا کہ مفت نوازشوں کا یہ کلچر ملک کی ترقی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ ملک کے لوگوں کو مفت نوازشوں کی اس روایت ('ریوڑی' کلچر) سے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ ایسی روایت والے لوگ آپ کے لئے کبھی نئی ایکسپریس وے، نئے ہوائی اڈے یا دفاعی راہداری نہیں بنا پائیں گے۔ مفت نوازشوں والی روایات کے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس طرح عام آدمی کے ووٹ خرید سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایسی سوچ کو اجتماعی طور پر شکست دینے اور ملک کی سیاست سے مفت نوازشوں کے کلچر کو ختم کرنے کی پکار دی۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت اس ’’ریوڑی‘‘ کلچر سے ہٹ کر پکے مکانات، ریلوے لائنز، سڑکیں اور انفراسٹرکچر، آبپاشی، بجلی کے منصوبے جیسی سہولتیں فراہم کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ""ڈبل انجن والی حکومتیں مفت کی نوازشوں اور 'ریوڑی' بانٹنے کی روایت کو اپنانے کے بجائے محنت سے ثمرات سامنے لا رہی ہیں""۔ متوازن ترقی پر اظہارِ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جیسے جیسےنظر انداز کردہ اور چھوٹے شہروں تک ترقی پہنچتی ہے سماجی انصاف کا ادراک ہوتا ہے۔ انتہائی نظر انداز کئے جانے والے مشرقی ہند اور بندیل کھنڈ تک جدید انفراسٹرکچر کی رسائی مشرقی سماجی انصاف کے مترادف ہے۔ جن پسماندہ اضلاع کو از خود اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا اب وہ ترقی کی گواہی دے رہے ہیں، یہ بھی ان کے ساتھ سماجی انصاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لئے بیت الخلا، گاؤں کو سڑکوں اور نلکے کے پانی سے جوڑنا بھی سماجی انصاف ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ حکومت بندیل کھنڈ کے ایک اور چیلنج سے نمٹنے کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت ہر گھر تک پائپ کے ذریعہ پانی کی فراہمی کے لئے جل جیون مشن پر کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے بندیل کھنڈ کی ندیوں کے پانی کو زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کے طور پر رتولی ڈیم، بھوانی ڈیم، چلی چھڑکنے کی مجھگاؤں آبپاشی پروجیکٹ کی فہرست پیش کی اور کہا کہ کین-بیتوا لنک پروجیکٹ اس خطے کے لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گا۔ وزیر اعظم نے ہر ضلع میں 75 امرت سرووں کیلئے چلائی جانے والی مہم میں بندیل کھنڈ کے لوگوں سے تعاون کی اپنی درخواست کا اعادہ کیا۔ چھوٹی اور کاٹیج انڈسٹری کو مضبوط بنانے میں میک ان انڈیا مہم کے کردار کے حوالے سے وزیر اعظم نے کھلونا صنعت کی کامیابی اجاگر کی اور کہا کہ حکومت، کاریگروں، صنعت کاروں اور شہریوں کی کوششوں سے کھلونوں کی درآمد میں زبردست کمی آئی ہے۔ انہوں کہا کہ اس سے غریبوں، محروموں، پسماندہ لوگوں، قبائلیوں، دلتوں اور خواتین کو فائدہ پہنچے گا۔ وزیر اعظم نے کھیلوں کے میدان میں بندیل کھنڈ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ کھیلوں کا سب سے بڑا اعزاز مقامی فرزند میجر دھیان چند کے نام سے منسوب ہے۔ انہوں نے اس خطے سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی ایتھلیٹ شیلی سنگھ کا بھی ذکر کیا جس نے انڈر 20 عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں نام روشن کیا۔ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے حکومت ملک بھر میں رابطوں کو بڑھانے کے لئے پرعزم ہے۔ اس کی ایک اہم خصوصیت سڑک کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے رُخ پر کام کرنا ہے۔ اس رُخ پر ایک اہم کوشش 29 فروری 2020 کو اس وقت کی گئی جب وزیر اعظم کے ذریعہ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ ایکسپریس وے پر کام 28 ماہ میں مکمل کر لیا گیا جو نیو انڈیا کے ورک کلچر کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں پروجیکٹوں کو وقت پر مکمل کیا جاتا ہے۔ اتر پردیش ایکسپریس ویز انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (یو پی ای آئی ڈی اے) کے زیراہتمام 296 کلومیٹر کی چار قطاروں والی ایکسپریس وے تقریباً 14,850 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی ہے۔ اسے آگے چل کر چھ قطار والا راستہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایکسپریس وے چترکوٹ ضلع میں بھرت کوپ کے قریب گونڈا گاؤں کے قومی شاہراہ-35 سے اٹاوہ ضلع کے کدریل گاؤں کے قریب تک پھیلی ہوئی ہے۔ جہاں یہ آگرہ-لکھنؤ ایکسپریس وے کے ساتھ مل جاتی ہے۔ یہ راستہ سات اضلاع چترکوٹ، باندہ، مہوبہ، حمیر پور، جالون، اوریا اور اٹاوہ سے گزرتا ہے۔ علاقے میں کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے اقتصادی ترقی کو بھی زبردست فروغ دے گی۔ نتیجے میں مقامی لوگوں کے لئے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔ ایکسپریس وے کے ساتھ والے اضلاع باندہ اور جالون میں صنعتی راہداری بنانے کا کام پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উত্তৰ প্ৰদেশ পৰিদৰ্শন কৰে আৰু বুণ্ডেলখণ্ড এক্সপ্ৰেছৱে উদ্বোধন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DB%8C%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D8%AF%D9%86%D8%AA%DB%92-%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%97%E0%A7%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے، جنوبی چھتیس گڑھ کے 03 ضلعوں – بیجاپور، دنتے واڑہ اور سکما سے سی آر پی ایف میں بطور کانسٹیبل (عام ڈیوٹی) 400 امیدواروں کی تقرری کے لیے کم از کم تعلیمی لیاقت کو 10ویں کلاس پاس سے گھٹا کر 8ویں کلاس کرنے سے متعلق وزارت داخلہ کی تجویز کو اپنی منظوری دے دی۔ مقامی اخباروں میں اشتہارات جاری کرنے اور ان تینوں ضلعوں کے اندرونی علاقوں میں اس ریلی کے بارے میں بڑے پیمانے پر پرچار کرنے کے علاوہ، سی آر پی ایف ٹریننگ کے لیے بھرتی کیے گئے ان امیدواروں کی پروبیشن مدت کے دوران انہیں رسمی تعلیم بھی مہیا کرائے گا۔ چھتیس گڑھ ریاست کے ان تین ضلعوں – بیجاپور، دنتے واڑہ اور سکما کے اندرونی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 400 قبائلی نوجوانوں کو روزگار کا موقع حاصل ہوگا۔ وزارت داخلہ بھرتی کے لیے جسمانی معیارات میں بھی مناسب چھوٹ دے گی۔ سی آر پی ایف ایک مرکزی مسلح پولیس دستہ ہے، جس کی بنیادی ڈیوٹی امن و امان کی بحالی، انسداد بغاوت اور اندرونی سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ فوری معاملے میں، سی آر پی ایف نے چھتیس گڑھ کے نسبتاً پس ماندہ علاقوں سے بطور کانسٹیبل (عام ڈیوٹی) 400 مقامی قبائلی نوجوانوں کی بھرتی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ان کی نوکری کی تصدیق تبھی کی جائے گی جب وہ کم از کم تعلیمی لیاقت کے متعینہ معیار، یعنی 10ویں کلاس تک تعلیم حاصل کر لیں گے، لہٰذا ان بھرتی کیے گئے نوجوانوں کو رسمی تعلیم فراہم کی جائے گی اور سی آر پی ایف اس سلسلے میں ان کی ہر ممکن مدد کرے گا، جیسے ان کی پروبیشن مدت کے دوران لکھنے پڑھنے سے متعلق سامان کی فراہمی، کتابوں اور کوچنگ وغیرہ کا انتظام۔ ضرورت پڑنے پر، پروبیشن کی مدت اسی لحاظ سے آگے بڑھائی جا سکتی ہے، تاکہ نئے بھرتی کیے گئے نوجوانوں کو متعینہ تعلیمی لیاقت حاصل کرنے میں مدد ملے۔ انہیں 10ویں کلاس کا امتحان دلوانے کے لیے، ان کا رجسٹریشن مرکزی/ریاستی حکومتوں سے منظور شدہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولوں میں کروایا جائے گا۔ سی آر پی ایف نے سال 2017-2016 کے دوران چھتیس گڑھ کے چار ضلعوں – بیجاپور، دنتے واڑہ، نارائن پور اور سکما سے درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی بھرتی کے ذریعے ایک ’بستریا بٹالین‘ بنائی تھی۔ لیکن، اس کے امید کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوئے، کیوں کہ اندرونی علاقوں کے مقامی نوجوان 10ویں پاس ہونے کی کم از کم تعلیمی لیاقت نہ رکھنے کی وجہ سے تقرری کے عمل میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔,"ছত্তিশগড়ত বিজাপুৰ, দান্তেৱাড়া আৰু সুকমা জিলাৰ প্রত্যন্ত ঠাইৰ পৰা কেন্দ্রীয় সংৰক্ষিত পুলিচ বাহিনীত (চিআৰপিএফ) কনষ্টেবল পদত স্থানীয় আদিবাসী যুৱকৰ নিয়োগৰ ক্ষেত্রত শিক্ষাগত যোগ্যতাত ৰেহাই দিয়াৰ প্রস্তাৱলৈ মন্ত্রীসভাৰ সঁহাৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%86%D8%B3%DA%A9%D8%B1%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85%D8%B1-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%83/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نےسنسکرت گرامر کے ماہر پروفیسر بھاگیرتھ پرساد ترپاٹھی کے انتقال پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا ہے جنہیں ویش ساستری بھی کہا جاتا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ : ’’پروفیسر بھاگیرتھ پرساد ترپاٹھی ’ وگیش شاستری‘ نے جدید سائنسی طریقہ کار کااستعمال کرتے ہوئے نوجوانوں میں سنسکرت کو زیادہ مقبول بنانے میں بیش قیمتی تعاون کیا ہے ۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں معلومات حاصل تھی اور وہ بہت پڑھتے لکھتے تھے، ان کے انتقال سے مجھے بہت دکھ ہواہے اور میں ان کے کنبے کے افراد اور دوستوں کے تئیں تعزیت کااظہار کرتا ہوں‘‘ اوم شانتی۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সংস্কৃত ব্যাকৰণবিদ, অধ্যাপক ভগীৰথ প্ৰসাদ ত্ৰিপাঠীৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ কৰে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DB%8C%D9%85%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B5%D9%81%D8%AF%D8%B1%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D8%B3%D9%BE%D8%AA%D8%A7%D9%84%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AD%D9%81%D8%B8%D8%A7%D9%86-%D8%B5%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%89/,نئی دہلی،29/جون۔ کابینہ کے میرے ساتھی جناب جے پی نڈا جی، اشونی چوبے جی، انوپریا پٹیل جی اور اس اسٹیج پر موجود جناب رندیپ گلیریا جی، جناب آئی ایس جھا، ڈاکٹر راجیش شرما اور سبھی معززین۔ دہلی کے لوگوں کے لئے علاج کے لئے، دہلی آنے والے لوگوں کے لئے، آپ سبھی کے لئے ایک طر ح سے آج کا دن خصوصی دن ہے اور مجھے خوشی ہے آج غریبوں کو، عام آدمی کو، نچلے متوسط طبقہ، متوسط طبقہ کو اپنی زندگی کی مشکل صورتحال سے پار کرنے کے لئے، اپنی اور رشتے داروں کی بیماری سے لڑنے میں مدد کرنے کے لئے کچھ نئی بنیاد دستیاب ہورہی ہیں۔اب سے تھوڑی دیر پہلے یہاں پر تقریباً 1700 کروڑ کے نئے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ا س سے دہلی میں موجود ملک کے دو بڑے اسپتالوں، ایمس اور صفدرجنگ اسپتال میں تقریباً 1800 سے زیادہ بستروں کی نئی گنجائش کا راستہ کھلا ہے۔ دوستو! ایمس پر بڑھتے دباؤ کے مدنظر دہلی میں اس کے سبھی کیمپسوں کی صلاحیت کو بڑھایا جارہا ہے۔ آج تین سو کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے معمر افراد کے لئےنیشنل سینٹر کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔یہ سینٹر دو سو بستروں کا ہوگا۔ آنے والے ڈیڑھ دو سالوں میں اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یہاں سینئر شہریوں کے لئے تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ اس میں ضعیفی، سائنس کی تحقیق کا مرکز بھی ہوگا۔ جہاں ضعیفی سے جڑے مسائل کو لے کر تحقیق کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ صفدرجنگ اسپتال میں بھی تیرہ سو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم خرچ کرکے اسپتال میں سہولتوں کو اور جدید بنانے کا کام ہوا ہے۔اسی کے تحت یہاں ایک ایمرجنسی بلاک پر ایک سپر اسپیشلٹی بلاک کی خدمات کو ملک کے نام وقف کیا گیا ہے۔صرف میڈیکل ایمرجنسی کے لئے پانچ سو بستروں کی نئی گنجائش کے ساتھ صفدرجنگ اسپتال ملک کا سب سے بڑا ایمرجنسی کیئر اسپتال بن جائے گا۔ ساتھیو! آج جن پانچ پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس میں سے ایک پاور گرڈ وشرام سدن بھی ہے۔ سرکاری دائرہ کار کی صنعتوں اور سماج کے تئیں ان کی ذمہ داری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔اس سے نہ صرف مریضوں کو بلکہ ان کی دیکھ ریکھ کرنے والوں کو بھی بڑی راحت مل رہی ہے۔ ساتھیو! وقت پر صحیح علاج زندگی بچانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ لیکن دہلی کا ٹریفک کئی بار اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ خصوصی طور پر ایمس کے الگ الگ سینٹر اور کیمپس کے بیچ مریضوں اور ڈاکٹروں کی آمدورفت کو لے کر پہلے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ایمس کی اصل عمارت اور جے پرکاش نارائن ٹراما سینٹر کے بیچ یہ مسائل بھی اب حل ہوگئے ہے۔ تقریباً ایک کلو میٹرطویل زیر زمین سرنگ کا بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ا س سرنگ سے مر یضوں، ان کے رشتے داروں، ڈاکٹروں اور ضروری دواؤں کی بغیر رکاوٹ آمدورفت یقینی ہوئی ہے۔ ساتھیو! بھارت جیسے ہمارے عظیم، ترقی پذیر ملک کے لئے سستی، آسان، محفوظ اور جدید صحت خدمات فراہم کرناکتنی بڑ ی ذمہ داری ہے اس سے آپ اچھی طرح سے واقف ہیں۔گزشتہ چار سالوں میں عوامی حفظان صحت کو لے کر ملک کو ایک نئی سمت دی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے یکے بعد دیگرے پالیسی انٹروینشن سے ہم اس صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو بہتر صحت خدمات کے لئےبھٹکنا نہ پڑے، غیر ضروری خرچ نہ کرنا پڑے۔ ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت ملک بھر میں صحت خدمات سے منسلک جدید بنیادی ڈھانچہ کھڑا کررہی ہے۔ یہ سرکار کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں اسپتالوں میں بچوں کو جنم دینے کا رواج بڑھا ہے۔حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کی مسلسل جانچ، ٹیکہ کاری میں پانچ نئی ویکسین جڑنے سے ماں اور بچے کی شرح اموات میں بے مثال کمی آئی ہے۔ ان کوششوں کی عالمی ایجنسیوں نے بھی ستائش کی ہے۔ ساتھیو! حکومت کی کوشش ہے کہ بڑے شہرو�� کے آس پاس صحت کا جو بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے اس کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ہی سہولتیں ٹیئر۔ 2 اور ٹیئر۔3 شہروں تک پہنچائی جائیں۔اس کے لئے حکومت دو سطح پر کام کررہی ہیں۔ ایک تو جو ہمارے موجودہ اسپتال ہیں ان کو اور جدید سہولتوں سے لیس کیا جارہا ہے اور دوسرا، ملک کے دور دراز والے علاقوں میں صحت سہولتوں کو پہنچایا جارہا ہے۔ ساتھیو! آزادی کے 70 برسوں میں جتنے ایمس منظور کئے گئے یا بنائے گئے ہیں اس سے زیادہ گزشتہ چار برسوں میں منظور کئے گئے ہیں۔ ملک میں 13 نئے ایمس کا اعلان کیا گیا ہے جس میں سے آٹھ پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں 15میڈیکل کالج میں سپر اسپیشلٹی اسپتالوں کا تعمیراتی کام رفتار پر ہے۔ ساتھیو! نیو انڈیا کے لئے ایک ایسے صحت نظام کی تشکیل کی جارہی ہے جہاں عمدہ اور کافی اسپتال ہوں، زیادہ بستر ہوں، بہتر سہولت ہوں اور جہاں سینئر ڈاکٹر اور ان کی ٹیم ہو۔ اسی ہدف کو دھیان میں رکھتے ہوئے میڈیکل ایجوکیشن میں بھی نئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔ ہماری حکومت 58 اضلاع میں اسپتالوں کو میڈیکل کالج کے طور پر اپ گریڈ کرنے کا کام کررہی ہے۔ اس بجٹ میں ہی حکومت نے 24 نئے میڈیکل کالج بنانے کاا علان کیا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ تین لوک سبھا سیٹوں پر کم از کم ایک میڈیکل کالج ضرور ہو۔ان چار سالوں میں ملک بھر میں میڈیکل کی تقریباً 25 ہزار انڈر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ کی نئی سیٹیں جوڑی گئی ہیں۔ حکومت نے داخلہ پروسیس کو بھی مزید شفاف بنانے کا کام کیا ہے۔ ساتھیو! اس حکومت کا ویژن صرف ا سپتال، بیماری اور دوا اور جدید سہولتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم خرچ پر ملک کے ہر شخص کے لئے علاج یقینی ہو، لوگوں کو بیمار بنانے والے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش ہو، اسی سوچ کے ساتھ قومی صحت پالیسی کی تشکیل کی گئی ہے۔ ہماری حکومت نے صحت خدمات کو صحت وزارت کے دائرے سے باہر نکالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ہمارے صحت کے ویژن کے ساتھ آج دیہی ترقی کی وزارت بھی جڑی ہے۔ صفائی ستھرائی اور پینے کے پانی کی وزارت بھی جڑی ہے۔ خواتین اور بہبود اطفال کی وزارت کو بھی اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔حکومت کے ویژن میں بیماری اور غریبی کے درمیان جو تعلق ہے اسے دیکھتے ہوئے منصوبے بنائے گئے ہیں۔انہیں لاگو کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ غریبی کی بڑی وجہ بیماری بھی ہے اور اسی لئے بیماری کو روکنے کا مطلب غریبی کو بھی روکناہوتا ہے۔اسی سمت میں مسلسل کوششیں کی جارہی ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت بیت الخلاء کی تعمیر، مشن اندر دھنش کے تحت دور دراز والے علاقوں میں ٹیکہ کاری، راشٹریہ پوشن ابھیان اور آیوشمان بھارت جیسے متعدد اولوالعزم منصوبے غریب کی بیماری پر ہونے والے اخراجات کو کم کررہے ہیں۔کم خرچ پر حفظان صحت کو لے کر جتنی سنجیدگی سے ملک میں ابھی کام ہورہا ہے اتنا شاید پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قومی صحت تحفظ اسکیم یا آیوشمان بھارت بھی اسی سمت میں ایک اہم ترین کڑی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ یعنی ملک کی ہر بڑی پنچایت کے بیچ ا یک ہیلتھ اور ویلنس سینٹر قائم کرنے پر کام چل رہا ہے۔مستقبل میں ان سینٹروں میں ہی بیماری کی شناخت کے لئے ٹیسٹ اور علاج کی جدید سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی۔اس کا بہت بڑا فائدہ گاؤں اور قصبوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی ملنے جارہا ہے۔ وہیں سنگین بیماری کی صورت میں ملک کے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کو عمدہ اور پانچ لاکھ تک کا مفت علاج یقینی بن��نے پر کام چل رہا ہے۔ اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ ریاستوں کو جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نجی اسپتال سے منسلک لوگوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔ متعدد موضوعات میں سبھی حصے داروں کے ساتھ اتفاق رائے ہوچکا ہے اور بہت جلد ہی یہ دنیا کی سب سے بڑی، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم زمین پر اترنے والی ہے۔ ساتھیو! اس منصوبے کی وجہ سے آنے والے وقت میں ملک کے گاؤں اور چھوٹے قصبوں کے آس پاس اسپتالوں کا بڑا نیٹ ورک بننا یقینی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں نئے اسپتال بننا ہے۔ کیونکہ جب بیماری کاخرچ کوئی اور اٹھانے والا ہو تو بیمار اسپتال جانا پسند کرے گا اور بیمار اسپتال آنے کے بعد پیسہ کہیں سے ملنا یقینی ہے تو ا سپتال اور ڈاکٹر بھی سامنے سے کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وہیں ،ایک اور طرح سے ایک ایسے نظام کو فروع دیا جارہا ہے جو ملک میں ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، میڈیکل سیکٹر میں، ملک کے اندر بنیادی ڈھانچے کی ترقی یا صحت کے تئیں بیدار سماج کی شکل میں ہم ایک نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں اور اس سیکٹر میں روزگار کے مواقع تو بڑھنے ہی والے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ کتنے لوگوں کو کام کرناپڑتا ہے تب ایک ڈاکٹر کچھ کام کرپاتا ہے۔کتنے لوگوں کے لئے روزگار کا امکان ہے۔ہاں،جدید طبی خدمات کے لئے بڑے شہروں کی طرف آنے کی مجبوری بھی میں سمجھتا ہوں بہت حد تک کم ہوجائے گی۔ لوگوں کو اپنے گھر کے پاس ہی ساری سہولتیں ملیں گی۔ ساتھیوں، پچھلے چار برسوں میں قابل برداشت حفظان صحت کو لے کر جو بھی اسکیم سرکار نے چلائی، ان کا کتنا فائدہ عام آدمی کو ہورہا ہے، یہ جاننے کے لئے اس مہینے کی شروعات میں میں نے خود ملک بھر کے فیض حاصل کرنے والوں سے گفتگو کی۔ قریب تین لاکھ سینٹر ، اور میرا انداز ہے کہ 30-40 لاکھ لوگ میرے سامنے تھے، اس پر اور اس پوری بات چیت سے ایک بات جو نکل کر کے آئی، وہ یہ کہ نچلے اوسط درجے کے طبقے سے لے کر غریب افراد کے صحت کے خرچ میں آج بہت کمی آئی ہے۔ ساتھیوں اس کی وجہ آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ سرکار کے ذریعے قریب قریب 1100 ضروری دوائیوں کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے نظام کے دائرے میں لایا گیا ہےجس سے لوگوں کو لگ بھگ دوائی کے پیچھے جو خرچ ہوتا تھا ان خاندانوں کے لگ بھگ 10 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بچت ہوئی ہے۔ ایک سال میں 10 ہزار کروڑ روپے کی سیونگ- اور وہ بھی ایک اسکیم کا نتیجہ۔ ملک بھر میں 3600 سے زیادہ جن اوشدی کیندر کھولے جاچکے ہیں۔ ان کیندروں میں 700 سے زیادہ دوائیاں اور ڈیڑھ سو سے زیادہ سرجری کا سامان سستی قیمت پر دستیاب ہے۔ امرت اسٹور س میں بھی مل رہی 50 فیصد کم قیمت کی دواؤوں کا لگ بھگ 75-80 لاکھ مریض فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آج اسٹینٹس اور نی پلانٹ کی قیمت میں کمی سے دیش کے غریب اور اوسط طبقے کے لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ ان کی قیمت پہلے کے مقابلے لگ بھگ ایک تہائی ہوگئی ہے، تین گنا کم ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی جی ایس ٹی کے بعد بھی کئی دواؤں کی قیمت کم ہونے سے لوگوں کو بھی فائدہ ملا ہے۔ ملک کے لگ بھگ ہر ضلع میں ڈائلیسس سینٹر بنائے گئے ہیں۔ یہاں غریبوں کا مفت ڈائلیسس کیا جارہا ہے۔ اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ مریض اس کا فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پہلے جہاں غریب کو مفت ڈائلیسس کے لئے سو سو، دو سو کلو میٹر جانا پڑتا تھا اب اسے اپنے ہی ضلع میں یہ سہولت مل رہی ہے۔ جب تو وہ اتنا دور نہیں جاپاتا تھا تو دوسرے اسپتالوں میں پیسے خرچ کرکے ڈائلیسس کرواتا تھا۔ اب غریب کو مل رہی مفت ڈائلیسس سہولت سے ڈائلیسس کے ہر سیشن میں اسے تقریبا پندرہ سو سے 2000 روپے کی بچت ہورہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت تقریبا 25 لاکھ ڈائلیسس سیشن مفت کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ احتیاطی حٖفظان صحت کی صورت میں یوگ نے بھی نئے سرے سے اپنی پہچان قائم کی ہے۔ یوگیوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں لیکن آج پوری دنیا میں یوگ نے اپنے لئے جگہ بنالی ہے۔ اس کا ڈنکا بج گیا ہے۔ میں یہ تو کبھی نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھوگی کو یوگ، یوگی بنادے گا لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یوگ یوگی کو روگی ہونے سے بچاسکتا ہے۔ آج یوگ دنیا بھر میں عوامی تحریک بن رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے پوری دنیا میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگ دیوس منایا گیا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ، مجھے ایمس میں بھی ان دنوں یوگ کی کافی بیداری آئی ہے۔ سارے ڈاکٹر، دوست بھی یوگ کررہے تھے۔ مجھے اچھا لگا۔ ساتھیوں ملک کے ہر شہری تک صحت خدمات پہنچانا اس حکومت کا مقصد ہے لیکن آپ بھی سرگرم تعاو کے بغیر، آپ کے ساتھ کے بغیر ، یعنی پوری اس میڈیکل دنیا کے ساتھ کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ آج جب ملک نیو انڈیا کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو صحت کے سیکٹر سے جڑے لوگوں کو بھی اپنے لئے نئے عہد طے کرنا چاہئے۔ 2022 میں جب آزادی کے 75 سال ہوں گے، میں اگر میڈیکل پروفیشن میں ہوں، میں ڈاکٹر ہوں ، میں اور معاون ہوں ،2022 تک حفظان صحت سیکٹر میں میرا یہ عہد رہے گا ، جب آزادی کے 75 سال ہوں گے میں بھی اتنا کروں گا، یہ اس ملک میں ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ سرکار سال 2025 تک ملک کو ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ ٹی بی مریضو ں کے تغذیہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہر مہینے انہیں 500 روپے کی مالی مدد بھی دی جارہی ہے۔ ساتھیوں، دنیا کے دوسرے ملکوں نے خود کو ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے 2030 کا وقت طے کیا ہے۔ ہم ملک کو جلد سے جلد ٹی بی سے پا کرانے کے لئے ایک عہد کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ دنیا 2030 میں پورا کرنا چاہتی ہے، ہم 2025 میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا کی نظر بھارت پر ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکے گا؟ مجھے ملک کے میڈیکل سیکٹر پر بھروسہ ہے، اس کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ اس چیلنج پر پورے عہد کے ساتھ کام کرے گا اور ملک کو کامیاب کرکے رہیں گے، یہ میرا یقین ہے۔ ایسا ہی ایک اہم موضوع ہے ماں اور بچے کی موت کی شرح۔ جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ بھارت نےپچھلے چار برسوں میں اس معاملے پر کوئی اہم فروغ حاصل نہیں کیا ہے لیکن والدہ اور بچے کی شرح اموات کو کم سے کم کئے جانے کے لئے ہم سبھی کو مل کر اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے لئے وزیراعظم محفوظ زچگی ابھیان اور وزیراعظم ماتتر وندنا یوجنا اور راشٹریہ پوشن ابھیان کے تحت مشن موڈ میں کام چل رہا ہے۔ اس مشن کو اپنی زندگی کا مشن بناکر کام کیا جائے۔ عوامی تحری کی طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں جوڑا جائے تو یقینی طور پر جلد ہی اور بہتر نتائج ہم حاصل کرکے رہیں گے، اس یقین کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ ساتھیوں، آج ملک میں ایمانداری کا ایک ایسا ماحول بنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ قوم کی تعمیر کی اپنی ذمہ داری بڑھ چڑھ کر کے آگے بڑھ کر اٹھارہے ہیں، لوگوں میں یہ اعتماد بڑھا ہے کہ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں اس کا ایک ایک پیسہ ملک کی بھلائی کے لئے خرچ ہورہا ہے اور اس اعتماد کا نتیجہ سماج کی ہر سطح پر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آپ کو دھیان ہوگا میں نے جب لال قلعہ سے ملک کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ جو اہل ہیں، جو خرچ کرسکتے ہیں، ایسے لوگ گیس سبسڈی کیوں لیتے ہیں، چھوڑ دیجئے نا۔ اتنی سی بات میں نے کہی تھی اور میری اتنی سی بات کو اس دیش کے سوا سو کروڑ خاندانوں نے گیس سبسڈی چھوڑ دی۔ ورنہ ہمارے دیش میں ایسا ہی ماننے کو مان لیا جاتا ہے کہ بھئی کوئی چھوڑتا نہیں ایک بار ملا تو ملا اور سوبھاؤ ہے آپ جہاز میں جاتے ہوں گے بغل میں سیٹ خالی ہو، آپ کی سیٹ نہیں ہے، جہاز چلنے کو تیار ہے تو آپ نے موبائل فون رکھا، کتاب رکھی اور اتنے میں آخر میں کوئی آگیا اس سیٹ پر بیٹھنے والا، تو کیا ہوتا ہے؟ سیٹ آپ کی نہیں ہے، آپ تو اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں چھوڑنے کا دل نہیں کرتا، یہ کہاں سے آگیا، اس ذہنیت کے بیچ اس دیش کے 25 کروڑ خاندان ہیں ،25 کروڑ خاندانوں میں سے سوا سو کروڑ خاندان گیس سبسڈی صرف کہنے پر چھوڑ دے، مطلب ملک کی طاقت، دیش کا مزاج کیسا ہے، ہم اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ ایک اور بات میں بتانا چاہتا ہوں، اسی طرح پچھلے دنوں ریلوے کے ذریعے، آپ کو معلوم ہے جو سینئر سیٹیزن، جو ریلوے میں سفر کرتے ہیں، ان کو سبسڈی ملتی ہے، کنشیشن ملتا ہے اور میں نے بھی کبھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا کہ میں سوچ رہا تھا کروں نہ کروں، لیکن ریلوے نے اپنے فارم میں لکھ دیا کہ کیا آپ اپنی سبسڈی چھوڑنے کے لئے راضی ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا اور ہمارے اس ملک کی طاقت پہچاننا ہوگا ، صرف ریلوے کے ریزرویشن کے درخواست فارم میں اتنا لکھا گیا کہ کیا آپ اپنا سینئر سیٹیز کا فائدہ چھوڑنا چاہتے ہیں اور میں فخر سے کہہ رہا ہوں پچھلے 8-9 مہینے کے دوران 42 لاکھ بزرگ شہری مسافرو نے اپنی سبسڈی کا فائدہ نہیں لیا، چھوڑ دیا۔ یعنی ملک کے اندر کیا ماحول بنا ہے۔ ایسے ہی میں نے ایک بار ملک کے ڈاکٹروں سے اپیل کی تھی ، میں نے کہا تھا کہ مہینے میں ایک بار 9 تاریخ کو کوئی بھی غریب حاملہ خاتون آپ کے دروازے پر آتی ہے ، آپ خدمت کے جذبے سے مہینے میں ایک دن 9 تاریخ کو اس غریب ماں کو سمرپت کردیجئے۔ اس غریب کو چیک کیجئے، اس کی رہنمائی کیجئے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہزاروں ڈاکٹر بہت ہی خدمت کے جذبے سے آگے آئے۔ ان کے اپنے اسپتال کے باہر بورڈ لگادیا ہے اور 9 تاریخ کو وہاں مفت میں خدمت کی جاتی ہے۔ یہ جان کر حاملہ خواتین ان ڈاکٹروں کے پاس پہنچتی ہیں کروڑوں بہنوں کو اس کا فائدہ ملا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے اور ڈاکٹر دوست آگے آئیں۔ یہ ایک ایسا خدمت کا کام ہے ۔ کیونکہ ہم سب نے مل کر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ملک میں دو قدم آگے بڑھنا ہے۔ وزیراعظم محفوظ ماترتو ابھیان کے تحت اب تک ملک میں سوا کروڑ حاملہ خواتین کی جانچ ان ڈاکٹروں کے ذریعے ہوئی ہے، سوا کروڑ۔ میں اس مہم میں ان ڈاکٹر دوستوں کے تعاون کے لئے ہر میڈیکل پروفیشن کے لئے کام کرنے والے، ان سب کی ستائش کرتا ہوں اور میں چاہوں کہ اس بات کو آگے بڑھائیں۔ یہی خدمت کا جذبہ اس وقت قومی سوراج ابھیان کے دوران کیا جارہا ہے۔ ہم نے بھی ایک پروگرام کیا، آپ کو ذراکچھ چیزیں 24 گھنٹے چینل میں نہیں دکھائی دیتی ہیں نہ اخبار کی سرخیوں میں ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک گرام سوراج ابھیان کیا، ایک 17 ہزار سلیکٹ کئے، اس کے کچھ پیمانے تھے اور سات کام طے کئے ان سات کام کو وہاں 100 فیصد پورا کرنا ہے۔ اس میں ایک ٹیکہ کاری ہے ۔ اس ٹیکہ کاری کام کو ہم نے کامیابی کے ساتھ 17 ہزار گاؤوں میں پورا کیا۔ ابھی ہم نے طے کیا ہے کہ 15 اگست تک 115 جو ایسپیریشنل اضلاع ہم نے بنائیں ہیں، جو آج ریاست کی ایورج سے ہیں، اس کے بھی پیچھے ہے لیکن طاقتور ہیں۔ ان 115 ضلع کے اندر قریب 50 ہزار گاؤوں ہیں جہاں ملک کے قریب دیہی زندگی کی 40 فیصد آبادی اس جگہ پر رہتی ہے ان کے لئے بھی سات ایسے کام بتائے جو ہم نے سو فیصد پورے کرنے ہیں۔ اس میں بھی ایک ٹیکہ کاری ہے، یعنی ایک طرح سے صحت کے سیکٹر میں اور ملک میں ٹیکہ کے دائرے کو بڑھانے میں الگ الگ سیکٹروں سے جڑے ہوئے افراد نے جس طرح کا کام کیا ہے ، میں سمجھتاہوں وہ بھی قابل تعریف ہے۔ یہ آپ سبھی کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے کہ آج ملک کے ٹیکہ کارے کے بڑھنے کی رفتار 6 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 6 فیصد سننے کے بعد آپ کو زیادہ لگتا نہیں ہے6 فیصد لیکن پہلے ایک فیصد بھی نہیں ہوتا تھا۔ آپ کے اس عہد کی وجہ سے ملک مکمل ٹیکہ کاری کے ہدف کو حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملک میں ہر حاملہ خاتون اور بچے کو ٹیکہ لگانے کا عہد نئے بھارت کی تعمیر میں، صحت مند خاندان کی تشکیل میں بڑا رول ادا کرے گا۔ ساتھیوں صحت مند خاندان سے ہی صحت مند سماج اور صحت مند سماج سے ہی صحت مند قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہم سب پر اور خاص طور پر آپ پر ملک کو صحت مند رکھنے کی ذمہ داری ہے اور اس لئے صدر جمہوریہ بھی آپ کو قومی کی تعمیر کا ایک اہم ستون کہتے تھے۔آئیے سرکار کے ساتھ مل کر ’’سروے بھونتو سکھن: سروے سنتو نرامیا: ‘‘۔ آ ج یہاں اس تقریب میں جو سہولیات دہلی اور ملک کو ملی ہیں ان کے لئے ایک بار پھرمیں بہت بہت مبارک باد کے ساتھ شعبے کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے مقررہ وقت کے اندر ان سارے کاموں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کیونکہ میرا کہنا ہے کہ ہم انہیں کاموں کو ہاتھ لگائییں گے جس کو ہم پورا کرپائیں، ورنہ ہمارے دیش میں حال ایسا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر ریلوے بجٹ میں ایوان کا تقدس، ایوان میں کمٹمنٹ ہوتا، میں نے مارک کیا، بڑی بڑی دھیان میں میرے آیا ، قریب قریب 15سو چیزوں کا اعلان کیا گیا تھا، اکیلے ریلوے نے پچھلے 30 ،40 ،50 سال میں اور میں نے جب پوچھا کہاں ہے تو کاغذ پر بھی نہیں تھیں۔ زمین پر تو نہیں آئی، ہم اس راستے پر جانا نہیں چاہتے، ہم پتھر جڑنے کے لئے نہیں آئے جی، ہم ایک بدلاؤ کا عہد لے کر آئے ہیں اور آپ سب کا ساتھ مانگنے کے لئے آیئے ہیں، آپ کا ساتھ اور تعاون لے کر کے ملک کی امیدوں کو پورا کرنے کا ایک عہد لے کر چل پڑے ہیں۔ مجھے یقین ہے میرے ساتھیوں آپ بھی ہمیں تعاون دیں گے۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-و ا،ن ا- ق ر، رب),এইমছত বিভিন্ন প্ৰকল্পৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%92%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86-%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D9%85%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%84-%D9%84%DB%8C%DA%A9%DA%86%D8%B1-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AE-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3-%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%B2%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95-2/,"نمسکار! آج کا دن میرے لیے ناقابل تلافی نقصان اور ناقابل برداشت تکلیف کا دن ہے۔ میرے عزیز دوست اور جاپان کے سابق وزیر اعظم جناب شنزو آبے اب ہمارے درمیان نہیں رہے ہیں۔ آبے میرے تو ساتھی تھے ہی وہ بھارت کے بھی اتنے ہی قابل اعتماد دوست تھےان کے دور میں بھارت جاپان میں جو سیاسی تعلقات تھے اس سے نہ صرف ہمیں ایک نئی بلندی ملی بلکہ ہم نے دونوں ممالک کے مشترکہ ورثے سے جڑے تعلقات کو بھی خوب آگے بڑھایا۔ آج بھارت کی ترقی کی جو رفتار ہے ، جاپان کے تعاون سے ہمارے یہاں جو کام ہورہے ہیں، ان کے ذریعے شنزو ابے جی بھارت کے عوام کے ذہنوں میں برسوں برس بسے رہیں گے۔ میں ایک بار پھر دکھی من سے اپنے دوست کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج کا یہ اہتمام میرے ایک اور گہرے دوست ارون جیٹلی جی کو وقف ہے۔گزشتہ دنوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کی بہت ساری باتیں، ان سے جڑے بہت سے واقعات فطری طور پر یاد آتے ہیں۔ اور یہاں ان کے بہت سارے پرانے ساتھی میں دیکھ رہا ہوں۔ ان کے فن خطابت ہم سب قائل تھے اور ان کے ون لائنر لمبے عرصے تک فضا میں گونجتے رہتے تھے۔ ان کی شخصیت تنوع سے بھری تھی اور ان کا مزاج سب سے دوستی والا تھا۔یہ جنتے بھی سب لوگ نظر آتے ہیں، ہر ایک کی الگ الگ دنیا ہے لیکن سب ارون کے دوست تھے۔ یہ سب سے دوستی کی ارون کی خصوصیت تھی اور اس کی شخصیت کی اسی خوبی کو سبھی آج بھی یاد کرتے ہیں اور ہر کوئی ارون کی کمی محسوس کرتا ہے۔ میں ارون جیٹلی جی کو دلی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، ارون جی کی یاد میں اس لیکچر کا جو موضوع رکھا گیا ہے – گروتھ تھرو انکلوسی وٹی، انکلوسی وٹی تھرو گروتھ (ترقی کے ذریعے شمولیت، شمولیت کے ذریعے ترقی) وہ حکومت کی ترقیاتی پالیسی کا بنیادی منتر ہے۔ میں تھرمن جی کا خصوصی طور پر مشکور ہوں کہ انہوں نے ہماری دعوت قبول کوکیا اور میں نے ان کئی بات ان کو سنا بھی ہے، ان کو میں پڑھتا بھی رہتا ہوں، ان کی باتوں میں، ان مطالعہ میں، وہ صرف بھارت میں ہی بولتے ہیں، تب ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی جب جاتے ہیں، تو وہ کافی ریسرچ کرتے ہیں، لوکل ٹچ ان کی ہر اکیڈمک تھنکنگ میں، ان کی فلاسفی میں بہت موزوں طریقے سے، وہ اس کو نیٹ کرتے ، آج بھی ہم سب نے محسوس کیا۔ بہت ہی اچھے طریقے سے وہ عالمی صورت حال سے لیکر کے ہمارے ملک کے بچوں تک ہمیں لے آئے۔ میں ان کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے وقت نکالا۔ ساتھیو، جس موضوع پر یہ بحث چل رہی ہے، جس موضوع کو لے کر آج ارون جیٹلی کا لیکچر کا آغاز ہوا ہے، اگر میں اسے کو آسان زبان میں کہوں تو ایک طرح سے یہ تھیم اپنی سدیھی سادی زبان میں، میں کہوں گا، سب کا ساتھ-سب کا وکاس۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس لیکچر کی تھیم آج کے پالیسی میکرز کے سامنے آنے والے چیلنجوں اور تذبذب کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ میں آپ سبھی سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا بغیرشمولیت کے صحیح ترقی ممکن ہے؟ آپ اپنے آپ سے پوچھئے۔ کیا ترقی کے بغیر شمولیت کے بارے میں سوچ بھی جاسکتا ہے کیا ؟ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے مجھے 20 سال سے بھی زیادہ مدت کام کرنے کا موقع ملا ہے اور میرے تجربات کا بچوڑ یہی ہے کہ – بغیر شمولیت کے حقیقی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ اور بغیر ترقی کے شمولیت کا مقصد بھی پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس لئے ، ہم نے شمولیت کے ذریعہ ترقی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ سب کی شمولیت کی کوشش کی۔ پچھلے 8 برسوں میں بھارت نے شمولیت کے لئے جس رفتار کے ساتھ کام کیا ہے، جس پیمانے پر کام کیا ہے، ویسی مچال پوری دنیا میں آپ کو کبھی بھی نہیں ملے گی۔ پچھلے آٹھ برسوں میں بھارت نے 9 کروڑ سے زیادہ خواتین کو مفت گیس کنکشن دیے ہیں۔ یہ تعداد ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، سنگاپور، نیوزی لینڈ ان کی پوری آبادی کو بھی شامل کرلیں تو بھی یہ اس سے زیادہ ہے۔ یعنی آپ اسکیل دیکھئے، پچھلے آٹھ برسوں میں بھارت نے 10 کروڑ سے زیادہ ٹوائلیٹ بنا کر غریبوں کو دیے ہیں۔ تھرمن جی نے اس کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کیا۔ یہ تعداد جنوبی کوریا کی کل آبادی کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پچھلے آٹھ برسوں میں، بھارت نے 45 کروڑ سے زیادہ جن دھن بینک کھاتے کھولے ہیں۔ یہ ت��داد بھی جاپان، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، میکسیکو کی ان کی کل آبادی کے تقریباً برابر ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں بھارت نے غریبوں کو 3 کروڑ پکے گھر بناکر دئیے ہیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں آپ ہی کی وزرا کونسل کے ایک ساتھی ایشورن سے بات ہورہی تھی ، سنگاپور کے منسٹر ، جب میں ان کو یہ اسکیل بتاتا تھا، ہاں اسی کا، تو ایشورن نے مجھے کہا کہ تو آپ کو ہر مہینے ایک نیا سنگاپور بنانا پڑے گا۔ میں آپ کوگروتھ تھرو انکلوسی وٹی، انکلوسی تھرو گروتھ کی ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں، بھارت میں کچھ سال پہلے ہم نے آیوشمان بھارت یوجنا شروع کی تھی۔ جس کا ذکر تھرمن جی نے کیا اور آنے والے اہم شعبے میں انہوں نے صحت کے شعبے کی چرچہ بھی کی ہے۔ اس یوجنا کی وجہ سے 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کواچھےسے اچھے اسپتال میں اور بھارت میں کہیں بھی 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج ملنا یقینی ہوا ہے۔ 50 کروڑ لوگوں کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج۔ پچھلے چار سالوں میں آیوشمان بھارت کی وجہ سے ملک کے ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے اپنا مفت علاج کرایاہے۔ ہم نے اس اسکیم میں شمولیت پر فوکس کیا، غریب سے غریب جو ہیں، آخر کی لائن میں بیٹھا ہوا ہے، اس کو بھی صحت کے بارے میں اچھی سے اچھی سہولت ملے، اور وقت کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ وہ پہلو انکلوژن کا ہے لیکن وقت نے یہ بتایا ہے اس سے گروتھ کا راستہ بھی بنتا چلا گیا۔ جو پہلے ایکس کلوڈیڈ تھے، وہ ترقی کے اہم دھارے میں شامل ہوئے، تو مانگ بھی بڑھی اور ترقی کے لے مواقع کی بھی توسیع ہوئی۔ جب بھارت کی ایک تہائی آبادی، جو پہلے بہتر ہیلتھ کیئر کی سہولیات سے دور تھی، اسے علاج کی سہولت لی ، تو اس کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ ہیلتھ کیئر کی صلاحیت کو اسی حساب سے خود کو مضبوط کرنا پڑا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آیوشمان بھارت یوجنا کی وجہ سے کیسے پورے ہیلتھ کیئر شعبے کی کایا پلٹ ہوئی ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں اوسطاً تھا، 10 سال میں قریب 50 میڈیکل کالج بنا کرتے تھے۔ جبکہ بھارت میں پچھلے 7-8 سالوں میں پہلے کے مقابلے میں 4 گنا سے زیادہ یعنی تقریباً 209 نئے میڈیکل کالج بنائے گئے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہاں 50 اور کہاں 209، اور آنے والے ابھی 10 سال جب حساب لگاؤ گا تو وہ اور آگے بڑھنے والا ہے، وہ 400 تک پہنچنے والا ہے۔ پچھلے 7-8 سالوں میں بھارت میں انڈر گریجویٹ میڈیکل سیٹوں میں 75 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب بھارت میں سالانہ مجموعی میڈیکل سیٹوں کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ یعنی اب ملک کو کہیں زیادہ ڈاکٹر مل رہے ہیں، ملک میں تیزی سےے جدید میڈیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ شمولیت کے لئے لائی گئی ایک اسکیم کا زمین پر ترقی کے نقطہ نظر سے بھی اتنا بڑ ا اثر ہم بالکل دیکھ سکتے ہیں ۔ ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور میں آپ کو اس طرح کے درجنوں اسکیمیں گنا سکتا ہوں۔ بھارت کی ڈیجیٹل انڈیا مہم، جس کا ذکر ابھی تھرمن جی نے کیا ، تقریباً 5 لاکھ کامن سروس سینٹروں نے گاؤں میں رہنے والے غریب تک بھی انٹرنیٹ کی طاقت کو پہنچایا ہے۔ بھارت کے بھیم یو پی آئی نے کروڑوں غریبوں کو ڈیجیٹل ادائیگی کی سہولت سے جوڑ ا ہے۔ بھارت کی سوانیدھی یوجنا نےرہڑی پٹری والے ساتھیوں کو بینکنگ سسٹم سے جڑنے کا موقع دیا ہے، جو ہمارے نگر پالیکا میں، مہا نگر پالیکا میں جو رہڑی پٹری والے ہوتے ہیں ، جن کے ساتھ ہمارا روز کا ناطہ ہوتا ہے۔ بینک منیجر ہوگا، اس کے گھر میں روز رہڑی پٹری والا مال دیتا ہوگا لیکن اس کو بینک میں جگہ نہیں ہوگی، یہ حال تھا، آج ہم نے اس کو جوڑ دیا ہے۔ اسی طرح سے بھارت نے ایک بہت اچھا کام کیا ہے، دنیا اس پر کافی کچھ ان دنو جو جو ماہرین اقتصادیات ہیں، وہ لکھ بھی لکھ رہے ہیں، بڑی بڑی ایجنسیاں اسے ریٹنگ بھی کررہی ہیں۔ بھارت کی ایک پہل ہے خواہش مند اضلاع کا پروگرام ، ملک کے 100 سے زیادہ اضلاع میں رہنے والے کروڑوں ساتھیوں کو اپ لفٹ کررہا ہے۔ اور یہ خواہش مند ضلع کا تصور یہ ہے کہ بھارت کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کی توقعات کو ہم پورا کریں۔ ان کو اس ریاست کی ٹاپ برابر تک لے آئیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کو نیشنل ٹاپ کی برابر تک لے آئیں۔ ساتھیو، اس کا اتنا بڑا مثبت اثر ہوا ہے اور ایک طرح سے ان 100 اضلاع کا انکلوژن ہورہا ہے، ترقی کی دنیا میں۔ بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اور تعلیم پر بھی تھرمن جی نے کافی زور دیا، اپنی بات چیت میں، بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی مادری زبان میں پڑھائی پر زور دے رہی ہے جو انگریزی نہیں جاتا ہے، جو ایکس کلوڈیڈ ہے، اسے اب مادری زبان میں پڑھ کر آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ بھارت کی اڑان یوجنا، اس ملک کی ہم نے کئی ہوائی پٹیوں کو زند ہ کیا ہے، نئے ہوائی اڈے بنائے ہیں، دور دور ٹیئر2 ٹیئر 3 سٹی میں بھی چلے گئے ہیں۔ اور اڑان یوجنا لائےطے شدہ رقم میں ہوائی جہاز میں سفر کی ایک تخلیق کی۔ بھارت کی اڑان یوجنا نے ملک کے الگ الگ کونوں کو ہوائی راستے سے جوڑا ہے، غریب کو بھی ہوائی جہاز میں اڑنے کی حوصلہ دیا ہے۔ اور میں کہتا تھا کہ ہوئی چپل پہننے والا بھی اب ہوائی جہاز میں بیٹھے گا۔ یعنی انکلوژن بھی ہو رہا ہے، ترقی بھی ہو رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے۔ آج بھارت میں ایوی ایشن کے شعبہ کی اتنی ترقی ہورہی ہے، ایک ہزار سے زیادہ ایئر کرافٹ بک ہو ہوئے ہیں بھارت کے لئے ۔ اس ملک میں ایک ہزار سے زیادہ نئے ایئر کرافٹ خریدنا کیونکہ پیسنجر والے انکلوژن کا ہمرا اپروچ رہا، اسی کا نتیجہ ہے۔ ابھی تھرمن جی نے جس کی بات کی، جو میں نے گجرات میں، جس کو بہت اہمیت دیتے ہوئے کام کیا تھا جل جیون مشن ملک کے ہر گھر کو پائپ سے پانی کی سپلائی سے جوڑ رہا ہے، نل سے جل اور صرف وہ پانی ملتا ہی نہیں وہ اس کا وقت بچاتا ہے، مشکلوں سے بچاتا ہے، ہیلتھی کنڈیشن سے پانی کا بہت بڑا رول رہتا ہے۔ اس نظریئے سے یہ مشن بہت بڑی سماجی زندگی ہے اور جنہوں نے بچوں کے تغذیئے کی بات کی ، اس کا تعلق پانی سے بھی ہے۔ پینے کا صاف پانی یہ بھی تغذیئےکے لئے بچوں کے لیے اہم موضوع ہے اور ہمارا نل سے جل ابھیان اس مسئلے کو بھی حل کرنے کے بڑے مہا ابھیان کا ایک حصہ ہے۔ صرف تین سال میں ہی اس مشن نے 6 کروڑ سے زیادہ گھروں کو پانی کے کنکشن سے جوڑا ہے۔ بھارت میں موٹ طور پر حساب لگائیں تو 25 سے 27 کروڑ گھر ہیں ان میں سے 6 کروڑ گھروں کو پانی پہنچا دیا ہے جی۔ یہ شمولیت آج ملک کے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنا رہی ہے، اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہی ہے۔ اور کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کی کتنی اہمیت ہوتی ہے، یہ آپ معاشی دنیا کے لوگ جو یہاںں بیٹھے ہیں وہ اچھی طرح اس بات کو جانتے ہیں۔ میں آپ کو ایک اور مثال دوں گا۔ آپ بھی جانتے ہیں اور یہ تو میں نے دیکھا ہے کہ یو این میں بھی اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ایس پی جی میں بھی اس کے ترقیاتی مقاصد کے ان معاملات پر بحث ہوتی ہے اور وہ کیا ہے دنیا میں دہائیوں سے کئی ممالک میں پراپرٹی کے حقوق یہ بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اور جب پراپرٹی کے حقوق کی بات کرتے ہیں تب سمجھ کےجو آخری لوگ ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مصیبتیں انہیں جھیلنی پڑتی ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر کے خوشی ہوگی کہ بھارت نے جس رفتار سے اس سمت میں کام کیا ہے وہ بے مثال ہے اور میں مانتا ہوں کے دنیا کے اکیڈمیشین ، دنیا کے ماہرین اکنومسٹ اس موضوع کا مطالعہ کرکے اس موضوع کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے کہ سوامتو یوجنا کے ذریعہ سے ملک کے دیہی علاقوں میں گھروں اور عمارتوں کی میپنگ کا کام بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ ابھی تک بھارت کے ڈیڑھ لاکھ گاؤوں میں ہم یہ کام ڈرون کی مدد سے کرتے ہیں۔ ڈرون سے سروے ہوتا ہے اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ہوتا ہے اور پورا گاؤں وہاں موجود رہتا ہے، یہ سارا پروسیس ہوتا تب، اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاؤں میں ڈرون سے یہ سروے مکمل کیا جاچکا ہے۔ اور 37 ہزار مربع کلومیٹر زمین کی میپنگ کا کام کیا جا چکا ہے، مطلب ان گھروں سے جڑوی ہوئی زمین والا اور 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لئے پراپرٹی کارڈ بنائے جاچکے ہیں اور یہ بھی جو مالک ہے اس کی رضامندی سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ صلاح و مشورہ ہوتا ہے، اس کے آس پاس کے لوگوں سے صلاح مشورہ ہوتا ہے، ایک طویل عمل ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے گاؤں کے لوگوں کو بینکوں سے قرض ملنا آسان ہو ا ہے، ان کی زمین اب قانونی تنازعات سے بھی بچ رہی ہے۔ ساتھیو، آج کا بھارت مجبوری میں اصلاحات کے بجائے ارادے کے ساتھ اصلاحات سے آنے والے 25 سالوں کا روڈ میپ تیار کر رہا ہے۔ جب ملک آزادی کے 100 سال منائے، تب ملک کہاں ہوگا، اس ہدف کو لیکر آج ہم روڈ میپ تیار کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ دہائیوں پہلے، ملک نے دیکھا کہ جب کوئی ریفارم مجبوری میں ہوتا ہے، تو اس کے ادارہ جاتی ہونے کی امید کم ہی رہتی ہے۔ جیسے ہی مجبوری ختم ہوتی ہے، ویسے ریفارم بھی فراموش کردیا جاتا ہے۔ ریفارم جنتے ضروری ہوتے ہیں، اتنا ہی ضروری وہ ماحول ہوتا ہے، تحریک ہوتی ہے۔ پہلے بھارت میں بڑے ریفارمز تبھی ہوئے جب پہلے کی حکومتوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا تھا۔ ہم ریفارمس کو ضروری برائی کی شکل میں نہیں بلکہ ایک ون ون چوائز کے روپ میں مانتے ہیں، جس میں ملک کا مفاد بھی ہے، عوامی مفاد بھی ہے۔ اس لیے گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے جو بھی ریفارم کئے ، انہوں نے نئے ریفارمز کے لئے راستے تیار کئے ہیں۔ ارون جی آج جہاں بھی ہوں گے، وہ مطمئن ہوں گے کہ وہ جس مشن میں حصے دار رہے اس کا فائدہ آج ملک کو مل رہا ہے۔ جی ایس ٹی ہو یا آئی بی سی، ان کو لیکر برسوں تک چرچہ ہوئی، آج ان کی کامیابی ہمارے سامنے ہے۔ کمپنیز ایکٹ کو ڈی کریملائز کرنا ہو، کارپوریٹ ٹیکسز کو کمپیٹیٹیو بنانا ہو، خلا، کوئلے کی کان کنی اور جوایٹمی شعبوں کو کھولنا ہو، ایسے کئی ریفارم آج 21ویں صدی کے بھارت کی حقیقت ہیں۔ ساتھیو، ہماری پالیسی سازی پلس آف دی پیپل پر مبنی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی بات سنتے ہیں، ان کی ضرورت، ان کی توقتات کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے پالیسی کو عوامی مقبولیت کے دباؤ میں نہیں آنے دیا۔ عوام کی پلس کے فیصلہ لینا اور پاپولزم کے سامنے ہتھیار ڈال دینے میں کیا فرق ہے، یہ کووڈ کے دور میں بھارت نے دیکھا ہے، اور دیکھا ہی نہیں ، دنیا کو دکھایا ہے۔ بڑے بڑے ماہرین معاشیات کیا کہہ رہے تھے عالمی وبا کے وقت، جب عالمی وبا آئی، تو پوری دنیا میں بڑے بیل آؤٹ پیکجوں کے لئے ، مانگ کے مطابق نی ری کوری کے لیے ایک پاپولسٹ امپلس تھا، ہم پر بھی دباؤ تھا اور ہماری تنقید ہوتی تھی۔ وہ کچھ نہیں کر رہے، یہ کچھ دیکھ نہیں رہے ہیں، پتہ نہیں کیا کچھ ہمارے لئے کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ لوگ یہ چاہتے ہیں،ایکسپرٹ یہ چاہتے ہیں، بڑے بڑے عالم یہ چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت دباؤ میں نہیں آیا، اس نے ایک الگ اپروچ اپنائی اور بہت سمجھ داری کے ساتھ پرسکون ذہن سے اپنائی۔ ہم نےپیپل فرسٹ اپروچ کے ساتھ غریب کو تحفظ دیا، خواتین، کسانوں، ایم ایس ایم ایز پر توجہ دی، ہم دنیا سے الگ اس لیے کرپائےکیونکہ ہمیں عوام کی پلس یعنی کیا چاہتے ہیں ان کی کیا فکر ہے۔ اس کا احساس ہے۔ اس لئے بھارت کی ری کوری اور باقی دنیا کی ری کوری ممیں جو فرق ہے وہ ہم ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ ساتھیو، میں اکثر کم از کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ حکمرانی کی اپیل کرتا رہا ہوں۔ ہماری حکومت نے ایسے ڈیڑھ ہزار قوانین کو ختم کر دیا ہے، جو لوگوں کی زندگیوں میں غیر ضروری مداخلت کر رہے تھے۔ اور مجھے یاد ہے 2013 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے مجھے وزیر اعظم کا امیدوار بنایا تھا، 2014 میں الیکشن ہونا تھا، یہی دہلی میں ہی کاروباری دنیا کے لوگوں نے مجھے پروگرام کے لیے بلایا تھا اور وہ بڑے گرم مزاج کا ماحول تھا۔ کیا کرو گے، کتنا کرو گے فلاں کام کروگے، یہ سب پوچھ رہے تھے کہ یہ قانون بناؤ گے ، نہیں قانون بناؤگت ایسا بڑا دباؤ تھا، چناؤ کا دن تھا تو ہم بھی ذرا ۔ میں نے کہا دیکھئے آپ قانون بنانا چاہتے ہیں، میں آپ سے ایک وعدہ کرتا ہوں، میں ہر روز ایک قانون ختم کروں گا، میں نئے بنانے کی گارنٹی نہیں دیتا ہو، ختم کروں گا۔ اور پہلے 5 برسوں میں ڈیڑھ ہزار قوانین کو ختم کرنے کا کام کردیا ساتھیو، جو عوام پر بوجھ بن گئے تھے۔ ساتھیو، آپ کو جان کر خوشی ہوگی، ہماری حکومت نے 30 ہزار سے زیادہ یعنی اعداد و شمار پر بھی آپ حیران ہوں گے، جی 30 ہزار سے زیادہ ایسے کمپلائنسز کو بھی کم کردیا ہے جو کاروبار کرنے میں آسانی اور زندگی گزارنے میں آسانی میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ 30,000 کمپلائنسز کو ختم کر دینا یعنی عوام پر کتنے غٰر معمولی اعتماد کا دور آیا ہے، اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ہم کمپلائنسز کے بوجھ سے عوام کو آزاد کر رہے ہیں۔ اور میں نے لال قلعہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ حکومت لوگوں کی زندگیوں سے جتنی باہر چلی جائے ہمیں نکالنی ہے۔ لوگوں کی زندگیوں میں حکومت، حکومت، حکومت کا اثر کم سے کم ہو، لیکن جس کو حکومت کی ضرورت ہے اس کو حکومت کی کمی نہ ہو، یہ دونوں موضوعات لے کر ہم نے چلنے کی کوشش کی ہے۔ آج مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت اطمینان ہورہا ہے کہ کم سے کم حکومت کا نظریہ زیادہ سے زیادہ نتائج بھی دے رہا ہے۔ ہم بہت تیزی کے ساتھ اپنی صلاحیت کی توسیع کر رہے ہیں اور اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ کووڈ ویکسین کی ہی مثال لیں۔ ہمارے ملک کے پرائیویٹ پلیئرز نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے۔ لیکن ان کے پیچھے پارٹنر ان پروگریس کی شکل میں حکومت پوری طاقت سے کھڑی تھی۔ وائرس آئسولیشن سے لے کر اسپیڈی ٹرائل تک، فنڈنگ سے لے کر ریپڈ رول آؤٹ تک، جو کمپنیاں ویکسین تیار کر رہی تھیں انہیں حکومت کی طرف سے مکمل تعاون حاصل رہا۔ ایک اور مثال ہمارے خلائی ایکو سسٹم نظام کی ہے۔ آج بھارت پوری دنیا میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اور جدید ترین اسیس سروس پرووائڈرز میں سے ایک ہے۔اس میدان میں بھی ہمارا پرائیویٹ سیکٹر ایکو سسٹم بہت ہی بہترین کام کر رہا ہے۔ لیکن ان کے پیچھے بھی پارٹنر اِن پروگریس کی شکل میں حکومت کی پوری طاقت ہے جو انہیں ہر سہولت اور معلومات د��تیاب کرانے میں ان کی مدد کر رہی ہے۔ جب ہم بھارت کی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ایکو سسٹم کی مثال لیتے ہیں تو ہمارے یہاں فن ٹیک کے ساتھ ہی ڈیجیٹل ادائیگیوں سے جڑےکئی بڑے پلیئرس ہیں۔ لیکن یہاں بھی دیکھیں تو ان کے پیچھے جیم ٹرینٹی روپے، یو پی آئی اور معاون پالیسیوں کی مضبوط بنیاد ہے۔ یہاں میں نے صرف چند مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ لیکن میں انہیں دنیا کے لیے ایک تحقیق کا موضوع سمجھتا ہوں، اکیڈمک ورلڈ کو گہرائی میں جانے کے لیے زور دیتا ہوں، میں پوری دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات کو مدعو کرتا ہوں، آئیے اس کی باریکیوں کو دیکھئے۔ اس بڑے ملک کی متعدد مختلف النوع ضروریات کے باوجود ہم کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھیں تو اب صرف پرائیویٹ سیکٹر یا سرکاری غلبے والے انتہائی ماڈلوں کی باتیں اب پرانی ہوچکی ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو پارٹنر ان پروگریس مان کر ان کی حوصلہ افزائی کرے اور ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ساتھیو، سب کو ساتھ لے کر چلنے ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ دونوں شعبوں پر بھروسہ کرنے کا یہی جذبہ ہے، جس کی وجہ سے آج بھارت میں ترقی کے لیے حیرت انگیز جوش دکھا رہا ہے۔ آج ہماری برآمدات نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ سروس سیکٹر بھی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پی ایل آئی اسکیموں کا اثر مینوفیکچرنگ سیکٹر پر نظر آنے لگا ہے۔ موبائل فون سمیت پورے الیکٹرانک مینوفیکچرنگ سیکٹر میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب میں نے اس کورونا کے دور میں کھلونوں کو لیکر سمٹ کی تھی کھلونوں ،تو کئی لوگوں کو یہ محسوس ہوا ہوگا کہ پی ایم کبھی جھاڑو کی بات کرتا ہے، صفائی ستھرائی کی بات کرتا ہے، ٹوائلٹ کی بات کرتا ہے اور اب وہ کھلونوں کی بات کررہا ہے ۔ کئی لوگوں کو کیونکہ اب تک وہ ان بڑی باتوں میں پھنسے رہے ہیں، تو میری باتیں ان گے بیٹھتی نہیں تھیں۔ صرف کھلونوں پر میں نے دھیان دیا ، کھلونے بنانے والوں پر ، میں نے توجہ مرکوز کی۔ ٹیکنالوجی پر توجہ دی، اختراع پر توجہ دی، مالیاتی شعبے پر توجہ دی، ابھی تو 2 سال پورے نہیں ہوئے ہیں، میرے اہل وطن فخر کریں گے کہ کھلونو کا امپورٹ اتنی کم مدت میں اتنا گھٹ گیا، ورنہ ہمارے گھر گھر میں کھلونا غیر ملکی ہوا کرتا تھا۔ درآمدات میں اتنی کمی آئی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بھارت کے کھلونے بھارت کے ٹوائز پہلے جتنا امپورٹ ہوتا تھا اس سے زیادہ آج ایکسپورٹ ہونے لگے ہیں۔ یعنی کتنا بڑا پوٹینشیل، جس کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا، جیسے آپ نے کہا کہ سیاحت، میں آپ سے متفق ہوں، بھارت میں سیاحت کے امکانات اتنے زیادہ ہیں لیکن ہم ایک ہی جگہ پر اٹک گئے تھے، ہندوستان کو مکمل شکل میں دنیا کے سامنےلے جانے کا ہم نے ، پتہ نہیں ہماری ذہنیت ہی ہوچکی تھی اور میں تو بیرونی ممالک کے مہمان جو بھی آتے ہیں ان سے بھارت کے کسی نہ کسی مقام پر جانے کا اصرار کرتا ہوں ، شاید میری سیاحت کو ، اس بار ہم نے یوگا کا پروگرام کیا اور 75 آئیکونک مقامات پر کیا کہ پتہ چلے کے ٹورزم کے ایسے ایسے مقامات ہیں ہمارے یہاں ٹورازم کے امکانات، آپ نےصحیح فرمایا پوری دنیا کے لیےدل کشی کا بہت بڑا مرکز بن سکتا ہے بھارت۔ ساتھیو، ہماری ڈیجیٹل معیشت بھی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ فزیکل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر ریکارڈ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ یعنی ہمارے گروتھ انجن سے جڑا ہر شعبہ آج پوری صلاحیت کے ساتھ چل رہا ہے۔ ساتھیو، آزادی کا یہ امرت کال بھارت کے لیے بے شمار نئے مواقع لے ک�� آ رہا ہے۔ ہمارا ارادہ پکا ہے، ہمارا ارادہ اٹل ہے۔ مجھے یقین ہے، ہم اپنے عزائم کو پورا کریں گے، 21ویں صدی میں وہ بلندی حاصل کریں گے جس کا بھارت مستحق ہے۔ اور جیسا کہ تھرمن جی کچھ چیلنجز کے لیے بتا رہے تھے، میں مانتا ہوں کہ چیلنجز ہیں لیکن اگر چیلنج ہیں تو 130 کروڑ سولیوشن بھی ہیں، یہ میرا یقین ہے اور اس یقین کو لے کر، چیلنجوں کو ہی چیلنج دے کر آگے بڑھنے کا عزم لے کر چل رہے ہیں اور اس لیے ہم نے انکلوژن کا راستہ لیا ہے اور اسی راستے سے گروتھ کو بھی پانے کا ارادہ رکھا ہے۔ ایک بار پھر ارون جی کو یاد کرتے ہوئے میں نے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ تھرمن جی کو خاص طور پر مبارکب باد دیتا ہوں۔ میں آپ سب کا بھی تہہ دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔",প্ৰথম ‘অৰুণ জেটলী স্মাৰক বক্তৃতা’ অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%90%D9%84%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82%D8%A7%D9%84-%D9%BE%D8%B1-%D8%AA%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8B%E0%A6%95-%E0%A6%AA/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے معروف ماہر تعلیم اور سماجی کارکن محترمہ اِلابین بھٹ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے خواتین کو بااختیار بنانے، سماجی خدمت اور نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کو یاد کیا۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا: “ઇલાબેન ભટ્ટના અવસાનથી દુઃખ થયું. મહિલા સશક્તિકરણ, સમાજ સેવા અને યુવાનોમાં શિક્ષણને આગળ વધારવા માટેના પ્રયાસો માટે તેઓને દીર્ઘકાળ સુધી યાદ રાખવામાં આવશે. તેમના પરિવારજનો તથા પ્રશંસકો પ્રત્યે સંવેદના. ૐ શાંતિ…॥“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔",ইলাবেন ভাটৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%A8%D8%AF%DB%8C%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA-%D8%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,"مرکزی کابینہ نے آج بھارت کے نوجوانوں کے لیے مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کے لیے ایک پرکشش بھرتی اسکیم کو منظوری دے دی ہے۔ مذکورہ اسکیم کا نام اگنی پت ہے اور اس اسکیم کے تحت منتخب نوجوانوں کو اگنیور کے نام سے جانا جائے گا۔ اگنی پتھ کے تحت محب وطن اور حوصلہ مند نوجوانوں کو چار سال کی مدت کے لیے مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کی اجازت ہوگی۔ اگنی پتھ اسکیم کو مسلح افواج کے نوجوان پروفائل کو فعال بنانے کے لیےترتیب دیا گیا ہے۔ یہ معاشرے کے ان نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا موقع فراہم کرے گا جو یونیفارم پہننے کے خواہشمند ہیں اور جو عصری تکنیکی رجحانات سے زیادہ ہم آہنگ ہیں اور معاشرے میں ہنر مند، نظم و ضبط اور حوصلہ افزا افرادی قوت کو واپس لا سکتے ہیں۔ جہاں تک مسلح افواج کا تعلق ہے، یہ مسلح افواج کے نوجوان پروفائل میں اضافہ کرے گا اور 'جوش' اور 'جزبہ' کی وہ نئی توانائی فراہم کرے گا جو ایک ہی وقت میں زیادہ ٹیک سیوی مسلح افواج کی سمت تبدیلی کا پیش خیمہ ہو��ا۔ جوکہ وقت کی ضرورت ہے۔ ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ اس اسکیم کے نفاذ سے بھارتی مسلح افواج کی اوسط عمر تقریباً 4-5 سال تک کم ہوجائے گی۔ خود نظم و ضبط، مستعدی اور توجہ کی گہرائی سے سمجھنے والے انتہائی حوصلہ مند نوجوانوں کی شمولیت سے ملک کو بے پناہ فائدہ ہو گا جو مناسب طور پر ہنر مند ہوں گے اور دوسرے شعبوں میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ قوم، معاشرے اور ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک مختصر فوجی خدمت کے ثمرات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ، ٹیم ورک، جسمانی تندرستی میں اضافہ، ملک کے لیے پختہ وفاداری اور بیرونی خطرات، اندرونی خطرات اور قدرتی آفات کے وقت قومی سلامتی کو فروغ دینے کے لیے تربیت یافتہ اہلکاروں کی دستیابی شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے ان تینوں خدمات کی انسانی وسائل کی پالیسی میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے انہیں متعارف کرایا جانا ایک بڑی دفاعی پالیسی اصلاحات کا حصہ ہے۔ مذکورہ پالیسی، جو فوری طور پر نافذ ہوگئی ہے،اس کے بعد تینوں خدمات میں نام درج کرانے کے تمام تر معاملات اس کے تحت کئے جائیں گے۔ اگنیوروں کے لیے فوائد اگنیوروں کو ایک پرکشش حسب ضرورت ماہانہ پیکج کے ساتھ جوکھم اور سخت محنت بھتہ دیا جائے گا جیسا کہ تینوں خدمات میں نافذالعمل ہے۔ چار سال کی مدت مکمل ہونے پر، اگنیوروں کو ایک بار کا 'سیوا ندھی' پیکج دیا جائے گا جس میں ان کا حصہ شامل ہوگا جس میں اس پر جمع شدہ سود اور حکومت کی طرف سے ان کی حصہ داری کی جمع شدہ رقم کے برابر حصہ شامل ہوگا جس میں سود بھی شامل ہے جیسا کہ ذیل بتایا گیا ہے: سال ماہانہ پیکج (ماہانہ) یک مشت (70 فیصد) اگنیور کارپس فنڈ میں تعاون( 30 فیصد) بھارتی حکومت کی طرف سے کارپس فنڈ میں تعاون تمام اعداد و شمار روپے میں (ماہانہ تعاون) پہلا سال 30000 21000 9000 9000 دوسرا سال 33000 23100 9900 9900 تیسرا سال 36500 25580 10950 10950 چوتھا سال 40000 28000 12000 12000 اگنیور کارپس فنڈ میں چار سال کے بعد کل شراکت Rs 5.02 Lakh Rs 5.02 Lakh 4 سال کے بعد اخراج 11.71 لاکھ روپے کا سیواندھی پیکیج (بشمول، قابل اطلاق شرح سود کے مطابق مذکورہ رقم پر جمع ہونے والا سود بھی ادا کیا جائے گا) ’سیوا ندھی‘انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔ گریجویٹی اور پنشن فوائد کا کوئی استحقاق نہیں ہوگا۔ اگنیوروں کو بھارتی مسلح افواج میں ان کی مصروفیت کی مدت کے لیے 48 لاکھ روپے کا نان کنٹریبیوٹری لائف انشورنس کور فراہم کیا جائے گا۔ ملک کی خدمت کے اس عرصے کے دوران، اگنیوروں کو مختلف فوجی مہارتیں اور تجربہ، نظم و ضبط، جسمانی طور پر چاق وچوبند ہونے، قائدانہ خصوصیات، ہمت اور حب الوطنی سے کے جذبے سے آراستہ کیا جائے گا۔ چار سال کے اس دور کے بعد، اگنیوروں کو سول سوسائٹی میں شامل کیا جائے گا جہاں وہ قوم کی تعمیر کے عمل میں اپنا زیادہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر اگنیور کی حاصل کردہ مہارتوں کو تسلیم کرنے کے صلہ میں ایک سرٹیفکیٹ دیا جائے گا اور اسے اس کے علمی استعداد پر مشتمل شخصی خاکہ کا حصہ بنایا جائے گا۔ اگنیور، اپنی مدت کے ابتدائی چار سالہ دور کے مکمل ہونے پر بالغ اور خود نظم و ضبط کے احساس کے ساتھ خود کو پیشہ ورانہ اور ذاتی طور پر بھی بہتر انداز میں ڈھالیں گے۔ اگنیور کے دور اقتدار کے بعد سول سماج میں ان کی ترقی کے لیے جو راہیں کھلیں گی وہ یقیناً قوم کی تعمیر میں نہایت مددگار ثابت ہوں گی۔ مزید یہ کہ، تقریباً 11.71 لاکھ روپے کی 'سیوا ندھی' اگنیور کو مالی دباؤ کے بغیر اپنے مستقبل کے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد ملےگی، جو کہ عام طور پر معاشرے کے مالی طور پر محروم طبقے کے نوجوانوں کے لیے ہوتی ہے۔ مسلح افواج میں باقاعدہ کیڈر کے طور پر اندراج کے لیے منتخب کیے گئے افراد کو کم از کم مزید 15 سال کی کے لیے خدمات انجام دینے کی ضرورت ہوگی اور انہیں بھارتی فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسرز/دیگر رینک کی سروس کی موجودہ شرائط و ضوابط کے تحت عہدے پر فائز کیا جائے گا۔ جن کی جیسا کہ بھارتی بحریہ اور بھارتی فضائیہ میں ان کے مساوی اور بھارتی فضائیہ میں اندراج شدہ غیر لڑاکا کے برابر، وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی ہے۔ مذکورہ اسکیم مسلح افواج میں نوجوان اور تجربہ کار اہلکاروں کے درمیان بہترین توازن کو یقینی بنا کر بہت زیادہ نوجوان اور تکنیکی طور پر ماہر جنگی قوت کا باعث بنے گی۔ فوائد مسلح افواج کی بھرتی کی پالیسی میں تبدیلی لانے والی اصلاحات۔ نوجوانوں کے لیے ملک کی خدمت کرنے اور قوم کی تعمیر میں رول ادا کرنے کا منفرد موقع۔ مسلح افواج کا پروفائل نوجوان اور متحرک ہونا۔ اگنیوروں کے لیے پرکشش مالی پیکیج۔ اگنیور وں کے لیے بہترین اداروں میں تربیت حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں اور قابلیت میں اضافہ کرنے کا موقع۔ سول سوسائٹی میں فوجی اخلاقیات کے ساتھ نظم و ضبط اور ہنر مند نوجوانوں کی دستیابی۔ معاشرے کے دھارے میں واپس آنے والوں کے لیے دوبارہ روزگار حاصل کرنے کے مناسب مواقع جو نوجوانوں کے لیے مثالی کردار بن کر ابھر سکتے ہیں۔ شرائط و ضوابط اگنی پتھ اسکیم کے تحت، اگنیوروں کو متعلقہ سروس ایکٹ کے تحت چار سال کی مدت کے لیے افواج میں بھرتی کیا جائے گا۔ وہ مسلح افواج میں ایک الگ رینک حاصل کریں گے، جو کسی بھی دوسرے موجودہ رینک سے مختلف ہوگی۔ چار سال کی سروس کے مکمل ہونے پر ، تنظیمی تقاضوں اور مسلح افواج کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری کردہ پالیسیوں کی بنیاد پر، اگنیوروں کو مسلح افواج میں مستقل اندراج کے لیے درخواست دینے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ ان درخواستوں پر ان کی چار سالہ مدت کار کے دوران کارکردگی سمیت مرکوز طریقے کی بنیاد پر غور کیا جائے گا اور اگنیور کے ہر مخصوص بیچ میں سے 25فیصد تک کا مسلح افواج کے باقاعدہ کیڈرس میں اندراج کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں تفصیلی رہنما خطوط علیحدہ سے جاری کیے جائیں گے۔ انتخاب مسلح افواج کے خصوصی دائرہ اختیار میں ہوگا۔ اس سال 46,000 اگنیور بھرتی کیے جائیں گے۔ تینوں خدمات کے لیے آن لائن سنٹرلائزڈ سسٹم کے ذریعے اندراج کیا جائے گا جس میں تسلیم شدہ تکنیکی اداروں جیسے صنعتی تربیتی ادارے اور نیشنل اسکلز کوالیفیکیشن فریم ورک، اور دیگر کے ساتھ خصوصی ریلیوں اور کیمپس انٹرویوز ہوں گے۔ اس میں اندراج 'آل انڈیا آل کلاس' کی بنیاد پر ہوگا اور اہل افراد کی عمر 17.5 سے 21 سال کے درمیان ہونی چاہئے۔ یہ اگنیور مسلح افواج میں اندراج کے لیے طے کردہ طبی اہلیت کی شرائط کو پورا کریں گے جو کہ متعلقہ زمروں/کاروبار پر نافذ ہوتی ہیں۔ اگنیور کے لیے تعلیمی قابلیت مختلف زمروں میں اندراج کے لیے رائج رہے گی۔ {مثال کے طور جنرل ڈیوٹی (جی ڈی) سپاہی کے لئے تعلیمی لیاقت 10 ویں کلاس ہے)۔","এক পৰিৱৰ্তনশীল সংস্কাৰত, কেবিনেটে সশস্ত্ৰ বাহিনীত যুৱ নিযুক্তিৰ বাবে ‘অগ্নিপথ’ আঁচনি মুকলি কৰে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%88%D9%88%D8%A8-%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%92%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A8%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF-%E0%A6%98%E0%A6%9F/,وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے تمل ناڈو میں کُڈالور کے مقام پرڈوب جانے کے سبب نوجوانوں کی جانوں کے اتلاف پرگہرے رنج وغم کا اظہارکیاہے ۔ وزیراعظم کے دفترنے ٹوئیٹ کیا ؛ ‘‘مجھے تمل ناڈومیں کڈّالور کے مقام پر نوجوانوں کے ڈوب جانے سے بہت دکھ ہواہے ۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں سوگوارکنبوں کے ساتھ ہیں :وزیراعظم ’’,তামিল নাডুত সলিল সমাধি ঘটা যুৱকৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7%D9%81-%DA%A9%DB%92-%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4/,نئی دہلی،12۔اپریل ،وزیراعظم جناب نریندرمودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ہندوستان اور تیونس کےدرمیان انصاف کے شعبے میں تعاون کے لئے مفاہمت نامے(ایم او یو) کو منظوری دے دی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہندوستان اور تیونس کےدرمیان سماجی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات مثبت سمت میں پروان چڑھے ہیں۔ انصاف کے شعبے میں تعاون کے لئے ایک معاہدے پر دستخط سے دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور انصاف کے شعبے سے متعلق اصلاحات کے ضمن میں ایک نئی جہت کا آغاز ہوگا۔ م ن ۔م م ۔ ک ا,ভাৰত আৰু টিউনিছিয়াৰ মাজত ন্যায়িক ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ লক্ষ্যৰে বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 30 اکتوبر 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 30 اکتوبر 2021 کو روم میں ، جی ۔20 سربراہ ملاقات کے شانہ بہ شانہ، سنگاپور کے وزیر اعظم عزت مآب جناب لی شین لونگ کے ساتھ باہمی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ مابعد وبائی مرض کی مدت میں دونوں قائدین کے درمیان یہ اولین بہ نفس نفیس ملاقات تھی۔ دونوں قائدین نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے اور آئندہ سی او پی 26 کے لئے عالمی کوششوں کے بارے میں تبادلہ خیالات کیے۔ انہوں نے تیز رفتار ٹیکہ کاری کوششوں کے ذریعہ کووِڈ۔19 وبائی مرض پر قابو پانے اور اہم ادویہ کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لئے جاری کوششوں کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ اسی پس منظر میں وزیر اعظم مودی نے دوسری لہر کے دوران کووِڈ سے نبرد آزمائی میں بھارت کو تعاون فراہم کرنے کے لئے سنگاپور کی ستائش کی۔ وزیر اعظم لی نے بھارت میں تیز رفتار ٹیکہ کاری مہم کے لئے وزیر اعظم کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان نقل و حمل کو جلد از جلد بحال کرنے سمیت عوام سے عوام کے درمیان تعلقات میں اضافے کے لئے مختلف طریقوں پر تبادلہ خیالات کیے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ছিংগাপুৰৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%DA%88%DB%8C%D8%B2%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,وزیر اعظم کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے 2 اگست 2022 کو جمہوریہ ہند کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور جمہوریہ مالدیپ کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے درمیان تعاون سے متعلق دستخط شدہ گزشتہ تاریخ سے اطلاق رکھنے والے مفاہمت نامے (ایم او یو) کو منظوری دے دی ہے۔ فوائد: ایم او یو ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس کے تحت ہندوستان اور مالدیپ دونوں ایک دوسرے کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ میکانزم سے مستفید ہوں گے اور اس سے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے میدان میں تیاری، ردّعمل اور صلاحیت سازی کے شعبوں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ ایم او یو کی نمایاں خصوصیات: i. فریقین ایک فریق کی درخواست پر اپنے علاقے میں بڑے پیمانے پر ہونے والے آفات کے وقت، ہنگامی امداد، ردّعمل، انسانی امداد کے میدان میں باہمی تعاون کو بڑھائیں گے۔ ii. فریقین معلومات کا تبادلہ کریں گے اور تجربات اور آفات کے تئیں ردّعمل، تخفیف، منصوبہ بندی اور تیاری کے بہترین طور طریقوں کا اشتراک کریں گے۔ iii. فریقین سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ ڈیٹا اور تباہی میں مؤثر طریقے سے تخفیف کے لیے خلائی ٹیکنالوجی پر مبنی ایپلی کیشنز کی مہارت کا اشتراک کریں گے، جس میں آفات کی روک تھام اور خطرے کی تشخیص سے متعلق معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔ iv. فریقین جدید انفارمیشن ٹکنالوجی، قبل از وقت وارننگ سسٹم، ریموٹ سینسنگ، سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور نیویگیشن سروسز کے شعبے میں تعاون کو وسعت دیں گے۔ v. آفات کے خطرے کو کم کرنے میں سیکٹورل مین اسٹریمنگ کے لیے تربیت اور صلاحیت سازی کے پروگرام پر غور کرنے کے لیے، فریقین قلیل اور طویل مدتی تربیت کے لئے ایمرجنسی مینجمنٹ سروس کے سینئر اہلکاروں اور ریسکیو اہلکاروں کو تربیت دینے کے مواقع فراہم کریں گے۔ vi. فریقین ملکی اور بین الاقوامی نمائشوں کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں منعقد ہونے والی مشقوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کریں گے اور تحقیق، معلومات کے تبادلے، فیکلٹی سپورٹ پروگرام، آفات کے خطرے میں کمی لانے کے شعبوں میں دستاویز سازی اور ڈیزاسٹر ریزیلینس و موسمیاتی تبدیلی کی موافقت سے متعلق اکیڈمک پروگراموں میں بھی تعاون کریں گے۔ vii. فریقین ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق دیگر سرگرمیوں میں مزید تعاون کا تعین کریں گے۔ viii. فریقین اپنے ساحلی علاقوں میں سمندری آفات کی وجہ سے سونامی ایڈوائزری، طوفان میں اضافے، ہائی ویو الرٹ، متعدد طرح کے خطرات سے متعلق معلومات اور اور متعدد قسم کے خطرات کی تشخیص کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ ix. فریقین عددی موسمی پیشین گوئی (نیومیریکل ویدر پری ڈکشن – این ڈبلیو پی) مصنوعات اور ایکسٹنڈیڈ رینج فارکاسٹ (ای آر ایف) کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ x. فریقین معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں، جن میں ہندوستان کی طرف سے مصنوعات اور معلومات کی تقسیم کے ریئل ٹائم تجزیہ (آر اے پی آئی ڈی) تک رسائی کی فراہمی شامل ہے، تاکہ ہندوستانی موسمی سیٹلائٹ ڈیٹا کی تصویر کشی کی جاسکے اور ساتھ ہی آئی ایم ڈی کے ذریعہ این ڈبلیو پی اور سیٹلائٹ موسمیات سے متعلق تربیت دی جاسکے۔ xi. فریقین ایک سالانہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ مشق شروع کریں گے، جو دونوں ممالک کی مختلف جغرافیائی ترتیبات (سیٹنگ) میں منعقد کی جائے گی۔,ভাৰত আৰু মালদ্বীপৰ ৰাষ্ট্ৰীয় দুৰ্যোগ ব��যৱস্থাপনা কৰ্তৃপক্ষৰ মাজত দুৰ্যোগ ব্যৱস্থাপনাৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা সম্বন্ধীয় বুজাবুজি চুক্তিত কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%B1%D8%AF%D9%86%DB%8C-%D8%AA%DB%8C%D9%84-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A7%B0-2/,نئی دہلی،18 اگست 2021/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے پام تیل کےلئے ایک نیا مشن شروع کرنے کی منظوری دی ہے۔ جس کا نام نیشنل مشن آن ایڈیبل آئل-پام آئل (ایم ایم ای او-او پی) ہے۔ یہ ایک نئی مرکزی اسپانسرڈ اسکیم ہے اور اس کی توجہ شمال مشرقی علاقے اور انڈومان و نکوبار جزائر پر ہے۔ خوردنی تیل کا انحصار زیادہ تر درآمدات پر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں خوردنی تیل کی پیداوار میں تیزی لائی جائے۔ اس کے لئے پام تیل کا رقبہ اور پیداواربڑھانا بہت ضروری ہے۔ اس اسکیم کے لئے 11040 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، جس میں سے مرکزی حکومت 8844 کروڑ روپے بردشت کرے گی۔ اس میں 2196 کروڑ روپے ریاستوں کو برداشت کرنے ہیں۔ اس میں آمدنی سے زیادہ خرچ ہونےکی صورت میں اس خسارے کی ازالہ کرنے کا بھی نظام شامل کیا گیاہے۔ اس منصوبے کے تحت،سال 26-2025 تک پام تیل کا رقبہ 6.5 لاکھ ہیکٹر بڑھایا جائے گااور اس طرح آخرکار 10 لاکھ ہیکٹر رقبے کا ہدف پورا کیا جائے گا ۔ امیدکی جاتی ہے کہ پام آئل (سی پی او) کی پیداوار26-2025 تک 11.20 لاکھ ٹن اور 30-2029 تک28 لاکھ ٹن تک پہنچ جائے گی ۔ اس اسکیم سے پام آئل کےکسانوں کو بہت فائدہ ہوگا ، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا ، روزگار کے مو اقع پیدا ہوں گے،درآمدات پر انحصار کم ہوگا اور کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ سال 92-1991 سے حکومت ہند نے تلہن اور پام آئل کی پیداوار بڑھانے کے لئے متعدد اقدامات کئے تھے۔ سال15-2014 میں275 لاکھ ٹن تلہن کی پیداوار ہوئی تھی، جو سال 21-2020 میں بڑھ کر 365.655لاکھ ٹن ہوگیا ہے۔ خام آئل کی پیداوار کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سال 2020 میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پام ریسرچ (آئی آئی او پی آر) نے خام تیل کی کھیتی کے لئے ایک تجزیہ کیا ۔ انہوں نے تقریباً 28 لاکھ ہیکٹئر میں پام آئل کی کھیتی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ لہذا پودے لگانے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ جس کی بنیاد پر کچے تیل کے پیداوار بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔ موجودہ وقت میں تاڑ کی کھیتی کے تحت صرف 3.70 لاکھ ہیکٹئر کا رقبہ ہی آتا ہے۔ دیگر تلہنوں کے مقابلے میں 10 سے 46 گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہیکٹئر کی فصل سے تقریباً چار ٹن تیل نکلتا ہے۔ اس طرح اس کی کھیتی میں بہت امکانات ہیں۔ مذکورہ بالا کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کو بھی دیکھتے ہوئے کہ آج بھی تقریباً 98 فی صد پام آئل درآمد کیاجاتا ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اسکیم کو شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ تاکہ ملک میں پام آئل کی کاشت کے رقبے اور پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔مجوزہ اسکیم میں موجودہ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن-آئل پام پروگرام کو شامل کردیا جائے گا۔ اس اسکیم میں دو خاص علاقوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پام آئل کے کسان تازے پھلوں کے گچھے (ایف ایف بی) تیار کرتے ہیں، جن کے بیج سے تیل کی صنعت تیل نکالتی ہے۔ اس وقت ان ایف ایف بی کی قیمتیں سی پی او کے ب��ن الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر طے ہوتی ہیں۔ پہلی مرتبہ مرکزی حکومت ان ایف ایف بی کی قیمت کے لئے کسانوں کو یقین دہانی کرارہی ہے۔ یہ ویبلٹی پرائس (وی پی) کہلائے گا، یعنی کسانوں کو کوئی نقصان نہیں ہونے دیا جائےگا۔ اس کے ذریعہ سی پی او کی بین الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے کسانوں کے مفاد کی حفاظت کی جائے گی۔ یہ ویبلٹی پرائس گزشتہ پانچ برسوں کےد وران سالانہ اوسط سی پی او قیمت کی بنیاد پر ہوگی اور تھوک قیمت انڈیکس میں دیئے گئے پام آئل کے اعدادو شمار کے مقابلے میں 14.3 فی صد اضافہ کیا جائے گا، یعنی ان دنوں کو ملاکر قیمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسے طے کرنےکی شروعات یکم نومبر سے ہوگی اور اگلے سال 31 اکتوبر تک کی مدت تک جاری رہے گی۔ جسے پام آئل سال کہا جاتا ہے۔ اس یقین دہانی سے ہندستان کے پام آئل کے کھیتی کرنے والوں کسانوں میں اعتماد پیدا ہوگا اور وہ کھیتی کارقبہ بڑھائیں گے۔ اس طرح پام آئل کی پیداوار میں ا ضافہ بھی ہوگا۔فارمولہ پرائس (ایف پی) کا بھی تعین کیا جائے گا۔ جس کے تحت خریدار بیچنے سے قیمتوں پر اتفاق کرے گا۔ یہ ماہانہ بنیاد پر سی پی او کا 14.3 فی صد ہوگا۔ اگر ضرورت پڑی تو آمدنی او ر اخراجات کے فرق کو فزیبلٹی پرائس اور فارمولا پرائس کی بنیاد پر پورا کیا جائے گا تاکہ کسانو کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ یہ رقم براہ راست بنیفٹ ٹرانسفر کی صورت میں کسانوں کے کھاتوں میں بھیجی جائے گی۔ قابل عمل خلا کو پر کرنےکی صورت میں کسانوں کو یقین دلایا گیاہے۔ انڈسٹریز سی پی او قیمت کا 14.3 فی صد کی ادائیگی کریں جو 15.3 فی صد تک بڑھ سکتا ہے۔ اسکیم یہ بھی انتظام کیا گیاہے کہ قواعد و ضوابط ایک خاص مدت کے بعد خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اس کی تاریخ یکم نومبر 2037 تک کی گئی ہے۔ شمال مشرق اور انڈومان میں اس سلسلہ میں تیزی لانے کےلئے مرکزی حکومت سی پی او کی دو فی صد اضافی اخراجات کو بھی برداشت کرے گی۔ تاکہ یہاں کے کسانوں کوملک کے دیگر مقامات کےکسانو ں کے برابر ادائیگی کی جاسکے۔مرکزٰی حکومت کے ذریعہ تجویز کردہ طریقوں کو اپنے والی ریاستیں اسکیم میں بتائے گئے طریقے سے فرق کی ادائیگی کا فائدہ حاصل کریں گی۔ اس کے لئے انہیں مرکزی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنا ہوں گے۔ اسکیم کا دوسر ا اہم پہلو یہ ہے کہ مختلف طرح کے کرداروں اور سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے ۔ پام آئل کی کھیتی کےلئے مدد میں بھاری اضافہ کیا گیاہے ۔ پہلے فی ہیکٹیئر 12 ہزار روپے دیئے جاتے تھے، جسے بڑھاکر 29 ہزار روپ ےفی ہیکٹر کردیا گیاہے۔ اس کے علاوہ رکھ رکھاؤ اور فصلوں کے دوران بھی مدد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پرانے باغوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے 250 روپے فی پودا کے حساب سے خصوصی مدد دی جارہی ہےیعنی ایک پودا لگانے پر 250 روپے ملیں گے۔ ملک میں پودے لگانے کے سامان کی کمی کو دور کرنےکے لئے، بیجوں کی پیداوار کرنے والے باغوں کو مدد دی جائے گی۔ اس کے تحت ہندستان کے دیگر مقامات میں 15 ہیکٹر کے لئے 80 لاکھ روپے تک کی امدادی رقم فراہم کی جائے گی۔ جبکہ شمال مشرق اور انڈومان علاقوں میں یہ امدادی رقم 50 لاکھ روپے طے کی گئی ہے۔ شمال مشرق اور انڈومان کو خاص مدد کا بھی انتطام کیاگیاہے جس کے تحت پہاڑوں پر سیڑھی دار کاشتکاری، اور زمین کوقابل کاشت بنانے کے ساتھ مربوط کاشتکاری کا بھی انتظام کیا گیاہے ۔ شمال مشرق ریاستوںاور انڈومان کے لئے صنعت کو سرمائے کی امداد کے لحاظ سے 5 میٹرک ٹن فی گھنٹےکے حساب سے پان�� کروڑ روپے کی فراہمی کی گئی ہے۔اس میں یہ بھی دیکھا جائے گا ایسے وقت میں کتنا کام ہوا او اس کے حساب سے صلاحیت بڑھانے کی شق بھی شامل کی گئی ہے۔یہ قدم صنعتوں کو ان شعبوں کی طرف راغب کرے گا۔ ش ح۔ ش ت۔ج,কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাই ৰাষ্ট্ৰীয় খাদ্য তেল মিছন-পাম অইলৰ ৰূপায়ণক মঞ্জুৰী দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%86%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نےرام نومی کے موقع پر لوگوں کو مبارکباد دی اور سبھی کے لئے آسودگی، چین اور خوشحالی کی تمنا کی ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’اہل وطن کو رام نومی کی ڈھیروں نیک خواہشات ۔ بھگوام رام کی مہربانی سےہر کسی کو زندگی میں سکھ، چین اور خوشحالی حاصل ہو۔ جے شری رام!‘‘,ৰাম নৱমী উপলক্ষে দেশবাসীক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%85%D8%BA%DB%81-%D8%AC%DB%8C%D8%AA%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D9%88%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%9E%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مردوں کے 109 کلوگرام وزن اٹھانے کے زمرے میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر لوپریت سنگھ کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ”مردوں کے 109 کلوگرام وزن اٹھانے کے زمرے میں کانسے کا تمغہ جیتنے کے لیے لوپریت سنگھ کو مبارکباد۔ نوجوان اور متحرک لوپریت نے اپنے پرسکون مزاج اور کھیلوں کے تئیں لگن سے سب کو متاثر کیا ہے۔ مستقبل کی تمام کوششوں کے لیے ان کے لیے نیک خواہشات۔“,কমনৱেলথ গেমছ ২০২২ ত ব্ৰঞ্জৰ পদক বিজয়ী লাভপ্ৰীত সিঙক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%DB%8C%D8%AF%D8%B1-%D9%84%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-50/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نیدر لینڈ کے وزیر اعظم عالی جناب مارک روٹے کے ساتھ فون پر بات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ہندوستان-نیدر لینڈ کے دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا، جن میں پانی پر منصوبہ بند پارٹنرشپ، زراعت کے کلیدی شعبے میں تعاون، ہائی ٹیک اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے امکانات شامل ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے ہندوستان-یورپی یونین تعلقات، ہند-بحر الکاہل میں ہم آہنگی اور تعاون سمیت علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ باقاعدگی کے ساتھ اعلیٰ سطحی دوروں اور بات چیت کے ذریعہ حالیہ برسوں میں ہندوستان-نیدر لینڈ کے تعلقات نے زبردست رفتار حاصل کی ہے۔ دونوں وزرائے اعظم نے 09 اپریل 2021 کو ایک ورچوئل سمٹ کا انعقاد کیا تھا اور باقاعدگی سے بات کرتے رہے ہیں۔ ورچوئل سمٹ کے دوران نیدر لینڈ کے ساتھ ’پانی پر منصوبہ بند پارٹنرشپ‘ کا آغاز کیا گیا۔ موجودہ سال میں، ہندوستان اور نیدر لینڈ مشترکہ طور پر سفارتی تعلقات کے قیام کے 75 سال کی یادگ��ر منا رہے ہیں۔ اس خصوصی سنگ میل کا جشن 4 تا 7 اپریل 2022 کو صدر جمہوریہ ہند کے نیدر لینڈ کے سرکاری دورے کے ساتھ منایا گیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে নেডাৰলেণ্ডছৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী মহামহিম শ্ৰী মাৰ্ক ৰুটৰ সৈতে ফোনত কথা পাতে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%B1-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BF-teri-%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%A8%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%AE-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8/,مجھے 21 ویں عالمی پائیدار ترقی چوٹی کانفرنس میں آپ کے ساتھ آکر خوشی ہورہی ہے، ماحولیات اور پائیدار ترقی اقتدار میں میرے بیس برسوں۔ پہلے گجرات اور اب قومی سطح پر، کے دوران میری توجہ کے اہم ترین معاملے رہے ہیں۔ دوستو ! ہم نے سنا ہے کہ لوگ ہمارے سیارے کو کمزور کہتے ہیں، لیکن سیارہ کمزور نہیں ہے۔ سیارے کے تئیں، فطرت کے تئیں ہمارے وعدے کمزور ہیں۔ 1972 کی اسٹاک ہوم کانفرنس کے بعد سے ان پچاس برسوں میں بہت کچھ کیا گیا ہے۔ لیکن بہت کم کہا گیا ہے۔ لیکن ہندوستان میں ہم نے الفاظ کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ غریبوں کے لئے توانائی کی مساوی فراہمی ہماری ماحولیاتی پالیسی کا اہم عنصر رہی ہے۔ اجولا یوجنا کے ذریعہ 90 ملین کنبوں کو کھانا پکانے کی صاف ستھری توانائی فراہم کی گئی ہے۔ پی ایم کسم اسکیم کے تحت ہم نے کسانوں تک قابلِ تجدید توانائی پہنچائی۔ ہم کسانوں کو شمسی پینل نصب کرانے کے لئے حوصلہ افزائی کررہے ہیں جسے وہ استعمال کریں اور بقیہ توانائی گرڈ کو فروخت کریں۔ انفرادی سولر پمپ اور موجودہ پمپوں کو شمسی توانائی کا اہل بنانے کے لئے کام کیا جارہا ہے۔ دوستو! ایل ای ڈی بلب کی تقسیم کی ہماری اسکیم سات برسوں سے جاری ہے۔ اس سے سالانہ 220 ارب بجلی یونٹوں کی بچت ہوئی۔ 180 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج کی روک تھام ہوئی۔ ہم نے نیشنل ہائیڈروجن مشن کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس میں گرین ہائیڈروجن کو استعمال میں لایا جائے گا جو ہمارے مستقبل کے لئے ایک حوصلہ افزاء ٹیکنالوجی ہے۔ میں TERI جیسے اکیڈمک اور تحقیقی اداروں کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ گرین ہائیڈروجن کے امکانات کو بروئے کار لانے کے لئے قابل عمل حل لے کر سامنے آئیں۔ دوستو! ہندوستان ایک بڑا متنوع ملک ہے، دنیا کی زمین کے 2.4 فی صد رقبے کے ساتھ ہندوستان میں تقریبا آٹھ فی صد پرجاتیاں موجودہیں۔ اس ایکولوجی کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم اپنے پروٹیکٹڈ، ایریا نیٹ ورک کو مستحکم کررہے ہیں۔I ش ح۔رف۔س ا,টেৰি (TERI) ৰ বিশ্ব বহনক্ষম উন্নয়ন সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ উদ্বোধনী ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%AA%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%85%D9%B9%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%82%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A0%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,ایلریگو نمسکارم! ستورو سنستھانوو شکشن، ساماجک سیوے، انادا-سوہکّے، پرکھیاتی پڈیدیرو، وشو پرسدھ سنتھیا-گِدے، ای کشیترکے، آگمی-سرو-ودکّے، نن گے اتیو سنتوش-واگدے۔ قابل صداحترام جناب شیو راتری دیشی کیندر مہاسوامی جی، جناب سدھیشور مہاسوامی جی، جناب سدالنگا مہاسوامی جی، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب ��سواراج جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، پرہلاد جوشی جی، حکومت کرناٹک کے وزیر، ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی اور ستور مٹھ سے تعلق رکھنے والے تمام عقیدت مندو! اور بہت بڑی تعداد میں یہاں آشیرواد دینے آئےقابل صد احترام سنت گن! میں میسور کی ادھیشٹھاتری دیوی ماتا چامنڈیشوری کوپرنام کرتا ہوں، یہ ماں کی کرپا ہی ہے کہ آج مجھے میسور آنے کا موقع ملا۔ میسور کی ترقی کے لیے کئی بڑے کاموں کو قوم کے نام وقف کرنے کا موقع بھی ملا۔ اور اب، میں یہاں آپ سب سنتوں کے درمیان اس پنیہ پروگرام میں آکر کے اپنے آپ کو بہت ہی خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔ اور یہاں سے میں ماں چامنڈیشوری کے چرنوں میں جاؤں گا، ان کے بھی آشیرواد لوں گا۔ اس روحانی موقع پر، میں شری سترو مٹھ کے سنتوں، آچاریوں اور منیشیوں کو اس مٹھ کی عظیم روایت، اس کی کوششوں کو نمن کرتا ہوں۔ خصوصی طور پر میں آدی جگد گرو شیو راتری شیو یوگی مہاسوامی جی کو پرنام کرتا ہوں، جنہوں نے اس روحانی شجر برگد کا بیج بویا تھا۔ علم اور روحانیت کی یہ عظیم روایت آج ستورو مٹھ کے موجودہ مٹھ آدھیش پرم پوجیہ جناب شیو راتری دیشی کیندر مہاسوامی جی کے آگے بہت تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ شری منت مہرشی جی کے ذریعہ شروع کی گئی درس گاہ نے جناب راجندر مہاسوامی جی کی رہنمائی میں اتنا بڑا پروجیکٹ شروع کیا۔ بھارتی ثقافت اور سنسکرت کی تعلیم کے لیے اس درس گاہ کی نئی عمارت کا بھی آج افتتاح کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنی اس جدید اور عظیم الشان شکل میں یہ ادارہ مستقبل کی تعمیر کے اپنے عزائم کو مزید وسعت دے گا۔ میں اس اختراعی کوشش کے لئے آپ سبھی کو سر جھکاکر ابھی نندن بھی کرتا ہوں ۔ بہت بہت نیک خواہشات بھی پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج مجھے جناب سدھیشور سوامی جی کے ذریعے نارد بھکتی سوتر، شیو سوتر اور پتنجلی یوگ سوتر پر ان کی تشریحات کو قوم کے نام وقف کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ قابل صد احترام جناب سدھیشور سوامی جی بھارت کی اس قدیم رشی روایت کی نمائندگی کر رہے ہیں، جسےشاسترون میں شروت پرمپرا کہا گیا ہے۔ شروت پرمپرا یعنی جو سن لیا اسے دل و دماغ پر نقش کر لیا۔ یوگ کے عالمی دن کے موقع پر، پتنجلی یوگ سوترا کی تشریح، نارد بھکتی سوتر اور شیو سوتر کے ذریعہ بھکتی یوگا اور گیان یوگا کو آسانی سے حاصل ہونے والا بنانے کی کوشش ، اس کا فائدہ نہ صرف بھارت کو بلکہ پوری دنیا کو ملے گا۔ اور میں آج جب آپ سب کے درمیان ہوں تو کرناٹک کے جو اہل علم ہیں ، ان سے درخواست کروں گا کہ دنیا میں سماجی علوم پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، گزشتہ چار پانچ صدیوں میں، اگر اس کا مطالعہ کریں تو اس موضوع کا علم رکھنے والے لوگ اس بات تک پہنچیں گے کہ نارد سوستر اس سے بھی پرانا ہے اور سماجی علوم کا ایک بہت بڑا شاندار ذخیرہ ہمارے پاس ہے۔ دنیا کے لیے ضروری ہے ایک بار مطالعہ کرے۔ جو لوگ مغرب کے نظریات کو جانتے ہیں، وہ کبھی نارد سوتر کے ذریعے سے دنیا کو دیکھنے، سماجی نظام کو دیکھنے، انسانی اقدار کو دیکھنے، حیرت انگیز گرنتھ یہ نارد سوتر اور اس کو آج جدید تعریف میں بیان کیا گیا ہے۔ سماج کی بہت بڑی خدمت کی ہے آپ نے ۔ ساتھیو، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے کہ علم جیسی مقدس کوئی چیز نہیں اور علم کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ہے۔ اور اس لئے ہمارے رشیوں نے، منیشیوں نے، بھارت کو اس شعور کے ساتھ تراشہ جو علم اور سائنس سے تحریک پاتا ہے، جو فہم سے بڑھتا ہے، اور تحقیق سے مضبوط ہوتا ہے۔ زمانہ بدلا، وقت بدلا، بھ��رت نے وقت کے متعدد طوفانوں کا سامنا بھی کیا ۔ لیکن، جب بھارت کا شعور کمزور ہوا، تو ملک کے کونے کونے میں سنتوں، رشیوں، منیوں، آچاریوں نے بھگونتوں نے پورے بھارت کو متھ کر ملک کی روح کو زندہ کیا ہے۔ شمال میں میری کاشی سے لے کر یہیں پاس میں ننجن گڈ جنوبی کاشی تک مندروں اور مٹھوں کے مضبوط اداروں نے غلامی کے طویل دور میں بھی بھارت کے علم کو روشن رکھا۔ میسور میں سری ستورو مٹھ، تمکورو میں سری سدھ گنگا مٹھ، چتردرگ میں سری سری گیرے مٹھ، سری مروگو-راجیندر مٹھ۔ چکمگلور میں سری رمبھاپوری مٹھ، ہبلی میں سری مروساویرا مٹھ، بیدر میں بسواکلیان مٹھ! اکیلے جنوبی بھارت میں ہی ایسے کتنے ہی مٹھوں کا مرکز ہے، جو لاتعداد علوم ، لامحدود مضامین کو صدیوں سے سیراب کر رہے ہیں۔ ساتھیو، سچائی کا وجود وسائل پر نہیں بلکہ خدمت اور قربانی پر قائم ہوتاہے۔ سری ستورو مٹھ اور جے ایس ایس مہاودیا پیٹھ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جناب شیو راتری راجندر مہاسوامی جی نے جب سماجی خدمت کا عزم لے کر مفت ہاسٹل کھولا تو ، اس وقت ان کے پاس کیا وسائل تھے؟ کرائے کی عمارت تھی، راشن وغیرہ کا بندوبست کرنے کے بھی ضروری پیسے نہیں تھے۔ اور میں نے سنا تھا کہ ایک بار پیسے کی کمی میں ہاسٹل کے سامان کی سپلائی بند ہو گئی، تو سوامی جی کو ’’لنگم کرڈیگے‘‘ بھی بیچنا پڑا تھا۔ یعنی انہوں نے خدمت کے عزم کو عقیدت سے بالا تر سمجھا۔ دہائیوں پہلے کی وہ قربانی آج سدھی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج جے ایس ایس مہاودیا پیٹھ ملک میں 300 سے زیادہ ادارے اور ملک اور بیرون ملک میں دو یونیورسٹیاں چلا رہا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف بھارت کے روحانی اور ثقافتی برانڈ ایمبیسیڈرز ہیں بلکہ سائنس، آرٹس اور کامرکس میں بھی اتنا ہی تعاون کررہے ہیں۔ ستورو مٹھ غریب بچوں کی ، قبائلی معاشرے کی اور ہمارے گاؤں کی جو خدمت کر رہا ہے وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ساتھیو، کرناٹک، جنوبی بھارت اور بھارت کی بات ہو، علیم، مساوات اور خدمت جیسے موضوعات ہوں تو یہ معاملات بھگوان بسویشور کے آشیرواد سے مزید توسیع پاتے ہیں۔ بھگوان بسویشور جی نے ہمارے سماج کو جو توانائی دی تھی، انہوں نے جمہوریت، تعلیم اور مساوات کے جو آدرش قائم کیے تھے، وہ آج بھی بھارت کی بنیاد میں ہیں۔ مجھے ایک بار لندن میں بھگوان بسویشور جی کے مجسمے کو وقف کرنے کا موقع ملا تھااور اس وقت میں نے کہا تھا کہ ایک طرف میگنا کارٹا رکھئے اور دوسری جانب بھگوان وشویشور کے وچن رکھئے، آپ کو پتہ چلے گا کہ میگنا کارٹا کے پہلے کتنی صدیوں پہلے میرے ملک میں سماج کے تئیں دیکھنے کا رویہ کیا تھا، اس سے نظر آئے گا۔ ساتھیو، انہی آدرشوں پر عمل کرتے ہوئے شری سدھ گنگا مٹھ آج سوا سو سے زیادہ ادارے چلا رہا ہے، معاشرے میں تعلیم اور روحانیت پھیلا رہا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ سدھ گنگا مٹھ کے اسکولوں میں اس وقت تقریباً دس ہزار طلباء علم حاصل کر رہے ہیں۔ بھگوان بسویشور کی یہ تحریک، یہ بے لوث خدمت کی یہ لگن، یہی ہمارے بھارت کی بنیاد ہے۔ یہ بنیاد جتنی مضبوط ہوگی ہمارا ملک اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ ساتھیو، آج جب ہم ملک کی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو آزادی کے امرت کا ل کی یہ مدت ’سب کے پریاس‘ کا ایک بہترین موقع ہے۔ ہمارے رشیوں نے سہکار، تعاون اور سب کی کوششوں سے اس عزم کو ’سہناؤوتو سہنوبھونکتو۔ سہ ویریم کرواو ہے‘جیسے ۔ یہ وید رچاؤں کی شکل میں ہمیں دیا ہے ۔ آج وقت ہے، ہم ہزاروں سال کے اس روحانی تجربے کوعملی شکل دیں۔ آج وقت ہے کہ ہم غلامی کے سینکڑوں برسوں میں دیکھے گئے خوابوں شرمندہ تعبیر کریں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی کوششوں کو قوم کے عزائم سے جوڑنا ہوگا۔ ساتھیو، آج تعلیم کے میدان میں ’قومی تعلیمی پالیسی‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تعلیم ہمارے بھارت کے لئے فطری خصوصیت رہی ہے۔ اسی فطرت کے ساتھ ہماری نئی نسل کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کے لیے مقامی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متبادل دیئے جارہے ہیں۔ کنڑ، تمل، تیلگو کے ساتھ ساتھ سنسکرت جیسی زبانوں کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے تمام مٹھ اور مذہبی ادارے صدیوں سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ میسور ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے آج بھی ملک کا واحد سنسکرت روزنامہ سدھرما شائع ہوتا ہے۔ اب ملک بھی آپ کی ان کوششوں میں اپنا تعاون دے رہا ہے، اس کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح صحت اور تندرستی کے لیے بھارت کی کوششوں کی وجہ سے آج آیوروید اور یوگا کو پوری دنیا میں ایک نئی شناخت ملی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک کا کوئی بھی شہری اس ورثے سے لاعلم اور محروم نہ رہے۔ اس مہم کی تکمیل کے لیے ہمارے روحانی اداروں کا تعاون بہت اہم ہے۔ ایسے ہی بیٹیوں کی پڑھائی لکھائی کے لئے ، پانی کے تحفظ کے لئے، ماحولیات کے لئے اور صاف ستھرے بھارت کے لیے بھی ہم سب کو مل کر آگے آنا ہوگا۔ ایک اور اہم عزم قدرتی کاشتکاری کا بھی ہے۔ ہمارا انّ جتنا شدھ ہوگا ، ہماری زندگی بھی اور انّ شدھ تو من شدھ اتنا ہی صحت اور پاکیزہ ہوگا۔ میں چاہوں گا کہ اس سمت میں ہمارے تمام مذہبی مٹھ اور ادارے آگے آکر لوگوں کو بیدار کریں۔ ہماری اس بھارت ماتا، ہماری اس دھرتی ماتا، اس کو ہم کیمیکلز سے پاک کریں۔ اس کے لیے جتنا کریں گے ، یہ ماں کے آشیرواد صدیوں تک ہمارے کام آنے والے ہیں۔ ساتھیو، جس کام سے سنتوں کی کوشش منسلک ہوجاتی ہیں اس کو روحانی شعور اور ایشور کا آشیرواد بھی مل جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ تمام سنتوں کا آشیرواد مسلسل ملک کو ملتا رہے گا۔ ہم ساتھ مل کر نئے بھارت کے خواب پورا کریں گے۔ اور آج میرے لئے بڑی خوش قسمتی کا لمحہ ہے۔ لائق صد احترام سنتوں نے جس طرح سے میرے لیے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، میں جانتا ہوں، جو کچھ بھی میرے لیے کہا گیا ہے، ابھی مجھے وہاں تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا بھروسہ ہے کہ سنتوں کے آشیرواد ، ہماری عظیم تہذیبی وراثت اور آپ سب سنتوں کی مجھ سے جو توقعات وابستہ ہیں، آپ بھی مجھے تراشتے رہیں گے، آپ ہی مجھے سمت دیتے رہیں گے اور میں آپ کی رہنمائی سے، سنتوں کی رہنمائی سے ، عظیم وراثت کی تحریک سے ان کاموں کو پورا کرپاؤں یہ ایسے آشیرواد آپ مجھے دیجئےتا کہ میرے کام میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور آپ کی توقعات ادھوری نہ رہ جائیں۔ اسی ایک جذبے کا اظہار کرتے ہوئے مجھے آپ سب کے درمیان میں آنے کا موقع ملا، میری زندگی دھنیتا محسوس کر رہی ہے۔ میں پھر ایک بار آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یلّاریگو نمسکار! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ا گ۔ ن ا۔ (2022۔06۔21),শ্ৰী সুত্তূৰ মঠৰ এটা কাৰ্যক্ৰমত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%A8%D9%84-%D8%AC%DB%8C-20-%D9%84%DB%8C%DA%88%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%AC/,میں 14-16 نومبر 2022 تک بالی میں17ویں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ، انڈونیشیا کے دورے پر جارہا ہوں ، جس کی صدارت انڈونیشیا کرے گی۔ بالی سربراہی اجلاس کے دوران، میں جی 20 کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ عالمی تشویش کے اہم مسائل، جیسے عالمی ترقی، خوراک اور توانائی کی حفاظت، ماحولیات، صحت، اور ڈیجیٹل تبدیلی کو بحال کرنے پر وسیع بات چیت کروں گا۔ جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر، میں کئی دیگر شریک ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کروں گا، اور ان کے ساتھ ہندوستان کے باہمی تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لوں گا۔ میں 15 نومبر 2022 کو بالی میں ایک استقبالیہ میں ہندوستانی برادری سے خطاب کرنے کا بھی منتظر ہوں۔ ہمارے ملک اور شہریوں کے لیے یہ لمحات بہت اہمیت کے حامل رہیں گے کہ ، انڈونیشیا کے صدر جوکو ود وڈو بالی سربراہی اجلاس کی اختتامی تقریب میں جی20کی صدارت ہندوستان کے حوالے کریں گے۔ ہندوستان یکم دسمبر 2022 سے باضابطہ طور پرجی 20 کی صدارت سنبھالے گا۔ میں اگلے سال جی 20 اجلاس میں جی 20 ممبران اور دیگر مہمانوں کو اپنی طرف سے ذاتی طور پر دعوت بھی دوں گا۔ جی 20 چوٹی کانفرنس میں اپنی بات چیت کے دوران، میں ہندوستان کی کامیابیوں اور عالمی چیلنجوں سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے لیے ہمارے غیر متزلزل عزم کو اُجاگر کروں گا۔ ہندوستان کی جی 20 صدارت ‘‘واسودھائیوا کٹمبکم’’یا ‘‘ایک زمین ایک خاندان ایک مستقبل’’ کے تھیم پر مبنی ہوگی، جو سب کے لیے مساوی ترقی اور مشترکہ مستقبل کے پیغام کو اُجاگر کرتی ہے۔,জি-২০ নেতা সন্মিলনৰ বাবে বালি ভ্ৰমণৰ পূৰ্বে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰস্থান বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%A7%DA%BA-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے عالی جناب میاں محمد شہباز شریف کو پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے انتخاب پر مبارک باد دی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ بھارت خطے کو دہشت گردی سے پاک رکھنے میں امن اور استحکام کا خواہش مند ہے تاکہ دونوں ممالک اپنے ترقیاتی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرسکیں۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے عالی جناب میاں محمد شہباز شریف کو ان کے انتخاب پر مبارک باد ۔ بھارت اس خطے کو دہشت گردی سے پاک رکھنے میں امن و استحکام کا خواہش مند ہے تاکہ ہم اپنے ترقیاتی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کرسکیں اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحال کو یقینی بناسکیں۔‘‘,পাকিস্তানৰ প্রধানমন্ত্রী হিচাপে নির্বাচিত হোৱাৰ বাবে মিয়াঁ মহম্মদ শ্বেহবাজ শ্বৰীফক অভিনন্দন প্রধানমন্ত্রীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-13%D8%8D%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%A9-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D-2/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی 13اکتوبرکو ہماچل پردیش کا دورہ کریں گے۔ اُونا میں وزیر اعظم اُونا ہماچل ریلوے اسٹیشن سے وندے بھارت ایکسپریس کو ہری جھنڈی د��ھائیں گے۔اس کے بعد ایک عوامی تقریب میں وزیر اعظم آئی آئی آئی ٹی اُنا قوم کو وقف کریں گے اور اُونا میں ہی بلک ڈرگ پارک کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ بعد ازاں چمبا میں وزیر اعظم دو ہائیڈرو پاور پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور ہماچل پردیش میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا(پی ایم جی ایس وائی)-IIIکا آغاز کریں گے۔ اُونا میں وزیر اعظم وزیر اعظم کے آتم نر بھر بھارت کی کال نے سرکار کی مختلف نئی پہلوں کی حمایت کے توسط سے ملک کو کئی شعبوں میں خود کفیل بنانے کی سمت میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ ایسا ہی ایک اہم سیکٹر دواسازی کا ہے اور اس سیکٹر میں خود کفالت کے لئے وزیر اعظم اُونا ضلع کے ہرولی میں بلک ڈرگ پارک کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جس سے 1900کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔پارک اے پی آئی درآمدات پر انحصار کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔اس میں تقریباً 10,000کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہونے کی امید ہے اور20,000سے زیادہ لوگوں کو اس سے روزگار فراہم ہوگا۔ یہ خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کو بھی بڑھاوا دے گا۔ وزیر اعظم ہندوستانی اطلاعاتی ٹیکنالوجی ادارہ (آئی آئی آئی ٹی)اُونا قوم کو وقف کریں گے۔ اس کا سنگ بنیاد 2017میں وزیر اعظم نے رکھا تھا۔موجود قت میں اس ادارے نے 530 سے زیادہ طلباء زیر تعلیم ہے۔ وزیر اعظم نئی وندے بھارت ایکسپریس کو بھی ہر ی جھنڈی دکھائیں گے۔امب اندورا سے نئی دہلی کے لئے چلنے والی یہ ملک میں شروع کی جانے والی چوتھی وندے بھارت ٹرین ہوگی۔پہلے کے مقابلے میں یہ ایک جدید ایڈیشن ہے، جو بہت ہلکا ہے اور کم مدت میں اعلیٰ رفتار تک پہنچنے میں اہل ہے۔ یہ محض 52سیکنڈمیں 100کلومیٹر؍گھنٹےکی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ ٹرین کی شروعات سے خطے میں سیاحت کو بڑھاوا ملنے اور سفرکا ایک آرام دہ اور تیز طریقہ کار مہیا کرنے میں مدد ملے گی۔ چمبا میں وزیر اعظم وزیر اعظم دو ہائیڈرو پاور پروجیکٹوں-48میگا واٹ کا چھنجو-IIIہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور30میگاواٹ کا دیو تھل چھنجو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ان دونوں پروجیکٹوں سے سالانہ 270ملین یونٹ بجلی پیدا ہوگی اور ان پروجیکٹوں سے ہماچل پردیش کو تقریباً 110کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی حاصل ہونے کی امید ہے۔ وزیر اعظم ریاست میں تقریباً 3125کلو میٹر سڑکوں کی جدید کاری کے لئے ہماچل پردیش میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا(پی ایم جی ایس وائی) کا بھی آغاز کریں گے۔ ریاست کے 15سرحدی اور دور دراز کے بلاکوں میں 440کلو میٹر سڑکوں کی جدید کاری کے لئے مرکزی سرکار نے 420کروڑ روپے سے زیادہ کی منظوری دی ہے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৩ অক্টোবৰত হিমাচল প্ৰদেশৰ উনা আৰু চম্বা ভ্ৰমণ কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6-5/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نئی دہلی کے لال قلعہ میں لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو کی جھلکیاں شیئر کی ہیں۔ ثقافت و سیاحت کے مرکزی وزیر جناب جی کشن ریڈی کے ایک ٹویٹ کا اشتراک کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ "" لال قلعہ جانے کی ایک اضافی وجہ! ہماری تاریخ اور ورثے کو یاد کرنے کا ایک معلوماتی اور جدید طریقہ۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",প্ৰধানমন্ত্���ীয়ে নতুন দিল্লীৰ লাল কিলাত পোহৰ আৰু শব্দ প্ৰদৰ্শনীৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%81%D9%84%D8%A7-%DB%81%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AE%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%98/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے ملک میں پہلا ہر گھر جل سرٹیفائیڈ ضلع بننے کے لیے مدھیہ پردیش کے برہان پور کے شہریوں کو مبارک باد دی ہے۔ جل شکتی کے مرکزی وزیر جناب گجیندرسنگھ شیخاوت کی طرف سے ٹوئٹ کیے گئے ایک جواب میں وزیراعظم سے کہا : ‘‘اس اہم کامیابی کے لیے برہان پور کے میرے بھائیوں اوربہنوں کو دلی مبارک باد،یہ عوام کے اجتماعی اور سچے جذبے کے علاوہ جے جے ایم ٹیم کی طرف سے کی گئی مشن موڈ کوششوں کے علاوہ شیوراج سنگھ چوہان سنگھ کے زیرنگرانی ایم پی حکومت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔’’,দেশৰ ভিতৰতে প্ৰথমখন ‘হৰ ঘৰ জল’ প্ৰমাণিত জিলা হোৱাৰ বাবে মধ্যপ্ৰদেশৰ বুৰহানপুৰৰ নাগৰিক সকলক অভিনন্দন জ্ঞাপন কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DA%A9%DB%92-%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88-%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%95/,نئیدہلی03 جنوری ۔مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ملازمین کے لئے ازخود سرمایہ کاری ہاؤسنگ اسکیم کے تحت3930 الاٹیوں کے لئے اپارٹمنٹ تعمیر کرنے کی غرض سے چنڈی گڑھ ہاؤسنگ بورڈ کو اراضی الاٹ کرنے کی تجویز کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ نکات کے لحاظ سے تفصیلات درج ذیل ہیں : چنڈی گڑھ انتظامیہ نے ،چنڈی گڑھ انتظامیہ کے ملازمین کے لئے ’’ ازخود سرمایہ کاری ہاؤسنگ اسکیم 2008 نام کی ایک اسکیم کو منظوری دی ہے۔اس کے تحت مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لئے 3930 رہائشی اکائیوں کی تعمیر کے لئے مجموعی طور 73.3 ایکڑ رقبے پر مشتمل اراضی کو اس مقصد کے لئے نشان زد کیا گیا۔اس اراضی میں سے 11.8 ایکڑ زمین پہلے ہی چنڈیگڑھ ہاؤسنگ بور ڈ کے قبضے میں تھی، فوری تجویز کے طور پر 61.5 ایکڑ زمیں جو سرکاری تحویل میں ہے ،اسے چنڈی گڑھ ہاؤسنگ بورڈ کو الاٹ کیا جانا ہے ۔؎ چنڈی گڑھ ہاؤسنگ بورڈ کو مذکورہ اسکیم کے نفاذ کے سلسلے میں نوڈل ایجنسی قراردیا گیا ہے ۔لہذاچنڈی گڑھ ہاؤسنگ بورڈ نے اپنی جانب سے ’’ ازخودسرمایہ کاری ہاؤسنگ اسکیم ‘‘ کا اشتہار دیا ہے ،جس کا تعلق چنڈی گڑھ انتظامیہ کے ملازمین کو 99 برس کے پٹے پر رہائش گاہیں فراہم کرنے سے ہے۔ اہم اثرات : چونکہ چنڈی گڑھ انتظامیہ کے ملازمین کے لئے فلیٹوں کی تعمیر کی تجویز ہے لہذا یہ پروجیکٹ براہ راست یا بالواسطہ طورپر مزدوروں اور کچھ دیگر معزز پیشوں سے متعلق افراد یعنی انجنئیروغیرہ کو مقامی طور پر روزگار فراہم کرائے گی یعنی پروجیکٹ کے دوران سرکاری خزانے پر کسی طرح کے بوجھ کے بغیر روزگارفراہم ہوں گے۔ پس منظر : چنڈی گڑھ انتظامیہ یا اس کے تحت کام کرنے والے بورڈ ، کارپوریشن ، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں کام کرنے والے ملازمین یا چنڈی گڑھ انتظامیہ کے تحت ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ملازمین پر مشتمل مختلف زمروں کی جانب سے حاصل ہونے والی درخواستوں اور مطالبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ازخود سرمایہ کاری ہاؤسنگ اسکیم 2008 مشتہر کی گئی تھی اور یہ مشتہری چنڈی گڑھ ہاؤسنگ بورڈ کی جانب سے 2008 میں عمل میں آئی تھی تاکہ ہر زمرے کے یوٹی ملازمین کی ضروریات کی تکمیل کی جاسکے ۔ مذکورہ اسکیم کے سلسلے لاٹری کے ذریعہ رہائش گاہیں الاٹ کرنے کا عمل 3930 درخواست دہندگان کے لئے صاف اورشفاف طریق کار اپنا کر 4ستمبر 2010 کو انجام دیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر 7811 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ 000000 م ن ۔س ش ۔رم,কেন্দ্ৰীয় শাসিত অঞ্চলৰ কৰ্মচাৰীৰ সকলৰ বাবে স্ব-বিত্তায়ন গৃহ আঁচনিৰ অধীনত ৩৯৩০টা আবণ্টিত গৃহৰ বাবে এপাৰ্টমেণ্ট নিৰ্মাণ কৰিবলৈ চণ্ডীগড় গৃহ নিৰ্মাণ পৰিষদক ভূমি আবণ্টনত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B0%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A7%8D/,مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں آج معذوری کے شعبہ میں تعاون کی غرض سے بھارت اور چلی کے مابین مفاہمتی عرضداشت پر دستخط ہونے کے عمل کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ باہمی مفاہمتی عرضداشت معذور افراد کو بااختیار بنانے کے محکمہ ، حکومت ہند اور چلی کی حکومت کے مابین تعاون کی حوصلہ افزائی کرے گی اور یہ کام معذوری کے شعبہ میں مشترکہ پہل قدمیوں کے توسط سے ہوگا۔ اس سے بھارت اور چلی کے مابین باہمی تعلقات مستحکم ہوں گے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے مابین ارادوں کے اظہار پر مبنی مشترکہ مراسلے پر دستخط کیے گئے ہیں جس میں بطور خاص درج ذیل شعبوں میں معذوری کے شعبہ کے سلسلے میں تعاون کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ 1۔ معذوری پالیسی اور خدمات کی بہم رسانی کے سلسلے میں اطلاعات کا ساجھا کرنا 2۔ اطلاعات اور علم کا باہم تبادلہ 3۔ امدادی یا معاون آلات تکنالوجی کے شعبہ میں تعاون 4۔ معذوری کے شعبہ میں باہمی دلچسپی کے پروجیکٹوں کو ترقی دینا 5۔ معذوری کی جلد از جلد شناخت اور اس کا تدارک 6۔ ماہرین ، ماہرین تعلیم اور دیگر انتظامی عملے کا باہم تبادلہ مفاہمتی عرضداشت اس کے تحت عمل میں لائی جانے والی سرگرمیوں کے سلسلے میں عائد ہونے والے اخراجات پر احاطہ کرنے کے لیےسرمایہ فراہم کرنے کا ایک میکنزم فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں پر عائد ہونے والے اخراجات باہمی طورپر دونوں حکومتوں کی جانب سے طے کیے جائیں گے اور ان کا انحصار سرمائے اور وسائل کی دستیابی کی شرط کے ساتھ علیحدہ علیحدہ معاملات کی بنیاد پر ہوگا۔ بین الاقوامی سفر/ مشترکہ پہل قدمیوں کی گنجائش پر آنے والی لاگت دورے پر آنے والے ملک کے ذریعہ برداشت کی جائے گی جبکہ میٹنگوں کے اہتمام کے اخراجات میزبان ملک برداشت کرے گا۔ بھارت اور چلی کے مابین گرمجوشانہ اور دوستانہ تعلقات استوار ہیں جو مختلف النوع موضوعات کی یکسانیت اور ہم آہنگ نظریہ پر مبنی ہیں۔ 2019۔20 کا سال ایسا سال تھا جب دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے 70 برس مکمل ہوئے۔ باہمی تعلقات گذشتہ برسوں کے دوران اعلیٰ سطحی دوروں کے باہم تبادلوں کے تحت مستحکم ہوئے ہیں جن میں 2005 اور 2009 میں چلی کے محترم صدر کے 2 دورے بھی ش��مل ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ح ا۔ ن ا۔,কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটে দিব্যাংগতাৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ বাবে ভাৰত আৰু চিলিৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰকৰিবলৈ অনুমোদন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D8%B2%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%D9%85%D9%B9-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%82-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8/,نئیدہلی۔26؍فروری۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نیوز 18 کے پروگرام رائزنگ انڈیا سمٹ میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے: نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر انچیف راہل جوشی جی، نیٹ ورک 18 سے وابستہ سبھی صحافی ساتھی، مینجمنٹ سے جڑے لوگ، یہاں موجود دیگر حضرات ، نیٹ ورک 18 کے ناظرین اور میرے عزیز ساتھیو، ابھی کچھ دیر پہلے ہی مجھے نیشنل وار میموریل کو ملک کی خدمت میں پیش کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ یہ بھی ایک عجیب خوش اتفاقی ہے کہ اس کے ٹھیک بعد رائزنگ انڈیا سمٹ میں ایک ایسے موضوع پر بولنے کا موقع ملا ہے جو میرے دل سے بہت قریب ہے۔ میں نیٹ ورک18 کی ٹیم کو بیونڈ پالیٹکس: ڈیفائننگ نیشنل پرائیوریٹیزطے کرنے کیلئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں تعمیر قوم کی سمت میں کیا ہو، ایک قوم کے طور پر ہماری ترجیح کیا ہو، اس پر مسلسل غوروخوض بہت ضروری ہے۔ اب جب میں میڈیا کے ساتھیوں کے درمیان ہوں تو اس گفتگو کو آگے بڑھانے کیلئے آپ کا پسندیدہ طریقہ ہی اپناؤں گا۔ یعنی پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔ اسی سے آپ کو بھی واضح ہوجائیگا کہ پہلے ترجیح کیا تھی اور اب کیا ہے اور اسی سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ سیاست سے الگ ہٹ کر جب قومی پالیسی کو ترجیح دی جاتی ہے تو کس طرح کے نتائج نکلتے ہیں۔ ساتھیو! 2014 سے پہلے ملک کی صورتحال یہ تھی کہ جو بڑھنا چاہئے تھا وہ گھٹ رہا تھا اور جو گھٹنا چاہئے تھا وہ بڑھ رہا تھا۔ اب جیسے مہنگائی کی ہی مثال لے لیجئے ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ مہنگائی کی شرح قابو میں رہنی چاہئے لیکن اصلیت کیا تھی ، پچھلی سرکار میں ضروری اشیاء کے دام آسمان چھو رہے تھے۔ مہنگائی سُرسا کی طرح منہ کھول رہی تھی۔ آپ سبھی کواور خاص طور سے نیوز روم کے پروڈیوسرس کو یاد ہوگا کہ ’مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے‘ آپ کو کتنی بار اپنے شوز میں چلانا پڑا تھا۔ ساتھیو! آپ نے اس وقت خوب رپورٹنگ کی تھی کہ مہنگائی کی شرح دس فیصد کا آنکرا بھی پار کرچکی تھی، لیکن آج ہماری سرکار میں مہنگائی کی شرح 2-4 فیصد کے آس پاس ہی رہ گئی ہے۔ یہ فرق تب آتا ہے جب سیاست سے بالاتر ہوکر قومی پالیسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی صورتحال انکم ٹیکس کے معاملے میں بھی تھی۔ میڈکل کلاس مسلسل چھوٹ کیلئے آواز دیتا رہتا تھا لیکن راحت کے طور پر کچھ نہیں ملتا تھا۔ ہماری سرکار نے انکم ٹیکس پر چھوٹ کی حد پہلے ڈھائی لاکھ روپئے تک کی ، پھر پانچ لاکھ تک کی ، آمدنی کیلئے ٹیکس کی شرح کو دس فیصد سے گھٹا کر پانچ فیصد کیا گیا اور اس بار تو پانچ لاکھ تک کی ٹیکسیبل انکم کو ٹیکس کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے۔ ساتھیو! اب جی ڈی پی گروتھ ریٹ (مجموعی گھریلو شرح نمو ) کی ہی بات کروں تو آپ پہلے کی سرکار اور اب کی سرکار پہلے کی ترجیح اور اب کی ترجیح کا فرق صفائی کے ساتھ سمجھ پائیں گے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اٹل جی کی سرکار نے سال 2004 میں یوپی اے ��و آٹھ فیصد شرح نمو والی معیشت سونپی تھی لیکن سال 2013-14 میں یوپی اے کی رخصتی ہورہی تھی اس وقت شرح نمو پانچ فیصد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ 2014 میں ہم نے ایک بار پھر اس چیلنج کو قبول کیا ، آج ایک بار پھر ہماری سرکار نے جی ڈی پی گروتھ ریٹ (مجموعی گھریلو شرح نمو) کو سات سے آٹھ فیصد کے بیچ پہنچا دیا ہے۔ وہ بڑھے ہوئے کو گھٹا گئے اور ہم نے گھٹے ہوئے کو پھر بڑھا دیا یہ ہماری ترجیح ہے۔ یہی حال ہندوستان کی گلوبل اسٹینڈنگ (عالمی حیثیت ) کا رہا ۔ ہم سب پڑھتے آئے تھے کہ اکیسویں صدی ہندوستان کی صدی ہے لیکن یوپی اے سرکار میں کیا ہوا، ہندوستان تو 2013 تک آتے آتے فریگائیل فائیو ( پانچ کمزور ملکوں) میں پہنچا دیا گیا۔ آج ایک بار پھر سرکار کے عزم محکم اور سواسو کروڑ اہلیان وطن کی محنت کے دم پر ہندوستان فاسٹیسٹ گروئنگ میجر اکونومی (تیزی سے ترقی کرتی بڑی معیشت) بن گیا ہے۔ ایز آف ڈیوئنگ کی رینکنگ میں بھی پچھلی سرکار نے جاتے جاتے ملک کا نام ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، یہ کانگریس کی کلچر کا ہی نتیجہ تھا کہ سال 2011 کے 132ویں نمبر سے پھسل کر ہندوستان کی رینکنگ 2014 میں 142 تک چلی گئی تھی۔ آپ سوچئے کہ اس وقت ملک میں بزنس کی فضا کیسی بنا دی گئی تھی۔ اس رینکنگ میں سدھار کرکے ملک کو 77ویں مقام پر پہنچانے کا کام ہماری سرکار نے کیا ہے۔ ساتھیو، پچھلی سرکار کے دوران ایز آف ڈوئنگ بزنس میں ملک کی رینکنگ اس لئے بھی پھسل رہی تھی کیونکہ اس وقت بدعنوانی کا گراف آسمان چھو رہا تھا۔ اسپیکٹرم سے لیکر سب میرین تک اور کول سے لیکر سی ڈبلیو جی تک کوئی بھی بدعنوانی سے اچھوتانہیں تھا۔ اس دور میں ہر ادارہ خواہ وہ سپریم کورٹ ہو، سی اے جی ہو یا میڈیا ہو ہر جگہ سرکار کی بدعنوانی کی فائلیں کھل رہی تھیں۔ آج حالت یہ ہے کہ سیاسی مخالفت کیلئے اپوزیشن کے ہمارے ساتھی فرضی طریقے سے کورٹ جاتے ہیں اور وہاں ان کو پھٹکار لگائی جاتی ہے اور سرکار کی بھی ستائش کی جاتی ہے۔ سرکاری قدروں میں یہ بامعنی بدلاؤ ہماری سرکار کے دوران ہی آیا ہے۔ بھائیو اور بہنو! سیاست سے الگ ہماری سرکار کی ترجیحات کیسے الگ رہیں، کیسے ہم ایک اسکیم کو دوسری اسکیم سے جوڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور اس سے سسٹم کیسے سموتھ اور ٹرانسپیرینٹ ہورہا ہے اس کی ایک مثال پر میں آپ سے تفصیل سےبات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب ہم نے چار سال پہلے جن دھن اسکیم شروع کی تھی تو کتنا مذاق اڑایا گیا تھا ۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ غریبوں کا بینک کھاتا کھلواکر ہم نے کون سا تیر مار دیا۔ کئی لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ جن کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے وہ بینک میں کھاتا کھلواکر کیا کریں گے۔ ایسی ہی ذہنیت کی وجہ سے ہمارے ملک میں آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی نصف سے زائد لوگوں کے بینک کھاتے نہیں تھے ، آج ہماری سرکار کی کوششوں کی وجہ سے ملک میں 34 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے بینک کھاتے کھلے ہیں۔ جن دھن اکاؤنٹ کھلنے کے بعد ہم نے انہیں آدھار نمبروں سے جوڑا، کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ اکاؤنٹ موبائل نمبر سے بھی جڑ جائے۔ ادھر ہم ملک میں جن دھن کھاتے کھول رہے تھے اُدھر ان سرکاری اسکیموں کو بھی کھنگالا جارہا تھا جن میں استفادہ کنندگان کو پیسے دیے جانے کا ضابطہ تھا۔ پہلے یہ پیسے کیسے ملتے تھے ، کون بیچ میں انہیں ہضم کرجاتا تھا یہ بھی آپ کو معلوم ہے۔ ہم ایک ایک کرکے اسکیمیں کھنگالتے گئے اور انہیں جن دھن کھاتوں سے جوڑتے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سرکار کی سواچار سو سے زیادہ اسکیموں کا پیسہ استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں ٹرانسفر ہورہا ہے۔ ہماری سرکار کے دوران قریب قریب چھ لاکھ کروڑ روپئے مرکزی سرکار نے راست طور سے استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں بھیجے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے انتہائی فخر کااحساس ہورہا ہے کہ پہلے کی طرح 100 میں سے پندرہ پیسے نہیں بلکہ پورے پیسے استفادہ کنندگان کو پہنچ رہے ہیں۔ سرکار کی ان کوششوں کا اثر بدعنوانی اورکالے دھن پر کیا پڑا ہے یہ بھی آپ کو جاننا ضروری ہے۔ ساتھیو! جن دھن اکاؤنٹ ،آدھار اور موبائل کو جوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کے بعد ایک کرکے کاغذوں میں دبے ہوئے فرضی نام سامنے آنے لگے۔ آپ سوچیے اگر آپ کے گروپ میں یا چینل میں پچاس لوگ ایسے ہوں، جن کی ہر مہینے سیلری تو جارہی ہو لیکن وہ حقیقت میں ہوہی نہیں تو کیا ہوگا؟ اب یہاں ایچ آر والے لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں ایسا ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن پہلے کی سرکاروں نے ملک میں جو انتظام بنا رکھا تھا ان میں ایک دو نہیں آٹھ کروڑ ایسے فرضی نام تھے جن کے نام پر سرکاری فائدہ ٹرانسفر کیا جارہا تھا۔ سرکار کی ان کوششوں سے ایک لاکھ دس ہزار کروڑ سے زائد رقم غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئی۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ایک لاکھ دس ہزار کروڑ روپئے بچے ہیں تو یہ بھی سوچیئے کہ پہلے یہی پیسے کسی اور کے پاس جابھی تو رہے تھے۔ سال بہ سال یہ پیسے ان بچولیوں کے پاس جارہے تھے ، ان لوگوں کے پاس جارہے تھے جو اس کے مستحق نہیں تھے۔ اب ہماری سرکار ی نے یہ ساری لیکیج بند کردی ہے۔ آج جس آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ملک کے تقریباً 50 کروڑ غریبوں کو پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت فراہم کرائی جارہی ہے اس میں بھی لیکیج کی گنجائش نہیں ہے۔ علاج کا پورا پیسہ سیدھے اسپتال کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے ۔ جس کے استفادہ کنندگان آدھار نمبر سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا چناؤ 2015 میں پبلش کیے گئے سوشیوایکونومک سروے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ قریب قریب ہر ویلفیئر اسکیم کے لئے یہی طریقہ اپنایا جارہا ہے جس سے بے ایمانی اور لیکیج دونوں پر شکنجہ کسا جاسکا ہے۔ ساتھیو!آپ کو معلوم ہوگا کہ کل ہی ہماری سرکار نے پردھان منتری کسان سمّان ندھی یوجنا شروع کی ہے۔ ملک کے تقریباً بارہ کروڑ کسان کنبوں کو ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے یعنی چارہ خریدنے کیلئے، بیج خریدنے کیلئے، جراثیم کش دوائیں خریدنے کیلئے، کھاد خریدنے کیلئے، سرکار سال بھر میں تقریباً 75 ہزار کروڑ روپئے سیدھے کسانوں کے کھاتے میں ٹرانسفر کرنے جارہی ہے۔ اس اسکیم میں بھی لیکیج ممکن نہیں ہے۔ اب سوچئے کسی کو چارہ گھوٹالہ کرنا ہو تو کیسے کریگا؟ کیوں کہ اب تو سیدھے موبائل پر میسج آتا ہے۔ کچی پکی پرچی کا تو سارا انتظام ہی مودی نے ختم کردیا۔ اسی لئے تو مجھے پانی پی پی کر گالیاں دی جاتی ہے۔ میں نے جس جس کیلئے لوٹ کے راستے بند کیے ہیں وہ آج کل مجھ سے اتنی محبت جتا رہے ہیں کہ پوچھو مت۔ ایک اسٹیج پر جمع ہوکر اتنی گالیاں شاید ہی کسی کو دی گئی ہو جتنی مجھے دی جاتی ہے۔ ساتھیو ! ان کے لئے مودی کو گالی دینا ترجیح ہے۔ لیکن میری ترجیح ہے کہ ملک کا ایماندار محنت سے کام کرنے والے ،ٹیکس پیئر سے سرکار کو ملی ایک ایک پائی کا صحیح استعمال ہو۔ ہمارے یہاں کس طرح عوام کے پیسے کو ، عوام کا پیسہ نہ سمجھنے کی روایت عرصے تک جاری رہی ہے ، آپ بھی جانتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو سینکڑوں اسکیمیں برسوں تک ادھوری نہ رہتی۔ اٹکتی بھٹکتی نہ رہتی۔ اس لئے ہ�� ہماری سرکار اسکیموں میں تاخیر کو مجرمانہ لاپروہی سے کم نہیں مانتی۔ میں آپ کو صرف دو تین مثالیں دیتا ہوں کہ پہلے کے دہائیوں میں کیسے کام ہوا ہے اور کیسے اس کا اثر لوگوں کی زندگی پر اور ٹیکس پیئر کے پیسے پر پڑا ہے۔ ساتھیو! یوپی میں بان ساگر کے نام سے ایک ایریگیشن (سینچائی) اسکیم ہے ، یہ اسکیم تقرباً چار دہائی پہلے شروع ہوئی تھی ، اس وقت اندازہ لگایا گیا تھا کہ 300 کروڑ روپئے میں اس کا کام پورا ہوجائیگا لیکن یہ اٹکی رہی ، لٹکی رہی۔ 2014 میں ہماری سرکار بننے کے بعد اس پر پھر کام شروع کیا گیا تب اس کی لاگت کی رقم تین ہزار کروڑ روپئے ہوگئی۔ ایسا تو نہیں تھا کہ کوئی پہلے کی سرکاروں کو کام کرنے سے روک رہا تھا، منع کررہا تھا ۔ اس وقت 300 کروڑ روپئے کی قلت ہو میں یہ بھی نہیں مانتا۔ دراصل کام کو بروقت پورا کرنے کی خواہش ہی ہیں ہوتی تھی ، یہی تھا کہ ٹھیک ہے دیر ہوتی ہے تو ہوتی رہے میرا کیا نقصان ہے۔ ایک اور ڈیم اسکیم ہے جھارکھنڈ کی منڈل ڈیم ۔ یہ بھی چار دہائی سے ادھوری پڑی تھی۔ جب یہ شروع کی گئی تو اس کی لاگت تھی صرف 30 کروڑ اور اب یہ باندھ تقریباً 2400 کروڑ روپئے خرچ کرکے پورا کیاجارہا ہے یعنی یہ اسکیم لٹکنے کی 80 گنا قیمت ملک کے ایماندار ٹیکس دہندہ کو چکانی پڑرہی ہے۔ بھائیو اور بہنو! آپ لوگ گھوٹالے کی خبریں سنتے تھے تو الرٹ ہوجاتے تھے لیکن ملک میں اس طرح کی سینکڑوں اسکیموں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کا جو لاکھوں کروڑ روپئے کا آپ جیسے ایماندار ٹیکس دہندہ کا لگاتار برباد ہورہاتھا اس کی کسے پرواہ تھی۔ اس پیسے کا احترام کرنا ہماری سرکار کی ترجیح تھی اور اس لئے ہی سرکاری نظام میں لیٹ لطیفے کے کلچر کو بدلنے کی میں نے پہلے دن سے کوشش کی ہے۔ میں ایک ایک ریاست کے چیف سکریٹری کو لیکر بیٹھا ہوں ، ایک ایک وزارت کے سکریٹری کو لیکر بیٹھا ہوں کہ کچھ بھی ہو لیکن اسکیموں میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ عوام کا پیسہ برباد نہیں ہونا چاہئے۔ ساتھیو! بارہ لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ مالیت کی پرانی اسکیموں کا جائزہ میں نے خود لیا ہے۔ جتنے بھی پروجیکٹس کا تکمیل کے وسیلے سے جائزہ لیا گیا ان میں بیشتر مشرقی ہندوستان کی ہیں، شمال مشرقی ہندوستان کی ہیں، یہ بھی ہماری سرکار کی ترجیحات کا ایک اور بڑا حصہ رہا ہے۔ مشرقی ہندوستان کو نئے ہندوستان کی ترقیاتی نمو کے ساتھ تعمیر سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ہمارے وژن کا اہم پہلو رہا ہے۔ آپ نے متعدد بار یہ رپورٹنگ کی ہے کہ کس طرح مشرقی اور شمال مشرقی ہندوستان میں کئی دہائیوں بعد پہلی بار ریل پہنچ رہی ہے۔ پہلی بار ایئرپورٹ بن رہے ہیں، پہلی بار بجلی پہنچ رہی ہے، ہماری کوشش ہے کہ سماج یاملک کا ہر وہ طبقہ جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی وجہ سے محروم محسوس کررہا تھا اس کے پاس پہنچا جائے ، اس کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی جائے ، عام زمرے کے غریبوں کو دس فیصد ریزرویشن دیے جانے کا فیصلہ ہو یا پھر مزدوروں کیلئے پنشن کی تاریخ اسکیم ہو، گھومنتو فرقے کے لوگوں کیلئے ویلفیئرڈیورلپمنٹ بورڈ بنانے کا فیصلہ ہو یا پھر ملک کے کروڑوں ماہی گیروں کیلئے ایک الگ ڈپارٹمنٹ ، ہم سب کا ساتھ سب کا وکاس کے اصول پر کام کررہے ہیں ، ملک کے ہر شخص ، ہر زمرے ، ہر گوشے تک ترقی اور اعتماد کی روشنی پہنچانے کی ہماری ترجیح ہی نیو انڈیا کی نئی خود اعتمادی کا سبب بن رہی ہے اسی خود اعتمادی کے ساتھ میں آپ سے اس معاملے پر بھی کچھ بات کرناچاہتا ہوں جو آپ کا بہت ہی فیوریٹ موضوع رہا ہے اور یہ فیوری�� موضوع ہے روزگار۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ نیٹ ورک 18 میں سال 2014 کے بعد سے کسی بھی ایک فرد کو نوکری نہیں ملی ہے، راہل جی یہ معلومات صحیح ہے نا؟ خیر حیران مت ہوں، میں جواب کا سوال بنانے کی کوشش آپ ساتھیو کو لیکر کررہا تھا۔ اب ذرا سوچیے ہندوستان جب سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن گیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ملازمت کے مواقع پیدا کیے بغیر یہ ممکن ہوجائے جب ملک میں ایف ڈی آئی (راست غیرملکی سرمایہ کاری) ، آل ٹائم ہائی (آج سب سے زیادہ )ہے ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ نوکریاں پیدا نہیں ہورہی ہوں۔ جب متعدد غیرملکی رپورٹوں میں کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں بہت تیزی سے غریبی ختم ہورہی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ نوکری کے بغیر ہی لوگ غریبی سے باہر آرہے ہوں۔ ذرا سوچیے جب ملک میں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا تیز رفتار سے سڑکیں بنانے کاکام جاری ہے ، ریل روٹس کو توسیع دی جارہی ہے ،غریبوں کیلئے لاکھوں مکان تعمیر کیے جانے سے لیکر نئے پُل ، نئے باندھ اور نئے ہوائی اڈے جیسے ڈھانچہ جاتی سہولیات کے پروجیکٹس پر ریکارڈ کام ہورہا ہے ، سیاحت کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان ساری سرگرمیوں سے روزگا رپیدا نہ ہوئے ہوں۔ آپ نےاپنے آس پا س کے ماحول میں ڈاکٹر ، انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کو آگے بڑھتے دیکھا ہوگا، محکمہ انکم ٹیکس کے اعداد وشمار کے مطابق پچھلے چار مالی برسوں کے دوران سسٹم سے چھ لاکھ پروفیشنلز جڑے ہیں، ان میں سے ہر پروفیشنلز کو سپورٹ اسٹاف کی بھی ضرورت پڑی ہوگی ایسے میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں پروفیشنلز نے پچھلے چار برسوں میں لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سڑک دوڑنے والی گاڑیاں بھی ایک نئی تصویر پیش کرتی ہیں۔ کوئی مجھے بتارہا تھا کہ آپ کے فلم سٹی نوئیڈا میں پہلے جہاں نصف سے زائد جگہ خالی رہ جاتی تھیں اب وہاں گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ بھی نہیں بچی۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں ٹرانسپورٹ سیکٹر میں زبردست بوم آیا ہے۔ کمرشیل گاڑیوں کی ہی بات کریں تو پچھلے سال ہی ہندوستان میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ گاڑیاں فروخت کی گئی ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ نوکریوں کے بغیر اتنی کمرشیل گاڑیاں فروخت ہورہی ہیں۔ اب پردھان منتری مدرا یوجنا کو ہی لیجیے ، میں نے میڈیا میں ہی اس سے جڑی ایک سے بڑھ کر ایک حوصلہ افزا کہانیاں دیکھی ہیں، ان میں سے کئی استفادہ کنندگان سے تو میں خود بھی مل چکا ہوں۔ ان کی کامیابی کہانیاں میں نے خود جانی ہیں کس طرح انہوں نے لون لیکر اپنا روزگار شروع کیا اور آج درجنوں کو روزگار دے رہے ہیں۔ ساتھیو اس اسکیم کے تحت پندرہ کروڑ سے زائد کاروباریوں کو سات لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا لون دیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس میں سے چار کروڑ سے زائد جواں سال کاروباری ایسے ہیں جنہوں نے اپنے بزنس کیلئے پہلی بار لون لیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے کاروباریوں کو لون دیا گیا ہو اور اس سے لوگوں کو روزگار نہ ملا ہو۔ ساتھیو ! روزگار کو لیکر سرکار کو ای پی ایف او سے بھی زبردست معلومات حاصل ہوتی ہے جہاں تک ای پی ایف او کی بات ہے تو کروڑوں لوگوں کا پیسہ کٹ رہا ہے سرکار ان کے کھاتے میں اپنے حصے کا پیسہ جمع کرارہی ہے تب جاکر یہ اعداد وشمار مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہزار دس ہزار لوگوں کا سروے کرکے اعداد وشمار بتائے جارہے ہوں ۔ ستمبر 2017 سے نومبر 2018 کے درمیان ہر مہینے تقریباً پانچ لاکھ سبسکرائب��س ای پی ایف او سے جڑے ہیں۔ اسی طرح ایمپلائیز اسٹیٹ انشورنس کارپوریشن یعنی ای ایس آئی سے بھی ہر ماہ تقریباً دس سے گیارہ لاکھ سبسکرائبر جڑے ہیں۔ اگر ہم اسے ای پی ایف او کے اعداد وشمار سے پچاس فیصد زیادہ بھی مانیں تب بھی رسمی افرادی طاقت میں ہر ماہ تقریباً دس لاکھ لوگ شامل ہوئے ہیں۔ یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ نوکریاں ہر سال پیدا ہوئی ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں بھی تقریباً پچاس فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ سیاحت سے ہونے والی غیرملکی زرمبادلہ کی کمائی بھی گزشتہ چار برسوں میں 50فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ہوا بازی کے شعبے میں بھی تاریخی اضافہ ہوا ہے ۔ پچھلے برس دس کروڑ سے زائد لوگوں نے ہوائی سفر کیا ۔ کیا ان سب سے روزگا رکے مواقع نہیں پیدا ہوئے ہیں۔ ان اعداد وشمار سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ملک کے ہر شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور لوگوں کو ملازمتیں ملی ہیں ، ممکن ہے کہ کچھ لوگ مودی کی بات نہ مانیں لیکن یہ بھی تو یاد رکھیے کہ مغربی بنگال سرکار کہہ رہی ہے کہ پچھلے سال اس نے 9 لاکھ ملازمتیں فراہم کرائی ہیں اور 2012 سے 2016 تک 68 لاکھ نوکریاں دی گئی ہیں۔ کرناٹک سرکار کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 53 لاکھ ملازمتیں دی گئی ہیں ۔ کیا ممکن ہے کہ مغربی بنگال اور کرناٹک میں ملازمتوں کے مواقع تو پیدا ہورہے ہیں لیکن ہندوستان میں نہیں پیدا ہورہے ہیں۔ ساتھیو! میں روزگار کو لیکر مانتا ہوں کہ ابھی بھی ملک میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیکن جس سمت میں اور جس تیزی سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ جابس کو لیکر بھی ہندوستان پوری دنیا کے سامنے ایک مثال بن کر اُبھرے گا۔ ساتھیو، اس نیو انڈیا کو بنانے میں طاقتور کرنے میں میڈیا کی اور آپ سبھی کی خدمات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ سرکار کی ، سسٹم کی خامیوں کو اُجاگر کرنا آپ کا فطری حق ہے۔ لیکن ملک میں مثبت ماحول کو بھی طاقتور بنانا آپ سبھی کی ذمہ داری ہے۔ میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں کہ کیا آپ نے اپنے مثبت کردار کو ذمہ دار ی کے ساتھ نبھایا بھی ہے اور سماج اور نظام سے جڑے سدھار کے کاموں کے بارے میں اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ عوامی بیداری پیدا کرنے کاکام کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ نیو انڈیا کے رائز ہونے میں آپ کا یہ کردار اور طاقتور بننے والا ہے اور مضبوط ہونے والا ہے۔ آخر میں آپ سبھی کو اس سمٹ کے اہتمام کیلئے اور یہاں مجھے دعوت دینے کیلئے میں بہت بہت ممنون ہوں۔ شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔س ش۔ع ن,‘ৰাইজিং ইণ্ডিয়া শীৰ্ষ সন্মিলন’ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%DB%81%D9%86%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہمارےبہترین سائنسدانوں اور ان کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا ہے جن کی وجہ سے 1998 میں پوکھران کے کامیاب ٹیسٹ کئے جاسکے ۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ A ‘‘آج، قومی ٹیکنالوجی کے دن پر، ہم اپنے ذہین سائنسدانوں کا ان کی کوششوں کے لئے شکریہ ادا کرتے ہیں جن کی وجہ سے 1998 میں پوکھران کے کامیاب ٹیسٹ ہوئے۔ ہم اٹل جی کی مثالی قیادت کو فخر کے ساتھ یاد کرتے ہیں جنہوں نے شاندار سیاسی جرات اور سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا۔’’,ৰাষ্ট্ৰীয় প্ৰযুক্তি দিৱসত ভাৰতীয় বিজ্ঞানীসকলৰ প্ৰতি কৃতজ্ঞতা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8B-%E0%A6%9B%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے داتوسیری انور ابراہیم کو ملیشیا کا وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ میں ملیشیا کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر داتو سیری @انور ابراہیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں میں ہندوستان اور ملیشیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کلیدی شراکتداری کو مزید مستحکم بنانے کے لئے مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দাতো ছেৰি আনোৱাৰ ইব্ৰাহিমক মালয়েছিয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী নিৰ্বাচিত হোৱাত অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%85%D9%84%DA%A9%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B6-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80-%E0%A6%86/,نئی دہلی، 17 جنوری / وزیر اعظم جناب نریندر مودی 18 جنوری ، 2019 ء کو وائبرینٹ گجرات سمٹ کے نویں ایڈیشن کا افتتاح کریں گے ۔ نویں وائبرینٹ گجرات گلوبل سمٹ میں سربراہانِ مملکت ، عالمی صنعت کے سربراہان اور مفکرین کی شرکت ہو گی ۔ نواں وائبرینٹ گجرات ، 2019 سمٹ ‘‘ نیو انڈیا ’’ کی مجموعی اقتصادی ترقی پر توجہ کے ساتھ عالمی ، قومی اور ریاسی سطح کے ایجنڈوں پر تبادلۂ خیال کے لئے ایک فورم مہیا کرے گا ۔ وائبرینٹ گجرات کے حصے کے طور پر منعقد ہونے والی اہم تقریبات کے علاوہ ، نویں سمٹ میں معلومات میں تنوع کے تبادلے اور شرکاء کے مابین نیٹ ورکنگ کی سطح کو تیز کرنے کے مقصد سے فورموں کا مکمل نیا سیٹ بھی شروع ہو گا ۔ وائبرینٹ گجرات کا پورا خیال جناب نریندر مودی کے ذریعے ، جب وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے ، سوچا گیا تھا ۔ 2003 ء میں اپنی شروعات سے ہی وائبرینٹ گجرات ، ہندوستان کی تمام ریاستوں سے لے کر ، اس میں شرکت کرنے والوں اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے والوں کے لئے عالمی سطح کا نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم بن گیا ہے ۔ یہ سربراہ کانفرنس معلومات کے تبادلے اور موثر شراکت داری قائم کرنے میں سہولت بہم پہنچانے والے کے علاوہ ، عالمی سماجی اقتصادی ترقی کے ایجنڈوں پر ایک غور و فکر کا پلیٹ فارم بن گیا ہے ۔ جنوری ، 2017 ء میں منعقدہ 8 ویں وائبرینٹ گجرات گلوبل سمٹ میں چار ممالک کے سربراہان ، نوبل انعام یافتگان ، عالمی صنعت کے سربراہان اور مفکرین سمیت 100 ممالک سے تعلق رکھنے والے 25000 سے زائد مندوبین نے شرکت کی تھی ۔ وائبرینٹ گجرات ، 2019 کی جھلکیاں ہندوستان میں سائنس و ٹیکنا لوجی ، انجینئرنگ اور ریاضی ( ایس ٹی ای ایم ) تعلیم و تحقیق کے مواقع سے تعلق رکھنے والے راؤنڈ ٹیبل اس راؤنڈ ٹیبل میں ہندوستان کے ماہرینِ تعلیم اور حکومتِ ہند کے اہم پالیسی ساز اور ریاستی حکومتوں کے اہم پالیسی ساز شرکت کریں گے ۔ ‘‘ راؤنڈ ٹیبل میں ہندوستان میں ایس ٹی ای ایم تعلیم و تحقیق میں مواق�� سے متعلق خاکہ ’’ کے موضوع پر تمام شرکاء تبادلۂ خیال کریں گے۔ مستقبل کی ٹیکنا لوجیوں اور خلاء میں کھوج سے متعلق نمائش خلائی سفر کے مستقبل پر خیالات پیش ہوں گے ۔ سائنس ، ٹیکنا لوجی ، انجینئرنگ اور ریاضی ( ایس ٹی ای ایم ) سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس وائبرینٹ گجرات گلوبل ٹریڈ شو یہ اہم تجارتی نمائش 200000 مربع میٹر کے علاقے میں پھیلی ہے اور اس میں 25 شعبے اپنی مصنوعات کی نمائش کریں گے ۔ ایشیا کے ٹرانس شپمنٹ ہب کے طور پر ہندوستان کو بندرگاہ پر مبنی ترقی اور حکمتِ عملیوں کے موضوع پر ایک سیمینار اس سیمینار میں گجرات اور ہندوستان میں نقل و حمل کے شعبے کی ترقی سے متعلق خیالات پر تبادلۂ خیال ہو گا ۔ میک اِن انڈیا سے متعلق سیمینار اس سیمینار میں میک انڈیا پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے حکومت کے ذریعے کئے گئے پروگرام اور اہم مداخلتوں کی کامیاب کہانیوں کی نمائش ہو گی ۔ دفاع اور ایرو اسپیس کی صنعت میں مواقع سے متعلق سیمینار اس سیمینار کا منصوبہ ، گجرات میں دفاع اور ایرو ناٹکس میں مواقع سے متعلق شرکاء کو حساس بنانے کے مقصد سے بنایا گیا ہے ۔ نقل و حمل پر مبنی شہری ترقی اس تقریب میں شہروں کو جدید ٹیکنا لوجی ، پارکنگ کے مسائل کے حل ، بجلی کی گاڑیوں اور بڑے اعداد و شمار کو بروئے کار لاکر شہری ترقی کے محرک کے طور پر قابل رہائش پر بنانے پر غور و خوض کیا جائے گا ۔ نیو انڈیا کے لئے زراعت پر مبنی پائیدار ٹیکنا لوجی ٹیکسٹائل کنکلیو – نیو انڈیا کی تعمیر میں ٹیکسٹائلز کی ترقی کی صلاحیت کے مواقع تلاش کرنا نیو انڈیا کے لئے عزت مآب وزیر اعظم کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے ٹیکسٹائلز کنکلیو میں صنعت کے ماہرین ، سرکاری رہنما ، پالیسی ساز اور مفکر شرکت کریں گے ۔ یہ افراد ہندوستان میں ٹیکسٹائلز کی صنعت کی پائیدار ترقی اور نیو انڈیا کی تعمیر کی پہل میں مدد کے طریقۂ کار پر تبادلۂ خیال کریں گے ۔ ( م ن ۔ ش س ۔ ع ا ) ( 17 – 01 – 2019 ),একাংশ ৰাষ্ট্ৰৰ মুৰব্বী আৰু বিশ্ব ব্যৱসায়িক নেতৃবৰ্গৰ উপস্থিতিত কাইলৈ ভাইব্ৰেণ্ট গুজৰাটৰ নৱম সংস্কৰণ উদ্বোধন কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,ان کے یوم پیدائش کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا نئی دہلی،14۔نومبر ۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو ان کے یوم پیدائش کی یادگار کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا۔وزیراعظم نے کہا :’’ آنجہانی پنڈت جواہرلال نہرو کو ان کے یوم پیدائش کی جینتی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔‘‘ م ن ۔س ش۔ رم,জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে ভাৰতৰ প্ৰথমগৰাকী প্ৰধানমন্ত্ৰী পণ্ডিত জৱাহৰলাল নেহৰুৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B0%D8%A7%DA%A9%D8%B1-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%DB%8C%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%A6-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 08فروری؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کو ان کی یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ڈاکٹر ذاکر حسین کو ان کی سالگرہ پر یاد کرتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں زبردست خدمات انجام دیں۔ وہ ایک زبردست اسکالر ہی نہیں تھے،بلکہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے۔,ড০ জাকিৰ হুছেইনৰ জন্মজয়ন্তীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-6-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%86-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%DB%8C%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%84-%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AC-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%9A%E0%A7%8C%E0%A6%B9/,نئیدہلی ،05مارچ ۔وزیر اعظم جناب نریندرمودی 6 مارچ 2018 کو راجدھانی دلی کے منیرکا کے علاقے میں سینٹر ل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کی نئی عمارت اوراس کے احاطے کا افتتاح کریں گے ۔یہ عمارت کمیشن کو ایک مقام واحد سے کام کرنے کی سہولت دستیاب کرائے گی ۔اس سے پہلے سی آئی سی کا کام ایک کرائے کی عمارت میں ہورہا تھا۔ نیشنل بلڈنگ کارپوریشن کی تعمیر کردہ یہ جدید ترین سہولیات سے لیس عمارت اپنی مدت تکمیل کی تاریخ سے قبل ہی مکمل ہوچکی ہے ۔ اس پانچ منزلہ عمارت میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے سبھی ہئیرنگ روم ،جدیدترین فنون ،آئی ٹی اور ویڈیو کانفرنسنگ کے نظام سے لیس ہے ۔ یادرہے کہ سی آئی سی ایک اہم مرکزی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی تشکیل حق اطلاعات کے تحت 2005 میں کی گئی تھی ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش۔رم,৬ মাৰ্চত চিআইচিৰ নতুন চৌহদ উদ্বোধন কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%84-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C%DB%81-%D8%B4%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D8%B3%D9%85%D8%A7%DA%AF%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%96%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%B6%E0%A6%BF/,نئی دہلی:8؍جولائی 2022۔ اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل، یہاں کے مقبول وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، میرے کابینہ کے ساتھی دھرمیندر پردھان، قومی تعلیمی پالیسی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین، کے کستوری رنگن جی، حکومت کے دیگر وزراء، اس کانفرنس میں شریک تمام وائس چانسلرز، تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز، تمام اساتذہ، ماہرین تعلیم اور خواتین و حضرات۔ ‘آل انڈیا شکشا سماگم’ کا یہ پروگرام اسی پاک سرزمین پر منعقد کیا جا رہا ہے، جہاں آزادی سے پہلے ملک کی اتنی اہم یونیورسٹی قائم ہوئی تھی۔ یہ اجلاس آج ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ امرتکال کے دوران ملک کے امرت سے متعلق عزائم کو پورا کرنے کی عظیم ذمہ داری ہمارے تعلیمی نظام پر، ہماری نوجوان نسل پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ اپنشدوں میں بھی کہا گیا ہے – ودیا امرتم اشنوٹ۔ یعنی علم امرتو اور امرت کی طرف لے جاتا ہے۔ کاشی کو نجات کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آزادی کا واحد راستہ علم کو سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے تعلیم و تحقیق، سیکھنے اور سمجھنے کا اتنا بڑا غوروخوض، جب علم کے مرکز کاشی میں ہو گا، تو اس سے یقیناً ملک کو ایک نئی سمت ملے گی۔ اس موقع پر میں مالویہ جی کے قدموں میں سرجھکاتا ہوں اور آپ سب کو اس تقریب کے ��یے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میں کاشی کا ایم پی ہوں۔ آپ میری کاشی میں آئے ہیں تو ایک طرح سے میں بھی میزبان ہوں۔ آپ ان سب کے ساتھ میرے مہمان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو انتظامات میں زیادہ تکلیف نہیں ہوگی، سب نے انتظامات کرنے کی پوری کوشش کی ہوگی۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی کوتاہی ہے۔ تو وہ قصور میرا ہو گا اور بحیثیت میزبان اگر کوئی آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو میں اس کے لئے پیشگی معافی کا طلبگار ہوں۔ ساتھیو، میں ابھی ایک تقریب میں آرہا ہوں۔ یہاں دوپہر کے کھانے کے لیے ایک مرکزی باورچی خانہ کا کام تھا۔ لیکن وہاں مجھے کاشی میں اپنے سرکاری اسکول کے 10-12 سال کے بچوں سے گپ شپ کرنے کا موقع ملا اور وہاں سے نکل کر میں ان کی باتیں سننے اور آپ کو بتانے آیا ہوں۔ اور مجھے یہ کہنا ضروری ہے، میں چاہوں گا کہ، جب میں اگلی بار آؤں، تو اس اسکول کے بچے جن سے میں ملا ہوں۔ میں اس کے اساتذہ سے ملنا چا ہو گا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ خیال میرے ذہن میں کیوں آیا ہوگا۔ میرے ذہن پر ایسا اثر ہوا، مجھے وہ موقع صرف 15-10 منٹ کے لیے ملا، لیکن جو صلاحیت ان بچوں میں تھی، جو ٹیلنٹ تھا، جو اعتماد تھا اور جو تنوع تھا اور وہ بھی سرکاری اسکول کے ہمارے عام گھرانوں کے بچوں کا۔ وہ ٹیلنٹ جو وہ بچے وہاں پیش کر رہے تھے، آپ کے خاندان میں بھی، اگر آپ کاپوتا یا نواسہ آپ کے سامنے ایسا ٹیلنٹ رکھتا ہے، تو جب بھی گھر میں مہمان آئے گا، آپ اسے کھڑا کر دیں گے، ذرا دیکھو، مہمان آئے۔ تم فلاں چیز سناؤں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ نسل کی یہ صلاحیت ان کی قابلیت ہے جب وہ وہاں پہنچیں گے جہاں آپ ہیں، اس عہدے پر نہیں ، بلکہ ادارے میں ۔ آپ وہاں نہیں ہوں گے، آپ ایسا انسٹی ٹیوٹ بناکر جائیں گے کہ اس ٹیلنٹ کے بچوں کی وہاں آنے والے دنوں میں کمی محسوس کی جائے گی۔ یہ آپ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگلے تین دن تک یہاں ہونے والی بحث ومباحثہ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کو موثر سمت دے گی۔ ساتھیو، آپ سب جانتے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی کا بنیادی مقصد تعلیم کو تنگ نظری سے نکال کر 21ویں صدی کے جدید نظریات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں ذہانت کی کبھی کمی نہیں رہی۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا نظام بنایا گیا جس میں تعلیم کا مطلب صرف اور صرف نوکری سمجھا گیا۔ تعلیم میں یہ خرابی انگریزوں نے غلامی کے دور میں، اپنی ضروریات پوری کرنے، اپنے لیے نوکر طبقہ تیار کرنے کے لیے پیدا کی تھی۔ آزادی کے بعد اس میں ہلکی سی تبدیلی آئی لیکن کافی تبدیلی رہ گئی۔ اب انگریزوں کا بنایا ہوا نظام نہ کبھی ہندوستان کی بنیادی فطرت کا حصہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے پرانے دور کو دیکھیں تو ہم پائیں گے کہ ہمارے یہاں تعلیم میں مختلف فنون کا تصور تھا۔ اور بنارس، میرا کاشی اس کی زندہ مثال ہے۔ بنارس صرف اس لیے علم کا مرکز نہیں تھا کہ اس میں اچھی دانش گاہ اور تعلیمی ادارے تھے۔ بنارس علم کا مرکز تھا کیونکہ یہاں کا علم اور تعلیم کثیر جہتی تھی۔ تعلیم میں یہ تنوع ہمارے تعلیمی نظام کے لیے بھی تحریک کا باعث ہونا چاہیے۔ ہمیں صرف ڈگری ہولڈر نوجوانوں کو ہی تیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ملک کو آگے بڑھنے کے لیے جو بھی انسانی وسائل درکار ہیں، وہ ہمارے تعلیمی نظام کو، ہمارے ملک کو مہیا کئے جائیں ۔ اس عزم کی قیادت ہمارے اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو کرنی ہے۔ ہمارے اساتذہ جتنی تیزی سے اس جذبے کو بروئے کار لائیں گے۔ اتنا ہی ملک کے نوجوان ط��بہ اور ملک کے مستقبل کو فائدہ پہنچے گا۔ ساتھیو، نئے ہندوستان کی تعمیر کے لیے، نئے نظاموں کی تشکیل، جدید نظاموں کو شامل کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جو پہلے کبھی نہیں ہوا، جن مقاصد کو حاصل کرنے کا ملک نے تصور بھی نہیں کیا تھا، وہ دراصل آج کے ہندوستان میں ہمارے سامنے پورے ہو رہے ہیں۔ اب آپ دیکھیں، نہ صرف ہم کورونا کی اتنی بڑی وبا سے اتنی تیزی سے اُبھر پائے ، بلکہ آج ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ آج ہم دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں، جہاں پہلے صرف حکومت ہی سب کچھ کرتی تھی، اب پرائیویٹ عناصر کے ذریعے نوجوانوں کے لیے ایک نئی دنیا تیار کی جا رہی ہے۔دوستو، پورا خلاء ان کے بہت قریب آ رہاہے۔ ملک کی بیٹیوں کے لیے، خواتین کے لئے پہلے جن شعبوں کے دروازے بند رہا کرتے تھے، آج وہ شعبے بیٹیوں کے ہنر کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ ساتھیو، جب ملک کا مزاج ایسا ہو، جب ملک کی رفتار ایسی ہو تو ہمیں بھی کھلی پرواز کے لیے اپنے نوجوانوں کو نئی توانائی سے آراستہ کرنا ہو گا۔ اب تک اسکول، کالج اور کتابیں طے کرتی تھیں کہ بچوں کو کس طرف جانا ہے۔ لیکن قومی تعلیمی پالیسی کے بعد اب نوجوانوں پر ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہماری ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے کہ ہم نوجوانوں کے خوابوں اور پرواز کی مسلسل حوصلہ افزائی کریں، ان کے ذہن کو سمجھیں، ان کی امنگوں کو سمجھیں، تب ہی ہم ان لوگوں کے لئے ضروری وسائل فراہم کر سکیں گے۔ کچھ بھی سمجھے بغیر اپنی رائےمسلط کرنے کا دور چلا گیا دوستو۔ ہمیں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہے، ہمیں خود کو ایک جیسی تعلیم، ایک جیسے اداروں کا نظام، انسانی وسائل کی ترقی کے ایک ہی مزاج سے آراستہ کرنا ہے۔ نئی پالیسی میں پوری توجہ بچوں کی صلاحیتوں اور انتخاب کے مطابق انہیں ہنر مند بنانے پر مرکوز ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ہنرمند، پراعتماد، پریکٹیکل، سوچنے سمجھنے والے ہونا چاہیے، تعلیمی پالیسی اس کے لیے زمین تیار کر رہی ہے۔ ساتھیو، ملک میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں کے درمیان، میں ایک مثال دوں گا کہ تعلیمی نظام اور اس سے جڑے آپ تمام حضرات کا کردار کتنا اہم ہے۔ میں اپنے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے دور کے آغاز کا ایک تجربہ بتاؤں گا۔ میں نیا وزیر اعلیٰ بن گیا تھا، حکومت کی دنیا سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا، میں دور تھا، اچانک کام آگیا۔ تو میرا ایک پروگرام تھا۔ میں نے اپنے تمام سیکرٹریوں سے کہا کہ آپ اپنے محکمے کے وزیر اعلیٰ ہیں اور یہ بتائیں کہ پانچ سال میں اپنا شعبہ آپ کہاں تک لے جائیں گے؟ کس طرح لے جائیں گے اور اس سےآپ کیا حاصل کریں گے؟ اس سے گجرات کے عام آدمی کی زندگی کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ اپنے وژن اور مکمل تفصیلات کے ساتھ اس کی ایک پریزنٹیشن بنائیں۔ میں نے یہ بات تمام محکموں کے سیکرٹریوں کو بتائی اور ہر روز شام پانچ بجے میری کونسل آف منسٹر کے تمام وزراء اور تمام سیکرٹریزاور ہم بیٹھتے تھے اور ایک سیکرٹری آ کر اپنے ڈپارٹمنٹ کی مکمل پریزنٹیشن دیتا تھا۔ اس کے بعد اس پر مباحثہ ہوتا تھا۔ وہ تمام سیکرٹریز جو پہلے زراعت کے سیکرٹری رہ چکے تھے، وہیں بیٹھے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی رائے تھی۔ بحثیں ہوتی تھیں، ہمارے وزیر بھی بحث کرتے تھے۔ میں سنتا رہتا تھا اور سیکھنے کی کوشش کرتا تھااور میرا یہ پروگرام تقریباً ایک ماہ تک چلتا رہا اور یہ پروگرام شام 5 بجے شروع ہوتا تھا�� رات 10 بجے بھی گھر جانے کی اجازت ملنا مشکل ہوتا تھا اور پروگرام بہت، بہت شدت سے چلا اور شاید ایسا ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہو گا۔ تو میں نے یہاں انڈسٹری سے متعلق ایک پریزنٹیشن دی تھی۔ کہ وہ آنے والے دنوں میں صنعت کار کیا کیا دیکھیں گے، آنے والے دنوں میں صنعتی ترقی کیسی ہوگی۔ چنانچہ جیسے ہی سارا پروگرام ختم ہوا سیکرٹری تعلیم میرے پاس آئے۔ کیونکہ دوسرے دن سیکرٹری تعلیم کا پروگرام تھا۔ انہوں نے کہا جناب میں کل نہیں کر سکوں گا۔ میں نے کہا کیا بات کر رہے ہو؟ ایک مہینہ پہلے تیاری کرنے کو کہا اور تم آخری لمحے میں کہہ رہے ہو، میں نہیں کر پاؤں گا۔تب انہوں نے کہا کہ میں تیار ہوں اور اس کام کو کر سکتا ہوں۔ لیکن صنعتی ترقی کی جو پیش رفت میں نے آج دیکھی، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا ان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ہم بائیں جا رہے ہیں، وہ دائیں جا رہے ہیں۔ اس لیے مجھے اپنی پریز یٹیشن کو اس کی روشنی میں نظر ثانی کرنے کے لیے وقت درکار ہے، تب ہی ہم اکیڈمی اور صنعت میں ایک ساتھ مل کر ایک جامع ترقی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں بھی اب پوری دنیا کے بارے میں جاننا چاہیے، ہر یونیورسٹی کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ دنیا کس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، کیسی جا رہی ہے۔ اس میں ہمارا ملک کہاں ہے؟ اس میں ہمارے نوجوان کہاں ہیں؟ آنے والے 15-20 سالوں میں ہندوستان ان بچوں کے ہاتھ میں ہوگا، میں انہیں کیسے تیار کر رہا ہوں۔ یہ ہماری بڑی ذمہ داری ہے دوستو۔ اور ان ہی خطوط پر ہمارے تمام تعلیمی اداروں کو بھی اپنے آپ سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم مستقبل کے لیے تیار ہیں؟ میں آج کا دن امتحان دے رہا ہوں۔ میں کانووکیشن کر رہا ہوں، کیا یہ میرا کام ہے جس پوزیشن پر ہوں، کیا یہ میرا کام ہے کہ میں ایسا ادارہ بناؤں کہ آج جو بچہ میرے سکول، کالج میں آئے گا، جب آزادی کے 100 سال ہوں گے، جب اس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہوگا تو میرا ملک وہاں پہنچے گا، میں آج وہ نظام بنا کر جاؤں گا۔ آپ سب نے حال کو سنبھالنا ہے، جو کام پہلے کیا ہے اُسے آپ کو آگے بڑھانا ہے، لیکن جو کام آج کر رہے ہیں، انہیں صرف مستقبل کے لیے سوچنا ہو گا اور مستقبل کے لیے سہولیات کوترقی دینا ہوگی۔ کیونکہ آج بچوں کے تجسس ایسے ہیں جن کے جوابات میں نے صرف بچوں کو بتائے ہیں جن سے ملنے آیا ہوں۔ آپ کو گھر میں پتہ چل گیا ہو گا کہ آپ کے چھوٹے پوتے بھی آپ سے سوال کر رہے ہوں گے، آپ کے چھوٹے بچے آپ سے سوال کر رہے ہوں گے، آپ کو سوچنا ہو گا، ارے بھائی یہ کہاں سر کھا رہا ہے۔ وہ سر نہیں کھا رہاآپ کا، آپ اسے جواب دینے کے قابل نہیں، دوستو، بس۔ یہ تجربہ ہر کسی کے گھر میں دوہرایا گیا ہوگا۔ وہ گوگل پر 10 چیزوں کے سوال پوچھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں، گوگل یہ کہہ رہا ہے۔ یہ بچہ آپ کو غلط ثابت کرتا ہے۔ اب یہ بچے دس سال بعد تمہاری یونیورسٹی میں آئیں گے تو تمہارا کیا بنے گا؟ ہمیں ابھی سے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ آپ گھر میں بھی اپنے بچوں کے ساتھ عدم مطابقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب سکول، کالج کیمپس کے اندر نوجوان نسل کی بڑی تعداد موجود ہو گی۔ اس طرح نئی سوچ کے ساتھ سامنے آئی ہوگی اور ہم وہاں اس کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہوں گے، تو ان کے ساتھ کتنی بڑی ناانصافی ہو گی، اور اس لیے ضروری ہے کہ ہم مستقبل کو جانیں، سمجھیں اور نظام کو تیار کریں۔ میں ڈیجیٹل انڈیا مہم کے تحت چند دن پہلے گاندھی نگر میں ایک نمائش دیکھنے گیا تھا۔ سرکاری سکولوں کے بچے تھے۔ بارہویں، دسویں گیارہویں کے بچے تھے۔ وہاں بچوں نے جو پراجیکٹس تیار کیے تھے، جو آئیڈیاز رکھے تھے، میں انہیں سمجھنے کی بہت کوشش کر رہا تھا، اور میں ان بچوں کے کام سے بہت متاثر ہوا۔ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی تحقیقی صلاحیت، ایسی اختراعات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ وہاں بہت سے بچے بائیوٹیک اور جینیٹکس میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جب اس کی کلاس میں سائنس کے بنیادی اصول پڑھائے جا رہے تھے، وہ جین میپنگ، افینیٹی کرومیٹوگرافی اور جینیاتی لائبریری پر مبنی ٹولز کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اب سوچو کتنا بڑا فرق ہے۔ ایک بچےکا کام دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ جب وہ اعلیٰ تعلیم تک پہنچ جائے گا تو کیا ہمارے ادارے اس کی جدید سوچ کے مطابق تیار ہوں گے؟ اگر ہم ان بچوں کی اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے کا انتظار کریں تو اس وقت تک دنیا بہت آگے نکل جائے گی دوستو۔ اس لیے ہمیں اب سوچنا ہو گا کہ جس عمر میں بھی بچوں میں تحریک اور تجسس پایا جائے، اسی عمر میں انہیں رہنمائی اور وسائل فراہم کئے جائیں ہمیں اس پر سوچنا ہوگا ہمیں اپنے ادارے میں ایسانظام تیار کرنے کی سمت میں کام کرنا چاہئے۔ ساتھیو، رواں ماہ کے آخر میں 29 جولائی کو تعلیم سے متعلق قومی پالیسی کو دو سال مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ اور ابھی دھرمیندر جی بتا رہے تھے کہ کافی سوچ بچار کے بعد یہ تعلیمی پالیسی بنائی گئی ہے۔ کستوری رنگن جی نے بہت اچھی قیادت دی، ان کی وجہ سے یہ ممکن ہوا۔ اور اتناتنوع سے مالا مال ملک ہونے کے ساتھ ، قومی تعلیمی پالیسی کا اس طرح خیرمقدم کرنا اپنے آپ میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اس کی خاصیت دیکھیں، اس کو بنانے میں کافی غورو خوض کیا گیا ،یہ عام طور پر حکومت کا یہ مجاز ہوتا ہے کہ ایک دستاویز تیار کرلی جاتی ہے اور دستاویز کو وقت کے رحم و کرم پر اور کچھ افراد کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ایک دستاویز جو چند دنوں کے لیے آپ کی میز کی زینت بنتی ہے۔ پھر اسے بھی میز سے ہٹا دیا جاتا ہے، ایک نئی دستاویز آ کر اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ بات وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ آپ کو بھی اس کا تجربہ ہے، یہاں بیٹھے لوگوں کو بھی ہے۔ ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ ہم نے اس قومی تعلیمی پالیسی کو ہر لمحہ زندہ رکھا ہے۔ میں نے خود شاید اتنے کم وقت میں کم از کم 25 سیمینارز میں شرکت کی ہے، بلکہ 25 سے زیادہ اور میں اس موضوع پر بات کر رہا ہوں۔ اس رپورٹ کو دینے کے بعد، کستوری رنگن خود بھی مسلسل طور پر ، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ اس کی وضاحت درکار ہے، اس کے پیچھے کیا وژن ہے، پس منظر کی معلومات وہ بیان کر رہے ہیں ۔ پوری حکومت کے تمام محکمے مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ 30 سال بعد آنے والی دستاویز صرف کاغذی کے ڈھیر کی صورت میں ہم تک نہ پہنچے۔ جب آپ یہاں تین دن تک غور وفکر کریں گے تو اس کی جو بہت سی باریکیاں ہیں،اُنہیں آپ نے ایک ایک صفحہ کے اندر پڑھ لیا ہوگا، لیکن اب یہ ایک نئے انداز میں آپ کے سامنے آئے گا۔ اس لیے اپنی یونیورسٹی کے اندر بھی اسی طرح کی مسلسل غورو فکر کے پروگراموں کا منصوبہ بنا کر آپ کو یہاں سے جانا ہوگا۔ آپ یہاں سے صرف یہ باتیں سن کر نہ چلے جائیں، بلکہ باقی لوگ جو آپ سے وابستہ ہیں، وہ بھی اسی طرح غورو فکر کریں، اس میں سے مزید غور وفکر کی راہ نکالیں، تب ہی فائدہ ہوگا اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے، ان کی تمام باریکیوں پر ہمیں توجہ دیتے رہنا چاہیے۔ ساتھیو، آج جب کوئی کام اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو مسائل کا حل بھی تیزی سے نکلتا ہے۔ مسئلہ پر غور کرتے ہوئے، یہ سوچنا کہ میں اس میں کیاکروں، اس طریقہ سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ دوستو، ان دو سالوں میں ملک نے قومی تعلیمی پالیسی کو لاگو کرنے کی سمت میں بہت سے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ اس دوران رسائی، معیار اور مستقبل کی تیاری جیسے اہم موضوعات پر ورکشاپس نے بھی کافی مدد کی ہے۔ میں نے ملک اور بیرون ملک کے ماہرین تعلیم سے جو بات چیت کی، ملک کے وزرائے تعلیم کے ساتھ جو بات چیت ہوئی، اس نے بھی اپنی رفتار کو آگے بڑھایا اور ابھی کچھ دن پہلے ہمارے دھرمیندر جی نے ملک بھر کے وزیر تعلیم کو بھی بلایا ہے۔ جس طرح اس وقت ہم آپ کے ساتھ بحث کر رہے ہیں، میں نے ان کے ساتھ بھی کی تھی۔مسلسل کوششیں جاری ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سو فیصد حقیقی کیسے بنا سکتے ہیں؟ ریاستی حکومتوں نے بھی اپنی سطح پر اس سمت میں کئی اہم قدم اٹھائے ہیں اور آج سب کی کوششوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ملک بالخصوص ملک کے نوجوان اس بڑی تبدیلی میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ ساتھیو، نئی قومی تعلیمی پالیسی کے لیے ملک کے تعلیمی شعبے میں ایک بڑے بنیادی ڈھانچے کی بحالی پر بھی کام کیا گیا ہے۔ آج ملک میں بڑی تعداد میں نئے کالج کھل رہے ہیں، نئی یونیورسٹیاں کھل رہی ہیں، نئے آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم قائم ہو رہے ہیں۔ 2014 کے بعد سے اب تک ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد میں 55 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے اس سال سے یونیورسٹیوں میں یکساں معیار کے لیے کامن یونیورسٹی انٹرینس ٹیسٹ (C,বাৰাণসীত অখিল ভাৰতীয় শিক্ষা সমাগমৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%A4%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%D9%88%D9%85%DB%8C%D9%88%D9%BE%DB%8C%D8%AA%DA%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%A4-%E0%A6%94%E0%A6%B7%E0%A6%A7-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B9%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%85-2/,نئی دہلی،18؍جولائی،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے روایتی دواؤں اور ہومیوپیتھی کے شعبوں میں تعاون کے لئے بھارت اور کیوبا کے درمیان پہلے ہوئے مفاہمت نامے کو منظوری دے دی ہے۔ اس مفاہمت نامے پر 22 – 06 -2018 کو دستخط کئے گئے تھے۔ اثرات: یہ مفاہمت نامہ دونوں ملکوں کے درمیان روایتی ادویات اور ہومیوپیتھی کے طریقہ علاج کے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافہ کرے گا۔ دونوں ملکوں کے مشترکہ ثقافتی وراثت کو دیکھتے ہوئے یہ مفاہمت نامہ وسیع اہمیت کا حامل ہوگا۔,পৰম্পৰাগত ঔষধ আৰু হোমিঅ’পেথীৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা বৃদ্ধিৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু কিউবা মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%88%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D9%BE%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%B8%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BF-%E0%A6%8F%E0%A6%9B-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7/,نئیدہلی۔12اگست؛ 2018؛ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے وی ایس نائپال کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا ۔ وزیراعظم نے کہا ، ’سر وی ایس نائپال اپنے وسیع ترین کاموں کے لیے یاد کیے جائیں گے، جس میں تاریخ، ثقافت ، سامراجیت، سیاست اور بھی بہت کچھ شامل ہیں۔ ان کی وفات ادب کی دنیا کابڑا خسارہ ہے۔ غم کے اس لمحے میں ان کے کنبے اور خیر خواہ کے تئیں تعزیت پیش کرتا ہوں۔,ভি.এছ নাইপলৰ মুত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%88-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-19-%D8%B3%DB%92-%D8%AC%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A6%86%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A7%8B-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب جو بائیڈن کے لئے کووڈ-19 سے جلد صحت یابی کی تمنا کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’ کووڈ -19 سے جلد صحت یابی کے لئے,ক’ভিড আক্ৰান্ত জো বাইডেনৰ আশু আৰোগ্য কামনা কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%BE%D9%B9%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%AA-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%A6-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کینسر کے مشہور سرجن، ڈاکٹر دیوندر پٹیل کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور کینسر کے علاج میں ڈاکٹر پٹیل کے تعاون کو یاد کیا۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹ میں کہا: ’’ڈاکٹر دیوندر پٹیل نے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور کینسر کے علاج میں اپنی طرف سے کی گئی کوششوں کی وجہ سے لا تعداد لوگوں سے عزت و احترام حاصل کیا۔ طب کے بارے میں ان کے گہرے علم اور ہمدردانہ فطرت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی وفات سے کافی غم زدہ ہوں۔ ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اوم شانتی۔‘‘,ড০ দেৱেন্দ্ৰ পেটেলৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%8C-%D9%85%DA%AF%DB%81%D8%B1-%D8%8C%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%D9%88%D9%81%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8/,نئی دہلی،29؍جون / وزیراعظم نے ،صوفی اور شاعر سنت کبیر کے 500ویں یوم وفات کے موقع پر مگہر، اترپردیش میں مجمع سے خطاب کیا۔ انہوں نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا : نمسکار! صاحب بندگی! آج ہم اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھ رہے ہیں کہ عظیم صوفی، سنت کبیر داس جی کی یاد میں ہورہی اس تقریب میں اس مقدس سرزمین کو چھو رہے ہیں۔آج ہم کو یہا ں آکر بہت نیک لگتا ہے۔ ہم اس مقدس سرزمین کو سلام کرتے ہوئے باڑی اور آپ سب لوگوں کے پاؤں چھوتے ہیں۔ ریاست کے مقبول اور مشہور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی ، مرکز میں کابینہ میں میرے ساتھی جناب مہیش شرما جی، مرکز میں کابینہ میں میرے ساتھی جناب شیو پرتاپ شکلا جی ، ریاستی سرکار میں وزیر ڈاکٹر ریتا بہوگنا جی ، ریاستی سرکارمیں وزیر جناب لکشمی نارائن چودھری جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور اترپردیش بھارتی جنتا پارٹی کے صدر میرے دوست ڈاکٹر مہیندر ناتھ جی، ہماری پارلیمنٹ میں ایک نوجوان ، جوجھارو ، سرگرم اور نرم اور ویویک سے بھرپور ، اسی سرزمین کی اولاد ، ہمارے رکن پارلیمنٹ جناب شرت ترپاٹھی جی، اترپردیش کے چیف سکریٹری جناب راجیو ک��ار، یہاں موجود سبھی تجربہ کار اشخاص اور ملک کےکونے سے آئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! آج مجھے مگہر کی اس مقدس سرزمین پر آنے کا موقع ملا ، دل کو ایک مخصوص سکون کا احساس ہوا۔ بھائیو بہنو! ہر کسی کے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ ایسے تیرتھ استھلوں پر جائیں، آج میری بھی وہ خواہش پوری ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے مجھے سنت کبیر داس جی کی سمادھی پر پھول چڑھانے، ان کے مزار پر چادر چڑھانے کا موقع ملا۔ میں اس گپھا کو بھی دیکھ پایا، جہاں کبیر داس جی سادھنا کیا کرتے تھے۔ سماج کی صدیوں سے رہنمائی کر رہے ، رہنما ، سمدھا اور سمتا کی علامت مہاتما کبیر کوان کی نِروان بھومی میں ایک بار پھر میں کوٹی کوٹی نمن کرتا ہوں۔ ایسا کہتے ہیں کہ سنت کبیر، گرو نانک دیو اور بابا گورکھ ناتھ جی نے ایک ساتھ بیٹھ کر روحانی باتیں کی تھیں۔ مگہر آ کر میں یکسوئی محسوس کرتا ہوں۔ آج جیشٹھ شُکل پورنیما ہے۔ آج ہی سے بھگوان بھولے ناتھ کی یاترا بھی شروع ہو رہی ہے۔ میں تیرتھ یاتریوں کو محفوظ سفر کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ کبیر داس کی 500ویں یوم وفات کے موقع پر یہاں سال بھر کی تقاریب کی شروعات ہوئی ہے۔ مکمل انسانیت کے لئے سنت کبیرداس جی، جو عمدہ اثاثے چھوڑ گئے ہیں، ان کا فائدہ اب ہم سبھی کو ملنے والا ہے۔خود کبیر جی نے کہا ہے۔۔۔۔۔ تیرتھ گئے تو ایک پھل، سنت ملے پھل چار سدگرو ملے انیک پھل، کہے کبیر وِچار یعنی تیرتھ جانے سے ایک نیکی ملتی ہے، تو سنت کی سنگت میں چار نیکیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔ مگہر کے اس سرزمین پر کبیر مہواتسو میں ، یہ کبیر مہواتسو ایسی ہی نیکی دینے والا ہے۔ بھائیواور بہنو! تھوڑی دیر پہلے ہی سنت کبیر اکادمی کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ تقریباً 24 کروڑ روپے خرچ کر کے یہاں مہاتما کبیر سے جڑی ہوئی یادگاروں کو سنجونے والے اداروں کی تعمیر کی جائے گی۔ کبیر نے جو سماجی بیداری جگانے کے لئے زندگی بھر کام کیا، کبیر کے گاین، تربیتی عمارت، کبیر نرتیہ تربیتی بھون، ریسرچ سنٹر، لائبریری، آڈیٹوریم، ہاسٹل، آرٹ گیلری ان سب کو تعمیر کرنے کا اس میں منصوبہ ہے۔ سنت کبیر اکادمی اترپردیش کی آنچلک زبانوں اور لوک آرٹس کے فروغ اور تحفظ کے لئے بھی کام کرے گی۔ بھائیو اور بہنو!کبیر کی ساری زندگی سچ کی تلاش میں اورجھوٹ کی مذمت میں گزری ہے۔ کبیر کی سادھنا ماننے سے نہیں ، جاننے سے شروع ہوتی ہے۔ سرسے پیر تک مست مولا، مزاج کے پھکڑ، عادت کے اکھڑ، بھگت کے سامنے سیوک، بادشاہ کے سامنے بہت دلیر، دل کے صاف، دماغ کے درست، اندر سے نرم ، باہر سے سخت تھے۔ وہ اپنے پیدائش سے ہی نہیں، بلکہ اپنے کاموں سے مشہور ہو گئے۔ مہاتما کبیر داس، وہ دھول کے اٹھے ہوئے تھے ، لیکن ماتھے کا چندن بن گئے۔ مہاتما کبیر داس شخص سے شخصیت میں تبدیل ہو گئے اور اس سے بھی آگے وہ لفظ سے لفظ برہم ہو گئے۔ وہ سوؤچھ بن کر آئے اور برتاؤ بن کر امر ہو گئے۔ سنت کبیر داس جی نے سماج کو صرف نظریہ دینے کا ہی کام نہیں کیا، بلکہ سماج کی فکر کو بیدار کرنے کا بھی اور اسے سماج کی بیداری کے لئے کانسی سے مگہر آئے۔ مگہر کو انہوں نے علامت کے طور پر اختیار کیا۔ کبیر صاحب نے کہا تھا کہ اگر ہمارے دل میں رام بستے ہیں، تو مگہر بھی سب سے مقدس ہے اور انہوں نے کہا۔۔۔ کیا کاسی ، کیا اوسر مگہر، رام ہردے بسومورا۔ وہ کسی کے شاگرد نہیں، رامانند کے ذریعے چیتائے ہوئے چیلے تھے۔سنت کبیر داس جی کہتے تھے۔۔۔ ہم کاسی میں پرکٹ بھئے ہیں، راما نند چیتائے۔ کاسی نے کبیر کو روحانی بیداری د�� اور گرو سے ملایا تھا۔ بھائیو اور بہنو!کبیر بھارت کی آتما کا گیت، رَس اور سار کہے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے عام دیہی ہندوستان کے دل میں بات کو اس کی بول چال کی زبان میں پِرویا تھا۔ گروراما نند کے شاگرد تھے، اس لئے ذاتی کیسے مانتے۔ انہوں نے ذات پات کے بھید کو توڑا۔ سب مانس کی ایک ذاتی، یہ اعلان کیا اور اپنے اندر کے غرور کو ختم کرکے ا س میں بیٹھے ایشور کا درشن کرنے کا کبیرداس جی نے راستہ دکھایا۔وہ سب کے تھے، اس لئے سب ان کے ہو گئے ۔ انہوں نے کہا تھا۔۔۔ کبیرا کھڑا بازار میں مانگے سب کی خیر نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر ان دوہوں کو سمجھنے کے لئے کسی لغت کی ضرورت نہیں ہے۔ عام بول چال کی ہماری آپ کی زبان، ہوا کی سرلتا اور سہجتا۔ کے زندگی کے گہرے رازوں کو انہوں نے جن جن کو سمجھا دیا۔ اپنے بھیتر بیٹھے رام کو دیکھو، ہری تو من میں ہیں، باہر کے آڈمبرو پر کیوں وقت بیکار کرتے ہو، اپنے کو سدھارو، تو ہری مل جائیں گے۔۔۔ جب میں تھا، تب ہری نہیں، جب ہری ہیں، میں نہیں ۔ سب اندھیارا مٹ گیا، دیپک دیکھا ماہی۔ جب میں اپنے غرو ڈوبا تھا، جب پربھو کو نہیں دیکھ پاتا تھا، لیکن گرو نے علم کا دیپک اندر جلایا، تب جہالت کا سب اندھیرا مٹ گیا۔ ساتھیو، یہ ہمارے ملک کی عظیم سرزمین کی تپسیہ ہے ، اس کا تقدس ہے کہ وقت کے ساتھ سماج میں آنے والی اندرونی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً رِشی مُنی ، آچاریوں نے، بھگونتوں نے، سنتوں نے رہنمائی کی ہے۔ سینکڑوں سال کے غلامی کے کالے حصے میں اگر ملک کی روح بچی رہی، ملک کا مزاج، ہم آہنگی اور یکجہتی قائم رہی، تو ایسے عظیم تیجسوی، تپسوی سنتوں کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ মঘৰত মহান সন্ত তথা কবি কবীৰৰ ৫০০তম তিৰোভাৱ তিথি উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D9%88%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%85%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B1%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%AB/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 میں، نوین کمار کو مردوں کی فری اسٹائل 74 کلوگرام کشتی مقابلے میں طلائی تمغہ جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ہمارے پہلوانوں کا بہت بہت شکریہ۔ طلائی تمغہ جیتنے کے لئے نوین کمار کو مبارکباد۔ ان کا غیر معمولی اعتماد اور عمدہ تکنیک پورے طور پر نظر آرہی ہے۔ آئندہ کی ان کی تمام کاوشوں کے لئے نیک خواہشات۔ #Cheer4India ‘‘,প্রধানমন্ত্রীয়ে পুৰুষৰ ফ্ৰীষ্টাইল ৭৪ কিলোগ্ৰাম শাখাৰ ৰেষ্টলিঙত সোণৰ পদক জয় কৰাত নৱীন কুমাৰক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D9%8E%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B4%D9%86-%D8%B3%D9%85%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%85%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A8-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 11 فروری 2022: صدر میکرون، عالی جناب، نمسکار! میں سمندروں سے متعلق اس اہم عالمی پہل قدمی پر صدر میکرون کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بھارت ہمیشہ سے ایک بحری تہذیب کا حامل ملک رہا ہے۔ ہمارے قدیم صحائف اور ادب بحری زندگی سمیت سمندروں کے تحائف کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ آج، ہماری سلامتی اور خوشحالی سمندروں سے مربوط ہے۔ بحری وسائل بھارت کی ’’انڈو۔پیسفک بحری پہل قدمی‘‘ میں اہم ستون کے طور پر شامل ہیں۔ بھارت فرانس کی ’’ملکی دائرہ اختیار سے آگے حیاتیاتی تنوع پر اعلیٰ خواہشات پر مبنی اتحاد‘‘ کی پہل قدمی کی حمایت کرتا ہے۔ ہم اس برس قانونی طور پر پابند بین الاقوامی معاہدے کی امید کرتے ہیں۔ بھارت سنگل یوز پلاسٹک کے خاتمہ کے لیے پابند عہد ہے۔ بھارت نے حال ہی میں ساحلی علاقوں سے پلاسٹک اور دیگر فضلے کی صفائی کے لیے ایک ملک گیر بیداری مہم چلائی تھی۔ تین لاکھ نوجوانوں نے تقریباً 13 ٹن کے بقدر پلاسٹک کچرہ اکٹھا کیا۔ میں نے سمندروں سے پلاسٹک کچرے کی صفائی کے لیے اپنی بحریہ کو 100 بحری جہاز کے دنوں کا تعاون دینے کے لیے ہدایت جاری کی ہے۔ سنگل یوز پلاسٹک سے متعلق ایک عالمی پہل قدمی کے آغاز میں فرانس کے ساتھ شامل ہونے پر بھارت کو خوشی ہوگی۔ صدر میکرون، آپ کا شکریہ۔,‘ওৱান অচেন শীৰ্ষ সন্মিলন’ত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে প্ৰদান কৰা অভিমত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%AC-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D9%8B-4400-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بُھج میں تقریباً 4400 کروڑ روپے کے پروجیکٹو ں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا۔ اس سے پہلے انہوں نے بھج ضلع میں اسمرتی ون ممو ریل کا بھی افتتاح کیا۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بُھج میں اسمرتی ون میموریل اور انجار میں ویر بال اسمارک گجرات کے کَچھ ضلع اور پورے ملک کے مشترکہ درد کی علامت ہیں۔ انہوں نے اس لمحے کو یاد کیا جب انجاراسمارک کا تصور سامنے آیا اور رضاکارانہ کام ’کار سیوا‘ کے ذریعے اسمارک کو پورے کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان اسمارکوں کو تباہ کن زلزلے میں ہلاک ہوئے لوگوں کی یاد میں بوجھل دل سے وقف کیا جا رہاہے۔ انہوں نے آج لوگوں کے گرم جوشی سے استقبال کے لئے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے آج اپنے دل میں کئی جذبات کو یاد کیا اور پوری عاجزی کے ساتھ کہا کہ آنجہانی لوگوں کی روحوں کی یاد میں، اسمرتی ون میموریل 11/9 میموریل اور ہیروشیما میموریل کے برابر ہے۔ انہوں نے لوگوں اور اسکول کے بچوں سے میموریل کا دورہ کرتے رہنے کو کہا تاکہ فطرت کا توازن اور برتاؤ سب کے لیے صاف رہے۔ وزیراعظم نے تباہ کن زلزلے کے موقع کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا ’’ مجھے یاد ہے جب زلزلہ آیا تھا تو اس کے دوسرے دن ہی میں یہاں پہنچ گیاتھا۔ تب میں وزیر اعلیٰ نہیں تھا، عام سا کارکن تھا، مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کیسے اور کتنے لوگوں کی مدد کر پاؤں گا۔ لیکن میں نے طے کیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں میں یہاں آپ سب کے بیچ میں رہوں گا ۔ اور جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو خدمت کے تجربے نے میری بہت مدد کی۔‘‘ انہوں نے علاقے کے ساتھ اپنے گہرے اور طویل رشتے کو یاد کیا ، اور ان لوگوں کو یاد کیا اور خراج تحسین پیش کیا جن کے ساتھ انہوں نے بحران کے دوران کام کیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ""کَچھ کی ایک خاصیت تو ہمیشہ سے رہی ہے، جس کا ذکر میں ہمیشہ کرتا ہوں ۔ یہاں راستے میں چلتے چلتے بھی کوئی شخص ایک خواب بُن جائے، تو پورا کَچھ اس کو تناور درخت بنانے میں لگ جاتا ہے۔ کَچھ کے انہی شعائر نے ہر خدشہ، ہر قیاس آرائی کو غلط ثابت کیا۔ ایسا کہنے والے بہت تھے کہ اب کَچھ کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پائے گا۔ لیکن آج کَچھ کے لوگوں نے یہاں کی تصویر پوری طرح بدل دی ہے۔‘‘ انہوں نے یاد کیا کہ زلزلے کے بعد پہلی دیوالی ، لوگوں کے تئیں یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے انہوں نے اور ان کے ریاستی کابینہ کے رفقا نے علاقے میں منائی ۔انھوں نے کہا کہ چیلنج کی اس گھڑی میں ہم نے اعلان کیاکہ ہم آفات کو موقع (آپدا سے اوسر) میں بدل دیں گے۔’’ جب میں نے لال قلعہ کی فصیل سے کہا کہ بھارت 2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک ہو گا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ موت اور آفت کے بیچ، ہم نے کَچھ عہد کئے اور انہیں آج ہم نے حقیقت میں بدل دیا۔ اسی طرح آج ہم جو عزم کریں گے، اسے 2047 میں یقینی طور پر حقیقت میں بدل دیں گے۔ 2001 میں پوری طرح سے تباہی مچنے کے بعد کیے گئے غیرمعمولی کام پر روشنی ڈالتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ کر2003 میں کَچھ میں کرانتی گرو شیام جی کرشن ورما یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا ، جبکہ 35 سے زیادہ نئے کالج بھی قائم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے زلزلہ کے جھٹکے برداشت کرنے والے ضلع اسپتالوں اور علاقے میں کام کررہے 200 سے زیادہ کلینکوں کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر گھر کو مقدس نرمدا کا صاف پانی ملتا ہے جو پانی کی کمی کے دنوں میں بہت دور کی بات تھی۔ انہوں نے علاقے میں آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات کے بارے میں تفصیل سے بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ کَچھ کے لوگوں کے آشرواد سے سبھی اہم علاقوں کو نرمدا کے پانی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا ""کَچھ بُھج نہر علاقے کے لوگوں اور کسانوں کو فائدہ پہنچائے گی‘‘۔انہوں نے کچ کو پورے گجرات کا نمبر ایک پھل پیدا کرنے والا ضلع بننے کے لئے مبارکباد دی۔ انہوں نے مویشی پروری اور دودھ کی پیداوار میں غیرمعمولی ترقی کرنے کے لئے لوگوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا،’’کَچھ نے نہ صرف خود کو بہتربنایا ہے بلکہ پورے گجرات کو نئی بلندی پر پہنچایا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے اس لمحے کو یاد کیا جب گجرات ایک کے بعد ایک بحران سے نبردآزما تھا۔ ’’انہوں نے کہا کہ جب گجرات قدرتی آفات سے نمٹ رہا تھا، تب سازشوں کا دور شروع ہو گیا تھا ۔ گجرات کو ملک اور دنیا میں بدنام کرنے کے لئے یہاں کی سرمایہ کاری کو روکنے کی ایک کے بعد ایک سازشیں کی گئیں ‘‘۔ ایسی حالت میں بھی ایک طرف گجرات ملک میں آفات بندوبست قانون بنانے والی پہلی ریاست بنی۔ اس قانون نے وبا کے دوران ملک کی ہر سرکار کی مدد کی ""۔ انہوں نے کہا کہ گجرات کو بدنام کرنے کی سبھی کوششوں کو نظر انداز کرنا جاری رکھا اور سازشوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گجرات میں ایک نئی صنعتی راہ نکالی ، کَچھ کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ کَچھ میں آج دنیا کا سب سے بڑا سیمنٹ پلانٹ ہے۔ ویلڈنگ پائپ مینوفیکچرنگ کے معاملے میں کَچھ دنیا میں دوسرے مقام پر ہے۔ دنیا کا دوسرا سب سے بڑاکپڑا پلانٹ کَچھ میں ہے۔ ایشیا کا پہلا ایس ای زیڈ کَچھ میں بنا ہے۔ کانڈلا اور موندرا بندرگاہیں بھارت کے کارگو کا 30 فیصد سنبھالتے ہیں اور یہ ملک کے لیے 30 فیصد نمک پیدا کرتا ہے ۔ کَچھ شمسی اور ہوا سے 2500 میگاواٹ بجلی پیدا کرتاہے اور کَچھ میں سب سے بڑا سولر ہائبرڈ پارک بننے والا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ آج ملک میں جو گرین ہاؤس مہم چل رہی ہے، اس میں گجرات کا بہت بڑا رول ہے۔ اسی طرح، جب گجرات ،دنیا بھر میں گرین ہاؤس کیپٹل کے طور پر اپنی شناخت قائم کرے گا ، تو اس میں کَچھ کا بہت بڑارول ہوگا۔ پنچ پرن (پانچ عہدبستگی) میں سے ایک- اپنی وراثت پر فخر کو یاد کرتے ہوئے، جسے انہوں نے لال قلعہ کی فصیل سے بیان کیا تھا، وزیر اعظم نے کَچھ کی خوشحالی اور تمول پر روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم نے دھولاویرا کی عمارتوں کی تعمیر کی خصوصیت پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا، ""شہر کی تعمیر کے تعلق سے ہماری مہارت دھولاویرا میں نظرآتی ہے۔ پچھلے سال ہی دھولاویرا کوورلڈ ہیریٹیج سائٹ کا درجہ دیا گیا ہے۔ دھولویرا کی ایک ایک اینٹ ہمارے آب واجداد کی مہارت، ان کے علم اور سائنس کو ظاہر کرتی ہے۔"" اسی طرح طویل عرصے تک نظر انداز کیے گئے مجاہدین آزادی کی عزت و احترام بھی کسی کی وراثت پر فخر کرنے کا حصہ ہے۔ انہوں نے شیام جی کرشن ورما کی باقیات کو واپس لانے کے اعزاز کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مانڈوی میں میموریل اور اسٹیچو آف یونٹی بھی اس سلسلے میں بڑے قدم ہیں۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ کَچھ کی ترقی ’سبکا پریاس‘ کے ساتھ ایک مثبت تبدیلی کی بہترین مثال ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’ کَچھ صرف ایک مقام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک جذبہ ہے، ایک جیتا جاگتا احساس ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے ،جو ہمیں آزادی کے امرت کال کی عظیم عہدبستگیوں کی تکمیل کی راہ دکھاتا ہے۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل، رکن پارلیمان جناب سی آر۔ پاٹل اور جناب ونود ایل۔ چاوڑا، گجرات اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر نیما بین اچاریہ، ریاستی وزراء کریت سنگھ واگھیلا اور جیتو بھائی چودھری موجود تھے۔ پروجیکٹوں کی تفصیلات وزیر اعظم نے بُھج ضلع میں اسمرتی ون میموریل کا افتتاح کیا۔ وزیر اعظم کا تصورکردہ ، اسمرتی ون اپنی طرح کی ایک انوکھی پہل ہے۔اسے 2001 کے زلزلے کے دوران ہلاک ہونے والے تقریباً 13,000 لوگوں کی موت کے بعد لوگوں کے ذریعہ دکھائے گئے لچیلے پہن کے جذبے کا جشن منانے کے لئے تقریباً 470 ایکڑ کے رقبہ میں منایا گیا ہے۔ زلزلے کا مرکز بُھج میں تھا۔ اس میموریل میں ان لوگوں کے نام ہیں جو زلزلے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ جدید ترین اسمرتی ون زلزلہ میوزیم سات موضوعات : دوبارہ جنم ، دوبارہ دریافت، بحالی، تعمیر نو، ازسرنو غور ، دوبارہ اسی تجربہ سے گزرنا اور تجدید پر مبنی پانچ بلاکوں میں تقسیم ۔ پہلا بلاک زمین کے ارتقاء اور زمین کی صلاحیت کو پیش کرنے والے دوبارہ جنم کے موضوع پر مبنی ہے۔ دوسرا بلاک گجرات کے جغرافیائی محل وقوع اور ریاست کے تعلق سے انتہائی حساس مختلف قدرتی آفات کو ظاہر کرتا ہے۔ تیسرا بلاک کسی کو بھی 2001 کے زلزلے کے فوراً بعد کے نتیجوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اس بلاک کی گیلریز میں افراد کے ساتھ تنظیموں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر کی گئی راحت کی کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔ چوتھا بلاک 2001 کے زلزلے کے بعد گجرات کی تعمیر نو کی پہل اور کامیابی کی کہانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ پانچواں بلاک یہاں آنے والوں کو مختلف طرح کی آفات کے بارے میں سوچنے اور ان سے سیکھنے اور کسی بھی وقت کسی بھی طرح کی آفت کے لیے مستقبل میں تیار رہنے کی تحریک دیتا ہے۔ چھٹا بلاک ہمیں ایک سمیلیٹر کی مدد سے زلزلے کو پھر سے محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے 5 ڈی سمیلیٹر میں ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو اس پیمانے پر ایک حادثہ کی زمینی حقیقت بتانا ہے۔ ساتواں بلاک لوگوں کو ایک ایسی جگہ فراہم کرتا ہے جہاں وہ کھوئے ہوئے لوگوں کو یاد کرتے ہوئے آنجہانی روحوں کو خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے بُھج میں تقریباً 4400 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے سردار سروور پروجیکٹ کی نہر کی کَچھ شاخ کا بھی افتتاح کیا۔ نہر کی کل لمبائی تقریباً 357 کلومیٹر ہے۔ نہر کے ایک حصے کا وزیراعظم نے 2017 میں افتتاح کیا تھا اور باقی افتتاح ابھی کیا جا رہا ہے۔ نہر کَچھ میں سینچائی کی سہولت اور کَچھ ضلع کے سبھی 948 گاوں اور 10 قصبوں میں پینے کا پانی فراہم کرنے میں مدد کرے گی۔ وزیر اعظم کئی دیگر پروجیکٹوں کا بھی افتتاح کریں گے جن میں سرحد ڈیری کا نیا خودکار دودھ پراسیسنگ اور پیکنگ پلانٹ؛ علاقائی سائنس سینٹر، بُھج؛ گاندھی دھام میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کنونشن سینٹر؛ انجار میں ویر بال اسمارک؛ نخترانہ میں بُھج 2 سب اسٹیشن وغیرہ شامل ہیں۔ وزیر اعظم بُھج-بھیماسر روڈ سمیت 1500 کروڑ روپے سے زیادہ کے مختلف پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ভুজত প্ৰায় ৪৪০০ কোটি টকাৰ প্ৰকল্প উদ্বোধন কৰে আৰু আধাৰশিলা স্থাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%85%D8%A8%DB%8C%D9%88%D8%B3%D8%B3-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D9%8F/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%9A/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پُنے کی سمبیوسس یونیورسٹی کی گولڈن جبلی تقریب کا افتتاح کیا۔ انہوں نے سمبیوسس آروگیہ دھام کا بھی افتتاح کیا۔ اس موقع پر موجود معززین میں مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری شامل تھے۔ اس موقع پر سمبیوسس کے طلبا، فیکلٹی اور سابق طلباء کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیر اعظم نے انسٹی ٹیوٹ کے نعرے ’وسودھیو کُٹم بکم‘ کو نوٹ کیا اور کہا کہ یہ جدید ادارہ ہندوستان کی قدیم روایت کی نمائندگی کر رہا ہے۔ مختلف ممالک کے طلبا اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ علم کو دور دور تک پھیلایا جانا چاہیے، علم کو پوری دنیا کو ایک خاندان کے طور پر جوڑنے کا ذریعہ بننا چاہیے،یہی ہماری ثقافت رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے ملک میں یہ روایت بدستور قائم ہے۔ وزیر اعظم نے نئے ہندوستان کے اعتماد کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے اور دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام رکھتا ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا، میک ان انڈیا اور آتم نربھر بھارت جیسے مشن آپ کی امنگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کا ہندوستان جدت طراز ہے، بہتر ہو رہا ہے اور پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پُنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان نے کورونا ویکسینیشن کے تناظر میں دنیا کے سامنے کس طرح اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ہندوستان کے اثر و رسوخ کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ یوکرین کے بحران کے دوران آپریشن گنگا کے ذریعے ہندوستان اپنے شہریوں کو جنگی علاقے سے بحفاظت باہر لا رہا ہے۔ جبکہ دنیا کے بڑے ممالک کو ایسا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ ہندوستان کا بڑھتا ہوا اثر ہے کہ ہم ہزاروں طلباء کو اپنے وطن واپس لے آئے ہیں۔ وزیراعظم نے ملک کے بدلے ہوئے مزاج پر روشنی دالتے ہوئے کہا کہ آپ کی نسل اس اعتبار سے خوش بخت ہے کہ اسے سابقہ مدافعانہ اور انحصار پسندانہ نفسیات کے نقصان دہ اثرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کا سہرا آپ سب اور ہمارے نوجوانوں کے سر بندھتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جن شعبوں کو پہلے دسترس سے باہر سمجھا جاتا تھا اُن شعبوں میں ہندستان عالمی رہنما بن کر ابھر رہا ہے۔ ہندوستان اب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا موبائل بنانے والا ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ سات سال پہلے ہندوستان میں صرف 2 موبائل ساز کمپنیاں تھیں آج 200 سے زیادہ مینوفیکچرنگ یونٹ اس کام میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہاں تک کہ دفاع میں بھی ہندوستان جسے دنیا کا سب سے بڑا درآمد کرنے والا ملک مانا جاتا تھا اب دفاعی ایکسپورٹر بن رہا ہے۔ انہوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ آج دو بڑے فوجی کوریڈور سامنے آ رہے ہیں جہاں ملک کی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سب سے بڑے جدید ہتھیار بنائے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے طلبا پر زور دیا کہ وہ کُھلنے والے مختلف شعبوں سے بھرپور استفادہ کریں۔ جیو اسپیشل سسٹموں، ڈرونوں، سیمی کنڈکٹروں اور خلائی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں حالیہ اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت آ ج ملک کے نوجوانوں کی طاقت پر بھروسہ کرتی ہے اور اسی لئے ہم آپ کے لئے یکے بعد دیگرے شعبے کھول رہے ہیں۔ جناب مودی نے درخواست کی کہ آپ کسی بھی شعبے میں ہوں، جس طرح اپنے کیریئر کے لئے مقاصد طے کرتے ہیں، اسی طرح سے ملک کے لئے بھی کچھ مقاصد متعین کریں۔ انہوں نے مقامی مسائل کا حل تلاش کرنے کو کہا۔ انہوں نے طلبا سے کہا کہ وہ چاق و چوبند رہیں اور خوش اور پرجوش رہیں۔ جناب مودی نے کہا کہ جب ہمارے مقاصد ذاتی ترقی سے قومی ترقی تک جاتے ہیں، تب ہی قوم کی تعمیر میں حصہ لینے کا احساس آپ پر غالب آتا ہے۔ وزیراعظم نے طلبا سے یہ بھی کہا کہ ہر سال کے لئے موضوعات طے کریں اور ان پر کام کریں اور ان موضوعات کا انتخاب قومی اور عالمی ضرورتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نتائج اور خیالات سے وزیراعظم کے دفتر کو بھی آگاہ کرایا جا سکتا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে পুনেৰ চিম্বিওচিছ বিশ্ববিদ্যালয়ৰ সোণালী জয়ন্তী উদযাপন উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D9%85%D8%B9%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86-%DA%86%D8%B4%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D8%B1%DA%AF%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D9%BE%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A8-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A7%B0/,"نئیدہلی۔17 مارچ، 2018 ؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چادر پیش کرنے کے لیے انہوں نے اسے اقلیتی امور کے وزیر جناب مختار عباس نقوی کے حوالے کی۔ وزیراعظم نے سالانہ عرس کے موقعے پر دنیا میں خواجہ معین الدین چشتی کے عقیدتمندوں کو مبارکباد پیش کی ہے اور ان کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح ,",খাৱাজা মইনুদ্দিন চিষ্টিৰ দৰগাহত দানৰ বাবে চাদৰ হস্তান্তৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-17%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%B8/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اندور، مدھیہ پردیش میں 17ویں پرواسی بھارتیہ دوس کنونشن کا ��فتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ ’سرکشت جائیں، پرشکشت جائیں‘ جاری کیا اور ’آزادی کا امرت مہوتسو – ہندوستان کی جنگ آزادی غیر مقیم ہندوستانیوں کا تعاون‘ کے موضوع پر پہلی ڈیجیٹل پی بی ڈی نمائش کا افتتاح بھی کیا۔ پرواسی بھارتیہ دوس (پی بی ڈی) کنونشن حکومت ہند کا ایک اہم ایونٹ ہے جو بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کے ساتھ منسلک ہونے اور ان کے ساتھ جڑنے اور غیر مقیم ہندوستانیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کی سہولت فراہم کرانے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کراتا ہے۔ اس پی بی ڈی کنونشن کی تھیم ’’غیر مقیم ہندوستانی: امرت کال میں ہندوستان کی ترقی کے لیے قابل اعتماد شراکت دار‘‘ ہے۔ تقریباً 70 مختلف ممالک کے 3,500 سے زیادہ غیر مقیم ہندوستانیوں نے پی بی ڈی کنونشن کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ پرواسی بھارتیہ دوس چار سال کے وقفے کے بعد پوری شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے اور اس نے ذاتی بات چیت کی اہمیت اور خوشی کو اجاگر کیا ہے۔ اس موقع پر 130 کروڑ ہندوستانیوں کی جانب سے سبھی کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ تقریب مدھیہ پردیش کی سرزمین پر منعقد کی جا رہی ہے جس کو ہندوستان کا دل کہا جاتا ہے اور یہ نرمدا کے مقدس پانی، ہریالی، قبائلی ثقافت اور روحانیت کے لیے مشہور ہے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں وقف کئے گئےمہا کال مہا لوک کا ذکر کیا اور امید ظاہر کی کہ معززین اور مندوبین اس مقدس مقام کو دیکھ سکیں گے۔ میزبان شہر اندور کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اندور ایک شہر کے ساتھ ساتھ ایک مرحلہ بھی ہے ’’یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جو اپنے ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے وقت سے آگے چلتا ہے‘‘۔انہوں نے اندور کی صفائی ستھرائی کی شہرت اور سووچھتا تحریک میں اس کی کامیابیوں کا ذکر بھی کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پرواسی بھارتیہ دوس متعدد طریقوں سے خاص ہے کیونکہ ہندوستان نے حال ہی میں اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کیے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کی تھیم پر پہلی ڈیجیٹل پی بی ڈی نمائش بھی منعقد کی گئی ہے جو شاندار دور کو ایک بار پھر منظر عام پر لاتی ہے۔ امرت کال کے سفر کے اگلے 25 برسوں میں پرواسی بھارتیوں کے اہم رول پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کے منفرد عالمی وژن اور عالمی نظام میں اس کے رول کو ان سے تقویت ملے گی۔ پوری دنیا کو اپنا ملک سمجھنے اور پوری نوع انسانی کو اپنے بھائی بہن سمجھنے کے ہندوستانی فلسفے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے ہندوستان کی ثقافتی توسیع کی بنیاد رکھی۔ آج کی دنیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہندوستانیوں نے مختلف ثقافتوں اور روایات کے درمیان رہتے ہوئے دنیا کے تمام حصوں کو عبور کیا ہے اور پھر بھی کاروباری شراکت کے ذریعے خوشحالی کے دروازے کھولنے کے طریقے تلاش کیے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہم عالمی نقشے پر کروڑوں پرواسی بھارتیوں کو دیکھتے ہیں تو ایک ساتھ ہزاروں تصاویر ابھرتی ہیں جو ’واسودھیو کٹمبکم‘ کی تصویر میں رنگ بھرتی ہیں اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کاےاحساس کو اس وقت منظر عام پر لاتی ہیں جب دو پرواسی بھارتیہ کسی غیرملکی سرزمین پر ملتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ’’اس وقت جمہوریت کی ماں ہونے پر فخر کا احساس کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب پرواسیوں کا ذکر دنیا کے مختلف حصوں میں سب سے زیادہ جمہوری، پرامن اور نظم و ضبط والے شہری کے طور پر کیا جاتا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ہر پرواسی بھارتیہ کو ہندوستان کا قومی سفیر کہتے ہیں کیونکہ جب دنیا ان کے تعاون کا جائزہ لیتی ہے تو وہ ایک طاقتور اور باصلاحیت ہندوستان کی آواز کو بلند کرتے ہیں۔ جناب مودی مودی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’آپ ہندوستان کی وراثت کے، میک ان انڈیا کے، یوگا اور آیوروید کے، ہندوستان کی کاٹیج صنعتوں اور دستکاری کے راشٹردوت (قومی سفیر) ہیں ساتھ ساتھ، آپ ہندوستان کے ملیٹس کے برانڈ ایمبیسیڈر بھی ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ 2023 کو ملیٹس کا بین الاقوامی سال قرار دیا گیا ہے اور ہر ایک سے انہوں نے اپیل کی کہ وہ ملیٹس کے کچھ پروڈکٹ گھر جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کے بارے میں مزید معلومات حاص کرنے کی دنیا کی خواہش کو پورا کرنے میں پرواسی بھارتیوں کا ایک اور اہم رول ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا ہندوستان کو بڑے تجسس کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور انہوں نے حالیہ برسوں میں ملک کی غیر معمولی کامیابیوں کو اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے میک ان انڈیا ویکسین اور ہندوستانیوں کو 220 کروڑ سے زیادہ مفت خوراکوں کے ریکارڈ ٹیکہ لگانے کے اعداد و شمار کی مثال دی۔ انہوں نے عدم استحکام کے موجودہ دور میں عالمی معیشت میں ہندوستان کے ابھرنے اور دنیا کی 5ویں بڑی معیشت بننے کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بڑھتے ہوئے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم اور میک ان انڈیا کی مثالیں بھی دیں۔ انہوں نے تیجس لڑاکا طیاروں، طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت اور نیوکلیائی آبدوز اریہنت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دنیا کے لوگوں کا ہندوستان کے بارے میں متجسس ہونا فطری ہے۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کی کیش لیس معیشت اور فن ٹیک کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے 40 فیصد ریئل ٹائم ڈیجیٹل لین دین ہندوستان میں کئے جارہے ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ایک ساتھ سینکڑوں سیٹلائٹ لانچ کرنے کے متعدد ریکارڈ بنا رہا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی سافٹ وئیر اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی صنعت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس کی صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ’’ہندوستان کے پیغام کی اپنی الگ اہمیت ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ملک کی طاقت کو مستقبل میں فروغ ہی ملے گا۔ انہوں نے اس موقع پر موجود ہر ایک سے اپیل کی کہ وہ نہ صرف ہندوستان کی ثقافت اور روایت کے بارے میں بلکہ ملک کی ترقی کے بارے میں بھی اپنے علم میں اضافہ کریں۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہندوستان اس سال جی- 20 کی صدارت سنبھال رہا ہے اور یہ ذمہ داری دنیا کو ایک پائیدار مستقبل کے حصول اور ان تجربات سے سیکھنے کے لیے ہندوستان کے ماضی کے تجربات سے آگاہ کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کراتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ’’ جی- 20 محض ایک سفارتی ایونٹ ہی نہیں ہے بلکہ اسے عوامی شرکت کے ایک تاریخی ایونٹ میں تبدیل کیا جانا چاہئے جہاں ’اتیتھی دیوو بھوا' کے جذبے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جی- 20 سربراہی اجلاس کے ایک حصے کے طور پر 200 سے زیادہ میٹنگیں ہوں گی جو ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہوں گی اور کہا کہ یہ بہت سے ممالک کے مندوبین کے ساتھ بامعنی روابط قائم کرنے کا ایک بہترین موقع ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہندوستان کے پاس نہ صرف علم کا مرکز بلکہ دنیا کے ہنر ��ا سرمایہ بننے کا موقع بھی ہے۔ انہوں نے ہندوستانی نوجوانوں کی مہارت، اقدار اور کام کی اخلاقیات کو اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’یہ مہارت کا سرمایہ عالمی ترقی کا انجن بن سکتا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے اگلی نسل کے پرواسی بھارتیہ نوجوانوں میں جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے حاضرین سے اپیل کی کہ وہ نوجوانوں کو اپنے ملک کے بارے میں بتائیں اور انہیں وہاں جانے کے مواقع بھی فراہم کریں۔ انہوں نے کہا ’’روایتی سمجھ بوجھ اور جدید نقطہ نظر کے ساتھ، یہ نوجوان پرواسی دنیا کو ہندوستان کے بارے میں زیادہ مؤثر طریقے سے بتا سکیں گے۔ نوجوانوں میں ہندوستان کے بارے میں بڑھتے ہوئے تجسس کے ساتھ، ہندوستان کی سیاحت، تحقیق اور شان میں اضافہ ہوگا‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایسے نوجوان تہواروں کے دوران ہندوستان کا دورہ کر سکتے ہیں یا آزادی کا امرت مہوتسوا سے متعلق تقریبات میں شرکت کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ذریعے اپنے ممالک کے لیےپرواسی بھارتیوں کی زندگی، جدوجہد اور تعاون کو دستاویزی شکل دینے کی مسلسل کوششیں کی جانی چاہئیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چاہے مرد وہ یا خاتون ہر ایک بھارت ونشی اپنے ساتھ پورے بھارت کو لے کر چلتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’گزشتہ آٹھ برسوں میں، ہندوستان نے اپنے غیر مقیم ہندوستانیوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی‘‘۔انہوں نے کہا کہ آج یہ ہندوستان کی عہد بندی ہے کہ آپ چاہیں کہیں بھی ہیں، ملک آپ کے مفاد اور توقعات کا لحاظ کرتا ہے۔ وزیراعظم نے مہمان خصوصی کوآپریٹو ریپبلک آف گیانا کے صدر عزت مآب ڈاکٹر محمد عرفان علی اور جمہوریہ سرینام کے صدر عزت مآب ، چندریکاپرساد سنتوکھی کا ان کے تبصروں اور تجاویز کے لیے شکریہ ادا کیا۔ مہمان خصوصی کوآپریٹو ری پبلک آف گیانا کے صدر عزت مآب ڈاکٹر محمد عرفان علی، جمہوریہ سرینام کے صدر عزت مآب چندریکاپرساد سنتوکھی، مدھیہ پر وزیر اعلیٰ، جناب شیوراج سنگھ چوہان، مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، مرکزی وزیر خارجہ، ڈاکٹر جے ایس شنکر، وزراء مملکت محترمہ میناکشی لیکھی ،جناب وی مرلی دھرن اور ڈاکٹر راج کمار رنجن سنگھ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر پرواسی بھارتی دیوس (پی بی دی) کنونشن حکومت ہند کا ایک اہم ایونٹ ہے جو غیر مقیم ہندوستانیوں کو منسلک کرنے اور ان کے ساتھ جڑنے اور غیر مقیم ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کی سہولت فراہم کرانے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ اندور میں 8 سے 10 جنوری 2023 تک مدھیہ پردیش حکومت کے اشتراک سے 17 ویں پرواسی بھارتیہ دوس کنونشن کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس پی بی ڈی کنونشن کی تھیم ’’غیر مقیم ہندوستانی: امرت کال میں ہندوستان کی ترقی کے لیے قابل اعتماد شراکت دار‘‘ ہے۔ تقریباً 70 مختلف ممالک کے 3,500 سے زیادہ غیر مقیم ہندوستانیوں نے پی بی ڈی کنونشن کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے۔ محفوظ، قانونی، منظم اور ہنر مندی کے ساتھ ترک وطن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ ’سرکشت جائیں، پرشکشت جائیں‘ بھی جاری کیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی میں ہمارے غیر مقیم ہندوستانی مجاہدین ا آزادی کے تعاون کو اجاگر کرنے کےلئے وزیر اعظم نے ’’آزادی کا امرتسو – ہندوستانی جنگ آزادی میں غیر مقیم ہندوستانیوں کا تعاون‘‘ کے موضوع پر پہلی ڈیجیٹل پی بی ڈی نمائش کا افتتاح بھی کیا۔ پی بی ڈی کنونشن میں پانچ موضوعاتی مکمل سیشن میں ہوں نوجوانوں کے امور اور کھیلوں کے وزیر جناب انوراگ سنگھ ٹھاکر کی زیر صدارت ’اختراعات اور نئی ٹکنالوجیز میں غیر مقیم ہندوستانی نوجوانوں کا رول‘ کے موضوع پر پہلا مکمل اجلاس۔ صحت اور خاندانی بہبود وزیر ڈاکٹر منسکھ منڈااویہ کی زیر صدارت اور امور خارجہ کے وزیر مملکت ڈاکٹر راجکمار رنجن سنگھ کی شریک صدارت میں ’امرت کال میں ہندوستانی ہیلتھ کیئر ایکو سسٹم کو فروغ دینے میں غیر مقیم ہندوستانیوں کا رول: وژن @2047‘ پر دوسرا مکمل اجلاس ۔ امور خارجہ کی وزیر مملکت محترمہ میناکشی لیکھی کی زیر صدارت ’ہندوستان کی سافٹ پاور کا فائدہ اٹھانا – کرافٹ ، کوزین اور کریئٹی وٹی کے ذریعہ نیک نیتی‘ کے موضوع پر تیسرا مکمل اجلاس۔ تعلیم، ہنر مندی اور صنعت کاری کے وزیر جناب دھرمیندر پردھان کی زیر صدارت ’ہندوستانی افرادی قوت کی عالمی موبیلٹی کو فعال بنانا – غیر مقیم ہندوستانیوں کا رول‘ کے موضوع پر چوتھا مکمل اجلاس۔ وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن کی زیر صدارت ’’ملک کی تعمیر کے لیے ایک شمولیت والا نقطہ نظر کی جانب غیر مقیم ہندوستانی کاروباری افراد کی صلاحیت کو بروئے کار لانا‘‘ پر پانچواں مکمل اجلاس۔ تمام مکمل اجلاسوں میں پینل مباحثے ہوں گے جن کے لئے ممتاز غیر مقیم ہندوستانی اماہرین کو مدعو کیا گیا ہے۔ اس 17ویں پی بی ڈی کنونشن کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ کووڈ 19 عالمی وبا کے بعد پہلا اور چار سال کے وقفے کے بعد منعقد کیا جانے والا فزیکل ایونٹ ہے ۔پچھلا پی بی ڈی کنوونش 2021 میں عالمی وبا کے دوران ورچوئل طریقے سے منعقد کیا گیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔",মধ্যপ্ৰদেশৰ ইন্দোৰত ১৭ সংখ্যক প্ৰবাসী ভাৰতীয় দিৱস অধিৱেশনৰ শুভাৰম্ভ কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%A7%D8%A6%D9%84-97-%DA%A9%D9%84%D9%88%DA%AF%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2-%E0%A7%AF%E0%A7%AD-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9C/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں مردوں کی فری اسٹائل 97 کلوگرام کشتی میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر پہلوان دیپک نہرا کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ”ایک اور پہلوان، ہندوستان کے لیے ایک اور اعزاز! خوشی ہے کہ دیپک نہرا نے سی ڈبلیو جی 2022 فری اسٹائل کشتی کے مقابلے میں کانسے کا تمغہ جیتا ہے۔ دیپک نے شاندار حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے میری نیک خواہشات۔ #Cheer4India“,পুৰুষৰ ফ্ৰীষ্টাইল ৯৭ কেজি ৰেষ্টলিঙত ব্ৰঞ্জৰ পদক লাভ কৰা দীপক নেহৰাক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%8C-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%AC%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%82%D8%AA%D8%B5%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B9%E0%A7%88%E0%A6%9B%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%95/,پیٹرو ٹیک-2019میں وزیراعظم کی تقریر کا متن نئی دہلی،11؍ فروری؍وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نوئیڈا میں منعقدہ پٹرو ٹیک 2019میں درج ذیل افتتاحی خطبہ دیا۔ ان کے خطاب کامتن حسب ذیل ہے: نمستے، سب سے پہلے میں آپ سبھی سے لاجسٹیکل وجوہات کے سبب تاخیر سے یہاں پہنچنے کے لئے معافی مانگت�� ہوں۔ ہندوستان کے فلیگ شپ ہائیڈرو کاربن کانفرنس کے 13ویں ایڈیشن پیٹرو ٹیک-2019 میں آپ سبھی کا خیر مقدم کرکے مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ توانائی کے سیکٹر میں ان کے تعاون اور مستقبل کے ان کے وژن کے لئے میں عالیجناب ڈاکٹر سلطان الجابر کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ گزشتہ ربع صدی کے دورا ن پیٹرو ٹیک کانفرنس نے توانائی کے سیکٹر میں درپیش مسائل اور چیلنجوں کو حل کرنے سے متعلق تبادلہ خیال کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے اپنی خدمت انجام دی ہے۔ اپنے اپنے متعلقہ ملکوں میں ہم اپنے شہریوں کے لئے سستی، کفایتی، آلودگی سے پاک اور توانائی کی سپلائی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ 60 سے زائد ملکوں اور 7ہزار مندوبین کی یہاں تشریف آوری ہماری مشترکہ جستجو کو منعکس کرتی ہے۔ کئی دہائیوں پر مشتمل عوامی خدمت کی میری زندگی نے مجھے قائل کر دیا ہے کہ توانائی، سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے کلیدی محرک ہے۔ مناسب قیمت میں مستحکم اور پائیدار توانائی کی سپلائی کسی بھی معیشت کی تیزی سے ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس سے معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کو اقتصادی فوائد سے فیضیاب ہونے میں بھی مدد فراہم ہوتی ہے۔ کلی سطح پر توانائی کا شعبہ اقتصادی ترقی کا محور اور کلید ہے۔ دوستو! چونکہ ہم عالمی توانائی کے حال اور مستقبل کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے کے لئے یہاں اکٹھا ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر توانائی کے شعبے میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ توانائی کی سپلائی، توانائی کے وسائل اور توانائی صرفہ کے طریقۂ کار میں تبدیلی آ رہی ہے۔ شاید یہ تبدیلی تاریخی ثابت ہو۔ مغرب سے لے کر مشرق تک توانائی صرفے میں کافی تبدیلی ہوئی ہے۔ شیل توانائی انقلاب کے بعد امریکہ دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار کرنے والاسب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ شمسی توانائی اور قابل تجدید توانائی کے دیگر ذرائع زیادہ مسابقتی ہو گئے ہیں۔توانائی کے یہ ذرائع روایتی توانائی کی جگہ پر پائیدار متبادل کے طور پر ابھر کرآ رہے ہیں۔ عالمی توانائی کے شعبے میں قدرتی گیس تیزی کے ساتھ سب سے بڑی ایندھنوں میں سے ایک بنتی جا رہی ہے۔ سستی قابل تجدید توانائی ، ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹل ایپلی کیشنزکے درمیان تال میل کے واضح اشارے موجود ہیں۔ممکن ہے کہ اس کے ذریعے متعدد پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں تیزی آئے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے دنیا کے سبھی ممالک ایک ساتھ آ رہے ہیں۔ اسے عالمی شراکت داری مثلاً ہندوستان اور فرانس کے ذریعے فروغ دی جا رہی بین الاقوامی شمسی اتحا د کے ذریعے بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم توانائی کی دستیابی کے وسیع عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں ایک بلین سے زائد ایسے افراد ہیں، جن کی رسائی بجلی تک نہیں ہے۔ اسی طرح سے بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں، جن کی رسائی آلودگی سے پاک، صاف ستھری، توانائی رسوئی گیس تک نہیں ہے۔ ہندوستان نے توانائی کی رسائی سے متعلق مذکورہ مسائل کو حل کرنے میں قائدانہ رول ادا کیا ہے۔اپنی کامیابی کے ساتھ ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں بھی توانائی کی دستیابی کے مسائل کو اچھی طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو صاف ستھری، سستی، پائیدار اور منصفانہ توانائی کی سپلائی تک ہمہ گیر رسائی حاصل ہو۔ فی الحال ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک جیسی کلیدی ایجنسیوں نے آنے والے برسوں میں ہندوستان کے لئےاسی ر��حان کے رجاری رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ غیر یقینی عالمی اقتصادیات کے ماحول میں ہندوستان نے عالمی معیشت کے اینکر کی حیثیت سے زبردست کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہندوستان حال ہی میں دنیا بھر میں چھٹی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ ہم دنیا بھر میں توانائی کا تیسرا سب سے بڑا صارف ملک ہیں۔ سالانہ 5 فیصد سے زیادہ توانائی کی مانگ میں یہاں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان توانائی کی کمپنیوں کے لئے بدستور سب سے زیادہ پُرکشش بازار ہے۔ 2040 تک ہندوستان میں توانائی کی مانگ دو گنی ہو جانے کی امید ہے۔ ہم نے توانائی کی منصوبہ بندی کے لئے ایک مربوط طریقۂ کار اپنایا ہے۔ دسمبر 2016 میں منعقدہ گزشتہ پیٹرو ٹیک کانفرنس کے دوران میں نے ہندوستان کی توانائی مستقبل کے لئے 4 ستون کا کا ذکر کیا تھا۔ یہ 4 ستون توانائی تک رسائی، توانائی کی صلاحیت، توانائی کی پائیداری اور توانائی تحفظ ہیں۔ دوستو ! توانائی کے سلسلےمیں انصاف کرنا میرا کلیدی مقصد ہے اور ہندوستان کی اولین ترجیح ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے بہت سی پالیسیاں وضع کی ہیں اور نافذ کی ہیں۔ ہماری ان کوششوں کے نتائج اب واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے تمام دیہی علاقوں میں بجلی اب پہنچ چکی ہے۔ اس سال ہم سوبھاگیہ کے نام سے ایک ہدف پر مبنی پروگرام کے ذریعے ہندوستان کے ہر ایک گھر کی 100 فیصد بجلی کاری کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس طرح سے ہم توانائی کی پیداوار بڑھا رہے ہیں، ویسے ہی بجلی کی تقسیم اور ٹرانسمیشن کے خسارےکو بھی کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اُدے اسکیم کے تحت اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کی بجلی کاری کی آسانی کی درجہ بندی کے مقام میں ہندوستان کا درجہ کافی بہتر ہواہے۔ 2014 میں ہندوستان کا 111واں مقام تھا، جو 2018 میں بہتر ہو کر 29 واں مقام ہو گیا۔ اُجالا اسکیم کے تحت ملک بھر میں تقسیم کئے گئے ایل ای ڈی بلبوں کے سبب سالانہ 17ہزار کروڑ روپے یا تقریباً 2.5بلین ڈالر کی بچت ہوئی ہے۔ آلودگی سے پاک رسوئی گیس تک رسائی سے ملک میں بڑے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ بالخصوص خواتین اور بچوں کو اس سے بڑا فائدہ پہنچا ہے۔ انہیں دھوئیں کی آلودگی سے نجات ملی ہے۔ اُجولا اسکیم کے تحت 3 سال سے بھی کم کے عرصے میں 64ملین یا 6.4کروڑ کنبوں سے زیادہ کو مفت میں ایل پی جی کنکشن دیئے گئے ہیں۔ بلیو فلیم ریولوشن یعنی نیلی آنچ کا انقلاب جاری ہے۔ ایل پی جی کوریج ملک میں 90فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے، جو کہ 5 سال پہلے صرف 55 فیصد تھی۔ آلودگی سے پاک نقل و حمل کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اپریل 2020 تک ہم بی ایس فور سے براہ راست بی ایس سِکس تک چھلانگ لگا رہے ہیں۔ یہ یوروسِکس معیارات کے مساوی ہے۔ 100فیصد بجلی کاری اور ایل پی جی کوریج میں اضافہ جیسی احصولیابیاں صرف عوام کی شمولیت کے ذریعے ممکن ہو سکا ہے۔ توانائی کے سلسلے میں بھی صرف اُس وقت انصاف ہو سکتا ہے، جب لوگ اپنی اجتماعی قوت پر یقین کریں۔ حکومت صرف اس اعتقاد کو حقیقت میں بدلنے میں تعاون کر سکتی ہے۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہندوستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں بڑے اصلاحات ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنی اَپ اسٹریم پالیسیوں اور ضابطوں کی از سر نو خاکہ بندی کی ہے۔ ہم نے ہائیڈرو کاربن کھوج اور لائسنسنگ پالیسی کی شروعات کی ہے تاکہ تیل اور گیس کے شعبے میں شفافیت اور مسابقت آسکے۔ نیلامی کے طریقۂ کار میں بھی تبدیلی ہوئی ہے اور اسے منافع بخش بنایا گیا ہے۔ اس سے حکومتی مداخلت میں کمی لانے میں مدد ملی ہے۔ایکڑ کے لحاظ سے ایک کھلی ہوئی لائسنسنگ پالیسی اور قومی ڈیٹا ریپازیٹری کے سبب ہندوستانی فیلڈ میں تیل اور گیس کی کھوج کے تئیں دلچسپی بڑھی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اصلاحات کو بھی متعارف کرایا گیاہے۔ اضافہ شدہ آئل ریکوری پالیسی کا مقصد اَپ اسٹریم فیلڈوں کی پیداوار بڑھانے کےلئے جدیدترین ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔ ہمارا ڈاؤن اسٹریم کا سیکٹر پوری طرح سے آزاد ہو چکا ہے۔ بازار کے لحاظ سے پٹرول اور ڈیژل کی قیمتیں بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہندوستان دنیا بھر میں ریفائنری کی صلاحیت والا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔ ہندوستان کی ریفائنری صلاحیت میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ 2030 تک تقریباً 200 ملین میٹرک ٹن ہو جائے گا۔ گزشتہ سال ایک قومی حیاتیاتی ایندھن پالیسی نافذ کی گئی۔ دوسرے ا ور تیسرے جنریشن کے حیاتیاتی ایندھنوں سے متعلق تحقیقات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 11 ریاستوں میں 12دوسرے جنریشن کی حیاتیاتی ریفائنریاں قائم کی جا رہی ہیں۔ ایتھانول کی آمیزش اور بایوڈیژل کے پروگرام سے کاربن اخراج میں کمی آ رہی ہے اور کسانوں کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔ بایو ایوی ایشن ٹربائن فیول کے استعمال کی پہلی ہی کوششیں شہری ہوا بازی کے سیکٹر میں ہو چکی ہیں۔ ہماری حکومت نے ہندوستان کے تیل اور گیس کے مکمل ویلیو چین میں نجی شراکت داری کو فروغ دیا ہے۔ ہندوستان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کےلئے سب سے پسندیدہ مقام بنتا جا رہا ہے۔ سعودی آرامکو ، اے ڈی این او سی، ٹوٹل، ایکسن موبل، بی پی اورشیل جیسی کمپنیاں ہندوستان میں تیل اور گیس کے ویلیو چین میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانا چاہ رہی ہیں۔ ہندوستان گیس پر مبنی معیشت کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 16ہزار کلو میٹر سے زائد گیس پائپ لائن کی تعمیر ہو چکی ہے اور مزید 11 ہزار کلو میٹر پائپ لائن کی تعمیر کاکام جاری ہے۔ مشرقی ہندوستان میں 3 ہزار 200 کلو میٹر گیس پائپ لائن کا کام شروع ہو چکاہے۔ اس سے شمال مشرقی ہندوستان، قومی گیس گرڈ کے ساتھ جڑ جائے گا۔ سٹی گیس ڈسٹری بیوشن کے لئے نیلامی کا تیسرا مرحلہ ایک مہینے کے اندر پور ہو جائے گا۔ اس کے تحت 400 اضلاع شامل ہوں گے۔ اس سے سٹی گیس ڈسٹریبیوشن کا کوریج ملک کی آبادی کے 70 فیصد حصے تک ہو جائے گا۔ ہم انڈسٹری 4.0 کے لئے کمر کس رہے ہیں۔ا س سے نئی ٹیکنالوجی اور نئے طریقۂ کار کے ساتھ انڈسٹری آپریشن کے طور طریقوں میں تبدیلی آئے گی۔ ہماری کمپنیاں جدید ترین ٹیکنالوجیوں کو اختیار کر رہی ہیں تاکہ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکے، ان کی سیفٹی کوبڑھایا جا سکے اور لاگتوں میں کمی آ سکے۔ اس عمل کو ڈاؤن اسٹریم خردہ کے ساتھ اَپ اسٹریم تیل اور گیس کی پیداوار ، اثاثے کے بندوبست اور ریموٹ نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم نے متعدد اداروں مثلاً انٹرنیشنل انرجی ایجنسی اور پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک (اوپیک) کے ساتھ اپنی بین الاقوامی شراکت داری مضبوط کی ہے۔ ہم نے 2016 سے لے کر 2018 تک بین الاقوامی توانائی فورم (آئی ای اے) کی صدارت کی ہے۔ ہم نے دو طرفہ سرمایہ کاری کے ذریعے روایتی خریدار–فروخت کنندہ شراکت داری سے اسٹریٹجک شراکت داری میں بدلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے پڑوسی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا،بھوٹان اور میانمار کے ساتھ توانائی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے ک�� لئے ‘‘پہلے پڑوسی’’ پالیسی کو فروغ دیا ہے۔ میں نےتیل اور گیس کے سیکٹر کے عالمی چیف ایگزیکٹیو افسران، سی ای اوز کے ساتھ برابر تبادلۂ خیال کیا ہے۔ تیل اور گیس کے ان عالمی رہنماؤں اور سی او ز کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران میں نے ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ تیل اور گیس نہ صرف تجارتی شئے ہیں، بلکہ ہماری بنیادی ضرورت ہیں۔ خواہ یہ ایک عام آدمی کے لئے کچن ہو یاہوائی جہازوں کے لئے ہو، توانائی لازمی ہے۔ ایک لمبے عرصے سےدنیا خام تیل کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ دیکھتی رہی ہے۔ ہمیں خام تیل کی جوابدہ قیمت کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک اور صارف ممالک دونوں کے ہی مفادات میں توازن برقرار رہ سکے۔ ہمیں تیل اور گیس کے لئے شفافیت سے بھرپور اور لچک دار بازاروں کی جانب بھی بڑھنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم زیادہ سے زیادہ طریقے سے انسانیت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایک دیگر اہم معاملہ ، جس کی طرف پوری دنیا کو ساتھ آنے کی ضرورت ہے، وہ آب و ہوا کی تبدیلی ہے۔ اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی ہم پیرس میں طے پائے سی او پی-21 کے اہداف کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہندوستان نے اس کو پورا کرنے کے تئیں اپنی کوششوں میں کافی پیش رفت کی ہے۔ ہم مقررہ ہدف کو حاصل کرنے کے راستے میں ہیں۔ توانائی کے شعبے میں مستقبل میں عالمی سطح پر کیسی تبدیلیاں آتی ہیں، کیسی پالیسیاں وضع ہوتی ہیں اور نئی ٹیکنالوجیاں بازار کے استحکام اور مستقبل کی سرمایہ کاری پر کس طرح سے اثر انداز ہوں گی، ان تما م امور پر غوروفکر کرنے کے لئے پٹروٹیک ایک بہترین پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ میں آپ سبھی کو اس کانفرنس کی کامیابی اور ثمرآور ہونے کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ شکریہ!,‘শক্তি হৈছে আর্থ-সামাজিক বিকাশৰ প্রধান চালিকাশক্তি’ : পেট্ৰ’টেক ২০১৯ সন্মিলনত প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D9%88%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%8B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گوا کے عوام کو ان کے یوم ریاست کے موقع پر مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ”گوا کے یوم ریاست کے موقع پر، گوا کے لوگوں کو میری طرف سے مبارک باد۔ یہ قدرتی خوبصورتی اور محنتی لوگوں سے مالا مال ریاست ہے۔ یہ دنیا کے تمام حصوں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ میری دعا ہے کہ آنے والے سالوں میں گوا ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوتا رہے۔“,ৰাজ্য প্ৰতিস্থা দিৱসত গোৱাবাসীলৈ শুভকামনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%AA-%D9%85%DB%81%D9%88%D8%AA%D8%B3%D9%88-%D8%B3%DB%92-%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%86%D9%85-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A7%8B%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A7%B1%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 20/جنوری 2022 ۔ نسمتے، اوم شانتی، پروگرام میں ہمارے ساتھ وجود لوک سبھا کے اسپیکر جناب اوم برلا جی، راجستھان کے گورنر جناب کلراج مشرا جی، راجستھان کے وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب کشن ریڈی جی، بھوپیندر یادو جی، ارجن رام میگھوال جی، پرشوتم روپالا جی اور جناب کیلاش چودھری جی، راجستھان اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر جناب گلاب چند کٹاریہ جی، برہما کماریز کے ایگزیکٹیو سکریٹری راج یوگی مرتینوجے جی، راج یوگنی بہن موہنی جی، بہن چندریکا جی، برہماکماریز کی دیگر سبھی بہنیں، خواتین و حضرات اور یہاں موجود سبھی سادھک و سادھکائیں! کچھ ایسی جگہیں ہوتی ہیں جن میں اپنا ایک الگ شعور ہوتا ہے، توانائی کا اپنا ہی ایک الگ بہاؤ ہوتا ہے۔ یہ توانائی ان عظیم شخصیتوں کی ہوتی ہے جن کی تپسیا سے جنگل، پہاڑ بھی بیدار ہو اٹھتے ہیں، انسانی تحریکات کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ماؤنٹ آبو کی رونق بھی دادا لیکھراج اور ان جیسے متعدد کامل شخصیات کی وجہ سے مسلسل بڑھتی رہی ہے۔ آج اس مقدس مقام سے برہما کماری سنستھا کے ذریعے آزادی کے امرت مہوتسو سے سورنم بھارت کی اور، ایک بہت بڑی مہم کا آغاز ہورہا ہے۔ اس پروگرام میں سنہرے بھارت کے لئے جذبات بھی ہیں، سادھنا بھی ہے۔ اس میں ملک کے لئے تحریک بھی ہے، برہماکماریوں کی کوشش بھی ہے۔ میں ملک کے عزائم کے ساتھ، ملک کے خوابوں کے ساتھ مسلسل جڑے رہنے کے لئے برہماکماری کنبہ کا بہت بہت خیرمقدم کرتا ہوں۔ آج کے اس پروگرام میں دادی جانکی، راجیوگنی دادی ہردے موہنی جی بنفس نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ مجھ پر ان کا بہت کرم تھا۔ آج کے اس پروگرام پر میں ان کا آشیرواد بھی محسوس کررہا ہوں۔ ساتھیو، جب عزم کے ساتھ سادھنا جڑ جاتی ہے، جب انسان کے ساتھ ہمارا جذبہ جڑتا ہے، اپنی ذاتی حصول یابیوں کے لئے ’اِدہ نا ممہ‘ یہ جذبہ جگانے لگتا ہے، تو سمجھئے، ہمارے عزائم کے ذریعے ایک نئے عہد کا جنم ہونے والا ہے، ایک نیا سویرا ہونے والا ہے۔ خدمت اور قربانی کا یہی لافانی جذبہ آج امرت مہوتسو میں نئے بھارت کے لئے امڈ رہا ہے۔ اسی قربانی اور جذبہ فرض شناسی سے کروڑوں اہل وطن آج سنہرے بھارت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہمارے اور ملک کے سپنے الگ الگ نہیں ہیں، ہماری نجی اور قومی کامیابیاں الگ الگ نہیں ہیں۔ قوم کی ترقی میں ہی ہماری ترقی ہے۔ ہم سے ہی قوم کا وجود ہے اور قوم سے ہی ہمارا وجود ہے۔ یہ جذبہ، یہ شعور نئے بھارت کی تعمیر میں ہم بھارت کے باشندوں کی سب سے بڑی طاقت بن رہا ہے۔ آج ملک جو کچھ کررہا ہے اس میں سب کی کوشش شامل ہے۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ یہ سب ملک کا بنیادی اصول بن رہا ہے۔ آج ہم ایک ایسا نظام بنارہے ہیں جس میں تفریق کی کوئی جگہ نہ ہو، ایک ایسا سماج بنارہے ہیں جو مساوات اور سماجی انصاف کی بنیاد پر مضبوطی سے کھڑا ہو ، ہم ایک ایسے بھارت کو ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جس کی سوچ اور اپروچ نئی ہے، جس کے فیصلے ترقی پسندانہ ہیں۔ ساتھیو، بھارت کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ کیسا بھی وقت آئے، کتنا بھی اندھیرا چھائے، بھارت اپنی اصل فطرت کو بنائے رکھتا ہے۔ ہماری صدیوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ دنیا جب تاریکی کے گہرے دور میں تھی، خواتین کے تعلق سے پرانی سوچ میں جکڑی تھی، تب بھارت ماتری شکتی کی پوجا، دیوی کی شکل میں کرتا تھا۔ ہمارے یہاں گارگی، میتریہ، انوسویا، اروندھتی اور مدالسا جیسی خواتین سماج کو علم دیتی تھیں۔ دشواریوں سے بھرے عہد وسطیٰ میں بھی اس ملک میں پنّادھائے اور میرا بائی جیسی عظیم خواتین ہوئیں۔ اور امرت مہوتسو میں ملک جس جنگ آزادی کی تاریخ کو یاد کررہا ہے، اس میں بھی کتنی ہی خواتین نے اپنی قربانی��ں دی ہیں۔ کتّور کی رانی چینما، متنگنی ہاجرا، رانی لکشمی بائی، ویرانگنا جھلکاری بائی سے لے کر سماجی شعبے میں اہلیابائی ہوکر اور ساوتری بائی پھولے تک، ان دیویوں نے بھارت کی پہچان بنائے رکھی۔ آج ملک لاکھوں مجاہدین آزادی کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں خواتین کے اس تعاون کو یاد کررہا ہے اور ان کے سپنوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اور اسی لئے، آج سینک اسکولوں میں پڑھنے کا بیٹیوں کا سپنا پورا ہورہا ہے۔ اب ملک کی کوئی بھی بیٹی، ملک کی حفاظت کے لئے فوج میں جاکر اہم ذمے داریاں نبھاسکتی ہیں، خواتین کی زندگی اور کیریئر دونوں ایک ساتھ چلیں، اس کے لئے زچگی کے وقت ملنے والی چھٹی کو بڑھانے جیسے فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔ ملک کی جمہوریت میں بھی خواتین کی حصے داری بڑھ رہی ہے۔ 2019 کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح مردوں سے زیادہ خواتین نے ووٹ ڈالے۔ آج ملک کی حکومت میں بڑی بڑی ذمے داریاں خواتین وزراء سنبھال رہی ہیں اور سب سے زیادہ فخر کی بات ہے کہ اب سماج اس بدلاؤ کی قیادت خود کررہا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم کی کامیابی سے برسوں بعد ملک میں عورت و مرد کا تناسب بھی بہتر ہوا ہے۔ یہ بدلاؤ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ نیا بھارت کیسا ہوگا، کتنا صلاحیت مند ہوگا۔ ساتھیو، آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے رشیوں نے اُپ نشدوں میں ’تمسو ما جیوترگمے، مرتیومارمرتہ گمے‘ کی دعا کی ہے۔ یعنی ہم تاریکی سے روشنی کی جانب بڑھیں۔ موت سے پریشانیوں سے امرت کی جانب بڑھیں۔ امرت اور امرتو یعنی لازوالی کا راستہ بغیر علم کے روشن نہیں ہوتا۔ اس لئے امرت کال کا یہ وقت ہمارے علم، تحقیق اور اختراع کا وقت ہے۔ ہمیں ایک ایسا بھارت بنانا ہے جس کی جڑیں قدیم روایات اور وراثت سے جڑی ہوں گی اور جس کی توسیع جدیدیت کے آسمان میں لامکاں تک ہوگی۔ ہمیں اپنی ثقافت، اپنی تہذیب، اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہے، اپنی روحانیت کو، اپنی رنگارنگی کو محفوظ کرنا ہے اور ساتھ ہی ٹیکنالوجی،بنیادی ڈھانچہ، تعلیم، صحت نظامات کو مسلسل جدید بھی بنانا ہے۔ ملک کی ان کوششوں میں آپ سبھی کا، برہماکماری جیسے روحانی اداروں کا بڑا رول ہے۔مجھے خوشی ہے کہ آپ روحانیت کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور زراعت جیسے کئی شعبو ںمیں کئی بڑے بڑے کام کررہے ہیں۔ اور آج جس مہم کا آغاز کررہے ہیں، آپ اسے ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔ امرت مہوتسو کے لئے آپ نے کئی اہداف بھی طے کئے ہیں۔ آپ کی یہ کوشش ملک کو ضرور ایک نئی توانائی دے گی، نئی طاقت دے گی۔ آج ملک کسانوں کو خوش حال اور خودکفیل بنانے کے لئے نامیاتی کاشت کاری اور نیچرل فارمنگ کی سمت میں کوشش کررہا ہے۔ خورد و نوش اور غذا کے خالص پن کے تعلق سے ہماری برہماکماری بہنیں سماج کو مسلسل بیدار کرتی رہتی ہیں، لیکن معیاری غذا کے لئے معیاری پیداوار بھی ضروری ہے، لہٰذا برہماکماری نیچرل فارمنگ کو فروغ دینے کے لئے قدرتی کاشت کاری کو فروغ دینے کے لئے ایک بڑی تحریک بن سکتی ہیں۔ کچھ گاؤں کو تحریک دے کر ایسے ماڈل کھڑے کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح صاف ستھری توانائی کے اور ماحولیات کے شعبے میں بھی دنیا کو بھارت سے بہت سی توقعات ہیں۔ آج صاف ستھری توانائی کے کئی متبادل تیار ہورہے ہیں۔ اسے لے کر بھی عوامی بیداری کے لئے بڑی مہم کی ضرورت ہے۔ برہماکماریوں نے تو شمسی توانائی کے شعبے میں، سب کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے۔ کتنے ہی وقت سے آپ کے آشرم کی باورچی خانے میں شمسی توانائی سے کھانا بنایا جارہا ہے۔ شمسی توانائی کا استعمال زیادہ سے زیادہ لوگ کریں اس میں بھی آپ کا بہت تعاون ہوسکتا ہے۔ اسی طرح آپ سبھی خودکفیل بھارت مہم کو بھی رفتار دے سکتے ہیں۔ ووکل فار لوکل، مقامی مصنوعات کو ترجیح دے کر اس مہم میں معاون ہوسکتا ہے۔ ساتھیو، امرت کال کا یہ وقت، سوتے ہوئے سپنے دیکھنے کا نہیں بلکہ بیدار ہوکر اپنے عزائم کی تکمیل کرنے کا ہے۔ آنے والے 25 سال، محنت کی انتہا، قربانی، تپسیا کے 25 سال ہیں۔ سیکڑوں برسوں کی غلامی میں ہمارے سماج نے جو گنوایا ہے، یہ 25 سال کا دور اسے دوبارہ حاصل کرنے کا ہے۔ اس لئے آزادی کے اس امرت مہوتسو میں ہماری توجہ مستقبل پر بھی مرکوز ہونی چاہئے۔ ساتھیو، ہمارے سماج میں ایک منفرد صلاحیت ہے۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جس میں انتہائی قدیم اور انتہائی جدید نظم ہے۔ حالانکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ برائیاں افراد میں بھی، سماج میں بھی اور ملک میں بھی داخل ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ بیدار رہتے ہوئے ان برائیوں کو جان لیتے ہیں، وہ ان برائیوں سے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی میں ہر ہدف حاصل کرپاتے ہیں۔ ہمارے سماج کی خصوصیت ہے کہ اس میں وسعت بھی ہے، تنوع بھی ہے اور ہزاروں سال کے سفر کا تجربہ بھی ہے۔ اس لئے ہمارے سماج میں، بدلتے ہوئے دور کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی ایک الگ ہی قوت ہے، ایک داخلی قوت ہے۔ ہمارے سماج کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ سماج کے اندر سے ہی وقتاً فوقتاً اسے سدھارنے والے پیدا ہوتے ہیں اور وہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سماجی اصلاح کے ابتدائی برسوں میں اکثر ایسے لوگوں کو مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی بار نظراندازی کا درد بھی سہنا پڑتا ہے، لیکن ایسے کامل لوگ، سماجی اصلاح کے کام سے پیچھے نہیں ہٹتے، وہ غیرمتزلزل رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ سماج بھی ان کو پہچانتا ہے، ان کو احترام دیتا ہے اور ان کی تعلیمات کو اپنے اندر جذب بھی کرتا ہے۔ اس لئے ساتھیو، ہر دور کی قدروں کی بنیاد پر سماج کو بیدار رکھنا، سماج کو برائیوں سے پاک رکھنا بہت ضروری اور مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اس وقت کی جو بھی نسل ہوتی ہے، اسے یہ فرض نبھانا ہی ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر ہم لوگ، تنظیم کے طور پر بھی برہماکماری جیسی لاکھوں تنظیمیں یہ کام کررہی ہیں، لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ آزادی کے بعد کے 75 برسوں میں، ہمارے سماج میں، ہمارے ملک میں ایک برائی سب کے اندر گھر کرگئی ہے۔ یہ برائی ہے، اپنے فرائض سے پہلوتہی کرنا، اپنے فرائض کو مقدم نہ رکھنا۔ گزشتہ 75 برسوں میں ہم صرف حقوق کی بات کرتے رہے، حقوق کے لئے جھگڑتے رہے، نبردآزما رہے، وقت بھی کھپاتے رہے۔ حق کی بات، کچھ حد تک، کچھ وقت کے لئے، کسی ایک حالت میں صحیح ہوسکتی ہے، لیکن اپنے فرائض کو پوری طرح بھول جانا، اس بات نے بھارت کو کمزور رکھنے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ بھارت نے اپنا بہت بڑا وقت اس لئے گنوایا ہے، کیونکہ فرائض کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ان 75 برسوں میں فرائض کو دور رکھنے کی وجہ سے جو خلیج پیدا ہوئی ہے، صرف حق کی بات کرنے کی وجہ سے سماج میں جو کمی آئی ہے، اس کی بھرپائی ہم مل کرکے آنے والے 25 برسوں میں، فرائض کی تکمیل کرکے پوری کرسکتے ہیں۔ برہماکماری جیسے ادارے آنے والے 25 سال کے لئے، ایک اصول بناکر بھارت کے ایک ایک فرد کو فرض کے تئیں بیدار کرکے بہت بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ برہماکماری اور آپ جیسے سبھی سماجی ادارے اس ایک اصول پر ضرور کام کریں اور وہ ہے ملک کے شہریوں میں جذبہ فرض شناسی کی توسیع۔ آپ سبھی اپنی طاقت اور وقت ایک ایک شخص میں جذبہ فرض شناسی کو بیدار کرنے پر ضرور لگائیں، اور برہماکماری جیسے ادارے، جس طرح دہائیوں سے فرض کی راہ پر چل رہے ہیں، آپ لوگ یہ کام کرسکتے ہیں۔ آپ لوگ فرض میں رچے بسے، فرض کی تکمیل کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لئے جس جذبے کے ساتھ آپ اپنے ادارے میں کام کرتے ہیں، اس جذبہ فرض شناسی کی توسیع سماج میں ہو، ملک میں ہو، ملک کے لوگوں میں ہو، یہ آزادی کے اس امرت مہوتسو پر آپ کا ملک کو سب سے بہترین تحفہ ہوگا۔ آپ لوگوں نے ایک کہانی ضرور سنی ہوگی۔ ایک کمرے میں اندھیرا تھا تو اس اندھیرے کو ہٹانے کے لئے لوگ اپنے اپنے طریقے سے الگ الگ کام کررہے تھے۔ کوئی کچھ کررہا تھا، کوئی کچھ کررہا تھا، لیکن کسی سمجھدار نے جب ایک چھوٹا سا چراغ روشن کیا تو اندھیرا فوراً دور ہوگیا۔ ویسی ہی طاقت فرض کی ہے۔ ویسی ہی طاقت چھوٹی سی کوشش کی بھی ہے۔ ہم سبھی کو، ملک کے ہر شہری کے دل میں ایک شمع جلانا ہے۔ فرض کی شمع جلانا ہے۔ ہم سبھی مل کر ملک کو فرض کی راہ پر آگے بڑھائیں گے، تو سماج میں پھیلی ہوئی برائیاں بھی دور ہوں گی اور ملک نئی بلندیوں پر بھی پہنچے گا۔ بھارت کی سرزمین کو پیار کرنے والا، اس سرزمین کو ماں ماننے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوگا جو ملک کو نئی بلندیوں پر نہ لے جانا چاہتا ہوں۔ درجہ بدرجہ لوگوں کی زندگی میں خوش حالی نہ لانا چاہتا ہو، اس کے لئے ہمیں فرض پر زور دینا ہی ہوگا۔ ساتھیو، آج کے اس پروگرام میں، میں ایک اور موضوع کو اٹھانا چاہتا ہوں۔ آپ سبھی اس بات کے گواہ رہے ہیں کہ بھارت کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لئے کس طرح الگ الگ کوششیں چلتی رہتی ہیں۔ اس میں بین الاقوامی سطح پر بھی بہت کچھ چلتا رہتا ہے۔ اس سے ہم یہ کہہ کر پلہ نہیں جھاڑ سکتے کہ یہ صرف سیاست ہے۔ یہ سیاست نہیں ہے، یہ ہمارے ملک کا سوال ہے۔ اور جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منارہے ہیں تو یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ دنیا بھارت کو صحیح شکل میں جانے۔ ایسے ادارے جن کی بین الاقوامی شعبے میں دنیا کے کئی ملکوں میں موجودگی ہے، وہ دوسرے ملکوں کے لوگوں تک بھارت کی صحیح بات کو پہنچائیں، بھارت کے بارے میں جو افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، ان کی سچائی وہاں کے لوگوں کو بتائیں، انھیں بیدار کریں، یہ بھی ہم سب کا فرض ہے۔ برہماکماری جیسے ادارے اسی کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اور کوشش کرسکتے ہیں۔ جہاں جہاں جن ملکوں میں آپ کی شاخیں ہیں وہاں کوشش کرنی چاہئے کہ وہاں کی ہر شاخ سے ہر سال کم از کم 500 لوگ بھارت کو دیکھنے کے لئے آئیں۔ بھارت کو جاننے کے لئے آئیں۔ اور یہ 500 لوگ، جو ہندوستان کے لوگ وہاں رہتے ہیں، وہ نہیں، اس ملک کے شہری ہونے چاہئیں۔ اصل بھارتیوں کی میں بات نہیں کررہا ہوں۔ آپ دیکھئے گا، اگر اس طرح سے لوگوں کا آنا ہوا، ملک کو دیکھیں گے، یہاں کی ہر بات کو سمجھیں گے تو اپنے آپ بھارت کی اچھائیوں کو دنیا میں لے کرکے جائیں گے۔ آپ کی کوششوں سے اس میں کتنا بڑا فرق پڑجائے گا۔ ساتھیو، پرمارتھ (دوسروں کا بھلا کرنا، صدقہ، چیریٹی) کی خواہش تو ہر ایک کی رہتی ہے۔ لیکن ایک بات ہم نہ بھولیں کہ پرمارتھ اور اَرتھ (دولت) جب ایک ساتھ جڑتے ہیں تو کامیاب زندگی، کامیاب سماج، اور کامیاب ملک کی تعمیر اپنے آپ ہوسکتی ہے۔ اَرتھ اور پرمارتھ کے اس تال میل کی ذمے داری ہمیشہ سے بھارت کے روحانی قوت کے پاس رہی ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ بھارت کی روحانی طاقت، آپ سبھی بہنیں یہ ذمے داری اسی پختگی کے ساتھ نبھائیں گی۔ آپ کی یہ کوشش ملک کے دیگر اداروں، دیگر تنظیموں کو بھی آزادی کے امرت مہوتسو میں نئے اہداف کے تعین کے لئے تحریک دیں گی۔ امرت مہوتسو کی طاقت، جن جن کا من ہے، جن جن کی خودسپردگی ہے۔ آپ کی کوششوں سے بھارت آنے والے وقت میں اور بھی تیز رفتاری سے سنہرے بھارت کی جانب بڑھے گا۔ اسی یقین کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! اوم شانتی!,‘স্বাধীনতাৰ অমৃত মহোৎসৱৰ পৰা স্বৰ্ণিম ভাৰতৰ দিশে’ অনুষ্ঠানৰ শুভাৰম্ভণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B4%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D8%A7%D9%BE%D9%B9%D9%86%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D9%86%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%93-%E0%A6%AA/,پریہ مینا سودری، سودرو –لارا نمسکارم۔ آندھرا پردیش کے گورنر جناب بشوبھوشن جی، وزیر اعلی بھائی جگن موہن ریڈی جی، کابینہ میں میرے ساتھی اشونی ویشنو جی، یہاں موجود دیگر معززین اور آندھرا پردیش کے میرے بھائیو اور بہنو۔ ابھی چند مہینے پہلے مجھے آپ سب کے درمیان وپلو ویروڈو الوری سیتارام راجو جی کے 125 ویں یوم پیدائش کے پروگرام میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آج ایک بار پھر میں آندھرا کی سرزمین پر ایسے موقع پر آیا ہوں، جو آندھرا پردیش اور وشاکھاپٹنم کے لیے بڑا دن ہے۔ وشاکھاپٹنم ہندوستان کا ایک خاص پٹنم ہے، یہ شہر بہت خاص ہے۔ یہاں ہمیشہ سے ایک بھرپور تجارتی روایت رہی ہے۔ وشاکھاپٹنم قدیم ہندوستان کی ایک اہم بندرگاہ تھی۔ ہزاروں سال پہلے بھی اس بندرگاہ کے ذریعے مغربی ایشیا اور روم تک تجارت ہوتی تھی اور آج بھی وشاکھاپٹنم ہندوستان کی تجارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا آغاز اور سنگ بنیاد آندھرا پردیش اور وشاکھاپٹنم کی امنگوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ یہ اسکیمیں بنیادی ڈھانچے سے لے کر زندگی گزارنے میں آسانی اور خود کفیل ہندوستان تک، ترقی کی کئی نئی جہتیں کھولیں گی۔ میں اس کے لیے آندھرا پردیش کے تمام باشندوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں اس موقع پر اپنے ملک کے سابق نائب صدر جناب وینکیا نائیڈو گارو اور جناب ہری بابو کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ جب بھی وہ ملتے ہیں، ہم آندھرا کی ترقی کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں۔ آندھرا کے لیے ان کی محبت اور لگن بے مثال ہے۔ ساتھیو، آندھرا پردیش کے لوگوں کے بارے میں ایک بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ وہ فطرتا بہت پیار کرنے والے اور کاروباری ہوتے ہیں۔ آج دنیا کے تقریباً ہر کونے میں آندھرا پردیش کے لوگ ہر کام میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تعلیم ہو یا انٹرپرائز، ٹیکنالوجی ہو یا طبی پیشہ، آندھرا پردیش کے لوگوں نے ہر میدان میں اپنی شناخت بنائی ہے۔ یہ پہچان صرف پیشہ ورانہ معیار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے دوستانہ رویے کی وجہ سے ہے۔ آندھرا پردیش کے لوگوں کی خوش مزاج اور زندہ دل شخصیت ہر کسی کو ان کا مداح بناتی ہے۔ تیلگو بولنے والے لوگ ہمیشہ بہتر کی تلاش میں رہتے ہیں، اور ہمیشہ بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ جن ترقیاتی پروجیکٹوں کا ��ج یہاں افتتاح کیا گیا ہے اور ان کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اس سے آندھرا پردیش میں ترقی کی رفتار میں مزید بہتری آئے گی۔ ساتھیو، آزادی کے امرت کال میں ملک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کے ساتھ ترقی کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ترقی کا یہ سفر کثیر الجہتی ہے۔ اس میں عام انسانوں کی زندگی سے متعلق ضروریات کی فکر بھی شامل ہے۔ اس میں بہترین جدید انفرااسٹرکچر کی تخلیق بھی شامل ہے۔ انفرااسٹرکچر پر ہمارا وژن آج کے پروگرام میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ہمارا وژن جامع ترقی کا ہے، شمولیت پر مبنی ترقی کا ہے۔ انفرااسٹرکچر کے حوالے سے، ہم کبھی بھی ایسے سوالات میں نہیں پڑے کہ ہمیں ریلوے کو ترقی دینا ہے یا روڈ ٹرانسپورٹ کو۔ ہم کبھی اس مخمصے میں نہیں رہے کہ ہمیں بندرگاہ پر توجہ مرکوز کرنی ہے یا شاہراہ پر۔ انفرااسٹرکچر کے اس حاشیائی نظریے(آئسولیٹد ویو) کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سے سپلائی چین متاثر ہوا اور رسد کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ ساتھیو، سپلائی چین اور لاجسٹکس ملٹی موڈل کنکٹیوٹی پر منحصر ہے۔ اسی لیے ہم نے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے ایک نیا طریقہ اپنایا۔ ہم نے ترقی کے ایک مربوط نقطہ نظر کو اہمیت دی۔ اقتصادی راہداری جس کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، اس میں 6 لین والی سڑک کا انتظام ہے۔ بندرگاہ تک جانے کے لیے الگ سڑک بھی بنائی جائے گی۔ ایک طرف ہم وشاکھاپٹنم ریلوے اسٹیشن کو خوبصورت بنا رہے ہیں اور دوسری طرف ہم ماہی گیری بندرگاہ (فشنگ ہاربر)کو جدید ترین بنا رہے ہیں۔ ساتھیو، بنیادی ڈھانچے کا یہ مربوط نظارہ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ گتی شکتی منصوبے نے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی رفتار کو تیز کیا ہے بلکہ پروجیکٹوں کی لاگت کو بھی کم کیا ہے۔ ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ سسٹم ہر شہر کا مستقبل ہے اور وشاکھاپٹنم نے اس سمت میں قدم بڑھا دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آندھرا کے لوگوں کو ان پروجیکٹوں کا طویل انتظار تھا اور آج جب یہ انتظار پورا ہو رہا ہے، تو آندھرا پردیش اور اس کے ساحلی علاقے ترقی کی اس دوڑ میں ایک نئی رفتار کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ساتھیو، آج پوری دنیا جدوجہد کے ایک نئے دور سے گزر رہی ہے۔ کچھ ممالک میں اشیائے ضروریہ کی قلت ہے تو کچھ ممالک توانائی کے بحران کا شکار ہیں۔ تقریباً ہر ملک اپنی گرتی ہوئی معیشت سے پریشان ہے۔ لیکن اس سب کے درمیان ہندوستان کئی میدانوں میں بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ ہندوستان ترقی کی نئی کہانی لکھ رہا ہے اور نہ صرف آپ اسے محسوس کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھی آپ کو بہت غور سے دیکھ رہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ کس طرح ماہرین اور دانشور ہندوستان کی تعریف کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان پوری دنیا کی امیدوں کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ آج ہندوستان اپنے شہریوں کی امیدوں اور ضروریات کو مقدم رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے۔ ہماری ہر پالیسی، ہر فیصلہ عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ آج ایک طرف پی ایل آئی اسکیم، جی ایس ٹی، آئی بی سی، نیشنل انفرااسٹرکچر پائپ لائن، گتی شکتی جیسی پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے چلائی جارہی اسکیمیں مسلسل پھیل رہی ہیں۔ ترقی کے اس سفر میں ملک کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جو پہلے پسماندہ تھے۔ انتہائی پسماندہ اضلاع میں بھی ترقی سے متعلق اسکیمیں توقعاتی اضلاع پروگرام کے ذریعے چلائی جارہی ہیں۔ پچھلے ڈھائی سالوں سے ملک کے کروڑوں غریبوں کو مفت اناج دیا جا رہا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں سے پی ایم کسان یوجنا کے ذریعے ہر سال 6 ہزار روپے براہ راست کسانوں کے کھاتے میں پہنچ رہے ہیں۔ اسی طرح سن رائز شعبوں سے متعلق ہماری پالیسی کی وجہ سے نوجوانوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈرون سے لے کر گیمنگ تک، خلا سے لے کر اسٹارٹ اپس تک، ہماری پالیسی کی وجہ سے ہر شعبے کو ترقی کا موقع مل رہا ہے۔ ساتھیو، جب اہداف واضح ہوں، چاہے وہ آسمان کی بلندیاں ہوں، یا سمندر کی گہرائیاں، ہم مواقع تلاش بھی لیتے ہیں اور تراش بھی لیتے ہیں۔ آج آندھرا میں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ گہرے پانی کی توانائی (ڈیپ واٹر انرجی)نکالنے کا آغاز اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ آج ملک بلیو اکانومی سے جڑے لامحدود امکانات کا ادراک کرنے کی بھی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بلیو اکانومی پہلی بار ملک کی اتنی بڑی ترجیح بن گئی ہے۔ اب ماہی گیروں کے لیے کسان کریڈٹ کارڈ جیسی سہولت بھی دستیاب ہے۔ آج، وشاکھاپٹنم فشنگ ہاربر کو جدید بنانے کا جو کام شروع ہوا ہے، وہ ہمارے ماہی گیر بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کو آسان بنائے گا۔ جیسے جیسے غریبوں کی طاقت بڑھے گی اور انہیں جدید انفرااسٹرکچر سے جڑے مواقع تک ان کی رسائی ہوگی ، ترقی یافتہ ہندوستان کا ہمارا خواب بھی پورا ہو گا۔ ساتھیو، سمندر صدیوں سے ہندوستان کے لیے ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ رہا ہے اور ہمارے سمندری ساحلوں نے اس خوشحالی کے دروازے کے طور پر کام کیا ہے۔آج ملک میں بندرگاہوں پر مبنی ترقی کیلئے جو ہزاروں کروڑ روپے کے پروجیکٹ چل رہے ہیں، مستقبل میں ان میں مزید توسیع کی جائے گی۔ آج 21ویں صدی کا ہندوستان ترقی کی اس جامع فکر کو زمین پر اتار رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آندھرا پردیش ملک کی ترقی کی اس مہم میں اسی طرح بڑا رول ادا کرتا رہے گا۔ اسی عزم کے ساتھ، آپ سب کا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ! میرے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاکر پوری قوت سے بولئے – بھارت ماتا کی -جے بھارت ماتا کی -جے بھارت ماتا کی -جے بہت بہت شکریہ !,বিশাখাপট্টনমত কেইবাটাও প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D8%A7-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%AA-%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%B8-%E0%A6%B8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج رادھا سوامی ست سنگ بیاس کا دورہ کیا۔ انھوں نے بابا گرندر سنگھ ڈھلون سے بات چیت کی اور وہاں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کرکے کہا: ”مجھے خوشی ہے کہ رادھا سوامی ست سنگ بیاس کا دورہ کرنے اور ان کے ذریعہ کیے جانے والے غیر معمولی کام کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بابا گرندر سنگھ ڈھلون جی کے ساتھ بصیرت افروز بات چیت بھی ہوئی، جن کی خدمت کا جذبہ قابل تعریف اور متاثر کن ہے۔“,ৰাধা স্বামী সৎসংগ ব্যাস সাক্ষাৎ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%DA%86%DA%A9%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%95-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,ایکسی لی��سیز، پوری دنیا کے ماہرین ، تعلیم و تدریس سے وابستہ افراد ، تجارتی سربراہان ، پالیسی ساز اور میرے عزیز دوستو ، نمسکار! مجھے لچکدار بنیادی ڈھانچے سے متعلق اس بین الاقوامی کانفرنس کے چوتھے ایڈیشن میں آپ کے ساتھ شامل ہونے پر خوشی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو یہ بات یاد دلانی چاہئے کہ پائیدار ترقی کے مقاصد میں کسی کو بھی پیچھےنہیں چھوڑنا ہے۔ اسی لئے ہم اگلی نسل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعہ سب سے غریب اور سب سے کمزور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پابند عہد ہیں تاکہ ان کی آرزوئیں پوری ہوسکیں ۔ اور ،بنیادی ڈھانچے کا مطلب صرف بڑے اثاثے پیدا کرنا یا سرمایہ کاری کے طویل مدتی نتائج کا ہی انتظام کرنا نہیں ہے،بلکہ اس کا مطلب انہیں مساوی طریقے سے اعلیٰ معیاری ، قابل انحصار اور پائیدار خدمات مہیا کرنا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی کسی بھی ترقی میں عوام کو مرکز میں رکھا جانا چاہئے۔ اور ، ہندوستان میں ہم یہی کررہے ہیں۔ ہندوستان میں ہم جب بنیادی خدمات سے متعلق انتظامات کو بڑے پیمانے پر پھیلا رہے ہیں… تعلیم سے لے کر صحت تک، پینے کے پانی سے لے کر صفائی تک، بجلی سے لے کر نقل و حمل تک، اور اس سے بھی آگےہم لوگ براہ راست طریقے سے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔اسی لئے سی او پی – 26 میں ہم اپنی ترقیاتی کوششوں کے ساتھ ساتھ سال 2070 تک ’مجموعی صفر‘ حاصل کرنے کے تئیں پابندعہد ہیں۔ دوستو، بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے انسانی استعداد کو شاندار طریقے سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔ لیکن ، ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو ہلکے میں نہیں لینا چاہئے۔اس قسم کے سسٹم میں ماحولیاتی تبدیلی سمیت معلوم اور نامعلوم چیلنجز موجود ہیں۔ہم نے جب 2019 میں سی ڈی آر آئی شروع کیا تھا تو یہ خود ہمارے تجربے اور محسوس کی گئی ضروریات پر مبنی تھا۔ سیلاب کی وجہ سے جب کوئی پُل پانی میں بہہ جاتا ہے، سمندری طوفانوں کی زد میں آکر جب کوئی بجلی کی لائن ٹوٹ جاتی ہے،جنگل میں لگی آگ کی وجہ سے جب کسی کمیونی کیشن ٹاور کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے براہ راست ہزاروں لوگوں کی زندگی اور ان کا معاش متاثر ہوتا ہے۔بنیادی ڈھانچے کو ہونے والے اس قسم کے نتائج سالوں تک رہتے ہیں اور لاکھوں لوگ اس کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں، لہذاہمارے سامنے موجود چیلنج بالکل واضح ہے۔ ہمارے پاس موجود جدید ٹکنالوجی اور علم سے ، کیا ہم طویل مدتی لچکدار انفراسٹرکچر تیار کرسکتے ہیں؟یہی چیلنج سی ڈی آر آئی کی تشکیل کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔یہ حقیقت کہ اس اتحاد میں اضافہ ہوا ہےاور پوری دنیا سے اسے حمایت حاصل ہورہی ہے، اس بات کا اشارہ ہے کہ ہماری تشویشیں ایک جیسی ہیں۔ دوستو، ڈھائی سال کے مختصر وقت میں سی ڈی آر آئی نے کئی اہم پہل کی ہےاور قابل قدر تعاون دیا ہے۔ پچھلے سال سی او پی -26 میں شروع کی گئی پہل، ’لچکدار جزیرے والی ریاستوں کے لئے بنیادی ڈھانچے‘چھوٹے جزیرے والے ممالک کے ساتھ کام کرنے کے ہمارے عہد کا واضح اظہار ہے۔بجلی کے نظام کو مضبوطی عطاکرنے سے متعلق سی ڈی آر آئی کے کام نےساحلی ہندوستان میں رہنے والی برادریوں کو پہلے ہی کافی فائدہ پہنچایا ہے اور اس کی وجہ سے سمندری طوفان کے دوران بجلی کی کٹوتی کی مدت کم ہوئی ہے۔اب جبکہ یہ کام اگلے مرحلہ کی جانب رواں ہے، اس سے ان 130 ملین لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے جنہیں ہر سال سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔لچکدار ہوائی اڈوں سے متعلق سی ڈی آر آئی کا ��ام پوری دنیا کے 150 ہوائی اڈوں کا مطالعہ کررہا ہے۔ اس کے اندر عالمی کنکٹیوٹی کو مضبوطی فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سی ڈی آر آئی کی قیادت میں چل رہا ’بنیادی ڈھانچے کےنظام کو تباہی مخالف بنانے کے لئے عالمی تجزیہ‘ کا کام عالمی معلومات فراہم کرنے میں مدد کرے گا جس سے فوری طور پر فائدہ ہوگا۔ تمام ممبر ممالک کے سی ڈی آر آئی فیلوزپہلے سے ہی اس کا حل پیش کررہے ہیں جس میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔یہ لوگ ماہر پیشہ وروں کا ایک عالمی نیٹ ورک بھی تیار کررہے ہیں جس سے ہمارے انفراسٹرکچر سسٹم کے لئے ایک لچکدار مستقبل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ دوستو، اپنے مستقبل کو لچکداربنانے کے لئے ہمیں ’لچکدارانفراسٹرکچر کی تبدیلی‘ کے لئے کام کرنا ہوگا جوکہ اس کانفرنس کا بنیادی فوکس ہے۔لچکدار انفراسٹرکچر ہماری موافقت پیدا کرنے سے متعلق کوششوں کا بھی مرکزی حصہ ہوسکتا ہے۔اگر ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو لچکدار بناتے ہیں تو ہم نہ صرف اپنے لئے بلکہ آئندہ کی بہت سی نسلوں کے لئےبھی تباہیوں کو روک سکتے ہیں۔یہ ایک مشترکہ خواب ہے،ایک مشترکہ وژن ہےجسے ہم حقیقت میں تبدیل کرسکتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنا ہی چاہئے۔ اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں سی ڈی آر آئی اور امریکی حکومت کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی۔ میں ان تمام پارٹنرز کو بھی نیک خواہشات پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس پروگرام کو ممکن بنانے میں مدد کی۔میں آپ سبھی کو نتیجہ خیز بات چیت اور تخلیقی مذاکرات کے لئے اپنی طرف سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔,দুৰ্যোগ স্থিতিস্থাপক আন্তঃগাঁথনিক লৈ আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনৰ উদ্বোধনী অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DB%8C%D9%88%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-16800-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%B1%D9%88%D9%BE%D8%A6%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A7%A7%E0%A7%AC%E0%A7%AE%E0%A7%A6%E0%A7%A6-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%95%E0%A7%88-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج دیوگھر میں 16800 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا آغاز کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر جھارکھنڈ کے گورنر، جناب رمیش بیس، وزیر اعلیٰ جناب ہیمنت سورین، مرکزی وزیر جناب جیوتی رادتیہ سندھیا، ریاستی وزراء اور عوامی نمائندگان بھی موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ بابا بیدناتھ کے آشیرواد سے، آج 16000 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے پروجیکٹوں کا آغاز کیا گیا اور سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ پروجیکٹس جھارکھنڈ کی جدید کنکٹیویٹی، توانائی، صحت، عقیدے اور سیاحت کو زبردست تقویت بہم پہنچائیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک گذشتہ آٹھ برسوں سے ریاستوں کی ترقی کے ذریعہ ملک کی ترقی کی سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ گذشتہ 8 برسوں کے دوران، شاہراہوں، ریلوے، ہوائی راستوں، آبی راستوں، اور ہر طرح سے جھارکھنڈ کی رابطہ کاری کی کوششوں میں یہی فکر اور جذبہ نمایاں طور پر کارفرما رہا۔ یہ تمام تر سہولتیں ریاست کی اقتصادی ترقی میں مثبت طریقہ سے اثرانداز ہوں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج، جھارکھنڈ کو اس کا دوسرا ہوائی اڈا حاصل ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بابابیدناتھ کے عقیدت مندوں کے لیے بڑی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اُڑان اسکیم کے توسط سے عام آدمی کے لیے ہوائی سفر کو قابل استطاعت بنانے کے پس منظر میں، وزیر اعظم نے کہا کہ آج حکومت کی کوششوں کے فوائد ملک بھر میں واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ اُڑان اسکیم کے تحت گذشتہ 5۔6 برسوں میں ہوائی اڈوں، ہیلی پورٹس ، واٹر ایروڈرومز کے توسط سے تقریباً 70 نئے مقامات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آج، عام شہریوں کو 400 سے زائد نئے راستوں پر فضائی سفر کی سہولت حاصل ہو رہی ہے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد ازحد قابل استطاعت فضائی سفر سے مستفید ہوچکے ہیں، متعدد افراد کے لیے یہ پہلا تجربہ تھا۔ وزیر اعظم نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا کہ آج دیوگھر سے کولکاتا کے لیے پروازکا آغاز ہوا اور بہت جلد رانچی، دہلی اور پٹنہ کے لیے پروازیں شروع کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بوکارو اور دُمکا میں ہوائی اڈوں کے لیے کام جاری ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ، مرکزی حکومت ملک میں، عقیدے اور روحانیت سے متعلق اہم مقامقات پر سہولتیں فراہم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ پرساد اسکیم کے تحت بابا بیدناتھ دھام میں بھی جدید سہولتوں میں توسیع کی گئی ہے۔ جب ایک جامع نقطہ نظر پروجیکٹوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے، تب سماج کے مختلف طبقات کے لیے آمدنی کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور نئی سہولتیں نئے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ وزیر اعظم نے ریاست جھارکھنڈ کے لیے گیس پر مبنی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ملک کی کوششوں کے فوائد کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم اُورجا گنگا یوجنا پرانی تصویر کو تبدیل کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، ’’ہم محرومیوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے متعدد تاریخی فیصلے لے رہے ہیں۔‘‘ جی اے آئی ایل کا جگدیش پور-ہلدیا-بوکارو-دھامرا کا بوکارو-انگول سیکشن ، جھارکھنڈ اور اڈیشہ کے 11 اضلاع میں شہری گیس تقسیم کاری نیٹ ورک کو توسیع سے ہمکنار کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ، سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری کے ذریعہ ترقی، روزگار- خودروزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جھارکھنڈ کے لیے ان پہل قدمیوں کے فوائد کو اجاگر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہم نے ترقی کے لیے امنگوں پر زور دیا ہے، توقعاتی اضلاع پر توجہ مرکوز کی ہے۔آزادی کے طویل عرصے کے بعد برق کاری سے آراستہ کیے گئے 18000 مواضعات میں سے زیادہ تر مواضعات دور دراز علاقوں میں واقع ہیں اور ناقابل رسائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پائپ کے ذریعہ پانی، سڑکیں اور گیس کنکشن فراہم کرانے کے لیے گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران مشن موڈ میں کام کیا ہے۔ جدید سہولتوں کو شہروں سے آگے پہنچانے کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پروجیکٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب عام شہریوں کے لیے زندگی بسر کرنا مزید آسان بنانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں، تب قومی اثاثے پیدا ہوتے ہیں اور ملک کی ترقی کے نئے مواقع ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ’’یہ صحیح ترقی ہے اور ہمیں اس ترقی کو اجتماعی طور پر مہمیزکرنا ہے۔‘‘ دیوگھر میں ترقیاتی پروجیکٹس بابا بیدناتھ دھام، جو کہ پورے ملک کے عقیدت مندوں کے لیے ایک اہم مذہبی مقام ہے، کو براہِ راست کنکٹیویٹی فراہم کرانے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر، وزیر اعظم نے دیوگھر ہوائی اڈے کا افتتاح کیا۔ اسے تقریباً 400 کروڑ روپئے کے بقدر کی تخمینہ لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ہوائی اڈے کی ٹرمنل عمارت سالانہ پانچ لاکھ سے زائد مسافرین کی انتظام کاری کی اہل ہے۔ دیوگھر میں ایمس پورے خطے کے حفظانِ صحت شعبے کے لیے ایک نعمت ہے۔ دیوگھر میں واقع ایمس کی سہولتوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ وزیر اعظم یہاں مریضوں کے شعبے (آئی پی ڈی) اور آپریشن تھیٹر خدمات کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ یہ قدم ملک کے تمام تر حصوں میں عمدگی کی حامل حفظانِ صحت خدمات کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کے خواب سے ہم آہنگ ہے۔ وزیر اعظم نے 25 مارچ 2018 کو ایمس دیوگھر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ملک بھر کے مذہبی مقامات پر عالمی درجہ کا بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے اور اس طرح کے تمام مقامات پر سہولتوں کو بہتر بنانے سے متعلق وزیر اعظم کی عہد بندگی سے مزید تقویت حاصل ہوگی کیونکہ وزارت سیاحت کی پرساد اسکیم کے تحت منظور شدہ ’’بیدناتھ دھام، دیوگھر کی ترقی‘‘ کے پروجیکٹ کے حصوں کا آغاز کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے ذریعہ جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جا رہا ہے ان میں دو بڑی زیارت گاہوں کے اجتماعی ہالوں کی ترقی بھی شامل ہے جس میں ہر ایک ہال میں 2000 زائرین کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ ان پروجیکٹوں میں جلسر جھیل فرنٹ کی ترقی اور شیو گنگا تالاب کی ترقی، وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نئی سہولتیں ان لاکھوں عقیدت مندوں کے سیاحتی تجربہ میں مزید اضافہ کریں گی جو بابا بیدناتھ دھام کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ وزیر اعظم نے 10000 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف سڑک پروجیکٹوں کا آغاز کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ جن پروجیکٹوں کا آغاز کیا گیا ان میں گورہر سے قومی شاہراہ – 2 کے بردواڈا سیکشن کو چھ لینوں میں تبدیل کرنا؛ راج گنج – چاس سے لے کر قومی شاہراہ – 32 کے مغربی بنگال سرحد سیکشن تک سڑک کو چوڑا کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔ وہ بڑے پروجیکٹس جن کا سنگ بنیاد رکھا گیا، ان میں این ایچ -80 کے مرزاچوکی-فرکّا سیکشن کو چار لینوں میں تبدیل کرنا؛ ہری ہر گنج سے این ایچ-98 کے پروا مورے سیکشن تک کو چار لینوں میں تبدیل کرنا؛ پلما سے این ایچ -23 کے گملا سیکشن تک کو چار لینوں میں تبدیل کرنا؛ کچری چوک سے این ایچ -75 کے پسکا مورے سیکشن تک کے لیے سطح زمین سے بلند راہداری، وغیرہ شامل ہیں۔ یہ پروجیکٹس خطے میں کنکٹیویٹی کو مزید تقویت بہم پہنچائیں گے اور عوام الناس کے لیے نقل و حمل میں آسانی کو یقینی بنائیں گے۔ وزیر اعظم نے خطے کے لیے تقریباً 3000 کروڑ روپئے کے بقدر کے مختلف توانائی بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد بھی رکھا۔ جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا گیا ان میں جی اے آئی ایل کے جگدیش پور-ہلدیا-بوکارو-دھامرا پائپ لائن کا بوکارو-انگول سیکشن؛ برہی، ہزاری باغ میں واقع ایچ پی سی ایل کا نیا ایل پی جی باٹلنگ پلانٹ اور بی پی سی ایل کا بوکارو ایل پی جی باٹلنگ پلانٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پربت پور گیس کلکٹنگ اسٹیشن، جھریا بلاک، کول بیڈ میتھین (سی بی ایم) او این جی سی کے اثاثے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ وزیر اعظم نے دو ریلوے پروجیکٹوں ، یعنی گوڈا-ہنسدیہا برقی سیکشن اور گڑھوا-مہوریا ڈبلنگ پروجیکٹ ،کو قوم کے نام وقف کیا۔ یہ پروجیکٹس صنعتوں اور پاور ہاؤس کے لیے سازو سامان کی بلارکاوٹ نقل و حمل میں مدد فراہم کریں گے۔ یہ پروجیکٹس دمکا سے آسن سول تک ریل نقل و حمل میں آسانی کو بھی یقینی بنائیں گے۔ وزیر اعظم نے تین ریلوے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا ، جن میں رانچی ریلوے اسٹیشن کی ازسر نو ترقی؛ جسیڈیہ بائی پاس لائن اور ایل ایچ بی کوچ میٹیننس ڈپو، گوڈا شامل ہیں۔ مجوزہ ازسرنو تعمیر شدہ رانچی ا��ٹیشن عالمی درجہ کی حامل سہولتوں سے آراستہ ہوگا، جن میں فوڈ کورٹ، اگزیکیوٹیو لاؤنج، کیفٹیریا، ایئر کنڈیشنڈ انتظار گاہیں شامل ہیں۔یہ سہولتیں نقل و حمل میں آسانی کو یقینی بنانے اور مسافرین کو راحت بہم پہنچانے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔,"দেওঘৰত ১৬,৮০০ কোটিতকৈ অধিক মূল্যৰ বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86-%D8%AF%DA%BE%D9%86-%DB%8C%D9%88%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%A7%E0%A6%A8-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AD-%E0%A6%AC%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پی ایم جن دھن یوجنا کے سات سال مکمل ہونے پر خوشی ظاہر کی ہے۔ وزیر اعظم نے ان سبھی لوگوں کی بے پناہ کوششوں کی بھی تعریف کی، جنہوں نے پی ایم جن دھن یوجنا کو کامیاب بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کئی ٹوئٹ کے ذریعے کہا: ’’آج بھارت کی ترقی کی سمت کو ہمیشہ کے لیے بدلنے والی ایک پہل #PMJanDhan کے سات سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس نے مالی شمولیت اور باوقار زندگی کے ساتھ بے شمار ہندوستانیوں کی با اختیاری کو یقینی بنایا ہے۔ جن دھن یوجنا سے شفافیت بڑھانے میں بھی مدد ملی ہے۔ میں ان تمام لوگوں کی بے پناہ کوششوں کی تعریف کرتا ہوں، جنہوں نے #PMJanDhan کو کامیاب بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ان کی کوششوں نے ہندوستانیوں کی زندگی کو زیادہ معیاری بنانے کو یقینی بنایا ہے۔‘‘,পিএম জনধন যোজনাৰ ৭ বছৰ পূর্তিত প্রধানমন্ত্রীয়ে ভাৰতৰ উন্নয়নৰ গতিপথত এই উদ্যোগে আমূল পৰিৱর্তন লৈ আহিছে বুলি মন্তব্য কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%DB%8C%D8%AA%D8%A7-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گیتا جینتی کے موقع پر عوام کو مبارکباد دی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے گیتا پر اپنی حال ہی میں کی گئیں دو تقریروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ سلسلے وار ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’آج، گیتا جینتی کے موقع پر اپنی دو حالیہ تقریریں پیش کررہا ہوں جو میں نے گیتا پر دی تھیں‘‘۔ سوامی چند بھاوا نندا کی بھگوت گیتا کے ای۔ بک ورژن کا اجراء گیتا پر مختلف ماہرین کے تبصروں کے ساتھ ایک مخطوطہ کا اجراء सर्वोपनिषदो गावो दोग्धा गोपाल नन्दन:। पार्थो वत्स: सुधीर्भोक्ता दुग्धं गीतामृतं महत्।। गीता जयंती की हार्दिक शुभकामनाएं। گیتا جینتی پر مبارکباد، زندگی کے بہت سے زاویوں کے لئے عملی رہنمائی کرنے والی کتاب، یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہوتی ہے کہ گیتا کی تعلیمات، دنیا بھر میں زور و شور سے گردش کررہی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ش ح۔ح ا ۔ن ا۔ (2021۔12۔14),গীতা জয়ন্তী উপলক্ষে দেশবাসীক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%AF%DA%BE-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%86%DB%8C%D9%85%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A8%DA%BE%DA%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بدھ پورنیما کے موقع پر بھگوان بدھ کے اصولوں کو یاد کیا اور ان اصولوں کو پورا کرنے کے لیے اپنا عزم دوہرایا۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہاہے: ’’بدھ پورنیما کو ہم بھگوان کے اصولوں کو یاد کرتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کا اپنا عزم دوہراتے ہیں۔ بھگوان بدھ کے خیالات ہمارے سیارہ کو زیادہ پرامن، ہم آہنگ اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বুদ্ধ পূৰ্ণিমা উপলক্ষে ভগৱান বুদ্ধৰ নীতিসমূহ স্মৰণ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D9%84%D9%88%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%A8/,بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے، بندیل کھنڈ کی جا ویدویاس کی جنم استھلی، اور ہمائی بائیسا مہارانی لکشمی بائی کی جا دھرتی پے، ہمیں بیر بیر بیرا آبے اَوسر ملو۔ ہمیں بھوتئی پرسنتا ہے، نمسکار! اتر پردیش کے مقبول وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ جناب کیشو پرساد موریہ جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب برجیش پاٹھک جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی اور اسی علاقے کے رہنے والے جناب بھانوپرتاپ سنگھ جی، یوپی حکومت کے وزراء، ایم پی، ایم ایل اے، دیگر عوامی نمائندے، اور بندیل کھنڈ کی میری پیاری بہنو اور بھائیو، یوپی کے لوگوں کو، بندیل کھنڈ کی تمام بہنوں اور بھائیوں کو، جدید بندیل کھنڈ ایکسپریس وے، اس کے لیے بہت بہت مبارکباد، بہت سی نیک خواہشات۔ یہ ایکسپریس وے بندیل کھنڈ کی شاندار روایت کے لیے وقف ہے۔ جس سرزمین نے لاتعداد سورما پیدا کیے، جہاں کے خون میں بھارت بھکتی بہتی ہے، جہاں کے بیٹے – بیٹیوں کی بہادری اور محنت نے ہمیشہ ملک کا نام روشن کیا ہے، اُس بندیل کھنڈ کی دھرتی کو آج ایکسپریس وے کا یہ تحفہ دیتے ہوئے اترپردیش کے رکن پارلیمنٹ کے ناطے، اتر پردیش کے عوامی نمائندے کے ناطے مجھے خاص خوشی مل رہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، میں کئی دہائیوں سے اتر پردیش کا دورہ کررہا ہوں۔ یوپی کے آشیرواد سے آپ سب نے پچھلے آٹھ سال سے ملک کے پردھان سیوک کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے، اگر اتر پردیش میں دو اہم چیزیں شامل کی جائیں، اگر اس کی کمی کو پورا کیا جائے، تو اترپردیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی طاقت کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔ پہلا مسئلہ تھا یہاں کی خراب امن و امان کی صورت حال۔ جب میں پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ کیا حال تھا آپ جانتے ہیں۔ اور دوسری حالت تھی ہر لحاظ سے ناقص کنیکٹوٹی۔ آج یوگی آدتیہ ناتھ جی کی قیادت میں اترپردیش کے لوگوں نے مل کر اترپردیش کی پوری تصویر بدل دی ہے۔ یوگی جی کی زیر قیادت حکومت میں امن و امان کی صورت حال میں بھی بہتری آئی ہے اور کنکٹیوٹی بھی تیزی سے بہتر ہورہی ہے۔ آزادی کے بعد کی سات دہائیوں میں یوپی میں ٹریفک کے جدید ذرائع کے لئے جتنا کام ہوا، اس سے زیادہ کام آج ہورہا ہے۔ میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ایسا ہو رہا ہے یا نہیں؟ یہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے یا نظر نہیں آتا؟ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے سے چترک��ٹ سے دہلی کا فاصلہ تقریباً 3-4 گھنٹے کم ہوا ہے، لیکن اس کا فائدہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ ایکسپریس وے نہ صرف یہاں کی گاڑیوں کو رفتار دے گا بلکہ یہ پورے بندیل کھنڈ کی صنعتی ترقی کو بھی تیز کرنے والا ہے۔ اس کے دونوں طرف، اس ایکسپریس وے کے دونوں طرف بہت سی صنعتیں قائم ہونے والی ہیں، یہاں اسٹوریج کی سہولیات، کولڈ اسٹوریج کی سہولیات بننے والی ہیں۔ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی وجہ سے اس علاقے میں زراعت پر مبنی صنعتیں لگانا بہت آسان ہوجائے گا، زرعی پیداوار کو نئی منڈیوں تک پہنچانا آسان ہوجائے گا۔ بندیل کھنڈ میں بن رہے ڈیفنس کوریڈور کو بھی اس سے بہت مدد ملے گی۔ یعنی یہ ایکسپریس وے بندیل کھنڈ کے کونے کونے کو ترقی، خود کے روزگار اور نئے مواقع سے بھی جوڑنے والا ہے۔ ساتھیو، ایک وقت تھا جب یہ مانا جاتا تھا کہ جدید ذرائع آمدورفت پر پہلا حق صرف بڑے بڑے شہروں کا ہے۔ ممبئی ہو، چنئی ہو، کولکاتہ ہو، بنگلورو ہو، حیدرآباد ہو، دہلی ہو، سب کچھ ان کو ہی ملے۔ لیکن اب حکومت بدل گئی ہے، مزاج بھی بدل گیا ہے اور یہ مودی ہے، یہ یوگی ہے، اب اس پرانی سوچ چھوڑکر، اسے پیچھے رکھ کر ہم نئے انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سال 2017 کے بعد سے اتر پردیش میں کنیکٹیوٹی کے جو کام شروع ہوئے ان میں بڑے شہروں کے ساتھ ہی چھوٹے شہروں کو بھی مساوی ترجیح دی گئی ہے۔ یہ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے چترکوٹ، باندہ، ہمیرپور، مہوبا، جالون، اوریا اور اٹاوہ سے ہوکر گزر رہا ہے۔ پوروانچل ایکسپریس وے لکھنؤ کے ساتھ ساتھ بارہ بنکی، امیٹھی، سلطان پور، ایودھیا، امبیڈکر نگر، اعظم گڑھ، مئو اور غازی پور سے بھی گزر رہا ہے۔ گورکھپور لنک ایکسپریس وے امبیڈکرنگر، سنت کبیرنگر اور اعظم گڑھ کو جوڑتا ہے۔ گنگا ایکسپریس وے میرٹھ، ہاپوڑ، بلند شہر، امروہہ، سنبھل، بدایوں، شاہجہاں پور، ہردوئی، اناؤ، رائے بریلی، پرتاپ گڑھ اور پریاگ راج کو جوڑنے کا کام کرے گا۔ دکھائی دیتا ہے کتنی بڑی طاقت پیدا ہو رہی ہے۔ اترپردیش کا ہر کونا نئے خوابوں کو لے کر، نئے عزائم کو لے کر اب تیز رفتاری سے دوڑنے کے لیے تیار ہوچکا ہے، اور یہی تو سب کا ساتھ ہے، سب کا وکاس ہے۔ کوئی پیچھے نہ رہے، سب مل کر آگے بڑھیں، اسی سمت میں ڈبل انجن والی حکومت مسلسل کام کر رہی ہے۔ یوپی کے چھوٹے اضلاع کو فضائی سروس سے جوڑنے کے لیے تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ ماضی قریب میں، پریاگ راج، غازی آباد میں نئے ایئرپورٹ ٹرمینل بنائے گئے، کشی نگر میں نئے ایئرپورٹ کے ساتھ ہی نوئیڈا کے جیور میں ایک اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر کام چل رہا ہے۔ مستقبل میں یوپی کے کئی اور شہروں کو، وہاں بھی ہوائی روٹ سے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسی سہولیات سے سیاحت کی صنعت کو بھی کافی تقویت ملتی ہے۔ اور آج جب میں یہاں اسٹیج پر آ رہا تھا، تو اس سے پہلے میں اس بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کا پرزنٹیشن دیکھ رہا تھا، ایک ماڈیول لگایا، وہ دیکھ رہا تھا، اور میں نے دیکھا کہ اس ایکسپریس وے کے بغل میں جو جو جگہیں ہیں وہاں پر کئی سارے قلعے ہیں، صرف جھانسی کا ایک قلعہ ہے، ایسا نہیں ہے، کئی سارے قلعے ہیں۔ آپ میں سے جو بیرون ملک کی دنیا کو جانتے ہیں وہ جانتے ہوں گے، یورپ کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں قلعوں کو دیکھنے کی ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت چلتی ہے اور دنیا بھر سے لوگ پرانے قلعوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ آج بندیل کھنڈ ایکسپریس وے بننے کے بعد میں یوگی جی کی حکومت سے کہوں گا کہ آپ بھی ان قلعوں کو دیکھنے کے لیے ایک ��اندار سرکٹ ٹورازم بنائیے، دنیا بھر کے سیاح یہاں آئیں اور میرے بندیل کھنڈ کی اس طاقت کو دیکھیں۔ اتنا ہی نہیں، میں یوگی جی سے ایک اور گزارش کروں گا، آپ اترپردیش کے نوجوانوں کے لیے، اس بار جب سردی کا موسم شروع ہوجائے، موسم ٹھنڈی کا شروع ہوجائے تو قلعے پر چڑھنے کا مقابلہ منعقد کروائیں، اور روایتی راستے سے نہیں، مشکل سے مشکل راستہ طے کیجئے اور نوجوان کو بلائیے۔ کون جلدی سے جلدی چڑھتا ہے، کون قلعے پر سوار ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اتر پردیش کے ہزاروں نوجوان اس مقابلے سے جڑنے کے لیے آجائیں گے اور اس کی وجہ سے لوگ بندیل کھنڈ آئیں گے، رات کو قیام کریں گے، کچھ خرچ کریں گے، روزی روٹی کے لیے بہت بڑی طاقت کھڑی ہوجائے گی۔ ساتھیو، ایک ایکسپرے وے کتنے طرح کے کاموں کے مواقع کو جنم دے دیتا ہے۔ ساتھیو، آج جس طرح سے یوپی ڈبل انجن والی حکومت میں جدید ہو رہا ہے، یہ واقعی بے مثال ہے۔ جس یوپی میں، ذرا یاد رکھنا دوستو، میں جو کہہ رہا ہوں۔ یاد رکھوگے؟ یاد رکھو گے؟ ذرا ہاتھ اوپر کرکے بتاؤ، یاد رکھوگے؟ پکا یاد رکھوگے؟ بار بار لوگوں کو بتاؤ گے؟ تو یاد رکھئے، جس یوپی میں سریو نہر پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں 40 سال لگے، جس یوپی میں گورکھپور فرٹیلائزر پلانٹ 30 سال تک بند پڑا تھا، جس یوپی میں ارجن ڈیم پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں 12 سال لگے، جس یوپی میں امیٹھی رائفل کارخانہ صرف ایک بورڈ لگا کرکے پڑا ہوا تھا۔ جس یوپی میں رائے بریلی ریل کوچ فیکٹری ڈبے نہیں بناتی تھی، صرف ڈبوں کو رنگ و روغن کرکے کام چلارہی تھی، اس یوپی میں اب انفرا اسٹرکچر کا کام اتنی سنجیدگی سے ہو رہا ہے کہ اس نے اچھی اچھی ریاستوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دوستو، اب پورے ملک میں یوپی کی شناخت بدل رہی ہے۔ آپ کو فخر ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ہے؟ آج یوپی کا نام روشن ہو رہا ہے، آپ کو فخر ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا ہے؟ اب پورا ہندوستان یوپی کی طرف بہت اچھی نگاہ سے دیکھ رہا ہے، آپ کو لطف آرہا ہے کہ نہیں آرہا ہے؟ اور ساتھیو، بات صرف ہائی ویز یا ایئر ویز کی نہیں ہے۔ تعلیم کا میدان ہو، مینوفیکچرنگ کا میدان ہو، زراعت ہو، یوپی ہر میدان میں ترقی کررہا ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں یوپی میں ہر سال یہ بھی یاد رکھنا، رکھوگے؟ رکھوگے؟ ذرا ہاتھ اوپر کرکے بتاؤ، رکھوگے؟ سابقہ حکومت کے دوران یوپی میں ہر سال اوسطاً 50 کلومیٹر ریل لائنیں دگنی ہوتی تھیں۔ کتنا؟ کتنے کلومیٹر؟ کتنے کلومیٹر؟ – پچاس۔ ہمارے آنے سے پہلے ریلوے لائن کو ڈبل کرنے کا کام 50 کلومیٹر۔ میرے اتر پردیش کے نوجوانو، مستقبل کیسے بناتے ہیں، آج اوسطاً 200 کلومیٹر کا کام ہورہا ہے۔ 200 کلومیٹر ریل لائن کو ڈبل کرنے کا کام جاری ہے۔ 2014 سے پہلے یوپی میں صرف 11000 کامن سروس سینٹر تھے۔ ذرا اعداد و شمار یاد رکھئے، کتنے؟ کتنے؟ 11 ہزار۔ آج یوپی میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ کامن سروس سینٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یاد رکھوگے؟ ایک وقت میں یوپی میں صرف 12 میڈیکل کالج ہوا کرتے تھے۔ اعداد و شمار یاد رہا، کتنے میڈیکل کالج؟ ذرا زور سے بتائیے، کتنے؟ 12 میڈیکل کالج۔ آج یوپی میں 35 سے زیادہ میڈیکل کالج ہیں اور 14 نئے میڈیکل کالجوں پر کام جاری ہے۔ مطلب کہاں 14 اور کہاں 50۔ بھائیو اور بہنو، آج ملک ترقی کے جس دھارے پر گامزن ہے، اس کے مرکز میں دو بڑے پہلو ہیں۔ ایک ہے ارادہ اور دوسرا ہے مریادا۔ ہم نہ صرف ملک کے حال کے لیے نئی سہولتیں پیدا کر رہے ہیں بلکہ ملک کے مستقبل کی تعمیر بھی کررہے ہیں۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے ذریعے، ہم 21ویں صدی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ اور ساتھیو، ترقی کے لیے ہماری جذبۂ خدمت ایسا ہے کہ ہم وقت کی مریادا کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ ہم وقت کی مریادا پر عمل کیسے کرتے ہیں، اس کی بے شمار مثالیں ہمارے اسی اترپردیش میں ہیں۔ کاشی میں وشوناتھ دھام کی تزئین کاری کا کام ہماری حکومت نے شروع کیا اور ہماری ہی حکومت نے اسے مکمل کرکے دکھایا۔ ہماری حکومت نے گورکھپور ایمس کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور اس کا افتتاح بھی اسی حکومت میں ہوا۔ دہلی – میرٹھ ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد بھی ہماری حکومت نے رکھا اور اس کا افتتاح بھی ہماری حکومت میں ہوا۔ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس کا کام اگلے سال فروری میں مکمل ہونا تھا، لیکن یہ 7-8 ماہ پہلے ہی سروس کے لیے تیار ہے میرے دوستو۔ اور کورونا کے حالات کے باوجود کتنی دشواریاں ہیں، ہر خاندان جانتا ہے۔ ان مشکلات کے درمیان ہم نے یہ کام وقت سے پہلے کیا ہے۔ ایسے ہی کام سے ہر اہل وطن کو احساس ہوتا ہے کہ جس جذبے سے اس نے اپنا ووٹ دیا اس کا صحیح معنی میں احترام ہورہا ہے اور اس کا صحیح استعمال ہورہا ہے۔ میں اس کے لیے یوگی جی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، جب میں کسی سڑک کا افتتاح کرتا ہوں، کسی اسپتال کا افتتاح کرتا ہوں، کسی فیکٹری کا افتتاح کرتا ہوں تو میرے دل میں ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ میں ان ووٹروں کو عزت دے رہا ہوں جنہوں نے یہ حکومت بنائی ہے اور ملک کے سبھی ووٹرز کو سہولیات فراہم کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج پوری دنیا بھارت کی طرف بڑی امید سے دیکھ رہی ہے۔ ہم اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں، اگلے 25 سالوں میں بھارت جس بلندی پر پہنچے گا اس کا روڈ میپ بنا رہے ہیں۔ اور آج جب میں بندیل کھنڈ کی سرزمین پر آیا ہوں تو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے علاقے میں آیا ہوں۔ یہاں سے، بہادروں کی اس سرزمین سے، میں ہندوستان کے چھ لاکھ سے بھی زیادہ گاؤوں کے لوگوں کو اپنی مخلصانہ دعائیں پیش کرتا ہوں۔ کہ آج ہم آزادی کا جو جشن منا رہے ہیں۔ اس کے لیے سیکڑوں برسوں تک ہمارے آباء و اجداد نے لڑائیاں لڑی ہیں، قربانیاں دی ہیں، اذیتیں جھیلی ہیں۔ جب 5 سال باقی ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ابھی سے منصوبہ بندی کریں، آنے والے مہینے میں 15 اگست تک ہر گاؤں میں بہت سے پروگرام ہونے چاہئیں۔ گاؤں مل کر پروگرام کریں، آزادی کا امرت مہوتسو منانے کی منصوبہ بندی کریں۔ بہادروں کو یاد کریں، قربانی دینے والوں کو یاد کریں، مجاہدین آزادی کو یاد کریں، ہر گاؤں میں نیا عزم لینے کا ایک ماحول بنے۔ میں بہادروں کی اس سرزمین سے آج تمام ہم وطنوں سے یہ گزارش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج بھارت میں ایسا کوئی بھی کام نہیں ہونا چاہئے جس کی بنیاد بھارت کے حال اور بہتر مستقبل کی آرزو سے وابستہ نہ ہو۔ ہم کوئی بھی فیصلہ کریں، کوئی بھی فیصلہ لیں، کوئی بھی پالیسی بنائیں، اس کے پیچھے سب سے بڑی سوچ یہی ہونی چاہیے کہ اس سے ملک کی ترقی میں مزید تیزی آئے گی۔ ہر وہ بات، جو ملک کو نقصان پہنچاتی ہو، ملک کی ترقی کو متاثر کرتی ہو، ہمیں اس سے ہمیشہ دور رہنا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھارت کو ترقی کا یہ بہترین موقع ملا ہے۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں اس عرصے میں ملک کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے کر اسے نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے، نیا بھارت بنانا ہے۔ ساتھیو، نئے بھارت کے سامنے ایک ایسا چیلنج بھی ہے جس پر اگر ابھی توجہ نہ دی ��ئی تو بھارت کے نوجوانوں کا، آج کی نسل کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ کا آج گمراہ ہوجائے گا اور آپ کا آنے والا کل اندھیرے میں سمٹ جائے گا دوستو۔ اس لیے ابھی سے جاگنا ضروری ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں مفت کی ریوڑی بانٹ کر ووٹ لینے کا کلچر لانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ریوڑی کلچر ملک کی ترقی کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ملک کے لوگوں اور خاص کر میرے نوجوانوں کو اس ریوڑی کلچر سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ریوڑی کلچر کے لوگ آپ کے لیے کبھی بھی نئے ایکسپریس وے، نئے ہوائی اڈے یا ڈیفنس کوریڈور نہیں بنائیں گے۔ ریوڑی کلچر کے لوگوں کو لگتا ہے کہ عوام الناس کو مفت ریوڑی بانٹ کر انہیں خرید لیں گے۔ ہمیں مل کر ان کی اس سوچ کو شکست دینا ہے، ملک کی سیاست سے ریوڑی کلچر کو ختم کرنا ہے۔ ساتھیو، ریوڑی کلچر سے الگ ہم ملک میں سڑکیں بنا کر، نئے ریل روٹ بنا کر، لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ہم غریبوں کے لیے کروڑوں پکے مکان بنا رہے ہیں، کئی دہائیوں سے نامکمل آبپاشی کے منصوبے مکمل کررہے ہیں، چھوٹے بڑے کئی ڈیم بنا رہے ہیں، بجلی کے نئے کارخانے لگا رہے ہیں، تاکہ غریب، کسان کی زندگی آسان ہو اور نوجوانوں کا مستقبل اندھیروں میں نہ ڈوب جائے۔ ساتھیو، اس کام میں محنت لگتی ہے، دن رات کام کرنا پڑتا ہے، عوام کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنا پڑتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں جہاں بھی ہماری ڈبل انجن والی حکومت ہے وہ ترقی کے لیے اتنی محنت کر رہی ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت مفت کی ریوڑی تقسیم کرنے کا شارٹ کٹ نہیں اپنا رہی ہے، ڈبل انجن والی حکومت ریاست کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔ اور ساتھیو، آج میں آپ کو ایک اور بات بھی بتاؤں گا۔ ملک کی متوازن ترقی، چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی جدید سہولیات کی رسائی، یہ کام بھی حقیقی معنوں میں سماجی انصاف کا کام ہے۔ جس مشرقی بھارت کے لوگوں کو، جس بندیل کھنڈ کے لوگوں کو دہائیوں تک سہولیات سے محروم رکھا گیا، آج جب وہاں جدید انفرا اسٹرکچر تعمیر ہو رہا ہے، تو سماجی انصاف بھی ہو رہا ہے۔ یوپی کے جن اضلاع کو پسماندہ مان کر انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا، وہاں جب ترقی ہورہی ہے، تو یہ بھی ایک طرح کا سماجی انصاف ہے۔ گاؤں گاؤں کو سڑکوں سے جوڑنے کے لیے تیزی سے کام کرنا، گھر گھر تک رسوئی گیس کا کنکشن پہنچانا، غریبوں کو پکے گھر فراہم کرنا، گھر گھر بیت الخلاء بنانا، یہ سارے کام بھی سماجی انصاف کو مضبوط کرنے والے قدم ہیں۔ ہماری حکومت کے سماجی انصاف کے کاموں سے بندیل کھنڈ کے لوگوں کو بھی بہت فائدہ ہورہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہماری حکومت بندیل کھنڈ کے ایک اور چیلنج کو کم کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ ہم ہر گھر تک پائپ سے پانی کی فراہمی کے لیے جل جیون مشن پر کام کر رہے ہیں۔ اس مشن کے تحت بندیل کھنڈ کے لاکھوں خاندانوں کو پانی کے کنکشن دیے گئے ہیں۔ ہماری ماؤں، ہماری بہنوں کو اس کا بہت فائدہ ہوا ہے، اس کی وجہ سے ان کی زندگی سے مشکلات کم ہوئی ہیں۔ ہم بندیل کھنڈ میں ندیوں کا پانی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ رتولی ڈیم پروجیکٹ، بھوانی ڈیم پروجیکٹ اور مژگاؤں-چلی اسپرنکلر ایریگیشن پروجیکٹ انہی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ کین- بیتوا لنک پروجیکٹ کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ اس سے بندیل کھنڈ کے بہت بڑے حصے کی زندگی بدلنے والی ہے۔ ساتھیو، میری بندیل کھنڈ کے ساتھیوں سے ایک اور گزارش بھی ہے۔ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر ملک نے امرت سرووروں کی تعمیر کا عہد لیا ہے۔ بندیل کھنڈ کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بھی بنائے جائیں گے۔ یہ آبی تحفظ کے لیے، آنے والی نسلوں کے لیے بہت بڑا کام ہورہا ہے۔ آج میں آپ سب سے کہوں گا کہ اس نیک مقصد میں مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ امرت سروور کے لیے گاؤں گاؤں تار سروس مہم چلنی چاہئے۔ بھائیو اور بہنو، بندیل کھنڈ کی ترقی میں بہت بڑی طاقت یہاں کی کاٹیج انڈسٹریز کا بھی ہے۔ آتم نربھر بھارت کے لئے ہماری حکومت کے ذریعہ اس کاٹیج روایت پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ میک ان انڈیا بھارت کی اسی کاٹیج روایت سے مضبوط ہونے والا ہے۔ آج میں آپ کو اور ہم وطنوں کو ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ کس طرح چھوٹی کوششیں بڑا اثر ڈالتی ہیں۔ ساتھیو، بھارت، ہر سال کروڑوں روپے کے کھلونے دنیا کے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا رہا ہے۔ اب بتائیے کہ چھوٹے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے کھلونے بھی باہر سے لائے جاتے تھے۔ جبکہ بھارت میں کھلونے بنانا تو خاندانی اور روایتی صنعت رہی ہے، خاندانی کاروبار رہا ہے۔ اس کے پیش نظر میں نے بھارت میں کھلونا صنعت سے نئے سرے سے کام کرنے کی درخواست کی تھی۔ لوگوں سے بھارتی کھلونوں کو خریدنے کی اپیل بھی کی تھی۔ اتنے کم وقت میں حکومت کی سطح پر جو کام کرنا ضروری تھا، وہ بھی ہم نے کیا۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اور ہر ہندوستانی کو فخر ہوگا، میرے ملک کے لوگ سچی بات کو کیسے دل سے لیتے ہیں، اس کی یہ مثال ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بیرون ملک سے آنے والے کھلونوں کی تعداد کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔ میں ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہی نہیں اب بھارت سے کھلونے بڑی تعداد میں بیرون ملک جانے لگے ہیں۔ اس سے کس کو فائدہ ہوا؟ ہمارے زیادہ تر کھلونا بنانے والے غریب خاندان، دلت خاندان، پسماندہ خاندان، قبائلی خاندان ہیں۔ ہماری خواتین کھلونے بنانے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں۔ اس صنعت سے ہمارے ان سب لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔ جھانسی، چترکوٹ، بندیل کھنڈ میں تو کھلونوں کی بڑی خوش حال روایت رہی ہے۔ ان کی بھی ڈبل انجن کی حکومت کے ذریعے حوصلہ افزائی کی رہی ہے۔ ساتھیو، سورماؤں کی سرزمین بندیل کھنڈ کے بہادروں نے کھیل کے میدان پر بھی فتح کا جھنڈا لہرایا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا اسپورٹس اعزاز اب بندیل کھنڈ کے بیٹے میجر دھیان چند کے نام پر ہی ہے۔ دھیان چند جی نے جس میرٹھ میں کافی وقت گزارا تھا، وہاں پر ان کے نام سے ایک اسپورٹس یونیورسٹی بھی بنائی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہماری جھانسی کی ہی ایک بٹیا شیلی سنگھ نے بھی کمال کرکے دکھایا۔ ہمارے ہی بندیل کھنڈ کی بیٹی شیلی سنگھ نے لمبی چھلانگ میں نئے نئے ریکارڈ بنانے والی، شیلی سنگھ نے گزشتہ سال انڈر ٹوینٹی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ بھی جیتا ہے۔ بندیل کھنڈ ایسے نوجوان ٹیلنٹ سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا خوب موقع ملے، یہاں سے نقل مکانی بند ہو، یہاں جدید انفرا اسٹرکچر تعمیر ہو، اسی سمت میں ہماری حکومت کام کررہی ہے۔ یوپی ایسے ہی اچھی حکمرانی کی نئی پہچان کو مضبوط کرتا رہے، اسی خواہش کے ساتھ، آپ سبھی کو بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کے لئے پھر سے بہت بہت مبارکباد، اور پھر سے یاد دہانی کراتا ہوں کہ 15 اگست تک پورا مہینہ ہندوستان کے ہر گھر میں، ہر گاؤں میں آزادی کا جشن منایا جانا چاہئے، شاندار طریقے سے منایا جانا چاہیے، آپ سب کو بہت بہت مبارک باد، ��ہت بہت شکریہ۔ پوری طاقت سے بولئے، بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے۔ بہت بہت شکریہ۔,উত্তৰপ্রদেশৰ জালাউনত বুন্দেলখণ্ড এক্সপ্ৰেছৱে উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%8B%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%9F%E0%A6%A4/,نئی دہلی،30مئی 2018؍ عزت مآب ، صدر جوکو ودوڑو، معزز مندوبین میڈیا کے اراکین سلامت سیانگ نمسکار! اس عظیم اور خوبصورت ملک کا یہ میرا پہلا دورہ ہے۔ میں سب سے پہلے اس سفر کے شاندار بندوست کرنے اور گرم جوشی کے ساتھ میری مہمان نوازی کے لئے میں صدر ودوڑو کے تئیں اظہار تشکر کرتا ہوں۔ انڈونیشا کی تکثیریت کو ظاہر کرتے ہوئے شہریوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں نے اپنی قومی پوشاک میں جس طرح میرا استقبال کیا ہے اس نے خاص طورپر میرے دل کو چھو لیا ہے۔ جناب صدر محترم کی دور اندیشی کے لئے ان کی دانشمندانہ قیادت کے لئے اور ہماری شراکت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ان کی ذاتی دلچسپیوں کا میں دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں۔ دوستو! حال ہی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں انڈونیشیا کے بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا مجھے بہت دکھ ہے۔ہندوستان اس طرح کے حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ اس مشکل وقت میں ہندوستان ،انڈونیشیاکے ساتھ پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات یہ پیغام دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے عالمی سطح پر مل جل کر کی جارہی کوششوں میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ دوستو! انڈونیشیا کی پنچ شیل کی فلاسفی ، شعور اور دور اندیشی کی زندہ مثال ہے۔ اس میں مذہبی عقائد کے ساتھ تہذیبی روایات کو بھی یکجا کیا گیا ہے۔سمندری پڑوسیوں اور دفاعی شراکت دار کے شکل میں ہماری تشویشات ایک جیسی ہیں۔ سمندری راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ہمارے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے ہند-بحرالکاہل خطے خصوصاً ارضیاتی دفاعی محل وقوع ہیں۔ ہم ایک جیسی ترقی اور ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ہند-بحرالکاہل خطے کے معاونین کے طورپر ایک دوسرے کی ترقی اور خوشحالی ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے، اس لئے ہم نے ہند-بحرالکاہل خطے کے لئے مشترکہ وژن اور اصولوں پر اتفاق کیا ہے۔ دوستو! ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کے ساتھ ’’ساگر‘‘-سکیورٹی اینڈ گروتھ فار آل ان دی ریجن-کا ہمارا خواب صدر ودوڑو کی میری ٹائم فلکرم پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ دسمبر 2016 میں صدر ودوڑو کے دورہ ہند کے دوران ہم نے خاکہ(روڈ میپ) تیار کیا تھا۔ آج ہم نے تبادلہ خیالات کے دوران اس کے عمل درآمد میں ہوئی پیش رفت کا جائزہ لیا ہے۔ آج ہمارے درمیان ہوئے معاہدوں سے ہمارے باہمی رشتوں کو مضبوط بنانے میں مزید مدد ملے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اپنی شراکت داری کو جامع دفاعی شراکت داری کی شکل میں اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم 2025 تک باہمی تجارت کو 50 بلین ڈالر کی سطح تک لے جانے کے لئے اپنی کوششیں دوگنی کردیں گے اور ان کوششوں میں مدد کے لئے ہم اپنے سی ای او فورم کا بامعنی تعاون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دوستو! ہم دونوں ملکوں کے درمیان صدیوں سے مستحکم تہذیبی رشتے قائم ہیں۔ ان کی ایک جھلک ہماری یوم جمہوریہ کے موقع پر منعقدہ پریڈ میں بھی دیکھنےکو ملی تھی۔ اس سال کی یوم جمہوریہ پریڈ میں آسیان-ہندوستان رشتوں کی جھانکی میں ہندوستان کی ریاست اڈیشہ کے تہوار ’بالی جاترا‘کو دکھایا گیا تھا۔ ہر سال منایا جانے والا یہ تہوار ہزاروں سال پرانے تہذیبی رشتوں کو آج بھی زندہ رکھنے کی ایک مثال ہے۔ آئندہ سال یعنی 2019 میں ہم اپنے سفارتی رشتوں کے قیام کی 70ویں سالگرہ منائیں گے۔ اس موقع پر دونوں ملکوں میں بہت ساری تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ ہندوستان کے سیاح کثیر تعداد میں انڈونیشیا آتے ہیں، خاص طورپر وہ بالی میں آتے ہیں۔ اتراکھنڈ اور بالی کو ٹوئن کرنے سے اس لین دین میں مزید اضافہ ہوگا ۔ دونوں ملکوں کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں کی ہے، ان نوجوانوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنےاور ان کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے غرض سے ہم تعلیم اور ہنرمندی کے فروغ کے شعبوں میں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔ ہم ہندوستان کے آئی ٹی سروسز کے شعبے میں تعاون کو فروغ اور توسیع دینے کے لئے انڈونیشیا کی قیادت کے خیالات کا خیر مقدم کریں گے۔ یہ دونوں ملکوں کے مفید ہوگا۔ دوستو!ہندوستان-آسیان پارٹنر شپ ایک ایسی طاقت ہے، جو ہند-بحرالکاہل خطے میں اور اس سے پرے بھی امن اور مشترکہ خوشحالی کے لئے ہے۔ ہم آسیان میں انڈونیشیا کے مثبت کردار کو اہمیت دیتے ہیں، ساتھ ہی جامع علاقائی تعاون اور اتحاد کے لئے اس ایسوسی ایشن کی کوشش بھی ایک مثال اور ترغیب ہے۔ میں نے آسیان میں ہندوستان کی اسٹراٹیجک پارٹنرشپ کو فروغ دینے میں انڈونیشیا کی پرزور حمایت کے لئے صدر ودوڑو کا شکریہ ادا کیا ہے۔ میں اگست میں 18ویں ایشیائی کھیلوں کی میزبانی کے لئے انڈونیشیا کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ بہت ہی شاندار اور تاریخی تقریب ہوگی۔ میں رمضان کے اس مقدس ماہ میں بھارت کے 125کروڑ عوام کی جانب سے انڈونیشیا کے لوگوں کی خوشحالی ، اچھی صحت اور کامیابی کی امیدکرتا ہوں اور انہیں آئندہ عیدالفطر تہوار کی مبارکباد بھی پیش کرتاہوں۔ بہت بہت شکریہ تریما کاسی بنیاک م ن۔ش س۔ن ع (30.05.2018),ইণ্ডোনেছিয়া ভ্ৰমণৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰী প্ৰেছ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%BE%DA%A9-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%96%E0%A7%81%E0%A6%93%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پیرالمپک کھیلوں میں شاندار کارکردگی کے لیے بھاوینا پٹیل کو مبارکباد دی اور کل ان کی کامیابی کے لیے ملک کی طرف سے مکمل حمایت ملنے کی بات کہی۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ٹوئٹ کیا: ’’بہت بہت مبارکباد بھاوینا پٹیل! آپ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پورا ملک آپ کی کامیابی کے لیے دعا کر رہا ہے اور کل کے مقابلے میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ آپ بغیر کسی دباؤ کے اپنی بہترین کارکردگی دکھائیں۔ آپ کا کھیل کا جذبہ پورے ملک کو حوصلہ بخشتا ہے۔‘‘,পেৰালিম্পিকত দেখুওৱা প্ৰদৰ্শনৰ বাবে ভৱিনা পেটেলক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A8%D8%A7%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%B3%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%AD%D8%A7%D8%B5%D9%84-%DA%A9-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF/,پروگرام میں موجود کابینہ کے ہمارے ساتھی اسمرتی ایرانی جی، ڈاکٹر مہندر بھائی، تمام عہدیداران، بچوں کے سرپرست اور اساتذہ، اور بھارت کے مستقبل، ایسے میرے تمام نوجوانوں ساتھیوں! آپ سب سے بات چیت کرکے بہت اچھا لگا۔ آپ سے آپ کے تجربات کے بارے میں جاننے کو بھی ملا۔ فن و ثقافت سے لے کر شجاعت، تعلیم سے لے کر انوویشن، سماجی خدمت اور کھیل جیسے متعدد شعبوں میں آپ کی غیر معمولی کامیابیوں کے لیے آپ کو ایوارڈ حاصل ہوئے ہیں۔ اور یہ ایوارڈ ایک بہت بڑے مقابلہ کے بعد آپ کو ملے ہیں۔ ملک کے ہر کونے سے بچے آگے آئے ہیں۔ اس میں سے آپ کا نمبر لگا ہے۔ مطلب کہ ایوارڈ پانے والوں کی تعداد بھلے کم ہے، لیکن اس قسم کے ہونہار بچوں کی تعداد ہمارے ملک میں بے شمار ہے۔ آپ سب کو ایک بار پھر ان انعامات کے لیے بہت بہت مبارکباد۔ آج نیشنل گرل چائلڈ ڈے بھی ہے۔ میں ملک کی تمام بیٹیوں کو بھی مبارکباد پیش دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آپ کے ساتھ ساتھ میں آپ کے والدین اور ٹیچرز کو بھی خاص طور سے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ آج آپ اس مقام پر پہنچے ہیں، اس کے پیچھے ان کا بھی بہت بڑا تعاون ہے۔ اسی لیے، آپ کی ہر کامیابی آپ کے اپنوں کی بھی کامیابی ہے۔ اس میں آپ کے اپنوں کی کوشش اور ان کے جذبات شامل ہیں۔ میرے نوجوان ساتھیوں، آپ کو آج یہ جو ایوارڈ ملا ہے، یہ ایک اور وجہ سے بہت خاص ہے۔ یہ وجہ ہے– ان انعامات کا موقع! ملک اس وقت اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے۔ آپ کویہ ایوارڈ اس اہم دور میں ملا ہے۔ آپ زندگی بھر، فخر سے کہیں گے کہ جب میرا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا تھا، تب مجھے یہ ایوارڈ ملا تھا۔ اس ایوارڈ کے ساتھ آپ کو بہت بڑی ذمہ داری بھی ملی ہے۔ اب دوستوں کی، فیملی کی، سماج کی، ہر کسی کی آپ سے امیدیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ان امیدوں کا آپ کو دباؤ نہیں لینا ہے، ان سے حوصلہ لینا ہے۔ نوجوان ساتھیوں، ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے بچوں نے، بیٹے بیٹیوں نے ہر دور میں تاریخ رقم کی ہے۔ ہماری آزادی کی لڑائی میں ویر بالا کنک لتا بروا، کھدی رام بوس، رانی گائیڈی نیلیو جیسے جانبازوں کی ایسی تاریخ ہے جو ہمیں فخر سے بھر دیتی ہے۔ ان بہادروں نے چھوٹی سی عمر میں ہی ملک کی آزادی کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا، اس کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔ آپ نے ٹی وی دیکھا ہوگا، میں پچھلے سال دیوالی پر جموں و کشمیر کے نوشہرہ سیکٹر میں گیا تھا۔ وہاں میری ملاقات جناب بلدیو سنگھ اور جناب بسنت سنگھ نام کے ایسے جانبازوں سے ہوئی جنہوں نے آزادی کے فوراً بعد جو جنگ ہوئی تھی کشمیر کی سرزمین پر، ابھی تو ان کی عمر بہت بڑی ہے، تب وہ بہت چھوٹی عمر کے تھے اور انہوں نے اس جنگ میں چھوٹی عمر کے فوجی کا رول ادا کیا تھا۔ اور ہماری فوج میں پہلی بار چھوٹی عمر کے فوجی کے طور پر ان کی پہچان کی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اتنی کم عمر میں اپنی فوج کی مدد کی تھی۔ اسی طرح، ہمارے بھارت کی ایک اور مثال ہے– گرو گووند سنگھ جی کے بیٹوں کی شجاعت اور قربانی! صاحبزادوں نے جب بے پناہ جوانمردی کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، ہمت کے ساتھ ، خود کو پوری طرح وقف کرنے کے جذبہ سے قربانی دی تھی تب ان کی عمر بہت کم تھی۔ بھارت کی تہذیب، ثقافت، عقیدت اور مذہب کے لیے ان کی قربانی بے مثال ہے۔ صاحبزادوں کی قربانی کی یاد میں ملک نے 26 دسمبر کو ’ویر بلیدان دیوس‘ کی بھی شروعات کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ سب، اور ملک کے سبھی نوجوان بہادر صاحبزادوں کے بارے میں ضرور پڑھیں۔ آپ نے یہ بھی ضرور دیکھا ہوگا، کل دہلی میں انڈیا گیٹ کے پاس نیتا جی سبھاش چندر بوس کی ڈیجیٹل مورتی بھی نصب کی گئی ہے۔ نیتا جی سے ہمیں سب سے بڑا حوصلہ ملتا ہے– فرائض کا، ملک کو سب سے آگے رکھنے کا! نیتا جی سے سبق لے کر ہم سب کو، اور نوجوان نسل کو خاص طور پر ملک کے لیے اپنی ذمہ داری کے راستے پر آگے بڑھنا ہے۔ ساتھیوں، ہماری آزادی کے 75 سال اس لیے اہم ہیں کیوں کہ آج ہمارے سامنے ماضی پر فخر کرنے کا، اس سے توانائی حاصل کرنے کا وقت ہے۔ یہ وقت دورِ حاضر کے عزائم کو پورا کرنے کا ہے۔ یہ وقت مستقبل کے لیے نئے خواب دیکھنے کا ہے، نئے ہدف متعین کرکے ان پر بڑھنے کا ہے۔ یہ ہدف اگلے 25 سالوں کے لیے ہیں، جب ملک اپنی آزادی کے سو سال پورا کرے گا۔ اب آپ تصور کیجئے، آج آپ میں سے زیادہ تر لوگ 10 اور 20 کے درمیان کی عمر کے ہیں۔ جب آزادی کے سو سال ہوں گے تب آپ زندگی کے اس موڑ پر ہوں گے، تب یہ ملک کتنا شاندار، عظیم، ترقی پذیر، بلندیوں پر پہنچا ہوا، آپ کی زندگی کتنے امن و سکون سے بھری ہوئی ہوگی۔ یعنی، یہ ہدف ہمارے نوجوانوں کے لیے ہیں، آپ کی نسل اور آپ کے لیے ہیں۔ اگلے 25 سالوں میں ملک جس اونچائی پر ہوگا، ملک کی جو صلاحیت بڑھے گی، اس میں بہت بڑا رول ہماری نوجوان نسل کا ہے۔ ساتھیوں، ہمارے آباء و اجداد نے جو بویا، انہوں نے جو محنت کی، قربانی دی، اس کے پھل ہم سب کو نصیب ہوئے ہیں۔ لیکن آپ وہ لوگ ہیں، آپ ایک ایسے دور میں پہنچے ہیں، ملک آج اس جگہ پر پہنچا ہوا ہے کہ آپ جو بوئیں گے اس کے پھل آپ کو کھانے کو ملیں گے، اتنی تیزی سے تبدیلی ہونے والی ہے۔ اسی لیے، آپ دیکھتے ہوں گے، آج ملک میں جو پالیسیاں بن رہی ہیں، جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان سب کے مرکز میں ہماری نوجوان نسل ہے، آپ لوگ ہیں۔ آپ کسی سیکٹر کو سامنے رکھئے، آج ملک کے سامنے اسٹارٹ اپ انڈیا جیسے مشن ہیں، اسٹینڈ اپ جیسے پروگرام چل رہے ہیں، ڈیجیٹل انڈیا کی اتنی بڑی مہم ہمارے سامنے ہے، میک ان انڈیا کو رفتار دی جا رہی ہے، آتم نربھر بھارت کی عوامی تحریک ملک نے شروع کی ہے، ملک کے ہر کونے میں تیزی سے جدید انفراسٹرکچر کو وسعت دی جا رہی ہے، شاہراہیں بن رہی ہیں، تیز رفتار ایکسپریس وے بن رہے ہیں، یہ ترقی، یہ رفتار کس کی اسپیڈ سے میچ کرتی ہے؟ آپ لوگ ہی ہیں جو ان تمام تبدیلیوں سے خود کو جوڑ کر دیکھتے ہیں، ان سب کے لیے اتنا پرجوش رہتے ہیں۔ آپ کی ہی جنریشن، بھارت ہی نہیں، بلکہ بھارت کے باہر بھی اس نئے دور کو لیڈ کر رہی ہے۔ آج ہمیں فخر ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں کے سی ای او، ہر کوئی اس کی چرچہ کر رہا ہے، یہ سی ای او کون ہیں، ہمارے ہی ملک کی اولاد ہیں۔ اسی ملک کی نوجوان نسل ہے جو آج دنیا میں چھائی ہوئی ہے۔ آج ہمیں فخر ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ بھارت کے نوجوان اسٹارٹ اپ کی دنیا میں اپنا پرچم لہرا رہے ہیں۔ آج ہمیں فخر ہوتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کے نوجوان نئے نئے انوویشن کر رہے ہیں، ملک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اب سے کچھ وقت بعد، بھارت اپنے دم خم پر، پہلی بار خلاء میں ہندوستانیوں کو بھیجنے والا ہے۔ اس گگن یان مشن کا دار و مدار بھی ہمارے نوجوانوں پر ہی ہے۔ جو نوجوان اس مشن کے لیے چنے گئے ہیں، وہاس وقت کڑی محنت کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، آج آپ کو ملے یہ ایوارڈ بھی ہماری نوجوان نسل کی شجاعت اور بہادری کو بھی سیلی بریٹ کرتےہیں۔ یہ شجاعت اور بہادری ہی آج نئے بھارت کی پہچان ہے۔ کورونا کے خلاف ملک کی لڑائی ہم نے دیکھی ہے، ہمارے سائنس دانوں نے، ہمارے ویکسین مینوفیکچررز نے دنیا میں لیڈ لیتے ہوئے ملک کو ٹیکے دیے۔ ہمارے ہیلتھ کیئر ورکرز نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی بنا ڈرے، بنا رکے ہم وطنوں کی خدمت کی، ہمارے نرسیں گاؤں گاؤں، مشکل سے مشکل جگہوں پر جا کر لوگوں کو ویکسین لگا رہی ہیں، یہ ایک ملک کے طور پر شجاعت اور ہمت کی بڑی مثال ہے۔ اسی طرح، سرحدوں پر ڈٹے ہمارے فوجیوں کی بہادری کو دیکھئے۔ ملک کی حفاظت کے لیے ان کی جانبازی ہماری پہچان بن گئی ہے۔ ہمارے کھلاڑی بھی آج وہ مقام حاصل کر رہے ہیں، جو بھارت کے لیے کبھی ممکن نہیں مانے جاتے تھے۔ اسی طرح، جن شعبوں میں بیٹیو ں کو پہلے اجازت بھی نہیں ہوتی تھی، بیٹیاں آج ان میں کمال کر رہی ہیں۔ یہی تو وہ نیا بھارت ہے، جو نیا کرنے سے پیچھے نہیں رہتا، ہمت اور حوصلہ آج بھارت کی پہچان ہے۔ ساتھیوں، آج بھارت، اپنے حال اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو مضبوط کرنے کے لیے مسلسل قدم اٹھا رہا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبان میں پڑھائی پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس سے آپ کو پڑھنے میں، سیکھنے میں مزید آسانی ہوگی۔ آپ اپنی پسند کے مضمون پڑھ پائیں، اس کے لیے بھی تعلیمی پالیسی میں مخصوص انتظام کیے گئے ہیں۔ ملک بھر کے ہزاروں اسکولوں میں بن رہی اٹل ٹنکرنگ لیبس، پڑھائی کے شروعاتی دنوں سے ہی بچوں میں انوویشن کی صلاحیتیں بڑھا رہی ہیں۔ ساتھیوں، بھارت کے بچوں نے، نوجوان نسل نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ 21ویں صدی میں بھارت کو نئی بلندی پر لے جانے کے لیے کتنی صلاحیتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے، چندریان کے وقت، میں نے ملک بھر کے بچوں کو بلایا تھا۔ ان کا حوصلہ، ان کا جوش میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ بھارت کے بچوں نے، ابھی ویکسی نیشن پروگرام میں بھی اپنی جدید اور سائنسی سوچ کا مظاہرہ کیا ہے۔ 3 جنوری کے بعد سے صرف 20 دنوں میں ہی چار کروڑ سے زیادہ بچوں نے کورونا ویکسین لگوائی ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ ہمارے ملک کے بچے کتنے بیدار ہیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا کتنا احساس ہے۔ ساتھیوں، سووچھ بھارت ابھیان کی کامیابی کا بہت بڑا کریڈٹ بھی میں بھارت کے بچوں کو دیتا ہوں۔ آپ لوگوں نے گھر گھر میں کم عمر کے فوجی بن کر، رضا کار بن کر اپنی فیملی کو صفائی مہم کے لیے تیار کیا۔ گھر کے لوگ صفائی رکھیں، گھر کے اندر اور باہر گندگی نہ ہو، اس کا بیڑہ بچوں نے خود اٹھا لیا تھا۔ آج میں ملک کے بچوں سے ایک اور بات کے لیے تعاون مانگ رہا ہوں۔ اور بچے میرا ساتھ دیں گے تو ہر فیملی میں تبدیلی آئے گی۔ اور مجھے یقین ہے یہ میرے ننھے منے ساتھی، یہی میری بچوں کی فوج مجھے اس کام میں بہت مدد کرے گی۔ جیسے آپ صفائی مہم کے لیے آگے آئے، ویسے ہی آپ ووکل فار لوکل مہم کے لیے بھی آگے آئیے۔ آپ گھر میں بیٹھ کرکے، سب بھائی بہن بیٹھ کرکے ایک لسٹ بنائیے، گنتی کریئے، کاغذ لے کرکے دیکھئے، صبح سے رات دیر تک آپ جن چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، گھر میں جو سامان ہے، ایسے کتنے پروڈکٹ ہیں، جو بھارت میں نہیں بنے ہیں، غیر ملکی ہیں۔ اس کے بعد گھر کے لوگوں سے اپیل کریں کہ آئندہ جب ویسا ہی کوئی پروڈکٹ خریدا جائے تو وہ بھارت میں بنا ہو۔ اس میں بھارت کی مٹی کی خوشبو ہو، جس میں بھارت کے نوجوانوں کے پسینے کی خوشبو ہو۔ جب آپ بھارت میں بنی چیزیں خریدیں گے تو کیا ہونے والا ہے۔ ایک دم سے ہماری پیداوار بڑھنے لگ جائے گی۔ ہر چیز میں پیداوار بڑھے گی۔ اور جب پیداوار بڑھے گی، تو روزگار کے بھی نئے مواقع بنیں گے۔ جب روزگار بڑھیں گے تو آپ کی زندگی بھی خود کفیل بنے گی۔ اس لیے آتم نربھر بھارت کی مہم، ہماری نوجوان نسل، آپ تمام سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ساتھیوں، آج سے دو دن بعد ملک اپنا یوم جمہوریہ بھی منائے گا۔ ہمیں یوم جمہوریہ پر اپنے ملک کے لیے کچھ نئے عہد کرنے ہیں۔ ہمارے یہ عہد سماج کے لیے، ملک کے لیے، اور پوری دنیا کے مستقبل کے لیے ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ ماحولیات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت ماحولیات کی سمت میں آج اتنا کچھ کر رہا ہے، اور اس کا فائدہ پوری دنیا کو ملے گا۔ میں چاہوں گا کہ آپ اُن عہد کے بارے میں سوچیں جو بھارت کی پہچان سے جڑے ہوں، جو بھارت کو جدید اور ترقی یافتہ بنانے میں مدد کریں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے، آپ کے خواب ملک کے عزائم سے جڑیں گے،اور آپ آنے والے وقت میں ملک کے لیے بے شمار ریکارڈ قائم کریں گے۔ اسی اعتماد کے ساتھ آپ سبھی کو ایک بار پھر بہت بہت مبارکباد! سبھی میرے چھوٹے دوستوں کو بہت بہت پیار، بہت بہت مبارکباد، بہت بہت شکریہ!,প্ৰধানমন্ত্ৰী ৰাষ্ট্ৰীয় বাল পুৰস্কাৰ বঁটা বিজয়ীসকলৰ সৈতে বাৰ্তালাপত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%DB%8C%D8%B3%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%95/,"نئی دہلی،21 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایسٹر کے موقع پر لوگوں کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘ایسٹر کی مبارکباد! خداوند یسوع مسیح کے مقدس خیالات لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے اور غریبوں اور مفلسوں کے تئیں رحمدلی کا اظہار کرنے پر زور دیا۔ خدا کرے یہ خاص دن امن اور یکجہتی کے جذبہ کو فروغ دے۔’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (م ن ۔ رض۔ را( ,",ইষ্টাৰ উপলক্ষে জনসাধাৰণক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A7%B1-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6/,نئی دہلی۔ 14 اپریل 2018 ؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مختلف تہواروں پر ملک کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعظم نے کئی ٹوئیٹس کر ملک کے عوام کو کہا، ’’سبھی کو بیساکھی کی مبارکباد۔ یہ تہوار ہر کسی کی زندگی میں خوشحالی لائے۔ ہم اپنے ملک کے محنتی کسانوں کے شکر گزار ہیں جو ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے مسلسل کام کرتے ہوئے اناج پیدا کرتے ہیں۔ ہندوستان کو اپنے تنوع پر فخر ہے جو ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ ملک کے عوام آج مختلف تہواروں کا جشن منا رہے ہیں۔ ان خاص موقعوں پر سبھی کو مبارکباد۔ پوتھنڈو (تمل ناڈو کا نیا سال) کے خاص موقعے پر تمل لوگوں کو مبارکباد۔ میں دعا کرتا ہوں کہ آنے والے سال میں آپ کی سبھی نیک خواہشات پوری ہوں۔ ��یشو کی مبارکباد۔ نیا سال آپ سبھی کی زندگی میں نئی امید، اچھی صحت اور خوشحالی لائے اس کے لیے میں دعا گو ہوں۔ بیساکھ کے مبارک موقعے پر سبھی بنگالیوں کو مبارکباد۔ نیا سال آپ سبھی کی زندگی میں امن، خوشحالی لے کر آئے۔ سبھو نبو برسو۔ بوہگ بیہو کے موقعے پر آسام کے بہنوں اور بھائیوں کو مبارکباد۔ یہ تہوار توانائی اور خوشحالی سے متعلق ہے، یہ مبارک دن ہمارے سماج میں خوشی اور اچھی صحت لے کر آئے۔ پوری دنیا میں پھیلے اڈیشہ کے دوستوں کو مہا ویشوبا سنکرانتی پر مبارکباد۔ آپ کا آنے والا سال بہت اچھا ہو۔ ہمیں اڈیشہ کی ئی ثقافت پر فخر ہے۔‘‘,বিভিন্ন উৎসৱ উপলক্ষে দেশবাসীলৈ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D9%BE-2017-%D8%AC%DB%8C%D8%AA%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%AA-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80/,نئی دہلی۔23؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ،بھارتی ہاکی ٹیم کو، ایشیا کپ 2017 جیتنے کیلئے مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے تہنیتی پیغام میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ ،عظیم کھیل ، عظیم کامرانی ۔ ایشیا کپ 2017 جیتنے کیلئے ہماری ہاکی ٹیم کو مبارکباد ۔ بھارت اس مسحور کن فتح کا جشن منارہا ہے۔,এছিয়া কাপ ২০১৭ ৰ জয়ত ভাৰতীয় হকী দললৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%81%D8%A7-%D8%A8%D8%B4%D9%88%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,"نئی دہلی۔ 14 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہم وطنوں کو اوڈیا نئے سال اور مہا بشوب پانا سنکرانتی کی مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ""اوڈیا نئے سال اور مہا بشوب پانا سنکرانتی کی مبارکباد۔ میری دعا ہے کہ نیا سال خوشیوں سے بھرپور ہو۔ ہمارے معاشرے میں خیر سگالی کے جذبے کو مزید فروغ ملے اور سبھی پوری طرح صحت مند ہوں۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",ওড়িয়া নৱবৰ্ষ আৰু মহা বিষুৱ পনা সংক্ৰান্তিৰ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1%D8%8C-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE-7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گجرات کے گاندھی نگر میں مہاتما مندر کنونشن اور نمائشی مرکز میں ڈیف ایکسپو 22 کا افتتاح کیا۔ انڈیا پویلین میں، وزیر اعظم نے ایچ ٹی ٹی-40، ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کے ذریعہ ڈیزائن کردہ دیسی ٹرینر ہوائی جہاز کی نقاب کشائی کی۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے مشن ڈیف اسپیس کا بھی آغاز کیا اور گجرات میں ڈیسا ایئر فیلڈ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بطور وزیر اعظم اور گجرات کے ایک فرزن کی حیثیت سے قابل اور آتم نربھر بھارت کی تقریب میں مندوبین کا خیرمقدم کیا۔ ڈیف ایکسپو 2022 کے انعقاد پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ نئے ہندوستان اور اس کی صلاحیتوں کی تصویر کشی کرتا ہے جس کا عزم امرت کال کے وقت تشکیل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک کی ترقی کے ساتھ ساتھ ریاستوں کے تعاون کا مجموعہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس میں نوجوانوں کی طاقت اور خواب ہیں، اس میں نوجوانوں کا عزم اور صلاحیتیں ہیں۔ اس میں دنیا کی امیدیں ہیں اور دوست ممالک کے لیے مواقع ہیں۔. ڈیف ایکسپو کے اس ایڈیشن کی انفرادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘یہ پہلی دفاعی نمائش ہے جس میں صرف ہندوستانی کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں اور اس میں صرف ہندوستان میں بنایا گیا سامان موجود ہے۔’’ انہوں نے اعلان کیا ‘‘مرد آہن سردار پٹیل کی سرزمین سے ہم دنیا کے سامنے ہندوستان کی صلاحیتوں کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ ایکسپو میں 1300 سے زیادہ نمائش کنندگان ہیں جن میں ہندوستانی دفاعی صنعت، ہندوستانی دفاعی صنعت سے وابستہ کچھ مشترکہ منصوبے، ایم ایس ایم ایز اور 100 سے زیادہ اسٹارٹ اپ شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایک ہی فریم میں ہندوستان کی صلاحیت اور امکان کی جھلک فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی بار 400 سے زائد مفاہمت ناموں پر دستخط کیے جا رہے ہیں’’۔ مختلف ممالک کی طرف سے مثبت ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے خوشی کا اظہار کیا کہ جب ہندوستان اپنے خوابوں کو حقیقت کی شکل دے رہا ہے تو افریقہ کے 53 دوست ملک ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ اس موقع پر دوسرا ہندوستان-افریقہ دفاعی ڈائیلاگ بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ‘‘ہندوستان اور افریقہ کے درمیان یہ رشتہ وقت کے آزمائشی اعتماد پر مبنی ہے جو وقت کے ساتھ مزید گہرا ہونے کے ساتھ ساتھ نئی جہتوں کو چھو رہا ہے’’۔ افریقہ اور گجرات کے درمیان پرانے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے یاد کیا کہ افریقہ میں پہلی ریلوے لائنوں میں کچھ کے لوگوں کی شرکت تھی۔ افریقہ میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے بہت سے الفاظ افریقہ میں گجراتی کمیونٹی سے نکلتے ہیں۔ مہاتما گاندھی جیسے عالمی رہنما کے لیے بھی، اگر گجرات ان کی جائے پیدائش تھی، تو افریقہ ان کی پہلی ‘کرم بھومی’ تھی۔ افریقہ سے یہ تعلق اب بھی ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کے دور میں، جب پوری دنیا ویکسین کو لے کر پریشان تھی، ہندوستان نے افریقہ میں ہمارے دوست ممالک کو ترجیح دیتے ہوئے ویکسین فراہم کی، ۔ ایکسپو کے دوران دوسرا بحر ہند علاقہ+( آئی او آر+) کانکلیو بھی منعقد کیا جائے گا، جو وزیر اعظم کے وژن، خطے میں سب کے لیے سلامتی اور ترقی کے لیے( ایس اے جی اے آر) ، کے مطابق امن، ترقی، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے آئی او آر + ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے کی غرض سے ایک جامع مکالمے کا ایک اسٹیج فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا، ‘‘آج بین الاقوامی سلامتی سے لے کر عالمی تجارت تک، بحری سیکوریٹی ایک عالمی ترجیح کے طور پر ابھری ہے۔ گلوبلائزیشن کے دور میں مرچنٹ نیوی کا کردار بھی وسیع ہوا ہے۔ انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ہندوستان سے دنیا کی توقعات بڑھ گئی ہیں، اور میں عالمی برادری کو یقین دلاتا ہوں کہ ہندوستان انہیں پورا کرے گا۔ اس لیے یہ ڈیفنس ایکسپو ہندوستان کے تئیں عالمی اعتماد کی علامت بھی ہے۔ وزیراعظم نے ترقی اور صنعتی صلاحیتوں کے حوالے سے گجرات کی شناخت کا اعتراف کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ ڈیفنس ایکسپو اس شناخت کو ایک نئی بلندی دے رہا ہے’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں گجرات دفاعی صنعت کے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرے گا۔ وزیر اعظم نے ، جنہوں نے گجرات میں ڈیسا ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا، کہا کہ فارورڈ ایئر فورس بیس ملک کے سیکورٹی فن تعمیر میں اضافہ کرے گا۔ ڈیسا کی سرحد کے ساتھ قربت کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ اب ہندوستان مغربی سرحدوں پر کسی بھی مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے بہتر طور پر تیار ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد ہم نے ڈیسا میں آپریشنل بیس قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور ہماری افواج کی یہ امید آج پوری ہو رہی ہے۔ یہ خطہ اب ملک کی سلامتی کا ایک موثر مرکز بن جائے گا’ ۔ ‘‘خلائی ٹیکنالوجی اس بات کی ایک مثال پیش کرتی ہے کہ مستقبل میں کسی بھی مضبوط قوم کے لیے سیکورٹی کا کیا مطلب ہوگا۔ اس علاقے میں مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور تینوں افواج کی طرف سے ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہمیں ان کو حل کرنے کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔’’ انہوں نے سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ،‘‘مشن ڈیفنس اسپیس’’ نہ صرف جدت کی حوصلہ افزائی اور ہماری افواج کو مضبوط کرے گا بلکہ نئے اور اختراعی حل بھی فراہم کرے گا۔’’ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خلائی ٹیکنالوجی ہندوستان کی فراخدلانہ خلائی سفارت کاری کی نئی تعریفیں متعین کررہی ہے، جس سے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘بہت سے افریقی ممالک اور بہت سے دوسرے چھوٹے ممالک اس سے مستفید ہو رہے ہیں’’، ۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ 60 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک ہیں جن کے ساتھ ہندوستان اپنی خلائی سائنس کا اشتراک کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کا سیٹلائٹ اس کی ایک موثر مثال ہے۔ اگلے سال تک دس آسیان ممالک کو بھی ہندوستان کے سیٹلائٹ ڈیٹا تک موقع سے مخصوص رسائی حاصل ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی ہمارا سیٹلائٹ ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں’’۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دفاعی شعبے میں نیا ہندوستان ارادے، اختراع اور نفاذ کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ 8 سال پہلے تک ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا دفاعی درآمد کنندہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن نیو انڈیا نے اپنے عزم مظاہرہ کیا ، قوت ارادی دکھائی اور ‘میک ان انڈیا’ آج دفاعی شعبے میں ایک کامیابی کی کہانی رقم کررہا ہے۔ گزشتہ 5 سالوں میں ہماری دفاعی برآمدات میں 8 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہم دنیا کے 75 سے زائد ممالک کو دفاعی سامان اور آلات برآمد کر رہے ہیں۔ 2022-2021 میں ہندوستان سے دفاعی برآمدات 1.59 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں یعنی تقریباً 13 ہزار کروڑ روپے۔ اور آنے والے وقت میں، ہم نے 5 بلین ڈالر یعنی40 ہزار کروڑ روپے تک پہنچنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ دنیا آج بھارت کی ٹیکنالوجی پر بھروسہ کر رہی ہے کیونکہ بھارت کی فوجوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ہندوستانی بحریہ نے اپنے بیڑے میں آئی این ایس- وکرانت جیسے جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز کو شامل کیا ہے۔ انجینئرنگ کا یہ بڑا اور زبردست شاہکار کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ نے دیسی ٹیکنالوجی سے تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، 'بھارتی فضائیہ کے ‘میک ان انڈیا’ اقدام کے تحت تیار کیے گئے پرچنڈ لائٹ کمبیٹ ہیلی کاپٹروں کی شمولیت ہندوستان کی دفاعی صلاحیت کی واضح مثال ہے۔ ہندوستان کے دفاعی شعبے کو خود کفیل بنانے پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے اظہار خیال کیا کہ فوجوں نے آلات کی دو فہرستوں کو بھی حتمی شکل دی ہے جو صرف ملک کے اندر ہی خریدی جائیں گی۔ ایسی 101 اشیاء کی یہ فہرست آج جاری کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلے خود انحصار ہندوستان کی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ فہرست کے بعد دفاعی شعبے کے 411 ایسے آلات ہوں گے، جو صرف ‘‘میک ان انڈیا’’کے تحت خریدے جائیں گے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ اتنا بڑا بجٹ ہندوستانی کمپنیوں کی بنیاد کو مضبوط کرے گا اور انہیں نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ قوم کے نوجوان ہی اٹھائیں گے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ دفاعی سپلائی کے شعبے میں چند کمپنیوں کی اجارہ داری کو تبدیل کرنے کے لیے قابل اعتماد آپشنز اب بڑھ رہے ہیں۔ ‘‘ہندوستان کے نوجوانوں نے دفاعی صنعت میں اس اجارہ داری کو توڑنے کی طاقت دکھائی ہے اور ہمارے نوجوانوں کی یہ کوشش عالمی بھلائی کے لیے ہے۔’’ جناب مودی نے کہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کے چھوٹے ممالک جو وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنی حفاظت میں پیچھے رہ گئے ہیں اب اس سے بہت فائدہ اٹھائیں گے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ‘‘ہندوستان دفاعی شعبے کو مواقع کے لامحدود آسمان، مثبت امکانات کے طور پر دیکھتا ہے۔’’ دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ ہندوستان یوپی اور تمل ناڈو میں دو دفاعی کوریڈور بنا رہا ہے اور دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے آرہی ہیں۔ انہوں نے اس شعبے میں ایم ایس ایم ایز کی طاقت پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس سرمایہ کاری کے پیچھے سپلائی چین کا ایک بڑا نیٹ ورک بناتے ہوئے ان بڑی کمپنیوں کو ہمارے ایم ایس ایم ایز کی مدد حاصل ہوگی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ‘‘اس شعبے میں اس طرح کی سرمایہ کاری سے ان علاقوں میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں گے جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں تھا’’۔ وزیر اعظم نے ڈیفنس ایکسپو میں موجود تمام کمپنیوں کے ذمہ داران سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ مستقبل کے ہندوستان کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے ان مواقع کی تشکیل کریں۔ انہوں نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘آپ اختراع کرتے ہیں، دنیا میں بہترین بننے کا عہد کرتے ہیں، اور ایک مضبوط ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو تعبیر دیتے ہیں۔ آپ مجھے وہاں ہمیشہ اپنا ساتھ دیتے ہوئے پائیں گے’’۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندرا پٹیل، گجرات کے گورنر، جناب آچاریہ دیوورت، مرکزی وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف، جنرل انیل چوہان، چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل منوج پانڈے، چیف آف ایئر اسٹاف، ایئر چیف چیف مارشل وی آر چودھری، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آر ہری کمار اور حکومت ہند کے دفاعی سکریٹری ڈاکٹر اجے کمار اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر وزیراعظم نے ڈیف ایکسپو22 کا افتتاح کیا۔ ‘ راہ افتخار ’ کے تھیم کے تحت منعقد ہونے والی اس ایکسپو میں آج تک منعقد ہونے والی انڈین ڈیفنس ایکسپو میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد میں شرکت دیکھی گئی ہے۔ پہلی بار، یہ ایک دفاعی نمائش کا مشاہدہ کرے گا جو خصوصی طور پر ہندوستانی کمپنیوں کے لیے منعقد ہوگا جس میں غیر ملکی ای ای ایمز کی ہندوستانی ذیلی کمپنیاں، ہندوستان میں رجسٹرڈ کمپنی کا ڈویژن، ہندوستانی کمپنی کے ساتھ مشترکہ مہمات رکھنے والے نمائش کنندگان شامل ہیں۔ یہ تقریب ہندوستانی دفاعی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت کے وسیع دائرہ کا�� اور پیمانے کو ظاہر کرے گی۔ ایکسپو میں ایک انڈیا پویلین اور دس ریاستی پویلین ہوں گے۔ انڈیا پویلین میں، وزیر اعظم نے ایچ ٹی ٹی -40 کی نقاب کشائی کی۔ ہندوستانی ایروناٹکس لمیٹڈ(ایچ اے ایل) کی طرف سے ڈیزائن کردہ دیسی ٹرینر ہوائی جہاز۔ طیارے میں جدید ترین عصری نظام موجود ہے اور اسے پائلٹ -موافق خصوصیات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے ۔ صنعت اور اسٹارٹ اپس کے ذریعے خلائی ڈومین میں دفاعی افواج کے لیے اختراعی حل تیار کرنے کے لیے مشن ڈیف اسپیس کا بھی آغاز کیا ۔ وزیراعظم نے گجرات میں ڈیسا ایئر فیلڈ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ فارورڈ ایئرفورس بیس ملک کے سیکیورٹی فن تعمیر میں اضافہ کرے گا۔ اس ایکسپو میں دوسرے ہند۔ افریقہ دفاعی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جائے گا۔ جس کا موضوع ‘ہندوستان۔افریقہ: دفاع اور سیکورٹی تعاون کو ہم آہنگ کرنے کے لئے حکمت عملی اپنانا’ ہے۔ ایکسپو کے دوران دوسرا بحر ہند علاقہ+ (آئی او آر+) کانکلیو بھی منعقد کیا جائے گا، جو وزیر اعظم کے وژن کے مطابق امن، ترقی، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کی غرض سے آئی او آر+ ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع مکالمے کا ایک اسٹیج فراہم کرے گا۔ خطے میں سب کے لیے سلامتی اور ترقی (ایس اے جی اے آر) کے لیےایکسپو کے دوران دفاع کے لیے سرمایہ کاروں کا پہلا اجلاس منعقد ہوگا۔ اس کے دوران ایک سو سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو منتھن 2022 میں اپنی اختراعات کو دکھانے کا موقع بھی ملے گا، جوآئی ڈیکس( دفاعی عمدہ کاری کے لئے اختراع) کی دفاعی اختراعی تقریب ہے۔ اس تقریب میں ‘بندھن’ پروگرام کے ذریعے، 451 پ شراکت داریوں / آغازوں کا قیام بھی دیکھنے میں آئے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুজৰাটৰ গান্ধীনগৰত মহাত্মা মন্দিৰ সন্মিলন আৰু প্ৰদৰ্শনী কেন্দ্ৰত ডিফেক্সপো২২ উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%D9%B9-%D9%84%D9%81%D9%B9%D8%B1-%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%AF%DB%8C%D9%88%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ویٹ لفٹر بندیارانی دیوی کو، برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیل 2022 میں نقرئی تمغہ جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ وزیراعظم نے کہا: ’’بندیارانی دیوی کو برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیلوں میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد۔ ان کی یہ کامیابی ان کے عزم و استقلال کی مظہر ہے، جس سے ہر بھارتی بہت خوشی محسوس کررہا ہے۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কমনৱেলথ গেমছ ২০২২ত ৰূপৰ পদক জয় কৰাত ভাৰোত্তোলক বিদ্যাৰাণী দেৱীক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-14-%D8%B3%D8%AA%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D9%85%DB%81%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%86%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A7%9C%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6/,نئی دہلی،13؍ستمبر،2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی 14 ستمبر 2021 کو تقریباً 12 بجے علی گڑھ ، اتر پردیش میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھیں گے ، جس کے بعد اس موقع پر ان کا خطاب بھی ہوگا۔ وزیر اعظم اترپردیش ڈیفنس انڈسٹریل کوریڈور(دفاعی صنعتی راہدری) اور راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کے علی گڑھ نوڈ کے نمائشی ماڈلز کا بھی دورہ کریں گے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کے بارے میں یہ یونیورسٹی ریاستی حکومت کی طرف سے عظیم مجاہد آزادی ، ماہر تعلیم اور سماجی مصلح راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کی یاد اور اعزاز میں قائم کی جا رہی ہے۔ یہ یونیورسٹی علی گڑھ کی کول تحصیل کے گاؤں لودھا اور موسی پور کریم جارولی گاؤں میں 92 ایکڑ سے زائد رقبے میں قائم کی جا رہی ہے۔ یہ یونیورسٹی علی گڑھ ڈویژن کے 395 کالجوں کو الحاق فراہم کرے گی۔ اترپردیش کی ڈیفنس انڈسٹریل کوریڈور(دفاعی صنعتی راہداری) کے بارے میں اتر پردیش میں دفاعی صنعتی راہداری کے قیام کا اعلان وزیر اعظم نے 21 فروری 2018 کو لکھنؤ میں یو پی سرمایہ کاروں کے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کیا تھا۔ علی گڑھ نوڈ میں علی گڑھ ، آگرہ ، کانپور ، چترکوٹ ، جھانسی اور لکھنؤ – کے کل 6 نوڈس میں دفاعی صنعتی راہداری کامنصوبہ بنایا گیا ہے۔علی گڑھ نوڈ میں،زمین کی تقسیم کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور 19 فرموں کو زمین الاٹ بھی کر دی گئی ہے ، یہ فرم ان نوڈس میں 1245 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کریں گے۔ اترپردیش کی ڈیفنس انڈسٹریل کوریڈور ملک کو دفاعی پیداوار کے شعبے میں خود کفیل بنانے اور 'میک ان انڈیا' کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرے گی۔ اترپردیش کی گورنرمحترمہ آنندی بین پٹیل اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اس موقع پرموجود رہیں گے۔,কাইলৈ আলিগড়ত ৰাজা মহেন্দ্র প্রতাপ সিং ৰাজ্যিক বিশ্ববিদ্যালয়ৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰিব প্রধানমন্ত্রীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-2022-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%9E%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویٹ لفٹر پی گروراجا کو 2022 کے دولت مشترکہ کھیلوں میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’’پی گروراجا کی کامیابی سے بہت خوشی ہوں ! انہیں دولت مشترکہ کھیلوں میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد۔ انہوں نے زبردست لچک اور عزم کا مظاہرہ کیا۔ میں ان کے کھیل کے سفر میں مزیدشاندار حصولیابیوں کی تمنا کرتا ہوں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( (30.07.2022) 8424,কমনৱেলথ গেমছ ২০২২ত ব্ৰঞ্জৰ পদক লাভ কৰাৰ বাবে ভাৰোত্তোলক পি গুৰুৰাজাক অভিনন্দন জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-3-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-108-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%DA%A9%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A7%A7%E0%A7%A6%E0%A7%AE-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AD/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 3 جنوری 2023 کو صبح 10:30 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 108ویں انڈین سائنس کانگریس (آئی ایس سی) سے خطاب کریں گے۔ اس سال کے آئی ایس سی کا مرکزی موضوع ’’خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ پائیدار ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی‘‘ ہے۔ اس کانگریس میں پائیدار ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے رول پر بات چیت کی جائے گی۔ شرکاء تدریس، تحقیق اور صنعت کے اعلیٰ شعبوں میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو ایس ٹی ای ایم-اسٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) کی تعلیم، تحقیق کے مواقع تک مساوی رسائی فراہم کرانے اور اقتصادی شراکت داری کے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شراکت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خصوصی پروگرام بھی منعقد کیا جائے گا جس میں معروف خاتون سائنسدانوں کے لیکچرز بھی ہوں گے۔ آئی ایس سی کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے پروگرام بھی منعقد کیے جائیں گے۔ بچوں میں سائنسی دلچسپی اور مزاج کو تحریک دینے میں مدد کے لیے چلڈرن سائنس کانگریس بھی منعقد کی جائے گی۔ کسانوں کی سائنس کانگریس، بائیو اکانومی کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کو زراعت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گی۔ قبائلی سائنس کانگریس بھی منعقد کی جائے گی، جو قبائلی خواتین کو بااختیار بنانے پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ مقامی قدیم علمی نظام اور عمل کی سائنسی نمائش کے لئے ایک پلیٹ فارم بھی ہوگا۔ اس کانگریس کا پہلا اجلاس 1914 میں منعقد کیا گیا تھا۔ آئی ایس سی کا 108 واں سالانہ اجلاس راشٹرسنت توکادوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی میں منعقد کیا جائے گا، جو کہ اس سال اپنی صد سالہ تقریب بھی منا رہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,৩ জানুৱাৰীত ‘১০৮ সংখ্যক ভাৰতীয় বিজ্ঞান কংগ্ৰেছ’ত ভাষণ প্ৰদান কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%D9%81%D9%88%D8%8C-%D8%A2%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے۔ کاربی آنگ لونگ کورٹے انگجیر، کے-ڈو ان اپہانتا، نیلی کارڈوم پجیر اگلو۔ آسام کے گورنر جناب جگدیش مکھی جی، آسام کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب ہیمنت بسوا سرما جی، کاربی راجہ شری رامسنگ رونگہانگ جی، کاربی آنگلونگ خود مختار کونسل کے جناب تلیرام رونگھانگ جی، حکومت آسام کے وزرا، جناب پیوش ہزاریکا جی، جوگین موہن جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب ہورین سنگ بے جی، ایم ایل اے جناب بھاویش کلیتا جی، دیگر تمام عوامی نمائندے اور کاربی آنگلونگ کے میرے پیارے بہنو اور بھائیو! جب بھی مجھے آپ کے درمیان آنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ کاب بھرپور پیار، آپ کا یہ تعلق، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا کی نعمتیں مل رہی ہوں۔ آج بھی اتنی بڑی تعداد میں آپ یہاں تشریف لائے، دور دور سے ہمیں آشیرواد دینے آئے اور وہ بھی جوش و خروش اور جشن کے موڈ میں، اپنے روایتی رنگا رنگ ملبوسات میں اور داخلی دروازے پر یہاں کے تمام لوگوں نے جس طرح اپنی روایتی رسومات ادا کیں۔ روایت کے مطابق ہم سب کو جو آشیرواد دیے اس کے لیے میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بھائیو اور بہنوں، یہ ایک خوش آئند اتفاق ہے کہ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، وہیں ہم اس دھرتی کے عظیم فرزند لچیت بورفوکن جی کا 400واں یوم پیدائش بھی منا رہے ہیں۔ ان کی زندگی حب الوطنی اور قومی طاقت کی تحریک ہے۔ کاربی آنگلونگ کی طرف سے، میں ملک کے اس عظیم ہیرو کے سامنے احترام کے ساتھ جھکتا ہوں، انھیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ سات��یوں، بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت جہاں بھی ہے، وہاں سب کا تعاون، سب کا وکاس، سب کا بھروسہ اور سب کی کوشش کے جذبے سے کام ہوتا ہے۔ آج کربی آنگلونگ کی اس سرزمین پر یہ عزم ایک بار پھر مضبوط ہوا ہے۔ آسام کے مستقل امن اور تیز رفتار ترقی کے لیے طے پانے والے معاہدے کو آگے بڑھانے کا کام آج تیزی سے جاری ہے۔ اس معاہدے کے تحت آج یہاں 1000 کروڑ روپے کے کئی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ڈگری کالج ہو، ویٹرنری کالج ہو، ایگریکلچر کالج ہو، یہ تمام ادارے یہاں کے نوجوانوں کو نئے مواقع فراہم کرنے والے ہیں۔ ساتھیوں، آج سنگ بنیاد رکھنے کے جو پروگرام ہوئے ہیں۔ یہ صرف کسی عمارت کا سنگ بنیاد نہیں ہے۔ یہ صرف کسی کالج، کسی ادارے کا سنگ بنیاد نہیں ہے۔ یہ میرے نوجوانوں کے روشن مستقبل کا سنگ بنیاد ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیم کے مناسب انتظامات سے غریب ترین گھرانوں کے غریب افراد بھی اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکیں گے۔ ساتھ ہی یہاں ان اداروں سے کسانوں اور مویشیوں کے مالکان کو بھی بہتر سہولیات میسر ہوں گی۔ ان منصوبوں کے علاوہ آسام حکومت معاہدے کے دیگر پہلوؤں پر مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ ہتھیار چھوڑ کر جو ساتھی قوم کی تعمیر کے لیے واپس لوٹے ہیں ان کی بحالی کے لیے بھی مسلسل کام جاری ہے۔ بھائیو اور بہنوں، آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک نے جو اہم قراردادیں لی ہیں ان میں سے ایک امرت جھیلوں کی تعمیر سے متعلق ہے۔ آج ملک ہر ضلع میں کم از کم 75 ہزار امرت سروور بنانے کے اتنے بڑے ہدف کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ میں نے اسے جموں و کشمیر سے کچھ دن پہلے ہی شروع کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج آسام میں بھی 2600 سے زیادہ امرت سروور بنانے کا کام شروع ہو رہا ہے۔ ان جھیلوں کی تعمیر مکمل طور پر عوامی شراکت پر مبنی ہے۔ قبائلی معاشرے میں ایسی جھیلوں کی بھرپور روایت بھی ہے۔ اس سے دیہاتوں میں پانی کے ذخائر پیدا ہوں گے، اس کے ساتھ وہ آمدنی کا ذریعہ بھی بنیں گے۔ مچھلی آسام میں خوراک اور معاش کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مچھلی پالن کو بھی ان امرت جھیلوں سے کافی فائدہ ہونے والا ہے۔ آپ سب نے پچھلی دہائیوں میں ایک طویل عرصہ بہت مشکل سے گزرا ہے۔ لیکن 2014 سے شمال مشرق میں مشکلات مسلسل کم ہو رہی ہیں، لوگ ترقی کر رہے ہیں۔ آج جب کوئی آسام کے قبائلی علاقوں میں آتا ہے، شمال مشرق کی دوسری ریاستوں میں جاتا ہے تو حالات کو بدلتے ہوئے دیکھ کر اسے بھی اچھا لگتا ہے۔ کاربی آنگلونگ ہو یا کوئی اور قبائلی علاقہ، ہم ترقی اور اعتماد کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، آپ اچھی طرح جانتے ہیں، میں آپ کے مسائل، اس علاقے کے مسائل کو آپ کے اپنے خاندان کے فرد کی طرح سمجھ چکا ہوں، آپ کے بھائی کی طرح، آپ کے بیٹے کی طرح، میں نے ہر مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور آپ نے مجھے مزید سمجھایا ہے۔ عقل سے زیادہ دل سے سمجھایا ہے۔ آپ نے ہر بار میرے دل کو چھوا ہے۔ میرا دل جیت لیا ہے۔ جب خاندان کے افراد کے طور پر ہم سب ایک خاندان کی طرح حل تلاش کرتے ہیں، اس میں ایک حساسیت ہوتی ہے، درد اور تکلیف کو محسوس کرتے ہیں، اپنے خوابوں کو سمجھتے ہیں، اپنے عزم کو سمجھتے ہیں۔ ساتھیوں، ہر انسان کو، یہاں تک کہ آسام کے اس دور افتادہ علاقے کے لوگوں، جنگلوں میں رہنے والے میرے نوجوانوں میں بھی آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے، اور اس احساس، آپ کے خوابوں کو سمجھتے ہوئے، ہم سب آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اور میں ہر عزم کو ثابت کرنے کے لیے مل کر کام کر رہا ہوں، ہم بھی اس کام میں مصروف ہیں، آپ بھی مصروف ہیں، آپ مل کر کام کر رہے ہیں اور آپ مل کر جیتنے والے ہیں۔ بھائیو اور بہنوں، آج پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ تشدد، انارکی اور بد اعتمادی کے دہائیوں پرانے مسائل کیسے حل ہو رہے ہیں، کیسے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ علاقہ کبھی زیر بحث ہوتا تھا۔ کبھی بم کی آواز سنائی دیتی تھی، کبھی گولیوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔ آج تالیاں بج رہی ہیں۔ جیکار ہو ہرا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں کاربی آنگلونگ کی کئی تنظیمیں امن اور ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کے عہد کے ساتھ شامل ہوئیں۔ 2020 میں ہونے والے بوڈو معاہدے نے دیرپا امن کے لیے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ آسام کے علاوہ این ایل ایف ٹی نے تریپورہ میں بھی امن کی راہ پر قدم اٹھایا۔ برو ریانگ سے متعلق مسئلہ جو تقریباً ڈھائی دہائیوں سے چل رہا تھا، وہ بھی حل ہو گیا۔ دیگر مقامات پر بھی دیرپا امن کے لیے ہماری کوششیں مسلسل جاری ہیں، سنجیدگی سے جاری ہیں۔ ساتھیوں، وہ جو تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، بدامنی سے، جنہوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، جن کے آنسو کبھی خشک نہیں ہوئے ہیں۔ وہ ہماری مائیں ہیں، ہماری بہنیں ہیں، ہمارے بچے ہیں۔ آج جب میں جنگل سے جوانوں کو ہتھیاروں کے ساتھ اپنے گھر والوں کے ساتھ واپس لوٹتے دیکھتا ہوں اور ان ماؤں کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں تو ان ماؤں کی آنکھوں میں خوشی محسوس ہوتی ہے، خوشی کے آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔ ماں کی زندگی کو تسلی ملتی ہے، اطمینان ملتا ہے، تب میں آشیرواد کو محسوس کرتا ہوں۔ آج بھی اتنی بڑی تعداد میں مائیں بہنیں یہاں آئی ہیں، یہ مائیں بہنیں یہاں آکر آشیرواد دیتی ہیں، امن کی کوششوں کو نئی طاقت، نئی توانائی بھی دیتی ہیں۔ مرکز اور ریاست کی ڈبل انجن حکومت اس خطہ کے لوگوں کی بہتر زندگی، ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کے لیے پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ بھائیو اور بہنوں، آسام میں، شمال مشرق میں حکومت اور سماج کی اجتماعی کوششوں سے جیسے جیسے امن لوٹ رہا ہے، پرانے اصولوں کو بھی بدلا جا رہا ہے۔ شمال مشرق کی کئی ریاستوں میں طویل عرصے سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (AFSPA) نافذ ہے۔ لیکن پچھلے 8 سالوں کے دوران، ہم نے مستقل امن اور بہتر امن و امان کے نفاذ کی وجہ سے شمال مشرق کے بہت سے علاقوں سے AFSPA کو ہٹا دیا ہے۔ پچھلے 8 سالوں کے دوران شمال مشرق میں تشدد کے واقعات میں تقریباً 75 فیصد کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ AFSPA کو پہلے تریپورہ اور پھر میگھالیہ سے ہٹایا گیا۔ آسام میں یہ 3 دہائیوں سے لاگو تھا۔ حالات میں بہتری نہ ہونے کی وجہ سے پہلے کی حکومتیں بار بار اس کو آگے بڑھاتی رہیں۔ لیکن گزشتہ سالوں میں حالات کو اس طرح سنبھالا گیا کہ آج آسام کے 23 اضلاع سے AFSPA ہٹا دیا گیا ہے۔ دیگر علاقوں میں بھی ہم تیزی سے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہاں سے بھی اسے ہٹایا جا سکے۔ ناگالینڈ اور منی پور میں بھی اس سمت میں بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ساتھیوں، شمال مشرقی ریاستوں کے اندرونی مسائل کو تو حل کیا ہی جا رہا ہے، ریاستوں کے درمیان کئی دہائیوں پرانے سرحدی تنازعات کو بھی خوش اسلوبی سے حل کیا جا رہا ہے۔ میں آج ہیمنتا جی اور شمال مشرق کے دیگر وزرائے اعلیٰ کو بھی مبارکباد دوں گا کہ ان کی کوششوں سے شمال مشرقی اب ملک کی ایک مضبوط اقتصادی اکائی بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے جذبے کے ساتھ آج سرحد سے متعلق مسائل کا حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ آسام اور میگ��الیہ کے درمیان طے پانے والا معاہدہ دیگر معاملات کو بھی فروغ دے گا۔ اس سے پورے خطے کی ترقی کی خواہشات کو تقویت ملے گی۔ بھائیو اور بہنوں، قوم کی ترقی، ریاست کی ترقی اور ریاست کی ترقی کے لیے گاؤں کی ترقی، شہروں کی ترقی بہت ضروری ہے۔ دیہات کی حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ترقیاتی منصوبے مقامی ضروریات کے مطابق، مقامی حالات کے مطابق بنائے جائیں اور ان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ اس لیے گزشتہ برسوں میں مرکز کے منصوبوں میں ہم نے مقامی ضروریات کو بہت زیادہ مد نظر رکھا ہے۔ اس لیے پردھان منتری آواس یوجنا میں ایک بڑی تبدیلی کی گئی ہے کہ رقم براہ راست فائدہ اٹھانے والے کے بینک اکاؤنٹ میں جائے گی۔ اس کے بعد وہ مستحق اپنی مرضی کے مطابق اپنا گھر بنائے گا اور دنیا کو بتائے گا کہ میرا گھر ہے، میں نے بنایا ہے۔ ہمارے لیے یہ پردھان منتری آواس یوجنا حکومت کی مہربانی کا پروگرام نہیں ہے۔ ہمارے لیے پردھان منتری آواس یوجنا غریبوں کے خوابوں کا محل بنانا ایک خواب ہے، غریبوں کی خواہشات کے مطابق تعمیر کرنا ایک خواب ہے۔ گاؤں کی ترقی میں گاؤں کے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شراکت کا یہ جذبہ ہر گھر جل یوجنا میں بھی ہے۔ جو پانی گھر گھر پہنچ رہا ہے اس کا انتظام گاؤں کی واٹر کمیٹیوں کو کرنا چاہیے اور اس میں بھی زیادہ تر کمیٹیاں ماؤں بہنوں پر مشتمل ہونی چاہئیں۔ کیونکہ پانی کی اہمیت کیا ہے، وہ اتنی نہیں سمجھتے جتنی مائیں بہنیں سمجھتی ہیں، اتنے مرد نہیں سمجھتے اور اسی لیے ہم نے ماؤں بہنوں کو بیچ میں رکھ کر منصوبوں کو مضبوط کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس اسکیم کے آغاز تک، جہاں گاؤں کے 2 فیصد سے بھی کم گھرانوں کو یہاں پائپ کے ذریعے پانی تک رسائی حاصل تھی۔ اب تقریباً 40 فیصد گھرانوں کو پائپ پانی تک رسائی حاصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی آسام کے ہر گھر میں پائپ کے ذریعے پانی پہنچنا شروع ہو جائے گا۔ ساتھیوں، آزادی کے اس امرت دور میں کاربی آنگلونگ بھی امن اور ترقی کے ایک نئے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب یہاں سے ہمیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ہے۔ آنے والے چند سالوں میں ہمیں مل کر وہ ترقی کرنی ہے جو ہم پچھلی دہائیوں میں نہیں کر سکے۔ آسام کی ترقی کی کوششوں میں ہم پوری طرح آپ کے ساتھ ہیں۔ میں ایک بار پھر اتنی بڑی تعداد میں آپ جو آشیرواد دینے آئے ہیں۔ میں ایک بار پھر یقین دلاتا ہوں، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ کا یہ جو پیار ہے، میں اس پیار کو سود کے ساتھ واپس کروں گا۔ میں ترقی کر کے لوٹاؤں گا، میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ کارڈوم! شکریہ! بھارت ماتا کی جے بھارت ماتا کی جے بھارت ماتا کی جے بہت شکریہ! کارڈوم!,অসমৰ ডিফুত শান্তি আৰু উন্নয়ন ৰেলীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کو ان کی جینتی کے موقع پر گلہائے عقیدت نذعر کئے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’راج گھاٹ پر مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کے نظریات عالمی سطح پر گونجتے ہیں اور ان کے خیالات نے لاکھوں لوگوں کو تقویت فراہم کی ہے۔ #GandhiJayanti‘‘ ۔۔۔۔۔۔��۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰাজঘাটত মহাত্মা গান্ধীৰ জন্মজয়ন্তী উপলক্ষে পুষ্পাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DA%A9-%D8%A8%DA%BE%D8%B1-%D8%B3%DB%92-%DB%81%D8%B1-%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%86%DA%AF%D8%A7-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AD/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ہر گھر ترنگا ابھیان کے تئیں ملک بھر میں لوگوں کے جوش و خروش کی نظیریں مشترک کیں۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’مافوق الفطرت منظر! ملک کے سمندر، زمین اور آسمان میں ترنگا لہراتا دیکھ کر ہر ہندوستانی شادمان ہے۔ #HarGharTiranga ‘‘ ’’اس جذبے کو سلام! ترنگے کے ایسے بے مثال احترام کا یہ حوصلہ مند منظر، بھارتیوں کے جوش و جذبے کا اظہار ہے۔ #HarGharTiranga ‘‘ ’’شاندار! ہندوستان کے مستقبل کے قائدین کی ایسی ترنگا یاترائیں ہر کسی میں حب الوطنی کا جوش بھرنے والی ہیں۔ #HarGharTiranga ‘‘ ’’وشاکھا پٹنم کے لوگوں کی طرف سے کی گئی یہ عظیم اجتماعی کوشش۔میں ان کے جوش و خروش کی سراہنا کرتا ہوں۔ #HarGharTiranga ‘‘ ’’لداخ میں کی گئی یہ شاندار سعی# ہر گھر ترنگا تحریک کے جذبے کووسعت دے گی۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সমগ্ৰ ভাৰতৰ পৰা হৰ ঘৰ ত্ৰিৰংগাৰ বিভিন্ন মুহূৰ্ত শ্বেয়াৰ কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%B3%D9%B9%D9%86%D9%B9-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85%D8%8C-2022/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پہلے نئی دہلی میں سشما سوراج بھون میں اسسٹنٹ سکریٹری پروگرام، 2022 کے اختتامی اجلاس میں 2020 بیچ کے آئی اے ایس افسران سے خطاب کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ افسران کو امرت کال کے دوران ملک کی خدمت کرنے اور پنچ پران کوعملی پہنانے میں مدد کرنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امرت کال میں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کو حاصل کرنے میں افسروں کا ایک کلیدی رول ہے۔ انہوں نے غیر روایتی سوچ اور اپنی کوششوں میں ایک کلی نقطہ نظر اختیار کرنے اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے ایسے کلی نقطہ نظر کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان کی مثال پیش کی۔ وزیر اعظم نے اختراع کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح یہ ایک اجتماعی کوشش اور ملک میں ورک کلچر کا حصہ بن گئی ہے۔ انہوں نے اسٹارٹ اپ انڈیا اسکیم کے بارے میں بتایا کہ کس طرح پچھلے کچھ برسوں میں ملک میں اسٹارٹ اپس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ متعدد وزارتوں کے ایک ساتھ آنے اور ایک ’مکمل حکومت‘ کے نقطہ نظر کے ساتھ ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے کو ممکن بنایا گیا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ کس طرح حکومت کی توجہ دہلی سے باہر ملک کے تمام خطوں میں منتقل ہو گئی ہے۔ انہوں نے مثالیں دیں کہ کس طرح اہم اسکیمیں اب دہلی کے باہر کے مقامات سے شروع کی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم نے افسران کو مشورہ دیا کہ وہ کام کے علاقے کی مقامی ثقافت کو سمجھیں اور زمینی سطح پر مقامی لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔ انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ پر توجہ دیں اور اپنے ضلع کی مصنوعات برآمد کرنے کے مواقع تلاش کریں۔ انہوں نے افسران سے خواہش مند اضلاع کے پروگرام کے لیے اپنا ایکشن پلان تیار کرنے کو بھی کہا۔ ایم جی نریگا کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس اسکیم کو زیادہ موثر انداز میں نافذ کرنے کی بات کی۔ انہوں نے جن بھاگیداری کے جذبے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ طریقہ تغذیئے کی کمی سے نمٹنے میں کلیدی رول ادا کر سکتا ہے۔ جن دھن یوجنا کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ڈیجیٹل اکانومی کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور افسران سے کہا کہ وہ گاؤوں کے لوگوں کو ڈیجیٹل اکانومی اور یو پی آئی سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ ملک کی خدمت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے اپنے فرائض کی انجام دہی کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ’راج پتھ‘ کی ذہنیت اب ’کرتویہ پتھ‘ کے جذبے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پروگرام کے دوران اسسٹنٹ سیکرٹریز کی طرف سے وزیراعظم کے سامنے آٹھ پریزنٹیشنز پیش کی گئیں۔ ان پریزنٹیشنز کے موضوعات میں پوشن ٹریکر: پوشن ابھیان کی بہتر نگرانی کا ٹول؛ بھاشینی کے ذریعے کثیر لسانی آواز پر مبنی ڈیجیٹل رسائی کو فعال بنانا؛ کارپوریٹ ڈیٹا مینجمنٹ؛ ماتر بھومی جیو پورٹل(Matribhoomi Geoportal) – گورننس کے لیے ہندوستان کا انٹیگریٹیڈ نیشنل جیو پورٹل؛ بارڈر روڈز آرگنائزیشن (بی آر او) کی سیاحتی صلاحیت، انڈیا پوسٹ پیمنٹس بینک (آئی پی پی بی) کے ذریعے ڈاک خانوں کا چہرہ بدلنا، چٹانوں جیسے مصنوعی ڈھانچے کے ذریعے ساحلی ماہی گیری کی ترقی؛ اور کمپریسڈ بائیو گیس – مستقبل کے لیے ایندھن شامل ہیں۔ اس سال، 2020 بیچ کے کل 175 آئی اے ایس افسران کو 11جولائی 2022 سے 7 اکتوبر 2022 تک حکومت ہند کی 63 وزارتوں/محکموں میں اسسٹنٹ سکریٹریز کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সহকাৰী সচিব কাৰ্যসূচী, ২০২২-ৰ সমাপ্তি অধিৱেশনত ২০২০ বৰ্ষৰ আইএএছ বিষয়াসকলক সম্বোধন কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A2%D8%A8-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D9%86%D9%88%D8%A7%D9%81-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A7%B0/,25 جولائی 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے عزت مآب شیخ نواف الأحمد الصباح کو کویت کے وزیر اعظم مقررہونے پر مبارکباد پیش کی۔ وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کیا : انہوں نے کہا کہ میں کویت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے تقرری پر عزت مآب شیخ نواف الأحمد الصباح کو مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں ان کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور انھیں وسعت دینے کا متمنی ہوں۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে কুৱেইটৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী হিচাপে নিযুক্তি পোৱাত মহামহিম শ্বেখ আহমদ নৱাফ আল আহমেদ আল-শাবাহক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%AC%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D9%81%D8%B8%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%8C%D9%85%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%81%D8%A7%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 28 /جون۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے وقت رہتے سمجھداری بھرے قدم اٹھائے اور زندگی کی ہر چنو��ی کے لئے خود کو تیار کیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آج جو باتیں بتائیں گے وہ ملک کے کروڑوں لوگوں کوترغیب دیں گی۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ زندگی میں ایک بات طے ہے اور وہ ہے زندگی کا غیریقینی ہونا۔ ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا ہے کہ آنے والے کل، آنے والا پل، کیا لے کر کے آنے والا ہے۔ عوامی تحفظ کی اسکیمیں زندگی کی غیریقینی صورت حال اور حالات سے نبردآزما ہونے کی اور فتح یاب ہونے کی ہمت فراہم کرتی ہیں۔ اور یہ ہمت اب ملک کے کروڑوں لوگوں تک پہنچی ہے۔ پھر چاہے وہ پردھان منتری جیون بیمہ اسکیم ہو، پردھان سرکشا بیمہ یوجنا ہو، اٹل پنشن یوجنا ہو یا پردھان ویہ وندنا یوجنا ہو۔ عوامی تحفظات کی اسکیمیں عوام الناس کو اور خاص طور پر اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کو بااختیار بنارہی ہیں، جس سے مصیبت کے وقت وہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہ سکیں، زندگی سے ہار نہ جائیں۔ جب ہماری حکومت قائم ہوئی، ہم اقتدار میں آئے تو اقتصادی امداد تو دور کی بات، غریب کے پاس اپنا بینک کھاتہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے تین باتوں پر زور دیا- دلت، مظلوم، استحصال کے شکار، محروم، آدیواسی، خاتون۔ ان سب کو بااختیار بنانے کے لئے بینکنگ سہولت سے محروم افراد تک بینک کی سہولت کی بہم رسانی۔ چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروباریوں کو اقتصادی مدد فراہم کرانا اور اقتصادی لحاظ سے عدم تحفظ کے شکار افراد کو اقتصادی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یعنی جن کا بینکوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے، ان کا بینکوں سے رابطہ قائم کرانا، جنھیں سرمایہ درکار ہے، انھیں سرمایہ فراہم کرانا اور مالی عدم تحفظ کے شکار افراد کو مالی تحفظ فراہم کرنا۔ اور آپ سب لوگو ں کو بہت خوشی ہوگی کہ عالمی بینک کی فنٹیکس رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم کی جن دھن یوجنا ایک کامیاب مالی شمولیت پروگرام رہا، جس میں تین سال میں 2014-17 کی مدت میں 28 کروڑ نئے بینک کھاتے کھولے گئے۔ یہ تعداد اس مدت کے دوران پوری دنیا میں کھولے گئے سبھی نئے بینک کھاتوں کا 55فیصد ہے- نصف سے زائد۔ پہلے ہمارے یہاں کہاوت ہوتی تھی، ایک بازو رام، ایک بازو گاؤں۔ یعنی ایک طرف ہندوستان اور ایک طرف دنیا۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں بینک کھاتے رکھنے والوں کی تعداد میں 2014 میں یعنی ہماری حکومت قائم ہونے سے پہلے قریب قریب 50-52 فیصد تھی۔ ان تین برسوں میں 80 فیصد کو پار کرچکی ہے اور خاص طور سے خواتین کے بینک کھاتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سالوں سے بات ہوتی آئی ہے کہ الگ الگ ملکوں میں سماجی تحفظ کا نظم ہے لیکن بھارت میں نہیں ہے۔ جب ہم برسراقتدار آئے تب حال کچھ ایسا ہی تھا۔ ملک کا عام انسان سماجی تحفظ سے محروم تھا۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھارت میں روایتی طور سے مشترکہ خاندان کا نظام قائم رہا۔ ایک ایک کنبے میں 20-20، 25-25، 30-30 لوگ ساتھ رہتے تھے، تو سماجی نظام تھا، تحفظ تھا۔ لیکن اب کنبے چھوٹے ہوتے چلے جارہے ہیں، معمر والدین الگ رہتے ہیں، بچے الگ رہتے ہیں۔ سماجی نظام بدل رہا ہے۔ ہم نے اس صورت حال میں تبدیلی لانے کے لئے اس نئی صورت حال میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے آج پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت لائف کور اور روپئے کارڈ، ایکسیڈنٹ کور کے توسط سے بیمہ سہولت فراہم کرائی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے تحفظ کی اسکیموں کے تحت دو بیمہ اور ایک پنشن اسکیم شروع کی گئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 2014 میں جہاں حکومت کی بیمہ اسکیموں کے تحت صرف 4 کروڑ 80 لاکھ یعنی پانچ کروڑ سے بھی کم سبسکرائبر تھے، آج 2018 میں عوام الناس کے تحفظ کی اسکیموں کے تحت یہ تعداد 10 گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور قریب قریب 50 کروڑ سبسکرائبر ہوچکے ہیں۔ عوام الناس کے تحفظ کے تحت شروع کی گئی اسکیمیں الگ الگ صورت حال کے لئے ہیں اور کافی کم پریمیم پر شروع کی گئی ہیں، تاکہ ملک میں ہر علاقے، ہر طبقے میں، ہر عمر کے لوگ ان سے استفادہ کرسکیں۔ میں آج جن لوگوں سے بات کرنے والا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اسکیمیں ایسی ہیں جن کے ساتھ درد جڑا ہوا ہے، تکلیف جڑی ہوئی ہے، ایک بہت بڑا صدمہ جڑا ہوا ہے، لیکن جنھوں نے اس مصیبت کی گھڑی کو جھیلا ہے، سخت وقت سے گزرے ہیں، ان کو اس اسکیم سے کیسے مدد ملی ہے۔ اب ان کی بات ملک کے اور ہمارے بھولے غریب شہری سنتے ہیں تو ان کا اعتماد بڑھ کرکے ان کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہاں، اس اسکیم کا بھی مجھے فائدہ ملنا چاہئے اور اس طرح سے غم کو یاد کرنا بھی تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی کسی شخص کے دکھ میں، مصیبت کی گھڑی میں جو مدد ملی ہے، وہ اگراور لوگ جانتے ہیں تو وہ بھی ممکنہ مصیبتوں سے بچنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ میرے پیارے دیش واسیو، دیکھا ہوگا آپ نے، کہ ان واقعات کو سن کر ہم سب کو افسوس تو ہوتا ہے، لیکن کسی فرد کے چلے جانے سے اس کے کنبے کو جو خسارہ لاحق ہوتا ہے، اس کی بھرپائی کوئی نہیں کرسکتا۔ بذات خود خدا بھی نہیں کرسکتا، لیکن ایسی مشکل گھڑی میں کنبے کو اقتصادی سہارا مل جائے، اس گھڑی میں وہ کچھ پل کے لئے ٹک جائیں، پھر وہ اپنا راستہ تلاش کرلیتا ہے اور اسی مقصد سے پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ شروع کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت صرف، اور میں سمجھتا ہوں، میرے اہل وطن اس بات کو سمجھیں، صرف 330 روپئے، اتنے سے دو لاکھ روپئے کے بیمہ کا کور فراہم ہوجاتا ہے۔ 330 روپئے سالانہ مطلب کہ ایک دن میں ایک روپئے سے بھی کم، یعنی اتنے کم پیسوں میں آج بازار میں کچھ ملتا بھی نہیں ہے۔ ایسے وقت میں اس کا فائدہ کیسے لیں۔ اس اسکیم میں اب تک ساڑھے پانچ کروڑ لوگوں نے اس کے ساتھ اپنا فائدہ اٹھایا ہے اور مصیبت میں لوگوں کو کروڑوں روپئے کا کلیم بھی ملتا ہے۔ آئیے کچھ لوگ بھی ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ہم ان کے ساتھ چلتے ہیں، ان کی باتیں سنتے ہیں۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ مصیبت کچھ کہہ کرکے نہیں آتی۔ کبھی اطلاع دے کرکے مصیبت نہیں آتی، اور نہ ہی مصیبت آپ امیر ہیں تو آئے گی اور غریب ہیں تو نہیں آئے گی۔ اور غریب ہیں تو آئے گی اور امیر ہیں تو نہیں آئے گی۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ توکہیں پر بھی آسکتی ہے، لیکن ہم ان حادثات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کرسکتے ہیں۔ اقتصادی تحفظ یقینی بناسکتے ہیں۔ وزیراعظم کی سرکشا بیمہ اسکیم اسی مقصد سے شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت 12 روپئے سالانہ یعنی صرف ایک روپئے ماہ کے پریمیم سے دو لاکھ روپئے کا حادثہ بیمہ کور ملتا ہے۔ اب تک اس اسکیم کو قریب قریب 13-14 کروڑ سے زائد افراد نے اپنایا ہے۔ یہ تعداد یعنی 13-14 کروڑ روپئے، اگر دنیا میں ہم میکسیکو ملک کو دیکھیں یا جاپان کا ملک دیکھیں تو اس ملک کی جو مجموعی آبادی ہے، اس سے بھی ہمارے یہاں اس تحفظاتی حصار والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اتنا وسیع کوریج ہے اور اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اس سے مربوط ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں میں بیمہ اور اس کے فوائد کو لے کر کافی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ جب بھی کسی شخص کے ساتھ کوئی ناشدنی ہوتی ہے تو اس کے پورے کنبے کے سامنے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے، سارے خواب بکھر جاتے ہیں۔ اسکیم بنائی ہو، دو سال میں کریں گے، تین سال میں کریں گے، سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اس کے باوجود متعدد مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیمہ کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ کئی بار ایسے بھی رہتے ہیں، بیمہ کروالیں گے، ہوجائے گا، بہت وقت ہے، ضرورت ہی کیا ہے، آج پورا ملک دیکھ رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ بیمہ کو لے کر اس طرح کی ذہنیت میں تبدیلی واقع ہو۔ زیادہ سے زیادہ افراد سماجی تحفظ کی اسکیموں سے مربوط ہوں۔ چند سال قبل روز کمانے والے اور روز کماکر کھانے والا انسان بیمہ کے بارے میں سوچتا تک نہیں تھا اور اس کی وجہ تھی بیمہ کے پریمیم میں لگنے والی رقم۔ اب وہ اپنی آمدنی سے آج کی ضروریات کی تکمیل کریں گے یا اسے مستقبل کی فکر میں لگادیں۔ یہ تذبذب بنا ہی رہتا تھا۔ ایسے لوگ جو سبزی کا ٹھیلا لگاتے ہیں، آٹو رکشہ چلاتے ہیں یا دہاڑی مزدوری کرتے ہیں یا دوسرا کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے گزر بسر کرتے ہیں، ان کے لئے انشورنس کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہوگا۔ آج اس ناممکن کو ممکن بنایا گیا ہے۔ میرے دلت، مظلوم، استحصال کے شکار، محروم، غریب، ان کے لئے بنایا ہے۔ بس ایک روپئے ماہانہ پر لوگوں کو لائف انشورنس کی سہولت پہنچائی ہے۔ اب تک سماج کا جو طبقہ اپنا مستقبل رام بھروسے چھوڑکر چلتا تھا، اب اس نے اس میں بیمہ کا بھروسہ جوڑکر رکھا ہے۔ آئیے ہم کچھ اور لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ دیکھئے، ضعیفی زندگی کا ایک اہم پڑاؤ ہے، یہ ایک ایسا وقت ہے جب ہمیں کئی چیزوں کے لئے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت میں اقتصادی طور پر ہم خودکفیل بھی رہیں، پنشن کے تصور کو اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے عملی جامہ پہنایا گیا تھا۔ بڑے بزرگوں کی دعا ہمیشہ ملتی رہے، اور ان کی دعا کے بل پر ہم سب اس ملک کو آگے لے جانے کی سمت میں لگاتار کوشش کرتے رہیں۔ یہ حکومت ہمارے بزرگوں کے لئے عہدبند سرکار ہے۔ اور اس کے لئے سرکار نے ان کی صحت سے لے کر ان کے اقتصادی مورچے تک سبھی سہولتوں کو آسان بنانے کا کام کیا ہے۔ ضعیفی سے متعلق مسائل کی سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے، ان سے نمٹنے کے لئے گزشتہ چار برسوں میں کئی پالیسیاں اور اسکیمیں بنائی گئی ہیں۔ گزشتہ برس سرکار نے پردھان منتری ویہ وندنا یوجنا کی شروعات کی ہے۔ اس یوجنا کے تحت 60 سال سے اوپر کے شہریوں کو 10 سال تک 8 فیصد طے شدہ ریٹرن ملتا ہے۔ سود میں اتار چڑھاؤ کچھ بھی ہو، اس کے اندر کوئی فرق نہیں آنے دیا جاتا۔ اگر ریٹرن آٹھ فیصد سے کم آتی ہے تو حکومت خود کی تجوری سے اس کی بھرپائی کردیتی ہے، پیمنٹ کردیتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت معمر شہریوں، ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ بنیاد پر ریٹرن کا متبادل بھی چن سکتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت معمر شہری 15 لاکھ روپئے تک کی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ ابھی تک لگ بھگ تین لاکھ سے زیادہ لوگ اس اسکیم کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکار معمر شہریوں کو ٹیکس انسینٹیو بھی دے رہی ہے۔ ان کے لئے آمدنی پر ٹیکس میں چھوٹ کی بنیادی حد کو ڈھائی لاکھ سے بڑھاکر تین لاکھ کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سود پر تخفیف کی حدود جو پہلے 10 ہزار تھی، اسے بڑھاکر 50 ہزار کردیا گیا ہے۔ یعنی اب جمع رقم سے ملے 50 ہزار روپئے تک کے سود کو ٹیکس فری کردیا گیا ہے۔ اس طرح سے معمر شہریوں، ان کے لئے جتنی پہل کی گئی، ان کا سب کا فائدہ کیا ہوا، اسے اگر ہم اعداد و شمار میں حساب سے دیکھیں تو مان لیجئے کہ ایک معمر شہری، ایک ہمارا سینئر سٹیزن جن کی سالانہ آمدنی پانچ لاکھ ہے، تو 2013-14 میں، ہمارے آنے سے پہلے ان کولگ بھگ تیرہ ساڑھے تیرہ ہزار 390 روپئے ٹیکس بنتا تھا، لیکن جب سے ہم سرکار میں آئے، ہم نے اس کا سارا فارمولہ بدل دیا۔ 2019-19 میں تو صرف دو ہزار 600 رہ گیا، یعنی 13 ہزار سے زیادہ تھا، اب صرف 2600 ہے، یعنی ایک تہائی ہوگیا ہے، یعنی کتنی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ نہ صرف اقتصادی مورچے پر بلکہ معمر شہریوں اور ان کی فلاح و بہبود سے جڑے دیگر پہلوؤں پر بھی سرکار نے منصوبہ بند طریقے سے کام کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق دقتیں بھی آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ دوائیں اور علاج کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، اسے دھیان میں رکھتے ہوئے جن اوشدھی یوجنا شروع کی گئی، تاکہ دوائیں سستی قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ اسی طرح سے اسٹینٹ کی قیمتیں بھی کم کی گئیں۔ گھٹنے کا آپریشن بھی پہلے کے مقابلے سستا اور کفایتی ہوگیا ہے۔ پہلے سینئر سٹیزنس کو، معمر شہریوں کو، اپنےزندہ ہونے کا خود جاکر ثبوت دینا پڑتا تھا، لیکن اب اسے بھی آسان بناتے ہوئے لائف سرٹیفکیٹ کا انتظام شروع کیا گیا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ملک کے معمر شہریوں کو مختلف سہولتیں آسانی سے دستیاب ہوں، ان کے آس پاس ہی مہیا ہوں تاکہ انھیں زیادہ بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے۔ وہ صحت مند رہیں اور عزت کے ساتھ اپنی زندگی جی سکیں۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کی سمت میں کام کیا ہے۔ ضعیفی میں اقتصادی طور سے کسی پر منحصر نہ رہنا پڑے اور زندگی فخریہ ہو۔ پنشن کی شکل میں ایک مقررہ رقم ملتی رہے۔ سرکار نے یہ یقینی بنانے کے لئے اٹل پنشن یوجنا شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت اب تک ایک کروڑ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں، جن میں سے قریب 40 فیصد سے زیادہ لوگ ہمارے گاؤوں کے ہیں، دیہی علاقوں سے ہیں۔ سبھی اسکیموں کے ضمن میں دو باتیں اہم ہیں، پہلی کہ سبھی کو بیمہ میں شامل کیا جائے اور کم سے کم پریمیم پر شامل کیا جائے، تاکہ غریب سے غریب شخص بھی اس کا فائدہ اٹھاسکے۔ ہماری سرکار غریبوں کے تئیں حساس ہے۔ غریبوں کی بہبود کو اہمیت دیتے ہوئے اور انھیں بااختیار بنانے کے لئے لگاتار کوشش کررہی ہے۔ ابھی ہم نے الگ الگ اسکیموں پر مستفیدین سے سنا کہ کیسے مشکل وقت میں ان کے اور ان کے کنبے کو معاشی مدد ملی، انھیں ایک سہارا ملا۔ میں مانتا ہوں کہ ان کی کہانیاں ہم سبھی کے لئے جذبے کا وسیلہ ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ بیمہ تحفظ ہم سبھی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ میری سبھی سے درخواست ہے کہ آپ سب بھی ان بیمہ اسکیموں کا فائدہ حاصل کریں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے گھر کے آس پاس کوئی شخص ہو، آپ کے آفس میں کوئی شخص ہو، آپ انھیں بھی ان اسکیموں کے بارے میں بتائیں۔ اس کا فائدہ اٹھانے کے لئے تحریک دیں۔ جتنے فائدہ اٹھانے والے افراد یہاں پر ہیں، آپ لوگ توان کے فائدے کی مجسم مثال ہیں۔ میں آپ لوگوں سے بھی اصرار کرتا ہوں کہ آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کو اس کے لئے تحریک دیں۔ میں آپ کو بتادوں کہ پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا اور پردھان منتری جیون جیوتی یوجنا کے لئے آپ کسی بھی بینک یا پوسٹ آفس جاکر اپنا نام درج کراسکتے ہیں، رجسٹرڈ کراسکتے ہیں۔ اپنا نام درج کراسکتے ہیں۔ اٹل پنشن یوجنا کے لئے آپ کسی بھی بینک کی شاخ میں اپنا نام درج کراسکتے ہیں اور پردھان منتری ویہ وندنا یوجنا کے لئے ملک بھر کے کسی بھی ایل آئی سی آفس میں جاکر اس کا آپ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ میں ایک بات اور بھی بتانا چاہتا ہوں۔ معمر شہریوں کے لئے کیسی کیسی اسکیمیں ہیں، وہ باوقار طریقے سے ا��نی زندگی بسر کریں، اس کے لئے ایسی اسکیمیں ہیں، لیکن میرے ملک کے معمر شہری بھی کتنے وقار سے جینے والے لوگ ہیں۔ بہت بڑی تحریک دیکھتے ہیں۔ آپ لوگوں کو شاید پتہ نہیں ہوگا، اس کا ابھی باہر ذکر بھی نہیں ہوا ہے۔ جب میں نے ملک کے لوگوں کو لال قلعہ سے کہا تھا کہ گیس کی سبسڈی کی کیا ضرورت ہے سب کو، چھوڑ دیجئے نا، اور اس ملک کے ایک کروڑ – سوا کروڑ لوگوں نے گیس کی سبسڈی چھوڑ دی تھی۔ ابھی ریلوے میں ہمارے جو سینئر سٹیزنس ہیں، ان کو ریلوے کے ٹکٹ میں کچھ پیسے کی راحت ملتی ہے، لیکن ریلوے والوں نے اپنے فارم میں لکھا ہے کہ کیا آپ اس سبسڈی کو چھوڑنا چاہتے ہیں؟ آپ پورا ٹکٹ کا پیسہ دینا چاہتے ہیں کیا؟ ہم سب کو فخر ہوگا، میرے ملک کے لاکھوں معمر شہری، جن کو اس کا فائدہ مل سکتا تھا، ریلوے کے ٹکٹ کا پیسہ کم میں وہ سفر کرسکتا تھا، لیکن ملک کے لئے لاکھوں ایسے معمر شہری آگے آئے، جنھوں نے ریلوے میں، جو ان کو سبسڈی ملتی تھی، ٹکٹ میں لینے سے وہ منع کردیا۔ پورا پیسہ دیا اور سفر کیا، کوئی ڈھول نہیں پیٹا گیا، کوئی اپیل نہیں کی گئی، نہ کبھی میں نے ذکر کیا۔ صرف ایک فارم پر لکھا تھا، لیکن انھوں نے وقار سے جینے والے ہمارے معمر شہریوں نے اتنی بڑی قربانی دی، یہ ملک کے لئے چھوٹی خبر نہیں ہے۔ اور جب میرے ملک کے لوگ اتنا سارا کرسکتے ہیں، میرے معمر شہری اتنا کرتے ہیں تو ہم سب کو بھی آپ کے لئے ہر دن کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا دل چاہتا ہے، کچھ اچھا کرنے کا دل چاہتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے ملک کے غریبوں کا بھلا ہو، ہماری ماؤں بہنوں کی فلاح و بہبود ہو، ہمارے بزرگوں کو بھی اپنے تجربات کے ساتھ فخریہ انداز میں زندگی جینے کا موقع حاصل ہو، اس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ا س۔ م ر,বিভিন্ন সামাজিক সুৰক্ষাৰ আঁচনিৰ হিতাধিকাৰীসকলৰ সৈতে নমো এপৰ জৰিয়তে হোৱা বাৰ্তালাপত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%B2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مہالیہ کے موقع پر عوام کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’مہالیہ پر، ہم ماں درگا سے پرارتھنا کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کے لیے ان کا آشیرواد چاہتے ہیں۔سبھی خوش اور صحت مندرہیں ۔ چاروں طرف خوشحالی اور بھائی چارہ ہو۔ شبھو مہالیہ!‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 10635,মহালয়া উপলক্ষে জনসাধাৰণলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভকামন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-21-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%A7%DA%AF-%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%A7-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 21 دسمبر 2021 کو پریاگ راج کا دورہ کریں گے اور دوپہر ایک بجے ایک بے مثال قسم کے پروگرام میں شرکت کریں گے۔ اس پروگرام میں 2 لاکھ سے زیادہ خواتین حصہ لیں گی۔ یہ پروگرام وزیراعظم کے خواتین کو ، خاص طور پر عوامی سطح پر ، بااختیار بنانے کے حوالے سے وزیراعظم کے وژن کے مطابق منعقد کیا جارہا ہے جس کے تحت خواتین کو ضروری مہارتیں، ترغیبات اور وسائل کی فراہمی کی جائے گی۔ خواتین کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے اس مشن کے تحت ، وزیراعظم اپنی مدد آپ گروپوں (ایس ایچ جیز) کے بینک کھاتوں میں 1000 کروڑ روپئے منتقل کریں گے جس سے خود امدادی گروپوں کی رکن 16 لاکھ سے زیادہ خواتین کو فائدہ پہنچے گا۔ رقوم کی یہ منتقلی دین دیال انتودیہ یوجنا – قومی دیہی روزگار مشن (ڈی اے وی- این آر ایل ایم ) کے تحت انجام دی جارہی ہے، جس میں 80000 اپنی مدد آپ گروپس کو کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ (سی آئی ا یف) میں سےہر اپنی مدد آپ گروپ کو 1.10 لاکھ روپئے اور 60000 اپنی مدد آپ گروپوں میں سے ہر ایک کو 15000 روپئے ریوالونگ فنڈ سے ملیں گے۔ اس پروگرام میں وزیراعظم بزنس کوریسپانڈینٹ- سکھیز (بی سی سکھیز) کی ہمت افزائی بھی کریں گے۔ اس کے لئے 20000 بی سی سکھیوں میں سے ہر ایک کے کھاتوں میں پہلے مہینے کی تنخواہ کے طور پر 4000 روپئے کی رقم منتقل کی جائے گی۔ جس وقت یہ بزنس کمیونٹی سکھیاں عوامی سطح پر گھر گھر جاکر مالی خدمات فراہم کرنے و الے کارکن کی حیثیت سے کام شروع کریں گی، تو ان کو 6 مہینے تک 4000 روپئے ماہانہ کے حساب سے تنخواہ دی جائے گی تاکہ وہ اپنے کام میں مضبوطی حاصل کرسکیں۔اس کے بعد ان کی آمدنی اس کاروبار سے ملنےوالے کمیشن کے ذریعہ ہوگی۔ اس پروگرام میں ، وزیراعظم مکھیہ منتری کنیا سومنگلا اسکیم کے تحت 1 لاکھ سے زیادہ مستفیدین کو 20 کروڑ روپئے سے زیادہ کی مجموعی رقم بھی منتقل کریں گے۔ا س منصوبہ کے تحت کسی بھی بچی کو اس کی عمر کے مختلف مراحل میں مشروط طور پر نقد رقم منتقل کی جائے گی۔ فیضیافتگان میں سے ہر ایک کو مجموعی طور پر 15000 روپئے دیئے جائیں گے۔ زندگی کے محتلف مراحل جن میں یہ رقم دی جائے گی وہ اس طرح ہیں: ولادت کے بعد (2000 روپئے )، عمر کاایک سا ل مکمل ہونے پر (1000 روپئے)، پہلی جماعت میں داخلہ ملنے پر (2000 روپئے)، چھٹی جماعت میں داخل ہونے پر (2000 روپئے)، نویں کلاس میں داخل ہونے پر ( 3000 روپئے ) اور دسویں یا بارہویں کلاس پاس کرنے کے بعد کسی بھی ڈگری یا ڈپلومہ کورس میں داخلہ لینے پر (5000 روپئے)۔ وزیراعظم تغذیہ سے متعلق 202 ضمنی مینوفیکچرنگ اکائیوں کاسنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ یہ یونٹیں خود امدادی گروپوں کے ذریعہ دی جانے والی مالی امداد کے ساتھ کام کریں گی اوران کی تعمیر میں ہریونٹ پر تقریبا 1 کروڑ روپئے کی لاگت آئے گی۔ یہ یونٹیں ریاست کے 600 بلاکس میں مربوط بہبودیٔ اطفال منصوبے (آئی سی ڈی ایس) کے تحت اضافی تغذیہ فراہم کریں گی۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২১ ডিচেম্বৰত প্ৰয়াগৰাজ ভ্ৰমণ আৰু ২ লক্ষাধিক মহিলা সমবেত হোৱা এটি কাৰ্য্যক্ৰমত অংশগ্ৰহণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81-%D8%A8%D9%86%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور سنگاپور کے درمیان شہری منصوبہ بندی اور ترقی کے میدان میں تعاون کے سلسلے میں ایک مفاہمت نامے کو منظوری دی، جس کا اطلاق ماضی سے ہوگا۔ مفاہمت نامے پر 31مئی 2018 کو دستخ�� کئے گئے تھے۔ مفاہمت نامے کا مقصد میونسپل اداروں سمیت مرکز اور ریاستوں میں سرکاری ایجنسیوں کو سہولت دینا ہے کہ وہ شہری ترقی اور انتظامیہ اور دیگر میدانوں میں سنگاپور کی ایجنسیوں کی دستیاب مہارت کو سردست استعمال میں لائیں اور اس طرح شہروں کے احیاء کے مشن میں مدد ملے۔ اس سے نیتی میں صلاحیت پیدا کرنے اور افسران کو پالیسی بنانے نیز اسے شہادت کی بنیاد پر تیار کرنےمیں آسانی حاصل ہوگی اور نیتی کو مدد ملے گی کہ وہ اپنی دانشورانہ صلاحیت کو اور زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کرے۔ اس مفاہمت نامہ کے تحت منصوبہ بندی کے میدان میں صلاحیت سازی کے پروگرام، جس میں شہری منصوبہ بندی، پانی اور گندے پانی کے بندوبست، ٹھوس کچرے کے بندوبست، انٹلیجنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم اور عوامی سرمایہ کاری (سرکاری پرائیویٹ شراکت داری) پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، عمل میں لایا جائے گا۔ بڑا اثر: اس مفاہمت نامے سے بہترین طور طریقوں کی معلومات دوسروں تک پہنچانے اور صلاحیت سازی میں مدد ملے گی اور اس سے شہری منصوبہ بندی، پانی اور گندے پانی کے بندوبست، ٹھوس کچرے کے بندوبست، انٹلیجنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم اور سرکاری سرمایہ کاری (سرکاری پرائیویٹ شراکت داری) کے میدانوں میں ریاست اور مرکز کی سطح پر مختلف سرکاری ایجنسیوں کو اپنے کام کاج میں مدد فراہم ہوگی۔ مستفیدین: مرکزی حکومت، ریاستی سرکار اور شہری مقامی اداروں کے افسران کو ان کی معلومات میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا اور اس طرح وہ اس مفاہمت نامے سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔,পৰিকল্পনা শিতানত ভাৰত আৰু ছিংগাপুৰৰ মাজত সহযোগিতাৰ বাবে স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85%D8%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B4%D9%86%D8%B2%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE-3/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی، جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے آج رات کو ٹوکیو روانہ ہوں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے سلسلہ وار ٹوئٹ میں کہا؛ ’’جاپان کے سابق وزیر اعظم شنزو آبے کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے آج میں رات کو ٹوکیو کے لیے روانہ ہو رہا ہوں، وہ میرے ایک عزیز دوست اور ہند-جاپان دوستی کے ایک بڑے چمپئن تھے۔‘‘ ’’میں تمام ہندوستانیوں کی طرف سے وزیر اعظم کیشیدا اور محترمہ آبے کو دلی تعزیت پیش کروں گا۔ ہم ہند-جاپان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کام کرتے رہیں گے، جس کی شروعات Abe San. @kishida230 نے کی تھی۔‘‘,জাপানৰ প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্বিনজো আবেৰ ৰাজকীয় অত্যেষ্টিক্ৰিয়াত অংশগ্ৰহণৰ বাবে নিশা টকিঅ’লৈ ৰাওনা হ’ব প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%85%E0%A6%B9%E0%A6%BE-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A7%8B/,فرانس کی یورپ اور امور خارجہ کی وزیر، محترمہ کیتھرین کولونا، جو 13 سے 15 ستمبر 2022 تک ہندوستان کے سرکاری دورے پر ہیں، نے آج وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔ دو طرفہ اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کے علاوہ وزیر نے صدر میکرون کا دوستی اور تعاون کا پیغام وزیر اعظم تک پہنچایا۔ وزیر اعظم مودی نے پیرس میں صدر میکرون اور جرمنی کے شلوس ایلماؤ کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقاتوں کو یاد کیا اور جلد از جلد ہندوستان میں صدر کا استقبال کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔,ভাৰতলৈ অহা ফ্ৰান্সৰ ইউৰোপ তথা বৈদেশিক পৰিক্ৰমা দপ্তৰৰ মন্ত্ৰীগৰাকীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%8C%D8%B4-%D8%A2%D8%A6%DB%92-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%A6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے علی پور، دہلی میں پیش آئے حادثے میں ہوئے جانی اتلاف پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’علی پور، دہلی میں پیش آئے حادثے پر ازحد غمزدہ ہوں۔ میری ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو کھو دیا ہے۔ میں مجروحین کی جلد از جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہوں: وزیر اعظم‘‘,দিল্লীৰ আলিপুৰত সংঘটিত দুৰ্ঘটনাত দুখ প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%D9%BE%D8%B1-15%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AD/,نئی دہلی،15؍جنوری، محترم وزیراعظم جناب بنجامن نیتن یاہو، میڈیا کے ارکان۔ وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کا ، ان کے بھارت کے پہلے دورے پر خیر مقدم کرنا ایک بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔ (میرے اچھے دوست، بھارت میں آپ کا خیر مقدم ہے) بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوستی کے سفر میں محترمہ وزیراعظم آپ کے دورے کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ آپ کا دورہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے 25 برس کی یادگار بنانے کے لئے بھی یہ ایک بہترین عروج ہے۔ سال 2018 میں پہلے معزز مہمان کے طور پر آپ کا دورہ ہمارے نئے سال کے کلینڈر کے لئے ایک خصوصی آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دورہ خاص طور پر ایک ایسے مبارک موقع پر ہورہا ہے جب پورا بھارت بہار، تجدید، امید اور فصل کی کٹائی کی آمد پر خوشیاں منارہا ہے۔ لوہڑی، بیہو، مکرسکرانتی اور پونگل بھارت کی کثرت میں وحدت کی خصوصیت کو منانے کے تہوار ہیں۔ دوستو! پچھلے سال جولائی میں، میں نے اسرائیل کے یادگار دورے کے دوران سو ااَرب بھارتیوں کی طرف سے نیک خواہشات اور دوستی کے جذبات کو اسرائیل تک پہنچا یا تھا، اس کے جواب میں میرے دوست بی بی کی قیادت میں اسرائیلی عوام نے مجھے زبردست محبت اور گرمجوشی سے نوازا تھا۔ اس دورے میں وزیراعظم نیتن یاہو اور میں نے ایک دوسرے سے اور اپنے عوام سے امید اور اعتماد اور کثیر جہتی اور جدید ترین تکنیک میں تعاون اور ترقی میں اسٹریٹجک ساجھیداری اور مشترکہ کوششوں اور مشترکہ کامیابیوں کا وعدہ کیا تھا۔ اس طرح کا وعدہ ایک قدرتی مفاہمت اور دوستی سے ہی پورا ہوسکتا ہے جو صدیوں سے ہمارے درمیان موجود ہے اور یہ تقریباً سبھی شعبوں میں ہمارے مفید روابط کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اور یہ ہمارے مشترکہ جذبات اور عہد کی ہی عکاسی ہے کہ اس دورے کے صرف 6 ماہ بعد ہی آپ کا بھارت کا غیر معمولی دورہ ہورہا ہے۔ آج اور کل وزیراعظم نیتن یاہو اور میں اپنے تعلقات کی پیش رفت کا جائزہ لیں گے اور ان تمام امکانات اور مواقع کے بارے میں گفتگو کریں گے جن سے ہم پورا پورا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ہمارا تبادلہ خیال وسیع اور جامع تھا اور ان سے اور زیادہ کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ وزیراعظم مجھے اس بارے میں جانتے ہیں کہ میں نتائج حاصل کرنے کے لئے بہت بےقرار رہتا ہوں۔ اگر میں اس بات کا انکشاف کروں تو میں جانتاہوں کہ آپ بھی ایسے ہیں۔ پچھلے سال تل ابیب میں آپ نے اپنے اس ارادے کا اظہار کیا تھا کہ نوکر شاہی اور لال فیتہ شاہی کو کم کیا جائے اور تیزی کے ساتھ پیش رف کی جائے۔ وزیراعظم، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ بھارت میں اہم یہی سب کچھ کرنے کے لئے تیزی سے کام کررہے ہیں۔ ہم نے اپنے پہلے کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے اپنی جلد بازی کو پورا کیا ہے۔ ان کے نتائج پہلے ہی بنیاد پر واضح ہوچکے ہیں ہمارے تبادلہ خیال آج ہمارے روابط کو تیز کرنے اور ہماری دوستی کو بڑھاوا دینے کے لئے کام کررہے ہیں۔ ہم ان پر تین طریقوں سے عمل کریں گے۔ پہلے ہم ان شعبوں میں تعاون کے موجودہ ستونوں کو مستحکم کریں گے جن سے ہمارے عوام کی زندگی کی متاثر ہوتی ہے۔ ان میں زراعت ، سائنس اور ٹیکنالوجی اور سکیورٹی شامل ہیں۔ ہم نے شاندار کارکردگی کے مرکزوں کو اور زیادہ بہتر بنانے پر تبادلہ خیال کیا تھا جو اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی اور طریقہ کار کو استعمال کرکے زراعت میں تعاون کے لئے بہت اہم ہے۔ دفاع میں، میں نے اسرائیلی کمپنیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ ہمارے کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھارت میں زیادہ سازو سامان تیار کرنے کے لئے نرم ایف ڈی آئی نظام کا پورا فائدہ اٹھائیں۔ نمبر دو، ہم تعاون کے اُن شعبوں میں، جن میں پہلے تعاون کم تھا، زیادہ فروغ دیں گے۔ ان شعبوں میں تیل اور گیس، سائبر سکیورٹی ، فلمیں اور اسٹارٹ اپ شامل ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ چیز ان معاہدوں سے ظاہر ہوتی ہے ، جو ہم نے ابھی کئے ہیں۔ ان میں کئی شعبے ہماری اس خواہش کا مظہر ہیں کہ ہم کثیر جہتی اور وسیع البنیاد روابط کے خواہاں ہیں۔ اور نمبر تین، ہم اپنے ملکوں کے درمیان عوام اورنظریات کی آمد ورفت میں سہولت پیدا کرنے کے لئے عہد بستہ ہیں۔ اس میں پالیسی کو سہل بنانا، بنیادی ڈھانچہ اور کنکٹی وٹی کے روابط کو بہتر بنانا اور حکومت کے علاوہ امداد کے حلقوں کو فروغ دینا شامل ہے۔ ہم اسرائیل کے ساتھ اس بات کو آسان بنانے کے لئے کام کررہے ہیں کہ ہمارے عوام ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کرسکیں اور زیادہ عرصے تک کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرسکیں اور اس کے لئے دونو ں طرف عوام کو زیادہ قریب لانا ہوگا۔ ایک بھارتی ثقافتی مرکز جلد ہی اسرائیل میں کھولا جائے گا۔ ہم نے سائنس سے متعلق تعلیمی مضامین کے 100 نوجوان لوگوں کے باہمی دوروں کے سالانہ تبادلہ شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ دوستو! ایک مضبوط دوستی کے ہمارے ویژن کے لئے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو اور میں اس بات پر متفق ہوں کہ اس سمت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے سال تل ابیب میں میٹنگ کے بعد ہم اپنے باہمی فورم کے تحت دوسری مرتبہ اپنے سی ای اوز کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ میں اس بڑے تجارتی وفد کا خیر مقدم کرتا ہوں جسے وزیراعظم نیتن یاہو اپنے ساتھ بھارت لائے ہیں۔ وزیراعظم نیتن یاہو اور میں نے عل��قائی اور عالمی صورت حال کے بارے میں امکانات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ہم نے اپنے خطوں اور دنیا میں اپنے تعاون کو استحکام اور امن کے لئے ایک اہم عنصر کے طور پر جائزہ لیا ہے۔ دوستو! کل بھارتی سرزمین پر پہنچنے کے بعد وزیراعظم نیتن یاہو نے میرے ساتھ اس چوک پر شرکت کی جس کا نام بدل کر تین مورتی حیفا چوک رکھا گیا ہے، اس کا مقصد اُن بہادر بھارتی سپاہیوں کو یادکرنا اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے ایک صدی پہلے اسرائیل حیفا کی جنگ میں اپنی جانیں قربان کردی تھیں۔ ہم دونوں ایسے ملک ہیں جو اپنی تاریخ اور اپنے ہیرو لوگوں کو کبھی نہیں بھولتے اور ہم وزیراعظم نیتن یاہو کے اس اقدام کی زبردست ستائش کرتے ہیں۔ ہم جب اسرائیل کے ساتھ اس ولولہ انگیز ساجھیداری کے مستقبل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو مجھ میں امید اور حوصلہ بھر جاتا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو میں ،میں ایک ایسا ہی اپنا ہم منصب دیکھتا ہوں جو بھارت اسرائیل تعلقات کو زبردست اونچائیوں تک لے جانے کے لئے میری طرح ہی عہد بستہ ہے۔ اور آخر میں مجھے خوشی ہے کہ جناب وزیراعظم مجھے ایک دن بعد آپ کے ساتھ اپنی آبائی ریاست گجرات میں وقت گزارنے کا موقع ملے گا۔ وہاں بھی ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا ایک اور موقع ملے گا، جو زراعت، ٹیکنالوجی اور اختراعات جیسے مختلف شعبوں میں ہمارے باہمی تعاون سے ظاہر ہوتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کے وزیراعظم نیتن یاہو، محترمہ نیتن یاہو اور ان کے ہمراہ آیئے ہوئے وفد کا بھارت میں قیام ایک یادگار رہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!,"ইজৰাইলৰ প্রধানমন্ত্রীৰ ভাৰত ভ্ৰমণকালত প্রধানমন্ত্রীৰ প্রেছ বিবৃতি (১৫ জানুৱাৰী, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-20-19-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی 19-20 اکتوبر کو گجرات کا دورہ کریں گے اور تقریباً 15,670 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور قوم کے نام وقف کریں گے۔ 19 اکتوبر کو صبح تقریباً 9:45 بجے، وزیر اعظم مہاتما مندر کنونشن اینڈ ایگزی بیشن سنٹر، گاندھی نگر میں دفاعی ایکسپو 22 کا افتتاح کریں گے۔ دوپہر 12 بجے کے قریب وزیر اعظم اَدلج میں مشن اسکولس آف ایکسی لینس کا آغاز کریں گے۔ تقریباً 3:15 بجے وہ جوناگڑھ میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس کے بعد، شام 6 بجے کے قریب، وہ انڈیا اربن ہاؤسنگ کنکلیو 2022 کا افتتاح کریں گے اور راجکوٹ میں متعدد اہم پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور قوم کے نام وقف کریں گے۔ وہ راجکوٹ میں تقریباً شام 7:20 بجے جدید تعمیراتی طریقوں کی نمائش کا بھی افتتاح کریں گے۔ 20 اکتوبر کو، صبح تقریباً 9:45 بجے، کیواڑیا میں وزیر اعظم کے ذریعہ مشن لائف کا آغاز کیا جائے گا۔ دوپہر تقریباً 12 بجے، وزیر اعظم کیواڈیا میں 10 ویں ہیڈز آف مشنز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اس کے بعد، تقریباً 3:45 بجے، وہ ویارا میں مختلف ترقیاتی اقدامات کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم گاندھی نگر میں وزیراعظم دفاعی ایکسپو- 2022 کا افتتاح کریں گے۔ 'فخر کا راستہ' کے عنوان کے تحت منعقد ہونے والی اس ایکسپو میں اب تک منعقد ہونے والی انڈین ڈیفنس ایکسپو میں سب سے بڑی شرکت دیکھنے کو ملے گی۔ پہلی با��، یہ ایک دفاعی نمائش کا مشاہدہ کرے گا، جو خصوصی طور پر ہندوستانی کمپنیوں کے لیے منعقد ہوگا، جس میں غیر ملکی او ای امیز کی ہندوستانی ذیلی کمپنیاں، ہندوستان میں رجسٹرڈ کمپنی کا ڈویژن، ہندوستانی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر رکھنے والے نمائش کنندہ شامل ہیں۔ یہ تقریب ہندوستانی دفاعی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت کے وسیع دائرہ کار اور پیمانے کو ظاہر کرے گی۔ ایکسپو میں ایک انڈیا پویلین اور 10 ریاستی پویلین ہوں گے۔ انڈیا پویلین میں، وزیر اعظم ایچ ٹی ٹی- 40 کی نقاب کشائی کریں گے جوکہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کے ذریعہ ڈیزائن کردہ دیسی ٹرینر ہوائی جہاز ہے۔ طیارے میں جدید ترین عصری نظام موجود ہے اور اسے پائلٹ دوستانہ خصوصیات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ پروگرام کے دوران، صنعت اور اسٹارٹ اپس کے ذریعے خلائی ڈومین میں دفاعی افواج کے لیے اختراعی حل تیار کرنے کے لیے وزیر اعظم مشن دفاعی اسپیس کا آغاز کریں گے۔ وزیر اعظم گجرات میں ڈیسا ایئر فیلڈ کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ فارورڈ ایئرفورس بیس ملک کے سکیورٹی آرکیٹیکچر میں اضافہ کرے گا۔ یہ ایکسپو دوسرے ہندوستان-افریقہ دفاعی مکالمے کا بھی مشاہدہ کرے گا، جس کا موضوع 'ہندوستان-افریقہ: دفاع اور سیکورٹی تعاون کو ہم آہنگ کرنے کے لئے حکمت عملی اپنانا' ہے۔ ایکسپو کے دوران دوسرا بحر ہند علاقہ پلس (آئی او آر پلس) کنکلیو بھی منعقد کیا جائے گا، جو وزیر اعظم کے علاقے میں ہر ایک کے لئے سلامتی اور ترقی (ساگر)ویژن کے مطابق امن، ترقی، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے آئی او آر پلس ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع مکالمے کا ایک اسٹیج فراہم کرے گا۔ ایکسپو کے دوران دفاع کے لیے سرمایہ کاروں کا پہلا اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا۔ اس میں 100 سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو منتھن 2022 ، آئی ڈیکس (انوویشن فار ڈیفنس ایکسی لینس) کے دفاعی اختراعاتی پروگرام میں اپنی اختراعات کو ظاہر کرنے کا موقع ملے گا۔اس ایونٹ میں 'بندھن' کے ذریعے 451 پارٹنرشپس / لانچوں کا قیام بھی دیکھا جائے گا۔ وزیر اعظم ادلج کے تری مندر میں مشن اسکول آف ایکسی لینس کا بھی آغاز کریں گے۔ اس مشن کا تصور 10,000 کروڑ کے کل خرچ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ تری مندر میں تقریب کے دوران وزیر اعظم تقریباً 4260 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا آغاز کریں گے۔ یہ مشن ریاست میں نئے کلاس روم، اسمارٹ کلاس روم، کمپیوٹر لیب اور اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کی مجموعی اپ گریڈیشن کے ذریعے گجرات میں تعلیمی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں مدد کرے گا۔ وزیراعظم جوناگڑھ میں وزیر اعظم تقریباً 3580 کروڑ روپے کے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم مسنگ لنکس کی تعمیر کے ساتھ کوسٹل ہائی ویز کی بہتری کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 13 اضلاع میں 270 کلومیٹر سے زیادہ کی شاہراہ کی لمبائی کا احاطہ کیا جائے گا۔ وزیر اعظم جوناگڑھ میں دو واٹر سپلائی پروجیکٹوں اور زرعی مصنوعات کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک گودام کمپلیکس کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ پوربندر میں، وزیر اعظم مادھو پور کے شری کرشن رخشمنی مندرکی ہمہ گیر ترقی کے لیے سنگ بنیاد رکھیں گے اور پوربندر فشری ہاربر میں ڈریجنگ کی دیکھ بھال کے لیے بھی وہ سیوریج اور واٹر سپلائی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے ۔ گیر سومناتھ میں وہ دو پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جن میں مدھواڑ میں ایک ماہی گ��ری کی بندرگاہ کی ترقی بھی شامل ہے۔ وزیراعظم راجکوٹ میں وزیر اعظم راجکوٹ میں تقریباً 5860 کروڑ روپے کی لاگت کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور قوم کے نام وقف کریں گے۔ وہ انڈیا اربن ہاؤسنگ کنکلیو 2022 کا بھی افتتاح کریں گے، جس میں ہندوستان میں مکانات سے متعلق مختلف پہلوؤں بشمول منصوبہ بندی، ڈیزائن، پالیسی، قواعد و ضوابط، عمل درآمد، زیادہ پائیداری اور شمولیت کو فروغ دینے پر غور و خوض کیا جائے گا۔ عوامی تقریب کے بعد وزیراعظم اختراعی تعمیراتی طریقوں سے متعلق ایک نمائش کا بھی افتتاح کریں گے۔ عوامی تقریب کے دوران وزیراعظم لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے تحت بنائے گئے 1100 سے زائد مکانات کو وقف کریں گے۔ ان مکانات کی چابیاں بھی مستفدین کے حوالے کی جائیں گی۔ وہ پانی کی فراہمی کے ایک پروجیکٹ: برہمنی-2 ڈیم سے نرمدا کینال پمپنگ اسٹیشن تک موربی-بلک پائپ لائن پروجیکٹ کو وقف کریں گے ۔ ان کے ذریعہ وقف کیے جانے والے دیگر پروجیکٹوں میں علاقائی سائنس سینٹر، فلائی اوور پل اور سڑک کے شعبے سے متعلق دیگر منصوبے شامل ہیں۔ وزیر اعظم گجرات میں این ایچ 27 کے راجکوٹ-گونڈل-جیٹ پور سیکشن کے موجودہ چار لین کی چھ لین کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وہ موربی، راجکوٹ، بوٹاڈ، جام نگر اور کَچھ کے مختلف مقامات پر تقریباً 2950 کروڑ روپے کی جی آئی ڈی سی انڈسٹریل اسٹیٹس کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ دیگر پروجیکٹ، جن کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا، ان میں گڑھکا میں اے ایم یو ایل سے فیڈ ڈیری پلانٹ، راجکوٹ میں انڈور اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، پانی کی فراہمی کے دو پروجیکٹ اور سڑکوں اور ریلوے سیکٹر کے دیگر پروجیکٹ شامل ہیں۔ وزیراعظم کیواڈیا میں وزیراعظم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل عزت مآب جناب انتونیو گٹیرس سے دوطرفہ ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی موجودگی میں وزیر اعظم اسٹیچو آف یونٹی، ایکتا نگر، کیواڈیا میں مشن لائف کا آغاز کریں گے۔ وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق اس کے ہندوستان کی قیادت میں ایک عالمی عوامی تحریک ہونے کی توقع ہے، جو ماحول کے تحفظ اور حفاظت کے لیے انفرادی اور اجتماعی اقدام پر زور دے گی۔ مشن لائف کا مقصد، پائیداری کی طرف ہمارے اجتماعی نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کے لیے تین جہتی حکمت عملی پر عمل کرنا ہے۔ سب سے پہلے افراد کو ،ان کی روزمرہ کی زندگی (مانگ) میں آسان لیکن مؤثر ماحول دوست اعمال پر عمل کرنے کے لیے زور دینا ؛ دوسرا صنعتوں اور منڈیوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ بدلتی ہوئی طلب (رسد) کا تیزی سے جواب دے سکیں اور؛ تیسرا یہ ہے کہ حکومت اور صنعتی پالیسی پر اثر انداز ہو، تاکہ پائیدار کھپت اور پیداوار (پالیسی) دونوں کی حمایت کی جا سکے۔ وزیر اعظم 10 ویں ہیڈ آف مشنز کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے، جس کا انعقاد 20 سے 22 اکتوبر 2022 کو کیواڈیا میں وزارت خارجہ کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے ہندوستانی مشنوں کے 118 سربراہان (سفراء اور ہائی کمشنرز) جمع ہوں گے۔ تین دنوں پر محیط اپنے 23 سیشنوں کے ذریعے، کانفرنس عصری جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک ماحول، رابطے، ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات وغیرہ جیسے مسائل پر تفصیلی اندرونی بات چیت کے موقع فراہم کرے گی۔مشنوں کے سربراہان فی الحال اپنی متعلقہ ریاستوں کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ ہندوستان کے فلیگ شپ مشنوں جیسے کہ خواہش مند اضلاع، ایک ضلع ایک پروڈکٹ، امرت سروور مشن، اور دیگر باتوں سے اپنے آپ کو مانوس کرسکیں۔ وزیراعظم ویارا میں وزیر اعظم تاپی کے ویارا میں 1970 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے متعدد ترقیاتی پہل قدمیوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وہ لاپتہ لنکس کی تعمیر کے ساتھ سپوترا سے مجسمہ اتحاد تک سڑک کی بہتری کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ جن دیگر پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا ،ان میں تاپی اور نرمدا اضلاع میں 300 کروڑ روپے سے زیادہ کے پانی کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا ک۔ ق ر۔",প্রধানমন্ত্রীয়ে ১৯ আৰু ২০ অক্টোবৰত গুজৰাট ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-88%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%BE%DB%8C-%D8%B3%D9%88%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AA-%E0%A7%A6%E0%A7%AA-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار! نئے موضوعات کے ساتھ، نئی حوصلہ افزا مثالوں کے ساتھ، نئے نئے پیغامات کو سمیٹے ہوئے، ایک بار پھر میں آپ سے ’من کی بات‘ کرنے آیا ہوں۔ جانتے ہیں اس بار مجھے سب سے زیادہ خطوط اور پیغامات کس موضوع کے بارے میں ملے ہیں؟ یہ موضوع ایسا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے جڑا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں ملک کو ملے نئے پی ایم میوزیم کی۔ اس 14 اپریل کو بابا صاحب امبیڈکر کی جنم جینتی پر پی ایم میوزیم کا افتتاح ہوا ہے۔ اسے، ملک کے شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ایک سامع ہیں جناب سارتھک جی، سارتھک جی گروگرام میں رہتے ہیں اور پہلا موقع ملتے ہی وہ وزیر اعظم کا میوزیم دیکھ آئے ہیں۔ سارتھک جی نے Namo App پر جو پیغام مجھے لکھا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ برسوں سے نیوز چینل دیکھتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں، سوشل میڈیا سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں لگتا تھا کہ ان کی جنرل نالیج کافی اچھی ہوگی، لیکن، جب وہ پی ایم میوزیم گئے تو انہیں بہت حیرانی ہوئی، انہیں محسوس ہوا کہ وہ اپنے ملک اور ملک کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے پی ایم میوزیم کی کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں لکھا ہے، جو ان کے تجسس کو مزید بڑھانے والا تھا، جیسے، انہیں لال بہادر شاستری جی کا وہ چرخہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، جو انہیں سسرال سے تحفے میں ملا تھا۔ انہوں نے شاستری جی کی پاس بک بھی دیکھی اور یہ بھی دیکھا کہ ان کے پاس کتنی کم بچت تھی۔ سارتھک جی نے لکھا ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مورارجی بھائی دیسائی جدوجہد آزادی میں شامل ہونے سے پہلے گجرات میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس میں ان کا ایک لمبا کریئر رہا تھا۔ سارتھک جی چودھری چرن سنگھ جی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ زمینداری کے خاتمہ کے سلسلے میں چودھری چرن سنگھ جی کا بہت بڑا رول تھا۔ اتنا ہی نہیں، وہ آگے لکھتے ہیں، جب لینڈ ریفارم کے بارے میں وہاں میں نے دیکھا کہ جناب پی وی نرسمہا راؤ جی لینڈ ریفارم کے کام میں بہت گہری دلچسپی لیتے تھے۔ سارتھک جی کو بھی اس میوزیم میں آ کر ہی پتہ چلا کہ چندر شیکھر جی نے ۴ ہزار کلومیٹر سے زیادہ پیدل چل کر ہندوستان کا تاریخی سفر کیا تھا۔ انہوں نے جب میوزیم میں اُن چیزوں کو دیکھا جو اٹل جی استعمال کرتے تھے، ان کی تقریریں سنیں، تو وہ فخر سے بھر اٹھے۔ سارتھک جی نے یہ بھی بتایا کہ اس میوزیم میں مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، ڈاکٹر امبیڈکر، جے پرکاش نارائن اور ہمارے وزیر اعظم پنڈت جواہر ل��ل نہرو کے بارے میں بھی بہت ہی دلچسپ جانکاریاں ہیں۔ ساتھیو، ملک کے وزرائے اعظم کے تعاون کو یاد کرنے کے لیے آزادی کے امرت مہوتسو سے اچھا وقت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملک کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ تاریخ کو لے کر لوگوں کی دلچسپی کافی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں پی ایم میوزیم نوجوانوں کے لیے بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، جو ملک کی انمول وراثت سے انہیں جوڑ رہا ہے۔ ویسے ساتھیو، جب میوزیم کے بارے میں آپ سے اتنی باتیں ہو رہی ہیں، تو میرا من کیا کہ میں بھی آپ سے کچھ سوال کروں۔ دیکھتے ہیں آپ کی جنرل نالیج کیا کہتی ہے – آپ کو کتنی جانکاری ہے۔ میرے نوجوان ساتھیو آپ تیار ہیں، کاغذ قلم ہاتھ میں لے لیا؟ ابھی میں آپ سے جو پوچھنے جا رہا ہوں، آپ ان کے جواب NaMo App یا سوشل میڈیا پر #M,২৪.০৪.২০২২ তাৰিখে ‘মন কী বাত’ৰ ৮৮তম খণ্ডত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-4-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%AA-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 4 جنوری، 2022 کو منی پور اور تریپورہ ریاستوں کا دورہ کریں گے۔ صبح تقریباً 11 بجے، وزیر اعظم امپھال میں 4800 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے 22 ترقیاتی پروجکٹو ں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بناود رکھیں گے۔ اس کے دوپہر تقریبا 2 بجے، اگرتلہ میں، وہ مہاراجہ بیر بکرم ہوائی اڈے پر نئی انٹی گریٹیڈ ٹرمینل بلڈنگ کا افتتاح کریں گے اور دو اہم ترقیاتی اقدام کا بھی آغاز کریں گے۔ وزیراعظم منی پور میں منی پور میں وزیر اعظم تقریباً 1850 کروڑ روپے مالیت کے 13 پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گےاور تقریباً 2950 کروڑ روپے مالیت کے 9 پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ پروجیکٹ مختلف شعبوں مثلاً سڑک بنیادی ڈھانچہ، پینے کے پانی کی سپلائی، صحت، اربن ڈیولپمنٹ، ہاؤسنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اسکل ڈیولپمنٹ، آرٹ اور کلچر سے متعلق ہیں۔ کنکٹی وٹی کو بہتر بنانے کے ملک گیر پروجیکٹوں کے مطابق، وزیر اعظم پانچ قومی شاہراہ پروجیکٹوں کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے جو کہ 1700 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کئے جائیں گے۔ 110 کلومیٹر سے زیادہ مجموعی لمبائی والی ان شاہراہوں کی تعمیر خطے میں سڑک کنکٹی وٹی کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑا قدم ہو گی۔ امپھال سے سلچر تک کی سال بھر بلا روک ٹوک کنکٹی وٹی میں اضافہ کرنے والا اور ٹریفک کے جام کو کم کرنے والے ایک اور اہم بنیادی ڈھانچہ کا کام این ایچ 37 پر دریائے براک پر اسٹیل برج کی تعمیر ہے جو کہ 75 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے کی گئی ہے۔ اس اسٹیل برج کا افتتاح بھی پروگرام کے دوران وزیر اعظم کے ذریعہ کیا جائے گا۔ وزیر اعظم تقریباً 1100 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے 2387 موبائل ٹاور منی پور کے عوام کے نام وقف کریں گے۔ یہ ریاست کے موبائل کنکٹی وٹی کو مزید فروغ دینے میں ایک بڑا قدم ہوگا۔ ہر ایک گھر کو صاف پینے کا پانی فراہم کرانے کی وزیر اعظم کی کوشش کو ریاست میں پینے کے پانی کی سپلائی کے پروجیکٹوں کے افتتاح سے فروغ حاصل ہوگا۔ وزیر اعظم جن پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے ان میں 280 کروڑ روپے مالیت کا ’واٹر ٹرانسمیشن سسٹم آف تھوبل ملٹی پرپز پروجیکٹ‘ شامل ہے، جو امپھال سٹی کو پینے کے پانی کی سپلائی فراہم کرائے گا۔ تیمنگ لونگ ضلع کی دس آبادیوں کے رہنے والوں کو محفوظ پینے کا پانی فراہم کرانے کے لیے 65 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا تمینگ لونگ ہیڈ کوارٹرز کے لیے پانی کے تحفظ کے ذریعہ پانی کی سپلائی کی اسکیم کا پروجیکٹ اور 51 کروڑ کی لاگت سے تیار ہونے والا سینا پتی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر واٹر سپلائی اسکیم کا اضافہ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ جو علاقے کے باشندوں کو باقاعدہ پانی کی سپلائی فراہم کرائے گا۔ ریاست میں صحت کے شعبے کو مستحکم کرنے کی ایک کوشش میں وزیر اعظم امپھال میں پی پی پی بنیاد پر تقریباً 160 کروڑ روپے مالیت کے جدید ترین کینسر اسپتال کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ کینسر اسپتال حیثیت سے زیادہ اخراجات کو کم کرنے میں ریاست کے عوام کے لئے بہت زیادہ مفید ہوگا، کیونکہ عوام کو کینسر سے متعلق تشخیص اور علاج کرانے کے لیے ریاست سے باہر جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں کووڈ سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لیے، وزیر اعظم ’’کیامگئی میں 200 بستروں والے کووڈ اسپتال‘‘ کا افتتاح کریں گے جو کہ ڈی آر ڈی او کے تعاون سے تقریباً 37 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔ بھارت کے شہروں کی تجدید اور کایا پلٹ کرنے کی وزیر اعظم کی مسلسل کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ایک قدم کے طور پر ’امپھال اسمارٹ سٹی مشن‘ کے تحت کئی پروجیکٹوں کی تکمیل ہوگی۔ وزیر اعظم مشن کے تین پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے، جو کہ 170 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیے گئے ہیں۔ ان میں انٹیگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (آئی سی سی سی)، ’امپھال دریا پر مغربی ریور فرنٹ کی ترقی (فیز I)‘ اور تھنگال بازار میں مال روڈ کی ترقی (فیز I) شامل ہیں۔ انٹیگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (آئی سی سی سی) شہر میں کئی ٹیکنالوجی پر مبنی خدمات فراہم کرائے گا، جن میں ٹریفک مینجمنٹ، ٹھوس فضلے کا بندوبست اور شہر کی نگرانی شامل ہے۔ مشن کے تحت دیگر ترقیاتی پروجیکٹوں سے سیاحت اور مقامی معیشت کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ وزیر اعظم ریاست میں تقریباً 200 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیے جانے والے ’سینٹر فار انویشن ، انوویشن، انکیو بیشن اینڈ ٹریننگ (سی آئی آئی آئی ٹی)‘ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ پروجیکٹ ریاست میں سب سے بڑی پی پی پی پہل ہے اور اس سے ریاست میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ وزیر اعظم ہریانہ کے گڑگاؤں، ہریانہ میں میں منی پور انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کی تعمیر کے لئے بھی سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ہریانہ میں منی پور کے ایسے ثقافتی انسٹی ٹیوٹ کا خیال پہلی بار 1990 میں پیش کیا گیا تھا لیکن پچھلے کئی سالوں سے اسے عملی شکل نہیں دی جاسکی تھی۔ یہ انسٹی ٹیوٹ 240 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر ہو گا اور اس سے ریاست کے مالا مال آرٹ اور کلچر کو فروغ حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ ریاست کی مالا مال ثقافتی وراثت کو بھی تقویت ملے گی۔ وزیر اعظم امپھال میں ری فربیشڈ اور تجدید شدہ گووندا جی ٹیمپل کا افتتاح کریں گے۔ وہ موئرنگ میں آئی این اے کمپلیکس کا افتتاح بھی کریں گے جس میں بھارت کی تحریک آزادی میں انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کے اہم کردار کی نمائش کی جائے گی۔ ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کے منتر کے مطابق وزیر اعظم پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم کے تحت 130 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے 72 پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے، یہ پروجیکٹ اقلیتی برادریوں کی کلی ترقی کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کی امداد فراہم کرائیں گے۔ ریاست میں ہنڈلوم صنعت کو مضبوط کرنے کے لیے وزیر اعظم 36 کروڑ مالیت کے دو پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے جن میں امپھال ایسٹ ڈسٹرکٹ میں نونگ پوک کاکچنگ میں میگا ہینڈ لوم کلسٹر، جس سے امپھال ایسٹ ڈسٹرکٹ میں تقریباً 17000 بنکروں کو فائدہ پہنچے گا اور موئرنگ میں ’کرافٹ اینڈ ہینڈلوم ولیج‘ شامل ہے جس سے موئرنگ اور منسلکہ لوکتک لیک کے بنکر گھرانوں کی مدد ملے گی اور سیاحت کے امکانات روشن ہوں گے اور مقامی عوام کے لئے روزگار پیدا ہوگا۔ وزیر اعظم نیو چیکون میں گورنمنٹ ریزیڈینشیل کوارٹرز کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے جو کہ تقریباً 390 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہوں گے۔ یہ جدید سہولیات والی ایک انٹی گریٹیڈ ہاؤسنگ کالونی ہوگی۔ وہ ایبودھاؤ مارجنگ، امپھال ایسٹ میں ایک روپ وے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ وزیر اعظم جن دیگر پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے ان میں ہنر مندی کے فروغ میں اضافے کے بنیادی ڈھانچے (ای ایس ڈی آئی) کے تحت نیا انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی)، کانگ پوکپی اور ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز کی نئی آفس بلڈنگ شامل ہے۔ وزیراعظم تریپورہ ریاست کے اپنے دورے کے دوران، وزیر اعظم مہاراجہ بیر بکرم (ایم بی بی) ہوائی اڈے کی نئی انٹی گریٹیڈ ٹرمینل بلڈنگ کا افتتاح کریں گے اور کلیدی پہل مکیہ منتری تریپورہ گرام سمردھی یوجنا اور ودیا جیوتی اسکولوں کے پروجیکٹ مشن 100 کا آغاز کریں گے۔ تقریباً 450 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے مہاراجہ بیر بکرم ہوائی اڈے کی نئی انٹیگریٹڈ ٹرمینل بلڈنگ ایک جدید ترین عمارت ہے ، جو کہ 30000 مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہے۔ اس میں جدید سہولیات ہیں اور جدید ترین آئی ٹی نیٹ ورک انٹی گریٹیڈ سسٹم بھی لگا ہے۔ نئی ٹرمینل بلڈنگ کی ترقی ملک بھر کے تمام ہوائی اڈوں پر جدید سہولیات فراہم کرانے کی وزیر اعظم کی کوشش کے مطابق ہے۔ ودیا جیوتی اسکولوں کے پروجیکٹ مشن 100 کا مقصد 100 موجودہ ہائی/ہائر سیکنڈری اسکولوں کو جدید ترین سہولیات اور معیاری تعلیم کے ساتھ ودیا جیوتی اسکولوں میں تبدیل کرکے ریاست میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ اس پروجیکٹ میں نرسری سے لے کر 12ویں جماعت تک تقریباً 1.2 لاکھ طلباء کو شامل کیا جائے گا اور اس پر اگلے تین سالوں میں تقریباً 500 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ مکھیہ منتری تریپورہ گرام سمردھی یوجنا کا مقصد گاؤں کی سطح پر بنیادی ترقیاتی شعبوں میں خدمات کی فراہمی کے معیارات کو حاصل کرنا ہے۔ اس یوجنا کے لیے منتخب کیے گئے اہم شعبوں میں گھریلو نل کے کنکشن، گھریلو بجلی کے کنکشن، آل ویدر روڈز، ہر گھر کے لیے فنکشنل ٹوائلیٹ ، ہر بچے کے لیے تجویز کردہ حفاظتی ٹیکہ جات، سیلف ہیلپ گروپوں وغیرہ میں خواتین کی شرکت شامل ہیں۔ یہ اسکیم گاؤں میں مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرانے کے لئے معیارات حاصل کرنے کی ترغیب دے گی اور تواقع ہے کہ نچلی سطح پر خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے گاؤوں کے درمیان صحت مند مسابقت کا احساس پیدا ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৪ জানুৱাৰীত মণিপুৰ আৰু ত্ৰিপুৰা ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%86%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95/,تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی، تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ جناب ایم کے اسٹالن، مرکزی وزراء کی کونسل کے ساتھیوں، تمل ناڈو حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ، تمل ناڈو اسمبلی کے ارکان، تمل ناڈو کی بہنوں اور بھائیوں –ونکّم۔ تمل ناڈو میں آنا ہمیشہ شاندار رہتا ہے۔ یہ ایک خاص سرزمین ہے۔ اس ریاست کے لوگ، ثقافت اور زبان، زبردست ہے، عظیم بھارتیار نے اس بات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے، جب انہوں نے کہا : सेंतमिल नाडु एन्नुम पोथीनीले इन्बा तेन वन्तु पायुतु कादिनीले دوستو، کسی بھی شعبے میں تمل ناڈو کے کسی نہ کسی شخص نے ہمیشہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ، میں نے اپنی رہائش گاہ پر بھارت کے بہرے کھلاڑیوں کے ایک دستے کی میزبانی کی۔ آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ ٹورنامنٹ میں اس مرتبہ بھارت نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم نے جو 16 تمغے جیتے ہیں، ان میں سے 6 تمغے تمل ناڈو کے نوجوان کھلاڑیوں نے جیتے ہیں۔ یہ ٹیم کے بہترین گراں قدر تعاون میں شامل ہے۔ تمل ناڈو لافانی ہے اور تمل ثقافت عالمی حیثیت رکھتی ہے۔ چنئی کینڈا تک، مدورئی سے ملیشیا تک، نمکّل سے نیویارک تک، سالیم سے جنوبی افریقہ تک، پونگل اور پوتھانڈو کے تہوار زبردست جوش وخروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ فرانس میں کانس میں ایک فلم فیسٹول ہو رہا ہے۔ وہاں، تمل ناڈو کی عظیم سرزمین کے سپوٹ، تھیروایل مورگن روایتی تمل لباس میں ریڈ کارپیٹ پر چلے، اس کے سبب دنیا بھر کے تمل لوگوں کو بہت فخر ہوا۔ دوستو، ہم یہاں تمل ناڈو کے ترقیاتی سفر میں ایک اور شاندار بات کا جشن منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ 31 ہزار کروڑ روپے مالیت کے پروجیکٹ کا یا تو افتتاح ہوا ہے یا ان کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ ہم نے ابھی ان پروجیکٹوں کی تفصیلات دیکھی ہیں لیکن میں چند نکات ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں۔ سڑکوں کی تعمیر پر توجہ بالکل واضح ہے۔ ہم ایسا اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ یہ براہ راست اقتصادی خوشحالی سے وابستہ ہے۔ بینگلورو- چنئی ایکسپریس وے ترقی کے دو کلیدی مراکز کو آپس میں جوڑے گا۔ چنئی بندرگاہ کو مدورا وویل سے جوڑنے والی چار لین کی زمین سے اپر بنائی گئی ایلیویٹڈ سڑک، چنئی بندرگاہ کو زیادہ مفید بنائے گی اور اس کی بدولت شہر کے ٹریفک میں بھی کمی آئے گی۔ نیرالورو سے دھرماپوری سیکشن تک کی توسیع اور مینسوروتی سے چدمبرم سیکشن تک توسیع کئے جانے سے عام لوگوں کو بہت فائدے ہوں گے۔ مجھے خاص طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ پانچ ریلوے اسٹیشنوں کی تزئین نو کی گئی ہے۔ یہ جدید کاری، تزئین نو اور تعمیر و ترقی مستقبل کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کی جارہی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ مقامی فن اور ثقافت کے ساتھ ضم ہو جائے گی۔ مدورئی سے تھینی کے درمیان گیج میں تبدیلی سے میری کسان بہنوں اور بھائیوں کو مدد ملے گی اور انہیں زیادہ منڈیوں تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ میں ان سب کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں، جنہیں پی ایم آواس یوجنا کے تحت تاریخی چنئی لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر مکانات ملیں گے۔ یہ پروجیکٹ ہمارے لئے بہت اطمینان بخش رہا ہے۔ ہم نے کفائتی ، پا��یدار اور ماحولیات کے لئے ساز گار مکانات کی تعمیر میں بہترین طور طریقے اختیار کرنے کی غرض سے ایک عالمی چیلنج کا آغاز کیا تھا اور ریکارڈ مدت میں پہلا لائٹ ہاؤس پروجیکٹ مکمل کرلیا گیا اور مجھے خوشی ہے کہ یہ چنئی میں ہوا ہے۔ تھروولور سے بینگلورو اور اینّور سے چنگل پٹّو تک قدرتی گیس پائپ لائن کا افتتاح کئے جانے کے ساتھ ہی، تمل ناڈو، آندھراپردیش اور کرناٹک کے لوگوں کو آسانی سے ایل این جی دستیاب ہو جائے گی۔ ملک کی اقتصادی نمو کو فروغ دینے اور چنئی بندرگاہ کو اقتصادی ترقی کا ایک مرکز بنانے کے ویژن کے ساتھ، آج چنئی میں ملٹی موڈل لاجسٹک پارک کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ہماری حکومت ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اسی طرح کے ملٹی موڈل لاجسٹک پارک تعمیر کرنے کے تئیں عہد بند ہے۔ ان ملٹی موڈل لاجسٹک پارکوں کی بدولت ہمارے ملک کے محصول سے متعلق ایکو نظام میں ایک بنیادی تبدیلی آئے گی اور اس کی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ مختلف شعبوں پر محیط ان میں سے ہر پروجیکٹ کی بدولت روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے اور آتم نر بھر سے متعلق ہمارا عزم پورا ہوگا۔ دوستو، مجھے پورا یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ آپ کے بچوں کا، آپ کے مقابلے زیادہ بہتر معیار زندگی ہو۔ آپ میں سے ہر ایک، اپنے بچوں کے ایک شاندار مستقبل کا خواہش مند ہے اوراس کے لئے سب سے زیادہ لازمی شرطوں میں اعلیٰ معیار کا بنیادی ڈھانچہ شامل ہے۔ تاریخ سے ہم نے سیکھا ہے کہ جن ملکوں نے اپنے بنیادی ڈھانچہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، انہوں نے سب سے تیزی سے ترقی پزیر ملک سے ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کیا ہے۔ حکومت ہند نے اعلیٰ معیار کے اور پائیدار بنیاد ڈھانچہ کی تعمیر پر پوری طرح توجہ مرکوز کی تھی ۔ جب میں بنیادی ڈھانچہ کے بارے میں بات کرتا ہوں، تو میں سماجی اور مادّی دونوں طرح کے بنیادی ڈھانچہ کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ سماجی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے سے ہمارا مقصد ہے، غریب کلیان کی حصولیابی۔ سماجی بنیادی ڈھانچے پر ہمارے توجہ مرکوز کرنے سے‘ سروجن ہتائے، سروجن سکھائے’ کے اصول کے تئیں ہمارے عزم کا عندیہ ملتا ہے۔ ہماری حکومت، کلیدی اسکیموں کا پوری طرح احاطہ کرنا چاہتی ہے۔ کوئی بھی شعبہ لیجئے – بیت الخلاء ، مکانات، مالیاتی شمولیت – ہم ان سب کا پوری طرح احاطہ کرنے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ہم ہر گھر تک پائپ کے ذریعہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی خاطر کام کر رہے ہیں۔ ‘نل سے جل’۔ جب ہم ایسا کریں گے تو کسی کو بھی علیحدہ رکھنے اور کسی بھی قسم کی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ اور مادّی بنیادی ڈھانچہ پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہی، ملک کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اس سے نوجوانوں کی خواہشات اور امنگوں کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور نوجوان انہیں دولت اور اقدار پیدا کرنے میں استعمال کریں گے۔ دوستو، ہماری حکومت نے اس سے بھی زیادہ پیش رفت کی ہے، جسے روایتی طور پر بنیادی ڈھانچہ کہا جاتا ہے۔ ابھی کچھ سال پہلے تک، بنیادی ڈھانچہ کا مطلب تھا، سڑکیں، بجلی اور پانی۔ آج ہم بھارت کی گیس پائپ لائن نیٹ ورک کی توسیع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ آئی- ویز پر کام ہو رہا ہے اور ہر گاؤں تک تیز رفتار انٹرنیٹ پہنچانا ہمارا ویژن ہے۔ آپ ذرا اس زبردست تبدیلی کے امکانات کا تصور کریں۔ کچھ مہینے قبل ہم نے پی ایم گتی شکتی پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ اس پروگرام کی بدولت سبھی متعلقہ فریقوں، شراکت داروں اور وزارتوں کو یکجا کیا جائے گا تاکہ آنے والے برسوں میں بھارت میں اعلیٰ معیار کا بنیادی ڈھانچہ قائم کیا جاسکے۔ لال قلعہ سے میں نے نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن کا ذکر کیا تھا۔ یہ پروجیکٹ 100 لاکھ کروڑ روپے مالیت سے زیادہ کا پروجیکٹ ہے اور اس ویژن کو حقیقت کی شکل دینے کی غرض سے کام جاری ہے۔ اس سال کے بجٹ کے دوران، 7.5 لاکھ کروڑ روپے ، بڑے اخراجات کے لئے مختص کئے گئے تھے جو کہ ایک تاریخی اضافہ ہے۔ بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کے دوران ، ہم اس بات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ یہ سب پروجیکٹ وقت پر اور شفاف انداز میں مکمل کئے جائیں۔ دوستو، حکومت ہند، تمل زبان اور ثقافت کو مزید معقول بنانے کے تئیں پوری طرح عہد بند ہے۔ اس سال جنوری میں کلاسیکل تمل کے سینٹرل انسٹی ٹیوٹ کے نئے کیمپس کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس نئے کیمپس کی تعمیر کے لئے پورا فنڈ حکومت نے فراہم کیا تھا۔ اس نئے کیمپس میں ایک لائبریری، ایک ای- لائبریری، سیمینار ہال اور ملٹی میڈیا ہال تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں تمل مطالعہ کے بارے میں ایک ‘‘سبرامنیا بھارتی چیئر’’ کے قیام کے بارے میں حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے، چونکہ بنارس ہندو یونیورسٹی، میرے ہی حلقے میں واقع ہے، اس لئے مجھے اس بات کی خاص طور پر بہت خوشی ہوئی۔ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت بھارت کی زبانوں کے فروغ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے، مقامی زبانوں میں ہی تکنیکی اور میڈیکل کورسز کی تعلیم دی جارہی ہے اور تمل ناڈو کے نوجوانوں کو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ دوستو، سری لنکا اس وقت ایک مشکل دور سے گز رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو وہاں رونما ہونےو الے حالات وواقعات پر تشویش ہورہی ہوگی۔ ایک گہرے دوست اور پڑوسی ہونے کے ناطے، بھارت، سری لنکا کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس میں مالی امداد، ایندھن، خوراک، غذائی اشیاء، دواؤں اور دیگر لازمی اشیاء کے لئے معاونت بھی شامل ہیں۔ بہت سی بھارتی تنظیموں اور افراد نے سری لنکا کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے راحتی امداد بھیجی ہے۔ ان میں شمال اور مشرقی سری لنکا کی تمل برا دری کے افراد بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت نے ہر بین الاقوامی فورم پر سری لنکا کو اقتصادی امداد دینے کی بھی بات کی ہے۔ بھارت سری لنکا کے عوام کے ساتھ مسلسل کھڑا رہے گا اور سری لنکا میں جمہوریت، استحکام اور اقتصادی بحالی کے لئے تعاون کرتا رہے گا۔ دوستو، میں چند سال پہلے جافنا کے اپنے دورے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں جافنا کا دورہ کرنے والا بھات کا پہلا وزیراعظم تھا۔ حکومت ہند، سری لنکا میں تمل عوام کی مدد کی غرض سے بہت سے پروجیکٹوں پر کام کر رہی ہے۔ ان پروجیکٹوں کے تحت حفظان صحت، ٹرانسپورٹ، مکانات کی تعمیر اور ثقافت وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دوستو، یہ وقت ہے کہ جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منارہے ہیں۔ 75 سال قبل ہم نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے مجاہدین آزادی نے ہمارے ملک کے لئے کئی خواب دیکھے تھے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان خوابوں کو پورا کریں اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہم ایسا ضرور کریں گے۔ ہم سب مل کر، ہم بھارت کو زیادہ مضبوط اور زیادہ خوشحال بنائیں گے۔ ایک مرتبہ پھر، شروع کئے جاچکے ترقیاتی کاموں کے لئے مبارک باد۔ وَ نکّم! شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح-ع م- ق ر),চেন্নাইত উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠা���ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B4-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80/,وزیراعظم جناب نریند رمودی نے گجرات کے شہر گاندھی نگر کے مہا تما مندر میں عالمی آیوش سرمایہ کاری اور اختراعی سربراہ کانفرنس کا آج افتتاح کیا۔ اس موقع پر ماریشش کے وزیراعظم جناب پروند کمار جگن ناتھ اور عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس گیبریسز موجود تھے۔ اس کے علاوہ مرکزی وزراء ڈاکٹر منسکھ مانڈویا، جناب سربا نند سونووال، جناب منجا پاڑا مہندر بھائی اور گجرات کے وزیراعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل بھی اس موقع پر موجود تھے۔ تین روزہ اس سربراہ کانفرنس میں 5 مکمل اجلاس ، 8 گول میز کانفرنس، 6 ورکشاپ اور دو سمپوزیم شامل ہوں گے، جس میں تقریبا 90 سرکردہ مقررین اور 100 نمائش کار شامل ہوں گے۔ یہ سربراہ کانفرنس سرمایہ کاری کے امکانات کو وا کرے گی اور اختراع ، تحقیق و ترقی، اسٹارٹ حیاتیاتی نظام، اور تندرستی کی صنعت کو فروغ دے گی۔ یہ صنعت کے قائدین، تعلیمی ماہرین اور اسکالروں کو یکجا کرنے میں مدد دے گی اور مستقبل اشتراک کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی۔ ڈاکٹر ٹیڈروس گیبریسز نے ریاست میں اور مہا تما گاندھی کے ملک میں اپنی موجودگی پر اظہار مسرت کیا، جسے وہ دنیا کا فخر قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘وسودیو کٹم بکم’ کی ہندوستان کی منطق، کل جام نگر میں روایتی ادویہ کے لئے ڈبلیو ایچ او عالمی مرکز(جی سی ٹی ایم) کے آغاز کا اصل منبع ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کاقیام تاریخی ہے اور یہ صورت حال تبدیل کرنے والا ثابت ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مرکز ثبوت، اعداد وشمار اور پائیداری نیز روایتی ادویہ کو اختیار کرنے کے ایجنڈے کو آگے لے جانے کے لئے اختراع کے انجن کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ ڈی جی نے صحت عامہ میں ایک طرح کی قوت کو تیز کرنے کے لئے وزیراعظم اور ہندوستانی حکومت کی ستائش کی۔ انہوں نے ہندوستانی اسپتالوں میں اعداد وشمار اور مربوط معلوماتی شراکتی نظام کے استعمال کی تعریف کی۔ انہوں نے روایتی ادویہ میں تحقیق کے لئے اعداد وشمار کے جمع کرنے کے جذبے کو پرورش دینے کے لئے آیوش کی وزارت کو سراہا۔ آیوش مصنوعات میں بڑھتے ہوئے عالمی مطالبے اور سرمایہ کاری کو اجاگر کرتے ہوئے ڈی جی نے کہا کہ تمام دنیا ہندوستان آرہی ہے اور ہندوستان پوری دنیا میں جا رہا ہے۔ انہو ں نے عام طور پر صحت کے شعبے میں اختراعی حیاتیاتی نظام میں اور خاص طور پر روایتی ادویہ کے شعبے میں طویل مدتی سرمایہ کاری پر زور دیا۔ اختراع کاروں، صنعت اور حکومت کے ذریعہ روایتی ادویہ کی تیاری اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار اور مساوی طریقے سے نیز ان کمیونیٹوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے ،جو ان روایات کو فروغ دیتے ہیں، سے اس وقت فائدہ ہونا چاہئے جب ان ادویہ کو مارکیٹ میں لایا جائے نیز جس میں دانشورانہ املاک کے نتائج کی شراکت بھی ہونی چاہئے۔ ڈی جی نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام کیا۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈی جی نے وزیراعظم مودی سے کہ ‘‘اس اہم پہل کی چمپئننگ کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ نہ صرف مرکز بلکہ آپ چمپئننگ روایتی ادویہ کے استعمال میں نمایاں تبدیلی لائے گی’’۔ انہوں نے ماریشش کے وزیراعظم جناب پروند کمار جگن ناتھ کی روایتی ادویہ کے تئیں ان کے عزم کے لئے ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈبلیو ایچ او کے ،آزادی کا امرت مہو تسو کے 75 ویں سال میں داخل ہونے کا دل خوش کن موقع بھی ہے۔ جناب پروند کمار جگن ناتھ نے روایتی ادویہ کے شعبے میں ہندوستان اور گجرات کی حصہ رسدی کے لئے ستائش کی۔ انہوں نے اپنے ملک میں صحت کے شعبے میں ہندوستان کی معاونت کو بھی اجاگر کیا۔ ہندوستان کے ساتھ عام مصالحت کو واضح کرتے ہوئے ماریشش کے وزیراعظم نے اپنے ملک میں آریووید کو دی جانے والی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ماریشش میں ایک آریوویدک اسپتال قائم کیا گیا ہے، نیز انہوں نے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران روایتی ادویہ کے عطیہ فراہم کرنے کے لئے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا۔ جناب پرویند کمار جگن ناتھ نے کہا کہ ‘‘یہ یکجہتی کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک ہے جس کے لئے ہم ہندوستانی حکومت کے اور خاص طور پر وزیراعظم جناب نریند رمودی کے شکر گزار ر ہے ہیں’’۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عالمی آیوش سرمایہ کاری اور اختراعی سربراہ کانفرنس کا خیال ان کے ذہن میں وبا کے دور میں اس وقت آ یا جب آیوش نے عوام کی قوت مدافعت کو بہتر بنانے کے لئے مستحکم معاونت فراہم کی اور آیوش کی مصنوعات میں دلچسپی اور ان کے مطالبے میں اضافہ ہوا۔ وبا سے نمٹنے میں ہندوستانی کاوشوں کی یا د دہانی کراتے ہوئے وزیراعظم نے جدید فارما کمپنیوں اور ویکسین تیار کرنے والوں کے ذریعہ کئے گئے وعدے کو اس صورت میں پورا کرنے کو اجاگر کیا، اگر انہیں درست وقت پر سرمایہ کاری حاصل ہوجاتی ہے۔ انہوں نے پوچھا ‘‘کس نے اس بات کا تصور کیا ہوگا کہ ہم کورونا کی ویکسین اتنی جلدی تیار کرلیں گے’’۔ آیوش شعبے کے ذریعہ کی گئی کاوشوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہمارے سامنے آیوش ادویہ، سپلیمنٹ اور کاسمیٹکس کی پیداوار میں غیر متوقع پیش رفت سامنے آئی ہے۔ 2014 میں جب آیوش کا شعبہ تین بلین ڈالر سے بھی کم کا تھا ، آج اس کی مالیت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 18 بلین امریکی ڈالر سے ہو گئی’’۔ انہوں نے کہا کہ آیوش کی وزارت نے روایتی ادویہ کے شعبے میں اسٹارٹ اپ کلچر کی حوصلہ افزائی کے لئے بہت سے اہم اقدامات کئے ہیں۔ جناب مودی نے بتایا کہ کچھ دنوں بعد ہی آریوویدیا کے کُل ہند ادارے کے ذریعہ تیار کردہ ایک انکیو بیشن مرکز کا افتتاح کیا گیا تھا۔ رواں دور کا تذکرہ کرتے ہوئے جو یونیکورنس کا دور ہے، وزیراعظم نے بتایا کہ سال 2022 میں ہی ہندوستان کے 14 اسٹارٹ اپس یونیکورن کلب میں شامل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ‘‘مجھے یقین ہے کہ ہمارے آیوش اسٹارٹ اپس سے بہت جلد ہی یونیکورنس ابھریں گے۔’’ کسانوں کی آمدنی اور ذریعہ معاش میں اضافے کے اچھے ذرائع ہونے کے ناطے ادویاتی پیڑ پودوں کی پیدا وار اور اس میں روز گار وضع کرنے کے امکانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم ادویاتی پیڑ پودوں کی پیداوار میں ملوث کسانوں کے لئے مارکیٹ کے ساتھ آسانی سے کنکٹ کرنے کی سہولت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے حکومت، آیوش ای- مارکیٹ پلیس کی جدید کاری اور توسیع پر بھی کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا ہر بل پیڑ پودے ایک خزانہ ہے اور در اصل ایک طرح سے یہ ہمارا ‘‘سبز سونا’’ ہے۔ وزیراعظم نے آیوش مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دینے کی غرض سے گزشتہ سالوں میں کی گئی غیرمعمولی کوششوں کا ذکرکیا۔ دوسرےملکوں کے ساتھ آیوش دواؤں کے باہمی اعتراف پرزوردیا گیاہے ۔ اس مقصد کے لئے ، گزشتہ چند سالوں میں مختلف ملکوں کے ساتھ 50سے زیادہ مفاہمت ناموں پردستخط کئے گئے ہیں ۔ انھوں نے کہا :‘‘ آیوش کے ہمارے ماہرین ، بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈ س کے اشتراک کے ساتھ 150معیارات وضع کررہے ہیں اس کی بدولت 150سے زیادہ ملکوں میں آیوش کی برآمدات کے لئے ایک بہت بڑی منڈی کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ جناب مودی نے اس بات سے بھی مطلع کیاکہ ایف ایس ایس اے آئی نے گزشتہ ہفتے اپنے ضابطوں میں ‘آیوش آہار’ نامی ایک نئے زمرے کا اعلان کیاہے ۔اس سے ہربل معاون تغذیہ بخش غذائیں تیارکرنے والوں کو کافی حدتک سہولت ہوگی ۔ اسی طرح بھارت ایک خصوصی آیوش علامتی نشان بنانے جارہاہے ۔ اس علامتی نشان کا اطلاق بھارت میں تیارکی گئی آیوش کی اعلیٰ ترین معیار کی مصنوعات پرہوگا۔ یہ آیوش علامتی نشان جدید ترین ٹکنالوجی کے ضابطوں سے لیس ہوگا ۔ وزیراعظم نے کہا، ‘‘ یہ علامتی نشان دنیا بھرکے لوگوں کو آیوش مصنوعات کے معیار کا بھروسہ دلائے گا۔ ’’ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ‘‘ حکومت آیوش پارکوں کا ایک نیٹ ورک تیارکرے گی ، تاکہ پورے ملک میں آیوش مصنوعات کے فروغ ، تحقیق اورمینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کی جاسکے ۔ یہ آیوش پارک ، بھارت میں آیوش مینوفیکچرنگ کو ایک نئی سمت عطاکریں گے ۔’’ روایتی طریقہ علاج کے مضمرات کا ذکرجاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کیرالہ میں سیاحت میں ہورہے اضافے میں روایتی طریقہ علاج کے کردار کو اجاگرکیا۔ انھوں نے کہا:‘ یہ امکان بھارت کے کونے کونے میں موجود ہے ’’ ۔‘ ہیل ان انڈیا ’’اس دہائی کا ایک بڑا برانڈ بن سکتاہے ۔’’ اورآیوروید ، یونانی ، سدھا وغیرہ پرمبنی تندرستی کے مراکز بہت مقبول ہوسکتے ہیں ۔’’ انھیں مزید فروغ دینے کی غرض سے ، حکومت ان غیرملکی باشندوں کے لئے مزید پہل قدمیاں کررہی ہے ، جو آیوش تھیراپی سے فیض یاب ہونے کے لئے بھارت آنے کے خواہش مند ہیں ۔ وزیراعظم نے اعلان کیا :‘‘ بہت جلد ، بھارت ویزے سے متعلق ایک خصوصی زمر ہ متعارف کرانے جارہاہے ۔ اس کی بدولت آیوش تھیراپی کے لئے بھارت کا سفرکرنے والے افراد کو سہولت ہوگی ۔’’ وزیراعظم نے کینیا کے سابق وزیراعظم رائیلا اوڈنگا کی بیٹی روزمیری اوڈنگا کی آیوروید کی کامیاب داستان کا ذکرکیا۔ جن کی بینائی آیوش کے علاج کے بعد واپس آگئی ہے ۔ روزمیری سامعین میں موجودتھیں اوروزیراعظم نے جب ان کا تعارف کرایا تو حاضرین نے تالیوں کی گونج میں ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم نے مزید کہاکہ اکیسویں صدی کا بھارت ، دنیا کو اپنے تجربات اوراپنے علم ومعلومات سے باخرکرکے آگے بڑھنا چاہتاہے ۔ انھوں نے کہ ہماری وراثت ، تمام بنی نوع انسان کےلئے ایک ورثہ کی طرح ہے ۔ وزیراعظم نے زوردے کر کہاکہ آیوروید کی خوشحالی کی خاص وجوہا ت میں سے ایک وجہ اس کا کھلے ذریعہ کا موڈل ہے اور اس کا اطلاعاتی ٹکنالوجی آئی ٹی شعبے میں کھلے ذریعہ کی تحریک سے موازنہ کرتے ہوئے ، وزیراعظم نے اس بات پرزوردیاکہ آیوروید کی روایت ، معلومات اورعلم کے تبادلے کے ساتھ مستحکم سے مستحکم ترہوئی ہے ۔ انھوں نے اپنے بزرگوں سے تحریک حاصل کرتے ہوئے کھلے ذریعہ کے اسی جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پرزوردیا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ 25سال کا امرت کال ، روایتی طری��ہ علاج کا سنہری دور ثابت ہوگا۔ وزیراعظم نے ایک بہت ذاتی اوردلچسپ ذکرپراپنے خطاب کا اختتام کیا ۔ بھارت کے لئے ڈاکٹرٹیڈروس غیبریسس کی محبت ، اپنے بھارتی اساتذہ کے لئے ان کے احترام اور گجرات کے لئے ، ان کی اپنائیت کا ذکرکرتے ہوئے جناب مودی نے ان کا ایک گجراتی نام ‘تلسی بھائی ’ رکھا۔ انھوں نے سامعین اور ڈبلیو ایچ او کے مسکراتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل کے سامنے بھارت کی روایت میں تلسی کے مبارک اور اعلیٰ مقام کی وضاحت کی اور اس موقع پر موجود رہنے کے لئے ان کا اورماریشس کے وزیراعظم جناب پروند کمار جگناتھ کا شکریہ اداکیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح-ا ع، ع م – ق ر، ع ا),প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গান্ধীনগৰত বিশ্বব্যাপী আয়ুষ বিনিয়োগ আৰু উদ্ভাৱন সন্মিলন উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%81%D8%B1%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%A3%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE/,نئی دہلی ،22فروری : وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے جمہوریہ کوریا کے سرکاری سفرکے دوران درج ذیل اخباری بیان جاری کیا۔ ‘‘ عزت مآب صدرمحترم جناب مونج ان ، مخصوص مندوبین ، اوردوستو، نمسکار! کوریاآنے کی دعوت اوریہاں میرے انتہائی گرم جوش خیرمقد م کے لئے میں صدرمحترم ،جناب مون کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں ۔ میں نے پہلے بھی کئی بارکہاہے اورجب میں وزیراعظم نہیں تھا اس وقت بھی میں مانتارہاہوں کہ ہندوستان کی ترقی کے لئے کوریاکاماڈل شاید سب سے زیادہ قابل تقلید ہے ۔ کوریاکی ترقی ہندوستان کے لئے سرچشمۂ حوصلہ افزائی ہے اسی لئے کوریاسفرہمیشہ میرے لئے باعث مسرت رہاہے ۔ دوستو، پچھلے سال جولائی میں ہمیں ہندوستان میں صدرمحترم جناب مون کے خیرمقدم کا موقع حاصل ہواتھا۔ جنوبی ایشیا سربراہ اجلاس اور جی ۔20سربراہ اجلاس کے موقع پربھی ہماری ملاقاتیں رہی ہیں ۔ میں نے محسوس کیاہے کہ ہندوستان کی مشرق رخ پالیسی اور کوریاکی نئی جنوب رخ پالیسی کاتال میل ہماری خصوصی حکمت شراکت داری میں مزید گہرائی اورمضبوطی پیداکرنے کا ٹھوس پلیٹ فارم رہاہے ۔ انڈوپیس فک کے حوالے سے بھارت کا ویژن اجتماعیت ، ا ٓسیان کی مرکزیت اور مشترکہ خوشحالی پر خاص زوردیتاہے ۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں ہندوستان اور کوریامشترکہ قدروں اور مفادات کی بنیاد پرپورے خطے اوردنیاکے فائدے کے لئے مل کرکام کرسکتے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے برس صدرمحترم کے دورہ ہندکے بعد بہت ہی کم وقت میں ہم نے اپنے باہمی مراسم میں انتہائی اہم ترقی ہے ۔یہ ترقی اورمسقتبل میں ہمارے تعلقات کا روڈ میپ عوام امن اورخوشحالی کے ہمارے مشترکہ ویژن پر مبنی ہے ۔ دوستو، پچھلے ہفتے ہندوستان کے پلوامہ میں ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد دصدرمحترم جناب مون کے درد مندی اورحمایت کے پیغام کے لئے ہم ان کے ازحد ممنون ہیں ۔ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی دوفریقی اوربین الاقوامی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لئے عہد بستہ ہیں ۔ آج ہندوستان کی وزارت خارجہ اورکوریاکی قومی پالیسی ایجنسی کے درمیان طے پانے والی مفاہمتی عرضداشت انسداد دہشت گردی کے لئے ہمارے تعاون کو اورآگے بڑھائیگا۔ اب وقت آگیاہے کہ جب عالمی برداری بھی باتوں اور لفاظی سے آگے بڑھ کر متحدہوکرکارروائی کرے ۔ دوستو�� ہم ہندوستان کی معاشی تبدیلیوں میں کوریاکو اپنابیش قیمت شراکت دارمانتے ہیں ۔ ہماری تجارت اورسرمایہ کاری کے تعلقات میں اضافہ ہورہاہے ۔ آج صدرمحترم جناب مون اورمیں نے ہند۔ کوریا باہمی تجارت کی مالیت بڑھا کر50بلین ڈالرتک لے جانے کے تئیں اپنی عہد بستگی کا اعادہ کیاہے ۔ انفراسٹرکچر ، پورٹ ڈیولپمنٹ میرین اور فوڈ پروسیسنگ اسٹارٹ اپس ، اور چھوٹے اوردرمیانہ درجے کے کاروبارجیسے شعبوں میں ہم اپنے باہمی تعاون میں اضافہ کرنے میں متفق ہیں ۔ ہماری بڑھتی حکمت شراکت داری میں دفاع کے شعبے کا اہم کرداررہاہے ۔ اس کی ایک مثال ہندوستان کی بری فوج میں ‘‘وجر’’ آرٹیلری گن کے شامل ہونے میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ دفاعی پیداوار میں اس قابل ذکرتعاون کو آگے بڑھانے کے لئے ہم نے ڈیفنس ٹکنالوجی اور کو۔پروڈکشن پرایک روڈ میپ بنانے کے لئے بھی اتفاق رائے کا اظہارکیاہے ۔ اس کے تحت ہم ہندوستان میں بنائے جانے والے ڈیفنس انڈسٹریل کوری ڈورمیں کوریائی کمپنیوں کی شراکت داری کا بھی خیرمقدم کریں گے ۔ دوستو، پچھلے سال نومبر کے مہینے میں ایودھیامیں اہتمام کئے جانے والے ‘دی پوتسو’ میں کوریاکی خاتون اول محترمہ کم کی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت ہمارے لئے انتہائی عزت افزائی کا باعث رہی ہے۔ ان کے اس سفرسے ہمارے ہزاروں برس قدیم ثقافتی مراسم پر ایک نئی روشنی پڑی ہے اورنئی نسل میں دلچسپی اور بیداری کی فضاتیارہوئی ہے ۔ہمارے تاریخی عوام سے عوام کے رابطے کے رشتے کو اورمضبوط بنانے کے لئے ہم نے ہندوستان میں کوریاکے شہریوں کے لئے پچھلے برس اکتوبرمیں ویزاآن ارائیول کی سہولت شروع کی ہے ۔ کوریاکی جانب سے ہندوستانی شہریوں کے لئے گروپ ویزا کو آسان بنانے کا میں خیرمقدم کرتاہوں ۔ اس سے ہماری دوفریقی سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا۔ میرا یہ سفرکوریا ایک ایسے برس میں ہواہے جب بابائے قوم آنجہانی مہاتماگاندھی کی 150ویں سالگرہ منائی جارہی ہے اور کوریامیں جمہوری تحریک کا صد سالہ تقریب منائی جارہی ہے ۔ ہمارے مہاتماگاندھی اسمرن اتسوسنگرہ کے لئے عزت مآب صدرمحترم جناب مون کے تحریرکردہ خراج عقیدت کے لئے میں ان کا انتہائی ممنون ہوں ۔ دوستو، آج کوریائی جزیرہ نمامیں جو امن اور استحکام نظرآتاہے اس کا سہرا صدرمحترم جناب مون کی انتھک کوششوں کے سرجاتاہے ۔ ان کے مضبوط اعتماد اورتحمل کے لئے میں ان کو مبارکباد دیتاہوں ۔ اورکوریائی جزیرہ نمامیں مستقل امن کے لئے ہندوستان کے مکمل تعاون کے وعدے کا اعادہ کرتاہوں۔ آج دوپہرپیس ایوارڈ حاصل کرنا میرے لئے انتہائی فخرواحترام کی بات ہے ۔ میں یہ اعزاز اپنی ذاتی کامیابیوں کے طورپر نہیں بلکہ ہندوستان کے عوام کے لئے کوریاکے عوام کے خیرسگالی اور محبت کی علامت کے طورپر قبول کروں گا ،مجھے اور میرے نمائندہ وفد کے محبت بھرے خیرمقدم اورمیزبانی کے لئے میں صدرمحترم جناب مون ، کوریاکی سرکاراور کوریاکی عوام کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکرتاہوں۔ شکریہ ۔,কোৰিয়া গণৰাজ্য ভ্ৰমণৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা সংবাদ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-17-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D8%B3%DB%92-%DA%A9%D9%85-%D8%B9%D9%85%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%A4-%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%AC%E0%A6%9B%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بھارت میں17 سال سے کم عمر کی خواتین کے فٹبال ورلڈ کپ ۔2022 کے تحت فیڈریشن انٹر نیشنیل ڈی فٹبال ایسو سی ایشن (ایف آئی ایف اے-فیفا) کے انعقاد کی غرض سے گارنٹیز پر دستخط کئے جانے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ فیفا انڈر۔17 خواتین کا ورلڈ کپ2022، 11؍ا کتوبر سے 30 ؍اکتوبر کے درمیان بھارت میں منعقد ہونا ہے۔ دوسال میں ایک مرتبہ منعقد ہونے والا یہ یوتھ ٹورنامنٹ ، بھارت کے ذریعہ منعقد کیا جانے والا ،فیفا خواتین کا اب تک اولین ٹورنامنٹ ہوگا۔ فیفا انڈر-17 مردوں کے ورلڈ کپ2017 کی مثبت میراث کی بدولت ، ملک ، خواتین کی فٹبال کے اس بنیادی لمحہ کے لئے تیار ہورہا ہے کہ جب دنیا بھر کی خاتون فٹبال کھلاڑی ، اس باوقار ٹرافی کو حاصل کرنے کی غرض سے اپنی مہارتوں کو بروئے کار لائیں گی۔ مالی اخراجات آل انڈیا فٹبال فیڈریشن (اے آئی ایف ایف) کو کھیل کے میدان کی دیکھ ریکھ ،اسٹیڈیم کی بجلی ، توانائی اور کیبل ، اسٹیڈیم اور تربیتی مقام کی برانڈنگ وغیرہ کے لئے دس کروڑ روپے کے مالی اخراجات کو ، کھیل کود سے متعلق قومی فیڈریشنوں (این ایس ایفز) کو اسکیم آف اسسٹینس کے لئے بجٹ میں مختص فنڈ سے پورا کیا جائے گا۔ اسکیم کے مقاصد 17 سال سے کم عمر کی خواتین کے فیفا ورلڈ کپ2022 میں ملک میں خواتین کی فٹبال کو مستحکم کرنے کی صلاحیت ہے۔ 17 سال سے کم عمر کے مردوں کے فیفا ورلڈ کپ 2019 سے حاصل مثبت میراث کی بدولت ملک، خواتین کی فٹبال کے اس بنیادی لمحہ کے لئے تیار ہورہا ہے کہ جب دنیا بھر کی خاتون فٹبال کھلاڑی ، اس باوقار ٹرافی کو حاصل کرنے کی غرض سے اپنی مہارتوں کو بروئے کار لائیں گی۔ ایک مثبت میراث قائم کرنے کی غرض سے درج ذیل مقاصد کی حصولیابی کا ارادہ کیا گیا ہے۔ فٹبال کی قیادت اور فیصلہ سازی کے اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ بھارت میں زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو فٹبال کھیلنے کی ترغیب دینا اور راغب کرنا کم عمر سے ہی مساوی اور ایک جیسے کھیل کے تصور کو عام کرکے ، صنف کی مبنی پر شمولیت شرکت کی حمایت بھارت میں خواتین کے لئے فٹبال کے معیارات کو بہتر بنانے کا موقع خواتین کے کھیل کی تجارتی لحاظ سے قدر میں بہتری دائرہ اختیار فیفا انڈر۔17 خواتین کا ورلڈ کپ ، ایک باوقار تقریب ہے اور یہ بھارت میں پہلی مرتبہ منعقد ہوگا۔ اس ورلڈ کپ کی بدولت زیادہ سے زیادہ نوجوان کھلاڑیوں کی اس بات کے لئے حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ کھیل کو د میں حصہ لیں اور بھارت میں فٹبال کے کھیل کو فروغ دینے میں مدد کریں۔اس تقریب کی بدولت ، بھارتی لڑکیوں میں کھیلوں کی پسند کے طور پر نہ صرف فٹبال کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ اس سے ایک دیر پا وراثت بھی قائم ہونے کی امید ہے جس سے ملک کی لڑکیوں اور خواتین میں کھیل کود اور خاص طور پر فٹبال کو بطور کھیل اختیار کرنے میں سہولت فراہم ہوگی۔ پس منظر فیفا انڈر۔17 خواتین کا ورلڈ کپ ، 17 سال تک کی عمر کی خاتون کھلاڑیوں کی ایک عالمی چیمپئن شپ ہے۔ جس کا انعقاد فیفا کرتی ہے۔ اس ٹورنامنٹ کا2008 میں آغاز ہوا تھا اور یہ روائتی طور پر جفت عدد والے سالوں میں منعقد کیا جاتا ہے خواتین کا چھٹا ورلڈ کپ ، 2018 میں 13 نومبر سے یکم دسمبر تک اورو گوئے میں منعقد ہوا تھا ۔اسپین ، فیفا انڈر۔17 خواتین کے ورلڈ کپ کا موجودہ چیمپئن ہے۔ فیفا انڈر۔17 خواتین ورلڈ کپ انڈیا۔2022 ،اس ٹورنامنٹ کا ساتواں ایڈیشن ہوگا۔ جس میں بھارت سمیت 16 ملکوں کی ٹیمیں حصہ لیں گی۔ اے آئی ایف ایف نے اس ٹورنامنٹ کے میچ تین مقامات پر کرانے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ مقامات ہیں ( 1 )بھوبنیشور( 2)نوی ممبئی اور(3 )گوا۔ بھارت نے ملک میں فیفا انڈر ۔17 مردوں کا ورلڈ کپ انڈیا۔2017 کا 6 اکتوبر سے 28 اکتوبر کے درمیان چھ مقامات پر کامیاب انعقاد کیا تھا۔ یہ مقامات تھے نئی دہلی، گوہاٹی ، ممبئی، گوا،کوچی، اور کولکاتہ۔,কেবিনেটে ভাৰতত ১৭ বছৰৰ অনুৰ্ধৰ মহিলা বিশ্বকাপ ২০২২ আয়োজনৰ বাবে গেৰাণ্টি স্বাক্ষৰ কৰিবলৈ অনুমোদন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%D9%BE%DA%BE%D9%88%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%AB%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B6%D9%88%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B1%DA%A9%D9%86-%D9%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%97%E0%A6%B2%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے لوک سبھا کی رکن پارلیمنٹ محترمہ سنیتا دگل کے ذریعہ تحریر کردہ ایک مضمون کو شیئر کیا ہے۔یہ آرٹیکل‘ مہاتما پھولے کی وراثت، محروم خواتین کو تفویض اختیارات کا حقیقی وراثت دار’ کے موضوع پر ہے۔ وزیراعظم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا: ‘‘مہاتما پھولے کی وراثت ، محروم خواتین کو تفویض اختیارات کا حقیقی وراثت دار’’ لوک سبھا رکن پارلیمنٹ کے ذریعہ تحریر کردہ یہ آرٹیکل ضرور پڑھیں۔ @S,সাংসদ সুনীতা ডুগ্গলে মহাত্মা ফুলেৰ জীৱনবৃত্তৰ আধাৰত লিখি উলিওৱা প্ৰবন্ধ উন্মোচন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%85%D9%88%DA%BA-%D9%88-%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B2%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%84%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%81-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,"آج کا دن جموں و کشمیر کے ہونہار نوجوانوں کے لیے، ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے بہت اہم ہے۔ آج جموں و کشمیر میں 20 مختلف مقامات پر حکومت میں کام کرنے کے لیے 3,000 نوجوانوں کو تقرری نامے سونپے جا رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کو پی ڈبلیو ڈی، محکمہ صحت، محکمہ خوراک اور شہری سپلائی، مویشی پروری، جل شکتی، تعلیم-ثقافت جیسے مختلف محکموں میں خدمات انجام دینے کے مواقع ملنے جا رہے ہیں۔ میں ان تمام نوجوانوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں آج تقرری نامے ملے ہیں۔ اور میں جناب منوج سنہا جی اور ان کی پوری ٹیم کو اس روزگار میلے کے انعقاد کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں دیگر محکموں میں بھی 700 سے زائد تقرری نامے دینے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ میں ان لوگوں کے تئیں پیشگی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں جو اس سے چند ہی دنوں میں فائدہ اٹھانے والے ہیں ۔ ساتھیوں، 21ویں صدی کی یہ دہائی جموں و کشمیر کی تاریخ کی سب سے اہم دہائی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پرانے چیلنجوں کو پیچھے چھوڑا جائے، اور نئے امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ جموں و کشمیر کے نوجوان اپنی ریاست کی ترقی کے لیے، جموں و کشمیر کے لوگوں کی ترقی کے لیے بڑی تعداد میں آگے آ رہے ہیں۔ یہ ہمارے نوجوان ہی ہیں جو جموں و کشمیر میں ترقی کی نئی داستان لکھیں گے۔ اس لیے آج اس ریاست میں روزگار میلے کا انعقاد بہت خاص ہو گیا ہے۔ ساتھیوں، ترقی کی تیز رفتاری کے لیے ہمیں نئی سوچ، نئے اپروچ کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ جموں و کشمیر اب نئے نظاموں، شفاف اور حساس نظاموں میں مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ 2019 سے اب تک ریاست میں تقریباً 30 ہزار سرکاری آسامیوں پر بھرتی کیے گئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 20 ہزار نوکریاں صرف پچھلے ڈیڑھ سال میں دی گئی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے، قابل تحسین ہے۔ میں ریاستی انتظامیہ کی پوری ٹیم خصوصاً جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر بھائی منوج سنہا جی اور ان کی پوری ٹیم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 'قابلیت کے ساتھ روزگار' کا منتر، جس پر انہوں نے عمل کیا ہے، ریاست کے نوجوانوں میں نیا اعتماد پیدا کر رہا ہے۔ ساتھیوں، گزشتہ 8 سالوں میں مرکزی حکومت نے روزگار اور خود روزگار کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ 22 اکتوبر سے ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والا 'روزگار میلہ' اسی کی ایک کڑی ہے۔ اس مہم کے تحت پہلے مرحلے میں اگلے چند مہینوں میں مرکزی حکومت کی طرف سے 10 لاکھ سے زیادہ تقرری نامے دیے جائیں گے۔ چونکہ جموں و کشمیر جیسی مختلف ریاستیں بھی اس مہم سے وابستہ ہیں، اس لیے یہ تعداد مزید بڑھنے والی ہے۔ جموں و کشمیر میں روزگار بڑھانے کے لیے ہم نے یہاں کاروباری ماحول کو بھی وسعت دی ہے۔ ہماری نئی صنعتی پالیسی اور کاروباری اصلاحات کے ایکشن پلان نے کاروبار کرنے میں آسانی کی راہ ہموار کی ہے۔ اس سے یہاں سرمایہ کاری کو زبردست حوصلہ ملا ہے۔ جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری میں اضافے سے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔یہاں ترقی سے متعلق منصوبوں پر جس رفتار سے کام ہو رہا ہے اس سے یہاں کی پوری معیشت بدل جائے گی۔جس طرح، ہم کشمیر سے ٹرین رابطے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ سری نگر سے شارجہ کے لیے بین الاقوامی پروازیں پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں۔ رات میں بھی جموں و کشمیر سے ہوائی جہازوں نے پرواز شروع کر دی ہے۔ رابطہ بڑھانے سے یہاں کے کسانوں کو بھی کافی فائدہ ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کے سیب کے کسانوں کے لیے اب اپنی پیداوار باہر بھیجنا آسان ہو گیا ہے۔ حکومت جس طرح ڈرون کے ذریعہ ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے پر کام کر رہی ہے، اس سے یہاں کےپھل پیدا کرنے والے کسانوں کو بھی خصوصی مدد ملنے والی ہے۔ ساتھیوں، جموں و کشمیر میں جس طرح بنیادی ڈھانچہ ترقی کر رہا ہے، رابطے بڑھ رہے ہیں، اس سے سیاحت کے شعبے کو بھی تقویت ملی ہے۔ ہم نے دیکھاہے کہ کس طرح اس بار جموں و کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ آج ریاست میں جس طرح روزگار اور خود روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، اس کا کچھ سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ہماری کوشش ہے کہ سرکاری اسکیموں کے فائدے بلا تفریق سماج کے ہر طبقے تک پہنچیں۔ ہم ترقی کے یکساں فوائد تمام طبقات، تمام لوگوں تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ مجموعی ترقی کے اس ماڈل کے ساتھ سرکاری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ روزگار کی دیگر گنجائشیں بھی پیدا کی جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں صحت اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ 2 نئے ایمس، 7 نئے میڈیکل کالج، 2 ریاستی کینسر انسٹی ٹیوٹ اور 15 نرسنگ کالج کھلنے سے یہاں ہنر مندوں کے لیے مزید نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ساتھیوں، جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ شفافیت پر زور دیا ہے، شفافیت کی ستائش کی ہے۔ آج جو بیٹے بیٹیاں اورہمارے نوجوانوں سرکاری ملازمتوں میں آرہے ہیں، انہیں شفافیت کو اپنی ترجیح دینی ہوگی ۔ میں پہلے جب بھی جموں و کشمیر کے لوگوں سے ملتا تھا، میں نے ان کا ایک درد ہمیشہ محسوس کرتا تھا۔ یہ درد تھا نظام میں بدعنو��نی کا ۔ جموں و کشمیر کے لوگ بد عنوانی سے نفرت کرتے ہیں۔ تنگ آچکے ہیں۔ میں منوج سنہا جی اور ان کی ٹیم کی اس بات کے لیے بھی ستائش کروں گا کہ وہ بدعنوانی کی بیماری کو ختم کرنے کے لیے بھی سخت محنت کر رہے ہیں۔ یہ ان نوجوانوں کی ذمہ داری ہے جو اب ریاستی حکومت کا حصہ بن رہے ہیں کہ وہ منوج سنہا جی کے سچے ساتھی بن کر شفافیت، ایماندار حکمرانی کی کوششوں کو نئی توانائی دیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج جن نوجوانوں کو تقرری نامہ مل رہا ہے وہ نئی ذمہ داری پوری لگن اور عہد بستگی سے نبھائیں گے۔ جموں و کشمیر ہر ہندوستانی کا فخر ہے۔ ہمیں مل کر جموں و کشمیر کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ ہمارے سامنے 2047 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا ایک بہت بڑا ہدف بھی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ہمیں مضبوط عزم کے ساتھ قوم کی تعمیر میں مصروف ہونا ہوگا۔ ایک بار پھر، میں جموں و کشمیر کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ان کی زندگی کی اس شروعات، ایک نئی شروعات اور ان کے روشن مستقبل کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 12003",জম্মু আৰু কাশ্মীৰ ৰোজগাৰ মেলাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভিডিঅ’ বাৰ্তাৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%88%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%BE%DA%BE%D9%88%D9%84%DB%92-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AB%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80/,نئی دہلی، 3 جنوری 2018، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ساوتری بائی پھولے کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں ساوتری بائی پھولے کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی غرباء اور محروم افراد کی بہتری کے لئے وقف کردی تھی۔ انہوں نے تعلیم اور سماجی اصلاح کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ان کے نظریات پر چلیں گے اور ان کے نظریات و خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لگاتار کام کریں گے۔,সাবিত্ৰীবাই ফুলেৰ জয়ন্তীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-82%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%BE%DB%8C-%D8%B3%D9%88%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AA-%E0%A7%A7%E0%A7%A6-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A7-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,"میرے پیارے ہم وطنو، آپ سبھی کو نمسکار۔ کوٹی کوٹی (لاکھوں، کروڑوں) نمسکار۔ اور میں ’کوٹی کوٹی نمسکار‘ اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ 100 کروڑ ویکسین ڈوز کے بعد آج ملک نئے جوش، نئی توانائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ویکسین پروگرام کی کامیابی، بھارت کی صلاحیت کو دکھاتی ہے، سب کی کوشش کے منتر کی طاقت کو دکھاتی ہے۔ ساتھیو، 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا ڈیٹا بہت بڑا ضرور ہے، لیکن اس سے لاکھوں چھوٹے چھوٹے حوصلہ افزااور فخر سے پُر کر دینے والے متعدد تجربات، متعدد مثالیں جڑی ہوئی ہیں۔ بہت سارے لوگ خط لکھ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ویکسین کی شروعات کے ساتھ ہی کیسے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس مہم کو اتنی بڑی کامیابی ملے گی۔ مجھے یہ پختہ یقین اس لیے تھا، کیوں کہ میں اپنے ملک، اپنے ملک کے لوگوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے ہیلتھ کیئر ورکرز ملک کے شہریوں کی ٹیکہ کاری میں کوئی کوتاہی نہی�� برتیں گے۔ ہمارے طبی ملازمین نے اپنی بے پناہ کوششوں اور عزم سے ایک نئی مثال پیش کی، انہوں نے انوویشن کے ساتھ اپنے پختہ عزم سے انسانیت کی خدمت کا ایک نیا پیمانہ قائم کیا۔ ان کے بارے میں بے شمار مثالیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے تمام چیلنجز کو پار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیکورٹی کور فراہم کیا۔ ہم نے کئی بار اخباروں میں پڑھا ہے، باہر بھی سنا ہے اس کام کو کرنے کے لیے ہمارے ان لوگوں نے کتنی محنت کی ہے، ایک سے بڑھ کر ایک متعدد حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں آج ’من کی بات‘ کے سامعین کو اتراکھنڈ کے باگیشور کی ایک ایسی ہی ہیلتھ ورکر پونم نوٹیال جی سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، یہ باگیشور اتراکھنڈ کی اُس سرزمین سے ہے جس اتراکھنڈ نے سو فیصد پہلا ڈوز لگانے کا کام پورا کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ سرکار بھی اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے، کیوں کہ بہت دور دراز کا علاقہ ہے، مشکل علاقہ ہے۔ ویسے ہی، ہماچل نے بھی ایسی مشکلات میں سو فیصد ڈوز کا کام کر لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پونم جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے دن رات محنت کی ہے۔ جناب وزیر اعظم:- پونم جی نمستے۔ پونم نوٹیال:- سر پرنام۔ جناب وزیراعظم:- پونم جی اپنے بارے میں بتائے ذرا ملک کے سامعین کو۔ پونم نوٹیال:- سر میں پونم نوٹیال ہوں۔ سر میں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں چانی کورالی سنٹر میں ملازم ہوں۔ میں ایک اے این ایم ہوں سر۔ جناب وزیر اعظم:- پونم جی میری خوش قسمتی ہے مجھے باگیشور آنے کا موقع ملا تھا وہ ایک طرح سے تیرتھ کا علاقہ رہا ہے وہاں قدیم مندر وغیرہ بھی ہیں، میں بہت متاثر ہوا تھا صدیوں پہلے کیسے لوگوں نے کام کیا ہوگا۔ پونم نوٹیال:- ہاں جی سر جناب وزیر اعظم:- پونم جی کیا آپ نے اپنے علاقے کے سبھی لوگوں کی ٹیکہ کاری کروالی ہے۔ پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، سبھی لوگوں کا ہو چکا ہے جناب وزیر اعظم:- آپ کو کسی قسم کی دقت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے کیا؟ پونم نوٹیال:- ہاں جی سر۔ سر ہم لوگ جیسے بارش ہوتی تھی وہاں پہ اور روڈ بلاک ہو جاتا تھا۔ سر، ندی پار کرکے گئے ہیں ہم لوگ نا! اور سر گھر گھر گئے ہیں، جیسے این ایچ سی وی سی کے تحت ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ جو لوگ سنٹر میں نہیں آ سکتے تھے، جیسے بزرگ لوگ اور معذور افراد، حاملہ عورتیں، دھاتری عورتیں – یہ لوگ سر۔ جناب وزیر اعظم:- لیکن، وہاں تو پہاڑوں پر گھر بھی بہت دور دور ہوتے ہیں۔ پونم نوٹیال:- جی جناب وزیر اعظم:- تو ایک دن میں کتنا کر پاتے تھے آپ! پونم نوٹیال:- سر کلومیٹر کا حساب – 10 کلومیٹر کبھی 8 کلومیٹر۔ جناب وزیر اعظم:- خیر، یہ تو ترائی میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو یہ سمجھ نہیں آئے گا 10-8 کلومیٹر کیا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ کے 10-8 کلومیٹر مطلب پورا دن چلا جاتا ہے۔ پونم نوٹیال:- ہاں جی جناب وزیر اعظم:- لیکن ایک دن میں کیوں کہ یہ بڑی محنت کا کام ہے اور ٹیکہ کاری کا سارا سامان اٹھا کر کے جانا۔ آپ کے ساتھ کوئی معاون رہتے تھے کہ نہیں؟ پونم نوٹیال:- ہاں جی، ٹیم ممبر، ہم پانچ لوگ رہتے تھے سر نا! جناب وزیر اعظم:- ہاں پونم نوٹیال:- تو اس میں ڈاکٹر ہو گئے، پھر اے این ایم ہو گئی، فارماسسٹ ہو گئے، آشا ہو گئی، اور ڈیٹا انٹری آپریٹر ہو گئے۔ جناب وزیر اعظم:- اچھا وہ ڈیٹا انٹری، وہاں کنیکٹویٹی مل جاتی تھی یا پھر باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے؟ پونم نوٹیال:- سر کہیں کہیں مل جاتی، کہیں کہیں باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے، ہم لوگ۔ جناب وزیر اعظم:- اچھا! مجھے بتایا گیا ہے پونم جی کہ آپ نے آؤٹ آف دی وے جاکر لوگوں کا ٹیکہ لگوایا۔ یہ کیا تصور آیا، آپ کے من میں خیال کیسے آیا اور کیسے کیا آپ نے؟ پونم نوٹیال:- ہم لوگوں نے، پوری ٹیم نے، عہد کیا تھا کہ ہم لوگوں سے ایک آدمی بھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ہمارے ملک سے کورونا بیماری دور بھاگنی چاہیے۔ میں نے اور آشا نے مل کر ہر ایک آدمی کی گاؤں وائز ڈیو لسٹ بنائی، پھر اس کے حساب سے جو لوگ سنٹر میں آئے ان کو سنٹر میں لگایا۔ پھر ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ سر، پھر اس کے بعد، چھوٹے ہوئے تھے، جو لوگ نہیں آ پاتے سنٹر میں، جناب وزیر اعظم:- اچھا، لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا؟ پونم نوٹیال:- ہاں جی، سمجھایا، ہاں جی! جناب وزیر اعظم:- لوگوں کا جوش ہے، ابھی بھی ویکسین لینے کا؟ پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، ہاں جی۔ اب تو لوگ سمجھ گئے ہیں۔ فرسٹ میں بہت دقت ہوئی ہم لوگوں کو۔ لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا، کہ یہ جو ویکسین ہے محفوظ ہے، اور اثر دار ہے، ہم لوگ بھی لگا چکے ہیں، تو ہم لوگ تو ٹھیک ہیں، آپ کے سامنے ہیں، اور ہمارے اسٹاف نے، سب نے، لگا لیا ہے، تو ہم لوگ ٹھیک ہیں۔ جناب وزیر اعظم:- کہیں پر ویکسین لگنے کے بعد کسی کی شکایت آئی۔ بعد میں پونم نوٹیال:- نہیں، نہیں سر۔ ایسا تو نہیں ہوا جناب وزیر اعظم:- کچھ نہیں ہوا پونم نوٹیال:- جی جناب وزیر اعظم:- سب کو اطمینان تھا پونم نوٹیال:- ہاں جی جناب وزیر اعظم:- کہ ٹھیک ہو گیا پونم نوٹیال:- ہاں جی جناب وزیراعظم:- چلئے، آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور میں جانتا ہوں، یہ پورا علاقہ کتنا مشکل ہے اور پیدل چلنا پہاڑوں پہ۔ ایک پہاڑ پہ جاؤ، پھر نیچے اترو، پھر دوسرے پہاڑ پہ جاؤ، گھر بھی دور دور اس کے باوجود بھی، آپ نے، اتنا بڑھیا کام کیا پونم نوٹیال:- شکریہ سر، میری خوش قسمتی آپ سے بات ہوئی میری۔ آپ جیسے لاکھوں ہیلتھ ورکرز نے ان کی محنت کی وجہ سے ہی بھارت سو کروڑ ویکسین ڈوز کا پڑاؤ پار کر سکا ہے۔ آج میں صرف آپ کا ہی شکریہ ادا نہیں کر رہا ہوں، بلکہ بھارت کے ہر اس شہری کا شکریہ ادا کر رہا ہوں، جس نے ’سب کو ویکسین –مفت ویکسین‘ مہم کو اتنی اونچائی دی، کامیابی دی۔ آپ کو، آپ کی فیملی کو میری طرف سے بہت ساری نیک خواہشات۔ میرے پیارے ہم وطنو، آپ جانتے ہیں کہ اگلے اتوار، 31 اکتوبر کو، سردار پٹیل جی کی جنم جینتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ہر سامعین کی طرف سے، اور میری طرف سے، میں آئرن مین کو نمن کرتا ہوں۔ ساتھیو، 31 اکتوبر کو ہم ’راشٹریہ ایکتا دیوس‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کا پیغام دینے والی کسی نہ کسی سرگرمی سے ضرور جڑیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، حال ہی میں گجرات پولیس نے کچھّ کے لکھپت قلعہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی نکالی ہے۔ تریپورہ پولیس کے جوان تو ایکتا دیوس منانے کے لیے تریپورہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی کرر ہے ہیں۔ یعنی، مشرق سے چل کر مغرب تک ملک کو جوڑ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے جواب بھی اُری سے پٹھان کوٹ تک ایسی ہی بائیک ریلی نکال کر ملک کے اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں۔ میں ان سبھی جوانوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ جموں و کشمیر کے ہی کپواڑہ ضلع کی کئی بہنوں کے بارے میں بھی مجھے پتہ چلا ہے۔ یہ بہنیں کشمیر میں فوج اور سرکاری دفتروں کے لیے ترنگا سلنے کا کام کر رہی ہیں۔ یہ کام حب الوطنی کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ میں ان بہنوں کے جذبے کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ کو بھی، بھارت کے اتحاد کے لیے، بھارت کی عظمت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔ دیکھئے گا، آپ کے من کو کتنا سکون ملتا ہے۔ ساتھیو، سردار صاحب کہتے تھے کہ – ’’ہم اپنے اتحاد سے ہی ملک کو نئی عظیم بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ہم میں اتحاد نہیں ہوا تو ہم خود کو نئی نئی مصیبتوں میں پھنسا دیں گے۔‘‘ یعنی قومی اتحاد ہے تو اونچائی ہے، ترقی ہے۔ ہم سردار پٹیل جی کی زندگی سے، ان کے خیالات سے، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی حال ہی میں سردار صاحب پر ایک پکٹوریل بائیوگرافی شائع کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے سبھی نوجوان ساتھی اسے ضرور پڑھیں۔ اس سے آپ کو دلچسپ انداز میں سردار صاحب کے بارےمیں جاننے کا موقع ملے گا۔ پیارے ہم وطنو، زندگی مسلسل پیش رفت چاہتی ہے، ترقی چاہتی ہے، اونچائیوں کو پار کرنا چاہتی ہے۔ سائنس بھلے ہی آگے بڑھ جائے، ترقی کی رفتار کتنی ہی تیز ہو جائے، عمارت کتنی ہی عالیشان بن جائے، لیکن پھر بھی زندگی ادھوراپن محسوس کرتی ہے۔ لیکن، جب ان میں گیت موسیقی، آرٹ، رقص و ڈرامہ، ادب جڑ جاتا ہے، تو ان کی شان، ان کی جاودانی، کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک طرح سے زندگی کو مثبت بننا ہے، تو یہ سب ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے، اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ سبھی ہنر ہماری زندگی میں ایک کیٹالسٹ کا کام کرتے ہیں، ہماری توانائی بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گہرائی کو فروغ دینے میں، ہمارے ذہن کی گہرائی کی راہ ہموار کرنے میں بھی، گیت موسیقی اور مختلف فنون کا بڑا رول ہوتا ہے، اور ان کی ایک بڑی طاقت یہ ہوتی ہے کہ انہیں نہ وقت باندھ سکتا ہے، نہ سرحد باندھ سکتی ہے اور نہ ہی اختلاف رائے باندھ سکتا ہے۔ امرت مہوتسو میں بھی اپنے فن، ثقافت، گیت، موسیقی کے رنگ ضرور بھرنے چاہئیں۔ مجھے بھی آپ کی طرف سے امرت مہوتسو اور گیت موسیقی فن کی اس طاقت سے جڑے بہت سارے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔ یہ مشورے، میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ میں نے انہیں وزارت ثقافت کو مطالعہ کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزارت نے اتنے کم وقت میں ان مشوروں کو بڑی سنجیدگی سے لیا، اور اس پر کام بھی کیا۔ انہی میں سے ایک مشورہ ہے، حب الوطنی کے گیتوں سے جڑا مقابلہ! آزادی کی لڑائی میں الگ الگ زبان، بولی میں، حب الوطنی کے گیتوں اور بھجنوں نے پورے ملک کو متحد کیا تھا۔ اب امرت کال میں، ہمارے نوجوان، حب الوطنی کے ایسے ہی گیت لکھ کر، اس پروگرام میں مزید توانائی بھر سکتے ہیں۔ حب الوطنی کے یہ گیت مادری زبان میں ہو سکتے ہیں، قومی زبان میں ہو سکتے ہیں، اور انگریزی میں بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن، یہ ضروری ہے کہ یہ تخلیقات نئے بھارت کی نئی سوچ والی ہوں، ملک کی موجودہ کامیابی سے تاثر لے کر مستقبل کے لیے ملک کو عزم فراہم کرنے والی ہوں۔ وزارت ثقافت کی تیاری تحصیل سطح سے قومی سطح تک اس سے جڑے مقابلے کرانے کی ہے۔ ساتھیو، ایسے ہی ’من کی بات‘ کے ایک سامع نے مشورہ دیا ہے کہ امرت مہوتسو کو رنگولی کے فن سے بھی جوڑا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں رنگولی کے ذریعے تہواروں میں رنگ بھرنے کی روایت تو صدیوں سے ہے۔ رنگولی میں ملک کی تکثیریت کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ ناموں سے، الگ الگ تھیم پر رنگولی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے، وزارت ثقافت اس سے بھی جڑا ایک قومی مقابلہ کرانے جا رہا ہے۔ آپ تصور کیجئے، جب آزادی کی تحریک سے جڑی رنگولی بنے گی، لوگ اپنے دروازے پر، دیوار پر، کسی آزادی کے متوالے کی تصویر بنائیں گے، آزادی کے کسی واقعہ کو رنگوں سے دکھائیں گے، تو امرت مہوتسو کا بھی رنگ اور بڑھ جائے گا۔ ساتھیو، ایک اور فن ہمارے یہاں لوری کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں لوری کے ذریعے چھوٹے بچوں کو آداب سکھائے جاتے ہیں، ثقافت سے ان کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ لوری کی بھی اپنی رنگا رنگی ہے۔ تو کیوں نہ ہم، امرت کال میں، اس فن کو بھی دوبارہ زندہ کریں اور حب الوطنی سے جڑی ایسی لوریاں لکھیں، نظمیں، گیت، کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں جو بڑی آسانی سے، ہر گھر میں مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنا سکیں۔ ان لوریوں میں جدید بھارت کا حوالہ ہو، 21ویں صدی کے بھارت کے خوابوں کی عکاسی ہو۔ آپ تمام سامعین کے مشورے کے بعد وزارت نے اس سے جڑا مقابلہ بھی کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔ ساتھیو، یہ تینوں مقابلے 31 اکتوبر کو سردار صاحب کی جینتی سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وزارت ثقافت اس سے جڑی ساری جانکاری دے گی۔ یہ جانکاری وزارت کی ویب سائٹ پر بھی رہے گی، اور سوشل میڈیا پر بھی دی جائے گی۔ میں چاہوں گا کہ آپ سبھی اس سے جڑیں۔ ہمارے نوجوان ساتھی ضرور اس میں اپنے فن کا، اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ اس سے آپ کے علاقے کا فن اور ثقافت بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچے گا، آپ کی کہانیاں پورا ملک سنے گا۔ پیارے ہم وطنو، اس وقت ہم امرت مہوتسو میں ملک کے بہادر بیٹے بیٹیوں کو، ان عظیم روحوں کو یاد کر رہے ہیں۔ اگلے مہینے، 15 نومبر کو ہمارے ملک کی ایسی ہی عظیم شخصیت، بہادر سپاہی، بھگوان برسا منڈا جی کی جنم جینتی آنے والی ہے۔ بھگوان برسا منڈا کو ’دھرتی آبا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے بابائے زمین۔ بھگوان برسا منڈا نے جس طرح اپنی ثقافت، اپنے جنگل، اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی، وہ دھرتی آبا ہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی ثقافت اور جڑوں کے تئیں فخر کرنا سکھایا۔ غیر ملکی حکومت نے انہیں کتنی دھمکیاں دیں، کتنا دباؤ بنایا، لیکن انہوں نے آدیواسی ثقافت کو نہیں چھوڑا۔ قدرت اور ماحولیات سے اگر ہمیں محبت کرنا سیکھنا ہے، تو اس کے لیے بھی دھرتی آبا بھگوان برسا منڈا ہمارے لیے بڑے حوصلہ کا باعث ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی حکومت کی ہر اس پالیسی کی پرزور مخالفت کی، جو ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی تھی۔ غریب اور مصیبت سے گھرے لوگوں کی مدد کرنے میں بھگوان برسا منڈا ہمیشہ آگے رہے۔ انہوں نے سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سماج کو بیدار بھی کیا۔ اُلگولان تحریک میں ان کی قیادت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے! اس تحریک نے انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے بعد انگریزوں نے بھگوان برسا منڈا پر بہت بڑا انعام رکھا تھا۔ برطانوی حکومت نے انہیں جیل میں ڈالا، ان کے اوپر اس قدر ظلم ڈھائے کہ 25 سال سے بھی کم عمر میں وہ ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ ہمیں چھوڑ کر گئے، لیکن صرف جسم سے۔ عام لوگوں میں تو بھگوان برسا منڈا ہمیشہ کے لیے رچے بسے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے ان کی زندگی حوصلہ کی طاقت بنی ہوئی ہے۔ آج بھی ان کی بہادری اور شجاعت سے بھرے لوک گیت اور کہانیاں بھارت کے وسطی علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ میں ’دھرتی آبا‘ برسا منڈا کو سلام کرتا ہوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ہماری آدیواسی برادری کے مخصوص تعاون کے بارے میں آپ جتنا جانیں گے، اتنے ہی فخر کا احساس ہوگا۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج 24 اکتوبر کو یو این ڈے، یعنی ’اقوام متحدہ کا دن‘ منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی بھارت اس سے جڑا رہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت نے آزادی سے پہلے 1945 میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ اقوام متحدہ سے جڑا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا اثر اور اس کی طاقت بڑھانے میں، ہندوستانی خواتین نے بڑا رول نبھایا ہے۔ 48-1947 میں جب یو این ہیومن رائٹس کا یونیورسل ڈکلریشن تیار ہو رہا تھا تو اس ڈکلریشن میں لکھا جا رہا تھا کہ ’’تمام مردوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ لیکن بھارت کے ایک وفد نے اس پر اعتراض جتایا اور پھر یونیورسل ڈکلریشن میں لکھا گیا – ’’تمام انسانوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ یہ بات جنسی برابری کی بھارت کی صدیوں پرانی روایت کے موافق تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ محترمہ ہنسا مہتہ وہ وفد تھی جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا، اسی دوران، ایک دیگر وفد محترمہ لکشمی مینن نے جنسی برابری کے ایشو پر زوردار طریقے سے اپنی بات رکھی تھی۔ یہی نہیں، 1953 میں محترمہ وجیہ لکشمی پنڈت، یو این جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون پریزیڈنٹ بھی بنی تھیں۔ ساتھیو، ہم اس سرزمین کے لوگ ہیں، جو یہ یقین کرتے ہیں، جو یہ پرارتھنا کرتے ہیں: ॐ द्यौ: शान्तिरन्तरिक्षॅं शान्ति:, पृथ्वी शान्तिराप: शान्तिरोषधय: शान्ति:। वनस्पतय: शान्तिर्विश्र्वे देवा: शान्तिर्ब्रह्म शान्ति:, सर्वॅंशान्ति:, शान्तिरेव शान्ति:, सा मा शान्तिरेधि।। ॐ शान्ति: शान्ति: शान्ति:।। بھارت نے ہمیشہ عالمی امن کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ بھارت 1950 کے عشرے سے لگاتار اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ رہا ہے۔ غریبی ہٹانے، ماحولیاتی تبدیلی اور مزدوروں سے متعلق مسائل کے حل میں بھی بھارت سرکردہ رول نبھاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یوگ اور آیوش کو مقبول بنانے کے لیے بھارت ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ مارچ، 2021 میں ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا تھا کہ بھارت میں روایتی میڈیسن کے لیے ایک گلوبل سنٹر قائم کیا جائے گا۔ ساتھیو، اقوام متحدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آج مجھے اٹل جی کے الفاظ بھی یاد آ رہے ہیں۔ 1977 میں انہوں نے اقوام متحدہ کو ہندی میں مخاطب کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ آج میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو، اٹل جی کے اس خطاب کا ایک حصہ سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے، اٹل جی کی بارعب آواز – ’’یہاںمیں قوموں کی حکومت اور اہمیت کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوں۔ عام آدمی کا وقار اور ترقی میرے لیے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آخرکار ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں صرف ایک ہی پیمانے سے ناپی جانی چاہیے کہ کیا ہم پوری انسانیت، ہر مرد و عورت اور بچے کے لیے انصاف اور عزت کی یقینی دہانی کرانے میں کوشاں ہیں۔‘‘ ساتھیو، اٹل جی کی یہ باتیں آج بھی ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ اس سرزمین کو ایک بہتر اور محفوظ سیارہ بنانے میں بھارت کا تعاون، دنیا بھر کے لیے بہت بڑا حوصلہ ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہی 21 اکتوبر کو ہم نے پولیس کا یادگاری دن منایا ہے۔ پولیس کے جن ساتھیوں نے ملک کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اس دن ہم انہیں خاص طور پر یاد کرتے ہیں۔ میں آج اپنے ان پولیس ملازمین کے ساتھ ہی ان کے کنبوں کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ فیملی کے تعاون اور قربانی کے بغیر پولیس جیسی مشکل خدمت بہت مشکل ہے۔ پولیس سروس سے جڑی ایک اور بات ہے جو میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو بتانا چاہتا ہوں۔ پہلے یہ تصور بن گیا تھا کہ فوج اور پولیس جیسی سروس صرف مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ دڈیولپمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں خواتین پولیس کی تعداد ڈبل ہو گئی ہے، دو گنی ہو گئی ہے۔ 2014 میں جہاں ان کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار کے قریب تھی، وہیں 2020 تک اس میں دو گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب 2 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں تک کہ سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز میں بھی پچھلے سات سالوں میں خواتین کی تعداد تقریباً دو گنی ہوئی ہے۔ اور میں صرف تعداد کی ہی بات نہیں کرتا۔ آج ملک کی بیٹیاں مشکل سے مشکل ڈیوٹی بھی پوری طاقت اور حوصلے سے کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی بیٹیاں ابھی سب سے مشکل مانی جانے والی ٹریننگ میں سے ایک اسپیشلائزڈ جنگل وارفیئر کمانڈوز کی ٹریننگ لے رہی ہیں۔ یہ ہماری کوبرا بٹالیں کا حصہ بنیں گی۔ ساتھیو، آج ہم ایئرپورٹس جاتے ہیں، میٹرو اسٹیشنز جاتے ہیں یا سرکاری دفتروں کو دیکھتے ہیں، سی آئی ایس ایف کی جانباز خواتین ہر حساس جگہ کی حفاظت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سب سے مثبت اثر ہمارے پولیس دستہ کے ساتھ ساتھ سماج کے ذہن و دل پر بھی پڑ رہا ہے۔ خواتین سیکورٹی گارڈز کی موجودگی سے لوگوں میں، خاص کر عورتوں میں فطری طور پر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ وہ ان سے قدرتی طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ عورتوں کی حساسیت کی وجہ سے بھی لوگ ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہماری یہ خواتین پولیس ملک کی لاکھوں اور بیٹیوں کے لیے بھی رول ماڈل بن رہی ہیں۔ میں خواتین پولیس سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اسکولوں کے کھلنے کے بعد اپنے علاقے کے اسکولوں میں وزٹ کریں، وہاں بچیوں سے بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات چیت سے ہماری نئی نسل کو ایک نئی سمت ملے گی۔ یہی نہیں، اس سے پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آگے اور بھی زیادہ تعداد میں عورتیں پولیس سروس میں شامل ہوں گی، ہمارے ملک کی نیو ایج پولیسنگ کو لیڈ کریں گی۔ میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس پر اکثر مجھے ’من کی بات‘ کے سامعین اپنی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ آج میں ایسے ہی ایک موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، جو ہمارے ملک، خاص کر ہمارے نوجوانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے تصورات میں چھایا ہوا ہے۔ یہ موضوع ہے، ڈرون کا، ڈرون ٹیکنالوجی کا۔ کچھ سال پہلے تک جب کہیں ڈرون کا نام آتا تھا، تو لوگوں کے من میں پہلا خیال کیا آتا تھا؟ فوج کا، ہتھیاروں کا، جنگ کا۔ لیکن آج ہمارے یہاں کوئی شادی بارات یا فنکشن ہوتا ہے تو ہم ڈرون سے فوٹو اور ویڈیو بناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈرون کا دائرہ، اس کی طاقت، صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ بھارت، دنیا کے ان پہلے ممالک میں سے ہے، جو ڈرون کی مدد سے اپنے گاؤں میں زمین کے ڈجیٹل ریکارڈ تیار کر رہا ہے۔ بھارت ڈرون کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن کے لیے کرنے پر بہت ہمہ گیر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ چاہے گاؤں میں کھیتی باڑی ہو یا گھر پر سامان کی ڈیلیوری ہو۔ ایمرجنسی میں مدد پہنچانی ہو یا قانون اور نظم و نسق کی نگرانی ہو۔ بہت وقت نہیں ہے جب ہم دیکھیں گے کہ ڈرون ہماری ان سب ضرورتوں کے لیے تعینات ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کی تو شروعات بھی ہو چکی ہے۔ جیسے کچھ دن پہلے، گجرات کے بھاؤ نگر میں ڈرون کے ذریعے کھیتوں میں نینو یوریا کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ کووڈ و��کسین مہم میں بھی ڈرون اپنا رول نبھا رہے ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر ہمیں منی پور میں دیکھنے کو ملی تھی۔ جہاں ایک جزیرہ پر ڈرون سے ویکسین پہنچائی گئی۔ تلنگانہ بھی ڈرون سے ویکسین ڈیلیوری کے لیے ٹرائل کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اب انفراسٹرکچر کے کئی بڑے پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے بھی ڈرون کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ایسے نوجوان اسٹوڈنٹ کے بارے میں بھی پڑھا ہے جس نے اپنے ڈرون کی مدد سے ماہی گیروں کی زندگی بچانے کا کام کیا۔ ساتھیو، پہلے اس سیکٹر میں اتنے ضابطے، قانون اور پابندیاں لگا کر رکھے گئے تھے کہ ڈرون کی اصلی صلاحیت کا استعمال بھی ممکن نہیں تھا۔ جس ٹیکنالوجی کو موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا، اسے بحران کے طور پر دیکھا گیا۔ اگر آپ کو کسی بھی کام کے لیے ڈرون اڑانا ہے تو لائسنس اور پرمیشن کا اتنا جھنجٹ ہوتا تھا کہ لوگ ڈرون کے نام سے ہی توبہ کر لیتے تھے۔ ہم نے طے کیا کہ اس مائنڈسیٹ کو بدلا جائے اور نئے ٹرینڈز کو اپنایا جائے۔ اسی لیے اس سال 25 اگست کو ملک ایک نئی ڈرون پالیسی لیکر آیا۔ یہ پالیسی ڈرون سے جڑے حال اور مستقبل کے امکانات کے حساب سے بنائی گئی ہے۔ اس میں اب نہ بہت سارے فارم کے چکر میں پڑنا ہوگا، نہ ہی پہلے جتنی فیس دینی پڑے گی۔ مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ نئی ڈرون پالیسی آنے کے بعد کئی ڈرون اسٹارٹ اپس میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ کئی کمپنیاں مینوفیکچرنگ یونٹ بھی لگا رہی ہیں۔ آرمی، نیوی اور ایئر فورس نے ہندوستانی ڈرون کمپنیوں کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر بھی دیے ہیں۔ اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہمیں یہیں نہیں رکنا ہے۔ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی میں سرکردہ ملک بننا ہے۔ اس کے لیے سرکار ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے بھی کہوں گا کہ آپ ڈرون پالیسی کے بعد بنے مواقع کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں ضرور سوچیں، آگے آئیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، یو پی کے میرٹھ سے ’من کی بات‘ کی ایک سامع محترمہ پربھا شکلا نے مجھے صفائی سے جڑا ایک خط بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ – ’’بھارت میں تہواروں پر ہم سبھی صفائی کا جشن مناتے ہیں۔ ویسے ہی، اگر ہم صفائی کو، ہر دن کی عادت بنا لیں، تو پورا ملک صاف ہو جائے گا۔‘‘ مجھے پربھا جی کی بات بہت پسند آئی۔ واقعی، جہاں صفائی ہے، وہاں صحت ہے، جہاں صحت ہے، وہاں صلاحیت ہے اور جہاں صلاحیت ہے، وہاں خوشحالی ہے۔ اس لیے تو ملک سووچھ بھارت ابھیان پر اتنا زور دے رہا ہے۔ ساتھیو، مجھے رانچی سے سٹے ایک گاؤں سپاروم نیا سرائے، وہاں کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں میں ایک تالاب ہوا کرتا تھا، لیکن لوگ اس تالاب والی جگہ کو کھلے میں رفع حاجت کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت جب سب کے گھر میں بیت الخلاء بن گیا تو گاؤں والوں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ خوبصور ت بنایا جائے۔ پھر کیا تھا، سب نے مل کر تالاب والی جگہ پر پارک بنا دیا۔ آج وہ جگہ لوگوں کے لیے، بچوں کے لیے، ایک عوامی مقام بن گیا ہے۔ اس سے پورے گاؤں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں آپ کو چھتیس گڑھ کے دیئور گاؤں کی عورتوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں کی عورتیں ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں اور مل جل کر گاؤں کے چوک چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کی صفائی کرتی ہیں۔ ساتھیو، یوپی کے غازی آباد کے رام ویر تنور جی کو لوگ ’پانڈ مین‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ رام ویر جی تو میکینکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد نوکری کر رہے تھے۔ لیکن ان کے من میں صفائی کی ایک ایسی روشنی پیدا ہوئی کہ وہ نوکری چھوڑ کر تالابوں کی صفائی میں جٹ گئے۔ رام ویر جی اب تک کتنے ہی تالابوں کی صفائی کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر چکے ہیں۔ ساتھیو، صفائی کی کوشش تبھی پوری طرح کامیاب ہوتی ہے جب ہر شہری صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ابھی دیوالی پر ہم سب اپنے گھر کی صاف صفائی میں تو مصروف ہونے ہی والے ہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہمارا آس پڑوس بھی صاف رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنا گھر تو صاف کریں، لیکن ہمارے گھر کی گندگی ہمارے گھر کے باہر، ہماری سڑکوں پر پہنچ جائے۔ اور ہاں، میں جب صفائی کی بات کرتا ہوں تب براہ کرم سنگل یوز پلاسٹک سے نجات کی بات ہمیں کبھی بھی بھولنی نہیں ہے۔ تو آئیے، ہم عہد کریں کہ سووچھ بھارت ابھیان کے جوشش کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سب مل کر اپنے ملک کو پوری طرح صاف بنائیں گے اور صاف رکھیں گے۔ میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر کا پورا مہینہ ہی تہواروں کے رنگوں میں رنگا رہا ہے اور اب سے کچھ دن بعد دیوالی تو آ ہی رہی ہے۔ دیوالی، اس کے بعد پھر گووردھن پوجا، پھر بھائی دوج، یہ تین تہوار تو ہوں گے ہی ہوں گے، اسی دوران چھٹھ پوجا بھی ہوگی۔ نومبر میں ہی گرونانک دیو جی کی جینتی بھی ہے۔ اتنے تہوار ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی تیاریاں بھی کافی پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ سب بھی ابھی سے خریداری کا پلان کرنے لگے ہوں گے، لیکن آپ کو یاد ہے نہ، خریداری مطلب ’ووکل فار لوکل‘۔ آپ لوکل خریدیں گے تو آپ کا تہوار بھی روشن ہوگا اور کسی غریب بھائی بہن، کسی کاریگر، کسی بنکر کے گھر میں بھی روشنی آئے گی۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ جو مہم ہم سب نے مل کر شروع کی ہے، اس بار تہواروں میں اور بھی مضبوط ہوگی۔ آپ اپنے یہاں کے جو لوکل پراڈکٹس خریدیں، ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر بھی کریں۔ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی بتائیں۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے، اور پھر ایسے ہی ڈھیر سارے موضوعات پر بات کریں گے۔ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! نمسکار!",২৪.১০.২০২১ তাৰিখে ‘মন কী বাত’ৰ ৮২তম খণ্ডত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%D8%A2%D9%81-%D9%85%DB%8C%DA%88%DB%8C%DA%A9%D9%84-%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کو بین الاقوامی سائنسی اور تکنیکی تعاون اور باہمی مفادات کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور سوئٹزرلینڈ کے فاؤنڈیشن فار انوویٹو نیو ڈائیگنوسٹکس (ایف آئی این ڈی) کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کیے گئے ایک مفاہمت نامہ کے بارے میں باخبر کرایا گیا۔ اس مفاہمت نامہ پر فروری 2021 میں دستخط کیے گئے تھے۔ فوائد: یہ مفاہمت نامہ بین الاقوامی سائنسی اور تکنیکی تعاون کے ڈھانچہ کے اندر بھارت اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان باہمی مفادات کے شعبوں میں تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا۔ مالی اثرات: آئی سی ایم آر 100000 امریکی ڈالر تک کا فنڈ مہیا کرانے کے لیے پابند عہد ہے، جب کہ ایف آئی این ڈی 400000 امریکی ڈالر کا فنڈ تجویز کے لیے درخواست (آر ایف پی) کے ذریعے نشان زد مقامی شراکت داروں اور محققین کو مہیا کرائے گا۔ پس منظر: آئی سی ایم آر ملک میں انٹرا میورل اور ایکسٹرا میورل تحقیق کے ذریعے بائیو میڈیکل ریسرچ کو فروغ دیتا ہے۔ ایف آئی این ڈی، (ہندوستانی) کمپنیز ایکٹ، 2013 کی دفعہ 8 کے تحت قائم کیا گیا، ایک خود مختار غیر منافع بخش ادارہ ہے۔,"ভাৰতীয় চিকিৎসা গৱেষণা পৰিষদ (ICMR), ভাৰত আৰু উদ্ভাৱনীমূলক নতুন ডায়েগনষ্টিক্সৰ অৰ্থে ফাউণ্ডেশ্যন (FIND), ছুইজাৰলেণ্ডৰ মাজৰ বুজাবুজিৰ চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-18-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%B4%D8%A7%DB%81%D8%AC%DB%81%D8%A7%DA%BA-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%D9%86%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%AE/,"نئی دہلی16دسمبر؍2021 وزیر اعظم جناب نریندر مودی 18دسمبر 2021ء کو تقریباً 1:00بجے اترپردیش کے شاہجہاں پور میں گنگا ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔ ایکسپریس وے کی تعمیر کااصل مقصد ملک بھر میں تیز رفتاری سے کنکٹی وٹی فراہم کرنا ہے اور اس کے پیچھے وزیر اعظم کا وژن کارفرما ہے۔ 594 کلومیٹر طویل 6لین کا یہ ایکسپرویس وے 36, 200کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا جائے گا۔یہ ایکسپریس وے میرٹھ بجولی گاؤں کے قریب سے شروع ہوگا اور پریاگ راج میں جدا پور ڈانڈو گاؤں تک پہنچے گا۔ یہ ایکسپریس وے میرٹھ، ہاپوڑ، بلند شہر، امروہہ، سنبھل، بدایوں، شاہجہاں پور، ہردوئی، اناؤ، رائے بریلی، پرتاپ گڑھ اور پریاگ راج سے گزرے گا۔کام کی تکمیل کے بعد یہ اترپردیش کا سب سے طویل ایکسپریس وے بن جائے گا، جو ریاست کی مغربی اور مشرقی خطوں کو جوڑے گا۔شاہجہاں پور میں فضائیہ کے طیاروں کی ایمرجنسی پرواز اور اس کے اُترنے میں مدد کےلئے ایک 3.5کلومیٹر طویل فضائی پٹی بھی ایکسپریس وے پر تعمیر کیا جائے گا۔ایکسپریس وے پر ایک صنعتی راہداری بھی بنانے کی تجویز ہے۔ اس ایکسپریس وے سے صنعتی ترقی ، تجارت ، زراعت، سیاحت وغیرہ سمیت متعدد شعبوں کو تقویت بھی ملے گی۔ا س سے خطے کی سماجی واقتصادی ترقی کو بھی زبردست فروغ ملے گا۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৮ ডিচেম্বৰত শাহজাহানপুৰত গংগা এক্সপ্ৰেছ-ৱেৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%A8%D9%84-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A6%A4/,"میں 23 سے 24 مئی 2022 تک جاپان کے وزیر اعظم جناب فومیو کیشیدا کی دعوت پر ٹوکیو، جاپان کا دورہ کروں گا۔ مارچ 2022 میں، مجھے 14ویں ہند-جاپان سالانہ کانفرنس کے لیے وزیر اعظم کیشیدا کی میزبانی کرنے کا پرُ مسرت موقع حاصل ہوا تھا۔ ٹوکیو کے اپنے دورے کے دوران، میں ہندوستان-جاپان کے درمیان خصوصی اسٹریٹجک اور عالمی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے مقصد کے ساتھ، اپنی بات چیت کو مزید آگے بڑھانے کا منتظر ہوں۔ جاپان میں، میں ذاتی طور پر دوسرے کواڈ لیڈرز سمٹ میں بھی شرکت کروں گا، جو چاروں کواڈ ممالک کے رہنماؤں کو کواڈ اقدامات کی پیشرفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا۔ ہم ہند-بحر الکاہل خطے میں ہونے والی پیش رفت اور باہمی دلچسپی کے عالمی مسائل کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ میں صدر جوزف بائیڈن کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کروں گا، جہاں ہم امریکہ کے ساتھ اپنے کثیر جہتی دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر تبادلہ خیال کریں گے، ہم علاقائی ترقی اور عصری عالمی مسائل پر بھی اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔ نو منتخب آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز پہلی بار کواڈ لیڈرز سمٹ میں شامل ہوں گے۔ میں ان کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کا منتظر ہوں جس کے دوران جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے تحت ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان کثیر جہتی تعاون اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ہندوستان اور جاپان کے درمیان اقتصادی تعاون ہماری خصوصی اسٹریٹجک اور عالمی شراکت داری کا ایک اہم پہلو ہے۔ مارچ اجلاس کے دوران، پی ایم کیشیدا اور میں نے جاپان سے ہندوستان تک اگلے پانچ سالوں میں سرکاری اور نجی سرمایہ کاری اور فنانسنگ میں 5 ٹریلین جاپانی ین کے حصول کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا۔ آنے والے دورے کے دوران، اس مقصد کے حصول کے لیے، میں جاپانی کاروباری رہنماؤں سے ملاقات کروں گا جس کا مقصد ہمارے ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ جاپان میں تقریباً 40,000 ہندوستانی نژاد افراد موجود ہیں، جو جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ایک اہم رابطہ ہیں۔ میں ان کے ساتھ بات چیت کا منتظر ہوں۔",জাপান ভ্ৰমণৰ প্ৰাকক্ষণত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বক্তব্য +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%A6%D8%B1-%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%B4%D9%84%D8%B3%D8%A8%DA%A9%D8%AF%D9%88%D8%B4%D9%BE%DB%8C-%D9%88%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%91/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%85%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ایئر مارشل(سبکدوش) پی وی ایّرسے ملاقات پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ۔ انہوں نے ایئرمارشل ایر سے ان کی کتاب کی ایک کاپی بھی حاصل کی۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’آج ایئر مارشل(سبکدوش)پی وی ایر سے مل کر خوشی ہوئی۔ زندگی کے تئیں ان کا جوش اورچست و درست اور صحتمند رہنے کے تئیں ان کا جنون غیر معمولی ہے ۔ ان کی کتاب کی ایک کاپی حاصل کرکے خوشی ہوئی۔,এয়াৰ মাৰ্শ্বেল (অৱসৰপ্ৰাপ্ত) পি ভি আয়াৰক সাক্ষাৎপ্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%82%D9%88%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%AA%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BF-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE/,نمسکار! میرے پیارے دیش واسیوں! آج میں اپنی بات کی شروعات ویدیہ کے ایک جملے کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔ کرتم مے دکشنے ہستے، جیو مے سووِ اہِتیہ! اس بات کو بھارت کی روشنی میں دیکھیں تو بہت سیدھے سادے معنی یہی ہیں کہ ہمارے ملک نے ایک طرف اپنا فرض نبھایا تو دوسری طرف اسے بڑی کامیابی بھی ملی۔ کل 21 اکتوبر 2021 کو بھارت میں ایک بلین یعنی 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا مشکل لیکن غیر معمولی ہدف حاصل کیا ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے 130 کروڑ عوام کی محنت ہے ، اس لئے یہ کامیابی بھارت کی کامیابی ہے۔ ملک کے ہر شہری کی کامیابی ہے۔ میں اس کے لئے ملک کے سبھی لوگوں کو دل سے مبارک باد دیتا ہوں۔ ساتھیو! 100 کروڑ ویکسین ڈوز ، یہ محض ایک نمبر نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی اہلیت کی عکاس ہے۔ تاریخ کے ایک نئے باب کی شروعات ہے۔ یہ اُس نئے بھارت کی تصویر ہے جو مشکل نشانے کے ہدف کو حاصل کرنا جانتا ہے۔ یہ اس نئے بھارت کی تصویر ہے جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے سخت محنت کرتا ہے۔ ساتھیو! آج بہت سے لوگ بھارت کی ٹیکہ کاری پروگرام کا موازنہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کر رہے ہیں۔ جس رفتار سے بھارت نے 100 کروڑ ، ایک ارب کا ہندسہ عبور کیا ہے ،اسے بھی سراہا جا رہا ہے۔ تاہم ، اس تجزیے میں ایک بات اکثر ی رہ جاتی ہے کہ ہم نے کہاں سے آغاز کیا! دنیا کے دوسرے بڑے ممالک کے لیے ویکسین پر تحقیق کرنا، ویکسین کی دریافت کرنا، ان سب میں مہارت حاصل تھی ۔ بھارت کا زیادہ تر ان ممالک کی بنائی ہوئی ویکسین پر انحصار تھا۔ ہم ویکسین باہر سے منگواتے تھے۔ اسی وجہ سے 100 کی سب سے بڑی وبا آئی تو بھارت پر سوال اٹھنے لگے۔ کیا بھارت عالمی وبا سے لڑ پائے گا؟ بھارت دیگر ملکوں سے اتنی ویکسین خریدنے کا پیسہ کہاں سے لائے گا؟ بھارت کو ویکسین کب ملے گی؟ بھارت کے لوگوں کو ویکسین ملے گی بھی یا نہیں؟ کیا بھارت اتنے لوگوں کو ویکسین لگا پائے گا کہ وبا کو پھیلنے سے روک سکے؟ الگ الگ طرح کے سوال تھے، لیکن آج یہ 100 کروڑ ویکسین کی خوراک ہر سوال کا جواب دے رہی ہے۔ بھارت نے اپنے شہریوں کو 100 کروڑ ویکسین کی خوراکیں دی ہیں ، اور وہ بھی مفت ، بغیر پیسے ادا کئے۔ ساتھیو! 100 ویکسین خوراک کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ دنیا اب بھارت کو کورونا سے زیادہ محفوظ مانے گی۔ ایک فارما ہب کی شکل میں بھارت کو دنیا میں جو تسلیم کیا گیا ہے، اسے اور استحکام حاصل ہوگا۔ پوری دنیا آج بھارت کی اس طاقت کو دیکھ رہی ہے، محسوس کر رہی ہے۔ ساتھیو! بھارت کی ٹیکہ کاری مہم ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ کورونا وبا کی شروعات میں اس طرح کے شک وشبہات بیان کئے جارہے تھے کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں اس وبا سے لڑنا بہت مشکل ہوگا۔ بھارت کے لئے، بھارت کے لوگوں کے لئے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اس اتنا استقلال، اتنا ڈسپلن یہاں کیسے چلے گا؟ لیکن ہمارے لئے جمہوریت کا مطلب ہے ’سب کا ساتھ ‘، سب کو ساتھ لے کر ملک نے ، ’سب کو ویکسین‘ مفت ویکسین کی مہم شروع کی۔ غریب، امیر، گاؤں، شہر ، دور دراز ملک کا ایک ہی منتر رہا کہ اگر بیماری تفریق نہیں کرتی تو ویکسین میں بھی تفریق نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ٹیکہ کاری مہم پر وی آئی پی کلچر حاوہ نہ ہو۔ کوئی کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ رہا ہو، کتنا ہی امیر کیوں نہ رہا ہو، اسے ویکسین عام شہریوں کی طرح ہی ملے گی۔ ساتھیو! ہمارے ملک کے لئے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ یہاں زیادہ تر لوگ ٹیکہ لگوانے ہی نہیں آئیں گے۔ دنیا کے کئی بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں آج بھی ویکسین کو لے کر ہچکچا ہٹ ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ لیکن بھارت کے لوگوں نے 100 کروڑ ویکسین ڈوز لے کر ایسے لوگوں کو لاجواب کردیا ہے۔ ساتھیو! کسی مہم میں جب کی کوشش جڑ جاتی ہے، تو اس کے نتیجے حیرت انگیز ہوتے ہی ہوتے ہیں۔ ہم نے وبا کے خلاف ملک کی لڑائی میں جن بھاگیداری کو اپنی پہلی طاقت بنایا، فرسٹ لائن آف ڈیفنس بنایا، ملک نے اپنے اتحاد کو طاقت دینے کے لئے تالی، تھالی بجائی اور دیئے روشن کئے، تب کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ کیا اس سے بیماری ختم ہو جائے گی؟ لیکن ہم سبھی کو اس میں ملک کے اتحاد اور سالمیت کی طاقت دکھائی دی۔ اسی طاقت نے کووڈ ٹیکہ کاری نے آج ملک کو اتنے کم وقت میں 100 کروڑ کے نشانے تک پہنچایا ہے۔ کتنی ہی بار ہمارے ملک نے ایک ہی دن میں ایک کروڑ ٹیکہ کاری کی تعداد پار کی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی صلاحیت ہے ، یہ انتظامی مہارت ہے ، یہ ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال ہے ، جو آج بڑے بڑے ممالک کے پاس نہیں ہے۔ ساتھیو! بھارت کا پورا ٹیکہ کاری پروگرام سائنس کے بطن سے پیدا ہوا ہے ، سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھا ہے ، اور سائنسی طریقوں سے چاروں سمتوں تک پہنچا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے کہ ہندوستان کا پوراٹیکہ کاری پروگرام سائنس بورن ، سائنس ڈرائیو اور سائنس بیسڈ رہا ہے۔ ویکسین بننے سے پہلے اور ویکسین کے ایجاد ہونے تک ، پوری مہم میں سائنس اور سائنسی نقطہ نظر ہر جگہ شامل تھا۔ ہمارے سامنے چیلنج مینوفیکچرنگ اور پیداوار بڑھانے کے حوالے سے تھا۔ اتنا بڑا ملک ، اتنی بڑی آبادی! اس کے بعد ، ویکسین کو مختلف ریاستوں ، دور دراز علاقوں تک بروقت پہنچانا! یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ لیکن ، سائنسی طریقوں اور نئی ایجادات کے ساتھ ، ملک نے ان چیلنجوں کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔ وسائل میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ کیا گیا۔ کس ریاست کو کتنی ویکسین ملنی چاہیے ، کتنی ویکسین کس علاقے میں پہنچنی چاہیے ، اس کے لیے بھی سائنسی فارمولے کے تحت کام کیا گیا۔ ہمارے ملک کا بنایا ہوا کوون پلیٹ فارم کا نظام بھی دنیا میں توجہ کا مرکز ہے۔ ہندوستان میں بنائے گئے کوون پلیٹ فارم نے نہ صرف عام آدمی کو سہولت فراہم کی ہے بلکہ ہمارے طبی عملے کے کام کو بھی آسان بنا دیا ہے۔ ساتھیو! آج چاروں طرف پختہ یقین ہے اور جوش وخروش ہے، سماج سے لے کر اکنامی ،ہم ہر طبقہ پر دیکھیں آپٹیمزم ،آپٹیمزم ، آپٹیمزم ہی نظر آتا ہے۔ ماہرین ملک اور بیرن ملک کی مختلف ایجنسیاں بھارت کی معیشت کو لے کر بہت مثبت ہیں۔ آج بھارتی کمپنیوں میں نہ صرف ریکارڈ سرمایہ کاری ہو رہی ہے بلکہ نوجوانوں کے لئے روز گار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپس میں ریکارڈ سرمایہ کاری کے ساتھ ہی ریکارڈ اسٹارٹ اپس، یونیکارن بن رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سیکٹر میں بھی نئی توانائی دکھ رہی ہے۔ پچھلے مہینوں میں کی گئی بہت سی اصلاحات ، بہت سارے اقدامات، گتی شکتی سے لے کر نئی ڈرون پالیسی تک ، بھارت کی معیشت کو اور تیزی سے آگے بڑھانے میں بڑا رول نبھائیں گی۔ کورونا وبا کے دوران زرعی شعبے نے ہماری معیشت کو مضبوطی سے سنبھالے رکھا۔ آج ریکارڈ سطح پر اناج کی سرکاری خرید ہو رہی ہے ، کسانوں کے بینک کھاتوں میں سیدھے پیسہ جا رہا ہے۔ ویکسین کے بڑھتے ہوئے کوریج کے ساتھ ساتھ مالی سماجی سرگرمیاں ہوں، کھیل کا شعبہ ہو، سیاحت ہو، سیر وتفریح ہو، ہر طرف مثبت سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں۔ آئندہ تہواروں کا موسم اسے اور رفتار دے گا اور مضبوطی دے گا۔ ساتھیو! ایک زمانہ تھا جب میڈ اِن یہ کنٹری، اور میڈ اِن وہ کنٹری میں لوگوں کی بہت دلچسپی ہوا کرتی تھی، لیکن آج ملک کے سبھی لوگ باقاعدہ اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ میڈ ان انڈیا کی طاقت بہت بڑی ہے اور اس لئے آج میں آپ سے پھر یہ کہوں گا کہ ہمیں ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز ، جو میڈ ان انڈیا ہو، جسے بنانے میں کسی بھارتی کا پسینہ بہا ہو ، اسے خریدنے پر زور دینا چاہئے اور یہ سب کی کوششوں سے ہی ممکن ہوگا۔ جیسے سووچھ بھارت ابھیان ایک جن آندولن ہے، ویسے ہی بھارت میں بنی چیز خریدنا ، بھارتی افراد کے ذریعے بنائی گئی چیز خریدنا، ’ووکل فار لوکل ‘ہونا یہ ہمیں اپنی عادت میں شامل کرنا ہی ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ سب کی کوششوں سے ہم یہ بھی کر کے رہیں گے۔ آپ یاد کیجئے، پچھلی دیوالی ہر کسی دل ودماغ میں ایک تناؤ تھا، لیکن اس دیوالی پر ، 100 کروڑ ویکسین ڈوز کی وجہ سے ایک یقین جذبہ ہے۔ اگر میرے ملک کی ویکسین مجھے تحفظ دے سکتی ہے تو میرے ملک میں تیار کی گئی اشیاء، میرے ملک میں بنے سامان سے میری دیوالی اور بھی شاندار بن سکتی ہے۔ دیوالی کے دوران کی فروخت ایک طرف اور باقی سال کی فروخت ایک طرف ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں دیوالی کے دوران تہواروں کے وقت خریداری بڑھ جاتی ہے۔ 100 کروڑ ویکسین ڈوز ہمارے چھوٹے چھوٹے دکانداروں، ہمارے چھوٹے چھوٹے صنعت کاروں، ہمارے ریڑی پٹری والے بھائی بہنوں، سبھی کے لئے امید کی کرن بن کر آئی ہے۔ ساتھیو! آج ہمارے سامنے امرت مہوتسو کے سنکلپ ہیں، تو ایسے میں ہماری یہ کامیابی، ہمیں ایک نئی خود اعتماد دلاتی ہے۔ ہم آج کہہ سکتے ہیں کہ ملک بڑے ہدف طے کرنا اور انہیں حاصل کرنا بخوبی جانتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لاپراہ نہیں ہونا ہے، کوچ کتنا ہی اچھا ہو، کوچ کتنا ہی جدید ہو، کوچ سے حفاظت کی پوری گارنٹی ہو، تو بھی جب تک لڑائی چل رہی ہے، ہتھیار نہیں ڈالے جاتے۔ میرا اصرار ہے کہ ہمیں اپنے تہواروں کو پوری چوکسی کے ساتھ ہی منا نا ہے اور جہاں تک ماسک کا سوال ہے، کبھی کبھی ذرا ،لیکن اب تو ڈیزائن کی دنیا بھی ماسک میں داخل ہو چکی ہے، میرا اتنا ہی کہنا ہے کہ جیسے ہمیں جوتے پہن کر ہی باہر جانے کی عادت ہوگئی ہے، بس ویسے ہی ماسک کو بھی ایک عادت بنانا ہی ہوگا۔ جن کو ابھی تک ویکسین نہیں لگی ہے وہ اسے زیادہ ترجیح دیں۔ جنہیں ویکسین لگ گئی ہے وہ دوسروں کو ترغیب دیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم سب مل کر کوشش کریں گے تو کورونا کو اور جلد شکست دے پائیں گے۔ آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی ایک بار پھر بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- ش ر- ق ر),দেশবাসীক উদ্দেশ্যি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-106%D9%88%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A7%A7/,نئی دہلی، 3جنوری 2019/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے انڈین سائنس کانگریس کے 106ویں اجلاس کے موقع پر افتتاحی خطبہ دیا۔ اس سال کے موضوع ‘ فیوچر انڈیا : سائنس اینڈ ٹکنالوجی’ پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہندستان کی اصل طاقت اس کے سائنس ، ٹکنالوجی اور جدت طرازی کو عوام کے ساتھ جوڑنا ہوگی۔ انہوں نے اس موقع پر ماضی کے عظیم ہندستانی سائنس دانوں کو یاد کیا جن میں آچاریہ جے سی بوس ، سی وی رمن ، میگھناد ساہا اور ایس این بوس کے نام شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان عظیم سائنس دانوں نے ‘‘کم از کم وسائل’’ اور ‘‘زیادہ سے زیادہ جدوجہد ’’ سے عوام کی خدمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندستان کے سینکڑوں سائنس دانوں کی حیات و خدمات ،گہری بنیادی بصیرت کو ٹکنالوجی کے فروغ اور قوم کی تعمیر کے ساتھ مربوط کرنے کا ایک واضح ثبوت ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ سائنس کے ہمارے جدید مندروں کا کمال ہے کہ ہندستان اپنے ماضی کو تبدیل کررہا ہے اور اس کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے کام کررہا ہے۔ وزیراعظم نے ہمارے سابق وزرائے اعظم جناب لال بہادر شاستری جی اور جناب اٹل بہاری واجپئی جی کو یاد کیا۔ ا��ہوں نے کہا کہ شاستری جی نے ہمیں ‘‘ جے جوان ، جے کسان’’ کا نعرہ دیا جبکہ اٹل جی نے اس میں ‘‘جے وگیان’’ کا اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک قدم اور بڑھا جائے اور اس میں ‘‘جے انوسندھان’’ کا اضافہ کیا جائے۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ سائنس کی تلاش دو مقاصد کے حصول سے پوری ہوسکتی ہے ۔ پہلا شاندار علم کی تخلیق اور دوسرا اس علم کا سماجی -اقتصادی بہتری کے لئے استعمال ۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت جب ہم اپنے سائنسی ماحول کو تقویت دینے کے لئے کوشش کریں ، ہمیں جدت طرازی اور اسٹارٹ اپ پر توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہمارے سائنس دانوں کے مابین جدت طرازی کو فروغ دینے کے لئے اٹل انوویشن مشن کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں جتنے ٹکنالوجی بزنس انکیوبیٹر قائم نہیں کئے گئے اس سے زیادہ گزشتہ چار برسوں میں قائم کئے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سائنس دانوں کو اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے تاکہ ہم سستی صحت خدمات، ہاؤسنگ ، صاف ستھری ہوا ، پانی اور توانائی، زرعی پیداواریت اور خوراک کی ڈبہ بندی سے متعلق مسائل کا حل نکال سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سائنس جہاں آفاقی حیثیت رکھتی ہے ، وہیں ٹکنالوجی کی نوعیت مقامی ہونی چاہئے تاکہ مقامی ضرورتوں کا حل دستیاب کرایا جاسکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بڑے اعدادوشمار کا تجزیہ ، مصنوعی ذہانت ، بلاک چین وغیر ہ کا استعمال زرعی شعبے میں، خاص طور پر کسانوں کی مدد کے لئے ، کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے سائنس دانوں سے درخواست کی کہ وہ لوگوں کی زندگی آسان بنانے کے لئے کام کریں۔ اس تناظر میں انہوں نے کم بارش والے علاقوں میں خشک سالی بندوبست ، آفات کے بارے میں پیشگی انتباہ کے نظام ، سوء تغذیہ کے مسائل کا حل کرنے، بچوں میں انسیفلائٹس (جاپانی بخار) جیسی بیماریوں کو دور کرنے ، صاف ستھری توانائی، پینے کے لئے صاف ستھرا پانی اور سائبر سیکورٹی جیسے مسائل کا ذکر کیا۔ انہوں نے ان شعبوں میں ریسرچ کے ذریعہ پابند وقت طریقے پر ان مسائل کا حل نکالنے کی اپیل کی۔ وزیراعظم نے 2018 میں ہندستان کی اہم سائنسی حصولیابیوں کا ذکر کیا جس میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں۔,ভাৰতীয় বিজ্ঞান সমাৰোহৰ ১০৬সংখ্যক অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্রীৰ উদ্বোধনী ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%81%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج گاندھی نگر کے مہاتما مندر میں منعقد ہندوستان میں سوزوکی کے 40 سال کی یادگار کے موقع پر ایک پروگرام سے خطاب کیا۔ ہندوستان میں جاپان کے سفیر عالی جناب ستوشی سوزوکی، گجرات کے وزیراعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل، ممبر پارلیمنٹ جناب سی آر پٹیل، ریاست کے وزیراعظم جناب جگدیش پانچل، سوزوکی موٹر کارپوریشن کے سابق صدر جناب اوسوزوکی ، سوزوکی موٹر کارپوریشن کے صدر جناب ٹی سوزوکی اور ماروتی سوزوکی کے چیئرمین جناب آر ایل بھارگو بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ جناب منوہر لال نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے تقریب سے خطاب کیا اور جاپان کے وزیراعظم عالی جناب فومیو کیشیدا کی طرف سے ویڈیو پیغام کو بھی دکھایا گیا۔ جاپان کے وزیراعظم نے اس موقع کیلئے اپنی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ مارورتی سوزوکی کی ترقی کی وجہ سے ہندوستان اور جاپان کے درمیان گزشتہ چار دہائیوں کے عرصے میں زبردست معاشی تعلقات قائم ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی مارکٹ کی صلاحیت کو تسلیم کرنے کیلئے سوزوکی کے مینجمنٹ کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہو ں کہ ہمیں اس کامیابی کا سہرا ہندوستان کی عوام اور حکومت کی سمجھ اور حمایت کو دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں وزیراعظم مودی کی مضبوط قیادت کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لئے مختلف امدادی اقدامات کی وجہ سے ہندوستان کی معاشی ترقی مزید تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیگر کئی جاپانی کمپنیوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس سال کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا کیوں کہ ہندوستان اور جاپان کے درمیان تعلقات کے 70 سال پورے ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ میں نے یہ تہیہ کیا ہے کہ جاپان -ہندوستان کلیدی اور عالمی شراکت داری کو مزید فروغ دینے کیلئے کوششیں کریں اور ایک آزاد اور کھلے ہند- بحرالکاہل کو تسلیم کریں۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سوزوکی کارپوریشن سے جڑے ہر ایک کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے کنبوں کے ساتھ سوزوکی کی وابستگی اب پچھلے 40 سال میں کافی مضبوط ہوگئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مارورتی – سوزوکی کی کامیابی ہندوستان اور جاپان کے درمیان مضبوط شراکت داری کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ آٹھ سال کے عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات نے نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ آج گجرات ، مہاراشٹر میں بلیٹ ٹرین سے ، یوپی کے بنارس میں رودراکش سینٹر تک کئی ترقیاتی پروجیکٹ ہند-جاپان دوستی کی مثالیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب اس دوستی کے تعلق سے بات سامنے آتی ہے تو ہر ہندوستانی اپنے دوست سابق وزیراعظم آنجہانی شنزو آبے کو یقینی طور پر یاد کرتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب شنزو آبے گجرات آئے تھے اور یہاں اپنا قیمتی وقت گزارا تھا تو گجرات کے عوام آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ انہو ں نے مزید کہا کہ آج وزیراعظم کیشیدا ان کوششوں کو آگے بڑھا رہے ہیں جو انہوں نے ہمارے دوست ملکوں کو قریب لانے کے لئے کی ہیں۔ وزیراعظم نے 13سال پہلے گجرات میں سوزوکی کی آمد کو یاد کیا اور حکمرانی کے ایک اچھے ماڈل کے طور پر خود پیش کرنے کیلئے گجرات کے اعتماد کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ گجرات نے سوزوکی کے ساتھ اپنے وعدے کو برقرار رکھا اور سوزوکی نے بھی گجرات کی خواہشات کو اسی وقار کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گجرات دنیا میں چوٹی کے ایک آٹوموٹیو مینوفیکچرنگ ہب کے طور پر اُبھرا ہے۔ ان تعلقات پر زور دیتے ہوئے جو گجرات اور جاپان کے درمیان قائم ہیں، وزیراعظم نے کہا کہ یہ تعلقات سفارتی سمت سے کہیں زیادہ ہیں۔ مجھے یاد ہے جب 2009 میں درخشاں گجرات سمٹ شروع ہوئی تھی تب سے جاپان ایک ساجھیدار ملک کی حیثیت سے اس کے ساتھ جڑ گیا تھا وزیراعظم نے گجرات میں ایک منی جاپان قائم کرنے کے اپنے عزم کو یاد کیا تاکہ جاپانی سرمایہ کار گجرات کو اپنا ہی گھر سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی چھوٹے اقدامات اس خواب کو پورا کرنے کیلئے شروع کیے گئے ہیں جن میں کئی عالمی نوعیت کے گولف کورسز کی تشکیل جاپانی کھانوں کے ساتھ ریستوراں اور جاپانی زبان کا فروغ کچھ اس طرح کی مثالیں شامل ہیں۔ ہماری کوششیں ہمیشہ سنجیدہ رہی ہیں اور ہمارا جاپان کے تئیں کافی احترام ہے۔ اسی لئے تقریباً 125 جاپانی کمپنیاں سوزوکی کے ساتھ گجرات میں کام کررہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے ای ٹی آر احمد آباد میں ایک سپورٹ مرکز چلا رہی ہے جو کئی کمپنیوں کو پلگ اینڈ پلے سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔ مینوفیکچرنگ کیلئے جاپان انڈیا انسٹی ٹیوٹ بہت سے لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے گجرات کی ترقی کے سفر ‘کیزن’ کی خدمات کا ذکر کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم کے دفتر پی ایم او اور دیگر محکموں میں بھی ان کی طرف سے کیزن کے مختلف پہلوؤں کو لاگو کیا گیا ہے۔ بجلی کی گاڑیوں کی ایک اہم خصوصیت کو اجاگر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ان گاڑیوں میں آواز نہیں آتی چاہے وہ ٹووہیلر ہوں یا چارپہیوں والی گاڑیاں، وہ کبھی کسی طرح کا شور بھی نہیں کرتیں۔ بجلی کی گاڑیوں کی آواز کا نہ آنا اس کی نہ صرف انجینئرنگ کا کمال ہے بلکہ ملک میں ایک خاموش انقلاب کا بھی آغاز ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ای وی ایکونظام مستحکم کرنے کی حکومت کی کوششوں کے حصے کے طور پر وزیراعظم نے کہا کہ مختلف ترغیبات الیکٹرک وہیکل خریداروں کو فراہم کی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مختلف ترغیبات بجلی کی گاڑیاں خریدنے والوں کو فراہم کی جارہی ہیں۔ حکومت نے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں انکم ٹیکس میں چھوٹ اور قرضوں کے عمل کو آسان بنانا شامل ہے ۔ سپلائی کو بڑھانے کیلئے آٹوموبائل اور آٹوموبائل کل پُرزے کی مینوفیکچرنگ میں پی ایل آئی اسکیموں کو متعارف کرانے کی غرض سے ایک تیز رفتار ڈھنگ سے کام بھی شروع کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ بنیادی ڈھانچے کی تیاری کیلئے پالیسی فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک بیٹری سوئپنگ پالیسی بھی 2022 کے مالی بجٹ میں شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یقینی ہے کہ سپلائی مانگ اور ایکونظام کی مضبوطی کے ساتھ ای وی سیکٹر ترقی کی طرف جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان نے سی او پی 26 میں اعلان کیا ہے کہ وہ 2030 تک غیرفوصل ذرائع سے اپنی نصب کی گئی بجلی کی صلاحیت کا 50 فیصد حاصل کرلے گی۔ ہم نے 2070 کے لئے ایک نیٹ زیرو ٹارگٹ طے کیا ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر خوشی کااظہار کیا کہ ماروتی سوزوکی بھی بایو فیول، ایتھنول آمیزش اور ہائبرڈ ای وی ایس جیسی چیزوں پر بھی کام کررہی ہے۔ وزیراعظم نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ صحتمند مقابلے اور قدرتی تدریس کے لئے ایک بہتر ماحول پیدا کیا جائے، اس سے ملک اور کاروبار دونو ں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا مقصد ہے کہ ہندوستان امرت کال کے اگلے 25 سال میں اپنی توانائی کی ضرورتوں کیلئے آتم نربھر بنے۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں توانائی کی کھپت کے ایک بڑے حصے کے طور پر اس سیکٹر میں اختراع اور کوششیں ترجیح پر مبنی ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ ہم اسے حاصل کرلیں گے۔ پس منظر تقریب کے دوران وزیراعظم نے ہندوستان میں سوزوکی گروپ کے دو کلیدی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا جن میں گجرات کے ہنسل پور میں سوزوکی موٹر گجرات الیکٹرک وہیکل بیٹری مینوفیکچرنگ کی فیسلٹی اور ہریانہ کے کھرکھوڈا میں ماروتی سوزوکی کی آئندہ وہیکل مینوفیکچرنگ تنصیب شامل ہے۔ گجرات کے ہنسل پور میں سوزوکی موٹر گجرات الیکٹرک وہیکل بیٹری مینوفیکچرنگ تنصیب الیکٹرک گاڑیوں کیلئے جدید کیمسٹری سیل بیٹریاں بنانے کی غرض سے 7300 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کے ساتھ قائم کی جائیں گی۔ ہریانہ کے کھرکھوڈا میں گاڑیاں بنانے والےکارخانے میں ہرسال دس لاکھ مسافر گاڑیاں بنانے کی صلاحیت ہوگی اور اسے دنیا میں ایک سب سے بڑی مسافر گاڑیاں بنانے والی تنصیب بنایا جائیگا۔ اس پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ 11000 کروڑروپئے کی سرمایہ کاری کے ساتھ قائم کیا جائیگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ح ا۔ ع ن۔,গান্ধীনগৰৰ মহাত্মা মন্দিৰত ভাৰতত ছুজুকীৰ ৪০সংখ্যক বৰ্ষপূৰ্তিৰ স্মাৰক অনুষ্ঠানত ভাষণ আগবঢ়ালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%B9%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%B0-%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95/,نئی دہلی، 17 دسمبر 2021: بھوٹان کے بادشاہ جہاں پناہ نریش جگمے کھیسر نامگیال وانگ چک نے ملک کے نیشنل ڈے کےموقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی کو ملک کے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ ’آرڈر آف دی ڈرک گیالپو‘ سے نوازا ہے۔ جناب مودی نے اس گرمجوشانہ عمل کے لیے بھوٹان کے بادشاہ محترم کے تئیں اظہار تشکر کیا۔ بھوٹان کے وزیر اعظم کے ذریعہ کیےگئے ٹوئیٹ کے جواب میں ٹوئیٹس کے ایک سلسلے تحت وزیر اعظم نے کہا؛ ’’شکریہ ، لیون چین @ پی ایم بھوٹان! میں اس گرمجوشانہ عمل سے ازحد متاثر ہوں اور بھوٹان کے بادشاہ محترم کے تئیں اظہار تشکر کرتا ہوں۔ مجھے بھوٹان کے اپنے بھائی۔بہنوں سے ڈھیر ساری محبت حاصل ہوئی ہے ، اور میں بھوٹان کے نیشنل ڈے کے مبارک موقع پر ان سبھی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں بھوٹان کی ہمہ گیر ترقی کے منفرد ماڈل اور عمیق روحانی طرز حیات کے لیے اس کی ستائش کرتا ہوں۔ یکے بعد دیگرے ڈرک گیالپوز– محترم بادشاہوں نے – اس ملک کو ایک مخصوص شناخت دی ہے اور ہمسائے سے دوستی کے اُس خصوصی رشتے کو پروان چڑھایا ہے جو ہمارے ممالک آپس میں ساجھا کرتے ہیں۔ بھارت بھوٹان کو اپنے ایک سب سے قریبی دوست اور ہمسائے کے طور پر ہمیشہ عزیز رکھے گا اور ہر ممکنہ طریقے سے بھوٹان کے ترقی کے سفر میں تعاون دینا جاری رکھے گا۔,ভূটানৰ সৰ্বোচ্চ অসামৰিক সন্মানেৰে সন্মানীত কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%81%D8%A8%D9%88%D8%AF-%D8%8C-%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%86-%D8%AA%D8%B1%D8%AC%DB%8C%D8%AD-%DB%81%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A3-%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ غریبوں کی بہبود ہماری اولین ترجیح رہی ہے۔ ہم کورونا وبا کے دوران بھی اس کے تئیں عہد بند رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پی ایم غریب کلیان اَن یوجنا نے ہمارے شہریوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ حکومت ہر مصیبت میں ان کے ساتھ کھڑی ہے ۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا : ‘‘ غریبوں کی بہبود ہی ہمار ی اولین ترجیح رہی ہے۔کورونا وبا کے دور میں بھی ہم ا س کے تئیں عہد بند رہے ہیں۔ پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا نے ملک کے باشندوں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ سرکار ہر مصیبت میں ان کےساتھ کھڑی ہے۔’’,দৰিদ্ৰৰ কল্যাণ আমাৰ সৰ্বোচ্চ অগ্ৰাধিকাৰ: প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%B2%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%D8%AC%D9%86%DA%88-%D9%81%D9%B9-%D8%A8%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DA%BE%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AB%E0%A7%81%E0%A6%9F%E0%A6%AC%E0%A6%B2-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%A6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برازیل کے لیجنڈ فٹ بال کھلاڑی پیلے کے انتقال پر گہرے دُکھ کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ پیلے کے انتقال سے کھیل کی دنیا میں ایک ایسا خلاء پیدا ہوگیا ہے، جسے بھرا نہیں جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’پیلے کا انتقال کھیل کی دنیا میں ایک ناقابل تلافی خلاء چھوڑ دیا ہے۔ایک عالمی فٹ بال سپر اسٹار، اُن کی مقبولیت حدوں کو پار کرگئی۔ ان کی بہترین کھیل کارکردگی اور کامیابی آنے والی نسلوں کو متحرک کرتی رہے گی۔اُن کے اہل خانہ اور پرستاروں کے لئے تعزیت۔آر آئی پی۔‘‘,ব্ৰাজিলিয়ান ফুটবল কিংবদন্তী পেলেৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%D8%B1%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%88%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95/,نئی دہلی، یکم؍ اکتوبر:وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے صدرجمہوریہ ہند، جناب رام ناتھ کووند کو ان کے یوم ولادت پرمبارکباد پیش کی ہے ۔ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نےکہاہے ؛ ‘‘راشٹرپتی جی کو یوم ولادت کی مبارکباد۔اپنی منکسرالمزاج شخصیت کی وجہ سے وہ پورے ملک کےعوام میں مقبول عام ہیں ۔ معاشرے کے ناداراورحاشیئے پرزندگی بسرکرنے والے طبقات کو بااختیاربنانے پران کی توجہ مثالی حیثیت رکھتی ہے ۔ خداآپ کو صحت وتندرستی کے ساتھ طویل عمرعطافرمائے ۔ ’’,ৰাষ্ট্রপতিৰ জন্মদিন উপলক্ষে প্রধানমন্ত্রীৰ শুভেচ্ছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88%DA%AF%D8%A7-%DA%A9%DB%92-8%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AE%E0%A6%AE-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%A6/,نئی دہلی،21جون؍2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج یوگا کے 8ویں بین الاقوامی دن کے موقع پر میسورو میں میسور پیلیس گراؤنڈ میں یوگا آسن کے پروگرام میں ہزاروں شرکاء کے ساتھ شرکت کی۔کرناٹک کے گورنر جناب تھاور چند گہلوت ، وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی اور مرکزی وزیر جناب سربانند سونووال اس موقع پر موجود تھے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ یوگک توانائی ، جو میسورو جیسے ہندوستان کے روحانی مراکز کے ذریعے صدیوں کے لئے پرورش کی گئی ہے۔آج عالمی صحت کو سمت دے رہی ہے۔ آج یوگا عالمی تعاون کے لئے ایک بنیاد بن رہا ہے اور انسانیت کے لئے ایک صحت مند زندگی کا اعتماد فراہم کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ یوگا گھروں سے باہر آچکا ہے اور دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور یہ روحانی سچ کی ایک تصویر ہے اور عالمی وباء کے گزشتہ دو سال میں قدرتی اور مشترکہ انسانی بیداری کا ایک حصہ ہے۔ یوگ اب ایک عالمی فیسٹول بن چکا ہے۔ یوگ محض کسی فرد کے لئے نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔ اس لئے اس مرتبہ یوگ کے عالمی دن کا موضوع ہےانسانیت ک�� لئے یوگ۔ انہوں نے اس موضوع کو عالمی سطح تک لے جانے کے لئے اقوام متحدہ اور تمام ملکوں کا شکریہ ادا کیا۔ ہندوستانی قدیم ثقافت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یوگ ہمارے لئے امن لاتا ہے۔ یوگ سے امن محض افراد کے لئے نہیں ہے، بلکہ یوگ ہمارے معاشرے کے لئے بھی امن لاتا ہے۔ یوگ ہمارے ملک کو اور دنیا کے لئے امن لاتا ہے۔اس کے علاوہ یوگ ہماری کائنات کے لئے امن لاتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ تمام کائنات ہمارے اپنے جسم اور روح سےشروع ہوتی ہے۔کائنات ہم سے شروع ہوتی ہے اور یوگا ہمارے اندر موجود ہر چیز کی بیداری پیدا کرتا ہے اور بیداری کا ایک جذبہ تعمیر کرتا ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نےکہا کہ ہندوستان ایک ایسے وقت میں یوگا دن منارہا ہے، جب ملک آزادی کااپنا 75واں سال منا رہا ہے۔ یوگا دن کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کے اس امرت جذبے کو قبول کیا گیا ہے، جس نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے لئے توانائی بخشی ہے۔ اسی لئے بڑے پیمانے پر یوگ آسن ملک بھر کے 75آئیکونک مقاما ت کئے جارہے ہیں۔ جو ہندوستان کی شاندار تاریخ کا گواہ ہے اور ثقافتی توانائی کا مرکز رہا ہے۔ہندوستان کے تاریخی مقامات پر اجتماعی یوگ کا تجربہ ہندوستان کے ماضی کو یکجا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی گوناگونیت اور ہندوستان کی وسعت کو بھی یکجا کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے گارجین یوگ رنگ ناول پروگرام کے بارے میں بتایا ، جو 79ملکوں اور اقوام متحدہ کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک میں ہندوستانی مشنوں کے درمیان ایک مشترکہ مشق ہے، جیسا کہ سورج بظاہر پوری دنیا میں مشرق سے مغرب کی طرف بڑھتا ہے، شریک ممالک میں بڑے پیمانے پر یوگا کے مظاہرے،اگر زمین کے کسی ایک نقطے سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یکے بعد دیگرے،تقریباً ٹینڈم میں ہو رہے ہیں،اس طرح اس کی نشاندہی کی جائے گی۔ ’ایک سورج،ایک زمین‘ کا تصور۔ ’’یوگا کے یہ طریقے صحت،توازن اور تعاون کے لیے شاندار تحریک دے رہے ہیں‘‘انہوں نے مزید کہا کہ یوگ کے یہ عمل صحت ، توازن اور تعاون کے لئے حیران کن تحریک دے رہے ہیں۔ جناب مودی نے کہا کہ یوگا محض ہماری زندگی کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ آج طرز زندگی بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوگ کو ایک مخصوص وقت اور مقام تک محدود کئے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ کس طرح ہم تناؤ کا شکار ہیں۔ مراقبے کی کچھ منٹ ہمیں سکون دیتے ہیں اور ہماری پیداواریت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے ہم کو یوگ کو ایک فاضل کام کے طور پر نہیں لینا ہے۔ ہمیں یوگ کے بارے میں بھی جاننا ہے اور ہم کو یوگ کے طرز پر عمل کرنا ہے۔ ہمیں یوگ بھی حاصل کرنا ہے اور ہمیں یوگ بھی اپنانا ہوگا ۔ جب ہم یوگ میں رہنا شروع کرتے ہیں تو یوگ کا دن صرف یوگ کے لئے نہیں، بلکہ ہماری صحت، خوشی اور امن کا جشن منانے کےلئے ایک وسیلہ بنے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج وقت ہے کہ یوگ سے وابستہ امکانات کو سمجھا جائے۔ آج ہمارے نوجوان یوگ کے شعبے میں نئے خیالات کے ساتھ بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ انہوں نے آیوش کی وزارت کی جانب سے اسٹارٹ اپ یوگا چیلنج کے بارے میں بھی مطلع کیا۔ وزیر اعظم نے یوگا کے فروغ کے لئے غیر معمولی خدمات کی بنا پر وزیر اعظم کے ایوارڈ2021 کے فاتحین کو مبارکباد دی۔ یوگ کے 8ویں عالمی دن کے تقریبات کے ساتھ آزادی کا امرت مہوتسو کو مربوط کرتے ہوئے میسور و میں وزیراعظم کی جانب سے یوگ آسن کے ساتھ 75مرکزی وزراء کی قیادت میں ملک بھر کے 75اہم تاریخی مقامات پر بڑے پیمانے پر یوگ آسن کے مظاہروں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔یوگ آسن کے مظاہرے مختلف تعلیمی ، سماجی ، سیاسی ، ثقافتی ، مذہبی ۔کارپوریٹ اور دیگر سول سوسائٹی تنظیموں کے ذریعے منعقد کئے جارہے ہیں، جس میں ملک بھر کے کروڑوں لوگ شرکت کررہے ہیں۔ میسورو میں وزیر اعظم کا یوگ پروگرام بھی اس ناول پروگرام ’گارجین یوگا رنگ‘کا حصہ ہے، جو بیرون ملک میں بھارتی مشنوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی تنظیموں اور 79ملکوں کے درمیان باہمی تعاون پر ایک مشق ہے، تاکہ طاقت کی جھلک پیش کی جاسکے ،جس نے قومی سرحدیں پار کرلیں ہیں۔ 2015ء سے یوگ کا عالمی دن ہر سال 21جون کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس سال کا یوگا دن کا موضوع ہے’’انسانیت کےلئے یوگا‘‘ یہ موضوع اس بات کی جھلک پیش کرتا ہے کہ کس طرح یوگا نے کووڈ عالمی وبا ء کے دوران مصائب کو دور کرنے کے لئے انسانیت کی خدمت کی۔,৮ম আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় যোগ দিৱস উপলক্ষে মহীশূৰ পেলেচ গ্ৰাউণ্ডত গণ যোগ প্ৰদৰ্শনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অংশগ্ৰহ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%81%D9%B9-%D8%A8%DB%8C%D9%86%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج (23 مئی، 2022) ٹوکیو میں سافٹ بینک کارپوریشن کے بورڈ ڈائرکٹر اور بانی جناب ماسایوشی سون کے ساتھ ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے بھارت کے اسٹارٹ اپ شعبے میں سافٹ بینک کے رول کی تعریف کی۔ انہوں نے بھارت میں ٹیکنالوجی، توانائی اور مالیات جیسے اہم شعبوں میں سافٹ بینک کی مستقبل کی حصہ داری کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ انہوں نے بھارت میں کاروبار کرنے کو آسان بنانے سے متعلق کی جا رہی مختلف اصلاحات کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے سافٹ بینک کے ساتھ ایسی مخصوص تجویزوں کو بھی شیئر کیا، جہاں وہ بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتا ہے۔,চফ্টবেংক কৰ্পৰেশ্যনৰ ব’ৰ্ড সঞ্চালক আৰু প্ৰতিষ্ঠাপক মাচায়োশী চোনৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%DB%8C%D8%B2%D8%B1%D9%88-%D8%A8%DB%8C%D9%86%DA%A9-%D8%A2%D9%81-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%B3%D9%B9%D9%85%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AD-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%9F/,"نمسکار جی، وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن جی، ریزرو بینک کے گورنر جناب شکتی کانت داس جی، پروگرام میں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات، کورونا کے اس مشکل دور میں، ملک کی وزارت خزانہ، آر بی آئی اور دیگر مالیاتی اداروں نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے. امرت مہوتسو کا یہ دور، 21ویں صدی کی یہ اہم دہائی ملک کی ترقی کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ایسے میں آر بی آئی کا کردار بھی بہت بڑا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ٹیم آر بی آئی ملک کی توقعات پر پورا اترے گی۔ ساتھیوں، گزشتہ 6 سے 7 سالوں سے مرکزی حکومت عام آدمی، اور اس کے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کام کر رہی ہے۔ ایک ریگولیٹر کے طور پر، آر بی آئی دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آر بی آئی نے بھی عام شہری کو ذہن میں رکھتے ہوئے عام آدمی کی سہولت بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ آج اس میں ایک اور قدم کا اضافہ ہوا ہے۔ آج شروع کی گئی دو اسکیمیں ملک میں سرمایہ کاری کے دائرہ کار کو وسعت دیں گی اور سرمایہ کاروں کے لیے کیپٹل مارکیٹوں تک رسائی کو آسان اور محفوظ بنائیں گی۔ خوردہ براہ راست اسکیم میں، ملک کے چھوٹے سرمایہ کاروں کو سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کا ایک آسان اور محفوظ ذریعہ ملا ہے۔ اسی طرح، مربوط محتسب لوک پال اسکیم کے بینکنگ سیکٹر میں آج One Nation, One Omb مشینوں نے آج ملک کے کونے کونے میں ڈجیٹل لین دین کو ممکن بنایا ہے۔",ভাৰতীয় ৰিজাৰ্ভ বেংকৰ দুটা নতুন গ্ৰাহক কেন্দ্ৰিক তৎপৰতাৰ শুভাৰাম্ভণিত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,مالدیپ سے آئے ہوئے دیگر معزز وزراء اور مہمان، محترمہ صدر صالح اور ان کی اہلیہ محترمہ فازنا احمد اور آپ کے وفد کے ارکان کا بھارت میں خیر مقدم کرتے ہوئے مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے۔ جمہوریہ مالدیپ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر آپ کو ایک بار پھر مبارکباد۔ مالدیپ کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جمہوریت کے لئے آپ کی جدوجہد اور آپ کی کامیابی لوگوں کے لئے باعث تحریک ہے۔ پچھلے مہینے آپ کی حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونا میرے لئے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ایک مہینے کے اندر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے آپ نے بھارت کو منتخب کیا ہے یہ ہمارے لئے بہت اعزاز اور فخر کی بات ہے۔ آپ کے اس دورے سے اُس آپسی گہرے بھروسے اور دوستی کی جھلک ملتی ہے جن پر بھارت –مالدیپ تعلقات مبنی ہیں۔ ہماری دوستی صرف ہماری جغرافیائی قربت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سمندر کی لہروں نے ہمارے ساحلوں کو جوڑا ہے۔ تاریخ ، تہذیب ،تجارت اور سماجی تعلقات ہمیں ہمیشہ اور بھی نزدیک لائے ہیں۔ دونوں ملکوں کے لوگ آج جمہوریت میں اپنے اعتماد اور ترقی کی امید سے بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ آپ کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی تاریخ میں ایک نئے باب کی شروعات ہوگی۔ دوستو! صدر صالح اور میرے درمیان آج بہت ہی سازگار اور دوستی بھرے ماحول میں کامیاب بات چیت ہوئی ہے۔ ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان روایتی اور دوستانہ تعلقات کو اور زیادہ مستحکم کرنے کے اپنے عہد کا اعادہ کیا ۔ معزز صدر، آپ کی حکومت کے عوام پر مرکوز ترقی کے نظریئے کی میں بہت زیادہ ستائش کرتا ہوں ۔ ایک قریبی دوست اور پڑوسی کی شکل میں ہم مالدیپ کی کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔ مالدیپ کے لوگوں کے زندگی کو بدلنے کی آپ کی سرکار کے اہم منصوبوں کو انجام دینے میں ، مالدیپ میں ترقی کی انسانی صورتحال کو اور بھی بہتر بنانے کی آپ کی کوششوں میں بھارت ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس عزم کو پورا کرنے کی خاطر مالدیپ کی سماجی –اقتصادی ترقی کیلئے بھارت بجٹ اجلاس ، کرنسی کی ادلا بدلی اوررعایتی سلسلہ قرض کی صورت میں 1.4 ارب امریکی ڈالر کی اقتصادی امداد بھارت مالدیپ کو فراہم کرے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان کنکٹی و��ٹی کو بہتر بنانے کیلئے بھی بھارت کا مکمل تعاون رہے گا۔ بہتر کنکٹی وٹی سے اشیا اور خدمات ، اطلاعات ، نظریات ، تہذیب اور لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوگا۔ بہتر کنکٹی وٹی سے اشیاء اور خدمات ، اطلاعات ، نظریات ، تہذیب اور لوگوں کی آمدورفت کو بڑھاوا ملے گا۔ صحت ، انسانی وسائل کا فروغ ، بنیادی ڈھانچہ ، زراعت ،صلاحیت سازی ، آئی سی ٹی اور سیاحت میں بھی ہماری ساجھیداری کو اور زیادہ مضبوط بنانے کیلئے میں نے صدر صالح کو یقینی دہائی کرائی ہے۔ ہم نے اگلے پانچ برسوں میں مالدیپ کے شہریوں کی تربیت اور صلاحیت سازی کیلئے اضافی ایک ہزار سیٹیں دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے شہریوں کے درمیان سازگار ماحول ہمارے تعلقات کا خصوصی پہلو ہیں۔ اس لئے آج ہم نئے ویزا سمجھوتے پر دستخط کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ ہم اپنے تجارتی تعلقات کے علاوہ دو طرفہ تجارت کو بڑھاوا دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مالدیپ نے مختلف شعبوں میں بھارتی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کیلئے بڑے مواقعے کا میں خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ دونوں ملکوں کیلئے فائدے مند ہے۔ مالدیپ میں شفاف ، جوابدہ اور اصولوں پر مبنی انتظامیہ کا ویژن ہندوستانی کاروباریوں کا خیر مقدم کرنے کا پیغام دیتا ہے ۔ محترم صدر ، بھارت کو فخر ہے کہ ہمارے دوست اور پڑوسی مالدیپ نے ’ایل ڈی سی ‘ زمرے سے اوسط درجے کی آمدنی والا ملک بننے کی مثال قائم کی ہے اور مالدیپ کی یہ کامیابی ، پائیدار ترقی ،آب و ہو ا میں تبدیلی کے سنگین چیلنجوں کے باوجود ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے میں اور سمندری وسائل کی پائیدار ترقی میں مالدیپ کا رول دنیا بھر میں اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس لئے بھارت اور مالدیپ کے درمیان بحری تعاون کے مختلف زمروں میں ہم باہمی تعاون بڑھانے پر متفق ہوئے ہیں۔ عزت مآب، دولت مشترکہ میں پھر سے شامل ہونے کے آپ کے فیصلے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے۔ ہم بحرہ ہند کے دائرے کی انجمن (آئی او آر اے) میں بھی آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ صدر صالح اور میں اس پر بھی متفق ہیں کہ بحرہ ہند کے خطے میں امن اور سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لئے ہمیں اپنے تعاون کو اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے دفاعی مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس خطے کے استحکام کیلئے ایک دوسرے کے مفاد اورتشویش کے تئیں چوکس رہنے پر بھی ہم اتفاق رکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی ایسی کسی بھی سرگرمیوں کیلئے ہم اپنے ملکوں کا استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جس سے ایک دوسرے کو نقصان ہو۔ہمارے خطے کی ترقی اور استحکام میں بھارت اور مالدیپ دونوں کی برابر کی دلچسپی اور حصہ داری ہے۔ میں مالدیپ اور ہمارے علاقے کے ایک ایسے تابناک مستقبل کے لئے صدر صالح کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتا ہوں جس میں بھارت اور مالدیپ کے تعلقات کے تمام امکانات کو فروغ دیا جا سکے ۔ اور ان کا پورا پورا فائدہ دونوں ملکوں کے شہریوں کو اور اس خطے کے لوگوں کو حاصل ہو۔ بہت بہت شکریہ,মালদ্বীপৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণ কালত যুটীয়া সংবাদমেলত প্ৰধানমন্ত্রীৰ প্ৰেছ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%BE%D9%B9%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سردارپٹیل کو ان کے یوم ��فات پر خراج عقیدت پیش کیا ہے اورہندوستان کے لئے ان کی دائمی خدمات کو یاد کیا ہے ۔ ایک ٹویٹ میں ، وزیراعظم نے کہا : ’’میں سردار پٹیل کو ان کے یوم وفات پر خراج عقیدت پیش کرتاہوں اور ہندوستان کے لئے ان کی دوامیت کی حامل خدمات کو یاد کرتا ہوں ۔ خاص طور پر ان کے ذریعہ ملک کو متحد کرنے او ر ہمہ جہت ترقی کو رفتار دینے کے لئے ‘‘۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে চৰ্দাৰ পেটেলৰ প্ৰতি তেওঁৰ পূণ্য তিথিত শ্ৰদ্ধাৰ্ঘ্য অৰ্পণ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-16%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%8C%D8%AC%D9%86%DA%AF%DB%8C-%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AC-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 16دسمبر2021 کو دن میں تقریباََ ساڑھے دس بجے قومی جنگی یادگار پر سؤرنم مشعل کی خراج عقیدت اور ری سیپشن کی تقریب میں شرکت کریں گے ۔ 1971 میں بھارت کی فتح اور بنگلہ دیش کی تشکیل کی 50سالہ یادگار کے لئے پچھلے سال 16 دسمبر کو وزیر اعظم نے سؤرنم وجے ورش کی تقریبات کے ایک حصے کے طورپر قومی جنگی یادگار پر جلنے والی دائمی مشعل سے سؤرنم وجے مشعل جلائی تھی ۔ انہوں نے چار دیگر مشعلوں کو بھی جلایا تھا جو ملک کے چاروں سمت میں بھیجی گئی تھیں۔ اس وقت سے ان چاروں مشعلو ں نے سیاچن ، کنیا کماری ، انڈومان ونکوبار جزائر ، لونگے والا ، رن آف کچھ ، اگرتلہ وغیرہ سمیت ملک کے طول وعرض کا سفر کیا ہے۔ ان مشعلوں کو جنگ کے اہم علاقوں کے علاوہ 1971 کی جنگ میں بہادری کا ایوارڈ پانے والوں اور مجاہدین کے گھروں پر بھی لے جایا گیا۔ 16 دسمبر 2021 کو خراج عقیدت کی تقریب کے دوران ان چاروں مشعلوں کو وزیراعظم قومی جنگی یادگار پر ابدی مشعل میں ضم کردیں گے ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৬ ডিচেম্বৰত ৰাষ্ট্ৰীয় যুদ্ধ স্মাৰকত স্বৰ্ণবিজয় মিছিলৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি আৰু অভ্যৰ্থনা অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%DB%81%D8%A7%D9%88%D9%94%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%AC%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%AA-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B6/,محترم نائب صدر جمہوریہ، اسٹیج پر موجود تمام سینئر معززین، یہاں موجود تمام معزز اراکین پارلیمنٹ، اور دیگر تمام حضرات۔ جتنا میں وینکیا جی سے واقف ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ رخصتی ممکن ہے۔ 11 تاریخ کے بعد آپ ضرور محسوس کریں گے کہ کسی نہ کسی کام سے آپ کے پاس فون آئے گا، آپ کے بارے میں کوئی جانکاری لینی ہوگی، خوشی و غم کی بات ہوگی تو فوراً دریافت کریں گے۔ یعنی ایک طرح سے وہ وقت فعال رہتے ہیں، ہر وقت سب کے درمیان رہتے ہیں اور یہ ان کی بڑی خوبی رہی ہے۔ ان کی زندگی کی صلاحیت کو اہم دیکھیں، میں جب پارٹی میں انتظام کاری کے امور انجام دیتا تھا اور اس وقت اٹل جی کی حکومت تشکیل پائی تھی۔ وزراء کی کونسل تشکیل دی جا رہی تھی، میں تنظیم کے کام انجام دیتا تھا اور میری وینکیا جی سے کافی بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ویسے تو یہ وزیر اعظم کا ہی حتمی فیصلہ ہوتا ہے کہ کون وزیر بنے گا، کس وزیر کو کیا کام ملے گا، کون سا محکمہ رہے گا اور یہ بھی طے تھا کہ جنوبی ہند سے وینکیا جی جیسے سینئر قائد وزیر بنیں گے۔ لیکن وہ چاہتے تھے کہ بہت بڑے تام جھام والے ، گلیمرس والے کسی محکمہ سے مجھے بچایئے اور کہا کہ اگر وزیر اعظم برانہ مانیں تو میری خواہش ہے کہ دیہی ترقی کا کام، جو کہ مجھے پسند ہے، مجھے ملے ۔ یہ جذبہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ اٹل جی کو وینکیا جی کی اور ضرورتیں تھیں، لیکن چونکہ ان کی دلچسپی یہی تھی تو اٹل جی نے اسی کے مطابق فیصلہ بھی لیا اور اس کام کو وینکیا جی نے بخوبی انجام دیا۔ اب ایک اور خوبی دیکھئے، وینکیا جی شاید ایک ایسے شخص ہیں کہ جنہوں نے دیہی ترقی کی وزارت کی ذمہ داری تو نبھائی ہی، ساتھ ہی شہری ترقی کا بھی ذمہ سنبھالا۔ یعنی ایک طرح سے ترقی کے جو دو پہلو ہیں ، اس میں انہوں نے اپنی مہارت پیش کی۔ وہ پہلے ایسے نائب صدر جمہوریہ تھے، راجیہ سبھا کے پہلے چیئرپرسن تھے، جو راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ باقی یہ خوش نصیبی کم لوگوں کو حاصل ہوئی، شاید تنہا وینکیا جی کو ہی حاصل ہوئی۔ اب جو خود طویل عرصے تک راجیہ سبھا میں رہے ہوں، جو پارلیمانی امور کے طور پر ذمہ داری نبھا چکے ہوں، اس کا مطلب ہے ان کو ایوان میں کیا چلتا ہے، پردے کے پیچھے کیا کیا چلتا ہے، کون سی پارٹی کیا کرے گی، ٹریزری بینچ کی جانب سے کیا ہوگا، سامنے سے کیا ہوگا، وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا، مطلب یہ خرافات کچھ چل رہی ہے، ان ساری باتوں کا ان کو بخوبی اندازہ تھا اور اس لیے بطور چیئرپرسن دونوں طرف ان کو معلوم ہوتا تھا کہ آج یہ کریں گے۔ اور یہ ان کا جو تجربہ تھا وہ ٹریزری بینچ کے لیے کارآمد ثابت ہوتا تھا ، تو حزب اختلاف کے دوستوں کے لیے پریشانی کا بھی سبب بنا تھا کہ معلوم ہو جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے ایوان کو مضبوط تر بنانے، پارلیمنٹ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ملک کو کیسے حاصل ہو، اس کی فکر کی۔ پارلیمانی کمیٹیاں مزید مؤثر بنیں، نتائج پر مرتکز ہوں اور قدروقیمت میں اضافہ کرنے والی ہوں ۔ شاید وینکیا جی پہلے ایسے چیئرپرسن رہے ہوں گے جنہوں نے پارلیمانی کمیٹیوں کے کام کاج سے متعلق اتنی فکر کی اور راضی-ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس میں بہتری لانے کی ایک مسلسل کوشش کی۔ میں امید کرتا ہوں کہ آج جب ہم وینکیا جی کے کاموں کی ستائش کرتے ہیں تو ساتھ ساتھ ہم یہ عہد بھی کریں کہ بطور چیئرپرسن رکن پارلیمنٹ کے طور پر ہم لوگوں سے ان کی جو توقعات وابستہ رہی ہیں انہیں پورا کرکے حقیقی معنوں میں ان کی صلاح کو ہم زندگی میں یادگار بنائیں تو میں سمجھتا ہوں بہت بڑی خدمت ہوگی۔ وقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے ہو، اپنی نجی زندگی میں بہت زیادہ سفر کرنا، جگہ جگہ پر خود جانا، تو ان کی گذشتہ پانچ دہائیوں کی زندگی کا خاصہ رہا ہے۔ لیکن جب کورونا کا دور آیا، تو ایک دن ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے، گفتگو کا دور جاری تھا۔ میں نے کہا کہ اس کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ مصیبت کس کو ہوگی، میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ۔ سب لوگوں کو لگا کہ مودی جی یہ کیا پوچھ رہے ہیں۔ میں نے کہا تصور کیجئے، سب سے زیادہ تکلیف کس کو ہوگی، تو کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے کہا کہ اس صورتحال میں سب سے زیادہ پریشانی اگر کسی کو ہوگی تو وہ وینکیا نائیڈو جی کو ہوگی۔ کیونکہ وہ اتنی دوڑ دھوپ کرنے والی شخصیت ہیں، ایک جگہ پر بیٹھنا ان کے لیے بہت بڑی سزا ہے۔ لیکن وہ اختراع کار بھی ہیں، اور اسی وجہ سے انہوں نے اس کورونا کے دور کا استعمال خلاقانہ انداز میں کیا۔ میں ایک لفظ استعمال کرنا چاہوں گا، مجھے نہیں معلوم کہ بہت سے دنشور حضرات کی نظر میں یہ ٹھیک ہوگا یا نہیں، لیکن وہ ’’ٹیلی یاترا ‘‘کرتے تھے۔ وہ ٹیلی یاترا، انہوں نے کیا کیا، صبح ٹیلی فون ڈائری لے کر بیٹھتے تھے اور گذشتہ 50 برسوں کے دوران دورے کرتے کرتے عوامی زندگی میں، سیاسی زندگی میں جن لوگوں سے ان کے روابط قائم ہوئے ، ان میں جو سینئر افراد تھے، روزانہ 30 ، 40، 50 لوگوں کو فون کرنا، ان کے احوال دریافت کرنا، کورونا کی وجہ سے کوئی تکلیف تو نہیں ہے، اس کی جانکاری حاصل کرنا اور ہو سکے تو مدد کرنا۔ انہوں نے وقت کا صحیح استعمال کیا۔ دور دراز علاقوں میں چھوٹے چھوٹے کارکنان کے لیے جب ان کا فون آتا تھا وہ کارکن جوش سے بھر جاتا تھا۔ اتنا ہی نہیں، شاید ہی کوئی ایم پی ایسا ہوگا کہ جنہوں نے کورونا دور میں وینکیا جی کی جانب سے ان کو فون نہ آیا ہو، ان کی خبر گیری نہ کی ہو، ٹیکہ کاری کی فکر نہ کی ہو۔ یعنی ایک طرح سے کنبے کے مکھیا کی طرح انہوں نے سب کو سنبھالنے، سب کی فکر کرنے کی بھی کوشش کی۔ وینکیا جی کی ایک خوبی ہے، میں جو کہتا ہوں نا کہ وہ کبھی ہم سے الگ ہو ہی نہیں سکتے اور اس کی میں مثال پیش کر رہا ہو۔ ایک مرتبہ انتخابی مہم کے لیے وہ بہار گئے ہوئے تھے۔ اچانک ان کے ہیلی کاپٹر کو لینڈنگ کرنا پڑا، کھیت میں اترنا پڑا۔ اس علاقہ کو لے کر بھی تشویشات تھیں، سلامتی سے متعلق کچھ مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ لیکن نزدیک کے ایک کاشتکار نے ان کی مدد کی، وہ موٹر سائیکل پر ان کو نزدیک کے پولیس تھانے تک لے گیا۔ اب بھارت کی عوامی زندگی کے حساب سے دیکھیں تو وینکیا جی بہت بڑی شخصیت ہیں، لیکن آج بھی اس کاشتکار کنبے سے ان کے روابط قائم ہیں۔ یعنی بہار کی دور دراز دیہی زندگی میں رونما ہوئے ایک واقعہ میں کسی کی مدد حاصل ہوئی۔ وہ موٹرسائیکل والا کاشتکار آج بھی وینکیا جی کے ساتھ میری بات ہوتی ہے، مسلسل بات ہوتی ہے، اس طرح کے فخر کے ساتھ بات کرے، یہ وینکیا جی کی خوبی ہے۔ اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ ، کیونکہ وہ ہمیشہ ہمارے درمیان ایک فعال ساتھی کے طورپر رہیں گے، رہنما کے طورپر رہیں گے، ان کا تجربہ ہمارے لیے کام آتا رہے گا۔ آنے والی ان کی مدت کار مزید تجربات کے ساتھ اب وینکیا جی سماج کی نئی ذمہ داری کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے، آج صبح جب وہ کہہ رہے تھے تو ان کا انہوں نے بھئی مجھے جب یہ ذمہ داری دی گئی تو میری تکلیف کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے پارٹی سے استعفیٰ دینا پڑے گا۔ جس پارٹی کے لیے میں نے زندگی وقف کردی، اس سے مجھے استعفیٰ دینا پڑے گا۔ وہ آئینی تقاضا تھا۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پانچ برس کی جو کمی ہے، وینکیا جی ضرور بھرپائی کر دیں گے، ضرور ان پرانے ساتھیوں کو ترغیب فراہم کرنے، حوصلہ افزائی کرنے، عزت افزائی کرنے کا ان کا کام مسلسل جاری رہے گا۔ میرے لیے ، آپ سب کے لیے وینکیا جی کی زندگی ہم لوگوں کے لیے بہت بڑی امانت ہے، بہت بڑی وراثت ہے۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہم نے سیکھا ہے وہ ہم آگے بڑھائیں گے۔ زبان کے تئیں ان کا جو لگاؤ ہے اور انہوں نے مادری زبان کو جس طرح سے مقبول عام بنانے کی کوشش کی ہے اس کو آگے بڑھانے کی مزید کوششیں ہوں گی۔ آپ لوگوں میں سے اگر کسی کو دلچسپی ہو تو میں گذارش کروں گا کہ ’’بھاشینی‘‘ ایک ویب سائٹ حکومت ہند نے لانچ کی ہوئی ہے، اس ’’بھاشینی‘‘ میں ہم بھارتی زبانوں کو، اس کی بہتری کو اور ہماری اپنی زبانوں کو ایک زبان میں سے دوسری زبان میں انٹرپریٹیشن کرنا ہے، ترجمہ کرنا ہے، اس میں سب انتظام ہے۔ ایک بہت ہی اچھا ٹول بنا ہوا ہے جو ہم لوگوں کے کافی کام آسکتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مجھے ایک اور خیال آیا ہے، میں چاہوں گا کہ محترم اسپیکر بھی اور ہری ونش جی بھی، ہری ونش جی تو اسی دنیا کے فرد ہیں، ضرور اس کے لیے کام ہو سکتا ہے۔ دنیا میں لغت میں نئے الفاظ جوڑنے کی روایت رہی ہے۔ اور سرکاری اعلان بھی ہوتا ہے، اوریہ ایک بڑی بات ہوتی ہے جب کسی ملک کی زبان کا کوئی لفظ انگریزی کی اس لغت میں جگہ حاصل کر رہا ہو، اس کا فخر بھی ہوتا ہے۔ جیسے ہمارا ’گورو ‘لفظ وہاں کی انگریزی لغت میں اس کا حصہ بن چکا ہے، ایسے متعدد الفاظ ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں جو مادری زبان میں تقریر ہو، دونوں ایوانوں میں اس میں کئی لوگوں کے پاس بہت سے اچھے الفاظ نکلتے ہیں۔ اور اہل زبان کے لیے وہ الفاظ بامعنی اور بہت دلچسپ بھی لگتے ہے۔کیا ہمارے دونوں ایوان ہر سال اس طرح کے نئے الفاظ کون سے آر ہے ہیں، جو واقعی ہماری زبان میں تنوع لے کر آتے ہیں، نئے طریقہ سے آتے ہیں، ان کو جمع کرتے چلیں، اور ہر سال ایک مرتبہ اچھے الفاظ جمع کرنے کی روایت قائم کریں تاکہ ہماری مادری زبان سے جو وینکیا جی کا لگاؤ رہا ہے، ان کی اس وراثت کو ہم آگے بڑھائیں۔ اور جب بھی ہم اس کام کو انجام دیں گے، ہمیں ہمیشہ وینکیا جی کی باتیں یاد آئیں گی اور ایک جیتا جاگتا کام ہم کھڑا کر دیں گے۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وینکیا جی کو، ان کے پورے کنبے کو ڈھیر ساری نیک خواہشات کے ساتھ بہت بہت شکریہ۔,সংসদ সদনত উপ-ৰাষ্ট্ৰপতি শ্ৰী ভেংকায়া নাইডুৰ বিদায় অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ ইংৰাজী সংস্কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%B3%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%85%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E2%80%8C%E0%A6%9B-%E0%A6%B8%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 3جنوری 2018/مرکزی کابینہ نے جس کی میٹنگ کی صدارت وزیراعظم نریندر مودی نے کی، پردھان منتری سووستھ سرکشا یوجنا (پی ایم ایس ایس وائی) کے تحت ہماچل پردیش میں بلاسپور کے مقام پر ایک نئے ایمس کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ اس پروجیکٹ پر لاگت 1351کروڑ روپے آئے گی۔ پروجیکٹ کی خصوصیات:,বিলাসপুৰত নতুন এইম্‌ছ স্থাপনত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-2566-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%AF%DA%BE-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%84%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C-2022/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A7%AB%E0%A7%AC%E0%A7%AC-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7/,"نئی دہلی، 16/مئی 2022 ۔ نمو بدھائے! نیپال کے وزیر اعظم عزت مآب جناب شیر بہادر دیوبا جی،محترمہ آرزو دیوبا جی، جلسے میں موجود حکومت نیپال کے وزراء، بڑی تعداد میں موجود بودھ بھکشو اور بودھ مت کے پیروکار، مختلف ممالک کے معزز مہمانان، خواتین و حضرات! بدھ جینتی – کو پاون اوسر – ما، یس سبھا – ما اپستھت، یہاں – ہرو سبے – لائی، سمپورن نیپال واسی – ہرولائی ، وشو کا سبے شردھالو – جن – لائی، لمبنیکو پوتر بھومی باٹ ، بدھ پورنیما کو دھرے شبھ کامنا! مجھے ماضی میں بھی ویشاکھ پورنیما کے دن بھگوان بدھ سے جڑے روحانی مقامات پر جانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ اور آج بھارت کے دوست نیپال میں بھگوان بدھ کی مقدس جائے پیدائش لمبنی آنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ کچھ دیر پہلے مجھے مایا دیوی مندر میں درشن کا جو موقع مجھے ملا، وہ بھی میرے لئے ناقابل فراموش ہے۔ وہ جگہ، جہاں خود بھگوان بدھ نے جنم لیا ہو، وہاں کی توانائی، وہاں کا شعور، یہ ایک الگ ہی احساس ہے۔میں یہ دیکھ کر بھی خوشی ہوئی کہ اس مقام کے لئے میں نے 2014 میں مہابودھی درخت کا جو پودا نذر کیا تھا وہ اب بڑا ہوکر ایک درخت بن رہا ہے۔ ساتھیو، چاہے پشوپتی ناتھ جی ہوں، مکتی ناتھ جی ہوں، چاہے جنک پور دھام ہو یا پھر لمبنی، میں جب جب نیپال آتا ہوں، نیپال اپنے روحانی آشیرواد سے مجھے ممنون کرتا ہے۔ ساتھیو، جنک پور میں، میں نے کہا تھا کہ ’’نیپال کے بغیر ہمارے رام بھی ادھورے ہیں۔ ‘‘ مجھے پتہ ہے کہ آج جب بھارت میں بھگوان شری رام کا عالیشان مندر بن رہا ہے، تو نیپال کے لوگ بھی اتنی ہی خوشی محسوس کررہے ہیں۔ ساتھیو، نیپال یعنی دنیا کے سب سے بلند پرورت- ساگر ماتھا کا ملک! نیپال یعنی دنیا کے متعدد مقدس زیارت گاہوں، مندروں اور مٹھوں کا ملک! نیپال یعنی دنیا کی قدیم تہذیب و ثقافت کو محفوظ رکھنے والا ملک! نیپال آوندا، ملائی کنے راجنیتک بھرمن بھندا، الگ ایوٹا چھوٹے آدھیاتمک انوبھوتی ہنچھ۔ بھارت اور بھارت کے لوگوں نے ہزاروں سالوں سے نیپال کو اسی نقطہ نظر اور عقیدت کے ساتھ دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے، ابھی کچھ وقت پہلے جب شیر بہادر دیوبا جی، محترمہ آرزو دیوبا جی، جب بھارت گئے تھے، اور جیسا ابھی دیوبا جی نے بیان کیا بنارس کا، کاشی وشوناتھ دھام کی یاترا کی تھی، تو انھیں بھی ایسا ہی احساس بھارت کے لئے ہونا بہت فطری ہے۔ ساتھیو، یہ مشترکہ وراثت، یہ سانجھی سنسکرتی، یہ مشترکہ عقیدت اور مشترکہ محبت، یہی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اور یہ سرمایہ جتنا خوش حال ہوگا، ہم اتنی ہی مؤثر طریقے سے ساتھ مل کر دنیا تک بھگوان بدھ کا پیغام پہنچا سکتے ہیں، دنیا کو سمت دے سکتے ہیں۔ آج جس طرح سے عالمی حالات بن رہے ہیں، اس میں بھارت اور نیپال کی مسلسل مضبوط ہوتی دوستی، ہماری قربت، پوری انسانیت کے فائدے ےکا کام کرے گی۔ اور اس میں بھگوان بدھ کے تئیں ہم دونوں ہی ملکوں کی عقیدت، ان کے تئیں لامحدود عقیدت، ہمیں ایک دھاگے میں پروتی ہے، ہمیں ایک خاندان کا فرد بناتی ہے۔ بھائیو اور بہنو، بدھ انسانیت کی اجتماعی تفہیم کا مجسمہ ہیں۔ بدھ بودھ بھی ہیں، اور بدھ شودھ بھی ہے۔ بدھ خیال بھی ہیں، اور بدھ سنسکار بھی ہیں۔ بدھ اس لیے خاص ہیں کیونکہ انھوں نے صرف اُپدیش نہیں دیئے بلکہ انھوں نے انسانیت کو روشن خیالی کا احساس دلایا۔ انھوں نے عظیم الشان ریاست اور انتہائی آسائشوں کو قربان کرنے کا حوصلہ کیا۔ یقیناً ان کی پیدائش کسی عام بچے کی طرح نہیں ہوئی تھی۔ لیکن انھوں نے ہمیں یہ احساس کروایا کہ حاصل کرنے سے بھی زیادہ اہمیت قربانی کی ہوتی ہے۔ قربانی سے ہی حصول یابی مکمل ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ جنگلوں میں پھرے، انھوں نے تپسیا کی، تحقیق کی۔ اس خود شناسی کے بعد جب وہ علم کی معراج پر پہنچے تو انھوں نے کبھی بھی عوام کی بھلائی کے لیے کوئی معجزہ کرنے کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ بھگوان بدھ نے ہمیں وہ راستہ بتایا جو انھوں نے خود جیا تھا۔ اس نے ہمیں منتر دیا – ’’اپپ دیپو بھو بھک کھوے۔‘‘ ""پرکشیہ بھکشو، گراہیم مدوچو، نہ تو گوروات۔"" یعنی اپنا چراغ خود بنو۔ میری بات کو بھی میری عزت کی وجہ سے نہ ماننا، بلکہ ان کی جانچ کریں اور انھیں اپنائیں۔ ساتھیو، بھگوان بدھ سے جڑا ایک اور موضوع ہے، جس کا آج میں ضرور ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ویشاکھ پورنیما کے دن لمبنی میں سدھارتھ کی شکل میں بدھ کا جنم ہوا، اسی دن بودھ گیا میں وہ بودھ یعنی روشن خیالی حاصل کرکے بھگوان بدھ بنے۔ اور اسی دن کشی نگر میں ان کا مہاپری نروان ہوا۔ ایک ہی تاریخ، ایک ہی ویشاکھ پورنیما پر، بھگوان بدھ کے سفر زندگی کی یہ پڑاؤ محض اتفاق نہیں تھا۔ اس میں بدھ کا فلسفیانہ پیغام بھی ہے، جس میں زندگی، علم اور نروان تینوں ایک ساتھ ہیں۔ تینوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ انسانی زندگی کا کمال ہے اور شاید اسی لیے بھگوان بدھ نے پورنیما کی اس مقدس تاریخ کا انتخاب کیا ہوگا۔ جب ہم انسانی زندگی کو اس کمال میں دیکھنا شروع کرتے ہیں تو تقسیم اور تفریق کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ پھر ہم خود ’واسودھیو کٹم بکم‘ کی روح کو جینا شروع کر دیتے ہیں جو ’سروے بھونتو سکھینہ‘ سے لے کر ’بھوتو سبب منگلم‘ تک بدھ کی تعلیمات میں جھلکتی ہے۔ اسی لیے جغرافیائی حدود سے اوپر اٹھ کر، بدھ ہر کسی کے ہیں، ہر کسی کے لئے ہیں۔ ساتھیو، میرا بھگوان بدھ کے ساتھ ایک اور رشتہ بھی ہے، جو کہ ایک شاندار اتفاق بھی ہے اور بہت خوشگوار بھی ہے۔ وہ جگہ جہاں میں پیدا ہوا، گجرات کے وڈ نگر، صدیوں پہلے بدھ مت کی تعلیم کا ایک عظیم مرکز تھا۔ آج بھی وہاں سے قدیم آثار نکل رہے ہیں، جن کے تحفظ کا کام جاری ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ایسے کئی شہر ہیں، کئی شہر ہیں، کئی مقامات ہیں، جنھیں لوگ فخر سے اس ریاست کی کاشی کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ بھارت کی خاصیت رہی ہے، اور اسی لیے آپ کو کاشی کے قریب سارناتھ سے میری قربت آپ بھی جانتے ہیں۔ بھارت میں سارناتھ، بودھ گیا اور کشی نگر سے لے کر نیپال میں لمبنی تک، یہ مقدس مقامات ہمارے مشترکہ ورثے اور مشترکہ اقدار کی علامت ہیں۔ ہمیں مل کر اس ورثے کو ترقی دینا ہے اور اسے مزید مالا مال کرنا ہے۔ ابھی ہمارے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے یہاں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر فار بدھسٹ کلچر اینڈ ہیریٹیج کا سنگ بنیاد بھی رکھا ہے۔ اس کی تعمیر انٹرنیشنل بدھسٹ کنفیڈریشن آف انڈیا کرے گی۔ ہمارے تعاون کے اس دہائیوں پرانے خواب کو پورا کرنے میں وزیر اعظم دیوبا جی کا اہم کردار ہے۔ لمبنی ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے انھوں نے یہ زمین بین الاقوامی بدھسٹ کنفیڈریشن کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اب اس منصوبے کی تکمیل میں ان کی طرف سے بھی بھرپور تعاون کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ہم سب ان کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نیپال کی حکومت ترقی کے تمام امکانات کو محسوس کرتے ہوئے بدھ سرکٹ اور لمبنی کی ترقی کے لیے تمام کوششوں کی حمایت کررہی ہے۔ نیپال میں لمبنی میوزیم کی تعمیر بھی دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تعاون کی ایک مثال ہے۔ اور آج ہم نے لمبنی بدھسٹ یونیورسٹی میں بدھ مت کے مطالعہ کے لیے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی چیئر قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ ساتھیو، بھارت اور نیپال کے متعدد تیرتھوں نے صدیوں سے تہذیب، ثقافت اور علم کی ایک وسیع روایت کو رفتار دی ہے۔ آج بھی دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند ہر سال ان زیارت گاہوں کو جاتے ہیں۔ ہمیں مستقبل میں ان کوششوں کو اور رفتار دینی ہوگی۔ ہماری حکومتوں نے بھیرہوا اور سنولی میں مربوط چیک پوسٹیں بنانے جیسے فیصلے بھی کیے ہیں۔ اس کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ ان پوسٹوں کے بننے کے بعد سرحد پر لوگوں کی نقل و حرکت کی سہولت بڑھ جائے گی۔ بھارت آنے والے بین الاقوامی سیاح زیادہ آسانی سے نیپال آسکیں گے۔ نیز، اس سے تجارت اور ضروری اشیاء کی نقل و حمل میں تیزی آئے گی۔ بھارت اور نیپال، دونوں ہی ملکوں کے درمیان مل کر کام کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ ہماری ان کوششوں سے دونوں ممالک کے شہری مستفید ہوں گے۔ ساتھیو، بھارت ر نیپال – بیچ – کو سمبندھ، ہمال جستیں اٹل چھ، ر ہمال جیتکے پرانو چھ۔ ہمیں اپنے فطری اور دیرینہ رشتوں کو ہمالیہ کی طرح نئی بلندی دینی ہے۔ خود و نوش، موسیقی، پرو – تہوار اور رسم و رواج سے لے کر خاندانی تعلقات تک، جن رشتوں کو ہم نے ہزاروں سالوں تک جیا ہے، اب انھیں سائنس، ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر جیسے نئے شعبوں سے بھی جوڑنا ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ بھارت اس سمت میں نیپال کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کام کررہا ہے۔ لمبنی بدھسٹ یونیورسٹی، کھٹمنڈو یونیورسٹی اور تریبھون یونیورسٹی میں بھارت کا تعاون اور کوششیں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ میں اس میدان میں اپنے باہمی تعاون کو وسعت دینے کے اور بھی بہت سے مواقع دیکھ رہا ہوں۔ ہم مل کر ان امکانات اور بھارت نیپال کے خوابوں کو پورا کریں گے۔ ہمارے قابل نوجوان کامیابی کی چوٹی پر چڑھیں گے اور پوری دنیا میں بدھ کی تعلیمات کے پیغامبر بنیں گے۔ ساتھیو، بھگوان بدھ کا قول ہے – سپپ بدھہ پبج جھنتی، سدا گوتم- ساوکا۔ یساں دِوا چ رتتو چ، بھاونایے رتو منو۔ یعنی جو ہمیشہ دوستی کے جذبے میں، خیرسگالی میں لگے رہتے ہیں، گوتم کے وہ پیروکار ہمیشہ بیدار رہتے ہیں۔ یعنی وہی بدھ کے حقیقی پیروکار ہیں۔ اسی جذبے کو لے کر آج ہمیں پوری انسانیت کے لیے کام کرنا ہے۔ اسی احساس کے ساتھ ہمیں دنیا میں دوستی کو مضبوط کرنا ہے۔ بھارت ر نیپال – بیچ – کو مترتالے، یس مانویہ سنکلپ – لائی پُرا گرن، یسے گری ملیر کام، گری رہنے کوراما، ملائی پورن وشواس چھ۔ اسی جذبے کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کو ویشاکھ پورنیما کی بہت بہت مبارکباد۔ نمو بدھائے! نمو بدھائے! نمو بدھائے!",নেপালত ২৫৬৬ সংখ্যক বুদ্ধ জয়ন্তী আৰু ‘লুম্বিনী দিৱস ২০২২’ উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%D9%84%D9%88%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%B9%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جارجیا میلونی کو اٹلی کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی فریٹلی ڈی اٹالیا کی قیادت کرنےکے لئےمبارکباد دی ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ’’ محترمہ جارجیا میلونی ، اٹلی کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی فریٹیلا ڈی اٹالیا کو کامیابی سے ہمکنار کرانےکے لئے ا ٓپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ میں اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے ملکر کام کرنے کی خواہش رکھتا ہوں ‘‘۔,ইটালীৰ সাধাৰণ নিৰ্বাচনত ফ্ৰাটেলি ডি’ইটালিয়াক বিজয়ৰ দিশে আগুৱাই নিয়াৰ বাবে জিঅৰ্জিয়া মেলোনিক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92%D8%8C-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8B%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%95/,نئی دہلی۔29؍اگست۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے بھارت کے، بعد کی ادائیگیوں کے بینک (آئی پی پی بی) قائم کرنے کیلئے پروجیکٹ کے خاکے پر نظرثانی کیلئے منظور دی ۔ پہلے اس کا تخمینہ 800 کروڑ روپئے کا تھا جسے بڑھا کر اب 1435 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ لاگت کے نظرثانی شدہ تخمینے میں 635 کروڑ روپئے کی اضافی رقم میں سے 400 کروڑ روپئے ٹیکنالوجی کی لاگت اور 235 کروڑ روپئے انسانی وسائل کی لاگت کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔ تفصیلات: آئی پی پی بی خدمات یکم ستمبر 2018 سے 650 آئی پی پی بی شاخوں اور 3250 ایکسیس پوائنٹس پر دستیاب ہوں گی۔ نیز یہ سبھی ایک لاکھ 55 ہزار ڈاکخانوں (ایکسیس پوائنٹ) میں دسمبر 2018 سے دستیاب ہوں گی۔ اس پروجیکٹ سے تقریباً 3500 ہنرمند بینکنگ پیشہ ور افراد اور ملک بھر میں مالی خواندگی کی تشہیر کرنے میں مصروف دیگر افراد یا ایجنسیوں کیلئے روزگار کے نئے موقع پیدا ہوں گے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد عام آدمی کیلئے آسان ترین رسائی والے مناسب خرچ والے اور قابل اعتبار بینک تعمیر کرنا ،بینکنگ سے محروم افراد کیلئے روکاوٹوں کو دور کرکے مالی شمولیت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور گھر گھر جاکر بینکنگ میں مدد کرکے بینکنگ سے وابستہ لوگوں کیلئے موقع کی لاگت میں تخفیف کرنا ہے۔ یہ پروجیکٹ حکومت کے کم نقدی والی معیشت کے خاکے کا حصہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ اقتصادی ترقی اور مالی شمولیت دونوں کو فروغ دیتا ہے۔ آئی پی پی بی کا ایک بڑا ڈھانچہ بینک درجے کی کارکردگی ، دھوکے بازی اور جو کھم سے نمٹنے کے معیارات کو نظر میں رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے اور یہ ادائیگیوں اور بینکنگ کے طور طریقوں کے مطابق ہے۔ آئی پی پی بی خدمات آئی پی پی بی اپنے ٹیکنالوجی والے حل کے ذریعے ادائیگیوں / مالی خدمات فراہم کرے گی جومحکمہ ڈاک کے ملازمین/ دور دراز تک پہنچنے والے ایجنٹوں کے ذریعے انہیں خط بھیجنے والوں سے مالی خدمات فراہم کرنے والوں میں تبدیل کرکے دستیاب کی جائیں گی۔ آئی پی پی بی دور دراز تک پہنچنے والے ایجنٹوں (ڈاک عملہ اور گرامین ڈاک سیوک) کو ترغیب / کمیشن براہ راست ان کے کھاتوں میں ڈال دی جائے گی تاکہ ان میں آئی پی پی بی ڈیجیٹل خدمات صارفین تک پہنچانے کو فروغ دینے کے مقصد سے جذبہ پیدا کیاجاسکے۔ محکمہ ڈاک کو آئی پی پی بی کی طرف سے جو کمیشن ادا کی جائے گی اس کا ایک حصہ ڈاک خانوں کے اخراجات میں اضافے کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ا س۔ ع ن,ইণ্ডিয়ান পোষ্ট দেনা বেংক স্থাপনৰ বাবে সংশোধিত আনুমানিক ব্যয়ত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%8C-%D8%B1%DB%81%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%DA%AF%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نئی دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر سکھوں کے ایک وفد کی میزبانی کریں گے۔ جناب مودی آج شام کو تقریباً ساڑھے پانچ بجے حاضرین سے خطاب بھی کریں گے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’آج شام میں اپنی رہائش گاہ پر سکھوں کے ایک وفد کی میزبانی کروں گا۔اس گروپ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ میں تقریباً ساڑھے پانچ بجے حاضرین سے خطاب بھی کروں گا۔ ضرور دیکھئے گا….‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে নতুন দিল্লীস্থিত তেওঁৰ বাসগৃহত এটা শিখ প্ৰতিনিধি দলক সাক্ষাৎ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DB%81%DB%8C%D9%84%D8%AA%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نئی دہلی:25اکتوبر،2021۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پی ایم آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کا آغاز کیا۔ انہوں نے وارانسی کے لیے تقریبا 5200 کروڑ روپے کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح بھی کیا۔ اس موقع پر اترپردیش کے گورنر، وزیر اعلیٰ، مرکزی وزرا، ڈاکٹر منسکھ منڈاویہ، ڈاکٹر مہندر ناتھ پانڈے، ریاستی وزراء اور عوامی نمائندے موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک نے کورونا وبا کے خلاف جنگ میں 100 کروڑ ویکسین لگانے کا ایک بڑا سنگ میل حاصل کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘بابا وشوناتھ کے آشیرواد کے ساتھ، ماں گنگا کی اٹل شان کے ساتھ، کاشی کے لوگوں کے غیر متزلزل ایمان کے ساتھ، سب کے لیے مفت ویکسین کی مہم کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے’’۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آزاد ہندوستان کے بعد صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہت طویل عرصے تک مطلوبہ توجہ نہیں مل سکی اور شہریوں کو مناسب علاج کے لیے ادھر سے ادھر بھاگنا پڑا ، جس کی وجہ سے حالت بگڑ گئی اور مالی بوجھ پڑا۔ اس سے متوسط طبقے اور غریب لوگوں کے دلوں میں طبی علاج کے بارے میں مستقل تشویش پیدا ہوئی۔ جن کی حکومتیں ملک میں طویل عرصے تک رہیں، انہوں نے ملک کے صحت کے نظام کی ہمہ جہت ترقی کے بجائے اسے سہولیات سے محروم رکھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پی ایم آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کا مقصد اس کمی کو پورا کرنا ہے۔ اس کا مقصد اگلے 4 سے 5 سالوں میں گاؤں سے لے کر ضلع تک علاقائی اور قومی سطح تک صحت کے اہم نیٹ ورک کو مضبوط بنانا ہے۔ نئے مشن کے تحت حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے 3 بڑے پہلو ہیں جو ملک کے صحت کے شعبے میں مختلف خلاؤں کو دور کرنے کے لیے ہیں۔ پہلا تشخیص اور علاج کے لیے وسیع سہولیاتیں قائم کرنے سے متعلق ہے۔ اس کے تحت دیہات اور شہروں میں صحت اور فلاح و بہبود کے مراکز کھولے جا رہے ہیں، جہاں بیماریوں کے جلد پتہ لگانے کی سہولیات ہوں گی۔ ان مراکز میں مفت طبی صلاح و مشاورہ، مفت ٹیسٹ، مفت ادویات جیسی سہولیات دستیاب ہوں گی۔ سنگین بیماری کے لیے 600 اضلاع میں 35 ہزار نئے کریٹیکل کیئر سے متعلق بستر شامل کیے جا رہے ہیں اور 125 اضلاع میں ریفرل سہولیات دی جائیں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسکیم کا دوسرا پہلو بیماریوں کی تشخیص کے لیے ٹیسٹنگ نیٹ ورک سے متعلق ہے۔ اس مشن کے تحت بیماریوں کی تشخیص اور نگرانی کے لیے ضروری انفراسٹرکچر تیار کیا جائے گا۔ ملک کے 730 اضلاع کو انٹیگریٹڈ پبلک ہیلتھ لیبز اور 3 ہزار بلاکس کو بلاک پبلک ہیلتھ یونٹس ملیں گے۔ اس کے علاوہ 5 علاقائی قومی مرکز برائے بیماری کنٹرول، 20 میٹروپولیٹن یونٹ اور 15 بی ایس ایل لیبز اس نیٹ ورک کو مزید مضبوط کریں گے۔ تیسرا پہلو وزیر اعظم کے مطابق موجودہ تحقیقی اداروں کی توسیع ہے جو وبائی امراض کا مطالعہ کرتے ہیں۔ موجودہ 80 وائرل ڈائیگناسٹک اور ریسرچ لیبز کو ��قویت دی جائے گی، 15 بایو سیفٹی لیول، 15 لیبز کو فعال کیا جائے گا، 4 نئے قومی انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی اور ایک نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ون ہیلتھ قائم کیے جا رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لیے ڈبلیو ایچ او کا علاقائی تحقیقی پلیٹ فارم بھی اس نیٹ ورک کو مضبوط کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے ذریعے ملک کے کونے کونے میں علاج سے لے کر اہم تحقیق تک خدمات کے لیے ایک مکمل ماحولیاتی نظام بنایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے ان اقدامات کے روزگار کے امکانات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پی ایم آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن صحت کے ساتھ ساتھ خود انحصاری کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ ‘‘یہ مجموعی صحت کی دیکھ بھال کے حصول کی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ صحت کی سہولیات جو سب کے لیے سستی اور قابل رسائی ہیں’’۔ جناب مودی نے کہا کہ مجموعی صحت کی دیکھ بھال صحت کے ساتھ ساتھ تندرستی پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ سوچھ بھارت مشن، جل جیون مشن، اجولا، پوشن ابھیان، مشن اندر دھنش جیسی اسکیموں نے کروڑوں لوگوں کو بیماریوں سے بچایا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 2 کروڑ سے زیادہ غریب لوگوں کو آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت مفت علاج ملا اور صحت سے متعلق کئی مسائل آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن کے ذریعے حل کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج مرکز اور ریاست میں ایک ایسی حکومت ہے جو غریب، پسماندہ، مظلوم، پسماندہ اور متوسط طبقے کے درد کو سمجھتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم ملک میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جس رفتار سے اتر پردیش میں نئے میڈیکل کالج کھولے جا رہے ہیں اس کا ریاست میں میڈیکل سیٹوں اور ڈاکٹروں کی تعداد پر بہت اثر پڑے گا۔ مزید نشستوں کی وجہ سے اب غریب والدین کے بچے بھی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ سکیں گے اور اسے پورا کر سکیں گے۔ مقدس شہر کاشی کی ماضی کی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ شہر کے بنیادی ڈھانچے کی افسوسناک حالت سے تقریبا تنگ ہو چکے ہیں۔ حالات بدل گئے اور آج کاشی کا دل وہی ہے، دماغ وہی ہے، لیکن جسم کو بہتر بنانے کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وارانسی میں پچھلے 7 سالوں میں جو کام ہوا ہے وہ پچھلی کئی دہائیوں میں نہیں ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ سالوں میں کاشی کی اہم کامیابیوں میں سے ایک کے طور پر بی ایچ یو کی عالمی سطح پر پیش رفت کو سراہا۔ انہوں نے اجاگر کیا آج ٹیکنالوجی سے لے کر صحت تک بی ایچ یو میں بے مثال سہولیات قائم کی جا رہی ہیں۔ ملک بھر سے نوجوان دوست یہاں تعلیم کے لیے آرہے ہیں''۔ وارانسی میں گزشتہ 5 سالوں میں پیداوار میں 60 فیصد اور کھادی اور کاٹیج انڈسٹری کی دیگر مصنوعات کی فروخت میں 90 فیصد اضافے کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر ملک والوں کو مقامی مصنوعات کو فروغ دینے اور مقامی صنعتوں کے لئے آواز اٹھانے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ مقامی کا مطلب صرف چند مصنوعات مثلا دیا ہی نہیں بلکہ کوئی بھی پروڈکٹ جو کہ ہم وطنوں کی محنت کا نتیجہ ہے، اسے تہوار کے دوران تمام ہم وطنوں کے فروغ اور سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ش ح۔م ع۔ ع ن,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰধানমন্ত্ৰী আয়ুষ্মান ভাৰত স্বাস্থ্য আন্তঃগাঁথনি অভিযান আৰম্ভ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%88%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%D8%A7-%D9%81%D8%A7%D8%A4%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A7%B1%E0%A6%A8/,نمسکار! آپ سب کو،پوری دنیا کو ماحولیات کا عالمی دن بہت بہت مبارک ہو۔ سدھ گرو اور ایشا فاؤنڈیشن بھی آج مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مارچ میں، ان کی تنظیم نے مٹی بچاؤ مہم شروع کی تھی۔ ان کا 27 ممالک کا سفر آج 75ویں دن یہاں پہنچا ہے۔ آج جب ملک اپنی آزادی کا 75واں سال منا رہا ہے، اس امرت کے دور میں نئی قراردادیں لے رہا ہے، تو اس طرح کی عوامی مہم بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ ساتھیو، مجھے اطمینان ہے کہ ملک میں گزشتہ 8 سالوں سے جو اسکیمیں چل رہی ہیں، جو بھی پروگرام چل رہے ہیں، ان میں کسی نہ کسی طرح ماحولیات کے تحفظ کی تلقین کی جارہی ہے۔ سوچھ بھارت مشن ہو یا ویسٹ ٹو ویلتھ سے متعلق پروگرام،امرت مشن کے تحت شہروں میں جدید سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر یا سنگل یوز پلاسٹک سے چھٹکارا پانے کی مہم، یا نمامی گنگا کے تحت گنگا کی صفائی کی مہم، ایک سورج ایک گرڈ، یہ شمسی توانائی پر فوکس ہو یا ایتھنول کی پیداوار اور ملاوٹ دونوں میں اضافہ، ماحولیات کے تحفظ کے لیے ہندوستان کی کوششیں کثیر جہتی رہی ہیں اور ہندوستان یہ کوششیں اس وقت کر رہا ہے جب آج دنیا، آب و ہوا سے پریشان ہے، اس میں ہمارا کوئی کردار نہیں، بھارت کا کوئی کردار نہیں۔ دنیا کے بڑے اور جدید ممالک نہ صرف زمین کے زیادہ سے زیادہ وسائل کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ سب سے زیادہ کاربن کا اخراج بھی ان کے کھاتے میں جاتا ہے۔ کاربن کے اخراج کی عالمی اوسط 4 ٹن فی شخص ہے۔ جبکہ ہندوستان میں فی کس کاربن فٹ پرنٹ صرف نصف ٹن سالانہ ہے۔ کہاں چار ٹن اور کہاں آدھا ٹن۔ اس کے باوجود، ہندوستان نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی برادری کے ساتھ منسلک ہو کر ماحولیات کے تئیں کام کر رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر، ہندوستان نے قدرتی آفات سے متعلق لچک دار ڈھانچے کا اتحاد (سی ڈی آر آئی) کی تشکیل کی قیادت کی ہے اور جیسا کہ سد ھ گروجی نے ابھی کہا ہے، بین الاقوامی شمسی اتحاد، آئی ایس اے، پچھلے سال ہندوستان نے یہ عزم بھی کیا ہے کہ ہندوستان 2070 تک نیٹ زیرو کا ہدف حاصل کر لے گا۔ ساتھیو، مٹی یا یہ زمین ہمارے لیے پانچ عناصر میں سے ایک ہے۔ ہم فخر سے مٹی اپنی پیشانی سے لگاتے ہیں۔ اس میں پڑ کر ہم کھیلتے کھیلتے بڑے ہو جاتے ہیں۔ مٹی کے احترام میں کوئی کمی نہیں، مٹی کی اہمیت کو سمجھنے میں کوئی کمی نہیں۔ کمی یہ تسلیم کرنے میں مضمر ہے کہ بنی نوع انسان جو کچھ کر رہا ہے اس نے مٹی کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کی سمجھ میں خلا چھوڑ دیا ہے۔ اور ابھی سدھ گرو جی کہہ رہے تھے کہ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو سلیبس میں سبق پڑھایا جاتا تھا، سلیبس کی کتاب میں، میں نے گجراتی میں پڑھا ہے، دوسروں نے اپنی زبان میں پڑھا ہوگا… راستے میں کہیں کوئی پتھر پڑا تھا، لوگ جا رہے تھے کوئی غصے میں تھا، کوئی اسے لاتیں مارتا تھا۔ سب کہتے تھے کہ یہ پتھر کس نے رکھا، یہ پتھر کہاں سے آیا، ان کی سمجھ میں نہیں آیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کسی نے اسے اٹھا کر ایک طرف نہیں رکھا۔ ایک شریف آدمی باہر آیا تو اس نے سوچا کہ چلو، سدھ گرو جیسا کوئی ضرور آیا ہوگا۔ جب یودھیشتھر اور دوریودھن کی ملاقات کے بارے میں بحث ہوتی ہے، تو جب دوریودھن کے بارے میں کہا جاتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ’’جنم دھرم نہ چاہ میں رجحان‘‘۔ میں مذہب جانتا ہوں، لیکن میرا رجحان نہیں ہے، میں نہیں کر سکتا، میں جانتا ہوں کہ وہ سچائی کیا ہے، لیکن میں اس راستے پر نہیں چل سکتا۔ لہٰذا جب معاشرے میں ایسا رجحان بڑھتا ہے تو ایسے بحران آتے ہیں، پھر اجتماعی مہم کے ذریعے مسائل کے حل کے لیے راستے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے آٹھ سالوں میں ملک نے مٹی کو زندہ رکھنے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ مٹی کو بچانے کے لیے، ہم نے پانچ اہم چیزوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سب سے پہلے مٹی کو کیمیکل سے پاک کیسے بنایا جائے۔ دوسرا- مٹی میں رہنے والی مخلوقات کو کیسے بچایا جائے جسے تکنیکی زبان میں آپ مٹی کے نامیاتی معاملات کہتے ہیں۔ اور تیسرا- زمین کی نمی کیسے برقرار رکھی جائے، اس تک پانی کی دستیابی کو کیسے بڑھایا جائے۔ چہارم، زیر زمین پانی کی کمی کی وجہ سے زمین کو جو نقصان ہو رہا ہے اسے کیسے دور کیا جائے، اور پانچواں، جنگلات کے رقبے میں کمی کی وجہ سے زمین کے مسلسل کٹاؤ کو کیسے روکا جائے۔ ساتھیو، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ برسوں میں ملک میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے وہ ملک کی زرعی پالیسی ہے۔ پہلے ہمارے ملک کے کسان کے پاس اس بات کی معلومات نہیں ہوتی تھیں کہ اس کی زمین کس قسم کی ہے، اس کی زمین میں کیا کمی ہے، کتنی کمی ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ملک میں کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ دینے کے لیے ایک بڑی مہم چلائی گئی۔ اگر ہم کسی انسان کو ہیلتھ کارڈ نہیں دیں گے تو پھر بھی اخبار میں سرخی لگ جائے گی کہ مودی سرکار نے کوئی اچھا کام کیا ہے۔ یہ ملک ایسا ہے کہ سوائل ہیلتھ کارڈ دے رہا ہے لیکن میڈیا کی توجہ پھر بھی کم ہے۔ ملک بھر میں کسانوں کو 22 کروڑ سے زیادہ سوائل ہیلتھ کارڈ دیے گئے۔ اور نہ صرف کارڈ دیے گئے بلکہ ملک بھر میں مٹی کی جانچ سے متعلق ایک بہت بڑا نیٹ ورک بھی بنایا گیا ہے۔ آج ملک کے کروڑوں کسان ،سوائل ہیلتھ کارڈ سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کھادوں اور مائیکرو نیوٹرینٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے کسانوں کی لاگت میں 8 سے 10 فیصد کی بچت ہوئی ہے اور پیداوار میں بھی 5 سے 6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی جب زمین صحت مند ہو رہی ہے تو پیداوار بھی بڑھ رہی ہے۔ یوریا کی 100 فیصد نیم کی کوٹنگ نے بھی زمین کو فائدہ پہنچانے میں بہت مدد کی ہے۔ مائیکرو آب پاشی کے فروغ کی وجہ سے، اٹل بھو یوجنا کی وجہ سے ملک کی کئی ریاستوں میں مٹی کی صحت کو بھی برقرار رکھا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی کچھ باتیں، فرض کریں کہ ڈیڑھ سال کا بچہ بیمار ہے، صحت ٹھیک نہیں ہو رہی، وزن نہیں بڑھ رہا، قد میں کوئی فرق نہیں ہے اور کوئی ماں سے کہے کہ ذرا فکر کرو اور اس نے کہیں سنا ہے کہ بھائی، دودھ وغیرہ چیزیں صحت کے لیے اچھی ہیں اور فرض کریں کہ وہ اسے روزانہ 10-10 لیٹر دودھ سے نہلائے تو کیا اس کی صحت ٹھیک ہو جائے گی؟ لیکن اگر ایک سمجھدار ماں اسے ایک چمچ، تھوڑا تھوڑا دودھ، دن میں دو بار، پانچ بار، سات بار، ایک ایک چمچ پلائے تو آہستہ آہستہ فرق نظر آئے گا۔ اس فصل کا بھی یہی حال ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پانی بھر کر فصل کو ڈبونے سے فصل اچھی ہوتی ہے۔ اگر قطرہ قطرہ پانی دیا جائے تو فصل بہتر ہوتی ہے، فی قطرہ مزید فصل۔ ایک ناخواندہ ماں بھی اپنے بچے کو دس لیٹر دودھ سے نہیں نہلاتی لیکن ہم پڑھے لکھے پورے کھیت کو پانی سے بھر دیتے ہیں۔ خیر ان سب چیزوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ ہم بارش پکڑو جیسی مہم کے ذریعے ملک کے لوگوں کو پانی کے تحفظ سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سال مارچ میں ہی ملک میں 13 بڑے دریاؤں کے تحفظ کی مہم بھی شروع ہوئی ہے۔ اس میں پانی کی آلودگی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ندیوں کے کناروں پر جنگلات لگانے کا کام بھی کیا جا رہا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق اس سے ہندوستان کے جنگلات کا احاطہ 7400 مربع کلومیٹر سے زیادہ ہو جائے گا۔ اس سے جنگلات کے احاطہ میں مزید مدد ملے گی کہ ہندوستان نے پچھلے آٹھ سالوں میں 20 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ ساتھیو، حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات سے متعلق جن پالیسیوں پر ہندوستان آج عمل پیرا ہے اس نے بھی جنگلی حیات کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔ آج چاہے شیر ہو، چیتا ہو یا ہاتھی، ملک میں سب کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ساتھیو، یہ بھی ملک میں پہلی بار ہے، جب ہم نے اپنے گاؤں اور شہروں کو صاف ستھرا بنانے، ایندھن میں خود انحصاری، کسانوں کو اضافی آمدنی اور مٹی کی صحت کی مہموں کو ایک ساتھ جوڑا ہے۔ گوبردھن اسکیم ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ اور جب میں گوبردھن کی بات کرتا ہوں تو کچھ سیکولر لوگ سوال کریں گے کہ وہ کون سا گوبردھن لایا ہے۔ وہ پریشان ہو جائیں گے۔ اس گوبردھن اسکیم کے تحت بائیو گیس پلانٹس سے گائے کے گوبر اور دیگر زرعی فضلہ کو توانائی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ کبھی کاشی وشوناتھ دیکھنے جائیں تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر گائے کے گوبر کا پودا بھی ہے، آپ اسے دیکھنے ضرور آئیں گے۔ اس سے جو نامیاتی کھاد بنتی ہے اسے کھیتوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 7-8 سالوں میں، 1600 سے زائد نئی اقسام کے بیج بھی کسانوں کو دستیاب کرائے گئے ہیں تاکہ ہم زمین پر اضافی دباؤ ڈالے بغیر کافی پیداوار حاصل کر سکیں۔ ساتھیو، قدرتی کھیتی ہمارے آج کے چیلنجوں کا ایک بہترین حل بھی رکھتی ہے۔ اس سال کے بجٹ میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم گنگا کے کنارے واقع دیہاتوں میں قدرتی کھیتی کی حوصلہ افزائی کریں گے، قدرتی کھیتی کا ایک بہت بڑا کوریڈور بنائیں گے۔ اپنے ملک میں ہم نے انڈسٹریل کوریڈور کے بارے میں سنا ہے، ڈیفنس کوریڈور کا ہم نے سنا ہے، ہم نے گنگا کے کنارے ایک نیا کاریڈور شروع کیا ہے، زراعت کی راہداری کا، قدرتی کاشتکاری کا۔ اس سے ہمارے کھیت نہ صرف کیمیکل سے پاک ہوں گے بلکہ نمامی گنگے مہم کو بھی نئی طاقت ملے گی۔ بھارت 2030 تک 26 ملین ہیکٹر بنجر زمین کو بحال کرنے کے ہدف پر بھی کام کر رہا ہے۔ ساتھیو، ماحولیات کے تحفظ کے لیے، آج ہندوستان نئی ایجادات، ماحول دوست ٹیکنالوجی پر مسلسل زور دے رہا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہم بی ایس- 5 کے معیار پر نہیں آئے بلکہ ہم نے بی ایس- 4 سے براہ راست بی ایس- 6 میں چھلانگ لگا دی ہے۔ اُجالا اسکیم کی وجہ سے جو ہم نے ملک بھر میں ایل ای ڈی بلب فراہم کرنے کے لیے شروع کی تھی، تقریباً 40 ملین ٹن کاربن کے اخراج میں سالانہ کمی ہو رہی ہے۔ گھر میں صرف لٹو بدلنے سے..اگر سب شامل ہو جائیں تو سب کی محنت کا کتنا بڑا نتیجہ نکلتا ہے۔ ہندوستان جیواشم ایندھن پر اپنا انحصار کم کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ قابل تجدید ذرائع سے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، ہم تیزی سے بڑے اہداف پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے غیر جیواشم ایندھن پر مبنی ذرائع سے اپنی نصب شدہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا 40 فیصد حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ ہندوستان نے یہ ہدف مقررہ وقت سے 9 سال پہلے حاصل کر لیا ہے۔ آج ہماری شمسی توانائی کی صلاحیت تقریباً 18 گنا بڑھ گئی ہے۔ ہائیڈروجن مشن ہو یا سرکلر پالیسی کا موضوع، یہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے ہمارے عزم کا ثبوت ہے۔ ہم پرانی گاڑیوں کی اسکریپ پالیسی لے کر آئے ہیں جو کہ اپنے آپ میں اسکریپ پالیسی پر بہت بڑا کام ہونے والا ہے۔ ساتھیو، ان کوششوں کے درمیان یوم ماحولیات کے دن ہندوستان نے ایک اور کامیابی حاصل کی ہے۔ اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے خوشخبری سنانے کے لیے ایک بہت ہی موزوں پلیٹ فارم ملا ہے۔ ہندوستان کی روایت رہی ہے کہ اگر آپ سفر کے بعد آنے والے کو ہاتھ لگائیں تو آپ کو آدھا میرٹ مل جاتا ہے۔ میں آج یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، ملک اور دنیا کے لوگ بھی اس سے لطف اندوز ہوں گے… ہاں کچھ لوگ اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ آج ہندوستان نے پٹرول میں 10 فیصد ایتھنول ملاوٹ کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ آپ یہ جان کر بھی فخر محسوس کریں گے کہ ہندوستان نے اس ہدف کو مقررہ وقت سے 5 ماہ پہلے حاصل کر لیا ہے۔ یہ کتنی بڑی کامیابی ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سال 2014 میں ہندوستان میں پیٹرول میں صرف 1.5 فیصد ایتھنول ملایا گیا تھا۔ اس ہدف تک پہنچنے سے ہندوستان کو براہ راست تین فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ ایک تو اس سے تقریباً 27 لاکھ ٹن کاربن کے اخراج میں کمی آئی ہے۔ دوسرا، ہندوستان نے 41 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا زرمبادلہ بچایا ہے۔ اور تیسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ ایتھنول کی ملاوٹ میں اضافہ سے ملک کے کسانوں نے 8 سالوں میں 40 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی کی ہے۔ میں اس کامیابی کے لیے ملک کے لوگوں، ملک کے کسانوں، ملک کی تیل کمپنیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، پی ایم نیشنل گتی شکتی ماسٹر پلان جس پر ملک آج کام کر رہا ہے وہ بھی ماحولیات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ گتی شکتی کی وجہ سے ملک میں لاجسٹکس کا نظام جدید ہوگا، ٹرانسپورٹ کا نظام مضبوط ہوگا۔ اس سے آلودگی میں کمی آئے گی۔ ملک میں ملٹی موڈل کنیکٹیویٹی ہونی چاہیے، سو سے زیادہ نئے آبی راستوں کے لیے کام کرنا چاہیے، یہ سب ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے میں ہندوستان کی مدد کریں گے۔ ساتھیو، بھارت کی ان کوششوں کا ایک اور پہلو بھی ہے، جس پر بہت کم بحث ہوتی ہے، وہ پہلو ہے گرین جابز۔ جس طرح سے ہندوستان ماحولیات کے مفاد میں فیصلے لے رہا ہے، ان پر تیزی سے عمل درآمد کر رہا ہے، وہ بڑی تعداد میں سبز روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہا ہے۔ یہ بھی ایک مطالعہ کا موضوع ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔ ساتھیو، ماحول کو بچانے کے لیے، زمین کی حفاظت کے لیے، مٹی کی حفاظت کے لیے جتنا عوامی شعور بڑھے گا، اتنا ہی اچھا نتیجہ نکلے گا۔ میری ملک سے اور ملک کی تمام حکومتوں سے، تمام مقامی اداروں سے، تمام رضاکارانہ تنظیموں سے، اسکولوں، کالجوں سے،این ایس ایس- این سی سی سے اپنی کوششوں میں شامل ہونے کی درخواست ہے۔ میں آزادی کے امرت میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایک اور گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ اگلے سال 15 اگست تک ملک کے ہر ضلع میں کم از کم ایک ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور کی تعمیر کا کام آج ملک میں جاری ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور آنے والی نسلوں کے لیے پانی کی حفاظت کو یقینی بنانے میں مدد کرے گا۔ یہ امرت سروور اپنے اردگرد کی مٹی میں نمی بڑھائیں گے، پانی کی سطح کو نیچے جانے سے روکیں گے اور حیاتیاتی تنوع کو بھی بہتر بنائیں گے۔ ایک شہری ہونے کے ناطے ہم سب کو غور کرنا چاہیے کہ اس عظیم قرارداد میں آپ سب کی شرکت کیسے بڑھے گی۔ ساتھیو، ماحولیات کا تحفظ اور تیز رفتار ترقی ہمہ گیر نقطہ نظر سے ہی ممکن ہے، سب کی کوششوں سے۔ اس میں ہمارے لائف اسٹائل کا کیا کردار ہے، ہمیں اسے کیسے بدلنا ہوگا، میں آج رات ایک پروگرام میں اس پر بات کرنے جا رہا ہوں، میں تفصیل سے بتانے جا رہا ہوں، کیونکہ بین الاقوامی اسٹیج پر یہی میرا پروگرام ہے۔ ماحولیات کے لیے طرز زندگی، مشن لائف، اس صدی کی تصویر، اس صدی میں زمین کی تقدیر بدلنے کے مشن کا آغاز۔ یہ پی- 3 یعنی پرو پلینیٹ پیپل موومنٹ ہوگی۔ لائف اسٹائل فار دی انوائرنمنٹس گلوبل کال فار ایکشن آج شام کو شروع کیا جا رہا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ہر وہ شخص جو ماحولیات کے تحفظ کا شعور رکھتا ہے، اسے اس میں شامل ہونا چاہیے۔ ورنہ ہم بھی اے سی چلائیں گے اور لحاف اوڑھ لیں گے اور پھر ماحولیات کے سیمینار میں اچھی تقریر کریں گے۔ ساتھیو، آپ پوری انسانیت کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ کو کامیابی حاصل ہو، یہ طویل، مشکل سفر جو سدھ گرو جی نے بائیک پر کیا ہے۔ اگرچہ اسے بچپن سے ہی شوق ہے لیکن پھر بھی کام بہت مشکل ہے۔ کیونکہ جب بھی میں دوروں کا اہتمام کرتا تھا اور میں اپنی پارٹی میں کہتا تھا کہ یاترا چلانے کا مطلب ہے عمر کو پانچ سے دس سال کم کرنا، اس میں اتنی محنت لگتی ہے۔ سدھ گرو جی نے سفر کیا ہے، اپنے آپ میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ اور میرا پختہ یقین ہے کہ دنیا مٹی سے محبت کے ساتھ پیدا ہوئی ہوگی، لیکن ہندوستان کی مٹی کی طاقت کا بھی تعارف ہوا ہوگا۔ آپ سب کے لیے نیک خواہشات۔ شکریہ!,নতুন দিল্লীৰ বিজ্ঞান ভৱনত ঈশা ফাউণ্ডেচনৰ দ্বাৰা আয়োজিত ”Save Soil’ কাৰ্যসূচীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D8%A7%D9%93%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF-%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%82%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%9A%E0%A7%B0/,نئی دہلی ،18جنوری :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے احمدآباد میں جدید ترین سہولتوں کے حامل سپراسپشلٹی سرکاری اسپتال یعنی سردارولبھ بھائی پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزاینڈریسرچ کا افتتاح کیاہے ۔ اسے احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے تعمیر کیاہے اور یہ اسپتال 78میٹربلند ہے ، 1500بستروں والا یہ اسپتال جدیدترین سہولتوں سے آراستہ ہے ، جس میں ایئر ایمبولینس بھی شامل ہے ۔ وزیراعظم نے اسپتال کی سہولتوں کا معائنہ کیااور عالمی درجہ کے اس اسپتال کے قیام کے لئے احمدآباد میونسپل کارپوریشن کی کوششوں کی تعریف کی اورکہاکہ سردارولبھ بھائی پٹیل انسٹی ٹیوٹ ا ٓف میڈیکل سائنسز اینڈریسرچ جو احمدآباد اسپتال میں قائم کیاگیاہے ، وہ ملک کے دیگرسرکاری اسپتالوں کے لئے ایک نمونے کے طورپرکام کریگا۔ 750کروڑروپے کی لاگت سے تیار17منزلہ مذکورہ اسپتال واجبی قیمتوں پرعالمی معیارات کی سہولتیں فراہم کریگا اوریہ اسپتال آیوشمان بھارت سے مربوط ہے ۔ اس موقع پرحاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ، جناب مودی نے یہ کہتے ہوئے آیوشمان بھارت پرزوردیاکہ آیوشمان بھارت کی وجہ سے ہی اب چھوٹے شہروں میں بھی نئے اسپتالوں کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔ نئے اسپتال تیزی سے کھل رہے ہیں ، ڈاکٹروں اورنیم طبی عملے کے لئے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں اوراس طریقے سے حفظان صحت کے شعبے میں نوجوانوں کے لئے متعد د روزگارکے مواقع فراہم ہورہے ہیں ۔ وزیراعظم نےکہاکہ ملک نے حفظان صحت کی سہولتوں اور طبی تعلیم کے معا ملے میں بڑی توسیع کا مشاہدہ کیاہے اوریہ گذشتہ چند برسوں کے دوران ہواہے اوراس کے نتیجے میں شہریوں کے لئے حفظان صحت کی سہوتوں کی تکمیل اورفراہمی میں بڑی مدد مل رہی ہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ ناداروں کے تئیں تشویش اوران کی ضروریات کی تکمیل ہماری اعلی ترجیح ہے اورحکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے اورحکومت کی ترجیح یہی ہے کہ پردھان منتری جن اوشدھی یوجنا کے تحت حفظان صحت کی خدمات کی توسیع کی جائے اور جینیاتی دواؤں کو ملک بھرمیں کم داموں پرفراہم کرایاجائے ۔ انھوں نے کہاکہ ملک بھرمیں تقریبا5ہزار پردھان منتری جن اوشدھی کیندرقائم کئے گئے ہیں ۔ وزیراعظم نے کہاکہ حکومت نے سب کے لئے یکساں اوربرابری کے مواقع فراہم کرنے کا عہد کررکھاہے اور عام زمرے کے نادارافراد کے لئے 10فیصد کا ریزرویشن اس سمت میں اٹھایاگیا ایک قدم ہے ۔ اس مقصد کے لئے تعلیمی اداروں میں 10فیصد نشستوں کا اضافہ کیاجارہاہے انھوں نے گجرات حکومت کو 10فیصد ریزرویشن کے فیصلے کو نافذ کرنے والی اولین ریاست کے طورپر تعریف وتوصیف سے نوازااور کہاکہ عام زمرے کے ناداروں کو سرکاری نوکریوں اورتعلیمی اداروں میں یہاں 10فیصد کا ریزرویشن فراہم کرایاگیاہے ۔ اس موقع پر ایک خوشگوار انداز میں وزیراعطم نے کہاکہ نئے سال میں گجرات کا ان کا یہ پہلادورہ ہے اور یہ دورہ اس وقت عمل میں آیاہے جب تیوہاروں کا سیزن نزدیک ہے اوراس سے بہترکیاوقت ہوتا جب احمدآباد کے عوام کو حفظان صحت کی سہوتوں کو وقف کیاجاتا۔ انھوں نے کہاکہ ملک میں بہت کم میونسپل ادارے اس طرح کی عالمی سہولتوں کی فراہمی کے لئے آگے آئے ہیں ۔ وزیراعظم نے احمدآباد کے میئرکے طورپر سردارپٹیل کے کردارکی تعریف کی ،جنھوں نے صحت ، حفظان صحت اور شہرمیں صفائی ستھرائی کو فروغ دینے کے لئے مثالی کام کئے تھے ۔ وزیراعظم نے اپنی بات یہ کہتے ہوئے ختم کی کہ سب کی ترقی کے لئے مساوی مواقع فراہم کرنے کا اپناوعدہ انھوں نے پورا کیاہے انھوں نے کہاکہ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس نیو انڈیا کے لئے آئندہ کا راستہ ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,আহমেদাবাদত অত্যাধূনিক চৰ্দাৰ বল্লভভাই পেটেল চিকিৎসা বিজ্ঞান প্ৰতিষ্ঠান উদ্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ক’লে চৰকাৰে দুখীয়াসকলৰ কাষত থকাৰ লগতে চিকিৎসা সেৱাৰ সুবিধা বৃদ্ধিত গুৰুত্ব আৰোপ কৰিছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%85%D9%86%D9%88%DB%81%D8%B1%D9%BE%D8%A7%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%B1%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%AD%D9%84%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8B%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی ،18مارچ : وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے گواکے وزیراعلیٰ جناب منوہرپاریکرکی رحلت پرتعزیت کااظہارکیاہے ۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہاہے کہ ‘‘جناب منوہرپاریکر ایک مقبول سیاست داں تھے ۔ وہ سچے حب الوطن اورغیرمعمولی صلاحیت کے حامل انتظام کارتھےاورسبھی لوگ ان کے مداح تھے ۔ قوم کے تئیں ان کی لاثانی خدمات کو پیڑھیاں یاد رکھیں گی ۔ ان کی رحلت سے مجھے گہراصدمہ ہواہے ، ان کے افراد کنبے کے تئیں میں دلی تعزیت کا اظہارکرتاہوں ۔ اوم شانتی ۔ جناب منوہر پاریکرجدید گواکے معمار تھے ۔ ان کی جیدشخصیت اور سب کو ساتھ لے کرچلنے والی فطرت کی وجہ سے وہ برسوں تک سیاست کے پسندیدہ رہنمابنے رہے ۔ عوامی فلاح وبہبود کی ان کی پالیسیوں نے گواکو ترقی کی قابل ذکربلندیوں سے ہمکنارکیا۔ وزیردفاع کے طورپر ان کی مدت کارکے لئے بھارت ہمیشہ ان کا ممنون ومشکوررہے گا۔ جب وہ وزیردفاع کےعہدے پرفائز تھے، تو اس دورمیں ایسے متعدد فیصلے لئے گئے ،جنھوں نے بھارت کی سلامتی صلاحیت میں اضافہ کیا ، اندورن ملک دفاعی پیداوار کو بڑھاواملا اور سابق فوجیوں کی زندگی بہتربنی ۔ ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,শ্ৰী মনোহৰ পাৰিকৰৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ গভীৰ শোক প্ৰকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86%DA%88%D8%A7-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AC/,نئی دہلی۔28اگست۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں آج مرکزی کابینہ نے ہندوستان اور روانڈا کے درمیان تجارتی تعاون کے فریم ورک کو پوری طرح سے منظوری دیدی ہے اس تجارتی تعاون کے فریم ورک پر 23 جولائی2018 کو دستخط کئے گئے تھے۔ تجارتی تعاون فریم ورک دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور معاشی تعلقات کو بہتر بنائے گا۔,ভাৰত আৰু ৰুৱাণ্ডাৰ মাজত বাণিজ্য সহযোগিতা পৰিকাঠামোত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/17%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%DA%AF%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A6%E0%A6%B6-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%A6-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اندور میں 17 ویں پراواسی بھارتیہ دیوس (پی بی ڈی) کے موقع پر گیانا کوآپریٹو ریپبلک کے صدر ایچ ای ڈاکٹر محمد عرفان علی سے ملاقات کی۔ صدر عرفان علی 8-14 جنوری 2023 تک ہندوستان کے سرکاری دورے پر ہیں اور 17ویں پی بی ڈی میں مہمان خصوصی ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے توانائی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، دواسازی، صحت کی دیکھ بھال، ٹیکنالوجی اور اختراعات اور دفاعی تعاون میں تعاون سمیت متعدد امور پر جامع بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں نے ہندوستان اور گیانا کے لوگوں کے درمیان 180 سال پرانی تاریخی دوستی کو یاد کیا اور انہیں مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔ صدر عرفان علی صدر محترمہ دروپدی مرمو کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کریں گے، اور 10 جنوری 2023 کو اختتامی اجلاس اور پرواسی بھارتیہ سمان ایوارڈ تقریب میں شرکت کریں گے۔ وہ 11 جنوری کو اندور میں عالمی سرمایہ کاروں کی سربراہ کانفرنس 2023 میں بھی شرکت کریں گے۔ صدر علی اندور کے علاوہ دہلی، کانپور، بنگلور اور ممبئی بھی جائیں گے۔,সপ্তদশ প্ৰবাসী ভাৰতীয় দিৱসৰ সময়ত গিয়েনাৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-19%D8%8D%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%B4%D8%B1%DA%88%DB%8C%D8%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0/,نئی دہلی،18؍ستمبر؍وزیراعظم جناب نریندر مودی 19؍اکتوبر 2018 کو شِرڈی، مہاراشٹر کا دورہ کریں گے۔ وزیراعظم وہاں شری سائیں بابا سناتن ٹرسٹ کے مختلف ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد کی علامتی لوح (تختی) کی پردہ کشائی کریں گے۔ وزیراعظم، شری سائیں بابا سمادھی کی صد سالہ برسی کی یاد میں ایک چاندی کا سکہ جاری کریں گے۔ ایک عوامی جلسے میں جناب مودی، مہاراشٹر میں پردھان منتری آواس یوجنا-گرامین (پی ایم اے وائی-جی) مستفیدین کو گرہ پرویش کی علامت کے طور پر چابیاں سونپیں گے۔ اس موقع پر وہ عوامی جلسے سے خطاب بھی کریں گے۔ وزیراعظم شری سائیں بابا سمادھی ٹیمپل کمپلیکس کا بھی دورہ کریں گے۔ ( م ن ۔ش ت ۔ ک ا),১৯ অক্টোবৰত মহাৰাষ্ট্ৰৰ ছিৰ্দি ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AA%D8%B9%D9%85%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%AE%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے احمد آباد میں ایک زیر تعمیر عمارت میں پیش آئے حادثے کے نتیجہ میں لاحق ہوئے جانی اتلاف پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ مقامی انتظامیہ متاثرین کو تمام تر ممکنہ امداد فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’احمدآباد میں ایک زیر تعمیر عمارت میں پیش آیا حادثہ افسوسناک ہے۔ اس حادثے میں اپنے کنبہ اراکین کھو دینے والوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ مجروحین جلد از جلد صحتیاب ہوجائیں۔ مقامی انتظامیہ متاثرین کو تمام تر ممکنہ امداد فراہم کر رہی ہے۔‘‘,আহমেদাবাদৰ এটা নিৰ্মীয়মান ভৱনত সংঘটিত দুৰ্ঘটনাৰ ফলত প্ৰাণ হেৰুওৱা লোকসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D9%88%D8%B4%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%AC-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مصنف، مورخ اور تھیٹر کی معروف شخصیت شیوشاہر بابا صاحب پوراندرے کے انتقال پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے چھتر پتی شیواجی مہاراج سے آئندہ نسلوں کو جوڑنے کے سلسلے میں شیوشاہر بابا صاحب پورندارے کی خدمت کو یاد کیا۔ جناب مودی نے بابا صاحب کے صد سالہ پروگرام کے موقع پر کی گئی اپنی تقریر کو پوسٹ بھی کیا۔ مختلف ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’مجھے ناقابل بیان صدمہ پہنچا ہے۔ شیوشاہر بابا صاحب پوراندرے کے انتقال سے تاریخ اور ثقافت کی دنیا میں ایک ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے، جسے پُر نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں کی کاوشوں کے نتیجے میں آنے والی نسلیں چھترپتی شیواجی مہاراج کے ساتھ مزید جڑ سکیں گی۔ اُن کی دیگر خدمات کو بھی ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ شیوشاہر بابا صاحب پوراندرے ایک بہت ذہین دانشور تھے اور ہندوستانی تاریخ کا زبردست علم رکھتے تھے۔ میری گزشتہ برسوں میں اُن کے ساتھ کچھ نزیکی ملاقاتیں رہی ہیں۔ چند مہینے قبل میں نے اُن کے صد سالہ پروگرام میں تقریر کی تھی۔ شیوشاہر بابا صاحب پوراندرے اپنے زبردست کام کی بنا پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ غم کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں اُن کے اہل کنبہ اور بے شمار مداحوں کے ساتھ ہیں۔ اوم شانتی‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح۔ س ب۔ ق ر ),শিৱশাহীৰ বাবাচাহেব পুৰন্দৰেৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D9%82%D8%A7%D8%A8%D9%84-%D8%AA%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF-%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0/,نئی دہلی،28 فروری / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں منعقد مرکزی کابینہ کی میٹنگ کو قابل تجدید توانائی میں تعاون سے متعلق بھارت اور فجی کے درمیان ہوئے ایک مفاہمت نامے کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ اس مفاہمت نامے پر فجی کے سووا میں 24 مئی 2017 کو دستخط کئے گئے تھے۔ دونوں فریقوں کا مقصد نئی اور قابل تجدید توانائی کے امور پر باہمی فائدے برابری اور آپسی بنیاد پر تکنیکی باہمی تعاون کو فروغ دینا اور ادارہ جاتی تعلقات کی ہمت افزائی کرنا ہے۔ اس مفاہمت نامے میں تعاون کے شعبوں سے متعلق امور پر تبادلہ خیال ، جائزہ اور نگرانی کے لئے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ کمیٹی قائم کرنے کی گنجائش ہے۔ اس میں مہارت کے تبادلے اور معلومات کی نیٹ ورکنگ پر زور دیا گیا ۔ یہ مفاہمت نامہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون کو مستحکم کرنے میں مدد کرے گا۔,নবীকৰণযোগ্য শক্তি খণ্ডৰ সহযোগিতাৰ বাবে ভাৰত আৰু ফিজিৰ মাজত স্বাক্ষৰিত চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DA%AF%D8%B1%D8%AA%D9%84%DB%81%D8%8C-%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-4350-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اگرتلہ، تریپورہ میں 4350 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے مختلف کلیدی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا، افتتاح کیا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ ان پروجیکٹوں میں پردھان منتری آواس یوجنا – شہری اور دیہی کے تحت مستفیدین کے لیے گرہ پرویش پروگرام کا آغاز، اگرتلہ بائی پاس (خیر پور – امٹالی) این ایچ – 08 کو چوڑا کرنے کے لیے کنیکٹیویٹی پروجیکٹ، 230 کلو میٹر سے زیادہ کی 32 سڑکوں کا سنگ بنیاد رکھنا شامل ہے۔ پی ایم جی ایس وائی III کے تحت 540 کلومیٹر سے زیادہ کی دوری پر محیط 112 سڑکوں کی بہتری کا منصوبہ ہے۔ وزیر اعظم نے آنند نگر اور اگرتلہ گورنمنٹ ڈینٹل کالج میں اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل مینجمنٹ کا بھی افتتاح کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے تقریب کے آغاز کے لیے بے صبری سے انتظار کرنے کے لیے اس موقع پر موجود سبھی کا شکریہ ادا کیا اور میگھالیہ میں مصروفیات کی وجہ سے ہونے والی معمولی تاخیر کے لیے معذرت بھی کی جہاں انھوں نے اس سے قبل کئی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور وقف کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ریاست میں گزشتہ 5 سالوں سے صفائی مہم کے سلسلے میں کئے گئے قابل ستائش کام کا اعتراف کیا اور کہا کہ تریپورہ کے لوگوں نے ہی اسے عوامی تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر تریپورہ ہندوستان کی سب سے صاف ریاست کے طور پر سامنے آئی ہے جب بات چھوٹی ریاستوں کے رقبے کے لحاظ سے آتی ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘ماں تریپورہ سندری کے آشیرواد سے تریپورہ کی ترقی کا سفر نئی بلندیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے’’۔ وزیر اعظم نے تریپورہ کے لوگوں کو آج کے پروجیکٹوں کے لیے مبارکباد دی جو کنیکٹیویٹی، ہنر کی ترقی اور غریبوں کے گھر والوں جیسی اسکیموں سے متعلق ہیں۔ ‘‘تریپورہ کو آج اپنا پہلا ڈینٹل کالج مل رہا ہے’’ وزیر اعظم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تریپورہ کے نوجوانوں کو اب ریاست چھوڑے بغیر ڈاکٹر بننے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آج ریاست کے 2 لاکھ سے زیادہ غریب لوگ اپنے نئے پکے گھروں میں گرہ پرویش کر رہے ہیں جہاں گھروں کے مالکان ہماری مائیں بہنیں ہیں۔ وزیر اعظم نے ان گھرانوں کی خواتین کو مبارکباد دینے کا موقع لیا جو پہلی بار گھر کی مالکن بنیں گی۔ ‘‘غریبوں کے لیے مکانات بنانے کے معاملے میں تریپورہ ایک سرکردہ ریاستوں میں سے ایک ہے’’ وزیر اعظم نے شری مانک ساہا جی اور ان کی ٹیم کے کام کی تعریف کی۔ انہوں نے پنڈال کے راستے میں ہزاروں حامیوں کی طرف سے ملنے والے پرتپاک استقبال پر بھی تبصرہ کیا۔ شمال مشرقی کونسل کی میٹنگ کو یاد کرتے ہوئے جس میں وزیر اعظم نے پہلے دن میں شرکت کی تھی، انہوں نے تریپورہ سمیت تمام شمال مشرقی ریاستوں کے لیے مستقبل کی ترقی کے روڈ میپ پر بات چیت کے بارے میں بصیرت فراہم کی۔ انہوں نے ‘اشٹ آدھار’ یا ‘آش لکشمی’ یا آٹھ شمال مشرقی ریاستوں کی ترقی کے لیے آٹھ اہم نکات کے بارے میں بتایا۔ تریپورہ کی ڈبل انجن والی حکومت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست میں ترقیاتی اقدامات کو تیز کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ ڈبل انجن والی حکومت سے پہلے شمال مشرقی ریاستوں کے بارے میں صرف انتخابات اور تشدد کی کارروائیوں کے دوران بات کی جاتی تھی۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ ‘‘آج تریپورہ میں صفائی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور غریبوں کو مکانات فراہم کرنے کے لیے بات کی جا رہی ہے’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ہزاروں کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے اور ریاستی حکومت زمین پر نتائج دکھا کر اسے ممکن بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘پچھلے 5 سالوں میں، تریپورہ کے بہت سے دیہاتوں کو سڑک سے رابطہ ملا ہے اور تریپورہ کے تمام دیہاتوں کو سڑکوں سے جوڑنے کے لیے پہلے سے ہی تیز رفتار کام جاری ہے۔’’ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جن پروجیکٹوں کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اس سے ریاست کے سڑکوں کے جال کو مزید تقویت ملے گی، دارالحکومت میں ٹریفک میں آسانی ہوگی اور زندگی آسان ہوگی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘تریپورہ کے راستے شمال مشرقی خطہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک گیٹ وے بن رہا ہے’’۔ انھوں نے نئی راہوں کے بارے میں بتایا جو اگرتلہ-اکھورا ریلوے لائن اور انڈیا-تھائی لینڈ-میانمار ہائی وے کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ کھلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرتلہ میں مہاراجہ بیر بکرم ہوائی اڈے پر بین الاقوامی ٹرمینل کی تعمیر سے کنیکٹویٹی کو فروغ ملا ہے۔ نتیجے کے طور پر تریپورہ شمال مشرق کے ایک اہم لاجسٹک مرکز کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے تریپورہ میں انٹرنیٹ کنیکٹویٹی دستیاب کرانے کی حکومت کی کوششوں کی تعریف کی جو آج کے نوجوانوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘یہ تریپورہ کی ڈبل انجن سرکار کی کوششوں کی وجہ سے ہے کہ اب بہت سی پنچایتیں آپٹیکل فائبر سے منسلک ہیں۔’’ سماجی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے ڈبل انجن سرکار کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے آیوشمان بھارت اسکیم کی مثال دی جس کے تحت شمال مشرق کے دیہاتوں میں سات ہزار سے ز��ادہ صحت و معالجہ مراکز کو منظوری دی گئی ہے۔‘‘ تریپورہ میں تقریباً ایک ہزار ایسے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح آیوشمان بھارت-پی ایم جے اسکیم کے تحت تریپورہ کے ہزاروں غریب لوگوں کو 5 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت ملی ہے’’۔ جناب مودی نے کہا کہ ‘‘بیت الخلا ہوں، بجلی ہو یا گیس کنکشن، اس طرح کا وسیع کام پہلی بار کیا گیا ہے’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈبل انجن والی حکومت سستے داموں پائپ گیس لانے اور ہر گھر تک پائپ سے پانی پہنچانے کے لیے تیز رفتاری سے کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ صرف 3 سالوں میں تریپورہ کے 4 لاکھ نئے کنبوں کو پائپ کے ذریعے پانی کی سہولیات سے جوڑا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا کا ذکر کیا جس سے تریپورہ کی 1 لاکھ سے زیادہ حاملہ ماؤں کو فائدہ پہنچا ہے، جس کے تحت غذائیت سے بھرپور خوراک کے لیے ہر ماں کے بینک اکاؤنٹ میں ہزاروں روپے براہ راست جمع کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں آج اسپتالوں میں زیادہ سے زیادہ ڈیلیوری ہو رہی ہے اور ماں اور بچے دونوں کی جانیں بچائی جا رہی ہیں۔ ہماری ماؤں اور بہنوں کے لیے آتم نربھرتا (خود انحصاری) پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ حکومت نے خواتین کے روزگار کے لیے سینکڑوں کروڑ کا خصوصی پیکیج جاری کیا ہے۔ انہوں نے ریاستی حکومت کی کوششوں کی بھی تعریف کی اور کہا کہ ‘‘ڈبل انجن حکومت کے بعد تریپورہ میں خواتین کے خود مدد گروپوں کی تعداد میں 9 گنا اضافہ ہوا ہے۔’’ ‘‘دہائیوں سے، تریپورہ پر ایسی پارٹیوں کی حکومت رہی ہے جن کے نظریے کی اہمیت ختم ہو گئی ہے اور جو موقع پرستی کی سیاست کرتی ہیں’’ وزیر اعظم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح تریپورہ کو ترقی سے محروم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے غریب، نوجوان، کسان اور خواتین ہیں۔ انہوں نے کہا ‘‘اس قسم کا نظریہ، اس قسم کی ذہنیت عوام کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ وہ صرف منفی کو پھیلانا جانتے ہیں اور ان کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈبل انجن والی حکومت ہے جس کے پاس عزم کے ساتھ ساتھ کامیابی کا مثبت راستہ ہے۔ اقتدار کی سیاست کی وجہ سے ہمارے قبائلی معاشروں کو پہنچنے والے بڑے نقصان پر غور کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قبائلی معاشرے اور قبائلی علاقوں میں ترقی کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا۔ ‘‘بی جے پی نے ان سیاست کو بدل دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ قبائلی سماج کی پہلی پسند بن گئی ہے’’، وزیر اعظم نے گجرات کے حالیہ انتخابات کو یاد کرتے ہوئے 27 سال بعد بھی بی جے پی کی زبردست جیت میں قبائلی سماج کے تعاون کی ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘بی جے پی نے قبائلیوں کے لیے مخصوص 27 میں سے 24 سیٹیں جیت لی ہیں’’۔ وزیر اعظم نے قبائلی برادریوں کی بہتری کے لیے کیے گئے ترقیاتی کاموں پر روشنی ڈالی اور یاد دلایا کہ یہ اٹل جی کی حکومت تھی جس نے سب سے پہلے قبائلیوں کے لیے ایک الگ وزارت اور الگ بجٹ کا انتظام کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘قبائلی برادری کا بجٹ جو 21 ہزار کروڑ روپے تھا آج 88 ہزار کروڑ روپے ہے’’۔ وزیراعظم نے بتایا کہ قبائلی طلباء کے وظائف کو بھی دوگنا کر دیا گیا ہے۔ ‘‘2014 سے پہلے قبائلی علاقوں میں 100 سے کم ایکلویہ ماڈل اسکول تھے جب کہ آج یہ تعداد 500 سے زیادہ تک پہنچ رہی ہے۔ تریپورہ کے لیے بھی ایسے 20 سے زیادہ اسکولوں کی منظوری دی گئی ہے’’، وزیر اعظم نے بتایا انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کروائی کہ پہلے کی حکومتیں صرف 8-10 جنگلاتی مصنوعات پر ایم ایس پی دیتی تھیں جبکہ بی جے پی حکومت 90 جنگلاتی پیداوار پر ایم ایس پی دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا‘‘آج قبائلی علاقوں میں 50,000 سے زیادہ ون دھن کیندر ہیں جو تقریباً 9 لاکھ قبائلیوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں’’۔ وزیر اعظم نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یہ بی جے پی حکومت ہے جس نے سمجھا کہ قبائلیوں کے لیے فخر کا کیا مطلب ہے اور اسی لیے اس نے 15 نومبر کو بھگوان برسا منڈا کی یوم پیدائش کو جنجاتیہ گورو دیوس کے طور پر ملک بھر میں منانا شروع کیا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ ملک بھر میں 10 قبائلی فریڈم فائٹر میوزیم قائم کیے جا رہے ہیں اور تریپورہ میں صدر دروپدی مرمو جی نے حال ہی میں مہاراجہ بیرندر کشور مانیکیا میوزیم اور ثقافتی مرکز کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تریپورہ حکومت بھی قبائلی شراکت اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے اور انہوں نے تریپورہ کے قبائلی فن اور ثقافت کو آگے بڑھانے والی شخصیات کو پدم سمان سے نوازنے کے اعزاز کو اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے تریپورہ کے چھوٹے کسانوں اور صنعت کاروں کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کے لیے ڈبل انجن والی حکومت کی کوششوں کا اعادہ کیا۔ جناب مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ‘‘یہاں کے لوکل کو گلوبل بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں’’۔ انہوں نے تریپورہ سے بیرون ملک پہنچنے والے انناس کی مثال دی۔ صرف یہی نہیں، یہاں سے سینکڑوں میٹرک ٹن دیگر پھل اور سبزیاں بھی بنگلہ دیش، جرمنی اور دبئی کو برآمد کی گئی ہیں اور اس کے نتیجے میں کسانوں کو ان کی پیداوار کی زیادہ قیمتیں مل رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تریپورہ کے لاکھوں کسانوں نے پی ایم کسان سمان ندھی سے اب تک 500 کروڑ روپے سے زیادہ وصول کیے ہیں۔ انہوں نے تریپورہ میں آگر لکڑی کی صنعت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ تریپورہ کے نوجوانوں کے لیے نئے مواقع اور آمدنی کا ذریعہ بنے گی۔ اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر اعظم نے کہا کہ تریپورہ اب ریاست میں ترقی کے دوہرے انجن کی آمد کے ساتھ امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔جناب مودی نے اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘مجھے تریپورہ کے لوگوں کی صلاحیت پر پورا بھروسہ ہے۔ ہم ترقی کی رفتار کو تیز کریں گے، اس یقین کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو’’۔ اس موقع پر تریپورہ کے وزیر اعلیٰ، پروفیسر (ڈاکٹر) مانک ساہا، تریپورہ کے گورنر جناب ستیہ دیو نارائن آریہ، تریپورہ کے نائب وزیر اعلی جناب جشنو دیو ورما اور مرکزی وزیر مملکت محترمہ پرتیما بھومک اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم کی ایک اہم توجہ اس بات کو یقینی بنانے کی طرف ہے کہ ہر ایک کے پاس اپنا گھر ہو۔ خطے میں اسی کو یقینی بنانے کی سمت ایک اہم قدم کے طور پر وزیر اعظم نے پردھان منتری آواس یوجنا – شہری اور پردھان منتری آواس یوجنا – دیہی کے تحت استفادہ کنندگان کے لیے گرہ پرویش پروگرام کا آغاز کیا۔ یہ مکانات 3400 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیے گئے ہیں جس سے 2 لاکھ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں گے۔ سڑک کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اگرتلہ بائی پاس (خیر پور-امٹالی) این ایچ – 08 کو چوڑا کرنے کے منصوبے کا افتتاح کیا، جس سے اگرتلہ شہر میں ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے پی ایم جی ایس و��ئی III (پردھان منتری گرام سڑک یوجنا) کے تحت 230 کلومیٹر سے زیادہ طویل 32 سڑکوں اور 540 کلومیٹر سے زیادہ کی دوری پر محیط 112 سڑکوں کی بہتری کے لیے سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے آنند نگر اور اگرتلہ گورنمنٹ ڈینٹل کالج میں اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل مینجمنٹ کا بھی افتتاح کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ م ع۔ع ن ()","প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ত্ৰিপুৰাৰ আগৰতলাত ৪৩৫০ কোটি টকাৰ বিভিন্ন গুৰুত্বপূৰ্ণ প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে, উদ্বোধন কৰে আৰু দেশবাসীলৈ উৎসৰ্গা কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%88%D8%AF%DA%BE-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,نئیدہلی،02مئی ۔وزیر اعظم جناب نرنیدر مودی نے نئی دلی میں بودھ جینتی کی تقریب افتتاح میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے: اسٹیج پر موجود کابینہ میں میرے رفیق ڈاکٹر مہیش شرما جی ، جناب کرن رجیجو جی ، انٹر نیشنل بودھشٹ فاؤنڈیشن کے سکریٹر ی جنرل دھما پی اے جی اور ملک بھر سے آئے سبھی عقیدت مندوں ،خواتین وحضرات ! ہمارے یہاں منتروں کی طاقت کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اگر ایک ساتھ ایک ہی جگہ ہزاروں افراد ایک ہی کیفیت سے ایک منترکا جاپ کریں تو توانائی کا ایک وسیع تردائرہ بن جاتا ہے ۔ یہا ں بھی ہم سب نے اسی دائرہ توانائی کا احساس کیا ہے ۔آنکھیں کھلی ہیں تو ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں لیکن دماغ کی نسوں میں بھگوان بودھ کے نا م کا تلفظ صوتی ہر لمحہ جاری ہے ۔ یہ بات میں ، آپ او ر ہم سبھی لوگ بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔بھگوان بودھ کے لئے ہمارا جذبہ اور عقیدت بیان کرنے کے لئے الفاظ کم پرجائیں گے ۔ جیسے لوگ کسی کیفیت میں محو ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح ہم لوگ بھی بھگوان بودھ میں محو ہوجاتے ہیں ۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آج بودھ پورنیما کے مقدس موقع پر مجھے آپ سبھی کے درمیان حاضر ہونے اور یہاں تشریف فرما مذہبی رہنماؤں سے آشیر واد لینے کا موقع حاصل ہوا ۔ابھی ہمارے مہیش شرما جی اور کرن رجیجو جی بتارہے تھے کہ میں دوسر ی بار یہاں آیا ہوں ۔گزشتہ برس بھی حاضر ہوتا لیکن اس سال سری لنکا میں بیساکھ کی ایک تقریب میں مجھے مہمان خصوصی کی حیثیت سے موعو کیا گیا تھا۔ اس روز مجھے سری لنکا کے لوگوں کے ساتھ بودھ پورنیما کا تہوار منانے اور دنیا بھر سے آئے بودھ مذہبی رہنماؤں کے درمیان بودھ پورنیما منانے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی تھی ۔ ہم سب تو بہت مصروف رہتے ہیں ۔ اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں لیکن اس مصروفیت کے درمیان بھی ہم زندگی کے کچھ لمحوں میں بھگوان بودھ کا نام لے کر نہال ہوجاتے ہیں۔یہاں موجود سبھی دھرم گورو اور بھکشو حضرات نے اپنی پوری زندگی بھگوان بودھ کے رحم دلی اور محبت کے پیغامات کی تشہیر کے لئے قربان کردی ہے ۔آپ سب لوگ بھگوان بودھ کے راستے پر چل رہے ہیں۔ میں اس موقع پر دنیا بھر سےآئے بھگوان بودھ کے پیغام رسانوں اور تمام عظیم انسانوں کو سرنگوں ہوکر سلام عقیدت پیش کرتا ہوں ۔ آپ سبھی لوگ ملک کے الگ الگ علاقوں سے یہاں آئے ہیں ۔ میں آپ سب کا بھی دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کرتا ہوں۔ مجھے آج یہ مقدس کام کرنے والے اداروں ، نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو اعزازات پیش کرنے کا موقع بھی حاصل ہوا ہے ۔ میں ان سے بھی کوششوں کو ان کے محترم تعاون کو سلام اور خیر مقدم کرتا ہوں اور مستقبل کے لئے انہیں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ خاص طور سے سارناتھ کے سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹبیٹن اسٹڈیز اور بودھ گیا کے آل انڈیا بھکشک سنگھ کو میں ویشاکھ اعزاز حاصل کرنے کے لئے بصد احترام مبارکباد دیتا ہوں ۔ آج ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اس دھرتی سے جتنے بھی نظریات پید ا ہوئے ، ان سبھی نظریات میں سب سے بلند جذبہ صرف اور صرف انسانی فلاح اور کائنات کی فلاح رہا ہے ۔ یہی مرکزی خیال اس دھرتی سے پیدا ہونے والے سبھی نظریات کا مرکز رہا ہے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ نئے نئے نظریات اور خیالات کے دورمیں نہ تو میرے اور تمہار ے نظریات اور خیالات میں اور نہ ہی میرے اورتمہارے معبود کے درمیان کو ئی فرق ہے ۔مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ نئے نئے نظریات او ر خیالات کے اس دورمیں کبھی بھی دوسروں کے حقوق یا جذبات کو غصب نہیں کیا گیا ہے ۔ ساتھیو ! یہ ہماری ا س عظیم دھرتی کی خصوصیت رہی ہے کہ ہم سب سینہ تان کر دنیا کی آنکھ سے آنکھ ملاکر کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ثقافت ، ہماری تہذیب ، ہماری تاریخ اور ہماری روایات اس بات کی گواہ ہیں کہ ہندوستان کبھی بھی حملہ آور نہیں رہا ہے ۔ ہمارے ملک نے کبھی بھی کسی دوسرے دیش کی سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کی ہے ۔ ہزاروں برسوں سے ہماری تہذیب وثقافت بنیادی فکر کے سبب اسی راستے پر گامزن رہی ہے۔ ساتھیو! سدھارتھ – اور سدھارتھ سے گوتم بدھ بننے کا سفر محض نجات حاصل کرنے کے راستے کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ کہانی اس سچائی کی ہے کہ جو شخص بھی اپنے علم ،اپنی دولت او ر اپنی املاک او ر اثاثہ جات سے دوسروں کی تکلیفیں دورکرنے کی کوشش کرتا ہے ، ایسا ہر شخص سدھارتھ سے بھگوان بودھ بننے کے راستے پر چل سکتا ہے اور بودھ علمیت حاصل کرسکتا ہے ۔ بودھ کے لفظ کے معنی تشدد کے لئے آمادہ حالات سے خالص داخلی حالت میں آجانا ، انسان اور انسان کے درمیان کوئی سماج، اس کی ذات ،اس کا قبیلہ اور اس کی زبان کی بنیاد پر امتیاز وتفریق نہ کرنا ۔ یہ پیغام نہ ہندوستان کا ہوسکتا ہے اور نہ یہ بودھ کا ہوسکتا ہے بلکہ پوری کائنات کا پیغام ہوسکتا ہے ۔یہاں کوئی کسی بھی ذات ،قبیلے ، زمرے یا عقیدت کا ہو،اسے ہمیشہ اپنا پن اور یگانگت کے ساتھ بہت ہی سادگی کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول کرتا ہے۔ یہودی سماج ہو یا پارسی سماج ہو ، ہزاروں برسوں سے یہاں آباد ہیں اور ہم میں گھل مل گئے ہیں ۔ پھر جو ہمارے وجود کا جزو لاینفک ہو ، ناقابل تقسیم ہو ، ہم نے اس سے تفریق کا تصور بھی کبھی نہیں کیا ۔ ساتھیو ! دنیا کا کوئی بھی ملک ہو ، ذات پات سے لے کر دہشت گردی تک ، سماجی انصاف کو چیلنج کرنے والی ہر پیچیدگی انسان نے خود ہی پیدا کی ہے ۔ یہ تفریقی سنگینی ہی ناانصافی ،استحصال ،ظلم ،تشدد ،سماجی کشیدگی کو ختم کرنے کا بنیادی سرچشمہ ہے جبکہ دوسری طرف انصاف ،آزادی اور انسانی حقوق کے اصول ، مساوات کے اصول کے ہی مظہر ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مساوات ان اصولوں کا بنیادی عنصر ہے ۔ بھگوان بودھ نے اپنی تعلیمات میں ، ’’ اشٹانگ‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ بھگوان بودھ کے پیغامات میں ’’اشٹانگ ‘‘کی بات موجود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اشٹانگ کے راستے پر چلے بغیر ،اس کوسمجھے بغیر بھگوان بودھ کو پانا مشکل ہوتا ہے ۔ بھگوان بودھ نے اشٹانگ میں کہا ہے کہ ایک مساوی زاویہ نظر دوسرا مساوی تصور ،تیسرا مساوی زبان ،چوتھا مساوی برتاؤ، پانچواں مساوی روزی ، چھٹا مساوی کوششیں ،ساتواں مساوی احساس اور آٹھواں مساوی فکر ۔ بھگوان بودھ نے یہ اشٹانگ ہمارے لئے معین کئے ہیں ۔ ساتھیو! بھگوان بودھ ان فلسفیوں میں سے تھے ،جنہیں منطقی ذہانت اور جذبے کا عزم ضروری محسوس ہوتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں سے بغیر کسی قسم کی تفریق یا امتیاز کے یکساں سلوک کرتے تھے اور ان کے نظریات کو منطق کی کسوٹی پر کسنے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے ۔ بھگوان بودھ کے پیغامات کو ٹھوس فلسفیانہ شکل دینے والے عظیم بودھ مفکر نے دوسری صدی عیسوی میں شہنشاہ اودے کو جو مشورہ دیا تھا وہ آج بھی انتہائی منطبق ہوتا نظر آتا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا ’’ بینائی سے محروم لوگو ! محروم اور بے سہارا لوگو اور نادار لوگوں کو بغیر کسی قسم کی دشواری کے کھانا اور پانی دستیاب کرنے کا انتظام اور ان کے لئے درد مندی کا جذبہ رکھنا چاہئے ۔ تکلیف زدہ اور بیمار لوگوں کی مکمل دیکھ بھا ل اور پریشان کسانوں کو بیج اور دیگر ضروری تعاون فراہم کرایا جانا چاہئے ۔ بھگوان بودھ کا عالمی ویژن صرف اس بات پر مرکوز رہا کہ سب کا دکھ سب کی تکلیفیں ہمیشہ کے لئے کیسے دور ہوجائیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسی کے دکھ کو دیکھ کر دکھی ہونے سے بہتر ہے کہ اس شخص کو اس کا دکھ دورکرنے کا اہل بنایا جائے اور اسے بااختیار بنایا جائے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری سرکار در د مندی اور خدمت کے جذبے کے ساتھ اسی راستے پر چل رہی ہے جو بھگوان بودھ نے ہمیں دکھایا تھا ۔زندگی کے دکھ کیسے دور ہوں ،تکلیفیں کیسے کم ہوں ، ایک عام ذی روح کی زندگی کو کیسے آسان بنایا جائے ، ہم اسی فکر کو اولیت دیتے ہیں ۔ جن دھن یوجنا کے تحت 31 کروڑ سے زیادہ لوگوں کا بینک اکاؤنٹ کھولنا ،90 پیسے یومیہ اور ایک روپیہ ماہانہ کے پریمئیم پر بیمے کی سہولت حاصل کرنا ۔ تین کروڑ 70 لاکھ سے زائد غریب خواتین کو مفت گیس کنکشن اور گیس کا چولہا دینا ،مشن اندر دھنش کے تحت تین کروڑ سے زائد شیر خواروں اور 80 لاکھ سے زائد حاملہ خواتین کی ٹیکہ کاری اور مدرا اسکیم کے تحت 12 کروڑ سے زیادہ کا قرض دینا ایسے متعدد کام اس سرکار نے غریبوں کو بااختیار بنانے کے لئے کئے ہیں ۔ اور اب تو آئشمان بھارت اسکیم کے تحت سرکار تقریباََ 50 کروڑ غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک کے علاج کی سہولیت کو بھی یقینی بنانے کے لئے آگے بڑھ رہی ہے ۔ ساتھیو ! یہ مجموعیت کا نظریہ ہی سب کو ساتھ چلنے کا خیال ہی تھا ،جس نے بھگوان بودھ کی زندگی کو یکسر بدل دیا ۔ ایک راجہ کے بیٹےتھے ،ساری آسائشیں انہیں حاصل تھیں ، لیکن جب بھی وہ غریب کو دیکھتے ، اس کے درد اور اسکی تکلیف کو دیکھتے تو ان کے داخل میں یہ جذبہ ابھر آتا کہ میں اس سے الگ نہیں بلکہ اسی کے ساتھ ہوں ۔ اس سچائی نے ہی انہیں ایک عظیم ویژن دیا ۔آج اس جذبے کو ہم اپنے جس قدر داخل سے اختیارکرسکتے ہیں ، ہم اتنے ہی انسان بننے کے قابل ہوسکیں گے ۔ 21 ویں صدی کو دنیا کی سب سے اہم صدی بنانے کے لئے یہ کیاجانا بہت ضروری ہے ۔ بھائیو اور بہنو ! غلامی کے لمبے دورکے بعد ہمارے یہاں بھی اپنی تہذیبی وراثت کو محفوظ کرنے کا کام اس طریقے سے نہیں ہوا جیسے ہونا چاہئے تھا ، جو ملک اپنی تاریخ کی حفاظت کرتے ہیں ۔ا س وراثت کو اسی کا کام اس طریقے سے نہیں ہوا جیسا ہونا چاہئے تھا ۔وہ ہمارا مالک پوری طرح حاصل نہیں کرسکا ۔ اسے پیش نظررکھتے ہوئے ہماری سرکار اپنی تہذیبی وراثت اور خاص طور سے بھگوان بودھ سے جڑی یادوں کے لئے ایک وسیع تر ویژن پر کام کررہا ہے ۔ ہمارے ملک میں تقری��اََ 18 ریاستیں ایسی ہیں جن میں بھگوان بودھ کا کوئی نہ کوئی تیرتھ استھان واقع ہے ۔ ان میں سے کئی تو دو ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے آرہے ہیں ۔ ایسے میں یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ جو لوگ ان تیرتھ استھانوں کے درشن کے لئے آتے ہیں ، ان مقامات کی ان کی سہولیات کے لحاظ سے بھی فروغ دیا جائے ۔اسی سوچ پر چلتے ہوئے ملک میں سودیش درشن اسکیم کے تحت ایک بدھشٹ سرکٹ پر بھی کام کیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ سڑک ٹرانسپورٹ کی وزارت ، گیا -وارانسی ، کشی نگر اس پورے راستے پر سڑکوں کے کنارے ضروری سہولیات فراہم کرنے کا کام کررہی ہے ۔ وزارت سیاحت ہر دوسال میں ’’انٹرنیشنل کنکلیو آن بدھزم‘‘ کا اہتمام کرتی ہے ۔ اس سال جب یہ پروگرام ہوگا تو اس میں بھی دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں سے عالم حضرات شرکت کریں گے ۔اس طرح کے پروگراموں کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہماری تہذیب وراثت دنیا کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جاسکے ۔ مقامی سطح پر اوردوسرے ملکوں کے سیاح بھی ان بودھ تیرتھ استھانوں کو دیکھنے جائیں ۔ ان کے بارے میں معلومات حاصل کریں ۔ ساتھیو! یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ آج ڈھائی برس بعد بھی بھگوان بودھ کی تعلیمات ہمارے درمیان موجود ہیں ۔یقینی طور سے ہم سے پہلے کے لوگوں کا کردار اس میں زیادہ نمایاں نہیں رہا ہے ۔ لیکن یہ ہم سے پہلے کی نسلوں کی خدمات تھیں اور ان کا تحفظ تھا کہ آج ہم بودھ پورنیما کے روز اس طرح کے پروگرام منعقد کررہے ہیں ۔ ڈھائی ہزارسال تک ہمارے اجداد نے اس وراثت کو سنبھال کررکھا اور اس وراثت کو اگلی نسل کو سونپنے کے لئے مسلسل کوششیں کیں ۔ اب مستقبل کی انسانی تاریخ آپ کی سرگرم خدمات کا انتظارکررہی ہے ۔ آپ کے عزم کی منتظر ہے۔ مجھے آج بودھ پورنیما کے اس مقدس موقع پر بھگوان بودھ کے قدموںمیں بیٹھنے کا موقع ملا ۔ ان کے سامنے سرنگوں ہونے کا موقع حاصل ہوا ۔آپ سبھی سے ملاقات کا موقع حاصل ہوا ۔ اس کے لئے میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں ۔ آپ سب کو ایک بار پھر بودھ پورنیما کی نیک خواہشات ! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم 2383-U,নতুন দিল্লীত বুদ্ধ জয়ন্তী উদযাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ উদ্ধোধনী ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AC%D8%A7%DB%81%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%8C-%D9%84%D9%88%DA%A9-%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مجاہدین آزادی ، لوک مانیہ تلک اور چندر شیکھر آزاد کو ان کی یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جناب مودی نے من کی بات کا ایک اقتباس بھی شراکت کیا جس میں انہوں نے چند سال پہلے لوک مانیہ تلک اور چندر شیکھر آزاد کے بارے میں بات کی تھی۔ انہوں نے اپنے ممبئی دوروں کی تصویریں بھی شراکت کیں، جب انہوں نے لوک مانیہ سیوا سنگھ کا دورہ کیاتھا، جس کا لوک مانیہ تلک کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ٹویٹس کی ایک سیریز میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’میں ماں بھارت کے دو عظیم سپوتوں، لوک مانیہ تلک اور چندر شیکھر آزاد کو ان کی یوم پیدائش پر خراج عقیدت کرتا ہوں۔ یہ دونوں عظیم شخصیتیں، ہمت اور حب الوطنی کا مظہر ہیں۔ کچھ سال پہلے #من کی بات کے دوران میں نے ان کے بارے میں جو ب��ت کی تھی اسے شراکت کر رہا ہوں‘‘۔ ’’لوک مانیہ تلک کی لازوال میراثوں میں سے ایک، بڑے پیمانے پر گنیش اتسو ہے، جس نے لوگوں میں ثقافتی شعور کی روح کو جگایا۔ اپنے ممبئی کے ایک دورے کے دوران، میں نے لوک مانیہ سیوا سنگھ کا دورہ کیا، جس کا لوک مانیہ تلک کے ساتھ قریبی تعلق ہے‘‘۔,জন্ম-বাৰ্ষিকীত স্বাধীনতা সেনানী লোকমান্য তিলক আৰু চন্দ্ৰশেখৰ আজাদলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D9%88%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%8C-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D8%AF%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81%D9%94-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%A8-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BF/,نئی دہلی، 22/جون۔ نمسکار، نیویارک اسٹیٹ میں قدرتی طریقۂ علاج کے مرکز کے افتتاح کے لئے، تشریف لائے ہوئے معززین اور مدعوئین، ناظرین جو اس پورے عمل کو آن لائن اور ٹیلی ویژن پر ملاحظہ کررہے ہیں، خواتین و حضرات! بین الاقوامی یوم یوگ کے موقع پر مبارکباد۔ آج صبح میں سماج کے مختلف طبقوں پر مشتمل ہزارہا افراد کے ساتھ اس موقع پر دہرادون کے خوبصورت شہر میں، جو ہمالیہ کی گود میں واقع ہے، شامل ہوکر بہت مسرور ہوں۔ گزشتہ چند دنوں سے میں دنیا بھر میں تقریبات میں شریک ہونے والے افراد کی تصاویر دیکھتا رہا ہوں، دراصل صرف تین سالوں کے اندر یہ تقریب ایک عالمگیر عوامی تحریک بن گئی ہے۔ یہ متعدد ممالک میں عوامی زندگی کا مربوط حصہ بن گئی ہے۔ اس کے اثرات، اس کے منائے جانے کے دن سے بھی کہیں آگے تک جاچکے ہیں۔ میں بین الاقوامی یوم یوگ کے منائے جانے کے سلسلے میں تین موضوعات ذہن میں رکھتا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ لاکھوں لوگوں کے لئے ابتدا کا موقع ہے، جو یوگ کے جذبے سے سرشار ہوکر اس عمل میں لگے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا موقع ہے جو پہلے سے یوگا سے متعارف ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو اس کام میں ازسرنو مشغول کررہے ہیں۔ تیسرا موضوع یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ ہزاروں افراد اور ادارے جنھوں نے پہلے ہی یوگ سے استفادہ کیا ہے، ان تک رابطہ قائم کررہے ہیں، جو ابھی یوگ سے مربوط نہیں ہیں۔ اس عمل میں بین الاقوامی یوم یوگ دنیا بھر میں بہت سے ملکوں میں ایک میلے یا تہوار کے طور پر منایا جارہا ہے۔ لفظ یوگ کا مطلب ہے متحد ہونا۔ لہٰذا یوگ میں بڑھتی ہوئی یہ دلچسپی مجھے امید سے معمور کردیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یوگ پوری دنیا کے لئے ایک اتحادی قوت ثابت ہوسکتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بین الاقوامی یوم یوگ کو اس قدرتی طریقہ علاج کے مرکز کے افتتاح کے لئے منتخب کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مرکز یوگ کے مربوط اور ناگزیر عناصر کو اپنے تمام پروگراموں اور پہل قدمیوں میں مضبوطی کے ساتھ شامل کرنے کے لئے کام کرے گا۔ دوستو، روایتی بھارتی علوم کا نظام مثلاً یوگ اور آیوروید ہمیں صحت مند رہنے میں معاون ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں جسم اور ذہن دونوں کی دروں کمزوری پر قابو پانے کے لئے راستہ دکھاتے ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جو ایک فرد کو پوری توجہ اور احترام کے ساتھ شفا بخشتے ہیں۔ یہ طریقۂ کار نہ تو زبردستی والا ہے اور نہ ہی اس میں کہیں کوئی شدت پائی جاتی ہے۔ اکثر یہ ان لوگوں کے لئے ایک خوشگوار تبدیلی ثابت ہوتا ہے جو روایتی اور فرسودہ طریقۂ علاج ا��نایا کرتے تھے۔ آج کا انداز حیات جسم اور دماغ پر مضر اثرات مرتب کررہا ہے۔ روایتی طریقۂ علاج کی توجہ حفظان صحت پر اس لحاظ سے بہت بہتر نہیں رہی ہے کہ یہاں توجہ صرف شفایابی پر دی جاتی ہے، تدارک پر نہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں آج بڑی بڑی صحتی چنوتیوں سے نمٹنے کے لئے روایتی طریقۂ علاج درکار ہیں، تاہم یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس سلسلے میں کچھ سقم بھی ہیں، جن پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں آج حفظان صحت کے ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یوگ اور آیوروید جیسے نظام روایتی ادویات نظام کے ساتھ پوری طرح سے تال میل بناکر کام کرسکتے ہیں۔ یہ جامع نظام کلی صحت اور امراض کے روک تھام دونوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ان جامع طریقہ ہائے علاج کو اپنانے سے صحت بہتر ہوتی ہے اور انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اس کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ چند افراد کے نظریے کے برخلاف یوگ محض کثرت یا آسنوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ دل و دماغ اور جسم اور روح پر گہرائی سے اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ عرفان ذات کی تفہیم فراہم کرتا ہے۔ یہ انسان کو سماجی نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے اور اس کے بدلے میں اخلاقیات کا فروغ ہوتا ہے اور زندگی کے پائیدار حقائق اجاگر ہوتے ہیں۔ یوگ ایک عمیق فلسفہ ہے، جو ہمیں تمام طرح کے تفکرات سے نجات دے سکتا ہے۔ دوستو، میں نے ہمیشہ یہی یقین کیا ہے کہ یوگ کا کوئی مذہب نہیں ہے، اس میں وہ عملی اقدامات شامل ہیں جو ہر کسی کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں، یہاں تک کہ ان کو بھی جو خود کو مذہبی نہیں سمجھتے۔ جدید یوگ کے طریقے اکثر قدیم دانش مندانہ عناصر پر مبنی ہیں، ان میں اخلاقی اور روایتی اصول، آسن شامل ہیں، جو جسم کو چاق و چوبند رکھتے ہیں، روحانی فلسفہ بھی شامل ہے۔ گورو کے ذریعے ملنے والی نصیحت، منتروں کا اچارن، تنفس کے عمل کو متوازن کرنا اور ذہن کو مراقبے کے ذریعے یکسوئی کی جانب مائل کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ یوگ ایک فرد کے انداز حیات کو بدلنے پر زور دیتا ہے، ساتھ ہی انداز حیات سے جڑی ہوئی ناقص چیزیں آسانی کے ساتھ روکی جاسکیں اور ان کا انتظام کیا جاسکے، یوگا کے ماہرین اس روزانہ کے عمل کو مفید خیال کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں صحت بہتر ہوتی ہے، جذباتی عافیت نصیب ہوتی ہے، ذہنی افق صاف ہوتا ہے اور زندگی کا لطف آتا ہے۔ یہ یقین کہ یوگ کے کچھ آسن اور پرانایام بہت ساری بیماریوں کو روکنے میں مددگار ہیں، صدیوں سے بھارت میں رائج رہا ہے۔ اب جدید سائنس نے اس کے لئے ثبوت فراہم کرنے شروع کئے ہیں۔ سائنس نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ یوگا کے ذریعے متعدد جسمانی اعضاء پر قابو حاصل کیا جاسکتا ہے، جن میں دل، دماغ اور ہارمون خارج کرنے والے غدود شامل ہیں۔ آج مغربی ممالک میں یوگا کے تئیں دلچسپی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یوگ کو مغربی دنیا نے زیادہ پسند کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ صرف امریکہ میں 20 ملین سے زائد افراد یوگا اپناچکے ہیں اور سالانہ 5فیصد کے لحاظ سے اس تعداد میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ امریکہ اور یوروپ کے متعدد جدید طبی اداروں نے یوگ کو متعدد خرابیوں اور نقائص کے لئے متبادل طریقہ علاج کے طور پر اپنالیا ہے۔ کافی دنوں سے یوگ کے شعبوں میں کافی تحقیق بھی کی گئی ہے۔ حکومت ہند نے صحت عامہ کے سلسلے میں ٹھوس بنیادوں پر روایتی نظام ہائے معالجے کے نفاذ کا عہد کررکھا ہے۔ گزشتہ برس اعلان کی گئی ہماری قومی صحتی پالیسی میں پوری مضبوطی کے ساتھ امراض کی روک تھام پر توجہ دی گئی ہے۔ ہم نے ملک گیر پیمانوں پر غیرمتعدی امراض کے تدارک اور روک تھام کے لئے پروگرام شروع کررکھے ہیں۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے جہاں دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی رہائش پذیر ہے۔ آج اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، تاہم مجھے پورا یقین ہے کہ مرئی نتائج جلد ہی واضح ہوجائیں گے۔ آخر میں، میں ایک بار پھر یہی کہنا چاہوں گا کہ آپ کا یہ قدرتی طریقہ علاج کی سہولت فراہم کرانے والا مرکز یوگ کے فوائد بھی سامنے لائے گا، ان سب کو اس کا فائدہ ہوگا جو یہاں آئیں گے اور اس طریقے سے سکون حاصل کریں گے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آپ کے مرکز نے عافیت اور صحت کے جو راستے اپنائے ہیں ان کا مقصد انفرادی طور پر لوگوں کی تشاویش اور تفکرات کو دور کرنا ہے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ان کا مقصد تاحیات صحتمند رہنے کا ہے۔ میں اپنے طور پر یہ تصور کرتا ہوں کہ ان مقاصد میں سائنٹفک طریقہ کار اور اصلیت کے احترام کا جذبہ کارفرما رہے۔ اسی طریقے سے مرکز بامعنی طور پر چاق و چوبند رہنے کی مہم میں مددگار ہوسکتا ہے اور یوگ کے فوائد کو امریکہ میں بڑی تعداد میں عوام تک پہنچاسکتا ہے۔ مجھے یہ جان کر بھی مسرت ہوئی ہے کہ آپ کا یہ مرکز 500 براہ راست اور 1500 بالواسطہ روزگار بالواسطہ اس شعبے میں فراہم کرے گا، اس لئے یہ مرکز سماج کا ایک ذمے دار رکن ہوگا۔ میں اس کام کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ شکریہ، آپ کا بیحد شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ م ر,মার্কিন যুক্তৰাষ্ট্রৰ নিউইয়র্কত ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সিংযোগে প্রাকৃতিক আৰোগ্য কেন্দ্রৰ উদ্বোধন উপলক্ষে প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B8-2/,عزت مآب، وزیراعظم شیربہادر دیوباجی، معزز وفود میڈیا کے ساتھیو، نمسکار! بھارت میں وزیراعظم دیوباجی کے خیرمقدم کرنے پرمجھے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے، آج بھارت کے نئے سال اور نوراتری کے مقدس موقع پردیوباجی بھارت پہنچےہیں، میں انہیں، بھارت اورنیپال کے شہریوں کو نوراتری پر نیک خواہشات پیش کرتاہوں۔ دیوبا جی ہندوستان کے ایک پرانے ووست ہیں ۔ یہ وزیراعظم کی حیثیت سے ہندوستان کے لئے ان کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ دیوبا جی نے بھارت اورنیپال کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے ۔ دوستو! بھارت اورنیپال کی دوستی ، ہمارے عوام کے درمیان تعلقات ایک ایسی مثال ہے جو دنیا میں کہی نہیں دیکھی گئی۔ہماری تہذیب، ہماری ثقافت اورہمارےتبادلوں کی ڈور، قدیم دور سے ہی ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ہم ابتدا سے ہی ایک دوسرے کی خوشی اور غم کے ساتھی رہے ہیں۔ ہماری شراکت داری کی بنیاد ہمارےعوام کے درمیان آپسی تعلقات اور ان کے درمیان تبادلے ہیں ۔ یہ ہمارے تعلقات کو توانائی دیتی ہےاورانہیں برقرار رکھتی ہے ۔ نیپال کے تناظر میں بھارت کی پالیسیاں اور اس کی کوششیں صرف اسی جذبے سے متاثر ہیں۔ ہندوستان نیپال کے امن، ترقی اور پیش رفت کے سفر میں ایک مضبوط شراکت دار رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ دوستو! آج دیوبا جی اور میں نے ان تمام موضوعات اور دیگر بہت سے اہم امور پر سود مند اورنتیجہ خیز گفتگو کی۔ ہم نے باہمی تعاون کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا اور مختلف منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا ، اس کے علاوہ مستقبل کے لیے روڈ میپ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ ہمیں بجلی کے شعبے میں تعاون کے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاور کارپوریشن پر ہمارا مشترکہ وژن بیان مستقبل کے اشتراک کے لیے ایک بلیو پرنٹ ثابت ہوگا۔ ہم نے پنچیشور پروجیکٹ کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ یہ منصوبہ خطے کی ترقی کے لیے بساط بدلنے وا لے ثابت ہوں گے۔ ہم نے نیپال کے ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ منصوبوں میں ہندوستانی کمپنیوں کی زیادہ شرکت کے موضوع پر بھی اتفاق کیا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ نیپال اپنی اضافی بجلی ہندوستان کو برآمد کر رہا ہے۔ یہ نیپال کی اقتصادی ترقی میں اچھا تعاون کرے گا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ نیپال سے بجلی درآمد کرنے کی کئی اور تجاویز کو بھی منظوری دی جا رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نیپال بین الاقوامی شمسی اتحاد کا ایک رکن بن گیا ہے۔ اس سے ہمارے خطے میں پائیدار، سستی اور صاف توانائی کو فروغ ملے گا۔ دوستو! وزیر اعظم دیوبا جی اور میں نے ہر لحاظ سے تجارت اور سرحد پار رابطے سے متعلق بہت سےاقدامات کو ترجیح دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ جے نگر-کرتھا ریل لائن کا تعارف اسی کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح کی اسکیمیں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان خوش اسلوبی اور رکاوٹوں سے پاک تبادلے میں زبردست معاون ثابت ہوں گی۔ نیپال میں روپے کارڈ کا تعارف ہمارے مالیاتی رابطے میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا۔ دیگر پروجیکٹس جیسے نیپال پولیس اکیڈمی، نیپال گنج میں مربوط چیک پوسٹ اور رامائن سرکٹ وغیرہ بھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لائیں گے۔ دوستو! ہم نے آج غیر ضروری عناصر کےذریعہ بھارت اور نیپال کی کھلی سرحدوں کے غلط استعمال کیے جانے کے معاملے پر بھی بات کی۔ ہم نے اپنے دفاعی اور سیکورٹی اداروں کے درمیان قریبی تعاون کو برقرار رکھنے پر بھی زور دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی ہماری بات چیت ہندوستان-نیپال تعلقات کے مستقبل کے لیے امیدافزا اہداف طے کرنے میں کارگر ثابت ہوگی۔ دیوباجی! آپ کل کاشی میں ہوں گے۔ نیپال اور بنارس کا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کاشی نئی شکل دیکھ کر ضرور متاثر ہوں گے۔ ایک بار پھر، میں آپ کا اور آپ کے وفد کا ہندوستان میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ وضاحت: یہ وزیر اعظم کے بیان کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل بیان ہندی میں دیے گئے۔,নেপালৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে যুটীয়া সংবাদ মেলত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ বক্তব্ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D9%91%D9%86-%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%81%D8%A7%D8%A6%D8%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%A3-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%85-2/,نئی دہلی، 9 اگست 2021، نمسکارجی ، گزشتہ کئی روز سے میں حکومت کی الگ الگ اسکیموں کے استفادہ کنندگان سے بات چیت کر رہا ہوں۔ حکومت نے جو اسکیمیں بنائی ہیں، ان کا فائدہ لوگوں تک کیسے پہنچ رہا ہے، یہ اور بہتر طریقے سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔ عوام سے ڈائریکٹ کنکشن کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ اس پروگرام میں حاضر کابینہ کے میرے تمام ساتھیو، ��لک بھر کی کئی ریاستوں سے حاضر معزز وزرائے اعلیٰ، لیفٹی ننٹ گورنر اور نائب وزرائے اعلیٰ، ریاستی حکومتوں کے وزراء، دیگر معززین، ملک بھر سے جڑے کسان اور بھائیو اور بہنو، آج ملک کے تقریباً 10 کروڑ کسانوں کے بینک کھاتوں میں 19 ہزار 500 کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کی رقم براہ راست ان کے کھاتے میں ٹرانسفر ہو گئی ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کئی اپنے موبائل میں چیک کر رہے ہیں آیا ہے کیا؟ اور پھر ایک دوسرے کو تالی دے رہے ہیں ۔ آج جب بارش کا موسم ہےاور بوائی بھی زوروں پر ہے تو یہ رقم چھوٹے کسانوں کے بہت کام آئے گی۔آج ایک لاکھ کروڑ روپئے کے زرعی انفرااسٹرکچر فنڈ کو بھی ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ اس کے ذریعہ سے ہزاروں کسان تنظیموں کو مدد مل رہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، حکومت کسانوں کو فاضل آمدنی کے ذرائع فراہم کرانے کے لئے نئی نئی فصلوں کو فروغ دینے کے لئے پوری طرح عہد بند ہے۔ مشن ہنی بی ایسی ہی ایک مہم ہے۔ مشن ہنی بی کی وجہ سے ہم نے گزشتہ سال تقریباً 700 کروڑ روپئے کے شہد کا ایکسپورٹ کیا ہے، جس سے کسانوں کو فاضل آمدنی ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر کا زعفران تو ویسے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اب حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کا زعفران ملک بھر میں نیفیڈ کی دکانوں پر دستیاب ہوگا۔ اس سے جموں و کشمیر میں زعفران کی کھیتی کو بہت فروغ ملنے والا ہے۔ بھائیو اور بہنو، آپ سبھی سے یہ بات چیت ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ اب سے چندروز بعد ہی 15اگست آنے والا ہے۔ اس بار ملک اپنا 75 واں یوم آزادی منانے جا رہا ہے۔ یہ اہم مرحلہ ہمارے لئے شان کی بات تو ہے ہی، یہ نئے عزائم، نئے نشانے طے کرنے کا بھی ایک بہت بڑا موقع ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ طے کرنا ہےکہ آنے والے 25 بر سوں میں ہم بھارت کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک جب آزادی کے 100سال مکمل کرے گا 2047 میں ، اس وقت بھارت کی صورت حال کیا ہوگی، یہ طے کرنے میں ہماری زراعت، ہمارے گاؤں، ہمارے کسانوں کا بہت بڑا رول ہے۔ یہ وقت بھارت کی زراعت کو ایک ایسی سمت دینےکا ہے، جو نئے چیلنجوں کا سامنا کر سکے اور نئے مواقع کا بھر پور فائدہ اٹھا سکے۔ بھائیو اور بہنو، اس دور میں بہت تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے ہم سب سبھی گواہ ہیں۔ چاہے موسم اور قدرت سے متعلق تبدیلیاں ہوں، کھانے پینے سے متعلق تبدیلیاں ہوں یا پھر عالمی وبا کے باعث پوری دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں ہوں۔ ہم نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں کورونا عالمی وبا کے دوران اس کو محسوس بھی کیا ہے۔ اس دور میں ملک میں ہی کھانے پینے کی عادتوں کے معاملے میں بہت بیداری پیدا ہوئی ہے۔ موٹے اناج کی، سبزیوں اور پھلوں کی، مصالحوں کی، آرگینک پیداوار کی مانگ میں اب تیزی سےاضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے ہندوستانی زراعت کو بھی اب بدلتی ہوئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی مانگ کے حساب سے بدلنا ہی ہے۔ اور مجھے ہمیشہ سے یقین ہے کہ ہمارے ملک کے کسان ان تبدیلیوں کو ضرور اختیار کریں گے۔ ساتھیو، ہم نے اس عالمی کے دوران بھی ہم نے بھارت کے کسانوں کی طاقت دیکھی ہے۔ ریکارڈ پیداوار کے درمیان ، حکومت نے بھی کوشش کی ہے کہ کسانوں کی پریشانی کم سے کم ہوں۔ حکومت نے زراعت اور اس سے متعلق ہر شعبہ کو بیج ، کھاد سے لے کر اپنی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچانےکے لیے ہر ممکن کوشش کی، تدبیر کی۔ یوریا کی سپلائی بلا روک ٹوک رکھی۔ ڈی اے پی، جس کی قیمتیں میں بین الاقوامی بازار میں اس کورونا کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوا، اس کا بوجھ بھی ہماری حکومت نے کسانوں پر پڑنے نہیں دیا۔ حکومت نے اس کے لیے فوری طور پر 12 ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا۔ ساتھیو، حکومت نے خریف ہو یا ربیع سیزن، کسانوں سے ایم ایس پی پر اب تک کی سب سے بڑی خریداری کی ہے ۔ اس سے دھان کسانوں کے کھاتے میں تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپے اور گیہوں کسانوں کے کھاتے میں تقریباً 85 ہزار کروڑ روپے براہ راست پہنچے ہیں۔ کسان اور حکومت کی اس شراکت داری کی وجہ سے آج بھارت کے اناج کے ذخیرے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ساتھیوں، ہم نے دیکھا ہے کہ صرف گیہوں، چاول، چینی میں ہی خود کفیلی کافی نہیں ہے ، بلکہ دالوں اور تیل میں بھی خود کفیلی بہت ضروری ہے۔ اور بھارت کے کسان یہ کر کے دکھا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے جب ملک میں دالوں کی بہت قلت ہوگئی تھی تو میں نے ملک کے کسانوں سے دالوں کی پیداوار بڑھانے کی اپیل کی تھی۔ میری اس اپیل کو ملک کے کسانوں نے تسلیم کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ 6 سالوں میں دال کی پیداوار میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جو کام ہم نے دلہن میں کیا ، یا ماضی میں گیہوں اور دھان کے ساتھ کیا ، اب ہمیں وہیں عزم خوردنی تیل کی پیداوار کے لیے بھی کرنا ہوگا۔ خوردنی تیل کے معاملے میں ہمارا ملک خود کفیل ہو، اس کے لیے ہمیں تیزی سے کام کرنا ہے۔ بھائیو اور بہنو ، خوردنی تیل کے معاملے خود کفیلی کے لئے اب قومی خوردنی تیل مشن-آئل پام کا عزم کیا گیا ہے۔ آج ملک بھارت چھوڑو تحریک کو یاد کر رہا ہے ، تو اس تاریخی دن یہ عزم ہمیں نئی توانائی سے بھر دیتا ہے۔ اس مشن کے ذریعے خوردنی تیل سے متعلق ایکو سسٹم پر 11 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ حکومت یہ یقینی بنائے گی کہ کسانوں کو اچھے بیج سے لے کر ٹیکنالوجی، اس کی ہر سہولیات دستیاب ہو۔ اس مشن کے تحت آئل پام کی کھیتی کو فروغ دینے کے ساتھ ہی ہماری دیگر جو روایتی تلہن فصلیں ہیں ان کی زراعت کو بھی وسعت دی جائے گی۔ ساتھیو، آج بھارت زرعی برآمدات کے معاملے میں ، پہلی بار دنیا کے ٹاپ 10 ممالک میں پہنچا ہے۔ کورونا کے دور میں ہی ملک میں زرعی پیداوار کی برآمدات کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ آج جب بھارت پہنچان ایک بڑے زرعی برآمد کار ملک کی بن گئی ہے، تب ہم خوردنی تیل کی اپنی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کریں، یہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ اس میں بھی درآمد شدہ آئل پام کا حصہ 55 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال کو ہمیں بدلنا ہے۔ خوردنی تیل خریدنے کے لیے ہمیں جو ہزاروں کروڑ بیرونی ممالک میں دوسروں کو دینے پڑتے ہیں، وہ ملک کے کسانوں کو ہی ملنے چاہیں۔ بھارت میں پام آئل کی زراعت کے لیے تمام ضروری امکان موجود ہیں۔ شمال مشرق اور انڈومان-نیکوبار جزائر میں، خاص طور پر اس میں بہت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں آسانی سے پام کی کھیتی ہوسکتی ہے۔ پام آئل کی پیدا ہوسکتی ہے۔ ساتھیو، خوردنی تیل میں خود کفیلی کے اس مشن کے کئی فوائد ہیں۔ اس سے کسانوں کو تو براہ راست فائدہ ہوگا ہی، غریب اور متوسط طبقے کے خاندانوں کو سستا اور اچھی کوالٹی کا تیل بھی ملے گا۔ یہی نہیں ، یہ مشن بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرے گا ، فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دے گا۔ خصوصی طور پر فریش فروٹ بنچ پروسیسنگ سے جڑی صنعتوں کی توسیع ہوگی۔ جن ریاستوں میں پام آئل کھیتی ہوگی، وہاں ٹرانسپورٹ سے لے کر فوڈ پروسیسنگ یونٹس میں نوجوانوں کوبہت سے روزگار ملیں گے۔ بھائیو اور بہنو ، آئل پالم کی کھیتی کا بہت بڑا فائدہ ملک کے چھوٹے کسانوں کو ملے گا۔ آئل پام کی فی ہیکٹر پیداوار باقی تلہن فصلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، یعنی آئل پام مشن سے بہت چھوٹے سے حصے میں زیادہ فصل لے کر چھوٹے کسان بڑا منافع کما سکتے ہیں۔ ساتھیو، یہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کے 80 فیصد سے زیادہ کسانوں کے پاس 2 ہیکٹر تک ہی زمین ہے۔ آنے والے 25 برسوں میں ملک کی زراعت کو فروغ دینے میں ان چھوٹے کسانوں کا بہت بڑا رول رہنے والا ہے۔ اس لیے اب ملک کی زرعی پالیسیوں میں ان چھوٹے کسانوں کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ پچھلے برسوں میں چھوٹے کسانوں کو سہولت اور تحفظ فراہم کرانے کی ایک سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت اب تک ایک لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے کسانوں کو دیے گئے ہیں۔ اس میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے تو کورونا کے مشکل وقت میں ہی چھوٹے کسانوں تک پہنچے ہیں۔ یہی نہیں ، کورونا کے دوران میں ہی 2 کروڑ سے زیادہ کسان کریڈٹ کارڈ جاری کیے گئے ہیں ، جن میں سے زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں۔ ان کے ذریعے سے کسانوں نے ہزاروں کروڑ روپے کے قرضے بھی لیے ہیں۔ تصور کیجئے ، اگر مدد چھوٹے کسانوں کو نہ ملتی، تو 100 سال کی اس سب سے بڑی آف میں ان کی کیا حالت ہوتی؟ انہیں چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے کہاں کہا نہیں بھٹکنا پڑتا۔ بھائیو اور بہنو ، آج ، جو زرعی انفراسٹرکچر بن رہا ہے ، جو کنکٹی وٹی کا انفراسٹرکچر بن رہا ہے یا جو بڑے فوڈ پارکس لگ رہے ہیں ،ان کا بہت بڑا فائدہ چھوٹے کسانوں کو ہی ہورہا ہے۔ آج ملک میں اسپیشل کسان ریل چل رہی ہے۔ ان ٹرینوں سے ہزاروں کسانوں نے اپنی پیداوار کم قیمت میں، ٹرانسپورٹ کا خرچ بہت کم کرکے ملک کی بڑی بڑی منڈیوں تک پہنچا کر زیادہ قیمت میں مال فروخت کیا ہے۔ اسی طرح جو خصوصی انفراسٹرکچر فنڈ ہے، اس کے تحت چھوٹے کسانوں کے لیے جدید ذخیرے کی سہولیات تیار ہو رہی ہیں۔ گزشتہ سال ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ پروجیکٹ منظور ہوچکے ہیں۔ یہ پروجیکٹ جن کو ملے ہیں، ان میں کسان بھی ہیں ، کسانوں کی سوسائٹی اور کسان پروڈیوسر ایسوسی ایشن بھی ہے ، سیلف ہیلپ گروپ بھی ہے اور اسٹارٹ اپس بھی ہے۔ حال ہی میں ایک اور بڑا فیصلہ لیتے ہوئے ، حکومت نے طے کیا ہے کہ جو ریاستوں میں ہماری سرکاری منڈیاں ہیں، ان کو بھی اس فنڈ سے مدد مل سکے۔ اس فنڈ کا استعمال کرکے ہماری سرکاری منڈیاں بہتر ہوں گی، زیادہ مضبوط ہوں گی اور جدید ہوں گی۔ بھائیو اور بہنو ، انفراسٹرکچر فنڈ ہو یا پھر 10 ہزار کسان پروڈیوسر ایسو سی ایشنوں کی تشکیل، کوشش یہی ہے کہ چھوٹے کسانوں کی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ چھوٹے کسانوں کی بازار تک رسائی بھی زیادہ ہو اور بازار میں سودے بازی کرنے کی ان کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو۔ جب ایف پی او کے ذریعے سے کوآپریٹیو سسٹم سے سیکڑوں چھوٹے کسان متحد ہوں گے ، تو ان کی طاقت میں سینکڑوں گنا اضافہ ہو جائے گی۔ اس سے فوڈ پروسیسنگ ہو یا پھر برآمدات، اس میں کسانوں کا دوسروں پر انحصار کم ہوگا ، وہ خود بھی براہ راست بیرونی ممالک میں اپنی پیداوار فروخت کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ بندھنوں سے آزد ہوکر ملک کے کسان اور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے، اسی جذبے کے ساتھ ، ہمیں آنے والے 25 سال کے عزائم کی تکمیل کرنی ہے۔ تہل میں خود کفیلی کے مشن میں ہمیں ابھی سے لگ جانا ہے۔ ایک بار پھر پی ایم کسان سمان ندھی کے تمام استفادہ کنندگان کو میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,পিএম কিষাণ সন্মান নিধিৰ অধীনত বিত্তীয় সুবিধাৰ কিস্তি প্ৰদান অনুষ্ঠান উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বক্তব্যৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%AA%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%A4-%E0%A6%A5%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%82/,نئی دہلی، 13 مارچ 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سلامتی سے متعلق بھارت کی تیاریوں اور یوکرین میں جاری تنازعہ کے تناظر میں موجودہ عالمی منظر نامے کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ سی سی ایس میٹنگ کی صدارت کی۔ وزیر اعظم کو تازہ ترین صورتحال اور سرحدی علاقوں کے علاوہ بحریہ و فضائیہ کے شعبہ میں سلامتی سے متعلق بھارت کی تیاری کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جانکاری فراہم کی گئی۔ اس کے علاوہ ، وزیر اعظم مودی کو یوکرین میں رونما ہونے والے تازہ ترین واقعات ،نیز یوکرین سے بھارتی شہریوں اور بھارت کے ہمسایہ ممالک کے شہریوں کے انخلاء کے لیے چلائے جا رہے آپریشن گنگا کے بارے میں بھی تازہ جانکاری فراہم کی گئی۔ وزیر اعظم مودی نے ہدایت جاری کی کہ کارخیف میں ہلاک ہونے والے نوین شیکھرپّا کے جسد خاکی کو واپس لانے کے لیے تمام تر ممکنہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔,ইউক্ৰেইনত অব্যাহত থকা সংঘাতৰ পৰিপ্ৰেক্ষিতত ভাৰতৰ নিৰাপত্তা প্ৰস্তুতি আৰু বিৰাজমান বৈশ্বিক পৰিস্থিতিৰ পৰ্য্যালোচনাৰ অৰ্থে এখনি চিচিএছ বৈঠকত পৌৰহিত্য প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D9%85%D9%86%DA%AF%DA%BE%D9%85-2022-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پہلوان دیپک پونیا کو، برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیل 2022 میں طلائی تمغہ جیتنے پر نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ وزیراعظم نے کہا: ’’ہمارے پیارے دیپک پونیا کی شاندارکھیل کارکردگی پرفخر کا احساس ہورہا ہے! وہ بھارت کی شان ہیں اور انھوں نے بھارت کو کئی اعزاز دلائے ہیں۔ ان کے طلائی تمغہ جیتے پر ہر بھارتی مسرت و انبساط سے سرشار ہے۔ ان کی آئندہ کی تمام کاوشوں کے لئے نیک خواہشات۔‘‘,বাৰ্মিংহাম ২০২২ কমনৱেলথ গেমছত সোণৰ পদক লাভ কৰাৰ বাবে মল্লযুঁজাৰু দীপক পুনিয়ালৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D8%AA-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%DA%A9%D9%85%D9%BE%D9%86%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D9%88%D9%82%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%95/,قومی دفاع سے متعلق اس اہم پروگرام میں ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ملک کے وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ جی، ریاست کے وزیر دفاع جناب اجے بھٹ جی، وزارت دفاع کے تمام افسران، اور پورے ملک سے جڑے تمام ساتھیوں! ابھی دو دن پہلے ہی، نوراتری کے اس مقدس تہوار کے دوران، اشٹمی کے دن مجھے ملک کے لیے ایک بہت ہی جامع منصوبہ بندی کر کے اس پروگرام ’گتی شکتی‘ کا آغاز کرنے کا موقع ملا اور آج قوم کو با اختیار بنانے کے لیے وجے دشمی کا مبارک موقع، ان لوگوں کی طاقت میں مزید جدیدیت لانے کے لیے جو دن رات قوم کو ناقابل تسخیر بنانے میں صرف کر رہے ہیں اور وہ بھی وجے دشمی کے خوشگوار تہوار پر، یہ اپنے آپ میں ہی خوشگوار علامات لے کر آتا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز ہندوستان کی عظیم روایت پر عمل کرتے ہوئے ہتھیاروں کی پوجا سے کیا گیا ہے۔ ہم طاقت کو تخلیق کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس جذبے کے ساتھ، آج ملک اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو اور پوری قوم کو وجے دشمی کے موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آج سابق صدر بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ ایک طاقتور ہندوستان کی تعمیر کے لیے جس طرح کلام صاحب نے اپنی زندگی وقف کی، یہ ہم سبھی کے لیے ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ آج دفاعی شعبے میں جو 7 نئی کمپنیاں داخل ہونے والی ہیں وہ ایک قابل قوم کے عزم کو مزید مضبوط کریں گی۔ ساتھیوں، اس سال ہندوستان اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ آزادی کے اس امرت عہد میں، ملک نئے مستقبل کی تعمیر کے لیے نئے عہد کر رہا ہے۔ اور جو کام کئی دہائیوں سے رکے ہوئے تھے، وہ انھیں بھی مکمل کر رہا ہے۔ 41 آرڈیننس فیکٹریوں کو نئی شکل دینے کا فیصلہ، 7 نئی کمپنیوں کا آغاز ملک کے اسی عہد کے سفر کا ایک حصہ ہے۔ یہ فیصلہ پچھلے 15 سے 20 سالوں سے زیر التوا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تمام سات کمپنیاں آنے والے وقتوں میں ہندوستان کی فوجی طاقت کا بہت بڑا اڈہ بن جائیں گی۔ ساتھیوں، ہماری آرڈیننس فیکٹریوں کا شمار کبھی دنیا کے طاقتور ترین اداروں میں ہوتا تھا۔ ان فیکٹریوں کے پاس ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ دنیا نے پہلی جنگ عظیم کے وقت ہندوستان کی آرڈیننس فیکٹریوں کی طاقت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس بہتر وسائل، عالمی معیار کی مہارتیں تھیں۔ آزادی کے بعد، ہمیں ان فیکٹریوں کو اپ گریڈ کرنے، نئے دور کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت تھی! لیکن اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، ہندوستان اپنی اسٹریٹجک ضروریات کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار کرنے لگا۔ یہ نئی 7 دفاعی کمپنیاں اس صورتحال میں تبدیلی لانے میں بڑا کردار ادا کریں گی۔ ساتھیوں، آتم نربھر بھارت مہم کے تحت، ملک کا مقصد ہندوستان کو اپنے طور پر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت بنانا، اور ہندوستان میں جدید فوجی صنعت کی ترقی ہے۔ پچھلے سات سالوں میں، ملک نے ’میک ان انڈیا‘ کے منتر کے ساتھ اس عزم کو آگے بڑھانے کے لیے کام کیا ہے۔ آج، ملک کے دفاعی شعبے میں پہلے سے کہیں زیادہ شفافیت، اعتماد اور ٹیکنالوجی مبنی نقطہ نظر موجود ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار، ہمارے دفاعی شعبے میں اتنی بڑی اصلاحات ہو رہی ہیں، جمود کی پالیسیوں کے بجائے، سنگل ونڈو سسٹم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس سے ہماری صنعت کا اعتماد بڑھا ہے۔ ہماری اپنی بھارتی کمپنیوں نے بھی دفاعی صنعت میں اپنے لیے امکانات کی تلاش شروع کر دی ہے اور اب نجی شعبہ اور حکومت مل کر قوم کے دفاع کے مشن میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یو پی اور تمل ناڈو کی دفاعی راہداریوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اتنے کم وقت میں بڑی کمپنیوں نے میک ان انڈیا میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس سے ملک میں نوجوانوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں، اور سپلائی چین کی شکل میں بہت سے MSMEs کے لیے نئے امکانات کھل رہے ہیں۔ ملک میں کی گئی پالیسی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہماری دفاعی برآمدات میں گزشتہ پانچ سالوں میں ساڑھے تین سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ساتھیوں، کچھ عرصہ قبل ہی وزارت دفاع نے 100 سے زائد ایسے آلات کی فہرست جاری کی تھی جو اب باہر سے درآمد نہیں کیے جائیں گے۔ ان نئی کمپنیوں کے لیے بھی ملک پہلے ہی 65 ہزار کروڑ روپے کے آرڈر دے چکا ہے۔ یہ ہماری دفاعی صنعت پر ملک کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ بڑھتا ہوا اعتماد نظر آ رہا ہے۔ ایک کمپنی گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد کی ضروریات پوری کرے گی جبکہ دوسری کمپنی فوجی گاڑیاں تیار کرے گی۔ اسی طرح، خواہ وہ جدید ہتھیار اور ساز و سامان ہو، فوجیوں کے لیے راحت بخش سامان، آپٹیکل الیکٹرانکس، یا پیراشوٹ – ہمارا مقصد ہے کہ ہر ہندوستانی کمپنی نہ صرف ان شعبوں میں مہارت حاصل کرے، بلکہ ایک عالمی برانڈ بھی بنے۔ مسابقتی لاگت ہماری طاقت ہے، معیار اور اعتماد ہماری پہچان ہونی چاہیے۔ ساتھیوں، مجھے یقین ہے کہ اس نئے انتظام کے ساتھ، ہمارے ہتھیاروں کی فیکٹریوں میں جو ٹیلنٹ موجود ہے، جو کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں، انھیں اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کی مکمل آزادی ملے گی۔ جب ایسے ماہرین کو جدت کا موقع ملتا ہے، جب انھیں کچھ کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ حیرت انگیز کام کرتے ہیں۔ اپنی مہارت کے ساتھ، جو مصنوعات آپ ان کو بنا کر دکھائیں گے وہ نہ صرف ہندوستان کے دفاعی شعبے کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے بلکہ اس خلا کو بھی دور کریں گے جو آزادی کے بعد آیا تھا۔ ساتھیوں، اکیسویں صدی میں، خواہ کوئی ملک ہو یا کمپنی، اس کی ترقی اور برانڈ ویلیو کا تعین اس کی تحقیق اور جدت سے ہوتا ہے۔ سافٹ ویئر سے لے کر اسپیس سیکٹر، بھارت کی ترقی، بھارت کی نئی شناخت اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ لہذا، میں ان تمام سات کمپنیوں سے بھی ایک خصوصی درخواست کرتا ہوں کہ تحقیق اور اختراع آپ کے کام کی ثقافت کا حصہ ہونا چاہیے۔ اسے ترجیح ملنی چاہیے۔ آپ کو نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں سے مسابقت کرنی ہے بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجی میں بھی پیش قدمی کرنی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ نیا سوچیں، تحقیق پر مبنی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ موقع دیں، انھیں سوچنے کی مکمل آزادی دیں۔ میں ملک کے اسٹارٹ اپس سے بھی کہوں گا، ان 7 کمپنیوں کے ذریعے، ملک نے آج جو نئی شروعات کی ہے، آپ کو بھی اس کا حصہ بننا چاہیے۔ آپ کو اپنی تحقیق کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ آپ کی مصنوعات ان کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ساتھیوں، حکومت نے تمام کمپنیوں کو بہتر پیداواری ماحول دینے کے ساتھ ساتھ مکمل فعال خود مختاری دی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ ان فیکٹریوں کے مزدوروں کے مفادات کا مکمل تحفظ کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی مہارت سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا اور ہم مل کر ایک خود انحصار ہندوستان کے عزم کو پورا کریں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کو وجے دشمی کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!,প্ৰতিৰক্ষা বাহিনীৰ নতুনকৈ গঠন কৰা ৭টা প্ৰতিষ্ঠান ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%81%D9%84%D8%B2-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%AE-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%AB%E0%A6%B2%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AD%E0%A6%AF/,نئی دہلی، 13 نومبر 2021: وزیر اعظم جناب نری��در مودی نے منی پور میں آسام رائفلز کے قافلے پر ہوئے حملے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے آج شہید ہوئے جوانوں اور ان کے کنبے کے اراکین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’منی پور میں آسام رائفلز کے قافلے پر ہوئے حملے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ میں آج شہید ہوئے سپاہیوں اور ان کے کنبے کے اراکین کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔ ان کی قربانی کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔ غم کی اس گھڑی میں میرے خیالات سوگوار کنبوں کے ساتھ ہیں۔‘‘,মণিপুৰত অসম ৰাইফলছৰ কনভয়ৰ ওপৰত চলা আক্ৰমণক গৰিহণা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D8%A6%D9%84%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%9F%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%96%E0%A6%A8%E0%A6%BF-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%B9%E0%A6%A3-%E0%A6%86/,کوئلے کی کان کنی کے لیے یا عملی طور پر غیر موزوں زمینوں کے استعمال کو آسان بنانے اور کوئلے کے شعبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے مقاصد کے ساتھ، وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے حاصل کی گئی زمین کے استعمال کے لیے پالیسی کو کوئلے سے مالا مال علاقوں (ایکوزیشن اینڈ ڈیولپمنٹ) ایکٹ، 1957 [سی بی اے ایکٹ] کے تحت منظوری دے دی ہے۔ یہ پالیسی کوئلہ اور توانائی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور قیام کے مقصد کے لیے ایسی زمین کے استعمال کا انتظام کرتی ہے۔ سی بی اے ایکٹ کوئلے سے مالا مال زمینوں کے حصول اور سرکاری کمپنی میں ان کی ملکیت کا بندوبست کرتا ہے۔ منظور شدہ پالیسی CBA ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی درج ذیل قسم کی زمینوں کے استعمال کے لیے واضح پالیسی فریم ورک فراہم کرتی ہے: کوئلے کی کان کنی کی سرگرمیوں کے لیے زمینیں اب موزوں یا اقتصادی طور پر قابل عمل نہیں رہیں۔ یا وہ زمینی علاقے جہاں سے کوئلے کی کان کنی/کوئلہ نکالا گیا ہے اور ایسی زمین پر دوبارہ دعویٰ کیا گیا ہے۔ سرکاری کوئلہ کمپنیاں، جیسے کول انڈیا لمیٹڈ (CIL) اور اس کی ذیلی کمپنیاں CBA ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی ان زمینوں کی مالک رہیں گی اور پالیسی صرف پالیسی میں دیے گئے مخصوص مقاصد کے لیے زمین کو لیز پر دینے کی اجازت دیتی ہے۔ سرکاری کوئلہ کمپنیاں کوئلے اور توانائی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی سرگرمیوں کے لیے مشترکہ منصوبوں میں نجی سرمایہ لگا سکتی ہیں۔ سرکاری کمپنی جو زمین کی مالک ہے پالیسی کے تحت دی گئی مخصوص مدت کے لیے ایسی زمین لیز پر دے گی اور لیز پر دینے والے اداروں کا انتخاب ایک شفاف، منصفانہ اور مسابقتی بولی کے عمل اور طریقہ کار کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل کی جا سکے۔ مندرجہ ذیل سرگرمیوں کے لیے زمینوں پر غور کیا جائے گا: کول واشریز قائم کرنا؛ کنویئر سسٹم قائم کرنا؛ کول ہینڈلنگ پلانٹس قائم کرنا؛ iv. ریلوے سائڈنگز کی تعمیر کرنا؛ سی بی اے ایکٹ یا زمین کے حصول کے دوسرے قانون کے تحت زمین کے حصول کی وجہ سے پروجیکٹ سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور آبادکاری؛ vi. تھرمل اور تجدید بجلی کے منصوبوں کو قائم کرنا؛ کوئلے کی ترقی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنا یا فراہم کرنا؛ راستے کا حق فراہم کرنا؛ ix. کوئلہ گیسیفیکیشن اور کوئلے سے کیمیائی پلانٹس؛ اور توانائی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کا قیام یا فراہمی۔ وہ زمینیں جن سے کوئلے نکالے جا چکے ہیں یا عملی طور پر غیر موزوں ہیں وہ غیر مجاز تجاوزات کا شکار ہیں اور ان کی حفاظت اور دیکھ بھال پر قابل گریز اخراجات شامل ہیں۔ منظور شدہ پالیسی کے تحت کوئلے اور توانائی سے متعلق مختلف بنیادی ڈھانچے کا قیام، سرکاری کمپنیوں سے ملکیت کی منتقلی کے بغیر، بڑی تعداد میں براہ راست اور بالواسطہ روزگار پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ ناقابل کان کنی زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے کھولنے سے سی آئی ایل کو اس کے کاموں کی لاگت کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ یہ کوئلے سے متعلق بنیادی ڈھانچہ اور دیگر پروجیکٹ جیسے شمسی پلانٹ کو اپنی زمین پر قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری میں مختلف کاروباری ماڈلز کو اپنایا جائے گا۔ یہ کوئلے کے گیسیفیکیشن کے منصوبوں کو قابل عمل بنائے گا کیونکہ کوئلے کو دور دراز مقامات پر منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ پالیسی گھریلو مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی، درآمدات پر انحصار کو کم کرنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے وغیرہ کے ذریعے آتم نربھر بھارت کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد کرے گی۔ یہ پالیسی کوئلے اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی مختلف سرگرمیوں کے لیے زمین ہموار کرے گی جس سے ملک کے پسماندہ علاقوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ پہلے سے حاصل شدہ زمین کا استعمال زمین کے نئے حصول اور متعلقہ نقل مکانی کو بھی روکے گا اور مقامی مینوفیکچرنگ اور صنعتوں کو فروغ دے گا۔,"কয়লা খনি এলেকা (অধিগ্রহণ আৰু উন্নয়ন) আইন, ১৯৫৭ৰ অধীনত অধিগ্রহণ কৰা ভূমি ব্যৱহাৰৰ নীতিত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%A7%D9%86-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-%E0%A6%85/,نئی دہلی،16 ؍مئی؍اومان کے تقریباً 30 نوجوان کاروباری سربراہوں کے ایک گروپ نے آج وزیراعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اومان کے کاروباری سربراہوں کا گروپ اومان-ہندوستان مشترکہ کاروباری کونسل کا حصہ ہیں۔ گروپ کےممبروں نے دونوں ملکوں کے درمیان طویل مشترکہ تاریخی اور بحری رابطوں پر اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ بات چیت کے دوران وزیراعظم نے دونوں ملکوں کےدرمیان توانائی کے تحفظ اور خوراک کی سکیورٹی میں تعاؤن کی گنجائش کو اجاگر کیا۔ جناب مودی نے گروپ کے ممبروں کو اومان کے سلطان کو اپنی طرف سے مبارکباد سے بھی مطلع کیا اور مقدس ماہ رمضان کے آغاز کے موقع پر مبارکباد دی۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ অ’মান-ভাৰত যুটীয়া ব্যৱসায়িক পৰিষদৰ সদস্যৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%81%D8%B1-%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8/,عزت مآب، وزیر اعظم جناب کے پی شرما اولی جی، مہمانانِ خصوصی، اور موقع پر موجود میڈیا کے رفقائے کار، نمسکار! پردھان منتری جیو، تپائی لے میرو ہاردک سواگت را ستکار گنربھیو۔ یس لائی ما ہاردک آبھار وِیَکت گرد چھوں۔ ساتھیوں، ویسے تو نیپال سے میرا بہت ہی پرانا رشتہ رہا ہے، لیکن وزیر اعظم کے ��ور پر یہ میرا تیسرا سفرِ نیپال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیپال کے تئیں اور ہند نیپال مراسم کے تئیں میری اور میری سرکار کی عہد بستگی کتنی گہری ہے۔ میں یہاں خواہ وزیر اعظم کی حیثیت سے آیا ہوں یا عام شہری کی حیثیت سے، نیپال کے لوگوں نے مجھے ہمیشہ اپنا مانا ہے اور اپنے کنبے کے فرد کی طرح میرا خیر مقدم کیا ہے۔ اس اپنے پن، گرمجوش خیر مقدم اور میزبانی و اعزاز کے لئے میں وزیر اعظم جناب اولی، ان کی سرکار اور نیپال کے لوگوں کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں۔ نیپال کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات دو سرکاروں کے مراسم سے کہیں زیادہ اسی طرح کے کنبہ جاتی اور دوستانہ ہیں اور عوام سے عوام کے درمیان آپسی خوشگوار، گہرے رشتوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ دوستوں، میرا یہ سفر نیپال ایک ایسے تاریخی وقت پر ہو رہا ہے جب نیپال میں وفاقی اور مقامی سطحوں پر انتخابات کامیابی کے ساتھ کرائے جا چکے ہیں۔ نیپال کی تاریخ میں یہ دور سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ نیپال کے عوام نے معاشی اور اقتصادی ترقی اور تبدیلی کی خاطر تعمیر قوم کے لئے وزیر اعظم جناب اولی کی قیادت اور تصورات پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ نیپال کے عوام نے وفاقی اور جمہوری نظام میں تعمیر قوم اور سفر ترقی کا جو فیصلہ کیا ہے میں اس کی ستائش کرتا ہوں۔ ایک اٹوٹ، آسودہ حال اور طاقتور نیپال کے لئے سبھی نیپالی لوگوں کے عزائم کی حمایت کرتا ہوں۔ مجموعی ترقی اور معاشی خوشحالی کی آپ کی کوششیں کے لئے ہندوستان کے سوا سو کروڑ لوگوں کی نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ دوستوں، پچھلے مہینے ہمیں ہندوستان میں وزیر اعظم جناب اولی کے خیر مقدم کا موقع ملا تھا۔ اس موقع پر ہمارے دونوں ملکوں کی ترقی کے لئے ہمارے تصورات پر خاصی گفتگو کی گئی تھی۔ اور آج یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان کے ساتھ نیپال کی راجدھانی میں ہوں۔ پڑوس میں، رابطہ کاری اور دوستی کے لئے ہندوستان کے تصور کی ایک جھلک میرے اس سفر میں ملتی ہے۔ دوستوں، ہندوستان کے لئے ہمارا، ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کا تصور اور نیپال کے لئے اولی جی کا ’’آسودہ نیپال، خوشحال نیپالی‘‘ کا نعرہ ایک دوسرے کے لئے تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج ہم نے ایک بار پھر ہندوستان اور نیپال کی شراکت داری کے سبھی رخوں کا جائزہ لیا ہے۔ تقریباً پانچ ہفتے قبل وزیر اعظم جناب اولی بھارت آئے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے مجھ سے کئی امور پر بات کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اتنے کم وقت میں ہی دونوں ملکوں کی ٹیموں نے مل کر ان سبھی امور پر کام کیا ہے۔ اور کئی مسئلے تو سلجھا بھی لیے گئے ہیں۔ میں نے آج کی اپنی بات چیت میں وزیر اعظم جناب اولی کو ان کی تفصیلی معلومات فراہم کی۔ ہم نے زراعت، درونِ ملک آبی شاہراہیں اور ریلوے میں متعدد انقلابی تبدیلیوں کے اقدامات کیے ہیں جن سے دونوں ملکوں کے کاروبار اور باہمی رابطہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ میں درونِ ملک آبی شاہراہوں میں ہمارے تعاون کو خاص طور سے اہم تصور کرتا ہوں۔ نیپال لینڈ لاگڈ نہ رہے اور لینڈ لنکڈ ہو۔ ہم وزیر اعظم جناب اولی کے اس تصور کو عملی شکل دینے میں ہر ممکن امداد اور کوشش کے لئے عہد بستہ ہیں۔ ہمارے وزیر زراعت جلد ہی ملیں گے اور زرعی تحقیق، زرعی تعلیم اور زرعی ترقی میں تعاون کے لئے روڈمیپ تیار کریں گے۔ رکسول اور کٹھمنڈوکے درمیان نئے ریلوے لنک کے لئے سروے کا کام جلد ہی شروع ہوگا اور ٹریڈ اور انویسٹمنٹ میں اپنے باہمی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہم جلد ہی ٹریٹی آف ٹریڈ کا جامع جائزہ لیں گے۔ صحت کے شعبے میں تعاون کے لئے ہم ایک نیا قدم اٹھا رہے ہیں۔ کٹھمنڈومیں واقع بھکت پور کینسر اسپتال میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لئے ہم جلد ہی بھارت میں تیار بھابھاٹرون ریڈیو تھیریپی نصب کریں گے۔ دوستوں، ہمارے آبی وسائل اور توانائی کے شعبے میں تعاون میں ایک نیا باب جڑا ہے۔ وزیر اعظم جناب اولی کے ساتھ مل کر آج مجھے 900 میگاواٹ کے ارون تھری الیکٹریسٹی پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا۔ تقریباً 6000 کروڑ ہندوستانی روپئے کی سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ نیپال کے سب سے بڑے پروجیکٹس میں سے ایک ہے۔ نیپال میں روزگار کے مواقع کے ساتھ اس پروجیکٹس سے نیپا ل میں معاشی اور کاروباری مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ پنچیشور پروجیکٹ اور ہائیڈرو پاور آبی وسائل اور توانائی کے شعبے میں اپنے تعاون کے دیگر پروجیکٹس پر بھی ہم اپنی گفتگو کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم دونوں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ رابطہ کاری یعنی کنکٹیویٹی ہماری عوام کی ترقی کے لئے بہت ہی اہم حیثیت کی حامل ہے۔ ہم ابتدائے آفرینش کے دور سے ہی ہمالیہ کے کوہستانی سلسلوں اور دریاؤں وغیرہ کے وسیلے سے جڑے ہوئے ہیں اور اب ہم روڈ، ریلوے، پاور ٹرانسمیشن لائن اور آئل پائپ لائن وغیرہ کے وسیلے سے بھی اپنی کنیکٹیویٹی کو مزید طاقتور بنانا چاہتے ہیں۔ دوستوں، بھارت اور نیپال کے مضبوط تعلقات میں ہماری کھلی سرحد ایک خصوصی کردار ادا کرتی ہے۔ ہم کسی بھی ناپسندیدہ عنصر کے ذریعہ اس کھلی سرحد کا بیجا استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر اعظم اولی جی اور میں ہمارے دوطرفہ دفاع اور دفاعی تعاون کو اور زیادہ مضبوط کرنے کے لئے عہد بند ہیں۔ کھلی سرحد کے ساتھ ہمارے تعلقات کی ایک اور خصوصیت ہے۔ ہمارے عمیق روحانی تعلقات۔ 2014 میں جب میں نیپال آیا تھا تو بھگوان پشو پتی ناتھ کا آشیرواد لینے کا موقع ملا تھا۔ آج صبح مجھے جانکی مندر میں ماتا سیتا کے درشن کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔ میں امید کرتا ہوں کہ کل صبح مکتی ناتھ اور پشو پتی ناتھ جی کے احاطوں میں ان کی پرستش کرنے کی خوش بختی حاصل ہوگی۔ ہر سال میرے جیسے لاکھوں بھارتی عقیدت مندان نیپال آتے ہیں۔ اور اسی لئے اولی جی اور میں نے بھارت اور نیپال کے درمیان سیاحت کو بڑھاوا دینے کے لئے ساتھ مل کر رامائن اور بودھ سرکٹوں کی ترقی پر آج تبادلہ خیالات کیے ہیں۔ ساتھ ہی ہم نے ٹھوس قدم بھی اٹھائے ہیں۔ دوستوں، گذشتہ مہینے ہم نے دہلی میں اور آج یہاں کٹھمنڈو میں ہماری گفت و شنید میں لیے گئے فیصلوں سے ہم نے بھارت۔ نیپال تعلقات میں ایک نئی توانائی ، ایک نئی روح ڈالی ہے۔ آج جب میں بھارت۔ نیپال تعلقات کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت پر امید خیالات سے سوچتا ہوں۔ اسی امید، اعتماد، بھروسے اور باہمی دوستی کے جذبے کے ساتھ میں ایک بار پھر اولی جی کا، ان کی حکومت کا اور نیپال کے لوگوں کے تئیں دلی اظہارِ ممنونیت کرتا ہوں۔ بھارت۔ نیپال دوستی امر رہے۔ شکریہ,"নেপাল ভ্ৰমণকালত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰেছ বিবৃতি (১১ মে’, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B8%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%88/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دلّی میں ریاست کے چیف سکریٹریوں کی دو روزہ کانفرنس میں شرکت کی جو آج اختتام پذیر ہوئی۔ ایک ٹوئٹ تھریڈ میں، وزیر اعظم نے اس موضوع کی وسیع پیمانے پر وضاحت کی جس پر انھوں نے چیف سکریٹریوں کے ساتھ بات چیت کے دوران زیادہ زور دیا تھا۔ انھوں نے ٹوئٹ کیا: ’’گذشتہ دو دنوں سے ہم دلّی میں چیف سکریٹریوں کی کانفرنس میں وسیع بحث ومباحثے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آج میرے تبصرے کے دوران،بڑے پیمانے پر بہت سارے موضوعات پر زور دیا گیا جو لوگوں کی زندگیوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں اور ہندوستان کی ترقی کی رفتار کو استحکام بخش سکتے ہیں۔ دنیا کی نظریں ہندوستان پر مرکوز ہونے کے ساتھ، جس میں ہمارے نوجوانوں کا بھرپور ٹیلنٹ شامل ہے، آنے والے سال ہماری قوم کے ہیں۔ ا یسے وقت میں بنیادی ڈھانچہ، سرمایہ کاری، اختراع، اور شمولیت کے چار اہم ستون، تمام شعبوں میں اچھی حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے ہماری کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔ یہ میرا مکمل یقین ہے کہ ہم نے اپنے ایم ایس ایم ای کے شعبے کو مستحکم کرنا جاری رکھنا ہے۔ یہ آتم نربھر بننے اور اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ مقام مصنوعات کو مقبول بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ معیشت کے ہر شعبے میں معیار کیوں ضروری ہے۔ چیف سکریٹری سے کہا گیا ہے کہ وہ بے مقصد تعمیل اور قوانین کے ساتھ ساتھ فرسودہ قوانین کو بھی ختم کرنے پر توجہ دیں۔ ایسے وقت میں جب ہندوستان بے مثال اصلاحات شروع کر رہا ہے تو یہاں حد سے زیادہ ضابطے اور بے مقصد پابندیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے جن دیگر مسائل کے بارے میں بات کی ان میں پی ایم گتی شکتی اور اس وژن کو عملی جامہ پہنانے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔ چیف سکریٹریز پر زور دیا کہ وہ مشن لائف میں جوش وخروش شامل کریں اور جوار باجرے کے بین الاقوامی سال کو بڑے پیمانے پر شرکت کے ساتھ منائیں‘‘۔,ৰাজ্যৰ মুখ্য সচিবসকলৰ সৈতে দুদিন অতিবাহিত কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B1%D9%B9-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%8C%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DA%BE%D9%88%D9%86-2022%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%81%DB%8C%D9%86%D8%A7%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A5%E0%A6%A8-%E0%A7%A8-5/,نوجوان ساتھیو، یقیناًآپ تمام اختراع کاروں سے مل کراور بات کرکے بڑی خوشی ہوئی ۔آپ جس طرح نئی بلندیوں کوچھورہے ہیں اوراپنے کاموں میں جدت لارہے ہیں اور جس خود اعتمادی سے آپ اپنا کام کرتے ہیں ،یہ خود میرے اور دیگرافراد کے لئے ترغیب کا باعث ہے ۔آپ کو لوگوں کے لئے ترغیب کا باعث بننے پرمبارکباد دیتاہوں ۔ اسمارٹ انڈیا ہیکاتھون میں عوام کی شرکت، ایک بہترین مثال ہے ۔ اس مرتبہ کا اسمارٹ انڈیا ہیکاتھون کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے ۔ اب سے کچھ دن قبل ہم نے آزادی کے 75سال مکمل کئے ہیں ۔ آزادی کے 100سال مکمل ہونے پرہمارا ملک کیسا ہوگا اس کے لئے ملک بڑے بڑے عزائم پرکام کررہاہے ۔ ان عزائم کی تکمیل کے لئے ‘‘جئے انوسندھان ’’اس نعرے کے پرچم بردار آپ سبھی اختراع کا رہیں ۔ امرت کال کی پچیس سال کی یہ مدت آپ کے لئے بے پناہ امکانات لے کرآیاہے ۔ یہ امکانات اور یہ عزم براہ راست آپ کے کیریئرکی ترقی سے بھی جڑے ہیں ۔ اگلے پچیس برسوں میں آپ نوجوانوں کی کامیابی ہندوستانی کی کامیابی طے کریگی ۔ آپ کی کامیابی پر مجھے پورایقین ہے ۔ ہندوستان کو آپ پرفخرہے ، آپ تمام کی اختراعی ذہنیت آئندہ پچیس برسوں میں ہندوستان کواعلیٰ مقام پرلے جائیگا ۔ آپ تمام پرمیرے یقین کی پختہ وجوہات بھی ہیں ۔ ساتھیو، رواں سال 15اگست کو میں نے لال قلعہ سے کہاتھا کہ ہندوستان میں متاثرکن سوسائٹی تیارہورہی ہے، اس کی توسیع ہورہی ہے ۔اس سنہرے دور میں یہ متاثرکن سوسائٹی ایک ڈرائیونگ فورس کی طرح کام کرے گی ۔ اس کی توقعات ، اس سے جڑے ہوئے چیلنجیز آپ کے لئے متعدد نئے مواقع پیداکریں گے ۔ ساتھیو، آپ سبھی نے اپنی تعلیم کے شروعاتی دورمیں پڑھاہوگا کہ 60سے 70کی دہائی میں سبز انقلا ب کاجنم ہواتھا ۔ ہندوستان کے کسانو ں نے اپنی طاقت دکھائی ہے اورہمیں خوراک کے معاملے میں خود کفیل بنادیاہے ۔ لیکن آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ سات آٹھ برسوں میں ملک ایک کے بعد ایک انقلابی کام کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہاہے ۔ ہندوستان میں آج بنیاد ی ڈھانچے کے کاموں میں زبردست تبدیلی آرہی ہے ۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبو ں میں انقلاب آرہاہے ۔ ڈجیٹل شعبے میں بھی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔ مزید یہ کہ ٹکنالوجی میں بھی ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ہندوستان میں آج مہارت ، صلاحیت ، زراعت ، تعلیم ، دفاعی شعبے میں انقلاب لانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا زور ہرشعبے کو جدید تراور خود کفیل بنانے پرہے ۔ اس لئے آج آپ سبھی نوجوانوں کے لئے ہردن نئے مواقع پیداہورہے ہیں ۔ ڈرون ٹکنالوجی ، ٹیلی –کنسلٹیشن ، ڈجیٹل انسٹی ٹیوشنس ، ورچوئل سالیوشنس ان تمام میں خدمات سے مینوفیکچرنگ تک آپ کے لئے بڑے امکانات ہیں ۔ آپ تمام نوجوان زراعت اور صحت کے شعبے میں ڈرون ٹکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے نئے نئے سالیوشنس پرکام کرسکتے ہیں ۔اپنے آب پاشی کے آلات کو ، آبپاشی کے نیٹ ورک کو ہم کس طرح اسمارٹ بناسکتے ہیں ، اس میں بھی بڑے امکانات ہیں ۔ ساتھیو، آج ملک کے ہرگاؤں میں آپٹیکل بچھانے کا کام تیز رفتاری سے جاری ہے ۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہندوستان میں 5جی کی شروعات ہورہی ہے۔ اس دہائی کے آخرتک ہم 6جی کی شروعات کی تیاری کررہے ہیں ۔ حکومت گیمنگ اور انٹرٹینمنٹ میں بھی ہندوستانی سالیوشنس کوفروغ دے رہی ہے ۔ حکومت ان تمام نئے شعبوں پر سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کررہی ہے ۔ان تمام چیزوں سے نوجوانوں کو مستفید ہونا چاہیئے ۔ ساتھیو، آپ کوایک اوربات یادرکھنی ہے دنیا میں ایک بہت بڑی آبادی ہے جن کے مسائل ہندوستان ہی جیسے ہیں ۔لیکن وہاں ان مسائل کے حل کے لئے اختراع اور اسٹارٹ اپس کے امکانات محدود ہیں ۔ ہندوستان کا انوویشن دنیا میں سب سے زیادہ مسابقت ، کفایتی ، دیرپا ، محفوظ اور بڑے پیمانے پر نافذ ہونے والے حل فراہم کرتے ہیں ۔ اس لئے دنیا کی امیدیں آپ جیسے نوجوانوں سے ہیں ۔ ساتھیو ، آج کے اس پروگرام میں ہمارے ساتھ تعلیمی دنیا کی بڑی شخصیات اورپالیسی ساز بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ہندوستا ن میں اختراع کے کلچر کو بڑھانے کے لئے ہمیں دوامور، سماجی اور ادارہ جاتی مدد پر مسلسل توجہ مرکوز کرنی ہوگی ۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح صنعت کے تعلق سے معاشرے کے نظریئے میں تبدیلی آرہی ہے ۔ ہم کیریئر بنانے کے روایتی متبادل کے علاوہ نئے شعبوں میں بھی اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں ۔ یعنی سماج میں پیشے کے طورپر اختراع کے شعبے میں کام کرنے کی دلچسپی میں اضافہ ہواہے ۔ ایسے حالات میں ہمیں نئے خیالات اور اصل سوچ کی مدد کرنے کے ساتھ ان کا احترام کرنا ہوگا۔ تحقیق اوراختراع کو وے آف ورکنگ سے وے آف لیونگ بناناہوگا۔ ساتھیو ، حکومت تحقیق اوراختراع کی سمت میں ادارہ جاتی مدد کو فروغ دینے کے لئے مسلسل کام کررہی ہے ۔نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس طرح کے لئے ایک مضبوط بنیاد تیارکرنے کا خاکہ ہے ۔اٹل انکیوبیشن مشن کے تحت قائم ہورہے اٹل ٹنکرنگ لیبس اسکولو ں میں اختراع کا روں کی ایک نئی نسل تیارہو رہی ہے ۔ ملک میں آئی –کری ایٹ جیسے ادارے بھی کامیابی کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ جو اب تک 500سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو مدد کرچکےہیں ۔ ساتھیو، اکیسویں صدی میں آج کا ہندوستان اپنے نوجوانوں پر بھرپوراعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اختراعی اشاریئے میں بھارت کی رینکنگ بڑھ گئی ہے ۔ پچھلے 8برسوں میں پیٹنٹ کی تعداد میں سات گنا کا اضافہ ہواہے ۔ یونیکارن کی تعداد بھی بڑھ کر 100سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ ہرمسائل کا حل سرکارکے پاس ہے ، اب ہم اس پریقین نہیں رکھتے ہیں ۔ آپ دیکھئے میں توحکومت کو آپ کے پاس لے کر آیاہوں ۔ حکومت کے ان مسائل کا حل میرے نوجوان دے رہے ہیں ۔ آپ کی طاقت کومیں بخوبی سمجھتاہوں ۔ آج کی نوجوان نسل زیادہ تیز اور اسمارٹ سالیوشن کے ساتھ آگے آرہی ہے ۔ اس ہیکاتھون کے انعقاد کا مقصد یہ بھی ہے کہ حکومت جن مسائل کا حل چاہتی ہے ، اسے ملک کے نوجوان سمجھیں اور اس کے اسباب اور اس سے نجات کے راستے تلاش کریں اور اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ طلباء حکومت اور پرائیویٹ اداروں کے درمیان تعاون اور سب کی کوششوں کے یہ جذبے ترقی یافتہ ہندوستان کے لئے لازمی ہے ۔ ساتھیو، مجھے پورا یقین ہے کہ آپ تمام ان باتوں کا خیال کریں گے اور اختراع کے اس چراغ کو ایسی ہی روشن کرتے رہیں گے ۔ میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراتاہوں کہ حکومت آپ کی محنت اورکوشش کی مسلسل حمایت کریگی ۔حکومت ہرقدم پرآپ کے ساتھ کھڑی ہے ۔ یہاں پرموجود سبھی نوجوانوں کی باتیں سن کر ہمیں بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملاہے ۔آپ کے پاس بہت کچھ ہے۔ میں نے ہرشخص کی بات نہیں سنی ہے ۔ نوجوانوں کی نمائندگی کررہے کچھ افراد سے بات ہوئی ۔جن سے بات نہیں ہوئی ہے ان کا بھی کام کم نہیں ہے ، ان کی کوشش کم نہیں ہے اور میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ اپنے محکمے کے ذریعہ مختصراً ان کے آراء کو جاننے کی کوشش کروں گا ۔ آپ لوگوں نے جو کام کیاہے اس کو سمجھنے کی کوشش کروں گا ، جن لوگوں سے بات نہیں ہوئی ہے ،ان کا کا م بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ میں سبھی نوجوانوں کو دلی مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ حکومت کے کام میں ہمیشہ کھڑے رہنا اورعوام کی فلاح وبہبود کے لئے اس مہم میں مسلسل آگے بڑھنے کی میری دعائیں اورنیک تمنائیں ۔ بہت بہت شکریہ ۔,স্মাৰ্ট ইণ্ডিয়া হেকাথন ২০২২ৰ গ্ৰেণ্ড ফিনালেত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D8%A7%D8%A8%DA%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%A3-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C/,نئی دہلی؍24 اپریل2018،وزیر اعظم جناب نریندرمودی نے مدھیہ پردیش میں منڈلا میں آج ایک عام جلسے میں راشٹریہ گرامین سوراج ابھیان کا آغاز کیا۔ انہوں نے آئندہ پانچ برسوں کے دوران قبائلیوں کی مجموعی ترقی کے لئے ایک روڈ میپ کی نقاب کشائی کی۔ انہوں نے منڈلا ضلع کے منیری میں انڈین آئل ک��رپوریشن کے ایک ایل پی جی باٹلنگ پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے ایک مقامی حکومت کی ڈائریکٹری کا بھی آغاز کیا۔انہو ں نے ایسے دیہات کے سرپنچوں کا خیر مقدم کیا ،جن میں 100 فیصد بغیر دھوئیں والے کچن، مشن اندر دھنش کے تحت 100 فیصد ٹیکا کاری اور سوبھاگیہ اسکیم کے تحت 100 فیصد برق کاری کا مقصد حاصل کیا ہے۔ منڈلا میں ملک بھر سے آئے ہوئے پنچایتی راج نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے گرامودیہ سے راشٹرودیہ تک اور گرام سوراج تک کے سلسلے میں مہاتماگاندھی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پنچایتی راج ڈے کے موقع پر مدھیہ پردیش میں موجود ہونے پر انہیں خوشی ہے۔انہوں نے کہا کہ مہاتماگاندھی ہمیشہ گاوؤں کی اہمیت پر زور دیتے تھے اور ’گرام سوراج‘کی بات کرتے تھے۔ انہوں نے گاوؤں کی خدمت کے لئے عزم کرنے کے لئے سب سے اپیل کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دیہی ترقی کی بات کرتے وقت بجٹ کی بہت اہمیت ہوتی ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس معاملے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔لوگ اب یہ بات کررہے ہیں کہ کسی پروجیکٹ کے لئے مختص کی گئی رقم کے استعمال کو یقینی بنایا جائے اور پروجیکٹ کا کام وقت پر اور شفاف طریقے سے ہو۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کریں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بچوں کی مستقبل کے لئے بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے زرعی شعبے میں خود کفیل بننے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے پنچایتی نمائندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ پانی کو بچانے کی طرف توجہ مرکوز کریں اور پانی کی ہرایک بوند کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ جناب نریندر مودی نےفضلے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی اہمیت کے علاوہ مالی شمولیت کے لئے جن دھن یوجنا، قبائلیوں کو با اختیار بنانے کے لئے ون دھن یوجنا اور کسانوں کو اور زیادہ خود کفیل بنانے کے گوبر -دھن یوجنا کی اہمیت کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ گاوؤں کی کایاپلٹ سے ہی ہندوستان کی کایاپلٹ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت نے حال ہی میں جو اقدامات کئے ہیں وہ خواتین کے تحفظ میں اضافے کے لئے مفید ہوں گے۔ م ن۔ا گ۔ن ع,ৰাষ্ট্রীয় গ্রামীণ স্বৰাজ অভিযানৰ শুভাৰম্ভ কৰিলে প্রধানমন্ত্রীয়ে; জনজাতিসকলৰ সৰ্বাগীন উন্নয়ন পৰিকল্পনাৰ ৰূপৰেখা প্রকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4-2/,دیوالی کے موقع پر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اتر پردیش میں ایودھیا کا آج دورہ کیا اور بھگوان شری رام للا وراجمان کا درشن اور پوجا کی۔ وزیر اعظم نے شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر علاقے کا معائنہ کیا۔ انہوں نے مندر کے مقام پر شرم جیویوں سمیت مقدس پروجیکٹ سے وابستہ لوگوں سے بھی بات چیت کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 11778,উত্তৰ প্ৰদেশৰ অযোধ্যাত ‘ভগৱান শ্ৰী ৰামলালা বিৰাজমান’ৰ দৰ্শন আৰু পূজা সম্পন্ন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%AC%DB%8C-2022-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%88%DA%88%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%82%D8%A7%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں کامن ویلتھ گیمس 2022 میں جوڈو کے مقابلے میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر وجے کمار یادوکو مبارکباددی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وجے کمار یادو نے سی ڈبلیو جی میں کانسے کا تمغہ جیتا ہے اور ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ ان کی کامیابی بھارت میں کھیلو ں کے مستقبل کو فروغ دے گی۔میری تمنا ہے کہ وہ آنے والے وقت میں کامیابی کی نئی اونچائیاں حاصل کرتے رہیں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বিজয় কুমাৰ যাদৱক কমনৱেলথ ২০২২ ৰ জুডোত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে অভিনন্দন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-19/,نئی دہلی۔ 09 جولائی مہاراشٹر کے وزیر اعلی جناب ایکناتھ شندے اور مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی جناب دیویندر فڑنویس نے آج وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی۔وزیر اعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا؛ ’’مہاراشٹر کے وزیر اعلی جناب ایکناتھ شندے اور نائب وزیر اعلی جناب جناب دیویندر فڑنویس نے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ মহাৰাষ্ট্ৰৰ মুখ্যমন্ত্ৰী আৰু উপ-মুখ্যমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%86-%DB%8C%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%97/,"نئی دہلی:26؍مارچ2022:معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کے تئیں تشویش اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم-جی کے اے وائی) اسکیم کو مزید چھ ماہ یعنی ستمبر 2022 (چھٹا مرحلہ) تک بڑھا دیا ہے۔ پی ایم-جی کے اے وائی اسکیم کا پانچواں مرحلہ مارچ 2022 میں ختم ہونا تھا۔ یاد رہے کہ پی ایم-جی کے اے وائى دنیا کے سب سے بڑے خوراک تحفظ پروگرام کے طور پر اپریل 2020 سے نافذ العمل ہے۔ حکومت نے اب تک تقریباً 2.60 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے ہیں اور ستمبر 2022 تک اگلے 6 مہینوں میں مزید 80,000 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے اور پی ایم-جی کے اے وائی کے تحت کل اخراجات تقریباً 3.40 لاکھ کروڑ روپے ہو جائیں گے۔ اس میں پورے ہندوستان میں تقریباً 80 کروڑ مستفیدین کا احاطہ کیا جائے گا اور پہلے کی طرح حکومت ہند کی طرف سے مکمل طور پر فنڈ فراہم کیا جائے گا۔ اگرچہ کووڈ 19 وبائی مرض میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے اور معاشی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں، پی ایم-جی کے اے وائی میں یہ توسیع اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صحت یابی کے وقت کے دوران کوئی غریب گھرانہ بغیر کھانے کے بستر پر نہ جائے۔ توسیع شدہ پی ایم-جی کے اے وائی کے تحت مستفیض ہونے والے ہر شخص کو قومی غذائی تحفظ ایکٹ (این ایف ایس اے) کے تحت اناج کے اس کے عام کوٹے کے علاوہ ہر ماہ اضافی 5 کلو گرام مفت راشن ملے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر غریب گھرانے کو راشن کی عام مقدار سے تقریباً دوگنا ملے گا۔ یہ بات اجاگر کرنے کے قابل ہے کہ حکومت نے پی ایم-جی کے اے وائی کے تحت پانچویں مرحلہ تک تقریباً 759 لاکھ میٹرک ٹن مفت اناج مختص کیا تھا۔ اس توسیع شدہ (پانچویں مرحلہ) کے تحت مزید 244 لاکھ میٹرک ٹن مفت اناج کے ساتھ پی ایم-جی کے اے وائی کے تحت مفت اناج کی مجموعی تقسیم اب 1,003 لاکھ میٹرک ٹن غذائی اجناس ہے۔ ایک ملک ایک راشن کارڈ (او این او آر سی) منصوبے کے تحت کسی بھی نقل مکانی کرنے والے مزدور یا مستفید ہونے والے شخص کو پورٹیبلٹی کے ذریعے مفت راشن کا فائدہ ملک بھر میں تقریباً 5 لاکھ راشن شاپس میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اب تک 61 کروڑ سے زیادہ پورٹیبلٹی لین دین سے مستفید افراد کو ان کے گھروں سے دور فائدہ پہنچا ہے۔ صدی کی بدترین وبا کے باوجود حکومت کی جانب سے کسانوں کو سب سے زیادہ ادائیگی کے ساتھ اب تک کی سب سے زیادہ خریداری کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکا ہے۔ زرعی کھیتوں میں اس ریکارڈ پیداوار کے لیے ہندوستانی کسان – ’ان داتا‘ واقعی تعریف کے مستحق ہیں۔","কেবিনেটে প্ৰধানমন্ত্ৰী গৰিব কল্যাণ অন্ন যোজনা (পিএম-জিকেএ) 6 মাহ (এপ্ৰিল-ছেপ্টেম্বৰ, 2022) বৃদ্ধিত অনুমোদন জনাইছে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C-%D9%88%D9%81%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج روسی وفاق کے صدر عزت مآب جناب ولادیمیر پوتن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ دونوں لیڈران نے ایس سی او سربراہ کانفرنس کے ساتھ ساتھ سمرقند میں اپنی میٹنگ کے بعد، توانائی کے شعبہ میں تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری، دفاعی اور سلامتی سے متعلق تعاون اور دیگر اہم شعبوں کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تعلقات کے کئی پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ یوکرین میں چل رہے تصادم کے سلسلے میں، وزیر اعظم نے بات چیت اور ڈپلومیسی کی اپنی اپیل کو دہرایا کیوں کہ یہ ایک واحد حل ہے۔ وزیر اعظم نے صدر پوتن کو جی-20 میں ہندوستان کی موجودہ صدارت کے بارے میں معلومات دی اور اس کی بنیادی ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے شنگھائی کوآپریشن تنظیم کی ہندوستان کی صدارت کے دوران دونوں ممالک کے ایک ساتھ کام کرنے کی بھی امید جتائی۔ دونوں لیڈران نے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہنے پر اتفاق کا اظہار کیا۔,ৰাছীয়ান ফেডাৰেশ্যনৰ ৰাষ্ট্ৰপতি মহামহিম ব্লাডিমিৰ পুটিনৰে টেলিফোনত বাৰ্তালাপ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 7 مارچ 2018/مرکزی کابینہ نے جس کی میٹنگ کی صدارت وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کی، ہندستان اور فرانس کے درمیان نقل وطن کرنے اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے سے متعلق شراکت داری کے سمجھوتے پر دستخط کئے جانے کی منظوری دی ہے۔ امید ہے کہ اس سمجھوتہ پر فرانس کے صدر کے ہندستان کے آنے والے دورہ کے دوران دستخط کئے جائیں گے۔ یہ سمجھوتہ عوام سے عوام کے درمیان رابطہ کو بڑھانے، طلبا ، ماہرین تعلیم، تحقیق کاروں اور ہنر مند پیشہ ور افراد کے ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے میں آسانی پیدا کرنے اور بے ضابطہ ترک وطن اور انسانوں کی اسمگلنگ سے متعلق معاملات کو سلجھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ یہ سمجھوتہ فرانس کے ساتھ ہندستان کے تیزی سے بڑھتے ہوئے ہمہ پہلو تعلقات کا ایک ثبوت ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد اور بھروسہ میں اضافہ کی علامت ہے۔ یہ سمجھوتہ بنیادی طور پر سات سال کی مدت کے لئے اوراس میں خود بخود تجدید اور ایک مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعہ نگرانی کے طریقہ کار کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ج۔ ج۔,ভাৰত আৰু ফ্ৰান্সৰ মাজত প্ৰবাসন আৰু গতিশীলতাৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ বাবে বুজাবুজিৰ চুক্তি স্বাক্ষৰৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-76-%DA%A9%D9%84%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%B4%D8%AA%DB%8C-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AD%E0%A7%AC-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%AE%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%81%E0%A6%9C%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں خواتین کی 76 کلوگرام کشتی میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر پہلوان پوجا سہاگ کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ”پوجا سہاگ نے ایک با صلاحیت پہلوان کے طور پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ اس نے اپنے کبھی پیچھے نہ ہٹنے والے رویے کی بدولت بہت سے چیلنجوں پر قابو پا لیا ہے۔ اس نے سی ڈبلیو جی 2022 میں کانسے کا تمغہ حاصل کیا ہے۔ اسے بہت مبارک ہو۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقتوں میں بھی وہ ہندوستان کا سر فخر سے بلند کرتی رہیں گی۔ #Cheer4India“,মহিলাৰ ৭৬ কেজি মল্লযুঁজত ব্ৰঞ্জৰ পদক লাভ কৰা মল্লযুঁজাৰু পূজা সিহাগক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%DA%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D8%AA%D9%85%D9%84%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AD%D8%A7%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے تھنجاور، تملناڈو میں ایک حادثہ کے دوران ہونے والے جانوں کے اتلاف پر اپنے گہرے رنج وغم کااظہار کیا ہے ۔جناب مودی نے تھنجاور تملناڈو میں حادثہ کا شکار ہونے والے افراد کے لئے وزیراعظم کے قومی راحت فنڈ (پی ایم این آر ایف) سے معاوضہ کی رقم کا ا علان بھی کیا ہے ۔ اپنی مسلسل ٹویٹ میں وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے کہا گیا: ’’تملناڈو کے تھنجاور میں ہونےوالے حادثہ پر میں گہرے صدمے میں ہوں، اس مصیبت کی گھڑی میں میری ہمدردیاں غمزدہ کنبوں کے ساتھ ہیں ۔امید کرتا ہوں کہ زخمی ہونے والے افراد جلد صحتیاب ہوں گے: پی ایم ‘‘۔ ’’تھنجاور تملناڈو میں ہونےو الے حادثہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لئے وزیراعظم کے قومی راحت فنڈ سے 2-2 لاکھ روپئے دیئے جائیں گے۔ زخمی ہونے والے افراد میں سے ہر ایک کو 50000 روپئےملیں گے:پی ایم‘‘۔,তামিল নাডুৰ তাঞ্জাৱুৰত সংঘটিত দুৰ্ঘাটনাত নিহতসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AD%D8%AA%D8%B1%D9%85-%D8%AC%D9%88%D9%88%D8%A7%D9%88%D9%94-%D9%85%DB%8C%D9%86%D9%88%D8%A6%D9%84-%DA%AF%D9%88%D9%86%DA%A9%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%8F%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے محترم جوواؤ مینوئل گونکلیوز لورینکو کو انگولہ کا ازسر نو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’انگولہ کا ازسر نو صدر منتخب ہونے پر محترم جوواؤ مینوئل گونکلیوز لورینکو@jlprdeangola کو مبارکباد۔ میں، ہمارے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کی غرض سے مل جل کر کام کرنے کے لیے پرجوش ہوں۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে এংগোলাৰ ৰাষ্ট্ৰপতি হিচাপে পুনৰ নিৰ্বাচিত হোৱা জোয়াও মানুৱেল গনকেলভছ লৌৰেংকোক অভিনন্দন জনাইছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-11-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D9%84%D8%B1%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A7-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 11 دسمبر کو دوپہر ایک بجے کے قریب اترپردیش میں بلرامپور کادورہ کریں گے اور سریو نہر قومی پروجیکٹ کاافتتاح کریں گے۔ مذکورہ پروجیکٹ پر کام 1978 میں شروع ہوا تھا لیکن بجٹی امداد میں تسلسل، بین محکمہ جاتی اشتراک اور خاطر خواہ نگرانی میں کمی کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور تقریباً چار دہائیوں کے بعد بھی پروجیکٹ مکمل نہیں کیاجاسکا۔ وزیراعظم کے کسانوں کی فلاح وبہبود اور تفویض اختیارات اور طویل عرصہ سے زیرالتوا قومی اہمیت کے حامل پروجیکٹوں کو ترجیح دینے کے ویژن کی وجہ سے اس پروجیکٹ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ اس لئے 2016 میں اس پروجیکٹ کو ایک مقررہ وقت میں مکمل کرنےکے ہدف کے ساتھ پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت لایا گیا۔ اس کوشش میں، نئی نہروں کی تعمیر کی غرض سے نئی اراضی کی حصولیابی اور پروجیکٹ میں بنیادی خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ گزشتہ اراضی کی حصولیابیوں سے متعلق زیرالتوا مقدمات کو نمٹانے کے مقصد سے اختراعی طریق کار تلاش کئے گئے۔ پروجیکٹ پر از سر نو توجہ مرکوز کئے جانے کے نتیجے میں یہ پروجیکٹ محض لگ بھگ چار سال میں ہی مکمل ہوگیا۔ سریو نہر قومی پروجیکٹ 9800 کروڑ روپے سے زیادہ کی کُل لاگت کے ساتھ تعمیر کیاگیا ہے۔ جس میں 4600 کروڑ روپے سے زیادہ گزشتہ چار سال میں دستیاب کرائے گئے تھے۔ اس پروجیکٹ کے تحت پانچ دریاؤں، گھاگھرا، سریو، راپتی، بن گنگا اور روہنی کو آپس میں جوڑنا بھی شامل ہے تاکہ خطے کے آبی وسائل کوزیادہ سے زیادہ بروئے کار لایاجاسکے۔ اس پروجیکٹ کی بدولت14 لاکھ سے زیادہ زرعی اراضی کی آبپاشی کے لئے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایاجاسکے گا اور 6200 سے زیادہ گاؤوں کے 29 لاکھ کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ اس سے مشرقی اترپردیش کے نو ضلعوں، بہرائچ، شراوستی، بلرامپور، گونڈہ، سدھارتھ نگر، بستی، سنت کبیر نگر، گورکھپور اور مہاراج گنج کو فائدہ پہنچے گا۔ خطے کے کسانوں کو جو پروجیکٹ کی تکمیل میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہونےکی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے، اب آبپاشی سے متعلق بہتر بنائی گئی گنجائشوں سے زبردست فائدہ ہوگا۔ اب یہ کسان بڑے پیمانے پر فصلیں اُگا سکیں گے اور خطے کے زراعت سے متعلق مکانات کو زیادہ سے ز��ادہ بروئے کار لاسکیں گے۔,১১ ডিচেম্বৰত উত্তৰপ্রদেশৰ বলৰামপুৰ ভ্ৰমণ আৰু সৰযূ নাহাৰ ৰাষ্ট্ৰীয় প্রকল্প উদ্বোধন কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%86-%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C%DB%81-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%88-%D8%AF%D9%90%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-15/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%97%E0%A7%8C%E0%A7%B0%E0%A7%B1-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 14/نومبر 2021 ۔ بھارت سرکار امر شہید بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش 15 نومبر کو جن جاتیہ گورو دِوس کے طور پر منارہی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی بھوپال کے جمبوری میدان میں منعقد ہورہے جن جاتیہ گورو دِوس مہا سمیلن میں شرکت کے لئے مدھیہ پردیش کا دورہ کریں گے، جس میں وہ دوپہر تقریباً ایک بجے جن جاتیہ برادری کی فلاح و بہبود کے لئے متعدد کلیدی اقدامات کا آغاز کریں گے۔ جن جاتیہ گورو دِوس مہاسمیلن میں وزیر اعظم مدھیہ پردیش میں ’راشن آپ کے گرام‘ اسکیم کا آغاز کریں گے۔ اس کا مقصد جن جاتیہ برادری کے مستفیدین کو پی ڈی ایس راشن کا ماہانہ کوٹہ ہر ماہ ان کے گاؤوں تک پہنچانا ہے تاکہ انھیں راشن کے حصول کے لئے سستی قیمت کی دکان پر نہ جانا پڑے۔ مہاسمیلن کے دوران وزیر اعظم مدھیہ پردیش سکل سیل (ہیمو گلوبینو پیتھی) مشن کے آغاز کی مناسبت سے جینیٹک کاؤنسلنگ کارڈ بھی مستفیدین کے حوالے کریں گے۔ اس مشن کو سکل سیل اینیمیا، تھیلیسیمیا اور دیگر ہیموگلوبینو پیتھیز سے متاثرہ مریضوں کا معائنہ اور بندوبست کرنے اور ان بیماریوں کے بارے میں عوام کے اندر بیداری میں اضافہ کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ ایسی بیماریاں مدھیہ پردیش کی جن جاتیہ کے درمیان نمایاں طور پر دیکھی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم اس موقع پر ملک بھر میں 50 ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ جن ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ان اسکولوں کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا ان میں آندھراپردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڈیشہ، تری پورہ، دادر و نگر حویلی اور دمن و دیو شامل ہیں۔ وزیر اعظم جن جاتیہ خودامدادی گروپوں کے ذریعہ تیار کردہ مصنوعات کی نمائش اور مدھیہ پردیش کی جن جاتیہ برادری سے تعلق رکھنے والے جنگ آزادی کے شہیدوں اور ہیروز پر مشتمل تصویری نمائش کا دورہ بھی کریں گے۔ وہ نئے نئے بحال کئے گئے خاص طور پر خطرات کی زد والے قبائلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو تقرری نامہ بھی سونپیں گے۔ تقریب کے دوران مدھیہ پردیش کے گورنر اور وزیر اعلیٰ، ڈاکٹر وریندر کمار، جناب نریندر سنگھ تومر، جناب جیوترادتیہ ایم سندھیا، مرکزی وزرائے مملکت جناب پرہلاد ایس پٹیل، جناب پھگن سنگھ کلستے اور ڈاکٹر ایل مروگن بھی موجود ہوں گے۔ دورے کے دوران وزیر اعظم دوبارہ تعمیر کئے گئے رانی کملاپتی ریلوے اسٹیشن کا افتتاح بھی کریں گے اور مدھیہ پردیش میں ریلوے سے متعلق متعدد اقدامات کا آغاز بھی کریں گے۔,জনজাতীয় গৌৰৱ দিৱস উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৫ নৱেম্বৰত মধ্য প্ৰদেশ ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D9%86%D8%A7-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%D8%AA%DA%A9%D8%A7%D9%88%D8%B1%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%DA%AF%D9%81%D8%AA-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%81%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%88%E0%A6%A4%E0%A7%87/,"خریف کی کم از کم امدادی قیمت اِن پُٹ لاگت کی 150 فیصد ہوگی جس کا اعلان آئندہ ہفتے کیا جائے گا: وزیر اعظم ریاستوں کو چینی ملوں کے ذریعہ گنے کے بقایہ جات کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ہدایت وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں لوک کلیان مارگ پر ،140سے زائد گنا کاشتکاروں کے ایک گروپ سے ملاقات کرکے گفت و شنید کی۔ یہ کاشتکار اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، مہاراشٹر اور کرناٹک سے آئے تھے۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ مرکزی کابینہ اپنی آئندہ منعقد ہونے والی میٹنگ میں، خریف کے سیزن2018-19. کی مشتہر کردہ فصلوں کے لئے اِن پُٹ لاگت کی 150 فیصد کے لحاظ سے کم از کم امدادی قیمت کے نفاذ کو اپنی منظوری دے گی۔ اس سے کاشتکاروں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران 2018-19 کے شوگر سیزن کے لئے معقول اور منفعت بخش قیمت (ایف آر پی) کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قیمت 2017-18 کی قیمت سے زیادہ ہوگی۔ اس کے ذریعہ ایسے کاشتکاروں کو ترغیب فراہم ہوگی جن کو گنے سے ملنے والی بھرپائی 9.5 فیصد سے زائد ہوگی۔ وزیر اعظم نے کاشتکاروں کو گنا کاشتکاروں کے سلسلے میں بقایہ جات کی ادائیگی کی غرض سے لئے گئے مختلف فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ سات سے دس برسوں کے دوران ہی 4000 کروڑ سے زائد کے بقایہ جات کاشتکاروں کو نئی پالیسی اقدا مات کے تحت ادا کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کاشتکاروں کو مزید یقین دہانی کرائی کہ ریاستی حکومتوں سے گذارش کی گئی ہے کہ وہ گنا کے بقایہ جات کی ادائیگی کے لئے مؤثر اقدامات کریں۔ وزیر اعظم نے کاشتکاروں کو تلقین کی کہ وہ چھڑکاؤ والی اور ڈرِپ آبپاشی پر مبنی طریقہ کار کا استعمال کریں، جدید ترین کاشتکاری تکنیکات اور شمسی پمپوں کو استعمال کریں۔ انہوں نے کاشتکاروں سے کہا کہ وہ اپنے کھیتوں میں بجلی کے وسیلے کے طور پر نیز اضافی آمدنی کے لئے شمسی پینلوں کی تنصیب کریں ۔ انہوں نے اضافی فصلوں کی قدر و قیمت پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کاشت سے حاصل ہونے والے فضلے کا دانش مندانہ استعمال ہونا چاہئے اور اسے اضافی آمدنی کے لئے تغذیہ کے طور پر بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کاشتکاروں کو تلقین کی کہ وہ 2022 تک کیمیاوی کھادوں کے استعمال میں 10 فیصد تک کی تخفیف لانے کا ہدف مقرر کریں۔ وزیر اعظم نے کاشتکاروں کو کارپوریٹ اداروں کے ساتھ اپنی حالیہ گفت و شنید سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ انہوں نے قدر و قیمت میں اضافے، گوداموں کی سہولت، ذخیرے کی سہولت، بہتر کوالٹی والے بیجوں کی فراہمی اور کاشتکاروں کی آمدنی بڑھانے کے لئے بہتر منڈی روابط کے سلسلے میں افزوں طور پر نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی تلقین کی ہے ۔ گفت و شنید کے دوران وزیر اعظم نے 2014-15 اور 2015-16 کے دوران، مرکزی حکومت کی اس سے قبل کی دخل اندازیوں کا ذکر کیا جن کا مقصد گنا کاشتکاروں کے وزن کو کم کرنا تھا جو 21,000 کروڑ روپئے سے زائد کے بقایہ جات کی رقم کی وصولی کے لئے نبردآزما تھے۔اس امر کو یقنی بنایا گیا تھا کہ کاشتکاروں کو یہ ادائیگی گنا ملوں کے توسط سے کی جائے۔ کاشتکاروں نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور چینی پر درآمداتی محصول50 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے، کاشتکاروں کی ادائیگی کے لئے گنا ملوں کو فی کوئنٹل 5.50 روپئے کی کارکردگی پر مبنی گرانٹ کی شکل میں 1540کروڑ روپئے کی رقم کی فراہمی سمیت ماضی قریب میں حکومت کی جانب سے کیے گئے مختلف اقدامات سے آگاہ کیا۔ کاشتکاروں نے مرکزی حکومت کی 1175 کروڑ روپئے کی رقم کی شکل میں اس دخل اندازی کا بھی ذکر کیا جو ملوں کے ذریعہ 30 لاکھ میٹرک ٹن کے بفر اسٹاک پر سود کی تحلیل کے لئے فراہم کی گئی ہےتاکہ کاشتکاروں کو ادائیگی کی جا سکے۔ وزیر اعظم نے شکر کی صنعت کو استحکام بخشنے کے لئے پیٹرول میں 10 فیصد ایتھنول کی آمیزش کے حکومت کے نظریے کی بھی وضاحت کی۔",কুঁহিয়াৰৰ কৃষকসকলৰ সৈতে মত বিনিময় কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%90%D9%85%D9%BE%DA%BE%D8%A7%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AB%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی،04؍جنوری؍2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ا ٓج منی پور کے امپھال میں 1850 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیرشدہ 13پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اورتقریباً2950 کروڑ روپے کے 9پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا ۔ یہ تمام پروجیکٹ مختلف شعبوں سے متعلق ہے، جیسے روڈ بنیادی ڈھانچہ، پینے کےپانی کی سپلائی، صحت، شہری ترقیات، ہاؤسنگ ، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، صلاحیت سازی، آرٹ اور ثقافت وغیرہ۔ وزیر اعظم نے 1700کرو ڑ سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے 5نیشنل ہائی وے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا ۔ انہوں نے 75کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے این ایچ-37پر بارک ندی پر بننے والے اِسٹیل برج کا افتتاح کیا ، اس سے سلچر اور امپھال کے درمیان بھاری ٹریفک سے بڑی حد تک نجات ملے گی۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے تقریباً 1100کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر 2387موبائل ٹاور منی پور کے عوام کو وقف کیا۔ وزیر اعظم نے تھاؤبل کثیر المقاصد پروجیکٹ کے واٹر ٹرانسمیشن سسٹم کا بھی افتتاح کیا، جس پر 280کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔اس کے ذریعے امپھال شہر میں پینے کے پانی کی فراہمی کی جائے گی۔تمنگ لونگ ضلع کے 10رہائشی علاقوں کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرانے کےلئے 65کروڑ روپے کی لاگت سے ایک واٹر سپلائی اسکیم پروجیکٹ کی تعمیر ہوئی ہے اور ’آگمنٹیشن آف سیناپتی ہیڈ کوارٹر واٹر سپلائی اسکیم‘کی تعمیر 51کروڑ روپے کی لاگت سے ہوئی ہے۔ اس کے ذریعے علاقے کے شہریوں کو روزانہ پینے کا پانی مہیا کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے امپھال میں ’اسٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہاسپٹل‘کا سنگ بنیا درکھا ۔ پی پی پی بنیاد پر اس کی تعمیر پر 160کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔انہوں نے ’کیام گئی میں200 بیڈ والے کووڈاسپتال‘ کا افتتاح کیا، جس کو ڈی آر ڈی او کے اشتراک سے 37کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔’امپھال اسمارٹ سٹی مشن‘کے ذریعے 170کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے تیار شدہ تین پروجیکٹوں کا افتتاح کیا۔اس کے ساتھ ہی انٹیگریڈیڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (آئی سی سی سی)‘ ڈیولپمنٹ آف ویسٹرن ریور فرنٹ آن امپھال ریور(فیز I)اور تھنگل بازار میں مال روڈ کی ترقیات(فیزI-)کا بھی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے ’سینٹر فار انونشن ، انوویشن،انکیو بیشن اینڈ ٹریننگ(سی آئی آئی آئی ٹی)، کا سنگ بنیاد بھی رکھا، جس کی تعمیر پر تقریباً 200کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔انہوں نے ہریانہ کے گرگاؤں میں 240کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے منی پور انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس موقع پر منعقد ایک عوامی اجتما ع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اب سے چند دن بعد 21جنوری آئے گی، جو منی پور کو ریاست کا درجہ ملنے کی 50ویں سالگرہ ہوگی۔یہ سچائی آزادی کے 75سال کے موقع پر امرت مہوتسو کے تناظر میں اپنے آپ میں ایک بڑی تحریک ہے۔ منی پور کے لوگوں کی بہادری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے عوام کے درمیان آزادی کو لے کر اعتماد کا آغاز موئی رانگ کی سرزمین سے ہوا، جہاں نیتاجی سبھاش کی فوج پہلی مرتبہ قومی جھنڈا لہرایا تھا۔شمال مشرق ، جسے نیتا جی نے ہندوستان کی آزادی کا گیٹ وے قرار دیا تھا، وہ نئے ہندوستان کے خواب کی تکمیل کا گیٹ وے بن رہا ہے۔انہوں نے اس بات کو دوہرایا کہ مشرق اور ہندوستان کے شمال مشرقی حصے ہندوستان کی ترقی کا ذریعہ بنیں گے اور اسے آج خطے کی ترقی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے آج جن پروجیکٹوں کا افتتاح ہوا یا جن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ، اس کو لے کر منی پور کے عوام کو مبارکباد پیش کی۔انہوں نے ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کےلئے منی پور کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا، جو پوری اکثریت اور مکمل اثرات کے ساتھ کام کررہی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسی استحکام اور منی پور کے عوام کے انتخاب کے سبب 6لاکھ کسان خاندان کسان سمان ندھی کے تحت ہزاروں کروڑ روپے حاصل کررہے ہیں۔ پی ایم غریب کلیان اسکیم کے تحت 6لاکھ غریب خاندانوں کو فائدہ مل رہا ہے۔پی ایم اے وائی کے تحت 80ہزار گھر بنے ہیں، آیوشمان یوجنا کے تحت 4.25لاکھ مریضوں کو مفت طبی علاج فراہم ہورہا ہے؛ 1.5لاکھ مفت گیس کنکشن دیئے گئے ہیں؛ 1.3لاکھ مفت بجلی کنکشن ؛30ہزار بیت الخلاء؛30لاکھ سے زیادہ مفت ٹیکے کی خوراکیں۔ ریاست کے ہر ضلع میں آکسیجن پلانٹ کی تعمیر حقیقت بن سکی۔ وزیر اعظم نے یاد کیا کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی وہ کئی بار منی پور آچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ ان کے درد کو سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ ’’یہی وجہ ہے کہ 2014ء کے بعد میں دہلی کی حکومت کو آپ کے دروازے پر لے آیا۔‘‘ہر افسر اور وزیر سے کہا گیا کہ وہ اس خطے کا دورہ کرے اور خطے کے عوام کی مقامی ضروریات کے مطابق خدمت کرے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وزراء کی کونسل میں اِس خطے کے پانچ اہم چہرے اہم وزارتیں سنبھال رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ حکومت نے سات سال تک جس طرح محنت سے کام کیا ہے، اس کے اثرات کو پورے شمال مشرق اور خاص طورپر منی پور میں دیکھا جاسکتاہے۔آج منی پور تبدیلی کی نیو ورک کلچر کی علامت بن رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں منی پور کی ثقافت کے لئے اور ان کی دیکھ بھال کے لئےہیں۔کنکٹی وٹی کو بھی اس تبدیلی میں اولیت حاصل ہے اور تعمیریت بھی یکساں طورپر اہم ہے۔وزیر اعظم نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بہتر موبائل نیٹ ورک سمیت روڈ اور بنیادی ڈھانچے کے یہ پروجیکٹ کنکٹی وٹی کو مضبوطی فراہم کریں گے۔سی آئی آئی ٹی سے مقامی نوجوانوں میں تعمیری جذبہ اور جدت طرازی کی روح پیدا ہوگی۔جہاں تک صحت کی دیکھ بھال کا تعلق ہے ، جدید کینسر اسپتال سے اس میں بڑی مدد ملے گی اور منی پور انسٹی ٹیوٹ آف پرفامنگ آرٹ اور گووند جی مندر کی تزئین نو سے یہاں کی ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے شمال مشرق کے لئے ’ایکٹ ایسٹ‘کی پالیسی اپنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھگوان نے اس خطے کو قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے اور یہاں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ سیاحت اور ترقی کے لئے بھی بے پناہ امکانات یہاں ہیں۔انہوں نے آگے کہا کہ اب شمال مشرق کی انہی امکانات کو محسوس کرنے کا کام ہورہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ شمال مشرق ہندوستان کی ترقی کا گیٹ وے بن رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ منی پور نے ملک کو ایک سے ایک انمول رتن دیئے ہیں۔نوجوان اور خاص طورپر منی پور کی لڑکیوں نے پوری دنیا میں ملک کا سر فخر سے اونچا کیا ہے۔خاص طور سے آج ملک کے تمام نوجوان منی پور کے کھلاڑیوں سےتحریک حاصل کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ڈبل انجن کی حکومت کی مسلسل کوششوں سے آج اِس خطے میں انتہا پسندی اور عدم تحفظ کی کوئی آگ نہیں ہے، بلکہ ہر طرف امن اور ترقی کی روشنی ہے۔شمال مشرق کے ہزاروں نوجوان ہتھیار چھوڑ چکے ہیں اور ترقی کے قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ معاہدے جو دہائیوں سے التوا میں تھے، موجودہ حکومت نے ان تاریخی معاہدوں کو اختتام تک پہنچایاہے۔ایک ’ بلاکیڈ اسٹیٹ‘ سے منی پوربین الاقوامی تجارت کے لئے راستے دینے والی ریاست بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منی پور کے لئے 21ویں صدی کی یہ دہائی بہت اہم ہے۔ماضی میں جو وقت برباد ہوا ، اس پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب ایک منٹ بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا ’’ہمیں منی پور میں استحکام کو برقرار رکھنا ہے اور منی پور کو ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچانا بھی ہے اور صرف ڈبل انجن کی حکومت ہی اس کام کو کرسکتی ہے۔‘‘ ٹوئٹ,মণিপুৰৰ ইম্ফলত ভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্প উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج بجٹ کے بعد کے و یبنار کی سیریز میں ساتویں ویبنار سے خطاب کیا تاکہ اسٹیک ہولڈرس سے صلاح و مشورہ کیا جاسکے اور مقررہ مدت میں بجٹ کے موضوعات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ انہوں نے ان ویبناروں کے انعقاد کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ایک مشترکہ کوشش ہے کہ بجٹ کی روشنی میں ہم کس طرح تیزی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے اور بہترین نتائج کے ساتھ بجٹ کے التزامات کو لاگو کرسکتے ہیں ۔ وزیراعظم نے زورر دے کر کہاکہ اس حکومت کے لئے سا ئنس اور ٹکنالوجی کوئی الگ تھلگ شعبہ نہیں ہے ۔ معیشت کے میدان میں نظریہ ڈجیٹل معیشت او رمالیاتی ٹکنالوجی جیسے شعبوں سے منسلک ہے۔ اس طرح اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کابنیادی ڈھانچہ اور سرکاری خدمات کی فراہمی سے متعلق وژن میں بہت بڑا رول ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ‘‘ ہمارے لئے ٹکنالوجی ملک کے لوگوں کو با اختیار بنانے کا ذریعہ ہے ۔ ہمارےلئے ٹکنالوجی ملک کوآتم نربھر (خوف کفیل) بنانے کے لئے بنیاد ہے ۔ اس سال کے بجٹ میں اسی نظریہ کی عکاسی کی گئی ہے’’۔ انہوں نے امریکی صدربائڈن سے تازہ خطاب کے بارے میں بات کی جس میں آتم نربھرتا (خودکفالت) کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ، امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام کے تناظر میں یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم آتم نربھرتا پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھیں’’۔ جناب مودی نے آرٹیفیشل انٹلی جینٹ جی او – اسپ��شل سسٹمس، ڈرونس، سیمی کنڈکٹر، خلائی ٹکنالوجی، جنومکس، ادویہ سازی اور 5 جی کے لئے آلودگی سے پاک ٹکنالوجیز جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں کے بارے میں اور 5 جی کے بارے میں بجٹ کے زور کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں 5 جی اسپکٹرم کی نیلامی کے لئے ایک واضح روڈ میپ پیش کیا گیا ہے اور مضبوط 5 جی ایکو سسٹم سے منسلک ڈیزائن پر مبنی مینوفیکچرنگ کے لئے پیداوار پر مبنی ترغیبات (پی ایل آئی) اسکیمیں تجویز کی گئی ہیں ۔ انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر سےکہاکہ وہ اس شعبے میں اپنی کوششوں کو بڑھائیں ۔ ‘‘سائنس آفاقی ہے اور ٹکنالوجی مقامی ہے ’’ کہاوت کاحوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ ہم سائنس کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن ہمیں اس بات پر زور دینا ہوگا کہ زندگی کو آسان بنانے کے لئے ٹکنالوجی کازیادہ سے زیادہ استعمال کیسے کیاجائے’’۔ انہوں نے مکانات کی تعمیر، ریلوے، ایئرویز، آبی گزرگاہوں اور ا ٓپٹکل فائبر میں سرمایہ کاری کاذکر کیا ۔انہوں نے ان اہم شعبوں میں ٹکنالوجی کے استعمال کے تصورات پر زور دیا۔ گیمنگ کے لئے وسیع ہوتے ہوئے عالمی بازارکاذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ بجٹ میں انیمیشن ویزوول ایفیکٹ گیمنگ کومک ( اے وی جی سی) پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ اسی طرح انہوں نے کھلونوں کو ہندوستانی ماحول اور ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔ مواصلاتی مراکز اور فنٹیک (مالیاتی ٹکنالوجی) کی مرکزیت پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے دونوں کے لئے غیر ملکوں پر کم انحصار کے ساتھ اندرون ملک ایکو سسٹم کے لئے کہا۔ وزیراعظم نے پرائیویٹ سیکٹر پر زور دیا کہ وہ جی او اسپیشل ڈیٹا کے استعمال کےلئے قوانین میں تبدیلی اور اصلاحات کی وجہ سےپیدا ہونے و الے لامحدود مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے کہاکہ ‘‘دنیا نے کووڈ کے دور میں ہماری خودکفالت سے ویکسین کی تیاری تک ہمارے اعتماد کامشاہدہ کیا۔ ہمیں ہر سیکٹر میں اس کامیابی کو دہرانا ہوگا’’۔ وزیراعظم نے ملک کے لئے ایک مضبوط ڈیٹا سیکورٹی فریم ورک کی اہمیت پر بھی زور دیا اور حاضرین سے اس کے لئے معیارات اور اصول طے کرنے کے لئے ایک روڈ میپ کے لئے کہا ۔ تیسرے سب سے بڑے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم یعنی بھارتی اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کاحوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے اس شعبے کو حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کایقین دلایا۔وزیراعظم نے مطلع کیا کہ ‘‘ بجٹ میں نوجوانوں کی ہنرمندی، ری اسکلنگ اوراپ اسکلنگ کے لئے ایک پورٹل بھی تجویز کیا گیا ہے ، اس کے ذریعہ نوجوان اے پی آئی پر مبنی قابل اعتماد مہارت کی اسناد ادائیگی اور دریافت کی سطحوں کے ذریعہ مناسب ملازمتیں اور مواقع حاصل کرسکیں گے’’۔ وزیراعظم نے ملک میں مینوفیکچرنگ کو فروغ دینےکے لئے 14 اہم شعبوں میں دولاکھ کروڑ روپئے کی مالیت کی پی ایل آئی اسکیموں کے بارے میں بھی بات کی ۔ وزیراعظم نے شہریوں کے لئے خدمات ، ای فضلات بندوبست، سرکلراکنومی اور الیکٹرک موبلٹی جیسے شعبوں میں آپٹکل فائبر کے استعمال کے لئے اسٹیک ہولڈرس کو عملی تجاویز دینے کی واضح ہدایت دی ۔,‘প্রযুক্তিভিত্তিক উন্নয়ন’ শীর্ষক ৱেবিনাৰত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%DB%81%D9%88%D8%8C-%D9%BE%D9%88%D9%86%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DA%AF%D8%AF-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%86%D8%AA-%D8%AA%D9%8F%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%97%E0%A6%A6%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,شری وٹھلای نمہ نمو سد گرو، تُکیا گیان دیپا۔ نمو سد گرو، سچدانند روپا۔ نمو سد گرو، بھکت کلیان مورتی۔ نمو سد گرو، بھاسکرا پورن کیرتی۔ مستک ہے پایاوری۔ یا وارکری سنتانچیا۔ مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ جناب اجیت پوار جی، اپوزیشن لیڈر جناب دیوندر پھڈنویس جی، سابق وزیر جناب چندر کانت پاٹل جی، وارکری سنت جناب مرلی بابا کوریکر جی، جگت گرو شری سنت تُکا رام مہاراج سنستھان کے چیئر مین نتن مورے جی، آدھیاتمک اگھاڑی کے صدر آچاریہ جناب توشار بھوسلے جی، یہاں موجود سنت لوگ، خواتین و حضرات، بھگوان وٹھل اور تمام وارکری سنتوں کے چرنوں میں میرا کوٹی کوٹی وندن! ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے کہ انسان کے طور پر جنم میں سب سے نایاب سنتوں کی صحبت ہے۔ سنتوں کی نظر کرم ہو گئی، تو ایشور کا نظر کرم اپنے آپ ہو جاتا ہے۔ آج دیہو کی اس مقدس تیرتھ بھومی پر مجھے یہاں آنے کا فخر حاصل ہوا۔ اور میں بھی یہاں وہی محسوس کر رہا ہوں۔ دیہو، سنت شرومنی جگت گرو تُکا رام جی کی جائے پیدائش بھی ہے، میدان عمل بھی ہے۔ دھنیہ دیہو گاؤں، پونیہ بھومی ٹھاو۔ تیتھے ناندے دیو پانڈورنگ۔ دھیہ چھیترواسی لوک تے دیواچے۔ اُچّاریتی واچے، نام گھوش۔ دیہو میں بھگوان پانڈو رنگ کی ہمیشہ رہائش بھی ہے، اور یہاں کا ہر آدمی خود بھی بھکتی سے سرابور سنت جیسا ہی ہے۔ اسی جذبے سے میں دیہو کے تمام باشندوں کو، میری ماتاؤں-بہنوں کو نہایت ادب و احترام سے نمن کرتا ہوں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی مجھے پالکھی مارگ میں دو قومی شاہراہوں کو فور لین کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا تھا۔ شری سنت گیانیشور مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر پانچ مراحل میں ہوگی اور سنت تُکا رام مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر تین مراحل میں پوری کی جائے گی۔ ان تمام مراحل میں 350 کلومیٹر سے زیادہ لمبائی کے ہائی وے بنیں گے اور اس پر 11 ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا خرچ کیا جائے گا۔ ان کوششوں سے علاقے کی ترقی کو بھی رفتار ملے گی۔ آج، خوش قسمتی سے مقدس شلا مندر کے افتتاح کے لیے مجھے دیہو میں آنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ جس شلا پر خود سنت تکا رام جی نے 13 دنوں تک تپسیا کی ہو، جو شلا سنت تکا رام جی کے علم اور بیراگ کا گواہ بنی ہو، میں مانتا ہوں کہ، وہ صرف شلا نہیں وہ تو بھکتی اور علم کی آدھار شلا (بنیاد) جیسی ہے۔ دیہو کاشلا مندر نہ صرف بھکتی کی شکتی (طاقت) کا ایک مرکز ہے، بلکہ بھارت کے ثقافتی مستقبل کو بھی ہموار کرتا ہے۔ اس مقدس مقام کی از سر نو تعمیر کرنے کے لیے میں مندر ٹرسٹ اور تمام بھکتوں کا تہ دل سے استقبال کرتا ہوں، شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جگت گرو سنت تکا رام جی کے قول کو جنہوں نے جمع کیا تھا، ان سنتا جی مہاراج جگناڈے جی، ان کا مقام سدومبرے بھی پاس میں ہی ہے۔ میں ان کو بھی نمن کرتا ہوں۔ ساتھیوں، اس وقت ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم دنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیبوں میں سے ایک ہیں۔ اس کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے، تو وہ بھارت کی سنت روایت کو جاتا ہے، بھارت کے رشیوں منیشیوں کو جاتا ہے۔ بھارت شاشوت ہے، کیوں کہ بھارت سنتوں کی سرزمین ہے۔ ہر زمانے میں ہمارے یہاں، ملک اور سماج کو راہ دکھانے کے لیے کوئی نہ کوئی عظیم روح اوتار کی شکل میں آتی رہی ہے۔ آج ملک سنت کبیر داس کی جینتی منا رہا ہے۔ یہ سنت گیانیشور مہاراج، سنت نیورتی ناتھ مہاراج، سنت سوپان دیو اور بہن آدی شکتی مکتا بائی جیسے سنتوں کی سمادھی کا 725واں سال بھی ہے۔ ایسی عظیم شخصیات نے ہماری شاشوتا کو محفوظ رکھ کر بھارت کو متحرک بنائے رکھا۔ سنت تکا رام جی کو تو سنت بہنا بائی نے سنتوں کے مندر کا کلش کہا ہے۔ انہوں نے پریشانیوں اور مشکلوں سے بھری زندگی بسر کی۔ اپنے دور میں انہوں نے قحط جیسے حالات کا سامنا کیا۔ دنیا میں انہوں نے بھوک دیکھی، بھوک سے موت دیکھی۔ دکھ اور درد کے ایسے چکر میں جب لوگ امید چھوڑ دیتے ہیں، تب سنت تکا رام جی سماج ہی نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے بھی امید کی کرن بن کر ابھرے! انہوں نے اپنے خاندان کی جائیداد کو لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ یہ شلا ان کی اسی قربانی اور ویراگیہ کی گواہ ہے۔ ساتھیوں، سنت تکا رام جی کا رحم و کرم اور خدمات کا وہ جذبہ ان کے ’ابھنگوں‘ کے طور پر آج بھی ہمارے پاس ہے۔ ان ابھنگوں نے ہماری نسلوں کو حوصلہ بخشا ہے۔ جو بھنگ نہیں ہوتا، جو وقت کے ساتھ شاشوت اور افادیت انگیز رہتا ہے، وہی تو ابھنگ ہوتا ہے۔ آج بھی ملک جب اپنی ثقافتی قدروں کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے، تو سنت تکا رام جی کے ابھنگ ہمیں توانائی عطا کر رہے ہیں، راستہ دکھا رہے ہیں۔ سنت نام دیو، سنت ایک ناتھ، سنت ساوتا مہاراج، سنت نرہری مہاراج، سنت سینا مہاراج، سنت گوروبا کاکا، سنت چوکھا میلا، ان کے قدیم ابھنگوں سے ہمیں ہمیشہ نیا حوصلہ ملتا ہے۔ آج یہاں سنت چوکھا میلا اور ان کی فیملی کے ذریعے تخلیق کردہ سارتھ ابھنگ گاتھا کے اجرا کا بھی مجھے اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس سارتھ ابھنگ گاتھا میں اس سنت فیملی کی 500 سے زیادہ ابھنگ تخلیقات کو آسان زبان میں معنی سمیت بتایا گیا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، سنت تکا رام جی کہتے تھے – اونچ نیچ کاہی نیڑے بھگونت۔ یعنی، سماج میں اونچ نیچ کا بھید بھاؤ، انسان انسان کے درمیان فرق کرنا، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ان کا یہ پیغام جتنا ضروری بھگود بھکتی کے لیے ہے، اتنا ہی اہم راشٹر بھکتی کے لیے بھی ہے، سماج بھکتی کے لیے بھی ہے۔ اسی پیغام کے ساتھ ہمارے وارکری بھائی بہن ہر سال پنڈھر پور کا سفر کرتے ہیں۔ اسی لیے، آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس‘ کے منتر پر چل رہا ہے۔ سرکار کی ہر اسکیم کا فائدہ، ہر کسی کو بغیر کسی امتیاز کے مل رہا ہے۔ وارکری آندولن کے جذبات کو مضبوط کرتے ہوئے ملک خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے بھی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ مردوں کے ساتھ اتنی ہی توانائی سے واری میں چلنے والی ہماری بہنیں، پنڈھری کی واری، مواقع کی برابری کی علامت رہی ہیں۔ ساتھیوں، سنت تکا رام جی کہتے تھے- جے کا رنجلے گانجلے- تیانسی مہنے جو آپولے۔ تیچی سادھو اولکھاوا، دیو تیتھے-چی-جاناوا۔ یعنی، سماج کی آخری قطار میں بیٹھے شخص کو اپنانا، ان کی بھلائی کرنا، یہی سنتوں کی علامت ہے۔ یہی آج ملک کے لیے انتیودیہ کا عہد ہے، جسے لے کر ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ دلت، محروم، پس ماندہ، آدیواسی، غریب، مزدور، ان کی فلاح و بہبود آج ملک کی پہلی ترجیح ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، سنت اپنے آپ میں ایک ایسی توانائی کی طرح ہوتے ہیں، جو الگ الگ حالات میں سماج کو رفتار دینے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ آپ دیکھئے، چھترپتی شیواجی مہاراج جیسے قومی ہیرو کی زندگی میں بھی تکا رام جی جیسے سنتوں نے بڑا اہم رول نبھایا ہے۔ آزادی کی لڑائی میں ویر ساورکر جی کو جب سزا ہوئی، تب جیل میں وہ ہتھکڑیوں کو چپلی جیسا بجاتے ہوئے تکا رام جی کے ابھنگ گایا کرتے تھے۔ الگ الگ دور، الگ الگ شخصیات، لیکن سب کے لیے سنت تکا رام جی کا کلام اور توانائی اتنی ہی حوصلہ افزا رہی ہے! یہی تو سنتوں کی وہ عظمت ہے، جس کے لیے ’نیتی نیتی‘ کہا گیا ہے۔ ساتھیوں، تکا رام جی کے اس شلا مندر میں پرنام کرکے ابھی اشاڑھ میں پنڈھر پور جی کی یاترا بھی شروع ہونے والی ہے۔ چاہے مہاراشٹر میں پنڈھرپور یاترا ہو، یا اوڈیشہ میں بھگوان جگن ناتھ کی یاترا، چاہے متھرا میں ورج کی پریکرما ہو، یا کاشی میں پنچ کوسی پریکرما! چاہے چار دھام یاترا ہو یا چاہے پھر امرناتھ جی کی یاترا، یہ یاترائیں ہمارے سماجی اور روحانی تحرک کے لیے توانائی کا ذریعہ ہیں۔ ان یاتراؤں کے ذریعے ہمارے سنتوں نے ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کے جذبہ کو زندہ رکھا ہے۔ تکثیریت کو جیتے ہوئے بھی، بھارت ہزاروں سالوں سے ایک قوم کے طور پر بیدار رہا ہے، کیوں کہ ایسی یاترائیں ہماری تکثیریت کو جوڑتی رہی ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں، ہماری قومی وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے آج سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی قدیم شناخت اور روایات کو زندہ رکھیں۔ اسی لیے، آج جب جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر بھارت کی ترقی کا سبب بن رہے ہیں، تو ہم یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ترقی اور وراثت دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں۔ آج پنڈھر پور پالکی مارگ کا اپ گریڈیشن ہو رہا ہے تو چاردھام یاترا کے لیے بھی نئے ہائی وے بن رہے ہیں۔ آج ایودھیا میں شاندار مندر بھی بن رہا ہے، کاشی وشو ناتھ دھام کا احاطہ بھی اپنی نئی شکل میں موجود ہے، اور سومناتھ جی میں بھی ترقی کے بڑے کام کیے گئے ہیں۔ پورے ملک میں پرساد یوجنا کے تحت تیرتھ استھانوں اور سیاحتی مقامات کو ترقیاتی کاموں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ مہرشی والمیکی نے رامائن میں بھگوان رام سے جڑے جن مقامات کا ذکر کیا ہے، رامائن سرکٹ کے طور پر ان کی بھی تعمیرکی جا رہی ہے۔ ان آٹھ سالوں میں بابا صاحب امبیڈکر کے پنچ تیرتھوں کی ترقی بھی ہوئی ہے۔ چاہے مہو میں بابا صاحب کی جائے پیدائش کی ترقی ہو، لندن میں جہاں رہ کر وہ پڑھا کرتے تھے، اس گھر کو یادگار کے طور پر بدلنا ہو، ممبئی میں چیتہ بھومی کا کام ہو، ناگپور میں دیکشا بھومی کو بین الاقوامی سطح پر تیار کرنے کی بات ہو، دہلی میں مہا پری نروان استھل پر میموریل کی تعمیر ہو، یہ پنچ تیرتھ، نئی نسل کو بابا صاحب کی یادگاروں سے مسلسل متعارف کرا رہے ہیں۔ ساتھیوں، سنت تکا رام جی کہتے تھے – اسادھیہ سے سادھیہ کریتا سایاس۔ کارن ابھیاس، تکا مہنے۔ یعنی، اگر صحیح سمت میں سب کی کوشش ہو تو ناممکن کو بھی حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ آج آزادی کے 75ویں سال میں ملک نے سو فیصد اہداف کو پورا کرنے کا عہد کیا ہے۔ ملک غریبوں کے لیے جو اسکیمیں چلا رہا ہے، انہیں بجلی، پانی، مکان اور علاج جیسی زندگی کی، جینے کی بنیادی ضرورتوں سے جوڑ رہا ہے، ہمیں انہیں سو فیصد لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اسی طرح ملک نے ماحولیات، آبی تحفظ اور ندیوں کو بچانے جیسی مہم شروع کی ہے۔ ہم نے صحت اور صحت مند بھارت کا عہد کیا ہے۔ ہمیں ان عہد کو بھی سو فیصد پورا کرنا ہے۔ اس کے لیے سب کی کوشش کی، سب کی حصہ داری کی ضرورت ہے۔ ہم سبھی ملک کے شہری ان ذمہ داریوں کو اپنے روحانی عہد کا حصہ بنائیں گے تو ملک کا اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ ہم پلاسٹک سے آزادی کا عہدہ کریں گے، اپنے آس پاس جھیلوں، تالابوں کو صاف رکھنے کا عہد کریں گے تو ماحولیات کی حفاظت ہوگی۔ امرت مہوتسو میں ملک نے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنانے کا بھی عہد کیا ہے۔ ان امرت سرووروں کو آپ سبھی سنتوں کا آشیرواد مل جائے، ان کی تعمیر میں آپ تعاون مل جائے، تو اس کام کی رفتار اور بڑھ جائے گی۔ ملک اس وقت قدرتی کھیتی کو بھی مہم کے طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ کوشش وارکری سنتوں کے اصولوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم کیسے قدرتی کھیتی کو ہر کھیت تک لے جائیں اس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگلے کچھ دن بعد یوگ کا بین الاقوامی دن بھی آنے والا ہے۔ آج جس یوگ کی دنیا میں دھوم ہے، وہ ہمارے سنتوں کی ہی تو دین ہے۔ مجھے یقین ہے، آپ سب یوگ کے دن کو پورے جوش سے منائیں گے، اور ملک کے تئیں ان ذمہ داروں کو پورا کرتے ہوئے نئے بھارت کے خواب کو پورا کریں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ، میں اپنا کلام ختم کرتا ہوں اور مجھے جو موقع دیا، جو عزت بخشی اس لیے آپ سب کا سر جھکا کر شکریہ ادا کرتاہوں۔ جے جے رام کرشن ہری۔ جے جے رام کرشن ہری۔ ہر ہر مہادیو۔,পুনেৰ দেহুত জগদগুৰু শ্ৰীসন্ত তুকাৰাম মহাৰাজ শৈল মন্দিৰৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%AF%D9%84%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%B3%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%B1-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%A6%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%95-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%95/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مشہور گلوکار اورموسیقار جناب بپی لہری کے انتقال پر اپنے گہرے رنج وغم کااظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘ جناب بپی لہری کی موسیقی سحر انگیز تھی جس میں مختلف جذبات کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا ۔ ان کی موسیقی نے نسلوں کو متاثر کیا ہے ۔ ان کی زندہ دلی کو ہر شخص یاد رکھے گا، ان کی موت سے مجھے صدمہ ہوا ہے، ان کے افراد کنبہ اور مداحوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں، اوم شانتی’’۔,কিংবদন্তী গায়ক আৰু সুৰকাৰ শ্ৰী বাপ্পী লাহিড়ীৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%B3%D9%88%D8%B1%D9%88-%D8%AF%D8%B3%DB%81%D8%B1%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%B6%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%AD/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے میسورو دسہرہ تقریبات کی جھلکیاں شیئر کیں اور اپنی ثقافت اور ورثے کو خوبصورت طریقے سے محفوظ کرنے کے لیے میسورو کے لوگوں کے عزم کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے اپنے میسورو کے دورے کی یادوں کو بھی تازہ کیا، جن میں سے حال ہی کا دورہ انہوں نے 2022 میں یوگا ڈے کے موقع پر کیا تھا۔ ایک شہری کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’میسورو دسہرہ شاندار ہے۔ میں اپنی ثقافت اور ورثے کو اتنی خوبصورت انداز میں محفوظ کرنے کےلئے میسورو کے لوگوں کی تعریف کرتا ہوں۔ میرے میسوروں کے دوروں کی دلکش یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ جن میں سے حال ہی کا دورہ میں نے 2022 یوگا ڈے کے موقع پر کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,মহীশূৰৰ দশেৰা উদযাপনৰ আভাস শ্বেয়াৰ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%8C%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-50-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے میگھالیہ کو ریاست کا درجہ حاصل ہونے کے 50 سال پورے ہونے پر وہاں کے عوام کو مبارک باد دی ہے۔ انہوں نے ریاست کے قیام اور ترقی میں تعاون کرنے والے ہر شخص کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد شمال مشرقی کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے اپنے شیلانگ کے دورے کو یاد کیا۔ کسی وزیراعظم کے ذریعہ 3-4 دہائیوں کے بعد ریاست کا یہ پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے قدرت کے قریب رہنے والے لوگوں کے طور پر اپنی شناخت کو مزید مضبوط کرنے کے لئے وہاں کے عوام کو مبارک باد دی۔ جناب مودی نے کہا کہ ‘‘میگھالیہ نے دنیا کو قدرت، ترقی، تحفظ اور حیاتیاتی پائیداری کا پیغام دیا ہے’’۔ ‘وہسلنگ ولیج’ اور ہر گاؤں میں کوائرس کی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے فن اور موسیقی کے شعبے میں ریاست کے تعاون کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرزمین باصلاحیت فنکاروں سے بھری ہوئی ہے اور شیلانگ چیمبر کوائرس نے اسے نئی بلندی عطا کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو میگھالیہ میں کھیل کے بہترین ماحول سے کافی امیدیں ہیں۔ وزیراعظم نے آرگینک کھیتی کے شعبے میں ریاست کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘میگھالیہ کی بہنوں نے بانس سے بنائی کے ہنر کو دوبارہ زندہ کیا ہے اور یہاں کے محنت کش کسان آرگینک ریاست کے طور پر میگھالیہ کی شناخت کو مضبوطی فراہم کر رہے ہیں’’۔ وزیراعظم نے بہتر سڑک، ریل اور ہوائی رابطے کے حکومت کے وعدے کو دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی آرگینک پیداوار کے لئے نئے گھریلو اور عالمی بازار یقینی بنانے کے لئے قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ ریاستی حکومت یہاں کے لوگوں کو مرکزی اسکیمیں پہنچانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا اور قومی آجیویکا مشن جیسی اسکیموں سے میگھالیہ کو فائدہ ہوا ہے۔ آج جل جیون مشن کی وجہ سے 33 فیصد گھروں میں نل سے پانی پہنچ رہا ہے جب کہ 2019 میں یہ صرف ایک فیصد تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میگھالیہ ملک کی اُن اولین ریاستوں میں شامل ہے جہاں ڈرون کے ذریعہ ٹیکے پہنچائے جارہے ہیں۔ اپنے خطاب کے اختتام میں وزیراعظم نے میگھالیہ کے عوام کواپنی حمایت جاری رکھنے اور سیاحت اور آرگینک پیداواروں کے علاوہ نئے شعبے کی ترقی کے لئے حکومت کے وعدے کو دہرایا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح-ق ت – ق ر),মেঘালয়ৰ ৫০ সংখ্যক প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A2%D9%86%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%81-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی کی برسی پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ہمارے سابق وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی کو ، ان کی برسی پر خراج عقیدت۔‘‘,মৃত্যু বাৰ্ষিকীত প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী ৰাজীৱ গান্ধীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DB%8C%D8%B3%D8%A7%DA%A9%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%A7%D8%B5-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%88%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,"نئی دہلی۔ 14 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بیساکھی کے خاص موقع پر لوگوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ""سبھی کو بیساکھی کی مبارکباد۔ میری دعا ہے کہ یہ تہوار ہماری زندگیوں میں خوشی اور خوشحالی کے جذبے کو فروغ دے ۔ ہر کسی کو کامیابی اور خوشحالی نصیب ہو۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",বৈশাখী উপলক্ষে ৰাইজক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%D8%AF%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دلّی ، 22 مارچ؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بہار دوس کے موقع پر بہار کے عوام کو مبارک باد پیش کی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بہار دوس کے موقع پر بہار کے میرے تمام بھائیو ں اور بہنوں کو مبارک باد ۔ انہوں نے مزید کہا کہ زمانہ تاریخ کی ابتداء سے ہی قوم کی ترقی میں بہار کا تعاون مثالی اور گراں قدر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,বিহাৰ দিৱস উপলক্ষে বিহাৰবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%B9%DB%8C-5%D8%AC%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%D9%BE%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B1%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A7%AB%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے اسپیکٹرم کی نیلامی کرنے کی محکمہ ٹیلی مواصلات کی تجویز کو منظوری دے دی ہے ،جس کے ذریعہ عوام اور کمپنیوں کی 5 جی خدمات فراہم کرنے کے لئے کامیاب بولی لگانے والوں کو اسپیکٹرم تفویض کیا جائے گا۔ ڈجیٹل انڈیا ،اسٹارٹ اپ انڈیا ،میک ان انڈیا جسے اہم پروگراموں کے ذریعہ ڈجیٹل کنکٹوٹی حکومت کی پالیسی اقدامات کا اہم جزو رہا ہے ۔ براڈ بینڈ ،خاص طورپر موبائل براڈ بینڈ شہریوں کی روز مرہ کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکاہے ۔ اسے 2015سے ملک بھر میں 4 جی خدمات کی تیزی سے توسیع کی وجہ سے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔80 کروڑ صارفین کو آج براڈ بینڈ تک رسائی حاصل ہے جبکہ 2014 میں ان کی تعداد 10 کروڑتھی ۔ اس طرح کی تاریخی پالیسی اقدامات کے ذریعہ حکومت انتیودیہ کنبوں کے لئے موبائل بینکنگ ، آن لائن تعلیم ، ٹیلی میڈیسن ، ای –راشن وغیرہ تک رسائی کو فروغ دینے میں کامیاب رہی ہے۔ ملک میں تشکیل کردہ 4 جی کا نظام اب 5 جی کی دیسی ترقی کی قیادت کررہا ہے۔ بھارت کے 8 اعلی ترین ٹکنالوجی اداروں نے قائم کردہ 5 جی کا سیٹ اپ بھارت میں گھریلو 5 جی ٹکنالوجی کے لانچ میں تیزی لارہا ہے۔ موبائل ہینڈ سیٹ ، ٹیلی مواصلات کے آلات کے لئے پی ایل آئی (پیداوار سے منسلک ترغیبات ) اسکیم اور انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن کے آغاز سے بھارت میں 5 جی خدمات کے لانچ کے لئے ایک مضبوط ماحول تیار کرنے میں مدد ملے گی۔اب وہ وقت دور نہیں جب بھارت 5 جی ٹکنالوجی کے شعبے میں اور آنے والی 6جی ٹکنالوجی کے شعبے میں ایک قائد ملک کے طورپر ابھرے گا۔ اسپیکٹرم پورے 5 جی ماحولیاتی نظام کے لئے ایک اٹوٹ اور لازمی حص�� ہے ۔آنے والی 5 جی خدمات میں نئے دور کے کاروبار تشکیل دینے ، کمپنیوں کے اضافی مالیہ پیدا کرنے اور اختراعی ٹکنالوجیوں کے نفاذسے روزگار میں اضافہ کرنے کی کافی صلاحیت موجود ہے۔ جولائی 2022 کے آخر میں ہونے والی نیلامی میں کُل 72097.85 میگا ہرٹز اسپیکٹرم کی 20سال کی مدت کے لئے پیشکش کی جائے گی۔یہ نیلامی مختلف چھوٹےدرجے کے (600 میگاہرٹز ، 700 میگا ہرٹز ، 800 میگا ہرٹز ،900 میگا ہرٹز،1800 میگا ہرٹز،2100 میگا ہرٹز،2300 میگا ہرٹز) اوسط درجے کے (3300 میگا ہرٹز) اور اعلیٰ درجے کے (26 گیگا ہرٹز)فری کوئنسی بینڈ کے لئے کی جائے گی۔ امیدہے کہ اوسط درجے کے اور اعلیٰ درجے کے اسپیکٹرم بینڈ کا استعمال ٹیلی مواصلات کی خدمات فراہم کرنے والوں کے لئے 5 جی ٹکنالوجی پر مبنی خدمات کاآغاز کرنے کے لئے کیا جائے گا جو ایک ایسی رفتار اور صلاحیت فراہم کرنے کے قابل ہوں گے جو موجودہ 4 جی خدمات سے 10 گنا زیادہ تیز ہوں گی۔ اسپیکٹرم کی نیلامی میں ٹیلی مواصلاتی سیکٹر کی اصلاحات کافائدہ پہنچے گا جن کا اعلان ستمبر 2021 میں کیا گیا تھا۔ ان اصلاحات میں آنے والی نیلامی میں حاصل کردہ اسپیکٹرم پر اسپیکٹرم یوزز چارجز (ایس یو سی ) کو صفر کرنا ، ٹیلی مواصلاتی نیٹ ورک کو چلانے کی لاگت میں خدمات فراہم کرنے والوں کو قابل قدر راحت فراہم کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک سال کی قسطوں کے برابر مالی بینک گارنٹی داخل کرنے کے بجائے اب ایک مالی بینک گارنٹی داخل کرنے کی ضرورت کو ختم کردیا گیا ہے ۔ ٹیلی مواصلات کےسیکٹر میں اصلاحات کو جاری رکھتے ہوئے کابینہ نے کاروبار میں آسانی کو فروغ دینے کی خاطر ہونے والی اسپیکٹر م کی نیلامی میں بولی لگانے والوں کے ذریعہ حاصل کردہ اسپیکٹرم میں مختلف ترقی پسند متبادل کا اعلان کیا گیا ہے ۔ پہلی مرتبہ کامیاب بولی لگانےو الوں کے ذریعہ فوری طور پر ادائیگی کرنا لازمی نہیں ہوگا ۔اسپیکٹرم کے لئے ادائیگی 20 یکساں سالانہ قسطوں میں کی جاسکے گی جو ہرسال کے آغاز پر پیشگی ادا کرنی ہوگی ۔ امید ہے کہ اس سے اس سیکٹر میں نقد رقم کی آمد میں آسانی ہوگی اور کاروبار کرنے کی لاگت میں کمی آئے گی۔بولی لگانے والوں کو یہ متبادل بھی دیا جائے گا کہ وہ دس سال بعد اسپیکٹرم کو واپس کرسکتے ہیں اور اُن پر مستقبل میں بقایا قسطوں کی ادائیگی بھی لازمی نہیں ہوگی۔ ملک میں 5 جی خدمات کا آغاز کرنے کے لئے مناسب بیک ہال اسپیکٹرم کی دستیابی بھی ضروری ہے ۔ بیک ہال کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے کابینہ نے ٹیلی مواصلات کی خدمات فراہم کرنے والوں کو ای – بینڈ میں 250 میگاہرٹز کے دو کیرئیر عبوری طور پر الاٹ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ نے موجودہ فری کوئنسی بینڈ 13 ، 15،18 اور 21 گیگاہرٹز بینڈ میں روایتی مائیکروویو بیک ہال کے دو ہرے کیرئیر الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ نے پورے آٹو میٹو ، حفظان صحت ،زراعت ، توانائی اوردیگر شعبوں میں مشین سے مشین کی مواصلات ، انٹرنیٹ آف تھنگس (آئی اوٹی ) ، مصنوعی ذہانت ( اے آئی ) جیسے 4.0 صنعتی ایپلی کیشن میں اختراعات کی نئی لہر پیدا کرنے کی خاطر پرائیویٹ کیپٹو نیٹ ورک قائم کرنے اور فروغ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔,আইএমটি/৫জি স্পেকট্ৰামৰ নিলামত অনুমোদন কেবিনেট +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D8%AA%D8%A7-%D8%AF%DB%8C%D9%86%D8%A7-%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%85%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B4%DA%A9%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B2%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A7%80/,سری سرسوتے نمہ! وانی پرمپرا کے مقدس اجلاس میں ہمارے ساتھ موجود مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر جناب دیویندر فڈنوس جی، مہاراشٹر حکومت میں وزیر جناب سبھاش دیسائی جی، محترم اوشا جی، آشا جی، ادی ناتھ منگیشکر جی، ماسٹر دیناناتھ میموریل فاؤنڈیشن کے سبھی اراکین، موسیقی اور آرٹ کے سبھی معزز ساتھیوں، دیگر معززین، خواتین و حضرات! اس اہم تقریب میں محترم ہردئے ناتھ منگیشکر جی کو بھی آنا تھا لیکن جیسا کہ ابھی آدی ناتھ جی نے بتایا طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہاں نہیں آپائے۔ میں ان کی جلد صحتیابی کی دعا کرتا ہوں۔ ساتھیو، میں اپنے آپ کو بہت مناسب یہاں نہیں سمجھ رہا ہوں، کیونکہ مجھے موسیقی جیسے گہرے موضوع کا جانکار تو میں بالکل نہیں ہوں، لیکن ثقافتی سمجھ بوجھ سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ موسیقی ایک سادھنا بھی ہے، اور احساس بھی ہے۔ جو ظاہر نہیں ہے اسے ظاہر کر دے – وہ لفظ ہے۔ جو اظہار میں توانائی، شعور کو منتقل کرتا ہے – وہ آواز ہے۔ اور جو شعور کو جذبات اور احساس سے بھر دیتا ہے، اسے تخلیق اور احساس کی انتہا تک پہنچاتا ہے – وہ موسیقی ہے۔ آپ بے حرکت بیٹھے ہوں، لیکن موسیقی کی ایک آواز آ پ کی آنکھوں سے آنسو بہا سکتی ہے، یہی طاقت ہے۔ لیکن موسیقی کی آواز آپ کو لاتعلقی کا احساس دلا سکتی ہے۔ موسیقی آپ میں بہادری کا رس بھر دیتی ہے۔ موسیقی آپ کو ماں اور محبت کا احساس دلا سکتی ہے۔ موسیقی آپ کو حب الوطنی اور فرض شناسی کے عروج پر لے جاسکتی ہے۔ ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہم نے موسیقی کی یہ قوت، اس طاقت کو لتا دیدی کی شکل میں دیکھا۔ ہمیں اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور منگیشکر خاندان ، نسل در نسل اس یگیہ میں اپنی قربانیاں دیتا رہا ہے اور میرے لیے یہ تجربہ اور بھی کہیں بڑھ کر رہا ہے۔ ابھی کچھ سرخیاں ہریش جے نے بتا ئیں ، لیکن میں سوچ رہا تھا کہ دیدی سے میرا ناطہ کب سے کتنا پرانا ہے۔ دور جاتے – جاتے یاد آ رہا تھا کہ شاید چار ساڑھے چار دہائیاں ہوئی ہوں گی، سدھیرفڑکے جی نے مجھ سے تعارف کروایا تھا۔ اور تب سے لے کر آج تک اس خاندان کے ساتھ بے پناہ محبت، ان گنت واقعات میری زندگی کا حصہ بن گئے۔ میرے لیے لتا دیدی سُر سامراگی کے ساتھ ساتھ اور جس کو کہتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہوتا ہے، وہ میری بڑی بہن تھیں۔ نسلوں کو محبت اور جذبات کا تحفہ دینے والی لتا دیدی انہوں نے تو مجھے ہمیشہ ان کی طرف سے ایک بڑی بہن جیسا بے پناہ پیار ملا ہے، میں سمجھتا ہوں اس سے بہتر زندگی کیا ہوسکتی ہے۔ شاید بہت دہائیوں کے بعد یہ پہلا راکھی کا تہوار جب آئے گا، دیدی نہیں ہوں گی۔ عام طور پر ، کسی تہنیتی تقریب میں جانے کا، اور جب ابھی ہریش جی بھی بتا رہے تھے، کوئی اعزاز حاصل کرنا، اب میں تھوڑا ان موضوعات میں دور ہی رہا ہوں ، میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتا ہوں۔ لیکن ، ایوارڈ جب لتا دیدی جیسی بڑی بہن کے نام سے ہو، تو یہ میرے لیے ان کے اپنے پن اور منگیشکر خاندان کا مجھ پر جو حق ہے، اس کی وجہ میرا یہاں آنا ایک طرح سے میری ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اور یہ اس محبت کی علامت ہے اور جب دیناناتھ جی کا پیغام آیا، میں نے میرے کیا پروگرام ہیں،میں کتنا مصروف ہوں، کچھ پوچھا نہیں، میں نے کہا بھیاپہلے ہاں کر دو۔منع کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے جی! میں اس ایوارڈ کو سبھی ہم وطنوں کے لیے وقف کرتا ہوں۔ جس طرح لتا دیدی کا تعلق لوگوں سے تھا، اسی طرح ان کے نام سے مجھے دیا گیا یہ ایوارڈ بھی لوگوں کا ہے۔ لتا دیدی سے اکثر میری بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ وہ خود سے بھی اپنے پیغام اور آشرواد بھیجتی رہتی تھیں۔ ان کی ایک بات شاید ہم سب کو کام آسکتی ہے جسے میں بھول نہیں سکتا، میں ان کی بہت عزت کرتا تھا، لیکن وہ کیا کہتی تھیں، وہ ہمیشہ کہتی تھیں –’’انسان اپنی عمر سے نہیں، اپنے کام سے بڑا ہوتا ہے۔ جو ملک کے لیے جتنا کرے، وہ اتنا ہی بڑا ہے۔‘‘ کامیابی کی چوٹی پر اس طرح کی سوچ سے ہمیں انسان کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ لتا دیدی عمر سے بھی بڑی تھیں، اور کرم سے بھی بڑی تھیں۔ ہم سبھی نے جتنا وقت لتا دیدی کے ساتھ گزارا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ وہ سادگی کی مظہر تھیں۔ لتا دیدی نے موسیقی میں وہ مقام حاصل کیا کہ لوگ نہیں ماں سرسوتی کا مظہر مانتے تھے۔ ان کی آواز نے قریباً 80 سالوں تک موسیقی کی دنیا پر اپنی چھاپ چھوڑی تھی۔ گراموفون سے شروع کریں ، تو گراموفون سے کیسیٹ، پھر سی ڈی، پھر ڈی وی ڈی، اور پھر پین ڈرائیو، آن لائن میوزک اور ایپس تک، موسیقی اور دنیا کتنا عظیم سفر لتا جی کے ساتھ مل کر طے کیا ہے۔ سنیما کی 5-4 نسلوں کو انہوں نے اپنی آواز دی۔ملک نے انہیں بھارت رتن جیسا اعلیٰ ترین اعزاز دیا اور ملک کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ پوری دنیا انہیں آواز کی ملکہ مانتا تھا۔ لیکن وہ خود کو آواز کی ملکہ نہیں، بلکہ متلاشی سمجھتی تھیں۔ اور یہ ہم نے کتنے ہی لوگوں سے سنا ہے کہ وہ جب بھی کسی گانے کی ریکارڈنگ کے لیے جاتی تھیں ، تو چپل باہر اتار دیتی تھیں۔ موسیقی کی سادھنا اور اشور کی سادھان ان کے لیے ایک ہی تھا۔ ساتھیو، آدی شنکر کے ادویت کے نظریہ کو ہم لوگ سننے سمجھنے کی کوشش کریں تو کبھی – کبھی الجھن میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ لیکن میں جب آدی شنکر کے ادویت کے پرنسپل کی طرف سوچنے کی کوشش کرتا ہوں تو اگر اس کو عام لفظوں میں مجھے کہنا ہے اس ادویت کے پرنسپل کو ایشور کا تلفظ بھی لفظ کے بغیر ادھوری ہے۔ ایشور میں آواز موجود ہے۔ جہاں آواز ہے، وہیں مکملیت ہے۔ موسیقی ہمارے دل پر ، ہمارے ضمیر کو متاثر کرتا ہے۔ اگر اس کی اصلیت لتا جی کی طرح پاک ہے، تو وہ پاکیزگی اور جذبات بھی اس موسیقی میں گھل جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ حصہ ہم سب کے لیے اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے ۔ ساتھیو، لتا جی کی جسمانی سفر ایک ایسے وقت میں مکمل ہوا جب ہمارا ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہاہے۔ انہوں نے آزادی کے پہلے سے ہندوستان کو آواز دی، اور ان 75 سالوں کی ملک کے سفر ان کے آواز سے جڑی رہی۔ اس اعزاز سے لتا جی کے والد دیناناتھ منگیشکر جی کا نام بھی جڑا ہے۔ منگیشکر خاندان کا ملک کے لیے جو شراکتداری رہی ہے، اس کے لیے ہم سبھی ہم وطن ان کے قرض دار ہیں۔ موسیقی کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کی جو شعور لتا دیدی کے اندر تھا، اس کا ذریعہ ان کے والد ہی تھے۔ آزادی کی لڑائی کے دوران شملہ میں بریٹش وائسرائے کے پروگرم میں دیناناتھ جی نے ویر ساورکر کا لکھا گیت گایا تھا۔ بریٹش وائسرائے کے سامنے، یہ دیناناتھ جی ہی کر سکتے ہیں اور موسیقی میں ہی کر سکتے ہیں۔ اور اس کی تھیم پر مظاہرہ بھی کیا تھا اور ویر ساورکر جی نے یہ موسیقی انگریزی حکومت کو چیلنج دیتے ہوئے لکھا تھا۔ یہ احساس، یہ حب الوطنی ، دیناناتھ جی نے اپنے خاندان کو وراثت میں دی تھی۔ لتا جی نےشاید ایک بار بتایا تھا کہ پہلے وہ سماجی خدمات کے میدان میں جانا چاہتی تھیں۔ لتا جی نے موسیقی کو اپنی عبادت بنایا لیکن حب الوطنی اور قومی خدمت کی تحریک بھی ان کے گیتوں سے ملی۔ چھترپتی شیواجی مہاراج پر ویر ساورکر جی کا لکھا گیت – ’ہندو نرسنہا‘ ہو ، یا سمرتھ گرو رام داس جی کے پد ہوں۔ لتا جی نے شیو کلیان راجا کی ریکارڈنگ کے ذریعے انہیں امر کر دیا۔ ’اے میرے وطن کے لوگوں‘ اور ’جے ہند کی سینا‘ یہ بھاؤ سطریں ہیں، جو ملک کے لوگوں کی زباں پر امر کر گئیہیں۔ ان کی زندگی سے جڑی ایسے کتنے ہی پہلوئیں ہیں! لتا دیدی اور ان کے خاندان کے تعاون کو بھی امرت مہوتسو میں ہم لوگوں تک لے کر جائیں، یہ ہمارا فرض ہے۔ ساتھیو، آج ملک ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت، کے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ لتا جی ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کی میٹھی پیشکش کی طرح تھیں۔ آپ دیکھیے، انہوں نے ملک کی 30 سے زیادہ زبانوں میں ہزاروں گیت گائے۔ ہندی ہو مراٹھی ، سنسکرت ہو یا دوسری ہندوستانی زبانیں، لتا جی کی آواز ہر زبان میں ایک جیسی ہی ہیں۔ وہ ہر ریاست، ہر شعبے میں لوگوں کے من میں بسی ہوئی ہیں۔ ہندوستانیت کے ساتھ موسیقی کیسے لافانی ہوسکتی ہے، یہ انہوں نے کر کے دکھایا ہے۔ انہوں نے بھگود گیتا کی تلاوت بھی کی، اور تلسی ، میرا، سنت گیانیشور اور نرسی مہتا کے گیتوں کو بھی سماج کے دل و دماغ میں گھولا۔ رام چرت مانس کی چوپائیوں سے لے کر باپو کے سب سے پسندیدہ بھجن ’ویشنو جن تو تیرے کہیے‘ ، تک سب کچھ لتا جی کی آواز سے پھر سے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے تیروپتی دیو استھانم کے لیے گیتوں اور منتروں کا ایک سیٹ ریکارڈ کیا تھا، جو آج بھی ہر صبح وہاں بجتا ہے۔ یعنی، ثقافت سے لے کر عقیدے تک، مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، لتا جی کی دھنوں نے پورے ملک کو متحد کرنے کا کام کیا ہے۔ دنیا میں بھی، وہ ہمارے ہندوستان کی ثقافتی سفیر تھیں۔ ویسے ہی ان کی ذاتی زندگی بھی تھی۔ پنے میں انہوں نے اپنی کمائی اور دوستوں کی مدد سے ماسٹر دیناناتھ منگیشکر اسپتال بنوایا جو آج بھی غریبوں کی خدمت کر رہا ہے اور ملک میں شاید بہت کم ہی لوگوں تک یہ بات پہنچی ہوگی، کورونا کے وقت ملک کی جو انہیں منتخب اسپتالیں، جنہوں نے سب سے زیادہ غریبوں کے لیے کام کیا، اس میں پنے کی منگیشکر اسپتال کا نام ہے۔ ساتھیو، آج آزادی کا امرت مہوتسو میں ملک اپنے ماضی کو یاد کر رہا ہے، اور ملک مستقبل کے لیے نئے عہد کر رہا ہے۔ ہم دنیا کے سب سے بڑے اسٹارٹ اپس ایکو سسٹم میں سے ایک ہیں۔ آج بھارت ہر شعبے میں بااختیار بنے کی طرف گامزن ہے ، ترقی کا یہ سفر ہمارے عزائم کا حصہ ہے۔ لیکن، ترقی کا ہندوستان کا بنیادی نظریہ ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔ ہمارے لیے ترقی کا معنی ہے – ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس۔‘ سب کے ساتھ اور سب کے لیے ترقی کے اس جذبے میں ’واسودھیو کٹمبکم‘ کی روح بھی شامل ہے۔ پوری دنیا کی ترقی، پوری انسانیت کی فلاح وہ بہبود محض مادی طاقت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے – انسانی اقدار! اس کے لیے ضروری ہے۔ روحانی شعور! یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان یوگا اور آیوروید سے لے کر ماحولیاتی تحفظ تک کے موضوعات پر دنیا کو سمت دے رہا ہے۔ میں مانتا ہوں، ہندوستان کے اس تعاون کا ایک اہم حصہ ہمارا ہندوستانی موسیقی بھی ہے۔ یہ ذمہ داری آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اپنی اس وراثت کو انہیں اقدار کے ساتھ زندہ رکھیں، اور آگے بڑھائیں، اور عالمی امن کا ذریعہ بنائیں، یہ ہم ��ب کی ذمہ داری ہے۔ مجھے پورا یقین ہے، موسیقی کی دنیا سے جڑے آپ سبھی لوگ اس ذہ داری کو نبھائیں گے اور ایک نئے ہندوستان کو سمت دیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ، میں آپ سبھی کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، منگیشکر خاندان کا بھی میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے دیدی کے نام سے اس پہلے ایوارڈ کے لیے مجھے منتخب کیا۔ لیکن ہریش جی جب اعزاز نامہ پڑھ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کئی بار پڑھنا پڑے گا اور پڑھ کر کے مجھے نوٹ بنانے پڑیں گے کہ ابھی مجھے اس میں سے کتنا کتنا پانا باقی ہے، ابھی ابھی میرے میں کتنی کتنی کمیاں ہیں، اس کو پورا میں کیسے کروں! دیدی کے آشرواد سے اور منگیشکر خاندان کی محبت سے مجھ میں جو کمیاں ہیں، ان کمیوں کو آج مجھے اعزاز نامہ کے ذریعے پیش کیا ہے۔ میں ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ بہت بہت شکریہ! نمسکار! ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔,মুম্বাইত অনুষ্ঠিত লতা দীননাথ মংগেশকাৰ বঁটা প্ৰদান অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ ইংৰাজী সংস্কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF%DB%81-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%A7%D9%86-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بالی میں منعقدہ جی-20 سربراہ اجلاس کے شانہ بہ شانہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم عزت مآب جناب انتھونی البانیز سے ملاقات کی۔ دونوں قائدین نے جامع کلیدی شراکت داری کے تحت دونوں ممالک کے درمیان عمدہ تعلقات ، اور بھارت –آسٹریلیا کے درمیان باقاعدہ طور پر ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں قائدین نے دفاع، کاروبار، تعلیم، صاف ستھری توانائی اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات کو عمیق بنانے میں ہوئی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ تعلیم، خصوصاً اعلیٰ تعلیم، پیشہ وارانہ تعلیم، تربیت اور صلاحیت سازی کے شعبہ میں ادارہ جاتی شراکت داری پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ دونوں قائدین نے باہمی مفاد کے علاقائی اور عالمی موضوعات پر نظریات کا تبادلہ کیا۔ ان موضوعات میں مستحکم اور پر امن انڈو-پیسفک خطہ، موسمیات سے متعلق معاملات اور بھارت کی جی20 صدارت سے متعلق ان کا ساجھا نقطہ نظر شامل تھا۔ وزیر اعظم جلد از جلد بھارت میں وزیر اعظم البانیز کا خیرمقدم کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔,বালিত অনুষ্ঠিত জি-২০ শীৰ্ষ সন্মিলনৰ সময়ত অষ্ট্ৰেলিয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B2-%D8%A7%D9%93%D9%81-%DA%88%D9%88%D8%A6%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D8%B2%D9%86%D8%B3-%DA%AF%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%9C%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%9F-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نئی دہلی20 نومبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی کے لوک کلیان مارگ میں منعقد ایک تقریب میں ،’’ ایز آف ڈوئنگ بزنس گرینڈ چیلنج ‘‘ کا آغاز کیا ۔ اس چیلنج کا مقصد آرٹی فیشیل انٹیلی جنس ، انٹرنیٹ ، بگ ڈاٹا اینالیٹکس ، بلاک چین اور دیگر اقسام کی جدید ترین ٹکنالوجی پر مبنی جدت طراز نظریات کو سرکار کے عمل میں اصلاحات کے لئے زیر استعمال لایا جانا چاہئے ۔ واضح ہوکہ گرینڈ چیلنج کے لئے یہ پلیٹ فارم اسٹارٹ اپ انڈیا کا ایک پورٹل ہے ۔ اس موقع پر موجود حاضرین سے خطاب کرتے ہوئےوزیراعظم نے صنعتی دنیا کے نمائندوں اور دیگر حضرات کو خطاب کے دوران ، ایز آف ڈوئنگ بزنس (ای او ڈی بی ) کی درجہ بندی میں ہندوستان کے درجے میں بہتری کے لئے کوششوں کی ستائش کی ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب ہم نے ہندوستان کے لئے پہلی بار یہ تصور پیش کیا تھا ۔ جس کا مقصد ای او ڈی بی کے میدان کے 50 شرکا کے دائرے کو توڑنا تھا ، تو اس پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا تھا تاہم پچھلے چار برسوں کے مختصر عرصے میں ہی اس میں نمایاں بہتری نظر آنے لگی ہے اور ای او ڈی بی کی درجہ بندی میں ہندوستان نے اس مختصر مدت میں 65 مقامات سرکئے ہیں۔ مرکزی اور ریاستی سرکار وں نے مقابلہ جاتی وفاقیت کے جذبے سے اسے بہتر بنانے کے لئے مل کر کام کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں آگے کہا کہ مرکزی سرکار پالیسی سے چلنے والی حکمرانی اورقابل پیش گوئی کی پالیسی پر زور دیتی رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار جن اصلاحات پر کام کررہی ہے ، ان کا مقصد آئندہ نسلوں کے لئے ’’ ایز آف ڈوئنگ ‘‘کو بہتر بنانا ہے ۔ آج ایک چھوٹا کاروباری بھی آسانی کے ساتھ کاروبار کرسکتا ہے اور بجلی کا کنکشن حاصل کرنے جیسے عمل کو بھی سہل آسان بنادیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری تنازعات کو فیصل کرنے کے لئے صرف ہونےوالے وقت میں کمی کے نشانے کو حاصل کرنے کے لئے اور درآمد شدہ سامان کی منظوری حاصل کرنے کے لئے چار برس سے کم مدت کے اندر ہی 1400 سے زائد قدیمی قوانین کو نئی شکل دی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی کاروباری تنازعات کے فیصلے میں صرف ہونےو الے وقت میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ان دیگر میدانوں کا بھی ذکر کیا ،جہاں زبردست مثبت اقدام کئے گئے ہیں اور ایم ایس ایم ای سیکٹر کے لئے بھی محض 29 منٹ میں ایک کروڑروپے تک کے قرض کی فراہمی کے ذریعہ معاونتی اقدام کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ آج بین الاقوامی مالیتی فنڈ اور موڈی جیسی عالمی تنظیموں کو بھی ہندوستان کے مستقبل پر از حد بھروسہ پیدا ہوگیا ہے اور ان کا موقف بھی ہندوستان کے تئیں مثبت ہوگیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ہندوستان کو مختصر ترین مدت میں پانچ کھرب ڈالر کی مالیت کی معیشت بنانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے ہرشعبے میں بہتری پیدا کرنا ازحد ضروری ہے اور مرکزی سرکار بھی ایک ایسی صنعتی پالیسی کی تیاری پر کام کررہی ہے، جو موجودہ حقائق کی وسیع تر اور موثر عکا س ہوں ۔ وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ عمل آوری میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کیا جانا چاہئے اور جدید اورڈجیٹل ٹکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس پر مبنی کام کی ثقافت ، پالیسی پر چلنے والی حکمرانی کو فرو ع دے گی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,"সহজে ব্যৱসায় কৰাৰ প্ৰধান প্ৰত্যাহ্বান শীৰ্ষক কাৰ্যসূচীৰ শুভাৰম্ভ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ, উদ্যোগ জগতৰ বিভিন্ন প্ৰতিনিধিক উদ্দেশ্যি ভাষণ প্ৰদান" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%8C-%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%AF%DA%BE-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%9C/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لمبنی ، نیپال میں انٹر نیشنل کنونشن سنٹر اور میڈیٹیشن ہال میں 2566 ویں بدھ جینتی تقریبات میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ نیپال کے وزیر اعظم عزت مآب شیر بہادر دیوبا اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر آرزورانا دیوبا بھی تھیں۔ نیپال کے ثقافت ، سیاحت اور شہری ہوابازی کے وزیر جناب پریم بہادر آلے، جو لمبنی ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں، لمبنی کے وزیر اعلیٰ جناب کُل پرساد کے سی،وائس چیئرمین آف ایل ڈی ٹی، عزت مآب میتیا شاکیہ پتا اور حکومت نیپال کے متعدد وزراء اور دیگر اکابرین اس موقع پر موجود تھے۔ دونوں وزراء اعظم نے ڈھائی ہزار کے قریب حاضرین کو خطاب کیا۔ وہاں موجود لوگوں میں بھکشو، بدھسٹ اسکالر اور بین الاقوامی شرکاء شامل تھے۔,নেপালৰ লুম্বিনীত বুদ্ধ জয়ন্তী উদযাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-49%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D8%B3%D8%B7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A7%A7%E0%A7%A6-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE/,"نئی دہلی،28/ اکتوبر میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سب کو نمسکار! 31 اکتوبر ہم کے پیارے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سالگرہ اور ہر سال کی طرح ‘رن فار یونیٹی’ کے لیے ملک کا نوجوان یکجہتی کے لیے دوڑنے کو تیارہوگیا ہے۔ اب تو موسم بھی بہت سہانا ہوتا ہے۔ یہ ‘رن فار یونیٹی’ کے لیے جوش کو اور بڑھانے والا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ آپ سب بہت بڑی تعداد میں یکجہتی کی اس دوڑ میں ‘رن فار یونیٹی’ میں ضرور حصہ لیں۔ آزادی سے تقریبا ساڑھے چھ مہینے پہلے 27 جنوری 1947 کو دنیا کی مشہور انٹرنیشنل میگزین‘ٹائم میگزین’ نے جو ایڈیشن شائع کیا تھا، اس کے کور پیج پر سردار پٹیل کا فوٹو لگا تھا، اپنی لیڈ اسٹوری میں انھوں نے ہندوستان کا ایک نقشہ دیا تھا اور یہ ویسا نقشہ نہیں تھا جیسا ہم آج دیکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ہندوستان کا نقشہ تھا جو کئی حصوں میں تقسیم تھا تب 550 سے زیادہ دیسی ریاستیں تھیں۔ بھارت کو لے کر انگریزوں کی دلچسپی ختم ہوچکی تھی لیکن وہ اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چھوڑنا چاہتے تھے۔‘ٹائم میگزین’ نے لکھا تھا کہ بھارت پر تقسیم تشدد، اشیائے خوردنی کا بحران، مہنگائی اور اقتدار کی سیاست سے جیسے خطرے منڈلا رہے تھے، آگے ‘ٹائم میگزین’ لکھتا ہے کہ ان سب کے درمیان ملک کو یکجہتی کے دھاگے میں پرونے اور زخموں کو بھرنے کی اہلیت اگر کسی میں ہے تو وہ ہیں سردار ولبھ بھائی پٹیل۔ ‘ٹائم میگزین’ کی اسٹوری آئرن مین کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ کیسے انھوں نے 1920 کی دہائی میں احمدآباد میں آئے سیلاب کو لے کر راحت رسانی کا انتظام کیا۔ کیسے انھوں نے بارڈولی میں ستیہ گرہ کو سمت دی۔ ملک کے لیے ان کی ایمانداری اور عہد بندی ایسی تھی کہ کسان مزدور سے لے کر صنعت کار تک سب ان پر اعتماد کرتے تھے۔ گاندھی جی نے سردار پٹیل سے کہا کہ ریاستوں کے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں کہ صرف آپ ہی ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ اور سردار پٹیل نے ایک ایک کر حل نکالا اور ملک کو یکجہتی کے دھاگے میں پرونے کے ناممکن کام کو پورا کردکھایا۔ انھوں نے سبھی ریاستوں کو بھارت میں ضم کرایا۔ چاہے جونا گڑھ کو یا حیدرآباد، تراون کور ہو یا پھر راجستھان کی ریاستیں۔ وہ سردار پٹیل ہی تھے جن کی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کی مہارت سے آج ہم ایک ہندوستان دیکھ پا رہ�� ہیں۔ یکجہتی کے دھاگے میں بندھے اس ملک کو ہماری بھارت ماں کو دیکھ کرکے ہم فطری طور پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کو عقیدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اس طرح 31 اکتوبر کو سردار پٹیل کی سالگرہ تو اور بھی خاص ہوگی۔ اس دن سردار پٹیل کو سچا خراج عقیدت دیتے ہوئے ہم ‘اسٹیچو آف یونیٹی’ قوم کے نام وقف کریں گے۔ گجرات میں دریائے نرمدا کے ساحل پر قائم کیے گئے اس مجسمے کی اونچائی امریکہ کے ‘اسٹیچو آف لبرٹی’ سے دوگنی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا فلک بوس مجسمہ ہے۔ ہر ہندوستانی اس بات پر اب فخر کرپائے گا کہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ بھارت کی سرزمین پر ہے۔ وہ سردار پٹیل جو زمین سے جڑے تھے اب آسمان کی بھی رونق بڑھائے گے۔ مجھے امید ہے کہ ملک کا ہر شہری ‘ماں بھارتی’ کے اس عظیم کارنامے کو لے کر کے دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ سینہ تان کرکے ، سر اونچا کرکے اس کی شان میں گیت گائے گے۔ اور فطری ہے ہر ہندوستانی کو ‘اسٹیچو آف یونیٹی’ دیکھنے کا من کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ ہندوستان سے ہر کونے سے لوگ اب اس کو بھی ایک بہت ہی پسندیدہ سیاحتی مقام کے طور پر پسند کریں گے۔ میرے پیارے بھائیو۔بہنو، کل ہی ہم ، ہم وطنو نے ‘انفینٹری ڈے’ منایا ہے۔ میں ان سبھی کو سلام کرتا ہوں جو ہندوستانی فوج کا حصہ ہیں۔ میں اپنے فوجیوں کے خاندان کو بھی ان کی ہمت کے لیے سلام کرتا ہوں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم سب ہندوستان کے شہری یہ ‘انفینٹری ڈے’ کیوں مناتے ہیں۔ یہ وہی دن ہے جب ہندوستانی فوج کے جوان کشمیر کی زمین پر اترے تھے اور دراندازوں سے وادی کی حفاظت کی تھی۔ اس تاریخی واقعے کا بھی سردار ولبھ بھائی پٹیل سے سیدھا تعلق ہے۔ میں ہندوستان کے عظیم فوجی افسر سیم مانک شاہ کا ایک پرانا انٹرویو پڑھ رہا تھا اُس انٹرویو میں فیلڈ مارشل مانک شاہ اُس وقت کو یاد کر رہے تھے جب وہ کرنل تھے۔ اسی دوران اکتوبر 1947 میں کشمیر میں فوجی مہم شروع ہوئی تھی۔ فیلڈ مارشل مانک شاہ نے بتایا کہ کس طرح سے ایک میٹنگ کے دوران کشمیر میں فوج بھیجنے میں ہونے والی تاخیر کو لے کر سردار ولبھ بھائی پٹیل ناراض ہوگئے تھے۔ سردار پٹیل نے میٹنگ کے دوران اپن خاص انداز میں ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ کشمیر میں فوجی مہم میں ذرا بھی تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور جلد سے جلد اس کا حل نکالا جائے۔ اسی کے بعد فوج کے جوانوں نے کشمیر کے لیے اڑان بھری اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے فوج کو کامیابی ملی۔ 31 اکتوبر کو ہماری سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کی بھی برسی ہے۔ اندرا جی کو بھی احترام کے ساتھ خراج عقیدت۔ میرے پیارے ہم وطنو، کھیل کس کو پسند نہیں ہے۔ کھیل کی دنیا میں جذبہ، طاقت، ہنرمندی، اسٹیمنا۔ یہ ساری باتیں بہت ہی اہم ہیں۔ یہ کسی کھلاڑی کی کامیابی کی کسوٹی ہوتے ہیں۔ اور یہی چاروں صفات کسی قوم کی تعمیر کے لیے بھی اہم ہوتی ہیں کسی ملک کے نوجوانوں کے اندر اگر یہ ہیں تو وہ ملک نہ صرف معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں ترقی کرے گا بلکہ کھیلوں میں بھی اپنا پرچم لہرائے گا۔ حال ہی میں میری دو یادگار ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی جکارتہ میں ہوئی ۔ ایشیئن پیراگیمز 2018 کے ہمارے پیرا ایتھیلٹس سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کھیلوں میں بھارت نے کُل 72 تمغے جیت کر نیا ریکارڈ بنایا اور بھارت کی شان بڑھائی۔ ان سبھی لائق پیرا یتھلیٹ سے مجھے ذاتی طور پر ملاقات کا موقع ملا اور میں نے انھیں مبارکباد دی۔ ان کی مضبوط قوت ارادی اور ہر مخالف صورتحال سے لڑکر آگے بڑھنے ��ا ان کا جذبہ ہم سبھی ہم وطنو ں کو تحریک دینے والا ہے۔ اسی طرح سے ارجنٹینا میں ہوئی سمر یوتھ اولمپکس 2018 میں جیتنے والوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ یوتھ اولمپکس 2018 میں ہمارے نوجوانوں نے اب تک کا سب سے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں ہم نے 13 تمغوں کے علاوہ مکس ایونٹ میں 3 اور تمغے حاصل کئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس بار ایشیئن گیمز میں بھی بھارت کا مظاہرہ بہترین رہا ہے۔ دیکھئے پچھلے کچھ منٹوں میں میں نے کتنی بار اب تک کا سب سے اچھا ، اب تک کا سب سے شاندار ایسے لفظوں کا استعمال کیا۔ یہ ہے آج کے ہندوستانی کھیلوں کی کہانی جو دنوں دن نئی اونچائیاں چھو رہی ہے۔ بھارت صرف کھیلوں میں ہی نہیں بلکہ ان شعبوں میں بھی نئے ریکارڈ بنا رہا ہے جن کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں گیا تھا۔ مثال کے طور پر میں آپ کو پیرا ایتھلیٹ نارائن ٹھاکر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جنھوں نے 2018 کے ایشیئن پیراگیمز میں ملک کے لیے ایتھلٹکس میں سونے کا تمغہ جیتا ہے۔ وہ جنم سے ہی دویانگ ہیں۔ جب آٹھ برس کے ہوئے تب انھوں نے اپنے والد کو کھو دیا۔ پھر اگلے آٹھ برس انھوں نے یتیم خانے میں بتائے۔ یتیم خانہ چھوڑنے کے بعد زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے ڈی ٹی سی کی بسوں کو صاف کرنے اور دلّی میں سڑک کے کنارے ڈھابوں میں ویٹر کے طورپر کام کیا۔ آج وہی نارائن بین الاقوامی تقریبات میں بھارت کے لیے سونے کا تمغہ جیت رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بھارت کی کھیلوں میں بہترین کارکردگی کے بڑھتے دائرے کو دیکھئے۔ بعد میں جوڈو میں کبھی بھی، چاہے وہ سینئر سطح ہو یا جونیئر سطح۔ کوئی اولمپک تمغہ نہیں جیتا ہے لیکن تبابی دیوی نے یوتھ اولمپکس میں جوڈو میں چاندی کا تمغہ جیت کر تاریخ رقم کردی۔ 16 سال کی نوجوان کھلاڑی تبابی دیوی منی پور کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہیں، ان کے والد ایک مزدور ہیں جبکہ ماں مچھلی بیچنے کا کام کرتی ہے۔ کئی بار ان کے خاندان کے سامنے ایسا بھی وقت آیا جب ان کے پاس کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ایسے حالات میں بھی تبابی دیوی کا حوصلہ ڈگمگایا نہیں اور انھوں نے ملک کے لیے تمغہ جیت کر تاریخ رقم کی ہے۔ ایسے تو لاتعداد واقعات ہیں، ہرایک زندگی تحریک کا ذریعہ ہے۔ ہر نوجوان کھلاڑی اس کا جذبہ، نیو انڈیا کی پہچان ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کو یاد ہوگا کہ ہم نے 2017 میں فیفا انڈر 17 ورلڈ کپ کا کامیاب انعقاد کیا تھا پوری دنیا نے بیحد کامیاب ٹورنامنٹ کے طور پر اس کی تعریف بھی کی تھی۔ فیفا انڈر 17 ورلڈ کپ میں ناظرین کی تعداد کے معاملے میں بھی ایک نیا ریکارڈ تیار ہوا تھا۔ ملک کے الگ الگ اسٹیڈیم میں 12 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے فٹ بال میچوں کا لطف اٹھایا اور نوجوان کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ اس سال بھارت کو بھوونیشور میں مرد ہاکی ورلڈ کپ 2018 کے انعقاد کا موقع ملا ہے۔ ہاکی ورلڈ 28 نومبر سے شروع ہوکر 16 دسمبر تک چلے گا۔ ہر ہندوستانی چاہے وہ کوئی بھی کھیل کھیلتا ہو یا کسی بھی کھیل میں اس کی دلچسپی ہو، ہاکی کے لیے ایک لگاؤ اور کے من میں ضرور ہوتا ہے۔ ہندوستان کی ہاکی میں ایک سنہری تاریخ رہی ہے ماضی میں بھارت کو کئی مسابقتوں میں سونے کے تمغے ملے ہیں اور ایک بار ورلڈ کپ بھی جیتا ہے۔ بھارت نے ہاکی کو کئی عظیم کھلاڑی بھی دیئے ہیں۔ دنیا میں جب بھی ہاکی کا ذکر ہوگا تو بھارت کے ان عظیم کھلاڑیوں کے بغیر ہاکی کی کہانی ادھوری رہے گی۔ ہاکی کے جادو گر میجر دھیان چند سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس کے بعد بلوندر سنگھ سینئر، لیسلی کلوڈیس، محمد شاہد، اودھم سنگھ سے لے کر دھنراج پلئی تک ہاکی نے ایک بڑا سفر طے کیا ہے۔ آج بھی ٹیم انڈیا کے کھلاڑی اپنی محنت اور لگن کی بدولت ملنے والی کامیابیوں سے ہاکی کی نئی نسل کو تحریک دے رہے ہیں۔ کھیل کے شائقین کے لیے دلچسپ میچوں کو دیکھنا ایک اچھا موقع ہے۔ بھوونیشور جائیں اور نہ صرف ہندوستانی ٹیم کا حوصلہ بڑھائیں بلکہ سبھی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اڈیشہ ایک ایسی ریاست ہے جس کی اپنی شاندار تاریخ ہے۔ مالامال ثقافتی وراثت ہے اور وہاں کے لوگ بھی گرمجوشی بھرے ہوتے ہیں۔ کھیل کے شائقین کے لیے یہ اڈیشہ دیکھنے کا بھی ایک بہت بڑا موقع ہے۔ اس دوران کھیلوں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ہی آپ کونارک کے سوریہ مندر پوری میں بھگوان جگن ناتھ مندر اور چلکا لیک سمیت کئی عالمی شہرت یافتہ قابل دید اور پاکیزہ مقامات بھی ضرورت دیکھ سکتے ہیں۔ میں اس مسابقت کے لیے ہندوستانی مرد ہاکی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہو ں کہ سوا سو کروڑ ہندوستانی ان کے ساتھ اور ان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ اور بھارت آنے والی دنیا کی سبھی ٹیموں کے لیے بھی بہت بہت نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو، سماجی کام کے لیے جس طرح سے لوگ آگے آرہے ہیں اس کے لیے رضاکار کے طور پر کام کر رہے ہیں وہ سبھی ہم وطنو کے لیے محرک ہے، جوش بھرنے والا ہے، ویسے سیوا پرمودھرمہ، یہ بھارت کی وراثت ہے۔ صدیوں پرانی ہماری روایت ہے اور معاشرے میں ہر کونے میں ، ہر زمرے میں اس کی خوشبو آج بھی ہم محسوس کرتے ہیں لیکن نئے دور میں، نئے طریقے سے، نئی نسل، نئی امنگ سے، نئےجوش سے، نئے خواب لے کر کے ان کاموں کو کرنے کے لیے آگے آرہی ہے۔ گذشتہ دنوں میں ایک پروگرام میں گیا تھا جہاں ایک پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔ جس کا نام ہے‘سیلف 4 سوسائٹی’ MyGov اور ملک کی آئی ٹی اور الیکٹرانکس صنعت نے اپنے ملازمین کو سماجی سرگرمیوں کے لیے ترغیب دینے اور انھیں اس کے مواقع فراہم کرانے کے لیے اس پورٹل کو لانچ کیا ہے۔ اس کام کے لیے ان میں جو جوش اور لگن ہے اسے دیکھ کر ہر ہندوستانی کو فخر محسوس ہوگا۔ آئی ٹی ٹو سوسائٹی میں نہیں ہم، اہم نہیں ویم، ذاتیت سے اجتماعیت کے سفر کی اس میں مہک ہے۔ کوئی بچوں کو پڑھا رہا ہے تو کوئی بزرگوں کو پڑھا رہا ہے، کوئی صفائی میں لگا ہے، تو کوئی کسانوں کی مدد کر رہا ہے اور یہ سب کرنے کے پیچھے کوئی لالچ نہیں ہے بلکہ اس میں سپردگی اور عزم کا بے غرض جذبہ ہے۔ ایک نوجوان نے تو دویانگوں کی وھیل چیئرباسکٹ بال ٹیم کی مدد کے لیے خود وھیل چیئرباسکٹ بال سیکھا۔ یہ جو جذبہ ہے، یہ جو سپردگی ہے، یہ مشن موڈ ایکٹیویٹی ہے۔ کیا کسی ہندوستانی کو اس بات کا فخر نہیں ہوگا ! ضرور ہوگا! ‘میں نہیں ہم’ کا یہ جذبہ ہم سبھی کو تحریک دے گا۔ میرے پیارے بھائیو بہنو، اس بار جب میں ‘من کی بات’ کو لے کر آپ لوگوں کے مشورے دیکھ رہا تھا تو مجھے پڈوچیری سے جناب منیش مہاپاتر کا ایک بہت ہی دلچسپ بات دیکھنے کو ملی۔ انھوں نے MyGov پر لکھا ہے برائے مہرانی آپ من کی بات میں اس بارے میں بات کیجئے کہ کیسے ہندوستان کے قبائل اور ان کے طور طریقے اور روایتیں قدرت کے ساتھ بقائے باہمی کی بہترین مثالیں ہیں۔ پائیدار ترقی کے لیے کیسے ان کی روایتوں کو ہمیں اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ منیش جی۔ اس موضوع کو من کی بات کے سامعین کے درمیان رکھنے کے لیے م��ں آپ کی تعریف کرتا ہوں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہمیں اپنے شاندار ماضی اور ثقافت کی جانب دیکھنے کے لیے تحریک دیتا ہے۔ آج ساری دنیا خصوصی طور پر مغربی ممالک ماحولیات کے تحفظ کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اور متوازن اطوار زندگی ، بیلنسڈ لائف کے لیے نئے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ویسے آج ہمارا ہندوستان بھی اس مسئلے سے اچھوتا نہیں ہے، لیکن اس کے حل کے لیے ہمیں بس اپنے اندر جھانکنا ہے۔ اپنی مالا مال تاریخ، روایتوں کو دیکھنا ہے اور خاص طور سے اپنے قبائلی لوگوں کی طرز زندگی کو سمجھنا ہے۔ قدرت کے ساتھ ہم آہنگی بناکرکے رہنا ، ہمارے آدی واسی لوگوں کی ثقافت میں شامل رہا ہے۔ ہمارے آدی واسی بھائی بہن پیڑ پودوں اور پھولوں کی پوجا دیوی دیوتاؤں کی طرح کرتے ہیں۔ وسطی ہندوستان کے بھیل قبیلے خاص طور سے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں لوگ پیپل اور ارجن جیسے پیڑوں کی عقیدت کے ساتھ پوجا کرتے ہیں۔ راجستھان جیسے ریگستان میں بشنوئی سماج نے ماحولیات کے تحفظ کا راستہ ہمیں دکھایا ہے خاص طور سے درختوں کے تحفظ کے ضمن میں انھیں اپنی زندگی کی قربانی کرنا منظور ہے لیکن ایک بھی پیڑ کو نقصان پہنچے یہ انھیں منظور نہیں ہے۔ اروناچل کے مشمی، شیروں کے ساتھ خود کا رشتہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں انھیں وہ اپنا بھائی بہن تک مانتے ہیں۔ ناگالینڈ میں بھی شیروں کو جنگلوں کے محافظ کے طور پر دیکھ جاتا ہے۔ مہاراشٹر کے وارلی کمیونٹی کے لوگ شیر کو مہمان مانتے ہیں۔ ان کے لیے شیر کی موجودگی دولتمندی لانے والی ہوتی ہے۔ وسطی ہندوستان کول کمیونٹی کے درمیان یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی خود کی قسمت شیروں سے جڑی ہے۔ اگر شیروں کو نوالہ نہیں ملا تو گاؤں والوں کو بھی بھوکا رہنا پڑے گا۔ ایسی ان کی عقیدت ہے۔ وسطی ہندوستان کے گونڈ قبیلے ‘بریڈنگ سیزن’ میں کیتھن ندی کے کچھ حصوں میں مچھلی پکڑنا بند کردیتے ہیں۔ ان علاقوں کو وہ مچھلیوں کو پناہ دینے والی جگہ مانتے ہیں۔ اسی رواج کے چلتے انھیں صحت مند اور بھرپور مچھلیاں ملتی ہے۔ آدی واسی کمیونٹی اپنے گھروں کو قدرتی سامان سے بناتے ہیں۔ یہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول کے موافق بھی ہوتے ہیں۔ مغربی ہندوستان کے نیل گری پٹھار کے سنسان علاقوں میں ایک چھوٹا گھومنتو فرقہ توڑا، روایتی طور پر ان کی بستیاں علاقائی طور پر دستیاب چیزوں سے ہی بنی ہوتی ہیں۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو، یہ سچ ہے کہ قبائلی کمیونٹی بہت پرامن اور آپس میں میل جول کے ساتھ رہنے میں یقین رکھتی ہے۔ لیکن جب کوئی ان کے قدرتی وسائل کو نقصان پہنچاتا ہے، تو وہ اپنے حقوق کے لئے لڑنے سے ڈرتے بھی نہیں ہیں۔یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہمارے سب سے پہلے مجاہدین آزادی میں قبائلی لوگ ہی ۔ بھگوان برسا منڈا کو کون بھول سکتا ہے جنھوں نے اپنی جنگلات کی زمین کی حفاظت کے لیے برطانوی حکومت کے خلاف سخت جدوجہد کی۔ میں نے جو بھی باتیں کہیں ہیں ان کی فہرست کافی لمبی ہے۔آدی واسی کمیونٹی کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ قدرت کے ساتھ ہم آہنگی بناکر کیسے رہا جاتا ہے۔ اور آج ہمارے پاس جو جنگلوں کی جائیداد بچی ہے اس کے لیے ملک ہمارے آدی واسیوں کا مقروض ہے۔ آیئے ہم ان کے تئیں احترام کے جذبے کا اظہار کریں۔ میرے پیارے ہم وطنو، ‘من کی بات’ میں ہم ان اشخاص اور اداروں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جو سماج کے لیے کچھ غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔ ایسے کام جو دیکھنے میں تو معمولی نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہمارے ذہنیت بدلنے میں ، معاشرے کی سمت بدلنے میں۔ کچھ دن پہلے میں پنجاب کے کسان بھائی، گوربچن سنگھ جی کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ ایک معمولی اور محنتی کسان گربچن سنگھ جی کے بیٹے کی شادی تھا۔ اس شادی سے پہلے گربچن جی نے دلہن کے والدین سے کہا تھا کہ ہم شادی سادگی سے كریںگےبارات ہوں اور چیزیں ہوں، خرچہ کوئی زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اسے ایک بہت سادہ تقریب ہی رکھنا ہے، پھر اچانک انہوں نے کہا لیکن میری ایک شرط ہے اور آج کل جب شادی بیاہ کے وقت شرط کی بات آتی ہے تو عام طور پر لگتا یہی ہے کہ سامنے والا کوئی بڑی مانگ کرنے والا ہے۔ کچھ ایسی چیزیں مانگے گا جو شاید بیٹی کے خاندان والوں کے لئے مشکل ہو جائیں، لیکن آپ کو جان کر کے حیرت ہوگی یہ تو بھائی گربچن سنگھ تھے سیدھے سادے کسان، انہوں نے دلہن کے والد سے جو کہا، جو شرط رکھی، وہ ہمارے معاشرے کی حقیقی طاقت ہے ۔گربچھن سنگھ نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے وعدہ کیجئے کہ اب آپ کھیت میں پرالی نہیں جلائیں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کتنی بڑی سماجی طاقت ہے اس میں گوربچن سنگھ جی کی یہ بات لگتی تو بہت معمولی ہے لیکن یہ بتاتی ہے کہ ان کی شخصیت کتنی بڑی ہے، اور ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت خاندان ہوتے ہیں جو ذاتی مفاد کو سماجی مفاد کے تناظر میں تبدیل کرتے ہیں۔ جناب گوربچن سنگھ جی کے خاندان نے ہمیں ایسی ایک مثال دی ہے۔ میں نے پنجاب کے ایک اور گاؤں كللر ماجرا کے بارے میں پڑھا ہے جو نابھا کے پاس ہےكللر ماجرا اس لئے مشہور ہوا کیونکہ وہاں کے لوگ دھان کی پرالی جلانے کی بجائے اس جوت كر اسی مٹی میں ملا دیتے ہیں اس کے لئے جو ٹیکنالوجی استعمال میں لانی ہوتی ہے وہ ضرور لاتے ہیں۔ بھائی گوربچن سنگھ جی کو مبارکباد۔ کللرماجرا اور ان سبھی جگہوں کے لوگوں کو مبارک جو ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے اپنی بہترین کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سب صحت مند طرز زندگی کی ہندوتانی وراثت کو ایک سچے وارث کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس طرح بوند بوند سے سمندر بن جاتا ہے اسی طرح چھوٹے چھوٹے بیداری والے اور سرگرمی والےمثبت کام ہمیشہ مثبت ماحول پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے گرنتھوں میں کہا گیا ہے: ॐ द्यौः शान्तिः अन्तरिक्षं शान्तिः, पृथिवी शान्तिः आपः शान्तिः औषधयः शान्तिः। वनस्पतयः शान्तिः विश्वेदेवाः शान्तिः ब्रह्म शान्तिः, सर्वं शान्तिःशान्तिरेव शान्तिः सामा शान्तिरेधि|| ॐ शान्ति: शान्ति:शान्ति:|| اس کا مطلب ہے اے ایشور تینوں لوکوں میں ہر طرف امن کا قیام ہو، پانی میں، زمین میں، آسمان میں ، خلا میں، آگ میں، ہوا میں، دوا میں ، نباتات میں، باغ میں، لاشعور میں، پوری کائنات میں امن قائم کرے۔ اوم شانتی: شانتی: شانتی۔۔ جب کبھی بھی عالمی امن کی بات ہوتی ہے تو اس کو لے کر بھارت کا نام اور اس کا تعاون سنہرے الفاظ میں لکھا دکھائی دے گا۔ بھارت کے لیے اس سال 11 نومبر کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ 11 نومبر کو آج سے 100 سال قبل، پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی، اس کے اختتام کو 100 سال پورے ہو رہے ہیں۔ یعنی اس دوران ہوئی بھارتی تباہی اور جانی نقصان کے اختتام کی بھی ایک صدی پوری ہوجائے گی۔ ہندوستان کے لئے پہلی عالمی جنگ ایک اہم واقعہ تھیں۔ صحیح معنوں میں کہا جائے تو ہمارا اس جنگ سے کوئی سیدھا لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہمارے فوجی بہادری سے لڑے اور بہت بڑا رول نبھایا۔ سب سے بڑی قربانی دی۔ ہندوستانی فوجیوں نے دنیا کو دکھایا کہ جب جنگ کی بات آتی ہے تو وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں ہمارے فوجیوں نے دشوار گذار علاقوں میں مخالف حالات میں بھی اپنی بہادری دکھائی ہے۔ ان سب کے پیچھے ایک ہی مقصد رہا – امن کا دوبارہ قیام۔ پہلی جنگ عظیم میں دنیا نے تباہی کا ننگا ناچ دیکھا۔ تخمینوں کے مطابق، تقریبا ایک کروڑ فوجی اور تقریبا اتنے ہی شہریوں نے اپنی جان گنوائی۔ اس سے پوری دنیا نے امن کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کو سمجھا۔ پچھلے 100 برسوں میں امن کی تشریح بدل گئی ہے۔ آج امن اور ہم آہنگی کا مطلب صرف جنگ کا نا ہونا نہیں ہے۔ دہشت گردی سے لیکر تبدیلی آب وہوا، اقتصادی ترقی سے لے کر سماجی انصاف ان سب کے لیے عالمی تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب سے غریب آدمی کی ترقی ہی امن کی سچی علامت ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے شمال مشرقی بات کی کچھ اور ہے۔ شمال مشرق کی قدرتی خوبصورتی بے مثال ہے۔ اور یہاں کے لوگ بہت قابلیت رکھتے ہیں۔ ہمارا شمال مشرق اب تمام بہترین کاموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ شمال مشرق ایک ایسا علاقہ ہے جس نے آرگینک کھیتی میں بھی بہت ترقی کی ہے۔ کچھ دن پہلے سکم میں پائیدار نظام خوراک کی حوصلہ افزائی کے لیے معزز فیوچر پالیسی گولڈ ایوارڈ 2018 حاصل کیا ہے۔ یہ ایوارڈ اقوام متحدہ سے منسلک ایف اے او یعنی فوڈ ایند ایگریکلچر آرگنائزیشن کی طرف سے دیا جاتاہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس شعبے نے بہترین پالیسی سازی کے لیے دیئے جانے والا یہ انعام اس شعبےمیں آسکر کے برابر ہے۔ یہی نہیں ہمارے سکم میں 25 ملکوں کی 51 نامزد پالیسیوں کو پچھاڑ کر یہ ایوار جیتا۔ اس کے لیے میں سکم کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر اختتام پر ہے۔ موسم میں بھی بہت تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ اب ٹھنڈک کے دن شروع ہوچکے ہیں اور موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ تہواروں کا بھی موسم آگیا ہے۔ دھن تیرس، دیوالی، بھیادوج، چھٹ ایک طریقے سے کہا جائے تو نومبر کا مہینہ تہواروں کا ہی مہینہ ہے۔ آپ سبھی ہم وطنوں کو ان سبھی تہواروں کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات۔ میں آپ سب سے اصرار کروں گا ان تہوروں میں اپنا بھی دھیان رکھیں، اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں اور سماج کے مفاد کا بھی دھیان رکھیں، مجھے یقین ہے کہ یہ تہوار نئے عزم کا موقع ہے۔ یہ تہوار نئے فیصلوں کا موقع ہے۔ یہ تہوار ایک مشن موڈ میں آگے جانے کا، مضبوط عزم کرنے کا، آپ کی زندگی میں بھی موقع بن جائے۔ آپ کی ترقی ملک کی ترقی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آپ کی جتنی زیادہ ترقی ہوگی اتنی ملک کی ترقی ہوگی۔ میری آپ سب کے لیے بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ا گ ۔ را ۔ 28 – 10 – 2018)",২৮.১০.২০১৮ তাৰিখৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মন কী বাতৰ ৪৯তম খণ্ডৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%81%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%82%D8%AF%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A6%AE/,نئی دلّی ،23 دسمبر/ ہر ہر مہا دیو ! ترلوچن مہادیو کی جے ! ماتا شیتلا چوکیا دیوی کی جے ! اتر پردیش کے پرجوش اور مقبول وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، ��رکزی کابینہ کے میرے ساتھی، ڈاکٹر مہندر ناتھ پانڈے جی، یوپی حکومت میں وزیر جناب انل راج بھر جی، نیل کنٹھ تیواری جی، رویندر جیسوال جی ، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب بی پی سروج جی، محترمہ سیما دیویدی جی، ریاستی اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے تمام معزز ساتھی، بناس ڈیری کے چیئرپرسن شری شنکر بھائی چودھری اور بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے کسان بھائیو اور بہنو ! وارانسی کے اس پنڈرا شیتر کے لوگن کے پرنام کرت ہئیلا ! پڈوس کے جلع جونپور کے سب بندھو ایو بھگنی لوگن کے بھی پرنام ! آج وارانسی اور آس پاس کا یہ پورا علاقہ ایک بار پھر پورے ملک، پورے اتر پردیش کے دیہاتوں، کسانوں اور مویشی پالنے والوں کے لئے بہت بڑے پروگرام گواہ بنا ہے۔ آج کا دن تاریخ میں بھی خاص ہے اور اس لئے بھی خاص ہے کہ آج ملک کے سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ جی کا یوم پیدائش ہے۔ میں اُن کو بصد احترامِ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کی یاد میں ملک یومِ کسان منا رہا ہے۔ ساتھیو ، ہمارے یہاں گائے کی بات کرنا ، گوبردھن کی بات کرنا ، کچھ لوگوں نے ایسے حالات پید اکر دیئے ہیں ، جیسے کوئی گناہ کر رہے ہیں ۔ گناہ بنا دیا ہے ۔ گائے کچھ لوگوں کے لئے گناہ ہو سکتی ہے ، ہمارے لئے گائے ماتا ہے ، پوجنے کے قابل ہے ۔ گائے بھینس کا مزاق اڑانے والے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کے 8 کروڑ خاندانوں کی روزی ایسے ہی مویشی دھن سے چلتی ہے ۔ انہی خاندانوں کے محنت سے آج بھارت ہر سال تقریباً ساڑھے 8 لاکھ کروڑ روپئے کا دودھ پیدا کرتا ہے اور یہ رقم ، جتنا بھارت میں گیہوں اور چاول کی پیداوار ہوتی ہے ، اس کی قیمت سے بھی کہیں زیادہ دودھ کی پیداوار کی قیمت ہے ۔ اس لئے بھارت کے ڈیری سیکٹر کو مضبوط بنانا آج ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اسی کڑی میں آج یہاں بناس کاشی سنکول کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ساتھیو ، اب میدان چھوٹا پڑ گیا ہے، جگہ نہیں ہے، آپ اپنے آپ کو وہیں سنبھال لیجئے ۔ بناس ڈیری سے وابستہ لاکھوں کسانوں کے کھاتوں میں کروڑوں روپے منتقل ہو چکے ہیں، رام نگر کے دودھ پلانٹ کو چلانے کے لئے بایو گیس پر مبنی پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات ہوئی ہے ، جس کے پورے ملک کے ڈیری سیکٹر پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ آج ملک بھر میں دودھ کے ملاوٹ سے پاک ہونے کے ثبوت کے لئے مربوط نظام اور لوگو بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ڈیری سیکٹر سے جڑی ان کوششوں کے علاوہ آج یوپی کے لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں کے قانونی دستاویزات یعنی گھرونی بھی سونپی گئی ہے ۔ وارانسی کو مزید خوبصورت، قابل رسائی اور آسان بنانے کے لئے 1500 کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ ان تمام ترقیاتی منصوبوں کے لئے آپ سب کو مبارکباد، یوپی اور پورے ملک کے گوپالکوں کو خصوصی مبارکباد۔ ساتھیو، ایک وقت تھا ، جب ہمارے گاؤں کے آنگنوں میں مویشیوں کے ریوڑ خوشحالی کی پہچان تھے اور ہمارے یہاں تو کہا بھی جاتا تھا ، ہر کوئی اِسے پشو دھن کہتا ہے ۔ کس کے دروازے پر کتنے کھونٹے ہیں ، اس کو لے کر مقابلہ رہتا تھا ۔ ہمارے شاستروں میں بھی کامنا کی گئی ہے – گاؤوں میں سروتا چیو گوام مدھیے وَسامیہم !! یعنی گائے میرے چاروں طرف رہے اور میں گایوں کے درمیان رہوں۔ یہ شعبہ ہمیشہ یہاں روزگار کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے لیکن بہت عرصے تک اس سیکٹر کو ، جو حمایت ملنی چاہیے تھی ، وہ پہلے کی سرکاروں میں نہیں ملی ۔ اب ہماری حکومت ملک بھر میں ��س صورتحال کو بدل رہی ہے۔ ہم نے کامدھینو آیوگ کی تشکیل کی ہے، ڈیری سیکٹر کے بنیادی ڈھانچے کے لئے ہزاروں کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ قائم کیا ہے۔ ہم نے ایک بہت بڑی مہم چلا کر لاکھوں مویشی پالنے والوں کو کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے بھی جوڑا ہے۔ کسانوں کو اچھے معیار کے چارے کے بیج حاصل کرنے کے لئے مسلسل کام جاری ہے۔ جانوروں کے علاج، گھر پر مصنوعی حمل کے لئے ملک گیر مہم بھی شروع کی گئی ہے۔ ہم نے جانوروں میں کھُر اور منہ کی بیماری کے کنٹرول کے لئے ملک گیر ویکسی نیشن مشن بھی شروع کیا ہے۔ ہماری حکومت نہ صرف بچوں کو مفت ویکسین دے رہی ہے، نہ صرف کورونا ویکسین مفت فراہم کر رہی ہے بلکہ مویشیوں کو بچانے کے لئے بہت سی مفت ویکسین بھی فراہم کر رہی ہے۔ ساتھیو، ملک میں ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ملک میں دودھ کی پیداوار میں 6-7 سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی تقریباً ڈیڑھ گنا ہوا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا تقریباً 22 فیصد دودھ پیدا کرتا ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی۔ مجھے خوشی ہے کہ آج یوپی نہ صرف ملک کی سب سے بڑی دودھ پیدا کرنے والی ریاست ہے بلکہ وہ ڈیری سیکٹر کی توسیع میں بھی بہت آگے ہے۔ بھائیو اور بہنو، میرا پختہ یقین ہے کہ ڈیری سیکٹر میں نئی توانائی، مویشی پالنا، ملک کا سفید انقلاب کسانوں کی حالت بدلنے میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس یقین کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، ملک کے چھوٹے کسانوں، جن کی تعداد 10 کروڑ سے بھی زیادہ ہے، کے لئے مویشی پالنا اضافی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ دوسرا، ہندوستان کی ڈیری مصنوعات کی بیرون ملک ایک بڑی مارکیٹ ہے، جس میں ہمارے پاس آگے بڑھنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ تیسرا، مویشی پروری خواتین کی معاشی ترقی کے لئے، ان کی کاروباری صلاحیت کو آگے بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے اور چوتھا یہ کہ ہمارے مویشی، یہ بایو گیس، آرگینک فارمنگ، قدرتی کاشتکاری کے لئے بھی ایک بڑی بنیاد ہے۔ جو مویشی اب دودھ دینے کے قابل نہیں ہیں ، وہ بوجھ نہیں ہوتے ، لیکن وہ کسانوں کی آمدنی میں روز بروز اضافہ کر سکتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، ڈبل انجن والی ہماری حکومت پورے خلوص کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ کسانوں، مویشی پالنے والوں کا ساتھ رے درہی ہے ۔ بناس کاشی سنکول کا آج یہاں ، جو سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ، وہ بھی حکومت اور کوآپریٹیو کی اس شراکت داری کا ثبوت ہے۔ کوآپریٹو سیکٹر میں اہم کردار ادا کرنے والی بناس ڈیری اور پوروانچل کے کسانوں گوپالکوں کے درمیان آج سے ایک نئی شراکت داری شروع ہوئی ہے۔ جب یہ جدید ڈیری پلانٹ تیار ہوگا تو نہ صرف پنڈرا بلکہ شیو پور، سیواپوری، روہنیا، اور غازی پور، جونپور، چندولی، مرزا پور، بلیا، اعظم گڑھ، ماؤ جیسے اضلاع کے ہزاروں اور لاکھوں کسان اس سے مستفید ہوں گے۔ بناس کاشی سنکول کی وجہ سے آس پاس کے کئی گاؤں میں دودھ کی کمیٹیاں بنیں گی، جمع کرنے کے مراکز قائم ہوں گے اور دودھ کے خراب ہونے کی فکر سے آزادی ملے گی۔ یہی نہیں، کسانوں کو اچھی نسل کے جانوروں کے لئے مدد ملے گی اور جانوروں کے لئے اچھے معیار کی خوراک بھی دستیاب ہو گی۔ یہاں دودھ کے علاوہ دہی، چھاچھ، مکھن، پنیر، آئس کریم اور مٹھائیاں بھی بنائی جائیں گی یعنی بنارس کی لسی، چھینے کی ایک سے بڑھ ایک مٹھائی یا پھر لونگ لتا ، ان سب کا ذائقہ اب اور بڑھ جائے گا ۔ ویسے اب تو ملائیو کا سیزن بھی آ گیا ہے۔ ایک طرح سے بناس کاشی سنکول بنارس کے رس میں اور اضافہ کرے گا�� بھائیو اور بہنو، عام طور پر، ہم دودھ کے معیار کی صداقت کے بارے میں بھی بہت الجھن کا شکار رہے ہیں۔ اگر آپ دودھ خریدتے ہیں، جو محفوظ ہے، تو عام آدمی کے لئے اس کی شناخت کرنا مشکل ہے۔ سرٹیفیکیشن کے مختلف انتظامات کی وجہ سے، پورے ڈیری سیکٹر بشمول مویشی پالنے والے، دودھ کی یونینوں کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ چیلنج ملک بھر میں ڈیری سیکٹر کے لئے حل ہو گیا ہے۔ آج بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈز نے ملک کے لئے ایک متحد نظام جاری کیا ہے۔ سرٹیفیکیشن کے لئے کامدھینو گائے پر مشتمل ایک مربوط لوگو بھی لانچ کیا گیا ہے۔ اگر یہ ثبوت، یہ لوگو نظر آ جائے تو خاص ہونے کی شناخت آسان ہو جائے گی اور ہندوستان کی دودھ کی مصنوعات کی ساکھ بھی بڑھے گی۔ ساتھیو، آج ملک کی اشد ضرورت ہے کہ ڈیری سیکٹر سے وابستہ جانوروں سے پیدا ہونے والے فضلے کا بھی صحیح استعمال کیا جائے۔ ایسی ہی ایک بڑی کوشش رام نگر کے دودھ پلانٹ کے قریب بایو گیس پاور پلانٹ کی تعمیر ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے ، جس میں ڈیری پلانٹ کی تمام توانائی کی ضروریات بایو گیس پلانٹ سے ہی پوری کی جائیں گی۔ یعنی کسان نہ صرف دودھ بلکہ گائے کے گوبر کی فروخت سے بھی کما سکیں گے۔ یہ بایو گیس پلانٹ کسانوں سے گائے کا گوبر زیادہ قیمت پر خریدے گا جتنا کسانوں کو عام طور پر ملتا ہے۔ یہاں تیار کی جانے والی بایو سلری کو بائیو سلری پر مبنی نامیاتی کھادوں کی تیاری کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ جو ٹھوس نامیاتی کھاد بنائی جائے گی وہ کسانوں کو کیمیائی کھادوں کے مقابلے بہت کم قیمت پر دستیاب ہوگی۔ اس سے آرگینک فارمنگ یعنی قدرتی کھیتی کی ترقی بھی ہوگی اور بے سہارا جانوروں کی خدمت کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ساتھیو، ایک وقت تھا ، جب ہندوستان میں نیچورل فارمنگ ، قدرتی کھیتی اور قدرتی طریقے سے کھیتی کی جاتی تھی۔ قدرتی کھیتی یعنی کھیتی میں کوئی بیرونی ملاوٹ نہیں ہے۔ جو کھیت سے مل رہا ہے ، کھیتی سے جڑے جانوروں سے مل رہا ہے، وہی اشیاء کھیتی کو بڑھانے کے لئے استعمال میں آتے تھے ۔ کھاد ہو، کیڑے مار دوائیں، ہر چیز قدرتی طریقے سے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی کاشتکاری کا دائرہ کم ہوتا گیا، کیمیکل فارمنگ اس پر حاوی ہو گئی۔ دھرتی ماں کی بحالی کے لئے، اپنی مٹی کی حفاظت کے لئے، آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے، اب ہمیں ایک بار پھر قدرتی کاشتکاری کی طرف مڑنا ہی ہوگا۔ یہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس طرح، اب حکومت قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے لئے کسانوں کو بیدار کرنے کے لئے ایک بہت بڑی مہم بھی چلا رہی ہے اور آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو میں یوم کسان کے موقع پر ہم وطنوں، خاص کر اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں، خاص طور پر اپنے چھوٹے کسانوں سے درخواست کروں گا کہ آپ قدرتی کھیتی کی طرف بڑھیں۔ قدرتی کھیتی میں خرچ بھی کم ہے، فصل بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ کاشتکاری کا سب سے سستا طریقہ ہے، محفوظ ترین طریقہ ہے اور آج کی دنیا میں قدرتی کاشتکاری سے پیدا ہونے والی فصلوں کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ ہمارے زرعی شعبے کو آتم نربھر بنانے کی طرف بھی ایک بڑا قدم ہے۔ میں ملک کے اسٹارٹ اپ سیکٹر کو بھی ۔ نوجوانوں کو بھی بتاؤں گا کہ قدرتی زراعت میں آپ کے لئے بہت سے نئے امکانات ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو س سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔ ابھی یہاں سٹیج پر آنے سے پہلے مجھے یہاں بہت سے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا۔ سرکاری یوجناؤں سے جڑنے سے ، کتنے بڑے حوصلے سے بھرے کام انہوں نے کئے ہہیں ، کتنی بڑی تبدیلی ان کی زندگی میں آئی ہے ، میں اُسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ منصوبوں پر میرا یقین اور بھی مضبوط ہو گیا۔ بھائیو اور بہنو، دیہاتوں، کسانوں کو خود کفیل بنانے، انہیں غیر قانونی قبضوں سے آزاد کرانے میں اونر شپ اسکیم کا بھی بڑا کردار ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ یوگی جی کی قیادت میں یوپی بھی اس میں آگے ہے۔ یوپی کے تمام 75 اضلاع میں 23 لاکھ سے زیادہ گھرونی تیار کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریباً 21 لاکھ خاندانوں کو آج یہ دستاویزات دیے گئے ہیں۔ اپنے گھر کی گھرونی ، جب ہاتھ میں ہو گی تو غریب ، دلت ، محروم ، پچھڑے طبقے کے افراد اپنے گھر پر ناجائز قبضے کی فکر سے آزادی ملے گی۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں یہاں پر پروان چڑھنے والے ناجائز قبضوں کے رجحان کو بھی روکا جائے گا۔ گھرونی ملنے سے اب ضرورت پڑنے پر بینکوں سے قرض لینا بھی آسان ہو جائے گا۔ اس سے دیہات کے نوجوانوں کو روزگار، خود روزگار کے نئے ذرائع فراہم ہوں گے۔ بھائیو اور بہنو، ترقی کی جب بات آتی ہے تو کاشی اپنے آپ میں ایک ماڈل بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے شہر قدیم شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے کس طرح ایک نئی شکل اپنا سکتے ہیں کاشی میں نظر آتا ہے۔ جن پروجیکٹوں کا آج افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان سے عظیم الشان کاشی، دیویا کاشی مہم کو مزید رفتار ملے گی۔ کال بھیرو جی سمیت شہر کے چھ وارڈوں میں ، جو جدید کاری کا کام ہے ، 700 سے زیادہ مقامات پر ، جو سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں ، اس سے اسمارٹ اور محفوظ سہولیات کی طرف بڑھتی کاشی کو اور تقویت ملی ہے ۔ مہان سنت پوجیے شری روی داس جی کی جنم استھان کو فروغ دینے کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے ۔ لنگر ہال بننے سے یہاں ملک بھر سے آنے والے عقیدت مندوں کو بہت سہولت ہو گی ۔ بھائیو اور بہنو، آج وارانسی کے ، جو چوراہے خوبصورت ہو رہے ہیں، سڑکیں چوڑی ہو رہی ہیں، پارکنگ کی نئی جگہیں بن رہی ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں ٹریفک جام کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ وارانسی کینٹ سے لہتارہ ہوتے ہوئے پریاگ راج کی طرف ، جو ہائی وے جاتا ہے ، اس پر کتنا دباؤ رہتا ہے ، یہ آپ سے اچھا اور کون جانتا ہے ۔ اب یہ 6 لین کا ہو جائے گا تو دلّی، آگرہ، کانپور، پریاگ راج سے آنے والے تمام مسافروں اور سامان کی نقل و حمل سبھی کے لئے سہولت ہو گی ۔ یہی نہیں شہر کے دیگر علاقوں کے لئے بھی اب آنا جانا اور آسان ہو جائے گا۔ یہ سڑک ضلع کے داخلی دروازے کے طور پر تعمیر ہو گی ۔ وارانسی-بھدوہی-گوپی گنج سڑک کے چوڑے ہونے کی وجہ سے شہر سے نکلنے والی گاڑیاں رنگ روڈ فیز-2 کے راستے باہر سے جا سکیں گی۔ اس سے بھاری ٹریفک جام سے نجات ملے گی۔ بھائیو اور بہنو، صحت، تعلیم اور تحقیق کے مرکز کے طور پر کاشی کی شناخت کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ آج ایک آیوش اسپتال کا افتتاح کیا گیا ہے اور ایک نئے ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کے قیام کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اس طرح کی سہولیات کے ساتھ کاشی ہندوستانی نظام طب کے ایک اہم مرکز کے طور پر بھی ابھرنے والا ہے۔ ریجنل انسٹرکشن اسٹینڈرڈ لیبارٹری کے قیام سے یہاں پانی کی جانچ، کپڑوں اور قالین سے متعلق ٹیسٹ کئے جائیں گے۔ اس سے وارانسی اور اس کے آس پاس کے بنکروں اور بہت سی صنعتوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی چاول ریسرچ سینٹر میں قائم کی گئی نئی تیز رفتار افزائش کی سہولت کے ساتھ، دھان کی نئی قسم تیار کرنے میں پہلے کی نسبت بہت کم وقت لگے گا۔ بھائیو اور بہنو، جب میں کاشی، اتر پردیش کی ترقی میں ڈبل پاور اور ڈبل انجن کی ڈبل ڈیولپمنٹ کی بات کرتا ہوں تو کچھ لوگ بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اتر پردیش کی سیاست کو صرف اور صرف ذات پات، عقیدہ، مذہب اور مذہب کے چشمے سے دیکھا۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یوپی ترقی کرے، یوپی ایک جدید شناخت بنے۔ اسکول، کالج، اسپتال، سڑکیں، پانی، بجلی، غریبوں کے گھر، گیس کنکشن، بیت الخلاء، ان کو ترقی نہیں مانتے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کی یہ زبان ان کے نصاب ، ان کی ڈکشنری میں یہ باتیں ہیں ہی نہیں ۔ ان کے سلیبس میں کیا ہے ، ان کی ڈکشنری میں کیا ہے ، ان کی بول چال میں کیا ہے ، ان کی سوچ میں کیا ہے ، آپ سب جانتے ہیں ۔ ان کے نصاب میں ہے – مافیا واد ، پریوار واد ۔ ان کے سلیبس میں ہے ، گھروں اور زمینوں پر ناجائز قبضہ ۔ پہلے کی حکومتوں کے دوران یوپی کے لوگوں کو کیا ملا اور آج ہماری حکومت سے یوپی کے لوگوں کو کیا مل رہا ہے اس میں فرق صاف ہے۔ ہم یوپی میں وراثت کو بھی بڑھا رہے ہیں، ہم یوپی کو بھی ترقی دے رہے ہیں۔ لیکن یہ لوگ جو صرف اپنے مفاد کے لئے سوچتے ہیں یوپی کی ترقی کو پسند نہیں کر رہے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ ان لوگوں نے پوروانچل کی ترقی، بابا کے کام اور وشوناتھ دھام کے کام پر اعتراض کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ اتوار کو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ عقیدت مند درشن کے لئے کاشی وشوناتھ دھام پہنچے تھے۔ یوپی کو دہائیوں پیچھے دھکیلنے والے ان لوگوں کی ناراضگی ابھی اور بڑھے گی۔ جس طرح یوپی کے لوگ ڈبل انجن والی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں، ہمیں آشیر واد درے ہیں اور جیسے جیسے آشیر واد بڑھتا جاتا ہے ، ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچے گا ۔ ساتھیوں، ڈبل انجن کی سرکار یوپی کی ترقی کے لئے دن رات ایسے ہی محنت کرتی رہے گی۔ مہادیو کے آشیرواد اور کاشی واسیوں کی محبت سے ترقی کے نئے ریکارڈ بناتے رہیں گے ۔ اسی یقین کے ساتھ سبھی ترقیاتی منصوبوں کی آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ میرے ساتھ بولیے ۔ بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے ۔ بہت بہت شکریہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),বাৰাণসীত একাধিক উন্নয়নমূলক পদক্ষেপৰ শুভাৰম্ভৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%86%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%DB%8C%D8%AA%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%AE%D8%A8%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%8B%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%98%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بتایا کہ لازمی کوارنٹائن کے بعد 2 چیتوں کو کنو قدرتی مسکن میں مزید موافقت کے لیے ایک بڑے باڑے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ جناب مودی نے ٹویٹ کیا: ’’بہت اچھی خبر! مجھے بتایا گیا کہ لازمی کوارنٹائن کے بعد، 2 چیتوں کو کنو قدرتی مسکن میں مزید موافقت کے لیے ایک بڑے باڑے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ دیگر چیتوں کو بھی جلد ہی چھوڑا جائے گا۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ سبھی چیتے صحت مند، فعال اور اچھی طرح سے ایڈجسٹ کررہے ہیں‘‘۔,কুনোৰ চিতাবাঘকেইটাৰ বতৰা দিল�� প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%DB%81-%DA%86%D8%B1%DA%86%D8%A7-%D8%A7%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B1%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95/,"نئی دہلی۔ 16 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مطلع کیا ہے کہ پریکشا پہ چرچا کے تمام بات چیت کے حقائق نمو ایپ کے اختراعی طور پر تیار کردہ سیکشن میں مل سکتی ہیں۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ""مجھے اپنے متحرک #ایکزام واریئر کے ساتھ بات چیت کرنے میں لطف آتا ہے۔پریکشا پہ چرچا امتحانات اور زندگی سے متعلق بہت سے مسائل کے لیے ایک متحرک فورم ہے۔ان تمام بات چیت کے حقائق نمو ایپ کے اختراعی طور پر تیار کردہ سیکشن میں مل سکتی ہیں۔""",পৰীক্ষা আৰু জীৱন সম্পৰ্কীয় বহুতো বিষয়ৰ বাবে পৰীক্ষা পে চৰ্চা হৈছে এক জীৱন্ত মঞ্চ: প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-2-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D9%85%DB%8C%D8%B1%D9%B9%DA%BE-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 2 جنوری 2022 کو میرٹھ کے دورے پر جائیں گے جہاں وہ تقریبا ایک بجے دوپہر کے وقت میجر دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ یونیورسٹی میرٹھ میں سردھنا قصبہ کے سلاوا اور کیلی گاؤں میں قائم کی جائے گی جس پر تقریبا 700 کروڑ روپئے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جن شعبوں پر وزیراعظم کی خاص توجہ مرکوز ہے ان میں سے ایک ملک کے تمام حصوں میں کھیل کے کلچر کو عام کرنا اور عالمی سطح کے کھیل سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنا ہے۔ میرٹھ میں میجر دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی کا قیام وزیراعظم کے اس خواب کو پورا کرنے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہوگا۔ اسپورٹس یونیورسٹی کاایک جدید اوراعلی ٰ درجے کا اسپورٹس بنیادی ڈھانچہ ہوگا۔اس بنیادی ڈھانچے میں ہاکی کے میدان، فٹبال کے میدان، باسکٹ بال، والی بال، ہینڈبال، کبڈی کے میدان، لانگ ٹینس کے کورٹ، جمنازیم ہال، دوڑ کے میدان، سومنگ پول، کثیر مقصدی ہال اور سائیکلنگ کے میدان شامل ہیں۔ یونیورسٹی میں بہت سی سہولیات بھی دستیاب ہوں گی جن میں شوٹنگ، اسکواش،جمناسٹکس، ویف لفٹنگ، تیر اندازی اور کشتی رانی وغیرہ کی عمارتیں شامل ہیں۔ یونیورسٹی میں 540 خواتین اور 540 مرد کھلاڑیوں سمیت 1080 کھلاڑیوں کو تربیت دینے کی صلاحیت ہوگی۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২ জানুৱাৰীত মিৰাট ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%85%DA%A9%D8%B1%D8%B3%D9%86%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC/,اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں ، وزیراعظم نے کہا: ‘‘ہم ملک بھر میں بہت سے تہوار منارہے ہیں جس سے ہمارے ثقافتی تنوع کی عظمت کاپتہ چلتا ہے۔ ان تہواروں پر میری طرف سے مبارکباد ۔ مکرسنکرانتی کے لئے مبارکباد ۔https://t.co/4ittq5QTsr ایک بے مثال اتراین ا ٓپ کو مبارک ہو ۔ https://t.co/hHcMBzBJZP سب لوگوں کو بھوگی کی مبارکباد ۔ یہ خصوصی تہوار ہمارے معاشرے میں مسرت و شادمانی کے جذبہ کوبڑھائے۔ میں اپنے ہم وطنوں کی بہتر صحت اور بہبودی کے لئے دعا کرتا ہوں۔ https://t.co/plB,"মকৰ সংক্রান্তি, উত্তৰায়ন, ভোগী, মাঘ বিহু আৰু পোংগল উৎসৱ উপলক্ষে দেশবাসীক শুভেচ্ছা প্রধানমন্ত্রী" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%88%D8%AF%DA%BE-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%86%D8%A7%DA%A9-%D8%B3%D9%84%D9%86%DA%88%D8%B1-%D8%AD%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے، پی ایم این آر ایف کی طرف سے راجستھان کے جودھ پور میں المناک سلنڈر حادثے میں، ہر مرنے والے کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے اور زخمی ہونے والے شخص کے لئے 50 ہزار روپے کے امدادی رقم کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا؛ ""وزیر اعظم نریندر مودی نے پی ایم این آر ایف کی طرف سے راجستھان کے جودھ پور میں المناک سلنڈر حادثے میں، ہر مرنے والے کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے کے امدادی رقم کا اعلان کیا ہے اور زخمی ہونے والے شخص کو 50 ہزار روپے دیئے جائیں گے ۔"" ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- ا ع- ق ر)",ৰাজস্থানৰ যোধপুৰত সংঘটিত মৰ্মান্তিক চিলিণ্ডাৰ বিস্ফোৰণৰ পিছত পিএমএনআৰএফৰপৰা এক্স-গ্ৰেচিয়া ঘোষণা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DA%A9%D8%B1%D8%B3%D9%86%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%DA%A9%D8%B1%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مکرسنکرانتی کے موقع پر کرناٹک کے عوام کو نیک تمنائیں پیش کی ہیں۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی کے مکرسنکرانتی کے موقع پر وزیر اعظم کو مبارکباد کے پیغام کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا : ’’کرناٹک کی بہنوں اور بھائیوں کو مکرسنکرانتی کی نیک تمنائیں۔ یہ وہ ریاست ہے جس کا ملک کی ترقی میں بے نظیر حصہ ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومت ریاست کے عوام کو بااختیار بنانے کی جانب کام کرتے رہیں گے۔,মকৰ সংক্ৰান্তি উপলক্ষে কৰ্ণাটকৰ জনসাধাৰণক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DB%8C%D8%B3%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95/,نئیدہلی۔ یکم اپریل2018؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ہم وطنوں کو ایسٹر کے موقع پر مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’’ایسٹر کی مبارکباد! میں امید کرتا ہوں کہ خوشی کا یہ دن یکجہتی، امن اور بھائی چارے کے رشتے کو مضبوط کرے گا۔میری دعا ہے کہ عیسی مسیح کے نیک خیالات اور نظریات ، سماج میں خدمت کا جذبہ پیدا کرنے اور مثبت تبدیلی لانے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے۔‘‘,ইষ্টাৰ উপলক্ষে দেশবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%85%D9%8F%D8%B1%D8%A7%D8%B1-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-11/,نئی دہلی،28فروری؍2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم جناب مُرار جی بھائی دیسائی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’میں اپنے سابق وزیراعظم جناب مُرار جی بھائی دیسائی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔قوم کی تعمیر میں ان کے گرانقدر تعاون کے لئے وہ بڑے پیمانے پر قابل احترام ہیں۔انہوں نے ہندوستان کو مزید خوشحال بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ انہوں نے عوامی زندگی میں ہمیشہ دیانت داری پر زور دیا۔‘‘,প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী মোৰাৰজীভাই দেশাইলৈ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج مرکزی سرپرستی والی ایک نئی اسکیم – پی ایم ایس آر آئی اسکولس (پی ایم اسکولس فار رائزنگ انڈیا) کو منظوری دی۔ یہ ملک بھر میں 14500 سے زیادہ اسکولوں کو پی ایم شری اسکولوں کے طور پر ترقی دینے کی ایک نئی اسکیم ہوگی، جس کا انتظام مرکزی حکومت/ریاستی سرکار/مرکز کے زیر انتظام حکومت/مقامی اداروں کے زیر انتظام، موجودہ منتخب اسکولوں کو مضبوط بنا کر کیا جائے گا۔ پی ایم شری اسکول قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تمام اجزاء کی نمائش کریں گے، مثالی اسکولوں کے طور پر کام کریں گے اور اپنے آس پاس کے دیگر اسکولوں کو رہنمائی بھی پیش کریں گے۔ پی ایم شری اسکول طلباء کی علمی نشوونما کے لیے معیاری تعلیم فراہم کریں گے اور 21ویں صدی کی کلیدی مہارتوں سے آراستہ جامع اور بہترین افراد کی تخلیق اور پرورش کی کوشش کریں گے۔ پی ایم شری اسکولوں کی اسکیم (پی ایم اسکولس فار رائزنگ انڈیا) کو مرکزی طور پر اسپانسر شدہ اسکیم کے طور پر لاگو کیا جانا ہے جس کی کی سال23- 2022 سے27- 2026 تک پانچ سال کی مدت کے لیے کل پروجیکٹ لاگت، 27360 کروڑروپے کی ہے، جس میں 18128 کروڑ روپے کا مرکزی حصہ شامل ہے۔ روپے۔ اہم خصوصیات · پی ایم شری، ایک ایسےمنصفانہ، جامع اور خوشگوار اسکول کے ماحول میں اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرے گا جو متنوع پس منظر، کثیر لسانی ضروریات اور بچوں کی مختلف تعلیمی صلاحیتوں کا خیال رکھتا ہے اور انہیں قومی تعلیمی پالیسی 2020کے وژن کے مطابق آموزش کے اپنے عمل میں فعال حصہ دار بناتا ہے۔ · پی ایم شری اسکولس، اپنے متعلقہ علاقوں میں دیگر اسکولوں کو رہنمائی فراہم کرکے قیادت فراہم کریں گے۔ · پی ایم شری اسکولوں کو گرین اسکول کے طور پر تیار کیا جائے گا، جس میں ماحول دوست پہلو جیسے سولر پینلز اور ایل ای ڈی لائٹس، قدرتی کھیتی کے ساتھ نیوٹریشن گارڈن، فضلہ کاانتظامیہ، پلاسٹک سے پاک، پانی کی بچت اور ذخیرہ، ماحولیات کے تحفظ سے متعلق روایات/عمل کا مطالعہ، پائیدار طرز زندگی کو اپنانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہیکاتھون اور بیداری پیدا کرنا ہے۔ · ان اسکولوں میں اپنائی گئی تدریس، زیادہ تجرباتی، جامع، مربوط، کھیل/کھلونے پر مبنی (خاص طور پر، بنیادی سالوں میں) انکوائری پر مبنی، دریافت پر مبنی، سیکھنے والے پر مبنی، بحث پر مبنی، لچکدار اور لطف اندوز ہوگی۔ · ہر جماعت میں ہر بچے کے آموزش کے نتائج پر توجہ دی جائے گی۔ تمام سطحوں پر تشخیص تصوراتی تفہیم اور حقیقی زندگی کے حالات میں علم کے اطلاق پراور قابلیت پر مبنی ہوگی۔ · دستیاب وسائل اور ہر ڈومین کے لیے دستیابی، مناسبت، موزونیت، اور استعمال کے لحاظ سے ان کی تاثیر کا جائزہ لیا جائے گا اور ان کی کارکردگی کے کلیدی اشارے کیے جائیں گے اور خلا ءکو منظم اور منصوبہ بند طریقے سے پُر کیا جائے گا۔ · ملازمتوں میں اضافہ اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے، شعبہ جاتی مہارت کی کونسلیں اور مقامی صنعت کے ساتھ روابط کو تلاش کیا جائے گا۔ · ہرایک اسکول کا کوالٹی اسسمنٹ فریم ورک (ایس کیو اےایف) تیار کیا جا رہا ہے، جس میں نتائج کی پیمائش کے لیے کارکردگی کے کلیدی اشاریوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ مطلوبہ معیارات کو یقینی بنانے کے لیے ان اسکولوں کے معیار کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جائے گا۔ پی ایم ایس آر آئی اسکولس (پی ایم اسکول فار رائزنگ انڈیا) کی اسکیم کی اہم مثالی مداخلتیں ہیں: معیار اور اختراع (سیکھنے میں اضافہ کا پروگرام، جامع پروگریس کارڈ، اختراعی تدریسات، بیگ لیس ڈے، مقامی کاریگروں کے ساتھ انٹرن شپ، صلاحیت کی تعمیر وغیرہ) آر ٹی ای قانون کے تحت مستفید ہونے والے حقدار۔ پی ایم شری اسکولوں میں سے 100فیصد سائنس اور ریاضی کی کٹس حاصل کریں گے۔ سالانہ اسکول گرانٹس (کمپوزٹ اسکول گرانٹس، لائبریری گرانٹ، اسپورٹس گرانٹ) بالواتیکا اور بنیادی خواندگی اور شماریات سمیت ابتدائی بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم۔ مساوات اور شمولیت جس میں لڑکیوں اور سی ڈبلیو ایس این کے لیے محفوظ اور مناسب بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی شامل ہے۔ طلباء کو پیش کردہ مضامین کے انتخاب میں لچک کی حوصلہ افزائی کرنا۔ زبان کی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں مددکرنے کے لیے، تکنیکی مداخلتوں کا استعمال کرتے ہوئے، ذریعہ تعلیم کے طور پر مادری زبان/مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کرنا۔ ڈیجیٹل تدریس کے استعمال کے لیے آئی سی ٹی، اسمارٹ کلاس رومز اور ڈیجیٹل لائبریریاں۔ پی ایم شری اسکولوں کا 100فیصد احاطہ آئی سی ٹی، اسمارٹ کلاس رومز اور ڈیجیٹل اقدامات کے تحت کیا جائے گا۔ موجودہ بنیادہی ڈھانچہ کو مضبوط بنانا 10. پیشہ ورانہ مداخلتیں اور انٹرنشپ / انٹرپرینیورشپ کے مواقع کو، خاص طور پر مقامی صنعت کے ساتھ بڑھانا۔ ترقیاتی منصوبوں/قریبی صنعت کے ساتھ مہارتوں کی نقشہ سازی اور اس کے مطابق کورسز/نصاب تیار کرنا۔ 11. ان اسکولوں کو تمام جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے، سیچوریشن اپروچ اپنایا جائے گا۔ تمام اسکولوں کو سائنس لیب، لائبریری، آئی سی ٹی کی سہولت اور ووکیشنل لیبز وغیرہ فراہم کی جائیں گی۔ 12. گرین اسکول کے اقدامات مزید یہ کہ اسکیم موجودہ اسکیموں/پنچایتی راج اداروں/شہری مقامی اداروں اور اسکول کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے اور سہولیات کی تخلیق کے لیے کمیونٹی کی شراکت کے ساتھ ہم آہنگی کا تصور کرتی ہے۔ نفاذ کی حکمت عملی (اے) پی ایم شری اسکولوں کو موجودہ انتظامی ڈھانچے کے ذریعے لاگو کیا جائے گا جو سمگر شکشا، کے وی ایس اور این وی ایس کے لیے دستیاب ہے۔ دیگر خود مختار ادارے ضرورت کے مطابق مخصوص پروجیکٹ کی بنیاد پر شامل ہوں گے۔ (بی) ان اسکولوں کی پیش رفت کا جائزہ لینے اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے نفاذ میں درپیش چیلنجوں کو سمجھنے کے لیے سخت نگرا��ی کی جائے گی۔ انتخاب کا طریقہ کار: پی ایم شری اسکولوں کا انتخاب چیلنج موڈ کے ذریعے کیا جائے گا جس میں اسکول، مثالی اسکول بننے کے لیے تعاون کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ اسکولوں کو آن لائن پورٹل پر خود درخواست دینے کی ضرورت ہوگی۔ پورٹل سال میں چار بار، ہر سہ ماہی میں ایک بار، اسکیم کے پہلے دو سالوں کے لیے کھولا جائے گا۔ اسکیم کے تحت ،ابتدائی اسکول (کلاس 1-5/1-8) اور سیکنڈری/ سینئر سیکنڈری اسکول (کلاس 1-10/1-12/6-10/6-12) مرکز/ریاست/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں/ یو ڈی آئی ایس ای+ کوڈ رکھنےوالی مقامی خودحکومتوں پر غور کیا جائے گا۔ انتخاب تین مراحل کے عمل کے ذریعے طے شدہ وقت کے ساتھ کیا جائے گا، جو کہ درج ذیل ہے: – مرحلہ-1: ریاستیں/ مرکز کے زیر انتظام علاقے پی ایم شری اسکولوں کے طور پر مخصوص معیار کی یقین دہانی کے حصول کے لیے، ان اسکولوں کی حمایت کرنے کے وعدوں کو پیش کرتے ہوئے، مرکز کے ساتھ قومی تعلیمی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے مفاہمت نامہ پر دستخط کریں گے۔ مرحلہ-2: اس مرحلے میں، پی ایم شری اسکولوں کے طور پر منتخب کیے جانے کے اہل اسکولوں کے ایک پول کی شناخت، یو ڈی آئی ایس ای+ڈیٹا کے ذریعے مقررہ کم از کم بینچ مارک کی بنیاد پر کی جائے گی۔ مرحلہ 3: یہ مرحلہ بعض معیارات کو پورا کرنے کے چیلنج کے طریقہ کار پر مبنی ہے۔ صرف مندرجہ بالا اہل اسکولوں کے اسکول ہی چیلنج کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے مقابلہ کریں گے۔ شرائط کی تکمیل ریاستوں/کے وی ایس/جی این وی کی طرف سے فزیکل معائنہ کے ذریعے تصدیق کی جائے گی۔ ریاستیں/مرکز کے زیرانتظام علاقے/ کے وی ایس / جی این وی اسکولوں کے ذریعہ رپورٹ کیے گئے دعووں کی تصدیق کریں گے اور اسکولوں کی فہرست وزارت کو تجویز کریں گے۔ زیادہ سے زیادہ دو اسکولوں (ایک ابتدائی اور ایک سیکنڈری/سینئر سیکنڈری) فی بلاک/یو ایل بی کا انتخاب پورے ہندوستان میں کل اسکولوں کی بالائی حد کے ساتھ کیا جائے گا۔ پی ایم شری اسکولوں کے انتخاب اور نگرانی کے لیے اسکولوں کی جیو ٹیگنگ کی جائے گی۔ جیو ٹیگنگ اور دیگر متعلقہ کاموں کے لیے بھاسکراچاریہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ایپلی کیشنز اینڈ جیو انفارمیٹکس (بی آئی ایس اے جی– این ) کی خدمات لی جائیں گی۔ اسکولوں کے حتمی انتخاب کے لیے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ پی ایم شری اسکولوں کی کوالٹی اشورینس قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی نمائش۔ اندراج اور سیکھنے کی پیشرفت سے باخبر رہنے کے لیے طالب علم کا اندراج۔ ریاست اور قومی اوسط سے بالا سطح حاصل کرنے کے لیے، ہر بچے کے سیکھنے کے نتائج میں بہتری۔ ہر مڈل گریڈ کا بچہ جدید اور 21ویں صدی کی مہارتوں سے روشناس/متعلق ہے۔ ہر سیکنڈری گریڈ کا بچہ کم از کم ایک مہارت کے ساتھ پاس آؤٹ ہوتا ہے۔ ہر بچے کے لیے کھیل، آرٹس، آئی سی ٹی۔ پائیدار اور سبز اسکول۔ ہر ایک اسکول رہنمائی کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے منسلک/وابستہ ہے۔ ہر اسکول مقامی کاروباری ماحولیاتی نظام سے وابستہ/منسلک ہے۔ 10. ہر بچے کو نفسیاتی تندرستی اور کیریئر کے لیے مشورہ دیا جاتا ہے۔ 11. طلباء ہندوستان کے علم اور وراثت سے وابستہ ہوں گے، ہندوستان کی تہذیبی اخلاقیات اور اقدار پر فخر کریں گے، دنیا میں ہندوستان کی شراکت سے واقف ہوں گے، سماج، جانداروں اور فطرت کے تئیں فرائض سے آگاہ ہوں گے، ہندوستانی زبانوں میں بات چیت کے قابل ہوں گے، شمولیت، مساوات کا احترام کریں گے، اور تنوع میں اتحاد، خدمت کا احساس اور 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے جذبے کو آگے بڑھائیں گے۔ 12. کردار سازی، شہریت کی اقدار، قوم کی تعمیر کے لیے بنیادی فرائض اور ذمہ داریاں ان اسکولوں کو متحرک اسکولوں کے طور پر تیار کیا جائے گا جو بچوں کی ہمہ جہت ترقی پر توجہ مرکوز کریں گے۔ مستفیدین اس اسکیم سے 18 لاکھ سے زیادہ طلباء کے براہ راست مستفید ہونے کی امید ہے۔ مزید اثر پی ایم شری اسکولوں کے آس پاس کے اسکولوں کی رہنمائی اور ہینڈ ہولڈنگ کے ذریعے پیدا کیا جائے گا۔,এখন নতুন কেন্দ্ৰীয়ভাৱে পৃষ্ঠপোষকতা কৰা আঁচনি- পিএম শ্ৰী স্কুলছ (পিএম স্কুলছ ফৰ ৰাইজিং ইণ্ডিয়া)ত কেবিনেটে অনুমোদন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%84%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%80-%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%88%E0%A6%95/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے رانی لکشمی بائی کو ان کی جینتی پر یاد کیا۔ جناب مودی نے کہا کہ ان کی جرأت اور ملک کے لئے ان کے یادگار تعاون کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘رانی لکشمی بائی کو ان کی جینتی پر یاد کررہا ہوں۔ ملک کے لئے ان کی جرأت اور ان کے یادگار تعاون کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف ان کی ثابت قدمی تحریک کا ایک وسیلہ بنیں۔ پچھلے سال اس دن جھانسی کے اپنےدورے کی جھلکیاں شئیر کررہا ہوں۔’’,জয়ন্তীত ৰাণী লক্ষ্মীবাঈক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সশ্ৰদ্ধ স্মৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DB%81-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%AA-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج راجیہ سبھا میں نائب صدر جناب ایم وینکیا نائیڈو کی الوداعی تقریب میں شرکت کی۔ وزیر اعظم نے نائب صدر کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جو ایوان بالا کے سابق چیئرمین ہیں۔ وزیر اعظم نے جناب نائیڈو کی دانشمندی اور ذہانت سے منسلک بہت سے لمحات کو یاد کیا۔ نئے بھارت میں قیادت کی تبدیلی کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘جب ہم اس سال 15 اگست منائیں گے تو یہ ایسا یوم آزادی ہوگا جس میں صدر، نائب صدر، اسپیکر اور وزیر اعظم آزادی کے بعد پیدا ہوئے ہوں۔ اور یہ بھی، کہ ان میں سے ہر ایک کا تعلق انتہائی معمولی گھرانوں سے ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس کی ایک بڑی علامتی قدر و قیمت ہے اور یہ ایک نئے دور کی جھلک ہے۔ وزیر اعظم نے عوامی زندگی میں اپنے تمام کرداروں میں ملک کے نوجوانوں کے لیے نائب صدر جمہوریہ کی مسلسل حوصلہ افزائی کو یاد کیا۔ انہوں نے ہمیشہ ایوان میں نوجوان ارکان کو بھی فروغ دیا۔‘‘ہمارے نائب صدر کے طور پر، آپ نے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کافی وقت وقف کیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا، آپ کے بہت سے پروگرام یووا شکتی پر مرکوز تھے’’،۔ وزیر اعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ایوان کے باہر نائب صدر کی 25 فیصد تقریریں بھارت کے نوجوانوں پر مرکوز تھیں۔ وزیر اعظم نے مختلف صلاحیتوں میں جناب ایم وینکیا نائیڈو کے ساتھ اپنے قریبی تعلق کو اُجاگر کیا۔ انہوں ��ے پارٹی ورکر کے طور پر نائب صدر کی نظریاتی عہدبستگی، ایم ایل اے کے طور پر کام، ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے سرگرمی کی سطح، بی جے پی کے صدر کے طور پر تنظیمی مہارت، وزیر کے طور پر ان کی محنت اور سفارتکاری اور ایوان کے نائب صدر اور چیئرمین کے طور پر ان کی لگن اور وقار کی تعریف کی۔ ‘‘میں نے بہت ہی نزدیکی سے جناب ایم وینکیا نائیڈو جی کے ساتھ کئی سالوں کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا، میں نے انہیں مختلف ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے ان میں سے ہر ایک کو بڑی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے” ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عوامی زندگی میں لوگ جناب ایم وینکیا نائیڈو سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے نائب صدر کی دانش مندی اور الفاظ کی طاقت کو اُجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘آپ کا ہر لفظ سنا، پسند کیا جاتا ہے، اوراسے ترجیح دی جاتی ہے… اور اس کا کوئی ثانی نہیں’’ ۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا ‘‘ جناب ایم وینکیا نائیڈو جی ایک جملے میں اپنی بات کہنے کےلئے مشہور ہیں۔ وہ عقل مندی ہیں۔ اور زبانوں پر ان کی پکڑ ہمیشہ زبردست رہی ہے۔’’ وزیر اعظم نے کہا کہ ایوان میں اور ایوان کے باہر دونوں ہی جگہ بڑے پیمانے پر نائب صدر کے اظہار خیال میں ان کی پختگی نے بہت اچھا اثر ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ جناب ایم وینکیا نائیڈو جی جو کچھ کہتے ہیں اس میں گہرائی اور حقیقت دونوں ہی چیزیں موجود ہیں،اوریہ براہ راست اور بے مثال اس میں طنز بھی ہے اور گیرائی اور گہرائی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جو کچھ آپ نے کہا ہے کہ دانشورانہ پہلو بھی ہے’’۔ جنوبی بھارت میں جناب ایم وینکیا نائیڈو کے سیاسی کیرئیر کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے جہاں ان کے منتخب نظریے کے کوئی فوری امکانات نہیں تھے، وزیر اعظم نے کہا کہ نائب صدر کا سیاسی کارکن سے ان کی پارٹی کے صدر تک کا سفر نظریہ اور استقامت میں ان کی مستقل مزاجی کا عکاس ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم ملک کے لیے جذبات رکھتے ہیں، اپنے خیالات کو پیش کرنے کا فن رکھتے ہیں، لسانی تنوع پر یقین رکھتے ہیں تو زبان اور علاقہ ہمارے لیے کبھی رکاوٹ نہیں بنتے اور آپ نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے نائب صدر جمہوریہ کی مادری زبان کے تئیں محبت کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ‘‘وینکیا جی کے بارے میں قابل تعریف چیزوں میں سے ایک بھارتی زبانوں کے تئیں ان کا جذبہ ہے۔ یہ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایوان کی صدارت کیسے کرتے تھے۔ انہوں نے راجیہ سبھا کی کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں بھی تعاون دیا ہے’’۔ وزیر اعظم نے اس بات کو بھی اجاگرکیا کہ نائب صدر کے ذریعہ قائم کردہ نظام، اوران کی قیادت نے ایوان کی کام کرنے کی صلاحیت کو نئی بلندی دی۔ نائب صدر کی قیادت کی مدت دوران، ایوان کی پیداواری صلاحیت میں 70 فیصد اضافہ ہوا، اراکین کی حاضری میں اضافہ ہوا، اور ریکارڈ 177 بل منظور کئے گئے یا زیر بحث آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’آپ نے بہت سے فیصلے لیے ہیں جنہیں ایوان بالا کے سفر میں یاد رکھا جائے گا ۔ وزیر اعظم نے نائب صدر جمہوریہ کی جانب سے ایوان کے تدبر، دانشمندانہ اور پختہ طرز عمل کی تعریف کی اور اس پختہ یقین کے لیے ان کی تعریف کی کہ ایک حد سے آگے ایوان میں خلل ڈالنا ایوان کی توہین ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘مجھے آپ کے معیار میں جمہوریت کی پختگی نظر آتی ہے۔ انہوں نے ان کے اس ایڈجسٹمنٹ، مواصلات اور آپسی تال میل کو سراہا جس کے ساتھ انہوں نے مشکل لمحات میں بھ�� ایوان کو چلایا۔ وزیر اعظم نے جناب ایم وینکیا نائیڈو کے نقطہ نظر کی تعریف کی ’’حکومت کو تجویز کرنے دیں، اپوزیشن کو مخالفت کرنے دیں اور ایوان کو چلنےدیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو دوسرے ایوان کی تجاویز کو قبول، مسترد یا ترمیم کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ہماری جمہوریت دوسرے ایوان سے موصول ہونے والی تجاویز کو روکنے کا تصور نہیں کرتی۔ وزیر اعظم نے ایوان اور ملک کے لیے ان کی رہنمائی اور تعاون کے لیے نائب صدر کا شکریہ ادا کیا۔,ৰাজ্যসভাত উপ-ৰাষ্ট্ৰপতি শ্ৰী এম ভেংকায়া নাইডুক বিদায় জনালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%84%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ملیشیا کے پہلا پرواسی بھارتی سمّان ایوارڈ پانے والے، ملیشیا کے سابق کابینی وزیر تُن ڈاکٹر ایس سوامی ویلو کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ؛ ’’ملیشیا کے سابق کابینی وزیر اور ملیشیا کے پہلا پرواسی بھارتی سمّان ایوارڈ پانے والے تُن ڈاکٹر ایس سامی ویلو کے انتقال پر انتہائی صدمہ ہوا ہے، ان کے خاندان کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اوم شانتی!‘‘ ..۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ وا۔ ق ر۔ 10274U-,মালয়েছিয়াৰ প্ৰাক্তন কেবিনেট মন্ত্ৰী টুন ডঃ এছ. ছামি ভেল্লুৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D9%BE-%D8%AC%DB%8C%D8%AA%D9%86%DB%92-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%AA-%E0%A6%9C%E0%A7%9F-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 7واں خواتین ایشیا کپ جیتنے پر بھارتی خواتین کرکٹ ٹیم کو مبارکباد پیش کی ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ٹوئیٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ہماری خواتین کرکٹ ٹیم اپنے تحمل اور مہارت کے بل بوتے پر ہمیں فخر کا احساس کراتی ہے! خواتین کا ایشیا کپ جیتنے پر ٹیم کو مبارکباد۔ انہوں نے شاندار مہارت اور ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا۔ کھلاڑیوں کو ان کی آئندہ کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔‘‘,‘মহিলাৰ এছীয়া কাপ’ জয় কৰা ‘ভাৰতীয় মহিলা ক্ৰিকেট’ দলক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D8%AC%D8%B3%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D9%86-%D8%A2%D9%81-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%82%D8%B5%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%80%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,نئی دلّی ، 13 مارچ ؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے مارکہ کے اندراج کے مقصد کے لئے سامان اور خدمات کی بین الاقوامی درجہ بندی کے لئے نائس معاہدہ کی تجویز،رجسٹریشن آف مارکس کے مقصد کے لئے سامان اور خدمات کی بین الاقوامی درجہ بندی کی تجویزکو اپنی منظوری دے دی ہے ۔ معاہدوں کی مذکورہ تجاویز کی منظوری سے ٹریڈ مارک اور ڈیزائن کی درخواستوں کے نظام کی درجہ بندی سے بھارت میں حقو ق املاک دانش کے لئے مدد فراہم ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م ۔ ر ۔ ر۔,আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় শ্ৰেণীবিভাজন পদ্ধতি সন্দৰ্ভত তিনিখনকৈ চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A3%E0%A7%80/,پروگرام میں موجود منی پور کے گورنر لا گنیشن جی ، وزیر اعلیٰ جناب این برین سنگھ جی، نائب وزیر اعلیٰ وائی جوئے کمار سنگھ جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی بھوپیندر یادو جی، راج کمار رنجن سنگھ جی، منی پور حکومت میں وزیر بسواجیت سنگھ جی، لوسی دکھو جی، لیتپاؤ ہاؤکِپ جی، اوانگ باؤ نیومائی جی، ایس راجن سنگھ جی، ونگزاگن والتے جی، ستیہ ورتیہ جی، او لکھوئی سنگھ جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی، ارکان اسمبلی، دیگر عوامی نمائندگان اور منی پور کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! کھرومجری! میں منی پور کی عظیم سرزمین کو ،یہاں کے لوگوں اور یہاں کی عالیشان ثقافت کو سر جھکاکر کے نمن کرتا ہوں۔ سال کی شروعات میں منی پور آنا، آپ سے ملنا، آپ سے اتنا پیار پانا، آشیرواد پانا، زندگی میں اس سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے۔ آج جب میں ایئر پورٹ پر اترا ، ایئر پورٹ سے یہاں تک آیا ہوں ۔ قریب 8-10 کلومیٹر کا راستہ پوری طرح منی پور کے لوگوں نے توانائی سے بھر دیا، رنگوں سے بھر دیا، ایک طرح سے پوری ہیون وال ، 8-10 کلومیٹر کی ہیومن وال، یہ مہمان نوازی، یہ آپ کا پیار، یہ آپ کے آشیرواد کبھی بھی کوئی بھول نہیں سکتا ہے ۔ آپ سبھی کو سال 2022 کی بہت بہت نیک خواہشات۔ ساتھیو، اب سے کچھ دن بعد 21 جنوری کو منی پور کو ریاست کا درجہ ملے ، 50 سال پورے ہو جائیں گے۔ ملک اس وقت اپنی آزادی کے 75 سال پر امرت مہوتسو بھی منا رہا ہے۔ یہ وقت اپنے آپ میں ایک بہت بڑی تحریک ہے۔ منی پور وہ ہے جہاں راجہ بھاگیہ چندر اور پو کھیتن تھانگ ستھلو جیسے بہادروں نے جنم لیا۔ ملک کے لوگوں میں آزادی کا جو اعتماد یہاں موئرانگ کی سرزمین نے پیدا کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ جہاں نیتا جی سبھاش کی فوج نے جہاں پہلی بار جھنڈا لہرایا تھا ، جس شمال مشرق کو نیتا جی نےبھارت کی آزادی کا داخلی دروازہ کہا تھا، ہو آج نئے بھارت کے خواب پورا کرنے کا داخلی دروازہ بن رہا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ملک کا مشرقی حصہ، شمال مشرق، بھارت کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ بنے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح منی پور اور شمال مشرق بھارت کے مستقبل میں رنگ بھر رہاہے ۔ ساتھیو، آج یہاں ایک ساتھ اتنے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور عوام کے نام وقف کیا گیا ہے۔ ترقی کی یہ الگ الگ منیاں ہیں، جن کی مالا منی پور کے لوگوں کی زندگی کو آسان بنا ئے گی، سنا لئی باک منی پور کی شان اور بڑھائے گی۔ امپھال کے انٹیگریٹڈ کمانڈ اور کنٹرول سینٹر سے شہر کی حفاظت میں بھی اضافہ ہوگا اور سہولتوں کی بھی توسیع ہو گی۔ براک ریور برج کے ذریعہ منی پور کی لائف لائن کو ایک نئی آل ویدر کنکٹی وٹی مل رہی ہے۔ تھوؤبال ملٹی پرپز پروجیکٹ کے ساتھ ساتھ، تمینگ لانگ میں پانی کی سپلائی کی اسکیم سے اس دور دراز کے ضلع کے سبھی لوگوں کے لئے صاف اور شفاف پانی کا انتظام ہورہا ہے۔ ساتھیو، یاد کیجئے، کچھ سال پہلے تک منی پور میں پائپ سے پانی کی سہولت کتنی کم تھی۔ محض 6 فیصد لوگوں کے اپنے گھر میں پائپ سے پانی آتا تھا۔ لیکن آج ’جل جیون مشن‘ کو منی پور کے سبھی لوگوں تک پہنچانے کے لیے برین سنگھ جی کی حکومت نے دن رات ایک کر دیا ہے۔ آج منی پور میں 60 فیصد گھروں تک پائپ سے پانی پہنچ رہا ہے۔ جلد ہی منی پور بھی 100 فیصد سیچوریشن کے ساتھ ’ہر گھر جل‘ کا نشانہ بھی حاصل کرنے والا ہے۔ یہی ڈبل انجن کی حکومت کا فائدہ ہے، ڈبل انجن کی حکومت کی طاقت ہے۔ ساتھیو، آج جن اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور عوام کے نام وقف کیا گیا ہے ان کے ساتھ میں آج منی پور کے لوگوں کا پھر سے شکریہ بھی ادا کروں گا۔ آپ نے منی پور میں ایسی مستحکم حکومت بنائی جو مکمل اکثریت سے پورے دم خم کے ساتھ چل رہی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟یہ آپ کے ایک ووٹ کی وجہ سے ہوا۔ آپ کے ایک ووٹ کی طاقت نے منی پور میں وہ کام کرکے دکھایا جس کا پہلے کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ یہ آپ کے ایک ووٹ کی ہی طاقت ہے، جس کی وجہ سے منی پور کے 6 لاکھ کسانوں کو پی ایم کسان سمان ندھی کے ذریعے سے سینکڑوں کروڑ روپے ملے اور مجھے ابھی ایسے چند استفادہ کنندہ کسانوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا، ان کی خود اعتمادی، ان کا جوش واقعی دیکھنے جیسا تھا۔ یہ سب آپ کے ایک ووٹ کی طاقت ہے، جس کی وجہ سے منی پور کے 6 لاکھ خاندانوں پی ایم غریب کلیان یوجنا کا ، مفت راشن کا فائدہ مل رہا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تقریباً 80 ہزار گھروں کو منظوری، یہ آپ کے ایک ووٹ کی طاقت کا ہی کمال ہے۔ یہاں کے 4 لاکھ 25 ہزار سے زیادہ لوگوں کو آیوشمان یوجنا کے تحت اسپتالوں میں مفت علاج ملنا، آپ کے ایک ووٹ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ آپ کے ایک ووٹ نے ڈیڑھ لاکھ خاندانوں کو مفت گیس کنکشن دلایا ہے، آپ کے ایک ووٹ نے ایک لاکھ 30 ہزار گھروں کو مفت بجلی کنکشن دلایا ہے۔ آپ کے ایک ووٹ نے سووچھ بھارت ابھیان کے تحت 30 ہزار سے زیادہ گھروں میں ٹوائلیٹ بنوایا ہے۔ یہ آپ کے ایک ووٹ کی ہی طاقت ہے کہ کورونا سے مقابلے کے لیے یہاں ویکسین کی 30 لاکھ سے زیادہ ڈوز مفت دی جاچکی ہیں۔ آج منی پور کے ہر ضلع میں آکسیجن پلانٹ بھی بنائے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کے ایک ووٹ نے کیا ہے۔ میں آپ سبھی منی پور کے باشندوں کو گونا گوں حصولیابیوں کے لئے دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ میں وزیر اعلیٰ برین سنگھ جی اور ان کی حکومت کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ منی پور کی ترقی کے لیے اتنی محنت کر رہے ہیں۔ ساتھیو، ایک وقت تھا جب منی پور کو پہلے کی حکومتوں نے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ جو دہلی میں تھے، وہ سوچتے تھے کہ کون اتنی تکلیف اٹھائے، کون اتنی دور آئے۔ جب اپنوں سے ایسی بے رخی رہے گی تو فاصلوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ میں جب وزیر اعظم نہیں بنا تھا، اس سے پہلے بھی کئی بار منی پور آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ آپ کے دل میں کس بات کا درد ہے اور اس لئے 2014 کے بعد، میں دہلی کو ، پوری دہلی کو ، حکومت ہند کو آپ کے دروازے تک لیکر آگیا۔ لیڈر ہوں، وزیر ہوں، افسر ہوں، میں نے سب کو کہا کہ اس علاقے میں آیئے، لمبا وقت گزاریئےاور پھر یہاں کی ضرورت کے مطابق اسکیمیں تیار کیجئے اور جذبہ یہ نہیں تھا کہ آپ کو کچھ دینا ہے، جذبہ یہ تھا کہ آپ کا خادم بن کر جتنا ہوسکے آپ کے لیے، منی پور کے لئے، شمال مشرق کے لیے، مکمل خودسپردگی سے مکمل خدمت کے جذبے سے کام کرنا ہے۔ اور آپ نے دیکھا ہے ، آج مرکزی کابینہ میں شمال مشرق کے پانچ اہم چہرے، ملک کی اہم وزارتیں سنبھال رہے ہیں۔ ساتھیو، آج ہماری حکومت کی سات ب��سوں کی محنت پورے شمال مشرق میں نظر آرہی ہے، منی پور میں نظر آرہی ہے۔ آج منی پور تبدیلی کا، کام کے ایک نئے کلچر کی علامت بنا رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں ہیں- منی پور کے کلچر کے لیے، کیئر کے لیے، اس میں کنکٹی وٹی بھی اولیت دی گئی ہے اور کریئٹی وٹی کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ روڈ اور انفرا اسٹرکچر سے جڑے پروجیکٹس، بہتر موبائل نیٹ ورک، منی پور کی کنکٹی وٹی کو بہتر کریں گے۔’سئ ٹرپل آئی ٹی‘ یہاں کے نوجوانوں میں کریئٹی وٹی اور انوویشن کے جذبے کو مزید مضبوط کرے گا۔ جدید کینسر اسپتال سنگین امراض سے بچاؤ اور علاج کے لئے منی پور کے لوگوں کی کیئر میں مدد کرے گا۔ منی پور انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کا قیام اور گووند جی مندر میں نئی جان پھوکنا منی پور کے کلچر کو تحفظ دے گا۔ ساتھیو، شمال مشرق کی اس سرزمین پر رانی گائدنلیو نے غیر ملکیوں کو بھارت کی خواتین کی طاقت دکھائی تھی، انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ رانی گائدنلیو میوزیم ہمارے نوجوانوں کو ماضی سے بھی جوڑ ے گی اور انہیں تحریک بھی دے گی۔ کچھ وقت قبل، ہماری حکومت نے انڈمان و نکوبار کے ماؤنٹ ہیریئٹ – انڈومان و نکوبار میں ایک جزیرہ ہے جو ماؤنٹ ہیریئٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آزادی کے 75 سال ہونے کے بعد بھی لوگ اسے ماؤنٹ ہیریئٹ ہی کہتے تھے لیکن ہم نے اس ماؤنٹ ہیریئٹ کا نام بدل کرکے ماؤنٹ منی پور رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اب دنیا کا کوئی بھی ٹورسٹ انڈومان نکوبار جائے گا توماؤنٹ منی پور کیا ہے، اس کی تاریخ کیا ہے، وہ جاننے کی کوشش کرے گا۔ شمال مشرق کو لیکر پہلے کی حکومتوں کی طے شدہ پالیسی تھی اور وہ پالیسی کیا تھی، پالیسی یہی تھی- ’’ڈونٹ لُک ایسٹ‘‘۔ شمال مشرقی کی طرف دہلی میں اسی وقت دیکھا جاتا تھا جب یہاں الیکشن ہوتے تھے۔ لیکن ہم نے شمال مشرق کے لیے ’ایکٹ ایسٹ‘ کا عزم کیا ہے۔ ایشور نے اس خطے کو اتنے قدرتی وسائل دیئے ہیں، اتنی صلاحیت دی ہے۔ یہاں ترقی کے ، ٹورزم کے اتنے امکانات ہیں۔ شمال مشرق کے انہیں امکانات پر اب کام ہو رہا ہے۔ شمال مشرق اب بھارت کی ترقی کا گیٹ وے بن رہا ہے۔ اب شمال مشرق میں ایئر پورٹ بھی بن رہے ہیں، ریل بھی پہنچ رہی ہے۔زیری بام -توپل-امپھال ریل لائن کے ذریعے منی پور بھی اب ملک کے ریل نیٹ ورک سے جڑنے جا رہا ہے۔ امپھال – مورے ہائی وے یعنی ایشین ہائی وے ون کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔ یہ ہائی وے ساؤتھ ایسٹ ایشیا سے بھارت کی کنکٹی وتی کو مضبوط کرے گا۔ پہلے جب ایکسپورٹ کی بات ہوتی تھی تو ملک کے گنے چنے شہروں کا ہی نام سامنے آتا تھا۔ لیکن اب، انٹیگریٹڈ کارگو ٹرمینل کے ذریعے، منی پور بھی تجارت اور ایکسپورٹ کا ایک بڑا مرکز بنے گا،آتم نربھر بھارت کو رفتار دے گا اور کل اہل وطن نے خبر سنی ہے ، آزادی کے بعد پہلی بار کل ملک نے 300 بلین ڈالر کا ایکسپورٹ کرکے ایک نیا وکرم قائم کردیا۔ چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی اس میں آگے آرہی ہیں۔ ساتھیو، پہلے لوگ شمال مشرق آنا چاہتے تھے، لیکن یہاں پہنچیں گے کیسے یہ سوچن کر رک جاتے تھے۔ اس سے یہاں کی سیاحت، ٹورزم سیکٹر کو بہت نقصان ہوتا تھا۔ لیکن اب شمال مشرق کے شہر ہی نہیں بلکہ گاؤوں تک بھی پہنچنا آسان ہو رہا ہے۔ آج یہاں بڑی تعداد میں نیشنل ہائی ویز کا کام بھی آگے بڑھ رہا ہے اور گاؤں میں بھی پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت سینکڑوں کلومیٹر کی نئی سڑکیں بن رہی ہیں۔نیچرل گیس پائپ لائن جیسی جن سہولتوں کو کچھ علاقوں کا امتیازی حق مان لیا گیا تھا، وہ بھی اب شمال مشرق تک پہنچ رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی یہ سہولتیں، بڑھتی ہوئی یہ کنکٹی وٹی، یہاں پرٹورزم کو فروغ دیں گی، یہاں کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گی۔ ساتھیو، منی پور ملک کے لئے ایک سے ایک نایاب رتن دینے والی ریاست رہی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے اور خصوصی طور پر منی پور کی بیٹیوں نے پوری دنیا میں بھارت کا جھنڈا اٹھایا ہے فخر سے ملک کا سر اونچا کیا ہے۔ خصوصی طور پر آج ملک کے نوجوان منی پور کے کھلاڑیوں سے تحریک لے رہے ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز سے لے کر اولمپکس تک، ریسلنگ، آرچری اور باکسنگ سے لے کر ویٹ لفٹنگ تک، منی پور نے ایم سی میری کوم، میرا بائی چانو، بومبیلا دیوی، لائےشرم سریتا دیوی کیسے کیسے بڑے نام ہیں، کیسے بڑے بڑے چمپئنس دیے ہیں، آپ کے پاس ایسے کتنے ہی ہونہار ہیں جنہیں اگر صحیح گائیڈینس اور ضروری وسائل ملیں تو کمال کر سکتے ہیں۔ یہاں ہمارے جوانوں میں، ہماری بیٹیوں میں ایسی صلاحیت بھری ہوئی ہے ۔ اسی لیے ہم نے منی پور میں جدید اسپورٹس یونیورسٹی قائم کی ہے۔ یہ یونیورسٹی ان نوجوانوں کو نہ صرف ان کے خوابوں سے جوڑنے کا کام کرے گی بلکہ کھیلوں کی دنیا میں بھارت کو بھی ایک نئی پہچان دے گی۔ یہ ملک کی نئی اسپرٹ ہے، نیا جوش ہے، جس کی قیادت اب ہمارے نوجوان، ہماری بیٹیاں کریں گی۔ ساتھیو، مرکزی حکومت نے جو آئل پام پر قومی مشن شروع کیا ہے، اس کا بھی بڑا فائدہ شمال مشرق کو ہو گا۔ آج بھارت اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیرونی ممالک سے بڑی مقدار میں پام آئل درآمد کرتا ہے۔ اس پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ یہ پیسے بھارت کے کسانوں کو ملیں، بھارت خوردنی تیل کے معاملے میں خود کفیل بنے، اس سمت میں ہماری کوششیں جاری ہیں۔ 11 ہزار کروڑ روپے کے اس آئل پام مشن سے کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں بہت مدد ملے گی۔ اور یہ زیادہ تر شمال مشرق میں ہونے والا ہے۔ یہاں منی پور میں بھی اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ آئل پام لگانے کے لیے، نئی ملیں لگانے کے لئے حکومت مالی مدد بھی فراہم کر رہی ہے۔ ساتھیو، آج منی پور کی حصولیابیوں پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ ابھی ہمیں آگے ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ ہم نے یہ سفر کہاں سے شروع کیا تھا۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ کیسے منی پور کو گزشتہ حکومتوں نے بلاکیڈ اسٹیٹ بناکر رکھ دیا تھا، حکومتوں کے ذریعہ ہل اور ویلی کے درمیان سیاسی فائدے کے لئے کھائی کھودنے کا کام کیا گیا۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھانے کے لئے کیسی کیسی سازشیں کی جاتی تھیں۔ ساتھیو، آج ڈبل انجن کی حکومت کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے اس علاقے میں انتہا پسندی اور عدم تحفظ کی آگ نہیں ہے بلکہ امن اور ترقی کی روشنی ہے۔ پورے شمال مشرق میں سینکڑوں نوجوان ہتھیار چھوڑ کر ترقی کے قومی دھارے میں شامل ہو ئے ہیں۔ جن سمجھوتوں کا دہائیوں سے انتظار تھا، ہماری حکومت نے وہ تاریخی سمجھوتے بھی کرکے دکھائے ہیں۔ منی پور بلاکیڈ اسٹیٹ سے انٹرنیشنل ٹریڈ کے لیے راستے دینے والا اسٹیٹ بن گیا ہے۔ ہماری حکومت نے ہل اور ویلی کے درمیان کھودی گئی کھائیوں کو پاٹنے کے لئے ’’گو ٹو ہلز‘‘ اور ’’گو ٹو ولیج‘‘ ایسی مہمات چلائی ہیں۔ ان کوششوں کے درمیان، آپ کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ چند لوگ اقتدار حاصل کرنے کے لیے منی پور کو پھر غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اور کب وہ بدامنی کا کھیل کھیلیں۔ مجھے خوشی ہے کہ منی پور کے لوگ انہیں پہچان چکے ہیں۔ اب منی پور کے لوگ یہاں ترقی کو رکنے نہیں دیں گے، منی پور کو پھر سے اندھیرے میں نہیں جانے دیناہے۔ ساتھیو، آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کے منتر پر چل رہا ہے۔ آج ملک سب کا پرکاس کے جذبے سے ایک ساتھ کام کررہا ہے، سب کے لئے کام کررہا ہے، سب دور کام کررہا ہے۔ 21ویں صدی کی یہ دہائی منی پور کے لیے بہت اہم ہے۔ پہلے کی حکومتوں نے بہت وقت گنوا دیا۔ اب ہمیں ایک پل بھی نہیں گنوانا ہے۔ ہمیں منی پور میں استحکام بھی رکھنا ہے اور منی پور کو ترقی کی نئی اونچائی پر بھی پہنچانا ہے۔ اور یہ کام ڈبل انجن کی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے، منی پور اسی طرح ڈبل انجن کی حکومت پر اپنا آشیرواد بنائے رکھے گا۔ ایک بار پھر، آج کے گونا گوں پروجیکٹوں کے لئے منی پور کے باشندوں کو ، منی پور کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو کو، بہت بہت نیک خواہشات۔ تھاگتچری!!! بھارت ماتا کی۔ جے!! بھارت ماتا کی۔ جے!! بھارت ماتا کی۔ جے!! بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,মণিপুৰত বিভিন্ন উন্নয়ণী প্ৰকল্পৰ উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%88%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%8C-%D8%AA%D8%A7%D9%BE%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE-10/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گجرات کے ویارا، تاپی میں 1970 کروڑ روپے سے زیادہ کی کئی ترقیاتی پہلوں کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ پروجیکٹوں میں ساپوتارا سے اسٹیچو آف یونٹی تک سڑک کی بہتری کے ساتھ ساتھ گمشدہ لنک کی تعمیر اور تاپی و نرمدا اضلاع میں 300 کروڑ روپے سے زیادہ کے آبی سپلائی پروجیکٹ شامل ہیں۔ اس موقع پر موجود لوگوں کے جوش اور پیار کو تسلیم کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ دو دہائیوں تک اُن سے جوپیار اور محبت ملی، اس کے لئے وہ خود کو خوش قسمت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’آپ لوگ دور دور سے یہاں آئے ہیں، آپ کی توانائی ، آپ کے حوصلے کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے اور میری توانائی کی سطح بڑھ جاتی ہے۔‘‘اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں پورے دل سے آپ کے اس قرض کو چکانے کے لئے کام کررہا ہوں۔آج بھی تاپی اور نرمدا سمیت اس پورے قبائلی علاقے کی ترقی سے جڑے کروڑوں روپے کے ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک نے قبائلی مفادات اور قبائلی فرقے کی فلاح و بہبود کو لے کر دو طرح کی سیاست دیکھی ہے۔ ایک طرف ایسی پارٹیاں ہیں، جو قبائلی مفادات کی پروا نہیں کرتی اور قبائلی برادری سے جھوٹے وعدے کرنے کی تاریخ رکھتی ہیں۔وہیں دوسری طرف بی جے پی جیسی پارٹی ہے، جس نے ہمیشہ قبائل کی فلاح و بہبود کو اعلیٰ اولیت دی ہے۔انہوں نے آگے کہا’’ پہلے کی سرکاروں نے جہاں قبائلی روایتوں کا مذاق اڑایا، وہیں دوسری طرف ہم قبائلی روایتوں کا احترام کرتے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا ’’قبائلی فرقوں کی فلاح و بہبود ہماری اعلیٰ اولیت ہے اور ہم نے جہاں بھی سرکار بنائی ہے، ہم نے قبائل کی فلاح و بہبود کو اعلیٰ اولیت دی ہے۔‘‘ قبائلی فرقوں کی فلاح و بہبود پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید کہا ’’میرے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے پاس بجلی�� گیس کنکشن، بیت الخلاء، گھرکی طرف جانے والی سڑک، پاس میں ایک میڈیکل سینٹر، آمدنی کے ذرائع، بچول کے لئے اسکول کے ساتھ اپنا پکّا گھر ہونا چاہئے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گجرات نے غیر معمولی ترقی دیکھی ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ آج گجرات کے ہر گاؤں میں 24گھنٹے بجلی ہے ، لیکن پہلا مقام جہاں ہر گاؤں بجلی کی سہولت سے جڑا ہے، وہ ہے ڈانگ کا قبائلی ضلع ہے۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل جیوتی گرام یوجنا کے تحت ڈانگ ضلع کے 300 سے زیادہ گاؤں میں صد فیصد بجلی کاری کا ہدف حاصل کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ڈانگ ضلع سے جو تحریک ملی اس کے سہارے جب آپ نے مجھے وزیر اعظم کی حیثیت سے دہلی بھیجا، تو میں نے ملک کے تمام گاؤں تک بجلی پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔ وزیر اعظم نے قبائلی علاقوں میں زراعت کو نئی زندگی دینے کے لئے شروع کی گئی واڈی یوجنا پر روشنی ڈالی۔ جناب مودی نے پہلے کی صورتحال کو یاد کیا ، جب قبائلی علاقوں میں باجرا-مکا اُگانا اور خریدنا مشکل تھا۔ وزیر اعظم نے کہا’’آج قبائلی علاقوں میں آم، امرود لیموں جیسے پھلوں کے ساتھ کاجو کی کھیتی کی جاتی ہے۔‘‘انہوں نے اس مثبت تبدیلی کا کریڈٹ واڈی یوجنا کو دیا اور بتایا کہ اس یوجنا کے توسط سے قبائلی کسانوں کو بنجر زمین پر حل ، ساگوان اور بانس کی کھیتی میں مدد مہیا کی گئی۔انہوں نے کہا ’’آج یہ پروگرام گجرات کے متعدد اضلاع میں چل رہا ہے۔‘‘وزیر اعظم نے یاد کیا کہ صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبدالکلام ولساڈ ضلع میں اسے دیکھنے آئے تھےاور انہوں نے اس پروجیکٹ کی ستائش بھی کی تھی۔ جناب مودی نے گجرات میں پانی کی تبدیل شدہ صورتحال پر بھی گفتگو کی۔ گجرات میں بجلی کے گرِڈ کی طرز پر واٹر گرِڈ بچھائی گئی۔تاپی سمیت پورے گجرات میں ایک نہر اور لفٹ آبپاشی نیٹ ورک کی تعمیر کی گئی تھی۔ڈابا کانٹھا نہر سے پانی اُٹھایا گیاتو تاپی ضلع میں پانی کی سہولت بڑھ گئی۔انہوں نے بتایا کہ سینکڑوں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے اُکائی اسکیم پر تعمیری کام جاری ہے اور آج جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، اُن سے پانی کی سہولت میں مزید بہتری آئے گی۔وزیر اعظم نے کہا’’ایک وقت تھا ، جب گجرات میں صرف ایک چوتھائی گھروں میں ہی پانی کا کنکشن تھا۔ آج گجرات میں 100 فیصد گھروں میں پینے کے پانی کی سپلائی پائپ سے ہورہی ہے۔‘‘ وَن بندھو کلیان یوجنا پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ اسے گجرات میں قبائل سماج کی ہر بنیادی ضرورت اور خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے لایا گیا اور نافذ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا’’آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تاپی اور آس پاس کے قبائلی اضلاع کی بیٹیاں یہاں اسکول اور کالج جارہی ہیں۔اب قبائلی سماج کے بیٹے –بیٹیاں سائنس کی تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر اور انجینئربن رہے ہیں۔‘‘وزیر اعظم نے یاد کیا کہ جب 25-20 سال پہلے اِن نوجوانوں کی پیدائش ہوئی تھی تو عمر گام سے لے کر امبا جی تک پورے قبائلی علاقے میں بہت کم اسکول تھے اور سائنس کی تعلیم کے لئے مشکل سے ہی مناسب سہولتیں تھیں۔ وزیر اعطم نے بتایا کہ گجرات میں مشن اسکول آف ایکسی لینس کے تحت ، جس کا کل افتتاح ہوا ہے، قبائلی تعلقوں میں تقریباً 4000اسکولوں کی جدید کاری کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے باور کیا کہ پچھلے دو دہائیوں میں قبائلی علاقوں میں 10ہزار سے زیادہ اسکولوں کی تعمیر ہوئی ہے۔ ایکلویہ ماڈل اسکول اور لڑکیوں کے لئے خصوصی رہائشی اسکولوں کی تعمیر ہوئی ہے۔ نرمدا کے برسامُنڈا قبائلی یونی��رسٹی اور گودھرا کی سری گووند گرو وِشو ودیالیہ قبائلی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کررہی ہے۔قبائلی بچوں کےلئے اسکالر شپ کا بجٹ اب دو گنا سے زیادہ کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی ’’ایکلویہ اسکولوں کی تعدا د میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔‘‘انہوں نے کہا ’’ہمارے قبائلی بچوں کے لئے ہم نے تعلیم کے خصوصی انتظامات کئے ہیں اور غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے مالی مدد بھی دی۔ ‘‘وزیر اعظم نے کھیلو انڈیا جیسی مہم کے ذریعے اور قبائلی بچوں کو نئے مواقع مہیا کرکے کھیلوں میں شفافیت لانے کی کوشش کی، تاکہ قبائلی بچے آگے بڑھے اور اپنی صلاحیت کو سامنے لائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات سرکار نے وَن بندھو کلیان یوجنا پر ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کئے ہیں۔ اب اس اسکیم کے دوسرے مرحلے میں گجرات سرکار پھر سے ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ خرچ کرنے جارہی ہے، اس سے قبائلی بچوں کے لئے کئی نئے اسکول ، کئی ہاسٹل، نئے میڈیکل کالج اور نرسنگ کالج تعمیر کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا ’’اس اسکیم کے تحت سرکار قبائل برادری کے لئے 2.5لاکھ سے زیادہ گھر بنانے کی تیاری کررہی ہے۔پچھلے کچھ سالوں میں 6لاکھ سے زیادہ گھر اور زمین کے پٹے قبائلی علاقوں میں تقریباً ایک لاکھ سےزیادہ قبائل خاندانوں کو دیئے گئے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا’’ہمارا عہد قبائلی سماج کو عدم تغذیہ کے مسائل سے پوری طرح آزاد کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مرکزی سرکار نے ایک وسیع ’پوشن ابھیان‘ شروع کیا ہے، جس کے توسط سے حمل کے دوران ماوؤں کو تغذیاتی غذالینے میں مدد کرنے کے لئے ہزاروں روپے دیئے جارہے ہیں۔ ماوؤں اور بچوں کی وقت پر ٹیکہ کاری کو یقینی بنانے کے لئے مشن اِندر دھنش کے تحت ایک بڑی مہم چل رہی ہے۔ اب ڈھائی سے زیادہ کا وقت ہوگیا ہے، جب پورے ملک میں غریبوں کو مفت راشن دیا جارہا ہے۔ اس پر مرکزی سرکار 3لاکھ کروڑ سے زیادہ خرچ کررہی ہے۔ اب تک دھوئیں سے ہونے والی بیماریوں سے دور رہنے کے لئے ہماری ماں بہنوں کو ملک میں تقریباً 10کروڑ مفت گیس کنکشن دیئے جاچکے ہیں۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت فی سال لاکھوں قبائل خاندان 5لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل کرچکے ہیں۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں قبائلی فرقے کی بھولی بسری وراثت کو بحال کرنے میں سرکار کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ قبائلی فرقے کی انتہائی مالا مال وراثت ہے۔ انہوں نے کہا ’’اب پہلی بار پورا ملک 15نومبر کو بھگوان برسا مُنڈا کا یوم پیدائش قبائلی یوم افتخار کے طورپر منا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے آگے کہا کہ قبائلی مجاہدین آزادی کے تعاون کو ملک بھر کے میوزیم کے توسط سے محفوظ اور نمائش کی جارہی ہے۔اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے، جب قبائلی امور کی وزارت موجود نہیں تھی، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ اٹل جی کی سرکار تھی جس نے پہلی بار قبائلی وزارت کی تشکیل کی۔ انہوں نےآگے کہا کہ گرام سڑک یوجنا اٹل جی کی سرکار کے دوران شروع کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کو بہت فائدے حاصل ہوئے۔انہوں نے یہ بھی کہا ’’ہماری سرکار نے قبائل کے ساتھ ہورہی ناانصافی کو ختم کرنے کا کام کیا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ جو پچھلے 8برسوں میں قبائلی فلاح و بہبود سے متعلق بجٹ میں بھی تین گنا سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا ہے، جس سے ہمارے قبائلی نوجوانوں کے لئے روزگار اور خود اپنا روزگار شروع کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ’’تر��ی کی اس ساجھے داری کو مسلسل مضبوط کیا جانا چاہئے۔‘‘ انہوں نے تمام لوگوں سے قبائلی نوجوانوں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے ڈبل انجن سرکار کی کوششوں میں شامل ہونے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی’’سب کا پریاس کے ساتھ ہمیں ایک ترقی یافتہ گجرات اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کریں گے۔‘‘ اس موقع پر گجرا ت کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپندر پٹیل ، مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، ممبر ان پارلیمنٹ جناب سی آر پاٹل، جناب کے سی پاٹل، جناب منسکھ واسوا اور جناب پربھو بھائی واسوا اور گجرات سرکار کے وزراء جناب روشی کیش پٹیل، جناب نریش بھائی پٹیل، جناب مکیش بھائی پٹیل، جناب جگدیش پنچال اور جناب جیتو بھائی چودھری دیگر شرکاء بھی موجود تھے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুজৰাটৰ তাপীৰ ভায়াৰাত ১৯৭০ কোটি টকাৰো অধিক মূল্যৰ একাধিক উন্নয়নমূলক পদক্ষেপৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%D8%B7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%B1-%D8%8C%DB%81%D9%86%D8%AF%DB%94%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A6%BF-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%97%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%A3-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا کہ ہم مشترکہ طور پر ،ہند۔بنگلہ دیش دوستی کے قیام کے اپنے 50 سال مکمل ہونے کو یاد کررہے ہیں اور جشن منارہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا: آج ہندوستان اور بنگلہ دیش میتری دوس کا جشن منارہے ہیں ۔ ہم مشترکہ طور پر ،ہند۔بنگلہ دیش دوستی کے قیام کے اپنے 50 سال مکمل ہونے کو یاد کررہے ہیں اورجشن منارہے ہیں۔میں عزت مآب شیخ حسینہ کے ساتھ کام کرنے کے سلسلے کو جاری رکھنے اور ہمارے رابطوں کو مزید توسیع دینے اور گہرا کرنے کی امید کرتا ہوں۔,আমি একেলগে মিলি স্মৰণ আৰু উদযাপন কৰিম আমাৰ ভাৰত-বাংলাদেশৰ ৫০ বছৰীয়া বন্ধুত্বৰ বুনিয়াদ :প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1-%DA%AF%D8%B1%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%92-%DB%81%D9%88%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%96%E0%A6%B9%E0%A6%BF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B9%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گجرات کے موربی میں دیوار گرنے سے ہونے والی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے موربی، گجرات میں دیوار گرنے والے حادثہ کے متاثرین کے لیے وزیر اعظم کے نیشنل ریلیف فنڈ (پی ایم این آر ایف) سے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئٹ کیا؛ ’’موربی میں دیوار گرنے سے ہونے والا حادثہ دردناک ہے۔ غم کی اس گھڑی میں، ہم سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔ مقامی حکام متاثرین کو تمام ممکنہ امداد فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ ’’موربی کے حادثہ کی وجہ سے جن لوگوں کی جانیں گئی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے اہل خانہ کو پی ایم این آر ایف سے 2 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ زخمیوں کو 50 ہزار روپے دیے جائیں گے: پی ایم‘‘,মোৰবীত দেৱাল খহি প্ৰাণহানিৰ ঘটনাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DA%BE%D9%B9%D9%88-%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%81-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے راجستھان کے سیکر میں کھٹو شیام جی مندر کے احاطے میں بھگدڑ کی وجہ سے جانی نقصان پر گہرے صدمے افسوس کااظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘راجستھان کے سیکر میں کھٹو شیام جی مندر کے احاطے میں بھگدڑ کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان سے تکلیف پہنچی ہے۔ میری تمام ہمدردیاں سوگوار کنبوں کے ساتھ ہیں۔ میں زخمی افراد کی جلد صحت یابی کے لئےدعا گو ہوں۔’’,ছিকাৰ ৰাজস্থানৰ খাতু শ্যামজী মন্দিৰ কমপ্লেক্সত হেঁচাঠেলাৰ ফলত প্ৰাণহানি হোৱা ঘটনাত শোক প্ৰকাশ কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D8%A8%DB%8C%DA%88-%DA%A9%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80/,نئیدہلی،07۔دسمبر ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلی میں ڈاکٹر امبیڈ کر انٹرنیشنل سینٹر ملک وقوم کے نام وقف کیا۔ انہوں نے اپریل 2015 میں اس ادارے کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے اپنے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ سینٹر ڈاکٹر امبیڈ کرکی تعلیمات اورتصورات اور توسیع کے لئے اہم خدمات انجام دے گا۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ڈاکٹر امبیڈ کر انٹر نیشنل سینٹر فار سوشیو اکنامک ٹرانسفارمیشن کے منصوبے کے اہم جزو کی حیثیت سے اس میں شامل ہے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ادارہ سماجی اور معاشی امور کےشعبے میں تحقیقی خدمات انجام دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سینٹر سماجی ، معاشی امور اور مجموعی نمو سے متعلق امور کے لئے ادار ہ مخزن فکر یعنی تھنک ٹینک کے طور پر بھی کام کرے گا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نظریاتی اور تصوراتی قائدین نے وقتاََ فوقتاََ ہمارے ملک کی سمتوں کی چہرہ کار ی کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک آنجہانی باباصاحب کا قرضدار ہے کہ انہوں نے تعمیر ملک وقوم کے لئے بیش بہا خدمات انجام دی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اور بالخصوص نوجوان آنجہانی باباصاحب کے تصورات اور نظریات کا علم حاصل کریں ۔یہی وجہ ہے کہ باباصاحب کی زندگی سے جڑے اہم مقامات کو تیرتھ کیندروں کے طور پرفروغ دیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں دلی کے علی پور ، مدھیہ پردیش میں مئو ، ممبئی اندو مل، ناگپور میں دیکشا بھومی اورلندن میں واقع ان کے گھر کو انہی کیندروں کے طور پر فروغ دیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہی پنچ تیرتھ آج کے دورمیں نئی نسل کے نوجوانو ں کے لئےا ٓنجہانی باصاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مرکزی سرکار کے ذریعہ ڈجیٹل سودوں کے لئے تیار کئے جانے والا بھیم ایپ ڈاکٹر امبیڈکر کے معاشی تصورات کو خراج عقیدت پیش کرنے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دسمبر 1946 میں آئین ساز اسمبلی سے باباصاحب ڈاکٹر امبیڈ کر کے خطاب سے اقتباسات پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ڈاکٹر امبیڈ کر زبردست جدوجہد کے باوجود ملک وقوم کے مسائل کے حل کے حوصلہ افزا تصورا ت پیش کرتے تھے ۔ ہم اب تک ڈاکٹر امبیڈکر کے تصورات کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے ہیں۔ جبکہ ہماری نئی نسل سماجی برائیوں کو ختم کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہے ۔ جناب مودی نے ڈاکٹر امبیڈ کر کے الفاظ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ باباصاحب نے کہا کہ ہماری سیاسی جمہوریت ایک سماجی جمہوریت بھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تقریباََ ساڑھے تین برسوں کے دوران باباصاحب کی سماجی جمہوریت کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف اقدامات کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن دھن یوجنا ،اجولا یوجنا ،سوچھ بھارت مشن ، انشورنس اسکیم ،پردھان منتری آواس یوجنا اور حال ہی میں شروع کی گئ سوبھاگیہ یوجنا اسی سلسلے کے اہم اقدامات میں شامل ہیں اور مرکزی سرکار تمام اسکیموں اور پروگراموں کو ان کی مدت مقررہ میں مکمل کرنے کی جی توڑ کوشش کررہی ہے اور ڈاکٹر امبیڈ کرانٹر نیشنل سینٹر اس کی ایک روشن مثال ہے ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے سوائل ہیلتھ کارڈکی تقسیم مشن اندر دھنش اور دیہی علاقوںکی برق کاری کے نشانوں کے حصول کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا بھی تذکرہ کیا،جس سے مرکزی سرکار کے ذریعہ کئے جانے والے عوامی فلاح کے کاموں کے تئیں نیک نیتی کا پتہ چلتا ہے ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے خود روز گاری کے لئے اسٹینڈ اپ انڈیا جیسی اسکیموں کا بھی تذکرہ کیا ۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے جس ’’ نئے ہندوستان‘‘ کا نعرہ دیا تھا وہ ڈاکٹر امبیڈ کر تصورات کا ہندوستان ہے ، جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہیں، جو ذات پات کے مظالم سے آزاد ہے اور جہاں ٹکنالوجی کی طاقت سے ترقی کو آگے بڑھا یا جاتا ہے ۔ انہوں نے سبھی لوگوں سے اپیل کی آنجہانی باباصاحب امبیڈ کر کے تصورات کی تکمیل کے لئے کام کیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ یہ کام 2022 تک مکمل ہوجائے گا۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش۔رم,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দেশবাসীৰ নামত অৰ্পণ কৰিলে ড০ আম্বেদকাৰ আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় কেন্দ্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%88%D8%B2%D9%88%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%DB%92-40%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%85%DA%A9%D9%85%D9%84-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%A4/,گجرات کے مقبول وزیراعلیٰ جناب بھوپیندربھائی پٹیل ، ہریانہ کے وزیراعلیٰ جناب منوہرلال جی ، نائب وزیراعلیٰ بھائی شری کرشن چوٹالہ جی ، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی محترم سی آرپاٹل ، سوزوکی موٹرکارپوریشن کے اعلیٰ عہدیداران ، ہندوستان میں جاپان کے سفیر، ماروتی –سوزوکی اعلیٰ عہدیداران ، دیگر اہم شخصیات ، خواتین وحضرات ! سب سے پہلے میں سوزوکی اور سوزوکی خاندان سے جڑے تمام لوگوں کو دلی مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ ہندوستان اورہندوستان کے لوگوں کے ساتھ سوزوکی کا خاندانی رشتہ اب 40سال کا ہوگیاہے ۔ آج ایک طرف گجرات میں الیکٹرک وھیکل بیٹری کی پیداوار کے لئے اولولعزم پلانٹ کاافتتاح ہورہاہے تودوسرے طرف نئی کار مینوفیکچرنگ سہولتوں کی شروعات بھی ہورہی ہے ۔ میں مانتاہوں یہ توسیع سوزوکی کے لئے مستقبل کے وسیع امکانات کی بنیاد پر بنے گی ۔ میں اس کے لئے سوزوکی موٹرس کو ، اس وسیع خاندان کے تمام ممبران کودلی مبارکباد بھی پیش کرتاہوں ۔ آپ جب بھی مجھ سے ملتے ہیں ہندوستان میں سوزوکی کا نیا وژن پیش کرتے ہیں ۔ ابھی اسی سال مئی میں میری ملاقات ہوئی تھی ، اوساموسوزوکی جی سے ��وئی تھی اورانھوں نے مجھ سے 40سال کے پروگرام میں آنے پراصرار کیاتھا۔میرے لئے اس طرح کی مستقبل اساس پہلوں کا گواہ بننا ایک خوش کن احساس ہے ۔ ساتھیو، ماروتی –سوزوکی کی کامیابی ہند-جاپان کی مضبوط شراکت داری کی بھی علامت ہے ۔ پچھلے 8سالوں میں تو ہم دونوں ممالک کے در میان یہ رشتے نئی بلندیوں تک لے گئے ۔ آج گجرات –مہاراشٹرمیں بلیٹ ٹرین سے لے کر اترپردیش میں بنارس کے ردراکش سنٹرتک ، ترقی کے کتنے ہی منصوبے ہند –جاپان دوستی کی مثال ہیں اوراس دوستی کی جب بات ہوتی ہے تو ہرایک ہندوستانی کو ہمارے دوست سابق وزیراعظم آنجہانی شنزوآبے جی کی یاد ضرورآتی ہے ۔ شنزوآبے جب گجرات آئے تھے ، انھوں نے جو وقت وہاں گذاراتھا اسے گجرات کے لوگ روح کی گہرائی سے یاد کرتے ہیں ۔ ہمارے ملکوں کو مزید قریب لانے کے لئے جو کوششیں انھوں نے کی تھیں ، آج وزیراعظم کیشیدہ اسے آگے بڑھا رہے ہیں ۔ابھی ہم نے وزیراعظم کیشیدہ کا ویڈیوپیغام بھی سنا ۔ میں اس کے لئے وزیراعظم کیشیدہ اور جاپان کے تمام شہریوں کا بھی ہندوستان کی طرف سے استقبال کرتاہوں ۔ ساتھیو، میں اس موقع پرگجرات اورہریانہ کے لوگوں کو بھی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتاہوں جو ملک کی صنعتی ترقی اور ‘میک ان انڈیا’کو مسلسل رفتاردے رہے ہیں ۔ ان دونوں ہی ریاستوں کی سرکاروں کی جو ترقیاتی ، صنعتوں کو فروغ دینے کی پالیسیاں ہیں ،‘ایزآف ڈوئنگ بزنس’(کاروبارمیں آسانی )کی سمت میں جو کوششیں ہیں ان کا فائدہ کروڑوں ریاست کے شہریوں کو اورخاص طورپر نوجوانوں کو مل رہاہے ۔ ساتھیو، اس خاص پروگرام میں آج مجھے بہت کچھ پرانایاد آرہاہے ، فطری ہے مجھے یاد ہے 13سال قبل جب سوزوکی کمپنی اپنی مینوفیکچرنگ یونٹ کی تعمیر کے لئے گجرات آئی تھی ، تب میں نے کہاتھا کہ جیسے جیسے ہمارے ماروتی کے دوست گجرات کا پانی پیئں گے انھیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ ترقی کا حقیقی ماڈل کہاں ہے ؟آج مجھے خوشی ہے کہ گجرات نے سوزوکی سے کیاہوا اپنا وعدہ بخوبی نبھایاہے اور سوزوکی نے گجرات کی بات بھی اسی اعزاز کے ساتھ رکھی ہے ۔ آج گجرا ت ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں ٹاپ آٹو-موٹیو مینوفیکچرنگ ہب بن کر ابھراہے ۔ ساتھیو، آج کایہ موقع ایساہے کہ جس میں میں گجرات اور جاپان کے قریبی رشتوں پر جس قدر گفتگوکروں اتنا ہی کم ہوگا۔ گجرات اورجاپان کے بیچ جو رشتہ رہا ہے وہ سفارتی دائروں سے بھی بہت بلند رہاہے ۔ مجھے یاد ہے جب 2009میں وائیبرینٹ گجرات سمٹ کاانعقاد شروع ہو ا، تبھی سے اس کے ساتھ ایک شراکت دار ملک کے طورپر جاپان ہمیں جڑارہا ہے اوریہ بہت بڑی بات ہے ۔ایک ریاست اوردوسری طرف ایک ترقی یافتہ ملک ، یہ دونوں کا ساتھ چلنا ، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے ۔ آج بھی وائیبرینٹ گجرات سمٹ میں جاپان کی شراکت داری سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اپنے وزارت اعلیٰ کے دنوں میں میں اکثر ایک بات کہتاتھا –آئی وانٹ ٹو کریٹ اے منی جاپان ان گجرات ۔اس کے پس پشت یہی جذبہ تھا کہ جاپان کے ہمارے مہمانان کو گجرات میں بھی جاپان کے جیسا محسوس ہو ۔ ان میں اسی طرح کا احساس پیداہو۔ ہم نے کوشش کی کہ جاپان کے لوگو ں کو ، جاپان کی کمپنیوں کو یہاں کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پرہم دھیان دیتے تھے ۔ بہتوں کو شاید یہ سن کر حیرت بھی ہوگی ، اب ہم سب کو پتہ ہے جاپان کے لوگ ہوں اور گولف کھیلنا نہ ہو تو بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔گولف کے بغیرآپ جا��انیوں کا تصورہی نہٰیں کرسکتے ۔ اب ہمارا گجرات ، وہاں گولف کی دنیا سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا ، تومجھے اگر جاپان کو یہاں لانا ہے توگولف کورس بھی شروع کرنے چاہیئے ۔ اورمجھے خوشی ہے کہ آج گجرات میں متعدد گولف کے میدان ہیں ، جہاں ہمارے جاپان کے لوگ جو یہاں کام کرتے ہیں ان کو ہفتے کا آخرگذارنے کے لئے موقع مل جاتاہے ۔ کئی ریسٹورینٹ بھی ایسے ہیں جن کی خصوصیت جاپانی کوزین ہے ، جاپانی فوڈ ہے ۔میں نے اس کی بھی فکر کی ۔ جاپان سے آئے ساتھیو کو دقت نہ ہواس کے لئے بہت سے گجراتیوں نے جاپانی زبان بھی سیکھی ہے اوران دنوں بھی جاپانی زبان کے کلاسیز چل رہے ہیں ۔ ساتھیو ، ہماری کوششوں میں ہمیشہ سے سنجیدگی بھی رہی ہے اورجاپان کے لئے پیاربھی رہاہے ۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ سوزوکی سمیت جاپان کی سواسوسے زیادہ کمپنیاں گجرات میں کام کررہی ہیں ۔ آٹوموبائیل سے لے کر بائیو –فیول تک کے سیکٹرمیں یہاں جاپانی کمپنیاں اپنی توسیع کررہی ہیں ۔ جی ای ٹی آراو کے ذریعہ قائم احمدآباد بزنس سپورٹ سنٹرمیں ایک ساتھ کئی کمپنیوں کو پلگ اینڈ پلےورک –اسپیس فیسلٹی دینے کی سہولت ہے ۔ آج گجرات میں دوعدد جاپان –انڈیا انسٹی ٹیوٹ فار مینوفیکچرنگ ہرسال سیکڑوں نوجوانوں کو تربیت فراہم کررہے ہیں ۔ کئی کمپنیوں کا گجرات کی ٹیکنیکل یونیورسٹیز اور آئی ٹی آئی سے بھی ٹائی –اپ ہے۔احمدآباد میں زین گارڈن اور کیزین اکیڈمی کے قیام میں بھی جس طرح ہائیو گو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کا قیمتی تعاون رہاا سے گجرات کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔اب ایسا ہی ایکو-فرینڈلی گارڈن اسٹیچوآف یونٹی کے نزدیک تیارکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیزن کو لے کر 19-18سال پہلے جو کوششیں گجرات نے کی تھیں ، جس قدر سنجیدگی سے اسے لاگوکیاتھا اس کا گجرات کو بہت فائدہ ملا ۔ گجرات آج ترقی کی جس بلندی پرہے اس میں یقینی طورپر کیزین کا بہت بڑا رول ہے ۔ میں جب وزیراعظم کے طورپر دہلی گیا تو کیزین کے تجربات کو پی ایم او اور مرکزی سرکار کے دیگرمحکموں میں بھی لاگو کیا ۔اب کیزین کا فائدہ ملک کو اور زیادہ مل رہاہے ۔سرکارمیں ہم نے جاپان –پلس کا ایک خصوصی انتظام بھی کیاہے ۔ گجرات اورجاپان کے اس مشترکہ سفرکو یاد گاربنانے والے جاپان کے بہت سارے دوست ، کئی سارے پرانے میرے ساتھی آج یہاں اس پروگرام میں بھی موجود ہیں ۔ ایک بار پھرمیں آپ سب کا بھی استقبال کرتاہوں ۔ ساتھیو، آج ہندوستان میں الیکٹرک وھیکل کا بازار جتنی تیزی سے بڑاہورہاہے کچھ سال پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔ الیکٹرک گاڑیوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ سائلنٹ ہوتی ہیں ۔ دوپہیہ ہو یا چارپہیہ ، وہ کوئی شورنہیں کرتی ۔ یہ خموشی صرف اس کی انجینئرنگ کی ہی رہی ہے ، بلکہ یہ ملک میں ایک خاموش انقلاب کی آمدکا آغاز بھی ہے ۔آج لوگ ای وی کو ایک ایکسٹرا وھیکل نہیں سمجھ رہے ۔ وہ اسے اہم ذریعہ ماننے لگے ہیں ۔ ملک بھی پچھلے 8برسوں سے اس تبدیلی کے لئے زمین تیارکررہاتھا ، آج ہم الیکٹرک وھیکل کے ایکوسسٹم میں سپلائی اورڈیمانڈ، دونوں پر تیزی سے کام کررہے ہیں ۔ سرکار الیکٹرک گاڑیوں کے خریداروں کوکئی طرح کی تحریک بھی دے رہی ہے تاکہ ڈیمانڈ میں تیزی آئے انکم ٹیکس میں رعایت سے لے کر قرض کو آسان بنانے جیسے کئی قدم اٹھائے گئے ہیں تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو۔ اسی طرح آٹوموبائیل اور آٹوکمپونینٹس نے پی ایل آئی اسکیم کے ذریعہ سپلائی بڑھانے کی سمت میں بھی تیزی سے کام ہورہاہے ۔سرکارنے الیکٹرک گاڑیوں کے پورے ایکوسسٹم کو رفتاردینے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں ۔ پی ایل آئی اسکیم کے ذریعہ بیٹری مینوفیکچرنگ کو کافی بڑھاوامل رہاہے ۔ الیکٹرک وھیکل چارجنگ بنیادی ڈھانچے کو تیارکرنے کے لئے بھی ملک نے کئی پالیسی ساز فیصلے لئے ہیں ۔ 2022کے بجٹ میں بیٹری سوئپنگ پالیسی کو پیش کیاگیاہے ۔ ٹیکنولوجی شیئرنگ جیسی پالیسیوں پر نئی شروعات ہوئی ہے ۔ سپلائی ، ڈیمانڈ اورایکوسسٹم مضبوطی سے الیکٹرک وھیکل سیکٹرکا آگے بڑھناطے ہے ۔ یعنی یہ خاموش انقلاب آنے والے دنوں میں بڑی تبدیلی لانے کے لئے تیارہے ۔ ساتھیو، آج جب ہم الیکٹرک وھیکل جیسے سیکٹرکی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک کے ماحولیاتی عہد کو اور اس کے ہدف کو بھی سامنے رکھنا بہت ضروری ہے ۔ ہندوستان نے سی اوپی -26میں یہ اعلان کیاہے کہ وہ 2030تک اپنی انسٹالڈالیکٹریکل کیپسٹی کی 50فیصد صلاحیت غیرروایتی ذرائع سے حاصل کرے گا۔ ہم نے 2070کے لئے ‘نیٹ زیرو’ کاہدف طے کیاہے ۔ اس کے لئے ہم ای وی چارجنگ انفرااسٹرکچراور گریڈ اسکیل بیٹری سسٹم جیسے انرجی اسٹوریج سسٹم کو انفرااسٹرکچرکی ہارمونائزد فہرست میں شامل کرنے کی تیارکی ہے ۔ساتھ ہی ہمیں بائیوگیس ، فلیکس فیول جیسے متبادل کی طرف سے بھی بڑھنا ہوگا ۔ مجھے خوشی ہے کہ ماروتی –سوزوکی اس سمت میں بائیو –فیول ، ایتھنال بلینڈنگ ، ہائی برڈ ای وی جیسے تمام متبادل پربھی کام کررہی ہے ۔میرا مشورہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ سوزوکی کمپریسڈ بائیو –متھین گیس یعنی ، سی بی جی جیسے امکانات سے جڑے منصوبے بھی شروع کرسکتی ہے ۔ ہندوستان کی دوسری کمپنیاں بھی اس سمت میں کافی کام کررہی ہیں ۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے یہاں ایک صحت مند مسابقت کے ساتھ ساتھ باہمی معلومات کے تبادلے کا بھی مزید بہترماحول قائم ہو اس کا فائدہ ملک اورتجارت دونوں کو ہوگا۔ ساتھیو ، اگلے 25برسوں کے امرت کال میں ہمارا ہدف ہے کہ ہندوستان اپنی توانائی ضرورتوں کے لئے خود کفیل بنے ۔ ہم جانتے ہیں کہ آج توانائی درآمدات کا ایک بڑا حصہ ٹرانسپورٹ سے جڑا ہے ۔ اس لئے اس سمت میں اختراعات اور کوشش ہماری اولیت ہونی چاہیئے ۔ مجھے یقین ہے آپ کے اورآٹوسیکٹرکے تمام ساتھیوں کے تعاون سے ملک اپنا یہ ہدف ضرورمکمل کرے گا۔ ہم ترقی اورخوشحالی کے ہدف پراسی رفتارسے پہنچیں گے جو رفتار ہمارے ایکسپریس ویز پردکھائی دیتی ہے ۔ اسی جذبے کے ساتھ میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں اورسوزوکی خاندان کو دل کی عمیق گہرائیوں سے نیک خواہشات پیش کرتاہوں ۔ اورمیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ توسیع کے جو بھی خواب لے کر چلیں گے ، اسے رفتاردینے میں خواہ ریاستی سرکارہو یا مرکزی سرکار، ہم کہیں پربھی پیچھے نہیں رہیں گے ۔ اسی جذبے کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ !,গুজৰাটৰ গান্ধীনগৰত ভাৰতত চুজুকিৰ ৪০ বছৰ উপলক্ষে আয়োজিত এক অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D9%88%D8%B3%D8%B7-%D8%B3%DB%92-%DB%81%D8%A7%D8%A4%DA%91%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D9%86%DB%8C%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%99%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF-2/,نمسکار! مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس جی، وزیر اعلیٰ قابل احترام ممتا جی،مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی اشونی ویشنو جی، سبھاش سرکار جی، نستھ پرامانک جی، جان بارلا جی، لیڈر حزب اختلاف سوویندو ادھیکاری جی، ممبرپارلیمنٹ پرسون جی، ڈائس پر موجود دیگر ساتھی خواتین و حضرات۔ آج مجھے آپ سب کے درمیان روبرو آنا تھا، لیکن میرے نجی اسباب کی وجہ سے میں آپ سب کے درمیان نہیں آپایا ہوں، اس کے لئے میں آپ کی، بنگال کی معافی چاہتاہوں۔ بنگال کی مقدس سرزمین کو ، کولکاتہ کی تاریخی سرزمین کو آج میرے لیے سلام کرنے کا موقع ہے۔بنگال کے ذرے ذرے میں آزادی کی تحریک کی تاریخ شامل ہے۔جس سرزمین سے وندے ماترم کا نعرہ گونجا ، وہاں ابھی وندے بھارت ٹرین کو ہری جھنڈی دکھائی گئی۔آج 30 دسمبر کی تاریخ کا بھی تاریخ میں اپنی بڑی اہمیت ہے۔ 30 دسمبر 1943، اس دن ہی نیتا جی سبھاش نے انڈمان میں ترنگا لہراکر ہندوستان کی آزادی کا بگل پھونکا تھا۔ اس واقعے کے 75سال مکمل ہونے پر سال 2018 میں، میں انڈمان گیا تھا، نیتاجی کے نام پر ایک جزیرے کا نام بھی رکھا تھا اور اب اس وقت ملک آزادی کے 75سال کا جشن منا رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ اسی امرت مہوتسو میں ملک نے 475وندے بھارت ٹرین شروع کرنے کا عہد لیا تھا۔ آج اسی میں سے ایک ہاؤڑہ –نیوجلپائی گوڑی وندے بھارت ٹرین یہاں کولکاتہ شروع ہوئی ہے۔ آج ہی ریلوے اور میٹرو کی کنکٹی وٹی سے جڑے دیگر منصوبوں کا بھی وقف اور افتتاح ہوا ہے۔تقریباً 5ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے جوکا-بی بی ڈی باغ میٹرو پروجیکٹ پر کام ہورہا ہے۔ اس میں سے جوکا-تارا تلا میٹرو روٹ بن کر تیار ہو گیا ہے۔ اس سے شہر کے لوگوں کی ایز آف لیونگ مزید بڑھے گی۔ ساتھیوں، کچھ دیر بعد ہی مجھے گنگا جی کی صفائی اور پینے کے پانی سے جڑے متعدد پروجیکٹوں کو مغربی بنگال کو سونپنے کا موقع ملے گا۔ نمامی گنگے مشن کے تحت مغربی بنگال میں سیوریج کے 25 سے زیادہ پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ ان میں سے 11پروجیکٹ پہلے ہی پورے ہوچکے ہیں اور 7پروجیکٹ آج پورے ہورہے ہیں۔ آج 1.5ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 5 نئے پروجیکٹوں پر کام بھی شروع ہورہا ہے۔اس میں جو اہم ہے وہ ہے آدی گنگا ندی کا احیاء۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ابھی آدی گنگا ندی کی حالت بدقسمتی سے بہت خراب ہے۔ اس میں جو کوڑا کچرا گرتا ہے، سیور کا گندا پانی گرتا ہے، اس کی صفائی کے لئے 600کروڑ روپے سے زیادہ کا جدید بنیادی ڈھانچہ تیار کیاجارہا ہے۔ ہم لوگ اکثر انسان کی زندگی میںPreventive Healthcareکی بات تو کرتے رہتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ روزانہ کی زندگی وہ ہونی چاہئے کہ بیماری کی نوبت ہی نہ آئے۔ ٹھیک اسی طرح ندی کی گندگی کو صاف کرنے کے ساتھ ہی مرکزی سرکار پریوینشن پر بھی بہت زور دے رہی ہے اور اس پریوینشن سب سے بڑا اور جدید طریقہ ہے زیادہ سے زیادہ جدید سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ ۔ آنے والے 15-10سال بعد کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک میں آج ہی جدید سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوائے جارہے ہیں۔ آزادی کے امرت کال میں ہمیں فاروڈ لوکنگ سوچ اور اپروچ کے ساتھ ملک کو آگے لے جانا ہے۔ ساتھیوں، ہم اس 21ویں صدی ہندوستان کی تیز ترقی کے لئے ہندوستانی ریلوے کی بھی تیز ترقی ، ہندوستانی ریلوے میں تیز بہتری، یہ تمام باتیں بہت ضروری ہیں۔ اس لئے آج مرکزی سرکار ہندوستانی ریلوے کو جدید بنانے کے لئے ، ریلوے انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے کے لئے ریکارڈ انویسٹمنٹ کررہی ہے۔ ااج ہندوستان میں ہندوستانی ریلوے کے احیاء کی ملک گیر مہم چل رہی ہے۔ آج وندے بھارت، تیجس ، ہم سفر جیسی جدید ٹرینیں ملک میں بن رہی ہیں۔ آج وِسٹا-ڈو�� کوچیج ریل مسافروں کو نئے تجربات کرا رہے ہیں۔ آج محفوظ، جدید کوچوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔ آج ریلوے اسٹیشن کو بھی ایئرپورٹ کی طرح فروغ دیا جارہا ہے۔ نیو جلپائی گوڑی اسٹیشن بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ آج ریلوے لائنوں کی دوہری کاری، ریلوے لائنوں کی بجلی کاری جس رفتار سے ہورہی ہے، وہ پہلے بھی کبھی نہیں ہوئی۔ ملک میں جو ایسٹرن اور ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور بن رہے ہیں، وہ لاجسٹکس سیکٹر میں انقلابی تبدیلی لانے والے ہیں۔ تحفظ ہو، صفائی ہو، اہلیت ہو، تال میل ہو، وقت کی پابندی ہو، سہولت ہو، ہندوستانی ریلوے آج ایک نئی پہچان بنانے کی ہم سب کی کوشش رنگ لارہی ہے۔ پچھلے آٹھ برسوں میں ہندوستانی ریلوے نے جدیدکاری کی بنیاد پر کام کیا ہے۔ اب آنے والے آٹھ برسوں میں، ہم ہندوستانی، ہندوستانی ریلوے کو جدید کاری کے نئے سفر پر نکلتے ہوئے دیکھیں گے۔ہندوستان جیسےنوجوان ملک کے لئے ہندوستانی ریلوے بھی نوجوان اوتار لینے جارہی ہے اور اس میں یقینی طورپر 475 سے زیادہ وندے بھارت ٹرینوں کا بڑا کردار ہوگا۔ ساتھیوں، آزادی کے بعد کی سات دہائیوں میں 20ہزار روٹ کلومیٹر ریل لائن کی بجلی کاری ہوئی ۔ وہیں 2014 میں ہماری سرکار بننے کے بعد پچھلے 8-7برسوں میں ہی 32ہزار رو ٹ کلومیٹر سے زیادہ ریل لائن کی بجلی کاری ہوچکی ہے۔ یہ ہے ملک کے کام کرنے کی رفتار، ریلوے کی جدید کاری کی رفتار اور اس رفتار کو تیز کرنے کے لئے اب ہندوستان میں دنیا کے سب سے طاقتور بجلی کے ریل-انجنوں کی بھی تیزی سے تعمیر ہورہی ہے۔ ساتھیوں، آج کے ہندوستان کی اسپیڈ اور اسکیل کا ایک اور ثبوت ہمارا میٹرو ریل سسٹم ہے۔ کولکاتہ کے لوگ جانتے ہیں کہ دہائیوں سے میٹرو ریل، پبلک ٹرانسپورت کا کتنا بہترین ذریعہ رہی ہے۔ 2014 سے پہلے تک ملک میں کل میٹرو نیٹ ورک 250کلو میٹر سے بھی کم تھا اور اس میں بھی سب سے بڑی حصے داری دہلی-این سی آر ہی کی تھی۔ مرکزی سرکار نے اس صورتحال کو بھی بدلا ہے، اس کو بدلنے کی پوری کوششی کی ہے اور بہت تیزی سے تبدیل کیاہے۔ پچھلے 8برسوں میں ہم نے میٹرو کی دو درجن سے زیادہ شہروں تک توسیع کی ہے۔ آج ملک کے الگ الگ شہروں میں لگ بھگ 800 کلومیٹر ٹریک پر میٹرو چل رہی ہے۔1000کلومیٹر کے نئے میٹرو روٹ پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ جوکا-بی بی ڈی باغ میٹرو پروجیکٹ اسی عہد کا حصہ ہے۔ ساتھیوں، پچھلی صدی کے ہندوستان کی دو اور بڑی چنوتیاں رہی ہیں، جنہوں نے ملک کی ترقی پر بہت منفی اثر ڈالا ہے۔ ایک چنوتی رہی انفرااسٹرکچر کے کے کاموں میں مختلف ایجنسیوں میں تال میل کی کمی اور دوسری چنوتی رہی، ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع میں آپسی تال میل کا صفر ہونا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرکار کے ایک محکمے کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا محکمہ کہاں نیا کام شروع کرنے والا ہے۔ اس کا خمیازہ ملک کے ایماندار ٹیکس دہندگان کو اٹھنا پڑتا تھا۔ ملک کا ایماندار ٹیک دہندگان ہمیشہ سے سرکاری پیسے کی بربادی سے، پروجیکٹوں میں تاخیر سے، بدعنوانی سے نفرت کرتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی گاڑھی کمائی سے دیئے ہوئے ٹیکس سے غریب کا نہیں، بلکہ کسی بدعنوان کا بھلا ہورہا ہے، تو اس کا ناراض ہونا فطری ہے۔ پیسے کی اسی بربادی کو روکنے کے لئے، محکموں میں، سرکاروں میں تال میل کو بڑھانے کے لئے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان نافذ کیا گیا ہے۔ اب خواہ مختلف ریاستی سرکاریں ہوں، الگ الگ سرکاری محکمے ہوں، تعمیرات سے جڑی ایجنسیاں ہو، یا صنعت کے ��وگ ہوں، سب ایک ہی پلیٹ فارم پر آرہے ہیں۔ پی ایم گتی شکتی ملک میں ٹرانسپورٹ کے الگ الگ ذرائع کو جوڑنے، ملٹی ماڈل کنکٹی وٹی کے کام کو بھی رفتار دے رہا ہے۔ آج ملک میں ریکارڈ تیزی سے ہائی وے بن رہے ہیں، ایئرپورٹس بن رہے ہیں، واٹروے بن رہے ہیں، نئے پورٹس بن رہے ہیں اور اس میں بھی سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں اب اس طرح تیار کیا جارہا ہے کہ ٹرانسپورٹ کا ایک ذریعہ ، ٹرانسپورٹ کے دوسرے ذریعے کو سپورٹ کرے۔ یعنی ہائی وے بہتر طریقے سے ریلوے اسٹیشنوں سے کنکٹ ہو،ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹس سے کنکٹ ہو، لوگوں کو ٹرانسپورٹیشن کے دوران سیم لیس کنکٹی وکٹی بھی ملے۔ ساتھیوں، 21ویں صدی میں تیزی سے آگے بڑھنے کے لئے ہمیں ملک کی اہلیت کا صحیح استعمال کرنا ہوگا۔ میں ملک کے لوگوں کو واٹرویز کی مثال بھی دینا چاہتا ہوں۔ ایک وقت تھا، جب ہندوستان میں کاروبار-تجارت اور ٹورزم کے لئے واٹرویز کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا تھا۔ اس لئے کتنے ہی شہر، ندیوں کے کنارے بسے، ندیوں کے کنارے اتنی صنعتی ترقی ہوئی۔ لیکن اس اہلیت کو پہلے سینکڑوں برسوں کی غلامی اور پھر آزادی کے بعد کی سرکاری بے توجہی نے تباہ کردیا۔ اب ہندوستان اپنی اس جل شکتی کو بڑھانے کا کام کررہا ہے، ملک میں 100 سے زیادہ واٹرویز مزیز تیار کئے جارہے ہیں۔ ہندوستان کی ندیوں میں جدید کروز چلیں، تجارت بھی ہو، ٹورزم بھی ہو، اس سمت میں ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے۔ مرکزی سرکار بنگلہ دیش سرکار کے تعاون سے گنگا ار برہمپتر ندیوں کے درمیان واٹروے لنک قائم کرنے پر بھی کام کیا ہے۔ میں آج ملک کے لوگوں کو اس سے جڑی بھی ایک معلومات دینا چاہتاہوں۔ 13 جنوری 2013 کو کاشی سے، وارانسی سے ایک کروز جارہا ہے، جو 3200کلو میٹر طویل واٹر وے سے ہوتے ہوئے، بنگلہ دیش سے ہوتے ہوئے، ڈبرو گڑھ تک پہنچے گا۔ یہ پوری دنیا میں اپنی طرح کا غیر معمولی کروز ہوگا۔ یہ ہندوستان میں بڑھتے کروز ٹورزم کا بھی عکاس ہوگا۔ میں مغربی بنگال کے لوگوں سے بھی گزارش کروں گا کہ اس کا ضرور فائدہ اٹھائیں۔ ویسے آج میں اور بات کے لئے خاص طورپر بنگال کے لوگوں کو سلام کرنا چاہتاہوں۔ بنگال کے لوگوں میں ملک کی مٹی کے تئیں جو محبت رہی ہے، اس کا تو میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ ملک کے مختلف حصوں کو جاننے کے لئے، ملک کے مختلف حصوں میں گھومنے کے لئے، بنگال کے لوگوں میں جو جوش ہوتا ہے، وہ غیر معمولی ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ، پہلا موقع ملتے ہی کسی دوسرے ملک میں گھومنے نکل جاتے ہیں،لیکن بنگال کے لوگ، ہمیشہ اپنے ملک کو اولیت دیتے ہیں۔ بنگال کے لوگ، سیاحت میں بھی نیشن فرسٹ کے جذبے کو لے کر چلتے ہیں اور آج جب ملک میں کنکٹی وٹی بڑھ رہی ہے، ریلوے –ہائی وے –آئی وے-واٹروے جدید ہورہے ہیں تو اس سے ایز آف ٹرویل بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے۔ اس کا بڑا فائدہ بنگال کے لوگوں کو بھی مل رہا ہے۔ ساتھیوں، گرودیو ٹیگور کے ذریعے تخلیق مشہور لائنیں ہیں- ’’او اومار دیشیر ماٹی، تومار پورے ٹھیکائی ماتھا‘‘ یعنی، اے میرے دیش کی مٹی، میں تمہارے آگے اپنا سر جھکاتا ہوں۔ آزادی کے اس امرت کال میں، مادر ہند کو سب سے اوپر رکھتے ہوئے ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔ آج پوری دنیا ہندوستان کو بہت امید سے دیکھ رہی ہے۔ اس امید کو بنائے رکھنے کے لئے ہر ہندوستانی کو پوری طاقت لگا دینی ہے۔ ہمیں ہر دن کا استعمال قومی تعمیر میں کرنا ہے، ہر لمحے کا استعمال قومی تعمیر میں کرنا ہے۔ ملک کی خدمت کے کاموں میں ہمیں رکنا نہیں ہے۔ انہیں لفظوں کے س��تھ میں ان مختلف پروجیکٹوں کے لئے بنگال کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ پھر ایک بار آپ کا استقبال کرتا ہوں اور میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!,ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সিঙৰ জৰিয়তে হাওৰাক নিউ জলপাইগুৰি সংযোগ কৰা বন্দে ভাৰত এক্সপ্ৰেছৰ ফ্লেগ অফ কৰাৰ লগতে কলকাতা মেট্ৰ’ৰ পাৰ্পল লাইনৰ জোকা-তৰাতলা অংশ উদ্বোধন কৰাৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-13-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 14-13 دسمبر کو وارانسی کا دورہ کریں گے۔ 13 دسمبر کو دن میں تقریباً 1 بجے، وزیر اعظم شری کاشی وشوناتھ مندر کا دورہ کریں گے اور پوجا کریں گے، اس کے بعد وہ شری کاشی وشوناتھ دھام کے پہلے مرحلہ کا افتتاح کریں گے، جسے تقریباً 339 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیرکیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی دیرینہ خواہش تھی کہ مقدس ندی میں ڈُبکی لگانے، گنگا جل بھرنے اور اسے مندر میں چڑھانے کی زمانہ قدیم سے چلی آ رہی رسم کو پورا کرنے کے لیے زائرین اور بابا وشو ناتھ کے عقیدت مندوں کو تنگ گلیوں اور ارد گرد کی ٹھیک سے صاف صفائی نہ ہونے کی وجہ سے جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، انہیں دور کیا جائے۔ وزیر اعظم کے اس وژن کو پورا کرنے کے لیے، شری کاشی وشوناتھ دھام کے خیال کو ایک پروجیکٹ کی شکل دی گئی، تاکہ شری کاشی وشوناتھ مندر سے گنگا ندی کے گھاٹوں کو جوڑنے والے راستے کو آسانی سے قابل رسا بنایا جا ئے۔ اس مقدس کام کی شروعات کرنے کے لیے، وزیر اعظم جناب مودی نے 8 مارچ، 2019 کو اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ وزیر اعظم نے پروجیکٹ کے تمام مراحل میں گہری اور فعال دلچسپی لی۔ وزیر اعظم کی طرف سے بذات خود مسلسل بریفنگ، جائزے اور نگرانی کی گئی، اور انہوں نے پروجیکٹ کو بہتر کرنے اور معذور افراد سمیت تمام عقیدت مندوں کے لیے اسے مزید قابل رسائی بنانے کے لیے لگاتار تجاویز و مشورے فراہم کیے۔ جسمانی طور پر معذور اور بزرگ افراد کی آسانی کے لیے راستے میں ریمپ، سیڑھیاں اور دیگر جدید سہولیات کا انتظام کیا گیا ہے۔ پروجیکٹ کے پہلے مرحلہ میں کل 23 عمارتوں کا افتتاح کیا جائے گا۔ یہ شری کاشی وشوناتھ مندر کا دورہ کرنے والے عقیدت مندوں کو مختلف قسم کی سہولیات فراہم کریں گے، جس میں یاتری سویدھا کیندر، سیاحوں کی سہولت آمیزی کا مرکز، ویدک کیندر، مموکشو بھون، بھوگ شالہ، سٹی میوزیم، ویونگ گیلری، فوڈ کورٹ وغیرہ شامل ہوں گے۔ اس پروجیکٹ کے لیے شری کاشی وشوناتھ مندر کے ارد گرد موجود 300 سے زائد جائیدادوں کو خریدنے اور انہیں حاصل کرنے کا کام مکمل کیا گیا۔ اس میں وزیر اعظم کا سب کو ساتھ لے کر چلنے کا وژن کارفرما تھا، اور اسی اصول کی بنیاد پر ان جائیدادوں کے حصول میں باہمی بات چیت کا طریقہ اپنایا گیا۔ اس کوشش کے تحت تقریباً 1400 دکانداروں، کرایہ داروں اور مکان مالکوں کی باز آبادکاری کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا گیا۔ اس کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کی کسی بھی عدالت میں پروجیکٹ کو آگے بڑھانے سے جڑی تحویل یا بازآبادکاری سے متعلق کوئی بھی قانونی چارہ جوئی زیر التوا نہی�� ہے۔ وزیر اعظم کا وژن اس بات کو بھی یقینی بنانا تھا کہ پروجیکٹ کی پیش رفت کے دوران تمام ہیریٹج سے متعلق ڈھانچوں کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ دوراندیشی اس وقت کام آئی، جب پرانی جائیدادوں کو ڈھانے کی کارروائی کے دوران، 40 سے زیادہ قدیم مندروں کی دوبارہ دریافت ہوئی۔ اب ان مندروں کی مرمت کرنے کے بعد ان کی تزئین کاری کی گئی ہے، ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ اصلی ڈھانچہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ اس پروجیکٹ کا کام اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہا تھا کہ اب یہ پروجیکٹ تقریباً 5 لاکھ مربع فٹ کے رقبہ پر محیط ہے، جب کہ پرانے احاطے صرف تقریباً 3000 مربع فٹ تک محدود تھے۔ کووڈ وبائی مرض کے باوجود، پروجیکٹ کے کام کو متعینہ وقت کے مطابق مکمل کر لیا گیا ہے۔ وارانسی کے دورہ کے دوران، وزیر اعظم دوپہر میں تقریباً 12 بجے کال بھیرو مندر کا بھی دورہ کریں گے اور 13 دسمبر کو شام کے تقریباً 6 بجے رو-رو کشتی پر سواری کے دوران گنگا آرتی کے گواہ بنیں گے۔ 14 دسمبر کو دن میں تقریباً ساڑھے تین بجے، وزیر اعظم وارانسی کے سور وید مہا مندر میں سدگرو سدا پھل دیو ویہنگم یوگ سنستھان کی 98ویں سالانہ تقریب میں شرکت کریں گے۔ دو روزہ دورے کے دوران، وزیر اعظم آسام، اروناچل پردیش، گوا، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، کرناٹک، مدھیہ پردیش، منی پور، تریپورہ، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے وزرائے اعلیٰ اور بہار اور ناگالینڈ کے نائب وزرائے اعلیٰ کے کانکلیو میں بھی شرکت کریں گے۔ اس کانکلیو سے سرکاری کام کاج میں اپنائے جانے والے بہترین طور طریقوں کو آپس میں شیئر کرنے کا موقع ملے گا، جو کہ وزیر اعظم کے ٹیم انڈیا کے جذبے کو آگے بڑھانے کے وژن کے عین مطابق ہے۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে কাইলৈ বাৰাণসী ভ্ৰমণ কৰি শ্রী কাশী বিশ্বনাথ ধাম উদ্বোধন কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-29-28-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A6%9C/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی 29-28 جولائی، 2022 کو گجرات اور تمل ناڈو کا دورہ کریں گے۔ 28 جولائی کو تقریباً 12 بجے دوپہر میں وزیر اعظم گدھوڈا چوکی، سابر کانٹھا میں سبر ڈیری کے متعدد پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس کے بعد، وزیر اعظم چنئی کا دورہ کریں گے اور شام 6 بجے کے قریب جے ایل این انڈور اسٹیڈیم، چنئی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کی شروعات کا اعلان کریں گے۔ 29 جولائی کو صبح تقریباً 10 بجے وزیر اعظم انا یونیورسٹی کے 42ویں کانووکیشن میں شرکت کریں گے۔ اس کے بعد وہ گفٹ سٹی کا دورہ کرنے کے لیے گاندھی نگر جائیں گے، جہاں وہ تقریباً 4 بجے شام مختلف پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ گجرات میں وزیر اعظم حکومت کی ایک اہم توجہ دیہی معیشت کو فروغ دینا اور زراعت اور اس سے منسلک سرگرمیوں کو مزید نتیجہ خیز بنانا ہے۔ اس سمت میں ایک اور قدم کے طور پر، وزیر اعظم سابر ڈیری کا دورہ کریں گے اور 28 جولائی کو 1,000 کروڑ روپے سے زیادہ کے متعدد منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان منصوبوں سے مقامی کسانوں اور دودھ پیدا کرنے والوں کو بااختیار بنایا جائے گا اور اس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور خطے میں دیہی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم ساب�� ڈیری میں تقریباً 120 ملین ٹن یومیہ (ایم ٹی پی ڈی ) کی گنجائش والے پاؤڈر پلانٹ کا افتتاح کریں گے۔ پورے پراجیکٹ کی کل لاگت 300 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ پلانٹ کی ترتیب خوراک کی حفاظت کے عالمی معیارات پر پورا اترتی ہے۔ یہ تقریباً صفر اخراج کے ساتھ انتہائی توانائی کی بچت والا ہے۔ پلانٹ جدید ترین اور مکمل طور پر خودکار بلک پیکنگ لائن سے لیس ہے۔ وزیر اعظم سابر ڈیری میں ایسپٹک دودھ پیکجنگ پلانٹ کا بھی افتتاح کریں گے۔ یہ ایک جدید ترین پلانٹ ہے جس کی گنجائش 3 لاکھ لیٹر یومیہ ہے۔ اس منصوبے پر تقریباً 125 کروڑ روپے کی مجموعی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ پلانٹ میں انتہائی توانائی کی بچت اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کے ساتھ جدید ترین آٹومیشن سسٹم ہے۔ اس منصوبے سے دودھ پیدا کرنے والوں کو بہتر معاوضے حاصل کرنے کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم سابر چیز اور وہی ڈرائینگ پلانٹ پراجیکٹ کا بھی سنگ بنیاد رکھیں گے۔ منصوبے کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 600 کروڑ روپے ہے۔ پلانٹ ولایتی پنیر (20 ایم ٹی پی ڈی)، بھینس کے دودھ سے تیار پنیر (10 ایم ٹی پی ڈی) اور پروسیسڈ پنیر (16 ایم ٹی پی ڈی) تیار کرے گا۔ پنیر کی تیاری کے دوران پیدا ہونے والی چھاچھ کو بھی وہی ڈرائینگ پلانٹ میں خشک کیا جائے گا جس کی گنجائش 40 ایم ٹی پی ڈی ہے۔ سابر ڈیری گجرات کوآپریٹو دودھ مارکیٹنگ فیڈریشن (جی سی ایم ایم ایف) کا ایک حصہ ہے، جو امول برانڈ کے تحت دودھ اور دودھ کی مصنوعات کی پوری رینج بناتی اور مارکیٹنگ کرتی ہے۔ 29 جولائی کو وزیر اعظم گاندھی نگر میں گفٹ سٹی کا دورہ کریں گے۔ گفٹ سٹی (گجرات انٹرنیشنل فنانس ٹیک سٹی) کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے لیے مالیاتی اور ٹیکنالوجی خدمات کے ایک مربوط مرکز کے طور پر تصور کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم بین الاقوامی مالیاتی خدمات مراکز اتھارٹی (آئی ایف ایس سی اے) کے صدر دفاتر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جو کہ ہندوستان میں بین الاقوامی مالیاتی خدمات مراکز (آئی ایف ایس سی اے) میں مالیاتی مصنوعات، مالیاتی خدمات اور مالیاتی اداروں کی ترقی اور ضابطے کے لیے متحد ریگولیٹر ہے۔ عمارت کو ایک معروف ڈھانچے کے طور پر تصور کیا گیا ہے، جو کہ ایک معروف بین الاقوامی مالیاتی مرکز کے طور پر جی آئی ایف ٹی-آئی ایف ای سی کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور قد کا عکاس ہے۔ وزیر اعظم انڈیا انٹرنیشنل بلین ایکسچینج (آئی آئی بی ایکس ) کا آغاز کریں گے جو جی آئی ایف ٹی-آئی ایف ای سی میں ہندوستان کا پہلا بین الاقوامی بلین ایکسچینج ہے۔ آئی آئی بی ایکس ہندوستان میں سونے کے مالیاتی عمل کو تحریک دینے کے علاوہ ذمہ دارانہ سورسنگ اور معیار کی یقین دہانی کے ساتھ موثر قیمت کی دریافت میں سہولت فراہم کرے گا۔ یہ ہندوستان کو عالمی صرافہ بازار میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے اور دیانتداری اور معیار کے ساتھ عالمی ویلیو چین کی سروس کے لیے بااختیار بنائے گا۔ آئی آئی بی ایکس ایک اہم صارف کے طور پر عالمی صرافہ کی قیمتوں کو متاثر کرنے کے قابل بنانے کے لیے حکومت ہند کے عزم کو بھی دوبارہ عمل میں لانا ہے۔ وزیر اعظم این ایس ای آئی ایف ایس سی-ایس جی ایکس کنیکٹ کا بھی آغاز کریں گے۔ یہ جی آئی ایف ٹی انٹرنیشنل فنانشل سروسز سینٹر (آئی ایف ایس سی) اور سنگا پور ایکسچینج لمیٹیڈ (ایس جی ایکس) میں این ایس ای کے ذیلی ادارے کے درمیان ایک فریم ورک ہے۔ کنیکٹ کے تحت، سنگاپور ایکسچینج کے ممبران کی طرف سے نفٹی ڈیریویٹیوز پر تمام احکامات این ایس ای-آئی ایف ایس سی آرڈر میچنگ اور ٹریڈنگ پلیٹ فارم پر بھیجے جائیں گے اور ان کا میچ کیا جائے گا۔ ہندوستان اور تمام بین الاقوامی دائرہ اختیار کے بروکر ڈیلرز سے کنیکٹ کے ذریعے مالیاتی معاہدے کے تحت خریدوفروخت کے لیے بڑی تعداد میں شرکت کی توقع ہے۔ یہ جی آئی ایف ٹی –آئی ایف ایس سی میں مالیاتی مارکیٹ کے لیے قیمتوں کو متاثر کرے گا، جس سے زیادہ بین الاقوامی شرکاء آئیں گے اور جی آئی ایف ٹی –آئی ایف ایس سی میں مالیاتی ماحولیاتی نظام پر مثبت اثر پڑے گا۔ تمل ناڈو میں پی ایم 28 جولائی کو 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کا ایک عظیم الشان افتتاح دیکھنے کو ملے گا کیونکہ وزیر اعظم جے ایل این انڈور اسٹیڈیم، چنئی میں منعقدہ پروگرام میں اس کے افتتاح کا اعلان کریں گے۔ وزیر اعظم نے 19 جون 2022 کو نئی دہلی کے اندرا گاندھی نیشنل اسٹیڈیم میں پہلی شطرنج اولمپیاڈ مشعل ریلے کا بھی آغاز کیا تھا۔ مشعل نے 40 دنوں کی مدت کے دوران ملک کے 75 مشہور مقامات کا سفر کیا، 20,000 کلومیٹر کے قریب سفر کیا اور سوئٹزرلینڈ میں ایف آئی ڈی ای صدردفتر جانے سے پہلے مہابلی پورم میں اختتام پذیر ہوئی۔ 44 واں شطرنج اولمپیاڈ چنئی میں 28 جولائی سے 9 اگست 2022 تک منعقد ہو رہا ہے۔ 1927 سے منعقد ہونے والے اس مقابلے کا انعقاد 30 سال بعد پہلی بار ہندوستان اور ایشیا میں کیا جا رہا ہے۔ 187 ممالک کی شرکت کے ساتھ، یہ کسی بھی شطرنج اولمپیاڈ میں سب سے بڑی شرکت ہوگی۔ ہندوستان اس مقابلے میں اپنا اب تک کا سب سے بڑا دستہ بھی شامل کر رہا ہے جس میں 6 ٹیموں کے 30 کھلاڑی شامل ہیں۔ وزیر اعظم 29 جولائی کو چنئی میں انا یونیورسٹی کے 42 ویں کانووکیشن میں شرکت کریں گے۔ پروگرام کے دوران وہ 69 گولڈ میڈل جیتنے والوں کو گولڈ میڈل اور سرٹیفکیٹ سے نوازیں گے۔ اس موقع پر وزیراعظم اجتماع سے خطاب بھی کریں گے۔ انا یونیورسٹی 4 ستمبر 1978 کو قائم کی گئی تھی۔ اس کا نام تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ سی این انادورائی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کے 13 ممبر کالج ہیں، 494 ملحقہ کالج تمل ناڈو میں ہیں اور 3 علاقائی کیمپس ترونیل ویلی، مدورئی اور کوئمبٹور میں ہیں ۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২৮-২৯ জুলাইত গুজৰাট আৰু তামিলনাডু ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%AA%D8%A7%D8%A6%D8%AC-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%87%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A6%B6%E0%A6%AE-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AB%E0%A6%B2/,"نئی دہلی، 22 جولائی 2022: سی بی ایس ای کے دسویں جماعت کے نتائج کے اعلان کے بعد وزیراعظم جناب نریندر مودی نے طلبہ کو مبارکباد دی۔ ایک ٹویٹ پیغام میں وزیر اعظم نے کہا: ""میں ان تمام طلبہ کو مبارکباد دیتا ہوں جنھوں نے سی بی ایس ای دسویں جماعت کے امتحانات پاس کیے ہیں۔ میں ان کے آگے کے نتیجہ خیز تعلیمی سفر کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نوجوان آنے والے دور میں کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھوئیں گے۔ """,চিবিএছইয়ে দশম শ্ৰেণীৰ ফলাফল ঘোষণা কৰাৰ পাছত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ছাত্ৰ-ছাত্ৰীক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%A8%D8%AD-930-%D8%A8%D8%AC%DB%92-%DA%88%DB%8C%D9%81%D9%84%D9%85%D9%BE%DA%A9%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A7%AF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی ڈیفلمپکس میں بھارتی دستے کے ساتھ صبح ساڑھے 9 بجے بات چیت کریں گے۔انھوں نے کہا کہ بھارتی کھلاڑیوں نے تاریخ رقم کی ہے اور ہر بھارتی شہری کو خوش ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ڈیفلمپکس میں بھارتی دستے کے ساتھ سارھے 9 بجے بات چیت کرنے کے لئے بیتاب ہوں۔ پورے دستے نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور ہر بھارتی شہری کے چہروں پر مسکان لائے ہیں۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে পুৱা ৯:৩০ বজাত ভাৰতীয় দলৰ সৈতে বাৰ্তালাপ কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92%D8%A8%DB%8C%D9%86%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D9%93%D9%81-%D8%A7%D9%8E%D9%86-%D8%B1%DB%8C%DA%AF%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A7%9F-%E0%A6%86%E0%A6%81%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%BF/,نئیدہلی07فروری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کی اجلاس میں بیننگ آف اَن ریگولیٹیڈ ڈپازٹ اسکیم بل 2018 میں سرکاری ترمیم کی تجویز کی منظوری دے دی گئی ۔ یہ منظوری مالیاتی امور پر قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کے لئے دی گئی ہے۔ غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیموں کا بل یعنی ان ریگولیٹیڈ ڈپازٹ اسکیم 2018 پارلیمنٹ میں 18 جولائی 2018 کو پیش کیا گیا تھا،جو مالیہ امور کی قائمہ کمیٹی ( ایس سی ایف ) کو بھیج دیا گیا تھا ۔ اس کمیٹی نے مذکورہ بل پر اپنی 17ویںرپورٹ 3 جنوری 2019 کو پارلیمنٹ میں پیش کردی ۔غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیم بل میں ترمیم سے اس بل کو ناجائز ڈپازٹ اسکیموں کی وبا پر موثر طریقے سے قابو پانے کے مقصدسے استحکام حاصل ہوسکے گا۔ خاص خاص باتیں : اس بل میں کسی بھی غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیم میں رقم جمع کرانے یا اشتہارات کے ذریعہ رقم جمع کرانے کے عمل سے ڈپازٹ لینے والوں پر پابندی کرنےکی خاطر خواہ شقیں موجودہیں۔ یہ بل موجودہ قانونی ضا بطوں کے ساتھ غیر ضابطہ بند ڈپازٹ حاصل کرنے والی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندی عائد کی جائے گی۔ اس بل کے تحت تین مخصوص اقسام کے جرائم طے کئے گئے ہیں،جن میں (1) غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیمیں چلانا (2) ضابطہ بندڈپازٹ اسکیموںمیں جعل سازی کرنا اور (3)اَن ریگولیٹیڈ ڈپازٹ اسکیم میں غلط ترغیبات دینا ہے۔ اس بل میں ان ریگولیٹیڈ ڈپازٹ اسکیم یعنی غیر ضابطہ بند ڈپاز ٹ اسکیموںکا کاروبار کرنے والوںکو سخت سزائیں دینے اور ان پر خطیر رقوم کے جرمانے عائد کئے جانے کے ضابطے شامل ہیں۔ اس بل میں غیر قانونی طریقے سے ڈپازٹ جمع کرانے کی اسکیموں میں جمع کرائی گئی رقوم کی واپس ادائیگی کے معقول ضابطے بھی شامل ہیں۔ اس بل کی رو سے غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیموں میں جمع کرائی جانے والی رقوم کی باز ادائیگی کے لئے املاک اور اثاثہ جات بھی افسر مجاز کے ذریعہ ضبط کی جاسکتی ہیں۔ اس بل میں غیر ضابطہ بنداسکیمیں چلانے والوں کی املا ک اور اثاثہ جات ضبط کئے جانے کے لئے واضح خطوط معین کئے گئے ہیں۔ اس بل میں ’’ڈپازٹ لینے والوں‘‘ اور’’ ڈپازٹ ‘‘ کی بھی جامع تعریف معین کی گئی ہے۔ اس بل میں’’ ڈپازٹ لینے والوں ‘‘ میں وہ لوگ اور ادارے شامل ہیں جو ڈپازٹ وصول کرنے پر زور دیتے ہیں یا ڈپازٹ وصول کرتے ہیں۔ان میں وہ لوگ شامل ہیں جوقانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رقم ڈپازٹ کراتے ہیں ۔ جمع کرائی جانے والی رقم یعنی ’’ڈپازٹ ‘‘ اسےمانا جائے گا جو ممنوعہ طریقے سےڈپازٹ لینے کے قانون کی خلاف ورزی کرتےہوئے عام لوگوں سے جمع کرائی جائے ۔ یہ بل ایک جامع قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بل کی روسے سرکاری قوانین ریاستی سرکار وںکو اس قانون کی عمل آوری کی بنیاد ی ذمہ داری تفویض کی جائے گی۔ بیننگ آف ان ریگولیٹیڈ ڈپازٹ اسکیم 2018 یعنی غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیموںکا بل 18 جولائی 2018 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ اس بل کی قانونی حیثیت اختیار کرنے کے بعد ملک میں غیر قانونی طریقے سے ڈپازٹ اسکیمیں چلانے کی وبا پر سختی سے ساتھ قابو پایا جاسکے گا۔ جس میں ( الف )غیر ضابطہ بند ڈپازٹ لینے کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کیا جانا ۔(ب) غیر ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیمیں چلانے یا انہیں فروغ دینے والوںکوسخت سزائیں دیا جانا ، (ج) رقم جمع کرانے والوں کے ساتھ کی جانے والی جعل سازی کی پاداش میں سخت سزا دیا جانا بھی شامل ہے۔(د) ڈپازٹ لینے والے ادارے کی نادہندگی کی صورت میں جمع کرائی گئی رقم کی باز ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے ریاستی سرکار وں کے ذریعہ ایک افسر مجاز کا تقرر اور ادارہ مجاز کی تشکیل ۔( ہ) اس ادارے کے فرائض اور اختیارات میں نادہند اداروں کے اثاثہ جات ضبط کیا جانا بھی شامل ہے۔(و) رقم جمع کرانے والوں کو باز ادائیگی کئے جانے کے معاملات کافیصلہ کرنے اور اس قانون کے تحت مقدمہ چلائے جانے کے لئے ایک خصوصی عدالت کی تشکیل اور (ح ) اس بل میں ضابطہ بند ڈپازٹ اسکیموںکی فہرست شامل ہے ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,"অনিয়ন্ত্রিত সঞ্চয় আঁচনি নিষিদ্ধকৰণ বিধেয়ক, ২০১৮ৰ সংশোধনী প্ৰস্তাৱ কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B5%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%A7%D8%A8%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A7%B0/,نئی دہلی،19 مارچ2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی روسی فیڈریشن کے صدر ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فون پر بات کی اور کل روس میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی۔جناب پوتن کو کامیابی کے لئے نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ جناب پوتن کی قیادت میں بھارت اور روسی فیڈریشن کے درمیان خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹیجک شراکت داری مضبوط سے مضبوط تر ہوگی۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ اس سال کے اواخر میں سالانہ سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے صدر پوتن کا بھارت میں خیر مقدم کرنے کے منتظر ہیں۔ صدر پوتن نے فون کرنے کے لئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے سبھی شعبوں میں بھارت اور روس کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے تئیں اپنی عہدبستگی کا اظہار کیا۔انہوں نے بھارت اور اس کے عوام کی پیہم ترقی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔,ৰাষ্ট্ৰপতি নিৰ্বাচনত জয়ৰ পাছতে পুটিনলৈ অভিনন্দনসূচক ফোন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%B3%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%88%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%8B%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%9B%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%87/,نئی دہلی۔30ستمبر وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈونیشیا کے مرکزی سولاویسی میں سونامی اور زلزلے کے باعث ہوئی ہلاکتوں اور تباہیوں پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ اپنے تعزیتی پیغام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ‘‘ انڈونیشیا کے مرکزی سولاویسی میں سونامی اور زلزلے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی سے شدید رنج و غم ہوا ۔ اس کے لیے میں اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہوں ۔ ہندوستان اس دکھ کی گھڑی میں اپنے سمندری پڑوسی کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ ’’,ইণ্ডোনেছিয়াৰ মধ্য ছুলাৱেছীত ছুনামি আৰু ভূমিকম্পৰ ফলত প্ৰাণহানি হোৱাৰ সকলৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%81%D8%AA%D8%B1-%D8%AC%D9%88%D8%B4%DB%8C-%D9%85%D9%B9%DA%BE-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%B0/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%A0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا آج سہ پہر وزیراعظم کے دفتر (پی ایم او) میں کابینہ سکریٹری اور بھارت سرکار کے سینئر عہدیداران اور آفات سے نمٹنے کےلئے قومی اتھارٹی کے ارکان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی جائزہ لیں گے۔ جوشی مٹھ کے ضلعی افسران بھی بذریعہ ویڈیو کانفرنس اس موقع پر موجود رہیں گے۔ اس جائزہ میٹنگ میں اتراکھنڈ کے سینئر افسران بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کریں گے۔,যোশীমঠ সন্দৰ্ভত উচ্চ পৰ্যায়ৰ সভা অনুষ্ঠিত কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ কাৰ্যালয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D9%88%D9%94-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C%D8%B3%D9%B9%D8%B1%D8%B2-%D8%B3%D9%85%D9%B9-%DA%A9%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D8%A4%D9%86%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A7%8C%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0/,اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، لکھنؤ کے رکن پارلیمنٹ اور حکومت ہند کے ہمارے سینئر ساتھی جناب راجناتھ سنگھ جی، مرکزی کابینہ کے میرے دیگر معاونین، یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ، ریاستی حکومت کے معزز وزراء، اسمبلی اور قانون ساز کونسل کے اسپیکر حضرات، یہاں موجود صنعتی دنیا کے تمام ساتھی، دیگر شخصیات، خواتین و حضرات! سب سے پہلے تو میں اتر پردیش کے رکن پارلیمنٹ کے ناطے، کاشی کے رکن پارلیمنٹ کے ناطے سرمایہ کاروں کا استقبال کرتا ہوں اور سرمایہ کاروں کا میں اس لیے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اتر پردیش کی نوجوان طاقت پر بھروسہ کیا ہے۔ اتر پردیش کے نوجوانوں میں وہ صلاحیت ہے کہ آپ کے خوابوں اور عزائم کو نئی پرواز، نئی بلندی عطا کرنے کی صلاحیت اتر پردیش کے نوجوانوں میں ہے اور آپ جس عزم کو لے کر آئے ہیں، اتر پردیش کے نوجوانوں کی محنت، ان کی قوت ارادی، ان کی صلاحیت، ان کی سمجھ، ان کی جفا کشی آپ کے تمام خوابوں و عزائم کو شرمندۂ تعبیر کرکے رہے گی، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ کاشی کا رکن پارلیمنٹ ہوں تو ایک رکن پارلیمنٹ کے ناطے میں یہ لالچ چھوڑ نہیں سکتا ہوں، خواہش چھوڑ نہیں سکتا ہوں کہ میں اتنا تو چاہوں گا کہ آپ لوگ بہت مصروف ہوتے ہیں، لیکن کبھی وقت نکال کر میری کاشی دیکھ کر آئیے، کاشی بہت بدل گئی، کاشی بہت بدل گئی ہے۔ دنیا کا ایسا شہر اپنی قدیم استعداد کے ساتھ نئے رنگ روپ میں سج سکتی ہے، یہ اتر پردیش کی طاقت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ساتھیوں، یوپی میں 80 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے یہاں ہوئے ہیں۔ یہ ریکارڈ سرمایہ کاری یوپی میں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا کرے گی۔ یہ بھارت کے ساتھ ہی اتر پردیش کی گروتھ اسٹوری پر بڑھتے اعتماد کو دکھاتا ہے۔ آج کے اس پروگرام کے لیے میں یوپی کے نوجوانوں کو خاص طور پر مبارکباد دوں گا، کیوں کہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یوپی کے نوجوانوں کو، لڑکیوں کو، ہماری نئی نسل کو ہونے والا ہے۔ ساتھیوں، اس وقت ہم اپنی آزادی کے 75ویں سال کا جشن منا رہے ہیں۔ آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ یہ وقت اگلے 25 برسوں کے لیے امرت کال، نئے عزائم کا دور، نئے اہداف کا دور اور نئے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سب کی کوشش کے منتر کو لے کر محنت کی بلندی حاصل کرنے کا امرت کال ہے۔ آج دنیا میں جو عالمی حالات بنے ہیں، وہ ہمارے لیے بڑے مواقع بھی لے کر آئے ہیں۔ دنیا آج جس بھروسہ مند ساتھی کو تلاش کر رہی ہے، اس پر کھرا اترنے کی صلاحیت صرف ہمارے جمہوری بھارت کے پاس ہے۔ دنیا آج بھارت کے پوٹینشیل کو بھی دیکھ رہی ہے اور بھارت کی پرفارمنس کی بھی تعریف کر رہی ہے۔ کورونا دور میں بھی بھارت رکا نہیں، بلکہ اپنے ریفارمز کی رفتار کو مزید بڑھا دیا۔ اس کا نتیجہ آج ہم سبھی دیکھ رہے ہیں۔ ہم جی-20 معیشت میں سب سے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ آج بھارت، گلوبل رٹیل انڈیکس میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بھارت، دنیا کا تیسرا سب سے بڑا انرجی کنزیومر ملک ہے۔ پچھلے سال دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک سے، 84 بلین ڈالر کا ریکارڈ ایف ڈی آئی آیا ہے۔ بھارت نے پچھلے مالی سال میں 417 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا مرکینڈائز ایکسپورٹ کرکے نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ ساتھیوں، ایک قوم کے طور پر اب یہ وقت اپنی مشترکہ کوششوں کو کئی گنا زیادہ بڑھانے کا ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے، جب ہم اپنے فیصلوں کو صرف ایک سال یا 5 سال کو دیکھتے ہوئے محدود نہیں رکھ سکتے۔ بھارت میں ایک مضبوط مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم، ایک مضبوط اور ڈائیورس ویلیو اور سپلائی چین تیار کرنے کے لیے ہر کسی کا تعاون ضروری ہے۔ حکومت اپنی طرف سے مسلسل پالیسیاں بنا رہی ہے، پرانی پالیسیوں کو بہتر کر رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں مرکز کی این ڈی اے حکومت نے اپنے 8 سال مکمل کیے ہیں۔ ان برسوں میں ہم جیسا ابھی یوگی جی کو بتا رہے تھے، ریفارم-پرفارم-ٹرانسفارم کے منتر کے ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ ہم پالیسی اسٹیبلٹی پر زور دیا ہے، کوآرڈی نیشن پر زور دیا ہے، ایز آف ڈوئنگ بزنس پر زور دیا ہے۔ گزشتہ وقت میں ہم نے ہزاروں کمپلائنس ختم کیے ہیں، پرانے قوانین کو ختم کیا ہے۔ ہم نے اپنے ریفارمز سے ایک قوم کے طور پر بھارت کو مضبوطی دینے کا کام کیا ہے۔ وَن نیشن-وَن ٹیکس جی ایس ٹی ہو، وَن نیشن-وَن گرڈ ہو، وَن نیشن-وَن موبلٹی کارڈ ہو، وَن نیشن-وَن راشن کارڈ ہو، یہ تمام کوششیں، ہماری ٹھوس اور واضح پالیسیوں کی عکاس ہیں۔ جب سے یوپی میں ڈبل انجن کی سرکار بنی ہے، تب سے یوپی میں بھی اس سمت میں تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ خاص کر یوپی میں جس طرح قانون اور نظم و نسق کی حالت بہتر ہوئی ہے، اس سے تاجروں کا بھروسہ لوٹا ہے۔، بزنس کے لیے صحیح ماحول بنا ہے۔ گزشتہ برسوں میں یہاں کی انتظامی صلاحیت اور گورننس میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس لیے آج عوام کا اعتماد یوگی جی کی سرکار پر ہے۔ اور جیسے صنعتی دنیا کے ساتھی اپنے تجربات کی بنیاد پر ابھی اتر پردیش کی تعریف کر رہے تھے۔ میں رکن پارلیمنٹ کے ناطے اپنے تجربات بتاتا ہوں۔ کبھی ہم نے اتر پردیش کے ایڈمنسٹریشن کو قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ کبھی وزرائے اعلیٰ کی میٹنگ میں لوگ آیا کرتے تھے تو وہاں کے ایجنڈے کچھ الگ ہوتے تھے۔ لیکن ایک رکن پارلیمنٹ کے طورپر جب میں یہاں کام کرنے لگا تو میرا اعتماد کئی گنا بڑھ گیا کہ اتر پردیش کی بیورو کریسی، اتر پردیش کے ایڈمنسٹریشن میں وہ طاقت ہے جو ملک ان سے چاہتا ہے۔ جو بات صنعتی دنیا کے لوگ کہہ رہے تھے، ایک رکن پارلیمنٹ کے ناطے میں نے خود نے اس صلاحیت کا تجربہ کیا ہے۔ اور اس لیے میں یہاں سرکار کے سبھی بیوروکریٹس، سرکار کے چھوٹے موٹے ہر شخص کو یہ جو مزاج ان کا بنا ہے، اس کے لیے مبارکباد دیتا ہوں، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آج یوپی کے عوام نے 37 سال بعد کسی سرکار کو پھر سے اقتدار میں واپس لا کر اپنے خدمت گار کو ایک ذمہ داری سونپی ہے۔ ساتھیوں، اتر پردیش میں بھارت کی پانچویں چھٹے حصے کی آبادی رہتی ہے۔ یعنی یوپی کے ایک شخص کی بہتری بھارت کے ہر 6ویں شخص کی بہتری ہوگی۔ میرا یقین ہے کہ یہ یوپی ہی ہے، جو 21ویں صدی میں بھارت کی گروتھ اسٹوری کو مومینٹم دے گا۔ اور اسی دس سال کو آپ دیکھ لیجئے، ایک اتر پردیش ہندوستان کا بہت بڑا ڈرائیونگ فورس بننے والا ہے۔ ان 10 برسوں میں آپ کو دکھائی دے گا۔ جہاں کڑی محنت کرنے والے لوگ ہوں، جس ریاست میں ملک کی کل آبادی کا 16 فیصد سے زیادہ کنزیومر بیس ہو، جہاں 5 لاکھ سے زیادہ آبادی والے ایک درجن سے زیادہ شہر ہوں، جہاں ہر ضلع کا اپنا کوئی نہ کوئی خاص پروڈکٹ ہو، جہاں اتنی بڑی تعداد میں ایم ایس ایم ای ہوں، چھوٹی صنعتیں ہوں، جہاں الگ الگ موسموں میں الگ الگ زرعی پیداوار-اناج-پھل-سبزیوں کی بہار ہو، جس ریاست کو گنگا، یمنا، سریو سمیت متعدد ندیوں کا آشیرواد حاصل ہو، ایسے یوپی کو تیز ترقی سے بھلا کون روک سکتا ہے؟ ساتھیوں، ابھی اس بجٹ میں ہی ہم نے گنگا کے دونوں کناروں پر، حکومت ہند کے بجٹ کی بات کر رہا ہوں، 5-5 کلومیٹر کے دائرے میں کیمیکل فری نیچرل فارمنگ کا کوریڈور بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ڈیفنس کوریڈور کی چرچہ تو ہوتی ہے، لیکن اس کوریڈور کی کوئی چرچہ نہیں کرتا ہے۔ یوپی میں گنگا گیارہ سو کلومیٹر سے زیادہ لمبی ہیں اور یہاں کے 25 سے 30 ضلعوں سے ہوکر گزرتی ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ نیچرل فارمنگ کا کتنا بڑا امکان یوپی میں بننے جا رہا ہے۔ یوپی سرکار نے کچھ سال پہلے اپنی فوڈ پروسیسنگ پالیسی کا بھی اعلان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، کارپوریٹ ورلڈ کے لیے اور یہاں جو صنعتی دنیا کے لوگ ہیں، ان سے میں التجا کے ساتھ اس موضوع پر کہنا چاہتا ہوں۔ کارپوریٹ ورلڈ کے لیے اس وقت ایگریکلچر میں انویسٹ منٹ کا یہ سنہرا موقع ہے۔ ساتھیوں، تیز ترقی کے لیے، ہماری ڈبل انجن کی سرکار انفراسٹرکچر، انویسٹ منٹ اور مینوفیکچرنگ تینوں پر ایک ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس سال کے بجٹ میں ساڑھے 7 لاکھ کروڑ روپے کے غیر معمولی کیپٹل ایکسپینڈیچر کا ایلوکیشن اسی سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے ہم نے پی ایل آئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے، جن کا فائدہ آپ کو یہاں یوپی میں بھی ملے گا۔ یوپی میں بن رہا ڈیفنس کوریڈور بھی آپ کے لیے بہترین امکانات لے کر آ رہا ہے۔ بھارت میں آج ڈیفنس مینوفیکچرنگ پر جتنا زور دیا جا رہا ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں دیا گیا۔ آتم نربھر بھارت ابھیان کے تحت ہم نے بڑی ہمت کے ساتھ فیصلہ کیا ہے، ہم نے 300 چیزیں ایسی آئڈینٹی فائی کی ہیں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ 300 چیزیں اب بیرونِ ملک سے نہیں آئیں گی۔ یعنی ملٹری ایکوئپمنٹس سے جڑی ہوئی یہ 300 چیزیں ہیں، مطلب ڈیفنس کے شعبے میں جو مینوفیکچرنگ میں آنا چاہتے ہیں ان کے لیے ان 300 پروڈکٹ کے لیے تو ایشورڈ مارکیٹ دستیاب ہے۔ اس کا بھی آپ کو بہت زیادہ فائدہ ملے گا۔ ساتھیوں، ہم مینوفیکچرنگ اور ٹرانسپورٹ جیسے روایتی بزنس کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے فزیکل انفراسٹرکچر کو جدید بنا رہے ہیں۔ یہاں یوپی میں بھی جدید پاور گرڈ ہو، گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک ہو یا پھر ملٹی ماڈل کنکٹیوٹی ، سبھی پر 21ویں صدی کی ضروریات کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ آج یوپی میں جتنے کلومیٹر ایکسپریس وے پر کام ہو رہا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ جدید ایکسپریس وے کا مضبوط نیٹ ورک اتر پردیش کے سبھی اکنامک ژون کو آپس میں کنیکٹ کرنے والا ہے۔ جلد ہی یوپی کی پہچان جدید ریلوے انفراسٹرکچر کے سنگم کے طور پر بھی ہونے والی ہے۔ ایسٹرن اور ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور یہیں یوپی میں ہی آپس میں ایک دوسرے سے جڑنے والے ہیں۔ جیور سمیت یوپی کے 5 انٹرنیشنل ایئرپورٹ، یہاں کی انٹرنیشنل کنکٹیوٹی کو مزید مضبوط کرنے والے ہیں۔ گریٹر نوئیڈا کا علاقہ ہو یا پھر وارانسی، یہاں دو ملٹی موڈل لاجسٹکس ٹرانسپورٹ ہب کی تعمیر بھی ہو رہی ہے۔ انڈسٹریل اسٹریٹجی کے حساب سے، لاجسٹکس کے حساب سے یوپی ملک کے سب سے جدید، انفراسٹرکچر والی ریاستوں میں شامل ہو رہا ہے۔ یوپی میں بڑھتی ہوئی یہ کنکٹیوٹی اور بڑھتا ہوا انویسٹ منٹ، یوپی کے نوجوانوں کے لیے متعدد نئے مواقع لے کر آ رہا ہے۔ ساتھیوں، جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی آئے، اس کے لیے ہماری سرکار نے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان بنایا ہے۔ یہ مرکزی حکومت، ریاستی حکومت، الگ الگ محکمے، الگ الگ ایجنسیاں، اتنا ہی نہیں مقامی سماج کے اداروں تک کو، سبھی کو ایک ساتھ جوڑنا، اسی طرح سے پرائیویٹ سیکٹر، بزنس سے جڑے اداروں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کا کام یہ پی ایم گتی شکتی یوجنا کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے توسط سے کسی بھی پروجیکٹ سے جڑے ہر اسٹیک ہولڈر کو ریئل ٹائم جانکاری ملے گی۔ اپنے اپنے حصے کا کام اسے کب تک پورا کرنا ہے، اس کی پلاننگ وہ وقت پر کر پائے گا۔ گزشتہ 8 سال میں پروجیکٹس کو وقت پر پورا کرنے کا جو نیا کلچر ملک میں تیار ہوا ہے، ان کو یہ نئی سمت عطا کرے گا۔ ساتھیوں، گزشتہ برسوں میں بھارت نے جس تیزی سے کام کیا ہے، اس کی ایک مثال ہمارا ڈیجیٹل انقلاب ہے۔ 2014 میں ہمارے ملک میں صرف ساڑھے 6 کروڑ براڈ بینڈ سبسکرائبر تھے۔ آج ان کی تعداد 78 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ 2014 میں ایک جی بی ڈیٹا قریب قریب 200 روپے کا پڑتا تھا۔ آج اس کی قیمت گھٹ کر 12-11 روپے ہو گئی ہے۔ بھارت دنیا کے اُن ممالک میں ہے جہاں اتنا سستا ڈیٹا ہے۔ 2014 میں ملک میں 11 لاکھ کلومیٹر کا آپٹیکل فائبر تھا۔ اب ملک میں بچھائے گئے آپٹیکل فائبر کی لمبائی 28 لاکھ کلومیٹر کو پار کر چکی ہے۔ 2014 میں ملک میں 100 سے بھی کم گرام پنچایتوں میں آپٹیکل فائبر پہنچا تھا۔ آج آپٹیکل فائبر سے جڑی گرام پنچایتوں کی تعداد بھی پونے دو لاکھ کو پار کر گئی ہے۔ 2014 میں ملک میں 90 ہزار کے آس پاس ہی کامن سروس سینٹرز تھے۔ آج ملک میں کامن سروس سینٹرز کی تعداد بھی 4 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ آج دنیا کے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کا قریب قریب 40 فیصد بھارت میں ہو رہا ہے، دنیا کا 40 فیصد۔ کسی بھی ہندوستانی کو فخر ہوگا۔ جس بھارت کو لوگ ان پڑھ بتاتے ہیں، وہ بھارت یہ کمال کر رہا ہے۔ ہم نے گزشتہ 8 برسوں میں ڈیجیٹل انقلاب کے لیے جس فاؤنڈیشن کو مضبوط کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج الگ الگ سیکٹرز کے لیے اتنے امکانات بن رہے ہیں۔ اس کا بہت بڑا فائدہ ہمارے نوجوانوں کو ملا ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے یہاں کچھ سو اسٹارٹ اپس ہی تھے۔ لیکن آج ملک میں رجسٹرڈ اسٹارٹ اپس کی تعداد بھی 70 ہزار کے آس پاس پہنچ رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت نے 100 یونیکارن کا ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ ہماری نئی اکنامی کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی مضبوطی کا بہت فائدہ آپ لوگوں کو ملنے والاہے۔ ساتھیوں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یوپی کی ترقی کے لیے، آتم نربھر بھارت کی تعمیر کے لیے جس بھی سیکٹر میں، جو بھی ریفارم ضروری ہوں گے، وہ ریفارم لگاتار کیے جاتے رہیں گے۔ ہم پالیسی سے بھی ترقی کے ساتھ ہیں، فیصلوں سے بھی ترقی کے ساتھ ہیں، نیت سے بھی ترقی کے ساتھ ہیں اور مزاج سے بھی ترقی کے ساتھ ہیں۔ ہم سب آپ کی ہر کوشش میں آپ کے ساتھ ہوں گے اور ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیں گے۔ آپ پورے جوش سے اتر پردیش کی ترقی کے سفر می شامل ہوں۔ اتر پردیش کے مستقبل کی تعمیر آپ کے مستقبل کو بھی روشن بنائے گی۔ یہ وِن وِن سیچوئیشن ہے۔ یہ سرمایہ کاری سبھی کے لیے نیک فال ہو، سبھی کو فائدہ دینے والی ہو۔ اسی دعا کے ساتھ ’اِتی شبھم‘ کہتے ہوئے آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات! شکریہ!,লক্ষ্ণৌত অনুষ্ঠিত উত্তৰ প্ৰদেশ বিনিয়োগকাৰী সন্মিলনৰ যুগান্তকাৰী অনুষ্ঠান @ ৩.০ ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%86%DB%8C%D9%85%D8%A7-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گرو پورنیما کے مقدس موقع پر عوام کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ’’گرو پورنیما پر مبارکباد، یہ دن ان سبھی مثالی گروؤں کے تئیں تشکر کا اظہار کرنے کا دن ہے جنہوں نے ہمیں تحریک دی ،ہمیں راستہ دکھایا اور ہمیں زندگی کے بارے میں بہت کچھ سکھایا ،ہمارا معاشرہ دانشمندی اور سیکھنے سکھانے کی زبردست اہمیت سے منسلک ہے ۔ ہمارے گروؤں کا آشیرواد ہمارے ہندوستان کو نئی بلندیوں تک لے جائے ،ایسی میری دعا ہے۔‘‘,প্রধানমন্ত্রীয়ে গুৰু পূৰ্ণিমাত জনসাধাৰণক অভিনন্দন জনাইছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D9%85-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%B4%D9%86%D8%A7-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%9C%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3-%E0%A6%AC%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریند رمودی نے شیام جی کرشنا ورما کو ، ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کیا۔وزیراعظم نے 2003 میں سوئٹزر لینڈ سے شیام جی کرشنا ورما کی استھیوں کو واپس بھارت لانے کی بھی بات کہی اور 2015 میں انہوں نے برطانیہ سے اپنی اسناد ےحاصل کی تھیں ۔ سلسلے وار ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ عظیم انقلابی شخصیت ( مہاکرانتی کاری) اور مجاہد آزادی شیام جی کرشناکو ان کی جینتی پر خراج عقیدت، ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ ملک کی آزادی کی لڑائی میں ان ک�� خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ نوجوان بھارت ، ان کی عظمت اور ہمت کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرے ۔,শ্যামজী কৃষ্ণ বর্মাৰ জয়ন্তীত তেওঁলৈ শ্ৰদ্ধা নিবেদন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%86%DA%88%D8%AA-%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پنڈت دین دیال اپادھیائے کو ان کی جینتی کے موقع پر خراج عقدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کو ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انتودیہ اور غریبوں کی خدمت پر توجہ مرکوز کرنا ہمارے لئے باعث ترغیب ہے۔ انھیں بڑی حد تک ایک غیرمعمولی مفکر اور دانشور کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে পণ্ডিত দীনদয়াল উপাধ্যায়ক তেওঁৰ জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D9%84%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%81%D8%B3%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے براسیلیا میں فسادات اور سرکاری اداروں میں توڑ پھوڑ کی خبروں پراپنی تشویش کااظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ’’براسیلیا میں فسادات اور سرکاری اداروں میں کی جانے وا لی توڑ پھوڑ کی خبروں کے بارے میں مجھے گہری تشویش ہے ۔ سب لوگوں کو جمہوری روایات کی پاسداری کرنی چاہئے۔ہماری بھر پو ر ہمدردیاں برازیل کے حکام کے ساتھ ہیں ‘‘۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ব্ৰাছিলিয়াত চৰকাৰী প্ৰতিষ্ঠানৰ বিৰুদ্ধে বিদ্ৰোহ আৰু লণ্ডভণ্ড কৰাৰ খবৰত চিন্তা প্ৰকাশ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-5-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%B9%E0%A6%BE-%E0%A7%AB-%E0%A6%AB/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 5 فروری، 2022 کو حیدر آباد کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم دن میں تقریباً 2 بج کر 45 منٹ پر، حیدرآباد کے پٹن چیرو میں واقع انٹرنیشنل کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار دی سیمی ایرڈ ٹراپکس (آئی سی آر آئی ایس اے ٹی) کیمپس جائیں گے اور آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی 50 سالہ تقریبات کا آغاز کریں گے۔ شام کو تقریباً 5 بجے، وزیر اعظم حیدر آباد میں تعمیر شدہ ’اسٹیچو آف ایکویلٹی‘ قوم کو وقف کریں گے۔ اسٹیچو آف ایکویلٹی کی لمبائی 216 فٹ ہے، جسے گیارہویں صدی کے بھکتی سنت شری رامانوجاچاریہ کی یاد میں بنایا گیا ہے، جنہوں نے عقیدہ، مذہب اور نسل سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں برابری کے تصور کو فروغ دینے کے لیے کام کیا۔ یہ مجسمہ ’پنچ لوہا‘ سے بنایا گیا ہے، جو پانچ دھاتوں کا مجموعہ ہے: سونا، چاندی، پیتل، تانبہ اور زِنک، اور یہ بیٹھی ہوئی حالت میں دنیا میں دھات سے بنے ہوئے سب سے اونچے مجسموں میں سے ایک ہے۔ اس مجسمہ کو ’بھدرا ویدی‘ نام کی ایک 54 فٹ اونچی عمارت کی بنیاد پر نصب کیا گیا ہے۔ عمارت کی مختلف منزلوں پر ویدک ڈیجیٹل لائبریری اور تحقیقی مرکز، قدیم ہندوستانی متن، ایک تھیٹر اور ایک تعلیمی گلیارہ ہے، جس میں شری رامانوجاچاریہ کی مختلف تخلیقوں کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس مجسمہ کے تخلیق کار شری رامانوجاچاریہ آشرم کے شری چنّا جی یار سوامی ہیں۔ پروگرام کے دوران، شری رامانوجاچاریہ کی حیات و تعلیمات پر مبنی 3 ڈی پریزنٹیشن میپنگ بھی دکھائی جائے گی۔ وزیر اعظم، اسٹیچو آف ایکویلٹی کے چاروں طرف موجود 108 دِویہ دیشم (خوبصورتی سے کندہ کیے گئے منادر) سے ملتی جلتی تعمیرات کا بھی دورہ کریں گے۔ شری رامانوجاچاریہ نے قومیت، صنف، نسل، ذات یا مسلک کی پرواہ کیے بغیر، ہر انسان کو برابر سمجھتے ہوئے زندگی بھر ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ اس وقت شری رامانوجاچاریہ کی 1000ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، اور اسٹیچو آف ایکویلٹی کی نقاب کشائی 12 روزہ شری رامانوجاچاریہ سہسرابدی سماروہم کا ایک حصہ ہے۔ اس دورہ میں، وزیر اعظم آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی 50 سالہ تقریبات کا آغاز کریں گے۔ وزیر اعظم آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی پودوں کے تحفظ پر مبنی ماحولیاتی تبدیلی تحقیقی فیسلیٹی اور آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کی ریپڈ جنریشن ایڈوانس منٹ فیسلیٹی کا بھی افتتاح کریں گے۔ یہ دونوں ادارے ایشیا اور سب صحارا افریقہ کے چھوٹے کسانوں کے لیے وقف ہیں۔ وزیر اعظم آئی سی آر آئی ایس اے ٹی کے مخصوص طریقے سے ڈیزائن کردہ لوگو کی بھی رونمائی کریں گے اور اس موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کریں گے۔ آئی سی آر آئی ایس اے ٹی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو ایشیا اور سب صحارائی افریقہ کی ترقی کے لیے زرعی تحقیق کراتی ہے۔ یہ فصلوں کی بہتر اقسام اور ہائبرڈ کی فراہمی کے ذریعے کسانوں کی مدد کرتی ہے اور ماحولیاتی تبدیلی سے لڑنے میں خشک علاقوں کے چھوٹے کسانوں کی بھی مدد کرتی ہے۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে অহা ৫ ফেব্ৰুৱাৰীত হায়দৰাবাদ ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%9B%E0%A7%8C%E0%A6%A1%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%B0/,نئی دہلی ،14فروری : مرکزی کابینہ نے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی قیادت میں جمہوریہ ہند کی حکومت کے تحت سیاحت کی وزارت اور مملکت سعودی عربیہ کے تحت سعودی کمیشن برائے سیاحت اور قومی ورثہ کے مابین ایک مفاہمتی عرضداشت پردستخط کئے جانے کو اپنی منظوری دے دی ہے تاکہ سیاحت کے شعبے میں تعاون کومستحکم بنایاجاسکے ۔ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت کےاہم مقاصد درج ذیل ہیں : اے ۔ سیاحت کی ترقی ، ہوٹل ، سیاحتی مقامات اور سیاحوں کی قیام گاہوں سے متعلق سہولتوں ، سیاحت کے اعداد وشمار اور شماریات ، نمائش پرمبنی تقریبات اورمتعلقہ پارٹیوں کے ذریعہ دیگرسیاحتی سرگرمیاں ، سیاحتی ترقیات ، منصوبہ بندی اورسرمایہ کاری ، لائسنسنگ ، آپریٹنگ اور مارکیٹنگ سیاحتی سہولتیں ، زرعی سیاحت ، ریگستانی سیاحت وغیرہ کے سلسلے میں اطلاعات اور مہارت سے متعلق قانون سازی کا باہم تبادلہ ۔ بی۔ میڈیا اشاعتوں کا تبادلہ ، سیاحت سے متعلق فلمیں ، ماہرین اورسیاحتی میڈیا نمائندگان کے مابین وزٹس کا تبادلہ جن میں دونوں ممالک شامل ہوں گے ۔ س�� ۔سیاحتی سرمایہ کاری مواقع جو دونوں جانب دستیاب ہوں ، انھیں متعارف کرانا اور سیاحتی پروجیکٹوں میں باہمی سیاحت کی حوصلہ افزائی ڈی ۔ مشترکہ سیاحتی تقریبات کی حوصلہ افزائی ، نمائشوں میں شراکت داری ، دونوں جانب کانفرنسوں اورمذاکرات کا اہتمام جس کے ذریعہ مشترکہ سیاحتی بصیرت کو فروغ حاصل ہو۔ ( ای)دونوں ملکوں میں سیاحتی تعلیم اورتربیت کے شعبے میں سرکاری اورنجی تعلیمی سہولتوں کی حوصلہ افزائی (ایف ) سیاحت کے شعبے اور مشاورتی خدمات میں اختراعات تجربات اورتکنالوجیوں کا باہم تبادلہ (جی )سیاحتی امورسے وابستہ بین الاقوامی فورموں اوراداروں میں باہم تعاون اورتال میل پس منظر بھارت اورسعودی عرب ایک مضبوط سفارتی اورطویل اقتصادی تعلقات کے حامل ملک رہے ہیں ۔ اب دونوں ممالک میں پہلے سے استوارتعلقات کو مزید مستحکم بنانے اورفروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں اوراسی مقصد سے جمہوریہ ہند کی حکومت کی وزارت سیاحت اور مملکت سعودی عربیہ کے سعودی کمیشن برائے سیاحت اور قومی ورثے کے مابین مفاہمتی عرضداشت پردستخط عمل میں آئے ہیں تاکہ سیاحت کے شعبے میں باہمی تعاون کو مستحکم بنایاجاسکے ۔ سعودی عرب ،مشرق وسطیٰ سے بھارت کے لئے ،سیاحتی آمدنی فراہم کرنےوالی مضمرات پرمشتمل منڈی ہے ۔ سعودی عرب کے ساتھ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت پردستخط ہونے سے اس وسیلہ منڈی سے سیاحوں کی آمدمیں یقینی طورپراضافہ ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔م ن ۔س ش ۔ ع آ)14.02.2019(,ভাৰত আৰুছৌডি আৰৱৰ মাজত পর্যটন ক্ষেত্রতবুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰৰ ক্ষেত্ৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B3-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9B-%E0%A6%A6/,وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے اتراکھنڈ میں ایک افسوسناک بس حادثے میں ہوئی اموات پررنج وغم کا اظہارکیاہے۔ وزیر اعطم نے اس بس حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کے لئے وزیراعظم کے قومی راحتی فنڈ پی ایم این آرایف سے دو –دولاکھ روپے اورزخمیوں کے لئے 50-50ہزارروپے کی امداد کااعلان کیاہے ۔ وزیراعظم کے دفترنے ٹوئیٹ کیا ؛ ‘‘وزیراعظم نے اتراکھنڈ میں بس حادثے میں مرنے والوں کے نزدیکی رشتے داروں کے لئے پی ایم این آرایف سے دو –دو لاکھ روپے کی نقد امداد کااعلان کیاہے ، جب کہ زخمیوں کو 50-50ہزارروپے دیئے جائیں گے ۔’’,উত্তৰাখণ্ডত সংঘটিত বাছ দুৰ্ঘটনাত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DB%94%D9%88%D8%B3%D8%B7%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 27 جنوری 2022 کو ورچوئل طریقے سے بھارت-وسطی ایشیا سربراہی اجلاس کی پہلی میٹنگ کی میزبانی کریں گے۔جس میں قزاقستان، کرغیز جمہوریہ، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے صدور کی شرکت کریں گے ۔ بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان اعلی رہنماؤں کی سطح پر اپنی نوعیت کی یہ پہلی میٹنگ ہو گی ۔ پہلی بھارت۔وسطی ایشیا چوٹی کانفرنس وسطی ایشیائ�� ممالک کے ساتھ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاس ہے، جو ہندوستان کے( ایکسٹینڈڈ نیبر ہوڈ) ‘‘توسیع شدہ پڑوس’’ کا حصہ ہیں۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 2015 میں تمام وسطی ایشیائی ممالک کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد، دو طرفہ اور کثیر جہتی فورموں پر اعلیٰ سطحی تبادلے ہوئے ہیں۔ وزرائے خارجہ کی سطح پر بھارت۔وسطی ایشیا ڈائیلاگ کے آغاز نے ، جس کی تیسری میٹنگ نئی دہلی میں 20-18 دسمبر 2021 کو منعقد ہوئی تھی، بھارت ۔وسطی ایشیا تعلقات کو ایک نئی جہت فراہم کی ہے۔ 10 نومبر 2021 کو افغانستان پرنئی دہلی میں منعقد ہوئے علاقائی سلامتی سے متعلق مذاکرات میں وسطی ایشیائی ممالک کی قومی سلامتی کونسلوں کے سیکریٹریوں نے شرکت کی اور افغانستان کے بارے میں ایک مشترکہ علاقائی نقطہ نظر کا خاکہ پیش کیا۔ پہلی بھارت۔وسطی ایشیا چوٹی کانفرنس کے دوران، توقع ہے کہ لیڈران بھارت۔ وسطی ایشیا تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ جس میں دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی امور بالخصوص بدلتی ہوئی علاقائی سلامتی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کئے جانے کاامکان ہے۔ یہ سربراہ کانفرنس بھارت اور وسط ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے ایک جامع اور پائیدار بھارت۔وسطی ایشیا شراکت داری کی اہمیت کی علامت ہے۔,ভাৰত-মধ্য এছিয়া শীৰ্ষ সন্মিলনৰ প্ৰথম বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA%D8%8C-%D8%A8%D9%86%DA%A9%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A7%AA%E0%A7%A6%E0%A7%A6-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%A8-%E0%A6%A1/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کسانوں، بنکروں، ایم ایس ایم ایز، مینوفیکچررس اوربرآمد کاروں کی تعریف کی اورانہیں مبارکباد دی، جبکہ بھارت نے مجوزہ پروگرام سے 9 دن قبل 400 ارب ڈالر کی سامان کی برآمدات کے آرزومند کاہدف حاصل کرلیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’بھارت نے پہلی مرتبہ 400 ارب ڈالر کے سامان کی برآمدات کانشانہ طے کرلیا ہے اور اس نشانے کوحاصل کرلیا ہے۔ میں اپنے کسان بھائیوں ، بنکروں، ایم ایس ایم ایز ، مینوفیکچررس اور برآمد کاروں کواس کامیابی کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمارے آتم نربھر بھارت کے سفر #LocalGoesGlobal میں ایک کلیدی سنگ میل ہے ‘‘۔,"ভাৰতৰ দ্বাৰা ৪০০ বিলিয়ন ডলাৰ মূল্যৰ সামগ্ৰী ৰপ্তানিৰ অভিলাষী লক্ষ্য পূৰণ কৰাত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কৃষক, শিপিনী, এমএছএমই, প্ৰস্তুতকৰ্তা তথা ৰপ্তানিকাৰীক অভিনন্দন জনা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے احمد آباد میں ’سنٹر اسٹیٹ سائنس کانکلیو‘ کا افتتاح کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے روشنی ڈالی کہ اس کانکلیو کی تنظیم سب کا پریاس کی واضح مثال ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ""21ویں صدی کے ہندوستان کی ترقی میں سائنس اس توانائی کی طرح ہے، جس میں ہر علاقے کی ترقی اور ہر ریاست کی تر��ی کو تیز کرنے کی طاقت ہے۔ آج جب ہندوستان چوتھے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے کی جانب گامزن ہے، ہندوستان کی سائنس اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ایسے میں انتظامیہ اور پالیسی سازی میں لوگوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ سائنس حل، ارتقاء اور اختراع کی بنیاد ہے اور اسی پریرتا کے ساتھ، آج کا نیا ہندوستان جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان کے ساتھ ساتھ جئے انوسندھان کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ان اسباق پر تبصرہ کرتے ہوئے جو ہم تاریخ سے سیکھ سکتے ہیں، جو مرکز اور ریاستوں دونوں کے لیے مددگار ثابت ہوں گے، وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ہم پچھلی صدی کی ابتدائی دہائیوں کو یاد کریں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کس طرح تباہی اور المیہ کے دور سے گزر رہی تھی۔ لیکن اس دور میں بھی خواہ مشرق ہو یا مغرب، ہر جگہ سائنسدان اپنی عظیم دریافتوں میں مصروف تھے۔ مغرب میں آئن سٹائن، فرمی، میکس پلانک، نیلز بوہر اور ٹیسلا جیسے سائنسدان اپنے تجربات سے دنیا کو جگا رہے تھے۔ اسی دور میں سی وی رمن، جگدیش چندر بوس، ستیندر ناتھ بوس، میگھناد ساہا، اور ایس چندر شیکھر سمیت کئی سائنسدان اپنی نئی دریافتیں منظر عام پر لا رہے تھے۔ وزیر اعظم نے مشرق اور مغرب کے درمیان فرق کو واضح کیا کیونکہ ہم اپنے سائنس دانوں کے کام کو مناسب پہچان نہیں دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ جب ہم اپنے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں تو سائنس ہمارے معاشرے کا حصہ بن جاتی ہے، ثقافت کا حصہ بن جاتی ہے۔ جناب مودی نے سب سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ملک کے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں۔ ""سائنسدان""، وزیر اعظم نے کہا، ""ملک کو ان کے جشن کو منانے کے لیے کافی وجوہات دے رہے ہیں۔"" انہوں نے کورونا ویکسین تیار کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی ویکسین مہم میں تعاون کرنے میں ہندوستانی سائنسدانوں کے کردار کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت سائنس پر مبنی ترقی کی سوچ کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ""2014 کے بعد سے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے، آج ہندوستان عالمی اختراعی اشاریہ میں 46 ویں نمبر پر ہے، جب کہ 2015 میں ہندوستان 81 ویں نمبر پر تھا""۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ملک میں ریکارڈ تعداد میں پیٹنٹ رجسٹرڈ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جدت کےماحول اور ایک متحرک اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام کو بھی واضح کیا۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ ""سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کی طرف جھکاؤ ہماری نوجوان نسل کے ڈی این اے میں ہے۔ ہمیں اس نوجوان نسل کو پوری طاقت کے ساتھ عاونت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے نوجوانوں کے اختراعی جذبے کی حمایت کے لیے تحقیق اور اختراع کے شعبے میں، نئے شعبوں اور مشنوں کی فہرست گنوائی۔ انہوں نے خلائی مشن، نیشنل سپر کمپیوٹنگ مشن، سیمی کنڈکٹر مشن، مشن ہائیڈروجن اور ڈرون ٹیکنالوجی کی مثالیں دیں۔ اسی طرح، قومی تعلیمی پالیسی، مادری زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دے کر اس کو فروغ دے رہی ہے۔ وزیر اعظم نے روشنی ڈالی کہ ہندوستان کو اس امرت کال میں تحقیق اور اختراع کا عالمی مرکز بنانے کے لیے، ہمیں بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تحقیق کو مقامی سطح تک لے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ریاستوں سے کہا کہ وہ اپنی مقامی ضر��ریات کے مطابق تحقیق اور اختراع کو فروغ دیں۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ سائنسی اداروں کی تشکیل اور عمل کو آسان بنانے پر زور دے کر اختراع کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اختراعی لیبز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ہر ریاست سے سائنس، اختراعات اور ٹکنالوجی کے حوالے سے جدید پالیسی وضع کرنے کو بھی کہا۔ ""بطور حکومت، ہمیں اپنے سائنسدانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اشتراک اور تعاون کرنا ہوگا، اس سے سائنسی جدیدیت کا ماحول پیدا ہوگا۔"" وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کو بہت سے قومی سطح کے سائنسی اداروں اور قومی تجربہ گاہوں کی صلاحیت اور مہارت کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ""ہمیں سائنسی اداروں اور مہارت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لیے اپنے سائنس سے متعلقہ اداروں کو سائلو کی حالت سے باہر نکالنا ہوگا۔"" انہوں نے بنیادی سطح پر سائنس کے فروغ کے پروگراموں پر زور دیا۔ انہوں نے ریاستی سائنس کے وزراء کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنے سائنس کے نصاب کے اچھے طریقوں اور پہلوؤں کو شیئر کریں۔ خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ’اسٹیٹ سینٹر سائنس کانکلیو‘ ملک میں سائنس کی ترقی کی جانب ایک نئی جہت اور عزم کا اضافہ کرے گا۔ وزیر اعظم نے سب سے زور دیکر کہا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آنے والے 25 سال ہندوستان کے لیے سب سے اہم سال ہیں کیونکہ یہ آنے والے ہندوستان کی نئی شناخت اور طاقت کا تعین کریں گے۔ وزیر اعظم نے شرکا پر زور دیا کہ وہ اس کانکلیو سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنی ریاستوں تک لے جائیں اور قوم کی تعمیر میں اپنی حصہ رسدی کریں۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ بھی موجود تھے۔ پس منظر ملک میں اختراعات اور کاروبار کو آسان بنانے کے لیے وزیر اعظم کی انتھک کوششوں کے مطابق، اپنی نوعیت کا پہلا کانکلیو، پورے ملک میں ایک مضبوط سائنس، ٹیکنالوجی اور انوویشن (ایس ٹی آئی) کی تعمیر کے لیے ماحولیاتی نظام کے لئے- تعاون پر مبنی وفاقیت کے جذبے میں – مرکز-ریاست تال میل اور تعاون کے طریقہ کار کو مضبوط کرے گا ۔ دو روزہ کنکلیو کا انعقاد سائنس سٹی، احمد آباد میں 10سے11 ستمبر 2022 کو کیا جا رہا ہے۔ اس میں ایس ٹی آئی ویژن 2047 سمیت مختلف موضوعات پر اجلاس شامل ہوں گے۔ جن میں ریاستوں میں ایس ٹی آئی کے لیے مستقبل کی ترقی کے راستے اور وژن؛ صحت – سب کے لیے ڈیجیٹل صحت دیکھ بھال ؛ 2030 تک تحقیق و ترقی میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو دوگنا کرنا؛ زراعت – کسانوں کی آمدنی کو بہتر بنانے کے لیے تکنیکی مداخلت؛ پانی – پینے کے قابل پینے کے پانی کی پیداوار کے لیے اختراع؛ توانائی- ہائیڈروجن مشن میں ایس اور ٹی کے کردار سمیت سب کے لیے صاف توانائی؛ ڈیپ اوشین مشن اور ساحلی ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ ساتھ ملک کی مستقبل کی معیشت کے لیے اس کی مطابقت شامل ہیں۔ کانکلیو میں گجرات کے وزیر اعلیٰ، سائنس و ٹیکنالوجی کےمرکزی وزیر (سائنس و ٹیکنالوجی)، ریاستوں کے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزراء اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سکریٹریز، صنعت کے رہنماؤں، کاروباری افراد، غیر سرکاری تنظیمو��، نوجوان سائنسدانوں اور طلباء نے شرکت کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ اع ۔ ر ا ( 10112",আহমেদাবাদত ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সিংযোগে ‘কেন্দ্ৰ-ৰাজ্য বিজ্ঞান সন্মিলন’ উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%84%D8%A7-%DA%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84%D8%A7%DA%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%97%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE/,"وزیر اعظم لی سیان لونگ، آپ کی دوستی، بھارت ۔ سنگاپور شراکت داری اور اس خطے کے بہتر مستقبل کے لئے آپ کی قیادت کا شکریہ وزرائے دفاع، جناب جان چپمین معززین اور عالی مرتبہ شخصیات نمسکار اور آپ سب کو بہت بہت شام کا سلام! میں ایک ایسے خطے میں واپس آکر بہت مسرور ہوں، جسے بھارت زمانۂ قدیم سے سورن بھومی یا سونے کی سرزمین کے طور پر جانتا آیا ہے۔ اس خاص برس میں مجھے یہاں آکر بڑی مسرت ہوئی ہے۔ بھارت کے ساتھ آسیان کی ترقی کا یہ سنگ میل برس ہے۔ ماہ جنوری میں ہم نے اپنے یوم جمہوریہ کے موقع پر دسویں آسیان رہنماؤں کی میزبانی کا منفرد اعزاز حاصل کیا تھا۔ آسیان۔ بھارت سربراہ ملاقات آسیان کے تئیں ہماری عہد بندگی اور ایکٹ ایسٹ پالیسی سے ہماری وابستگی کا بین ثبوت ہے۔ ہزاروں برسوں سے بھارت مشرق کی جانب دیکھتا آیا ہے۔ صرف طلوع آفتاب دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اس دعا کے لئے بھی کہ اس کی روشنی پورے عالم کو منور کرے۔ بنی نوع انسان اب ابھرتے ہوئے مشرق کی جانب دیکھتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ اکیسویں صدی پوری دنیا کے لئے کیا کیا مواقع لے کر آئی ہے کیونکہ دنیا کا مقدر بھارت۔ بحرالکاہل خطے میں رونما ہونے والی پیش رفتوں سے گہرائی سے متاثر ہوگا۔ کیونکہ امیدوں اور وعدوں کا یہ نیا عہد عالمی سیاست اور تاریخی غلطیوں کی تہوں کو بھی تہہ و بالا کر رہا ہے۔ میں یہاں یہ کہنے آیا ہوں کہ ہم جس مستقبل کے آرزو مند ہیں وہ شانگریلا جیسا چھلاوہ نہیں ہے اور ہم اس خطے کو اپنی اجتماعی امیدوں اور توقعات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ اب یہاں ایسا کرنا زیادہ ضروری ہے جتنا کبھی سنگاپور میں ہوا کرتا تھا۔ اس عظیم ملک نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ہے کہ جب سمندر کھلے ہوئے ہوتے ہیں تو سمندر محفوظ ہوتے ہیں، ممالک مربوط ہوتے ہیں، قانون کی حکمرانی قائم رہتی ہے اور خطہ مستحکم رہتے ہیں۔ ممالک خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، خودمختار ممالک کے طور ترقی کرتے ہیں۔ اور اپنے متبادلوں میں آزاد اور بے خوف ہوتے ہیں۔ سنگاپور نے ہمیں یہ راستہ بھی دکھایا ہے کہ جب ممالک ایک طاقت یا دوسری طاقت کے پیچھے کھڑے ہونے کی بجائے اصولوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ دنیا کے لئے عزت کماتے ہیں اور بین الاقوامی امور میں ان کی آواز سنی جاتی ہے۔ جب وہ اندرونِ ملک تنوع اختیار کر لیتے ہیں تو وہ دنیا جہان میں شمولیت تلاش کرتے ہیں۔ بھارت کے لئے اگرچہ سنگاپور اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک جذبہ ہے جو ایک بہادر ملک کو ایک بہادر شہر سے جوڑتا ہے۔ سنگاپور آسیان تک پہنچنے کے لئے ہمارا زینہ ہے۔ یہ صدیوں سے بھارت کے لئے مشرق تک پہنچنے کا راستہ رہا ہے۔ دو ہزار سے زائد برسوں سے مانسون کی ہوائیں، سمندر کا تنوع اور انسانی توقعات نے بھارت اور اس خطے کے مابین روابط استوار کیے ہیں۔ یہ امن اور دوستی، مذہب اور ثقافت، فنون لطیفہ اور تجارت، زبان و ادب ��ے مملو رہا ہے۔ یہ انسانی روابط پائیدار رہے ہیں۔ اگرچہ سیاست اور تجارت کے مدوجزر آتے اور جاتے رہے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے ہم نے اس خطے میں اپنے کردار اور اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے لئے اپنے ورثے کو از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب بھارت کے لئے کوئی اور دیگر خطہ اتنی توجہ کا حامل نہیں ہے جتنی توجہ ہم اس خطے پر دے رہے ہیں ، اس کی بہتر وجوہات ہیں۔ سمندر ماقبل ویدک زمانے سے بھارتی فکر میں ایک اہم مقام کا حامل رہا ہے۔ ہزاروں برس قبل سندھو گھاٹی کی تہذیب اور بھارتی جزیرے نما کے مابین بحری تجارت ہوتی رہی ہے۔ سمندر او ورونا یعنی تمام پانی کا خدا دنیا کی قدیم ترین کتابوں۔ ویدوں میں نمایاں طور موجود ہے۔ قدیم پرانوں میں اس کا تذکرہ ہے۔ یہ وہ پران ہے جو ہزاروں برس قبل تصنیف کیے گئے تھے۔ بھارت کی جغرافیائی تاریخ سمندروں سے عبارت ہے۔’اُتّروں یت سمدرسیہ‘ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سرزمین جو ان سمندروں کے شمال میں واقع ہے۔ میرے ہوم اسٹیٹ گجرات میں لوتھل دنیا کی سب سے قدیم بندرگاہ تھی۔ آج بھی ایک گودی کے نشانات باقیات کی شکل میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کی گجراتی محنت کش ہوتے ہیں اور دور دور تک کا سفر کرتے ہیں، یہاں تک کہ آج بھی۔ بحر ہند نے بھارت کی تاریخ کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔ اب بھی ہمارے مستقبل کی کلید اسی کے پاس ہے۔ اس سمندر سے بھارت کی 90 فیصد تجارت ہوتی ہے اور توانائی وسائل بہم پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ آج بھی عالمی تجارت کی لائف لائن ہے۔ بحرِ ہند متنوع ثقافتوں کے خطوں کو باہم مربوط کرتا ہے، مختلف سطحوں کے امن اور خوشحالی کو بحال رکھتا ہے۔ اب یہاں بڑی طاقتوں کے بحری جہاز آتے ہیں جو استحکام اور نبردآزمائی کے لئے تشویش کن ہے۔ مشرق کے تئیں ملاکا اسٹریٹ اور جنوبی چین کا سمندر بھارت کو بحرالکاہل سے مربوط کرتا ہے۔ بھارت کو بحرالکاہل اور ہمارے بہت سے شراکت داروں – آسیان، جاپان، جمہوریۂ کوریا، چین اور امریکہ سے مربوط کرتا ہے۔اس خطے میں ہماری تجارت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اور سمندر پار سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا ایک قابل ذکر حصہ اسی سمت سے آتا ہے۔ خود آسیان کا حصہ بیس فیصد سے زائد کا ہے۔ اس خطے میں ہمارے مفادات وسیع اور وابستگی گہری ہے۔ بحرہند کے خطے میں ہمارے تعلقات مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اقتصادی صلاحیتوں کو بڑھانے اور صلاحیتوں میں اقتصادی پہلو شامل کرنے کے حمایتی ہیں اور ہمارے اپنے دوستوں اور شراکت داروں کے لئے بحری سلامتی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ہم بحر ہند، بحریہ سمپوزیم کے توسط سے اجتماعی صلاحیت سلامتی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم بحر ہند سے متعلق رم ایسوسی ایشن کے توسط سے ایک جامع ایجندا برائے علاقائی تعاون کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ہم بحر ہند سے باہر بھی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ عالمی ٹرانزٹ روٹ پر امن اور سبھی کے لئے کھلا رہے۔ تین برس قبل ماریشس میں ہم نے ایک دنیا کے متعلق اپنا وژن ظاہر کیا تھا۔ ساگر ، ہندی زبان میں اس کے معنی ہوتے ہیں سمندر۔ اور ساگر سلامتی اور خطے میں نمو کو سبھی کے لئے ممکن بناتا ہے۔ اور یہی عقل مندی ہے کہ ہم بھی سب سے زیادہ امن کے فروغ کو پورے زور و شور سے چلیں۔ ہماری ایکٹ ایسٹ پالیسی کا مقصد بھارت کو مربوط کرنا ہے، خصوصاً اس کے مشرقی اور شمال مشرقی خطے کے ساتھ اس کے ارتباط میں اضافہ اور ہمارے زمینی اور بحری شراکت داروں کو مشرق سے وابستہ کرنا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا زمین اور سمندر دونوں لحاظ سے ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہر ایک جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے ساتھ ہمارے افزوں سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ آسیان کے ساتھ، ڈائیلاگ شراکت داروں کے ساتھ ہم 25برسوں میں کلیدی شراکت دار بن چکے ہیں۔ ہمارے اپنے ان تعلقات کو سالانہ سربراہ ملاقاتوں اور 30ڈائیلاگ میکنزموں کے ذریعہ تقویت دیتے رہے ہیں۔ تاہم خطے کے لئے زیادہ مشترکہ وژن پر مبنی نظریہ کے ساتھ اور ہمارے قدیم روابط سے پیدا ہونے والی آسانی اور پیشگی تعارف کےساتھ۔ ہم آسیان کی رہنمائی والے اداروں مثلاً مشرقی ایشیا سربراہ ملاقات، اے ڈی ایم ایم، پلس اور اے آر ایف کے معاملے میں سرگرم شراکت دار ہیں۔ ہم بی آئی ایم ایس ٹی ای سی اور میکانگ۔ گنگا اقتصادی گلیارے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ گلیارا جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے مابین ایک طرح کا پل ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات اقتصادی نوعیت سے لے کر کلیدی نوعیت تک کے ہیں اور ان میں مکمل تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ یہ ایک عظیم وجود کی شراکت داری ہے اور اس کا مقصد بھارت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی میں سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جموریہ کوریا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں مضبوط روانی آئی ہے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ ہماری شراکت داری میں بھی ایک تازہ توانائی داخل ہوئی ہے۔ ہمارے متعدد شراکت داروں کے ساتھ ہم تین یا اس سے بھی زیادہ شکلوں میں ملاقات کرتے ہیں۔ تین سے بھی زائد برسوں سے میں فجی جاتا رہا ہوں تاکہ بحرالکاہل جزائر والے اس ملک سے روابط کا ایک نیا اور کامیاب دور شروع ہو جائے۔فورم فار انڈیا پیسفک آئی لینڈ کو آپریشن یا ایف آئی پی آئی سی جیسے فورموں کی میٹنگوں نے مشترکہ مفادات اور کاروائیوں کے ذریعہ جغرافیائی فاصلے مٹا دیے ہیں۔ مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ ہماری شراکت داری مضبوط اور نمو پذیر ہے۔ ہماری کلیدی خود مختاری کا یہ قدم ہے کہ بھارت کی کلیدی شراکت داری جو روس کے ساتھ قائم ہے وہ خصوصی اور منفرد شکل میں بالیدہ ہوئی ہے۔ دس دن قبل سوچی میں صدر پتین اور میں نے ایک مضبوط قطبی دنیا کے نظام کے لئے اپنے خیالات ساجھا کیے تھے تاکہ عہد حاضر کی چنوتیوں سے نمٹا جا سکے۔ اس کےساتھ ہی ساتھ بھارت کی عالمی کلیدی شراکت داری جو امریکہ کے ساتھ قائم ہے اس میں تاریخ کی جھلک اب باقی نہیں رہ گئی اور تعلقات کی وسعت کے ساتھ غیر معمولی طور پر آگے بڑھی ہے۔ اس نے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک نئی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ اس شراکت داری کا اہم ستون ہمارا وہ مشترکہ وژن ہے جو کھلے، مستحکم اور محفوظ اور خوشحال بھارت۔ بحرالکاہل خطے کے لئے ہے۔ بھارت کے کوئی دیگر تعلقات اتنے تہہ داری والے نہیں ہیں جیسا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں۔ ہم دنیا کی دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں اور تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشتیں ہیں۔ ہمارے تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارت نمو پذیر ہے۔ اور ہم نے معاملات کے انتظام اور ایک پر امن سرحد کو یقینی بنانے کے لئے بالغ النظری اور دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ماہ اپریل میں صدر ژی کے ساتھ ایک دو روزہ غیر رسمی سربراہ ملاقات نے ہمیں یہ سمجھنے میں بہت مدد دی تھی کہ ہم دونوں ممالک کے مابین مستحکم اور مضبوط تعلقات امن عالم اور ترقی کے لئے اہم عناصر ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایشیا اور پوری دنیا اس وقت زیادہ بہتر مستقبل کی حامل ہوگی جب بھارت اور چین پورے اعتماد اور بھروسے کے ساتھ ایک دوسرے کے مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے کام کریں گے۔ افریقہ کے ساتھ بھارت کی افزوں شراکت داری رہی ہے جس میں بھارت۔ افریقہ فورم سربراہ ملاقاتیں جیسے میکنزموں کا دخل رہا ہے۔ اس کی بنیاد میں افریقہ کی ضروریات پر مبنی تعاون اور تاریخی گرم جوشی اور باہمی احترام کارفرما رہے ہیں۔ دوستو، اپنے خطے کی جانب واپس آتے ہوئے بھارت کے افزوں تعلقات عمیق اقتصادی اور دفاعی تعاون سے مالامال ہیں۔ ہم دنیا کے دیگر کسی حصے کے مقابلے میں اس حصے میں زیادہ بڑی تعداد میں تجارتی معاہدات کے حامل ہیں۔ ہم نے سنگاپور، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ جامع اقتصادی شراکت داری معاہدات کیے ہیں۔ ہم نے آسیان اور تھائی لینڈ کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدات کیے ہیں اور اب ہم علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے کو حتمی شکل دینے میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی انڈونیشیا کا اپنا پہلا دورہ کیا ہے۔ بھارت کا یہ ہمسایہ 90 نوٹیکل میل نزدیک اور 90 نوٹیکل میل فاصلے پر واقع ہے۔ میرے دوست صدر ویڈوڈو اور میں نے بھارت۔ انڈونیشیا تعلقات کو ایک جامع کلیدی شراکت داری میں بدل دیا ہے۔ دیگر مشترکہ مفادات کے ساتھ بھارت۔ بحرالکاہل میں بحری تعاون کے لئے ہمارا ایک مشترکہ وژن ہے۔ انڈونیشیا سے آتے ہوئے میں تھوڑی دیر کے لئے ملیشیا ٹھہرا تھا تاکہ آسیان کے ازحد معمر رہنما ؤں میں سے ایک یعنی وزیر اعظم مآثر سے ملاقات کر سکوں۔ دوستو، بھارتی مسلح دستے خصوصاً ہماری بحریہ بھارت۔ بحرالکاہل خطے میں امن کے لئے شراکت داری قائم کر رہی ہے اور انسانی بنیادوں پر امداد اور راحت رسانی بھی فراہم کر رہی ہے۔ بحریہ پورے خطے میں تربیت فراہم کرتی ہے، مشقیں کرتی ہے اور خیر سگالی مشن بھی انجام دیتی ہے۔ مثال کے طور پر سنگاپور کے ساتھ ہم نے طویل ترین اور لگاتار جاری رہنے والی بحری مشق کی۔ اور اب یہ اپنے پچیسویں برس میں داخل ہو گئی ہے۔ ہم سنگاپور کے ساتھ اب ایک نئی سہ پہلوئی مشق شروع کریں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ہم اسے دیگر آسیان ممالک تک وسعت دیں گے۔ ہم ویتنام جیسے شراکت داروں کے ساتھ باہمی صلاحیت سازیوں کے لئے بھی مل کر کام کرتے ہیں۔ بھارت امریکہ اور جاپان کے ساتھ مالابار جیسی مشقیں بھی کرتا ہے۔ بحر ہند میں بھارت کی مشق ملن کے دوران متعدد علاقائی شراکت داروں نے بھی شرکت کی تھی اور بحرالکاہل میں منعقد ہونے والی آر آئی ایم پی اے سی میں بھی حصہ لیا تھا۔ قذاقی سے نمٹنے اور ایشیا میں بحری جہازوں پر ہونے والی مسلح قزاقی کی روک تھام کے لئے ہم اسی شہر میں علاقائی تعاون معاہدے کو حتمی شکل دینے میں سرگرم ہیں۔ معزز حاضرین، ہمارے ملک میں ہمارا اہم مشن بھارت کو 2022 تک ایک نیا بھارت بنا دینے کا ہے۔ اس وقت جب آزاد بھارت 75 برس کا ہوگا۔ ہم نے 7.5 سے 8 فیصد تک کی سالانہ شرح نمو برقرار رکھی ہے۔ جیسے جیسے ہماری معیشت نمو پذیر ہوگی، ویسے ویسے ہمارا عالمی اور علاقائی ارتباط بڑھتا جائے گا۔ 800 ملین سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کا مستقبل صرف بھارت کی معیشت کے ذریعہ طے نہیں ہوگا بلکہ عالمی رابطے کی گہرائی بھی اس پر اثر انداز ہوگی۔ کسی اور جگہ کے مقابلے میں ہمارے تعلقات اس خطے میں ہماری موجودگی کو اور زیادہ گہرا بنائیں گے۔ تاہم ہم جیسا مستقبل بنانا چاہتے ہیں اس کے لئے ایک مستحکم امن کی بنیاد درکار ہے اور یہ چیز قطعی غیر یقینی ہے۔ عالمی قوتوں میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ عالمی معیشت کا کردار میں تبدیلی اور تکنالوجی میں روزانہ رخنہ اندازی ہوتی ہے۔ عالمی نظام کی بنیاد متزلزل محسوس ہوتی ہے اور مستقبل میں ثبات کم نظر آتا ہے۔ ہماری پیش رفت اور ہماری ترقی کے لئے ہم غیر یقینی صورتِ حال میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے حل طلب مسئلے ہوتے ہیں اور تصفیہ طلب تنازعات، نبردآزمائیاں اور دعوے، نظریات کا ٹکراؤ اور مسابقتی نمو، ہم افزوں باہمی عدم تحفظ اور افزوں فوجی اخراجات، داخلی اتھل پتھل کو بیرونی تناؤ میں بدلتے ہوئے، نئی فالٹ لائن کو عالمی پیمانے پر تجارت اور مسابقت میں بدلتے ہوئے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ہم بین الاقوامی اصول و ضوابط کے سلسلے میں طاقت کی بالادستی اور اس کا مظاہرہ ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے درمیان وہ چنوتیاں موجود ہیں جو ہمیں بہت متاثر کرتی ہیں۔ ان میں کبھی نہ ختم ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی شامل ہے۔ یہ باہم ایک دوسرے پر منحصر مقدرات اور ناکامیوں والی دنیا ہے۔ اور کوئی بھی ملک اپنے طور پر سب کچھ محفوظ نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جو ہمیں تفریقات اور مسابقت سے اوپر اٹھ کر ایک ساتھ مل جل کر کام کرنے کے لئے مدعو کرتی ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ ہاں یہ ممکن ہے۔ میں آسیان کو ایک مثال اور ایک ترغیب کے طور پر دیکھتا ہوں۔ آسیان ثقافت، مذہب، زبان، حکمرانی، خوشحالی اور دنیا میں قائم ہونے والی کسی بھی حلقہ بندی کے لئے تنوع کی عظیم ترین سطحوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ اس وقت وجود میں آئی تھی جب جنوب مشرقی ایشیا عالمی مسابقت میں سر فہرست ہوا کرتا تھا۔ سفاکانہ جنگ اور غیر یقینی ممالک کے ایک خطے کی تماشہ گاہ۔ ہاں، آج، آسیان نے دس ممالک کو ایک مشترکہ مقصد کے پیچھے جمع کر دیا ہے۔ اس خطے کے مستقبل کے استحکام کے لئے آسیان اتحاد ناگزیر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی ہمایت کرنی چاہئے، نہ کہ اسے نقصان پہچانا چاہئے۔ میں نے چار ایشیائی سربراہ ملاقتوں میں شرکت کی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آسیان سرحدی خطے کو متحد کر سکتی ہے۔ متعدد طریقوں سے آسیان اس امر کی پہلے سے قیادت کرتی آئی ہے۔ ایسا کرنے میں اس نے بھارت۔ بحرالکاہل خطے کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ مشرقی ایشیا سربراہ ملاقات اور جامع اجتماعی شراکت داری، آسیان کی دو اہم پہل قدمیاں ہیں جو اسی کا نتیجہ ہیں۔ دوستو، بھارت ۔ بحرالکاہل ایک فطری خطہ ہے۔ یہ عالمی مواقع اور چنوتیوں کا ایک وسیع میدان بھی ہے۔ مجھے افزوں طور پر یقین ہے کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک جو اس خطے میں سکونت پذیر ہے، سب کے مقدرات، ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے جاتے ہیں۔ آج ہمیں تفریق اور مسابقت سے اوپر اٹھ کر اجتماعی طور پر کام کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے دس ممالک جغرافیائی اور تہذیبی دونوں معنوں میں دو عظیم سمندروں کو مربوط کرتے ہیں۔ لہٰذا شمولیت، کھلا پن اور آسیان ارتکاز اور اتحاد نئے بھارت۔ بحرالکاہل خطے کی جان ہیں۔ بھارت اپنے طور پر بھارت۔ بحرالکاہل خطے کو محض ایک حکمت عملی یا محدود اراکین کے کلب کے طورپر نہیں دیکھتا۔ نہ ہی کسی ایسی گروپنگ کی شکل میں دیکھتا ہے جو بالادستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ نہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی ملک کے خلاف کھڑی کی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی کوئی جغرافیائی تعریف نہیں طے کی جا سکتی۔ لہٰذا بھارت۔ بحرالکاہل خطے کے لئے بھارت کا وژن مثبت ہے اور اس کے بہت سے عناصر ہیں۔ پہلا یہ ایک ایسے آزاد کھلے اور شمولیت پر مبنی خطے کی وکالت کرتی ہے جو ہم سب کو ترقی و خوشحالی کی مشترکہ جستجو کے لئے متحد کرتی ہے۔ اس میں اس جغرافیائی علاقے میں آنے والے ممالک کے علاوہ اس کے باہر کے ممالک بھی شامل ہیں جن کا مفاد اس سے وابستہ ہے۔ دو، جنوب مشرقی ایشیا اسکے وسط میں ہے۔ اور آسیان اس کے مستقبل کے معاملے میں مرکزی حیثیت کی حامل ہوگی۔ یہی وہ وژن ہے جو ہمیشہ بھارت کی رہنمائی کرے گا کیونکہ ہم اس خطے میں امن او رسلامتی کے قیام کے لئے تعاون کرنے کے خواست گار ہیں۔ تین، ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ہماری مشترکہ خوشحالی اور سلامتی ہم سے اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم بات چیت کے ذریعہ ایک مشترکہ اصول و ضوابط پر مبنی نظام اس خطے کے لئے قائم کریں۔ اور یہ اصول یکساں طور پر ہر کس و ناکس پر اور عالمی پیمانے پر مشترکہ طو ر پر نافذ ہونا چاہئے۔ ایسے نظام کو خودمختاری اور علاقائی سالمیت اور تمام ممالک کی برابر حیثیت یا مساوات میں یقین کا حامل ہونا چاہئے۔ خواہ ان ممالک کا ہجم کچھ بھی ہو۔ ان قوائد و ضوابط کو سب کی رضامندی حاصل ہونا چاہئے نہ کہ چند لوگوں کی طاقت کے طابع ہونا چاہئے۔ یہ گفت و شنید میں یقین پر مبنی ہونی چاہئے۔ زبردستی اور دھونس کے طابع نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جب ممالک بین الاقوامی عہد بندگیاں کریں تو انہیں اسے پورا بھی کرنا چاہئے۔ کثیر پہلوئی نظام اور علاقائیت کے تئیں بھارت کے یقین کی یہی بنیاد ہے۔ اور قانون کی حکمرانی کے اصول پر مبنی یہی ہماری عہدبندگی بھی ہے۔ چوتھا، ہم سب کو بین الاقوامی قانون کے تحت سمندر کی گنجائش اور ہوا میں دستیاب گنجائش کو استعمال کرنے کا یکساں حق حاصل ہونا چاہئے۔اور اس کے لئے نقل و حرکت اور جہاز رانی کی آزادی بلاروک ٹوک والی تجارت اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق تنازعات کے تصفیے کا نظام درکار ہوگا۔ جب ہم ضابطے کے تحت زندگی بسر کرنے پر اتفاق کریں گے تو ہمارے سمندری راستے خوشحالی کی پگڈنڈیاں اور امن کے گلیارے بن جائیں گے۔ہم بحری جرائم کو متحد ہو کر روکنے میں کامیاب ہوں گے۔ بحری ایکولوجی کی حفاظت کر سکیں گے، تباہ کاریوں سے تحفظ حاصل کر سکیں گے اور نیل گوں معیشت سے خوشحالی حاصل کر سکیں گے۔ پانچ، اس خطے اور ہم سب نے عالم کاری سے استفادہ کیا ہے۔ بھارتی کھانہ ان فوائد کی بہترین مثالیں پیش کرتا ہے۔ تاہم ساز و سامان اور خدمات کے معاملےمیں افزوں تحفظات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تحفظات کی دیواروں کے پیچھے تصفیے نہیں ملتے بلکہ تبدیلیوں کو اپنانے سے راستے کھلتے ہیں۔ ہم سبھی کے لئے یکساں مواقع کے خواہش مند ہیں۔ بھارت کھلی اور مستحکم بین الاقوامی تجارت کے ماحول کا حامی رہا ہے۔ ہم بھارت ۔ بحرالکاہل خطے میں اصول و ضوابط پر مبنی، کھلے، متوازن اور مستحکم تجارتی ماحول کی حمایت کریں گے۔ جو تمام ممالک کو تجارت اور سرمایہ کاری کے فوائد سے ہمکنار کرے گی۔ہم علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اور اس نے جن اصولوں کا اعلان کیا ہے آر سی ای پی کو اسی کے مطابق جامع ہونا چاہئے۔ اسے تجارت، سرمایہ کاری اور خدمات کے مابین ایک توازن قائم کرنا چاہئے۔ چھٹواں، رابطہ کاری از حد اہم ہے۔ یہ تجارت اور خوشحالی کو بڑھانے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتی ہے۔ یہ ایک خطے کو مربوط کرتی ہے۔ بھارت صدیوں سے چورستے پر کھڑا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رابطہ کاری کے فوائد کیا ہیں۔ اس خطے میں رابطہ کاری کی بہت سی پہل قدمیاں موجود ہیں۔ اگر انہیں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں صرف بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بنانا چاہئے، بلکہ اعتماد کا پل بھی قائم کرنا چاہئے اور اس کے لئے یہ تمام پہل قدمیاں خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام، باہمی گفت و شنید، اچھی حکمرانی، شفافیت، افادیت اور ہمہ گیری پر مبنی ہونی چاہئے۔ انہیں ممالک کو بااختیار بنانا چاہئے نہ کہ ممکن قرض کے بوجھ کے تلے دبا دینا چاہئے۔انہیں تجارت کو فروغ دینا چاہئے نہ کہ کلیدی مسابقت کو۔ ان اصولوں کے تحت ہم ہر کسی کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت اپنی جانب سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے اور اپنے طور پر ادا کر رہا ہے اور جاپان جیسے ملکوں سے ساتھ مل کر بھی یہ فرض ادا کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں، بحر ہند میں، افریقہ میں، مغربی ایشیا اور اس کے آگے بھی۔اور ہم نیو ڈیولپمنٹ بینک اور آسیان بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری بینک میں اہم شراکت دار ہیں۔ آخر میں، یہ سب کچھ ممکن ہے بشرطیکہ ہم ماضی کے مخاصمتی دور میں واپس نہ جائیں۔ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ایشیائی مخاصمت ہمیں پچھڑا اور پسماندہ ہی رکھے گی اور ایشیائی تعاون اس صدی کی چہرہ کاری کرے گا۔ اس لئے اب ہر ملک کو خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا اس کے انتخابات ایک مزید متحدہ دنیا بنائے جانے کے بارے میں ہے یا نئی مخاصمتوں کے جبر کے لئے ہے۔ یہ ایک ذمہ داری ہے جو موجودہ اور ابھرتی ہوئی طاقتوں پر ہے۔ مقابلہ تو عام بات ہے لیکن مقابلے ٹکراؤ اور اختلافات میں تبدیل نہیں ہونے چاہئے۔ اختلافات کو تنازعات نہیں بننے دینا چاہئے۔ معزز سامعین ! مشترکہ قدروں اور مفادات پر مبنی شراکت داری عام بات ہے۔ ہندوستان نے بھی زیر نظر خطے اور اس سے دور علاقوں میں یہ شراکت داری کی ہے۔ ایک پر امن اور مستحکم خطے کے لئے تین مزید خاکوں پر ہم انفرادی طور پر ان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔لیکن، ہماری یہ دوستی کسی ملک کے خلاف اتحاد نہیں ہے۔ ہم اصول اقدار، امن و ترقی کے ساتھ ہیں، نہ کہ انتشار پھیلانے کے۔ دنیا بھر میں ہماری دوستی ہماری اصل حیثیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اور جب ہم ایک ساتھ کام کریں گے توہم دورِ حاضرکے اصل مسائل سے نمٹنے میں اہل ہوں گے۔ ہم اپنے سیارے کو فروغ دے سکیں گے۔ ہم عدم افزدوگی اسلحہ کو ضروری بنا سکیں گے۔ ہم اپنے عوام کو دہشت گردی اور سائبر خطرات سے محفوظ رکھ سکیں گے۔ آخر میں مجھے ایک بار پھر کہنے دیجئے کہ ہند۔ بحراوقیانوس خطے سے ہندوستان کا رابطہ و تعلق ساحل افریقہ سے امریکی ساحلوں تک قائم ہے۔ یہ رابطہ مجموعیت پر مبنی ہوگا۔ ہم ویدانتا کے اس فلسلفے کے وارث ہیں جو سب کی لازمی یکتائی میں یقین رکھتا ہے اور کثرت میں وحدت کے نظریے کی ستائش کرتا ہے۔ एकम सत्यम, विप्राः बहुदावदंति ۔ یعنی سچائی صرف ایک ہے، عالم حضرات اس کو اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یہی ہماری تہذیبی روایات کی بنیاد ہے، ہماری اجتماعیت، ہمارے بقائے باہمی، ہماری کشادہ ذہنی اور مذاکرات کی بنیاد ہے۔ ہم کو ایک قوم کی حیثیت سے قائم کرنے والے جمہوریت کے آدرش بھی ہمارے اس طریقے کی چہرہ کاری کرتے ہیں جس طریقے سے ہم دنیا سے اپنی رابطہ کاری کرتے ہیں۔ اس طرح ہندی میں اسے پانچ ایس میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے : سمان (عزت) ؛ سمواد(مذاکرات)؛ سہیوگ (تعاون)، شانتی (امن)، اور سمردھی (خوشحالی)۔ یہ الفاظ یاد کرنا بہت آسان ہے، اس لئے ہم دنیا کے ساتھ امن، مذاکرات، احترامِ باہمی کے ساتھ مذاکرات اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ مطلق عہد بستگی کے ساتھ رابطہ رکھیں گے۔ ہم بین الاقوامی نظام پر مبنی ایک ایسی جمہوریت کو فروغ دیں گے جس میں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ملک مساوات اور خودمختاری کے ساتھ ترقی کر سکیں گے۔ ہم اپنے سمندروں، اپنے خلائی علاقوں اور فضائی شاہراہوں کو کشادہ رکھنے کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہم اپنے ملکوں کو دہشت گردی اور سائبر خطرات سے محفوظ رکھیں گے اور اپنے ملک کو خلل اندازی اور ٹکراؤ سے پاک رکھیں گے۔ ہم اپنی معیشت کو کشادہ اور مراسم کو شفاف رکھیں گے۔ ہم اپنے وسائل، اپنے بازار اور اپنی خوشحالی کو اپنے دیگر شراکت دار دوستوں کے ساتھ بانٹیں گے۔ ہم اپنے خطے کے لئے ایک پائیدار مستقبل کی چہرہ کاری کی کوشش کریں گے جس میں بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسے نئے اتحاد کے ذریعہ فرانس اور دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہم اسی طرح اس وسیع و عریض خطے اور اس سے آگے بھی اپنے آپ کو اور اپنے شراکت داروں کو آگے لے جانے کے خواہش مند ہیں۔ اس خطے کی قدیمی دانائی ہماری مشترکہ وراثت ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے بھگوان بدھ کے پیغام امن و شفقت نے ہم سب کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا ہے۔ ہم نے مل کر انسانی تہذیب کو بہت کچھ دیا ہے۔ ہم جنگ کی تباہ کاریوں اور امید امن کے دور سے گزر چکے ہیں۔ ہم طاقت کی حدود سے واقف ہیں۔ اور تعاون کے فائدوں سے بھی واقف ہیں۔ آج یہ دنیا ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ ہمارے سامنے ورغلانے اور بہکانے کے نتائج کے تاریخی سبق موجود ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جادۂ دانائی بھی موجود ہے۔ جو ہم سے اعلیٰ مقاصد کا متقاضی ہے اور جو ہمارے مفادات کے تنگ نظر نظریے سے بالاتر ہو کر ہم سے یہ بات محسوس کرنے کا متقاضی ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے مفادات کے لئے بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔ ہم دنیا کے تمام ملکوں کے وسیع تر مفاد میں مل کر کام کر سکتے ہیں۔ میں یہاں آپ سب سے اسی راستے پر گامزن ہونے کی درخواست کرتا ہوں۔ شکریہ بہت بہت شکریہ",ছাংগ্ৰী-লা ডায়েলগত প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%A7%D8%A6%D9%B9%DB%8C%DA%88-%DA%A9%D9%86%DA%AF%DA%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8-%E0%A6%A4/,عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں 07.09.2022 کو منعقدہ مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں، کابینہ نے تعلیمی قابلیت کو باہمی منظوری دینے کے لئے بھارت اور یونائٹیڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹین اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان دستخط شدہ مفاہمت نامے کو منظوری دے دی ہے، جس کا اطلاق گزشتہ تاریخ سے ہوگا۔ اس مفاہمت نامے پر 25 اپریل 2022 کو دستخط کئے گئے تھے۔ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان تعلیمی قابلیت کی باہمی شناخت کا مقصد تعلیمی تعاون اور طلبہ کی نقل و حرکت کو فروغ دینا ہے۔ برطانیہ کی جانب سے ان کے ایک سالہ ماسٹرز پروگرام کو تسلیم کرنے کی درخواست پر غور کیا گیا اور دونوں ممالک کے وزرائے تعلیم کے درمیان 16 دسمبر 2020 کو نئی دہلی میں منعقدہ میٹنگ کے دوران ایک مشترکہ ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ٹاسک فورس کی پہلی میٹنگ 4 فروری 2021 کو ہوئی اور تفصیلی غور و خوض اور گفت و شنید کے بعد دونوں فریقوں نے ایم او یو کے مسودے پر اتفاق کیا۔ مفاہمت نامے کا مقصد دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں کی طرف سے تعلیمی قابلیت، مطالعہ کے دورانیے، تعلیمی ڈگریوں/قابلیت سے متعلق دستاویزات اور ایکریڈیٹیشن کی باہمی منظوری کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ انجینئرنگ، میڈیسن، نرسنگ اور پیرا میڈیکل ایجوکیشن، فارمیسی، لاء اور آرکیٹیکچر جیسی پروفیشنل ڈگریاں اس ایم او یو کے دائرۂ کار سے باہر ہیں۔ یہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے درمیان مشترکہ/دوہری ڈگری کورسز کے قیام کی بھی سہولت فراہم کرے گا، جو کہ این ای پی2020 کے تحت ہمارے مقاصد میں سے ایک ہے تاکہ تعلیم کو بین الاقوامی شکل دی جاسکے۔ یہ ایم او یو تعلیمی ڈھانچے، پروگراموں اور معیارات کے بارے میں معلومات کے دو طرفہ تبادلے کو فروغ دے گا اور دونوں ممالک کے درمیان طلباء اور پیشہ ور افراد کی نقل و حرکت میں اضافہ کرے گا۔ یہ تعلیم کے شعبے میں تعاون کے دیگر شعبوں، مطالعاتی پروگراموں کی ترقی کی بھی حوصلہ افزائی کرے گا، جیسا کہ فریقین نے باہمی اتفاق کیا ہے۔ یہ ایم او یو دونوں ممالک کی قومی پالیسی، قانون، قواعد و ضوابط کے تحت منظور شدہ تعلیمی قابلیت کی قبولیت کو برابری کی بنیاد پر تسلیم کرے گا۔,ভাৰত আৰু গ্ৰেট ব্ৰিটেইন তথা নৰ্ডাৰ্ণ আয়াৰলেণ্ডৰ মাজত ‘শৈক্ষিক যোগ্যতাৰ পাৰস্পৰিক স্বীকৃতি জ্ঞাপন’ সন্দৰ্ভত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজিৰ চুক্তিখনলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B4-%DA%86%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%A8%D9%88%D8%B3-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7-%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0/,نئیدہلی۔23؍جنوری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی 23 جنوری 2019 کو، دہلی کے لال قلعے میں سبھاش چندر بوس میوزیم کا افتتاح کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نیتا جی سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی کی یادگاروں پر مبنی میوزیم کے افتتاح سے قبل یادگاری کتبے کی نقاب کشائی بھی کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم یہ میوزیم بھی دیکھیں گے۔ ا س کے ساتھ ہی وزیراعظم لال قلعے کے انڈین آرٹ میوزیم میں یادجلیاں والا میوزیم (پہلی جنگ عظیم اور جلیاں والا باغ کی یادگاروں پر مبنی میوزیم) بھی دیکھیں گے اور درشیہ کلا میوزیم بھی دیکھیں گے۔ واضح ہو کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی کی یادگار پر مبنی میوزیم آنجہانی سبھاش چندر بوس اور تاریخی انڈین نیشنل آرمی کی خدمات کی تفصیل فراہم کراتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میوزیم میں آنجہانی سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی سے تعلق رکھنے والے مختلف نوادرات بھی محفوظ رکھے گئے ہیں جن میں نیتاجی کی لکڑی کی کرسی اور تلوار، میڈل ، بیجیز ، وردیاں اور انڈین نیشنل آرمی سے تعلق رکھنے والے متعدد دیگر نوادرات شامل ہیں۔ واضح ہو کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اس یادگار عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا اس لئے اس کا افتتاح بھی اپنے آپ میں انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ وزیراعظم نے 21 اکتوبر 2018 کو اس میوزیم کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہی وہ تاریخ ہے جب نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزا دہند سرکار کی 75ویں سالگرہ ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے لال قلعے میں آزادی کی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے جھنڈا پھہرایا۔ وزیراعظم موصوف نے اس موقع پر آنجہانی نیتاجی سبھاش چندر بوس کے نام پر ایک ایوارڈ تشکیل دیے جانے کا بھی اعلان کیا۔ یہ ایوارڈ قدرتی تباہ کاریوں پر راحت او�� بچاؤ سے متعلق ردعمل کا اظہار کرنے والے اور راحت اور بچاؤ کی خدمات انجام دینے والے جاں باز جوانوں کی دلیرخدمات کو خراج عقیدت کے طور پر پیش کیا جائیگا۔ اس موقع یعنی 21 اکتوبر 2018 کو، نیشنل پولیس میموریل ملک وقوم کے نام وقف کرنے کیلئے بھی یادگار کے طور پر یاد کیا جائیگا۔ وزیراعظم نے 30 دسمبر 2018 کو، جزائر انڈمان ونکوبار میں نیتاجی سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی کی قدروں اور آدرشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ انہوں نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ذریعے ہندوستان کی دھرتی پر ترنگا پرچم لہرائے جانے کی 75ویں یادگاری موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ اور ایک فرسٹ ڈے کوور کا بھی اجراء کیا تھا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی تقریر میں جزائر انڈمان ونکوبار کے نوجوانوں کو نیتاجی سبھاش چندر بوس کے نعرہ آزادی کی یاد دلائی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح نیتاجی کے نعرے پر جزائر انڈمان ونکوبار کے نوجوانوں نے اپنی زندگی تحریک آزادی کیلئے وقف کردی تھی۔ اس موقع پر لہرایا جانے والا 150 فٹ بلند ترنگا پرچم 1943 کے اس دن کی یاد دلایا ہے جب نیتاجی نے پہلی بار ترنگا پھہرایا تھا۔ نیتاجی کے احترام میں جزیرہ راس آئی لینڈ کا نام بدل کر نیتا جی سبھاش چندر بوس دویپ رکھا گیا تھا۔ قبل ازیں اکتوبر 2015 میں آنجہانی نیتاجی سبھاش چندر بوس کے کنبے کے لوگوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی اور ان سے حکومت ہند کی تحویل میں موجود نیتاجی سے متعلق خفیہ دستاویزات پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔ اسی تعلق سے جنوری 2018 میں نیشنل آرکائیوآف انڈیا کو نیتا جی کی فائلوں کی 100 ڈیجیٹل نقول فراہم کرائی گئی تھی۔ واضح ہو کہ یاد جلیاں والا میوزیم میں اس جلیاں والا باغ قتل عام کی یادیں محفوظ کی گئی ہیں جو انگریز حکومت کے دور اقتدار میں 13 اپریل 1919 کو برپا کیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستان کے جاں باز سپاہیوں کی شجاعت اور جواں مردی کے ساتھ ساتھ ان کی قربانیوں کی یادیں بھی پیش کی جائیں گی۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857 کی یادوں پر قائم کئے جانے والے میوزیم میں 1857 کی جنگ آزادی کی تاریخی داستانیں شامل ہیں جن میں ، اس دور میں ہندوستانیوں کی قربانیوں کی یادیں شامل ہیں۔ دوسری طرف ہندوستانی فنون پر مبنی درشیہ کلا نمائش میں سولہویں صدی سے ہندوستان کی آزادی تک کی مدت کے ہندوستانی فن پارے نمائش کیلئے رکھے گئے ہیں۔ یوم جمہوریہ سے پہلے وزیراعظم کا ان میوزیموں کو دیکھنے کیلئے آنا ان جانباز مجاہدین آزادی کی یادوں کو خراج عقیدت ہے جنہوں نے ملک وقوم کیلئے اپنی جان عزیز کی قربانیاں دی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔س ش۔ع ن,লালকিল্লাত সুভাষ চন্দ্র বসু সংগ্রহালয় উদ্বোধন কৰিব প্রধানমন্ত্রীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%D9%B9-%D9%84%D9%81%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D8%B1%D8%A7-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%86%D8%A7%D9%86%D9%88-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ویٹ لفٹر میرابائی چانو کو، برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیل 2022 میں طلائی تمغہ جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ وزیراعظم نے کہا: ’’غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل@میرابائی چانو نے ایک بار پھر بھارت کا نام فخر سے بلند کیا! ہر ایک بھارتی، برمنگھم میں ان کے سونے کا تمغہ جیتنے اور دولت مشترکہ کھیلوں میں نیا ریکارڈ قائم کرنے پر مسرت کا احساس کررہا ہے۔ ان کی اس کامیابی نے بہت سے بھارتیوں کو متاثر کیا ہے ، خاص طور پر نئے ابھرتے ہوئے ایتھلیٹوں کو ۔‘‘,"কমনৱেল্থ গেমছ, ২০২২ত স্বৰ্ণ পদক জয়ী ভাৰত্তোলক মীৰাবাই চানুক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%A6-%E0%A6%87%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%9B%E0%A7%87/,نئی دلّی ، 14 ستمبر؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اندور میں امام حسین ( ایس اے ) کی شہادت کی یادگار عشرہ مبارکہ کے موقع پر داؤدی بوہرہ برادری کے ایک اجتماع سے خطاب کیا ۔ وزیر اعظم نے امام حسین کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین ہمیشہ نا انصافی کے خلاف سینہ سپر رہے اور امن و انصاف کی سر بلندی کے لئے جام شہادت نوش کیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین کی تعلیمات آج بھی افادیت کی حامل ہیں ۔وزیر اعظم نے ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کے ذریعہ کئے گئے کام کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ قوم کے تئیں محبت اور وابستگی ان کی تعلیمات کا ہال مارک ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سب کو ساتھ لے کرچلنے کی تہذیب بھارت کو دوسرے ملکوں سے منفرد حیثیت عطا کرتی ہے ۔ ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے ، ہمیں اپنے حال پر اعتماد ہے اور ہم اپنے روشن مستقبل کے تئیںیقین رکھتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے داؤدی بوہرہ برادری کے تعاون کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ داؤدی بوہرہ سماج نے بھارت کی ترقی اور فروغ کے عمل میں ایک کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ برادری تمام دنیا میں بھارت کی ثقافتی قوت کو پھیلانے کے عظیم کام کو جاری رکھے گی ۔ وزیر اعظم نے داؤدی بوہرہ برادری کے ذریعہ کئے گئے مختلف سماجی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت شہریوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے خاص طور پر غریب اور ضرورت لوگوں کے معیارحیات کو بلند کرنے کے لئے کوشاں ہے ۔اس پس منظر میں انہوں نے حکومت کے ذریعہ کئے گئے ترقیاتی مختلف پہل قدمیوںآیوش مان بھارت ، سوئچھ ، بھارت ابھیان اور پردھان منتری آواس یوجنا کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہل قدمیاں عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لا رہی ہیں ۔ وزیر اعظم نے اندور کے لوگوں کو سوؤچھ سبھارت کو مشن کے طور پر اپنانے کے لئے مبارک باد پیش کی ۔ انہوں نے کہا کہ کل سوچھتا ہی سیوا ہے نامی اسکیم لانچ کی جائے گی اور اور اس عظیم سوچھتا مشن میں لوگ تیزی سے شرکت کریں گے ۔ کاروباری امور میں بوہرہ برادری کی ایمانداری کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ایمان دارکارو باریوں اور کارکنان کی جی ایس ٹی ، اور دیوالیہ پن اور دیوالیہ قرار دیئے جانے کے ضابطے کے توسط سے مدد کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی معیشت نمو پذیر ہے اور نیو انڈیا افق پر روشن ہے ۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیو راج سنگھ چوہان بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ ڈاکٹرسید مفضل سیف الدین نے اس سے قبل مثالی کاموں کے لئے وزیر اعظم کی ستائش کی اور ملک کے لئے ان کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے امور میں ان کی کامرانی کی تمناکی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,ইন্দোৰত শ্বহীদ ইমাম হুছেইন(এছএ)ৰ স্মৃতিচাৰণ অনুষ্ঠান-আছাৰা মুবাৰকত অংশ ল’লে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে; সমবেত ৰাইজক উদ্দেশ্যি আগবঢ়ালে ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%DA%86%DB%8C%D8%8C-%DA%A9%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%84%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A7%B0/,کیرالہ کے گورنر جناب عارف محمد خان، وزیر اعلیٰ جناب پنارائی وجین جی ، کیرالہ حکومت کے وزراء، دیگر معززین، کوچی کے میرے بھائیو اور بہنو! آج کیرالہ کا ہر گوشہ اونم کے مقدس تہوار کی خوشی سے شرابور ہے۔ جوش و خروش کے اس موقع پر، کیرالہ کو 4600 کروڑ روپے سے زیادہ کے کنیکٹیویٹی پروجیکٹوں کا تحفہ دیا گیا ہے۔ میں آپ سب کو Ease of Living اور Ease of Doing B ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد دی گئی ہے۔ ان میں سے بہت سے سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہ کیرالہ کی خاصیت رہی ہے، یہاں کے لوگوں کی خاصیت یہ رہی ہے کہ دیکھ بھال اور حساسیت یہاں کے معاشرے کی زندگی کا حصہ ہے۔ کچھ دن پہلے مجھے ہریانہ میں ماں امرتا نند مائی جی کے امرتا ہسپتال کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ مجھے امرتانندمائی اماں کا شفقت سے بھر پور آشیرواد حاصل کرنے کا بھی موقع نصیب ہوا۔ آج میں کیرالہ کی سرزمین سے ایک بار پھر اظہار تشکر کرتا ہوں۔ ساتھیو، ہماری حکومت سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے بنیادی اصول پر کام کر کے ملک کی ترقی کر رہی ہے۔ آزادی کے اس امرت کال میں، ہم سب مل کر ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے راستے کو مضبوط کریں گے، اسی خواہش کے ساتھ،پھر ایک بار آپ سب کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے بہت بہت مبارکباد۔ ایک بار پھر سب کو اونم مبارک ہو۔ بہت بہت شکریہ !,কেৰালাৰ কোচিত মেট্ৰ’ আৰু ৰে’ল সম্পৰ্কীয় পদক্ষেপৰ শুভাৰম্ভ অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B3%D9%BE%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%AE%E0%A7%80/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نوراتری کی مہاسپتمی کے مقدس موقع پر لوگوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ جناب مودی نے ماں کلراتری سے ان کے تمام عقیدت مندوں کے لئے آشیررواد بھی طلب کیا اور ماں کلراتری کی دعائیہ مناجات (استوتی) کو بھی مشترک کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ""सुखप्रसन्नवदनां स्मेराननसरोरुहाम्। एवं सञ्चियन्तयेत्कालरात्रिं सर्वकामसमृद्धिदाम्॥ ’’اہل وطن کو نوراتری کی مہاسپتمی کی نیک خواہشات ۔ماں کلراتری کی شفقت اور نوازش سے آپ سبھی کی زندگی روشن اور خوشگوار ہو۔ ان سے متعلق ایک استوتی۔۔۔‘‘",‘নৱৰাত্ৰী’ৰ ‘মহা সপ্তমী’ত জনসাধাৰণলৈ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%B9%D8%B1%D9%BE%D9%84-%D8%AC%D9%85%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%A5%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%B2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں مردوں کی ٹرپل جمپ کے زمرے میں گولڈ میڈل جیتنے پر ایلدھوس پال کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ”آج کا ٹرپل جمپ ایونٹ تاریخی ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاندار باصلاحیت ایلدھوس پال کو مبارک ہو جنھوں نے گولڈ میڈل جیتا ہے اور پچھلے بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی اچھی کارکردگی کا سہارا لیا ہے۔ ان کی لگن قابل تعریف ہے۔ #Cheer4India“ ش ح۔ ف ش ع-م ف,এথলেটিকছৰ পুৰুষৰ ট্ৰিপল জাম্পত স্বৰ্ণ পদক অৰ্জন কৰাৰ বাবে এলধোচ পলক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%AE%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%82%E0%A6%B6-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 8نومبر 2018/وزیراعظم جناب نریندرمودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے املاک میں دشمن کے حصے کی فروخت کے طریقہ کار اور میکانزم کو منظوری دے دی ہے۔ تفصیلا ت حسب ذیل ہیں: i۔ انیمی پروپرٹی ایکٹ 1968 کی دفعہ 8 اے کی ذیلی دفعہ 1 کے مطابق وزارت امور داخلہ کی کسٹڈی /کسٹوڈین اینمی پروپرٹی آف انڈیا (سی ای پی آئی) کے تحت املاک میں دشمن کے حصے کی فروخت کو اصولی طور پر منظوری د ے دی گئی ہے۔ ii.۔ انیمی پروپرٹی ایکٹ 1968 کی دفعہ 8 اے کی ذیلی دفعہ 7 کے التزامات کے تحت محکمہ سرمایہ کاری اور سرکاری اثاثوں کا بندوبست کو ایسے املاک کو فروخت کرنے کا مجاز بنایا گیا ہے۔ Iii۔وزارت خزانہ کے ذریعہ ایسے املاک کی فروخت کو سرمایہ نکاسی کے ہونے والی آمدنی کے طور پر سرکاری کھاتے میں جمع کیا جائے گا۔ تفصیلات: سی ای پی آئی کی تحویل (کسٹڈی) کے تحت 996 کمپنیوں کے 20323 حصص داروں کے حصص کی کل تعداد 65075877 ہے ۔ ان 996 کمپنیوں میں سے 588 کمپنیاں فعال /سرگرم کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے 139 کمپنیوں کو غیر درج رجسٹرڈ کمپنیوں کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ ان حصص کے فروخت کے طریقہ کار کو وزارت خزانہ کی صدارت کے تحت متبادل میکانزم (اے ایم) کے ذریعہ منظور کیا جائے گا۔ اس کمیٹی میں سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر اور وزیر داخلہ شامل ہیں۔ آفسوں کی اعلی سطحی کمیٹی(ایچ ایل سی) کے ذریعہ اے ایم کی مدد کی جائےگی۔ ڈی آئی پی اے ایم کے سکریٹری اور امور داخلہ کے سکریٹری اس کے معاون چیئرمین ہوں گے۔ (ڈی ای اے، ڈی ایل اے کارپوریٹ امور کی وزارت اور سی ای پی آئی کے نمائندے بھی ہوں گے) یہ کمیٹی حصص وغیرہ کی فروخت کے لئے تعداد ، قیمت /قیمت بینڈ ،اصولی میکانزم سے متعلق اپنی سفارشات پیش کریں گے۔ کسی بھی دشمن کے حصص کے فروخت کرنے کا عمل سے قبل سی ای پی آئی کو ، دشمن کی حصص جو قابل فروخت ہے ، اس پر عدالت میں کوئی مقدمہ نہیں ہے اور کسی بھی عدالت ، ٹرائبونل اور کسی بھی انتظامیہ کے ذریعہ اس سےمتعلق کوئی فیصلہ یا حکم صادرنہیں کیا ہے۔ انہیں حکومت کے ذریعہ فروخت کیاجاسکتا ہے۔ 3۔مشیر /بچولئے جیسے مرچنٹ بینکرس ، لیگل ایڈوائزر ، سیلنگ بروکر وغیرہ جو دشمن کی منقولہ املاک کی فروخت کے لئے ضوروری ہوں گے ان کی تقرری وی آئی پی کے ذریعہ کھلے ٹینڈر /محدود ٹینڈر کے عمل کے ذریعہ کی جائے گی۔ فروخت کا پورا عمل ایک بین وزارتی گروپ (آئی ایم جی) کی نگرانی میں ہوگا۔ ایکٹ 1968 میں ‘‘دشمن’’ کی وضاحت حسب ذیل میں کی گئی ہے۔‘‘دشمن’’ یا دشمن سے متعلق ’’ یا ‘‘ دشمن فرم ’’ کا مطلب وہ شخص یا ملک ہے جو دشمن ہے یا دشمن سے متعلق ہے، یا دشمن کمپنی سے ہے ۔لیکن اس میں ہندستان کا شہری شامل نہیں ہے۔ 2017 کی ترمیم میںیہ شامل کیاگیا‘‘اس میں قانونی وارث یا جانشین ’’کو شامل کیا گیا۔ ہندستان کے شہری نہ ہو یا ا س ملک کا شہری ہو جو دشمن نہیں ہے یا جس نے اپنی شہریت تبدیل نہیں کی ہے۔’’ اثر: 1۔اس فیصلے کے نتیجے سے دشمن کے حصص کونقدی شکل میں منتقلی ہوگی جو 1968 میں انیمی پروپرٹی ایکٹ کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے بھی مخفی طور پر پڑی ہوئی ہے۔ 2۔2017 کے ترمیم سے دشمن کی املاک کے فروخت کے لئے آئینی انتظامات وضع کئے گئے ہیں۔ 3۔ اس منظوری کے ساتھ دشمنوں کے حصص/ املاک کی فروخت کے لئے طریقہ کار اور میکانزم کے قابل فریم ورک کو ادارہ جاتی شکل دی گئی ہے۔ اہم اثرات: اس فیصلے سے دہائیوں سے خوابیدہ پڑی دشمن کی منقولہ املاک کو نقد کی شکل ملے گی اور فروخت سے ہونے والی آمدنی کو ترقی اور سماجی فلاح و بہبودی کے پروگراموں کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ پس منظر نامہ: I۔ ڈیفنس آ ف انڈیا رولز 1962 اور ڈیفنس آ ف انڈیا رولز 1971(جو 27 ستمبر 1997 سے نافذ العمل ہے) کے تحت دشمن املاک ایکٹ 1968 دشمن کے املاک کی حق ملکیت سی ای پی آئی کو منتقل کرتی ہے۔ ii.۔ 2017 میں مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 8 اےمیں ترمیم کے ذریعہ سی ای پی آئی کو دشمن کی املاک کی فروخت کا اختیار دیا گیا ہے۔ مزید برآں ، (الف) کسی بھی عدالت، ٹرائبونل یا کوئی انتظامیہ یا قانون کا نفاذ کرنے والےادارہ کے کسی فیصلے ، حکم میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بعد کسٹوڈین ، ان کی جانب سے مرکزی حکومت کے ذریعہ مخصوص کردہ وقت کے اندر ایسی املاک کو فروخت کرسکتا ہے یا کسی بھی طرح مصرف میں لے سکتا ہے اس کے لئے اسے مرکزی حکومت سے پیشگی منظوری لینی ہوگی۔ یہ دشمن کی املاک (ترمیم اور جواز) ایکٹ 2017 میں ترمیم کے مطابق اس ایکٹ کے التزامات کے مطابق دشمن املاک ( ترمیم اور جواز) ایکٹ 2017 کے اعلان کی تاریخ سے قبل ہی فوری طور پر یہ املاک ان کی تحویل میں آچکی ہوں۔ (ب) دشمن املاک ایکٹ 1968 کی دفعہ 8 اے کی ذیلی دفعہ 7 اے کی شکل میں ترمیم کے متعلق مرکزی حکومت کسٹوڈین کی بجائے کسی بھی انتظامیہ یا محکمہ کو دشمن کی املاک کی فروخت کا براہ راست ہدایت دے سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ش س ۔ ج۔,শত্রু সম্পত্তিৰ অংশ বিক্রীৰ বাবে নীতি-নিয়ম আৰু ব্যৱস্থাৰ ৰূপৰেখা গঠনত অনুমোদন কেবিনেটৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%88%D9%84%DA%88%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D8%B5%D9%84-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D9%85%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%87%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے ہولڈنگ /اصل سرکاری شعبے کی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اپنی معاون کمپنیوں/یونٹوں /مشترکہ صنعتوں میں حصہ داری کے ڈس انویسٹمنٹ(اسٹریٹجک ڈس انویسٹمنٹ اورمائنارٹی حصہ کی فروخت دونوں)یا بند کرنے کے عمل کرنے کی سفارش کرنے اورشروع کرنے کے اختیارات تفویض کئے جانے تجویز کو منظور کیا۔کابینہ نے مہارتن سرکاری شعبے کی کمپنیوں کی ہولڈنگ / اصل سرکاری شعبے کی کمپنیوں کی معاون کمپنیوں /یونٹوں کو بند کئے جانے/مشترکہ صنعتوں میں حصص کی فروخت (مائنارٹی حصہ کی فروغ کے ڈس انویسٹمنٹ کو چھوڑ کر ) /ڈس انویسٹمنٹ (اسٹریٹجک ڈس انویسٹمنٹ اورمائنارٹی حصہ کی فروخت دونوں) کے لئے اصولی منظوری کے واسطے متبادل میکنزم کا اختیار بھی دیا ہے ۔ان کو اصل /ہولڈنگ سرکاری شعبہ کی کمپنی میں ڈس انویسٹمنٹ کرنے/بند کرنے کے عمل کا جائزہ لینے کا اختیار بھی تفویض کیا گیا ہے۔ اسٹریٹجک ڈس انویسٹمنٹ کے ٹرانزیکشن /بند کرنے کا جو عمل سرکاری شعبے کی کمپنی اختیار کرے گی وہ کھلا اور مسابقتی ٹینڈر کے اصولوں پر مبنی اور مقرر کئے گئے رہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔اسٹریٹجک ڈس انویسٹمنٹ کے لئے ایسے رہنما اصول ڈی آئی پی اے ایم نے مقرر کئے ہیں بند کرنے کے لئے ڈی پی ای کے ذریعہ رہنما اصول جاری کئے جائیں گے۔ اس وقت ہولڈنگ /اصل سرکاری شعبہ کی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کو خالص مالیت کی کچھ آخری حدود کی شرط پر مالیاتی مشترکہ صنعتیں اور مکمل ملکیت والی معاون کمپنیاں قائم کرنے اور انضمام کرنے/قبضہ کرنے کے لئے ایکوٹی انویسٹمنٹ کے واسطے مہارتن میں ،نورتن اور منی رتن زمروں کے تحت اختیارات تفویض کئے گئے ہیں لیکن بورڈ کے پاس اپنی معاون کمپنیوں /یونٹوں /مشترکہ صنعتوں میں حصے کے ڈس انویسٹمنٹ /بند کرنے کے اختیارات میں ہیں۔البتہ مہارتن سرکاری شعبہ کی کمپنیوں کو اپنی معاون کمپنیوں میں شیئر ہولڈنگ کے مائنارٹی حصے کے ڈس انویسٹمنٹ کے کچھ محدود اختیارات دئے گئے ہیں۔ اس لئے ہولڈنگ /اصل مرکز ی سرکاری شعبہ کی کمپنیوں کو اپنی معاون کمپنیوں /یونٹوں کے ڈس انویسٹمنٹ (اسٹریٹجک ڈس انویسٹمنٹ اورمائنارٹی حصہ کی فروخت دونوں) کرنے/بند کرنے یا مشترکہ صنعتوں میں اپنی حصہ داری کو فروخت کرنے ،ایسی معاون کمپنیوں میں لگائے گئے سرمایہ /آپریشن کے سائز کا لحاظ کئے بغیر ،کابینہ /سی سی ای اے کی منظوری کی ضرورت تھی۔سرکاری شعبہ کی کمپنیوں کی موجودگی کو کم سے کم کرنے اور عملی ضرورت کے لئے نئی پی ایس ای پالیسی 2021 کے جذبے کے مطابق اس فیصلے کے ذریعہ اس معاملے میں مزید اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ اس تجویز کا مقصد ہولڈنگ پی ایس ایز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو فیصلے کرنے کے لئے زیادہ خود مختاری کی اجازت دے کر پی ایس ایز کے کام کاج میں اصلاح کرنا ہے، اور معاون کمپنیوں /یونٹس یا مشترکہ صنعتوں میں ان کی سرمایہ کاری سےبروقت باہر آنے کی سفارش کرنا ہے۔ جس سے انہیں مناسب وقت پر ایسی معاون کمپنیوں /یونٹوں/مشترکہ صنعتوں میں اپنی سرمایہ کاری کو مونٹائز کرنے یا نقصان میں چلنے والی اور خراب کارکردگی والی معاون کمپنی/یونٹ /مشترکہ صنعت کو مناسب وقت پر بند کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ اس سے سرکاری شعبہ کی کمپنیوں کو کام کاجی /مالیاتی اخراجات کی بچت کرنے اور تیز رفتار سے فیصلہ سازی میں مدد ملے گی۔,কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটে ইয়াৰ সহায়ক/এককসমূহ বিনিয়োগ/বন্ধ কৰাৰ প্ৰক্ৰিয়া আৰম্ভ কৰিবলৈ আৰু বৈকল্পিক প্ৰণালীক অতিৰিক্ত ক্ষমতা প্ৰদান কৰাৰ বাবে ধাৰক/মূল পিএছইউৰ পৰিচালক মণ্ডলীক ক্ষমতা প্ৰদান কৰিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%95/,نئی دہلی 18 اگست2021: وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کو جمہوریہ بھ��رت کی وزارت داخلہ کے تحت قومی آفات بندوبست اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) اور آفات کے بندوبست اور راحت کی وزارت ، عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے درمیان آفات کے بندوبست ، ابھرنے کی قوت اور شدت کو کم کرنے کے شعبے میں تعاون پر مارچ 2021 کو دستخط شدہ مفاہمتی قرارداد ایم او یو سے باخبر کرایا گیا۔ فوائد: اس مفاہمتی قرارداد کے تحت ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی ، جس سے بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ممالک ایک دوسرے کے آفات کے بندوبست کے نظام سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اس سے آفات کے بندوبست کے شعبے میں تیاری ، فوری بچا ؤ اور راحت کا کام اور صلاحیت سازی کے شعبوں کو بھی مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ مفاہمتی قرارداد کی اہم خصوصیات : راحت ، فوری بچاؤ اور راحت کام ، تعمیر نو اور پھر سے پہلے والی حالت حاصل کرنا (ری کووری کے شعبے میں اپنے ملک میں ہونے والی سنگین آفات (قدرتی یا انسان کی پیدا کردہ ) کے وقت کسی بھی فریق کی درخواست پر ایک دوسرے کو مدد فراہم کرنا ۔ متعلقہ معلومات ، ریموٹ سینسنگ ڈیٹا اور دیگر سائنسی ڈیٹا کا تبادلہ کرنا اور فوری بچاؤ اور راحت کام کے تجربے / بہترین طریقوں ، ری کووری ، شدت کو کم کرنا اور ابھرنے کی قوت کو یقینی بنانے کے لئے صلاحیت سازی کا تبادلہ کرنا۔ جدید اطلاعاتی ٹکنالوجی ، پیشی وارننگ نظام ، ریموٹ سینسنگ اور نیوی گیشن خدمات کے شعبے میں تعاون بڑھانا۔ اس کے ساتھ ہی آفات سے متعلق تیاری ، فوری بچاؤ اور راحت کام اور شدت کو کم کرنے کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے اور ریئل ٹائم ڈیٹا مشترک کرنے کے لئے بھی باہمی تعاون بڑھانا۔ آفات کے بندوبست کے شعبے میں افسران کی تربیت کی حمایت کرنا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی طور پر مشترکہ آفات کے بندوبست سے متعلق مشق منعقد کرنا ۔ ڈیزاسٹ ریزیلیئنٹ کمیونٹیز بنانے کے لئے اسٹینڈرڈس ، جدید ٹکنالوجی اور آلات کا تبادلہ کرنا ۔ آفات بندوبست کے شعبے میں نصابی کتابوں ، رہنما اصولوں کے طور پر پبلکی کیشن اور مواد کا تبادلہ اور آفات کے بندوبست، خطرات کو کم کرنے اور ری کووری کے شعبے میں مشترکہ تحقیقی سرگرمیوں کو انجام دینا,"দুৰ্যোগ প্ৰবন্ধন, সহনীয়কৰণ আৰু প্ৰশমন ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা সম্পৰ্কীয় ভাৰত আৰু বাংলাদেশৰ মাজত সম্পাদিত বুজাবুজিৰ চুক্তি(এমঅ’ইউ)লৈ কেবনেটৰ অনুমোদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DA%BE%D9%86%D8%AA%DB%8C%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے دھنتیرس کے مبارک موقع پر شہریوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ صحت اور تندرستی کے ساتھ دھنتیرس کے قریبی تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بھارت کی روایتی دواؤں اور یوگا کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانے کا اعتراف کیا اور ان شعبوں میں کام کرنے والوں کی کوششوں کی ستائش کی۔ انھوں نے گلوبل آیوش سربراہ کانفرنس میں اپنی حالیہ تقریر بھی شیئر کی۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’دھنتیرس کے مبارک موقع پر مبارکباد۔ ہماری قوم کے لوگوں کو اچھی صحت اور خوشحالی ملے۔ ہمارے معاشرے میں دولت پیدا کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا رہے۔‘‘ ’’دھنتیرس کا صحت اور تندرستی کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت کی روایتی ادویات اور یوگا نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ میں ان شعبوں میں کام کرنے والوں کی ستائش کرتا ہوں۔ حالیہ گلوبل آیوش سربراہ کانفرنس میں اپنی تقریر شیئر کر رہا ہوں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দেশবাসীক ধনতেৰাছৰ শুভেচ্ছা জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B1%D9%88%D8%AF%DB%8C%D9%88-%D9%B9%DB%8C%DA%AF%D9%88%D8%B1%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A7%B1-%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A5-%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گرودیو ٹیگور کو ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘میں گرودیو ٹیگور کو ان کی جینتی پر سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔ وہ آج بھی کروڑوں لوگوں کے فکر و عمل کو تحریک دیتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اپنی قوم، ثقافت اور اخلاقیات پر فخر کرنا سکھایا۔ انہوں نے تعلیم، سیکھنے اور سماجی تفویض اختیارات پر زور دیا۔ ہم ہندوستان کے لیےان کے وژن کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں ۔’’,গুৰুদেৱ ৰবীন্দ্ৰ নাথ ঠাকুৰৰ জন্ম জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধা নিবেদন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D9%85%D9%86%D8%B8%D9%85-%D9%85%D8%AD%D9%86%D8%AA-%DA%A9%D8%B4%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%81%D8%A8%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھارت سرکار غیر منظم محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ملک کی ترقی میں ہمارے غیر منظم مزدور بھائیوں اور بہنوں کی حصہ داری بہت ضروری ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ملک کی ترقی میں ہمارے غیر منظم مزدور بھائی – بہنوں کی حصہ داری بہت اہم ہے۔ ایسے کروڑوں محنت کشوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے ہماری سرکار ہمیشہ کوشش کرتی رہی ہے۔ جہاں ان یوجناؤں سےاُن کاسماجی تحفظ یقینی ہوا ہے، وہیں وبائی بیماری کے دوران بھی مدد کے لئے مزید کئی قدم اٹھائے گئے۔‘‘,ভাৰত চৰকাৰ অসংগঠিত শ্ৰমিকসকলৰ কল্যাণৰ বাবে প্ৰতিশ্ৰুতিবদ্ধ: প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%B9%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C/,نئی دہلی، 10جنوری 2018/ وزیراعظم جناب نریندرمودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے میں امداد باہمی کے لئے کناڈا کے ساتھ ایک مفاہمت نامے (ایم او یو) کو منظوری دی ہے۔ یہ مفاہمت نامہ ایک میکانزم فراہم کرے گا اور بھارت اور کناڈا کے تحقیق اور ترقی اور تعلیمی اداروں کے مابین سائنسی امداد باہمی کا راستہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ نمایاں خصوصیات کناڈا کی نیچرل سائنسیز اور انجینئرنگ ریسرچ کونسل (این ایس ای آر سی ) کے ساتھ سائنس اور ٹکنالوجی کے محکمہ کے ذریعہ طے پائے مفاہمت نامے کے تحت بھارت اور کناڈا کے درمیان تحقیق اور ترقی میں امداد باہمی کے ایک جدید ماڈل کو نافذ کیا جائے گا۔ اس مفاہمت نامے کے تحت کمیونٹی تبدیلی اور پائیداری (آئی سی –آئی ایم پی اے سی ٹی ایس)پروگرام میں تیزی لانے کے لئے جدید کثیر شعبہ جاتی شراکت داری سے متعلق بھارت-کناڈا سینٹر کو تعاون دیا جائے گا تاکہ بھارت اور کناڈا کے درمیان کثیر شعبہ جاتی ریسرچ شراکت داری کو فروغ دیا جاسکے۔ تحقیق اور ترقی پروجیکٹوں کا مقصد سائنس اور ٹکنالوجی کے ا نطباق کے ذریعہ حل فراہم کرکے سماجی تبدیلی کی رفتار میں تیزی لانا ہے۔ شرکت کنندگان میں بھارت اور کناڈا کے سائنسی اداروں کے تحقیق کار، دانشوران اور آر این ڈی لیباریٹریز شامل ہوں گے۔ دو طرفہ تعاون کے شناخت شدہ شعبوں میں محفوظ اور پائیدار بنیا دی ڈھانچہ اور پانی کا مربوط بندوبست شامل ہیں۔ اس مفاہمت نامے سے ادارہ جاتی نیٹ ورکنگ تیار کرنے اور بھارت اور کناڈا کے سائنسی اداروں ، سائنس دانوں اور ماہرین کے درمیان روابط کے قیام میں مدد ملے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ن ا ۔ ج۔,ভাৰত আৰু কানাডাৰ মাজত বিজ্ঞান আৰু প্ৰযুক্তিৰ ক্ষেত্ৰত বুজাবুজিৰ চূক্তি স্বাক্ষৰৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%81%D9%84%DB%8C%D9%BE%D9%86%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%85%DB%8C%D9%88%D9%86%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D8%AF%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔14 نومبر؛ نمستے، اگر آپ سے بغیر ملاقات کئے چلا جاتا تو میرا یہ سفر ادھورا رہ جاتا۔ الگ الگ مقامات سے آپ وقت نکال کر آئے ہیں۔ ورکنگ ڈے یعنی کام کا دن ہونے کے باوجود بھی آپ آئے ہیں۔ یہ بھارت کے تئیں آپ کا جو پیار ہے، بھارت کے تئیں آپ کی جو انسیت ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم سب آج ایک چھت کے نیچے جمع ہوئے ہیں۔ میں سب سے پہلےتو آپ کو خصوصی طور پر مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ کیونکہ میں بھارت کے باہر جہاں بھی جاتا ہوں۔ بھارتی کمیونٹی سے ملنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ لیکن آج آپ لوگوں نے جس ڈسپلن یعنی نظم و ضبط کا اظہار کیا اس کے لیے میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے ورنہ اتنی بڑی تعداد اور اتنے آرام سے میں سب سے مل سکوں یہ اپنے آپ میرے لئے بہت خوشی کا موقع ہے اور اس کے لیے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں، خیرمقدم کے مستحق ہیں۔ میرا اس ملک میں پہلی بار آنا ہوا ہے لیکن بھارت کے لیے زمین کا یہ خطہ بہت ہی اہم ہے اور جب سے وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے کی آپ لوگوں نے مجھے جو ذمہ داری سونپی ہے۔ ابتدا ہی سے ہم نے ایکٹ ایسٹ پالیسی پر زور دیا ہے کیونکہ اس طرح سے ہم ان ممالک میں بہت نزدیکی محسوس کرتے ہیں۔ فطری طور پر اپنا پن محسوس کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ وجوہات سے، کچھ نہ کچھ اقدار میں، کچھ نہ کچھ وراثت کی وجہ سے ایک جذباتی لگاؤ ہمارے درمیان ہے۔ شاید ہی یہاں کاکوئی ملک ایساہوجو رامائن کے بارے میں جانتا نہ ہو، رام کے بارے میں نہ جانتا ہو، شاید ہی بہت کم دیش ہوں گے جنہیں بدھ کے تئیں عقیدت نہ ہو۔ یہ اپنے آپ میں بی بڑی وراثت ہے اور اس وراثت کو سنوارنے اور سنجونے کا کام بھارتی کمیونٹی، جو یہاں آباد وہ بخوبی کرسکتی ہے۔ ایک کام ایک سفارتخانہ کرتا ہے، اس سے متعدد گنا زیادہ کام ایک عام بھارتی کرسکتا ہے۔ اور میں تجربہ کیا ہے کہ دنیا بھر میں آج ہر ہندوستانی فخر کے ساتھ سر اٹھا کر ، آنکھ سے آنکھ ملاکر فخر کے ساتھ ہندوستانی ہونے کی با کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ ایک بہت بڑی پونجی ہوتی ہے۔ اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بھارتی کمیونٹی اور بھارت کے لوگ صدیوں سے ملک کا سفر کرنے کے رجحان کے حامل رہے ہیں۔ صدیوں قبل ہمارے آبائ و اجداد نکلے ہیں اور بھارت کی ایک خصوصیت رہی ہے۔ ہم جہاں گئے، جس سے ملے اسے اپنا بنالیا۔ یہ چھوٹی چیز نہیں ہے، اپنے پن بچائے رکھتے ہوئے ہر کسی کو اپنا بنالینا یہ تب ممکن ہوتا ہے، جب اندر ایک مستحکم خوداعتمادی ہوتی ہے اور آپ لوگ جہاں گئے ہیں، وہاں اس مستحکم خود اعتمادی کا تعارف کرایا ہے۔ آپ کہیں پر بھی ہو، کتنے ہی سالوں سے باہر ہوں گے، کتنی ہی پیڑھیوں سے باہر رہے ہوں گے، ہوسکتا ہے، زبان کا ناتا بھی ٹوٹ گیا ہو، لیکن اگر بھارت میں کچھ برا ہوتا ہے، تو آپ کو بھی نیند نہیں آتی۔ اور اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو آپ بھی پھولے نہیں سماتے۔ اور اس لیے موجودہ حکومت کی لگاتار کوشش ہے کہ ملک کو ترقی کی ان بلندیوں پر لے جایا جائے جس سے ہم دنیا کی برابری کرسکیں اور ایک بار برابری کرنے کی قوت حاصل کرلی ، میں نہیں مانتا ہوں کہ ہندوستان کو آگے بڑھنے سے کوئی روک پائے گا۔ کچھ رکاوٹیں جو ہوتی ہیں، وہ ایک مساوی سطح پر پہنچنے تک ہوتی ہیں۔ ایک بار جب اُن دشواریوں پر قابو حاصل کرلیا تو پھر راستہ آسان ہوجاتا ہے۔ اہل ہند کے دل ، دماغ، بازوؤں میں دم ہے اور اس کو آگے جانے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ اور اس لئے پچھلے تین ساڑھے تین سال سے حکومت کی لگاتار کوشش رہی کہ بھارت کی جو اہلیت ہے، جو سوا سو کروڑ اہل وطن کی قوت ہے، بھارت کے پاس جو قدرتی وسائل ہیں، بھارت کے پاس جو ثقافتی وراثت ہے، بھارت کے لوگ ، جنھوں نے کسی بھی دور میں کوئی بھی دور نکال دیجئے، سو سال پہلے، پانچ سو سال پہلے، ہزار سال پہلے، پانچ ہزار سال پہلے، تاریخ میں ایک بھی واقعہ نظر نہیں آتا، کہ ہم نے کسی کا برا کیا ہو۔ جس ملک کے پاس ، جب میں دنیا کے ملک کے لوگوں سے ملتا ہوں اور جب میں اُن کو بتاتا ہوں کہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم، نہ ہمیں کسی کی زمین لینی تھی، نہ ہمیں کہیں جھنڈا لہرانا تھا، نہ ہمیں دنیاکو قبضہ کرنا تھا۔ لیکن امن کی تلاش میں میرے ملک کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جوانوں نے شہادت دی تھی۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں امن کے لیے لینا دینا کوچھ نہیں، امن کے لیے ڈیڑھ لاکھ ہندوستانی شہادت مول لے کوئی بھی، کوئی بھی بھارتی سینہ تان کر کہہ سکتا ہے کہ ہم لوگ دنیا کو دینے والے لوگ ہیں، لینے والے لوگ نہیں اور چھیننے والے نہیں قطعی نہیں۔ آج دنیامیں پیس کیپنگ فورس یونائیٹڈ نیشنس سے جڑاہوا کوئی بھی ہندوستانی فخر کرسکتا ہے،کہ آج دنیا میں ہر جگہ پر کہیں بھی تشدد واقع ہوتا ہے اقوام متحدہ کے ذریعے پیس کیپنگ فورس بناکر وہاں امن بنائے رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پوری دنیامیں پیس کیپنگ فورس میں سب سے زیادہ تعاون کرنے والے کوئی ہیں تو ہندوستان کے سپاہی ہیں۔ آج بھی دنیا کے کئی ایسے خطوں میں بھارت کے جوان تعینات ہیں۔ بدھ اور گاندھی کی سرزمین پر امن کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے امن و امان سے رہ کر دکھایا ہے۔ امن کو ہم نے اختیار کیا ہے۔ امن ہماری رگوں میں شامل ہے۔ اور تبھی تو ہمارے اجداد نے وسودھیو کُٹنبھ – دنیا ایک کنبہ ہے، یہ اصول ہمیں دیا ہے۔ جس اصول کو ہم نے جی کر دکھایا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کا مطلب دنیا تب قبول کرتی ہے جب بھارت مضبوط ہو، بھارت باصلاحیت ہو، بھارت زند��ی کے ہر شعبے میں نئی بلندیاں حاصل کرنے کے لیے ترقی یافتہ ہو۔ تب جاکر کے دنیا قبو ل کرتی ہے۔ مادی علم کتنا ہی کیوں نہ ہو، تاریخ کتنی شاندار کیوں نہ ہو، وراثت کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، مستقبل اتنا ہی روشن، تابناک اور شجاعانہ ہونا چاہئے تب جاکر دنیا مانتی ہے۔ اور اس لیے ہمارے شاندار ماضی سے ترغیب حاصل کرنا اس سے سبق حاصل کرنا، جتنا اہم ہے اُتنا ہی، 21ویں صدی اگر ایشیا کی صدی مانی جاتی ہے تو یہ ہم لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ 21ویں صدی ہندوستان کی صدی بنے۔ اور یہ مجھے مشکل نہیں لگتا۔ تین سال، ساڑھے تین سال کے تجربے کے بعد میں کہتا ہوں۔ یہ ممکن ہے۔ پچھلے دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ، بھارت سے جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، مثبت خبریں آتی رہتی ہیں۔ اب ڈر نہیں رہتا ہے کہ پتہ نہیں کوئی منفی خبر آجائے گی، آفس جائیں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔ اب گھر سے نکلتے ہیں یقین ہوتا ہے کہ ہندوستان سے اچھی خبر ہی آئے گی۔ سوا سو کروڑ کا دیش ہے اس کی قومی دھارا جو ہے۔ سماج کی قومی دھار اہو، سرکار کی قومی دھارا ہو، وہ مثبت ہی چل رہی ہے۔ پوزیٹو کے ارد گردہی چل رہی ہے۔ ہر بار فیصلے ملک کے مفاد میں لیے جارہے ہیں۔ سوا سو کروڑ کا دیش، آزادی کے 70 سال بعد اگر 30 کروڑ کنبے، بینکنگ نظام سے باہر ہوں تو ملک کی معیشت کیسے چلے گی۔ ہم نے بیڑا اٹھایا، جن دھن یوجنا شروع کی، اور زیرو بیلنس ہو تو بھی بینک اکاؤنٹ کھولنا ہے، بینک والوں کو پریشانی ہورہی تھی۔ اور منیلا میں تو بینک کیا دنیا ہے، سب کو پتہ ہے۔ بینک والے مجھ سے جھگڑا کررہے تھے کہ صاحب کم سے کم اسٹیشنری کا پیسہ تو لینے دو، میں نے کہا یہ دیش کے غریبوں کا حق ہے۔ ان کو بینک میں باعزت داخلہ ملنا چاہئے۔ وہ بیچارہ سوچتا تھاکہ ائیرکنڈیشن بینک کے باہر دو بندوق والے کھڑے ہیں وہ غریب جاپائے گا کہ نہیں ۔ اور پھر ساہوکار کے پاس چلا جاتا تھا، اور ساہوکار کیا کرتا تھا یہ ہم جانتے ہیں۔ 30 کروڑ اہل وطن کا زیرو بیلنس سے اکاؤنٹ کھولا۔ اور کبھی کبھی آپ نے امیر قوم کو دیکھا ہوگا۔ میں نے امیروں کو بھی دیکھا ہے، امیروں کی غریبوں کو بھی دیکھا ہے۔ آپ نے غریبوں کو بھی دیکھا ہوگا، لیکن میں نے غریبوں کی امیروں کو دیکھا ہے۔ زیرو بیلنس بینک اکاؤنٹ کھولے تھے۔ لیکن آج میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اُن جن دھن اکاؤنٹ سے ان غریبوں کی سیونگ کی عادت بنی، پہلے بیچارے گھر میں گیہوں میں چھپاکر پیسہ رکھتے تھے، گدے کے نیچے رکھتے تھے، اور وہ بھی اگر شوہر کی عادت خراب ہو، اوروہ کہیں اور خرچ کردیتا تھا۔ وہ مائیں ڈرتی رہتی تھیں۔ آپ کو جان کو خوشی ہوگی کہ اتنے کم وقت میں اُن جن دھن اکاؤنٹ میں 67 ہزار کروڑ روپے غریبوں کا محفوظ ہوا ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی میں غریب عملی طور پر شراکت دار بنا ہے۔ یہ چھوٹی تبدیلی نہیں ہے، جو طاقت، قوت، نظام سے باہر تھی وہ آج نظام کے مرکز میں آگئے۔ ایسے دیگر کئی اقدام ہیں جن پر کبھی غور و خوض نہیں کیا گیا، کسی کے تصور میں بھی نہیں تھے، کچھ لوگوں کو تو یہ پریشانی ہے کہ بھائی ایسا بھی ہوسکتا ہے کیا؟ ہم لوگوں نے تو یہ طے کرلیا تھا اپنا ملک ہے، جیسا ہے، ویسا ہی چلے گا، کیوں چلے گا بھائی، اگر سنگار پور سووچھ ہو سکتا ہے، فلیپنس سووچھ ہوسکتا ہے، منیلا سووچھ ہوسکتا ہے تو ہندوستان کیوں سووچھ نہیں ہوسکتا؟ دیش کا کونسا شہری ہوگا جو گندگی میں رہنا پسند کرتا ہوگا۔ کوئی نہیں چاہتا ہے۔ لیکن کسی کو تو قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ کسی کو تو ذمہ داری لینی پڑتی ہے، کامیابی، ناکامی ��ی فکر کیے بغیر کام ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔ مہاتما گاندھی جی نے جہاں سے چھوڑا تھا، وہیں سے ہم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے اور سماج کے عام انسان کی معیار زندگی میں کیسےتبدیلی واقع ہوگئی۔ اب ہمارے ملک میں آپ میں سے جو لوگ پچھلے 20، 25، 30 سال میں بھارت سے یہاں آئے ہوں گے۔ یا ابھی بھی بھارت سے رابطے میں ہوں گے تو آپ کو پتہ ہوگا کہ ہمارے یہاں گیس سلنڈر لینا گھر میں گیس کا کنکشن لینا بہت بڑا کام مانا جاتا تھا۔اور گھر میں اگر گیس کنکشن آجائے، سلنڈر آجائے تو قرب و جوار میں ایسا ماحول بنتا تھا جیسے مرسڈیز آگئی ہے۔ یعنی بہت بڑی کامیابی مانی جاتی تھی۔ کہ ہمارے گھر میں اب گیس کا کنکشن آگیا اور گیس کا کنکشن اتنی بڑی چیز ہوا کرتی تھی ۔ ہمارے دیش میں پارلیمنٹ کے ممبران کو 25 کوپن ملتے تھے۔ اس چیز کے لیے، کہ آپ اپنے پارلیمانی حلقے میں سال میں 25 لوگوں کومستفید کرسکتے ہیں۔ بعد میں وہ لوگ کیا کرتے تھے ، وہ کہنا نہیں چاہتا، اخبار میں آتا تھا۔ یعنی گیس سلنڈر کا کنکشن ، آپ کو یاد ہوگا 2014 میں جب پارلیمانی الیکشن ہوئے تو اس وقت ایک طرف بھارتی جنتا پارٹی نے مجھے ذمہ داری دی تھی ، اُس انتخابات کی قیادت کرنے کے لیے۔ وہاں پر ایک میٹنگ ہوئی کانگریس کی پریس کانفرنس ہوئی۔ اس پریس کانفرنس میں کیا کہا گیا ، یہ کہا گیا کہ اگر 2014 میں ہم جیتیں گے تو ہم سال بھر میں ابھی جو 9 سلنڈر دیتےہیں، 12 سلنڈر دیں گے۔ یاد ہے کہ نہیں یعنی 9 سلنڈر کے 12 سلنڈر۔ اس موضوع پر کانگریس انتخاب لڑرہی تھی۔ یعنی یہ دور کی بات نہیں ہے 2014 تک سوچ کا یہی دائرہ تھا جی، اور ملک بھی تالی بجارہا تھا، اچھا اچھا، بہت اچھا 9 کے 12 مل جائیں گے۔ مودی نے طے کیا کہ وہ میں غریبوں کو دے دوں گا اور 3 کروڑ کنبوں کو مفت گیس کنکشن دینے کی سمت میں ہم کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے۔ 3 کروڑ کنبوں کو پہنچا دیا۔ میرا وعدہ پانچ کروڑ کنبوں کا ہے۔ بھارت میں کل کنبے 25 کروڑ ہیں۔ 25 کروڑ کنبے، اس میں سے 5 کروڑ کا وعدہ ہے، تین کروڑ کردیا ہے۔ اچھا، اس میں بھی کچھ کمال ہے جو اپنے گھر کے لوگ ہیں تو کچھ بات کرسکتا ہوں۔ کبھی کبھی حکومت کی سبسڈی جاتی تھی تو لگتا تھا کہ لوگوں کا بھلا ہوتا ہوگا۔ تو میں نے کیا کیا، آدھار کے ساتھ اس کو جوڑ دیا۔ بائیو میٹرک آئیڈینٹی فیکیشن تو اس کی وجہ سے معلوم ہوا کہ ایسے ایسے لوگوں کو سبسڈی دی جاتی تھی جو پیدا ہی نہیں ہوئے۔ ان کو نہ ملے، اتنا سا کام ، کیا بڑا کام نہیں کیا۔ اتنا ہی کیا، نتیجہ کیا نکلا ،معلوم ہے ، 57 ہزار کروڑ روپے بچ گئے۔ اور یہ ایک مرتبہ نہیں بچے یہ ہر سال 57 ہزار کروڑ جاتا تھا۔ اب بتائیے کہاں جاتا تھا بھائی۔ اب جن کی جیب میں جاتا تھا، ان کو مودی کیسا لگے گا، وہ کبھی فوٹو نکالنے کے لیے آئے گا کیا؟ آئے گا کیا؟ وہ مودی کو پسند کرے گا کیا؟ مجھے بتائیے کام کرنا چاہئے کہ نہیں کرنا چاہئے؟ دیش میں تبدیلی آنی چاہئے کہ نہیں؟ سخت فیصلے لینے چاہئے کہ نہیں کرنے چاہئیں؟ ملک کو آگے لے جانا چاہئے کہ نہیں لے جانا چاہئے؟ آپ لوگ آکر مجھے دعاؤں سے نوازرہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ۔ جس مقصد کے لیے ملک نے مجھے کام سونپا ہے اس مقصد کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑوں گا۔ 2014 سے قبل خبریں آتی تھیں، کتنا گیا، کوئلے میں گیا، 2جی میں گیا، ایسی ہی خبریں آتی تھیں نا۔ 2014 کے بعد مودی سے کیا پوچھا جاتا ہے، مودی جی بتائیے کہ کتنا آیا؟ دیکھے یہ تبدیلی ہے۔ وہ بھی ایک وقت تھا، جب ملک پریشان تھا، کتنا گیا، آج وقت ہے کہ دیش، خوشی کی خبر سننے کے لیے پوچھتا رہتا ہے کہ مودی جی بتائیے کتنا آیا۔ ہمارے دیش میں کوئی کمی نہیں ہے دوستوں ، دیش میں آگے بڑھنے کے لئے ہر طرح کے امکانات ہیں، ہر طرح کی قوت موجود ہے، اسی طرح کی اہم پالیسیوں کے ساتھ ہم آگے چل رہے ہیں۔ ملک، ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور عوام کی شراکت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ عام سے عام انسان کو ساتھ لےکر چل رہے ہیں اور اس کے نتائج اتنے اچھے نکلیں گے کہ آپ بھی طویل عرسے تک یہاں رہنا پسند کریں گے۔ تو مجھے اچھا محسوس ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں آکر آپ لوگوں نے مجھے اپنی دعاؤں سے نوازا۔ بہت بہت شکریہ,ফিলিপাইছত ভাৰতীয় সমূদায়ৰ অভ্যৰ্থনা অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%86-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D9%86%D8%B3%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%A4%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4/,نئی دہلی۔ 30 اکتوبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اطالوی یونیورسٹیوں کے متعدد ماہرین ہند اور ماہرین سنسکرت سے ملاقات کی اور ان سے بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ہندوستانی ثقافت، ادب، آیوروید اوریوگا میں ان کی دلچسپی کو سراہا اور ہندوستان اور اٹلی کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے میں ان کےکردار کی ستائش کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,ভাৰততত্ববিদ আৰু সাংস্কৃতিক বিশেষজ্ঞসকলৰে মিলিত হ’ল প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%AF%DB%8C-%D8%B4%D8%B9%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%81%E0%A6%A5%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%95-%E0%A6%96%E0%A6%A3/,نئی دہلی،17؍نومبر،وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جمعرات کو پی ایم جی ایس وائی، ہاؤسنگ، کوئلہ اور بجلی سمیت بنیادی ڈھانچے کے کلیدی شعبوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری اس نظرثانی میٹنگ میں وزیراعظم دفتر، نیتی آیوگ اور حکومت ہند کے بنیادی ڈھانچے کی وزارتوں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اس موقع پر نیتی آیوگ کے سی ای او نے ایک پرزنٹیشن پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ متعدد شعبوں میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت 81 فیصد ہدف شدہ آبادیوں، جن کی تعداد تقریباً ایک اعشاریہ 45 لاکھ ہے، کو اب تک جوڑا گیا ہے۔ افسران نے کہا کہ ایک طے شدہ وقت کے اندر بقیہ ان تمام آبادیوں کو جنہیں اب تک جوڑا نہیں گیا ہے، انہیں جوڑنے کیلئے پیش رفت جاری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کام کیلئے دستیاب ذرائع کا پورے سال بہتر طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔ وزیراعظم نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ عام بجٹ کی تاریخ کے قریب آنے کے نتیجے میں کارکردگی میں مزید بہتری آئے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم کو میری سڑک ایپ سے متعلق موصول شکایتوں کو تیزی سے حل کرنے کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ وزیراعظم نے شکایتوں کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی اپیل کی تاکہ جب بھی ضرورت پڑے اس کے حل کیلئے بروقت اقدامات کئے جاسکیں۔ 2019 تک دیہی علاقوں میں ایک کروڑ مکانات کی فراہمی سے متعلق روڈ میپ میں ہونے والی پیش رفت پر نظر ثانی کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مستفیدین ک�� زندگیوں پر ہاؤسنگ کے مثبت اثر کی مناسب طور پر جانچ کی جانی چاہئے اور توجہ اُن کی معیار زندگی کو بہتر بنانے پر مرکوز کرنی چاہئے۔ کوئلہ شعبے کا جائزہ لیتے ہوئے وزیراعظم نے تازہ ترین ٹیکنالوجی ذرائع کے استعمال کے ذریعے زیر زمین کانکنی اور کوئلہ کی گیس کاری کی سمت میں ازسر نو کوشش کرنے کی اپیل کی۔ اس موقع پر وزیراعظم کو دیہی بجلی کاری اور سے متعلق اہداف کی سمت میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بھی مطلع کیا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-ن ا- ق ر),মুখ্য আন্তঃগাঁথনিমুলক খণ্ডসমূহৰ অগ্ৰগতিৰ পৰ্যালোচনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B7%D8%A8%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-%D9%85%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%83%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھوپال میں طبی تعلیم ہندی میں شروع کیے جانے کی ستائش کی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ یہ تاریخی قدم لاکھوں طلبا کو اپنی زبان میں طبی تعلیم حاصل کرنے اور ملک میں مثبت تبدیلی لانے میں بااختیار بنائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے طلبا کے لیے مواقع کے متعدد دروازے کھلیں گے۔ وزیر داخلہ جناب امت شاہ کے ایک ٹوئیٹ کو شیئر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’طبی تعلیم کے شعبہ میں ہوئی یہ شروعات ملک میں ایک بڑی تبدیلی لانے والی ہے۔ اس سے لاکھوں طلبا جہاں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرسکیں گے، وہیں ان کے لیے مواقع کے متعدد دروازے بھی کھلیں گے۔‘‘,মাতৃভাষাত চিকিৎসা বিজ্ঞানৰ শিক্ষা আৰম্ভ হোৱা কাৰ্যৰ প্ৰশংসা কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%9246%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%D8%AD%D9%84%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A7%A6%E0%A7%AD-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7/,"نئیدہلی۔29جولائی 2018؛ میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ ان دنوں بہت سے مقامات پر اچھی بارش ہو رہی ہے۔ کہیں کہیں پر زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے تشویش کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں اور کچھ مقامات پر ابھی بھی لوگ بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی وسعت، تنوع، کبھی کبھی بارش بھی پسند – ناپسند یدگی کے طور پر دکھائی دیتی ہے، لیکن ہم بارش کو کیا الزام دیں، انسان ہی ہے جس نے ماحولیات سے جدوجہد کا راستہ منتخب کر لیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کبھی کبھی فطرت ہم سے خفا ہو جاتی ہے۔ اور اسلیے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے – ہم ماحولیات سے پیار کریں، ہم ماحولیات کا تحفظ کریں، ہم ماحولیات کے محافظ بنیں، تو فطرت میں جو چیزیں ہیں ان میں توازن اپنے آپ بنا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ویسے ہی ایک قدرتی آفت نے پوری دنیا کی توجہ اپنے جانب مبذول کی، انسانی دماغ کو جھنجھوڑ دیا۔ آپ سب لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، تھائی لینڈ میں 12 نوجوان فٹبال کھلاڑیوں کی ٹیم اور ان کے کوچ گھومنے کے لیے ایک غار میں گئے۔ وہاں عام طور پر غار میں جانے اور اس سے باہر نکلنے، ان سب میں کچھ گھنٹوں کا وقت لگتا ہے۔ لیکن اس دن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب وہ غار کے اندر کافی اندر تک چلے گئے – اچانک بھاری بارش کی وجہ سے غار کا دروازے کے پاس کا��ی پانی جمع ہو گیا۔ ان کے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا۔ کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے غار کے اندر کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر رکے رہے۔ اور وہ بھی ایک دو دن نہیں 18 دنوں تک۔ آپ تصور کر سکتے ہیں نوجوان کی دنیا میں جب سامنے موت دکھتی ہو اور لمحہ لمحہ گزارنی پڑتی ہے تو وہ لمحہ کیسا ہوگا۔ ایک جانب وہ مصیبت میں مبتلا تھے، تو دوسری جانب پوری دنیا میں انسانیت متحد ہوکر کے خدا داد انسانی خصوصیات کو ظاہر کر رہی تھی۔ دنیا بھر میں لوگ ان بچوں کو محفوظ باہر نکالنے کےلیے دعائیں کر رہے تھے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ بچیں ہیں کہاں، کس حالت میں ہیں۔ انہیں کیسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ اگر راحت رسانی کا کام مناسب وقت پر نہیں ہوتا تو مانسون کے سیزن میں انہیں کچھ مہینوں تک نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ خیر جب اچھی خبر آئی تو دنیا بھر کو سکون ملا، لیکن اس پورے عمل کو ایک اور نظریے سے بھی دیکھنے کا میرا من کرتا ہے کہ پوری کارروائی کیسے چلی۔ ہر سطح پر ذمہ داری کا جو احساس ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ سبھی نے چاہا ، چاہے حکومت ہو، ان بچوں کے والدین ہوں، ان کے خاندان کے لوگ ہوں، میڈیا ہو، ملک کے عوام ہوں – ہر کسی نے امن اور صبر کا حیرت انگیز نظارہ پیش کیا۔ سب کے سب لوگ ایک ٹیم کی شکل میں اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے۔ ہر کسی کا یکساں سلوک – میں سمجھتا ہوں کہ سیکھنے جیسا موضوع ہے، سمجھنے جیسا ہے۔ ایسا نہیں کہ ماں باپ پریشان نہیں ہوئے ہوں گے، ایسا نہیں کہ ماں کی آنکھ سے آنسو نہیں نکلے ہوں گے، لیکن صبر و ضبط، پورے سماج کا امن سے بھرپور سلوک – یہ اپنے آپ میں ہم سب کے لیے سیکھنے جیسا ہے۔ اس پورے عمل میں تھائی لینڈ کی بحریہ کے ایک جوان کو اپنی جان بھی گنوانی پڑی۔ پوری دنیا اس بات پر حیران ہے کہ اتنی مشکل حالات کے باوجود پانی سے بھرے ایک اندھیرے غار میں اتنی بہادری اور صبر کے ساتھ انہوں نے اپنی امید نہیں چھوڑی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب انسانیت ایک ساتھ آتی ہے، حیرت انگیز چیزیں رونما ہوتی ہیں۔ بس ضرورت ہوتی ہے ہم پرسکون من سے اپنے ہدف پر توجہ دیں، اس کے لیے کام کرتے رہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے ملک کے مشہور شاعر نیرج جی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ نیرج جی کی ایک خاصیت رہی تھی – امید، ایمان، عزم، خود پر اعتماد۔ ہم ہندوستانیوں کو بھی نیرج جی کی ہر بات بہت قوت دے سکتی ہے، ترغیب دے سکتی ہے – انہوں نے لکھا تھا – ’اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا، آندھیاں چاہے اُٹھاؤ، بجلیاں چاہے گراؤ، جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا۔‘ نیرج جی کو احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ’’نمستے وزیراعظم جی میران نام ستیم ہے۔ میں نے اس سال دہلی یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ ہمارے اسکول کے بورڈ امتحان کے وقت آپ نے ہم سے ایگزام اسٹریس اور ایجوکیشن کی بات کی تھی۔ میرے جیسے طالب علم کے لیے اب آپ کا کیا پیغام ہے۔‘‘ ویسے تو جولائی اور اگست کا مہینہ کسانوں کے لیے اور سبھی نوجوانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے جب کالج کا پیک سیزن ہوتا ہے۔ ’ستیم‘ جیسے لاکھوں نوجوان اسکول سے نکل کر کے کالجز میں جاتے ہیں۔ اگر فروری اور مارچ ایگزام، پیپرس، جوابات میں جاتے ہیں تو اپریل اور مئی چھٹیوں میں مستی کرنے کے ساتھ ساتھ ریزلٹ ، زندگی میں مستقبل کی سمت طے کرنے، کیریئر کو منتخب کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ جولائی وہ مہینہ ہے جب نوجوان اپنی زندگی کے اس نئے مرحلے میں قدم رکھتے ہی�� جب سوالات کے مرکوزیت سے ہٹ کر کٹ آف پر چلا جاتا ہے۔ طالب علموں کی توجہ گھر سے ہوسٹل پر چلی جاتی ہے۔ طالب علم والدین کی زیر نگرانی سے پروفیسر کی نگرانی میں آ جاتے ہیں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ میرا نوجوان دوست کالج کی زندگی کی شروعات سے کافی پرجوش اور خوش ہوں گے۔ پہلی بار گھر سے باہر جانا، گاؤں سے باہر جانا، ایک حفاظتی ماحول سے باہر نکل کر خود کو ہی اپنا سارتھی بننا ہوتا ہے۔ اتنے سارے نوجوان پہلی بار اپنے گھروں کو چھوڑ کر، اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دینے لیے نکل آتے ہیں۔ کئی طالب علموں نے ابھی تک اپنے اپنے کالج جوائن کر لیے ہوں گے، کچھ جوائن کرنے والے ہوں گے۔ آپ لوگوں سے میں یہی کہوں گا ، پرسکون رہیے، زندگی سے لطف لیجیے، زندگی سے بھرپور زندگی کا لطف اٹھائیں۔ کتابوں کے بغیر کوئی راستہ تو نہیں ہے، پڑھائی تو کرنی پڑتی ہے، لیکن نئی نئی چیزوں کو تلاشنے کی فطرت ہونی چاہیے۔ پرانے دوستوں کی قدر ہے۔ بچپن کے دوست بیش قیمتی ہوتے ہیں، لیکن نئے دوست کا انتخاب، بنانا اور بنائے رکھنا، یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی سمجھداری کا کام ہوتا ہے۔ کچھ نیا سیکھیں، جیسے نئے نئے ہنر، نئی نئی زبان سیکھیں۔ جو نوجوان اپنے گھر چھوڑ کر باہر کسی اورمقامات پر پڑھنے گئے ہیں ان جگہوں کو ڈسکور کریں، وہاں کے بارے میں جانیں، وہاں کے لوگوں کو ، زبان کو، ثقافت کو جانیں، وہاں کے سیاحتی مقامات ہوں گے – وہاں جائیں، ان کے بارے میں جانیں۔ نئی زندگی کی شروعات کر رہے ہیں سبھی نوجوانوں کو میری مبارکباد۔ ابھی جب کالج سیزن کی بات ہو رہی ہے تو میں نیوز میں دیکھ رہا تھا کہ کیسے مدھیہ پردیش کے ایک بیحد غریب خاندان سے جڑے ایک طالب علم آشارام چودھری نے زندگی کے مشکل چیلنجوں کو پار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے جودھ پور ایمس کےایم بی بی ایس کے امتحان مین اپنی پہلے ہی کوشش میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے والد کچڑا چُن کر اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ میں ان کی اس کامیابی کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے انہوں نے کچھ ایسا کر دکھایا ہے، جو ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ چاہے وہ دلی کے پرنس کمار ہوں، جن کے والد ڈی ٹی سی میں بس ڈرائیور ہیں یا پھر کولکتہ کے ابھئے گپتا جنہوں نے فُت پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ کے نیچے اپنی پڑھائی کی ۔ احمد آباد کی بیٹی آفرین شیخ ہو، جن کے والد آٹو رکشا چلاتے ہیں۔ ناگپور کی بیٹی خوشی ہو، جن کے والد بھی اسکول بس میں ڈرائیور ہیں یا ہریانہ کے کارتک ، جن کے والد چوکیدار ہیں یا جھارکھنڈ کے رمیش ساہو جن کے والد اینٹ بھٹا میں مزدوری کرتے ہیں۔ خود رمیش بھی میلے میں کھلونا بیچا کرتے تھے یا پھر گڑگاؤں کی معزور بیٹی انوشکا پانڈا، جو جنم سے ہی اسپائنل مسکیولر اٹروپھی نام کے ایک پیدائشی بیماری میں مبتلا ہیں، ان سب نے اپنے عزم مصمم اور حوصلے سے مشکلات کو پار کر – دنیا دیکھے ایسی کامیابی حاصل کی۔ ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو ہم کو ایسے کئی مثال مل جائیں گی۔ ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی اچھا واقعہ میرے من کو توانائی دیتا ہے، ترغیب دیتی ہے اور جب ان نوجوانوں کی کہانی آپ کو کہہ رہا ہوں تو اس کے ساتھ مجھے نیرج جی کی بھی وہ بات یاد آتی ہے اور زندگی کا وہی تو مقصد ہوتا ہے۔ نیرج جی نے کہا ہے – ’گیت آکاش کو دھرتی کا سنانا ہے مجھے، ہر اندھیرے کو اجالے میں بُلانا ہے مجھے، پھول کی گندھ سے تلوار کو سر کرنا ہے، اور گا-گا کے پہاڑوں کو جگانا ہے مجھے‘ میرے پیارے ہم وطنوں، کچھ دن پہلے میری نظر ایک خبر پر گئی، لکھا تھا – ’دو نوجوانوں نے کیا مودی کا سپنا ساکار‘ ۔ جب اندر خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ کیسے آج ہمارے نوجوان ٹیکنالوجی کا اسمارٹ اور کریٹیو یوز کر کے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک بار امریکہ کے سین جونس شہر، جسے ٹکنالوجی ہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہاں میں ہندوستانی نوجوانوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ میں نے ان سے اپیل کی تھی۔ وہ ہندوستان کے لیے اپنے ٹیلینٹ کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں، یہ سوچیں اور وقت نکال کر کے کچھ کریں۔ میں نے برین – ڈرین کو برین – گین میں تبدل کرنے کی اپیل کی تھی۔ رائے بریلی کے دو آئی ٹی پروفیشنلس، یوگیش ساہو جی اور رجنیش واجپئی جی نے میرے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک کوشش کی۔ اپنے پروفیشنل اسکلس کا استعمال کرتے ہوئے یوگیش جی اور رجنیش جی نے مل کر ایک اسمارٹ گاؤں ایپ تیار کیا ہے۔ یہ ایپ نہ صرف گاؤں کے لوگوں کو پوری دنیا سے جوڑ رہا ہے بلکہ اب وہ کوئی بھی جانکاری اور خبر خود کے موبائل پر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ رائے بریلی کے اس گاؤں تودھک پور کے شہریوں، گرام – پردھان، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، سی ڈی او، سبھی لوگوں نے اس ایپ کے استعمال کے لیے لوگوں کو بیدار کیا۔ یہ ایپ گاؤں میں ایک طرح سے ڈیجیتل تحریک لانے کا کام کر رہا ہے۔ گاؤں میں جو ترقی کے کام ہوتے ہیں، اسے اس ایپ کے ذریعے ریکارڈ کرنا، ٹریک کرنا، مانیٹر کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس ایپ میں گاؤں کی فون ڈائریکٹری، نیوز سیکشن ایوینٹ لسٹ، ہیلتھ سینٹر اور انفارمیشن سینٹر موجود ہے۔ یہ ایپ کسانوں کے لیے بھی کافی فائدہ مند ہے ۔ ایپ کا گرامر فیچر ، کسانوں کے درمیان فیکٹ ریٹ، ایک طرح سے ان کی پیداواریت کے لیے ایک مارکیٹ پیلیس کی طرح کام کرتا ہے۔ اس واقعہ کو اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو ایک بات ذہن میں آئے گی وہ نوجوان امریکہ میں، وہاں کے رہن سہن، سوچ وچار اس کے درمیان زندگی جی رہا ہے۔ کئی سالوں پہلے ہندوستان چھوڑا ہوگا لیکن پھر بھی اپنے گاؤں کی باریکیوں کو جانتا ہے، چیلنجوں کو سمجھتا ہے اور گاؤں سے جذباتی طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے، وہ شاید گاؤں کو جو چاہیے ٹھیک اس کے مطابق کچھ بنا پائے۔ اپنے گاؤں، اپنی جڑوں سے وہ جڑاؤ اور وطن کےلیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہر ہندوستانی کے اندر فطری طور پر ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی وقت کی وجہ سے، کبھی دوریوں کی وجہ سے ، کبھی حالات کی وجہ سے، اس پر ایک ہلی سی راکھ جم جاتی ہے، لیکن اگر کوئی ایک چھوٹی سی چنگاری بھی، اس کو چھو لے تو ساری باتیں پھر ایک بار ابھر کر کے آ جاتی ہیں اور وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کی طرف کھینچ کر لے آتی ہیں۔ ہم بھی ذرا تحقیق کر لیں کہیں ہمارے کیس میں بھی تو ایسا نہیں ہوا ہے، حالات، دوریوں نے کہیں ہمیں الگ تو نہیں کر دیا ہے، کہیں راکھ تو نہیں جم گئی ہے۔ ضرور سوچیے۔ ’’معزز وزیراعظم جی نمسکار، میں سنتوش کاکڑے کولہاپور، مہاراشٹر سے بات کر رہا ہوں۔ پنڈھر پور کی واری یہ مہاراشٹر کی پرانی روایت ہے۔ ہر سال یہ بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تقریباً 7-8 لاکھ ورکری اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس عجیب پروگرام کے بارے میں ملک کے باقی عوام بھی بیدار ہوں، اس لیے آپ واری کے بارے میں جانکاری دیجیے۔‘‘ سنتوش جی آپ کے فون کال کے لیے بہت بہت شکریہ۔ صحیح معنی میں پنڈھر پور واری اپنے آپ میں ایک اہم سفر ہے۔ ساتھیوں اشاڈھی ایکادشی جو اس بار 23 جولائی، کو تھی اس دن کو پنڈھرپور واری کی عالیشان پارینیتی کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ پنڈھر پور مہاراشٹر کے سولاپور ضلعے کا ایک مقدس شہر ہے۔ آشاڑھی ایکادشی کے تقریباً 20-15دن پہلے سے ہی وارکرنی یعنی ترتھ یاتری پالکیوں کے ساتھ پنڈھر پور کے سفر کے لیے پیدل نکلتے ہیں۔ اس سفر، جسے واری کہتے ہیں، میں لاکھوں کی تعداد میں وارکری شامل ہوتے ہیں۔ سنت گیانیشور اور سنگ تکارام جیسے مہان سنتوں کی پادوکا، پالکی میں رکھ کر وٹھل وٹھل گاتے، ناچتے ، بجاتے پیدل پنڈھرپور کی جانب چل پڑتے ہیں۔ یہ واری تعلیم، سنسکار اور شردھا کی تروینی ہے۔ ترتھ یاتری بھگوان وٹھل ، جنہیں وٹھوا یا پانڈورنگ بھی کہا جاتا ہے ان کے درشن کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔ بھگوان وٹھل غریبوں، پسماندوں، متاثروں کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ مہاراشٹر، کرناٹک، گوا، آندھرا پردیش، تلنگانہ وہاں کے لوگوں میں کافی یقین ہے، بھگتی ہے۔ پنڈھرپور میں ویٹھوا مندر جانا اور وہاں کی خاصیت، خوبصورتی اور روحانی خوشی کا اپنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ ’من کی بات‘ سننے والوں سے میری درخواست ہے کہ موقع ملے تو ایک بار ضرور پنڈھر پور واری کا تجربہ کریں۔ گیانیشور، نام دیو، ایک ناتھ، رام داس، تکارام – لاتعداد سنت مہاراشٹر میں آج بھی لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ اندھ وشواس کے خلاف لڑنےکی قوت دے رہے ہیں اور ہندوستان کے ہر کونے میں یہ سنت رواج ترغیب دیتا رہا ہے۔ چاہے وہ ان کے بھاروڈ ہو یا ابھنگ ہو ہمیں ان سے ہم آہنگی ، محبت اور بھائی چارے کا اہم پیغام ملتا ہے۔ اندھ شردھا کے خلاف شردھا کے ساتھ سماج لڑ سکے اس کی تعلیم ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت وقت پر سماج کو روکا، ٹوکا اور آئینہ بھی دکھایا اور یہ یقینی بنایا کہ پرانے رواج ہمارے سماج سے ختم ہوں اور لوگوں میں محبت، مساوات اور انصاف کے عادت آئیں۔ ہماری یہ ہندوستانی سرزمیں بیش قیمتی سرزمیں ہے جیسے سنتوں کی ایک عظیم روایت ہمارے ملک میں رہی، اسی طرح سے مضبوط ماں بھارتی کو وقف شدہ عظیم شخصیات نے، اس سرزمین کو اپنی زندگی وقف کر دی۔ ایک اسے ہی عظیم شخصیت ہیں لوک مانیہ تلک جنہوں نے کئی ہندوستانیوں کے من میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ ہم 23 جولائی کو تلک جی کی یوم پیدائش اور 01 اگست کو ان کی برسی میں ان کو یاد کرتے ہیں۔ لوک مانیہ تلک بہادری اور اعتماد سے لبریز تھے۔ ان میں برطانوی حکومتوں کو ان کی غلطیوں کا آئینہ دکھانے کی قوت تھی۔ انگریز لوک مانیہ تلک سے اتنا زیادہ ڈرے ہوئے تھے کہ انہوں نے 20 سالوں میں ان پر تین بار غداری کا الزام لگانے کی کوشش کی، اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں، لوک مانیہ تلک اور احمد آباد میں ان کے ایک مجسمہ کے ساتھ جڑی ہوئی ایک حیرت انگیز واقعہ آج ہم وطنوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اکتوبر 1916 میں لوک مانیہ تلک جی احمد آباد جب آئے، اس زمانے میں آج سے تقریباً سو سال پہلے 40000 سے زیادہ لوگوں نے ان کا احمد آباد میں استقبال کیا تھا اور یہیں سفر کے دوران سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا اور سردار ولبھ بھائی پٹیل لوک مانیہ تلک جی سے بہت زیادہ متاثر تھے اور جب 01 اگست ، 1920 کو لوک مانیہ تلک جی کا انتقال ہوا اسی وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ احمد آباد میں ان کا مجسمہ بنائیں گے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل احمد آباد نگر نیگم کے میئر منتخب ہوئے اور فوراً ہی انہوں نے لوک مانیہ تلک کے مجسمے کے لیے وکٹوریا گارڈن کو چنا اور یہ وکٹوریا گاڑدن جو برطانیہ کی مہارانی کے نام پر تھا۔ ظاہر طور پر برطانوی حکومت اس سے ناخوش تھے اور کلکٹر اس کے لیے منظوری دینے سے مسلسل منع کرتا رہا لیکن سردار صاحب، سردار صاحب تھے۔ وہ اٹل تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ چاہے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑے، لیکن لوک مانیہ تلک جی کا مجسمہ بن کر رہے گا۔ آخر کار مجسمہ بن کر تیار ہو گیا اور سردار صاحب نے کسی اور سے نہیں بلکہ 28 فروری 1929 – اس کا افتتاح مہاتما گاندھی سے کرایا اور سب سے بڑے مزے کی بات ہے اس افتتاحی اجلاس میں، اس تقریر میں پوجیہ باپو نے کہا کہ سردار پٹیل کے آنے کے بعد احمد آباد نگر نگم کو نہ صرف ایک آدمی ملا ہے بلکہ اسے وہ ہمت بھی ملی ہے جس کی وجہ سے تلک جی کے مجسمہ کی تعمیر ممکن ہو پائی ہے۔ اور میرے پیارے ہم وطنوں، اس مجسمہ کی خاصیت یہ ہے کہ تلک کی ایسی انمول مورتی ہے جس میں وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، اس میں تلک کے ٹھیک نیچے لکھا ہے ’سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے’ اور یہ سب انگریزوں کے اس دور کی بات تو سنا رہا ہوں۔ لوک مانیہ تلک جی کی کوششوں سے ہی گنیش اتسو کی روایت شروع ہوئی۔ عوامی گنیش اتسو روایتی شردھا اور جشن کے ساتھ ساتھ سماجی بیداری، جمعیت، لوگوں میں یکسانیت کے جذبہ کو آگے بڑھانے کی ایک متاثر کن ذریعہ بن گیا تھا۔ ویسے وہ ایک وقت تھا جب ضرورت تھی کہ ملک انگریزوں کےخلاف لڑائی کے لیے ایک جٹ ہو، ان تہواروں نے ذات پات کے بندھنوں کو توڑتے ہوئے سبھی کو ایک جٹ کرنے کا کام کیا۔ وقت کے ساتھ ان تہواروں کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدیمی وراثت اور تاریخ کے ہمارے بہادر ہیروؤں کے تئیں آج بھی ہماری نوجوان نسل میں کریز ہے۔ آج کئی شہروں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو تقریباً ہر گلی میں گنیش پنڈال دیکھنے کو ملتا ہے۔ گلی کے سبھی کنبے ساتھ مل کر کے اسے منعقد کرتے ہیں۔ ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بھی ایک بہترین موقع ہے، جہاں وہ لیڈرشپ اور آرگنائزیشن جیسے ہنر سیکھ سکتے ہیں، انہیں خود کے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! میں نے پہلے بھی یہ درخواست کی تھی اور جب لوک مانیہ تلک جی کو یاد کر رہا ہوں تب پھر سے ایک بار آپ سے درخواست کرونگا کہ اس بار بھی ہم گنیش اتسو منائیں، دھوم دھام سے منائیں، جی جان سے منائیں لیکن ایکو فرینڈلی گنیش اتسو منانے کی کوشش کریں۔ گنیش جی کی مورتی سے لے کر سجانے کا سامان سب کچھ ایکو فرینڈلی ہو اور میں تو چاہوں گا ہر شہر میں ایکو فرینڈلی گنیش اتسوکے الگ مقابلہ ہوں، ان کو انعام دئے جائیں اور میں تو چاہوں گا کہ مائی گوو پر بھی اور نریندر مودی ایپ پر بھی ایکو فرینڈلی گنیش اتسو کی چیزیں وسیع پرچار کے لیے رکھی جائیں۔ میں ضرور آپکی بات لوگوں تک پہنچاؤنگا۔ لوک مانیہ تلک نے ہم وطنوں میں خود اعتمادی بیدار کر کے انہوں نے نعرہ دیا تھا – ’سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے اور ہم لے کر رہیں گے‘۔ آج یہ کہنے کا وقت ہے سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے اور ہم اسے لے کر رہیں گے۔ ہم ہندوستانی کی پہنچ بہتر حکمرانی اور ترقی کے اچھے نتائج تک ہونی چاہیے۔ یہی وہ بات ہے جو ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرے گی۔ تلک کے جنم کے 50 سالوں بعد ٹھیک اسی دن یعنی 23 جولائی کو بھارت ماں کے ایک اور سپوت کا جنم ہوا، جنہوں نے اپنی زندگی اس لیے قربان کر دی تاکہ ہم وطن آزادی کی ہوا میں سانس لے سکے۔ میں بات کر رہا ہوں چندر شیکھر آزاد کی۔ ہندوستان میں کون سا ایسا نوجوان ہوگا جو ان لائنوں کو سن کر ترغیب حاصل نہیں کرے گا – ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ ان جملوں نے اشفاق اللہ خاں، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد جیسے مختلف نوجوانوں کو ترغیب دی۔ چندر شیکر آزاد کی بہادری اور آزادی کے لیے ان کا جنون، اس نے کئی نوجوانوں کو ترغیب دی۔ آزاد نے اپنی زندگی کو داؤں پر لگا دیا، لیکن غیر ملکی حکومت کے سامنے وہ کبھی نہیں جھکے۔ یہ میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے مدھیہ پردیش میں چندر شیکھر آزاد کے گاؤں علی راج پور جانے کا موقع بھی حاصل ہوا۔ الہ آباد کے چندر شیکھر آزاد پارک میں بھی گلہائے عقیدت پیش کرنے کا موقع ملا اور چندر شیکھر آزاد جی وہ بہادر شخص تھے جو غیرملکیوں کی گولی سے مرنا نہیں چاہتے تھے –جیئیں گے تو لڑتے لڑتے اور مریں گے تو بھی آزاد بنے رہ کر کے مریں گے یہی تو خاصیت تھی ان کی۔ ایک بار پھر سے بھارت ماتا کے دو عظیم سپوتوں – لوک مانیہ تلک جی اور چندر شیکھر آزاد جی کو شردھا کے ساتھ نمسکار کرتا ہوں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے فن لینڈ میں چل رہی جونیئر انڈر -20 عالمی ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں 400 میٹر کی دوڑ، اس مقابلہ میں ہندوستان کی بہادر بیٹی اور کسان کی بیتی ہیما داس نے گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رچ دی ہے۔ ملک کی ایک اور بیٹی ایکتا بھیان نے میرے خط کے جواب میں انڈونیشیا سے مجھے ای میل کیا ابھی وہ وہاں ایشئن گیمز کی تیاری کر رہی ہیں۔ ای میل میں ایکتا لکھتی ہیں – ’کسی بھی ایتھلیٹ کی زندگی میں سب سے اہم لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ ترنگا پکڑتا ہے اور مجھے فخر ہے کہ میں نے وہ کر دکھایا۔‘ ایکتا ہم سب کو بھی آپ پر فخر ہے۔ آپ نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ٹیونیشیا میں عالمی پیرا ایتھلیٹکس گرانڈ پرکس 2018 میں ایکتا نے گولڈ اور کانسے کے تمغہ جیتے ہیں۔ ان کی یہ حصولیابی خاص اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنے چیلنج کو ہی اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا دیا۔ بیٹی ایکتا بھیان 2003 میں ، روڈ ایکسیڈینٹ کی وجہ سے اس کے جسم کا آدھا حصہ نیچے کا حصہ ناکام ہو گیا، لیکن اس بیٹی نے ہمت نہیں ہاری اور خود کو مضبوط بناتے ہوئے یہ مقام حاصل کیا۔ ایک اور ویویانگ یوگیش کٹھونیا جی نے، انہوں نے برلن میں پیرا ایتھلیٹکس گرانڈ پرکس میں ڈسکس تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر عالمی ریکارڈ بنایا ہے۔ ان کے ساتھ سندر سنگھ گرجر نے بھی جیولین میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ میں ایکتا بھیان جی، یوگیش کٹھونیا جی اور سندر سنگھ جی آپ سبھی کے حوصلے اور جذبے کو سلام کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ اور آگے بڑھیں، کھیلتے رہیں، کھلتے رہیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں، اگست مہینہ تاریخ کے مختلف واقعات، تہواروں کی گہما گہمی سے بھرا رہتا ہے، لیکن موسم کی وجہ سے کبھی کبھی بیماری بھی گھر میں گھس آتی ہے۔ میں آپ سب کو بہتر صحت کے لیے ، حب وطنی کی ترغیب جگانے والے، اس اگست مہینے کے لیے اور صدیوں سے چلے آ رہے مختلف تہواروں کے لیے، بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ پھر ایک بار من کی بات کے لیے ضرور ملیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح( ,",প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ২৯.০৭.২০১৮ তাৰিখে ৪৬তম খণ্ডৰ মন কী বাতত প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-6-%D8%B3%D8%AA%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%D8%AD%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A6%9F%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A6%BE/,نئی دہلی،4 ستمبر2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی 6 ستمبر 2021 کو صبح 11 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہماچل پردیش میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور کوویڈ ویکسی نیشن پروگرام کے فائدہ اٹھانے والوں سے بات چیت کریں گے۔ ہماچل پردیش نے اپنی پوری اہل آبادی کو کوویڈ ویکسین یشن کی پہلی خوراک کامیابی کے ساتھ لگا دی ہے۔ ریاست کی کوششوں میں جغرافیائی ترجیح شامل تھی کہ مشکل اور دشوار گزارعلاقوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس میں بڑے پیمانے پر آگاہی کو یقینی بنانے کے اقدامات اور دیگر کے علاوہ آشا کارکنوں کے گھر گھر جا کر ملاقاتیں کرناشامل ہیں۔ ریاست نے خواتین، بزرگوں، دیوانگجنوں، صنعتی کارکنوں، روزانہ اجرتی مزدوروں وغیرہ پر خصوصی توجہ دی اور اس سنگ میل کو حاصل کرنے کے لیے ’’سرکشا کی یکتی – کورونا سے مکتی‘‘ جیسی خصوصی مہمیں چلائیں۔ تقریب کے دوران ہماچل کے وزیر اعلیٰ موجود ہوں گے۔,হিমাচল প্ৰদেশৰ কভিড টীকাকৰণ কাৰ্যক্ৰমত জড়িত স্বাস্থ্যকৰ্মী তথা হিতাধিকাৰীসকলৰ সৈতে ৬ছেপ্টেম্বৰত বাৰ্তালাপ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/75-%D8%A7%D8%B6%D9%84%D8%A7%D8%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-75-%DA%88%DB%8C%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84-%D8%A8%DB%8C%D9%86%DA%A9%D9%86%DA%AF-%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%93/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AD%E0%A7%AB-%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A7%AD%E0%A7%AB-%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AC/,وزیر خزانہ نرملا جی، مرکزی کابینہ میں میرے دیگر رفیق کار ، آر بی آئی کے گورنر، مختلف وزارتوں کے سکریٹری، ملک کے مختلف گوشوں میں وزرائے اعلیٰ، وزراء کی کونسل کے لوگ جو اس پروگرام کی قیادت کر رہے ہیں۔ معاشیات سے وابستہ تمام ماہرین، بینک کاری شعبہ کے ماہرین، دیگر معززین، خواتین و حضرات، 75 ڈیجیٹل بینکنگ اکائیوں کے آغاز کے اس موقع پر تمام ہم وطنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ آج ملک ایک بار پھر ڈیجیٹل انڈیا کی صلاحیت کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ آج ملک کے 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بینکنگ اکائیوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ میں اس مشن سے وابستہ تمام لوگوں،اپنے بینکنگ شعبہ کو ، اپنے آر بی آئی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیوں، ہندوستان کے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانےکی جو مہم ملک میں چل رہی ہے، ڈیجیٹل بینکنگ یونٹ اس سمت میں ایک اور بڑا قدم ہے ۔ یہ صرف ایک ایسا خاص بینکنگ سسٹم ہے جو کم سے کم ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے زیادہ سے زیادہ خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کرے گا۔ یہ خدمات کاغذی کارروائی اور پریشانی سے پاک ہوں گی، اور پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوں گی۔ یعنی، ان میں سہولت ہوگی، اورایک مضبوط ڈیجیٹل بینکنگ سیکیورٹی بھی ہوگی۔ گاؤں میں، چھوٹے شہر میں، جب کوئی شخص ڈیجیٹل بینکنگ یونٹ کی خدمات حاصل کرے گا تو اس کے لیے پیسے بھیجنے سے لے کر قرض لینے تک سب کچھ آسان ہو جائے گا، آن لائن ہوجائے گا۔ آپ تصور کریں، ایک زمانے میں جب ایک دیہاتی کو، ہمارے گاؤں کے ایک شہری کو، ایک غریب کو چھوٹی چھوٹی بینکنگ خدمات کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی تھی، تو یہ اس کے لیے ایک بڑا قدم ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج وہ اس تبدیلی کو بہت آسانی سے جینے کے لیے خوش ہوجائے ، پرجوش ہوجائے گا۔ ساتھیوں، ہماری حکومت کا مقصد ہندوستان کے عام آدمی کو بااختیار بنانا، اسے طاقتور بنانا ہے۔ اس لیے ہم نے معاشرے میں آخری زینے پر کھڑے شخص کو ذہن میں رکھ کر پالیسیاں بنائیں اور پوری حکومت اس کی سہولت اور ترقی کے راستے پر چلی۔ ہم نے دو چیزوں پر ایک ساتھ کام کیا۔ پہلا- بینکاری نظام میں اصلاحات، اسے مضبوط بنانا، اس میں شفافیت لانا، اور دوسرا- مالیاتی شمولیت۔ جب پہلے فکری سیمینار ہوتے تھے۔ بڑے بڑے ماہرین بینکاری نظام، معیشت، غریبوں کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ اس وقت فطری طور پر مالی شمولیت کی بات ہوتی تھی لیکن جو انتظامات تھے وہ صرف خیالات تک محدود رہ جاتے تھے۔ نظام اس انقلابی کام کے لیے، مالی شمولیت کے لیےتیار نہیں تھے۔ پہلے سوچا جاتا تھا کہ غریب خود چل کر بینک جائیں گے، وہ بینکنگ سسٹم سے وابستہ ہو جائیں گے۔لیکن ہم نے رواج بدلا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ بینک خود چل کر غریبوں کے گھر تک جائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے غریبوں اور بینکوں کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنا تھا۔ ہم نے جسمانی فاصلہ بھی کم کیا اور سب سے بڑی رکاوٹ، ہم نے نفسیاتی فاصلہ بھی کم کیا۔ ہم نے بینکنگ خدمات کو دور دراز تک گھر گھر پہنچانے کو اولین ترجیح دی ۔ آج ہندوستان کے 99 فیصد سے زیادہ گاوں میں 5 کلومیٹر کے اندر کوئی نہ کوئی بینک برانچ، بینکنگ ادارے یا بینکنگ متر ، بینکنگ کاریسپونڈنٹ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں پوسٹ آفس کا وسیع نیٹ ورک تھا، آج وہ بھی انڈیا پوسٹ بینک کے ذریعہ بینکنگ کے مرکزی دھارے کا حصہ بن چکے ہیں۔ آج، ملک میں ہر ایک لاکھ بالغ آبادی پر جتنی بینک کی شاخیں موجود ہیں ، ان کی تعداد جرمنی، چین اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک سےبھی زیادہ ہیں۔ ساتھیوں، ہم عام انسانوں کا معیار زندگی بدلنے کے عزم کے ساتھ دن رات محنت کر رہے ہیں۔ ہمارا عزم نظام کو بہتر بنانا ہے، ہمارا عزم شفافیت لانا ہے۔ ہمارا عزم آخری صف میں کھڑے شخص تک پہنچنا ہے۔ جب ہم نے جن دھن اکاؤنٹ کی مہم شروع کی تو کچھ آوازیں اٹھیں کہ غریب بینک اکاؤنٹ کا کیا کریں گے؟ یہاں تک کہ اس شعبے کے بہت سے ماہرین بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس مہم کی اہمیت کیا ہے۔ لیکن بینک اکاؤنٹ کی طاقت کیا ہوتی ہے، یہ آج پورا ملک دیکھ رہا ہے۔ میرے ملک کا عام شہری اس کا تجربہ کر رہا ہے۔ بینک کھاتوں کی وجہ سے ہم نے غریبوں کو بہت کم پریمیم پر بیمہ کی سہولت دی ہے۔ بینک کھاتوں کی طاقت تو جڑنے کے بعد غریبوں کے لیے بغیر گارنٹی کے قرض حاصل کرنے کا راستہ کھل گیا۔ بینک کھاتہ ہونے کی وجہ سے سبسڈی کی رقم غریب مستحقین تک براہ راست ان کے کھاتے میں پہنچ گئی۔ صرف بینک کھاتوں کے ذریعہ ہی غریبوں کو گھر بنانا ہو، بیت الخلا بنانا ہو، گیس کی سبسڈی حاصل کرنی ہو، انہیں براہ راست ان کے کھاتوں میں دیا جاسکا۔ کسانوں کو بھی تمام سرکاری اسکیموں سے ملنے والی مدد ، ان کے بینک کھاتوں کی وجہ سے آسانی سے ان تک پہنچائی جا سکی ۔ اور جب کورونا کی وبا کا دور آیا تو غریبوں کے بینک اکاؤنٹ میں، ماؤں اور بہنوں کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست پیسہ پہنچایا گیا ۔ بینک کھاتوں کی وجہ سے ہی ہمارے ریہری پٹری والے بھائی بہنوں کے لیے سوانیدھی اسکیم بھی شروع کی گئی ۔ جبکہ اسی وقت ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس کام میں مشکلات کا سامنا تھا۔ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ابھی ابھی آئی ایم ایف نے ہندوستان کے ڈیجیٹل بینکنگ انفراسٹرکچر کی بھرپور تعریف کی ہے۔ اس کا سہرا ہندوستان کے غریبوں، ہندوستان کے کسانوں اور ہندوستان کے مزدوروں کو جاتا ہے، جنہوں نے ہمت، سمجھ بوجھ کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کو اپنای��، اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ ساتھیوں، جب مالیاتی شراکتیں ڈیجیٹل شراکت داری کے ساتھ مل جاتی ہیں تو امکانات کی ایک پوری نئی دنیا کھلنے لگ لگ جاتی ہے۔ یو پی آئی جیسی بڑی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اور ہندوستان کو اس پر فخر ہے۔ یو پی آئی اپنی نوعیت کی دنیا کی پہلی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن ہندوستان میں آپ اسے شہر سے لے کر گاؤں تک، شو روم ہوں یا سبزیوں کا ٹھیلہ، ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ یو پی آئی کے ساتھ ساتھ اب 'روپے کارڈ' کی طاقت بھی ملک کے عام آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک وقت تھا جب کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کو اشرافیہ کا نظام سمجھا جاتا تھا۔ بڑے معاشرے کے شرفاء کا نظام سمجھا جاتا ہے۔ کارڈ بھی غیر ملکی ہوتےتھے، انہیں استعمال کرنے والےبھی بہت چنندہ لوگ ہوتےتھے، اور ان کا استعمال بھی ویسے ہی چنندہ مقامات پر ہوتا تھا ۔ لیکن، آج ہندوستان میں 70 کروڑ سے زیادہ روپے کارڈ عام آدمی کے پاس ہیں۔ آج ہندوستان کا مقامی روپے کارڈ پوری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور معیشت کا یہ امتزاج ایک طرف غریب اور متوسط طبقے کے وقار کو بڑی طاقت دے رہا ہے، تو ساتھ ہی یہ ملک کی ڈیجیٹل تقسیم کو بھی ختم کر رہا ہے۔ ساتھیوں، جے اے ایم یعنی جن دھن، آدھار اور موبائل کی سہ رخی طاقت نے ایک ساتھ ایک بڑی بیماری کا علاج بھی کیا ہے۔ یہ بیماری ہے بدعنوانی کی بیماری ۔ پیسے اوپر سے چلتے تھے لیکن جب تک غریبوں تک پہنچتا ، غائب ہو جاتا تھا۔ لیکن، اب براہ راست منتقلی کا فائدہ یعنی ڈی بی ٹی کے ذریعہ رقم ، جس کے نام سے رقم نکلتا ہے ، اس کے اکاؤنٹ میں پہنچتی ہے، اسی وقت پہنچ جاتی ہے۔ اب تک ڈی بی ٹی کے ذریعہ مختلف اسکیموں میں 25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی منتقلی ہوئی ہے، اور کل بھی میں ملک کے کروڑوں کسانوں کو ویسے ہی دو ہزار روپے کی قسط بھیجنے والا ہوں۔ بھائیو اور بہنو، آج پوری دنیامیں ہندوستان کی اس ڈی بی ٹی اور ڈیجیٹل طاقت کی ستائش ہو رہی ہے۔ آج ہم اسے ایک عالمی ماڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔عالمی بینک نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہندوستان ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعہ سماجی تحفظ کو یقینی بنانے میں ایک رہنما بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ ٹیکنالوجی کی دنیا کے کامیاب ترین لوگ، جو ٹیکنالوجی کی دنیا کے ماہر ہیں، وہ بھی ہندوستان کے اس نظام کی بہت تعریف کر رہے ہیں، وہ خود بھی اس کی کامیابی سے حیران ہیں۔ بھائیو اور بہنوں آپ تصور کریں، جب ڈیجیٹل شراکت اور اقتصادی شراکت میں اتنی طاقت ہے، تو دونوں کی 100 فیصد صلاحیت کو استعمال کر کے ہم اپنے ملک کو کس بلندی تک لے جا سکتے ہیں؟ لہذا، آج فن ٹیک ہندوستان کی پالیسیوں، ہندوستان کی کوششوں کے مرکز میں ہے اور مستقبل کو سمت دے رہا ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ اکائیاں فن ٹیک کی اس صلاحیت کو مزید توسیع دیں گی۔ اگر جن دھن اکاؤنٹس نے ملک میں مالی شمولیت کی بنیاد رکھی تھی، تو فن ٹیک مالیاتی انقلاب کی بنیادتیار کرے گا۔ ساتھیوں، ابھی حال ہی میں، حکومت ہند نے بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ آنے والے وقت میں ڈیجیٹل کرنسی ہو یا آج کے دور میں ڈیجیٹل لین دین، معیشت کے علاوہ کئی اہم پہلو ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کرنسی کی چھپائی پر خرچ ہونے والی ملک کی اس رقم کی بچت ہوتی ہے۔ ہم بیرون ملک سے کرنسی کے لیے کاغذ اور سیاہی درآمد کرتے ہیں۔ ہم ڈیجیٹل معیشت کے ذریعہ اس سے بھی بچ رہے ہیں۔یہ ایک مختلف طریقے سے، ایک خودانحصار ہندوستان میں، ہندوستان کے بینکنگ سیکٹرک��، اپنے آر بی آئی کا بہت بڑا تعاون سمجھتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کاغذ کی کھپت میں کمی سے ماحولیات کو بھی بڑا فائدہ ہوگا۔ ساتھیوں، بینکنگ آج مالیاتی لین دین سے آگے بڑھ چکی ہے اور 'گڈ گورننس' اور ’بہتر خدمات کی فراہمی ‘ کا ذریعہ بھی بن چکی ہے۔ آج اس نظام نے نجی شعبے اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کے لیے بھی ترقی کے بے پناہ امکانات کو جنم دیا ہے۔ آج، ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جس میں ٹیکنالوجی کے ذریعہ مصنوعات اور خدمات کی فراہمی ایک نیا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام تشکیل نہ دے رہی ہو۔ آپ دیکھیں، آج اگر آپ بنگال سے شہد چاہتے ہیں، یا آپ کو آسام سے بانس کی مصنوعات چاہیے، اگر آپ کیرالہ سے جڑی بوٹیاں چاہتے ہیں، یا اگر آپ مقامی ریستوراں سے اپنی پسندیدہ چیز کھانے کے لیے کچھ منگوانا چاہتے ہیں، یا پھر، آپ کو قانون کے بارے میں مشورہ چاہیے، صحت کے لیے کوئی مشورہ چاہیے یا گاؤں میں بیٹھے نوجوان کو شہر کے کسی استاد سے کلاس لینی پڑے! ڈیجیٹل انڈیا نے وہ سب کچھ ممکن بنا دیا ہے جس کا ہم چند سال پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ساتھیوں ڈیجیٹل معیشت آج ہماری معیشت کی، ہماری اسٹارٹ اپ دنیا کی، میک ان انڈیا اور خود انحصار ہندوستان کی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ آج ہماری چھوٹی صنعتیں، ہماری ایم ایس ایم ای بھی جیم (جی ای ایم)جیسے نظام کے ذریعہ سرکاری ٹینڈر میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ انہیں کاروبار کے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ اب تک، جی ای ایم پر 2.5 لاکھ کروڑ روپے کے آرڈر کیے جا چکے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، اس سے ملک کی مقامی معیشت کو، ووکل فار لوکل کے مشن کو کتنا بڑا فائدہ ہوا ہوگا۔ ڈیجیٹل بینکنگ اکائیوں کے ذریعہ اب اس سمت میں بہت سے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہمیں اس سمت میں اختراعات کرنی ہوں گی، نئی سوچ کے ساتھ نئے مواقع کا استقبال کرنا ہوگا۔ ساتھیوں، کسی بھی ملک کی معیشت اتنی ہی ترقی کرتی ہے جتنا اس کا بینکنگ سسٹم مضبوط ہوتا ہے۔ آج ہندوستان کی معیشت ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہو رہا ہےکیونکہ ان 8 سالوں میں ملک 2014 سے پہلے کے فون بینکنگ سسٹم سے ڈیجیٹل بینکنگ کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ 2014 سے پہلے فون بینکنگ، آپ کو اچھی طرح یادہوگا اور سمجھ گئے ہوں گے، بینکوں کو اوپر سے کالیں آتی تھیں، اور طے ہوتا تھا کہ بینک کیسے کام کریں، کس کو پیسے دیں! اس فون بینکنگ کی سیاست نے بینکوں کو غیر محفوظ بنادیا، گڑھے میں ڈال دیا، ملک کی معیشت کو غیر محفوظ بنا دیا، ہزاروں کروڑوں کے گھوٹالے کے بیج، مسلسل گھوٹالوں کی خبریں آیا کرتی تھیں۔ لیکن اب ڈیجیٹل بینکنگ سے سب کچھ شفاف طریقے سے ہو رہا ہے۔ ہم نے این پی اے کی شناخت میں شفافیت لانے کی سمت میں کام کیا۔ لاکھوں کروڑوں روپے بینکنگ سسٹم میں واپس آئے۔ ہم نے بینکوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کی، جان بوجھ کر نادہندگان کے خلاف کارروائی کی، بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ میں اصلاحات کیں۔ آئی بی سی کی مدد سے این پی اے سے متعلق مسائل کے حل کو تیز کیا گیا۔ ہم نے قرضوں کے لیے ٹیکنالوجی اور تجزیات کے استعمال کو بھی فروغ دیا، تاکہ ایک شفاف اور سائنسی نظام بنایا جا سکے۔ بینکوں کے انضمام جیسے اہم فیصلے پالیسی فالج زدہ تھے ، ملک نے انہیں بھی اتنی ہی مضبوطی سے لیا ۔ آج فیصلے کیے ، قدم اٹھائے۔ ان فیصلوں کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگاکائیوں اور فن ٹیک کے اختراعی استعمال کے ذریعہ اب بینکنگ سسٹم کے لیےنیا خود کار طریقہ کار تیار ہو رہا ہے۔اس میں صارفین کے لیے جتنی خود مختاری ہے، بینکوں کے لیے بھی اتنی ہی سہولت اور شفافیت ہے۔ میں چاہوں گا کہ اس طرح کے انتظامات کو مزید جامع کیسے بنایا جائے، اسے بڑے پیمانے پر کیسے آگے بڑھایا جائے، اس سمت تمام شراکت دار کام کریں۔ ہمارے تمام بینکوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ڈیجیٹل سسٹم سے جوڑنے کا ہونا چاہیے۔ میں آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ خاص طور پر میں اپنے بینکنگ سیکٹر کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ اور بینکوں سے جڑے ہوئے، گاؤں گاؤں پھیلے ہوئے چھوٹے تاجروں، چھوٹے تاجروں سے، میں آپ دونوں سے درخواست کرتا ہوں اور جب آزادی کا امرت کال ہے ، میں آپ سے ملک کے لیے یہ درخواست کرکے مجھے امید ہے کہ آپ اسے پورا کریں گے۔ کیا ہمارے بینکوں اور چھوٹے تاجرایک ساتھ مل کر ایک کام کر سکتے ہیں کیا؟ ہمارے بینک کی بینک برانچ چاہے وہ شہر میں ہو یا گاؤںمیں ہو، وہ اپنے علاقے کے کم از کم 100 تاجر ہیں ، میں زیادہ نہیں کہہ رہا ہوں، صرف 100 تاجرکو مکمل طور پر ڈیجیٹل لین دین کے نظام، 100 فیصد ڈیجیٹل لین دین والے نظام، اگر ہمارے 100 تاجر آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم انقلاب کی کتنی بڑی بنیادتیار کرتے ہیں۔ بھائیو بہنو، یہ ملک کے لیے ایک بڑی شروعات ہو سکتی ہے۔ میں درخواست کر سکتا ہوں، اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنا سکتا، اصول نہیں بنا سکتا، اور جب آپ اس کا فائدہ دیکھیں گے تو مجھے دوبارہ 100 سے 200 کرنے کے لیے کسی کو قائل نہیں کرنا پڑے گا۔ ساتھیوں، ہر برانچ 100 تاجروں کو اپنے ساتھ جوڑنے کاہدف رکھے۔ آج جن دھن اکاؤنٹ کی کامیابی کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بینک کی برانچ میں بیٹھے ہمارے چھوٹے موٹے ساتھی ہیں، ہمارے ملازمین، وہ اس وقت جو محنت کی ، وہ غریبوں کی جھونپڑی میں جایا کرتے تھے۔ ہفتہ اتوار بھی کام کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے جن دھن کامیاب ہوا۔ اس وقت جن بینکوں کے ساتھیوں نے جن دھن کو کامیاب بنایا، آج ملک اس کی طاقت دیکھ رہا ہے۔ اگر آج جو لوگ بینک کے نظام کو دیکھتےہیں، جو برانچ کو سنبھالتے ہیں، وہ اپنے علاقے کے اپنے بینک کی کمانڈ ایریا کے 100 تاجروں کو تحریک دیں، تعلیم دیں، شامل کریں۔ ایک بہت بڑا انقلاب برپا کرنے کی قیادت آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شروعات ہمارے بینکنگ سسٹم اور معیشت کو ایک ایسے مقام پر لے جائے گا جو مستقبل کے لیے تیار ہو ، اور اس میں عالمی معیشت کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ انہی نیک خواہشات کے ساتھ، میں ہندوستان کی وزیر خزانہ، ہندوستان کی وزارت خزانہ، آر بی آئی گورنر، آر بی آئی کی ٹیم، ہمارے بینکنگ سیکٹر سے وابستہ تمام چھوٹےموٹے دوست، آج آپ سب میری طرف سے بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کیونکہ آپ نے ملک کو ایک بہت بڑا تحفہ دیا ہے۔ اور ملک کے عوام کے لیے یہ انمول تحفہ، دیوالی سے پہلے اس اہم تحفے کے لیے اور آزادی کے 75 سال اور 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹ اپنے آپ میں ایک خوش کن اتفاق ہے۔ نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 11486,৭৫ খন জিলাত ৭৫ টা ডিজিটেল বেংকিং ইউনিট দেশবাসীলৈ উৎসৰ্গা কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%A9%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92%D8%B4%D8%B9%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%81%E0%A6%A5%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%95-%E0%A6%96-2/,نئی دہلی، 08 اگست ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے منگل کے روز بجلی ،قابل تجدید توانائی ،پٹرولیم اورقدرتی گیس ، کوئلہ اورکانکنی کے شعبوں کی کلیدی ڈھانچہ جاتی سہولیات کی کارگزاری کا جائزہ لیا۔دو گھنٹے سے زائد مدت تک جاری رہنے والی اس جائزہ میٹنگ میں ڈھانچہ جاتی سہولتوں کے امور سے متعلق وزارتوں ، نیتی آیو گ اور وزیر اعظم کے دفتر کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اس موقع پر نیتی آیوگ کے چیف ایگزیکٹو افسر جناب امیتابھ کانت کے پریزینٹیشن میں اس بات پر نظر ڈالی گئی کہ ہندوستان میں بجلی کی پیداوار بڑھ کر 344 گیگاواٹ ہوگئی ہے ۔ 2014 میں جہاں ہندوستان میں توانائی کا خسارہ 4فیصد سے زائد تھا ، اب 2018 میں وہ خسارہ 3فیصد کم ہوکر محض ایک فیصد رہ گیا ہے۔واضح ہوکہ ملک میں ٹرانس میشن لائنز ، ٹرانسفارمر کیپسٹی اور بین علاقائی ٹرانسمیشن کی اہلیت میں نمایاں اضافہ درج ہوا ہے ۔سال 2014 کی عالمی بینک درجہ بندی میں ہندوستان 26ویں نمبر تک پہنچ گیا تھا ۔اس کے ساتھ ہی سوبھاگیہ پروگرام کے تحت گھریلو برق کاری کی پیش رفت کا بھی اس میٹنگ میں جائزہ لیا گیا جب کہ آبادی کے آخری کنبے تک رابطہ کاری اور اہلیت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے ، جو 14-2013 کے 35.5 سے بڑھ کر سال 18-2017 میں بڑھ کر تقریباََ 70 گیگاواٹ ہوگیا ہے ۔ دوسری طرف دیہی علاقوں میں شمسی توانائی کی پیداوار کی صلاحیت بھی اضافے کے ساتھ دوگنی ہوگئی ہے ، جو سابقہ مدت کے 2.6 گیگاواٹ سے بڑھ کر مذکورہ بالا 18-2017 میں 22 گیگاواٹ ہوگئی ہے۔ میٹنگ میں افسران نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ ہندوستان ترقی کی راہ پر خیروخوبی کے ساتھ گامزن ہے اور وزیر اعظم کے 2022 تک کے 175 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی کی پیداوار کے خواب کا نشانہ بآسانی حاصل کرلیا جائے گا۔ میٹنگ میں وزیر اعظم نے افسران سے زور دے کرکہا کہ اضافہ شدہ شمسی توانائی کے فوائد ،شمسی پمپوں اور شمسی توانائی سے کھانا پکانے کی صارف دوست مشینوں کے استعمال کے ذریعہ کسانوں کو بہم کرائے جانے چاہئیں ۔ جبکہ پٹرولیم اور قدرتی گیس کے میدان میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ پردھان منتری اجولا یوجنا کے تحت معینہ نشانوں کو جاری مالی سال کے دوران بآسانی حاصل کرلیا جائے گا۔اس موقع پر کوئلے کے شعبے کی کارکردگی کے جائزے کے دوران پیداوار میں اضافے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,মুখ্য আন্তঃগাঁথনিমুলক খণ্ড শক্তি আৰু খনিৰ কাম-কাজৰ পৰ্যালোচনা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%D9%88-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8B-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%9F/,نمسکار! کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ بنگلور شہر اپنے آپ میں ملک کے نوجوانوں کی پہچان ہے۔ بنگلور پیشہ ور افراد کی آن بان اور شان ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کے بنگلورو میں کھیلو انڈیا کی شروعات اپنے آپ میں اہم ہے۔ اسٹارٹ اپس کی دنیا میں کھیلوں کا یہ امتزاج حیرت انگیز ہے۔ بنگلور میں کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز کاہونا اس خوبصورت شہر کی توانائی میں اضافہ کریں گے اور ملک کے نوجوان بھی یہاں سے نئی توانائی کے ساتھ ل��ٹیں گے۔ میں کرناٹک حکومت کو ان کھیلوں کے انعقاد کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ عالمی وبا کے تمام چیلنجوں کے درمیان یہ کھیل ہندوستان کے نوجوانوں کے عزم اور جذبے کی ایک مثال ہے۔ میں آپ کی کوششوں، اس حوصلے کو سلام کرتا ہوں۔ آج یہ نوجوان جذبہ ملک کو ہر میدان میں نئی رفتار سے آگے لے جا رہا ہے۔ میرے نوجوان ساتھیو، کامیاب ہونے کا پہلا منتر ہے ۔ اجتماعی حوصلہ! یہ ٹیم کا جذبہ ہے جو ہمیں کھیلوں سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں آپ اس سے تجربہ کریں گے۔ یہ ٹیم اسپرٹ آپ کو زندگی کو دیکھنے کا ایک نیا نظریہ بھی دیتی ہے۔ کھیل میں جیتنے کا مطلب ہوتا ہے۔ مجموعی نقطہ نظر! 100 فیصد لگن! ہر سمت میں کوششیں، اور صد فیصد کوشش! آپ میں سے ہی بہت سے کھلاڑی ابھریں گے جو مستقبل میں ریاستی سطح پر کھیلیں گے۔ آپ میں سے بہت سے نوجوان بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کریں گے۔ آپ کے کھیل کے میدان کا یہ تجربہ آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں کام آئے گا۔ کھیل حقیقی معنوں میں زندگی کا حقیقی معاون نظام ہے۔ جو طاقت، جو سیکھ آپ کو کھیلوں میں آگے لے جاتا ہے، وہی آپ کو زندگی میں بھی آگے لے جاتی ہے۔ کھیل اور زندگی دونوں میں جذبہ، جوش کی اہمیت ہے۔ کھیل اور زندگی دونوں میں جو چیلنجوں کو قبول کرتا ہے، وہی توفاتح ہوتاہے۔ کھیل اور زندگی دونوں میں ہار بھی جیت ہے، ہار بھی سبق ہے۔ ایمانداری آپ کو کھیل اور زندگی دونوں میں سب سے آگے لے جاتی ہے۔ کھیل اور زندگی دونوں میں ہر لمحہ اہمیت کاحامل ہے، موجودہ لمحے کی زیادہ اہمیت ہے، اس لمحے میں جینے ، اس لمحے میں کچھ کر کے گزر جانے کی اہمیت ہے۔ جیت کو ہضم کرنے کا ہنر اور ہار سے سیکھنے کا فن زندگی کی ترقی کے سب سے قیمتی حصے ہوتے ہیں۔ اور یہ ہم میدان میں کھیل کھیل میں سیکھ لیتے ہیں۔ کھیل میں جب ایک طرف جسم توانائی سے بھرا ہوتا ہے تو کھلاڑی کے اعمال کی شدت غالب رہتی ہے۔ اس وقت اچھے کھلاڑی کا دماغ پرسکون ہوتا ہے، صبر سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ زندگی گزارنے کا بہت بڑا فن ہوتا ہے۔ دوستو، آپ نئے ہندوستان کے نوجوان ہیں۔ آپ ایک بھارت -شریسٹھ بھارت کے پرچم بردار بھی ہیں۔ آپ کی نوجوان سوچ اور آپ کی نوجوانی آج قوم کی پالیسیوں کا فیصلہ کر رہی ہے۔ آج نوجوانوں نے فٹنس کو ملک کی ترقی کا منتر بنا دیا ہے۔ آج نوجوانوں نے کھیل کو پرانی سوچ کے بندھنوں سے آزاد کر دیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں کھیل پر زور ہو، یا جدید کھیل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، کھلاڑیوں کے انتخاب میں شفافیت ہو، یا کھیل میں جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال، یہ نئے بھارت کی پہچان ہے۔ بھارت کے نوجوانوں کی خواہشات، ان کی امیدیں، نئے بھارت کے فیصلوں کی بنیاد بن رہی ہیں۔ اب ملک میں نئے اسپورٹس سائنس سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اب ملک میں اسپورٹ یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ یہ آپ کی سہولت کے لیےہے، آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ ساتھیو، کھیل کی طاقت سے ملک کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھیل میں شناخت ملک کی شناخت کو بڑھاتی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں ٹوکیو اولمپکس سے لوٹ کر آئے کھلاڑیوں سے ملا تھا۔ ان کے چہرے پر جیت سے زیادہ ملک کے لیے جیت کا فخر تھا۔ ملک کی جیت سے جو خوشی ملتی ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ بھی آج صرف اپنے یا اپنے خاندان کے لیے نہیں کھیل رہے ہیں۔ یہ یونیورسٹی گیمز بھلے ہوں لیکن اسے اس طرح کھیلیں جیسے آپ ملک کے لیے کھیل رہے ہیں، ملک کے لیے اپنے اندر ایک عظیم کھلاڑی کو تیار کر ��ہے ہیں۔ یہ جذبہ آپ کو آگے لے جائے گا۔ یہ جذبہ آپ کو میدان میں فتح اور تمغہ بھی دلائے گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ تمام نوجوان ساتھی خوب کھیلیں گے، خوب کھیلیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ ایک بار پھر ملک بھر کے آپ سبھی نوجوان ساتھیوں کو بہت بہت نیک خواہشات۔ شکریہ۔,খেলো ইণ্ডিয়া ইউনিভাৰছিটী গেমছ উদ্বোধনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AC%DB%8C%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%88%E0%A7%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج مدھیہ پردیش کے اجین میں شری مہاکال لوک میں مہاکال لوک پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کو قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم روایتی دھوتی میں ملبوس تھے جب وہ نندی دوار سے شری مہاکال لوک پہنچے۔ اندرونی مقدس حصے میں پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نے پوجا کی اور درشن کیا اور مندر کے پجاریوں کی موجودگی میں بھگوان شری مہاکال کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دعا مانگی۔ آرتی کرنے اور گلہائے عقیدت پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم اندرونی مقدس حصے کے جنوبی کونے میں بیٹھ گئے اور مراقبہ کیا، جبکہ اس دوران منتروں کا جاپ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے بھی نندی مجسمے کے پاس بیٹھ کر ہاتھ جوڑ کر دعا کی۔ وزیر اعظم نے شری مہاکال لوک کو قوم کے نام وقف کرنے کے لیے تختی کی نقاب کشائی کی۔ وزیر اعظم نے مندر کے سنتوں سے بھی ملاقات کی اور ان سے مختصر بات چیت کی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے مہاکال لوک مندر کے احاطے کا دورہ کیا اور چہل قدمی کی اور سپتریشی منڈل، منڈپم، تریپوراسرا ودھ اور نو گڑھ کا نظارہ کیا۔ وزیر اعظم نے شیو پران کی تخلیق کے عمل، گنیش کی پیدائش، ستی اور دکشا کی کہانی کے علاوہ دیگر کہانیوں پر مبنی دیواروں کو بھی دیکھا۔ جناب مودی نے بعد میں ایک ثقافتی پروگرام دیکھا جو اس موقع پر پیش کیا گیا تھا اور مانسروور میں ملککھمب کی کارکردگی کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بھارت ماتا مندر میں درشن کیا۔ وزیر اعظم کے ہمراہ مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ چوہان اور مرکزی وزیر جناب جیوترا آدتیہ سندھیا بھی تھے۔ پس منظر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مدھیہ پردیش کے اجین میں شری مہاکال لوک میں مہاکال لوک پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کو قوم کے نام وقف کیا۔ مہاکال لوک پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ عالمی معیار کی جدید سہولتوں کے ساتھ مندر جانے والے عقیدت مندوں کے تجربے کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔ اس منصوبے کا مقصد پورے علاقے کی بھیڑ بھاڑ کو کم کرنا اور ورثے کے ڈھانچے کے تحفظ اور بحالی پر بھی خصوصی زور دینا ہے۔ پروجیکٹ کے تحت مندر کے احاطے کو تقریباً سات گنا بڑھایا جائے گا۔ پورے پروجیکٹ کی کل لاگت تقریباً 850 کروڑ روپے ہے۔ مندر کا موجودہ خرچ جو فی الحال تقریباً 1.5 کروڑ روپے سالانہ ہے، دوگنا ہوجانے کی امید ہے۔ پروجیکٹ کی ترقی کا منصوبہ دو مرحلوں میں طے کیا گیا ہے۔ مہاکال پاتھ میں 108 ستمبھ (ستون) ہیں جو بھگوان شیو کے آنند تانڈو سوروپ (رقص کی شکل) کو ظاہر کرتے ہیں۔ مہاکال پاتھ پر بھگوان شیو کی زندگی کی عکاسی کرنے والے بہت سے مذہبی مجسمے نصب ہیں۔ راستے میں دیوار کی دیوار شیو پران کی تخلیق کے عمل، گنیش کی پیدائش، ستی اور دکشا کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ پلازہ کا رقبہ 2.5 ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے چاروں طرف کمل کے تالاب ہیں جس میں پانی کے چشموں کے ساتھ شیو کی مورتی بھی ہے۔ آرٹیفیشل انٹلی جنس اور نگرانی کیمروں کی مدد سے مربوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے ذریعے پورے احاطے کی 24 گھنٹے ساتوں دن نگرانی کی جائے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ م ع۔ع ن (),মধ্য প্ৰদেশৰ উজ্জৈয়িনীৰ ‘শ্ৰী মহাকাল লোক’ত সম্পাদিত ‘মহাকাল লোক প্ৰকল্প’ৰ প্ৰথমটো পৰ্যায় ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B0%D8%B4%D8%AA%DB%81-%D8%B1%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A6%AE/,نئی دہلی،14 جولائی 2018؍ وزیر اعظم نے کہا، ’’اتر پردیش کے گورنر جناب رام نائک جی یہاں کے اولوالعزم، نیک نام اور جفاکش وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق جناب منوج سنہا، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور میرے بہت پرانے دوست، اترپردیش بی جے پی کے صدر جناب مہیندر ناتھ پانڈے جی، جاپانی صفارت خانہ کے چارج دی افیئر جناب ہریکا اساری صاحب اور بنارس کے میرے بھائیو اور بہنو!‘‘ ’’میں سب سے پہلے ہمارے ملک کے افتخار میں اضافہ کرنے والی ایک بیٹی کے افتخار کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آسام کے نوگاؤں ضلع کے موضع دین گرام کی ایک چھوٹی سی بیٹی ہیما داس نے کمال کر دیا۔ آپ سب نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، میں نے آج خاص طور سے ایک ٹوئیٹ کیا تھا۔ اس اسٹیڈیم میں جو کمینٹیٹر کے لئے، ان کے لئے بھی عجوبہ تھا کہ عالمی چیمپئن شپ کو شکست دے کر ہندوستان کی ایک بیٹی ہر لمحہ آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ مبصر یا کمینٹیٹر جس جوش و جذبے کے ساتھ بول رہے تھے اسے سن کر سبھی ہندوستانیوں کا سینہ چوڑا ہو گیا ہوگا۔ بعد میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہیما داس نے ایک بہت بڑا کام کرکے بھارت کا نام روشن کر دیا اور طے ہوا کہ وہ جیت گئی ہیں تو وہ اپنا ہاتھ اُٹھا کر ترنگے جھنڈے کا انتظار کرتے ہوئے دوڑ رہی تھیں، اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے دل میں جیت کا عزم لیے بیٹھی تھیں۔ اپنی جیت کے ساتھ ہی انہوں نے ترنگا جھنڈا پھیرایا اور جب ان کو میڈل سے نوازا جا رہا تھا، اس وقت ہندوستان کا ترنگا جھنڈا لہرا رہا تھا اور قومی ترانہ جن گن من گایا جا رہا تھا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اٹھارہ سال کی ہیما داس کی آنکھوں سے گنگا جمنا بہہ رہی تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ہندوستان کے لئے وقف کر دیا تھا۔ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے لئے یہ منظر ایک نیا حوصلہ اور توانائی دینے والا منظر تھا۔ آسام کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں دھان کی کھیتی کرنے والے کسان کنبے کی بیٹی اٹھارہ ماہ پہلے ضلع میں کھیلتی تھی۔ کبھی ریاستی سطح پر نہیں کھیلا تھا۔ وہ آج اٹھارہ مہینے کی مدت کے اندر دنیا بھر میں ہندوستان کا نام روشن کرکے آگئی۔ میں ہیما داس کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ سے بھی کہتا ہوں کہ آپ پورے ملک میں آسام کا نام روشن کرنے والی اس بیٹی کو مبارکباد دیں۔‘‘ ’’بھائیوں اور بہنوں، بابا بھولے ناتھ کا پسندیدہ مہینہ ساون شروع ہونے والا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں کاشی میں ملک اور دنیا بھر کے شِو بھکتوں کا ��یلا لگنے والا ہے۔ اس میلے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بھائیو اور بہنو آج جب ہم اس میلے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو سب سے پہلے میں ان کنبوں کی تکلیف اور اذیت کو بانٹنا چاہتا ہوں جنہوں نے گذشتہ روز ہوئے حادثوں میں اپنوں کو کھو دیا ہے۔ بنارس میں جو حادثہ ہوا، انمول انسانی زندگی کا جو نقصان ہوا، وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ اس حادثے سے متاثر ہونے والے سبھی کنبوں کے تئیں میں دل کی گہرائیوں سے تعزیت کرتا ہوں۔ دوسروں کی تکلیف اور اذیت بانٹنا اور خیر سگالی کا جذبہ ہی تو کاشی کی خصوصی پہچان ہے۔ بھولے بابا کے جیسا بھولاپن سب کے دکھ درد کو اپنی ذات میں جذب کرنے والی ماں گنگا جیسی عادت اور فطرت ہی بنارس کی پہچان ہے۔ دیش اور دنیا میں بنارسی کہیں بھی رہے وہ ان قدروں کو اور وہ مقدس رسم و رواج کو بھولتا نہیں ہے۔ ساتھیو، بنارس صدیوں سے یوں ہی بنا ہوا ہے۔ روایات میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس کی دیومالائی شناخت کو بلندیاں دینے والے کاشی کو اکیسویں صدی کی ضرورت کے حساب سے فروغ دینے کی کوششیں گذشتہ چار برسوں سے مسلسل جاری ہیں۔ نیو انڈیا کے لئے ایک نئے بنارس کی تعمیر ہو رہی ہے۔ جس کی روح تو قدامت پرست ہے لیکن جسم نیا بنایا جائے گا۔ یہاں کے ذرے ذرے میں تہذیب اور قدریں ہوں گی، لیکن انتظامات اسمارٹ سسٹم سے لیس ہوں گے۔ بدلتے ہوئے بنارس کی یہ تصویر اب ہر طرف دکھائی دینے لگی ہے۔ ‘‘ ’’آج میڈیا میں، سوشل میڈیا میں کاشی کی سڑکوں، چوراہوں، چوپالوں، گلیوں، گھاٹوں اور تالابوں کی تصویر جو بھی دیکھتا ہے اس کا دل خوش ہو جاتا ہے۔ سر پر لٹکتے بجلی کے تار اب غائب ہو چکے ہیں۔ سڑکیں روشنی میں نہا رہی ہیں۔ رنگ برنگی روشنی کے درمیان فواروں کا منظر دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ ساتھیو، گذشتہ چار برسوں کے دوران بنارس میں ہزاروں کروڑ کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہے گا۔ 2014 کے بعد کے دنوں میں ہمیں کئی چیلینجز درپیش تھے۔ سابقہ سرکار سے کاشی کی ترقی کے لئے بہت زیادہ تعاون حاصل نہیں ہو سکا، تعاون تو چھوڑیئے رکاوٹیں پیدا کردی گئیں۔ لیکن جب سے آپ نے زبردست اکثریت سے لکھنؤ میں بھاجپا کی حکومت کو حمایت دی ہے، تب سے پورے اترپردیش میں کاشی کی ترقی کی رفتار بھی تیز ہو گئی ہے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ابھی ابھی میں نے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپئے کی اسکیمیں ملک و قوم کو پیش کی ہیں اور ان کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ مرکز اور ریاستی سرکار کے یہ تیس سے زائد پروجیکٹ یہاں کی سڑکوں، ٹرانسپورٹ، پانی کی سپلائی، سیویج، رسوئی گیس، صفائی ستھرائی اور اس شہر کی حسن کاری، اس سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ انکم ٹیکس ٹریبیون کی سرکٹ بینچ اور مرکزی سرکار کے ملازمین کے لئے سی جی ایچ ایس کے ویلنیس سینٹر کی سہولت بھی یہاں کے لوگوں کو دستیاب کرائی جانے والی ہے۔‘‘ ’’بھائیو اور بہنو، بنارس میں جو بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں، ان کا فائدہ آس پاس کے مواضعات کوحاصل ہو رہا ہے۔ ان مواضعات میں پینے کے پانی سے جڑی کئی اسکیموں کا بھی آج آغاز ہوا ہے۔ میں آج یہاں موجود تمام کسان بہنو اور بھائیو کو خاص طور سے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ اس جلسۂ عام کے پاس ہی پیریشیبل کارگو سینٹر قائم ہے جو تعمیر کے بعد پوری طرح تیار ہے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کا موقع ملا تھا اور آج اسے ملک و قوم کو پیش کرنے کی خوش نصیبی مجھے حاصل ہوئی ہے۔ ساتھیو، کارگو سینٹر یہاں کے کسانوں کے لئے بہت بڑا عطیہ ثابت ہونے والا ہے۔ آلو، مٹر، ٹماٹر، جیسی سبزیاں جو بہت کم وقت میں خراب ہو جاتی تھیں، ان کو محفوظ طریقے سے رکھے جانے کی سہولت یہاں تیار کی گئی ہے۔ اب آپ کو یہاں پھلوں اور سبزیوں کے سڑنے گلنے کا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ ریلوے اسٹیشن بھی بہت دور نہیں ہے جس سے سبزیوں اور پھلوں کو دوسرے شہروں کو بھیجنے میں بھی آسانی پیدا ہوگی۔‘‘ ’’بھائیو اور بہنو، ٹرانسپورٹیشن سے ٹرانسفورمیشن یعنی نقل و حمل اور آمدورفت سے تبدیلی تک کے راستے پر یہ سرکار تیز رفتار سی آگے بڑھ رہی ہے۔ خاص طور سے ملک کے اس مشرقی علاقے پر ہمارا سب سے زیادہ فوکس رہا ہے۔ کچھ دیر قبل اعظم گڑھ میں ملک کے سب سے طویل ایکسپریس وے کا سنگِ بنیاد بھی اسی ویژن کا حصہ ہے۔‘‘ ’’ساتھیو، کاشی کی نگری ہمیشہ نجات دہندہ رہی ہے اور زندگی کی تلاش و جستجو میں یہاں آنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اب زندگی میں آنے والی مصیبتوں کو میڈیکل سائنس کے وسیلے سے کم کرنے کا مرکز بھی یہ بستی بنتی جا رہی ہے۔ آپ کے تعاون سے بنارس مشرقی ہندوستان کے ایک ہیلتھ ہب کی شکل میں ابھرنے لگا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ہمارا جانی مانی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی آج علاج و معالجے کے شعبے میں بھی پہچانی جانے لگی ہے۔ آپ کو یہ جان کرکے خوشی ہوگی کہ ابھی حال ہی میں بی ایچ یو نے ایمس کے ساتھ ایک ورلڈ کلاس ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس ادارے کی تعمیر شروع ہو گئی ہے اور جلد ہی اس کے نتائج آپ کے سامنے آنے لگیں گے۔ ایسے میں بنارس والوں کے ساتھ ہی یہاں آنے جانے والوں کے لئے بھی رابطہ کاری بہت اہم ہے۔ اس لئے سڑک ہو یا ریل، آج متعدد نئی سہولتیں کاشی میں دستیاب ہیں۔ اسی سمت میں یہاں کے کینٹ ریلوے اسٹیشن کو نیا رنگ روپ دینے کا کام چل رہا ہے۔ وارانسی کو الہٰ آباد اور چھپرا سے جوڑنے والے ٹریک کی ڈبلنگ کا کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ وارانسی سے بلیا تک برق کاری کا کام پورا ہوچکا ہے اور آج سے اس سیکشن پر نینو گاڑیوں کی آمد بھی شروع ہو گئی ہے۔ ابھی میں نے ہری جھنڈی دکھا کر ایسی ایک ٹرین کو روانہ کیا ہے۔ اب صبح اس گاڑی سے بلیا اور غازی پور کے لوگ یہاں آ سکیں گے اور شام کو اپنا کام کرکے اسی ٹرین سے واپس بھی جا سکیں گے۔ اب طویل دوری کی ٹرینوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہاں کے لوگوں کو راحت ملنے والی ہے۔‘‘ ’’ساتھیو، یہاں کاشی میں بھکتوں کو، عقیدت مندوں کو بہتر سہولتیں دستیاب کرانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ دیش اور دنیا سے بابا بھولے کے بھکت یہاں کاشی آتے ہیں۔ ان کو یہاں آنے جانے میں کوئی دشواری نہ ہو، ایسا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پنچ کوشی مارگ کو چوڑا کرنے کا کام بھی آج سے شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عقیدے اور تہذیبی اہمیت کے جتنے بھی مقامات کاشی میں ہیں ان کو جوڑنے والی دو درجن سڑکوں کو یا تو بہتر بنایا گیا ہے یا پھر نئے سرے سے ان کی تعمیر کی گئی ہے۔ یہ سڑکیں بھی اب سے تھوڑی دیر قبل ملک و قوم کے نام وقف کی جا چکی ہیں۔‘‘ ’’بھائیو بہنو، کاشی سیاحت کے عالمی نقشے پر خصوصیت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ آج یہاں انٹرنیشنل کنورژن سینٹر رودراکش کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اب سے دو سال قبل جاپان کے وزیر اعظم اور میرے قریبی دوست جناب شنجو آبے جب میرے ساتھ کاشی آئے تھے تو انہوں نے یہ تحفہ ہندوستان کو اور کاشی والوں کو دیا تھا۔ آپ سبھی کاشی والوں کی طرف سے، اہالیان وطن کی طرف سے میں اس تحفے کے لئے جاپان کے وزیراعظم جناب شنجو آبے کا دل کی گہرائیوں ��ے ممنون ہوں۔‘‘ ’’ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ کاشی ہی نہیں بلکہ پورے یوپی میں سیاحت کو یوگی جی اور ان کی ٹیم فروغ دے رہی ہے۔ اس کے لئے صفائی اور وراثتوں کی حسن کاری کا کام تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ خاص طور سے صفائی ستھرائی کے سوَچھ بھارت مشن کو جس طرح آپ سبھی نے اتر پردیش کے عوام نے آگے بڑھایا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ سوَچھ، صاف ستھرے، خوبصورت اور تندروست ہندوستان کے لئے آپ کا یہ تعاون قابلِ تعریف ہے۔ ساتھیو، کاشی کی عظمت اس کی تاریخی حیثیت کو بنائے رکھنے کے لئے آپ جو کر رہے ہیں وہ بے نظیر ہے۔ ‘‘ ’’لیکن ہمیں اب سے چار برس پہلے کا وہ وقت بھی نہیں بھولنا چاہئے جب وارانسی کا نظام مصیبتوں سے دوچار تھا۔ ہر طرف کوڑا کچرا، گندگی، ٹوٹے پھوٹے پارک، خراب سڑکیں، اووَر فلو ہوتے سیور، کھمبوں سے لٹکتے بجلی کے تار، جام سے پریشان پورا شہر، بابر پورا ائیرپورٹ سے شہر کو جوڑنے والی اس سڑک کو آپ بھولے نہیں ہوں گے جس پر آپ کا انحصار ہوتا تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہوگی۔ کتنوں کی فلائٹ مِس ہوئی ہوگی۔ حالت یہ تھی کہ لوگ پریشانی سے بچنے کے لئے ائیرپورٹ کے بجائے کینٹ ریلوے اسٹیشن کا رخ کرتے تھے۔ گنگا جی کا، گھاٹوں کا کیا حال تھا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کس طرح پورے شہر اور گاؤں کی گندگی، کوڑا کرکٹ، سب گنگا جی میں بہایا جا رہا تھا۔ لیکن پہلے کی سرکار کی اس کی طرف سے بالکل لاپرواہ تھی۔ گنگا جی کے نام پر کتنا پیسہ پانی میں بہہ گیا۔ اس کا کوئی حساب نہیں۔ ایک طرف گنگا جی کے بہاؤ پر مصیبت تھی۔ گنگا کے پانی کی صفائی کی مصیبت تھی، وہیں دوسری طرف لوگوں کی تجوریاں اوپر سے نیچے تک بھری رہتی تھیں۔ ایسی حالت میں گنگا جی کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا۔ آج ماں گنگا کو صاف کرنے کی مہم تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بنارس ہی نہیں بلکہ گنگوتری سے گنگا ساگر تک بیک وقت کوششیں جاری ہیں۔ صرف صاف صفائی نہیں بلکہ شہروں کی گندگی گنگا میں نہ گرے، اس کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے اب تقریباً اکیس ہزار کروڑ روپئے کی دو سو سے زائد اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے اور انہیں ملک و قوم کے لئے وقف کیا جا چکاہے۔ ساتھیو، سرکار اس بات کو بھی یقینی بنا رہی ہے کہ جو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جائیں وہ ٹھیک سے چلیں، بے روک طریقے سے کام کرے۔ کیونکہ پہلے کی سرکار کا تو یہ ورک کلچر رہا ہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ تو بنائے جاتے تھے لیکن نہ تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق کام کرتے تھے اور نہ ہی طویل مدت تک چل پاتے تھے۔ اب جو بھی پلانٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں ان کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے کہ وہ کم سے کم پندرہ سال تک چل سکیں۔ یعنی ہمارا زور صرف سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنانے پر ہی نہیں بلکہ انہیں چلانے پر بھی ہے۔ اس میں وقت اور محنت زیادہ لگتی ہے لیکن ایک مستقل نظام تیار کیا جا رہا ہے۔ آنے والے وقت میں اس کا نتیجہ بنارس کے لوگوں کو بھی دکھائی دینے لگے گا۔‘‘ ’’بھائیو اور بہنو، یہ جو بھی کام آج ہو رہا ہے۔ وہ بنارس سٹی کو اسمارٹ سٹی میں بدلنے والا ہے۔ یہاں انٹیگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ پورے ملک کے انتظام کا، عوامی سہولتوں کا انتظام اور نگرانی یہیں سے ہونے والی ہے۔ ایسے تقریباً دس پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ ساتھیوں، اسمارٹ سٹی صرف شہروں کی انفراسٹرکچر کو سدھارنے کی مہم ہی نہیں ہے بلکہ یہ ملک کو ایک نئی شناخت اور ایک نئی پہچان دینے کا مشن ہے۔ یہ ینگ انڈیا نیو انڈیا کی علامت ہے۔ اسی طرح میک ان انڈیا اور ڈجیٹل انڈیا مشن بھی عام زندگی کو سہل اور آسان بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس میں ہمارا اتر پردیش بھی سرفہرست کردار ادا کر رہا ہے۔ میں یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے جو صنعتی پالیسی بنائی ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے جو ماحول تیار کیا ہے، اس کے نتائج آج سامنے آنے لگے ہیں۔ کچھ دن پہلے نوئیڈا میں سیم سنگ کی فون بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری کا افتتاح کرنے کا موقع مجھے حاصل ہوا تھا۔ اس سے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔ آپ کو یہ جان کر انتہائی فخر ہوگا کہ گذشتہ چار برسوں میں موبائل فیکٹریاں، موبائل بنانے والی فیکٹریوں کی تعداد ملک میں دو سے بڑھ کر ایک سو بیس ہو گئیں ہیں جس میں سے پچاس فیصد سے زائد فیکٹریاں ہمارے اترپردیش میں ہیں۔ آج یہ فیکٹریاں چار لاکھ سے زائد نوجوانوں کو روزگار فرام کرا رہی ہیں۔‘‘ ’’ساتھیوں، میک ان انڈیا کے ساتھ ساتھ ڈجیٹل انڈیا بھی روزگار کا روشن وسیلہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں آج یہاں پر ٹاٹا کنسلٹینسی سروسز یعنی ٹی سی ایس کے بی پی او کے کام کا آغاز ہوا ہے۔ یہ سینٹر بنارس کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع لے کر آئے گا۔ بھائیوں اور بہنوں، جب روزگار کی بات آتی ہے تو یہاں بھی سرکار ماتاؤں اور بہنوں پر خصوصی سے توجہ دے رہی ہے۔ سواراج روزگار کے لئے مُدرا یوجنا کے وسیلے سے گارنٹی کے بغیر قرض اور ایل پی جی کا مفت سلینڈر۔ غریب ماؤں اور بہنوں کی زندگی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ سبھی تک صاف ستھرا ایندھن پہنچانے کے لئے یہاں کاشی میں ایک بہت بڑے پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔ آج سٹی گیس ڈسٹری بیوشن سسٹم کا افتتاح اسی کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لئے الہٰ آباد سے بنارس تک پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب تک بنارس میں آٹھ ہزار گھروں سے زیادہ گھروں تک اسے پہنچانے کا کام جاری ہے اور مستقبل میں اسے چالیس ہزار گھروں تک پہنچانے کے منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، یہ صرف ایک ایندھن سے جڑا انتظام نہیں ہے، بلکہ شہر کے پورے فضائی نظام کو بدلنے کی ایک مہم ہے۔ پی این جی ہو یا سی این جی یہ انفراسٹرکچر شہر کی آلودگی میں بھی کمی لائے گا۔ آپ سوچئے جب بنارس کی بسیں، کاریں اور آٹو سی این جی سے چلیں گے تو اس سے جڑے کتنے نئے روزگار پیدا ہوں گے۔‘‘ ’’ساتھیو، جب بھی میں جاپان کے وزیر اعظم سے ملتا ہوں یا کوئی بھی ہندوستانی جاپان کے وزیر اعظم سے ملتا ہے تو میں مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ میرے دوست جاپان کے وزیر اعظم سے جو بھی ملتا ہے اس کو کاشی کے تجربات ضرور بتائے جاتے ہیں۔ وہ بار بار دوہراتے ہیں کہ کاشی نے کس طرح ان کا استقبال کیا۔ پچھلے دنوں فرانس کے صدر مملکت میرے ساتھ یہاں آئے تھے۔ اور اب کاشی والوں نے پلکے بچھا کر فرانس کے صدر مملکت کا باوقار استقبال کیا۔ پورا فرانس آج فخر کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ فرانس کے صدر مملکت جس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ کاشی کی روایت رہی ہے، یہ کاشی کا اپنا پن ہے۔ یہ کاشی نے دنیا میں اپنی خوشبو پھیلائی ہے۔ کاشی کا یہ دلار اور یہ محبت بے مثال ہے۔ میرے کاشی کے بھائیو بہنو، آپ کو پھر ایک بار ایک بہت بڑا موقع کاشی کے دلار کو کاشی کی محبت کو، کاشی کے اپنے پن کو اور کاشی کی مہمان نوازی دنیا کو دکھانے کا موقع ملنے والا ہے۔ آپ پوری تیاریاں کریں گے۔ دیکھئے جنوری میں اکیس جنوری سے تئیس جنوری تک کاشی میں ہند نجات ہندوستانی شہر��وں کے دن کا اہتمام کیا جائے گا۔ دنیا بھر سے ہندوستانی شہری اس پرواسی بھارتی دِوَس میں شرکت کے لئے آنے والے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں ہندوستانی لوگ صنعت کار ہیں، سیاست میں ہیں یا سرکار چلاتے ہیں، یہ سب لوگ پوری دنیا سے ایک ساتھ اکیس سے تئیس جنوری تک کاشی میں آنے والے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی آئیں گے جن کے اجداد تین یا چار یا پانچ نسلوں قبل بیرونِ ملک جا کر آباد ہو گئے تھے۔ اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔ ایسے لوگوں کی اولادیں بھی پہلی بار اس مٹی کے درشن کرنے کے لئے آنے والی ہیں۔ مجھے بتایئے کہ اتنا بڑا اہتمام کاشی کے لئے باعثِ افتخار ہے کہ نہیں۔ ان لوگوں کے خیر مقدم کی ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔ ہر محلے میں دنیا بھر سے آنے والے ان لوگوں کی مہمان نوازی کا ماحول بننا چاہئے۔ پوری دنیا میں کاشی کی تعریف ہونی چاہئے۔ ابھی سے تیاریاں شروع کر دیجئے اور اکیس سے تئیس جنوری تک یہاں رہیں اور دنیا بھر سے آئے مہمان یہاں چوبیس تاریخ کو پریاگ راج کنبھ کے درشن کے لئے جائیں گے اور چھبیس جنوری کو دہلی پہنچیں گے۔ میں کاشی والوں سے مہمان نوازی کرنے کی گذارش کرتا ہوں۔ میں بھی ایک کاشی واسی کی حیثیت سے آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر اس اکیس تاریخ کو آپ کے بیچ میں رہوں گا۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لئے پوری دنیا کے لوگ آ رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اہتمام ہے، ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور اس لئے آپ سب کو میں ان کا خیر مقدم کرنے کی تیاری کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘ ’’میرے کاشی کے بھائیو اور بہنو، آج مجھے آپ کے بیچ آنے کا موقع ملا۔ آپ سبھی کو آج یہاں متعدد اسکیمیں پیش کی گئیں اور متعدد اسکیموں کا سنگِ بنیاد رکھنے کا موقع مجھے حاصل ہوا۔ آپ کے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں آپ کے جتنا کام آ سکوں، جتنی محنت آپ کے لئے کر سکوں، وہ کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ میں ایک بار پھر اپنے کاشی واسی بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام کرتا ہوں۔ میرے ساتھ زور سے بولئے – ہر ہر مہادیو۔ بہت بہت شکریہ۔‘‘ م ن۔س ش ۔ اذ,বাৰাণসীত বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A5-%E0%A6%A7%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج شری بدری ناتھ مندر میں درشن اور پوجا ارچنا کی۔ جناب مودی نے گربھ گرہ میں پوجا ارچنا کی۔ انہوں نے الک نندا ریور فرنٹ کے ترقیاتی کاموں میں ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ وزیر اعظم کے ساتھ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ جناب پشکر سنگھ دھامی اور اتراکھنڈ کے گورنر، ریٹائرڈ جنرل گرمیت سنگھ بھی تھے۔,উত্তৰাখণ্ডৰ ‘বদ্ৰীনাথ ধাম’ত দৰ্শন আৰু পূজা সম্পন্ন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%86%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DB%8C%D9%B9-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%B9-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-%E0%A6%9A/,نئی دلّی، 21/اگست۔ چین کے اسٹیٹ کونسلر اور وزیر دفاع جنرل وےفنگےنے آج وزیراعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی۔ وزیراعظم مودی نے دفاع اور ملٹری ایکسچنج سمیت سبھی شعبے میں ہندوستان اور چین کے درمیان اعلی سطحی روابط میں ہوئے اضافے کی ستائش کی۔ ہندوستان۔ چین کے رشتوں کو دنیا میں استحکام کا ایک عامل قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں امن وسکون کی برقراری ہندوستان اور چین کی اس حساسیت اور پختگی کا اشاریہ ہے جس سے یہ اپنے اختلافات کا حل نکالتے ہیں اور انہیں تنازعے کی شکل نہیں لینے دیتے۔ وزیراعظم مودی نے اس موقعہ پر چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ووہان، گنگ داؤ اور چوہانسبر گ میں ہوئی اپنی ملاقاتوں کا گرمجوشی کے ساتھ یاد کیا۔,প্রধানমন্ত্রীক সাক্ষাৎ চীনৰ ষ্টেট কাউন্সেলৰ তথা প্রতিৰক্ষা মন্ত্রী জেনেৰেল ৱেই ফিংঘেৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%A7%D9%86-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DB%81%D9%84%D8%B2%D8%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%A7%D9%86-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D8%AF%DA%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,بھارت ماتا کی جے۔ بھارت ماتا کی جے۔ راجستھان کے قابل احترام وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، مدھیہ پردیش کے گورنر اور قبائلی سماج کے بہت بڑے لیڈر جناب منگو بھائی پٹیل، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ جی چوہان، کابینہ کے میرے ساتھی جناب فگن سنگھ کلستے جی، جناب ارجن میگھوال جی، مختلف تنظیموں کی سرکردہ شخصیات،ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی اور میرے پرانے دوست جنہوں نے قبائلی سماج کی خدمت میں اپنی زندگی وقف کر دی ہیں، ایسے بھائی مہیش جی اور بڑی تعداد میں، دور دراز سے مان گڑھ دھام آنے والے میرے پیارے قبائلی بھائیو اور بہنو۔ یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج مجھے ایک بار پھر مان گڑھ کی اس مقدس سرزمین پر آکر کےسر جھکانے کا موقع ملا ہے۔ وزیر اعلی کے طور پر، اشوک جی اور ہم ساتھ ساتھ کام کرتے رہے اور اشوک جی ہماری جو وزرائے اعلیٰ کی جماعت تھی، اس میں سب سے سینئر تھے، سب سے سینئر وزیر اعلیٰ اب ہیں۔ اور ابھی ہم جو اسٹیج پر بیٹھے ہیں، ان میں بھی اشوک جی سینئر وزرائے اعلیٰ میں سے ایک ہیں۔ ان کا یہاں آنا اس پروگرام میں موجود رہنا ۔ ساتھیو، آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم سبھی کا مان گڑھ دھام آنا، یہ ہم سب کے لیے محرک ہے، ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے۔ مان گڑھ دھام قبائلی بہادر مرد و خواتین کے تپ، تیاگ، تپسیا اور حب الوطنی کا عکس ہے۔ یہ راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے لوگوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ پرسوں یعنی 30 اکتوبر کو گووند گرو جی کی برسی تھی۔ میں تمام اہل وطن کی جانب سے، گووند گورو جی کو پھر سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں گووند گرو جی کی تپ، تپسیا کے خیالات اور اصولوں کو سلام کرتا ہوں ۔ بھائیو اور بہنو، گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے مان گڑھ کا جو علاقہ گجرات میں پڑتا ہے مجھے اس کی خدمت کرنے کا موقع ملا تھا ۔ اسی علاقے میں گووند گرو نے اپنی زندگی کے آخری سال بھی گزارے تھے۔ ان کی توانائی، ان کی تعلیمات آج بھی اس مٹی میں محسوس کی جا رہی ہیں۔ میں خاص طور پر اپنے کٹارا کنک مل جی اور یہاں کے معاشرے کا بھی آج سر جھکاکر کے نمن کرنا چاہتا ہوں۔ جب میں پہلے آتا تھا تو یہ پورا وی��ان علاقہ تھا اور میں نے اپیل کی تھی ون مہوتسو کے ذریعےآج مجھے اتنا اطمینان ہوا چاروں طرف مجھے ہریالی نظر آرہی ہے ۔ آپ نے پورے عقیدت کے جذبے سے جنگل کی ترقی کے لیے جو کام کیا ہے، اس علاقے کو جس طرح سے ہرا بھرا بنادیا ہے، میں اس کے لیے یہاں کے تمام ساتھیوں کا دل سے آج میں شکریہ اداکرتا ہوں۔ ساتھیو، اس علاقے میں جب ترقی ہوئی، جب سڑکوں کی تعمیر ہوئی تو وہاں کے لوگوں کی زندگی میں بہتر ہوئی ہی، گووند گرو کی تعلیمات کی بھی توسیع ہوئی۔ ساتھیو، گووند گرو جیسے عظیم مجاہد آزادی ہندوستان کی روایات کے، ہندوستان کے آدرشوں کے نمائندے تھے۔ وہ کسی ریاست کے راجہ نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ لاکھوں لاکھ قبائلیوں کے ہیرو تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنا خاندان کھو دیا، لیکن حوصلہ کبھی نہیں کھویا۔ انہوں نے ہر قبائلی کو، ہر کمزور-غریب اور ہندوستانی باشندے کو اپنا خاندان بنایا۔ گووند گرو نے اگر قبائلی سماج کے استحصال کے خلاف انگریزی حکومت سے جدوجہد کا بگل پھونکا تو ساتھ ہی اپنے سماج کی برائیوں کے خلاف بھی انہوں نے لڑائی لڑی تھی۔ وہ ایک سماجی مصلح بھی تھے۔ وہ ایک روحانی گرو بھی تھے۔ وہ ایک سنت بھی تھے۔ وہ ایک عوامی لیڈر بھی تھے۔ ان کی زندگی میں ہمیں حوصلے، شجاعت کی جتنی عظیم جھلک نظر آتی ہے، اتنی ہی بلند پایہ ان کی فلسفیانہ اور فکری سوچ بھی تھی۔ گووند گرو کا وہ خیال، وہ ادراک آج بھی ان کی ’دھونی‘ کی شکل میں مان گڑھ دھام میں مسلسلس روشن ہے۔ اور ان کی ’سمپ سبھا‘ دیکھیئے، الفاظ بھی کتنے متاثر کن ہیں ’سمپ سبھا‘ سماج کے ہر طبقے میں سمپ کا جذبہ پیدا ہو ، اس لیے ان کے ’سمپ سبھا‘ کے اصول آج بھی اتحاد، محبت اور بھائی چارے کی تحریک دے رہے ہیں۔ ان کے بھگت پیروکار آج بھی ہندوستان کی روحانیت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ساتھیو، سترہ نومبر 1913 کو مان گڑھ میں جو قتل عام ہوا وہ انگریزی حکومت کے ظلم و بربریت کی انتہا تھی۔ ایک جانب آزادی میں یقین رکھنے بھولے بھالے قبائلی بھائی بہن تو دوسری طرف دنیا کو غلام بنانے کی سوچ۔ مان گڑھ کی اس پہاڑی پر انگریزی حکومت نے ڈیڑھ ہزار سے زائد نوجوانوں، بزرگوں، خواتین کو گھیر کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، ایک ساتھ ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگوں کا بہیمانہ قتل کرنے کا گناہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے قبائلی سماج کی اس جدوجہد اور قربانی کو آزادی کے بعد تحریر کی گئی تاریخ میں جو جگہ ملنی چاہئے تھی وہ نہیں ملی۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں آج ملک اس کمی کو پورا کر رہا ہے۔ آج ملک دہائیوں پہلے کی س بھول کی اصلاح کررہا ہے۔ ساتھیو، ہندوستان کا ماضی، ہندوستان کی تاریخ، ہندوستان کا حال اور ہندوستان کا مستقبل قبائلی سماج کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ آج آزادی کی لڑائی کا بھی ہر قدم ، تاریخ کا ہر ایک ورق قبائلی بہادری سے بھرا پڑا ہے۔ 1857 کے انقلاب سے بھی پہلے غیر ملکی حکومت کے خلاف قبائلی سماج نے جنگ کا بگل پھونکا تھا۔ 1780 میں آپ سوچئے 1857 سے بھی پہلے 1780 سنتھال میں تلکا مانجھی کی قیادت میں ’دامِن ستیہ گرہ‘ لڑا گیا تھا، ’دامِن سنگرام‘ لڑا گیا تھا۔ 1830-32 میں، بدھو بھگت کی قیادت میں ملک نے ’لڑکا آندولن‘ دیکھا۔ 1855 میں آزادی کی یہی مشعل ’سدھو کانہو کرانتی‘ کی شکل میں روشن ہوئی۔ اسی طرح بھگوان برسا منڈا نے لاکھوں قبائلیوں میں انقلاب کی مشعل روشن کی۔ بہت کم عمر میں چلے گئے۔ لیکن توانائی، ان کی حب الوطنی اور ان کا حوصلہ ’تانا بھگت آندولن‘ جیسے انقلابات کی بنیاد بنا۔ ساتھیو، غلامی کی ابتدائی صدیوں سے لے کر 20ویں صدی تک آپ ایسا کوئی بھی دور نہیں دیکھیں گے جب قبائلی سماج نے جنگ آزادی کی مشعل کو تھامے نہ رکھا ہو۔ آندھرا پردیش میں ’الوری سیتارام رام راجو گارو‘ کی قیادت میں قبائلی سماج نے ’رمپا انقلاب‘ کو ایک نئی دھار دے دی تھی۔ اور راجستھان کی یہ سرزمین تو اس سے بھی بہت پہلے ہی قبائلی سماج کی حب الوطنی کی گواہ رہی ہے۔ اسی سرزمین پر ہمارے قبائلی بھائی بہن مہارانا پرتاپ کے ساتھ ان کی طاقت بن کر کھڑے ہوئے تھے۔ ساتھیو، ہم قبائلی سماج کی قربانیوں کے مقروض ہیں۔ ہم ان کی خدمات کے مقروض ہیں۔ اس سماج کے، اس فطرت سے لے کر ماحولیات تک، ثقافت سے لے کر روایات تک، ہندوستان کے کردار کو سمیٹا اور محفوظ کیا گیا ہے۔ آج وقت ہے کہ ملک اس قرض کے لیے ان خدمات کے لئے قبائلی سماج کی خدمت کرکے ان کا شکریہ ادا کرے،گزشتہ 8 برسوں سے یہی جذبہ ہماری کوششوں کو تقویت دے رہا ہے۔ آج سے کچھ روز بعد ہی 15 نومبر کو، بھگوان برسا منڈا کی جینتی پر ملک ’جن جاتیہ گورو دوس‘ منائے گا۔ قبائلی سماج کے ماضی اور تاریخ کو سبھی لوگوں تک پہنچانے کے لئے آج ملک بھر میں قبائلی مجاہدین آزادی کے لئے وقف خصوصی میوزیم تیار کی جارہی ہیں۔ اس شاندار وراثت سے ہماری نسلیں محروم رہ گئی تھیں، وہ اب ان کی فکر کا، ان کی سوچ کا اور ان کی تحریکات کا حصہ بنیں گی۔ بھائیو، بہنو، ملک میں قبائلی سماج کی توسیع اور اس کا رول اتنا بڑا ہے کہ ہمیں اس کے لیے پرعزم طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ راجستھان اور گجرات سے لے کر شمال مشرق اور اڈیشہ تک، گونا گونیت سے پُر قبائلی سماج کی خدمت کے لیے آج ملک واضح پالیسیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ’ون بندھو کلیان یوجنا‘ کے ذریعے آج قبائلی آبادی کو پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع سے جوڑا جا رہا ہے۔ آج ملک میں جنگلاتی علاقوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جنگلاتی وسائل کی بھی حفاظت کی جارہی ہے، اور ساتھ ہی قبائلی علاقے ڈیجیٹل انڈیا سے بھی جڑ رہے ہیں۔ روایتی ہنر کے ساتھ ساتھ قبائلی نوجوانوں کو جدید تعلیم کے بھی مواقع بھی حاصل ہوں، اس کے لیے ’ایکلویہ آواسیہ ودیالیہ بھی کھولے جا رہے ہیں۔ یہاں اس پروگرام کے بعد، میں جامبوگھوڑا جا رہا ہوں جہاں میں گووند گرو جی کے نا م پر تیار کی جانے والی یونیورسٹی کے شاندار ایڈمنیسٹریٹیو کیمپس کو قوم کے نام وقف کروں گا۔ ساتھیو، آج میں آپ کے درمیان آیا ہوں تو ایک اور بات بھی میرا بتانے کا من کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا، کل شام ہی مجھے احمد آباد سے ادے پور براڈ گیج لائن پر چلنے والی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا نے کا موقع ملا۔ اس 300 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کرنا بھی ہمارے راجستھان کے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ اس تبدیلی سے راجستھان کے بہت سے قبائلی علاقے گجرات کے قبائلی علاقوں سے جڑ جائیں گے۔ اس نئی ریل لائن سے راجستھان کی سیاحت کو بھی بہت فائدہ ہوگا، یہاں کی صنعتی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ اس سے نوجوانوں کے لیے بھی روزگار کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ ساتھیو، ابھی یہاں مان گڑھ دھام کی مکمل ترقی کابھی ذکر کیا گیا ہے۔ مان گڑھ دھام کی شاندار توسیع کی زبردست خواہش ہم سبھی میں ہے۔ اس کے لیے راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میری یہاں کی چاروں ریاستوں اور حکومتوں سے اپیل ہے کہ وہ اس سمت میں تفصیلی بات چیت کریں، ایک روڈ میپ تیار کریں، تاکہ گووند گرو جی کا یہ یادگار مقام بھی پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائے۔ مجھے یقین ہے کہ مان گڑھ دھام کی ترقی اس علاقے کو نئی پیڑھی کے لیے تحریک کا ایک بیدار مقام بنائے گی۔ اور میں یہ یقین دلاتا ہوں، کیونکہ کئی روز سے اس پر ہماری بات چیت چل رہی ہے۔ جتنی جلدی، جتنا زیادہ علاقے کا ہم تعین کریں گے، تو پھر سب مل کرکے اور حکومت ہند کی قیادت میں، ہم اس کی مزید ترقی کرسکتے ہیں۔ اس کو کوئی قومی یادگار کہہ سکتا ہے، کوئی اسے مستحکم نظام کہہ سکتا ہے، نام تو کوئی بھی دے دیں گے، لیکن حکومت ہند اور ان چار ریاستوں کے قبائلی سماج کا سیدھا تعلق ہے۔ ان چاروں ریاستوں اور حکومت ہند کو مل کر کے اس کو مزید نئی بلندیوں تک لے جانا ہے، اس سمت میں حکومت ہند پوری طرح پابندی عہد ہے ۔ میں ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت بہت نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میں گووند گرو کے شری چرنوں میں پرنام کرتا ہوں، ان کی آواز سے ملی ہوئی تحریک سے قبائلی سماج کی فلاح و بہبود کا عزم لے کرکے ہم سبھی نکلیں یہی آپ سب سے میری گزارش ہے۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,ৰাজস্থানৰ মানগড় পাহাৰত ‘মানগড় ধাম কী গৌৰৱ গাঁথা’ শীৰ্ষক অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%81%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی ، پارلیمنٹ میں میرے دیگر سینئر معاونین ، مختلف سیاسی پارٹیوں کے معزز ساتھی، دیگر اہم شخصیات، خواتین و حضرات، ملک کے الگ الگ حصوں میں آج تہواروں اور جشن کا موقع ہے۔آج بیساکھی ہے، بوہاگ بیہو ہے، آج سے اوڈیا نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے۔ہمارے تمل ناڈو کے بھائی بہن بھی نئے سال کا استقبال کررہے ہیں۔میں انہیں ’پُتّانڈ‘کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں نیا سال شروع ہورہا ہے۔متعدد تہوار منائے جارہے ہیں۔ میں تمام ملک کے عوام کو تمام تہواروں کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔آپ سب کو بھگوان مہاویر جینتی کی بھی بہت بہت نیک خواہشات۔ ساتھیوں، آج کا یہ موقع تو دیگر وجوہات سے اور بھی خاص ہوگیا ہے۔ آج پورا ملک بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کو ان کی یوم پیدائش پر احترام کے ساتھ، عقیدت سے یاد کررہا ہے۔ بابا صاحب جس آئین کے اہم معمار رہے ہیں، اس آئین نے ہمیں پارلیمانی نظام کی بنیاد دی۔ اس پارلیمانی نظام کی اہم ذمہ داری ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ رہا ہے۔یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آج مجھے پردھان منتری سنگرہالیہ ملک کو وقف کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک اپنی آزادی کے 75سال کا جشن آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تب یہ میوزیم ایک وسیع تحریک بن کر آیا ہے۔ ان 75سالوں میں ملک نے متعد قابل فخر پل دیکھے ہیں۔ تاریخ کے جھروکھے میں اِن پلوں کی جو اہمیت ہے، وہ بے مثال ہے۔ ایسے بہت سے پلوں کی جھلک پردھان منتری سنگرہالیہ میں دیکھنے کو ملے گی۔ میں تمام ملک کے عوام کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ تھوڑی دیر پہلے اس پروجیکٹ سے جڑے تمام ساتھیوں سے ملنے کا بھی مجھے موقع ملا ۔ سب نے لوگوں نے بہت قابل تعریف کام کیا ہے۔ اس کے لئے پوری ٹیم کو میں ��بارکباد یتا ہوں۔میں آج یہاں سابق وزرائے اعظم کے اہل خانہ کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ آپ سب کا استقبال ہے۔ پردھان منتری سنگرہالیہ کے افتتاح کا یہ موقع آپ سب کی موجودگی سے مزید عظیم بن گیا ہے۔آپ کی موجودگی نے پردھان منتری سنگرہالیہ کی اہمیت ، اس کی افادیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ساتھیوں، ملک آج جس بلندی پر ہے، وہاں تک اسے پہنچانے میں آزاد ہندوستا ن کے بعد قائم ہونے والی ہر حکومت کا تعاون ہے۔میں نے لال قلعے سے بھی یہ کئی بار دہرائی۔ آج یہ سنگرہالیہ بھی ہر حکومت کی ساجھا وراثت کا زندہ عکس بن گیا ہے۔ملک کے ہر وزیر اعظم نے اپنے وقت کی الگ الگ چنوتیوں کو پار کرتے ہوئے ملک کو آگے لے جانے کی کوشش کی ہے۔سب کی شخصیت ، کارنامے، قیادت کے الگ الگ شکلیں رہیں ہیں۔ یہ سب عوامی یادگار کی چیزیں ہیں۔ملک کے عوام خاص طور سے نوجوان طبقہ ،آنے والی نسل تمام وزرائے اعظم کے بارے میں جانے گی تو انہیں تحریک ملے گی۔ تاریخ اور حال سے مستقبل کی تعمیر بر راہ پر راشٹر کوی رامدھاری سنگھ دِنکر جی نے کبھی لکھاتھا- پریہ درشن اِتہاس کنٹھ میں، آج دھونت ہو کاویہ بنے ورتمان کی چترپٹی پر، بھوت کال سمبھاویہ بنے مفہوم یہ ہے کہ ہماری ثقافتی فکر میں جو قابل فخر ماضی شامل ہے، وہ شاعری میں بدل کر گونجے، اس ملک کی مالا مال تاریخ ہم موجودہ منظر پر بھی ممکن کرسکیں۔ آنے والے 25سال آزادی کا یہ امرت کال ملک کے لئے بہت اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نوتعمیر پردھان منتری سنگرہالیہ مستقبل کی تعمیر کا بھی ایک توانائی مرکز بنے گا۔الگ الگ دور میں لیڈر شپ کی کیا چنوتیاں رہیں، کیسے اُن سے نمٹا گیا ، اس کو لے کر بھی آنے والی نسل کے لئے یہ ایک بڑی تحریک کا ذریعہ بنے گا۔یہاں وزرائے اعظم سے متعلق نایاب تصویریں، تقریریں، انٹرویو، بنیادی تحریریں جیسی یادگار چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ساتھیوں، عوامی زندگی میں جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر رہتے ہیں، جب ہم ان کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ بھی ایک طرح سے تاریخ کا تجزیہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے واقعات، ان کے سامنے آئی چنوتیاں، ان کے فیصلے، بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے ان کی زندگی چل رہی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تاریخ کی تعمیر بھی ہوتی چلی ہے۔ اس زندگی کو پڑھنا تاریخ کے مطالعے کی طرح ہے۔ اس میوزیم سے آزاد ہندوستان کی تاریخ کو جانا جاسکے گا۔ہم نے کچھ سال پہلے ہی یوم آئین منانے کی شروعات کرکے قومی فکر کو بیدار کرنے کی طرف اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہ اسی سمت میں ایک اور اہم پڑاؤ ہے۔ ساتھیوں، ملک کے ہر وزیر اعظم نے آئین کے ذریعے بیان کردہ جمہوریت کے اہداف کی تکمیل میں ہرممکن تعاون دیا ہے۔ انہیں یاد کرنا آزاد ہندوستان کے سفر کو جاننا ہے۔ یہاں آنے والے لوگ ملک کے سابق وزرائے اعظم کے تعاون سے روبرو ہوں گے۔ان کے پس منظر ، ان کی جدوجہد –تعمیر کو جانیں گے۔نئی نسل کو یہ بھی سیکھ ملے گی کہ ہمارے جمہوری ملک میں کس کس پس منظر سے آکرالگ الگ وزیر اعظم بنتے رہے ہیں۔یہ ہم ہندوستانیوں کے لئے بہت فخر کی بات ہے کہ ہمارے زیادہ تر وزیر اعظم بہت ہی عام خاندان سے رہے ہیں۔ دور دراز دیہات سے آکر ، انتہائی غریب خاندان سے آکر، کسان خاندان سے آکر بھی وزیر اعظم کے عہدے پر پہنچنا ہندوستانی جمہوریت کی عظیم روایتوں کے تئیں یقین کو مضبوط کرتا ہے۔یہ ملک کے نوجوانوں کو بھی یقین دلاتا ہے کہ ہندوستان کے جمہوری نظام میں عام خاندان میں پیدا ہونے والا شخص بھی اعلیٰ ترین عہ��وں پر پہنچ سکتا ہے۔ ساتھیوں، اس میوزیم میں جس قدر ماضی ہے، اسی قدر مستقبل بھی ہے۔ یہ میوزیم ملک کے لوگوں کو گزرے وقت کا سفر کرواتے ہوئے نئی سمت ، نئے روپ میں ہندوستان کی ترقی کے سفر پر لے جائے گا۔ایک ایسے سفر پر جہاں آپ ایک نئے ہندوستان کے خواب کو ترقی کے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے قریب سے دیکھ سکیں گے۔ اس عمارت میں 40 سے زیادہ گیلریاں ہیں اور تقریباً 4ہزار لوگوں کے ایک ساتھ چلنے پھرنے کا نظم ہے۔ورچوئل ریلٹی روبوٹس اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کے توسط سے تیزی سے بدل رہے ہندوستان کی تصویر یہ میوزم دنیا کو دکھائے گا۔یہ ٹیکنالوجی کے توسط سے ایسا احساس دے گا، جیسے ہم واقعی اسی دور میں جی رہے ہیں۔ انہیں وزرائے اعظم کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں، ان سے مکالمہ کررہے ہیں۔ ساتھیوں، ہمیں اپنے نوجوان ساتھیوں کو اس میوزیم میں آنے کے لئے زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ یہ میوزیم ان کے تجربات کو مزید وسعت دے گا۔ہمارے نوجوان اہل ہیں اور ان میں ملک کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنے ملک کے بارے میں آزاد ہندوستان کے اہم مواقع کے بارے میں جتنا زیادہ جانین گے، سمجھیں گے، اتنا ہی وہ درست فیصلہ لینے میں اہل بھی ہوسکیں گے۔یہ میوزیم آنے والی نسلوں کے لئے معلومات کا ، خیالات کا ، تجربات کا ایک در کھولنے کا کام کرے گا۔یہاں آکر انہیں جو معلومات ملے گی، جن حقائق سے وہ واقف ہوں گے، وہ انہیں مستقبل کے فیصلے لینے میں انہیں مدد کریں گے۔ تاریخ کے جو طالب علم ریسرچ کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی یہاں آکر بہت فائدہ ہوگا۔ ساتھیوں، ہندوستان، جمہوریت کی ماں ہے، مدر آف ڈیموکریسی ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت کی بہت خصوصیت یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ اس میں مسلسل تبدیلی آتی رہی ہے۔ ہر عہد میں ، ہر نسل میں جمہوریت کو مزید جدید بنانے اور زیادہ طاقتور بنانے کی مسلسل کوشش ہوئی ہے۔وقت کے ساتھ جس طرح کئی بار سماج میں کچھ کمیاں گھر کر جاتی ہیں، ویسے ہی جمہوریت کے سامنے بھی وقت وقت پر چنوتیاں آتی رہی ہیں۔ ان کمیوں کو دور کرتے رہنا، خود کو تبدیل کرتے رہنا، ہندوستانی جمہوریت کی خوبی ہے اور اس میں ہر کسی نے اپنا تعاون دیا ہے۔ایک دو مستثنیٰ چھوڑ دیں تو ہمارے یہاں جمہوریت کو جمہوری طریقے سے مضبوط کرنے کی قابل فخر روایت رہی ہے۔اس لئے ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی کوششوں سے ہم جمہوریت کو اور زیادہ مضبوط کرتے رہیں۔ آج جو بھی چیلنج ہماری جمہوریت کے سامنے ہے، وقت کے ساتھ جو بھی کمیاں گھر کرگئی ہیں، انہیں دور کرتے ہوئے ہم آگے بڑھیں ، یہ جمہوریت کی بھی ہم سے توقع ہے اور ملک بھی ۔ آج کا یہ تاریخی موقع جمہوریت کو طاقتور اور خوشحال بنانے کے عہد کو دوہرانے کا بھی ایک بہترین موقع ہے۔ہمارے ہندوستان میں مختلف خیالات ، مختلف روایتوں کی شمولیت ہوتی رہی ہے اور ہماری جمہوریت یہ بات سکھاتی ہے کہ کوئی ایک ہی بہتر ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ہم تو اس تہذیب سے پلے بڑھے ہیں، جس میں کہا جاتا ہے- آ نو بھدرا کرتوینتو وشوتہ یعنی ہر طرف سے نیک خیالات ہمارے پاس آئیں۔ ہماری جمہوریت ہمیں تحریک دیتی ہے جدت کو تسلیم کرنے کی، نئے خیالات کو قبول کرنے کی، پردھان منتری میوزیم میں آنے والے لوگوں کو جمہوریت کی اس طاقت کی بھی نطارے ہوں گے۔خیالات کو لے کر اتفاق ، عدم اتفاق ہوسکتا ہے، الگ الگ سیاسی رویے ہوسکتے ہیں، لیکن جمہوریت میں سب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے – ملک کی ترقی۔ اس لئے یہ میوزیم وزرائے ا��ظم کی حصولیابیوں، ان کے خدمات تک ہی محدود نہیں ہیں۔ یہ ہر مشکل حالات کے باوجود ملک میں مضبوط ہوتی جمہوریت ہماری ثقافت میں ہزاروں برسوں سے پھولنے پھلنے والے جمہوری تہذیبوں کی مضبوطی اور آئین کے تعلق سے مضبوط ہوتے اعتقاد کی بھی علامت ہے۔ ساتھیوں، اپنی وراثت کو سنبھال کر رکھنا،اسے آنے والی نسل تک پہنچانا ہر قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اپنی آزادی کی تحریک ، اپنے ثقافتی وقار کے تمام متحرک باب اور تحریک دینے والی شخصیتوں کو عوام کے سامنےلانے کے لئے ہماری سرکار مسلسل کام کررہی ہے۔ ملک سے چوری ہوئی مورتیوں اور دستکاری کو واپس لانا ہو، پرانے میوزیم کی تعمیر نو ہو، نیا میوزیم بنانا ہو، ایک بہت بڑی مہم پچھلے سات آٹھ سالوں سے لگاتار جاری ہے۔ ان کوششوں کے پیچھے ایک بہت بڑا مقصد ہے، جب ہماری نوجوان نسل یہ زندہ علامت دیکھتی ہے تو اسے حقیقت کا بھی احساس ہوتا ہے اور سچ کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ جب کوئی جلیانوالا باغ اسمارک کو دیکھتا ہے تو اسے اس آزادی کی اہمیت کا پتا چلتاہے، جس کا وہ لطف لے رہا ہے۔جب کوئی قبائلی مجاہدین آزادی کا میوزیم دیکھتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ آزادی کی لڑائی میں دور دراز جنگلوں میں رہنےوالے ہمارے قبائلی بھائی بہنوں نے کس طرح ہر خطے کا تعاون رہا ۔ ہر فرقے نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ جب کوئی انقلابیوں پر بنا میوزیم دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ ملک کے لئے قربانی دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔یہ ہماری حکومت کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں دہلی میں ہم نے بابا صاحب کی مہاپری نروان اَستھلی علی پور روڈ پر بابا صاحب میموریل کی تعمیر کروائی ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر کے جو پنچ تیرتھ تیار کئے گئے ہیں، وہ سماجی انصاف اور اٹوٹ قومی اعتقاد کے لئے تحریک کا مرکز ہے۔ ساتھیوں، یہ پردھان منتری میوزیم بھی لوگوں کے ذریعے چنے گئے وزرائے اعظم کی وراثت کی نمائش کرکے ، سب کا پریاس کے جذبے کا جشن مناتا ہے۔اس کا جو لوگو ہے، اس پر بھی آپ سب کا ضرور دھیان ہوگا۔ پردھان منتری میوزیم کا لوگو کچھ اس طرح کا ہے کہ اس میں کروڑ ہا ہندوستانیوں کے ہاتھ چکر کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ چکر 24گھنٹے تسلسل کی علامت ہے، خوشحالی کے عہد کے لئے محنت کی علامت ہے۔ یہی وہ عہد ہے ، یہ تو وہ فکر ہے،یہی وہ طاقت ہے جو آنے والے 25 سالوں میں ہندوستان کی ترقی کی تشریح کرنے والی ہے۔ ساتھیوں، ہندوستان کی تاریخ کی عظمت سے، ہندوستان کے مالا مال عہد سے ہم سب واقف رہے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اس کا فخر بھی رہا ہے۔ ہندوستان کی وراثت سے اور ہندوستان کے حال سے دنیا صحیح طریقے سے واقف ہو، یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔آج جب ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے، دنیا ہندوستان کو ایک امید اور یقین بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، تو ہندوستان کو بھی ہر پل نئی اونچائی پر پہنچنے کےلئے اپنی کوشش بڑھانی ہوگی اور ایسے وقت میں آزادی کے بعد کے یہ 75سال ہندوستان کے وزرائے کی مدت کار یہ پردھان منتری میوزیم ہمیں مسلسل تحریک دیں گے۔یہ میوزیم ہمارے اندر ہندوستان کے لئے بڑے عہد کا بیج بونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ میوزیم ہندوستان کے مستقبل کو بنانے والے نوجوانوں میں کچھ کرگزرنے کا جذبہ پیدا کرے گا۔ آنے والے وقت میں یہاں جو بھی نام جڑیں گے، ان کے جو بھی کام جڑیں گے، ان میں ہم سب ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو تعبیر آشنا ہونے کا سکون تلاش کرپائیں گے۔اس کے لئے آج محنت کا وقت ہے ۔ آزادی کا یہ امرت کال متحد ہوکر، ایک ساتھ مل کر کوششوں کا ہے۔ ملک کے عوام سے میری گزارش ہے کہ آپ خود بھی آئیں اور اپنے بچوں کو بھی اس میوزیم کا دیدار کرانے ضرور لائیں۔اسی دعوت کے ساتھ ، اسی گزارش کے ساتھ ایک بار پھرپردھان منتری میوزیم کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ شکریہ!,নতুন দিল্লীত প্ৰধানমন্ত্ৰী সংগ্ৰহালয়ৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%B9%D9%88%DA%A9%DB%8C%D9%88-2020-%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%BE%DA%A9-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%95/,نمسکار! پروگرام میں میرے ساتھ شامل ہورہے حکومت ہند میں ہمارے کھیلوں کے وزیر جناب انوراگ ٹھاکر جی ، تمام کھلاڑی ساتھیوں، تمام کوچز اور خاص طور پر والدین ، آپ کے ماں باپ۔ آپ تمام حضرات سے بات چیت کرکے میرے اعتماد میں اضافہ ہواہے کہ اس بار بھارت پیرالمپک گیمز میں بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ میں اپنے تمام کھلاڑیوں اور تمام کوچز کو آپ کی کامیابی ، ملک کی فتح کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آپ کی خود اعتمادی ، کچھ حاصل کرنے کی آپ کی قوت ارادی ، میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ لامحدود ہے۔ یہ آپ کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پیرالمپکس میں سب سے بڑی تعداد میں بھارت کے ایتھلیٹ حصہ لینے جا رہے ہیں۔ آپ لوگ بتا رہے تھے کہ کورونا کی وبا نے آپ کی مشکلات میں بھی اضافہ کیا، لیکن آپ نے یہ سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ اس پر قابو پانے کے لیے آپ نے جو کچھ کرنا ہے، وہ سب کیا ہے۔ آپ نے اپنے حوصلے کو پست نہیں ہونے دیا ، اپنی پریکٹس کو رکنے نہیں دیا۔ اور یہی تو حقیقی 'اسپورٹس مین اسپرٹ'ہے ہمیں ہر حالت میں وہ یہی سکھاتی ہےکہ – ہاں ، ہم یہ کریں گے! ہم یہ کر سکتے ہیں اور آپ سب نے کر کے دکھایا بھی۔ سب نے کرکے دکھایا۔ ساتھیوں، آپ اس مقام تک پہنچے ہیں کیوں کہ آپ حقیقی چیمپیئن ہیں۔ زندگی کے کھیل میں اپنی مصیبتوں کو شکست دی ہے۔ زندگی کے کھیل میں آپ جیت چکے ہیں۔ ایک کھلاڑی کے طور پر آپ کے لیے آپ کی جیت، آپ کا میڈل بہت اہم ہے، لیکن میں بار بار کہتا ہوں کہ نئی سوچ کا بھارت آج اپنے کھلاڑیوں پر میڈل کا دباؤ نہیں بناتا۔ آپ کو بس اپنا صد فی صد دینا ہے، پوری لگن کے ساتھ، ذہنی تناؤکے بغیر،سامنے کتنا ہی مضبوط کھلاڑی ہو اس کی فکر کیے بغیر بس ہمیشہ یہ یاد رکھیئے اور اسی یقین کے ساتھ میدا ن پر محنت کرنی ہے۔ میں جب نیا نیا وزیراعظم بنا تو دنیا کے لوگوں سے ملتا تھا۔ اب وہ تو اونچائی میں بھی ہم سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان ملکوں کا رتبہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ میرا بھی بیک گراؤنڈ آپ کے ہی جیسا تھا اور ملک میں بھی لوگوں کو شبہ ہوتا تھا کہ مودی جی کو تو دنیا کا کچھ پتہ نہیں ہے یہ وزیراعظم بن گئے کیا کریں گے۔ لیکن میں جب دنیا کے لیڈروں سے ملتا تھا۔ تو میں کبھی یہ نہیں سوچتا تھا کہ نریندر مودی ہاتھ ملا رہا ہے۔ میں یہ سوچتا تھا کہ 100 کروڑ سے بھی بڑی آبادی والا ملک مصافحہ کر رہا ہے۔ میرے پیچھے 100 کروڑ سے زیادہ ملک کے لوگ کھڑے ہیں۔ یہ نیت رہتی تھی اور اسی وجہ سے مجھے کبھی بھی میرے اعتماد میں تزلزل نہیں آیا۔ میں دیکھ رہا ہوں آپ کے اندر تو زندگی کو جیتنے کا اعتماد لبریز بھی ہے اور گیم جیتنا تو آپ کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ میڈل تو محنت سے خود ہی آنے والے ہیں۔ آپ ن�� دیکھا ہی ہے، اولمپکس میں ہمارے کچھ کھلاڑیوں نے جیت حاصل کی ، تو کچھ چوک بھی گئے۔ لیکن ملک سب کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا تھا، سب کے لیے جشن منا رہا تھا۔ ساتھیوں، ایک کھلاڑی کے طور پر آپ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ، میدان میں جتنی جسمانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی ذہنی قوت بھی معنی رکھتی ہے۔ آپ لوگ تو خاص طور پر ایسے حالات سے نکل کر آگے بڑھ رہے ہیں جہاں ذہنی قوت سے ہی اتنا سب کچھ ممکن ہوا ہے۔ اس لیے، آج ملک اپنے کھلاڑیوں کے لیے ان سبھی باتوں پر توجہ دے رہا ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے 'اسپورٹ سائیکالوجی' اس تعلق سے ورک شاپس اور سیمینار اس کا انتظام مسلسل کرتے رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ کھلاڑی چھوٹے شہروں،قصبوں اور گاؤں سے آتے ہیں۔ اس لیے ایکسپوزر کی کمی بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ نئی جگہ، نئے لوگ، بین الاقوامی حالات، کئی بار یہ چیلنجز ہی ہمارا حوصلہ کم کردیتے ہیں۔ اس لیے یہ طے کیا گیا کہ اس سمت میں بھی ہمارے کھلاڑیوں کو تربیت ملنی چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ٹوکیوں پیرالمپکس پر فوکس کرتے ہوئے جو تین سیشنز آپ نے جوائن کیے، ان سے آپ کو کافی مدد بھی ملی ہوگی۔ ساتھیوں، ہمارے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں ، دور دراز علاقوں میں ، بہت زیادہ حیرت انگیز ٹیلنٹ موجود ہے ، کتنا اعتماد ہے ، آج میں آپ سب کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میرے سامنے براہ راست ثبوت موجود ہیں۔ کئی بار آپ یہ بھی سوچیں گے کہ اگر آپ کو وسائل میسر نہ ہوتے اورسہولیات نہ ملتیں تو آپ کے خوابوں کا کیا ہوتا؟ ہمیں ملک کے دیگر لاکھوں نوجوانوں کے بارے میں بھی فکر کرنا ہے۔ بہت سارے نوجوان ہیں جو اتنے تمغے لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج ملک خود ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے ، دیہی علاقوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ آج ملک کے ڈھائی سو سے زائد اضلاع میں 360 'کھیلو انڈیا سنٹر' قائم کیے گئے ہیں ، تاکہ مقامی سطح پر ٹیلنٹ کی شناخت کی جا سکے ، انہیں موقع ملے۔ آنے والے دنوں میں ان مراکز کی تعداد ایک ہزار تک بڑھا دی جائے گی۔ اسی طرح ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے ایک اور چیلنج وسائل کا بھی ہوتا تھا۔ جب آپ کھیلنے جاتے تھے ، وہاں کوئی اچھا میدان نہیں تھا ، اچھا سامان نہیں تھا۔ اس سے کھلاڑی کے حوصلے پر بھی اثر پڑا۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں سے کمتر سمجھتا تھا۔ لیکن آج ملک میں کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے اور اسے فروغ بھی دیا جا رہا ہے۔ ملک کھلے ذہن کے ساتھ ہر کھلاڑی کی مدد کر رہا ہے۔ 'ٹارگٹ اولمپک پوڈیم اسکیم' کے ذریعے ، ملک نے کھلاڑیوں کے لیے ضروری انتظامات بھی کیے ، اہداف طے کیے۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ساتھیوں، اگر ملک کو کھیلوں میں سرفہرست ہونا ہے تو ہمیں اس پرانے خوف کو دور کرنا ہوگا جو پرانی نسل کے ذہنوں میں تھا۔ اگر کوئی بچہ کھیل میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا تو گھر کے لوگ پریشان ہوتے تھے کہ وہ آگے کیا کرے گا؟ کیونکہ ایک یا دو کھیلوں کو چھوڑ کر کھیل اب ہمارے لیے کامیابی یا کیریئر کا پیمانہ نہیں رہا۔ ہمارے لیے اس ذہنیت ، عدم تحفظ کے احساس کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ ساتھیوں، ہندوستان میں کھیلوں کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اپنے طریقوں کو مسلسل بہتر بنانا ہوگا۔ آج بین الاقوامی کھیلوں کے ساتھ ساتھ روایتی ہندوستانی کھیلوں کو بھی ایک نئی پہچان دی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو مواقع ، پیشہ ورانہ ماحول دینے کے لیے ملک کی پہلی سپورٹس یونیورسٹی امپھال ، منی پور میں بھی کھولی گئی ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیلوں کو بھی مساوی ترجیح دی گئی ہے۔ آج ملک خود آگے آ رہا ہے اور 'کھیلو انڈیا' مہم چلا رہا ہے۔ ساتھیوں، آپ کسی بھی کھیل سے وابستہ ہوں ، ایک بھارت- شریشٹھ بھارت کے پس پردہ کارفرما عوامل کو بھی تقویت فراہم کرتے ہیں۔ آپ کس ریاست سے تعلق رکھتے ہیں ، آپ کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ، آپ کون سی زبان بولتے ہیں ، سب سے بڑھ کر آپ آج 'ٹیم انڈیا' ہیں۔ یہ جذبہ ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں ہونا چاہیے ، یہ ہر سطح پر نظر آنا چاہیے۔ سماجی مساوات کی اس مہم میں ، میرے دیویانگ (معذور)بھائی اور بہنیں خود کفیل بھارت میں ملک کے لیے بہت اہم شراکت دار ہیں۔ آپ نے ثابت کیا کہ زندگی کو جسمانی مشقت سے نہیں روکنا چاہیے۔ لہٰذا ، آپ تمام ہی ،عام لوگوں کے لیے ، خاص طور پر نئی نسل کے لیے مشعل راہ بھی ہیں۔ ساتھیوں، پہلے دویانگوں (معذوروں)کو سہولیات فراہم کرنے کو ویلفیئر(فلاح و بہبود) سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج ملک اسے اپنی ذمہ داری مان کر کام کر رہا ہے۔ اس لیے، ملک کی پارلیمنٹ نے معذوروں کے حقوق کے لیے قانون، جیسا قانون بنایا،معذوروں کے حقوق کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ 'سوگمیہ بھارت ابھیان'اس کی ایک اور بڑی مثال ہے۔ آج سینکڑوں سرکاری عمارتوں، سینکڑوں ریلوے اسٹیشن، ہزاروں ٹرین کے کوچز، درجنوں گھریلو ہوائی اڈوں کے انفراسٹرکچر کو معذوروں کے لیے آسان اور سہل بنایا جا چکا ہے۔ انڈین سائن لینگویج کی اسٹینڈرڈ ڈکشنری بنانے کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔ این سی ای آر ٹی کی کتابوں کو بھی اشاراتی زبانوں میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی کوششوں سے کتنے ہی لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں۔ کتنے ہی ٹیلنٹس ملک کے لیے کچھ کرنے کا اعتماد حاصل کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، ملک جب کوشش کرتا ہے ، اور ہمیں اس کے سنہری نتائج تیزی سے ملتے ہیں ، تب ہمیں بڑا سوچنے ، اور نئے نئے اختراعات کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ ہماری ایک کامیابی ہمارے بہت سے نئے اہداف کا راستہ کھولتی ہے۔ لہذا ، جب آپ ترنگا لے کر ٹوکیو میں اپنی سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے ،تو آپ صرف تمغے ہی نہیں جیتیں گے ، بلکہ آپ ہندوستان کے عہد کو بھی بہت دور لے جانے والے ہیں ، آپ اسے ایک نئی توانائی دینے والے ہیں ، آپ اسے آگے بڑھانے والے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کی یہ ہمت، حوصلے ، آپ کا جوش و خروش ٹوکیو میں نئے ریکارڈ قائم کرے گا۔ اسی یقین کے ساتھ ، ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت ساری نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ!,‘টকিঅ’ ২০২০ পেৰালিম্পিক ক্ৰীড়া মহোত্সৱ’লৈ যাবলগীয়া ভাৰতীয় ‘পেৰা-এথলিট’সকলৰে বাৰ্তালাপত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ ইংৰাজী অনুবাদৰ অসমীয়া ভাঙন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%9A%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A7%AE%E0%A7%A6%E0%A7%A6/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گجرات کے بھروچ کے آمود میں 8000 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے جمبوسر میں بلک ڈرگ پارک، داہیج میںگہرے سمندر میں پائپ لائن پروجیکٹ، انکلیشور ہوائی اڈے کے فیز 1 اور انکلیشور اور پنولی میں کثیر سطحی صنعتی ش��ڈز کی ترقی کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے کئی پروجیکٹوں کو بھی وقف کیا جو گجرات میں کیمیکل سیکٹر کو فروغ دیں گے جن میں جی اے سی ایل پلانٹ، بھروچ انڈر گراؤنڈ ڈرینیج اور آئی او سی ایل دہیج کویالی پائپ لائن شامل ہیں۔ شروع میں، وزیر اعظم نے جناب ملائم سنگھ یادو کو خراج عقیدت پیش کیا اورکہاکہ ملائم سنگھ جی کے ساتھ میرا رشتہ بہت خاص رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزرائے ا علی کی حیثیت سے جب ہم ایک دوسرے ملتے تھے تو باہمی احترام اور قربت کا احساس ہوتا تھا""،۔ وزیر اعظم کے امیدوار بننے کے بعدانہیں یاد کرتے ہوئے جناب مودی نے مختلف پارٹیوں کے لیڈروں سے رابطہ کیا تھا، وزیر اعظم نے کہا کہ ملائم سنگھ جی کے آشیرواد اور مشورے کے الفاظ اب بھی ان کے لیے بہت اہم ہیں۔ ملائم سنگھ جی نے بدلتے وقت کی پرواہ کیے بغیر اپنے 2013 کے احسانات کو برقرار رکھا۔ جناب مودی نے گزشتہ لوک سبھا کے آخری اجلاس میں ملائم سنگھ جی کے آشیرواد کو بھییاد کیا جہاں سبکدوش ہونے والے رہنما نے بغیر کسی سیاسی اختلاف کے 2019 میں وزیر اعظم مودی کی واپسی کی پیشین گوئی کی تھی۔ان کے مطابق ملائم سنگھ جی ایک ایسے رہنما ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ ’’آج، گجرات کی اس سرزمین سے اور ماں نرمدا کے کنارے سے میں ملائم سنگھ جی کو پوری عقیدت کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ میںبھگوان سےدعا کرتا ہوں کہ وہ ان کے اہل خانہ اور مداحوں کو یہ ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنے کی طاقت عطا فرمائے”۔ یہ بتاتے ہوئے کہ وزیر اعظم آزادی کا امرت مہوتسو کے وقت بھروچ آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس جگہ کی مٹی نے قوم کے بہت سے بچوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے ملک کونئی بلندیوں تک پہنچایا ہے اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے رکن اور سومناتھ تحریک میں سردار پٹیل کے کلیدی ساتھی کامریڈ کنیا لال مانیکلال منشی اور ہندوستانی موسیقی کے عظیم پنڈت اومکارناتھ ٹھاکرکو یاد کیا۔جناب مودی نے مزید کہا ‘‘گجرات اور ہندوستان کی ترقی میں بھروچ کا ایک اہم کردار ہے’’، ‘‘جب بھی ہم ہندوستان کی تاریخ پڑھتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بھروچ کی بات ہمیشہ فخر سے کی جاتی ہے۔’’انہوں نے ضلع بھروچ کی ابھرتی ہوئی کائناتی نوعیت کو بھیاحساس دلایا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلا بلک ڈرگ پارک بھروچ میں پیش کیا گیا ہے جس کے ساتھ کیمیکل سیکٹر سے متعلق متعدد پروجیکٹس بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘کنیکٹیویٹی سے متعلق دو بڑے منصوبے بھی آج شروع کیے گئے ہیں’’۔ جناب مودی نے یہ بھی بتایا کہ انکلیشور میںبھروچ ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے تاکہ بھروچ کے لوگوں کو بڑودہ یا سورت پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ وزیر اعظم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بھروچ ایک ایسا ضلع ہے جس میں ملک کی دیگر چھوٹی ریاستوں کے مقابلے زیادہ صنعتیں ہیں اور نئے ہوائی اڈے کے منصوبے سے یہ خطہ ترقی کے لحاظ سے اعلی مقام حاصل کرے گا ۔جناب مودی نے مزید کہا کہ ‘‘یہ نریندر۔بھوپیندر کی ڈبل انجن والی حکومت کا نتیجہ ہے جو کاموں کو تیز رفتاری سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے’’، ‘‘یہ گجرات کا نیا چہرہ ہے۔’’ گجراتپچھلی دو دہائیوں میں جو ہر شعبے میں پیچھے رہنے والی ریاست تھی ا ب ایک ترقی کرنےوالی صنعت اور زرعی ریاست میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مصروف بندرگاہوں اور ترقیکرنے والی ساحلی پٹی کے ساتھ، قبائلی اور ماہی گیر برادری کی ��ندگیوں میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں ۔ گجرات کے لوگوں کی محنت کی وجہ سے وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو میں ریاست کے نوجوانوں کے لیے سنہری دور شروع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں رکاوٹوں سے پاک ایک قابل ماحول بنا کر اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پالیسی اور نیت (نیتی اور نیت) دونوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بھروچ علاقے میں امن و امان کی بہتر صورتحال کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے یہ بھییاد کیا کہ کس طرح زراعت، صحت اور پینے کے پانی کی صورتحال گزشتہ برسوں میں بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی یاد کیا کہ کس طرح بطور وزیر اعلیٰ، انہوں نے ایک وقت میں ایک ہی مسئلے سے نمٹا اور انہیں حل کیا۔ انہوں نے کہا ""آج بچے کرفیو کا لفظ نہیںجانتے، جواس سے پہلے عام تھا۔ آج، ہماری بیٹیاں نہ صرف عزت کے ساتھ زندگی اوروقار کےساتھ رہ رہی ہیں بلکہ دیرتک کام کر رہی ہیں بلکہ برادریوں کی زندگیاں بھیآگے بڑھ رہی ہیں ""۔انہوں نے کہا ’’ اسی طرح بھروچ میں تعلیم کی سہولتیںبہتر ہوئی ہیں ، جس سے نوجوانوں کو نئے مواقع ملے ہیں۔ طویل مدتی منصوبہ بندی اور کم استعمال شدہ وسائل کے استعمال کی وجہ سے، گجرات ایک مینوفیکچرنگ، صنعتی اور کاروباری مرکز کے طور پر ابھرا ہے اور یہاں بہت سی عالمی معیار کی سہولیات ابھرکرآئی ہیں۔ وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ ڈبل انجن والی حکومت دوہرے فوائد کی ایک بہترین مثال بن گئی ہے۔ وزیر اعظم نے ووکل فار لوکل کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی مصنوعات کا سہارا لے کر اور درآمدی مصنوعات سے پرہیز کرتے ہوئے، ہر شہری آتم نربھر بھارت میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے دیوالی کے دوران مقامی طور پر بنی چیزیں استعمال کرنے کی اپیل کی کیونکہ ان سے مقامی کاروباریوں اور کاریگروں کی مدد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی معیشت 2014 میں 10 ویں نمبر سے پانچویں نمبر پر پہنچ گئی ہے۔ یہ کارنامہ اس حقیقت سے مزید اہم ہو گیا کہ ہندوستان نے اپنے سابقہ نوآبادیاتی آقاؤں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے نوجوان، کسان، مزدور، چھوٹے اور بڑے کاروبار اور صنعت کار ستائش کے مستحق ہیں۔ انہوں نے بھروچ کے لوگوں کوادویات تیار کرکے زندگیاں بچانے کے عظیم کام میں شامل ہونے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ وبائی امراض نے فارما سیکٹر کی اہمیت کو بہت واضح کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا۔ ‘‘گجرات نے کورونا کے خلاف جنگ میں ملک کی بہت مدد کی۔ ملک کی فارما ایکسپورٹ میں گجرات کا حصہ 25 فیصد ہے”، وزیر اعظم نے اس وقت کو بھی یاد کیا جب کچھ شرپسندوں نے بھروچ میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘‘جب ہم 2014 میں اقتدار میں آئے اور گجرات نے نریندر اور بھوپیندر کی ڈبل انجن کی طاقت کو محسوس کیا تو تمام رکاوٹیں اکھاڑ دی گئیں۔’’ وزیر اعظم نے سردار سروور ڈیم کی ترقی کے دوران شہری نکسلیوں کی طرف سے پیدا کی گئی رکاوٹوں کی نشاندہی کی۔ جھارکھنڈ، بہار، اڈیشہ، چھتیس گڑھ، اور مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے کچھ حصوں میں نکسلیوں کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے گجرات کی قبائلی برادریوں کی تعریف کی جنہوں نے نکسلیوں کو ریاست گجرات میں پھیلنے نہیں دیا اور ریاست گجرات کے لوگوں کی زندگی کو بچایا۔ وزیر اعظم نے شہری نکسلیوں کو ریاست میں قدم جمانے کی اجازت دینے کے خلاف خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سائن�� اور ریاضی کی اچھی تعلیم کو یقینی بنائے بغیر حکومتی کوششوں سے مثبت کارروائی اور دیگر اسکیموں کا صحیح فائدہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج قبائلی نوجوان پائلٹ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ،وہ ڈاکٹر، سائنسدان اور وکیل بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے مطلع کیا کہ آدیواسی برادری نے ریاست اور ملک کی ترقی کے سفر میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، اور ان کے تعاون کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے حکومت نے جنجاتیہ گورو دیوس کا اعلان، جو کہ بہادر قبائلی آزادی کے جنگجوؤں کے نام سے منسوب ہے، بھگوان برسا منڈا جن کی ملک بھر میں قبائلی برادریوں میں تعظیم کی جاتی ہے، یوم پیدائش کے موقع پر کیا ہے۔ خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے کہا کہ بھروچ اور انکلیشور کی ترقی احمد آباد اور گاندھی نگر کی طرح ترقی کے جڑواں شہروں کے ماڈل کے خطوط پر چل رہی ہے۔ ‘‘لوگ بھروچ اور انکلیشور کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں جیسے وہ نیویارک اور نیو جرسی کے بارے میں بات کرتے ہیں’’، اس نے نتیجہ اخذ کیا۔ اس موقع پر.،دیگر لوگوں کے علاوہ، گجرات کے چیف منسٹر جناب بھوپیندر پٹیل، کیمیکل اور کھاد کے مرکزی وزیر جناب منسکھ منڈاویہ اور ممبران پارلیمنٹ جناب سی آر پاٹل اور جناب منسکھ وساوا بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر ادویہ سازی کے شعبے میں ہندوستان کو آتم نربھر بنانے کے ایک اور قدم کے طور پر، وزیر اعظم نے جمبوسر میں بلک ڈرگ پارک کا سنگ بنیاد رکھا۔ 2021-22 میں، دواؤں کی کل درآمدات کا 60فی صد سے زیادہ حصہ بلک ادویات کا تھا۔ یہ منصوبہ درآمدی متبادل کو یقینی بنانے اور ہندوستان کو بلک ادویات کے لیے خود انحصار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ وزیر اعظم نے دہیج میں ڈیپ سی پائپ لائن پروجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس سے صنعتی ریاستوں سے سودھے گئےگندے پانی کا بندو بست کرنے میں مدد ملے گی۔ دیگر پروجیکٹس، جن کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نے رکھا تھا ان میں انکلیشور ہوائی اڈے کا فیز 1 اور انکلیشور اور پنولی میں ملٹی لیول انڈسٹریل شیڈز کی تیاری شامل ہے جس سے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو فروغ ملے گا۔ وزیراعظم نے متعدد صنعتی پارکوں کی ترقی کے لیے سنگ بنیاد کی نے مثال تقریب کا انعقاد کیا۔ ان میں چار قبائلی صنعتی پارکس شامل ہیں جو والیا (بھروچ)، امیر گڑھ (بناسکانٹھا)، چکالیہ (داہود) اور ونار (چھوٹا ادے پور) میں قائم ہوں گے۔ موڈیٹھا (بناسکانٹھا) میں ایگرو فوڈ پارک؛ کاکواڑی دانتی (والساد) میں سی فوڈ پارک؛ اور کھنڈیواو (مہی ساگر) میں ایم ایس ایم ای پارک شامل ہیں۔ پروگرام کے دوران وزیر اعظم نے کئی ایسے منصوبے وقف کیے جو کیمیکل سیکٹر کو فروغ دیں گے۔ انہوں نے ٹی ڈی پی 800 کاسٹک سوڈا پلانٹ وقف کیا جو دہیج میں 130 میگاواٹ کے کوجنریشن پاور پلانٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ، انہوں نے دہیج میں موجودہ کاسٹک سوڈا پلانٹ کی توسیع کو بھی وقف کیا، جس کی صلاحیت 785 ملین ٹن یومیہ سے بڑھا کر 1310 ایم ٹی یومیہ کر دی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے دہیج میں کلورومیتھینز سالانہ ایک لاکھ ٹن سے زیادہ کی تیاری کے لیے ایک پروجیکٹ بھی وقف کیا۔ وزیر اعظم کے ذریعہ وقف کردہ دیگر پروجیکٹوں میں دہیج میں ہائیڈرازین ہائیڈریٹ پلانٹ جو مصنوعات کی درآمد کے متبادل فراہم کرنےمیں مدد کرے گا، آئی او سی ایل دہیج-کوئیالی پائپ لائن پروجیکٹ، بھروچ زیر زمین نکاسی آب اور ایس ٹی پی کا کام اور اُملہ آسا پنیتھا سڑک کی توسیع اور مضبوط کاری، شامل ہیں۔",গুজৰাটৰ ভাৰুচৰ আমোদত ৮০০০ কোটিৰো অধিক টকাৰ এলানি প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰাৰ লগতে কেইটামান প্ৰকল্প ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A2%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%88%D8%B3%D9%B9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9%E0%A7%A6-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AE-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 30 جولائی 2022 کو صبح 10 بجے وگیان بھون میں آل انڈیا ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز کے پہلے اجلاس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی (این اے ایس اے) کے ذریعہ وگیان بھون میں 30-31 جولائی 2022 کو ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز (ڈی ایل ایس ایز) کا پہلا قومی سطح کا اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں ایک مربوط طریقہ کار کی تشکیل پر غور کیا جائے گا تاکہ ڈی ایل ایس ایز میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ ملک میں کل 676 ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز (ڈی ایل ایس ایز) ہیں۔ ان کی سربراہی ڈسٹرکٹ جج کرتے ہیں جو اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ڈی ایل ایس ایز اور لیگل اسٹیٹ اتھارٹیز (ایس ایل ایس ایز) کے ذریعے، این اے ایل ایس اے کی طرف سے مختلف قانونی امداد اور بیداری کے پروگرام نافذ کیے جاتے ہیں۔ ڈی ایل ایس ایز این اے ایل ایس اے کی طرف سے منعقد لوک عدالتوں کو ریگولیٹ کرکے عدالتوں پر بوجھ کو کم کرنے میں بھی تعاون پیش کرتے ہیں۔,৩০ জুলাইত প্ৰথম সৰ্বভাৰতীয় জিলা আইন সেৱা প্ৰাধিকৰণৰ বৈঠকৰ উদ্বোধনী অধিৱেশনত ভাষণ আগবঢ়াব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%82%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئیدہلی09نومبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ہندوستان اور مراقش کے درمیان حوالگی کے معاہدے پر دستخط کئے جانے اور اس معاہدے کی توثیق کئے جانے کی منظوری دے دی گئی ۔ اس معاہدے پر مراقش کی اہم قائد شخصیت کے مجوزہ سفر ہند کے دوران کئے جائیں گے ۔مراقش کے قائد اعلیٰ کا دورہ ہند 11 سے 18 نومبر 2018 تک جاری رہے گا۔ فوائد : یہ معاہدہ سنگین معاشی ودہشت گرد اوردیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والے فرار مجرموں کی حوالگی کے لئے ایک مضبوط قانونی بنیاد فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کی روسے ایک ٹھیکیدار ملک میں جرم کا ارتکاب کرکے دوسرے ٹھیکیدار ملک میں پناہ لینے والے مجرموں کی حوالگی ممکن ہوسکے گی۔اس کے علاوہ یہ معاہدہ ہندوستان اور مراقش کے قومی مفادات کے خلاف جرم کرنے والے مجرم عناصر پر شکنجہ کسنے سے متعلق باہمی مراسم کو بھی مستحکم بنائے گا۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,ভাৰত আৰু মৰক্কোৰ মাজত প্ৰত্যর্পণ চুক্তি স্বাক্ষৰ আৰু সংশোধনত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%B1%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%87/,"نئی دہلی۔19 نومبر وزیراعظم نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘ سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کو ان کے جنم دن پر خراج عقیدت۔’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح( (19.11.2017, Time: 08:32)",প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী ইন্দিৰা গান্ধীৰ জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D9%86%D8%AF%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9B-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,بھارت ماتا کی – جے بھارت ماتا کی – جے بھارت ماتا کی – جے آج 21ویں صدی کے بھارت کے لیے، اربن کنیکٹیوٹی کے لیے اور خود کفیل بنتے بھارت کے لیے ایک بہت بڑا دن ہے۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے گاندھی نگر –ممبئی، وندے بھارت ایکسپریس کے تیز رفتار سفر کا تجربہ کیا ہے۔ یہ سفر تھا تو کچھ منٹوں کا ہی، لیکن یہ میرے لیے بہت فخر سے بھرے لمحات تھے۔ یہ ملک کی تیسری اور گجرات کی پہلی وندے بھارت ٹرین ہے۔ کالوپور ریلوے اسٹیشن سے کالوپور میٹرو اسٹیشن اور پھر وہاں سے احمد آباد میٹرو کی سواری کرتے ہوئے میں تھل تیج پہنچا۔ یعنی کوئی باہر سے وندے بھارت کے ذریعے آ رہا ہو تو اس کے بعد سیدھے سیدھے میٹرو پر چڑھ کر شہر میں اپنے گھر جا سکتا ہے یا کام کے لیے شہر کے دوسرے حصے میں جا سکتا ہے اور رفتار اتنی تیز کہ جو شیڈول پروگرام بنایا گیا تھا، اس سے 20 منٹ پہلے میں تھل تیج پہنچ گیا۔ میں آج ٹرین میں سفر کر رہا تھا، ڈپارٹمنٹ کے لوگ کئی خوبیاں بتاتے رہتے ہیں، ایڈورٹائزمنٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔ کتنی اسپیڈ ہے، کیا ہے، کیا انتظام ہے سب۔ لیکن اور پہلو جو شاید ڈپارٹمنٹ کی طرف کا دھیان نہیں گیا ہے۔ مجھے وہ اچھا لگا، میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ جو وندے بھارت ٹرین ہے، میں کوئی ریاضی داں نہیں ہوں، کوئی سائنس داں نہیں ہوں۔ لیکن موٹا موٹا میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ہوائی جہاز میں سفر کرتے وقت اندر جتنی آواز آتی ہے۔ وندے بھارت ٹرین میں وہ آواز شاید 100ویں حصے کی ہو جاتی ہے۔ یعنی سو گنا زیادہ آواز ہوائی جہاز میں ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز میں اگر بات چیت کرنی ہے، تو کافی دقت رہتی ہے۔ میں وندے بھارت ٹرین میں دیکھ رہا تھا۔ آرام سے میں لوگوں سے بات چیت کر رہا تھا، کیوں کہ کوئی آواز ہی نہیں تھی باقی۔ اس کا مطلب جو لوگ ہوائی جہاز کے عادی ہیں، ان کو اگر یہ آواز کے بارے میں معلوم ہو جائے گا، میں پکا مانتا ہوں وہ ہوائی جہاز نہیں وندے بھارت ٹرین پسند کریں گے، اور میرے احمد آباد کے باشندے مجھے میرے احمد آباد کو سو سو بار سلام کریں گے۔ نوراتری کا تہوار ہو، رات پوری ڈانڈیا چل رہا ہو، اپنا شہر، اپنا گجرات سویا نہ ہو، ایسے نوراتری کے دنوں میں، ایسی گرمی کے بیچ، اتنا بڑا جم غفیر میں نے پہلی بار دیکھا ہے بھائی۔ میں یہیں بڑا ہوا، ایسا بڑا پروگرام احمد آباد نے کیا ہو، یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ اور اس لیے احمد آباد کے باشندوں کو میرا سو سو سلام۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ احمد آباد کے باشندوں کو میٹرو کیا ہے، اس کی سمجھ ہے۔ میں نے ایک بار میرے اربن ڈیولپمنٹ کے وزیروں سے بات کی تھ��۔ میں نے کہا کہ آپ کو میٹرو، جو کہ پورے ملک میں کرنی چاہیے، ہماری ذمہ داری ہے، لیکن آپ کو احمد آباد کے باشندے زیادہ ریٹرن دیں گے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، کیسے۔ میں نے کہا، ہمارے احمد آبادی حساب لگاتے ہیں کہ آٹو رکشہ میں جاؤں گا تو کتنا ہوگا، کتنا وقت لگے گا، کتنی گرمی لگے گی، اور میٹرو میں جاؤں گا تو اتنا ہوگا، فوراً ہی وہ میٹرو میں آ جائے گا۔ سب سے زیادہ مالی فائدہ کرے گا، وہ احمد آباد کا پیسنجر کرے گا۔ اس لیے تو ہمارے احمد آباد میں ایک زمانے میں، میں احمد آباد کا آٹو رکشہ والا ایسا کرکے گیت گاتے تھے۔ اب میٹرو والا ایسے کہہ کر گیت گائے گا۔ میں واقعی میں آج احمد آباد کو جتنی مبارکباد دوں، جتنا سلام کروں، اتنا کم ہے دوستوں۔ آج احمد آباد نے میرا دل جیت لیا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، 21ویں صدی کے بھارت کو ملک کے شہروں سے نئی رفتار ملنے والی ہے۔ ہمیں بدلتے ہوئے وقت اور بدلتی ہوئی ضرورتوں کے ساتھ اپنے شہروں کو بھی لگاتار جدید بنانا ضروری ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا سسٹم جدید ہو، سیم لیس کنیکٹویٹی ہو، نقل و حمل کا ایک ذریعہ دوسرے کو سپورٹ کرے، یہ کیا جانا بہت ضروری ہے، اور جو گجرات می مودی پر باریک نظر رکھنے والے لوگ ہیں، وہ ویسے ہی ایک اچھی جماعت ہے اور ایک تیز جماعت بھی ہے۔ انہیں دھیان ہوگا، جب میں یہاں کا وزیر اعلیٰ تھا، مجھے سال تو یاد نہیں ہے، بہت برسوں پہلے ہم نے احمد آباد میں ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹیشن کو لے کر ایک گلوبل سمٹ کیا تھا۔ یعنی اس وقت بھی میرے دماغ میں چلتا تھا۔ لیکن کچھ موضوع حکومت ہند کے ہونے کے سبب میں تب نہیں کر پایا۔ اب آپ نے مجھے وہاں بھیجا تو میں نے یہ کر دیا۔ لیکن یہ سوچ آج پوری ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں اور اسی سوچ کے ساتھ گزشتہ آٹھ برسوں میں شہروں کے انفراسٹرکچر پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ آٹھ برسوں میں ایک کے بعد ایک ملک کے دو درجن سے زیادہ شہروں میں میٹرو یا تو شروع ہو چکی ہے یا پھر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ ملک کے درجنوں چھوٹے شہروں کو ایئر کنیکٹویٹی سے جوڑا گیا ہے۔ اڑان یوجنا چھوٹے شہروں میں ہوائی سہولت دینے میں بہت بڑا رول نبھا رہا ہے۔ ہمارے جو ریلوے اسٹیشنز ہوا کرتے تھے، ان کی کیا حالت تھی، یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ آج گاندھی نگر ریلوے اسٹیشن دنیا کے کسی بھی ایئرپورٹ سے کم نہیں ہے اور دو دن پہلے حکومت ہند نے احمد آباد ریلوے اسیٹشن کو بھی جدید بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ ساتھیوں، ملک کے شہروں کی ترقی پر اتنا زیادہ فوکس، اتنی بڑی سرمایہ کاری اس لیے کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ شہر آنے والے پچیس سال میں ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کو یقینی بنانے والے ہیں۔ یہی احمد آباد، سورت، بڑودہ، بھوپال، اندور، جے پور یہی سب ہندوستان کے 25 سال کی قسمت طے کرنے والے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری صرف کنیکٹویٹی تک محدود نہیں ہے، بلکہ درجنوں شہروں میں اسمارٹ سہولیات بن رہی ہیں، بنیادی سہولیات کو بہتر کیا جا رہا ہے۔ مرکزی شہر کے آس پاس کے علاقوں، مضافات کو تیار کیا جا رہا ہے۔ ٹوئن سٹی کی تعمیر کیسے ہوتی ہے، گاندھی نگر، احمد آباد اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ آنے والے وقت میں گجرات میں کئی ٹوئن سٹی کی تعمیر کی بنیاد تیار ہو رہی ہے۔ اب تک ہم صرف نیویارک- نیوجرسی، نیویارک-نیوجرسی ٹوئن سٹی سنتے رہتے تھے۔ میرا ہندوستان پیچھے نہیں رہ سکتا، اور آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں۔ احمد آباد گاندھی نگر کی تعمیر ٹوئن سٹی کا وہ ماڈل، اسی طرح سے ہمارے نزیدک می�� آنند-نڈیاد، اُدھر بھروچ-انکلیشور، ولساڈ اور واپی، سورت اور نوساری، وڈودرا-ہالول کالول، موربی-وانکانیر اور مہسانہ-کڑی ایسے بہت سارے ٹوئن سٹی، گجرات کی پہچان کو اور مضبوط کرنے والے ہیں۔ پرانے شہروں میں اصلاح اور ان کی توسیع پر فوکس کے ساتھ ساتھ ایسے نئے شہروں کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے، جو گلوبل بزنس ڈیمانڈ کے مطابق تیار ہو رہے ہیں۔ گفٹ سٹی بھی اس قسم کے پلگ اینڈ پلے سہولیات والے شہروں کی بہت عمدہ مثال ہیں۔ ساتھیوں، مجھے یاد ہے، جب میں نے گفٹ سٹی کی بات شاید 2005-06 میں کہی تھی۔ اور اس وقت جو میرا وژن تھا، اس کا ایک ویڈیو پریزنٹیشن کیا تھا۔ تو بہت لوگوں کو لگتا تھا کہ یار یہ کیا باتیں کرتے ہیں، کچھ ہمارے ملک میں ہو سکتا ہے۔ ایسا میں نے اس وقت لکھا ہوا پڑھا بھی ہے اور سنا بھی ہے۔ آج گفٹ سٹی آپ کی آنکھوں کے سامنے کھڑا ہو چکا ہے دوستوں، اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو روزگار دینے والا مرکز بن رہا ہے۔ ساتھیوں، ایک وقت تھا، جب احمد آباد میں ٹرانسپورٹ کا مطلب کیا، آپ نے یہاں ٹرانسپورٹ کا مطلب کیا لال بس، لال دروازہ اور لال بس اور گھوم پھر کر رکشہ والا۔ ساتھیوں، جب مجھے گجرات نے اپنی خدمت کا موقع دیا تو میری خوش قسمتی رہی کہ ہم یہاں بی آر ٹی کوریڈور پر کام کر پائے۔ یہ بھی ملک میں پہلا تھا۔ مجھے تو بی آر ٹی بس کے پہلے سفر کا گواہ بننے کی خوش قسمتی بھی حاصل ہوئی تھی، اور مجھے یاد ہے لوگ بیرونی ممالک سے آتے تھے تو اپنی فیملی کو کہتے تھے کہ اس بار جب گجرات جائیں گے تو بی آر ٹی میں سفر کرنا ہے بہت پڑھا ہے، بہت سنا ہے۔ ساتھیوں، تب بھی کوشش یہی تھی کہ عام شہری، عام لوگ اپنی سہولت کیسے بڑھے۔ ان کے لیے سیم لیس کنیکٹویٹی کا فائدہ کیسے ملے۔ اور جمہوریت اور انتظامہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ عام شہریوں کی ضرورتوں کے مطابق اور ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزائم کے ساتھ ترقی کے سفر کو ان دو پٹریوں پر چلانا ہوتا ہے۔ آج اسی خواب کو شاندار طریقے سے ہم سچ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ میں اس موقع پر دل کی گہرائیوں سے آپ سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیوں، آج احمد آباد میٹرو کے تقریباً 32 کلومیٹر سیکشن پر سفر شروع ہوا ہے، اور یہ آپ کو سن کر حیرت ہوگی۔ بھارت میں میٹرو کی شروعات ہوئی، تب سے اب تک یہ پہلی بار ایسا ریکارڈ بنا ہے کہ ایک ہی ساتھ 32 کلومیٹر قریب قریب اس کے سفر کا افتتاح ہوا ہے۔ اس کی اور ایک خاصیت رہی ہے۔ ریلوے لائن کے اوپر سے میٹرو ٹریک کی تعمیر کی مشکل چنوتیوں کے باوجود یہ کام تیزی سے پورا ہوا ہے۔ اس سے میٹرو کے لیے اضافی زمین کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ آج میٹرو کے پہلے فیز کا افتتاح ہوا ہے، وہیں فیز-2 میں گاندھی نگر کو کنیکٹ کیا جا رہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، احمد آباد اور ممبئی کے درمیان شروع ہوئی وندے بھارت ٹرین ملک کے دو بڑے شہروں کے درمیان سفر کو آرامدہ بھی بنائے گی اور دوری کو بھی کم کرے گی۔ عام ایکسپریس ٹرین احمد آباد سے ممبئی پہنچنے میں تقریباً سات ساڑھے سات، آٹھ ساڑھے آٹھ گھنٹے لگا دیتی ہے۔ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ شتابدی ٹرین بھی کبھی چھ ساڑھے چھ، سات ساڑھے سات گھنٹے تک وقت لے لیتی ہے۔ لیکن وندے بھارت ٹرین اب زیادہ سے زیادہ ساڑھے 5 گھنٹے میں ہی احمد آباد سے ممبئی پہنچا دے گی۔ دھیرے دھیرے اس میں اور بہتری آنے والی ہے، اور آج جب میں وندے بھارت ٹرین کو بنانے والے، چنئی میں بن رہی تھی۔ اس کے بنانے والے سارے انجینئرز، وائرمین، ��ٹر، الیکٹریشئن، ان سب کو ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، بولے صاحب آپ ہمیں کام دیجئے، ہم اس سے بھی اچھا بنائیں گے، اس سے بھی تیز بنائیں گے اور جلدی سے بنائیں گے۔ میرے ملک کے انجینئرز، ٹیکنیشئنز ان کی یہ خود اعتمادی، ان کا یہ بھروسہ مجھے اس بات پر یقین سے کہنے کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ ملک اس سے بھی تیز رفتار سے بڑھنے والا ہے۔ یہی نہیں، باقی ٹرینوں کے مقابلے اس میں زیادہ مسافر سفر کر پائیں گے۔ میں ایک بار کاشی کے اسٹیشن پر پوچھ رہا تھا۔ میں نے کہا بھئی وندے بھارت ٹرین کا کیا ایکسپرئنس ہے۔ بولے سب سے زیادہ ٹکٹ وندے بھارت کی جا رہی ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے ممکن ہے؟ بولے صاحب غریب لوگ اس میں جانا پسند کرتے ہیں، مزدور لوگ جانا پسند کرتے ہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ بولے صاحب ان کی دو لاجک ہے۔ ایک لگیج کافی اندر جگہ ہے لے جانے کے لیے۔ اور دوسرا، اتنا جلدی پہنچ جاتے ہیں کہ جا کر کام کرتے ہیں تو اتنے گھنٹے میں ٹکٹ کا جو پیسہ ہے، وہ بھی نکل جاتا ہے۔ یہ وندے بھارت کی طاقت ہے۔ ساتھیوں، آج اس موقع پر میں آپ لوگوں کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ڈبل انجن کی سرکار کا فائدہ کیسے احمد آباد پروجیکٹ کو ملا۔ جب بوٹاد ریل لائن کا اوورہیڈ اسپیس میٹرو پروجیکٹ کے لیے استعمال کرنے کی بات آئی، تو مرکزی حکومت نے فوراً اس کی منظوری دے دی۔ اس سے واسنا-اولڈ ہائی کورٹ روٹ کی میٹرو کا کام بھی فوراً ہی شروع ہونا ممکن ہو سکا۔ احمد آباد میٹرو پر جب میٹرو پر کام کرنا ہم نے شروع کیا تو روٹ ایسا پلان کیا گیا جس سے غریب سے غریب کو بھی فائدہ ہو۔ یہ دھیان رکھا گیا کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، جہاں تنگ سڑکیں پار کرنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہو، وہاں سے میٹرو گزرے۔ احمد آباد ملٹی ماڈل کنیکٹویٹی کا ہب بنے، اس کا پورا دھیان رکھا گیا۔ کالوپور میں آج ملٹی ماڈل ہب بنایا جا رہا ہے۔ یہاں بی آر ٹی اسٹیشن کے سامنے ہی اور گراؤنڈ فلور میں سٹی بسیں کھڑی ہوں گی،ٹیکسی اور پرائیویٹ کار کے لیے اپر فلور میں سہولت رہے گی۔ سرس پور اینٹری کی طرف نیا میٹرو اسٹیشن ہے اور ہائی اسپیڈ ریڈ اسٹیشنوں کو بھی ڈراپ اور پک اپ، پارکنگ جیسی سہولیات سے جوڑا جا رہا ہے۔ کالوپور روڈ اوور برج کو سرس پور روڈ اوور برج سے جوڑنے کے لیے اسیٹشن کے سامنے 13 لین کی روڈ بنائی جائے گی۔ کالوپور کے علاوہ سابرمتی بلیٹ ٹرین اسٹیشن کو بھی ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ ہب کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، شہروں کے ہمارے غریب، ہمارے متوسط طبقہ کے خاندان، مڈل کلاس کے ساتھیوں کو دھوئیں والی بسوں سے نجات ملے، اس کے لیے الیکٹرک بسوں کی تعمیر اور آپریشن کے لیے حکومت ہند نے فیم یوجنا بنائی ہے۔ فیم یوجنا شروع کی ہے، تاکہ ماحولیات کی بھی حفاظت ہو، لوگوں کو آواز سے بھی چھٹکارہ ملے، دھوئیں سے بھی چھٹکارہ ملے اور رفتار تیز ملے۔ اس اسکیم کے تحت ابھی تک ملک میں 7 ہزار سے زیادہ الیکٹرک بسوں کو منظوری دی جا چکی ہے۔ ان بسوں پر مرکزی حکومت تقریباً ساڑھے 3 ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ گجرات کے لیے بھی ابھی تک ساڑھے 8 سو الیکٹرک بسیں منظوری کی جا چکی ہیں، جن میں سے متعدد بسیں آج یہاں سڑکوں پر اتر بھی چکی ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں، لمبے عرصے تک ہمارے یہاں شہروں کو جام سے آزاد کرنے، ہماری ٹرینوں کی رفتار بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ لیکن آج کا بھارت اسپیڈ کو، رفتار کو، ضروری مانتا ہے، تیز ترقی کی گارنٹی مانتا ہے۔ رفتار کو لے کر یہ اپیل آج ��تی شکتی نیشنل ماسٹر پلان میں بھی دکھائی دیتی ہے، نیشنل لاجسٹک پالیسی میں بھی نظر آتی ہے، اور ہماری ریلوے کی رفتار کو بڑھانے کی مہم میں بھی واضح ہوتی ہے۔ آج ملک کا ریل نیٹ ورک، آج میڈ ان انڈیا، وندے بھارت ٹرین کو چلانے کے لیے تیزی سی تیار ہو رہا ہے۔ 180 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار پکڑنے والی یہ ٹرینیں ہندوستانی ریلوے کی تصویر بھی بدلیں گی، سمت بھی بدلیں گی، یہ میرا پورا یقین ہے۔ اگلے سال اگست مہینہ تک 75 وندے بھارت ایکسپریس ٹرینیں چلانے کے ہدف پر ہم تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی وندے بھارت ٹرین کی خوبی یہ ہے کہ یہ محض 52 سیکنڈ میں 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ ابھی جب چیتا آیا نا، تو زیادہ تر میڈیا میں اس کی چرچہ تھی کہ چیتا دوڑنے کی رفتار کتنے سیکنڈ میں پکڑ لیتا ہے۔ 52 سیکنڈ میں یہ ٹرین رفتار پکڑ لیتی ہے۔ ساتھیوں، آج ملک کے ریل نیٹ ورک کا بہت بڑا حصہ بغیر انسان والے پھاٹکوں سے آزاد ہو چکا ہے۔ ایسٹرن اور ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور جب تیار ہو جائے گا تو مال گاڑی کی اسپیڈ بھی بڑھے گی اور پیسنجر ٹرینوں میں ہونے والی دیری بھی کم ہوگی۔ اور ساتھیوں جب جب مال گاڑیوں کی اسپیڈ بڑھے گی تو گجرات کی جو بندرگاہ ہیں نا، پورٹس ہیں نا ہمارے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ تیزی سے کام کرنا شروع کریں گی۔ ہندوستان دنیا بھر میں پہنچنے لگ جائے گا۔ ہمارا مال ایکسپورٹ ہونے لگ جائے گا اور بیرون ملک سے جو سامان آتا ہے وہ بھی بہت تیزی سے ہمیں آگے لے جائے گا۔ کیوں کہ گجرات جغرافیائی طور پر شمالی ہندوستان کے بالکل قریب ہے۔ لینڈ لاک ایریا سے قریب ہے۔ اس لیے گجرات کے سمندری ساحل کو سب سے زیادہ فائدے کا امکان ہے۔ پورے سوراشٹر اور کچھّ کو بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ ساتھیوں، اسپیڈ کے ساتھ ساتھ آج انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کو لے کر سوچ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں ہم نے انفراسٹرکچر کو عوامی توقعات سے جوڑا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا، جب انفراسٹرکچر کو لے کر اعلان صرف انتخابی نفع نقصان کو دھیان میں رکھ کر ہوتا تھا۔ ٹیکس پیئر کی کمائی کا استعمال سیاسی مفادات کے لیے ہی کیا جاتا تھا۔ ڈبل انجن کی سرکار نے اس سوچ کو بدلا ہے۔ پائیدار ترقی کی بنیاد مضبوط اور دوراندیش سوچ کے ساتھ بنا ہوا انفراسٹرکچر ہوتا ہے۔ آج اس سوچ کے ساتھ بھارت کام کر رہا ہے، بھارت دنیا میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ساتھیوں، آزادی کے امرت کال میں ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کو ہمیں اور رفتار دینی ہوگی۔ گجرات میں ڈبل انجن کی سرکار اس کے لیے سنجیدگی سے کوشش بھی کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سب کی کوشش سے یہ کام ہم جس وقت چاہتے ہیں، اس وقت تک ہم زمین پر اتار کر رہیں گے، یہ میں بھروسہ دلاتا ہوں۔ ساتھیوں، آج کا دن اہم ہے۔ لیکن میں آج گجرات کے لوگوں سے ایک اور کام کے لیے درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے ابھی دو چار دن میں جب میٹرو سب کے لیے کھولی جائے گی، تو جلدی جانا، دیکھنا، بہت لوگ جائیں گے۔ لیکن میں چاہتا ہوں ہمارے نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں کے بچے، ہماری انجینئرنگ کے اسٹوڈنس، ریلوے سے اربن منسٹری سے بات کرکے، میٹرو والوں سے بات کرکے جا کر کے مطالعہ کریں کہ اتنی گہری کھدائی کرکے یہ ریلوے اسٹیشن کیسے بنے ہوں گے؟ کتنا خرچ کرنا پڑا ہوگا؟ یہ پیسہ کس کا ہے؟ ملک کے ہم شہریوں کا ہے۔ ایک بار ہم یہ تعلیم دیتے رہیں گے کہ یہ کام کیسے ہوا ہے؟ کتنا بڑا ہوا ہے؟ کتنے وقت میں ہوا ہے؟ کس کس قسم کی ٹیکنالوجی لگی ہے؟ تو ہمارے بچوں کی ترقی کے لیے بھی کام آئے گا اور اس لیے میری اپیل رہے گی محکمہ تعلیم سے کہ میٹرو اسٹیشنوں کی ملاقات صرف میٹرو ٹرین میں سفر کرنے کے لیے نہیں، ان کو دکھایا جائے کہ یہ کیسے بنا ہے؟ کیسے چلتا ہے؟ کیا کام کرتا ہے؟ اتنا نیچے ٹنل کیسے بنا ہوگا؟ اتنا لمبا لمبا ٹنل کیسے بنا ہوگا؟ ان کو ایک اعتماد پیدا ہوگا کہ ٹیکنالوجی سے ملک میں کیا ترقی ہو رہی ہے اور ان کی آنرشپ بنے گی۔ جب آپ میرے ملک کی نئی نسل کو یہ تمہارا ہے، یہ تمہارے مستقبل کے لیے ہے، جب ایک بار میرے نوجوان کو اس بات کا احساس ہوگا وہ کبھی بھی کسی آندولن میں ایسی پراپرٹی پر ہاتھ لگانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس کو اتنا ہی درد ہوگا، جتنا اس کے اپنے گھر کی پراپرٹی کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کی سائیکل کو اگر تھوڑا نقصان ہوتا ہے تو جو درد ہوتا ہے وہ درد اس کو میٹرو کو نقصان ہونے سے ہونے والا ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہم ہماری نئی نسل کو تعلیم دیں۔ ان کے احساسات کو جگائیں، وندے بھارت کہنے ہی ماں بھارتی کا خاکہ من کے اندر آنا چاہیے۔ میری بھارت ماں کے روشن مستقبل کے لیے یہ وندے بھارت دوڑ رہی ہے، جو وندے بھارت ملک کو دوڑانے والی ہے۔ یہ مزاج، یہ حساسیت، یہ تعلیم کے نئے نئے ذرائع کیوں کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں التزام ہے کہ آپ بچوں کو اُن جگہوں پر لے جا کر کے ان دکھائیے، اگر گھر میں مٹکا ہے تو اس کو بتائیے کمہار کے گھر لے جا کر کہ وہ مٹکا کیسے بنتا ہے۔ اسے یہ میٹرو اسٹیشن بھی دکھانا چاہیے۔ میٹرو کے سارے انتظامات سمجھانا چاہیے۔ آپ دیکھئے ان بچوں کے ذہن پر وہ نقش بنے گا، اس کو بھی کبھی لگے گا، میں بھی انجینئر بن جاؤں، میں بھی میرے ملک کے لیے کوئی کام کروں۔ ایسے خواب ان کے اندر بوئے جا سکتے ہیں دوستوں۔ اس لیے میٹرو صرف سفر کے لیے نہیں، میٹرو کامیابی کے لیے بھی کام آنی چاہیے۔ اسی ایک امید کے ساتھ میں پھر ایک بار آج احمد آباد کے باشندوں کو، گجرات کے لوگوں کو اور ملک کے لوگوں کو یہ بہت بڑی سوغات دیتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں، اطمینان محسوس کرتا ہوں اور آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے ساتھ پورے ہاتھ اوپر کرکے پوری طاقت سے بولئے، بھارت ماتا کی – جے، بھارت ماتا کی – جے، بھارت ماتا کی – جے، بہت بہت شکریہ!,বন্দে ভাৰত এক্সপ্ৰেছ আৰু আহমেদাবাদ মেট্ৰো ৰে’ল প্ৰকল্প পৰ্যায়-১ৰ উদ্বোধনত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B2-%D8%A7%D9%93%D9%81-%DA%88%D9%88%D8%A6%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D8%B2%D9%86%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8D/,نئیدہلی14 دسمبر۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی ،جس میں ،’’ ایز آف ڈوئنگ بزنس ‘‘ میں بہتری پیدا کئے جانے کا جائزہ لیا گیا ۔اس اجلاس میں معاشی امور سے متعلق سینئر مرکزی وزرا ، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس ، دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب انل بیجل اور مرکزی ، مہاراشٹراوردلی کی سرکاروں کے سینئر افسران نے شرکت کی ۔ اس میٹنگ میں وزیراعظم کو ایز آف ڈوئنگ بزنس سے متعلق مختلف خطوط اور معیارات میں پیدا کی جانے والی بہتری کے بارے میں بتایا گیا اور تعمیراتی پرمٹ ، ٹھیکوں کی عمل آوری ، املاک اور اثاثہ جاتی کا اندراج ، نئے کاروبار کا آغاز ، بجلی کے حصول ،قرض کے حصول اور قرض سے متعلق مسائل کا جائزہ لیا گیا ۔ عالمی بینک کی ،’’ ڈوئنگ بزنس ‘‘ کی درجہ بندی میں ہندوستان پچھلے چار برسوں کے دوران 142 ویں مقام سے اٹھ کر 77 ویں مقامات پر پہنچ گیا ہے ۔ اس موقع پر کاروباری اصلاحات کی عمل آوری میں پیش آنے والی دشواریو ں او ر خامیوں کا پتہ لگانے کے اقدامات کی بھی صراحت پیش کی گئی ۔ اجلاس میں وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آخری حد پر خدمات کی فراہمی میں بہتری پر توجہ مرکو زکی جانی چاہئے اور ایسے طریقہ عمل کو مرکزی دھانے میں شامل کیا جانا چاہئے جس سے نہ صرف یہ کہ ’’ ڈوئنگ بزنس‘‘ کی درجہ بندی میں بہتری پیدا ہوسکے گی بلکہ چھوٹے کاروباریوں اور عام آدمی کو ’’ایز آف لیونگ‘‘ کی آسانی بھی میسر آسکے گی ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰,সুচল ব্যৱসায়ৰ উন্নতিৰ ক্ষেত্ৰত গ্ৰহণ কৰা বিভিন্ন পদক্ষেপৰ পৰ্যালোচনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D8%AD%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اترپردیش حکومت کے وزیروں کے کونسل کے ساتھ بات چیت کی ۔ ا نہوں نے اچھی حکمرانی اور شہریوں کی زندگی مزید آسان بنانے سے متعلق امور پر وسیع تر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا: ’’انہوں نے اترپردیش حکومت کے وزیرو ں کی کونسل کے سا تھ تفصیل سے گفتگو کی، ہم نے ا چھی حکمرانی اور شہریوں کی زندگی کو مزید آسان بنانے سے متعلق موضوعات پر وسیع تر تبادلہ خیال کیا۔,উত্তৰ প্ৰদেশ চৰকাৰৰ মন্ত্ৰী পৰিষদৰ সৈতে মত বিনিময় প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C-%DA%AF%D9%88%D9%BE%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF-%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A6%AA%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A5%E0%A6%A8-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%8B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گاندھیائی نظریات کے حامل اور مجاہد آزادی جناب پی. گوپی ناتھ نائر کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ وزیرا عظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’جناب پی. گوپی ناتھ نائر کوبھارت کی جدو جہد آزادی میں ان کے تعاون اور گاندھیائی اصولوں کے تئیں غیر متزلزل لگن کے لئے یاد کیا جائے گا۔ان کے انتقال سے غمزدہ ہوں ۔میری ہمدردیاں ان کے خاندان اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہے۔اوم شانتی‘‘,পি. গোপীনাথন নায়াৰৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%B4%DB%8C-%D8%A7%D9%8F%D9%86%D9%91%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%BF/,کرشی کرمن ایوارڈ اورپنڈت دین دیال اپادھیائے کرشی وگیا ن پروتساہن پرسکار تقسیم کریں گے نئیدہلی ، 16 مارچ ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی 17 مارچ کو راجدھانی دلی کے انڈین ایگری کلچر ل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آئی اے آر آئی پوسہ کیمپس میں اہتمام کئے جانے والے ،’’ کرشی انتی میلے سے خطاب کریں گے ۔اس موقع پر وزیر اعظم کسانوں سے خطاب کے ساتھ ساتھ نامیاتی کاشتکاری پر ایک پورٹل کا آغاز کریں گے اور 25 کرشی وگیان کیندروں کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم اس موقع پر ،’’ کرشی کرمن ایوارڈ ‘‘اور ’’پنڈت دین دیال اپا دھیائے کرشی وگیان پروتساہن ایوارڈ س ‘‘ تقسیم کریں گے ۔ اس سال اس میلے کا مرکزی خیال ،2020 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنا ہے ۔ یادرہے کہ کرشی انتی میلے کے انعقاد کا مقصد کسانوں اور دیگر طبقو ں کو زراعت اوراس سے متعلق دیگر شعبوں میں ہونے والی جدید ترین ترقیات سے واقف کرانا ہے ۔ میلے کی افتتاحی تقریب میں کسانو ں کی آمدنی دوگنی کئے جانے کے مرکز ی خیال پر مبنی ، تھیم پویلین ، مائیکرو اریگیشن کا موقع پر مظاہرہ اور بے کار پانی کا استعمال ، مویشی پروری اورماہی پروری جیسے متعدد شعبوں کے پویلین اس میلے کی خصوصی کشش رہیں گے ۔علاوہ ازیں بیج،فرٹیلائزر اور پیسٹیسائڈس کے امور پر بھی پویلین اس میلے میں ہوں گے۔ م ن ۔س ش۔رم,১৭ মাৰ্চত আইএআৰআইত ‘কৃষি উন্নতি মেলা’ত কৃষকসকলক উদ্দেশ্যি ভাষণ আগবঢ়াব প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%8C%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مولانا آزاد کو ان کی یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے تحریک آزادی میں ان کے تعاون اور تعلیم کے تئیں ان کے جذبہ کو بھی یاد کیا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ‘‘مولانا آزاد کو ان کے یوم پیدائش پر یاد کرتے ہوئے۔ وہ اپنی علمی فطرت اور فکری صلاحیتوں کے لیے بڑے پیمانے پر سراہے جاتے ہیں۔ وہ ہماری تحریک آزادی میں سب سے آگے رہے، دیگر سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ انہیں تعلیم سے بھی جذباتی لگاؤ تھا۔’’,মৌলানা আজাদৰ জন্ম বাৰ্ষিকীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাৰ্ঘ্ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B4%D9%86-%DA%AF%D9%86%DA%AF%D8%A7-%D9%BE%D9%86-%D8%A8%D8%AC%D9%84%DB%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%83/,نئیدہلی۔19مئی، 2018؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج سری نگر میں ایک تقریب میں کشن گنگا پن بجلی مراکز کو قوم کے نام وقف کیا۔ انہوں نے سری نگر رنگ روڈ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے گذشتہ چار سالوں کے دوران ان متعدد مواقع کو یاد کیا جب انہوں نے جموں و کشمیر ریاست کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ پیغمبر محمد ﷺ کے تعلیمات اور پیغامات کو یاد کرنے کا وقت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 330 میگا واٹ کا کشن گنگا پن بجلی منصوبہ ریاست کی بجلی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔ انہوں نے ریاست کے تینوں خطے – کشمیری، جموں اور لداخ کی متوازن ترقی کی ضرورت پر زور دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,শ্ৰীনগৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীঃ দেশবাসীৰ নামত উচৰ্গা কিষাণগঞ্জ জলবিদ্যুৎ প্ৰ���ল্প +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DB%92-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D8%B3%D8%8C-%D9%85%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A6%DB%8C%D8%8C-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B/,میناکشی-سندریشورا مندر کے لئے مشہور مدورئی اور ایک ایسے مقام پر آکر مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے جس کانام بھگوان شیو کے مبارک آشیرواد کا مرہون منت ہے۔ ملک نے کل یوم جمہوریہ کا جشن منایا ہے۔ چند زاویوں سے آج مدورئی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنز کا سنگ بنیاد رکھے جانے سے ’’ایک بھارت سریش بھارت‘‘ کے ہمارے نظریئے کا اظہار ہوتا ہے۔ دوستو! ہم سب جانتے ہیں کہ دہلی کے اے آئی آئی ایم ایس نے حفظان صحت کے شعبے میں اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم کی ہے۔ مدروئی میں اے آئی آئی ایم ایس کے قیام سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حفظان صحت کا یہ برانڈ ملک کے گوشے گوشے میں یعنی کنیا کماری سے کشمیر تک اور کشمیر سے مدورئی تک نیز گوہاٹی سے گجرات تک پہنچادیا گیا ہے۔ مدروئی کا اے آئی آئی ایم ایس 16 سو کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے تعمیر ہوگا اور اس سے تمل ناڈو کی پوری آبادی مستفید ہوگی۔ دوستو! این ڈی اے کی حکومت حفظان صحت کے شعبے کو اعلیٰ ترجیح دے رہی ہے تاکہ ہر کوئی صحت مند رہے اور حفظان صحت کے اخراجات واجبی حدود کے اندر رہیں۔ پردھان منتری سواستھ سرکشا یوجنا کے تحت ہم نے ملک بھر میں سرکاری میڈیکل کالجوں کی تازہ کاری میں امداد فراہم کی ہے۔ آج مجھے خوشی ہے کہ میں تنجور اور ترونیلویلی میڈیکل کالج مدورئی کے سپر اسپیشلٹی بلاکوں کا افتتاح کررہا ہوں۔ جس رفتار اور جس پیمانے پر مشن اندردھنش کام کررہا ہے اور تدارکی حفظان صحت کے شعبے میں نئی مثالیں قائم کررہا ہے، پردھان منتری ماترتو وندنا یوجنا اور پردھان منتری سرکشت ماترتو ابھیان محفوظ زچگی عوامی تحریک کی شکل لے رہی ہے۔ انڈر گریجویٹ طبی نششتوں کی تعداد گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران تقریبا 30 فیصد تک بڑھادی گئی ہے۔ آیوشمان بھارت کا آغاز بھی ایک بڑا قدم ہے۔ ہمارے ملک کے لئے آفاقی صحت احاطہ فراہم کرنے کو یقینی بنانے کے لئے بڑی احتیاط سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آیوشمان بھارت کا مقصد صحت سے متعلق موضوعات پر ڈگر سے ہٹ کر دخل اندازیوں کے ذریعے مجموعی شکل میں احاطہ کرنا ہے۔ جامع بنیادی حفظان صحت اور تدارکی صحتی خدمات فراہم کرنے کے لئے ایک اعشاریہ پانچ لاکھ صحت اور چاق وچوبند رکھنے کے مراکز قائم کئے جارہے ہیں۔ پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا فی کنبے کو سالانہ بنیادوں پر، 10 کروڑ ضرورت مند کنبوں کو شامل اسپتال ہونے کی صورت میں پانچ لاکھ روپے تک کا مالی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی صحتی بیمہ اسکیم ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ریاست تمل ناڈو کے ایک کروڑ 57 لاکھ افراد پر اس اسکیم کے تحت احاطہ کیا گیا ہے۔ تین مہینوں کے دوران تقریبا 89 ہزار استفادہ کنندگان کو شامل اسپتال کیا گیا اور 200 کروڑ روپے سے زائد کی رقم تمل ناڈو کے شامل اسپتال مریضوں کے لئے فراہم کی گئی ہے۔ مجھے یہ جان کربھی مسرت ہوئی ہے کہ تمل ناڈو نے پہلے ہی ایک ہزار 320 صحت اور چاق وچوبند رکھنے کے مراکز شروع کر رکھے ہیں۔ امراض کی روک تھام کے محاذ پر ہم ریاستوں کو تکنیکی اور مالی امداد فراہم کررہے ہیں۔ ہماری حکومت نے 2025 تک تپ دق کو کلی طور پر ختم کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ریاستی حکومت ٹی بی سے مبرا چنئی اقدام کو فروغ دے رہی ہے اور ریاست میں 2023 تک ٹی بی کے کلی خاتمے کے لئے کوشاں ہے ۔ میں نظر ثانی شدہ قومی ٹی بی کنٹرول پروگرام کے تمام پہلوؤں کے نفاذ کے لئے ریاست کی عہد بندگی کی ستائش کرتا ہوں۔ میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ حکومت ہند ان تمام امراض سے نمٹنے کے سلسلے میں کی جارہی کوششوں کے لئے ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لئے پابند عہد ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ تمل ناڈو میں 12 ڈاک گھر پاسپورٹ سیوا کیندروں کو وقف کیا گیا ہے۔ ہمارے شہریوں کے لئے زندگی بسر کرنے کو آسان بنانے کے تئیں یہ بھی ایک مثال ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ میری حکومت آفاقی صحت احاطہ فراہم کرنے کی غرض سے حفظان صحت سے متعلق پہل قدمیوں کو مستحکم بنانے کے لئے پابند عہد ہے۔ جے ہند! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (م ن-وا- ق ر),তামিলনাডুৰ মাডুৰাইত এইমছৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনু্ষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-8-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D9%88%D8%B4%D8%A7%D8%B3%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%96%E0%A6%AF/,وزیر اعظم، جناب نریندر مودی نے گزشتہ 8 سالوں کے دوران ملک کی حکمرانی میں کے سلسلے میں کی جانے والی اصلاحات اور مختلف اقدامات کے بارے میں اپنی ویب سائٹ (narendramodi.in) اور MyGov سے مضامین اور ٹویٹ تھریڈ شیئر کئے ہیں۔ ان مضامین اور ٹویٹ تھریڈ کا تعلق آتم نربھر بھارت ، حکمرانی کا عوام پر مرکوز اور انسانیت پر مبنی نقطہ نظر، دفاعی شعبے میں اصلاحات اور غریبوں کی حمایت کرنے والی حکمرانی کو فروغ دینے کی کوششوں کے پہلوؤں کے بارے میں ہیں۔ ٹویٹس کی ایک سلسلے میں، وزیر اعظم نے کہا: بھارت کے 130 کروڑلوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھارت کو اتم نربھر بنائیں گے۔ خود کفیلی پر ہمارے زور کو عالمی خوشحالی میں تعاون کرنے کے وژن سے تحریک ملی ہے۔ #8YearsOfSushasan‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,‘সুশাসনৰ ৮ বছৰ’ ৰ উল্লেখযোগ্য দিশসমূহ শ্বেয়াৰ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%A9%DA%86%DA%BE-%D9%85%D8%B9%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%85%D9%84%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A7%B0-%E0%A6%96%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9C-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,مرکز ی کابینہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں وزارت خزانہ کی اس تجویز کو منظوری دے دی ہے ،جس کے تحت کانوں اور معدنیات (ترقیات او رضابطہ بندی ) ایکٹ 1957 ( جسے بعدازاں دی ایکٹ کہا جائے گا)پوٹاشیم آئرن سلی کیٹ جو سمندر کی تہہ میں کیچڑ میں پایا جاتا ہے ، پوٹاش ، زمرد ، پلیٹینم گروپ کی معدنیات ( پی جی ایم ) کئی رنگوں میں پایا جانے والے معدنیات ، ایک معدن جس میں ایلومونیم کا سلیکٹ ہوتا ہے اور چاندی جیسی سفید دھات کی رائلٹی کے معاملے میں شرحوں کی تخصیص عمل میں لائی جانی ہے۔ پوٹاشیم آئرن سلی کیٹ جو سمندر کی تہہ میں کیچڑ میں پایا جاتا ہے ، پوٹاش ، زمرد ، پلیٹینم گروپ کی معدنیات ( پی جی ایم ) کئی رنگوں میں پایا جانے والے معدنیات ، ایک معدن جس میں ایلومونیم کا سلیکٹ ہوتا ہے اور چاندی جیسی سفید دھات کے معاملے میں منظور ی سے معدنیات کے بلاکس کی نیلامی کو یقینی بنائے گا جس سے ان معدنیات کی درآمد کم ہوسکے گی اور کانوں کے سیکٹر کے ساتھ ساتھ مینوفیکچر سیکٹر کو بااختیار بنایا جاسکے گا۔جس سے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی جامع ترقی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ کئی رنگوں میں پایا جانے والے معدنیات ، ایک معدن جس میں ایلومونیم کا سلیکٹ ہوتا ہے اور کلومینو سلیکٹ ، جو کثیر الاشکال معدنیات ہیں ، کو ایک ہی سطح پر برقرار رکھا گیا ہے۔ اس منظوری سے ملک کی معیشت کے لئے کئی اہم معدنیات کے معاملے میں ان کے متبادل درآمد کی راہ ہموار ہوگی۔جس سے قیمتی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بچائے جاسکیں گے ۔ یہ معدنیات کی مقامی پیداوار کے ذریعہ ملک کے غیر ملکی انحصار کو کم کرے گا۔اس منظوری سے ملک میں پہلی مرتبہ پوٹاشیم آئرن سلی کیٹ جو سمندر کی تہہ میں کیچڑ میں پایا جاتا ہے ، پوٹاش ، زمرد ، پلیٹینم گروپ کی معدنیات ( پی جی ایم ) کئی رنگوں میں پایا جانے والے معدنیات ، ایک معدن جس میں ایلومونیم کا سلیکٹ ہوتا ہے اور چاندی جیسی سفید دھات کے معاملے میں معدنیات کے بلاکس کی نیلامی کو یقینی بنائے گا۔ اس قانون میں 2015 میں ترمیم کی گئی تھی تاکہ نیلامی کے ذریعہ معدنیات میں رعایتیں دینے کے ایک نئے نظام کو شروع کیا جاسکے جس سے ملک کی معدنیات کی دولت کی تخصیص میں شفافیت اور عدم امتیاز کو یقینی بنایا جاسکے ۔ معدنیات کے شعبے کو مزید جہت دینے کے لئے اس قانون میں 2021 میں مزید ترمیم کی گئی تھی ۔ اصلاحات کے تحت حکومت نے کانوں کے بلاکو ں کی نیلامی ، پیداوار بڑھانے ، ملک میں کاروبار کرنے کو آسان بنانے کو بہتر بنانے کو تقویت دی ہے اور مجموعی گھریلو پیداوار کے لئے کانوں کی پیداوار کا تعاون بڑھارہی ہے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی جانب سے دئے گئے آتم نربھر بھارت کے وژن کے ذریعہ کانوں کی وزارت نے ملک میں معدنیات کی تلاش کو بڑھانے کے لئے بہت سے اقدامات بھی کئے ہیں جس سے نیلامی کے لئے زیادہ بلاکوں کی دستیابی کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔روایتی معدنیات مثلاََ َ خام لوہا، باکسائٹ، چونا کے لئے نہ صرف تلاش کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بہت نیچے علاقوں میں پائی جانے والی معدنیات ، کھاد منرلس ، اہم معدنیات اور دیگر معدنیات کے لئے بھی تلاش کی سرگرمیاں بڑھی ہیں جو درآمد کی جاتی ہیں۔ گزشتہ چار پانچ سال میں جیولوجیکل سروے آف انڈیا اور منرل ایکسپلوریشن کارپوریشن لمٹیڈ جیسی سینٹرل ایجنسیوں نے تلاش کا کام انجام دیا ہے اور معدنیات کے بہت سے بلاکوں کے بارے میں رپورٹیں ریاستی سرکاروں کے حوالے کردی ہیں ۔ معدنیات میں خودکفالت حاصل کرنے کے یاک بڑے مقصدکے تحت ریاستی سرکاروں نے نیلامی کے لئے اس طرح کے معدنیاتی بلاکوں کی نشاندہی کی ہے۔ البتہ ان کانوں کے لئے رائلٹی کی شرح الگ الگ طور پرفراہم نہیں کی گئی ہے اور یہ ان معدنیات کی کانکنی کے لئے جہت دینے کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ وزارت نے نیلامی میں بہتر شرکت کی حوصلہ افزائی کے لئے رائلٹی کی مناسب شرحیں تجویز کی ہیں جسے وزیراعظم کی قیادت میں مرکزی کابینہ کی طرف سے منظوری دے دی گئی ہے۔ ریاستی سرکاروں اور مختلف وزارتوں / مرکزی حکومت کے محکمے ساتھ زبردست صلاح مشورے کے بعد ان شرحوں کو طے کیا گیا ہے۔کانوں کی وزارت ان معدنیات کے بلاکو ں کی نیلامی کے لئے درکار ان معدنیات کی اوسطا ََ فروخت قیمت ( اے ایس پی ) کی کلکولیشن کے لئے طریقہ کار بھی فراہم کرے گی۔ ریاستی سرکار وں کے سرگر�� تعاون سے ملک میں 145 سے زیادہ معدنیاتی بلاکس کی کامیابی کے ساتھ نیلامی کی گئی ہے ۔سال 2021 میں کی گئی اصلاحات کے ذریعہ دی گئی مزید جہت کےساتھ مالی سال 22-2021 میں نیلامی کے لئے 146 بلاکوں کو پیش کیا گیا ان میں سے 34 بلاک مالی سال میں کامیابی کے ساتھ نیلام کئے گئے ۔ قو می مفاد میں ان معدنیات کی ملک کے اندر ہی کانکنی کی حوصلہ افزائی سے پوٹاش کھادوں اور دیگر معدنیات کے معاملے میں درآمدات میں کمی کی راہ ہموار ہوگی ۔ کانکنی کی وزارت کی جانب سے کئے گئے اس اقدام سے توقع ہے کہ کانکنی کے سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔اس سے ڈاؤن اسٹریم صنعتوں اور سپورٹ زراعت کے لئے کانکنی معدنیات کی دستیابی میں اضافے کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔,"কেতবোৰ খনিজ পদাৰ্থৰ ক্ষেত্ৰত ৰয়েলিটিৰ হাৰ নিৰ্ধাৰণৰ অৰ্থে খনি আৰু খনিজ (উন্নয়ন আৰু নিয়ন্ত্ৰণ) আইন, ১৯৫৭ ৰ দ্বিতীয় অনুসূচীৰ সংশোধনত অনুমোদন কেবিনেট" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%86%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%86-%DA%AF%D8%B1%D9%88%DA%A9%D9%84-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DA%A9%D9%88%D9%B9-%D8%B3%D9%86%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A3-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%95/,"جے سوامی نارائن! اس مقدس پروگرام کو سمت دے رہے قابل پرستش شری دیوکرشن داس جی سوامی، مہنت شری دیوپرساد داس جی سوامی،قابل پرستش دھرم ولبھ سوامی جی، پروگرام میں موجود تمام معزز سنتوں اور دیگر عظیم شخصیت اور میرے پیارے نوجوان ساتھیوں! آپ سب کو جے سوامی نارائن قابل پرستش شاستری جی مہاراج شری دھرم جیون داس جی سوامی کی تحریک سے، ان کے آشیرواد سے، راجکوٹ گروکل 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ میں آپ سب کو راجکوٹ گروکل کے 75 سال کے اس سفر کے لیے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔بھگوان شری سوامی نارائن، ان کے نام کو یاد کرنے سے ہی ایک نیا شعورپیدا ہوتا ہے اور آج آپ تمام سنتوں کی صحبت میں سوامی نارائن کا نام یاد کرنا خوش قسمتی کا موقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس تاریخی ادارے کا آنے والا مستقبل اور بھی کامیاب ہوگا۔ اس کی خدمات اور بھی حیرت انگیز ہوگی۔ ساتھیوں، شری سوامی نارائن گروکل راجکوٹ کے سفر کے 75 سال ایسے وقت میں مکمل ہو رہا ہے جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے۔ یہ صرف ایک خوش کن اتفاق نہیں ہے، یہ ایک خوش کن موقع بھی ہے۔ بحیثیت قوم آزاد ہندوستان کی زندگی کا سفر ایسے ہی مواقع کی وجہ سے ہے اور ہماری ہزاروں سال کی عظیم روایت بھی ایسے ہی مواقع کی وجہ سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ نیک مواقع ہیں، محنت اور فرض کے لیے نیک مواقع! یہ یہ خوش کن مواقع ہیں، ثقافت اور لگن کے خوش کن مواقع! یہ خوش کن مواقع ہیں ، روحانیت اور جدیدیت کا موقع! جب ملک آزاد ہوا تو ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم تعلیم کے میدان میں ہندوستان کی قدیم شان و شوکت اور اپنے فخر کو زندہ کریں۔ لیکن غلامی کی ذہنیت کے دباؤ میں حکومتیں اس سمت میں نہیں بڑھیں۔ اور کچھ معاملات میں تو الٹے پاؤں چلیں۔ اور ان حالات میں ایک بار پھر ہمارے سنتوں، آچاریوں نے ملک کے تئیں اس فرض کو نبھانے کی بڑی پہل کی۔ سوامی نارائن گروکل اسی موقع کی زندہ مثال ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ہندوستانی اقدار اور نظریات کی بنیاد پر اس تحریک کو ، اس ادارہ کو تعمیر کیا گیا۔ راجکوٹ گروکل کے لیےقابل پرستش دھرم جیون داس جی کا جو وژن تھا، اس میں روحانیت اور جدیدیت سے لے کر ثقافت اور رسومات تک سب کچھ شامل تھا۔ آج اس خیال کا بیج بڑے برگد کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ میں گجرات میں آپ سب کے درمیان ہی رہا ہوں، آپ کے درمیان پلا بڑھا ہوں۔ اور یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے اس برگد کے درخت کو اپنی نظروں سے شکل اختیار کرتے دیکھنے کا موقع ملا۔ بھگوان سوامی نارائن کی ترغیب اس گروکل کی بنیاد میں رہی ہے – ""پرورتنیا سد ودیا بھووی یت سوکریتم مہات""! یعنی در ست تعلیم کی نشر و اشاعت دنیا کا سب سے مقدس اور اہم ترین کام ہے۔ یہی تو علم اور تعلیم کے تئیں ہندوستان کی وہ لازوال لگن ہے جس نے ہماری تہذیب کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کا اثر ہے کہ گروکل ودیا پرتشٹھانم جو کبھی راجکوٹ میں صرف 7 طلبہ سے شروع ہوا تھا، آج اس کی ملک اور بیرون ملک تقریباً 40 شاخیں ہیں۔ یہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلباء آتے ہیں۔ گزشتہ 75 برسوں میں گروکل نے طلبہ کے ذہنوں اور دلوں کو اچھےافکار اور اقدارسےآبیاری کی ہےتاکہ ان کی مجموعی ترقی ہو سکے۔ روحانیت کے میدان میں وقف نوجوانوں سے لے کر اسرو اور بی اے آر سی کے سائنسدانوں تک، گروکل روایت نے ہر شعبے میں ملک کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا ہے۔ اور ہم سب گروکل کی ایک خاصیت جانتے ہیں اور آج کے دور میں یہ سب کو متاثر کرتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں بھی اور آج بھی یہ گروکل ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر غریب طالب علم سے تعلیم کے لیے روزانہ صرف ایک روپیہ وصول کرتا ہے۔ اس سے غریب طلبہ کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا راستہ آسان ہو رہا ہے۔ ساتھیوں، آپ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں زندگی کا سب سے بڑا مقصد علم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس دور میں دنیا کے دوسرے ممالک کی شناخت وہاں کی ریاستوں اور راج کولوں سے ہوتی تھی ، اس وقت ہندوستان کو ، بھارت بھومی کے گروکلوں سے جانا جاتا تھا۔ گروکل کا مطلب ہے، گرو کا خاندان، علم کا خاندان! ہمارے گروکل صدیوں سے مساوات، محبت، یکسانیت اور جذبہ خدمت کے باغ کی طرح رہے ہیں۔ نالندہ اور تکشیلا جیسی یونیورسٹیاں ہندوستان کی اس گروکل روایت کی عالمی شان کے مترادف ہوا کرتی تھیں۔ دریافت اور تحقیق ہندوستان کے طرز زندگی کا حصہ تھے۔ آج ہم ہندوستان کے ہرذرے میں جو تنوع دیکھتے ہیں، جو ثقافتی فراوانی ہم دیکھتے ہیں، یہ انہی تحقیقات اور دریافتوں کے نتائج ہیں۔ آتم تتو سے پرماتما تتو تک، روحانیت سے آیوروید تک، سماجی سائنس سے شمسی سائنس تک، ریاضی سے دھات کاری تک، اور صفر سے انفینٹی تک، ہم نے ہر شعبے میں تحقیق کی، نئے نتائج حاصل کئے۔ ہندوستان نے ان تاریک دور میں انسانیت کو روشنی کی وہ کرنیں دیں جہاں سے جدید دنیا اور جدید سائنس کا سفر شروع ہوا۔ اور ان کامیابیوں کے درمیان، ہمارے گروکلوں کی ایک اور طاقت نے دنیا کے لیے راہ ہموار کی۔ جس دور میں دنیا میں صنفی مساوات جیسے الفاظ نے جنم بھی نہیں لیا تھا، ہمارے یہاں گارگی-میتری جیسی دانشور بحث و مباحثہ کیا کرتی تھیں۔ مہارشی والمیکی کے آشرم میں لو- کش کے ساتھ ساتھ آتریی بھی پڑھ رہی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ سوامی نارائن گروکل اس قدیم روایت کو جدید ہندوستان تک لے جانے کے لیے 'کنیا گروکل' کی شروعات کر رہا ہے۔ 75 سالوں کے امرت مہوتسو میں، آزادی کے امرت دور میں، یہ اس ادارے کی ایک شاندار حصولیابی کامیابی ہو گی، اور ملک کے لیے ایک اہم شراکت بھی ہو گی۔ ساتھیوں، آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے روشن مستقبل میں ہمارے آج کے تعلیم�� نظام اور تعلیمی اداروں کا بڑا رول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے اس سنہری دور میں ہم ہر سطح پر زیادہ تیزی اور تفصیل کے ساتھ کام کر رہے ہیں، خواہ وہ تعلیمی بنیادی ڈھانچہ ہو یا تعلیمی پالیسی۔ آج ملک میں آئی آئی ٹی، ٹرپل آئی ٹی، آئی آئی ایم، ایمس جیسے بڑے تعلیمی اداروں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے اب تک میڈیکل کالجوں کی تعداد میں 65 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ نئی ’قومی تعلیمی پالیسی‘ کے ذریعہ پہلی بار ملک میں ایک ایسا تعلیمی نظام تیار کیا جا رہا ہے جو مستقبل کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ جب نئی نسل بچپن سے ہی بہتر تعلیمی نظام میں پروان چڑھے گی تو ملک کے لیے مثالی شہری پیدا ہونے کا عمل خود بخود آگے بڑھے گا۔ یہ مثالی شہری، مثالی نوجوان ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو 2047 میں پورا کریں گے، جب ملک آزادی کے 100 سال کا جشن منائے گا۔ اور یقینی طور پر اس میں شری سوامی نارائن گروکل جیسے تعلیمی اداروں کی کوششیں بہت اہم ہوں گی۔ ساتھیوں، امرت کال کے اگلے 25 سالوں کے سفر میں آپ سنتوں کا آشیرواد اور آپ سب کی صحبت بہت اہم ہے۔ آج ہندوستان اور ہندوستان کی قراردادیں بھی نئی ہیں، ان قراردادوں کو پورا کرنے کی کوششیں بھی نئی ہیں۔ آج ملک ڈیجیٹل انڈیا، خود کفیل ہندوستان، مقامی لوگوں کے لیے آواز، ہر ضلع میں 75 امرت جھیلوں کی تعمیر، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ سماجی تبدیلی اور سماجی اصلاح کے ان کاموں میں ہر ایک کی کوشش کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گی۔ مجھے یقین ہے کہ سوامی نارائن گروکل ودیا پرتشٹھانم جیسے ادارے اس سنکلپ یاترا کو اسی طرح توانائی دیتے رہیں گے۔ اور آج جب میں آپ سب سنتوں کے درمیان آیا ہوں تو 75 سال کا ایک بہت بڑا سفر ہے جسے آپ نے کامیابی سے آگے بڑھایا ہے۔ اب اسے ملک کے نوجوانوں کے فائدے کے لیے بڑھایا جانا چاہیے۔ کیا میں آج سوامی نارائن گروکلوں میں آج میں دعا کر سکتا ہوں۔ ہمارا جو شمال مشرق ہے ، آپ طے کریں کہ ہر سال کم از کم 100 نوجوان 15 دن کے لیے ناگالینڈ، میزورم، اروناچل پردیش، تریپورہ، سکم کے لیے شمال مشرق جائیں گے۔ وہاں 15 دن جانا، وہاں کے نوجوانوں سے ملنا، ان سے واقفیت، وہاں کی چیزوں کو جاننا، آکر ان کے بارے میں لکھنا، ہر سال کم از کم 150 نوجوانوں کو 15 دن کے لیے وہاں جانا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ 75 سال پہلے ہمارے سنتوں نے کتنی مشکلات سے یہ سفر شروع کیا ہو گا، آپ دیکھیں گے کہ ہمارے شمال مشرق میں کتنے ہونہار نوجوان ہیں۔ اگر ہم ان سے رشتہ استوار کر لیں تو ملک میں ایک نئی قوت کا اضافہ ہو گا، آپ کوشش کریں۔ اسی طرح مجھے یاد ہے ہماری سنت برادری میں جب ہم بیٹی بچاؤ مہم چلا رہے تھے تو چھوٹی چھوٹی بچیاں اسٹیج پر آتی تھیں اور 7 منٹ، 8 منٹ، 10 منٹ تک بڑی دلکش اور زبردست اداکاری کے ساتھ تقریر کرتی تھیں۔ پورے سامعین رلا دیتی تھیں۔ اور وہ کہتی تھیں رحم مادر سے وہ بولتی تھیں کہ ماں مجھے مت مارو۔ رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل کے خلاف تحریک کی قیادت گجرات میں ہماری بیٹیوں نے کی تھی۔ کیا ہمارے گروکل کےطلباء دھرتی ماں کے روپ میں لوگوں سے مخاطب ہوں کہ میں تمہاری ماں ہوں۔ میں تمہارے لیے کھانا، پھل، پھول سب پیدا کرتی ہوں۔ مجھے مت مارو، یہ کیمیاوی کھاد، کیمیاوی اشیاء، یہ دوائیں، مجھے اس نجات دلاؤ ۔ اور قدرتی کھیتی کی طرف راغب کرنے کے لیےکسانوں کے درمیان ، میرے گروکل کے طلباء کو اس طرح اسٹریٹ ڈرامے، شہری ڈرامے کرنا چاہیے۔ ہمارا گروکل ا��ک بڑی مہم چلا سکتا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی کی قیادت میں قدرتی کھیتی کی ایک بہت بڑی مہم شروع کی گئی ہے۔ جس طرح آپ انسانوں کو نشے سے نجات دلانے کی مہم چلا رہے ہیں، اسی طرح آپ کسانوں کو اس قسم کے زہر سے دھرتی ماں کو آزاد کرنے کا عہد لینے کے لیے ترغیب دینے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جو لوگ گروکل میں آتے ہیں وہ اصل گاؤں سے، کسانوں کے خاندان سے آتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاملہ بہت آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ لہذا، آزادی کے اس امرت کال میں، ہمارے گروکل، ہمارے مہذب تعلیم یافتہ نوجوان روشن مستقبل کے لیے، ماحول کی حفاظت کے لیے، ایک بھارت شریشٹھہ بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بہت سے نئے خیالات، آئیڈیل اور قراردادوں کو لے کر چل سکتے ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ سوامی نارائن روایت میں یہ میرے لیے بڑی خوش قسمتی رہی ہے کہ جب بھی میں سوامی نارائن روایت میں آپ سے ملا ہوں، آپ سب نے جو کچھ بھی مانگا ہے اسے پورا کیا ہے۔ آج جب میں یہ چیزیں مانگ رہا ہوں تو مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ان کو پورا کریں گے۔ اور گجرات کا نام تو یقیناً روشن ہو گا، آنے والی نسلوں کی زندگی آسان ہو گی۔ ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ جے سوامی نارائن! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 14327",শ্ৰী স্বামীনাৰায়ণ গুৰুকুল ৰাজকোট সংস্থানৰ ৭৫ তম অমৃত মহোৎসৱত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-6-%D9%85%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%AC%DB%92-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%DA%A9%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%B9-2022-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AC-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A6%9F%E0%A7%8B-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%89/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 20 مئی 2012 کو صبح 10:30 بجے جین انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن کی تقریب 'جے آئی ٹی او کنیکٹ 2022' کے افتتاحی اجلاس سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کریں گے۔ جین انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن (جے آئی ٹی او) ایک عالمی تنظیم ہے جو دنیا بھر میں جینوں کو جوڑتی ہے۔ جے آئی ٹی او کنیکٹ باہمی نیٹ ورکنگ اور ذاتی تعامل کے مواقع فراہم کرکے کاروبار اور صنعت کی مدد کی ایک کوشش ہے۔ جے آئی ٹو او کنیکٹ 2022' 6 سے 8 مئی کے دوران گنگا دھام انیکسی، پونے میں منعقد ہونے والی تین روزہ تقریب ہے جس میں کاروبار اور معیشت سے متعلق متنوع امور پر متعدد اجلاسوں منعقد کیے جائیں گے۔,৬ মে’ত ‘জীটো কানেক্ট ২০২২’ৰ উদ্বোধনী অধিৱেশনত ভাষণ দিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%88%D9%88%DB%8C%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%81-1893-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A7%AF%E0%A7%A9-%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سوامی وویکانند کے ذریعہ 1893 میں شکاگو میں کی گئی شاندار تقریر کو یاد کیا ۔ جناب مودی نے کہا ہے کہ انہوں نے 1893 میں آج ہی کے دن شکاگو میں اپنی شاندار تقاریر میں سے ایک تقریر کی تھی۔ ان کے خطاب نے بھارت کی ثقافت اور اخلاقیات کی ایک جھلک پیش کی ۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ’’11 ستمبر کے ساتھ سوامی وویکانند کا خصوصی تعلق ہے۔ 1893 میں آج ہی کے دن انہوں نے شکاگو میں اپنی شاندار تقاریر میں سے ایک تقریر کی تھی۔ ان کے خطاب نے بھارت کی ثقافت اور اخلاقیات کی ایک جھلک پیش کی ۔‘‘,১৮৯৩ চনত চিকাগোত স্বামী বিবেকানন্দৰ অসাধাৰণ ভাষণৰ কথা স্মৰণ কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%DB%8C%D9%84%D8%AC%DB%8C%D8%A6%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%86/,نئیدہلی، 3 جنوری 2018، وزیراعطم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ہندوستان اور بیلیجئم کے درمیان اطلاعاتی و مواصلاتی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس (آئی سی ٹی اینڈ ای) کے شعبے میں اشتراک و تعاون کے لئے مفاہمت نامے کی توثیق کردی ہے۔ بیلیجئم کے بادشاہ فلپ کے ہندوستان کے سرکاری دورے کے دوران 7 نومبر 2017 کو دونوں ملکوں کے مابین اس مفاہمت نامے پر دستخط کئے گئے تھے ۔ ہندوستان اور بیلیجئم کے مابین ہوئے اس مفاہمت نامے کا مقصد آئی سی ٹی اینڈ ای پالیسی کے شعبے میں بہترین طریقہ کار کا تباد لہ کرنا، ڈیجیٹل ایجنڈا ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبے میں اشتراک و تعاون کرنا ہے۔اس میں آئی سی ٹی اینڈ ای مینوفیکچرنگ اور خدمات کی ترقی، ای۔ گورننس اور ای۔ پبلک سروس کی ڈبلیوری ، کانفرنسز میں شرکت، تعلیم کے لئے باہمی دورے، ماہرین کے تبادلے، سائبر سکیورٹی اور ڈیٹا کی موزونیت کے مسائل کو حل کرنے کے علاوہ بازر تک رسائی، تجارت اور خدمات کے شعبے میں باہمی تبادلہ اور اشتراک و تعاون پر خصوصی زور ہے۔ پس منظر اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس کی وزارت، اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی میں دو طرفہ اور کثیر سطحی اشتراک و توان کو فروغ دینے کے لئے متعدد ملکوں کے ساتھ اشتراک کررہی ہے۔ موجودہ معلوماتی دور میں آئی سی ٹی کے پاس اقتصادی ترقی سمیت ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی کی دیگر جہات کو فروغ دینے میں کلیدی رول ادا کرنے کی صلاحیت ہے۔ الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزارت متعدد ملکوں کی ہم منصب تنظیموں اور ایجنسیوں کے ساتھ مفاہمت ناموں پر دستخط کررہی ہے تاکہ آئی سی ٹی کے شعبے میں قریبی اشتراک و تعاون اور اطلاعات کے تبادلے کو فروغ دیا جاسکے۔ متعدد ملکوں کے ساتھ اشتراک و تعاون بالخصوص حکومت ہند کے ذریعہ شروع کئے گئے نئے اقدامات مثلاً ڈیجیٹل انڈیا، میک ان انڈیا میں اشتراک و تعاون کو فروغ دینے کے لئے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجارتی مواقع تلاش کرنے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہندوستان اور بیلجیئم کے مابین قریبی اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ بیلیجئم یوروپی یونین کے ساتھ ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پاٹنر ملک ہے۔ بیلیجئم کو مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبے بالخصوص ای۔ گورننس، الیکٹرانک آئی ڈی کارڈ اور ویب پر مبنی ٹیکس میں مہارت حاصل ہے۔ مارچ 2016 میں یوروپی یونین چوٹی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے اور بیلیجئم کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کے لئے وزیراعظم نریندر مودی کے برسیلز کے دورے کے دوران ہندوستان اور بیلیجئم کے درمیان انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزیراعظم کے الیکٹرانکس کے شعبے میں ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کے لئے تجویز پیش ہوئی تھی۔ بعد ازاں الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزارت، حکومت ہند نے 7 فروری 2017 کو نئی دہلی میں بیلیجئم کے نائب وزیراعظم اور ڈیولپمنٹ کو آپریشن، ڈیجیٹل ایجنڈا، ٹیلی کام اور ڈاک خدمات کے وزیر جناب الیکزینڈر ڈی کرو کی قیادت میں بیلیجئم کے وفد کے ساتھ آپسی مفادات کے موضوع پر میٹنگ کی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران دونوں فریقوں نے ڈیجیٹل انڈیا اور ڈیجیٹل بیلیجئم کے تحت پر لوگوں کو ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنانے کے لئے باہم ملکر کام کرنے کے تئیں اپنے عہد کی توثیق کی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔م ع۔ ن ا۔,তথ্য যোগাযোগ প্ৰযুক্তি আৰু বৈদ্যুতিন (আইচিটি এণ্ড ই) খণ্ডৰ সহযোগিতাৰ অৰ্থে ভাৰত আৰু বেলজিয়ামৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D9%86%D9%88-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%DB%8C%D8%AA%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%DA%86%DA%BE%D9%88%DA%91%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%8B-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,میرے عزیز اہل وطن حضرات، انسانیت کے سامنے ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب وقت کا پہیہ، ہمیں ماضی کی اصلاح کرکے نئے مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے سامنے ایک ایسا ہی لمحہ ہے۔ دہائیوں قبل، حاتیاتی تنوع کا صدیوں قدیم جو سلسلہ ٹوٹ گیا تھا، معدوم ہوگیا تھا، آج ہمیں اسے پھر سے جوڑنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ آج بھارت کی سرزمین پر چیتے لوٹ آئے ہیں۔ اور میں یہ بھی کہوں گا کہ ان چیتوں کے ساتھ ہی فطرت سے محبت کرنے والے بھارتیوں کا شعور بھی پوری قوت سے بیدار ہو چکا ہے۔ میں اس تاریخی موقع پر تمام اہل وطن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور سے میں ہمارے دوست ملک نامیبیا اور وہاں کی حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے دہائیوں بعد چیتے بھارت کی سرزمین پر واپس لوٹے ہیں۔ مجھے یقین ہے ، یہ چیتے نہ صرف فطرت کے تئیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس کرائیں گے، بلکہ ہماری انسانی اقدار اور روایات سے بھی ہمیں آگاہ کرائیں گے۔ ساتھیو، جب ہم اپنی جڑوں سے دور ہوتے ہیں تو بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے ہی آزادی کے اس امرت کال میں ہم نے ’اپنی وراثت پر فخر ‘ اور ’غلامی کی ذہنیت سے آزادی‘ جیسے پانچ پرانوں کی اہمیت کو دوہرایا ہے۔ گذشتہ صدیوں میں ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب فطرت کے استحصال کو طاقت کے مظاہرے اور جدیدیت کی علامت تسلیم کر لیا گیا تھا۔ 1947 میں جب ملک میں صرف آخری تین چیتے بچے تھے، تو ان کا بھی سال کے جنگلوں میں بے رحمی اور غیر ذمہ دارانہ طور پر شکار کر لیا گیا۔ یہ بدقسمتی رہی کہ ہم نے 1952 میں چیتوں کو ملک سے معدوم ہونے کا تو اعلان کر دیا، لیکن ان کی بازآبادکاری کے لیے دہائیوں تک کوئی بامعنی کوشش نہیں کی۔ آج آزادی کے امرت کال میں اب ملک نئی توانائی کے ساتھ چیتوں کی بازآبادکاری کے لیے متحد ہوگیا ہے۔ امرت میں تو وہ طاقت ہوتی ہے، جو مردہ کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آزادی کے امرت کال میں فرض اور یقین کا یہ امرت ہماری وراثت کو، اور اب چیتوں کو بھی بھارت کی سرزمین پر ازسر نو زندہ کر رہا ہے۔ اس کے پس پشت ہماری برسوں کی محنت ہے۔ ایک ایسا کام، سیاسی نقطہ نظر سے جسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، اس کے لیے بھی ہم نے زبردست توانائی صرف کی۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی چیتا ایکشن پلان تیار کیا گیا۔ ہمارے سائنس دانوں نے طویل تحقیق کی، جنوبی افریقی اور نامیبیائی ماہرین کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ہماری ٹیمیں وہاں گئیں، وہاں کے ماہرین بھی بھارت آئے۔ پورے ملک میں چیتوں کے لیے سب سے بہتر علاقے کے لیے سائنسی جائزوں کا اہتمام کیا گیا، اور اب کونو نیشنل پارک کو اس مبارک شروعات کے لیے منتخب کیا گیا۔ اور آج، ہماری وہ محنت، نتیجہ کے طورپر ہمارے سامنے ہے۔ ساتھیو، یہ بات صحیح ہے کہ جب فطرت اور ماحولیات کا تحفظ ہوتا ہے تو ہمارا مستقبل بھی محفوظ ہوتا ہے۔ ترقی اور خوشحالی کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ کونو نیشنل پارک میں جب چیتے پھر سے دوڑیں گے، تو یہاں کا سبزہ زار ایکو نظام پھر سے بحال ہوگا، حیاتیاتی تنوع میں اضافہ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں یہاں ایکو سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا، یہاں ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوں گے، روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ساتھیو، میں آج آپ سے،تمام اہل وطن سے ایک درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں۔ کونو نیشنل پارک میں چھوڑے گئے چیتوں کو دیکھنے کے لیے اہل وطن کو چند مہینوں کا صبر کرنا ہوگا، انتظار کرنا ہوگا۔ آج یہ چیتے مہمان بن کر آئے ہیں، اس علاقہ سے انجان ہیں۔ کونو نیشنل پارک کو یہ چیتے اپنا گھر بنا پائیں، اس کے لیے ہمیں ان چیتوں کو بھی کچھ مہینوں کا وقت دینا ہوگا۔ بین الاقوامی رہنما خطوط پر چلتے ہوئے بھارت ان چیتوں کو بسانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی کوششوں کو ناکام نہیں ہونے دینا ہے۔ ساتھیو، دنیا آج جب فطرت اور ماحولیات کی جانب دیکھتی ہے تو ہمہ گیر ترقی کی بات کرتی ہے۔ لیکن فطرت اور ماحولیات، چرند و پرند، بھارت کے لیے یہ صرف پائیداری اور سلامتی کے موضوع نہیں ہیں۔ ہمارے لیے یہ ہماری حساسیت اور روحانیت کی بھی بنیاد ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کا ثقافتی وجود ’سروَم کھل وِدم برہم‘ کے اصول پر ٹِکا ہوا ہے۔ یعنی، دنیا میں چرند و پرند، پیڑ پودے، ذی روح اور بے جان جو کچھ بھی ہے، وہ ایشور کی شکل ہے، ہماری اپنی توسیع ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: پرم پروپکارارتھم یو جیوتی سہ جیوتی یعنی، خود کے فائدے کو ذہن میں رکھ کر جینا حقیقی زندگی نہیں ہے۔ حقیقی زندگی وہ جیتا ہے جو انسان دوستی کے لیے جیتا ہے۔ اسی لیے، ہم جب خود کھانہ کھاتے ہیں، اس سے پہلے پرندوں اور جانوروں کے لیے بھی کھانہ نکالتےہیں۔ ہمارے آس پاس رہنے والے چھوٹے سے چھوٹے جاندار کی بھی فکر کرنا ہمیں سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے اخلاق ایسے ہیں کہ کہیں بلاوجہ کسی جاندار کی زندگی چلی جائے توہم ندامت کے احساس سے بھر جاتے ہیں۔ پھر کسی جانور کی پوری نسل کا وجود ہی اگر ہماری وجہ سے مٹ جائے، یہ ہم کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ آپ سوچئے، ہمارے یہاں کتنے ہی بچوں کو یہ معلوم تک نہیں ہوتا ہے کہ جس چیتا کے بارے میں سن کر وہ بڑے ہو رہے ہیں، وہ ان کے ملک سے گذشتہ صدی میں ہی معدوم ہو چکا ہے۔ آج افریقہ کے کچھ ممالک میں، ایران میں چیتا پائے جاتے ہیں، لیکن بھارت کا نام اس فہرست سے بہت پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔ آنے والے برسوں میں بچوں کو اس ستم ظریفی سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے، وہ چیتا کو اپنے ہی ملک میں، کونو نیشنل پارک میں دوڑتا ہوا دیکھ سکیں گے۔ چیتا کے ذریعہ آج ہمارے جنگل اور زندگی کی ایک بڑی خلاء پر ہو رہی ہے۔ ساتھیو، آج21ویں صدی کا بھارت، پوری دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ معیشت اور علم ماحولیات کوئی متضاد شعبے نہیں ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ہی، ملک کی ترقی بھی ہو سکتی ہے، یہ بھارت نے دنیا کو کرکے دکھایا ہے۔ آج ایک جانب ہم دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہیں، تو ساتھ ہی ملک کے جنگلاتی علاقوں ��ی توسیع بھی تیزی سے عمل میں آرہی ہے۔ ساتھیو، 2014 میں ہماری حکومت بننے کے بعد سے ملک میں تقریباً ڈھائی سو نئے محفوظ علاقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں ایشیائی شیروں کی تعداد میں بڑا اضافہ رونما ہوا ہے۔ آج گجرات ملک میں ایشیائی شیروں کا سب سے بڑا علاقہ بن کر ابھرا ہے۔ اس کے پس پشت دہائیوں کی محنت، تحقیق پر مبنی پالیسیاں اور عوامی شراکت داری کا اہم کردار ہے۔ مجھے یاد ہے، ہم نے گجرات میں ایک عزم کیا تھا- ہم جنگلی جانوروں کےاحترام میں اضافہ کریں گے، اور تصادم کو کم کریں گے۔ آج اس فکر کا اثر نتیجہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ ملک میں بھی، شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا جو ہدف طے کیا گیا تھا، ہم نے اسے وقت سے پہلے حاصل کیا ہے۔ آسام میں ایک وقت، ایک سینگ والے گینڈے کا وجود خطرے سے دوچار تھا، تاہم آج ان کی تعداد میں بھی اضافہ رونما ہوا ہے۔ ہاتھیوں کی تعداد بھی گذشتہ برسوں میں بڑھ کر 30 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ بھائیو اور بہنو، ملک میں فطرت اور ماحولیات کے نقطہ نظر سے جو ایک اور بڑا کام ہوا ہے، وہ ہے مرطوب زمین کی توسیع! بھارت ہی نہیں، پوری دنیا میں کروڑوں افراد کی زندگی اور ان کی ضرورتیں مرطوب ماحولیات پر منحصر ہیں۔ آج ملک میں 75 مرطوب علاقوں کو رام سر سائٹس قرار دیا گیا ہے، جن میں 26 سائٹوں کو گذشتہ 4 برسوں کے دوران ہی جوڑا گیا ہے۔ ملک کی ان کوششوں کا اثر آنے والی صدیوں تک دکھائی دے گا، اور ترقی کے نئے راستے کھلیں گے۔ ساتھیو، آج ہمیں عالمی مسائل ، حل اور یہاں تک کہ اپنی زندگی کو بھی جامع انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے، آج بھارت نے دنیا کے لیے لائف یعنی طرز حیات برائے ماحولیات جیسا زندگی کا اصول فراہم کیا ہے۔ آج بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسی کوششوں کے ذریعہ بھارت دنیا کو ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے، ایک نظریہ دے رہا ہے۔ ان کوششوں کی کامیابی دنیا کی سمت اور مستقبل طے کرے گی۔ اس لیے، آج وقت ہے کہ ہم عالمی چنوتیوں کو دنیا کی نہیں اپنی انفرادی چنوتی بھی مانیں۔ ہماری زندگی میں ایک چھوٹی سی تبدیلی پورے کرۂ ارض کے مستقبل کے لیے ایک بنیاد بن سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کی کوششیں اور روایات اس سمت میں مکمل بنی نوع انسانیت کی رہنمائی کریں گی، بہتر دنیا کے خواب کو تقویت بہم پہنچائیں گی۔ اسی یقین کے ساتھ، آپ سبھی کا اس اہم وقت پر، اس تاریخی وقت پر بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔,কুনো ৰাষ্ট্ৰীয় উদ্যানত বনৰীয়া চিতা মুকলি কাৰ্যসূচীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ মূল পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-19-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-44%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B7%D8%B1%D9%86%D8%AC-%D8%A7%D9%88%D9%84%D9%85%D9%BE%DB%8C%D8%A7%DA%88-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A7%AA%E0%A7%AA%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%A6%E0%A6%AC%E0%A6%BE-%E0%A6%85%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 19 جون کو شام 5 بجے اندرا گاندھی اسٹیڈیم ، نئی دہلی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کے لیے تاریخی مشعل ریلے کا آغاز کریں گے۔ اس موقع پر وہ مجمع سے بھی خطاب کریں گے۔ اس سال، پہلی مرتبہ، شطرنج کی بین الاقوامی انجمن ، ایف آئی ڈی ای، نے شطرنج اولمپیاڈ مشعل کا آغاز کیا ہے جو کہ اولمپک کی روایت کا حصہ ہے، لیکن اسے شطرنج اولمپیاڈ میں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔ بھارت شطرنج اولمپیاڈ مشعل ریلے منعقد کرنے والا اولین ملک ہوگا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ شط��نج سے وابستہ بھارت کی قدیم روایات کو نئی بلندیوں تک لے جاتے ہوئے، شطرنج اولمپیاڈ کے لیے مشعل ریلے کا آغاز اب سے ہمیشہ بھارت میں ہوگا اور میزبان ملک پہنچنے سے قبل یہ مشعل ریلے تمام بر اعظموں کا سفر طے کرے گی۔ ایف آئی ڈی ای کے صدر آرکیڈی دوارکووِچ ،وزیر اعظم کو مشعل سونپیں گے، جو اس مشعل کو گرینڈ ماسٹر وشوناتھن آنند کے حوالے کریں گے۔ یہ مشعل چنئی کے قریب واقع مہابلی پورم میں فائنل تقریب سے قبل 40 دنوں کی مدت میں 75 شہروں میں لے جائی جائے گی۔ ہر مقام پر، مشعل کو ریاست کے شطرنج گرینڈ ماسٹرز کے حوالے کیا جائے گا۔ 44واں شطرنج اولمپیاڈ 28 جولائی سے 10 اگست 2022 کے دوران چنئی میں منعقدہوگا۔ 1927 سے منعقد ہو رہے اس مقتدر مقابلے کی میزبانی ، بھارت پہلی مرتبہ اور ایشیا 30 برسوں بعد کر رہا ہے۔ اس مقابلے میں 189 ممالک حصہ لے رہے ہیں، یہ کسی بھی شطرنج اولمپیاڈ میں اب تک کی سب سے بڑی شراکت داری ہوگی۔,১৯ জুনত ৪৪সংখ্যক দবা অলিম্পিয়াডৰ বাবে ঐতিহাসিক শিখা দৌৰ আৰম্ভ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DA%91%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%85%D8%AA%D8%A7%D8%B2-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%93%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اڑیہ کے ممتاز موسیقار اور گلوکار پرفل کار کے انتقال پر گہری تعزیت کااظہار کیا ہے ۔ جناب مودی نے کہاکہ پرفلا کار جی اڑیہ ثقافت اور موسیقی کے تئیں اپنی گراں قدر خدمات کے لئے یاد رکھے جائیں گے۔ وزیراعظم نے ایک ٹویٹ میں کہاکہ: ’’جناب پرفلا کار کے انتقال کی خبرسن کر انہیں افسوس ہوا ہے، انہوں نے اڑیہ ثقافت اور موسیقی میں جو تعاون دیا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور ان کی تخلیق ان کے کاموں میں دکھائی دیتی ہے۔ میں ان کے کنبے اور مداحوں کے تئیں تعزیت کااظہار کرتا ہوں، اوم شانتی‘‘۔,প্ৰসিদ্ধ ওড়ীয়া সংগীতজ্ঞ তথা গায়ক প্ৰফুল্ল কৰৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%BE%DB%8C%D9%88%D8%B4-%DA%AF%D9%88%D8%A6%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%DB%81%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%DA%AF%D8%A7%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%80%E0%A7%9F/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل کی رہائش گا ہ پر منعقد ہونےوالی گنیش چترتھی تقریب میں شرکت کی ۔ وزیراعظم نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’’گنیش چترتھی کے مقدس موقع پر ، اپنےسا تھی @پیوش گوئل جی کی رہائش گاہ پر منعقد تقریب میں گیا۔ دعا کرتا ہوں کہ ہم سب پر بھگوان شری گنیش کاآشیرواد ہمیشہ بنارہے ‘‘ ۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে শ্ৰী পীয়ুষ গোয়েলৰ বাসভৱনত গণেশ চতুৰ্থীত অংশগ্ৰহণ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-30-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%D8%B3%DB%92-1-%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%B1-%D8%AA%DA%A9-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9%E0%A7%A6-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A7%A7-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 30 اکتوبر سے 1 نومبر 2022 تک گجرات اور راجستھان کا دورہ کریں گے۔ 30 اکتوبر کو وزیر اعظم وڈودرا میں سی-295 طیارہ بنانے والی فیسلٹی کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ 31 اکتوبر کو وزیر اعظم کیوڈیا کا دورہ کریں گے۔ وہ اسٹیچو آف یونٹی پر سردار پٹیل کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اس کے بعد وہ راشٹریہ ایکتا دیوس کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم آرمبھ 4.0 کے اختتام پر 97ویں کامن فاؤنڈیشن کورس کے زیر تربیت افسران سے خطاب کریں گے۔ اس کے بعد وزیر اعظم بناس کانٹھا ضلع پہنچیں گے، جہاں وہ تھراڈ میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وہ احمد آباد میں ریلوے کے اہم پروجیکٹوں کو بھی قوم کے نام وقف کریں گے۔ یکم نومبر کو وزیر اعظم راجستھان کے بانسواڑہ ضلع پہنچیں گے، جہاں وہ ایک عوامی پروگرام ’مان گڑھ دھام کی گورو گاتھا‘ میں شرکت کریں گے۔ اس کے بعد وہ گجرات کے پنچ محل ضلع کے جمبو گھوڑا میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیر اعظم کا وڈودرا کا دورہ وزیر اعظم سی-295 طیارہ بنانے والی فیسلٹی کا سنگ بنیاد رکھیں گے جو کہ ملک میں پرائیویٹ سیکٹر میں طیارہ سازی کی پہلی فیسلٹی ہے۔ اس فیسلٹی کا استعمال، ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز لمیٹڈ اور ایئر بس ڈیفنس اینڈ اسپیس، اسپین کے درمیان تعاون کے ذریعے ہندوستانی فضائیہ کے لیے 40 سی-295 طیارے بنانے کے لیے کیا جائے گا۔ یہ فیسلٹی دفاعی شعبے میں آتم نربھرتا کے حصول کی طرف ایک اہم قدم ہو گا، اور اس شعبے میں پرائیویٹ کھلاڑیوں کی صلاحیت کو کھولنے میں بھی یہ مدد کرے گی۔ وزیر اعظم آتم نر بھر بھارت کے تحت ایرو اسپیس انڈسٹری میں تکنیکی اور مینوفیکچرنگ کی ترقی کو ظاہر کرنے والی ایک نمائش کا بھی دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم کا کیوڈیا کا دورہ وزیر اعظم کے وژن کے مطابق، 2014 میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے تحت قوم کی یکجہتی، سالمیت اور سلامتی کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے ہماری لگن کو تقویت فراہم کرنے کی خاطر 31 اکتوبر کو راشٹریہ ایکتا دیوس منایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کیوڈیا میں واقع اسٹیچو آف یونٹی پر راشٹریہ ایکتا دیوس کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔ اس موقع پر راشٹریہ ایکتا دیوس پریڈ کا اہتمام کیا جائے گا، جس میں بی ایس ایف اور پانچ ریاستی پولیس فورس کے دستے شامل ہوں گے – شمالی ژون (ہریانہ)، مغربی ژون (مدھیہ پردیش)، جنوبی ژون (تلنگانہ)، مشرقی ژون (اوڈیشہ) اور شمال مشرقی ژون (تریپورہ) سے ایک ایک۔ دستے کے علاوہ دولت مشترکہ کھیل 2022 کے چھ پولیس اسپورٹس میڈل جیتنے والے بھی پریڈ میں حصہ لیں گے۔ پروگرام کی ایک خاص توجہ امباجی کے قبائلی بچوں کے میوزیکل بینڈ کی پرفارمنس ہوگی۔ بینڈ کے ارکان کسی زمانے میں امباجی مندر میں بھیک مانگتے تھے۔ وزیر اعظم نے پہلے بھی ان بچوں کی حوصلہ افزائی کی تھی جب انہوں نے پچھلے مہینے امباجی کے دورے کے دوران ان کے سامنے پرفارم کیا تھا۔ دیگر اہم پرکشش پروگرام میں ’’ہم ایک ہیں، ہم شریشٹھ ہیں‘‘ کے تھیم پر این سی سی کی طرف سے ایک خصوصی شو اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت پر ایک ثقافتی پروگرام شامل ہے، جو ریاستوں کے ساتھ مل کر پرفارم کرتے ہوئے ہماری ثقافت کو ظاہر کرے گا۔ وزیر اعظم، آرمبھ 4.0 کے اختتام پر 97ویں کامن فاؤنڈیشن کورس کے زیر تربیت افسران سے خطاب کریں گے۔ آرمبھ کے چوتھے ایڈیشن کا انعقاد ’’ڈیجیٹل گورننس: فاؤنڈیشن اینڈ فرنٹیئرز‘‘ کے تھیم پر کیا گیا ہے، جس کا مقصد زیر تربیت افسران کو یہ سیکھنے میں مدد کرنا ہے کہ پبلک سروس ڈیلیوری کو مضبوط بنانے اور آخری میل کی ترسیل کو شفاف، مؤثر بنانے کے لیے تکنیکی حل کا فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔ اس بیچ میں 29 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے 13 سروسز کے 455 زیر تربیت افسران شامل ہیں۔ وزیر اعظم، کیوڈیا میں دو نئے سیاحتی مقامات – میز گارڈن اور میاواکی فاریسٹ – کو بھی قوم کے نام وقف کریں گے۔ میز گارڈن 3 ایکڑ اراضی میں پھیلا ہوا ہے، جو اسے ملک کا سب سے بڑا میز گارڈن بناتا ہے۔ یہ مجموعی طور پر تقریباً 2.1 کلومیٹر کے راستے پر مشتمل ہے۔ اسے ’شریانتر‘ کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے یہاں پر مثبت توانائی آتی ہے۔ گارڈن میں کل تقریباً 1.8 لاکھ پودے لگائے گئے ہیں، جس سے زمین کی تزئین کی جمالیاتی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ میاواکی فاریسٹ تقریباً 2 ایکڑ کے رقبے میں بنایا گیا ہے۔ اس میں مقامی پھولوں کا باغ، لکڑی کا باغ، پھلوں کا باغ، ادویاتی باغ، مخلوط انواع پر مشتمل میاواکی حصہ، میڈیسنل گارڈن اور ڈیجیٹل اورینٹیشن سینٹر شامل ہیں۔ اسے جاپانی ماہر نباتیات اکیرا میاواکی کی طرف سے پیش کردہ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے، جو مختصر وقت میں گھنے، مقامی جنگلات کی تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ وزیر اعظم کا بناس کانٹھا کا دورہ وزیر اعظم بناس کانٹھا کے تھراڈ کا دورہ کریں گے۔ ایک عوامی پروگرام کے دوران، 8000 کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے پانی کی فراہمی کے پروجیکٹوں کا کام شروع کیا جائے گا۔ وزیر اعظم مرکزی نرمدا نہر سے کسارا تا دنتی واڑہ پائپ لائن سمیت کئی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جس کی لاگت 1560 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ یہ پروجیکٹ پانی کی فراہمی میں اضافہ کرے گا اور علاقے کے کسانوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔ پروگرام کے دوران کئی پروجیکٹوں کا اعلان بھی کیا جائے گا، جن میں سجلام سلفلم نہر کو مضبوط کرنا، موڈھیرا-موتی داؤ پائپ لائن کو مکتیشور ڈیم-کرماوت جھیل تک بڑھانا، سنتال پور تعلقہ کے 11 گاؤں کے لیے لفٹ اریگیشن اسکیم وغیرہ شامل ہیں۔ وزیر اعظم کا احمد آباد کا دورہ وزیر اعظم، احمد آباد کے اسروا میں 2900 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت کے ریلوے کے دو پروجیکٹ قوم کے نام وقف کریں گے۔ ان پروجیکٹوں میں احمد آباد (اسروا) – ہمت نگر – ادے پور گیج کنورٹڈ لائن اور لونیدھر – جیتلسر گیج کنورٹڈ لائن شامل ہیں۔ وزیر اعظم بھاو نگر – جیتلسر اور اسروا – ادے پور کے درمیان نئی ٹرینوں کو بھی ہری جھنڈی دکھائیں گے۔ ملک بھر میں یونی گیج ریل سسٹم رکھنے کے مقصد سے، ریلوے موجودہ غیر براڈ گیج ریلوے لائنوں کو براڈ گیج میں تبدیل کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے وقف کیے جانے والے پروجیکٹ اس سمت میں ایک اور قدم ہیں۔ احمد آباد (اسروا) – ہمت نگر – ادے پور گیج کی تبدیل شدہ لائن تقریباً 300 کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ روابط کو بہتر بنائے گا اور خطے میں سیاحوں، تاجروں، مینوفیکچرنگ یونٹس اور صنعتوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا، جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔ 58 کلومیٹر لمبی لونیدھر–جیتلسر گیج کنورٹڈ لائن ویراول اور پوربندر سے پیپاو پورٹ اور بھاو نگر کے لیے ایک چھوٹا راستہ فراہم کرے گی۔ پروجیکٹ اس سیکشن پر مال برداری کی صلاحیت کو بڑھا ئے گا، اس طرح مصروف ترین کنالوس – راجکوٹ – ویرمگام روٹ پر بھیڑ بھاڑ میں کمی آئے گی۔ اب یہ گیر سینکچوری، سومناتھ مندر، دیئو اور گرنار پہاڑیوں تک بغیر کسی رکاوٹ کے رابطے کی سہولت فراہم کرے گا، اس طرح اس خطے میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم کا پنچ محل کا دورہ وزیر اعظم، پنچ محل کے جمبو گھوڑا میں تقریباً 860 کروڑ روپے کی لاگت کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وہ شری گووند گرو یونیورسٹی، گودھرا کا نیا کیمپس قوم کے نام وقف کریں گے۔ وہ وڈیک گاؤں میں واقع سنت جوریا پرمیشور پرائمری اسکول اور میموریل اور ڈنڈیا پورہ گاؤں میں واقع راجہ روپ سنگھ نائک پرائمری اسکول اور میموریل بھی قوم کے نام وقف کریں گے۔ وزیر اعظم گودھرا کے کیندریہ ودیالیہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وہ 680 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے گودھرا میڈیکل کالج اور کوشلیا – دی اسکل یونیورسٹی کی توسیع کے لیے بھی سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیر اعظم کا بانسواڑہ کا دورہ آزادی کا امرت مہوتسو کے ایک حصے کے طور پر، حکومت نے جدوجہد آزادی کے گمنام قبائلی ہیروز کو یاد کرنے کے لیے کئی اقدامات شروع کیے ہیں۔ ان میں 15 نومبر (آدیواسی مجاہد آزادی برسا منڈا کا یوم پیدائش) کو ’جن جاتیہ گورو دیوس‘ قرار دینا، ملک بھر میں قبائلی عجائب گھر قائم کرنا وغیرہ شامل ہیں تاکہ معاشرے میں قبائلی لوگوں کی شراکت کو تسلیم کیا جا سکے اور جدوجہد آزادی میں ان کی قربانیوں کے بارے میں بیداری پیدا کی جا سکے۔ اس سمت ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم، راجستھان کے بانسواڑہ میں واقع مان گڑھ پہاڑی پر ہونے والے ایک عوامی پروگرام – ’مان گڑھ دھام کی گورو گاتھا‘ میں شرکت کریں گے، جہاں جدوجہد آزادی کے گمنام قبائلی ہیروز اور شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم بھیل مجاہد آزادی شری گووند گرو کو خراج عقیدت پیش کریں گے اور بھیل آدیواسیوں اور علاقے کی دیگر قبائلی آبادی کے ایک اجتماع سے بھی خطاب کریں گے۔ مان گڑھ پہاڑی راجستھان، گجرات اور مدھیہ پردیش کی بھیل برادری اور دیگر آدیواسیوں کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ جدوجہد آزادی کے دوران جب بھیل اور دیگر آدیواسی انگریزوں کے ساتھ لمبی لڑائی میں مصروف تھے، تب 17 نومبر 1913 کو شری گووند گرو کی قیادت میں 1.5 لاکھ سے زیادہ بھیل مان گڑھ پہاڑی پر جمع ہو گئے تھے۔ انگریزوں نے ان کے اوپر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں مان گڑھ قتل عام ہوا جس میں تقریباً 1500 آدیواسی شہید ہوئے تھے۔,৩০ অক্টোবৰৰ পৰা ১ নৱেম্বৰলৈ গুজৰাট আৰু ৰাজস্থান ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%88%D9%88%DA%86%DA%BE-%D8%B4%DA%A9%D8%AA%DB%8C-2019-%D8%B3%D9%88%D9%88%DA%86%DA%BE-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%AF%DB%8C%DB%81%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9B-%E0%A6%B6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%9A%E0%A7%8D/,نئیدہلی12فروری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کل یعنی 12فروری 2019 کو ہریانہ کے شہر کروکشیترجائیں گے ۔ جہاں وہ ملک بھر کی خاتون سرپنچوں کے کنوینشن میں شرکت کریں گے اور سووچھ شکتی 2019 ایوارڈس تقسیم کریں گے ۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کروکشیتر میں سووچھ سندر شوچالیہ نمائش دیکھیں گے اور ایک جلسہ عام سے خطاب کریں گے ۔اس موقع پر وزیر اعظم ہریانہ کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور افتتاح کریں گے ۔ واضح ہوکہ سووچھ شکتی 2019 ایک قومی تقریب ہے ،جس کا مقصد سووچھ بھارت مشن میں قائدانہ خدمات ا��جام دینے والی دیہی خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے ۔ اس تقریب میں ملک بھر کی خاتون سرپنچ اور پنچ شرکت کریں گی۔ امید ہے کہ اس سال سووچھ شکتی کی تقریب میں 1500 ہزار خواتین شرکت کریں گی ۔ اس تقریب کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے ۔ حکومت ہند کی پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزارت ہریانہ سرکار کے اشتراک سے سووچھ شکتی 2019 کا اہتمام کررہی ہے ۔ سووچھ بھارت کے لئے دیہی علاقوں کی زمینی سطح کے بہترین طریقوں کی معلومات یہ خواتین آپس میں شیئر کریں گی۔ اس تقریب میں سووچھ بھارت اور حال ہی میں شروع کئے گئے سووچھ سندر شوچالیہ کی کامیابیاں پیش کی جائیں گی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,স্বচ্ছ শক্তি ২০১৯ – স্বচ্ছ ভাৰতৰ বাবে গ্ৰাম্য মহিলা চেম্পিয়ন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A8%DA%A9%D8%AF%D9%88%D8%B4-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DB%81-%D8%B3%D8%A8%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A6%95/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ا ٓج سبکدوش ہونے و الے راجیہ سبھا کے تمام ارکان کی ستائش کی اوران کے لئے اپنی نیک خواہشات کااظہار کیا۔ وزیراعظم نے ارکان کے سبکدوش ہونے کے تجربہ کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی رخصتی کے سا تھ موجودہ ارکان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ سبکدوش ہونے والوں کے کاموں کو جاری رکھ سکیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایوان ملک کے تمام حصوں کے احساسات، جذبات اور درد کی ترجمانی کرتا ہے۔جناب مودی نے کہا کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ایک رکن کی حیثیت سے ہم ایوان کو بہت کچھ دیتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایوان سے بھی ہمیں بہت کچھ ملتا ہے ، کیوں کہ یہ ایوان ہمیں ہر روز اپنے ملک کے مختلف طرح کے افراد کے نظاموں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ بیشک کچھ لوگ ایوان سے سبکدوش ہورہے ہیں لیکن وہ اپنا تجربہ پورے ملک کے کونے کونے تک پہنچائیں گے۔ وزیراعظم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ سبکدوش ہونے والے ارکان اپنی یادداشتوں کو آنے والی نسلوں کے لئے ایک مفید قسم کے حوالے کی شکل میں محفوظ کردیں ۔انہوں نے کہاکہ یہ ارکان ملک کی سمت کو تشکیل دیتے ہیں اورمتاثر کرتے ہیں ، ان کی یادداشتوں کو ایک ادارہ جاتی انداز میں ملک کی ترقی کے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ وزیراعظم نے سبکدوش ہونےوالے ارکان سے آزادی کاامرت مہوتسو کاجشن منانے کے لئے عوام کو ترغیب دینے کی اپیل بھی کی۔,ৰাজ্যসভাৰ বিদায়ী সদস্যসকলক বিদায় সম্ভাষণ প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%AC%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AC/,نئیدہلی،3؍اکتوبر، مرکزی کابینہ نے وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت اور سنگا پور کے مابین جامع اقتصادی تعاون معاہدے (سی ای سی اے) میں ترمیم سے متعلق دوسرے پروٹوکول کو اپنی استقدامی (اثر معکوس کی حامل) منظوری دے دی ہے۔ سی ای سی اے پر 24؍اگست 2018 کو دستخط عمل میں آئے تھے۔ فوائد : مذکورہ دوسرے معاہدے پر دستخط کے ذریعے بھارت اور سنگا پور کے مابین اقتصادی تعاون کو بڑھاوا حاصل ہوگا اور باہمی تجارت کو بھی فروغ ہوگا۔ اس کے ذریعے سی ای سی اے کے استعمال میں بھی بہتری آئے گی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ ۔ک ا,ভাৰত আৰু ছিংগাপুৰৰ মাজত ব্যাপক অৰ্থনৈতিক সহযোগিতা চুক্তি(চিইচিএ)ৰ দ্বিতীয় প্ৰ’ট’কল সংশোধনীত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D8%B5%D8%AF%D8%B1%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%88%DB%8C%D9%86%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%AA-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%BE/,نئیدہلی،04ستمبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نائب صدر جمہوریہ ہند کے منصب پر جناب ایم وینکیا نائیڈو کی مدت کار کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک تصنیف کے اجرا کے موقع پر جو تقریر کی تھی ،اس کا متن حسب ذیل ہے : ’’ کچھ لوگ وینکیا جی کو مبارکباد دے رہے ہیں ۔ ان کے کام کے لئے اور میں انہیں مبارکباد دے رہا ہو ں کہ انہوں نے اپنی عادتوں کے دائرے سے باہر نکل کرنئے کام کئے ۔میں وینکیا جی کو جب ایوان میں دیکھتا ہوں تو وہ اپنے آپ کو روکنے کے لئے کتنی مشقتیں کرتے ہیں ، اپنے آپ کو باندھنے کے لئے انہیں جو کوششیں کرنی پڑتی ہیں اور ان میں کامیاب ہونا ، میں سمجھتا ہوں بہت بڑا کام ہے ۔ایوان کی کارروائی اگر حسن وخوبی سے چلتی ہے تو کسی کی توجہ اس طرف نہیں جاتی کہ چئیر پر کون بیٹھا ہے ، اس کی کیا اہلیت ہے ، کیا خصوصیت ہے ، یہ باتیں بھی کسی کے ذہن میں نہیں آتیں ، اس کی طاقت کیا ہے ، ممبران کے خیالات کیا ہیں ۔ یہی سب باتیں سرفہرست رہتی ہیں ۔ لیکن جب ایوان کی کارروائی نہیں چل پاتی تو ایوان کی چئیر پر جو شخصیت فائز ہوتی ہے ،اسی پر سب کی توجہ مرکوز رہتی ہے ،وہ کیسے ایوان میں ڈسپلن کا نفاذ کررہے ہیں اورکیسے سب کو روک رہے ہیں ۔گزشتہ برس ملک کو وینکیا جی کو بھی اس منصب پر مصروف کار دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اگر ایوان کی کارروائی ٹھیک سے چلی ہوتی تو شاید یہ خوش قسمتی نہ حاصل ہوتی ۔ مجھے وینکیا جی کے ساتھ برسوں کا م کرنے کا موقع ملا ۔ ہم ایک ایسی سیاسی تہذیب میں پلے بڑھے ہیں کہ جب میں اپنی پارٹی کا قومی سکریٹری ہوا کرتا تھا ،وہ آندھرا کے جنرل سکریٹری ہوا کرتے تھے اور جب وہ قومی صد ر بنے تو میں ان کی مدد کے لئے جنرل سکریٹری کے منصب پر کام کررہا تھا۔ یعنی اس طرح سے یہ ثابت کیا جارہا تھا کہ ٹیم میں کیسے کام کیا جاتا ہے ۔منصب کوئی بھی ہو ذمہ داریاں کبھی کم نہیں ہوتیں ۔ منصب سے زیادہ اہمیت کام کی ذمہ داریوں کی ہوتی ہے۔وینکیا جی انہی خطوط پر چلتے رہے ۔ ابھی بتایا گیا کہ وینکیا جی نے ایک سال کی مدت میں ملک کی سبھی ریاستوں کا سفر مکمل کرلیا ۔صرف ایک ریاست چھوٹ گئی ۔ لیکن وہ ریاست بھی اس لئے نہیں چھوٹی کہ اس کا پروگرام نہیں بنا تھا۔دراصل ہیلی کاپٹر نہیں جا پایا تھا ، موسم خراب تھا ورنہ وہ بھی ہوجاتا ۔ہم ایوان میں کام کرتے تھے ۔ کبھی میٹنگ کرکے نکلتے تھے ۔ اس وقت یہ خیال آتا تھا کہ ذرا ان سے رابطہ کریں ، تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ تو نکل گئے ۔کیرل پہنچ گئے، تامل ناڈو پہنچ گئے ،آندھرا پردیش پہنچ گئے ۔ یعنی انہوں نے مسلسل جو بھی ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی ، انہوں نے اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو اہل بنایا ، اس کے لئے ضروری محنت کرکے اپنے آپ کو اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لائق بنایا ،ا��ی کا نتیجہ ہے کہ وہ کامیابیاں حاصل کرتے رہے اور زیر کار علاقوں کو بھی کامیاب بناتے رہے ۔50 سال کی سیاسی زندگی کچھ کم نہیں ہوتی ۔دس سال عوامی زندگی کے طالبعلم کی حیثیت سے وہ بھی سرگر م کارکن کی حیثیت سے اور 40 سالہ راست سیاسی زندگی ،50 سال کی اس طویل مدت کار میں انہوں نے خود بھی بہت کچھ سیکھا ،ساتھیوں کو بھی بہت کچھ سکھایا ۔ ہم سب لوگ ان کے ساتھیوں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے اس قدر قریب ہوکر کام کرتے ہیں کہ اس کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے ،جاننا ہی مشکل ہوجاتا ہے ۔اگر آپ کسی سے دس فٹ دورکھڑے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے لیکن اگر گلے لگاکر بیٹھے ہیں تو پتہ ہی نہیں چل پاتا ۔ یعنی ہم قریب رہے ہیں ،اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔لیکن جب سب لوگوں کے منھ سے یہ سنتے ہیں کہ ہمارے ساتھی میں یہ اہلیت ہے ، یہ صفات ہیں تو اتنا فخر ہوتا ہے ، اتنی خوشی حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ایک ایسی عظیم شخصیت کے ساتھ ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا ہے ، یہ اپنے آپ میں ایک انتہائی قابل فخر بات ہے ۔ وینکیا جی ڈسپلن پر بہت زور دیتے ہیں ۔ ہمارے ملک ی صورتحال ایسی ہے کہ ڈسپلن کو غیر جمہوری کہنا آسان ہوگیا ہے ۔ کوئی تھوڑا سے بھی ڈسپلن پر زوردے تو سمجھ لو کہ وہ مرگیا۔ آٹو کریٹ ہے ۔معلوم نہہں ساری ڈکشنری کھول کر رکھ دیتے ہیں ، لیکن وینکیا جی جس ڈسپلن پر زور دیتے رہے ہیں ،اس ڈسپلن کی پابندی خود بھی کرتے رہے ہیں ۔وینکیا جی کے ساتھ کبھی دورہ کرنا ہوتو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے ۔ وہ گھڑی کبھی نہیں رکھتے ، ان کے پاس قلم نہیں ہوتا ہے اور پیسے بھی نہیں ہوتے ۔کبھی آپ ان کے ساتھ گئے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کے پاس ہونا چاہئے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ گھڑی نہیں رکھتے لیکن انہیں پروگرام میں بروقت موجود دیکھا جاتا ہے ۔ ڈسپلن کی یہ پابندی قابل تعریف ہے ۔ پروگرام میں وقت پرپہنچنا اوراگر وقت پر مکمل نہیں ہو ا تو انہیں اسٹیج پر دیکھئے کہ وہ کیسے بے چین نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ اب جلدی کرو بھائی ۔یعنی ڈسپلن ان کی فطرت میں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ انہیں جب بھی کوئی ذمہ داری دی گئی اس میں ہمیشہ ایک ویژن کے ساتھ کا م کرنا ،اس کا نقشہ کار بنانا ، اس کا لائحہ عمل طے کرنا اور اسٹریٹجی تیارکرنا اور اس کے لئے ذرائع اور وسائل حاصل کرکے اہل افراد کو جوڑ کر اسے کامیاب کرنا ، یہی ان کا ہالسٹک ویو رہتا ہے ۔ جب وہ پہلی بار وزیر بنے تو اٹل جی کے ذہن میں انہیں کوئی بڑا یا اہم محکمہ دینے کا ارادہ نہیں تھا ۔ انگریزی میں بھی وہ اہل تھے۔ جنوب کی نمائندگی کرتے تھے ،تو اٹل جی کے دل میں تھا کہ انہیں وزارتی کونسل میں حصہ لینا ہے۔ میں اس وقت جنرل سکریٹری ہوا کرتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی مجھے کیوں ایسے پھنسارہے ہو ۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو بولے یہ میرا کام نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا آپ کیا کام کریں گے تو بولے میں جاکر اٹل جی کو بتادوں گا ۔میں نے کہا کہ ضرور جائیے اور انہیں بتائیے ،لیکن آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ انہوں نے اٹل جی کے پاس جاکر زوردیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسے بڑے بڑے محکمے مت دیجئے ، مجھے دیہی ترقی کا محکمہ دیجئے ۔ میں اس میں اپنی زندگی کھپانا چاہتا ہوں ۔ یعنی بڑے اچھے تام جھام والے اہم محکموں کے دائرے سے نکل کر مجھے دیہی ترقیات کا محکمہ چاہئے ۔وہ فطرتاََکسان ہیں ، زندگی اور رجحان سے بھی کسان ہیں کسان کے لئے کچھ کرنا ،کسان کے لئے کچھ ہونا ، یہ باتیں ان کے ذہن میں ایسی بھری ہوئی ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی طرح گزاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیہی ترقی میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ جیسا کہ ارون جی نے کہا ،پردھان منتری گرام سڑک یوجنا سب سے زیادہ موثر پروگرام ہے اور سبھی سرکاروں میں جاری رہا ہے ۔اگر کسی ممبر پارلیمنٹ کے دماغ میں سب سے پہلے کوئی بات آتی ہے ، کوئی مطالبہ رہتا ہے تو وہ اپنے علاقے میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کی عمل آوری چاہتا ہے ۔یہ باتیں سبھی ممبران پارلیمنٹ کے ذہنوں میں داخل کرنے کا فخر اگر کسی کو حاصل ہوسکتا ہے تو وہ جناب ایم وینکیا نائیڈو جی ہیں ۔ ویسا ہی پانی ،دیہی زندگی میں پانی ، پینے کا پانی ، یہ کچھ ایسے کام ہیں جن کے تئیں وہ ہمیشہ عہد بستہ رہتے ہیں ، اس کے لئے وہ اپنا وقت اور طاقت دونوں کھپاتےرہتے تھے ۔آج بھی جب ایوان میں ایسے موضوعات پر بحث چل جاتی ہے تو وہ سب سے زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ خارجہ پالیسی پر اگر ایک دن بحث نہ بھی ہوتو دیکھا جائے گا لیکن جب گاؤں کی بات آتی ہے ، کسان کی بات آتی ہے تو ایوان میں اس پر بحث ہونی چاہئے کہ کیا ہورہا ہے ۔یعنی ان کے داخل میں اضطراب پیدا ہوتا ہے وہ ملک کے عام انسان کی فلاح کے لئے ان کی جو آرزو ہے ،اس کے لئے ہے ۔ جن لوگوں نے انہیں مقرر کی حیثیت سے تیلگو زبان میں تقریر کرتے ہوئے سنا ہے تو آپ ان کی تقریر کی رفتار سے اپنے آپ کو مطابق ہی نہیں کرسکتے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ لوکل ٹرین میں بیٹھے ہیں اور وہ سپر فاسٹ ایکسپریس چلارہے ہیں ۔ اس قدر تیز رفتاری سے بولتے ہیں اور اس میں بھی نظریات کا اثر کیسے پیدا ہوتا ہے ، وہ دیکھتے ہی بنتا ہے ۔ ان کی تُک بندی بھی سہل ہوتی ہے ۔ یہ تک بندی ان کی عوامی تقریر میں بھی موجود ہوتی ہے ۔آس پاس بیٹھے لوگوں میں بھی تک بندی میں ہی بات کرتے ہیں ۔الفاظ کا جوڑ فوراََ آجاتا ہے ۔ایوان میں اس کا فائدہ سبھی کو مل رہا ہے ۔ میں اس بات کے لئے پوری ٹیم کو مبارکباددیتا ہوں کہ انہوں نے ایک سال کا حساب ملک کو دینے کی چھوٹی سی کوشش کی ہے ۔میں مانتا ہوں کہ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس منصب اور اس ادارے کو بھی سماج کے مفاد کے لئے کس طرح کام میں لایا جاسکتا ہے ، کس طرح اس میں نیا پن پیدا کیا جاتا ہے ،کس طرح اس میں رفتار پیدا کی جاسکتی ہے ، یہ ادارہ اپنے آپ میں بھی ملک کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ کس طرح کوآپریٹ کرکے آگے بڑھ رہا ہے ،اس کا خاکہ اس تصنیف میں پیش کیا گیا ہے ۔ ایک طرح سے یہ لگتا تو ہے کہ نائب صدر جمہوریہ کی ایک سال کی مدت کار کی تفصیل یہ تصنیف ہے ، لیکن جب دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس فیملی البم میں ہم بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں ۔ کوئی ایم پی دکھائی دیتا ہے ،کوئی وائس چانسلر دکھائی دیتا ہے ،کوئی چیف منسٹر دکھائی دیتا ہے تو ان کے ساتھ بھی اس ریاست کے ساتھ بھی ،دور دراز کے علاقوں میں کس طرح سے کام کے تعلق سے بیداری کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کوششوں کو بھی اس تصنیف میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ میں وینکیا جی کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ ان کی جو خواہش ہے کہ ایوان کی کارروائی بے روک اور حسن وخوبی سے چلے ، ایوان میں سنجیدہ بحث ہو ، ایوان میں بحث میں اس طرح کی باتیں نکلیں جو ملک کے کام آئیں ، مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ خواب ان کی مسلسل کوششوں سے عملی شکل اختیار کرسکے گا ۔ وینکیا جی کوبہت بہت نیک خواہشات ۔ بہت بہت شکریہ ! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,উপ-ৰাষ্ট্রপতি ভে��কায়া নাইডুৰ কার্যকালৰ প্ৰথম বৰ্ষপূর্তি উপলক্ষে গ্রন্থ উন্মোচনী অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%81%D8%A7%D8%A6%D8%AF%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%A3-%E0%A6%86%E0%A6%81%E0%A6%9A%E0%A6%A8/,"تمام معزز حاضرین،سب سےپہلے میں ماتا ویشنو دیوی کمپلیکس میں پیش آئے افسوس ناک سانحے پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔ میںان تمام لوگوں سے تعزیت کرتا ہوں جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے، جو بھگدڑ میں زخمی ہوئے ہیں۔ مرکزی حکومت جموں و کشمیر انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ میں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا جی سے بھی بات کی ہے۔ راحتی کاموں کا خیال رکھا جارہا ہے اور زخمیوں کے علاج کیا جارہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، مرکزی کابینہ کے میرے معزز ساتھیو جو اس پروگرام میں ہمارے ساتھ شریک ہوئے، مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، ریاستوں کے وزرائے زراعت، دیگر معززین اور ملک کے کونے کونے سے میرے کروڑوں کسان بھائیو اور بہنو، بھارت میں رہنے والے، بھارت سے باہر رہنے والے ہر بھارتی، بھارت اور عالمی برادری کے ہر خیر خواہ کو سال 2022 کی مبارک باد اور نیک خواہشات۔سال کا سال کا آغاز ملک کے لاکھوں ان داتاؤں کے ساتھہو، سال کے آغاز میں، مجھے ملک کے کونے کونے میں اپنے کسانوں سے ملنے کا موقع ملے، یہ میرے لیے اپنے آپ میں ایک بہت بڑی تحریک کا لمحہ ہے۔ آج ملک کے کروڑوں کسان خاندانوں خصوصاً چھوٹے کسانوں کو وزیراعظم کسان سمان ندھی کی دسویں قسط مل چکی ہے۔ 20 ہزار کروڑ روپے کسانوں کے بینک کھاتوں میں منتقل کیے گئے ہیں۔ آج ہماری کسان مصنوعات کی تنظیم فارمرز پروڈیوس آرگنائزیشنز سے وابستہ کسانوں کو مالی مدد بھی بھیجی گئی ہے۔ سیکڑوں ایف پی اوز آج ایک نئی شروعات کر رہے ہیں۔ ساتھیو، ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ کام یاب آغاز کام کے حصول، عزائم کے حصول کا پہلے سے اعلان کردیتا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم 2021 کے گذشتہ سال کو بھی اسی طرح دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب بھارتیوں کی اجتماعی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں، جو اس ملک نے دکھائی جب2021 میں 100 سال میں سب سے بڑی وبا سے ہم نمٹ رہے تھے۔آج جب ہم نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں تو ہمیں گذشتہ سال کی اپنی کوششوں سے تحریک حاصل کرنی ہوگی اور نئے عزائم کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس سال ہم اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے عزائم کے ایک نئے متحرک سفر کا آغاز کیا جائے، نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ 2021 میں ہم بھارتیوں نے پوری دنیا کو دکھایا ہے کہ جب ہم پرعزم ہوتے ہیں تو سب سے بڑا نشانہ بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ اتنے کم عرصے میں بھارت جیسا وسیع ملک، جو تنوع سے بھرا ہوا ملک ہے، 1.45 کروڑ ویکسین کی خوراک مہیا کرسکے گا؟ کون سوچ سکتا تھا کہ بھارت ایک دن میں ڈھائی کروڑ ویکسین کی خوراک کا ریکارڈ قائم کرسکتا ہے؟ کون سوچ سکتا تھا کہ بھارت ایک سال میں 2 کروڑ گھرانوں کو پائپ کے ذریعے پانی کی سہولت سے جوڑ سکتا ہے؟ بھارتاس کورونا دور میں کئی مہینوں سے اپنے 80 کروڑ شہریوں کو مفت راشن کو یقینی بنا رہا ہے۔ اور بھارت نے صرف مفت راشن کی اس اسکیم پر 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ مفت اناج کی اس اسکیم سے گاؤں، غریبوں، گاؤں میں رہنے والے ہمارے کسان ساتھیوں، کھیت مزدوروں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ ساتھیو، ہمارے یہان یہ بھ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں منظم رہنے میں ہی طاقت کا راز مضمرہے۔ منظم طاقت، یعنی ہر ایک کی کوشش، عزم کو کمال تک لے جانے کا طریقہ۔ جب 130 کروڑ بھارتی ایک قدم آگے اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ صرف ایک قدم نہیں ہوتا بلکہ یہ 130 کروڑ قدم ہوتے ہیں۔ یہ ہم بھارتیوں کی فطرت رہی ہے کہ کچھ اچھا کرنے سے ہمیں ایک الگ سکون ملتا ہے۔ لیکن جب یہ اچھے کام کرنے والے جمع ہوتے ہیں تو بکھرے ہوئے منکے بنتے ہیں تو بھارت ماتا نہال ہوجاتیہے۔ کتنے لوگ ملک کے لیے اپنی جان کھپا رہے ہیں، ملک کو بنا رہے ہیں۔ وہ یہ کام پہلے بھی کرتے تھے، لیکن ان کی شناخت کا کام ابھی ہوا ہے۔ آج ہر بھارتی کی طاقت کو اجتماعی شکل میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور ملک کی ترقی کو نئی تحریک اور نئی توانائی فراہم کی جا رہی ہے۔ ان دنوں کی طرح جب ہم پدم ایوارڈ یافتگان کے نام دیکھتے ہیں جب ہمیں ان کے چہرے نظر آتے ہیں، تو خوشی سے بھر جاتے ہیں۔ ہر ایک کی کوششوں ہی سے بھارت آج کورونا جیسی بہت بڑی وبا کا مقابلہ کر رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، کورونا کے اس دور میں ملک میں صحت کے شعبے کو مزید مستحکم کرنے، صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مزید بڑھانے کے لیے مسلسل کام بھی کیا گیا ہے۔ 2021 میں ملک میں سیکڑوں نئے آکسیجن پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں، ہزاروں نئے وینٹی لیٹر بنائے گئے ہیں۔ 2021 میں ملک میں بہت سے نئے میڈیکل کالج قائم کیے گئے، درجنوں میڈیکل کالجوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ 2021 میں ملک میں ہزاروں صحت مراکز بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن سے ملک کے اضلاع، بلاکوں تک اچھے اسپتالوں، اچھی ٹیسٹنگ لیبوں کے نیٹ ورک کو تقویت ملے گی۔ ڈیجیٹل انڈیا کو نئی طاقت دیتے ہوئے آیوشمان بھارت ڈیجیٹل ہیلتھ مشن ملک میں صحت کی سہولیات کو مزید قابل رسائی اور موثر بنائے گا۔ بھائیو اور بہنو، آج بہت سے معاشی اشاریے اُس وقت بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب کورونا ہمارے درمیان نہیں تھا۔ آج ہماری معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سے زیادہ ہے۔ بھارت میں ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ جی ایس ٹی نے وصولی میں پرانے ریکارڈ کو بھی توڑ دیاہے۔ ہم نے برآمدات اور خاص طور پر زراعت کے لحاظ سے بھی نئے پیراڈائم قائم کیے ہیں۔ ساتھیو، آج ہمارا ملک اپنے تنوع اور وسعت کے مطابق ہر شعبے میں ترقی کا ایک بہت بڑا معیار قائم کر رہا ہے۔ 2021 میں بھارت نے صرف یو پی آئی، ڈیجیٹل لین دین کے ذریعے تقریباً 70 لاکھ کروڑ روپے کا لین دین کیا تھا۔ آج بھارت میں 50 ہزار سے زائد اسٹارٹ اپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے گذشتہ چھ ماہ کے دوران 10 ہزار سے زائد اسٹارٹ اپ تشکیل دے چکے ہیں۔ 2021 میں بھارت کے نوجوانوں نے کورونا کے اس دور میں 42 یونیکورن بنا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ میں اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں کو بتانا چاہوں گا کہ ایک ایک یونیکورن ایسا اسٹارٹ اپ ہے جس کی مالیت 7000 کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اتنے کم عرصے میں اتنی ترقی آج بھارت کے نوجوانوں کی کام یابی کی ایک نئی کہانی لکھ رہی ہے۔ اور ساتھیو، آج جہاں بھارت اپنے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو مضبوط بنا رہا ہے وہیں دوسری طرف وہ اپنی ثقافت کو بھی فخر کے ساتھ بااختیار بنا رہا ہے۔ کاشی وشوناتھ دھام خوب حسن کاری پروجیکٹ سے لے کر کیدارناتھ دھام کے ترقیاتی پروجیکٹوں تک، آدی شنکرآچاریہ کی سمادھی کی تعمیر نو سے لے کر بھارت سے چوری ہونے والی سینکڑوں مورتیوں بشمول ماں اناپورنا کے مجسمے کو واپس لانے تک، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر سے لے کر دھولاویرا اور درگا پوجا تہواروں کو عالمی ورثے کا درجہ دلانے تک، بھارت کے پاس بہت کچھ ہے۔ بھارت پوری دنیا کے لیے مرکز توجہ بن گیاہے۔ اور اب جب ہم ان ورثے کو مضبوط بنا رہے ہیں تو سیاحت میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا اور زیارت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ساتھیو، بھارت آجملک کی خواتین کے لیے اپنے نوجوانوں کے لیے بے مثال اقدامات کر رہا ہے۔ 2021 میں بھارت نے بیٹیوں کے لیے اپنے فوجی اسکول کھولے۔ 2021 میں بھارت نے خواتین کے لیے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کے دروازے بھی کھول دیے تھے۔ 2021 میں بھارت نے بیٹیوں کی شادی کی عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی کوشش شروع کی یعنی آج بھارت میں پہلی بار پی ایم آواس یوجنا کی وجہ سے تقریباً 2 کروڑ خواتین کو گھر میں بھی ملکیت کا حق ملا ہے۔ ہمارے کسان بھائی بہن، ہمارے گاؤں کے ساتھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا کام ہوا ہے۔ ساتھیو، 2021 میں ہم نے بھارتی کھلاڑیوں میں ایک نیا اعتماد بھی دیکھا ہے۔ کھیلوں کی طرف بھارت کی کشش بڑھ گئی ہے، ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی خوش تھا جب بھارت نے ٹوکیو اولمپکس میں اتنے تمغے جیتے تھے۔ جب ہمارے دویانگ کھلاڑیوں نے پیرالمپکس میں تاریخ رقم کی تو ہم میں سے ہر شخص کو فخر تھا۔ ہمارے دویانگ کھلاڑیوں نے گذشتہ پیرالمپکس میں اس سے زیادہ تمغے جیتے ہیں جتنے بھارت نے پیرالمپکس کی تاریخ میں اب تک جیتے تھے۔ بھارت نے کبھی بھی اپنے کھیلوں کے افراد اور کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے میں اتنی سرمایہ کاری نہیں کی جتنی آج کر رہا ہے۔ کل میں میرٹھ میں ایک اور اسپورٹس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے جا رہا ہوں۔ ساتھیو، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر بلدیاتی اداروں تک بھارت نے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ بھارت نے 2016 میں ایک نشانہ مقرر کیا تھا کہ وہ 2030 تک غیر فوسل توانائی وسائل کے ذریعے اپنی نصب بجلی کی صلاحیت کا 40 فیصد پورا کرے گا۔ بھارت نے نومبر 2021 میں 2030 کا نشانہ حاصل کیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف دنیا کی قیادت کرتے ہوئے بھارت نے 2070 تک دنیا کو خالص صفر کاربن اخراج کا نشانہ بھی مقرر کیا ہے۔ آج بھارت ہائیڈروجن مشن پر کام کر رہا ہے اور الیکٹرک گاڑیوں پر سبقت لے رہا ہے۔ ملک میں کروڑوں ایل ای ڈی بلب تقسیم کرکے ہر سال تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے غریب، متوسط طبقے کے بجلی کے بل کم ہوئے ہیں۔ ملک بھر کے شہروں میں بلدیاتی اداروں کی جانب سے اسٹریٹ لائٹس کو ایل ای ڈی سے تبدیل کرنے کی مہم بھی شروع کی جارہی ہے۔ اور بھارت میرے کسان بھائی کو توانائی کا عطیہ دینے والا ہمارا ان داتا بنانے کے لیے بھی ایک بڑی مہم چلا رہا ہے۔ پردھان منتری کسم یوجنا کے تحت کسانوں کو کھیتوں میں شمسی پینل لگا کر شمسی توانائی پیدا کرنے میں بھی مدد دی جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے لاکھوں کسانوں کو شمسی پمپ بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ اس سے پیسہ بھی بچ رہا ہے اور ماحولیات کا تحفظ بھی ہو رہا ہے۔ ساتھیو، وزیر اعظم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان ملک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی رفتار کو ایک نئی جہت دینے والا ہے۔ میک ان انڈیا کو ایک نئی جہت دیتے ہوئے ملک نے چپ مینوفیکچرنگ، سیمی کنڈکٹرز جیسے نئے شعبوں کے لیے اہم اسکیموں کو نافذ کیا ہے۔ گذشتہ سال ہی ملک کو دفاعی شع��ے میں خود کفیل بنانے کے لیے 7 دفاعی کمپنیاں ملی ہیں۔ ہم نے پہلی پروگریسو ڈرون پالیسی بھی متعارف کرائی ہے۔ خلا میں ملک کی امنگوں کو نئی پرواز دیتے ہوئے بھارتی خلائی ایسوسی ایشن تشکیل دی گئی ہے۔ ساتھیو، ڈیجیٹل انڈیا مہم بھارت میں ترقی کو گاؤں سے گاؤں لے جانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ 2021 میں ہزاروں نئے دیہاتوں کو آپٹیکل فائبر کیبلوں سے جوڑا گیا ہے۔ اس سے ہمارے کسان ساتھیوں، ان کے اہل خانہ، ان کے بچوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ ای آر یو پی آئی جیسا نیا ڈیجیٹل ادائیگی حل بھی 2021 میں ہی شروع کیا گیا۔ ملک بھر میں ایک ملک، ایک راشن کارڈ پر بھی عمل درآمد کیا گیا۔ آج ملک کے غیر منظم شعبے کے کارکنوں کو ای شرم کارڈ جاری کیے جارہے ہیں تاکہ سرکاری اسکیموں کے فوائد ان تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ بھائیو اور بہنو، 2022 میں ہمیں اپنی رفتار کو اور تیز کرنا ہوگا۔ کورونا کے چیلنج درپیش ہیں لیکن کورونا بھارت کی رفتار کو نہیں روک سکتا۔ بھارت کورونا کا بھی انتہائی احتیاط سے مقابلہ کرے گا اور انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے قومی مفادات کو پورا کرے گا۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے: یعنی: ڈر، خوف،اندیشوں کو چھوڑ کر ہمیں قوت اور صلاحیت کو یاد کرنا ہوگا، حب الوطنی کے جذبے کو بلند رکھنا ہے۔ ہمیں اپنے نشانون کو یاد رکھتے ہوئے مسلسل مقصد کی طرف بڑھنا ہے۔ قوم پہلےکے جذبے کے ساتھ قوم کے لیے مسلسل کوششیں کرنا آج ہر بھارتی کا جذبہ بن رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری کوششیں متحد ہیں، ہمارے عزائم میں کام یابی پانے کی بے تابی ہے۔ آج ہماری پالیسیوں میں تسلسل ہے، ہمارے فیصلوں میں دور اندیشی ہے۔ ملک کے ان داتا کے لیے وقف آج کا پروگرام اس کی ایک مثال ہے۔ وزیر اعظم کسان سمان ندھی بھارت کے کسانوں کے لیے ایک بہت بڑی طاقت بن گیا ہے۔ ہر بار ہر قسط وقتاً فوقتاً منتقل ہوتی رہی، ہر سال ہزاروں کروڑ روپے، بغیر کسی کمیشن کے، بغیر کسی بچولیے کے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھارت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اگر آپ آج کی رقم شامل کریں تو کسان سمان ندھی کے تحت کسانوں کے کھاتے میں ایک لاکھ 80 ہزار کروڑ روپے سے زائد رقم منتقل کی جاچکی ہے۔ آج یہ کسان سمان ندھی ان کے چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے بہت مفید ہے۔ چھوٹے کاشتکار اچھی کھاد اور سازوسامان کا استعمال کرتے ہوئے اس رقم میں سے اچھے معیار کے بیج خرید رہے ہیں۔ ساتھیو، ملک کے چھوٹے کسانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو منظم کرنے میں ایف پی او کا بڑا کردار ہے۔ پہلے الگ تھلگ ہونے والے چھوٹے کسان کے پاس اب ایف پی او کی شکل میں پانچ بڑی طاقتیں ہیں۔ پہلی طاقت بہتر سودے بازی ہے، یعنی سودے بازی کی طاقت۔ آپ سب جانتے ہیں، جب آپ اکیلے کاشت کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ اگر آپ بیج سے لے کر کھاد تک سب کچھ خریدتے ہیں، تو آپ خوردہ خریدکار ہیں، لیکن فروخت تھوک میں ہے۔ اس سے لاگت میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور منافع میں کمی ہوتی ہے۔ لیکن ایف پی اوز کے ذریعے اب یہ تصویر تبدیل ہو رہی ہے۔ ایف پی اوز کے ذریعے کاشتکار اب کاشتکاری کے لیے ضروری چیزیں بڑی مقدار میں خریدتے ہیں اور انھیں خوردہ میں فروخت کرتے ہیں۔ کسانوں کو ایف پی اوز سے جو دوسری طاقت ملی ہے وہ بڑے پیمانے پر تجارت ہے۔ ایف پی او کی حیثیت سے کسان مل کر کام کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ تیسری طاقت اختراع ہے۔ بہت سے کسان بیک وقت ملتے ہیں اور ان کے تجربات بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نئی اختراعات کا راستہ کھولتا ہے۔ ایف پی او میں چوتھی طاقت رسک مینجمنٹ کی ہے۔ مل کر، آپ چیلنجوں کا بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں، ان سے نمٹنے کے طریقے بنا سکتے ہیں۔ اور پانچویں طاقت مارکیٹ کے مطابق تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے۔ مارکیٹ اور مارکیٹ کی مانگ مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ لیکن چھوٹے کسانوں کو یا تو اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا یا وہ تبدیلی کے لیے وسائل اکٹھا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی تمام لوگ ایک ہی فصل بوتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اب طلب کم ہوگئی ہے۔ لیکن ایف پی او میں آپ نہ صرف مارکیٹ کے لحاظ سے، بلکہ آپ خود مارکیٹ میں نئی مصنوعات کی مانگ پیدا کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ ساتھیو، ایف پی او کی اس طاقت کو محسوس کرتے ہوئے آج ہماری حکومت ہر سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ان ایف پی او کو بھی 15 لاکھ روپے تک کی امداد مل رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آج ملک میں آرگینک ایف پی او کلسٹرز، آئل سیڈ کلسٹرز، بانس کلسٹرز اور ہنی ایف پی اوز جیسے کلسٹرز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آج ہمارے کسان 'ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ' جیسی اسکیموں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ملک اور بیرون ملک بڑی منڈیاں ان کے لیے کھل رہی ہیں۔ ساتھیو، آج بھی ہمارے ملک میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جںھیں بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت آسانی سے پوری کرسکتا ہے۔ خوردنی تیل اس کی ایک بہترین مثال ہیں۔ ہم بیرون ملک سے خوردنی تیل خریدتے ہیں۔ ملک کو دوسرے ممالک کو بہت پیسہ دینا پڑٹا ہے۔یہ رقم ملک کے کسانوں کو ملنی چاہیے، لہذا ہماری حکومت نے گیارہ ہزار کروڑ روپے کے بجٹ کے ساتھ نیشنل پام آئل مشن کا آغاز کیا ہے۔ ساتھیو، گذشتہ سال ملک نے زراعت کے شعبے میں ایک کے بعد ایک تاریخی سنگ میل حاصل کیا ہے۔ کورونا کے چیلنجوں کے بعد بھی آپ سب نے ملک میں خوراک کی پیداوار کو ریکارڈ سطح پر لے جا کر اپنی محنت کا مظاہرہ کیا۔ گذشتہ سال ملک میں اناج کی پیداوار 300 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ ہارٹی کلچر، فلوری کلچر – ہارٹی کلچر باغبانی میں پھولوں کی کاشت کی پیداوار اب 330 ملین ٹن سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ملک میں دودھ کی پیداوار میں بھی 6 سے 7 سال قبل کے مقابلے میں تقریباً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں اگر کسان ریکارڈ بنا رہا ہے تو ملک ایم ایس پی پر ریکارڈ خرید بھی رہا ہے۔ آبپاشی میں بھی ہم فی قطرہ زیادہ فصل کو فروغ دے رہے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے ذریعے مائیکرو آبپاشی کے ذریعے تقریباً 60 لاکھ ہیکٹر اراضی کو ڈرپ آبپاشی سے جوڑا گیا ہے۔ ہم نے قدرتی آفات میں کسانوں کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا سے کسانوں کو معاوضہ ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ اعداد و شمار بہت اہم ہیں۔ ملک بھر کے کسانوں نے پریمیم کے طور پر صرف 21,000 کروڑ روپے ادا کیے لیکن انھیں معاوضے کے طور پر ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ملے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں کہ کسان کو ہر اس چیز سے پیسہ ملے بھائیو اور بہنو، خواہ وہ فصلوں کی باقیات ہوں، بھوسی وغیرہ۔ زرعی باقیات سے بائیو فیول تیار کرنے کے لیے ملک بھر میں سیکڑوں نئے یونٹ قائم کیے جارہے ہیں۔ 7 سال پہلے جہاں ملک میں ہر سال 400 ملین لیٹر سے بھی کم ایتھنول تیار کیا جاتا تھا، آج یہ 340 کروڑ لیٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ ساتھیو، آج پورے ملک میں گوبردھن اسکیم چل رہی ہے۔ اس کے ذریعے گاؤں میں گوبر سے بائیو گیس بنانے کے لیے سبسڈیاں دی جارہی ہیں۔ بائیو گیس کے استعمال کو بڑھانے کے لیے ملک بھر میں پلانٹ بھی لگائے جارہے ہیں۔ یہ پلانٹ ہر سال لاکھوں ٹن اچھی نامیاتی کھاد بھی پیدا کریں گے جو کسانوں کو کم قیمت پر دستیاب ہوگی۔ جب گوبر بھی ادا کیا جائے گا تو ایسے جانوروں کا بوجھ نہیں پڑے گا جو دودھ نہیں دیتے یا جنھوں نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے۔ یہ بھی خود کفیلیہے کہ سب ملک کے کام آئیں، کوئی بے سہارا نہ ہو۔ ساتھیو، آج اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی جارہی ہے کہ جانوروں کا گھر پر ہی علاج کیا جائے اور گھر میں مصنوعی حمل کیا جائے۔ جانوروں میں فٹ اینڈ ماوز بیماری، کھرپا منہ پکا، کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹیکہ کاری مشن بھی جاری ہے۔ حکومت نے ڈیری سیکٹر کے بنیادی ڈھانچے کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ کامدھینو کمیشن بھی تشکیل دیا ہے۔ یہ ہماری ہی حکومت ہے جس نے لاکھوں مویشی پالنے والوں کو کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے بھی جوڑا ہے۔ ساتھیو، دھرتی ہماری ماں ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں دھرتی ماتا کو بچانے کیکوشش نہیں کی گئی، وہ زمین بنجر ہوگئی۔ کیمیائی طور پر پاک کاشت کاری ہماری زمین کو بنجر ہونے سے بچانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ چناں چہ گذشتہ سال ملک نے ایک اور وژنری کوشش شروع کی ہے۔ یہ قدرتی کاشت کاری کی کوشش ہے۔ اور آپ نے ابھی اس کی ایک فلم دیکھی ہے اور میں اس فلم کو سوشل میڈیا پر ہر کسان تک لے جانا چاہوں گا۔ ہم نے اپنی پرانی نسلوں سے قدرتی کاشت کاری کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ ہمارے اس روایتی علم کو منظم کرنے، جدید ٹکنالوجی سے جڑنے کا صحیح وقت ہے۔ آج دنیا میں کیمیائی مادوں سے پاک اناج کی بہت زیادہ مانگ ہے اور اس کے خریدار بہت زیادہ قیمت دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس کی لاگت کم ہے اور پیداوار بہتر ہے۔ جو زیادہ فوائد کو یقینی بناتا ہے: کیمیائی مادوں سے رہائی ہماری مٹی کی صحت، زرخیزی اور کھانے والوں کی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے۔ میں آج آپ سب سے درخواست کروں گا کہ قدرتی کاشت کاری کو اپنی کاشت کاری سے جوڑنے پر توجہ دیں۔ بھائیو اور بہنو، یہ نئے سال کا پہلا دن ہے، نئے عزائم کا دن ہے۔ یہ عزائم تحریک آزادی کے امرت کال میں ملک کو مزید قابل اور باصلاحیت بنانے والے ہیں۔ یہاں سے ہمیں جدت طرازی کا، کچھ نیا کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔ کاشتکاری میں یہ نیاپن آج وقت کی ضرورت ہے۔ ہم نئی فصلوں، نئے طریقوں کو اپنانے سے نہیں ہچکچاتے۔ ہمیں صفائی ستھرائی کے عزم کو بھی نہیں بھولنا ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ دیہات، کھیتوں اور کھلیان ہر جگہ صفائی ستھرائی جاری رہے۔ سب سے بڑا عزم لوکل کے لیے، خود کفیلی کے لیے آواز اٹھانا ہے۔ ہمیں بھارت میں بنائی گئی چیزوں کو عالمی سطح پر تسلیم کرانا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھارت میں پیدا ہونے والی ہر شے، بھارت میں پیدا ہونے والی ہر خدمت کو ترجیح دیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارا آج کا کام اگلے 25 برسوں کے لیے ہمارے ترقیاتی سفر کی سمت کا تعین کرے گا۔اس سفر میں ہم سب کا پسینہ بہے گا، ملک کا پر باشندہ سخت محنت کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ملک کو اس کی قابل فخر شناخت لوٹائیں گے اور ملک کو ایک نئی بلندی عطا کریں گے۔ آج نئے سال کے پہلے دن ملک کے کروڑوں کسانوں کے بینک کھاتوں میں 20 ہزار کروڑ روپے منتقل کیے گئے ہیں۔ آپ سب کو ایک بار پھر نئے سال 2022 کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ کا بہت شکريہ!",প্ৰধানমন্ত্ৰী-কিষাণ আঁচনিৰ অধীনত বিত্তীয় লাভালাভৰ দশম কিস্তি মুকলি কৰাৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ পাঠৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D9%88%D8%B3%D8%B1-%D8%AA%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A7%B1-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لوسر تہوار کے موقع پر لوگوں کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات پیش کی ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’لوسر تہوار‘‘، جو لداخ میں نئے سال کے طور پر پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے، کے موقع پر سبھی کو مبارکباد۔ آج شروع ہونے والا یہ سال سبھی کی زندگی میں خوشیاں اور خوشحالی لائے۔ اس سال میں سبھی کی آرزوئیں پوری ہوں۔‘‘,লোছাৰ উৎসৱ উপলক্ষে জনসাধাৰণক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%AA%DA%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%B9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DA%91%DA%A9-%D8%AD%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AA/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے راجستھان کے کوٹا میں سڑک حادثہ میں ہونے و الے جانوں کے اتلاف پر اپنے گہرے رنج وغم کااظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے متاثرین کے لئے وزیراعظم کے قومی راحت فنڈ (پی ایم این ا ٓر ایف) سے معاوضہ کو منظوری بھی دی ہے ۔ وزیراعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا: ‘‘راجستھان کے کوٹا میں ہونےوالا حادثہ انتہائی دردناک ہے، اس میں جن لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے ان کے خاندانوں کے تئیں میں اپنی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں ۔ خدا انہیں اس بے پناہ غم کو برداشت کرنے کی طاقت عطا کرے: پی ایم’’ ‘‘کوٹا میں ہونے و الے اس سڑک حادثہ میں جاں بحق ہونےوالے افراد کے لواحقین کے لئے وزیراعظم کے قومی راحت فنڈ سے ہر ایک کو 2 لاکھ روپئے ادا کئے جائیں گے ۔ اس کے علاوہ زخمی ہونے والے افراد میں سے ہر ایک کو 50000 روپئے دیئے جائیں گے: پی ایم’’۔,ৰাজস্থানৰ কোটাত সংঘটিত পথ-দুৰ্ঘটনাত নিহতসকলৰ বাবে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%82%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے ڈبلیو ٹی او میں بھارت کے مستقل مشن (پی ایم آئی)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف فارین ٹریڈ کے سنٹر فار ٹریڈ اینڈ انویسٹ منٹ لاء (سی ٹی آئی ایل)، اور دی گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، جنیوا کے اندر سنٹر فار ٹریڈ اینڈ اکنامک انٹیگریشن (سی ٹی ای آئی) کے درمیان مفاہمت نامہ (ایم او یو) پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ فوائد: دی گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، جنیوا کے سی ٹی ای آئی کے ساتھ مفاہمت نامہ سی ٹی آئی ایل اور ڈپارٹمنٹ آف کامرس کے ملازمین کو بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے قانون کے شعبے میں بیش قیمتی تعلیمی اور تحقیقی مواقع فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی تجارت کے عصری م��ضوعات پر ڈی او سی اہلکاروں، سی ٹی آئی ایل محققین اور ماہرین تعلیم کی تفہیم میں اضافہ کرنے اور بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے قانون میں بھارت کی پوزیشن کے لیے امداد حاصل کرنے کی خاطر ایم او یو کے تحت صلاحیت سازی کے پروگرام یا سرگرمیاں چلائی جائیں گی۔ سی ٹی ای آئی کے ساتھ ایم او یو کے تحت یہ مجوزہ اشتراک نوعیت کے لحاظ سے تعلیمی ہے جس کے تحت بھارت کے محققین اور ماہرین تعلیم، بشمول سی ٹی آئی ایل اور ڈپارٹمنٹ آف کامرس اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ملازمین صلاحیت سازی اور تحقیق کی جانب مائل سرگرمیوں سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ اس سے بین الاقوامی تجارت سے متعلق مذاکرات اور تنازعات کے حل سے متعلق متعدد امور پر بھارت کی پوزیشن بنانے میں مدد ملے گی۔ تفصیلات: بھارت، سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک کے ماہرین تعلیم، پریکٹشنرز، منصف، پالیسی ساز، اور طلباء کے درمیان اشتراک سے بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے قانون اور متعلقہ موضوعات کے ابھرتے ہوئے اور نئے شعبوں میں تکنیکی اور بہتر تفہیم پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ مفاہمت نامہ تین سال تک نافذ العمل رہے گا۔,"বিশ্ব বাণিজ্য সংস্থাত ভাৰতীয় বৈদেশিক বাণিজ্য সংস্থাৰ অধীনস্থ বাণিজ্য আৰু বিনিয়োগ আইন কেন্দ্ৰৰ ভাৰতৰ স্থায়ী মিচন আৰু দ্য গ্ৰেজুৱেট ইনষ্টিটিউট, জেনেভাৰ চেণ্টাৰ ফৰ ট্রেড এণ্ড ইকন’মিক ইণ্টিগ্রেচনৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি পত্ৰত কেবিনেটৰ অনুমোদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%81%D9%88%D8%AC%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D8%8C-%D9%82%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 26 فروری ، وزیراعظم نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں قومی وار میموریل ، قوم کے نام وقف کرنے کے لئے ہمیشہ روشن رہنے والی مشعل کو روشن کیا۔ اس سے پہلے سابق فوجیوں کی ایک وسیع ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ لاکھوں فوجیوں کی بہادری اور خود کو وقف کردینے کا نتیجہ ہے کہ بھارتی فوج کو آج دنیا کی سب سے مضبوط افواج میں سے ایک ماناجاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دشمنوں کے خلاف اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ہمارے جاں باز فوجی، پیش پیش رہتے ہیں۔ وزیراعظم نے پلوامہ دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے سی آر پی ایف جوانوں کی شہادت کو یاد کیا۔ انہوں نے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے سبھی شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں ، نئے بھارت کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب اس کی مسلح فوجوں میں بڑے اقدامات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ انہوں نے قومی وار میموریل اور قومی سمر میموریل کو قوم کے نام وقف کرنے پر خوشی کااظہار کیا۔ وزیراعظم نے وضاحت کی کہ مرکزی حکومت نے فوجیوں اور سابقہ فوجیوں کو ‘‘ ون رینک ،ون پنشن’’ فراہم کرانے کا اپنا عزم پورا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ او آر او پی کے نتیجے میں پنشن میں چالیس فیصد تک کا اضافہ کیا گیا اور 2014 کے مقابلے، فوجیوں کی اجرت میں 55 فیصد تک کااضافہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے وضاحت کی سپر اسپیشلٹی اسپتال کی مانگ ہوتی رہی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے اعلان کیا کہ تین سپر اسپیشلٹی اس��تال بنائے جائیں گے۔ مسلح فوجوں کے لئے حکومت کے دیگر اقدامات کی مثال دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فوج کا دن، بحریہ کا دن اور فضائیہ کے دن کے موقعوں پر فوجیوں کی اختراعات کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے 15 اگست 2017 کو شروع کئے جانے والے بہادری کے انعامات سے متعلق پورٹل کابھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کو اب جنگجو پائلٹ بننے کے موقع مل رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دفاعی خریداری کی پورے ایکونظام میں تبدیلی کی شروعات کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کانظریہ شفاف اور برابر کا موقع فراہم کرنا رہا ہے۔ انہوں نے میک ان انڈیا کو فروغ دیئے جانے کے موضوع پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارتی فوج نے اقوام متحدہ کے70 بڑے امن مشقوں میں سے 50 مشقوں میں شرکت کی ہے۔ تقریباً 2 لاکھ فوجی ان کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی بحریہ کے ذریعہ 2016 میں منعقد بین الاقوامی جہازی بیڑا جائزے میں50 ملکوں کےبحریہ نے حصہ لیا۔ انہوں نے کہاکہ ہماری مسلح فوجیں، ہرسال، دوست ملکوں کے فوجوں کے ساتھ اوسط طریقے سے 10 بڑی مشترکہ مشقیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحر ہند میں قزاقی میں خاطر خواہ کمی، کافی حد تک بھارتی فوج کے اختیارات اور ہماری بین الاقوامی شراکت داروں کے سبب آئی ہے۔ وزیراعظم نے 1.86 لاکھ بلٹ پروف جیکٹ کی پرانی مانگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت نے ساڑھے چار برس میں 2.30 لاکھ بلٹ پروف جیکٹوں کی خریداری کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت بھارتی فوج کو جدید طیاروں ، ہیلی کاپٹروں، آبدوزوں، جہازوں اور ہتھیاروں کے ذخیرے سے لیس کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کافی وقت سے زیر التوا فیصلے، قومی مفاد میں لئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومی وار میموریل کے اضافی قومی پولیس میموریل بھی قائم کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے سردار پٹیل، بابا صاحب امبیڈ کر اور نیتا جی سبھاش چندر بوس سمیت، عظیم قومی رہنماؤں کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت، قومی مفاد کو، سب سے اوپر رکھتے ہوئے فیصلے کرناجاری رکھے گی۔,ৰাষ্ট্ৰীয় যুদ্ধ স্মাৰকৰ উচৰ্গা অনুষ্ঠানত উপস্থিত প্ৰাক্তন সেনা জোৱানসকলক উদ্দেশ্যি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%84%D8%A7%D9%84-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%B1%D8%B4%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9/,نئی دہلی ،2اکتوبر :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے مہاتماگاندھی اورلال بہادرشاستری کو ان کی پیدائش کی سالگرہ پرخراج عقیدت پیش کیاہے ۔ گاندھی جی کے یوم پیدائش پرانھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاہے کہ گاندھی جینتی کے موقع پربابائے قوم کو صدہاسلام ۔آج سے ہم محترم باپوکے 150ویں پیدائش کے سال میں داخل ہورہے ہیں ان کے خوابوں کو شر مندہ ٔ تعبیرکرنے کے لئے ہم سبھی کے پاس یہ ایک بہت بڑا موقع دستیاب ہے ۔ لال بہادرشاستری کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاہے کہ متین شخصیت ، کامیاب قیادت اور بلندحوصلے کی علامت لال بہادرشاستری جی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر منکسرانہ خراج عقیدت ۔,জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে মহাত্মা গান্ধী আৰু লাল বাহাদুৰ শাস্ত্ৰীৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত��ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D9%B9%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%AF%D8%B1-%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے انٹرنیشنل ٹائیگر ڈے کے موقع پر شیروں کے تحفظ سے متعلق کارکنان کی کوششوں کی ستائش کی۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ‘‘انٹرنیشنل ٹائیگر ڈے کے موقع پر، میں اُن سبھی لوگوں کی ستائش کرتا ہوں، جو شیروں کے تحفظ کے لئے سرگرمی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر فخر ہوگا کہ بھارت میں شیروں کے لئے 52 محفوظ مقامات ہیں، جو کہ 75 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شیروں کے تحفظ میں مقامی باشندوں کو شامل کرنے کے لئے اختراعی اقدا مات کئے جارہے ہیں۔’’,প্রধানমন্ত্রীয়ে আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় বাঘ দিৱস উপলক্ষে বাঘ সংৰক্ষণবাদীৰ প্ৰয়াসৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D9%84%D9%86%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%B2%D8%A7%D9%86%DB%81-%D9%85%D8%AD%D8%AA%D8%B1%D9%85-%D8%A8%D8%A7%D8%B3%D9%84-%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D9%BE%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B2%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,نئی دہلی، 16 مارچ 2022: سری لنکا کے وزیر خزانہ محترم باسل راج پکشے ، جو نئی دہلی کے سرکاری دورے پر ہیں، نے آج وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی۔ وزیر خزانہ راج پکشے نے وزیر اعظم کو باہمی اقتصادی تعاون میں اضافہ کے لیے دونوں ممالک کی جانب سے کیے جارہے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا اور سری لنکائی معیشت کے لیے بھارت کے ذریعہ دیے گئے تعان کے لیے شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے بھارت کی ’ہمسائے کو اولیت‘ پالیسی میں سری لنکا کو حاصل مرکزی کردار اور اس کے ساگر (خطہ میں سب کے لیے سلامتی اور نمو) نظریہ کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ بھارت سری لنکا کے دوست عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ وزیر خزانہ راج پکشے نے ثقافتی شعبہ سمیت دونوں ممالک کے عوام سے عوام کے درمیان گہرے تعلقات کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نےبدھسٹ اور راماین سیاحتی شعبہ کے مشترکہ فروغ سمیت سیاحوں کی آمد میں اضافہ کے مضمرات کی جانب اشارہ کیا۔,শ্ৰীলংকাৰ বিত্ত মন্ত্ৰী বাচিল ৰাজপাক্ষেৰ সাক্ষাৎ প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81%D9%94-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%D9%86%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%88%E0%A6%A4%E0%A7%87-%E0%A6%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3/,اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ عزت مآب حسین امیر عبداللہیان ، جو ہندوستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے ہیں ، انہوں نے آج وزیراعظم جناب نریندر مودی سے خیرسگالی کے طور پر ملاقات کی ۔ معزز مہمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ، وزیراعظم نے ہندوستان اورایران کے درمیان طویل مدتی تہذیبی اور ثقافتی رشتوں کا گرمجوشانہ طورپر ذکر کیا۔ دونوں رہنماؤ ں نے اس وقت جاری دوطرفہ تعاون پر مبنی اقدامات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کو کووڈ کے بعد کے دور میں تبادلوں میں تیزی لانے کے لئے کام کرنا چاہئے ۔ وزیراعظم نے ایرانی وزیرخارجہ سے درخواست کی کہ وہ عزت مآب صدر ایران جناب ابراہیم رئیسی کو ان کا تہنیتی پیغام پہنچا دیں اور یہ کہ وہ کسی نزدیکی تاریخ میں ایرانی صدر سے ملاقات کرنے کی تمنارکھتے ہیں ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে ইৰাণৰ বৈদেশিক মন্ত্ৰীৰ সাক্ষা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%88%DB%8C%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7-2/,نئی دہلی،4جولائی ، 2022/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گاندھی نگر میں آج ڈیجیٹل انڈیا ویک 2022 کا افتتاح کیا جس کا موضوع ہے نئے بھارت میں ٹکنالوجی کی رفتار میں تیزی لاناہے۔ پروگرام کے دوران انہوں نے کثیر ڈیجیٹل اقدامات کا آغاز کیا جس کا مقصد زندگی کو مزید آسان بنانے اور اسٹارٹ اپس کو فروغ دینے کو یقینی بنانے کے لیے ٹکنالوجی تک رسائی میں اضافہ اور خدمات کی فراہمی کو بلارکاوٹ بنانا ہے۔ انہوں نے 30 اداروں کو ایسے پہلے گروپ کا اعلان کیا جسے چپس ٹو اسٹارٹ اپ (سی2 ایس) پروگرام کے تحت مدد دی جانی ہے۔ اس موقعے پر گجرات کے وزیراعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل ، مرکزی وزراء جناب اشونی ویشنو اور جناب راجیو چندرشیکھر، ریاستی وزراء ، عوامی نمائندگان ، اسٹارٹ اپ اور شعبے کے دیگر فریقین بھی موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج کے پروگرام سے 21ویں صدی میں بھارت کے لگاتار جدت اختیار کرتے رہنے کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کے ذریعے بھارت نے یہ مثال پیش کی ہے کہ ٹکنالوجی کا صحیح استعمال انسانیت کی ترقی کے لیے کتنا انقلابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ یہ مہم جو آٹھ سال پہلے شروع ہوئی تھی بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو وسعت دے رہی ہے۔ ‘‘ وزیراعظم نے کہا’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ملک جدید ٹکنالوجی اختیار نہیں کرتا وقت اسے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ بھارت اس تیسرے صنعتی انقلاب کے دوران ایک متاثر ملک تھا لیکن آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت چوتھے صنعتی انقلاب انڈسٹری 4.0 میں دنیا کی رہنمائی کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں قاعدانہ کردار ادا کرنے پر گجرات کو سراہا۔ آج سے دس سال پہلے کے حالات کو یاد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پیدائش کے سرٹیفکیٹ ، بل کی ادائیگی ، راشن ، داخلوں ، نتائج اور بینکوں کے لیے قطاروں کی صورتحال بھارت میں آن لائن کام کاج شروع کر کے ان تمام قطاروں کو ختم کر دیا ہے۔ زندگی سرٹیفکیٹ، ریزرویشن اور بینکنگ جیسی بہت سی خدمات قابل رسائی ہو گئی ہیں۔ اور ان میں تیزی آگئی ہے اور یہ کم خرچ ہو گئی ہیں۔پچھلے 8 برس میں اسی طرح ٹکنالوجی کے ذریعے فائدوں کی راست منتقلی کے ذریعے 23 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مستفیدین کے کھاتوں میں منتقل کیے جاچکے ہیں۔‘‘ اس ٹکنالوجی کی وجہ سے ملک کے دولاکھ 23 ہزار کروڑ روپے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ چکے ہیں۔ انہوں نے بدعنوانی پر قابو پانے میں ڈیجیٹل انڈیا کے رول پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل انڈیا کی وجہ سے حکومت شہریوں کے گھروں اور فون تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1.25 لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر اور گرامین اسٹورز کی وزجہ سے ، ای کامرس دیہی بھارت پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح دیہی جائیدادوں کی دستاویزات ، ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہیں۔ عالمی وبا کے دوران ٹکنالوجی کے استعمال کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں پچھلے 8 سال میں ڈیجیٹل انڈیا کی وجہ سے جو طاقت پیدا ہوئی ہے اس سے کورونا عالمی وبا سے لڑنے میں کافی زیادہ مدد ملی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا ’’ہم نے کروڑوں روپے ملک کی خواتین، کسانوں اور مزدوروں کے بینک کھاتوں میں ایک ہی کلک میں منتقل کیے ہیں۔ ایک ملک ایک راشن کارڈ کی مدد سے ہم نے 80 کروڑ سے زیادہ عوام کو مفت راشن یقینی بنایا ہے۔ ہم نے دنیا کا سب سے بڑا اور مؤثر ترین کووڈ ویکسینیشن پروگرام اور کووڈ راحت پر وگرام چلایا ہے۔اپنے کوون پلیٹ فارم کے ذریعے تقریباً 200 ویکسین لگائے گئے اور سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے۔ ‘‘ مزید یہ کہ وزیراعظم نے کہا ’’بھارت کی فن ٹیک کوشش عوام کی طرف سے عوام کی اور عوام کے لیے صحیح معنوں میں ایک حل ہے۔ ٹکنالوجی اپنے اندر بھارت کی اپنی جو عوام کی طرف سے ہے ملک کے عوام نے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے جو عوام کا ہے اس کی وجہ سے ملک کے عوام کی رقوم کا لین دین آسان ہو گیا ہے جو عوام لیے ہے۔ عالمی سطح پر کیے جانے والے ڈیجیٹل لین دین کا 40 فیصد لین دین بھارت میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم نےیہ بھی کہا کہ ہمارے ڈیجیٹل طریقۂ کار میں ایک معیار ہے ، حفاظت ہے اور جمہوری اقدار ہیں۔ وزیراعظم نے آنے والے چار پانچ برس میں انڈسٹریز 4.0 کےلیے 15-14 لاکھ لوگوں کو ہنرمند بنانے ، ان کی ہنرمندی کو جدید بنانے اور انہیں دوبارہ ہنر سکھانے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہاکہ خواہ وہ خلاء ہو ، نقشہ بندی ہو ، ڈرون ہوں گیمنگ اور اینیمیشن ہو ، اس طرح کے کئی شعبے جن سے ڈیجیٹل ٹکنالوجی کا مستقبل تابناک بن رہا ہے اختراع کے لیے کھول دیئے گئے ہیں۔ ان اسپیس اور نئی ڈرون پالیسی جیسی سہولتوں سے اس دہائی میں آنے والے برسوں میں بھارت کی ٹینیکل صلاحیت کو نئی توانائی ملے گی۔ ‘‘ وزیراعظم نےبتایا ’’آج بھارت الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کو اگلے 4-3 سال میں 300 ارب سے زیادہ مالیت تک لے جانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ بھارت چپ حاصل کرنے والے ملک سے چپ بنانے والا ملک بننا چاہتا ہے۔ بھارت میں سیمی کنڈکٹر کی پیداوار میں اضافے کے لیےبھارت میں سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ‘‘ وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ ڈیجیٹل انڈیا مہم اپنے اندر نئے پہلوؤں کو شامل کرتی رہے گی اور ملک کے شہریوں کے لیے خدمات انجام دیتی رہے گی۔ شروع کیے گئے اقدامات کی تفصیلات: ڈیجیٹل انڈیا بھاشنی سے بھارتی زبانوں میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل خدمات تک آسان رسائی حاصل ہو جائے گی۔ ان سہولیات میں آواز پر مبنی رسائی اور بھارتی زبانوں میں مواد تیار کرنے میں مدد بھی شامل ہے۔ بھارتی زبانوں کےلیے مصنوعی ذہانت پر مبنی ، زبان سے متعلق ٹکنالوجی کے طریقے تیار کرنے میں کلیدی اختراع ، کثیر لسانی ڈیٹا سیٹ ہوں گے۔ ڈیجیٹل انڈیا بھاشنی سے شہری بڑے پیمانے پر بھاشا دان نامی کراؤڈ سورسنگ پہل کے ذریعے ان ڈیٹا سیٹ کو تیار کرنے میں سرگرم ہوں گے۔ ڈیجیٹل انڈیا جینیسس (اختراعی اسٹارٹ اپس کے لیے اگلی نسل کی طرف سے مدد) – بھارت کے دوسرے درجے اور تیسرے درجے کے شہروں میں اسٹرٹ اپس کے موقعے تلاش کرنے ، انہیں مدد دینے ،ان کو فروغ دینے اور ان کو کامیاب بنانے کےلیے گہری ٹکنالوجی پر مبنی ایک اسٹارٹ اپ پلیٹ فارم ہے۔ اس اسکیم کےلیے 750 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں�� انڈیا اسٹیک ڈاٹ گلوبل – آدھار ، یو پی آئی، ڈیجی لاکر، کوون ویکسین پلیٹ فارم، گورنمنٹ کے ای مارکیٹ پلیس (جی ای ایم)، دکشا پلیٹ فارم اور آیوشمان بھارت ڈیجیٹل ہیلتھ مشن جیسے انڈیا اسٹیک کے تحت عمل میں لائے جانے والے بنیادی پروجیکٹوں کی ایک عالمی ریپوزیٹری ۔ عالمی عوامی ڈیجیٹل اشیا کی اس ریپوزیٹری کی بھارت کی اس پیشکش سے بھارت کو عوامی سطح پر ڈیجیٹل فارمیشن پروجیکٹوں کی تعمیر میں ایک قاعدانہ پوزیشن اختیار کرنے اور ان دیگر ملکوں کے لیے زبردست مددگار ثابت ہونے میں مدد ملے گی جو اس طرح کے ٹکنالوجی پر مبنی طریق کار کی ضرورت محسوس کر رہےہیں۔ مائی اسکیم – خدمات کو تلاش کرنے سے متعلق ایک پلیٹ فارم ہے جس سے سرکاری اسکیموں تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس مقصد ایک ہی جگہ پر تلاش اور کھوج کا پورٹل دستیاب ہوتا ہے جہاں صارفین ان اسکیموں کے بارے میں جانکاری حاصل کر سکتے ہیں جن کے وہ اہل ہیں۔ وہ شہریوں کے لیے میری پہچان بھی وقف کریں گے – ون سٹیزن لاگن کے لیے ایک ہی بار میں سائنگ آن (این ایس ایس او) کرنے کا ایک قومی پلیٹ فارم ہے۔ یہ صارفین کے لیے تصدیق کرنے سے متعلق ایک سروس ہے جس میں کچھ اسناد سے آن لائن کثیر اپلیکیشنز یا خدمات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ سی 2 ایس پروگرام کا مقصد بیچلرز ، ماسٹرز اور تحقیق کی سطح پر سیمی کنڈکٹر چپس کی ڈیزائننگ کے میدان میں ماہرا افراد کو تربیت دینے والا پروگرام ہے اور یہ پروگرام ملک میں سیمی کنڈکٹر ڈیزائن میں سرگرم اسٹارٹ اپس کے فروغ کو تیز رفتار بنانے کا کام کرتا ہے۔ یہ تنظیمی سطح پر ایک مدرس کا کام انجام دیتا ہے اور اداروں کو ڈیزائن کے لیے جدید ترین سہولیات فراہم کرتا ہے ۔ یہ بھارت کے سیمی کنڈکٹر مشن کا ایک حصہ ہے جو سیمی کنڈکٹرز میں ایک مضبوط ڈیزائن نظام تیار کرتا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا ویک 2022 کے تحت گاندھی نگر میں 4 سے 6 جولائی تک تقریب کی جگہوں پر پروگرام منعقد کیے جائیں گے ۔ اس پروگرام کے تحت ڈیجیٹل انڈیا کی سالگرہ منائی جائے گی اور آدھار، یو پی آئی، کو ون ، ڈیجی لاکر وغیرہ جیسے عوامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کارکردگی انجام دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے شہریوں کے لیے زندگی میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ اس میں عالمی سطح پر عوام کو بھارت کی ٹکنالوجی کی مہارت کی نمائش کرنے ، متعلقہ فریقوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر اشتراک اور تجارت کے موقعے تلاش کرنے نیز اگلی نسل کے لیے ٹکنالوجی کے موقعے فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس میں پروگرام میں اسٹارٹ اپس ، حکومت ، صنعت اور ماہرین تعلیم کی سرکردہ شخصیتیں حصہ لیں گی ۔ 200 سے زیادہ اسٹالز پر ڈیجیٹل میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں ایسے ڈیجیٹل طریقے کار کی نمائش کی جائے گی، جن سے زندگی میں مزید آسانی پیدا ہو اور ایسے طریقۂ کار بھی ظاہر کیے جائیں گے جن سے بھارتی یونیکارنس اور اسٹارٹ اپس کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا ویک میں 7 سے 9 جولائی تک ورچوئل وسیلے سے انڈیا اسٹیک نالج ایکسچینج بھی منعقد کیا جائے گا۔ ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গান্ধীনগৰত ডিজিটেল ইণ্ডিয়া সপ্তাহ ২০২২ উদ্বোধন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%BE%D8%B1%D8%A7%D9%85%D9%86%D8%8C-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%AD%DA%A9%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D9%88%D8%B4%D8%AD%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A7%8B%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%95-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%B0%E0%A7%8D/,"جاپان کے وزیر اعظم عزت مآب جناب کشیدا فومیو نے اپنے اولین باہمی دورے کے طور پر 19 سے 20 مارچ 2022 تک ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا جس میں وزیر اعظم ہند جناب نریندر مودی کے ساتھ 14 ویں ہندوستان-جاپان سالانہ سربراہ کانفرنس ہوئی۔ وزرائے اعظم نے تسلیم کیا کہ یہسربراہ کانفرنس ایک اہم وقت پر ہو رہی ہے کیونکہ دونوں ممالک سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ منا رہے ہیں اور ہندوستان اپنی آزادی کی–75 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ انہوں نے گزشتہ سالانہ سربراہی اجلاس سے لے کر اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا اور تعاون کے وسیعشعبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ 1۔وزرائے اعظم نے ہندوستان اور جاپان کے درمیان مخصوص اسٹریٹجک اور عالمی شراکت داری کی توثیق کرتے ہوئے، اس بات پر اتفاق کیا کہ 2018 میں جاری ہندوستان-جاپان ویژن بیان میں بیان کردہ مشترکہ اقدار اور اصول، موجودہ تناظر میں، خاص طور پر ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جو زیادہ شدید ہو چکے ہیں، متعلقہ ہیں،اور جن کےلئے عالمی تعاون کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال دنیا کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے اپنے عزم کو اجاگر کیا، جو قوانین پر مبنی حکمرانی پر قائم ہے جو اقوام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتی ہے۔ انہوں نے تمام ممالک کو، دھمکییا طاقت کے استعمال یا جمود کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کسی کوشش کے بغیر تمام مسائل کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں، انہوں نے جبر سے پاک آزاد اور کھلے ہند-بحرالکاہل کے لیے اپنے مشترکہ وژن کی تصدیق کی۔ انہوں نے اس خیال کا اشتراک کیا کہ ایسی دنیا میں دونوں ممالک کی معیشتیں، مضبوط دوطرفہ سرمایہ کاری اور تجارتی آمدورفت کے ذریعے، متنوع، لچکدار، شفاف، کھلی، محفوظ اور پیش قیاسی عالمی سپلائی چینز کے توسط سے استحکام حاصل کریں گی، جو ان کے عوام کو اقتصادی سلامتی اور خوشحالی فراہم کرتی ہیں۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ دونوں ممالک ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے، انھوں نے ہندوستان-جاپان مخصوص اسٹریٹجک اور عالمی شراکت داری کو مزید آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ ایک آزاد اور کھلے ہند-بحرالکاہل کے لیے شراکت داری، جو جامعیت اور قواعد پر مبنی آرڈر کے ذریعے قائم ہے 2۔وزرائے اعظم نے سیکورٹی اور دفاعی تعاون میں ہونے والی اہم پیش رفت کو سراہا اور اسے مزیدمستحکم کرنے کی اپنی خواہش کا اعادہ کیا۔ انہوں نے نومبر 2019 میں نئی دہلی میں، اپنے وزرائے خارجہ اوروزرائے دفاع کی پہلی 2+2 میٹنگ کے انعقاد کا خیرمقدم کیا اور اپنے وزراء کو ہدایت کی کہ وہ ٹوکیو میں جلد از جلد دوسری میٹنگ منعقد کریں۔ انہوں نے جاپان کی سیلف ڈیفنس فورسز اور ہندوستانی مسلح افواج کے درمیان رسد اور خدمات کی باہمی فراہمی سے متعلق معاہدے کو عملی شکل دینے کا بھی خیر مقدم کیا۔ انہوں نے بالترتیب ""دھرما گارڈین"" اور ""مالابار"" سمیت دو طرفہ اور کثیر الجہتی مشقوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا، مشق ملن میں پہلی بار جاپان کی شرکت کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ان کی پیچیدگی کو بڑھانے کی کوششیں بھی کیں۔ انہوں نے جاپان کی فضائی سیلف ڈیفنس فورس اور ہندوستانی فضائیہ کے درمیان افتتاحی لڑاکا مشق کے لیے تال میل کے ساتھ آگے بڑھنے کے فیصلے کی توثیق کی اور مشق کو جلد از جلد منعقد کرنے کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے بغیر پائلٹ والےگراؤنڈ وہیکل (یو جی وی) اور روبوٹکس کے شعبے میں جاری تعاون کو تسلیم کیا اور اپنے وزراء کو ہدایت کی کہ وہ دفاعی آلات اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مستقبل میں تعاون کے لیے ٹھوس شعبوں کی مزید نشاندہی کریں۔ 3۔ ہند-بحرالکاہل خطے میں امن، سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کے ساتھ، وزرائے اعظم نے آسٹریلیا، ہندوستان، جاپان اور امریکہ (کواڈ)کے درمیان چار فریقی تعاون سمیت خطے کے ہم خیال ممالک کے درمیان، دو طرفہ اور کثیر فریقی شراکت داری کی اہمیت کی توثیق کی، انہوں نے مارچ اور ستمبر 2021 میں کواڈ قائدین کے سربراہی اجلاس کا خیرمقدم کیا اور کواڈ کے مثبت اور تعمیری ایجنڈے پر خاص طور پر کووڈ ویکسینز، اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں، موسمیاتی کارروائی، بنیادی ڈھانچے کے تعاون، سائبر سیکیورٹی، خلائی اور تعلیم پر ٹھوس نتائج فراہم کرنے کے اپنے عزم کی تجدید کی۔ وہ آنے والے مہینوں میں جاپان میں اگلی کواڈ لیڈرز سربراہ کانفرنس کے ذریعے کواڈ تعاون کو آگے بڑھانے کے منتظر ہیں۔ 4۔ وزیر اعظم کشیدا نے 2019 میں وزیر اعظم مودی کی طرف سے اعلان کردہ انڈو پیسیفک اوشن انیشیٹو (آئی پی او آئی) کا خیر مقدم کیا۔ ہندوستان نے آئی پی او آئی کنیٹیویٹی کے شعبے میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر جاپان کی شرکت کی تعریف کی۔ انھوں نے آسیان کے اتحاد اور مرکزیت کے لیے اپنی مستحکم حمایات اور ’’آسیان آؤٹ لک آنری انڈوپیسیفک (اے او آئی پی)‘‘ کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کیا جو قانون کی حکمرانی، کھلے پن، آزادی، شفافیت اور جامعیت جیسے اصولوں کو برقرار رکھتا ہے۔ 5۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ انڈو- بحرالکاہل خطے میں دو سرکردہ قوتوں کے طور پر جاپان اور ہندوستان، سمندری ڈومین کی حفاظت اور سلامتی، نیوی گیشن اور اوور فلائٹ کی آزادی، بلا روک قانونی تجارت اور تنازعات کے پر امن حل میں ، بین الاقوامی قانون کے مطابق قانونی اور سفارتی عمل کے مکمل احترام کے ساتھ، مشترکہ مفاد رکھتے ہیں۔ انھوں نے ، خاص طور پر سمندر کے قانون پر ا قوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی ایل او ایس)، سے متعلق بین الاقوامی قانون کے کردار کو ترجیح دیتے ہوئے ، ا پنے عزم کا اعادہ کیا اور مشرق میں قوانین پر مبنی میری ٹائم ا ٓرڈر کے خلاف، میری ٹائم سکیورٹی میں تعاون کو آسان بنانے اور جنوبی چین کے سمندر میں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے عدم عسکریت پسندی اور ضبط نفس کی ا ہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بحیرہ جنوبی چین میں فریقین کے طرز عمل سے متعلق اعلامیے پر مکمل اور مؤثر عملدرآمد کیا جائے اور خاص طور پر یو این سی ایل او ایس اور تمام اقوام کے حقوق اور ان مذاکرات میں غیر فریق لوگوں کے مفادات کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں بین الاقوامی قوانین پر بغیر کسی تعصب کے ایک ٹھوس اور مؤثر ضابطہ اخلاق کے جلد از جلد اختتام کو یقینی بنایا جائے۔ 6۔ وزرائے اعظم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں (یو این ایس سی آر) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی کوریا کے غیر مستحکم کرنے والے بیلسٹک لانچ کی مذمت کی۔ انھوں نے متعلقہ یو این ایس سی آر کے مطابق شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے راوبط سے متعلق خدشات کو دور کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ متعلقہ یو این ایس سی آر کے تحت اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں کی مکمل تعمیل کرے اور اغوا کے معاملات کو فوری طور پر حل کرے۔ 7۔ وزرائے اعظم نے افغانستان میں امن استحکام کا ادراک کرنے کے لیے قریبی تعاون کے لیے اپنے اعادے کا اعادہ کیا اور انسانی بحران سے نمٹنے، ا نسانی حقوق کو فروغ دینے اور ایک حقیقی نمائندہ اور ایک جامع سیاسی نظام کے قیام کو یقینی بنانےکی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے یو این ایس سی آر2593 (2021) کی اہمیت کا بھی اعادہ کیا جو واضح طور پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کو پناہ دینے، تربیت فراہم کرنے، منصوبہ بندی کرنے یا مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے ا ستعمال نہ کیا جائے۔ اور تمام دہشت گرد گروپ کے خلاف مشترکہ کاکرروائی کا مطالبہ کیا جنھیں یو این ایس سی کی طرف سے منظوری حاصل ہے۔ 8۔ وزرائے اعظم نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع اور پائیدار طریقے سے بین الاقوامی تعاون کو استحکام بخشنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور بنیادی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ان کی مالی معاونت کو روکیں اور دہشت گردوں کی سرحد پار نقل وحرکت کو روکنے کے لیے مل کر کام کریں۔ اسی تناظر میں انھوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے زیر کنٹرول علاقے کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور ایسے حملوں کے مرتکب افراد کو جلد از جلد انصاف کے کٹھرے میں کھڑا کیا جائے۔ انھوں نے 26/11 ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے میں ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کا اعادہ کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین سے باہر کام کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف پرعزم اور ناقابل واپس کارروائی کرے اور ایف ا ے ٹی ایف سمیت بین الاقوامی وعدوں کی مکمل تعمیل کرے۔ انھوں نے کثیر الجہتی فارموں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مستحکم بنانے اور اقوام متحدہ میں بین الاقوامی دہشت گرد پر جامع کنونشن (سی سی آئی ٹی) کو جلد از جلد اپنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ 9۔وزرائے اعظم نے میانمار کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور تشدد کے خاتمے، زیر حراست تمام افراد کی فوری رہائی اور جمہوریت کے راستے پر فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے میانمار میں حل تلاش کرنے کے لیے آسیان کی کوششوں کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور تعطل کو توڑنے کے لیے آسیان کے سربراہ کے طور پر کمبوڈیا کی فعال کاوشوں کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے میانمار پر زور دیا کہ وہ آسیان کے پانچ نکاتی اتفاق رائے پر فوری عملدرآمد کرے۔ 10۔وزرائے اعظم نے یوکرین میں جاری تنازع اور خاص طو رپر ہند-بحرالکاہل کے خطے میں انسانی بحران کے بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا اور اس کے وسیع اثرات کا جائزہ لیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ عصری عالم نظام، اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام پر بنایا گیا ہے۔ انھوں نے یوکرین میں جوہری تنصیبات کی حفاظت اور سلامتی کی اہمیت پر زور دیا اور اس کے لیے آئی اے ای اے کی فعال کوششوں کا احترام کیا۔ تشدد کے فوری خاتمے کے لیے انھوں نے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات اور سفارتکاری کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ یوکرین میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔ 11۔ وزیر اعظم کشیدا نے ہندوستان کو اگست 2021 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کامیاب صدارت پر مبارکباد دی جس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’بین الاقوامی امن اورسلامتی کی بحالی : سمندری سلامتی‘‘ کے موضوع پر اعلیٰ سطحی کھلی بحث میں یو این ایس سی کی چیئرمین شپ بھی شامل ہے۔2023-2024 کی مدت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جاپان کی غیر مستقل رکنیت کے لیے امیدواری کے لیے ہندوستان کی حمایت کا اعادہ کیا جس پر وزیر اعظم نے ستائش کا اظہار کیا۔ وزرائے اعظم نے اکیسویں صدی کے عصری حقائق کی عکاسی کرنے کے لیے، اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی ابتدائی اصلاحات کے لیے ایک مقررہ وقت میں ٹھوس نتائج حاصل کرنے کے مجموعی مقصد کے ساتھ حکومتی مذاکرات(آئی جی این) کے لیے مل کر کام جاری رکھنے کا عزم کیا۔ انھوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ ہندوستان اور جاپان، ایک توسیع شدہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے جائز نیز مستحق امیدوار ہیں۔ 12۔وزرائے اعظم نے جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے اپنے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا اور جوہری دہشت گردی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم کشیدا نے نیوکلیائی آزمائش کے جامع معاہدے (سی ٹی بی ٹی) کے جلد از جلد نافذ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے شینن منشور کی بنیاد پر تخفیف اصلاح کی کانفرنس میں غیر امتیازی، کثیرالجہتی ، اور بین الاقوامی اور موثر طریقے سے قابل تصدیق فیزائل میٹیریل کٹ-آف ٹریٹی (ایف ایم سی ٹی) پر مذکرات کے فوری آغاز اور جلد اختتام پر زور دیا۔ انھوں نے نیوکلیائی سپلائیرز گروپ میں ہندوستان کی رکنیت کے لیے مل کر کام جاری رکھنے کا عزم کیا، جس کا مقصد عالمی نیوکلیائی عدم پھیلاؤ کی کاوشوں کو تقویت دینا ہے۔ کووڈ کے بعد کی دنیا میں پائیدار ترقی کے لیے شراکت داری 13۔ وزرائے اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہندوستان اور جاپان کووڈ-19 کا مقابلہ کرنے اور لوگوں کو زندگیوں اور معاش کے تحفظ کے لیے عالمی کوششوں میں تعاون جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کواڈ ویکسین پارٹنرشپ کے تحت ،ہند بحرالکاہل اور اس سے باہر محفوظ اور مؤثر ویکسین تک مساوی رسائی کو بڑھانے کے لیے پیشرفت کا خیر مقدم کیا۔ وزیر اعظم مودی نے کووڈ-19 کا مقابلہ کرنے اور سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومت ہند کی کوششوں کے لیے جاپان کی طرف سے دی گئی حمایت کی تعریف کی۔ وزیر اعظم کشیدا نے کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں ، خاص طور پر عطیات او رطبی آلات کی فراہمی کو یقینی بنانے اور ویکسین میتری پہل کے ذریعے محفوظ اور مؤثر ویکسین فراہم کرنے میں ، ہندوستان کے اقدامات کی تعریف کی۔ انھوں نے خاص طور پر عالمی صحت کوریج اور عالمی صحت کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا جس میں عالمی ادارہ صحت کا اہم اور مربوط کردار اور اس کی اصلاحات شامل ہیں۔ 14۔ وزرائے اعظم نے، سی او پی 26 کے نتائج کو اجاگر کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کیا اور مختلف قومی حالات کی عکاسی کرنے والے عملی توانائی کی منتقلی کے لیے مختلف راستوں کی اہمیت کا اشتراک کیا نیز عالمی سطح پر نیٹ-زیرو کے اخراج کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدت ط��ازی کا اعادہ کیا۔ انھوں نے پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول ، آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے اور توانائی کی حفاطت کو یقینی بنانے کے لیے ہند-جاپان صاف توانائی ساجھے داری (سی ای پی) کے آغاز کا خیرمقدم کیا، جس میں الیکٹرک گاڑیاں (ای وی)، بیٹریوں، الیکٹرک گاڑی چارجنگ بنیادی ڈھانچے (ای وی سی آئی)سمیت اسٹوریج، گرین ہائیڈروجن/امونیا سمیت شمسی توانائی، ہوا کی توانائی، متعلق توانائی کی منتقلی کے منصوبوں پر خیالات کا تبادلہ، توانائی کی کارکردگی، سی سی یو ایس (کاربن ڈائی آکسائڈ کیپچرنگ، یوٹیلائیزیشن اور اسٹوریج) اور کاربن ریسائیکلنگ شامل ہیں۔ انھوں نے پیرس معاہدے کی دفعہ 6 کے نفاذ کے لیے ہندوستان اور جاپان کے درمیان مشترکہ کریڈیٹنگ میکنزم (جے سی ایم) کے قیام کے لیے مزید بات چیت جاری رکھنے کا عہد کیا۔ انھوں نے دیگر شعبوں میں ماحولیاتی تعاون کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے غیر مرکزی اندرون ملک گندے پانی کے انتظام میں تعاون کے لیے ایم او سی پر دستخط کا خیر مقدم کیا۔ وزیر اعظم مودی نے وارانسی، احمد آباد اور چنئی میں اسمارٹ سٹی مشن کے لیے سابقہ اور جاری جاپانی تعاون کی تعریف کی اور اس شعبے میں مزید تعاون کی امید ظاہر کی۔ وزیر اعظم کشیدا نے ڈیزاسٹر ریسیلینٹ بنیادی ڈھانچے کے لیے اتحاد (سی ڈی آر آئی) اور بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) کی تعریف کی اور کہا کہ جاپان ، بھاری صنعت کی منتقلی کو فروغ دینے کے لیے ہند-سوئیڈن موسمیاتی اقدامات لیڈآئی ٹی میں شامل ہوگا تاکہ بھاری صنعت کی منتقلی کو فروغ دیا جاسکے۔ انھوں نے پائیدار شہری ترقی سے متعلق ایم او سی پر دستخط کا خیر مقدم کیا۔ 15۔ وزرائے اعظم نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے بنیادی حصے کے ساتھ ، قواعد پر مبنی کثیر رخی تجارتی نظام کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے نیز 12ویں ڈبلیو ٹی او تجارتی کانفرنس (ایم سی12)میں نتائج حاصل کرنے کے لیے ، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔انھوں نے جارحانہ معاشی پالیسیوں اور طور طریقے کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا جو اس نظام کے خلاف ہیں اور اس طرح کے اقدامات کے خلاف عالمی اقتصادی لچک کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کے تئیں پرعزم ہیں۔ 16۔ وزرائے ا عظم نے تعریف کرتے ہوئے واضح کیا کہ خصوصی جامع اور عالمی شراکت داری کے لیے تعلقات کو مستحکم کرنے کے بعد سے، اقتصادی تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ 2014 میں اعلان کردہ جے پی وائی 3.5 ٹریلین کی سرمایہ کاری کا ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔ ہندوستان میں جاپانی سرمایہ کاروں کے لیے کارباری ماحول کو بہتر بنانے کی غرض سے ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور کاروبار میں آسانی کو بہتر بنانے کے لیے دیگر اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ، انھوں نے جے پی وائی 5 ٹریلین کی سرکاری اور نجی سرمایہ کاری اور فائنانسنگ کو حاصل کرنے کے اپنے مشترکہ ارادے کا اظہار کیا۔جاپان اگلےپانچ سالوں میں ہندوستان کو باہمی دلچسپی کے مناسب سرکاری اور نجی منصوبوں کی مالی اعانت فراہم کرے گا ۔ وزیر اعظم مودی نے ہندوستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے جاپان کی طرف سے اٹھائے گئے مختلف اقدامات کی تعریف کی۔ اس تناظر میں، وزرائے اعظم نے نومبر 2021 میں ہندوستان-جاپان صنعتی مسابقتی شراکت داری (آئی جے آئی سی پی) کے قیام کو یاد کیا اور آئی جے آئی سی پی کے تحت ایک روڈ میپ کی تشکیل کا خیر مقدم کیا تاکہ ایم ایس ایم ای (مائیکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرائزیز)، مینوفیکچرنگ ا ور سپلائی چین سمیت دونوں ملکوں کے درمیان صنعتی تعاون کو مزید فروغ دیا جاسکے۔ انھوں نے خطے میں قابل اعتماد، لچک دار، موثر سپلائی چین کے لیے مل کر کام کرنے کی بھی تصدیق کی اور بہترین طریقے سے اشتراک جیسے شعبوں سمیت بہترین طریقوں میں اس سلسلے میں پیشرفت کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے کواڈ کے ذریعے ٹیکنالوجی کی غیر قانونی منتقلی سے نمٹنے، لچک دار سپلائی چین بنانے اور اہم بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔انھوں نے 75 بلین امریکی ڈالر کے دو طرفہ کرنسی کے معاہدے کی تجدید کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے دو طرفہ تجارت کو بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کیا اور ہندوستان اور جاپان کے درمیان فش سوریمی کی تجارت کو فروغ دینے والی ترمیم کا خیر مقدم کیا جو ہند- جاپان جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے (سی ای پی اے) کے تحت ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، انھوں نے موجودہ طریقہ کار کے ذریعے سی ای پی اے کے نفاذ کے مزید جائزے کی حوصلہ افزائی کی۔انھوں نے جاپانی سیپ کی درآمدات کے لیے ہندوستان کی منظوری اور جاپان کو ہندوستانی آم کی برآمدات کے طریقہ کار میں نرمی کا خیر مقدم کیا۔ 17۔ وزرائے اعظم نے تسلیم کیا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیاں، کووڈ کے بعد کی دنیا میں تیزی سے اہم کردار ا دا کریں گی اور ہند-جاپان ڈیجیٹل ساجھے داری کے تحت بڑھتے ہوئے تعاون کا خیر مقدم کیا تاکہ ڈیجیٹل تبدیلی کے مشترکہ پروجیکٹوں کو فروغ دینے کے ذریعے ڈیجیٹل معیشت کو بڑھایا جاسکے۔ ہندوستانی آئی ٹی پیشہ ور افراد کو جاپان اور جاپانی کمپنیوں میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اور آئی او ٹی، اے آئی اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے شعبے میں تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔اس سلسلے میں، وزیر اعظم کشیدا، جاپانی آئی سی ٹی سیکٹر میں شراکت کے لیے زیادہ ہنرمند ہندوستانی آئی ٹی پیشہ ور افراد کو راغب کرنے کے خواہاں ہیں۔انھوں نے ابھرتے ہوئے ہندوستانی اسٹارٹ اپس کے لیے فنڈس کو متعارف کرنے کی غرض سے ’’انڈیا-جاپان فنڈ-آف- فنڈز‘‘ سے متعلق پیشرفت کا بھی خیر مقدم کیا۔ سائبر سکیورٹی اور آئی سی ٹی کے شعبے میں ایم او سی پر دستخط کا خیر مقدم کرتے ہوئے، انھوں نے سائبر ڈومین میں دوطرفہ تعلقات میں پیشرفت کی تعریف کی۔ اور اقوام متحدہ سمیت کثیر الجہتی فورم پر ایک دوسرے کے ساتھ سائبر مصروفیات کو مزید گہرا کرنے کی توثیق کی۔ انھوں نے جی5، اوپن آر اے این، ٹیلی کام نیٹ ورک سکیورٹی، سب میرین کیبل سسٹم، کوانٹم کمیونی کیشنز جیسے مختلف شعبوں میں مزید تعاون کرنے کے خیالات کا اظہار کیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دوطرفہ تعاون کی پیشرفت اور مشترکہ قمری تحقیقی پروجیکٹ میں کاوشوں کو مضبوط بنانے کا عزم کیا جس میں نومبر 2020 میں سائنس اور ٹیکنالوجی تعاون پر ہندوستان- جاپان مشترکہ کمیٹی کی 10ویں میٹنگ کے انعقاد کے ذریعے ٹیکنالوجی کے وژن ، ٹیکنالوجی ڈیزائن، ترقی، حکمرانی، اور یو کے کواڈ اصولوں کی رہنمائی میں تمام ہم خیال قوموں کی طرف سے مزید اشتراک کیا جائے گا۔ 18۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ برسوں میں ہندوستانی کی سماجی واقتصادی ترقی کے لیے جاپان کے تعاون کی تعریف کی۔ وزرائے اعظم نے سات یان قرض کے منصوبوں سے متعلق نوٹوں کے تبادلے پر دستخط کا خیر مقدم کیا جس میں جاپان مجموعی طور پر 300 بلین یان (20400 کروڑ روپئے سے زیادہ) فراہم کرتا ہے۔وزیر اعظم نے ممبئی-احمدآباد ہائی اسپیڈ ریل (ایم اے ایچ ایس ا ٓر) کے فلیگ شپ دوطرفہ تعاون کے پروجیکٹ میں پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔انھوں نے تصدیق کی کہ یہ پروجیکٹ ہند-جاپان تعاون کی ایک اہم علامت ہے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کا باعث بنے گاجس سے ہندوستان میں ریلوے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ جلد از جلد آپریشن کے آغاز کے لیے مل کر کام کریں گے۔ وزیر اعظم مودی نے ایم اے ایچ ایس آر اور ہندوستان میں مختلف میٹرو پروجیکٹوں پر جاپان کے تعاون کی تعریف کی اور پٹنہ میٹرو کے لیے منصوبہ بند تیارے سروے کے لیے امید کا اظہار کیا۔ 19۔ وزرائے اعظم نے ہند-بحرالکاہل علاقے میں ہندوستان اور جاپان کے درمیان تعاون پر مبنی پروجیکٹوں کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جاری منصوبوں میں ہونے والی پیشرفت کو تسلیم کیا اور آسیان، بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ اسی طرح کے تعاون کی تلاش کا انتظار کیا۔ انھوں نے ایکٹ ایسٹ فورم(اے ای ایف) کے ذریعے ہندوستان کے شمال مشرقی خطے میں پائیدار اقتصادی ترقی اور جنوبی مشرقی ایشیاء کے ساتھ خطے کے روابط کو بڑھانے کے لیے اپنے مسلسل تعاون کی اہمیت کی ستائش کی۔ انھوں نے ’’ہندوستان کے شمال مشرقی علاقے کی پائیدار ترقی کے لیے ہندوستان-جاپان اقدام‘‘ کے آغاز کا خیر مقدم کیا، جس میں شمال مشرقی خطے کی مختلف ریاستوں میں’’شمال مشرق میں بانس کی قدر کے سلسلے کو مستحکم بنانے کی پہل‘‘ اورصحت کی دیکھ بھال، جنگلی وسائل کے انتظام، کنیکٹی ویٹی اور سیاحت میں تعاون شامل ہے۔ 20۔ وزرائے اعظم نے عوام سے عوام کے تبادلے، سیاحت اور کھیلوں کے ذریعے 2022 میں سفارتی تعلقات کے قیام کی 70ویں سالگرہ کے پیش نظر ہند-جاپان مخصوص جامع اور عالمی شراکت داری کو مضبوط بنانے نیز تکمیلی کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے وارانسی میں ردرکش کنوینشن سینٹر کے افتتاح کا، ہند-جاپان دوستی کی علامت کے طور پر خیرمقدم کیا۔ انھوں نے ہندوستان میں جاپانی زبان کی تعلیم اور تربیت میں ہونے والی پیشرفت کی تعریف کی اور جاپان اووریز کوآپریشن رضاکاروں (جے او سی وی) اسکیم کے ذریعے اس اقدام کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ 21۔انھوں نے مہارت کی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے شعبے میں تعاون کو مضبوط بنانے کی اہمیت کی تصدیق کی۔ انھوں نے اس حقیقت کا خیر مقدم کیا کہ گذشتہ ایک برس میں 3700 سے زیادہ ہندوستانیوں کو جے آئی ایم (جاپان-ہند انسٹی ٹیوٹ فار مینوفیکچرنگ) اور جے ای سیز ( جاپان ان ووڈ کورسیز( میں تربیت دی گئی۔ انھوں نے جنوری 2021 میں دستخط کئے گئے تعاون کی یادداشت کے تحت مخصوص ہنرمند کارکن (ایس ایس ڈبلیو) کے فعال ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس سال کے شروع میں ہندوستان میں ایس ایس ڈبلیو اقدامات کے آغاز کا خیر مقدم کیا اور واضح کیا کہ کچھ ہنرمند کارکنوں نے پہلے ہی جاپان میں کام کرنا شروع کردیا ہے۔ انھوں نے خوشی کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ تقریباً 200 ہندوستانی تکنیکی انٹرن ٹرینیز کے طور پر جاپان میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے ان ہنرمند ہندوستانیوں کی تعداد کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا جو ان موجو��ہ ٹرینیر کے ذریعے جاپانی معشیت میں اپنی حصہ رسدی کرسکتے ہیں۔ 22۔وزیر اعظم مودی نےوزیر اعظم کشیدا کو اولمپک اور پیرااولمک گیم میں ٹوکیو 2020 میں کامیابی کے لیے مبارکباد دی۔ وزیر اعظم کشیدا نے ہندوستان کی حمایت کے لیے ستائش کی۔ وزیر اعظم مودی نے ایکسپو 2025 اوساکا، کانسائی، جاپان میں ہندوستان کی شرکت کی توثیق کی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور عوام سے عوام کے روابط کو مزید مستحکم کرنے کے ایک موقع کے طور پر ، وزیر اعظم کشیدا نے ہندوستان کی شرکت کا خیرمقدم کیا اور کامیابی کے لیے وزیر اعظم مودی کی حمایت پر اظہار تشکر کیا۔ 23۔وزرائے اعظم نے رہنماؤں کے سالانہ باہمی دوروں کے ذریعے، کامیابیوں کی استواری کی اہمیت کی تصدیق کی۔ اور آنے والے برسوں میں اسی طرح کے دورے جاری رکھنے کے امید کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم کشیدہ نے ہندوستان کے دورے کے دوران ان کے اور ان کے وفد کے اراکین کے ساتھ گرمجوشی اور مہمان نوازی کے لیے وزیر اعظم مودی کا شکریہ ادا کیا اور وزیر اعظم مودی کو کواڈ لیڈر سربراہ کانفرنس کے موقع پر جاپان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس دعوت کو بڑے خوشی کے ساتھ قبول کیا۔ جمہوریہ ہند کے وزیر اعظم جاپان کے وزیر اعظم","ক’ভিডোত্তৰ এক শান্তিপূর্ণ, সুস্থিৰ আৰু সমৃদ্ধিশালী বিশ্বৰ লক্ষ্যৰে অংশীদাৰিত্বৰ সন্দৰ্ভত ভাৰত-জাপানৰ যুটীয়া বিবৃতি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B2%DA%86%DA%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%83-%E0%A6%AE%E0%A7%83/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے زچگی کی شرح اموات میں نمایاں کمی کی ستائش کی ہے جو 2014-16 میں 130 فی لاکھ زندہ ولادتوں سے کم ہو کر 2018-20 میں فی لاکھ زندہ ولادتوں تک 97 آگئی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق تمام پہلو بہت مضبوط ہیں۔ مرکزی وزیر صحت اور خاندانی بہبود ڈاکٹر منسکھ منڈاویا کے ایک ٹویٹ کے حوالے سے وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ""یہ ایک بہت حوصلہ افزا رجحان ہے۔ اس تبدیلی کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق تمام پہلوؤں کو آگے بڑھانے پر ہمارا زور بہت مضبوط ہے۔""",প্রধানমন্ত্রীয়ে মাতৃ মৃত্যুৰ হাৰত গুৰুত্বপূৰ্ণ হ্ৰাসৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DB%8C%D8%AA%D9%88%D9%84%D8%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%BE%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مدھیہ پردیش کے بیتول میں ایک حادثے کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے متاثرین کے لیے وزیر اعظم کے قومی ریلیف فنڈ (پی ایم این آر ایف) سے معاوضہ کی رقم کا بھی اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘بیتول، ایم پی میں ایک حادثے کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان سے غمزدہ ہوں۔ سوگوار خاندانوں سے تعزیت۔ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا ہے ۔ پی ایم این آر ایف کی طرف سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے کی معاوضہ کی رقم دی جائے گی۔ زخمیوں کو 50 ہزار روپے دیے جائیں گے’’: وزیراعظم,মধ্যপ্রদেশৰ বেতুলত দুর্ঘটনাত প্রাণহানিৰ ঘটনাত প্রধানমন্ত্রীৰ শোক প্রকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D9%B9%D9%86%D9%B9-%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%AA%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%8C-%D8%B5%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%9F%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ نے پیٹنٹ دفاتر کے علاوہ، صارفین کی ٹریڈیشنل نالج ڈیجیٹل لائبریری (ٹی کے ڈی ایل) ڈیٹا بیس تک رسائی کو توسیع دینے کی منظوری دی ہے۔ٹی کے ڈی ایل کے ڈیٹا بیس کا صارفین کے لئے کھول دیا جانا حکومت ہند کا ایک حوصلہ مندانہ اور ترقی پسندانہ قدم ہے۔ اس سے ہندوستان کے روایتی علم میں ایک نئی صبح کا طلوع ہوگا،کیونکہ ٹی کے ڈی ایل سے تحقیق و ترقی اور مختلف شعبوں میں ہندوستان کے اقداری ورثے پر مبنی اختراع کو تحریک ملے گی۔ٹی کے ڈی ایل کے دروازے کھلنے سے نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت بھارتیہ گیان پرمپرا کے ذریعہ فکر اور معلومات کے میدان میں رہنمائی کرنے کےجذبے کو بھی فروغ ملے گا۔ بھارتی روایتی علم(ٹی کے) قومی اور عالمی ضروریات کو پوری کرنے کی زبردست صلاحیت فراہم کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ سماجی منافع اور اقتصادی ترقی کے راستے بھی کھولتا ہے۔ مثال کے طور پر علاج و معالجہ اور طبی صحت کے روایتی طریقے، یعنی آیوروید، سدھا،یونانی، سووا رگپا اور یوگا، آج بھی ہندوستان اور دنیا بھر کے لوگوں کی ضرورتو ں کو پورا کررہے ہیں۔ حالیہ کووڈ-19 وبا ء کے دوران بھی ہندوستانی روایتی ادویات کااستعمال دیکھنے میں آیا،جس سے امراض کے دفاع کی طاقت میں اضافہ، بیماری کی علامتوں سے راحت اور وائرس مخالف سرگرمیاں جیسے فوائد سامنے آئے۔اس سے قبل اس سال اپریل میں عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) نے ہندوستان میں روایتی طریقہ علاج کے لئے اپنا پہلا عالمی مرکز قائم کیا۔ ان مثالوں سے دنیا کے لوگوں کی موجودہ اور آئندہ سامنے آنے والی ضرورتوں سے نمٹنے کے سلسلے میں روایتی علم کی مسلسل اہمیت کااندازہ ہوتا ہے۔ کابینہ کے ذریعہ ڈیٹا بیس کی رسائی کو پیٹنٹ دفاتر سے پرے تک توسیع دینا،اختراع اور تجارت کو فروغ دینے کی غرض سے روایتی علم اور عصری طور طریقوں کو باہم مربوط کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ ٹی کے ڈی ایل ، علم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو ترقی دینے کے لئے ٹی کے کی معلومات کا ایک زبردست وسیلہ ہے۔ٹی کے ڈی ایل کے موجودہ مشمولات سے وسیع پیمانے پر ہندوستانی روایتی ادویات کو اختیار کئے جانے کے دروازے کھلیں گے۔ جبکہ نئے مینوفیکچرز اور اختراع کاروں کو ہمارے پیش بہا ورثے پر مبنی صنعتیں قائم کرنے کی ترغیب بھی ملے گی۔ ٹی کے ڈی ایل سے صارفین کی بہت بڑی تعداد کو فائدہ ہوسکتا ہے، جس میں کاروبار / کمپنیاں ،جڑی بوٹیوں کے ذریعہ علاج(آیوش،ادویا ں سازی، فائٹو فرما سٹیکلز اورغذائیت بخش ادویات)، ذاتی نگہداشت اور دیگر ایف ایم سی جی، تحقیقاتی ادارےسرکاری اور نجی، تعلیمی ادارے،معلمین اور طلباء وغیرہ، آئی ایس ایم پریکٹشنرز ، معلومات کے حامل افراد، پٹینٹ کمپنیاں اور ان کے قانونی نمائندے وغیرہ شامل ہیں۔ ٹی کے ڈی ایل کے ڈیٹا بیس تک رسائی ایک ادائیگی والےسبسکرپشن ماڈل کے ذریعہ ہوگ��،جس میں ملکی اور عالمی صارفین کے لئے اسے مرحلہ وار طریقے سے کھولا جائے گا۔ مستقبل میں ‘‘3 پی حفاظت، تحفظ اور فروغ ’’ کے نقطے نظر سے بھارت کے دیگر روایتی علم کے شعبوں کی مزید معلومات کو بھی ٹی کے ڈی ایل ڈیٹا بیس میں شامل کیا جائے گا۔اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی ہندوستانی روایتی علم کے لئے غلط پنٹنٹس کی منظوری کو روکتے ہوئے ،ٹی کے ڈی ایل ڈیٹا بیس تخلیقی ذہنیت رکھنے والے افراد کو ایک صحت مند اور ٹیکنالوجی سے فیضیاب عوام کے لئے بہتر، محفوظ تر، اور موثر تر سہولیات اختراع کرنے کی سمت میں تحریک بھی دے گا۔ہندوستان کے گراں مایہ ثقافتی ورثے سے جدید ترین سماجی، اقتصادی،ترقیات کی بنیاد پڑے گی۔ ٹی کے ڈی ایل کے بارے میں:روایتی علم کی ڈیجٹیل لائبریری(ٹی کے ڈی ایل) ہندوستانی روایتی علم کا ایک پیشگی فنی ڈیٹا بیس ہے۔جسے سال 2001 نے سائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونسل (سی ایس آئی آر) اور ہندوستانی طریقہ علاج اور ہومیوپیتھی(آئی ایس ایم اینڈ ایچ، موجودہ وزارت برائے آیوش) کے محکمے نے مشترکہ طور پر قائم کیا تھا۔ٹی کے ڈی ایل دنیا میں اپنی قسم کی پہلی لائبریری ہے اور یہ دوسرے ملکوں کے لئے مثالی نمونے کے طور پر کام کررہی ہے۔ٹی کے ڈی ایل ،آئی ایس ایم سے جڑے موجودہ لٹریچر سے اطلاعات حاصل کرتی ہے،جس میں آیوروید، یونانی، سدھا، سووا رگپا اور یوگا شامل ہیں۔معلومات کو ایک ڈیجیٹل فارمیٹ میں دستاویز بند کیاجاتا ہے، اور اس میں پانچ زبانیں انگریزی، جرمن،فرینچ، جاپانی، اور اسپینش زبانیں استعمال کی جاتی ہیں۔ٹی کے ڈی ایل ایسی زبانوں اور فارمیٹ میں معلومات مہیا کرتی ہے۔ جسے دنیا بھر کے پیٹنٹ دفاتر میں پیٹنٹ کی جانچ پڑتال کرنے والے افسران سمجھ سکیں اور پینٹس کی غلط منظوریوں پر قدغن لگائی جاسکے۔اب تک،تلاش اور جانچ پڑتال کے مقاصد کے لئے دنیا بھر کے صرف 14 پینٹنٹ دفاتر کو ٹی کے ڈی ایل کے ڈیٹا بیس تک رسائی فراہم کی گئی ہے۔ٹی کے ڈی ایل کے ذریعہ یہ دفاعی تحفظ ہندوستانی روایتی علم کے غلط استعمال پر نظر رکھنے میں موثر ثابت ہوا ہے اور اسے ایک عالمی بینچ مارک کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔,পেটেণ্ট কাৰ্যালয়সমূহৰ উপৰি পৰম্পৰাগত জ্ঞান ডিজিটেল লাইব্ৰেৰী(টিকেডিএল)ৰ তথ্য ব্যৱহাৰকাৰীসকলে ব্যাপক হাৰত আহৰণত কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%DA%86%D8%A7%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D8%B1%D9%BE%D9%84%D8%A7%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%AA%E0%A6%BE/,نئی دہلی ،11نومبر:وزیراعظم ، جناب نریندرمودی ے آچاریہ کرپلانی کو بھارت کی جدوجہد آزادی میں ان کے گراں قدر تعاون کے لئے یاد کیا۔ ٓج آچاریہ کرپلانی کی جینتی پروزیراعظم نے ہمارے ملک کے لئے ان کے عظیم ویژن اورماحولیات اورآب وہوا کے تحفظ اورسماجی طورپربااختیار بنانے کے تئیں ان کے تعاون کے لئے ان کی ستائش کی۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا: ‘‘آچاریہ کرپلانی ، باپوکی قیادت میں بھارت کی جدوجہد آزادی میں پیش پیش رہے تھے ۔ ہمارے ملک کے لئے ان کا ایک عظیم ویژن تھا اور انھوں نے ایک رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے اسے پوراکرنے کےلئے بہت کام کیا۔ انھوں نے آب وہوا کے تحفظ اور سماجی طورپر بااختیار بنانے کے لئے گراں قدرتعاون کیا۔ ان کی جینتی پرا��ھیں یادکرتے ہیں ۔,জন্ম জয়ন্তীত আচাৰ্য কৃপালনীক স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D9%86%D9%85%D9%88%D8%A7%DB%8C%D9%BE-%D9%BE%D8%B1-25-%D8%B3%D8%AA%D9%85%D8%A8%D8%B1-2022/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AB-%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے لوگوں سے نموایپ پر 25 ستمبر 2022 کے من کی بات پر مبنی کوئز میں حصہ لینے کےلئے کہا ہے۔ جناب مودی نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس بار کے من کی بات پروگرام میں جنگلی حیات سے ماحولیات تک اور ثقافت سے ہندوستان کی گراں مایہ تاریخ تک بہت سے موضوعات کااحاطہ کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ’’حالیہ من کی بات پروگرام میں ہم نے جنگلی حیات سے ماحولیات اور ثقافت سے ہندوستان کی گراں مایہ تاریخ تک بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا ہے ۔ نموایپ پر ایک بہت دلچسپ کوئز پروگرام موجود ہے ، جس میں حصہ لینے کے لئے میں آپ لوگوں سے پرزور اپیل کرتاہو ں ‘‘۔,২৫ ছেপ্টেম্বৰৰ ‘মন কী বাত’-ৰ ভিত্তিত ‘নমো এপ্’-ত অনুষ্ঠিতব্য কুইজ প্ৰতিযোগিতাত ভাগ লোৱাৰ বাবে ৰাইজলৈ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%9F%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1-%E0%A6%B8/,نئیدہلی۔04 مارچ، 2018 ؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کرناٹک کے تمکرو میں نوجوانوں کی طاقت : جدید ہندوستان کے لیے ایک ویژن کے موضوع پر نوجوانوں کے ریاستی سطح کے کنویشن سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کیا۔ تمکرو میں کنونشن کا انعقاد تمکرو میں رام کرشن وویکانند آشرم کی سلور جوبلی تقریبات کے موقع پر سوامی وویکانند کے شکاگو خطاب کی 125 ویں سالگرہ منانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی شسٹر نویدیتا کی 150ویں سالگرہ منانے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ نوجوانوں سے ملنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کی امیدوں اور خواہشات کو جان سکیں اور ان کے مطابق کام کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی تقریبات کی توجہ کا مرکز سوامی وویکانند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد آزادی کے دوران مختلف سطحوں پر ایک ہی عزم آزادی حاصل کرنا تھا ، وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں حکومت نے شمال مشرق کی جذباتی ارتباط کے لیے عہدبستگی ظاہر کی ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہارتباط سے ہی بنیاد پرستی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں سے گزارش کی کہ وہ عہد کریں کہ اس کے حصول کے اپنے آپ کو وقف کریں کے، انہوں نے کہا کہ نوجوان ملک کی تعمیر میں اپنی توانائی وقف کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں وزیر اعظم نے مدرا یوجنا کے بارے میں بات کی۔ ساتھ ہی خود روزگار اور ہنرمندی کے فروغ کی بات کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج نوجوان بہتر حال اور مستقبل کے لیے ماضی سے سیکھنے کے خواہش رکھتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,কৰ্ণাটকৰ টুমাকুৰুৰ যুৱ সন্মিলনত ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সযোগে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%B3%DA%A9-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3%D8%B2-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%84%D8%B3%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AB%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گجرات فارنسک سائنسز یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو تین دن بعد رکشا بندھن کا مقدس تیوہار ہے، آپ سب مائیں اور بہنیں اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئی ہیں، میں آپ سب کا بہت بہت ممنون ہوں۔ رکشا بندھن کا تیوہار اور گجرات میں ایک لاکھ سے بھی زائد کنبوں کو، بہنوں کو ان کے نام سے اپنا گھر ملے ، میں سمجھتا ہوں رکشا بندھن کا اس سے بہتر تحفہ نہیں ہوسکتا۔ رکشا بندھن کے تیوہار سے قبل ان سبھی ماؤں اور بہنوں کو ایک لاکھ سے بھی زائد گھروں کی سوغات دیکر آپ کے بھائی کی حیثیت سے میں انتہائی تشفی و اطمینان کا احساس کررہا ہوں۔ آج ایک دوسری اسکیم بھی سات سو کروڑ روپئے کی ہے، یہ اسکیم بھی رکشا بندھن کے مقدس تیوہار سے قبل ہماری ماؤوں اور بہنوں کو ہی تحفہ ہے۔ سوغات ہے۔ پانی کی قلت کا بحران سب سے زیادہ کنبے کی ماؤوں اور بہنوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پورے کنبے کیلئے پانی کا انتظام ہمارے گھروں میں آج بھی ہماری ماؤوں اور بہنوں کو کرنا پڑتا ہے اور پینے کا خالص پانی نہ ہونے کے سبب ایک طرح سے گھر اور زندگی بیماری کا گھر بن جاتے ہیں۔ پینے کا صاف پانی کنبے کو متعدد امراض سے بچاتا ہے۔ میں نے اپنی جوانی کے کئی برس قبائلی علاقے میں گزارے ہیں، میں جب دھرم پور سیدم باڑی میں رہتا تھا، ان دنوں میرے دل میں ہمیشہ ایک سوال اٹھتا تھاکہ اتنی بارش یہاں ہوتی ہے، لیکن دیوالی کے بعد دو مہینے سے زیادہ پانی نہیں بچتا اور پھر پانی کیلئے ترسنا پڑتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے اس وقت دھرم پور میں سیدم بور میں اور اس سارے قبائلی علاقے سے، عمر گاؤں سے امبا جی تک بارش زیادہ ہوتی ہے اور سارا پانی ہماری طرف دریا کی طرف اور سمندر کی طرف چلا جاتا ہے۔ اور سارے علاقے پانی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ میں جب گجرات کا وزیراعلیٰ تھا، اس وقت ہزاروں کروڑ روپوں کی لاگت سے طے کیا تھا کہ عمرگاؤں سے امباجی تک سارے قبائلی علاقے جو گجرات کے مشرقی سرحد پر واقع ہیں، وہاں ہر گاؤں کو اور ہر گھر کو نل سے پانی ملے ، میں نے یہ خواب دیکھا تھا۔ آج جو فلم دکھائی گئی ہے اس میں دس اسکیمیں بیان کی گئی ہیں، آج اس کی آخری اسکیم کا بھی کام شروع ہورہا ہے۔ جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہوگی ، انہیں بھی تعجب ہوگا ، سب سے اوپر جہاں پانی پہنچنے والا ہے، وہ 200 منزلیں مکان کی بلندی جتنا ہے، اتنا پانی اوپر لے جائیں گے یعنی ایک طرح سے ندی کو 200 منزلہ بلندی تک لے جائیں گے اور وہاں سے پانی نیچے کے لوگوں کو پہنچے گا۔ یہ ٹیکنالوجی کا کرشمہ ہے۔ ہمارے ملک میں دور صدور گری کے جنگلوں میں ایک پولنگ بوتھ ایک پولنگ کیلئے ہوتا ہے، ایک پولنگ بوتھ اور ایک رائے دہندہ جو ساری دنیا میں باکس آئیٹم بن جاتا ہے کہ ہندوستان کا ا نتخابی عمل ایسا ہے کہ وہاں گری کے جنگلوں میں بھی ایک پولنگ بوتھ ہوتا ہے جو محض ایک رائے دہندہ کیلئے ہوتا ہے۔ یعنی وہاں ایک رائے دہندہ کیلئے بھی چناؤ کا انتظام ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی ایک عجوبہ بن جائے گا کہ ایک گاؤں اوپر 200، 300 گھروں کی بستی لیکن ان کو پانی پہنچانے کیلئے ایک حساس سرکار 200 منزلہ تک پانی کو اوپر لے جائے، ہر شہری کے تئیں ہماری محبت اور حساسیت کتنی ہے اس کی یہ جیتی جاگتی مثال ہے۔ پہلے بھی سرکاریں رہیں، قبائلی وزیراعلیٰ بھی رہے اور جب میں نیا نیا وزیراعلیٰ بنا تھا اس وقت پہلے کے قبائلی وزرائے اعلیٰ کے گاؤں میں گیا تھا ، وہاں پانی کی ٹنکی تھی لیکن پانی نہیں تھا۔ اس گاؤں کو پانی دینے کا کام بھی خوش نصیبی سے مجھے ہی ملا۔ اگر کوئی پانی کی پرت بنادیتا ہے ، راہ گیروں کیلئے ایک دو مٹکے رکھ دیتاہے، تو بھی سالوں تک اس کنبے کو انتہائی عزت اور فخرکے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ آبھی اُسلاکھا بل دھارا کی کہانیاں یاد کی جاتی ہیں، جس نے پانی کیلئے کام کیا، گجرات او رراجستھان میں گاؤں گاؤں کی زبان پر اس کی کہانی ہے۔ آج مجھے فخر ہے کہ گجرات سرکار گھر گھر نل سے پانی پہنچانے کی مہم چلا رہی ہے۔ ہمارا گجرات آگے چل کر کیسا ہو؟ غریب سے غریب کی زندگی کیسی ہو؟ ہمارے خواب کیسے ہیں؟ ان خوابوں کو عملی تعبیر دینے کیلئے ہماری کوششیں کیا ہیں، یہ نظر آتا ہے۔ دلّی سے ایک روپیہ نکلتا ہے تو غریب کے گھر میں پورے پورے 100 پیسے پہنچ جاتے ہیں اس لئے یہ سب ممکن ہورہا ہے۔ اس سرکار میں ہمت ہے کہ اتنے ٹی وی والوں کی موجودگی میں اتنے اخبار والوں کی موجودگی میں ، جب پورا ملک ٹی وی پر دیکھ رہا ہے اس وقت ہمت وجرأت کے ساتھ کسی ماں سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو رشوت تو نہیں دینی پڑی، کسی نے دلالی تو نہیں لی ہے۔ ہم سب اس کردار کی تعمیر کیلئے لگے ہوئے ہیں اور مجھے اس وقت بڑی خوشی ہوئی جب مائیں بہنیں انتہائی خود اعتمادی اور اطمینان کے ساتھ کہہ رہی تھیں، جی نہیں ہمیں اپنا حق ، قاعدوں کے مطابق ملا ہے، ہمیں کسی کو بھی ایک روپیہ دینا نہیں پڑا ہے۔ آپ نے ان مکانوں کو دیکھا ، پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ان مکانوں کا معیار جب ہم دیکھ رہے تھے تو آپ کو بھی محسوس ہوا ہوگا کہ کیا بات ہے۔ سرکار کے ایسے مکان بھی بن سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ سرکار نے سرمایہ دیا ہے لیکن سرکاری کے پیسوں کے ساتھ اس کنبے کا پسینہ بھی اس میں لگا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اپنا پسندیدہ مکان طے کیا۔ کون سا سامان استعمال ہوگا یہ بھی کنبے نے طے کیا، مکان کیسے بنایا جائیگا یہ بھی کنبے نے ہی طے کیا۔ ہم نے سرکاری ٹھیکیداروں کے بھروسے پر کام نہیں کیا۔ ہم نے اس کنبے پر اعتماد کیا اور جب کنبہ اپنا گھر بناتا ہے تو بہترین سے بہترین گھر بناتا ہے۔ میں اس کے لئے ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم نے ملک کو غریبی سے نجات دلانے کی ایک زبردست مہم شروع کی ہے لیکن یہ مہم غریبوں کو بااختیار بنائے جانے کے ذریعے شروع کی گئی ہے۔ اس سے پہلے غریب کا بینکوں میں داخلہ نہیں تھا، ہم نے پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت بینک کو ہی غریب کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کردیا ۔ گاؤں کے رئیس گھر میں ہی بجلی کا کنکشن ہوا کرتا تھا، غریب کے گھر میں بجلی کا کنکشن پانا تو اس کیلئے حیرت کی بات تھی کہ میرے گھر کی بھی تاریکی مٹ جائے گی آج اُجّولا اسکیم کے تحت ہر گھر میں سوبھاگیہ یوجنا کےتحت ہر گھر میں بجلی کاکنکشن دینے کی ایک بڑی مہم شروع کی گئی ہے اور آئندہ ایک ڈیڑھ سال میں کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جہاں بجلی کا کنکشن نہ ہو۔ گھر ہو ، گھر میں بیت الخلاء، بجلی ہو، پینے کاپانی ہو، گیس کا چولہا ہو، ایک طرح سے اس کی زندگی میں زبردست تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ا ب تک نیتاؤں کے بڑے بڑے گھر بننے کی خبر آتی تھی، اب تک نیتاؤں کے گھروں کی سجاوٹ کی خبر آتی تھی، لیکن اب خبریں آرہی ہیں غریبوں کے گھر بننے کی اور غریبوں کے گھروں کی سجاوٹ کی۔ بھائیو اور بہنو، پچھلا ہفتہ ہمارے لئے انتہائی کرب کا رہا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی جی چلے گئے، لیکن ان کے نام بھی ہوئی پردھان منتری گرام سڑک یوجنا ،ہر گاؤں کو پکی سڑک سے جوڑنے کا کام بھی مدت مقررہ میں مکمل کرنے کا نشانہ لیکر ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ عوام الناس کی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ، آپ نے دیکھا ہوگا ، اسکل ڈیولپمنٹ، دور دراز کے جنگلوں میں رہنے والی قبائلی بیٹیوں کو اسکل ڈیولپمنٹ کے بعد روزی روٹی کمانے کیلئے کیسے کیسے مواقع مل رہے ہیں مجھے اس کا ثبوت دینے کا موقع ملا ہے۔ ولساڑکے میرے بھائیو اور بہنو، ویسے تو کچھ دن پہلے یہاں میرے آنے کا پروگرام بنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے وہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ اس بار بارش بھی عجیب ہے، کبھی آتی ہے تو بڑے زور سے آتی ہے، نہیں آتی ہے تو ہفتوں تک رُک جاتی ہے۔ گجرات کے کچھ علاقوں میں تکلیف بھی ہوئی اور کچھ علاقوں میں پانی آئی نہیں۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں میں جو بارش ہوئی اس کی وجہ سے گجرات کے کئی علاقوں میں بارش کی مہربانی ہوئی، مجھے یقین ہے کہ آنے والا برس بھی بہتر جائے گا ، زراعت کے شعبے میں بہت فائدہ ہوگا ۔ میں ولساڑ کے اپنے سبھی پیارے بھائیو اور بہنو کےتئیں جتنا بھی اظہار ممنونیت کروں کم ہے، جو اتنے طویل وقت تک اتنی بڑی تعداد میں یہاں بیٹھے ہیں۔ آپ سبھی ماؤں اور بہنوں کو رکشا بندھن کی بہت بہت نیک خواہشات ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ م ن۔س ش۔ع ن,গুজৰাটৰ ফৰেনচিক বিজ্ঞান বিশ্ববিদ্যালয়ৰ অভিৱৰ্তন সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%D8%B2%D8%A7-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%B3%D8%A7%DA%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D9%86%D8%A7%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA-%E0%A6%AE%E0%A7%81/,نئی دہلی۔16؍جولائی۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مرزا پور میں باناساگر کینال پروجیکٹ اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے: ’’آج ہمارے لئے بہت ہی فخر کی بات ہے ، جنم دینے والی ماں وِندھ واسنی کی گود میں آپ سب کو دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہورہی ہے۔ آپ سب بہت دیر سے ہمارا انتظار کررہے تھے ، اس لئے ہم آپ کے پیر چھو کر آپ کو سلام کرتے ہیں۔ آج اتنی بھیڑ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ ماں وِندھ واسنی کی مہربانی اور نگاہ لطف آپ لوگوں کی مہربانی سے آئندہ بھی بنی رہے گی۔ اترپردیش کے گورنر جناب رام نائیک صاحب ، وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ جی ، مرکزی کابینہ میں میری ساتھی بہن انوپریہ جی ، ریاستی سرکار کے وزیر جناب سدھارتھ ناتھ ، جناب گرب بال سنگھ جی، جناب آسوتوش ٹنڈن، راجیش اگر وال جی اور بھارتی جنتا پارٹی کے ریاستی صدر میرے پرانے ساتھی اور پارلیمنٹ میں میرے رفیق ڈاکٹر مہندر ناتھ پانڈے جی، رکن پارلیمان جناب ویریندر سنگھ جی، رکن پارلیمان بھائی چھوٹے لال اور یہاں اتنی بڑی تعداد میں آنے والے بھائیو اور بہنوں! میں اسٹیج پر کب سے دیکھ رہا تھا ، دونوں طرف سے لوگ آ جارہے تھے، ابھی بھی لو گ آرہے ہیں، بھائیو، بہنوں یہ پورا علاقہ الٰہیانہ اور مافوق الفطرت تقدس سے مالامال ہے۔ کوہ وندھیانچل اور بھاگیرتی ندی کے وسط میں بسا ایک علاقہ صدیوں سے لامحدود امکانات کا مرکز رہا ہے، انہی امکانا�� کی جستجو اور یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے درمیان آج مجھے آپ کا آشیرواد حاصل کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔ پچھلی بار مارچ میں جب میں یہاں سولر پلانٹ کا افتتا ح کرنے آیا تھا اور میرے ساتھ فرانس کے صدر مملکت بھی آئے تھے، اس وقت ہم دونوں کا خیرمقدم ماتا کی تصویر اور چنری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس کی ستکار سے فرانس کے صدر مملکت جناب میکرو بیحد متاثر ہوئے تھے۔ وہ ماں کی عظمت اور جلال کو جاننا چاہتے تھے اور میں نے جب ان کو ماں کی عظمت اور جلال کے بارے میں بتایا تو ان کو اتنی حیرت ہوئی، وہ اتنے متاثر ہوئے، عقیدے اور روایت کی اس دھرتی کی چومکھی ترقی ہماری عہدبستگی ہے۔ جب سے یوگی جی کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کی سرکار بنی ہے ، تب سے پوروانچل اور اترپردیش کی ترقی کی رفتار میں جو اضافہ ہوا ہے ، آج اس کے نتائج نظر آنے لگے ہیں، اس علاقے کے غریب، محروم ، استحصال زدہ اور مصیبت زدہ لوگوں کیلئے سون لال پٹیل جیسے سرگرم کارکنان نے جو خواب دیکھے تھے ان کی تکمیل کی سمت میں ہم سب مسلسل کوششیں کررہے ہیں، پچھلے دو دنوں کے دوران متعدد ترقیاتی اسکیموں کو پوروانچل کے عوام کو نذر کرنے کا یا پھر نئے کام شروع کرنے کا مجھے موقع حاصل ہوا ہے۔ ملک کا سب سے طویل پوروانچل ایکسپریس وے ہو، وارانسی میں کسانوں کیلئے شروع کیا جانے والا پیری فیرل کارگو سینٹر ہو، ریلوے سے جڑے منصوبے ہوں، یہ سب پوروانچل میں ہونے والی ترقی کو غیرمعمولی رفتار دینے کا کام کریں گے۔ ترقی کے اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کیلئے آج میں یہاں پھر سے ایک بار آپ سبھی کے درمیان آیا ہوں، اب سے کچھ دیر قبل تاریخی باناساگر باندھ سمیت تقریباً 4000 کرو ڑ روپے کی اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھا گیااور انہیں ملک و قوم کو نذر کیاگیا۔ آپ کا یہ علاقہ مرزا پور ہو، سون بھدر ہو، بھدوہی ہو ، بندولی ہویا الہ آباد، یہ علاقے ہمیشہ کھیتی کسانی کے رہے ہیں اور کاشتکاری یہاں کی زندگی کا اہم حصہ رہی ہے۔ کسانوں کے نام پر پہلے کی سرکاریں کس طرح آدھی ادھوری اسکیمیں بناتی رہیں، انہیں لٹکاتی رہی، آپ سب لوگ اس کے سزا وار رہے ہیں، آپ سب اس کے گواہ ہیں۔ ساتھیو، تقریباً ساڑھے تین ہزار کروڑ روپئے کے باناساگر پروجیکٹ سے صرف مرزا پورہی نہیں، بلکہ الہ آباد سمیت اس پورے خطے کے ڈیڑھ لاکھ ہیکٹیئر رقبہ زمین کو آبپاشی کی سہولت حاصل ہونے جارہی ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ پہلے پورا ہوجاتا ، تو جو فائدہ اب آپ کو حاصل ہونے والا ہے، وہ فائدہ اب سے دو دہائی قبل ہی آپ کو حاصل ہونا شروع ہوگیا ہوتا۔ یعنی دو دہائیاں برباد ہوگئیں۔ لیکن بھائیو اور بہنوں، پہلے کی سرکاروں نے آپ کی، یہاں کے کسانوں کی فکر نہیں کی، اس پروجیکٹ کا خاکہ 40 سال پہلے تیار کیا گیا تھا ، 1978 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا، لیکن حقیقی کام شروع ہوتے ہوتے 20 سال گزر گئے۔ اس کے بعد کے برسوں میں کئی سرکاریں آئیں ، گئیں لیکن اس پروجیکٹ پر باتوں اور وعدوں کے علاوہ یہاں کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ 2014 میں آپ سب نے ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیا ، ا س کے بعد ہماری سرکار نے جب اٹکی ہوئی ، لٹکی ہوئی اور بھٹکی ہوئی اسکیموں کو کھنگالنا شروع کیا تو ان میں اس پروجیکٹ کا نام بھی سامنے آیا۔ یہ نام فائلوں میں کھو چکا تھا، اور اس کے بعد باناساگر پروجیکٹ کو پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت جوڑا گیا اور اسے مکمل کرنے کیلئے پوری توانائی لگا دی گئی۔ خاص طور سے گزشتہ برس یوگی جی اور ان کی ٹیم نے جس تیز رفتاری سے اس کام کو آگے بڑھایا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بانا ساگر کا یہ امرت آپ سبھی کی زندگی میں خوشحالی لانے کیلئے تیار ہوپایا ہے۔ باناساگر کے علاوہ برسوں سے ادھوری پڑی سریوندی نیشنل اسکیم اور سینٹرل گنگا ساگر پروجیکٹ پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ ساتھیو، بانا ساگر پروجیکٹ اس نامکمل سوچ اور محدود قوت ارادی کی مثال ہے، جس کی ایک بہت بڑی قیمت آپ سبھی کو میرے کسانوں بھائیو اور بہنوں کو ، میرے غریب بھائیو اور بہنوں اور میرے اس علاقے کے لوگوں کو چکانی پڑی ہے۔ برسوں پہلے جو سہولت آپ کو ملنی چاہئے تھی وہ تو نہیں ملی اور ملک کو بھی اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ تقریباً 300 کروڑ کے بجٹ سے شروع ہونے والا یہ پروجیکٹ اگر اس وقت مکمل ہوجاتا تو لاگت 300 کروڑ ہی رہتی۔ لیکن نہ ہونے کے سبب وقت گزرتا گیا ، قیمتیں بڑھتی گئیں اور 300 کروڑ روپئے کا پروجیکٹ 3000 کروڑ روپئے لگانے کے بعد مکمل ہوپایا ہے۔ آپ مجھے بتائیں یہ پرانی سرکاروں کی خطا ہے کہ نہیں ہے۔ آپ کے پیسے برباد کیے گئے یا نہیں کیے گئے؟ اور آپ کو آپ کے حقوق سے محروم رکھا گیا کہ نہیں۔ اسی لئے بھائیو بہنوں، جو لوگ آج کل کسانوں کیلئے گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں، آپ کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ آخر کیوں انہیں اپنے دور اقتدار میں ملک بھر میں پھیلی اس طرح کی ادھوری آبپاشی اسکیمیں نظر کیوں نہیں آئیں۔ یہ صرف بانا ساگر کا معاملہ نہیں ہے، پورے ملک میں ہر ریاست میں ایسے لٹکے ، اٹکے ، بھٹکے کسانوں کی بھلائی کے پروجیکٹ اٹکے پڑے ہیں، کوئی پروا نہیں تھی ان لوگوں کو، کیوں ایسے کام ادھورے چھوڑ دیے گئے۔ بھائیو ، بہنوں! آج جب میں یہاں کے کسانوں کے قریب آیا ہوں، تو میں آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں، کیا آپ دیں گے۔ یہ ماں وِندھ واسنی کی دھرتی ہے، آپ نے وعدہ کیا ہے نبھانا پڑے گا، نبھائیں گے آپ؟ دیکھئے ساڑھے تین ہزار کروڑ روپئے صرف ہوئے ، 40 سال برباد ہوئے، خیرجو ہوا سو ہوا، اب پانی یہاں پہنچ پایا ہے، اب ان کسانوں کے کھیتوں میں یہ پانی پہنچ رہاہے، جن کے قریب یہ نہر ہے۔ کیا میرے کسان بھائی بہن، ٹپک سینچائی یا اسپرنکلر فوارے والی سینچائی اور قطرہ قطرہ پانی بچانے کی سمت میں کام کرسکتے ہیں؟ میں آپ سے یہی مانگ رہا ہوں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ آپ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ یہ جو پانی ہمارے لیے ماں وِندھ واسنی کا پرساد ہے ، جیسے پرساد کا ایک ذرّہ بھی برباد نہیں ہونے دیا جاتا اسی طرح ماں وِندھ واسنی کے پرساد کے روپ میں یہ جو پانی ہمیں ملا ہے اس کی بھی ایک ایک بوند برباد ہونےنہیں دی جائےگی۔ ہم بوند بوند پانی سے کھیتی کریں گے۔ ٹپک سینچائی سے ہر طرح کی کھیتی ہوسکتی ہے، پیسے بچتے ہیں، پانی بچتا ہے، مزدوری بچتی ہے اور فصل اچھی ہوتی ہے۔ اسی لئے میں آپ سے مانگتا ہوں کہ آپ طے کریں ، اگر آپ نے پانی بچا لیا تو آج لاکھ سوا لاکھ ہیکٹیئر میں پانی پہنچ رہا ہے۔ اسی پانی کا استعمال دو لاکھ ہیکٹیئر تک رقبہ زمین میں ہوسکتا ہے۔ اگر آج کچھ لاکھ کسانوں کو فائدہ ہوتا ہے تو اس سے دوگنی تعداد میں کسانوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر آج یہ پانی کم پڑتا ہے ، اگر آپ بوند بوند پانی بچا کر کھیتی کریں تو یہ پانی برسوں تک چلے گا۔ آپ کی اولادوں کے کام آئے گا۔ اسی لئے میرے بھائیو اور بہنوں میں آج آپ سے یہ پروجیکٹ لانے کے بعد آپ کے خادم کی حیثیت سے ماں وِندھ واسنی کے بھکت کی حیثیت سے آپ سے کچھ مانگ رہا ہوں، دیں گے۔ پکاّ پورا کریں گے۔ سرکار اپنی ایک اسکیم کے تحت مائیکرو ایریگیشن کیلئے سبسیڈی دیتی ہے، آپ اس کافائدہ اٹھائیے ۔ میں آپ کی خدمت کیلئے آیا ہوں۔ میرے پیارے کسان بھائیو ، بہنوں! پہلے کے لوگ کسانوں کیلئے گھڑیالی آنسو بہاتے تھے، ایم ایس پی کی اسکیمیں ہوتی تھی ، خریداری نہیں ہوتی تھی، اخبارات میں امدادی قیمتوں کے اشتہار تو شائع کیے جاتے تھے ، فوٹو چھپوائے جاتے تھے، داد حاصل کی جاتی تھی، لیکن کسان کے گھر میں کچھ نہیں جاتا تھا۔ ان کے پاس ایم ایس پی کے دام بڑھانے کیلئے فائلیں آتی تھیں، پڑی رہتی تھیں، سالوں پہلے لاگت کی ڈیڑھ گنا امدادی قیمت دینے کی سفارش فائلوں میں ہوچکی تھی ، لیکن کسانوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ایم ایس پی کی ڈیڑھ گنا قیمت کیلئے سوچنے کی فرصت نہیں تھی۔ کیوں کہ وہ سیاست میں اتنے ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کو اس ملک کے غریب کسان کی پروا ہی نہیں تھی۔ سالوں فائلیں دبی رہیں، جس سے پرانی سرکاری کام کرنے سے ہٹی رہیں، بھائیو اور بہنوں! آپ کی خادم کی حیثیت سے ملک کے مواضعات، غریب کسان کی بھلائی کرنے کے ارادے کے ساتھ آج میں سر جھکا کر کہہ رہا ہوں، میرے بھائیو اور بہنوں، ہم نے امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی ڈیڑھ گنا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج ہم نے اسے پورا کردیا۔ دھان ہو، مکئی ہو، تؤر ہو، اُرد ہو یا مونگ ہو، خریف کی 14 فصلوں کی امداد ی قیمت میں 200 روپئے سے لیکر 1800 روپئے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کسانوں کو ان فصلوں میں جو لاگت آتی ہے اس پر 50 فیصد راست فائدہ ملنا چاہئے۔ بھائیو ۔ بہنوں! اس فیصلے سے یوپی اور پوروانچل کے کسانوں کو زبردست فائدہ ہونے والا ہے۔ اس بار سے ایک کوئنٹل دھان پر 200 روپئے زائد ملنے والے ہیں، ساتھیو! ایک کوئنٹل دھان کی لاگت کی جو اندازہ کاری کی گئی ہے وہ ہے تقریباً 1100 سے 1200 روپئے تک، اب دھان کی امدادی قیمت 1750 روپئے یعنی سیدھے سیدھے 50 فیصد اضافے کی ساتھ طے کی گئی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یوپی میں پچھلے سال پہلے کے مقابلے دھان کی چار گنا زائد خریداری طے کی گئی ہے۔ اس کے لئے میں یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ بھائیو۔ بہنوں، دھان کے ساتھ ہی سرکار نے دال کی امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی میں اضافہ کیا ہے، اڑہر کی سرکاری قیمت میں سو دو سو روپئے کا راست اضافہ کیا گیا ہے،یعنی اب طے کیا گیا ہے کہ اب اڑہر کی کھیتی پر جتنی لاگت آتی ہے، اس کا تقریباً 65فیصد اضافی فائدہ کسانوں کو حاصل ہوگا، ساتھیو ، ہماری سرکار مل کے کسانوں کی چھوٹی چھوٹی دشواریوں کو سمجھتے ہوئے ان کو دور کرنے کیلئے رات دن کام کررہی ہے، بیج سے لیکر بازار تک ایک تصدیق شدہ نظام وضع کی جارہا ہے تاکہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو اور کھیتی پر آنے والا خرچ کم ہوسکے۔ یوریا کیلئے لائن لگائی جاتی تھی ، لاٹھی چارج ہوتا تھا، رات رات بھر لائن میں کھڑا رہنا پڑتا تھا، کالا بازاری سے یوریا کی خریداری کرنی پڑتی تھی، پچھلے چار برس میں یہ مصیبت دور ہوگئی ہے۔ یہ سبھی کام آپ کے آشیرواد اور آپ کے تعاون سے ممکن ہوپارہے ہیں۔ بھائیو۔ بہنوں! میں یہاں کے کسانوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، ہم 2020 تک ملک کے کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنا چاہتے ہیں، یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال میں آپ کو بتاؤں ، آج ہم اپنے کھیت کی میڑھ پر باڑھ لگادیتے ہیں، ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ باڑھ کے اندر یہ جو کٹیلے تار لگا دیتے ہیں، یا پودھے لگا دیتے ہیں، اس سے کتنی زمی�� برباد ہوتی ہے۔ اب سرکار نے بانس کو گھانس قرار دیا ہے اور اس لئے آپ اپنے کھیت کی میڑھ پر بانس کی کھیتی کرسکتے ہیں۔ بانس کاٹ سکتے ہیں، بانس بیچ سکتے ہیں، سرکار آپ کو روک نہیں سکتی ہے۔ آج ہزاروں کروڑوں روپئے کا بانس بیرونی ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ میرے کسان کے کھیت کی میڑھ پر یہ بانس اُگایا جاسکتا ہے۔ ہم نے قاعدہ بدل دیا ہے، قانون بدل دیا ہے، پہلے مانا جاتا تھا کہ بانس ایک درخت ہے، ہم نے کہا بانس ایک درخت نہیں ہے وہ تو گھانس ہے۔ ہمارے یہاں اگربتی بنانے اور پتنگ بنانے کیلئے بھی بانس بیرون ملک سے درآمد کرنے پڑتے تھے، میرے ملک کے کسان ایک سال کے اندر اس صورتحال کو تبدل کرسکتے ہیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں جو آپ کے کام آئے گی۔ ایسے متعدد تجربات ہیں، میں اپنے کسان بھائیوں سے پُرزور گزارش کروں گا کہ آپ کھیتی کے علاوہ سرکار کی متعدد اسکیموں کا فائدہ اٹھائیے اور اپنی آمدنی کی اضافے کے سمت میں آگے بڑھیے۔ ہماری سرکار جَن جَن ، ذرّے ذرّے، کونے کونے تک ترقی کی روشنی پہنچانے اور گاؤں گاؤں کو بااختیار بنانے کے نشانے کو لیکر آگے بڑھ رہی ہے۔ آپ کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے رابطہ کاری کو باہم کرانے کیلئے آج یہاں کچھ پلوں کا سنگ بنیاد اور انہیں ملک کو قوم کے نام وقف کیا گیا ہے۔ چنار پُل سے اب چنار اور وارانسی کی دوری کم ہوگئی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ برسات کے موسم میں یہاں کے ہزاروں لوگ ملک کے باقی حصوں سے کٹ جاتے ہیں۔ اب اس نئے پل سے یہ مشکلیں دور ہوسکے گی۔ بھائیو۔ بہنوں، سستی اور بہتر صحت غریب سے غریب کو باہم کرانا بھی ہماری سرکار کے بڑے عزائم میں شامل ہے۔ یہاں بننے والے نئے میڈیکل کالجوں سے نہ صرف مرزا پور، سون بھدر، بھدوئی، چندولی اور آلہ آباد کے لوگوں کو زبردست فائدہ حاصل ہوگا بلکہ اب یہاں کا ضلع اسپتال 500 بیڈ کا ہوجائے گا۔ اس لئے سنگین بیماریوں کے علاج کیلئے آپ کو دور تک بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ا سکے علاوہ آج یہاں 100 جن اوشدھی کیندروں کا بھی ایک ساتھ پورے اترپردیش میں آغاز ہوا ہے۔ یہ جن اوشدھی کیندر غریب، درمیانہ درجے اور نچلے درجے کے لیے بہت بڑا سہارا بن گئے ہیں۔ ان کیندروں میں 700 سے زائد دواؤں اور مریضوں کو سرجری کے بعد مطلوب ہونے والا ڈیڑھ سو سے زائد سامان دستیاب ہوسکے گا۔ ملک بھر میں اس طرح کے تقریباً ساڑھے تین ہزار سے بھی زیادہ جن اوشدھی کیندر کھولے جاچکے ہیں،800 سے زیادہ دواؤں کی قیمتوں کو نگرانی کے دائرے میں لانا ، امراض قلب کے دوران لگنے والے اسٹینٹس کی قیمت کو کم کرنا، گھٹنوں میں کیے جانے والے ایمپلانٹ کو سستا کرنا، ایسے متعدد کام ہماری سرکار نے کیے ہیں جن سے غریب اور درمیانہ درجے کے لوگوں کو زبردست راحت حاصل ہوئی ہے۔ ایک درمیانہ درجے کا کنبہ جس میں بزرگ رہتے ہوں، تو بیماری تو گھر کے یا کنبے کا حصہ بن جاتی ہے ، ذیابیطس ہو، بلڈ پریشر ہو، یا ایسا کنبہ جس کو ہر روز دوا لینی پڑتی ہے، کنبے کے ایک فرد کے لیے روزانہ دوا لانی پڑتی ہے اور مہینے بھر کا بل ہزار، دو ہزار ،ڈھائی ہزار، تین ہزار اور پانچ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ اب جَن اوشدھی کیندر کی وجہ سے جس کی دوا کا بل ہزار روپئے آتا ہے، وہ اب مہینے بھر کیلئے ڈھائی تین سو سے زائد نہ ہوگا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، یہ کتنی بڑی خدمت ہے۔ یہ کام پہلے بھی سرکار کرسکتی تھی، لیکن وہ اپنی پارٹی، اپنا کنبہ اور اپنی کرسی سے آگے سوچنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی وجہ سے ملک ک�� عام آدمی کی بھلائی کے کام کو ترجیحی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ ساتھیو، ان دنوں ڈائلیسس ایک بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ متعدد مواضعات میں متعدد کنبوں کو ڈائلیسس کیلئے جانا پڑتا ہے۔ اس کے لئے ہم نے پردھان منتری نیشنل ڈائلیسس پروگرام شروع کیا ہے اور غریبوں کو جو سب سے بڑی فکر رہا کرتی تھی، اس کے تدارک کیلئے ہم نے مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس ڈائیلسس اسکیم کے تحت ہم اضلاع میں ڈائیلسس سینٹر بنارہے ہیں اور غریبوں، درمیانہ درجے کے کنبوں اور نچلے درمیانہ درجے کے کنبوں کو مفت ڈائیلسس کی سہولت فراہم کرائی جارہی ہے۔ اب تک ملک میں تقریباً 25 لاکھ مفت ڈائیلسس کے سیشن کیے جاچکے ہیں، ڈائیلسس کے ہر سیشن میں کسی نہ کسی غریب کے ڈھائی ، دو ہزار، پندرہ سو روپئے بچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوچھ بھارت مشن بھی بیماریوں کو روکنے میں مؤثر ثابت ہورہا ہے۔ پچھلے سال ایک رپورٹ آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جن مواضعات میں بیت الخلاؤوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ وہاں کے لوگ اور خاص طور سے بچوں کی بیماریوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ اتنا ہی نہیں ، جو مواضعات کھلے میں رفع حاجت کی وبا سے پاک ہوئے ہیں وہاں اوسطاً ہر کنبے کو سالانہ تقریباً 50 ہزار روپے کی بچت ہورہی ہے، ورنہ یہی پیسے پہلے تو اسپتال کے چکر لگانے میں ، دواؤں کے پیچھے بھاگنے میں اور نوکریوں کی چھٹیوں کے پیچھے خرچ کردیے جاتے تھے۔ ساتھیو، غریبی اور بیماری کے چکر کو توڑنے کیلئے سرکار بہت جلد ایک بہت بڑی اسکیم شروع کرنے والی ہے، کچھ لوگ اسے مودی کیئر کہتے ہیں، کچھ لوگ اسے آیوشمان بھارت کہتے ہیں، اس اسکیم کے تحت ملک کی تقریباً 50 کروڑ آبادی کو 5 لاکھ روپئے تک کا علاج مفت فراہم کرانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اس اسکیم پر تیزی سے کام کیاجارہا ہے اور سرکار جلد ہی اس اسکیم کو ملک بھر میں شروع کرنے جارہی ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ اگر کسی کنبے کا ایک فرد بیمار ہوجاتا ہے، سنگین بیماری ہوجاتی ہے، تو اس کے علاج کیلئے اگر سرکار پانچ لاکھ روپئے دے دے تو آپ تصور کیجئے اس کنبے کو نئی زندگی ملے گی کہ نہیں۔ وہ کنبہ مصیبت سے باہر آئے گا کہ نہیں۔ میرے ملک کے کروڑوں کنبے مصیبتوں سے باہر آئیں گے، تو میرا ملک بھی مصیبتوں سے باہر نکلے گا۔ اس لئے بھائیو۔ بہنوں، ہم آیوشمان بھارت اسکیم ملک کے روشن مستقبل کیلئے ، ملک کے صحتمند مستقبل کیلئے ، ہم یہ اسکیم لیکر آئے ہیں۔ بھائیو۔ بہنوں، غریب ، مصیبت زدہ، استحصال زدہ اور محروم، کنبوں کے درد اور فکر کو دور کرنا، مشکل وقت میں ان کے ساتھ رہنا، ان کی زندگی کو آسان بنانا، یہی ہماری سرکار کی ترجیح ہے اور ہم اسی پر مسلسل کام کررہے ہیں۔ اسی نظریے کے ساتھ اب ملک کے غریبوں کو سماجی سلامتی کی ایک مضبوط زرح فراہم کرائی جارہی ہے، ایک روپے ماہانہ اور 90 پیسے یومیہ کوئی بہت بڑا خرچ نہیں ہوتا، ایک دن کے 90 پیسے کسی غریب کے لئے بھی مشکل نہیں ہوں گے۔ اس شرح کے روزانہ پریمیئم پر زندگی بیمہ اور ایکسیڈنٹ بیمہ جیسی اسکیم لوگوں کی زندگی میں روشنی بن کر کام کررہی ہے ورنہ پہلے ہمارے ملک میں ایک سوچ تھی کہ بینک میں کھاتا کس کا ہوگا ؟ درمیانہ درجے کے پڑھے لکھے لوگوں کا یا امیر کا ، غریب کے لئے تو بینک ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ملک میں یہ عام سوچ تھی کہ گھر میں گیس کا چولہا تو امیر لوگوں کیلئے ہوسکتا ہے ، پڑھے لکھے لوگوں کے یہاں ہوسکتا ہے، بابو کے گھر ہوسکتا ہے، لیکن غریب کے گھر میں تو ہوہی نہیں سکتا، ہمارے ملک میں یہ ع��م سوچ تھی کہ روپے کارڈ ، کارڈ سے پیسے کا لین دین، یہ تو امیر کے گھر میں ہوسکتا ہے، بابو کے یہاں ہوسکتا ہے، کسی رئیس کے یہاں ہوسکتا ہے، غریب کی جیب میں تو روپے کارڈ ہوہی نہیں سکتا، ہمارے ملک میں یہی سوچ بنی ہوئی تھی ۔ بھائیو ۔ بہنوں، ہم نے امیر اور غریب کی اس سوچ کو توڑنا طے کیا ہے۔ ملک کے سوا سو کروڑ شہری برابر ہونے چاہئیں، غریب سوچتا تھا کہ اس کا بیمہ نہیں ہوسکتا، اس کا خیال تھا کہ بیمہ امیر کا ہوسکتا ہے، جس کی گاڑی ہے اس کا بیمہ ہوسکتا ہے، بھائیو۔ بہنوں، ہم نے امیر اور غریب کی اس سوچ کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے، غریب کا یہ سوچنا کہ آیا اس کا بیمہ ہوسکتا ہے، ان ساری غلط باتوں کو ہم نے توڑ دیا ہے اور ملک کے غریب کے لئے 90 پیسے والا بیمہ لیکر آئے ہیں۔ مہینے کے ایک روپئے والا بیمہ لیکر آئے ہیں، مصیبت کے وقت میں یہ بیمہ اس کی زندگی میں کام آرہا ہے، امیری اور غریبی ، بڑے اور چھوٹے کے فرق کو ختم کرنے والے پروگرام ہم یکے بعد دیگرے پیش کررہے ہیں، اس کے نتیجے آنے والے دنوں میں دکھائی دینے والے ہیں، میرے ملک کا غریب اب آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرنے والا ہے۔ ہم اس کے لئے کام کررہے ہیں۔ اترپردیش کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ ان دونوں اسکیموں سے جڑ چکے ہیں، ان اسکیموں کے وسیلے سے مصیبت کے وقت میں تقریباً 300 کروڑ روپئے، کے کلیمز کی رقم ان کنوں کو پہنچ چکی ہے۔ میں صرف اتر پردیش سے کہہ رہا ہوں، اگر میری سرکار نے 100 کروڑ روپئے کا بھی اعلان کیا ہوتا تو اخباروں میں پہلے صفحے پر ہیڈ لائن ہوتی، لیکن ہم نے اسکیم ایسی بنائی کہ 300 کروڑ روپئے باہم بھی کرادیے گئے اور کوئی بڑی مصیبت بھی سامنے نہیں آئی۔ کام کیسے ہوتے ہیں، نظام کیسے بدلتے ہیں، اس کی یہ جیتی جاگتی مثال ہے۔ ساتھیو، آپ لوگوں میں سے جن لوگوں نے ابھی تک ان اسکیموں سے فائدہ حاصل نہیں کیا ہے، میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ان اسکیموں سے جڑیں، یہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ماں وِندھ واسنی کے آشیرواد سے آپ کے کنبے پر کوئی مصیبت آئے، لیکن وقت کے پس پشت کیا ہے کون جانتا ہے؟ اگر کوئی مصیبت آئی تو آپ کے لئے یہ اسکیم مددگار ثابت ہوگی، مصیبت کے وقت میں آپ کی زندگی کے کام آئے گی، ہم نے اسی مقصد سےیہ اسکیم شروع کی ہے۔ غریبوں کے مفاد کیلئے سرکار جو اسکیمیں چلارہی ہے، جو فیصلے لیے گئے ہیں، وہ غریبوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی سطح کو بھی بدل رہے ہیں ۔ ساتھیو، غریب کو دورا، کسان کو سینچائی، بچوں کو پڑھائی اور جوانوں کو کمائی جہاں جہاں یقینی ہوگی، جہاں لاتعداد سہولتیں ہوں گی اور انتظامیہ ایماندار ہوگی ایسے نیو انڈیا کے عزم کو عملی شکل دینے میں ہم مصروف ہیں، آج جن اسکیموں کا آغاز اور سنگ بنیاد یہاں ہوا، ان کے لئے ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، یوپی ایسے ہی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے، اس کے لئے یوگی جی ، اترپردیش کی ان کی سرکار ، ان کے سارے ساتھی، ان کی ساری ٹیم میں ان کو بھی ایک ایک اسکیم کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کیلئے صدق دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور میں ایک بار پھر ماں وِندھ واسنی کا وہ پرساد جو پانی کی شکل میں آپ تک پہنچ رہا ہے، اس کا قطرہ قطرہ استعمال کرنا نہ بھولیں، میں اپنی اسی امید اور آرزو کو ایک بار پھر دوہراتا ہوں، آپ لوگ اس قدر شدید گرمی میں اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے، ہم سب کو آشیرواد دیا، اس کے لئے ��یں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں، میرے ساتھ مٹھ بند کرکے پوری طاقت سے بولیے، بھارت ماتا کی جئے۔ بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے ، بھارت ماتا کی جئے۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ش س۔ ع ن,বাণসাগৰ কেনেল প্ৰকল্প মুকলি আৰু মিৰ্জাপুৰত বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D8%A7-%D9%B9%DB%8C%D8%A8%D9%84-%D9%B9%DB%8C%D9%86%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%A7%D9%88%D9%82%D8%A7%D8%B1-%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%B2-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 میں پیرا ٹیبل ٹینس میں باوقار گولڈ میڈل جیتنے پر بھاوینا پٹیل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا؛ ’’نمایاں مقام حاصل کرنے والی @BhavinaOfficial نے ہمیں فخر کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے! انہوں نے پیرا ٹیبل ٹینس میں باوقار گولڈ میڈل جیتا ہے، جوکہ دولت مشترکہ کھیلوں میں ان کا پہلامیڈل ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی کامیابیاں ہندوستان کے نوجوانوں کو ٹیبل ٹینس کو اختیار کرنے کی ترغیب دیں گی۔ میں بھاوینا کی آئندہ کوششوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔,‘পেৰা টেবল টেনিছ’ত সন্মানীয় সোণৰ পদক অৰ্জন কৰাৰ বাবে ভৱিনা পেটেলক শুভকামনা জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%86%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%B4%DB%8C%DA%A9%DA%BE%D8%B1-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ملک کے سابق وزیراعظم چندر شیکھر جی کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ چندر شیکھر جی ایک بلند پایہ شخصیت تھے، جن کی جمہوری اقدار سے عہد بستگی اور غریبی کے خاتمے کے لئے ان کی کوششوں کی بڑے پیمانے پر سراہنا کی جاتی تھی۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’چندر شیکھر جی ایک بلند پایہ شخصیت تھے، جن کی جمہوری اقدار کے لئے عہد بستگی اور غریبی دور کرنے کی ان کی کوششوں کی وسیع پیمانے پر سراہنا کی جاتی تھی۔ انھوں نے ہمیشہ دبے کچلے اور پسماندہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا۔ ان کے یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت۔‘‘,জন্ম জয়ন্তীত ভাৰতৰ প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী চন্দ্ৰ শেখৰজীৰ প্ৰতি শ্ৰদ্ধা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-25-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%AB-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی 25 اکتوبر 2021 کو اتر پردیش کا دورہ کریں گے۔ جہاں وہ وارانسی میں تقریباً ساڑھے دس بجے، پردھان منتری آتم نربھر سوستھ بھارت یوجنا کا افتتاح کریں گے۔ وہ وارانسی کے لیے 5200 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے مختلف ترقی��تی پروجیکٹوں کا بھی افتتاح کریں گے۔ وزیر اعظم آتم نربھر سوستھ بھارت یوجنا (پی ایم اے ایس بی وائی) پورے ملک میں صحت کی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے سب سے بڑی اسکیموں میں سے ایک ہوگی۔ یہ نیشنل ہیلتھ مشن میں ایک اضافہ ہوگی۔ پی ایم اے ایس بی وائی کا مقصد صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے میں خاص طور پر شہری اور دیہی علاقوں میں اہم نگہداشت کی سہولیات اور بنیادی دیکھ بھال کے درمیان بڑی کھائی کو پاٹنا ہے۔ اس کے ذریعے 10 ہائی فوکس ریاستوں میں 17,788 دیہی صحت اور فلاح و بہبود کے مراکز کو مدد فراہم کی جائے گی۔ مزید برآں تمام ریاستوں میں 11024 شہری صحت اور تندرستی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ ملک کے 5 لاکھ سے زائد آبادی والے تمام اضلاع میں خصوصی کریٹیکل کیئر ہسپتال بلاکس کے ذریعے کریٹیکل کیئر سروسز دستیاب ہوں گی، جب کہ باقی اضلاع کو ریفرل سروسز کے ذریعے کور کیا جائے گا۔ لوگوں کو ملک بھر میں لیبارٹریوں کے نیٹ ورک کے ذریعے پبلک ہیلتھ کیئر سسٹم میں تشخیصی خدمات کی مکمل رینج تک رسائی حاصل ہوگی۔ تمام اضلاع میں انٹیگریٹڈ پبلک ہیلتھ لیبز قائم کی جائیں گی۔ پی ایم اے ایس بی وائی کے تحت، صحت کا قومی ادارہ، وائرولوجی کے لیے 4 نئے قومی ادارے، عالمی صحت تنظیم کے جنوب مشرقی ایشیائی خطے کے لیے ایک علاقائی تحقیقی پلیٹ فارم، 9 بایوسفٹی لیول III لیبارٹریز، 5 نئے علاقائی قومی مرکز برائے ضبط امراض قائم کیے جائیں گے۔ پی ایم اے ایس بی وائی میٹروپولیٹن علاقوں میں بلاک، ضلعی، علاقائی اور قومی سطحوں پر نگرانی لیبارٹریوں کا نیٹ ورک تیار کرکے آئی ٹی کی اہل بیماریوں کی نگرانی کے نظام کی تعمیر کا ہدف رکھتی ہے۔ انٹیگریٹڈ ہیلتھ انفارمیشن پورٹل کو تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں تک توسیع دی جائے گا تاکہ صحت عامہ کی تمام لیبز کو جوڑا جا سکے۔ پی ایم اے ایس بی وائی کا مقصد 17 نئے پبلک ہیلتھ یونٹس کو فعال کرنا اور داخلے کے مقامات پر 33 موجودہ پبلک ہیلتھ یونٹس کو مضبوط بنانا ہے، تاکہ صحت عامہ کی ہنگامی صورت حال اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا مؤثر طریقے سے تشخیص، تفتیش، روک تھام اور ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ صحت عامہ کی کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورک فورس بنانے کی سمت میں بھی کام کرے گی۔ سدھارتھ نگر، ایٹا، ہردوئی، پرتاپ گڑھ، فتح پور، دیوریا، غازی پور، مرزا پور اور جونپور کے اضلاع میں نو میڈیکل کالجوں کا افتتاح کیا جائے گا۔ 8 میڈیکل کالجوں کو مرکزی کے ذریعے فنڈد اسکیم کے تحت ""ضلع/ ریفرل ہسپتالوں سے منسلک نئے میڈیکل کالجوں کے قیام"" کے لیے منظوری دی گئی ہے اور جون پور میں 1 میڈیکل کالج کو ریاستی حکومت نے اپنے وسائل سے فعال بنایا گیا ہے۔ مرکزی سپانسرڈ اسکیم کے تحت کم تر، پسماندہ اور خواہش مند اضلاع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد صحت کے پیشہ ور افراد کی دستیابی کو بڑھانا، میڈیکل کالجوں کی تقسیم میں موجودہ جغرافیائی عدم توازن کو درست کرنا اور ضلعی ہسپتالوں کے موجودہ انفراسٹرکچر کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ اسکیم کے تین مرحلوں کے تحت ملک بھر میں 157 نئے میڈیکل کالجز کو منظوری دی گئی ہے جن میں سے 63 میڈیکل کالج پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں۔ اس تقریب موقع پر یوپی کے گورنر اور وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر صحت بھی موجود رہیں گے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২৫ অক্টোবৰত উত্তৰ প্ৰদেশ ভ্ৰমণ কৰিব আৰু আয়ুষ্মান ভাৰত স্বাস্থ্য আন্তঃগাঁথনি অভিযান আৰম্ভ কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-28-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%BE%D8%A7-%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D8%A4%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 28 جنوری 2022 کو دوپہر تقریباً 12 بجے دہلی کے کریپا گراؤنڈ میں نیشنل کیڈٹ کور کی پی ایم ریلی سے خطاب کریں گے۔ یہ ریلی این سی سی یوم جمہوریہ کیمپ کا اختتام ہے اور ہر سال 28 جنوری کو منعقد کی جاتی ہے۔ اس تقریب میں، وزیر اعظم گارڈ آف آنر کا معائنہ کریں گے، این سی سی دستوں کے مارچ پاسٹ کا جائزہ لیں گے اور این سی سی کیڈٹس کو فوج کی کاروائی، سلیدرنگ، مائیکرو لائٹ فلائنگ، پیرا سیلنگ کے ساتھ ساتھ ثقافتی پروگراموں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی دیکھیں گے۔ بہترین کیڈٹس کو وزیراعظم کی جانب سے میڈل اور چھڑی سے نوازا جائے گا۔,২৮ জানুৱাৰীত কাৰিয়াপ্পা গ্ৰাউণ্ডত এনচিচি পিএম ৰেলী সম্বোধন কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%88%D8%B2%D9%84%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%86%D8%B1%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A6%B2%E0%A6%A8-%E0%A6%8F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ممتاز بزنس مین اور سوزلان انرجی کے بانی جناب تلسی تانتی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ جناب تلسی تانتی ایک اہم بزنس لیڈر تھے جنہوں نے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے لئے خدمات انجادم دیں اور مزید پائیدار ترقی کے لئے ہمارے ملک کی کوششوں کو تقویت دی۔ ان کے اچانک انتقال سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ ان کے اہل خانہ اور دوستوں کے لئے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اوم شانتی‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে চুজলন এনাৰ্জীৰ প্ৰতিষ্ঠাপক শ্ৰী তুলসী তাঁতীৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-48/,چانسلر اسکولز، دوستو، گیٹن ٹیک ، نمسکار! سب سے پہلے میں اپنا اوراپنے وفد کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرنے کے لئے چانسلر اسکولز کا دلی جوش وجذبے کے ساتھ شکریہ ادا کرتاہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال میرا غیرملکی دورہ ، جرمنی میں ہورہاہے ،اوراس سال کے آغاز میں کسی بھی غیرملکی لیڈر کے ساتھ ٹیلی فون پرمیری پہلی بات چیت بھی میرے دوست چانسلر اسکولز کے ساتھ ہی ہوئی تھی ۔ چانسلر اسکولز کے لئے ، آج کی بھارت –جرمنی آئی جی سی ، اس سال کسی بھی ملک کے ساتھ پہلی آئی جی سی ہے۔ ان بہت سی پہل قدمیوں سے ظاہرہوتاہے کہ بھارت اورجرمنی دونوں اس اہم ساجھیداری کو کتنی زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ جمہوریتوں کی حیثیت سے ، بھارت اورجرمنی میں بہت سی اقدار مشترک ہیں ان مشترکہ اقدار اورمشترکہ مفادات کی بنیاد پر ، گذشتہ کئی سالوں کے دوران ہمارے باہمی تعلقات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے ۔ ہماری گذشتہ آئی جی سی ، 2019میں منعقد ہوئی تھی اوراس کے بعد سے دنیا میں بہت سی اہم تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں ۔کووڈ -19عالمی وباء کا عالمی معیشت پربہت تباہ کن اثرپڑاہے ۔ حالیہ جغرافیائی واقعات سے بھی معلوم ہوتاہے کہ دنیا کا امن اوراستحکام کتنی نازک حالت میں ہے اور تمام ملک کس طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ۔یوکرین کے بحران کے آغاز سے ہی ، ہم نے فوری طورپر جنگ بندی کے لئے کہاہے اور اس بات پرزوردیا ہے کہ تنازعہ کے حل کی غرض سے بات چیت ہی واحد حل ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس جنگ میں کوئی بھی فریق فاتح بن کرنہیں ابھرے گا اوردونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امن کے حق میں ہیں ۔ یوکرین جنگ سے پیداافراتفری کی وجہ سے تیل کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں ، ان کے علاوہ دنیا میں غذائی اجناس اورکھاد سے بنی اشیاء کی بھی قلت ہوگئی ہے ۔ ان سب کی وجہ سے دنیا کے ہرکنبے پربارپڑاہے ۔ لیکن ترقی پذیر اورغریب ملکوں پراس کے اثرات ، اس سے بھی بہت زیادہ تباہ کن ہوں گے ۔بھارت کو اس لڑائی کے سبب انسانیت پرپڑنے والے اثرات کے بارے میں سخت تشویش ہے ۔ ہم نے اپنی جانب سے یوکرین کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پرامداد روانہ کی ہے ۔ ہم غذائی اشیاء اورخوراک کی برآمدات ، تیل کی سپلائز اوراقتصادی امداد کے طریقوں سے دیگر دوست ملکوں کی بھی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آج ، بھارت –جرمن ساجھیداری کو اس کی چھٹی آئی جی سی سے ایک نئی سمت ملی ہے آئی جی سی نے توانائی اورماحولیات سے متعلق شعبوں میں اپنے اشتراک کو اہم رہنمائی فراہم کی ہے ۔ مجھے پوری امید ہے کہ آج جو فیصلے کئے گئے ہیں ان سے ہمارے خطے اوردنیا پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ آج ، ہم گرین اوردیرپا ترقی کے بارے میں بھارت –جرمن ساجھیداری پرسرگرم ہیں اوراس جانب پیش قدمی کررہے ہیں ۔ بھارت نے دنیا کو یہ دکھادیاہے کہ گرین اور دیرپاترقی ، گلاسگومیں آب وہوا سے متعلق اپنے عزم کا اظہارکرنے کےساتھ ہمارےلئے عقیدہ کا ایک حصہ ہے ۔ اس نئی ساجھیداری کے تحت ، جرمنی نے فیصلہ کیاہے کہ وہ سال 2030تک دس ارب یوروز کی اضافی ترقیاتی امداد کے ساتھ بھارت کے گرین ترقیاتی اہداف میں معاونت کرے گا۔ اس کے لئے میں جرمنی اورچانسلر اسکولز کا شکرگزار ہوں ۔ہماری تعاون پرمبنی قوتوں کے مدنظر، ہم نے ایک گرین ہائیڈروجن ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیاہے ۔ یہ دونوں ملکوں میں گرین ہائیڈروجن بنیادی ڈھانچہ کوتقویت بہم پہنچانے میں بہت مفید ثابت ہوگی ۔ بھارت اورجرمنی دونوں کو دوسرے ملکوں میں ترقیاتی کاموں میں اشتراک کرنے کا وسیع تجربہ ہے ۔ آج ہم نے فیصلہ کیاہے کہ ہم سہ ملکی تعاون کے توسط سے تیسرے ملکوں میں مشترکہ پروجیکٹوں پراپنے تجربات اورکام کو یکجا کریں گے ۔ ہماراتعاون اوراشتراک سے ترقی پذیر دنیا کے لئے شفاف اوردیرپاترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے ایک متبادل فراہم ہوگا۔ دوستو، کووڈ -19عالمی دباؤ کے دور میں ، بھارت میں ترقی کرنے والی دیگر معیشتوں کے مقابلے زیادہ تیزی سے نمو کا مشاہدہ کیاجارہاہے ۔ ہم پُراعتماد ہیں کہ بھارت ، عالمی بحالی کا ایک اہم ستون بن کرابھرے گا۔ حال ہی میں ، ہم نے بہت مختصر وقت میں ، متحدہ عرب امات یواے ای اورآسٹریلیا کے ساتھ تجارتی سمجھوتوں پردستخط کئے ہیں ۔ ہم ، یوروپی یونین کے ساتھ بھی ، ایف ٹی اے مذاکرات میں جلد پیش رفت کے تئیں عہد بند ہیں ۔ بھارت کے ��نرمندکارکنان اورپیشہ ورافراد نے بہت سے ملکوں کی معیشتوں کو فائدہ پہنچایاہے ۔ مجھے اعتماد ہے کہ بھارت اورجرمنی کے درمیان ترک وطن اورموبیلٹی سے متعلق ساجھیداری کے جامع سمجھوتے سے دونوں ملکوں کے مابین لوگوں کی آمدورفت میں سہولت پیداہوگی ۔ میں ایک بارپھراس چوٹی کانفرنس اور آپ کی پہل قدمی کے لئے ، آپ کا بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں ۔ اعلان دستبرداری:یہ وزیراعظم کے کلمات کا تقریبا درست ترجمہ ہے ۔ اصل خطاب ہندی زبان میں کیاگیاتھا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ প্ৰেছ বিবৃতিৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%86%D9%88%D9%85%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%AC%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AE/,رام نومی کے موقع پر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی 10 اپریل، 2022 کو دن میں 1 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گجرات کے جوناگڑھ کے گٹھیلا میں واقع اومیا ماتا مندر کے 14ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کریں گے۔ اس مندر کا افتتاح بھی وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ہی ذریعے سال 2008 میں کیا گیا تھا، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ سال 2008 میں وزیر اعظم کے ذریعے دیے گئے مشوروں کی بنیاد پر مندر کے ٹرسٹ نے اپنے دائرہ کار کو بڑھا کر اس میں متعدد سماجی و صحت سے متعلق سرگرمیوں کو شامل کیا ہے جیسے کہ موتیا بین کا مفت آپریشن اور مالی اعتبار سے کمزور مریضوں کو مفت آیورویدک دوائیں وغیرہ۔ اومیا ماں کو کڈاوا پاٹیدار قبیلہ کی دیوی یا کل دیوی تصور کیا جاتا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰাম নৱমী উপলক্ষে জুনাগড়ৰ গাথিলাত উমিয়া মাতা মন্দিৰৰ চতুৰ্দশ প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উদযাপনত ভাষণ প্ৰদান কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%82%E0%A6%B6%E0%A6%97/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ ’اسپورٹس میٹ ‘ کھلاڑیوں کوگوناں گوں ثقافتوں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کراتی ہے۔ اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’اسپورٹس میٹ دلچسپ ہوتی ہیں کیونکہ یہ کھلاڑیوں کو گونا گوں ثقافتوں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کراتی ہیں۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ نیشنل گیمز کے شرکاء میں گربا کے مقبولیت حاصل کررہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,ৰাষ্ট্ৰীয় ক্ৰীড়াত অংশগ্ৰহণকাৰীসকলৰ মাজত গৰবাৰ জনপ্ৰিয়তা অৰ্জনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সন্তোষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%86%DA%A9%DA%BE-%DA%AF%D8%A7%D8%A4%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0/,نمسکار! اسی گاؤں کی اولاد، پرونکھ گاؤں کی مٹی میں پیدا ہونے والے ملک کے صدر عزت مآب رامناتھ کووند جی، عزت مآب محترمہ سویتا کوند جی، اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل، اتر پردیش کے مقبول وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، اسٹیج پر موجود کابینہ کے میرے ساتھی، اتر پردیش کابینہ کے وزراء، ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی اور بڑی تعداد میں تشریف لائے میرے بھائیوں اور بہنوں! صدر جمہوریہ نے جب مجھے کہا تھا کہ مجھے یہاں آنا ہے، تبھی سے میں آپ کے پاس آ کرکے گاؤں والوں سے ملنے کا انتظار کر رہا تھا۔ آج یہاں آ کر واقعی من کو بڑا سکون ملا، بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں نے صدر جمہوریہ کا بچپن بھی دیکھا ہے اور بڑے ہونے پر ان کو ہر ہندوستانی کا فخر بنتے بھی دیکھا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے صدر جمہوریہ نے مجھ سے اس گاؤں سے کئی یادیں شیئر کیں۔ مجھے پتہ چلا کہ پانچویں کے بعد جب ان کا داخلہ 6-5 میل دور کے ایک گاؤں میں کرا دیا گیا تھا، تو ننگے پیر اسکول تک دوڑتے ہوئے جاتے تھے اور یہ دوڑ صحت کے لیے نہیں ہوتی تھی۔ یہ دوڑ اس لیے ہوتی تھی کہ گرمی سے تپتی ہوئی پگڈنڈی پر پیر کم جلیں۔ سوچئے، ایسی ہی تپتی دوپہری میں پانچویں میں پڑھنے والا کوئی بچہ ننگے پیر اپنے اسکول کے لیے دوڑے جا رہا ہے۔ زندگی میں ایسی جدوجہد، ایسی تپسیا انسان کو، انسان بننے میں بہت مدد کرتی ہے۔ آج صدر جمہوریہ کے گاؤں میں آنے کا یہ تجربہ میرے لیے زندگی کی ایک اچھی یاد کی طرح ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، جب میں صدر جمہوریہ کے ساتھ مختلف مقامات کو دیکھ رہا تھا، تو میں نے پرونکھ میں ہندوستانی گاؤں کی کئی مثالی شبیہوں کو محسوس کیا۔ یہاں سب سے پہلے مجھے پتھری ماتا کا آشیرواد لینے کا موقع ملا۔ یہ مندر اس گاؤں کی، اس علاقے کی روحانی عظمت کے ساتھ ساتھ ایک بھارت –شریشٹھ بھارت کی بھی علامت ہے۔ اور میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسا مندر ہے، جہاں دیو بھکتی بھی ہے، دیش بھکتی بھی ہے۔ اور میں دیش بھکتی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ صدر جمہوریہ کے والد کی سوچ کو میں سلام کرتا ہوں۔ ان کے تصور کر سلام کرتا ہوں۔ وہ اپنی زندگی میں تیرتھاٹن کرنا، الگ الگ سیاحتی مقامات پر جانا، ایشور کے آشیرواد لینا، اس کے لیے کبھی گھر سے نکل جاتے تھے۔ کبھی بدری ناتھ گئے، کبھی کیدار ناتھ گئے، کبھی ایودھیا گئے، کبھی کاشی گئے، کبھی متھرا گئے، الگ الگ جگہوں پر گئے۔ اس وقت کی ان کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ گاؤں کے سبھی لوگوں کے لیے وہاں سے کوئی پرساد لے آئیں، پورے گاؤں کو کچھ بانٹ سکیں۔ تو ان کا تصور بڑا مزیدار تھا کہ وہ اس تیرتھ علاقے سے اُس مندر احاطہ سے دو چار پتھر لے آتے تھے۔ اور پتھر یہاں درخت کے نیچے رکھ دیتے تھے۔ اور اس مقدس مقام سے پتھر آیا ہے، ہندوستان کے کونے کونے سے پتھر آیا ہے، اس کے تئیں ایک جذبہ بیدار ہو جاتا تھا اور گاؤں والوں نے اسے مندر کی شکل میں پوجا کی کہ فلاں علاقے کا پتھر ہے، اُس فلاں مندر کے علاقے کا پتھر ہے، یہ فلاں ندی کے پاس کا پتھر ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس میں دیو بھکتی بھی ہے اور دیش بھکتی بھی ہے۔ صدر جمہوریہ کے والد اس مندر میں پوجا کیا کرتے تھے۔ اس مقدس مندر کے درشن کرنے میں ظاہر ہے کہ میرے من میں مختلف قسم کے خیالات گردش کر رہے تھے۔ اور میں اپنے آپ کو خوش قسمت پاتا ہوں کہ مجھے اُس مندر کے درشن کرنے کا موقع ملا ہے۔ ساتھیوں، پرونکھ کی مٹی سے صدر جمہوریہ کو جو اخلاق و آداب ملے ہیں، اس کی گواہ آج دنیا بن رہی ہے۔ اور میں آج دیکھ رہا تھا کہ ایک طرف آئین، دوسری طرف اخلاق و آداب، اور آج گاؤں میں صدر جمہوریہ نے عہدے کے ذریعے بنے ہوئے سارے اصولوں سے باہر نکل کر مجھے آج حیران کر دیا۔ وہ خود ہیلی پیڈ پر رسیو کرنے آئے۔ میں بڑی شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ ان کی رہنمائی میں ہم کام کر رہے ہیں، ان کے عہدے کا ایک وقار ہے ایک عظمت ہے۔ میں نے کہا صدر جمہوریہ صاحب آپ نے میرے ساتھ نا انصافی کر دی آج، تو انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ آئین کے اصولوں کی پیروی تو میں کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی اخلاق و آداب کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ آج آپ میرے گاؤں میں آئے ہیں۔ میں یہاں پر مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لیے آیا ہوں، میں صدر جمہوریہ کے طور پر نہیں آیا ہوں۔ میں اس گاؤں کے ایک بچے کے طور پر جہاں سے زندگی شروع ہوئی، اس گاؤں کے رہائشی کے طور پر میں آج آپ کا خیر مقدم کر رہا ہوں۔ اتیتھی دیوو بھوہ کے سنسکار بھارت میں کس طرح سے ہماری رگوں میں پہنچے ہیں، اس کی بہترین مثال آج صدر جمہوریہ نے پیش کی۔ میں صدر جمہوریہ صاحب کو احترام کے ساتھ پرنام کرتا ہوں۔ صدر جمہوریہ نے اپنے آبائی مکان کو ’ملن کیندر‘ کے طور پر تعمیر کرنے کے لیے دے دیا تھا۔ آج وہ صلاح و مشورہ اور ٹریننگ سینٹر کے طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے نئی طاقت دے رہا ہے۔ ان کی کوشش سے یہاں امبیڈکر بھون کی شکل میں بابا صاحب کے اصولوں کا ترغیبی مرکز بھی بنایا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے، مستقبل میں پرونکھ آپ کی مجموعی کوششوں سے ترقی کے راستے پر اور بھی تیزی سے آگے بڑھے گا، اور ملک کے سامنے دیہی ترقی کا ماڈل پیش کرے گا۔ ساتھیوں، ہم کہیں بھی کیوں نہ پہنچ جائیں، بڑے بڑے شہروں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ بس جائیں، اگر ہم نے اپنے گاؤں کو جیا ہے، تو ہمارا گاؤں ہمارے اندر سے کبھی نہیں نکلتا ہے۔ وہ ہماری رگوں میں بس جاتا ہے، وہ ہماری سوچ میں ہمیشہ رہتا ہے۔ ہم اسی لیے کہتے ہیں کہ بھارت کی روح گاؤں میں بستی ہے، کیوں کہ گاؤں ہماری روح میں بستا ہے۔ آج جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو دیہی ہندوستان کے لیے، ہمارے گاؤوں کے لیے ہمارے خواب اور بھی اہم ہو جاتے ہیں۔ ہماری جدو جہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی بھارت کی آزادی کو بھارت کے گاؤں سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔ بھارت کا گاؤں یعنی، جہاں روحانیت بھی ہو، اصول بھی ہوں! بھارت کا گاؤں یعنی، جہاں روایات بھی ہوں، اور حرکت پذیری بھی ہو! بھارت کا گاؤں یعنی، جہاں سنسکار بھی ہو اور سہکار بھی ہو! جہاں سمتا بھی ہو اور ممتا بھی ہو! آج آزادی کے امرت کال میں ایسے ہی گاؤوں کی از سر نو تنظیم، ان کی از سر نو بیداری یہ ہمارا فریضہ ہے۔ آج اسی عزم کو لے کر ملک گاؤں-غریب، زراعت-کسان اور پنچایتی جمہوریت کی مختلف جہات میں کام کر رہا ہے۔ آج بھارت کے گاؤوں میں سب سے تیز رفتار سے سڑکیں بن رہی ہیں۔ آج بھارت کے گاؤوں میں تیز رفتار سے آپٹیکل فائبر بچھا یا جا رہا ہے۔ آج بھارت کے گاؤوں میں تیز رفتار سے گھر بن رہے ہیں، ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹیں لگ رہی ہیں۔ شہروں کے ساتھ ساتھ ہمارے گاؤں بھی ترقی کی ہر راہ پر قدم سے قدم ملا کر چلیں، یہ نئے بھارت کی سوچ بھی ہے اور نئے بھارت کا عزم بھی ہے۔ آپ سوچئے، کی کسی نے تصور کیا تھا کہ ایک دن کھیتی سے جڑے مشکل سے مشکل کام اب ڈرون کے ذریعے سے بھی ہونا شروع ہو جائیں گے۔ لیکن آج ملک اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں اس گاؤں میں بھی 300 سے زیادہ لوگوں کو ’سوامیتو‘ کے تحت گھرونی دی جا چکی ہے، پراپرٹی کے کاغذ دیے جا چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیسے کسان کی سہولت اور آمدنی دونوں بڑھیں، اس سمت میں تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ ساتھیو��، ہمارے گاؤوں کے پاس سب سے زیادہ صلاحیت ہے، سب سے زیادہ محنت کی طاقت ہے، اور سب سے زیادہ جفا کشی بھی ہے۔ اس لیے بھارت کے گاؤوں کی مضبوطی ہماری سرکار کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ جن دھن یوجنا ہو، آواس یوجنا ہو، اجولا کے تحت ملا گیس کنکشن ہو، ہر گھر جل ابھیان ہو، آیوشمان بھارت یوجنا ہو، ان سبھی کا فائدہ کروڑوں گاؤوں والوں کو ملا ہے۔ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ملک نے جس رفتار سے کام کیا ہے، وہ مثالی ہے۔ اب ملک کا ایک ہدف ہے، ہر اسکیم کا سو فیصد فائدہ سو فیصد مستفیدین تک پہنچانا، یعنی سو فیصد با اختیاری۔ نہ کوئی بھید بھاؤ، نہ کوئی فرق! یہی تو سماجی انصاف ہے۔ ہم آہنگی اور مساوات کا بابا صاحب کا یہی وہ خواب تھا جسے بنیاد بنا کر انہوں نے ہمیں ہمارا آئین دیا تھا۔ بابا صاحب کا وہ خواب آج پورا ہو رہا ہے۔ ملک اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیوں، آج کا یہ موقع ایک اور بات کے لیے بہت تاریخی ہے۔ اور یہ بات سبھی کے لیے نوٹ کرنے والی ہے، کیوں کہ ملک کی جمہوریت کی طاقت، ملک کے گاؤوں کی طاقت کو ایک ساتھ دکھاتی ہے۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر عزت مآب صدر جمہوریہ، یوپی کی گورنر آنندی بین پٹیل جی، اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی موجود ہیں۔ مجھے بھی آپ نے، آپ سب ہم وطنوں نے ملک کی خدمت کے لیے اتنی بڑی ذمہ داری سونپی ہے۔ ہم چاروں لوگ کسی نہ کسی چھوٹے گاؤں یا قصبہ سے نکل کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ میری بھی پیدائش گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ہوئی تھی۔ گاؤں کی ثقافت، اخلاق و آداب، اور ہمارے یہاں جڑی جدوجہد نے ہمارے جیسے کتنے ہی لوگوں کو تراشا، ہمارے اخلاق و آداب کو مضبوط کیا۔ یہی ہماری جمہوریت کی طاقت ہے۔ بھارت میں گاؤں میں پیدا ہوا غریب سے غریب آدمی بھی صدر-وزیر اعظم-گورنر-وزیر اعلیٰ کے عہدہ تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن بھائیوں اور بہنوں، آج جب ہم جمہوریت کی اس طاقت کی چرچہ کر رہے ہیں تو ہمیں اس کے سامنے کھڑے اقربا پروری جیسے چیلنجز سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ اقربا پروری ہی ہے جو سیاست ہی نہیں، بلکہ ہر شعبے میں صلاحیتوں کا گلا گھونٹتی ہے، انہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ ویسے ساتھیوں، میں جب اقربا پروری کے خلاف بات کرتا ہوں، تو کچھ لوگوں لگتا ہے کہ یہ سیاسی بیان ہے، میں کسی سیاسی پارٹی کے خلاف بات کر رہا ہوں، ویسا پرچار ہوتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جو لوگ اقربا پروری کی میری وضاحت میں صحیح بیٹھتے ہیں، وہ مجھ سے بھڑکتے ہیں، غصے میں ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں یہ اقربا پروری کے حامی میرے خلاف اب متحد ہو رہے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی ناراض ہیں کہ کیوں ملک کا نوجوان، اقربا پروری کے خلاف مودی کی باتوں کو اتنی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ ساتھیوں، میں ان لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ میری بات کا غلط مطلب نہ نکالیں۔ میری کسی سیاسی پارٹی سے یا کسی آدمی سے کوئی ذاتی ناراضگی نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن ہو، جمہوریت کے تئیں وقف سیاسی پارٹیاں ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اقربا پروری کے شکنجہ میں پھنسی پارٹیاں، خود کو اس بیماری سے آزاد کریں، خود اپنا علاج کریں۔ تبھی بھارت کی جمہوریت مضبوط ہوگی، ملک کے نوجوانوں کو سیاست میں آنے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے گا۔ خیر، اقربا پروری والی پارٹیوں سے میں کچھ زیادہ ہی امید کر رہا ہوں۔ اس لیے، میں آپ کے درمیان بھی کہوں گا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک میں اقربا پروری جیسے برائیوں کو نہ پنپنے دیں۔ گاؤں کے غریب کا بیٹا، گاؤں کے غریب کی بیٹی بھی صدر-وزیر اعظم بن سکے، اس کے لیے اقربا پروری کی حامی پارٹیوں کو روکا جانا بہت ضروری ہے۔ ساتھیوں، صدر جمہوریہ کے اس گاؤں میں آج آ کرکے میں آج تحفۃً کچھ مانگنے آیا ہوں، میں کچھ مانگنا چاہتا ہوں۔ آپ کو لگے گا کہ یہ کیسا وزیر اعظم ہے، ہمارے گاؤں میں آیا، لایا کچھ نہیں اور مانگ رہا ہے ہم سے۔ میں مانگ رہا ہوں، آپ دوگے نا… میں گاؤں سے مانگوں گا تو ملے گا نا… جن جن گاؤں سے لوگ آئے ہیں وہ بھی دیں گے نا۔ دیکھئے، آپ نے اپنے گاؤں میں اتنی ترقی کی ہے۔ آج جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو آپ کو اپنی کوشش بڑھانی ہے۔ امرت کال میں ملک نے عزم کیا ہے کہ ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جائیں گے۔ اور ابھی یوگی جی بتا رہے تھے کہ یہاں پرونکھ میں بھی 2 امرت سرووروں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ آپ کو اس امرت سروور کی تعمیر میں مدد بھی کرنی ہے، کار سیوا بھی کرنی ہے اور اس کی عظمت بھی بنائے رکھنی ہے۔ میں آپ سے ایک اور بات کی بھی مانگ کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس مانگ کو بھی پورا کریں گے اور وہ ہے قدرتی کھیتی، نیچرل فارمنگ۔ پرونکھ گاؤں میں زیادہ سے زیادہ کسان نیچرل فارمنگ کو اپنائیں، قدرتی کھیتی کو اپنائیں تو یہ ملک کے لیے ایک بڑی مثال بنے گا۔ ساتھیوں، بھارت کی کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے- سب کا پریاس۔ سب کے پریاس (کوشش) سے ہی آتم نربھر بھارت کا خواب بھی پورا ہوگا۔ اور، آتم نربھر بھارت کا مطلب ہے آتم نربھر (خود کفیل) گاؤں، آتم نربھر نوجوان۔ ہمارے گاؤں رفتار پکڑیں گے تو ملک رفتار پکڑے گا۔ ہمارے گاؤں ترقی کریں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ عزت مآب کووند جی کے طور پر ملک کو صدر دینے والے پرونکھ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ گاؤوں کی مٹی میں کتنی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہمیں اس صلاحیت کا، اس لیاقت کا صحیح استعمال کرنا ہے۔ ہم سب مل کر کام کریں گے، اور ملک کے خواب کو پورا کریں گے۔ اسی عزم کے ساتھ، میں ایک بار پھر عزت مآب صدر جمہوریہ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے ساتھ مجھے بھی یہاں آنے کا موقع دیا۔ میں آپ سبھی کا بھی ایک بار پھر تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور گاؤں کی ہر گلی میں جہاں جہاں گیا، جس امنگ اور جوش سے آپ نے استقبال کیا، پھولوں کی بارش کی، محبتوںں کی بارش کی، اپنے پیار سے مسحور کر دیا۔ میں آپ کے اس پیار کو کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔ آپ کے اس استقبال کو کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔ اور گاؤوں کے اندر جتنا بھی وقت گزارنے کا موقع ملا، خود کے بچپن کے ساتھ بھی میں جڑ گیا۔ اس لیے میں بھی آپ گاؤں والوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ কানপুৰৰ পৰৌংখ গাঁৱত অনুষ্ঠিত এক সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A2%D8%A6%DB%8C-2-%DB%8C%D9%88-2-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A7%A8%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A7%A8-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,عالی جناب، وزیر اعظم لاپید عزت مآب، شیخ محمد بن زائد النہیان، عالی جناب، صدر بائیڈن، سب سے پہلے وزیر اعظم لاپید کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات۔ آج کے اجلاس کی میزبانی کرنے کے لیے بھی میں ان کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ صحیح مع��وں میں کلیدی شراکت داروں کی میٹنگ ہے۔ ہم سبھی اچھے دوست ہیں، اور ہم سبھی کے نقطہ نظر میں، ہمارے مفادات میں بھی یکسانیت ہے۔ عالی جناب، آج کے اس اولین اجلاس سے ہی ’’آئی ٹو یو ٹو‘‘ نے ایک مثبت ایجنڈا قائم کر لیا ہے۔ ہم نے کئی شعبوں میں مشترکہ پروجیکٹوں کی شناخت کی ہے، اور ان میں آگے بڑھنے کا روڈ میپ بھی وضع کیا ہے۔ ’’آئی ٹو یو ٹو‘‘ فریم ورک کے تحت ہم پانی، توانائی، نقل و حمل، خلاء، صحت اور خوراک سلامتی جیسے چھ اہم شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے متفق ہوئے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ’’آئی ٹو یو ٹو‘‘ کا ویژن اور ایجنڈا ترقی پر مبنی اور عملی ہے۔ اپنے ممالک کی باہمی طاقت – سرمایہ، مہارت اور منڈیوں- کو متحرک کرکے ہم اپنے ایجنڈے کو رفتار فراہم کر سکتے ہیں، اور عالمی معیشت میں غیر معمولی تعاون دے سکتے ہیں۔ عالمی پیمانے پر بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے درمیان ہمارا امدادِ باہمی کا فریم ورک عملی تعاون کا ایک اچھا ماڈل بھی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ’’آئی ٹو یو ٹو‘‘ سے ہم عالمی سطح پر توانائی سلامتی، خوراک سلامتی اور اقتصادی نمو کے لیے غیر معمولی تعاون دیں گے۔ شکریہ۔,‘আই২ইউ২ শীৰ্ষ সন্মিলন’ত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%DB%8C%DB%94-7-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DB%81%D9%84%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%AD-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%AA/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جرمنی کے شلوس ایل مؤ میں جی 7 کی سربراہ کانفرنس کے پہلو بہ پہلو 27 جون 2022 کو یوروپین کمیشن کی صدر محترمہ ارسولاوان ڈر لیئن کے ساتھ ملاقات کی ۔ وزیر اعظم نے رائے سینا مذاکرات کے دوران اپریل 2022 میں صدرمحترمہ وان ڈرلیئن کے دہلی کے نتیجہ خیز دورہ کا ذکر کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ہندوستان اور یوروپین یونین کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور جی آئی معاہدوں پر مذاکرات کی دوبارہ شروعات کے حوالے سے اپنی مسرت کااظہار کیا ۔ انہوں نے ڈجیٹل تعاون ، موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں کارروائیوں اور ٹکنالوجی اور اختراع سمیت مختلف شعبوں میں ہندوستان اور یوروپی یونین کے درمیان اشتراک عمل کاجائزہ لیا ۔ دونوں رہنماؤں نے معاصر عا لمی اور علاقائی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔,জি-৭ সন্মিলনৰ সময়ত ইউৰোপীয় আয়োগৰ অধ্যক্ষৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AE%D8%B2%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%B9-%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%D8%A7%D8%B1%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی محترمہ نرملا سیتا رمن جی، جناب راؤ اندرجیت سنگھ، پنکج چودھری جی، جناب بھاگوت کرشنا راؤ کراڈ جی، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات! گزشتہ برسوں کے دوران وزارت خزانہ اور کارپوریٹ امور کی وزارت، انہوں نے اپنے کاموں کے ذریعے صحیح وقت پر صحیح فیصلے لے کر اپنی ایک وراثت بنائی ہے۔ ایک بہترین سفر طے کیا ہے۔ آپ سب اس میراث کا حصہ ہیں۔ ملک کے عام لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کی بات ہو یا ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے، پچھلے 75 سالوں میں بہت سے ساتھیوں نے بہت زیادہ تعاون دیا ہے ۔ یہ یادگاری ہفتہ ماضی کی ہر کوشش کو زندہ کرنے کا موقع ہے۔ آزادی کے امرت میں ہم اس ماضی سے متاثر ہو کر اپنی کوششوں کو اور کرسکیں ، یہ اس سمت میں بہت اچھا قدم ہے۔ آج یہاں روپے کا شاندار سفر بھی دکھایا گیا، اس سفر سے متعارف کرانے والی ڈیجیٹل نمائش کا بھی آغاز ہوا، اور آزادی کے امرت مہوتسو کے لئے وقف منسوب نئے سکے بھی جاری کیے گئے۔ یہ نئے سکے ملک کے لوگوں کو امرت کال کے مقاصد کے بارے میں مسلسل یاد دلاتے رہیں گے، انہیں ملک کی ترقی میں اپنا تعاون دینے کی ترغیب دیں گے۔ اگلے ایک ہفتے میں آپ کے شعبہ کی جانب سے بہت سے پروگرام منعقد کیے جانے والے ہیں۔ اس امرت کے کام میں شامل تمام محکموں کو، آپ کے ہر چھوٹے سے چھوٹے یونٹ کو اپنی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آزادی کا یہ امرت کا تہوار صرف 75 سال کا جشن نہیں ہے، بلکہ ان خوابوں کا بھی جشن منانا ہے جو ہمارے مجاہدین آزادی اور خواتین اور مرد آزاد بھارت کے لیے دیکھے تھے، یہ لمحہ ان خوابوں کو پورا کرنے، ان خوابوں میں ایک نئی طاقت بھرنے اور آگے بڑھنے کا ہے آزادی کی طویل جدوجہد میں جس نے بھی حصہ لیا ، اس نے اس تحریک میں ایک مختلف جہت کا اضافہ کیا، اور اس کوتوانائی بخشی ۔ کسی نے ستیہ گرہ کا راستہ اختیار کیا، کسی نے ہتھیاروں کا راستہ اپنایا،کسی نے ایمان اور روحانیت کا راستہ اپنایا جب کہ کچھ نے فکری طور پر اپنے قلم کی طاقت کو آزادی کے شعلے کو جگانے کے لیے استعمال کیا۔ کسی نے کورٹ کچڑی میں مقدمات لڑ کر ملک کی آزادی میں ایک نئی قوت بھرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہم آزادی کے 75 سال منا رہے ہیں تو ہر اہل وطن کا فرض ہے کہ وہ اپنی سطح پر قوم کی ترقی میں اپنا مخصوص کردار ادا کریں۔ آپ دیکھیں کہ اگر ہم بحیثیت قوم دیکھیں تو گزشتہ آٹھ سالوں میں بھارت نے مختلف جہتوں پر مسلسل نئے قدم اٹھائے ہیں، نئی چیزیں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران ملک میں جس عوامی شراکت میں اضافہ ہوا، اس نے ملک کی ترقی کو رفتار دی، ملک کے غریب ترین غریب شہریوں کو بااختیار بنایا ہے۔ سوچھ بھارت ابھیان – نے غریبوں کو عزت کے ساتھ جینے کا موقع دیا۔ پکے گھر، بجلی، گیس، پانی، مفت علاج جیسی سہولیات نے ہمارے غریبوں کا وقار بڑھایا، ہمارے شہریوں کے اعتماد میں ایک نئی توانائی بخشی اور ساتھ ہی اس سہولیات میں بھی اضافہ کیا۔ کورونا کے دوران مفت راشن کی اسکیم نے 80 کروڑ سے زیادہ ملک کے لوگوں کو بھوک کے خوف سے نجات دلائی ہے۔ ملک کی نصف سے زائد آبادی جو کہ رسمی نظام سے محروم تھی، ملکی ترقی کی بحث سے باہر تھی، ہم نے اسے مشن موڈ میں شامل کیا ہے۔ مالی شمولیت کا اتنا بڑا کام اتنے کم وقت میں دنیا میں کہیں نہیں ہوا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے لوگوں میں محرومی سے باہر نکل کر خواب دیکھنے اور خوابوں کو حقیقت کی شکل دینے کا ایک نیا حوصلہ ہمیں دیکھنے کو ملا۔ ساتھیو، آزادی کی 7 دہائیوں کے بعد آنے جو اتنی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے وہ مرکز میں عوام پر مرکوز حکمرانی ہے، گڈ گورننس کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ ایک وقت تھا، جب ہمارے ملک میں پالیسیاں اور فیصلے حکومت پر مرکوز تھے۔ یعنی کسی بھی اسکیم کے آغاز کے بعد یہ لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت تک پہنچ کر اس سے فائدہ اٹھائے۔ اس طرح کے نظام میں حکومت اور انتظامیہ دونوں کی ذمہ داری کم ہو جاتی ہے۔ اب جیسے کے ایک غریب طالب علم کو پڑھائی کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہوتی تھی، پہلے وہ اپنے کنبے، اپنے رشتہ داروں یا اپنے دوستوں سے مدد لینے کے لئے مجبور تھا۔ اس کام کے لیے حکومت کے جو بھی منصوبے تھے وہ اتنے زیادہ عمل سے گزرتی تھی ، کہ وہ اس مدد حاصل کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا تھا، اس عمل میں ہی تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا تھا اسی طرح اگر کسی کاروباری، تاجر کو قرض کی ضرورت ہوتی تھی تو اسے بھی کئی جگہوں پر چکر لگانے پڑتے تھے۔ ، کئی طریقہ کار سے گزرنا پڑتا تھا۔ اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ نامکمل معلومات کی وجہ سے وہ وزارت کی ویب سائٹ تک بھی نہیں پہنچ پاتا تھا۔ ان مشکلات کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طالب علم ہو یا تاجر، اپنے خواب بیچ میں ہی ترک کردیتے تھے، ان کی تکمیل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ ملک نے ماضی میں حکومت پر مبنی طرز حکمرانی کا خمیازہ بھگتا ہے۔ لیکن آج 21ویں صدی کا بھارت عوام پر مبنی حکمرانی کے نقطہ نظر سے آگے بڑھا ہے ۔ یہ عوام ہی جس نے ہمیں یہاں اپنی خدمت کے لیے یہاں بھیجا ہے۔ اس لیے ہماری یہ اولین ترجیح ہے کہ ہم خود عوام تک پہنچیں، ہر اہل فرد تک پہنچیں، اسے بھرپور فائدہ پہنچائیں، اس سب کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ بھارتی حکومت کے ہر کسی پورٹل تک پہنچنے اور ان کے مسئلے کو حل کرنے سے بہتر ہے کہ مختلف وزارتوں کی مختلف ویب سائٹس دیکھیں اور اس مشکل کا حل نکلے آج جو جنسمرتھ پورٹل شروع کیا گیا ہے، وہ اسی مقصد کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اب بھارتی حکومت کی کریڈٹ سے منسلک اسکیمیں مختلف مائیکرو سائیٹس پر نہیں بلکہ ایک جگہ پر دستیاب ہوں گی۔ یہ جنسمرتھ پورٹل نہ صرف طلباء، صنعت کاروں، تاجروں ، کسانوں کی زندگی کو آسان بنائے گا بلکہ ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں بھی ان کی مدد کرے گا۔ اب طلباء آسانی سے یہ معلومات حاصل کر سکیں گے کہ کس سرکاری اسکیم سے انہیں سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا، وہ کس طرح اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے نوجوان آسانی سے فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا انہیں مدرا لون چاہئے ہیں یا اسٹارٹ اپ انڈیا لون۔ جنسمرتھ پورٹل کے ذریعے اب ملک کے نوجوانوں کو متوسط طبقے کو اینڈ ٹو اینڈ ڈیلیوری کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم ملا ہے اور جب قرض لینا آسان ہوگا، کم سے کم طریقہ کار ہوگا، تو یہ بھی فطری بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ قرض لینے کے لیے آگے آئیں گے۔ یہ پورٹل حکومت کی اسکیموں کو تمام مستفیدین تک لے جا کر خود روزگار بڑھانے میں اہم رول ادا کرنے والا ہے۔ میں خاص طور پر ملک کے نوجوانوں کو جنسمرتھ پورٹل کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ آج یہاں اس پروگرام میں بینکنگ سیکٹر کے سرکردہ افراد بھی موجود ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ تمام بینکرس کو بھی اپنی شرکت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے تاکہ نوجوانوں کے لیے قرض حاصل کرنے میں آسانی ہو، اورجنسمرتھ پورٹل کو کامیاب بنایا جا سکے۔ ساتھیو، کوئی بھی بہتری ہو، اصلاح ہو، اگر اس کا ہدف واضح ہے، اس کے نفاذ کے لیے سنجیدگی ہے، تو اس کے اچھے نتائج سامنے آنا طے ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں میں ملک نے جو اصلاحات کی ہیں، ان میں ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اپنی صلاحیت دکھانے کو بھی بڑی ترجیح دی گئی ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے، ہمارے نوجوان اپنی مرضی کی کمپنی آسانی سے کھول سکیں، وہ آسانی سے اپنے ادارے قائم کر سکیں، آسانی سے چلا سکیں۔ لہذا، 30 ہزار سے زیادہ تعمیل کو کم کر کے، ڈیڑھ ہزار سے زیادہ قوانین کو ختم کر کے، کمپنیز ایکٹ کی بہت سی دفعات کو مجرمانہ ��نا کر، ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بھارت کی کمپنیاں نہ صرف آگے بڑھیں بلکہ نئی بلندیاں بھی حاصل کریں۔ ساتھیو، اصلاحات- یعنی جس چیز پر ہم نے اصلاحات کے ساتھ توجہ مرکوز کی ہے وہ ہے سادگی، آسانیاں۔ جی ایس ٹی نے اب مرکز اور ریاست کے بہت سے ٹیکسوں کی جگہ لے لی ہے۔ اور ملک اس سادگی کا نتیجہ بھی دیکھ رہا ہے۔ اب جی ایس ٹی کی وصولی کا ہر ماہ ایک لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کرنا معمول بن گیا ہے۔ ہم ای پی ایف او رجسٹریشن کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ اصلاح، سادگی سے آگے بڑھتے ہوئے، اب ہم ایک قابل رسائی نظام بنا رہے ہیں۔ جیم پورٹل کی وجہ سے، کاروباریوں اور کاروباری اداروں کے لیے حکومت کو اپنی مصنوعات فروخت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ اس میں بھی خریداری کا ہندسہ ایک لاکھ کروڑ روپے کو پار کر رہا ہے۔ آج ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات کہاں کہاں ہیں، وہ معلومات انویسٹ انڈیا پورٹل کے ذریعے آسانی سے دستیاب ہیں۔ آج مختلف قسم کی منظوریوں کے لیے سنگل ونڈو کلیئرنس پورٹل ہے۔ اس سمت میں بھی یہ جنسمرتھ پورٹل ملک کے نوجوانوں، ملک کے اسٹارٹ اپس کی بھی بہت مدد کرنے والا ہے۔ آج ہم بہتری، سادگی، آسانی کی طاقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو سہولیات کی ایک نئی سطح حاصل ہوتی ہے کہ ہم تمام اہل وطن کو جدید سہولیات فراہم کریں، ان کے لیے نئی کوششیں کریں اور نئے عہد کے ساتھ انہیں ثابت کرنا ہم سبھی کی ذمہ داری ہے۔ ساتھیو، پچھلے 8 سالوں میں ہم نے دکھایا ہے کہ بھارت اگر مل کر کچھ کرنے کا عزم رکھتا ہے تو وہ پوری دنیا کے لیے ایک نئی امید بن جاتا ہے۔ آج دنیا نہ صرف ایک بڑی صارف منڈی کے طور پر پرامید اور توقعات کے ساتھ دیکھ رہی ہے، بلکہ ایک قابل، بساط بدلنے والے تخلیقی ، اختراعی ماحولیاتی نظام کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ بھارت سے مسائل کے حل کی توقع رکھتا ہے۔ ہمیں ملک کے عوام پر پورا بھروسہ ہے کہ اچھی حکمرانی کے لیے جو بھی ٹیکنالوجی لائی جائے گی، اسے ملک کے عوام قبول کریں اور سراہیں گے۔ اس عوامی اعتماد کا نتیجہ دنیا کے بہترین ڈیجیٹل ٹرانزیکشن پلیٹ فارم یو پی آئی یعنی یونیفائیڈ پیمنٹ انٹرفیس کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ آج، ملک کے لوگ دور دراز کے گاؤوں سے لے کر شہروں کے علاقوں تک سڑکوں پر دکانداروں سے 10-20 روپے سے لے کر لاکھ تک کا لین دین آسانی سے کر رہے ہیں۔ ہمیں بھارت کے نوجوانوں میں اختراع اور کاروبار کے جذبے پر بھی بھروسہ تھا۔ اسٹارٹ اپ انڈیا کا پلیٹ فارم ملک کے نوجوانوں میں چھپے اس جذبے کو آگے بڑھانے کے لیے دیا گیا تھا۔ آج ملک میں تقریباً 70 ہزار اسٹارٹ اپس ہیں اور ہر روز درجنوں نئے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ ساتھیو، آج ملک جو کچھ حاصل کر رہا ہے اس میں خود سے تحریک حاصل کرنے کا بڑا کردار ہے، سب کی کوششیں ہیں۔ آتم نربھر بھارت ابھیان، ووکل فار لوکل جیسی مہم سے ہم وطن جذباتی طور پر وابستہ ہو گئے ہیں۔ اس میں آپ سب کا، وزارت خزانہ اور کارپوریٹ امور کی وزارت کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ اب ہمیں تیزی سے اسکیموں کے 100 فیصد نفاذ تک پہنچنا ہے۔ ہم نے مالیاتی شمولیت کے لیے پلیٹ فارم تیار کیے ہیں، اب ہمیں ان کے استعمال کے بارے میں بیداری کو بڑھانا ہے۔ جو مالیاتی حل بھارت کے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، اب وہ حل دنیا کے دیگر ممالک کے شہریوں کو دینے چاہئیں، اس کے لیے بھی کوششیں کی جانی چاہیے۔ اس بات پر توجہ مرکوز کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے بینک، ہماری کرنسی ہماری بین الاقوامی سپلائی چین کا بین الاقوامی تجارت کا وسیع حصہ کیسے بنتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ آزادی کے امرت کال میں بہتر مالیاتی اور کارپوریٹ گورننس کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔ آج میں اس تقریب کے لیے 75 جگہوں پر بیٹھے ہوئے تمام ساتھیوں کو بہت بہت نیک خواہشات کے ساتھ اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!,বিত্ত মন্ত্ৰালয় আৰু কৰ্পৰেট পৰিক্ৰমা মন্ত্ৰালয়ৰ আইকনিক সপ্তাহ উদযাপনৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-%D9%88%D8%B1%DA%86%D9%88%D8%A6%D9%84-%D8%B3%D8%B1%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%AD/,وزیراعطم ، جناب نریندرمودی نے آج سویرے امریکہ کے صدرجوزف آر بائیڈن جو نیئر کی دعوت پردوسری عالمی کووڈ ورچوئل سربراہ کانفرنس میں شرکت کی ۔ وزیراعظم نے سربراہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ سربراہ کانفرنس کا موضوع ہے ، ‘عالمی وباء کی گہری تھکاوٹ سے تحفظ اورتیاریوں کو ترجیح دینا ’۔ وزیراعظم نے اس بات کو اجاگرکیا کہ بھارت نے عالمی وباء سے نمٹنے کی غرض سے عوام پرمرکوز حکمت عملی اختیارکی ہے اور اس نے اس سال کے اپنے صحت بجٹ کے لئے اب تک کی سب سے زیادہ رقم مختص کی ہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ بارت ، کووڈ سے بچاؤ کی غرض سے ٹیکہ کاری کی دنیا کی سب سے بڑی مہم چلارہاہے اوراس نے اپنی لگ بھگ 90فیصد بالغ آبادی اور 5کروڑسے زیادہ بچوں کے ٹیکے لگائے جاچکے ہیں ۔ وزیراعظم نے اس بات کی بھی اجاگر کی کہ عالمی برادری کے ایک ذمہ داررکن کی حیثیت سے ، بھارت کووڈ کے اثرات کو کم کرنے کی غرض سے ملک میں ہی تیار کی گئیں کم لاگت کی ٹکنالوجیز ، ویکسین اورعلاج معالجہ کو دوسرے ملکوں کو فراہم کرکے ، ایک سرگرم کردار اداکرتارہے گا۔ بھارت اپنی جینومک نگرانی کے کنسورشیئم میں توسیع کرنے کے لئے کام کررہاہے ۔ بھارت نے اپنے روایتی دیسی طریقہ علاج کا بھرپور استعمال کیاہے اوراس نے بھارت میں روایتی طریقہ علاج کے لئے ڈبلیو ایچ او کے ایک مرکز کاسنگ بنیاد رکھا ہے تاکہ یہ علم پوری دنیا کو دستیاب کرایاجاسکے ۔ وزیراعظم نے ایک زیادہ مضبوط اورزیادہ لچک دارعالمی سکیورٹی نظام تیارکرنے کے مقصد سے ڈبلیو ایچ ا و کو مستحکم بنانے اوراس میں اصلاح کرنے پرزوردیاہے ۔ اس سربراہ کانفرنس کے دیگر شرکاء میں ، اس تقریب کے شریک میزبان ، سی اے آرآئی سی اوایم کے صدرکی حیثیت سے حکومت بیلائز کے سربراہ مملکت ، افریقی یونین کے صدرکی حیثیت سے سینیغال ، جی ٹوئنٹی کے صدرکی حیثیت سے انڈونیشیا اورجی سیون کے صدرکی حیثیت سے جرمنی ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ، صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے ڈائرکٹرجنرل اور دیگراہم شخصیات نے بھی اس سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔ وزیراعظم نے صدرجوبائیڈن کی میزبانی میں 22ستمبر 2021 کو پہلی عالمی کووڈ ورچوئل سربراہ کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی ۔,দ্বিতীয় আন্তৰ্জাতিক কোভিড ভাৰ্চুৱেল শীৰ্ষ সন্মিলনত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D9%85%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D9%88%D9%86%D9%85%D8%A7-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%A5-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے رامپور میں رونما ہوئے ایک سڑک حادثے میں ہوئی ہلاکتوں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے متاثرہ کنبے سے اظہار تعزیت کیا۔ انہوں نے مطلع کیا کہ مقامی انتظامیہ ریاستی حکومت کی سرپرستی میں ہرممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا: ’’اترپردیش کے رامپور میں رونما ہوا سڑک حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس حادثے میں ہلاک شدگان کے کنبہ اراکین سے اظہار تعزیت کرنے کے ساتھ ہی مجروحین کی جلد از جلد صحتیابی کے لیے دعا گو ہوں۔ ریاستی حکومت کی نگرانی میں مقامی انتظامیہ موقع پر ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے: وزیر اعظم مودی‘‘,ৰামপুৰত পথ দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱা লোকসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%AF%E0%A6%BC-3/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بالی میں جی-20 لیڈران کے سربراہی اجلاس کے موقع پر امریکہ کے صدر عزت مآب جناب جوزف آر. بائیڈن اور انڈونیشیا کے صدر عزت مآب جناب جوکو وڈوڈو سے ملاقات کی۔ وزیراعظم جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ جی-20 بین الاقوامی اقتصادی تعاون کا ایک اہم فورم ہے، اور جی-20 کی اہمیت پر زور دیا کہ وہ عالمی چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے بڑی معیشتوں کو اکٹھا کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جی-20 ہماری معیشتوں اور اس سے آگے پائیدار اور جامع ترقی کی بحالی، موجودہ آب و ہوا، توانائی اور خوراک کے بحرانوں سے نمٹنے، عالمی صحت کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور تکنیکی تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کر رہا ہے۔ وزیراعظم جناب مودی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہندوستان اپنی صدارت کے دوران دیگر ترقی پذیر ممالک کو آواز عطا کرے گا، اور انہوں نے جامع ترقی کی حمایت، اقتصادی سلامتی اور عالمی سپلائی چین کو مضبوط کرنے؛ کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے لیے بہتر اور جدید فائنانسنگ ماڈل تیار کرنے؛ آب و ہوا میں تبدیلی، وبائی امراض، معاشی کمزوری، غربت میں کمی اور ایس ڈی جیز کے حصول جیسے چیلنجوں کا حل فراہم کرنے؛ اور انفراسٹرکچر کے فرق کو ختم کرنے کے لیے عوامی اور نجی فائنانسنگ کا فائدہ اٹھانے اور کمزور ممالک کی مدد میں جی-20 کے کردارپر زور دیا۔ وزیراعظم جناب مودی نے صدر وڈوڈو اور صدر بائیڈن کا ہندوستان کی صدارت میں جی-20 کے کام کی حمایت کرنے کے عزم کے لیے شکریہ ادا کیا۔,বালিত জি-২০ সন্মিলনৰ সময়ত আমেৰিকা যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ ৰাষ্ট্ৰপতি আৰু ইণ্ডোনেছিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D9%84%D8%A7%DA%A9%DA%BE-%D8%B1%D9%88%D9%BE%D8%A6%DB%92-%D8%AA%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%84%DB%8C%D9%84-%D9%85%D8%AF%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9-%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%96-%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے سبھی مالی اداروں کے ��ئے قلیل مدتی زرعی قرضوں کے سود پر 1.5 فیصد رعایت کو بحال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس طرح، قرض فراہم کرنے والے اداروں (پبلک سیکٹر، بینکوں، نجی شعبے کے بینکوں، اسمال فائنانس بینکوں، علاقائی دیہی بینکوں، امداد باہمی کے بینکوں اور کمرشیئل بینکوں کے براہ راست حوالے کئےگئے کمپیوٹرائزڈ پی اے سی ایس) کو مالی سال 23-2022 سے 25-2024 کے لئے تین لاکھ روپے تک کے قلیل مدتی زرعی قرض کے لئے 1.5 فیصد سود کی رعایت فراہم کی جائے گی۔ سود کی رعایت سے متعلق معاونت میں اضافہ کے سبب، اس اسکیم کے تحت 23-2022 سے 25-2024 تک کی مدت کے لئے بجٹ میں 34856 کروڑ روپے کے بقدر اضافی التزامات کی ضرورت ہوگی۔ فوائد: سود کی رعایت میں اضافے کی بدولت زرعی شعبے میں قرض کی آمد کی ہمہ گیریت کو یقینی بنایا جا سکے گا اور اسی کے ساتھ ہی قرض فراہم کرنے والے اداروں، خاص طور پر علاقائی دیہی بینکوں اور امداد باہمی کے بینکوں کی مالی صحت اور افادیت کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا، جس سے دیہی معیشت میں وافر اور خاطر خواہ مقدار میں زرعی قرضوں کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ بینکس، فنڈس کی لاگت میں اضافے کو برداشت کر سکیں گے اور ان کی اس بات کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ کسانوں کو قلیل مدتی زرعی ضروریات کے لئے قرضے فراہم کریں اور زیادہ سے زیادہ کسانوں کو زرعی قرض کی اسکیم کے فوائد سے مستفید ہونے کے اہل بنائیں۔ اس قدم سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے، کیونکہ قلیل مدتی زرعی قرضے، مویشی پروری، دودھ کی صنعت، پولٹری اور ماہی پروری سمیت سبھی سرگرمیوں کے لئے فراہم کئے جائیں گے۔ کسان مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی کرتے ہوئے 4 فیصد سالانہ سود کی شرح پر قلیل مدتی زرعی قرضے حاصل کرتے رہیں گے۔ پس منظر: کسانوں کو نسبتاً سستی شرحوں پر خوش اسلوبی سے قرض کی دستیابی کو یقینی بنانا حکومت ہند کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ اسی کے مطابق، کسانوں کے لئے ’’ کسان کریڈٹ کارڈ‘‘ اسکیم متعارف کرائی گئی تھی تاکہ انہیں کسی بھی وقت قرض پر زرعی مصنوعات اور خدمات کی خریداری کے لئے با اختیار بنایا جا سکے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کسانوں کو بینکوں کو برائے نام شرح سود ادا کرنا پڑے، حکومت ہند نے ’’ سود کی رعایت سے متعلق اسکیم (آئی ایس ایس ) متعارف کرائی تھی تاکہ کسانوں کو سود کی رعایتی شرحوں پر قلیل مدتی قرض فراہم کیا جا سکے۔ اس اسکیم کا نام بدل کر ا ب ’’ سود کی رعایت سے متعلق اصلاح شدہ اسکیم (ایم آئی ایس ایس) کر دیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت ، مویشی پروری، دودھ کی صنعت، پولٹری، ماہی پروری وغیرہ سمیت زراعت، کاشتکاری اور دیگر متعلقہ سرگرمیوں میں مصروف کسانوں کو 7 فیصد سالانہ کی شرح پر تین لاکھ روپے تک کا قلیل مدتی زرعی قرض فراہم کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ قرض کی فوری اور بروقت ادائیگی کی غرض سے کسانوں کو اضافی 3 فیصد کی رعایت بھی دی جاتی ہے۔ اس لئے اگر ایک کسان، وقت پر اپنے قرض کی ادائیگی کر دیتا ہے، تو اُسے 4 فیصد سالانہ کی شرح سے مزید قرض فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اس سہولت سے کسانوں کو مستفید کرانے کی غرض سے حکومت ہند، اس اسکیم کو پیش کرنے والے مالی اداروں کو سود کی رعایت (آئی ایس ) فراہم کرتی ہے۔ مرکز اس سلسلے میں 100 فیصد فنڈس کی معاونت کرتا ہے اور یہ ڈی اے اینڈ ایف ڈبلیو کی دوسری سب سے بڑی اسکیم بھی ہے۔ حال ہی میں، آتم نربھر بھارت مہم کے تحت، 2.5 کروڑ کے ہدف کے مقابلے، 3.13 کروڑ کسانوں کو نئے کسان قرض کارڈ (کے سی سی) جاری کئے گئے ہی��۔ پی ایم کسان اسکیم کے تحت درج کئے گئے کسانوں کے لئے کے سی سی تکمیلی مہم جیسی خصوصی پہل قدمیوں کے ذریعہ اس عمل اور کے سی سی کی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے مطلوبہ دستاویزات کو بھی آسان بنایا گیا ہے۔ تبدیل ہوتے اقتصادی منظرنامہ، خاص طور پر شرح سود میں اضافے اور مالی اداروں خاص طور پر امداد باہمی کے بینکوں اور علاقائی دیہی بینکوں کے لئے قرض کی شرحوں میں اضافے کے پیش نظر، حکومت نے اِن مالی اداروں کو فراہم کی جانے والی شرح سود کی رعایت کا از سرنو جائزہ لیا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے کسانوں کو زرعی شعبے میں وافر قرض کی دستیابی کے ساتھ ساتھ قرض فراہم کرنے والے مالی اداروں کی مالی صحت کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس چنوتی کو حل کرنے کی غرض سے ، حکومت ہند نے سبھی مالی اداروں کے لئے قلیل مدتی زرعی قرضوں پر سود کی 1.5 فیصد رعایت کو بحال کرنے کا سرگرمی سے فیصلہ کیا ہے۔,৩ লাখ টকা পৰ্যন্ত ‘হ্ৰস্বম্যাদী কৃষি ঋণ’ৰ সুদৰ ক্ষেত্ৰত বছৰি ১.৫% ৰাজসাহায্য আগবঢ়োৱাৰ সিদ্ধান্তলৈ অনুমোদন জনাইছে কেবিনেট +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-6/,1۔ عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی عزت مآب وزیراعظم شیخ حسینہ نے وزیر اعظم ہند جناب نریندر مودی کی دعوت پر 05 تا 08 ستمبر 2022 ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا۔اس دورے میں عزت مآب وزیراعظم شیخ حسینہ نے صدرِ ہند محترمہ دروپدی مرمو اور ہندوستان کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور شمال مشرقی خطے کی ترقی کے کے وزیر جناب جی کشن ریڈی نے ان سے ملاقات کی۔وزیر اعظم شیخ حسینہ کے پروگرام میں 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران شہید اور شدید زخمی ہونے والے ہندوستانی مسلح افواج کے اہلکاروں کی 200 فرزندان کے لئے ‘‘بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان اسٹوڈنٹ اسکالرشپ’’ کا آغاز بھی شامل ہے۔ انہوں نے 7 ستمبر 2022 کو ہندوستان اور بنگلہ دیش کی کاروباری برادریوں کے ذریعہ مشترکہ طور پر منعقدہ ایک کاروباری تقریب سے بھی خطاب کیا۔ 2۔ دونوں وزرائے اعظم نے 6 ستمبر 2022 کو ایک محدود میٹنگ کی اور اس کے بعد وفود کی سطح پر بات چیت کی۔ ملاقاتیں بڑی گرمجوش اور دوستانہ ماحول میں ہوئیں۔دونوں رہنماؤں نے گہرے تاریخی اور برادرانہ رشتوں اور جمہوریت اور تکثیریت کی مشترکہ اقدار پر مبنی دوطرفہ تعلقات کی بہترین حالت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جو خودمختاری، مساوات، اعتماد اور تفہیم پر مبنی ہمہ جہت دو طرفہ شراکت داری میں جھلکتی ہے جو اسٹریٹجک شراکت داری سے بھی فروتر ہے۔ 3۔ دونوں رہنماؤں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی، بابائے قوم بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمن کی صد سالہ پیدائش اور ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے 50 سال مکمل ہونے کی تقریباتمیں شامل ہونے کے لئے مارچ 2021 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سرکاری دورے کو یاد کیا۔ جس کے بعد دسمبر 2021 میں صدر جمہوریہ ہند نے بنگلہ دیش کے یوم فتح کی گولڈن جوبلی کی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے کے سرکاری دورہ کیا۔ 4۔ دونوں وزرائے اعظم نے مسلسل دوطرفہ اعلیٰ سطحی دو��وں کو اطمینان کے ساتھ نوٹ کیا جس سے تعاون کے مختلف شعبوں میں پیش رفت حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔فریقین نے جون 2022 میں نئی دہلی، ہندوستان میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی قیادت میں مشترکہ مشاورتی کمیشن کے ساتویں اجلاس کے کامیاب انعقاد کو بھی یاد کیا۔ 5۔ دونوں وزرائے اعظم نے سیاسی اور سیکورٹی تعاون، دفاع، سرحدی انتظام، تجارت اور رابطے، آبی وسائل، بجلی اور توانائی، ترقیاتی تعاون، ثقافتی اور بین عوامی روابط سمیت دو طرفہ تعاون کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کی اور تعاون کے نئے شعبوں جیسے ماحولیات، آب و ہوا میں تبدیلی، سائبر سیکورٹی، آئی سی ٹی، خلائی ٹیکنالوجی، ماحول دوست توانائی اور بحری معیشت میں تعاون پر بھی اتفاق کیا۔ 6۔ انہوں نے دلچسپی کے علاقائی اور عالمی مسائل کے مختلف پہلوؤں پر مزید تبادلہ خیال کیا۔ عالمی وبا کوویڈ-19 کے اثرات اور عالمی واقعات کی وجہ سے سپلائی چین میں رکاوٹوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے خطے کی خوشحالی اور ترقی کے لئے دوستی اور شراکت داریکے جذبے سے زیادہ تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ 7۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ اور ذیلی علاقائی ریل، سڑک، اور رابطے کے دیگر اقدامات کو عمل میں لانے کی اہمیت پر زور دیا۔ فریقین نے ٹونگی-اکھوڑہ لائن کی ڈوئل گیج میں تبدیلی، ریلوے رولنگ اسٹاک کی فراہمی، بنگلہ دیش ریلوے کے اہلکاروں کے لئے استعداد کار میں اضافہ، بنگلہ دیش ریلوے کی بہتر خدمات کے لئے آئی ٹی حل کا اشتراک وغیرہ جیسے جاری دوطرفہ اقدامات کا خیرمقدم کیا اور نئے اقدامات کو بھی سراہا جن میں کاؤنیا-لال منیرہاٹ-مُغل گھاٹ-نیو گیتل داہا لنک، ہلی اور بیرام پور کے درمیان رابطہ، بیناپول-جیسور لائن کے ساتھ ٹریک اور سگنلنگ سسٹم اور ریلوے اسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن، بوریماری اور چھانگراباندھا کے درمیان رابطے کی بحالی،سراج گنج میں کنٹینر ڈپو کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔ فریقین نے دو طرفہ ترقیاتی تعاون کے تحت متعدد مالیاتی آلات کے ذریعے ان منصوبوں کی فنڈنگ تلاشکرنےپراتفاق کیا۔بنگلہ دیش کی طرف نے گرانٹ پر 20 براڈ گیج ڈیزل انجن فراہم کرنے کے ہندوستان کے رویے کا خیرمقدم کیا۔ 8۔ دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تجارت میں اضافے کی تعریف کی، جس میں ہندوستان ایشیا میں بنگلہ دیش کے لئے سب سے بڑے برآمد کار کے طور پر ابھر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی جانب سے ہندوستان سے ضروری اشیائے خوردونوش جیسے چاول، گندم، چینی، پیاز، ادرک اور لہسن کی متوقع فراہمی کی درخواست کی گئی۔ ہندوستانی فریق نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی درخواستوں پر ہندوستان میں سپلائی کی موجودہ پوزیشن کی بنیاد پر غور کیا جائے گا اور اس سلسلے میں تمام کوششیں کی جائیں گی۔ 9۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ہند – بنگلہ دیش سرحد کا پرامن انتظام ایک مشترکہ ترجیح ہے دونوں لیڈروں نے افسران کو ہدایت دی کہ وہ زیرو لائن کے 150 گز کے اندر تمام التوا میں پڑے ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کی سرگرمیوں میں تیزی لائیں۔ ان میں تریپورہ سیکٹر سے شروع ہونے والی حصار بندی کا مقصد ایک پرسکون اور جرائم سے پاک سرحد کو برقرار رکھنا ہے۔ 10۔ اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہ سرحد پر واقعات کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے، دونوں فریقوں نے اس تعداد کو بھی ختم کرنے کے لئے کام کرنے پر اتفاق کیا۔ فریقین نے اسلحے، منشیات اور جعلی کرنسی کی اسمگلنگ کے خلاف اور خاص طور پر خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ ک�� روک تھام کے لئے دونوں کے سرحدی محافظ دستوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی ستائش کی۔ دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کے خاتمے کے لئے دونوں رہنماؤں نے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کیا اور خطے اور اس سے باہر دہشت گردی، پرتشدد انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اپنے تعاون کو مزید مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ 11۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مشترکہ دریاؤں کے کمیشن کی 38 ویں وزارتی میٹنگ (23-25 اگست 2022،نئی دہلی) طلب کئے جانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے جمہوریہ ہند کی وزارت جل شکتی اور عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی آبی وسائل کی وزارت کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط کا خیر مقدم کیا۔ اس کا تعلق ہندوستان اور بنگلہ دیش کی طرف سے مشترکہ سرحدی دریا کشیارا سے پانی نکالنے سے ہے جس سے بنگلہ دیش کو اپنی آبپاشی کی ضروریات کو پورا کرنے اور جنوبی آسام کے لئے پانی کے منصوبوں میں سہولت فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ 12۔ ہندوستانی فریق نے ریاست تریپورہ کی فوری آبپاشی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے دریائے فینی پر پانی کی تقسیم کے عبوری معاہدے پر جلد دستخط کرنے کی درخواست کی۔ بنگلہ دیش نے ہندوستان کی اس درخواست کا نوٹس لے لیا۔ ہندوستانی فریق نے دونوں ممالک کے درمیان 2019 کے مفاہمت نامے کو عمل مین لانے کے لئے ہندوستان کو انٹیک ویل کی تعمیر کا اختیار دینے کے لئے بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا۔ اس کا تعلق تریپورہ کے سبروم قصبے کے لئے پینے کے پانی کی فراہمی کی خاطر دریائے فینی سے 1.82 کیوسک پانی نکالنے سے ہے۔ 13۔ دو طرفہ تعلقات میں پانی کے انتظام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے رہنماؤں نے اعداد و شمار کے تبادلے کو ترجیح دینے اور پانی کی تقسیم کے عبوری معاہدوں کا فریم ورک بنانے کے لئے دریاؤں کی اضافی تعداد کو شامل کر کے تعاون کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لئے جوائنٹ ریور کمیشن کے فیصلے کی ستائش کی۔ رہنماؤں نے گنگا کے پانی کی تقسیم کے 1996 کے معاہدے کی دفعات کے تحت بنگلہ دیش کو ملنے والے پانی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے رُخ پر ایک مطالعہ کرنے کے لئے ایک مشترکہ تکنیکی کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کیا۔ 14۔ سابقہ بات چیت کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم شیخ حسینہ نے دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم سے متعلق عبوری معاہدے کو ختم کرنے کے لئے بنگلہ دیش کی دیرینہ درخواست کا اعادہ کیا جس کے مسودے کو 2011 میں حتمی شکل دی گئی تھی۔ دونوں رہنماوں نے عہدیداروں کو دریاؤں میںآلودگی جیسے مسائل سے نمٹنے اور مشترکہ دریاؤں کے سلسلے میں دریا کے ماحول اور دریائی جہاز رانی کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ہدایت دی۔ 15۔ ذیلی علاقائی تعاون کو بڑھانے کے جذبے کے تحت دونوں رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے پاور گرڈز کو ہم آہنگی سے جوڑنے کے منصوبوں کو تیزی سے نافذ کرنے پر اتفاق کیا، جس میں کٹیہار (بہار) سے بنگلہ دیش میں پاربتی پور کے ذریعے بور نگر (آسام) تک مجوزہ اعلیٰ صلاحیت کی 765 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے مناسب طریقے سے بچھائی جائے گی۔ ایک خصوصی مقصد والی گاڑی کے لئےیہ ہند-بنگلہ دیش کا مشترکہ منصوبہ ہوگا۔ پاور سیکٹر میں ذیلی علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ بنگلہ دیش نے نیپال اور بھوٹان سے ہندوستان کے راستے بجلی درآمد کرنے کی درخواست کی۔ ہندوستانی فریق نے بتایا کہ ہندوستان میں اس کے لئے رہنما خطوط پہلے سے موجود ہیں۔ 16۔ دونوں رہنماؤں نے ہند-بنگلہ دیش دوستی پائپ لائن پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا جو بنگلہ دیش کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے گی۔ دونوں نے امید ظاہر کی کہ یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل ہو جائے گا۔ بنگلہ دیش کی جانب سے ہندوستانی فریق سے بھیدرخواست کی گئی کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی اس کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرے۔ ہندوستانی فریق نے دونوں اطراف کی مجاز ایجنسیوں کے درمیان بات چیت میں سہولت فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ ہندوستانی فریق نے آسام اور میگھالیہ میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے آنے والی رکاوٹوں کی روشنی میں پٹرولیم، تیل اور چکنا کرنے والے مادوں کی آسام سے تریپورہ کے راستے بنگلہ دیش تک نقل و حمل کی اجازت دینے میں بنگلہ دیش کی بروقت حمایت کی ستائش کی۔ ہندوستانی فریق نے انڈین آئل کارپوریشن لمیٹڈ (آئی او سی ایل) کو بنگلہ دیش کو ریفائنڈپٹرولیم مصنوعات کے رجسٹرڈ جی 2 جی سپلائر کے طور پر اندراج کرنے کے بنگلہ دیش کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا۔ 17۔ دونوں رہنماؤں نے ترقیاتی شراکت داری میں فریقن کے درمیان مضبوط تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش نے اُس کارکردگی کو سراہا جس کے ساتھ ہندوستان کی طرف سے ترقیاتی فنڈز تقسیم کئے گئے تھے۔ اس طرح ہندوستان پچھلے مالی سال کے دوران فنڈز کی تقسیم کے لحاظ سے سرفہرست ترقیاتی شراکت دار بن گیا تھا۔ 18۔ دونوں رہنماؤں نے چٹ گاوں اور مونگلا بندرگاہوں (اے سی ایم پی) کے استعمال کے معاہدے کے تحت ٹرائل رن کی کامیاب تکمیل کا خیرمقدم کیا اور جلد از جلد اس کے مکمل آپریشنل ہونے کی امید طاہر کی۔ ہندوستانی فریق نے 2015 کے دو طرفہ کوسٹل شپنگ معاہدے کی توسیع کی سمت کام کرنے کی اپنی درخواست کا اعادہ کی تاکہ تیسرے ملک کے ایگزم کارگو کو شامل کیا جاسکے۔ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان براہ راست شپنگ روابط کو تیز کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ دونوں نے پروٹوکول آن لینڈ واٹر ٹرانزٹ اینڈ ٹریڈ (پی آئی ڈبلیو ٹی ٹی) روٹس 5 اور 6 (دھولیان سے راجشاہی تک آریچہ تک توسیع) اور 9 اور 10 (داؤدکنڈی سے سونامورا) کے پروٹوکول کے تحت دریائی خدمات شروع کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے بھی اتفاق کیا۔ ہندوستانی فریق نے بنگلہ دیش سے درخواست کی کہ وہ تریپورہ کو بنگلہ دیش سے ملانے والے دریائے فینی کے اوپر میتری پل پر نقل و حمل کے لئے انفراسٹرکچر، امیگریشن اور کسٹم کی باقی سہولیات کو جلد از جلد مکمل کرے۔ 19۔ دونوں رہنماؤں نے بی بی آئی این موٹر وہیکل معاہدے کو جلد فعال کرنے کے ذریعے دو طرفہ اور ذیلی علاقائی رابطوں کو بہتر بنانے کی کوششوں کو تیز کرنے سے اتفاق کیا۔ ہندوستانی فریق نے بنگلہ دیش سے نئے ذیلی علاقائی رابطے کے منصوبے شروع کرنے کے لئے تعاون کی درخواست کی جس میں مغربی بنگال میں ہیلی سے میگھالیہ کے مہندر گنج تک بنگلہ دیش کے راستے ایک ہائی وے بھی شامل ہے اور اس سلسلے میں ایک تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ کی تیاری کی تجویز پیش کی۔ اسی جذبے کے ساتھ بنگلہ دیش نے بھی ہندوستان – میانمار – تھائی لینڈ سہ فریقی ہائی وے پروجیکٹ کے جاری اقدامات میں اپنی شراکت داری کی خواہش کا اعادہ کیا۔ 20۔ ہندوستانی فریق نے بتایا کہ اس نے مخصوص لینڈ کسٹم اسٹیشنوں/ہوائی اڈوں/بحری بندرگاہوں کے ذریعے تیسرے ممالک کو اپنی مصنوعات برآمد کرنے کے لئے بنگلہ دیش کو اپنی سرزمین کے ذریعے مفت ٹرانزٹ کی پیشکش کی ہے۔اس سلسلے میں ہندوستانی فریق نے بنگلہ دیش کی کاروباری برادری کو دعوت دی کہ وہ اس کی بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو تیسرے ممالک میں ترسیل کے لئے استعمال کریں۔ہند نیپال اور بھوٹان کو اپنی مصنوعات برآمد کرنے کے لئے بنگلہ دیش کو مفت ٹرانزٹ بھی فراہم کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی طرف سے بھوٹان کے ساتھ نئے افتتاح شدہ چلہٹی – ہلدی باری روٹ کے ذریعے ریل رابطے کی بھی درخواست کی گئی۔ ہندوستانی فریق نے درخواست کی قابل عمل ہونے اور اس کی فزیبلٹی کی بنیاد پر اس پر غور کرنے سے اتفاق کیا۔ اس رابطے اور دیگر کراس بارڈر ریل رابطوں کو قابل عمل بنانے کے لئے ہندوستانی فریق نے بنگلہ دیش سے درخواست کی کہ وہ چلہٹی – ہلدی باری کراسنگ پر بندرگاہی پابندیاں ہٹائے۔ 21.دونوں رہنماؤں نے حال میں عمل پذیری کے مشترکہ مطالعہ کو حتمی شکل دیئے جانے پر خوشی کا اظہار کیا، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ جامع اقتصادی ساجھیداری کے معاہدے (سی ای پی اے) سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے دونوں طرف کے افسران کو ہدایت دی کہ وہ کلنڈر سال 2022 کے دوران مذاکرات شروع کریں اور انہیں جلد از جلد مکمل کریں، جو کہ بنگلہ دیش کے ایل ڈی سی درجے سے حتمی گریجویشن کے وقت کیا ہو۔ 22.دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور کاروبار میں آسانی لانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دونوں رنماؤں نے لینڈ کسٹمز اسٹیشنوں ؍ لینڈ پورٹس میں بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کے معیار کو بڑھانے اور نشاندہی کئے گئے لینڈ کسٹم اسٹیشنوں پر پورٹ بندشیں اور دیگر غیر محصول بندشوں کو ختم کرنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا۔ ہندوستان کی طرف سے شمال مشرقی ریاستوں کی سرحد پر بندشوں سے آزاد یا بندشوں کی منفی فہرست سے پاک کم از کم ایک بڑے لینڈ پورٹ کے لئے اپنی درخواست کو دوہرایا تاکہ آئی سی پی اگرتلہ-اکھورا کے ساتھ مارکیٹ تک بہ آسانی رسائی حاصل ہو سکے۔ دونوں لیڈروں نے پیٹرا پول -بینا پول آئی سی پی پر ایک دوسرے فریٹ گیٹ کے فروغ کے لئے ہندوستان کے پروپوزل پر پیش رفت پر خوشی کا اظہار کیا اور افسرانن کو ہدایت دی کہ جلد از جلد یہ کام مکمل کیا جائے گا۔ 23.دونوں رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات کے استحکام پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے لائن آف کریڈٹ کے تحت دفاعی پروجیکٹوں کو جلد از جلد حتمی شکل دیئے جانے سے بھی اتفاق کیا، جو دونوں ملکوں کے لئے سودمند ہوں گے۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے لئے گاڑیوں کی خریداری کا ابتدائی مرحلہ طے پا جانے پر خوشی کا اظہار کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات میں اضافے کی توقع ظاہر کی۔ ہندوستان کی جانب سے سمندری سکیورٹی کو بڑھانے کے لئے ساحلی رڈار سسٹم مہیا کئے جانے سے متعلق 2019 کے مفاہمت نامے پر جلد از جلد عمل درآمد کے لئے بھی زور دیا۔ 24.کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون و اشتراک کا خیر مقدم کرتے ہوئے، جن میں میتری کے تحت ویکسین اور بنگلہ دیش کے لئے آکسیجن ایکسپریس اور بنگلہ دیش کی جانب سے ہندوستان کو ادویات کا تحفہ شامل ہیں، دونوں لیڈروں نے عوام سے عوام کے رابطے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں لیڈروں نے ریل ، سڑک، ہوائی اور آبی رابطے بحال ہونے پر خوشی ظاہر کی۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی جانب سے ہندوستان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا گیا کہ اس نے زیادہ تر سڑکوں اور ریل امیگریشن جانچ چوکیوں پر سہولیات بحال کر دی ہیں اور امیگریشن سہولیات کو تمام لینڈ پورٹس ؍ آئی سی پی پر کووڈ سے پہلے کی پوزیشن میں لانے کی درخواست کی۔ دونوں لیڈروں نے جون 2022 میتالی ایکسپریس کی باقاعدہ خدمات شروع کئے جانے پر خوشی ظاہر کی، جو ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تیسری مسافر ٹرین ہے۔ 25.دونوں رہنماؤں نے بنگا بندھو پر مشترکہ طور پر بنائی جانے والی فلم (مجیب – ایک قوم کی تعمیر) کے جلد از جلد آغاز کی خواہش ظاہر کی۔ دونوں نے دیگر اقدامات پر بھی جلد کام کرنے کی خواہشیں ظاہر کیں، جن میں ‘‘ شدھینوتا شروک’’ کو چالو کرنا بھی شامل ہے۔ یہ سڑک بنگلہ دیش میں مجیب نگر سے نادیا، مغربی بنگال میں ہند-بنگلہ دیش سرحد تک گئی ہے۔ اس کے علاوہ 1971 میں جنگ آزادی پر ایک دستاویزی فلم کی تیاری بھی زیر عمل لانا ہے۔ بنگلہ دیش کی طرف سے بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی سے متعلق نادر ویڈیو فوٹیج کو مشترکہ طور پر ترتیب دینے کی بھی تجویز پیش کی۔ بنگلہ دیش نے ہندوستان کی طرف سے دلی یونیورسٹی میں بنگا بندھو چیئر کے قیام کی ستائش کی۔ 26.دونوں لیڈروں نے بنگلہ دیش سے اسٹارٹ اپ وفد کے پہلے دورے پر اپنی امنگوں کو ظاہر کیا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اختراع کے شعبے میں ساجھیداری بڑھے گی۔ دونوں فریقوں نے آنے والے مہینوں میں نوجوانوں کے تبادلے کے پروگرام پھر سے شروع ہونے پر خوشی کااظہار کیا۔ بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کے ‘‘ مکتی جودھاؤں’’ کو ہندوستان میں طبی سہولیات فراہم کرنے پر اظہار تشکر کیا۔ 27.دونوں لیڈروں نے سندربن کے تحفظ سے متعلق 2011 کے مفاہمت نامے پر مؤثر عمل درآمد پر زور دیا تاکہ اس ڈیٹلٹائی جنگل کا ایکو سسٹم اور اس پر انحصار کرنے والے لوگوں کو پائیدار ماحول حاصل ہو سکے۔ 28.دونوں فریقوں نے تعاون و اشتراک کے نئے اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں تمام تر امکانات کو بروئے کار لائے جانے کی اہمیت کا اعتراف کیا اور دونوں طرف کے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ بیرونی خلا کے پر امن استعمال، صاف ستھری توانائی، نیو کلیئر توانائی کے پرامن استعمال اور مالیات، صحت اور تعلیم کی خدمات میں ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال میں تعاون کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔ 29.علاقائی اداروں کے بارے میں ہندوستان نے میانمار کی رخائن اسٹیٹ سے جبری طور پر بے گھر بنائے گئے تقریباً دس لاکھ لوگوں کو پناہ فراہم کرنے اور ان کی انسانیت پر مبنی امداد کے لئے بنگلہ دیش کی بے حد تعریف کی اور بنگلہ دیش اور میانمار دونوں کی لگاتار حمایت اور مدد کا یقین دلایا تاکہ جبری طور پر بے گھر کئے گئے لوگوں کو جلد از جلد پوری حفاظت کے ساتھ واپس ان کے وطن پہنچایا جا سکے۔ 30.طرفین نے علاقائی تنظیموں کے ذریعے علاقائی تعاون کو بڑھانے پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہندوستان کی جانب سے بی آئی ایم ایس تی ای سی (بمسٹیک) سکریٹریٹ کی میزبانی کرنے اور اس کے لئے بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے پر بنگلہ دیش کی کوششوں کو سراہا گیا۔ ہندوستان نے انڈین اوشین رِم ایسوسی ایشن (آئی او آر اے) کے صدر نشیں کی حیثیت سے بنگلہ دیش کو تمام تر حمایت کا یقین دلایا۔ 31.دورے کے دوران مندرجہ ذیل مفاہمت ناموں اور سمجھوتوں پر دستخط کئے گئے: (الف)، حکومت ہند کی جل شکتی وزارت اور حکومت بنگلہ دیش کی آبی وسائل کی وزارت کے درمیان ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ذریعے عام سرحدی دریا کشیارا سے پانی کے حصول کا مفاہمت نامہ۔ (ب) ، حکومت ہند کی ریلوے کی وزارت (ریلوے بورڈ اور حکومت بنگلہ دیش کی ریلویز کی وزارت کے درمیان ہندوستان میں بنگلہ دیش کے ریلوے عملے کی تربیت کا مفاہمت نامہ۔ (ج)، حکومت ہند کی ریلویز کی وزارت ( ریلوے بورڈ اور حکومت بنگلہ دیش کی ریلویز کی وزا��ت کے درمیان بنگلہ دیش ریلویز کے لئے آئی ٹی سسٹم مثلاً ایف او آئی ایس اور دیگر آئی ٹی ایپلی کیشنز پر اشتراک مفاہمت نامہ۔ (د)، سائنس اور صنعتی تحقیق کی ہندوستانی کونسل سی ایس آئی آر اور بنگلہ دیش کی سائنسی اور صنعتی ترقی کی بنگلہ دیشی کونسل (بی سی ایس آئی آر) کے درمیان سائنسی اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا مفاہمت نامہ۔ (ہ)، نیو اسپیس انڈیا لمیٹیڈ اور بنگلہ دیش سیٹلائٹ کمپنی لمیٹیڈ کے درمیان کلائی ٹیکنالوجی میں تعاون کا مفاہمت نامہ۔ (و)، پرساربھارتی اور بنگلہ دیش ٹیلی ویژن (بی ٹی وی) کے درمیان براڈکاسٹنگ میں اشتراک و تعاون پر مفاہمت نامہ۔ (ح)، نیشنل جوڈیشیئل اکیڈمی، ہندوستان اور سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش کے درمیان ہندوستان میں بنگلہ دیشی عدالتی افسران کی تربیت اور صلاحیت سازی پر مفاہمت نامہ۔ 32.دورے کے دوران مندرجہ ذیل کی نقاب کشائی ؍ اعلان یا اجراء ہوا: (الف)، رام پال، بنگلہ دیش میں میتری سپر تھرمل پاور پلانٹ کی یونٹ-1 کی نقاب کشائی۔ (ب)، روپشا ریلوے برج کی نقاب کشائی۔ (ج)، کھلنا – درشنا ریلوے لائن اور پربوتی پور -کونیا ریلوے لائن کے لئے پروجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنسی کنٹریکت پر دستخط کا اعلان۔ (د)، وزیراعظم شیخ حسینہ اور وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کتاب کا اجراء کیا، جس میں بنگا بندھو شیخ مجیب الرحمن کی 7؍ مارچ کی تاریخی تقریر کا ترجمہ 23 ہندوستانی زبانوں میں اور 5 دیگر جنوب ایشیائی ملکوں کی زبانوں میں کر کے شامل کیا گیا ہے۔ (ہ)، بنگلہ دیش ریلوے کو گرانٹ کی بنیاد پر 20 براڈ گیج لوکو موٹو کی پیشکش کا اعلان۔ (و)، حکومت بنگلہ دیش کے سڑکوں اور شاہراہوں کے محکمے کو سڑکوں کی تعمیر کی مشینیں اور آلات کی سپلائی کا اعلان۔ 33.وزیراعظم شیخ حسینہ نے وزیراعظم جناب نریندر مودی کا حکومت اور عوام کی جانب سے گرمجوشانہ خیر مقدم اور میزبانی پر تہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم شیخ حسینہ نے وزیراعظم نریندر مودی کو بنگلہ دیش آنے کی دوستانہ دعوت دی اور دونوں رہنماؤں نے ہر سطح پر اور ہر فورم میں رابطے جاری رکھنے کی توقع ظاہر کی۔,বাংলাদেশৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাৰত ভ্ৰমণৰ সময়ত ভাৰত-বাংলাদেশৰ যুটীয়া বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%D9%88%D8%B1%D8%A7-%DA%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%81-%DA%A9%DB%92-100-%D8%A8%D8%B1%D8%B3-%D9%85%DA%A9%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A7%8C%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%9A%E0%A7%8C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%AA/,نئی دہلی 04 فروری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے چوراچوری واقعہ کے 100 برس مکمل ہونے کے موقع پر ہماری جدوجہد آزادی کے سورماؤں کو یاد کیا۔ انہوں نے گذشتہ برس کی اپنی وہ تقریر بھی ساجھا کی جوا نہوں نے اس واقعہ کی صد سالہ تقریبات کے آغاز کے موقع پر دی تھی۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’آج، ہم چوراچوری واقعہ کے 100 برس مکمل کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں اپنی گذشتہ برس کی تقریر ساجھا کر رہا ہوں جو میں نے اس واقعہ کی صد سالہ تقریبات کے آغاز کے موقع پر دی تھی۔ میں نے ہماری جدوجہد آزادی کے سورماؤں کو یاد کرنے سمیت متعدد موضوعات پر بات کی تھی۔ ‘‘ https://t.co/j,চৌৰী চৌৰাৰ ঘটনাৰ শতবৰ্ষ পূৰ্তিত স্বাধীনতা সংগ্ৰামৰ বীৰ সেনানীসকলক স্মৰণ কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%A8%DB%8C%DA%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D9%86%DB%92-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%81-%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے خاص طور پر لکشدیپ کے عوام کو مبارکباد دی ہے کہ منی کوئے، ٹُھنڈی بیچ اور کدمت بیچ کو بلیو بیچز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے بھارت کی قابل ذکر ساحلی پٹی کو اجاگر کیا اور ساحلی صفائی ستھرائی کو آگے بڑھانے کے لیے بھارتیوں کے جذبے کی ستائش کی۔ ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے مرکزی وزیر جناب بھوپندر یادو کے ایک ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’بہت خوب! لکشدیپ کے عوام کو اس کارنامے کے لیے خصوصی مبارکباد۔ بھارت کی ساحلی پٹی قابل ذکر ہے اور ہمارے لوگوں کے اندر ساحلی صفائی ستھرائی کو آگے بڑھانے کے لیے بھی خاصا جذبہ پایا جاتا ہے۔’’,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ‘ব্লু বীচ’ৰ সন্মানীয় তালিকাত মিনিকয়, থুণ্ডি বীচ আৰু কদমত বীচক স্থান দিয়াৰ বাবে লাক্ষাদ্বীপৰ লোকসকলক অভিনন্দন জনায" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%D9%85%D8%B3%D9%82%D8%B7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A7-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%93%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%B8%E0%A7%8D/,نئیدہلی،12۔فروری۔عمان کے شہر مسقط میں ہندوستانی برادری کے اجتماع سے وزیراعظم کے خطاب کے چیدہ چیدہ اقتباسات حسب ذیل ہیں : انہوں نے کہا : ’’ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں ایل ای ڈی بلب کی قیمت ساڑھے تین سو روپے ہوتی تھی ، اب وہی ایل ای ڈی بلب 45-40 روپے میں دستیاب ہونے لگا ہے ۔ سستے ایل ای ڈی بلبو ں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جولوگ اپنے گھروں میں ان ایل ای ڈی بلبوں کا استعمال کررہے ہیں ، انہیں بجلی بلوں میں اندازاََ 15000 کروڑروپے سالانہ کی بچت ہورہی ہے ۔ آج ہر ہندوستانی نیو انڈیا یعنی نئے ہندوستان کے عز م کی تکمیل کے لئے کام کررہا ہے ۔ ہم ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر کی طرف بڑھ رہے ہیں ، جہاں غریب ترین شخص کو بھی آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دستیاب ہوں ۔ یہاں غریب سے غریب شخص بھی خواب دیکھ سکے اور انہیں پورا کرسکے ۔ آج میں اپنے سامنے منی انڈیا کو دیکھ رہا ہوں ۔ ہندوستان کے الگ الگ گوشوں سے آئے ہندوستانی اورالگ الگ شعبے میں کام کرنے والے ہندوستانی ایک شاندار تصویر کی مصوری کررہے ہیں میں اب سے تقریبا ََ دس برس قبل عمان آیا تھا ۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میں افریقہ کے سرکاری دورے پر آیا تھا ،جس کے دوران میں سلالہ سے ہوکر گزرا تھا ۔ میری بہت دنوں سے عمان آنے کی خواہش تھی ۔ آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا ۔ یہ موقع آج دستیاب ہوا ہے ۔ ہندوستان اور عمان کے مراسم کی تاریخ سیکڑوں ، ہزاروں برس قدیم ہے ۔ہم پچھلے تین برسوں سے ایک پالیسی وضع کرکے خلیج کے ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے قدیمی دوستانہ مراسم کو آج کے دور کے مطابق ایک نیا جامہ پہنارہے ہیں۔آپ نے بھی یہ دیکھا اور غور کیا ہوگا کہ ہندوستان کی روزافزوں ترقی اور ساکھ کے ساتھ ساتھ خلیجی ملکوں میں ہندوستان کی دلچسپی کتنی بڑھ گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ عمان کے ساتھ بھی ہندوستان کے تاریخی رشتوں میں ایک نئی رفتار پیدا ہوئی ہے ۔ عزت مآب سلطان کا بھی ہندوستان ��ے اٹوٹ رشتہ ہے ۔ آج عزت مآب سلطان کے نام پر اس اسٹیڈیم میں اتنی بڑی تعداد میں آپ سب سے میرا مخاطب ہونا خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ خود عزت مآب سلطان اور عمان ، ہندوستان اور ہندوستانیوں کے ساتھ قلبی رشتوں سے کس قدر قریب ہیں ۔ اس خصوصی مہربانی کے لئے ہم ان کے انتہائی ممنون ہیں ۔ کم از کم سرکار -زیادہ سےزیادہ انتظام کے فارمولے کے ساتھ ،ہم ہندوستان کے عام شہری کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے کام کررہے ہیں۔ عمل آوری کو آسان بنانا ، غیر ضروری قوانین کو ختم کرنا ،سرکاری دفتروں میں 50-40 پیج کے فارم کو کم کرکے 5-4 صفحات پر لانا ، انہیں آن لائن بھرنے کا انتظام کرنا ،لوگوں کی شکایتوں کو سنجیدگی کے ساتھ سنا جانا ، ان پر کارروائی ہونا ، ان تمام باتوں کو ہم نے سرکار کے کلچر میں شامل کیا ہے۔ بدلے ہوئے ہندوستان میں اب غریب کو بینکوں سے دھتکار کر بھگایا نہیں جاتا بلکہ اب سرکار انہیں گھر پر جاکر گیس کنکشن دے رہی ہے ۔ بجلی کنکشن دے رہی ہے ۔ غریبوں کو محض 90 پیسے یومیہ اور ایک روپیہ ماہانہ کے پریمئیم پر زندگی اور سلامتی بیمہ دیا جارہا ہے ۔ ان بیمہ اسکیموں کے تحت دو ہزار کروڑ روپے کے دعووں کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے ۔ بجٹ میں ہم نے ایک ایسی اسکیم کا اعلان کیا ہے جو ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہے ۔ ہم آیوشمان بھارت کے تحت ملک کے تقریباََ دس کروڑ غریب کنبوں کو یعنی 45سے 50 کروڑ لوگوںکو ہیلتھ انشورنس دی ہے ۔ ایک کنبے کو ایک سال میں پانچ لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔ ملک میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیکسٹ جنریشن کی ڈھانچہ جاتی سہولیات تعمیر کی جارہی ہیں ۔ خاص طور سے ٹرانسپورٹ سیکٹر کو ہم اس طرح تیار کررہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں ۔ ہائی وے ، ائیر وے اور واٹروے سبھی کو ایک دوسرے کی ضرورت کے حساب سے مربوط کیا جارہا ہے ۔ بھارت مالا منصوبے کے تحت 53 ہزار کلومیٹر نیشنل ہائی ویز تعمیر کئے جانے کے منصوبے کا کام شروع ہوچکا ہے ۔ ملک کے الگ الگ علاقوں میں ریلوے کوریڈور پر کام جاری ہے ۔ 11 بڑے شہروں میں میٹرو کی توسیع کا کام بھی جاری ہے ۔ ملک کی ساحلی معیشت اوراس سے وابستہ ڈھانچہ جاتی سہولیات کو فروغ دینے کے لئے ہم ساگر مالا کے نام سے بھی ایک پروگرام پر کام کررہے ہیں ۔ ماہی گیر بھائیوں کے لئے ہم نے بلیو ریوولیوشن کے نام سے نیلگوں انقلاب کی اسکیم شروع کی ہے ۔ انہیں جدید ٹرالر ز خریدنے کے لئے مالی امداد دی جارہی ہے ۔سرکار ملک میں 110 سے زیادہ واٹر ویز یعنی آبی راستوں کو فروغ دےرہی ہے ۔ اب ہندوستان میں فیصلے ٹالے نہیں جاتے ۔چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے ۔ نشانوں کا تعین کرکے اسکیموں کو مقررہ مدت میں مکمل کیا جاتا ہے ۔ یہ ہندوستان میں بدلے ہوئے ورک کلچر کی مثال ہے ۔ بدلے ہوئے ہندوستان کی مثال ہے ۔ جب صاف نیت اور واضح پالیسی کے ساتھ فیصلے لئے جاتے ہیں تو ملک کے پیسے کی بچت ہوتی ہے ۔ جب موثر طریقے سے کام کیا جاتا ہے ، جب دستیاب وسائل کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جاتا ہے تو ملک میں پیسے کی بچت ہوتی ہے ۔ میں آپ کو ملک کی ترقی اور تعمیر کا اہم حصہ مانتا ہوں ، شراکتدار مانتا ہوں ۔ نیو انڈیا کے خواب کو پورا کرنے میں آپ کے عزائم کے اثرات ہندوستان میں بھی دکھائی دیں گے ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰,১১ ফেব্ৰুৱাৰীত ওমানৰ মস্কটত প্ৰবাসী ভাৰতীয়ক সম্বোধন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ ইংৰাজী সংস্কৰণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%B9%D9%84-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%9F%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیراعظم شری اٹل بہاری واجپئی کو ان کی جینتی (یوم پیدائش) کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جناب مودی نے اٹل بہاری واجپئی کے بارے میں اپنے خیالات کو بھی شئیر کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘اٹل جی کو ان کی جینتی کے موقع پر خراج عقیدت۔ بھارت کے لئے ان کا تعاون ناقابل فراموش ہے۔ ان کی قیادت اور ان کا نقطہ نظر لاکھوں لوگوں کے لئے باعث ترغیب ہے۔’’,জন্মদিন উপলক্ষে অটল বিহাৰী বাজপায়ীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1%D8%B6-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A7%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ یوم الارض دھرتی ماں کی مہربانی اور کرم کے تئیں اظہار تشکر اور ہمارے کرہ ارض کی دیکھ بھال کے تئیں ہماری عہد بندی کا د ن ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ایک ویڈیو بھی جاری کیا۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا : ‘‘#یوم الارض دھرتی ماں کے کرم کے تئیں تشکر کے اظہار اور ہمارے کرہ ارض کی حفاظت کے تئیں ہمارے عزم کے بارے میں ہے۔ ’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ধৰিত্ৰী দিৱসত ধৰিত্ৰী মাৰ প্ৰতি কৃতজ্ঞতা জ্ঞাপন কৰি এটা ভিডিঅ’ শ্বেয়াৰ কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%BE%D9%88%D8%B1%DA%A9%DB%92-%D8%B3%DB%8C%D9%86%D8%A6%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%DA%AF%D9%88%DB%81-%DA%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A7%8D/,نئی دہلی ،14دسمبر: سنگاپورکے سینئراعزازی وزیرجناب گوہ چوک ٹونگ نے کل وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی ۔وزیراعظم نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کاذکرکرتے ہوئے مسٹرگوہ چوک ٹونگ کو اس سال کے اوائل میں لی کوان ییو اسکول پبلک پالیسی کی گورننگ باڈی کے چیئرمین کے طورپر عہدہ سنبھالنے کے لئے وزیرموصوف کو مبارکباد پیش کی ۔ وزیراعظم نے حالیہ برسوں میں بھارت اورسنگاپورکے مابین متعدد اعلیٰ سطحی دوروں کے باہمی تبادلوں کے ذریعہ تعلقات میں آئی گرم جوشی اورپیش رفت کاخیرمقدم کیا اور تجارت وسرمایہ کاری ، رابطہ کاری ودفاع سلامتی سمیت تمام شعبوں میں باہمی تعلقات کے استحکام کی تعریف کی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی میں سنگاپورکا خصوصی مقام ہے جو مستحکم بھارت آسیان تعلقات کی بنیادوں پراستوار ہے ۔ وزیراعظم نے آسیان کے ساتھ بھارت کی وابستگی کے سلسلے میں سب سے پہلے اور مضبوط حمایتی کے طورپرووٹ ڈالنے والی شخصیت کے طور پرمسٹرگوہ چوک ٹونگ کے عمل کو سراہااور اظہارتشکرکیا۔ دونوں رہنماوں نے باہمی دلچسپی کے علاقائی وعالمی موضوعات پربھی تبادلہ خیالات کیا۔,ছিংগাপুৰৰ অৱসৰপ্ৰাপ্ত জ্য��ষ্ঠ মন্ত্ৰী শ্ৰী গহ চক টঙৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সাক্ষাৎ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4/,نئی دہلی،29؍اگست، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے سیاحت کے شعبے میں تعاون کو مستحکم کرنے کے لئے بھارت اور بلغاریہ کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ تفصیل: مفاہمت نامے کے اہم مقاصد مندرجہ ذیل ہیں: 1-سیاحت کے شعبے میں باہمی تعاون کو وسیع کرنا۔ 2-سیاحت سے متعلق معلومات اور اعدادوشمار کا تبادلہ 3-سیاحت کے شعبے میں ہوٹلوں اور ٹور آپریٹروں سمیت تمام فریقوں کے درمیان تعاون کی ہمت افزائی کرنا۔ 4-انسانی وسائل کے فروغ میں تعاون کے لئے تبادلہ کے پروگرام مرتب کرنا۔ 5-دوطرفہ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ٹور آپریٹروں ؍ میڈیا ؍ رائے عامہ ہموار کرنے والوں کے تبادلوں کے دورے۔ 6-سیاحتی مقامات کی ترقی ،بندوبست ،فروغ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں تجربات کا تبادلہ کرنا۔ 7-دونوں ملکوں کو مقبول سیاحتی مراکز کے طور پر فروغ دینے کی خاطر فلم سیاحت کے ذریعے باہمی تعاون کو فروغ دینا۔ اور 8-محفوظ باوقار اور پائیدار سیاحت کو فروغ دینا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (م ن-وا- ق ر),ভাৰত আৰু বুলগেৰিয়াৰ মাজত পৰ্যটন ক্ষেত্ৰত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰৰ বাবে কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D9%84%D9%91%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%AA%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%AE/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہماچل پردیش کے کلّو میں آتشزدگی کے سانحے سے متاثرہ خاندانوں کے لیے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ پوری تیاری کے ساتھ راحت اور بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہیں۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا: ‏""ہماچل پردیش کے کلو میں ہوئی آتشزدگی کا واقعہ بہت افسوس ناک ہے۔ میں تاریخی ملانا گاؤں میں ہوئے اس سانحے کے متاثرین کے تمام اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ راحت اور بچاؤ کی کارروائیوں میں پوری تندہی سے جٹے ہوئے ہیں۔""‏",হিমাচল প্রদেশৰ কুল্লুত মর্মান্তিক অগ্নিকাণ্ডত প্রধানমন্ত্রীৰ শোক প্রকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DB%8C%D9%85%D9%BE%DB%92-%DA%AF%D9%88%DA%91%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE-2/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بنگلورو میں کیمپے گوڑا بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ٹرمنل 2 کا افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے ہوائی اڈہ انتظامیہ سے بھی بات چیت کی جہاں انہیں ٹرمنل 2 عمارت کے ماڈل کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی۔ وزیر اعظم نے ایکسپیریئنس سینٹر میں سہولتوں کا معائنہ کیا اور کیمپے گوڑا بین ��لاقوامی ہوائی اڈے کے ٹرمنل 2 کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے ٹرمنل 2 کی ایک مختصر فلم بھی ملاحظہ کی۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’بنگلورو کے کیمپے گوڑا بین الاقوامی ہوائی اڈے کا ٹرمنل 2صلاحیت اور سہولتوں میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہ ہماری ان کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد ہمارے شہری مراکز کو اعلیٰ درجہ کی بنیادی ڈھانچہ سہولتیں فراہم کرانا ہے۔ یہ ٹرمنل خوبصورت اور مسافر دوست ہے! اس کا افتتاح کرنے پر مسرور ہوں۔‘‘ پس منظر بنگلورو میں کیمپے گوڑا ہوائی اڈے کے ٹرمنل 2 کو تقریباً 5000 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ ٹرمنل ہوائی اڈے پر مسافرین کی انتظام کاری کی صلاحیت میں اضافہ کرکے اسے موجودہ تقریباً 2.5 کروڑ مسافرین سے بڑھا کر سالانہ 5 سے 6 کروڑ مسافرین کے بقدر کر دے گا۔ ٹرمنل 2 کو باغوں کے شہر بنگلورو کے تئیں ایک خراج عقیدت کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ مسافرین کو ایسا محسوس کرائے گا جیسا کہ وہ ’’باغ میں ٹہل رہے ہوں‘‘۔ مسافرین 10,000+ مربع میٹر سبز دیواروں، معلق اور کھلے باغیچوں سے گزرتے ہوئے سفر کریں گے۔ یہ ہوائی اڈاہ پورے کیمپس میں قابل احیاء توانائی کے 100 فیصد استعمال کے ساتھ پائیداری کےمعاملے میں پہلے ہی معیار قائم کرچکا ہے۔ ٹرمنل 2 کو ہمہ گیریت کے اصول کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اور اس اصول کو ڈیزائن میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ ہمہ گیریت سے متعلق پہل قدمیوں کی بنیاد پر، ٹرمنل 2 دنیا کا ایسا سب سے بڑا ٹرمنل ہوگا جسے اس کے مصروف عمل ہوجانے سے قبل یو ایس جی بی سی (گرین بلڈنگ کونسل) کے ذریعہ پہلے سے تصدیق شدہ پلیٹینم درجہ دیا گیا ہے۔ ’نورسا‘ کی تھیم ٹرمنل 2 کے لیے تمام تر منظور شدہ فن پاروں کو یکجا کرتی ہے۔ یہ فن پارے کرناٹک کی وراثت اور ثقافت کے ساتھ ساتھ وسیع تر بھارتی اخلاقیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر، ٹرمنل 2 کا ڈیزائن اور فن تعمیر چار رہنما اصولوں، یعنی : ایک باغ میں ٹرمنل، ہمہ گیریت،تکنالوجی اور فن و ثقافت، سے ترغیب یافتہ ہے۔ یہ تمام تر پہلو ٹرمنل 2 کو ایک ایسے ٹرمنل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ جدید ہونے کے باوجود فطرت کی جڑوں سے مربوط ہے اور تمام مسافرین کو یادگار ’منزل‘ کا تجربہ پیش کرتا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے ساتھ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی، کرناٹک گورنر جناب تھاور چند گہلوت اور مرکزی وزیر پرہلاد جوشی بھی موجود تھے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বেংগালুৰুত কেম্পেগৌড়া আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় বিমানবন্দৰৰ টাৰ্মিনেল ২ উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D9%86%DA%88%D8%AA-%D8%AC%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%DA%A9%D9%84%DA%86%D8%B1%D9%84-%D9%81%D8%A7%D9%88%D9%94%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%9B%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AB%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 28 جنوری 2022: نمسکار! اس خصوصی تقریب میں موجود درگا جسراج جی، سارنگ دیو پنڈت جی، پنڈت جسراج کلچرل فاؤنڈیشن کے بانی مشترک نیرج جیٹلی جی، ملک اور دنیا کے تمام موسیقار اور فنکار حضرات، محترم مردو خواتین! ہمارے یہاں موسیقی، لہجےاور آواز کو لازوال مانا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آواز کی توانائی لازوال ہوتی ہے، اس کا اثر بھی لازوال ہوتا ہے۔ ایسے میں، جس عظیم روح کی زندگی ہی موسیقی ہو، موسیقی ہی اس کے وجود کے ہر ایک حصہ میں گونجتی رہی ہو، وہ روح جسم سے نکلنے کے بعد کائنات کی توانائی اور شعور میں ہمیشہ کے لیے باقی رہ جاتی ہے۔ آج اس پروگرام میں موسیقاروں، فنکاروں کے ذریعہ جو فنی نمونے پیش کیے جا رہےہیں، جس طرح پنڈت جسراج جی کا لہجہ، ان کی موسیقی ہمارے درمیان گونج رہی ہے، موسیقی کے اس شعور میں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پنڈت جسراج جی ہمارے درمیان ہی موجود ہیں، اور ہمارے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کی کلاسیکی موسیقی کی وراثت کو آپ سب آگے بڑھا رہے ہیں، ان کی وراثت کو آنے والی نسلوں اور صدیوں کے لیے محفوظ کر رہے ہیں۔ آج پنڈت جسراج جی کے یوم پیدائش کی سالگرہ کا مبارک موقع بھی ہے۔ اس دن، پنڈت جسراج کلچرل فاؤنڈیشن کے قیام کے ساتھ اس نئے کام کے لیے میں آپ سبھی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خصوصاً میں درگاجسراج جی اور پنڈت سارنگ دیو جی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے والد کی ترغیب کو، ان کی تپسیا کو، پورے ملک کے لیے وقف کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ مجھے بھی کئی مرتبہ پنڈت جسراج جی کو سننے اور ان سے ملاقات کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ ساتھیو، موسیقی ایک پراسرار موضوع ہے۔ میں اس موضوع کے بارے میں زیادہ علم تو نہیں رکھتا، البتہ ہمارے رِشیوں نے لہجہ اور آواز کے بارے میں جتنا وسیع علم دیا ہے، وہ اپنے آپ میں لاجواب ہے۔ ہمارے سنسکرت کے صحائف میں لکھا ہے– ناد روپ : اسمرتو برہما، ناد روپو جناردن: । ناد روپ: پارا شکتی:، ناد روپو مہیوشور: ।। یعنی، کائنات کو تخلیق کرنے والی، پالنے والی ، اس پر حکمرانی کرنے والی اور ہم آہنگی پیدا کرنے والی طاقتیں آواز کی مختلف شکلیں ہی ہیں۔ آواز کو، موسیقی کو، توانائی کے اس بہاؤ میں دیکھنے کی، سمجھنے کی یہ قوت ہی بھارتی کلاسیکی موسیقی کو اتنا غیر معمولی بناتی ہے۔ موسیقی ایک ایسا وسیلہ ہے جو ہمیں دنیاوی فرائض کا احساس بھی کراتا ہے اور دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بھی بچاتا ہے۔ موسیقی کی خاصیت یہی ہے کہ بھلے ہی آپ اسے چھو نہیں سکتے، لیکن وہ لامحدودیت تک گونجتی رہتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پنڈت جسراج کلچرل فاؤنڈیشن کا اولین مقصد بھارت کی قومی وراثت، فن اور ثقافت کا تحفظ، اس کی ترقی اور اسے فروغ دینا ہوگا۔ مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ یہ فاؤنڈیشن، ابھرتے ہوئے فنکاروں کو تعاون فراہم کرے گا، فنکاروں کو مالی طور پر بااختیار بنانے کے لیے بھی کوشش کرے گا۔ موسیقی کے میدان میں تعلیم و تحقیق کو بھی آپ لوگ اس فاؤنڈیشن کے ذریعہ آگے بڑھانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ پنڈت جسراج جی جیسی عظیم شخصیت کے لیے آپ نے جو لائحہ عمل تیار کیا ہے، یہ ان کے لیے اپنے آپ میں ایک بہت بڑا خراج عقیدت ہے۔ اور میں یہ بھی کہوں گا کہ اب ان کے شاگردوں کے لیے یہ ایک طرح سے گورو دکشینا کا وقت ہے۔ ساتھیو، آج ہماری ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب موسیقی کی دنیا میں تکنالوجی کافی حد تک داخل ہو چکی ہے۔ اس کلچرل فاؤنڈیشن سے میری درخواست ہے کہ وہ دو باتوں پر توجہ مرکوز کریں۔ ہم لوگ گلوبلائزیشن کی بات تو سنتے ہیں، تاہم گلوبلائزیشن کی جو تعریفیں ہیں، وہ ساری باتیں گھوم پھر کر معنی پر مرتکز ہو جاتی ہیں، معیشت کے پہلوؤں کو ہی چھوتی ہیں۔ آج کے گلوبلائزیشن کے زمانے میں، بھارتی موسیقی بھی اپنی عالمی شناخت بنائے، عالمی پیمانے پر اپنے اثرات مرتب کرے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بھارتی موسیقی، انسانی من کی گہرائی میں ہلچل پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، قدرت اور خدا کی یگانگت کے احساس پر بھی زور دیتی ہے۔ بین الاقوامی یوم یوگ –اب ساری دنیا میں یوگ ایک طرح سے پرسکون وجود کا احساس دلاتا ہے۔ اور اس میں ایک بات اور محسوس ہوتی ہے کہ بھارت کی وراثت سے مکمل بنی نوع انسانی، پوری دنیا مستفید ہوئی ہے۔دنیا کا ہر انسان، بھارتی موسیقی کو جاننے ، سمجھنے، سیکھنے اور مستفید ہونے کا بھی حقدار ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مقدس کام کو پورا کریں۔ میرادوسرا سجھاؤ ہے کہ جب تکنالوجی کا اثر زندگی کے ہر شعبے میں نظرآرہا ہے ، تو موسیقی کے میدان میں تکنالوجی اور آئی ٹی کا انقلاب رونما ہونا چاہئے۔ بھارت میں ایسے اسٹارٹ اپ تیار ہونے چاہئیں جو پوری طرح موسیقی کے لیے وقف ہوں ، بھارتی موسیقی کے آلات پر مبنی ہوں، بھارت کی موسیقی کی روایات پر مبنی ہوں۔ بھارتی موسیقی کی جو مقدس دھارا ہے، گنگاجیسی مقدس دھارائیں ہیں، ان کو جدید تکنالوجی سے کیسے آراستہ کریں، اس پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں ہماری جو استاد۔شاگرد کی روایت ہے وہ تو برقرار رہنی چاہئے، اس کے علاوہ تکنالوجی کے توسط سے ایک عالمی قوت حساصل ہونی چاہئے، قدرو قیمت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ ساتھیو، بھارت کا علم، بھارت کا فلسفہ، بھارت کی فکر، ہماری سوچ، ہمارا رویہ، ہماری ثقافت، ہماری موسیقی، ان کے اقدار میں، یہ تمام باتیں انسانیت کی خدمت کا احساس لیے ہوئے صدیوں سے ہم سب کی زندگی میں شعور پیدا کرتی آئی ہیں۔ پوری دنیا کی فلاح و بہبود کی خواہش اس میں بآسانی نظر آتی ہے۔ اسی لیے، ہم بھارت کو، بھارت کی روایات اور شناخت کو جتنا آگے بڑھائیں گے، ہم انسانیت کی خدمت میں اتنے ہی مواقع پیدا کریں گے۔ یہی آج بھارت کا ارادہ ہے، یہی آج بھارت کا منتر ہے۔ آج ہم کاشی جیسے اپنے فن اور ثقافت کے مراکز کی بازبحالی کا کام انجام دے رہے ہیں، ماحولیاتی تحفظ اور فطرت کے تئیں محبت کو لے کر ہمارا جو یقین رہا ہے، آج بھارت اس کے ذریعہ دنیا کو محفوظ مستقبل کاراستہ دکھارہا ہے۔ وارثت بھی، ترقی بھی، اس اصول پر عمل پیرا بھارت کے اس سفر میں ’سب کی کوشش‘ شامل ہونی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ پنڈت جسراج کلچرل فاؤنڈیشن اب آپ سبھی کے فعال تعاون سے کامیابی کی نئی بلندیاں سر کرے گا۔ یہ فاؤنڈیشن، موسیقی کی خدمت کا، ریاض کا، اور ملک کے تئیں ہمارےعزائم کی تکمیل کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ اسی یقین کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ اور اس نئی کوشش کے لیے میری جانب سے بہت بہت مبارکباد! شکریہ!,পণ্ডিত জছৰাজ কালচাৰেল ফাউণ্ডেচনৰ শুভাৰম্ভণিঅনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ অনূদিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-3-%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%88%DB%8C%D8%AC%DB%8C%D9%84%D9%86%D8%B3-%D8%A8%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 3 نومبر کو صبح 11 بجے نئی دہلی کے وگیان بھون میں سنٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کے ویجیلنس بیداری ہفتہ کے موقع پر پروگرام سے خطاب کریں گے۔ اس موقع پر وزیر اعظم سی وی سی کے نئے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم پورٹل کا آغاز کریں گے۔ اس پورٹل کا مقصد شہریوں کو ان کی شکایات کی صورت حال کے بارے میں باقاعدہ اپ ڈیٹس کے ذریعے مکمل معلومات فراہم کرانا ہے۔ وہ ’’اخلاقیات اور اچھے طرز عمل‘‘ پر تصویری کتابچوں کی ایک سیریز، ’’احتیاطی ویجیلن��‘‘ سے متعلق بہترین طریقہ کار پر ایک تالیف اور سرکاری حصولیابی پر خصوصی شمارہ ’’وگیہ وانی‘‘ کا بھی اجرا کریں گے۔ سی وی سی ہر سال ویجیلنس بیداری ہفتہ مناتی ہے جس کا مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں یکجہتی کے پیغام کو پھیلانے کے لیے تمام متعلقین کو یکجا کرنا ہے۔ اس سال یہ 31 اکتوبر سے 6 نومبر تک ’’ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے بدعنوانی سے پاک ہندوستان‘‘ کی تھیم پر منایا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم ویجیلنس بیداری ہفتہ کی مذکورہ تھیم پر سی وی سی کے ذریعہ چلائے جانے والے ایک ملک گیر مضمون نگاری مقابلے کے دوران بہترین مضامین لکھنے والے پانچ طلباء کو انعامات سے بھی نوازیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,৩ নৱেম্বৰত সতৰ্কতা সজাগতা সপ্তাহ উপলক্ষে এক অনুষ্ঠানত ভাষণ আগবঢ়াব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-%D9%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%DB%8C-2020-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A7%A8/,نمسکار! پروگرام میں میرے ساتھ شامل ہونے والے میرے کابینہ کے سبھی ساتھی، ریاستوں کے معزز گورنر، تمام قابل احترام وزرائے اعلیٰ، نائب وزرائے اعلیٰ، ریاستی حکومتوں کے وزرا، ماہرین تعلیم، اساتذہ، تمام والدین اور میرے پیارے نوجوان ساتھی! نئی قومی تعلیمی پالیسی کا ایک سال مکمل ہونے پر ملک کے سبھی لوگوں خاص طور پر تمام طلبا کو بہت بہت مبارکباد۔ پچھلے ایک سال میں، آپ سبھی عظیم شخصیات، اساتذہ، پرنسپلز، ملک کے پالیسی سازوں نے قومی تعلیمی پالیسی کو زمینی سطح پر لاگو کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ یہاں تک کہ کورونا کے اس دور میں، لاکھوں شہریوں، اساتذہ، ریاستوں، خود مختار اداروں سے مشورے لیتے ہوئے، ایک ٹاسک فورس تشکیل دے کر، نئی تعلیمی پالیسی مرحلہ وار نافذ کی جا رہی ہے۔ پچھلے ایک سال میں، نیشنل ایجوکیشن پالیسی کی بنیاد پر بہت سے بڑے فیصلے لیے گئے ہیں۔ آج، اسی سلسلے میں، میں نے بہت سی نئی اسکیمیں ، نئے اقدامات شروع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ساتھیو، یہ اہم موقع ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک آزادی کے 75 سال کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ آج سے کچھ دن بعد، 15 اگست کو ہم آزادی کے 75ویں سال میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔ ایک طرح سے، نئی قومی تعلیمی پالیسی کا نفاذ آزادی کے امرت مہوتسو کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ اتنے بڑے جشن کے بیچ، ’نیشنل ایجوکیشن پالیسی‘ کے تحت آج شروع کی گئی اسکیمیں ’نئے ہندوستان کی تعمیر‘ میں بڑا کردار ادا کریں گی۔ آج کی نئی نسل ہندوستان کے سنہری مستقبل کے عزم کے ساتھ، ہمیں اس مستقبل کی طرف لے جائے گی، جس کے لیے ہم آج آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ ہم مستقبل میں کس حد تک آگے جائیں گے، ہم کتنی اونچائی حاصل کریں گے، اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ہم اس وقت اپنے نوجوانوں کو کیا رخ دے رہے ہیں، یعنی ہم آج کیسی تعلیم دے رہے ہیں۔ ساتھیو، اس پروگرام میں ہمارے بہت سے نوجوان طلبا بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اگر ہم ان ساتھیوں سے ان کی خواہشات کے بارے میں، ان کے خوابوں کے بارے میں پوچھیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر نوجوان کے ذہن میں ایک نیا پن ہے، ایک نئی توانائی ہے۔ ہمارا نوجوان تبدیلی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ وہ انتظار نہیں کرنا چاہتا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ کورونا دور میں ہمارے تعلیمی نظام کو اتنے بڑے چیلنج کا کس طرح سامنا کرنا پڑا۔ طلبا کا طرز زندگی بدل گیا۔ لیکن ملک کے طلبا نے تیزی سے اس تبدیلی کو اپنایا۔ آن لائن تعلیم اب ایک آسان رجحان بن رہی ہے۔ وزارت تعلیم نے بھی اس کے لیے بہت ساری کوششیں کی ہیں۔ وزارت نے دیکشا پلیٹ فارم لانچ کیا، خود پورٹل پر کورسز شروع کیے، اور ہمارے طلبا جوش و خروش کے ساتھ اس کا ایک حصہ بن گئے۔ دیکشا پورٹل پر مجھے بتایا گیا کہ پچھلے ایک سال میں 23 سو کروڑ سے زیادہ ہٹ ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوشش کتنی نتیجہ خیز رہی ہے۔ آج بھی اس میں روزانہ 5 کروڑ کے قریب ہٹ ہو رہے ہیں۔ دوستو، اکیسویں صدی کا آج کا نوجوان اپنے نظام، اپنی دنیا خود بنانا چاہتا ہے۔ اسے پرانے بندھنوں، پنجروں سے آزادی چاہیے۔ آپ نے دیکھا کہ آج چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں سے آنے والے نوجوان حیرت زدہ کر رہے ہیں۔ ان دور دراز علاقوں اور عام گھرانوں سے آنے والے نوجوانوں نے آج ٹوکیو اولمپکس میں ملک کا پرچم بلند کیا ہے جس سے ہندوستان کو ایک نئی شناخت ملی ہے۔ ایسے لاکھوں نوجوان آج مختلف شعبوں میں غیر معمولی کام کر رہے ہیں جو غیر معمولی اہداف کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کچھ پرانے اور جدید کے فیوژن سے آرٹ اور کلچر کے میدان میں نئے شعبوں کو جنم دے رہے ہیں، کچھ روبوٹکس کے میدان میں تصورات کو حقیقت میں تبدیل کر رہے ہیں۔ کچھ مصنوعی ذہانت کے میدان میں انسانی صلاحیتوں کو نئی بلندیاں دے رہے ہیں، جبکہ کچھ مشین لرننگ میں نئے سنگ میل کی تیاری کر رہے ہیں۔ یعنی ہر شعبے میں ہندوستان کے نوجوان اپنے پرچم لہرانے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ وہ نوجوان لوگ ہیں جو ہندوستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں انقلاب لاتے ہیں، انڈسٹری 4.0 میں ہندوستان کی قیادت کی تشکیل کر رہے ہیں، اور ڈجیٹل انڈیا کو ایک نئی راہ دے ہیں۔ آپ تصور کریں، جب اس نوجوان نسل کو ان کے خوابوں کے مطابق ماحول ملے گا، تب ان کی طاقت کتنی بڑھ جائے گی۔ اور اسی وجہ سے، نئی ’نیشنل ایجوکیشن پالیسی‘ نوجوانوں کو یہ یقین دلاتی ہے کہ ملک اب ان کے جوش و جذبے کے ساتھ مکمل طور پر ان کے ساتھ ہے۔ مصنوعی ذہانت کا پروگرام جو ابھی شروع کیا گیا ہے، وہ ہمارے نوجوانوں کو مستقبل کی طرف متوجہ کرے گا، جس سے اے آئی سے چلنے والی معیشت کا راستہ کھلے گا۔ تعلیم میں یہ ڈجیٹل انقلاب پورے ملک میں ایک ساتھ آئے، گاؤں شہر سب ایک ساتھ ڈجیٹل لرننگ سے جڑیں، اس کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ نیشنل ڈیجیٹل ایجوکیشن آرکیٹیکچر، یعنی این ڈی ای اے آر اور نیشنل ایجوکیشن ٹکنالوجی فورم، ملک بھر میں ڈیجیٹل اور تکنیکی فریم ورک کی فراہمی میں اس سمت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ نوجوان ذہن جس بھی سمت میں سوچنا چاہتا ہے، کھلے آسمان میں جیسے اڑنا چاہتا ہے، ملک کا نیا تعلیمی نظام اسے اس طرح کے مواقع فراہم کرے گا۔ ساتھیو، پچھلے ایک سال میں، آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ قومی تعلیمی پالیسی کو کسی بھی طرح کے دباؤ سے آزاد رکھا گیا ہے۔ کھلا پن جو پالیسی کی سطح پر ہے، وہی کشادگی طلبا کو دستیاب اختیارات میں بھی ہے۔ اب طلبہ کتنا پڑھیں گے، کتنے وقت تک پڑھیں گے، یہ صرف بورڈ اور یونیورسٹیاں ہی فیصلہ نہیں کریں گی، طلبا بھی اس فیصلے میں حصہ لیں گے۔ آج سے شروع ہونے والے ایک سے زیادہ داخلے اور خارجی نظام نے طلبا کو ایک ہی کلاس اور ایک ہی کورس میں پھنس جانے کی مجبوری سے آزاد کر دیا ہے۔ جدید ٹکنالوجی کی بنیاد پر، یہ نظام ’اکیڈمک بینک آف کریڈٹ‘ طلبا کے لیے اس سمت م��ں انقلابی تبدیلی لانے جا رہا ہے۔ اب ہر نوجوان اپنی سہولت سے کسی بھی وقت کسی شعبے کو منتخب یا چھوڑ سکتا ہے۔ اب کسی کورس کا انتخاب کرتے وقت، کوئی خوف نہیں ہوگا کہ اگر ہمارا فیصلہ غلط ہو گیا تو کیا ہوگا؟ یہ نظام آنے والے وقت میں طلبا کو امتحانات کے خوف سے بھی آزادی فراہم کرے گا۔ جب یہ خوف نوجوانوں کے ذہن سے نکل جائے گا، تب نئی مہارتیں حاصل کرنے کی ہمت اور نئی جدتوں کا نیا دور شروع ہوگا، امکانات لا محدود ہوں گے۔ لہذا، میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ نئے پروگرام جو آج نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت شروع کیے گئے ہیں، ان میں ہندوستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت ہے۔ ساتھیو، آج پیدا ہونے والے امکانات کو سمجھنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کو دنیا سے ایک قدم آگے رہنا ہوگا۔ صحت ہو، دفاع ہو، انفراسٹرکچر ہو، ٹکنالوجی ہو، ملک کو ہر سمت میں قابل اور خود انحصار بننا ہوگا۔ ’خود انحصار ہندوستان‘ کا یہ راستہ مہارت کی ترقی اور ٹکنالوجی سے گزرتا ہے، جس پر این ای پی میں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے ایک سال میں، 1200 سے زیادہ اعلی تعلیمی اداروں میں ہنر کی ترقی سے متعلق سیکڑوں نئے کورسوں کو منظوری دی گئی ہے۔ ساتھیو، تعلیم کے بارے میں قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے – ”قومی تعلیم کو حقیقی معنوں میں قومی ہونے کے لیے قومی حالات کی عکاسی کرنی چاہیے“۔ باپو کے اس دور اندیشی خیال کو پورا کرنے کے لیے، مقامی زبانوں، مادری زبان میں تعلیم کا نظریہ NEP میں رکھا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ 8 ریاستوں کے 14 انجینئرنگ کالج ہندی، تامل، تیلگو، مراٹھی اور بنگالی 5 ہندوستانی زبانوں میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ انجینئرنگ کورسز کو 11 ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے ایک ٹول تیار کیا گیا ہے۔ میں ان طلبہ کو خصوصی مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں جو علاقائی زبان میں اپنی تعلیم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ ملک کے غریب طبقے، دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والے متوسط طبقے کے طلبا ، دلت پسماندہ اور قبائلی بھائی بہنوں کو ہوگا۔ ان خاندانوں سے آنے والے بچوں کو زبان کی سب سے زیادہ تقسیم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان خاندانوں کے ذہین بچوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے غریب بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا، ان کی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ ساتھیو، ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کو فروغ دینے کا کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ آج شروع کیا گیا ’ودیا پرویش‘ پروگرام بھی اس میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ پلے اسکول کا تصور جو اب تک بڑے شہروں تک محدود ہے، ’ودیا پرویش‘ کے توسط سے اب یہ دور دراز کے اسکولوں، گاؤں گاؤں تک جائے گا۔ اس پروگرام کو آنے والے وقت میں ایک عالمی پروگرام کے طور پر لاگو کیا جائے گا اور ریاستیں بھی اپنی ضروریات کے مطابق اس پر عمل درآمد کریں گی۔ یعنی ملک کے کسی بھی حصے میں چاہے وہ بچہ امیر کا ہو یا غریب، اس کی تعلیم صرف کھیلتے ہوئے اور ہنستے ہوئے ہو گی، یہ آسان ہوگا، یہ کوشش اسی سمت میں کی جائے گی۔ اور جب شروعات مسکراہٹ کے ساتھ ہوگی، تب کامیابی کی راہ بھی آسانی سے مکمل ہو جائے گی۔ ساتھیو، آج ایک اور کام ہوا ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے، بہت حساس ہے۔ آج ملک میں 3 لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جن کو تعلیم کے لیے اشارے کی زبان درکار ہے۔ اس کو سمجھتے ہوئے، پہلی بار انڈین سائن لینگویج کو کسی زبان کے مضمون کا درجہ دیا گیا ہے۔ اب طلبا اسے بطور زبان بھی پڑھ سکیں گے۔ اس سے ہندوستانی اشاراتی زبان کو ایک بہت بڑا فروغ ملے گا۔ ساتھیو، ہمارے یہاں کہا گیا ہے جو گرو سے حاصل نہیں ہو سکتا وہ کہیں حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایک اچھا استاد ملنے کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو نایاب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اساتذہ قومی تعلیمی پالیسی کی تشکیل سے لے کر اس کے نفاذ تک ہر مرحلے پر سرگرمی سے اس مہم کا حصہ ہیں۔ آج ’نشٹھا‘ 2.0 لانچ کیا گیا۔ یہ پروگرام بھی اس سمت میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس پروگرام کے ذریعے ملک کے اساتذہ بھی جدید ضروریات کے مطابق تربیت حاصل کریں گے اور وہ اپنی تجاویز بھی محکمے کو دے سکیں گے۔ میری آپ سب اساتذہ اور ماہرین تعلیم سے درخواست ہے کہ وہ ان کاوشوں میں جوش و خروش سے حصہ لیں۔ آپ سب کے پاس تعلیم کے میدان میں اتنا تجربہ ہے، وسیع تجربے کے حامل ہیں، لہذا جب آپ کوشش کریں گے تو قوم کو بہت آگے لے جائیں گے۔ یہ سنہری موقع آپ کی زندگی میں آیا ہے کہ آپ ملک کا مستقبل تعمیر کریں گے، اپنے ہاتھوں سے مستقبل کا خاکہ تیار کریں۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقتوں میں، جیسے ہی نئی ’نیشنل ایجوکیشن پالیسی‘ کی مختلف خصوصیات حقیقت میں بدلیں گی، ہمارا ملک ایک نئے دور کا مشاہدہ کرے گا۔ ان نیک خواہشات کے ساتھ، میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ آپ سب صحتمند رہیں، اور نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ بہت بہت شکریہ۔,‘ৰাষ্ট্ৰীয় শিক্ষা নীতি ২০২০’ৰ প্ৰথম বৰ্ষপূৰ্তি উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা স্মাৰক ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3%D8%8C%D9%B9%DB%8C%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%BF-%E0%A6%87/,نئی دہلی،16؍نومبر،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ کو سائنس ،ٹیکنالوجی اور زراعت وغیرہ کے شعبوں میں باہمی مفاد سے متعلق سائنس اور ٹیکنالوجی میں امداد باہمی پر انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی (آئی این ایس اے) اور نیشنل اکیڈمی آف سائنسز آف بیلاروس (این اے ایس ڈی) کے درمیان ہوئے معاہدے کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے۔ 12 ستمبر 2017 کو بیلاروس کے صدر عالی مرتبت جناب الیگزینڈر لوکاشنکو کے دورہ دہلی کے موقع پر اس معاہدہ کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد بھارت اور روس کی طرف سے عالمی طور پر مسابقتی ٹیکنالوجی کی نشاندہی کرنا، اندازہ لگانا، تیار کرنا اور اسے قابل تجارت بنانا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے ریسرچ، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ ورکشاپ کے ذریعے دونوں ممالک میں واقع اداروں کو مدد ملے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-ن ا- ق ر) (16-11-2017),"বিজ্ঞান, প্ৰযুক্তি, কৃষি ইত্যাদৰ দৰে ক্ষেত্ৰৰ পাৰস্পৰিক লাভালাভৰ অৰ্থে ভাৰত আৰু বেলাৰুছৰ মাজত বৈজ্ঞানিক আৰু প্ৰযুক্তিগত সহযোগিতাৰ দিশত স্বাক্ষৰিত চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84-2018%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%A7%DA%BA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B6%E0%A7%8D/,نئیدہلی،04ستمبر۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایشیائی کھیل 2018 میں کھیل کو د کے مثالی مظاہرے کے لئے ہندوستانی کھلاڑیوں کی ٹیم کو مبارکباددی ہے ۔ وزیراعظم نے اپنی مبارکباد کے پیغام میں کہا کہ ’’ایشیائی کھیل 2018 کے اختتام پر میں ایک بار پھر ہندوستانی کھلاڑیوں کو ان کھیلوں میں اپنے فن کا مثالی مظاہرہ پیش کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔2018 کے یہ کھیل ایشیائی کھیلوںکی تاریخ میں ہندوستان کے لئے سب سے بہتر ثابت ہوئے ہیں ۔ان کھیلوںمیں حصہ لینے والے ہر ہندوستانی ایتھلیٹس کو اس پر فخر ہے کہ اس نے اپنے کھیل کے مثالی مظاہرے سے اپنے ملک ہندوستان کو فخر وانبساط کے مواقع فراہم کئے ۔ ہم نے ایشیائی کھیل 2018 کے ہر مقابلے میں اپنی حیثیت کو مزید مستحکم کیا ہے ، جن میں ہماری کامیابیوں کی ازحد ستائش کی گئی ہے اور ماضی میں ہم جن میں زیادہ کامیاب نہیں رہے تھے ، یہ اپنے آپ میں ایک انتہائی مثبت اشارہ ہے اور ہندوستان کی کھیل کودکی دنیا کے لئے انتہائی خوش آئند ہے ۔‘‘ ’’میں اس موقع پر ہندوستانی کھلاڑیوں کے تربیت کار کوچز ، معاون عملے ، کھلاڑیوں کے سرپرستوں ، کنبوں اور ان کےدوستوں کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ ہمارے چیمپینز کی مسلسل حمایت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ ! ہمارے ایتھلیٹس کی مستقبل کے لئے انتہائی نیک خواہشات‘‘ ’’اس قدر یادگار ایشیائی کھیل 2018 کی میز بانی کے لئےصدر مملکت انڈونیشیا جناب جوکو وڈوڈو اوران کے عوام کو مبارکباد۔ ان کھیلوں میں ایتھلیٹس نے اپنے فنون کے مثالی مظاہرے کئے ہیں اور کھیل کے جذبے کو شاندار طریقے سے برقرار رکھا ہے ۔‘‘ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,এছিয়ান গেমছ ২০১৮ত সৰ্বশ্ৰেষ্ঠ প্ৰদৰ্শন আগবঢ়োৱা ভাৰতীয় ক্ৰীড়াবিদসকলক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-2030-%D8%A7%DB%8C%D8%AC%D9%86%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D9%81%D8%A7%D8%B0/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A9%E0%A7%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 05 ستمبر 2017، عزت مآب صدر شی جن پنگ’ میرے محترم برکس ساتھیو’ معزز قائدین! آج آپ سب کے ساتھ یہاں پر موجودگی میرے لئے باعث مسرت ہے۔ آپ کے ممالک ہندوستان کے قریبی اور قابل قدر شراکت دار ہیں اور جامع پائیدار ترقی کا مقصد حاصل کرنے کی مشترکہ ترجیح کے بارے میں آپ کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔ میں صدر شی جن پنگ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس بات چیت کیلئے ہمیں ایک جگہ پر یکجا کیا ۔ حضرات، اقوام متحدہ کے 2030 ایجنڈے کو اور اس کے 17 پائیدار ترقی کے مقاصد کو اختیار کئے جانے کے دو سال بعد ان مقاصد کے حصول کیلئے شراکت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔حال ہی میں جولائی میں ہندوستان نے ایس ڈی جی کے اپنے پہلے رضاکارانہ قومی جائزے کو مکمل کر لیا ہے۔ ہمارے ترقیاتی ایجنڈے کی بنیاد ‘‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس’’ کے نظریہ پر ہے’ یعنی مجموعی کوششیں’ شمولیت والی ترقی ۔ ہم نے وفاقی اور ریاستی دونوں سطحوں پر اپنے ترقیاتی پروگراموں اور اسکیم کے ہر ایک ایس ڈی جی کا جائزہ لیا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے بھی ایس ڈی جی کے بارے میں پارلیمانی مباحث کے انعقاد کی پہل کی ہے۔ ہم نے معینہ مدت میں ان ترجیحی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے پروگرام شروع کئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مثال یہ ہے کہ جن لوگوں کے بینک کھاتے نہیں تھے ان کا بینک کھاتہ کھول کر، سبھی کو بایو میٹرک شناخت فراہم کراتے ہوئے اور اختراعی موبائل گورنینس سالویشنز کا استعمال کرتے ہوئے ہم نے سہ رخی نظریہ سے پہلی بار 360 ملین لوگوں کو براہ راست فائدے کی منتقلی کیلئے اہل بنایا ہے۔ حضرات، ہم چاہتے ہیں کہ ایسی گھریلو کوششوں کو مستحکم بین الاقوامی شراکت داری کا تعاون ملے۔ اور اس کے لئے ہم اپنے حصے کا کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اپنی ترقی کی کوششیں کرنے کے ساتھ ساتھ ساتھی ترقی پذیر ممالک کے ساتھ شراکت داری کی ہندوستان کی ایک طویل روایت ہے۔ ہر قدم پر ہم جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے سے لیکر عوامی بہبود کیلئے ہائی ٹیک سالیوشنز کو نافذ کرنے تک مختلف شعبوں میں اپنے تجربات اور وسائل شیئر کرتے رہے ہیں۔ اسی سال میں ہم نے ساؤتھ ایشیا سیٹیلائٹ لانچ کیا ہے تاکہ خطے کے خواہش مند شراکت دار تعلیم، صحت دیکھ ریکھ، مواصلات اور آفات کے انتظام کے سلسلے میں اپنے ترقیاتی مقاصد کو پورا کر سکیں۔ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے ہندوستان کی پہلی انڈین ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کو آپریشن (آئی ٹی ای سی) نے ایشیا، افریقہ، مشرقی یورپ، لاطینی امریکہ، جزائر عرب اور بحرالکاہل جزیرے کے ممالک میں سے 161 پارٹنر ممالک کو تربیت اور ہنر مندی کی ترقی کی خدمات فراہم کرائی ہیں۔ صرف افریقہ سے ہی گذشتہ دہائی میں 25 ہزار سے زائد طلبا نے آئی ٹی ای سی وظائف کے تحت ہندوستان میں تربیت حاصل کی ہے۔تیسری انڈین ۔ افریقہ فورم سربراہ کانفرنس 2015 میں ہوئی تھی اس میں تمام 54 افریقی ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس سربراہ کانفرنس میں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ آئی ٹی ای سی وظائف کی تعداد صرف پانچ برسوں کی مدت میں دو گنی یعنی 50 ہزار کر دی جائے ۔ ہندوستان میں تربیت حاصل کرنے والے افریقہ کے ‘‘ سولر ماماز’’ افریقہ بر اعظم کے ہزاروں گھروں میں روشنی فراہم کرا رہے ہیں۔ افریقہ کے ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے روابط کی وجہ سے پہلی بار افریکن ڈیولپمنٹ بینک نے اس سال افریقہ سے باہر ہندوستان میں اپنی سالانہ میٹنگ کا انعقاد کیا۔ ہمارے ترقیاتی شراکت داری کے پروجکٹ دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں عوام کو پانی، بجلی، سڑکیں، صحت دیکھ ریکھ، ٹیلی میڈیسن اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کرا رہے ہیں اور اس سب کے ساتھ تعاون کا ہمارا ‘‘نو اسٹرینج اٹیچڈ ’’ ماڈل خالصتاََ ہمارے پارٹنر ممالک کی ضرورتوں اور ترجیحات کے مطابق چلتا ہے۔ حضرات، یہاں پر موجود ممالک انسانوں کی تقریباََ آدھی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کا دنیا پر کافی اثر پڑے گا۔ اس لئے برک بائی برک یا برکس کے ذریعہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل ہماری ذمہ داری ہے ۔گذشتہ روز میں نے برکس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ آئندہ دس برسوں میں عالمی تبدیلی کے لئے کام کرے جو کہ ایک سنہری دہائی ہوگی۔ میری تجویز ہے کہ یہ کام ان دس ذمہ داریوں کے بارے میں ہمارے سرگرم نظریہ، پالیسیوں اور کارروائی کے ذریعہ انجام دیا جائے ۔ 1۔ ایک محفوظ دنیا کی تشکیل : یہ کام کم سے کم انسداد دہشت گردی ،سائیبر سکیورٹی اور آفات کے انتظام کے سلسلہ میں منظم اور تال میل کے ساتھ کارروائی کر کے انجام دیا جائے ۔ 2۔ زیادہ ہری بھری دنیا کی تشکیل: یہ کام انٹرنیشنل سولر ایلائنس جیسی پہل کے ذریعہ آب و ہوا کی تبدیلی کو روکنے کی متفقہ کارروائی کے ذریعہ کیا جائے ۔ 3۔ ایک با صلاحیت دنیا کی تشکیل: ی�� کام صلاحیت، معیشت اور اثرکاری میں اضافے کے لئے مناسب ٹیکنالوجی کی شیئرنگ اور نفاذ کے ذریعہ کیا جائے۔ 4۔ ایک شمیولیت والی دنیا کی تشکیل: یہ کام عوام کو اقتصادی قومی دھارے میں لاکر کیا جائے ، جس میں بینکنگ اور مالیاتی نظام شامل ہیں۔ 5۔ ایک ڈجیٹل دنیا کی تشکیل: یہ کام اپنی معیشتوں کے اندر اور ان کے باہر ڈجیٹل طریقہ کار کو مستعمل بنا کر کیا جائے۔ 6۔ ایک ہنرمند دنیا کی تشکیل: یہ کام ہمارے لاکھوں نوجوانوں کو مستقبل میں استعمال ہونے والی ہنرمندی فرہم کراتے ہوئے کیا جائے۔ 7۔ ایک مزید صحت مند دنیا کی تشکیل:یہ کام بیماریوں کو دور کرنے کیلئے اور سبھی کو سستی صحت دیکھ ریکھ سہولیات فراہم کرانے کے لئے تحقیق اور ترقی میں تعاون کے ذریعہ انجام دیا جائے۔ 8۔ ایک منصفانہ دنیا کی تشکیل : یہ کام سبھی کے لئے برابر کے مواقع فراہم کراتے ہوئے کیا جائے اور خصوصی طور پر مرد و خواتین کی برابری کو ملحوظ رکھا جائے۔ 9۔ ایک مربوط دنیا کی تشکیل: یہ کام سامان، افراد اور خدمات کے آزادانہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں نقل و حمل کے ذریعہ انجام دیا جائے۔ 10۔ ایک ہم آہنگی سےبھر پور دنیا کی تشکیل:یہ کام ایسے نظریات ، طریقہ کار اور وراثت کو فروغ دیتے ہوئے کیا جائے جو پرامن طریقے سے ساتھ ساتھ رہنے اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہوئے زندگی گزارنے پر مرکوز ہوں۔ ان ایجنڈا نکات کے ذریعہ اور ان پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے علاوہ عالمی برادری کی فلاح کے لئے براہ راست تعاون کر سکتے ہیں۔اور اس معاملے میں ہندوستان دیگر ممالک کی کوششوں میں تعاون اور مدد میں اضافے کے لئے ایک رضامند اور پابند عہد پارٹنر کے طور پر تیار ہے۔میں اس راہ پر ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کے لئے پر امید ہوں۔ سال 2017 میں بحسن و خوبی برکس چیئرمین شپ سنبھالنے کے لئے اور زیامین کے اس خوبصورت شہر میں گرم جوشی کے ساتھ استقبال کرنے اور مہمان نوازی کے لئے میں صدر شی کی ستائش کرتا ہوں ۔میں صدر زوماکا بھی استقبال کرتا ہوں اور آئندہ سال جوہانس برگ سربراہ کانفرنس کے لئے ہندوستان کی جانب سے مکمل تعاون کا وعدہ کرتا ہوں۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ا گ۔ع ج (05-09-17),২০৩০ৰ ভিতৰত বহনযোগ্য উন্নয়নৰ লক্ষ্য; উন্নয়নৰ বাবে ব্যাপক সহযোগিতামুলক পৰিৱেশ গঢ়ি তোলাৰ আহ্বান +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-19-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D9%88%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87/,نئی دہلی:17 دسمبر،2021۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی 19 دسمبر کو گوا کا دورہ کریں گے اور گوا میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی اسٹیڈیم میں منعقدہ گوا کے یوم آزادی کی تقریبات میں تقریباً سہ پہر 3 بجے شرکت کریں گے۔ وزیراعظم تقریب میں ‘آپریشن وجے’ کے مجاہدین آزادی اور سابق فوجیوں کو مبارکباد پیش کریں گے۔ گوا کا یوم آزادی ہر سال 19 دسمبر کو گوا کو پرتگالی قبضے سے آزاد کرانے کے لئے بھارتی مسلح افواج کے ذریعے انجام دینے گئے ‘آپریشن وجے’ کو یاد کرتے ہوئے منایا جاتا ہے۔ وزیراعظم ازسرنو تعمیر کردہ فورٹ اگوواڈا جیل میوزیم، گوا میڈیکل کالج، جنوبی گوا کے نئے ضلع ہسپتال، موپا ہوائی اڈے میں ہوابازی ہنرمندی ترقیاتی سنٹر میں سپر اسپیشیئلٹی بلاک اور دابولم-نویلم�� مارگاؤ میں گیس سے چلنے والے ذیلی اسٹیشن سمیت متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے۔ وہ گوا میں بار کونسل آف انڈیا ٹرسٹ کے انڈیا انٹرنیشنل یونیورسٹی آف لیگل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ملک بھر میں طبی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور اعلیٰ درجے کی طبی سہولیات فراہم کرنے کی وزیراعظم کی مسلسل کوشش رہی ہے۔ وزیراعظم کے اس وژن کے مطابق پردھان منتری سواستھ سرکشا یوجنا اسکیم کے تحت 380 کروڑ روپے کی لاگت سے گوا میڈیکل کالج اور ہسپتال میں سپر اسپیشیئلٹی بلاک تعمیر کیا گیا ہے. یہ گوا کی پوری ریاست میں جدید ترین سپر اسپیشیئلٹی واحد اسپتال ہے، جس میں شروع سے آخر تک سپر اسپیشیئلٹی خدمات فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اینجیوپلاسٹی، بائی پاس سرجری، جگر ٹرانسپلانٹ، گردہ ٹرانسپلانٹ، ڈائلیسس وغیرہ جیسے خصوصی خدمات فراہم کرے گا۔ سپر اسپیشیئلٹی بلاک میں پی ایم کیئرس کے تحت تنصیب شدہ 1000 ایل پی ایم پی ایس اے پلانٹ ہوگا۔ تقریباً 220 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کردہ جنوبی گوا کا نیا ضلعی اسپتال جدید ترین طبی بنیادی ڈھانچے سے آراستہ ہے جس میں 33سُپراسپیشلٹی میں او پی ڈی خدمات، جدید ترین تشخیصی اور لیباریٹری سہولتیں اور خدمات مثلاً فیزیوتھیراپی، آڈیومیٹری وغیرہ شامل ہیں۔ اسپتال میں آکسیجن والے 500 بستر، 5500 لیٹر ایل ایم او ٹینک اور 600 ایل پی ایم کے دو پی ایس اے آکسیجن پلانٹ ہیں۔ سودیش درشن یوجنا کے تحت اگواڈا فورٹ جیل میوزیم کی از سر نو تعمیر، ثقافتی سیاحتی مرکزکے طور پر 28 کروڑ روپئے سے زیادہ کی لاگت سے کی گئی ہے، گوا کی آزادی سے پہلے اگواڈا قلعے کا استعمال مجاہدین آزادی کو ہراساں کرنے اور انہیں قید کرنے کیلئے کیاجاتا تھا۔ یہ میوزیم گوا کی آزادی کیلئے لڑنے والے اہم مجاہدین آزادی کے گراں قدر تعاون اور قربانیوں کو اُجاگر کریگا اور انہیں یہ شاندار خراج عقیدت ہوگا۔ موپا ہوائی اڈے پر لگ بھگ 8.5 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ہوابازی ہنرمندی ترقیاتی مرکزکا مقصد 16 مختلف جاب پروفائل میں ٹریننگ فراہم کرنا ہے۔ موپا ہوائی اڈہ پروجیکٹ کے آپریشن کے ساتھ تربیت یافتہ افراد بھارت اور بیرون ملک دیگر ہوائی اڈوں پر ملازمت کے مواقع حاصل کرسکیں گے۔ حکومت ہند کی بجلی کی وزارت کی مربوط بجلی ترقیاتی اسکیم کے تحت تقریباً 16 کروڑ روپئے کی لاگت سے ڈاورلم-ناویلم، مڈگاؤں میں گیس والے ذیلی اسٹیشن کی تعمیر تقریباً 16 کروڑ روپئے کی لاگت سے کی گئی ہے، یہ ذیلی اسٹیشن ڈاورلم، نیسائی، ناویلم، ایکویم-بیکسو اور تیلولم کے گاوؤں کو مستقل طورسے بجلی کی سپلائی کو یقینی بنائے گا۔ گوا کو اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے مرکز کے طور پر بدلنے کے سرکار کے تصور کے مطابق بارکونسل آف انڈیا ٹرسٹ کے قانونی تعلیم اور تحقیق کیلئے انڈیا انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ گوا کو پرتگالی حکومت سے آزاد کرانے والے بھارتی مسلح افواج کی یاد میں وزیراعظم ایک خصوصی کور اور خصوصی کینسلشن بھی جاری کریں گے۔ تاریخ کے اس خاص واقعے کو خصوصی کور پر دکھایا گیا ہے جبکہ خصوصی کینسلشن میں بھارتی بحریہ کے جہاز گومانتک میں موجود جنگی یادگار کو دکھایا گیا ہےجسے سات نوجوان بہادر سیلرس اور دیگر اہلکاروں کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے، جنہوں نے ‘‘آپریشن وجئے’’ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ وزیراعظم پترادیوی میں ہوتاتما یادگار کو اُجاگر کرنے والے ‘مائی اسٹمپ’ کی بھی نقاب کشائی کریں گے جو گوا کی تحریک آزادی کے شہیدوں کے ذریعے دی گئی قربانیوں کو سلام کرتا ہے۔ گوا کی آزادی کی تحریک کے دوران مختلف واقعات پر مشتمل تصاویر کا ایک کولاج پیش کرنے والے ایک ‘میگھدوت پوسٹ کارڈ’ بھی وزیراعظم کو بطور نذرانہ پیش کیا جائیگا۔ وزیر اعظم بہترین پنچایت/ میونسپلٹی، سویم پُرن متروں اور سویم پُرن گوا پروگرام کے مستفیدین کو ایوارڈ بھی دیں گے۔ وزیراعظم اپنے دورے کے دوران دوپہر بعد تقریباً 2:15 بجے پنجی کے آزاد میدان میں واقع شہید میموریل پر گلہائے عقیدت پیش کریں گے۔ جناب مودی دو پہر بعد قریب ڈھائی بجے پنجی کے میرامار میں سیل پریڈ اور فلائی پاسٹ میں بھی شرکت کریں گے۔ ———————– ش ح۔م ع۔ ع ن,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৯ ডিচেম্বৰত গোৱা ভ্ৰমণ আৰু গোৱা মুক্তি দিৱস উদযাপনৰ কাৰ্য্যসূচীত অংশগ্ৰহণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%AA%DB%8C%D9%85%D8%B3%D9%88%D9%84%D8%A7-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A6%83-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A6%93%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ڈاکٹر تیمسلا آو کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کے ذریعے شاندار ناگا کلچر کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘ڈاکٹر ٹیمسولا اے او کے انتقال پر دکھ ہوا، جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کے ذریعے شاندار ناگا ثقافت کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تعلیم اور ثقافت کے شعبوں میں ان کی کاوشیں قابل ذکر تھیں۔ ان کے اہل خانہ اور دوستوں سے تعزیت۔ ان کی روح کو سکون ملے۔’’,ডঃ তেমচুলা আওৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%D8%AF%D8%A7-%D9%BE%DB%8C%D9%B9%DA%BE-%D8%B4%D9%86%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DA%86%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%80%E0%A6%A0-%E0%A6%B6%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9A/,نئی دہلی۔ 06 اگست وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دوارکا شردا پیٹھ شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’دوارکا شردا پیٹھ کے شنکر اچاریہ سوامی سورپانند سرسوتی جی کی وفات سے بہت رنجیدہ ہوا ہوں۔دکھ کی اس گھڑی میں ان کے پیروکاروں سے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اوم شانتی ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,দ্বাৰকা শাৰদা পীঠ শংকৰাচাৰ্য স্বামী স্বৰূপানন্দ সৰস্বতীৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%D8%BA%D8%A7%D9%88%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DA%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%8B%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95-%E0%A6%A1%E0%A6%BE/,نئی دہلی،24دسمبر 2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 24دسمبر 2018ء کو اُڈیشہ کا دورہ کیا۔ آئی آئی ٹی بھوبنیشور کیمپس نے وزیر اعظم پائیکا بغاوت پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکّہ جاری کیا۔ پائیکا بغاوت (پائیکا بدروہ) اُڈیشہ میں 1817ء میں برطانوی حکومت کے خلاف ہوئی تھی۔ اس موقع پر بھوبنیشور میں واقع اُتکل یونیورسٹی میں پائیکا بغاوت کے موضوع پر ایک چیئر قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ وزیر اعظم نے للت گیری میوزیم کا افتتاح کیا ۔ اُڈیشہ میں للت گیری آثارقدیمہ کی مناسبت سے اہم ایک مشہور بدھسٹ مرکز ہے، جس میں استوپ، وہار اور بھگوان بدھ کے مجسمے ہیں۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آئی آئی ٹی بھوبنیشور کے کیمپس کو قوم کے نام وقف کیا۔ انہوں نے بھوبنیشور میں ای ایس آئی سی اسپتال کا بھی افتتاح کیا۔ انہوں نے پائپ لائن اور روڈ پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا گیا ہے یا پھر جن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان کی مجموعی لاگت 14ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کا نشانہ مشرقی ہندوستان کو جنوب-مشرقی ایشیا کے دروازے کے طورپر فروغ دینا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آئی آئی ٹی بھوبنیشور اُڈیشہ کی صنعتی ترقی کو پرواز دے گااور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کے فروغ کی سمت میں کام کرے گا۔ وزیر اعظم نے ریاست میں صحت بنیادی ڈھانچے، روڈ نیٹ ورک، تیل اور گیس پائپ لائن انفرااسٹرکچرکی توسیع سے متعلق منصوبوں کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے اُڈیشہ کی ہمہ جہت ترقی کے تئیں مرکزی حکومت کی عہدبستگی کا اعادہ کیا۔ م ن۔ م م۔ن ع,পাইকা বিদ্রোহৰ স্মাৰক ডাকটিকট আৰু মুদ্ৰা মুকলি প্ৰধানমন্ত্রীৰ; দেশবাসীৰ নামত উচৰ্গা কৰিলে ভূৱনেশ্বৰ আইআইটিৰ চৌহদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-14-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D9%85%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AA-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی احمدآباد میں 14 دسمبر 2022 کو، شام 5:30 بجے ’پرمکھ سوامی مہاراج شتابدی مہوتسو‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے۔ تقدس مآب پرمکھ سوامی مہاراج ایک ایسے رہنما اور گورو تھے جنہوں نے بھارت اور دنیا بھر میں لاتعداد زندگیوں کو متاثر کیا۔ انہیں ایک عظیم روحانی قائد کے طور پر قدرو منزلت حاصل ہے۔ ان کی زندگی روحانیت اور بنی نوع انسانی کی خدمت کے لیے وقف تھی۔ بی اے پی ایس سوامی نرائن سنستھا کے قائد کے طور پر، انہوں نے لاکھوں افراد کو سکون اور نگہداشت فراہم کرانے والی متعدد ثقافتی، سماجی اور روحانی پہل قدمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ تقدس مآب پرمکھ سوامی مہاراج کی پیدائش کے 100ویں برس میں، دنیا بھر کے افراد ان کی زندگی اور ان کے کاموں کو یاد کر رہے ہیں۔ سال بھر جاری رہنے والی تقریبات کا اختتام ’پرمکھ سوامی مہاراج شتابدی مہوتسو‘ میں ہوگا جس کی میزبانی کے فرائض بی اے پی ایس سوامی نرائن مندر، شاہی باغ، کے ذریعہ انجام دیے جائیں گے، جو کہ بی اے پی ایس سوامی نرائن سنستھا کا عالمی صدردفتر ہے ۔ یہ ایک ماہ تک جاری رہنے والی تقریب ہوگی جس کا انعقاد 15 دسمبر 2022 سے 15 جنوری 2023 تک احمدآباد میں کیا جائے گا۔ یہ تقریب یومیہ پروگراموں کے علاوہ موضوعاتی نمائشوں اور غور وفکر پر مجبور کردینے والی پیویلنس پر مشتمل ہوگا۔ بی اے پی ایس سوامی نرائن سنستھا کا قیام 1907 میں شاستری جی مہاراج کے ذریعہ عمل میں آیا۔ ویدوں کی تعلیمات پر مبنی اور عملی روحانیت کے ستونوں پر قائم، بی اے پی ایس روحانی، اخلاقی اور آج کی سماجی چنوتیوں کو حل کرنے کے لیے جامع اور بڑی کوششیں انجام دیتا ہے۔ بی اے پی ایس کا مقصد یقین، یکجہتی اور بے لوث خدمت سے متعلق اقدار کا تحفظ، اور تمام تر شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کی روحانی، ثقافتی، جسمانی اور جذباتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے ۔ یہ ادارہ عالمی رسائی کی کوششوں کے ذریعہ انسانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔,১৪ ডিচেম্বৰত আহমেদাবাদত প্ৰমুখ স্বামী মহাৰাজ শতাব্দী মহোৎসৱৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B4%D9%B9%D9%84%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%93%D9%84-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%A8-%E0%A6%96%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A7%88/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستانی شٹلر اور آل انگلینڈ اوپن بیڈ منٹن چمپئن شپ کے فائنلسٹ لکشیہ سین کی ستائش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘آپ پر فخر ہے@lakshya_sen!۔ آپ نے قابل ذکر صبر اور محنت کا مظاہرہ کیا ہے۔آپ نے ایک حوصلہ مند لڑائی لڑی ہے۔آپ کے مستقبل کی کوششوں کے لئے نیک خواہشات۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھوتے رہیں گے’’۔,ভাৰতীয় বেডমিণ্টন খেলুৱৈ আৰু অল ইংলেণ্ড অপেন বেডমিণ্টন চেম্পিয়নশ্বিপৰ ফাইনেলিষ্ট লক্ষ্য সেনক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D8%B1-%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%86%DA%AF%D8%A7-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9-%DA%A9%D9%88-%D8%AD%D8%A7%D8%B5%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%98%E0%A7%B0-%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%B6%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہر گھر ترنگا مہم کو حاصل ہونے والے زبردست رد عمل پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ ہم مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ریکارڈ تعداد میں شمولیت ملاحظہ کر رہے ہیں۔ جناب مودی نے شہریوں سے harghartiranga.com پر ترنگے کے ساتھ تصویر ساجھا کرنے کی بھی اپیل کی۔ وزیر اعظم نے ہر گھر ترنگا مہم کے تعلق سے ملک بھر سے آنے والی شاندار جھلکیاں ساجھا کرنے کے لیے ٹوئیٹر کا سہارا لیا۔,হৰ ঘৰ তিৰংগা আন্দোলনৰ আশ্চৰ্যজনক সঁহাৰিত সুখ আৰু গৌৰৱ প্ৰকাশ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2/,نئی دلّی ،20 فروری، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اروناچل پردیش کے لوگوں سے ان کے ریاستی یوم تاسیس کے موقع پر نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’اروناچل پردیش کے لوگوں کو ان کے ریاستی یوم تاسیس پر نیک تمنائیں۔ ریاست کے لوگوں کو ان کی شاندار صلاحیت اور سخت محنت کی فطرت کے لئے جانا جاتا ہے۔ دعاگو ہوں کہ ریاست ،مستقبل میں ترقی کی نئی بلندیوں کو سر کرے۔,‘ৰাজ্য স্থাপনা দিৱস’ উপলক্ষে অৰুণাচল প্ৰদেশ বাসীলৈ শুভকামনা জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%AC%D8%B3%D9%B9%D8%B3-%DA%88%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%86%D9%86%D8%AF%D8%B1-%DA%86%D9%88%DA%91/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ڈاکٹر جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو چیف جسٹس آف انڈیا کے طور پر حلف لینے پر مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’ڈاکٹر جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو ہندوستان کے چیف جسٹس کے طور پر حلف لینے پر مبارکباد۔ ان کی آئندہ کامیاب مدت کار کے لئے نیک خواہشات‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ভাৰতৰ মুখ্য ন্যায়াধীশ হিচাপে শপত গ্ৰহণ কৰাৰ বাবে ড০ ন্যায়াধীশ ডি ৱাই চন্দ্ৰচূড়ক অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%DA%86%D9%85%D8%A8%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%A6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ہماچل پردیش کے چمبا میں دو ہائیڈرو پاور پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور پردھان منتری گرام سڑک یوجنا سوئم کا آغاز کیا۔ وزیر اعظم نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو دن پہلے وہ مہاکال کے شہر میں تھے اور آج وہ منی مہیشور کی پناہ میں آئے ہیں۔ وزیر اعظم نے علاقے کے ایک استاد سے موصول خط کو بھی ذکر کیا جنھوں نے وزیر اعظم کو چمبا کی تفصیلات سے باخبر کیا تھا۔ اس خط کا وزیر اعظم نے من کی بات میں ذکر کیا تھا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہیں چمبا اور دیگر دور افتادہ دیہاتوں کو سڑکوں سے مربوط کرنے اور وہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے متعدد پروجیکٹ شروع کرنے کا موقع ملا۔ ہماچل پردیش میں اپنے گزارے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج یہ کہاوت بدل رہی ہے کہ ’پہاڑ کا پانی اور پہاڑ کی جوانی پہاڑ کے کام نہیں آتی‘۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑیوں کے نوجوان اب علاقے کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ وزیر اعظم نے اس تمہید کے ساتھ کہ اگلے 25 سال 130 کروڑ ہندوستانیوں کے لئے نہایت اہم ہیں مزید کہا کہ ہندوستان کی آزادی کا امرت کال شروع ہو چکا ہے جس کے دوران ہمیں ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے نشانہ پار کرنا ہے۔ آنے والے چند مہینوں میں ہماچل کے قیام کے بھی 75 سال مکمل ہونے والے ہیں۔ یعنی جب ہندوستان آزادی کے 100 سال منائے گا تو ہماچل بھی اپنے قیام کے 100 سال منائے گا۔ اس لئے آنے والے 25 برسوں کا ہر دن ہمارے لئے نہایت اہم ہے۔ وزیر اعظم نے ان دنوں کو یاد کیا جب ہماچل پردیش کا دہلی میں بہت کم اثر و رسوخ ہوا کرتا تھا اور اس کے مطالبات اور درخواستوں کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں عقیدے اور قدرتی حسن کے اہم مقامات جیسے چمبا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے۔ جناب مودی نے بتایا کہ امنگوں بھرے ضلع کے طور پر اس پر خصوصی توجہ دی گئی کیونکہ وہ چمبا کی طاقتوں سے واقف تھے۔ انہوں نے ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کے تحت کیرالہ کے بچوں کے ہماچل آنے پر بھی خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ ہماچل کو آج ڈبل انجن والی حکومت کی طاقت کا ادراک ہوا ہے جس نے ریاست میں ترقی کی رفتار دوگن کر دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پچھلی حکومتیں صرف ان شعبوں کو خدمات فراہم کرتی تھیں جہاں کام کا بوجھ اور تناؤ کم اور سیاسی فائدے زیادہ ہوتے تھے۔ اس کے نتیجے میں دور افتادہ اور قبائلی علاقوں کی ترقی کی شرح کافی کم رہی۔ سڑکیں ہوں، بجلی ہو یا پانی، ایسے علاقوں کے لوگ سب سے آخر میں ان کے فائدے حاصل کر پاتے تھے۔ جناب مودی نے کہا کہ ڈبل انجن والی حکومت کا کام کرنے کا انداز باقیوں سے مختلف ہے۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں کو کس طرح آسان بنایا جائے۔ اسی لئے ہم قبائلی اور پہاڑی علاقوں پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ انہوں نے گیس کنکشن، پائپ سے پانی، صحت کی خدمات، آیوشمان بھارت اور سڑکی رابطے فراہم کرنے جیسے اقدامات گنوائے جو دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں میں زندگیوں کو بدل رہے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ہم دیہات میں فلاح و بہبود کے مراکز بنا رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اضلاع میں بھی میڈیکل کالج کھول رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ہماچل کو سیاحت کے تحفظ کے لئے ویکسینیشن میں ترجیح دی گئی۔ جناب مودی نے ملک میں سب سے تیزی سے صد فیصد ویکسینیشن کے لئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کی تعریف کی۔ دیہی سڑکوں کی تعمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کے بعد سے 2014 تک 7000 کلومیٹر لمبی دیہی سڑکیں 1800 کروڑ کی لاگت سے تعمیر کی گئی تھیں لیکن گزشتہ 8 برسوں میں صرف 5000 کروڑ کے مالیاتی اخراجات سے 12000 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج شروع کردہ اسکیموں سے 3000 کلومیٹر دیہی سڑکیں بنیں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ دن گئے جب ہماچل پردیش درخواستیں لے کر دہلی آیا کرتا تھا۔اب ہماچل نئے منصوبوں کے بارے میں معلومات اور اس کی ترقی کی تفصیلات اور اپنے حقوق کے مطالبات کے ساتھ آتا ہے۔ آپ (لوگوں کا) حکم میرے لیے مقدم ہے۔ آپ میری ہائی کمان ہیں۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی خدمت کرنے سے مجھے مختلف خوشی اور توانائی ملتی ہے۔ پچھلے 8 برسوں میں ہونے والی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک بھر میں پہاڑی علاقوں، ناقابل رسائی علاقوں، قبائلی علاقوں میں تیز رفتار ترقی کا مہا یگیہ جاری ہے۔ جناب مودی نے بتایا کہ اس کے فوائد صرف ہماچل کے چمبا تک ہی محدود نہیں بلکہ پنگی-بھرمور، چھوٹا بڑا بھنگل، گریم پار، کنور اور لاہول اسپتی جیسے علاقے بھی اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے چمبا کو امنگوں بھرے اضلاع کی ترقی کی درجہ بندی میں دوسرا مقام حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔ قبائلی برادریوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ حکومت نے سرمور کے گری پار علاقے کی ہٹی برادری کو قبائلی درجہ دینے کا ایک اور تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری حکومت قبائلی عوام کی ترقی کو کتنی ترجیح دے رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماچل اور مرکز کی پچھلی حکومتوں کو انتخابات کے وقت ہی دور افتادہ اور قبائلی دیہاتوں کا خیال آتا تھا، لیکن آج کی ڈبل انجن والی حکومت چوبیسوں گھنٹے لوگوں کی خدمت کے لئے کوشاں ہے۔ عالمی وبا کورونا کے دوران غریب خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے حکومت کی کوششوں کا ذکرکرتے ہوئے وزیر اعظم نے مفت راشن پروگرام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دنیا حیرانی سے ہندوستان کی طرف دیکھتی رہی کہ حکومت گزشتہ ڈیڑھ سال سے ملک کے 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اناج فراہم کر رہی ہے۔ جناب مودی نے ہندوستان میں کوویڈ ویکسینیشن پروگرام کی کامیابی کا بھی ذکر کیا اور اس کی کامیابی کا سہرا فعال طور پر شریک محکمہ صحت کے کارکنوں اور آشا کارکنوں کے سر باندھا۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ترقی کے ایسے کام تب ہی ہو پاتے ہیں جب خدمت کا جذبہ مضبوط ہو۔ روزگار کے حوالے سے پہاڑی اور قبائلی علاقوں کو درپیش آزمائشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم علاقے کی طاقت کو یہاں کے لوگوں کی طاقت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں پانی اور جنگل کی دولت انمول ہے۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ چمبا کا تعلق ملک کے اس علاقے سے ہے جہاں پر بجلی کی پیداوار شروع کی گئی تھی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جن منصوبوں کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ان سے بجلی کی پیداوار کے شعبے میں چمبا اور ہماچل کا حصہ بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ چمبا میں پیدا ہونے والی بجلی سے ہماچل سینکڑوں کروڑ روپے کمائے گا اور یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ پچھلے سال بھی مجھے ایسے 4 بڑے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ ہائیڈرو انجینئرنگ کالج سے جو بلاس پور میں کچھ دن پہلے شروع ہوا تھا، ہماچل کے نوجوانوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ باغبانی، مویشی پروری، دستکاری اور فنون میں ہماچل کی طاقت کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مقامی مصنوعات جیسے پھول، چمبا کا چک، راجما مدرا، چمبا چپل، چمبا تھل اور پنگی کی ٹھنگی کو فروغ دینے کے لئے مقامی اپنی مدد آپ گروپوں کی تعریف کی۔ انہوں نے ان مصنوعات کو ملک کا ورثہ قرار دیا۔ ووکل فار لوکل کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی مدد آپ گروپوں سے وابستہ خواتین کی تعریف کی کیونکہ وہ مقامی مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے حکومت کی کوششوں کو آگے بڑھاتی ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ ان مصنوعات کو ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ اسکیم کے تحت بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ اور ان چیزوں کو غیر ملکی معززین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ہماچل کا نام پوری دنیا جان جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہماچل میں بننے والی مصنوعات کے بارے میں پتہ چل سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈبل انجن والی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو اپنی ثقافت، ورثے اور عقیدے کا احترام کرتی ہے۔ چمبا سمیت پورا ہماچل عقیدے اور ورثے کی سرزمین ہے۔ ہماچل پردیش میں وراثت اور سیاحت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کولو میں دسہرہ میلے کے اپنے دورے کو یاد کیا اور کہا کہ ہمارے پاس ایک طرف میراث ہے اور دوسری طرف سیاحت۔ ڈلہوزی اور کھجیار جیسے سیاحتی مقامات روحانیت اور سیاحت کی دولت کے لحاظ سے ہماچل کے لئے محرک ثابت ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ صرف ڈبل انجن والی حکومت ہی اس طاقت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہماچل نے اپنا ذہن بنا لیا ہے اور وہ پرانے رواج کو بدل کر ایک نئی روایت قائم کرے گا۔ اجتماع میں انتہائی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کا اعتراف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ان الفاظ کے ساتھ اپنی بات مکمل کی کہ اتنے بڑے اجتماع میں انہیں ہماچل کی ترقی اور عہد کی طاقت نظر آرہی ہے۔ انہوں نے ہماچل پردیش کے لوگوں کے عہد اور خوابوں کے لئے اپنی حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ، جناب جے رام ٹھاکر، ہماچل پردیش کے گورنر، جناب راجیندر وشواناتھ آرلیکر، اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر جناب انوراگ سنگھ ٹھاکر، پارلیمانی اراکین جناب کشن کپور، محترمہ اندو گوسوامی اور بی جے پی کے ریاستی صدر جناب سریش کشیپ اور دیگر اس موقع پرموجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم نے دو ہائیڈروپاور پروجیکٹوں – 48 میگاواٹ کے چنجو-سوئم ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور 30 میگاواٹ کے دیوتھل چنجو ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ دونوں پروجیکٹ سالانہ 270 ملین یونٹ سے زیادہ بجلی پیدا کریں گے اور ہماچل پردیش کو ان مپروجیکٹوں سے تقریباً 110 کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے ریاست میں تقریباً 3125 کلومیٹر سڑکوں کی تازہ کاری کے لئے ہماچل پردیش میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا سوئم کا بھی آغاز کیا۔ اس مرحلے میں مرکزی حکومت نے ریاست کے 15 سرحدی اور دور افتادہ بلاکوں میں 440 کلومیٹر سڑکوں کی تازہ کاری کے لئے زائد از 420 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے۔,হিমাচল প্ৰদেশৰ চাম্বাত দুটা জলবিদ্যুৎ প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%AC%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%D9%88%DB%8C%D8%A8%DB%8C%D9%86%D8%A7%D8%B1-%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%AA%D9%85-%D9%86%D8%B1%D8%A8%DA%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,نمسکار! آج کے ویبنار کا موضوع، دفاع میں آتم نربھرتا – کال ٹو ایکشن، قوم کے ارادوں کی وضاحت کرتا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں آپ کو خود انحصاری کا عزم بھی نظر آئے گا جس پر ہندوستان پچھلے کچھ سالوں سے اپنے دفاعی شعبے میں زور دے رہا ہے۔ ساتھیوں، غلامی کے دور میں بھی اور آزادی کے فوراً بعد بھی ہماری دفاعی تیاری کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان میں بنائے گئے ہتھیاروں نے بڑا کردار ادا کیا۔ اگرچہ ہماری یہ طاقت بعد کے سالوں میں کمزور ہوتی رہی، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں صلاحیت کی کمی نہ اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔ ساتھیوں، سیکورٹی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی مرضی کے مطابق اور منفرد نظام ہونا چاہیے، تبھی یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اگر 10 ممالک کے پاس ایک ہی قسم کا دفاعی سازوسامان ہے تو آپ کی افواج کی کوئی انفرادیت نہیں رہے گی۔ انفرادیت اور حیرت کا عنصر، یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب آلات آپ کے اپنے ملک میں تیار کیے جائیں۔ اس سال کے بجٹ میں ملک کے اندر ہی تحقیق، ڈیزائن اور ترقی سے لے کر مینوفیکچرنگ تک ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی ترقی کا خاکہ ہے۔ دفاعی بجٹ کا 70 فیصد صرف ملکی صنعت کے لیے رکھا گیا ہے۔ وزارت دفاع نے اب تک 200 سے زیادہ دفاعی پلیٹ فارمز اور آلات کی مثبت انڈیجنائزیشن کی فہرستیں جاری کی ہیں۔ اس فہرست کے اعلان کے بعد گھریلو خریداری کے لیے 54 ہزار کروڑ روپے کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 4.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے آلات سے متعلق خریداری کا عمل بھی مختلف مراحل میں ہے۔ بہت جلد تیسری فہرست بھی آنے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ہی دفاعی مینوفیکچرنگ کو کس طرح سپورٹ کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، جب ہم باہر سے اسلحے لاتے ہیں تو اس کا عمل اتنا طویل ہوتا ہے کہ جب تک وہ ہماری سکیورٹی فورسز تک پہنچتے ہیں، ان میں سے بہت سے پرانے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کا حل بھی آتم نربھر بھارت مہم اور میک ان انڈیا میں ہے۔ میں ملک کی فوجوں کی بھی تعریف ک��وں گا کہ وہ بھی دفاعی شعبے میں ہندوستان کی خود انحصاری کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بہت اہم فیصلے لے رہی ہیں۔ آج ہماری فوج کے پاس ہندوستان میں بنایا ہوا سامان ہے، اس لیے ان کا اعتماد، ان کا غرور بھی نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اور اس میں ہمیں سرحد پر کھڑے فوجیوں کے جذبات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے جب میں اقتدار میں نہیں تھا، اپنی پارٹی کے لیے کام کرتا تھا، پنجاب میرے کام کرنے کی جگہ تھی، مجھے ایک بار واگھہ بارڈر پر جوانوں سے گپ شپ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں تعینات فوجیوں نے بحث کے دوران میرے سامنے ایک بات کہی تھی اور وہ بات میرے دل کو چھو گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ واگھہ بارڈر پر بھارت کا گیٹ ہمارے دشمن کے گیٹ سے تھوڑا چھوٹا ہے۔ ہمارا گیٹ بھی بڑا ہونا چاہیے، ہمارا جھنڈا بھی اس سے اونچا ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کا جذبہ ہے۔ ہمارے ملک کا سپاہی اسی احساس کے ساتھ سرحد پر رہتا ہے۔ وہ ہندوستان میں بنی چیزوں کے بارے میں ایک الگ عزت نفس رکھتا ہے۔ اس لیے ہمارے پاس جو دفاعی سامان ہے، ہمیں اپنے فوجیوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم یہ تب ہی کر سکتے ہیں جب ہم آتم نربھر ہوں گے۔ ساتھیوں، ہلے زمانے میں جنگیں مختلف طریقوں سے ہوتی تھیں، آج مختلف طریقوں سے۔ پہلے جنگی ساز و سامان کی تبدیلی میں دہائیاں لگتی تھیں لیکن آج جنگی ہتھیاروں میں دیکھتے ہی دیکھتے تبدیلی آ جاتی ہے۔ آج جو ہتھیار موجود ہیں ان کے پرانے ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ وہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہتھیار اور بھی تیزی سے پرانے ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان کی آئی ٹی کی طاقت ہماری بڑی طاقت ہے۔ ہم جتنا زیادہ اس طاقت کو اپنے دفاع میں استعمال کریں گے، اتنا ہی ہم اپنی حفاظت میں پر اعتماد ہوں گے۔ مثال کے طور پر اب سائبر سیکیورٹی کا معاملہ ہی لے لیں۔ اب وہ بھی جنگی ہتھیار بن چکا ہے۔ اور یہ صرف ڈجیٹل سرگرمی تک محدود نہیں ہے۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔ ساتھیوں، آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ دفاعی شعبے میں ہمیشہ کس قسم کی مسابقت رہتی ہے۔ پہلے زمانے میں جو سامان باہر کی کمپنیوں سے خریدا جاتا تھا اس پر اکثر طرح طرح کے الزامات لگتے تھے۔ میں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہر خریداری تنازعہ کا باعث بنی۔ مختلف صنعت کاروں کے درمیان مسابقت کی وجہ سے دوسروں کی مصنوعات کو نیچا دکھانے کی مہم مسلسل جاری ہے۔ اور اسی وجہ سے ابہام بھی پیدا ہوتا ہے، خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں اور کرپشن کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ کون سا ہتھیار اچھا ہے، کون سا ہتھیار برا ہے، کون سا ہتھیار ہمارے لیے کارآمد ہے، کون سا ہتھیار مفید نہیں۔ اس کے بارے میں بھی کافی ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ یہ کارپوریٹ دنیا کی جنگ کا حصہ ہے۔ ہمیں آتم نربھر بھارت مہم کے ذریعے ایسے بہت سے مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔ ساتھیوں، ہماری آرڈیننس فیکٹریاں اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ جب ہم پورے اخلاص کے ساتھ عزم کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمارے دفاع کے سکریٹری نے ابھی اس کی بڑی تفصیل پیش کی ہے۔ پچھلے سال سے پہلے، ہم نے 7 نئے ڈیفنس پبلک انڈرٹیکنگس بنائے تھے۔ آج وہ تیزی سے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں، نئی منڈیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ایکسپورٹ آرڈرز بھی لیے جا رہے ہیں۔ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ گزشتہ 5 سے 6 سالوں میں ہم نے دفاعی برآمدات میں 6 گنا اضافہ کیا ہے۔ آج ہم 75 سے زیادہ ممالک کو میڈ ان انڈیا دفاعی سا�� و سامان اور خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ میک ان انڈیا کے لیے حکومت کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں، پچھلے 7 سالوں میں دفاعی مینوفیکچرنگ کے لیے 350 سے زیادہ نئے صنعتی لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ جبکہ 2001 سے 2014 تک چودہ سالوں میں صرف 200 لائسنس جاری کیے گئے تھے۔ ساتھیوں، پرائیویٹ سیکٹر کو بھی DRDO اور دفاعی PS,বাজেটৰ পিছত ‘প্ৰতিৰক্ষাত আত্মনিৰ্ভৰ ভাৰত- কাৰ্যাৱলী প্ৰণয়ন’ শীৰ্ষক ৱেবিনাৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%B1-%D8%A7%DB%8C-%DA%88-%DB%8C-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D8%AA%DA%BE-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AF/,نئیدہلی14فروری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں، سی آر ای ڈی اے آئی یوتھ کان 2019 سے خطاب کیا ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہر بے گھرکو 2022 تک گھر کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 1.5 کروڑ مکان تعمیر کئے جاچکے ہیں ۔جن میں سے 15 لاکھ مکانات صرف شہری غریبوں کے لئے تعمیر کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجود ہ مرکزی سرکار کے تحت اس پورے عمل میں مکمل شفافیت موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی سرکار نیک نیتی کے ساتھ پالیسیاں بناتی ہے تو بدعنوانیاں ختم ہوجاتی ہیں اور نتائج بہتر برآمد ہوتے ہیں۔ وزیراعظم موصوف نے اپنی تقریر میں آگے کہا کہ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی (آر ای آر اے ) نے خریداروں اور ریئل اسٹیٹ ڈیولپر کے درمیان اعتمادکو مستحکم کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ای آر اے کا اعلان 28 ریاستوں میں کیا جاچکا ہے اور 35 ہزار سے زائد ریئل اسٹیٹ پروجیکٹس اور 27 ہزارریئل اسٹیٹ ایجنٹس کا آر ای آر اے کے تحت اندراج کیا جاچکا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں فلیٹ تعمیر کئے جارہے ہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں ملک کی ایک لمبی جست کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سرکار ہندوستان میں ایزآف ڈوئنگ بزنس کو یقینی بنانے کے تئیں عہد بستہ ہے اور اس سلسلے میں تعمیراتی پرمٹوں سمیت تما م سرکاری منظوریاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ جاری کی جارہی ہیں۔ جناب نریند رمودی نے صنعتی تعمیرات اور مکان کے خریداروں کے فائدے کے لئے مرکزی سرکار کے ذریعہ کی جانے والی اصلاحات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے مختلف تعمیراتی اشیا کی جی ایس ٹی شرحوں میں زبردست کمی کردی ہے ۔ علاوہ ازیں حالیہ بجٹ میں درمیانہ درجے کے لئے انکم ٹیکس کے فوائد کی بھی تجویز کی گئی ہے اور ان تمام اقدامات کا مجموعی نتیجہ مکان سازی کے شعبے اور مکانوں کے خریداروں کو فائدہ پہنچائے گا۔ وزیر اعظم نے ملک کے ہرشہری کے لئے اپنے مکان کے خواب کی عملی تعبیر کے لئے سی آر ای ڈی اے آئی کی خدمات اور کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یہ یوتھ کان ایک ایسے وقت میں منعقد کی گئی ہے ، جب نیو انڈیا کی چہرہ کاری کی جارہی ہے اور نئے ہندوستان کے لئے منشور سازی میں ہمارے نوجوانوں کو اہم کردار ادا کرنا ہے ۔ بعد ازاںوزیر اعظم نے تالکٹورہ اسٹیڈیم سی آر ای ڈی اے آئی کی جانب سے اہتمام کی جانے والی ایک نمائش بھی دیکھی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰��۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,ক্ৰেডাই যুৱ সন্মিলন ২০১৯ ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%85-%D9%B9%DA%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B1-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%AC%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A7%B0/,جوائے ہوری بول! جوائے ہوری بول! شری شری ہوری چاند ٹھاکریر، دوشو-ایگارو تمو، ابیربھاب تتھی اپو-لوکھے، شاکول پونارتھی، شادھو، گوشائیں، پاگول، دولوپاتی، اومتوا مائیدیر، جنائی انتورک سبھیکشا ابھینندن او نوموسکار! مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی اور آل انڈیا متوا مہاسنگھ کے سنگھادھی پتی جناب شانتنو ٹھاکر جی، جناب منجل کرشن ٹھاکر جی، محترمہ چھبی رانی ٹھاکر جی، جناب سبرتا ٹھاکر جی، جناب رابندر ناتھ وشواس جی، دیگر معززین اور بڑی تعداد میں موجود میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں! میری خوش قسمتی ہے کہ پچھلے سال اوراکاندی میں جناب شری شری گروچاند ٹھاکر جی اور عظیم متوا روایت کو عقیدت کے ساتھ نمن کرنے کا موقع ملا۔ آج ٹھاکر باڑی جیسے عظیم تیرتھ پر، آپ تمام ساتھیوں سے ٹیکنالوجی کے ذریعے سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ آپ سب کے درشن کا موقع ملا۔ جب میں اوراکاندی گیا تھا تو وہاں مجھے بہت اپنا پن ملا، بہت آشیرواد ملا۔ اور ٹھاکر باڑی نے ہمیشہ مجھے اپنے پن دیا، بہت پیار دیا ہے۔ ساتھیو، یہ متوا دھرمیو مہامیلہ متوا روایت کو نمن کرنے کا موقع ہے۔ یہ ان اقدارکے تئیں عقیدت کے اظہار کا موقع ہے جن کی بنیاد شری شری ہری چاند ٹھاکر جی نے رکھی تھی۔ اسے گروچاند ٹھاکر جی اور بورو ماں نے تقویت بخشی تھی، اور آج شانتنو جی کے تعاون سے یہ روایت اس وقت مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ یکجہتی، ہندوستانیت، اپنی عقیدت کے تئیں خود سپردگی رکھتے ہوئے جدیدیت کو اپنانے کی یہ سیکھ ہمیں عظیم متوا روایت سے ملی ہے۔ آج جب ہم خود غرضی کے لئے خون خرابہ ہوتے دیکھتے ہیں، جب سماج میں تقسیم کی کوششیں ہوتی ہیں، جب زبان اور علاقے کی بنیاد پر تفریق کا رجحان دیکھتے ہیں تو شری شری ہری چاند ٹھاکر جی کی زندگی، ان کا فلسفہ اور اہم ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ میلہ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کی اقدار کو بھی مضبوط کرنے والا ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہماری ثقافت، ہماری تہذیب عظیم ہے۔ یہ عظیم اس لئے ہے کیونکہ اس میں تسلسل ہے، اس میں روانی ہے، اس میں خود کو مضبوط کرنے کا فطری رجحان ہے۔ یہ ایک دریا کی طرح ہے جو اپناراستہ بناتا جاتاہے اور راستے میں جو بھی رکاوٹیں آتی ہیں ان کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے۔ اس عظمت کا سہرا ہری چاند ٹھاکر جی جیسے مصلحین کے سر ہے جنہوں نے سماجی اصلاح کے بہاؤ کو کبھی رکنے نہیں دیا۔ شری شری ہری چاند ٹھاکر جی کے پیغامات کو جو بھی سمجھتا ہے، جو ’ہوری لیلا امرتو‘ کا پاٹھ کرتا ہے، وہ خود ہی کہہ اٹھتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کو پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔ ورنہ آج جس جینٹدر سسٹم کی بات دنیا کرتی ہے، اس کو 18ویں صدی میں ہی ہری چاند ٹھاکر جی نے اپنا مشن بنالیا تھا۔ انہوں نے بیٹیوں کی تعلیم سے لے کر کام تک کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، ماؤں بہنوں بیٹیوں کے وقار کو سماجی فکر میں آگے لانے کی کوشش کی۔ اس دور میں انہوںنے خواتین کی عدالت اور بیٹیوں کے لیے اسکول جیسے کام کیے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا وژن کیا تھا، ان کا مشن کیا تھا۔ بھا��یو اور بہنو، آج جب بھارت بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی مہم کو کامیاب بناتا ہے، جب وہ ماؤں بہنوں بیٹیوں کی صفائی ستھرائی، صحت اور عزت نفس کا احترام کرتا ہے، جب اسکولوں اور کالجوں میں لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتی ہیں، جب معاشرہ کے ہر ایک حلقے میں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو بیٹوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ملک کی تعمیر میں تعاون کرتے ہوئے دیکھتا ہے تب لگتا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں شری شری ہری چاند ٹھاکر جی جیسی عظیم ہستیوں کا احترام کر رہے ہیں۔ جب حکومت سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس کی بنیاد پر سرکاری اسکیموں کو عوام تک لے جاتی ہے، جب سب کی کوشش ہی ملک کی ترقی کی طاقت بن جاتی ہے، تب ہم سب کی شمولیت والے سماج کی تعمیر کی طرف بڑھتے ہیں۔ ساتھیو، بھارت کی ترقی میں متوا سماج کی حصے داری بہت اہم ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سماج سے جڑے ہر خاندان کی زندگی کو آسان ہو ۔ مرکزی حکومت کی عوامی بہبود کی ہر ایک اسکیم تیز رفتاری سے متوا خاندانوں تک پہنچے ، اس کے لیے ریاستی حکومت کو تحریک دی جارہی ہے۔ پکے گھر ہوں، نل سے جل ہو، مفت راشن ہو ، 60 سال بعد پنشن ہو ، لاکھوں روپے کا بیمہ ہو، ایسی ہر ایک اسکیم کے دائرے میں 100 فیصد متوا خاندان آئیں، اس کے لئے ہماری کوشش جاری ہے۔ ساتھیو، شری شری ہری چاند ٹھاکر جی نے ایک اور پیغام دیا ہے جو آزادی کے امرت کال میں ہر بھارت کے ہر ایک شہری کے لیے تحریک کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے ایشور سے پریم کے ساتھ ساتھ ہمارے فرائض سے بھی ہمیں آگاہ کیا۔ خاندان کے تئیں، معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو کیسے پورا کرنا ہے اس پر انہوں نے خصوصی زور دیا۔ فرائض کے اسی جذبے کو ہمیں ملک کی ترقی کی بھی بنیاد بنانا ہے۔ ہمارا آئین ہمیں بہت سارے حقوق دیتا ہے۔ ان حقوق کو ہم اسی وقت محفوظ رکھ سکتے ہیں جب ہم اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں گے۔ اس لیے آج میں متوا سماج کے تمام ساتھیوں سے بھی کچھ گزارش کرنا چاہوں گا۔ سسٹم سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ہم سب کو معاشرے کی سطح پر بیداری میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ اگر کہیں بھی کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو وہاں ضرور آواز بلند کریں۔ یہ ہمارا سماج کے تئیں بھی اور ملک کے تئیں بھی فرض ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہمارا جمہوری حق ہے۔ لیکن سیاسی مخالفت کی وجہ سے اگر کسی کو تشدد سے ڈرا دھمکا کر کوئی روکتا ہے تو وہ دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ تشدد اور انارکی کی ذہنیت سماج میں کہیں اگر کہیں بھی ہے تو اس کی مخالفت کی جائے۔ صفائی ستھرائی اور صحت کو لیکر اپنے فرض کو بھی ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ گندگی کو ہمیں اپنے گھر، اپنی گلی سے دور رکھنا ہے، اسے اپنے سنسکاروں میں ہمیں لانا ہے۔ ووکل فار لوکل ، اس کو بھی ہمیں اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ ش مغربی بنگال، بھارت کے محنت کشوں کا ، کسانوں کا ، مزدوروں کا پسینہ جس سامان میں لگا ہو اس کو ضرور خریدیں۔ اور سب سے بڑا فرض ہے ملک سب سے پہلے کی پالیسی! ملک سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ۔ ہمارا ہر کام ملک کو پہلے رکھتے ہوئے ہونا چاہیے۔ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہم یہ ضرور سوچیں کہ اس سے ملک کا بھلا ضرور ہو۔ ساتھیو، متوا سماج اپنے فرائض کے تئیں ہمیشہ بیدار رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آزادی کے امرت کال میں، ایک نئے بھارت کی تعمیر میں آپ کا تعاون ایسے ہی ملتا رہے گا۔ آپ سبھی کے لیے بہت بہت نیک خواہشات! بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ا گ۔ ن ا۔,পশ্চ���মবংগৰ শ্ৰীধাম ঠাকুৰনগৰত মাতুৱা ধৰ্ম মহা মেলাৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%DA%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے صحت کی عالمی (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹرٹیڈروس غیبریسز سے آج جام نگرمیں ملاقات کی ۔ اس سے پہلے دونوں ممتاز شخصیات نے روایتی طریقہ علاج سے متعلق صحت کی عالمی تنظیم کے عالمی مرکز کے افتتاح کے موقع پرملاقات کی تھی ۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا: ‘‘ڈاکٹرٹیڈروس سے ملاقات کرکے اورصحت کے شعبے کو مزید مستحکم بنانے کے بارے میں تبادلہ خیال کرکے ہمیشہ مسرت ہوتی ہے ۔ وہ اپنی زندگی پربھارت کے اساتذہ کے اثرات کو ہمیشہ دل سے لگائے رکھتے ہیں اورآج انھوں نے گجراتی زبان میں اپنی مہارت کے لئے بھی کافی تعریفیں بٹوریں ۔ @ WHO ’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বিশ্ব স্বাস্থ্য সংস্থাৰ সচিব প্ৰধান ড০ টেড্ৰ’ছ গেব্ৰেয়েছাছক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D8%A7%D8%B1%D9%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A2%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ناروے کے وزیر اعظم عزت مآب جناب جوناس گہر سٹور کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ دونوں رہنماؤں نے ترقی پذیر ممالک میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے موسمیاتی مالیات کو متحرک کرنے کے اقدامات سمیت باہمی دلچسپی کے دو طرفہ اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم جناب مودی نے ترقی پذیر دنیا کے لیے مساوی، بروقت اور مناسب موسمیاتی مالیات کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیا، اور اس مقصد کے لیے عزت مآب اسٹور کے عزم کی ستائش کی۔ دونوں رہنماؤں نے بلیو اکانومی پر ٹاسک فورس کے تحت جاری دو طرفہ تعاون کے مختلف اقدامات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے گرین ہائیڈروجن، جہاز رانی، سائنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیم جیسے شعبوں میں ہند-ناروے کے بڑھتے ہوئے تعاون و اشتراک پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔,নৰৱেৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী জোনাছ গহৰ ষ্টোৰৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীৰ টেলিফোনিক বাৰ্তালা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B2%D8%A8%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,نئی دہلی،یکم/اکتوبر۔ عالی جناب اور میرے رفیق صدر مرزیوییف، ازبیکستان سے تشریف لائے معزز مہمانان اور احباب، ہندوستانی وفد کے اراکین، نمسکار۔ صدر موصوف، یہ آپ کا بھارت کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ مجھے بیحد خوشی ہے کہ یہ دورہ آپ اپنے اہل خانہ اور ایک مضبوط وفد کے ساتھ کررہے ہیں۔ آپ کا اور آپ کے اہل خانہ و وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہور��ی ہے۔ ازبیکستان اور بھارت کے درمیان مماثلتیں اور قریبی رشتوں کے گواہ ہماری مشترکہ تاریخ اور ثقافت ہیں۔ مہمان، دوست اور عزیز ایسے کتنے ہی الفاظ دونوں ملکوں میں مساوی طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ صرف زبان کی مماثلت نہیں۔ یہ دلوں اور جذبات کا بھی ملن ہے۔ مجھے فخر ہے اور خوشی بھی کہ ہمارے ملکوں کے رشتوں کی بنیاد اتنی مضبوط بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ صدر موصوف، آپ سے میرا تعارف 2015 میں میرے ازبیکستان کے دورے کے دوران ہوا تھا۔ آپ کی ہندوستان کے تئیں خیرسگالی اور دوستی نے، اور آپ کی شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ یہ ہماری چوتھی ملاقات ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک گہرے دوست ہیں۔ عزیز دوست ہیں، مجھے اور بھی زیادہ خوشی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک بااختیار وفد ہے۔ آپ کے حکم اور رہنمائی پر گزشتہ کچھ دنوں میں ہندوستان میں ان کی مفید ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ آج ہمارے درمیان بہت ہی بامعنی بات چیت ہوئی۔ ہندوستان اور ازبیکستان کے تاریخی رشتوں کو مزید گہرا بنانے اور ہماری اسٹریٹیجک شراکت داری کو اور مضبوط کرنے کے ہمارے ویژن اور منصوبوں کو ہم نے مشترک کیا ہے۔ ہمارے پرانے دوستانہ رشتوں کو آج کے تناظر میں مزید خوش حال بنانے کے لئے ہم نے طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔ علاقائی اہمیت کے امور، جن سے ہماری سلامتی، امن، خوش حالی اور تعاون وابستہ ہیں، ان پر بھی بامعنی بات چیت کی ہے۔ ان امور پر، اور شنگھائی تعاون تنظیم سمیت بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر، ہم نے ہمارے تعاون کو اور بھی گہرا بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج کی ملاقات میں ہم اس بات پر پوری طرح متفق ہوئے ہیں کہ اب ہمارے ملکوں کے درمیان کے قدیم اور مضبوط رشتوں کو ہمارے لوگوں کی امیدوں اور توقعات کے مطابق وسعت دینے کا وقت آگیا ہے۔ عالی جناب، آپ کے متعدد جرأت مندانہ اور ٹھوس اقدامات اور اصلاحات سے ازبیکستان پرانے نظام کو پیچھے چھوڑکر جدیدیت کی طرف تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ یہ آپ کی قیادت اور ویژن کا نتیجہ ہے۔ میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ آپ کو بہت مبارک باد دیتا ہوں اور آئندہ مزید کامیابی کے لئے نیک خواہشات بھی پیش کرتا ہوں۔ عالی جناب، ازبیکستان کی ترجیحات کے مطابق ہندوستان ان کوششوں میں تعاون کرنے کے لئے پابند ہے۔ ہمارے موجودہ تعاون کو نئے شعبوں میں بڑھانے کے لئے ہم نے آج خاص طور پر بات چیت کی۔ ہم تجارت اور سرمایہ کاری کے رشتوں کو بڑھانے پر متفق ہوئے ہیں۔ ہم نے 2020 تک ایک بلین ڈالر کی دو فریقی تجارت کا ہدف رکھا ہے۔ ہم نے ترجیحی تجارتی معاہدے پر بات چیت شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ازبیکستان کی تجویز پر ہم نے ازبیکستان کے سماجی شعبوں میں کم لاگت کے گھروں اور ایسے اور بھی سوشل انفراسٹرکچر پروجیکٹوں کے لئے 200 ملین ڈالر کی لائن آف کریڈٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، 800 ملین ڈالر کی لائنس آف کریڈٹ اور ایکزم بینک کے ذریعے بائرس کریڈٹ کے تحت ہی ہم ازبیکستان کی تجاویز کا خیرمقدم کریں گے۔ خلا، فروغ انسانی وسائل اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ازبیکستان کے مفادات کے لئے ہندوستان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی تجویز ہم نے پیش کی ہے۔ ہندوستان اور ازبیکستان کی ریاستوں کے درمیان بڑھتے تعاون کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ آج آگرہ اور سمرقند کے درمیان ٹیوننگ ایگریمنٹ اور گجرات اور ازبیکستان کے آندیجن کے درمیان معاہدے ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور ازبیکستان کے درمیان کنیکٹیوٹی میں اضافہ کرنے کے راستوں پر ہم نے غور کیا ہے۔ تجارت اور کنیکٹیوٹی کے لئے چابہار ایک اہم کڑی ہے۔ ہندوستان عشق آباد معاہدے کا فروری 2018 میں رکن بنا ہے۔ اس میں حمایت کے لئے ہم ازبیکستان کے شکرگزار ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ازبیکستان بین الاقوامی شمال جنوب ٹرانسپورٹ گلیارے میں شامل ہونے پر متفق ہوا ہے۔ عالی جناب، آپ کے سینئر مشیر اور وزیر کل گاندھی سینیٹیشن کنونشن کی اختتامی تقریب میں شامل ہورہے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے سچائی، عدم تشدد اور امن کے پیغام کے تئیں آپ کے من میں جو احترام ہے، اس نے ہندوستانیوں کے دل کو چھولیا ہے۔ تاشقند سے ہندوستان کے سابق وزیراعظم جناب لال بہادر شاستری کی یادیں وابستہ ہیں۔ شاستری جی کی یادگار اور لال بہادر شاستری اسکول کی بازیابی کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان دونوں عظیم لیڈروں کی تاریخ پیدائش کی ماقبل شام آپ کی ہندوستان میں موجودگی ہمارے لئے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ عالی جناب، یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دفاعی رشتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج کی ملاقات کے دوران ہم نے مشترکہ فوجی مشق اور فوجی تعلیم و تربیت سمیت دیگر ضروری شعبوں میں دفاعی تعاون میں اضافہ کرنے کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ صدر موصوف، آپ سے صلاح و مشورے نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ بھارت اور ازبیکستان ایک محفوظ اور خوش حال خارجی ماحول چاہتے ہیں۔ علاقائی امن و استحکام کے لئے ازبیکستان کی کوششوں کی ہم ستائش کرتے ہیں۔ اس میں ہندوستان، ازبیکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گا۔ مستحکم، جمہوری اور شمولیت پر مبنی و خوش حال افغانستان ہمارے پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان مستقل طور پر روابط قائم رکھنے کا فیصلہ ہم نے کیا ہے۔ ثقافتی اور عوام سے عوام کے روابط ہمارے رشتوں کے بنیادی ستون ہیں۔ ای-ویزا، سیاحت، اکیڈمی تبادلہ اور ایئر کنیکٹیوٹی وغیرہ موضوعات پر آج ہم نے گفتگو کی ہے۔ عالی جناب، اب ہم ایک نئے دور کی جانب بڑھ رہے ہیں، جس میں ہمارے دو فریقی رشتے نئی بلندیاں چھویں گے اور ہماری اسٹریٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط کریں گے۔ ایک بار پھر آپ کا اور آپ کے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے میں ہندوستان میں آپ کے خوشگوار اور نتیجہ خیز قیام کے تئیں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ تھینک یو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ م م۔ م ر(,উজবেকিস্তানৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণ কালত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰেছ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D9%88%D8%A6%D8%B2-%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D9%88-%D9%88%D9%84%D9%88%D9%84%D8%A7-%D8%AF%D8%A7%D8%B3%D9%84%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AF/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے لوئزانیشیوولولا دا سلوا کو برازیل کے صدر کاعہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی ہے ۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا: ‘‘لوئز انیشیو ولولٔا دا سلوا کو برازیل کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پرمبارکباد ۔ میں صدرکے طورپران کی تیسری کامیاب مدت کا خواہش مند ہوں اور بھارت –برازیل اسٹراٹیجک ساجھیداری کو مستحکم بنانے کی غرض سے ان کے ساتھ مل کرکام کرنے کا منتظرہوں ۔,ব্ৰাজিলৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ দায়িত্ব লোৱাৰ বাবে লুইজ ইনাচিও লুলা দা চিলভাক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত��ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D9%86%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE/,1۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 16 ستمبر 2022 کو، ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ اجلاس کے شانہ بہ شانہ ، جمہوریہ ترکی کے صدر عزت مآب جناب رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی۔ 2۔ دونوں قائدین نے بھارت – ترکی کے مابین تعلقات کا جائزہ لیا۔ حالیہ برسوں میں افزوں اقتصادی تعلقات خصوصاً باہمی تجارت کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے اقتصادی اور کاروباری روابط میں مزید اضافہ کرنے کے لیے امکانات کو تسلیم کیا۔ 3۔ دونوں قائدین نے علاقائی اور عالمی ترقی کے موضوع پر بھی تبادلہ خیالات کیے۔ دونوں قائدین نے نہ صرف باہمی موضوعات ، بلکہ خطے کے مفاد کے لیے بھی باقاعدہ طور پر روابط قائم رکھنے پر اتفاق کیا۔ سمرقند 16 ستمبر 2022,এছচিঅ’ শীৰ্ষ সন্মিলনৰ মাজত তুৰস্ক গণৰাজ্যৰ ৰাষ্ট্ৰপতি শ্ৰীমান ৰেচেপ তায়িপ এৰদোগানৰ সৈতে বৈঠকত প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AC%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%DA%A9%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%B9-2022-%DA%A9%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جین انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن کے ‘جیٹو کنیکٹ 2022’ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے آج کے پروگرام کے تھیم میں ‘سب کا پریاس’ کے جذبے کا ذکر کیا اور کہا کہ آج دنیا ترقی کے متعلق ہندوستان کے عزائم کو اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھ رہی ہے۔ عالمی امن ہو، عالمی خوشحالی ہو، عالمی چیلنجوں سے متعلق حل ہوں یا عالمی سپلائی چین کی مضبوطی، ہر شعبے کے حوالے سےدنیا بڑے اعتماد کے ساتھ ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘ میں ابھی بہت سے یورپی ممالک کو 'امرت کال' کے لیے ہندوستان کے پختہ عزائم کے بارے میں مطلع کرنے کے بعد واپس آیا ہوں۔’’ وزیر اعظم نے کہا کہ مہارت کا جو بھی شعبہ ہو، غورو فکر کا میدان ہو اور لوگوں کے درمیان جس قسم کا بھی اختلاف رائے ہو، اس سب کے باوجود سب لوگ نئے ہندوستان کے عروج کے ذریعہ متحد ہیں۔ آج ہر کوئی محسوس کر رہا ہے کہ ہندوستان اب ‘امکان اور صلاحیت’ سے آگے بڑھ رہا ہے اور عالمی بہبود کا ایک بڑا مقصد انجام دے رہا ہے۔ صاف مقاصد، صاف نیت اور سازگار پالیسیوں کے اپنے پہلے کے دعوے کو دہراتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ آج ملک ہنر مندی، تجارت اور ٹیکنالوجی کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک ہر روز درجنوں اسٹارٹ اپ رجسٹر کر رہا ہے، اور اس طرح ہر ہفتے ایک نیا یونی کورن وجود میں آرہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب سے گورنمنٹ ای۔مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم پورٹل وجود میں آیا ہے، تمام خریداری سب کے سامنے ایک پلیٹ فارم پر کی جاتی ہے۔ اب دور دراز کے دیہاتوں کے لوگ، چھوٹے دکاندار اور اپنی مدد آپ گروپس براہ راست حکومت کو اپنی مصنوعات فروخت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج 40 لاکھ سے زیادہ فروخت کنندگان جی ای ایم پورٹل میں شامل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ‘ کاغذ کے استعمال کے بغیر’ شفاف ٹیکس اسیسمنٹ، ایک ملک ایک ٹیکس، پیداوار سے منسلک ترغیبی اسکیموں کے بارے میں بھی بات کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مستقبل کے لیے ہمارا راستہ اور منزل واضح ہے۔ ‘‘آتم نربھر بھارت ہمارا راستہ بھی ہے اور ہمارا عزم بھی۔ کئی سالوں میں، ہم نے اس کے لیے ہر ضروری ماحول پیدا کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔’’ وزیر اعظم نے اجتماع میں شریک لوگوں پر زور دیا کہ وہ ای اے آر ٹی ایچ کے لیے کام کریں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ‘ای’ کا مطلب ماحولیات کی خوشحالی ہے۔ انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر بھی بات کریں کہ وہ اگلے سال 15 اگست تک ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنانے کی کوششوں کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔‘اے’ کا مطلب ہے زراعت کو زیادہ منافع بخش بنانا اور قدرتی کاشتکاری،زرعی ٹیکنالوجی اور خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا۔‘آر’ کا مطلب ہے ری سائیکلنگ اور مدوّر معیشت پر زور دینا، دوبارہ استعمال، تخفیف کرنے اور ری سائیکل کے لیے کام کرنا۔‘ٹی’ کا مطلب ہے ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک لے جانا۔ انہوں نے سامعین پر زور دیا کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ وہ ڈرون ٹیکنالوجی جیسی دیگر جدید ٹیکنالوجی کو کس طرح مزید قابل رسائی بنا سکتے ہیں۔‘ایچ’ کا مطلب ہے – صحت کی دیکھ بھال، انہوں نے کہا کہ آج حکومت ملک کے ہر ضلع میں صحت کی دیکھ بھال، اور میڈیکل کالج جیسے انتظامات کے لیے بہت کام کر رہی ہے۔ انہوں نے موجود شرکاء سے کہا کہ وہ سوچیں کہ ان کی تنظیم اس کی حوصلہ افزائی کیسے کر سکتی ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ‘জিআইটিঅ’ কানেক্ট ২০২২’ৰ উদ্বোধনী অধিৱেশনত ভাষণ প্ৰদান কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%AC%DB%92-%D8%AF%D8%B4%D9%85%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سات نئی دفاعی کمپنیوں کو قوم کے لیے وقف کرنے کے سلسلے میں وزارت دفاع کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں ویڈیو کے زریعے خطاب کیا۔ وزیر دفاع جناب راجناتھ سنگھ اور دفاع کے وزیر مملکت جناب اجے بھٹ اور دیگر ہستیاں اس موقع پر موجود تھی۔ اپنی تقریب میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج وجے دشمی کے با برکت موقع اور اس دن اسلہ جات کی پوجا کی روایت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان میں ہم طاقت کو تخلیق کا زریعہ مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی جزبے کے ساتھ قوم استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کو بھی خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ڈاکٹر عبد الکلام نے ایک مضبوط ملک کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا تھا اور کہا کہ آرڈننس مفیکٹریوں کی تشکیل نو اور سات کمپنیوں کے قیام سے مضبوط ہند ستان کے ان کے خواب کو مستحکم کہا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان کی آزادی کے اس امرت کال کے دوران ملک کاایک نیا نستقبل تعمیر کرنے کے مختلف عرائم کے ایک حصے کے طور پر ایک نئی دفاعی کمپنیوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کمپنیوں کے قیام کا فیصلہ طویل عرصے سے التواءمیں تھا اور انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ آنے والے وقت میں یہ بات نئی کمپنیاں ملک کی فوجی طاقت کے لیے ایک مضبوط بنیاد بنیں گی۔ ہندستانی آرڈننس فیکٹریوں کے ماضی کی بات کرےت ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ان کمپنیوں کا معیار بہتر بنانے کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک کو اپنی ضروریات کے لیے غیر ملکی سپلائروں پر اعتماد کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ یہ سات دفاعی کمپنیاں اس صورتحال کو بدلنے میں اہم رول ادا کرینگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کمپنیاں آتم نربھر بھارت کے ویژن کے عین مطابق ایک اہم متبادل بنیں گی۔ 65 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کیا آرڈر بُک ان کمپنیوں پر ملک کے بڑھتے اعتماد کا مظہر ہے۔ انہوں نے ماضی قریب میں کیے گئے کئی اقدامات اور اصلاحات کا ذکر کیا جن سے دفاع کے سیکٹر میں اعتماد ، شفافیت اور ٹکنا لوجی پر مبنی نظریہ اس طرح سے سامنے آیا ہے جس کی اس سے پہلے مثال بنیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ قومی سیکیورٹی کے مشن میں نجی اور سرکادی سیکٹر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے نئے نظرئیے کی مثال کے طور پر اتر پردیش اور تملناڈو ڈیفنس کو ریڈورز کے نام لیے۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ نو جوانوں اور MSME کے لیے نئے مواقع ابھر رہے ہیں، ملک حالیہ برسوں میں باہمی میں تبدیلی کے نتیجے دیکھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری دفاعی بر آمدات میں گذشتہ پانچ برس کے دوران 325 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ ہماری کمپنیاں نہ صرف یہ کہ اپنی پیداوار میں مہار ت قائم کریں بلکہ یہ ایک گلوبل برانڈ بنیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جبکہ مسابقانہ قیمت ہماری طاقت ہے، معیار اور بھروسہ مندی ہماری شناخت ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں صدی میں کسی بھی قوم یا کسی بھی کمپنی کی ترقی اور برانڈ ویلیو اسکی تحقیق و ترقی اور اختراع سے جانی جاتی ہے۔ انہوں نے نئی کمپنیوں سے اپیل کی کہ تحقیق اور اخراع ان کے کام کا ج کا حصہ ہو نا چاہئے تاکہ وہ نہ صرف برابری پر آئیں بلکہ مستقبل کی ٹکنا لوجیز کی قیادت کریں۔ اس تشکیل نو سے نئی کمپنیوں کو اختراع اور مہارت کے حصول کے لیے اور زیادہ خود مختاری حاصل ہوگی اور نئی کمپنیاں اس نوعیت کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہوں نے اسٹارٹ اپس پر زور دیا کہ وہ ان کمپنیوں کے زریعے نئے سفر کا حصہ بنیں اور ایک دوسرے کے تحقیق اور مہارت کو بروئے کار لائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان کمپنیوں کو نہ صرف پیداوار کا بہتر ماحول فراہم کیا ہے۔ بلکہ کام کاج میں مکمل خود مختاری بھی دی ہے۔ کام کاج میں خود مختاری اور بہتر کار کردگی کویقینی بنانے کے لیے اور ترقی کے امکانات اور اختراع کو بروائے کار لانے کے لیے حکومت کے آرڈننس فیکٹری میں بورڈ کو حکومت کے ڈپارٹمنٹ سے سو فیصد سرکاری ملکیت والے کورپوریٹ اداروں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد دفاع کے شعبے میں خود کفالت کو بہتر بنانا ہے۔ اس طرح سات نئی کمپنیوں کو شامل کیا گیا جن کے نام ہیں۔ میونیشن انڈیا لمیٹڈ (MIL)، آرمڈ وھیکل نگم لمیٹڈ (AVANI) اینڈ دانس ویپن اینڈ ایکیوپمنٹ انڈیا لمیٹڈ (اے ڈبلو ای۔ انڈیا)، ٹروپ کمفرٹ لمٹڈ (TCL)، ینترا انڈیا لمٹڈ (YIL)، انڈیا اوپٹیل لمٹڈ (IOL) اور گلائیڈرس انڈیا لمٹڈ (GIL) <><><><><> ش ح،ع س، ج,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বিজয়া দশমীৰ পৱিত্ৰ উপলক্ষত ৭টা নতুন প্ৰতিৰক্ষা কোম্পানীৰ উৎসৰ্গা কাৰ্য্যসূচীত ভিডিঅ’ ভাষণ প্ৰদান কৰিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D8%AA%DA%BE%DB%8C%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%DB%81%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A6%E0%A6%BF-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A5/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آدی کریتھیگئی کے خصوصی دن پر ہر ایک کو مبارکباد دی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ : آدی کریتھیگئی کے خصوصی دن کے موقع پر ہر ایک کو میری مبارکباد ۔ ہم پرارتھنا کرتے ہیں کہ بھگوان موروگا کا آشیرواد ہمیشہ ہم پر قائم رہے اور بھگوان ہمیشہ ہمارے سماج کی صحت اور خوشحالی کو یقینی بنائے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আদি কৃথিগাইৰ শুভেচ্ছা জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%DB%8C%D9%88%D8%B4-%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A7%9F%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A6%A3/,نئی دہلی ،6؍مارچ :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے پیرکے روز ، حالیہ مرکزی بجٹ میں اعلان کی گئی قومی صحتی تحفظ اسکیم آیوش مان بھارت کے آغازسے قبل کی تیاریوں کاجائزہ لیا۔ دوگھنٹے سے زائد چلنے والی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران ، وزیراعظم کے دفترکے سرکردہ افسران، وزار صحت اورکنبہ بہبود اور نیتی آیوگ کے افسران نے اس اسکیم کے آسان نفاذ کے سلسلے میں وزیراعظم کو ، اب تک کئے گئے کام کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس اسکیم کے تحت ہرکنبے کو 5لاکھ روپے کا کور فراہم کرایاجائیگا ۔ اس کے تحت 10کروڑسے زائد غریب اور نادارکنبوں کوفائدہ پہنچانے کا نشانہ مقررکیاگیاہے ۔ مستفدین پورے بھارت میں بغیرنقد ادائیگی کے فوائد حاصل کرسکیں گے ۔ وزیراعظم نے صحت اور صحت سے متعلق مراکز کے توسط سے جامع بنیادی حفظان صحت خدمات کی فراہمی کی تیاریوں کا بھی جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے افسران سے کہاکہ وہ ایک باقاعدہ طورپرڈیزائن کردہ اورنشان زد اسکیم کے ساتھ کام کریں تاکہ ناداروں اورمعاشروں کے کمزورطبقات کو فائدہ حاصل ہوسکے ۔,আয়ুষ্মান ভাৰতৰ শুভাৰম্ভণিৰ প্ৰস্তুতি সন্দৰ্ভত পৰ্যালোচনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%85%D8%A8%DB%8C%DA%88%DA%A9%D8%B1-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئی دہلی،14 اپریل / وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ملک کے عوام کوآئین ہند کے معمار آنجہانی ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکرکی جینتی کی مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے اپنی مبارکباد کی پیغام میں کہا ‘‘آئین ہند کے معمار اور سماجی انصاف کے علمبردار بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کو ان کی جینتی پر بصد احترام سلام عقیدت –جے بھیم ۔,আম্বেদকাৰ জয়ন্তী উপলক্ষে জনতালৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%AC%DB%8C-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%84%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں سی ڈبلیو جی 2022 میں مردوں کی لمبی چھلانگ میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر ایم سری شنکر کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘ایم سری شنکر کا سی ڈبلیو جی میں چاندی کا تمغہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا کئی دہائیوں کے بعد ہوا ہے کہ ہندوستان نے سی ڈبلیو جی میں مردوں کی لمبی چھلانگ میں تمغہ جیتا ہے۔ ان کی کارکردگی ہندوستانی ایتھلیٹکس کے مستقبل کے لئے اچھی علامت ہے۔ انہیں مبارک باد۔ آنے والے وقتوں میں شاندار کارکردگی کے لئے نیک خواہشات’’,কমনৱেলথ গেমছ ২০২২ ত পুৰুষৰ লং জাম্পত ৰূপৰ পদক বিজয়ী এম শ্ৰীশংকৰক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%93%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے جاپان کے سابق وزیراعظم آبے شینزو پرحملے پرگہرے دکھ کا اظہار کیاہے ۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا : ‘‘میرے عزیز دوست آبے شینزو کے حملے سے بہت دکھ ہواہے ۔ میری ہمدردی اور دعائیں ان کے ، ان کے اہل خانہ اورجاپان کے عوام کے ساتھ ہیں۔’’,প্রধানমন্ত্রীয়ে জাপানৰ প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী আবে শ্বিঞ্জোৰ ওপৰত হোৱা আক্ৰমণত স্তম্ভি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85-%D8%A8%DB%81%D8%AA-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%8C%DA%A9-%D9%81%D8%B1%D9%82-%D8%B3%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DB%81%D8%A7%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D8%A8%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%B9%E0%A6%95%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A6%BF-%E0%A6%85%E0%A6%B2%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B9/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ ہم بہت معمولی فرق سے خواتین ہاکی مقابلوں میں تمغہ حاصل کرنے سے چوک گئے۔لیکن ہماری اس ٹیم نے نئے ہندوستان کے جذبے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے، جہاں ہم نے اپنی بہترین صلاحتیں بروئے کار لاتے ہوئے نئی بلندیوں کو سر کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ٹوکیو اولمپکس 2020 میں اپنے خواتین ہاکی ٹیم کے عظیم ترین مظاہرے کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اپنی مسلسل ٹوئیٹس میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘ ہم ٹوکیو اولمپکس 2020 میں اپنے خواتین ہاکی ٹیم کے عظیم ترین مظاہرے کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔انہوں نے پورے مقابلے کے دوران اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ہماری ٹیم کی ہر رکن کھلاڑی زبردست حوصلہ ، مہارت اوردفاعی صلاحیت کی حامل ہے،ہندوستان کو اپنی عظیم الشان ٹیم پر فخر ہے۔ ہم خواتین کے ہاکی مقابلوں میں کوئی تمغہ حاصل کرنے سے بہت باریک فرق سے چوک گئے،لیکن اس ٹیم نے نئے ہندوستان کے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔جہاں ہم نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی بلندیاں سر کی ہیں۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ٹوکیو2020 میں ان کی کامیابی بھارت کی دیگر نوجوانوں لڑکیوں کو ہاکی میں دلچسپی لینے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ترغیب دیں گی۔مجھے اس ٹیم پر فخر ہے’’۔,মহিলা হকীত আমি অলপৰ বাবেহে পদকৰ পৰা বঞ্চিত হ’লো যদিও এইটো দলে নতুন ভাৰতৰ আত্মাক প্ৰতিবিম্বিত কৰিছে : প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%D9%85%D9%86%D8%AF-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-8-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گزشتہ 8 سالوں کے دوران بھارت میں حفظان صحت کے شعبہ کو مضبوط کرنے کے لیے اٹھائے گئے قدم کی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ میں کہا: ’’ہر ایک کی صحت نئے بھارت کا عزم مصمم ہے۔ آیوشمان بھارت سے لے کر جن اوشدھی کیندر تک اور میڈیکل انفراسٹرکچر سے لے کر مفت ٹیکہ کاری تک، ملک نے جو راہ طے کی ہے وہ آج پوری دنیا کے لیے ایک مثال بنی ہے۔ #صحت مند بھارت کے 8 سال‘‘ ’’آنے والے سال ان لوگوں کے ہوں گے، جنہوں نے حفظان صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی ہے۔ ہماری سرکار نے بھارت میں حفظان صحت کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے جو کام کیا ہے، اس پر مجھے فخر ہے۔ #صحت مند بھارت کے 8 سال‘‘ ’’حفظان صحت ہمارے اہم فوکس شعبوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ 8 سال ہیلتھ انفراسٹرکچر کو بڑھانے، ہر ہندوستانی کے لیے سستی اور معیاری طبی خدمات کو یقینی بنانے اور اس شعبہ کے ساتھ ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے کے بارے میں رہے ہیں۔#صحت مند بھارت کے 8 سال‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ‘স্বাস্থ্যৱান ভাৰতৰ ৮ বছৰ’ৰ বিৱৰণ শ্বেয়াৰ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A2%D8%A8-%D9%BE%DB%8C%D9%B9%D8%B1-%D9%81%DB%8C%D8%A7%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D9%88-%DA%86%DB%8C%DA%A9-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%95-%E0%A6%97%E0%A6%A3%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 28 نومبر 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے عزت مآب پیٹر فیالا کو چیک جمہوریہ کے وزیر اعظم کے طور پر تقرری کے لیے مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ عزت مآب پیٹر فیالا، چیک جمہوریہ کے وزیر اعظم کے طور پر آپ کی تقرری کے لیے مبارکباد۔ بھارت۔چیک تعلقات کو مزید آگے لے جانے کے لیے ، میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بے صبری سے منتظر ہوں۔‘‘,চেক গণৰাজ্যৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী হিচাপে নিযুক্তি লাভ কৰাৰ বাবে মহামহিম পেটৰ ফিয়ালাক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DB%8C%DA%86%D9%88-%D8%A7%D9%93%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی،31اکتوبر2018؍ میں بولوں گا سردارپٹیل، آپ لوگ بولیں گے-امر رہے، امر رہے۔ سردار پٹیل۔ امر رہے، امررہے، سردار پٹیل۔ امر رہے، امررہے، سردار پٹیل امر رہے، امررہے، میں ایک اور نعرہ چاہوں گا، جو اس زمین سے ہر لمحہ اس ملک میں گونجتا رہے۔ میں کہوں گا، ملک کا اتحاد، آپ بولیں گے-زندہ باد، زندہ باد۔ ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔ ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔ ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔ ملک کا اتحاد-زندہ باد، زندہ باد۔ اسٹیج پربراجمان گجرات کے گورنر جناب اوم پرکاش کوہلی جی، ریاست کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، کرناٹک کے گورنر جناب وجوبھائی والا، مدھیہ پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل، پارل��منٹ میں میرے ساتھی اور راجیہ سبھا کے رکن جناب امت بھائی شاہ، گجرات کے نائب وزیر اعلیٰ جناب نتن بھائی، اسمبلی کے اسپیکر راجیندر جی اور ملک اور بیرون ملک سے یہاں موجود عظیم شخصیات اور میرے پیارے بھائیو اور بہنوں۔ ماں نرمدا کے اس مقدس دھارا کے کنارے پر ست پُڑا اور وندھ کے آنچل میں اس تاریخی موقع پر میں آپ سبھی کا، ملک کے باشندوں کا، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستانیوں کا اور ہندوستان سے محبت کرنے والے ہر کسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج پورا ملک سردار بلبھ بھائی پٹیل کی یاد میں راشٹریہ ایکتا دوس منا رہا ہے۔ اس موقع پر ملک کے کونے کونے میں بھارت کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے ہمارے نوجوان دوڑ لگا رہے ہیں۔ رن فار یونٹی اس میں حصہ لینے والے سبھی حصہ داروں کا بھی میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کی حب الوطنی ہی اور یہی حب الوطنی کا جذبہ ہے جس کے دم پر ہزاروں برسوں سے چلی آرہی ہماری تہذیب فروغ پا رہی ہے۔ ساتھیوں کسی بھی ملک کی تاریخ میں ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ تکمیل کا احساس کراتے ہیں۔ آج یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو کسی قوم کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج ہوجاتا ہے اور اس کو مٹاپانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج کا یہ دن بھی بھارت کی تاریخ کے ایسے ہی کچھ لمحوں میں سے ایک اہم ترین لمحہ ہے۔ بھارت کی شناخت، بھارت کے احترام کے لئے وقف ایک عظیم شخصیت کو مناسب مقام دینے کا ایک ادھورا پن لے کر کے آزادی کے اتنے برسوں تک ہم چل رہے تھے۔ آج بھارت کے موجودہ دور نے اپنی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت کو اجاگر کرنے کا کام کیا ہے۔ آج جب زمین سے لے کر کے آسمان تک سردار صاحب کا ابھیشیک ہورہا ہے، تب بھارت نے نہ صرف اپنے لئے ایک نئی تاریخ رچی ہے، بلکہ مستقبل کے لئے ترغیب کی بنیاد بھی تیار کی ہے۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے سردار صاحب کے اس عظیم مجسمے کو ملک کو معنون کرنے کا موقع ملا ہے۔ جب میں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طورپر اس کا ارادہ کیا تھا تو احساس نہیں تھا کہ ایک دن وزیر اعظم کے طورپر مجھے یہ کام کرنے کا موقع ملے گا۔ سردار صاحب کے اس آشیرواد کے لئے، ملک کے ہزاروں لاکھوں عوام کے آشیرواد کے لئے میں اسےخود کے لئے اعزاز مانتا ہوں۔آج گجرات کے لوگوں نے مجھے جو سپاس نامہ دیا ہے اس کے لئے بھی میں گجرات کے عوام کا بہت بہت ممنون ہوں۔ میرے لئے یہ اعزاز نامہ یا سپاس نامہ نہیں ہے، لیکن میں جس مٹی میں پلا بڑھا، جن کے بیچ میں تہذیب ملی اور جیسے ماں اپنے بیٹے کی پشت پر ہاتھ رکھتی ہے، تو بیٹے کی طاقت ، جذبہ اور اس کی توانائی ہزاروں گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آج آپ کے اس اعزاز نامے میں میں وہ آشیرواد محسوس کررہا ہوں۔ مجھے لوہا ابھیان کے دوران ملے لوہے کا پہلا ٹکڑا بھی سونپا گیا ہے۔ جب احمد آباد میں ہم نے ابھیان شروع کیا تھا تو جس ترنگے کو لہرایا گیا تھا وہ مجھے تحفے کی شکل میں دیا گیا ہے۔ میں آپ سبھی کے تئیں ، گجرات کے لوگوں کے تئیں احسان مند ہوں اور میں ان چیزوں کو یہیں پر چھوڑوں گا تاکہ آپ یہاں کے میوزیم میں اسے رکھ پائیں، تاکہ ملک کو پتہ چلے۔ مجھے وہ پرانے دن یاد آرہے ہیں اور آج جی بھر کرکے بہت کچھ کہنے کا دل بھی کرتاہے۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب ملک کے بھر کے گاؤں کے کسانوں سے مٹی مانگی گئی تھی اور کھیتی میں کام کئے گئے پرانے اوزار اکٹھا کرنے کا کام چل رہا تھا۔ جب ملک بھر کے لاکھوں گاوؤں کے کروڑوں کسان کنبوں نے خود آگے بڑھ کر اس مجسمہ کی تعمیر کو ایک عوامی تحریک کی شکل دے دی تھی۔ جب ان کے ذریعے دیئے اوزاروں سے سینکڑوں میٹرک ٹن لوہا نکالا اور اس مجسمہ کی ٹھوس بنیاد تیار کی گئی۔ ساتھیوں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب یہ خیال میں نے سامنے رکھا تھا تو خدشات اور اندیشے کا بھی ماحول بنا تھا اور میں پہلی بار ایک بات آج ظاہر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ جب یہ تصور ذہن میں چل رہا تھا تب میں یہاں کے پہاڑوں کو کھوج رہا تھا کہ مجھے ایسی کوئی بڑی چٹان مل جائے ، اسی چٹان کی نقاشی کرکے اس میں سے سردار صاحب کا مجسمہ نکالوں ۔ ہر طرح کی جانچ پڑتال کے بعد پایا کہ اتنی بڑی چٹان بھی ممکن نہیں ہے اور یہ چٹان بھی اتنی مضبوط نہیں ہے تو مجھے اپنی سوچ بدلنی پڑی اور آج آپ جو شکل دیکھ رہے ہیں اس سوچ نے اس میں سے جنم لیا۔ میں مسلسل سوچتا رہتا تھا ، لوگوں سے غورو فکر کرتا رہتا تھا اور سب کے مشورے لیتا رہتا تھا اور آج مجھے خوشی ہے کہ ملک کے اس اہم ترین پروجیکٹ سے جڑے عوام نے ملک کے اعتماد کو، اہلیت کو ایک چوٹی پر پہنچا دیا۔ بھائیوں اور بہنوں، دنیا کا یہ سب سے اونچا مجسمہ پوری دنیا کو ، ہماری نسلوں کو ، اس شخص کی ہمت، اہلیت کو یاد دلاتا رہے گا۔ جس نے ماں بھارتی کو کھنڈ کھنڈ ، ٹکڑوں میں کرنے کی سازش کو ناکام کرنے کا مقدس کام کیا تھا۔ جن شخصیت نے ان سبھی اندیشوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم کردیا، جو اس وقت کی دنیا مستقبل کے بھارت کے تئیں جتا رہی تھی۔ ایسے مرد آہن سردار بلبھ بھائی پٹیل کو بہت بہت سلام کرتا ہوں۔ ساتھیوں، سردار صاحب کی ہمت تب بھار ت کے کام آئی تھی جب ماں بھارتی 550 سے زیادہ ریاستوں میں منقسم تھی۔ دنیا میں بھارت کے مستقبل کے تئیں بہت زیادہ مایوسی تھی اور مایوسی کے شکار لوگ اس زمانے میں بھی تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ بھارت اپنی تکثیریت کی وجہ سے ہی منتشر ہوجائے گا۔ حالانکہ ناامیدی کے اس دور میں بھی سبھی کو امید کی ایک کرن نظر آتی تھی اور یہ امید کرن بھی سردار بلبھ بھائی پٹیل تھے۔ انہوں نے 5 جولائی 1947ء کو ریاستوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اور میں مانتا ہوں کہ سردار صاحب کے وہ جملے آج بھی اتنے ہی موزوں ہیں۔ سردار صاحب نے کہا تھا کہ غیر ملکی حملہ آوروں کے سامنے ہمارے آپسی جھگڑے، آپسی دشمنی ، ہماری شکست کی بڑی وجہ تھی۔ اب ہمیں اس غلطی کو نہیں دہرانا ہے اور نہ ہی دوبارا کسی کا غلام ہونا ہے۔ سردار صاحب کے اسی خطاب سے متحد ہونے کی طاقت کو سمجھتے ہوئے ان راجہ رجواڑوں نے اپنی ریاستوں کو ضم کیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بھارت ایک ہوگیا۔سردار صاحب کی اپیل پر ملک کے سینکڑوں راجہ رجواڑوں نے قربانی کی مثال قائم کی تھی۔ ہمیں ان کی قربانی کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاہئے ا ور میرا ایک خواب بھی ہے کہ اسی جگہ کے ساتھ جوڑ کرکے یہ 550 سے زیادہ جو راجہ رجواڑے تھے انہوں نے ملک کے اتحاد کے لئے جو قدم اٹھائے تھے اس کا بھی ایک ورچوئل میوزیم تیار ہو، تاکہ آنے والی نسل کو …ورنہ آج جمہوری طریقے سے ایک تحصیل کا صدر چنا جائے اور اس کو کہا جائے کہ بھائی ایک سال پہلے چھوڑ دو تو بڑا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ ان راجہ مہاراجاؤں نے صدیوں سے اپنے آبا ء و اجداد کی چیزیں ملک کو دے دی تھیں۔ اس کو ہم کبھی بھول نہیں سکتے، اس کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ ساتھیوں! جس کمزوری پر دنیا ہمیں اس وقت طعنے دے رہی تھی اسی کو طاقت بناتے ہوئے سردار پٹیل نے ملک کو راستہ دکھایا تھا۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے بھارت آج دنیا سے اپنی شرطوں پر ڈائیلاگ کررہا ہے۔ دنیا کی بڑی معاشی طاقت بننے کی طرف ہندوستان آگے بڑھ رہا ��ے۔ یہ اگر ممکن ہو پایا ہے تو اس کے پیچھے معمولی کسان کے گھر میں پیدا ہوئے اس غیر معمولی شخصیت کے حامل سردار صاحب کا بڑا تعاون تھا، بہت بڑا رول رہا ہے۔ چاہے جتنا دباؤ کیوں نہ ہو، کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہو انتظامیہ میں حکمرانی کو کیسے قائم کیا جاتا ہے ، یہ سردار صاحب نے کرکے دکھایا ہے۔ کچھ سے لے کرکے کوہیما تک ، کرگل سے لے کر کنیا کماری تک آج اگر بے روک ٹوک ہم جا پارہے ہیں تو یہ سردار صاحب کی وجہ سے، ان کے عزم سے ہی ممکن ہوپایا ہے۔ سردار صاحب نے عزم نہ کیا ہوتا، تھوڑی دیر کے لئے تصور کیجئے میں اپنے ملک کے باشندوں کو جھکجھورنا چاہتاہوں۔ تھوڑی دیر کے لئے تصور کیجئے اگر سردار صاحب نے یہ کام نہ کیا ہوتا ، یہ عزم نہ کیا ہوتا ، تو آج گِر کے لائن اور گِر کے شیر کو دیکھنے کے لئے اور شیو بھکتوں کے لئے سومناتھ میں پوجا کرنے کے لئے اور حیدرآباد کے چار مینار کو دیکھنے کے لئے ہم ہندوستانیوں کو ویزا لینا پڑتا۔ اگر سردار صاحب کا عزم نہ ہوتا تو کشمیر سے کنیاکماری تک کی براہ راست ٹرین کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر سردار صاحب کا عزم نہ ہوتا تو سول سیوا جیسے انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں ہمیں بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ بھائیو ں اور بہنو، 21 اپریل 1947ء کو آل انڈیا ایڈ منسٹریٹیو سروسیز کے پروبیشنرز کو خطاب کرتے ہوئے سردار بلبھ بھائی پٹیل نے کہا تھا اور بڑے لفظ اہم ترین ہے۔ آج بھی جو آئی ایس ،آئی پی ایس ، آئی ایف ایس جو بھی ہیں یہ لفظ ہرکسی کو یاد رکھنا چاہئے، تب سردار صاحب نے کہا تھا اب تک جو آئی سی ایس یعنی انڈین سول سروسیز تھی اس میں نہ تو کچھ انڈین تھا ، نہ وہ سول تھی اور نہ ہی اس میں سروس کا کوئی احساس تھا۔ انہوں نے نوجوانوں سے صورتحال کو بدلنے کی اپیل کی۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا تھا کہ انہیں پوری شفافیت کے ساتھ، پوری ایمانداری کے ساتھ انڈین سول سروسیز کا فخر بڑھانا ہے۔ اسے بھارت کی تشکیل نو کے لئے قائم کرنا ہے۔یہ سردار کی ہی ترغیب تھی کہ انڈین سول سروسیز کا موازنہ اسٹیل فریم سے کیا گیا۔ بھائیوں اور بہنوں سردار پٹیل کو ایسے وقت میں ملک کا وزیر داخلہ بنایا گیا تھا جو بھارت کی تاریخ کا سب سے مشکل دور تھا۔ ان کے ذمے ملک کے وسائل کی از سر نو تشکیل کا ذمہ تھا تو ساتھ میں درہم برہم قانون و انتظام کو سنبھالنے کا فریضہ بھی تھا۔ انہوں نے ان مشکل حالات سے ملک کو باہر نکالتے ہوئے ہمارے جدید پولس نظام کے لئے ٹھوس بنیاد بھی تیار کی۔ خواتین کو بھارت کی سیاست میں سرگرم تعاون دینے کے اختیار کے پیچھے بھی سردار بلبھ بھائی پٹیل کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ جب ملک میں مائیں اور بہنیں پنچایتوں اور شہری اداروں کے انتخابات تک میں حصہ نہیں لے سکتی تھیں،تب سردار صاحب نے اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ان کی پہل پر ہی آزادی کے کئی دہائی پہلے اس بھید بھاؤ کو دور کرنے کا راستہ کھولا گیا تھا۔ وہ سردار صاحب ہی تھے جن کے چلتے آج بنیادی حق جمہوریت کا اہم حصہ ہے۔ ساتھیوں ، یہ مجسمہ سردار پٹیل کے اسی پختہ عہد ، صلاحیت ، جواں مردی اور خیرخواہی کے احساس کی یہ جیتی جاگتی علامت ہے۔ یہ صلاحیت ان کی خیرخواہی اور ان کی وابستگی کا احترام تو ہے ہی یہ نیو انڈیا ، نئے بھارت کی خود اعتمادی کا بھی اظہار ہے۔ یہ مجسمہ بھارت کے وجود پر سوال اٹھانے والوں کو یہ یاد دلانے کے لئے یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم تھا ، قائم دائم ہے اور قائم دائم رہے گا۔ یہ پورے ملک کے ان کسانوں کے وقار ��ی علامت ہے، جن کی کھیت کی مٹی سے اور کھیت کےسازوسامن کے لوہے اس کی مضبوط نیو بنے ہیں اور ہر چیلنج سے ٹکراکر اناج پیدا کرنے کا ان کا جذبہ اس کی روح بنا ہے۔ یہ ان آدی واسی بھائی بہنوں کے تعاون کا اسمارک ہے جنہوں نے آزادی کی تحریک سے لے کر ترقی کے سفر میں اپنا گراں قدر تعاون کیا ہے۔ یہ اونچائی یہ بلندی ہندوستان کے نوجوانوں کو یہ یاد دلانے کے لئے ہے کہ مستقبل کا ہندوستان آپ کی امیدوں کا ہے جو اتنا ہی وسیع ہے۔ ان امیدوں کی تکمیل کی صلاحیت اور منتر صرف اور صرف ایک ہی ہے ’’ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘ ایک بھارت شریسٹھ بھارت، ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘‘۔ دوستوں اسٹیچو آف یونیٹی ، یہ ہماری انجینئرنگ اور تکنیکی صلاحیت کی بھی علامت ہے۔ گزشتہ قریب ساڑھے تین سالوں میں ہر روز اوسطاً ڈھائی ہزار مزدورں نے ، دستکاروں نے ، مشن موڈ پر کام کیا ہے۔ کچھ وقت کے بعد جن کا احترام ہونے والا ہے ۔ 90 کی عمر کو پار کرچکے ہیں ایسے ملک کے معزز دستکار جناب رام سوتار جی کی رہنمائی میں ملک کے ماہر دستکاروں کی ٹیم نے فن کے اس قابل فخر اسمارک کو پورا کیا ہے۔ من میں مشن کا جذبہ قومی یکجہتی کے تئیں خود سپردگی اور بھارت بھکتی کی ہی طاقت ہے جس کی وجہ سے اتنے کم وقت میں یہ کام پورا ہوگیا ہے۔ سردار سروور ڈیم کا سنگ بنیاد کب رکھا گیا اور کتنی دہائی کے بعد اس کا افتتاح ہوا، یہ تو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے ہوگیا۔ اس عظیم کام سے جڑے ہر مزدور، ہر کاریگر ، ہر دستکار ، ہر انجینئر اس میں تعاون کرنے والے ہر کسی کا میں پوری عزت کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں اور سب کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ بالواسطہ اور بالا واسطہ طور سے اس کے ساتھ جڑے آپ سب کا نام بھی سردار جی کے اس مجسمے کے ساتھ تاریخ کا ایک اہم ترین حصہ ہوگیا ہے۔ دوستوں، آج جو سفر ایک منزل تک پہنچا ہے اس کا سفر 8 سال قبل آج ہی کے دن شروع ہوا تھا۔ 31 اکتوبر 2010 کو احمدآباد میں میں نے سب سے پہلے یہ خیال سب کے سامنے رکھا تھا۔ کروڑوں ہندوستانی کی طرح اس وقت میرے ذہن میں ایک ہی جذبہ تھا کہ جس عظیم شخص نے ملک کو ایک کرنے کے لئے اتنا بڑا کام کیا ہے، اس کو وہ احترام ضرور ملنا چاہئے جس کا وہ حقدار ہے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ احترام بھی انہیں اس کسان ، اس مزدور کے پسینے سے ملے جس کے لئے سردار پٹیل نے پوری زندگی جدوجہد کی تھی۔ ساتھیوں سردار پٹیل جی نے کھیڑا سے باردولی تک کسانوں کے استحصال کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی ، ستیہ گرہ کیا بلکہ اس کا حل بھی پیش کیا ۔ آج کی امداد باہمی کی تحریک جو ملک کے کئی گاؤں میں معیشت کی مضبوط بنیاد بن چکی ہے، یہ سردار صاحب کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔ ساتھیوں، سردار پٹیل کا یہ اسمارک ان کے تئیں کروڑوں ہندوستانیوں کے احترام اور اہل وطن کی صلاحیت کی علامت تو ہے ہی یہ ملک کی معیشت ، روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی اہم مقام ہونے والا ہے۔ اس سے ہزاروں آدی واسی بھائی بہنوں کو ہر سال براہ راست روزگار ملنے والا ہے۔ ست پورہ اور وندھیہ کے اس انچل میں رہنے والے آپ سب کوقدرت نے آپ کو جو کچھ سونپا ہے وہ اب جدید شکل میں آپ کے کام آنے والا ہے۔ ملک نے جن جنگلوں کے بارے میں کویتاؤں کے ذریعہ پڑھا تھا، اب ان جنگلوں ، ان آدی واسی روایتوں سے پوری دنیا براہ راست سامنا کرنے والی ہے۔ سردار صاحب کے درشن کرنے والے ٹورسٹ سردار سروور ڈیم ، ست پوڑہ اور وندھیہ کے پہاڑوں کو بھی دیکھ پائیں گے۔ میں حکومت گجرات کی پھر تعریف کروں گا کہ وہ اس مجسمے کے آس پاس کے تمام علاقوں کو ٹورسٹ اسپاٹ کے طور پر فروغ دے رہے ہیں جو پھولوں کی گھاٹی بنی ہے یعنی ویلی آف فلاورس کو اس اسمارک کو پرکشش بنانے والی اور میں تو چاہوں گا کہ یہ ایک ایسی ایکتا نرسری بنے کہ یہاں آنے والا ہر سیاح ایکتا نرسری سے اتحاد کا پودا اپنے گھر لے جائے اور اتحاد کا پیڑ لگائے اور ہر لمحہ ملک کے اتحاد کو یاد کرتا رہے۔ ساتھ ہی سیاحت یہاں کے عوام کی زندگی کو بدلنے والا ہے۔ ساتھیوں، اس ضلع اور اس علاقے کا روایتی علم بہت مالا مال رہا ہے ۔ اسٹیچو آف یونیٹی کی وجہ سے جب سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا تو اس علم کے روایتی گیان کی بھی توسیع ہوگی ۔ اس خطے کی ایک نئی شناخت بنے گی۔ مجھے یقین ہے کہ میں اس علاقے سے جڑا رہا ہوں، اس لئے مجھے کافی چیزیں معلوم ہیں، شاید یہاں بیٹھے ہوئے کئی لوگوں کے دل میں بھی آراہا ہوگا کہ میرے کہنے کے بعد یہاں چاو ل سے بنے اونا- مانڈا ، تہلا- مانڈا ، ٹھکالا- مانڈا یہ ایسے پکوان ہیں جو یہاں آنے والے سیاحوں کو خوب بھائیں گے ، خوب پسند آئیں گے۔ اسی طرح یہاں کثرت سے اگنے والے پودے سے آیوروید سے جڑے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ کھاتی بھنڈی یہاں علاج کے لئے کئی خصوصیات سے بھری ہوئی ہے اور یہاں اس کی پہچان دور دور تک پہنچنے والی ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ اسمارک یہاں پر زراعت کو بہتر بنانے ،آدی واسیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ریسرچ سینٹر بھی بنے گا۔ ساتھیوں، گزشتہ چار برسوں کے دوران ملک کے ہیرو کے تعاون کو یاد کرنے کی ایک بڑی تحریک حکومت نے شروع کی ہے۔ جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اس قت بھی میں ان چیزوں کو کرنا چاہتا تھا۔ یہ ہماری قدیم تہذیب وثقافت ، سنسکار ہے جن کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یہ فلک بوس مجسمہ ہے ، ان کی یاد میں دہلی میں بھی ہم نے ایک جدید میوزیم بنایا ہے ، گاندھی نگر کا مہاتما مندر اور ڈانٹی کٹیر ہو، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے پنچ تیرتھ ہوں ، ہریانہ میں کسان رہنما سر چھوٹو رام کا ہریانہ کا سب سے اونچا مجسمہ ہو ، کچھ کے مانڈوی میں آزادی کے مسلح تحریک کے پرودھا ہوں ، گجرات کی سرزمین کے سپوت شیام جی کرشن ورما کا اسمارک ہو اور ہمارے آدی واسی بھائی بہنوں کے بہادر رہنما گووند گرو کا شردھا استھل ہو، ایسے کئی عظیم رہنماؤں کے اسمارک پچھلے دنوں ہم تیار کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کا دہلی میں میوزیم ہو ، چھتر پتی شیواجی مہاراج کا ممبئی میں شاندار مجسمہ ہو یا پھر ہمارے آدی واسی ہیرو ، ملک کی آزادی کے بہادر ہوں، ان کی یاد میں میوزیم بنانے کا کام ہو ، ان سبھی معاملے پر ہم تاریخ کو ایک بار پھر زندہ کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔ بابا صاحب کے تعاون کو یاد کرنے کے لئے 26 نومبر کو یوم آئین کو جامع بنانے کا فیصلہ ہو یا پھر نیتاجی کے نام پر قومی اعزاز شروع کرنے کا اعلان ہو، یہ ہماری حکومت نے ان تمام باتوں کی شروعات کی ہے۔ لیکن دوستوں کئی بار تو میں حیران رہ جاتا ہوں جب ملک میں ہی کچھ لوگ ہماری اس مہم کو سیاسی چشمے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سردار پٹیل جیسا عظیم شخص ، ملک کے سپوتوں کی تعریف کرنے کے لئے بھی پتہ نہیں ہماری تنقید کی جاتی ہے ، ایسا محسوس کرایا جاتا ہے کہ جیسے ہم نے بڑا جرم کردیا ہے ۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا ملک کے عظیم سپوتوں کو یاد کرنا جرم ہے کیا؟ ساتھیوں ہماری کوشش ہے کہ ہندوستان کی ہر ریاست کے شہری اور ہر شہری کی صلاحیت سردار پٹیل کے ویزن کو آگے بڑھانے میں ، اپنی طاقت کو پورے طور پر بروئے کار لاسکے۔ بھائیوں بہنوں ، سردار پٹیل نے آزاد ہندوستان میں جس طرح کے گاؤں کا تصور کیا تھا اور جس کا ذکر انہوں نے آزادی کے تین چار مہینے پہلے وٹھل بھائی پٹیل کالج کے قیام کے دوران کیا تھا اور سردار صاحب نے کہا تھا کہ ہم اپنے گاؤں میں بہت ہی بے ترتیب طریقے سے گاؤں کی تعمیر کررہے ہیں، سڑکیں بھی بغیر کسی سوچ کے بنائی جارہی ہیں اور گھروں کے سامنے گندگی کا انبار رہتا ہے۔ سردار صاحب نے اس وقت گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کے لئے ، دھوئیں اور گندگی سے آزاد کرنے کی اپیل کی تھی ، مجھے خوشی ہے کہ سردار صاحب نے جو خواب دیکھا تھا، ملک آج اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عوامی حصہ داری کی وجہ سے اب ملک میں گرامین سوچھتا کا دائرہ 95 فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔ بھائیوں اور بہنوں، سردار پٹیل چاہتے تھے کہ ہندوستان مضبوط طاقت ور، حساس ، مستعد اور ہمہ گیر بنے۔ ہماری ساری کوششیں ان کے اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ہورہی ہیں۔ ہم ملک کے ہر بے گھر کو پکا گھر دینے کی بھگیرتھ یوجنا پر کام کررہے ہیں، ہم نے ان 18 ہزار گاؤں تک بجلی پہنچائی ہے جہاں آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی نہیں پہنچی تھی۔ ہماری حکومت سوبھاگیہ یوجنا کے تحت ملک کے ہر گھر تک بجلی کے کنکشن پہنچانے کے لئے دن رات مصروف ہے ۔ ملک کے ہر گاؤں کو سڑک سے جوڑنا ، آپٹیکل فائبر نیٹ ورک سے جوڑنا، ڈیجیٹل کنکٹی ویٹی سے جوڑنے کا کام آج تیز رفتار سے کیا جارہا ہے۔ ملک میں آج ہر گھر میں گیس کا چولہا ہو ، گیس کا کنکشن پہنچے اس کوشش کے ساتھ ہی ملک کے ہر گھر میں بیت الخلاء کی سہولت فراہم کرنے کے لئے کام ہورہا ہے۔ جب میں دنیا کے لوگوں کو بتاتا ہوں تو ان کو حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ کی آبادی ، میکسیکو کی آبادی ، کینیڈا کی آبادی ان سب کو ملالیں اور جتنی آبادی ہوتی ہے اس سے زیادہ لوگوں کے لئے پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا ، ایوش مان بھارت یوجنا شروع کی ہے تو لوگ کبھی کبھی اسے مودی کیئر بھی کہتے ہیں۔ یہ صحت مند ہندوستان کی تعمیر میں مدد کرنے والی اسکیمیں ہیں ۔ وہ ہندوستان کو ایوش مان کرنے والی اسکیمیں ہیں، یہ سب کو ساتھ لے کر اور مضبوط ہندوستان کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کی ہماری بنیاد ، ہمارے حوصلے کا منتر ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ ہے ۔ بھائیوں بہنوں ، سردار صاحب نے ریاستوں کو جوڑ کر ملک کو سیاسی طور پر متحد کیا تھا ۔ وہیں ہماری سرکار نے جی ایس ٹی کے ذریعے سے ملک کو اقتصادی طور پر متحد کیا ہے۔ ون نیشن ، ون ٹیکس کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہے ، ہم ہندوستان جوڑو کے سردار صاحب کے ارادوں کو لگاتار فروغ دے رہے ہیں، خواہ ملک کی بڑی زرعی منڈیوں کو جوڑنے والی انعام یوجنا ہو ، ون نیشن ، ون گرڈ کا کام ہو ، یا پھر بھارت مالا ، سیتوا بھارتم ، بھارت نیک جیسے متعددی پروگرام کے ذریعے ہماری حکومت ملک کو جوڑ کر ’’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘‘ کے سردار صاحب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مصروف ہیں۔ ساتھیوں، آج ملک کے لئے سوچنے والے نوجوانوں کی طاقت ہمارے پاس ہے ، ملک کی ترقی کا یہی ایک راستہ ہے جس کو لے کر سبھی دیش واسیوں کو آگے بڑھنا ہے۔ ملک کے اتحاد ، سالمیت اور خود مختاری کو برقرار رکھنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جو سردار ولبھ بھائی پٹیل ہم ہندوستانیوں کو سونپ کر گئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کو بانٹنے کی طرح طرح کی کوششوں کا پرزور طریقے سے جواب دیں اور اس لئے ہمیں ہر طرح سے چوکنا رہنا ہے۔ سماج کے طور پر متحد رہنا ہے، ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے سردار کے سنسکاروں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ آنے والی نسلوں میں بھی اتارنے کوئی کمی نہیں رکھیں گے۔ ساتھیوں، سردار ولبھ بھائی پٹیل کہتے تھے، ہر ہندوستانی کو ، اور میں سردار صاحب کے الفاظ سنارہا ہوں، سردار صاحب کہتے تھے – ہر ہندوستانی کو یہ بھولنا ہوگا کہ کس ذات یا طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس کو صرف ایک ہی بات یاد رکھنی ہوگی کہ وہ ہندوستانی ہے اور جتنا اس ملک پر حق ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری بھی ہے۔ سردار صاحب کا یہ جذبہ اس بلند مجسمے کی طرح ہمیشہ ہمیں ترغیب دیتا رہے، اس امید کے ساتھ ایک بار پھر اسٹیچو آف یونیٹی کے لئے صرف ہندوستانیوں کا ہی معاملہ نہیں ہے، یہاں پوری دنیا کے ہر ساتھی کو میں مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں لگے ہر کسی کو مبارک باد دیتا ہوں، ماں نرمدا ور تاپتی کی گھاٹیوں میں بسے ہوئے ہر آدی واسی بھائی بہن ، نوجوان ساتھی کو بھی بہتر مستقبل کی دل کی گہرایوں سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ پورا ملک اس موقع پر متحد ہے، پوری دنیا کے لوگ آج اس موقع پر جڑے ہیں اور اتنی امنگ اور توانائی کے ساتھ اتحاد کے منتر کو آگے لے جانے کے لئے یہی اتحاد کا یہ تیرتھ تیار ہوا ہے۔ اتحاد کی ترغیب کا مرکز ہمیں یہاں حاصل ہوا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ہم چلیں اور اوروں کو بھی چلائیں، ہم جڑیں اور اوروں کو بھی جوڑیں اور ہندوستان کو ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ بنانے کے عہد کا خواب لے کر چلیں۔ میرے ساتھ بولیں: سردار پٹیل- جے ہو سردار پٹیل – جے ہو دیش کی ایکتا زندہ باد دیش کی ایکتا- زندہ باد دیش کی ایکتا- زندہ باد دیش کی ایکتا- زندہ باد بہت بہت شکریہ! م ن۔ن ا۔ش س۔ن ع ۔ق ر,গুজৰাটৰ কেৱৰীয়াত ষ্টেচ্যু অব ইউনিটী ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উত্সৰ্গা কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%88%D9%88%D8%B3%D8%AA%D9%88%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF-%DA%86%DA%BE%D9%B9%DB%92-%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D8%A7%D9%82%D8%AA%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B7%E0%A6%B7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 3 ستمبر، 2021 کو ولادی ووستوک میں منعقد چھٹے مشرقی اقتصادی فورم (ای ای ایف) کے مکمل اجلاس کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مخاطب کیا۔ قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم 2019 میں 5ویں ای ای ایف کے مہمان خصوصی تھے، جو کسی ہندوستانی وزیر اعظم کے لیے پہلا موقع تھا۔ روسی دور دراز مشرق کی ترقی کے لیے صدر پوتن کے نظریہ کی تعریف کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بھارت کی ’’مشرق نواز پالیسی‘‘ کے تحت روس کے ایک قابل اعتماد حصہ دار ہونے کے اپنے عزم کو دوہرایا۔ انہوں نے روسی دور دراز مشرق کی ترقی میں بھارت اور روس کی قدرتی تکمیلیت کو نشان زد کیا۔ ’خصوصی اور مخصوص اختیار والی اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘ کے موافق وزیر اعظم نے دونوں فریقین کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے وبائی مرض کے دوران تعاون کے اہم شعبوں کے طور پر ابھرے صحت اور فارما شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ہیرا، کوکنگ کول، اسٹیل، لکڑی سمیت اقتصادی تعاون کے دیگر ممکنہ شعبوں کا بھی ذکر کیا۔ ہندوستانی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ای ای ایف-2019 کے سفر کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے روس کے دور دراز مشرق کے 11 علاقوں کے گورنروں کو بھارت آنے کی دعوت دی۔ کووڈ-19 وبائی مرض کی چنوتیوں کے باوجود، پٹرولیم اور قدرتی گیس کے مرکزی وزیر جناب ہردیپ سنگھ پوری کی قیادت میں ایک ہندوستانی وفد، جس میں اہم ہندوستانی تیل اور گیس کمپنیاں شامل ہیں، ای ای ایف کے تحت بھارت-روس تجارتی مذاکرہ میں شرکت کر رہا ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی اور روس کے سکھا-یاکوتیا صوبہ کے گورنر کے درمیان ای ای ایف کے دوران 2 ستمبر کو ایک آن لائن میٹنگ ہوئی۔ مختلف شعبوں کی مشہور ہندوستانی کمپنیوں کے 50 سے زیادہ نمائندے بھی آن لائن پروگرام میں شرکت کریں گے۔,ভ্লাদিভষ্টকত অনুষ্ঠিত ষষ্ঠ পূৰ্বাঞ্চলীয় অৰ্থনৈতিক ফ’ৰাম ২০২১-ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাৰ্চুৱেল-সম্বোধ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%93%DA%AF-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%AC%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D9%86%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔29؍دسمبر۔وزیراعظم نے ممبئی میں آگ کی وجہ سے جانوں کے تلف ہونے پر دکھ کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’’ممبئی میں آگ کے حادثے پر غم وغصہ ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ،میں متاثرہ کنبوں کے ساتھ ہوں۔ میں اس حادثے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کرتا ہوں۔‘‘,মুম্বাইৰ অগ্নিকাণ্ডত প্ৰাণহানি হোৱা লোকসকলৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%81%D9%88%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%DB%81%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج فون پر ہنگری کے وزیراعظم عزت مآب وکٹر اوربن سے بات چیت کی۔ دونوں لیڈروں نے یوکرین کی موجودہ صورت حال پر بات چیت کی اور فوری طور پر جنگ بندی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر اور سفارت اور مذاکرات کی طرف لوٹنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے یوکرین۔ ہنگری سرحد کے ذریعہ 6 ہزار سے زیادہ ہندوستانی شہریوں کے انخلا کی سہولت فراہم کرانے کے لئے عزت مآب اوربن اور ہنگری کی حکومت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم اوربن نے یوکرین سے لوٹنے والے بھارت کے میڈیکل طلبا کےلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اگر چاہیں تو ہنگری میں اپنا مطالعہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس فیاضانہ پیش کش کے لئے ان کی تعریف کی۔ دونوں لیڈروں نے ابھرتی ہوئی صورت حال کے سلسلے میں رابطے میں رہنے اور تنازع کو ختم کرانے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,হাংগেৰীৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী মহামহিম ভিক্টৰ অৰবানৰ সৈতে টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AE%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج پنجاب کے سابق وزیراعلی پرکاش سنگھ بادل کو ان کی یوم پیدائش پر مبارک باد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیراعظم نے کہا کہ: ‘‘ وہ ہندوستان کی ایک سب سے معزز اور قابل احترام شخصیت اور دانشور جناب پرکاش سنگھ بادل جی کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔انہوں نے پنجاب خصوصاً معاشرے کے کمزور طبقوں کی ترقی کے لئے بہت سخت محنت کی ہے۔ میں ان کی طویل عمر کے لئے دعا گو ہوں اور میری خواہش ہے کہ وہ صحت مند زندگی گزاریں۔’’,পঞ্জাৱৰ প্ৰাক্তন মুখ্যমন্ত্ৰী শ্ৰী প্ৰকাশ সিং বাদলক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%AC%D9%B9-2022-23-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A7%A8%E0%A7%A9/,نئی دہلی، 2/فروری 2022 ۔ یہ بجٹ 100 سال کے خطرناک بحران کے درمیان ترقی کا نیا اعتماد لے کر آیا ہے۔ یہ بجٹ معیشت کو مضبوطی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لئے متعدد نئے مواقع پیدا کرے گا۔ یہ بجٹ زیادہ بنیادی ڈھانچہ، زیادہ سرمایہ کاری، زیادہ ترقی اور زیادہ نوکریوں کے نئے امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک نیا شعبہ اور وَا ہوا ہے۔ اور وہ ہے گرین جابس کا۔ یہ بجٹ موجودہ ضرورتوں کا حل بھی پیش کرتا ہے اور ملک کے نوجوانوں کے روشن مستقبل کی بھی یقین دہانی کراتا ہے۔ میں پچھلے کچھ گھنٹوں سے دیکھ رہا ہوں، جس طرح سے اس بجٹ کا ہر حلقے میں استقبال ہوا ہے، عام لوگوں کا جو مثبت ردّعمل سامنے آیا ہے، اس نے عام لوگوں کی خدمت کرنے کا ہمارا حوصلہ کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں جدت آئے، ٹیکنالوجی آئے، جیسے کسان ڈرون ہوں، وندے بھارت ٹرین ہوں، ڈیجیٹل کرنسی ہو، بینکنگ کے شعبے میں ڈیجیٹل اکائیاں ہوں، 5جی سروسیز کا رول آؤٹ ہو، نیشنل ہیلتھ کے لئے ڈیجیٹل ایکوسسٹم ہو، اس کا فائدہ ہمارے نوجوانوں، ہمارے متوسط طبقے کے لوگ، غریب دلت پسماندہ، تمام فرقوں کو ملے گا۔ اس بجٹ کا ایک اہم پہلو ہے – غریبوں کی بہبود۔ ہر غریب کے پاس پختہ گھر ہو، نل سے پانی آتا ہو، اس کے پاس بیت الخلاء ہو، گیس کی سہولت ہو، ان تمام باتوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدید انٹرنیٹ کنکٹیویٹی پر بھی اتنا ہی زور ہے۔ جو ہندوستان کے پہاڑی علاقے ہیں، ہمالیہ کی پوری پٹی، وہاں زندگی آسان ہو، وہاں سے ہجرت نہ ہو، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے بھی نئے اعلانات کئے گئے ہیں۔ ہماچل، اتراکھنڈ، جموں و کشمیر، نارتھ ایسٹ، ایسے خطوں کے لئے پہلی بار ملک میں پروت مالا یوجنا شروع کی جارہی ہے۔ یہ یوجنا پہاڑوں پر ٹرانسپورٹیشن اور کنکٹیوٹی کی جدید سہولتوں کی تعمیر کرے گی۔ اور اس سے ہمارے ملک کے جو سرحدی گاؤں ہیں، جن کا وائبرینٹ (متحرک) ہونا ضروری ہے، جو ملک کی سکیورٹی کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس کو بھی بہت بڑی طاقت ملے گی۔ ہندوستان کے لاکھوں کروڑوں عوام کا اعتقاد، ماں گنگا کی صفائی کے ساتھ ساتھ کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ اتراکھنڈ، اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، ان ریاستوں میں گنگا کنارے، نیچرل فارمنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس سے ماں گنگا کی صفائی کی جو مہم ہے اس میں ماں گنگا کو کیمیکل سے آزاد کرانے میں بہت بڑی مدد ملے گی۔ بجٹ کے التزامات یہ یقینی بنانے والے ہیں کہ زراعت سودمند ہو، اس میں نئے مواقع پیدا ہوں۔ نئے ایگریکلچر اسٹارٹ اَپس کی حوصلہ افزائی کے لئے خصوصی فنڈ ہو یا پھر فوڈ پروسیسنگ صنعت کے لئے نیا پیکیج، اس سے کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ایم ایس پی خرید کے توسط سے کسانوں کے کھاتے میں سوا دو لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ براہ راست ٹرانسفر کئے جارہے ہیں۔ کورونا کے دور میں ایم ایس ایم ای یعنی ہماری چھوٹی صنعتوں کی مدد اور ان کے تحفظ کے لئے ملک نے مسلسل متعدد فیصلے کئے تھے۔ مختلف طریقے سے مدد پہنچائی گئی تھی۔ اس بجٹ میں کریڈٹ گارنٹی میں ریکارڈ اضافہ کے ساتھ ہی کئی دیگر منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ دفاع کے کیپٹل بجٹ کا 68 فیصد ڈومیسٹک انڈسٹری کو ریزرو کرنے کا بھی بڑا فائدہ، ہندوستان کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو ملے گا۔ یہ خودانحصاری کی جانب بہت بڑا مضبوط قدم ہے۔ ساڑھے 7 لاکھ کروڑ روپئے کے پبلک انویسٹمنٹ سے معیشت کو نئی رفتار کے ساتھ ہی، چھوٹی اور دیگر صنعتوں کے لئے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ میں وزیر خزانہ نرملا جی اور ان کی پوری ٹیم کو اس عوام دوست اور نموپذیر بجٹ کے لئے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ کل بھارتی جنتا پارٹی نے مجھے صبح 11 بجے بجٹ اور آتم نربھر بھارت موضوع پر بات کرنے کے لئے مدعو کیا ہے۔ کل 11 بجے میں بجٹ کے اس موضوع پر تفصیل سے بات کروں گا۔ آج اتنا کافی ہے۔ بہت بہت شکریہ!,কেন্দ্ৰীয় বাজেট ২০২২-২৩ ৰ ওপৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئیدہلی۔24؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے، اقوام متحدہ کو، اقوام متحدہ کے یوم تاسیس کے موقع پر، مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ،یوم اقوام متحدہ کے موقع پر مبارکباد۔ ہم امن عالم کو فروغ دینے کے عمل میں اقوام متحدہ کی کوششوں کی ستائش کرتے ہیں اور اس کی رہنمائی میں انجام دیے جانے والے وسیع تر اقدامات کی تعریف کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔۔ع ن۔ 24-10-2017,ৰাষ্ট্ৰসংঘ দিবস উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/17%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C%DB%81-%D8%AF%D9%90%D9%88%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D9%84%DA%AF-%DB%81%D9%B9-%DA%A9%D8%B1-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A6%E0%A6%B6-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%A6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اندور میں 17ویں پرواسی بھارتیہ دِو س(پی بی ڈی)سے الگ ہٹ کرسوری نام کے صدر عزت مآب جناب چندرکار پرساد سنتوکھی سے ملاقات کی۔صدر سنتوکھی 14-7جنوری 2023 سے ہندوستان کے سرکاری دورے پر ہیں اور وہ 17ویں پرواسی بھارتیہ دِوس کے خصوصی مہمان اعزازی بھی ہیں۔ اپنی ملاقات کے دوران دونوں لیڈروں نے ہائیڈرو کاربن ، دفاع، بحری سلامتی، ڈیجیٹل پہلوں اور آئی سی ٹی و صلاحیت سازی سمیت باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی۔ سوری نام نے ہندوستان کے ذریعے سوری نا م کے ذریعے حاصل شدہ قرضہ جات سلسلوں سے پیدا شدہ سوری نام کے قرضہ جات کے از سر نو نظم کی ستائش کی۔ صدر سنتوکھی صدرجمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو سے بھی بات چیت کریں گے اور 10جنوری 2023 کو اختتامی اجلاس اور پرواسی بھارتیہ سمان ایوارڈ تقریب میں بھی شرکت فرمائیں گے۔وہ اندور میں گلوبل انویسٹر اجلاس کے افتتاحی سیشن میں بھی شرکت کریں گے۔ اس کے بعد وہ احمدآباد اور نئی دیلی جائیں گے۔,সপ্তদশ প্ৰবাসী ভাৰতীয় দিৱসৰ সময়ত চুৰিনামৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D8%B2-%D8%A7%D8%B3%D9%85%D8%A8%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے آج پٹنہ میں بہارقانون ساز اسمبلی کی صدسالہ تقریبات کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا۔ وزیراعظم نے شتابدی اسمرتی استمبھ کا افتتاح بھی کیا۔ جسے بہارودھان سبھا کے 100سال پورے ہونے کی یاد میں تعمیر کیاگیاہے ۔ انھوں نے ودھان سبھا میوزیم کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ میوزیم میں مختلف گیلریوں میں بہارمیں جمہوریت کی تاریخ اور موجودہ شہری ڈھانچے کے ارتقاء کی نمائش کی جائیگی ۔ اس میوزیم میں 250 سے زائدا فراد کے بیٹھنے کی گنجائش والا ایک کانفرنس ہال بھی ہوگا۔وزیراعظم نے اس موقع پر ودھان سبھا گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد بھی رکھا ۔ اس موقع پرموجود ممتازشخصیات میں دیگرکے علاوہ بہارکے گورنر جناب پھاگوچوہان اور وزیراعلی ٰ جناب نتیش کماربھی شامل تھے ۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ بہار کی فطرت ہے کہ جوبھی بہارسے پیارکرتاہے بہاراس سے کئی گنازیادہ پیاراسے لوٹاتاہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ‘‘آج مجھے بہارودھان سبھا کمپلکس کا دورہ کرنے والے ملک کے پہلے وزیراعظم ہونے کا شرف حاصل ہواہے ۔ میں اس محبت کے لئے بہارکے عوام سے اظہارتشکرکرتاہوں ۔’’وزیراعظم نے کہاکہ شتابدی اسمرتی استمبھ بہارکی امنگوں اورخواہشات میں بہت زیادہ اضافہ کرے گا۔ بہاراسمبلی کی شاندارتاریخ کا ذکرکرتے ہوئے ،وزیراعظم نے کہاکہ یہاں اس ودھان سبھا بلڈنگ میں یکے بعد دیگرے بہت سے بڑے اورجرأت مندانہ فیصلے کئے گئے ہیں ۔ آزادی سے پہلے ، گورنر ستیندرپرسننا سنہا نے اسی ا سمبلی سے گھریلوصنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنے اورسوادیشی چرخہ استعمال کرنے سے متعلق اپیل کی تھی ۔ آزادی کے بعد اس اسمبلی میں زمینداری کے خاتمے سے متعلق قانون کو منظوری دی گئی تھی ۔ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ، نتیش کمارجی کی سرکارنے بہار کو ایسی پہلی ریاست بناتے ہوئے جہاں پنچایتوں میں خواتین کو 50فیصد ریزرویشن دیاگیاہے ، بہارپنچایتی راج جیسا قانون منظورکیاہے ۔ وزیراعظم نے رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی اس بات کی ایک مثال ہے کہ سماجی زندگی کے لئے جمہوریت میں کس طرح سبھی کی برابر کی شرکت اور مساویانہ حقوق کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے بھارتی جمہوریت کی قدیم جڑوں کو اجاگرکیا اورکہا کہ دہائیوں سے ، ہمیں یہ بتانے کی کوششیں کی گئیں ہیں کہ بھارت کو جمہوریت غیرملکی حکمرانی اورغیرملکی افکار کی وجہ سے ملی ہے ۔ لیکن جب کوئی بھی شخص یہ بات کہتا ہے کہ وہ بہارکی تاریخ اوربہارکی وراثت پرپردہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے ۔ جب دنیا کے بڑے حصے تہذیب اورثقافت کی سمت اپنے پہلے قدم اٹھارہے تھے ، ویشالی میں ایک ترقی یافتہ جمہوریت فعال تھی ۔ جب دنیا کے دوسرے خطوں میں جمہوری حقوق سے متعلق سمجھ ب��جھ کاآغاز ہورہاتھا تو لچھاوای اوروجی سنگھ جیسی جمہوریتیں اپنے عروج پرتھیں۔ بھارت میں جمہوریت کا تصوراتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ ملک ، اور اتنا ہی قدیم ہے جتنی کی ہماری ثقافت ۔ بھارت جمہوریت کو برابری اورمعیار کے وسیلے سمجھتاہے ۔ بھارت بقائے باہمی اور یکجہتی کے نظریات میں یقین رکھتاہے ۔ ہم سچائی میں یقین رکھتے ہیں ، ہم تعاون میں یقین رکھتے ہیں ، ہم بھائی چارے میں یقین رکھتے ہیں اورہم معاشرے کی مشترکہ طاقت میں یقین رکھتے ہیں ۔ وزیراعظم نے اس بات کو دوہرایا کہ دنیا میں جمہوریت کی ماں بھارت ہے ، بھارت جمہوریت کی ماں ہے اوربہارکی شاندارثقافت اور پالی میں موجود تاریخی دستاویزات اس بات کی زندہ مثال ہیں۔ انھوں نے زوردیتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی بہارکی اس شاندار وراثت کو نہ تو ختم کرسکتاہے نہ ہی چھپاسکتاہے۔ انھوں نے مزید کہا اس عمارت نے گزشتہ ایک سوسال سے بھارتی جمہوریت کو مستحکم بنایاہے ، اس لئے یہ ہماری خراج تحسین کی حقدارہے۔یہ عمارت اس شعورکے ساتھ وابستہ ہے جس نے غلامی کے مدت کے دوران بھی جمہوری اقدار کو بکھرنے اور ختم نہیں ہونے دیا ۔ وزیراعظم نے برطانوی حکمرانو ں کے خلاف سری بابو کے ذریعہ حکمرانی میں آزادی کے اعلان کو یاد کیا۔ بہارہمیشہ سے جمہوریت اورجمہوری اقدار کے تحفظ سے متعلق اپنے عزم کے تعلق سے ہمیشہ مستقل مزاج رہاہے۔جناب مودی نے بتایاکہ بہارنے ڈاکٹرراجیندرپرساد کی شکل میں آزاد بھارت کا پہلا صدرجمہوریہ دیاہے اور لوک نائک جے پرکاش ، کرپوری ٹھاکر اور بابوجگجیون رام جیسے لیڈروں کا تعلق اسی سرزمین سے رہاہے ۔ یہاں تک کہ ملک میں جب آئین کو کچلنے کی کوشش کی گئی تو بہار سامنے آیااور اس کے خلاف احتجاج کا صور پھونکا ۔وزیراعظم نے اس بات کو اجاگرکیا کہ بہارتنا خوشحال بنے گا ، بھارت کی جمہوریت بھی اتنی زیادہ مستحکم بنے گی اور بہارجتنا زیادہ طاقتور بنے گا ، اتنا ہی ملک زیادہ باصلاحیت بنے گا۔ وزیراعظم نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو اور بہار قانون ساز اسمبلی کے 100سال مکمل ہونے کے اس تاریخی موقع کی بدولت ہم سبھی کے لئے اور سبھی عوامی نمائندوں کے لئے خود احتسابی کا ایک پیغام بھی موصول ہواہے ۔ ہم جتنا زیادہ اپنی جمہوریت کو مستحکم کو بنائیں گے ، اتنی زیادہ قوت ہماری آزادی اورہمارے حقوق کو ملے گی ۔ 21ویں صدی کی بدلتی ہوئی ضروریات اور آزادی کے 75ویں سال میں نئے بھارت کے عزائم کے لحاظ سے ، وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے ایک رکن پارلیمنٹ کے طورپر ، ریاست کے ایک رکن اسمبلی کے طورپر یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم آپس میں مل کر جمہوریت کو درپیش سبھی چنوتیوں کو شکست دیں ۔ پارٹی سیاست کے امتیاز سے بالاترہوکر ملک اوراس کے مفاد کے لئے ہماری آواز متحدہونی چاہیئے ۔ اس بات پرزوردیتے ہوئے کہ ہمارے ملک کی جمہوری پختگی ، ہمارے طرز عمل سے ظاہرہوتی ہے۔وزیراعظم نے زوردیتے ہوئے کہاکہ اسمبلیوں کے ایوانوں کو عوام سے متعلق موضوعات کے بارے میں مثبت مذاکرات کا مرکز بننا چاہیئے ۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں انھوں نے کہا : گذشتہ چند برسوں میں پارلیمنٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی حاضری اورپارلیمنٹ کی کارکردگی میں ریکارڈ اضافہ ہواہے۔ گذشتہ بجٹ سیشن میں بھی ، لوک سبھا کی کارکردگی 129فیصد رہی ۔راجیہ سبھا میں بھی 99فیصد کارکردگی درج کی گئی ، یعنی کہ ملک لگاتار نئے عزائم اور جمہوری مذاکرات کو آگے لےجانے کے سلسلے میں کام کررہاہے ۔ وزیراعظم نے اکیسویں صدی کو بھارت کی صدی کے طورپر نشاندہی کرتے ہوئے کہا بھارت کے لئے یہ صدی ذمہ داریوں اورفرائض کی صدی ہے ۔ ہمیں اس صدی میں اگلے 25برسوں میں بھارت کے سنہری ہدف تک پہنچناہے ۔ہماری ذمہ داریاں ہمیں ان اہداف تک لے جائیں گی ۔اس لئے یہ 25برس ملک کے لئے فرائض اورذ مہ داریوں کے راستے پرچلنے کے سال ہیں۔جناب مودی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اپنے حقوق سے الگ نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ جتنا زیادہ ہم اپنے فرائض کے لئے کام کریں گے ، ہمارے حقوق بھی اتنے زیادہ مستحکم ہوں گے فرائض کے تئیں ہماری وفاداری ، ہمارے حقوق کی ضمانت ہے۔,বিহাৰ বিধানসভাৰ শতবাৰ্ষিকী উদযাপনৰ সামৰণি অনুষ্ঠান সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%B9%DA%BE%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D8%B1-%DA%88%DB%8C%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%AC%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A7%A7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گدھوڈا چوکی، سابر کانٹھا، گجرات میں سابر ڈیری میں 1000 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے متعدد منصوبوں کا افتتاح کیااور سنگ بنیاد رکھا ۔ان منصوبوں سے مقامی کسانوں اور دودھ پیدا کرنے والوں کو بااختیار بنایا جائے گا اور ان کے آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ اس سے خطے میں دیہی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔وزیر اعظم نے سوکنیا سمردھی اسکیم اور سرکردہ دودھ پیدا کرنے والی خواتین ڈیری مالکان کو کو مبارکباد دی۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل بھی موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’آج سابر ڈیری وسیع ہوچکی ہے۔ یہاں سینکڑوں کروڑوں روپئے سے نئے منصوبے قائم کئے جارہے ہیں۔ سابر ڈیری کی استعداد میں اور زیادہ اضافہ ہوگا، جس میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ دودھ کا ایک پاور پلانٹ اور ایسپٹک پیکنگ کی ایک اور شاخ شامل ہوگا‘‘۔ وزیر اعظم نے جناب بھورا بھائی پٹیل کو بھی یاد کیا، جو سابر ڈیری کی شخصیات میں سے ایک ہیں۔وزیر اعظم نے علاقے اور مقامی لوگوں کے ساتھ اپنی طویل مدتی وابستگی کی بھی یاددہانی کرائی۔ وزیر اعظم نے ، دو دہائی قبل کی محرومی اور خشک سالی کی صورتحال کو یاد کیا۔ انھوں نے یاد دہانی کرائی کہ کس طرح انھوں نے بطور وزیر اعلیٰ، عوام کا تعاون حاصل کیا اور خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ مویشی پروری اور ڈیری ان کاوشوں کا کلیدی عنصر ہے۔ انھوں نے چارہ، دوائی فراہم کرکے مویشی پروری کو فروغ دینے کے اقدامات اور مویشیوں کے لیے آیورویدک علاج کو بھی فروغ دینے کے اقدامات کے بارے میں بھی بات کی۔ انھوں نے گجرات جیوتی گرام اسکیم کا ذکر ترقی کے گہوارے کے طور پر کیا۔ وزیر اعظم نے فخر کے ساتھ یہ واضح کیا کہ گذشتہ دو دہائیوں میں کئے گئے اقدامات کی وجہ سے، گجرات میں ڈیری کی مارکیٹ ایک لاکھ کروڑ روپئے مالیت کی ہوگئی ہے۔ انھوں نے 2007 اور 2011 میں اپنے پہلے کے دوروں اور خواتین کی شرکت بڑھانے کی اپنی درخواست کی یاد دہانی کرائی۔ اس وقت زیادہ تر کمیٹیوں میں خواتین کی اچھی نمائندگی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دودھ کی قیمت کی ادائیگی زیادہ تر خواتین کو کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان تجربات کو دیگر شعبوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ آج، ملک میں 10000 فارمر پرڈیوسر ایسوسی ایشن (ایف پی اوز) کی تشکیل کا کام پورے زور وشور سے جاری ہے۔ ان ایف پی اوز کے ذریعے چھوٹے کسان، ڈبہ بند خوراک، ویلیو لنکڈ ایکسپورٹ اور سپلائی چین سے براہ راست منسلک ہوسکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ گجرات کے کسانوں کو بھی اس سے کافی فائدہ ہونے والا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسانوں کے لیے متبادل آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کی حکمت عملی ، نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہے۔ باغبانی، ماہی گیری، شہد کی پیداوار سے کسانوں کو اچھی ا ٓمدنی ہو رہی ہے۔ کھادی اور گرام ادیوگ کا کاروبار پہلی مرتبہ ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ مالیت کا ہوگیا ہے۔ دیہاتوں میں اس شعبے میں 1.5 کروڑ روپئے سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ پیٹرول میں ایتھانول کی آمیزش میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات، کسانوں کے لیے نئی راہیں وضع کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ’’2014 تک ملک میں 400 ملین لیٹر سے کم ایتھانول کی آمیزش کی گئی تھی۔ آج یہ تقریباً 400 کروڑ لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔ ہماری حکومت نے گذشتہ دو برسوں میں ایک خصوصی مہم چلا کر ، 3 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو ، کسان کریڈٹ کارڈ بھی فراہم کئے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یوریا کی نیم –کوٹنگ، بند ہوئے ہوئے کھاد کے پلانٹ کھولنے اور نینو کھاد کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے باوجود، مناسب قیمت پر یوریا کی دستیابی کو یقینی بنانے جیسے اقدامات سے ملک اور گجرات کے کسانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ سجلم سفلم اسکیم نے سابر کانٹھا ضلع کے کئی تحصیلوں کو پانی فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی طرح،ضلع اور قریبی علاقوں میں غیر معمولی پیمانے پر رابطوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ریلوے اور شاہراہوں کے منصوبے سے خطے میں رابطوں میں بہتری آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ رابطہ ، سیاحت اور نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کو یقینی بنانے میں مدد کر رہا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے مقامی قبائلی رہنماؤں کی قربانیوں کو یاد کیا۔وزیر اعظم نے مطلع کیا کہ حکومت نے 15 نومبر کو ، بھگوان برسا منڈا جی کے یوم پیدائش کو ، جن جاتیہ گورو دیوس کے طور پر قرار دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ’’ہماری حکومت ملک بھر میں قبائلی مجاہدین آزادی کی یاد میں ایک خصوصی میوزیم بھی بنا رہی ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’پہلی بار قبائلی سماج سے تعلق رکھنے والی ملک کی بیٹی، ہندوستان کے اعلیٰ ترین آئین عہدے پر فائز ہوئی ہے۔ ملک نے محترمہ دروپدی مرمو جی کو اپنا صدر جمہوریہ بنایا ہے۔ یہ 130 کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کے لیے انتہائی فخر کا لمحہ ہے‘‘۔ انھوں نے ملک کے لوگوں سے ’ہر گھر ترنگا مہم‘ میں بڑھ چڑھ کر اور جوش وخروش سے حصہ لینے کی درخواست کی۔ منصوبوں کی تفصیلات: وزیر اعظم نے ، سابر ڈیری میں تقریباً 120 میٹرک ٹن یومیہ (ایم ٹی پی ڈی) کی صلاحیت کے ساتھ پاؤڈر پلانٹ کا افتتاح کیا۔ اس پورے پروجیکٹ کی کل لاگت 300 کروڑ روپئے سے زیادہ کی ہے۔پلانٹ کی تنصیب وترتیب، خوراک کے تحفظ کے عالمی معیار کے عین مطابق ہے۔ یہ تقریباً صفر اخراج کے ساتھ توانائی کی انتہائی بچت ہے۔ یہ پلانٹ جدید ترین اور مکمل طور پر خودکاربلک پیکنگ لائن سے لیس ہے۔ وزیر اعظم نے سابر ڈیری میں ایسپٹک دودھ پیکیجنگ پلانٹ کا بھی افتتاح کیا۔ یہ ایک جدید ترین پلانٹ ہے جس کی صلاحیت 3 لاکھ لیٹر یومیہ کی ہے۔ اس منصوبے پر تقریباً 125 کروڑ روپئے کی مجموعی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔پلانٹ میں توانائی کی انتہائی بچت اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کے ساتھ،خودکار نظام ہے۔ اس منصوبے سے دودھ پیدا کرنے والوں کو بہتر معاوضہ حاصل کرنے کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے سابر پنیر اور وہی ڈرائنگ پلانٹ پروجیکٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس پروجیکٹ کے لیے تخمینی مختص رقم تقریباً 600 کروڑ روپئے ہے۔یہ پلانٹ چیڈر پنیر (20 ایم ٹی پی ڈی)،موزاریلا پنیر (10 ایم ٹی پی ڈی) اور پروسیسڈ پنیر (16 ایم ٹی پی ڈی) تیار کرے گا۔پنیر کی تیاری کے دوران پیدا ہونے والی وہی کو بھی وہی ڈرائنگ پلانٹ میں خشک کیا جائے گا جس کی گنجائش 40 ایم ٹی پی ڈی ہے۔ سابر ڈیری ، گجرات کوآپریٹیو دودھ مارکیٹنگ فیڈریشن (جی سی ایم ایم ایف)، کا ایک حصہ ہے، جو امول برانڈ کے تحت دودھ اور دودھ کی مصنوعات کی پوری رینج تیار کرتی ہے اور مارکیٹ کرتی ہے۔,"সবৰকণ্ঠত সবৰ দুগ্ধপামত ১,০০০ কোটিতকৈ অধিক টকা মূল্যৰ বিভিন্ন প্ৰকল্প উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদী" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF-%D8%A7%D9%8F%D8%AF%DB%8C%D9%85%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نارائن رانے جی، جناب بھانو پرتاپ سنگھ ورما جی، کابینہ کے دیگر تمام ممبران، ملک کی الگ الگ ریاستوں سے آئے ہوئے وزراء، ملک بھر کے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے جڑے سبھی میرے اُدیمی (یعنی صنعت کار) بھائی بہن، دیگر تمام حاضرین، خواتین و حضرات، ہمارے یہاں بچپن سے ایک شلوک سکھایا جاتا ہے، اور یہ شلوک ہم سب نے سنا ہے– اُدیمین ہی سدھینتی، کاریانی نا منورتھے: یعنی کاروبار کرنے سے ہی کامیابی ملتی ہے، صرف سوچتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا، اور سوچنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ اس شلوک کے مطلب کو اگر میں آج کے دور کے حساب سے تھوڑا بدل کر کہوں تو میں یہ کہوں گا کہ ایم ایس ایم ای کی صنعت کاری سے ہی آتم نربھر بھارت ابھیان کو کامیابی ملے گی، بھارت مضبوط ہوگا۔ کہنے کو تو آپ لوگ بہت ہی چھوٹے، چھوٹے اور اوسط درجے کے کاروباری ہیں، لیکن 21ویں صدی کا بھارت جس بلندی کو حاصل کرے گا، اس میں آپ سبھی کا رول بہت اہم ہے۔ بھارت کا ایکسپورٹ لگاتار بڑھے، بھارت کے پراڈکٹس نئے بازاروں میں پہنچیں اس کے لیے ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ ہماری حکومت، آپ کی اسی صلاحیت، اس سیکٹر کے بے شمار امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ لے رہی ہے، نئی پالیسیاں بنا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے ہر ضلع میں، ہر حصے میں جو ہماری انوکھی مصنوعات ہیں، ان لوکل مصنوعات کو ہم نے گلوبل بنانے کا عزم کیا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ میک ان انڈیا کے لیے لوکل سپلائی چین بنے، جو بھارت کے بیرونی ممالک پر انحصار کو کم کر سکے۔ اب اس لیے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو وسیع کرنے پر کافی زور دیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں آج متعدد نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ ہزاروں کروڑ روپے کی یہ اسکیمیں، ایم ایس ایم ای کی کوالٹی اور پروموشن سے جڑی ہیں۔ ایم ایس ایم ای ایکو سسٹم کو مزید مضبوط کرنے کے لیے تقریباً 6 ہزار کروڑ روپے کی ریمپ اسکیم ہو، فرسٹ ٹائم ایکسپورٹرز کو ترغیب دینے کا پروگرام ہو، اور پردھان منتری روزگار تشکیل پروگرام کے دائرے کو بڑھانے کا فیصلہ ہو، حکومت کی ان اہم کوششوں سے بھارت کے ای�� ایس ایم ای سیکٹر کو مزید رفتار حاصل ہونے والی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ملک کی 18 ہزار ایم ایس ایم ای کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ ٹرانسفر کیے گئے ہیں، آپ کے سامنے ڈیجیٹلی، آل ریڈی ان کے اکاؤنٹ کو پیسے چلے گئے۔ 50 ہزار کروڑ روپے کے سیلف ریلائنٹ انڈیا فنڈ کے تحت 1400 کروڑ روپے سے زیادہ ایم ایس ایم ای کے لیے ریلیز ہوئے ہیں۔ تمام مستفیدین کو، پورے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو میں اس کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ابھی یہاں اسٹیج پر آنے سے پہلے مجھے کئی ساتھیوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا اور ان لوگوں سے میں بات کر رہا تھا جن کو حکومت کی کسی نہ کسی اسکیم کا فائدہ ملا تھا۔ اب انہوں نے اس میں اپنے ٹیلنٹس، اپنی محنت، اپنی اسکل ان سب کو لگا کر ایک نئی دنیا کھڑی کر دی ہے۔ بات چیت کے دوران جس قسم کی خود اعتمادی میں ان میرے نوجوان زیادہ تر تھے، ہماری مائیں-بہنیں تھیں، بیٹیاں تھیں۔ ان سب کاروباریوں میں میں جو محسوس کر رہا تھا، وہ خود اعتمادی اور آتم نربھر بھارت کی جو مہم ہے اس میں ایک نئی توانائی کا احساس ہوتا تھا۔ شاید مجھے زیادہ وقت ہوتا تو میں اور گھنٹوں تک ان سے باتیں کرتا رہتا کہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ کہنے کو ہے، ہر ایک کے پاس اپنا تجربہ ہے، ہر ایک کی اپنی ایک ہمت ہے، ہر ایک نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے وقار کو بنتے دیکھا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بڑا خوشگوار تجربہ تھا۔ آج بہت سے ساتھیوں کو انعام بھی ملا ہے۔ جن ساتھیوں نے انعام حاصل کیا ہے ان کو میں مبارکباد تو دیتا ہوں لیکن جب انعام ملتا ہے تو امیدیں ذرا زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ آپ نے جو کیا ہے، اب ایک بہت بڑی چھلانگ لگائیں۔ آپ نے جو کیا ہے اس سے آپ بہت سے دوسرے لوگوں کو آمادہ کریں اور ایک ایسا ماحول ہم بنا دیں کہ اب آگے ہی آگے جانا ہے۔ ساتھیوں، آپ بھی جانتے ہیں کہ جب ہم ایم ایس ایم ای کہتے ہیں تو تکنیکی زبان میں اس کی توسیع ہوتی ہے مائکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز۔ لیکن یہ بہت ہی چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعت، بھارت کی ترقی کے سفر کی بہت بڑی بنیاد ہیں۔ بھارت کی معیشت میں تقریباً ایک تہائی حصہ داری ایم ایس ایم ای سیکٹر کی ہے۔ آسان لفظوں میں کہوں تو بھارت آج اگر 100 روپے کماتا ہے، تو اس میں 30 روپے میرے ایم ایس ایم ای سیکٹر کی وجہ سے آتے ہیں۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو مضبوط کرنے کا مطلب ہے، پورے سماج کو مضبوط کرنا، سب کو ترقی کے فائدے کا حصہ دار بنانا، سب کو آگے بڑھانا۔ اس سیکٹر سے جڑے کروڑوں ساتھی ملک کے دیہی علاقوں سے آتے ہیں۔ اس لیے ایم ایس ایم ای سیکٹر، ملک کے بہت ہی چھوٹے، چھوٹے اور اوسط درجے کے کاروبار حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہیں۔ ساتھیوں، آج پوری دنیا بھارت کی معیشت کی رفتار کو دیکھ کر متاثر ہے اور اس رفتار میں بہت بڑا رول ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کا ہے۔ اس لیے ایم ایس ایم ای آج میکرو ایکانومی کی مجبوری کے لیے ضروری ہیں۔ آج بھارت جتنا ایکسپورٹ کر رہا ہے، اس میں بہت بڑا حصہ ایم ایس ایم ای سیکٹر کا ہے۔ اس لیے ایم ایس ایم ای آج میکسی مم ایکسپورٹ کے لیے ضروری ہیں۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو مضبوطی دینے کے لیے پچھلے آٹھ سال میں ہماری حکومت نے بجٹ میں 650 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ اور اس لیے ہمارے لیے ایم ایس ایم ای کا مطلب ہے – میکسی مم سپورٹ ٹو مائکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز! اس سیکٹر سے 11 کروڑ سے بھی زیادہ لوگ اس سے ڈائرکٹ انڈائرکٹ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ایم ایس ایم ای آج میکسی مم امپلائمنٹ کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اس لیے جب 100 سال کا سب سے بڑا بحران آیا تو ہم نے اپنے چھوٹے کاروباریوں کو بچانے کے ساتھ ہی انہیں نئی طاقت دینے کا بھی فیصلہ کیا۔ مرکزی حکومت نے ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم کے تحت ساڑھے 3 لاکھ کروڑ روپے کی مدد ایم ایس ایم ای کے لیے یقینی بنائی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روزگار ختم ہونے سے بچ گئے، یہ بہت بڑا نمبر ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی آبادی سے بھی زیادہ بڑا نمبر ہے یہ۔ آفت کے وقت ملی یہی مدد آج ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو نئے روزگار کی تخلیق کے لیے آمادہ کر رہی ہے۔ ہم نے اس سال کے بجٹ میں ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم کو اگلے سال مارچ تک بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت، جو بھی اس کے تحت آتے ہیں ان کو بھی 50 ہزار کروڑ روپے سے بڑھا کر اب 5 لاکھ کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، 10 گنا زیادہ۔ ساتھیوں، آزادی کے اس امرت کال میں ہمارے ایم ایس ایم ای، بھارت کی آتم نربھرتا کے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ ایک وقت تھا جب پہلے کی حکومتوں نے اس سیکٹر کی طاقت پر بھروسہ نہیں کیا، اس سیکٹر کو ایک طرح سے باندھ دیا تھا، ان کے نصیب پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے بل بوتے پر کچھ کر پائیں تو کر لیں، ان کو کوئی موقع مل جائے تو کچھ آگے بڑھ لیں۔ ہمارے یہاں چھوٹی صنعتوں کو چھوٹا بنا کر رکھا جاتا تھا، بھلے ہی ان میں کتنا ہی امکان کیوں نہ ہو! چھوٹی صنعتوں کے لیے اتنی چھوٹی تعریف طے کی گئی تھی کہ آپ سب پر ہمیشہ یہ دباؤ رہتا تھا کہ اس سے زیادہ کاروبار کیا تو جو فائدے ملتے ہیں، وہ ملنا بند ہو جائیں گے۔ اس لیے اسکوپ تھا تو بھی بڑھنا نہیں چاہتا تھا، اگر بڑھتا تھا تو کاغذ پر آنے ہی نہیں دیتا تھا۔ چھپ چھپ کر تو تھوڑا بہت کر لیتا ہوگا۔ آپ کی بات میں نہیں بتاتا ہوں، وہ تو اوروں کی بات کر رہا تھا۔ آپ لوگ کبھی برا نہیں کر سکتے۔ آپ لوگ تو اچھے لوگ ہیں۔ اور اس کا ایک بڑا منفی اثر روزگار پر بھی پڑتا تھا۔ جو کمپنی زیادہ لوگوں کو روزگار دے سکتی تھی، وہ بھی زیادہ روزگار نہیں دیتی تھی تاکہ وہ بہت ہی چھوٹی اور چھوٹی صنعت کی حد سے باہر چلی جاتی تھی! اس کو ٹنشن رہتی تھی کہ بھئی اس سے نمبر بڑھنا نہیں چاہیے۔ اس سوچ اور ان پالیسیوں کی وجہ سے کتنی ہی صنعتوں کی ترقی اور پیش رفت رک گئی تھی۔ ہم نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ایم ایس ایم ای کی تعریف بدل ڈالی اور ساتھ ہی بہت ہی چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں کی ضرورتوں کا بھی دھیان رکھا۔ ہم نے یہ یقینی بنایا کہ یہ صنعتیں آگے بھی بڑھیں اور انہیں ضروری فائدہ اور مدد بھی ملتی رہے۔ اگر کوئی صنعت آگے بڑھنا چاہتی ہے، توسیع کرنا چاہتی ہے، تو حکومت نہ صرف اسے مدد دے رہی ہے، بلکہ پالیسیوں میں ضروری تبدیلی بھی کر رہی ہے۔ آج ہول سیل تاجر ہوں، رٹیل تاجر ہوں، رٹیل وینڈرز ہوں، یہ سبھی ایم ایس ایم ای کی نئی تعریف کے تحت پرایورٹی سیکٹر لینڈنگ کے تحت لون کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر کے درمیان کے فرق کو بھی دور کیا گیا ہے۔ آج جی ای ایم کے توسط سے حکومت کو اشیاء اور خدمات مہیا کرانے کے لیے ایم ایس ایم ای کو بہت بڑا پلیٹ فارم مل چکا ہے۔ اور میں سبھی آپ ساتھیوں سے اور آپ کے توسط سے آپ کے سبھی ایسو سی ایشن کو ایم ایس ایم ای سیکٹروں میں ہوں، چھوٹے چھوٹے لوگ، آپ جی ای ایم پورٹل پر رجسٹری کروا ہی دیجئے۔ ��یک بار جی ای ایم پورٹل میں ہے تو حکومت کو کچھ بھی خریدنا ہے تو پہلے وہاں جانا ہی پڑے گا۔ آپ کہیں گے کہ میں نہیں دے پاؤں گا، تو پھر کہیں اور جائیں گے۔ اتنا بڑا فیصلہ اور حکومت ایک بہت بڑی خریدار ہوتی ہے۔ اس کو بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور اسے زیادہ تر ان چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے جس کو آپ بناتے ہیں۔ اور اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جی ای ایم پورٹل پر ایک مشن موڈ میں آپ مہم چلائیے۔ آج تقریباً 60-50 لاکھ لوگ اس پر جڑے ہوئے ہیں جو فروش کنندہ ہیں، یہ تین چار کروڑ لوگ کیوں نہیں ہو سکتے ہیں۔ تاکہ حکومت بھی، اس کو بھی چوائس رہے گا کہ کس قسم کی چیزیں لی جا سکتی ہیں۔ دیکھئے، پہلے سرکاری خرید میں ایم ایس ایم ای کو قدم جمانے کی کتنی مشکلیں آتی تھیں۔ اس کے لیے بڑی مشکل ہوتی تھی کہ اتنی بڑی ریکوائرمنٹ، اتنا بڑا ٹنڈر، میں کہاں جاؤں گا۔ وہ بیچارہ کسی اور کو دے دیتا تھا وہ جا کر دیتا ہے۔ اب ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ ایک تھرمس بھی بیچنا چاہتے ہیں، ایک تھرمس، تو بھی جی ای ایم پورٹل سے یہ ملک خرید سکتا ہے، سرکار خرید سکتی ہے۔ مجھے میرے آفس میں ایک بار ایک تھرمس کی ضرورت تھی، تو ہم جی ای ایم پورٹل پر گئے تو تمل ناڈو کے گاؤں کی عورت نے کہا کہ میں دے سکتی ہوں۔ اور پی ایم آفس میں تمل ناڈو کے گاؤں سے تھرمس آیا، اس کو پیمنٹ مل گیا، تھرمس سے مجھے گرم چائے بھی مل گئی، اس کا بھی کام ہو گیا۔ یہ جی ای ایم پورٹل کی یہ طاقت ہے اور یہ آپ کے فائدے کے لیے ہے۔ آپ کو اس کا جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھانا چاہیے۔ دوسرا ایک جو اہم فیصلہ کیا ہے – 200 کروڑ روپے تک کی سرکاری خرید میں اب گلوبل ٹنڈر نہیں کرنا، یہ ہماری حکومت کا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب ایک طرح سے آپ کے لیے ریزرویشن ہو گیا ہے وہ۔ اب یہ نہ ہو کہ بھئی 200 کروڑ تک تو لینا نہیں ہے تو جیسے بھی دو مودی جائے گا کہاں، اس کو تو لینا ہی پڑے گا، ایسا مت کرنا۔ کوالٹی کمپرومائز مت کرتا۔ آپ ایسا کرکے دکھائیے کہ حکومت کو فیصلہ کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے کہ آج تو آپ نے 200 کروڑ کیا ہے، آگے سے 500 کروڑ کی پابندی لگا دیجئے، ہم 500 کروڑ تک دینے کو تیار ہیں۔ ہم ایک ہیلدی کمپٹشین کی طرف جا رہے ہیں۔ ساتھیوں، گلوبل مارکیٹس میں بھی ایم ایس ایم ای صنعت ملک کا پرچم اور اونچا لہرائیں، اس کے لیے مسلسل ترغیب دی جا رہی ہے۔ اسی سمت میں فرسٹ ٹائم ایم ایس ایم ای ایکسپورٹرز کے لیے نئے انیشیٹو لیے گئے ہیں۔ مالی مدد ہو، سرٹیفکیشن سے جڑی مدد ہو، یہ سہولیات ایکسپورٹ پروسیس کو فرسٹ ٹائم ایکسپورٹرز کے لیے اور آسان بنائیں گی۔ اور میں تو چاہوں گا کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ لوگ گلوبل مارکیٹ کی طرف نظر کریں۔ آپ یہ فکر مت کیجئے کہ آپ کی فیکٹری بہت چھوٹی ہے، آپ چیز بہت چھوٹی بناتے ہیں۔ آپ فکر مت کیجئے، آپ کھوجتے رہئے، دنیا میں کوئی تو ہوگا جو اس کے انتظار میں ہوگا۔ اور میں نے تو میرے مشن کو بھی کہا ہے محکمہ خارجہ میں کہ اب محکمہ خارجہ ڈپلومیٹک جو کام کرتے آئے ہیں کریں، لیکن تین چیزیں ان کو کرنی ہی پڑ رہی ہیں، ہر مشن کو میں نے کہا ہے۔ میں مشن کا تجزیہ تین باتوں کو جوڑ کرکے کروں گا۔ ایک- ٹریڈ، دوسرا ٹیکنالوجی اور تیسرا ٹورزم۔ اگر آپ اُس ملک میں بھارت کے نمائندے ہیں تو آپ کو یہ بتانا ہوگا ہندوستان سے کتنا سامان اس ملک نے امپورٹ کیا- یہ حساب کتاب رکھوں گا۔ دوسرا میں نے کہا ہے اس ملک کے پاس اگر کوئی بہتر ٹیکنالوجی ہے، اس کو آپ ہندوستان میں لائے کہ نہیں لائے۔ کیا کوشش کی، یہ ناپا جائے گا۔ اور تیسرا، اس ملک سے کتنے لوگ بھارت دیکھنے کے لیے آئے۔ یہ 3-ٹی جو ہیں نا، آج مشن پورے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس مشن سے رابطہ نہیں کروگے، آپ نہیں بتاؤگے کہ ہاں بھائی یہ بناتے ہیں، آپ کے ملک میں وہاں یہ ضرورت ہے، تو پھر وہ مشن والے کیا کریں گے۔ حکومت آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے لیکن آپ بھی اپنے گاؤں میں، اپنی ریاست میں، اپنے ملک میں بیچنے کی بجائے آپ کی برانڈ دنیا میں جائے، یہ خواب لے کرکے آج یہاں سے جانا ہے۔ اگلی بار میں پوچھوں گا کہ پہلے 5 ملک میں مال جا رہا تھا اب 50 میں جا رہا ہے کہ نہیں جا رہا ہے، اور مفت بیچنا نہیں ہے، کمانا ہے آپ کو۔ ساتھیوں، گزشتہ 8 برسوں میں ایم ایس ایم ای سیکٹر کی اتنی توسیع ہوئی ہے کیوں کہ ہماری حکومت ملک کے ایم ایس ایم ای کاروباریوں، گھریلو صنعتوں، ہتھ کرگھا، دستکاری سے جڑے ساتھیوں پر بھروسہ کرتی ہے۔ ہماری نیت اور ہمارا ارادہ بالکل صاف ہے اور اسی کا نتیجہ نظر آ رہا ہے۔ ہم کیسے تبدیلی لائے ہیں اس کی ایک مثال پردھان منتری روزگار سرجن پروگرام بھی ہے۔ 2008 میں جب ملک اور پوری دنیا اقتصادی کساد بازاری کی چپیٹ میں تھی، تب اس پروگرام کو لاگو کیا گیا تھا۔ تب یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگلے 4 سالوں کے دوران، یعنی میں 2008 کی بات کر رہا ہوں، چار برسوں کے اندر لاکھوں روزگار تیار کیے جائیں گے۔ لیکن 4 سال بعد بھی تب کی حکومت اپنے نصف اہداف کے تب بھی قریب تک بھی نہیں پہنچ پائی تھی۔ 2014 کے بعد ہم نے ملک کے ایم ایس ایم ای، ملک کے نوجوانوں کے مفاد میں اس پروگرام کو لاگو کرنے کے لیے ہم نے نئے ہدف طے کیے، نئے طور طریقے اپنائے، اور نئی توانائی کے ساتھ لگ گئے۔ بیچ میں کورونا کا بحران آیا، اور بھی چھوٹے موٹے بحران آپ دیکھتے ہیں دنیا بھر میں کیاچل رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی گزشتہ برسوں میں اس پروگرام کے تحت ہی 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مل چکا ہے اور ایم ایس ایم ای کے ذریعے۔ اس دوران، ان صنعتوں کو تقریباً 14 ہزار کروڑ روپے کی مارجن منی سبسڈی دی گئی ہے۔ اس سے ملک میں لاکھوں نئی صنعتیں شروع ہوئی ہیں۔ ملک کے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں روزگار دینے کے لیے اس پروگرام میں آج نئے گوشے جوڑے جا رہے ہیں۔ اب اس پروگرام کے دائرے میں آنے والے پروجیکٹس، اس کی کاسٹ لمٹ کو بڑھا دیا گیا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اسے 25 لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ، تو سروس سیکٹر میں اس کو 10 لاکھ روپے سے بڑھا کر 20 لاکھ کر دیا گیا ہے یعنی ایک طرح سے ڈبل۔ یہی نہیں، جو 100 سے زیادہ ہمارے ایسپریشنل ڈسٹرکٹس ہیں، آج آپ نے دیکھا ہوگا ایسپریشنل ڈسٹرکٹس میں کام جو کیا ہے، ان کو بھی آج ہم نے اعزاز سے نوازا۔ کیوں کہ جن ضلعوں کو ریاست بھی گنتا نہیں تھا، ان ضلعوں میں آج وہ طاقت آ گئی ہے کہ ہندوستان کو ان کو اعزاز سے نوازنے کی نوبت آ گئی ہے۔ یہ تبدیلی کیسے آتی ہے، اس کا ایک نمونہ ہے۔ اور ایسپریشنل ڈسٹرکٹس کے ہمارے نوجوانوں کی ہم مدد کریں، اتنا ہی نہیں ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا انیشیٹو لیا ہے۔ جو ہمارے ٹرانس جینڈر ہیں، ایشور نے ان کے ساتھ جو بھی کیا ہے، ان کو بھی زیادہ مواقع ملیں، ان کے لیے بھی پہلی بار ایک مخصوص درجہ دے کر ان کو بھی مالی مدد اور ان کے اندر جو صلاحیتیں ہیں ان کو آگے بڑھنے کے لیے موقع دینا، اس سمت میں ہم نے کام کیا ہے۔ ساتھیوں، صحیح پالیسیاں ہوں اور سب کی کوشش ہو تو کیسے بڑی تبدیلی آتی ہے، اس کی ایک بڑی مثال ابھی ہم جب فلم دیکھ رہے تھے، اس میں بھی اس کا ذکر تھا، ہمارا کھادی۔ آز��دی کے شروع شروع میں تو کھادی یاد رہی۔ دھیرے دھیرے کھادی سکڑ کرکے نیتاؤں کا کاسٹیوم بن گیا، نیتاؤں کے لیے ہی بچ گئی وہ۔ بڑا بڑا کرتا پہنو، چناؤ لڑو یہی چلتا تھا۔ اس کھادی میں پھر سے روح پھونکنے کا کام کیا۔ پہلے کی جو پالیسیاں تھیں، اس کو آج ملک اچھی طرح جانتا ہے۔ اب پہلی بار کھادی اور گرام ادیوگ کا ٹرن اوور ایک لاکھ کروڑ روپے کے پار پہنچا ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کیوں کہ گاؤوں میں ہمارے چھوٹے موٹے صنعت کاروں نے، ہماری بہنوں نے، ہماری بیٹیوں نے بہت محنت کی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں کھادی کی فروخت 4 گنا بڑھی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں کھادی اور گرام ادیوگ میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ساتھیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اب بھارت کی کھادی لوکل سے گلوبل ہو رہی ہے، غیر ملکی فیشن برانڈ بھی کھادی کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، ہمارا اس پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ ہم اگر بھروسہ نہیں کریں گے، دنیا کیوں بھروسہ کرے گی جی۔ آپ اپنے گھر میں اپنے بچے کی عزت نہیں کروگے اور آپ چاہوگے کہ محلے والے کریں، ہو سکتا ہے کیا؟ نئے نئے شعبوں سے، نئے نئے بازاروں کے لیے نئے راستے بنے ہیں، جس کا چھوٹی صنعتوں کے لیے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ ساتھیوں، آنٹے پرینئرشپ- صنعت کاری آج ہمارے گاؤں، غریب، چھوٹے شہروں قصبوں کے کنبوں کے لیے آسان متبادل بن رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے، لون ملنے میں آسانی۔ 2014 سے پہلے تک بھارت میں بینکوں کے دروازے تک پہنچنا عام انسانوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ بغیر گارنٹی کے بینکوں سے قرض حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ گاؤں-غریب، بے زمین، چھوٹے کسان، چھوٹے دکاندار کی گارنٹی بھلا کون دے گا، اور بغیر گارنٹی کے وہ کرے گا کیا؟ اس کو ساہوکار کے پاس جانا پڑتا تھا۔ بینک لون نہیں دیتے تھے اور دوسری جگہوں سے جب لیتے تھے تو سود سے مر جاتے تھے۔ قرض کے بوجھ میں ڈوب جاتے تھے، اور اس لیے وہ بڑی ڈیفنسو زندگی جینے کے لیے مجبور ہو جاتا تھا۔ ایسی حالت میں گاؤں میں رہنے والے، غریب، دلت، محروم، مظلوم، پس ماندہ، آدیواسی، ان کے بیٹا بیٹی خود روزگار کے بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے، وہ روزگار کے لیے کہیں شہر میں جا کرکے جھگی جھونپڑی کی زندگی گزارنی پڑے، بیچنا مجبوراً چلا جاتا تھا۔ اب ہماری بہنوں بیٹیوں کے سامنے تو نئے متبادل لے کرکے ہم آئے ہیں۔ ان محدود متبادل سے ہم نے ان کو باہر لے جانے کی کوشش کی ہے۔ ساتھیوں، اتنے بڑے ملک کی تیز ترقی، سب کو ساتھ لے کر ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے 2014 میں سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے منتر پر چلتے ہوئے ہم نے اس دائرے کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے ہم نے ریفارمز کا، نئے اداروں کی تعمیر کا، اسکل ڈیولپمنٹ اور ایکسس ٹو کریڈٹ کا راستہ منتخب کیا۔ صنعت کاری کو ہر ہندوستانی کے لیے آسان بنانے میں مدرا یوجنا کا بہت بڑا رول ہے۔ بغیر گارنٹی کے بینک لون کی اس اسکیم نے خواتین صنعت کاروں، میرے دلت، پس ماندہ، آدیواسی صنعت کاروں کا ایک بہت بڑا طبقہ ملک میں تیار کیا ہے، اور نئے نئے شعبوں میں کیا ہے، دور افتادہ گاؤوں میں کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت ابھی تک تقریباً 19 لاکھ کروڑ روپے قرض کے طور پر دیے گئے ہیں۔ اور لون لینے والوں میں تقریباً 7 کروڑ ایسے صنعت کار ہیں، جنہوں نے پہلی بار کوئی صنعت شروع کی ہے، اور وہ ایک نئے صنعت کار بنے ہیں۔ یعنی مدرا یوجنا کی مدد سے، 7 کروڑ سے زیادہ ساتھی پہلی بار خود روزگار سے جڑے ہیں۔ اور خود جڑے اتنا ہی نہیں ہے، کسی نے ایک کو، کسی نے دو کو، کسی نے تین کو اپ��ے یہاں روزگار دیا ہے، وہ جواب سیکر نہیں، وہ جاب کرئیٹر بنا ہے۔ ساتھیوں، یہ بات بھی خاص ہے کہ مدرایوجنا کے تحت جو تقریباً 36 کروڑ لون دیے گئے، اس میں سے تقریباً 70 فیصد لون، یہ اور خوشی کی بات ہے، اور ملک کیسے بدل رہا ہے، ملک کیسے بڑھ رہا ہے، اس کی یہ سب سے بڑی مثال ہے… یہ جو لون دیے گئے ہیں اس میں 70 فیصد خواتین صنعت کار ہیں۔ تصور کیجئے، کتنی بڑی تعداد میں ہماری بہنیں بیٹیاں اس ایک اسکیم سے ہی صنعت کار بنی ہیں، خود روزگار سے جڑی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی جو خود اعتمادی، عزت نفس بنی ہوگی، فیملی میں جو اس کی عزت بنی ہوگی، سماج میں اس کی عزت بنی ہوگی، اس کی تو کوئی گنتی ہی نہیں ہو سکتی، دوستوں۔ ساتھیوں، ایم ایس ایم ای سیکٹر بھلے ہی پوری طرح سے فارمل نہ ہو لیکن ایکسس ٹو کریڈٹ فارمل رہا ہے۔ بھارت کی معیشت کا تجزیہ کرنے والے اس پہلو کا ذکر بہت زیادہ نہیں کرتے۔ اور اس میں ہم 20-10 ہزار روپے کی بات نہیں کر رہے ہیں، جس کو پہلے مائکرو فائننس مانا جاتا تھا۔ یہاں ہم 50 ہزار سے لے کر 10 لاکھ روپے تک کے گارنٹی فری فائننس کی بات کر رہے ہیں، جو آج خواتین صنعت کاروں تک پہنچ رہا ہے۔ یعنی پہلے جہاں خواتین کی صنعت کاری کے لیے مائکرو فائننس کو صرف مویشی پروری، کڑھائی-بُنائی… مجھے یاد ہے ہم جب گجرات میں تھے تو کبھی کبھی حکومت کی ایسی اسکیمیں آتی تھیں، مرغی کے لیے پیسے دیتے تھے اور پھر بتاتے تھے- مرغی لیجئے، اتنے انڈے ہوں گے، پھر اتنی مرغیاں ہوں گی، پھر اتنے انڈے ہوں گے۔ اور وہ بیچارہ لون لیتا تھا، پانچ مرغی لے آتا تھا اور شام کو لال گاڑی والے افسر آ جاتے تھے، وہ کہتے تھے رات کو رکنا ہے۔ اب رات کو رکنے کا مطلب کیا ہے، پانچ میں سے دو گئی۔ ہم سب نے دیکھا ہے نا۔ آج وقت بدل چکا ہے دوستوں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سب محدود رکھا گیا۔ ہم نے مدرا یوجنا کے ذریعے پورے گراف کو بدل دیا، اس کا حوصلہ بلند بنا دیا۔ 10 لاکھ روپے چاہیے، اٹھاؤ… کرو کچھ۔ مجھے یہ جان کر بھی بہت اچھا لگا کہ اُدیم پورٹل پر رجسٹرڈ کل ایم ایس ایم ای میں سے تقریباً 18 فیصد خواتین ہیں، یہ بھی اپنے آپ میں بہت اچھی بات ہے۔ یہ حصہ داری اور بڑھے، اس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ ساتھیوں، آنٹے پرینئرشپ میں یہ انکوزونیس، یہ اقتصادی شمولیت ہی صحیح معنوں میں سماجی انصاف ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ریہڑی، ٹھیلے، پٹری پر اپنا چھوٹا سا کام کرنے والے ساتھیوں کو بینکوں سے قرض ملے گا؟ میں بالکل یقین سے کہتا ہوں جی جس بینک منیجر کے گھر میں سالوں سے جو سبزی پہنچاتا ہوگا، سالوں سے اخبار ان کے یہاں ڈالتا ہوگا، اس کو بھی شاید اس بینک والے نے کبھی لون نہیں دیا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا اعتماد نہیں تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کچھ ملے گا، لیکن ایک ایسی سوچ کا دائرہ بن گیا تھا کہ اس کے باہر نہیں نکل سکتے۔ آج وہ ریہڑی پٹری والے بینک کے دروازے پر جا کر کھڑے رہتے ہیں، بغیر گارنٹی پیسہ دیا جاتا ہے ان کو اور اسی کا نام ہے سواندھی۔ آج پی ایم سواندھی یوجنا کے تحت لاکھوں ایسے ساتھیوں کو صرف قرض ہی نہیں مل رہا ہے، بلکہ ان کے چھوٹے کاروبار کو بڑا کرنے کا راستہ بھی ملا ہے۔ ہمارے جو ساتھی گاؤں سے شہر آتے ہیں سرکار ان کو ایک ساتھی کی طرح سپورٹ کر رہی ہے اور یہ محنت کرکے اپنی فیملی کو غریبی کے دائرہ سے باہر نکلنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ اور آپ کو جان کر خوشی ہوگی اگر میں آپ کو کہوں کہ آپ ڈیجیٹل پیمنٹ کیجئے تو آپ 50 بار سوچیں گ��، ڈیجیٹل پیمنٹ کروں گا تو ریکارڈ بنے گا، ریکارڈ بنے گا تو مودی دیکھے گا، مودی دیکھے گا تو کسی انکم ٹیکس والے کو بھیجے گا، اس لیے ڈیجیٹل نہیں کروں گا۔ آپ کو خوشی ہوگی سبزی، دودھ بیچنے والے میرے ٹھیلے والے ڈیجیٹل پیمنٹ کر رہے ہیں۔ اور میں مانتا ہوں دوستوں، اس پیش رفت میں ہمیں شریک ہونا ہے۔ اس پیش رفت کی آپ کو قیادت کرنی ہے۔ آگے آئیے دوستوں، میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی سچی پیش رفت ہے، یہی صحیح ترقی ہے۔ میں آج اس پروگرام کے ذریعے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے جڑے اپنے ہر بھائی بہن کو یہ یقین دلاتا ہوں سرکار آپ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے، آپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کے لیے تیار ہے، فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور پرو ایکٹولی آپ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کے لیے تیار ہے، آپ آگے آئیے دوستوں۔ اُدیمی بھارت کی ہر سدھی… اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے، آتم نربھر بھارت کی قوت ارادی اسی میں ہے دوستوں، آپ ہی میں ہے آپ کی صلاحیت میں ہے۔ اور میرا ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر پر، آپ سب پر، ملک کی نوجوان نسل میں، اور خاص کر ہماری بیٹیاں جو ہمت کے ساتھ آگے آ رہی ہیں، ان پر میرا بھروسہ ہے۔ اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ ملک اپنے تمام خوابوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے ہوئے دیکھنے والا ہے۔ آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے کہ ہاں یہ تبدیلی ہوئی، یہ ہوا، آپ کو دکھائی دے گا جی۔ ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے میری گزارش ہے کہ حکومت کی ان اسکیموں کا پورا فائدہ اٹھائیں۔ اور آپ کے ایسو سی ایشن میں جاؤں گا میں۔ آج سے دیکھنا شروع کروں گا جی ای ایم پورٹل پر اسی ہفتے میں ایک کروڑ لوگ زیادہ بڑھے کہ نہیں بڑھے، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ذرا ایسو سی ایشن کے لوگ آؤ میدان میں۔ سرکار آپ سے لینے کے لیے تیار ہے، آج جڑئیے تو۔ سرکار کو بتائیے میں یہ بناتا ہوں، لے لو۔ آپ دیکھئے بغیر ہچکچاہٹ کے ہر چیز آپ کی چلی جائے گی جی۔ ساتھیو، مجھے اچھا لگا، جن لوگوں کی عزت افزائی کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اور لوگ نہیں کرتے ہوں گے۔ وہ بھی اپنی تیاری کریں، اگلی بار آپ کی عزت افزائی کرنے کا مجھے موقع ملے۔ اچیو لوگوں کی عزت افزائی کرنے کا مجھے موقع ملے۔ مزید بلندیوں کو حاصل کریں۔ آپ سب کو میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ!,দিল্লীৰ ‘উদ্যমী ভাৰত’ কাৰ্যসূচীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%DA%86%D8%AA-%D8%A8%D9%88%D8%B1-%D9%81%D9%88%DA%A9%D9%86-%DA%A9%DB%8C-400%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%AB%E0%A7%81%E0%A6%95-2/,موہان نایوک، لاسیٹ بوڈفوکونور جی، ساری کھو بوسوریا، جویونتی اوپولوکھیے، دیکھور راجدھانی لوئی اوہا، آرو ایات، ہوموبیتو ہوا، آپونالوک ہوکولوکے، مور آنتوریک آبھی بادون، آرو، ہیوا جونائیسو۔ آسام کے گورنر جناب جگدیش مکھی جی، مقبول وزیر اعلیٰ جناب ہیمنتا بسوا سرما جی، مرکز و کابینہ کے میرے ساتھی سربانند سونووال جی، اسمبلی کے اسپیکر جناب بسوا جیت جی، ریٹائرڈ چیف جسٹس رنجن گوگوئی، تپن کمار گوگوئی جی، آسام سرکار کے وزیر پیجوش ہزاریکا جی، ممبران پارلیمنٹ، اور پروگرام میں شامل، اور ملک و بیرون ملک میں آسام کی ثقافت سے جڑی تمام شخصیات۔ سب سے پہل�� میں آسام کی اس عظیم سرزمین کو پرنام کرتا ہوں، جس نے ماں بھارتی کو لچت بورفوکن جیسے بہادر سپوت دیے ہیں۔ کل پورے ملک میں ویر لچت بورفوکن کی 400ویں جنم جینتی منائی گئی۔ اس موقع پر دہلی میں 3 دنوں کے خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس پروگرام سے جڑنے کا مجھے موقع ملا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے بڑی تعداد میں آسام کے لوگ بھی ان دنوں دہلی آئے ہوئے ہیں۔ میں آپ سبھی کا، آسام کے لوگوں کو، اور 130 کروڑ ہم وطنوں کو اس موقع پر ڈھیروں مبارکباد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، ہمیں ویر لچت کی 400 جنم جینتی منانے کا مبارک موقع اس دور میں ملا ہے، جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ یہ تاریخی موقع، آسام کی تاریخ کا ایک قابل فخر باب ہے۔ میں بھارت کی لافانی ثقافت، لافی شجاعت اور لافانی وجود کے اس تہوار پر اس عظیم روایت کو پرنام کرتا ہوں۔ آج ملک غلامی کی ذہنیت کو چھوڑ اپنی وراثت پر فخر کرنے کے جذبہ سے بھرا ہوا ہے۔ آج بھارت نہ صرف اپنے ثقافتی تنوع کو سیلیبریٹ کر رہا ہے، بلکہ اپنی ثقافت کے تاریخی مرد و خواتین کرداروں کو فخر سے یاد بھی کر رہا ہے۔ لچت بورفوکن جیسی عظیم شخصیات، بھارت ماں کی امر اولادیں، اس امرت کال کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہمارے حوصلہ کا باعث ہیں۔ ان کی زندگی سے ہمیں اپنی پہچان کا، اپنی عزت نفس کا احساس بھی ہوتا ہے، اور اس قوم کے لیے وقف ہونے کی طاقت بھی ملتی ہے۔ میں اس مبارک موقع پر لچت بورفوکن کی عظیم شجاعت اور بہاردری کو نمن کرتا ہوں۔ ساتھیوں، انسانی تاریخ کے ہزاروں برسوں میں دنیا کی کتنی ہی تہذیبوں نے جنم لیا۔ انہوں نے کامیابی کی بڑی بڑی اونچائیوں کو چھوا۔ ایسی تہذیبیں بھی آئیں، جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ لافانی ہیں، ناقابل شکست ہیں۔ لیکن، وقت کے امتحان نے بہت ساری تہذیبوں کو شکست دے دی، چور چور کر دیا۔ آج دنیا ان کی باقیات سے تاریخ کا اندازہ لگاتی ہے۔ لیکن، دوسری جانب یہ ہمارا عظیم بھارت ہے۔ ہم نے ماضی کے ان غیر متوقع حالات کا سامنا کیا۔ ہمارے آباء و اجداد نے بیرونی ممالک سے آئے حملہ آوروں کی ناقابل تصور دہشت کو جھیلا، برداشت کیا۔ لیکن، بھارت آج بھی اپنے اسی شعور، اسی توانائی اور اسی ثقافتی امتیاز کے ساتھ زندہ ہے، لافانیت کے ساتھ زندہ ہے۔ ایسا اس لیے، کیوں کہ بھارت میں جب بھی کوئی مشکل دور آیا، کوئی چنوتی کھڑی ہوئی، تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی عظیم شخصیت نمودار ہوئی ہے۔ ہماری روحانی اور ثقافتی پہچان کو بچانے کے لیے ہر دور میں سنت آئے، منیشی آئے۔ بھارت کو تلوار کے مور سے کچلنے کا منصوبہ پالے حملہ آوروں کا ماں بھارتی کی کوکھ سے جنمے ویروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لچت بورفوکن بھی ملک کے ایسے ہی بہادر جانباز تھے۔ انہوں نے دکھا دیا کہ سخت گیری اور دہشت کی ہر آگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے، لیکن بھارت کی امر جیوتی، جیون جیوتی امر بنی رہتی ہے۔ ساتھیوں، آسام کی تاریخ، اپنے آپ میں بھارت کے سفر اور ثقافت کی ایک انمول وراثت ہے۔ ہم الگ الگ خیالات و نظریات کو، سماجوں و ثقافتوں کو، عقائد و روایات کو ایک ساتھ جوڑتے ہیں۔ آہوم ریاست میں سب کو ساتھ لے کر بنے شیو ساگر شیو دوؤل، دیوی دوؤل اور وشنو دوؤل آج بھی اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن، اگر کوئی تلوار کے زور سے ہمیں جھکانا چاہتا ہے، ہماری حقیقی پہچان کو بدلنا چاہتا ہے، تو ہمیں اس کا جواب دینا بھی آتا ہے۔ آسام اور شمال مشرق کی سرزمین اس کی گواہ رہی ہے۔ آسام کے لوگوں نے متعدد بار ترکوں، افغانوں، مغلوں کے حملوں کا مقابلہ کیا، اور حملہ آوروں کو پیچھے کھدیڑا۔ اپنی پوری طاقت جھونک کر مغلوں نے گوہاٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن، پھر ایک بار لچت بورفوکن جیسے جانباز آئے، اور ظالم مغل سلطنت کے ہاتھ سے گوہاٹی کو آزاد کر وا لیا۔ اورنگ زیب نے شکست کی اس سیاہی کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ ہمیشہ ہمیشہ ناکام ہی رہا۔ ویر لچت بورفوکن نے جو بہادری دکھائی، سرائی گھاٹ پر جو شجاعت دکھائی، وہ مادر وطن کے لیے بے انتہا محبت کی مثال بھی تھی۔ آسام نے اپنی ریاست کے ایک ایک شہری کو ضرورت پڑنے پر اپنے مادر وطن کی حفاظت کے لیے تیار کیا تھا۔ ان کا ایک ایک نوجوان اپنی مٹی کا سپاہی تھا۔ لچت بورفوکن جیسی ہمت، ان کے جیسی بے خوفی، یہی تو آسام کی پہچان ہے۔ اور اسی لیے تو ہم آج بھی کہتے ہیں – ہونیسانے لوراہوت، لاسی تور کوتھا موگول بجوئے بیر، اتیہاکھے لکھا یعنی، بچوں تم نے سنی ہے لچت کی کہانی؟ مغل فاتح ویر کا نام تاریخ میں درج ہے۔ ساتھیوں، ہمارا ہزاروں سالوں کا دوام، ہماری شجاعت کا تسلسل، یہی بھارت کی تاریخ ہے۔ لیکن، ہمیں صدیوں سے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم ہمیشہ لٹنے پٹنے والے، ہارنے والے لوگ رہے ہیں۔ بھارت کی تاریخ، صرف غلامی کی تاریخ نہیں ہے۔ بھارت کی تاریخ جانبازوں کی تاریخ ہے، فتح کی تاریخ ہے۔ بھارت کی تاریخ، ظالموں کے خلاف غیر معمولی شجاعت اور بہادری دکھانے کی تاریخ ہے۔ بھارت کی تاریخ فتح کی ہے، بھارت کی تاریخ جنگ کی ہے، بھارت کی تاریخ قربانی کی ہے، بھارت کی تاریخ بہادری کی ہے، قربانی کی ہے، عظیم روایت کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمیں آزادی کے بعد بھی وہی تاریخ پڑھائی جاتی رہی، جو غلامی کے دور میں سازشاً رچی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ضرورت تھی، ہمیں غلام بنانے والے غیر ملکیوں کے ایجنڈے کو بدلا جائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ملک کے ہر کونے میں ماں بھارتی کے ویر، بیٹے بیٹیوں نے کیسے ظالموں کا مقابلہ کیا، اپنی زندگی وقف کر دی، اس تاریخ کو جان بوجھ کر دبا دیا گیا۔ کیا لچت بورفوکن کی شجاعت معنی نہیں رکھتی کیا؟ کیا ملک کی ثقافت کے لیے، پہچان کے لیے مغلوں کے خلاف جنگ میں لڑنے والے آسام کے ہزاروں لوگوں کی قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم سے بھرے لمبے دور میں ظالموں پر فتح کی بھی ہزاروں کہانیاں ہیں، قربانی کی کہانیاں ہیں۔ انہیں تاریخ کے مرکزی دھارے میں جگہ نہ دے کر پہلے جو غلطی ہوئی، اب ملک اسے ٹھیک کر رہا ہے۔ یہاں دہلی میں ہو رہا یہ پروگرام اسی کی عکاسی ہے۔ اور میں ہیمنتا جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ یہ پروگرام دہلی میں بھی کیا۔ ویر لچت بورفوکن کی شجاعت پر مبنی کہانی، زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے آسام سرکار نے کچھ ہی دن پہلے ایک میوزیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مجے بتایا گیا ہے کہ ہیمنتا جی کی سرکار نے آسام کی تاریخی شخصیات کے اعزام میں ایک میموریل تیار کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ یقیناً ہی ایسی کوششوں سے ہماری نوجوان اور آنے والی نسلوں کو بھارت کی عظیم ثقافت کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملے گا۔ آسام سرکار نے اپنے وژن سے ہر ایک کو جوڑنے کے لیے ایک تھیم سانگ بھی لانچ کیا ہے۔ اس کے بول بھی بہت انوکھے ہیں۔ اوکھومور آکاکھور، اوکھومور آکاکھور، بھوٹا تورا تومی، ہاہاہور ہوکوٹی، پوری بھاکھا تومی، یعنی آسام کے آسامان کا قطب�� ستارہ تم ہو۔ بہادری کی طاقت کی تعریف تم ہو۔ واقعی، ویر لچت بورفوکن کی زندگی ہمیں ملک کے سامنے موجود کئی موجودہ چنوتیوں کا ڈٹ کر سامنے کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ان کی زندگی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ – ہم ذاتی مفاد کو نہیں، ملکی مفاد کو اعلیٰ ترجیح دیں۔ ان کی زندگی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ ہمارے لیے اقربا پروری، بھائی بھتیجہ واد، نہیں بلکہ ملک سب سے بڑا ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ ملک کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داری نہ نبھا پانے پر ویر لچت نے مومائی کو بھی سزا دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا – ’’دیکھوت کوئی، مومائی ڈانگور نوہوئے‘‘ یعنی، مومائی ملک سے بڑا نہیں ہوتا۔ یعنی، کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی شخص، کوئی بھی رشتہ، ملک سے بڑانہیں ہوتا۔ آپ تصور کیجئے، جب ویر لچت کی فوج نے یہ سنا ہوگا کہ ان کا سپہ سالار ملک کو کتنی ترجیح دیتا ہے، تو اس چھوٹے سے سپاہی کا حوصلہ کتنا بڑھ گیا ہوگا۔ اور ساتھیوں یہ حوصلہ ہی ہوتا ہے جو جیت کی بنیاد بنتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کا نیا بھارت، ملک پہلے، نیشن فرسٹ کے اسی اصول کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیوں، جب کوئی قوم اپنے صحیح ماضی کو جانتی ہے، صحیح تاریخ کو جانتی ہے، تو ہی وہ اپنے تجربات سے سیکھتی بھی ہے۔ اسے مستقبل کے لیے صحیح سمت ملتی ہے۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے نظریہ کو کچھ دہائیوں یا کچھ صدیوں تک محدود نہ رکھیں۔ میں آج آسام کے مشہور نغمہ نگار کے ذریعے تخلیق کردہ اور بھارت رتن بھوپین ہزاریکا کے ذریعے آواز میں پروئے گئے ایک گیت کی دو لائنیں بھی دہرانا چاہوں گا۔ اس میں کہا گیا ہے – موئی لاسیٹے کوئیسو، مولی لاسیٹے کوئیسو، مور ہوہونائی نام لووا، لوئیت پوریا ڈیکا ڈال۔ یعنی، میں لچت بول رہا ہوں، برہم پتر کنارے کے نوجوانوں، میرا بار بار نام لو۔ مسلسل یاد کرکے ہی ہم آنے والی نسلوں کو صحیح تاریخ سے متعارف کرا سکتے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے بورفوکن جی کی زندگی پر مبنی ایک نمائش دیکھی، بہت ہی متاثر کرنے والی تھی، تعلیم دینے والی تھی۔ ساتھ ہی مجھے ان کی شجاعت بھری کہانی پر لکھی کتاب کا اجرا کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس طرح کے پروگراموں کے ذریعے ہی ملک کی صحیح تاریخ اور تاریخی واقعات سے ہر ایک کو جوڑا جا سکتا ہے۔ ساتھیوں، جب میں دیکھ رہا تھا تو میرے من میں ایک خیال آیا آسام کے اور ملک کے فنکاروں کو جوڑ کر ہم اس پر سوچ سکتے ہیں جیسے چھترپتی شیوا جی مہاراج پر ایک ایک جانتا راجا ناٹک کا تجربہ ہے۔ تقریباً 300-250 فنکار، ہاتھی، گھوڑے سارے پروگرام میں ہوتے ہیں اور بڑا زبردست پروگرام ہے۔ کیا ہم لچت بورفوکن جی کی زندگی پر ایسا ہی ایک ناٹک پر مبنی تجربہ کر یحں اور ہندوستان کے کونے کونے میں لے جائیں۔ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا جو عزم ہے نا اس میں یہ ساری چیزیں بہت بڑی طاقت دیتی ہیں۔ ہمیں بھارت کو ترقی یافتہ بھارت بنانا ہے، شمال مشرق کو بھارت کی صلاحیت کا مرکزی نقطہ بنانا ہے۔ مجھے یقین ہے، ویر لچت بورفوکن کی 400ویں جنم جینتی ہمارے ان عزائم کو مضبوط کرے گی، اور ملک اپنے اہداف کو حاصل کرے گا۔ اسی خواہش کے ساتھ، میں پھر ایک بار آسام سرکار کا، ہیمنتا جی کا، آسام کے لوگوں کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس مقدس تقریب میں مجھے بھی ثواب کمانے کا موقع مل گیا۔ میں آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں۔ شکریہ۔,নতুন দিল্লীত লাচিত বৰফুকনৰ ৪০০তম জন্ম জয়ন্তীৰ বছৰজোৰা উদযাপনৰ সামৰণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85%D8%8C-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%DA%A9%D9%88%D9%84%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%A6-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,شہید دیوس کے موقع پر ، وزیراعظم جنا ب نریندر مودی ، ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ 23 مارچ کو شام 6 بجے کولکاتا کے وکٹوریہ میموریل ہال میں بپلو بی بھارت گیلری کا افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم اس تقریب کے دوران اجتماع سے خطاب بھی کریں گے۔ یہ گیلری جد و جہد آزادی میں باغیوں کی حصہ رسدی اور برطانوی سامراج کے خلاف اُن کی مسلح جدو جہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اس پہلو کو جد وجہد آزادی کے اصل دھارے کے بیانیہ میں اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ اس نئی گیلری کا مقصد، ان واقعات کا ایک جامع تناظر فراہم کرنا ہے، جو 1947 تک جاری رہے، نیز یہ انقلابیوں کے ذریعہ ادا کردہ اہم رول کو اجاگر کرتی ہے۔ بپلو بی بھارت گیلری ، اُس سیاسی اور انٹلیکچول پس منظر کی عکاسی کرتی ہے، جس سے انقلابی تحریک شروع ہوئی تھی۔ یہ انقلابی تحریک کے آغاز ، انقلابی لیڈروں کے ذریعہ اہم ایسوسی ایشنوں کی تشکیل ، تحریک کا پھیلاؤ ، انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل ، نیول میوٹنی کی حصہ رسدی کا مکمل منظر نامہ پیش کرتی ہے۔,‘শ্বহীদ দিৱস’ত কলকাটাৰ ‘ভিক্টোৰীয়া মেম’ৰিয়েল হল’ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উদ্বোধন কৰিব ‘বিপ্লৱী ভাৰত বিথিকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%86%D9%88%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1%D8%8C%D8%A7%DB%81%D9%84-%D9%88%D8%B7%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%9B%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A7%87/,نئی دہلی ،یکم جنوری : وزیراعظم جناب نریندرمودی نے، اہل وطن کو، سال نوکے موقع پر ، مبارکباد پیش کی ہے ۔ اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہاہے کہ میں ،پرمسرت 2018کی تمناکرتاہوں ۔ میں دعاکرتاہوں کہ یہ سال سب کے لئے مسرت ، خوشحالی اور اچھی صحت لے کرآئے ۔,দেশবাসীলৈ নতুন বছৰৰ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D8%A7%D9%86%D8%AA%DB%8C-%D9%86%DA%A9%DB%8C%D8%AA%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B4%D9%88-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%AC%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%A8/,نئی دہلی/ 25مئی ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج مغربی بنگال کے شانتی نکیتن میں وشو بھارتی یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں موجود یونیورسٹی کے وائس چانسلر، یونیورسٹی کے صدور شعبہ، پروفیسر حضرات، فارع التحصیل طلبا ء، طلبا وطالبات اور معزز مہمان اور معزز حاضرین سے خطاب کیا۔ اس تقریر کامتن حسب ذیل ہے: ڈائس پر موجود بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ جی، مغربی بنگال کے گورنر جناب کیسری ناتھ ترپاٹھی جی، مغربی بنگال کی وزیر اعلی محترمہ ممتا بنرجی جی، وشو بھارتی کے پروفیسر سبوج کولی سین جی اور رام کرشنن مشن وویکا نند انسٹی ٹیوٹ کے سوامی آتم پریا نند جی اور یہاں موجود وشوبھارتی کے پروفیسر حضرات اور میرے پیارے نوجوان ساتھیو! میں سب سے پہلے وشو بھارتی کے چانسلر کی حیثیت سے سب سے پہلے آپ تمام حضرات سے معافی کا خواستگار ہوں کیونکہ میں جب راستے میں آرہا تھا تو کچھ بچے اشارے سے سمجھا رہے تھے کہ پینے کاپانی بھی نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو جو بھی تکلیف ہوئی ہے، چانسلر ہونے کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری تھی کہ اس کی نوبت نہ آئے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مجھے ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ وہاں میری شرکت ایک مہمان کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہاں مہمان نہیں بلکہ یہاں کے چانسلر کی حیثیت سے آپ کے درمیان آیا ہوں۔ یہاں میرا جو بھی رول ہے وہ اس عظیم جمہوریت کی بدولت ہے۔وزیراعظم کے عہدے کی وجہ سے نہیں۔ ویسے یہ جمہوریت بھی اپنے آپ میں ایک چانسلر ہے جو سوا سو سے زائد ہمارے ہم وطنوں کو الگ الگ طریقے سے ترغیب دے رہی ہے۔ جمہوری قدروں کی روشنی میں جو بھی نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ عظیم ہندوستان کے روشن مستقبل کی تعمیر میں معاون ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے کہ आचार्यत विद्याविहिता साघिष्‍ठतम प्राप्‍युति इति یعنی استاد کے پاس جائیں اس کے بغیر تعلیم ، عمدگی اور کامیابی نہیں ملتی ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ گورو دیو رویندر ناتھ ٹیگور کی اس سر زمین پر آج استادوں کے درمیان کچھ وقت گزارنے کاموقع ملا ہے۔ جیسے کسی مندر کے صحن میں آپ کو منتر کی جاپ سے توانائی محسوس ہوتی ہے۔ ویسے ہی توانائی وشو بھارتی یونیورسٹی کے صحن میں آکر محسوس کررہا ہوں۔میں جب ابھی کار سے اتر کر ڈائس کی جانب آرہا تھا تو ہر قدم پر میں یہ سوچ رہا تھا کہ کبھی اس سرزمین پر یہاں کے چپہ چپہ پر گورو دیو کے قدم پڑے ہوں گے۔ یہاں کہیں آس پاس ہی بیٹھ کر انہوں نے الفاظ کو کاغذ پر اتار ہوگا۔کبھی کوئی دھن، کوئی گیت گنگنایا ہوگا۔ کبھی مہاتما گاندھی سے طویل تبادلہ خیال کیا ہوگا۔ کبھی کسی طالبعلم کوزندگی کا، ہندوستان کا ، ملک کے وقار کا مطلب سمجھایا ہوگا۔ دوستو! آج اس جگہ ہم روایت کو نبھانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔یہ امر گنج تقریبا ایک صدی سے ایسے کئی مواقع کا گواہ رہا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے جو آپ نے یہاں سیکھا ہے ۔اس کی ایک منزل آج مکمل ہورہی ہے۔ آپ میں سے جن لوگوں کو آج ڈگری ملی ہے ان کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور مستقبل کے لئے ان کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ کی یہ ڈگری یہ تعلیمی لیاقت کا ثبوت ہے۔اس لحاظ سے یہ اپنے آپ میں کافی اہم ہے لیکن آپ نے یہاں صرف ایک ڈگری ہی حاصل نہیں کی ہے، ایسا نہیں ہے۔آپ نے یہاں جو سیکھا ہے ، جو پایا ہے وہ اپنے آپ میں انمول ہے۔آپ شاندار وراثت کے وارث ہیں ۔ آپ کا رشتہ ایسے استاد اور شاگرد کی روایت سے جڑا ہے جو جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی نیا بھی ہوتا ہے۔ ویدک اور پورانک عہد میں جسے ہمارے رشی منی نے سینچا، جدید ہندوستان میں اسے گورو دیو رویندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیت نے آگے بڑھایا ہے آج آپ کو جو یہ تمغہ دیا گیا ہے یہ بھی صرف ایک پتا نہیں ہے بلکہ ایک عظیم پیغام ہے۔قدرت کس طرح ہمیں ایک انسان کی حیثیت سے ، ایک ملک کی حیثیت سے، اچھی چیزیں دے سکتی ہے یہ اسی کی ایک علامت ہے، اس کی مثال ہے یہی تو اس عظیم ادارے کے پیچھے کا جذبہ ہے۔ یہی تو گورو دیو کے خیالات ہے جو وشو بھارتی کی بنیاد ہے۔ بھائیو اور بہنو! यत्र विश्‍वम भवेतेक निरम یعنی پوری دنیا ایک گھونسلہ ہے، ایک گھر ہے۔یہ ویدوں کی تعلیم ہے۔ جسے گورو دیو نے اپنی قیمتی خزانے کے وشو بھارتی کا‘‘لوح ’’ہے۔اس وید منتر میں ہندوستان کی مالا مال روایت کا نچ��ڑ چھپا ہوا ہے۔گورو دیو چاہتے تھے یہ جگہ نقیب بنیں جس کو پوری دنیا اپنا گھر بنائے۔ گھونسلے اور گھروندوں جہاں ایک ہی طرح دیکھا جاتا ہے ،جہاں پوری دنیا کو جذب کرنے کا جذبہ ہو یہی تو ہندوستانیت ہے۔یہی) وسودھیو کٹمب کم( वसुधैव कुटुम्‍बकम् کا منتر ہے یہ ہزاروں سال سے ہندوستان کی سرزمین میں گونج رہا ہے اور اسی منتر کے لئے گورو دیو نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ دوستو! ویدوں، اُپ نشدوں کا جذبہ ہزاروں سال قبل جتنا موضوع تھا۔اتنا ہی سو سال قبل جب گورو دیو شانتی نکیتن میں آئے تھے تب بھی موضوع تھا۔آج اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہوئی دنیا کے لئے بھی یہ اتنا ہی موضوع ہے۔آج سرحدوں کے دائرے میں بندھے ملک ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس خطے ارض کی عظیم روایت کو آج دنیا گلورائزیشن کی شکل میں جی رہی ہے۔ آج ہمارے درمیان بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ بھی موجود ہے۔ شاید ہی کبھی ایسا موقع آیا ہو کہ کسی جلسہ تقسیم اسناد میں دو ملکوں کے وزیراعظم موجود ہوں۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش دو ملک ہے لیکن ہمارے مفاد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔تہذیب وثقافت ہو یا پبلک پالیسی ہم ایک دوسرےبہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اسی کی ایک مثال بنگلہ دیش بھون ہے۔جس کا ہم دونوں کچھ دیر بعد وہاں جا کر افتتاح کرنے والے ہیں یہ بھون بھی گورو دیو کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ دوستو! میں کئی بار حیران ہوجاتا ہوں ، جب دیکھتا ہوں کہ گورودیو شخصیت نہیں بلکہ ان کے سفر کی توسیع بھی کس حد تک موضوع ہے۔ اپنے غیرملکی سفر کے دوران مجھے ایسے کئی لوگ ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ٹیگور کتنے سال پہلے ان کے ملک میں آئے تھے۔ ان ملکوں میں آج بھی کافی عزت کے ساتھ گورو دیو کو یاد کیا جاتا ہے۔ لوگ ٹیگو ر کے ساتھ خود کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم افغانستان جائیں تو ‘‘ کابلی والا’’ کی کہانی کا ذکر ہر افغانی کرتا ہے۔ وہ یہ ذکر بڑے فخر کے ساتھ کرتا ہے۔ تین سال قبل جب میں تاجکستان گیا تھا تو وہاں مجھے گورو دیو کے ایک مجسمہ کی نقاب کشائی کا موقع بھی ملا تھا۔ گورو دیو کے لئے وہاں کے لوگوں میں عزت و احترام کا جذبہ دیکھا وہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ دنیا کئی یونیورسٹیوں میں ٹیگور آج بھی موضوع تعلیم ہے۔ ملک کے نام پر چیئرس قائم ہیں۔ اگر میں کہوں کے گورو دیو پہلے بھی گلوبل سیٹزن تھے۔ تو وہ آج بھی ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ویسے آج اس موقع پر ان کا گجرات سے جو رشتہ رہا ہے اس کا ذکر کرنے کی طلب سے خود کو روک نہیں پارہا ہوں۔گورو دیو کا گجرات کے ساتھ ایک خاص رشتہ رہا ہے۔ ان کے بڑے بھائی ستیندر ناتھ ٹیگور جوسول سروسیز جوائن کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔وہ کافی دنوں تک احمد آباد میں بھی رہے تھے۔ غالباً وہ اس وقت احمد آباد کے کمشنر ہوا کرتے تھے اور میں نےکہیں پڑھا تھا کہ پڑھائی کے لئے ا نگلینڈ جانے سے قبل ستیندر ناتھ جی اپنے چھوٹے بھائی کو چھ ماہ تک انگریزی ہدف کی تعلیم وہی احمد آباد میں ہی دی تھی۔گورو دیو کی عمر اس وقت 17 سال تھی۔ اسی دوران گورو دیو نے اپنی مقبول نوبل کھدی توپاشان کے اہم حصے اور کچھ اشعار بھی احمد آباد کے قیام کے دوران ہی لکھے تھے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو گورو دیو کے عالمی پس منظر اپنی فتح کا لوہا منوانے میں چھوٹا سا حصہ ہندوستان کے ہر کونے کا رہا ہے اس میں گجرات بھی ایک ہے۔ ساتھیو! گرودیومانتے تھے کہ ہر شخص کی پیدائش کسی نہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئ�� ہوتی ہے۔ ہر بچہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے آگے بڑھ سکے اس کے لئے اسے اہل بنانے میں تعلیم کا اہم تعاون ہے۔ وہ بچوں کے لئے کیسی تعلیم چاہتے تھے: اس کی جھلک ان کی نظم پاور آف افیکشن میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تعلیم صرف وہی نہیں ہے، جو اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ تعلیم کو کسی شخص کے ہر پہلو کا متبادل فروغ ہے، جسے وقت اور مقام کے بندھن میں باندھا نہیں جاسکتا ہے اور اسی لئے گرو دیو ہمیشہ چاہتے تھے کہ بھارتی طلباء باہری دنیا میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے اسے اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ دوسرے دیشوں کے لوگ کیسے رہتے ہیں، ان کی سماجی اقدار کیا ہیں ، ان کی ثقافتی وراثت کیا ہے اس بارے میں جاننے پر وہ ہمیشہ زور دیتے تھے، لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بھارتیتا(ہندوستانیت ) نہیں بھولنی چاہیے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک بار امریکہ میں ایگریکلچر پڑھنے گئے اپنے داماد کو خط لکھ کر بھی انہوں نے یہ بات تفصیل سے سمجھائی تھی اور گرو دیو نے اپنے داماد کو لکھا تھا کہ وہاں صرف زراعت کی پڑھائی ہی کافی نہیں، بلکہ مقامی لوگوں سے ملنا جلنا یہ بھی تمہاری تعلیم کا حصہ ہے اور آگے لکھا لیکن اگر وہاں کے لوگوں کو جاننے کے پھیر میں تم اپنے بھارتیہ ہونے کی پہچان کھونے لگو تو بہتر ہے کمرے میں تالا بند کرکے اس کے اندر ہی رہنا۔ بھارتی قومی تحریک میں ٹیگور جی کا یہی تعلیمی اور بھارتیتا میں شرابور درشن ایک دوری بن گیا تھا۔ ان کی زندگی قومی اور عالمی خیالات کا مجموعہ ہے جو ہماری قدیم اقدار کا حصہ رہا ہے ۔ یہ بھی ایک وجہ رہی ہے کہ انہوں نے یہاں وشو بھارتی میں تعلیم کی الگ ہی دنیا تخلیق کی۔ سادگی یہاں کی تعلیم کا بنیادی اصول ہے۔ یہاں کلاسیں آج بھی کھلی ہوا میں پیڑوں کے نیچے چلائی جاتی ہیں، جہاں انسان اور فطرت کے درمیان براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ موسیقی ، مصوری، ناٹک میں اداکاری سمیت انسانی زندگی کے جتنے بھی پہلو ہوتے ہیں انہیں فطرت کی گود میں بیٹھ کر نکھارا جارہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جن خوابوں کے ساتھ گرودیو نے اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھی تھی، ان کو پورا کرنے کے سمت میں یہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ تعلیم کو ہنرمندی کے فروغ سے جوڑ کر اور اس کے ذریعے عام آدمی کی زندگی کے معیار کو اوپر اٹھانے کی ان کی کوشش قابل ستائش ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں کے لگ بھگ 50گاؤوں میں آپ لوگوں نے ساتھ مل کر ، آپ ان کے ساتھ جڑ کر ترقی کے خدمات کے کام کررہے ہیں، جب آپ کی اس کوشش کے بارے میں مجھے بتایا گیا تو میری امیدیں اور توقعات آپ سے ذرا بڑھ گئی ہیں اور امید اسی سے بڑھتی ہے، جو کچھ کرتا ہے۔آپ نے کیا ہے اسی لئے میری آپ سے توقعات بھی ذرا بڑھ گئی ہے۔ دوستو! 2021 میں اس عظیم ادارے کے 100برس پورے ہونے والے ہیں۔ آج جو کوشش آپ 50گاؤوں میں کررہے ہیں، کیا اگلے دو تین سالوں میں اسے آپ 100 یا 200 گاؤوں تک لے جاسکتے ہیں۔ میری ایک درخواست ہوگی کہ اپنی کوششوں کو دیش کی ضرورتوں کے ساتھ جوڑئیے ، جیسے آپ یہ عہد کرسکتے ہیں کہ 2021 تک جب اس عظیم ادارے کی ہم صد سالہ تقریب منائیں گے، 2021 تک ایسے 100 گاؤوں کو فروغ دے کر یہاں کے ہر گھر میں بجلی کنکشن ہوگا، بیت الخلاء ہوگا، ماؤں او ربچوں کے ٹیکے لگے ہوں گے، گھر کے لوگوں کو ڈجیٹل لین دین آتا ہوگا۔ انہیں کامن سروس سینٹر پر جاکر اہم فارم آن لائن بھرنا آتا ہوگا۔ آپ کو یہ اچھی طرح پتہ ہے کہ اجولا یوجنا کے تحت دیئے جارہے گیس کنکشن اور سووچھ بھارت مشن کے تحت بنائے جارہے بیت الخلاؤں نے خواتین کی زندگی آسان کرنے کا کام کیا ہے۔گاؤوں میں آپ کی کوشش نے اس دنیا میں خواتین کی قوت کو مستحکم کرنے کا کام کرے گا اور اس کے علاو ہ یہ بھی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ان 100 گاؤوں کو فطرت سے محبت اور فطرت کی پوجا کرنے والا گاؤوں کیسے بنایا جائے جیسے آپ فطرت کی تخلیق کی طرح ہیں، کام کرتے ہیں، ویسے ہی گاؤوں بھی آپ کے مشن کا حصہ بنے گا۔یعنی یہ 100 گاؤوں اس زندگی کو آگے بڑھائیں جہاں پانی کے ذخیرے کی سہولت کو فروغ دے کر پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لکڑی نہ جلا کر ہوا میں توازن برقرار رکھا جاتاہے۔ صفائی ستھرائی کا دھیان رکھتے ہوئے اور قدرتی کھاد کا استعمال کرتے ہوئےزمین کا تحفظ کا کیا جاسکتا ہے۔ بھارت سرکار کی گوبر دھن یوجنا کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایسے تمام کام جن کی چیک لسٹ بناکر آپ انہیں پورا کرسکتے ہیں۔ ساتھیو! آج ہم ایک الگ ہی حالت میں الگ ہی چیلنج کے درمیان جی رہے ہیں۔ 125 کروڑ ہم وطنوں نے 2022 ء تک ، جب آزادی کے 75 سال ہوں گے، نیو انڈیا بنانے کا عہد کیا ہے۔ اس عہد کے کو پورا کرنے میں تعلیم اور تعلیم سے جڑے آپ جیسے عظیم اداروں کا اہم رول ہے۔ ایسے اداروں سے نکلے نوجوان ملک کو نئی توانائی دیتے ہیں، ا یک نئی سمت دیتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں صرف تعلیم کا ادارہ نہ بنیں۔لیکن سماجی زندگی میں ان کا سرگرم تعاون ہو، اس کے لئے کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ سرکار کے ذریعے انّت بھارت ابھیان کے تحت یونیورسٹیوں کو گاؤں کی ترقی کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ گرودیو کی زندگی کے ساتھ ساتھ نیو انڈیا کی ضرورتوں کے مطابق ہماری تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے مرکزی حکومت لگاتار کوششیں کررہی ہیں۔ اس بجٹ میں ریوائٹلائزنگ انفرااسٹرکچر اینڈ سسٹم ان ایجوکیشن، RISE نام سے ایک نئی اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے تحت اگلے چار سال میں دیش کے تعلیمی نظام کو سدھارنے کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کیا جائے گا۔گلوبل انیشی ایٹیو آف اکیڈمک نیٹ ورک، GYAN بھی شروع کیا گیا ہے، اس کے ذریعے بھارتی اداروں میں پڑھانے کے لئے دنیا کے بہترین معلموں کو مدعو کیا جارہا ہے۔ تعلیمی اداروں کو مناسب سہولیات ملیں، اس کے لئے ایک ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی فائنانسنگ ایجنسی شروع کی گئی ہے۔ اس سے اہم تعلیمی اداروں میں اعلیٰ معیاری بنیادی ڈھانے کے لئے سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔ کم عمر میں ہی اینوویشن کا مائنڈ سیٹ کرنے کے لئے اب اس سمت میں ہمیں ملک بھر کے 2400 اسکولوں کو چنا۔ ان اسکولوں میں اٹل ٹنکرنگ لیب کے ذریعے ہم چھٹی سے بارہویں کےطلباء پر توجہ دے رہے ہیں۔ ان لیب میں بچوں کو جدید تکینک سے متعارف کروایا جارہا ہے۔ ساتھیو! آپ کا یہ ادارہ تعلیم میں اینوویشن کا زندہ ثبوت ہے۔ میں چاہوں گا کہ وشو بھارتی کے 11ہزار سے زیادہ طالب علم اینوویشن کو بڑھاوا دینے کے لئے شروع کی گئی اسکیموں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔آپ سبھی یہاں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں۔ گرودیو کے آشیرواد سے آپ کو ایک ویژن ملا ہے۔آپ اپنے ساتھ وشو بھارتی کی پہچان لے کر جارہے ہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس کے فخر کو اور زیادہ بڑھانے کے لئے آپ مسلسل کوشش کرتے رہیں۔ جب خبروں میں آتاہے کے ادارے کے طالب علم اپنے اینوویشن کے ذریعے اپنے کام سے 500 یا ہزار لوگوں کی زندگی بدل دی تو لوگ اس ادارے کو بھی سلام کرتے ہیں۔ آپ یاد رکھیں ، جو گرو دیو نے کہا تھا ’’اگر آپ کے ساتھ چلنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے تب بھی اپنے مقصد کی طرف اکیلے ہی چلتے رہو‘‘ لیکن آج میں آپ کو یہ کہنے آیا ہوں کہ اگر آپ ایک قدم چلیں گے تو سرکار چار قدم چلنے کو تیار ہیں۔ عوامی ساجھیداری کےساتھ بڑھتے ہوئے قدم ہی ہمارے ملک کو 21ویں صدی میں اس مقام تک لے جائیں گے جس کا وہ حقدار ہے، جس کا خواب گرو دیو نے بھی دیکھا تھا۔ ساتھیو! گرو دیو نے اپنے انتقال سے کچھ وقت پہلے گاندھی جی سے کہا تھا کہ وشو بھارتی وہ جہاز ہے جس میں ان کی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ بھارت کے لوگ ہم سبھی اس قیمتی خزانے کو محفوظ رکھیں تو اس خزانے کو نہ صرف محفوظ رکھنے ، بلکہ اس میں اضافہ کرنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔ وشو بھارتی یونیورسٹی نیو انڈیا کے ساتھ ساتھ دنیا کو نئے راستے دکھاتی رہے۔ اسی امید کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ اپنے، اپنے ماں باپ، اس ادارے اور اس دیش کے خوابوں کو پورا کریں اس کے لئے آپ کو ایک بار پھر بہت بہت شبھ کامنائیں، بہت بہت دھنیہ واد۔,পশ্চিমবংগৰ শান্তিনিকেতনত অৱস্থিত বিশ্বভাৰতী বিশ্ববিদ্যালয়ৰ সমাবৰ্তনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92%D8%8C-%DA%AF%DA%BE%D9%88%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی۔21 اکتوبر 2017؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی کل گجرات کا دورہ کریں گے۔ گھوگھا میں ایک میٹنگ کے دوران وزیراعظم گھوگھا اور دہیج کے درمیان فیری سروس کے پہلے مرحلے کا افتتاح کریں گے۔ اس سروس سے گھوگھا اور سوراشٹر کے درمیان سفر میں لگنے والے سات سے آٹھ گھنٹے کے وقت میں کمی آئے گی اور سفر ایک گھنٹہ میں ہوگا۔ جب یہ سروس مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گا تو اس کا گاڑیوں کے نقل و حمل میں بھی آسانی پیدا ہوگی۔ وزیراعظم گھوگھا سے دہیج تک اس سروس کا پہلا آبی سفر کریں گے۔ اس سفر کے اختتام پر وزیر اعظم دہیج میں عوامی جلسے سے خطاب کریں گے۔ گھوگھا میں ایک عوامی جلسے میں وزیراعظم سرووتم کیپٹل فیڈپلانٹ کا افتتاح کریں گے۔ دہیج سے وزیراعظم ودودرا کا سفر کریں گے۔ وہاں ایک عوا می جلسے میں وہ ودودرا سٹی کمانڈ کنٹرول سینٹر، وگھوڈیا ریجنل واٹر سپلائی اسکیم اور ودودرا میں بینک آف برودا کے نئے ہیڈ آفس کی عمارت ملک کو وقف کریں گے۔ وزیراعظم پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مستفید ہونے والے افراد کو گھروں کی چابیاں سپرد کریں گے۔ وہ متعدد بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی پروجیکٹوں کا بھی سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح) 21.10.2017,"গুজৰাট ভ্ৰমণলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰী, উদ্বোধন কৰিব ঘোঘা আৰু দাহেদ সংযোগী প্ৰথম পৰ্যায়ৰ আৰঅ’ আৰঅ’ ফেৰী সেৱা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D9%84%DB%8C-%D8%B9%DB%81%D8%AF-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%93%D8%A8-%D8%B4%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81-%D9%85%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%8C%E0%A6%A1%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A7%8D/,"نئیدہلی۔21؍فروری۔مملکت سعودی عرب کے ولی عہد عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود کی جانب سے سفر ہند کے موقع پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں ولی عہد موصوف کے تاثرات حسب ذیل ہیں: جمہوریہ ہند کے وزیراعظم جناب نریندر مودی کی دعوت پر دو مقدس ترین مساجد کے متولی اور مملکت سعودی عرب کے نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع عزت مآب ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے 20-19 فروری 2019 کو ہندوستان کا دورہ کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ہوائی اڈے پر ولی عہد کا خیرمقدم کیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دو مقدس ترین مساجد کے متولی عزت مآب جناب سلمان بن عبدالعزیز السعود کی دعوت پر مملکت سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ولی عہد موصوف کے اعزاز میں راشٹرپتی بھون کے صحن زار میں ایک شاندار استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند نے عزت مآب ولی عہد موصوف کے اعزاز میں ایک عشائیے کا بھی اہتمام کیا۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی اور عزت مآب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے 20 فروری 2019 کو حیدر آباد ہاؤس میں وفود کی سطح کے مذاکرات کیے۔ اس کے ساتھ مرکزی وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج نے بھی عزت مآب ولی عہد موصوف نے ملاقات کی۔ ہندوستان اور مملکت سعودی عرب کے قدیمی دوستانہ مراسم صدیوں قدیم معاشی اور سماجی ، ثقافتی تعلقات کے مظہر ہیں۔ نزدیکی جغرافیائی قربت ، تہذیبی رابطے ، ثقافتی تقرب ، قدرتی شمولیت اور عوام سے عوام کے فعال رابطے اور دونوں ملکوں کو درپیش مشترکہ چیلنج اور مواقع نے ان مستحکم اور مضبوط مراسم کو مزید فعالیت پیدا کردی ہے۔ اس موقع پر دونو ں ملکوں کے درمیان مذاکرات اس ٹھوس اور مضبوط دوستی کے جذبے سے کیے گئے جس نے دونوں ملکوں کے لیڈروں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے باہمی تعلقات او رتعاون کی صورتحال پر اطمینان وتشفی کا اظہار کیا۔ دونوں ملکوں نے تجارت ، توانائی ، سلامتی اور ثقافت کےہمہ جہت میدانوں میں دونوں ملکوں کے مراسم کی پیش رفت پر اطمینان کااظہار کیا کہ ان میدانوں میں ، وزیراعظم جناب نریندر مودی کے اپریل 2016 میں دورہ سعودی عرب کے بعد سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے مزید قریب ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سعودی عرب میں جدید کاری اور کشادگی پیدا کرنے کی غرض سے ولی عہد موصوف کے ذریعے کیے گئے حالیہ اقدامات کا خیرمقدم کیا۔ دوسری طرف ولی عہد موصوف نے شمولیت ، اجتماعیت اور رواداری کے ہندوستانی قدروں کی ستائش کی۔ اس موقع پر دونوں فریقوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ دونوں ممالک حکمتی شراکت داری کو مستحکم بنانے کے تئیں گہرائی کے ساتھ عہدبستہ ہیں۔ یہ جذبہ، دو مقدس ترین مساجد کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے فروری 2014 میں دورہ ہند اور 2016 میں وزیراعظم جناب نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کے بعد جاری کیے جانے والے ریاض اعلامیہ میں واضح طور سے مضمر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر دونوں فریقوں نے عزت مآب وزیراعظم ہند اور عزت مآب ولی عہد موصوف کی قیادت میں قائم کی جانے والی حکمتی شراکت داری کونسل کے اعلیٰ سطحی نگرانی کے نظام کے ساتھ دونوں ملکوں کی موجودہ حکمتی شراکت داری کو مضبوط بنائے جانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ دونوں ملکوں نے نیتی آیوگ اور سعودی سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹیجک پارٹنرشپ (ایس سی آئی ایس پی) کی ریاض میں اہتمام کی جانے والی ورکشاپ کے نتائج کا خیرمقدم کیا۔ اس ورکشاپ میں مشترکہ شراکت داری اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے 40 مواقع کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس موقع پر درج ذیل مفاہمتی عرضداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ نیشنل انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر فنڈ آف انڈیا میں سرمایہ کاری پر مفاہمتی عرضداشت۔ سیاحت کے میدان میں باہمی تعاون پر مفاہمتی عرضداشت۔ ہاؤسنگ کے شعبے میں باہمی تعاون پر مفاہمتی عرضداشت ۔ انویسٹ انڈیا اور سعودی عربیہ جنرل انویسٹمنٹ اتھارٹی(ایس اے جی آئی اے ) کے درمیان باہمی تعاون کے پروگرام کا فریم ورک۔ آڈیو ویژول (بصری و سمعی) کے باہمی تبادلے کیلئے نشریات کے شعبے میں باہمی تعاون پر مفاہمتی عرضداشت۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی کے ذریعے لانچ کیے جانے والے انٹرنیشنل سولر الائنس (بین الاقوامی شمسی اتحاد ) میں مملکت سعودی عرب کو شامل کیے جانے پر معاہدہ۔ حال کے دنوں میں باہمی تجارت میں مثبت رجحان کو دیکھتے ہوئے دونوں فریقوں نے بالخصوص غیرتیل تجارت کے میدان میں موجود کاروباری امکانات کا اعتراف کیا ۔ اس کے ساتھ ہی دونوں فریقوں نے ہند- سعودی عرب جوائنٹ کمیشن کے فروری 2018 میں ریاض میں ہونے والے بارہویں اجلاس کے مثبت مذاکرات کی ستائش کی۔ دونوں فریقوں نے ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت کی مالیت میں اضافہ کرنے اور برآمداتی دشواریاں دور کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس موقع پر دونوں فریقوں نے سعودی عربین جنرل انویسٹمنٹ اتھارٹی (ایس اے جی آئی اے) اور انویسٹ انڈیا کے درمیان فریم ورک کو آپریشن ایگریمنٹ پر دستخط کیے جانے کے بعد سرمایہ کاری کی فضا میں پیدا ہونے والی مثبت تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا۔ اس فریم ورک کو آپریشن ایگریمنٹ پر وزیراعظم جناب نریندر مودی کے 2016 میں سفر ریاض کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ولی عہد موصوف شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا کہ سعودی عرب توانائی ، تیل صاف کرنے کے اُمور ، پیٹرو کیمیکل ، انفراسٹرکچر ، زراعت ، کان کنی ومعدنیات ، مینوفیکچرنگ ایجوکیشن اور صحت کے شعبے میں 100 بلین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کریگا۔ دونوں فریقوں نے 44 بلین امریکی ڈالر کی مالیت کے جوائنٹ وینچر ویسٹ کوسٹ ریفائنری اینڈ پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ اس پروجیکٹ پر جلد ہی عمل آوری شروع کی جائے گی۔ یہ پروجیکٹ دنیا میں سب سے بڑا گرین فیلڈ ریفائنری کارخانہ ہوگا جس پر ایک ہی مرحلے میں عمل آوری کی جائے گی۔ علاوہ ازیں پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی معرفت 10 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی شراکت داری اور سرمایہ کاری کے دیگر مواقع میں کی جائے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نیشنل انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر فنڈ (این آئی آئی ایف) میں سعودی عرب کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ یہ سرمایہ کاری ہندوستان کے دیگر کلیدی شعبوں میں بھی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں دونوں فریقوں نے نیشنل انویسٹمنٹ انفراسٹرکچر فنڈ (این آئی آئی ایف ) پر دستخط کیے جانے کی ستائش کی کہ اس سے باہمی معاشی تعاون کے امکانات کی راہ ہموار ہوگی۔ توانائی سلامتی کی اہمیت کااعتراف کرتے ہوئے دونوں فریقوں نے توانائی کے میدان میں باہمی تجارت میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا کیوں کہ توانائی کی سلامتی حکمتی شراکت داری کے کلیدی ستون کی حیثیت رکھتی ہے اور سعودی عرب کو دنیا میں تیل اور قدرتی گیس کا سب سےبھروسے مند سپلائر ہونے ک�� حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں فریقوں نے ہند – سعودی عرب توانائی مذاکرات کو جاری رکھنے پر زور دیا ، ا س کے ساتھ ہی دونوں فریقوں نے دونوں ملکوں کے توانائی کے شعبے میں خریدار اور فروخت کار کے تعلقات میں تبدیلی پیدا کرنے پر اتفاق کا اظہار کیا ۔ دونوں فریقوں نے دفاع کے شعبے میں اور بالخصوص مہارت اور تربیت کے میدانوں میں ہند- سعودی عرب باہمی تعاون میں ہونے والے حالیہ فروغ کا خیرمقدم کیا۔ ہند- عزت مآب شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے سال 2014 میں سفر ہند کے دوران دفاعی تعاون پر مفاہمتی عرضداشت پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں دونوں فریقوں نے حال ہی میں ریاض میں منعقدہ جوائنٹ کمیٹی آف ڈیفنس کوآپریشن کے نتائج پر بھی اطمینان وتشفی کا اظہار کیا۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی وبا دنیا کے تمام ملکوں اور سماجوں کیلئے سنگین ترین خطرے کی حیثیت رکھتی ہے، دونوں فریقوں نے اس وبا کو کسی مخصوص فرقے ، ذات یا مذہب سے جوڑے جانے کی کوشش کو یکسر مسترد کردیا ۔ دونوں فریقوں نے دنیا کے تمام ملکوں سے اپیل کی کہ دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کے استعمال کو سرسری طور سے مسترد کیا جانا چاہئے اور دہشت گردی کے اڈے ہوں ان کو تباہ کردیا جانا چاہئے اور دہشت گردوں کی سرمایہ کاری کے وسائل بند کردیا جانا چاہئے۔ دونوں فریقوں نے زور دیکر کہا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل آوری کی جانی چاہئے۔ ا س موقع پر دونوں فریقوں نے مغربی ایشیا او رمشرق وسطیٰ میں سلامتی کی صورتحال اور بالخصوص دونوں ملکوں کے مشترکہ علاقائی اور عالمی امن کے مفادات سلامتی اور استحکام سمیت باہمی مفادات کے علاقائی اور بین الاقوامی اُمور پر تبادلہ خیال کیا ۔اس کے ساتھ ہی دونوں فریقوں نے مسئلہ شام کے حل کے تعلق سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 2254 پر عمل درآمد کیے جانے پر زور دیا اور سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 کے حوالے سے جی سی سی اقدامات اور یمنی نیشنل ڈائلاگ کے حوالے سے یمن کے مسئلے کو حل کیے جانے پر زور دیا۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی اور عزت مآب مہمان محترم نے زور دیکر کہا کہ سلامتی کے اُمور بالخصوص بحری سلامتی، قوانین کےاطلاق ، انسداد حوالہ ، منشیات کی ا سمگلنگ ، انسانی اسمگلنگ، غیرقانونی نقل وطن اور دیگر بین ملکی منظم جرائم پر شکنجہ کسنے کیلئے قریبی باہمی تعاون پر زور دیا۔ سائبر میدان کو شورش پسندی اور انتہاپسند نظریات کے فروغ کیلئے بداستعمالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریقوں نے سائبر اسپیس کے میدان میں تکنیکی تعاون کی مفاہمتی عرضداشت پر زور دیا۔ دونوں فریقوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی نیز سماجی ہم آہنگی میں رخنہ اندازی کیلئے سائبر اسپیس کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا۔ ہندوستانی فریق نے بڑی تعداد میں ہندوستانی شہریوں کی سعودی عرب میں میزبانی اور ان کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کیلئے سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے 32ویں سعودی نیشنل فیسٹول آف ہیریٹیج اینڈ کلچر – جنادریہ 2018 میں ہندوستان کو گیسٹ آف آنر کااعزاز عطا کرنے پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا ۔ دونوں فریقوں نے عوام سے عوام کے رابطے میں مزید اضافے اور سعودی عرب میں انڈیا ویک کے عنوان سے ثقافتی ہفتہ تقریبات اور ہندوستان میں سعودی عربیہ ویک کے عنوان سے ثقافتی ہفتہ تقری��ات کا بلاناغہ اہتمام کیے جانے پر زور دیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ہندوستان کے زائرین حج کی تعداد بڑھا کر دو لاکھ کیے جانے پر دنیا کی دو مقدس ترین مساجد کے متولی عزت مآب ولی عہد موصوف کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے سعودی جیلوں سے 850 ہندوستانی شہریوں کی رہائی کے احکام جاری کیے جانے کیلئے دنیا کی مقدس ترین مساجد کے متولی موصوف کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں فریقوں نے عوام سے عوام کی رابطہ کاری اور امیگریشن اور سفارتخانوں سے متعلق چیلنجوں کے تدارک کے ذریعے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کی عوام کی آمدورفت کے دائرے کو وسیع کرنے کی خواہش کااظہار کیا۔ حکومت ہند نے سعودی عربین ایئرلائنس کے طیاروں میں نشستوں کی تعداد 80 ہزار ماہانہ سےبڑھا 112,000 ماہانہ کیے جانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔ علاوہ ازیں دونوں فریقوں نے عمومی طور سے ہندوستانی برادری کے فائدے اور خصوصاً حج / عمرہ کے زائرین کیلئے طریقہ ادائیگی میں ’روپے‘ کا طریقہ اختیار کیے جانے کے امکانات کا پتہ لگانے کے میدان میں تعاون پر اتفاق رائے اظہار کیا۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستانی مزدوروں کے اقامہ کے مسئلے کے حل کیلئے عزت مآب ولی عہد موصوف کا شکریہ ادا کیا کہ یہ مزدور بغیر کسی غلطی کے سعودی عرب میں پھنس کر رہ گئے تھے اور ان کا مسئلہ انسانی بنیاد پرحل کیے جانے کے لئے ولی عہد موصوف کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں فریقوں نے فرار معاشی مجرموں کے مسئلے کو بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے ذریعے حل کیے جانے کے تئیں بھی عہدبستگی کا اظہار کیا۔ سعودی عرب کے نائب وزیراعظم و وزیر دفاع ،عزت مآب ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے اس موقع پر بڑی تعداد میں عوام کی موجودگی اور گرم جوش میزبانی کیلئے حکومت ہند کا شکریہ ادا کیا۔",ছৌডি আৰৱৰ যুৱৰাজৰ ভাৰত ভ্ৰমণৰ সময়ত ভাৰত-ছৌডি আৰৱ যৌথ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نےجناب ایل کے اڈوانی سے ملاقات کر کے انہیں ان کے یوم پیدائش پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’اڈوانی جی کی رہائش گاہ پر گیا اور ان کے یوم پیدائش پر انہیں مبارکباد پیش کی۔ ہندوستان کی ترقی میں ان کا تعاون یادگار ہے۔ ان کی بصیرت اور ذہانت کی وجہ سے پورے ہندوستان میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ بی جے پی کی تعمیر اور مضبوطی میں ان کا کردار بے مثال ہے۔ میں ان کی لمبی عمر اورصحت مند زندگی کے لیے دعا گو ہوں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 12318,প্রধানমন্ত্রীয়ে জন্ম দিনত শুভেচ্ছা জনাবলৈ শ্ৰী এল কে আদৱানিক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%86%D8%AC%D9%85%D9%86-%D9%86%DB%8C%D8%AA%D9%86-%DB%8C%D8%A7%DB%81%D9%88-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بنجمن نیتن یاہو کو اسرائیل کے عام انتخابات میں کامیابی پر مبار��باد دی ہے۔ جناب مودی نے ہندوستان-اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو ترجیح دینے کے لیے وزیر اعظم یائر لیپڈ کا بھی شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘میرے دوست نیتن یاہو @ آپ کی انتخابی کامیابی کے لیےمیزیل ٹوو ۔ میں ہندوستان-اسرائیل اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں کو جاری رکھنے کا منتظر ہوں۔’’ ‘‘ہندوستان-اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو ترجیح دینے کے لیےیائر لیپڈ @ کا شکریہ۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے لوگوں کے باہمی فائدے کے لیے ہمارے درمیان خیالات کا نتیجہ خیز تبادلہ جاری رہے گا۔’’,ইজৰাইলৰ সাধাৰণ নিৰ্বাচনত সফলতা লাভ কৰাৰ বাবে বেঞ্জামিন নেতান্যাহুক অভিনন্দন জনালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%BA%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C-%D9%82%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE/,نئی دلّی ، 29 اگست؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی زیر قیادت، مرکزی کابینہ نے بھارت اور افغانستان کے درمیان مجرمانہ معاملوں کے سلسلے میں باہمی قانونی امداد کے معاہدے کو منظوری دے دی ہے ۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان جرائم کی تحقیقات اور مقدمات کے سلسلے میں باہمی قانونی تعاون فراہم کرنا ہے ۔دو نوں ملکوں کے درمیان سرحد پار کے جرائم اور اس کے دہشت گردانہ روابط کے پس منظر میں بھی یہ معاہدہ تفتیش اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ایک وسیع قانونی فریم ورک مہیا کرے گا ۔اس کے علاوہ یہ معاہدہ دہشت گردوں کو تلاش کرنے ، ان پرقانو حاصل کرنے ، ان کے وسائل کو ضبط کرنے اور جرائم کے طریقوں کا سد باب کرنے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کی روک تھام میں بھی مدد گار ثابت ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,ভাৰত আৰু মৰক্কোৰ মাজত বিমান সেৱা চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D8%A7%D8%B3%D9%85%D8%A8%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اتراکھنڈ کے سابق اسمبلی اسپیکر جناب ہر بنس کپور جی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیاہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ‘‘اتراکھنڈ کے ہماری پارٹی کے سینئر ساتھی جناب ہربنس کپور جی کے انتقال سے بہت دکھ ہوا ہے ۔ ایک سرکردہ قانون ساز اور منتظم ،وہ عوام کی خدمت اور سماجی فلاح و بہبود میں اپنے تعاون کے لئے یاد کئے جائیں گے۔ ان کے اہل خانہ اور حامیوں سے تعزیت۔’’,উত্তৰাখণ্ড বিধানসভাৰ প্ৰাক্তন অধ্যক্ষ হৰবন কাপুৰৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D8%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-54%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%84%D8%B3%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%AA%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96/,جلسہ تقسیم اسناد میں اتنا سنجیدہ رہنا ضروری ہوتا ہے کیا؟ ایسا لگتا ہے کہ بہت سی اطلاعات دی گئی ہیں۔ آپ سب کو نمسکار! یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، ڈاکٹر کے رادھا کرشنن جی، پروفیسر ابھے کرندکر جی، آئی آئی ٹی کانپور کے پروفیسران، تمام طلبا، دیگر معززین جو اس تاریخی ادارے سے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں، اس تقریب میں موجود ہیں! آج کانپور کے لیے دوہری خوشی کا دن ہے۔ آج کانپور کو میٹرو جیسی سہولیات مل رہی ہیں جب کہ آئی آئی ٹی کانپور بھی ٹکنالوجی کی دنیا کو آپ جیسے قیمتی تحائف دے رہا ہے۔ میں ہر نوجوان ساتھی کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آج یہ اعزاز حاصل کرنے والے طلبا کو مبارکباد۔ آج آپ جہاں پہنچے ہیں، آپ کے والدین، آپ کے خاندان کے افراد، آپ کے اساتذہ، آپ کے پروفیسر بے شمار لوگ ہوں گے، یہ سب بہت محنت کر رہے ہیں، کسی نہ کسی چیز میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ میں ان سب کو، خاص طور پر آپ کے والدین کو بھی دل کی خوشی سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، جب آپ نے آئی آئی ٹی کانپور میں داخلہ لیا تھا ہوئے اور اب جب آپ یہاں سے جا رہے ہیں، اب، آپ اپنے آپ میں ایک بڑی تبدیلی محسوس کر رہے ہوں گے۔ یہاں آنے سے پہلے نامعلوم کا خوف، نامعلوم کا تجسس ہوگا۔ اس سے پہلے، آپ کا علم، آپ کے سوالات آپ کے اسکول اور کالج، آپ کے دوستوں، آپ کے خاندان، آپ کے پیاروں تک محدود تھے۔ آئی آئی ٹی کانپور نے آپ کو اس سے باہر نکالا ہے اور آپ کو ایک بہت وسیع کینوس دیا ہے۔ اب نامعلوم کا کوئی خوف نہیں ہے، اب وہ پوری دنیا کو دریافت کرنے کی ہمت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب نامعلوم کا کوئی تجسس نہیں ہے، اب بہترین کی جستجو ہے، پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کا خواب ہے۔ اور آپ نے اپنے کلاس روم میں جو سیکھا ہے، یا آپ اپنی کلاس میں جتنا زیادہ سیکھیں گے، آپ کو اپنے کلاس روم سے باہر، اپنے ساتھیوں میں اتنا ہی زیادہ تجربہ ہوگا۔ آپ کے خیالات، آپ کے کے آئیڈیاز کی کلاس روم میں وسعت ہوئی۔ آپ کی شخصیت میں توسیع ہوئی ہے، آپ کی شخصیت میں ترقی ہوئی ہے۔ آپ نے کانپور میں جو کچھ کمایا، جو خیالات ثروت مند ہوئے ہیں وہ اتنی مضبوط فاؤنڈیشن، فورس ہیں، جس کی طاقت کے ساتھ آپ جہاں بھی جائیں گے کچھ نیا، منفرد، ویلیو ایڈیشن کریں گے۔ آج آپ کی تربیت، آپ کی مہارت، آپ کا علم، آپ کا ہنر یقینی طور پر آپ کو عملی دنیا میں ایک مضبوط مقام پیدا کرنے میں مدد دے گا۔ لیکن یہاں جو شخصیت بنی ہے اس سے آپ کو اتنی طاقت ملے گی کہ آپ مجموعی طور پر سوسائٹی کا بھلا کرسکیں گے، اپنے معاشرے، اپنے ملک کو ایک نئی طاقت دیں گے۔ ۔ ساتھیو، آپ نے یہاں تاریخی دور میں آئی آئی ٹی کی عظیم الشان میراث رہے ہیں۔ آپ نے متنوع بھارت کی شان کے ساتھ حال کو گزارا ہے۔ خوب صورت ماضی اور درخشاں حال، ان دونوں ستونوں پر، آج آپ اپنے روشن مستقبل کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ یہ سفر مبارک ہو، ملک کے لیے کام یابیوں سے بھرا ہو، جب میں آج آپ کے درمیان ہوں، میں کہوں گا کہ میں آپ سب کے لیے یہی چاہتا ہوں۔ ساتھیو، اس سال بھارت آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ ہم سب امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ کانپور، وہ شہر ہے جہاں آپ نے اپنی ڈگری حاصل کی ہے، اس کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے۔ کانپور بھارت کے منتخب چند شہروں میں سے ایک ہے جو بہت متنوع ہے۔ ستی چورا گھاٹ سے مداری پاسی تک، نانا صاحب سے لے کر بٹوکیشور دت تک، جب ہم اس شہر کا دورہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم جدوجہد آزادی کی قربانیوں کے فخر کے اس شاندار ماضی سے گزر رہے ہیں۔ ان یادوں کے درمیان آپ سب کی ذمہ د��ری ہے کہ آپ اگلے 25 برسوں تک ملک کو سمت دیں، ملک کو رفتار دیں۔ آپ تصور کریں کہ جب 1930 میں ڈانڈی یاترا شروع ہوئی تو اس دورے نے پورے ملک کے عہد کو کتنا متحرک کیا۔ اس وقت ملک جتنا جوش میں تھا تھا، اس نے آزادی کے لیے بھارت کے عوام پر بے مثال اعتماد پیدا کیا تھا اور ہر بھارتی کے ذہنوں میں فتح کا اعتماد پیدا کیا تھا۔ 1930 کی دہائی میں 20 سے 25 سال کے نوجوان، 1947 تک ان کا سفر اور 1947 میں آزادی کا حصول ان کی زندگی کا سنہری مرحلہ تھا۔ آج ایک طرح سے آپ اسی سنہری دور (دور) میں قدم رکھ رہے ہیں۔ یہ آپ کے لیے سنہری دور ہے، جس طرح یہ قوم کی زندگی کا امرت ہے، یہ آپ کی زندگی کا امرت بھی ہے۔ امرت مہوتسو کی اس گھڑی میں جب آپ آئی آئی ٹی کی میراث لے کر روانہ ہو رہے ہیں تو ان خوابوں کو بھی لے کر نکلیں کہ 2047 میں بھارت کیسا ہوگا۔ آنے والے 25 برسوں میں آپ کو بھارت کے ترقیاتی سفر کی باگ ڈور سنبھالنی ہوگی۔ جب آپ اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر رہے ہوں گے تو آپ کے اس وقت کا بھارت کیسا ہوگا اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اور میں جانتا ہوں، کانپور آئی آئی ٹی، یہاں کے ماحول نے آپ کو وہ طاقت دی ہے کہ اب آپ کو آپ کے خوابوں کو پورا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ دور، یہ اکیسویں صدی، مکمل طور پر ٹکنالوجی پر مبنی ہے۔ اس دہائی میں بھی ٹکنالوجی مختلف شعبوں میں اپنے غلبے میں مزید اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ ٹکنالوجی کے بغیر زندگی اب ایک طرح سے نامکمل ہوگی۔ یہ زندگی اور ٹکنالوجی کے مقابلے کا دور ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس میں یقینی طور پر آگے بڑھیں گے۔ آپ نے ٹکنالوجی کے ماہر بننے کے لیے اپنی جوانی کے اتنے اہم سال لیے ہیں۔ آپ کے لیے اس سے بڑا موقع کیا ہوگا؟ آپ کے پاس بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ٹکنالوجی کے شعبے میں حصہ ڈالنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ ساتھیو، ہمارے تمام آئی آئی ٹی ہمیشہ صلاحیتوں اور ٹکنالوجی کا انکیوبیشن سینٹر رہے ہیں اور آئی آئی ٹی کانپور کی ساکھ مختلف ہے۔ آپ نے اپنی خود کی کمپنی ایکوا فرنٹ انفراسٹرکچر کے ذریعے بنارس کے کھڑکیا گھاٹ پر آپ کے ذریعے تیار کیا گیا دنیا کا پہلا تیرتا ہوا سی این جی فلنگ اسٹیشن تیار کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے زراعت کے شعبے میں جدید ترین ٹکنالوجی تیار کی ہے، دنیا کی پہلی پورٹیبل مٹی کی ٹیسٹ کٹ بنائی ہے۔ فائیو جی ٹکنالوجی میں آئی آئی ٹی کانپور عالمی معیار کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ادارہ ایسی بہت سی کام یابیوں کے لیے مبارکباد کا مستحق ہے۔ اس صورت میں آپ کی ذمہ داریوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ آج مصنوعی ذہانت کے شعبے میں، توانائی اور آب و ہوا کے حل میں، ہائی ٹیک بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں، ملک میں ایک بہت بڑی گنجائش ہے۔ صحت جیسے شعبے بھی آج ٹکنالوجی پر مبنی ہوتے جارہے ہیں۔ ہم ڈیجیٹل تشخیص کے دور میں روبوٹ کی مدد سے علاج کے دور میں قدم رکھ رہے ہیں۔ صحت کے آلات اب گھر کی ضروریات بن چکے ہیں۔ ہم ٹکنالوجی کے ذریعے ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں درپیش چیلنجوں سے بھی نمٹ سکے ہیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ہم کتنے وسیع امکانات کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ امکانات آپ کے لیے ہیں، آپ کو ان میں ایک بڑا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ صرف آپ کے لیے ملک کی ذمہ داریاں نہیں ہیں بلکہ یہ وہ خواب ہیں جو ہم میں سے کئی نسلوں نے جیتے ہیں۔ لیکن آپ کو ان خوابوں کو پورا کرنے، ایک جدید بھارت بنانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے، آپ کی نسل کو یہ اعزاز ملا ہے۔ ساتھیو، اکیسویں صدی کا دور جو آپ آج ہیں وہ بڑے اہداف کا تعین کرنا اور ان ک�� حصول میں اپنی ساری توانائی لگانا ہے۔ آج جو خیالات اور جو ایٹی ٹیوڈ آپ کا ہے وہی ایٹی ٹیوڈ ملک کا بھی ہے۔ اس سے پہلے اگر سوچ کام کرنا تھی تو آج خیال یہ ہے کہ کچھ کریں، کام کریں اور نتائج لائیں۔ اس سے پہلے اگر مسائل سے نجات کی کوشش کی جاتی تھی تو آج مسائل کے حل کے لیے قراردادیں لی جاتی ہیں۔ اس کا حل یہ بھی ہے کہ مستقل، مستحکم حل! ایک خود کفیل بھارت اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ ساتھیو، ہم سب نے دیکھا ہے کہ خاندان میں بھی جب کوئی 20-22 سال کا ہو جاتا ہے تو گھر کے بزرگ بار بار ہمیں بتاتے ہیں کہ وقت آگیا ہے، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب آپ یہاں سے گھر جائیں گے تو آپ پہلے اپنے والدین کی بات سنیں گے تاکہ وہ انھیں دیکھ سکیں۔ اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ۔ ہر والدین یہی کہنے والے ہیں اور اگر آپ دیر سے آئے تو آپ اسے بار بار سنیں گے۔ بوڑھے، گھر کے والدین ایسا کرتے ہیں تاکہ آپ خود کفیل ہو جائیں، آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں، آپ خواب دیکھیں، انھیں عزائم میں تبدیل کریں اور اسے دل سے ثابت کریں۔ آزادی کے بعد ہمارے بھارت نے بھی نئے سرے سے سفر کا آغاز کیا۔ جب ملک کی آزادی 25 سال ہوئے، تب تک ہمیں بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے بہت کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد سے بہت دیر ہو چکی ہے، ملک نے بہت وقت کھو دیا ہے۔ 2 نسلیں درمیان میں چلی گئی ہیں لہذا ہم 2 لمحات بھی گنوانے نہیں ہیں۔ ساتھیو، آپ کو میری باتوں میں بے تابی نظر آ رہی ہو گی اور فطری بات ہے کہ آپ کو بھی بے تابی لگتی بھی ہو گی۔ لیکن میں چاہتا ہوں اور جب آپ سب کے درمیان کانپور کی سرزمین پر آئے ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کو بھی خود کفیل بھارت کے لیے بے تاب ہونا چاہیے۔ خود کفیل بھارت مکمل آزادی کی بنیادی شکل ہے، جہاں ہم کسی پر انحصار نہیں کریں گے۔ سوامی وویکانند نے کہا تھا – ہر قوم کے پاس پہنچانے کے لیے ایک پیغام ہے، ایک مشن کو پورا کرنا ہے، ایک منزل تک پہنچنا۔ اگر ہم خود کفیل نہیں ہوں گے تو ہمارا ملک اپنے مقاصد کو کیسے پورے کرے گا، اپنی منزل تک کیسے پہنچے گا؟ ساتھیو، آپ یہ کر سکتے ہیں۔ مجھے آپ پر بھروسا ہے۔ اور جب میں آج بہت سی باتیں کہہ رہا ہوں، بہت سی باتیں کر رہا ہوں تو مجھے ان میں آپ کا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ آج میں ملک میں یکے بعد دیگرے ہونے والی تبدیلیوں کے پیچھے آپ کا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ ملک آج جو ہدف طے کر رہا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے ملک کو طاقت ملے گی۔ آپ ہی ہیں جو یہ کریں گے اور آپ کو یہ کرنا ہے۔ یہ لامحدود امکانات آپ کے لیے ہیں، اور آپ کو انھیں پورا کرنا ہے۔ جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال منائے گا تو اس کام یابی میں آپ کے پسینے کی خوشبو آئے گی، آپ کی محنت کو تسلیم کیا جائے گا۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ملک نے گزشتہ برسوں میں خود کفیل بھارت کی بنیاد بنانے کے لیے کس طرح کام کیا ہے، آپ کے کام کو آسان بنایا ہے۔ پچھلے 7 برسوں میں ملک میں اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا جیسے پروگرام شروع ہوئے ہیں۔ اٹل انوویشن مشن اور پی ایم ریسرچ فیلوشپ کے ذریعے ملک نوجوانوں کے لیے نئی راہیں پیدا کی گئی ہیں۔ مستقبل کے مزاج کی نئی نسل کی تیاری قومی تعلیمی پالیسی سے شروع ہو رہی ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانی پیدا ہوئی، پالیسی میں رکاوٹیں دور ہوئی ہیں، ان کوششوں کے نتائج آج اتنے کم وقت میں ہمارے سامنے ہیں۔ آزادی کے اس 75 ویں سال میں ہمارے پاس 75 سے زیادہ یونی کورن، پچاس ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپ ہیں۔ ان میں سے دس ہزار اسٹارٹ اپ ��رف پچھلے 6 مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔ آج بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ مرکز بن کر ابھرا ہے۔ ہمارے آئی آئی ٹی کے نوجوانوں نے کتنے ہی اسٹارٹ اپ شروع کیے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیسرا بڑا یونی کورن ملک بن گیا ہے۔ ساتھیو، آج کل گلوبلائزیشن کا چرچا ہے، اس کے فائدے اور نقصانات بھی زیر بحث ہیں۔ لیکن ایک بات پر کوئی اختلاف نہیں۔ کون نہیں چاہے گا کہ بھارتی کمپنیاں عالمی بنیں، بھارت کی مصنوعات عالمی بن جائیں۔ جو آئی آئی ٹی کو جانتا ہے، یہاں کے ہنر کو جانتا ہے، یہاں کے پروفیسروں کی محنت کو جانتا ہے، اسے یقین ہے کہ یہ آئی آئی ٹی کا نوجوان ضرور کرے گا۔ اور آج، میں آپ کو، ایسے پیشہ ور افراد کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہے۔ ایک اور اہم چیز جو آپ کو یاد رکھنی ہے۔ آج سے شروع ہونے والے سفر میں بہت سے لوگ آپ کو سہولت کے لیے شارٹ کٹ بھی بتائیں گے۔ لیکن میرا مشورہ یہ ہوگا کہ آرام اور چیلنج میں سے انتخاب کریں، میں آپ سے درخواست کروں گا کہ چیلنج کو چنیں آرام کا انتخاب نہ کریں۔ کیوں کہ، خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، زندگی میں چیلنجز ہیں۔ جو لوگ ان سے بھاگتے ہیں وہ ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ چیلنجوں کی تلاش میں ہیں، تو آپ شکاری ہیں اور چیلنج شکار ہے۔ لہذا، آپ کو ایک ایسا شخص بننا ہوگا جو مسائل کی تلاش کرے اور اپنے مطابق، ان کے حل کو اپنی پسند سے دور کردے۔ دوستو، آپ سب بہترین ٹیک مائنڈز کے طالب علم ہیں، آئی آئی ٹی۔ آپ سب ٹکنالوجی کھاتے پیتے اور اسی میں سانس لیتے ہیں۔ آپ مسلسل اختراعات میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود، ان سب کے درمیان، میری آپ سے ایک خواہش ہے۔ ٹکنالوجی کی اپنی طاقت ہے، اس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ آپ کا جذبہ بھی ہے۔ لیکن ٹکنالوجی کی دنیا میں رہتے ہوئے زندگی کے انسانی عناصر کو کبھی نہ بھولیں۔ آپ کبھی بھی اپنے روبوٹ ورژن نہیں بنیں گے۔ ہمیں اپنی انسانی حساسیت، اپنی تخیلات، اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور تجسس کو زندہ رکھنا ہے۔ اپنی زندگی میں ان چیزوں کو بھی اہمیت دیں جو ضروری نہیں کہ ہمیں ٹکنالوجی کی مدد سے ملیں۔ آپ یقینی طور پر انٹرنیٹ آف تھنگز پر کام کریں گے لیکن اموشنز آف تھنگز کو بھی نہ بھولیں۔ آپ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ضرور سوچیں گے لیکن انسانی ذہانت کو بھی یاد رکھیں۔ آپ کوڈنگ جاری رکھیں لیکن لوگوں کے ساتھ اپنا رابطہ بھی برقرار رکھیں گے۔ مختلف لوگوں، مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے ساتھ آپ کی وابستگی سے آپ کی شخصیت کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب جذبات دکھانے کی بات آئے تو آپ دماغ کو پیش کردیں – ایچ ٹی ٹی پی 404 – صفحہ نہیں ملا۔ جب خوشی اور مہربانی کے اشتراک کی بات آئے تو کوئی بھی پاس ورڈ نہیں رکھیے گا، کھلے دل سے زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ ٹھیک ہے، میں نے ابھی شیئرنگ آف جوائے کے بارے میں بات کی ہے، میں جانتا ہوں کہ یہ الفاظ آپ کو بہت کچھ یاد بھی دلا رہے ہیں۔ ساگر ڈھابہ اور کیرالہ کیفے کی گپ شپ یہاں کے کیمپس ریستوراں میں سیسی ڈی کی کافی، او اے ٹی پر کاٹھی رول اور ایم ٹی چائے اور جلیبی، ٹیک کریتی اور انترنگنی کا ذائقہ، یہ سب آپ کو بہت یاد آئے گا۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ جگہیں بدل جاتی ہیں، لوگ ملتے ہیں اور الگ ہوجاتے ہیں، لیکن زندگی چلتی رہتی ہے۔ اسی کو چریویتی چریویتی چریویتی کہا جاتا ہے۔ میں اب دیکھ رہا ہوں کہ بہت سے طلبا دوسرے لیکچر ہالوں میں بھی ہمارے ساتھ وابستہ ہیں، کورونا پروٹوکول کی وجہ سے وہ وہاں سے میری بات سن رہے ہیں۔ اگر آپ کو اس پروٹوکول کوئی زحمت نہ ہو تو میں ابھی ان سے ملنے جاؤں گا، میں ان روبرو ملاقات کروں گا۔ آپ اپنے کیریئر، میں کام یاب ہوں۔ آپ کی کام یابی ملک کی کام یابی بنے۔ میں اس خواہش کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ سب کو ایک بار پھر نیک خواہشات۔ آپ کا بہت شکريہ!,‘কানপুৰ আইআইটি’-ৰ ‘৫৪সংখ্যক সমাৱৰ্তন সমাৰোহ’ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D9%81-%D9%85%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%82%D8%AA%D8%B5%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6-%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A6%BE/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے معروف ماہر اقتصادیات اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر وائی کے الاغ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ""پروفیسر وائی کے الاغ ایک ممتاز ادیب تھے جو سرکاری پالیسی کے مختلف پہلوؤں، خاص طور پر دیہی ترقی، ماحولیات اور معاشیات کے بارے میں جذباتی تھے۔ ان کے انتقال سے دکھ ہوا ہے۔ میں ہماری بات چیت کو عزیز رکھوں گا۔ میرے خیالات ان کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہیں۔ اوم شانتی۔ """,প্ৰসিদ্ধ অৰ্থনীতিবিদ তথা প্ৰাক্তন কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰী অধ্যাপক ৱাইকে আলাঘৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D9%84%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%86%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تلنگانہ کے ضلع کماریڈی میں ایک حادثے کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے تلنگانہ کے ضلع کماریڈی میں حادثے کے متاثرین کے لیے وزیر اعظم کے قومی راحت فنڈ(پی ایم این آر ایف) سے معاوضے کی رقم کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘ کاماریڈی ضلع، تلنگانہ میں ایک حادثے کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان سے غمزدہ ہوں۔ سوگوار خاندانوں کے لئے میری طرف سے تعزیت اور زخمیوں کے لئے دعا۔ وزیراعظم قومی راحت فنڈ کی طرف سے ہر مرنے والوں کے لواحقین کو 2 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔زخمیوں میں ہر ایک کو 50,000 روپے دیئے جائیں گے : پی ایم مودی’’",তেলেংগানাত সংঘটিত দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱা লোকসকলৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শোক প্ৰকাশ কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7-%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%B9/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بالی میں جی-20 چوٹی کانفرنس کے پہلو بہ پہلو جی-20 ممالک کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ’تمن ہوتن ریا نگورہ رائے‘نام کے مینگروور جنگلات کا دورہ کیا اور مینگرو کے پودے بھی لگائے ۔ ماحولیاتی تحفظ کی عالمی کوششوں میں مینگرو کی جھاڑیاں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ہندوستان نے انڈونیشیاء کے زیر صدارت جی-20 کے تحت انڈونیشیاء اور متحدہ عرب امارات کے ایک مشترکہ اقدام ’آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے مینگرو اتحاد ‘میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ہندوستان کے پانچ ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ کے علاقے میں مینگرو کی 50 سےزیادہ قسمیں پائی جاتی ہیں ۔ہندوستان میں مینگرو جھاڑیوں کے تحفظ اور ان کی بحالی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے جو حیاتی تنوع سے مالامال ہیں اور کاربن کو جذب کرنے والے موثر وسیلے کا کردار ادا کرتے ہیں۔,‘জি-২০ শীৰ্ষ সন্মিলন’ৰ আহৰি পৰত বালিৰ ‘চিৰসেউজ বনাঞ্চল’ দৰ্শন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-5-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D9%81%D8%B8-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%AB-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AD/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر 5 جون کو وگیان بھون میں 11 بجے ’مٹی کے تحفظ کی تحریک‘ پروگرام میں شرکت کریں گے۔ پروگرام کے دوران وزیراعظم حاضرین سے خطاب بھی کریں گے۔ ’سیو سوئل موومنٹ یعنی مٹی کے تحفظ کی تحریک‘ مٹی کی خراب ہوتی ہوئی صحت کے بارے میں واقفیت میں اضافہ کرنے اور اس میں بہتری لانے کے لئےباشعور ردعمل کی ایک عالمی تحریک ہے۔ اس تحریک کا آغازسدھ گرو نے مارچ 2022 میں کیا تھا، جوموٹر سائیکل کے ذریعے 100 دن کے سفر میں 27 ملکوں سے گزریں گے۔ 5 جون، 100 دن کے اس سفر کا 75واں دن ہے۔ پروگرام میں وزیراعظم کی شرکت، بھارت میں مٹی کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے مشترکہ فکر اور عہدبندی کی عکاسی کا اظہار ہوگی۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৫ জুনত ‘ভূমি বচাওক আন্দোলন’ উপলক্ষে আয়োজিত কাৰ্যক্ৰমত ভাগ ল’ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%D8%AA%D8%B1%DA%A9%D9%88%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%D8%B3%DA%91%DA%A9-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%82%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%A5-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,نئی دہلی،9جولائی ،2022 وزیراعظم نریندر مودی نے اترپردیش کے چترکوٹ میں ہوئے سڑک حادثے میں لوگوں کی موت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا: ‘‘چترکوٹ میں قومی شاہراہ پر ہوا حادثہ بے حد تکلیف دہ ہے۔اس میں جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے،ان کے تئیں میری گہری تعزیت ہے۔میں زخمیوں کے جلد صحت یاب ہونے کی دعا کرتا ہوں:وزیراعظم ’’,চিত্ৰকূটত সংঘটিত পথ দুৰ্ঘটনাত নিহতসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকট কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%88%D8%B2%D9%88%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A6%BF-%E0%A6%AE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ٹوکیو میں سوزوکی موٹر کارپوریشن کے سینئر صلاح کار جناب اوسامو سوزوکی کے ساتھ ملاقات کی۔ اس میٹنگ کے دوران وزیر اعظم نے بھارت میں جناب سوزوکی کے تعاون و امداد کا ذکر کرتے ہ��ئے بھارت کی موٹر گاڑی صنعت میں سوزوکی موٹرس کے تغیر پذیر رول کی تعریف کی۔ انہوں نے اس بات کی بھی تعریف کی کہ سوزوکی موٹر گجرات پرائیویٹ لمیٹڈ اور ماروتی سوزوکی انڈیا لمیٹڈ آٹوموبائل اور آٹو کمپوننٹ سیکٹر میں پروڈکشن لنکڈ انسینٹو (پی ایل آئی) اسکیم کے تحت منظور شدہ درخواست گزاروں میں شامل تھے۔ انہوں نے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں اور بیٹری کے ساتھ ساتھ ری سائیکلنگ مراکز کے لیے پیداواری سہولیات قائم کرنے سمیت بھارت میں سرمایہ کاری کے مزید مواقع کے بارے میں بھی گفت و شنید کی۔ انہوں نے جاپان-انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف مینوفیکچرنگ (جے آئی ایم) اور جاپانی اینڈاؤڈ کورسز (جے ای سی) کے توسط سے ہنرمندی کے فروغ سمیت بھارت میں مقامی اختراعی نظام کی تعمیر کی حکمت عملیوں کے بارے میں بھی بات چیت کی۔,‘ছুজুকি মটৰ কৰ্পোৰেশ্যন’ৰ জ্যেষ্ঠ পৰামৰ্শদাতা ওছামো ছুজুকিৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B9/,بھارت ماتا کی جے۔ بھارت ماتا کی جے۔ کرناٹکدا سمستھ جنتگے، ننّا کوٹی- کوٹی نمسکار گلو! اسٹیج پر تشریف فرما قابل احترام سوامی جی، کرناٹک کے گورنر جناب تھاورچند گہلوت جی، عوام میں مقبول وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی جی، سابق وزیر اعلیٰ جناب یدی یورپا جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، ریاستی حکومت کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ و اراکین اسمبلی، دیگر تمام معززین اور بڑی تعداد میں تشریف لائے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے ایک بہت ہی خاص دن بنگلورو آنے کا موقع ملا ہے۔ آج کرناٹک کے، ملک کے دو عظیم فرزندوں کا یوم پیدائش ہے۔ سنت کنک داس جی نے ہمارے معاشرے کو راہ دکھائی، تو اونکے اوبووا جی نے ہمارے فخر، ہماری ثقافت کے تحفظ کے لیے اپنا تعاون دیا۔ میں ایک بار پھر ان دونوں شخصیات کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج، ان عظیم ہستیوں کا احترام کرتے ہوئے، ہم بنگلورو کی، کرناٹک کی ترقی اور وراثت دونوں کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ آج کرناٹک کو پہلی میڈ اِن انڈیا وندے بھارت ٹرین ملی۔ یہ ٹرین چنئی، جو کہ ملک کی اسٹارٹ اَپ راجدھانی بنگلورو اور تاریخی شہر میسور کو جوڑتی ہے۔ کرناٹک کے لوگوں کو ایودھیا، پریاگ راج اور کاشی لے جانے والی بھارت گورو کاشی درشن ٹرین بھی آج شروع ہوگئی ہے۔ آج کیمپے گوڑا بین الاقوامی ہوائی اڈے کے دوسرے ٹرمینل کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ میں نے ایئرپورٹ کے نئے ٹرمینل کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھیں۔ اور آج وہاں جا کر محسوس ہوا کہ نیا ٹرمینل تصویروں میں جتنا خوبصورت نظر آتا ہے، اس سے بھی زیادہ شاندارہے، جدید ہے۔ یہ بنگلورو کے لوگوں کا بہت پرانا مطالبہ تھا جسے اب ہماری حکومت پوری کررہی ہے۔ ساتھیو، مجھے ناڈ پربھو کیمپے گوڑا جی کے 108 فٹ بلند مجسمے کی نقاب کشائی کرنے اور ان کے جلابھیشیک کرنے کا موقع بھی ملا۔ ناڈ پربھو کیمپے گوڑا کا یہ عظیم مجسمہ ہمیں مستقبل کے بنگلورو، مستقبل کے بھارت کے لیے انتھک لگن سے کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ بھائیو اور بہنو، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج قابل احترام سوامی جی نے جس طرح سے آشیرواد دیا، جس طرح سے اپنے جذبات کا اظہار کیا اس کے لئے میں دل سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج بھارت پوری دنیا میں اسٹارٹ اپس کے لیے پہچانا جاتا ہے اور بھارت کی اس شناخت کو مضبوط کرنے میں ہمارے بنگلور کا بہت بڑا رول ہے۔ اسٹارٹ اپ صرف ایک کمپنی نہیں ہے۔ اسٹارٹ اپ ایک جنون ہے۔ کچھ نیا کرنے کا جذبہ، عام راستے سے ہٹ کر کچھ سوچنے کا جذبہ۔ اسٹارٹ اپ ایک یقین ہے، ملک کو درپیش ہر چیلنج کا حل ہے۔ اس لیے بنگلور ایک اسٹارٹ اپ اِسپرٹ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اسٹارٹ اپ اِسپرٹ بھارت کو آج دنیا میں ایک الگ لیگ میں کھڑا کرتا ہے۔ بھائیو اور بہنو، آج یہاں جو پروگرام ہو رہا ہے وہ بھی بنگلورو کے اس نوجوان جذبے کا عکاس ہے۔ آج شروع ہونے والی وندے بھارت ایکسپریس بھی صرف ایک نئی ٹرین نہیں ہے بلکہ یہ نئے بھارت کی نئی پہچان ہے۔ یہ ایک جھلک ہے کہ 21ویں صدی میں بھارت کی ریلوے کیسی ہوگی۔ وندے بھارت ایکسپریس اس حقیقت کی علامت ہے کہ بھارت نے اب رک رک کر چلنے کے دنوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بھارت اب تیز دوڑنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ ساتھیو، آنے والے 8-10 سالوں میں، ہم بھارتی ریلوے کی کایاکلپ کا ہدف رکھتے ہیں۔ 400 سے زیادہ نئی وندے بھارت ٹرینیں، وسٹا ڈوم کوچز بھارتی ریلوے کی نئی شناخت بننے والی ہیں۔ مال بردار ٹرینوں کے لیے مخصوص مال بردار راہداری، نقل و حمل کو تیز کرے گی اور وقت کی بچت کرے گی۔ تیز رفتار براڈ گیج کی تبدیلی کا کام ریلوے کے نقشے پر نئے علاقوں کو لا رہا ہے۔ اور ان سب کے درمیان آج ملک اپنے ریلوے اسٹیشنوں کو بھی جدید بنا رہا ہے۔ آج، اگر آپ بنگلورو میں ’سر ایم وشویش وریا جی‘ کے ریلوے اسٹیشن پر جاتے ہیں، تو آپ کو ایک الگ ہی دنیا کا تجربہ ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد ملک کے بڑے ریلوے اسٹیشنوں کو اس طرح جدید بنانا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ یہاں کرناٹک میں بنگلورو چھاؤنی، یشونت پور، ریلوے اسٹیشنوں کو بھی از سر نو بنایا جا رہا ہے۔ ساتھیو، ہمارے شہروں کے درمیان رابطہ ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر میں بھی بڑا رول ادا کرے گا۔ ملک میں فضائی رابطوں کی زیادہ سے زیادہ توسیع ہو، ہمارے ہوائی اڈوں کی توسیع ہو، یہ وقت کی ضرورت ہے۔ بنگلورو ایئرپورٹ کا نیا ٹرمینل اس کا استعمال کرنے والے مسافروں کے لیے نئی سہولت لائے گا۔ آج بھارت دنیا میں ہوائی سفر کے لیے سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ میں سے ایک ہے۔ جیسے جیسے ملک ترقی کر رہا ہے ہوائی اڈوں پر مسافروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے ہماری حکومت ملک میں نئے ہوائی اڈے بھی بنا رہی ہے۔ 2014 سے پہلے ملک میں تقریباً 70 ہوائی اڈے تھے۔ اب ان کی تعداد 140 سے زیادہ ہوگئی ہے۔ بڑھتے ہوئے یہ ہوائی اڈے ہمارے شہروں کے تجارتی امکانات میں اضافہ کررہے ہیں، نوجوانوں کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ ساتھیو، آج پوری دنیا میں بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے جو بے مثال اعتماد پیدا کیا گیا ہے اس کا بہت بڑا فائدہ کرناٹک کو بھی مل رہا ہے۔ آپ تصور کریں، پچھلے 3 سالوں میں جب پوری دنیا کووڈ سے متاثر تھی، کرناٹک میں تقریباً 4 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ کرناٹک گزشتہ سال میں ایف ڈی آئی کو راغب کرنے میں ملک میں سرفہرست رہا ہے اور جو سرمایہ کاری ہو رہی ہے وہ صرف آئی ٹی سیکٹر تک محدود نہیں ہے، بلکہ بایو ٹیکنالوجی سے لے کر دفاعی مینوفیکچرنگ تک ہر شعبہ یہاں پھیل رہا ہے۔ ہمارے کرناٹک کا ملک میں ہوائی جہاز اور خلائی جہاز کی صنعت میں 25 فیصد حصہ ہے۔ ہم ملک کی فوج کے لیے جو طیارے اور ہیلی کاپٹر بنا رہے ہیں ان میں سے 70 فیصد یہیں بنتے ہیں۔ کرناٹک ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں بھی آگے ہے۔ آج فارچیون 500 کمپنیوں میں سے 400 سے زیادہ کمپنیاں کرناٹک میں کام کر رہی ہیں اور یہ فہرست مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ آج کرناٹک ڈبل انجن کی طاقت پر چل رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، آج، چاہے بات گورننس کی ہو یا فزیکل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر کی، بھارت ایک الگ ہی سطح پر کام کر رہا ہے۔ آج جب پوری دنیا بھارت کی ڈیجیٹل پیمنٹ BHIM,কৰ্ণাটকৰ বেংগালুৰুত ৰাজহুৱা অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%93%D8%A8-%DB%8C%D8%A7%D8%A6%D8%B1-%D9%84%D8%A7%D9%BE%DB%8C%DA%88-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے عزت مآب یائر لاپیڈ کو اسرائیل کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے۔ جناب مودی نے عزت مآب نفتالی بینیٹ کا بھی شکریہ ادا کیا ہے کہ وہ ہندوستان کے سچے دوست ہیں۔ ٹویٹس کی ایک سیریز میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘اسرائیل کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے پر عزت مآب @یائر لاپیڈ کو دل کی گہرائیوں سے نیک خواہشات اور مبارکباد، جب ہم اپنے مکمل سفارتی تعلقات کے 30 سالوں کو منارہے ہیں ، ایسے موقع پر میں امید کرتا ہوں کہ ہماری اسٹریجک شراکت داری مزید جاری رہے گی’’۔ ‘‘ہندوستان کے سچے دوست ہونے کے لئے عزت مآب @ نفتالی بینیٹ کا شکریہ۔ میں ہمارے درمیان ہونے والی نتیجہ خیز بات چیت کو پسند کرتا ہوں اور آپ کے نئے کردار میں کامیابی کی خواہش کرتا ہوں۔’’,ইজৰাইলৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী হিচাপে অধিষ্ঠিত মহামহিম য়াইৰ লাপিডক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9B%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%9C-%E0%A6%89%E0%A6%AA/,نئی دہلی16؍اگست:وزیراعظم ،جناب نریندرمودی نے پارسی سال نو ، نوروز کے موقع پرعوام الناس کو مبارکباد پیش کی ہے ۔ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نےکہا ہے : ‘‘پارسی سال نو پرمبارکباد ۔مسرت ، خوشحالی اوراچھی صحت سے مالامال پورے سال کے لئے دعاگوہوں ۔ بھارت مختلف شعبوں میں پارسی برادری کے غیرمعمولی تعاون کا معترف ہے ۔’’,"পাৰ্ছী নৱবৰ্ষ, ‘নৱৰোজ’ উপলক্ষে জনসাধাৰণলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-28-%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%93%D8%B3%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A6%8F%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%AE-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC/,نئی دہلی، 26/ اپریل 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی 28 اپریل 2022 کو آسام کا دورہ کریں گے۔ وہ کاربی آنگ لونگ ضلع میں دیپھو کے مقام پر تقریباً گیارہ بجے صبح ’امن، اتحاد و ترقی ریلی‘ سے خطاب کریں گے۔ پروگرام کے دوران وہ تعلیمی شعب�� سے متعلق متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ اس کے بعد دوپہر میں تقریباً 1:45 بجے وزیر اعظم ڈبروگڑھ میں واقع آسام میڈیکل کالج پہنچیں گے اور ڈبرو گڑھ کینسر ہاسپیٹل کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ بعد میں سہ پہر تین بجے وہ ڈبروگڑھ میں کھانیکر گراؤنڈ میں منعقد ہونے والی ایک عوامی تقریب میں شرکت کریں گے، جہاں وہ مزید چھ کینسر اسپتالوں کو قوم کے نام وقف کریں گے اور سات نئے کینسر اسپتالوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے وزیر اعظم کاربی آنگ لونگ کے دیپھو میں خطہ میں امن اور ترقی کے تئیں وزیر اعظم کی غیر متزلزل عہد بستگی کو اس وقت مزید تقویت حاصل ہوئی جب حال ہی میں حکومت ہند اور حکومت آسام نے چھ کاربی ملیٹینٹ جماعتوں کے ساتھ میمورنڈم آف سیٹلمنٹ (ایم او ایس) پر دستخط کئے۔ میمورنڈم آف سیٹلمنٹ نے خطے میں امن کے ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے۔ امن، اتحاد و ترقی کے موضوع پر وزیر اعظم کے خطاب سے پورے خطے میں امن سے متعلق اقدامات کو زبردست تقویت ملے گی۔ وزیر اعظم ویٹرنری کالج (دیپھو)، ڈگری کالج (مغربی کاربی آنگ لونگ) اور ایگریکلچرل کالج (کولونگا، مغربی کاربی آنگ لونگ) کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ 500 کروڑ روپئے سے زیادہ کے یہ پروجیکٹ خطے میں ہنرمندی کے فروغ اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے۔ پروگرام کے دوران وزیر اعظم 2950 سے زیادہ امرت سروور پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ ریاستی حکومت تقریباً 1150 کروڑ روپئے کی مجموعی لاگت سے ان امرت سرووروں کو ترقی دینے کا کام کرے گی۔ وزیر اعظم ڈبروگڑھ میں آسام کینسر کیئر فاؤنڈیشن، جو کہ حکومت آسام اور ٹاٹا ٹرسٹ کی ایک مشترکہ کمپنی ہے، پوری ریاست میں 17 کینسر کیئر ہاسپٹلس کی تعمیر کا کام کررہی ہے۔ اس پروجیکٹ کے نفاذ کا مقصد جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے اور سستے کینسر کیئر نیٹ ورک کی تعمیر کرنا ہے۔ پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے تحت، 10 اسپتالوں میں سے 7 اسپتالوں کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا ہے، جبکہ تین اسپتالوں کی تعمیر مختلف مراحل میں ہے۔ پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے میں سات نئے کینسر اسپتالوں کی تعمیر کی جائے گی۔ وزیر اعظم پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے تحت مکمل ہوچکے 7 کینسر اسپتالوں کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ یہ کینسر اسپتال ڈبروگڑھ، کوکراجھار، بارپیٹا، دارنگ، تیزپور، لکھیم پور اور جورہاٹ میں تعمیر کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے کے تحت ڈھبری، نلباری، گولپارا، ناگاؤن، سیوساگر، تنسکیا اور گولاگھاٹ میں تعمیر ہونے والے سات نئے کینسر اسپتالوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔,২৮ এপ্ৰিলত অসম ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B7%D8%B1%D9%86%D8%AC-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A7%AA%E0%A7%AA-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے چنئی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر ہندوستانی بی ٹیم (مردوں) اور ہندوستانی اے ٹیم (خواتین) کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کی میزبانی کرنے اور ہماری شاندار ثقافت اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کرنے پر تمل ناڈو کے عوام اور حکومت کی بھی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کرکے کہا؛ ”چنئی میں حال ہی میں ختم ہونے والے 44ویں شطرنج اولمپیاڈ میں ہندوستانی دستے نے حوصلہ افزا کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ میں انڈیا بی ٹیم (مرد) اور انڈیا اے ٹیم (خواتین) کو کانسے کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ ہندوستان میں شطرنج کے مستقبل کے لیے اچھی علامت ہے۔“ ”میں بورڈ میڈل جیتنے والے ہمارے دستے میں سے گوکیش ڈی، نہال سرین، ارجن ایریگیسی، پرگناندھا، ویشالی، تانیہ سچدیو اور دویہ دیشمکھ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ شاندار کھلاڑی ہیں جنہوں نے غیر معمولی ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔“ ” تمل ناڈو کے عوام اور حکومت 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کے بہترین میزبان رہے ہیں۔ میں دنیا کو خوش آمدید کہنے اور اپنی شاندار ثقافت اور مہمان نوازی کو دکھانے پر ان کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔“,চেন্নাইত অনুষ্ঠিত ৪৪ সংখ্যক ‘ডবা অলিম্পিয়াড’ত ব্ৰঞ্জৰ পদক লাভ কৰাৰ বাবে ভাৰত ‘বি’(পুৰুষ) টীম আৰু ভাৰত ‘এ’ (মহিলা) টীমক অভিনন্দন জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA/,نئی دہلی، 4 مارچ/ نمسکار 'پائیدار ترقی کے لیے توانائی'، یہ ہماری قدیم روایات سے بھی متاثر ہے اور مستقبل کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کا طریقہ بھی ہے۔ ہندوستان کا واضح وژن ہے کہ پائیدار ترقی صرف پائیدار توانائی کے ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ گلاسگو میں، ہم نے 2070 تک خالص صفر تک پہنچنے کا وعدہ کیا ہے۔ میں نے کوپ-26 میں پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینے کے لئے بھی لائف مشن کی بات کہی تھی۔یعنی ماحولیات کے لئے طرز زندگی کا وژن سامنے رکھا تھا۔ ہم بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسے عالمی اشتراک کی بھی قیادت کر رہے ہیں۔ غیر فوسل توانائی کی صلاحیت میں ہمارا ہدف اپنے لئے 500 گیگاواٹ ہے۔ 2030 تک، ہمیں اپنی تبصن شدہ توانائی صلاحیت کا 50 فیصد غیر فوسل توانائی سے حاصل کرنا ہے۔ ہندوستان نے اپنے لیے جو بھی اہداف طے کیے ہیں، میں اسے میں ایک چیلنج کے طور پر نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ہندوستان گزشتہ برسوں سے اسی وژن پر چل رہا ہے اور اس بجٹ میں ان کو پالیسی کی سطح پر اور آگے بڑھایا گیا ہے۔ ساتھیو! اس بجٹ میں شمسی توانائی کی سمت میں اعلیٰ کارکردگی والے سولر ماڈیول مینوفیکچرنگ کے لیے ساڑھے 19 ہزار کروڑ روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے ہندوستان کو سولر ماڈیول اور متعلقہ مصنوعات کی تیاری اور آر اینڈ ڈی میں عالمی مرکز بنانے میں مدد ملے گی۔ ساتھیو! ہم نے قومی ہائیڈروجن مشن کا بھی اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کے پاس وافر مقدار میں دستیاب قابل تجدید توانائی پاور کی شکل میں ایک فطری فائدہ ہے۔ اس سے ہندوستان دنیا میں گرین ہائیڈروجن کا مرکز بن سکتا ہے۔ ہائیڈروجن ایکو سسٹم فرٹیلائزر، ریفائنریاں اور نقل و حمل سیکٹر سے باہم جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے اختراعات کو فروغ دیا جانا چاہیے، تاکہ ہندوستان کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے۔ ساتھیو! قابل تجدید توانائی کے ساتھ ایک بڑا چیلنج توانائی کے ذخیرہ کو لے کر بھی ہے۔اس کے لیے بھی حل تلاش کرنے کے لیے بجٹ میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کو برقرار رکھنے کو بڑی ترجیح دی گئی ہے۔ اس سال کے بجٹ میں بیٹری سوئپنگ پالیسی اور انٹر آپریبلٹی اسٹینڈرڈز کے بارے میں بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس سے ہندوستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں درپیش مسائل میں کمی آئے گی۔ پلگ ان چارجنگ میں زیادہ وقت اور زیادہ لاگت لگتی ہے۔ چونکہ الیکٹرک گاڑی کی قیمت کا 40-50فی صد بیٹری کی قیمت ہوتی ہے، اس لیے سوئپنگ کرنے سے الیکٹرک گاڑی کی ابتدائی لاگت کم ہو جائے گی۔ اسی طرح موبائل کی بیٹری ہو یا سولر پاور اسٹوریج، اس میدان میں بھی بہت سے امکانات موجود ہیں۔ ان پر بھی مجھے لگتا ہے کہ ہم سب مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ساتھیو! توانائی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ توانائی کی بچت بھی پائیداری کے لیے اتنی ہی اہم ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ملک میں اور زیادہ کفایتی بجلی والے اے سی کیسے بنیں اور زیادہ بجلی کفایتی ہیٹر ، گیزر، اوون کیسے بنیں، اس بارے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے۔ جہاں بھی بجلی کی کھپت زیادہ ہے، وہاں توانائی کی بچت والی مصنوعات تیار کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ جب 2014 میں ہماری حکومت آئی تو ملک میں ایل ای ڈی بلب کی قیمت 300 سے 400 روپے ہوا کرتی تھی۔ ہماری حکومت نے ایل ای ڈی بلب کی پیداوار میں اضافہ کیا اور پیداوار بڑھنے کے بعد فطری تھا کہ اس کی قیمت 70 سے 80 روپے تک نیچے آئی۔ اُجالا اسکیم کے تحت، ہم نے ملک میں تقریباً 37 کروڑ ایل ای ڈی بلب تقسیم کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے تقریباً اڑتالیس ہزار ملین کلو واٹ آور بجلی کی بچت ہوئی ہے۔ ہمارے غریب اور متوسط طبقے کے لیے سالانہ تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کا بجلی کا بل بھی بچا ہے۔ اور تقریباً 40 ملین ٹن کاربن کے اخراج میں سالانہ کمی ہوئی ہے۔ ہم نے روایتی اسٹریٹ لائٹس کو بھی 125 کروڑ اسمارٹ ایل ای ڈی بلب سے بدل دیا ہے، اس سے بھی ہمارے جو مقامی بلدیاتی ادارے ہیں، میونسپلٹی، میونسپل کارپوریشن، جہاں پنچایتوں میں ایسی اسٹریٹ لائٹس موجود ہیں، اب تک جتنا کام ہوا ہے اس سے میونسپل کارپوریشنوں کو سال کا 6 ہزار کروڑروپے کے بجلی کے بل میں بچت ہوئی ہے۔ اس سے بھی بجلی بچی ہےاور تقریباً 50 لاکھ ٹن کاربن کے اخراج میں بھی کمی آئی ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ایک سکیم نے ماحول کو کتنا تحفظ فراہم کیا ہے۔ ساتھیو، ہم کوئلے کے متبادل کے طور پر کوئلے سے گیس تیار کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں کوئلے سے گیس تیار کرنے کے لیے 4 پائلٹ پروجیکٹس رکھے گئے ہیں جن میں تکنیکی اور مالیاتی استحکام کو مضبوط بنایا جائے گا۔ اس کے لیے جدت طرازی کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگ ہندوستان کی ضرورت کے مطابق کوئلے سے گیس تیار کرنے میں کس طرح جدت لا سکتے ہیں، ہمیں اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں، ایک بڑے مشن موڈ میں حکومت ایتھنول ملاوٹ کو بھی مسلسل فروغ دے رہی ہے۔ اس بجٹ میں غیر ملاوٹ شدہ ایندھن Extra Differential Excise D ماہ لگ جاتے ہیں۔ بجٹ کا ٹائم ہی پوراہوجاتا ہے۔ ہم ان غلطیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ اور اسی لیے اس ویبینار میں جو ہم کر رہے ہیں، ہم حکومت کی جانب سے آپ کو معلومات بانٹنے کے لیے نہیں کر رہے ہیں۔ بجٹ کیا ہے وہ سمجھانے کے لیے نہیں کر رہے، ہم سے زیادہ آپ سمجھ چکے ہیں۔ ہم آپ کو سننے کے لیے ویبنار کرتے ہیں اور سننے میں بھی بجٹ کے لیے تجویز نہیں جو بجٹ بن چکا ہے اس کو اس شعبے میں ہم لاگو کیسے کریں گے، جلد از جلد کیسے نافذ کریں گے، زیادہ سے زیادہ نتائج کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے۔ہماری ایسی کوئی رکاوٹ نہ بن جائے جو بغیر کسی سبب کے وقت ضائع کردے اور اس لیے تیز رفتاری لانے کے لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ ٹھوس عملی مثالوں اور تجویزوں کے ساتھ اس ویبنار کو کامیاب بنائیں۔ میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات!بہت بہت شکریہ,কেন্দ্রীয় বাজেট দাখিলৰ পাছত ‘বহনক্ষম উন্নয়নৰ বাবে শক্তি’ বিষয়ক লৈ আয়োজিত ৱেবিনাৰত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AC-%D8%A7%DB%8C%DA%86-%DA%88%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,"نئی دہلی،یکم دسمبر وزیر اعظم نریندر مودی نے سابق امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کی رحلت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تعزیتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ""میں مسٹر بش کی وفات پر بش کنبے اور امریکہ کے لوگوں کے تئیں رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں ۔ بش نے دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ نازک دور میں ایک ماہر سیاست داں کاکردار ادا کیا۔ سابق امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش ہندوستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات کے خواہاں تھے۔ انہیں بہت یاد رکھا جائے گا۔ خدا ان کی روح کو شانتی دے۔ """,আমেৰিকা যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ প্ৰাক্তন ৰাষ্ট্ৰপতি জৰ্জ এইচ. ডব্লিউ. বুশ্বৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%A8/,نئی دہلی۔28اگست۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے ہندوستان ، برطانیہ اور شمالی آئر لینڈ کے درمیان مویشی پروری، ڈیری صنعت اور مچھلی پالن کے شعبوں میں تعاون کے سلسلے میں ہوئے مفاہمت نامے کو منظوری دے دی ہے اور اس بارے میں جانکاری بھی دے دی گئی۔اس مفاہمت نامے پر دستخط 17 اپریل 2018 کئے گئے۔اس مفاہمت نامے کا مقصد ہندوستان میں مویشیوں اور مچھلی پالن کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے مقصد سے مویشی پالن ، دودھ کی صنعت اور ماہی پروری کے شعبے میں باہمی تعاون کر فروغ دینا ہے۔ اثرات توقع ہے اس شراکت داری سے مویشیوں کی صحت، مویشیوں کی نسل کو بڑھانے اور ماہی پروری کو بہتر بنایا جاسکے گا۔اس کا مقصد گھریلو کھپت اور برآمد کے لئے ڈیری ،ماہی پروری اور جانوروں کی پیداوار کو بڑھانا ہے۔یہ مفاہمت نامہ مویشیوں کو پالنے، ماہی پروری اور ڈیری صنعت پر حسب ذیل کے ذریعہ صلاح و مشورہ اور تعاون کو بڑھاوا دے گا۔ مویشی پروری، ماہی پروری اور متعلقہ معاملوں میں آپسی مفاد سے جڑے ہوئے معاملے مویشیوں کی صحت اور مویشی پروری پالن پوشن ، دودھ اور ماہی پروری میں تعاون و اشتراک مویشیوں کی پیداواریت اور پیداوار بڑھانے کے لئے نقصان والے علاقوں میں چارے اور کھانے کو زیادہ غذائیت بنانے کے لئے اور اس کی بڑی مقدار میں ڈھلائی کا انتظام اور طریقہ کار۔ مویشیوں، مویشی پروری اور جانوروں کی پیداوار میں تجارت سے متعلق معاملات میں ایمانداری۔ مویشیوں کے چارے کی فصلوں کے ساتھ اعلی تکنیک والے چارے میں پیڑوں کی نسلوں کی نرسریاں کوفروغ دینا اور سوکھے والے علاقوں میں نمی والی مٹی کے تحفظ سمیت مربوط فارمنگ نظام کے تحت چارے والے پیڑوں کی نسلوں کے پودوں کے لئے جنگلوں کو بڑھانا۔ آپسی طور پر اتفاق کئے گئے علاقوں میں مطالعاتی دورے، ٹریننگ کے لئے سائنسی عملے کے تبادلے کے علاقے۔ معلومات اور مواصلاتی تکنالوجی کے استعمال سمیت اختراعی زرعی توسیع سے متعلق کراس لرننگ کے لئے مشترکہ تحقیق کے واسطے اشتراک۔ مشترکہ مفاد کا کوئی اور دوسرا معاملہ ہرفریق کے نمائندوں پر مشتمل ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیاجائے گا تاکہ ایک مشترکہ پروگرام ترتیب دیا جاسکے اور تعاون اور صلاح و مشورے کی راہ ہموار ہوسکے۔ پس منظر اس مفاہمت نامے پر دستخط ہندوستان کی جانب سے زراعت اور کسانوں کی بہبود وزارت کے مویشی پروری ، ڈیری اور ماہی پروری کے محکمے نے کئے تھے۔ جبکہ برطانیہ اور شمالی آئر لینڈ کی جانب سے اس مفاہمت نامے پر دستخط وہاں کی ماحولیات، خوراک اور دیہی معاملات کے محکمہ کی طرف سے کئے گئے تھے۔ یہ دستخط مویشی پروری ، ڈیری اور ماہی پروری کے شعبوں میں تعاون کی غرض سے اپریل 2018 میں کئے گئے تھے۔,"পশুপালন, দুগ্ধপাম আৰু মীনপালনৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত, ব্ৰিটেইন আৰু উত্তৰ আয়াৰলেণ্ডৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তি সম্পৰ্কে অৱগত কৰিলে কেবিনেটক" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%B4%D9%88%D8%B1%D9%86%D8%B3-%D8%B1%DB%8C%DA%AF%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%95-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0/,نئی دہلی،29؍اگست، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیا (آئی آر ڈی اے آئی) اور امریکہ کے فیڈرل انشورنس آفس کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ اثرات: یہ مفاہمت نامہ ہر اتھارٹی کے نظریات اور دیگر قانونی ذمہ داریوں کے پیش نظر معلومات اور تحقیقی امداد سمیت تعاون اور تال میل کے لئے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کو مختلف انضباطی کارروائیوں میں اپنے اپنے تجربات کا تبادلہ کرنا اور تربیتی سرگرمیوں سمیت باہمی امداد فراہم کرنا ہے۔ بھارت اور امریکہ نے بین الاقوامی معیار قائم کرنے سے متعلق سرگرمیوں، مالی استحکام اور انشو رنس سیکٹر میں ٹھوس ضابطوں کے ذریعے صارفین کے تحفظ کی ترقی اور نفاذ میں تعاون کے لئے سہولت کی فراہمی جاری رکھنے سے بھی اتفاق کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-وا- ق ر),বীমা নিয়ামক খণ্ডত ভাৰত আৰু মাৰ্কিন যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B8-3/,جناب عالی! اس دکھ کی گھڑی میں آج ہم مل رہے ہیں۔ آج جاپان آنےکےبعد میں اپنے آپ کو زیادہ ا فسردہ محسوس کررہا ہوں۔ کیونکہ پچھلی مرتبہ جب میں آیا تھا تو آبے سان سے بہت لمبی ��اتیں ہوئی تھیں اور کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ جانے کےبعد ایسی خبر سننے کی نوبت آئے گی ۔ آبےسان اور ان کے ساتھ آپ ، وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی بھارت اور جاپان کے رشتوں کو نئی اونچائیوں پر لے گئے اور بہت سے شعبوں میں انہیں توسیع بھی دی اور ہماری دوستی نے ایک عالمی اثر پیدا کرنے میں بھی بہت بڑا رول ادا کیا، بھارت اور جاپان کی دوستی نے، او راس سب کے لئے آج بھارت کے عوام آبے سان کو بہت یاد کرتے ہیں، جاپان کو بہت یاد کرتے ہیں۔ بھارت ایک طرح سےہمیشہ ان سےمحرومی محسوس کررہا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں بھارت- جاپان رشتے اور بھی گہرے ہوں گے اور زیادہ اونچائیوں کو پار کریں گے اور ہم دنیا میں مشکلات کا حل مہیا کرنے میں ایک اہم رول ادا کرنے کے اہل بنیں گے، ایسا میرا پورا یقین ہے۔ اعلامیہ: یہ وزیراعظم کے کلمات کا قریب ترین ترجمہ ہے ۔ اصل کلمات ہندی میں ادا کئے گئےتھے۔ ش ح۔ ا س ۔ ج,জাপানৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে হোৱা দ্বিপাক্ষিক বৈঠকত প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে প্ৰদান কৰা উদ্বোধনী ভাষণৰ ইংৰাজীলৈ কৰা অনুবাদৰ ভাঙন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%85%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82/,"بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، جب بھی میں جاپان آتا ہوں تو میں ہر بار دیکھتا ہوں کہ آپ کی محبتوں کی بارش میں ہر بار اضافہ ہوجاتا ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کئی برسوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ جاپان کی زبان، ملبوسات، یہاں کی ثقافت، کھانا ایک طرح سے آپ کی زندگی کا بھی حصہ بن گئے ہیں اور اس کا حصہ بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارتی سماج کی رسومات شمولیت پر مبنی رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جاپان میں اپنی روایت، اپنی اقدار، اپنی سرزمین کے تئیں جو عہدبستگی ہے وہ بہت گہری ہے۔ اور دونوں کا ملن ہوا ہے۔ لہذا فطری طور پر اپنائیت کا احساس ہونا قدرتی بات ہے۔ ساتھیو، آپ یہاں رہ رہے ہیں، آپ میں سے بہت سے لوگ یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں نے یہاں شادیاں بھی کرلی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہاں کتنے سال شامل ہونے کے بعد بھی بھارت کے لیے آپ کا احترام، جب بھارت کے بارے میں آپ اچھی خبر سنتے ہیں تو آپ کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ۔ ایسا ہوتا ہے، ہے نا؟ اور اگر کوئی بری خبر آتی ہے تو سب سے زیادہ غمگین بھی آپ ہی ہوتے ہیں۔ یہ ہم لوگوں کی خصوصیت ہے کہ ہم کرم بھومی سے تن من سے جڑ جاتے ہیں، کھپ جاتے ہیں، لیکن ہم مادر وطن کی جڑوں سے کبھی دور نہیں ہوتے اور یہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ ساتھیو، جب سوامی وویکانند جی اپنے تاریخی خطاب کے لیے شکاگو جارہے تھے تو اس سے پہلے وہ جاپان آئے تھے اور جاپان نے ان کے من مندر میں، ان کے ذہن و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ جاپان کے عوام کی حب الوطنی، جاپان کے عوام کا اعتماد، یہاں کا نظم و ضبط، صفائی ستھرائی کے لیے جاپان کے عوام کی بیداری، وویکانند جی نے کھل کر ان سب کی ستائش کی تھی۔ گرودیو رابندر ناتھ جی ٹیگور بھی کہا کرتے تھے کہ جاپان ایک ایسا ملک ہے جو بیک وقت قدیم اور جدید ہے۔ اور ٹیگور نے کہا: ""جاپان قدیم مشرق سے اس طرح نکلا ہے جیسے ایک کمل آسانی سے کیچڑ میں کھل جاتا ہے، جب کہ وہ اپنی جڑوں کو اس گہرائی میں قائم رکھتا ہے جس ست وہ ابھرتا ہے۔"" یعنی وہ کہنا چاہتے تھے کہ جاپان اپنی جڑوں سے اتنا ہی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے جتنا کمل کا پھول۔ یکساں عظمت کے ساتھ وہ ہر طرف خوب صورتی کو بھی بڑھاتا ہے۔ ہمارے ان عظیم لوگوں کے اس طرح کے مقدس احساسات جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی گہرائیوں کو واضح کرتے ہیں۔ ساتھیو، اس بار میں جاپان آیا۔ چناں چہ ہمارے سفارتی تعلقات کو ستر سال، سات دہائیاں ہونے والی ہیں۔ آپ بھی یہاں رہتے ہوئے اس کا تجربہ کرتے ہوں گے۔ بھارت میں بھی ہر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ بھارت اور جاپان فطری شراکت دار ہیں۔ جاپان نے بھارت کے ترقیاتی سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات قربت و روحانیت کے ہیں، جاپان کے ساتھ ہمارے تعلقات تعاون و تعلق کے ہیں۔ چناں چہ ایک طرح سے یہ رشتہ ہماری طاقت کا ہے، یہ رشتہ احترام کا ہے۔ اور یہ رشتہ بھی دنیا سے مشترکہ تعلق کا ہے۔ جاپان کے ساتھ ہمارا تعلق بدھ، بودھ، علم کا ہے۔ اگر ہمارا مہاکل جاپان میں دائیکوکوٹن ہے۔ ہمارے پاس برہما ہے، تو جاپان میں بونٹین ہیں، ہماری ماں سرستوی ہے، تو جاپان میں بینزائیٹن ہیں۔ ہماری مہادیوی لکشمی ہیں، تو جاپان میں کیچیجوٹن ہیں۔ ہمارے پاس گنیش ہے تو جاپان میں کانگیٹن ہیں۔ اگر جاپان میں زین کی روایت ہے تو ہم دھیان کو روح سے مکالمے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم بھارت اور جاپان کے درمیان ان ثقافتی تعلقات کو پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں اور میں کاشی سے رکن پارلیمنٹ ہوں اور بڑے فخر کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ جب جاپان کے سابق وزیر اعظم شیاپی کاشی آئے تھے۔ تب انھوں نے کاشی کو ایک بہت اچھا تحفہ دیا تھا۔ کاشی میں جاپان کے تعاون سے تعمیر کردہ رودراکش اور جو کبھی میری کرم بھومی رہی وہ احمد آباد میں زین گارڈن ہے اور کائزن اکیڈمی ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں قریب لاتی ہیں۔ یہاں آپ سب جاپان میں رہتے ہوئے اس تاریخی بندھن کو مضبوط اور مستحکم بنا رہے ہیں۔ ساتھیو، آج کی دنیا کو شاید پہلے سے کہیں زیادہ بھگوان بدھ کے راستے پر، ان کی تعلیمات پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو آج دنیا کا ہر چیلنج، چاہے وہ تشدد ہو، انارکی ہو، دہشت گردی ہو، ماحولیاتی تبدیلی ہو، ان تمام سے انسانیت کو بچانے کا راستہ ہے۔ بھارت خوش قسمت ہے کہ اسے بھگوان بدھ کا براہ راست آشیرباد ملا ہے۔ ان کے خیالات کو اپناتے ہوئے بھارت انسانیت کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ چیلنجز کچھ بھی ہوں، چاہے وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، بھارت ان کا حل تلاش کر رہا ہے۔ کورونا سے دنیا کا سو برسوں کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوا۔ وہ ہمارے سامنے ہے اور یہ جب شروع ہوا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ پہلے تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ وہاں آیا ہے، یہاں کیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے کیسے سنبھالنا ہے۔ اور نہ ہی کوئی ویکسین تھی اور نہ ہی اس بات کا کوئی اندازہ تھا کہ ویکسین کب تک آئے گی۔ یہاں تک کہ اس بارے میں بھی شک تھا کہ ویکسین آئے گی یا نہیں۔ چاروں طرف غیر یقینی والی صورت حال تھی۔ ان حالات میں بھی بھارت نے دنیا کے ممالک کو دوائیں بھیجی تھیں۔ جب یہ ویکسین دستیاب ہوئی تو بھارت نے میڈ ان انڈیا ویکسین اپنے لاکھوں شہریوں اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک کو بھیجی۔ ساتھیو، بھارت اپنی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو مزید بہتر بنانے کے لیے بے مثال سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ملک میں لاکھوں نئے ویل نیس مراکز قائم کیے جارہے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں بھی صحت کی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ جان کر آپ کو بھی خوشی ہوگی، شاید آج آپ نے سنا ہوگا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھارت کے آشا کارکنوں، آشا بہنوں کو ڈائریکٹر جنرل کے گلوبل ہیلتھ لیڈر ایوارڈ سے نوازا ہے۔ بھارت کی لاکھوں آشا بہنیں ملک میں زچگی کی دیکھ بھال سے لے کر ویکسینیشن تک، غذائیت سے لے کر گاؤں کے اندر صفائی ستھرائی تک ملک کی صحت مہم کو تیز کر رہی ہیں۔ آج میں جاپان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی اپنی تمام آشا کارکن بہنوں کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں انھیں سلام کرتا ہوں۔ ساتھیو، بھارت آج عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں کس طرح مدد کر رہا ہے۔ اس کی ایک اور مثال ماحولیات ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں آج دنیا کو درپیش ایک اہم بحران بن چکی ہیں۔ ہم نے بھارت میں بھی اس چیلنج کو دیکھا ہے اور ہم اس چیلنج کے حل تلاش کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے پیش رفت کر رہے ہیں۔ بھارت نے 2040 تک نیٹ زیرو کا عہد کیا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسے عالمی اقدامات کی قیادت بھی کی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا پر قدرتی آفت کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ان آفات کے خطرات کو جاپان کے لوگوں سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے جو ان کی آلودگی کے برے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں؟ جاپان نے قدرتی آفات سے لڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی ہے۔ جاپان کے عوام نے جس طرح ان چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ ہر مسئلے سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ اس کے حل دریافت کر لیے گئے ہیں اور انتظامات بھی تیار کیے گئے ہیں۔ افراد کے ساتھ بھی اس طرح کا سلوک کیا گیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں خوب صورت ہے۔ اس سمت میں بھارت نے سی ڈی آر آئی (کوالیشن فار ڈیزاسٹر لچک دار بنیادی ڈھانچے) میں بھی سبقت لے لی ہے۔ ساتھیو، آج بھارت گرین فیوچر، گرین جاب کیریئر روڈ میپ کے لیے بھی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت میں برقی حرکت پذیری کو وسیع فروغ دیا جارہا ہے۔ سبز ہائیڈروجن کو ہائیڈرو کاربن کا متبادل بنانے کے لیے ایک خصوصی مشن شروع کیا گیا ہے۔ بائیو فیول اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے متعلق تحقیق بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے۔ بھارت نے اس دہائی کے آخر تک غیر فوسل آئندھن سے اپنی کل نصب بجلی کی صلاحیت کا 50 فیصد پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ساتھیو، مسائل کے حل میں بھارتیوں کا یہی اعتماد ہے۔ یہ اعتماد آج ہر شعبے میں، ہر سمت میں، ہر قدم پر نظر آتا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں جس طرح عالمی چین سپلائی کو نقصان پہنچا ہے۔ پوری سپلائی چین سوالیہ نشان ہے۔ آج یہ پوری دنیا کے لیے اپنے آپ میں ایک بہت بڑا بحران ہے۔ مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ہم خود انحصاری کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ خود انحصاری کا یہ عزم صرف بھارت کے لیے ہے۔ یہ ایک مستحکم، معتبر عالمی سپلائی چین کے لیے بھی ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔ آج پوری دنیا حسوس کر رہی ہے کہ بھارت جس رفتار اور پیمانے پر کام کر سکتا ہے وہ بے مثال ہے۔ دنیا آج یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ بھارت جس پیمانے پر اپنی بنیادی ڈھانچے کی ادارہ جاتی صلاحیت کی تعمیر پر زور دے رہا ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جاپان ہماری اس صلاحیت کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ ممبئی احمد آباد ہائی اسپیڈ ریل ہو، دہلی ممبئی انڈسٹریل کوریڈور ہو، فریٹ کوریڈور ہو، یہ بھارت جاپان تعاون کی بہترین مثالیں ہیں۔ ساتھیو، بھارت میں جو تبدیلیاں ہو ��ہی ہیں ان کے بارے میں ایک اور خاص بات ہے۔ ہم نے بھارت میں ایک مضبوط اور لچک دار اور ذمہ دار جمہوریت تشکیل دی ہے۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں ہم نے اسے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنایا ہے۔ آج وہ بھارت کے جمہوری عمل میں بھی شامل ہو رہے ہیں۔ جو لوگ کبھی فخر کے ساتھ تجربہ نہیں کر رہے تھے کہ وہ بھی اس کا حصہ ہیں۔ ہر بار، ہر انتخابات میں ریکارڈ ٹرن آؤٹ اور اس میں بھی ہماری مائیں اور بہنیں جو یہاں ہیں ان کو خوشی ہوگی۔ اگر آپ بھارت کے انتخابات کو تفصیل سے دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین ووٹ دے رہی ہیں۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ بھارت میں جمہوریت عام شہریوں کے حقوق سے کتنی باخبر ہے، اس کی خاطر کتنی وقف ہے اور یہ ہر شہری کو کتنا طاقتور بناتی ہے۔ ساتھیو، بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ہم بھارت کی امنگ کو بھی ایک نئی جہت دے رہے ہیں۔ بھارت میں جامعیت، لیکیج پروف گورننس یعنی ترسیل کے نظام، ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ایک میکنزم کو وسعت دی جارہی ہے تاکہ جسے جس چیز کا حق ہے وہ بغیر کسی پریشانی کے، بغیر کسی سفارش کے، کسی بھی بدعنوانی کے بغیر وہ حق حاصل کر سکتا ہے اور اس کے لیے ہم پوری طاقت سے مصروف ہیں۔ اور ٹیکنالوجی کے اس استعمال سے کورونا کے اس دور میں، گذشتہ دو برسوں میں بھارت اور خاص طور پر بھارت کے دور دراز دیہات میں رہنے والے جنگلات میں رہنے والے ہمارے شہریوں کے حقوق میں براہ راست فائدہ کی منتقلی کی اس روایت میں مدد ملی ہے۔ ساتھیو، بھارت کا بینکاری نظام ان مشکل حالات میں بھی مسلسل چل رہا ہے اور اس کی ایک وجہ بھارت میں آنے والا ڈیجیٹل انقلاب بھی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹ ورک کی طاقت سے یہ نتیجہ مل رہا ہے۔ اور آپ کو ساتھیو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ پوری دنیا میں جو لین دین ہوتے ہیں کیش لیس، یہاں جاپان میں آپ ٹیکنالوجی سے اچھی طرح واقف ہیں، آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی، یہ حیرت اور فخر کی بات ہوگی کہ دنیا بھر میں ہونے والے تمام ڈیجیٹل لین دین میں سے 40 فیصد صرف بھارت میں ہوتی ہیں۔ کورونا کے ابتدائی دنوں میں جب سب کچھ بند تھا، بحران کے دور میں بھی بھارت سرکار ایک ہی وقت میں ایک کلک بٹن دبا کر اور آسانی سے ان تک مدد پہنچانے میں کام یاب ہوئی۔ اور جس کے لیے مدد طے تھی، اسے بروقت ملی اور وہ اس سے بحران سے نمٹنے کے قابل بھی ہوا۔ آج بھارت میں عوام کی قائم کردہ حکم رانی صحیح معنوں میں کام کر رہی ہے۔ حکم رانی کا یہ ماڈل ترسیل کو موثر بنا رہا ہے۔ جمہوریت پر ہمیشہ مضبوط ہونے والے اعتماد کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ ساتھیو، آج جب بھارت آزادی کے 75 سال منا رہا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو منایا جارہا ہے۔ تو پھر ہمیں اگلے 25 سال یعنی آزادی کے 100 ویں سال تک بھارت کو کہاں لے جانا ہے؟ کیا اونچائی حاصل کرنے کے لیے، دنیا میں اپنے پرچم کو کہاں کہاں اور کیسے گاڑنا ہے، آج بھارت اس روڈ میپ کی تیاری کر رہا ہے۔ آزادی کا یہ امرت کال بھارت کی خوش حالی کی ایک بلند تاریخ لکھنے جا رہا ہے، ساتھیو۔ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ قراردادیں ہیں جو ہم نے لی ہیں۔ یہ قراردادیں اپنے آپ میں بہت بڑی ہیں۔ لیکن ساتھیو، میری پرورش، مجھے ملنے والے سنسکار، جن جن لوگوں نے مجھے گھڑا ہے، اس کی وجہ سے میری بھی ایک عادت بن گئی ہے۔ مجھے مکھن پر لکیر کرنے سے لطف نہیں آتا بلکہ میں پتھر پر لکیر بناتا ہوں۔ ساتھیو، سوال مودی کا نہیں ہے۔ آج میں بھارت کے 130 کروڑ عوام اور میں جاپان میں بیٹھے لوگوں کی آنکھوں میں بھی وہی دیکھ رہے ہیں خود اعتمادی، 130 کروڑ محب وطن عوام کا اعتماد، 130 کروڑ قراردادیں، 130 کروڑ خواب اور ان 130 کروڑ خوابوں کو پورا کرنے کی یہ عظیم قوت یقینی ہے کہ یہ پورا ہوگا، میرے ساتھیو۔ ہم اپنے خوابوں کا بھارت دیکھ کے رہیں گے۔ آج بھارت اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنے اداروں، اپنے کھوئے ہوئے اعتماد کو دوبارہ حاصل کر رہا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی بھارتی آج سینہ تان کر بڑے فخر کے ساتھ بھارت کی بات کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی آ چکی ہے۔ آج یہاں آنے سے پہلے مجھے بھارت کی عظمت سے متاثر کچھ لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے جو اپنی زندگیاں کھپا رہے ہیں۔ اور بڑے فخر کے ساتھ وہ بڑَ فخر سے یوگ کی باتیں کہہ رہے تھے۔ وہ یوگ کے لیے وقف ہیں۔ جاپان میں بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے یوگ کا خیال نہ ہو۔ ہمارا آیوروید، ہمارا روایتی نظام طب، آج کل ہمارے مصالحے اس کی مانگ دو ر نزدیک ہر جگہ بڑھ رہی ہے۔ لوگ ہماری ہلدی کا آرڈر دے رہے ہیں۔ یہی نہیں ساتھیو، ہماری کھادی تو آزادی کے بعد رفتہ رفتہ ان رہ نماؤں کا لباس بن کر رہ گئی تھی۔ آج وہ زندہ ہو گئی ہے۔ کھادی گلوبل ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھارت کی بدلتی ہوئی تصویر ہے، دوستو۔ آج کے بھارت کو اپنے ماضی پر جتنا فخر ہے، وہ ٹیک کی قیادت، سائنس کی قیادت، اختراع کی قیادت، ٹیلنٹ کی قیادت میں مستقبل کے بارے میں بھی پرامید ہے۔ جاپان سے متاثر سوامی وویکانند جی نے ایک بار کہا تھا کہ ہم بھارتی نوجوانوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جاپان کا دورہ کرنا چاہیے۔ میں یہ تو نہیں مانتا کہ آپ لوگ ان جملوں کو پڑھ کر آئے ہوں گے، لیکن وویکانند جی نے بھارت کے عوام سے کہا تھا کہ بھائی ایک بار دیکھ کر تو آؤ جاپان ہے کیسا۔ ساتھیو، آج کے دور کے مطابق وویکانند جی نے اُس زمانے میں جو کچھ کہا تھا اس کی اسی خیر سگالی کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جاپان کے ہر نوجوان کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار بھارت کا دورہ کرنا چاہیے۔ آپ نے اپنی مہارتوں، اپنی صلاحیتوں، اپنی صنعت کاری سے جاپان کی اس عظیم سرزمین کو مسحور کر دیا ہے۔ آپ کو جاپان کو مسلسل بھارتیت کے رنگوں سے، بھارت کے امکانات سے بھی متعارف کرانا ہوگا۔ عقیدہ ہو یا مہم جوئی، بھارت جاپان کے لیے ایک قدرتی سیاحتی مقام ہے۔ اور اس لیے آئیے بھارت چلیں، بھارت کو دیکھیں، بھارت میں شامل ہوں، اس قرارداد کے ساتھ میں جاپان کے ہر بھارتی سے اس میں شامل ہونے کی درخواست کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی بامعنی کوششوں سے بھارت اور جاپان کی دوستی کو ایک نئی جہت ملے گی۔ اس شاندار استقبال کے لیے، اور میں دیکھ رہا تھا، اندر آ رہا تھا، چاروں طرف جوش و خروش، نعرے، اور جتنا بھارت کو آپ اپنے اندر جینے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، یہ واقعی دل خوش کن ہے۔ آپ کی یہ محبت یہ شفقت ہمیشہ قائم رہے۔ اتنی بڑی تعداد میں یہاں آکر، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ صرف ٹوکیو سے نہیں بلکہ باہر سے بھی کچھ ساتھی آج یہاں آئے ہیں۔ پہلے میں آیا کرتا تھا۔ اس بار آپ بھی آئے۔ لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ آپ سب سے ملنے کا موقع ملا، میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بہت بہت شکریہ۔",জাপানৰ টকিঅ’ত ভাৰতীয় সমূদায়ক উদ্দেশ্যি আগবঢ়োৱা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اتراکھنڈ کے عوام کو ان کے یوم ریاست پر مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘اتراکھنڈ کے لوگوں کو یوم ریاست کی مبارکباد۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جو فطرت اور روحانیت سے بہت نزدیکی طور پر جڑی ہوئی ہے۔ اس ریاست کے لوگ کئی شعبوں میں، قوم کی تعمیر میں غیر معمولی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ دعا ہےآنے والے سالوں میں اتراکھنڈ ترقی کرتا رہے۔’’,উত্তৰাখণ্ডৰ প্রতিষ্ঠা দিৱসত সেই ৰাজ্যৰ জনগণক শুভেচ্ছা প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-2019-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D8%B1-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8/,نئیدہلی05فروری۔سری نگر میں تین فروری 2019 کو وزیراعظم جناب نریندرمودی کے ساتھ ہندوستان بھر کے طلبا نے جو گفتگو کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے : سوال:محترم وزیراعظم میرا نام کے –دیپیکا ہے ۔میں تلنگانہ کے سرکاری ڈگری کالج برائے خواتین بیگم پیٹ حیدرآباد کے بی اے جرنلزم فائنل ائر کی طالبہ ہوں ۔جناب عالی ہم نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تعلیم کے لئے متعدداقدامات کا مشاہدہ کیا ہے۔کیا آپ تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی اپنی کوششوں سے مطمئن ہیں؟مجھے یہ موقع فراہم کرنے کے لئے آپ کا شکریہ : اینکر: ہم نے گزشتہ پانچ برسوں میں تعلیم کے شعبے میں کئی نئے اقدامات کا مشاہدہ کیا ہے۔کیا آپ تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی اپنی کوششوں سے مطمئن ہیں ؟ محترم براہ کرم جواب دیں۔ وزیر اعظم : میں آپ کا شکرگزار ہوں اس سوال کے لئے اور ملک بھر میں قریب ڈھائی کروڑ نوجوانوں کے ساتھ مجھے گفت وشنید کرنے کا موقع ملا ہے۔تکنالوجی کا شکریہ ! ایک ہی چیز کو دوطریقے سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک کوشش کا سوال ہے ، مجھے اس بات کی تسلی ہے کہ ہم صحیح سمت میں ہیں۔ ہم ایک طے شدہ نظام الاوقات کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور دنیا میں تعلیم کے جو معیارات طے پائے ہیں ، ہم اس عالمی معیار کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ان تمام نوجوانوں کو یہ موقع حاصل ہونا چاہئے ۔اگر وہ زندگی میں تعلیم کے جس شعبے میں جانا چاہتے ہیں ، حکومت کا ایک کام ہے کہ ان نظامات کو ترقی دے ۔جدید بھارت کے لئے جس طرح کے اداروں کی تشکیل ہونی چاہئے اس پر ہم زوردے رہے ہیں ۔آئی ٹی ہو یا آئی آئی ایم ہو ، اس کی توسیع کے لئے بہت تیزی سےکام چل رہا ہے ۔اسی طریقے سے ہنر مندی ترقیات ایک بہت بڑا شعبہ ہے جس پر ہم زور دے رہے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک جانے والے ہمارے ملک کے نوجوانوں کے اخراجات پر ہمارا اربوں کھربوں روپیہ بیرون ملک چلاجاتا ہے ۔ ہم ایسا تعلیمی نظام مرتب کریں ،جس سے ہمارے ملک کے لوگ ملک کے باہر جانے کے بجائے دنیا کے دیگر ملکو ں کے لوگ بھارت میں تعلیم حاصل کرنے آئیں ۔میں اسی تصور پرکام کررہا ہوں ۔ جہاں تک سمت کا سوال ہے میں پوری طرح مطمئن ہوں ۔ساڑھے چار برس سے بھی کم مدت کار میں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ سبھی کے لئے قابل اطمینان ہے۔ لیکن میں اطمینان اپنی پیٹھ تھپتھپانے کے لئے نہیں کررہا ہو ں ۔ میرے اطمینان کا مطلب ہوتا ہے ، نئے نشانے طے کرنا ۔ ان نشانوں کو پار کرنے کے لئے سفر شروع کردینا ۔اطمینان سونے کے لئے خوابوںکو عملی تعبیر دینے کے لئے ہے ۔شکریہ ! اینکر :شکریہ محترم وزیر اعظم ! اب ہم ملک کے شمال مشرقی علاقے آسام سے جُڑ رہے ہیں ، جہاں کاٹن یونیورسٹی کے انامتر مہنتا آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ سوال : میں انا متر موہنتا آسام سے ہوں ۔ جناب عالی ! آج ہم روزمرہ کی زندگی میں ڈجیٹل انڈیا کا محتلف النوع استعمال دیکھ رہے ہیں ،جس میں تعلیم بھی شامل ہے ۔آپ کے خیال میں ہمارے ملک اور عوام پر اس کے کیا اثرات نمودار ہوں گے ۔ میرا یہی سوال ہے ۔ اینکر : محترم! ہم روز مرہ کی زندگی میں ڈجیٹل انڈیا کے محتلف النوع استعمال کا مشاہدہ کررہے ہیں ، جس میں تعلیم بھی شامل ہے ۔ہمارے ملک اور یہاں کے لوگوں میں اس کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں ۔ براہ کرام آپ بتائیں۔ وزیراعظم : انسان مسلسل ترقی کرتا رہا ہے ۔ٹکنالوجی ایک بہت بڑی ڈرائیونگ فورس (روح رواں ) رہی ہے ۔ نئی نئی جدت طرازیوں نے انسانی زندگی میں مسلسل تبدیلیاں پیدا کی ہیں لیکن 40 سال قبل جس رفتار سے دنیا بدلی ، انوویشن ، ٹکنالوجی اور انٹر وینشن نے دنیا کو 200-300 سال میں بدلتے جہاں لاکر کھڑا کردیا تھا ۔گزشتہ 40-50 سال میں ٹکنالوجی نے ایسی جست لگائی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اگر پچھلے 200-300 سال کے مقابلے میں دیکھیں تو یہ 40-50 سال کا عرصہ ایک زبردست جست کی حیثیت رکھتا ہے۔نئی ڈائمنشز ہیں ، خواہ خلا ہو یا سطح سمندر ہو ڈجیٹل ورڈ نے اس میں بہت بڑا رول پلے کیا ہے ۔آج جو میں اس قدر آرام سے آپ کے ساتھ بات کررہا ہوں ، میں سری نگر میں آرام سے بیٹھ کر ہندوستان میں ہر کونے کے ڈھائی کروڑ نوجوانوں سے تعلیم کے بارے میں بات کررہا ہوں ، یہی سب سے بڑا اثرہے ۔ آپ نے دیکھا باندی پورہ میں ایک بی پی او کا افتتاح ہوا ۔ یہ پہلا بی پی او ڈجیٹل انقلاب کا ہی نتیجہ ہے۔دنیا کو میں جب کہتا ہو ں کہ ہمارے پاس 120 کروڑلوگوں کے اعدادوشمار ہیں ۔ ہمارے پاس اتنی بڑی دولت ہے یہ سب ڈجیٹل انقلاب کا ہی نتیجہ ہے ۔ہم نے جے اے ایم ٹرینٹی شرو ع کی ہے ۔ جس کے ذریعہ کوئی بھی عام آدمی خواہ وہ گاؤں کا غریب ہی کیوں نہ سرکار کو آن لائن سامان بھیج سکتا ہے۔III ڈی پروڈکشن کی بدولت اگر کسی طالب علم کو دل کے بارے میں کچھ جاننا ہے ،پڑھنا ہے تو وہ تھری ڈی کے ذریعہ دیکھ کر اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دل کیسے کام کرتا ہے ۔میں نے گجرات کے وزیراعلی ٰ کی حیثیت سے ایک سروے کرایا تھا کہ دن کے کھانے کی اسکیم کے پرائمری سرکار ی اسکولوں پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم وہاں ڈجیٹل کلاس روم بنائیں تو کیا فرق پڑے گا۔ تجربہ کیا گیا ہے کہ بچے اسمارٹ کلاس روم کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے ۔ جھگی جھونپڑی کی بچے وہاں آکر پڑھتے تھے تو ان کو بڑا مزہ آتا تھا ۔اس کے لئے انہیں مڈڈے میل کی بھی پرواہ نہیں ہوتی تھی ، انہیں مڈ ڈے میل کے لئے کھینچ کھینچ کر لے جانا پڑتا تھی ۔ یہی ہیں ڈجیٹل اثرات ۔ آنے والے دنوں میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بھی اس کا بہت بڑا رول ہوگا۔ اینکر : کروکشیتر یونیورسٹی ہریانہ کے گورو آپ سے بات کرنے کے لئے بے چین ہے ۔ سوال : محترم وزیر اعظم میرا نام گورو ہے ۔ میں کروکشیتر یونیورسٹی ہریانہ سے ہوں ۔محترم ہمیں اپنے ملک کی غریبی سے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ ہم نے ملک کی غریبی کے خاتمے کے لئے آپ کی کوششیں دیکھی ہیں۔ آپ کے خیال سے کیا ہم مستقبل میں غریبی سے نجات پاسکتے ہیں؟ اینکر : ہمارے ملک میں غریبی کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ۔ ہم نے غریبی کو دور کرنے کے لئے آپ کی کوششیں دیکھی ہیں۔آپ کے خیال میں کیا مستقبل میں ہمارا ملک غریبی سے نجات پاسکتا ہے ؟ وزیر اعظم : اگر ملک طے کرلے ہمیں غریبی سے نجات حاصل کرنا ہے تودنیا کی کوئی طاقت ہمیں غریب نہیں رکھ سکتی ۔ سوا سو کروڑ لوگوں میں اتنی طاقت ہے کہ ہم اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کی صحیح طریقے سے منصوبہ بندی کرکے آگے بڑھیں تو غریبی سے نجات پانا مشکل نہیں ہے۔ میں گزشتہ ساڑھے چار برس کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ان دنوں دوچیزیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ا یک تو یہ کہ ہندوستان دنیا کی سب سے تیزرفتاری سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں پہلے نمبر پر ہے ۔ دوسراا قوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہندوستان پہلے نمبر پر ہے جو تیزی سے غریبی سے باہر نکل رہا ہے ۔ نئے مڈل کلاس کی طاقت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔اس کے ساتھ ہی ان اداروں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان میں شیڈیول کاسٹ او ر مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے ۔گاندھی جی نے بہت کوششیں کیں ، آزادی کی تحریک بھی جاری تھی اور سووچھتا یعنی صفائی ستھرائی کی بات بھی چل رہی تھی ۔آزادی کے بعد اس کام کو بہت آسانی سے آگے بڑھایا جاسکتا تھا لیکن کوئی کرلے تو کرلے نہ کرے تونہ کرے ۔ میں نے لال قلعہ سے نعرہ دیا تھا اور آج یہ ملک صفائی ستھرائی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ جب ہم 2014 میں آئے تو ہمارے ملک میں دیہی صفائی ستھرائی کا دائرہ 38 فیصد تھا آج 98 فیصد ہے ۔صرف سرکار نے یہ کیا ۔ میں ایسا کبھی نہیں کہتا ۔ عوام جب ایک بار ٹھان لیتے ہیں تو نتیجے ہمیشہ خوشگوار ہی ہوتے ہیں۔ہم نے بیڑہ اٹھایا ہے ہر گھرمیں بجلی ہونی چاہئے ۔ مجھے خوشی ہے کہ جموں وکشمیر نے یہ کام پورا کردیا ۔ اب جموں وکشمیر نے ایک خواب دیکھا ہے کہ وہ پانی گھروں تک پہنچائیں گے ، یہ بہت بڑا خواب ہے ۔ لیکن مجھے امید ہے کہ جموںوکشمیر کے لوگ یہ کام کرکے دکھائیں گے ۔ ہمیں غریبی سے لڑنا ہے اور غریبی سے لڑنے کا طریقہ ریوڑی بانٹنے میں نہیں ہوتا،غریب کو امپاور کرنے میں ہوتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر غریب میں یہ مزاج پیداکردیا جائے تو کریں گے ۔ ہم جب تعلیم کی بات کرتے ہیں اور آیوشمان بھارت سے صحت کی بات کرتے ہیں تو غریب کو بھی لگتا ہے کہ اب ہمارے اچھے دن آچکے ہیں ۔ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میں ایسی فضا دیکھ رہا ہے کہ ہم جس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ،اُدھر غریبی بہت تیزی سے ختم ہوتی چلی جائے گی ۔وہ دن ہوگا جب ہم ملک کو غریبی سی نجات یافتہ دیکھ سکیں گے۔ اینکر : شکریہ محترم ! آج ملک کے نوجوان ملک کو بدلتے ہوئے دیکھ کر بہت زیادہ جوش میں ہیں ۔ اتکل یونیورسٹی اوڈیشہ کی انکتا آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں ۔ سوال : محترم وزیر اعظم اتکل یونیورسٹی اوڈیشہ سے ہوں ۔ ہمارے یہاں متعدد ہیری ٹیج سائٹس ہیں ۔شاندار بیچ ہیں ۔اکثر میرا جی چاہتا ہے کہ میں یاہاں کے ٹورزم کے فروغ کے لئے کچھ کروں لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ آپ کی رائے میں ہم کس طرح سے تعلیم کو سیاحت کے ساتھ جوڑ کر اوڈیشہ کے لئے کچھ کرسکتے ہیں؟ وزیراعظم : میں آپ کو مبارکباددیتا ہوں ۔ میںآپ پر تعلیم کا اثردیکھ رہا ہوں۔آپ اوڈیشہ کی طاقت کو جانتی ہیں ۔اب اس کے استعمال کے طریقوں پر غورکررہی ہیں ۔میں دیکھ رہا ہوں میں میرے سامنے پنکھے چل رہے ہیں ۔سری نگر والوںکو اس پر تعجب ہوتا ہوگا ۔ ہمارے یہاں ٹورزم کے زبردست امکانات ہیں لیکن ہم نے ٹورزم کو نظر اندازکیا ۔ ٹورزم کی پہلی شرط ہوتی ہے کہ آپ کو اپنی چیز پر فخر کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ ہماری عادت ہے کہ ہم سب بیکار ہیں ۔ اگر ہم ہی اپنے آپ کو نہیں دیکھیں گے ،اس پر فخر نہیں کریں گے تو دنیا کیوں آئے گی ۔ آج کھربوں ڈالر کا سیاحت کا کاروبار ہورہا ہے اور آگے بھی ہونے والا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ بہت پہلے میں ایک بار امریکی سرکار کی دعوت پر امریکہ گیا تھا ۔ انہوں نے پوچھا آپ کا انٹریسٹ کیا ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے گاؤں جاکر یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے یہاں کاشتکاری کا عمل کیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ مجھے ٹھیٹ گاؤں کا کوئی دیہاتی اسکول دیکھنا ہے ۔ آپ کے وہاں کھیتی کس طرح ہوتی ہے یہ دیکھنا ہے ۔ تیسرے میں نے یہ کہا کہ گاؤں میں جو ہیلتھ سیکٹر ہے وہ دیکھنا ہے ۔چوتھے میں یہ کہا کہ میں امریکہ کی قدیم ترین چیز دیکھنا چاہتا ہوں۔ اوڈیشہ اتنا مالامال ہے ۔ یہاں کے بیچ دیکھئے ۔ کونارک مندر دیکھئے ۔ ٹکنولوجی کے نظرئیے سے بھی ایک نیا پن ہے ۔ ہمارے ملک میں پہلے تقریباََ 70 ہزار سیاح آتے تھے ۔اس سال ایک کروڑٹورسٹ آئے ہیں۔ہمیں پہلے سیاحوں سے 18 ملین ڈالر کا بیرونی زرمبادلہ ملتا تھا وہ اب 27 ملین ڈالرتک پہنچ چکاہے یعنی 50فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ ٹورسٹ آنے لگے ہیں ۔ بھارت کی کشش میں اضافہ ہوا ہے لیکن صفائی ستھرائی میں بڑی طاقت دیکھی ۔شہریوں کی فطرت بھی سیاحوں کو قبول کرنے والی ہے ۔ آپ طالبان علم جو میرے ساتھ پڑھ رہے ہیں وہ اوڈیشہ سے جڑنے والے ہیں۔ میں مانتا ہو ں کہ اُبیر کی لائن پر آپ نوجوان ایک بہت بڑا بزنس اسٹارٹ کرسکتے ہیں۔میں نے ابھی بنارس میں پرواسی بھارتیہ دو س کا پروگرام کیا تھا میں کاشی سے ممبر پارلیمنٹ ہوں ۔ مجھے بہت حیرت ہوئی جب ہزارو ں کی تعداد میں لوگوں نے آکر یہ کہا کہ ہم غیر ملکی مہمانوں کو ایک کمرہ دینا چاہتے ہیں اور اب اس طرح کاشی کا ہوم اسٹے ایک بہت بڑا بزنس ہوجائے گا۔ہم بھی آج پوری دنیا میں پاپولر ہیں ۔اگر آج ہم ابیر جیسا کوئی ایپ بناکر آگے جائیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ میں ابیر کی لائن پر آپ کا کاروبار بہت ترقی کرے گا۔ اینکر :شکریہ محترم وزیراعظم ! آپ گجرات سے ہیں ۔اس وقت ہم گجرات ہی چل رہے ہیں ۔ ایم این کالج گجرات کے وجے کمار آپرسے کچھ جاننا چاہتے ہیں: محترم وزیر اعظم نمسکار ۔ میں وجے کمار ایم این کالج گجرات سے بول رہا ہوں ۔ جب سے بجٹ آیا ہے ، کسانوں کے بارے کی جانے والی اسکیموں کے بارے میں سن رہا ہوں ۔ کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ کسانوں کے لئے اتنی بڑی اسکیم لاگو کی جائے گی۔ آپ نے مغربی بنگال میں یہ کہا کہ سرکار اگلے برسوں میں کسانوں کے لئے سات لاکھ 50 ہزارکروڑروپے خرچ کرے گی ۔میرا کہنا یہ ہے کہ سرکار اتنا پیسہ لائے گی کہاں سے ؟ وزیراعظم : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپوزیشن کے اخبار پڑھتے ہیں ۔ آپ میرے گاؤں کے پڑوسی ہیں ۔ میرا گاؤں وڈ نگر ہے ۔ آپ وس نگر سے ہیں ۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے وس نگرسے اپنے گاؤں کو بھی مودی آج تازہ کررہا ہے ۔درست کہ آپ کے علاقے کے کسانوں کو بہت دقتیں ہیں ۔ پانی کی بہت قلت ہے ۔ ایک طرح سے پورا خشک سالی کا سا علاقہ ہے ۔میں وہیں پیدا ہوا ہوں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ بڑی دقت والی جگہ ہے۔ ہمارے ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ایک وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ایک روپیہ نکلتا ہے ۔15 پیسے پہنچتے ہیں ۔ اب فائدہ یہ ہے کہ پورے 100پیسے پہنچتےہیں ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب میں نے کہا کہ آپ کو گیس کی سبسڈی کی ضرورت نہیں ہے ،چھوڑدیجئے ۔ میں نے کوئی قانون نہیں بنایا تھا ۔صرف ریکوئسٹ کی تھی ۔ سواسو کروڑ لوگوں نے گیس سبسڈی چھوڑ دی ۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ سواسو کروڑ لوگوں کو گیس کنکشن مل گیا ۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک بہت تیزی سے پانچ کھرب کی اکنامی کی طرف جارہا ہے ۔ میں آپ کو ایک راز کی بات بتادوں کہ آپ کے جو چیف سکریٹری ہیں وہ کبھی وزیراعظم کے دفتر میں کام کرتے تھے ۔میں بھی ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ انہوں نے ایک دن مجھے بتایا کہ صاحب آپ تقریر کرنے جارہے ہیں ۔ آپ مجھے بتائیں ،ہمارا ملک پانچ کھرب ڈالر کی اکنامی بنے گا ؟ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان ہماری آنکھوں کے سامنے پانچ کھرب ڈالر کی اکنامی بنے گا۔ ہمارے یہاں پیسے کی کمی نہیں ہے ۔ ہم نے اس بجٹ میں جو اسکیمیں تجویزکی ہیں ۔ دس برس میں ساڑھے سات لاکھ کروڑروپیہ کسانوںکی جیب میں جائے گا اور وہ ہرطرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے اہل ہوجائیں گے ۔مجھے یقین ہے کہ اس اسکیم سے ہمارے ملک کا کسان خوداعتمادی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اینکر : بہت بہت شکریہ محترم وزیر اعظم ! اس وقت بڑی تعداد میں طلبا اس پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے آپ کو سنا ۔ بہت بہت شکریہ محترم وزیر اعظم ان طلبا کی حوصلہ افزائی کے لئے اور ملک وقوم کو نئی روشنی دینے کے لئے ۔ اپنے آپ کو ملک کا پردھان سیوک ماننے والے محترم وزیر اعظم ملک کی ترقی میں جی جان سے جٹے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم –تقریر : مجھے جن نوجوانوں سے بات کرنے کا موقع ملا ۔آج آپ سبھی کی خود اعتمادی اور مستقبل کے تئیں آپ کے مثبت نظریہ اور تجربات میرے لئے بھی حوصلہ افزار ہیں ۔ میں سب سے پہلے تو سوال کرنے والے اور اس پروگرا م میں ملک بھر سے آئے نوجوانوں کا ممنون ہوں ۔ میں ایک بار پھر اس پروگرام سے جڑے اپنے ساتھیوں کو بتادو ں کہ یہاں سری نگر میں درجہ حرارت کافی نیچے ہے اور رات ہوتے ہوتے مائنس بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے باوجود یہاں میرے نوجوان ساتھی اور میرے کشمیری بھائی بہن یہاں موجود ہیں۔ یہ کشمیریوں کا جذبے کا مظہر ہے۔ اسٹیج پر تشریف فرما جموں وکشمیر کے گورنر عزت مآب ستپال ملک جی ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ اور یہاں موجود میرے سبھی بھائیو اور بہنو ! آج جب میں سری نگر آیا تو میں شہید نظیر احمد وانی سمیت ان سیکڑوں بہادروں کو گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے امن کے لئے ، ملک کی حفاظت کے لئے عظیم ترین قر بانیاں دیں ۔شہید نظیر احمد وانی کی اسی بے نظیر جوانمردی اور بہادری کے لئے ممنون ملک وقوم نے ان کو اشوک چکر کے اعزاز سےنوازا ہے ۔شہید وانی جیسے نوجوان ہی جموں وکشمیر اور ملک کے نوجوانوں کو ملک کے لئے جینے اور اپنے آپ کو ملک وقوم کے وقف کرنے کا راستہ دکھاتے ہیں ۔ میں جموں وکشمیر کے لاکھوں لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے برسو ںبعد پنچایتوں اور شہروں کے انتخابات کروائے اور اپنے نمائندے منتخب کئے ۔ جمہوریت کے لئے آپ کا یہ احترام اور عقیدت نفرت کرنے والے لوگوں کے لئے بہت بڑا پیغا م ہے ۔ کچھ لوگوں کے ذریعہ منفیت پھیلانے کی کوششوں کے درمیان دھمکیوں سے بے خوف ہوکر آپ جس تعداد میں پولنگ بوتھوں تک پہنچے ہیں وہ آپ کے بچوں کے مستقبل اور جموں وکشمیر کی ترقی کے جذبے کو پختہ کرتا ہے۔ ساتھیو! آج یہاں مجھے سات ہزارکروڑروپے کی اسکیموں کا سنگ بنیاد اور ملک وقوم کے نام وقف کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ تمام پروجیکٹس سری نگر اور آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے میں معاون ہوں گے۔تعلیم ،صحت اورانفراسٹکچر سے جڑی ان اسکیموں کے لئے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد! ساتھیو! آپ نے دیکھا کہ آج سری نگر ملک کے تعلیمی نظام سے جڑے ایک بہت بڑے پروگرام کی میزبانی کررہا ہے ۔آپ میں سے بیشتر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ اب سے ساڑھے چار برس قبل جتنے بھی پروگرام لانچ ہوتے تھے،یا مرکزی سرکار کو ئی اسکیم شروع کرتی تھی تو وہ سب دلی کے وگیان بھون میں ہوتا تھا۔ ہم نے پرانی سرکار وں کی تہذیب کو ہی بدل دیا ہے۔ ہماری سرکار نے آیوشمان بھارت کا آغازجھارکھنڈ سے کیا۔اجولا یوجنا کا آغاز اترپردیش سے کیا گیا۔پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا اور پردھان منتری جیون جیوتی یوجنامغربی بنگال میں شرو ع کی گئی ۔ہینڈ لوم سے جڑے قومی مشن کا آغاز تامل ناڈو سے کیا گیا ۔بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم ہریانہ سے شروع کی گئی اور پوشن مشن راجستھان سے شروع کیا گیا۔ آج پورے دیش سے جُڑے ایک اہم پروگرام کے لئے ہم سبھی آج سری نگر میں موجود ہیں۔ملک بھر کے پروگرام میں آج سری نگر کی دھرتی سے لانچ کررہا ہوں ۔آج یہاں نیشنل ہائرایجوکیشن مشن یعنی روسا کے دوسرے مرحلے سے جڑے پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے اور یہیں سے ملک بھر کے 70 نئے ماڈل ڈگری کالج ،11 پروفیشنل کالج، ایک وومین یونیورسٹی ، 60سے زائدآنترپرینیور انوویشن اورکیرئیر ہب کا سنگ بنیاداور افتتاح کیا گیا ہے ۔ان میں سے متعدد ادارے جموں وکشمیر کے لئے بھی ہیں۔ ساتھیو! یہ سب دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ نیو انڈیا کس سمت میں چل رہا ہے ۔ نئے ہندوستان کی تعمیر کے لئے ہمارا راستہ کیا ہے۔ریسرچ ، انوویشن ، انکیوبیشن یا اسٹارٹ اپ کے لئے ایک نیا مزاج ملک میں فروغ دیا جارہا ہے ۔ ملک بھر کےاسکولوںمیں تعمیر کی جانے والی اٹل ٹنکرنگ لیبس ،اٹل انکیوبیشن سینٹرز کو جے جوان جے کسان ، جے وگیا ن اور جے انوسندھان کا ہمارا عزم اور مضبوط ہورہا ہے ۔ ہمارے اس قدر طاقتور ہونے کا گواہ سری نگر بنا ہے ، جموں وکشمیر شاہد ہے۔ ساتھیو! یہ اسٹارٹ اپ انڈیا مشن کا ہی اثر ہے کہ آج ہندوستان چین اور امریکہ کے بعد تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ملک بن گیا ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں میں 15 ہزار سے زائداسٹارٹ اپس ریکگنائز کئے جاچکے ہیں اور ان میں سے بھی تقریباََ 50 فیصد اسٹارٹ اپ ٹیئر ون اور ٹیئر2 شہروں میں قائم کئے جارہے ہیں۔ ساتھیو ! اسٹارٹ اپ کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوںمیں ٹکنالوجی کا فروغ اور توسیع بھی ہماری ترجیح ہے ۔ آج ملک بھر میں تین لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر دیہی علاقے کے لوگوں کو ڈجیٹل خدمات فراہم کرارہے ہیں۔ لاکھوں نوجوانوں کو روز گار سے جوڑ رہے ہیں۔آج باندی پورہ میں ریاست کا پہلا بی پی او بھی کھل گیا ہے۔ اس سے باندی پورہ کے نوجوانوں کے لئے نئے مواقع کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ بھائیو ، بہنو! آج جتنے بھی پروجیکٹ یا سنگ بنیاد کا افتتاح کیا گیا ہے ،وہ ملک کے ایسے اضلاع میں شروع کئے جارہے ہیں جو ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔روسا کے دوسرے دور میں ملک کے پونے چار سو اضلاع میں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے جارہے ہیں۔ یہ مواقع کی، مساوات کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے ۔مجھے یقین ہے کہ ان سبھی اضلاع کے نوجوانوںکو جب اپنے گھر کے پاس ہی اچھے ادارے مل جائیں گے تو وہ اپنے ٹیلنٹ کو اور بھی نکھار پائیں گے ، اپنی اسکیم کو اوربھی تراش پائیں گے۔ ساتھیو! جب میں نیو انڈیا کی خوداعتمادی کی بات کرتا ہوں تو اس کے پس پشت ایک ٹھوس بنیاد ہوتی ہے ۔جموں وکشمیر کی بیٹی نو سالہ تجمل اسلام مشکل حالات میں کچھ کرنے کے لئے آگے بڑھنے والے لوگوں کی طرح ہی آگے بڑھ رہی ہے ۔مرکزی سرکار آپ سبھی جوان ساتھیوں کے اس جوش اس امنگ کو اور پرواز دینا چاہتی ہے ۔اس کے لئے کھیلوانڈیا مشن کے تحت ایک بہت بڑا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ملک بھر میں چلایا جارہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے شہروںاور قصبوںمیں اسپورٹ کی بہترین سہولیات تیار کی جارہی ہیں ۔ یہاں جموںوکشمیر کے 22 اضلاع میں بھی ملٹی پرپز اسپورٹ ہال بنانے کی ا سکیم شروع کی گئی ہے ۔ آج گاندھر بل میں ایسے ہی ایک انڈور اسٹیڈیم کا افتتاح کیا گیا ہے ۔ ساتھیو! گزشتہ سات آٹھ مہینوں کے دوران جموں وکشمیر میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہاں کے عام لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے یہاں کی انتظامیہ جی جان سے لگی ہوئی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ متعددایسے پروجیکٹ جو دس دس بیس بیس سال سے اٹکے ہوئے تھے ،وہ بھی اب پورے کرلئے گئے ہیں۔ گزشتہ دو مہینوں کے دوران سیکڑوں ڈاکٹروں کی بھرتی ہو یا بارہمولہ کا پُل ہو ، ایسے متعدد پروجیکٹ مکمل کئے گئے ہیں۔ میں جموں وکشمیر کے ہر شہری کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ سبھی نے معینہ وقت سے پہلے ہی سال ستمبر میں وقت سے پہلے ہی ریاست کو کھلے میں رفع حاجت کی وبا سے نجات دلانے کا نشانہ مکمل کرلیا ہے۔ آپ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کو ملک کی ایسی ریاست بنانے کا نشانہ رکھا گیا ہے ،جہاں کے ہر گاؤں کو پائپ سے پینے کا پانی دستیاب کرایا جائے گا ۔ یہ ایک انتہائی لائق ستائش کوشش ہے ۔ ساتھیو! ہماری سرکار میں مدت مقررہ میں نشانے حاصل کرنے کی ایمانداری سے کوشش کی جاتی ہے ۔ آپ لوگوںکو یاد ہوگا کہ لال قلعہ سے میں نے ایک ہزار دن کے اندر ملک کے اٹھارہ ہزار سے زائد مواضعات کو بجلی فراہم کرانے کا اعلان کیا تھا ۔ یہ وہ مواضعات تھے جو آزادی کے اتنے دنوں بعد بھی اندھیرے میں گزارا کرتے تھے ۔اس نشانے کو مدت مقررہ کے اندر ہی مکمل کرلیا گیا ہے ۔ اس کے بعد سوبھاگیہ یوجنا کے تحت ملک کے کروڑوں کنبو ں کو مفت بجلی دینے کی مہم جاری ہے ۔ تقریباََ ڈھائی کروڑ کنکشن دئے جاچکے ہیں اور بہت جلد باقی گھروںکو بھی روشن کردیا جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ جموں وکشمیر میں بھی اب تقریباََ ہرکنبے کو بجلی کا کنکشن دیا جاچکا ہے ۔ اس کے لئے میں یہاں کے لوگوںکو ، بجلی کے محکمے سے جڑے پورے عملے کو ،ہر انجنئیر کو دل کی گہرائی سے مبارکباد دیتا ہوں ۔ ریاستی سرکار کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو! جموں وکشمیر میں ہر گھر تک بجلی پہنچانے کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ مقدار میں بجلی دینے کی کوشش بھی کی جارہی ہے ۔ لیہہ، لداخ ، کارگل ہو ، جموں ہو ، یا پھر اب سری نگر تینوں مقامات پر آج بجلی کی پیداوار اور ٹرانسمیشن سے جڑے متعدد پروجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کا مجھے ایک ہی دن میں موقع ملا ہے ۔ یہاں کی بجلی کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے آزادی کے بعد پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے ۔ ہماری سرکار کی کوشش ہے کہ پہلے جو ہندوستان کا پانی بے کار بہہ جاتا تھا ،اس کے ایک ایک قطرے کا استعمال جموں وکشمیر کے مفاد میں کیا جائے ۔ اسی سوچ کے ساتھ یہاں متعدد پااور پروجیکٹس شروع کئے گئے ہیں۔ یہ تمام پروجیکٹس ملک بھر میں انفراسٹکچر کے لئے سرکار کی ترجیحات کا نتیجہ ہے ۔سڑک ہو ، بجلی ہو ، تعلیم ہو یا پھر صحت ، بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ جموں وکشمیر کے ہیلتھ انفراسٹکچر کو مضبوط کرنے کے لئے جموں وپلوامہ میں بننے والے دو ایمس کا آج سنگ بنیادرکھا گیا ہے ۔ان دونوں اداروں سے ریاست میں صحت کے شعبوں میں زبردست تبدیلی آنے والی ہے ۔ ساتھیو! ہم جدید اسپتال بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ کئیر اسکیم آیوشمان بھارت پی ایم جے بھی چلارہے ہیں ۔ ملک کی تاریخ میں اتنی بڑی ہیلتھ کئیر اسکیم غریبوں کے لئے نہیں چلائی گئی ۔ اس اسکیم کے تحت غریبوں کو پانچ لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی ۔ ملک کے تقریباََ 50 کروڑ غریب بھائی بہن اس کے دائرے میں ہیں۔ جموں وکشمیر کے 30 لاکھ استفادہ کنندگان بھی اس میں شامل ہیں۔ آیوشما ن بھارت یوجنا کی بدولت اب تک ملک میں دس لاکھ سے زیادہ غربیوں کا مفت علاج کیا جاچکا ہے ۔ ابھی تو اس اسکیم نے 100دن بھی پورے نہیں کئے ہیں۔ اتنی کم مدت میں دس لاکھ لوگوں کو میجر سرجری سے نئی زندگی ملے گی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دو ،دو ، تین ،تین سال سے موت کا انتظار کررہے تھے ۔اس اسکیم کے تحت روزانہ دس ہزار سے زائد ہمارے غریب بھائی بہنوں کا علاج کیا جارہا ہے ۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اسکیم ہے۔ امریکہ ، کناڈا اور میکسیکو کی جو کل آبادی ہے ، اس سے زیادہ لوگوں کے لئے ہماری آیوشمان بھارت اسکیم ہے ۔ ساتھیو آیوشمان بھارت جیسی اسکیم ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی بھی بہترین مثال ہے۔ کیونکہ جموں وکشمیر کا استفادہ کنندہ ملک بھر میں کہیں بھی اس اسکیم کا فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ مان لیجئے آپ یہاں سے ممبئی گئے اور وہاں جاکر بیمار ہوگئے ۔ اگر آپ یہاں رجسٹرڈ ہیں تو ممبئی کےا سپتال میں بھی آپ بغیر خرچ کئے علاج کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ممبئی کا کوئی شخص یہاں سری نگر سیروتفریح کے لئے آیا ہے ، اسے کچھ مصیبت پیش آئی تو وہ یہاں فائدہ حاصل کرسکتا ہے ۔سرکار نے ان سہولیات کو یقینی بنانے کے لئے اتنا بڑا کا م کیا ہے ۔وسائل کی شراکتداری کی یہی طاقت ، ہمارے ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔ ہر مشکل صورتحال میں ہم ایک دوسرے کے کام آسکیں ۔ یہی ہندوستان کی روح ہے ، یہی کشمیر کا جذبہ ہے۔ ساتھیو ! اسی کشمیریت کا تقاضہ ہے کہ تشدد کے دور میں جن کشمیری پنڈت بھائیو بہنو کو یہاں سے اپنا گھر ، اپنی زمین اور اپنے اجداد کی یادوں کو چھوڑ کر جانا پڑا ہے ، ان کو پورے احترام کے ساتھ دوبارہ بسایا جائے ۔پردھان منتری وکاس پیکج کے ذریعہ ہم اس کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ نے ویسو اور سیف پورہ میں ٹرانزٹ آواس بنانے شروع کردئے ہیں۔آج مجھے باندی پور ہ اورگاندھر بل میں ٹرانزٹ ہاؤسنگ کی فیسلٹی کی توسیع کرنے والی اسکیم کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع حاصل ہوا ہے ۔ یہ اسکیم بھی پردھان منتری وکاس پیکج کا ہی حصہ ہے ۔ ساتھیو! یہاں قریب 700 فلیٹ بن جانے کے بعد بے گھر کنبوں کو نئی چھت ملے گی ۔ سرکار کی کوشش ہے کہ جو بھی یہاں واپس آنا چاہتے ہیں، انہیں پوری حفاظت اور احترام کے ساتھ جگہ ملے گی۔ کشمیری بے گھر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے سرکار عہد بستہ ہے۔ 2015 میں اعلان کئے جانے والے پی ایم ڈیولپمنٹ پیکج کے تحت ریاستی سرکار نے تین ہزار تقرریوں کی منظوری دے دی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی یہ بھرتیاں کرلی جائیں گی۔ ساتھیو ! جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جم��ں وکشمیر کے ہیرو شہیر نظیر احمد وانی ،شہیر محمد اورنگزیب اور تجمل حسین جیسے نوجوان جو امن اور ملک کے بہتر مستقبل کے لئے وقف رہے ہیں۔دراصل ہیرو وہی ہے جو خواب پورے کرنے کے لئے جیتا ہے ۔دوسرے کے خوابوںکو مارنے والا سب سے بڑا بزدل ہوتا ہے ۔آج پورا ملک بے قصور ،نہتے کشمیری بیٹے بیٹیوں کے قتل پر زبردست غصے میں ہے ۔ اسلئے کہ نوجوان امن چاہتے ہیں۔ جینا چاہتے ہیں ، انہیں دہشت گردی کا شکار بنایا جارہا ہے ، یہی یہاں کی دہشت گردی کی سچائی ہے ۔ میں آج آپ کو ، جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو اور پورے ملک کو یہ یقین دلاتا ہو ں کہ اس دہشت گردی کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے گا اور ہر دہشت گرد کو منھ توڑ جواب دیا جائے گا۔ سرجیکل اسٹرائک کرکے ہم پوری دنیا کو بتا چکے ہیں کہ اب ہندوستان کی نئی پالیسی اور نیا طریقہ کیا ہے ۔ ہم جموںوکشمیر میں بھی دہشت گردی کی کمر توڑ کر ہی رہیں گے ۔ جموں کشمیر کی ترقی ، یہاں کے لوگوں کی ترقی ہماری ترجیح ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ میں ایک بار پھر آپ سبھی کو تعلیم سے جڑی اسکیمیں شروع کئے جانے اور انفراسٹکچر پروجیکٹ شروع کئے جانے کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اوربہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اورآپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اٹل بہاری واجپئی جی نے جو خواب دیکھے تھے ، انہوں نے جو کام ہمیں وراثت میں دئے ہیں ، ہم اس سے ایک رتّی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ اس جذبے کی ہم چہرہ کاری کرکے دکھائیں گے ۔ اس کے لئے خواہ لداخ ہو ، خواہ سری نگر ہو یا جموں ہو ایک ایک شہری کو ساتھ لے کر سب کا ساتھ سب کا وکاس کا بنیادی اصول لے کر ہم وہی خوشحال کشمیر ، پُر امن کشمیر ، پورے ہندوستان کو دعوت دینے والا کشمیر ،سرسبز وشاداب ان وادیوںمیں خوشحالی کے دنوںوالا کشمیر ،ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ہم ہر ضروری قدم اٹھائیں گے ۔یہا ں کا ہر کنبہ ، یہاں کا ہر بچہ ، اس کا روشن مستقبل ،یہی ہندوستان کے روشن مستقبل کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ ان رشتوںکو برقرار رکھتے ہوئے ہم اس بات کو آگے بڑھانے کے لئے جی توڑ کوششیں کرتے رہیں گے۔اسی یقین کے ساتھ میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,৩ ফেব্ৰুৱাৰীত শ্ৰীনগৰত সমগ্ৰ ভাৰতৰ শিক্ষাৰ্থীৰ সৈতে বাৰ্তালাপ কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DA%88%DB%8C%D8%B4%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DA%86%D9%86%DA%88%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%DA%88%D8%B1%D9%88%D8%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-6-5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%8B%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A7%B0/,نئی دہلی،27؍جون / مرکزی کابینہ نے وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں دو مقاما ت یعنی اڈیشہ میں چنڈی خول اور کرناٹک میں پڈور میں 6.5 ملین میٹرک ٹن کی صلاحیت کے اضافی کلیدی پٹرولیم ذخائر (ایس پی آر) سہولتوں کے قیام کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت دونوں ایس پی آر کے لئے ایس پی ایم (سنگل پوائنٹ مورنگ) کی تعمیر بھی عمل میں لائی جائے گی۔ مذکورہ ایس پی آر سہولتیں چنڈی خول اور پڈور میں فراہم ہونی ہیں ، وہ زیر زمین ہونگی اور بالترتیب 4 ایم ایم ٹی اور 2.5 ایم ایم ٹی صلاحیت کے حامل ہوں گی۔ حکومت نے 18-2017 کے بجٹ میں اعلان کیا تھا کہ 2 اضافی ایس پی آر قائم کی جائیں گی۔ مذکورہ اصولی منظوری اس طرح سے دی گئی ہے کہ اس سلسلے میں حکومت ہند ��ی جانب سے فراہم کی جانے والی بجٹ کی امداد کم ہو گی اور اسے پی پی پی ماڈل کے تحت عملی جامہ پہنایا جا ئے گا۔ اس طرح کے کاموں میں کام کاج کے شرائط کا تعین پٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت ، وزارت خزانہ کے مشورے سے کرے گی اور اس سلسلے میں منڈی کی ضروریات اور مستقبل کے سرمایہ کاروں وغیرہ سمیت تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے روڈ شوز کئےجائیں گے۔ آئی ایس پی آر ایل نے پہلے ہی 3 مقامات یعنی وِشاکھا پتنم (1.33 ایم ایم ٹی) ، منگلور (1.5ایم ایم ٹی)، اور پڈور (2.5ایم ایم ٹی) کی شکل میں 5.33 ایم ایم ٹی کے زیرے زمین ذخیرے کے لئے تعمیراتی کام انجام دیا ہے۔ ایس پی آر پروگرام کے پہلے مرحلے کے تحت مجموعی طور پر 5.33 ایم ایم ٹی صلاحیت فی الحال فراہم کی گئی ہے اور یہ بھارت کی خام تیل ضروریات کی 10 دن تک تکمیل کر سکے گی۔ یہ تکمیل 17-2016 کے مالی سال کے صارفین اعداد و شمار کے حساب سے ممکن ہو سکے گی۔اضافی 6.5 ایم ایم ٹی کلیدی پٹرولیم ذخائر کے قیام کے سلسلے میں کابینہ کی منظوری سے اضافی 12 دنوں کی مزید سپلائی ممکن ہو سکے گی اور توقع کی جاتی ہے کہ اس سے بھارت کی توانائی و سلامتی منظم ہو سکے گی۔ چنڈی خول اور پڈور میں ایس پی آر کا تعمیراتی عمل اڈیشہ اور کرناٹک میں براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔,ওড়িশাৰ চান্দিখোল আৰু কৰ্ণাটকৰ পাডুৰত অতিৰিক্ত ৬.৫ মিলিয়ন মেট্ৰিকটন বহনক্ষম কৌশলগত পেট্ৰোলিয়াম ভাণ্ডাৰ স্থাপনত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D9%86%D8%AF%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D8%B1%DB%8C-%D8%AC%DA%BE%D9%86%DA%88%DB%8C-%D8%AF%DA%A9%DA%BE%D8%A7%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%87%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 15 فروری 2019/ سب سے پہلے میں پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے میں شہید جوانوں کو احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ملک کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان نچھاور کی۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری اور ہر ہندستانی کی ہمدردی ان کے خاندان کے ساتھ ہے۔ اس حملے کی وجہ سے ملک میں جتنا غم و غصہ ہے ، لوگوں کا خون کھول رہا ہے۔ یہ میں اچھی طرح سمجھ پارہا ہوں۔ اس وقت جو ملک کی توقعات ہیں کچھ کر گزرنے کےجذبات ہیں ، وہ بھی فطری ہیں۔ ہمارے حفاظتی دستوں کو پوری آزادی دے دی گئی ہے۔ ہمیں اپنے فوجیوں کی شجاعت پر ان کی بہادری پر پورا بھروسہ ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ حب الوطنی کے رنگ میں رنگے لوگ صحیح معلومات بھی ہماری ایجنسیوں تک پہنچائیں گے تاکہ دہشت کو کچلنے میں ہماری لڑائی اور تیز ہوسکے۔ میں دہشت گرد تنظیموں کو اور ان کے سرپرستوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بہت بڑی غلطی کرچکے ہیں ، بہت بڑی قیمت ان کو چکانی پڑے گی۔ میں ملک کو بھروسہ دیتا ہوں کہ حملے کے پیچھے جو طاقتیں ہیں، ا س حملے کے پیچھے جو بھی گناہ گار ہیں ، ان کو ان کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ جو ہماری تنقید کررہے ہیں ان کے جذبات کا بھی میں احترام کرتا ہوں۔ ان کے جذبات کو میں بھی سمجھ پاتا ہوں اور تنقید کرنے کا ان کو پورا اختیار بھی ہے۔ لیکن میری سبھی ساتھیوں سے گزارش ہے کہ یہ وقت بہت ہی حساس اور جذباتیت کا پل ہے۔ موافقت میں یا مخالفت میں ہم سب سیاسی چھینٹا کشی سے دور رہیں۔ ا س حملے کا ملک ایک ساتھ مل کر کے مقابلہ کررہا ہے، ملک ایک ساتھ ہے، ملک کی ایک ہی آواز ہے اور یہی دنیا میں سنائی دینی چاہئے کیونکہ لڑائی ہم جیتنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑ چکا ہمارا پڑوسی ملک اگر یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح کے کام وہ کررہا ہے ، جس طرح سازشیں کررہا ہے ، اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا تو وہ خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دے۔ وہ کبھی یہ نہیں کرپائے گا اور نہ کبھی یہ ہونے والا ہے۔ اس وقت بڑی اقتصادی بدحالی کے دور سے گذرر ہے ہمارے پڑوسی ملک کو یہ بھی لگتا ہے کہ ایسی تباہی مچاکر ہندستان کو بدحال کرسکتا ہے، اس کے یہ منصوبے بھی کبھی پورے ہونے والے نہیں ہیں۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ جس راستے پر وہ چلے ہیں وہ تباہی دیکھتے چلے ہیں اور ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ترقی کرتا چلا جارہا ہے۔ 130 کروڑ ہندستانی ایسی ہر سازش ، ایسے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دے گا، کئی بڑے ملکوں نے بہت ہی سخت الفاظ میں اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی ہے اور ہندستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہندستان کی حمایت کی خواہش ظاہر کی ہے۔ میں ان سبھی ملکوں کا مشکور ہوں اور سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف سبھی انسانیت پسند طاقتوں کو ایک ہوکر کے لڑنا ہی ہوگا، انسانیت پسند طاقتوں کو ایک ہوکر کے دہشت گردی کو شکست دینی ہی ہوگی۔ دہشت گردی سے لڑنے کے لئے جب سبھی ممالک ایک رائے ، ایک آواز کے ساتھ ایک سمت میں چلیں گے تو دہشت گردی کچھ پل سے زیادہ نہیں ٹک سکتی ہے۔ ساتھیوں پلوامہ حملے کے بعد ابھی ذہن او رماحول دکھ کے ساتھ غم و غصہ سے بھرا ہو ا ہے۔ ایسے حملوں کا ملک ڈٹ کر مقابلہ کرے گا۔ یہ ملک روکنے والا نہیں ہے ۔ ہمارے بہادر شہیدوں نے اپنی جان کی قربانی دی ہے اور ملک کے لئے مر مٹنے والا ہر شہید دو خوابوں کے لئے زندگی لگاتا ہے۔ پہلا ملک کی حفاظت ، دوسرا ملک کی خوشحال۔ میں سبھی بہادر شہیدوں کو ان کی روح کو سلام پیش کرتے ہوئے ان کے آشیرواد لیتے ہوئے میں پھر ایک بار یقین دلاتا ہوں کہ جن دو خوابوں کو لے کر انہوں نے اپنی زندگی کی قربانی دی ہے ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ہم زندگی کا پل پل کھپا دیں گے۔ خوشحالی کے راستے کو بھی ہم اور زیادہ رفتار دے کر ترقی کے راستے کو اور زیادہ طاقت دے کر کے ہمارے ان بہادر شہیدوں کی روح کو سلام کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور اسی سلسلہ میں میں وندے بھارت ایکسپریس کے کنسیپٹ اور ڈیزائن سے لے کر اس کو زمین پر اتارنے والے ہر انجینئر ، ہرکارکن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ چنئی میں بنی یہ ٹرین دہلی سے کاشی کے درمیان پہلا سفر کرنے والی ہے۔ یہی ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت کی سچی طاقت ہے، وندے بھارت ایکسپریس کی طاقت ہے۔ ساتھیو! گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں ہم نے ہندستانی ریل کی حالت کو بہت ایمانداری کے ساتھ ، بہت محنت کے ساتھ بدلنے کی کوشش کی ہے۔ وندے بھار ت ایکسپریس ان کاموں کی ہی ایک جھلک ہے۔ گزشتہ برسوں میں ریلوے ان سیکٹرز میں رہا ہے جس میں میک ا ن انڈیا کے تحت مینوفیکچرنگ میں بہت ترقی کی ہے۔ ساتھ ہی ملک میں ریل کوچ فیکٹریوں کی جدید کاری ، ڈیژل انجنوں کا الیکٹرک میں بدلنے کا کام اور اس کے لئے نئے کارخانے بھی شروع کئے گئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا پہلے ریلوے ٹکٹ میں آن لائن ریزرویشن کی کیا حالت تھی اس وقت ایک منٹ میں دو ہزا رسے زیادہ ٹکٹ بک نہیں ہوسکتے تھے اور آج اب مجھے بہت اطمینان ہے کہ ریلوے کی ویب سائٹ بہت یوزر فرینڈلی ہوئی ہے اور ایک منٹ میں بیس ہزار سے زیادہ ٹکٹ بک ہوسکتے ہیں۔ پہلے حالات یہ تھے کہ ایک ریلوے پروجیکٹ کو منظوری ��لنے میں کم سے کم دو سال لگ جاتے تھے اب ملک میں ایک ریلوے پروجیکٹ تین یا چار یا زیادہ سے زیادہ چھ مہینے میں منظور ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی کوشش سے ریلوے کے کاموں میں نئی رفتار آئی ہے۔ پورے ملک میں براڈ گیج کی لائنوں سے بغیر چوکیدار والی کراسنگ کو ایک بڑی مہم چلاکر ختم کردیا گیا ہے۔ اب جب ہم سرکار میں آئے تھے تو ملک میں 8 ہزار 300 سے زیادہ بغیر چوکیدار والی ریلوے کراسنگ تھی۔ اس وجہ سے آئے دن حادثے ہوتے رہتے تھے۔ اب براڈ گیج لائنوں پر بغیر چوکیدار والے ریلوے کراسنگ ختم ہونے سے حادثہ بھی کم ہوئے ہیں۔ ملک میں ریلوے پٹریوں کو بچھانے کا کام ہو یا پھر برق کاری کا کام ، پہلے سے دوگنی رفتار سے ہورہا ہے۔ ملک کے سب سے مصروف روٹوں کو ترجیح دے کر انہیں روایتی ٹرینوں سےآزاد کرایا جارہا ہے۔ بجلی سے چلنے والی ٹرینوں میں ہم دیکھ رہے ہیں ، آلودگی بھی کم ہوگا، ڈیژل کا خرچ بھی بچے گا اور ٹرینوں کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ ظاہر ہے ریلوے کو جدید بنانے کی ان کوشش سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک قریب قریب ڈیڑھ لاکھ ملازمین کی تقرری ریلوے میں ہوئی ہے۔ ابھی جو تقرری کی مہم چل رہی ہے اس کے بعد یہ تعداد سوا دو لاکھ تک پہنچنے کی امید ہے۔ ساتھیو، میں دعوی نہیں کرتا کہ اتنی کم مدت میں ہم لوگوں نے سب کوشش کرنے کے باوجود بھی ہندستان ریل میں ہم نے سب کچھ بدل دی اہے۔ ایسا دعوی نہ کبھی ہم کرتے ہیں ۔ ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اتنا میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہندستانی ریل کو جدید ریل خدمات بنانے کی سمت میں ہم تیز رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس ترقی کے سفر کو اور رفتا ر دیں گے اور طاقت دیں گے۔ جل ہو ،تھل ہو ، آسمان ہو ، ہندستان کا مشرق ہو ، مغرب ہو شمال ہو جنوب ہو ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ، اسی منتر کو لے کر کہ ترقی کی اس راہ کو آگے بڑھائیں گے۔ ترقی کے ذریعہ سے بھی ملک کے لئے مر مٹنے والوں کو ہم سلام کرتے رہیں گے اور حفاظت کے شعبے میں بھی پوری طاقت سے گناہ گاروں کو سزا دے کر کے ملک کی حفاظت کے لئے زندگی کی قربانی دینے والوں کا جو بھی خون ہے ا س خون کی ایک ایک بوند کی قیمت لے کر رہیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ان شہیدوں کے نام میرے ساتھ بولئے – وندے ماترم –وندے ماترم وندے ماترم – وندے ماترم وندے ماترم – وندے ماترم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ ا گ ۔ ج۔,বন্দে ভাৰত এক্সপ্রেছৰ যাত্রাৰ শুভাৰম্ভ কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%DA%88%DB%8C-%D8%A2%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس(این ڈی آر ایف) کی ٹیم کو ان کے یوم تاسیس پر مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے مسلسل ٹویٹس میں،وزیر اعظم نے کہا: ‘‘@این ڈی آر ایف ایچ کیو کی محنت کش ٹیم کو ان کے یوم تاسیس پر مبارکباد۔ان لوگوں نے اکثر بہت ہی سخت قسم کے حالات کے درمیان بچاؤ اور راحت کے بہت سے کاموں میں اپنے آپ کو پیش پیش رکھا ہے ۔این ڈی آر ایف کی جرأت مندی اور پیشہ ورانہ صلاحیت انتہائی تحریک دینے والی ہے۔مستقبل میں ان کے کاموں کے لئے ��یری نیک تمنائیں۔ حکومتوں اور پالیسی سازوں کے لئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایک اہم ترین موضوع ہے۔رد عمل پر مبنی ایک طریقہ کار کے علاوہ ،جہاں آفات سے نمٹنے والی ٹیمیں تباہی کے بعد کی صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کرتی ہیں،ہمیں بھی تباہیوں سے محفوظ رکھنے والے بنیادی ڈھانچے سے متعلق غوروفکر کرنا ہے اور اس موضوع پر تحقیقات کی طرف توجہ کرنی ہے۔ ہندوستان نے بھی ‘تباہی سے حفاظت کے لئے بنیادی ڈھانچے سے متعلق اتحاد’کی شکل میں ایک اقدام کیا ہے۔ہم اپنی این ڈی آر ایف ٹیم کے لوگوں کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے لئے بھی کام کررہے ہیں تاکہ کسی بھی سانحہ کے دوران جان و مال کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کی جاسکے۔ ’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত এনডিআৰএফ দলক অভিনন্দন জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D9%85%D8%A7-%D9%88%D8%B1%D9%85-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A4/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج آندھرا پردیش کے بھیما ورم میں سرکردہ مجاہد آزادی الوری سیتارام راجو کی سال بھر جاری رہنے والی 125 ویں یوم پیدائش تقریب کا آغاز کیا۔اس موقع پر آندھرا پردیش کے گورنر جناب بسوا بھوشن ہری چندن،وزیر اعلیٰ جناب وائی ایس جگن موہن ریڈی، مرکزی وزیر جناب جی کشن ریڈی موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں آندھرا پردیش کی عظیم سرزمین پراس قدرعظیم وراثت کو سلام کرنے کا موقع ملنے پر فخر محسوس ہورہا ہے۔انہوں نے اس موقع پر آزادی کا امرت مہوتسو،الوری سیتارام راجو کی 125 ویں یوم پیدائش اور رمپا بغاوت کے 100 سال جیسے بڑے واقعات کا ذکر کیا ۔ وزیر اعظم نے عظیم ’’منیام ویرڈو‘‘ الوری سیتارام راجو کی یاد میں پورے ملک کی جانب سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے عظیم مجاہد آزادی کے اہل خانہ کےساتھ ملاقات پر بھی خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے آندھرا پردیش کی روایت سے ابھرنے والے ’آدیواسی پرمپرا‘ اور مجاہد آزادی کوبھی خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ الوری سیتارام راجو گارو کی 125 ویں یوم پیدائش اور رمپا کرانتی کی 100 ویں سالگرہ تقریبات سال بھر منائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پنڈرنگی میں ان کی جائے پیدائش ، چنتاپلی پولیس اسٹیشن کی تزئین کارو آرائش، موگلو میں الوری دھیانا مندر کی تعمیرکاکام امرت مہوتسو کے جذبے کی علامت ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا پروگرام ہمارے مجاہد ین آزادی کی شجاعت کے کارناموں سے سب کو آگاہ کرنے کے عہد کا عکاس ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ جدوجہد آزادی صرف چند سالوں، چند علاقوں یا چند لوگوں کی تاریخ نہیں ہے۔ یہ تاریخ بھارت کے کونے کونے کے ایثار، استقامت اور قربانیوں کی تاریخ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحریک آزادی کی تاریخ ہمارے تنوع، ثقافت اور بحیثیت قوم ہمارے اتحاد کی مضبوطی کی علامت ہے۔ الوری سیتارام راجو کو بھارت کی ثقافت، قبائلی شناخت، شجاعت، نظریات اور اقدار کی علامت قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سیتارام راجو گارو کی پیدائش سے لے کر ان کی قربانی تک، ان کی زندگی کا سفر ہم سب کے لیے ایک تحریک ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی قبائلی معاشرے کے حقوق، ان کے غم اور خوشی نیز ملک کی آزادی کے لیے وقف کر دی۔ وزیر اعظم نے کہا،’’الوری سیتارام راجو ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کی نمائندگی کرتے ہیں جو ملک کو اتحاد کے ایک دھاگے میں پرورہا ہے ‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کی روحانیت نے الوری سیتارام راجو کو ہمدردی اور نرم دلی اورقبائلی سماج کوشناخت اور مساوات کا احساس دیا نیز علم اور ہمت دی۔الوری سیتارام راجو کے نوجوانوں اور رمپا بغاوت میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی قربانی آج بھی پوری قوم کے لیے توانائی اور تحریک کا ذریعہ ہے۔ ملک کے نوجوانوں نے جدوجہد آزادی کی قیادت کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ آج نوجوانوں کے لیے ملک کی ترقی کے لیے آگے آنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ ’’آج نئے بھارت میں نئے مواقع، نئی راہیں ،طرز فکر اور امکانات موجود ہیں اور ہمارے نوجوان ان امکانات کو بروئے کار لانے کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔"" وزیر اعظم نے کہا کہ آندھرا پردیش مجاہدین آزادی اور محب وطنوں کی سرزمین ہے۔یہاں پنگالی وینکیا جیسے مجاہدین آزادی ہوئے ہیں جنہوں نے ملک کا پرچم تیار کیا۔یہ کانی گنتی ہنومنتھو، کندوکوری ویرسالنگم پنٹولواور پوٹی سریرامولوجیسے عظیم مجاہد آزادی کی سرزمین ہے۔وزیر اعظم نے زور دیا کہ آج امرت کال میں ان جنگجوؤں کے خوابوں کی تکمیل ہم سب ہم وطنوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا نیا بھارت ان کے خوابوں کا بھارت ہونا چاہئے۔ایک ایسا بھارت – جس میں غریبوں، کسانوں، مزدوروں، پسماندہ افراداور قبائلی افراد کے لیے یکساں مواقع ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 8 سالوں کے دوران حکومت نے ملک کی قبائلی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے سخت محنت کی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کے بعد پہلی بار قبائلی میوزیم قائم کئے جارہے ہیں تاکہ ملک میں قبائلی افرادکے فخراور ورثے کی نمائش کی جا سکے۔آندھرا پردیش کے لامباسنگی میں ’’الوری سیتارام راجو میموریل ٹرائبل فریڈم فائٹرز میوزیم‘‘ بھی بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح 15 نومبر کو بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش کو راشٹریہ جنجاتیہ گورو دوس کے طور پربھی منایاجارہا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی حکمرانوں نے قبائلی برادری پر سب سے زیادہ مظالم ڈھائے اور ان کی ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم نے کہاکہ آج اسکل انڈیا مشن کے ذریعہ قبائلی فن اورمہارتوں کوایک نئی شناخت مل رہی ہے ۔ وو کل فارلوکل ، قبائلی فن اورمہارتوں کو آمدنی کا ایک ذریعہ بنارہاہے ۔ دہائیوں پرانے ان قوانین کو ، جن کے تحت قبائلی افراد کو بانس جیسی جنگلی پیداوار کو کاٹنے پرروک لگی ہوئی تھی ، ہم نے انھیں تبدیل کردیاہے اورانھیں جنگل میں پیداہونے والی اشیاء کے حقوق دے دیئے ہیں ۔ انھوں نے کہاکہ اسی طرح کم از کم امدادی قیمت ایم ایس پی کے تحت سرکاری خرید کے لئے جنگل میں پیداہونے والی اشیاء کی تعدادکو 12سے بڑھا کر 90کردیا گیاہے ۔ 3000سے زیادہ ون گن وکاس کیندر اور اپنی مدد آپ کرنے والے 50000سے زیادہ ون گن گروپ ، قبائلی مصنوعات اور فن کو جدید مواقع کے ساتھ وابستہ کررہے ہیں ۔ خواہشمند اضلاع سے متعلق اسکیموں کی بدولت قبائلی ضلعوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا اورتعلیم کے محاذ پر ، 750 سے زیادہ ایکلو یہ ماڈل اسکول قائم کئے جارہے ہیں اور قومی تعلیمی پالیسی کے تحت ، مادری زبان میں تعلیم دیئے جانے کو فروغ دیاجارہاہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ ‘‘ مانیئم ویرو دو’’ الوّوی سیتارا��اراجو نے برطانیہ کے خلاف اپنی جدوجہد کے دوران دکھادیاکہ ‘‘ دم ہے تو مجھے روک لو ۔’’ وزیراعظم نے اپنے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک کو بہت سی چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔ اسی حوصلے کے ساتھ ، 130کروڑہم وطن افراد ، اتحاد اورطاقت کے ساتھ ، ہرچنوتی اورچیلنج سے کہہ رہے ہیں ‘‘دم ہے توہمیں روک لو۔’’ تقریب کا پس منظر آزادی کا امرت مہوتسو کے حصے کے طورپر ، حکومت ،مجاہدین آزادی کے گراں قدر تعاون کا مناسب اعتراف کرنے اورملک کے لوگوں کو ان سے اچھی طرح واقف کرانے کے تئیں عہد بند ہے ۔اس مخلصانہ کوشش کے حصے کے طورپر ، وزیراعظم جناب نریندرمودی نے بھیماورک میں مایہ ناز مجاہدآزادی ، الوّری سیتاراماراجو کے 125ویں یوم پیدائش کی سال بھر طویل تقریب کاآغاز کیا۔ 4جولائی 1897کو پیداہوئے الوروی سیتاراما راجو کو مشرق گھاٹ خطے میں قبائل برادریوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ، برطانیہ کے خلاف ان کی لڑائی کے لئے یاد کیاجاتاہے ۔انھوں نے 1922میں شروع ہوئی رامپا بغاوت کی قیادت کی تھی ۔ انھیں مقامی لوگ ‘‘مانئیم ویرودو’’ (جنگلوں کا ہیرو)کے طورپر یاد کرتے ہیں حکومت نے سال بھر طویل تقریبات کے حصے کے طورپر سلسلے وار پہل قدمیوں کا پروگرام مرتب کیاہے ۔ جس کے تحت وژنگارام ضلع میں ‘‘پندرنگی ’’کے مقام پر الوری سیتاراماراجوکی جائے پیدائش ، اور چنتاپلی پولیس اسٹیشن (رامپا بغاوت کے ایک سوسال پورے ہونے کے موقع پر -رامپا بغاوت کا آغاز اس پولیس اسٹیشن پرحملے سے ہواتھا ۔)کی تزئین کاری کی جائے گی ۔ حکومت نے الوری سیتاراماراجو کے دھیان مدرا میں ایک مجسمہ کے ساتھ ، الوری دھیان مندر کی تعمیرکی بھی منظوری دی ہے ۔ جہاں دیوارپربنائی گئی تصویروں اور مصنوعی ذہانت –اے آئی سے لیس بات چیت کے نظام کے توسط سے مجاہد آزادی کی زندگی کی داستان کو بیان کیاجائے گا۔",অন্ধ্ৰ প্ৰদেশৰ ভীমাৱৰমত কিংবদন্তি স্বাধীনতা সেনানী আল্লুৰী সীতাৰামা ৰাজুৰ ১২৫ সংখ্যক জন্ম জয়ন্তী উপলক্ষে আয়োজিত বছৰজোৰা কাৰ্যক্ৰমৰ শুভাৰম্ভ ঘোষণা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B6%D9%84%D8%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B4%DA%A9%DB%8C%D9%84-%D9%86%D9%88-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%DA%A9%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A6%B2-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%82%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نئی دہلی؍04جنوری،وزیر اعظم جناب نریندر مودی کل ضلعوں کی تشکیل نو سے متعلق کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ اس پروگرام کا اہتمام نیتی آیوگ کی طرف سے نئی دہلی کے ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر میں کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم 100 ضلعوں کے علاقوں کی تبدیلی کے انچارج افسروں کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے۔ یہ پروگرام 2022 تک ایک نئے بھار ت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ویژن(سوچ) کو دھیان میں رکھتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ مرکزی حکومت نے ضلعوں کی تیزی سے تبدیلی کے لئے ایک اہم پالیسی پہل شروع کی ہے۔ایڈیشنل سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری کے رینک کے سینئر سرکاری افسران کو آفسرز انچارج کے طورپر نامزد کیا گیا ہے، تاکہ ان ضلعوں کی مخصوص ترقیاتی ضرورتوں سے نمٹنے کے لئے مرکز اور ریاستوں کی کوششوں کو مربوط کرنا ہے۔ م ن۔ح ا ۔ن ع,বিকাশশীল জিলাসমূহৰ ৰূপান্তৰ শীৰ্ষক সন্মিলনত ভাষণ প্ৰদান কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-26%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%85%DB%8C%D8%AC%D8%B1-%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DA%86%D9%86%D8%AF-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%AC-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 26دسمبر 2022 کو دوپہر 12:30بجے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم دہلی میں ’ویر بال دِوس‘ کے تاریخی پروگرام میں حصہ لیں گے۔ پروگرام کے دوران وزیر اعظم تقریبا ً 300 بال کیرتنیوں کے ذریعے کئے جانے والے ’شبد کیرتن‘ میں شامل ہوں گے۔اس اہم موقع پر وزیر اعظم دہلی میں تقریبا ً 3ہزار بچوں کے ذریعے مارچ-پاسٹ کوجھنڈی دکھا کر روانہ کریں گے۔ صاحبزادوں کےمثالی حوصلے کی داستان کے بارے میں شہریوں، خاص طور سے چھوٹے بچوں کو معلومات دینے اور انہیں باخبرکرنے کےلئے پورے ملک میں سرکار انٹرایکٹیو اور شراکت داری پروگرام منعقد کررہی ہے۔اس کوشش نے ملک بھر کے اسکولوں اور کالجوں میں مضمون نویسی، سوال و جواب مقابلہ اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ریلوے اسٹیشنوں، پیٹرول پمپوں، ہوائی اڈوں وغیرہ جیسے عوامی مقامات پر ڈیجیٹل نمائشیں لگائی جائیں گی۔پورے ملک میں ایسے پروگرام منعقد کئے جائیں گے، جن میں اہم شخصیات صاحبزادوں کی قربانی اور ان کی زندگی کی کہانی کے بارے میں بتائیں گے۔ شری گورو گوبند سنگھ جی کے پرکاش پرو کے دن 9 جنوری 2022کووزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ 26 دسمبر کو شری گورو گوبند جی کے بیٹوں صاحبزادہ بابا زوراور سنگھ جی اور بابافتح سنگھ جی کی شہادت کو ’ویر بال دِوس‘کے طور پر منایا جائے گا۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে ২৬ ডিচেম্বৰত মেজৰ ধ্যানচান্দ জাতীয় ষ্টেডিয়ামত ঐতিহাসিক ‘বীৰ বাল দিৱস’ উপলক্ষে আয়োজিত অনুষ্ঠানত অংশগ্রহণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%A7-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%AC%E0%A6%9B/,نئی دہلی،27دسمبر/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ہماچل پردیش حکومت کا ایک سال پورا ہونے کے موقع پر ریاست کے دھرمشالہ میں جن آبھار ریلی سے خطاب کیا۔ اسٹیج پر پہنچنے سے پہلے وزیراعظم نے حکومت کی اسکیموں سے متعلق ایک نمائش بھی دیکھی انہوں نے مختلف اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں سے بھی بات چیت کی۔ ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے روحانیت اور بہادری کی سرزمین کے طور پر ریاست ہماچل پردیش کی تعریف کی۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سابق وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپئی کا ریاست سے ایک خصوصی اور گہرا رشتہ تھا۔ وزیر اعظم نے ریاستی سرکار کی اس بات کے لئے بھی تعریف کی کہ اپنی اسکیموں کے ذریعہ وہ گزشتہ ایک سال میں ریاست کے دیہی علاقوں کے لوگوں تک پہنچ پائی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ریاستی سرکار اگلی نسل کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ شاہراؤں، ریلویز، بجلی، شمسی توانائی اور پیٹرولیم کےشعبے سے متعلق پروجیکٹ ہماچل پردیش میں سرگرمی کے ساتھ زیر نفاذ ہیں۔ وزیراعظم نے ریاست کی سیاحت کی صلاحیت کے بارے میں بھی تفصیل سے ذکر کیا۔اس تناظر میں انہوں نے کہا کہ ہند��ستان میں بیرون ملکوں سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے انہوں نے کہا کہ 2013 میں 70 لاکھ سیاح ریاست میں آئے تھے جب کہ 2017 میں یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ ہوگئی ۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ 2013 میں منظور شدہ ہوٹلوں کی تعداد تقریباً 1200 تھی جو اب بڑھ کر 1800 ہوگئی ہے۔ وزیراعظم نے یاد دلایا کہ گزشتہ 40 سال سے ہمارے سابق فوجی ایک عہدہ۔ ایک پنشن کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کی حکومت اقتدار میں آئی تو پورے معاملے کی صورت حال اور درکار وسائل کی صورتحال ایک دم واضح تھی۔ اس کے بعد سابق فوجیوں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کے لئے ایک عہدہ ایک پنشن کو نافذ کیا گیا۔ وزیراعظم نے ہماچل پردیش کے عوام کی اس بات کے لئے خصوصی طور پر تعریف کی کہ انہوں نے صفائی ستھرائی کے تئیں اپنے عزم کو برقرار رکھا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے سووچھتا کو ایک سنسکار کے طور پر قبول کیا ہے وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اس سے ریاست میں سیاحت کے شعبے کو فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ کس طرح مرکزی حکومت نے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فائدے کی براہ راست منتقلی کے ذریعہ بدعنوانی پر لگام کس دی گئی ہے اور تقریباً 90 ہزار کروڑ روپیہ بچا لیا گیا ہے۔,হিমাচল প্ৰদেশ চৰকাৰৰ এবছৰ সম্পূৰ্ণ হোৱা উপলক্ষে ধৰমশালাত জন আভাৰ ৰেলী সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%DA%A9%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9B%E0%A7%8C%E0%A6%A6%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%83/,نئی دہلی،27؍ مارچ / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے آج مکانات کے شعبے میں تعاون کے لیے ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک مفاہمت نامے کو منظوری دے دی ہے، جس پر فروری 2019 میں دستخط کیے گیے تھے۔ یہ مفاہمت نامہ سستے / کم آمدنی کے مکانوں سمیت مکانوں کے شعبے میں تکنیکی تعاون کو فروغ دے گا اور دونوں ملکوں میں مکانوں اور بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں میں حکام اور کمپنیوں کی شراکت داری کو بڑھائے گا۔یہ مفاہمت نامہ ایک دوسرے کو معلومات فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا اور جدید تعمیری تکنیک کی منتقلی اور ترقی میں تجربات اور معلومات ایک دوسرے کو فراہم کرنے کو فروغ دے گا اور مکانوں کی تعمیر کے شعبوں میں تحقیق اور ترقی کی حوصلہ افزائی بھی کرے گا۔,ভাৰত আৰু ছৌদি আৰৱৰ মাজত গৃহ নিৰ্মাণৰ ক্ষেত্রত সহযোগিতাৰ লক্ষ্যৰে স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিৰ সন্দৰ্ভত অৱগত কৰিলে কেবিনেটক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%D8%AC%DB%8C%D9%88%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%D8%A7-%D9%BE%DA%BE%D9%88%D9%84%DB%92-%DA%A9%D9%88-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے عظیم سماجی اصلاح کار ، فلسفی اور مصنف مہاتما جیوتی با پھولے کو ان کی سالگرہ پر خراج عقیدت پیش کیا۔ جناب مودی نے کہا کہ مہاتما پھولے کو سماجی انصاف کے چیمپئن اور بے شمار افراد کے لئے امید کی کرن کے طور پر وسیع پیمانے پر عزت دی جاتی ہے اور انہوں نے سماجی مساوات ، خواتین کو بااختیار بنانے اور تعلیم کو فروغ دینے کے لئے مسلسل کام کیا۔ وزیراعظم نے اپنی من کی بات پروگرام کے ذریعہ عظیم مفکر جیوتی با پھولے سے متعلق اپنے خیالات بھی شراکت کئے ، جس میں جناب مودی نے کہا تھا کہ مہاتما پھولے نے لڑکیوں کے لئے اسکول شروع کئے اور نومولود لڑکیوں کو قتل کرنے کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور آبی مسائل کو حل کرنے کے لئے مہمات بھی چلائیں ۔ ٹویٹس کے اس سلسلے میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘ مہاتما پھولےکو سماجی انصاف کے چیمپئن اور لاتعداد افراد کے لئے امید کی کرن کے طورپر وسیع پیمانے پر عزت دی جاتی ہے۔ وہ ایک کثیر رخی شخصیت تھے ، جنہوں نے سماجی مساوات ، خواتین کو بااختیاربنانے اور تعلیم کو فروغ دینے کے لئے مسلسل جدوجہد کی ۔ان کی جینتی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت ۔’’ ‘‘آج مہاتما پھولے کی جینتی ہے اور چند ہی دنوں میں ، 14تاریخ کو ہم امبیڈ کر جینتی منائیں گے۔ گزشتہ مہینے کی من کی بات میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا تھا ۔ ہندوستان ، مہاتما پھولے اور ڈاکٹر باباصاحب امبیڈ کر کا ان کی نایاب خدمات کے لئے ہمیشہ ہمیشہ احسان مند رہے گا۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মহাত্মা জ্যোতিবা ফুলেক তেওঁৰ জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি অৰ্পণ কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%86%D8%A7%D8%A6%DA%A9-%DB%81%DB%8C%D9%84%D8%AA%DA%BE-%DA%A9%DB%8C%D8%A6%D8%B1-%DA%A9%D9%85%D9%BE%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%8F-%E0%A6%8F%E0%A6%AE-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%95-%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اے ایم نائک ہیلتھ کیئر کمپلیکس اور نوساری میں نرالی ملٹی اسپیشلٹی ہسپتال کا افتتاح کیا۔ انہوں نے کھریل ایجوکیشن کمپلیکس کاعملی طور پر افتتاح بھی کیا۔ اس موقع پر دیگر کے علاوہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل بھی موجود تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج نوساری کو بہت سے پرجیکٹ حاصل ہوئے ہیں جو علاقے کے لوگوں کے لیے زندگی کی آسانی کی صورت حال کو بہتر بنائیں گے۔ انہوں نے نرالی ٹرسٹ اور شری اے ایم نائک کے جذبے کی بھی تعریف کی جنہوں نے ایک ذاتی سانحہ کو ایک موقع میں تبدیل کر دیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کسی دوسرے خاندان کو اس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے نوساری کے لوگوں کو جدید ہیلتھ کمپلیکس اور ملٹی اسپیشلٹی ہسپتال کے لیے مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی جدید کاری اور ان تک رسائی، غریبوں کو بااختیار بنانے اور زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے کہا،’’ہم نے گزشتہ 8 سالوں کے دوران ملک کے صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کی ہے‘‘۔ انہوں نے واضح کیا کہ علاج کی سہولیات کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ غذائیت اور صاف ستھرے طرز زندگی کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہمارا مقصد غریب اور متوسط طبقے کو بیماری سے بچانا ہے اور بیماری کی صورت میں ہمارا مقصد اخراجات کو کم کرنا ہے‘‘۔ انہوں نے گجرات کے صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے اور صحت کی دیکھ بھال کے اشاریوں میں بہتری کو نوٹ کیا کیونکہ نیتی آیوگ کے پائیدار ترقی کے ہدف کے اشاریہ میں گجرات سرفہرست رہاہے۔ وزیر اعظم نے گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر اپنے دنوں کو یاد کیا جب انہوں نے سوستھ گ��رات، اجول گجرات، مکھیامنتری امرتم یوجنا جیسی اسکیمیں شروع کیں تھں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجربہ پورے ملک کے غریبوں کی خدمت میں مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آیوشمان بھارت کے تحت گجرات میں 41 لاکھ مریضوں نے مفت علاج کا فائدہ اٹھایا ہے، ان میں سے زیادہ تر خواتین، محروم طبقات اور قبائلی لوگ ہیں۔ اس اسکیم سے مریضوں کو 7 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے۔ گجرات میں 7.5 ہزار سے زیادہ صحت اور تندرستی کے مراکز اور 600 ’دین دیال اوشدھالیہ‘ موجود ہیں۔ گجرات کے سرکاری ہسپتال کینسر جیسی بیماریوں کے جدید علاج سے نمٹنے کے لیے لیس ہیں۔ بھاو نگر، جام نگر، راجکوٹ وغیرہ جیسے کئی شہر، کینسر کے علاج کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ ریاست میں گردے کے علاج کے سلسلے میں بنیادی ڈھانچہ کی اسی طرح کی توسیع نظر آتی ہے۔ وزیراعظم نے خواتین اور بچوں کی صحت اور غذائیت کے معیارات میں بہتری کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے ادارہ جاتی ترسیل کے لیے چرنجیوی یوجنا کا حوالہ دیا، جس سے 14 لاکھ ماؤں کو فائدہ پہنچا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ گجرات کی چرنجیوی اور کھیکھیلاہٹ اسکیموں کو قومی سطح پر مشن اندرا دھنش اور پی ایم ماترو وندنا یوجنا میں توسیع دی گئی ہے، وزیر اعظم نے ریاست میں طبی تعلیم کو بہتر بنانے کے اقدامات کا بھی ذکرکیا۔ راجکوٹ میں ایمس بن رہا ہے، ریاست میں میڈیکل کالجوں کی تعداد 30 تک پہنچ گئی ہے اور ایم بی بی ایس کی سیٹیں 1100 سے بڑھ کر 5700 ہو گئی ہیں اور پی جی کی سیٹیں 800 سے بڑھ کر 2000 سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ وزیر اعظم نے گجرات کے عوام کے خدمت کے جذبے کو سلام کرتے ہوئے اپنے خطاب کااختتام کیا۔ انہوں نے کہا کہ گجرات کے لوگوں کے لیے صحت اور خدمت زندگی کا مقصد ہے۔ ہمارے پاس باپو جیسے عظیم انسانوں کی ترغیب ہے جنہوں نے خدمت کو ملک کی طاقت بنایا ہے۔ گجرات کا یہ جذبہ آج بھی توانائی سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ کامیاب ترین شخص بھی کسی نہ کسی خدمت کے کام سے وابستہ ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہا کہ گجرات کی خدمت کے جذبے کے ساتھ ہی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔,নৱসাৰীত এ.এম. নায়ক হেল্থকেয়াৰ কমপ্লেক্স আৰু নিৰালী মাল্টি স্পেচিয়েলিটি হস্পিটেল উদ্বোধন কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DA%AF%D8%B1%D8%AF%D9%88%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D9%88%D9%BE-%D8%A2%D9%81-%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B2%D9%BE%DB%8C%D9%BE%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%DA%AF%D9%88%D9%84%DA%88%D9%86-%D8%AC%D9%88%D8%A8%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%82%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%AA-%E0%A6%85%E0%A6%AB-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%AA/,آسام کے پرجوش وزیر اعلیٰ جناب ہمنتا بسوا شرما جی، وزیر جناب اتُل بورا جی، پجوش ہزاریکا جی، گولڈن جوبلی سیلبریشن کمیٹی کے صدر ڈاکٹر دیانند پاٹھک جی، اگردوت کے چیف ایڈیٹر اور قلم کے ساتھ اتنے طویل عرصے تک جنہوں نے تپسیا کی ہے، مشق کی ہے، ایسے کنک سین ڈیکا جی، دیگر معززین، خواتین و حضرات، آسامی زبان میں شمال مشرق کی مضبوط آواز، روزنامہ اگردوت، سے وابستہ تمام ساتھیوں، صحافیوں، ملازمین اور قارئین حضرات کو 50 برس – پانچ دہائی کے اس سنہرے سفر کے لیے میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آنے والے وقت میں اگردوت نئی بلندیاں سر کرے، بھائی پرانجل اور نوجوان ٹیم کو میں اس کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس تقریب کے لیے شری منت شنکر دیو کی فنکاری کا انتخاب بھی اپنے آپ میں ایک شاندار اتفاق ہے۔ شری منت شنکردیو جی نے آسامی شاعری اور تخلیقات کے توسط سے ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبہ کو مضبوط بنایا تھا۔ انہیں اقدار کو روزنامہ اگردوت نے بھی اپنی صحافت سے مالامال کیا ہے۔ ملک میں ہم آہنگی کی ، یکجہتی کی ، روشنی کو برقرار رکھنے میں آپ کے اخبار نے صحافت کے توسط سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ڈیکا جی کی رہنمائی میں روزنامہ اگردوت نے ہمیشہ قومی مفادت کو ترجیح دی۔ ایمرجنسی کے دوران بھی جب جمہوریت پر سب سے بڑا حملہ ہوا، تب بھی روزنامہ اگردوت اور ڈیکا جی نے صحافتی اقدار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے نہ صرف آسام میں ہندوستانیت کے جذبے سے معمور صحافت کو مضبوط کیا، بلکہ اقدار پر مبنی صحافت کے لیے بھی ایک نئی نسل تیار کی۔ آزادی کے 75ویں برس میں روزنامہ اگردوت کی گولڈن جوبلی تقریبات محض ایک پڑاؤ پر پہنچنا نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی کے امرت کال میں صحافت کے لیے، قومی فرائض کے لیے بھی باعث ترغیب ہے۔ ساتھیو، گذشتہ چند دنوں سے آسام سیلاب کی شکل میں بڑی چنوتی اور مصیبتوں کا سامنا کر رہا ہے۔ آسام کے متعدد اضلاع میں عام زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ہمنتا جی اور ان کی ٹیم راحت اور بچاؤ کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے۔ میری بھی وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں متعددلوگوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ محترم وزیر اعلیٰ سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ میں آج آسام کے لوگوں کو، اگردوت کے قارئین کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ مرکز اور ریاستی حکومت مل کر، ان کی مشکلات کم کرنے میں مصروف ہیں۔ ساتھیو، بھارت کی روایت، ثقافت، آزادی کی لڑائی اور ترقی کے سفر میں بھارتی زبانوں کی صحافت کا کردار قائدانہ حیثیت رکھتا ہے۔ آسام تو صحافت کے معاملے میں بہت ہی بیدار خطہ رہا ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل ہی آسام میں صحافت شروع ہو چکی تھی اور اس خطے نے ایسے متعدد مدیر ملک کو دیے ہیں، جنہوں نے لسانی صحافت کو نئی جہتیں عطا کی ہیں۔ آج بھی یہ صحافت عوام الناس کو حکومت اور سروکار سے جوڑنے میں بہت بڑی خدمت انجام دے رہی ہے۔ ساتھیو، روزنامہ اگردوت کا گذشتہ 50 برسوں کا سفر آسام میں رونما ہوئی تبدیلیوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ عوامی تحریکوں نے اس تبدیلی کو لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوامی انقلابات نے آسام کی ثقافتی وراثت اور آسامی فخر کو تحفظ فراہم کیا، اور اب عوامی شراکت داری کی بدولت آسام ترقی کی داستان رقم کر رہا ہے۔ ساتھیو، بھارت کے اس سماج میں جمہوریت اس لیے مضمر ہے کیونکہ اس میں صلاح و مشورے سے، غور و خوض سے، ہر اختلاف کو دور کرنے کا راستہ موجود ہے۔ جب بات چیت ہوتی ہے، تب حل نکلتا ہے۔ بات چیت سے ہی امکانات کی توسیع ہوتی ہے۔ اس لیے بھارتی جمہوریت میں علم اور معلومات کا دریا بلارکاوٹ اور مسلسل رواں دواں ہے۔ اگردوت بھی اسی روایت کو آگے بڑھانے کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔ ساتھیو، آج کی دنیا میں ہم کہیں بھی رہیں، ہماری مادری زبان میں شائع ہونے والا اخبار ہمیں گھر سے جڑے رہنے کا احساس کراتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ آسامی زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ اگردوت ہفتہ میں دو مرتبہ شائع ہوتا تھا۔ وہاں سے شروع ہوا اس کا سفر پہلے روزنامہ اخبار بننے تک پہنچا، اور اب یہ ای۔پیپر کی شکل میں آن لائن بھی موجود ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ کر آپ آسام کی خبروں سے جڑے رہ سکتے ہیں، آسام سے جڑے رہ سکتے ہیں۔ اس اخبار کی ترقی کے سفر میں ہمارے ملک کی تبدیلی اور ڈجیٹل ترقی ک�� جھلک نظرآتی ہے۔ ڈجیٹل انڈیا آج مقامی رابطے کا مضبوط وسیلہ بن چکا ہے۔ آج جو شخص آن لائن اخبار پڑھتا ہے، وہ آن لائن ادائیگی بھی کرنا جانتا ہے۔ روزنامہ اگردوت اور ہمارا میڈیا آسام اور ملک کی تبدیلی کے گواہ رہے ہیں۔ ساتھیو، آزادی کے 75 برس جب ہم مکمل کر رہے ہیں، تب ایک سوال ہمیں ضرور پوچھنا چاہئے۔ انٹلیکچووَل اسپیس کسی مخصوص زبان کو جاننے والے چند افراد تک ہی محدود کیوں رہنا چاہئے؟ یہ سوال محض جذبات کا نہیں بلکہ سائنسی منطق کا بھی ہے۔ آپ ذرا سوچئے، گذشتہ 3 صنعتی انقلابات میں بھارت تحقیق و ترقی میں پیچھے کیوں رہا؟ جبکہ بھارت کے پاس معلومات کی، فہم و فراست کی، نیا سوچنے، نیا کرنے کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا یہ اثاثہ بھارتی زبانوں میں تھا۔ غلامی کے طویل دور میں بھارتی زبانوں کی توسیع کو روکا گیا، اور جدید سائنس، تحقیق کو ایک یا دو زبانوں تک محدود کر دیا گیا۔ بھارت کے بہت بڑے طبقے کی ان زبانوں تک، اس علم تک رسائی ہی نہیں تھی۔ یعنی علم و استعداد کا، مہارت کا دائرہ مسلسل تنگ ہوتا گیا۔ جس سے تخلیق اور اختراع کے خزانے میں کمی آئی۔ 21ویں صدی میں جب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب بڑھ رہی ہے، ایسے وقت میں بھارت کے پاس دنیا کی قیادت کرنے کا بہت بڑا موقع ہے۔ یہ موقع ہماری ڈاٹا قوت کی وجہ سے ہے، ڈجیٹل شمولیت کی وجہ سے ہے۔ کوئی بھی بھارتی بہترین اطلاعات، بہترین معلومات، بہترین ہنرمندی اور بہترین موقع سے محض زبان کی وجہ سے محروم نہ رہے، یہی ہماری کوشش ہے۔ اس لیے ہم نے قومی تعلیمی پالیسی میں بھارتی زبانوں میں تعلیم کو فروغ دیا۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا مستقبل میں کسی بھی پیشے میں جائیں، انہیں اپنے پیشے کی ضرورتوں اور اپنے لوگوں کی آرزوؤں کی سمجھ رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی اب ہماری کوشش ہے کہ بھارتی زبانوں میں دنیا کا بہترین مواد دستیاب ہو۔ اس کے لیے نیشنل لینگویج ٹرانسلیشن مشن پر ہم کام کر رہے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ انٹرنیٹ، جو کہ معلومات کا، اطلاعات کا بہت بڑا خزانہ ہے، اسے ہر بھارتی اپنی زبان میں استعمال کر سکے۔ دو روز قبل ہی اس کے لیے بھاشینی پلیٹ فارم لانچ کیا گیا ہے۔ یہ بھارتی زبانوں کا یونیفائیڈ لینگویج انٹرفیس ہے، ہر بھارتی کو انٹرنیٹ سے آسانی سے مربوط کرنے کی کوشش ہے۔ تاکہ وہ معلومات کے ، علم کے اس جدید وسیلے سے، حکومت سے، سرکاری سہولتوں سے آسانی سے اپنی زبان سے مربوط ہو سکیں، رابطہ قائم کر سکیں۔ انٹرنیٹ کو کروڑوں بھارتیوں کو اپنی زبان میں دستیاب کرانا سماجی اور اقتصادی، ہر پہلو سے اہم ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کو مضبوط کرنے، ملک کو الگ الگ ریاستوں سے مربوط ہونے ، گھومنے پھرنے اور ثقافت کو سمجھنے میں یہ بہت بڑی مدد فراہم کرے گا۔ ساتھیو، آسام سمیت پورا شمال مشرق تو سیاحت، ثقافت اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بہت مالامال ہے۔ پھر بھی ابھی تک اس علاقہ کو مکمل طور پر اُتنا نہیں کھوجا گیا ہے، جتنا کہ کھوجا جانا چاہئے۔ آسام کے پاس زبان، نغمہ و موسیقی کی شکل میں جو مالامال وراثت ہے، اسے ملک اور دنیا تک پہنچانا چاہئے۔ گذشتہ آٹھ برسوں سے آسام اور پورے شمال مشرق کو جدید کنکٹیویٹی کے لحاظ سے مربوط کرنے کی غیرمعمولی کوشش جاری ہے۔ اس سے آسام کی ، شمال مشرق کی، بھارت کی ترقی میں حصہ داری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب زبانوں کے لحاظ سے بھی یہ خطہ ڈجیٹل طور پر مربوط ہوگا تو آسام کی ثقافت ، قبائلی روایات اور سیاحت کو بہت فائدہ حاصل ہوگا۔ ساتھیو، اس لیے اگردوت جیسے ملک کے ہر لسانی صحافت کرنے والے اداروں سے میری خصوصی گذارش رہے گی کہ ڈجیٹل انڈیا کی ایسی کوشش سے اپنے قارئین کو بیدار کریں۔ بھارت کے تکنالوجی کے مستقبل کو مالامال اور مضبوط بنانے کے لیے سب کی کوششیں درکار ہیں۔ سووَچھ بھارت مشن جیسی مہم میں ہمارے میڈیا نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے، اس کی پورے ملک میں اور دنیا میں آج تعریف ہوتی ہے۔ اسی طرح، امرت مہوتسو میں ملک کے عزائم میں بھی آپ حصہ دار بن کر اس کو ایک سمت دیجئے، نئی توانائی دیجئے۔ آسام میں آبی تحفظ اور اس کی اہمیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اسی سمت میں ملک اس وقت امرت سرووَر ابھیان کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ملک ہر ضلع میں 75 امرت سرووَروں کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس میں پورا یقین ہے کہ اگردوت کے توسط سے آسام کا کوئی شہری ایسا نہیں ہوگا جو اس سے جڑا نہ ہوگا، سب کی کوشش نئی رفتار فراہم کرسکتی ہے۔ اسی طرح، آزادی کی لڑائی میں آسام کے مقامی لوگوں کا، ہمارے قبائلی سماج کا اتنا بڑا تعاون رہا ہے۔ ایک میڈیا ادارے کے طور پر اس عظیم الشان ماضی کو عوام تک پہنچانے میں آپ بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے، اگردوت سماج کی ان مثبت کوششوں کو توانائی دینے کا اپنا فریضہ جو گذشتہ 50 برسوں سے ادا کر رہا ہے، آنے والی متعدد دہائیوں تک بھی ادا کرے گا، ایسا میرا یقین ہے۔ آسام کے لوگوں اور آسام کی ثقافت کی ترقی میں وہ قائد کے طور پر کام کرتا رہے گا۔ بہتر طور پر باخبر معاشرہ ہی ہم سبھی کا مقصد ہو، ہم سبھی مل کر اس کے لیے کام کریں، اسی نیک نیتی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر آپ کو اس سنہرے سفر کی مبارکباد اور بہتر مستقبل کی بہت بہت نیک خواہشات۔,অগ্ৰদূত গ্ৰুপ অফ নিউজপেপাৰ্ছৰ সোণালী জয়ন্তী সমাৰোহৰ উদ্বোধন উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%86%D8%AA%D8%B1%D9%86%D8%AC%D9%86-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%DA%A9%DB%8C%D9%86%D8%B3%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%B9-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%A8-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%B0/,نمسکار، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی منسکھ منڈاویہ جی، سبھاش سرکار جی، شانتنو ٹھاکر جی، جان برلا جی، نتیش پرمانک جی، حزب اختلاف کے قائد سویندو ادھیکاری جی، سی این سی آئی کولکاتہ کی گورننگ باڈی کے اراکین، صحت کے شعبے کے تمام ساتھی، دیگر معززین، خواتین و حضرات! ملک کے ہر شہری کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کے قومی عزم کو مضبوط کرتے ہوئے آج ہم نے ایک اور قدم اٹھایا ہے۔ چترنجن نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کا یہ دوسرا کیمپس مغربی بنگال کے بہت سے شہریوں کے لیے بڑی سہولت لے کر آیا ہے۔ اس سے خاص طور پر ان غریب، متوسط طبقے کے خاندانوں کو کافی راحت ملے گی جن کا کوئی اپنا کینسر سے مقابلہ کر رہا ہے۔ کولکاتہ کے اس جدید اسپتال کی وجہ سے کینسر سے متعلق علاج، اس سے جڑی سرجری اور تھراپی اب مزید قابل رسائی ہو جائے گی۔ ساتھیوں، آج ہی ملک نے ایک اور اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔ ملک نے اس سال کا آغاز 15 سے 18 سال کی عمر کے بچوں کی ویکسینیشن سے کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، سال کے پہلے مہینے کے پہلے ہفتے میں، ہندوستان 150 کروڑ – 1.5 بلین ویکسین کی خوراک کا تاریخی سنگ میل بھی حاصل کر رہا ہے۔ 150 کروڑ ویکسین کی خوراک، وہ بھی ایک سال سے بھی کم عرصے میں! اعداد و شمار کے مطابق یہ بہت بڑا نمبر ہے، یہ دنیا کے بیشتر بڑے ممالک کے لیے بھی کسی حیرت سے کم نہیں ہے، لیکن ہندوستان کے لیے یہ 130 کروڑ ہم وطنوں کی طاقت کی علامت ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ ایک نئے عزم کی علامت ہے جس میں ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ہمت ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ خود اعتمادی کی علامت ہے، یہ خود انحصاری کی علامت ہے، یہ خود پر فخر کی علامت ہے! میں آج اس موقع پر تمام ہم وطنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، کورونا کے خلاف جنگ میں ہمارا یہ ویکسینیشن پروگرام اتنا ہی اہم ہے جتنا خطرناک یہ بھیس بدلنے والا کورونا وائرس ہے۔ آج ایک بار پھر دنیا کو کورونا کی نئی اومیکرون قسم کا سامنا ہے۔ اس نئی قسم کی وجہ سے ہمارے ملک میں بھی معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے ویکسین کی 150 کروڑ خوراکوں کی یہ شیلڈ ہمارے لیے بہت اہم ہو جاتی ہے۔ آج، ہندوستان کی 90 فیصد سے زیادہ بالغ آبادی کو ویکسین کی ایک خوراک ملی ہے۔ صرف 5 دنوں میں 1.5 کروڑ سے زیادہ بچوں کو بھی ویکسین کی خوراک دی گئی ہے۔ یہ کارنامہ پورے ملک کا ہے، ہر حکومت کا ہے۔ میں اس کامیابی کے لیے ملک کے سائنسدانوں، ویکسین بنانے والوں، صحت کے شعبے کے ہمارے ساتھیوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ سب کی کوششوں کی وجہ سے ہے کہ ملک نے اس عزم کو چوٹی تک پہنچایا ہے، جس کا آغاز ہم نے صفر سے کیا تھا۔ ساتھیوں، 100 سال کی سب سے بڑی وبا کے خلاف جنگ میں سب کی کوشش کا یہ جذبہ ہی ملک کو طاقت دے رہا ہے۔ کووڈ سے لڑنے کے لیے بنیادی اور اہم انفراسٹرکچر بنانے سے لے کر دنیا کی سب سے بڑی، تیز ترین، مفت حفاظتی ٹیکوں کی مہم تک، یہ طاقت آج ہر جگہ نظر آتی ہے۔ بہت سارے جغرافیائی، معاشی اور سماجی تنوع والے ہمارے ملک میں، جس رفتار سے ہم نے ٹیسٹنگ سے لے کر ویکسینیشن تک اتنا وسیع انفراسٹرکچر تیار کیا ہے وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال قائم کر رہا ہے۔ ساتھیوں، اندھیرا جتنا گھنا ہوتا ہے، روشنی کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ چیلنجز جتنے بڑے ہوتے ہیں، حوصلہ اتنا ہی اہم ہو جاتا ہے۔ اور جنگ جتنی مشکل ہو، ہتھیاروں کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تک، حکومت کی طرف سے مغربی بنگال کو کورونا ویکسین کی تقریباً 11 کروڑ خوراکیں مفت فراہم کی گئی ہیں۔ بنگال کو ڈیڑھ ہزار سے زیادہ وینٹی لیٹر، 9 ہزار سے زیادہ نئے آکسیجن سلنڈر بھی دیے گئے ہیں۔ 49 پی ایس اے نئے آکسیجن پلانٹس نے بھی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کورونا کے خلاف جنگ میں مغربی بنگال کے لوگوں کی مدد کریں گے۔ ساتھیوں، چترنجن نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ کے کیمپس میں دیش بندھو چترنجن داس جی اور مہا رشی سشروت کے مجسمے ہم سب کے لیے ایک بہت بڑی تحریک ہیں۔ دیش بندھو جی کہتے تھے – میں اس ملک میں بار بار جنم لینا چاہتا ہوں تاکہ میں اس ملک کے لیے جی سکوں، اس کے لیے کام کر سکوں۔ ساتھیوں، مہا رشی سشروت صحت کے میدان میں قدیم ہندوستانی حکمت کا عکس ہیں۔ ایسی ہی ترغیبات سے گزشتہ سالوں کے دوران ہم وطنوں کی صحت سے متعلق مکمل حل کے لیے جامع طریقے سے کام کیے گئے ہیں۔ سب کا پریاس کے جذبے کے ساتھ آج ملک کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مربوط کرنے، صحت کی منصوبہ بندی کرنے اور اسے قومی قراردادوں سے جوڑنے کا کام تیز ہو رہا ہے۔ ہم آج صحت کے شعبے کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ بیماریوں کا سبب بننے والے عوامل کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری حکومت کی توجہ بیماری کی صورت میں علاج کو سستا اور قابل رسائی بنانا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹروں اور میڈیکل انفراسٹرکچر کی استعداد کو بڑھا کر صحت کی خدمات کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، اس لیے اپنے صحت کے شعبے کی قلب ماہیت کرنے کے لیے، ملک آج احتیاطی صحت، سستی صحت کی دیکھ بھال، سپلائی سائیڈ انٹروینشن، اور مشن موڈ مہمات کو تحریک دے رہا ہے۔ یوگا، آیوروید، فٹ انڈیا موومنٹ، یونیورسل امیونائزیشن جیسے ذرائع سے احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ سوچھ بھارت مشن اور ہر گھر جل جیسی قومی اسکیمیں گاؤں اور غریب خاندانوں کو بہت سی بیماریوں سے بچانے میں مدد کر رہی ہیں۔ آرسینک اور دیگر وجوہات کی وجہ سے آلودہ پانی ملک کی کئی ریاستوں میں کینسر کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ ہر گھر جل ابھیان سے اس مسئلے کو حل کرنے میں کافی مدد مل رہی ہے۔ ساتھیوں، عرصہ دراز سے ہمارا غریب اور نچلا متوسط طبقہ صحت کی سہولیات سے محروم تھا کیونکہ یا تو علاج دستیاب نہیں تھا یا پھر بہت مہنگا تھا۔ اگر غریب کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوتا تھا تو اس کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو وہ قرض لے، اپنا گھر یا زمین بیچے۔ یا پھر علاج کا خیال ہی ترک کر دے۔ کینسر کی بیماری ایسی ہے کہ اس کا نام سنتے ہی غریب اور متوسط طبقہ ہمت ہار جاتا ہے۔ غریبوں کو اس چکر، اس تشویش سے نکالنے کے لیے، ملک سستے اور قابل رسائی علاج کے لیے مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران کینسر کے علاج کے لیے ضروری ادویات کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ابھی منسکھ بھائی اس کی تفصیل بتا رہے تھے۔ مغربی بنگال سمیت پورے ملک میں قائم کیے گئے 8 ہزار سے زیادہ جن اوشدھی کیندروں میں ادویات اور جراحی کی اشیا انتہائی سستے داموں میں فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان اسٹورز پر کینسر کی 50 سے زائد ادویات بھی انتہائی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ کینسر کی سستی ادویات فراہم کرنے کے لیے خصوصی امرت اسٹورز بھی ملک بھر میں چل رہے ہیں۔ یہ خدمت کا جذبہ، حکومت کی یہ حساسیت غریبوں کے سستے علاج کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ حکومت نے 500 سے زیادہ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کیا ہے جس سے مریضوں کے لیے ہر سال 3000 کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت ہو رہی ہے۔ کورونری اسٹینٹس کی قیمت مقرر کرنے سے دل کے مریضوں کے لیے ہر سال 4500 کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت ہو رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے گھٹنے کے امپلانٹس کی لاگت کو کم کرنے کے فیصلے سے ہمارے بزرگ شہریوں، ہماری بزرگ ماؤں بہنوں، مردوں کو فائدہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال بزرگ مریضوں کے 1500 کروڑ روپے بچ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے نیشنل ڈائیلاسز پروگرام کی مدد سے، 12 لاکھ غریب مریضوں کو مفت ڈائیلاسز کی سہولت ملی ہے۔ اس سے بھی ان کے 520 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم کی بچت ہوئی ہے۔ ساتھیوں، آیوشمان بھارت اسکیم آج سستی اور جامع صحت کی دیکھ بھال کے معاملے میں عالمی معیار بن رہی ہے۔ PM-JAY کے تحت ملک بھر کے ہسپتالوں میں 2 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر یہ اسکیم نہ ہوتی تو ان مریضوں کے علاج پر 50 سے 60 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوتے۔ ساتھیوں، آیوشمان بھارت سے 17 لاکھ سے زیادہ کینسر کے مریضوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ کیمو تھراپی ہو، ریڈیو تھراپی ہو یا سرجری، ان مریضوں کو ہسپتال میں ہر سہولت مفت ملتی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اگر حکومت یہ کوششیں نہ کرتی تو کتنی غریب زندگیاں مشکلات میں گھری ہوتیں، یا کتنے خاندان قرضوں کے چکر میں پھنس جاتے۔ ساتھیوں، آیوشمان بھارت صرف مفت علاج کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ جلد تشخیص، جلد علاج میں بھی بہت کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ کینسر جیسی تمام خطرناک بیماریوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ ورنہ ہمارے یہاں اکثر معاملوں میں کینسر کا پتہ آخری مرحلے میں ہی ہوتا تھا، جب بیماری لاعلاج ہو جاتی تھی۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے 30 سال سے زیادہ عمر کے ساتھیوں میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور کینسر کی اسکریننگ پر زور دیا جا رہا ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت دیہاتوں میں بنائے جانے والے ہزاروں صحت اور بہبود کے مراکز آج اس میں بہت کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔ بنگال میں بھی ایسے 5 ہزار سے زیادہ صحت اور تندرستی کے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں تقریباً 15 کروڑ لوگوں کے منہ، چھاتی اور سروائیکل کینسر کی جانچ کی گئی ہے۔ ہزاروں ہیلتھ ورکرز کو بھی گاؤں کی سطح پر خصوصی طور پر تربیت دی گئی ہے تاکہ اسکریننگ کے بعد علامات ظاہر ہونے والوں کا علاج کیا جا سکے۔ ساتھیوں، ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہمارے صحت کے شعبے کا رہا ہے – طلب اور رسد کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔ ڈاکٹروں اور دیگر صحت کے پیشہ ور افراد ہوں یا صحت کے بنیادی ڈھانچے، طلب اور رسد کے اس خلا کو پر کرنے کے لیے آج ملک میں مشن موڈ پر کام کیا جا رہا ہے۔ 2014 میں، ہمارے یہاں صرف 6 ایمس تھے۔ آج ملک 22 ایمس کے مضبوط نیٹ ورک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے ہر ضلع میں کم از کم ایک میڈیکل کالج ہونا چاہیے۔ ان تمام اداروں میں کینسر جیسی موذی بیماری کے علاج کی سہولتیں شامل کی جا رہی ہیں۔ ملک میں کینسر کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے 19 ریاستی کینسر انسٹی ٹیوٹ اور 20 ٹرشری نگہداشت کینسر مراکز کو بھی منظوری دی گئی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی اب کولکاتہ، مرشد آباد اور بردھمان کے میڈیکل کالجوں میں کینسر کے مریضوں کا علاج آسانی سے کیا جائے گا۔ ہمارے وزیر صحت منسکھ بھائی نے بھی اس کی تفصیل بتائی ہے۔ ان تمام کوششوں کا ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی دستیابی پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔ ملک میں پچھلے 70 سالوں میں جتنے ڈاکٹر بنے، اب اگلے 10 سالوں میں ملک میں اتنے ہی ڈاکٹر بننے جا رہے ہیں۔ ساتھیوں، پچھلے سال ملک میں شروع کی گئی دو بڑی قومی مہمات بھی ہندوستان کے صحت کے شعبے کو جدید بنانے میں بہت مدد کریں گی۔ آیوشمان بھارت – ڈیجیٹل ہیلتھ مشن سے علاج میں ہم وطنوں کی سہولت میں اضافہ ہوگا۔ میڈیکل ہسٹری کا ڈجیٹل ریکارڈ علاج کو آسان اور مؤثر بنائے گا، معمولی بیماریوں کے لیے ہسپتال جانے کی پریشانی کو کم کرے گا، اور شہریوں کو علاج کے اضافی اخراجات سے بچائے گا۔ اسی طرح، آیوشمان بھارت – انفراسٹرکچر مشن سے اہم صحت کی دیکھ بھال سے متعلق طبی بنیادی ڈھانچہ، اب بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ضلع اور بلاک کی سطح پر بھی قابل رسائی ہوگا۔ ہندوستان کو صحت مند اور قابل بنانے کی یہ مہم اسی طرح جاری رہے گی۔ میں ایک بار پھر تمام شہریوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ہوشیار رہیں، تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ایک بار پھر، میں اس پروگرام میں موجود تمام لوگوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات رکھتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,চিত্তৰঞ্জন ৰাষ্ট্ৰীয় কৰ্কট প্ৰতিষ্ঠান (CNCI) ৰ দ্বিত��য়টো চৌহদৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ পূৰ্ণপা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D9%BE-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%AA-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایشیا کپ 2022 میں پاکستان کے خلاف میچ میں جیت حاصل کرنے پر بھارتی کرکٹ ٹیم کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’ٹیم انڈیا نے آج کے #ایشا کپ 2022 کے میچ میں شاندار آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ٹیم نے بہترین صلاحیت اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا۔اس شاندار جیت پر انہیں مبارکباد‘‘,এছিয়া কাপ ২০২২ত পাকিস্তানৰ বিৰুদ্ধে জয়লাভ কৰাৰ বাবে ভাৰতীয় ক্ৰিকেট দলক অভিনন্দন জ্ঞাপন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-2/,"وزیراعظم نے آج قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے نفاذ کا جائزہ لیا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ این ای پی 2020 کے آغاز کے بعد سے دو سالوں میں اس کے نفاذ میں، پالیسی کے تحت مقرر کردہ رسائی، مساوات، شمولیت اور معیار کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اسکول سے باہر بچوں کا پتہ لگانے اور انہیں قومی دھارے میں واپس لانے کے لیے خصوصی کوششوں سے لے کر اعلیٰ تعلیم میں متعدد داخلے اور اخراج تک، بہت سی تبدیلیی اصلاحات شروع کی گئی ہیں جو کہ ’امرت کال‘ میں داخل ہوتے ہی ملک کی ترقی کی وضاحت اور رہنمائی کریں گی۔ اسکول کی تعلیم وزیراعظم کو بتایا گیا کہ نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی کی رہنمائی میں قومی نصاب کے فریم ورک کی تشکیل کا کام جاری ہے۔ اسکولی تعلیم میں، بالوتیکا میں معیاری ای سی سی ای جیسے اقدامات، این ای پی یو این بھارت، ودیا پرویش، امتحانی اصلاحات اور جدید تدریس جیسے آرٹ-انٹیگریٹڈ ایجوکیشن، کھلونا پر مبنی پیڈاگوجی کو بہتر سیکھنے کے نتائج اور بچوں کی ہمہ گیر ترقی کے لیے اپنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسکول جانے والے بچوں کی ٹیکنالوجی کے زیادہ نمائش سے بچنے کے لیے آن لائن اور آف لائن سیکھنے کا ایک ہائبرڈ نظام تیار کیا جانا چاہیے۔ آنگن واڑی مراکز کے ذریعہ رکھے گئے ڈیٹا بیس کو بغیر کسی رکاوٹ کے اسکول کے ڈیٹا بیس کے ساتھ مربوط کیا جانا چاہئے کیونکہ بچے آنگن واڑیوں سے اسکولوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کی صحت کا باقاعدہ چیک اپ اور اسکریننگ ٹیکنالوجی کی مدد سے کی جانی چاہیے۔ طلباء میں تصوراتی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھلونوں کے استعمال پر زور دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ سائنس لیب والے سیکنڈری اسکولوں کو چاہیے کہ وہ اپنے علاقے کے کسانوں کے ساتھ مٹی کی جانچ کے لیے کام کریں تاکہ مٹی کی صحت کے بارے میں بیداری پیدا کی جا سکے۔ اعلیٰ تعلیم میں کثیر الضابطہ وزیر اعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ لچک اور زندگی بھر سیکھنے کے لیے ملٹیپل انٹری-ایگزٹ کے رہنما خطوط کے ساتھ ساتھ ��یجی لاکر پلیٹ فارم پر اکیڈمک بینک آف کریڈٹ کے اجراء سے طلبہ کے لیے اپنی سہولت اور پسند کے مطابق تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا۔ زندگی بھر سیکھنے کے نئے امکانات پیدا کرنے اور سیکھنے والوں میں تنقیدی اور بین الضابطہ سوچ کو مرکزی طور پر شامل کرنے کے لیے، یو جی سی نے رہنما خطوط شائع کیے ہیں جن کے مطابق طلباء ایک ساتھ دو تعلیمی پروگراموں کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ نیشنل ہائر ایجوکیشن کوالیفیکیشن فریم ورک (این ایچ ای کیو ایف) بھی تیاری کے ایک اعلی درجے کے مرحلے میں ہے۔ یو جی سی موجودہ ""کریکولم فریم ورک اور کریڈٹ سسٹم برائے انڈر گریجویٹ پروگرام"" پر این ایچ ای کیو ایف کے ساتھ ہم آہنگی میں نظر ثانی کر رہا ہے۔ ملٹی ماڈل ایجوکیشن آن لائن، اوپن اور ملٹی ماڈل لرننگ کو اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں دونوں نے بھرپور طریقے سے فروغ دیا ہے۔ اس اقدام نے کوویڈ 19 وبائی امراض کی وجہ سے سیکھنے (لرننگ) کے نقصان کو کم کرنے میں مدد کی ہے اور یہ ملک کے دور دراز اور ناقابل رسائی حصوں تک تعلیم کو پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔سوایم ، دکشا، سوائم پربھا SWAYAM، DIKSHA، SWAYAM PRABHA، ورچوئل لیبز اور دیگر آن لائن ریسورس پورٹلز نے کامیابیوں اور طلباء کے رجسٹریشن میں تیزی سے اضافہ دکھایا ہے۔ یہ پورٹل بینائی سے محروم افراد کے لیے متعدد ہندوستانی زبانوں بشمول اشاروں کی زبان اور آڈیو فارمیٹس میں مطالعاتی مواد فراہم کر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا کے علاوہ، یو جی سی نے اوپن اینڈ ڈسٹنس لرننگ (او ڈی ایل) اور آن لائن پروگرامز کے ضوابط کو مطلع کیا ہے جس کے تحت 59 اعلیٰ تعلیمی ادارے (ایچ ای آئی ایس ) 351 مکمل آن لائن پروگرام پیش کر رہے ہیں اور 86 اور ڈپٹی ایل 1081 ایچ ای آئی پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ پروگرام میں آن لائن مواد کی اجازت کی حد کو بھی بڑھا کر 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔ انوویشن اور اسٹارٹ اپ اسٹارٹ اپ اور انوویشن کے ایکو سسٹم کی حوصلہ افزائی کے لیے 28 ریاستوں اور 6 یو ٹی میں ایچ ای آئی ایس میں 2,774 اداروں کی اختراعی کونسلیں قائم کی گئی ہیں۔ تحقیق، انکیوبیشن اور اسٹارٹ اپس کا کلچر بنانے کے لیے این ای پی کے ساتھ منسلک انسٹی ٹیوشنز کی اٹل رینکنگ(اے آر آئی آئی اے) دسمبر 2021 میں شروع کی گئی ہے۔ اے آر آئی آئی اے میں 1438 اداروں نے حصہ لیا۔اے آئی سی ٹی ای کی طرف سے 100 اداروں کو آئیڈیا ڈیولپمنٹ، ایویلیوایشن اینڈ ایپلیکیشن (آئی ڈی ای اے) لیبز کے لیے رٹ کر سیکھنے کے بجائے تجرباتی سیکھنے کے لیے صنعت کی شراکت کے ساتھ مالی اعانت فراہم کی گئی ہے۔ ہندوستانی زبانوں کا فروغ تعلیم اور امتحان میں کثیر لسانی پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انگریزی کی کمی کسی بھی طالب علم کے تعلیمی حصول میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریاستیں بنیادی سطح پر دو لسانی/ سہ لسانی نصابی کتابیں شائع کر رہی ہیں اور دکشا DIKSHA پلیٹ فارم پر 33 ہندوستانی زبانوں میں مواد دستیاب کرایا گیا ہے۔ این آئی او ایس نے ثانوی سطح پر ہندوستانی اشاروں کی زبان (آئی ایس ایل) کو ایک زبان کے مضمون کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ این ٹی ای نے 13 زبانوں میں جے ای ای امتحان کا انعقاد کیا ہے۔ اے آئی سی ٹی ای نے اے آئی پر مبنی ترجمہ ایپ تیار کی ہے اور مطالعہ کے مواد کا ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ ہندی، مراٹھی، بنگالی، تامل، تیلگو اور کنڑ میں تکنیکی کتاب لکھنے کا کام شروع کیا جا رہا ہے۔ 2021-22 تک 10 ریا��توں کے 19 انجینئرنگ کالجوں میں 6 ہندوستانی زبانوں میں انجینئرنگ کورسز پیش کیے جا رہے ہیں۔ علاقائی زبانوں میں اضافی 30/60 غیر معمولی نشستیں اور علاقائی زبانوں میں منظور شدہ 50فی صد تک نشستیں اے آئی سی ٹی ای کی طرف سے منظور کی گئی ہیں۔ میٹنگ میں جناب دھرمیندر پردھان، وزیر تعلیم (ایم او ای) اور ہنر مندی اور انٹرپرینیورشپ (ایم ایس ڈی ای)، جناب راجیو چندر شیکھر، ایم ایس ڈی ای میں وزیر مملکت، جناب سبھاش سرکار، ایم او ایس، ایم او ای، محترمہ اناپورنا دیوی، ایم او ایس، ایم او ای اور جناب راجکمار رنجن سنگھ ایم او ایس ، ایم او ای، اور ایم ای اے ، وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری، کابینہ سکریٹری، وزیر اعظم کے مشیر، چیئرمین یو جی سی ، چیئرمین اے آئی سی ٹی ای ، چیئرمین این سی وی ای ٹی ، ڈائریکٹر این سی ای آر ٹی اور وزارت تعلیم کے دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔ ش ح۔ ش ت ۔ج",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰাষ্ট্ৰীয় শিক্ষা নীতি (এনইপি) ২০২০ ৰূপায়ণৰ অগ্ৰগতি পৰ্যালোচনা কৰিবলৈ এক উচ্চ পৰ্যায়ৰ বৈঠকত সভাপতিত্ব কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%BE%D9%84-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%88%D8%B4%DB%8C-%D9%85%D9%B9%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8-3/,وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا نے آج 8 جنوری 2023 کو جوشی مٹھ میں عمارت کے نقصانات اور زمین کے دھنسنے کے واقعے کا ایک اعلیٰ سطحی جائزہ لیا۔ کابینی سکریٹری؛ ہوم سکریٹری؛ حکومت ہند کے اعلیٰ حکام اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ممبران کے علاوہ اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی، جوشی مٹھ کے ڈی ایم اور افسران؛ اتراکھنڈ کے سینئر افسران اور آئی آئی ٹی روڑکی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ، جیولوجیکل سروے آف انڈیا، واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیولوجی کے ماہرین نے بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے میٹنگ میں شرکت کی۔ بتایا گیا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی فکر مند ہیں اور انہوں نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری نے بتایا کہ مرکزی ماہرین کے تعاون سے ریاستی اور ضلعی عہدیداروں نے بنیادی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زمین کی ایک پٹی جس کی چوڑائی تقریباً 350 میٹر ہے متاثر ہوئی ہے۔ این ڈی آر ایف کی ایک ٹیم اور ایس ڈی آر ایف کی چار ٹیمیں جوشی مٹھ پہنچ گئی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ ان کو خوراک، رہائش اور سیکورٹی کے مناسب انتظامات کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔ ایس پی اور ایس ڈی آر ایف کی کمان اس جگہ پر تعینات ہیں۔ جوشی مٹھ کے رہائشیوں کو پیش رفت سے آگاہ کیا جا رہا ہے اور ان سے تعاون مانگا جا رہا ہے۔ قلیل-درمیانی -طویل مدتی منصوبے بنانے کے لئے ماہرین سے مشورہ طلب کیا جا رہا ہے۔ سرحدی انتظامیہ کے سکریٹری اور این ڈی ایم اے کے چاروں ممبران 9 جنوری کو اتراکھنڈ کا دورہ کریں گے۔ وہ لوگ تکنیکی ٹیموں (این ڈی ایم اے، این آئی ڈی ایم، این ڈی آر ایف، جی ایس آئی، این آئی ایچ، واڈیا انسٹی ٹیوٹ، آئی آئی ٹی روڑکی) کے نتائج کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ ٹیم ابھی ابھی جوشی مٹھ سے واپس آئی ہے جو صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوری، قلیل درمیانی طویل مدتی اقدامات پر ریاستی حکومت کو مشورہ دے گی۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ریاست کی فوری ترجیحات متاثرہ علاقے میں رہنے والے لوگوں کی حفاظت ہونی چاہیے۔ ریاستی حکومت کو متاثرہ لوگوں کے ساتھ ایک واضح اور مسلسل مواصلاتی چینل قائم کرنا چاہیے۔ فوری طور پر کوشش ہونی چاہیے کہ ممکنہ عملی اقدامات کے ذریعے حالات کی خراب ہونے سے روکا جائے۔ متاثرہ علاقے کی بین الضابطہ تحقیقات کی جائیں۔ متعدد مرکزی اداروں کے ماہرین یعنی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این آئی ڈی ایم)، جیولوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) روڑکی، واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیولوجی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہائیڈرولوجی اور سنٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو ‘‘پوری حکومت’’کے نقطہ نظر کے تحت ریاست اتراکھنڈ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ واضح وقت کے ساتھ تعمیر نو کا ایک منصوبہ تیار کیا جانا چاہیے اور مسلسل زلزلے کی نگرانی کی جانی چاہیے۔ اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے جوشی مٹھ کے لیے ایک خطرے سے متعلق حسّاس شہری ترقی کا منصوبہ بھی تیار کیا جانا چاہیے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰধান সচিবে জোশীমঠৰ পৰিস্থিতিৰ উচ্চ স্তৰীয় সমীক্ষা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%DA%BE%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%8C-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%B9%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE-11/,وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات اور پورا ملک کل موربی میں ہونے والے سانحے کے بعد ہونے والے جانی اتلاف کے غم میں ڈوبا ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ہم سب متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم دل و جان سے امدادی کاموں کے لیے کام کر رہی ہے۔ کل رات بھوپندر بھائی کیوڑیا سے سیدھے موربی پہنچے اور امدادی کاموں کی ذمہ داری سنبھالی۔ میں ان کے اور امدادی کاموں میں شامل عہدیداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔ این ڈی آر ایف کی ٹیم اور مسلح افواج کے اہلکار پہنچ چکے ہیں۔ میں امباجی کی سرزمین سے گجرات کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ امدادی کاموں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے ذہن میں دو رائے تھی کہ انھیں اس پروگرام کو منسوخ کرنا چاہیے یا نہیں، لیکن بناسکانٹھا میں پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی اہمیت اور لوگوں کی محبت کو جانتے ہوئے، انھوں نے اپنے جذبات کو سنبھالا اور 8000 کروڑ روپے سے زیادہ کے ان پروجیکٹوں کا افتتاح کرنے کے لیے آگے آئے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان پروجیکٹوں سے بناسکانٹھا، پٹن اور مہسانہ سمیت گجرات کے چھ سے زیادہ اضلاع میں آبپاشی کی سہولیات میں مدد ملے گی۔ ماضی میں ریاست کو درپیش مشکل وقت کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ گجرات کے عوام کا لازوال جذبہ ہے جو انھیں کسی بھی مصیبت سے نمٹنے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ جناب مودی نے ان ترقیاتی کاموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’بناسکانٹھا اس کی ایک زندہ اور سانس لینے والی مثال ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے شمالی گجرات کے ہزاروں اضلاع میں فلورائیڈ آلودہ پانی کو یاد کیا اور کہا کہ پانی سے متعلق مسائل کا خطے میں زرعی زندگی پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ انھوں نے بتایا ��ہ حالت یہ ہے کہ اگر کوئی زمیندار اپنی زمین فروخت کرنا چاہے تو اسے خریدار نہیں ملے گا۔ وزیر اعظم نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’جب سے میں دھرتی کا ’سیوک‘ بنا ہوں، یہ ہماری ہی حکومت تھی جس نے خطے کے مسائل کی نشاندہی کی اور انتہائی لگن اور خلوص کے ساتھ ان کو پورا کرنے کے لیے کام کیا۔‘‘ جناب مودی نے کہا کہ ہم نے پانی کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی، چیک ڈیم اور تالاب تعمیر کیے۔ وزیر اعظم نے سجلم سفلم یوجنا، واسمو یوجنا اور پانی سمیتیوں کی مثالیں دیں۔ انھوں نے خواتین کے اہم کردار پر بھی روشنی ڈالی جس کے نتیجے میں کچھ سمیت پورا شمالی گجرات خطہ ڈرپ آبپاشی اور ’فی بوند زیادہ فصل‘ ماڈل کے ساتھ پھل پھول رہا ہے جبکہ اس خطے میں زراعت، باغبانی کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی فروغ ملا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف ہمارے پاس بناس ڈیری ہے تو دوسری طرف 100 میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ ہے، ہم نے خطے کے ہر گھر تک نل کا پانی پہنچانے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ڈرپ آبپاشی اور مائکرو آبپاشی کی تکنیکوں نے پورے ملک کی توجہ بناسکانٹھا کی طرف مبذول کرائی ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی پہچان ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج بناسکانٹھا ترقی کی تاریخ میں اپنا باب لکھ رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بناسکانٹھا میں 4 لاکھ ہیکٹر اراضی ڈرپ اور مائکرو آبپاشی کے استعمال کے لیے وقف ہے جس کے نتیجے میں پانی کی سطح مزید کم نہیں ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہو رہا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ سجلام سپھلام یوجنا پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے خطے کے عوام کی ستائش کی جنھوں نے اپنی کوششوں اور لگن سے تمام نکتہ چینی کرنے والوں کو خاموش کرایا ہے اور سجلام سپھلام یوجنا کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ گذشتہ 19-20 برسوں میں کیے گئے کاموں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ سجلام-سپھلام اسکیم کے تحت سینکڑوں کلومیٹر لمبی ریچارج نہریں تعمیر کی گئی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پائپ لائن بچھانے اور زیر زمین پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے گاؤں کے تالابوں کا بھی دوبارہ احیا کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ جو دو پائپ لائنیں بننے والی ہیں ان سے ایک ہزار سے زائد دیہی تالابوں کو فائدہ پہنچے گا۔ پروجیکٹ کے منصوبوں کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ پائپ لائن کو مکتیشور ڈیم اور کرماوت تالاب تک بڑھایا جا رہا ہے اور زیادہ اونچائی والے مقامات پر بجلی کے پمپوں کی مدد سے پانی اٹھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ نرمدا کی مرکزی نہر سے ایک ڈسٹری بیوشن کینال تعمیر کی جا رہی ہے جس سے تھراد، واو اور سوئی تعلقوں کے درجنوں گاؤوں کو فائدہ پہنچے گا۔ ’’پٹن اور بناسکانٹھا کے 6 تعلقوں کے کئی گاؤوں کو بھی کسرا-دانتے واڑہ پائپ لائن سے فائدہ ہوگا۔ آنے والے وقت میں نرمدا ندی کا پانی مکتیشور باندھ اور کرماوت تالاب میں آئے گا۔ اس سے بناسکانٹھا میں وڈگام، پاٹن میں سدھ پور اور مہیسانا کے کھیرالو تعلقہ کو فائدہ ہوگا۔ ’’کسی کو پانی دینا ایک نیکی کا عمل سمجھا جاتا ہے،‘‘ وزیر اعظم نے کہا، ’’جس کو پانی ملتا ہے وہ امرت کا حامل ہوتا ہے اور وہ امرت انسان کو ناقابل تسخیر بنا دیتا ہے۔ لوگ اس شخص کو آشیرواد دیتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں پانی کی یہی اہمیت ہے۔‘‘ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر ��عظم نے زراعت اور مویشی پروری میں نئے امکانات کی مثالیں پیش کیں۔ انھوں نے زمین کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے فوڈ پروسیسنگ کی پھلتی پھولتی صنعت پر بھی روشنی ڈالی۔ جناب مودی نے چند ماہ قبل آلو پروسیسنگ پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کا بھی ذکر کیا۔ مرکزی حکومت فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کے دائرہ کار کو وسیع کر رہی ہے۔ کسان پروڈیوسر یونینوں اور سخی منڈلوں کو اس شعبے سے جوڑ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کولڈ اسٹوریج پلانٹ کی تعمیر ہو یا فوڈ پروسیسنگ پلانٹ، حکومت ان تنظیموں کو کروڑوں روپے کی مدد کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ایک ایسے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جہاں کسان نہ صرف انار کے درخت کا مالک ہو بلکہ جوس بنانے والے یونٹ میں بھی اس کا حصہ ہو۔ وزیر اعظم نے سکھی منڈلوں پر بھی روشنی ڈالی جو آج پھلوں اور سبزیوں سے لے کر اچار، مربوں اور چٹنیوں تک بہت سی مصنوعات تیار کرنے کا قابل ستائش کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ حکومت نے صنعت کو مزید ترقی دینے کے لیے سکھی منڈلوں کو دستیاب بینک قرضوں کی حد کو بھی دوگنا کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں ون دھن کیندر کھولے گئے ہیں تاکہ آدیباسی خواتین کا سکھی منڈل جنگلاتی پیداوار سے بہترین مصنوعات بنا سکے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پی ایم کسان سمان ندھی کسانوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔ انھوں نے کسانوں کے لیے کھادوں کے لیے پین انڈیا کامن برانڈ نام ’بھارت‘ کے اجرا کے بارے میں بھی بات کی جس نے کسانوں میں الجھن کو ختم کردیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کاشتکاروں کو یوریا کا تھیلا 260 روپے میں دستیاب کرا رہی ہے جبکہ بین الاقوامی قیمت 2000 روپے سے زائد ہے۔ اسی طرح انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بناس ڈیری کے اثرات اترپردیش، ہریانہ، راجستھان، اوڈیشہ، آندھرا پردیش اور جھارکھنڈ تک پھیل چکے ہیں۔ گوبردھن، بائیو فیول جیسی اسکیمیں مویشیوں کی افادیت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ڈیری سیکٹر کو مضبوط بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے ملک کی سلامتی میں بناسکانٹھا جیسے خطوں کے بڑھتے ہوئے کردار کا بھی ذکر کیا۔ دیسا میں ایئر فورس ہوائی اڈے اور نادابت میں ’سیما-درشن‘ خطے میں معیار زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ انھوں نے سرحدی ضلع میں این سی سی کی توسیع اور وائبرینٹ بارڈر ولیج پروگرام کے تحت سرحدی دیہاتوں پر خصوصی توجہ دینے کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ کَچھ کے زلزلہ متاثرین کی یاد میں اسمرتی وین کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے وزیر اعظم نے لوگوں اور بناس ڈیری انتظامیہ سے درخواست کی کہ وہ لوگوں کو میموریل کا دورہ کرنے کی ترغیب دیں۔ انھوں نے کہا، ’’ایسا ہر کام، جس سے ملک کا وقار بڑھتا ہے، گجرات کا وقار بڑھتا ہے، ڈبل انجن سرکار کا عزم ہے۔ ہماری طاقت سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے ساتھ ہے۔‘‘ اس موقع پر ممبران پارلیمنٹ جناب پربھات بھائی پٹیل، جناب بھرت سنگھ ظہبی اور جناب دنیش بھائی اناویدیا، گجرات حکومت کے وزیر جناب رشی کیش پٹیل، جناب جیتو بھائی چودھری، جناب کیرت سنگھ واگھیلا اور جناب گجیندر سنگھ پرمار بھی موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بناسکانٹھا میں تھراد کا دورہ کیا اور 8000 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ پانی کی فراہمی سے متعلق کئی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا، ان میں 1560 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے مرکزی نرمدا نہر سے کسرا تا دانتت واڑہ پائپ لائن بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ پانی کی فراہمی میں اضافہ کرے گا اور خطے کے کسانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم نے سجلام سپھلام کینال کو مضبوط بنانے، مودھیرا-موتی داو پائپ لائن کو مکتیشور ڈیم-کرماوت جھیل تک توسیع دینے اور سنتال پور تعلقہ کے 11 گاؤوں کے لیے لفٹ آبپاشی اسکیم سمیت کئی پروجیکٹوں کا بھی اعلان کیا۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুজৰাটৰ থৰাদ, বানাসকাণ্ঠাত ৮০০০ কোটি টকাৰো অধিক মূল্যৰ পৰিকল্পনাৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%84%DA%A9%D8%A7%D8%AA%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%88%DA%A9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%A7%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%95/,عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے کولکاتا کے جوکا میں واقع نیشنل سینٹر فار ڈرنکنگ واٹر، سینی ٹیشن اینڈ کوالٹی کا نام بدل کر ’ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نیشنل انسٹی ٹیوشن آف واٹر اینڈ سینی ٹیشن (ایس پی ایم- نواس)‘ کیے جانے کو بعد از افتتاح منظوری دی ہے۔ اس ادارہ کو کولکاتا، مغربی بنگال کے جوکا، ڈائمنڈ ہاربر روڈ پر 8.72 ایکڑ اراضی پر قائم کیا گیا ہے۔ اس ادارہ کا تصور تربیتی پروگراموں کے ذریعے صحت عامہ کی انجینئرنگ، پینے کا پانی اور صفائی کے شعبہ میں ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں صلاحیتیں تیار کرنے والے ایک اہم ادارہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ ان صلاحیتوں کا تصور نہ صرف سووچھ بھارت مشن اور جل جیون مشن کے نفاذ میں لگی صف اول کی افرادی قوت کے لیے کیا گیا ہے، بلکہ دیہی اور شہری دونوں سطحوں کے مقامی اداروں کے نمائندوں کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ اسی کے مطابق ٹریننگ انفراسٹرکچر، آر اینڈ ڈی بلاک اور ایک رہائشی احاطہ سمیت مناسب بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے۔ اس ادارہ میں تربیت کی سہولت کے لیے واٹر سینی ٹیشن اور ہائی جین (واش) ٹیکنالوجیوں کے عملی اور چھوٹے ماڈل بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی مغربی بنگال کے سب سے قابل سپوتوں میں سے ایک اور قومی اتحاد میں سر فہرست، صنعت کاری کے لیے حوصلہ کا باعث اور ایک مشہور دانشور اور ماہر تعلیم تھے۔ وہ کولکاتا یونیورسٹی کے سب سے کم عمر کے وائس چانسلر بھی تھے۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے نام پر اس ادارہ کا نام رکھا جانا تمام متعلقین کو حوصلہ فراہم کرے گا کہ وہ ڈاکٹر مکھرجی کی ایمانداری، اتحاد کی قدروں کو اپنائیں اور ادارہ کے کام کاج کو انجام دینے میں اخلاقیت کو اپناتے ہوئے انہیں حقیقی عزت بخشیں۔ دسمبر، 2022 میں وزیر اعظم کے ذریعے اس ادارہ کا افتتاح کیا گیا تھا۔,"কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাই কলকাতাৰ জোকাত থকা ৰাষ্ট্ৰীয় খোৱাপানী, স্বচ্ছতা আৰু মানদণ্ড কেন্দ্ৰৰ নাম সলাই ‘ডঃ শ্যামা প্ৰসাদ মুখাৰ্জী ৰাষ্ট্ৰীয় জল আৰু স্বচ্ছতা প্ৰতিষ্ঠান (এছপিএম-নিৱাস)’ কৰাক কাৰ্যোত্তৰ মঞ্জুৰী দিয়ে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-10%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%B12009%DA%A9%D9%88-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%88%D9%84%D9%85%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AC/,نئی دہلی،10؍ نومبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے 10 نومبر 2009 کو ہندوستان اور کولمبیا کے درمیان سرمایہ کاری کے تحفظ اور فروغ کیلئے دستخط شدہ معاہدےکے سلسلے میں آگے قدم بڑھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ تشریحی اعلانیہ پر دستخط کئے جانے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ تشریحی اعلانیے سے ہندوستان اور کولمبیا کے درمیان موجودہ معاہدے کی تشریح کرنے میں آسانی ہوئی، چونکہ اس کے اندر متعدد شق بشمول سرمایہ کاروں کی تعریف، سرمایہ کاری کی تعریف کیلئے اختیار کئے جانے والے تشریحی نوٹس شامل ہوں گے۔ علاوہ زیں شفافیت اور مساوات سے بھرپور معاہدے(ایف ای ٹی)، قومی معاہدے(این ٹی) اور سب سے زیادہ پسندیدہ ملکوں(ایم ایف این) جیسے امور بھی شامل ہوں گے۔ مشترکہ تشریحی اعلانیے/بیانات سے عموماً سرمایہ کاری معاہدے سے متعلق نظام کو مستحکم کرنے میں اہم تعاون فراہم ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین بڑھتے ہوئے دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدے(بی آئی ٹی)تنازعات میں اس طرح کے بیانات سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ثالثی کرنے والے ٹرائبیونل کے سامنے اس کی مضبوط قدر و قیمت ہوگی۔,ভাৰত আৰু কলম্বিয়াৰ মাজত বিনিয়োগৰ প্রসাৰ আৰু সুৰক্ষা সন্দৰ্ভত ২০০৯ৰ ১০ নৱেম্বৰত স্বাক্ষৰিত চুক্তিৰ যৌথ ঘোষণাপত্রৰ ব্যাখ্যাৰ প্রস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A6%9F-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%85%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گزشتہ کچھ روز کے دوران یوکرین کی صورتحا ل اور آپریشن گنگا سے متعلق پارلیمنٹ میں صحت مند بحث کی ستائش کی ۔ انہوں نے ان سبھی ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اپنے خیالا ت بحث کے دوران پیش کئے اور بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ خراب صورتحال میں ہم وطنوں کے تحفظ اور خیروعافیت کا خیال رکھا جائے ۔ سلسلہ وار ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا: گزشتہ کچھ روز سے پارلیمنٹ میں یوکرین کی صورتحال اور آپریشن گنگا کے ذریعہ بھارتی شہریوں کو واپس لانے کے بارے میں صحت مند بحث ہوئی ۔ میں ان سبھی ارکان پارلیمنٹ ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے خیالات اس بحث میں پیش کئے ۔ جب غیر ملکی پالیسی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو بحث کی اعلیٰ سطح اور تعمیری نقطہ نظر اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح ہم جانبدار نہیں ہیں ۔ اس طرح کی غیر جانبداریت دنیا میں بھارت کی امیج کو بڑھائے گی ۔ یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں کی حفاظت اور ان کی خیروعافیت کا پورا دھیان دیں اور حکومت ہند اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی کہ ہمارے لوگوں کو خراب صورتحال میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔,ইউক্ৰেইনৰ সংকট আৰু ‘অপাৰেশ্যন গংগা’ সন্দৰ্ভত সদনত সুস্থ আলোচনা অনুষ্ঠিত কৰাৰ বাবে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰশংসা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%85-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A7%D9%86%DA%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%B9%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A6%AE-%E0%A6%AA%E0%A7%8B%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,نئی دہلی،24؍اکتوبر،وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں ’’میں نہیں ہم‘‘ پورٹل اور ایپ کی شروعات کی۔ یہ پورٹل جو ’’سیلف 4 سوسائٹی‘‘ کے مرکزی خیال پر کام کرتا ہے۔ وہ آئی ٹی پیشہ وروں اور اداروں کو سماجی کاز کے تئیں اور سماج کی خدمات کے تئیں کوششوں کے لئے انہیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کے قابل بنائے گا۔ ایسا کرتے ہوئے پورٹل سے سماج کے کمزور طبقات کی خدمات کے تئیں عظیم اشتراک میں خصوصاً ٹیکنالوجی کے فوائد سے طاقت حاصل کرکے محرک کے طور پر مدد کرنے کی امید ہے۔اس سے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو ، جنہیں سماج کے مفاد میں کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے ،ان کی وسیع پیمانے پر شرکت متوقع ہے۔ آئی ٹی اور الیکٹرانک مینوفیکچرنگ پیشہ وران ، صنعت اور ٹیکنوکریٹس کے وسیع طبقات سے بات چیت کرتے ہوئے اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ لوگ دوسروں کے لئے اور سماج کی خدمت کرنا چاہتے ہیں جو مثبت فرق ظاہر کرتا ہے۔ وہ افراد جنہوں نے آج وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کی، ان میں جناب آنند مہندرا ، محترمہ سدھا مورتی اور ہندوستان کی بڑی آئی ٹی کمنپیوں سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان پیشہ ور شامل تھے۔ ہرایک کوشش ،خوا ہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی، کافی قیمتی ہوتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومتیں اسکیمیں بناتی ہیں اور بجٹ وضع کرتی ہیں لیکن کامیابی عوام کو شامل کرنے پرہی ملتی ہے۔ اب ہم سوچیں کہ ہم دوسروں کی زندگی میں مثبت فرق لانے کے لئے اپنی توانائی کا کس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ وہ بھارت کے نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی طاقت کے بخوبی استعمال کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف اپنے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کررہے ہیں ، بلکہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے اسے ایک حیرت انگیز علامت سے تعبیر کیا۔یہ کہتے ہوئے کہ سماجی شعبے میں بہت زیادہ اسٹارٹ اپ ہیں، وزیر اعظم نے نوجوان سماجی صنعت کاروں کے لئے بھی اپنی نیک خواہشات ظاہر کیں۔ ٹاؤن ہال طرز کی ملاقات میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اپنے کمفرٹ ژون سے باہر نکلنا ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکھنے کے لئے اور دریافت کرنے کے لئے بہت ساری چیزیں ہیں۔ آئی ٹی پیشہ وروں نے سماجی والنٹیرنگ خصوصی طور پر ہنرمندی اور صفائی ستھرائی کی سمت میں اپنی کوششوں کی وضاحت کی۔ ایک مشاہدے کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ سووچھ بھارت مشن کی علامت، باپو کی عینک اور باپو کی ترغیب ہے اور ہم باپو کے ویژن کی تکمیل کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بہت سارے مواقع پر جو کام ‘‘سرکار نہیں کرسکتی ہے، وہ کام ‘‘سسنکار’’ کرسکتے ہیں۔’’ انہوں نے کہا کہ آئیے ہم صفائی ستھرائی کو اپنے نظام کا ایک جزو بنائیں۔ پانی کے تحفظ کی اہمیت پر بولتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پانی کے تحفظ کے بارے میں جاننے کے لئے لوگوں کو گجرات کے پوربندر کا دورہ کرنا چاہئے اور مہاتما گاندھی کا گھر دیکھنا چاہئے۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہمیں پانی کا تحفظ کرنے اور اسے ری سائیکل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا میں اپنے محنتی کسانوں سے اپیل کرتاہوں کہ وہ چھڑکاؤوالی آبپاشی کو اپنائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ رضاکارانہ کوششوں کے ذریعے زرعی شعبے میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بہت سے لوگ اس لئے ٹیکس دے رہے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کے پیسوں کا مناسب طور پر استعمال لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان، اپنے نوجوانوں کے ہنر کی وجہ سے اسٹارٹ اپ شعبے میں اپنی پہچان بنارہاہے۔ ایک ٹیم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دیہی ڈیجیٹل صنعت ساز کی تخلیق کے لئے کام کرتے ہوئے یہ بہت اہم ہے کہ ایک ایسے بھارت کی تشکیل کی جائے جہاں ہر ایک کے لئے یکساں مواقع ہوں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سماجی کام کرنا ہر ایک کے لئے فخر کا باعث ہونا چاہئے۔ تجارت اور صنعت کے تنقید کے رجحان سے اسے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس ٹاؤن ہال پروگرام نے واضح کردیا ہے کہ کس طرح اہم کارپوریٹس سماجی کام میں اپنی بہترین کارکردگی کررہے ہیں اور اپنے ملازمین کو بھی لوگوں کی خدمت کے لئے آمادہ کررہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-ش س،ن ا- ق ر، ن ر),‘ম্যে নহী হম’ পোর্টেল আৰু এপ উদ্বোধন উপলক্ষে তথ্যপ্ৰযুক্তি তথা বৈদ্যুতিক সা-সামগ্ৰী নির্মাণৰ সৈতে জড়িত বৃত্তিধাৰীসকলৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%D8%B1%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%9B/,نئی دہلی،20اپریل؍2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ماریشش کے وزیر اعظم جناب پروند کمار جگناتھ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔دونوں رہنماؤں کے درمیان وزیر اعظم مودی کے گجرات کے دورے کے دوران اکثر موقعوں پر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا: ’’وزیر اعظم کمار جگناتھ کے ساتھ تبادلہ خیال تعمیری رہا ۔ہم نے ہندوستان اور ماریشش کے درمیان بہت سے شعبوں میں دو طرفہ تعاون میں مزید اضافہ کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মৰিচাছৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে আলোচনাত মিলিত হ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%81%D8%B1%DB%8C%D8%AF-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D8%8C-%DB%81%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D9%86%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%BE%D8%AA%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AB%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A7%83/,"امرتا اسپتال کی شکل میں ہم سبھی کو آشیرواد دے رہیں ماں امرتانند مئی جی کو میں پرنام کرتا ہوں۔ سوامی امرتا سوروپ پوری جی، ہریانہ کے گورنر جناب بنڈارو دتاتریہ جی، وزیر اعلیٰ جناب منوہر لال کھٹر جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی کرشن پال جی، ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ جناب دُشینت چوٹالہ جی، دیگر شخصیات، خواتین و حضرات، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک نے ایک نئی توانائی کے ساتھ آزادی کے امرت کال میں قدم رکھا ہے۔ ہمارے اس امرت کال میں ملک کی مشترکہ کوششیں نمایاں ہو رہی ہیں، ملک کے مشترکہ خیالات بیدار ہو رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ امرت کال کی اس پہلی گھڑی میں ماں امرتانند مئی کے آشیرواد کا امرت بھی م��ک کو مل رہا ہے۔ امرتا اسپتال کی شکل میں فرید آباد میں آروگیہ کا اتنا بڑا ادارہ مشہور ہو رہا ہے۔ یہ اسپتال بلڈنگ کے حساب سے، ٹیکنالوجی سے، جتنا ماڈرن ہے خدمت، آگہی اور روحانی شعور کے حساب سے اتنا ہی شاندار ہے۔ جدیدیت اور روحانیت اس کا یہ انضمام غریب اور متوسط طبقہ کے کنبوں کی خدمت کا، ان کے لیے آسان اور مؤثر علاج کا ذریعہ بنے گا۔ میں اس بہترین کام کے لیے، خدمت کے اس بڑے مہایگیہ کے لیے پوجیہ امّاں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ स्नेहत्तिन्डे, कारुण्यत्तिन्डे, सेवनत्तिन्डे, त्यागत्तिन्डे, पर्यायमाण अम्मा। माता अमृतानंन्दमयी देवी, भारत्तिन्डे महत्ताय, आध्यात्मिक पारंपर्यत्तिन्डे, नेरवकाशियाण। हमारे यहां कहा गया है – अयं निजः परो वेति गणना, लघुचेतसाम्। उदारचरितानां तु वसुधैव कुटुम्बकम्॥ एन्न महा उपनिषद आशयमाण, अम्मयुडे, जीविता संदेशम। یعنی، اماں، محبت، رحم، خدمت اور قربانی کی علامت ہیں۔ وہ بھارت کی مذہبی روایت کی علم بردار ہیں۔ اماں کی زندگی کا پیغام ہمیں مہا اپنشدوں میں ملتا ہے۔ میں مٹھ سے جڑے سنتوں کو، ٹرسٹ سے جڑے تمام افراد کو، سبھی ڈاکٹروں اور دوسرے ملازمین حضرات کو بھی آج اس مقدس موقع پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، ہم بار بار سنتے آئے ہیں ’’نہ توہم کامیے راجیم، نہ چہ سورگ سوکھانی۔ کامیے دکھ تپتانام، پرانی نام آرتی ناشنم‘‘۔ یعنی، نہ ہمیں ریاست کی طلب ہے، نہ سورگ (بہشت) کے آرام کی خواہش ہے۔ ہماری تمنا ہے کہ ہمیں بس پریشان حال کا، مریضوں کا درد دور کرنے کا موقع ملتا رہے۔ جس معاشرہ کی سوچ ایسی ہو، جس کا اخلاق ایسا ہو، وہاں خدمت اور طب سماج کا شعور ہی بن جاتا ہے۔ اسی لیے، بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں علاج ایک خدمت ہے، آروگیہ ایک نعمت ہے۔ جہاں آروگیہ روحانیت، دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں آیور وگیان ایک وید ہے۔ ہم نے ہماری میڈیکل سائنس کو بھی آیوروید کا نام دیا ہے۔ ہم نے آیوروید کے سب سے عظیم دانشوروں کو، سب سے عظیم سائنس دانوں کو رشی اور مہرشی کا درجہ دیا، ان میں اپنے اٹوٹ عقیدہ کا اظہار کیا۔ مہرشی چرک، مہرشی سوشرت، مہرشی واگ بھٹ! ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں، جن کا علم اور مقام آج ہندوستانیوں کے ذہن میں امر ہو چکا ہے۔ بھائیو اور بہنو، بھارت نے اپنے اس اخلاق اور سوچ کو صدیوں کی غلامی اور سیاہی میں بھی کہیں کبھی گم نہیں ہونے دیا، اسے سنبھال کر رکھا۔ آج ملک میں ہماری وہ روحانی صلاحیت ایک بار پھر مضبوط ہو رہی ہے۔ ہمارے اصولوں کی توانائی کو ایک بار پھر تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ پوجیہ اماں بھارت کے اس نشاۃ الثانیہ کے ایک اہم علم بردار کے طور پر دیش اور دنیا تجربہ کر رہا ہے۔ ان کے عزم و ارادہ، خدمت کے اتنے عظیم اداروں کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہیں۔ سماجی زندگی سے جڑے ایسے جتنے بھی شعبے ہیں، پوجیہ اماں کی الفت، ان کی مہربانی ہمیں ہر جگہ دکھائی پڑتی ہے۔ ان کا مٹھ آج ہزاروں بچوں کو اسکالرشپ دے رہا ہے، لاکھوں خواتین کو سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعے با اختیار بنا رہا ہے۔ آپ نے سووچھ بھارت ابھیان میں بھی ملک کے لیے بیش قیمتی تعاون دیا ہے۔ سووچھ بھارت فنڈ میں آپ کے ذریعے دیے گئے بیش قیمتی تعاون کی وجہ سے، گنگا کنارے آباد کچھ علاقوں میں کافی کام ہوا۔ اس سے نمامی گنگے ابھیان کو بھی ک��فی مدد ملی۔ پوجیہ اماں ان کے تئیں پوری دنیا کا عقیدہ ہے۔ لیکن میں ایک خوش قسمت آدمی ہوں۔ گزشتہ کتنی ہی دہائیوں سے پوجیہ اماں کاپیار، پوجیہ اماں کا آشیرواد مجھے لگاتار ملتا رہا ہے۔ میں نے ان کے سادہ من اور مادر وطن کے تئیں وسیع وژن کو محسوس کیا ہے۔ اور اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس ملک میں ایسا وسیع القلب اور روحانی اقتدار ہو، اس کی ترقی اور عروج یقینی ہے۔ ساتھیو، ہمارے مذہبی اور سماجی اداروں کے ذریعے تعلیم و طب سے جڑی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا یہ نظام ایک طرح سے پرانے زمانے کا پی پی پی ماڈل ہی ہے۔ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ تو کہتے ہی ہیں لیکن میں اسے ’پرسپر پریاس‘ (مسلسل کوشش) کے طور پر بھی دیکھتا ہوں۔ ریاستیں اپنی سطح سے نظام کھڑا کرتی تھیں، بڑی بڑی یونیورسٹیوں کی تعمیر میں رول نبھاتی تھیں۔ لیکن ساتھ ہی مذہبی ادارے بھی اس کا ایک اہم مرکز ہوتے تھے۔ آپ ملک بھی یہ کوشش کر رہا ہے کہ حکومتیں پوری ایمانداری سے مشن موڈ میں ملک کی صحت اور تعلیمی شعبے کی تشکیل نو کریں۔ اس کے لیے سماجی اداروں کو بھی ترغیب دی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ پارٹنرشپ کرکے مؤثر پی پی پی ماڈل تیار ہو رہا ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے اپیل کرتا ہوں، امرتا ہاسپیٹل کا یہ عزم ملک کے دوسرے تمام اداروں کے لیے ایک رہنما اصول بنے گا، آئیڈیل بن کر ابھرے گا۔ ہمارے کئی دوسرے مذہبی ادارے، اس طرح کے انسٹی ٹیوٹ بھی چلا رہے ہیں، کئی محاذ پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے پرائیویٹ سیکٹر، پی پی پی ماڈل کے ساتھ ساتھ اسپریچوئل پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بھی آگے بڑھا سکتے ہیں، ایسے اداروں کو وسائل مہیا کرا کر ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ساتھیو، سماج کے ہر طبقہ، ہر ادارہ، ہر سیکٹر کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے، یہ ہم نے کورونا کے اس دور میں بھی دیکھا ہے۔ اس میں بھی جو اسپریچوئل پرائیویٹ پارٹنرشپ رہی ہے، آج اس کا میں خاص طور سے ذکر کروں گا۔ آپ سبھی کو یاد ہوگا کہ جب بھارت نے اپنی ویکسین بنائی تھی، تو کچھ لوگوں نے کس طرح کا پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے سماج میں کئی طرح کی افواہیں پھیلنے لگیں۔ لیکن جب سماج کے مذہبی رہنما، روحانی پیشوا ایک ساتھ آئے، انہوں نے لوگوں کو افواہوں پر دھیان نہ دینے کو کہا، اور اس کا فوراً اثر بھی ہوا۔ بھارت کو اس طرح کی ویکسین ہیزیٹینسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جیسا دیگر ملکوں کو دیکھنے کو ملا۔ آج سب کی کوشش کا یہی جذبہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام کامیابی سے چلا پایا ہے۔ ساتھیو، اس بار لال قلعہ سے میں نے امرت کال کے ’پنچ پرانوں‘ (پانچ عہد) کا ایک وژن ملک کے سامنے رکھا ہے۔ ان ’پنچ پرانوں‘ میں سے ایک ہے- غلامی کی ذہنیت کو پوری طرح سے ترک کرنا۔ اس کی اس وقت ملک میں خوب چرچہ بھی ہو رہی ہے۔ اس ذہنیت کو جب ہم ترک کرتے ہیں، تو ہمارے کاموں کی سمت بھی بدل جاتی ہے۔ یہی تبدیلی آج ملک کے ہیلتھ کیئر سیکٹر میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اب ہم اپنے روایتی علم اور تجربات پر بھی بھروسہ کر رہے ہیں، ان کا فائدہ دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ ہمارا آیوروید، ہمارا یوگ آج ایک قابل اعتبار طریقہ علاج بن چکا ہے۔ بھارت کی اس تجویز پر اگلے سال پوری دنیا ’انٹرنیشنل ملیٹ اِیئر‘ منانے جا رہی ہے۔ موٹا دھان۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ سبھی اس مہم کو بھی کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہیں، اپنی توانائی دیتے رہیں۔ ساتھیو، صحت سے جڑی خدمات کا دائرہ صرف اسپتالوں، دواؤں، ا��ر علاج تک ہی محدود نہیں ہوتا ہے۔ سروس سے جڑے ایسے کئی کام ہوتے ہیں، جو صحت مند سماج کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، صاف و شفاف پانی تک عام سے عام شہری کی رسائی، یہ بھی ایسا ہی اہم موضوع ہے۔ ہمارے ملک میں کتنی ہی بیماریاں صرف آلودہ پانی سے ہی پیدا ہوتی رہی ہیں۔ اسی لیے ملک نے 3 سال پہلے ’جل جیون مشن‘ جیسی ملک گیر مہم کی شروعات کی تھی۔ ان تین سالوں میں ملک کے 7 کروڑ نئے دیہی کنبوں کو پائپ سے پانی پہنچایا جا چکا ہے۔ خاص طور سے، اس مہم میں ہریانہ حکومت نے بھی مؤثر طریقے سے کام کیا ہے۔ میں اس کا بھی خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہریانہ آج ملک کی ان سرفہرست ریاستوں میں ہے، جہاں گھر گھر پائپ سے پانی کی سہولت سے جڑ چکا ہے۔ اسی طرح، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ میں بھی ہریانہ کے لوگوں نے بہترین کام کیا ہے۔ فٹنس اور کھیل یہ موضوعات تو ہریانہ کی رگوں میں ہیں، ہریانہ کی مٹی میں ہے، یہاں کی اخلاقیات میں ہیں۔ اور تبھی تو یہاں کے نوجوان کھیل کے میدان میں ترنگے کی شان بڑھا رہے ہیں۔ اسی رفتار سے ہمیں ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی کم وقت میں بڑے نتائج حاصل کرنے ہیں۔ ہماری سماجی تنظیمیں اس میں بہت بڑا تعاون دے سکتی ہیں۔ ساتھیو، صحیح ترقی ہوتی ہی وہ ہے جو سبھی تک پہنچے، جس سے سب کو فائدہ ہو۔ خطرناک بیماری کے علاج کو سب کے لیے آسان کرنے کا یہ جذبہ امرتا اسپتال کا بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خدمت کے جذبہ کا آپ کا یہ امرت عزم ہریانہ کے، دہلی این سی آر کے لاکھوں خاندانوں کو آیوشمان بنائے گا۔ ایک بار پھر پوجیہ اماں کے شری چرنوں میں پرنام کرتے ہوئے آپ سبھی کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے بے شمار مبارکباد، بہت بہت شکریہ!",হাৰিয়ানাৰ ফৰিদাবাদৰ অমৃতা চিকিৎসালয়ৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পূৰ্ণ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%86%D8%B3%DA%A9%D8%B1%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%DA%A9%D9%B9-%DA%A9%D9%85%D9%86%D9%B9%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سنسکرت میں کرکٹ کمنٹری پیش کرنے کے لیے شہریوں کی کوششوں کی ستائش کی ہے۔ انہوں نے اپنے من کی بات کا وہ کلپ بھی شیئر کیا جس میں انہوں نے کاشی میں ایسی ہی ایک کوشش کا ذکر کیا تھا۔ ایک شہری کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’یہ دیکھ کر خوشی ہوئی…. ایسی کوشش کرنے والوں کو مبارکباد۔ پچھلے سال ایک من کی بات (#MannKiBaat ) پروگراموں کے دوران میں نے کاشی میں ایسی ہی ایک کوشش کا ذکر کیا تھا، اسے بھی شیئر کررہا ہوں ۔ https://t.co/bEmz0” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,সংস্কৃতত ক্ৰিকেট ধাৰাভাষ্য প্ৰদানৰ প্ৰচেষ্টাৰ শলাগ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ، گذشتہ روز اُن ہی کے ذریعہ شروع کی گئیں ترقیاتی پہل قدمیوں پر عوام کے ذریعہ ٹوئیٹر پر کی گئی ستائش پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے گذشتہ روز ایٹانگر میں دونی پولو ہوائی اڈے کا افتتاح کیا اور 600 میگا واٹ کے حامل کاکمینگ پن بجلی اسٹیشن کو قوم کے نام وقف کیا تھا۔ شمال مشرق میں فضائی کنکٹیویٹی میں ہوئے زبردست اضافہ کو لے ایک تبصرے کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا ’’ہاں، جہاں تک شمال مشرق میں کنکٹیویٹی کی بات ہے ، تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس کی بدولت مزید سیاحوں کو یہاں کا دورہ کرنے اور شمال مشرقی خطے کے عوام کو ملک کے دیگر حصوں کے لیے سفر کرنے میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔‘‘ جب ایک شہری نے ریاست کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کی عہد بندگی کو اجاگر کیا، تو جناب مودی نے جواب دیا ’’اروناچل پردیش کے عوام غیر معمولی ہیں۔ ان کا جذبۂ حب الوطنی غیر متزلزل ہے۔ عظیم ریاست اروناچل پردیش کے لیے کام کرنا اور اسے اس کی حقیقی قوت کو پہچاننے میں مدد فراہم کرنا باعث اعزاز ہے ۔‘‘,মহান ৰাজ্য অৰুণাচল প্ৰদেশৰ বাবে কাম কৰি আৰু ইয়াৰ প্ৰকৃত সম্ভাৱনাক বাস্তৱায়িত কৰাত সহায় কৰাটো এক গৌৰৱৰ কথা: প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%88-2022-%D8%AD%D8%A7%D8%B5%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%AA%D8%B0%DB%81-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AC/,نئی دہلی ، 05 ستمبر، 2022 مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی دھرمیندر جی، اناپورنا دیوی جی اور ملک بھر سے آئے ہوئے میرے تمام اساتذہ ساتھی اور آپ کے توسط سے ایک طرح سے میں، آج ملک کے تمام اساتذہ سے بھی بات چیت کر رہا ہوں۔ آج ملک ہندوستان کے سابق صدر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رادھا کرشنن جی کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کر رہا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے موجودہ صدر بھی ایک استاد ہیں۔ اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں انہوں نے ایک استاد کے طور پر کام کیا اور وہ بھی دور افتادہ اڑیسہ کے اندرونی علاقے میں اور وہاں سے ان کی زندگی کئی لحاظ سے ہمارے لیے ایک خوشگوار اتفاق ہے اور آپ کی ایک ایسے استاد صدر جمہوریہ کے ہاتھوں عزت و تکریم نصیب ہوئی۔ تو یہ آپ کے لیے فخر کی بات ہے۔ دیکھئے، آج جب ملک نے آزادی کے امرت کال کے اپنے عظیم خوابوں کو پورا کرنا شروع کر دیا ہے، تب تعلیم کے میدان میں رادھا کرشنن کی کوششیں ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ اس موقع پر میں آپ سبھی اساتذہ کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے قومی ایوارڈ حاصل کیے ہیں، ایسے ایوارڈ ریاستوں میں بھی دیئے جاتے ہیں، ان سب کو بھی میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، ابھی مجھے بہت سے اساتذہ سے بات چیت کا موقع ملا۔ ہر کوئی مختلف زبانیں بولتا ہے، الگ الگ طرح کا تجربہ کرنے والے لوگ ہیں ۔زبان مختلف ہوگی، خطہ مختلف ہوگا، مسائل مختلف ہوں گے، لیکن یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان ، آپ خواہ کچھ بھی ہوں، آپ سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے آپ کا کام، آپ کا اپنے طلباء کے لیے وقف رہنا۔ اور یہ مماثلت آپ میں ہے، سب سے بڑی بات جو اندر سے ہوتی ہے اور آپ نے دیکھی ہی ہوگی، جو ایک کامیاب استاد رہا ہوگا، وہ کبھی بچے کو یہ نہیں کہتا کہ یہ تمہارے بس کا روگ نہیں، نہیں کہتا۔ استاد کی جو سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ، وہ ا س کی پازیٹیوٹی ہوتی ہے،یعنی مثبتیت ہے۔ پڑھ لکھنے میں بچہ خواہ کتنا ہی کمزور ہو … ارے کرو بیٹے ہو جائے گا۔ ارے دیکھو اس نے کر دیا، تم بھی کرو، ہو جائے گا۔ یعنی آ�� نے دیکھا کہ وہ اس سے واقف بھی نہیں ہے لیکن یہ استاد کی خوبیوں میں ہے۔ وہ ہر بار مثبت ہی بولے گا، منفی تبصرے کر کے کسی کو مایوس کرنا اس کی فطرت میں نہیں ہے۔ اور یہ ایک استاد کا کردار ہے جو انسان کو روشنی دکھانے کا کام کرتا ہے۔ وہ خواب بوتا ہے، جو استاد ہے نہ، وہ ہر بچے میں خواب بوتا ہے اور انہیں عزم میں بدلنے کی تربیت دیتا ہے، کہ دیکھو یہ خواب پورا ہو سکتا ہے، ایک بار عزم کرو، لگ جاؤ ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچہ خوابوں کو عزم میں تبدیل کردیتا ہے اور استاد کے دکھائے ہوئے راستے کو ثابت کردیتا ہے۔ یعنی خواب سے تکمیل تک کا یہ سارا سفر اسی روشنی کی شعاع سے ہوتا ہے، جو ایک استاد نے اس کی زندگی میں ایک خواب بویا تھا، ایک چراغ جلایا تھا۔ جو بہت سے چیلنجوں اور اندھیروں کے درمیان بھی اسے راستہ دکھاتا ہے۔ اور اب ملک بھی نئے نئے خواب، نئی عہد لے کر ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے آج جو نسل ہے، جو طالب علمی کے دور میں ہے، 2047 میں ہندوستان کیسا بنے گا، اس کا فیصلہ انہیں ہی کرنا ہے۔ اور ان کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2047 کو ملک کی تعمیر کا کام، آج جو موجودہ وقت میں اساتذہ ہیں، جو آنے والے 10 سال، 20 سال خدمات دینے والے ہیں،ان کے ہاتھ میں 2047 کا مستقبل طے کرنے کی کلید ہے۔ اور اسی لیے ایک اسکول میں آپ نوکری کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپ کلاس روم میں بچوں کو پڑھاتے ہیں، ایسا نہیں ہے، آپ ایک نصاب کو اٹینڈ کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ آپ ان کے ساتھ جڑ کر کے ان کی زندگی بنانے کا کام اور ان کی زندگی کے توسط سے ملک کی تعمیر کا خواب لے کر چلتے ہیں۔ جس استاد کا اپنا ایک چھوٹا سا خواب ہوتا ہے، اس کے ذہن میں 10 سے 5 ہی بھرے ہوتے ہیں، آج چار پیریڈ لینے ہیں، وہی رہتا ہے۔ تو وہ، اس کے لیے تنخواہ لیتا ہے، ایک تاریخ کا انتظار کرتا ہے، لیکن اس کو لطف نہیں آتا، وہ ان چیزوں کو بوجھ سمجھتا ہے۔ لیکن جب وہ اسکے خوابوں سے جڑ جاتا ہے تو پھر اسے کوئی چیز بوجھ نہیں لگتی۔ وہ سوچتا ہے ارے! اپنے اس کام سے میں ملک کے لیے اتنا بڑا حصہ ڈالوں گا۔ اگر میں کھیل کے میدان میں کسی کھلاڑی کو تیار کرتا ہوں اور میں خواب دیکھوں کہ کبھی نہ کبھی میں اسے دنیا میں کہیں ترنگے جھنڈے کے سامنے کھڑا دیکھنا چاہتا ہوں… آپ تصور کر سکتے ہیں، آپ اس کام سے کس قدر لطف اندوز ہوں گے۔ آپ کو رات رات بھر جاگنے میں کتنا مزہ آئے گا؟ اور اسی لیے ٹیچر کے ذہن میں صرف وہ کلاس روم ہوتا ہے، اسے اپنا پیریڈ لینا پڑتا ہے، چار، پانچ، وہ آج آیا نہیں ہے، تو مجھے اس کے بدلے جانا پڑرہا ہے، اسے اس سارے بوجھ سے آزاد کر کے… میں آپ کی مشکلات جانتا ہوں، اسی لیے بول رہا ہوں… اس بوجھ سے چھٹکارا پا کر، اگر ہم ان بچوں کے ساتھ، ان کی زندگیوں کے ساتھ جڑجاتے ہیں ۔ دوسرا، بالآخر ہم نے بچے کو پڑھانا ہے، علم تو دینا ہے، لیکن ہمیں اس کی زندگی بنانی ہے۔ لیکن زندگی تنہائی میں نہیں بنتی، اگر وہ کلاس روم میں کسی کو دیکھتا ہے، اسکول کے احاطے میں کچھ اور دیکھتا ہے، گھر کے ماحول میں کچھ اور دیکھتا ہے تو بچہ تنازعات اور تضادات میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ماں یہ کہہ رہی تھی اور ٹیچر یہ کہہ رہی تھی اور کلاس کے باقی لوگ بھی یہی کہہ رہے تھے۔ اس بچے کو مخمصے کی زندگی سے نکالنا ہمارا کام ہے۔ لیکن اس کے پاس کوئی انجکشن نہیں ہے، کہ چلو آج یہ انجکشن لے لو، آپ مخمصے سے باہر ۔ ٹیکہ لگادو، مخمصے سے باہر، ایسا تو نہیں ہے۔ اور اس کے لیے استاد کا مربوط انداز اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ کتنے اساتذہ ہیں، جو طلبا کے اہل خانہ کو جانتے ہیں، کبھی گھر والوں سے ملے ہیں، کبھی ان سے پوچھا ہے کہ گھر آکر بچہ کیا کرتا ہے ، کیسے کرتا ہے ، آپ کو کیا لگتا ہے ؟ اور کبھی یہ بتایا کہ دیکھو بھائی تمہارا بچہ میری کلاس میں آتا ہے، اس میں یہ بڑی صفت ہے۔ گھر میں بھی تھوڑا سا دیکھ لیں تو بات بہت آگے نکل جائے گی۔ میں تو ہوں ہی ، میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا، لیکن آپ میری تھوڑی بہت مدد کریں۔ تو ان لوگوں کے اندر بھی آپ ایک خواب بوکرآ جاتے ہیں اور وہ آپ کے ہم سفر بن جاتے ہیں۔ پھر گھربھی اپنے آپ میں اسکولی تہذیب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جو خواب آپ کلاس روم میں بوتے ہیں، وہ خواب اسی گھر کے اندر پھولواری بن کر کھلنے لگتے ہیں۔ اور اسی لئے ہماری کوشش کیا ہے، اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ کوئی طالب علم آپ کو بہت پریشان کرتا ہے، یہ ایسا ہی ہے ، وقت خراب کرتا ہے، جب آپ کلاس میں آتے ہیں تو پہلی نظر وہیں جاتی ہے، پھر آپ کا آدھا دماغ وہاں خراب ہوجاتا ہے۔ میں آپ کے اندر سے بول رہا ہوں۔ اور وہ بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ صرف پہلی بینچ پر ہی بیٹھے گا، اس کو بھی لگتا ہے کہ اگر یہ استاد مجھے پسند نہیں تو وہ پہلے سامنے آئے گا۔ اور یہ آپ کا آدھا وقت کھا جاتا ہے۔ ایسے میں ان دوسرے بچوں کے ساتھ ناانصافی ہو جائے… کیا وجہ ہے، میری پسند اور ناپسند؟ ایک کامیاب استاد وہ ہوتا ہے جسے بچوں کے حوالے سے، طالب علموں کے حوالے سے نہ کوئی پسند ہو نہ کوئی ناپسند ہو۔ اس کے لیے وہ سب برابر ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے اساتذہ کو دیکھا ہے جن کے اپنے بچے اسی کلاس روم میں ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اساتذہ بھی کلاس میں اپنے بچوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو وہ تمام طلبا کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر چار لوگوں سے پوچھنا ہو، جب اس کی باری آتی ہے، تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے، اسے کبھی خاص نہیں کہتا کہ تم یہ بتاؤ، تم یہ کرو، کبھی نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ایک اچھی ماں کی ضرورت ہے، ایک اچھے باپ کی ضرورت ہے، لیکن ایک اچھے استاد کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے ان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ گھر میں والدین کا کردار ادا کروں، لیکن کلاس میں مجھے استاد اور طالب علم کا رشتہ برقرار رکھنا چاہیے، وہ خاندانی رشتہ یہاں نہیں آنا چاہیے۔ یہ استاد کی بہت بڑی قربانی ہوتی ہے، تب ہی یہ ممکن ہے۔ اپنا خیال رکھنا اور اس طرح کام کرنا،اسی صورت یہ ممکن ہے۔ اور اس لئے ہمارے یہاں جو تعلیمی نظام ہے، ہندوستان کی جو روایت رہی ہے وہ کبھی کتابوں تک محدود نہیں رہی، کبھی نہیں رہی۔ وہ تو ایک طرح سے ہمارے لیے ایک سہارا ہے۔ ہم بہت سی چیزیں کرتے ہیں… اور آج ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ بہت ممکن ہو گیا ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے گاؤں کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد، جنہوں نے خود ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن کرتے کرتے وہ سیکھ گئے ۔ اور انہوں نے بھی سوچا کہ بھائی چونکہ اس کا ذہن طالب علم سے بھرا ہوا ہے، اس کا ذہن نصاب سے بھرا ہوا ہے، اس لیے وہ ایسی چیزیں تیار کرتا ہے، جو اس بچے کے لیے مفید ہوں۔ یہاں حکومت میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں کیا ہے، اعداد و شمار باقی ہیں کہ کتنے اساتذہ کی بھرتی ہونا باقی ہے، کتنے طلبا تعلیم چھوڑ چکے ہیں، لڑکیوں کا داخلہ ہوا یا نہیں، یہ ان کے ذہن میں رہتا ہے، لیکن استاد کے دماغ میں اس کی زندگی رہتی ہے… یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اور اسی لئے اگر استاد ان تمام ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے اٹھالیتا ہے۔ اب ہماری جوقومی ت��لیمی پالیسی آ گئی ہے، اس کی اتنی تعریف ہو رہی ہے، اتنی تعریف ہورہی ہے، تو کیوں ہورہی ہے ، اس میں کچھ خامیاں نہیں ہوں گی ، میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا، کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن لوگوں کے ذہن میں جو تھا، وہ سوچتے تھے، یار یہ کوئی راستہ دکھا رہا ہے، کسی ایک صحیح سمت میں جا رہا ہے۔ چلو اسی راستے پر چلتے ہیں۔ ہم اپنی پرانی عادتوں میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی کو ایک بار پڑھنے سننے سے بات بننے والی نہیں ہے۔ مہاتما گاندھی جی سے ایک بار کسی نے پوچھا تھاکہ بھائی اگر آپ کے ذہن میں کوئی شک ہے ، کوئی پریشانی ہو تو آپ کیا کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بھگوت گیتا سے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس کا مطلب وہ باربار اس کو پڑھتے ہیں، بار بار اس کے معنی بدلتے رہتے ہیں، بار بار نئے معنی نظر آتے ہیں، بار بار ایک روشنی کی ایک نئی کرن ان کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہ قومی تعلیمی پالیسی بھی، جب تک تعلیم کی دنیا کے لوگ اس سے ہر مسئلے کا حل نہ نکالیں ، اس میں کیا ہے دس بار پڑھیں، 12 بار پڑھیں، 15 بار پڑھیں،کہ اس میں حل کیا ہے۔ ہم اسے اسی طرح دیکھیں گے۔ ایک بار آ گیا تو سرکلر دیکھ لیں، ویسے دیکھا تو نہیں ہو گا۔اس کو ہمیں اپنی رگوں میں، اپنے دماغ میں اتارنا ہے۔ اگر یہ کوشش کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ قومی قومی تعلیمی پالیسی بنانے میں ہمارے ملک کے اساتذہ نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس کو تیارکرنے میں لاکھوں اساتذہ نے اپنا تعاون دیا ہے۔ ملک میں پہلی بار اتنے وسیع پیمانے پر غوروخوض کا کام ہوا ہے۔ یہ ان اساتذہ کا کام ہے جنہوں نے اسے بنایا ہے کہ سرکاری زبان وغیرہ بچوں کے لیے مفید نہیں، آپ کو ذریعہ بننا ہوگا کہ یہ سرکاری دستاویزات ہیں، وہ ان کی زندگی کی بنیاد کیسے بنیں۔ مجھے اس کا ترجمہ کرنا ہے، مجھے اسے ایک سادہ، آسان طریقے سے سمجھانا ہے، یہاں تک کہ اسے فل اسٹاپ رکھتے ہوئے، کوما کے ساتھ۔ اور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جیسے کچھ تھیٹر کے تجربات ہوتے ہیں، کچھ مضمون نویسی کے ہوتے ہیں، کچھ شخصیت سازی کے مقابلے ہوتے ہیں، بچوں کو قومی تعلیمی پالیسی پر بحث کرنی چاہیے۔ کیونکہ استاد انہیں تیار کرے گا، جب وہ بولیں گے تو کچھ نئی چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔ تو یہ ایک کوشش ضرور کی جانی چاہئے۔ آپ جانتے ہیں کہ ابھی میں نے15 اگست کو آزادی کے 75 سال کے موقع پر جو تقریر کی تھی، تو اس کا اپنا ایک الگ مزاج بھی تھا۔ تو میں نے 2047 کو ذہن میں رکھ کر بات کی تھی۔ اور اس میں میں نے زور دیا کہ پانچ عہد پربحث کی جائے۔ کیا ان پانچ عہد پر ہمارے کلاس روم میں بحث کی جا سکتی ہے؟ اسمبلی جب ہوتی ہے ، چلئے بھائی آج فلاں طالب علم اور فلاں استاد پہلے عہد پر بولیں گے، منگل کو دوسرے عہد پر ، بدھ کو تیسرے عہد پر ، جمعہ کو پانچویں عہدپر اور پھر اگلے ہفتے پہلے عہد پر ، فلاں استاد، فلاں استاد۔ یعنی سال بھر اس کا مطلب کیا ہے، ہمیں کیا کرنا ہے، یہ پانچ عہد ہمارے لئے بھی پانچ عناصر ہونے چاہئیں ، ہرشہری کے لئے ہونا چاہئے ۔ اس طرح اگر ہم کر سکتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعریف ہو رہی ہے، سب کہہ رہے ہیں کہ ہاں بھائی، یہ پانچ عہد ایسے ہیں جو ہمارے آگے بڑھنے کا راستہ بناتے ہیں۔ تو یہ پانچ عہد ان بچوں تک کیسے پہنچیں، ان کی زندگی میں کیسے آئیں ، ان کو جوڑنے کا کام کیسے کریں۔ دوسرا، ہندوستان میں اسکول کا کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کے ذہن میں 2047 کا خواب نہ ہو۔ اس کو کہنا چاہئے کہ بھائی بتاؤ 2047 میں تمہاری عمر کیا ہوگی،اس سے پوچھا جانا چاہئے ۔ حساب لگاؤ، تمہارے پاس اتنے سال ہیں، بتاؤ اتنے سالوں میں تم اپنے لئے کیا کروگے اور ان تمام سالوں میں ملک کے لیے کیا کرو گے۔ حساب لگائیں، 2047 سے پہلے آپ کے پاس کتنے سال، کتنے مہینے، کتنے دن، کتنے گھنٹے ہیں، آپ ایک ایک گھنٹہ جوڑ کر بتائیں، آپ کیا کریں گے۔ فوراً ایک مکمل کینوس تیار ہو جائے گا کہ ہاں آج ایک گھنٹہ گزر گیا، میرا 2047 قریب آ گیا ہے۔ آج دو گھنٹے گزر گئے، میرا 2047 قریب آگیا ہے مجھے 2047 میں ایسے ہی جانا ہے، مجھے ایسے کرنا ہے ہے۔ اگر ہم اس جذبے کو بچوں کےدل و دماغ میں بھر دیتے ہیں ایک نئی توانائی، اور ایک نئے ولولے کے ساتھ تو بچے اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ اور دنیا میں ترقی ان کی ہوتی ہے جو بڑے خواب دیکھتے ہیں، بڑے بڑے عہد کرتے ہیں اور دور کی سوچ کے ساتھ زندگی کو کھپا دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ 1947 سے پہلے، ایک طرح سے ہندوستان میں ڈانڈی یاترا – 1930 اور 1942، انگریزوں ہندوستان چھوڑ و، ان 12 سالوں میں… آپ دیکھیں، پورا ہندوستان چھلانگ لگا چکا تھا، سوائے آزادی کےکوئی منتر نہیں تھا۔ زندگی کے ہر کام میں آزادی، آزادی، ایک ایسا مزاج بن گیا تھا۔ وہی مزاج، سوراج ، قومی افتخار ،میرا ملک ،یہ وقت ہے کہ ہم کچھ ایسا ہی جذبہ طلبا میں پیدا کریں۔ اور مجھے اپنے استاد بھائیوں پر زیادہ اعتماد ہے، تعلیمی دنیا پر زیادہ ہے۔ اگر آپ یہ کوشش کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم ان خوابوں کے تکمیل کرسکتے ہیں اور آواز گاؤں گاؤں تک اٹھے گی جناب۔ اب ملک ٹھہرنا نہیں چاہتا ہے۔ اب دیکھئے دو دن پہلے ، جنہوں نے ہم پر 250 سال، 250 سال تک حکمرانی کی… انہیں پیچھے چھوڑ کر ہم دنیا کی معیشت میں آگے نکل گئے ہیں۔ نمبر 6 سے نمبر 5 پر آنے کی خوشی جو ہوتی ہے اس سے زیادہ خوشی کا احساس اس میں ہوا، کیوں؟ اگر 6 سے 5 ہوتے تو کچھ خوشی ہوتی لیکن یہ 5 خاص ہے۔ کیونکہ ہم نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے، ہمارے ذہن میں وہی جذبہ ہے، وہی ترنگا والا15 اگست کا۔ 15 اگست کے ترنگا کی جو تحریک تھی اسی روشنی میں یہ 5واں نمبر آیا ہے اور اسی لیے اس کے اندر یہ ضد بھر گئی ہے کہ دیکھو میرا ترنگا اور زیادہ لہرارہا ہے۔ یہ مزاج بہت ضروری ہے اور اسی لئے 1930 سے 1942 تک ملک کا جو مزاج تھا، ملک کے لیے جینا، ملک کے لیے لڑنا اور ضرورت پڑی تو ملک کے لیے زندگی کو قربان کردینا، آج اسی مزاج کی ضرورت ہے۔ میں اپنے ملک کو پیچھے نہیں رہنے دوں گا۔ ہم ہزاروں سال کی غلامی سے نکلے ہیں، اب موقع ہے، ہم نہیں رکیں گے، ہم چل پڑیں گے۔ یہ مزاج پیدا کرنے کا کام ہماری استادبرادری کے ذریعہ ہو، تو طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی، کئی گنا بڑھ جائے گی۔ میں ایک بار پھر، آپ نے اتنا کام کر کے ایوارڈ حاصل کیا ہے ، اس لیے میں زیادہ کام دے رہا ہوں۔ جو کام کرتا ہے، اسے کام دینے کو دل کرتا ہے جو نہیں کرتا، اسے کوئی کام نہیں دیتا ہے۔ اور استاد کے بارے میں میرا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اگر وہ ذمہ داری لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ اسی لیے میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں، میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ!,"শিক্ষকসকললৈ ৰাষ্ট্ৰীয় বঁটা, ২০২২ৰ বিজয়ীসকলৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তালাপৰ পা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%8C%E0%A6%A6%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,نمبر شمار مفاہمت نامے / معاہدہ کا نام ہندوستان کی جانب سے دستخط کئے : سعودی عرب کی جانب سے دستخط کئے : 1 حکومتِ ہند اور سلطنت سعودی عرب کے مابین قومی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچہ فنڈ میں سرمایہ کاری پر مفاہمت نامے پر دستخط خارجہ امور کی وزیر محترمہ سشما سوراج توانائی ، صنعت اور معدنی وسائل کے وزیر عزت مآب خالد الفلاح 2 حکومتِ جمہوریۂ ہند ، وزارتِ سیاحت اور سلطنت سعودی عرب کی سعودی کمیشن برائے سیاحت اور قومی ورثے کے مابین سیاحت کے میدان میں تعاون کے لئے مفاہمت نامہ جناب ٹی ایس ترومورتی ، سکریٹری ( ای آر ) عزت مآب جناب عادل الزبیر ، وزیر مملکت برائے خارجی امور 3 حکومت جمہوریۂ ہند اور حکومت سعودی عرب کے مابین ہاؤسنگ کے میدان میں تعاون کے لئے مفاہمت نامہ جناب احمد جاوید ، سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر عزت مآب ڈاکٹر ماجد بن عبداللہ القصیبی ، وزیر برائے کامرس اور سرمایہ کاری 4 باہمی سرمایہ کاری تعلقات کے فروغ کے لئے حکومت جمہوریۂ ہند کے فریم ورک کو آپریشن پروگرام بٹوین انویسٹمنٹ اور حکومتِ سعودی عرب کے سعودی اریبین جنرل انویسٹمنٹ اتھارٹی کے مابین معاہدہ جناب احمد جاوید ، سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر عزت مآب ڈاکٹر ماجد بن عبداللہ القصیبی ، کامرس اور سرمایہ کاری کے وزیر 5 آڈیو – ویژوول پروگرام کے تبادلے کے لئے پرسار بھارتی ، نئی دلّی ، انڈیا اور سعودی عرب براڈ کاسٹنگ کوآپریشن ( ایس بی سی ) ، سعودی عرب کے مابین براڈ کاسٹنگ پر مفاہمت نامہ جناب احمد جاوید ، سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر عزت مآب ڈاکٹر ترکی عبداللہ الشبانہ ، میڈیا وزیر نوٹ : مذکورہ بالا کے علاوہ ، سعودی عرب کی جانب سے بین الاقوامی شمسی اتحاد ( آئی ایس اے ) پر فریم ورک معاہدہ پر دستخط کئے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ش ت ۔ ع ا ),ছৌদি আৰৱৰ ৰাজকুমাৰৰ ভাৰত ভ্ৰমণৰ সময়চোৱাত স্বাক্ষৰিত হোৱা বুজাবুজিৰ চুক্তি/চুক্তিসমূহৰ তালিকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A6%9A/,نئیدہلی۔30؍مارچ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے نیروبی، کینیا میں شری کچھی لیوا پٹیل سماج کی سلور جوبلی تقریبات سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے مختلف فلاح وبہبود کے کاموں اور شمالی افریقہ کی ترقی میں کچھی لیوا پٹیل سماج کی خدمات کی ستائش کی ۔ انہوں نے کینیا کی تحریک آزادی میں ہندوستانیوں کے رول کو بھی یاد کیا۔ وزیراعظم نے ہر طرح کی ترقی میں کچھی سماج کی خدمات اور خصوصی طور پر کچھ میں 2001 کے زلزلے کے بعد تعمیر نو اور بازآبادکاری میں کچھی سماج کے رول کیلئے ان کی ستائش کی۔ انہوں نے’’کچھ ، جس کو ایک زمانے میں ایک ویران علاقہ سمجھا جاتا تھا ، اب ایک اہم سیاحتی مقام بن گیا ہے۔ ‘‘وزیراعظم نے کچھ خطے کے دور دراز علاقے میں نرمدا کا پانی پہنچانے میں اپنی حکومت کے اس دور کی کوششوں کا ذکر کیا جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ و��یراعظم نے خطے میں ترقیاتی کاموں کو انجام دینے میں مرکز اور ریاستی حکومت کی ڈبل انجن طاقت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ’’گزشتہ چند برسوں میں اس خطے کو ہزاروں کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کچھ اور جام نگر کے درمیان گجرات میں مجوزہ رورو سروس کے بارے میں بھی حاضرین کو مطلع کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان اور افریقی ممالک کے تعلقات میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان میں حال ہی میں ہند۔ افریقہ سربراہ کانفرنس اور افریقی ڈیولپمنٹ بینک کی ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں صدر جمہوریہ ہند ، نائب صدر اور ہندوستان کے وزیراعظم کے طور پر وہ خود ، 20 سے زیادہ مواقع پر مختلف افریقی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم نے ہندوستان کی ثقافتی اور روحانی روایتوں کو محسوس کرنے کیلئے جنوری 2019 میں کنبھ میلے کے موقع پر حاضرین میں سے لوگوں اور خصوصی طور پر ایسے لوگوں کو ہندوستان آنے کی دعوت دی جو ہندوستان کبھی نہیں آئے ہیں۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے شری کچھی لیوا پٹیل سماج کی نیروبی۔ ویسٹ کمپلیکس کی سلور جوبلی تقریبات کے موقع پر حاضرین کو مبارکباد پیش کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ا گ۔ع ن۔ 30-03-2018,কেনিয়াৰ নাইৰোবিত শ্ৰী কচি লেভা পেটেল সমাজৰ ৰূপালী জয়ন্তী উদযাপন অনুষ্ঠানত ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সযোগে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%A2%D8%B1%DA%86-%D8%A8%D8%B4%D9%BE-%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B3-%DA%88%DB%8C%D8%B3%D9%85%D9%86%DA%88-%D9%B9%D9%88%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%AA-%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%9B-%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 26 دسمبر 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آرچ بشپ امیریٹس ڈیسمنڈ ٹوٹو کی رحلت پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’آرچ بشپ امیریٹس ڈیسمنڈ ٹوٹو دنیا بھر کے لاتعداد عوام کے لیے ایک مشعل راہ تھے۔ انسانی وقا ر اور مساوات کو ان کے ذریعہ دی گئی اہمیت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی رحلت پر میں ازحد غمگین ہوں، اور ان کے مداحین کے تئیں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ خدا کرے کہ ان کی روح کو تسکین نصیب ہو۔‘‘,আৰ্কবিছপ এমিৰিটাছ ডেচমণ্ড টুটুৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশপ্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%88%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9B%E0%A7%81%E0%A6%87%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA/,04 مئی 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کوپن ہیگن میں دوسری بھارت نارڈک سربراہ کانفرنس کے موقع پر سویڈن کی وزیر اعظم محترمہ میگڈلینا اینڈرسن سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بھارت اور سویڈن کے درمیان مشترکہ اقدار، مضبوط کاروبار، سرمایہ کاری اور آر ڈی روابط کی بنیاد پر دیرینہ قریبی تعلقات رہے ہیں، نیز عالمی امن و سلامتی اور ترقی کے بارے میں بھی مشترک نقطہ نظر، جد طرازی، ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور آر ڈی اشتراک اس جدید تعلقات کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ پہلی بھارت نارڈک سربراہ کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم مودی کے 2018 کے سویڈن کے دورے میں دونوں فریقوں نے وسیع پیمانے پر مشترکہ ایکشن پلان اختیار کیا تھا اور مشترکہ اختراعی شراکت داری پر دستخط کیے تھے۔ آج کی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ہماری دو طرفہ شراکت داری میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ انھوں نے لیڈ آئی ٹی پہل کی پیش رفت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ یہ بھارت اور سویڈن کی مشترکہ عالمی پہل تھی جس کے تحت ستمبر 2019 میں اقوام متحدہ کی کلائمیٹ ایکشن سمٹ میں انڈسٹری ٹرانزیشن (لیڈ آئی ٹی) پر لیڈرشپ گروپ قائم کیا گیا تھا تاکہ دنیا کی سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی) اخراج کرنے والی صنعتوں کو کم کاربن والی معیشت کی طرف منتقل کرنے میں مدد مل سکے۔ اس کے ارکان کی تعداد اب 16 ممالک اور 19 کمپنیوں کے ساتھ 35 ہوگئی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے جدت طرازی، آب و ہوا کی ٹیکنالوجی، آب و ہوا کی پہل، گرین ہائیڈروجن، خلا، دفاع، شہری ہوا بازی، آرکٹک، قطبی تحقیق، پائیدار کان کنی اور تجارتی اور اقتصادی تعلقات جیسے شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرنے کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ছুইডেনৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C-20-%DA%A9%DB%8C-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے امریکہ کے صدرعزت مآب جناب جوزف آر بائیڈن سے آج بالی میں جی-20 لیڈروں کی چوٹی کانفرنس کے موقع پر الگ سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ہند – امریکہ حکمت انگیز ساجھے داری کی مسلسل گہرائی کا جائزہ لیا جس میں مستقبل رُخی شعبوں جیسے اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیاں، جدید کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت وغیرہ میں تعاون شامل ہیں۔ انہوں نے کواڈ کے علاوہ ہند، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات وغیرہ جیسے نئے گروپوں میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے عالمی اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم مودی نے صدر بائیڈن کا ہند-امریکہ ساجھے داری کو مضبوط بنانے کی خاطر اُن کی مسلسل حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک ہندوستان کی جی-20 صدارت کے دوران قریبی تال میل برقرار رکھیں گے۔,বালিত অনুষ্ঠিত জি-২০ শীৰ্ষ সন্মিলনৰ সময়ত আমেৰিকা যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D8%B3%DB%8C%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%A7%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4/,نئی دہلی،28 فروری / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے صحت کے شعبے میں تعاون کے لئے بھارت اور میسیڈونیا کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس مفاہمت نامے کے تحت مندرجہ ذیل شعبوں کا احاطہ کیا جائے گا: صحت کے شعبے میں صلاحیت سازی اور انسانی وسائل ��ی مختصر مدت کی تربیت ۔ طبی ڈاکٹروں ، عہدیداروں اور صحت کے دیگر پیشہ ور افراد اور ماہرین کے تبادلے اور تربیت ۔ انسانی وسائل کے فروغ اور حفظان صحت کی سہولیات کے قیام میں امداد۔ تعاون کے دیگر شعبے جن پر باہمی طور پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ تعاون کی تفصیلات کو مزید واضح کرنے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کرنے کے لئے ایک ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا۔,ভাৰত আৰু মেচিডনিয়াৰ মাজত স্বাস্থ্যক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ বাবে বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%A7%D9%84%D9%B9%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%AD%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی،12 ستمبر؍ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے ہند اور مالٹا کے درمیان سیاحت کے میدان میں تعاو کو مستحکم کرنے کےئے مفاہمت نامے پر دستخط کو اپنی منظوری دے دی ہے ۔ اس مفاہمت نامے (ایم او یو )پر دستخط نائب صدر جمہوریہ کے آئندہ آنے والے مالٹا دورے کے دوران کئے جائیں گے ۔ اہم خصوصیات : اس مفاہمت نامے کے اہم مقاصد درج ذیل ہیں: دونوں ممالک میں سیاحت کی صنعت میں قابل دید مقاما ت کے معیار کو بڑھانا ۔ ہندوستان اور مالٹا کی حدود سے گزرنے والے تمام دنیا کے ممالک سے دونوں ملکوں میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ۔ دونوں ملکوں میں سماعت اور سفر سے متعلق صنعتوں میں انسانی وسائل کے فروغ کو بڑھاوا دینا ۔ نئی سیاحت پیشکش، خصوصی طور پر قدرتی اور حساس اور غیر حساس تمدنی یا ثقافتی ورثے کے لئے تعاون دینا، سیاحت کے میدان میں مستحکم سیاحت اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا اور سیاحت کو دونوں ممالک میں عوام کے درمیان رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ایک آلۂ کار کے طور پر دیکھنا۔ فوائد: اس مفاہمت نامہ سے دونوں ممالک کے درمیان ادارہ جاتی میکینزم کے لئے ۔ ٹورزم کے شعبے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ اس قدم سے مالٹا سے غیر ملکی سیاحوں کے ہندوستان آنے میں بھی مدد ملے گی ۔ اس کے نتیجے میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔ اس مفاہمت نامے پر دستخط سے بارڈر فریم ورک اور تعاون کے میدان میں تمام شراکت کے لئے طویل مدتی سیاحتی تعاون میں آپسی مفاد کے لئے بہتر صورتحال پیدا ہو سکیں گی۔ اس کے علاوہ اس میدان میں بہترین پریکٹسوں کو آپس میں مشترک کرنے میں بھی مدد ملے گی۔,ভাৰত আৰু মালটাৰ মাজত পৰ্যটনৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা সুদৃঢ় কৰাৰ বাবে বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%DB%8C-%D9%88%D8%B4%D9%88%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%95/,"نئی دہلی، 13 دسمبر 2021 ہر ہر مہادیو۔ ہر ہر مہادیو۔ نمہ پاروتی پتیے، ہر ہر مہادیو۔ ماں اناپورنا کو سلام۔ گنگا میا جی جے۔ اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، کرم یوگی جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، بی جے پی کے قومی صدر، ہم سب کے لیے رہ نما، جناب جے پی نڈا جی، نائب وزیر اعلی بھائ�� کیشو پرساد موریہ جی، دنیش شرما جی، مرکز میں وزرا کی کونسل کے میرے ساتھی مہندر ناتھ پانڈے جی، اترپردیش بی جے پی کے صدر سوتنتردیو سنگھ جی، یہاں کے وزیر جناب نیل کنٹھ تیواری جی، ملک کے گوشے گوشے سے آئے معزز سنتو اور میرے پیارے کاشی کے باشندو اور ملک بھر اور بیرون ملک سے اس موقع کا مشاہدہ کرنے والے تمام عقیدت مند! کاشی کے تمام بھائیوں کے ساتھ ہم نے بابا وشوناتھ کے قدموں میں سر جھکایا ہے۔ ماں اناپورنا کے پاؤں میں بار بار جھکے ہیں۔ اب میں بابا کے ساتھ آنے کے ساتھ ساتھ نگر کوتوال کال بھیروجی کا درشن کرکے آرہا ہوں اور اہل وطن کے لیے ان کی آشیرباد لا رہا ہوں۔ کاشی میں جو کچھ بھی خاص ہے، جو کچھ بھی نیا ہے، ان سے پہلے پوچھنا ضروری ہے۔ میں کاشی میں کوتوال کے قدموں میں بھی جھکتا ہوں۔ گنگا ترنگ رمنم جٹا کلاپم، گوری نترنتر وبھوشت وام-بھاگم نارائن پریا-مننگ-مداپ-ہارم، وارانسی پور-پتیم بھج وشوناتھم۔ ہم بابا وشوناتھ دربار سے، ملک اور دنیا کو سلام پیش کرتے ہیں، ان عقیدت مندوں کو جو اپنی جگہ سے اس مہایگیہ کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ ہم سب کاشی کے لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں جن کے تعاون سے شبھ گھڑی آئی ہے۔ دل باغ باغ ہے۔ ذہن ہم آہنگی کی حالت میں ہے۔ آپ سب لوگوں کو مبارکباد۔ ساتھیو، ہمارے پرانوں میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی کوئی کاشی میں داخل ہوتا ہے، ہر پابندی سے آزاد ہوجاتا ہے۔ بھگوان وشویشور کا آشیرباد اندرونی روح میں شعور پیدا ہوتا ہے جیسے یہاں ایک مافوق الفطرت توانائی آتی ہے۔ اور آج کاشی کے لازوال شعور میں ایک مختلف ارتعاش ہے! آج آدی کاشی کی مافوق الفطرت شکل میں ایک مختلف رعنق ہے! آج ابدی بنارس کے عزائم ایک مختلف طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں! ہم نے شاستروں میں سنا ہے کہ جب بھی کوئی نیک موقع آتا ہے، تمام دیوی شکتیاں تمام بھگوانئی طاقتیں بنارس میں بابا کے پاس موجود ہوتی ہیں۔ میں آج بابا کے دربار میں بھی کچھ ایسا ہی تجربہ کر رہا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری پوری شعوری کائنات اس سے جڑی ہوئی ہے۔ بابا اپنی مایا کی توسیع کو جانتے ہیں، لیکن جہاں تک ہمارا انسانی وژن جاتا ہے، اس وقت پوری دنیا 'وشوناتھ دھام' کے اس مقدس انعقاد سے جڑی ہوئی ہے۔ ساتھیو، آج بھگوان شیو کا پیارا دن ہے، پیر۔ آج وکرم سموت 2,880، مارگ شیرشا شکلاپکشا، دشمی تاریخ کی ایک نئی تاریخ کی تخلیق ہورہی ہے۔ اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس تاریخ کے گواہ ہیں۔ آج وشوناتھ دھام ناقابل تصور لامحدود توانائی سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی شان پھیل رہی ہے۔ اس کی خصوصیت آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہاں غائب ہونے والے بہت سے قدیم مندر بھی بحال کر دیے گئے ہیں۔ بابا اپنے عقیدت مندوں کی صدیوں کی خدمت سے خوش ہو رہے ہیں، لہذا انھوں نے ہمیں اس دن کے لیے نوازا ہے۔ وشوناتھ دھام کا یہ پورا نیا کمپلیکس کوئی عظیم الشان عمارت ہی نہیں ہے، یہ ہمارے بھارت کی ابدی ثقافت کی علامت ہے! یہ ہماری روحانیت کی علامت ہے! یہ بھارت کی قدیم ترین روایات کی علامت ہے! بھارت کی توانائی، حرکیت کی! جب آپ یہاں آئیں گے تو آستھا ہی کے درشن نہیں ہوں گے بلکہ آپ یہاں اپنے ماضی کا فخر بھی محسوس کریں گے۔ ہم وشوناتھ دھام کمپلیکس میں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح قدیم و جدید ایک ساتھ آرہے ہیں، قدیم کے الہام کس طرح مستقبل کی رہ نمائی کر رہے ہیں۔ ساتھیو، ماں گنگا، جو اترواہنی سے بابا کے پاؤں دھونے کاشی آتی ہیں، آج بہت خوش ہوں گی۔ اب جب ہم بھگوان وشوناتھ کے قدموں میں جھک جائیں گے، مراقبہ کریں گے تو گنگا ماں کو چھونے والی ہوا ہمیں آشیرباد اور برکت دے گی۔ اور جب ماں گنگا آزاد اور خوش ہوگی تو بابا کی توجہ میں ہم 'گنگا ترنگ کی کل کل' کے بھگوانئی تجربے کا احساس بھی کر سکیں گے۔ بابا وشوناتھ سب سے تعلق رکھتے ہیں، ماں گنگا سب کی ہے۔ اس کی برکتیں ہر ایک کے لیے ہیں۔ لیکن وقت اور حالات کی وجہ سے بابا اور ماں گنگا کی خدمت تک یہ رسائی مشکل ہو چکی تھی، ہر کوئی یہاں آنا چاہتا تھا، لیکن سڑکوں اور جگہ کی کمی تھی۔ بزرگوں کا، دویانگوں کا یہاں آنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اب وشوناتھ دھام پروجیکٹ کی تکمیل کے ساتھ ہر ایک کے لیے یہاں پہنچنا آسان ہوگیا ہے۔ ہمارے دویانگ بھائی بہن، بوڑھے والدین کشتی کے ذریعے براہ راست جیٹی پر آئیں گے۔ جیٹی سے گھاٹ آنے کے لیے ایسکیلیٹر بھی نصب کیے گئے ہیں۔ وہاں سے آپ براہ راست مندر آ سکیں گے۔ تنگ راستوں کی وجہ سے درشن کے انتظار کے لیے گھنٹوں، جو پریشانی پیدا ہوئی تھی وہ بھی اب کم ہوجائے گی۔ اس سے پہلے مندر کا علاقہ جو صرف 3000 مربع فٹ میں تھا اب تقریبا 5 لاکھ مربع فٹ بن چکا ہے۔ اب 50، 60، 70 ہزار عقیدت مند مندر اور مندر کے احاطوں میں آسکتے ہیں۔ یعنی پہلے ماں گنگا کے درشن اشنان اور وہاں سے براہ راست وشوناتھ دھام۔ یہی تو ہے، ہر ہر مہادیو! ساتھیو، جب میں بنارس آیا تھا تو میں ایک یقین کے ساتھ آیا تھا۔ یقین آپ سے زیادہ بنارس کے لوگوں پر تھا۔ آج حساب کتاب کا وقت نہیں ہے، لیکن مجھے یاد ہے، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بنارس کے لوگوں پر شک کرتے تھے۔ یہ کیسا ہوگا۔، یہ بالکل نہیں ہوگا۔، یہ یہاں ایسے ہی چلتا ہے! ایسے مودی جی تو آکے چلے گئے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بنارس کے لیے اس طرح کے مفروضے بنائے گئے تھے! اس طرح کے دلائل دیے جا رہے تھے! یہ تعطل بنارس کا نہیں تھا! کاشی میں ایک ہی سرکار ہے۔ کچھ سیاست تھی، کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات تھے، لہذا بنارس پر الزام لگایا جا رہا تھا۔ لیکن کاشی کاشی ہے! کاشی لافانی ہے۔ کاشی میں صرف ایک حکومت ہے جس کے ہاتھ میں ڈمرو ہے، ان کی حکومت ہے۔ کاشی کو کون روک سکتا ہے جہاں گنگا اپنی دھارا تبدیل کرکے بہتی ہے؟ کاشی کھنڈ میں بھگوان شیو نے خود کہا ہے، ""ونا مم پرسادم وے،کاشی پرتی پدیتے""۔ یعنی میری خوشی کے بغیر کاشی میں کون آ سکتا ہے، کون اسے کھا سکتا ہے؟ مہادیو کی مرضی کے بغیر کوئی کاشی نہیں آتا اور نہ ہی اس کی مرضی کے بغیر یہاں کچھ ہوتا ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ مہادیو کی مرضی سے ہوتا ہے۔ جو کچھ بھی ہوا ہے، یہ مہادیو ہی ہیں جںھوں نے یہ کیا ہے۔ یہ وشوناتھ دھام، میں بابا آپ کے آشیرواد سے ہوا ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر، ایک پتہ حرکت کر سکتا ہے؟ کوئی کتنا ہی بڑا ہو، وہ بلائیں گے تبھی کوئی آسکتا ہے۔ ساتھیو، اگر کسی اور نے بابا کے لیے تعاون کیا ہے تو وہ بابا کے لوگوں کا ہے۔ بابا کے لوگ، ہمارے تمام کاشی کے باشندے، جو خود مہادیو کی شکلیں ہیں۔ جب بھی بابا کو اپنی طاقت کا تجربہ کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے کاشی کے لوگوں کو ایک وسیلہ بناتے ہیں۔ پھر کاشی یہ کرتی ہے اور دنیا دیکھتی ہے۔ ""ادم شوائے ادم نمم۔ بھائیو اور بہنو، میں اپنے ہر محنت کش بھائی اور بہن کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے اس شاندار کمپلیکس کی تعمیر میں پسینہ بہایا ہے۔ کورونا کے اس نامساعد دور میں بھی انھوں نے کام کو یہاں رکنے نہیں دیا۔ مجھے صرف ان کام کرنے والے ساتھیوں سے ملنے، ان سے آشیرواد لینے کا موقع ملا۔ میں اپنے کاریگروں، ہمارے سول انجینئروں، انتظامیہ ��ے لوگوں، ان خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کے یہاں گھر ہوئے کرتے تھے، اور ان سب کے ساتھ میں یوپی حکومت، ہمارے کرم یوگی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی اور ان کی پوری ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنھوں نے کاشی وشوناتھ دھام پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا۔ ساتھیو، ہماری اس وارانسی نے قرنوں کو جیا ہے، تاریخ کو بگڑتے ہوئے دیکھا ہے، کتنے ادوار آئے اور چلے گئے! چاہے۔ کتنی ہی سلطنتیں اٹھ کر مٹی میں مل گئیں۔ بنارس باقی ہے، بنارس اپنا رس پھیلا رہا ہے۔ بابا کا دھام نہ صرف ابدی رہا ہے بلکہ اس کی خوب صورتی نے ہمیشہ دنیا کو حیران اور راغب کیا ہے۔ ہمارے پرانوں میں کاشی کی ایسی بھگوانئی شکل بیان کی گئی ہے جو قدرتی چمک سے گھری ہوئی ہے۔ اگر ہم گرنتھوں کو دیکھیں، شاستروں کو دیکھیں۔ مورخین نے بھی درختوں، جھیلوں، تالابوں سے گھری کاشی کی حیرت انگیز نوعیت کو بیان کیا ہے۔ لیکن وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ حملہ آوروں نے اس شہر پر حملے کیے، اسے تباہ کرنے کی کوشش کی! اورنگ زیب کے مظالم، اس کی دہشت گردی کی تاریخ گواہ ہے۔ جس نے تلوار سے تہذیب کو بدلنے کی کوشش کی، جس نے ثقافت کو عصبیت سے کچلنے کی کوشش کی! لیکن اس ملک کی مٹی باقی دنیا سے کچھ مختلف ہے۔ اگر اورنگ زیب یہاں آتا ہے تو شیواجی بھی کھڑا ہو جاتا ہے! اگر یہاں کوئی سالار مسعود ادھر آتا ہے تو راجا سہیلدیو جیسے بہادر جنگجو اسے ہمارے یکجہتی کی طاقت کا احساس دلاتے ہیں۔ اور برطانوی دور میں بھی وارین ہیسٹنگز کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کاشی کے لوگوں نے کیا، کاشی کے یہ لوگ وقتا فوقتا بولتے ہیں اور کاشی کی زبان پر نکلتا ہے۔ گھوڑے پر ہودا اور ہاتھی پر جین جان بھاگل وارین وارن ہیسٹنگ۔ ساتھیو، آج وقت کے چکر کو دیکھیں، دہشت گردی کے وہ مترادفات تاریخ کے تاریک صفحات تک محدود ہو چکے ہیں! اور میری کاشی آگے بڑھ رہی ہے اور اپنے فخر کو دوبارہ نئی عظمت دے رہی ہے۔ ساتھیو، کاشی کے بارے میں، میں جتنا زیادہ بولتا ہوں، اتنا ہی میں ڈوبتا جاتا ہوں، میں اتنا ہی جذباتی ہوتا جاتا ہوں۔ کاشی الفاظ میں بیان کیا جانے والا موضوع نہیں ہے، کاشی احساسات کی تخلیق ہے۔ کاشی وہ جگہ ہے جہاں جاگرتی زندگی ہے، کاشی وہ جگہ ہے جہاں موت بھی اچھی ہے! کاشی وہ جگہ ہے جہاں سچائی سنسکار ہے! کاشی وہ جگہ ہے جہاں محبت ہی روایت ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہمارے شاستروں میں کاشی کی تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں اور آخر میں کیا کہا گیا ہے، آخر میں 'نیتی نیتی' ہی کہا ہے۔ یعنی جتنا کہا اتنا ہی نہیں ہے! ہمارے شاستروں نے کہا ہے، ""شیوم گیانم ایتی برو: شیوم شبدارتھ چنتکا۔ ""۔ یعنی جو لوگ شیو کے لفظ پر غور کرتے ہیں وہ شیو کو علم کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کاشی شیومئی ہے، یہ کاشی روشن ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ علم، تحقیق، ریسرچ، یہ کاشی اور بھارت کے لیے فطری رہے ہیں۔ بھگوان شیو نے خود کہا ہے، ""سروکشیترشو بھو پشٹھے، کاشی کشترم چمیں وپو""۔ یعنی کاشی زمین کے تمام حصوں میں میرا ہی جسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا پتھر، یہاں کا ہر پتھر شنکر ہے۔ اس لیے ہم اپنی کاشی کو زندہ سمجھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت ہمیں اپنے ملک کے ذرات میں ماں کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے شاستروں کا جملہ ہے کہ کاشی میں ہر جگہ ہر جاندار کے پاس بھگوان وشو کے تصورات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاشی زندگی کو براہ راست شیوتوا سے جوڑتی ہے۔ ہمارے رشیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کہ جب تم بھگوان وشویشر کی پناہ میں آتے ہو تو عقل بھی وسیع ہو جاتی ہے۔ بنارس وہ شہر ہے جہاں سے جگت گرو شنکرآچاریہ شریڈوم راجہ کے تقدس سے تحریک ملی تھی انھوں نے ملک کو متحد کرنے کا عزم کیا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں گوسوامی تلسیداس جی نے بھگوان شیو سے متاثر ہو کر رام چرت مانس جیسی عظیم تخلیق کی۔ یہیں کی سرزمین سارناتھ میں بھگوان بدھ شعور کی دنیا لیے لیے ظاہر ہوئے۔ کبیر داس جیسی سماجی مصلح یہیں ہوئے۔ جب معاشرے کو جوڑنے کی ضرورت تھی تو یہ کاشی بھی بن گیا جو سنت روی داس جی کی آستھا کی طاقت کا مرکز تھا۔ یہ کاشی چار جین تیرتھنکروں کی سرزمین ہے جو عدم تشدد اور تپسیا کا مجسمہ ہے۔ راجہ ہریش چندر کی دیانت داری سے لے کر ولبھاچاریہ اور رامانند جی کے علم تک، چیتنیا مہاپربھو اور سمرتھ گرو رام داس سے لے کر سوامی وویکانند اور مدن موہن مالویہ تک، بہت سے رشیوں اور آچاریہ کو کاشی کی مقدس سرزمین سے منسوب کیا گیا ہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کو یہیں سے تحریک ملی۔ رانی لکشمی بائی سے لے کر چندر شیکھر آزاد تک کاشی بہت سے جنگجوؤں کی کرم بھومی رہی ہے۔ بھرتیندو ہریش چندر، جے شنکر پرساد، منشی پریم چند، پنڈت روی شنکر اور بسم اللہ خان جیسی صلاحیتیں۔ اس یاد کو کس حد تک لے جائیں، کتنا کہنا ہے! پورا ذخیرہ ہے۔ جس طرح کاشی لامحدود ہے اسی طرح کاشی کا تعاون بھی لامحدود ہے۔ کاشی کی نشوونما میں ان لامحدود نیک ارواح کی توانائی شامل ہے۔ اس ترقی میں بھارت کی لامحدود روایات کی وراثت بھی شامل ہے۔ اس لیے ہر رائے رکھنے والے لوگ، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آتے ہیں اور اس سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ساتھیو، کاشی نہ صرف ہمارے بھارت کی ثقافتی و روحانی راجدھانی ہے بلکہ بھارت کی روح کا زندہ اوتار بھی ہے۔ آپ دیکھیں، یوپی میں مشرق اور شمال کو ملانے والی یہ کاشی، یہاں وشوناتھ مندر کو مسمار کر دیا گیا تو مندر کی تزئین و آرائش ماتا اہلیا بائی ہولکر نے کی۔ جن کی جائے پیدائش مہاراشٹر تھی جن کی کرم بھومی اندور مہیشور اور بہت سے علاقوں میں تھی۔ آج میں اس موقع پر اس ماں اہیلیا بائی ہولکر کے سامنے سر جھکاتا ہوں۔ ڈھائی سو سال پہلے انھوں نے کاشی کے لیے بہت کچھ کیا تھا۔ اس کے بعد سے کاشی کے لیے اتنا کام اب کیا گیا ہے۔ ساتھیو، پنجاب سے تعلق رکھنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بابا وشوناتھ مندر کی رونق بڑھانے کے لیے سونے کے 23 منکے پیش کیے تھے، جس کے اوپر سونے کی تختی لگی ہوئی تھی۔ پنجاب سے گرو نانک دیو جی، بھی کاشی آئے تھے اور یہاں ستسنگ پیش کیا تھا۔ دیگر سکھ گروؤں کا بھی کاشی کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ پنجاب کے لوگوں نے کاشی کی تعمیر نو کے لیے دل کھول کر عطیہ دیا تھا۔ مشرق میں بنگال کی رانی بھوانی نے بنارس کی ترقی کے لیے سب اپنا کچھ پیش کردیا۔ میسور اور دیگر جنوبی بھارتی راجاؤں نے بھی بنارس کے لیے بے حد تعاون کیا ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو شمالی، جنوبی، نیپالی تقریبا ہر قسم کے ہر طرز کے مندر نظر آئیں گے۔ وشوناتھ مندر اس روحانی شعور کا مرکز رہا ہے اور اب یہ وشوناتھ دھام کمپلیکس اس شعور کو اپنی عظیم شکل میں مزید توانائی دے گا۔ ساتھیو، ہم سب جنوبی بھارت کے لوگوں کی کاشی سے عقیدت، جنوبی بھارت کے کاشی اور کاشی کے جنوب پر اثرات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک کتاب میں لکھا ہے، کنڑا زبان میں کہا گیا ہے، کہ جب جگت گرو مادھواچاریہ جی اپنے شاگردوں کے ساتھ جا رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ کاشی کے وشوناتھ پاپ نوارن کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شاگرد��ں کو کاشی کی شان اور وقار کے بارے میں بھی بتایا۔ ساتھیو، صدیوں پہلے کا یہ احساس مسلسل جاری ہے۔ مہاکاوی سبرامنیا بھارتی، جن کے کاشی میں قیام نے زندگی کا رخ بدل دیا، نے ایک جگہ لکھا ہے، کہ کاشی کے سنت شاعر کی تقریر کو کانچی پور میں سننے کا ذریعہ بنائیں گے"" کاشی سے نکلا ہر پیغام اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس سے ملک کی سمت بدل جاتی ہے۔ ویسے میں ایک اور بات کہوں گا۔ مجھے ایک پرانا تجربہ ہے۔ ہمارے گھاٹوں پر رہنے والے بہت سے بنارسی ساتھیوں نے کشتی چلاتے ہوئے تامل، کنڑا، تیلگو، ملیالم اس قدر روانی سے بولتے ہیں کہ مجھے لگا کہ کہیں میں کیرالہ، تامل ناڈو یا کرناٹک میں تو نہیں آیا ہوا ہوں! اتنی اچھی زبان بولتے ہیں! ساتھیو، ہزاروں برسوں سے بھارت کی توانائی محفوظ رہی ہے۔ جب ہم مختلف خطوں، علاقوں کے سوتر سے جڑتے ہیں تو بھارت 'ایک بھارت، شریشٹھ بھارت' کے طور پر بیدار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں 'سوراشٹر سومناتھم' سے لے کر 'ایودھیا متھرا مایا، کاشی کانچی اونتیکا' تک ہر روز یاد رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے پاس دوادش جیوترلنگوں کی یاد کا پھل ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ سومناتھ سے وشوناتھ تک دوادش جیوترلنگوں کو یاد کرنا ہر عزم کو کام یاب کرتا ہے۔ یہ شک اس لیے نہیں ہے کہ اس یاد کے بہانے پورے بھارت کی روح متحد ہے۔ اور جب بھارت کی روح کی بات آتی ہے تو شک کہاں رہ جاتا ہے، ناممکن کیا رہتا ہے؟ ساتھیو، یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ جب بھی کاشی نے کوئی موڑ لیا ہے، کچھ نیا کیا ہے تو ملک کی قسمت بدل گئی۔ کاشی میں ترقی کا مہایگیہ جو گذشتہ سات برسوں سے جاری ہے، آج ایک نئی توانائی حاصل کر رہا ہے۔ کاشی وشوناتھ دھام کو قوم کے نام وقف کرنا، بھارت کو ایک فیصلہ کن سمت دے گا اور اس کے روشن مستقبل کا باعث بنے گا۔ یہ کمپلیکس ہماری طاقت، ہمارے فرض کا گواہ ہے۔ اگر آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اگر آپ پر عزم ہیں، تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ہر بھارتی کے بازوؤں میں وہ طاقت ہوتی ہے جو ناقابل تصور کو سچ بناتی ہے۔ ہم ریاضت کرنا جانتے ہیں، ہم تپسیا کرنا جانتے ہیں، ہم ملک کے لیے دن رات کھپنا جانتے ہیں۔ چیلنج کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ہم بھارتی مل کر اسے شکست دے سکتے ہیں۔ تخریب کاروں کی طاقت بھارت کی طاقت اور بھارت کی عقیدت سے زیادہ کبھی نہیں ہوسکتی۔ یاد رکھیں، دنیا ہمیں دیکھے گی جیسا کہ ہم خود کو دیکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کا بھارت اب اس کمتری کے احساس سے نکل رہا ہے جس سے صدیوں کی غلامی نے ہمیں متاثر کیا تھا۔ آج کا بھارت نہ صرف سومناتھ مندر کی حسن کاری کر رہا ہے بلکہ سمندر میں ہزاروں کلومیٹر کا آپرِکل فائبر بھی بچھا رہا ہے۔ آج کا بھارت نہ صرف بابا کیدارناتھ مندر کی تزئین و آرائش کر رہا ہے بلکہ بھارتیوں کو اپنے طور پر خلا میں بھیجنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ آج کا بھارت نہ صرف ایودھیا میں بھگوان شری رام کا مندر تعمیر کر رہا ہے بلکہ ملک کے ہر ضلع میں میڈیکل کالج بھی کھول رہا ہے۔ آج کا بھارت نہ صرف بابا وشوناتھ دھام کو شاندار انداز میں دیکھ رہا ہے بلکہ غریبوں کے لیے کروڑوں پکے گھر بھی بنا رہا ہے۔ ساتھیو، نئے بھارت کو اپنی ثقافت پر فخر ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں پر اتنا ہی اعتماد رکھتا ہے۔ نئے بھارت میں ورثہ بھی ہے اور ترقی بھی ہے۔ آپ دیکھیں، رام جانکی روٹ کی تعمیر کی جارہی ہے تاکہ ایودھیا سے جنک پور تک سفر کرنا آسان ہو سکے۔ آج بھگوان رام سے وابستہ مقامات کو رامائن سرکٹ سے جوڑا جا رہا ہے اور رامائن ٹرین چلائی جا رہی ہے۔ بدھ سرکٹ پر کام کیا جارہا ہے اور کوشی نگر میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کا قیام بھی عمل میں آیا ہے۔ جہاں کرتار پور صاحب راہداری تعمیر کی گئی ہے وہیں ہیم کنڈ صاحب جی کے درشن کو آسان بنانے کے لیے روپ وے بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اتراکھنڈ میں چاردھام روڈ مہا پروجیکٹ پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ بھگوان وٹھل کے کروڑوں عقیدت مندوں کے آشیرواد سے سری سنت گیانیشور مہاراج پالکھی مارگ اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ پر بھی چند ہفتے قبل کام شروع ہوا ہے۔ ساتھیو، کیرالہ میں گرووایور مندر ہو یا تمل ناڈو میں کانچی پورم ویلنکنی، تلنگانہ میں جوگولمبا دیوی مندر ہو یا بنگال میں بیلور مٹھ، گجرات میں دوارکا جی ہو یا اروناچل پردیش میں پرشورام کنڈ، ملک کی مختلف ریاستوں میں ہمارے عقیدے اور ثقافت سے وابستہ ایسے بہت سے مقدس مقامات پر پوری عقیدت کے ساتھ کام کیا گیا ہے، کام چل رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو، آج کا بھارت اپنے کھوئے ہوئے ورثے کو دوبارہ سمیٹ رہا ہے۔ یہاں کاشی میں ماں اناپورنا خود رہتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک صدی کے انتظار کے بعد کاشی سے چوری ہونے والی ماں اناپورنا کا مجسمہ سو سال بعد اب کاشی میں دوبارہ نصب کیا گیا ہے۔ ماں اناپورنا کے فضل سے کورونا کے مشکل وقت میں ملک نے اپنے کھانے پینے کے ذخیرے کھول دیے، اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی غریب بھوکا نہ سوئے، مفت راشن کا انتظام کیا۔ ساتھیو، جب بھی ہم بھگوان کے درشن کرتے ہیں، مندروں میں آتے ہیں، کبھی بھگوان سے کچھ مانگتے ہیں، ہم کچھ عزم بھی کرتے ہیں۔ میرے لیے عوام بھگوان کی شکل ہے۔ میرے لیے ہر بھارتی بھگوان کا حصہ ہے۔ جس طرح یہ سب لوگ بھگوان کے پاس جاتے ہیں اور آپ سے کچھ مانگتے ہیں، جب میں آپ کو بھگوان سمجھتا ہوں تو عوام کو بھگوان کی شکل مانتا ہوں، میں آج آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں، میں آپ سے کچھ مانگتا ہوں۔ میں اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے تین عہد چاہتا ہوں، مت بھولیں، میں تین عہد چاہتا ہوں اور بابا کی مقدس سرزمین سے مانگ رہا ہوں- پہلا عہد صفائی، دوسرا تخلیق اور تیسرا خود کفیل بھارت کے لیے مسلسل کوششیں۔ صفائی طرز زندگی ہے، صفائی نظم و ضبط ہے۔ یہ اپنے ساتھ بہت بڑی حد تک فرائض لاتی ہے۔ بھارت چاہے کتنا ہی ترقی کرے، اگر وہ صاف ستھرا نہیں ہوگا، ہمارے لیے آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ ہم نے اس سمت میں بہت کچھ کیا ہے لیکن ہمیں اپنی کوششوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ فرض شناسی سے بھری آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش ملک کی بہت مدد کرے گی۔ یہاں بنارس میں بھی، شہر میں، گھاٹوں پر، صفائی ستھرائی پر توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں صفائی ستھرائی کو ایک نئی سطح پر لے جانا ہے۔ اتراکھنڈ سے بنگال تک گنگا جی کی صفائی ستھرائی کے لیے بہت سی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں چوکس رہنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا کہ نمامی گنگے مہم کام یاب رہے۔ ساتھیو، غلامی کے طویل دور نے ہم بھارتیوں کے اعتماد کو توڑ دیا تاکہ ہم اپنی تخلیقیت پر اعتماد کھو بیٹھیں۔ آج اس ہزاروں سال پرانی کاشی سے میں ہر ملک کے باشندے سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ تخلیق کرے، جدت لائے، اسے اختراعی انداز میں کرے۔ جب بھارت کے نوجوان کورونا کے اس مشکل وقت میں سینکڑوں اسٹارٹ اپ بنا سکتے ہیں، اتنے چیلنجوں کے درمیان، وہ 40 سے زیادہ یونیکورن بنا سکتے ہیں، تو وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ سوچیے ایک یونیکورن، اسٹارٹ اپ کی مالیت سات ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور یہ پچھلے ڈیڑھ سال میں اتنے کم وقت میں۔ یہ بے مثال ہے۔ ہر بھارتی، جہاں بھی ہو، وہ کسی بھی شعبے میں، ملک کے لیے کچھ نیا کرنے کی کوشش کرے گا، تب ہی نئے راستے ملیں گے، نئے راستے بنیں گے اور ہر نئی منزل پاکر رہیں گے۔ بھائیو اور بہنو، آج ہمارا تیسرا عہد یہ ہے کہ ہم خود کفیل بھارت کے حصول کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔ یہ آزادی کا امرت کال ہے۔ ہم آزادی کے 75 ویں سال میں ہیں۔ جب بھارت آزادی کے 100 سال منارہا ہے تو ہمیں اب اس پر کام کرنا ہوگا کہ بھارت کیسا ہوگا۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کفیل ہوں۔ جب ہم ملک میں بنائے گئے کاموں پر فخر کریں گے، جب ہم مقامی لوگوں کے لیے آواز اٹھائیں گے، جب ہم ایسی چیزیں خریدیں گے جو ایک بھارتی بنانے کے لیے پسینہ بہا رہا ہے تو ہم اس مہم میں مدد کریں گے۔ امرت کال میں بھارت 130 کروڑ ہم وطنوں کی کوششوں سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مہادیو کے فضل سے ہر بھارتی کی کوششوں سے ہم خود کفیل بھارت کا خواب پورا ہوتے دیکھیں گے۔ اس یقین کے ساتھ میں ایک بار پھر بابا وشوناتھ، ماں اناپورنا، کاشی کوتوال اور تمام دیوتاؤں کے قدموں میں جھکتا ہوں۔ ملک کے مختلف گوشوں سے اتنی بڑی تعداد میں قابل احترام سنت اور مہاتما آئے ہیں، یہ ہمارے لیے، میرے جیسے عام شہری کے لیے خوش قسمتی کے لمحات ہیں۔ میں تمام سنتوں، تمام معزز مہاتماؤں کے سامنے سر جھکاتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے انھیں سلام پیش کرتا ہوں۔ آج میں کاشی کے تمام لوگوں، ہمارے ملک کے تمام عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ہر ہر مہادیو۔",উত্তৰ প্ৰদেশৰ বাৰাণসীত কাশী বিশ্বনাথ ধামৰ উদ্ঘাটনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D-3/,عزت مآب حاضرین، دوستو، میں ایک بار پھر اپنے دوست صدر جوکووی کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ انہوں نے مشکل وقت میں بھی جی-20 کو موثر قیادت عطا کی ہے۔ اور میں آج جی-20کمیونٹی کو بالی اعلامیہ کو اپنانے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ہندوستان اپنی جی-20صدارت کے دوران انڈونیشیا کے قابل ستائش اقدامات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ ہندوستان کے لیے یہ ایک بہت ہی خوش آئند اتفاق ہے کہ ہم بالی کے اس مقدس جزیرے میں جی-20کی صدارت کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ ہندوستان اور بالی کا قدیم رشتہ ہے۔ معززحاضرین، ہندوستان ایک ایسے وقت میں جی-20کی ذمہ داری سنبھال رہا ہے جب دنیا بیک وقت جغرافیائی سیاسی تناؤ، معاشی سست روی، خوراک اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں اور وبائی امراض کے طویل مدتی برے اثرات سے دوچار ہے۔ ایسے وقت میں دنیا جی-20کی طرف امید سے دیکھ رہی ہے۔ آج، میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی جی-20صدارت جامع ، الو العزم ، فیصلہ کن اور عمل پر مبنی ہوگی۔ عزت مآب حاضرین ، اگلے ایک سال کے دوران، ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ جی-20نئے آئیڈیاز کا تصور کرنے اور اجتماعی کارروائی کو تیز کرنے کے لیے ایک عالمی اہم محرک کے طور پر کام کرے۔ قدرتی وسائل پر ملکیت کا احساس آج تنازعات کو جنم دے رہا ہے، اور ماحول کی حالت زار کی بنیادی وجہ بن گیا ہے۔ کرہ ارض کے محفوظ مستقبل کے لیے، امانت داری کا احساس ہی حل ہے۔ لائف یعنی ’ماحولیات کے لئے طرززندگی‘ مہم اس میں بڑا تعاون پیش کرسکتی ہے۔ اس کا مقصد پائیدار طرز زندگی کو ایک عوامی تحریک بنانا ہے۔ عزت مآب حاضرین، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی کے ثمرات عالم گیر اور ہمہ گیر ہوں۔ ہمیں ترقی کے ثمرات ہمدردی اور یکجہتی کے ساتھ تمام انسانوں تک پہنچانا ہوں گے۔ خواتین کی شمولیت کے بغیر عالمی ترقی ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے جی-20ایجنڈے میں بھی خواتین کے زیر قیادت ترقی کو ترجیح دینی ہوگی۔ امن اور سلامتی کے بغیر، ہماری آنے والی نسلیں معاشی ترقی یا تکنیکی اختراع سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی۔ جی-20 کو امن اور ہم آہنگی کے حق میں مضبوط پیغام دینا ہے۔ یہ تمام ترجیحات پوری طرح سے ہندوستان کی جی-20 کی صدارت کے موضوع – ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ میں شامل ہیں۔ معززحاضرین ، جی-20کی صدارت سنبھالنا ہر ہندوستانی کے لیے ایک قابل فخر موقع ہے۔ ہم اپنے ملک کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں جی-2-20 کے اجلاس منعقد کریں گے۔ ہمارے مہمانوں کو ہندوستان کے حیرت انگیز تنوع، جامع روایات اور ثقافتی فراوانی کا مکمل تجربہ حاصل ہوگا۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ سبھی ہندوستان’جمہوریت کی ماں‘ کے اس منفرد جشن میں شرکت کریں۔ ہم مل کر جی-20 کو عالمی تبدیلی کے لئے ایک محرک بنائیں گے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ! ڈس کلیمر – یہ وزیر اعظم کے تبصرے کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل تبصرے ہندی میں کئے گئے ہیں۔,বালিত অনুষ্ঠিত জি-২০ শীৰ্ষ সন্মিলনৰ সামৰণী অধিৱেশনত শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ ভাষণৰ অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A2%D8%A8-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-41/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے عزت مآب ڈاکٹر سری سری سری سیوکمارا سوامی گالوکو ان کے یوم پیدائش پرخراج عقیدت پیش کیا ہے۔ سلسلے وار ٹویٹس میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘میں عزت مآب ڈاکٹر سری سری سری شیوکمارا سوامی گالو کو ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ وہ لاتعداد لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔ ہم ان کی بے مثال عوامی خدمات اور صحت اور تعلیم پر ان کی خاص توجہ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ہم ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کی کام کرتے رہیں گے۔ ’’,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে মহামহিম ড০ শ্ৰী শ্ৰী শিৱকুমাৰ স্বামীগালুক তেওঁৰ জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%85-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%87-%E0%A6%A8%E0%A6%B9%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,نئی دہلی،23؍اکتوبر،وزیراعظم جناب نریندرمودی 24 اکتوبر 2018 کو ’’میں نہیں ہم‘‘ پورٹل اور ایپ کے آغاز کے موقع پر پورے بھارت کے آئی ٹی اور الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کے پیشہ ور ماہرین کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ یہ پورٹل ، جو ’’سیلف فار سوسائٹی‘‘ یعنی ’سماج کے لئے بذات خود‘ کے موضوع پر کام کرتا ہے، آئی ٹی کے پیشہ ور ماہرین اور تنظیموں کو سماجی مقاصد اور سماج کی خدمت کے تئیں کوششوں کے لئے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرتا ہے۔ ایسا کرنے میں امید کی جاتی ہے کہ یہ پورٹل سماج کے کمزور طبقوں کے تئیں زیادہ اشتراک اور خدمات کی فراہمی، خاص طور پر ٹیکنالوجی فوائد پہنچاکر بڑا مددگار ثابت ہوگا۔ امید ہے کہ یہ پورٹل دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کو فروغ دے گا جو سماج کے فائدے کے لئے کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وزیراعظم اہم صنعتی لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ وہ ایک اجتماع سے خطاب کریں گے جس میں آئی ٹی کے ماہرین اور آئی ٹی کے ملازمین اور الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کے ادارے شامل ہوں گے۔ وہ اس اجتماع سے ایک ٹاؤن ہال کے اسٹائل کے طریقہ کار پر گفتگو کریں گے۔ امید ہے کہ ملک بھر کے 100 سے زیادہ مقامات کے آئی ٹی اور الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کے ماہرین اس تقریب میں ویڈیو کانفرنس کے شرکت کریں گے۔,‘মেই নহী হাম’ প’ৰ্টেল আৰু এপছ মুকলি অনুষ্ঠানত তথ্য-প্ৰযুক্তি আৰু বৈদ্যুতিক সামগ্ৰী নিৰ্মাণ পেছাদাৰীৰে মতবিনিময় কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%88%DB%8C%DA%A9%D9%84-%DA%A9%D8%A7%D9%84%D8%AC-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A7%AF%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی وزیر صحت جناب من سکھ منڈاویا جی، اسٹیج پر موجود یوپی سرکار کے دیگر وزراء، جن دیگر مقامات پر نئے میڈیکل کالج بنے ہیں، وہاں موجود یوپی سرکار کے وزراء، پروگرام میں موجود سبھی رکن پارلیمنٹ، رکن اسمبلی، دیگر عوامی نمائندے، اور میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں، آج کا دن پوروانچل کے لیے، پورے اتر پردیش کے لیے آروگیہ کی ڈبل ڈوز لے کر آیا ہے، آپ کے لیے ایک تحفہ لے کر آیا ہے۔ یہاں سدھارتھ نگر میں یو پی کے 9 میڈیکل کالج کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس کے بعد پوروانچل سے ہی پورے ملک کے لیے بہت ضروری ایسے میڈیکل انفراسٹرکچر کی ایک بہت بڑی اسکیم شروع ہونے جا رہی ہے۔ اور اس بڑے کام کے لیے میں یہاں سے آپ کا آشیرواد لینے کے بعد، اس مقدس سرزمین کا آشیرواد لینے کے بعد، آپ سے بات چیت کے بعد کاشی جاؤں گا اور کاشی میں اس پروگرام کو لانچ کروں گا۔ ساتھیوں، آج مرکز میں جو سرکار ہے، یہاں یو پی میں جو سرکار ہے، وہ متعدد کرم یوگیوں کی دہائیوں کی تپسیا کا پھل ہے۔ سدھارتھ نگر نے بھی آنجہانی مادھو پرساد ترپاٹھی جی کی شکل میں ایک ایسا وقف عوامی نمائندہ ملک کو دیا، جن کی انتھک محنت آج ملک کے کام آ رہی ہے۔ مادھو بابو نے سیاست میں کرم یوگی کے قیام کے لیے پوری زندگی لگا دی۔ یوپی بی جے پی کے پہلے صدر کے طور پر، مرکز میں وزیر کے طور پر، انہوں نے خاص طور سے پوروانچل کی ترقی کی فکر کی۔ اس لیے سدھارتھ نگر کے نئے میڈیکل کالج کا نام مادھو بابو کے نام پر رکھنا ان کے خدمت کے جذبہ کے تئیں سچی کاریانجلی ہے۔ اور اس کے لیے میں یوگی جی اور ان کی پوری سرکار کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مادھو بابو کا نام یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان ڈاکٹروں کو عوامی خدمت کا مسلسل حوصلہ بھی دے گا۔ بھائیوں اور بہنوں، یوپی اور پوروانچل میں اعتقاد، روحانیت اور سماجی زندگی سے جڑی بہت تفصیلی وراثت ہے۔ اسی وراثت کو ��حت مند، قابل اور خوشحال اتر پردیش کے مستقبل کے ساتھ بھی جوڑا جا رہا ہے۔ آج جن 9 ضلعوں میں میڈیکل کالج کا افتتاح کیا گیا ہے، ان میں یہ نظر آتا بھی ہے۔ سدھارتھ نگر میں مادھو پرساد ترپاٹھی میڈیکل کالج، دیوریا میں مہرشی دیورہا بابا میڈیکل کالج، غازی پور میں مہرشی وشوامتر میڈیکل کالج، مرزاپور میں ماں وندھے واسنی میڈیکل کالج، پرتاپ گڑھ میں ڈاکٹر سونے لال پٹیل میڈیکل کالج، ایٹہ میں ویرانگنا اونتی بائی لودھی میڈیکل کالج، فتح پور میں عظیم لڑاکو امر شہید جودھا سنگھ اور ٹھاکر دریاؤں سنگھ کے نام پر میڈیکل کالج، جونپور میں اوما ناتھ سنگھ میڈیکل کالج، اور ہردوئی کا میڈیکل کالج۔ ایسے کتنے نئے میڈیکل کالج یہ سبھی میڈیکل کالج اب پوروانچل کے کروڑوں لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان 9 نئے میڈیکل کالجوں کی تعمیر سے، تقریباً ڈھائی ہزار نئے بیڈ تیار ہوئے ہیں، 5 ہزار سے زیادہ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل کے لیے روزگار کے نئے مواقع بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہر سال سینکڑوں نوجوانوں کے لیے میڈیکل کی پڑھائی کا نیا راستہ کھلا ہے۔ ساتھیوں، جس پوروانچل کو پہلے کی حکومتوں نے، بیماریوں سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیا تھا، وہی اب مشرقی بھارت کا میڈیکل ہب بنے گا، اب ملک کو بیماریوں سے بچانے والے متعدد ڈاکٹر یہ سرزمین ملک کو دینے والی ہے۔ جس پوروانچل کی شبیہ پچھلی سرکاروں نے خراب کر دی تھی، جس پوروانچل کو دماغی بخار سے ہوئی افسوسناک اموات کی وجہ سے بدنام کر دیا گیا تھا، وہی پوروانچل، وہی اتر پردیش، مشرقی بھارت کو صحت کا انیا اجالا دینے والا ہے۔ ساتھیوں، یوپی کے بھائی بہن بھول نہیں سکتے کہ کیسے یوگی جی نے پارلیمنٹ میں یوپی کے بدحال میڈیکل نظام کی آپ بیتی سنائی تھی۔ یوگی جی تب وزیر اعلیٰ نہیں تھے، وہ ایک رکن پارلیمنٹ تھے اور بہت چھوٹی عمر میں رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ اور اب آج یوپی کے لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جب یوگی جی کو عوام نے خدمت کا موقع دیا تو کیسے انہوں نے دماغی بخار کو بڑھنے سے روک دیا، اس علاقے کے ہزاروں بچوں کی زندگی بچا لی۔ سرکار جب حساس ہو، غریب کا درد سمجھنے کے لیے من میں ہمدردی کا جذبہ ہو، تو اسی طرح کا کام ہوتا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، ہمارے ملک میں آزادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی بنیادی طبی اور صحت سے متعلق سہولیات کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ اچھا علاج چاہیے تو بڑے شہر جانا ہوگا، اچھے ڈاکٹر سے علاج کرانا ہے، تو بڑے شہر جانا ہوگا، دیر رات کسی کی طبیعت خراب ہو گئی تو گاڑی کا انتظام کرو اور لے کر بھاگو شہر کی طرف۔ ہمارے گاؤں دیہات کی یہی سچائی رہی ہے۔ گاؤوں میں، قصبوں میں، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر تک میں بہتر طبی سہولیات مشکل سے ہی ملتی تھیں۔ اس تکلیف کو میں نے بھی برداشت کیا ہے، محسوس کیا ہے۔ ملک کے غریب، دلت، مظلوم، محروم، ملک کے کسان، گاؤوں کے لوگ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو سینے سے لگائے ادھر ادھر دوڑ رہی مائیں، ہمارے بزرگ، جب صحت کی بنیادی سہولیات کے لیے سرکار کی طرف دیکھتے تھے، تو انہیں ناامیدی ہی ہاتھ لگتی تھی۔ اسی نا امیدی کو میرے غریب بھائی بہنوں نے اپنی قسمت مان لیا تھا۔ جب 2014 میں آپ نے مجھے ملک کی خدمت کا موقع عطا کیا، تب پہلے کی حالت کو بدلنے کے لیے ہماری سرکار نے دن رات ایک کر دیا۔ عوام کی تکلیف کو سمجھتے ہوئے، عام انسانوں کے درد کو سمجھتے ہوئے، ان کے دکھ درد کو شیئر کرنے میں ہم حصہ دار بنے۔ ہم نے ملک کی طبی سہولیات کو بہتر کرنے کے لیے، جدیدیت لانے کے ل��ے ایک مہا یگیہ شروع کیا، متعدد اسکیمیں شروع کیں۔ لیکن مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ یہاں پہلے جو سرکا ر تھی، اس نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ترقی کے کاموں میں وہ سیاست کو لے آئی، مرکز کی اسکیموں کو یہاں یو پی میں آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ ساتھیوں، یہاں الگ الگ عمر کے بھائی بہن بیٹھے ہیں۔ کیا کبھی کسی کو یاد پڑتا ہے اور یاد پڑتا ہے تو مجھے بتانا کیا کسی کو یاد پڑتا ہے کہ اتر پردیش کی تاریخ میں کبھی ایک ساتھ اتنے میڈیکل کالج کا افتتاح ہوا ہو؟ ہوا ہے کبھی؟ نہیں ہوا ہے نا۔ پہلے ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا اور اب ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہے – سیاسی قوت ارادی اور سیاسی ترجیحات۔ جو پہلے تھے ان کی ترجیح – اپنے لیے پیسہ کمانا اور اپنی فیملی کی تجوری بھرنا تھا۔ ہماری ترجیح – غریب کا پیسہ بچانا، غریب کی فیملی کو بنیادی سہولیات دینا ہے۔ ساتھیوں، بیماری امیر غریب کچھ نہیں دیکھتی ہے۔ اس کے لیے تو سب برابر ہوتے ہیں۔ اور اس لیے ان سہولیات کا جتنا فائدہ غریب کو ہوتا ہے، اتنا ہی فائدہ متوسط طبقہ کے کنبوں کو بھی ہوتا ہے۔ ساتھیوں، 7 سال پہلے جو دہلی میں سرکار تھی اور 4 سال پہلے جو یہاں یو پی میں سرکار تھی، وہ پوروانچل میں کیا کرتے تھے؟ جو پہلے سرکار میں تھے، وہ ووٹ کے لیے نہیں ڈسپنسری کی کہیں، کہیں چھوٹے چھوٹے اسپتال کا اعلان کرکے بیٹھ جاتے تھے۔ لوگ بھی امید لگائے رہتے تھے۔ لیکن سالوں سال تک یا تو بلڈنگ ہی نہیں بنتی تھی، بلڈنگ ہوتی تھی تو مشینیں نہیں ہوتی تھیں، دونوں ہو گئیں تو ڈاکٹر اور دوسرا اسٹاف نہیں ہوتا تھا۔ اوپر سے غریبوں کے ہزاروں کروڑ روپے لوٹنے والی بدعنوانی کی سائیکل چوبیسوں گھنٹے الگ سے چلتی رہتی تھی۔ دوائی میں بدعنوانی، ایمبولینس میں بدعنوانی، تقرری میں بدعنوانی، ٹرانسفر پوسٹنگ میں بدعنوانی! اس پورے کھیل میں یو پی میں کچھ خاندان پرستوں کا تو خوب بھلا ہوا، بدعنوانی کی سائیکل تو خوب چلی، لیکن اس میں پوروانچل اور یو پی کی عام فیملی پستی چلی گئی۔ صحیح ہی کہا جاتا ہے- ’جاکے پاؤں نہ پھٹی بیوائی، وہ کیا جانے پیر پرائی‘ ساتھیوں، گزشتہ برسوں میں ڈبل انجن کی سرکار نے ہر غریب تک بہتر طبی سہولیات پہنچانے کے لیے بہت ایمانداری سے کوشش کی ہے، مسلسل کام کیا ہے۔ ہم نے ملک میں نئی صحت پالیسی نافذ کی تاکہ غریب کو سستا علاج ملے اور اسے بیماریوں سے بھی بچایا جا سکے۔ یہاں یو پی میں بھی 90 لاکھ مریضوں کو آیوشمان بھارت کے تحت مفت علاج ملا ہے۔ ان غریبوں کے آیوشمان بھارت کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے علاج میں خرچ ہونے سے بچے ہیں۔ آج ہزاروں جن اوشدھی کیندروں سے بہت سستی دوائیں مل رہی ہیں۔ کینسر کا علاج، ڈائلیسس اور ہارٹ کی سرجری تک بہت سستی ہوئی ہے، بیت الخلاء جیسی سہولیات سے متعدد بیماریوں میں کمی آئی ہے۔ یہی نہیں، ملک بھر میں بہتر اسپتال کیسے بنیں اور ان اسپتالوں میں بہتر ڈاکٹر اور دوسرے میڈیکل اسٹاف کیسے دستیاب ہوں، اس کے لیے بہت بڑے اور لمبے وژن کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔ اب اسپتالوں کا، میڈیکل کالجوں کا بھومی پوجن بھی ہوتا ہے اور ان کا مقررہ وقت پر افتتاح بھی ہوتا ہے۔ یوگی جی کی سرکار سے پہلے جو سرکار تھی، اس نے اپنی مدت کار میں یو پی میں صرف 6 میڈیکل کالج بنوائے تھے۔ یوگی جی کی مدت کار میں 16 میڈیکل شروع ہو چکے ہیں اور 30 نئے میڈیکل کالجوں پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ رائے بریلی اور گورکھپور میں بن رہے ایمس تو یوپی کے لیے ایک طرح سے ��ونس ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں، میڈیکل کالج صرف بہتر علاج ہی نہیں دیتے، بلکہ نئے ڈاکٹر، نئے پیرامیڈکس کی بھی تعمیر کرتے ہیں۔ جب میڈیکل کالج بنتا ہے تو وہاں پر خاص قسم کا لیباریٹری ٹریننگ سنٹر، نرسنگ یونٹ، میڈیکل یونٹ اور روزگار کے متعدد نئے وسائل بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے پہلے کی دہائیوں میں ملک میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ملک گیر حکمت عملی پر کام ہی نہیں ہوا۔ متعدد دہائی پہلے میڈیکل کالج اور میڈیکل ایجوکیشن کی دیکھ ریکھ کے لیے جو ضابطے قاعدے بنائے گئے تھے، جو ادارے بنائے گئے، جو پرانے طور طریقوں سے ہی چل رہے تھے۔ یہ نئے میڈیکل کالج کی تعمیر میں رکاوٹ بھی بن رہے تھے۔ گزشتہ 7 سالوں میں ایک کے بعد ایک ہر ایسے پرانے نظام کو بدلا جا رہا ہے، جو طبی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اس کا نتیجہ میڈیکل سیٹوں کی تعداد میں بھی نظر آتا ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں میڈیکل کی سیٹیں 90 ہزار سے بھی کم تھیں۔ گزشتہ 7 برسوں میں ملک میں میڈیکل کی 60 ہزار نئی سیٹیں جوڑی گئی ہیں۔ یہاں اتر پردیش میں بھی 2017 تک سرکاری میڈیکل کالجوں میں میڈیکل کی صرف 1900 سیٹیں تھیں۔ جب کہ ڈبل انجن کی سرکار میں پچھلے چار سال میں ہی 1900 سیٹوں سے زیادہ میڈیکل سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ساتھیوں، میڈیکل کالجوں کی تعداد بڑھنے کا، میڈیکل سیٹوں کی تعداد بڑھنے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں کے زیادہ سے زیادہ نوجوان ڈاکٹر بنیں گے۔ غریب ماں کے بیٹے اور بیٹی کو بھی اب ڈاکٹر بننے میں مزید آسانی ہوگی۔ سرکار کی مسلسل کوشش کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے بعد، 70 برسوں میں جتنے ڈاکٹر پڑھ لکھ کر نکلے، اس سے زیادہ ڈاکٹر ہم اگلے 12-10 برسوں میں تیار کر پائیں گے۔ ساتھیوں، نوجوانوں کو ملک بھر میں الگ الگ انٹرینس ٹیسٹ کی ٹینشن سے آزادی دلانے کے لیے وَن نیشن، وَن ایگزام کو نافذ کیا گیا ہے۔ اس سے خرچ کی بھی بچت ہوئی ہے اور پریشانی بھی کم ہوئی ہے۔ میڈیکل تعلیم غریب اور مڈل کلاس کی پہنچ میں ہو، اس کے لیے پرائیویٹ کالج کی فیس کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ مقامی زبان میں میڈیکل کی پڑھائی نہ ہونے سے بھی بہت دقتیں آتی تھیں۔ اب ہندی سمیت متعدد ہندوستانی زبانوں میں بھی میڈیکل کی بہترین پڑھائی کا متبادل دے دیا گیا ہے۔ اپنی مادری زبان میں جب نوجوان سیکھیں گے تو اپنے کام پر ان کی پکڑ بھی بہتر ہوگی۔ ساتھیوں، اپنی صحت سے متعلق سہولیات کو یوپی تیزی سے بہتر کر سکتا ہے، یہ یوپی کے لوگوں نے اس کورونا دور میں بھی ثابت کیا ہے۔ چار دن پہلے ہی ملک نے 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ اور اس میں یو پی کا بھی بہت بڑا تعاون ہے۔ میں یو پی کے تمام عوام، کورونا واریئرز، حکومت، انتظامیہ اور اس سے جڑے سبھی لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آج ملک کے پاس 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا سیکورٹی کور ہے۔ باوجود اس کے کورونا سے تحفظ کے لیے یوپی اپنی تیاریوں میں مصروف ہے۔ یوپی کے ہر ضلع میں کورونا سے نمٹنے کے لیے بچوں کی کیئر یونٹ یا تو بن چکی ہے یا تیزی سے بن رہی ہے۔ کووڈ کی جانچ کے لیے آج یوپی کے پاس 60 سے زیادہ لیبس موجود ہیں۔ 500 سے زیادہ نئے آکسیجن پلانٹس پر بھی تیزی سے کام چل رہا ہے۔ ساتھیوں، یہی تو سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس یہی تو اس کا راستہ ہے۔ جب سبھی صحت مند ہوں گے، جب سبھی کو موقع ملے گا، تب جا کر سب کا پریاس ملک کے کام آئے گا۔ دیوالی اور چھٹھ کا تہوار اس بار پوروانچل میں آروگیہ ک�� نیا اعتماد لے کر آیا ہے۔ یہ اعتماد، تیز رفتار ترقی کی بنیاد بنے، اسی دعا کے ساتھ نئے میڈیکل کالج کے لیے پورے یوپی کو پھر سے بہت بہت مبارکباد اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ بھی اتنی بڑی تعداد میں ہمیں آشیرواد دینے کے لیے آئے اس لیے میں خاص طور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,উত্তৰ প্ৰদেশত ৯খন চিকিত্সা মহাবিদ্যালয় উদ্বোধন কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%AC%D8%A7-%D8%B1%DB%81%DB%92-%D9%88%DB%8C%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6-4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلی کے وگیان بھون میں سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی) کے ذریعے منائے جا رہے ویجیلنس بیداری ہفتہ کے پروگرام سے خطاب کیا اور سی وی سی کے نئے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم پورٹل کا افتتاح کیا۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ویجیلنس بیداری ہفتے کی شروعات سردار پٹیل کی سالگرہ کے ساتھ ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘سردار پٹیل کی پوری زندگی ایمانداری ، شفافیت اور ان اقدار پر مبنی پبلک سروس سسٹم کی تعمیر کے لیے وقف تھی۔ ’’ وزیراعظم نے کہا کہ بیداری اور محتاط رہنے کی یہ مہم انہیں اصولوں پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویجیلنس بیداری ہفتہ کی یہ مہم بدعنوانی سے پاک بھارت کے خوابوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے چلائی جا رہی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ہر ایک شہری کی زندگی میں اس کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے بھروسہ اور اعتماد ضروری ہیں۔ حکومت پر عوام کے بھروسہ سے لوگوں کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ وزیراعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پچھلی سرکاروں نے نہ صرف عوام کا بھروسہ کھایا بلکہ وہ عوام پر بھروسہ کرنے میں بھی ناکام رہے۔ بدقسمتی سے بدعنوانی ، استحصال اور وسائل کے اوپر کنٹرول کی طویل مدتی غلامی کو آزادی کے بعد زیادہ مضبوطی حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے اس ملک کی کم از کم چار نسلوں کو بری طرح نقصان پہنچا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہمیں آزادی کا امرت کال میں اس برسوں پرانے طریقے کو پوری طرح تبدیل کرنا ہوگا۔ ’’ لال قلعہ کی فصیل سے بدعنوانی کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی اپنی اپیل کو یاد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بدعنوانی کی دو وجہیں ہیں جو لوگوں کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں یعنی بنیادی سہولیات کی کمی اور حکومت کی طرف سے غیرضروری دباؤ۔ انہوں نے کہا کہ لمبے عرصے سے بنیادی سہولیات اور مواقع کی اس کمی کو جان بوجھ کر زندہ رکھا گیا اور اس فرق کو مزید بڑا ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے ایک غیر صحت مند مقابلے کی شروعات ہوئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا تھا۔ اسی کی وجہ سے بدعنوانی کا ایکو سسٹم تیار ہوا ۔ کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدعنوانی کا سب سے برا اثر غریبوں اور متوسط طبقوں کو ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ ‘‘اگر غریب اور متوسط طبقہ بنیادی ضروریات پر اپنی توانائی صرف کرنے لگے تو یہ ملک کیسے ترقی کرے گا؟ اسی لیے ہم گذشتہ آٹھ سالوں سے کمی اور دباؤ کے اس سسٹم کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے تین طریقے اپنائے گئے ہیں : ٹکنالوجی میں پیش رفت، بنیادی خدمات کو سیچوریشن کی سطح تک پہنچانا اور آخر میں آتم نربھرتا کی طرف کوچ کرنا۔ ’’ ٹکنالوجی کے استعمال کے معاملے میں وزیراعظم نے پی ڈی ایس کو ٹکنالوجی سے جوڑنے کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے کروڑوں فرضی مستفیدین کو ہٹانے میں مدد ملی اور ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کو اپنانے سے دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئی۔ اسی طرح شفاف ڈیجیٹل لین دین کا طریقہ اپنانے اور جی ای ایم کے ذریعے شفاف سرکاری خریداری کی وجہ سے بہت بڑا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی سہولیات کو سیچوریشن کی سطح تک لے جانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کسی بھی سرکاری اسکیم کا ہر ایک حقدار تک پہنچنا اور سیچوریشن کے مقاصد کو حاصل کرنے سے معاشرے میں تفریق کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بدعنوانی کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہر ایک اسکیم کی ڈلیوری کے لیے حکومت کے ذریعے اپنائے گئے سیچوریشن کے اصول کو اجاگر کرتے ہوئے وزیراعظم نے پانی کے کنکشن ، پکا مکان، بجلی کا کنکشن اور گیس کے کنکشن کی مثالیں پیش کیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی سامانوں پر حد سے زیادہ انحصار بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔ انہوں نے دفاعی شعبے میں آتم نربھرتا حاصل کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کی جا رہی کوششوں کا ذکر کیا اور کہا کہ گھوٹالے کے تمام امکانات اب اس لیے ختم ہو رہے ہیں کیونکہ بھارت اب خود ہی دفاعی ساز و سامان ، رائفل سے لے کر جنگی طیارے اور مسافر بردار طیارے بنانے لگا ہے۔ سی وی سی کو ایک ایسا ادارہ قرار دیتے ہوئے جو شفافیت کو یقینی بنانے میں ہر ایک کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، وزیراعظم نے اپنی پچھلی بار کی ‘احتیاطی ویجیلنس’ کی درخواست کو یاد کیا اور اس سمت میں سی وی سی کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے ویجیلنس کمیونٹی سے اپنے آڈٹ اور جانچ کو جدید بنانے کے بارے میں سوچنے کو بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘بدعنوانی کے خلاف حکومت جس قسم کی قوت ارادی کا مظاہرہ کر رہی ہے ویسی ہی قوت ارادہی کا مظاہرہ تمام محکموں میں نظر آنا ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ہمیں ایک ایسا انتظامی ایکو سسٹم تیار کرنا ہوگا جہاں بدعنوانی پر زیرو ٹالرینس ہو۔ ’’ وزیراعظم نے ایک ایسے سسٹم کے بارے میں سوچنے کے لیے کہا جہاں بدعنوانی سے متعلق تادیبی کارروائیاں مقررہ مدت کے اندر مشن موڈ میں مکمل ہو جائے۔ انہوں نے جرائم کے معاملوں کی لگاتار نگرانی کرنے کا بھی مشورہ دیا اور ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے کی اپیل کی جہاں محکموں کی درجہ بندی ، بدعنوانی کے زیر التوا معاملوں کی بنیاد پر کی جائے اور متعلقہ رپورٹس ماہانہ یا سہ ماہی کی بنیاد پر شائع کی جائیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ویجیلنس کلیئرینس کے عمل کو ٹکنالوجی کی مدد سے مکمل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی شکایات کے ڈیٹا کی آڈیٹنگ کی ضرورت ہے تاکہ متعلقہ محکمے میں بدعنوانی کی جڑوں تک پہنچا جا سکے۔ وزیراعظم نریندر مودی بدعنوانی پر نظر رکھنے کے کام میں عام شہریوں کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘بدعنوان شخص چاہے کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو انہیں کسی بھی حالت میں بچایا نہیں جانا چاہیے، اس کی ذمہ داری آپ جیسے اداروں کی ہے۔ کسی بھی بدعنوان شخص کو سیاسی یا سماجی حمایت حاصل نہیں ہونی چاہیے، ہر بدعنوان شخص کو معاشرے کے ذریعے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چ��ہیے، ایسا ماحول بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ تشویشناک صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہم نے ایسا کئی بار دیکھا ہے کہ بدعنوانی ثابت ہونے پر جیل ہو جانے کے باوجود بدعنوان لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ حالت ہندوستانی معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ آج بھی کچھ لوگ قصوروار پائے گئے بدعنوان لوگوں کے حق میں بحث کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں ، ایسی طاقتوں کو معاشرے کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ضروری ہے۔ اس معاملے میں آپ کے محکمے کے ذریعے ادا کیے گئے ٹھوس اقدام نے بڑا رول نبھایا ہے۔ ’’ وزیراعظم نے بدعنوان او ربدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنے والے سی وی سی جیسے اداروں کو کہا کہ انہیں کسی بھی طریقے سے دفاعی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی سیاسی ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں عام شہریوں کی زندگی کو آسان بنانے کےلیے کام کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘جن لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں وہ ان کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے اور ان اداروں سے جڑے افراد کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ لیکن جنتا جناردن بھگوان کا ایک روپ ہے، انہیں سچائی کا علم ہے اور وہ اسے اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔ اس لیے وقت آنے پر وہ سچائی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے تمام لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے پورا کرنے کےلیے سچائی کے راستے پر چلیں اور زور دیا کہ ‘‘جب آپ ایمانداری سے کام کرتے ہیں تو پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔’’ اپنے خطاب کے اختتام پر وزیراعظم نے کہا کہ ذمہ داری بہت بڑی ہے اور چنوتیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘مجھے پورا یقین ہے کہ آپ امرت کال میں ایک شفاف اور مسابقتی ایکو سسٹم تیار کرنے میں اپنا اہم کردار نبھاتے رہیں گے۔ ’’ انہوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے مضمون نگاری کے مقابلے کے فاتحین سے بات چیت کرنے پر خوشی کا اظہار کیا اور مستقبل میں تقریری مقابلے شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی کے موضوع پر منعقدہ مضمون نگاری کے مقابلہ کے پانچ فاتحین میں سے چار لڑکیاں ہیں ، وزیراعظم نے لڑکوں سے اپیل کی کہ وہ بدعنوانی کے خلاف اس لڑائی میں اپنا تعاون بھی دیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘صفائی کی اہمیت تبھی سمجھ میں آتی ہے جب گندگی کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ جب قانون کے دائرۂ اختیار سے باہر کام کرنے والوں کو چیک کرنے کی بات آتی ہے تب ٹکنالوجی کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ ’’ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں جہاں تک ممکن ہو ٹکنالوجی کی مدد لی جانی چاہیے۔ اس موقعے پر پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا ، عملہ اور پارلیمانی امور کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ ، کابینہ سکریٹری ، سینٹر ویجیلنس کمشنر جناب سریش این پٹیل اور ویجیلنس کمشنر جناب پی کے سری واستو اور جناب اروند کمار بھی موجود تھے۔ پس منظر یہ پورٹل شہریوں کو اول تا آخر معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شکایتوں کی تازہ صورتحال کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کرنے کی خاطر شروع کیا گیا ہے۔ وہ ‘‘اخلاقیات اور اچھے طور طریقے ’’ پر متعدد تصویری کتابیں ، ‘‘احتیاطی ویجیلنس ’’ کے بہترین طور طریقے کا مجموعہ اور سرکاری خریداری پر خصوصی شمارہ ‘‘وجیئے وانی’’ کا بھی اجرا کریں گے۔ ��ی وی سی ، زندگی کے تمام شعبوں میں بیداری کا پیغام پھیلانے کے لیے ہر سال تمام متعلقین کو اکٹھا کرنے کے لیے ویجیلنس بیداری ہفتہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اس سال اسے ‘‘ترقی یافتہ ملک کے لیے بدعنوانی سے پاک بھارت ’’ تھیم پر 31 اکتوبر سے 6 نومبر تک منایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے ویجیلنس بیداری ہفتہ کے مذکورہ بالا تھیم پر سی وی سی کے ذریعے ملک گیر سطح پر منعقد کیے گئے مضمون نگاری کے مقابلے کے دوران بہترین مضامین لکھنے والے پانچ طلبا کو انعامات سے بھی نوازا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ق ت۔ ت ح۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে নতুন দিল্লীত সতৰ্কতা সজাগতা সপ্তাহ উপলক্ষে আয়োজিত কাৰ্যসূচীত ভাষণ দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81%D8%8C-%D8%A7%DA%AF%D8%B1%D8%AA%D9%84%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8/,"بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! پروگرام میں موجود تریپورہ کے گورنر جناب ست دیو نارائن آریہ جی، یہاں کے مقبول وزیراعلی جناب مانک ساہا جی، مرکزی کابینہ میں میری معاون پرتیما بھومک جی، تریپورہ اسمبلی کے اسپیکر جناب رتن چکرورتی ، نائب وزیراعلی جناب جشنو دیو ورما جی، میرے دوست ممبر پارلیمنٹ جناب بپلب دیو جی، تریپورہ سرکار کے تمام معزز وزراء اور میرے عزیز تریپورہ کے باشندو! नॉमॉश्कार! खुलुमखा! माता त्रिपुरासुन्दरीर पून्यो भुमिते एशे आमि निजेके धोंनयो मोने कोरछी। سب سے پہلے تو میں آپ سب سے سر جھکاکر معافی مانگتا ہوں، کیونکہ مجھے آنے میں تقریباً دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ میں میگھالیہ میں تھا۔ وہاں وقت ذرا زیادہ ہوگیا اور مجھے بتایا گیا کہ کچھ لوگ تو گیارہ – بارہ بجے سے بیٹھے ہیں۔ آپ لوگوں نے جو یہ تکلیف اٹھائی اور آشیرواد دینے کے لئے رکے رہے، اس کے لئے میں آپ کا جس قدر شکریہ ادا کروں، وہ کم ہے۔ میں سب سے پہلے تریپورہ کے لوگوں کا استقبال کرتا ہوں کہ آپ سب کی کوشش سے یہاں صاف صفائی سے جڑی بہت بڑی مہم چلائی گئی ہے۔ گزرے پانچ سالوں میں آپ نے صاف صفائی کو عوامی تحریک بنادیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس بار تریپورہ چھوٹی ریاستوں میں ملک کی سب سے صاف و شفاف ریاست بن کر ابھری ہے۔ ساتھیو، ماں تریپورہ سندری کے آشیرواد سے تریپورہ کے ترقیادتی سفر کو آج نئی بلندی مل رہی ہے۔ کنکٹی وٹی ،اسکل ڈیولپمنٹ اور غریبوں کے گھروں سے متعلق تمام اسکیموں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ آج تریپورہ کو اپنا پہلا ڈینٹل کالج ملا ہے۔ اس سے تریپورہ کے نوجوانوں کو یہاں ڈاکٹر بننے کا موقع ملے گا۔ آج تریپورہ کے 2 لاکھ سے زیادہ غریب خاندان اپنے گھر میں، نئے پختہ گھرمیں داخل ہو رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مکانات ہماری ماؤں بہنوں کی ملکیت ہیں اور آپ سب کو پتہ ہے کہ یہ ایک ایک گھر لاکھوں روپے کے صرفے سے تعمیر ہوا ہے۔ بہت سی بہنیں ایسی ہیں جن کے نام پر پہلی بار کسی جائیداد کا اندراج ہوا ہے۔ لاکھوں روپے کے مکانات کی مالک، میں ان تمام بہنوں کو آج میں تریپورہ کی سرزمین سے، اگرتلہ کی سرزمین سے ، تریپورہ کی اپنی ماؤں اور بہنوں کو لکھ پتی بننے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تریپورہ غریبوں کے لیے مکانات کی تعمیر میں ملک کی سرکردہ ریاستوں میں شامل ہے۔ مانک جی اور ان کی ٹیم قابل ستائش کام کر رہی ہے اور ہم تو جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں اگر کوئی ہمیں رات کو بھی پناہ دے تو زندگی بھر اس کی برکت ملتی ہے۔ یہاں تو ہر ایک کو سر پر پختہ چھت ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تریپورہ کا بھرپور آشیرواد ہم سب کو مل رہا ہے۔ میں ایئرپورٹ سے یہاں آیا، اس میں کچھ وقت لگا کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ایئرپورٹ کتنی دور ہے۔ راستے کے دونوں طرف جس طرح سے عوامی سیلاب امڈا تھا لوگ بڑی تعداد میں آکر آشیرواد دے رہے تھے۔ جتنے لوگ یہاں ہیں، شاید اس سے دس گنا زیادہ لوگ روڈ پر آشیرواد دینے کے لئے آئے تھے۔ میں ان کو بھی سلام کرتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، میں اس سے پہلے میگھالیہ میں ن شمال مشرقی کونسل کی گولڈن جوبلی میٹنگ میں تھا۔ اس میٹنگ میں، ہم نے آنے والے برسوں میں تریپورہ سمیت شمال مشرق کی ترقی کے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کیا۔ میں نے وہاں اشٹ لکشمی یعنی شمال مشرق کی 8 ریاستوں کی ترقی کے لیے مضبوط بنیاد کے آٹھ نکات پر تبادلہ خیال کیا۔ تریپورہ میں تو ڈبل انجن سرکار ہے۔ ایسے میں ترقی کا یہ روڈ میپ یہاں تیزی سے زمین پر اتر رہا ہے، اس میں مزید تیزی آئے ہم اس سمت میں کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھیو، ڈبل انجن والی سرکار بننے سے پہلے تک تریپورہ اور شمال مشرق پر صرف دو مرتبہ بات چیت ہوتی تھی۔ ایک تو جب انتخابات ہوتے تھے، تب بات ہوتی تھی اور دوسرے جب تشدد کا کوئی واقعہ رونما ہوتا تھا تو اس پر بات ہوتی تھی۔ اب وقت بدل گیا ہے، آج تریپورہ میں صفائی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے تعلق سے بات ہو رہی ہے۔ غریبوں کو لاکھوں گھر مل رہے ہیں، اس کی بات ہو رہی ہے۔ مرکزی سرکار تریپورہ کے کنیکٹیویٹی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کے لیے ہزاروں کروڑ روپے دے رہی ہے اور یہاں کی سرکار اسے تیزی سے زمین پر اتار کر اس میں حقیقت کا رنگ بھر رہی ہے۔ آج دیکھیں کہ تریپورہ میں قومی شاہراہ کی کتنی توسیع ہوچکی ہے۔ پچھلے 5 سالوں میں کتنے نئے گاؤں سڑکوں سے منسلک ہوئے ہیں۔ آج تریپورہ کے ہر گاؤں کو سڑکوں سے جوڑنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ آج جن سڑکوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان سڑکوں سے تریپورہ کا سڑکوں کا جال مزید مضبوط ہونے والا ہے۔ اگرتلہ بائی پاس سے راجدھانی میں ٹریفک کا نظام مزید بہتر ہوگا اور زندگی میں آسانی آئےگی۔ ساتھیو، اب شمال مشرق تریپورہ کے ذریعے بین الاقوامی تجارت کا بھی ایک گیٹ وے بن رہا ہے۔ اگرتلہ-اکھوڑہ ریلوے لائن سے تجارت کا نیا راستہ کھلے گا۔ اسی طرح، ہندوستان-تھائی لینڈ-میانمار ہائی وے جیسے روڈ انفراسٹرکچر کے ذریعے شمال مشرق دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کا دروازہ بھی بن رہا ہے۔ اگرتلہ میں مہاراجہ بیر بکرم ہوائی اڈے پر بھی بین الاقوامی ٹرمینل کی تعمیر کے ساتھ ہی ملک اور بیرون ملک رابطے آسان ہو گئے ہیں۔ اس سے، تریپورہ شمال مشرق کے لیے ایک اہم لاجسٹکس ہب کی شکل میں فروغ پا رہا ہے۔ تریپورہ میں انٹرنیٹ لانے کے لیے ہم نے جو محنت کی ہے اس کا فائدہ آج لوگوں کو، خاص طور پر میرے نوجوانوں کو مل رہا ہے۔ ڈبل انجن سرکار بننے کے بعد، تریپورہ کی متعدد پنچایتوں تک آپٹیکل فائبر پہنچ گیا ہے۔ ساتھیو، بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار نہ صرف فزیکل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر ہی نہیں بلکہ سوشل انفراسٹرکچر پر بھی زور دے رہی ہے۔ آج بی جے پی سرکار کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ علاج گھر کے قریب ہونا چاہیے، سستا ہونا چاہیے اور ہر کسی کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔ آیوشمان بھارت اسکیم اس میں بہت مفید ہے۔ آیوشمان ��ھارت اسکیم کے تحت شمال مشرق کے گاؤوں میں 7 ہزار سے زیادہ صحت اور بہبود کے مراکز کو منظوری دی گئی ہے۔ اس میں سے تقریباً 1000 مراکز یہاں تریپورہ میں قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان مراکز میں ہزاروں مریضوں کی کینسر، ذیابیطس جیسی متعدد سنگین بیماریوں کے لیے اسکریننگ کی گئی ہے۔ اسی طرح آیوشمان بھارت-پی ایم جے اسکیم کے تحت تریپورہ کے ہزاروں غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت بھی مل رہی ہے۔ ساتھیو، بیت الخلا ہو، بجلی ہو یا گیس کنکشن، پہلی بار ان پر اتنا وسیع کام کیا گیا ہے۔ اب تو گیس گرڈ بھی بنا دیا گیا ہے۔ تریپورہ کے گھروں تک سستی پائپ گیس پہنچانے کے لیے ڈبل انجن سرکار تیزی سے کام کر رہی ہے۔ ہر گھر تک پائپ سے پانی پہنچانے کے لیے بھی ڈبل انجن سرکار دگنی رفتار سے کام کر رہی ہے۔ صرف 3 سالوں میں ہی تریپورہ کے 4 لاکھ نئے کنبوں کو پائپ سے پانی کی سہولت سے جوڑا گیا ہے۔ 2017 سے پہلے تریپورہ میں غریبوں کے حق کے راشن کی لوٹ مار ہوتی تھی۔ آج ڈبل انجن والی سرکار ہر غریب تک اس کے حصے کا راشن بھی فراہم کر رہی ہے اور پچھلے 3 سالوں سے مفت راشن بھی مہیا کرا رہی ہے۔ ساتھیو، ایسی تمام اسکیموں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہماری مائیں، بہنیں ہیں۔ تریپورہ کی ایک لاکھ سے زیادہ حاملہ ماؤں کو بھی پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا کا فائدہ ملا ہے۔ اس کے تحت غذائیت سے بھرپور خوراک کے لیے ہر ماں کے بینک اکاؤنٹ میں ہزاروں روپے براہ راست جمع کیے گئے ہیں۔ آج ہسپتالوں میں زیادہ سے زیادہ ڈلیوری ہو رہی ہے، جس سے ماں اور بچے دونوں کی جانیں بچ رہی ہیں۔ تریپورہ میں بہنوں اور بیٹیوں کو خود کفیل بنانے کے لیے جس طرح سے سرکاری یہاں اقدامات کر رہی ہے وہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ سرکار نے خواتین کے روزگار کے لیے سینکڑوں کروڑ کا خصوصی پیکیج دیا ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار کے آنے سے تریپورہ میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کی تعداد 9 گنا بڑھ گئی ہے۔ بھائیو اور بہنو، دہائیوں سے تریپورہ میں ایسی پارٹیوں کی سرکار رہی ہے جن کے نظریے کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور جو موقع پرستی کی سیاست کرتی ہیں۔ انہوں نے تریپورہ کو ترقی سے محروم رکھا۔ تریپورہ کے پاس جو وسائل تھے، ان کا اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اس سے سب سے زیادہ نقصان غریبوں، نوجوانوں، کسانوں اور میری ماؤں بہنوں کو پہنچا۔ اس قسم کا نظریہ، اس قسم کی ذہنیت سےعوام کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ وہ صرف منفی باتیں پھیلانا جانتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ ڈبل انجن سرکار ہی ہے، جس کے پاس عزم کے ساتھ ساتھ کامیابی کے لیے ایک مثبت راستہ بھی ہے۔ جب کہ تریپورہ میں ایکسلریٹر کی ضرورت پڑنے پر مایوسی پھیلانے والے لوگ ریورس گیئر میں چلتے ہیں۔ ساتھیو، اقتدار کی اس سیاست نے ہمارے قبائلی معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ قبائلی معاشرے اور قبائلی علاقوں کو ترقی سے دور رکھا گیا۔ بی جے پی نے اس سیاست کو بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بی جے پی قبائلی سماج کی پہلی پسند ہے۔ گجرات میں ابھی ابھی الیکشن ہوئے ہیں۔ 27 سال بعد بھی بی جے پی نے گجرات میں جو زبردست جیت حاصل کی ہے، اس میں قبائلی سماج کا بہت بڑا حصہ ہے۔ بی جے پی نے قبائلیوں کے لیے محفوظ 27 نشستوں میں سے 24 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ساتھیو، اٹل جی کی سرکار نے سب سے پہلے قبائلیوں کے لیے الگ وزارت اور الگ بجٹ کا بندوبست کیا۔ جب سے آپ نے ہمیں دہلی میں موقع دیا ہے، تب سے ہم نے قبائلی برادری سے جڑے ہر مسئلے کو ترجیح دی ہے۔ قبائلی برادری کا بجٹ جو 21 ہزار کروڑ روپے تھا، وہ آج 88 ہزار کروڑ روپے ہے۔ اسی طرح قبائلی طلباء- طالبات کے وظائف کو بھی دوگنا سے زیادہ کر دیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ تریپورہ کے قبائلی سماج کو بھی پہنچا ہے۔ 2014 سے پہلے جہاں قبائلی علاقوں میں 100 سے کم ایکلویہ ماڈل اسکول تھے، وہیں آج یہ تعداد 500 سے تجاوز کر رہی ہے۔ تریپورہ کے لیے بھی ایسے 20 سے زیادہ اسکولوں کی منظوری دی گئی ہے۔ پہلے کی سرکاریں صرف 8-10 جنگلاتی مصنوعات پر ہی ایم ایس پی دیتی تھیں۔ بی جے پی سرکار 90 جنگلاتی پیداوار پر ایم ایس پی دے رہی ہے۔ آج قبائلی علاقوں میں 50,000 سے زیادہ ون دھن کیندر ہیں، جن کے ذریعے تقریباً 9 لاکھ قبائلیوں کو روزگار مل رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہماری بہنیں ہیں۔ یہ بی جے پی کی ہی سرکار ہے جس نے بانس کے استعمال اور تجارت کو قبائلی سماج کے لیے آسان بنادیا ہے۔ ساتھیو، یہ بی جے پی سرکار ہے جس نے پہلی بار قبائلی یوم فخر کی اہمیت کو سمجھا ہے۔ بی جے پی سرکار نے 15 نومبر کو بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش کو پورے ملک میں قبائلی فخر کے دن کے طور پر منانا شروع کیا۔ ملک کی آزادی میں قبائلی برادری کے تعاون کو بھی آج ملک اور دنیا تک پہنچایا جا رہا ہے۔ آج ملک بھر میں 10 ْٹرائبل فریڈم فائٹر میوزیم قائم کیے جا رہے ہیں۔ یہاں تریپورہ میں بھی حال ہی میں صدر جمہوریہ محترمہ د دروپدی مرمو جی نے مہاراجہ بیرندر کشور مانکیہ میوزیم اور ثقافتی مرکز کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ تریپورہ سرکار بھی قبائلی شراکت اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ تریپورہ کے قبائلی آرٹ کلچر کو آگے بڑھانے والی اہم شخصیات کو پدم سمان دینے کا اعزاز بھی بی جے پی سرکار نے حاصل کیا ہے۔ ایسی بہت سی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ تریپورہ سمیت پورے ملک میں قبائلی برادری کا اعتماد بی جے پی پر سب سے زیادہ ہے۔ بھائیو اور بہنو، ڈبل انجن والی سرکار کی یہ کوشش ہے کہ تریپورہ کے چھوٹے کسانوں اور چھوٹے کاروباریوں کو بہترین مواقع ملیں۔ یہاں کا لوکل کیسے گلوبل بنے اس کے لئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج تریپورہ کا پائن ایپل بیرون ملک تک پہنچ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں سے سینکڑوں میٹرک ٹن دیگر پھل اور سبزیاں بھی بنگلہ دیش، جرمنی اور دبئی برآمد کی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو اپنی پیداوار کی زیادہ قیمت مل رہی ہے۔ تریپورہ کے لاکھوں کسانوں کو پی ایم کسان سمان ندھی سے بھی اب تک 500 کروڑ روپے سے زیادہ مل چکے ہیں۔ بی جے پی سرکار آج تریپورہ میں اگر کی لکڑی کی صنعت پر جس طرح زور دے رہی ہے، آنے والے سالوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اس سے تریپورہ کے نوجوانوں کو نئے مواقع ملیں گے اور کمائی کا نیا ذریعہ ملے گا۔ ساتھیو، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تریپورہ اب امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب تریپورہ میں ترقی کا ڈبل انجن نتائج دے رہا ہے۔ مجھے تریپورہ کے عوام کی صلاحیت پر پورا بھروسہ ہے۔ ہم ترقی کی رفتار کو تیز کریں گے، اسی یقین کے ساتھ آج تریپورہ کے روشن مستقبل کے لیے، جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اور وقف کیا گیا ہے، میں ایک بار پھر تریپورہ کے باشندوں کے تئیں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ اس امید کے ساتھ کہ تریپورہ آنے والے وقت میں نئی بلندیوں کو حاصل کرے گا۔ بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ج ق۔ ن ا۔",ত্ৰিপ���ৰাৰ আগৰতালাত বিভিন্ন উন্নয়ণী প্ৰকল্পৰ শুভাৰম্ভ ঘোষণা কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-53-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DA%91%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AA-%E0%A7%A6%E0%A7%A8-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%9A/,نئی دہلی،24 فروری / میرے پیارے اہل وطن ، آداب! من کی بات شروع کرتے ہوئے آج من بھرا ہوا ہے۔ 10 دن قبل بھارت ماتا نے اپنے بہادر سپوتوں کو کھو دیا۔ ان بلند اقبال بہادروں نے ہم سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی حفاظت میں خود کو کھپا دیا۔ اہل وطن چین کی نیند سو سکیں اس لئے ہمارے ان بہادروں سپوتوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے میں بہادر جوانوں کی شہادت کے بعد ملک بھر میں لوگوں کو اور لوگوں کے من میں زخم اور غصہ ہے۔ شہیدوں اور ان کے کنبوں کے تئیں چاروں طرف احساسات امڈ پڑے ہیں۔ اس دہشت گردانہ تشدد کی مخالفت میں جو غصہ آپ کے اور میرے من میں ہے وہی جذبہ ہر اہل وطن کے من میں ہے۔ اور انسانیت میں یقین کرنے والی دنیا کے بھی انسانیت نواز برادریوں میں ہے۔ بھارت کی حفاظت کرنے میں اپنے جان نچھاور کرنے والے ملک کے سبھی بہادر سپوتوں کو میں سلام کرتا ہوں۔ یہ شہادت دہشت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہمیں مسلسل ترغیب دیتی رہے گی، ہمارے عزم کو اور مضبوط کرے گی۔ ملک کے سامنے آئے اس چیلنج کا سامنا ہم سب کو ذات پات ، فرقہ پرستی ، علاقائیت اور دیگر سبھی طرح کے اختلافات کو بھولا کر کرنا ہے۔ تاکہ دہشت کے خلاف ہمارے قدم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوں، طاقت ور ہوں اور فیصلہ کن ہوں ۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ ہی غیر معمولی حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ امن کے قیام کے لئے جہاں انہوں نے غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہیں حملہ آوروں کو بھی ان ہی کی زبان میں جواب دینے کا کام کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حملے کے سو گھنٹے کے اندر ہی کس قدر سے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ فوج نے دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔ بہادر فوجیوں کی شہادت کے بعد میڈیا کے ذریعے سے ان کے رشتے داروں کی جو حوصلہ افزا باتیں سامنے آئی ہیں اس نے پورے ملک کےحوصلے کو مزید تقویت دی ہے۔ بہار کے بھاگل پور کے شہید رتن ٹھاکر کے والد رام نرنجن جی نے دکھ کی اس گھڑی میں بھی جس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے کو بھی دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھیجیں گے اور ضرورت پڑی تو خود بھی لڑنے جائیں گے۔ اڈیشہ کے جگت سنگھ پور کے شہید پرسنہ ساہو کی بیوی مینا جی کے غیر معمولی حوصلے کو پورا ملک سلام کر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی سی آر پی ایف جوائن کرانے کا عہد کیا ہے۔ جب ترنگے میں لپٹے شہید وجے شورین کی لاش جھارکھنڈ کے گملا پہنچی تو معصوم بیٹے نے یہی کہا کہ میں بھی فوج میں جاؤں گا۔ اس معصوم کا جذبہ آج بھارت کے بچے بچے کی جذبے کو ظاہر کرتا ہے ۔ایسے ہی جذبات ہمارے بہادر ، حوصلہ مند ، شہیدوں کے گھر گھر میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارا ایک بھی بہادر شہید اس کا استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے وہ دیوریا کے شہید وجے موریہ کا خاندان ہو ، کانگڑا کے شہید تلک راج کے والدین ہوں یا پھر کوٹہ کے شہید ہیمراج کا 6 سالہ بیٹا ہو ، شہیدوں کے ہر خاندان کی کہانی ترغیب سے بھری ہوئی ہے۔ میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کنبوں نے جو جذبہ دکھایا ہے جن جذبات کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کو جانیں ، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں ، وطن سے محبت کیا ہوتی ہے، ایثار وقربانی کیا ہوتی ہے ، اس کے لئے ہمیں تاریخ کے پرانے واقعات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے یہ جیتی جاگتی مثالیں ہیں اور یہی روشن بھارت کے مستقبل کے لئے باعث تحریک ہے۔ میرے پیارے اہل وطن ! آزادی کے اتنے طویل عرصے تک ہم سب کو جس وار میموریل کا انتظار تھا وہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں اہل وطن کا تجسس ، ان کا شوق انتہائی فطری ہے۔ نریندر مودی ایپ پر اُڈوپی ، کرناٹک کے جناب اونکار شیٹی جی نے نیشنل وار میموریل تیار ہونے پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ مجھے حیرت بھی ہوتی تھی اور درد بھی کہ ہندوستان میں کوئی نیشنل وار میموریل (قومی جنگی یادگار) نہیں تھا۔ ایک ایسا میموریل جہاں قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے والے بہادر جوانوں کی بہادری کی کہانیوں کو سنبھال کر رکھا جا سکے ۔ میں طے کیا کہ ملک میں ایک ایسی یادگار ضرور ہونی چاہئے ۔ ہم نے نیشنل وار میموریل کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور مجھے خوشی ہے کہ یہ یادگار اتنے کم وقت میں بن کر تیار ہو چکی ہے۔ کل یعنی 25 فروری ہو ہم کروڑوں اہل وطن اس قومی فوجی یادگار کو ، اپنی فوج کے سپرد کریں گے۔ ملک اپنا قرض ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرے گا۔ دلی کے دل یعنی وہ جگہ جہاں پر انڈیا گیٹ اور امر جوان جیوتی موجود ہے ، بس اس کے بالکل قریب یہ ایک نئی یادگار بنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہل وطن کے لئے قومی فوجی یادگار جانا کسی تیرتھ استھل جانے کے برابر ہوگا۔ قومی فوجی یادگار آزادی کے بعد عظیم ترین قربانی دینے والے جوانوں کے تئیں قوم کی احسان مندی کی علامت ہے۔ یادگار کا ڈیزائن ، ہمارے لافانی فوجیوں کے غیر معمولی حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی فوجی یادگار کا تصور چار کنسنٹرک سرکل یعنی چار چکروں پر مرکوز ہے۔ جہاں ایک فوجی کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے سفر کا بیان ہے۔ اگر چکر کی لو ، شہید فوجی کے امر ہونےکی علامت ہے۔ دوسرا سرکل ویرتا چکر کا ہے جو فوجیوں کے حوصلے اور بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی گیلری ہے جہاں دیواروں پر فوجیوں کی بہادری کے کارناموں کو ابھارا گیا ہے ۔ اس کے بعد تیاگ چکر ہے۔ یہ سرکل فوجیوں کی قربانی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس میں ملک کے لئے عظیم ترین قربانی دینے والے فوجیوں کے نام سنہرے الفاظ میں لکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد رکشک چکر ہے جو سیکورٹی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس سرکل میں گھنے پیڑوں کی قطار ہے۔ یہ پیڑ فوجیوں کی علامت ہیں اور ملک کے شہریوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے پیغام دے رہےہیں کہ ہر پہر فوجی سرحد پر تعینات ہے اور اہل وطن محفوظ ہیں۔ کل ملاکر دیکھیں تو قومی فوجی یادگار کی پہچان ایک ایسے مقام کے طور پر بنے گی جہاں لوگ ملک کے عظیم شہیدوں کے بارے میں جانکاری لینے ، اپنے احسان مندی ظاہر کرنے ، اس پر ریسرچ کرنے کے مقصد سے آئیں گے۔ یہاں ان بلیدانیوں (قربانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں ) کی کہانی ہے جنہوں نے ملک کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی ، تاکہ ہم زندہ رہ سکیں ، تاکہ ملک محفوظ رہے اور ترقی کر سکے۔ ملک کی ترقی میں ہماری مسلح افواج ، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے عظیم تعاون کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں مجھے نیشنل پولیس میموریل ، (قومی پولیس یادگار ) کو بھی ملک ک�� نام وقف کرنے کی خوش بختی حاصل ہوئی تھی۔ وہ بھی ہمارے اس خیال کا عکس تھا جس کے تحت ہم مانتے ہیں کہ ملک کو ان مرد اور خاتون پولیس اہلکاروں کا احسان مند ہونا چاہئے جو مسلسل ہماری حفاظت میں مصروف رہتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ قومی فوجی یادگار اور نیشنل پولیس میموریل کو دیکھنے ضرور جائیں گے۔ آپ جب بھی جائیں وہاں لی گئی اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے ترغیب ملے اور وہ بھی اس مقدس مقام ، اس یادگار کو دیکھنے کے آرزور مند بنیں ۔ میرے پیارے اہل وطن! من کی بات کے لئے آپ کے ہزاروں خطوط اور کمنٹ مجھے الگ الگ ذرائع سے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں اس بار جب میں آپ کے کمنٹ پڑھ رہا تھا تب مجھے آتش مکھو پادھیائے جی کاایک بہت ہی دلچسپ کمنٹ میرے دھیان میں آیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سال 1900 میں 3 مارچ کو انگریزوں نے برسا منڈا کو گرفتار کیا تھا تب ان کی عمر صرف 25 سال کی تھی ۔ اتفاق ہی ہے کہ 3 مارچ کو ہی جمشید جی ٹاٹا کی جینتی ہوئی ہے اور وہ آگے لکھتے ہیں کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ خاندانی پیس منظر سے ہیں جنہوں نے جھارکھنڈ کی وراثت اور تعریف کو خوشحال بنایا۔ من کی بات میں برسا منڈا اور جمشید جی ٹاٹا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مطلب ایک طرح سے جھارکھنڈ کی قابل فخر تاریخ اور وراثت کو سلام کرنے جیسا ہے۔ آتش جی میں آپ سے متفق ہوں ان دو عظیم شخصیات نے جھارکھنڈ کا ہی نہیں پورے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ پورا ملک ان کے تعاون کے لئے ان کا احسان مند ہے ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو رہنمائی کے لئے کسی باعث تحریک شخصیت کی ضرورت ہے تو وہ ہیں بھگوان برسا منڈا ۔ انگریزوں نے چھپ کر بڑی ہی چالاکی سے انہیں اُس وقت پکڑا تھا جب وہ سو رہے تھے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایسی بزدلانہ کارروائی کا سہارا کیوں لیا؟ کیوں کہ اتنی بڑی سلطنت کھڑی کرنے والے انگریز بھی ان سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بھگوان برسا منڈا نے نہ صرف اپنے روایتی تیر کمان سے ہی بندوقوں اور توپوں سے لیس انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ در اصل جب لوگوں کو ایک تحریک افزا قیادت ملتی ہے تو پھر ہتھیاروں کی طاقت پر لوگوں کی اجتماعی قوت ارادی بھاری پڑتی ہے۔ بھگوان برسا منڈا نے انگریزوں سے نہ صرف سیاسی آزادی کے لئے جدو جہد کی بلکہ آدیواسیوں کے سماجی اور اقتصادی حقوق کے لئے بھی لڑائی لڑی۔ اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے یہ سب کر دکھایا ۔ محروموں اور استحصال زدہ لوگوں کی تاریکی سے پُر زندگی میں سورج کی طرح روشنی بکھیری۔ بھگوان برسا منڈا نے 25 سال کی مختصر عمر میں ہی اپنی قربانی دے دی ۔ برسا منڈا جیسے بھارت ماں کے سپوت ملک کے ہر حصے میں ہوئے ہیں ۔ شاید ہندوستان کا کوئی کونا ایسا ہو گا جہاں صدیوں تک چلی ہوئی آزادی کی اس جنگ میں کسی نے تعاون نہ دیا ہو۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے ایثار ، بہادری اور قربانی کی کہانیاں نئی نسل تک پہنچی ہی نہیں ۔ اگر بھگوان برسا منڈا جیسی شخصیت نے ہمیں اپنے وجود کا احساس کرایا تو جمشید جی ٹاٹا جیسی شخصیت نے ملک کو بڑے بڑے ادارے دیئے۔ جمشید جی ٹاٹا صحیح معنوں میں ایک دور اندیش شخص تھے جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا بلکہ اس کی مضبوط بنیاد بھی رکھی۔ وہ اچھی طرح واقف تھے کہ ہندوستان کو سائنس ، ٹیکنالوجی اور صنعتی مرکز بنانا مستقبل کے لئے ضروری ہے۔ یہ ان کا ہی ویژن تھا جس کے نتیجے میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کا قیام عمل میں آیا جسے اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سا��نس کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے ٹاٹا اسٹیل جیسے کئی عالمی معیار کے ادارےاور صنعتیں بھی قائم کیں۔ جمشید جی ٹاٹا اور سوامی وویکا نند جی کی ملاقات دورۂ امریکہ کے دوران جہاز میں ہوئی تھی تب ان دونوں کی گفتگو میں ایک اہم موضوع ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی نشر و اشاعت تھی۔ کہتے ہیں اسی گفتگو سے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی بنیاد پڑی۔ میرے پیارے اہل وطن! ہمارے ملک کے سابق وزیراعظم جناب مرار جی دیسائی کی پیدائش 29 فروری کو ہوئی تھی ۔جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ دن چار سال میں ایک بار ہی آتا ہے۔ سادہ، پر امن شخصیت کے دھنی ، مرار جی دیسائی ملک کے سب سے ڈسپلنڈ لیڈروں میں سے تھے ۔ آزاد ہندوستان میں پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ مرار جی بھائی دیسائی کے ہی نام ہے ۔ مرار جی دیسائی نے اس مشکل وقت میں ہندوستان کی صلاحیت مندی کے ساتھ قیادت کی جب ملک کے جمہوری تانے بانے کو خطرہ لاحق تھا۔ اس کے لئے ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ مرار جی بھائی دیسائی نے جمہوریت کی حفاظت کے لئے ایمرجنسی کے خلاف تحریک میں خود کو جھونک دیا۔ اس کے لئے انہیں ضعیفی میں بھی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ اس وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن 1977 میں جب جنتا پارٹی نے انتخاب جیتا تب وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ ان کی مدت کار کے دوران ہی 44 واں آئینی ترمیمی بل لایا گیا ۔یہ اہم اس لئے ہے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران جو 42 ویں ترمیم لائی گئی تھی ، جس میں سپریم کورٹ کے اختیار کو کم کرنے اور دوسرے ایسے التزامات تھے ، جو ہماری جمہوری قدروں کے منافی تھے، ان کو واپس لیا گیا۔ جیسے 44 ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی کارگزاری کو اخبارات میں شائع کرنے کا التزام کیا گیا۔ اسی کے تحت سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو بحال کیا گیا۔ اسی ترمیم میں یہ بھی التزام کیا گیا کہ آئین کی دفعی 20 اور 21 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ایمرجنسی کے دوران بھی نہیں کی جاسکتی۔ پہلی مرتبہ ایسا نظم کیا گیا کہ کابینہ کی تحریری سفارش پر ہی صدر جمہوریہ ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ ایمرجنسی کی مدت کو ایک بار میں چھ مہینے سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے مرار جی بھائی نے یہ یقینی بنایا کہ ایمرجنسی نافذ کرکے 1975 میں جس طرح جمہوریت کا قتل کیا گیا تھا ۔ مستقبل میں اس کا اعادہ پھر نہ ہوسکے۔ ہندستانی جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنے میں ان کے گراں قدر تعاون کو آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ ایک بار پھر ایسے عظیم لیڈر کو میں خراج عقید ت پیش کرتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو! ہر سال کی طرح اس بار بھی پدم ایوارڈ کے تعلق سے لوگوں میں بڑا اشتیاق تھا۔ آج ہم ایک نیو انڈیا کی طرف مائل ہیں۔ اس میں ہم ان لوگوں کا احترام کرنا چاہتے ہیں جو زمینی سطح پر اپنا کام بے لوث جذبے سے کررہے ہیں۔ اپنی محنت کی دم پر الگ الگ طریقے سے دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لارہے ہیں۔ دراصل وہ سچے کرم یوگی ہیں جو عوامی خدمت ، سماج کی خدمت اور ان سب سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں بے لوث جذبے کے ساتھ مصروف رہتےہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب پدم ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ ایک طرح سے اسے میں بہت بڑی کامیابی مانتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی، میگزین یا اخباروں کے فرنٹ پیج پر نہیں ہیں۔یہ چکاچوند کی دنیا سے دور ہیں لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے نام کی پروا ہ نہیں کرتے بس زمینی سطح پر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ‘یوگہ کرم سو کوشلم ’ گیتا کے پیغام کو وہ ایک طرح سے جیتے ہیں۔ میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اڈیشہ کے دیتاری نائیک کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ انہیں کینال مین آف دی اڈیشہ یونہی نہیں کہا جاتا۔ دیتاری نائیک نے اپنے گاؤں میں اپنے ہاتھوں سے پہاڑ کاٹ کر تین کلو میٹر تک نہر کا راستہ بنادیا۔ اپنی محنت سے سنچائی اور پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دور کردیا۔ گجرات کے عبدالغفور کھتری جی کو ہی لیجیئے، انہوں نے کچھ کے روایتی روغن پیٹنگ کے احیا کا بے مثال کام کیا۔ وہ اس نایاب پیٹنگ کو نئی نسل تک پہچانے کا بڑا کام کررہے ہیں۔ عبدالغفور کے ذریعہ بنائی گئی ‘ٹری آف لائف، فن پارے ’’ کو ہی میں نے امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کو تحفہ میں دیا تھا۔ پدم ایوارڈ پانے والوں میں مراٹھواڑہ کے شبیر سید گئو ماتا کے سیوک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح اپنی پوری زندگی گئو ماتا کی خدمت میں کھپا دی ، یہ اپنے آپ میں انوکھا ہے۔ مدورے چنا پلئی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے تمل ناڈو میں کلن جیئم تحریک کے ذریعہ مصیبت زدوں اور استحصال زدوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی کمیونٹی چھوٹے مالی نظام کی شروعات کی ۔ امریکہ کی ٹاؤپورچون ۔ لینچ کے بارے میں سن کرآپ حیرت سے بھر جائیں گے لینچ آج یوگ کا جیتا جاگتا ادارہ بن گیا ہے۔ سو برس کی عمر میں بھی وہ دنیا بھر کے لوگوں کو یوگ کی ٹریننگ دے رہی ہیں اور اب تک ڈیڑھ ہزار لوگوں کو یوگ ٹیچر بناچکی ہیں۔جھاڑکھنڈ میں لیڈی ٹارزن کے نام سے مشہور جمنا ٹوڈو نے ٹمبر مافیا اور نکسلیوں سے لوہا لینے کا جرات مندانہ کام کیا۔ انہوں نے نہ صرف پچاس ہیکٹر جنگل کو اجڑنے سے بچایا بلکہ دس ہزار خواتین کو متحد کرکے پیڑوں اور جاندار وں کے تحفظ کے لئے آمادہ کیا۔ یہ جمنا جی کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج گاؤں والے ہر بچے کی پیدائش پر 18 پیڑ اور لڑکی کی شادی پر دس پیڑ لگاتے ہیں۔ گجرات کی مکتا بین پنکج کمار دگلی کہانی آپ کو تحریک سے بھر دے گی۔ خود دیویانگ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے دیویانگ خواتین کی ترقی کے لئے جو کام کئے ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ چکشو مہیلا سیوا گنج نام کا ادارہ قائم کرکے وہ بینائی سے محروم بچوں کو خود کفیل بنانے کے مقدس کام میں مصروف ہیں۔ بہار کے مظفر پور کی کسان چاچی یینی راج کماری دیو کی کہانی بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔ خواتین امپاورمنٹ اور زراعت کو نفع بخش بنانے کی سمت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی ہے۔ کسان چاچی نے اپنے علاقے کی تین سو خواتین کو خود امدادی گروپ سے جوڑا اور اقتصادی اعتبار سے خودکفیل بنانے کے لئے راغب کیا۔ انہوں نے گاؤں کی خواتین کو کھیتی کے ساتھ ہی روزگار کے دیگر وسائل کی ٹریننگ دی۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کھیتی کے ساتھ ٹکنالوجی کوجوڑنے کا کام کیا اور میرے ہم وطنو ، شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس سال جو پدم ایوارڈ دیئے گئے ہیں ان میں سے بارہ کسانوں کو پدم ایوارڈ ملے ہیں۔ عام طو رپر زرعی شعبے سے وابستہ بہت ہی کم لوگ اور براہ راست زراعت کا کام کرنے والے بہت ہی کم لوگ پدم شری کی فہرست میں آئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بدلتے ہوئے ہندستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو! میں آج آپ سب کے ساتھ ایک ایسے دل کو چھو لینے والے تجربے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ چند دنوں سے میں محسوس کررہ�� ہوں۔ آج کل ملک میں جہاں بھی جارہا ہوں ، میری کوشش رہتی ہے کہ ‘ آیوشمان بھارت’ کی اسکیم پی ایم ۔جے اے وائی یعنی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے کچھ مستفدین سے ملاقات کروں۔ کچھ لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے ۔ اکیلی ماں اس کے چھوٹے بچے ، پیسوں کی کمی کی سبب علاج نہیں کراپارہی تھی۔ اسکیم سے اس کا علاج ہوا اور وہ صحت مند ہوگئی ۔ گھر کا سربراہ ، محتنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے والا حادثہ کا شکا ہوگیا، کام نہیں کرپارہا تھا، اس اسکیم سے اس کو فائدہ ملا اور وہ دوبارہ صحت مند ہوگیا، نئی زندگی جینے لگا۔ بھائیوں-بہنوں! گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران تقریباً 12 لاکھ کنبے اس اسکیم کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ غریب کی زندگی میں اس سے کتنی تبدیلی آرہی ہے۔ آپ سب بھی اگر کسی بھی ایسے غریب شخص کو جانتے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے علاج نہیں کرا پارہا ہے تو ، اسے اس اسکیم کے بارے میں ضرور بتائیں۔ یہ اسکیم ہر ایسے غریب شخص کے لئے ہی ہے۔ میرے پیارے ہم وطنوں! اسکولوں میں امتحانات کا وقت شروع ہونے والا ہے۔ پورے ملک میں علیحدہ علیحدہ ایجوکیشن بورڈ آئندہ کچھ ہفتوں میں دسویں اور بارہویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات کا عمل شروع کردیں گے۔ امتحانات میں شامل ہونے والے تمام طلباء کو ان کے گارجین کو تمام اساتذہ کو میری جانب سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ کچھ قبل دہلی میں ‘پریکشا پہ چرچا ’ کا ایک بہت بڑا انعقاد ٹاؤن ہال کے فارمیٹ میں ہوا ۔ اس ٹاؤن ہال کے پروگرام میں مجھے ٹیکنالوجی کی وساطت سے اندرون اور بیرون ملک کے کروڑوں طلباء کے ساتھ ان کے گارجین، اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا۔ ‘پریکشا پہ چرچا’ ، اس کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ امتحان سے متعلق مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی۔کئی ایسے پہلو سامنے آئے کہ یقینی طورپر طلباء کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ تمام طلباء ، ان کے اساتذہ ، والدین یوٹیوب پر اس پروگرام کی پوری ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں تو آنے والے امتحان کے لئے میرے سبھی ایگزام ویریئرز کو ڈھیر ساری نیک خواہشات۔ میرے پیارے ہم وطنوں! بھارت کی بات ہو تو تیوہار کی بات نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاید ہی ہمارے ملک میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے جس کی اہمیت نہ ہو، جس کا کوئی تیوہار نہ ، کیونکہ ہزار وں سال پرانی تہذیب و ثقافت کی وراثت ہمارے پاس ہے۔ کچھ ہی دن بعد مہاشیو راتری کا تیوہار آنے والا اور اس بار تو شیو راتری تو سوموار کو ہے اور جب شیو راتری سوموار کو ہوتو اس کی ایک خاص اہمیت ہمارے دل و ماغ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ اس شیوراتری کے مبارک تیوہار پر میری آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ میرے پیارے ہم وطنوں! کچھ دن قبل میں کاشی گیا تھا۔ وہاں مجھے دِویانگ بھائی -بہنوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ ان سے کئی موضوع پر بات چیت ہوئی۔ ان کا اعتماد واقعی متاثر کرنے والا اور تحریک دینے والا تھا۔بات چیت کے دوران ان میں سے ایک نوجوان کے ساتھ جب میں بات کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو ایک اسٹیج آرٹسٹ ہوں۔ میں تفریحی پروگراموں میں می میکری کرتا ہوں، تو میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کس کی می میکری کرتی ہو تو اس نے بتایا کہ میں پردھان منتری کی می میکری کرتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ذرا کر کے دیکھائیے۔ میرے لیے یہ بڑا خوشگوار اور حیرت انگیز واقع تھا۔ انہوں نے‘ من کی بات’ میں جس طرح میں بات کرتاہوں اسی کی پوری می میکری کی اور من ��ی بات کی ہی می میکری کی۔ مجھے یہ سن کر بہت اچھا محسوس ہوا کہ لوگ نہ صرف من کی بات سنتے ہیں، بلکہ اسے کئی موقع پر یاد بھی کرتے ہیں۔ میں سچ مچ اس دویانگ نوجوان کی صلاحیت سے بہت ہی متاثر ہوا۔ میرے پیارے ہم وطنوں! من کی بات پروگرام کے ذریعے میں آپ سب کے ساتھ جڑنا میرے لئے ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ ریڈیو کے ذریعے سے میں ایک طرح سے کروڑوں کنبوں کے ساتھ ہر مہینے روبرو ہوتا ہوں۔ کئی بارتو آپ سب سے بات کرتے ، آپ کے خطوط پڑھتے یا آپ کے ذریعے فون پر بھیجے گئے خیالات کو سنتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مان لیا ہے۔ یہ میرے لئے ایک انتہائی خوشگوار تجربہ رہا ہے۔ دوستوں!انتخابات جمہوریت کا سب سے بڑا جشن ہوتا ہے۔ آئندہ دو ماہ ہم سب الیکشن کی گہما گہمی میں مصروف عمل رہیں گے۔ میں خود بھی اس الیکشن میں امیدوار رہوں گا۔ صحت مند جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے اگلا من کی بات مئی مہینے کے آخری اتوار کو ہوگا ۔یعنی مارچ ، اپریل اور مئی کا مہینہ ، ان تینوں مہینے ہمارے جو جذبات ہیں ان سب کو انتخابات کے بعد ایک بار نئے اعتماد کے ساتھ ، آپ کی دعاؤں کی طاقت کے ساتھ پھر ایک بار من کی بات کے ذریعے اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کروں گا اور برسوں تک آپ سے بات چیت کرتا رہوں گا۔ پھر ایک بار آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ( م ن ۔ م م۔ ش س ۔م ف۔ ج۔ ن ع ( 1218o.,২৪.০২.২০১৯ তাৰিখে সম্প্ৰচাৰিত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ‘মন কী বাত’ৰ ৫৩তম খণ্ডৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,عزت مآب وزیراعظم میرے دوست مارک روٹ معزز مندوبین میڈیا کے اراکین دوست، وزیراعظم مارک، اور ان کے ساتھ آئے وفد کا ہندوستان میں دل کی گہرائیوں سے استقبال ہے۔ مجھے خاص طور سے اس بات کی خوشی ہے کہ وزیراعظم مارک کے ساتھ ان کے چار کابینی رفقاء ، ہیگ کے میئر اور 200 سے زائد کاروباری نمائندے بھی ہندوستان تشریف لائے ہیں۔ نیدر لینڈ سے ہندوستان آنے والے یہ سب سے بڑا کاروباری وفد ہے۔ اور یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہماری ٹریٹ اور انویسٹمینٹ کے رشتوں میں کتنا ڈائنا میزم ہے۔ کتنےامکانات ہیں ۔ 2015 میں وزیراعظم روٹ پہلی بار ہندوستان آئے تھے ۔2017 میں میرا نیدر لینڈ جانا ہوا تھا اور ہماری تیسری ملاقات آج ہوئی ہے۔ ایسے بہت کم ملک ہیں جن کے ساتھ ہمارے رشتوں نے اعلیٰ سطحی دوروں میں اس قسم کی سرگرمی ہے ۔ اس مومنٹم کے لئے ہندوستان کے ساتھ رشتوں کو ذاتی طورسے ترجیح دینے کے لئے میں اپنے دوست مارک کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتا ہوں۔ دوستو! آج ہم دونوں نے اپنے باہمی رشتوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا۔ علاقائی اور عالمی حالات کے بارے میں اپنے اپنے نقطہ نظر کا تبادلہ کیا اور ہم نےدونوں ملکوں کے اہم سی ای او سے ملاقاتیں کیں۔ گذشتہ سال جب میں نیدر لینڈ کے دورے پر گیا تھا تو وہاں میں نے اپنے دوست مار ک سے اپیل کی تھی کہ وہ بین الاقوامی شمسی اتحاد(انٹر نیشنل سولر الائنس)کا رکن بننے پر مثبت طور پر غور کریں ۔ شمسی توانائی کے شعبے میں نیدر لینڈ کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے ، جو تجربہ ہے اورجو مہارت ہے اس کا فائدہ پو��ی دنیا کو بھی ملنا چاہئے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج نیدر لینڈ ،انٹرنیشنل سولر الائنس کا رکن بن گیا ہے۔ اس فیصلے کے لئے میں وزیراعظم روٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر ملٹی لیٹرل ایکسپورٹ کنٹرول ریزم تک ہندوستان اور نیدر لینڈ کے درمیان بہت اچھا قریبی تعاون اور تال میل رہا ہے۔اب انٹر نیشنل سولر الائنس، بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہمارے مستحکم تعاون کا ایک نیا پہلو ہوگا۔ دوستو! ہندوستان نیدر لینڈ کی کمپنیوں کے لئے نیا نہیں ہے ۔ پرسوں سے سینکڑوں ڈچ کمپنیاں ہندوستان میں کام کر رہی ہیں۔ نیدر لینڈ ، ہندوستان میں اب تک ہوئے کل غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)کے لئے پانچواں سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔ گذشتہ کچھ دنوں میں تو یہ تیسرے سب سے بڑے وسیلے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ اسی طرح ہندوستانی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لئے بھی نیدر لینڈ بہت پُر کشش جگہ ہے۔ اور اس لئے دونوں ملکوں کے سی ای او کی ملاقاتیں کافی مفید ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ نیدر لینڈ کاروباری برادری میں ہندوستان میں پیدا ہو رہے مواقع کے تئیں جوش و خروش کا جذبہ پایا جاتا ہے میں نے بھی انہیں یقین دلایا ہے کہ ہندووستان میں اقتصادی اصلاحت کے تئیں ہمارا عزم موصمم ہوتا ہے۔ زراعت اور فوڈ پروسیسنگ کا شعبہ ہندوستان کے لئے خاص طور سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہ موضوع ہماری فوڈ سیکورٹی سے جڑا ہوا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان کے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے ہمارے عزم کے لئے بھی ان کی کافی اہمیت ہے۔ ان شعبوں میں نیدر لینڈ کو مہارت حاصل ہے ۔ گذشتہ سال ورلڈ فوڈ انڈیا میں نیدر لینڈ نے فوکس کنٹری کے طور پر حصہ لیا تھا۔ ۔ مجھے یقین ہے کہ 2019 میں اس کے اگلے ایڈیشن میں نیدر لینڈ کی شراکت اور بھی زیادہ ہوگی۔مجھے خوشی ہے کہ بارامتی میں سبزیوں کے لئے پہلا انڈو ڈچ سینٹر آف ایکسیلینس شروع ہو گیا ہے۔ اس قسم کے دوسرے مراکز پر ہم ساتھ ملک کر کام کر رہے ہیں اسی طرح شہری ترقی میں ہمارا تعاون جاری ہے ۔ بڑودا اور دلی میں ویسٹ واٹر مینجمینٹ کے پروجیکٹ میں اچھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارے تعاون کے 10 سال مکمل ہو رہے ہیں اور 2019 میں ہندوستان میں منعقد ہونے والی ٹیک سمٹ میں نیدر لینڈ کے ذریعے شریک کار ملک کے طور پر حصہ لینے سے اس کامیاب شراکت کو اور بھی تقویت ملے گی۔ دوستو! میری حکومت حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیح رہی ہے کہ بیرون ملک میں مقیم ہندوستانی برادری کے موضوع پر خاص توجہ رہے۔ ستمبر 2017 میں سینٹ مارٹن میں آئے سمندری طوفان ہری کین کے وقت ہندوستانی شہریوں کی وہاں سے محفوظ نکاسی کے موضوع پر تعاون کے لئے میں وزیراعظم روٹ اور نیدر لینڈ کی حکومت کا خاص طور سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ عزت مآب میں ایک بار پھر ہندوستان میں آپ کا اور آپ کے ساتھ آئے وفد کا تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ شکریہ بہت بہت شکریہ ۔ 2762o.,"নেদালেণ্ডছৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাৰত ভ্ৰমণকালত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰেছ বিবৃতি(২৪ মে’, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D8%AD%D8%AA%D8%B1%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%86%D8%AF%D8%B1%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6/,نئی دہلی۔31؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے، سابق وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کی وفات کی برسی کے موقع پر ،انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کی وفات کی برسی کے موقع پر ،میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔,প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰীমতী ইন্দিৰা গান্ধীৰ মৃত্যু বাৰ্ষিকী উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B2%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%A8%D8%AC%D9%B9-2022-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%AB%D8%A8%D8%AA-%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8/,نمسکار! کابینہ کے میرے ساتھی، ریاستی حکومتوں کے نمائندے، صنعت اور اکیڈمی کے تمام ساتھی، کرشی وگیان کیندروں سے وابستہ ہمارے تمام کسان بھائیو اور بہنوں، خواتین و حضرات! یہ ایک خوش کن اتفاق ہے کہ 3 سال قبل اسی دن پی ایم کسان سمان ندھی شروع کی گئی تھی۔ آج یہ اسکیم ملک کے چھوٹے کسانوں کے لیے ایک بڑا سہارا بن گئی ہے۔ اس کے تحت ملک کے 11 کروڑ کسانوں کو تقریباً پونے دو لاکھ کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں۔ اس پلان میں بھی ہم اسمارٹنس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ صرف ایک کلک سے 10-12 کروڑ کسانوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست رقم کی منتقلی، یہ اپنے آپ میں کسی بھی ہندوستانی کے لیے فخر کی بات ہے۔ ساتھیوں، پچھلے 7 سالوں میں ہم نے بیج سے لے کر بازار تک ایسے کئی نئے سسٹم تیار کیے ہیں، ہم نے پرانے سسٹمز کو بہتر کیا ہے۔ صرف 6 سالوں میں زرعی بجٹ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کسانوں کے زرعی قرضوں میں بھی 7 سالوں میں ڈھائی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ کورونا کے مشکل وقت میں بھی خصوصی مہم چلا کر ہم نے 3 کروڑ چھوٹے کسانوں کو KCC کی سہولت سے جوڑا ہے۔ یہ سہولت مویشی پروری اور ماہی پروری سے وابستہ کسانوں کو بھی دی گئی ہے۔ مائیکرو اریگیشن کا نیٹ ورک جتنا مضبوط ہو رہا ہے، اس سے بھی چھوٹے کسانوں کی بہت مدد ہو رہی ہے۔ ساتھیوں، ان تمام کوششوں کی وجہ سے کسان ہر سال ریکارڈ پیداوار کر رہے ہیں اور ایم ایس پی پر بھی خریداری کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ نامیاتی زراعت کے فروغ کی وجہ سے آج آرگینک مصنوعات کا بازار 11000 کروڑ کا ہو گیا ہے۔ اس کی برآمد بھی 6 سالوں میں 2000 کروڑ سے بڑھ کر 7000 کروڑ سے زیادہ ہو رہی ہے۔ ساتھیوں، اس سال کا زرعی بجٹ پچھلے سالوں کی ان ہی کوششوں کو جاری رکھتا ہے، ان میں توسیع کرتا ہے۔ اس بجٹ میں زراعت کو جدید اور اسمارٹ بنانے کے لیے سات اہم طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔ پہلا- گنگا کے دونوں کناروں پر 5 کلومیٹر کے دائرے میں مشن موڈ پر قدرتی کاشتکاری کرنے کا ہدف ہے۔ جڑی بوٹیوں کی ادویات پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ پھلوں اور پھولوں پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ دوسرا- زراعت اور باغبانی میں جدید ٹیکنالوجی کسانوں کو فراہم کی جائے گی۔ تیسرا یہ کہ خوردنی تیل کی درآمد کو کم کرنے کے لیے ہم مشن آئل پام کے ساتھ ساتھ تیل کے بیجوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بجٹ میں اس پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چوتھا مقصد یہ ہے کہ زرعی مصنوعات کی نقل و حمل کے لیے پی ایم گتی شکتی پلان کے ذریعے نئے لاجسٹک انتظامات کیے جائیں گے۔ بجٹ میں پانچواں حل یہ دیا گیا ہے کہ ایگری ویسٹ مینجمنٹ کو مزید منظم کیا جائے گا، کچرے سے توانائی کے اقدامات کے ذریعے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا۔ چھٹا حل یہ ہے کہ ملک کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ڈاک خانوں کو باقاعدہ بینکوں جیسی سہولتیں ملیں گی، تاکہ کسانوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور ساتواں یہ کہ زرعی تحقیق اور تعلیم سے متعلق نصاب میں مہارت کی ترقی، انسانی وسائل کی ترقی کو آج کے جدید دور کے مطابق تبدیل کیا جائے گا۔ ساتھیوں، آج دنیا میں صحت سے متعلق آگاہی بڑھ رہی ہے۔ ماحول دوست طرز زندگی کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا بازار بھی بڑھ رہا ہے۔ ہم اس سے جڑی چیزوں کی مدد سے مارکیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جیسے کہ قدرتی کاشتکاری، نامیاتی کاشتکاری۔ ہمارے کرشی وگیان کیندروں اور زرعی یونیورسٹیوں کو قدرتی کھیتی کے فوائد کو عوام تک پہنچانے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ متحرک ہونا پڑے گا۔ ہمارے KVK ایک ایک گاؤں کو گود لے سکتے ہیں۔ ہماری زرعی یونیورسٹی اگلے ایک سال میں 100 یا 500 کسانوں کو قدرتی کھیتی کی طرف لانے کا ہدف رکھ سکتی ہے۔ ساتھیوں، آج کل ہمارے متوسط طبقے کے خاندانوں میں، بالائی متوسط طبقے کے خاندانوں میں، ایک اور رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ان کے کھانے کی میز تک پہنچ چکی ہیں۔ پروٹین کے نام پر، کیلشیم کے نام پر، ایسی کئی مصنوعات اب کھانے کی میز پر جگہ بنا رہی ہیں۔ اس میں بہت سی پروڈکٹس بیرون ملک سے آ رہی ہیں اور وہ بھی ہندوستانی ذائقے کے مطابق نہیں ہیں۔ جب کہ ان تمام مصنوعات میں ہماری ہندوستانی مصنوعات میں وہ سب کچھ موجود ہے، جو ہمارے کسان تیار کرتے ہیں، لیکن ہم اسے صحیح طریقے سے پیش نہیں کر پاتے۔ ہم اس کی مارکیٹنگ کرنے کے قابل نہیں ہیں، اور اسی لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے، اس میں بھی ’ووکل فار لوکل‘ ضروری ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کورونا کے دور میں مصالحہ جات، ہلدی جیسی چیزوں کی کشش بہت بڑھ گئی ہے۔ سال 2023 جوار کا بین الاقوامی سال ہے۔ اس میں ہماری کارپوریٹ دنیا کو بھی آگے آنا چاہیے، برانڈنگ کرنا چاہیے، ہندوستان کے جواروں کو فروغ دینا چاہیے۔ ہمارے پاس جتنے بڑے دھان ہیں اور دوسرے ملکوں میں ہمارے جتنے بڑے مشن ہیں، وہ بھی اپنے ملکوں میں بڑے بڑے سیمینار منعقد کریں، وہاں کے درآمد کنندگان کو سمجھائیں کہ ہندوستان کا جوار جو ہندوستان کا دھان ہے، وہ کن طریقوں سے بہت اچھا ہے۔ اس کا ذائقہ کتنا اہم ہے۔ ہم اپنے جوار کے حوالے سے درآمد کنندگان کے درمیان سیمینار، ویبینار کر سکتے ہیں۔ ہم اس بات پر زور دے سکتے ہیں کہ ہندوستان میں جوار کی غذائیت کی قیمت کتنی زیادہ ہے۔ ساتھیوں، آپ نے دیکھا ہے کہ ہماری حکومت کا بہت زور سوائل ہیلتھ کارڈ پر رہا ہے۔ حکومت نے ملک کے کروڑوں کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ دیے ہیں۔ جس طرح ایک زمانہ تھا جب پیتھالوجی لیب نہیں تھے، لوگ پیتھالوجی ٹیسٹ نہیں کرواتے تھے، لیکن اب کوئی بیماری آئے تو سب سے پہلے پیتھالوجی لیب جانا پڑتا ہے۔ کیا ہمارے اسٹارٹ اپس، کیا ہمارے نجی سرمایہ کار ہماری زمین اور اس کے نمونوں کے پیتھولوجیکل ٹیسٹ اسی طرح کر کے کسانوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں جس طرح مختلف جگہوں پر پرائیویٹ پیتھالوجی لیبز ہیں۔ مٹی کی صحت کی جانچ پڑتال مسلسل کرتے رہنا چاہیے، اگر ہم اپنے کسانوں کو اس کی عادت ڈالیں گے تو چھوٹے کاشتکار بھی سال میں ایک بار مٹی کی جانچ ضرور کرائیں گے۔ اور اس کے لیے سوائل ٹیسٹنگ لیبز کا پورا نیٹ ورک کھڑا ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت بڑا علا��ہ ہے، اسٹارٹ اپس کو آگے آنا چاہیے۔ ہمیں کاشتکاروں میں یہ شعور بھی بڑھانا ہے، ہمیں ہر ایک یا دو سال بعد اپنے کھیتوں کی مٹی کا ٹیسٹ کروانے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا اور اس کے مطابق اس میں کون سی دوائیاں درکار ہیں، کونسی کھاد کی ضرورت ہے، کس فصل کے لیے مفید ہے، وہ اس کا سائنسی علم حاصل کریں گے، یہ آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے نوجوان سائنسدانوں نے نینو کھاد تیار کی ہے۔ یہ گیم چینجر ثابت ہونے والا ہے۔ ہماری کارپوریٹ دنیا میں بھی اس میں کام کرنے کی کافی صلاحیت ہے۔ ساتھیوں، مائیکرو اریگیشن ان پٹ لاگت کو کم کرنے اور زیادہ پیداوار کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے اور یہ ماحولیات کی خدمت بھی ہے۔ پانی کو بچانا بھی آج بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا کام ہے۔ کاروباری دنیا کے لیے بھی بہت زیادہ پوٹینشل ہے کہ آپ اس فیلڈ میں آئیں۔ ساتھیوں، آنے والے 3-4 سالوں میں ہمیں خوردنی تیل کی پیداوار کو موجودہ وقت سے 50 فیصد تک بڑھانے کا ہدف حاصل کرنا ہے۔ خوردنی تیل کے قومی مشن کے تحت تیل کی کھجور کی کاشت کو وسعت دینے میں بہت زیادہ امکانات ہیں اور ہمیں تیل کے بیجوں کے میدان میں بھی بڑے پیمانے پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ فصل کے نمونوں کے لیے، ہمارے زرعی سرمایہ کاروں کو بھی فصلوں کے تنوع کو فروغ دینے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ مثال کے طور پر درآمد کنندگان کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں کس قسم کی مشینوں کی ضرورت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کس قسم کی چیزیں چلیں گی۔ اسی طرح ہمارے یہاں فصلوں کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں۔ مثال کے طور پر تیل کے بیجوں اور دالوں کی مثال لیں۔ ملک میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ ایسے میں ہماری کارپوریٹ دنیا کو اس میں آگے آنا چاہیے۔ یہ آپ کے لیے ایک یقینی مارکیٹ ہے۔ بیرون ملک سے لانے کی کیا ضرورت ہے، آپ کسانوں کو پہلے ہی بتا دیں کہ ہم آپ سے اتنی فصل لے لیں گے۔ اب جبکہ انشورنس کا نظام ہے تو انشورنس کی وجہ سے آپ کو تحفظ مل رہا ہے۔ ہندوستان کی خوراک کی ضرورت کا مطالعہ ہونا چاہیے، اور ہم سب کو مل کر ان چیزوں کو تیار کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جن کی ہندوستان میں ہی ضرورت ہے۔ ساتھیوں، مصنوعی ذہانت 21ویں صدی میں زراعت اور کاشتکاری سے متعلق تجارت کو مکمل طور پر بدلنے والی ہے۔ ملک کی زراعت میں کسان ڈرون کا زیادہ سے زیادہ استعمال اسی تبدیلی کا حصہ ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر اسی وقت دستیاب ہوگی جب ہم زرعی اسٹارٹ اپ کو فروغ دیں گے۔ پچھلے 3-4 سالوں میں ملک میں 700 سے زیادہ ایگری اسٹارٹ اپس تیار ہوئے ہیں۔ ساتھیوں، گزشتہ 7 سالوں میں پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ پر بہت کام کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ پروسیسڈ فوڈ کا دائرہ بڑھایا جائے، ہمارا معیار بین الاقوامی معیار کا ہو۔ اس کے لیے کسان سمپدا یوجنا کے ساتھ ساتھ پی ایل آئی اسکیم بھی اہم ہے۔ ویلیو چین بھی اس میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے 1 لاکھ کروڑ روپے کا خصوصی زرعی انفراسٹرکچر فنڈ بنایا گیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہندوستان نے,কৃষিখণ্ডত ২০২২ বৰ্ষৰ কেন্দ্ৰীয় বাজেটৰ ইতিবাচক প্ৰভাৱ সন্দৰ্ভত আয়োজিত ৱেবিনাৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D9%85%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DA%A9%DA%BE%D8%B1%D8%AC%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A1%E0%A7%A6-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی جینتی پر ان کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے انہیں دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کو ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔انہیں بھارت کی ترقی خاص طور سے کامرس اور صنعت کے شعبے میں ان کے تعاون کے لئے عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔انہیں ان کی عالمانہ فطرت اور دانشوارانہ صلاحیت کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔‘‘,জন্ম জয়ন্তীত ড০ শ্যামা প্ৰসাদ মুখাৰ্জীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9B-%E0%A6%A6/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مدھیہ پردیش کے دھار میں ہوئے ایک بس حادثے میں ہونے والی جانوں کے زیاں پر گہرے رنج و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا؛ ‘‘مدھیہ پردیش کے مقام دھار میں بس کا المناک حادثہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میری ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ ہے، جنہو ں نے اپنے پیاروں کو اس حادثے میں کھویا ہے۔ بچاؤ اور راحت کا کام جاری ہے اور مقامی حکام متاثر ہونے والوں کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں: وزیراعظم۔’’,মধ্য প্ৰদেশত সংঘটিত বাছ দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণহানিৰ ঘটনাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D9%88%D8%B3%DB%8C%D9%82%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھارتی موسیقی کی مالا مال روایت کے تحفظ اور اس کا جشن منانے کی کوششوں کی ستائش کی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ اس سے ہمارے نوجوانوں اور ہماری ثقافت کے درمیان تعلق مزید گہرا ہوگا۔ کلا رام ناتھ کے ذریعہ کیے گئے ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’غیر معمولی کوشش، یہ بھارتی موسیقی کی مالا مال روایت کے تحفظ اور اس کا جشن منانے کے جذبے اور لگن کی جانب اشارہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے ہمارے نوجوانوں اور ہماری ثقافت کے درمیان تعلق مزید گہرا ہوگا۔ ‘‘,ভাৰতৰ সমৃদ্ধ সাংগিতীক পৰম্পৰাৰ সংৰক্ষণ আৰু উদযাপনৰ প্ৰয়াসক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B4%D9%86-%DA%AF%D9%86%DA%AF%D8%A7-%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88%D8%B1%D9%88-%D8%A7%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B1%DA%A9-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A6%97%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE-%E0%A6%9C%E0%A6%B2%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D/,نئی دہلی،19مئی 2018؍اسٹیج پر موجود جمو ں و کشمیر کے گورنر جناب این این ووہرا صاحب ، وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ، کابینہ کے میرے رفقاءجناب نتن گڈکری صاحب، ڈاکٹر جتندر سنگھ صاحب، آر کے سنگھ صاحب، جموں و کشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ جناب کویندر گپتا صاحب، ریاست کے وزیر توانائی جناب سنیل کمار شرما صاحب، اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جناب نظیر احمد خان صاحب، رکن پارلیمنٹ اور ملک کے سینئر لیڈر قابل احترام ڈاکٹر فاروق عبداللہ صاحب، رکن پارلیمنٹ جناب مظفر حسین بیگ صاحب اور یہاں موجود سبھی دیگر معزز حضرات اور جموں و کشمیر کے میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں! ایک بار پھر جموں وکشمیر میں آپ سبھی کے درمیان آنے کا موقع مجھے ملا ہے۔ آپ کا اپنا پن ، آپ کی محبت ہی ہے جو مجھے بار بار یہاں کھینچ لاتی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں ایسا کوئی سال نہیں رہا جب میرا یہاں آنا نہیں ہوا۔ جب سری نگر میں سیلاب کے بعد ہی دیوالی تھی، میں نے یہاں متاثرین کے درمیان ہی اپنی دیوالی منائی تھی۔اس کے علاوہ سرحد پر تعینات جوانوں کے ساتھ دیوالی منانے کا مجھے موقع ملا اور آج جب رمضان کا مبارک مہینہ جاری ہے تب بھی میں آپ کے درمیان ہوں۔ یہ مہینہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے پیغامات کو یاد کرنے کا موقع ہے۔ان کی سیرت سے ملنے والی مساوات اور بھائی چارے کی تعلیم صحیح معنوں میں ملک اور دنیا کو آگے لے جاسکتی ہے۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ رمضان کے اس مبارک مہینے میں ہم یہاں ایک بہت بڑے خواب کی تکمیل ہونے پر جمع ہوئے ہیں۔ آج مجھے کشن گنگا پن بجلی پروجیکٹ کو ملک کے نام وقف کرنے کی خوش بختی حاصل ہورہی ہے۔ متعدد طرح کی مشکلات سے گزرنے کے بعد یہ پروجیکٹ جموں و کشمیر کے ترقی کے سفر میں نئی جہت کو جوڑنے کے لئے تیار ہے۔ اس موقع پر میں آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اس سے ریاست کو نہ صرف مفت بلکہ خاطر خواہ مقدار میں بجلی بھی ملے گی۔ ابھی جموں و کشمیر کو جتنی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ ملک کے دوسرے حصے کی بجلی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ 330 میگاواٹ کے اس پروجیکٹ کے شروع ہونے سے بجلی کی کمی کا مسئلہ بہت حد تک دور کیا جاسکے گا۔ بھائیو اور بہنو!یہ پروجیکٹ انجینئرنگ کی بے جوڑ مثال ہے۔ اسے پورا کرنے کے لئے مختلف لوگوں نے تپسیا کی ہے۔ پہاڑ کے سینے کو چیر کرکے کشن گنگا کے پانی کو سرنگ کے ذریعے باندی پورہ کے بونار نالے میں پہنچا یاگیا۔اس پروجیکٹ سے وابستہ ہر کارکن ، ہر ملازم، ہر انجینئر سبھی خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آپ کے ہی فیصلے کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم اس مشکل پروجیکٹ کو مکمل کرپائے ہیں۔ابھی یہاں اس اسٹیج سے مجھے سری نگر روڈ کے رنگ روڈ کے سنگ بنیاد کا بھی موقع ملا ہے۔ 42 کلو میٹر کی اس سڑک پر 500 کروڑ روپے سے زیادہ کا صرفہ آئے گا۔ یہ رنگ روڈ سری نگر شہر کے اندرونی علاقوں میں جام کا جو مسئلہ ہے اس کو کافی حد تک کم کرنے کا کام کرے گی، آپ کی زندگی آسان بنائے گی۔ ساتھ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے ریاست کو تینوں حصوں کشمیر، جموں اور لداخ کی متوازن ترقی بہت ہی ضروری ہے۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے ڈھائی سال قبل 80ہزار کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اتنے کم وقت میں تقریباً 63ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی جاچکی ہے اور 20 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ بھی ہوچکے ہیں۔ اس رقم سے جموں وکشمیر میں آئی آئی ٹی بنانے کا کام ، آئی آئی ایم بنانے کا کام، دو ایمس بنانے کا کام، پرائمری صحت مراکز سے لے کر ضلع اسپتالوں کی جدید کاری کا کام بھی جاری ہے۔ نئے نیشنل ہائی وے ، آل ویدر روڈ ، نئی سرنگیں، پاور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لائن، ندیوں اور جھیلوں کا تحفظ، کسانوں کے لئے منصوبے، کولڈ اسٹوریج، ویئر ہاؤسنگ، نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع جیسے متعدد نئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا جموں و کشمیر یہاں کے لوگوں کی امیدوں اور امنگوں کے مطابق ہو اس پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے۔ ساتھیوں!جب میں پہاڑ پر جاتا ہوں ایک کہاوت ضرور یاد آتی ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پہاڑ کی جوانی اور پہاڑ کا پانی کبھی پہاڑ کے کام نہیں آتا ہے۔ یہ کہاوت تب کی ہے، جب جدید تکنیک کی اتنی اشاعت نہیں ہوئی تھی۔ انسان قدرت کے سامنے مجبور تھا، لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اس کہاوت کو آپ سبھی کے تعاون سے ہم بدلنے میں مصروف ہیں۔ جموں و کشمیر کا پانی اور یہاں کی جوانی، دونوں ہی اس دھرتی کے کام آنے والے ہیں۔ جموں وکشمیر میں کئی ندیاں ہیں، جہاں پن بجلی کے لامحدود امکانات ہیں۔ یہ ملک کا وہ حصہ ہے، جو نہ صرف اپنی ضرورتوں، بلکہ ملک کے لئے بھی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ چار برسوں سے ہم یہاں متعدد پروجیکٹوں پر کام کررہے ہیں۔ کشتواڑ میں 8ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے ہائیڈرو پاور پلانٹ پر بھی کام جلد ہی شروع ہوجائے گا۔ جموں وکشمیر کے ہر گھر تک بے روک ٹوک بجلی پہنچانے کے لئے بھی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسمارٹ گرڈ اور اسمارٹ میٹر جیسی ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اسٹریٹ لائٹ کی جدید کاری کی جارہی ہے۔ جموں وکشمیر کے گاؤں سے لے کر قصبوں تک کو روشن کرنے کے لئے، ریاست کے بجلی ڈسٹری بیوشن سسٹم کو سدھارنے کے لئے تقریباً 4ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ساتھیوں! صرف گاوؤں اور گھروں تک بجلی پہنچانا ہی مقصد نہیں ہے، بلکہ جن گھروں میں بجلی پہنچ چکی ہے، ان میں بجلی کا بل بوجھ نہ بنے اس کے لئے بھی کوشش کی جارہی ہے۔ اجالا یوجنا کے تحت جموں و کشمیر میں بھی 78 لاکھ سے بھی زیادہ ایل ای ڈی بلب تقسیم کئے جاچکے ہیں۔ اس سے یہاں کے عوام کو بجلی کے بل میں ہر سال تقریباً 400 کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت ہورہی ہے۔ حکومت ریاست کے ہر گھر تک بجلی پہنچانے کی مہم میں مصروف ہے۔ سوبھاگیہ یوجنا ک تحت اب جموں و کشمیر کے ہر اس گھر میں مفت بجلی کنکشن دینے کا کام چل رہا ہے، جہاں اب تک بجلی نہیں پہنچی ہے۔ ساتھیوں! جموں و کشمیر میں ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ اگر کوئی شعبہ ہے تو وہ ہے سیاحت۔ یہ دہائیوں سے ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ کم سرمایہ کاری پر سب سے زیادہ روزگار پیدا کرنے والا یہ شعبہ جموں و کشمیر کی تقدیر بدلتا رہا ہے، لیکن اب یہ شعبہ پرانے طور طریقوں پر نہیں چلتا۔ آج کا سیاح ، آج کے دور کی سہولتیں چاہتا ہے۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے گھنٹوں تک انتظار نہیں کرنا چاہتا، وہ تنگ راستوں میں پھنسنا نہیں چاہتا، وہ مسلسل بجلی چاہتا ہے، وہ صاف صفائی چاہتا ہے، وہ اچھی ہوائی سروس چاہتا ہے۔ سیاحت کے لئے جس جدید ماحولیاتی نظام کی ضرورت ہے، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے ہماری حکومت مختلف پروجیکٹوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ جتنا ہی یہ ماحولیاتی نظام مضبوط ہوگا اتنا ہی جموں و کشمیر میں سیاحوں کی تعداد بڑھے گی۔ اتنا ہی نہیں، جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے، اتنی ہی آپ کی کمائی بڑھے گی۔ ساتھیوں! پوری دنیا میں متعدد ایسے علاقے ہیں، جہاں کی پوری معیشت سیاحت پر مرکوز ہے، پورے ملک کی معیشت۔ اکیلے جموں وکشمیر میں وہ صلاحیت ہے کہ وہ بھارت کی معیشت کی رفتار کو اور بڑھا سکنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ اگر میں صرف سیاحت کی بات کروں تو تقریباً 2000کر��ڑ روپے کی سرمایہ کاری سے 12 ڈیولپمنٹ اتھارٹیز ، 3ٹورزم سرکٹ، 50 ٹورسٹ ویلیج بنانے کا کام کیا جائے گا، لیکن جیسا کہ میں پہلے کہا، سیاحت کے ساتھ ہی اس کے پورے ایکو سسٹم کو مضبوط کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اس ایکو سسٹم کی بہت بڑی بنیاد ہے کنکٹی وٹی۔ یہی وجہ ہے کہ کنکٹی وٹی کے لئے جموں و کشمیر میں بہت بڑے پیمانے پر کوشش کی جارہی ہے۔ ریاست کو دیئے گئے پیکیج کا تقریباً نصف حصہ روڈ سیکٹر پر ہی خرچ کیا جارہا ہے۔ جموں و کشمیر میں نیشنل ہائی وے کا جال بچھایا جارہا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے ملک کی سب سے لمبی زوجیلا سرنگ کے کام کا افتتاح کیا ہے۔ یہ سرنگ جموں و کشمیر میں ترقی کی نئی کہانی رقم کرنے والی ہے۔ آپ سوچئے، کنکٹی وٹی بڑھے گی تو اکثر پڑھائی کے لئے جاتے ہوئے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لئے، علاج کے لئے جاتے ہوئے، تجارت کے لئے آتے جاتے وقت، سامان کی خریدو فروخت کے وقت آپ کو کم پریشان ہونا پڑے گا۔ راستے میں تاخیر کے سبب جو ہمارے سیب خراب ہوجاتے ہیں، ہماری سبزیاں خراب ہوجاتی ہیں، یہاں کے کسانوں کا جو نقصان ہوتا ہے اسے بھی ہم بہت حد تک کم کرسکیں گے۔ یہاں سری نگر میں بننے والی رنگ روڈ ہو ، سری نگر-شوپیاں-قاضی گُنڈ نیشنل ہائی وے ہو یا پھر چینائی –سُدھ مہادیو-گوہا روڈ ہو، ان کے مکمل ہونے پر آپ لوگوں کا وقت بھی بچے گا اور وسائل کی بربادی بھی کم ہوگی۔ ریاست کے ایسے علاقے جو برف باری میں مہینوں تک کٹ جاتے ہیں، انہیں بھی جوڑا جارہا ہے۔ان کے لئے ہیلی کاپٹر سروس دستیاب کرائی جارہی ہے۔ یہ بھی آپ کی جانکاری میں ہے۔حکومت کے ذریعے سری نگر اور جموں کو اسمارٹ سٹی بنانے کا کام بھی تیزی پر ہے۔ شہروں میں پانی کی سپلائی اور سیویج کے نظام کو درست کرنے کے لئے امرت یوجنا کے تحت تقریباً 550 کروڑ خرچ کئے جارہے ہیں۔ جب جدید سہولتیں ہوں گی، جدید سڑکیں ہوں گی، تو آپ کی زندگی تو آسان بنے گی ہی، جموں و کشمیر میں، اس کی خوبصورتی میں بھی اور نئے چار چاند لگنے والے ہیں۔ بھائیو اور بہنو! جب ہم گاؤں اور شہروں کو اسمارٹ بنانے کی بات کرتے ہیں تو سووچھتا اس کا ایک اہم حصہ ہے۔مجھے خوشی ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام بھی اس مہم کو پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ حال میں یہاں کی ایک بٹیا کا ویڈیو میں نے سوشل میڈیا میں دیکھا تھا۔ 5سا ل کی جنت ڈل لیک کو صاف کرنے کے لئے جاری مشن میں جٹی ہے۔ جب ملک کا مستقبل اتنا پاکیزہ اور سووچھ سوچتا ہے، تب مجھے اس مہم کا ایک رکن ہونے کے ناطے اور بھی خوشی ہوتی ہے۔ ساتھیوں!ایسے متعدد لوگ ہیں جو اپنی سطح پر اس طرح کے کام کررہے ہیں۔ بھائیو اور بہنو! مجھے اس بات کا احساس ہے کہ خوفناک سیلاب میں یہاں جو تباہی پھیلائی اس نے آپ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہماری یہ ہر ممکن کوشش ہے کہ جہاں جہاں نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی ہو اور اس کے لئے ریاستی حکومت کی مسلسل مدد کی جارہی ہے۔ ساتھیو!ایک اور بہت سنجیدہ موضوع پر ہے، جس پر پی ڈی پی –بی جے پی اتحاد کی حکومت اور مرکزی حکومت مل کر کام کررہی ہے۔ یہ مسئلہ ہے نقل مکانی کرنے والوں کا ۔ جو لوگ سرحد پار کے حالات سے تنگ آ کر یہاں آئے ہیں، جنہیں مقامی مسائل کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا ہے، الگ الگ جگہوں پر ان کی باز آباد کاری کے لئے تقریباً 350 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے جارہےہیں۔ ساتھیوں! آج جموں و کشمیر کے کئی نوجوان ملک کی دوسری ریاستوں کے نوجوانوں کے لئے رول ماڈل بن رہے ہیں۔ سول سروسز میں جب یہاں کے نوجوانوں کا نام دی��ھتا ہوں، ان سے ملاقات کرتا ہوں تو میری خوشی دوگنی ہوجاتی ہے۔ مجھے یاد ہے ملک کا سینہ تب فخر سے چوڑا ہوگیا تھا، جب یہاں باندی پورہ کی بٹیا نے کِک باکسنگ میں ہندوستان کا نام روشن کیا ۔ تجمل جیسے ٹیلنٹ کو ملک بے کار نہیں جانے دے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے اسپورٹنگ ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لئے ریاستی حکومت کے ساتھ مل کرکے کوشش کررہی ہے۔ اسی جذبے کے تحت یہاں اسپورٹس انفرااسٹرکچر ڈیولپ کرنے کی بھی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ بھائیو اور بہنو! جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع دستیاب کرانے کے تعلق سے سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ ریاستی حکومت کے ساتھ ملک کر متعدد نئے پروجیکٹوں کو عملی شکل دی گئی ہے۔ حمایت اسکیم کے تحت یہاں کے ایک لاکھ نوجوانوں کو تربیت دینے کے پروجیکٹ پر کام چل رہا ہے۔ 16ہزار سے زیادہ بچوں کو وزیر اعظم خصوصی اسکالر شپ اسکیم کا فائدہ ملا ہے۔ انہیں ملک کے بہترین کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا موقع دیا گیا ہے۔ الگ الگ وجہوں سے کالج اور اسکول بیچ میں ہی چھوڑ دینے والے تقریباً 60 ہزار طلباء کو نوکریوں کا آفر دیا گیا ہے۔ یہاں کے نوجوان ملک اور ریاست کے شہریوں کے تحفظ کے کام آسکیں، اس کے لئے بھی نئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔جموں و کشمیر پولس کو بااختیار بنانے کے لئے 5 انڈین ریزرو بٹالین منظور کی گئی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ بھرتی کا عمل آخری مرحلے میں ہے، جس کے بعد یہاں کے 5ہزار نوجوانوں کو سیکورٹی کے شعبے میں روزگار ملے گا۔ بھائیو اور بہنو! ہماری حکومت کے لئے شہریوں اور ملک کا تحفظ ، سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہمارے سلامتی دستی مسلسل ڈٹے ہوئے ہیں۔یہاں جموں و کشمیر کی پولس ہو، پیرا ملٹری فورسز اور فوج کے جوان ہو، آپ سبھی سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ مشکل حالات میں بھی آپ شاندار کام کررہے ہیں۔ آپ کے درمیان جو میل جول ہے، کوآرڈینشن ، اس کے لئے یہ سب بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں۔ چاہے سیلاب ہو یا برفیلے طوفان ہوں، یا پھر آگ جیسی آفت ہو، مشکل میں پھنسے ہر جموں و کشمیر کے باشندے کے لئے سیکورٹی دستوں کا تعاون بے مثال ہے۔ یہاں کے عوام کے لئے وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، جو بھی تکلیف جھیل رہے ہیں، اس کی ایک ایک تصویر ملک کے عوام کے دل و دماغ میں نقش ہے۔ بھائیو اور بہنو! ملک کے سوا سو کروڑ لوگ آج نیو انڈیا کے عزم پر کام کررہے ہیں۔جموں و کشمیر اس نیو انڈیا کا سب سے روشن ستارہ بن سکتا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جموں وکشمیر میں ملک کے سب سے اچھے تعلیمی ادارے ، سب سے اچھے اسپتال، سب سے اچھی سڑکیں، سب سے جدید ہوائی اڈے نہ ہوں۔ کوئی وجہ نہیں کہ یہاں کے ہمارے بچے اچھے ڈاکٹر نہ بنیں، اچھے انجینئر نہ بنیں، اچھے پروفیسر اور اچھے افسر نہ بنیں۔ کوئی وجہ نہیں ہے ۔ ساتھیوں!بہت ساری طاقتیں ہیں جو نہیں چاہتی ہیں کہ جمو ں و کشمیر کی ترقی ہو، یہاں کے لوگوں کی زندگی خوشحال ہو، لیکن ساتھیو! ہمیں ان بیرونی طاقتوں کو جواب دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا ہے۔ یہاں محبوبہ مفتی صاحبہ کی قیادت میں چل رہی پی ڈی پی-بی جے پی اتحاد حکومت اور مرکز کی این ڈی اے حکومت مسلسل ایسے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کررہی ہے، جو بیرونی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اپنی ہی پاک سرزمین پر حملہ کررہے ہیں۔ ساتھیو! امن اور استحکام کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ میری گزارش ہے کہ جو نوجوان راہ بھٹک گئے ہیں، وہ قومی دھ��رے میں واپس لوٹیں۔ یہ قومی دھارا ہے، ان کا خاندان ، ان کے والدین۔ یہ قومی دھارا ہے جموں و کشمیر کی ترقی میں ان کا سرگرم تعاون ۔ اس نوجوان نسل پر ہی ذمہ داری ہے جموں و کشمیر کا اقبال بلند کرنےکی۔ جموں و کشمیر میں اتنے ذرائع ہیں، اتنے وسائل ہیں، اتنی اہلیت ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ جموں و کشمیر ہندوستان کے اپنے دوسرے علاقوں سے رتی بھر بھی پیچھے رہے۔بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے ذریعے اٹھایا گیا ہر پتھر ، ہر ہتھیار ان کے اپنے جموں وکشمیر کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ ریاست کو اب استحکام کے اس ماحول سے باہر نکلنا ہی ہوگا۔ مستقبل کے لئے ، اپنی آنے والی نسلوں کے لئے، انہیں صرف کشمیر ہی نہیں، ہندوستان کی ترقی کے قومی دھارے سے بھی جڑنا ہوگا۔ ہزاروں سالوں سے ، ہم ایک بھارت ماں کی اولاد ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو بھائی سے بھائی کو دور کرسکتی ہے۔ماں کے دودھ میں کبھی دراڑ ہوسکتی۔ جو لوگ دہائیوں سے اس کوشش میں لگے ہوئے تھے ، وہ اب خود بکھرنے کی دہلیز پر ہیں۔ بھائیو او ربہنو! میں پھر کہوں گا، گزشتہ برس میں دیوالی گریز میں جوانوں کے ساتھ منائی تھی تو اس سال رمضان کے موقع پر یہاں آپ سب کے درمیان ہوں۔ یہی تو کشمیر کا جذبہ ہے، یہی تو اس دھرتی کی دیش اور دنیا کو دین ہے۔ یہاں سب کا خیر مقدم ہے، یہاں سب کی قدر دانی ہے۔ یہ اس روایت کی دھرتی ہے جو دیش دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اسی دھرتی کو مذہب اور فرقوں سے زیادہ روایتوں نے سینچا ہے۔ اس لئے کشمیریت کے اٹل جی بھی قائل رہے ہیں اور اسی کشمیریت کا مودی بھی مرید ہے۔ اور میں نے تو لال قلعے کی فصیل سے بھی کہا تھا: نہ گالی سے مسئلہ سلجھنے والا ہے، نہ گولی سے مسئلہ سلجھے گا، ہر کشمیری کو گلے لگانے سے مسئلہ سلجھے گا۔ جموں و کشمیر کی ترقی کے لئے ریاستی اور مرکزی حکومت کے پاس نیتی بھی ہے، نیت بھی ہے اور فیصلہ لینے میں ہم کبھی پیچھے نہیں رہتے ہیں۔ طلباء پر ہزاروں مقدمات کو واپس لینے کا عمل ہو یا پھر ابھی رمضان کے اس مبارک مہینے میں لیا گیا جنگ بندی کا فیصلہ ، اس کے پس پردہ فکر یہی ہے کہ کشمیر کے ہر نوجوان کو یہاں کے ہر شخص کو استحکام ملے اور ان کی ترقی ہو۔ ساتھیو! یہ صرف جنگ بندی نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کی آڑ میں دہشت گردی پھیلانے والوں کو بے نقاب کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ جموں و کشمیر کے لوگ اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ کیسے انہیں گو مگو کی حالت میں رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ استحکام کے اسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے حکومت نے ایک نمائندہ بھی مقرر کیا ہے۔ وہ عوام کے ذریعے منتخب نمائندوں سے، یہاں کی الگ الگ تنظیموں اور اداروں سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جو اپنی بات ہے ان سے جاکر بتائیں۔ ہر شخص سے بات چیت کرکے وہ امن کے عمل کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بھائیو اور بہنو! حکومت اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے، لیکن کشمیریت اور جمہوریت کے اتحاد کو قائم رکھنے میں آپ سبھی لوگوں کا بھی رول ہے او رمیں جموں و کشمیر کے سبھی شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ سب کا بھی ، یہاں کے ہر والدین ، یہاں کے نوجوان، دانشور اور مذہبی رہنا سبھی کی ذمہ داری ، سبھی کا بڑا رول ہے، لہٰذا وہ اپنا رول نبھائیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ ، ہم سبھی اپنی پوری طاقت صرف اور صرف جموں و کشمیر کی ترقی پر لگائیں، ہر مسئلہ اور ہر تنازع ، ہر اختلاف سب کا حل ایک ہی ہے، ترقی ، ترقی اور صرف ترقی۔ نیو انڈیا کے ساتھ ہی نیو جموں وکشمیر ، پ��سکون اور خوشحال جموں کشمیر ، بدلتے بھارت کی ترقی کی کہانی کو اور مضبوط کرے گا، اور ایسا مجھے پورا یقین ہے۔ اور میں اسی اعتماد کے ساتھ آپ لوگوں کے درمیان میں بھی اپنے جذبات کو میں کھول کر ظاہر کرتا ہوں۔ اپنی بات کو کھول کرکے بتاتاہوں۔ اور میں دنیا کے لوگوں کو بھی کہتا ہوں، ساری دنیا کے ملک جو بھی ان راستوں پر چل پڑے ہیں، سبھی پچھتا رہے ہیں، سبھی واپس لوٹ رہے ہیں، وہ واپس لوٹنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں اور اس لئے امن چین کی زندگی ، بھائی چارے کی زندگی، امن اور خوشحالی کی زندگی، سکھ چین کی زندگی ، اسی وراثت کو ہمیں آگے بڑھا نا ہے اور اس کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی کمی نہیں رہے گی۔ جہاں ضرورت ہوگی، سارے قدم اٹھاتے چلے جائیں گے، آپ کا ساتھ اور تعاون رہے گا، ہم جس چاہ کو لے کر نکلے ہیں، وہ چاہ ہم پوری کرکے رہیں گے اور پھر ایک بار ہمارا یہ کشمیر، ہمارا یہ جموں کشمیر، لیہہ لداخ ، پورا علاقہ سارے ہندوستانیوں کے لئے وہی تاج کے نگینے کی شکل میں ہر کسی کو پیار سے گلے لگانے کا موقع دے گا۔ م ن۔م م ۔ن ع,শ্ৰীনগৰৰ কিষণগংগা জলবিদ্যুত্ প্ৰকল্প ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উত্সৰ্গা কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোডীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A2%D8%B3%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-39/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی اور آسٹریلیا کے وزیر اعظم عزت مآب اسکاٹ موریسن نے آج ہندوستان-آسٹریلیا دوسری ورچوئل سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی۔ اس سربراہی اجلاس کے دوران انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان کثیر جہتی تعلقات کا جائزہ لیا اور علاقائی اور عالمی ترقی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔ سربراہ اجلاس کے آغاز میں، وزیر اعظم جناب مودی نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنس لینڈ میں شدید سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور اس کے نتیجے میں ہوئے جان و مال کے نقصان پر تعزیت کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے جون 2020 میں پہلے ورچوئل ملاقات کے دوران قائم ہونے والی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے تحت ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم جناب مودی نے باہمی تعلقات کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس تعلقات کا بڑھتا ہوا دائرہ اب متنوع شعبوں پر محیط ہے جیسے تجارت اور سرمایہ کاری، دفاع اور سلامتی، تعلیم اور اختراع، سائنس اور ٹیکنالوجی، اہم معدنیات، پانی کا انتظام، نئی اور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی، اور کووڈ-19 سے متعلق تحقیق وغیرہ۔ وزیر اعظم مودی نے 29 قدیم نوادرات ہندوستان کو واپس کرنے کی خصوصی پہل کے لیے عزت مآب اسکاٹ موریسن کا شکریہ ادا کیا۔ ان نمونوں میں صدیوں پرانے مجسمے، پینٹنگز اور تصاویر شامل ہیں، جن میں سے اکثر 9ویں-10ویں صدی کے ہیں اور یہ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہیں۔ ان نمونوں میں 12ویں صدی کے چولا کانسی، 11ویں-12ویں صدی کے راجستھان کے جین مجسمے، 12ویں-13ویں صدی کی ریت کے پتھر کی دیوی گجرات کی مہیشاسورمردینی، 18ویں-19ویں صدی کی پینٹنگز اور ابتدائی جیلاٹن سلور تصویریں شامل ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے کووڈ-19 وبائی امراض کے دوران آسٹریلیا میں ہندوستانی طلباء سمیت ہندوستانی کمیونٹی کا خیال رکھنے پر و��یر اعظم موریسن کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنماؤں نے مشترکہ اقدار اور مشترکہ مفادات کے ساتھ ایک باہمی تعاون پر مبنی جمہوریت کے طور پر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک روابط کو بھی سراہا جس میں ایک آزاد، کھلا، جامع اور خوشحال ہند-بحرالکاہل خطہ بھی شامل ہے۔ اس موقع پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں گہری جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا۔ دونوں فریقوں نے جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے حصے کے طور پر دونوں وزرائے اعظم کے درمیان سالانہ سربراہ اجلاس کے انعقاد پر بھی اتفاق کیا، اس طرح دو طرفہ تعلقات میں ایک خاص جہت کا اضافہ ہوا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু অষ্ট্ৰেলিয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী স্কট মৰিছনে ভাৰত-অষ্ট্ৰেলিয়া দ্বিতীয় ভাৰ্চুৱেল সন্মিলনৰ আয়োজন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%DB%8C%D9%B9%D8%A7-%D8%B3%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%8C%DA%A9%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%9B%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A4%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ڈیٹا سونیفیکیشن کے ذریعے لین دین کی گئی رقم کی آواز کے ذریعے ڈجیٹل ادائیگیوں اور یو پی آئی کے نقطہ نظر کو بیان کرنے کے لیے انڈیا ان پکسلز (آئی آئی پی) کی تعریف کی ہے۔ انڈیا ان پکسلز کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا، ”میں نے اکثر یو پی آئی اور ڈجیٹل ادائیگیوں کے بارے میں بات کی ہے لیکن آپ نے نقطہ نظر کو مؤثر طریقے سے بیان کرنے کے لیے ڈیٹا سونیفیکیشن کے ذریعے لین دین کی گئی رقم کی آواز کو جس طرح سے استعمال کیا ہے وہ مجھے واقعی میں پسند آیا ہے۔ بے حد دلچسپ، متاثر کن اور واضح طور پر معلوماتی!“,ডাটা ছ’নিফিকেচনৰ জৰিয়তে ইউপিআই আৰু ডিজিটেল পৰিশোধৰ সমস্ত বিষয় দাঙি ধৰাৰ বাবে বাবে আইআইপিক প্ৰশংসা কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A6%BF-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے لوگوں کو من کی بات کی آنے والی قسط کے لئے آراء اور تجویزات ساجھا کرنےکے لئے مدعو کیا ہے۔جسے 31 جولائی 2022 کو 11 بجے صبح نشر کیاجائے گا۔ نظریات اور آراء کومائی گو، نمو ایپ پر ساجھا کیاجاسکتا ہے،یا1800-11-7800 نمبر ڈائل کرکے میسیج ریکارڈ کرایا جاسکتا ہے۔ مائی گو دعوت نامہ کو ساجھا کرتے ہوئے، وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا۔ ‘‘کیا آپ اس مہینے کے من کی بات پروگرام کے لئے کوئی مواد رکھتےہے،جسے 31 جولائی کونشرکیاجائے گا،میں ان کو سننے کے لئے انتظار کررہا ہوں،ان کویا تو مائی گو پر یا نمو ایپ پر ساجھا کریں۔1800-11-7800 ڈائل کرکے اپنا پیغام ریکارڈ کرائیں۔’’ https://www.mygov.in/gro,‘মন কি বাত’ৰ বাবে জনসাধাৰণৰ পৰা ধাৰণা আমন্ত্ৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%D8%A7%D8%B2%D8%A8%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86%DA%AF%DB%8C-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC/,میں ازبیکستان کے صدر عزت مآب جناب شوکت میرضیایف کی دعوت پر شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کے سربراہان کی کونسل کی میٹنگ میں شرکت کے لیے سمرقند کا دورہ کروں گا۔ ایس سی او سربراہ ملاقات کے دوران، میں حالات حاضرہ، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل، ایس سی او کی توسیع اور تنظیم کے اندر کثیر جہتی اور باہمی مفادات پر مبنی تعاون کو مزید مضبوط بنانے، جیسے موضوعات پر تبادلہ خیالات کے لیے پرجوش ہوں۔ ازبیکستان کی سربراہی میں تجارت، معیشت، ثقافت اور سیاحت جیسے شعبوں میں امدادِ باہمی کے لیے متعدد فیصلے لیے جانے کا قوی امکان ہے۔ میں سمرقند میں صدر میرضیایف سے ملاقات کے لیے بھی پرجوش ہوں۔ 2018 میں ان کے دورۂ بھارت کی خوشگوار یادیں میرے ذہن میں ابھی بھی تازہ ہیں۔ انہوں نے 2019 میں منعقدہ وائبرینٹ گجرات سربراہ ملاقات میں مہمان ذی وقار کے طور پر شرکت کرکے اس تقریب کو رونق بخشی تھی۔ اس کے علاوہ، میں اس سربراہ ملاقات میں شرکت کر رہے چند دیگر قائدین کے ساتھ بھی باہمی میٹنگوں کا اہتمام کروں گا۔,উজবেকিস্তান ভ্ৰমণৰ পূৰ্বে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰস্থান বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86%D8%B4%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%DB%81%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%9B%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔20؍فروری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے منشیات سے پاک ہندوستان کی مہم پر ویڈیو میسج کے ذریعے خطاب کیا۔ اس خطاب کا اہتمام آرٹ لیونگ فاؤنڈیشن نامی تنظیم کی جانب سے کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کے ویڈیو خطاب پر مبنی یہ پیغام حسار کی گروجمبیشور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں سنایا اور دکھایا گیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ملک میں منشیات کی وبا کے خاتمے کیلئے شری شری روی شنکر اور آرٹ لیونگ نامی تنظیم کی کوششوں کی ستائش کی۔ سماج کیلئے منشیات کو سنگین وبا قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عالمی تنظیم صحت کی اندازہ کاریوں کے مطابق دنیا میں تین کروڑ سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہ دیکھ کر شدید خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں ، منشیات اچھی چیز نہیں ہے یہ ایک بالکل غلط خیال ہے کہ منشیات ’اسٹائل اسٹیٹمنٹ ‘کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ صحت کے مسائل کے علاوہ منشیات کے استعمال کے نتیجے میں کنبوں کی تباہی کے علاوہ منشیات کی تجارت ملک اور سماج کی حفاظت کیلئے بھی سنگین ترین خطرہ ہے۔ منشیات سے ہونے والی آمدنی دہشت گردوں اور قوم دشمن عناصر کے سب سے بڑے وسیلہ آمدنی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان وسائل سے حاصل کی جانے والی آمدنی ملک کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے نئی نسل پر زور دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ صحت مند زندگی کیلئے ’منشیا ت کونہ کہیں‘ کے ایک خوشحال کنبے ، بہتر مستقبل اور ملک و قوم کی حفاظت وسلامتی کیلئے منشیات سے نجات پانا ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ خود پر یقین رکھنے والے خود اعتماد لوگ آسانی سے منشیات کے شکار نہیں بنائے جاسکیں گے۔ انہوں نے نئی نسل کو ہدایت کی کہ نشے کی لت میں مبتلا لوگوں کی امداد وحمایت کی جانی چاہئے۔ صرف گفتگو ، مشورے ، محبت اور حمایت سے ہی ہم نشے میں مبتلا لوگوں کو بحالی کے راستے پر لاسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام میں نشے کی لت پر شکنجہ کسنے کی غرض سے مرکزی سرکار متعدد اقدامات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ 2018 میں شروع کیے جانے والے نیشنل ایکشن پلان فار ڈرگ ڈیمانڈ ری ڈکشن میں منشیات کی زد والے علاقوں میں بیداری ، اہلیت سازی، بحالی اور خصوصی اقدامات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے تاکہ 2023 تک دواؤں کی ضرورت میں کمی کی جاسکے۔ ملک بھر کے تمام کالجوں کے طلباء نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے وزیراعظم کا یہ پیغام سنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ س ش۔ع ن,ড্ৰাগছমুক্ত ভাৰত অভিযানৰ বাবে ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সযোগে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰিলে ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DB%8C%D9%86%DA%88-%D8%A7%D9%8E%D9%BE-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%8C-%DA%86%DA%BE%D9%B9%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF%D8%B1%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%86%E0%A6%AA-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AC%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اسٹینڈ اَپ انڈیا پہل کو، ہندوستان کی صنعت کاری سے متعلق توانائی کو تخلیقی شکل عطا کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ قرار دیا۔ آج اسٹینڈ اپ انڈیا پہل کے 6 سال پورے ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’ہندوستان صنعت کارانہ توانائی سے مالا مال ہے اور اسٹینڈ اپ انڈیا پہل، آگے کی پیش رفت اور خوشحالی کو سمت عطا کرنے کے لیے اسی جذبے کو تخلیقی شکل عطا کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔‘‘,ষ্টেণ্ড আপ ইণ্ডিয়াৰ ৬ষ্ঠ বৰ্ষপূৰ্তি অনুষ্ঠানত ভাৰতৰ উদ্যোগী শক্তিৰ গুৰুত্বৰ ওপৰত প্ৰাধান্য প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%B9%DB%8C%D8%B2-%D8%A7%DB%8C%D9%86%DA%88-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%DA%86%DB%8C%D9%86%D8%AC-%D8%A8%D9%88%D8%B1%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%9C-%E0%A6%8F%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%9E%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے ہندوستان کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ اور مانیٹوبا سیکورٹیز کمیشن، کینیڈا کے درمیان دو طرفہ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کو منظوری دے دی ہے۔ فوائد: یہ مفاہمت، دوسری باتوں کے ساتھ، سیکیورٹیز ریگولیشن کے شعبے میں سرحد پار تعاون کے لیے ایک با ضابطہ بنیاد فراہم کرے گی، باہمی مدد کو آسان بنائے گی، معائنہ کی سرگرمیوں کی مؤثر کارکردگی میں تعاون کرے گی، تکنیکی میدان کا علم فراہم کرنے میں مدد کرے گی اور سیکیورٹیز مارکیٹوں کو ریگولیٹ کرنے کی صلاحیت اور مؤثر طریقے سے قوانین پر عملدرآمد بڑھے گا۔ یہ ایم او یو مانیٹوبا کے سرمایہ کاروں کو SEBI کے ساتھ FPI کے طور پر رجسٹریشن کا اہل بنائے گا۔ اثر: مانیٹوبا، کینیڈا کے صوبے میں واقع ادارے SEBI کے ساتھ فارن پورٹ فولیو انویسٹر (FPI) کے طور پر رجسٹریشن کے خواہشمند ہیں، جس کے لیے پیشگی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ غیر ملکی ملک/ صوبے کا سیکیورٹیز مارکیٹ ریگولیٹر بین الاقوامی کا دستخط کنندہ ہونا چاہیے۔ سیکورٹیز کمیشن کی کثیر جہتی یادداشت (IOSCO MMO,ছিকিউৰিটিজ এণ্ড এক্সচেঞ্জ বোর্ড অফ ইণ্ডিয়া আৰু কানাডাৰ মান��টোবা ছিকিউৰিটিজ কমিচনৰ মাজত স্বাক্ষৰিত দ্বিপাক্ষিক বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-28-%D9%85%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی، 28 مئی 2022 کو گجرات کادورہ کریں گے۔ وزیراعظم ، صبح 10 بجے کے قریب، راجکوٹ کے انکوٹ میں نئے تعمیر شدہ ماتو شری کے ڈی پی ملٹی اسپیشلٹی اسپتال کادورہ کریں گے۔ اس کے بعد وہ وہاں ایک عوامی جلسے سے خطاب کریں گے۔ اس کے بعد تقریباً 4 بجے ،وزیراعظم گاندھی نگر کے مہاتما مندر میں‘‘سہکار سے سمردھی’’ پر مختلف کو آپریٹو اداروں کے رہنماؤں سے خطاب کریں گے۔ جہاں وہ افکو( آئی ایف ایف سی او) کالول میں تعمیر کئے گئے نینو یوریا( مائع) پلانٹ کا بھی افتتاح کریں گے۔ وزیر اعظم گاندھی نگر میں گجرات کا کوآپریٹو سیکٹر پوری قوم کے لیے رول ماڈل رہا ہے۔ کوآپریٹو سیکٹر میں ریاست میں 84,000 سے زیادہ سوسائٹیاں ہیں۔ ان سوسائٹیوں سے تقریباً 231 لاکھ ممبران وابستہ ہیں۔ ریاست میں کوآپریٹو تحریک کو مزید مضبوط بنانے کی طرف ایک اور قدم میں، ‘سہکار سے سمردھی’ پر مختلف کوآپریٹو اداروں کے لیڈروں کے ایک سیمینار کا انعقاد مہاتما مندر، گاندھی نگر میں ہوگا۔ سیمینار میں ریاست کے مختلف کوآپریٹو اداروں کے 7000 سے زیادہ نمائندے شرکت کریں گے۔ کسانوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور ان کی آمدنی بڑھانے میں مدد کرنے کے ذرائع فراہم کرنے کی کوشش میں، وزیر اعظم آئی ایف ایف سی او، کلول میں تقریباً 175 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے نینو یوریا (مائع) پلانٹ کا بھی افتتاح کریں گے۔ الٹرا ماڈرن نینو فرٹیلائزر پلانٹ نینو یوریا کے استعمال سے فصل کی پیداوار میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے۔ پلانٹ روزانہ 500 ملی لیٹر کی تقریباً 1.5 لاکھ بوتلیں تیار کرے گا۔ اٹکوٹ، راجکوٹ میں وزیراعظم ماتوشری کے ڈی پی ملٹی اسپیشلٹی ہسپتال، جس کا وزیر اعظم دورہ کر رہے ہیں، شری پٹیل سیوا سماج کے زیر انتظام ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کے طبی آلات مہیا کرے گا اور علاقے کے لوگوں کو عالمی معیار کی صحت کی سہولیات فراہم کرے گا۔ دورے کے بعد وزیراعظم عوامی تقریب سے خطاب کریں گے۔",২৮ মে’ত গুজৰাট ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%A7%D9%88%D8%A7%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DB%81%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%84%DB%8C%DA%A9%D8%A7-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%9C-%E0%A6%B9/,وزیر اعظم نے پاواگڑھ ہل میں واقع شری کالیکا ماتا کے نوتعمیر شدہ مندر کا افتتاح کیا۔ یہ اس خطے کے قدیم ترین مندروں میں سے ایک ہے اور زائرین کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ مندر کی ازسر نو تجدید کاری کا کام 2 مراحل میں انجام دیا گیا۔ اس سے قبل، پہلے مرحلے کے تحت کی گئی تجدیدکاری کا افتتاح وزیر اعظم کے ذریعہ ماہ اپریل کے دوران کیا گیا۔ جس حصہ کا افتتاح آج کے پروگرام میں کیا گیاہے ، اس کا سنگ بنیاد وزیر اعظم کے ذریعہ 2017 میں رکھا گیا تھا۔ اس میں تین سطحوں پر مندر کی بنیاد اور ’ع��ارت‘ کی توسیع کے علاوہ اسٹریٹ لائٹو، سی سی ٹی وی نظام، وغیرہ جیسی سہولتوں کی تنصیب بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے مندر آنے کی اپنی خوش نصیبی کے لیے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے آج اس لمحہ کی اہمیت اجاگر کی جب 5 صدیوں بعد اور آزادی کے بھی 75 برسوں بعد، مندر سے ’دُھوَج‘ یعنی مقدس پرچم لہرایا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’آج، صدیوں بعد، پاواگڑھ مندر کے اوپر ایک مرتبہ پھر پرچم لہرایا گیا ہے۔ یہ ’شکھر دُھوَج‘ محض ہمارے یقین اور روحانیت کی علامت نہیں ہے، یہ پرچم اس حقیقت کی بھی علامت ہے کہ صدیاں بدل جاتی ہیں، عہد بدل جاتے ہیں، لیکن عقیدہ قائم و دائم رہتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آنے والی ’گپت نوراتری‘ سے قبل یہ تعمیر نو اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ ’شکتی‘ کبھی معدوم یا غائب نہیں ہوتی۔ آیودھیا کے رام مندر ، کاشی وشوناتھ دھام اور کیدار دھام کا حوالہ دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’آج، بھارت کی روحانی اور ثقافتی عظمت ازسر نو قائم کی جا رہی ہے۔ آج، نیو انڈیا اپنی جدید امنگوں اور اپنی قدیم شناخت کے ساتھ فخر سے جی رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مذہبی مقامات کے ساتھ ساتھ ہماری ترقی کے امکانات بھی ابھر کر سامنے آر ہےہیں اور پاواگڑھ کا یہ عظیم مندر اسی سفر کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مندر سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کی بھی علامت ہے۔ وزیر اعظم نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ کیسے ماں کالی کا آشیرواد حاصل کرنے کے بعد سوامی وویکانند نے خود کو عوامی خدمت کے لیے کلی طور پر وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج انہوں نے ماں کالی سے عوام کی خدمت کے لیے طاقت مانگی ہے۔ جناب مودی نے کہا، ’’ماں، مجھے آشیرواد دو، تاکہ میں مزید توانائی، ایثار اور لگن کے ساتھ عوام کے خادم کے طور پر ملک کے عوام کی خدمت کرتارہوں۔ مجھ میں جو بھی طاقت ہے، میری زندگی میں جو کچھ بھی میرے پاس ہے، وہ سب میں ملک کی ماؤں اور بہنوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردوں۔‘‘ آزادی کا امرت مہوتسو کے پس منظر میں، وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات نے جدوجہد آزادی اور ملک کے ترقی کے سفر میں معیاری تعاون پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گروی گجرات بھارت کے فخر اور عظمت کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سومناتھ مندر کی شاندار روایت کے تحت؛ پنچ محل اور پاواگڑھ نے ہماری وراثت میں فخر کے لیے کام جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ آج ،نوتجدیدکاری کے کام کی تکمیل اور پرچم لہراکر، ماں کالی نے اپنے عقیدت مندوں کو عظیم ترین تحفہ کے ساتھ آشیرواد دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بازبحالی کے اس کام میں، مندر کی قدیم روح کو نہیں چھوا گیا۔ وزیر اعظم نے مندر تک آسان رسائی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’پاواگڑھ تک کا سفر اتنا مشکل ہوتا تھا کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ماں کے درشن ضرور ہوجائیں۔ آج، یہاں افزوں سہولتوں نے مشکل سے ہونے والے درشن کو آسان بنا دیا ہے۔ انہوں نے عقیدت مندوں سے نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے کہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ، ’’پاواگڑھ میں روحانیت ہے، تاریخ ہے، فطرت ہے، آرٹ ہے اور ثقافت ہے۔ یہاں ایک جانب ماں مہا کالی کا شکتی پیٹھ ہے تو دوسری جانب جین مندر کی وراثت۔ اسی لیے، پاواگڑھ ایک طرح سے بھارت کی تاریخی گوناگونیت کے ساتھ آفاقی ہم آہنگی کا مرکز ہے۔‘‘ ماتا کے مختلف مندروں کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیراعظم نے کہا کہ گجرات کے پاس ماتا کے آشیرواد کی حفاظتی انگوٹھی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مذہبی مقامات کی ترقی کے ساتھ ساتھ خطے میں سیاحت، روزگار کے مواقع ابھرکر سامنے آر ہے ہیں ، نیز خطے کی فنکاری اور دستکاری کو لےکر بیداری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہ پنچ محل اساطیری موسیقار بیجو باورا کی سرزمین ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ جب کبھی ورثے اور ثقافت کو تقویت حاصل ہوتی ہے، فن اور صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔ وزیر اعظم نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ 2006 میں ’جیوتی گرام‘ اسکیم کا آغاز چمپانیر سے ہی ہوئی تھا۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে পাৱাগড় হিলত পুনর্নির্মিত কালিকা মাতা মন্দিৰৰ উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-50%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%A6-%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1/,کُھرومجری ! نمسکار ریاست کے قیام کے 50 سال پورے ہونے پر منی پور کے عوام کو بہت بہت مبارکباد ! منی پور ایک ریاست کی شکل میں آج جس مقام پر پہنچا ہے، اس کے لیے بہت سے لوگوں نے ایثار و قربانی پیش کی ہے۔ ایسے ہر شخص کو میں عزت کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں۔ منی پور نے گزشتہ 50 برسوں میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہے۔منی پور کے لوگوں نے ہر طرح کے حالات کو ایک ساتھ مل کر جیا ہے اورہر طرح کی صورت حال کا مل کر سامنا کیا ہے۔ یہی منی پور کی اصل طاقت ہے۔ گزشتہ 7 برسوں میں میری مسلسل کوشش رہی ہے کہ آپ کے درمیان آؤں اور آپ کی امیدوں ،تمناؤں اور ضرورتوں کا فوری طور پر جائزہ لے سکوں، یہی وجہ ہے کہ میں آپ کی امیدوں کو آپ کے جذبات کو اور بہتر طریقے سے سمجھ پایا اور آپ کے مسائل کے حل کرنے کے نئے راستے تلاش کرپایا۔ منی پور امن چاہتا ہے۔ ہر طرح کی رکاوٹوں سے آزادی چاہتا ہے۔ منی پور کے لوگوں کی یہ ایک بہت بڑی خواہش رہی ہے۔ آج مجھے خوشی ہے کہ بیرین سنگھ جی کی قیادت میں منی پور کے لوگوں نے اسے حاصل کیا ہے، طویل انتظار کے بعدحاصل کیا ہے۔ آج بلا تفریق منی پور کے ہر شعبے اورہر طبقے تک ترقی پہنچ رہی ہے۔میرے لئے یہ ذاتی طور پر بہت اطمینان بخش ہے۔ ساتھیوں، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ آج منی پور اپنی صلاحیتوں کا استعمال ترقی کے لئے کررہا ہے۔یہاں کے نوجوانوں کی صلاحتیں عالمی سطح پر نکھر کر آرہی ہے۔ آج جب ہم منی پور کے بیٹے۔ بیٹیوں کا کھیل کے میدان پر جذبہ اور جنون دیکھتے ہیں تو پورے ملک کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ منی پور کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ریاست کو ملک کا اسپورٹ پاور ہاؤس بنانے کا بیڑا ٹھایا ہیں۔ ملک کی پہلی قومی اسپورٹس یونیورسٹی کے قیام کے پیچھے یہی سوچ کار فرماں ہے۔ کھیل کو کھیل سے جڑی تعلیم ، کھیل کے انتظام اور تکنیک کو فروغ دینے کے لیے یہ بہت بڑی کوشش ہے۔ کھیل کود ہی نہیں، اسٹارٹ اپس اور انٹرپرینیورشپ کے معاملے میں بھی منی پور کے نوجوان کمال کر رہے ہیں۔ اس میں بھی بہنوں-بیٹیوں کا رول قابل تعریف ہے۔ دستکاری کی جو طاقت منی پور کے پاس ہے اور زیادہ مالا مال کرنے کے لئے حکومت عہد بستگی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ساتھیوں، شمال مشرق کو مشرق نواز پالیسی کا مرکز بنانے کے لئے جس ویژن کو لے کر ہم آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں منی پور کا اہم رول ہے۔ آپ کو پہلی مسافر ٹرین کے لیے 50 سال کا انتظار کرنا پڑا۔ اتنے طویل عرصے کے بعد، کئی دہائیوں کے بعد آج ریل کا انجن منی پور پہنچا ہے اور جب اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھتے ہے تو سبھی منی پور کے لوگوں کہتے ہیں ڈبل انجن کی سرکار کا کمال ہے ۔ اتنی بنیادی سہولیات پہنچنے میں دہائیوں کا وقت لگا۔ لیکن اب منی پور کی کی کنیکٹیوٹی پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ آج ہزاروں کروڑ روپئے کی کنیکٹیوٹی پروجیکٹس پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ ان پروجیکٹوں میں جربم۔توپل۔انفال ریلوے لائن بھی شامل ہے۔ انفال ہوائی اڈوں کو بین الاقوامی درجہ دینے سے شمال مشرق کی ریاستوں کی کولکاتا، بنگلورو اور دہلی سے فضائی کنیکٹیوٹی بہتر ہوئی ہے۔ انڈیا، میانمار،تھائی لینڈ، ٹرائیٹرل ، ہائی وے پر بھی تیزی سے کام چل رہا ہے۔ شمال مشرق میں 9 ہزار کروڑ روپے سےجو قدرتی گیس پائپ لائن بچھ رہی ہے اس کا فائدہ بھی منی پور کو ملنے والا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، 50 سال کے طویل سفر کے بعد آج منی پور ایک اہم مقام پر کھڑا ہے۔ منی پور نے تیز تر ترقی کی طرف سفر شروع کردیا ہے۔ جو رکاوٹیں تھی وہ اب دور ہوگئی ہیں۔یہاں اب ہمیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ہے ۔ جب ہمارا ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کرے گا تو منی پور کو ریاست کادرجہ حاصل کئے ہوئے 75 سال ہوجائیں گے۔ اس لئے منی پور کے لئے بھی یہ ترقی کا امرت کال ہے۔ جن طاقتوں نے لمبے عرصے تک منی پور کی ترقی کو روکے رکھا، ان کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملے، یہ ہمیں یاد رکھنا ہے۔ اب ہمیں آنے والی دہائی کے لئے نئے خوابوں ، نئے عزم کے ساتھ چلنا ہے۔ میں خاص طور سے نوجوان بیٹے ۔بیٹیوں سے گزارش کروں گا کہ آپ کو آگے آنا ہے۔ اس تعلق سے آپ کے درخشاں مستقبل کے لئے میں بہت پر امید ہوں، ترقی کے ڈبل انجن کے ساتھ منی پور کو تیزی سے آگے بڑھانا ہے۔ منی پور کے میرے پیارے بھائی اور بہنوں ایک بار پھر آپ کو بہت بہت مبارک باد ! بہت بہت شکریہ!,মণিপুৰৰ ৫০ তম ৰাজ্যিক দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%BE%D8%A8%D9%84%DA%A9-%D8%A2%D9%81-%DA%A9%D9%88%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B9%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج رپبلک آف کوریا کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر عالی جناب یون سک یول کو مبارک باد دی ہے اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ؛ ’’میں آر او کے ، کے صدر یون سک یول کو دلی مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے آج اپنا نیا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ میں اُن کے ساتھ جلد میٹنگ کا منتظر ہوں اور بھارت اور رپبلک آف کوریا کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور اسے نئی بلندیوں تک لے جانے کے لئے مل کر کام کرنے کا بھی منتظر ہوں۔‘‘,কাৰ্যভাৰ গ্ৰহণ কৰা দক্ষিণ কোৰিয়াৰ ৰাষ্ট্রপতিক শুভেচ্ছা আৰু অভিনন্দন প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D8%A7-%D9%85%D9%B9%DA%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A6%BE-%E0%A6%AE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شاردا مٹھ کی صدر پراوراجیکا بھکتی پرانا ماتا جی کو ان کے انتقال پر خراج عق��دت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘میں پروراجیکا بھکتی پرانا ماتا جی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سری شاردا مٹھ اور رام کرشنا شاردا مشن کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے کی ان کی بھرپور کوششوں کے سلسلے میں انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میرے خیالات مٹھ کی انتظامیہ کے تمام اراکین اور عقیدت مندوں کے ساتھ ہیں۔ اوم شانتی۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শাৰদা মঠৰ অধ্যক্ষ প্ৰব্ৰজিকা ভক্তিপ্ৰাণ মাতাজীৰ দেহাৱসানত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি অৰ্পণ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D8%AF%D8%A7%D8%AF-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%B8/,نئی دہلی،16؍نومبر،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے شہری ہوابازی میں امداد باہمی کو فروغ دینے کیلئے بھارت اور پولینڈ کے درمیان ایک مفاہمت نامے (ایم او یو) پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ دونوں حکومتوں کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد دونوں ممالک اس مفاہمت نامے پر دستخط کریں گے۔ اس مفاہمت نامے کی معیاد پانچ سال کیلئے ہوگی۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد بھارت میں علاقائی فضائی رابطہ کاری کے قیام اور اس کی بہتری میں خصوصی اہمیت کی حامل شہری ہوابازی کے شعبے میں امداد باہمی کے مشترکہ فائدے کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک ماحولیاتی جانچ یا منظوریوں، پرواز کی دیکھ ریکھ اور منظوریوں، ایئر کرافٹ کے رکھ رکھاؤ کی سہولیات کی منظوریوں ،عملے کی دیکھ ریکھ کی منظوریوں اور ہوائی جہاز کے عملے کی منظوریوں کے مشترکہ فوائد کا اعتراف کریں گے۔ باہمی تعاون کو فروغ دینے اور باہمی تعاون کا راستہ ہموار کرنے کیلئے اس مفاہمت نامے کے اہم شعبے درج ذیل ہیں: کسی بھی قانونی ایشو پر نظر ثانی کرکے شہری ہوابازی کی مارکیٹ میں تعاون کرنا کیونکہ قانونی ایشو پر نظرثانی نہ کرنے کی وجہ سے بھارت اور پولینڈ کے بیچ امداد باہمی متاثر ہوسکتی ہے۔ فضائی تحفظ اور فضائی ٹرانسپورٹ کی سکیورٹی میں اضافے کے مقصد سے ہوابازی کے ضابطوں، علاقائی ایئر آپریشنز اور تحفظ کے معیارات سے متعلق وزارتوں اور متعلقہ شہری ہوابازی کے اداروں کے درمیان معلومات اور مہارت کا تبادلہ کرنا۔ شہری ہوابازی کے شعبے سے متعلق فریقوں کے نمائندگان کی شراکت داری کے ساتھ شہری ہوابازی کے تحفظ سے متعلق صلاح ومشورہ کرنا، مشترکہ نظم کرنا یا کانفرنسوں اور پیشہ وارانہ سیمیناروں ، ورکشاپ، مذاکرات اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کرنا۔ہوا بازی کے تحفظ سے متعلق موضوعات اور باہمی مفاد کے امور پر تحقیق اور مطالعات کرنے میں تعاون پیش کرنا۔ (م ن-ن ا- ق ر),ভাৰত আৰু পোলেণ্ডৰ মাজত অসামৰিক বিমান পৰিবহণৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা বৃদ্ধিৰ লক্ষ্যৰে বুজাবুজি চুক্তিৰ স্বাক্ষৰৰ বাবে কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC/,نئی دہلی ،یکم ؍مارچ :��رکزی کابینہ نے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی قیادت میں بھارت اوراردن کے مابین صحت وطبی سائنس کے شعبے میں تعاون کے لئے مفاہمتی عرضداشت کو اپنی منظوری دے دی ہے ۔ یہ مفاہمتی عرضداشت تعاون کے درج ذیل شعبوں پر احاطہ کریگی ۔ 1-یونیورسل صحت کوریج( یوایس سی) 2-صحتی نظام حکمرانی 3-صحت میں خدمات اور اطلاعاتی تکنالوجی 4-صحتی تحقیق 5-قومی صحتی اعدادوشمار 6-صحتی مالیات وصحتی معیشت 7-دائمی امراض کنٹرول 8-تمباکوکنٹرول 9-تپ دق کی تشخیص معالجہ اورادویہ 10-فارماسیوٹیکلز اورطبی آلات کی ضابطہ بندی 11-باہمی طورپرطے شدہ تعاون کا کوئی دیگرشعبہ تعاون کے تمام دیگرپہلوؤں اورتفصیلات کی وضاحت اور مفاہمتی عرضداشت کے نفاذ کی نگرانی کے لئے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیاجائے گا۔,ভাৰত আৰু জৰ্দানৰ মাজত স্বাস্থ্যক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ বাবে বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%8C-%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی بدھ جینتی کے مقدس موقع پر آج صبح سرکاری دورے پر لمبنی، نیپال پہنچ گئے ہیں۔ لمبنی میں اپنی آمد پر نیپال کے وزیر اعظم جناب شیر بہادر دیوبا، ان کی اہلیہ ڈاکٹر آرزو رانا دیوبا اور حکومت نیپال کے کئی وزراء نے وزیر اعظم جناب مودی کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ وزیر اعظم کے طور پر جناب مودی کا یہ نیپال کا پانچواں اور لمبنی کا پہلا دورہ ہے۔,প্রধানমন্ত্রী আনুষ্ঠানিক ভ্ৰমণত নেপালৰ লুম্বিনীত উপস্থি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A3-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%99%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%A4/,نئی دلّی ،21اگست، 2021/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ، گورنر اور سینئر لیڈر آنجہانی کلیان سنگھ جی کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ سلسلہ وار ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا ’’اس غم کو بیان کرنے کےلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ کلیان سنگھ جی…ماہر سیاستداں، تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر، زمینی سطح کے لیڈر اور ایک عظیم انسان تھے۔اترپردیش کی ترقی میں ان کاتعاون لاثانی ہے۔ان کےبیٹے جناب راجیو سنگھ سے بات کی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ اوم شانتی۔ ہندوستان کے ثقافتی ارتقائے نو میں ان کے تعاون کے لئے آنے والی نسلیں کلیان سنگھ جی کی ہمیشہ شکرگزار رہیں گی۔ ہندوستان اقدارمیں ان کا یقین مستحکم تھا اور ہ صدیوں پرانی ہماری روایات پر انہیں فخر تھا۔ کلیان سنگھ جی، سماج کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے کروڑ لوگوں کی آوزبنے۔ انھوں نے کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بے شمار کوششیں کیں۔‘‘,শ্ৰী কল্যাণ সিঙৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D9%B9%DB%8C-%D9%BE%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی،02۔نومبر ۔وزیراعظم نریندر مودی نے اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں واقع این ٹی پی سی پلانٹ میں ہوئے حادثے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ جناب نریندرمودی نے اپنے پیغام تاسف میں کہا :’’ مجھے رائے بریلی کے این ٹی پی سی پلانٹ میں ہوئے حادثے سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ میری تمام تر ہمدردیاں اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں اور زخمیوں کے جلد شفایات ہونے کے لئے دعاگوہوں ۔ِصورتحال پر مسلسل نظر رکھی جارہی ہے اور افسران حالات کو معمول پر لانے کو یقینی بنانے کے کوششیں کررہے ہیں۔,ৰায়বেৰেইলীৰ এনটিপিচি প্ৰকল্পত সংঘটিত দুৰ্ঘটনাত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%AA%D9%86%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%DA%88%D8%A7%DA%A9-%D9%B9%DA%A9%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AF/,نئی دہلی ،14جون : کابینہ نے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی قیادت میں ہنداور ویتنام کے مابین ڈاک ٹکٹ کے مشترکہ اجرأ کے موضوع پرمفاہمتی عرضداشت کو اپنی منظوری دی ہے۔ ہند۔ویتنام :قدیم فن تعمیر کے موضوع پر مشترکہ طورپر ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کے لئے وزارت مواصلات کے تحت محکمہ ڈاک اور ویتنام پوسٹ کے مابین باہمی مفاہمت قائم ہوئی تھی ۔ مشترکہ ڈاک ٹکٹ 25اکتوبر ، 2018کو جاری کئے گئے تھے ۔ ہند۔ویتنام مشترکہ یادگاری ڈاک ٹکٹ پرہندکا سانچی استوپ اور ویتنام کا فومن پگوڈا کی شبیہ ہے ۔ مشترکہ ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کے لئے ہند اورویتنام کے ڈاک محکموں کے درمیان 18دسمبر ، 2017کو مفاہمتی عرضداشت پر( ایم اویو) پردستخط ہوئے تھے ۔,ভাৰত আৰু ভিয়েটনামৰ মাজত যুটীয়া ডাক টিকট প্ৰকাশৰ বাবে স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তি কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%D9%88%DA%BA%D8%8C-%D8%B3%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیلوں، سی ڈبلیو جی 2022 میں ٹیبل ٹینس میں سونے کا تمغہ جیتنے پر جی ستھیان ،ہرمیت دیسائی ،شرت کمل اور سنیل شیٹی کو مبارکباددی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘ٹیبل ٹینس میں ایک بڑی خبر ،دولت مشترکہ کھیلوں میں سونے کا تمغہ جیتنے پر جی ستھیان ، ہرمیت دیسائی ،شرت کمل اور سنیل شیٹی کی شاندار ٹیم کو مبارکباد-اس ٹیم نے اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔خواہ یہ مہارت میں ہویا عزم محکم میں ہو۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لئے نیک خواہشات ۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে নাগৰিকসকলক নিজৰ ছ’চিয়েল মিডিয়া ডিপি সলাই ত্ৰিৰংগা ৰাখিবলৈ আহ্বান জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%B9%D8%B2%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE/,نئی دہلی:13؍مئی2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کے صدر عزت مآب شیخ خلیفہ بن زائد کے انتقال پر گہرے دُکھ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایک عظیم قائد اور دور اندیش لیڈر تھے، جن کی قیادت میں ہندوستان-متحدہ عرب امارات تعلقات مضبوط ہوئے۔ وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کہا؛ ’’میں عزت مآب شیخ خلیفہ بن زائد کے انتقال کے بارے میں سن کر بہت غم زدہ ہوں۔وہ ایک عظیم قائد اور دور اندیش لیڈ ر تھے، جن کی سربراہی میں ہند-متحدہ عرب امارات تعلقات مضبوط ہوئے۔ہندوستان کے لوگوں کے دلی جذبات متحدہ عرب امارات کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ میں اُن کی روح کے سکون کے لئے دعا کرتاہوں۔‘‘,ইউএইৰ ৰাষ্ট্ৰপতি মহামহিম শ্বেইখ খালিফা বিন জায়েডৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D8%AD%D9%84%DB%8C-%D9%85%D8%AD%D8%A7%D9%81%D8%B8-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%95%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستانی کوسٹ گارڈ کو ان کے یوم تاسیس کے موقع پر نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا : ’’انڈین کوسٹ گارڈ فیملی کے لیے ان کے یوم تاسیس پر نیک خواہشات۔ ایک جامع اہمیت کی حامل تنظیم، ہمارے کوسٹ گارڈ پیشہ ور افراد کی ایک غیر معمولی ٹیم ہے جو چابک دستی کے ساتھ ہمارے ساحلوں کی حفاظت کرتی ہے اور وہ انسانی بنیادوں پر کی جانے والی کوششوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں‘‘۔,ভাৰতীয় উপকূলৰক্ষী বাহিনীৰ প্ৰতিস্থা দিৱস উপলক্ষে বাহিনীটোলৈ শুভকামনা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-29%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%86-%DB%8C%D8%B9%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%AC-%D9%85%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A/,شری شری ہری چند ٹھاکر جی کے 211ویں یوم پیدائش کے موقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے آج شام 4:30 بجے مغربی بنگال کے شری دھام ٹھاکر نگر ، ٹھاکر باڑی میں متوا دھرما مہا میلہ 2022سے خطاب کریں گے۔ شری شری ہری چندٹھاکر جی نے آزادی کے دور سے قبل غیر منقسم بنگال میں محروم افراد مظلوم اورپسماندہ لوگوں کی بہتری کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔1860ء میں اوراکانڈی جو اب بنگلہ دیش میں ہے، سے انہوں نے اپنی سماجی اور مذہبی تحریک شروع کی تھی، جس کے نتیجے میں متوا دھرما کی تشکیل عمل میں آئی۔ 29مارچ سے 5اپریل 2022ء تک متوا دھرما مہا میلہ 2022 کا اہتمام کیا جارہا ہے اور یہ میلہ آل انڈیا متوا مہا سنگھ کے ذریعے منعقد کیا جارہا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২৯ মাৰ্চত মাতুৱা ধৰ্ম মহামেলা সম্বোধন কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-75-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE%D9%88-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A7%8C%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A7%AD%E0%A7%AB-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE/,اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل ��ی ، مرکزی کابینہ میں میری ساتھے اور لکھنؤ کے ہی رکن پارلیمنٹ ، ہمارے سینئر ساتھی، جناب راج ناتھ سنگھ جی ، جناب ہردیپ سنگھ پوری جی ، مہندر ناتھ پانڈے جی ، یہاں کے مقبول وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیراعلی جناب کیشو پرساد موریہ جی ، جناب دنیش شرما جی ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ، جناب کوشل کشور جی ، ریاستی حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی، ملک کے مختلف حصوں کے تمام معزز وزراء، دیگر تمام معززین اور اترپردیش کے میرے پیارے بہنوں اور بھائیو! لکھنؤ آتا ہوں تو اودھ کے اس خطے کی تاریخ ، ملیح آبادی دسہری جیسی میٹھی بولی، کھان پان، ہنر مند کاریگری ، آرٹ۔ آرکیٹیکچر سب کچھ سامنے نظر آنے لگتا ہے۔ مجھے اچھا لگا کہ تین روز تک لکھنٔو میں،نیو اربن انڈیا یعنی بھارت کے شہروں کی نئی شکل پر ملک بھر کے ماہرین یکجا ہوکر غورو خوض کرنے والے ہیں۔ یہاں جو نمائش لگی ہے وہ آزادی کے اس امرت مہوتسو میں 75 سال کی خصولیابیوں اور ملک کے نئے عزائم کو خوش اسلوبی سے دکھاتی ہیں ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ گزشتہ دنوں جب ڈیفنس کا پروگرام کیا گیا تھا اور اس وقت جو نمائش لگی تھی ، صرف لکھنٔو میں ہی نہیں، پورا اتر پردیش اسے دیکھنے کے لیے پہنچا تھا۔ میں اس بار بھی اپیل کروں گا کہ یہ جونمائش لگی ہے ، یہاں کے شہریوں سے میری اپیل ہے کہ آپ ضرور دیکھیں۔ ہم سب مل کرکے ملک کو کہاں سے کہاں لے جا سکتے ہیں ، ہمارے اعتماد کو بیدار کرنے والی یہ اچھی نمائش ہے ، آپ کو ضرور دیکھنی چاہیے۔ آج اترپردیش کے شہروں کی ترقی سے متعلق 75 پروجیکٹس ترقی ، ان کا سنگ بنیاد اور ان کو عوام کے نام وقف کیا گیا۔ آج ہی یوپی کے 75 اضلاع میں 75 ہزار استفادہ کنندگان کو ان کے اپنے پکے گھروں کی چابیاں ملی ہیں۔ یہ سبھی ساتھی اس سال دسہرہ ، دیوالی ، چھٹ ، گرو پورب ، عید میلاد، آنے والے بہت سے تہوار اپنے نئے گھر میں ہی منائیں گے۔ابھی کچھ لوگوں سے بات کر کے مجھے بہت سکون ملا ہے اور کھانے کے لئے مدعو بھی کیا گیا ہے۔ میں اس بات کی بھی خوش ہوتی ہے کہ اس ملک میں پی ایم آواس یوجنا کے تحت جو گھر دیے جارہے ہیں ان میں 80 فیصد سے زیادہ گھروں پر مالکانہ حق خواتین کاہے یا پھر وہ مشترکہ مالک ہیں۔ اور مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یوپی حکومت نے بھی خواتین کے گھروں سے متعلق ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ 10 لاکھ روپے تک کی رقم کی گھروں کی رجسٹری کرانے پر اسٹامپ ڈیوٹی میں خواتین کو 2 فیصد کی چھوٹ بھی دی جا رہی ہے۔ یہ بہت قابل تعریف فیصلہ ہے۔ لیکن ساتھ میں ہم جب یہ بات کرتے ہیں خواتین کی، یہ ان کے نام ملکیت ہوگی تو اتنا ہمارے ذہن میں رجسٹرڈ نہیں ہوتاہے۔ لیکن میں بس تھوڑا آپ کو اس دنیا میں لے جاتا ہوں ، آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ فیصلہ کتنا اہم ہے۔ آپ دیکھئے، کسی بھی خاندان میں جایئے ، اچھا، غلط ہے ، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، میں صرف صورتحال بیان کر رہا ہوں۔ اگر مکان ہے تو شوہر کے نام پر ، کھیت ہے تو شوہر کے نام پر ، گاڑی ہے تو شوہر کے نام پر ، اسکوٹر ہے تو شوہر کے نام پر، دکان ہے تو شوہر کے نام پر اور اگر شوہر نہیں رہا تو بیٹے کے نام پر، لیکن ماں کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، اس خاتون کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، اس عورت کے نام پر کچھ نہیں ہوتا۔ ایک صحت مند معاشرے کےواسطے توازن بنانے کے لیےکچھ اقدام کرنے پڑتے ہیں اور اس لئے ہم نے طے کیا ہے کہ حکومت جو مکان دے گی اس کا مالکانہ حق خاتون کو دیا جائے گا۔ ساتھیو ، آج لکھنؤ کے لیے ایک اور مبارکباد کا موقع ہے۔ لکھنؤ نے اٹل جی کی شکل میں ایک وژنری ماں بھارتی کے لیے وقف قومی ہیرو ملک کو دیا ہے۔ آج ان کی یاد میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی میں اٹل بہاری واجپئی چیئر قائم کی جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ چیئر اٹل جی کے وژن ، ان کے ایکشن، قوم کی تعمیر میں ان کی خدمت کو عالمی سطح پر لائے گی۔ جیسے بھارت کی 75 سال کی خارجہ پالیسی میں کئی موڑ آئے ، لیکن اٹل جی نے اسے نئی سمت دی۔ ملک کی کنکٹی وٹی ، لوگوں کی کنکٹی وٹی کے لئے ان کی کوششیں ، آج کے بھارت کی مضبوط بنیاد ہیں۔ آپ سوچئے ، ایک طرف پردھان منتری گرام سڑک یوجنا اور دوسری جانب سورنم چتشکر شمال مشرق ، مشرق مغربی اور شمال۔ جنوب، مشرق، مغرب کوریڈور یعنی دونوں طرف ایک ستھ نظراور دونوں طرف ترقی کی کوششیں۔ ساتھیو، برسوں پہلے ، جب اٹل جی نے قومی شاہراہ کے ذریعے ملک کے بڑے شہروں کو جوڑنے کا خیال رکھا تھا ، تو کچھ لوگوں کو یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ 6-7 سال پہلے ، جب میں نے غریبوں کے لیے کروڑوں پکے گھر، کروڑوں ٹوائلیٹ، تیزی سے چلنے والی ریل ، شہروں میں پائپ سے گیس، آپٹیکل فائبر جیسے بڑے انفرا اسٹرکچر پروجیکٹوں کی بات کی، تب بھی عادتاً کچھ لوگ یہی سوچتے تھے کہ یہ اتنا سب کچھ کیسے ہو پائے گا لیکن آج ان مہمات میں بھارت کی کامیابی دنیا دیکھ رہی ہے۔ بھارت آج پی ایم آواس یوجنا کے تحت جنتے پکے گھر بنا رہا ہے وہ دنیا کے کئی ممالک کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ایک وقت تھا جب گھر کی منظوری سے لے کر اس کو زمین پر اترنے میں ہی بررسوں لگ جاتے تھے۔ جو گھر بنتے بھی تھے ۔ وہ شاید رہنے لائق تھے کہ نہیں، یہ سوالیہ نشان ضرور پوچھے گئے تھے۔ گھروں کا سائز چھوٹا، کنسٹرکشن میٹیریل خراب ، الاٹمنٹ میں ہیرا پھیری ، یہ سب میرے غریب بھائیوں اور بہنوں کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔ 2014 میں ملک نے ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیا اور میں اتر پردیش کا خاص طور پر احسان مند ہوں کہ آپ نے مجھے ملک کی پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ میں پنچایا ہے اور جب آپ نے ہمیں ذمہ داری دی تو ہم نے اپنی ذمہ داری نبھانے ایماندارہ کوشش کی ہے۔ ساتھیو، سال 2014 سے پہلے جو حکومت تھی اس نے ملک میں شہری رہائشی اسکیموں کے تحت صرف 13 لاکھ مکانات کی منظوری دی تھی۔یہ تعداد یاد رہ گی؟ پرانی حکومت نے 13 لاکھ مکان، اس میں بھی صرف 8 لاکھ مکان ہی بنائے گئے تھے۔ 2014 کے بعد سے ہماری حکومت نے پی ایم آواس یوجنا کے تحت شہروں میں ایک کروڑ 13 لاکھ سے زائد گھروں کی تعمیر کو منظوری دی ہے۔ کہاں 13 لاکھ اور کہاں ایک کروڑ 13 لاکھ؟ اس میں سے 50 لاکھ سے زائد گھر بناکر انہیں غریبوں کو سونپا بھیجاچکے ہے۔ ساتھیو، اینٹ۔ پتھر جوڑ کر عمارت تو بن سکتی ہے لیکن اسے گھر نہیں کہہ سکتے۔ وہ گھر اس وقت بنتا ہے جب اس میں خاندان کے ہر فرد کا خواب جڑا ہو ، اپنانیت ہو، خاندان کے ارکان جی جان سے ایک مقصد کے لیے لگے ہوئے ہوں ، تب عمارت گھر بن جاتی ہے۔ ساتھیو، ہم نے گھروں کے ڈیزائن سے لیکر گھروں کی تعمیر تک کی پوری آزادی استفادہ کنندگان کو دی ہے۔ جیسی ان کی مرضی ہو ویسا مکان بنائیں۔ دہلی میں ایئر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر کوئی یہ طے نہیں کر سکتا کہ کھڑکی ادھر ہوگی یا ادھر ہوگی۔ 2014 سے پہلے سرکاری اسکیموں کے گھرکس سائز کے بنیں گے اس کی کوئی واضح پالیسی ہی نہیں تھی۔ کہیں 15 مربع میٹر کے گھر بنتے تھے تو کہیں 17 مربع میٹر کے۔اتنی چھوٹی زمین پر جو تعمیر ہوتی تھی ، اس میں رہنا بھی مشکل تھا۔ سال 2014 کے بعد ہماری حکومت نے گھروں کے سائز کے حوالے سے بھی واضح پالیسی بنائی۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 22 مربع میٹر سے چھوٹا کوئی گھر نہیں بنایا جائے گا۔ گھر کا سائز بڑھانے کے ساتھ ہی پیسہ سیدھا استفادہ کنندگان کے بینک کھاتے میں بھیجنا شروع کیا۔ گھروں کے بینک کھاتوں میں بھیجی گئی یہ رقم کتنی ہے اس کا تذکرہ بہت کم ہوا ہے۔ آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ پی ایم آواس یوجنا- شہری کے تحت مرکزی حکومت نے تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے غریبوں کے بینک کھاتوں میں منتقل کیے ہیں۔ ساتھیو، ہمارے یہاں کچھ معززین کہتے رہتے ہیں کہ مودی کو ہم نے وزیر اعظم تو بنادیا ، مودی نے کیا کیا ہے؟ آج پہلی بار ، میں ایسی بات بتانا چاہتا ہوں ، جس کے بعد بڑے بڑے مخالفین، جو دن رات ہماری مخالفت کرنے میں ہی اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں ، وہ میری یہ تقریر سننے کے بعد ٹوٹ پڑنے والے ہیں ، مجھے پتہ ہے۔ پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ مجھے بتانا چاہیے۔ میرے جوساتھی ، جو میرے خاندان کے افراد ہیں ، جو جھگی جھونپڑی میں زندگی جیتے تھے ، جن کے پاس پکی چھت نہیں تھی، ایسے تین کروڑ خاندانوں کو اس مدت کار میں ایک ہی اسکیم سے لکھ پتی بننے کا موقع مل گیا ہے۔ اس ملک میں موٹا موٹا اندازہ کریں تو 25-30 کروڑ خاندان ،اس میں سے اتنی چھوٹی سی مدت کار مین 3 کروڑ غریب خاندان کا لکھ پتی بننا ، یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مودی اتنا بڑا کلیم کر رہے ہیں ، کیسے کریں گے؟ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ملک میں جو تقریبا ً 3 کروڑ ،مکان بنے ہیں ، آپ ان کی قیمت کا اندازہ لگا لیجئے۔ یہ لوگ اب لکھ پتی ہیں۔ 3 کروڑ پکے گھر تعمیر کر کے ہم نے غریب خاندانوں کا سب سے بڑا خواب پورا کیا ہے۔ ساتھیو، مجھے وہ دن بھی یاد آتےہیں جب تمام کوششوں کے باوجود اترپردیش گھروں کی تعمیر میں آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ آج میں لکھنؤ میں ہوں ، تو مجھے لگتا ہے ذرا تفصیل سے یہ بات بتانی چاہیے! بتانی چاہیے نہ ، آپ تیار ہیں؟ ہماری اربن پلانگ کیسے سیاست کا شکار ہو جاتی ہے، یہ سمجھنےکے لئے بھی یو پی کے لوگوں کو یہ جاننا ضروری ہے۔ ساتھیو، غریبوں کے لیے گھر بنانے کے لیے پیسے مرکزی حکومت دے رہی تھی ، باوجود اس کے 2017 سے پہلے ، یوگی جی کے آنے سے پہلے کی بات کر رہا ہوں ، 2017 سے پہلے یوپی میں جو حکومت تھی وہ غریبوں کے لیے گھر بنوانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ غریبوں کے لیے گھر تعمیر کراؤ ، اس کے لیے ہمیں پہلے جو یہاں حکومت میں تھے، ان سے منتیں کرنی پڑتی تھیں۔ 2017 سے پہلے ، پی ایم آواس یوجنا کے تحت یوپی کے لیے 18000 مکانات کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن جو حکومت یہاں تھی اس نے غریبوں کو پی ایم آواس یوجنا کے تحت 18 گھر بھی بناکر نہیں دیے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ 18 ہزار گھروں کی منظوری اور 18 گھر بھی تیار نہ ہوں میرے ملک کے بھائیوں بہنوں، یہ چیزیں آپ کو سوچنی چاہئیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 18 ہزار گھروں کی منظوری تھی لیکن انہوں نے غریبوں کے لئے 18 گھر بھی نہیں بنائے۔ پیسہ تھا ، گھروں کی منظوری تھی، لیکن اس وقت جو یوپی کو چلا رہے تھے وہ اس میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے۔ ان کا یہ کام یوپی کے لوگ ، یوپی کے غریب کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔ ساتھیو ، مجھے اطمینان ہے کہ یوگی جی کی حکومت آنے کے بعد یوپی میں شہری غریبوں کو 9 لاکھ گھر بناکر دیے گئے ہیں۔ شہر میں رہنے والے ہمارے غریب بھائی اور بہنوں کے لیے اب یوپی میں 14 لاکھ گھر تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اب گھر میں بجلی ، پانی ، گیس ،ٹوائلیٹ جیسی سہولیات بھی دستیاب ہورہی ہیں ، تو گریہہ پرویش بھی پوری خوشی کے ساتھ ؤن بان کے ساتھ ہورہا ہے۔ لیکن جب میں اتر پردیش آیا ہوں تو مجھے کچھ ہوم ورک دینےکا کا من کرتاہے۔ دے دوں؟ لیکن آپ کو کرنا پڑے گا ، کریں گے؟ پکا؟ دیکھئے میں نے اخبار میں پڑھا ہے اور ساتھ ہی یوگی جی سے بھی شاید میں پوچھ رہا تھا۔ اس بار دیپاولی میں ایودھیا میں کہتے ہیں کہ ساڑھے سات لاکھ دئے کا پروگرام ہوگا۔ میں اتر پردیش کو کہتا ہوں کہ روشنی کے لئے مسابقت میں میدان میں آئیں۔ دیکھیں ایودھیا زیادہ دئے جلاتا ہے یا یہ جو 9 لاکھ گھر دیے گئے ہیں، وہ 9 لاکھ گھر 18 لاکھ دئےجلاکر دکھائیں۔ ہو سکتا ہے کیا؟ جن خاندانوں کو یہ 9 لاکھ خاندان جن کو گھر ملے ہیں، گزشتہ سات سال میں وہ دو دو دئے اپنے گھر کے باہر جلائیں۔ ایودھیا میں ساڑھے سات لاکھ دئے جلے گے، میرے غریب خاندانوں کے گھر میں 18 لاکھ دئے جلیں گے۔ بھگوان رام جی کو خوشی ہوگی۔ بھائیو اور بہنو ، گزشتہ دہائیوں میں ہمارے شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں ضرور بنیں ، لیکن جو لوگ اپنی محنت سے ان عمارتوں کی تعمیر کرتے ہیں، ان کا حصہ میں جھگیوں کی ہی زندگی آتی رہی ہے۔جھگیوں کی حالت ایسی جہاں پانی اور ٹوائلیٹ جیسی بنیادی سہولیات تک نہیں ملتیں۔ جھگی میں رہنے والے ہمارے بھائی بہنوں کو اب پکے گھر بنانے سے بہت مدد مل رہی ہے۔ گاؤں سے شہر کام کے لئے آنے والے مزدوروں کو مناسب کرائے بہتر رہائش ملے اس کے لئے حکومت نے اسکیم شروع کی ہے۔ ساتھیو، شہری متوس طبقے کے مسائل اور چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے ہماری حکومت نے بہت سنجیدہ کوشش کی ہے۔ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی یعنی ریرا قانون ایک ایسا ہی ایک بڑا قدم رہا ہے۔ اس قانون نے پورے ہاؤسنگ سیکٹر کو بے یقینی اور دھوکہ دہی سے باہر نکالنے میں بہت بڑی مدد کی ہے۔ اس قانون کے بننے سے گھر خریداروں کو وقت پر انصاف بھی مل رہا ہے۔ ہم نے شہروں میں ادھورا پڑے گھروں کو پورا کرنے کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ بھی بنایا ہے۔ متوسط طبقہ اپنے گھر کا خواب پورا کر سکے اس کے لئے پہلی بار گھر خریدنے والوں کو لاکھوں روپے کی مدد بھی دی جارہی ہے۔ انہیں کم شرح سود سے بھی مدد مل رہی ہے۔ حال ہی میں ماڈل ٹیننسی ایکٹ بھی ریاستوں کو بھیجا گیا ہے ، اور مجھے خوشی ہے کہ یوپی حکومت نے فوراً ہی اسے نافذ بھی کردیا ہے۔ اس قانون سے مکان مالک اور کرایہ دار دونوں کی برسوں پرانی دقتیں دور ہو رہی ہیں۔ اس سے کرائے کا مکان ملنے میں آسانی بھی ہوگی اور رینٹل پراپرٹی مارکیٹ کو تقویت ملی گی، زیادہ سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بھائیو اور بہنو ، کورونا کےدور میں ورک فرام ہوم کو لیکر جو قوانین بنائے گئے، ان سے شہری ڈل کلاس کی زندگی اور آسان ہوئی ہے۔ ریموٹ ورکنگ کے آسان ہونے سے کورونا کے دور میں مڈل کلاس کے ساتھیوں کو بہت راحت ملی ہے۔ بھائیو اور بہنو ، اگر آپ کو یاد ہے ، 2014 سے پہلے ، ہمارے شہروں کی صفائی ستھرائی کو لیکر اکثر ہم منفی باتیں پہ سنتے تھے۔ گندگی کو شہری زندگی کی فطرت مان لیا گیا تھا۔ صفائی ستھرائی کے تیں بے رخی سے شہروں کی خوبصورتی ، شہروں میں آنے والے سیاحوں پر تو اثر پڑتا ہی ہے، شہروں میں رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنےکے لیے ملک سووچھ بھارت مشن اور امرت مشن کے تحت بہت بڑی مہم چلا جارہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں شہروں میں 60 لاکھ سے زائد نجی ٹوائلیٹ اور 6 لاکھ سے زیادہ کمیونٹی ٹوائلٹ بنے ہیں۔ 7 سال پہلے تک جہاں محض 18 فیصد کچرے کا ہی نپٹارہ ہو پاتا تھا، وہ آج بڑھ کر 70 فیصد ہو چکا ہے۔ یہاں یوپی میں بھی ویسٹ پروسیسنگ کی بڑی صلاحیت گزشتہ برسوں میں پیدا کی گئی ہے اور آج میں نے نمائش میں دیکھا ، ایسی متعدد چیزوں کووہاں رکھا گیا ہےاور دل کو بڑا سکون دینے والا منظر تھا۔ اب سووچھ بھارت ابھیان 2.0 کے تحت شہروں میں کھڑےکوڑے کے پہاڑوں کو ہٹانے کی مہم بھی شروع کی گئی ہے۔ ساتھیو، شہروں کی شان بڑھانے میں ایک اور اہم کردار ادا کیا ہے ایل ای ڈی لائٹوں نے۔ حکومت نے مہم چلاکر ملک میں 90 لاکھ سے زیادہ پرانی اسٹریٹ لائٹس کو ایل ای ڈی سے بدلا ہے۔ ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹس لگنے سے شہری ادارے کے بھی ہر سال تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے کی بچت ہورہی ہے ۔ اب یہ رقم شہری ادارے ترقی دوسرے کاموں میں لگا سکتے ہیں اور لگا رہے ہیں۔ ایل ای ڈی نے شہر میں رہنے والے لوگوں کا بجلی بل بھی بہت کم کیا ہے۔ جوایل ای ڈی بلب پہلے 300 روپے سے بھی مہنگا آتا تھا ، وہ حکومت نے اجالا اسکیم کے تحت 50-60 روپے میں دیا ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے تقریباً 37 کروڑ ایل ای ڈی بلب تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کی قریب 24 ہزار کروڑ روپے کی بجلی بل میں بچت ہوئی ہے۔ ساتھیو، اکسویں صدی کے بھارت میں، شہروں کی کایا پلٹ کا سب سے اہم طریقہ ہے ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ شہروں کی ترقی سے متعلق جو ادارے ہیں، جو سٹی پلانرز ہیں ، انہیں اپنی اپروچ میں اولین ترجیح ٹکنالوجی کو دینی ہوگی۔ ساتھیو، جب ہم گجرات کے چھوٹے سے علاقے میں رہتے تھے اور جب بھی لکھنؤ کی بات آتی تھی تو لوگوں کے منہ سے نکلتا تھا کہ بھئی ، لکھنؤ میں تو کہیں پر جایئےسننے کو ملتا ہے – پہلے آپ ، پہلے آپ ، یہی بات ہوتی ہے۔ آج مذاق میں ہی سہی ، ہمیں ٹیکنالوجی کو بھی کہنا پڑے گا – آپ پہلے! بھارت میں گزشتہ 6-7 برسوں میں شہری علاقے میں بہت بڑی تبدیلی ٹیکنالوجی سے آئی ہے۔ ملک کے 70 سے زائد شہروں میں آج جو انٹیگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز چل رہے ہیں، اس کی بنیاد ٹیکنالوجی ہی ہے۔ آج ملک کے شہروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کا جو نیٹ ورک بچھ رہا ہے، ٹیکنالوجی ہی اسے مضبوط کر رہی ہے۔ ملک کے 75 شہروں میں جو 30 ہزار سے زیادہ جدید سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں ،ان کی وجہ سے گناہگاروں کو سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ یہ سی سی ٹی وی مجرموں کو سزا دلانے میں بھی کافی مدد کر رہے ہیں۔ ساتھیو، آج بھارت کے شہروں میں ہر روز جو ہزاروں ٹن کوڑےٹھکانے لگایا رہا ہے ، پروسیس کیا جارہا ہے ، سڑکوں کی تعمیر پر لگایا جا رہا ہے ، وہ بھی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔ ویسٹ میں سے ویلتھ سے متعلق متعدد پروجیکٹ میں نے آج نمائش میں دیکھے ہیں۔ ہر کسی کو تحریک دینے والے ایسے تجربات ہیں بڑی باریکی سے دیکھنے جیسا ہے۔ ساتھیو ، آج ملک بھر میں جو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنائے جارہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی ان کی صلاحیت میں اور اضافہ کر رہی ہے۔ یہ نیشنل کامن موبلٹی کارڈ ٹیکنالوجی ہی کی تو دین ہے۔ آج یہاں اس پروگرام میں 75 الیکٹرک بسوں کو ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ یہ بھی جدید ٹیکنالوجی کا ہی عکس ہے۔ ساتھیو، میں نے ابھی لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے تحت لکھنؤ میں تیار کئے جانے والے گھر کو دیکھا۔ ان گھروں میں جو ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے اس میں پلاسٹر اور پینٹ کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ اس میں پہلے سے تیار پوری پوری دیواروں کو استعمال کیا جائے گا۔ اس سے گھر تیز سے بنیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں لکھنؤ میں ملک بھر سے جو ساتھی یہاں آئے ہیں ��ہ اس پروجیکٹ سے بہت کچھ سیکھ کر جائیں گے اور اپنے شہروں میں ان امپلی منٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ساتھیو، ٹیکنالوجی کیسے غریب کی زندگی بدلتی ہے، اس کی ایک مثال پی ایم سوانیدھی یوجنا بھی ہے۔لکھنؤ جیسے کئی شہروں میں تو کئی طرح کے بازاروں کی روایت رہی ہے۔ کہیں بدھ بازار لگتا ہے ، کہیں گرو بازار لگتا ہے ، کہیں شنی بازار لگتا ہے ، اور ان بازاروں کی رونق ہمارے ریہڑی پٹری والے بھائی بہن ہی بڑھاتے ہیں ۔ ہمارے ان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی اب ٹیکنالوجی ایک ساتھی بن کر آئی ہے۔ پی ایم سوانیدھی یوجنا کے تحت ریہڑی پٹری والوں کو ، اسٹریٹ وینڈرز کو بینکوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس یوجنا کے ذریعے 25 لاکھ سے زیادہ ساتھیوں کو 2500 کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد دی گئی ہے۔ اس میں بھی یوپی کے 7 لاکھ سے زیادہ ساتھیوں نے سوانیدھی یوجنا کا فائدہ حاصل کیا ہے۔ اب ان کی بینکنگ ہسٹری بن گئی ہے اورر وہ زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین بھی کر رہا ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ سوانیدھی یوجنا کا سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے پورے ملک کے ٹاپ تین شہروں میں 2 ہمارے اتر پردیش کے ہی ہیں۔ پورے ملک میں نمبر ون پر ہے لکھنؤ اور نمبردو پر ہے کانپور ۔ کورونا کے اس وقت میں یہ بڑی مدد ہے۔ میں یوگی جی کی حکومت کی اس کے لیے تعریف کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج ، جب میں ریہڑی پٹری والے ساتھیوں کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کی بات کر رہا ہوں ،تو مجھے یہ بھی یاد آرہا ہے کہ پہلے کیسے اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ کم پڑھے لکھے لوگ کیسے ڈیجیٹل لین دین کر پائیں گے۔ لیکن سوانیدھی یوجنا سے جڑے ریہڑی پٹری والے اب تک 7 کروڑ سے زیادہ بار ڈیجیٹل لین دین کرچکے ہیں۔ اب یہ تھوک تاجروں سے بھی کچھ خریدنے جاتے ہیں تو ڈیجیٹل ادائیگی ہی کرتے ہیں۔ آج ایسے ساتھیوں کی وجہ سے بھارت ڈیجیٹل پیمنٹ میں نئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ جولائی ، اگست ، ستمبر یعنی پچھلے تین مہینوں میں ہر ماہ 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین ہواہے یعنی بینکوں میں لوگوں کا آنا جانا جانا اتنا ہی کم ہو ا ہے۔ یہ بدلتے ہوئے بھارت اور ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے بھارت کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ساتھیو، گزشتہ برسوں میں بھارت میں ٹریفک کا مسئلہ اور آلودگی کے چیلنج دونوں پر ہولسٹک اپروچ کے ساتھ کام ہوا ہے۔ میٹرو بھی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ آج ، بھارت میٹرو سروس کی ملک کے بڑے شہروں میں تیزی سے توسیع کررہا ہے۔ 2014 میں جہاں 250 کلومیٹر سے کم روٹ پر میٹرو چلتی تھی وہیں آج تقریباًساڑھے سات و کلومیٹر میں میٹرو دوڑ رہی ہےاور مجھے آج افسر بتا رہے تھے کہ ایک ہزار پچاس کلومیٹر پر کام چل رہا ہے۔ یوپی کے بھی 6 شہروں میں آج میٹرو نیٹ ورک کی توسیع ہورہی ہے۔ 100 سے زیادہ شہروں میں الیکٹرک بسیں چلانے کا نشانہ ہو یا پھر اڑان یوجنا ، یہ بھی شہری ترقی کو بھی رفتار دے رہی ہیں۔ اکیسویں صدی کا بھارت ، اب ملٹی موڈل کنیکٹوٹی کی طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا اور اس کی بھی تیاری بہت تیزی سے چل رہی ہے۔ اور ساتھیو، شہری انفرا اسٹرکچر کے ان سارے پروجیکٹون کا سب سے بڑا مثبت اثر ہے- روزگار پیدا کرنا ، شہروں میں چاہے میٹرو کا کام ہو ، گھروں کی تعمیر ہو ، بجلی اور پانی کا کام ہو، یہ بہت بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین انہیں فورس ملٹی پلائر مانتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان پروجیکٹوں کی رفتار کو برقرار رکھنا ہے۔ بھائیو اور بہنو ، اتر پردیش میں تو، پورے بھارت کی، بھارتی ثقافت کی روح سمائی ہے۔ یہ پربھو شری رام کی سرزمین ہے ، شری کرشنا کی سر زمین ، بھگوان بدھ کی سر زمین ہے۔ یوپی کی مالا مال وراثت کو سجانا سنوارنا ، شہروں کو جدید بنانا، ہماری ذمہ داری ہے۔ 2017 سے پہلے یوپی اور اس کے بعد کے یوپی کا فرق اتر پردیش کے لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ پہلے بجلی یوپی میں کم آتی تھی ،جاتی زیادہ تھی اور آتی بھی تھی تو وہاں آتی تھی جہاں لیڈر چاہتے تھے۔ بجلی سہولت نہیں، سیاست کا ٹول تھی ، سڑک صرف اس وقت بنتی تھی جب سفارش ہو ، پانی کی صورتحال تو آپ سبھی کو معلوم ہے۔ اب بجلی سب کو سب جگہ یکساں مل رہی ہے۔ اب غریب کے گھر میں بھی بجلی آتی ہے۔ گاؤں کی سڑک کسی سفارش کی محتاج نہیں ہے۔ یعنی شہری ترقی کے لیے جس قوت ارادی کی ضرورت ہے وہ بھی آج یوپی میں موجود ہے۔ مجھے یقین ہے، آج یو پی کے جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے وہ یوگی جی کی قیادت میں تیزی سے پورے کئے جائیں گے۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو ترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے بہت بہت مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,লক্ষ্ণৌত ‘আজাদী@৭৫’ সন্মিলন আৰু বাণিজ্য মেলা উদ্বোধন কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,عزت مآب ، وزیر اعظم بورس جانسن، معزز مندوبین، میڈیا کے ہمارے ساتھی، نمسکار! سب سے پہلے ، میں وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے وفد کا بھارت میں تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ بطور وزیر اعظم بھلے ہی یہ ان کا اولین دورۂ ہند ہے، لیکن ایک پرانے دوست کے طور پر ، وہ بھارت کو بخوبی جانتے ہیں، سمجھتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے بھارت اور برطانیہ کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں وزیر اعظم جانسن کا کردار ازحد اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس وقت،جب بھارت اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے ، وزیر اعظم بورس جانسن کا یہاں آنا، اپنے آپ میں ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اور کل تو پورے بھارت نے دیکھا ہے کہ آپ نے اپنے دورۂ ہند کا آغاز سابرمتی آشرم میں مہاتما گاندھی کو گلہائے عقیدت پیش کرکے کیا۔ دوستو، گذشتہ برس ہم نے دونوں ممالک کے درمیان جامع کلیدی شراکت داری قائم کی تھی۔ اور اس دہائی میں اپنے تعلقات کو سمت دینے کے لیے ہم نے ایک اولوالعزم ’’روڈ میپ 2030‘‘ بھی لانچ کیا تھا۔ آج کی ہماری بات چیت میں ہم نے اس روڈ میپ میں ہوئی پیش رفت کا جائزہ بھی لیا، اور آنے والے وقت کےلیے چند اہداف بھی طے کیے۔ آزاد تجارتی معاہدے کے موضوع پر دونوں ممالک کی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ بات چیت میں اچھی پیش رفت ہو رہی ہے۔ اور ہم نے اس سال کے آخر تک ایف ٹی اے کی تکمیل کے لیے پوری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں بھارت نے متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ مکمل کیا ہے۔ اسی رفتار، اسی عہدبستگی کے ساتھ ہم برطانیہ کے ساتھ بھی ایف ٹی اے پر آگے بڑھنا چاہیں گے۔ ہم نے دفاعی شعبہ میں تعاون میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دفاع کے شعبہ میں مینوفیکچرنگ، تکنالوجی، ڈیزائن اور ترقی، سبھی شعبوں میں برطانیہ کے ذریعہ ’’آتم نربھر بھارت‘‘ کی حمایت کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ دوستو، بھارت میں جاری وسیع اصلاحات، ہمارے بنیادی ڈھانچہ تجدیدکاری منصوبہ اور قومی بنیادی ڈھانچہ پائپ لائن کے بارے میں بھی ہم نے تبادلہ خیالات کیے۔ ہم برطانیہ کی کمپنیوں کے ذریعہ بھارت میں بڑھتی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اور اس کی ایک اعلیٰ مثال ہمیں کل گجرات میں ہالول میں دیکھنے کو ملی۔ برطانیہ میں آباد1.6 ملین بھارت نژاد افراد سماج اور معیشت کے ہر شعبہ میں مثبت تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی حصولیابیوں پر فخر ہے۔ اور اس زندہ جاوید پل کو ہم مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ اس سمت میں وزیر اعظم جانسن نے نجی طور پر کافی تعاون دیا ہے۔ اس کے لیے میں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دوستو، ہم نے گلاسگو میں منعقدہ سی او پی۔26 میں کیے گئے عزم کو مکمل کرنے کے لیے اپنی عہدبندگی کا اظہار کیا تھا۔ آج ہم نے اپنی موسمیاتی اور توانائی شراکت داری کو مزید عمیق بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم برطانیہ کو بھارت کے نیشنل ہائیڈروجن مشن میں شامل ہونے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔ اور ہمارے درمیان اسٹریٹجک ٹیک ڈائیلاگ کے قیام کا میں دل سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ دوستو، آج ہمارے درمیان عالمی اختراعی شراکت داری کے نفاذکاری انتظام کی تکمیل ایک ازحد اہم پہل قدمی ثابت ہوگی۔ یہ دیگر ممالک کے ساتھ ہماری ترقی کی شراکت داری کو مزید مضبوطی فراہم کرے گی۔ اس کے تحت تیسرے ممالک میں ’’میڈ ان انڈیا‘‘ اختراع کے تبادلے اور اضافہ کے لیے بھارت اور برطانیہ 100 ملین ڈالر کے بقدر تک مشترکہ سرمایہ کاری کریں گے۔ ان سے ہمہ گیر ترقیاتی اہداف کی حصولیابی میں، اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوششوں میں بھی مدد ملے گی۔ یہ ہمارے اسٹارٹ اپس اور ایم ایس ایم ای شعبہ کو نئے بازار تلاشنے اور اپنی اختراعات کو عالمی سطح تک لے جانے میں بہت کارآمد ثابت ہوگی۔ دوستو، ہم نے علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہورہی متعدد تبدیلیوں پر تبادلہ خیالات کیے۔ ایک آزاد، کھلے اور قواعد پر مبنی نظام کی بنیاد پر قائم بھارت ۔ پیسفک علاقہ بنائے رکھنے پر ہم نے زور دیا۔ انڈو۔پیسفک بحری پہل قدمی سے جڑنے کے برطانیہ کے فیصلے کا بھارت خیر مقدم کرتا ہے۔ ہم نے یوکرین میں فوری طور پر جنگ بندی اور مسئلے کے حل کے لیے بات چیت اور سفارتکاری پر زور دیا۔ ہم نے تمام ممالک کی سالمیت اور خودمختاری کے احترام کی اہمیت کو بھی دوہرایا۔ ہم نے پرامن، مستحکم اور محفوظ افغانستان اور ایک مبنی بر شمولیت اور نمائندہ حکومت کے لیے اپنے تعاون کا اعادہ کیا۔ یہ ضروری ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال دیگر ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے نہیں ہونا چاہئے۔ محترم جناب، آپ نے ہمیشہ بھارت اور برطانیہ کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے خصوصی کوششیں کی ہیں۔ اس کے لیے ہم آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر، آپ کا اور کے وفد کاپرتپاک خیرمقدم ہے۔ بہت بہت شکریہ!,যুক্তৰাজ্যৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে এক যুটীয়া সংবাদমেলত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ বক্তব্ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%D9%88%D9%84%DB%81-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-75-%D8%A7%D8%B6%D9%84%D8%A7%D8%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-75%DA%88%DB%8C%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AC-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B/,مالی شمولیت کو گہرا کرنے کی جانب ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی سولہ اکتوبر کو صبح گیارہ بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ 75 ڈیجیٹل بیکنگ یونٹوں کو قوم کے لئے وقف کریں گے۔ وہ اس موقع پر حاضرین سے خظاب بھی کریں گے۔ سال 23-2022 کے لئے بجٹ تقریر کے حصے کے طور پر وزیر خزانہ نے آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کے موقع پر ملک کے 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بیکنگ یونٹوں کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ ڈی بی یوز کا قیام ڈیجیٹل بینکنگ کے فائدوں کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور یہ تمام ریاستوں اور مرکزی انتظام والے علاقوں کا احاطہ کرے گا۔ پبلک سیکٹر کے گیارہ بینک ، پرائیویٹ سیکٹر کے بارہ بینک اور ایک اسمال فائنانس بینک اس اقدام میں حصہ لے رہے ہیں۔ ڈی بی یوز ایسے مراکز ہوں گے جہاں عوام کو ڈیجیٹل بینکنگ خدمات مثلا بچت کھاتا کھولنے، بیلنس چیک، پرنٹ پاس بک، رقوم کی منتقلی ،فکسڈ ڈپازٹ میں سرمایہ کاری ، قرض کی درخواست، چیک کی ادائیگی روکنے کا طریقہ ، کریڈٹ /ڈیبٹ کارڈ کے لئے درخواست، کھاتے کا اسٹیٹمنٹ دیکھنا، ٹیکس ادا کرنا، بل ادا کرنا وغیرہ جیسی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ ڈی بی یوز صارفین کو پورے سال کم لاگت والی آسان رسائی والی اور بینک مصنوعات اور خدمات کے زیادہ ڈیجیٹل تجربات فرہم کرے گی۔ یہ یونٹیں ڈیجیٹل مالی خواندگی پھیلائیں گی اور خاص توجہ صارفین کو سائبر سیکورٹی بیداری اور تحفظات پر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ صارفین کی شکایات کے ازالے کے لئے خاطر خواہ ڈیجیٹل میکنزم موجود ہوگا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৬ অক্টোবৰত ৭৫ খন জিলাত ৭৫ টা ডিজিটেল বেংকিং ইউনিট ৰাষ্ট্ৰলৈ উৎসৰ্গা কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%8F%E0%A6%9B/,وزیراعظم نے جناب نریندر مودی نے پولینڈ میں آئی ایس ایس ایف صدارتی کپ میں میڈل جیتنے کے لئے مانو بھاکر، راہی سرنوبت، سوربھ چودھری اور ابھیشیک ورما کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘مانو بھاکر، راہی سرنوبت، سوربھ چودھری اور ابھیشیک ورما کو پولینڈ میں آئی ایس ایس ایف شوٹنگ صدارتی کپ میں میڈل حاصل کرنے کے لئےمبارکباد ۔ ہندوستان کے عوام اُن کی نمایاں کامیابی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کے لئے مستقبل میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے نیک خواہشات۔’’,"পোলেণ্ডত অনুষ্ঠিত আইএছএছএফ প্ৰেচিডেন্টছ কাপত পদক জয়ৰ বাবে মনু ভাকেৰ, ৰাহি চাৰ্নোবাট, সৌৰভ চৌধাৰী আৰু অভিষেক বাৰ্মাক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%88%D9%BE%D8%A7%D9%84%D8%8C-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%B3%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4-in-space-%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بوپال، احمد آباد میں انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر (ان-اسپیس) کے ہیڈ کوارٹر کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام میں ان-اسپیس اور خلا پر مبنی ایپلی کیشنز اور خدمات کے شعبے میں کام کرنے والی نجی شعبے کی کمپنیوں کے درمیان مفاہمت ناموں کے تبادلے کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ خل��ئی شعبے میں پرائیویٹ اداروں کو فروغ دینے اور ان کو فعال کرنے سے خلائی شعبے کو بڑا فروغ ملے گا اور ہندوستان کے باصلاحیت نوجوانوں کے لیے مواقع کے نئے راستے کھلیں گے۔ مرکزی وزیر جناب امت شاہ، گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل اور خلائی صنعت کے نمائندے اس موقع پر موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 21ویں صدی میں جدید ہندوستان کے ترقی کے سفر میں ایک شاندار باب کا اضافہ ہوا ہے اور تمام ہم وطنوں اور سائنسی برادری کو انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سنٹر یعنی ان-اسپیس کے ہیڈ کوارٹر کے لیے مبارکباد پیش کی ہے۔ – وزیر اعظم نے ان-اسپیس کے آغاز کو ہندوستانی خلائی صنعت کے لیے ’اس اسپیس کو دیکھیں‘ لمحہ قرار دیا کیونکہ یہ بہت ساری ترقی اور مواقع کا پیش خیمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان-اسپیس، ہندوستان کے نوجوانوں کو ہندوستان کے بہترین ذہنوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کرے گا، چاہے وہ حکومت میں کام کر رہے ہوں یا نجی شعبے میں، ان-اسپیس سب کے لیے بہترین مواقع پیدا کرے گا۔ وزیر اعظم نے مزید وضاحت کی کہ’’ ان-اسپیس میں ہندوستان کی خلائی صنعت میں انقلاب لانے کی صلاحیت ہے۔ تو یہ وہی ہے جو میں کہوں گا – ’اس جگہ کو دیکھیں‘۔ ان-اسپیس خلاء کے لئے ہے، ان-اسپیس رفتار کے لئے ہے، اور ان-اسپیس اکس کے لئے ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کافی عرصے سے خلائی صنعت میں نجی شعبے کو محض ایک وینڈر کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ ایک ایسا نظام جس نے ہمیشہ نجی شعبے کی صنعت میں ترقی کی راہیں مسدود کیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صرف بڑے خیالات ہی فاتح بناتے ہیں۔ خلائی شعبے میں اصلاحات کر کے، اسے تمام پابندیوں سے آزاد کر کے، ان-اسپیس کے ذریعے نجی صنعت کی معاونت کر کے، ملک آج فاتح بننے کی مہم شروع کر رہا ہے۔ نجی شعبہ، صرف وینڈر نہیں رہے گا بلکہ خلائی شعبے میں ایک بڑے فاتح کا کردار ادا کرے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جب سرکاری خلائی اداروں کی طاقت اور ہندوستان کے پرائیویٹ سیکٹر کا جذبہ پورا ہو جائے گا تو آسمان بھی حد نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے کے نظام میں ہندوستان کے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا مکمل ادراک کرنے کے مواقع نہیں مل رہے تھے۔ ہندوستانی نوجوان اپنے ساتھ اختراع، توانائی اور تلاش کا جذبہ لے کر آتے ہیں۔ یہ ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضابطے اور پابندی کا فرق بھلا دیا گیا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آج ہم اپنے نوجوانوں کے سامنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صرف سرکاری راستے کی شرط نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح کی پابندیوں کا دور ختم ہو چکا ہے اور حکومت ایسی تمام پابندیوں کو ہمارے نوجوانوں کے راستے سے ہٹا رہی ہے۔ انہوں نے دفاعی پیداوار، جدید ڈرون پالیسی، جیو-اسپیشل ڈیٹا گائیڈ لائنز، اور ٹیلی کام/آئی ٹی سیکٹر میں کہیں سے بھی سہولت کے آغاز کو حکومت کے ارادوں کی مثالوں کے طور پر درج کیا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہندوستان کے نجی شعبے کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانی سے کاروبار کرنے کا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ ملک کا پرائیویٹ سیکٹر ہم وطنوں کی یکساں طور پر زندگی گزارنے میں مدد کرے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ’’چاہے کوئی سائنسدان ہو یا کسان مزدور، سائنس کی تکنیک کو سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو، اس سب سے آگے نکل کر ہمارا خلائی مشن، ملک کے تمام لوگوں کا مشن بن جا��ا ہے۔ ہم نے مشن چندریان کے دوران ہندوستان کی اس جذباتی یکجہتی کو دیکھا۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ 60 سے زائد نجی کمپنیاں جدید تیاری کے ساتھ ملک کے خلائی شعبوں میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے ملک کے خلائی شعبے میں اس اہم تبدیلی کو سامنے لانے کے لیے اسرو کی تعریف کی۔ انہوں نے خلائی شعبے کو کھولنے کے قدم کی اہمیت کو دہرایا اور اس اقدام کے لیے اسرو کی مہارت اور عزم کو سہرا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا خلائی پروگرام آتم نربھر بھارت ابھیان کی سب سے بڑی شناخت رہا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے اشارہ کیا ’’خلائی ٹیکنالوجی 21ویں صدی میں ایک بڑے انقلاب کی بنیاد بننے والی ہے۔ اسپیس ٹیک اب نہ صرف دور دراز کی جگہ کی بلکہ ہماری ذاتی جگہ کی ٹیکنالوجی بننے جا رہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ان-اسپیس کو خلائی ٹیکنالوجی کے فوائد کو ملک کے لوگوں تک قابل رسائی بنانے کے لیے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نجی خلائی کمپنیوں کے جمع کردہ اعدادوشمار سے انہیں مستقبل میں بڑی طاقت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی خلائی صنعت کی مالیت 400 بلین امریکی ڈالر مالیت کی ہے اور اس میں 2040 تک 1 ٹریلین ڈالر کی صنعت بننے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کو عالمی خلائی صنعت میں اپنا حصہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور نجی شعبہ ایک بڑا کردار ادا کرے گا۔ وزیر اعظم نے خلائی سیاحت اور خلائی سفارت کاری کے شعبوں میں ہندوستان کے لئے ایک مضبوط کردار کو بھی دیکھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے ملک میں لامحدود امکانات موجود ہیں لیکن محدود کوششوں سے لامحدود امکانات کو کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خلائی شعبے میں اصلاحات کا یہ عمل بلا تعطل جاری رہے گا۔ نجی شعبے کو سنا اور سمجھا جانا چاہیے اور کاروباری امکانات کا صحیح تجزیہ کیا جانا چاہیے، اس کے لیے وزیراعظم نے کہا کہ ایک مضبوط طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ ان-اسپیس ایک واحد ونڈو کے طور پر کام کرے گا، یہ نجی شعبے کی تمام ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے آزاد نوڈل ایجنسی ہو گا۔ ہندوستان، سرکاری کمپنیوں، خلائی صنعتوں، اسٹارٹ اپس اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے نئی انڈین اسپیس پالیسی پر کام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ ہم جلد ہی خلائی شعبے میں کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانے کے لیے ایک پالیسی لانے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کا مستقبل، اس کی ترقی میں دو شعبے ایسے ہیں، جو آنے والے دنوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ہیں، وہ ہیں خلا اور سمندر۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ان شعبوں میں بلا تاخیر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میدان میں ہندوستان کی طرف سے پیش رفت اور اصلاحات کے بارے میں بیداری میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسکولوں میں اٹل ٹنکرنگ لیبز اس میں کردار ادا کر رہی ہیں اور انہوں نے سری ہری کوٹہ میں سیٹلائٹس کے لانچ کو دیکھنے کے لیے 10 ہزار لوگوں کے لیے ویونگ گیلری بنانے کی پہل کی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ گجرات تیزی سے قومی اور بین الاقوامی سطح کے بڑے اداروں کا مرکز بن رہا ہے۔ اس نے جام نگر، راشٹریہ رکشا یونیورسٹی، پنڈت دین دیال انرجی یونیورسٹی، نیشنل انوویشن فاؤنڈیشن، چلڈرن یونیورسٹی، بھاسکراچاریہ انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ایپلی کیشنز اور جیو انفارمیٹکس-بی اۤئی ایس اے جی اور اب ان-اسپیس میں ڈبلیو ایچ او گلوبل سنٹر آف ٹریڈیشنل میڈیسن کو درج کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستان بھر سے، بالخصوص گجرات کے نوجوانوں کو، ان اداروں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعوت دی۔ ان-اسپیس کے قیام کا اعلان جون 2020 میں کیا گیا تھا۔ یہ سرکاری اور نجی دونوں اداروں کی خلائی سرگرمیوں کے فروغ، حوصلہ افزائی اور ضابطے کے لیے محکمہ خلاء میں ایک خود مختار اور واحد ونڈو نوڈل ایجنسی ہے۔ یہ نجی اداروں کے ذریعہ اسرو کی سہولیات کے استعمال میں بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔,আহমেদাবাদৰ বোপালত IN-SPACe ৰ মুখ্য কাৰ্যালয় উদ্বোধন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DA%A9%D9%88%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80-%E0%A6%B8/,نئی دہلی۔30ستمبر وزیر اعظم نریندر مودی نے آج راجکوٹ میں مہاتما گاندھی میوزیم کا افتتاح کیا ۔ یہ میوزیم الفرڈ ہائی اسکول میں قائم کیا گیا ہے جو کہ مہاتماگاندھی کی سرگرمیوں کے دور کا اہم حصہ ہے ۔ یہ گاندھیائی ثقافت ، اقدار اور فلسفہ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں معاون ہوگا ۔ وزیر اعظم نے 624 گھروں پر مشتمل ایک سرکاری ہاؤسنگ پروجیکٹ کے افتتاح کی غرض سے ایک تختی کی نقاب کشائی بھی کی ۔ انہوں نے 240 مستفید ہونے والے کنبوں کے ای- گرہ پرویش کو بھی دیکھا ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مہاتما گاندھی سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ یہ گجرات کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی سرزمین کا باپو سے بہت ہی گہرا تعلق ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ باپو کو ماحولیات کے تئیں تشویش تھی ۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی سے ترغیب حاصل کر کے ہمیں صاف اور سر سبز و شاداب کل کے لیے کام کرنا ہوگا ۔ وزیر اعظم نے باپو کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیں ہمیشہ قطار میں کھڑے آخری شخص اور غریبوں کی خدمت کرنے کے بارے میں فکر کرنے کی تعلیم دی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسی آئیڈیل سے ترغیب پا کر ہم لوگ غریبوں کی خدمت کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری آزادی کے ستّر سے زائد سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ‘سوچھ بھارت ’ کا باپو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔انہوں نے لوگوں سے زور دے کر کہا کہ ہم لوگ مل کر ان کے خوابوں کو پورا کر نا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا گذشتہ چار سالوں میں ہم نے سوچھ بھارت مشن کے اہم حصے کا احاطہ کر لیا ہے تاہم ہمیں مزید کام جاری رکھنا ہوگا ۔ وزیر اعظم نے بعد ازاں مہاتما گاندھی میوزیم کا دورہ کیا ۔,ৰাজকোটত মহাত্মা গান্ধী সংগ্ৰহালয় উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B9%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%98%E0%A7%8B%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A7%B0/,"آج یوم اساتذہ کے موقع پر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پردھان منتری اسکول فار رائزنگ انڈیا (پی ایم – ایس ایچ آر آئی، شری) یوجنا کے تحت 14,500 اسکولوں کی ترقی اور اپ گریڈیشن کا اعلان کیا۔ پی ایم – شری اسکولوں میں تعلیم فراہم کرنے کا جدید، یکسر تبدیلی لانے والا اور جامع طریقہ کار ہوگا۔ جناب مودی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ پی ایم – شری ��سکول قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) کے جذبے کے تحت ہندوستان بھر کے لاکھوں طلباء کو مزید فائدہ پہنچائیں گے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’آج، #ٹیچرز ڈے (یوم اساتذہ) پر مجھے ایک نئی پہل – پردھان منتری اسکول فار رائزنگ انڈیا (پی ایم – ایس ایچ آر آئی) یوجنا کے تحت پورے بھارت میں 14,500 اسکولوں کی ترقی اور اپ گریڈیشن، کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ یہ ماڈل اسکول بنیں گے جو این ای پی کی مکمل روح کو اپنے اندر سمیٹنے کا کام کریں گے۔‘‘ ’’ پی ایم – شری اسکولوں میں تعلیم فراہم کرنے کا ایک جدید، یکسر تبدیلی لانے والا اور جامع طریقہ کار ہوگا، جس میں دریافت پر مبنی، سیکھنے کے مرکوز طریقۂ تدریس پر زور دیا جائے گا۔ جدید انفراسٹرکچر پر بھی توجہ دی جائے گی، جس میں جدید ٹیکنالوجی، اسمارٹ کلاس روم، کھیل کود اور بہت کچھ شامل ہے۔ ‘‘ ’’قومی تعلیمی پالیسی نے حالیہ برسوں میں تعلیم کے شعبے کو یکسر طور پر تبدیل کردیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پی ایم – شری اسکول این ای پی کے جذبے کے مطابق پورے ہندوستان میں لاکھوں طلباء کو مزید فائدہ پہنچائیں گے۔‘‘",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ঘোষণা কৰিলে পিএম-শ্ৰী যোজনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/22-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%DB%8C%D9%88%D8%AA%DA%BE-%D9%81%DB%8C%D8%B3%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%84-2018%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1-%E0%A6%AE/,سب سے پہلے، میں اپنے تمام سائنسدانوں کی دوسری عظیم کامیابی پر عوام کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ اب سے کچھ دیر قبل اسرو نے پی ایس ایل وی -40 کی کامیاب آزمائش کی ہے۔ PSLV سے کارٹونیٹ -2 سیریز سٹیلائٹ سمیت کل 31 سٹیلائٹ کا خلا میں بھیجا گیا ہے ان میں سے، 28 سٹیلائٹ دوسرے ممالک سے ہیں۔ آج اسرو نے ایک اور ریکارڈ بنایا ہے۔ آج ایسرو نے سٹیلائٹ کی آزمائش میں سنچری بھی بنائی ہے۔ اسرو کی آج کی کامیابی سے ملک کے کسانوں، ماہی گیروں اور سائنس دانوں کو زمینی جانکاری میں ملنے مدد ملے گی۔ یہ کامیابی نیو بھارت کا راستہ مزید بڑھا دے گی۔ ہمیشہ ملک کی عظمت بڑھانے والے اور ملک کی اقتصادی ترقی میں تعاون دینے والے اسرو کے سائنس دانوں کو میں ایک بار پھر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ نئے سال میں، نیشنل یوتھ ڈے پر وویکانند جینتی پر ہمارے سائنسدانوں نے ملک کو قیمتی تحفہ دیا ہے۔ میرے دوستو، میں نے سوچا کہ تم لوگوں کے ساتھ آمنے سامنے آکر بات کرتا۔ یہ جو منی ہندستان اس وقت گریٹر نوئیڈا میں مصروف ہے۔ ایک بھارت بہترین بھارت کی شاندار تصویر پیش کررہا ہے۔ یہ منی انڈیا دیکھنے والا ہے۔ لیکن کچھ مشغولیت تھی، لہذا آپ لوگوں سے ٹیکنالوجی کے ذریعہ جڑ رہا ہوں۔میری کوششیں یہ ہے کہ، جب میں اس طرح کے پروگرام میں میں خود نہیں پہنچ پاتا تو وہاں کیا کیا ہوا، کیا بات ہوئی، کیا نتیجہ رہا، اس بارے میں اس کی پوری جانکاری حاصل کرتا ہوں۔ آپ لوگ بھی یہں جو گفتگو یا بحث و مباحثہ کریں گے اس کی پوری جانکاری لینے کی کوشش کروں گا۔ ساتھیو! آج سے ہی نیشنل یوتھ فیسٹیول کی بھی شروعات ہورہی ہے۔ میں نیشنل یوتھ ایوارڈ پانے والے طالب علموں اور اداروں کی تعریف کرتا ہوں مانہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگلے چار دنوں میں بہت سے پروگرام ہوں گے، نیشنل یوتھ پارلیمنٹ کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ میں نے اس بار من کی بات کرتے ہوئے، ملک کے ہر ضلع میں ایک مووک پارلیمنٹ کو منظم کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔ یہ اسی سوچ کی ایک کڑی ہے۔ نیو انڈیا کے موضوعات پر منتھن کرنے کا عہد کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ یہ 22 ویں فیسٹول ہے اور میں چاہوں گا جب آپ لوگ بات چیت کریں اس بارے میں غور کیا جائے جب 25 ویں یوتھ فیسٹیول کا جشن منایا جائے گا تو اس کی شکل کیا ہوگی کیا عزم کیا جائے گا ہم روڈ میپ بناکر کہاں پہنچیں گے۔ اسی طرح، جب ملک 2022 میں 75 سال کی آزادی کا جشن منائے گا تو اس سال یوتھ فیسٹول کس شکل میں منایا جائے گا اس بارے میں آپ گفتگو کریں ۔ مجھے امید ہے کہ ان چار دنوں میں، آپ یہاں سے وہ تجربے کے ساتھ جائیں گے، جو آپ کی زندگی کی رہنمائی کرے گا، آپ کا راستہ ہموار کرے گا۔ میرے نوجوان ساتھیوں، اس بار ، فیسٹول کا موضوع “سنکلپ سے سدھی ” ہے۔ پچھلے 6-7 مہینوں میں، آپ نے یہ الفاظ بار بار سنے ہوں گے سنکلپ سے سدھی آخر یہ ہے کیا۔موبائل کا کوئی ایپ تو ہے نہیں ، کہ ڈاؤن لوڈ کیا ، انسٹال کیا اور پڑا۔ اس لئے آج آپ سے میں سنکلپ سے سدھی پر ہی تفصیل سے بات کروں گا آخر سنکلپ کیا ۔ کیا چیز سدھ کرنی ہے۔ میرے نوجوان ساتھیو 2022 میں ہمارے ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہو جائیں گے۔ آپ نے آزادی کی لڑائی کے بارے میں صرف کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔ میں نے خود کوبھی آزادی کی تحریک کے بارے میں سنا ہے، میں نے پڑھا ہے، اس لئے عمر کا فرق بھلے ہو لیکن اس معاملے میں ،میں آپ اور میں الگ نہیں ہیں۔ میرے نوجوان ساتھیو، ہم نے آزادی کی تحریک میں حصہ نہیں لیا ہے، اس لئے ہماری بڑی ذمہ داری ان خوابوں کو پورا کرنا ہے جو خواب اس وقت آزادی کے دیوانوں نے دیکھے تھے۔ جب جیل میں برطانوی پولیس کوڑے برساتی تھی تو اس وقت اندھیری کوٹھری میں سب کچھ برداشت کرتے ہوئے ہمارے مجاہدین آزادی جس ہندستان کا خواب دیکھ رہے تھے اس ہندستان کو بنانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ جب ہم اس تصور کو اس خواب کو جئیں گے تو ان کے خوابوں کے ہندستان کے لئے عہد بھی لے پائیں گے۔ یہ ہندستان کیسا ہوگا نیو انڈیا کیسا ہوگا سوچیئے گا کہ آپ کے آس پاس ایسا کیا ہورہا ہے جسے آپ بدلنا چاہتے ہیں۔ ایسا کون سا انتظام ہے ہے جس کے بارے میں آپ ہمیشہ سوچتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کاش یہ صورتحال بد ل جائے جب آپ ٹرین سے یہاں آرہے ہوں گے ،اسکول میں، کالج میں، گھر میں آتے ہیں، جب بھی آپ نے سوچا کہ یہ اچھا نہیں ہے، یہ تو بدلا جانا چاہئے، اس بات کو آج دوبارہ سوچئے گا ایک بار جو چیزیں آکر کر چلی جاتی ہیں ان کو دوبارہ سوچئے۔ ووییکا نندوجی کو یاد رکھیں، میں اعتماد سے کہتا ہوں کہ جن چیزوں کا آپ نے جو کچھ تجربہ کیا ہے، جن باتوں سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے جس کو بدلنے کے لئے آپ کے من کے اندر ایک سوچ پیدا ہوئی ہے اگر آج کی رات آپ اس سے جڑ جاؤگے تو وہ ہی للک عہد بن جائے گی۔ آج، 12 جنوری کی رات کو، وہی باتیں آپ کےلئے عہد بنیں گی۔ عہد کسی کو بتانے کے لئے نہیں ۔ شوروغل بتانے کے لئے نہیں بلکہ یہ عہد آپ کے لئے ہوگا۔ جنوری 13 کے نئے دن سے نئے سرے سے کام کرنے کے لئےہوگا۔ ساتھیو ، آپ ابھی جس یونیورسٹی کے احاطہ میںہیں اس کا نام گوتم بدھ کے نام پر ہے۔ آپ جس شہر میں ہے – گریٹر نوئیڈا – اس کا نام گوتھ بدھ نگر ہے۔ ا سلئے میں آپ کو گووتم بدھ سے ہی منسلک ایک قصہ بتاتا ہوں۔ یہ چھوٹا سا واقعہ ہے بہت بڑا نہیں ہے۔ ایک دفعہ، بھگوان بدھ کے ان کے شاگرد نے ان سے پوچھا کہ آپ سے تعلیم لینے والے شاگرد کو نروان مل جائے گا ، بگھوان بدھ نے جواب دیا نہیں کچھ نہین ملے ، شاگرد نے پوچھا ایسا کیوں، تب بھگوان بولے جو میری تعلیمات کواچھی طرح سمجھ پائے گا انہیں ہی نروا ن ملے گا باقی بھٹکتے رہ جائیں گے۔ ساتھیو! ایک ہی گرو سے آپ کو ایک ہی تعلیم ملے گی لیکن آپ اسے کیسے حاصل کرتےہیں آپ خود میں کیا عہد لیتے ہیں یہ آپ کی کامیاب اور ناکامی طے کرتا ہے۔ دیکھئے جیسے کوروو اور پانڈو دونوں کے گرو ا یک ہی تھے ۔ دونوں کو ایک ہی طرح کی تعلیم ملی۔ لیکن دونوں کی ہی شخصیت اور رویہ کتنا مختلف تھا۔ ایسا اس لئے کیونکہ کوروو اور پانڈو کے سنکلپ اور عہد الگ الگ تھے۔ زندگی میں آپ کو بھی تعلیم دینے والے بہت سے لوگ ملیں گے لیکن تعلیم حاصل کرکے کس راستے پر چلنا ہے کس طرح کا عہد کرنا ہے یہ صرف آپ کو ہی طے کرنا ہوگا۔ یہی تو گوتم بدھ کے اپ دیپو بھئو کا بھی نچوڑ ہے۔ اپنا دیپک اپنا پرکاش خود بنو ۔ اپنے عہد خود کرو ، کوئی آپ کو قسم دلانے کے لئے نہیں آئے گا کوئی یاد دلانے کے لئے بھی نہیں آئے گا جو کچھ بھی کرنا ہے آپ کو خود کرنا ہے۔ بھائیو اور بہنو سوامی وویکا نند کہتے تھے کہ نوجوان وہ ہوتا ہے جو بغیر ماضی کی فکر کئے اپنے مستقبل کے مقاصد کی سمت میں کام کرتا ہے۔ آپ سبھی نوجوا ن جو کام کرتے ہیں وہی ملک کا مستقبل کی سمت طے کرتا ہے اس لئے اآپ عہد کریں گے وہی ثابت ہوکر ملک کو بھی سدھ کریں گے۔ اترپردیش کے ایک مشہور گیت کار ہوئے تھے ۔ فلموں میں بھی انہوں نے خوب لکھا تھا، جناب مجروح سلطان پوری ، ان کا ایک شعر تھا میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل، لوگ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا ۔ ساتھیو، ہر شخص کو کبھی کبھی اکیلے ہی شروعات کرنی ہوتی ہے۔ آپ کی نیت صاف ہوتی ہے ، ارادے واضح ہوتے ہیں،حوصلے بلند ہوتے ہیں تو آپ کے ساتھ لوگ خود سے جوڑنے لگتے ہیں میری آپ سے یہی درخواست ہے کہ پہلا قدم اٹھانے سےپہلے کچھ عہد کرکے نئی شروعات کرنے سے پہلے گھبرائیں نہیں بس ٹھان لیں اور چل پڑیں۔ آ پ کے اس سفر میں سرکار بھی پورا ہندستان بھی ہرطرح سے آپ کے ساتھ کھڑا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جو نوجوان کچھ کر گزنا چاہتے ہیں اپنے دم پر اپنی جدوجہد سے ، اپنے خواب پورا کرنا چاہتا ہے انہیں ہر طرح کی مدد ملے گی۔ جب وہ شروعات کریں تو انہیں بینک ضمانت کی فکر نہ کرنی پڑی ۔ ٹیکس کی فکر نہی کرنی پڑی۔ پچیسوں طرح کی کاغذی کارروائی کی فکر نہ کرنی پڑی۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ملک کا نوجوان روزگار دینے والا بنے ۔ اختراع کے لئے آگے آئے اور اس لئے اس سمیت میں لگاتار کام کیا گیا ہے۔ ساتھیو ہماری سرکاری اب تک پردھان منتری فنڈ یوجنا کے تحت لگ بھگ دس کروڑ لوگوں کے قرض منظور کرچکی ہے۔ دس کروڑ کا آنکڑا بہت بڑا بڑا ہوتا ہے۔ لوگوں کو بنا بینک گارنٹی چار لاکھ کروڑ روپے کا قرض دیا گیا ہے ، سوچئے بنا بینک گارنٹی بنا یہ پوچھے کہ پیسے کیسے واپس آئیں گے، قرض کیسے چکایا جائے گا، چار لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ رقم لوگوں کودی گئی ہے۔ ان پیسوں سے گاؤں میں، قصبوں میں ، شہروں میں ، دیہاتوں میں لوگوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کئے وہ اپنے خواب پورے کررہے ہیں۔ یہ لوگ یہ چھوٹے سرمایہ کار دینے والے بن رہے ہیں۔ بہنو اور بھائیو ، سرکار کی اس بڑی اسکیم کی بنیاد صرف ایک ہے۔ آپ پر ملک کے نوجوانوں پر بھروسہ۔ ہمیں بھروسہ ہے کہ اس ملک کے نوجوان جب ٹھان لیتا ہے تو کچھ بھی کرگذرتا ہے۔ توانائی سے بھرے اسے نوجوان ملک کے ہر کونے میں موجود ہیں، کوئی پہاڑوں سے نکلنے والے چھوٹے جھرنوں سے بجلی بنارہا ہے ، کوئی کوڑے سے بجلی پیدا کررہا ہے، کوئی کوڑے سے گھر کے لئے تعمیر ہونے والی چیزیں بنارہا ہے ، کوئی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے گاؤں میں صحت کی سہولات پہنچارہا ہے کسی نے اپنے کھیت میں ہی فوڈ پروسسینگ یونٹ لگا لی ہے ایسے کروڑورں نوجوان ملک کی تعمیر کے لئے دن رات ایک کررہے ہیں۔ آ پ میں صلاحیت ہے ہمت ہے اور صحیح سمت میں چلنے کی سوچ بوجھ بھی آپ رکھتے ہیں۔ اس لئے سرکار کی کوشش آپ کی ہینڈ ہولڈنگ کی ہے ۔ تھوڑا سا تعاون باقی آپ خود باصلاحیت ہیں۔ ساتھیو ، سرکار اس طرف بھی دھیان دے رہی ہے کہ آج کی ضرورتوں کے حساب سے ہنر مندی کی تربیت مل سکے۔ ہنر مندی کو لے کر پہلی بار اس طرح کی سنجیدگی کسی سرکار نے نہیں دکھائی ہے ورنہ پہلے تو ہنر مندی اور ایکوئیشن میں سیدھا فرق پوچھنے پر لوگ چپ ہوجاتے تھے ۔ بھائیو اور بہنو کتاب میں پڑھنا ، ہوائی جہاز کیسے اڑایا جاتا ہے ، کتاب میں اس کی باریکیاں سمجھنا ایکویشن ہے لیکن اصلی میں ہوائی جہاز اڑانا ایک ہنر ہوتا ہے ۔ صرف ایکوئیشن ہو اور ہنر نہ ہو تو روزگار ملنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اس لئے ہم ہنر بڑھانے پر توجہ دیتے ہوئے ا ٓگے بڑھ رہے ہیں۔ نوجوانوں کو ایکوئشن ساتھ ہی ہنر کی تربیت ملے ۔ اس کا دھیان رکھا جارہا ہے۔ اسکل انڈیا مشن کے تحت لاکھوں نوجوانوں کو تربیت دی جاچکی ہے ۔ سرکار ملک بھر میں پردھان منتری کوشل کیندر قائم کررہی ہے۔ انڈیا انٹرنیشنل اسکل سینٹر بھی کھولے جارہے ہیں۔ سیکنڑوں ملٹی اسکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پر بھی کام ہورہا ہے پہلی بار ایسا ہوا ہے جب نوجوانوں کو اپرنٹس شپ دینے والی کمپنیوں کو اقتصادی مدد دی جارہی ہے۔ اپرینٹس شپ کا جو پیشہ کمپنیاں طلبا کو دیتی ہیں اس کا کچھ حصہ سرکاری کی طرف سے کمپنیوں کو دیا جارہا ہے ۔ نیشنل اپرنٹس شپ اسکیم کے تحت اب تک لگ بھگ سات لوگ نوجوانوں کا رجسٹریشن کیا جاچکا ہے۔ اگلے دو تین سالوں میں سرکار کا نشانہ پچاس لاکھ نوجوانوں کو اپرنٹس شپ تربیت دینے کا ہے ۔ پردھان منتری یووا یوجنا کے تحت بھی تین ہزار سے زیادہ اداروں میں طلبا کو تربیت دینے کا کام چل رہا ہے۔ سرکار کی کوشش ہے کہ آپ نوجوانوں کو ملک کی ضرورتوں ، ہمارے یہاں کی صنعتوں کی ضرورتوں کے حساب سے تربیت ملے ۔ ہندستان سے باہر کے ملکوں میں کس طرح کی ضرورت ہے اسے بھی دھیان میں رکھتے ہوئے ہنر مندی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ساتھیو ۔ مجھے ملک کے نوجوانوں پر پورا بھروسہ ہے۔ ملک کی نوجوانوں کی طاقت نوجوان لوگوں کی توانائی پر پورا اعتماد ہے ملک کے خواب اگر کہیں گھر کرتے ہیں تو ملک کےنوجوان دل میں کرتے ہیں۔ اس لئے اس پر ہم نے دھیان دیا ہے۔ ساتھیوں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج کے نوجوانوں میں صبر نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ یہی بات آج کی پیڑھی کے نوجوانوں کے لئے ان کے اندر اختراع کا سبب بن جاتا ہے۔ زندگی میں صبر ہونا چاہئے ، اضطراب کی زندگی بھی صحیح نہیں لیکن ایسا بھی صبر نہیں ہونا چاہئے کہ آدمی نیا سوچ ہی نہ پائے ۔ زندگی بالکل ٹھہر سی جائے۔ صبر نہیں ہے اس لئے آج کے نوجوان زیادہ تیزی سے کام کررہے ہیں ۔ اختراعی کام کررہے ہیں اور نتیجہ بھی لارہے ہیں۔ سووچھ بھارت ابھیان ہو ، بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ ابھیان ہو، ویسٹ ٹو وہلتھ ہو ، آ پ کی اختراع سماجی سروکاروں سے جڑے ہوئے ہو آپ کے آس پاس جو مسائل ہیں، چیلنجز ہیں انہیں آپ سے بہتر کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ اختراع کی آپ کی اسی صلاحیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے سرکار نے اٹل انووویشن مشن شروع کیا ہے۔ ملک کے اسکولوں میں ، کالجوں میں اختراع کا ای –کو سسٹم بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ طلبا میں سائنسی ٹیمپر بڑھانے اور ان کی تخقلیق کو صحیح پلیٹ فارم دینے کے لئے ملک بھیر میں قریب قریب ڈھائی ہزار سے زیادہ اٹل ٹنکرنگ لیب کو منظوری دی گئی ہے۔ مینوفیکچرنگ ، ٹرانسپورٹ، انرجی ، ایگریکلچر ، پانی اور صفائی ستھرائی جیسے شعبوں میں اختراع کو بڑھاوا دینے کے لئے اٹل انکیوبیشن سینٹر بھی کھولے جارہے ہیں یہ سینٹر نئے اسٹارٹ اپ کو اقتصادی مدد بھی دیں گے اور صحیح راستہ بھی دکھایں گے بھائیو بہنو اسٹارٹ اپ انڈیا پروگرام ہندستان میں اسٹارٹ اپ انقلا ب کی بنیاد بن رہا ہے۔ سرکار نے دس ہزار کروڑ کی رقم سے اسٹارٹ اپ فنڈ بنایا ہے۔ نئے اسٹارٹ اپ کو کریڈٹ گارنٹی دی جارہی ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ دی جارہی ہے وہ اپنے اختراع کا پیٹنٹ کراسکیں اس کے لئے سرکار کی طرف سے انہیں قانونی مدد بھی دی جارہی ہے میں یہ ساری جانکار آپ کو اس لئے بھی دے رہا ہوں کیونکہ کالجوں سے پڑھ کر نکلنے کے بعد یہی جانکاری آپ کی آگے بڑھنے میں مدد کرے گی۔ آج جو آپ عہد کریں گے اسے ثابت کرنے میں یہی جانکاری آپ کی مدد کرے گی ،پڑھتے ہوئے آپ کو اسٹارٹ اپ کرنے سے کوئی نہیں روکے گا ۔ اپنی کمپنی کھولنے میں کوئی نہیں روکے گا اسوقت آپ کو سرکار کےاقدامات سے مدد ملے گی ۔ بھائیو اور بہنو۔ دنیا میں ہر کوئی سہولت پاکر ہی آگے بڑھا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جدوجہد میں لو گ آگے بڑھے ہیں۔ آج اتنی ہی بیرونی کمپنیوں کو ہندستان سے گئے نوجوان چلا رہے ہیں وہ کمپینیوں کے پریزیڈنٹ ہیں،چیئرمین ہیں، سی ای اوز ہیں۔ ان کمپنیوں میں ان کے کام کا لوہا مانا جاتا ہے کیا وہ سیدھے وہاں پہنچے ہیں ، نہیں کیا ، سیاسی جانشینی والی اسٹائل خواب دیکھے ہیں، جوکھم اٹھایا ہے دن رات پسینہ بہایا ہے تب وہاں پہچنے ہیں۔ ہندستان کے نوجوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ جہاں بھی گیا ہے اپنا اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے دو دن پہلے ہی آنچل ٹھاکر نے ہندستان کو برف پر پھسلنے کےمقابلے میں اب تک کا پہلا بین الاقوامی میڈل دلایا ہے۔ کچھ دنوں پہلے مانوشی چھلر نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ جو سوشل میڈیا میں ہیں، وہ ضرور ہر روز اپ ڈیٹ لیتے ہوں گے کہ ساگر پریکرما کے لئے جو چھ بیٹیاں نکلی ہوئی ہیں، وہ آج کہاں پہنچی ہیں۔ یہ سنکلپ سے سدھی کے الگ الگ سفر ہیں جو ہر کسی کے لئے باعث ترغیب ہیں۔ ساتھیو! آج میری آپ سےیہ بھی درخواست ہے کہ کھیل کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اس وقت اسٹیج پر راجیہ وردھن جی ہیں، میں مانتا ہوں کہ وہ وزیر بعد میں ہیں، پہلے اولمپیئن ہیں، شاندار نشانے باز ہیں۔ ویسے ہمارے محنتی، تیز طرار نوجوان وزیراعلی جناب یوگی جی بھی کم کھلاڑی نہیں ہیں، آج کل ان کے کام کی وجہ سے کئی ریاستوں میں بہت سے لوگوں کو ان سے بہت دقت ہورہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے یوگی جی آج کل ٹوئٹر ٹوئٹر کا کھیل کھیل رہے ہیں اور ٹوئٹر کے کھیل میں بھی اچھے اچھے کھلاڑیوں کو انہوں نے مات دے رکھی ہے۔ خیر، میں اسپورٹس پر ہی فوکس کروں تو، کھیل تعلیم کا ہی ایک طریقہ ہے جوصرف جسم کو ہی چست درست نہیں رکھتا بلکہ دماغ کو بیدار کرتا ہے۔ کھیل سے ہم ڈسپلن سیکھتے ہیں۔ کھیل کا میدان ہمیں ہار کا مطلب سمجھاتا ہے۔ کھیل کا میدان ہمیں اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے شدید محنت کرنا سکھاتا ہے۔ ٹیم اسپرٹ کا کیا مطلب ہے، یہ سب سے پہلے ہمیں کھیل کے میدان میں ہی نظر آتا ہے۔ ہاریں چاہے جیتیں لیکن کھیل کے میدان سے ہم جو اسپورٹس مین اسپرٹ سیکھتے ہیں، وہ زندگی بھر کام آتی ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں، جو کھیلے وہ کھلے۔ آپ لوگ بھی خوب کھیلئے، خوب کھلئے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ آپ یوگ کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یوتھ فیسٹول میں ہر روز آپ سبھی یوگ کیا کریں گے، اس مشق کو اپنے ساتھ لیکر جایئے گا۔ یوگ سے آپ جسمان اور دماغی طور پر مضبو ط ہوں گے۔ میرے ساتھیوں، آگےبڑھئے ، خود کو وسیع کریئے، اپنی شخصیت کو وسیع کیجئے۔ یہاں اس یوتھ فیسٹول میں بھی الگ الگ ریاستوں کے جو آپ کے ساتھی آئے ہیں، ان سے خوب ملئے، باتیں کیجئے، انہیں سمجھئے، ان کی زبان سمجھئے، ان کا کھان پان سمجھئے، رہن سہن سمجھئے۔ میرا تجربہ ہے کہ اس فیسٹول میں آج جو سیکھیں گے، آپ کے جو رشتے بنیں گے، وہ زندگی بھر آپ کے ساتھ رہیں گے، آپ کے کام آئیں گے۔ ساتھیوں، یہ ایک عزم ہے جو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کو ثابت کرتا ہے۔ ساتھیو! ہمارے عزت مآب جناب اٹل بہاری واجپئی جی کہا کرتے تھے ۔ کندھے سے کندھا لگاکر، قدم سے قدم ملاکر، ہمیں اپنے زندگی کے سفر کو صبر و تحمل کے ساتھ بلندی تک لے جانا ہے۔ مستقبل کا بھارت ہماری کوششوں اور محنتوں پر منحصر ہے۔ آیئے، ہم سبھی مل کر، ملک کے نوجوان ملکر، ملک کے سواسو کروڑ لوگ مل کر محنت کی انتہا کو پہنچیں، اپنی طاقت ملک کی تعمیر میں لگائیں، نیو انڈیا بنائیں۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو یوم نوجوان اور یوتھ فیسٹول کی نیک خواہشات کے ساتھ، سوامی وویکا نند کو دوبارہ یاد کرتے ہوئے، انہوں نے جو راستہ دکھایا ہے، سماجی برابر کا جو راستہ دکھایا ہے، اونچ نیچ کی تفریق سے آزادی کا راستہ دکھایا ہے، ملک کے لئے جینے مرنے کا راستہ دکھایا ہے، ایسے عظیم انسان کی سالگرہ کے موقع پر نوجوانوں کو ترغیب ، نوجوانوں کی صلاحیت ، نوجوانوں کے عزم کے ساتھ آپ آگے بڑھیں۔ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ، میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!!! جے ہند !!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,২২ সংখ্যক ৰাষ্ট্ৰীয় যুৱ মহোৎসৱ-২০১৮ৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপৰ ইংৰাজী সংস্কৰণ (ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সৰ মাধ্যমেৰে) +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1%D8%AA%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گجراتی نئے سال کےموقع پر تمام گجراتیوں کو مبارک باد دی ہے۔ انہوں نے تمنا کی کہ نیا سال سبھی کی زندگیوں کو روشن کرےاور سبھی کوترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ انہوں نے یہ بھی تمنا کی کہ گجرات ہمیشہ کامیابیوں کی نئی بلندیوں کو چھوئے۔ وزیراعظم نے گجراتی زبان میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا : “تمام گجراتیوں کو نیا سال بہت بہت مبارک ! آج سے شروع ہونے والا نیا سال آپ کی زندگی کو روشن کرے اور آپ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے…. نیا سال مبارک ہو، نئے عزم، نئی تحریکوں اور نئے اہداف کے ساتھ۔ اس امید کے ساتھ کہ گجرات ہمیشہ کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوتا رہے۔ ش ح۔ ف ا- ج,গুজৰাটী নৱবৰ্ষত গুজৰাটৰ সকলো লোককে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%88%D9%86%D8%A7%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE-9/,"نئی دہلی، 19اکتوبر، 2022/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گجرات کے جوناگڑھ میں تقریباً 3580 کروڑ روپے کے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ جوناگڑھ کے ان پروجیکٹوں میں ساحلی شاہراہوں کی بہتری کے ساتھ گمشدہ رابطوں کی تعمیر، دو واٹر سپلائی پروجیکٹس اور زرعی مصنوعات کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک گودام کی تعمیر شامل ہے۔ وزیراعظم نے شری کرشن رخشمنی مندر، مادھو پور اور سیوریج اور پانی کی سپلائی کے پروجیکٹوں اور پوربندر ماہی پروری، ہاربر میں صفائی ستھرائی اور اس کی دیکھ بھال کے کام کا بھی آغاز کیا ۔ گیر سومناتھ میں وزیر اعظم نے دو پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا جس میں مدھواڑ میں ایک ماہی گیری بندرگاہ کی ترقی بھی شامل ہے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ دیوالی اور دھنتیرس جلدی ہی آرہے ہیں اور جوناگڑھ کے لوگوں کے لیے نئے سال کی تقریبات کی تیاریاں پہلے ہی سے جاری ہیں۔ اس موقع پر موجود تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے لوگوں کی آشرواد کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے ایسے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور وقف کرنے پر خوشی کا اظہار کیا جو پہلے وقتوں میں ریاست کے بجٹ سے زیادہ مالیت کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب گجرات کے عوام کی مہربانیوں کی وجہ سے ہے۔ وزیر اعظم نے جوناگڑھ، گیر سومناتھ اور پوربندر پر مشتمل علاقے کو گجرات کا سیاحتی دارالحکومت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جن پروجیکٹوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ان سے روزگار اور خود روزگاری کے وسیع موقعے پیدا ہوں گے۔ ’’آج میرا سینہ فخر سے پھول گیا ہے‘‘، وزیر اعظم نے تبصرہ کیا اور اس کا سہرا گجرات کے لوگوں اور ان کے احسانات کو دیا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مرکز میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے گجرات سے جانے کے بعد یہ وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کی ٹیم تھی جس نے انہی اقدار اور روایات کے ساتھ گجرات کی دیکھ بھال کی۔ ’’آج گجرات تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے‘‘۔ انہوں نے خشک سالی اور خطے سے نقل مکانی کے مشکل وقت کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ قدرت بھی ان لوگوں کی مدد کرتی ہے جو لگن اور صداقت کے ساتھ کام کرتے ہیں کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی مشکلات میں بھی کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ""ایک طرف لوگوں کا آشیرواد اور دوسری طرف قدرت کی مدد کے ساتھ، لوگوں کی خدمت میں اپنی زندگی گزارنا خوشی کی بات ہے""۔ وزیر اعظم نے اشارہ دیا کہ ماں نرمدا ایک دور دراز کا یاترا کا مقام تھا، لوگوں کی محنت سے ماں نرمدا اپنا آشیرواد دینے سوراشٹر کے گؤوں میں پہنچی ہیں۔ وزیر اعظم نے پوری لگن کے ساتھ قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے جوناگڑھ کے کسانوں کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گجرات میں اگائے جانے والے کیسر آم کا ذائقہ دنیا کے ہر حصے میں پہنچ رہا ہے۔ بھارت کے وسیع ساحلی علاقوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اشارہ دیا کی کہ بھارت کی ساحلی پٹی کا ایک بڑا حصہ گجرات سے تعلق رکھتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کو یاد کرتے ہوئے جنہوں نے سمندروں کو ایک بوجھ اور اس کی تازہ ہوا کو زہر کی طرح سمجھا، جناب مودی نے کہا کہ اب وقت بدل گیا ہے۔ ""وہی سمن��ر جنہیں مصیبت سمجھا جاتا تھا اب ہماری کوششوں کے فائدے حاصل کر رہے ہیں۔"" وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کچھ کا رن جو مشکلات سے دوچار تھا اب گجرات کی ترقی کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے 25 سال قبل گجرات کی ترقی کا جو عزم کیا تھا وہ اب پورا ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ بطور وزیر اعلیٰ، انہوں نے ماہی گیر برادری کے لیے بہبود، سیکورٹی، سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کے لیے ساگر کھیڑو اسکیم کا آغاز کیا تھا۔ ان کوششوں کی وجہ سے ریاست سے مچھلی کی برآمد میں سات گنا اضافہ ہوا۔ انہیں اپنے وزیر اعلیٰ کے دنوں میں ایک جاپانی وفد کے ساتھ ایک واقعہ یاد آیا جب وفد کے ارکان نے ماہی گیری کے اقدامات پر پریزنٹیشن روکنے کو کہا، کیونکہ وہ اسکرین پر مشہور سرمئی مچھلی کو دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکے اور چکھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے بتایا کہ سرمئی مچھلی اب جاپانی مارکیٹ میں مشہور ہے اور ہر سال خاطر خواہ برآمد کی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا ""ڈبل انجن والی حکومت نے ترقیاتی کاموں میں دگنی رفتار پیدا کی ہے"" ۔ آج ہی ماہی گیری کی تین بندرگاہوں پر کام شروع ہوا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ پہلی بار کسانوں، مویشی پروروں اور ساگر کھیڈو ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ اسکیم کی خدمات سے منسلک کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے بینک سے قرض حاصل کرنے کے عمل آسان ہو گیا ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا، ""اس کے نتیجے میں، 3.5 کروڑ مستفیدین ان خدمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔"" وزیر اعظم نے بتایا کہ اس اسکیم سے معاشرے کے غریب اور ضرورت مندوں افراد اپنے اور اپنے خاندان کا بہتر مستقبل بنانے کے لیے بااختیار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان مستفیدین کا سود معاف کر دیا جائے گا جنہوں نے اپنے قرضوں کی بروقت ادائیگی کی۔ وزیر اعظم نے کہا ""کسان کریڈٹ کارڈ کی وجہ سے زندگی کو بہت آسان ہو گئی ہے خاص طور پر ہمارے مویشی پروروں اور اور ماہی گیر برادری کے لیے""۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ""گزشتہ دو دہائیوں میں""، سمندری بندرگاہوں کی زبردست ترقی سے گجرات کے لیے خوشحالی کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اس ترقی کی وجہ سے گجرات کے لیے نئے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ ساگر مالا اسکیم پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیراعظم نے بتایا کہ حکومت نے نہ صرف سمندری بندرگاہوں کو ترقی دے کر بلکہ بندرگاہوں کی قیادت والی ترقی حاصل کر کے بھارت کے ساحلی علاقوں پر بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ""گجرات میں اس کی بنیاد پر بہت سے نئے پروجیکٹ شروع کیے ہیں۔"" وزیراعظم نے مزید کہا کہ ""جونا گڑھ کے علاوہ، نئی ساحلی شاہراہ پوربندر، جام نگر، دیو بھومی دوارکا، موربی سے وسطی اور جنوبی گجرات کے کئی اضلاع سے گزرے گی۔ جس سے گجرات کی پوری ساحلی پٹی کا رابطہ مضبوط ہو گا۔ وزیر اعظم نے ریاست کی ماؤں اور بہنوں کے زبردست کام کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ایک حفاظتی ڈھال بنتی ہیں۔ گزشتہ 8 سال میں خواتین کے زیر قیادت ترقی کے لیے مرکزی حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ماؤں اور بہنوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے خواتین کی صحت اور احترام میں اضافہ کرنے کی طرف اشارہ کیا اور اس کا سہرا سوچھ بھارت ابھیان کے تحت کروڑوں بیت الخلاء کی تعمیر کو دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اجولا یوجنا نہ صرف خواتین کا وقت بچا کر ان کی مدد کر رہی ہے بلکہ ان کی صحت ��ے ساتھ ساتھ پورے خاندان کی صحت کو بھی بہتر بنا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے پچھلی حکومتوں کے دور کو جھٹلا دیا جو ایک گاؤں میں پانی کے چند ہینڈ پمپ پہنچانے کے بعد جشن مناتے تھے اور کہا کہ ""آج آپ کا بیٹا ہر گھر میں پائپ سے پانی پہنچا رہا ہے۔"" پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے بتایا کہ حمل کے دوران ماؤں کو ہزاروں قسم کی مدد دی جا رہی ہے، تاکہ وہ غذائیت سے بھرپور کھانا کھا سکیں۔ ""ہماری حکومت پی ایم آواس یوجنا کے تحت جو گھر دے رہی ہے ان میں سے زیادہ تر خواتین کے نام پر ہیں""، انہوں نے مزید کہا کہ ""آج ہماری حکومت سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے گاؤں گاؤں میں خواتین کی صنعت کاری کو وسیع تر توسیع دے رہی ہے۔ ملک بھر میں 8 کروڑ سے زیادہ بہنیں سیلف ہیلپ گروپس سے وابستہ ہیں، جن میں سے لاکھوں کا تعلق گجرات سے ہے۔ اسی طرح کئی بہنیں مدرا یوجنا کے تحت پہلی بار کاروباری بنی ہیں۔ ملک کے نوجوانوں پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ 8 سالوں سے ہم نے گجرات سمیت ملک بھر میں نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ تعلیم سے لے کر روزگار اور خود روزگاری کے ہر شعبے میں نئے موقعے پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج حکومت نوجوانوں کی ہر قدم پر کاروباری مدد کر رہی ہے۔ دفاعی سامان کی نمائش 2022 کا ذکر کرتے ہوئے جس کا وزیر اعظم نے پہلے دن گاندھی نگر میں افتتاح کیا تھا، وزیر اعظم نے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب گجرات، ٹینک تیار کرے گا۔ وزیر اعظم نے تعلیم کے میدان میں ریاست کی طرف سے کی گئی پیش رفت پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 8 سال کے دوران ملک میں سینکڑوں یونیورسٹیاں کھلیں۔ گجرات میں اعلیٰ تعلیم کے کئی معیاری ادارے کھلنے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے گجراتی زبان میں نئے موقعے پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ڈیجیٹل ترقی سے بھی گجرات کے نوجوانوں کے لیے نئے موقعے پیدا ہو رہے ہیں۔ ’’ڈیجیٹل انڈیا نے گجرات کے نوجوانوں کو اپنی مختلف صلاحیتوں کو نکھارنے کے نئے موقعے فراہم کیے ہیں، اس سے روزگار کے نئے موقعے پیدا ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی مارکیٹ تک رسائی ہے۔ اور یہ سب کچھ کم قیمت میڈ ان انڈیا موبائل فونز اور سستے ڈیٹا کی سہولیات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔"" وزیر اعظم نے اشارہ دیا کہ بڑھتے ہوئے بنیادی ڈھانچہ سے سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں اب ایک سب سے بڑا روپ وے کام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کئی سال کے بعد اس سال اپریل میں کیشود ہوائی اڈے سے دوبارہ پروازیں شروع ہوئی ہیں۔ جب کیشود ایئرپورٹ مزید ترقی یافتہ ہو جائے گا، جب یہ کارگو کی سہولت بن جائے گا، تو یہاں سے ہمارے پھل، سبزیاں، مچھلی اور دیگر مصنوعات بھیجنا آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیشود ہوائی اڈے کی توسیع سے ملک اور دنیا کو یہاں کے ایسے تمام مقامات تک مزید رسائی ملے گی، یہاں کی سیاحت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ملک خلا، سائنس اور کھیل کے میدانوں میں قومی سطح کی کامیابیوں میں سے ایک کے طور پر مطمئن ہے، تاہم، وزیر اعظم نے گجرات اور اس کے لوگوں کی کامیابیوں کو بعض طبقوں کی طرف سے سیاست کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’کچھ سیاسی پارٹیوں نے گجرات کو گالی دینے کو اپنا سیاسی طریقہ بنا لیا ہے‘‘۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم گجراتیوں یا اس معاملے میں ملک کی کسی بھی ریاست کے لوگوں کی توہین کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ ہمیں ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے اور سردار پٹیل کے خوابوں کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے تعصب کو امید میں بدلنے اور ترقی کے ذریعے جھوٹ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ گجرات کا اتحاد اس کی طاقت ہے۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل، ارکان پارلیمنٹ جناب راجیش بھائی چوداسما اور جناب رمیش دھڑوک اور گجرات حکومت کے وزراء جناب رشیکیش پٹیل اور جناب دیوا بھائی مالم اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر وزیراعظم نے مسنگ رابطوں کی تعمیر کے ساتھ ساحلی شاہراہوں کی بہتری کے کام کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 13 اضلاع میں 270 کلومیٹر سے زیادہ شاہراہ پر کام کیا ہے ۔ وزیر اعظم دو واٹر سپلائی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے اور جوناگڑھ میں زرعی مصنوعات کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک گودام کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ پوربندر میں، وزیر اعظم نے شری کرشن رخشمنی مندر، مادھو پور کی مجموعی ترقی کے لیے سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے سیوریج اور واٹر سپلائی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور پوربندر ماہی پروری ہاربر میں صفائی ستھرائی اس کی دیکھ بھال کے کام کا بھی آغاز کیا ۔ گیر سومناتھ میں وزیر اعظم نے دو پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا جس میں مدھواڑ میں ایک ماہی گیری بندرگاہ کا فروغ بھی شامل ہے۔ ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔ =",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুজৰাটৰ জুনাগড়ত প্ৰায় ৩৫৮০ কোটি টকাৰ বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%D8%8C-%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%84-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D8%B4%D9%86-%D8%A8%D9%84%DA%88%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C-%E0%A6%AD%E0%A7%B1%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%B2-%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%B7%E0%A6%A3/,"مہاراشٹرکے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی ، وزیراعلیٰ جناب اودے ٹھاکرے جی ، نائب وزیراعلیٰ جناب اجیت پوارجی ، جناب اشوک جی ، اپوزیشن کے لیڈرجناب دیویندرفڑنویس جی ، یہاں موجود دیگر معزز شخصیات ، خواتین وحضرات ، آج وٹ پورنیمابھی ہے اور سنت کبیر کی جینتی بھی ہے ۔ سبھی اہل وطن کو میں بہت بہت مبارکباد دیتاہوں ۔ एका अतिशय चांगल्या कार्यक्रमासाठी, आपण आज सारे एकत्र आलो आहोत। स्वातंत्र्य-समरातिल, वीरांना समर्पित क्रांतिगाथा, ही वास्तु समर्पित करताना, मला, अतिशय आनंद होतो आहे। ساتھیو، مہاراشٹرکا یہ راج بھون گذشتہ دہائیوں میں کئی جمہوری واقعات کا گواہ رہاہے ۔ یہ ان سنکلپوں کابھی گواہ رہاہے جو آئین اور ملک کے مفاد میں یہاں حلف کے طورپرلئے گئے ۔ اب یہاں جل بھوشن بلڈنگ کا اورراج بھون میں قائم انقلابیوں سے متعلق گیلری کا افتتاح ہواہے ۔مجھے گورنر کی رہائش گاہ اور دفتر کے دوارپوجن میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا۔ یہ نئی عمارت مہاراشٹرکے سبھی لوگوں کے لئے ، مہاراشٹرکی گورننس کے لئے نئی توانائی دینے والا ہو ، اسی طرح گورنرصاحب نے کہاکہ یہ راج بھون نہیں ، لوک بھون ہے ، وہ صحیح معنوں میں عوام کے لئے ایک امید کی کرن بن کر ابھرے گا ، ایسامیرا مکمل یقین ہے ۔ اوراس اہم موقع کے لئے یہاں کے سبھی بھائی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ کرانتی گاتھا کے نرمان سے جڑے مورخ وکرم سمپت جی اوردوسرے سبھی ساتھیوں کا بھی میں استقبال کرتاہوں ۔ ساتھیو ، میں راج بھون میں پہلے بھی کئی بارآچکاہوں ۔ یہاں کئی بار قیام بھی ہواہے ،مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس عمارت کی اتنی قدیم تاریخ کو ، اس کے آرٹ کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں ، جدت پسندی کا ایک خاکہ اپنا یاہے اس میں مہاراشٹرکی عظیم روایت کے مطابق شوریہ ، آستھا، ادھیاتم اور جدوجہدآزادی میں اس مقام کے رول کے بھی دیدارہوتے ہیں۔ یہاں سے وہ جگہ زیادہ دورنہیں ہے ، جہاں سے پوجیہ باپونے بھارت چھوڑو تحریک کاآغاز کیاتھا ۔ اس بھون نے آزادی کے وقت غلامی کی علامت کواترتے اور ترنگے کو شان سے لہراتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اب جو یہ نئی تعمیر ہوئی ہے ، آزادی کے ہمارے انقلابیوں کو جو یہاں جگہ ملی ہے ، اس سے قوم پرستی کی بنیاد مزید مستحکم ہوگی ۔ ساتھیو، آج کی تقریب اس لئے بھی اہم ہے کہ کیونکہ ملک اپنی آزادی کے 75سال ، آزادی کا امرت مہوتسومنارہاہے ۔یہ وہ لمحہ ہے جب ملک کی آزادی ، ملک کی ترقی میں تعاون دینے والے ہرویر، ویرانگنا ،ہرسینانی ، ہرعظیم شخص ، ان کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے ۔مہاراشٹرنے تو کئی شعبوں میں ملک کو تحریک دی ہے ۔ اگرہم سماجی انقلاب کی بات کریں تو جگت گرو شری سنت تکارام مہاراج سے لے کر باباصاحب امبیڈکرتک سماجی مصلحین کی ایک انتہائی متمول وراثت ہے ۔ یہاں آنے سے پہلے میں دیہومیں تھا ، جہاں سنت تکارام شلا مند رکاافتتاح کا مجھے موقع ملا۔مہاراشٹرمیں سنت گیانیشور ، سنت نامدیو، سمرتھ رام داس ، سنت چوکھامیلہ جیسے سنتوں نے ملک کو قوت عطاکی ہے ۔ اگرسوراج کی بات کریں تو چھترپتی شیواجی مہاراج اور چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی آج بھی ہربھارتی میں قوم پرستی کے جذبے کو مزید قوت عطاکرتی ہے ۔ جب آزادی کی بات آتی ہے تو مہاراشٹرنے تو ایسے بے شمار ویرسینانی دیئے ، جنھوں نے اپنا سب کچھ جنگ آزادی میں قربان کردیا۔ آج دربارہال سے مجھے وسیع سمندرنظرآرہاہے ، توہمیں مجاہد آزادی ، ویرونائک دامودرساورکر جی کی شجاعت یادآتی ہے ۔ انھوں نے کیسے ہرتکلیف کو آزادی کے شعور میں بدل دیا ۔ وہ ہرنسل کو تحریک دینے والا ہے ۔ ساتھیو ، جب ہم بھارت کی آزادی کی بات کرتے ہیں ، توشعوری یاغیرشعوری طورپر اسے کچھ واقعات تک محدود کردیتے ہیں ۔جب کہ ہندوستان کی آزادی میں بے شمار لوگوں کا مجاہدہ اورریاضت شامل رہی ہے ۔ مقامی سطح پرواقع نے والے مختلف حادثات کا مجموعی اثرملک پرپڑا تھا۔ ذرائع الگ تھے لیکن سنکلپ ایک تھا۔ لوک مانیہ تلک نے اپنے ذرائع سے ، ان ہی کی ترغیب پانے والے چاپیکر بھائیوں اپنے طریقے سے آزادی کی راہ ہموارکی ۔ واسودیو بلونت فڑکے نے اپنی نوکری چھوڑ کر مسلح انقلاب کی راہ اپنائی ، تو وہیں میڈم بھیکا جی کامانے اپنی خوشحال زندگی کو ترک کرکے آزادی کی مشعل روشن کی ۔ ہمارے آج کے ترنگے کی تحریک کا جو ذریعہ ہے ، اس جھنڈے کے لئے باعث تحریک میڈم کاما اور شیام جی کرشن ورما جیسے مجاہدین آزادی ہی تھے ۔ سماجی ، خاندانی ، نظریاتی کردار چاہے جو بھی رہے ہوں ، تحریک کا مقام چاہے ملک وبیرون ملک کہیں بھی رہاہو ،مقصد ایک تھا –ہندوستان کی مکمل آزادی ۔ ساتھیو، آزادی کی جو ہماری تحریک تھی ، اس کی شکل مقامی بھی تھی اور گلوبل بھی تھی ۔جیسے غدرپارٹی ، دل سے قومی بھی تھی ، لیکن اسکیل میں گلوبل تھی ۔ شیام جی کرشن ورما کا انڈیا ہاؤس ، لندن میں ہندوستانیوں کے اجتماع کا مقام تھا ، لیکن مشن ہندوستان کی آزادی تھی ۔ نیتا جی کی قیادت میں آزاد ہند سرکار ہندوستانی مفادات کے تئیں وقف تھی ، لیکن اس کادائرہ گلوبل تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی نے دنیا کے کئی ملکوں کی آزادی کی تحریکوں کو تحریک دی ۔ لوکل سے گلوبل کایہی جذبہ ہمارے آتم نربھربھارت ابھیان کی بھی طاقت ہے ۔ ہندوستان کے لوکل کو آتم نربھرابھیان سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پرشناخت دی جارہی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ انقلابیوں کی گیلری سے ، یہاں آنے والوں کو قومی سنکلپوں کوثابت کرنے کی نئی تحریک ملے گی ، ملک کے لئے کرگذرنے کا جذبہ پیداہوگا۔ ساتھیو، گذشتہ سات دہائیوں مہاراشٹرنے ملک کی ترقی میں ہمیشہ سے اہم رول اداکیاہے ۔ ممبئی تو سپنوں کا شہرہی ہے ، مہاراشٹر کے ایسےکئی شہرہیں ، جو 21ویں صدی میں ملک کے گروتھ سینٹرہونے والے ہیں ۔ اسی سوچ کے ساتھ ایک طرف ممبئی کے انفرااسٹرکچرکو جدید بنایاجارہاہے توساتھ ہی باقی شہروں میں بھی جدید سہولیات بڑھائی جارہی ہیں ۔ آج جب ہم ممبئی لوکل میں غیرمعمولی اصلاح کو دیکھتے ہیں ، جب کئی شہروں میں میٹرونیٹ ورک کی توسیع کودیکھتے ہیں ، جب مہاراشٹرکے کونے کونے کو جدید نیشنل ہائی وے سے جڑے ہوئے دیکھتے ہیں تو ترقی کے مثبت ہونے کا احساس ہوتاہے ۔ ہم سبھی یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کہ سفرمیں پیچھے رہ گئے آدی واسی ضلعوں میں بھی آج ترقی کی نئی آرزو پیداہوئی ہے ۔ ساتھیو، آزادی کے اس امرت کال میں ہم سبھی کو یہ یقینی بناناہے کہ ہم جو بھی کام کررہے ہیں ، جو بھی ہمارا رول ہے ، وہ ہمارے قومی عزم کو مضبوط کرے ۔یہی بھارت کی تیز رفتارترقی کا راستہ ہے ۔ اس لئے ملک کی ترقی میں سب کا پریاس کی بات کومیں پھردوہراناچاہتاہوں ۔ ہمیں ایک قوم کی شکل میں باہمی تعاون اورکوآپریشن کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ ایک دوسرے کو قوت عطاکرنا ہے ۔ اسی جذبے کے ساتھ ایک بارپھر جل بھوشن بھون اورانقلابیوں کی گیلری کے لئے بھی میں سب کو مبارکباد دیتاہوں ۔ اوراب دیکھیں شاید دنیا کے لوگ ہمارامذاق اڑائیں گے کہ راج بھون ، 75سال سے یہاں سرگرمی جاری ہے ، لیکن نیچے بنکر ہے وہ سات دہائی تک کسی کو پتہ نہیں چلا۔ یعنی ہم کتنے لاپرواہ ہیں ، ہماری اپنی وراثت کے لئے ہم کتنے لاپرواہ ہیں ۔کھوج ۔کھوج کر کے ہمارے تاریخ کے صفحات کو سمجھنا کو ، ملک کو اس سمت میں آزادی کا امرت مہوتسوایک وجہ بنے ۔ مجھے یاد ہے ابھی ہم نے بھی شیام جی کرشن ورما کی تصویر میں بھی دیکھا ، آپ حیران ہوں گے ہم نے کس طرح سے ملک میں فیصلے کئے ہیں ۔ شیام جی کرشن ورماجی کا انتقال 1930میں ہوا ۔ 1930میں ان کا انتقال ہوااورانھوں نے خواہش ظاہرکی تھی کہ میری استھی سنبھال کر رکھی جائے اورجب ہندوستان آزاد ہو تو آزادہندوستان کی اس سرزمین پر میری استھی لے جائی جائے ۔ 1930کا واقعہ ، 100سال ہونے کے آئے ہیں ، سن کر کے آپ کے بھی رونگٹے کھڑے ہورہے ہیں ۔لیکن میرے ملک کی بدقسمتی دیکھئے ، 1930میں ملک کے لئے مرمٹنے والے شخص ، جس کی واحد خواہش تھی کہ آزادبھارت کی سرزمین پر میری استھی جائے ، ساتھ ہی آزادی کا جومیرا خواب ہے میں نہیں میری استھی محسوس کرے ، اور کوئی توقع نہیں تھی ۔ 15اگست 1947کے دوسرے دن یہ کام ہوناچاہیئے تھا کہ نہیں ہونا چاہیئے تھا ؟نہیں ہوا ۔اور شاید ایشورکا ہی کوئی سنکیت ہوگا۔ 2003میں ، 73سال کے بعد ان استھیوں کو ہندوستان لانے کا موقع مجھے ملا ہے ۔ بھارت ماں کے ایک لعل کی استھی انتظارکرتی رہی دوستو، جس کو کندھے پراٹھاکرمجھے لانے کا موقع ملا، اور یہی ممبئی کے ایئرپورٹ پرمیں لے کر اتراتھا یہاں ۔ اوریہاں سے ویرانجلی یاترالے کر کے میں گجرات گیاتھا۔ اور کچھ ، مانڈوی ان کی جائے پیدائش ، وہاں آج ویسا ہی انڈیاہاؤس بنایاہے جیسا لندن میں تھا۔ اورہزاروں کی تعداد میں اسٹوڈینٹس وہاں جاتے ہیں ، انقلابیوں کی اس داستان کو محسوس کرتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آج جو بنکر کسی کو پتہ تک نہیں تھا ، جس بنکر کے اندروہ سامان رکھاگیاتھا ، جو کبھی ہندوستان کے انقلابیوں کی جان لینے کے لئے کام آنے والا تھا ، اسی بنکر میں آج میرے انقلابیوں کا نام ، یہ جذبہ ہوناچاہیئے ، اہل وطن میں بھی ۔ اورتبھی جاکر کے ملک کی نوجوان نسل کو تحریک ملتی ہے ۔اوراس لئے راج بھون کی یہ کوشش انتہائی قابل ستائش ہے ۔ میں خاص کرکے محکمہ تعلیم کے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ ہمارے اسٹوڈینٹس کو ہم وہاں تو لے جاتے ہیں سال میں ایک بار ، دوبار ٹورکریں گے توکوئی بڑے بڑے پکنک پلیس پر لے جائیں گے ۔ تھوڑی عادت بنادیں ، کبھی انڈمان ونکوبار جاکرکے اس جیل کو دیکھیں جہاں ویرساورکرنے اپنی جوانی صرف کی تھی ۔ کبھی اس بنکر میں آکرکے دیکھیں کہ کیسے کیسے ویر پرشوں نے ملک کے لئے اپنی زندگی قربان کردی تھی ۔ بے شمارلوگوں نے اس آزادی کے لئے جنگ کی ہے ۔ اوریہ ملک ایسا ہے ہزار بارہ سوسال کی غلامی کے دورمیں کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جب ہندوستان کے کسی نہ کسی کونے میں آزادی کی شمع نہ روشن ہوجی ۔1200سال تک یہ ایک دماغ ، یہ مزاج اس ملک کے لوگوں کا ہے ۔ ہمیں اسے جاننا ہے ، پہچاننا ہے اور اس کو جینے کی پھرسے ایک کوشش کرنی ہے اورہم کرسکتے ہیں ۔ ساتھیو، اس لئے آج کا یہ موقع میں کئی طرح سے اہم مانتاہوں ۔ میں چاہتاہوں کہ یہ علاقہ حقیقی معنوں میں ملک کی نوجوان نسل کی تحریک کا مرکز بنے ۔میں اس کوشش کے لئے سب کو مبارکباددیتے ہوئے آپ سب کا شکریہ اداکرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتاہوں ۔",মুম্বাইৰ ৰাজ ভৱনত জল ভূষণ বিল্ডিং আৰু গেলেৰী অৱ ৰিভল্যুচনেৰীছ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%AA%D9%86%D8%B8%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%DA%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D9%86%DB%92-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-%E0%A6%A1/,نئی دلّی ، 20 مارچ؍ عالمی تجارتی تنظیم کے ڈائرکٹرجنرل جناب رابرٹو ازیویدونے گزشتہ روز نئی دلّی میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ موصو ف عالمی تجارتی تنظیم کے وزراء کی غیر رسمی میٹنگ میں شرکت کے لئے نئی دلّی آئے ہوئے ہیں ۔ڈائرکٹر جنرل موصوف نے کثیرجہتی تجارتی طریقہ کار کے نئے راستے تلاش کرنے کے لئے ہندوستانی شروعات کے لئے حکومت ہند کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم جناب مودی نے اس بات پر زوردیا کہ ہندوستان کثیر جہتی تجارتی طریقہ کار کا زبر دست حمایتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے تعلق سے اسے عالمی تجارتی تنظیم کی سرگرمیوں کی ترجیحات میں شامل کرنا بہت ضروری ہے ۔ترقی پذیر ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت اورعالم گیریت میں مزیدشفایت کے لئے کوششوں کرنے کے لئے عالمی تجارتی تنظیم کے ڈائرکٹرجنرل پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے عالمی تجارتی تنظیم کے وزراء کی غیر رسمی میٹنگ کی کامیابی کے ��ئے نیک خواہشات پیش کی ہیں ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ ডব্লিউটিঅ’ৰ সঞ্চালক প্ৰধানৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%8B%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80/,نمستے !ونکم! آپ سب کو نمسکار! انڈونیشیا آنے کے بعد بالی آنے کے بعد ہر ہندوستانی کو ایک الگ ہی تجربہ ہوتا ہے۔ ایک الگ ہی احساس ہوتا ہے اور میں بھی وہی وائبریشن فیل کر رہا ہوں۔ جس جگہ کے ساتھ ہندوستان کا ہزاروں سال کا رشتہ رہا ہو، اور جس کے بارے میں سنتے رہتے ہو کہ ہزاروں سال میں بہت سی نسلیں آئیں، چلی گئیں لیکن اس روایت کو کبھی اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ہزاروں سال سے اس روایت کو جینا ، نسل در نسل اس روایت کو جاننا اور ہر پل اس روایت سے جڑے رہنا وہاں کے لوگ وہ دھرتی ایک الگ ہی لطف دیتی ہے۔ ایک الگ ہی مزے کا تجربہ کراتی ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، آج جس وقت میں آپ سے با ت کررہا ہوں، ہم یہاں بالی میں بیٹھے ہیں، بالی کی روایات کے گیت گا رہے ہیں، اسی وقت جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، اسی پل بالی سے ڈیڑھ ہزار کلو میٹر دور ہندوستان کے کٹک شہر میں مہا ندی کے کنارے بالی سفر کا مہوتسو چل رہا ہے، جسے بالی جاترا کہتے ہیں اور یہ جاترا ہے کیا؟ یہ مہوتسو ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان ہزاروں سال کے تجارتی رشتوں کو سلیبریٹ کرتا ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ اس بار کی بالی جاترا کے فوٹو انٹرنیٹ پر دیکھیں گے تو انہیں واقعی فخر ہوگا، لطف آئے گا۔ جوش سے بھر جائیں گے۔ اب کئی سالوں کے بعد درمیان میں کورونا کے سبب جو پریشانیاں آئیں اس کے سبب کچھ رکاوٹیں آئی تھیں اور جب کئی سالوں بعد بالی جاترا یہ مہوتسو اڈیشہ میں بہت ہی بڑے پیمانے پر عقیدے کے ساتھ جوش کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی حصہ داری کے ساتھ بڑے پیمانے پر شرکت کے ساتھ ابھی منایا جا رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہاں کے لوگ یہ بالی جاترا کی یاد میں ایک مقابلہ چل رہا ہے۔ کہتے ہیں کاغذ کی ناؤ بناکر بہائے جائیں گے اور وہ ورلڈ ریکارڈ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اڈیشہ میں آج جو لوگ جمع ہوئے ہیں ان کا جسم وہاں ہے لیکن دل بالی میں ہے۔ آپ لوگوں کے درمیان میں ہے۔ ساتھیو! ہم لوگ اکثر بات چیت میں کہتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹی دنیا ہے۔ ہندوستان اور انڈونیشیا کے تعلقات کو دیکھیں تو یہ لفظ نہیں ہے، یہ ہمیں سچائی نظر آتی ہے۔ سمندر کی بڑی بڑی لہروں نے ہندوستان اور انڈونیشیا کے رشتوں کو لہروں کی طرح ہی امنگ سے بھرا ہے، زندہ رکھا ہے۔ کبھی تھکان محسوس نہیں ہوئی، وہ لہریں جیسے چلتی رہتی ہیں، ہمارا رشتہ ویسا ہی زندہ رہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب کلنگ میدانگ جیسے سامراجیوں کے توسط سے ہندوستان کا درشن بھارت کی ثقافت انڈونیشیا کے سرزمین تک پہنچی۔ آج ایک یہ وقت ہے جب ہندوستان اور انڈونیشیا 21 ویں صدی میں ترقی کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کام کر رہے ہیں۔ انڈونیشیا کی سرزمین نے ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کو پیار سے قبول کیا اور انہیں اپنے سماج میں شامل کیا، اسی وجہ سے آج آپ سبھی انڈونیشیا کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ہمارے بہت سے سندھی خاندان یہاں رہتے ہیں اور ہندوستان سے آئے ہوئے ہمارے سندھی کنبے کے بھائی بہنوں نے یہاں کے کپڑے سیکٹر م��ں، کھیلوں کے سامان کے سیکٹر میں اتنا ہی نہیں بلکہ فلم اور ٹی وی انڈسٹری میں بھی کافی کچھ تعاون کیا ہے۔ گجرات سے جڑے ہوئے کافی لوگ یہاں ہیں، قیمتی جواہرا، ہیروں یہاں تک کے کانوں، کھیتی ، کسانی، اس میں بھی وہ لوگ نظر آتے ہیں۔ ہندوستان سے یہاں آئے ہوئے انجینئرس، چارٹر اکاؤنٹنٹس، پیشہ ور افراد انڈونیشیا کی ترقی میں تعاون دے رہے ہیں۔ کتنے ہی تمل زبان کے کلا کار یہاں کی ثقافت، تہذیب، یہاں کے آرٹس کو اور خوشحال کرنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب تین چار سال پہلے انڈونیشیا کے بپا نیو مین نورتا کو ہندوستان نے پدم شری سے نوازا تھا، اس وقت ہندوستان کا راشٹرپتی بھون تالیوں کی گڑگڑاہت سے گونجتا ہی رہتا تھا۔ ان کی بنائی کلاکیرتی گرڈن ویشنو کین کانا کا کوئی شاید ہندوستانی ایسا نہیں ہوگا جو اس کی تعریف نہ کرتا ہو۔ ایسے انڈونیشیا کے ویون دیبیا اور اگوس اندرا ادینا جی کو پدم اعزاز ملا تھا، تو مجھے فیصلہ کرنے سے پہلے ان کے بارے میں کافی کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اگوس اندر ادینا جی سے آپ پوری طرح سے واقف ہیں، ان سے اور آج یہاں موجود بھی ہیں، وہ بالی میں مہاتما گاندھی کے خیالات کو آگے بڑھانے کے لئے جی جان سے جٹے ہوئے ہیں۔ میں نے کہیں ان کا ایک انٹرویو دیکھا تھا۔ اس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی اتیتھی دیو بھووا کی ہے یعنی اتیتھی دیوو بھوو یہ جذبہ جو ہے، یہ ہر ہندوستانی کی رگوں میں ہے۔ اپنائیت کا یہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔ مجھے انٹرویو پڑھ کر اچھا لگا لیکن ایک بات اور بھی بتانی چاہئے کہ اپنائیت کے موزوں میں ہندوستان کی تعریف ہورہی ہوگی لیکن انڈونیشیا کے لوگوں کی بھی اپنائیت کم نہیں ہے۔ جب میں یہاں پچھلی بار جکارتا میں آیا تھا تو انڈونیشیا کے لوگوں نے پیار اور محبت دیا، اس میں اپنا پن کیا کچھ نہیں تھا۔ اور مجھے یاد ہے کہ محسوس بھی کیا تھا، اتنی عزت ، اتنی محبت، احترام، اپنا پن اور مجھے یاد کہ صدر جوکو ویڈوڈو جی کے ساتھ پتنگ اڑانے میں مجھے مزہ آیا تھا، ہم دونوں پتنگ اڑانے چلے گئے تھے۔ وہ غیر معمولی تھا۔ اور میری تو گجرات میں سنگ کرانتی پر پتنگ اڑانے کی بڑی ٹریننگ رہی ہے اور مجھے پتہ ہے یہاں انڈونیشیا میں بھی سنگ کرانتی پر خوب پتنگ اڑائی جاتی ہیں اور ایسا نہیں کہ ہندوستان اور انڈونیشیا کا ساتھ صرف سکھ کا ہے۔ اچھا ہے تب ناطہ ہے، ایسا نہیں ہے۔ ہم سکھ دکھ کے ساتھی ہیں، اگر سکھ میں ساتھی تو ہم دکھ میں بھی اتنے ہی ساتھی ہیں۔ ہم سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے سکھ دکھ کو بانٹنے والے لوگ ہیں۔ جب 2018 میں انڈونیشیا میں اتنا بڑا زلزلہ آیا تھا، تو ہندوستان نے فورا آپریشن سمندر میتری شروع کیا تھا۔ اس لئے ہی اس سال میں جکارتا آیا تھا۔ اور میں ایک بات کہی تھی، میں نے کہا کہ ہندوستان اور انڈونیشیا میں 90 ناٹیکل میل کا فاصلہ بھلے ہی ہو لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ 90 نوٹیکل میل دور نہیں ہیں، ہم 90 نوٹیکل میل پاس ہیں۔ ساتھیو! زندگی کی ڈگر پر ، ہر لمحہ میں ایسا کتنا کچھ ہے، جسے ہندوستان اور انڈونیشیا نے مل کر کے اب تک سہج کر رکھا ہے۔ بالی کی یہ سرزمین مہا رشی مارکنڈے اور مہا رشی اگست کے تب سے مقدس ہے۔ ہندوستان میں اگر ہمالیہ ہے تو بالی میں اگونگ پہاڑ ہے۔ ہندوستان میں اگر گنگا ہے تو بالی میں تیرتھ گنگا ہے۔ ہم بھی ہندوستان میں ہر مقدس کام کا شری گنیش کرتے ہیں، یہاں بھی شری گنیش گھر گھر براج مان ہیں۔ عام مقامات پر شبھتا پھیلا رہے ہیں۔ پورنیما کا برت، اکادشی کی مہیما، تریکال سندھیا کے ذریعہ سوریہ اپاسنا کی پرمپرا، ماں سروستی کے روپ میں علم کی ارادھنا، انیک چیزیں، ہم کہہ سکتے ہیں، ایسی بہت سی باتیں ہیں جو ہمیں جوڑے رکھتی ہیں اور جوڑتی رہتی ہیں۔ بالی کا جن جن مہا بھارت کی گاتھاؤں کے ساتھ بڑا ہوتا ہے۔اور میں تو دوارکا دھیش بھگوان کرشن کی دھرتی گجرات سے پلا بڑھا ہوں، میری تو زندگی وہیں بیتی ہوئی ہے، بالی کے لوگوں کی جیسی آستھا مہا بھارت کے لئے ہے، بھارت میں لوگوں کی ویسا لگاؤ بالی کے لوگوں کے لئے ہے۔ آپ یہاں پر بھگوان ویشنو اور بھگوان رام کی آرادھنا کرتے ہیں اور ہم جب ہندوستان میں بھگوان رام کی جنم بھومی پر شاندار رام مندر کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو انڈونیشیا کی رامائن روایت کو بھی فخر سے یاد کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے جب ہندوستان میں رامائن فیسٹول کا اہتمام ہوا تھا تو انڈونیشیا کے بھی کئی فنکار یہاں سے کئی فنکار بھارت آئے تھے اور احمد آباد میں، حیدر آباد میں، لکھنو میں، متعدد شہروں میں وہ اپنا پروگرام کرتے کرتے اجودھیا آئے تھے۔ ان کا آخری اختتامی پروگرام اجودھیا میں ہوا تھا اور بہت واہ واہی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں جہاں گئے، اخبار بھرے پڑے رہتے تھے۔ بھائیوں اور بہنو! بالی میں ایسا شاہد ہی کوئی شخص ہوگا، جس کی خواہش نہیں ہوگی کہ اپنی زندگی میں ایک بار اجودھیا یا دوارکا کے درشن نہ کرے، ایسا شاید کوئی بھی انسان نہیں ہوگا۔ ہندوستان میں بھی لوگ پرمبن مندر اور گروویشنو کنکانا کی خوبصورت اور شاندار پرتیما کے درشن کرنے کے لئے بہت ہی بے چین رہتے ہیں۔ کورونا دور سے پہلے ایک سال میں ہی پان لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کا اکیلے بالی آنا ہی اس کی گواہی دیتا ہے۔ ساتھیو! جب وراثت مشترکہ ہوتی ہے، جب انسانیت کے تئیں اعتقاد ایک جیسا ہوتا ہے، تو ترقی کے لئے بھی ایک جیسے راستے بنتے جاتے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے 15 اگست کو ہندوستان نے اپنی آزادی کے 75 سال پورے کئے ہیں۔ انڈونیشیا کا آزادی کا دن بھارت کی آزادی کے دن کے دو دن بعد 17 اگست کو آتا ہے۔ لیکن انڈونیشیا کو ہندوستان سے دو سال پہلے آزاد ہونے کا موقع ملا تھا۔ انڈونیشیا سے سیکھنے کے لئے ہندوستان کے پاس بہت کچھ ہے اور اپنی 75 سالوں کی ترقی کے سفر سے ہندوستان کے پاس بھی انڈونیشیا کو دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔ بھارت کا ٹیلنٹ، بھارت کی ٹیکنالوجی، بھارت کا انوویشن، بھارت کی انڈسٹری آن ساری باتوں نے دنیا میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ آج دنیا کی بے شمار کمپنیاں ایسی ہیں، کئی بڑی کمپنیای ایسی ہیں جس کے سی ای او ہندوستانی نژاد کے لوگ ہیں۔ آج دنیا میں جتنی یونیکورن بنتے ہیں، نہ 10 میں سے ایک یونیکورن بھارت کا ہوتا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کی سب سے تیز ابھرتی ہوئی بڑی معیشت ہے۔ آج ہندوستان ڈیجیٹل لین دین میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ آج ہندوستان عالمی فن ٹیک کے معاملے میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ آ ج ہندوستان آئی ٹی بی پی این کے لئے آؤٹ سورسنگ میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ آج ہندوستان اسمارٹ فون ڈیٹا کنزمشن میں دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ آج ہندوستان کتنی دوائیوں کی سپلائیوں میں، بہت سی ویکسین کی مینو فیکچرنگ میں دنیا نمبر ایک پر ہے۔ ساتھیو! 2014 سے پہلے اور 2014 کے بعد ہندوستان میں بہت بڑا فرق جو ہے، وہ جو بہت بڑا فرق ہے وہ مودی نہیں ہے، وہ بہت بڑا فرق ہے اسپیڈ اور اسکل میں۔ آج ہندوستان غیر معمولی رفتار سے کام کر رہا ہے اور غیر متوقع پیمانے پر کام کر رہا ہے۔ جب ہندوستان چھوٹا سوچتا ہی نہیں ہے، اسٹیچو بنائے گا تو دنیا میں سب سے بڑ، اسٹیڈیم میں بنائے گا تو دنیا میں سب سے بڑا۔ 2014 کے بعد سے ہندوستان نے 230 ملین سے زیادہ بینک اکاؤنٹ کھولے ہیں۔ بینک میں کھاتے کھولے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ کی کل آبادی جتنی ہے، اتنے ہم نے بینک کھاتے کھولے ہیں۔ 2014 کے بعد سے ہندوستان میں تقریبا 3 کروڑ غریب شہریوں کے لئے مفت گھر بنائے ہیں اور گھر ایسے نہیں بنتا ہے، جب گھر مل جاتا ہے نا، تو انسان راتوں رات لکھ پتی بن جاتا ہے اور جب میں تین کروڑ کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسٹریلیا کے ہر کنبے کو نہیں آسٹریلیا کے ہر شہری کو گھر مل جائے،اتنے گھر بنائے ہیں۔ پچھلے سات آٹھ سال میں ہندوستان نے 55 ہزار کلو میٹر قومی شاہرائیں بنائیں ہیں۔ یعنی اسکیل بتا رہا ہوں، میں پوری زمین کے لگ بھگ ڈیڑھ کر لگانے کے برابر ہے۔ آج ہندوستان آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت جتنے لوگوں کو پانچ لاکھ روپے تک کی مفت علاج کی سہولت دے رہا ہے، پانچ لاکھ روپے تک اگر اس کا میڈیکل بل ایک سال تک بنتا ہے تو ذمہ داری سرکار اٹھاتی ہے۔ اس کا فائدہ کتنے لوگوں کو ملتا ہے، پانچ لاکھ روپے تک کی میڈیکل سہولت ، جو ملتی ہے وہ پورے یورپی یونین کی کل آبادی سے زیادہ لوگوں کو ملتی ہے۔ کورونا کے دور میں ہندوستان نے جتنی ویکسین ڈوز اپنے شہریوں کو لگائی اور مفت میں لگائی، وہ جو ویکسین ڈوز ہے نا، اس کی اگر میں تعداد کا حساب لگاؤں تو امریکہ اور یورپی یونین ان دونوں کی کل آبادی جو ہے ، اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ ڈوز ہم نے ہندوستان میں لگائے۔ یہ جب سنتے ہیں تو آپ کا سینہ چوڑا ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا۔ آپ کو فخر ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ہے، آپ کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ہے اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ بھارت بدل رہا ہے۔ ساتھیو! آج کا بھارت اپنی وراثت پر فخر محسوس کرتے ہوئے اپنی وراثت کو خوشحال بناتے ہوئے جڑوں سے جڑے رہ کر آسمان چھونے کے مقصد کے ساتھ ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے مقصد کو لے کر اب نکل پڑا ہے، لیکن ہندوستان کا یہ مقصد محض اپنے لئے نہیں ہے، ہم خود غرض لوگ نہیں ہیں، اور یہ ہمارے سنسکار نہیں ہیں۔21 ویں صدی میں آج دنیا کی ہندوستان سے امیدیں ہیں، جو امیدیں ہیں، بھارت اسے اپنی ایک ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسے ایک ذمہ داری کی شکل میں دیکھتا ہے اور ہم دنیا کی بھلائی کے لئے اپنے آپ کو آگے بڑھانے کے لئے مکم ہیں، عہد بند ہیں۔ آج اپنی ترقی کے لئے بھارت جب امرت کال کا روڈ میپ تیار کرتا ہے ، تو اس میں دنیا کی معاشی ، سیاسی امیدیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ آج جب بھارت آتم نربھر بھارت کا ویژن سامنے رکھتا ہے تو اس میں عالمی خوبی کا جذبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھارت نے ایک سورج ایک دنیا ایک گرڈ کا منتر دیا ہے۔ دنیا کے صحت ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لئے بھارت نے ون ارتھ- ون ہیلتھ یعنی ایک کرہ ارض- ایک صحت، اس کا ابھیان چلایا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی جیسے چیلنج سے نمٹنے کے لئے اور جو بحرالکاہل خطوں میں ہوتی ہے، ان کے لئے تو بھارت ایک نعمت کے طور پر کام کر رہا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی کی جو پریشانی ہے، اس سے نمٹنے کے لئے بھارت نے دنیا کو مشن لائف کا حل دیا ہے، مشن لائف یعنی ماحولیات کے طرز زندگی مشن لائف یعنی کرہ ارض کے ہر فرد کے ذریعہ ایسی طرز زندگی کو اپنایا جانا، جو آب وہوا کے مطابق ہو، اور جو آب وہوا کی تبدیلی کے چیلنج سے ہر وقت نمٹی ہو، آج جب پوری دنیا ماحول دوست اور صحت کی مجموعی دیکھ بھال کی طرف راغب ہو رہی ہے، تو بھارت کا یوگ ہمارا آیور وید یہ پورے بنی نوع انسان کے لئے تحفہ ہے۔ اور ساتھیوں جب آیوروید کی بات آئی ہے، تو مجھے بھارت انڈونیشیا کے ایک اور رابطے کے کے بارے میں ذہن میں آرہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا، تو گجرات آیور ویدک یونیورسٹی اور یہاں کی یونیورسٹیز ہندو انڈونیشیا کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کے کچھ ہی برس بعد یہاں کی اس یونیورسٹی میں آیور وید اسپتال بھی قائم ہو ا تھا ساتھیو! وسودیو کٹم بکم ،یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے۔ بھارت کا یہی جذبہ، یہی روایت دنیا کے بھلائی کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ کورونا کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت نے دوائیوں سے لے کر ویکسین تک ضروری سازو سامان کے لئے آتم نربھر تا یعنی خود کفالت حاصل کی اور اس کا فائدہ پوری دنیا کو ملا۔ بھارت کی اہلیت نے کتنے ہی ملکوں کے لئے ایک حفاظتی گھیرے یعنی سرکشا کوچ کا کام کیا ہے۔ انڈونیشیا جیسے ہمارے ہم سایہ اور دوست ملک کے لئے ہم خاص طور سے کندھے سے کندھا مل کر جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آج بھارت خلاء کے شعبے میں دنیا کی ایک بڑی طاقت کی شکل میں ابھر ر ہاہے، تو اس کا فائدہ خاص طور سے جنوب ایشیائی ملکوں کو مل رہا ہے۔ دفاع کے شعبے میں بھی ، جو بھارت صدیوں تک محض غیر ملکی در آمد پر انحصار کرتا تھا وہ آج اپنی صلاحیتیں بڑھا رہا ہے۔ برہموس میزائل کو یا تیجس جنگی طیارہ، ان کی کشش دنیا میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آج بھارت بڑے نشانے طے کر رہا ہے اور انہیں حاصل کرنے کے لئے بھی پوری محنت کر رہا ہے۔ سنکلپ سے سدھی کا یہی منتر آج 21 ویں صدی کے نئے بھارت کی تحریک بنا ہوا ہے، آج اس موقع پر میں آپ سب کو اگلی پرواسی بھارتیہ کانفرنس کے لئے بھی مدعو کرتا ہوں۔ جنوری کے مہینے میں 9 جنوری کو یہ پرو گرام ہوتا ہے۔ اس بار اس پروگرام کا انعقاد مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہوگا اور اندور وہ شہر ہے، جو پچھلے پانچ- چھ بار سے ملک کے سب سے صاف ستھرے شہروں میں نمبر ایک مقام پر ہے اور اس لئے آپ اندرو کے پرواسی بھارتیہ پروگرام سے منسلک ہوں، اپنی نجی کام کے لئے بھی ابھی سے تاریخ اس کے ساتھ ایڈجسٹ کیجئے۔ اور جب آپ اندور آئیں گے اس کے ایک دو دن کے بعد ہی احمدآباد میں پتنگ کا تہوار ہوتا ہے۔ انڈونیشیا والے پتنگ کے تہوار میں نہ جائیں ایسا ہوسکتا ہے کیا۔ اور جب آپ آئیں، اکیلے مت آئیں، اپنے ہی کنبے کو لے کر آئیں، کچھ انڈونیشا کے کنبوں کو ساتھ لے کر آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت اور انڈونیشیا کے رشتوں کو مضبوط کرنے میں آپ کا سرگرم تعاون مسلسل بنا رہے گا۔ آپ سب پوری محنت سے ، آپ کی اس کرم بھومی کی فلاح وبہبود کے لئے آپ اس کرم بھومی کے لئے جتنا زیادہ تعاون دے سکیں، دیتے ہی رہیں گے، یہ بھارت کی روایت ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے بوہرا سماج کے بہت سے ساتھی یہاں آئے ہیں اور یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ سیدنا صاحب کے ساتھ میرا نزدیکی رشتہ رہا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے، دنیا میں کہیں پر بھی جاؤ، کوئی ملے یا نہ ملے میرے بوہرا خاندان کے لوگ آئیں گے ہی۔ ساتھیو! آپ اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے، وقت نکال کر آئے اور جذبے اور لگن سے بھرے ہوئے ہیں، اور میں دیکھ رہا ہوں اڈیشہ میں بالی کے سفر میں جتنی امنگ ہے، اتنی ہی امنگ یہاں نظر آرہی ہے۔ مجھے آپ کے اس پیار کے لئے آپ کی اس محبت کے لئے بھارت کے تئیں آپ کی اس عقیدت کے لئے میں آپ کا دل ��ے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- ح ا – ق ر),ইণ্ডোনেছিয়াৰ বালিত ভাৰতীয় সমূদায়ৰ অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%AC%DB%8C-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%B3-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں سی ڈبلیو جی 2022 میں لان بالس میں گولڈ میڈل جیتنے پر لولی چوبے، پنکی سنگھ، نینمونی سیکیا اور روپا رانی ٹرکی کی ستائش کی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ”برمنگھم میں تاریخی جیت! ہندوستان کو لان بالس میں با وقار گولڈ حاصل کرنے کے لیے لولی چوبے، پنکی سنگھ، نینمونی سیکیا اور روپا رانی ٹرکی پر فخر ہے۔ ٹیم نے بڑی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی کامیابی بہت سے ہندوستانیوں کو لان بالس کی طرف راغب کرے گی۔“,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কমনৱেলথ গেমছৰ লন বলত সোণৰ পদক লাভ কৰাৰ বাবে লাভলী চৌবে, পিংকি সিং, নয়নমনি শইকীয়া আৰু ৰূপা ৰাণী তিৰ্কীক প্ৰশংসা কৰে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DA%A9%D9%88%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7-5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE-8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے راجکوٹ، گجرات میں آج تقریبا 5860 کروڑ روپے مالیت کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے انڈیا اربن ہاؤسنگ کنکلیو 2022 کا بھی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے تحت تعمیر کیے گئے 1100 سے زیادہ مکانات کو وقف کیا۔ وزیر اعظم کے ذریعہ وقف کیے جانے والے دیگر پروجیکٹوں میں پانی کی فراہمی کا منصوبہ ، موربی بلک پائپ لائن پروجیکٹ برہمنی-2 ڈیم سے نرمدا کینال پمپنگ اسٹیشن تک، ایک علاقائی سائنس سینٹر، فلائی اوور پل اور سڑک کے رابطے سے متعلق دیگر منصوبے شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے گجرات میں این ایچ ۔27 کے راجکوٹ-گونڈل-جیت پور سیکشن کو موجودہ چار لین سے چھ لین میں تبدیل کرنےکے کام کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے موربی، راجکوٹ، بوٹاڈ، جام نگر اور کچھ کے مختلف مقامات پر تقریباً 2950 کروڑ روپے کی جی آئی ڈی سی انڈسٹریل اسٹیٹس کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ دیگر پروجیکٹس جن کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے ان میں گڑھکا میں امول سے امداد یافتہ ڈیری پلانٹ، راجکوٹ میں ایک انڈور اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، دو واٹر سپلائی پروجیکٹس اور سڑکوں اور ریلوے سیکٹر میں دیگر پروجیکٹ شامل ہیں۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب نئی قراردادیں وصول کی جاتی ہیں اور نئے پروگرام شروع کئے جاتے ہیں۔ راجکوٹ سمیت کاٹھیاواڑ کی ترقی سے متعلق کچھ پروجیکٹ آج ایک ساتھ مکمل ہوچکے ہیں اور کچھ نئے پروجیکٹ شروع ہوئے ہیں۔ مربوط کاری، صنعت، پانی اور عوامی سہولیات سے متعلق یہ منصوبے یہاں کی زندگی کو آسان بنانے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے 6 مقامات میں سے، جولائٹ ہاؤس ��روجیکٹس کے لئے منتخب کئے گئے ہیں ، راجکوٹ بھی ایک مقام ہے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ تعمیر کیے گئے 1144 مکانات کو آج وقف کیا گیا۔ دیوالی سے پہلے جدید ٹیکنالوجی سے بنے بہترین مکانات راجکوٹ کے سینکڑوں غریب خاندانوں کے حوالے کرنے کی خوشی ہی کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خاص طور پر ان بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو ان گھروں کی مالکن بنی ہیں اور خواہش کرتا ہوں کہ اس دیوالی پر لکشمی آپ کے اس نئے گھر میں آباد ہو۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ گزشتہ 21 برسوں میں ایک ساتھ مل کر ہم نے خواب دیکھے ہیں، بہت سے قدم اٹھائے ہیں اور بہت سی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا: “راجکوٹ مجھے تعلیم دیتا رہا اور میں سیکھتا رہا۔ راجکوٹ میرا پہلا اسکول تھا”، انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ راجکوٹ بھی ایک ایسی جگہ تھی جہاں مہاتما گاندھی بھی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ میں آپ کا قرض کبھی نہیں چکا سکتا، وزیراعظم نے کہا کہ بحیثیت طالب علم ہماری کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت وہ ساتھی ہیں جو آج کے اسکول کالج میں پڑھ رہے ہیں، یا جو اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ وزیر اعظم نے راجکوٹ اور پوری ریاست میں امن و امان کی بہتر صورتحال کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا ’’جب میں نوجوان دوستوں کو رات گئے تک بغیر کسی خوف کے باہر گھومتے ، اپنی زندگی کے اہم کام کرتے دیکھتا ہوں ، تو مجھے بے حد اطمینان ہوتا ہے۔ اطمینان اس بات سے ملتا ہے کہ ہم نے مجرموں، مافیاؤں، فسادیوں، دہشت گردوں اور قبضہ گیروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دن رات صرف کیے اور ہماری کوششیں رائیگاں نہیں گئیں۔ اس امن اور ہم آہنگی کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جس کے ساتھ ہر والدین یہاں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں” ۔ وزیر اعظم نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا: “گزشتہ دہائیوں میں، ہماری مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہر گجراتی زیادہ سے زیادہ قابل اور باصلاحیت ہو، اس کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، جہاں اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہے، وہی حکومت کر رہی ہے۔ ہم ’’ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ترقی یافتہ گجرات‘‘ کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ جہاں ایک طرف، ہم نے متحرک گجرات مہم کے ذریعے صنعتوں اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا، وہیں دوسری طرف، ہم نے کرشی مہوتسو اور غریب کلیان میلوں کے ذریعے گاؤں اور غریبوں کو بااختیار بنانے کی پہل کی۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ جب غریبوں کو بااختیار بنایا جاتا ہے تو وہ غربت سے نکلنے کے تیز ی سے منزل تک لے جانے والے راستے نکالنے شروع کر دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ بنیادی سہولیات اور عزت کی زندگی کے بغیر غربت کے دائرے سے نکلنا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیت الخلا، بجلی، نلکے کا پانی، کھانا پکانے کی گیس اور انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی سے لیس گھر کی فراہمی کو غریبوں کے لیے یقینی بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح چونکہ خاندانوں کو تنگدستی کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک بیماری کافی ہوتی ہے، اسی لیے آیوشمان بھارت اور پی ایم جےاےوائی ۔ اے ایم جیسی اسکیمیں غریب خاندانوں کے لیے مفت معیاری علاج کو یقینی بنانے کی غرض سے لائی گئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’سابقہ حکومتیں غریبوں کی اس حالت کو، غریبوں کے جذبات کو نہیں سمجھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیوں پہلے دیا جانے والا غریبی ہٹاؤ، روٹی کپڑا مکاں کا نعرہ محض نعرہ ہی رہ گیا۔ نعرے لگائے گئے اور ووٹ حاصل کیے گئے اور خود غرضی کی گئی‘‘ ۔ و��یر اعظم نے بتایا کہ پچھلے 8 برسوں میں ملک کے دیہاتوں اور شہروں میں غریبوں کو 3 کروڑ سے زیادہ پکے گھر مہیا کرائے گئے ہیں۔ اس دوران گجرات کے شہروں میں غریبوں کے لیے 10 لاکھ پکے مکانات کی منظوری دی گئی ہے اور 7 لاکھ پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا “بھوپیندر بھائی اور ان کی ٹیم غریبوں کے لیے گھر بنانے میں قابل ستائش کام کر رہی ہے۔ نہ صرف غریب بلکہ ہم نے متوسط طبقے کے اپنے گھر کے خواب کو پورا کرنے کے لیے بھی پہلا قدم اٹھایا‘‘۔انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت نے گجرات میں متوسط طبقے کے لاکھوں خاندانوں کو اپنے گھر کے لیے تقریباً 11 ہزار کروڑ روپے دیے ہیں۔ یہی نہیں، ساتھی شہروں میں کام کے لیے آنے والے مزدوروں کو بھی کم کرائے پر بہتر مکان ملنا چاہیے۔ اس اسکیم پر تیزی سے کام جاری ہے۔ جناب مودی نے تبصرہ کیا کہ پچھلی حکومتوں نے غریبوں کے لیے مکانات ذمہ داری کے طور پر نہیں بلکہ ہمدردی حاصل کرنے کے لئے بنائے۔ ہم نے طریقے بدل دیے ۔ وزیراعظم نے بتایا کہ مکانات کے مکینوں کو اپنا گھر بنانے اور اسے جس طرح سے سجانا چاہتے ہیں اس پر مکمل اختیار اور آزادی دی گئی ہے۔ ‘‘ جناب مودی نے مزید کہا کہ’’غریبوں کے گھر کو بہتر بنانے کی ہماری مسلسل کوشش ہے‘‘ ۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ راجکوٹ کا لائٹ ہاؤس پروجیکٹ ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ اس کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ ملک کے مختلف حصوں سے بہت سارے لوگ راجکوٹ میں اس ماڈل کو دیکھنے آئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “آج، گجرات میں نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ 11 سو سے زیادہ گھر بنائے گئے ہیں، بلکہ یہ ان لاکھوں غریب خاندانوں کے لیے بھی بڑی خوشخبری ہے جو مستقبل میں پکے گھر حاصل کرنے والے ہیں۔” فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ راجکوٹ میں یہ جدید گھر ملک میں تیز رفتاری سے سستے گھر بنانے کی سمت میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ ہاؤسنگ سیکٹر میں ایک انقلابی تبدیلی لانے جا رہا ہے” ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حکومت نے ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دے کر اور ملک میں نئے سٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی کر کے اس قسم کی ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کے لیے ہمارے اپنے نوجوانوں کو تیار کرنے کے مقصد سے بھی پہل کی ہے۔ وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ سڑکوں، بازاروں، مالز اور پلازاؤوں کے علاوہ شہری زندگی کی ایک اور ذمہ داری بھی ہے۔ پہلی بار، ہماری حکومت نے ریہڑی پٹری والوں کی ذمہ داری کو سمجھا ہے۔ پہلی بار، ہم نے انہیں بینک سے منسلک کیا ہے۔ آج ان ساتھیوں کو سوانیدھی اسکیم کے ذریعے آسان قرض بھی مل رہے ہیں اور وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ آج آپ دیکھتے ہیں کہ یہ ریہڑی پٹری والے ڈیجیٹل لین دین کے ذریعے ڈیجیٹل انڈیا کو طاقت دے رہے ہیں۔ راجکوٹ میں ایم ایس ایم ا یز کی تعداد کاذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ شہر ایک صنعتی شہر اور ایم ایس ایم ا یز کے گڑھ کے طور پر بہت شہرت رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جس میں پمپس، مشینیں اور اوزار جیسے کوئی مواد استعمال نہ کیا گیا ہو جو راجکوٹ میں بنتے ہیں۔ فالکن پمپ، فیلڈ مارشل، اینجل پمپ، فلوٹیک انجینئرنگ، جل گنگا پمپ، سلور پمپ، روٹیک پمپ، سدھی انجینئرز، گجرات فورجنگ، اور ٹاپ لینڈ جیسی مثالیں دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ راجکوٹ کی یہ مصنوعات ملک او ر دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں ۔ انہوں ن�� کہا کہ”گزشتہ دو دہائیوں میں راجکوٹ سے انجینئرنگ سے متعلق چیزوں کی برآمد 5 ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔” انہوں نے کہا کہ کارخانوں کی تعداد دگنی سے بھی بڑھ گئی ہے اور مزدوروں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پورے ماحولیاتی نظام کی وجہ سے یہاں ہزاروں دوسرے لوگوں کو بھی روزگار ملا ہے۔ اسی طرح موربی نے بھی شاندار کام کیا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ موربی کی سیرامک ٹائلیں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “دنیا کی 13 فیصد سے زیادہ سفالی (مٹی سے تیار) مصنوعات صرف موربی میں تیار کی جاتی ہیں” ۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ موربی کو ایکسپورٹ ایکسیلنس کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ’’دیواریں ہوں، فرش ہوں، غسل خانے ہوں یا بیت الخلاء ہوں، وہ موربی کے بغیر نامکمل ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ موربی میں 15 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری سے ایک سیرامکس پارک بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ریاستی حکومت کی ترقی پسندانہ صنعتی پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے ا پنی بات کااختتام کیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ، جناب بھوپیندر پٹیل، ہاؤسنگ اور شہری امور کے مرکزی وزیر، جناب ہردیپ سنگھ پوری، ہاؤسنگ اور شہری امور کے مرکزی وزیر مملکت جناب کوشل کشور، گجرات کے سابق گورنر، شری وجو بھائی والا، سابق وزیر اعلیٰ اس موقع پر گجرات کے مسٹر وجے روپانی اور ممبران پارلیمنٹ، شری موہن بھائی کنڈیریا اور شری راما بھائی کماریا بھی موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم نے راجکوٹ، گجرات میں تقریبا 5860 کروڑ روپے کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اورانہیں قوم کے نام وقف کیا ۔ انہوں نے انڈیا اربن ہاؤسنگ کنکلیو 2022 کا بھی افتتاح کیا، جس میں ہندوستان میں مکانات سے متعلق مختلف پہلوؤں بشمول منصوبہ بندی، ڈیزائن، پالیسی، قواعد و ضوابط، عمل درآمد، زیادہ پائیداری اور شمولیت سمیت دیگر پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔ عوامی تقریب کے بعد وزیراعظم نے جدید تعمیراتی طریقوں سے متعلق ایک نمائش کا بھی افتتاح کیا۔ عوامی تقریب کے دوران، وزیر اعظم نے لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے تحت تعمیر کیے گئے 1100 سے زائد مکانات کو وقف کیا۔ ان گھروں کی چابیاں بھی مستحقین کے حوالے کی جائیں گی۔ انہوں نے پانی کی فراہمی کا ایک پروجیکٹ موربی-بلک پائپ لائن پروجیکٹ برہانی-2 ڈیم سے نرمدا کینال پمپنگ اسٹیشن تک ،بھی وقف کیا ۔ ان کے ذریعہ وقف کیے جانے والے دیگر پروجیکٹوں میں علاقائی سائنس سینٹر، فلائی اوور پل اور سڑک کے شعبے سے متعلق دیگر منصوبے شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے گجرات میں این ایچ 27 کے راجکوٹ-گونڈل-جیت پور سیکشن کے موجودہ چار لین کو چھ لین میں تبدیل کرنے کےکام کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے موربی، راجکوٹ، بوٹاڈ، جام نگر اور کچھ کے مختلف مقامات پر تقریباً 2950 کروڑ روپے کی جی آئی ڈی سی انڈسٹریل اسٹیٹس کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ دیگر پروجیکٹ جن کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے ان میں گڑھکا میں امول سے امداد یافتہ ڈیری پلانٹ، راجکوٹ میں ایک انڈور اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، دو واٹر سپلائی پروجیکٹس اور سڑکوں اور ریلوے سیکٹر میں دیگر پروجیکٹ شامل ہیں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুজৰাটৰ ৰাজকোটত প্ৰায় ৫৮৬০ কোটি টকা মূল্যৰ প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে আৰু ৰাষ্ট্ৰৰ প্ৰতি উৎসৰ্গা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84-%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%86%DA%A9%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو کے ذریعہ گواہاٹی سے میندی پتھار -گواہاٹی-شوکھووی اسپیشل کو جھنڈی دکھا کر رخصت کیے جانے پر مسرت کا اظہار کیا۔ بھارتی ریلوے کے ذریعہ ٹوئیٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران شمال مشرق میں رابطہ کاری کو عمیق بنانے کے لیے کی گئی مسلسل کوششیں ملاحظہ کی گئیں۔ اس سے خطہ کو، خصوصاً نوجوانوں کو مدد حاصل ہوگی۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উত্তৰ-পূবত ৰে’ল সংযোগ আৰু আন্তঃগাঁথনি শক্তিশালী কৰাৰপদক্ষেপক প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D9%88-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%89-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%AD%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0/,نئی دلّی ،17 جون؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گزشتہ روز یہا ں نئی دلّی میں وائی4 ڈی نیو انڈیا کانکلیو( اجتماع) سے خطاب کیا ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ قوم آج تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے ۔ بھارت آج دنیا بھر میں سب سے تیز رفتاراقتصادی ترقی کرنے والا ملک بن گیاہے ۔ وزیر اعظم نے ایک بین الاقوامی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ بھارت میں غربت میں ریکارڈ تخفیف رو نما ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صرف اپنا فعال کردار ادا کر سکتی ہے ، یہ نوجوان ہی ہیں جو نہ صرف دستیاب مواقع کا استعمال کر رہے ہیں ،بلکہ بذات خود نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نوجوانوں کی طمانیت اور قوت کی مانند بھارت بڑی تبدیلیاں عمل میں لا رہا ہے ۔ اس پس منظر میں انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران تین کروڑ بچوں کی ٹیکہ کاری کی گئی ، 1.75 لاکھ کلو میٹر دیہی سڑکوں کی تعمیر کی گئی ، ہر ایک گاؤں میں بجلی پہنچائی گئی ، اکتوبر ، 2017 سے 85 لاکھ گھروں کی برق کاری کی گئی ، غریبوں کے گھروں تک 4.65 کروڑ گیس کنکش پہنچائے گئے اورگزشتہ چار برسوں کے دوران ایک کروڑ سے زیادہ مکان غریبوں کے لئے تعمیر کئے گئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ سب اس وجہ سے ممکن ہو سکا کیونکہ بھارت کی 800ملین آبادی کی عمر 35 سال سے کم ہے ۔ وزیر اعظم نے ملک کے متعدد رہنماؤں کی مثال دی جنہوں نے انتہائی کمزور پس منظرسے عروج حاصل کیا ، اانہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ نئے بھارت کا نوجوان کیا چاہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیل شدہ ماحول صرف سیاست تک ہی محدود نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹیو سروسیز کے اعلیٰ عہدوں پر فائز متعدد نوجوان دیہی پس منظر یا چھوٹے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہیما داس ان جیسے اوردیگر نو جوان جو کہ ملک کے لئے کھیلوں کے میڈل لا رہے ہیں ، نئے بھارت کے نمائندہ ہیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ینگ انڈیا محسوس کرتا ہے کہ’’ کوئی بھی چیز ممکن ہے ! ہرچیز حاصل کی جا سکتی ہے ‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب مسائل سے چشم پوشی کے بجائے ان کا حل تلاش کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب قوم کی ضروریات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور لوگوں کی زندگی کو سہل بنایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک کی ضروریات کے پیش نظرکس طرح متعدداسکیمی�� اور پہل قدمیاں مثلاً بھارت مالا ، ساگر مالا، مدرا ، اسٹینڈ اپ انڈیا اور آیوش مان بھارت وضع کی گئی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اختراعات اور تحقیق پر بڑی توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم نے اس بات پر وزر دیا کہ نوجوان ڈیجیٹل ادائیگی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی توانائی اور ہمت نے ملک کی جدو جہد آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے اور یہی رول آج کے نوجوانوں کی نسل نئے بھارت کے لئے ادا کرے گی ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نیو انڈیاایک ایسا مقام ہے جہاں خود عمل ترقی کال باعث بنتا ہے نہ کہ عوام متعلقہ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م ۔ ر ۔ ر۔,নিউ ইণ্ডিয়া কনক্লেভত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B2%D8%A8%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%AF/,نئی دہلی،26 ستمبر2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے آج ہندوستان اور ازبکستان کے درمیان تجارت، صنعت اور دوا سازی کی مصنوعات کی ریسرچ اور ترقی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کو منظوری دے دی ہے۔ اس مفاہمت نامے پر یکم اکتوبر2018ء کو دستخط کئے جائیں گے، جب ازبکستان کے صدر ہندوستان کا دورہ کریں گے۔ دونوں ملکوں میں دوا سازی کی صنعت کی ترقی کی اہمیت اور دوا ساز ی کے سیکٹر میں تجارت، پیداوار، تحقیق اور ترقی میں آپسی تعاون کی اہمیت کے پیش نظردونوں ملکوں کی حکومتیں باہمی تعاون کے ایک باقاعدہ طریقہ کار کے قیام کی کوششیں کررہی ہیں۔یہ مفاہمت نامہ دونوں ملکوں میں مختلف تھیراپیٹک شعبوں میں سرگرم دوا سازی اجزاء سمیت دواؤں کی پیداوار کے امکانات کا پتہ لگائے گا۔ اس مفاہمت نامے کے تحت سرگرم دوا سازی اجزاء سمیت دوا سازی کی مصنوعات کی برآمد اور درآمد کے لئے قانونی اور انضباتی ضرورتوں،رجسٹریشن کے طریقہ کار قانونی اور تجارت پر معلومات کا تبادلہ کیاجائے گا۔یہ مفاہمت نامہ دوا سازی کی مصنوعات کی تحقیق و ترقی اور تجارت اور صنعت کے شعبوں میں جمہوریہ ازبکستان کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرے گا۔ م ن۔ح ا۔ن ع (26.09.2018),ফাৰ্মাচিউটিকেল খণ্ডত সহযোগিতা বৃদ্ধিৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু উজবেকিস্তানৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰ কৰিবলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AD%D8%AA%D8%B1%D9%85%DB%81-%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B2%D8%A8%D8%AA%DA%BE-ii-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%80-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ملکہ الزبتھ II کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘عزت مآب ملکہ الزبتھ دوم کو ہمارے دور کی ایک مضبوط شخصیت کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی قوم اور لوگوں کو متاثر کن قیادت فراہم کی۔ انہوں نے عوامی زندگی میں وقار اور شائستگی کا اظہار کیا۔ ان کے انتقال سے مجھے دکھ ہوا ہے ۔ اس دکھ کی گھڑی میں میرےہمدردانہ جذبات ان کے خاندان اور برطانیہ کے لوگوں کے ساتھ ہیں’’۔ ‘‘میں نے 2015 اور 2018 میں اپنے بر��انیہ کے دوروں کے دوران محترمہ ملکہ الزبتھ II کے ساتھ یادگار ملاقاتیں کیں۔ میں ان کی گرمجوشی اور مہربانی کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ ایک ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے وہ رومال دکھایا جو مہاتما گاندھی نے انہیں ان کی شادی پر تحفے میں دیا تھا۔ میں ہمیشہ اس اظہار عقیدت کی قدر کروں گا۔’’,মহাৰাণী দ্বিতীয় এলিজাবেথৰ মৃত্যুৰ পিছত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সমবেদনা জ্ঞাপন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%81-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-44/,وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر جوزف آر بائیڈن نے آج ایک ورچوئل ملاقات کی۔ وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر، جو بھارت-امریکہ 2+2 وزارتی مذاکرات کے لیے ان دنوں واشنگٹن ڈی سی میں ہیں، وہ بھی اپنے امریکی ہم منصبوں، سکریٹری ڈیفنس لائیڈ آسٹن اور سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ بات چیت کے دوران وائٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ دونوں رہنماؤں نے متعدد علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا، جیسے کہ کووڈ-19 کی وبا، عالمی اقتصادی بحالی، موسمیاتی کارروائی، جنوبی ایشیا اور ہند-بحرالکاہل کے خطے میں حالیہ پیش رفت، اور یوکرین کی صورتحال۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں دو طرفہ تعلقات میں ہونے والی اہم پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہندوستان-امریکہ کی جامع عالمی اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید مضبوط کرنا دونوں ممالک کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہوگا، اور عالمی امن، خوشحالی اور استحکام میں بھی تعاون کرے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু আমেৰিকা যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ শ্ৰীযুত যোছেফ আৰ বাইডেনৰ মাজত ভাৰ্চুৱেল বৈঠক অনুষ্ঠিত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D9%BE%DB%92-%DA%88%DB%8C%D8%A8%D9%B9-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DA%88-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%85-%D8%B1%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A7%82-%E0%A6%AA%E0%A7%87-%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9F-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج روپے ڈیبٹ کارڈ اور کم رقم والے [2000 روپئے تک] بھیم – یو پی آئی لین-دین [استعمال کرنے والے فرد -سے-کاروباری (پی 2 ایم)] کو فروغ دینے کے لئے ایک ترغیابی اسکیم کو منظوری دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت سرکار کے ذریعہ تحویل میں لئے جانے والے بینکوں کو روپے ڈیبٹ کارڈ اور کم قیمت والے بھیم-یو پی آئی ادائیگی کے توسط سے کئے گئے لین -دین کی قدر (پی 2 ایم) کا فیصد ادا کرکے ترغیب دی جائے گی۔ اس اسکیم کا یکم اپریل ، 2021 سے موثر ایک سال کی میعاد کے لئے تخمینہ مالی رقم 1300 کروڑ روپئے ہے۔ یہ اسکیم تحویل میں لینے والے بنکوں کو مضبوط ڈیجیٹل ادائیگی ایکو-سسٹم کی تعمیر اور روپے ڈیبٹ کارڈ اور بھیم- یو پی آئی ڈیجیٹل لین دین کو آبادی کے سبھی شعبوں اور حلقوں میں فروغ دینے اور ملک میں ڈیجیٹل ادائیگی کو اور مزید مستحکم بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔ یہ اسکیم روایتی بینکنگ اور مالی نظام سے باہر اور بینک سہولت سے محروم اور حاشیہ پر رہنے والی آبادی کے لئے آسان دیجیٹل ادائیگی کے طریقوں کو وضع کرنے میں مدد کرے گی۔ بھارت آج دنیا کے سب سےموثر ادائیگی کے بازاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ترقی بھارت سرکار کی پہل اور ڈیجیٹل ادائیگی ایکو-سسٹم کے مختلف پلیئرس کے اختراع کا نتیجہ ہے۔ یہ اسکیم فن ٹیک اسپیس میں تحقیق، ترقی ارو اختراع کو مزید فروغ دے گی اور سرکار کو ملک کے مختلف حصوں میں ڈیجیٹل ادائیگی کو اور زیادہ مضبوط بنانے میں بھی مددگار ہوگی۔ پس منظر یہ اسکیم ملک میں ڈیجیٹل لین دین کو مزید فروغ دینے کے لئے سرکار کی ذریعہ کئے گئے بجٹ اعلانات (مالی سال 22-2021) کی تعمیل میں تیار کی گئی ہے۔,‘ৰূ-পে’ ডেবিট কাৰ্ড’ আৰু ‘ল’-ভেল্যু ভীম-ইউপিআই’-ৰ জৰিয়তে সম্পাদিত লেনদেন(পি২এম) জনপ্ৰিয়কৰণৰ উদ্দেশ্যে ৰূপায়িত কৰিব খোজা এক ‘ইনচেণ্টিভ আঁচনি’লৈ কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B4%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%B4-%D8%A7%D8%AA%D8%B3%D9%88-%D8%A7%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE-%E0%A6%B6/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ""کنیا شکشا پرویش اتسو ابھیان کو ""ایک مثالی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ بچیوں کو تعلیم کی روشنی ملے گی اور ان کی زندگی تابناک ہوگی""۔ انہوں نے تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنے پر بھی زور دیا۔ یہ مہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک مشن ہے کہ ہر لڑکی /بچی کو تعلیم اور ہنر حاصل کرنے کی پوری چھوٹ دی جائے۔ خواتین و اطفال کی بہبود کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی کے ایک ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ""ایک مثالی کوشش جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ زیادہ سے زیادہ بچیوں کو تعلیم سے بہرمند کیا جائے تاکہ انہیں تعلیم کی روشنی ملے اور انہیں خوشیاں حاصل ہوں! آئیے ہم سب بحیثیت قوم مل کر اس تحریک کو کامیاب بنائیں۔""",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কন্যা শিক্ষা প্ৰৱেশ উৎসৱ অভিযানক প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%84-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%AC%DB%8C-%D9%B9%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%B2/,نئی دہلی۔30ستمبر وزیر اعظم نریندر مودی نے آج انجار میں مندرا ایل این جی ٹرمینل، انجار – مندرا پائپ لائن پروجیکٹ اور پالن پور- پالی – بار میر پائپ لائن پروجیکٹ کا افتتاح کیا ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں کچھ میں پیار ملا ہے وہ بے مثال ہے ۔ انہوں نے کَچھ میں پچھلے بیس سالوں میں ہوئے ترقیاتی کاموں کی تعریف کی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایل این جی ٹرمینل کا افتتاح آج کے پروگرام کا نمایاں حصہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے تین ایل این جی ٹرمینل کا افتتاح کیا ہے ۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ جب گجرات کو پہلا ایل این جی ٹرمینل ملا تو لوگوں کو بہت حیرانی ہوئی ۔ اب یہ ریاست کا چوتھا ایل این جی ٹرمینل ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات ہندوستان کے ایل این جی کے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس پر ہر گجراتی کو فخر کرنا چاہیے ۔ انہوں نے مزید کہا ��ہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے توانائی کے ایک مستحکم شعبہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اس وقت غربت کا خاتمہ نہیں کر سکتے جب تک ہم توانائی کے لحاظ سے غریب ہونگے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ لوگوں کی خواہشات بڑھ رہی ہیں اور وہ روایتی بنیادی ڈھانچے کے ساتھ آئی – وے ، گیس گرڈ اور آپٹیکل فائبر نیٹ ورک چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سیاحت کے شعبہ میں بے شمار مواقع ہیں اور دنیا بھر سے لوگ ہندوستان آنا چاہتے ہیں ۔ یہ ہم نے کَچھ میں بھی دیکھا ہے کہ کیسے سفید رَن دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہے ۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے ذریعہ ہوا بازی کے شعبہ مزید قابل استطاعت بنانے اور رابطے کو مزید بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کیا ۔ وزیر اعظم نے سبھی گاؤں تک بجلی پہنچانے اور ہندوستان کے ہر ایک گھر میں بجلی پہنچانے کو یقینی بنانے کے تئیں کوششوں کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے ہر عام شہری کی زندگی میں معیاری تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔,অনজাৰত এলএনজি টাৰ্মিনেল আৰ পাইপলাইন প্ৰকল্প উদ্বোধন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DA%BE-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%D8%A7%D8%AF%D8%A7-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BE-%E0%A6%9A%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آشا پاریکھ جی کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے پر مبارکباد دی ہے۔ صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’آشا پاریکھ جی ایک ممتاز فلمی شخصیت ہیں۔ اپنے طویل کیریئر میں، انہوں نے دکھایا ہے ہمہ گیر صلاحیت کیا ہوتی ہے۔ میں انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازے جانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দাদা চাহেব ফাল্কে পুৰস্কাৰেৰে সন্মানিত হোৱাত আশা পাৰেখ জীক অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%86%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%B2%E0%A7%88/,نئیدہلییکم جنوری 2019۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے قوم کو سال نو کی مبارکباد پیش کی ہے ۔اپنے تہنیتی پیغام میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ آپ سب کے لئے پرمسرت 2019 کی تمنا کرتا ہوں ۔ خدا کرے ہر کس وناکس خوش اور صحت مندر ہے۔ میں دعا کرتاہوں کہ آپ سب کی تمنائیں 2019 میں پوری ہوں۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,নৱবৰ্ষ উপলক্ষে দেশবাসীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D9%86%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DB%8C%D9%86-%D9%88%D8%B7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%AC%E0%A7%88%E0%A6%A7-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%98%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87/,نئی دہلی، 11 اپریل 2018/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے آج غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی پر ہندستان ، برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کےد رمیان مفاہمت نامے کو منظوری دے دی ہے۔ فائدے: اس مفاہمت نامے سے فائدہ یہ ہوگا کہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ رکھنے والوں کے لئے مفت ویزا سمجھوتے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے برطانوی ویزا نظام میں نرم روی کی راہ ہموار ہوگی جو مفاہمت نامے کے اختتام کے بعد غیر قانونی طور پر برطانیہ کا سفر کررہے ہیں۔ یہ ان افراد کی واپسی کو یقینی بنائے گا جن کے پاس شہریت کی تصدیق کے بعد دوسرے کے علاقے میں رہنے کے بعد کوئی قانونی جواز نہیں ہے ۔ اس سے ایسے شہریوں کی واپسی کے عمل کو آسان بنانے میں مدد ملے گی جو ایک طے شدہ وقت میں دوسرے کے علاقے میں غیر قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں۔,অবৈধ প্ৰব্ৰজনকাৰী ঘুৰাই অনাৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত-ব্ৰিটেইন আৰু নৰ্দান আয়াৰলেণ্ডৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D9%84%D8%A7%D9%86%DA%AF-%DA%86%DB%8C%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88%D8%A6%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%82-%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%9F%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%83-%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے شیلانگ چیمبر کوئر کے مینٹر اور کنڈکٹر جناب نیل نونگ کنریہ کے انتقال پر غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا : جناب نیل نونگ کنریہ عالمی سطح پر سامعین کو مسحور کرنے والے شیلانگ چمپبر کوئر کے ایک ممتاز مینٹر تھے۔ ان کی کچھ شاندار پرفارمنس سے مجھت بھی محظوظ ہونے کا موقع ملا۔وہ بہت جلد ہی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ان کی تخلیقی صلاحیت کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ ان کے خاندان اور مداحوں کے لئے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,শ্বিলং চেম্বাৰ কয়ৰৰ মিঃ নীল নংকীনৰিহৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%AC-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%8C-%D8%B1%DB%81%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%DA%AF%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%DA%A9%DA%BE-%D9%85%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%93/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اپنی رہائش گاہ 7 لوک کلیان مار گ پر سکھوں کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ دہلی کے گورودوارہ شری بالا صاحب جی نے وزیر اعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر ’اکھنڈ پاٹھ‘ کا اہتمام کیا تھا۔ 15 ستمبر کو شروع ہوا یہ ’اکھنڈ پاٹھ‘ 17ستمبر کو وزیر اعظم کے یوم پیدائش کے دن اختتام کو پہنچا۔ سکھ وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور انہیں گورودوارے کا پرساد اور آشیرواد پیش کیا۔ میٹنگ کے دوران، سکھ وفد نے پگڑی باندھ کر اور سروپا پیش کرکے وزیر اعظم کو اعزاز بخشا۔ وزیر اعظم کی طویل العمری اور اچھی صحت کے لیے ارداس کا بھی اہتمام کیا گیا۔ وفد نے سکھ برادری کے اعزاز اور فلا ح و بہبود کے لیے وزیر اعظم کے ذریعہ ڈگر سے ہٹ کر انجام دی گئیں پہل قدمیوں کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کے ذریعہ انجام دی گئیں متعدد کوششوں کو یاد کیا جن میں 26 دسمبر کو ’’ویر بال دیوس‘‘ قرار دینا، کرتارپور صاحب گلیارے کو ازسر نو کھولنا، گورودواروں کے زیر اہتمام لنگروں سے جی ایس ٹی ہٹانا، گورو گرنتھ صاحب کے نسخوں کو افغانستان سے بھارت لانے کو یقینی بنانا، وغیرہ جیسی کوششیں شامل ہیں۔ سکھ مندوبین میں آل انڈیا کیندریہ گورو سنگھ سبھ�� کے صدر جناب ترویندر سنگھ مارواہ؛ آل انڈیا کیندریہ گورو سنگھ سبھا کے ورکنگ پریزیڈنٹ جناب ویر سنگھ؛ کیندریہ گورو سنگھ سبھا کے دہلی کے صدر جناب نوین سنگھ بھنڈاری؛ گورودوارہ سنگھ سبھا کے صدر جناب ہربنس سنگھ؛ اور گورودوارہ سنگھ سنگھ سبھا کے ہیڈ گرنتھی جناب راجندر سنگھ شامل تھے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আজি তেওঁৰ বাসভৱনত শিখ প্ৰতিনিধি দলক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A7%DA%AF%D9%88%D8%B1%D8%B3%DA%91%DA%A9-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%8C%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%A5-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%A4/,نئی دہلی، 31؍اگست:وزیراعظم جناب نریندرمودی نے راجستھان کے ناگورمیں ہوئے سڑک حادثہ کے متاثرین کے لئے یک مشت معاوضہ کی منظوری دی ہے ۔ وزیراعظم کے دفترکی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہاگیاہے کہ : ‘‘وزیراعظم نے راجستھان کے ناگورمیں ہوئے سڑک حادثہ میں جان گنوادینے والوں کے ورثاء کے لئے پی ایم این آرایف سے فی کس دولاکھ روپے کے یک مشت معاوضہ کی منظوری دی ہے ، جب کہ زخمی ہونے والوں کو فی کس 50ہزارروپے دیئے جائیں گے ۔,নগৌৰৰ পথ দুৰ্ঘটনাত হতাহতসকললৈ আগবঢ়োৱা এককালীন সাহায্যলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%88%DB%8C%D9%81%D9%86%D8%B3-%D8%A7%D9%93%D9%81%D8%B3%DB%8C%D8%B2-%DA%A9%D9%85%D9%BE%D9%84%DA%A9%D8%B3%DB%8C%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE/,پروگرام میں موجود مرکزی کابینہ کے میرے سینئر رفقا جناب راج ناتھ سنگھ جی، ہردیپ سنگھ پوری جی، اجے بھٹ جی، کوشل کشور جی، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت جی، تینوں فوجوں کے سربراہان، سینئر افسران ، دیگر مہمانان گرامی، خواتین وحضرات۔ آزادی کے 75 ویں سال میں آج ہم ملک کی راجدھانی کو نئے بھارت کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق فروغ دینے کی طرف ایک اہم قدم بڑھا رہے ہیں۔ یہ نیا ڈیفنس آفسزکمپلکسز ہماری فوجوں کے کام کاج کو مزید آسان ، زیادہ موثر بنانے کی کوششوں کو اور مضبوط کرنے والا ہے۔ ان نئی سہولیات کے لئے دفاع سے جڑے سبھی ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آپ سبھی واقف ہیں کہ ابھی تک دفاع سے وابستہ ہمارا کام کاج دوسری عالمی جنگ کے دوران بنائے گئے ہٹمینٹس سے ہی چل رہا تھا۔ ایسے ہٹمینٹس جن کو اس وقت گھوڑے کے اصطبل اور بیرکوں سے متعلق ضروریات کے مطابق بنایا گیا تھا۔ آزادی کے بعد کی دہائی میں ان کو وزارت دفاع، فوج اور فضائیہ کے دفتروں کے طور پر فروغ دینے کے لئے وقت وقت پر ہلکی پھلکی مرمت ہوجاتی تھی، کوئی اوپر کے افسران آنے والے ہیں تو تھوڑا اور پینٹنگ ہو جاتی تھی اور ایسے ہی چلتا رہا۔ اس کی باریکیوں کو جب میں نے دیکھا تو میرے من میں پہلا خیال یہ آیا کہ ایسی بری حالت میں ہمارے اتنے اہم فوج کے لوگ ملک کی حفاظت کے لئے کام کرتے ہیں۔ اس کی اس حالت کے سلسلے میں ہمارے دہلی کی میڈیا نے کبھی لکھا کیوں نہیں۔ یہ میرے من میں ہوتا تھا، ورنہ یہ ایسی جگہ تھی کہ ضرور کوئی نہ کوئی تنقید کرتا کہ بھارت سرکار کیا کررہی ہے۔ لیکن پتہ نہیں کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ان ہٹمینٹس میں آنے والی پریشانیوں کو بھی آپ لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ آج جب 21 ویں صدی کے بھارت کی فوجی طاقت کو ہم ہر لحاظ سے جدید بنانے میں مصروف ہیں ، ایک سے ایک جدیداسلحے سے لیس کرنے میں مصروف ہیں، بارڈر انفرااسٹرکچر کو جدید بنایا جارہا ہے ، چیف آف ڈینفس اسٹاف کے ذریعہ سے فورسز کا کو-آرڈینیشن بہتر ہورہا ہے،فوج کی ضرورت کی پروکیورمنٹ جو سالوں سال چلتی تھی وہ تیز ہوئی ہے، تب ملک کی دفاعی سلامتی سے جڑا کام کاج دہائیوں پرانے ہٹمینٹس سے ہو، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے اور اس لئے ان حالات کو بدلنا بھی ضروری تھا اور میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ جو لوگ سنٹرل وسٹا کے پروجیکٹ کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑے تھے وہ بڑی ہوشیاری سےبڑی چالاکی سے سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کا یہ بھی ایک حصہ ہے۔ سات ہزار سے زیادہ فوج کے افسر ان جہاں کام کرتے ہیں وہ نظام فروغ پارہاہے ، اس پر بالکل خاموش تھے ، کیونکہ ان کو معلوم تھا جو افواہ پھیلانے کا ارادہ، جھوٹ پھیلانے کا ارادہ ہے، جیسے ہی یہ بات سامنے آئے گی تو پھر ان کی ساری گپ بازی چل نہیں پائے گی لیکن آج ملک دیکھ رہا ہے کہ سنٹرل وسٹا کے پیچھے ہم کر کیا رہے ہیں۔ اب کے جی مارگ اور افریقہ ایوینیو میں بنے یہ جدید آفسز ، ملک کی سیکورٹی سے جڑے ہر کام کو موثر طریقہ سے چلانے میں بہت مدد کریں گے۔ راجدھانی میں جدید ڈیفنس انکلیو کی تعمیر کی طرف یہ بڑا اور اہم قدم ہے۔ دونوں کمپلیکس میں ہمارے جوانوں اور ملازمین کے لئے ہر ضروری سہولیات دی گئی ہیں۔ اور میں آج اہل وطن کے سامنے میرے من میں جو باتیں چل رہی ہیں اس کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ 2014 میں آپ نے مجھے خدمت کرنے کا موقع دیا اور تب بھی مجھے لگتا تھا کہ یہ سرکاری دفاتر کے حال ٹھیک نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے حال ٹھیک نہیں ہے اور 2014 میں ہی آکر میں پہلا یہ کام کرسکتا تھا لیکن میں نے وہ راستہ نہیں اختیارنہیں کیا۔ میں نے سب سے پہلے بھارت کی آن-بان-شان ، بھارت کے لئے جینے والے بھارت کے لئے جوجھنے والے ہمارے ملک کے بہادر جوان ، جو وطن کے لئے شہید ہوگئے ، ان کی یادگار بنانا، سب سے پہلے طے کیا اور آج جو کام آزادی کے فوراً بعد ہونا چاہئے تھا وہ کام 2014 کے بعد شروع ہوا اور اس کام کو مکمل کرنے کے لئے ہم نے اپنے دفاتر کو ٹھیک کرنے کے لئے سنٹرل وسٹا کا کام شروع کیا۔ سب سے پہلے ہم نے یاد کیا اپنے ملک کے بہادر شہیدوں کو، بہادر جوانوں کو ۔ ساتھیو، یہ جو تعمیر کا کام ہوا ہے کام کاج کے ساتھ ساتھ یہاں رہائشی کمپلکس بھی بنائے گئے ہیں۔ جو جوان 24×7اہم حفاظتی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، ان کے لئے ضروری رہائش، کچن، میس، علاج سے جڑی جدید سہولیات ان سب کی بھی تعمیر کی گئی ہے۔ ملک بھر سے جو ہزاروں ریٹائرڈ فوجی اپنے پرانے سرکاری کام کاج کے لئے یہاں آتے ہیں، ان کا بھی خاص خیال رکھنا، ان کو زیادہ پریشانی نہ ہو اس کے لئے مناسب کنکٹیویٹی کا یہاں خیال رکھاگیا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ جو بلڈنگس بنی ہیں، وہ ایکو-فرینڈلی ہیں اور راجددھانی کی عمارتوں کا جو پرانا رنگ۔روپ ہے، جو اس کی پہچان ہے، برقرار رکھی گئی ہے۔بھارت کے فنکاروں کے دلکش فنون کو، آتم نربھربھارت کی علامات کو یہاں کے کمپلیکسوں میں جگہ دی گئی ہے۔ یعنی دہلی کی چمک اوریہاں کے ماحولیات کومحفوظ رکھتے ہوئے ، ہمارے ثقافتی تنوع کی جدیدشکل کو ہرکوئی محسوس کرے گا۔ ساتھیو، دہلی کو بھارت کی راجدھانی بنے 100 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ 100 سال سے زیادہ کے اس عرصہ میں یہاں کی آبادی اور دیگر حالات میں کافی زیادہ فرق آچکا ہے ۔ جب ہم راجدھانی کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف ایک شہر نہیں ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کی راجدھانی اس ملک کی سوچ ، اس ملک کے عزم، اس ملک کی قوت اور اس ملک کی ثقافت کی علامت ہوتی ہے۔ بھارت تو جمہوریت کی ماں ہے۔ اس لئے بھارت کی راجدھانی ایسی ہونی چاہئے جس کے مرکز میں لوک ہو، عوام ہوں۔ آج جب ہم از آف لوئنگ اور از آف ڈوئنگ بزنس پر فوکس کررہے ہیں ، تو اس میں جدید انفرااسٹرکچر کا بھی اتنا ہی بڑا رول ہے۔ سنٹرل وسٹا سے متعلق جو کام آج ہورہا ہے ، اس کی بنیاد میں یہی جذبہ ہے۔ اس کی تفصیل ہمیں آج شروع ہوئی سنٹرل وسٹا سے متعلق ویب سائٹ میں بھی نظرآتی ہے۔ ساتھیو، راجدھانی کی آرزومندیوں کے مطابق دہلی میں نئی تعمیرات پر پچھلے برسوں میں کافی زور دیا گیا ہے۔ ملک بھر سے منتخب ہوکر آئے عوامی نمائندوں کے لئے نئی رہائش گاہیں ہوں، امبیڈکر جی کی یادگاروں کو محفوظ کرنے کی کوششیں ہوں، کئی نئی عمارتیں ہوں، جن پر مسلسل کام کیا گیا ہے۔ ہماری فوج، ہمارے شہیدوں ، ہماری قربانیوں کا احترام اور سہولت سے متعلق قومی یادگاریں بھی اس میں شامل ہیں۔ اتنی دہائیوں بعد فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس فورس کے شہیدوں کے لئے قومی یادگار یں آج دہلی کے افتخار میں اضافہ کررہی ہیں اور ان کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ ان میں سے بیشتر مقررہ وقت سے پہلے پوری کی گئی ہیں ورنہ سرکاروں کی شناخت یہی ہے – ہوتی ہے، چلتی ہے، کوئی بات نہیں، 6-4 مہینے دیر ہے تو فطری ہے۔ ہم نے نیا ورک کلچر سرکار میں لانے کی ایمانداری سے کوشش کی تاکہ ملک کی املاک برباد نہ ہو، مقررہ وقت پر کام ہو، طے شدہ خرچ سے بھی کچھ کم خرچ میں کیوں نہ ہو اور پروفیشنلزم ہو، ایفیشی اینسی ہو ، ان ساری باتوں پر ہم زور دے رہے ہیں یہ سوچ اور اپروچ میں آئی ایفیشی اینسی کی ایک بہت بڑی مثال آج یہاں پیش ہے۔ ڈیفنس آفسز کمپلکس کا بھی جوکام 24 مہینے میں پورا ہونا تھا، وہ صرف 12 مہینے کے ریکارڈ وقت میں کمپلیٹ کیا گیا ہے یعنی 50 فیصد وقت بچا لیا گیا۔ وہ بھی اس وقت جب کورونا سے پیدا حالات میں لیبر سے لے کر تمام طرح کے چیلنجنز سامنے تھے۔ کورونا دور میں سینکڑوں مزدوروں کو اس پروجیکٹ سے روزگار ملا ہے۔ اس تعمیراتی کام سے جڑے سبھی مزدور ساتھی ، سبھی انجینئر، سبھی ملازمین، افسران، یہ سب کے سب اس مقررہ وقت پر تعمیر کے لئے تو مبارکباد کے حقدار ہیں لیکن ساتھ ساتھ کورونا کا اتنا زیادہ جب خوف تھا، زندگی اور موت کے بیچ سوالیہ نشان تھا، اس وقت بھی ملک کی تعمیر کے اس مقدس کام میں جن جن لوگوں نے تعاون کیا ہے ، پورا ملک ان کو مبارکباد دیتا ہے۔ پورا ملک ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ جب پالیسی اور نیت صاف ہو، قوت ارادی مضبوط ہو ، کوشش ایماندا ہوں، تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا ہے، سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے ، ملک کی نئی پارلیمنٹ کی بلڈنگ کی تعمیر بھی، جیسا ہردیپ جی بڑے یقین کے ساتھ بتا رہے تھے ، مقررہ وقت کے اندر ہی مکمل ہوگی۔ ساتھیو، آج کنسٹرکشن میں جو تیزی نظرآرہی ہے، اس میں نئی کنسٹرکشن ٹکنالوجی کا بھی رول ہے۔ ڈیفنس آفس کمپلکس میں بھی روایتی آر سی سی تعمیر کے بجائے لائٹ گیج اسٹیل فریم تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ نئی تکنیک کی وجہ سے یہ عمارت آگ اور دوسری قدرتی آفات سے زیادہ محفوظ ہیں۔ ان نئے کمپلکسز کے بننے سے درجنوں ایکڑ میں پھیلے پرانے ہٹمینٹس کے رکھ رکھاؤ میں جو خرچ ہر سال کرنا پڑتا تھا ، اس کی بھی بچت ہوگی۔ مجھے خوشی ہے کہ آج دہلی ہی نہیں ، بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی اسمارٹ سہولیات کو فروغ دینے ، غریبوں کو پکے گھر دینے کے لئے جدید کنسٹرکشن ٹکنالوجی پر فوکس کیا جارہا ہے۔ ملک کے 6 شہروں میں جاری لائٹ ہاؤس پروجیکٹ اس سمت میں ایک بہت بڑا تجربہ ہے۔ اس سیکٹر میں نئے اسٹارٹ اپس کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جس اسپیڈ اور جس اسکیل پر ہمیں اپنے اربن سنٹرز کو ٹرانسفورم کرنا ہے ، وہ نئی ٹکنالوجی کے وسیع تر استعمال سے ہی ممکن ہے۔ ساتھیو، یہ جو ڈیفنس آفسز کملپکس بنائے گئے ہیں ، یہ ورک کلچر میں آئی ایک اور تبدیلی اور سرکار کی ترجیح کا عکاس ہے۔ یہ ترجیح ہے ، دستیاب لینڈ کا بہتر استعمال ۔ اور صرف لینڈ ہی نہیں ، ہمارا یہ یقین ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہمارے جو بھی ریسورسز ہیں ، ہماری جو بھی قدرتی املاک ہیں اس کا آپٹیمم یوٹی لائزیشن ہونا چاہئے ۔ اناپ-شناپ ایسی املاک کی بربادی اب ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے اور اس سوچ کے نتیجہ میں سرکار کے الگ الگ ڈپارٹمنٹ کے پاس جو زمینیں ہیں ، ان کے پروپر اور آپٹیمم یوٹی لائزیشن پر پرفیکٹ پلاننگ کے ساتھ آگے بڑھنے پر زور دیا جارہا ہے۔ یہ جو نئے کمپلکسز بنائے گئے ہیں وہ تقریباً 13 ایکڑ زمین پر بنے ہیں۔ اہل وطن آج جب یہ سنیں گے ، جو لوگ دن رات ہمارے ہر کام پر نکتہ چینی کرتے ہیں، ان کا چہرہ سامنے رکھ کر ان چیزوں کو سنیں ملک کے عوام۔ دہلی جیسی اتنی اہم جگہ پر 62 ایکڑ زمین پر راجدھانی کے اندر 62 ایکڑ زمین پر، اتنی بڑی جگہ پر یہ جو ہٹمینٹس بنے ہوئے تھے، اس کو وہاں سے شفٹ کیا اور اعلیٰ معیار کی جدیدسہولت صرف 13 ایکڑ زمین پر تعمیر ہوگئی۔ ملک کی املاک کا کتنا بہتر استعمال ہورہا ہے یعنی اتنی بڑی اور جدید سہولیات کے لئے پہلے کے مقابلے تقریباً پانچ گنا کم زمین کا استعمال ہوا ہے۔ ساتھیو، آزادی کے امرت کال یعنی آنے والے 25 برسوں میں نئے آتم نربھر بھارت کی تعمیر کا یہ مشن سبھی کی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ سرکاری نظام کی پروڈکٹیوٹی اور ایفیشی اینسی بڑھانے کا جو بیڑاآج ملک نے اٹھایا ہے ، یہاں بن رہی عمارتیں ان خوابوں کو سپورٹ کررہی ہیں ، اس عزم کو شرمندہ تعبیر کرنے کا یقین دلارہی ہیں۔ کامن سنٹرل سکریٹریٹ ہو ، کنکٹیڈ کانفرنس ہال ہوں، میٹرو جیسے پبلک ٹرانسپورٹ سے آسان کنکٹیوٹی ہو، یہ سب کچھ راجدھانی کو پیوپل فرینڈلی بنانے میں بھی بہت مدد کریں گے۔ ہم سبھی اپنے اہداف کو تیزی سے حاصل کریں ، اسی امید کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں! بہت -بہت شکریہ !,নতুন দিল্লীত প্ৰতিৰক্ষা কাৰ্যালয় চৌহদ উদ্বোধন কৰি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%88%D8%B3%D9%B9%D8%B1%DA%A9%D9%B9-%D9%84%DB%8C%DA%AF%D9%84-%D8%B3%D8%B1%D9%88%D8%B3%D8%B2-%D8%A7%D8%AA%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AE-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F/,پروگرام میں موجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب این وی رمنا، جسٹس جناب یو یو للت جی، جسٹس جناب ڈی وائی چندر چوڑ جی، مرکزی حکومت میں میرے ساتھی اور ملک کے وزیر قانون جناب کرن جی، سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان، ہمارے ساتھی وزیر مملکت جناب۔ ایس پی بگھیل جی، ہائی کورٹ کے عزت مآب جج ، ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز کے چیئرمین اور سیکرٹریز، تمام معزز مہمانان، خواتین و حضرات! بھارت کے عدالتی نظام کی قیادت کررہے آپ سبھی کے بیچ آنا ہمیشہ ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے، لیکن بات کرنا ذرامشکل ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز کے چیئرمینز اور سیکرٹریز کی یہ اس طرح کی پہلی نیشنل میٹنگ ہے اور میں مانتا ہوں کہ ایک اچھی مبارک شروعات ہے، مطلب یہ آگے بھی جاری رہے گی۔آپ نے اس طرح کےانعقاد کے لیے جو وقت منتخب کیا ہے، یہ وقت درست بھی ہے اور تاریخی اعتبار سے اہم بھی ہے۔ آج سے کچھ ہی دن بعد ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ یہ وقت ہماری آزادی کے امرت کال کا وقت ہے۔ یہ وقت ان عزائم کا ہے جو اگلے 25 سال میں ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ ملک کی اس امرت یاترہ میں Ease of Doing B سال کا یہ وقت ہمارے لیے فرائض کا وقت ہے۔ ہمیں ایسے تمام شعبوں پر کام کرنا ہوگا جنہیں اب تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ ملک میں زیر سماعت قیدیوں سے متعلق انسانی موضوع پر سپریم کورٹ کے ذریعہ پہلے بھی کئی بار حساسیت دکھائی گئی ہے۔ ایسےکتنے ہی قیدی ہیں، جو قانونی مدد کے انتظار میں برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ ہماری ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز ان قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہیں۔ آج یہاں ملک بھر سے ڈسٹرکٹ جج آئے ہیں۔ میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ لیول انڈر ٹرائل ریویو کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناطے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی میں تیزی لائیں۔ ویسے مجھے بتایا گیا ہے کہ این اے ایل ایس اے نے اس سمت میں ایک مہم شروع کی ہے۔ میں اس کے لیے آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ،آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں ،اور امید کرتا ہوں کہ آپ لیگل ایڈ کے ذریعہ اس مہم کو کامیاب بنائیں گے۔ میں بار کونسل سے بھی درخواست کروں گا کہ اس مہم سے زیادہ سے زیادہ وکلاء کو جڑنے کے لئے ترغیب دیں ۔ ساتھیو، مجھے امید ہے کہ ہم سبھی کی کوشش سے اس امرت کال میں ملک کے سنکلپوں کو ایک نئی سمت دیں گے۔ اس یقین کے ساتھ مجھے آپ کے بیچ آنے کا موقع ملا اس کے لئے بھی میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ دو دن کا یہ آپ کا منتھن جن توقعات اور آرزووں کے ساتھ اتنا بڑا پروگرام ہو رہا ہے ،اتنے ہی بڑے نتائج لائے گا۔ اس امید کے ساتھ بہت بہت شکریہ!,দিল্লীত প্ৰথম সৰ্বভাৰতীয় জিলা আইন সেৱা প্ৰাধিকৰণসমূহৰ সন্মিলনত উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B2%D8%B1%DA%AF-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0-%E0%A6%95%E0%A6%AC%E0%A6%BF-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A5-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%99/,نئیدہلی۔20؍مارچ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے معروف بزرگ شاعر جناب کیدار ناتھ سنگھ کی موت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام تعزیت میں کہا کہ مجھے عظیم شاعر ومصنف جناب کیدارناتھ سنگھ کی موت سے زبردست صدمہ پہنچا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عوامی زندگی میں جذبات کیلئے جگہ پیدا کی تھی۔ وہ آئندہ کئی صدیوں تک ادبی دنیا کے لئے حوصلہ افزائی کا وسیلہ ثابت ہوں گے اور عام لوگ بھی اس نے حوصلہ حاصل کرسکیں گے۔ یاد رہے کہ آنجہانی کیدارناتھ سنگھ کو 2013 میں گیان پیٹھ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ انہیں ان کے ادبی کارنامے ، ’’ابھی بالکل ابھی‘‘ ، ’’زمین پک رہی ہے‘‘ اور���’اکال میں سارس‘‘ کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔,জ্যেষ্ঠ কবি কেদাৰনাথ সিঙৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%B9%DB%8C%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D9%85%D8%A7%D8%A8%D8%B9%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%B0/,نئی دلی، 2 مارچ، 2022 نمسکار! آپ سب کو پتہ ہے کہ ہم نے پچھلے دو سالوں سے ایک نئی روایت شروع کی ہے۔ ایک تو بجٹ کو ہم نے ایک مہینے پہلے پری پون کیا اور یکم اپریل سے بجٹ لاگو ہوتا ہے تو ان بٹوین ہمیں 2 مہینے تیاری کے لیے مل جاتے ہیں اور ہم کوشش یہ کررہے ہیں کہ بجٹ کی روشنی میں سارے شراکت دار مل کر نجی، سرکاری، ریاستی سرکار ، مرکزی سرکار، سرکار کے مختلف محکمے بجٹ کی روشنی میں ہم جلدی سے جلدی چیزوں کو زمین پر کیسے اتاریں۔ بلاروک ٹوک کیسے اتاریں اور مناسب نتائج، اس پر ہمارا زور کیسے ہو۔ اس میں جتنی آپ لوگوں کی تجاویز ملیں گی، اس سے شاید سرکار کو اپنے فیصلے کو لاگو کرنے میں بھی آسانی سے سہولت حاصل ہوگی۔ نفاذ کا روڈ میپ بھی اچھا بنے گا اور فل اسٹاپ ، کوما کے سبب کبھی کبھی ایک آدھ چیز 6-6 مہینوں تک فائلوں میں لٹکی رہتی ہے، ان ساری چیزوں سے بچنے کے لیے ہم آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی تجاویز کو لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ یہ گفتگو بجٹ میں ایسی ہونی چاہیے تھی اور ایسا ہونا چاہیے تھا، اس کےلیے تو ممکن نہیں، کیونکہ وہ کام پارلیمنٹ نے کرلیا ہے، لیکن جو کچھ بھی ہے، اس کا اچھے سے اچھا فائدہ عوام تک کیسے پہنچے، ملک کو کیسے ملے اور ہم سب مل کر کیسے کام کریں، اس لیے ہماری یہ چرچا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس بار بجٹ میں سائنس و ٹیکنالوجی سے جڑے جو فیصلے ہوئے ہیں، یہ سارے فیصلے واقعی بہت اہم ہیں۔ بجٹ کے اعلانات کا نفاذ بھی اتنی ہی تیزی سے ہو، یہ ویبینار اس سمت میں ایک مشترکہ کوشش ہے۔ دوستو! ہماری سرکار کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی صرف ایک الگ تھلگ (آئیسولیٹیڈ) سیکٹر نہیں ہے۔ آج معیشت کی فیلڈ میں ہمارا وژن ڈیجیٹل معیشت اور فن ٹیک جیسی بنیادوں سے جڑا ہوا ہے۔ انفراسٹراکچر کی فیلڈ میں ہمارا ڈیولپمنٹ وژن، جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ پبلک سروسیز (سرکاری خدمات) اور لاسٹ مائل ڈیلیوری بھی اب ڈاٹا کے ذریعے ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے جڑ رہی ہیں۔ ہمارے لیے ٹیکنالوجی، ملک کے عام سے عام شہری کو بااختیار کرنے کا طاقتور وسیلہ ہے۔ ہمارے لیے ٹیکنالوجی ملک کو خود کفیل بنانے کی اہم بنیاد ہے اور جب میں بھارت کو خود کفیل (آتم نربھر) بنانے کی بات کرتا ہوں تو آج بھی آپ نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی تقریر صبح سنی ہوگی، انہوں نے بھی امریکہ کو آتم نربھر بنانے کی بات کہی ہے۔ امریکہ میں ’میک ان امریکہ‘ کے لیے انہوں نے آج بڑا زور دیا ہےا ور اس لیے ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں جو نئے انتظامات بن رہے ہیں، اس میں ہمارے لیے بھی بہت ضروری ہے کہ ہم آتم نربھرتا کے ساتھ آگے بڑھیں اور اس بجٹ میں ان چیزوں پر ہی زور دیا گیا ہے، آپ دیکھتے ہوں گے۔ دوستو! اس بار ہمارے بجٹ میں سن رائز سیکٹرس پر خاص زور دیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت جیوزپیسیل سسٹمس، ڈرون سے لے کر سیمی کنڈکٹرس اور اسپیس ٹیکنالوجی تک، جیونومکس، فارمیسیٹکلس اور کلین ٹیکنالوجیز سے لے کر فائیو جی تک یہ سبھی سیکٹرس آج ملک کی ترجیحات ہیں۔ ب��ٹ میں سن رائز سیکٹرس کے لیے تھیمیٹک فنڈس کو بھی پرموٹ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بجٹ میں اسی سال 5 جی اسپیکٹرم کی بولیوں کو لے کر بہت واضح روڈ میپ بنایا گیا ہے۔ ملک میں مضبوط 5 جی ایکوسسٹم نے اس سے جڑی ہوئی ڈیزائن – لیڈ مینوفیکچرنگ کے لیے بھی بجٹ میں پی ایل آئی اسکیم پرپوز (تجویز) کی گئی ہے۔ میں اپنے پرائیویٹ سیکٹر کو خاص طور پر اپیل کروں گا کہ ان فیصلوں سے جو نئے امکانات بن رہے ہیں،ا س پر تفصیلی بحث ومباحثے آپ لوگ ضرور کریں اور ٹھوس تجاویز کے ساتھ ہم ایک اجتماعی کوشش سے آگے بڑھیں۔ ساتھیو! کہا جاتا ہے کہ سائنس پوری دنیا کے لئے ہے لیکن ٹیکنالوجی مقامی ہونی چاہئے سائنس کے اصولوں سے ہم واقف ہیں لیکن ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال طرز زندگی میں آسانی پیدا کرنے کےلئے کیسے کریں،ہمیں اس پر بھی زور دینا ہوگا۔ آج ہم تیزی سے گھروں کی تعمیر کررہے ہیں ،ریل راستے،فضائی راستے ،آبی راستے اور آپٹیکل فائبر میں بھی غیر معمولی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔اس میں اور جہت حاصل کرنے کے لئے پی ایم گتی شکتی کے ویژن کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس ویژن کو ٹیکنالوجی سے مسلسل کیسے مدد مل سکتی ہے اس پر ہمیں کام کرنا ہوگا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہاؤسنگ سیکٹر میں ملک میں 6 بڑے لائٹ ہاؤس پروجیکٹ پر کام کیا جارہا ہے ۔ گھروں کی تعمیر میں ہم جدید ٹیکنالوجی کو جوڑ رہے ہیں ،ہم ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے اس کی رفتار اور کیسے تیز کرسکتے ہیں ،اور اسے کیسے وسعت دے سکتے ہیں اس پر بھی ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ سرگرم شراکتداری کی ضرورت ہے اور اختراعی نظریات کی ضرورت ہے ۔آج ہم طبی سائنس کا مشاہدہ کررہے ہیں ،طبی سائنس بھی تقریباً ٹیکنالوجی پر مبنی ہوگئی ہے ۔اب زیادہ سے زیادہ طبی آلات بھارت میں تیار ہوں اور بھارت کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھ کر ہوں ،اس میں ٹیکنالوجی کی کس طرح مدد لی جاسکتی ہے اس طرف بھی ہم سب کو مل کر دھیان دینا ہے۔اور شاید آپ زیادہ اس میں اپنا تعاون دے سکتے ہیں ۔آج آپ دیکھئے کہ گیمنگ کاایک شعبہ جو اتنی تیزی سے پروان چڑھا ہے اب دنیا میں اس کا بہت بڑا مارکیٹ بن گیا ہے۔نوجوان نسل بڑی تیزی سے جڑ گئی ہے اس بجٹ میں ہم نے اے وی جی سی یعنی اینی میشن ویژویل افیکٹس گیمنگ کامک پر بہت زور دیا ہے ۔اس سمت میں بھی جب بھارت کے آئی ٹی کے اشتراک نے دنیا میں اپنی عزت حاصل کی ہے ۔ہم ایسے خصوصی شعبے میں اپنی طاقت آزما سکتے ہیں ۔کیا آپ اس میں اپنی کوششوں کو بڑھا سکتے ہیں اسی طرح بھارتی کھلونوں کا بھی بہت بڑا مارکیٹ ہےاور آج کے دور کے جو بچے ہیں وہ کھلونوں میں کسی نہ کسی ٹیکنالوجی کے ہونے کو پسند کرتے ہیں ۔کیا ہم ہمارے ملک کے بچوں کے مطابق ٹیکنالوجی سے جڑے ہوئے کھلونے اور دنیا میں انہیں مارکیٹ میں پہنچانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ۔ایسے ہی مواصلاتی شعبے میں نئی ٹیکنالوجی لانے کے لئے بھی ہم سبھی کو اپنی کوششوں کو اور تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔سروربھارت میں ہی ہو بیرونی ملکوں پر انحصار کم سے کم ہو اور کمیونیکیشن کے تعلق سے نئے نئے سیکورٹی اینگل جڑتے چلے جارہے ہیں ،ہمیں بڑی بیداری کے ساتھ اس طرف اپنی کوششوں کو بڑھانا ہوگا ۔فنٹیک کے تعلق سے بھی بھارت نے پچھلے دنوں کمال کردیا ہے لوگ مانتے تھے کہ ہمارے ملک میں یہ شعبہ ؟لیکن موبائل فون سے بھی مالیاتی سرگرمی میں جس طرح سے ہمارے گاؤں جڑ رہے ہیں اس کا مطلب ہوا کہ فنٹیک میں بھی زیادہ سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی آمیزش آج ہمارے لئے وقت کی ض��ورت ہے اس میں سیکورٹی بھی ہے فروری 2020 میں ملک نے جیو اسپیٹیل کے لئے ڈاٹا کو لیکر پرانے طور طریقے بدل دئے ہیں اس سے جیو اسپیٹیل کے لئے لا محدود نئے امکانات اور نئے مواقع کھل گئے ہیں۔ ہمارے پرائیویٹ سیکٹر کو اس کاپورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ساتھیو! کووڈ کے وقت ہماری سیلف سسٹنیبلٹی سے لیکر ویکسین کی تیاری تک ہماری ریلائیبلیٹی کو دنیا نے دیکھا ہے اسی طرح کی کامیابی کو ہمیں ہر سیکٹر میں دکھانا ہے۔اس میں ہماری صنعت کی آپ سب کی بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ ملک میں ایک بہتر ڈیٹا سیکورٹی فریم ورک بھی بہت ضروری ہے ۔ڈیٹا کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے حکمرانی بھی ضروری ہے۔ ایسے میں اس کے معیارات اور ضابطے بھی ہمیں سیٹ کرنے ہوں گے۔ ہم اس سمت میں کیسے آگے بڑھیں ،آپ سبھی مل کر ایک روڈ میپ تیار کرسکتے ہیں۔ فرینڈس! آج بھارت کے پاس دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام ہے ،میں اپنے اسٹارٹ اپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت ان کے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے ۔بجٹ میں نوجوانوں کی ہنر مندی اور از سر نو ہنر مندی اور اپنے ہنر کو بڑھانے کے لئے پورٹل کی بھی تجویز رکھی گئی ہے۔ ا س سے نوجوانوں کو اے پی آئی پر مبنی بھروسے مند ہنر مندی سے متعلق اسناد ادائیگی اور دریافت کی تہہ کے ذریعہ صحیح روزگاراور مواقع حاصل ہوں گے۔ فرینڈس! ملک میں مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لئے ہم نے 14 کلیدی شعبوں میں دو لاکھ کروڑ روپے کی پی ایل آئی اسکیم شروع کی ہے۔اس ویبنار سے اس سمت میں آگے بڑھنے کے لئے مجھے عملی نظریات کی امید ہے۔بلا رکاوٹ نفاذ کے طریقے آپ ہمیں تجویز کیجئے۔ شہریوں کی خدمات کے لئے ہم آپٹک فائبر کا اور بہتر استعمال کیسے کرسکتے ہیں ،ہمارے گاؤں کا دور دراز کا طالب علم بھی ہندوستان کی اعلیٰ تعلیمی نظام کا فائدہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے اپنے گھر میں کیسے لے سکتا ہے۔طبی خدمات کیسے حاصل کرسکتا ہے ،زراعت میں اختراع کا فائدہ کسان میرا چھوٹا کسان کیسے لے سکتا ہے جب اس کے ہاتھ میں موبائل ہے ۔دنیا میں سبھی چیزی میسر ہیں ہمیں اس کو بلا رکاوٹ کنکٹ کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں اور اس کے لئے مجھے آپ سبھی تجربہ کاروں سے اختراعی تجاویز کی ضرورت ہے۔ ساتھیو! ای ویسٹ جیسی ٹیکنالوجیوں سے جڑے جو چیلنجز دنیا کے سامنے ہیں ان کا حل بھی ٹیکنالوجی سے ہی ہوگا ۔میرا آپ سے خاص التماس ہے کہ اس ویبنار میں آپ مدور معیشت ای ویسٹ بندو بست اور الیکٹرک موبلیٹی جیسے حل پر بھی توجہ مرکوز کریں ۔ملک کو فیصلہ کن حل پیش کریں ،مجھے پورا بھروسہ ہےآپ کی کوششوں سے ملک اپنے ہدف تک ضرور پہنچے گا اور میں پھر سے کہوں گا کہ یہ ویبنار حکومت کی طرف سے آپ کو معلومات دینے کا نہیں ہے اس ویبنار میں آپ سے حکومت کو نئے نئے طور طریقے چاہئے تاکہ رفتار کیسے بڑھے اور ہم نے جلدی سے جلدی جو پیسے لگائے ہیں ،جو بجٹ خرچ کیا ہے ،جو سوچا ہے اس پر ہم پہلی سہ ماہی میں ہی کچھ کرکے دکھا سکتے ہیں کیا؟۔مقررہ مدت پروگرام بنا سکتے ہیں کیا؟۔مجھے یقین ہے آپ اس شعبے میں ہیں آپ کوسبھی باریکیوں کے بارے میں پتہ ہے ،کہاں مشکلیں ہیں اس کا پتہ ہے ، کیا کرنے سے اچھے سے اچھے طریقے سے یہ ہوسکتا ہے ،تیز رفتار سے ہوسکتا ہے ،آپ کو سب پتہ ہے۔ہم مل کر ،بیٹھ کر اس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔میں آپ کو اس ویبنار کے لئے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ,প্ৰযুক্তি-সমৰ্থিত বিকাশৰ ওপৰত বাজেটৰ পিছত প্ৰ��ানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া ৰূপান্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%DA%A9%D9%85%DB%8C%D8%B4%D9%86-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-30%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 31 جنوری 2022 نمسکار! پروگرام میں موجود مختلف ریاستوں کے گورنر حضرات، وزرائے اعلیٰ، وزراء کی کونسل میں میرے ساتھی ،بہن اسمرتی ایرانی جی، ڈاکٹر مہیندر بھائی، درشنا جردوش جی، قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن محترمہ ریکھا شرما جی، تمام ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن و اراکین حضرات، سیلف ہیلپ گروپوں کے اراکین حضرات، دیگر معززین، بھائیو اور بہنو! آپ تمام حضرات کو قومی کمیشن برائے خواتین کے قیام کے 30 برس مکمل ہونے پر بہت بہت مبارکباد۔ 30 برسوں کا سفر خواہ کسی فرد کی زندگی کا ہو یا پھر کسی تنظیم کا، یہ بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ وقت نئی ذمہ داریوں کا ہوتا ہے، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے، اپنے قیام کے 30ویں برس کو قومی کمیشن برائے خواتین کے ذریعہ بھی اسی شکل میں دیکھا جا رہا ہوگا۔ مزید اثر انگیز اور مزید جوابدہ، نئی توانائی سے شرابور۔ آج بدلتے ہوئے بھارت میں خواتین کا کردار مسلسل توسیع سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ اس لیے قومی کمیشن برائے خواتین کی توسیع بھی آج وقت کا تقاضہ ہے۔ ایسے میں، آج ملک کی تمام خواتین کمیشنوں کو اپنا دائرہ بھی بڑھانا ہوگا اور اپنی ریاست کی خواتین کو نئی سمت بھی دینی ہوگی۔ ساتھیو، آج آزادی کے امرت مہوتسو میں ایک نئے بھارت کا عزم ہمارے سامنے ہے۔ آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے اصول پر کام کر رہا ہے۔ ملک سب کی ترقی کے اس ہدف تک بھی پہنچے گا جب سب کے لیے تمام امکانات یکساں طور پر کھلے ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں، پہلے جب کاروبار کی بات ہوتی تھی، تو اس کا یہی مطلب نکالا جاتا تھا کہ بڑے کارپوریٹ کی بات ہو رہی ہے، مردوں کے کام کی بات ہو رہی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے بھارت کی طاقت ہماری چھوٹی مقامی صنعتیں رہی ہیں، جنہیں آج ہم ایم ایس ایم ای کہتے ہیں۔ ان صنعتوں میں جتنا کردار مردوں کا ہوتا ہے، اتنا ہی خواتین کا ہوتا ہے۔ آپ ٹیکسٹائل صنعت کی مثال لیجئے، پاٹری کی مثال لیجئے، زرعی اور دودھ کی مصنوعات دیکھئے، ایسی کتنی ہی صنعتیں ہیں جن کی بنیاد خواتین کی طاقت خواتین کی مہارت ہی ہے۔ لیکن یہ بدنصیبی رہی کہ ان صنعتوں کی طاقت کو پہچاننا چھوڑ دیا گیا تھا۔ دقیانوسی سوچ رکھنے والوں نے خواتین کی مہارت کو گھریلو کام کاج کا ہی موضوع مان لیا تھا۔ ملک کی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے اس دقیانوسی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ میک ان انڈیا آج یہی کام کر رہا ہے۔ آتم نربھر بھارت مہم خواتین کی اسی صلاحیت کو ملک کی ترقی کے ساتھ مربوط کر رہی ہے۔ اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آج مدرایوجنا کی تقریباً 70 فیصد مستفیدین خواتین ہیں۔ کروڑوں خواتین نے اس اسکیم کی مدد سے اپنا کام شروع کیا ہے اور دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ اسی طرح، خواتین میں سیلف ہیلپ گروپوں کے ذریعہ صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے ملک دین دیال انتیودیہ یوجنا چلا رہا ہے۔ ملک کی خواتین کا جوش اور طاقت اتنی ہے کہ 6۔7 برسوں میں سیلف ہیلپ گروپوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے۔ یہی رجحان ہمیں بھارت کے اسٹارٹ اپ ایکو نظام میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سال 2016 سے ہمارے ملک میں 56 مختلف شعبوں میں 60 ہزار سے زیادہ نئے اسٹارٹ اپس قائم ہوئے ہیں۔ اور ہم سبھی کے لیے باعث فخر ہے کہ ان میں سے 45 فیصد میں کم سے کم ایک خاتون ڈائرکٹر ہے۔ ساتھیو، نیو انڈیا کے ترقی کے سائیکل میں خواتین کی حصہ داری میں مسلسل اضافہ رونما ہو رہا ہے۔ خواتین کمیشنوں کو چاہئے کہ سماج کی صنعت کاری میں خواتین کے اس کردار کو زیادہ سے زیادہ پہچان ملے، اسے فروغ دیا جائے۔ آپ تمام حضرات نے دیکھا ہے کہ گذشتہ 7 برسوں میں ملک نے اس طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ مقتدر پدم اعزاز میں خواتین کی بڑھتی حصہ داری اس کی ایک مثال ہے۔ 2015 سے لے کر اب تک 185 خواتین کو ان کے غیر معمولی کاموں کے لیے پدم اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اس برس بھی 34 پدم ایوارڈس مختلف شعبوں میں مصروف عمل خواتین کو حاصل ہوئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ آج تک کبھی اتنی زیادہ تعداد میں پدم ایوارڈس نہیں دیے گئے ہیں۔ اسی طرح، آج کھیلوں میں بھی بھارت کی بیٹیاں دنیاں میں کمال کر رہی ہیں، اولمپکس میں ملک کے لیے تمغات جیت رہی ہیں۔ کورونا وبائی مرض کے خلاف اتنی بڑی لڑائی پورے ملک نے لڑی، اس میں ہماری نرسوں نے، ڈاکٹروں نے، خواتین سائنس دانوں نے کتنا بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یعنی، جب بھی موقع ملا ہے، بھارت کی خواتین نے اپنی طاقت کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔ اور آپ سب سے بہتراس بات کو کون جانے گا کہ ایک خاتون سب سے اچھی استانی اور ٹرینر بھی ہوتی ہے۔ اس لیے، ملک کی تمام خواتین کمیشنوں کے سامنے بھارت میں صنعت کاری سے لے کر کھیل کود تک ایک نئی سوچ اور صلاحیت تیار کرنے کی بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ساتھیو، آپ تمام حضرات اس بات کے گواہ ہیں کہ گذشتہ 7 برسوں میں ملک کی پالیسیاں خواتین کو لے کر مزید حساس ہوئی ہیں۔ آج بھارت ان ممالک میں شامل ہے جو اپنے یہاں سب سے زیادہ زچگی رخصت فراہم کرتا ہے۔ کم عمر میں شادی بیٹیوں کی پڑھائی اور کرئیر میں رکاوٹ نہ بنے، اس کے لیے بیٹیوں کی شادی کی عمر کو 21 سال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک میں خواتین کی اختیارکاری کو محدود دائرے میں رکھا جاتا تھا۔ گاؤں کی، غریب کنبوں کی خواتین اس سے دور تھیں۔ ہم اس فرق کو ختم کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ آج خواتین کی اختیارکاری کا چہرہ وہ 9 کروڑ غریب خواتین بھی ہیں جنہیں پہلی مرتبہ گیس کنکشن ملا ہے، دھوئیں سے آزادی ملی ہے۔ آج خواتین کی اختیارکاری کا چہرہ وہ کروڑوں مائیں بہنیں بھی ہیں جنہیں ان کے گھر میں بیت الخلاء ملا، جس کو اترپردیش میں عزت گھر کہتے ہیں۔ آج خواتین کی اختیار کاری کا چہرہ وہ مائیں بھی ہیں جنہیں اپنے سر پر پہلی مرتبہ پکی چھت نصیب ہوئی ہے۔ جن کے نام سے پردھان منتری آواس بنے ہیں۔ اسی طرح، جب کروڑوں خواتین کو دورانِ حمل اور ڈلیوری کے وقت سہولت فراہم ہوتی ہے، جب کروڑوں خواتین کو اپنا جن دھن بینک کھاتہ ملتا ہے، جب حکومت کی سبسڈی راست طور پر خواتین کے کھاتوں میں جاتی ہے، تو یہ خواتین ، خواتین اختیارکاری اور بدلتے ہوئے بھارت کا چہرہ بنتی ہیں۔ ساتھیو، آج ملک کی خاتون کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ اب خود اپنا مستقبل طے کر رہی ہیں، ملک کے مستقبل کو سمت دے رہی ہیں۔ آج برسوں بعد ملک میں جنسی تناسب بہتر ہوا ہے، آج اسکولوں سے لڑکیوں کی ڈراپ آؤٹ شرح کم ہوئی ہے، کیونکہ ملک کی ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم سے خواتین خود جڑی ہیں۔ اور جب عورت کچھ ٹھان لیتی ہے، تو اس کی سمت ناری ہی طے کرتی ہے۔ اسی لیے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن حکومتوں نے خواتین کے تحفظ کو ترجیح نہیں دی، خواتین نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو مجھے کئی مرتبہ حیرانی ہوتی تھی کہ باقی جگہ اس موضوع پر اس طرح سے کام کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ اس لیے 2014 میں حکومت قائم ہونے کے بعد ، ہم نے قومی سطح پر خواتین کے تحفظ سے متعلق متعدد کوششیں کیں۔ آج ملک میں خواتین کے خلاف جرائم پر سخت قانون ہیں، عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں پھانسی کا پروویژن بھی دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں فاسٹ ٹریک عدالتیں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ جو قوانین بنے ہیں، وہ سختی کے ساتھ نافذ ہوں، اس کے لیے ریاستوں کے تعاون سے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ تھانوں میں ویمین ہیلپ ڈیسک کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو، چوبیس گھنٹے دستیاب رہنے والی ہیلپ لائن ہو، سائبر جرائم سے نمٹنے کے لیے پورٹل ہو، ایسی متعدد کوششیں آج ملک میں چاروں طرف ہو رہی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج حکومت خواتین کے خلاف جرم پر عدم برداشت کی پالیسی سے کام کر رہی ہے۔ ان تمام کوششوں میں قومی کمیشن برائے خواتین ریاست کی خواتین کمیشنوں کے ساتھ مل کر خواتین اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کا یہ مثبت کردار ہمارےسماج کو آگے بھی اسی طرح مضبوط بناتا رہے گا۔ اسی یقین کے ساتھ، آپ سبھی کو ایک مرتبہ پھر یوم تاسیس کی بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ!,ৰাষ্ট্ৰীয় মহিলা আয়োগৰ কাৰ্যসূচীত ৩০ তম প্ৰতিষ্ঠা দিৱসৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অনুদিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%93%DB%8C%D9%88%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DB%81%DB%8C%D9%84%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE-%E0%A6%86%E0%A7%9F%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD/,نئی دہلی،25اکتوبر؍2021: ہر-ہر ، مہادیو! میں شروں کروں اب آپ لوگ اجازت دیں، تو میں بولنا شروع کروں۔ ہرہر مہادیو، بابا وشوناتھ ، ماتا انّا پورنا کی نگری کاشی کی پونیہ بھومی کے سبھی بندھو اور بھگنی لوگن کے پرنام با۔ دیوالی، دیو دیوالی، انّ کوٹ، بھیا دوج، پرکاش اتسو ار آوے والے ڈالا چھٹھ کا آپ سب لوگن کے بہت بہت شبھ کامنا۔ اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، اترپردیش کے توانائی سے بھرپور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی وزیر صحت منسکھ منڈاویا جی، اتر پردیش سرکار کے دیگر وزراء صاحبان ، مرکز کے کے ہمارے ایک اور ساتھی مہندر ناتھ پانڈے جی، ریاست کے ایک اور وزیر انل راجبھر جی، نیل کنٹھ تیواری جی، رویندر جیسوال جی،دیگر وزراء، پارلیمنٹ میں ہماری رفیق محترمہ سیما دویدی جی، بی پی سروج جی، وارانسی کی میئر محترمہ مردُلا جیسوال جی، دیگر عوامی نمائندگان، ٹیکنالوجی کے توسط سے ملک کے کونے کونے سے جڑے ہیلتھ پروفیشنلز، ضلع اسپتال، میڈیکل ادارے اور یہاں موجود بنارس کے میرے بھائیوں اور بہنوں! ملک کے کورونا وباء سے اپنی لڑائی میں 100کروڑ ویکسین خوراک کے بڑے پڑاؤ کو پورا کیا ہے۔ بابا وشوناتھ کے آشیرواد سے ، ماں گنگا کے اویرل پرتاپ سے، کاشی کے رہنے والوں کے وسیع اعتماد سے سب کو ویکسین –مفت ویکسین کی مہم کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔میں آپ سب لوگوں کا احترام کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج ہی کچھ دیر پہ��ے ایک پروگرام میں مجھے اترپردیش کو 9نئے میڈیکل کالج وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔اس سے پوروانچل اور پورے یوپی کے کروڑوں غریبوِں، دلتوں-پسماندہ طبقات-محروم طبقات کو ایسے سماج کےتمام لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا، دوسرے شہروں کے بڑے اسپتالوں کے لئے ان کی جو حصے داری ہوتی تھی، وہ کم ہوگی۔ ساتھیوں، مانس میں ایک سورٹھا ہے- مُکتی جنم مہی جانی، گیان کھانی اَدھ ہانی کر۔ جہاں بس سمبھو بھوانی، سو کاسی سیئی کسنا۔ یعنی کاشی میں تو شیو اور شکتی باضابطہ طورپر نِواس کرتے ہیں۔ علم کا ذخیرہ کاشی تو مصیبت اور پریشانی دونوں سے آزاد کرتی ہے۔پھر صحت سے جڑی اتنی بڑی یوجنا بیماریوں، پریشانیوں سے آزادی کا اتنا بڑا عہد ، اس کی شروعات کے لئے کاشی سے بہتر جگہ اور کیا ہوسکتی ہے؟ کاشی کے میرے بھائیوں اور بہنوں آج اس اسٹیج پر دو بڑے پروگرام ہورہے ہیں۔ ایک بھارت سرکار کا اور پورے بھارت کے لئے 64ہزارکروڑ روپے سے بھی زیادہ رقم کا یہ پروگرام آج کاشی کی مقدس سرزمین سے لانچ ہورہا ہے اور دوسرا کاشی اور پوروانچل کی ترقی کے ہزاروں کروڑ کے پروگراموں کا افتتاح اور ایک طرح سے میں کہوں کہ پہلے والا پروگرام اور یہاں کا پروگرام سب کو ملا کر آج قریب قریب 75ہزار کروڑ روپے کے کاموں کا یہاں فیصلہ یا وقف ہورہا ہے۔ کاشی سے شروع ہونے جارہی اِس یوجنا میں مہادیو کا آشیرواد بھی ہے اور جہاں مہادیو کا آشیرواد ہے، وہاں تو کلیان ہی کلیان ہے۔ کامیابی ہی کامیابی ہے اور جب مہادیو کا آشیرواد ہوتا ہے تو پریشانیوں سے آزادی بھی فطری ہے۔ ساتھیوں! آج یوپی سمیت پورے ملک کے صحت بنیادی ڈھانچے کو طاقت دینے کےلئے ، مستقبل میں وباؤں سے بچاؤ کےلئے ہماری تیاری اعلیٰ سطح کی ہو۔ گاؤں اور بلاک سطح تک ہمارے صحت نظام میں خود اعتمادی اور خودکفالت آئے۔اس کے لئے آج کاشی سے مجھے 64ہزار کروڑ روپے کا آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن قوم کو وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔آج کے کاشی کے بنیادی ڈھانچے سے جڑے تقریباً 5ہزار کروڑ روپے کے منصوبوں کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔اس میں سڑکوں سے لے کر گھاٹوں کی خوبصورتی، گنگا جی اور ورونا کی صاف صفائی ، پُلوں ، پارکنگ مقامات ، بی ایچ یو میں متعدد سہولتوں سے جڑے متعدد منصوبے۔ تہواروں کے اس موسم میں زندگی کو آسان ، صحت مند اور خوشحال بنانے کےلئے کاشی میں ہورہے ترقیوں کا یہ تہوار ایک طرح سے پورے ملک کو نئی توانائی، نئی طاقت، نیا اعتماد دینے والا ہے۔ اس کے لئے کاشی سمیت آج میں کاشی کی سرزمین سے 130کروڑ ملک کے شہریوں کو ہندوستان کے کونے کونے کو ، ہندوستان کے گاؤں کو ، ہندوستان کے شہر کو، ہر کسی کو بہت بہت مبارکباد۔ بھائیوں اور بہنوں! ہمارے یہاں ہر کام کا بنیادی پیمانہ صحت مند ہونا مانا گیا ہے۔جسم کو صحت مند رکھنے کے لئے کیا گیا خرچ ، ہمیشہ بہترین خرچ مانا گیا ہے، لیکن آزادی کے بعد کے طویل عہد میں امراض پر ، صحت سہولتوں پر اتنی توجہ نہیں دی گئی، جتنی ملک کو ضرورت تھی۔ملک میں جن کی طویل عرصے تک سرکاریں رہیں، انہوں نے ملک کے ہیلتھ کیئر سسٹم کی مجموعی ترقی کے بجائے اُسے سہولتوں سے محروم رکھا۔گاؤں میں یا تو اسپتال نہیں، اسپتال تھے تو علاج کرنے والا نہیں، بلاک کے اسپتال میں گئے تو ٹیسٹ کی سہولت نہیں، ٹیسٹ ہو بھی جائے تو نتیجے کو لے کر شکوک، درست ہونے کو لے کر شک ، ضلع اسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ جو خطرناک بیماری تشخیص ہوئی ہے، اس میں تو سرجری ہوگی، لیکن جو سرجری ہونی ہے، اس کی وہاں سہولت ہی نہیں ہے۔اس لئے پھر کسی بڑے اسپتال بھاگو، بڑے اسپتال میں اس سے زیادہ بھیڑ، طویل انتظار۔ ہم سب گواہ ہیں کہ مریض اور اس کا پورا خاندان ایسی ہی پریشانیوں سے الجھتا رہتا تھا۔زندگی دوڑ بھاگ میں چلی جاتی تھی۔ اس سے ایک تو خطرناک بیماری کئی بار اور زیادہ بگڑ جاتی ہے، اوپر سے غریب پر جو غیر ضروری اقتصادی بوجھ پڑتا ہے، وہ الگ۔ ساتھیوں! ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم میں جو بڑی کمی رہی، اس نے غریب اور متوسط درجے میں علاج کو لے کر ہمیشہ بنی رہنے والی فکر پیدا کردی۔ آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن ملک کے ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس کمی کو دورکرنے کا ایک حل ہے۔ مستقبل میں کسی بھی وباء سے نمٹنے میں ہم تیار ہوں، اہل ہوں، اس کے لئے اپنے ہیلتھ سسٹم کو آج تیار کیا جارہا ہے۔کوشش یہ بھی ہے کہ بیماری جلد پکڑ میں آئے، جانچ میں تاخیر نہ ہو۔ ہدف یہ ہے کہ آنے والے 5-4سالوں میں ملک کے گاؤں سے لے کر بلاک، ضلع، ریجنل اور نیشنل سطح تک کریٹکل ہیلتھ کیئر نیٹ ورک کو طاقتور بنایاجائے۔ خاص طور سے جن ریاستوں میں صحت سہولتوں کا فقدان زیادہ ہے، جو ہماری پہاڑی اور شمال مشرق کی ریاستیں ہیں، اُن پر اور زیادہ توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔جیسے اتراکھنڈ ہے، ہماچل ہے۔ ساتھیوں! ملک کے ہیلتھ سیکٹر کے الگ الگ فاصلوں کو دور کرنے کےلئے آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے تین بڑے پہلو ہیں۔ پہلا ڈائیگناسٹک اور ٹریٹمنٹ کے لئے وسیع سہولتوں کی تعمیر سے جڑا ہے۔ اس کے تحت گاؤں اور شہروں میں ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر کھولے جارہے ہیں۔ جہاں بیماریوں کی شروعات میں ہی تشخیص کرنے کی سہولت ہوگی۔ اِن سینٹروں میں فری طبی مشاورت ، مفت ٹیسٹ، مفت دوا جیسی سہولتیں ملیں گی۔وقت پر بیماری کا پتہ چلے گا تو بیماریوں کے خطرناک ہونے کا خطرہ کم ہوگا۔ خطرناک بیماری کی حالت میں اُس کے علاج کےلئے 600 سے زیادہ اضلاع میں کریٹکل کیئر سے جڑے 35ہزار سے زیادہ نئے بستر تیار کئے جائیں گے۔ باقی تقریباً 125 اضلاع میں ریفرل کی سہولت دی جائے گی۔ قومی سطح پر اس کے لئے تربیت اور دوسری نوعیت کی صلاحیت سازی کے لئے 12مرکزی اسپتالوں میں ضروری سہولیات مہیا کرنے پر بھی کام ہورہا ہے۔اس یوجنا کے تحت ریاستوں میں بھی سرجری سے جڑے نیٹ ورک کو طاقتور بنانے کےلئے 24×7چلنے والے 15ایمرجنسی آپریشن سینٹر بھی تیا رکئے جائیں گے۔ ساتھیوں! یوجنا کا دوسرا پہلو امراض کی جانچ کے لئے ٹیسٹنگ نیٹ ورک سے جڑا ہے۔اس مشن کے تحت بیماریوں کی جانچ ، ان کی نگرانی کیسے ہو، اس کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی جائے گی۔ملک کے 730اضلاع میں اِنٹیگریٹیڈ پبلک ہیلتھ لیبس اور ملک میں نشان زد 3500بلاکوں میں بلاک پبلک ہیلتھ اِکائیاں بنائی جائیں گی۔5ریجنل نیشنل سینٹرس فارس ڈسیز کنٹرول ، 20 میٹروپولیٹن اِکائیاں اور 15بی ایس ایل لیب بھی اِس نیٹ ورک کو اور طاقت فراہم کریں گے۔ بھائیوں اور بہنوں! اس مشن کا تیسرا پہلو! وباء سے جڑے تحقیقی اداروں کی توسیع کا ہے۔ اُن کو طاقتور بنانے کا ہے۔ اِس وقت ملک میں 80وائرل ڈائیگناسٹک اور ریسرچ لیب ہیں۔ اِن کو اور بہتر بنایا جائے گا۔وباء میں بایو سیفٹی لیبل-3کی لیب چاہئے۔ ایسی 15نئی لیب کو آپریشنل کیا جائے گا۔اس کے علاوہ ملک میں 4نئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرو لوجی اور ایک نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ون ہیلتھ بھی قائم کیا جارہا ہے۔جنوبی ایشیا کے لئے ڈبلیو ایچ او کا ریجنل ریسرچ پلیٹ فارم بھی ریسرچ کے اس نیٹ ورک کو طاقت فراہم کرے گا۔یعنی آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے توسط سے ملک کے کونے کونے میں علاج سے لے کر کریٹکل ریسرچ تک ایک پورا ایکو سسٹم وضع کیا جائے گا۔ ساتھیوں! ویسے یہ کام دہائیوں پہلے ہوجانے چاہئے تھے، لیکن حال کیا ہے ، اس کا ذکر کرنے کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ ہم پچھلے 7سال سے لگاتار بہتری لانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اب ایک بہت بڑے اسکیل پر بہت بڑے ایگریسیو ایپروچ کے ساتھ اِس کام کو کرنا ہے۔ کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا میں نے دہلی میں پورے ملک کے لئے ایک گتی شکتی ، ایک بہت بڑا ملک گیر بنیادی ڈھانچے سے جڑے پروگرام کو لانچ کیا تھا۔ آج یہ دوسرا تقریباً 64ہزار کروڑ روپے کا ہیلتھ کو ہی لے کر، آروگ کو لے کر ، بیماری کے خلاف لڑائی لڑنے کے لئے ملک کے ہر شہری کو صحت مند رکھنے کے لئے اِتنا بڑا ایک مشن لے کر آج کاشی کی دھرتی سے ہم ملک بھر میں نکل رہے ہیں۔ ساتھیوں! جب ایسا ہیلتھ انفراسٹرکچر بنتا ہے تو اِس سے ہیلتھ سروس تو بہتر ہوتی ہی ہے، اِس سے روزگار کا بھی ایک پورا ماحول تیار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر، پیرا میڈکس، لیب، فارمیسی، صاف صفائی ، آفس، ٹریول ٹرانسپورٹ، خوردونوش، ایسے مختلف طرح کے روزگار اِس یوجنا سے بننے والے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے ایک بڑا اسپتال بنتا ہے تو اس کے آس پاس ایک پورا شہر آباد ہوجاتاہے۔ جو اسپتال سے جڑی سرگرمیوں کے روزی روٹی کا مرکز بن جاتاہے۔ بہت بڑی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بن جاتاہے۔ اس لئے آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن صحت کے ساتھ ساتھ اقتصادی خود کفالت کا بھی ذریعہ ہے۔ یہ ایک ہولسٹک ہیلتھ کیئر کے لئے ہورہی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ ہولسٹک ہیلتھ کیئر یعنی جو سب کے لئے آسان ہو، سستا ہو اور سب کی پہنچ میں ہو۔ ہولسٹک ہیلتھ کیئر یعنی جہاں صحت کے ساتھ ہی ویلنس پر بھی فوکس ہو۔ سوچھ بھارت ابھیان ، جل جیون مشن، اوجولا یوجنا، پوشن ابھیان، مشن اندردھنش ایسی متعدد مہموں نے ملک کے کروڑوں غریبوں کو بیماری سے بچایا ہے۔ اُنہیں بیمار ہونے سے بچایا ہے۔ آیوشمان بھارت یوجنا نے 2 کروڑ سے زیادہ غریبوں کا اسپتال میں مفت علاج بھی کروایا ہے۔علاج سے جڑی مختلف پریشانیوں کو آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن کے ذریعے حل کیا جارہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں! ہم سے پہلے برسوں تک جو سرکار میں رہے، ان کے لئے ہیلتھ سروس پیسہ کمانے، گھپلے کا ذریعہ رہی ہے۔ غریب کی پریشانی دیکھ کر بھی وہ اُن سے دور بھاگتے رہے۔ آج مرکز اور ریاست میں وہ سرکار ہے، جو غریب ، دلت، محروم طبقات، پسماندہ برادریوں، متوسط طبقات، سب کا درد سمجھتی ہے۔ ملک میں صحت سہولتیں بہتر کرنے کےلئے ہم دن رات ایک کررہے ہیں۔ پہلے عوام کا پیسہ گھپلوں میں جاتا تھا، ایسے لوگوں کی تجوریوں میں جاتاتھا، آج بڑے بڑے منصوبوں میں پیسہ لگ رہا ہے۔ اس لئے آج تاریخ کی سب سے بڑی وباء سے بھی ملک نمٹ رہا ہے اور آتم نر بھر بھارت کے لئے لاکھوں کروڑ روپے کا بنیادی ڈھانچہ بھی تیار ہورہا ہے۔ ساتھیوں! میڈیکل سہولتیں بڑھانے کےلئے بہت ضروری ہے کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعداد بھی اُتنی ہی تیزی سے بڑھے۔ یوپی میں جس تیزی کے ساتھ نئے میڈیکل کالج کھولے جارہے ہیں، اُس کا بہت اچھااثر میڈیکل کی سیٹوں اور ڈاکٹروں کی تعداد پر پڑے گا۔ زیادہ سیٹیں ہونے کی وجہ سے اب غریب والدین کا بچہ بھی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ سکے گا اور اُسے پورا کرسکے گا۔ بھائیوں اور بہنوں! آزادی کے بعد 70 سال میں ملک میں جتنے ڈاکٹر می��یکل کالجوں سے پڑھ کر نکلے ہیں، اس سے زیادہ ڈاکٹر اگلے 12-10سالوں میں ملک کو ملنے جارہے ہیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ میڈیکل شعبے میں کتنا بڑا کام ملک میں ہورہا ہے۔جب زیادہ ڈاکٹر ہوں گے، تو ملک کے کونے کونے میں، گاؤں گاؤں میں اتنے ہی آسانی ڈاکٹر دستیاب ہوں گے۔ یہی نیا بھارت ہے، جہاں فقدان سے آگے بڑھ کر ہر خواہش کی تکمیل کےلئے رات دن کام کیاجارہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں! ماضی میں خواہ ملک میں ہویا اترپردیش میں جس طرح کام ہوا، اگر ویسے ہی کام ہوتا تو آج کاشی کی حالت کیا ہوتی؟ دنیا کے سب سے قدیم شہر کو بھارت کے ثقافتی اثاثے کی علامت کاشی کو اِنہوں نے اپنے حال پر چھوڑ رکھا تھا۔ لٹکتے بجلی کے تار، اُوبڑ کھابڑ سڑکیں، گھاٹوں اور گنگا میّا کی بری حالت ، جام، آلودگی اورمتزلزل انتظامی صورتحال یہی سب کچھ چلتا رہا۔ آج کاشی کا دل وہی ہے، من وہی ہے، لیکن جسم کو سدھارنے کی ایمانداری سے کوشش ہورہی ہے۔جتنا کام وارانسی میں پچھلے سات سال میں ہوا ہے، اُتنا پچھلی کئی دہائیوں میں نہیں ہوا۔ بھائیوں اور بہنوں! رِنگ روڈ کے نہ ہونے سے کاشی میں جام کی کیا حالت ہوتی تھی، اسے آپ نے سالہا سال محسوس کیا ہے۔ نو اِنٹری کے کھلنے کا انتظار تو بنارس والوں کی عادت بن گئی تھی۔ اب رِنگ روڈ بننے سے پریاگ راج، لکھنؤ، سلطان پور، اعظم گڑھ، غازی پور، گورکھپور، دہلی ، کولکاتہ کہیں بھی آنا جانا ہو تو شہر میں آکر شہر والوں کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہی نہیں رِنگ روڈ اب غازی پور کے برنون تک فورلین نیشنل ہائی وے سے جڑ گیا ہے۔جگہ جگہ سروس روڈ کی سہولتیں بھی دی گئی ہیں۔ اِ س سے متعدد گاؤں کے ساتھ ساتھ پریاگ راج، لکھنؤ، گورکھپور، بہار اور نیپال تک آمدورفت آرام دہ ہوگئی ہے۔ اِس سے سفر تو آسان ہوگا ہی ، کاروبار کو بھی رفتار ملے گی۔ ٹرانسپورٹ کی قیمت کم ہوگی۔ بھائیوں اور بہنوں! جب تک ملک میں ایک ڈیڈیکیٹڈ انفراسٹرکچر کی تعمیر نہ ہو، تب تک ترقی کی رفتار ادھوری رہتی ہے۔ورونا ندی پر دو پُل بننے سے درجنوں گاؤں کے لئے اب شہر آنا جانا آسان ہوا ہے۔ اِس سے ایئر پورٹ آنے جانے والے پریاگ راج، بھدوہی اورمرزا پور کے لوگوں کو بہت سہولت ہوگی۔قالین صنعت سے جڑے ساتھیوں کو بھی بہت فائدہ ہوگااور ماں وِندھ واسنی کے درشن کرنے کےلئے ایئر پورٹ سے سیدھے مرزا پور جانے کے خواہش مند ماں کے بھکتوں کوبھی سہولت ملے گی۔ سڑکوں، پُلوں، پارکنگ، جگہوں سے جڑے ایسے متعدد منصوبے آج کاشی کے رہنے والوں کو وقف کئے گئے ہیں۔ جس سے شہر اور آس پاس زندگی اور زیادہ آسان ہوگی۔ریلوے اسٹیشن پر تعمیر شدہ جدید ایگزیکیٹیو لاؤنج سے مسافروں کی سہولت اور بڑھے گی۔ ساتھیوں! گنگا جی کی صفائی اور پاکیزگی کے لئے گزرے ہوئے سالوں میں وسیع پیمانے پر کام کیاجارہا ہے۔ جس کا نتیجہ ہم آج محسوس بھی کررہے ہیں۔ گھروں سے گندا پانی گنگا جی میں نہ جائے، اس کے لئے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔اب رام نگر میں 5نالوں سے بہنے والے سیویج کو ٹریٹ کرنے کے لئے جدید ٹریٹمنٹ پلان کام کرنا شروع کرچکا ہے۔ اس سے آس پاس کی 50ہزار سے زیادہ آبادی کو براہ راست فائدہ ہورہا ہے۔ گنگا جی ہی نہیں، بلکہ ورونا کی صفائی کو لے کر بھی اولیت کی بنیاد پر کام ہورہاہے۔ طویل وقت تک نظر انداز کی گئی ورونا اپنا وجود کھونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ورونا کو بچانے کےلئے ہی چینلائزیشن کے منصوبے پر کام کیا گیا۔آج صاف پانی بھی ورونا میں پہنچ رہا ہے۔ 13چھوٹے بڑے نالوں کو بھی ٹریٹ کیا جارہا ہے۔ورونا کے دونوں کنارے پاتھ وے ، ریلنگ، لائٹنگ، پختہ گھاٹ، سیڑھیاں ایسی متعدد سہولتوں کی بھی تعمیر پوری ہورہی ہے۔ ساتھیوں! کاشی روحانیت کے ساتھ ساتھ دیہی معیشت کا بھی ایک اہم مرکز ہے۔ کاشی سمیت پورے پوروانچل کے کسانوں کی پیداوار کو ملک –غیر ملکی بازاروں تک پہنچانے کےلئے گزرے سالوں میں متعدد سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔پیری شیبل کارگو سینٹرز سے لے کر پیکیجنگ اور پروسیسنگ کا جدید انفراسٹرکچر یہاں تیا رکیا گیا ہے۔ اسی کڑی میں لال بہادر شاستری فروٹ اینڈ ویجیٹیبل مارکیٹ کی جدید کاری ہوئی ہے۔ جو جدید کاری ہوئی ہے، اس سے کسانوں کو بہت سہولت ہونے والی ہے۔شہنشاہ پور میں بایو-سی این جی پلانٹ کی تعمیر سے بایو گیس بھی ملے گی اور ہزاروں میٹرک ٹن آرگینک کھاد بھی کسانوں کو دستیاب ہوگی۔ بھائیوں اور بہنوں! گزرے سالوں کی ایک اور بڑی حصولیابی اگر کاشی کی رہی ہے تو وہ ہے بی ایچ یو کا پھر سے دنیا میں اعلیٰ ترین ہونے کی طرف بڑھنا۔ آج ٹیکنالوجی سے لے کر ہیلتھ تک بی ایچ یو میں غیر معمولی سہولتیں تیار ہورہی ہیں۔ ملک بھر سے یہاں نوجوان ساتھی یہاں پڑھائی کےلئے آرہے ہیں۔یہاں سینکڑوں طالب علم اور طالبات کے لئے جو رہائشی سہولتیں تعمیر ہوئی ہیں، وہ نوجوان ساتھیوں کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ خاص طور سے سینکڑوں طالبات کے لئے جو ہاسٹل کی سہولت تیار ہوئی ہے، اُس سے مالویہ جی کے وژن کو پورا کرنے میں اور طاقت ملے گی۔ بیٹیوں کو اعلیٰ اور جدید تعلیم دینے کےلئے جس عہد کے ساتھ وہ زندہ رہے، اُس کو پورا کرنے میں ہمیں مدد ملے گی۔ بھائیوں اور بہنوں! ترقی کے یہ سبھی منصوبے آتم نربھرتا کے ہمارے عہد کو ثابت کرنے والے ہیں۔ کاشی اور یہ پورا خطہ تو مٹی کے حیرت انگیز فنکاروں ، کاریگروں اور کپڑوں پر جادوگری بکھیرنے والے بُنکروں کے لئے جانا جاتاہے۔سرکار کی کوششوں سے پچھلے 5سال میں وارانسی میں کھادی اور دوسری گھریلوں صنعتوں کی پیداوار میں تقریباً 60 فیصد اور فروخت میں تقریباً 90 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اِس لئے ایک بار پھر میں یہاں سے ملک کے تمام شہریوں سے درخواست کروں گا کہ اِس دیوالی ہمیں اپنے اِن ساتھیوں کی دیوالی کا بھی دھیان رکھنا ہے۔اپنے گھرکی سجاوٹ سے لے کر اپنے کپڑوں اور دیوالی کے دیوؤں تک لوکل کے لئے ہمیں ووکل رہنا ہے۔ دَھن تیرس سے لے کر دیوالی تک لوکل کی جم کر خریداری کریں گے، تو سب کی دیوالی خوشیوں سے بھر جائے گی اور جب میں لوکل سے ووکل کی بات کرتاہوں تو میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ٹی وی والے بھی صرف مٹی کے دیے دکھاتے ہیں۔ ووکل فار لوکل صرف دیے تک محدود نہیں ہیں، ہر چیز میں وہ مصنوعات ، جس میں میرے ملک کے شہریوں کا پسینہ ہے، جس مصنوعات میں میرے ملک کی مٹی کی خوشبو ہے، وہ میرے لیے ہے اور ایک بار ہماری عادت بن جائے گی ملک کی چیزیں خریدنے کی تو پیداوار بھی بڑھے گی ، روزگار بھی بڑھے گا ، غریب سے غریب کو کام بھی ملے گا اوریہ کام سب مل کر سکتے ہیں۔ سب کی کوشش سے بہت بڑی تبدیلی ہم لوگ لا سکتے ہیں۔ ساتھیوں! ایک بار پھر آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے لئے پورے ملک کو اور ترقی سے جڑے متعدد منصوبوں کے لئے کاشی کو بہت بہت مبارکباد۔آپ سب کو آنےو الے تمام تہواروں کی ایک بار پھر بہت بہت پیشگی مبارکباد!بہت بہت شکریہ۔,বাৰানসীত পিএম আয়ুষ্মান ভাৰত হেল্থ ইনফ্ৰাষ্ট্ৰাকচাৰ মিছন উদ্ঘাটন কৰি দিয়া প��ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%B9%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A2%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,عزت مآب، معززین، نمسکار! اس سال بھی ہم اپنا روایتی فیملی فوٹو تو نہیں لے پائے، تاہم ورچوئل طریقے سے ہی سہی، ہم نے آسیان – بھارت سربراہ اجلاس کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ میں عالی جناب برونئی کے سلطان کو 2021 میں آسیان کی کامیاب صدارت کے لئے مبارک باد دیتا ہوں۔ عزت مآب، معززین، کووڈ – 19 کی وبا کے سبب ہم سبھی کو متعدد چیلنجوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ لیکن یہ چیلنجنگ وقت بھارت – آسیان دوستی کی کسوٹی بھی رہا۔ کووڈ – 19 کے دوران میں ہمارا باہمی تعاون، باہمی ہمدردی، مستقبل میں ہمارے رشتوں کو تقویت دیتے رہیں گے، ہمارے لوگوں کے درمیان خیرخواہی کی بنیاد بنیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اور آسیان کے درمیان ہزاروں برسوں سے شاندار تعلقات رہے ہیں۔ ان کی جھلک ہماری مشترکہ اقدار ، روایات، زبانوں، کتابوں، فن تعمیر ، ثقافت اور خورد ونوش ،ہر جگہ نظر آتی ہے اور اس لئے آسیان کا اتحاد مرکزیت بھارت کے لئے ہمیشہ ایک اہم ترجیح رہی ہے۔ آسیان کا یہ خصوصی کردار ، بھارت کی ’ایکٹ ایسٹ پالیسی‘ جو ہماری ’سلامتی اور خطے میں سب کی ترقی ‘یعنی ’’ایس اے جی اے آر‘‘ پالیسی میں مضمر ہے۔بھارت کے انڈو پیسفک اوشنس انیشی ایٹو اور آسیان کے آؤٹ لک فار دی انڈو- پیسفک ، خطے میں ہمارے مشترکہ ویژن اور باہمی تعاون کا ڈھانچہ ہیں۔ عزت مآب، معززین، سال 2022 میں ہماری شراکت داری کے 30 سال مکمل ہوں گے۔ بھارت بھی اپنی آزادی کے 75 سال پورے کرے گا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس اہم مرحلے کو ہم ’آسیان – بھارت دوستی سال‘ کے طور پر منائیں گے۔ بھارت مجوزہ صدر کمبو ڈیا اور ہمارے کنٹری کوآرڈی نیٹر سنگا پور کے ساتھ مل کر آپسی تعلقات کو مزید گہرا بنانے کے تئیں پابند عہد ہے۔ اب میں آپ سبھی کے خیالات سننے کا منتظر ہوں۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- م م- ق ر),১৮তম ভাৰত-আছিয়ান শিখৰ সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ মন্তব্য +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%93%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%B1%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%D9%BE%D8%B1-%D9%86%D8%B4%D8%B1-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A7%A6%E0%A7%AA-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%B2-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF/,نئیدہلی۔29اپریل، 2018؛ میرے پیارے ہم وطنوں! نمسکار حال ہی میں 4 اپریل سے 15 اپریل تک آسٹریلیا میں 21ویں دولت مشترکہ کھیل منعقد ہوا۔ ہندوستان سمیت دنیا کے 71 ممالک نے اس میں حصہ لیا۔ جب اتنا بڑا انعقاد ہو، دنیا بھر سے آئے ہزاروں کھلاڑی اس میں حصہ لے رہے ہوں، تصور کر سکتے ہیں کیسا ماحول ہوگا؟ جوش، جذبہ، امنگ ، امیدیں، خواہشات، کچھ کر دکھانے کا جذبہ – جب اس طرح کا ماحول ہو تو کون اس سے اپنے آپ کو الگ رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب دنیا بھر میں لوگ روز سوچتے تھے کہ آج کون سے کھلاڑی مظاہرہ کریں گے۔ ہندوستان کا مظاہرہ کیسا رہے گا، ہم کتنے تمغے حاصل کریں گے اور بہت فطری بھی تھا۔ ہمارے کھلاڑی نے بھی ہم وطنوں کی امیدوں پر کھرا اترتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظا��رہ کیا اور ایک کے بعد ایک تمغہ جیتتے ہی چلے گئے۔ چاہے نشانہ بازی ہو، کشتی ، وزن اٹھانا ہو، ٹیبل ٹینس ہو یا بیڈمنٹن، ہندوستان نے ریکارڈ مظاہرہ کیا۔ 26 سونے کے، 20 چاندی کے، 20 کانسے کے – ہندوستان نے تقریباً کل 66 تمغے جیتے۔ ہر ہندوستانی کو یہ کامیابی فخر کا احساس دلاتا ہے۔ تمغہ جیتنا کھلاڑی کے لیے فخر اور خوشی کی بات ہوتی ہی ہے۔ یہ پورے ملک کے لیے ، سبھی ہم وطنوں کے لیے بھی بہت ہی قابل فخر تہوار ہوتا ہے۔ میچ ختم ہونے کے بعد جب تمغہ کے ساتھ ہندوستان کی رہنمائی کرتے ہوئے اتھلیٹ وہاں تمغہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ترنگا جھنڈا لپیٹے ہوتے ہیں، قومی ترانہ کا نغمہ بجتا ہے اور وہ جو احساس ہوتا ہے، سکون اور خوشی کا، فخر کا، عزت کا اپنے آپ میں کچھ خاص ہوتا ہے، خاص ہوتا ہے۔ تن من کو جھنجھوڑنے والا ہوتا ہے۔ جوش اور امنگ سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہم سب ایک جذبے سے بھر جاتے ہیں۔ شاید اس احساسات کو ظاہر کرنے کے لیے میرے پاس جملہ بھی کم پڑ جائیں گے۔ لیکن میں نے ان کھلاڑیوں سے جو سنا، میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ مجھے تو فخر ہوتا ہے، آپ کو بھی فخر ہوگا۔ میں مانک منیکا بترا جو دولت مشترکہ میں چار تمغہ لائی ہوں۔ دو سونے، ایک چاندی ، ایک کانسے کا۔ ’من کی بات‘ پروگرام سننے والوں کو میں بتانا چاہتی ہوں کہ میں بہت خوش ہوں کیونکہ پہلی بار ہندوستان میں ٹیبل ٹینس اتنا مقبول ہو رہا ہے۔ ہاں میں نے اپنا بہترین ٹیبل ٹینس کھیلا ہوگا۔ پوری زندگی کا بہترین ٹیبل ٹینس کھیلا ہوگا۔ جو اس سے پہلے میں نے پریکٹس کیا ہے اس کے بارے میں میں بتاؤنگی کہ میں نے بہت، اپنے کوچ سندیپ سر کے ساتھ پریکٹس کی ہے۔ دولت مشترکہ سے پہلے جو ہمارے کیمپس تھے پرتگال میں، ہمیں ٹورنامنٹس میں بھیجا گورنمنٹ نے اور میں گورنمنٹ کو تھینک یو کہتی ہوں کیونکہ انہوں نے اتنے سارے انٹرنیشنل ایکسپوزر دیئے ہمیں۔ نوجوان نسل کو بس ایک پیغام دوں گی کبھی گیو اپ مت کرو۔ اپنے آپ کو ایکسپلور کرو۔ میں پی گروراج ’من کی بات‘ پروگرام سننے والوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں۔ 2018 کامن ویلتھ گیمس میرا یہ میڈل جیتنے کا خواب تھا۔ میں پہلی بار پہلے کامن ویلتھ گیمس میں پہلے ہندوستان کو تمغہ دے کر میں بہت خوش ہوں۔ یہ تمغہ میرے گاؤں کُنداپور اور میری ریاست کرناٹک اور میرے ملک کو یہ وقف کرتا ہوں۔ میرابائی چانو، میں نے 21ویں کامن ویلتھ گیمس میں ہندوستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل جیتا تھا۔ تو اسی میں مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میرا ایک خواب تھا ہندوستان کے لیے اور منی پور کے لیے ایک اچھا کھلاڑی بننے کے لیے، تو میں نے ساری فلمیوں میں دیکھی ہے۔ جیسے کہ منی پور کی میری دی دی اور وہ سب کچھ دیکھنے کے بعد میں نے بھی ایسا سوچا تھا کہ ہندوستان کے لیے منی پور کے لیے اچھا کھلاڑی بننا چاہتی ہوں۔ یہ میری کامیاب ہونے کی وجہ سے میرا ڈسی پلین بھی ہے اور اخلاقیات ، وقف اور سخت محنت بھی ہے۔ دولت مشترکہ کھیلوں میں ہندوستان کا مظاہرہ بہترین تو تھا ہی، ساتھ ہی یہ خاص بھی تھا۔ خاص اس لیے کہ اس بار کئی چیزیں تھیں، جو پہلی بار ہوئی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس بار کامن ویلتھ گیمس میں ہندوستان کی جانب سے جتنے کھلاڑی تھے، سب کے سب تمغہ جیت کے آئے ہیں۔ منیکا بترا نے جتنے بھی ایوینٹ بھی مکمل کیا – سبھی میں میڈل جیتا۔ وہ پہلی ہندوستانی خواتین ہے، جنہوں نے انفرادی ٹیبل ٹینس میں ہندوستان کو گولڈ دلایا ہے۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ میڈل نشانے بازی میں ملے۔ 15 سالہ ہندوستانی نشان�� باز انیش بھانوالا دولت مشترکہ کھیلوں میں ہندوستان کی جانب سے گولڈ میڈل جیتنے والے سب سے نوجوان کھلاڑی بنے۔ سچن چودھری دولت مشترکہ گیمس میں میڈل جیتنے کے لیے صرف ہندوستان پیرا پاور لیفٹر ہیں۔ اس بار کے کھیل خاص طور پر اس لیے بھی تھے کہ زیادہ میڈل حاصل کرنے والی خواتین کھلاڑی تھیں۔ اسکوائش ہو، مکے بازی ہو، وزن اٹھانا ہو، نشانہ بازی ہو – خواتین کھلاڑیوں نے کمال کر دکھایا۔ بیڈمنٹن میں تو فائنل مقابلے ہندوستان کی ہی دو کھلاڑیوں سائنہ نہوال اور پی وی سندھو کے درمیان ہوا۔ سبھی پرجوش تھے کہ مقابلہ تو ہے لیکن دونوں میڈل ہندوستان کو ہی ملیں گے – پوری دنیا نے دیکھا۔ مجھے بھی دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی، ملک کے مختلف حصوں سے ، چھوٹے چھوٹے شہروں سے آئے ہیں۔ کئی بندشیں، پریشانیوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اور آج انہوں نے جو مقام حاصل کیا ہے، وہ جن ہدف تک پہنچے ہیں، ان کی اس زندگی کے سفر میں چاہے ان کے والدین ہوں، ان کے سرپرست ہوں، کوچ ہوں، معاون اسٹاف ہو، اسکول ہو، اسکول کے اساتذہ ہوں، اسکول کا ماحول ہو – سبھی کا تعاون ہے۔ ان کے دوستوں کا بھی تعاون ہے، جنہوں نے ہر حالات میں ان کا حوصلہ بلند رکھا۔ میں ان کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ان سب کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ گزشتہ مہینے ’من کی بات‘ کے دوران میں نے ہم وطنوں سے خاص کر اپنے نوجوانوں سے فٹ انڈیا کی گزارش کی تھی اور میں نے ہر کسی کو دعوت دی تھی آیئے فٹ انڈیا سے جڑئے، فٹ انڈیا کو لیڈ کیجیے۔ اور مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ لوگ بڑے ہی جوش کے ساتھ اس کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے اس کے لیے اپنا تعاون دکھاتے ہوئے مجھے لکھا ہے، خط بھیجیے ہیں، سوشل میڈیا پر اپنا فٹ نیس منتر – فٹ انڈیا اسٹوریز بھی شیئر کیے ہیں۔ ایک شخص جناب ششی کانت بھونسلے نے سویمنگ پول کی اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے – ’’میرا ہتھیار میرا جسم ہے، میرا عنصر پانی ہے، میری دنیا سویمنگ ہے۔‘‘ روما دیو ناتھ لکھتی ہیں – ’’مارننگ والک سے میں خود کو خوش اور تندرست محسوس کرتی ہوں۔ اور وہ آگے کہتی ہیں – ’’میرے لیے – فٹنس مسکرانے سے آتی ہے اور ہمیں مسکرانا چاہیے، جب ہم خوش ہوتے ہیں۔‘‘ دیو ناتھ جی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خوشی ہی فٹنس ہے۔ دھول پرجاپتی نے ٹریکنگ کی اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے – ’میرے لیے ٹریولنگ اور ٹریکنگ ہی فٹ انڈیا ہے۔‘ یہ دیکھ کر کے کافی اچھا لگتا ہے کہ کئی معروف شخصیات بھی بڑے دلچسپ طریقے سے فٹ انڈیا کے لیے ہمارے نوجوانوں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ فلمی اداکار اکشے کمار نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو شیئر کیا ہے۔ میں نے بھی اسے دیکھا ہے اور آپ سب بھی ضرور دیکھیں گے، اس میں وہ لکڑی کے تختے کے ساتھ ورزش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ ورزش پیٹھ اور پیٹ کے پٹھوں کے لیے کافی فائدہ مند ہے۔ ایک اور ان کا ویڈیو بھی مشہور ہو گیا ہے، جس میں وہ لوگوں کے والی بال پر ہاتھ آزما رہے ہیں۔ بہت سے اور نوجوانوں نے بھی فٹ انڈیا ایفرٹس کے ساتھ جڑ کر اپنے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی تحریک ہم سبھی کے لیے ، پوری دنیا کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اور ایک بات تو میں ضرور کہوں گا – بغیر خرچ کا فٹ انڈیا کی تحریک کا نام ہے ’یوگ‘ ۔ فٹ انڈیا مہم میں یوگ کی خاص اہمیت ہے اور آپ بھی تیاری میں لگ گئے ہوں گے۔ 21 جون ’بین الاقوامی یوگ کا دن‘ کی خصوصیت تو اب پوری ��نیا نے قبول کیا ہے۔ آ پ بھی ابھی سے تیاری کیجیے۔ اکیلے نہیں – آپ کا شہر، آپ کا گاؤں، آپ کا خطہ، آپ کے اسکول ، آپ کے کالج ہر کوئی کسی بھی عمر کا – مرد ہو، خواتین ہو یوگ سے جڑنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ پورے جسم کے فروغ کے لیے، ذہنی ترقی کے لیے، ذہنی یکسانیت کے لیے یوگ کا ایک استعمال ہے، اب ہندوستان میں اور دنیا میں بتانا نہیں پڑتا ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک اینیمیٹڈ ویڈیو جس میں مجھے دکھایا گیا ہے ، وہ ان دنوں کافی مشہور ہو رہا ہے۔ انیمیشن والوں کو میں اس لیے مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے بہت باریکی سے جو کام ایک استاد کر سکتا ہے وہ انیمیشن سے ہو رہا ہے۔ آپ کو بھی ضرور اس کا فائدہ ملے گا۔ میرے نوجوان ساتھیوں۔ آپ تو اب امتحان، امتحان، امتحان کے چکر سے نکل کر اب چھٹیوں کی فکر میں لگے ہوں گے۔ چھٹیاں کیسے منانا ہے ، کہاں جانا ہے سوچتے ہوں گے۔ میں آج آپ کو ایک نئے کام کے لیے مدعو کرنا چاہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے نوجوان ان دنوں کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے بھی اپنا وقت بتاتے ہیں۔ سمر انٹرن شپ کا چلن بڑھتا چلا جا رہا ہے اور نوجوان بھی اس کی تلاش کرتے رہتے ہیں، اور ویسے بھی انٹرن شپ اپنے آپ میں ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ چار دیواری کے باہر کاغذ قلم سے ، کمپیوٹر سے دور زندگی کو نئے طریقے سے جینے کا تجربہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہندوستانی حکومت کی تین وزارت اسپورٹس ، ایچ آر ڈی ، پینے کے پانی کا محکمہ – حکومت کے تین چار وزارت نے مل کر کے ایک سووچھ بھارت سمر انٹرن شپ 2018 لانچ کیا ہے۔ کالج کے طلبا – طالبات، این سی سی کے نوجوان، این ایس ایس کے نوجوان، نہرو یووا مرکز کے نوجوان، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، سماج کے لیے ملک کے لیے اور کچھ سیکھنا چاہتے ہیں، سماج کو تبدیل کرنے میں، جو اپنے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں، ایک مثبت توانائی کو لے کر سماج میں کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہے، ان سب کے لیے موقع ہے اور اس سے سووچھتا کو بھی قوت ملے گی اور جب ہم 2 اکتوبر سے مہاتما گاندھی کی 150ویں یوم پیدائش منائیں گے، اس کے پہلے ہمیں کچھ کرنے کا سکون ملے گا اور میں یہ بھی بتا دوں کہ جو اچھا سے اچھا انٹرنس ہوگا، جو کالج میں اچھا کام کیا ہوگا، یونیورسٹیز میں کیا ہوگا – ایسے سب کو قومی سطح پر انعام دیا جائے گا۔ اس انٹرن شپ کو کامیابی کے ساتھ پورا کرنے والے سبھی انٹرن کو سووچھ بھارت مشن کے ذریعے ایک سرٹیفیکٹ دیا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں، جو انٹرن اسے اچھے سے پورا کریں گے، یو جی سی انہیں دو کریڈٹ پوائنٹ بھی دیگا۔ میں طالبعلموں کو، طالبات کو ، نوجوانوں کو پھر ایک بات کے لیے مدعو کرتا ہوں انٹرن شپ کے لیے آپ اس کا فائدہ اٹھائیں۔ آپ مائی گوو پر جاکر سوچھ بھارت سمر انٹرنشپ کے لیے رجسٹر کر سکتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان سوچھتا کے اس تحریک کو اور آگے بڑھائیں گے۔ آپ کی کوششوں کے بارے میں جاننے کے لیے میں بھی منتظر ہوں۔ آپ اپنی جانکاریاں ضرور بھیجیں، اسٹوری بھیجیے، فوٹو بھیجیے، ویڈیو بھیجیے، آیئے! ایک نئے تجربے کے لیے ان چھٹیوں کو سیکھنے کا موقع بنا دیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! جب بھی موقع ملتا ہے تو دور درشن پر گُڈ نیوز انڈیا اس پروگرام کو ضرور دیکھتا ہوں اور میں تو ہم وطنوں سے بھی گزرش کروں گا کہ گُڈ نیوز انڈیا بھی ہمیں دیکھنا چاہیے اور وہاں پر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے کس کس کونے میں کتنے کتنے لوگ کس کس طرح سے اچھا کام کر رہے ہیں، اچھی باتیں ہو ��ہی ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں دیکھا دلی کے ایسے نوجوانوں کی کہانی دکھا رہے تھے جو غریب بچوں کی تعلیم کے لیے بغیر کسی فائدے کے یکجا ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے گروپ نے دلی میں اسٹریٹ چائلڈ کو اور جھگیوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے ایک بڑی مہم چھیڑ دی ہے۔ شروعات میں تو انہوں نے سڑکوں پر بھیک مانگنے والے یا چھوٹے موٹے کام کرنے والے بچوں کی حالت نے ان کو ایسا جھنجوڑ دیا کہ وہ اس کریٹیو کام کے اندر کھپ گئے ۔ دلی کی گیتا کالونی کے پاس جھگیوں میں 15 بچوں سے شروع ہوئی یہ مہم آج راجدھانی کے 12 جگہوں پر 2 ہزار بچوں سے جڑ چکی ہے، اس مہم سے جڑے نوجوان، استاد مصروف شیڈول سے 2 گھنٹے کا فری وقت نکال کر سماجی تبدیلی کی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بھائیوں بہنو، اسی طرح سے اترا کھنڈ کے ہمالائی علاقے کے کچھ کسان ملک بھر کے کسانوں کے لیے ترغیب دینے والے بن گئے ہیں۔ انہوں نے مشترکہ کوششوں سے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے علاقے کی بھی تقدیر بدل ڈالی۔ اتراکھنڈ کے باگیشور میں خاص طور پر منڈوا، چولائی، مکّا یا جو کی فصل ہوتی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کو اس کی صحیح قیمت نہیں مل پانی تھی لیکن کپکوٹ تحصیل کے کسانوں نے ان فصلوں کو سیدھے بازار میں فروخت کر نقصان سہنے کے بجائے انہوں نے قیمت میں اضافہ کا راستہ اپنایا، ویلیو ایڈیشن کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے کیا کیا – انہوں نے کھیت کی پیداوار میں سے بسکٹ بنانا شروع کیا اور بسکٹ بیچنا شروع کیا ۔ اس علاقے میں تو یہ بڑی پکی بات ہے کہ آئرن ریچ ہے اور آئرن رچ، لوہے کے اجزا سے لیس یہ بسکٹ حاملہ عورتوں کے لیے تو ایک طرح سے بہت مفید ہوتے ہیں۔ ان کسانوں نے منار گاؤں میں ایک کوآپریٹیو ادارہ بنایا ہے اور وہاں بسکٹ بنانے کی فیکٹری کھول لی ہے۔ کسانوں کی ہمت دیکھ کر انتظامیہ نے بھی اسے قومی اجیویکا مشن سے جوڑ دیا ہے۔ یہ بسکٹ اب نہ صرف باگیشور ضلع کے تقریباً پچاس آنگن واڑی مراکز میں، بلکہ الموڑا اور کوسانی تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ کسانوں کی محنت سے ادارہ کا سالانہ ٹرن اوور نہ صرف 10 سے 15 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے بلکہ 900 سے زیادہ کنبوں کو روزگار کے مواقع ملنے سے ضلع کے رہنے والوں کا گاؤں کے باہر جانے کا سلسلہ بھی رکنا شروع ہوا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنوں! جب ہم سنتے ہیں کہ مستقبل میں دنیا میں پانی کو لے کر جنگ شروع ہونے والی ہے۔ ہر کوئی یہ بات بولتا ہے لیکن کیا ہماری کوئی ذمہ داری ہے کیا؟ کیا ہمیں نہیں لگتا ہے کہ پانی کا تحفظ سماجی ذمہ داری ہونی چاہیے؟ ہر انسان کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ بارش کی ایک ایک بوند ہم کیسے بچائیں اور ہم میں سے سب کو پتہ ہے کہ ہم ہندوستانی کے دل میں پانی کے تحفظ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، کتابوں کا موضوع نہیں ہے، زبان کا موضوع نہیں رہا۔ صدیوں سے ہمارے آبا و اجداد نے اسے جی کر کے دکھایا ہے۔ ایک ایک بوند پانی کی اہمیت کو انہوں نے اہمیت دی ہے۔ انہوں نے ایسے نئے نئے طریقے ڈھونڈھے ہیں کہ پانی کی ایک ایک بند کو کیسے بچایا جائے؟ آپ میں سے شاید جن لوگوں کو تمل ناڈو میں جانے کا موقع ملتا ہوگا تو تمل ناڈو میں کچھ مندرایسے ہیں کہ جہاں مندروں میں آبپاشی کا انتظام ، آبی تحفظ کا انتظام، سکھے کا انتظام، اس کے بڑے بڑے تختیاں مندروں میں لکھے گئے ہیں۔ منارکوول، چران مہادیوی، کوولپٹی یا پدوکوٹٹئی ہو سب جگہ پر بڑی بڑی تختیاں آپ کو دکھائی دیں گی۔ آج بھی مختلف باوڑیاں، اسٹیپ ویلس ماحولیات مقام کے طور پر تو واقف ہوں لیک�� یہ نہ بھولیں کہ یہ آبی ذخائر ہمارے آبا و اجداد کی مہم کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ گجرات میں اڈالج اور پاٹن کی رانی کی واو (باوڑی) جو ایک یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے ان کی عظمت دیکھتے ہی بنتی ہے؛ ایک طرح سے باوڑیاں آبی مندر ہی تو ہیں۔ اگر آپ راجستھان جائیں تو جودھ پور میں چاند باوڑی ضرور جائیے گا۔ یہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور خوبصورت باوڑی میں سے ایک ہے اور سب سے توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ وہ اس سرزمین پر ہے جہاں پانی کی قلت رہتی ہے۔ اپریل ، مئی، جون، جولائی یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ بارش کے پانی کو جمع کرنے کا سب سے اچھا موقع ہوتا ہے اور اگر ہم اڈوانس میں جتنی تیاریاں کریں اتنا ہمیں فائدہ ملتا ہے۔ من ریگا کا بجٹ بھی اس آبی تحفظ کے لیے کام آتا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران آبی تحفظ اور آبی انتظام کی سمت میں ہر کسی نے اپنے اپنے طریقے سے کوشش کیے ہیں۔ ہر سال منریگا بجٹ سے ہٹ کر آبی تحفظ اور آبی انتظام اور اوسطاً 32 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ 18-2017 کی بات کریں تو 64 ہزار کروڑ روپے کے کل خرچ کا 55 فیصد یعنی تقریباً 35 ہزار کروڑ روپے آبی تحفظ جیسے کاموں پر خرچ کیے گئے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران اس طرح کے آبی تحفظ اور آبی انتظامی استعمالوں کے ذریعے تقریباً 150 لاکھ ہیکٹیئر زمین کو زیادہ مقدار میں فائدہ ملا ہے۔ آبی تحفظ اور آبی انتظام کے لیے ہندوستانی حکومت کے ذریعے جو من ریگا میں رقومات ملتی ہیں، کچھ لوگوں نے اس کا بہت اچھا فائدہ اٹھا یا ہے۔ کیرل میں کوٹوم پیرور ، اس ندی پر 7 ہزار من ریگا کے کام کرنے والے لوگوں نے 70 دنوں تک کڑی محنت کر کے اس ندی کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ گنگا اور جمنا پانی سے بھری ہوئی ندیاں ہیں لیکن اتر پردیش میں کئی اور علاقے بھی ہیں، جیسے فتح پور ضلع کا سسر کھدیری نام کی دو چھوٹی ندیاں سوکھ گئیں۔ ضلع انتظامیہ نے منریگا کے تحت بہت بڑی مقدار میں مٹی اور آبی تحفظ کے کام کا ذمہ اٹھایا۔ تقریباً 45-40 گاوؤں کے لوگوں کی مدد سے اس سسر کھدیری ندی جو سوکھ چکی تھی، اسکو دوبارہ زندہ کیا۔ جانور ہو، پرندے ہو، کسان ہو، کھیتی ہو، گاؤں ہو کتنی بڑی مہربانی سے بھرپور یہ کامیابی ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ پھر ایک بار اپریل، مئی، جون، جولائی ہمارے سامنے ہیں، آبی جمع کرنا، پانی تحفظ کے لیے ہم بھی کچھ ذمہ داری اٹھائیں، ہم بھی کچھ منصوبہ بنائیں، ہم بھی کچھ کر کے دکھائیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! جب من کی بات ہوتی ہے تو مجھے چاروں طرف سے پیغام آتے ہیں، خطوط آتے ہیں، فون آتے ہیں۔ مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ ضلع کے دیوی تولا گاؤں کے آین کمار بنرجی نے مائی گوو پر اپنے کمنٹ میں لکھا ہے – ’’ ہم ہر سال یوم رویندر مناتے ہیں لیکن کئی لوگ نوبل انعام یافتہ رویندر ناتھ ٹیگور کی پرامن ، خوبصورت اور سالمیت کے ساتھ جینے کے فلسفہ کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں۔ برائے مہربانی ’من کی بات‘ پروگرام میں اس موضوع پر تبصرہ کریں تاکہ لوگ اس کے بارے میں جان سکیں۔‘‘ میں آین جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ’من کی بات ‘ کے سبھی ساتھیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ گرو دیو ٹیگور علم اور صوابدید سے مکمل انسانیت پسند تھے، جن کی تحریر نے ہر کسی پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ رویندر ناتھ – ایک ہنرمند انسان تھے، کثیرجہت شخصیت کے حامل تھے، لیکن ان کے اندر ایک استاد ہر وقت محسوس کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے گیتانجلی میں لکھا ہے – ’وہ جو علم رکھتے ہیں وہ طلبا کو فراہم کرائیں‘۔ میں بنگلہ زبان تو نہیں جانتا ہوں، لیکن جب چھوٹا تھا مجھے بہت جلد اٹھنے کی عادت رہی – بچپن سے اور مشرقی ہندوستان میں ریڈیو جلدی شروع ہوتا ہے، مغربی ہندوستان میں دیر سے شروع ہوتا ہے تو صبح موٹا موٹا مجھے انداز ہے؛ شاید 5.30 بجے رویندر سنگیت شروع ہوتا تھا، ریڈیو پر اور مجھے اس کی عادت تھی۔ زبان تو نہیں جانتا تھا صبح جلدی اٹھ کر کے ریڈیو پر رویندر سنگیت سننے کی میری عادت ہو گئی تھی اور جب آنند لوک اور آگونیر، پوروش مونی – یہ نظمیں سننے کا جب موقع ملتا تھا، من کو بڑی بیداری ملتی تھی۔ آپ کو بھی رویندر سنگیت نے ، ان کی نظموں نے ضرور متاثر کیا ہوگا۔ میں رویندر ناتھ ٹھاکر کو دل سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! کچھ ہی دنوں میں رمضان کا مبارک مہینا شروع ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں رمضان کا مہینہ پورے عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ روزہ کا اجتماعی پہلو یہ ہے کہ جب انسان خود بھوکا ہوتا ہے تو اس کو دوسروں کی بھوک کا بھی احساس ہوتا ہے۔ جب وہ خود پیاسا ہوتا ہے تو دوسروں کی پیاس کا اسے احساس ہوتا ہے۔ پیغمبر محمد صاحب کی تعلیم اور ان کے پیغام کو یاد کرنے کا موقع ہے۔ ان کی زندگی سے یکسانیت اور بھائی چارے کے راستے پر چلنا یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہیں۔ ایک بار ایک انسان نے پیغمبر صاحب سے پوچھا – ’’اسلام میں کون سا کام سب سے اچھا ہے؟‘‘ پیغمبر صاحب نے کہا – ’’کسی غریب اور ضرورتمند کو کھلانا اور سبھی سے بھائی چارے سے ملنا، چاہے آپ نہیں جانتے ہو یا نہ جانتے ہو‘‘۔ پیغمبر محمد صاحب علم اور ہمدردی میں یقین رکھتے تھے۔ انہیں کسی بات کا غرور نہیں تھا۔ وہ کہتے تھے کہ غرور ہی علم کو شکست دیتا ہے۔ پیغمبر محمد صاحب کا ماننا تھا کہ اگر آپ کے پاس کوئی بھی چیز آپ کی ضرورت سے زیادہ ہے تو آپ اسے کسی ضرورتمند انسان کو دیں، اس لیے رمضان میں خیرات کی بھی کافی اہمیت ہے۔ لوگ اس مبارک مہینے میں ضرورتمندوں کو خیرات دیتے ہیں۔ پیغمبر محمد صاحب کا ماننا تھا کہ کوئی شخص اپنی پاک روح سے امیر ہوتا ہے نہ کہ دھن دولت سے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو رمضان کے مبارک مہینے کی مبارک باد دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے یہ موقع لوگوں کو امن اور بھائی چارے کے ان کے پیغام پر چلنے کی ترغیب دیگا۔ میرے پیارے ہم وطنوں! بودھ پورنیما سبھی ہندوستانیوں کے لیے مخصوص دن ہے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہندوستان ہمدردی، خدمات اور ایثار کی قوت دکھانے والے مہامانو بھگوان بودھ کی دھرتی ہے، جنہوں نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی رہنمائی کی۔ یہ بودھ پورنیما بھگوان بودھ کو یاد کرتے ہوئے ان کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنے کا، عہد کرنے کا اور چلنے کا ہم سب کی ذمہ داری کو پھر سے یاد کراتا ہے۔ بھگوان بودھ یکسانیت، امن، بھائی چارے کی ترغیب ہے۔ یہ ویسے انسانی اقدار ہیں، جن کی ضرورت آج کی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر زور دے کر کہتے ہیں کہ ان کی سماجی فلسفہ میں بھگوان بودھ کی بڑی ترغیب رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا – ’’میرا سماجی فلسفہ تین لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے ؛ آزادی، برابری اور بھائی چارہ۔ میرے فلسفے کی جڑیں مذہب میں ہیں سیاست میں نہیں۔ میں نے یہ اپنے گرو گوتم بودھ سے حاصل کیا ہے۔‘‘ بابا صاحب نے آئین کے ذریعے دلت ہوں، مظلوم ہوں، دبے کچلے محروم ہوں، حاشیے پر کھڑے کروڑوں لوگوں کو بااختیار بنایا۔ ہمدردی کی اس سے بڑی مثال نہیں ہو سکتی۔ لوگوں کی تکلیف کے لیے یہ ہمدردی بھ��وان بودھ کے سب سے عظیم اوصاف میں سے ایک تھی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ بودھ بھکشو مختلف ممالک کا سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ بھگوان بودھ کے وسیع خیالات کو لے کر کے جاتے تھے اور یہ سبھی دور میں ہوتا رہا ہے۔ پورے ایشیا میں بھگوان بودھ کی تعلیمات ہمیں وراثت میں ملی ہیں۔ وہ ہمیں مختلف ایشیائی ممالک، جیسے چین، جاپان، کوریا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، میانمار کئی انیک ملک وہاں بودھ کی اس روایت ، بودھ کی تعلیم جڑوں میں جڑی ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم بدھشٹ ٹوریزم کے لیے انفراسٹرکچر فروغ دے رہے ہیں، جو جنوب مشرقی ایشائی کے اہم مقامات کو، ہندوستان کے خاص بودھ مقامات کے ساتھ جوڑتا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ ہندوستانی حکومت کئی بودھ مندروں کے تجدیدکاری کے کاموں میں حصہ دار ہے۔ اس میں میانمار میں باگان میں صدیوں پرانا عظیم آنند مندر بھی شامل ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ ٹکراؤ اور انسانی درد دیکھنے کو ملتی ہے۔ بھگوان بودھ کی تعلیم نفرت کو ہمدردی سے مٹانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھگوان بودھ کے تئیں عزت رکھنے والے، ہمدردی کے اصول میں یقین کرنے والے – سب کو بودھ پورنیما کی مبارکباد دیتا ہوں۔ بھگوان بودھ سے پوری دنیا کے لیے خیر مانگتا ہوں، تاکہ ہم ان کی تعلیم پر مبنی ایک امن سے لبریز اور ہمدردی سے لبریز دنیا کی تعمیر کرنے میں اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔ آج جب ہم بھگوان بودھ کو یاد کر رہے ہیں۔ آپ نے لافنگ بودھا کی مورتیوں کے بارے میں سنا ہوگا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لافنگ بودھا گڈ لک لاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اسمائلنگ بودھا ہندوستان کی سلامتی کے تاریخ کے ایک اہم واقعہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسمائلنگ بودھا اور ہندوستان کی فوجی قوت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ آپ کو یاد ہوگا آج سے 20 سال پہلے 11 مئی ، 1998 کی شام کو اس وقت کے ہندوستان کے وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپئی جی نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی باتوں نے پوری دنیا کو فخر، بہادری اور خوشی کے پل سے بھر دیا تھا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستانی لوگوں میں نئی خود اعتمادی پیدا ہوئی تھی۔ وہ دن تھا بودھ پورنیما کا۔ 11 مئی، 1998 ، ہندوستان کے مغربی کنارے پر راجستھان کے پوکھرن میں ایٹمی تجربہ کیا گیا تھا۔ اسے 20 سال ہو رہے ہیں اور یہ تجربہ بھگوان بودھ کے آشرواد کے ساتھ بودھ پورنیما کے دن کیا گیا تھا۔ ہندوستان کا تجربہ کامیاب رہا ور ایک طرح سے کہیں تو سائنس اور تکنیک کے شعبے میں ہندوستان نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن ہندوستان کی تاریخ میں اس کی فوجی طاقت کے مظاہرے کی شکل میں درج ہے۔ بھگوان بودھ نے دنیا کو دکھایا ہے – اندرونی طاقت سکون کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح جب آپ ایک ملک کے طور پر مضبوط ہوتے ہیں تو آپ سب کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ بھی سکتے ہیں۔ مئی ، 1998 کا مہینہ ملک کے لیے صرف اس لیے اہم نہیں ہے کہ اس مہینے میں ایٹمی تجربے ہوئے، بلکہ وہ جس طرح سے کیے گئے تھے وہ اہم ہے۔ اس نے پوری دنیا کو دکھایا کہ ہندوستان کی سرزمین عظیم سائنسدانوں کی سرزمین ہے اور ایک مضبوط لیڈرشپ کے ساتھ ہندوستان روز نئے مقام اور اونچائیوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی جی نے منتر دیا تھا – ’’ جے جوان جے کسان، جے وگیان‘‘ آج جب ہم 11 مئی ، 1998 اس کا 20واں سال منانے جا رہے ہیں، تب ہندوستان کی طاقت کے لیے اٹل جی نے جو ’جے وگیان کا ہمیں منتر دیا ہے، اسے اختیار کرتے ہوئے جدید ہندوستان بنانے کے لیے طاقتور ہندوستان بنانے لیے، باصلاحیت ہندوستان بنانے کے لیے ہر نوجوان تعاون کرنے کا عزم کرے۔ اپنے اختیار کو ہندوستان کے اختیار کا حصہ بنائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جس سفر کو اٹل جی نے شروع کیا تھا، اسے آگے بڑھانے کی ایک نئی خوشی، نئے اطمینان کو ہم بھی حاصل کر پائیں گے۔ میرے پیارے ہم وطنوں، پھر ’’من کی بات‘‘ میں ملیں گے تب اور باتیں کریں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,২৯.০৪.২০১৮ তাৰিখে অল ইণ্ডিয়া ৰেডিঅ’যোগে সম্প্ৰচাৰ হোৱা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মন কী বাতৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D9%88-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%84%DB%92-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%B1%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%95-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نےمن کی بات کے ایک کلپ کو شیئر کیا ہے اس میں انہوں نے مادھو پور میلے کو بھارت کے ثقافتی تنوع اور فعالیت کے ایک منفرد جشن کے طور پر تشریح کی ہے۔ وزیراعظم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ : ’’ اب جب سے مادھو پور میلہ شروع ہوگیا ہے ، میں اپنی بات جو ساجھا کرنا چاہتا ہوں ، جو میں نے پچھلے مہینے اپنی من کی بات کے دوران بھارت کے ثقافتی تنوع اور فعالیت کے اس منفرد جشن کے بارے میں کہی تھی۔‘‘ وزیراعظم نے گجرات کے ٹورزم کا بھی ایک ٹوئیٹ شیئر کیا ہے جس میں میلے کے موضوع اور خوش کے جذبے پر زور دیا گیا ہے۔,মাধৱপুৰ মেলাক ভাৰতৰ সাংস্কৃতিক বৈচিত্ৰ্যৰ এক অনন্য উদযাপন বুলি বৰ্ণনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%DB%8C%D8%B1%D9%84-%D9%85%D8%A7%D8%AA%DA%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A5%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 26اکتوبر، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج کہا ہے کہ مہاراشٹر میں نیرل – ماتھیران ٹوائے ٹرین سے یہ خوبصورت سفر اور بھی یادگار بن جائے گا۔ ویراعظم نے ریلوے کی وزارت کے ایک ٹوئیٹ کا جواب دیا ہے: ’’اس خوبصورت سفر کو اور زیادہ یادگار بناتے ہوئے، مقامی سیاحت کے لیے ایک بہت اچھی خبر۔۔۔‘‘ ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔,মহাৰাষ্ট্ৰত নেৰাল-মাথেৰন টয় ট্ৰেইন পুনৰ আৰম্ভ হোৱা উপলক্ষে আনন্দ প্ৰকাশ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-12-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D8%A8%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA%D8%8C-26/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A8-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 12 جنوری 2023 کو تقریباً 4 بجے شام، کرناٹک کےشہرہبلی میں، 26ویں قومی یوتھ فیسٹیول کا افتتاح کریں گے۔ یہ پروگرام نیشنل یوتھ ڈے کے موقع پر منعقد کیا جا رہا ہے، جو سوامی وویکانند کے یوم پیدائش کے موقع پر، ان کے نظریات، تعلیمات اور شراکت کا احترام کرنے اور ان کی تعظیم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ قومی یوتھ فیسٹیول ہر سال منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو قومی سطح پر روشناس کرایا جا سکے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں قوم کی تعمیر کی طرف راغب کیا جا سکے۔ یہ ملک کے تمام حصوں سے متنوع ثقافتوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لاتا ہے اور شرکاء کو ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبے کےساتھ متحد کرتا ہے۔ اس سال یہ فیسٹیول کرناٹک کے شہرہبلی دھارواڑ میں 12 سے 16 جنوری تک منعقد کیا جا رہا ہے، جس کا موضوع’’وکِسِت یووا – وِکِسِت بھارت‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ فیسٹیول، یوتھ سمٹ کا مشاہدہ کرے گا، جس میں جی20 اور وائی20 تقریبات جیسے پانچ موضوعات پر مکمل مباحثے ہوں گے۔ان میں کام کا مستقبل، صنعت، اختراع اور اکیسویں صدی کی مہارت؛ آب وہواکی تبدیلی اور آفات کے خطرے میں کمی؛ امن کی تعمیر اور مفاہمت؛ جمہوریت اور حکمرانی میں مستقبل کے نوجوانوں کا اشتراک؛ اور صحت اور بہبودشامل ہیں۔ اس سمٹ میں ساٹھ سے زائد سرکردہ ماہرین شرکت کریں گے۔ کئی مسابقتی اور غیر مسابقتی تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی۔ مسابقتی تقریبات میں لوک رقص اور گیت شامل ہوں گے، اور یہ مقامی روایتی ثقافتوں کو تحریک دینے کے لیے منعقد کی جائیں گی۔ غیر مسابقتی پروگراموں میں یوگاتھون شامل ہوگا جس کا مقصد تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو یوگا کرنے کے لیے متحرک کرنا ہے۔ تقریبات کے دوران قومی سطح کے فنکاروں کی جانب سے آٹھ مقامی کھیل اور مارشل آرٹس بھی پیش کیے جائیں گے۔ دیگر پرکشش پروگراموں میں فوڈ فیسٹیول، ینگ آرٹسٹ کیمپ، ایڈونچر اسپورٹس کی سرگرمیاں، خصوصی –اپنی فوج کو جانیں، بحریہ اور فضائیہ کے کیمپ وغیرہ شامل ہیں۔,১২ জানুৱাৰীত কৰ্ণাটকৰ হুবলীত ২৬সংখ্যক ৰাষ্ট্ৰীয় যুৱ মহোৎসৱ উদ্বোধন কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D9%85%D9%91%D8%A7%D9%86-%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%A3-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ پی ایم کسان سمان ندھی اور زراعت سے متعلق دیگر اسکیمیں ملک بھر کے تمام کسانوں کو نئی طاقت دے رہی ہیں۔ کسانوں کی طاقت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جتنا کسان مضبوط ہوگا ، ملک اُتنا ہی خوشخال ہوگا۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ہمارے کسان بھائی بہنوں پر ملک کو فخر ہے۔ یہ جتنا مضبوط ہوں گے نیا بھارت اُتنا ہی خوشحال ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ پی ایم کسان سمّان ندھی اور زراعت سے متعلق دیگر اسکیمیں ملک کے کروڑوں کسانوں کو نئی طاقت دے رہی ہیں۔‘‘,পিএম কিষাণ সন্মান নিধি আৰু কৃষি সম্পৰ্কীয় আন-আন আঁচনিসমূহে আমাৰ দেশৰ কোটি-কোটি কৃষকক নতুন শক্তি প্ৰদান কৰিছেঃ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%DA%AF%D9%88%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اتر پردیش کے گورکھپور میں متعدد ترقیاتی پروجیکٹ قوم کو وقف کیے۔ وزیر اعظم نے گورکھپور میں ایمس اور فرٹیلائزر پلانٹ اور آئی سی ایم آر کے علاقائی طبی تحقیقی مرکز کی نئی عمارت کے افتتاح پر یوپی کے عوام کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ 5 سال پہلے ایمس اور فرٹیلائزر پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور آج وہ ان دونوں کا افتتاح کر رہے ہیں، جو ان کی حکومت کے کام کرنے کے طریقے کو دکھاتا ہے کہ ایک بار جو پروجیکٹ شروع ہو گیا، اسے انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ جب ڈبل انجن کی سرکار ہوتی ہے، تو ترقیاتی کاموں کے نفاذ کی رفتار بھی ڈبل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب نیک نیتی سے کام کیا جاتا ہے، تب تباہی بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ جب غریبوں، کمزوروں اور پس ماندوں کی سرکار ہوتی ہے، تو وہ محنت سے کام کرتی ہے اور نتائج لاکر دکھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا یہ پروگرام اس بات کا ثبوت ہے کہ جب نیا بھارت ٹھان لیتا ہے، تو اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تین رخی طریقہ کار کے تحت، حکومت نے یوریا کی 100 فیصد نیم کوٹنگ متعارف کرا کے یوریا کے غلط استعمال پر روک لگائی۔ انہوں نے کہا کہ مٹی کی صحت کے کارڈ کروڑوں کسانوں کو دیے گئے ہیں تاکہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ ان کے کھیتوں کے لیے کس قسم کے کھاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے یوریا کی پیداوار بڑھانے پر زور دیا ہے۔ پیداوار کو بڑھانے کے لیے، بند پڑے فرٹیلائزر پلانٹ کو بھی زبردستی دوبارہ کھولا گیا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ ملک کے مختلف حصوں میں 5 فرٹیلائزر پلانٹوں کی تکمیل سے، ملک میں 60 لاکھ ٹن یوریا دستیاب ہوگا۔ وزیر اعظم نے حالیہ برسوں میں گنّا کے کسانوں کے لیے غیر متوقع کام کرنے کے لیے اترپردیش حکومت کی تعریف کی۔ انہوں نے گنا کے کسانوں کے لیے حال ہی میں ان کی پیداوار کی قیمت 300 روپے تک بڑھانے پر یوپی حکومت کی تعریف کی اور کہا کہ پچھلی سرکاروں نے گزشتہ 10 سالوں میں گنا کسانوں کو جتنی پیسے ادا کیے تھے، اتنی ہی رقم موجودہ حکومت نے ادا کی ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ آزادی کے وقت سے لے کر اس صدی کی شروعات تک، ملک میں صرف ایک ایمس تھا۔ سابق وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپئی نے مزید 6 ایمس کو منظوری دی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ 7 برسوں سے پورے ملک میں 16 نئے ایمس کی تعمیر کا کام چل رہا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے ہر ایک ضلع میں کم از کم ایک میڈیکل کالج ہو۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہر کسی کو یہ بات معلوم تھی کہ اس خطہ کے کسانوں کے لیے گورکھپور میں فرٹیلائزر پلانٹ اور روزگار فراہم کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلانٹ کی اہمیت کے باوجود، پہلے کی کسی بھی سرکار نے اسے کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ہر کوئی یہ جانتا تھا کہ گورکھپور میں ایمس کا مطالبہ سالوں سے کیا جا رہا ہے۔ لیکن 2017 سے پہلے جو لوگ سرکار چلا رہے تھے، انہوں نے گورکھپور میں ایمس کی تعمیر کے لیے زمین مہیا کرانے کو لے کر تمام طرح کے بہانے بنائے۔ وزیر اعظم نے اس علاقے میں جاپانی انسیفلائٹس کے معاملوں میں زبردست کمی اور میڈیکل انفراسٹرکچر میں اضافہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ایمس اور آئی سی ایم آر سنٹر سے، جے ای (جاپانی انسیفلائٹس)کے خلاف لڑائی کو نئی مضبوطی حاصل ہوگی۔‘‘ وزیر اعظم نے طاقت کے مظاہرہ کی سیاست، اقتدار کی سیاست، گھوٹالے اور مافیا کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ان سب کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ایسی طاقتوں سے ہوشیار رہیں۔ وزیر اعظم نے ��ہا کہ آج ہماری حکومت نے غریبوں کے لیے سرکاری گودام کھول دیے ہیں اور یوپی کے وزیر اعلیٰ ہر گھر تک کھانا پہنچانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوپی کے تقریباً 15 کروڑ لوگوں کو اس سے فائدہ مل رہا ہے۔ حال ہی میں، پی ایم غریب کلیان یوجنا کو ہولی تک بڑھا دیا گیا ہے۔ پہلے کی سرکاروں نے مجرموں کو تحفظ فراہم کرکے یوپی کا نام بدنام کر دیا تھا۔ آج یہ تمام مافیا جیل میں ہیں اور سرمایہ کار پوری آزادی کے ساتھ یو پی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہی ڈبل انجن والی سرکار کی ڈبل ترقی ہے۔ اسی لیے یو پی کو ڈبل انجن والی سرکار پر بھروسہ ہے۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ গোৰক্ষপুৰত বিভিন্ন উন্নয়ণী প্ৰকল্প ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D9%88%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%AE%D9%88%D8%AF-%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9/,بھارت ماتا کی – جئے بھارت ماتا کی – جئے بھارت ماتا کی – جئے مدھیہ پردیش کے گورنر، جناب منگو بھائی پٹیل، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ، جناب شیوراج سنگھ جی چوہان، مرکزی کابینہ کونسل کے میرے ساتھی، مدھیہ پردیش حکومت کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز، بڑی تعداد میں تشریف لائے دیگر تمام معززین اور آج اس پروگرام کے مرکزی نکات میں ہیں، جن کے یہ پروگرام ہے۔ ایسے بہت بڑی تعداد میں موجود خود امدادی گروپس سے جڑی ماؤں اور بہنوں کو سلام! آپ سبھی کا خود امدادی گروپس کانفرنس میں بہت بہت خیر مقدم ہے۔ ابھی ہمارے وزیر اعلیٰ جی نے، ہمارے نریندر سنگھ جی تومر نے میری سالگرہ کو یاد کیا۔ مجھے زیادہ یاد نہیں رہتا ہے، لیکن اگر کوئی سہولت رہی، اگر کوئی پروگرام ذمہ نہیں ہے تو عام طور پر میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنی والدہ کے پاس جاؤں، ان کے قدم چھوؤں اور ان کا آشیرواد حاصل کروں۔ لیکن آج تو میں اپنی ماں کے پاس نہیں جا سکا۔ لیکن مدھیہ پردیش کے قبائلی علاقوں کے دیگر سماج کے گاؤں گاؤں میں محنت کرنے والی یہ لاکھوں مائیں آج مجھے یہاں آشیرواد دے رہی ہیں۔ یہ منظر آج میری ماں جب دیکھے گی، اس کو ضرور اطمینان ہوگا کہ بھلے بیٹا آج اس کے پاس تو نہیں آیا، لیکن لاکھوں ماؤں نے مجھے آشیرواد دیا ہے۔ میری ماں کو آج زیادہ خوشی ہوگی۔آپ اتنی بڑی تعداد میں مائیں، بہنیں، بیٹیاں یہ آپ کا آشیرواد ہم سب کیلئے بہت بڑی طاقت ہے، ایک بہت بڑی توانائی ہے، حوصلہ ہے اور میرے لیے تو ملک کی مائیں بہنیں، ملک کی بیٹیاں وہ میرا سب سے بڑا رکشا کوچھ ہے، طاقت کا ذریعہ ہے،میری تحریک ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آئے بھائی بہن آج ایک اور اہم دن ہے، آج وشوکرما پوجا بھی ہورہی ہے، وشوکرما جینتی پر خودامدادی گروپوں کا اتنا بڑا سمّیلن اپنے آپ میں ایک بہت بڑی خصوصیت کے طور پر میں دیکھتا ہوں، میں آپ سبھی کو ، سبھی ہم وطنوں کو وشوکرما پوجا کی بھی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مجھے آج اس بات کی بھی خوشی ہے کہ بھارت کی سرزمین پر اب 75 سال بعد چیتا پھر سے لوٹ آیا ہے، اب سے کچھ دیر پہلے مجھے کونو نیشنل پارک میں چیتوں چھوڑنے کا موقع ملا، میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں۔ کروں گزارش؟ آپ جواب دیں تو کروں؟ گزارش کروں؟ گزارش کروں سب کو؟ یہ اسٹیج والوں کو بھی گزارش کروں؟ سب کا کہنا ہے کہ میں گزارش کروں۔آج اس میدان سے ہم پوری دنیا کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔ آج جب آٹھ چیتے 75 سال قریب قریب اس کے بعد ہمارے ملک کی سرزمین پر لوٹ آئے ہیں ، دور افریقہ سے آئے ہیں، لمبا سفر کرکے آئے ہیں، ہمارے بہت بڑے مہمان آئے ہیں، ان مہمانوں کے اعزاز میں ، میں ایک کام کرتا ہوں ، کروگے ؟ ان مہمانوں کے اعزام میں ہم سب اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ اوپر کرکے تالی بجاکر کے اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کریں۔ زور سے تالی بجائیں اور جنہوں نے ہمیں یہ چیتے دیے ہیں اس ملک کے باشندوں کا بھی ہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔جنہوں نے لمبے عرصے کے بعد ہماری یہ تمنا پوری کی ہے۔ زور سے تالی بجائیے ساتھیو، ان چیتوں کے اعزاز میں تالی بجائیے، میں آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں۔ میں ملک کے لوگوں کو ، مدھیہ پردیش کے لوگوں کو اس تاریخی موقع پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ میں آپ سب کو، اس علاقے کے باشندوں کو ایک خصوصی مبارکباد دیتا ہوں، ہندوستان تو بہت بڑا ہے ، جنگل بھی بہت ہے، جنگلی جانور بھی بہت جگہ پر ہیں۔ لیکن یہ چیتے آپ کےیہاں آنے کا بھارت سرکار نے فیصلہ کیوں کیا؟ کیاکبھی آپ نے سوچا ہے؟ یہی تو سب سے بڑی بات ہے، یہ چیتا آپ کو سپرد اس لیے کیا ہے کہ آپ پر ہمارا بھروسہ ہے۔آپ مصیبت جھیلیں گے لیکن چیتے پر مصیبت نہیں آنے دیں گے۔ یہ میرا بھروسہ ہے۔ اسی کے سبب آج میں آپ سب کو یہ آٹھ چیتوں کی ذمہ داری سپرد کرنے کیلئے آیا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے اس ملک کے لوگوں نے کبھی میرے بھروسے کو توڑا نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کے لوگوں نے کبھی بھی میرے بھروسے پر آنچ نہیں آنے دی ہے اور یہ شیوپور علاقے کے لوگوں کو بھی مجھے پورا بھروسہ ہے کہ میرے بھروسے پر آن نہیں آنے دیں گے۔ آج مدھیہ پردیش میں خود امدادی گروپوں کے ذریعے ریاست میں 10 لاکھ پودے لگائے جارہے ہیں۔ بھارت کا ماحولیات کے تئیں پیار پودے میں بھی پرماتما دیکھنے والا میرا ملک آج آپ کی ان کوششوں سے بھارت کو ایک نئی توانائی ملنے والی ہے۔ ساتھیو، پچھلی صدی کے بھارت اور اس صدی کے نئے بھارت میں ایک بہت بڑا فرق ہماری خواتین کی طاقت کے طور پر آیا ہے۔ آج کے نئے بھارت میں پنچایت بھون سے لیکر راشٹرپتی بھون تک خواتین کی طاقت کا پرچم لہرا رہا ہے، مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں شیوپور ضلع میں ایک میری آدیواسی بہن ، ضلع پنچایت کے صدر کے طور پر کام کررہی ہے ، حال ہی میں ختم ہوئے پنچایت انتخابات میں پورے مدھیہ پردیش میں لگ بھگ 17 ہزار بہنیں عوامی نمائندے کے طور پر منتخب ہوئی ہیں۔ یہ بڑے بدلاؤ کا اشارہ ہے ۔ بڑی تبدیلی کامظہر ہے۔ ساتھیو، آزادی کی لڑائی میں مسلح جدوجہد سے لیکر ستیہ گرہ تک ملک کی بیٹیاں کسی سے پیچھے نہیں رہی ہیں۔آج جب بھارت اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منارہا ہے تب ہم نے، ہم سب نے دیکھا ہے کیسے جب ہر گھر میں ترنگا پھہرا تو اس میں آپ سبھی بہنوں نے، خواتین خود امدادی گروپوں نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ آپ کے بنائے ترنگوں نے قومی افتخار کے اس لمحے کو چار چاند لگا دیے۔ کورونا کے دور میں بحران کی اس گھڑی میں انسانیت کی خدمت کرنے کے ارادے سے آپ نے بہت بڑی تعداد میں ماسک بنائے، پی پی ای کٹ بنانے سے لیکر لاکھوں لاکھ ترنگے یعنی ایک کے بعد ایک ہرکام میں ملک کی خواتین کی طاقت نے ہر موقع پر، ہر چیلنج کو، اپنی صلاحیت کے ذریعے ملک میں نیا اعتماد پیدا کیا اور خواتین کی طاقت کا ثبوت دیے دیا ہے اور اس ��ئے آج میں بہت ذمہ داری کے ساتھ ایک اسٹیٹمنٹ کرناچاہتا ہوں، بڑی ذمہ داری کے ساتھ کرنا چاہتاہوں، پچھلے 20-22 سال کے حکومت کرنے کے تجربے کی بنیاد پر کہنا چاہتا ہوں، آپ کے گروپ کا جب جنم ہوتا ہے ، دس بارہ بہنیں اکٹھی ہوکر کے کوئی کام شروع کرتی ہیں۔ جب آپ کا اس ایکٹیویٹی کے لئے جنم ہوتا ہے تب تو آپ خود امدادی گروپ ہوتے ہیں، جب آپ کے کام کی شروعات ہوتی ہے ایک ایک ڈگ رکھ کے کام شروع کرتے ہیں ، کچھ پیسے ادھر سے کچھ پیسے اُدھر سے اکٹھے کرکے کوشش کرتے ہیں تب تک تو آپ خودامدادی گروپ ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں آپ کے سخت محنت کے سبب، آپ کے عہد کے سبب ، دیکھتے ہی دیکھتے یہ خودامدادی گروپ ملک کی مدد کرنے والا گروپ بن جاتے ہیں اور اس لئے کل آپ خودامدادی گروپ ہوں گے لیکن آج آپ ملک کی مدد کرنے والے گروپ بن چکے ہیں۔ ملک کی مدد کررہے ہیں۔ خواتین خودامدادی گروپوں کی یہی طاقت آزادی کے امرت کال میں ترقی یافتہ بھارت ، آتم نربھر بھارت کی تعمیر میں بہت اہم کردار، بہت اہم کردار نبھانے کیلئے آج عہد بند ہے، عہد بستہ ہے۔ ساتھیو، میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ جس بھی سیکٹر میں خواتین کی نمائندگی بڑھی ہے اس سیکٹر میں ، اس کام میں کامیابی اپنے آپ طے ہوجاتی ہے۔ سوچھ بھارت ابھیان کی کامیابی اس کی بہترین مثال ہے۔ جس کی قیادت خواتین نے کی۔ آج گاؤں میں کھیتی ہو، مویشی پروری کاکام ہو، ڈیجیٹل خدمات ہوں، تعلیم ہو، بینکنگ خدمات ہوں، بیمہ سے منسلک خدمات ہوں، مارکیٹنگ ہو، ذخیرہ اندوزی ہو، تغذیہ ہو، زیادہ سے زیادہ سیکٹروں میں بہنوں بیٹیوں کو مینجمنٹ سے جوڑا جارہا ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ اس میں دین دیال انتودے یوجنا اہم کردار نبھارہی ہے۔ ہماری آج جو بہنیں ہیں، اس کا بھی کام دیکھیے کیسے کیسے متنوع مورچوں کو سنبھالتی ہیں۔ کچھ خواتین پشوسکھی کے روپ میں ، کوئی کرشی سکھی کے روپ میں، کوئی بینک سکھی کے روپ میں، کوئی پوشن سکھی کے روپ میں، ایسی متعدد خدمات کی ٹریننگ لیکر وہ شاندار کام کررہی ہیں۔آپ کی کامیاب قیادت ، کامیاب شراکت داری کا ایک بہترین مثال جل جیون مشن بھی ہے۔ ابھی مجھے ایک بہن سے کچھ بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا، ہر گھر پائپ سے پانی پہنچانے کے اس ابھیان میں صرف تین برسوں میں 7 کروڑ نئے پانی کے کنکشن دیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے مدھیہ پردیش میں بھی 40 لاکھ کنبوں کو نل سے پانی پہنچایا جاچکا ہے اور جہاں جہاں نل سے جل پہنچ رہا ہے وہاں مائیں بہنیں، ڈبل انجن کی سرکار کو بہت آشیرواد دیتی ہیں۔ میں اس کامیاب ابھیان کا سب سے زیادہ سہرا اپنے ملک کی ماؤں، بہنوں کو ، آپ کو دیتا ہوں، مجھے بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش میں 3 ہزار سے زیادہ نل جل پروجیکٹوں کا انتظام وانصرام آج خودامدادی گروپوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ملک کی مدد کرنے والے گروپ بن چکے ہیں۔ پانی کمیٹیوں میں بہنوں کی حصے داری ہو، پائپ لائن کا رکھ رکھاؤ ہو یا پانی سے منسلک ٹیسٹنگ ہو، بہنیں بیٹیاں بہت ہی قابل تعریف کام کررہی ہیں۔ یہ جو کٹکس آج یہاں دی گئی ہے، یہ پانی کے انتظام میں بہنوں، بیٹیوں کے رول کو بڑھانے کی ہی کوشش ہے۔ ساتھیو، پچھلے آٹھ برسوں میں خودامدادی گروپوں کو مضبوط بنانے میں ہم نے ہر طرح سے مدد کی ہے ۔ آج پورے ملک میں آٹھ کروڑ سے زیادہ بہنیں اس ابھیان سے جڑ چکی ہیں۔ مطلب ایک طرح سے آٹھ کروڑ کنبے اس کا م میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا ہدف ہے کہ ہر دیہی کنبے سے کم سے کم ایک خاتون ، ایک بہن ہو، بیٹی ہو، ماں ہو اس ابھیان سے جڑے۔ یہاں مدھیہ پردیش کی بھی 40 لاکھ سے زیادہ بہنیں خودامدادی گروپوں سے جڑی ہیں، قومی ذریعہ معاش مشن کے تحت 2014 سے پہلے کے پانچ برسوں میں جتنی مدد دی گئی پچھلے سات سال میں اس میں لگ بھگ 13 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہر خودامدادی گروپ کو پہلے جہاں دس لاکھ روپئے تک کا بغیرضمانت کا قرض ملتا تھا اب یہ حد بھی دوگنی یعنی دس لاکھ سے بڑھا کر بیس لاکھ کی گئی ہے۔ خوراک کی ڈبہ بندی سے منسلک خودامدادی گروپ کو نئی یونٹ لگانے کیلئے دس لاکھ سے لیکر تین کروڑ روپئے تک کی مدد دی جارہی ہے۔ دیکھئے ماؤں بہنوں پر ان کی ایمانداری پر، ان کی کوششوں پر، ان کی صلاحیتوں پر کتنا بھروسہ ہے، سرکار کا کہ ان گروپوں کو تین کروڑ روپئے دینے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ساتھیو، گاؤں کی معیشت میں خواتین صنعت کاروں کو آگے بڑھانے کیلئے ان کیلئے نئے امکانات بنانے کیلئے، ہماری سرکار مسلسل کام کررہی ہے۔ ایک ضلع ایک پروڈکٹ کے ذریعے ہم ہر ضلع کے مقامی پروڈکٹس کو بڑے بازاروں تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس کا بہت بڑا فائدہ خواتین خود امدادی گروپس کو بھی ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں ایک ضلع ایک پروڈکٹ ابھیان سے جڑی بہنوں کے ساتھ مجھے بات چیت کرنے کا موقع ملا، کچھ پروڈکٹس کو دیکھنے کاموقع ملا اور کچھ پروڈکٹس انہوں نے مجھے تحفے میں بھی دیے ہیں۔ دیہی بہنوں کے ذریعے بنائے گئے یہ پروڈکٹ میرے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے انمول ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ یہاں مدھیہ پردیش میں ہمارے شیوراج جی کی سرکار ایسے پروڈکٹس کو بازار تک پہنچانے کیلئے خصوصی کوشش کررہی ہے۔ سرکار نے متعدد دیہی بازار خودامدادی گروپ سے جڑی بہنوں کیلئے ہی بنائے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان بازاروں میں خودامدادی گروپوں نے 500 کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروڈکٹس فروخت کیے ہیں۔500 کروڑ ، یعنی اتنا سارا پیسہ آپ کی محنت سے گاؤں کی بہنوں کے پاس پہنچا ہے۔ ساتھیو، آدیواسی علاقوں میں جوجنگلات کی پیداوار ہے ان کو بہترین پروڈکٹس میں بدلنے کیلئے ہماری قبائلی بہنیں قابل تعریف کام کررہی ہیں۔ مدھیہ پردیش سمیت ملک کی لاکھوں قبائلی بہنیں پردھان منتری ون دھن یوجنا کا فائدہ اٹھارہی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں آدیواسی بہنوں کے ذریعے بنائے گئے بہترین پروڈکٹس کی بہت زیادہ تعریف بھی ہوتی رہی ہے۔ پی ایم کوشل وکاس یوجنا کے تحت قبائلی علاقوں میں نئے ہنرمندی کے مراکز سے اس طرح کی کوششوں کو اور زور ملے گا ۔ ماؤں اور بہنو، آج کل آن لائن خریداری کا رواج بڑھ رہا ہے۔ اس لئے سرکار جو جیم یعنی گورنمنٹ ای۔ مارکٹ پلیس پورٹل ہے اس پر بھی آپ کے پروڈکٹس کیلئے سرس نام سے خاص ایک مقام رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعے سے آپ اپنے پروڈکٹس سیدھے سرکار کو سرکاری محکموں کو فروخت کرسکتے ہیں۔ جیسے یہاں شیوپور میں لکڑی پر نقاشی کا اتنا اچھا کام ہوتا ہے ۔ اس کی ملک میں بہت بڑی مانگ ہے۔ میری گزارش ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ اس میں خودکو اپنے پروڈکٹس کو یہ گورنمنٹ ای۔ مارکٹ پلیس میں رجسٹرکروائیے۔ ساتھیو، ستمبر کا یہ مہینہ ملک میں پوشن ماہ کے طور پر منایاجارہا ہے۔ بھارت کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے سال 2023 کو اگلے برس بین الاقوامی سطح پر موٹے اناج کے سال کے طور پر منانے کااعلان کیا ہے۔ مدھیہ پردیش تو تغذیہ سے بھرے اس موٹے اناج کےمعاملے میں ملک کی سرکردہ ریاستوں میں ہے۔ خاص طور سے ہمارے آدیواسی علاقوں میں اس کی ایک مضبوط روایت ہے۔ ہماری سرکار کے ذریعے کودو، کٹکی، جوار، باجرا اور راگی جیسے موٹے اناج کی مسلسل حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اور میں نے تو طے کیا ہے اگر بھارت سرکار میں کسی غیرملکی مہمان کیلئے کھانا دینا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ تو موٹے اناج کا ہوناہی چاہیے تاکہ میرا جو چھوٹا کسان کام کرتا ہے وہ غیرملکی مہمان کی تھالی میں بھی پروسا جانا چاہیے۔ خودامدادی گروپوں کیلئے اس میں بہت زیادہ مواقع ہیں۔ ساتھیو، ایک وقت تھا جب گھر پریوار کے اند ر ہی ماؤں اور بہنوں کے متعدد مسائل تھے۔ گھر کے فیصلوں میں ان کا کردار بہت محدود ہوتا تھا۔ متعددگھرانے ایسے ہوتے تھے ، اگر باپ اور بیٹا بات کررہے ہیں ، کاروبار کی، کام کی اور اگر ماں گھر سے کچن میں سے باہر آگئی تو فوراً بیٹا بول دیتا ہے یا تو باپ بول دیتا ہے جاجا تو رسوئی میں کام کر، ہم کو ذرا بات کرنے دے۔ آج ایسا نہیں ہے۔ آج ماؤں بہنوں کے خیالات، تجاویز خاندان میں بھی اس کی اہمیت بڑھنے لگی ہے۔ لیکن اس کے پیچھے منظم طریقے سے ہماری سرکار نے کوششیں کی ہیں۔ پہلے ایسی سوچی سمجھی کوششیں نہیں ہوتی تھیں۔ 2014 کے بعد سے ہی ملک خواتین کا وقار بڑھانے ، خواتین کےسامنے آنے والے چیلنجوں کے حل میں مصروف ہوا ہے۔ بیت الخلاء نہ ہونے کے سبب جو دقتیں آتی تھیں ، رسوئی میں لکڑی کے دھوئیں سے جو تکلیف ہوتی تھی ، پانی لینے کیلئے دو دو چار چار کلو میٹر جانا پڑتا تھا آپ یہ ساری باتیں اچھی طرح جانتی ہیں۔ ملک میں گیارہ کروڑ سےزیادہ بیت الخلاء بناکر، 9 کروڑ سے زیادہ اجولا کے گیس کنکشن دیکر اور کروڑوں کنبوں میں نل سے پانی دیکر کے آپ کی زندگی آسان بنایا ہے۔ ماؤں اور بہنو، دوران حمل کتنے مسائل تھے، یہ آپ بہتر جانتی ہیں ،ٹھیک سے کھانا پینا بھی نہیں ہوتا تھا، چیک اپ کی سہولتوں کا بھی فقدان تھا ، اس لئے ہم نے ماتووندنا یوجنا شرو ع کی، اس کے تحت 11 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ سیدھے حاملہ خواتین کے بینک کھاتوں میں ٹرانسفر کیے گئے۔ مدھیہ پردیش کی بھی بہنوں کو اس کے تحت قریب 1300 کروڑ روپئے ایسی حاملہ خواتین کے کھاتوں میں پہنچے ہیں۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت مل رہے 5 لاکھ روپئے تک کےمفت علاج میں بھی غریب کنبے کی بہنوں کی بہت بڑی مدد کی ہے۔ ماؤں اور بہنو، ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ‘ابھیان کے اچھے نتائج آج ملک تجربہ کررہا ہے۔ بیٹیاں ٹھیک سے پڑھائی کرسکیں،ان کو بیچ میں اسکول نہ چھوڑنا پڑے، اس کے لئے اسکولوں میں بیٹیوں کیلئے الگ سے بیت الخلاء بنائے، سینیٹری پیڈ کا انتظام کیا گیا، سوکنیہ سمردھی یوجنا کے تحت لگ بھگ ڈھائی کروڑ بچیوں کے اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں۔ ساتھیو، آج جن دھن بینک کھاتے خواتین کو بااختیار بنانے کے بہت وسیلے بنے ہیں۔ کورونا کے دور میں سرکار اگر آپ بہنوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست پیسے ٹرانسفر کرپائی ہے تو اس کے پیچھے جن دھن اکاؤنٹ کی طاقت ہے۔ ہمارے یہاں جائیداد کے معاملے میں زیادہ تر کنٹرول مردوں کے پاس ہی رہتا ہے۔ اگر کھیت ہے تو مرد کے نام پر، دوکان ہے تو مرد کےنام پر ، گھر ہے تو مرد کے نام پر، گاڑی ہے تو مرد کے نام پر، اسکوٹر ہے تو مرد کے نام پر، خاتون کے نام پر کچھ نہیں اور شوہر نہیں رہے تو بیٹے کے نام پر چلا جائے۔ ہم نے اس تصور کو ختم کرکے اپنی ماؤں اور بہنوں کو طاقت دی ہے۔ آج پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ملنے والا گھر ہم سیدھا سیدھا خواتین کے نام پر دیتے ہیں۔ خواتین اس کی مالک بن جاتی ہیں ، ہماری سرکار نے ملک کی دو کروڑ سے زیادہ خواتین کو اپنے گھر کی مالکن بنایا ہے یہ بہت ب��ا کام ہے ماؤں اور بہنو۔مدرا یوجنا کے تحت بھی ابھی تک ملک بھر میں 19 لاکھ کروڑ روپئے کا بغیر گارنٹی کا قرض چھوٹے چھوٹے کاروبار تجارت کیلئے دیا جاچکا ہے۔یہ جو پیسہ ہے اس میں سے تقریباً 70فیصد میری مائیں بہنیں جو صنعتکاری کرتی ہیں انہوں نے حاصل کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سرکار کی ایسی کوششوں کے سبب آج گھر کے اقتصادی فیصلوں میں خواتین کا کردار بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو، خواتین کو اقتصادی سطح پر بااختیار بنانا، انہیں سماج میں بھی اتنا ہی مضبوط بناتا ہے، ہماری سرکار نے بیٹیوں کے لئے سارے ، جتنے دروازے بند تھے نا، سارے دروازے کو کھول دیے ہیں۔ اب بیٹیاں سینک اسکولوں میں بھی داخل ہورہی ہیں، پولیس کمانڈو میں جاکر کے ملک کی خدمت کررہی ہیں، اتنا ہی نہیں سرحد پر بھارت ماں کی بیٹی ، بھارت ماں کی حفاظت کرنے کاکام فوج میں جاکر کررہی ہے۔ پچھلے آٹھ برسوں میں ملک بھر کی پولیس فورس میں خواتین کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ کر دوگنی یعنی دو لاکھ سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ مرکزی فورسز میں بھی الگ الگ جو حفاظتی دستے ہیں، آج ہماری 35 ہزار سے زیادہ بیٹیاں ملک کے دشمنوں سے، دہشت گردوں سے ٹکر لے رہی ہیں دوستو۔دہشت گردوں کو دھول چٹا رہی ہیں۔ یہ تعداد آٹھ سال پہلے کے مقابلے میں لگ بھگ دوگنی ہوگئی ہے۔ یعنی تبدیلی آرہی ہے۔ ہر سیکٹر میں آرہی ہے ، مجھے آپ کی طاقت پر پورا بھروسہ ہے۔ سب کی کوشش سے ایک بہتر سماج اور مضبوط ملک بنانے میں ہم ضرور کامیاب ہو ں گے آپ سب نے اتنی بڑی تعداد میں آکرکے ہمیں آشیرواد دیے ہیں ، آپ کے لیے زیادہ کام کرنے کی آپ نے مجھے تحریک دی ہے۔ آپ نے مجھے طاقت دی ہے۔ میں آپ کا تہہ دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر کرکے زور سے بولیے بھارت ماتا کی-جئے بھارت ماتا کی- جئے بھارت ماتا کی-جئے بھارت ماتا کی- جئے بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ م ع۔ع ن (),মধ্য প্ৰদেশৰ শ্যোপুৰত মহিলা আত্ম সহায়ক গোটৰ সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%88%D9%86-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%DB%81%D9%88%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A8-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A8/,نئی دہلی۔18جولائی، مانسون اجلاس میں ملک کے مفاد کے کئی اہم معاملوں کا حل ہونا ضروری ہے، جنہیں طے کیا جانا ضروری ہے۔ ملک کے کئی اہم مسئلوں پر تذکرہ ہونا ضروری ہے اور جتنی زیادہ بات چیت ہوگی سبھی سینئر تجربہ کار لوگوں کی ایوان کو رہنمائی حاصل ہوگی، اتنا ہی ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ حکومت کو بھی اپنے فیصلے کے عمل میں اچھے مشوروں سے فائدہ ہوگا۔ میں امید کرتا ہوں کہ سبھی سیاسی پارٹیاں ایوان کے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ملک کے اہم کاموں کو آگے بڑھانے میں کریں گی۔ ہر کسی کا اہم تعاون رہے گا اور ملک بھر میں بھارت کی پارلیمنٹ کی سرگرمی کی شبیہہ ریاستی ودھان سبھاؤں کے لیے بھی جذبے کا سبب بنے گی۔ ایسی بہترین مثال سبھی ارکان پارلیمنٹ اور سبھی سیاسی پارٹیاں پیش کریں گی۔ یہ میری پوری امید ہے۔ ہر بار میں نے اپنی امید بھی ظاہر کی ہے، کوشش بھی کی ہے، اس بار بھی امید ظاہر کررہا ہوں، اس بار بھی کوشش کررہے ہیں اور ہماری یہ کوشش لگاتار رہے گی۔ کوئی بھی پارٹی ، کوئی بی رُکن کسی بھی موضوع پر بات چیت کرنا چاہتا ہے، حکومت ہر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یہ مانسون اجلاس ہے، ملک کے کئی حصوں میں بارش کے سبب کچھ آفات بھی ہیں اور کچھ جگہیں، جہاں امید سے کم بارش ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے موضوع پر بات چیت ہی بہت مفید رہے گی۔ بہت بہت شکریہ۔,"সংসদত বৰ্ষাকালীন অধিবেশন আৰম্ভ হোৱাৰ পূৰ্বে দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মন্তব্য, ১৮ জুলাই,২০১৮" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پیلی بھیت میں ہوئے حادثے کی وجہ سے جان گنوانے والوں کے لواحقین کے لیے معاوضے کو منظوری دے دی ہے وزیر اعظم کے دفتر نے ایک ٹویٹ میں کہا: ”وزیراعظم نے پیلی بھیت میں حادثے کی وجہ سے اپنی جان گنوانے والوں کے لواحقین کے لیے پی ایم این آر ایف سے ہر ایک کنبے کو 2 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی منظوری دی ہے۔ زخمیوں کو 50,000 روپے فی کس دیے جائیں گے۔“",পিলিভিটত সংঘটিত দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱা লোকসকলৰ নিকটাত্মীয়ৰ বাবে ক্ষতিপূৰণত অনুমোদন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DB%8C%DA%86-%D9%B9%DB%8C-%D9%84%DB%8C%DA%88%D8%B1-%D8%B4%D9%BE-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D9%B9%D9%86%DA%AF-2017-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%9F/,نئی دہلی۔30 نومبر؛ شوبھنا بھارتیہ جی، سبھی تجربہ کار شرکا بھائیوں اور بہنو! مجھے پھر ایک مرتبہ آپ کے لوگوں کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ بہت سے جانے پہچانے چہرے بھی نظر آرہے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز گروپ اور اس کے قار ئین کا بہت بہت شکریہ، مجھے پھر سے بلانے کے لیے۔ ساتھیو، دو سال پہلے جب میں اس سمٹ میں آیا تھا، تو موضوع تھا “Towards a Brighter India”، صرف دو سال، صرف دو سال میں ، ہم آج “The Irreversible Rise of India” پر بات کررہے ہیں۔ یہ صرف موضوع کی تبدیل نہیں ہے۔ یہ ملک کی سوچ میں آئی تبدیلی، ملک کی خوداعتمادی میں آئی تبدیلی کی علامت ہے۔ اگر ہم ملک کو ایک اجتماعیت کے ساتھ دیکھیں، ایک لِوِنگ اینٹی ٹی کی طرح دیکھیں تو آج جو مثبت رجحان ہمارے ملک میں آیا ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ مجھے نہیں یاد، ملک کے غریبوں نے، نوجوانوں نے، خواتین نے، کسانوں نے، دبے کچلے لوگوں نے اپنے اثاثوں، اپنے وسائل، اپنے خوابوں پر اتنا بھروسہ، پہلے کبھی کیا ہو۔ یہ بھروسہ اب آیا ہے۔ ہم سب سوا سو کروڑ بھارتیوں نے مل کر اس کے لیے دن رات ایک کیا ہے۔ ہم وطنوں کا اپنے آپ پر بھروسہ، ملک بھر کا بھروسہ…… کسی بھی ملک کو اونچائیوں پر لے جانے کا یہی راز ہے۔ آج گیتا جینتی ہے، گیتا میں بڑی وضاحت سے کہا ہے – اُدریت آتمن آتمانم نَ آتمانم اوسادیت آتمیو-آتمنو بندھو آتمامیو رِپُر آتمنا خود کو اوپر اٹھاؤ، منفی خیال کو ٹالو، آپ ہی خود کے دوست ہیں اور آپ ہی خود کے دشمن اور اسی لئے بھگوان بدھ نے بھی کہا تھا: ‘اپ دیپو بھو’ یعنی اپنی روشنی خود بنو۔ سوا سو کروڑ ہم وطنوں کا بڑھتا اعتماد، اس ملک کی ترقی کی ایک مضوط بنیاد بن رہی ہے۔ اس ہال میں بیٹھے ہر ایک شخص سے لے کر اس ہوٹل کے باہر جو شخص آ��و چلا رہا ہے، کہیں رکشا کھینچ رہا ہے، کہیں کھیت میں ٹوٹے ہوئے کنارے کو ٹھیک رہا ہے، کہیں برف میں رات بھر پہرا دینے ک ے بعد اب کسی ٹینٹ میں سو رہا ہے۔ اُص نے اپنے حصے کی ریاضت کی ہے۔ ایسے ہر بھارتی کی ریاضت ہی ہے جس کی وجہ سے ہم “Towards a Brighter India” ، آگے بڑھ بڑھ کر “The Irreversible Rise of India” پر بات کررہے ہیں۔ ساتھیو، 2014 میں ملک کے لوگوں نے صرف سرکار بدلنے کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا۔ 2014 میں ووٹ دیا گیا تھا ملک بدلنے کے لیے۔ نظام میں ایسی تبدیلی لانے کے لیے، جو دیرپا ہو، مستقل ہو، نہ بدلنے والی ہو۔ آزادی کے اتنے برس بعد بھی ہمارے نظام کی کمزوری، ہمارے ملک کی کامیابی میں آڑے آرہی تھی۔ یہ ایک ایسا نظام تھا، جو ملک کی صلاحیتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرپارہا تھا۔ ہر طرف ملک میں کسی نہ کسی شخص کو اس نظام سے لڑنا پڑ رہا تھا۔ یہ میری کوشش ہی نہیں ، عزم بھی ہے کہ لوگوں کی نظام سے یہ لڑائی بند ہو، ان کی زندگی میں نہ تبدیل ہونے والی تبدیلی آئے، زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ، ریل بس کا ٹکٹ کرانے کے لیے، گیس کے کنکشن کے لیے، بجلی کے کنکشن کے لیے، اسپتال میں بھرتی ہونے کے لیے، پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے، انکم ٹیکس ری فنڈ پانے کے لیے انہیں پریشان نہ ہونا پڑے۔ ساتھیو، اس حکومت کے لیے بدعنوانی سے پاک، سٹیزن سینٹرک اور ترقی دوست ماحولیاتی نظام سب سے بڑی ترجیح ہے۔ پالیسیوں پر مبنی، تکنیک پر مبنی، شفافیت پر مبنی ایک ایسا ماحولیاتی نظام جس میں گڑبڑ ہونے کی، لیکیج کی، گنجائش کم سے کم ہو۔ اگر میں جن دھن یوجنا کی ہی بات کروں، تو یہ غریبوں کی زندگی میں ایسی تبدیلی لائی ہے، جو پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ جس غریب کو پہلے بینک کے دروازے سے دھتکار کر بھگادیا جاتا تھا، اُس کے پاس اپنا بینک اکاؤنٹ ہے۔ جن کے جن دھن کھاتے کھل رہے ہیں، انہیں روپے ڈیبٹ کارڈ بھی دئیے جارہے ہیں۔ سوا سو کروڑ لوگوں کے ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد تیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس غریب کی خوداعتمادی کے بارے میں سوچئے، جب وہ بینک میں جاکر پیسے جمع کراتا ہے، جب وہ روپے ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کرتا ہے۔ یہ خوداعتمادی، یہ حوصلہ، اب مستقل ہے، اسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ ایسے ہی اُجولا یوجنا ہے۔ گاؤں میں رہنے والی تین کروڑ سے زیادہ خواتین ک ی زندگی اس اسکیم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دی ہے۔ انہیں صرف مفت گیس کنکشن نہیں ملا، انہیں حفاظت ملی ہے، صحت ملی ہے، کنبے کے لیے وقت ملا ہے۔ ایسی کروڑوں خواتین کی زندگی میں آئی تبدیلی کے بارے میں بھی سوچئے، جو تبدیلی سوچھ بھارت مشن کی وجہ سے آئی ہے۔ حکومت نے صرف بیت الخلا نہیں بنائے ہیں، بلکہ ان کی کروڑوں خواتین کو، بیٹیوں کو اس تکلیف سے نجات دلائی ہے، جسے وہ شام کے انتظار میں برداشت کرتی رہتی تھیں۔ کچھ لوگ تھوڑی سی گندگی کی تصویر کھینچ کا بحث کرتے رہیں گے، لکھتے رہیں گے، ٹی وی پر دکھاتے رہیں گے، لیکن لوگوں کو پتہ ہے کہ اس مہم نے زمین پر کس طر ح کی نہ تبدیل ہونے والی تبدیلی لادی ہے۔ بھائیو اور بہنو، مجھے نہیں معلوم کہ اس ہال میں بیٹھے کتنے اشخاص اس سے تعلق قائم پائیں گے، لیکن جتنا آپ یہاں سے جانے کے بعد پارکنگ ٹپ کے طور پر دیں گے، اس سے بہت کم میں آج غریب کی زندگی کا بیمہ ہوجاتاہے۔ سوچئے، صرف ایک روپے مہینے پر حادثہ بیمہ، اور 90 پیسے فی دن کے پریمیم پر زندگی بیمہ۔ آج ملک کے 15 کروڑ سے زیادہ غریب حکومت کی ان اسکیموں سے جڑ چکے ہیں۔ ان اسکیموں کے تحت غریبوں کو تقر��باً 1800 کروڑ روپے کی کلیم رقم دی جاچکی ہے۔ اتنے روپے کسی اور حکومت نے دئیے ہوتے تو اُسے مسیحا بناکر پیش کردیا گیا ہوتا۔ لیکن غریبوں کے لیے اتنا بڑا کام ہوا، مجھے نہیں لگتا اس پر کسی نے دھیان دیا ہوگا۔ یہ بھی ایک سچ ہے ، جسے میں تسلیم کرکے چلتا ہوں۔ ایک اور مثال ایل ای ڈی بلب کی ہے۔ پہلے کی حکومت میں جو ایل ای ڈی بلب تین سو – ساڑھے تین سو کا بکتا تھا، وہ اب ایک اوسط درجے کے کنبے کو تقریباً پچاس روپے میں دستیاب ہے۔ اُجالا اسکیم شروع ہونے کے بعد سے ملک میں اب تک تقریباً 28 کروڑ ایل ای ڈی بلب فروخت ہوچکے ہیں۔ ان بلبوں سے لوگوں کو 14 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی اندازاً بچت ہوچکی ہے۔ ایس ابھی نہیں ہےکہ بچت پر، بجلی بل کم ہونے پر کچھ وقت میں فل اسٹاپ لگ جائے گا،جو بچت ہورہی ہے، وہ ہوتی ہی رہے گی۔ یہ بچت بھی اب مستقل ہے۔ بھائیو اور بہنو، پہلے ہی حکومتوں کو ایساکرنے سے کس نے روک رکھا تھا یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا۔ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ نظام میں دیرپا تبدیلی لانے کے فیصلے کرنے سے، ملک کے مفاد میں فیصلہ کرنے سے کسی کے روکے نہیں رکیں گے۔ جو لوگ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ ملک جادو کی چھڑی گھماکر نہیں بدلا جاسکتا، وہ مایوسی اور فسردگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ نظریہ ہمیں کچھ بھی نیا کرنے سے، اختراع کرنے سے روکتا ہے۔ یہ نظریہ ہمیں فیصلہ کرنے سے روکتا ہے۔ اس لیے اس حکومت کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے۔ جیسے یوریا کی نیم کوٹنگ ی ہی بات کریں۔ پہلے کی حکومت میں یوریا کی 35 فیصد نیم کوٹنگ ہوتی تھی۔ جبکہ پورے نظام کو پتہ تھا کہ 35 فیصد نیم کوٹنگ کریں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یوریا کا ڈائیورجن روکنا ہے۔ کارخانوں میں جانے سے روکنا ہے، تو اس کی 100 فیصد نیم کوٹنگ کرنی ہی ہوگی۔ لیکن یہ فیصلہ پہلے نہیں ہوا۔ اس سرکار نے فیصلہ کیا یوریا کی پوری طرح نیم کوٹنگ کا۔ بھائیو اور بہنو، اس فیصلے سے نہ صرف یوریا کا ڈائیورجن رُکا ہے، بلکہ اس کی اپنی استعداد بڑھ گئی ہے۔ اب کسان کو اتنی ہی زمین کے لیے کم یوریا ڈالنا پڑتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کم یوریا ڈالنے کے باوجود اس کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ ایسے ہی ، اب ہم ملک میں ایک ڈجیٹل پلیٹ فارم تیار کررہے ہیں جس پر آکر کسی بھی جگہ کا کسان ، کہیں سے بھی اپنی فصل بیچ سکے۔ یہ ملک میں بہت بڑی صورتحال کی تبدیلی ہونے والی ہے۔ ای نیم یعنی الیکٹرانک نیشنل ایکگریکلچر مارکیٹ سے اب تک ملک کی ساڑھے چار سو سے زیادہ منڈیوں کو آن لائن جوڑا جاچکا ہے۔ مستقبل میں یہ پلیٹ فارم کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت دلانے میں بہت مدد کرے گا۔ حال ہی میں حکومت نے ملک کے زرعی شعبے میں سپلائی چین کو مضبوط کرنےکے لیے، ذخیرہ کرنے کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے ‘‘ پردھان منتری کسان سمپدایوجنا’’ کا آغاز کیا ہے۔ اس اسکیم کا مقصد ہے کہ کھیت یا باغ میں پیدا ہونے کے بعد جو اناج یا پھل منڈی تک پہنچنے سے پہلئ خراب ہوجاتا ہے، اُسے بچایا جائے۔ حکومت اس اسکیم کے تحت خوراک کو ڈبہ بند کرنے کے شعبے کو بھی مضبوط کررہی ہے تاکہ کسان کا کھیت ایک صنعتی کارخانے کی طرح ہی کام کرے۔ فوڈ پارک پر، خوراک کی ڈبہ بندی سے متعلق جدید تکنیک پر ، نئے گوداموں پر، زرعی اشیا کی ڈبہ بندی کا پورا بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے پر حکومت چھ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرنے والی ہے۔ بھائیو اور بہنو، وقت کے ساتھ آرگینک زراعت اور آرگینک اشیا کی مانگ بھی لگاتار بڑھ رہی ہے۔ سکم کی طرح ہی ملک کی کئی اور ریاستوں میں 100 فیصد آرگینک ریاست بننے کی صلاحیت ہے۔ خاص طور پر ہماری ہمالیائی ریاستوں میں اسے اور بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے بھی حکومت دس ہزار کلسٹر بناکر اُن میں آرگینک کھیتی کو بڑھاوا دینے کی اسکیم پر کام کررہی ہے۔ حال ہی میں ہم نے ایک اور بڑا فیصلہ کیا ہے۔ بھائیو اور بہنو، اب تک بانس کو ملک کے ایک قانون کے تحت درخت مانا جاتا تھا۔ اس وجہ سے بانس کاٹنے کے سلسلے میں کسانوں کو بہت دقت آتی تھی۔ اب حکومت نے بانس کو درخت کی فہرست سے ہٹا دیا ہے۔ اس کا فائدہ ملک کے دور دراز علاقے اور خاص طور پر شمال مشرق کے کسانوں کو ہوگا، جو بانس کا فرنیچر، دستکاری کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ پہلے کی حکومت کے ذریعے بنائے گئے ایک اور قانون میں بانس کو پیڑ نہیں تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ تضاد دس بارہ سال بعد اب دور کیا گیا ہے۔ ساتھیو، ہماری حکومت میں کلّی نظریے کے ساتھ فیصلے کیے جاتےہیں۔ ملک کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے پہلے نہیں کیے جارہے تھے، اس لیے ملک کا ہر شخص فکر میں تھا۔ وہ ملک کو اندرونی برائیوں سے پاک دیکھنے کے ساتھ ہی نئی سہولتوں کی تعمیر ہوتے ہوئے بھی دیکھنا چاہتا تھا۔ بھائیو اور بہنو، ہمارے یہاں جو نظام تھا، اس نے بدعنوانی کو ہی حفظ مراتب بنایادیا تھا۔ کالا دھن ہی ملک کے ہر بڑے شعبے کو کنٹرول کررہا تھا۔ 2014 میں ملک کے سوا سو کروڑ لوگوں نے اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ انھوں نے ووٹ دیا تھا ، ملک کو لگی بیماریوں کے مستقل علاج کے لیے، انھوں نے ووٹ دیا تھا نیا بھارت دینے کے لیے۔ نوٹ منسوخی کے بعد ملک میں جس طرح کی رویہ جاتی تبدیلی آئی ہے، اُسے آپ خود محسوس کررہے ہوں گے۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے، جب بدعنوانیوں کو کالے دھن کے لین دین سے پہلے ڈر لگ رہا ہے۔ اُن میں پکڑے جانے کا ڈر آیا ہے۔ جو کالا دھن پہلے متوازی معیشت کی بنیاد تھی، وہ نوٹ منسوخی کے بعد باقاعدہ معیشت میں آگئی ہے۔ بڑی بات یہ بھی ہے کہ بینکنگ نظام میں واپس آیا یہ پیسہ اپنے ساتھ ثبوت بھی لایا ہے۔ ملک کو جو ڈیٹا ملا ہے، وہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔ اسی ڈیٹا کی مائننگ سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ہی پتے پر چار چار سو، پانچ پانچ سو کمپنیاں چل رہی تھیں اور ایک ایک کمپنی نے دو دو ہزار بینک کھاتے کھلوائے ہوئے تھے۔ یہ عجیب تضاد نہیں تھا کیا؟ ایک طرف غریب کو بینک نے ایک کھاتہ کھلوانےمیں دقت آتی تھی اور دوسری طرف ایک کمپنی آسانی سے ہزاروں کھاتے کھلوالیتی تھی۔ نوٹ منسوخی کے دوران ان کھاتوں میں بھی جو ہیر پھیر کیا گیا، وہ پکڑ میں آرہا ہے۔ اب تک ایسی تقریباً سوا دو لاکھ کمپنیوں کو منسوخ کیا جا چکا ہے۔ ان کمپنیوں میں جو ڈائرکٹر تھے، جن کی ذمہ داری تھی کہ یہ کمپنیاں صحیح طریقے سے کام کریں، ان کی بھی ذمہ داری فکس کی گئی ہے ۔ ان کے اب کسی اور کمپنی میں ڈائرکٹر بننے پر روک لگادی گئی ہے۔ ساتھیو، یہ ایک ایساقدم تھا، جو ہمارے ملک میں صحت اور صفائی کارپوریٹ کلچر کو اور مضبوط کرے گا۔ جی ایس ٹی لاگو ہونا بھی ملک کی معاشی صفائی کے لیے اہم قدم ہے۔ 70 سال میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی، کاروبار کرنے میں جو کمزوریاں تھیں، جو مجبوریاں تھیں، انہیں پیچھے چھوڑکر ملک اب آگے بڑھ چلا ہے۔ جی ایس ٹی سے بھی ملک میں شفافیت کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کاروبار بھی اس ایماندار نظام سے جڑ رہے ہیں۔ ساتھیو، ایسی ہی ایک واپس نہ لینے والی تبدیلی کو آدھار نم��ر سے مدد مل رہی ہے۔ آدھار ایک ایسی طاقت ہے، جس سے یہ سرکار غریبوں کے حقوق کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ سستا راشن، وظیفے، دوا کا خرچ، پنشن، حکومت کی طرف سے ملنے والی سبسڈی، غریبوں تک پہنچانے میں آدھار کا بڑ کردار ہے۔ آدھار کے ساتھ موبائل اور جن دھن کھاتے کی طاقت جڑ جانے سے ایک ایسی صورتحال کی تعمیر ہوئی ہے، جس کے بارے میں کچھ سال پہلے تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ایک ایسی صورتحال جو نہ تبدیل ہونے والی ہے۔ پچھلے تین سال میں آدھار کی مدد سے کروڑوں فرضی نام فہرست سے ہٹائے گئے ہیں۔ اب تو بے نامی املاک کے خلاف بھی یہ ایک بڑھا ہتھیار بننے والا ہے۔ بھائیو اور بہنو، اس حکومت میں سرکاری خرید کے پرانے طریقے کو بھی پوری طرح بدلا جاچکا ہے۔ ہم نے ایک نئی صورتحال تشکیل دی ہے، گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس جی ای ایم کے نام سے ۔ حکومت میں اب اسی کے ذریعے ٹینڈر دئیے جارہے ہیں اور سرکاری سامان کی خریداری ہورہی ہے۔ اب کاٹیج انڈسٹری والا بھی، چھوٹی چھوٹی دستکاری اشیا بنانے والا بھی، گھر میں سامانا بنانے والا بھی، جی ای ایم کے وسیلے سے حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتا ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہم ایک ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس میں کالا دھن پیدا کرنا، نظام کی کمزوری کی وجہ سےبدعنوانی کرنے کا امکان کم سے کم رہ جائے گا۔ جس دن ملک میں زیادہ تر خرید وفروخت ، پیسے کے لین دین کا ایک ٹیکنیکل اور ڈجیٹل ایڈریس ہونے لگے گا، اسی دن سے منظم بدعنوانی کافی حد تک تھم جائے گی۔ مجھے پتہ ہے ، اس کی مجھے سیاست کے طور پر کتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی، لیکن اس کے لیے بھی میں تیار ہوں۔ ساتھیوں، جب اسکیموں میں رفتار ہوتی ہے، تبھی ملک میں ترقی ہوتی ہے۔ کچھ تو تبدیلی آئی ہوگی، جس کی وجہ سے سرکار کی تمام اسکیموں کی اسپیڈ بڑھ گئی ہے۔ طریقے وہی ہیں، وسیلے وہی ہیں، لیکن نظام میں رفتار آگئی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ سرکار افسر شاہی میں بھی ایک نیا طریقہ کار تیار کررہی ہے۔ اُسے زیادہ تیزی سے کام کرنے والا بنارہی ہے۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں پچھلی حکومت میں ہر روز گیارہ کلومیٹر قومی شاہراہ بنتی تھیں، اب ایک دن میں 22 کلومیٹر سے زیادہ قومی شاہراہ کی تعمیر ہوتی ہے۔ پچھلی حکومت کے آخری تین سال میں گاؤوں میں 80 ہزار کلومیٹر سڑک بنی تھی، ہماری حکومت کے تین سال میں ایک لاکھ 20 ہزار کلو میٹر سڑک بنی ہے۔ پچھلی حکومت کے آخری تین سال میں تقریباً 1100 کلومیٹر نئی ریل لائن کی تعمیر ہوئی تھی، اس حکومت کے تین سال میں یہ 2100 کلومیٹر سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ پچھلی حکومت کے آخری تین سال میں 2500 کلومیٹر ریل لائن کی برق کاری ہوئی تھی، اس حکومت کے تین سال میں 4300 کلومیٹر سے زیادہ ریل لائن کی برق کاری ہوئی ہے۔ پچھلی حکومت کے آخر کے تین سال میں تقریباً ایک لاکھ 49 ہزار کروڑ بڑے اخراجات کیے گئے تھے، اس حکومت کے تین سال میں 22 ہزار میگاواٹ سے زیادہ قابل تجدید توانائی نئی صلاحیت کو گرڈ پاو ر سے جوڑا گیا ہے۔ پچھلی حکومت کے مقابلے میں جہاز رانی کی صنعت میں ترقی کی بات کریں تو پہلے جہاں کارگو ہینڈلنگ کی ترقی منفی تھی، وہیں اس حکومت کے تین سال میں 11 فیصد سے زیادہ کی بڑھوتری ہوئی ہے۔ ساتھیوں، اگر بالکل حقیقی سطح پر جاکر ٹھیک نہیں کیا گیا ہوتا، تو کیا یہ رفتار آ سکتی تھی؟ حکومت یہ فیصلے کرپاتی؟ نہیں۔ بڑی اور مستقل تبدیلی ایسے ہی نہیں آتی، اس کے لیے پورے نظام میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ جب یہ تبدیلی ہوتی ہے تبھی ملک صرف تین سال میں تجارت میں آسانی لانے کے درجے میں 142 سے 100 پر پہنچ جاتا ہے۔ بھائیوں اور بہنو، آپ سبھی کو پتہ ہے کہ 2014 میں جب ہم آئے تو ہمیں وراثت میں کیا ملا تھا؟ معیشت کی حالت، حکمرانی کی حالت، مالی نظم اور بینکنگ نظام کی حالت سب بگڑی ہوئی تھی۔ آپ لوگوں کو تب کم لفظوں میں یہ بات کہنی ہوتی تھی، سرخیوں میں لکھنا ہوتا تھا، تو کہتے تھے، پالیسی پیرالیسس۔ سوچئے، ہمارا ملک نازک پانچ شمار کیا جاتا تھا۔ دنیا کے تما م ملک سوچتے تھے کہ معیشت کے بحران سے ہم تو ابھر جائیں گے لیکن یہ نازک پانچ خود تو ڈوبیں گے ہی، ہمیں بھی لے ڈوبیں گے۔ آج عالمی سطح پر بھارت کا کہاں کھڑا ہے، کس صورتحال میں ہے، آپ اس سے خاطر خواہ واقف ہیں۔ بڑے ہوں یا چھوٹے، دنیا کے زیادہ تر ملک آج بھارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلنا چاہتے ہیں۔ بین لااقوامی پلیٹ فارم پر بھارت اپنا اثر لگاتار بڑھا رہے ہیں۔ اب تو رُکنا نہیں ہے۔ آگے ہی بڑھتے جانا ہے۔ ساتھیوں، جب ایک ملک خوداعتمادی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، تو Irreversible اور Reversible معنی نہیں رکھاتا۔ جب ایک ملک خوداعتمادی کے ساتھ اپنے قدم بڑھاتا ہے، فیصلہ کرتا ہے، تو وہ ہوتا ہے، جو پچھلے 70 سال میں نہیں ہوا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے انتخاب میں بھارت کی کامیابی پوری دنیا کی سوچ میں آتی ہوئی تبدیلی کی علامت ہے۔ بھائیوں اور بہنو، جب یوگ کو اقوام متحدہ نے اتفاق رائے سے تسلیم کیا، تب اس کا Irreversible Rise نظر آتا ہے۔ جب بھارت کی پہل پر بین الاقوامی شمسی اتحاد کی تشکیل ہوتی ہے، تب اس کا Irreversible Rise نظر آتا ہے۔ ساتھیوں، ہماری حکومت نے ڈپلومیسی کو انسانیت سے جوڑا ہے، انسانی احساسات سے جوڑا ہے۔ جب نیپال میں زلزلہ آتا ہے تو سب سے پہلے بھارت ، بچاؤ اور راحت کام میں لگ جاتا ہے۔ جب سری لنکا میں باڑھ آتی ہے، تو بھارت کی بحریہ فوری طور پر مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔ جب مالدیپ میں پانی کا بحران آتا ہے تو بھارت سے جہاز بھر بھر کے پانی پہنچایا جاتا ہے۔ جب یمن میں بحران پیدا ہوتا ہے تو بھارت اپنے چار ہزار سے زیادہ شہریوں کو ہی نہیں بچاتا، بلکہ ، 48 اور ملکوں کے دو ہزار افراد کو بھی حفاظت کے ساتھ نکال لاتا ہے۔ یہ بھارت کی بڑھتی ہوئی شاخ اور بڑھتے ہوئے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ آج بیرون ملک رہنے والے بھارتی افراد اپنا سر اور اونچا کرکے سامنے والے سے بات کررہےہیں۔ جب ملک میں ‘‘ اب کی بار کیمرن سرکار’’ اور ‘‘ اب کی بار ٹرمپ سرکار’’ کے نعرے گونجتے ہیں تو یہ بھارتیوں کے طاقت کو تسلیم کیا جانا ہوتا ہے۔ بھائیوں اور بہنو، جب ہر اتحاد، ہر سماج، ہر شخص اپنی طاقت کو سمجھتے ہوئے، اپنی سطح پر تبدیلی کی شروعات کرے، تبھی نئے بھارت کا خواب پورا ہوگا۔ نئے بھارت کا یہ خواب صرف میرا نہیں ہے، آپ کا بھی ہے۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ قوم کی تعمیر سے تعلق رکھنے والی ہر تنظیم ملک کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے ملک کے سامنے موجود چنوتیوں کو سمجھتے ہوئے اپنی سطح پر کچھ عہد کرے۔ 2022 میں، جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منائے گا، تب تک ہمیں ان عزائم کو پورا کرنا ہے۔ میں آپ لوگوں کو خود تو کوئی صلاح دے نہیں سکتا، لیکن ہم سبھی کے عزیز، سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبدالکلام کی ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا تھا- ‘‘ ہمارے یہاں کا میڈیا اتنا منفی کیوں ہے؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ بھارت میں ہم اپنی ہی صلاحیتوں اور کامیابیوں سے شرمندہ رہتے ہیں؟ ہم اتنے عظیم ملک ہیں، ہمارے پاس کامیابی کی اتنی عجیب کہانیاں ہ��ں، پھر بھی ہم اُسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ آخر ایساکیوں ہے؟’’ انھوں نے یہ بات کئی سال پہلے کہی تھی۔ آپ حضرات کو ٹھیک لگے تو اس پر کبھی اپنے یہاں سے میناروں میں، نیوز روم میں چرچا ضرور کیجئے گا۔ مجھے امید ہے آپ بھی جو تبدیلی کریں گے وہ اپنے اثرات نہ ختم کرنے والی ہوگی۔ میرا اسٹیج سے ملک کی پوری میڈیا دنیا سے اصرار ہے، آپ خود بھی عزم کیجئے،دوسروں کو بھی ریس دلائیے۔ جیسے آپ نے سوچھ بھارت مہم کو اپنا مان کر، اسے ایک عوامی تحریک میں بدلنے میں سرگرم کردار اد اکیا ہے، ویسے ہی سنکلپ سے سدھی یعنی عزم سےحصول کے اس سفر میں بھی آگے بڑھ کر ساتھ چلئے۔ انہیں لفظوں کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر ہندوستان ٹائمز گروپ کو اس انعقاد کے لیے بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ، جے ہند,২০১৭ বৰ্ষৰ হিন্দুস্তান টাইমছ লিডাৰশ্বিপ চামিটত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ সাৰাংশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%8C%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84-%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D8%AE%D8%B7%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AB%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A7%A8%E0%A7%A9/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت مرکزی کابینہ نے، شمال مشرقی خطے کی فروغ کی وزارت کی ، پندرھویں مالیاتی کمیشن کی بقایا مدت (23-2022 سے 26-2025) کے لیے 12882.2 کروڑ روپئے کی مختص رقم کے ساتھ، اسکیموں کو جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ اخراجات کی مالیاتی کمیٹی (ای ایف سی) کی سفارشات پر مبنی، شمال مشرقی خصوصی بنیادی ڈھانچہ جاتی اسکیم (این ای ایس آئی ڈی ایس) کے لیے مختص رقم 8139.5 کروڑ روپئے ہوگی جس میں جاری پروجیکٹوں کی مخصوص ذمے داریاں بھی شامل ہیں۔ ’’این ای سی پی اسکیموں‘‘ کے لیے مختص رقم 3202.7 کروڑ روپئے ہوگی جس میں جاری پروجیکٹوں کی مخصوص ذمے داریاں بھی شامل ہیں۔ آسام میں ،بی ٹی سی، ڈی ایس اے ٹی سی اور کے اے اے ٹی سی کے لیے خصوصی پیکیجیز کی مختص کردہ رقم 1540 کروڑ روپئے ہے۔ (بی ٹی سی – 500 کروڑ روپئے، کے اے اے ٹی سی – 750 کروڑ روپئے اور بی ٹی سی، بی ایچ اے ٹی سی اور کے اے اے ٹی سی کے پرانے پروجیکٹوں کے لیے – 290 کروڑ روپئے) مرکزی شعبے کی ایک اسکیم این ای ایس آئی ڈی ایس اسکیم، جس میں 100 فیصد مرکزی فنڈنگ ہے، کی تشکیل نو کی گئی ہے اور اس میں دو عناصر شامل کئے گئے ہیں۔ – این ای ایس آئی ڈی ایس (شاہراہیں) اور این ای ایس آئی ڈی ایس (شاہراہوں کے بنیادی ڈھانچوں کے علاوہ)۔ شمال مشرقی خطےکے لیے ’’وزیر اعظم کی ترقیاتی پہل – پی ایم ڈیوائن‘‘ نامی وزارت کی نئی اسکیم (6600 کروڑ روپئے کی مختص رقم کے ساتھ) کو علاحدہ سے اکتوبر 2022 میں پہلے ہی منظوری دی جاچکی ہے جس کے تحت بنیادی ڈھانچے، سماجی ترقی اور روزی روٹی کے شعبوں کے تحت وسیع تر اور زیادہ با اثر تجاویز کو شامل کیا گیا ہے۔ شمال مشرقی خطے کی ترقی کی وزارت کے مقاصد میں ، ایک جانب مختلف مرکزی وزارتوں اور محکموں کی کاوشوں میں معاونت فراہم کرنا جبکہ دوسری جانب شمال مشرقی خطے کی ریاستوں کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنا ہے، جو غیر احاطہ شدہ ترقیات / بہبودی سرگرمیوں کے لیے ہو۔ شمال مشرقی خطے کی ترقی کی وزارت کی اسکیمیں آٹھ شمال مشرقی ریاستوں کو ان کی مطلوبہ ضروریات کے مطابق فقدان شدہ مدد فراہم کرتی ہیں۔ جو کہ پروجیکٹوں کو شروع کرکے کی جاتی ہے۔ اس میں کنیکٹی ویٹی کو بہتر بنانے اور سماجی شعبے کے خساروں کے لیے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینا اور خطے میں روزی روٹی کمانے اور روزگار کے مواقعو ں میں اضافہ کرنا ہے۔ پندرھویں مالیاتی کمیشن کی مدت یعنی مالی سال 26-2025 تک کے لیے منظور شدہ اسکیموں کی توسیع درج ذیل کاموں کے لیے ہوگی: پروجیکٹ انتخاب کے ضمن میں اسکیموں کے نفاذ کے لیے بہتر منصوبہ بندی کو فعال کرنا، پروجیکٹوں کی منظوری کی فرنٹ لوڈنگ اور اسکیم کی مدت کے دوران پروجیکٹ کا نفاذ سن 26-2025 تک پروجیکٹوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو مکمل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی تاکہ اس سال کے بعد سے مخصوص ذمے داریاں کم سے کم ہوسکیں، لہٰذا اسکیموں کے لیے بنیادی طور پر 23-2022 اور 24-2023 میں نئی ذمے داریاں ہوں گی، جب کہ 25-2024 اور 26-2025 کے دوران اخراجات کئے جاتے رہیں گے۔ جاری منظور شدہ پروجیکٹوں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ خود کفیل ہندوستان کے لیے آتم نر بھر بھارت ابھیان کے پانچ ستون ہیں: معیشت، بنیادی ڈھانچہ، نظام ، جامع اعداد وشمار اور مطالبہ ، جن پر اسکیموں کے ذریعے زیادہ توجہ دی جائے گی۔ حکومت نے شمال مشرق کی ترقی کو اولین ترجیح دی ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ 8 سالوں میں شمال مشرقی خطے کا 50 سے زیادہ مرتبہ دورہ کیا ہے، جب کہ 74 وزراء بھی 400 سے زائد بار شمال مشرقی علاقے کا دورہ کر چکے ہیں۔ شمال مشرق پہلے بدامنی، بم دھماکوں، بند وغیرہ کے لیے جانا جاتا تھا لیکن پچھلے آٹھ سالوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں امن قائم ہوا ہے۔ شورش کے واقعات میں 74 فیصد کمی، سکیورٹی فورسز پر حملوں کے واقعات میں 60 فیصد اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں 89 فیصد کمی آئی ہے۔ تقریباً 8,000 نوجوانوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنے اور اپنے خاندانوں کے بہتر مستقبل کا خیرمقدم کرتے ہوئے مرکزی دھارے میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، 2019 میں تریپورہ کے قومی آزادی کے محاذ کے ساتھ معاہدہ، 2020 میں بی آر یو اور بوڈو معاہدہ، اور 2021 میں کاربی معاہدے پر اتفاق کیا گیا۔ آسام-میگھالیہ اور آسام-اروناچل سرحدی تنازعات بھی تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور امن کی بحالی کے ساتھ ہی شمال مشرقی خطہ ،ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے۔ سن 2014 کے بعد سے، ہم نے خطے کے لیے بجٹ کی مختص رقم میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا ہے۔ 2014 سے اب تک اس خطے کے لیے 4 لاکھ کروڑ سے زیادہ مختص کیے گئے ہیں۔ شمال مشرقی خطے کی ترقی کی وزارت کی اسکیموں کے تحت پچھلے 04 سالوں میں اصل اخراجات 7534.46 کروڑ روپے تھے۔ جبکہ 2025-26 تک اگلے چار سالوں میں اخراجات کے لیے دستیاب فنڈ 19482.20 کروڑ روپے ہے (تقریباً 2.60 گنا) خطے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی گئی ہیں۔ کنیکٹوٹی کو بہتر بنانا اولین فوکس رہا ہے۔ ریلوے کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے کے لیے 2014 سے اب تک 51,019 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ 19 نئے پروجیکٹوں کے لئے 77,930 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔ سن 14-2009 کے دوران اوسط سالانہ بجٹ 2,122 کروڑ روپے مختص روپے کے مقابلے میں ، پچھلے 8 سالوں میں، اوسط سالانہ بجٹ مختص میں 370 فیصد اضافہ ہوا ہے جو 9,970 کروڑ کل روپے ہے۔ سڑک کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے کے لیے 375 پراجیکٹس جن کی مالیت(1.05 لاکھ کروڑ روپے ہے) جاری ہیں۔ اگلے تین سالوں میں حکومت 209 منصوبوں کے تحت 9,476 کلومیٹر سڑکیں بنائے گی۔ اس کے لیے مرکزی حکومت 1,06,004 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ فضائی رابطے میں بھی بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے۔ 68 سالوں میں شمال مشرق میں صرف 9 ہوائی اڈے تھے، جو آٹھ سال کے مختصر عرصے میں 17 تک پہنچ گئے۔ آج، شمال مشرق میں ہوائی ٹریفک کی نقل و حرکت میں 2014 (سال بہ سال) سے 113فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فضائی رابطے کو مزید فروغ دینے کے لیے، شمال مشرقی خطے میں شہری ہوا بازی کے شعبے میں 2000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ٹیلی کام کنیکٹیوٹی کو بہتر بنانے کے لیے، 2014 سے، 10فیصد جی بی ایس کے تحت 3466 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ کابینہ نے این ای آر کے 4,525 گاؤں میں جی4 کنیکٹیویٹی کو بھی منظوری دی ہے۔ مرکزی حکومت نے 2023 کے آخر تک خطے میں مکمل ٹیلی کام رابطہ فراہم کرنے کے لیے 500 دنوں کا ہدف مقرر کیا ہے۔ آبی گزرگاہیں، شمال مشرق کی زندگی اور ثقافت کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پی ایم مودی کی حکومت ،خطے میں اس اہم شعبے کو ترقی دینے کے لیے تمام کوششیں کر رہی ہے۔ 2014 سے پہلے این ای آر میں صرف 1 قومی آبی گزرگاہ تھی۔ اب این ای آر میں 18 قومی آبی گزرگاہیں ہیں۔ حال ہی میں نیشنل واٹر وے 2 اور نیشنل واٹر وے 16 کی ترقی کے لیے 6000 کروڑ روپے منظور کیے گئے ہیں۔ تقریباً روپے 2014 اور 2021 کے درمیان این ای آر میں ہنر مندی کی ترقی کے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے اور موجودہ سرکاری اداروں کو ماڈل انسٹی ٹیوٹ میں اپ گریڈ کرنے کے لیے 190 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ 193 نئے اسکل ڈیولپمنٹ ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ روپے ہنر مندی کے لیے 81.83 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ مختلف اسکیموں کے تحت کل 16,05,801 افراد کو ہنر مند بنایا گیا ہے۔ ایم ایس ایم ایز کو مختلف اسکیموں کے تحت فروغ دیا گیا ہے تاکہ کاروباری ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ 645.07 کروڑ روپے 978 یونٹس کو معاونت فراہم کرنے/ سیٹ اپ کرنے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں۔ ڈی پی آئی آئی ٹی کے مطابق شمال مشرق سے 3,865 اسٹارٹ اپ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا ایک کلیدی توجہ رہا ہے۔ حکومت نے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ صحت کے شعبے میں15-2014 سے اب تک 31,793.86 کروڑ روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔ 19 ریاستی کینسر انسٹی ٹیوٹ اور 20 ٹرٹیری کیئر کینسر سینٹرز کو کینسر اسکیم کی علاقائی دیکھ بھال کو مضبوط بنانے کے تحت منظوری دی گئی ہے۔ پچھلے اسی برسوں کے دوران خطے میں تعلیمی بنیادی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں۔ سن 2014 سے اب تک حکومت نے شمال مشرق میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کے لیے 14,009 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے 191 نئے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ 2014 سے اب تک قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کی تعداد میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔15-2014 سے قائم ہونے والے اعلیٰ تعلیم کے مرکزی اداروں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً، اعلیٰ تعلیم میں طلباء کے کل داخلہ میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خطے میں ترقی کو ہوا دینے کے لیے پاور انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا گیا ہے۔15-2014 سے، حکومت نے 37,092 کروڑ روپے منظور کیے ہیں جن میں سے اب تک 10,003 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ نارتھ ایسٹ گیس گرڈ (این ای جی جی) پراجیکٹ۔ 9,265 کروڑ کا کام جاری ہے اور یہ این ای آر میں معیشت کو بہتر کرے گا۔ وزیراعظم نے اربوں روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اروناچل پردیش کے سرحدی گاؤں کو روشن کرنے کے لیے 550 کروڑ روپے۔ پہلی بار ضلعی سطح پر ایس ڈی جی انڈیکس قائم کیا گیا ہے۔ایس ڈی جی عدد اشاریہ کا دوسرا ورژن تیار ہے اور جلد ہی ریلیز ہونے والا ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ش ح۔ اع ۔ را",১৫তম বিত্ত আয়োগৰ (২০২২-২৩ ৰ পৰা ২০২৫-২৬) বেলেঞ্চ ম্যাদৰ বাবে ১২৮��২.২ কোটি টকা ব্যয়ৰ সৈতে উত্তৰ-পূৰ্বাঞ্চলৰ উন্নয়ন মন্ত্ৰালয়ৰ আঁচনিসমূহ অব্যাহত ৰখাত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%B9%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%88%DA%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%8F%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D9%BE%D8%B3%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0-%E0%A6%95/,نئی دہلی:15؍مئی2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج تھامس کپ میں تاریخی کامیابی حاصل کرنے والی ہندوستانی بیڈ منٹن ٹیم سے فون پر بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ٹیم کو مبارکباد دی اور کہا کہ کھیل تجزیہ کاروں کو اسے ہندوستان کی اعلیٰ ترین کھیل کامیابی کے طورپر شمار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کی خاص طورپر خوشی ہے کہ ٹیم ایک بھی راؤنڈ نہیں ہاری۔ وزیر اعظم نے کھلاڑیوں سے پوچھا کہ کس سطح پر اُنہیں لگا کہ وہ جیتیں گے۔کِدامبی سریکانت نے انہیں بتایا کہ کوارٹر فائنل کے بعد اِسے آخر تک دیکھنے کا ٹیم کا پختہ عہد بہت مضبوط ہوگیا۔ انہوں نے وزیر اعظم سے یہ بھی کہا کہ ٹیم جذبے نے بھی مدد کی اور ہر کھلاڑی نے اپنا صد فیصد دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کوچ بھی ستائش کے مستحق ہے۔ وزیر اعظم نے لکشیہ سین سے کہا کہ انہیں الموڑا سے بال مٹھائی دینی ہوگی۔ اس شٹلرکا تعلق اتراکھنڈ کے دیو بھومی سے ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ لکشیہ تیسری نسل کا کھلاڑی ہے۔ لکشیہ سین نے بتایا کہ ٹورنامنٹ کے دوران ان کے والد موجود تھے۔ انہوں نے سری کانت کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کوارٹر فائنل کے بعد جیت میں یقین اور بھی پختہ ہوگیا۔ ایچ ایس پرنائے نے یہ بھی کہا کہ کوارٹر فائنل جیتنا بے حد ضروری ہے۔ اسے جیتنے کے بعد صاف ہوگیا کہ ہندوستانی ٹیم کسی بھی ٹیم سے بھڑنے کی حالت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم کی حمایت کا نتیجہ ملیشیا جیسی مضبوط ٹیم کو ہرانا ہے۔وزیر اعظم نے ساتوک سائی راج رنکی ریڈی اور چراغ شیٹی کو بھی ان کی جیت کے لئے مبارکباد دی۔وزیر اعظم چراغ شیٹی کے ساتھ مراٹھی میں گفتگو کی ، جنہوں نے انہیں بتایا کہ عالمی چمپئن بننے اور وہ بھی ہندوستان کے عالمی چمپئن بننے سے بہتر کچھ نہیں تھا۔ ’’آپ سب نے اتنی اہم کامیابی حاصل کی ہے، پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔‘‘ہندوستان لوٹنے پر وزیر اعظم نے انہیں ان کے ٹرینروں کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا ، کیونکہ وہ ان سے بات کرنا اور ان کے تجربات سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے نوجوان ایتھلیٹوں اور بیڈمنٹن ، ٹیبل ٹینس یا تیراکی جیسے کھیلوں میں حصہ لینے والے چھوٹے بچوں کو فاتح ٹیم کا پیغام مانگا۔ سری کانت نے ٹیم کے لئے بات کی اور کہا کہ آج ہندوستان میں کھیلوں کو زبردست حمایت حاصل ہے۔ آج اسپورٹ اتھارٹی آف انڈیا حکومت کھیل فیڈریشن اور اعلیٰ سطح پر اولمپک پوڈیم منصوبہ ٹی او پی ایس کی کوششوں کے سبب کھلاڑی بہت اچھے جذبے کا احساس کررہے ہیں۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہمیں لگتا ہے کہ ہندوستان کو کئی اور چمپئن دیکھنے کو ملیں گے۔ انہوں نے اپنی پسند کے کھیلوں میں حصہ لینے والے چھوٹوں بچوں سے کہا کہ اگر وہ اپنا صد فیصد دے سکتے ہیں تو ہندوستان میں کھیل کے شعبے میں ان کے لئے زبردست حمایت ہے۔ اچھے کوچ اور بنیادی ڈھانچے ہیں، اگر وہ عہد بند ہیں، تو بین الاقوامی سطح پر اچھاکرسکتے ہیں۔ کیدامبی سری کانت نے کہا’’اگر و�� صد فیصد وقف کے ساتھ کام کرسکتے ہیں تو کامیابی یقیناً ان کے قدم چومے گی۔‘‘ وزیر اعظم نے کھلاڑیوں کے والدین کے لئے اپنا احترام اور اپنی ستائش کا اظہار کیا ، کیونکہ بچوں کو کھیل کے لئے متحرک کرتے رہنا اور آخر تک ان کے ساتھ کھڑے رہنا ایک چیلنج سے بھرا ہوا کام ہے۔آخر میں وزیر اعظم ان کے جشن اور ’بھارت ماتا کی جے‘کے نعرے میں شامل ہوئے۔,‘এয়া ভাৰতৰ সৰ্বশ্ৰেষ্ঠ ক্ৰীড়া জয়’ প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে থমাছ কাপ ২০২২ বিজয়ী দলক কয +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%8F%D8%AC%D9%91%D9%88%D9%84%D8%A7-2-0%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%8F/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A7%A8/,نئی دہلی:10؍اگست2021: نمسکار! ابھی مجھے آپ سب ماتاؤں-بہنوں سے بات کرنے کا موقع ملا اور میرے لئے خوشی ہے کہ تھوڑے دن کے بعد ہی رکشا بندھن کا تہوار بھی آر ہاہے اور آج مجھے پیشگی میں ماتاؤں ، بہنوں کے آشیرواد بھی ملے۔اور ایسے میں ملک کے کروڑوں غریب، دلت، محروم طبقات، پسماندہ طبقات، قبائلی خاندانوں کی بہنوں کو آج ایک اور تحفہ دینے کا موقع ملاہے۔آج اُجّولا یوجنا کے اگلے مرحلے میں کئی بہنوں کو مفت گیس کنکشن اور گیس چولہا مل رہا ہے۔ میں مستفدین کو پھر سے بہت بہت مبارکباد دیتاہوں۔ مہوبا میں موجود مرکزی کابینہ میں میرے معاون ہردیپ سنگھ پوری جی ، یوپی کے وزیر اعلیٰ جناب آدتیہ ناتھ جی،کابینہ کے میرے ایک اور ساتھی رامیشور تیلی جی، اترپردیش کے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ جی، ڈاکٹر دنیش شرما جی، ریاستی سرکار کے دیگر تمام وزراء، تمام پارلیمنٹ کےمیرے ساتھی، تمام قابل احترام ممبران اسمبلی اور میرے بھائیوں اور بہوں، اُجّولا یوجنا نے ملک کے جتنے لوگوں ، جتنی خواتین کی زندگی روشن کی ہے، وہ بے مثال ہے۔یہ یوجنا 2016ء سے اترپردیش کے بلیہ سے آزادی کی لڑائی کے اگلی صف کی قائد منگل پانڈے جی کی سرزمین سے شروع ہوئی تھی۔آج اُجّولا کا دوسرا ایڈیشن بھی یوپی کے ہی مہوبا کی بہادروں کی زمین سے شروع ہورہا ہے۔ مہوباہو ، بندیل کھنڈ ہو، یہ تو ملک کی آزادی کے ایک طرح سے توانائی کے مقامات رہے ہیں۔یہاں کے ذرہ ذرہ میں رانی لکشمی بائی، رانی درگا وتی، مہاراجہ چھتر سال، ویر آلہا اور اودل جیسے متعدد ویر –ویرانگناؤں کی بہادری کے داستانوں کی خوشبو ہے۔آج جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہتوسو منا رہا ہے تو یہ انعقاد اِن عظیم شخصیتوں کو یاد کرنے کا بھی موقع لے کر آیا ہے۔ ساتھیوں، آج میں بندیل کھنڈ کی ایک اور عظیم سپوت کو یاد کررہا ہوں۔ میجر دھیان چند، ہمارے ددّا دھیان چند۔ ملک کے سب سے بڑے کھیل ایوارڈ کا نام اب میجر دھیان چند کھیل رتن پُرسکار ہوگیا ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ اولمپک میں ہمارے نوجوان ساتھیوں کی غیر معمولی کارکردگی کے درمیان کھیل رتن کے ساتھ جڑا ددّا کا یہ نام لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کو تحریک دےگا۔اس بار ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے میڈل تو جیتے ہی، مختلف کھیلوں میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرکے مستقبل کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، ہم آزادی کے 75ویں سال میں داخل ہونے والے ہیں۔ایسے میں پچھلی سات دہائیوں کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ضرور لگتا ہے کہ بعض حالات ایسے ہیں، جن کو کئی دہائی قبل بدلا جاسکتا ت��ا۔ گھر، بجلی، پانی، بیت الخلا، گیس، سڑک، اسپتال، اسکول ایسی متعدد بنیادی ضرورتیں ہیں، جن کی تکمیل کے لئے دہائیوں کا انتظار ملک کے شہریوں کو کرنا پڑا، یہ افسوسناک ہے۔اس کا سب سے زیادہ نقصان کسی نے اٹھایا ہے تو ہماری ماتاؤں بہنوں نے اٹھایا ہے۔خاص طور سے غریب ماتاؤں –بہنوں کو مصیبت جھیلنی پڑی ہے۔جھونپڑی میں ٹپکتے ہوئے پانی سے سب سے زیادہ پریشانی اگر کسی کو ہے ، تو ماں کو ہے۔بجلی کی دقت میں سب سے زیادہ پریشانی ہے تو ماں کو ہے۔پانی کی گندگی سے خاندان بیمار ، تو بھی سب سے زیادہ پریشانی ماں کو۔ بیت الخلا کی قلت میں اندھیرا ہونے کا انتظار ، پریشانی ہماری ماتاؤں-بہنوں کو ۔اسکول میں اگر ٹوائلٹ نہیں تو مسئلہ ہماری بیٹیوں کا ۔ ہماری جیسی متعدد نسلیں تو ماں کو دھوئیں میں آنکھیں ملتے ، بلا کی گرمی میں بھی آگ میں تپتے ، ایسے ہی منظر کو دیکھتے ہوئے ہی بڑی ہوئی ہیں۔ ساتھیوں، اس طرح کی صورتحال کے ساتھ کیا ہم آزادی کے 100ویں کی طرف بڑھ سکتے ہیں؟کیا ہماری توانائی صرف بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ہی لگی رہے گی؟جب بنیادی سہولتوں کے لئے ہی کوئی خاندان ، کوئی سماج جدوجہد کرتا رہے گا ، تو وہ اپنے بڑے خوابوں کو پورا کیسے کرسکتا ہے؟ خواب پورے ہوسکتے ہیں، جب تک یہ اعتماد سماج کو نہیں ملے گا ، تب ان کو پورا کرنے کی خود اعتمادی وہ کس طرح اکٹھا کر پائے گا؟ اور خود اعتمادی کے بغیر کوئی ملک آتم نر بھر کیسے بن سکتا ہے؟ بھائیوں اور بہنوں، 2014ء میں جب ملک نے ہمیں جب خدمت کا موقع دیا، تو ایسے ہی سوالوں کو ہم نے خود سے پوچھا۔ تب بالکل واضح تھا کہ ان تمام مسائل کا حل ہمیں ایک طے وقت کے اندر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ہماری بیٹیاں گھر اور رسوئی سے باہر نکل کر قومی تعمیر میں وسیع تعاون تبھی دے پائیں گی، جب پہلے گھر اور رسوئی سے جڑے مسائل حل ہوں گے۔اس لئے گزرے ہوئے 7-6سالوں میں ایسے ہر حل کے لئے مشن موڈ پر کام کیا گیا ہے۔ سووچھ بھارت مشن کے تحت ملک بھر میں کروڑوں بیت الخلا بنائے گئے۔بھارت منتری آواس یوجنا میں دو کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پختہ گھر تعمیر ہوئے۔ان گھروں میں زیادہ کا تر مالکانہ حق بہنوں کے نام پر ہے۔ ہم نے ہزاروں کلو میٹر دیہی سڑکیں بنوائیں تو سوبھاگیہ یوجنا کے تحت تقریباً3 کروڑ خاندانوں کو بجلی کنکشن دیا۔آیوشمان بھارت یوجنا 50 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو 5لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت دے رہی ہے۔ماتر وندنا یوجنا کے تحت حمل کے دوران ٹیکہ کاری اور تغذیے کے لئے ہزاروں روپے براہ راست بینک کھاتے میں جمع کئے جارہے ہیں۔ جن دھن یوجنا کے تحت ہم نے کروڑوں بہنوں کے بینک کھاتے کھلوائے، جن میں کورونا کے دور میں تقریباً 30ہزار کروڑ روپے سرکار نے جمع کروائے ہیں۔ اب ہم جل جیون مشن کے ذریعے دیہی خاندانوں کی ہماری بہنوں کو پائپ سے صاف پانی نل سے پہنچانے کا کام کررہے ہیں۔ ساتھیوں، بہنوں کی صحت ، سہولت اور بااختیار بنانے کے اس عہد کو اُجّولا یوجنا نے بہت بڑی طاقت دی ہے۔یوجنا کے پہلے مرحلے میں 8کروڑ غریب، دلت ، محروم طبقات، پسماندہ طبقات، قبائل خاندانوں کی بہنوں کو مفت گیس کنکشن دیا گیا۔اس کا کتنا فائدہ ہوا ہے ، یہ ہم نے کورونا کے دور میں دیکھا ہے۔جب باہر آنا جانا بند تھا، کام دھندے بند تھے، تب کروڑوں غریب خاندانوں کو کئی مہینوں تک مفت گیس سلینڈر دیئے گئے۔ تصور کیجئے اُجّولا نہیں ہوتی، تو بحران کے اس دور میں ہماری اِن بہنوں کیا حالت کیا ہوتی؟ ساتھیوں، اُجّولا یوجنان ��ا ایک اور اثر یہ بھی ہوا کہ پورے ملک میں ایل پی جی گیس سے جڑے انفراسٹرکچر کی کئی گناتوسیع ہوئی ہے۔ گزرے ہوئے 7-6 سال میں ملک بھر میں 11ہزار سے زیادہ نئے ایل پی جی تقسیم مراکز کھولے گئے ہیں۔تنہا اترپردیش میں 2014ء میں 2000 سے بھی کم تقسیم مراکز تھے، آج یوپی میں ان کی تعداد 4000 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سے ایک تو ہزاروں نوجوانوں کو نئے روزگار ملے اور دوسرا جو خاندان پہلے بہتر سہولت کی قلت میں گیس کنکشن سے محروم تھے ، وہ بھی جڑ گئے۔ ایسی ہی کوششوں سے آج بھارت میں گیس کوریج صد فیصد ہونے کے بہت قریب ہے۔2014ء تک ملک میں جتنے گیس کنکشن تھے، اس سے زیادہ پچھلے سات سال میں دیئے گئے ہیں۔ سلینڈر بکنگ اور ڈلیوری کو لے کر پہلے جو پریشانی ہوتی تھی، اسے بھی دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، اُجّولا یوجنا سے جو یہ سہولتیں بڑھیں ہیں، اس میں ایک اور سہولت جوڑی جارہی ہے۔ بندیل کھنڈ سمیت پورے یوپی اور دوسری ریاستوں کے ہمارے بہت سے ساتھی کام کرنے کے لئے گاؤں سے شہر جاتے ہیں۔ دوسری ریاست جاتے ہیں، لیکن وہاں ان کے سامنے پتے کی تصدیق کا مسئلہ آتا ہے۔ ایسے ہی لاکھوں خاندانوں کو اُجّولا دوسرے مرحلے کی یوجنا سب سے زیادہ راحت دینے والی ہے۔ اب میرے مزدور ساتھیوں کو پتے کی تصدیق کے لئے ادھر ادھربھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرکار کو آپ کی ایمانداری پر پورا بھروسہ ہے۔ آپ کو اپنے پتے کا صرف ایک سیلف ڈکلیئریشن یعنی خود لکھ کر دینا ہے اور آپ کو گیس کنکشن مل جائے گا۔ ساتھیوں، سرکار کی کوشش اب اس سمت میں یہ بھی ہے کہ آپ کے رسوئی میں پانی کی طرح گیس بھی پائپ سے آئے۔ یہ پی این جی سلینڈر کے مقابلے بہت سستی بھی ہوتی ہے۔ اترپردیش سمیت مشرقی بھارت کے متعدد اضلاع میں پی این جی کنکشن دینے کا کام بہت تیزی سے چل رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں یوپی کے 50 سے زیادہ اضلاع میں تقریباً 21 لاکھ گھروں کو اس سے جوڑنے کا نشانہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سی این جی پر مبنی ٹرانسپورٹ کے لئے بڑی سطح پر کوشش کی جارہی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، جب خواب بڑے ہوتے ہیں تو ان کو حاصل کرنے کی کوشش بھی اتنی ہی بڑی ہونی چاہئے۔آج عالمی بایو فیول دن پر ہمیں اپنے اہداف کو پھر یاد کرنا ہے۔ ابھی ہم نے ایک چھوٹی سی فلم بھی دیکھی ہے۔ بایو فیول کے شعبے میں کیا کام ہورہا ہے، بایو فیول ایک صاف ایندھن بھر نہیں ہے، بلکہ یہ ایندھن میں خود انحصاری کے انجن کو ، ملک کی ترقی کے انجن کو ، گاؤں کی ترقی کے انجن کو رفتار دینے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ بایو فیول ایک ایسی توانائی ہے، جو ہم گھر اور کھیت کے کچرے سے، پودوں سے ، خراب سڑے ہوئے اناج سے حاصل کرسکتے ہیں۔ایسے ہی ایک بایو فیول –ایتھینال پر ملک بہت بڑے اہداف کے ساتھ کام کررہا ہے۔گزرے ہوئے 7-6سالوں میں ہم پیٹرول میں 10 فیصد بلینڈنگ کے ہدف کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ آنے والے 5-4 سال میں ہم 20فیصد بلینڈ نگ کے ہدف کو حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہدف ملک میں ایسی گاڑیوں کی تعمیر کا بھی ہے،جو صد فیصد ایتھینال سے ہی چلیں گی۔ ساتھیوں، ایتھینال سے آناجانا بھی سستا ہوگا، ماحولیات بھی محفوظ رہے گا۔ لیکن سب سے بڑا فائدہ ہمارے کسانوں کو ہوگا، ہمارے نوجوانوں کو ہوگا۔ اس میں بھی خصوصی طور سے یوپی کے کسانوں –نوجوانوں کو بہت فائدہ ہوگا۔گنّے سے جب ایتھینان بنانے کا متبادل ملے گا تو گنّا پیدا کرنے والے کسانوں کو پیسہ بھی زیادہ ملے گا اور وقت پر ملے گا۔پچھلے سال ہی یوپی میں ایتھینال پیدا کرنے وال��ں سے 7ہزار کروڑ روپے کا ایتھینال خریدا گیا ہے۔گزرے ہوئے سالوں میں ایتھینال سے جڑی ، بایو فیول سے جڑی ،متعدد اِکائیاں یوپی میں بنائی گئی ہیں۔ گنّے کے فضلہ سے کمپریسڈ بایو گیس بنانے کے لئے یوپی کے 70اضلاع میں سی بی جی پلانٹ بنانے کا عمل چل رہا ہے۔ اب تو زراعتی فضلہ سے ، پرالی سے، بایو فیول بنانے کے لئے 3بڑے کمپلیکس بنائے جارہے ہیں۔ ان میں سے 2 یوپی کے بدایوں اور گوکھپورپور میں اور ایک پنجاب کے بھٹنڈا میں بنایا جارہا ہے۔ اِن پروجیکٹوں سے کسانوں کو کچرے کا دام بھی ملے گا، ہزاروں نوجوانوں کو روزگار ملےگاماحولیات کا بھی تحفظ ہوگا۔ ساتھیوں، اسی طرح ایک دوسرا اہم منصوبہ ہے، گوبردھن یوجنا ۔ یہ منصوبہ گوبر سے بایو گیس بنانے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس سے گاؤں میں صاف صفائی بھی آئے گی اور ایسے جانور ، جو ڈیری سیکٹر کے لئے مفید نہیں ہے، جو دودھ نہیں دیتے ہیں، وہ بھی کمائی کرکے دیں گے۔ یوگی جی کی سرکار نے متعدد گوشالاؤں کی بھی تعمیر کی ہے۔ یہ گائے اور گائے کی نسل کے دوسرے جانوروں کی دیکھ بھال اور کسانوں کی فصل کی حفاظت کے لئے اہم کوشش ہے۔ ساتھیوں، اب ملک بنیادی سہولتوں کی تکمیل میں بہتر زندگی کے خواب کو پورا کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آنے والے 25 سال میں اس صلاحیت کو ہمیں کئی گنان بڑھانا ہے۔اہلیت اور صلاحیت بھارت کے اس عہد کو ہمیں مل کر ثابت کرنا ہے۔اس میں بہنوں کا خصوصی کردار ہونے والا ہے۔ میں اُجّولا کی تمام مستفدین بہنوں کو پھر سے مبارکباد دیتا ہوں اور رکشا بندھن کے اس مقدس تہوار سے پہلے ماتاؤں-بہوں کی خدمت کر نے کا موقع ملا۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتاہوں۔ آپ کا آشیرواد ہمیشہ بنا رہے، تاکہ ہم ایک نئی توانائی کے ساتھ ماں بھارتی خدمت کے لئے ، 130 کروڑ ملک کے شہریوں کی خدمت کے لئے، گاؤں، غریب، کسان، دلت، مظلوم، پسماندہ طبقات، سب کی خدمت کے لئے جی جان سے لگے رہیں۔ اسی خواہش کے ساتھ آپ کو بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔,উত্তৰ প্ৰদেশত উজ্জ্বলা ২.০ (প্ৰধান মন্ত্ৰী উজ্জ্বলা যোজনা- PMUY) ৰ শুভাৰম্ভণিত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ পূৰ্ণপা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%AC%D9%B9-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%A8%D9%84-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔29؍جنوری۔گزشتہ اجلاس میں، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود،تین طلاق (طلاق ثلاثہ) پارلیمنٹ میں ہم منظور نہیں کراپائے۔ میں امید کرتا ہوں اور میں ملک کے سبھی سیاسی پارٹیوں سے منکسرانہ اپیل کرتا ہوں کہ اس اجلاس میں ،تین طلاق، خواتین کے، خصوصاً مسلم خواتین کے حق کے تحفظ کے اس فیصلے کو ہم سب منظور کریں اور 2018 کے نئے سال کا ایک عمدہ تحفہ یا سوغات ہماری مسلم خواتین کو ہم دیں۔ بجٹ اجلاس ازحد اہم ہوتا ہے ، پوری دنیا جب بھارت کی معیشت کے تئیں بہت پُرامید ہے ، بھارت کا راستہ ، بھارت کی ترقی پردنیا کی سبھی قرض درجہ بندی ایجنسیاں ہوں، عالمی بینک ہو، آئی ایم ایف ہو،بہت ہی مثبت اپنی آراء دیتے رہے ہیں۔ یہ بجٹ ملک کی تیز رفتار سے آگے بڑھ رہی معیشت کو ایک نئی توانائی دینے والا ،ملک کے عام سے عام انسان کی امیدوں ، تمناؤں کی تکمیل کرنے والا بجٹ آئے گا اور بجٹ کے بعد ایک مہینےبھر مختلف کمی��یوں میں بجٹ کا وسیع تجزیہ ہوتا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ ان کمیٹیوں میں پارٹی سے اوپر ملک ہوتا ہے۔ سبھی پارٹیوں کے لوگ برسراقتدار پارٹی کے لوگ بھی کمیاں اجاگر کرتے ہیں اور حزب مخالف کے برادران اس کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایک طرح سے بہت ہی صحتمند ماحول ہوتا ہے، صحتمند صورتحال ہوتی ہے۔ کل جب کُل پارٹی میٹنگ منعقد ہوئی تو میں نے اصرار کیا کہ ہم اس مہینے کی ، جو مباحثے کا اجلاس رہتا ہے، کمیٹیوں کے اندر اس کا بھرپور استعمال کریں اور بجٹ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ملک کے عام انسان تک کیسے پہنچے، دبے کچلے ، نادار ، استحصال کے شکار محروم شخص کو کیسے حاصل ہو، گاؤں غریب کو کیسے ملے، کسان مزدور کو کیسے ملے ، اس پر ہم وسیع غور وخوض کریں ، مثبت تجاویز پیش کریں اور لائحہ عمل بناکر ہم آگے بڑھیں۔ بہت بہت شکریہ۔,সংসদৰ বাজেট অধিবেশনৰ পূৰ্বে সংবাদ মাধ্যমৰ সন্মুখত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা বিবৃতিৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D8%AC%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DB%81%D8%B1%D9%85%D9%88%DB%81%D9%86-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%B9%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82-%E0%A6%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سابق ایم پی، ایم ایل سی، ایم ایل اے اور شوریہ چکر ایوارڈ یافتہ اور یادو برادری کی ایک بلند پایہ شخصیت اور رہنما آنجہانی جناب ہرموہن سنگھ یادو کی 10ویں برسی پر پروگرام سے خطاب کیا۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آنجہانی جناب ہرموہن سنگھ یادو کو ان کی 10ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آج آزادی کے بعد پہلی بار قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالا ہے۔ انہوں نے اسے ہندوستان کی جمہوریت کے لیے ایک بڑا دن قرار دیا۔ وزیر اعظم نے اتر پردیش کے عظیم رہنماؤں کے شاندار ورثے کو یاد کیا، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ ہرموہن سنگھ یادو جی نے اپنے طویل سیاسی کریئر میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا جی کے نظریات کو اتر پردیش اور کانپور کی سرزمین سے آگے بڑھایا۔ انہوں نے ریاست اور ملک کی سیاست میں جو تعاون دیا، سماج کے لیے جو کام کیا، وہ آج بھی نسلوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے گرام سبھا سے راجیہ سبھا تک انکے طویل اور نمایاں سفر میں سماج اور برادری کے تئیں انکی لگن کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے جناب ہرموہن سنگھ یادو کی مثالی ہمت کو واضح کیا اور کہا کہ ’’ ہرموہن سنگھ یادو جی نے نہ صرف سکھوں کے قتل عام کے خلاف سیاسی موقف اختیار کیا، بلکہ وہ آگے آئے اور سکھ بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کے لیے لڑے۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیر انھوں نے کئی معصوم سکھ خاندانوں کی جان بچائی۔ ملک نے بھی ان کی قیادت کو تسلیم کیا اور انہیں شوریہ چکر دیا گیا۔‘‘ جناب اٹل بہاری واجپئی کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر قوم کی اہمیت کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پارٹیاں جمہوریت کی وجہ سے ہیں اور جمہوریت ملک کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ملک کی بیشتر پارٹیاں، خاص طور پر تمام غیر کانگریس پارٹیوں نے بھی اس خیال اور ملک کے لیے تعاون اور کوآرڈی نیشن کے آئیڈیل پر عمل کیا ہے۔‘‘ انہوں نے 1971 کی جنگ، جوہری تجربہ اور ایمرجنسی کے خلاف لڑائی کی مثالیں دیں تاکہ سیاسی جماعتوں کے م��ک کے لیے متحدہ محاذ قائم کرنے کے جذبے کو واضح کیا جا سکے۔انھوں نے مزید کہا ’’ جب ایمرجنسی کے دوران ملک کی جمہوریت کو کچل دیا گیا تو تمام بڑی پارٹیاں، ہم سب اکٹھے ہوئے اور آئین کو بچانے کی جنگ لڑی۔ چودھری ہرموہن سنگھ یادو جی بھی اس جدوجہد میں ایک بہادر سپاہی تھے۔ یعنی ہمارا ملک اور سماجی مفادات ہمیشہ نظریات سے بڑے ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم، وزیر اعظم نے کہا، ’’ حالیہ دنوں میں، نظریاتی یا سیاسی مفادات کو معاشرے اور ملک کے مفاد سے بالاتر رکھنے کا رجحان رہا ہے۔ کئی بار کچھ اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں کیونکہ جب وہ اقتدار میں تھیں تو خود فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر پاتی تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے عوام کو یہ پسند نہیں ہے۔ یہ ہر سیاسی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ کسی پارٹی یا فرد کی مخالفت ملک کی مخالفت میں تبدیل نہ ہو۔ نظریات اور سیاسی عزائم کی اپنی جگہ ہے ، اور ہونی چاہیے ۔ لیکن ملک، سماج اور قوم پہلے آتے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے ثقافتی طاقت کے ڈاکٹر لوہیا کے تصور کوبیان کیا۔ جناب مودی نے کہا کہ اصل ہندوستانی فکر میں معاشرہ تنازعات یا بحث کا مسئلہ نہیں ہے اور اسے ہم آہنگی اور اجتماعیت کے فریم ورک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے یاد کیا کہ ڈاکٹر لوہیا نے رامائن میلوں کا انعقاد اور گنگا کی دیکھ بھال کرکے ملک کی ثقافتی طاقت کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ان خوابوں کو نمامی گنگے جیسے اقدامات سے پورا کر رہا ہے، سماج کی ثقافتی علامتوں کو زندہ کر رہا ہے اور حقوق کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ فرض کی اہمیت پر زور دے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ سماج کی خدمت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سماجی انصاف کے جذبہ کو قبول کریں اور اسے اپنائیں۔ انہوں نے کہا کہ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال کے موقع پر امرت مہوتسو منا رہا ہے، اس کو سمجھنا اور اس سمت میں آگے بڑھنا بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سماجی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ سماج کے ہر طبقے کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں اور کوئی بھی شخص زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ دلت، پسماندہ، آدیواسی، خواتین، دویانگ جب آگے آئیں گے، تب ہی ملک آگے بڑھے گا۔ ہرموہن جی اس تبدیلی کے لیے تعلیم کو سب سے اہم سمجھتے تھے۔ تعلیمی میدان میں ان کا کام متاثر کن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ، قبائلی علاقوں کے لیے اکلویہ اسکول، مادری زبان میں تعلیم کو فروغ دینے جیسے اقدامات کے ذریعے ملک اس راستے پر گامزن ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’ ملک تعلیم کے ذریعے بااختیار بنانے کے منتر پر آگے بڑھ رہا ہے اور تعلیم بذات خود امپاورمنٹ ہے ۔‘‘ جناب ہرموہن سنگھ یادو (18 اکتوبر 1921 – 25 جولائی 2012) جناب ہرموہن سنگھ یادو (18 اکتوبر 1921 – 25 جولائی 2012) یادو برادری کی ایک بلند پایہ شخصیت اور رہنما تھے۔ پروگرام میں وزیر اعظم کی شرکت آنجہانی رہنما کی کسانوں، پسماندہ طبقات اور سماج کے دیگر طبقات کے لیے خدمات کا اعتراف ہے۔ جناب ہرموہن سنگھ یادو ایک طویل عرصے تک سیاست میں سرگرم رہے اور ایم ایل سی، ایم ایل اے، راجیہ سبھا کے رکن اور ’ اکھل بھارتیہ یادو مہاسبھا‘ کے چیئرمین کے طور پر مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے جناب سکھرام سنگھ کی مدد سے کانپور اور اس کے آس پاس بہت سے تعلیمی ادارے قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جناب ہرموہن سنگھ یادو کو 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے دوران کئی سکھوں کی جانیں بچانے میں بہادری کا مظاہرہ کرنے پر1991 میں شوریہ چکر سے نوازا گیا تھا۔,প্ৰয়াত শ্ৰী হৰমোহন সিং যাদৱৰ দশম পুণ্যতিথিৰ কাৰ্যসূচীত ভাষণ আগবঢ়ালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%B1-%D8%B4%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%AF-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی کو ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم نے لال بہادر شاستری سے متعلق اپنے خیالات کا ایک ویڈیو بھی شیئر کیا۔ جناب مودی نے دہلی میں پردھان منتری سنگھرالیہ میں لال بہادر شاستری کی گیلری سے کچھ جھلکیاں بھی شیئر کیں، جن میں وزیر اعظم کے طور پر ان کی زندگی کے سفر اور کامیابیوں کو دکھایا گیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’لال بہادر شاستری جی کو ان کی سادگی اور فیصلہ کن صلاحیت کے لئے پورے ہندوستان میں سراہا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ کے انتہائی اہم وقت میں ان کی سخت قیادت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی جینتی پر انہیں خراج عقیدت۔‘‘ ’’ آج، میں شاستری جی کی جینتی کے موقع پر میں دہلی کے پردھان منتری سنگھراہلیہ میں ان کی گیلری سے کچھ جھلکیاں بھی شیئر کر رہا ہوں، جس میں بطور وزیر اعظم ان کی زندگی کے سفر اور کامیابیوں کو دکھایا گیا ہے۔ اس سنگھرالیہ کو دیکھنے ضرور آئیں۔۔۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 10948,লাল বাহাদুৰ শাস্ত্ৰীৰ জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D9%BE%D8%B1-%D8%B2%D9%88%D8%B1-%D8%AF%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%81-%D9%88%DB%81-%DB%81%D9%85%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%95-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ہمارے مجاہدینِ آزادی کے لئے اپنے خراجِ عقیدت کا اظہار ڈجیٹل جیوت پر کریں اور آزادی کے امرت مہوتسو کو مضبوط کریں ۔ وزیر اعظم نے سلسلہ وار ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؛ ’’ ہماری جدو جہد آزادی کے ہیرو کے لئے خصوصی خراجِ عقیدت ! ڈجیٹل جیوت ٹیکنا لوجی کا استعمال کرتی ہے اور آپ کو اس قابل کرتی ہے کہ آپ ، ہمارے مجاہدینِ آزادی کے لئے پُر خلوص ممنونیت کا پیغام شیئر کر سکیں ۔ ‘‘ ’’ دلّی کے سینٹرل پارک میں ایک اسکائی بیم لائٹ نصب کی گئی ہے ۔ ہر ایک ادا کیا گیا خراجِ عقیدت ، اِس ڈجیٹل جیوت کی روشنی میں اضافہ کرے گا ۔ اس منفرد کوشش میں شرکت کریں اور آزادی کے امرت مہوتسو کو مضبوط کریں ۔ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),নাগৰিকক ডিজিটেল জ্যোতিত আমাৰ স্বাধীনতা সংগ্ৰামীসকললৈ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপনৰ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A3%E0%A7%80/,"وزیر اعظم نے آج منگلورو میں 1800 کروڑ روپے مالیت کے مشین کاری اور صنعت کاری پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور 3800 کروڑ روپے کی مالیت کے صنعت کاری پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج بھارت کی تاریخ کا اہم دن ہے۔ علاقائی سلامتی ہو یا اقتصادی سلامتی، بھارت کو بہت بڑے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔ آج اس سے قبل آئی این ایس وکرانت کے افتتاح کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس احساس فخر کا اظہار کیا جو ہر بھارتی کو ہو رہا ہے۔ جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا گیا یا سنگ بنیاد رکھا گیا ان کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ان پروجیکٹوں سے کرناٹک میں زندگی اور روزگار میں آسانی میں اضافہ ہوگا خاص طور پر 'ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ' اسکیم سے خطے کے ماہی گیروں، کاریگروں اور کسانوں کی مصنوعات کے لیے مارکیٹ کی دستیابی میں آسانی ہوگی۔ پانچ عہد (پنچ پران) پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ لال قلعہ سے انھوں نے جن پانچ عہدوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلا عہد ایک ترقی یافتہ بھارت کی تخلیق ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لیے ملک کے مینوفیکچرنگ شعبے 'میک ان انڈیا' کو توسیع دینا بہت ضروری ہے۔ بندرگاہ کی قیادت میں ترقی کے لیے ملک کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ترقی کے لیے ایک اہم منتر ہے۔ اس طرح کی کوششوں کے نتیجے میں صرف 8 برسوں میں بھارت کی بندرگاہوں کی صلاحیت تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔ گذشتہ 8 برسوں میں ترجیحی بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کرناٹک نے اس سے بے حد فائدہ اٹھایا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کرناٹک ساگرمالا اسکیم سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ریاست میں گذشتہ 8 برسوں میں 70 ہزار کروڑ روپے کی مالیت کے شاہراہ پروجیکٹ شامل کیے گئے ہیں اور ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد مالیت کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ کرناٹک میں پروجیکٹوں کے لیے ریلوے بجٹ میں پچھلے 8 برسوں میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ 8 برسوں میں پیش رفت کا مشاہدہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں غریبوں کے لیے 3 کروڑ سے زائد مکانات تعمیر کیے گئے ہیں اور کرناٹک میں غریبوں کے لیے 8 لاکھ سے زائد پکے مکانات کی منظوری دی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہزاروں متوسط طبقے کے خاندانوں کو بھی اپنے گھروں کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے کی مدد دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جل جیون مشن کے تحت ملک میں 6 کروڑ سے زائد گھرانوں کو صرف 3 برسوں میں نل کے ذریعے پانی کی سہولیات سے جوڑا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلی بار کرناٹک کے دیہی خاندانوں میں نل کے ذریعے پانی 30 لاکھ سے متجاوز ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ملک کے تقریباً 4 کروڑ غریب لوگوں نے اسپتال میں داخل ہونے کے دوران مفت علاج کرایا ہے۔ ""اس کی وجہ سے غریبوں کے لیے تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ کرناٹک کے 30 لاکھ سے زائد مریضوں کو بھی آیوشمان بھارت کا فائدہ ملا ہے۔"" وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ جن لوگوں کو ان کے کمزور مالی حالات کی وجہ سے فراموش کردیا گیا تھا انھیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ چھوٹے کسانوں، چھوٹے تاجروں، ماہی گیروں، خوانچہ فروشوں اور ایسے کروڑوں لوگوں کو پہلی بار ملکی ترقی کے فوائد ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ بھارت کی ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ بھارت کی ساڑھے سات ہزار کلومیٹر ساحلی لائن کی طرف سب کی توجہ مبذول کرانے کے لیے وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ملک کی اس صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب سیاحت بڑھتی ہے تو اس سے ہماری گھریلو صنعتوں، ہمارے کاریگروں، دیہی صنعتوں، خوانچہ فروشوں، آٹو رکشہ ڈرائیوروں، ٹیکسی ڈرائیوروں وغیرہ کو فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نیو منگلور بندرگاہ کروز سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مسلسل نئی سہولیات کا اضافہ کر رہی ہے۔ "" وزیر اعظم نے مزید کہا کہ آج ڈیجیٹل ادائیگیاں اپنی تاریخی سطح پر ہیں اور بھیم یو پی آئی جیسی ہماری اختراعات دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج ملک کے عوام مضبوط کنکٹی ویٹی کے ساتھ تیز رفتار اور سستا انٹرنیٹ چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ آج گرام پنچایتوں کو تقریباً 6 لاکھ کلومیٹر آپٹیکل فائبر بچھا کر جوڑا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فائیو جی کی سہولت اس شعبے میں ایک نیا انقلاب لانے والی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کرناٹک کی ڈبل انجن حکومت بھی عوام کی ضروریات اور امنگوں کو تیز رفتاری سے پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔"" چند روز قبل سامنے آنے والے جی ڈی پی اعداد و شمار پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا کے دور میں بھارت کی پالیسیوں اور کیے گئے فیصلوں نے بھارت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ""گذشتہ سال اتنی عالمی رکاوٹوں کے باوجود بھارت کی برآمدات کی مجموعی مالیت 670 ارب ڈالر یعنی 50 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ ہر چیلنج پر قابو پاتے ہوئے بھارت نے 418 ارب ڈالر یعنی 31 لاکھ کروڑ روپے کی تجارتی برآمد کا نیا ریکارڈ بنایا۔"" وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے گروتھ انجن سے متعلق ہر شعبہ آج پوری صلاحیت سے چل رہا ہے۔ خدمات کا شعبہ بھی تیز رفتار ترقی کی طرف گام زن ہے۔ انھوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں پی ایل آئی اسکیموں کے اثرات بہت واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موبائل فون سمیت الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کا پورا شعبہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعظم نے بھارت کے ابھرتے ہوئے کھلونے کے شعبے کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کرائی جہاں 3 برسوں میں کھلونوں کی درآمد میں کمی آئی ہے اور برآمد میں تقریباً اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ان سب سے براہ راست ملک کے ساحلی علاقوں کو فائدہ ہو رہا ہے جو بھارتی اشیا کی برآمد کے لیے اپنے وسائل فراہم کرتے ہیں جن میں منگلورو جیسی بڑی بندرگاہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حکومت کی کوششوں سے گذشتہ برسوں کے دوران ملک میں ساحلی ٹریفک میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک کی مختلف بندرگاہوں پر سہولیات اور وسائل میں اضافے کی وجہ سے ساحلی نقل و حرکت اب آسان ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ بندرگاہوں کا رابطہ بہتر ہو، اسے تیز کیا جائے۔ اس لیے وزیر اعظم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے تحت ریلوے اور سڑکوں کے ڈھائی سو سے زائد پروجیکٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے بندرگاہوں کے بلا روک ٹوک رابطے میں مدد ملے گی۔"" وزیر اعظم نے آزادی کا امرت مہوتسو کی تقریبات پر روشنی ڈالی اور رانی ابکا اور رانی چنبھیرا دیوی کے ذریعے بھارت کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں کی گئی جدوجہد کو یاد کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج یہ بہادر خواتین برآمدات کے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے بھارت کے لیے ایک بہت بڑی تحریک ہیں۔ وزیر اعظم نے کرناٹک کے کروالی خطے کا حوالہ دے کر اپنا خطاب ختم کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں ہمیشہ حب الوطنی کی اس توانائی، قومی عزم سے متاثر محسوس کرتا ہوں۔ ""منگلورو میں دیکھی جانے والی یہ توانائی ترقی کی راہوں کو روشن کرتی رہے، میں ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے بہت سی مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔"" اس موقع پر کرناٹک کے گورنر جناب تھاور چند گہلوت، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بساوراج بوممائی، مرکزی وزیر پارلیمانی امور جناب پرہلاد جوشی، بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کے مرکزی وزیر جناب سربانند سونووال، کرناٹک کے سابق وزیر اعلی جناب بی ایس یدیورپا، مرکزی وزرائے مملکت جناب شریپد یسو نائیک، جناب شانتنو ٹھاکر اور محترمہ شوبھا کرندلاجے، رکن پارلیمنٹ جناب نلین کمار کٹیل، ریاستی وزرا جناب انگرا ایس، جناب سنیل کمار وی اور شری کوٹا شرینواس پجاری بھی موجود تھے۔ منصوبوں کی تفصیلات وزیراعظم نے منگلورو میں تقریباً 3800 کروڑ روپے مالیت کے مشین کاری اور صنعتکاری منصوبوں کا افتتاح کیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیراعظم نے نیو منگلور پورٹ اتھارٹی کے ذریعہ شروع کیے گئے کنٹینرز اور دیگر کارگو کو سنبھالنے کے لیے برتھ نمبر 14 کی مشین کاری کے لیے 280 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ مشینی ٹرمینل سے کارکردگی میں اضافہ ہوگا اور ٹران اراؤنڈ ٹائم، پری برتھنگ ڈلے اور ڈویل ٹائم میں تقریباً 35 فیصد کمی آئے گی اور اس طرح کاروباری ماحول کو فروغ ملے گا۔ پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے جس کے ذریعے ہینڈلنگ کی صلاحیت میں 4.2 ایم ٹی پی اے سے زائد کا اضافہ ہو جائے گا جو 2025 تک بڑھ کر 6 ایم ٹی پی اے سے زیادہ ہو جائے گا۔ وزیراعظم نے بندرگاہ کے تحت تقریباً 1000 کروڑ روپے مالیت کے پانچ پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ جدید ترین کریوجینک ایل پی جی اسٹوریج ٹینک ٹرمینل سے لیس مربوط ایل پی جی اور بلک لیکوئڈ پی او ایل سہولت 45 ہزار ٹن کے فل لوڈ وی ایل جی سی (بہت بڑے گیس کیریئرز) کو انتہائی موثر طریقے سے اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سہولت سے خطے میں پردھان منتری اجولا یوجنا کو تقویت ملے گی جبکہ ملک میں ایل پی جی درآمد کرنے والی سرفہرست بندرگاہوں میں سے ایک کے طور پر بندرگاہ کی حیثیت کو تقویت ملے گی۔ وزیراعظم نے اسٹوریج ٹینکوں اور خوردنی تیل ریفائنری کی تعمیر، بیٹومین اسٹوریج اور متعلقہ سہولیات کی تعمیر اور بیٹومین اور خوردنی تیل ذخیرہ کرنے اور متعلقہ سہولیات کی تعمیر کے منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ ان منصوبوں سے بیٹومین اور خوردنی تیل کے جہازوں کی ٹرن اراؤنڈ میں بہتری آئے گی اور تجارت کے لیے مال برداری کی مجموعی لاگت میں کمی آئے گی۔ وزیراعظم نے کلائی کےمقام پر ماہی گیری بندرگاہ کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس سے مچھلی پکڑنے کی محفوظ ہینڈلنگ میں آسانی ہوگی اور عالمی منڈی میں بہتر قیمتیں ممکن ہوں گی۔ یہ کام ساگرمالا پروگرام کے تحت کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ماہی گیر برادری کو نمایاں سماجی و اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ وزیراعظم نے منگلور ریفائنری اینڈ پیٹرو کیمیکلز لمیٹڈ کے ذریعہ کیے گئے دو پروجیکٹوں بی ایس سکس اپ گریڈیشن پروجیکٹ اور سی واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کا بھی افتتاح کیا۔ بی ایس سکس اپ گریڈیشن پروجیکٹ جس کی مالیت تقریباً 1830 کروڑ روپے ہے، ا��تہائی خالص ماحول دوست بی ایس-سکس گریڈ ایندھن (جس میں گندھک کی مقدار 10 پی پی ایم سے کم ہے) کی پیداوار میں آسانی ہوگی۔ تقریباً 680 کروڑ روپے کی لاگت سے قائم کردہ سمندری پانی کے ڈی سیلینیشن پلانٹ سے تازہ پانی پر انحصار کم کرنے اور سال بھر ہائیڈرو کاربن اور پیٹرو کیمیکلز کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ 30 ملین لیٹر یومیہ (ایم ایل ڈی) کی گنجائش رکھنے والا یہ پلانٹ ریفائنری کے عمل کے لیے درکار سمندری پانی کو تازہ پانی میں تبدیل کرتا ہے۔",মাংগালুৰুত এলানি উন্নয়ণী প্ৰকল্প ৰাষ্ট্ৰৰ নামত উচৰ্গা কৰাৰ লগতে বহুকেইটা প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B9%D9%84%DB%8C-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D9%85%DB%81%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%AA%D8%A7%D9%BE-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%97%E0%A7%9C%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے۔ اترپردیش کی گورنر، محترمہ آنندی بین پٹیل، اتر پردیش کے تیز طرار وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما، حکومت اتر پردیش کے وزرا، دیگر اراکین پارلیمنٹ، ایم ایل اے اور علی گڑھ کے میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں، علی گڑھ کے لیے، مغربی اتر پردیش کے لیے آج بہت بڑا دن ہے۔ آج رادھا اشٹمی بھی ہے۔ یہ موقع آج کے دن کو اور بھی مقدس بنا دیتا ہے۔ برج بھومی کے ہر ذرے ذرے میں رادھا ہی رادھا ہے۔ میں آپ سب کو اور پورے ملک کو رادھا اشٹمی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ آج اس مقدس دن پر اتنے بڑے ترقیاتی کام شروع ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارا سنسکار ہے کہ جب کوئی بھی نیک کام ہوتا ہے تو ہم اپنے بزرگوں کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ آج میں اس سرزمین کے عظیم بیٹے مرحوم کلیان سنگھ جی کی عدم موجودگی کو بہت زیادہ محسوس کر رہا ہوں۔ اگر کلیان سنگھ جی آج ہمارے ساتھ ہوتے تو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی اور ڈیفنس سیکٹر میں علی گڑھ کی نئی پہچان بنتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور ان کی روح جہاں بھی ہوگی ہمیں دعائیں دیتی ہوگی۔ ساتھیوں، ہندوستان کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ایسے محب وطنوں سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے وقتاً فوقتاً اپنی استقامت اور قربانی سے ہندوستان کو سمت دی ہے۔ کتنی ایسی عظیم شخصیات نے ہماری آزادی کی تحریک میں اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ لیکن یہ ملک کی بد قسمتی تھی کہ آزادی کے بعد ملک کی اگلی نسلیں ایسے قومی رہنماؤں سے واقف نہیں تھیں۔ ملک کی کئی نسلیں ان کی کہانیاں جاننے سے محروم رہ گئیں۔ آج 21ویں صدی کا ہندوستان 20ویں صدی کی ان غلطیوں کو درست کر رہا ہے۔ مہاراجہ سہیل دیو جی، دین بندھو چودھری چھوٹو رام جی، یا اب راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی، ملک میں نئی نسل کو قوم کی تعمیر میں ان کی شراکت سے روشناس کرانے کی مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال منا رہا ہے، آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو ان کوششوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ ہندوستان کی آزادی میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے تعاون کو سلام پیش کرنے کی یہ کوشش ایک ایسا ہی مبارک موقع ہے۔ ساتھیوں، آج ملک کا ہر نوجوان، جو بڑے خواب دیکھ رہا ہے، جو بڑے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کے بارے میں ضرور پڑھنا چاہیے۔ وہ ہندوستان کی آزادی چاہتے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس کے لیے وقف کر دیا۔ انھوں نے صرف ہندوستان میں رہ کر اور ہندوستان کے لوگوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے دنیا کے ہر کونے میں گئے۔ افغانستان ہو، پولینڈ ہو، جاپان ہو، جنوبی افریقہ ہو، اپنی زندگی پر ہر خطرہ مول لیتے ہوئے، وہ مادر ہند کو بیڑیوں سے آزاد کرنے کے لیے کام کرتے رہے، زندگی بھر محنت کرتے رہے۔ میں آج کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ جب بھی، میرے ملک کے نوجوان میری بات غور سے سنیں، میں ملک کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ جب بھی انھیں کوئی مقصد مشکل لگے، انھیں کچھ دشواریاں نظر آئیں تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کو ضرور یاد کرنا، آپ کے حوصلے بلند ہوں گے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے جس طرح ایک مقصد، ایک عقیدت کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کیا، وہ اب بھی ہم سب کو متاثر کرتا ہے۔ اور ساتھیوں، آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو مجھے ملک کے ایک اور عظیم مجاہد آزادی گجرات کے بیٹے شیام جی کرشنا ورما جی بھی یاد آ رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، راجہ مہندر پرتاپ یورپ گئے خاص طور پر شیام جی، کرشنا ورما جی اور لالہ ہردیال جی سے ملنے۔ اس میٹنگ میں جس سمت کا فیصلہ کیا گیا اس کے نتیجے میں ہمیں افغانستان میں ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت دیکھنے کو ملی۔ اس حکومت کی سربراہی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی ہی کر رہے تھے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو میں 73 سال بعد شیام جی کرشنا ورما جی کی راکھ بھارت لانے میں کامیاب رہا۔ اور اگر کبھی آپ کو کچھ کا دورہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہاں کچھ کے مانڈوی میں شیام جی کرشنا ورما جی کی ایک بہت ہی متاثر کن یادگار ہے، جہاں ان کی راکھ رکھی گئی ہے، وہ ہمیں مادر وطن کے لیے جینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ آج ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے، مجھے ایک بار پھر یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ میں راجہ مہندر پرتاپ جی جیسے عظیم مجاہد آزادی کے نام پر بننے والی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہا ہوں۔ یہ میری زندگی کی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اور ایسے مقدس موقع پر، آپ اتنی بڑی تعداد میں آشیرواد دینے آئے، اس سے مزید طاقت ملتی ہے۔ ساتھیوں، راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی بلکہ انھوں نے ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے اپنے ملک اور بیرون ملک دوروں کے تجربات کو ہندوستان کے تعلیمی نظام کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے اپنی آبائی جائیداد عطیہ کرکے اپنے وسائل سے ورنداون میں ایک جدید ٹیکنیکل کالج بنایا۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے بہت بڑی زمین بھی دی تھی۔ آج، آزادی کے اس امرت میں، جب اکیسویں صدی کا ہندوستان تعلیم اور ہنر کے ایک نئے دور کی طرف گامزن ہو چکا ہے، ماں بھارتی کے ایسے لافانی بیٹے کے نام پر یونیورسٹی کی تخلیق ان کے لیے حقیقی خراج تحسین ہے۔ یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو اس خیال کو حقیقت بنانے پر بہت بہت مبارکباد۔ ساتھیوں، یہ یونیورسٹی نہ صرف جدید تعلیم کا ایک بڑا مرکز بنے گی بلکہ دفاع سے متعلقہ تعلیم، دفاعی مینوفیکچرنگ سے متعلق ٹیکنالوجی اور ملک میں افرادی قوت کا مرکز بھی بن جائے گی۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں جس طرح تعلیم، ہنر اور مقامی زبان کے مطالعے پر زور دیا گیا ہے، اس سے اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے، بھارت کی خود انحصاری کی طرف بڑھنے کی کوششیں اس یونیورسٹی میں پڑھائی کو ایک نئی تحریک دیں گی۔ آج نہ صرف ملک بلکہ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جدید دستی بم اور رائفلز سے لے کر لڑاکا طیارے، جدید ڈرون، جنگی جہاز، یہ سب بھارت میں تیار ہو رہے ہیں۔ بھارت دنیا کے ایک بڑے دفاعی درآمد کنندہ کی شبیہ سے باہر آ چکا ہے۔ آزادی کے 75 سال ہو چکے ہیں، اور ہم اس درآمد کنندہ کی تصویر سے باہر نکل کر دنیا کے صف اول کے دفاعی برآمد کنندگان میں سے ایک کے طور پر ایک نئی شناخت بنانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس بدلتی ہوئی شناخت کا ایک بہت بڑا مرکز یہ ہمارا اتر پردیش بننے والا ہے اور اتر پردیش کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے مجھے اس پر بہت فخر ہے۔ ساتھیوں، میں نے کچھ عرصہ پہلے دفاعی راہداری کے ’علی گڑھ نوڈ‘ کی پیش رفت کا مشاہدہ کیا ہے۔ علی گڑھ میں ہی، ڈیفنس مینوفیکچرنگ سے متعلقہ ڈیڑھ درجن سے زیادہ کمپنیاں یہاں سینکڑوں کروڑ کی سرمایہ کاری سے ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا کرنے والی ہیں۔ علی گڑھ نوڈ میں چھوٹے ہتھیار، ڈرون، ایرو اسپیس، دھاتی اجزا، اینٹی ڈرون سسٹم، دفاعی پیکیجنگ، نئی صنعتیں قائم کی جا رہی ہیں۔ یہ تبدیلی علی گڑھ اور ارد گرد کے علاقے کو ایک نئی شناخت دے گی۔ ساتھیوں، اب تک لوگ اپنے گھر، دکان کی حفاظت کے لیے علی گڑھ پر انحصار کرتے تھے، کیا آپ نہیں جانتے؟ کیونکہ اگر علی گڑھ کا تالا لگا ہوتا تھا تو لوگوں کو بھروسا رہتا تھا۔ اور آج مجھے اپنے بچپن کی بات کرنے کا دل کر رہا ہے۔ یہ تقریباً 55 سے 60 سال پرانی بات ہے۔ جب ہم بچے تھے، علی گڑھ سے تالے کے جو سیلز مین ہوتے تھے وہ ایک مسلمان مہمان تھے۔ وہ ہر تین ماہ بعد ہمارے گاؤں آتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ سیاہ جیکٹ پہنتے تھے۔ اور بطور سیلزمین وہ دکانوں میں اپنا تالا رکھتے تھے اور تین مہینوں کے بعد آ کر اپنے پیسے لے جاتے تھے۔ وہ آس پاس کے گاؤں کے تاجروں کے پاس بھی جاتے تھے۔ اور وہ میرے والد کے بہت اچھے دوست تھے۔ اور جب وہ آتے، تو ہمارے گاؤں میں چار چھ دن رہتے تھے۔ اور جو پیسہ وہ دن بھر جمع کرتے، وہ اسے میرے والد کے پاس چھوڑ دیتے تھے اور میرے والد اس کے پیسے سنبھالتے تھے۔ اور چار چھ دن کے بعد، جب وہ میرے گاؤں کو چھوڑ کر جاتے تھے، تو میرے والد سے یہ سارے پیسے لے لیتے تھے، اور اپنی ٹرین پکڑ لیتے تھے۔ اور بچپن میں ہم اتر پردیش کے دو شہروں سے بہت واقف تھے، ایک سیتا پور اور دوسرا علی گڑھ۔ ہمارے گاؤں میں اگر کسی کو آنکھوں کی بیماری کا علاج کروانا ہوتا تھا تو سب کہتے تھے سیتا پور جاؤ۔ ہم زیادہ نہیں سمجھتے تھے، لیکن سیتا پور سب سے زیادہ سنتے تھے۔ اور دوسرا ان جناب کی وجہ سے علی گڑھ بار بار سنتے تھے۔ لیکن ساتھیوں، اب علی گڑھ کا دفاعی سامان بھی… جو کل تک علی گڑھ کے تالوں سے گھروں کی دکانوں کی حفاظت کرتا تھا، یہ 21ویں صدی میں میرا علی گڑھ ہندوستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کام کرے گا۔ ایسے ہتھیار یہاں بنائے جائیں گے۔ ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ اسکیم کے تحت یو پی حکومت نے علی گڑھ کے تالوں اور ہارڈ ویئر کو نئی شناخت دی ہے۔ یہ نوجوانوں کے لیے، MSMEs کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔ اب دفاعی صنعت کے ذریعے موجودہ کاروباری، MSMEs کو خصوصی فوائد حاصل ہوں گے اور نئے MSMEs کو بھی مراعات ملیں گی۔ دفاعی راہداری کا علی گڑھ نوڈ چھوٹے کاروباریوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کرے گا۔ بھائیوں اور بہنوں، دفاعی راہداری کے لکھنؤ نوڈ میں دنیا کے بہترین میزائلوں میں سے ایک برہموس کو بھی تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے لیے اگلے چند سالوں میں 9 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ایک اور میزائل مینوفیکچرنگ یونٹ جھانسی نوڈ میں بھی قائم کرنے کی تجویز ہے۔ یوپی ڈیفنس کوریڈور اتنی بڑی سرمایہ کاری اور روزگار کے وسیع مواقع لے کر آ رہا ہے۔ ساتھیوں، آج اتر پردیش ملک اور دنیا کے ہر چھوٹے بڑے سرمایہ کار کے لیے ایک بہت پر کشش مقام بن رہا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب سرمایہ کاری کے لیے ضروری ماحول بنایا جائے، ضروری سہولیات دستیاب ہوں۔ آج اتر پردیش ڈبل انجن حکومت کے دوہرے منافع کی ایک بڑی مثال ہے۔ یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس کے منتر پر عمل کرتے ہوئے اتر پردیش کو ایک نئے کردار کے لیے تیار کیا ہے۔ اب سب کی کوششوں سے اسے مزید بڑھانا ہے۔ جنھیں معاشرے میں ترقی کے مواقع سے دور رکھا گیا تھا، ایسے ہر سماج کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مواقع دیے جا رہے ہیں۔ آج اتر پردیش بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس اور بڑے فیصلوں کے لیے زیر بحث ہے۔ مغربی اتر پردیش کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ گریٹر نوئیڈا میں انٹیگریٹڈ انڈسٹریل ٹاؤن شپ، ملٹی ماڈل لاجسٹکس ہب، زیور انٹرنیشنل ایئرپورٹ، دہلی-میرٹھ ریجنل ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم، میٹرو کنیکٹوٹی، ماڈرن ہائی ویز اور ایکسپریس ویز، اس طرح کے بہت سے کام آج مغربی اتر پردیش میں کیے جا رہے ہیں۔ یو پی میں جاری ہزاروں کروڑ روپے کے یہ منصوبے آنے والے سالوں میں ہندوستان کی ترقی کی ایک بڑی بنیاد بنیں گے۔ بھائیوں اور بہنوں، میں آج یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ وہی یو پی جس کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، آج ملک کی بڑی مہمات کی قیادت کر رہا ہے۔ بیت الخلا بنانے کی مہم ہو، غریبوں کو پکا گھر دینا ہو، اجوالہ کے تحت گیس کنکشن، بجلی کنکشن، پی ایم کسان سمان ندھی، ہر اسکیم، ہر مشن میں، یوگی جی کی یو پی نے ملک کے اہداف کے حصول میں سبقت لی ہے۔ کردار ادا کیا ہے۔ ورنہ، مجھے یاد ہے، میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب 2017 سے پہلے یہاں غریبوں کی ہر اسکیم بلاک ہوتی تھی۔ ہر اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مرکز سے درجنوں خط لکھے جاتے تھے، لیکن اس نے یہاں اس رفتار سے کام نہیں کیا… میں 2017 سے پہلے کی بات کر رہا ہوں… جیسا ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہوا۔ ساتھیوں، یو پی کے لوگ یہ نہیں بھول سکتے کہ یہاں کس قسم کے گھوٹالے ہوتے تھے، کس طرح حکمرانی رشوت خوروں کے حوالے کی گئی تھی۔ آج یوگی جی کی حکومت مخلصانہ طور پر یو پی کی ترقی میں مصروف ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا انتظام غنڈوں اور مافیا کی من مانی سے چلتا تھا۔ لیکن اب وصولی کرنے والے، مافیا راج چلانے والے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ میں خاص طور پر مغربی اتر پردیش کے لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس علاقے میں چار پانچ سال پہلے، خاندان اپنے گھروں میں خوف کے ساتھ رہتے تھے۔ بہنیں اور بیٹیاں گھر چھوڑنے، اسکول اور کالج جانے سے ڈرتی تھیں۔ بیٹیوں کے گھر آنے تک والدین کی سانسیں رک جاتی تھیں۔ وہاں کے ماحول میں، بہت سے لوگوں کو اپنا آبائی گھر چھوڑنا پڑا، ہجرت کرنا پڑی۔ آج یو پی میں ایک مجرم ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ یوگی جی کی حکومت میں غریبوں کی سنوائی ہوتی ہے، غریبوں کا احترام بھی ہوتا ہے۔ یوگی جی کی قیادت میں یو پی کے بدلتے کام کرنے کے انداز کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے- سب کے لیے ویکسی�� مفت ویکسین مہم – اتر پردیش اب تک 8 کروڑ سے زائد ویکسین لگ چکی ہے۔ یو پی ملک میں ایک دن میں سب سے زیادہ ویکسین لگانے کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ کورونا کے اس بحران میں غریبوں کی فکر حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ مہینوں سے مفت اناج دیا جا رہا ہے تاکہ غریب بھوکے نہ رہیں۔ غریبوں کو بھوک سے بچانے کے لیے، جو کام دنیا کے بڑے ممالک نہیں کر سکے، وہ آج بھارت کر رہا ہے، ہمارا اتر پردیش کر رہا ہے۔ ساتھیوں، آزادی کے اس امرت دور میں، دیہی معیشت بھی تیزی سے تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ چودھری چرن سنگھ جی نے خود کئی دہائیوں پہلے ملک کو دکھایا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ کیسے چلنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کے زرعی مزدوروں اور چھوٹے کسانوں نے چودھری صاحب کے دکھائے ہوئے راستے سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ آج کی کئی نسلیں ان اصلاحات کی وجہ سے با وقار زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت ملک کے چھوٹے کسانوں کے ساتھ شراکت دار کے طور پر کھڑی ہو جن کے بارے میں چودھری صاحب کو تشویش تھی۔ ان چھوٹے کسانوں کے پاس دو ہیکٹر سے کم زمین ہے اور ہمارے ملک میں چھوٹے کسانوں کی تعداد 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی ملک کے 10 کسانوں کے پاس جو زمین ہے اس میں سے 8 کسان ایسے ہیں جن کے پاس زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے۔ لہذا، مرکزی حکومت کی مسلسل کوشش ہے کہ چھوٹی جوت والوں کو طاقت دی جائے۔ ڈیڑھ گنا ایم ایس پی ہو، کسان کریڈٹ کارڈ کی توسیع، انشورنس اسکیم میں بہتری، تین ہزار روپے پنشن کی فراہمی، ایسے کئی فیصلے چھوٹے کسانوں کو با اختیار بنا رہے ہیں۔ کورونا کے اس وقت میں، حکومت نے ملک بھر میں چھوٹے کسانوں کے کھاتوں میں براہ راست ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقم منتقل کی ہے۔ اس میں 25 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ صرف یو پی کے کسانوں کو ملے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یو پی میں گزشتہ 4 سالوں میں ایم ایس پی پر خریداری کے لیے نئے ریکارڈ بنائے گئے ہیں۔ گنے کی ادائیگی سے متعلقہ مسائل کو مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں یو پی کے گنے کے کاشتکاروں کو 1 لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی گئی ہے۔ آنے والا سال یو پی کے گنے کے کاشتکاروں کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھولنے والا ہے۔ گنے سے پیدا ہونے والا ایتھنول جس سے بائیو فیول بنتا ہے، ایندھن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے مغربی یو پی کے گنے کے کاشتکاروں کو بھی فائدہ پہنچنے والا ہے۔ ساتھیوں، علی گڑھ سمیت پورے مغربی اتر پردیش کو آگے بڑھانے کے لیے یو گی جی کی حکومت اور مرکزی حکومت دن رات محنت کر رہی ہے۔ ہمیں مل کر اس خطے کو مزید خوشحال بنانا ہے، یہاں بیٹوں اور بیٹیوں کی استعداد کو بڑھانا ہے اور اتر پردیش کو تمام ترقی مخالف قوتوں سے بچانا ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی جیسے قومی ہیروز کی حوصلہ افزائی سے ہم سب اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں۔ اس خواہش کے ساتھ کہ آپ اتنی بڑی تعداد میں ہمارا حوصلہ بڑھانے آئے، مجھے آپ سب کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، میں اس کے لیے آپ کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں، میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ دونوں ہاتھ اوپر کرکے میرے ساتھ بولنا ہے۔ میں کہوں گا راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، آپ دونوں ہاتھ اوپر کرکے بولیں گے، امر رہیں، امر رہیں۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ امر رہیں، امر رہیں۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ امر رہیں، امر رہیں۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ امر رہیں، امر رہیں۔ بھارت ماتا کی جے۔ بھارت ماتا کی جے۔ بہت بہت شکریہ!,আলীগড়ত ৰাজা মহেন্দ্ৰ প��ৰতাপ সিং ৰাজ্যিক বিশ্ববিদ্যালয়ৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D9%85%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%DA%86%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%AC%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82-%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%AE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نکہت زرین کو، خواتین کی عالمی مکے بازی چمپئن شپ میں طلائی تمغہ جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ انھوں نے کانسے کا تمغہ جیتنے والی منیشا مون اور پروین ہڈا کو بھی مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ہمارے مکے بازوں نے ہمارا سر فخرسے اونچا کیا ہے! خواتین کی عالمی مکے بازی چمپئن شپ میں شاندار طلائی تمغہ جیتنے پر @ نکہت زرین کو مبارکباد۔ منیشا مون اور پروین ہڈا کو بھی اسی مقابلے میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر نیک خواہشات۔‘‘,মহিলাৰ ৱৰ্ল্ড বক্সিং চেম্পিয়নশ্বিপত সোণৰ পদক জয় কৰাত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে নিখাত জাৰীণক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DB%81%D8%A7%DA%A9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%AA-%E0%A6%9C%E0%A7%9F-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%AD/,"نئی دہلی۔04 نومبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی ہندوستان کی خواتین ہاکی ٹیم کو ایشیا کپ 2017 جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘ہماری ہاکی ٹیم کو خواتین کے ایشیا کپ 2017 جیتنے پر مبارکباد۔ ہندوستان ان کی شاندار کارکردگی سے بے حد خوشی محسوس کر رہا ہے ۔ ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح( ,",২০১৭ চনৰ এচিয়া কাপ জয় কৰা ভাৰতীয় মহিলা হকী দললৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%88%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,یور ایکسی لینسی، وزیراعظم ڈنمارک، وفد کے ممبران ، میڈیا کے دوستو، گُڈایوننگ اور نمسکار ایکسی لینسی پرائم منسٹر، میرے اور میرے وفد کے ڈنمارک میں شاندار استقبال اور میزبانی کے لئے آ پ کا اور آپ کی ٹیم کا تہہ دل سے شکریہ۔ آپ کے خوبصورت ملک میں یہ میرا پہلا دورہ ہے۔ پچھلے سال اکتوبر میں مجھے آپ کا ہندوستان میں استقبال کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ ان دونوں دوروں سے ہم اپنے تعلقات میں قربت لا پائے ہیں اور انہیں تیزرفتار بنا پائے ہیں۔ ہمارے دونوں ملک جمہوریت ، اظہار رائے کی آزادی اور قانون کی بالادستی جیسی قدروں کو توشیئرکرتے ہی ہیں، ساتھ میں ہم دونوں کی کئی تکمیلی طاقتیں بھی ہیں۔ دوستو، اکتوبر 2020 میں انڈیا- ڈنمارک ورچوئل سمٹ کے دوران ہم نے اپنے تعلقات کو گرین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا درجہ دیا تھا۔ ہماری آج کی گفتگو کے دوران ہم نے اپنی گرین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے جوائنٹ ورک پلان کا جائزہ لیا۔ مجھے خوشی ہے کہ مختلف شعبوں میں ، خاص طور سے ، قابل تجدیدتوانائی، ص��ت، بندرگاہ، جہازرانی، سرکیولراکنامی اور واٹرمینجمنٹ کے شعبوں میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔200 سے زیادہ ڈنمارک کی کمپنیاں ہندوستان میں مختلف شعبوں میں کام کررہی ہیں – جیسے ہوائی توانائی، جہازرانی ، کنسلٹینسی ، خوراک کی ڈبہ بندی، انجینئرنگ ایسے کئی شعبےہیں۔انہیں ہندوستان میں بڑھتے ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ (کاروبار کرنے میں آسانی) اور بڑے پیمانے پر ہماری اقتصادی اصلاحات کا فائدہ مل رہا ہے۔ہندوستان کے انفراسٹرکچر سیکٹر اور گرین انڈسٹریز میں ڈنمارک کی کمپنیوں اور ڈینش پنشن فنڈز کے لئے سرمایہ کاری کے بےشمار مواقع ہیں ۔ آج ہم نے بھارت- ای یو (یوروپی یونین) رشتوں،انڈو-پیسیفک اور یوکرین سمیت کئی علاقائی اور عالمی امور پر بھی بات چیت کی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہند-یوروپی یونین فری ٹریڈایگریمنٹ پر بات چیت جلد ہی ختم ہوگی۔ہم نے ایک آزاد، کھلے ، شمولیتی اور قانون پر مبنی انڈو- پیسیفک علاقے کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ ہم نے یوکرین میں فوری جنگ بندی اور مسائل کے حل کے لئے بات چیت اور حکمت عملی کا راستہ اپنانے کی اپیل کی۔ ہم نے ماحولیات کے شعبے میں اپنے تعاون پر بھی گفتگو کی۔ ہندوستان گلاسگو سی او پی – 26 میں کئے گئے عہد کو پورا کرنے کے لئے بھی پرعزم ہے۔ ہم آرکٹک خطے میں تعاون کے مزید مواقع تلاش کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔ ایکسی لینسی، مجھے یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں ہندوستان اور ڈنمارک کے تعلقات نئی بلندیاں حاصل کریں گے۔ میں کل ہونے والی دوسری انڈیا- نارڈک سمٹ کی میزبانی کرنے کے لئے بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اورآج ہندوستانی برادری کے پروگرام میں شامل ہونے کے لئے بھی میں ، کیونکہ آپ نے وہاں آنے کے لئے وقت نکالا، ہندوستانی برادری کے تئیں آپ کا کتنا پیار ہے اس کی یہ علامت ہے، اور اس کے لئے میں آ پ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شکریہ,ডেনমাৰ্কত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে দিয়া প্ৰেছ বিবৃতিৰ ইংৰাজী অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%DB%8C-%D8%AF%DB%81%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D9%88%D8%8C-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C57-%DA%A9%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%AD-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 میں مردوں کی فری اسٹائل 57 کلوگرام کشتی مقابلے میں طلائی تمغہ جیتنے پر روی دہیا کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ وہ چمپئن کی طرح کھیلے اور قوم کا سر فخر سے بلند کرنے کا باعث بنے۔ برمنگھم دولت مشترکہ کھیلوں میں حیرت انگیز طور پر طلائی تمغہ جیتنے پر @ روی دہیا60 کو مبارکباد۔ ان کی اس کامیابی نے ثابت کردیا کہ اگر جوش اور جذبہ ہو تو کوئی بھی خواب بڑا نہیں ہوتا۔ #Cheer4India ‘‘,পুৰুষৰ ৫৭ কেজি ফ্ৰীষ্টাইল মল্লযুঁজত স্বৰ্ণ পদক অৰ্জন কৰা ৰবি দাহিয়াক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%B1%D8%AA%D9%86-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھارت رتن بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کو مہا پرینوارن دوس پر خراج عقیدت پیش کیا ۔ وزیر اعظم نے بابا صاحب کو پارلیمنٹ میں گلہائے عقیدت بھی نذر کئے۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ : ‘भारत रत्न बाबासाहेब डॉ. भीमराव अम्बेडकर को उनके ‘महापरिनिर्वाण दिवस पर सादर श्रद्धांजलि। ‘‘ڈاکٹر امبیڈ کر جی کو مہا پرینوارن دوس پر خراج عقیدت ۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ভাৰতৰত্ন বাবাচাহেব ড০ ভীমৰাও আম্বেদকাৰক মহাপৰিনিৰ্বাণ দিৱসত জনালে শ্ৰদ্ধাঞ্জল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A7%D8%A6%D8%A8-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AF%D9%85%DB%8C%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔23 دسمبر آج سہ پہر روس کے نائب وزیر اعظم دمیتری روگوزین نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ وزیر اعظم نے روس کے نائب وزیر اعظم دمیتری روگوزین کا اس سال تیسری بار ہندوستان آنے پر استقبال کیا ۔ انہوں نے اس سال اعلی سطحی باہمی تبادلے میں اضافے پر اطمینان کا اظہار کیا اور دوطرفہ سالانہ کانفرنس کے لیے اس سال جون میں پیٹرس برگ کے اپنے دورے کا ذکر کیا ۔ وزیر اعظم اور روس کے نائب وزیر اعظم روگوزین نے دو طرفہ تعلقات میں توسیع اور تنوع پر بات چیت کی ۔ توانائی کے شعبہ اور ہائی ٹکنالوجی میں تعاون کے لیے مشترکہ کوششوں پر خاص طور پر تبادلہ خیال کیا ۔ مسٹر دمیتری روگوزین نے وزیر اعظم کو روس کے صدر پوتن کے جانب سے مبارکباد پیش کی ۔ وزیر اعظم نے بھی پرجوش انداز میں انہیں مبارکباد پیش کی ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ ৰাছিয়াৰ উপ-প্ৰধানমন্ত্ৰী ডিমিট্ৰি ৰোগোজিনৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-7-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%AD-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87/,تقریباً 2 بج کر 45 منٹ پر وزیر اعظم بین اقوامی تعاون اور کنونشن سنٹر-رودرکش کا معائنہ کریں گے جہاں وہ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے متعلق اکھل بھارتیہ شکشا سماگم کا افتتاح کریں گے۔ اس کے بعد تقریباً 4 بجے وزیر اعظم سگرا میں ڈاکٹر سمپورن آنند اسپورٹس اسٹیڈیم پہنچیں گے جہاں وہ 1800 کروڑ روپے سے زیادہ کے متعدد پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ متعدد ترقیاتی پہل کا افتتاح اور سنگ بنیاد کا رکھا جانا: پچھلے آٹھ برسوں میں وزیر اعظم نے وارانسی میں بنیادی ساختیاتی ترقی پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ نتیجے میں شہر کا منظر نامہ بدلا ہے۔ اس کوشش کا بنیادی مقصد لوگوں کے لئے زندگی کی آسانیوں کو بڑھانا ہے۔ اس رُخ پر ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے سگرا کے ڈاکٹر سمپورنانند اسپورٹس اسٹیڈیم میں پروگرام کے دوران وزیر اعظم 590 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے۔ ان میں وارانسی اسمارٹ سٹی اور شہری پروجیکٹوں کے تحت متعدد اقدامات بشمول نہانے کی جیٹی کی تعمیر کے ساتھ پہلے مر حلے میں نامو گھاٹ کی دوبارہ ترقی، 500 کشتیوں کے ڈیزل اور پیٹرول انجنوں کو سی این جی میں تبدیل کرنا؛ پرانے کاشی کے کامیشور مہادیو وارڈ اور گاؤں ہرہوا، دا��ے پور میں 600 سے زیادہ ای ڈبلیو ایس فلیٹوں کی دوبارہ ترقی، لہر تارہ چوکا گھاٹ فلائی اوور کے تحت نیا وینڈنگ زون اور شہری جگہ کی تیاری، دشاسوامیدھ گھاٹ پر سیاحتی سہولت اور مارکیٹ کمپلیکس؛ اور تیسرے مرحلے کے آی پی ڈی ایس ورک کے تحت ناگوا میں 33/11 کلو واٹ سب اسٹیشن شامل ہیں۔ وزیر اعظم مختلف سڑکوں کے منصوبوں کا افتتاح بھی کریں گے جن میں بابت پور-کاپسیٹھی-بھدوہی روڈ پر فور لین روڈ اوور برج (آر او بی) کی تعمیر، سنٹرل جیل روڈ پر دریائے ورنا پر پل؛ پندرا-کاٹھیراون روڈ کو چوڑا کرنا؛ پھول پور-سندھورا لنک روڈ کو چوڑا کرنا؛ 8 دیہی سڑکوں کی مضبوطی اور تعمیر؛ 7 پی ایم جی ایس وائی سڑکوں کی تعمیر اور دھرسونا-سندھورا سڑک کو چوڑا کرنا شامل ہیں۔ وزیراعظم ضلع میں سیوریج اور واٹر سپلائی کی بہتری سے متعلق مختلف منصوبوں کا بھی افتتاح کریں گے۔ ان میں شہر وارانسی میں بے خندق ٹکنالوجی کے ذریعے پرانی ٹرنک سیور لائن کی بحالی؛ سیوریج لائنیں بچھانے؛ ٹرانس ورونا علاقے میں 25000 سے زیادہ سیوریج ہاؤس کنکشن؛ شہر کے سس ورنا علاقے میں رساو کی مرمت کا کام؛ تاتے پور گاؤں وغیرہ میں دیہی پینے کے پانی کی اسکیم شامل ہے۔ سماجی اور تعلیم کے شعبے سے متعلق مختلف پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جائے گا جن میں گاؤں ماہگاؤں میں آئی ٹی آئی، بی ایچیو گورنمنٹ گرلس ہوم واقع رام نگر میں ویدک وگیان کیندر کا دوسرا مرحلہ، درگا کنڈ میں گورنمنٹ اولڈ ایج ویمن ہوم میں تھیم پارک شامل ہیں۔ وزیر اعظم بڑا لال پور میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اسپورٹس کمپلیکس میں مصنوعی ایتھلیٹک ٹریک اور مصنوعی باسکٹ بال کورٹ اور سندھورہ میں غیر رہائشی پولیس اسٹیشن کی عمارت سمیت مختلف پولیس اور حفاظتی آگ کے منصوبے، ہاسٹل کے کمروں کی تعمیر، مرزامراد، چولاپور، جانسا اور کپسیٹھی تھانوں میں بیرک اور پندرا میں آگ بجھانے والے مرکز کی عمارت کا افتتاح کریں گے۔ پروگرام کے دوران وزیر اعظم 1200 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ ان میں متعدد سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بشمول لہرتارا – بی ایچیو سے وجیا سنیما تک سڑک کو چھ لین چوڑا کرنا، پانڈے پور فلائی اوور سے رنگ روڈ تک سڑک کو چار لین چوڑا کرنا، کچہری سے سندہا تک چار قطار والی سڑک، وارانسی بھدوہی دیہی سڑک کو چوڑا اور مضبوط کرنا، وارانسی دیہی علاقے میں پانچ نئی سڑکوں اور چار سی سی سڑکوں کی تعمیر، بابت پور-چوبے پور روڈ پر بابت پور ریلوے اسٹیشن کے قریب آر او پی کی تعمیر شامل ہیں۔ ان منصوبوں سے شہر اور دیہی سڑکوں پر ٹریفک کے بوجھ کو کم کرنے میں نمایاں مدد ملے گی۔ خطے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے وزیر اعظم متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان میں ورلڈ بینک کی مدد سے یوپی پرو پور پور ٹورازم ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت سارناتھ بدھسٹ سرکٹ پر ترقیاتی کام، اشت ونکایا، دوادش جیوترلنگیاترا، اشٹ بھیرو، نو گورییاترا کے لئے پاون پاتھ کی تعمیر، پنچکوسی پرکرما یاترا مارگ میں پانچ اسٹاپیجز کی سیاحتی ترقی کا کام اور پرانی کاشی کے مختلف وارڈوں میں سیاحت کی ترقی شامل ہیں۔ وزیر اعظم سگرا میں اسپورٹس اسٹیڈیم کی بحالی کے کاموں کے پہلے مر حلے کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ اکھل بھارتیہ شکشا سماگم: وزیر اعظم بین اقوامی تعاون اور کنونشن سنٹر رودرکش میں ’’اکھل بھارتیہ شکشا سماگم‘‘ کا افتتاح کریں گے۔ شکشا سماگم کا اہتمام وزارت تعلیم کی جانب سے 7 تا 9 جولائی ک��ا جا رہا ہے۔ یہ نامور ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور تعلیمی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرے گا جہاں وہ اپنے تجربات پر تبادلہ خیال اور ایک دوسرے سے اشتراک اور قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے موثر نفاذ کے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کریں گے۔ یہ تقریب ملک بھر سے یونیورسٹیوں (مرکزی، ریاستی، ڈیمڈ، پرائیویٹ)، قومی اہمیت کے اداروں (آئی آئی ٹی،آئی آئی ایم،این آئی ٹی،آئی آئی ایس ای آر)، کے 300 سے زائد تعلیمی، انتظامی اور ادارہ جاتی رہنماؤں کی صلاحیت سازی کے حصے کے طور پر منعقد کی جا رہی ہے۔ مختلف ذمہ داران اپنے متعلقہ اداروں میں این ای پی کے نفاذ کی پیشرفت بتائیں گے اور قابل ذکر عمل درآمد کی حکمت عملیوں، بہترین طریقوں اور کامیابی کی کہانیاں بھی ایک دوسرے سے شیئر کریں گے۔ تین روزہ شکشا سماگم کے دوران، این ای پی 2020 کے تحت ہائر ایجوکیشن کے لئے شناخت کردہ نو موضوعات پر پینل مباحثے کئے جائیں گے۔ یہ موضوعات ہیں کثیر الشعبہ اور جامع تعلیم؛ مہارت کی ترقی اور ملازمت کی اہلیت؛ تحقیق، جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ؛ معیاری تعلیم کے لئے اساتذہ کی صلاحیت سازی؛ معیار، درجہ بندی اور ایکریڈیشن؛ ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنانے اور آن لائن تعلیم؛ مساوی اور جامع تعلیم؛ہندوستانی علمی نظام اور اعلیٰ تعلیم کی بین اقوامی بنانا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৭ জুলাইত বাৰাণসী ভ্ৰমণ কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%82%D8%A7%D8%A8%D9%84-%D8%AA%D8%AC%D8%AF%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A4/,نئی دہلی۔24مئی؛ وزیراعظم کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ہندوستان اور فرانس کے درمیان قابل تجدید توانائی کے شعبے میں اس مفاہمت نامے کو منظوری دے دی ہے جس پر نئی دلی میں 10 مارچ 2018 کو دستخط کئے گئے تھے۔ اس مفاہمت نامے سے فریقین کا مقصد باہمی طور پر شناخت کیے گیے شعبوں میں ہندوستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سولر انرجی(این آئی ایس ای) اور توانائی کے متبادل ذرائع سے متعلق فرانسیسی ادارے سی ای اے کے درمیان فریق آئی ایس اے رکن ممالک میں پائلٹ پروجیکٹ کو نافذ کرنے اور اس پر عمل کرنے ے لیے کام کریں گے۔ یہ تعاون نئی ذرائع سے کیا جائے گا جن میں مشترکہ ریسرچ پروجیکٹ، مشترکہ آر اینڈ ڈی، مشترکہ ورکشاپ، متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے تبادلے سمیت ریسرچ اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ شامل ہے۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد مہارت کا تبادلہ اور اطلاعات کی نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ اس مفاہمت نامے سے دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعاون کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔,নবীকৰণযোগ্য শক্তিৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু ফ্ৰান্সৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%DB%8C%D9%84%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%86%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1/,نئی دہلی۔02 جون ، 2018؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے یوم قیام کے موقع پر وہاں کے عوام کو مبارکباد دی ہے۔ زیراعظم نے آندھرا پردیش کے لوگوں کے ساتھ نیک ��واہشات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کہا ، ’یوم ریاست پر میں تلنگانہ کے سبھی لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آنے والے سالوں میں ریاست کے لوگوں خواہشات پوری ہو ، اس کے لیے میں دعا گو ہوں۔ میں آندھرا پردیش کے بھائیوں اور بہنوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ میں ریاست کے لوگوں کی اچھی صحت اور خوشحالی کے لیے بھگوان سے دعا مانگتا ہوں۔,তেলেংগানাৰ প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত ৰাজ্যবাসীক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ; অন্ধ্ৰপ্ৰদেশবাসীকো শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D9%BE%DB%92-%DA%88%DB%8C%D8%A8%D9%B9-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DA%88-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%85-%D9%82%DB%8C%D9%85%D8%AA-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A7%82%E0%A6%AA%E0%A7%87/,محترم وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت مرکزی کابینہ نے اپریل 2022 سے ایک برس کی مدت کے لیے روپے ڈیبٹ کارڈ اور کم قیمت والے بھیم-یوپی آئی لین دین (فرد سے کاروباری تک) کو فروغ دینے کے لیے ترغیباتی اسکیم کو منظوری دے دی ہے۔ روپے ڈیبٹ کارڈ اور کم قیمت والے بھیم – یوپی آئی لین دین (پی 2 ایم) کو فروغ دینے کے لیے منظور شدہ ترغیباتی اسکیم کے مالی اخراجات 2600 کروڑ روپئے کے بقدر ہیں۔ مذکورہ اسکیم کے تحت، جاری مالی برس 2022-23 کے لیے روپے ڈیبٹ کارڈ اور کم قیمت کے بھیم –یوپی آئی لین دین (پی 2 ایم) کا استعمال کرکے پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) اور ای-کامرس لین دین کو فروغ دینے کے لیے، احاطہ شدہ بینکوں کومالی ترغیب فراہم کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے مالی برس 2022-23 کے بجٹ کے دوران اپنی تقریر میں، گذشتہ بجٹ میں اعلان شدہ ڈجیٹل ادائیگیوں کے لیے مالی تعاون جاری رکھنے کی حکومت کی منشا کا اعلان کیا جو کفایتی ہونے کے ساتھ ساتھ استعمال کنندہ کے لیے آسان ادائیگی پلیٹ فارموں کے استعمال کو بڑھاوا دینے پر مرتکز ہے۔ یہ اسکیم مذکورہ بجٹی اعلان کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔ مالی برس 2021-22 میں، حکومت نے ڈجیٹل لین دین کو مزید فروغ دینے کے لیے مالی برس 2021-22 کے بجٹی اعلان کے مطابق ایک ترغیباتی اسکیم کو منظوری دی تھی۔ نتیجتاً، مجموعی ڈجیٹل لین دین میں 59 فیصد کے بقدر سال بہ سا ل اضافہ درج کیا گیا ہے، جو مالی برس 2020-21 میں 5554 کروڑ روپئے سے بڑھ کر مالی برس 2021-22 میں 8840 کروڑ روپئے کے بقدر ہوگیا۔ بھیم- یو پی آئی لین دین نے 106 فیصد کے بقدر سال بہ سال اضافہ درج کیا ہے، جو مالی برس 2020-21 میں 2233 کروڑ روپئے سے بڑھ کر مالی برس 2021-22 میں 4597 کروڑ روپئے کے بقدر ہوگیا ہے۔ ڈجیٹل ادائیگی نظام کے مختلف وابستگان اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے ڈجیٹل ادائیگی سے متعلق ایکو نظام کی ترقی پر صفر ایم ڈی آر نظام کے ممکنہ برعکس اثرات کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔ اس کے علاوہ، قومی ادائیگی کارپوریشن آف انڈیا (این پی سی آئی) نے بھیم – یوپی آئی اور روپے ڈیبٹ کارڈ لین دین کو فروغ دینے کے لیے ایکو نظام سے وابستہ شراکت داروں کے لیے کفایتی قیمت کی تجویز پیش کرنے، کاروباریوں کے ذریعہ قبولیت میں اضافہ کرنے اور نقد ادائیگی کے بجائے ڈجیٹل ادائیگی کے لیے درخواست کی۔ بھارتی حکومت ملک بھر میں ڈجیٹل ادائیگی کو فروغ دینے کے لیے مختلف پہل قدمیاں انجام دے رہی ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران، ڈجیٹل ادائیگی لین دین میں زبردست اضافہ ملاحظہ کیا گیا ہے۔ کووِڈ۔19 کے بحران کے دوران، ڈجیٹل ادائیگی نے چھوٹے کاروباریوں سمیت کاروباری کام کاج میں سہولت فراہم کرنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی۔یوپی آئی نے دسمبر 2022 کے مہینے میں 12.82 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر 782.9 کروڑ ڈجیٹل ادائیگی لین دین کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ ترغیباتی اسکیم ایک مضبوط ڈجیٹل ادائیگی ایکو نظام تیار کرنے اور روپے ڈیبٹ کارڈ اور بھیم – یوپی آئی ڈجیٹل لین دین کو فروغ دینے کی سہولت فراہم کرے گی۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘ کے مقصد سے مطابقت رکھتے ہوئے، یہ اسکیم یوپی آئی لائٹ اور یو پی آئی 123 پے کو کفایتی اور استعمال کنندہ کے لیے آسان ڈجیٹل ادائیگی حل کے طور پر بڑھاوا دے گی ، نیز ملک میں تمام تر شعبوں اور آبادی کے تمام تر طبقات کےدرمیان ڈجیٹل ادائیگی نظام کو مزید مضبوطی بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔,কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটে ৰূপে ডেবিট কাৰ্ড আৰু কম মূল্যৰ ভীম-ইউপিআই লেনদেনৰ প্ৰচাৰৰ বাবে ইনচেণ্টিভ আঁচনিত অনুমোদন জনাইছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%D9%84%D9%91%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DA%AF%D8%AA%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%88%D8%B1%D9%88%D9%86-%D9%85%DB%81%D9%88%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%87/,اسٹیج پر موجود مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی، بھارت ڈرون مہوتسو میں ملک بھر سے آئے سبھی مہمان، یہاں موجود دیگر اہم خواتین و حضرات! میں آپ سبھی کو بھارت ڈرون مہوتسو کے انعقاد کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سبھی سینئر لوگ یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ مجھے آنے میں تاخیر ہوئی۔ تاخیر اس لئے نہیں ہوئی کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں یہاں وقت پر آیا تھا لیکن یہ ڈرونز کی جو نمائش لگی ہے ، اسے دیکھنے میں میرا ذہن ایسا لگ گیا کہ مجھے وقت کا دھیان ہی نہیں رہا ۔ اسی لئے اتنی تاخیر سے آیا، پھر بھی میں مشکل سے دس فیصد چیزیں دیکھ سکا اور میں اتنا متاثر ہوا، اچھا ہوتا ، میرے پاس وقت ہوتا ، میں ایک ایک اسٹال پر جاتا اور نوجوانوں ، جو کام کیا ہے ، اُسے دیکھتا ، اُن کی کہانی سنتا ۔ سب تو نہیں کر سکا لیکن میں جو کچھ بھی کر سکا، میں آپ سب سے گزارش کروں گا، میں حکومت کے بھی سبھی محکموں سے گزارش کروں گا کہ آپ کے الگ سطح کے جتنے عہدیدار ہیں ، پالیسی مرتب کرنے میں ، جن کا رول رہتا ہے ، وہ ضرور دو تین گھنٹے یہاں کے لئے نکالیں ، ایک ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ یہاں انہیں ٹیکنالوجی کو دیکھنے کا موقع ملے گا اور انہیں اپنے دفتر میں ہی پتہ چل جائے گا کہ یہ ٹیکنالوجی یہاں اس قدر کام آسکتی ہے یعنی گورننس میں بہت سے ایسے اقدامات ہیں، جنہیں ہم اس کی بنیاد پر اٹھا سکتے ہیں لیکن میں واقعی میں کہتا ہوں کہ آج کا میرے لئے بہت اچھا تجربہ رہا اور بھارت کے نوجوانوں اور مجھے خوشی اِس بات کی ہوتی تھی کہ جس جس اسٹال پر گیا تو بڑے فخر سے کہتا تھا، صاحب یہ میک اِن انڈیا ہے ، یہ سب ہم نے بنایا ہے ۔ ساتھیو، اس مہوتسو میں ملک کے الگ الگ حصوں سے ہمارے کسان بھائی بہن بھی ہیں ، ڈرون انجینئر بھی ہیں ، اسٹارٹ اَپس بھی ہیں ، مختلف کمپنیوں کے لیڈر بھی یہاں موجود ہیں اور دو دنوں میں یہاں ہزاروں لوگ ، اس مہوتسو کا حصہ بننے والے ہیں، مجھے پورا یقین ہے اور ابھی ایک تو میں نے نمائش دیکھی لیکن جو ایکچوول ڈرون کے ساتھ اپنا کام کاج چلاتے ہیں اور اس میں م��ھے کئی نو جوان کسانوں سے ملنے کا موقع ملا ، جو کھیتی میں ڈرون ٹیکنا لوجی کا استعمال کر رہے ہیں ۔ میں اُن نو جوان انجینئر سے بھی ملا ، جو ڈرون ٹیکنا لوجی کی ہمت افزائی کر رہے ہیں ۔ آج 150 ڈرون پائلٹ سرٹیفکیٹ بھی یہاں دیئے گئے ہیں ۔ میں اِن سبھی ڈرون پائلٹس کو اور اس کام سے جڑے ہوئے سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ ساتھیو، ڈرون ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھارت میں جو جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ جو توانائی نظر آ رہی ہے، یہ بھارت میں ڈرون سروس اور ڈرون پر مبنی صنعت میں کوانٹم جمپ کی عکاس ہے۔ یہ بھارت میں روزگار پیدا کرنے کے ایک ابھرتے ہوئے بڑے شعبے کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے۔ آج، بھارت اپنی اسٹارٹ اپ پاور کے دَم پر دنیا میں ڈرون ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا ماہر بننے کی طرف تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو، یہ اُتسو نہ صرف ٹیکنالوجی کا جشن ہے بلکہ نئے بھارت کی نئی حکمرانی، نئے تجربات کے تئیں حیرت انگیز مثبت رجحان کا بھی اُتسو ہے۔ اتفاق سے، 8 سال پہلے، یہی وہ وقت تھا ، جب ہم نے بھارت میں گڈ گورننس کے نئے منتروں کو نافذ کرنا شروع کیا تھا۔ کم سے کم حکومت، زیادہ سے زیادہ حکمرانی کے راستے پر چلتے ہوئے، ہم نے زندگی میں آسانی، کاروبار کرنے میں آسانی کو اپنی ترجیح بنایا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے منتر پر عمل کرتے ہوئے، ہم نے ملک کے ہر شہری، ہر علاقے کو حکومت سے جوڑنے کا راستہ چنا۔ ملک میں سہولیات میں ، رسائی میں ، ترسیل میں ایک جو خلیج کا ہمیں تجربہ ہوتا تھا ، اُس کے لئے ہم نے جدید ٹکنالوجی پر بھروسہ کیا ، اُسے ایک اہم پل کے طور پر نظام کا حصہ بنایا ۔ اس ٹیکنا لوجی تک ملک کے ایک چھوٹے سے طبقے کی پہنچ تھی ۔ ہمارے یہاں یہ مان لیا گیا کہ ٹیکنا لوجی یعنی ایک بڑے رئیس لوگوں کا کاروبار ہے ۔ عام انسان کی زندگی میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس پوری ذہنیت کو بدل کر، ہم نے ٹیکنالوجی کو سب کے لئے قابل رسائی بنانے کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں اور مزید اقدامات کرنے جا رہے ہیں۔ ساتھیو، جب ٹیکنالوجی کی بات آتی ہے تو ہم نے دیکھا ہے ، یہاں کچھ لوگ ٹیکنالوجی کا خوف دکھا کر اسے جھٹلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی آئے گی تو ایسا ہو جائے ہو گا، ویسا ہو جائے گا۔ اب یہ سچ ہے کہ کسی زمانے میں پورے شہر میں ایک ٹاور ہوا کرتا تھا۔ اس کی گھڑی کے گھنٹے بجتے تھے اور گاؤں کا وقت طے ہوتا تھا۔ اس وقت تک کس نے سوچا تھا ، ہر گلی ، ہر ایک کی کلائی پر گھڑی لگے گی تو جب تبدیلی آئی ہو گی تو ان کو بھی اجوبا لگا ہو گا اور آج بھی لوگ ہوں گے ، جن کا دل چاہتا ہوگا کہ ہم بھی گاؤں میں ایک ٹاور بنا دیں اور ہم بھی وہاں ایک گھڑی لگا دیں ۔ کسی زمانے میں مفید ہوگا لیکن جو بدلاؤ ہوتا ہے ، اُس کے ساتھ ہمیں اپنے کو بدلنا ، نظام کو بدلنا ہوتا ہے تبھی ترقی ممکن ہوتی ہے ۔ ہم نے حالیہ کورونا ویکسینیشن کے دوران بھی بہت کچھ تجربہ کیا ہے۔ پہلے کی حکومتوں کے دوران ٹیکنالوجی کو مسئلے کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اسے غریب مخالف ثابت کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں ۔ اسی وجہ سے 2014 ء سے پہلے حکمرانی میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے بے حسی کا ماحول تھا۔ اگر چند لوگوں نے اپنی دلچسپی کے مطابق کر لیا تو کر لیا ، اس کی فطرت نہیں بنی ۔ اس کا سب سے زیادہ نقسان ملک کے غریبوں کو ہوا ، ملک کے محروموں کو ہوا ، ملک کے مڈل کلاس کو ہوا اور جو امنگوں کے جذبے سے بھرے ہوئے لوگ تھے ، انہیں مایوسی کی گرد میں زند��ی گزارنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ۔ ساتھیو، ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ نئی ٹیکنالوجی رخنہ پیدا کرتی ہے ۔ وہ نئے وسائل تلاش کرتی ہے، وہ نئے باب لکھتی ہے۔ وہ نئے راستے، نئے نظام بھی بناتی ہے۔ ہم سبھی نے وہ دور دیکھا ہے کہ زندگی سے جڑے کتنے ہی آسان چیزوں کو کتنا مشکل بنا دیا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے بچپن میں راشن کی دکان پر اناج کے لئے ، کیروسین کے لئے ، چینی کے لئے لائن لگائی ہو گی لیکن ایک وقت ایسا تھا کہ گھنٹوں اسی کام میں لائن میں لگے ہوئے گزر جاتے تھے اور مجھے تو اپنا بچپن یاد ہے کہ ہمیشہ ایک ڈر رہتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا نمبر آنے تک اناج ختم ہو جائے ۔ دوکان بند ہونے کا وقت تو نہیں ہو جائے گا؟ یہ ڈر 7-8 سال پہلے ہر غریب کی زندگی میں رہا ہوگا۔ لیکن مجھے اطمینان ہے کہ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم نے ، اس ڈر کو ختم کر دیا ہے۔ اب لوگوں میں بھی ایک بھروسہ ہے کہ جو اُن کے حق کا ہے ، وہ انہیں ضرور ملے گا ۔ ٹیکنا لوجی نے آخری حد تک ترسیل کو یقینی بنانے میں ، عروج کے ویژن کو آگے بڑھانے میں بہت بڑی مدد کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ ہم اسی رفتار سے آگے بڑھ کر انتودیہ کے ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ پچھلے 7-8 سالوں کا تجربہ میرے یقین کو اور پختہ کرتا ہے ۔ میر ابھروسہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ جن دھن، آدھار اور موبائل کی تری شکتی – جے اے ایم ، اس ٹرینیٹی کی وجہ سے ، آج ہم پورے ملک میں مکمل شفافیت کے ساتھ غریب کو ، اُس کے حق کی چیزیں ، جیسے راشن پہنچا رہے ہیں ۔ اس وبا ء کے دوران بھی ہم نے 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن کو یقینی بنایا ہے۔ ساتھیو، یہ ہمارے ٹیکنالوجی حل کو درست طریقے سے ڈیزائن کرنے ، مؤثر طریقے سے تیار کرنے اور بہتر طور پر نافذ کرنے کی قوت ہے کہ آج بھارت دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری کی مہم کامیابی سے چلا رہا ہے ۔ آج، ملک نے ، جو روبسٹ ، یو پی آئی فریم ورک تیار کیا ہے ، اُس کی مدد سے لاکھوں کروڑ روپئے براہ راست غریبوں کے بینک کھاتوں میں منتقل کئے جا رہے ہیں۔ خواتین، کسانوں، طلباء کو اب حکومت سے براہ راست مدد مل رہی ہے۔ 21ویں صدی کے نئے بھارت میں، نوجوان بھارت میں، ہم نے ملک کو نئی طاقت، رفتار اور پیمانہ دینے کے لئے ٹیکنالوجی کو ایک اہم ذریعہ بنایا ہے۔ آج ہم ٹیکنالوجی سے متعلق صحیح حل تیار کر رہے ہیں اور ہم نے ان کو بڑھانے کا ہنر بھی تیار کر لیا ہے۔ ملک میں ڈرون ٹیکنالوجی کو فروغ دینا اچھی حکمرانی، زندگی میں آسانی کے اس عزم کو آگے بڑھانے کا ایک اور ذریعہ ہے۔ ہمیں ڈرون کی شکل میں ایک اور اسمارٹ ٹول مل گیا ہے، جو بہت جلد عام بھارتی کی زندگی کا حصہ بننے والا ہے۔ ہمارے شہر ہوں یا ملک کے دور دراز دیہات اور دیہی علاقے، کھیت کے میدان ہوں یا کھیل کے میدان، دفاع سے متعلق کام ہو یا ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق، ڈرون کا استعمال ہر جگہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اسی طرح چاہے وہ سیاحت کا شعبہ ہو، میڈیا ہو، فلم انڈسٹری ہو، ڈرون ان شعبوں میں معیار اور مواد دونوں کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ ہم آنے والے دنوں میں ڈرون کا اس سے زیادہ استعمال دیکھیں گے جتنا کہ اب استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں حکومت میں ہر ماہ پرگتی پروگرام چلاتا ہوں۔ تمام ریاستوں کے پرنسپل سکریٹریز اسکرین پر ہوتے ہیں ، ٹی وی کے اور بہت سے موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے اور میں ان سے کہتا ہوں کہ ڈرون سے ، جو پروجیکٹ چل رہا ہے ، مجھے وہاں کو پورا لائیو ڈیمانسٹریشن دیجیئے ۔ تو بڑی آسانی سے چی��وں کو ہم آہنگ کرنے سے وہاں فیصلے کرنے کی سہولت بڑھ جاتی ہے۔ جب کیدارناتھ کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا تو اب ہر بار میرے لئے کیدارناتھ جانا مشکل تھا، تو میں باقاعدگی سے کیدارناتھ کا دورہ کیسے کروں، کیدارناتھ میں کام کتنی تیزی سے چل رہا ہے، تو وہاں سے ڈرون کے ذریعے اپنے دفتر میں بیٹھ جاتا ہوں۔ باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیتا ہیں۔جب میٹنگیں ہوتی تھیں تو میں ڈرون کی مدد سے کیدارناتھ کے ترقیاتی کاموں کی باقاعدگی سے نگرانی کرتا تھا۔ یعنی آج سرکاری کاموں کا معیار بھی دیکھنا ہوگا۔ اس لئے مجھے پہلے سے بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے وہاں معائنے کے لئے جانا ہے، تب سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں ڈرون بھیجوں تو وہ باقی معلومات لے کر آ جاتا ہے اور ان کو پتہ تک نہیں چلتا کہ میں نے معلومات حاصل کر لی ہیں ۔ ساتھیو، گاؤں میں بھی کسان کی زندگی کو زیادہ آسان، زیادہ خوشحال بنانے میں ڈرون ٹیکنا لوجی بہت اہم رول ادا کرنے والی ہے۔ آج گاؤں تک اچھی سڑکیں پہنچ چکی ہیں، بجلی اور پانی پہنچ چکا ہے، آپٹیکل فائبر پہنچ رہا ہے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بے مثال توسیع ہوئی ہے۔ لیکن پھر بھی، گاؤں میں زمین سے متعلق، کھیتی سے متعلق زیادہ تر کام پرانے نظام کو استعمال کرتے ہوئے کرنے پڑتے ہیں ۔ اس پرانے نظام میں ہر قسم کا ضیا ع ہے، بہت سے مسائل بھی ہیں اور پیداواری صلاحیت کا بھی پتہ نہیں، کچھ ہوا یا نہیں، اس کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے گاؤں کے لوگ سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں، ہمارے کسانوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہمارے چھوٹے کسانوں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔ چھوٹے کسانوں کی زمین اور وسائل اتنے نہیں ہوتے کہ وہ تنازعات کو چیلنج کر سکیں اور عدالت کے چکر کاٹیں ۔ اب دیکھیں، خشک سالی – سیلاب میں زمین کے ریکارڈ سے لے کر فصلوں کے نقصان تک، نظام ہر جگہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین پر منحصر ہے۔ انسانی انٹرفیس جتنا بڑا ہوگا، اعتماد کی کمی اتنی ہی زیادہ ہوگی اور اسی سے تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر جھگڑے ہوتے ہیں تو وقت اور پیسے کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ انسان کے اندازے سے تحسیب ہوتی ہے تو اتنا درست اندازہ بھی نہیں لگ پاتا ۔ ان سارے مسائل کو حل کرنے کا ڈرون اپنے آپ میں ایک موثر وسیلے کے طور پر ایک نئے ٹول کے طور پر ہمارے سامنے آیا ہے ۔ ساتھیو، پی ایم سوامیتو یوجنا اس بات کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ڈرون ٹیکنالوجی ایک بڑے انقلاب کی بنیاد بن رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت پہلی بار ملک کے دیہات میں ہر جائیداد کی ڈیجیٹل میپنگ کی جا رہی ہے، لوگوں کو ڈیجیٹل پراپرٹی کارڈ دیئے جا رہے ہیں۔ اس میں انسانی مداخلت کم ہو گئی ہے اور امتیازی سلوک کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ اس میں ڈرونز نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے ملکیتی ڈرون اڑانے کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ تھوڑی دیر اس کی وجہ سے بھی ہوئی ۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈرون کی مدد سے ملک میں اب تک تقریباً 65 لاکھ پراپرٹی کارڈز بن چکے ہیں اور جس کو یہ کارڈ ملا ہے وہ مطمئن ہے کہ ہاں میرے پاس جو زمین ہے ، اس کی صحیح تفصیلات مل گئی ہیں۔ یہ بات انہوں نے پورے اطمینان کے ساتھ کہی ہے۔ دوسری صورت میں، اگر ہمارے پاس ایک چھوٹی سی جگہ بھی ہے، تو اتفاق رائے تک پہنچنے میں سالوں سال لگ جاتے ہیں۔ ساتھیو، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے کسان ڈرون ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان میں ایک جوش ہے، وہ اسے اپنانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ اس طرح نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 7-8 سالوں میں زراعت کے شعبے میں ، جس طرح ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا ہے، اس کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی کسانوں کے لئے افواہ نہیں رہ گئی ہے اور ایک بار جب کسان اسے دیکھ لیتا ہے تو تھوڑا اپنے حساب سے ، اس کا لیکھا جوکھا کر لیتا ہے اور اگر اس کا یقین بیٹھ گیا تو اسے اپنانے میں دیر نہیں کرتا ۔ ابھی جب میں باہر کسانوں سے بات کر رہا تھا تو مدھیہ پردیش کا ایک انجینئر مجھے بتا رہے تھے کہ اب لوگ مجھے ڈرون والا کہہ کر پکارتے ہیں۔ میں انجینئر ہوں لیکن اب تو میری پہچان ڈرون والے کی ہو گئی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مستقبل میں کیا دیکھتے ہیں؟ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ صاحب ، دیکھئے جب دالوں کا معاملہ ہے تو ہمارے یہاں اس کی کھیتی بڑھے گی اور اس کی ایک وجہ ڈرون ہوں گے ، میں نے کہا کیسے ؟ انہوں نے کہا، صاحب دالوں کی کھیتی ہوتی ہے ، تب اس کی فصل کی اونچائی زیادہ ہو جاتی ہے تو کسان اندر جاکر کے دوائی ڈالنے کے لئے اس کا دل نہیں کرتا ہے ۔ میں کہاں جاؤں گا، وہ چھڑکاؤ کرتا ہے تو آدھی تو میرے جسم پر پڑتی ہے اور بولے اس لئے وہ اس کی فصل کی طرف جاتا ہی نہیں ہے ۔ اس نے کہا کہ اب ڈرون کی وجہ سے ایسی جو فصلیں ہیں، جو انسان کے قد سے بھی اونچی ہوتی ہیں ، ڈرون کی وجہ سے ، ان کی دیکھ بھال ، اس میں دوا کا چھڑکاؤ اس میں اتنا آسان ہونے والا ہے کہ ہمارے ملک کا کسان آسانی سے دالوں کی کھیتی کرے گا ۔ اب ایک شخص گاؤں کے اندر کسانوں کے ساتھ جڑ کر کام کرتا ہے تو چیزوں میں کیسے تبدیلی آتی ہے ، اس کا تجربہ ، اس کی بات سننے سے ہوتا ہے ۔ ساتھیو، آج ہم نے زرعی شعبے میں ٹیکنالوجی لانے کی کوشش کی ہے۔ سوائل ہیلتھ کارڈز یہ اپنے آپ میں ہمارے کسانوں کے لئے ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے اور میں یہ چاہوں گا کہ جیسے یہ ڈرون کی خدمات ہیں، گاؤں گاؤں ، مٹی کی ٹسٹنگ کی لیب بن سکتی ہیں ، نئے روزگار کے شعبے کھل سکتے ہیں اور کسان ہر بار اپنی مٹی ٹسٹ کراکر یہ طے کر سکتا کہ میری اس مٹی کے لئے یہ چیز ضروری ہے ۔ مائیکرو اِریگیشن ، اسپرنکل یہ سب چیزیں جدید سینچائی کے نظام کا حصہ بن رہی ہیں۔ اب فصل بیمہ اسکیم کو ہی دیکھ لیجئے، فصل بیمہ اسکیم کے تحت سب سے بڑا کام ہمارے جی پی ایس جیسی ٹیکنالوجی کا استعمال ہے، ڈیجیٹل مارکیٹ جیسے ای-نیم، نیم کوٹڈ یوریا کا انتظام یا ٹیکنالوجی کے ذریعے براہ راست کسانوں کے کھاتے میں پیسہ جمع کرنے کی بات ہو ، گزشتہ 8 سالوں میں ، جو یہ کوششیں ہوئی ہیں ، ان سے کسانوں کو ٹیکنا لوجی پر بھروسہ زیادھ بڑھ گیا ہے ۔ ۔ آج ملک کا کسان ٹیکنالوجی کے ساتھ کہیں زیادہ مطمئن ہے ۔ اسے زیادہ آسانی سے اپنا رہا ہے۔ اب ڈرون ٹیکنالوجی ہمارے زرعی شعبے کو اگلی سطح پر لے جانے والی ہے۔ کس زمین پر کتنی اور کون سی کھاد ڈالنی ہے، زمین میں کس چیز کی کمی ہے، کتنی آبپاشی کرنی ہے، یہ بھی ہمارے اندازے سے ہوتا رہا ہے۔ یہ کم پیداوار اور فصل کے برباد ہونے کی ایک بڑی وجہ رہی ہے لیکن اسمارٹ ٹیکنالوجی پر مبنی ڈرون یہاں بھی بہت کام آسکتے ہیں۔ یہی نہیں ڈرون یہ شناخت کرنے میں بھی کامیاب ہیں کہ کون سا پودا، کون سا حصہ بیماری سے متاثر ہے اور اسی لئے وہ اندھا دھند اسپرے نہیں کرتا بلکہ اسمارٹ اسپرے کرتا ہے۔ اس سے مہنگی دواؤں کا خرچ بھی بچتا ہے یعنی ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے چھوٹے کسان کو بھی طاقت ملے گی، رفتار بھی ملے گی اور چھوٹے کسان کی ترقی بھی یقینی ہو گی اور آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں، میرا یہ خواب ہے کہ بھارت کے ��ر ہاتھ میں اسمارٹ فون ہو، ہر میدان میں ڈرون ہو اور ہر گھر میں خوشحالی ہو۔ ساتھیو، ہم ٹیلی میڈیسن کو فروغ دیتے ہوئے ملک کے ہر گاؤں میں صحت اور تندرستی کے مراکز کے نیٹ ورک کو مضبوط کر رہے ہیں لیکن دیہاتوں میں ادویات اور دیگر اشیاء کی ترسیل ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس میں بھی ڈرون کے ذریعے بہت کم وقت میں اور تیز رفتاری سے ترسیل کا امکان ہے۔ ہم نے ڈرون کے ذریعے کووڈ ویکسین کی فراہمی کا فائدہ بھی محسوس کیا ہے۔ یہ دور دراز قبائلی، پہاڑی، ناقابل رسائی علاقوں میں صحت کی معیاری خدمات فراہم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ساتھیو، ٹیکنالوجی کا ایک اور پہلو بھی ہے ، جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ پہلے زمانے میں ٹیکنالوجی اور اس سے ہوئی اختراعات امیرطبقے کے لئے مانے جاتے تھے ۔ آج ہم سب سے پہلے عوام کو ٹیکنالوجی مہیا کرا رہے ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی بھی ایک مثال ہے۔ چند ماہ پہلے تک ڈرونز پر کافی پابندیاں تھیں۔ ہم نے بہت کم وقت میں زیادہ تر پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ ہم پی ایل آئی جیسی اسکیموں کے ذریعے بھارت میں ایک مضبوط ڈرون مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم بنانے کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔ جب ٹیکنالوجی عوام کے درمیان چلی جاتی ہے تو پھر اس کے استعمال کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ آج ہمارے کسان، ہمارے طلباء، ہمارے اسٹارٹ اپس، ڈرون سے کیا کیا کر سکتے ہیں ، اس کے نئے نئے امکانات تلاش کر رہے ہیں ۔ ڈرون اب کسانوں کے پاس جا رہا ہے، دیہات میں جا رہا ہے، اس لئے مستقبل میں اسے مختلف کاموں میں مزید استعمال کرنے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ڈرون کے مختلف قسم کے استعمال نہ صرف شہروں میں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی سامنے آئیں گے، ہمارے اہل وطن اس میں مزید جدت لائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کے مزید تجربات ہوں گے، اس کے نئے نئے استعمال ہوں گے۔ ساتھیو، آج میں ایک بار پھر ملک اور دنیا کے تمام سرمایہ کاروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بھارت کے اسی طرح کے امکانات کو استعمال کریں۔ یہ بھارت اور دنیا کے لئے یہاں سے بہترین ڈرون ٹیکنالوجی بنانے کا صحیح وقت ہے۔ میں ماہرین سے، ٹیکنالوجی کی دنیا کے لوگوں سے بھی اپیل کروں گا کہ ڈرون ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں، اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک لے جائیں۔ میں ملک کے تمام نوجوانوں سے ڈرون کے میدان میں نئے اسٹارٹ اپس کے لئے آگے آنے کا بھی اپیل کرتا ہوں ۔ ہم مل کر ڈرون ٹیک کے ذریعے عام لوگوں کو بااختیار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ اب پولیس کے کاموں میں بھی سیکورٹی کے پیش نظر ڈرون بہت بڑی خدمات انجام دے سکے گا ۔ ۔ کمبھ میلہ جیسے بڑے مواقع ہوتے ہیں۔ ڈرون بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاں ٹریفک جام کے مسائل ہوں ، ان کا حل ڈرون سے نکالا جا سکتا ہے یعنی یہ چیزیں اتنی آسانی سے استعمال ہونے والی ہیں۔ ہمیں اپنے سسٹمز کو ان ٹیکنالوجیز کے ساتھ مربوط کرنا ہے اور جتنا زیادہ ہم ان سسٹمز کو آپس میں جوڑیں گے۔ مجھے برابر یاد ہے، میں آج یہاں دیکھ رہا تھا کہ وہ ڈرون سے جنگلوں میں درخت اگانے کے لئے ، جو بیج ہیں ، اس کی گولی بناکر کے اوپر سے ڈروپ کرتے ہیں ۔ جب ڈرون نہیں تھا تو میں نے ایک تجربہ کیا۔ میرے تو سارے دیسی تجربے ہوتے ہیں تو اس وقت ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا، جب میں گجرات میں وزیر اعلیٰ تھا، تو یہ جو ہمارے کچھ پہاڑ ہیں، لوگ وہاں جائیں گے، پیڑ پودے لگائیں گے تو ذرا مشکل کام ہے ۔ تو میں نے کیا کیا، میں نے جو گیس کے غبارے ہوتے ہیں، جو ہوا میں اڑتے ہیں، میں نے گیس کے غبارے والوں کی مدد لی اور میں نے کہا کہ ان غباروں میں بیج ڈال دیجیئے ، وہاں جاکر غبارے چھوڑ دیجئے ، جب غبارے نیچے گریں گے تو بیج پھیل جائیں گے اور جب آسمان سے بارش آئے گی ، اپنا نصیب ہوگا تو اس میں سے پیڑ نکل آئے گا ۔ آج وہ کام ڈرون سے بہت آسانی سے ہو رہا ہے۔ جیو ٹریکنگ ہو رہا ہے۔ وہ بیج کہاں گیا، اس کی جیو ٹریکنگ ہو رہی ہے اور وہ بیج درخت میں تبدیل ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس کا حساب لیا جا سکتا ہے یعنی جنگل کی آگ کی طرح ہم ڈرون کی مدد سے آسانی سے اس کی نگرانی کر سکتے ہیں، اگر کوئی چھوٹا سا واقعہ نظر آئے تو فوری کارروائی کر سکتے ہیں یعنی ہم اس کے ذریعے تصوراتی کام بھی کر سکتے ہیں، اپنے نظام کو بڑھا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج یہ ڈرون اُتسو تجسس کے نقطہ نظر سے بہت سے لوگوں کے لئے کارآمد ثابت ہوگا لیکن جو بھی اسے دیکھے گا وہ ضرور کچھ نیا کرنے کا سوچے گا، اس میں تبدیلیاں لانے کی کوشش ضرور کرے گا، سسٹمز میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ بالآخر ہم ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیلیوری بہت تیزی سے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس یقین کے ساتھ، میں ایک بار پھر آپ سب کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),দিল্লীৰ প্ৰগতি ময়দানত ইণ্ডিয়া ড্ৰোন ফেষ্টিভেলৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1%D8%8C-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%D9%86%D9%88%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,گجرات کے گورنر آچاریہ دیو ورت جی، ملک کے وزیر دفاع جناب راجناتھ سنگھ جی، گجرات کے ہردلعزیز وزیراعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، گجرات سرکار میں وزیر جگدیش بھائی، دیگر وزراء کی کونسل کے تمام معززین، سی ڈی ایس جنرل انل چوہان جی، چیف آف ایئراسٹاف ایئر چیف مارشل وی آر چودھری، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل آر ہری کمار، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل منوج پانڈے، دیگر سبھی معززین، بیرون ملک سے آئے ہوئے سبھی معزز مہمانان گرامی، خواتین وحضرات! گجرات کی سرزمین پر ایک مضبوط، مستحکم، قابل اور آتم نربھر بھارت کے اس مہوتسو میں آپ سبھی صمیم قلب سے خیرمقدم ہے۔ ملک کے وزیراعظم کے طور پر آپ کااستقبال کرنا، یہ جتنا قابل فخر ہے، اتنا ہی قابل فخر ا س سرزمین کے بیٹے کے طور پر آپ سب کا استقبال کرنے پر بھی مجھے فخر ہے۔ ڈیف ایکسپو2022 کا یہ انعقاد نئے بھارت کی ایسی شاندار تصویر کھینچ رہا ہے، جس کا عزم ہم نے امرت کال میں کیا ہے۔ اس میں ملک کی ترقی بھی ہے، ریاستوں کا باہمی تعاون بھی ہے۔ اس میں نوجوانوں کی طاقت بھی ہے، نوجوانو ں کے خواب بھی ہیں۔ نوجوانوں کے عہد بھی ہیں، نوجوانوں کے حوصلے بھی ہیں، نوجوانوں کی صلاحیت بھی ہے۔ اس میں دنیا کے لئے امید بھی ہے، دوست ملکوں کیلئے تعاون کے دیگر مواقع بھی ہیں۔ ساتھیو، ہمارے ملک میں ڈیفنس ایکسپو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن اس بار کا ڈیفنس ایکسپو بے مثال اور غیرمعمولی ہیں، ایک نئی شروعات کا مظہر ہے۔ یہ ملک کا ایسا پہلا ڈیفنس ایکسپو ہے، جس میں صرف بھارتی کمپنیاں ہی حصہ لے رہی ہیں، صرف بھارت میں ہی تیار کئے گئے دفاعی آلات ہی ہیں۔ پہلی مرتبہ کسی ڈیفنس ایکسپو میں بھارت کی مٹی سے، بھارت کے لوگوں کے پسینے سے تیار کردہ کئی مختلف مصنوعات ہمارے ہی ملک کی کمپنیاں، ہمارے سائنسداں، اپنے نوجوانوں کے حوصلے کا آج ہم مردآہن سردار پٹیل کی اس دھرتی سے دنیا کے سامنے ہماری طاقت کا تعارف کرارہے ہیں۔ اس میں 1300 سے زیادہ نمائش کار ہیں، جس میں بھارتیہ صنعت ہیں، بھارت کی صنعتوں سے وابستہ کچھ مشترکہ ملکیت کی کمپنیاں ہیں، ایم ایس ایم ایز اور 100 سے زیادہ اسٹارٹ اپس ہیں۔ ایک طرح سے آپ سب یہاں اور ملک کے باشندے اور دنیا کے لوگ بھی صلاحیت اور امکانات، دونوں کی جھلک ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ انہیں امکانات کو حقیقت بنانے کیلئے پہلی مرتبہ 450 سے زیادہ مفاہمت نامے اور معاہدے پر دستخط کئے جارہے ہیں۔ ساتھیو، اس کا انعقاد ہم کافی وقت پہلے کرنا چاہتے تھے۔ گجرات کے لوگوں کو تو اچھی طرح پتہ بھی ہے۔ کچھ حالات کے پیش نظر ہمیں وقت بدلنا پڑا، اس کے سبب تھوڑی تاخیر بھی ہوئی۔ جو غیرملکوں سے مہمان آنے تھے، ان کو پریشانی بھی ہوئی ، لیکن ملک کے اب تک کے سب سے بڑے ڈیفنس ایکسپو نے ایک نئے مستقبل کی مضبوط شروعات کردی ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اس سے کچھ ملکوں کو پریشانی بھی ہوئی ہے، لیکن بڑی تعداد میں مختلف ممالک مثبت سوچ کے ساتھ ہمارے ساتھ آئے ہیں۔ ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ بھارت جب مستقبل کےان مواقع کو حقیقت بنارہا ہے تو بھارت کے 53 افریقی دوست ممالک کندھے سے کندھا ملاکر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس موقع پر دوسرا بھارت-افریقہ دفاعی مذاکرات بھی شروع ہونے جارہی ہے۔ بھارت اور افریقی ملکوں کے دوران یہ دوستی، یہ تعلق اس پرانے اعتماد پر ٹکا ہے ، جو وقت کے ساتھ اور مضبوط ہورہا ہے، نئے منازل کو چھو رہا ہے۔ میں افریقہ سے آئے اپنے ساتھیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج آپ گجرات کی جس سرزمین پر آئے ہیں، اس کا افریقہ کے ساتھ بہت پرانا اور قلبی تعلق رہا ہے۔ افریقہ میں جو پہلی ٹرین چلی تھی، اس کی تعمیر کے کام میں یہیں اسی گجرات کے کَچھ سے لوگ افریقہ گئے تھے اور انہوں نے مشکل حالات میں ہمارے ورکروں نے جی جان سے کام کرکے افریقہ میں جدید ریل کی بنیاد رکھنے میں بڑا رول ادا کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں آج افریقہ میں جائیں گے تو دوکان کا لفظ بیحد عام ہے، یہ دوکان لفظ گجراتی ہے۔ روٹی، بھاجی یہ افریقہ کی روز مرہ کی زندگی سے جڑے ہوئے الفاظ ہیں۔ مہاتما گاندھی جیسے عالمی لیڈر کیلئے بھی گجرات اگر ان کی جنم بھومی تھی، تو افریقہ ان کی پہلی کرم بھومی تھی۔ افریقہ کے تئیں یہ قلبی تعلق اور یہ اپنا پن آج بھی بھارت کی خارجہ پالیسی کے مرکز میں ہے۔ کورونا کے دور میں جب ویکسین کو لیکر پوری دنیا تشویش میں تھی، تب بھارت نے ہمارے افریقی دوست ملکوں کو ترجیح دیتے ہوئے ویکسین پہنچائی۔ ہم نے ہر ضرورت کے وقت دوائیوں سے لیکر امن مشن تک، افریقہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلنے کی کوشش کی ہے۔ اب دفاع کے سیکٹر میں ہمارے درمیان کا باہمی تعاون اور تال میل ان تعلقات کو نئی اونچائی دیں گے۔ ساتھیو، اس پروگرام کا ایک اہم جزو ‘انڈین اوشین ریجن پلس’ کے وزرائے دفاع کا کنکلیو ہے۔ اس میں ہمارے 46 دوست ممالک حصہ لے رہے ہیں۔ آج بین الاقوامی سلامتی سے لیکر عالمی تجارت تک، بحری سیکورٹی ایک عالمی ترجیح بن کر اُبھری ہے۔ 2015 میں میں نے موریشش میں سیکورٹی اینڈ گروتھ فار آل اِن دی ریجن(خطے میں سبھی کیلئے سیکورٹی اور ترقی)یعنی، ‘ساگر’ کا وِژن بھی سامنے رکھا تھا۔ جیسا کہ میں نے سنگا پور میں شنگریلا ڈائیلاگ میں کہا تھا،بھارت- بحرالکاہل خطے میں افریقی ساحلوں سے لیکر امریکہ تک، بھارت کا انگیجمنٹ سب کی شمولیت والا ہے۔ آج عالمی کاری کے دور میں مرچینٹ نیوی کے کردار بھی توسیع ہوئی ہے۔ دنیا کی بھارت سے امیدیں بڑھی ہیں، اور میں دنیا کو یقین دلانا چاہتا ہوں۔ آپ کی امیدوں کو پورا کرنے کیلئے بھارت ہر کوشش کرتا رہے گا۔ ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس لئے، یہ ڈیفنس ایکسپو، بھارت کے تئیں عالمی اعتماد کا عکاس بھی ہے۔ اتنے سارے ملکوں کی موجودگی کے ذریعے دنیا کی بہت بڑی صلاحیت گجرات کی سرزمین پر اکٹھا ہورہی ہے۔ میں اس پروگرام میں بھارت کے سبھی دوست ملکوں اور ان کے مندوبین کا تہہ دل سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں اس شاندار پروگرام کیلئے گجرات کے لوگوں اور خاص طور پر وزیراعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل اور ان کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ملک اور دنیا بھر میں ترقی کو لیکر، صنعتی صلاحیت اسے لیکر کے گجرات کی جو شناخت ہے، آج اس ڈیفنس ایکسپو سے گجرات کی شناخت کو چار چاند لگ رہے ہیں، ایک نئی اونچائی مل رہی ہے۔ آنے والے وقت میں گجرات ڈیفنس انڈسٹری کا بھی ایک بڑا مرکز بنے گا جو بھارت کی سیکورٹی اور اسٹریٹیجک صلاحیت میں گجرات کابھی بہت بڑا تعاون ہوگا، یہ مجھے پورا یقین ہے۔ ساتھیو، میں ابھی اسکرین پر دیکھ رہا تھا، ڈیسا کے لوگ جوش سے بھرے ہوئے تھے، امنگ اور جوش نظر آرہا تھا۔ ڈیسا ایئرفیلڈ کی تعمیر بھی ملک کی سلامتی اور اس سیکٹر کی ترقی کیلئے ایک اہم حصولیابی ہے۔ ڈیسا بین الاقوامی سرحد سے صرف 130 کلو میٹر دور ہے۔ اگر ہماری فورسیز خاص طور پر ہماری فضائیہ ڈیسا میں ہوگی تو ہم مغربی سرحد پر کسی بھی کارروائی کا اور بہتر ڈھنگ سے جواب دے پائیں گے۔ ڈیسا کے بھائیو- بہنو، آپ کو میں گاندھی نگر سے بہت- بہت مبارکباد دیتا ہوں! اب تو ڈیسا، بناس کانٹھا، پٹن ضلع کا ستارہ چمک رہا ہے۔ اس ایئرفیلڈ کے لئے گجرات کی طرف سے سال 2000 میں ہی ڈیسا کو یہ زمین دی گئی تھی۔ جب یہاں میں وزیراعلیٰ تھا تو میں لگاتار اسکے تعمیری کام کیلئے کوشش کرتا تھا۔ اس وقت کے مرکزی سرکار کو اس وقت جو سرکار تھی ان کو بار بار میں سمجھا رہاتھا کہ اس کی اہمیت کیا ہے۔ اتنی ساری زمین دے دی، لیکن 14 سال تک کچھ نہیں ہوا اور فائلیں بھی ایسی بنا دی گئی تھی، ایسے سوالیہ نشان ڈالے گئے تھے کہ مجھے وہاں پہنچنے کے بعد بھی صحیح طریقے سے صحیح چیزوں کو قائم کرنے میں بھی وقت لگا۔ سرکار میں آنے کے بعد ہم نے ڈیسا میں آپریشنل بیس بنانے کا فیصلہ کیا، اور ہماری افواج کی یہ امید آج پوری ہورہی ہے۔ میرے ڈیفنس کے ساتھی جو بھی چیف آف ڈیفنس آپ بنے۔ ہر کسی نے مجھے ہمیشہ اس بات کی یاد دلائی تھی اور آج چودھری جی کی قیادت میں یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے۔ جتنی خوشی ڈیسا کو ہے، اتنی ہی خوشی میرے ایئرفورس کے ساتھیوں کو بھی ہے۔ یہ علاقہ اب ملک کی سیکورٹی کا ایک مؤثر مرکز بنے گا۔ جیسے بانس کانٹھا اور پاٹن اس نے اپنی ایک پہچان بنائی تھی اور وہ پہچان تھی بانس کانٹھا پاٹن گجرات میں شمسی توانائی کا مرکز بن کر ابھرا ہے، وہی بانس کانٹھا پاٹن اب ملک کے لئے فضائیہ کی طاقت کا بھی مرکز بنے گا۔ ساتھیو، کسی بھی مضبوط ملک کیلئے مستقبل میں سیکورٹی کے معنی کیا ہوں گے، اسپیس ٹیکنالوجی اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ فوج کی تینوں شاخوں کے ذریعے اس سیکٹر میں مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا ہے، شناخت کی گئی ہے۔ ہمیں ان کے حل کیلئے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ ‘مشن ڈیفنس اسپیس’ ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اپنی صلاحیت دکھانے کا موقع دیگا۔ اسپیس میں مستقبل کے امکانات کو دیکھتے ہوئے بھارت کو اپنی اس تیاری کو اور بڑھانا ہوگا۔ ہماری دفاعی افواج کو نئے اختراعی حل کھوجنے کوں گے۔ اسپیس میں بھارت کی طاقت محدود نہ رہے، اور اس کا فائدہ بھی صرف بھارت کے لوگوں تک ہی محدود نہ ہو، یہ ہمارا مشن بھی ہے، ہمارا وِژن بھی ہے۔ اسپیس ٹیکنالوجی بھارت کی جدید سوچ والی اسپیس ڈپلومیسی کی نئی تعریفیں گڑھ رہی ہیں، نئے امکانات کو جنم دے رہی ہے۔ اس کا فائدہ کئی افریقی ملکوں کو، کئی دیگر چھوٹے ملکوں کو ہورہا ہے۔ ایسے 60 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک ہیں، جن کے ساتھ بھارت اپنی خلائی سائنس کو ساجھا کررہا ہے۔ ساؤتھ ایشیا سٹیلائٹ اس کا ایک متاثرکن مثال ہے۔ اگلے سال تک، آسیان کے دس ملکوں کو بھی بھارت کے سیٹلائٹ ڈاٹا تک ریئل- ٹائم ایکسیس ملیگا۔ یہاں تک کہ یوروپ اور امریکہ جیسے ترقی پذیر ملک بھی ہمارے سیٹلائٹ ڈاٹا کا استعمال کررہے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ہی، یہ ایک ایسا سیکٹر ہے جس میں سمندری تجارت سے منسلک بے پناہ امکانات ہیں۔ اس کے ذریعے ہمارے ماہی گیروں کے لئے بہتر کمائی اور بہتر سیکورٹی کے لئے ریئل ٹائم اطلاعات مل رہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسپیس سے جڑی ان امکانات کو لامحدود آسمان جیسے سپنے دیکھنے والے میرے ملک کے جوان پورا کریں گے، مقررہ وقت میں پورا کریں گے اور زیادہ معیاری بنائیں گے۔ مستقبل کو گڑھنے والے جوان اسپیس ٹیکنالوجی کو نئی اونچائی تک لے جائیں گے۔ اس لئے ، یہ موضوع ڈیفنس ایکسپو کی ایک اہم ترجیح ہے۔ گجرات کی ا س سرزمین سے ڈاکٹر وکرم سارابھائی جیسے سائنسداں کا حوصلہ اور فخر بھی جڑا ہوا ہے۔ وہ حوصلہ ہمارے عہد کو نئی توانائی بخشے گی۔ اور ساتھیو، آج بات جب ڈیفنس سیکٹر کی بات ہوتی ہے، فیوچر وارفیئر کی بات ہوتی ہے، تو اس کی کمان ایک طرح سے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں بھارت کے نوجوانوں کے اختراع اور تحقیق کا کردار بہت بڑا ہے۔ اس لئے، یہ ڈیفنس ایکسپو، بھارت کے نوجوانوں کے لئے ان کے فیوچر کی ونڈو کی طرح ہے۔ ساتھیو، دفاع کے سیکٹر میں بھارت، انٹینٹ انّوویشن اور امپلی منٹیشن کے منتر پر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج سے 8 سال پہلے تک بھارت کی پہچان دنیا کےسب سے بڑے دفاعی درآمدکاروں کے طور پر ہوتی تھی۔ ہم دنیا بھر سے مال خریدتے تھے، لاتے تھے، پیسے دیتے رہتے تھے۔ لیکن نئے بھارت میں انٹینٹ دکھایا، خوداعتمادی دکھائی، اور ‘میک اِن انڈیا’ آج دفاعی سیکٹر کی کامیابی کی کہانی بن رہا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ہماری دفاعی برآمدات ، ہمارا ڈیفنس ایکسپورٹ آٹھ گنا بڑھا ہے دوستو۔ ہم دنیا کے 75 سے زیادہ ملکوں کو دفاعی ساز وسامان اور آلا ت برآمد کررہے ہیں، ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ 22-2021 میں بھارت کا ڈیفنس ایکسپورٹ1.59 بلین ڈالر یعنی قریب 13 ہزار کروڑ روپئے ہوچکا ہے اور آنے والے وقت میں ہم نے اسے 5 بلین ڈالر یعنی 40 ہزار کروڑ روپئے تک پہنچانے کا ہدف رکھا ہے۔ یہ ایکسپورٹ یہ برآمدات صرف کچھ آلات تک محدود نہیں ہیں، صرف کچھ ملکوں تک محدود نہیں ہے۔ بھارتی دفاعی کمپنیاں آج گلوبل سپلائی چین کا اہم حصہ بن رہی ہیں۔ ہم عالمی معیار کے جدید ترین آلات کی سپلائی کررہے ہیں۔ آج ایک اور کئی ملک بھارت کے تیجس جیسے جدیدترین فائٹر جیٹ میں دلچسپی دکھا رہے ہیں، تو وہیں ہماری کمپنیاں امریکہ ، اسرائیل اور اٹلی جیسے ملکوں کو بھی دفاعی آلات کے کل پُرزے سپلائی کررہی ہیں۔ ساتھیو،ہر بھارتی کو فخر ہوتا ہے، جب وہ سنتا ہے کہ بھارت میں تیا رکردہ برہموس میزائیل، اپنے زمرے میں سب سے تباہ کن اور سب سے جدید مانی جاتی ہے۔ کئی ملکوں کے لئے برہموس میزائل ان کا پسندیدہ انتخاب بن کر اُبھری ہے۔ ساتھیو، بھارت کی ٹیکنالوجی پر آج دنیا بھروسہ کررہی ہے، کیونکہ بھارت کی افواج نے ان کی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ بھارت کی بحریہ نے آئی این ایس-وکرانت جیسے جدیدترین ایئرکرافٹ کریئر کو اپنے بیڑے میں شامل کیا ہے۔ یہ انجینئرنگ کا عظیم اور وسیع ماسٹر پیس کوچین شپ یارڈ لمیٹیڈ نے ملکی تکنیک سے بنایا ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ‘میک اِن انڈیا’ کے تحت بنائے گئے لائٹ کمبیٹ ہیلی کاپٹر کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہماری بحریہ بھی آج سودیشی توپوں سے لیکر کمبیٹ گنس تک بھارتی کمپنیوں سے خرید رہی ہے۔ یہاں گجرات کے ہجیرا میں بن رہی ماڈرن آرٹیلری، آج ملک کی سرحد کی حفاظت بڑھا رہی ہے۔ ساتھیو، ملک کو اس مقام تک لانے کیلئے ہماری پالیسیاں، ہماری اصلاحات اور تجارت کرنے کی آسانی میں بہتری کابڑا رول ہے۔ بھارت نے اپنے دفاعی خرید بجٹ کا 68 فیصد بھارتی کمپنیوں کیلئے مخصوص کیا ہے، ایئرمارک کیا ہے۔ یعنی جو ٹوٹل بجٹ ہے اس میں سے 68 فیصد بھارت میں بنی بھارت کے لوگوں کے ذریعے بنی ہوئی چیزں کو خریدنے کے لئے ہم نے ایئرمارک کردیا ہے۔ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ اس لئے ہوا ہے کہ بھارت کی فوج کو جو ترقی پذیر قیادت ملی ہے، وہ فوج میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے حوصلے کےسبب یہ فیصلہ ہوپارہا ہے۔ یہ سیاسی عزم سے ہونے والے فیصلے نہیں ہیں۔ یہ فیصلے فوج کی قوت ارادری سے ہوتی ہے اور آج مجھے فخر ہے کہ میرے پاس ایسے جوان ہیں، میری فوج کے ایسے افسر ہیں کہ ایسے اہم فیصلوں کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے ڈیفنس سیکٹر کو تحقیق اور اختراع کیلئے اسٹارٹ اپس، انڈسٹری اور اکیڈمیوں کیلئے کھولا، 25فیصد تحقیق کا بجٹ ہم نے باہر جو اکیڈمیاں ہیں، نئی نسل ہے، ان کے ہاتھوں میں سپرد کرنے کا ہمت والا فیصلہ کیا ہے، اور میرا بھروسہ میرے ملک کی نوجوان نسل میں ہے۔ اگر بھارت سرکار ان کو سو روپئے دیگی، مجھے پکّا یقین ہے کہ وہ ملک کو دس ہزار روپئے لوٹا کر کے دے دیں گے، یہ میرے ملک کی نوجوان نسل میں دم ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سرکار کی کوششوں کے ساتھ بھی ہماری افواج نے بھی آگے آکر یہ طے کیا ہے کہ ملک کی سیکورٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ ساز وسامان ملک کے اندر جو بنا ہے، اسی کو خریدیں گے۔ فوجوں نے ملکر کئی سامان کی دو لسٹ بھی طے کی ہے۔ انہوں نے ایک لسٹ و بنائی ہے، جس میں صرف ملک میں بنی ہوئی چیزوں کی خریدی کی جائے گی، اور کچھ لسٹ ایسی ہیں جو ضروری ہوگا تو باہ رسے لی جائے گی۔ آج مجھے خوشی ہے۔ مجھے بتایا گیا آج انہوں نے اس میں 101 چیزیں نئی آج جوڑ دی ہیں، جو صرف بھارت میں بنی چیزیں لی جائیں گی۔ یہ فیصلے آتم نربھر بھارت کے اہلیت کو بھی دکھاتے ہیں، اور ملک کے جوانوں کا اپنے ملک کے فوجی ساز وسامان کو لیکر بڑھ رہے بھروسے کی بھی علامت ہیں۔ اس لسٹ کے بعد سیکورٹی سیکٹر کے ایسے 411 ساز وسامان اور آلات ہوں گے، جنہیں بھارت صرف ‘میک اِن انڈیا’ کے تحت خریدیگا۔ آپ تصور کیجئے، اتنا بڑا بجٹ بھارتی کمپنیوں کی بنیاد کو کتنا مضبوط کریگا، ہماری تحقیق اور اختراع کو کتنی بڑی طاقت دیگا۔ ہمارے ڈیفنس مینوفیکچرنگ سیکٹر کو کتنی بڑی بلندی دیگا! اور اس کا کتنا بڑا فائدہ میرے ملک کی نوجوان نسل کو ہونے والا ہے۔ ساتھیو، اس چرچا کے درمیان ایک اور موضوع ضرور کہنا چاہتا ہوں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو ہمیں سمجھنا ہوگا، جو کمنٹیٹرس ہوتے ہیں، وہ بھی کبھی کبھی ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں۔ لیکن میں کہنا صرور چاہوں گا، ہمارا زندگی کا بہت تجربہ ہے۔ جب ہم ٹرین کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ اگر ایک سیٹ پر چار لوگ بیٹھے ہیں اور پانچواں آجائے تو یہ چاروں ملکرکے پانچویں کو گھسنے نہیں دیتے ہیں، روک دیتے ہیں۔ ٹھیک وہی صورتحال دفاع کی دنیا میں مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی رہی ہے۔ دنیا میں ڈیفنس سپلائی کے شعبے میں کچھ ایک کمپنیوں کی جو اجارہ داری چلتی ہے، وہ کسی کو گھسنے ہی نہیں دیتے تھے۔ لیکن بھارت نے ہمت کرکے اپنی جگہ بنالی ہے۔ آج دنیا کے لئے بھارت کے نوجوانوں کا یہ ہنر ایک متبادل بن کر اُبھر رہا ہےدوستو۔ بھارت کے نوجوانوں کا ڈیفنس کے سیکٹر میں جو طاقت اُبھر کرکے سامنے آرہی ہے۔ وہ دنیا کا بھلا کرنے والی ہے۔ دنیا کے نئے مواقع دینے والی ہے۔ متبادل کے لئے نئے مواقع پیدا کرنے والی ہے۔اورہمارے نوجوانوں کی یہ کوشش مجھے پورا یقین ہے کہ نوجوانوں کی کوشش کے سبب آنے والے دنوں میں ملک کا دفاع کا سیکٹر تو مضبوط ہوگا ہی ہوگا، لیکن ساتھ ساتھ ملک کی صلاحیت میں ملک کے نوجوانوں کی صلاحیت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔ آج کے اس ڈیفنس ایکسپو میں جو چیزیں ہم دکھا رہے ہیں اس میں میں گلوبل گڈ کا بھی اشارہ دیکھ رہا ہوں۔ اس کا بڑا فائدہ دنیا کے چھوٹے ملکوں کو ہوگا، جو وسائل کی کمی کے سبب اپنی سیکورٹی میں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ ساتھیو، بھارت دفاعی سیکٹر کومواقع کے لامحدود آسمان کے طور پر دیکھتا ہے، مثبت امکانات کے طور پر دیکھتا ہے۔ آج ہمارے یہاں یوپی اور تملناڈو میں دو دفاعی راہداریاں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ دنیا کی کئی بڑی بڑی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے آرہی ہیں۔ اس سرمایہ کاری کے پیچھے سپلائی چین کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تیار ہورہا ہے۔ ان بڑی کمپنیوں کو ہماری ایم ایس ایم ایز، ہماری چھوٹی صنعتوں کو بھی اس کی وجہ سے طاقت مل جاتی ہے اور ہمارے ایم ایس ایم ایز تعاون کریں گی، اور مجھے یقین ہے ہمارے ان چھوٹی چھوٹی صنعتوں کے ہاتھ میں پونجی پہنچنے والی ہے۔ اس سیکٹر میں لاکھوں کروڑ وں کی سرمایہ کاری سے نوجوانوں کیلئے ان سیکٹروں میں روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہونے والے ہیں، اور ایک نئی ترقی کی اونچائی کو حاصل کرنے کا امکان پیداہو جاتا ہے۔ میں گجرات ڈیفنس ایکسپو میں موجود سبھی کمپنیوں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں ، آپ ان مواقع کو مستقبل کے بھارت کو مرکز میں رکھ کر شکل دیں۔ آپ موقع جانے مت دیجئے، آپ اختراع کریئے، دنیا میں بہترین بننے کا عہد کیجئے اور مضبوط ترقی یافتہ بھارت کے سپنوں کو شکل دیجئے۔ میں نوجوانوں کو، محققین کو ، اختراع کاروں کو یقین دلاتا ہوں، میں آپ کے ساتھ ہوں، آپ کے روشن مستقبل کیلئے میں اپنا آج آپ کے لئے خرچ کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ساتھیو، ملک بہت تیز ی سے بدل رہا ہے، آپ بھی تجربہ کرتے ہوں گے۔ یہی ملک کوئی زمانہ تھا ، جب کبوتر چھوڑا کرتا تھا۔ آج چیتا چھوڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس طاقت کے ساتھ واقعات چھوتے ہوتے ہیں۔ لیکن اشارے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ لفظ ہمیشہ آسان ہوتے ہیں، لیکن طاقت بے مثال ہے، اور آج ہندوستان کی نوجوان طاقت، بھارت کی طاقت دنیا کے لئے امید کا مرکز بن رہی ہے۔ اور آج کا یہ ڈیفنس ایکسپو اسی کا ایک روپ لیکر آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ میں اپنے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ جی کو صمیم قلب سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں کہ اس کا م کیلئے جو کڑی محنت انہوں نے کی ہے ، جو کوشش کی ہے۔ کم بولتے ہیں، لیکن بہت مضبوطی سے کام کرتے ہیں۔ میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ سب کو بہت بہت مبارکباد اور آنے والی دیوالی کے تیوہارں کی بھی مبارکباد۔ گجرات کے لوگوں کو نیا سال مبارک ہو۔ شکریہ۔ ڈسکلیمر: وزیر اعظم کی تقریر کاکچھ حصہ کہیں کہیں پر گجراتی زبان میں بھی ہے، جس کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ م ع۔ع ن (),"গুজৰাটৰ গান্ধীনগৰত মহাত্মা গান্ধী সমাৰোহ আৰু প্ৰদৰ্শনী কেন্দ্ৰত ডেফএক্সপ’, ২২ৰ উদ্বোধনৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%85%D9%88%DA%BA-%D9%88-%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%9F%E0%A6%A8-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%81-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں سیاحت کے شعبے میں ہونے والی ترقی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انفارمیشن اینڈ پی آر، جموں و کشمیر کے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’حیرت انگیز خبر! جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کی گرمجوشی اور مہمان نوازی کے لیے مبارکباد‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,পৰ্যটন খণ্ডত জম্মু আৰু কাশ্মীৰে প্ৰগতিশীল উন্নয়ণৰ অভিলেখ গঢ়াৰ বাবে সন্তুষ্টি প্ৰকাশ কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4/,نئی دہلی،28/جنوری۔ بھارت ماتا کی جے بھارت ماتا کی جے بھارت ماتا کی جے بھارت ماتا کی جے کابینہ کی میری رفیق، ملک کی پہلی خاتون جو وزارت دفاع کو سنبھالتی ہیں، محترمہ نرملا سیتا رمن جی، ڈاکٹر سبھاش بھامرے جی، تینوں افواج کےافسرانِ اعلیٰ، این سی سی کے ڈائریکٹر جنرل، بیرون ملک سےتشریف لائے ہوئے ہمارے مہمان اور این سی سی کی عظیم روایت کا حصہ آپ سب میرے نوجوان ساتھی۔ نیشنل کیڈٹس کارپس کے یوم جمہوریہ کیمپ میں ایک بار پھر آپ کے درمیان آنا ہر بار کی طرح مسرور کررہا ہے۔ جب بھی میں آپ کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے آتا ہوں تو ماضی کی متعدد یادیں دل و دماغ میں ابھر آتی ہیں۔ جوش اور نظم و ضبط کے جو دن آپ جی رہے ہیں، مجھے بھی ان لمحات کو جینے کا موقع ملا ہے۔ ایک کیڈٹ کے طور پر گزارے گئے وہ دن آج تک میرے عزم کو، میری تحریک کو توانائی دے رہے ہیں۔ ساتھیو، اس کیمپ کا اپنے آپ میں ایک قابل فخر ماضی بھی ہے اور مستقبل کے تعلق سے اس کی بہت بڑی اہمیت بھی ہے۔ اس کیمپ کا حصہ بنے آپ سبھی کیڈٹس کو میں بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ گزشتہ برس جب میں آپ کے درمیان آیا تھا تو میں نے آپ سے کچھ گزارش کی تھی۔ ملک اور سماج سے متعلق اہم موضوعات میں سرگرم تعاون کے لئے آپ سے اپیل کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ گزشتہ برس این سی سی کے کیڈٹس نے اپنے اہم اقدامات کے ساتھ خود کو جوڑا۔ سوچھ بھارت مہم ہو، ڈیجیٹل ٹرانزیکشن ہو، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ مہم ہو، ماحولیات سے متعلق امور ہوں، عوامی بیداری کے متعدد ایسے امور کے تعلق سے آپ کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ خاص طور پر کیرالہ میں تباہ کن سیلاب کے بعد راحت اور بچاؤ کے کاموں میں این سی سی کے کیڈٹس کا تعاون بہت ہی قابل تعریف ہے۔ تعاون اور خودسپردگی کا یہ سبق آپ نے یہاں سیکھا ہے، اس کو آپ کیرالہ میں مشکل میں گرفتار اپنے لوگوں کو راحت دینے میں بروئے کار لائے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسی طرح اپنے فرائض نبھاتے رہیں گے۔ ساتھیو، دو دن قبل ہی ہماری جمہوریت نے ستّرویں سال میں قدم رکھا ہے۔ پہلے راج پتھ پر اور آج یہاں پر آپ کے چہرے کی چمک اور آپ کے نظم و ضبط کی جھلکیاں نظر آئیں اور جھلکیوں میں مجھے نئے بھارت کا قدم تال نظر آتا ہے۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ، سینہ چوڑا کئے، سر کو اونچا رکھے، قوم کے فخر کے لئے مستعد یہ غیرمعمولی توانائی و حوصلہ دینے والے ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ جوش، آپ کا یہ حوصلہ ہی ہے جس کے سبب بھارت آج نئے اعتماد سے لبریز ہے۔ آج دنیا کہہ رہی ہے کہ بھارت نہ صرف امکانات سے پُر ملک ہے بلکہ اس کو عملی شکل بھی دے رہا ہے۔ ساتھیو، ملک کی معیشت ہو یا پھر دشمن سے نمٹنے کی ہماری اہلیت، ہر سطح پر ہماری صلاحیتوں کی توسیع ہوئی ہے۔ ہماری فوج نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہم چھیڑتے نہیں ہیں، لیکن کسی نے اگر چھیڑا تو ہم اسے چھوڑتے بھی نہیں ہیں۔ ہم امن کے مضبوط حامی ہیں، لیکن قومی سلامتی کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہم چوکیں گے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں ملک کے دفاع اور سلامتی کو سب سے اوپر مانتے ہوئے متعدد اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ ساتھیو، بھارت دنیا میں ان چنندہ ملکوں میں شامل ہوا ہے جس کے پاس پانی، خشکی اور فضا سے جوہری حملے اور اپنا تحفظ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے علاوہ دہائیوں سے لٹکے پڑے لڑاکو طیاروں اور جدید توپوں سے متعلق معاہدوں کو زمین پر اتارا گیا ہے۔ ملک میں بھی میزائل سے لے کر ٹینک، گولہ بارود اور ہیلی کاپٹر بنائے جارہے ہیں۔ میں، آپ نوجوان ساتھیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ آنے والے وقت میں ہر وہ بڑا اور کڑا فیصلہ لیا جائے گا جو ملک کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ اگر ملک محفوظ رہے گا، اہل رہے گا تبھی نوجوان اپنے خوابوں کی عملی تعبیر پاسکیں گے۔ ساتھیو، آپ یہاں ملک کے الگ الگ علاقوں سے آئے ہیں۔ آپ میں سے کئی چھوٹے چھوٹے گاؤوں سے، قصبوں سے، الگ الگ پس منظر سے ہیں۔ مجھے آپ سبھی کی محنت کا احساس ہے۔ آپ کی خودسپردگی کا احساس ہے۔ میں آپ کو صرف یہی کہوں گا کہ یہی محنت ہم سب کو خوش حال بناتی ہے۔ ہماری بنیاد کو مضبوط کرتی ہے۔ محنت کا کیا نتیجہ ہوتا ہے یہ جاننے کے لئے این سی سی کے آپ کیڈٹس کو بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے اندر سے ہی مختلف ساتھیوں نے حال ہی میں غیرمعمولی حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو فخر کے لمحات دیے ہیں۔ کوہ پیمائی اور ٹریکنگ جیسی حوصلہ مندانہ سرگرمیاں ہوں یا پھر کھیل کے میدان پر ترنگا لہرانے کا کام، متعدد کیڈٹس آگے آئے ہیں۔ شمال مشرقی ڈائریکٹوریٹ کی کیڈٹ ہیما داس کو تو آج دنیا قابل فخر انداز سے جاننے لگی ہے۔ دھان کے کھ��توں میں دوڑتے دوڑتے، کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر توازن برقرار رکھتے ہوئے ہیماداس آج اس مقام پر پہنچی ہیں۔ محرومی کو موقع بناتے ہوئے ہیما نے پہلے جونیئر ایتھلیٹک چمپئن شپ میں اور پھر ایشیائی کھیلوں میں ملک کے وقار کو بڑھایا۔ ایسے متعدد نوجوان صلاحیتوں کو جب میں دیکھتا ہوں، جب ان سے ملتا ہوں، میرا بھروسہ تو مضبوط ہوتا ہی ہے، اس بھروسے کو اور مضبوط کرنے کی توانائی بھی ملتی ہے۔ ساتھیو، خواب دیکھنا اور امنگوں کو پرواز دینا یہی نوجوانوں کی شناخت ہوتی ہے۔ یہی اس کا فطری میلان ہوتا ہے۔ اپنے خوابوں اور آرزوؤں کو اور بلند پرواز کرنے دیجئے۔ اپنی کوششوں کو پوری وسعت دیجئے۔ موجودہ حکومت ملک کے ہر نوجوان کو ہر خواب دیکھنے والوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی ہے اور قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے تیار ہے۔ نیا ہندوستان ہر جفاکش کو احترام دے گا، موقع دے گا۔ آپ سبھی ساتھی جب ملک کی ورک فورس میں جانے کے لئے تیار ہیں ، تب میں آپ کو یہ بھروسہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے کس خاندان میں جنم لیا، آپ کی جان پہچان کس سے ہے، آپ کی مالی حالت کیسی ہے، اس بنیاد پر آپ کا مستقبل طے نہیں ہوتا، آپ کی ہنرمندی، آپ کی خوداعتمادی، آپ کے قدموں کے چھالے ہی آپ کو نتائج دینے والے ہیں۔ ساتھیو، اس روایت کو توڑنے کے لئے سماج میں ہر طرح کے عدم توازن، عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے ایک بامعنی کوشش ضروری ہے۔ وی آئی پی نہیں ای پی آئی یعنی ایوری پرسن اِز امپورٹینٹ۔ اس سنسکار کو مضبوط کرنے کی کوشش لگاتار ہورہی ہے۔ گاڑی کے اوپر سے لال بتی ہٹائی گئی ہے۔ اب دماغ سے بھی اس کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آپ مطمئن رہیں، آپ کے خوابوں کو، آپ کی آرزوؤں کو صرف محرومیوں اور حالات کے سبب مرنے نہیں دیا جائے گا۔ دوستو!مواقع کی یکسانیت کی جب جب بات آتی ہے، تو ایک اہم ترین موضوع ہماری بیٹیوں سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ میرے سامنے بیٹھے آپ تمام کیڈٹس چاہے وہ بیٹے ہوں یا پھر بیٹیاں آپ کے جوش میں اور آپ کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بیٹیوں کو ہر قسم کے مواقع سے جوڑنا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران بیٹیوں کو ورک فورس میں ترغیب دینے کے لئےمتعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ محنت، خدمت اور صنعت کاری کے ساتھ ساتھ ملک کی دفاع کو بھی ہماری خواتین مستحکم کر رہی ہیں۔ اس کے لئے کئی تاریخی قدم اٹھائے گئے ہیں۔ پہلی بار ہماری بیٹیاں فائٹر پائلٹ بنی ہیں ۔ تارِنی کی بہادری کو دنیا نے دیکھا ہے۔ اب فوج میں بھی بیٹیوں کی حصہ داری کو مستحکم کرنے کا بڑا فیصلہ لیا گیا ہے۔ ملٹری پولیس کی ٹوٹل کور میں 20فیصد خواتین کی بھرتی کے لئے قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ دوستو! ناری شکتی کا دم، بیتے ساڑھے چار سالوں کے دوران راج پتھ پر بھی دیکھا ہے۔ پچھلی بار مہلا سوات دستہ راج پتھ پر اترا تھا، تو اس سال ملک کی تاریخ میں پہلی بار خاتون جوانوں کی پوری ٹکڑی پریڈ شامل ہوئی ہے۔ ملک نے تو یہ بھی پہلی بار دیکھا کہ مرد ٹکڑی کی قیادت ایک بیٹی نے کی ہے۔ بیٹیا سماج کے ہر شعبے میں قیادت کریں، اس کے لئے بہتر ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال کی پوری تصویر کو آپ دیکھیں گے، تو آپ کو یقین ہوگا کہ اب خواتین کو بااختیار بنانا بیٹیوں کی حصہ داری پر بات چیت نہیں، بلکہ کارروائی ہو رہی ہے۔ دوستو!مواقع کی یکسانیت کے راستے میں بدعنوانی بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ رشوت خوری، کنبہ پروری، اپنا پرایا ہمارے نظام میں اس کے لئے کوئی مقام نہیں ہونا چاہئے۔ بدعنوانی، نئے ہندوستان کا چلن نہیں ہو سکتا۔ میری حکومت کی سوچ اور کارروائی دونوں اس بات گواہ ہے کہ بدعنوانی کرنے والا کتنا بھی بڑا ہو، کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، کوئی بھی نہیں بچے گا۔ اپنی رسائی سے کارروائیوں کو متاثر کرنے والوں کو، دلالوں اور بچولیوں کی وساطت سے ہر فیصلے، ہر فائل کی بولی لگانے والوں کو غریب سے غریب ترین شخص کے حق کو لوٹنے والوں کی صفائی کرنے میں پوری شدت اورایمانداری سے لگا ہوا ہوں۔ دوستو!آج حکومت جو کچھ بھی کر پا رہی ہے، اس کے پیچھے آپ سبھی نوجوان دوستوں کا سرگرم تعاون ہے۔ سوچھ بھارت سے ملک میں صفائی کی تحریک کو آپ نے آگے بڑھایا ہے۔ نوٹ بندی جیسے کڑے فیصلے سے بدعنوانی کیخلاف لڑائی کو آپ نے طاقت بخشی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کے ذریعے ایماندار اور شفاف نظام بنانے میں آپ کا بہت اہم کردار ہے۔ یعنی ہر یوجنا کو آپ نے سرکار بننے سے بچایا ہے۔ آپ سے ایک اور اپیل ہے کہ ملک کی وراثت، ملک کے قومی ہیرو کی یادگار سے جڑا ہوا گزشتہ 4سالوں میں یہاں دلی میں ایسے متعدد پوتراستھان بنائے گئے ہیں، جہاں آپ جائیں گے، تو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ وہاں سے ہو بھی آئے ہوں، لیکن پھر بھی آپ کوان کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ جیسے حال ہی میں لال قلعہ میں کرانتی مندر کی نقاب کشائی ہوئی ہے۔ یہ کرانتی مندر نیتا جی سبھاش چندر بوس کو منسوب ہے۔ جب آپ وہاں جائیں گے، تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ آزاد ہند فوج اور لال قلعہ کا کیا تعلق ہے۔ اسی طرح پچھلے سال راشٹریہ پولیس اسمارک کا بھی افتتاح ہوا ہے۔ ملک کے اندرونی علاقوں میں قانون اور نظم و نسق کو بنائے رکھنے کےلئے شہید ہوئے ہزاروں پولیس اور سکیورٹی فورسیز کی یاد میں اس اسمارک کی تعمیر ہوئی ہے۔ آپ سبھی علی پور روڈ پر بنے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے پَری نِروان استھل پر بھی جا سکتے ہیں۔ دوستو! یہ جگہ ہے، جو دلی کی نئی پہچان بن رہی ہے۔ سردارپٹیل کا نیا اسمارک دلی میں بنا ہے۔ ڈیجیٹل میوزیم بنایا گیا ہے۔ان مقامات پر آپ کو تاریخ سے جڑے متعدد عظیم ہستیوں سے متعلق معلومات حاصل ہوں گی ہی، ساتھ ہی ملک کے لئے کام کرنے کی، سماج کے لئے کام کرنے کی نئی توانائی بھی حاصل ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی اس توانائی سے نیو انڈیا کا نیا جوش اور بلند ہوگا۔ آنے والے مہینوں میں ایک اور نذرانہ اور ایک پریرنا استھل طویل انتظار کے بعد ملک کے نام وقف ہونے والا ہے۔ آزادی کے بعدملک کےلئے مرمٹنے والے ہماری بہادر جوان، ہماری فوج کے جوان کا قومی سطح کا ایک وار میموریل، اس کا انتظار کر رہا تھا۔ ملک کے نوجوان انتظار کر رہے تھے کہ بہادروں کے خانوادوں کے ممکنہ انتظار ، لمبے عرصے سے وہ بھی اٹکا پڑا تھا۔ یہ کام سالوں پہلے ہونا چاہئے تھا، لیکن حکومت کے آنے کے بعد ہم نے فیصلہ لیا اور وہ اب وہ پوری طرح سے فروری میں ملک کے بہادر اور شہیدوں، جنہوں نے قربانی دی ہے، ایسے بہادروں کی یاد میں ہندوستان کے ایک قومی سطح کا وار میموریل تقریباً تیار ہو چکا ہے۔فروری میں اس کا بھی افتتاح کرنے کا موقع ملے گااور ہمارے بہادر جوانوں کی عزت افزائی کا بھی موقع حاصل ہوگا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ یہ موقع ہماری سوچ کو بدلتا ہے۔ مہینے بھر کا یہ حقیقی معنی میں ہمواری ہر سوچ کو قومی سطح پر لے جاتا ہے۔ ہر سوچ میں ہم اپنے ملک کے لئے کیا سوچتے ہیں۔ صرف اپنا گا��ں ، اپنا محلہ ، اپنی ذات، اپنی برادری نہیں، بلکہ ملک کے بارے میں سوچنے کے لئے یہ موقع ملتا ہے۔ کسی بھی ملک کا بڑا بننا، آگے بڑھنا، اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں کے نظام میں یکجہتی، میں بندھے ہوئے لوگ ہوں۔ اس ملک کی ترقی کی دوسری بنیاد یہ ہے کہ وہ کتنے امیدافزا ہیں، کتنی امیدوں سے بھرے ہوئے ہی۔ مایوسی میں ڈوبا ہوا سماج نہ کبھی خود کو اوپر لے جا سکتا ہے اور نہ کبھی ملک کو اوپر لے جا سکتا ہے۔ آج میں فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ سوا سو کروڑ ہندوستا نی نئی امیدوں اور توقع سے بھرے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ میرا ملک نئی بلندیوں پر پہنچے گا۔ خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرے گااور جن خوابوں کیلئے آزادی کے دیوانوں نے ، آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر بھارت ماتا کی جے کار کا گان کرتے ہوئے ان خوابوں کو نئی بلندیاں دیں، نئی طاقت دیں، نیا عزم کریں ۔میرے ساتھ بولیں۔ بھارت ماتا کی جے۔ بھارت ماتا کی جے۔ بھارت ماتا کی جے۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,নতুন দিল্লীত এনচিচিৰেলীত অংশগ্ৰহণ কৰি প্রধানমন্ত্রীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B1%D9%88%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%89%E0%A6%A3%E0%A7%80-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیراعظم پٹنہ میٹرو ریل پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے وزیراعظم پٹنہ سٹی گیس ڈسٹری بیوشن پروجیکٹ کا افتتاح کریں گے پٹنہ میں ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا جائے گا وزیراعظم برونی ریفائنری ایکسپنشن کا سنگ بنیاد رکھیں گے چھپر اور پورنیہ میں میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھیں گے ، وزیراعظم دیگر پروجیکٹوں کی نقاب کشائی بھی کریں گے نئی دہلی، 16 فروری 2019/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کل 17 فروری2019 کوبہار کا دورہ کریں گے۔ وہ برونی پہنچیں گے جہاں وہ بہار کے لئے متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کا آغاز کریں گے۔ یہ پروجیکٹ خصوصاً پٹنہ شہر اور آس پا س کے علاقوں میں کنکٹی ویٹی کو توسیع دیں گے ۔ یہ پروجیکٹ شہر اور اس علاقے میں توانائی کی دستیابی کو خصوصی طو رپر فروغ دیں گے۔ یہ پروجیکٹ فرٹیلائزر کی تیاری کو بھی فروغ دیں گے اور خصوصی طور پر بہار میں طبی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات کی توسیع کریں گے۔ پروجیکٹوں کی شعبے وار تفصیل درج ذیل ہے: شہری ترقیات اور صفائی ستھرائی وزیراعظم پٹنہ میٹرو ریل پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے جس سے نقل و حمل کنٹی ویٹی کو فروغ حاصل ہوگا اور پٹنہ اور آس پاس کے لوگوں کی زندگی میں مزید آسانی پیدا ہوگی۔ وزیراعظم پٹنہ میں ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم 96.54 کلو میٹر کے رقبے میں پھیلے کرمالی چک سیوریج نیٹ ورک کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم باڑھ سلطان گنج ، نوگچیا میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ سے متعلق کاموں کا آغاز کریں گے۔ وہ مختلف مقامات پر 22 امرت (اے ایم آر یو ٹی) پروجیکٹوں کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ ریلویز وزیراعظم درج ذیل سیکٹر ز میں ریلوے لائنوں کی برق کاری کا افتتاح بھی کریں گے: برونی –کمیدپور مظفر پور-رکسول فتح پور-اسلام پور بہار شریف- دنیاواں رانچی –پٹنہ اے سی ویکلی ایکسپریس کا بھی اس موقع پر افتتاح کیا جائے گا۔ تیل اور گیس وزیراعظم مودی پھول پور سے جگدیش پور –وارانسی نیچرول گیس پائپ لائن کے پٹنہ اسٹریچ کا بھی افتتاح کریں گے۔ وہ پٹنہ سٹی گیس ڈسٹریبویشن پروجیکٹ کا بھی افتتاح کریں گے۔ اس موقع پر برونی ریفائنری ایکسپنشن پروجیکٹ کے 9 ایم ایم ٹی اے وی یو کا سنگ بنیا دبھی رکھا جائے گا۔ وزیراعظم درگاپور سے مظفر پور اور پٹنہ تک پارا دیپ –ہلدیہ- درگا پور ، ایل پی جی پائپ لائن کی توسیع کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وہ برونی ریفائنری میں اے ٹی ایف ہائیڈر و ٹریٹنگ یونٹ (آئی این ڈی جے اے ٹی) کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ ان پروجیکٹوں سے شہر اور خطے میں خصوصی طور پر توانائی کی دستیابی میں اضافہ ہوگا۔ صحت: وزیراعظم سارن ، چھپرہ اور پورنیہ میں میڈیکل کالجوں کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم بھاگل پور اور گیا میں گورنمنٹ میڈیکل کالجوں کے اپگریڈیشن کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ فرٹیلائزرس: وزیراعظم برونی میں امونیا –یوریا، فرٹیلائزر کامپلیکس کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے ۔ برونی سے وزیزاعظم جھارکھنڈ جائیں گے جہاں وہ ہزاری باغ اور رانچی کا دورہ کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ ا گ ۔ ج۔,কাইলৈ বিহাৰৰ বাৰাউণী ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%93%D8%AB%D8%A7%D8%B1-%D9%82%D8%AF%DB%8C%D9%85%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,نئیدہلی،12جولائی۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلی میں واقع تلک مارگ پر ہندوستان کے آثار قدیمہ کی نئی ہیڈ کوارٹر عمارت ’’دھروہر بھون‘‘ کا افتتاح کیا۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ محکمہ آثارقدیمہ نے 150 برس کے دوران کافی کام کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے ملک کی تاریخ کو اعلیٰ مقام پر لے جانے اور آثارقدیمہ کی مالامال وراثت کو اونچا مقام دلانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مقامی تاریخ اور اپنے قصبات ،شہروں اور خطوں کے بارے میں جاننے کے لئے آگے آنا چاہئے ۔ جناب مودی نے یہ بھی کہا کہ مقامی آثار قدیمہ میں اسباق اسکول کے نصاب کا حصہ بن سکتا ہے ۔اس تناظر میں انہوں نے ان تربیت یافتہ مقامی ٹورسٹ گائیڈس کی اہمیت کا بھی ذکر کیا جو اپنے علاقے کی تاریخ اوروراثت سے بخوبی واقف ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کو چاہئے کہ وہ دنیا کو فخر اوراعتماد کے ساتھ اپنی عظیم وراثت کو اجاگر کرے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی نئی ہیڈ کوارٹر عمارت جدید سہولیات سے پوری طرح لیس ہے ، جس میں بارش کے پانیا کو جمع کرکے اسے استعمال کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔اس میں ڈیڑھ لاکھ کتابوں اور جریدوں کے مجموعے کے ساتھ ایک سینٹرل آثار قدیمہ کی لائبریری بھی ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ح ا ۔رم,নতুন দিল্লীত ভাৰতীয় প্ৰত্নতাত্ত্বিক জৰীপ বিভাগৰ মুখ্য কাৰ্যালয় উদ্বোধন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%DA%A9%D8%B4%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%93-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آسام میں ہوئے کشتی کے ایک حادثہ پر بے حد افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسافروں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا: ’’آسام میں ہوئے کشتی کے حادثہ سے غم زدہ ہوں۔ مسافروں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میں سبھی کی حفاظت اور فلاح کی دعا کرتا ہوں۔‘‘,অসমত নাও দুর্ঘটনাত প্রধানমন্ত্রীৰ শোক প্রকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%A6%D9%84-%D9%BE%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,نئی دہلی،12۔اپریل ،مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم جناب نریندرمودی کی قیادت میں بھارت میں آئل پام کی کاشت کے رقبےا ور اس کی پیداوار بڑھانے کے لئے درکار اقدامات کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ اس منظوری کا تعلق آئل پام کاشت کے سلسلے میں این ایم او او پی (تلہن اورآئل پام سے متعلق قومی مشن)کےتحت اراضی کی حدود میں رعایت دینا،این ایم او او پی کے مِنی مشن -2 کے تحت فراہم کی جانے والی امداد کےقواعد اور اصول پر نظرثانی وغیرہ جیسے امور شامل ہیں۔ م ن ۔ ۔ ک ا,ভাৰতৰ পাম তেল ক্ষেত্ৰ আৰু উৎপাদন বৃদ্ধিৰ পদক্ষেপত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%8F%D8%AC%D9%88%D9%8E%D9%84%D8%A7-%D8%B3%D8%A8%D8%B3%DA%88%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D9%84%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%DB%8C%D8%A7-%D8%A2%D8%AC-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%DB%8C%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,"نئی دہلی، 21 مئی 2022: پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں خاطرخواہ تخفیف سے مختلف شعبوں میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ہمارے شہریوں کو راحت حاصل ہوگی: وزیر اعظم وزیر اعظم نے آج کہا کہ اُجوَلا سبسڈی اور پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں تخفیف سے متعلق لیے گئے فیصلے مختلف شعبوں پر مثبت اثرات مرتب کریں گے، ہمارے شہریوں کو راحت بہم پہنچائیں گے اور ’’زندگی کو مزید آرام دہ‘‘ بنائیں گے۔ ان فیصلوں کے تعلق سے وزیر خزانہ کے ٹوئیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’ہمارے لیے عوام سب سے پہلے ہیں آج کے فیصلے، خصوصاً پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں غیر معمولی تخفیف سے متعلق فیصلہ مختلف شعبوں پر مثبت اثرات مرتب کرے گا ، ہمارے شہریوں راحت بہم پہنچائے گا اور’’زندگی کو مزید آرام دہ‘‘ بنائے گا۔‘‘ """,উজ্জ্বলা ৰাজ সাহায্য সন্দৰ্ভত আজিৰ সিদ্ধান্তই পাৰিবাৰিক বাজেটৰ ওপৰত হেঁচা বহুখিনি কমাব: প্রধানমন্ত্র +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AE%D8%B4%D8%AE%D8%A7%D8%B4-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%85%D9%84%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9B-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔24؍مئی۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے خشخاش ( دانے )کی تجارت پر بھارت اور ترکی کے مابین مفاہمتی عرضداشت پر دستخط کیے جانے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ اس کا مقصد ترکی سے خشخاش (دانہ) درآمد کرنے کیلئے تیز رفتار اور شفاف پروسیسن�� کو یقینی بنانا ہے۔ تفصیلات: مذکورہ مفاہمتی عرضداشت کے اہم نکات درج ذیل ہیں: ترکی اناج بورڈ (ٹی اے ایم او) خشخاش کو ترکی سے بھارت برآمد کرنے کے قواعد وضوابط کیلئے آن لائن نظام کا اہتمام کریگا ۔ آن لائن نظام کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے برآمد کار کمپنیاں ایجین ایکسپورٹ ایسوسی ایشن (ای آئی بی) ، قانونی طور پر سونپی گئی ذمہ داری کے توسط سے ٹی ایم او کو درخواست پیش کرے گی۔ ہر ایک سال بھارت کے ذریعے درآمد کیے جانے والے خشخاش (دانے) کی مقدار بھارت کی حکومت اپنی جانب سے حکومت ترکی کے ساتھ تبادلہ خیالات کے بعد طے کریگی۔ اس میں پیداواری سال میں ترکی میں خشخاش کی پیداوار ، گزشتہ پیداواری برسوں کے بقایا اور ترکی جمہوریہ کی گھریلو اور دیگر برآمداتی ضروریات کو مدنظر رکھا جائیگا۔ برآمد کار کمپنیاں ٹی ایم او کے تحت درج رجسٹر ہوں گی۔ بھارتی درآمدکار کے ساتھ برآمد کار کمپنی کے ذریعے کیا جانے والا ہر ایک فروخت معاہدہ آن لائن نظام کے توسط سے ٹی ایم او کے تحت درج رجسٹر ہوگا۔ مذکورہ پیرا گراف نمبر 2 میں متذکرہ مقدار سے زیادہ کے فروخت معاہدے کو درج رجسٹر نہیں کرنے کی ذمہ داری ٹی ایم او کی ہوگی۔ مذکورہ پیرا دو میں متذکرہ مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال طرفین کسی ہندوستانی درآمدکار کے ذریعے پیداواری سال میں درآمد کیے جانے والی مقدار طے کرسکتے ہیں۔ مرکزی نارکوٹکس بیورو (سی بی این) ٹی ایم او کے ذریعے درج رجسٹر فروخت معاہدے کو درج رجسٹر کریگا۔ یہ رجسٹریشن ٹی ایم او کے ذریعے چلائی جانے والے آن لائن نظام اور حکومت ہند کے تحت وزارت خزانہ کے ذریعے رجسٹریشن کیلئے طے شدہ رہنما خطوط کے مطابق ہوگا۔ سی بی این اپنے ذریعے رجسٹر کیے گئے فروخت قرار کو آن لائن نظام پر اپ لوڈ کریگا۔ ٹی ایم او ، سی بی این کے ذریعے درج رجسٹر معاہدوں کے معاملے میں بھی برآمد کی اجازت دیگا۔ فروخت سے متعلق معاہدات اور دیگر ضروری کارروائیاں پوری کرنے کے بعد ٹی ایم او برآمد کاروں کو خشخاش (دانے) کے لئے قانونی پیداوار سرٹیفکیٹ فراہم کرائیگا۔ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت کے تحت ترکی سے خشخاش کی درآمد کیلئے کوٹے کا تعین اور پیشگی پروسیسنگ کے عمل کو تیز اور شفاف بنائے گا۔ اس طرح معقول درآمد معاہدہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور درآمد میں روکاوٹ ڈالنے والے متعدد معاملے ٹالے جاسکیں گے۔ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت بھارت کی گھریلو منڈی میں خشخاش کی لگاتار دستیابی یقینی بنائے گی او ر آخر کار اس سے بھارت کے خشخاش صارفین مستفید ہوں گے۔ پس منظر قانونی تنازعات کی وجہ سے ترکی سے خشخاش کی درآمد رک گئی تھی۔ اس سے بھارت کے گھریلو بازار میں خشخاش کی قیمت میں کافی اضافہ ہوگیا تھا اور کچھ درآمدکاروں کے ذریعے ذخیرہ اندوزی بھی شروع ہوگئی تھی۔ عدالت کے ذریعے متعدد حکم امتناعی جاری کرنے اور سماعت ملتوی ہونے کی وجہ سے صورتحال کافی سنگین ہوگئی تھی اور ملک میں خشخاش کی دستیابی کم سے کم ہوگئی تھی۔ ایسی قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے، قیمتوں میں اضافے اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کیلئے حکومت ہند اور حکومت ترکی کے مابین مفاہمتی عرضداشت کے توسط سے ایک متبادل نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں اصل وقت اور اعداد وشمار کا باہم تبادلہ کیا جاسکے تاکہ یہ امر یقینی بنایا جاسکے کہ ترکی سے درآمد کی گئی خشخاش کی مقدار مناسب ہے ، پیداوار صحیح ہے اور قانونی طور پر ترکی میں ہی اس کی پیداوار ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔��۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2726U-,দ্রুত আৰু স্বচ্ছ পদ্ধতিৰে তুৰ্কীৰ পৰা আফুগুটি ব্যৱসায়ৰ সন্দৰ্ভত ভাৰত আৰু তুৰ্কীৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%88%DA%86%DA%BE-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D9%86-2-0-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%BF-%E0%A6%95-13/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج یہاں سوچھ بھارت مشن-اربن 2.0 اوراٹل مشن فار ری جیوینیشن اینڈ اربن ٹرانسفارمیشن2.0 (امرُت 2.0مشن)کا آغاز کیا۔ اس موقع پر مرکزی وزراء ہردیپ سنگھ پوری ، جناب گجیندر سنگھ شیکاوت ، جناب پرہلاد سنگھ پٹیل ، جناب کوشل کشور ،جناب بشویشورتوڈو ، ریاستوں کے وزراء ، میئر اور اربن لوکل باڈیز کے چیئرپرسن اور میونسپل کمشنر موجود تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 میں ، ہم وطنوں نے بھارت کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کا عہد لیا تھا اور انہوں نے 10 کروڑ سے زائد بیت الخلاء کی تعمیر کے ساتھ اس عہد کو پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب 'سوچھ بھارت مشن-اربن 2.0' کا ہدف شہروں کو کوڑا کرکٹ سے پاک اور مکمل طور پر کچرے سے پاک بنانا ہے۔ وزیراعظم نے مشن امرت کے اگلے مرحلے میں ملک کے ہدف کے دائرہ کار پر زور دیا 'سیوریج (گندے پانے کے نکالنے کا نظام)اور سیپٹک مینجمنٹ(گڈھے والے فلش نظام کی غلاظت صاف کرنے) کو بہتر بنانا ، ہمارے شہروں کو پانی سے محفوظ شہر بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ہمارے دریاؤں میں کہیں بھی گندے پانی کی نکاسی نہ ہونے پائے'۔ وزیر اعظم نے شہروں کی ازسرنو صاف صفائی اورملک میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں اور اس سے متعلق کامیابیوں کومہاتما گاندھی کو وقف کیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشن مہاتما گاندھی کے عزائم اور ان کے ذریعہ دی گئی تعلیمات کا نتیجہ ہیں اور یہ صرف ان کے نظریات کے ذریعے ہی حاصل کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بیت الخلاء کی تعمیر سے ماؤں اور بیٹیوں کے لیے آسانی پیدا ہونے پر بھی روشنی ڈالی۔ قوم کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ سوچھ بھارت ابھیان اور امرت مشن کا اب تک کا سفر ہر ملک کے لیے قابل فخر ہے۔ انہوں نے اس کی منشا اور اس احساس کی وضاحت اس طرح کی ،انہوں نے کہا کہ ""اس میں ایک مشن ہے ، عزت ہے ، وقار ہے ، ملک کے عزائم اور اس کی خواہش بھی ہے اور مادر وطن سے بے لوث محبت بھی ہے""۔ اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ آج کی تقریب امبیڈکر انٹرنیشنل سنٹر میں ہو رہی ہے ، وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ بابا صاحب شہروں کی ترقی کو عدم مساوات دور کرنے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دیہاتوں سے بہت سے لوگ بہتر زندگی کی خواہش کے ساتھ شہروں میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں روزگار ملتا ہے لیکن ان کی معیار زندگی مشکل حالات میں گھری رہتی ہے یہاں تک کہ دیہات میں ان کی زندگی شہروں کی زندگی سے قدرے بہتر ہوتی ہے، وہ شہروں میں بہتر حالت میں نہیں رہ پاتے۔ گھر سے دور رہنا اور اس کے بعد ایسی مشکل صورتحال میں رہنا دوہرے خطرے کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا کہ باباصاحب کا زور اس عدم مساوات کو دور کرکے اس صورت حال کو بدلنے پر ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سوچھ بھارت مشن اور مشن امرت کا اگلا مرحلہ بابا صاحب کے خوابوں کو پورا کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا ، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ، سب کا پریاس – صفائی مہم کے لیے اہم ہے۔ مزید یہ کہ صفائی کے حوالے سے عوامی شراکت کے تعلق سے تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ موجودہ نسل نے صفائی مہم کو مضبوط بنانے کے لیے بڑھ چڑھ کر پہل کی ہے۔ ٹافی ریپرز(چاکلیٹوں کی پلاسٹک) اب زمین پر نہیں پھینکے جاتے بلکہ بچے اسے جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ چھوٹے بچے اب بڑوں سے گندگی سے بچنے کو کہتے ہیں۔ ""ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ صفائی صرف ایک دن ، پندرہ دنوں میں ، ایک سال یا صرف چند لوگوں کا کام نہیں ہے۔ صفائی ہر ایک کے لیے ایک عظیم مہم ہے ، ہر دن ، ہر پندرہ روز ، ہر سال ، نسل در نسل۔ صفائی ایک طرز زندگی ہے ، صفائی بہتر زندگی کا منتر ہے۔ وزیر اعظم نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے گجرات کے سیاحتی امکانات کو فروغ دینے کے لیے اپنی کوششوں کو یاد کیا جہاں انہوں نے نرمل گجرات پروگرام کے ذریعہ صفائی ستھرائی کو عوامی مہم میں بدل دیا تھا۔ صفائی کی مہم کو اگلے درجے تک لے جانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ، آج ہندوستان تقریباًایک لاکھ ٹن کچرے کوپروسیس کر رہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ ، 'جب ملک نے 2014 میں مہم شروع کی ، ملک میں ہر روز پیدا ہونے والے 20 فیصد سے بھی کم فضلہ(گندگی اور کچرا) کو پروسیس کیا گیا ۔ آج ہم روزانہ کچرے کا تقریباً 70 فیصد پروسیس کر رہے ہیں۔ اب ہمیں اسے 100فیصد تک اسے لے کر جانا ہے۔ وزیر اعظم نے وزارت شہری ترقیات کے لیے مختص رقم میں اضافے کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ 2014 سے پہلے کے 7 برسوں میں، وزارت کو تقریباً1.25 لاکھ کروڑ روپے دیے گئے تھے جبکہ 2014 کے بعد کے7 سالوں میں تقریباً 4 لاکھ کروڑ روپے وزارت کے لیے مختص کیے گئے ۔ ملک میں شہروں کی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں قومی آٹوموبائل سکریپیج پالیسی کا ذکر کیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ نئی سکریپنگ پالیسی ویسٹ ٹو ویلتھ اور سرکلر اکانومی کی مہم کو مضبوط کرے گی۔ وزیر اعظم نے شہری ترقی سے متعلق پروگرام میں خوانچہ فروشوں اور ہاکروں کو کسی بھی شہر کے اہم شراکت داروں میں سے ایک قرار دیا۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پی ایم سوانیدھی یوجنا ان لوگوں کے لیے امید کی نئی کرن کے طور پر آئی ہے۔ 46 سے زائد خوانچہ فروشوں نے سوانیدھی اسکیم کے تحت فوائد حاصل کیے ہیں اور 25 لاکھ لوگوں کو 2.5 ہزار کروڑ روپے ملے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ دکاندار ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنے قرضوں کی ادائیگی کا ایک بہت اچھا ریکارڈسنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اترپردیش اور مدھیہ پردیش جیسی بڑی ریاستوں نے اس اسکیم کو نافذ کرنے میں پیش قدمی کی ہے۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মুকলি কৰিলে ‘স্বচ্ছ ভাৰত মিছন-আৰ্বান ২.০’ আৰু ‘অম্ৰুত ২.০ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D9%81-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%AA-%D8%B4%DA%A9%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے معروف گاندھیائی شخصیت شکنتلا چودھری جی کے انتقال پر اپنے گہرے گنج وغم کااظہار کیا ہے ۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘ شکنتلا چودھری جی کو گاندھی جی کے اقدار کے فروغ کے سلسلے میں ان کی طرف سے زندگی بھر کی جانے والی کوششوں کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سرنیاآشرم کے لئے ان کی معتبر خدمات نے بہت سی زندگیوں کو مثبت طور پر متاثر کیا ہے ۔ ان کے انتقال سے مجھے دکھ پہنچا ہے، میری ہمدردیاں ان کے کنبے اوربے شمار مداحوں کے ساتھ ہیں ۔ اوم شانتی’’۔,বিশিষ্ট গান্ধীবাদী নেত্ৰী শকুন্তলা চৌধুৰীৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D9%81%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%B1%DB%92-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%AA/,وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ کو قومی آفات بندوبست اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور جمہوریہ اٹلی کے ڈپارٹمنٹ آف سول پروٹیکشن آف دی پریزیڈنسی آف دی کونسل آف منسٹرس کے درمیان ہوئے آفات کے خطرے کو کم کرنے اور بندوبست کے شعبے میں تعاون سے متعلق مفاہمتی قراردادسے باخبر کرایا گیا۔ فوائد : آفات کے خطرے کو کم کرنے اور بندوبست کے شعبے میں تعاون سے متعلق مفاہمتی قرارداد پر بھارت کی طرف سے این ڈی ایم اے اور جمہوریہ اٹلی کے ڈپارٹمنٹ آف سول پروٹیکشن آف دی پریزیڈنسی آف دی کونسل آف منسٹرس نے دستخط کئے تھے۔ اس مفاہمتی قرارداد کے تحت ایک ایسا نظام بنایا جائے گا ، جس سے بھارت اور اٹلی دونوں کو فائدہ ہوگا۔ اس کے تحت دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے آفات کے بندوبست کے نظام سے فائدہ ہوگا اور آفات کے بندوبست کے شعبے میں تیاری ، ردعمل اور صلاحیت سازی کے شعبوں کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ قومی آفات بندوبست اتھارٹی (این ڈی ایم اے ) اور جمہوریہ اٹلی کے ڈپارٹمنٹ آف سول پروٹیکشن آف دی پریزیڈنسی آف دی کونسل آف منسٹرس کے مابین آفات کے خطرے کو کم کرنے اور بندوبست کے شعبے میں تعاون سے متعلق مفاہمتی قرارداد پر جون 2021 میں دستخط کئے گئے تھے۔,‘দুৰ্যোগৰ বিপদ-সংকূলতা প্ৰশমণ আৰু প্ৰবন্ধন’ৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা সন্দৰ্ভত ভাৰত আৰু ইটালীয়ান ৰিপাব্লিকৰ মাজত সম্পাদিত বুজাবুজিৰ চুক্তিলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-10%D8%AA%D8%A7-13-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-2017-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%B1%D8%AC%D9%86%D9%B9%DB%8C%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%9B-%E0%A6%8F%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 03 جنوری / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے محکمہ تجارت کے ذریعہ پیش کردہ نوٹ اور دسمبر 2017 میں ارجنٹینا کے بوئنس ایئرس میں منعقدہ ڈبلیو ٹی او کی وزارتی سطح کی 11 ویں کانفرنس میں بھارت کے ذریعہ اختیار کئے گئے طریقہ کار کو منظوری دے دی ہے۔ کانفرنس میں اختیار کردہ طریقہ کار کا مقصد وزارتی سطح کی کانفرنس میں بھارت کے مفادات ، ترجیحات اور تشویشات کا تحفظ کرنا تھا۔ کانفرنس کے پیش نظر بالی ؍ نیروبی مینڈیٹ کے مطابق غذائی تحفظ مقاصد کیلئے سرکاری ذخیرہ اندوزی کے مسئلہ پر کسی مستقل حل سے متعلق فیصلے کئے جانے کی توقع تھی۔ ڈبلیو ٹی او کے چند رکن ممالک خدمات میں گھریلو قوانین ،ماہی گیری میں ترغیبات، ای-کامرس، سرمایہ کاری کا راستہ ہموار ہونا اور بہت چھوٹی ، متوسط اور چھوٹی صنعتوں سے متعلق ضوابط پر نتائج کے خواہاں تھے۔ تاہم اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے غذا کی تحفظ مقاصد یا دیگر زرعی امور سے متعلق سرکاری ذخیرہ اندوزی پر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نومبر 2014 میں جنرل کونسل فیصلہ کے ساتھ بالی میں وزارتی سطح پر کیا گیا فیصلہ جس کا دسمبر 2015 میں ڈبلیو ٹی او کی دسویں وزارتی سطح کی کانفرنس میں اعادہ کیا گیا، وہ غذائی تحفظ مقاصد کے لئے سرکاری ذخیرہ اندوزی سے متعلق ایک عبوری میکانزم کی دستیابی کے ذریعے بھارت کا تحفظ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی مستقل حل پر اتفاق رائے ہو جائے اور جسے ڈبلیو ٹی او اختیار کرے۔ اس طرح کم از کم امدادی قیمتوں پر بھارت کے غذائی اجناس کی خریداری کے پروگرام محفوظ ہوگئے۔ کانفرنس کے دوران وزارتی سطح کے جو فیصلے کئے گئے ،ان میں ماہی گیری ترغیبات سے متعلق ضوابط پر ایک ورک پروگرام شامل ہے جس کا مقصد2019 میں ڈبلیو ٹی او کی وزارتی سطح کی بارہویں کانفرنس کسی فیصلے پر پہنچنا ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے راستہ ہموار کرنا، ایم ایس ایم ای اور تجارت جن پر اتفاق رائے نہ ہوسکا، ان جیسے نئے امور پر وزارتی سطح کے فیصلوں کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ ( م ن ۔ ن ا ۔ م ف ۔ ) No. 82,"আর্জেণ্টিনাৰ বুয়েনছ এয়াৰছত ১০-১৩ ডিচেম্বৰ, ২০১৭ত অনুষ্ঠিত বিশ্ব বাণিজ্য সংস্থাৰ একাদশ মন্ত্রী পর্যায়ৰ সন্মিলনত গৃহীত ভাৰতৰ দৃষ্টিভংগীক কেবিনেটৰ অনুমোদন সমর্থন কেন্দ্রীয় মন্ত্রিসভাৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%85%D9%88%DA%BA-%D9%88-%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%A8%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%81-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جموں و کشمیر کی خوبصورتی اور مہمان نوازی کے بارے میں ایک شہری کے ردعمل کو شیئر کیا ہے جس میں بیسرن، آرو، کوکرناگ، اچھبل، گل مرک ، سرینگر اور ڈل جھیل کی خوبصورتی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ایک شہری، جناب رنجیت کمار کے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے 2019 میں سری نگر کےاپنے دورے کی ایک تصویر بھی ٹویٹ کی۔ شہری کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’بہت خوب اچھا۔ میں بھی 2019 میں سری نگر کے اپنے دورے کی ایک تصویر شیئر کرنےسے خود کو روک نہیں پا رہا ہوں۔ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 11205,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে জম্মু-কাশ্মীৰৰ সৌন্দৰ্য আৰু আতিথ্যৰ প্ৰতি নাগৰিকৰ সঁহাৰি ভাগ-বতৰা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DB%8C%D9%84%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%85-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%91%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%AE-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج ٹیلی کام سیکٹر میں کئی ساختی اور عملی اصلاحات کی منظوری دی ہے۔ یہ اصلاحات روزگار بچانے اور نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے مواقع فراہم کریں گی۔ یہ اصلاحات صحت مند مسابقت کو فروغ دیں گی جو صارفین کے مفاد��ت کا تحفظ کریں گی۔ اس سے ٹیلی کام کمپنیوں کو سرمایہ کی لکویڈیٹی بڑھانے اور تعمیل کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ اصلاحات ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کریں گی۔ کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران ٹیلی کام سیکٹر نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران ڈیٹا کی کھپت، آن لائن تعلیم کے پھیلاؤ، سوشل میڈیا کے ذریعے بات چیت میں اضافہ اور ورچوئل ملاقاتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سب کے پس منظر میں، یہ اصلاحی اقدامات براڈ بینڈ اور ٹیلی کام رابطے کے پھیلاؤ اور دخول کو مزید حوصلہ افزائی کریں گے۔ کابینہ کا یہ فیصلہ وزیر اعظم کے مضبوط ٹیلی کام سیکٹر کے وژن کو تقویت دیتا ہے۔ یہ پیکیج مسابقت میں اضافہ کرے گا اور صارفین کو مزید انتخاب فراہم کرے گا، پسماندہ علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے میں مدد کرے گا اور غیر منسلک لوگوں کو جوڑنے کے لیے عالمی براڈ بینڈ رسائی کو یقینی بنائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس پیکج سے 4G کے پھیلاؤ، سرمائے کی لکویڈیٹی کا انفیوژن اور 5G نیٹ ورک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی حوصلہ افزائی کی بھی توقع کی جاتی ہے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کی لکویڈیٹی ضروریات کے لیے نو ساختی اصلاحات، پانچ عملی اصلاحات اور امدادی اقدامات ذیل میں دیے گئے ہیں: ساختی اصلاحات ایڈجسٹڈ گراس ریونیو (اے جی آر) کی معقولیت: غیر ٹیلی کام آمدنی کو ممکنہ بنیاد پر اے جی آر کی تعریف سے خارج کر دیا جائے گا۔ بینک گارنٹی (بی جی) کو معقول بنایا گیا: بینک گارنٹی کی ضروریات (80 فیصد) کو لائسنس فیس اور دیگر اسی طرح کی فیس کے بدلے بہت کم کر دیا گیا ہے۔ ملک میں مختلف لائسنس یافتہ سروس علاقوں میں اب متعدد بینک گارنٹیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے ایک بینک گارنٹی کافی ہوگی۔ شرح سود کو منطقی بنایا گیا/ جرمانہ ہٹا دیا گیا: یکم اکتوبر 2021 سے، لائسنس فیس/ سپیکٹرم استعمال فیس (ایسی و سی) کی تاخیر سے ادائیگی پر سود کی شرح ایس بی آئی ایم سی ایل آر+4 فیصد کے بجائے ایم سی ایل آر+2 فیصد ہوگی۔ ماہانہ کی بجائے سالانہ مرکب سود ہوگا ۔ جرمانہ اور جرمانہ پر سود کو ہٹا دیا جائے گا۔ اب سے ہونے والی نیلامی میں قسط کی ادائیگی کو محفوظ بنانے کے لیے کسی بینک گارنٹی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ٹیلی کام انڈسٹری پختہ ہو چکی ہے اور ماضی کی طرح بینک گارنٹی کی ضرورت نہیں رہی۔ سپیکٹرم کی مدت: مستقبل کی نیلامی میں سپیکٹرم کی مدت 20 سے 30 سال تک بڑھا دی گئی ہے مستقبل کی نیلامی میں موصول سپیکٹرم کے لیے 10 سال کے بعد سپیکٹرم کو سونپنے کی اجازت دی جائے گی۔ مستقبل کی نیلامی میں موصول ہونے والے سپیکٹرم کے لیے کوئی سپیکٹرم استعمال چارج (ایس یو سی) نہیں ہوگا۔ سپیکٹرم کے اشتراک کی حوصلہ افزائی کی گئی – سپیکٹرم کے اشتراک کے لیے 0.5 فیصد کی اضافی ایس یو سی ہٹا دی گئی ہے۔ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے، ٹیلی کام سیکٹر میں خودکار روٹ کے تحت 100 فیصد ایف ڈی آئی کی اجازت دی گئی ہے۔ تمام حفاظتی اقدامات اپنائے جائیں گے۔ عملی اصلاحات نیلامی کیلنڈر متعین – سپیکٹرم نیلامی عام طور پر ہر مالی سال کی آخری سہ ماہی میں کی جائے گی۔ کاروبار میں آسانی کو فروغ دیا گیا – وائرلیس آلات کی درآمد کے لیے 1953 کے کسٹم نوٹیفکیشن کے تحت لائسنس کی سخت ضرورت کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اسے سیلف ڈکلریشن سے تبدیل کیا جائے گا۔ کے وائی سی تصحیح: سیلف کے وائی سی (ایپ پر مبنی) کی اجازت دی گئی ہے۔ ای کے وائی سی کی شرح صرف 1 روپے کر دی گئی ہے۔ پری پیڈ سے ��وسٹ پیڈ اور پوسٹ پیڈ سے پری پیڈ میں منتقلی کے لیے کسی تازہ کے وائی سی کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے کسٹمر بنائے جانے کے وقت بھرے گئے فارم کو ڈیٹا کے ڈجیٹل اسٹوریج سے تبدیل کیا جائے گا۔ اس سے ٹیلی کام کمپنیوں کے مختلف گوداموں میں پڑے تقریباً 300-400 کروڑ کاغذی فارموں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٹیلی کام ٹاورز کی تنصیب کے لیے منظوری کا عمل آسان بنا دیا گیا ہے۔ ڈی او ٹی پورٹل اب خود اعلامیہ کی بنیاد پر درخواستیں قبول کرے گا۔ دیگر ایجنسیوں کے پورٹل (جیسے سول ایوی ایشن) ڈی او ٹی کے پورٹل سے منسلک ہوں گے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کی سرمایہ لکویڈیٹی کی ضروریات کے لیے امدادی اقدامات کابینہ نے تمام ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے درج ذیل کی منظوری دی: اے جی آر کے فیصلے سے پیدا ہونے والے واجبات کی سالانہ ادائیگی میں چار سال تک کی مہلت/ نرمی، تاہم، رقوم کی خالص موجودہ قیمت کی حفاظت کرتے ہوئے واجبات کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔ پچھلی نیلامی میں خریدے گئے سپیکٹرم کی ادائیگی پر چار سال تک کی مہلت/ نرمی (سوائے 2021 نیلامی کے)۔ واجب الادا ادائیگی کی خالص موجودہ قیمت کو متعلقہ نیلامی میں متعین کردہ سود کی شرح سے محفوظ کیا جائے گا۔ ٹیلی کام کمپنیوں کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ ادائیگی میں مذکورہ نرمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سود کی رقم ایکویٹی کے ذریعے ادا کی جائے۔ مہلت/ نرمی کی مدت کے اختتام پر مذکورہ ادائیگی کے حوالے سے ادا کی جانے والی رقم کو حکومت کے اختیار پر ایکویٹی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس کے لیے وزارت خزانہ کی طرف سے ہدایات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ مذکورہ بالا باتیں تمام ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے قابل اطلاق ہوں گی اور سرمائے اور کیش فلو کی لکویڈیٹی کو کم کرکے راحت فراہم کریں گی۔ اس سے مختلف بینکوں کو ٹیلی کام سیکٹر میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنے میں بھی مدد ملے گی۔,টেলিকম খণ্ডৰ ব্যাপক সংস্কাৰত কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80/,نئی دہلی، 09 جنوری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پرواسی بھارتیہ دیوس کے موقع پر سبھی کو ، خصوصاً بیرونِ ملک آباد بھارتیوں کو مبارکباد پیش کی۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’پرواسی بھارتیہ دیوس کے موقع پر سبھی کو، خصوصاً بیرونِ ملک آباد بھارتیوں کو مبارکباد۔ ہمارے تارکین وطن نے پوری دنیا میں اپنی شناخت بنائی ہے اور مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ اپنی جڑوں سے بھی وابستہ رہے۔ ہمیں ان کی حصولیابیوں پر فخر ہے۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰৱাসী ভাৰতীয় দিৱস উপলক্ষে প্ৰৱাসী ভাৰতীয়সকলক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81-%D8%B2%D9%88%D8%B1%D8%A2%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%D8%AC%DB%8C-%D8%A7%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BE-%E0%A6%9C%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%9C%E0%A7%80/,نئی دہلی، 09 جنوری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج شری گورو گوبند سنگھ جی کے پرکاش پرب کے مبارک موقع پر ، یہ اعلان کیا ہے کہ اس سال س�� ، صاحب زادہ زورآور سنگھ جی اور صاحب زادہ فتح سنگھ جی کی شہادت کی یاد میں 26 دسمبر کو ’ویر بال دیوس‘ کے طور پر منایا جائے گا۔ ٹوئیٹس کے ایک سلسلے کے تحت، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’آج، شری گورو گوبند سنگھ جی کے پرکاش پرب کے مبارک موقع پر، مجھے یہ بات ساجھا کرتے ہوئے فخر کا احساس ہو رہا ہے کہ اس سال سے، 26 دسمبر کو ’ویر بال دیوس‘ کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ صاحب زادوں کی جرأت اور انصاف کے لیے ان کی جدوجہد کو خراج تحسین ہے۔ ’ویر بال دیوس‘ اسی دن منایا جائے گا جس دن صاحب زادہ زورآور سنگھ جی اور صاحب زادہ فتح سنگھ جی نے، دیوار میں زندہ چنوادیے جانے کے بعد، شہادت کو گلے لگایا تھا۔ان دو عظیم شخصیات نے مذہب کے مقدس اصولوں سے منحرف ہونے کی بجائے موت کو ترجیح دی۔‘‘ ماتا گجری، شری گورو گوبند سنگھ جی اور 4 صاحب زادوں کی شجاعت اور نظریات لاکھوں افراد کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی نا انصافی کے آگے سر نہیں جھکایا۔ انہوں نے ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا جو شمولیت اور ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے بارے میں جانیں۔‘‘ ش ح۔اب ن ۔ م ف,ছাহিবজাদা জোৰাৱাৰ সিংজী আৰু ছাহিবজাদা ফাটেহ সিংজীৰ আত্মবলিদানক সুঁৱৰি ২৬ ডিচেম্বৰৰ দিনটো ‘বীৰ বাল দিৱস’ হিচাপে পালন কৰাৰ কথা ঘোষণা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DA%A9%D8%B4%D9%85%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-100%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئی دلّی ،24 اکتوبر، 2021/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آر کے لکشمن کو ان کے 100 ویں یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جناب مودی نے 2018 میں ان کی کتاب ’’ٹائم لیس لکشمن‘‘ کے اجراء کے موقع پر دی گئی اپنی تقریر کو شئیر کیا۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’ ہر فن مولاآر کے لکشمن کو ن کے 100ویں یوم پیدائش پر یاد کرتا ہوں۔ انھوں نے اپنے کارٹونوں کے ذریعے وقت کےسماجی و سیاسی حقائق کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیاہے۔ 2018 میں ان کی کتاب ’’ٹائم لیس لکشمن‘‘ کے اجراء کے موقع پر دی گئی اپنی تقریر کو شئیر کررہاہوں۔ https://t.co/S0srPeZ4hL,জন্ম শতবাৰ্ষিকী উপলক্ষে আৰ কে লক্ষণক স্মৰণ প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DA%86%DA%BE%D9%B9%D8%A7-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%AD%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B7%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83-2/,"1۔ آج وفاقی جمہوریہ جرمنی اور جمہوریہ ہند کی حکومتوں نے، وفاقی چانسلر اولاف شولز اور وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی شریک صدارت میں، بین حکومتی مشاورت کا چھٹا دور منعقد کیا۔ دونوں رہنماؤں کے علاوہ، دونوں وفود میں وزراء اور دیگر اعلیٰ نمائندے شامل تھے جن کا ضمیمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ 2۔ اب جبکہ ہندوستان اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے، جرمنی اور ہندوستان کے درمیان تعلقات، باہمی اعتماد، دونوں ممالک کے عوام کی خدمت میں مشترکہ مفادات اور جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی مشترکہ اقدار اور عالمی چیلنجوں کے لیے کثیر ��لجہتی ردعمل پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔ 3۔ دونوں حکومتوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک مؤثر ضابطوں پر مبنی بین الاقوامی آرڈر کی اہمیت اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی اہمیت پر زور دیا جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں بنیادی طور پر درج ہے، جس میں تمام ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام بھی شامل ہے۔ انہوں نے موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے، عالمی سطح پر امن اور استحکام کے دفاع، بین الاقوامی قانون کو تقویت دینے، اور تنازعات کے پرامن حل کے بنیادی اصولوں اور ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کے لیے کثیرالجہتی کو مستحکم کرنے اور انکی اصلاح کرنے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں کے عزم کا اعادہ کیا۔ 4۔ دونوں رہنماؤں نے، کووڈ- 19 وبا سے معاشی بحالی کے لیے اپنے عزم کو اجاگر کیا جو کرہ ارض کی حفاظت کرتا ہے۔ انہوں نے عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی سے پہلے کی سطح سے 2°سی سے نیچے تک رکھنے اور درجہ حرارت میں اضافے کو قبل از صنعتی سطح 1.5°کیبو تک محدود کرنے کی کوششوں کی پیروی کرنے اور قابل تجدید توانائیوں کے تئیں ایک منصفانہ منتقلی کو تقویت دینے کے مقصد کے لیے، اپنے پختہ عزم کااعادہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی بحالی کو مزید لچکدار، ماحولیات کے لحاظ سے پائیدار، آب و ہوا کے موافق اور سب کے لیے جامع مستقبل کی تعمیر، 2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے اور پیرس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک کے قومی وعدوں کے مطابق کرنا چاہیے۔ مشترکہ اقدار اور علاقائی اور کثیر جہتی مفادات کی شراکت داری 5۔ اقوام متحدہ کے ساتھ اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظم کی اہمیت اور بین الاقوامی قانون کے احترام پر پختہ یقین رکھتے ہوئے، جرمنی اور ہندوستان نے موثر اور اصلاح شدہ کثیرالجہتی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی، غربت، عالمی غذائی تحفظ جیسے عالمی چیلنجوں، غلط معلومات، بین الاقوامی تنازعات اور بحرانوں اور بین الاقوامی دہشت گردی جیسے جمہوریت کو لاحق خطرات کے دباؤ کی روشنی میں کثیرالجہتی نظام کی اصلاح کے لیے اپنے عزم کی تجدید کی۔ ""گروپ آف فور"" کے دیرینہ اراکین کے طور پر، دونوں حکومتیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی زیرالتوا اصلاحات کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ اسے اس مقصد کے لیے موزوں اور عصری حقائق کا عکاس بنایا جا سکے۔ دونوں حکومتوں نےمتعلقہ انتخابات میں ایک دوسرے کی حمایت پر زور دیا۔جرمنی نے نیوکلیائی سپلائر گروپ میں ہندوستان کی جلد شمولیت کے لئے، اپنی مصمم حمایت کا اعادہ کیا۔ 6۔ دونوں فریقوں نے آسیان کی مرکزیت کو تسلیم کرتے ہوئے آزاد، کھلے اور جامع ہند-بحرالکاہل کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے جرمن وفاقی حکومت کے ہند-بحرالکاہل کے لیے پالیسی رہنما خطوط، ہند-بحرالکاہل میں تعاون کے لیے یورپی یونین کی حکمت عملی اور ہندوستان کی طرف سے بیان کردہ ہند-بحرالکاہل کے اوقیانوس کے اقدام کو تسلیم کیا۔ دونوں فریقوں نے بحر ہند اور بحیرہ جنوبی چین سمیت تمام سمندری ڈومینز میں بین الاقوامی قانون، خاص طور پر اقوام متحدہ کے کنونشن آن دی لا آف دی سی (یو این سی او ایل ایس) 1982کے مطابق بلا روک ٹوک تجارت اور نیویگیشن کی آزادی کی اہمیت پر زور دیا۔ ہند-بحرالکاہل کے علاقے کے ساتھ جرمنی کی بڑھتی ہوئی مصروفیت میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر، دونوں فریقوں نے جنوری 2022 میں جرمن بحریہ کے فریگیٹ 'بائرن' کے ذریعے، ممبئی میں پورٹ کال کا خیرمقدم کیا۔ جرمنی نے اگلے سال جرمن بندرگاہ میں ایک دوستانہ دورے پر ہندوستانی بحریہ کے جہاز کا استقبال کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ 7۔ ہندوستان اور جرمنی، ہندوستان اور یورپی یونین کے درمیان، خاص طور پر مئی 2021 میں پورٹو میں ہندوستان-یورپی یونین کے رہنماؤں کی میٹنگ کے بعد، جامع تعاون کے گہرے ہونے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور انہوں نےاسے مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا۔ وہ ہندوستان-یورپی یونین کنیکٹیویٹی پارٹنرشپ کے نفاذ کے منتظر ہیں۔ دونوں فریقوں نے ہندوستان-یورپی یونین ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل کے آغاز پر اطمینان کا اظہار کیا، جو تجارت، قابل اعتماد ٹیکنالوجی اور سلامتی کے گٹھ جوڑ میں چیلنجوں سے نمٹنے میں قریبی مشغولیت کو فروغ دے گا۔ 8۔ دونوں فریقوں نے، خلیج بنگال انیشیٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (بمس ٹیک) کے ساتھ ساتھ جی20 جیسے کثیر جہتی فورم میں علاقائی تنظیموں کے ساتھ تعاون پر زور دیا۔ اس سلسلے میں، ہندوستان اور جرمنی خاص طور پر 2023 میں ہندوستان کی جی20 صدارت کے دوران قریبی تعاون کے منتظر ہیں۔ جرمنی نے ہندوستان کی جی20 ترجیحات کی پیشکش کا خیرمقدم کیا اور مشترکہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں مضبوط جی20 کارروائی پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ 9۔ دونوں فریقوں نے جی7 اور ہندوستان کے درمیان موجودہ جرمن جی7 صدارت کے دوران قریبی تعاون کو تسلیم کیا جس میں صرف توانائی کی منتقلی شامل ہے۔ انہوں نے جرمنی کی جی7 صدارت کے تحت اور دیگر حکومتوں کے ساتھ ملکر، توانائی کی منتقلی کے راستوں پر مشترکہ طور پر کام کرنے پر اتفاق کیا تاکہ آب و ہوا سے ہم آہنگ توانائی کی پالیسیوں، قابل تجدید کی تیزی سے تعیناتی اور پائیدار توانائی تک رسائی کے مواقع اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کیا جا سکے۔ اس میں، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں موسمیاتی تبدیلی کے لیے تخفیف پر مبنی موافقت بھی شامل ہو سکتی ہے ۔ 10۔ جرمنی نے یوکرین کے خلاف روسی افواج کی غیر قانونی اور بلا اشتعال جارحیت کی شدید مذمت کا اعادہ کیا۔ جرمنی اور بھارت نے یوکرین میں جاری انسانی بحران پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے یوکرین میں شہریوں کی ہلاکتوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے دشمنی کے فوری خاتمے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عصری عالمی نظام، اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور خودمختاری کے احترام اور ریاستوں کی علاقائی سالمیت پر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے یوکرین میں تنازع کےباعث غیر مستحکم ہونے والے اثرات اور اس کے وسیع تر علاقائی اور عالمی مضمرات پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقین نے اس معاملے پر قریبی رابطے میں رہنے پر بھی اتفاق کیا۔ 11۔ افغانستان پر، دونوں فریقوں نے انسانی صورتحال، ٹارگٹڈ دہشت گردانہ حملوں سمیت تشدد کے دوبارہ سر اٹھانے، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی منظم خلاف ورزیوںاور لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ کے بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایک پرامن، محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے بھرپور حمایت کا اعادہ کیا اور افغانستان کے لوگوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی توثیق کی۔ 12۔ دونوں فریقوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2593 (2021) کی اہمیت کا اعادہ کیا جو دوسروں کے درمیان واضح طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین کو دہ��گردوں کی پناہ گاہوں، تربیت، منصوبہ بندی یا دہشت گردی کی کارروائیوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ انہوں نے افغانستان کی صورتحال پر قریبی مشاورت جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ 13۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی پرزور مذمت کی، جس میں دہشت گرد پراکسیوں کا استعمال اور سرحد پار دہشت گردی بھی شامل ہے۔ انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور بنیادی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنےاور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس میں خلل ڈالنے اور بین الاقوامی انسانی قانون سمیت بین الاقوامی قانون کے مطابق مالی معاونت کے لیے کام کریں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی)1267 پابندیوں کی کمیٹی کی طرف سے ممنوعہ گروہوں سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا۔ دونوں فریقوں نے دہشت گرد گروہوں اور افراد کے خلاف پابندیوں اور عہدوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ جاری رکھنے، بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے، اور دہشت گردوں کے انٹرنیٹ کے استعمال اور دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت کے بارے میں بھی عزم کیا۔ 14۔ دونوں رہنماؤں نے انسداد منی لانڈرنگ پر بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھنے اور ایف اے ٹی ایف سمیت تمام ممالک کی طرف سے دہشت گردی کی مالی معاونت کا مقابلہ کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا جو عالمی تعاون کے فریم ورک کو آگے بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت بخشے گا۔ 15۔ دونوں حکومتوں نے مذاکرات کے اختتام، بحالی اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مکمل نفاذ کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ جرمنی اور بھارت بھی اس تناظر میں آئیاے ای اے کے اہم کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ 16۔ سیکورٹی تعاون کو گہرا کرنے کے مقصد سے، دونوں فریقوں نے خفیہ معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں فریقوں نے عالمی سلامتی کے چیلنجوں سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے اہم شراکداار کے طور پر دو طرفہ سیکیورٹی اور دفاعی تعاون کو مزید گہرا کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے سیکورٹی اور دفاعی امور پر دوطرفہ تبادلوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا۔ مزید برآں، دونوں فریق یورپی یونین کے تحت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ دو طرفہ طور پر تحقیق، تعاون اور مشترکہ پیداوار کی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس سلسلے میں، دونوں فریقین نے باقاعدہ دو طرفہ سائبر مشاورت جاری رکھنے اور دفاعی ٹیکنالوجی سب گروپ (ڈیٹی ایس جی) اجلاس دوبارہ بلانے پر اتفاق کیا۔ دونوں حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی سامان سمیت اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تجارت کو بڑھانے کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ سبز اور پائیدار ترقی کے لیے شراکت داری 17۔ دونوں حکومتوں نے کرہ ارض کے تحفظ اور مشترکہ، پائیدار اور جامع ترقی کے لیے اپنی مشترکہ ذمہ داری کو تسلیم کیا،تاکہ کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پائیدار ترقی اور آب و ہوا کی کارروائی پر ہند-جرمن تعاون پیرس معاہدے اور ایس ڈی جیز کے تحت ہندوستان اور جرمنی کے وعدوں کی رہنمائی کرتا ہے، جس میں عالمی اوسط درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے تک رکھنے کی کوششیں شامل ہیں۔ صنعتی سطح سے پہلے اور درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی سطح سے پہلے کی سطح سے 1.5 ° سی تک محدود کرنے کی کوششوں کا تعاقب کرنا، وہ ان وعدوں پر عمل درآمد میں تیزی لانے کے منتظر ہیں اور انہو�� نےاس سلسلے میں سبز اور پائیدار ترقی کے لیے ہند-جرمن شراکت داری کے قیام کے ارادے کے مشترکہ اعلامیے کا خیرمقدم کیا۔ شراکت داری کا مقصد دوطرفہ، سہ رخی اور کثیر جہتی تعاون کو تیز کرنا اور اسے پیرس معاہدے اور ایس ڈی جیز کے نفاذ پر دونوں فریقوں کے مضبوط عزم سے جوڑنا ہے۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ ایس ڈی جیز کے حصول کی ٹائم لائن اور گلاسکو میں سی او پی26 کے دوران، ہندوستان اور جرمنی کی طرف سے اعلان کردہ کچھ آب و ہوا کے اہداف 2030 میں ختم ہو جائیں گے، وہ ایک دوسرے سے سیکھنے اور اپنے متعلقہ مقاصد کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ جرمنی اس شراکت داری کے تحت 2030 تک کم از کم 10 بلین یورو کے نئے اور اضافی وعدوں کے طویل مدتی ہدف کے ساتھ، ہندوستان کے ساتھ اپنے مالی اور تکنیکی تعاون اور دیگر امداد کو مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے آب و ہوا کی کارروائی اور پائیدار ترقی کی جگہ میں ان کے بامقصد اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جرمن-ہند تحقیق و ترقی (آر اور ڈی) کو مزید فروغ ملے گا، نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس طرح مزید فنڈنگ کا فائدہ اٹھانا مقصود ہوگا۔ ہندوستان اور جرمنی موجودہ اور مستقبل کے وعدوں پر تیزی سے عمل آوری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ 18۔ دونوں فریقوں نے بین الحکومتی مشاورت (آئی جی سی) کے فریم ورک کے اندر ایک دو سالہ وزارتی میکانزم بنانے پر اتفاق کیا جو اس شراکت داری کو اعلیٰ سطحی سیاسی سمت فراہم کرے گا۔ آب و ہوا کی کارروائی، پائیدار ترقی، توانائی کی منتقلی، ترقیاتی تعاون اور سہ رخی تعاون کے شعبوں میں تمام موجودہ دوطرفہ فارمیٹس اور اقدامات شراکت داری میں حصہ رسدی کریں گے اور وزارتی میکانزم کو پیشرفت کی رپورٹ دیں گے۔ 19۔ دونوں فریقین، توانائی کی منتقلی، قابل تجدید توانائی، پائیدار شہری ترقی، سبز نقل و حرکت، سرکلر اکانومی، تخفیف، آب و ہوا کی لچک اور موافقت، زرعی ماحولیاتی تبدیلی، تحفظ اور پائیدار آب و ہوا کی کارروائی کے ساتھ ساتھ ترجیحی شعبوں میں ممکنہ فراہمی کی نشاندہی، حیاتیاتی تنوع، ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی وسائل کا پائیدار استعمال اور شراکت داری کے مقاصد پر ہونے والی پیش رفت کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینے کے لیے کام کریں گے۔ ۔ 20۔ سبز اور پائیدار ترقی کے لیے ہند-جرمن پارٹنرشپ کے ڈیلیور ایبلز کے طور پر، دونوں فریقوں نے اس پر اتفاق کیا: i۔ انڈو-جرمن گرین ہائیڈروجن ٹاسک فورس کے ان پٹ پر مبنی ایک انڈو-جرمن گرین ہائیڈروجن روڈ میپ تیار کریں جس کی حمایت انڈو-جرمن انرجی فورم (آئی جی ای ایف) کرتی ہے۔ ii۔ ہند-جرمن قابل تجدید توانائی شراکتداری قائم کریں جس میں جدید شمسی توانائی اور دیگر قابل تجدید ذرائع پر توجہ مرکوز کی جائے، جس میں بجلی کے گرڈز، اسٹوریج اور مارکیٹ کے ڈیزائن کے لیے متعلقہ چیلنجز شامل ہیں تاکہ توانائی کی منصفانہ منتقلی کو آسان بنایا جا سکے۔ شراکت داری، شمسی ٹیکنالوجی کے لیے سرکلر اکانومی کے قیام میں بھی معاونت کرے گی۔ جرمنی نے اعلیٰ معیار کے منصوبے کی تیاری اور فنڈز کی دستیابی کے لحاظ سے 2020 سے 2025 تک ایک بلین یورو تک کے رعایتی قرضوں سمیت مالی اور تکنیکی تعاون فراہم کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ iii۔ ہندوستان میں دیہی آبادی اور چھوٹے پیمانے کے کسانوں کو آمدنی، خوراک کی حفاظت، آب و ہوا کی لچک، بہتر مٹی، حیاتیاتی تنوع، جنگلات کی بحالی اور پانی کی دستیابی کے لحاظ سے فائدہ پہنچانے ک�� لیے ""زرعی سائنس اور قدرتی وسائل کے پائیدار انتظام"" پر ایک لائٹ ہاؤس تعاون قائم کرنا اور عالمی سطح پر ہندوستانی تجربہ کو فروغ دینا۔ جرمنی نے اعلیٰ معیار کے پروجیکٹ کی تیاری اور فنڈز کی دستیابی کے لحاظ سے 2025 تک 300 ملین یورو تک کے رعایتی قرضوں سمیت مالی اور تکنیکی تعاون فراہم کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ iv۔ گرین انرجی کوریڈورز پر تعاون کا مزید جائزہ لینا، جیسےکہ لیہہ-ہریانہ ٹرانسمیشن لائن اور کاربن نیوٹرل لداخ کا منصوبہ۔ v۔ ایک اہم اقدام کے طور پر غربت سے لڑنے، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور بحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور اسے کم کرنے کے لیے، بون چیلنج کے تحت جنگلات کے مناظر کی بحالی میں تعاون کو گہرا کرنا نیز یو این کی دہائی کو ماحولیاتی نظام کی بحالی 2021-2030 کو ایک فریم ورک کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، سیاسی شراکت داری اور مضبوطی کے لیے، صحت مند ماحولیاتی نظام کے رقبے کو بڑھانے اور ان کے نقصان، بکھرنے اور انحطاط کو ختم کرنے کے لیے بات چیت اور تیز رفتار کارروائی کرنا ۔ vi۔ فضائی آلودگی میں کمی کے شعبے سمیت سبز ٹیکنالوجیز کے کامیاب اور پائیدار استعمال کے لیے موزوں حالات کی تخلیق پر تعاون کو گہرا کرنا۔ vii۔ ترقیاتی تعاون میں انفرادی طاقتوں اور تجربات کی بنیاد پر سہ رخی تعاون پر مل کر کام کرنا اور ایس ڈی جیز اور آب و ہوا کے اہداف کے حصول میں معاونت کے لیے تیسرے ممالک میں پائیدار، قابل عمل اور جامع منصوبے پیش کرنا۔ 21۔ اس کے علاوہ زیادہ سبز اور پائیدار ترقی کے لیے ہند-جرمن پارٹنرشپ کے تناظر میں، دونوں فریقوں نے موجودہ اقدامات کی پیش رفت کا خیرمقدم کیا، بشمول: i۔انڈو-جرمن انرجی فورم کا آغاز 2006 میں ہوا اور اس شراکت داری کے تحت اہم تعاون کے پروگرام شروع ہوئے۔ انہوں نے اس کی اسٹریٹجک جہت اور نجی شعبے کی شمولیت کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ii۔ انڈو-جرمن ماحولیات فورم (آئی جی ای این وی ایف) کے اندر تعاون، جس کی آخری میٹنگ فروری 2019 میں دہلی میں ہوئی تھی۔ وہ دونوں ممالک کے وفاقی ڈھانچے کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی اور میونسپل حکام کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ iii۔ حیاتیاتی تنوع پر مشترکہ ورکنگ گروپ کی میٹنگیں عملی طور پر فروری 2021 میں منعقد ہوئی تھیں، جہاں دونوں فریقوں نے سی بی ڈی سی او پی15 میں مضبوط اہداف کے ساتھ 2020 کے بعد کے عالمی حیاتیاتی تنوع کے فریم ورک کو اپنانے کے لیے اپنی حمایت پر زور دیا اور ٹھوس تعاون کے قیام کی جانب کام کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ . iv۔ فضلہ اور سرکلر اکانومی پر، خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور تجربات کے تبادلے کو مزید تیز کرنے کے لیے، مشترکہ ورکنگ گروپ کی طرف سے پیدا کیے گئے اچھے مواقع۔ انہوں نے ایس ڈی جی ہدف 14.1 میں مقرر کردہ سمندری ماحول میں گندگی، خاص طور پر پلاسٹک کے داخل ہونے کو روکنے کے لیے، بامقصد اہداف اور پالیسیوں کے موثر اور موثر نفاذ کی حمایت کرتے ہوئے ہند-جرمن ماحولیاتی تعاون کو جاری رکھنے اور اسے تیز کرنے پر اتفاق کیا اور خاص طور پر ایس ڈی جی کا ہدف 8.2 (ٹیکنالوجیکل اپ گریڈنگ اور اختراع)، 11.6 (میونسپل اور دیگر فضلہ کا انتظام) اور 12.5 (کچرے کی ری سائیکلنگ اور کمی)کی عمل درآمد پر توجہ مرکوز کی۔ ہندوستان اور جرمنی نے پلاسٹک کی آلودگی پر عالمی قانونی طور پر پابند معاہدہ قائم کرنے کے لیے یواین ای اے میں قریبی تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔ v۔ گرین اربن موبلٹی پر انڈو-جرمن شرا��تداری 2019 میں شروع کی گئی اور بنیادی ترقیاتی تعاون کا پورٹ فولیو تیار کیا گیا ہے۔ تیز رفتار کارروائی اور تعاون کا تصور نقل و حمل کے پائیدار طریقوں، جیسے میٹرو، ہلکی میٹرو، ایندھن سے چلنے والے کم اخراج اور الیکٹرک بس سسٹم، نان موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ، اور سب کے لیے پائیدار نقل و حرکت کے لیے ابتدائی مربوط منصوبہ بندی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے2031 تک شراکت داری میں مشترکہ کام کے لیے ٹھوس اہداف پر کام کرنے کا نقطہ نظر تصور کیا گیا ہے۔ vi۔ نیتی آیوگ اور بی ایم زیڈ کے درمیان ملک کے پہلے ایس ڈی جی اربن انڈیکس اور ڈیش بورڈ (2021-22) کو تیار کرنے میں تعاون کا مقصد، شہر کی سطح پر ایس ڈی جی لوکلائزیشن کو مضبوط بنانا اور اعدادوشمار پر مبنی فیصلہ سازی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، ملک میں ضلع کی سطح پر مزید ایس ڈی جی کے نفاذ کے منصوبوں کو فروغ دینا ہے۔ 22۔ دونوں فریقوں نے بین الاقوامی اسمارٹ سٹیز نیٹ ورک کے اندر شہری ترقی پر اپنا کامیاب تعاون جاری رکھنے کے اپنے ارادے کا اعادہ کیا۔ اسمارٹ سٹیز کے موضوع پر کثیر جہتی تجربے کے اشتراک اورآموزش کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے 2022 میں ایک باہمی اسمارٹ سٹی آن لائن سمپوزیم کرنےپر اتفاق کیا۔ 23۔ دونوں فریقوں نے پائیدار شہری ترقی پر مشترکہ ہند-جرمن ورکنگ گروپ کی باقاعدہ میٹنگوں کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا نیز پیرس معاہدے اور ایجنڈا 2030 کے ذریعے طے شدہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے پائیدار اور لچکدار شہروں کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔ 24۔ دونوں فریقوں نے زراعت، خوراک کی صنعت اور صارفین کے تحفظ پر مشترکہ ورکنگ گروپ کے تعمیری کردار کی توثیق کی، جس نے مارچ 2021 میں اپنی آخری میٹنگ کی تھی۔ انہوں نے حاصل شدہ نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا اور شعبوں میں موجودہ مفاہمت ناموں کی بنیاد پر پائیدار زرعی پیداوار، خوراک کی حفاظت، زرعی تربیت اور ہنر مندی، فصل کے بعد کا انتظام اور زرعی لاجسٹکس تعاون کے لئے مسلسل آمادگی ظاہر کی ۔ 25۔ دونوں حکومتوں نے پائیدار زرعی پیداوار کی ابتدائی بنیاد کے طور پر اعلیٰ معیار کے بیجوں تک کسانوں کی رسائی کو فروغ دینے میں تعاون کرنے کے لیے، ہندوستانی بیج کے شعبے میں کامیاب فلیگ شپ پروجیکٹ کے آخری مرحلے کی تعریف کی۔ انہوں نے اگست 2021 میں شروع ہونے والے دوسرے دو طرفہ تعاون کے منصوبے کو نوٹ کیا، جس کا مقصد ہندوستان کی زرعی منڈی کی ترقی کو مضبوط اور جدید بنانے کے لیے جاری اصلاحاتی کوششوں کی حمایت کرنا ہے۔ 26۔ دونوں ملکوں نے موجودہ تعاون کے معاہدوں کی بنیاد پر فوڈ سیفٹی کے شعبے میں تعاون کی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ 27۔ دونوں فریقوں نے جرمن ایگری بزنس الائنس (جی اے اے) اور ایگریکلچر سکل کونسل آف انڈیا (اے ایس سی آئی) کے درمیان ""انڈو-جرمن سنٹرز آف ایکسیلنس ان ایگریکلچر"" کے قیام پر دستخط کیے گئے مفاہمت نامے کو تسلیم کیا جس کا مقصد ہندوستان میں زراعت میں عملی مہارت کی ترقی، کسانوں اور اجرت پر کام کرنے والوں کی مہارتوں میں فرق کو ختم اور اپ گریڈنگ کو فروغ دینا ہے۔ 28۔ دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خوراک اور زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی اور علم کی منتقلی زیادہ پائیدار خوراک کے نظام کی کلید ہے اور یہ کہ ""بندیس انسٹیٹوٹ فر رسیکوبی ویرتنگ ""(بی ایف آر) اور ایف ایس ایس اے آئی کے ذریعہ خوراکی تحفظ کے شعبے میں تیار کردہ تحقیقی تعاون کے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ 29۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ای�� اے): دونوں فریقوں نے شمسی توانائی کے شعبے میں ہندوستانی اور جرمنی کی اسٹریٹجک ترجیحات اور اس سے وابستہ عالمی تعاون کی کوششوں کی ہم آہنگی کی بنیاد پر تعاون اور حمایت کو گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔ 30۔ انسوریزیلنس عالمی شراکتداری اور تباہکاری سے متعلق لچکدار بنیادی ڈھانچےکا اتحاد: دونوں فریقوں نے ماحولیاتی اور آفات کے خطرات کے خلاف رسک فنانس اور انشورنس کے حل کے ساتھ ساتھ عالمی اقدام برائے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے ذریعے صلاحیت سازی پر تعاون کو مضبوط کرنے پر اتفاق کیا۔ جرمنی نے انسوریزیلنس عالمی شراکتداری کا رکن بننے کے ہندوستانی اعلان کا خیر مقدم کیا۔ 31۔ دونوں فریقوں نے ایس ڈی جیز میں جدت اور سرمایہ کاری کے لیے پبلک سرکاری نجی شراکتداری کے تناظر میں، خاص طور پر ڈیولو پی پی پی اور نجی شعبےکو متحرک کرنے کے لیے فنڈنگ کے منظم طریقہ کار کے ذریعے، ہندوستانی اور جرمن کےنجی شعبے کے ساتھ تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ 32۔ دونوں اطراف نے اقوام متحدہ کی 2023 واٹر کانفرنس کی تیاری کے لیے اپنی تعریف کا اظہار کیا اور ایس ڈی جی 6 اور پانی سے متعلق دیگر اہداف اور 2030 کے ایجنڈا برائے پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے اپنی حمایت پر زور دیا۔ تجارت، سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے شراکت داری 33۔ قوانین پر مبنی، کھلی، جامع، آزاد اور منصفانہ تجارت کی مسلسل پابندی اور اہمیت کی تعریف کرتے ہوئے، جرمنی اور ہندوستان نے کثیرالجہتی تجارتی نظام کے مرکز اور ترقی پذیر ممالک کو عالمی تجارتی نظام میں ضم کرنے کے مرکزی ستون کے طور پر، ڈبلیو ٹی او کی اہمیت کو اجاگر کیا۔دونوں حکومتوں نے ڈبلیو ٹی او کے اصولوں اور افعال کو مضبوط بنانے کے مقصد سے، خاص طور پر، اپیلیٹ باڈی کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ دو سطحی اپیلیٹ باڈی کے تحفظ کے لیے، اس میں اصلاحات کا عہد کیا۔ 34۔ جرمنی اور ہندوستان اہم تجارتی اور سرمایہ کاری کے شراکت دار ہیں۔ دونوں فریقوں نے یورپی یونین اور ہندوستان کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے، سرمایہ کاری کے تحفظ کے معاہدے اور جغرافیائی اشارے پر ایک معاہدے پر ہونے والے آئندہ مذاکرات کے لیے، اپنی مضبوط حمایت کا اظہار کیا اور دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے اس طرح کے معاہدوں کے وسیع امکانات پر روشنی ڈالی۔ 35۔ جرمنی اور ہندوستان نے ایک پائیدار اور جامع اقتصادی بحالی کے ایک لازمی حصے کے طور پر، کاروبار اور انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں اور کثیر اقوام اداروں کے لیے اوای سی ڈی کے رہنما خطوط کو لاگو کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ دونوں حکومتوں کا مقصد سپلائی چینز کو مزید لچکدار، متنوع، ذمہ دار اور پائیدار بنانا ہے۔ دونوں حکومتیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں کہ بین الاقوامی ماحولیاتی، مزدوری اور سماجی معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے سپلائی چین اقتصادی فوائد لانا جاری رکھ سکتی ہیں۔ 36۔ دہائیوں میں سب سے بڑی عالمی ملازمتوں اور سماجی بحرانوں میں سے ایک کے پس منظر میں، دونوں فریقوں نے پائیدار لیبر مارکیٹس کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور ایک لچکدار، جامع، صنفی جوابدہ اور وسائل کی موثر بحالی کی سہولت فراہم کرنے کے مقصد کو تسلیم کیا۔ اس کا مقصد روزگار اور مہذب کام کو فروغ دینا، دوبارہ اور اعلیٰ تربیت کی پالیسیوں کا تعارف کراناجو کام کرنے کی عمر کے تمام لوگوں کو کل کا کام کرنے کے قابل بناتی ہے، اور سماجی تحفظ کے جوابدہ نظام جو غربت سے لڑ سکتے ہیں اور عدم مساوات کو کم کر سکتے ہیں، جبکہ مستقبل میں پائیدار ترقی میں اپنی حصہ رسدی کر سکتی ہیں۔ 37۔ جرمنی نے 2017 میں ہندوستان کی طرف سے آئی ایل او کے کنونشن 138 اور 182 کی توثیق کا خیر مقدم کیا۔ دونوں فریقوں نے ایس ڈی جی 8.7 کے مطابق بچوں اور جبری مشقت سے لڑنے کی اہمیت پر زور دیا اور ان شعبوں میں اپنے تعاون کو مضبوط کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں پر مزید تبادلے کا خیرمقدم کیا تاکہ اچھے کام کو یقینی بنایا جائے اور اسے فروغ دیا جا سکے اور کہ پلیٹ فارم اکانومی جیسےکام کی نئی شکلوں میں مناسب سماجی تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ 38۔ دونوں فریقوں نے تکنیکی، اقتصادی اور سماجی تبدیلی کے لیے ایک کلیدی محرک کے طور پر، ڈیجیٹل تبدیلی کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ انڈو-جرمن ڈیجیٹل ڈائیلاگ، انٹرنیٹ گورننس، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹل بزنس ماڈلز جیسےڈیجیٹل موضوعات پر تعاون کو آسان بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے صنعت سے چلنے والے انڈو-جرمن ڈیجیٹل ایکسپرٹس گروپ جیسے دیگر موجودہ اقدامات کے ساتھ ہم آہنگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ 39۔ ٹیکس کے شعبے میں، دونوں فریقوں نے 8 اکتوبر 2021 کو او ایسی ڈی کے جامع فریم ورک آن بیس ایروشن اینڈ پرافٹ شفٹنگ (بی ای پی ایس) میں طے پانے والے دو ستونوں کے حل کے معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ یہ عمل جامع ہوگا اور تمام کاروباروں کے لیے ایک منصفانہ سطح کے کھیل کا میدان قائم کرکے بین الاقوامی ٹیکس نظام کے استحکام میں حصہ رسدی کرے گا جو نقصان دہ دوڑ کو نیچے تک روکے گا، ٹیکس کی جارحانہ منصوبہ بندی کو ختم کرے گا اور اس بات کی ضمانت دے گا کہ آخر کار کثیر القومی ادارے ٹیکس کا اپنا منصفانہ حصہ ادا کریں۔ جرمنی اور ہندوستان نے دونوں ستونوں کے تیز اور موثر نفاذ کی حمایت کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ ہندوستان اور جرمنی نے دوہرے ٹیکس سے بچنے کے معاہدے میں ترمیم کرنے والے پروٹوکول کو جلد مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ 40۔ دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں، دونوں فریقوں نے ہند-جرمن فاسٹ ٹریک میکانزم کے کامیاب فارمیٹ کو جاری رکھنے کے لیے اپنی تیاری پر زور دیا، جو موجودہ اور مستقبل کے سرمایہ کاروں کے لیے ایک اہم حوالہ ثابت ہوا ہے۔ فاسٹ ٹریک میکانزم کی ششماہی میٹنگوں کے علاوہ، دونوں فریق کاروبار کرنے میں آسانی کے حوالے سے کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے سیکٹر کے مخصوص عمومی مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ مشغول رہیں گے۔ 41۔ دونوں فریقوں نے کارپوریٹ مینیجرز کے لیے تربیتی پروگرام (""مینیجر پروگرام"") کو لاگو کرکے دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے اپنی تیاری کا اعادہ کیا۔ اس تناظر میں، دونوں اطراف نے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کا خیرمقدم کیا جس کے ذریعے انہوں نے صنعت کے ایگزیکٹوز کے لیے تربیتی پروگرام کو لاگو کرنے میں مل کر کام کرنے کا اہتمام کیا۔ دونوں فریقوں نے اطمینان کے ساتھ واضح کیا کہ اس تعاون نے دوطرفہ تجارت اور تجارت کی ترقی میں ٹھوس نتائج حاصل کرنے، کاروباری ایگزیکٹوز کے درمیان ذاتی اور کاروباری روابط کو مضبوط بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفاہمت کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 42۔ ہندوستان نے ریلوے سیکٹر میں جرمن کمپنیوں کی تکنیکی مہارت کا اعتراف کی��۔ 2019 میں جرمن کی وفاقی وزارت اقتصادی امور اور توانائی اور ہندوستانی وزارت ریلوے کے درمیان ریلوے میں مستقبل کے تعاون پر دستخط کیے گئے۔ مشترکہ اعلامیہ کی بنیاد پر دونوں فریقوں نے، ہندوستانی ریلوے کا 2030 تک خالص صفر کرنے کی خواہش، تیز رفتاری اور توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجیز میں مزید تعاون کرنے میں اپنی مسلسل دلچسپی کو اجاگر کیا۔ 43۔ جرمنی اور ہندوستان نے گلوبل پروجیکٹ کوالٹی انفراسٹرکچر (جی پی کیو آئی) کے اندر انڈو-جرمن ورکنگ گروپ کے لیے اپنی تعریف کا اظہار کیا کہ وہ معیار کاری، ایکریڈیٹیشن، موافقت کی تشخیص اور مارکیٹ کی نگرانی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ دونوں فریقوں نے ورکنگ گروپ کی 8ویں سالانہ میٹنگ کے دوران دستخط کیے، 2022 کے ورک پلان کو نوٹ کیا جو ڈیجیٹلائزیشن، سمارٹ اور پائیدار کاشتکاری/زراعت اور سرکلر اکانومی کے شعبوں میں تعاون کے نئے شعبوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ 44۔ دونوں حکومتوں نے اسٹارٹ اپ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اسی تناظر میں اسٹارٹ اپ ا نڈیا اور جرمن ایکسلریٹر (جی اے) کے درمیان جاری تعاون کی تعریف کی۔ انھوں نے جی اے کے 2023 کے بعد سے، انڈیا مارکیٹ رسائی کی پیش کش کرتے ہوئے، اپنی حمایت میں مزید اضافہ کرنے کے اپنے ارادے کا خیر مقدم کیا اور اسٹارٹ اپ انڈیا کی تجویز کا جی اے کے ساتھ شراکت داری میں ایک مشترکہ مشغولیاتی ماڈل تیار کرنے کے لیے، دونوں ا سٹارٹ اپ کمیونٹیز کے لیے وسیع معاونت کی حمایت کی۔ سیاسی اور علمی تبادلے، سائنسی تعاون، افرادی قوت اور لوگوں کی نقل وحرکت کے لیے شراکت داری۔ 45۔ دونوں ملکوں نے لوگوں کے درمیان فعال تبادلے کا خیر مقدم کیا جس میں طلباء، تعلیمی اور پیشہ ور افرادی قوت شامل ہیں۔ فریقین نے اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام کی بین الاقوامی کاری کو وسعت دینے ،دونوں ممالک کے اختراعات اور تحقیقی پس منظر کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے اور پیشے ورانہ تعلیمی اور تربیت کے لیے دوہرے ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی غرض سے ایک دوسرے کے کوششوں کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا۔ 46۔ جرمنی اور ہندوستان نے، دونوں ملکوں کے درمیان تعلیم اور ہنرمندی کی ترقی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے تبادلوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور مزید تعاون میں مشغول ہونے کے ارادے کا اظہار کیا۔ دونوں حکومتوں نے ڈیجیٹل تیاری کورسز (اسٹڈی این کولیج) کے قیام کے لیے ستائش ظاہر کی تاکہ مستفید ہندوستانی طلباء کو جرمن یونیورسٹیوں میں انڈر گریجویٹ کورسز پورے کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ ہندوستانی حکومت طلباء کے تبادلے کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ہندوستان میں مطالعہ جیسے پروگراموں کے تحت اعلیٰ تعلیمی اداروں (ایچ ای آئیز) میں جرمن کے طلباء کے داخلے کی سہولت فراہم کرے گی۔ دونوں حکومتوں نے ہندوستانی اور جرمن یونیورسٹیوں کے درمیان تعاون کی جستجو کے لیے؛ مشترکہ ڈگری اور دوہری ڈگریوں کی شکل میں، یونیورسٹی کی سطح پر کوششوں کا بھی خیر مقدم کیا۔ 47۔اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ہند-جرمن جامع تحقیق وترقی کی ساجھے دا ری کو متحرک کرنے کے لیے تعلیمی-صنعتی تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے؛ دونوں فریقوں نے ہند-جرمن سائنس اور ٹیکنالوجی مرکز (آئی جی ایس ٹی سی) کے ضمن میں حالیہ اقدامات کا خیرمقدم کیا جس کا مقصد نوجوان ہندوستان تحقیق کاروں کی صنعتی نمائش کے لیے، صنعتی رفاقتوں کی حمایت کرنا ہے۔ ایک جرمن صنعتی ماحولیاتی نظام میں�� سائنس اور انجینئرنگ کی تحقیق میں خواتین کی شمولیت (وائزر)پروگرام ، جاری ایس اور ٹی پروجیکٹ میں خواتین تحقیق کاروں کے پس منظر میں داخلے کی سہولت فراہم کرتا ہے اور ابتدائی کیریئرس کی رفاقتوں میں، ہند-جرمن ایس اور ٹی تعاون کے لیے ایک جامع ماحولیاتی نظام تشکیل دیتا ہے۔ 48۔ انھوں نے خصوصی طور پر دوطرفہ سائنسی تعاون کی بنیادوں میں سے ایک کے طور پر اینٹی پروٹون اور آیون تحقیق (فیئر) کے لیے بین الاقوامی سہولت کے حصول کی غرض سے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ 49۔ دونوں ملکوں نے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان جامع مائیگریشن اور موبیلیٹی شراکت داری پر دوطرفہ معاہدے سے متعلق بات چیت کو حتمی شکل دینے کا خیر مقدم کیا جسے کے آج انگریزی زبان میں معاہدے کے مسودے کے آغاز سے دستاویز کی شکل دی گئی ہے۔ ا نھوں نے معاہدے پر جلد دستخط کرنے اور اسے نافذ کرنے کے لیے کارروائی کرنے پر اتفاق کیا۔ فریقین نے طلباء، پیشہ ور اور محققین کی دوطرفہ نقل وحرکت کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ، غیرقانونی نقل مکانی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس معاہدے کی ا ہمیت کو اجاگر کیا۔ 50۔ دونوں حکومتوں نے جرمنی کی روزگار کی وفاقی ایجنسی (بی اے) اور ریاست کیرالہ کی طرف سے ہنرمند، صحت مند اور دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی نقل مکانی کے حوالے سے تعیناتی کے معاہدے پر دستخط کا خیر مقدم کیا۔ایک جامع ’’ٹرپل-ون-اپروچ‘‘ کا اطلاق کرتے ہوئے ،اس کا مقصد اصل ملک اور میزبان ملک کے سا تھ ساتھ تارکین وطن کو بھی فائدہ پہنچانا ہے۔ انھوں نے ریاست کیرالہ کے ساتھ روزگار فراہم کرنے کے معاہدے سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے تعاون کو بڑھانے کے مقصد کامزید خیر مقدم کیا۔اس میں مختلف پیشے وارانہ گروپ نے ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے ساتھ جرمنی اور ہندوستان میں مزدوروں کی منڈیوں کے سا تھ ساتھ خود تارکین وطن کے مفاد پر بھی مناسب خیال رکھا جائے گا۔ 51۔ دونوں حکومتوں نے جرمن سماجی حادثاتی انشورینس ( ڈی جی یو وی)اور ہندوستان کی قومی تحفظاتی کونسل (این ای سی) کے ذریعے کام کرنے کی جگہ پر تحفظ اور صحت نیز سماجی تحفظ کے شعبے میں مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کا بھی خیر مقدم کیا جو کہ حادثات میں کمی کو ممکن بنائے گا۔ کام سے متعلق حادثات اور بیماریاں اور پیشے وارانہ حفاظت اور صحت نیز سماجی تحفظ کےشعبے میں تعاون سے متعلق جرمن سماجی حادثاتی بیمہ (ڈی جی یو وی) اور ہندوستان کے ڈائریکٹوریٹ جنرل فیکٹری ایڈوائس سروس اینڈ لیبر انسٹی ٹیوٹ (ڈی جی ایف اے ایس ایل آئی) کے ذریعے اس مفاہمت نامے پر دستخط کئے گئے۔ 52۔ دونوں حکومتوں نے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان کثیر ثقافتی تبادلوں اور تعلیمی تعاون نیز گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس ( ڈی اے اے ڈی)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی)، تکنیکی تعلیم کی کل ہند کونسل (اے آئی سی ٹی ای) کے اہم کردار کی بھی تعریف کی۔ انھوں نے اس سلسلے میں دیگر متعلقہ اداروں، تعلیمی اور مکالمے کی شکلوں کے ذریعے ایسے راستوں کو آسان بنانے میں جرمن سیاسی بنیادوں کے کردار کو تسلیم کیا۔ عالمی صحت کے لیے شراکت داری 53۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ کووڈ-19 وبا کھلے معاشروں اور کثیر الجہتی تعاون کی لچک کوثابت کرنے کے لیے نازک امتحان پیش کر رہا ہے اور اس کے لیے کثیر الجہتی رد عمل کی ضرورت ہے؛ دونوں حکومتوں نے طبی فراہمی کے سلسلے کے تحفظ کو یقینی بنانے، عالمی تیاریوں کو مستحکم کرنے میں تعاون کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ صحت کی ہنگامی صورتحال اور مستقبل کے زونوٹک کے خطرات کو کم کرنا اور واحد صحت رسائی اپنانا اس میں شامل ہے۔ فریقین نے صحت کے بین ا لاقوامی کام اور مستقبل میں ابھرنے وا لی وبا کا جواب دینے کے لیے، اس کی صلاحیت کی ہدایت کاری اور ہم آہنگی کرنے والی اتھارٹی کے طور پر، ڈبلیو ایچ او کو اصلاحات اور اسے مستحکم بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے اقتصادی بحالی میں مدد کے لیے کاروبار اور سیاحت کے لیے لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت میں سہولت فراہم کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور کووڈ-19 کی ویکسینز اور ویکیسی نیشن سرٹیفکیٹس کی باہمی شناخت پر تعاون بڑھانے سے بھی اتفاق کیا۔ 54۔ دونوں فریقوں نے اترپردیش کے باندہ شہر میں سیفٹی لیول IV لیباریٹری (بی ا یس ایل-4) کے قیام کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرنے میں ہندوستان کے بیماریوں کو کنٹرول کرنے کے قومی مرکز (این سی ڈی سی) اور جرمنی کے رابرٹ-کوچ-انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کے درمیان انتہائی پیتھوجینک جانداروں کی جانچ کے لیے تعاون کا خیر مقدم کیا۔ 55۔دونوں حکومتوں نے جمہوریہ ہندوستان کی سرکار کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی ادویات کے معیار کو کنٹرول کرنے کی مرکزی تنظیم ( سی ڈی ا یس سی او) اور جرمنی کی ادویات اور طبی آلات کے لیے وفاقی ادارے نیز وفاقی جرمنی کی پول-اہرلچ-انسٹی ٹیوٹ کے درمیان ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرکے طبی مصنوعات کے ضابطے کے شعبے میں تعاون کو مستحکم کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ 56۔دونوں رہنماؤں نے چھٹی آئی جی سی میں ہونے والی بات چیت پر اطمینان کا اظہار کیا اور ہند-جرمن جامع ساجھے داری کو مزید وسعت دینے اور گہرا کرنے کے لیے اپنے مکمل عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم مودی نے چانسلر سکولز کی گرمجوشی اور چھٹی آئی جی سی کے لیے ہندوستانی وفد کی میزبانی کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہندوستان اگلے آئی جی سی کی میزبانی کرنے کا منتظر ہے۔",ষষ্ঠ ভাৰত-জাৰ্মানী আন্তঃ চৰকাৰী পৰামৰ্শ সম্পৰ্কীয় আলোচনা সন্দৰ্ভত প্ৰকাশিত যুটীয়া বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے جی -20 سربراہ اجلاس سے الگ 31 اکتوبر 2021 کو اسپین کے وزیراعظم جناب پیڈروسانچیز سے ملاقات کی ۔ دونوں لیڈروں نے بڑھتی ہوئی دوفریقی تجارت اور سرمایہ کارانہ روابط کا خیرمقدم کیا ، جن میں ائیر بس اسپین سے 56 سی -295 ہوائی جہاز خریدنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ ان میں سے 40 جہاز ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹم کے اشتراک سے بھارت میں تیار کئے جائیں گے۔ دونوں رہنماؤں نے ای- موبلٹی ، صاف ستھری تکنیک ، جدید سازوسامان اور گہرے سمندر میں تلاش وجستجو جیسے نئے شعبوںمیں دوفریقی تعاون میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔وزیر اعظم مودی نے اسپین کو دعوت دی کہ وہ گرین ہائیڈروجن ، بنیادی ڈھانچہ اور دفاعی مینوفیکچرنگ جیسے متعدد شعبوںمیں سرمایہ کاری کرے اور بھارت کے قومی بنیادی ڈھانچہ جاتی پائپ لائن ، ایسیٹ مونٹائزیشن پلان اور گتی شکتی پلان کا فائدہ اٹھائے ۔ دونوں لیڈروں نے ہند- یوروپی یونین تعلقات ، آب وہوا کی تبدیلی کے معاملے میں باہمی تعاون اور مجوزہ کوپ – 26 کی ترجیح��ت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے افغانستان اور ہند- بحرالکاہل سمیت باہمی مفادات کے عالمی امور پر بھی خیالات کا تبادلہ کیا۔ وزیراعظم مودی نے اس امید کا اظہار کیا کہ آئندہ سال انہیں بھارت میں وزیر اعظم سانچیز کا خیرمقدم کرنے کا موقع ملے گا۔,ৰোমত জি২০ শিখৰ সন্মিলনৰ পটভূমিত স্পেইনৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے یوم آئین کی تقریبات میں شرکت کی اور آج بھارت کے سپریم کورٹ میں اجتماع سے خطاب کیا۔ سال 2015 ء سے 1949 ء میں آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ بھارت کے آئین کو منظور کئے جانے کی یاد میں ، ہر سال 26 نومبر کو یومِ آئین منایا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے پروگرام کے دوران ای کورٹ پروجیکٹ کے تحت کئی نئے اقدامات کا آغاز کیا ہے ، جن میں ورچوئل جسٹس کلاک ، جَسٹ آئی ایس موبائل ایپ 2.0، ڈیجیٹل کورٹ اور ایس 3 واس ویب سائٹس شامل ہیں ۔ یوم آئین کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ 1949 ء میں ، اس دن آزاد بھارت نے اپنے لئے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھی تھی۔ وزیر اعظم نے آزادی کے امرت مہوتسو کے سال میں ، یوم آئین کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ۔ انہوں نے بابا صاحب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور آئین ساز اسمبلی کے تمام اراکین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے بھارتی آئین کی ترقی اور توسیع کے سفر کی پچھلی 70 دہائیوں میں مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کے لاتعداد افراد کے تعاون پر روشنی ڈالی اور اس خاص موقع پر پوری قوم کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ بھارت کی تاریخ کے اس سیاہ دن کو یاد کرتے ہوئے ، جب ملک یوم آئین منا رہا تھا، وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ 26 نومبر کو بھارت کو انسانیت کے دشمنوں کے ذریعہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ جناب مودی نے ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں اپنی جانیں گنوانے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ موجودہ عالمی منظر نامے میں دنیا ، بھارت کی بڑھتی ہوئی معیشت اور بین الاقوامی شبیہہ کی طرف امید کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے استحکام کے بارے میں تمام ابتدائی خدشات کو مسترد کرتے ہوئے، بھارت پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اپنے تنوع پر فخر کرتا ہے۔ انہوں نے اس کامیابی کا سہرا آئین کو دیا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے، وزیر اعظم نے آئین کی تمہید کے پہلے تین الفاظ، ’’ وی دا پیپل ( ہم لوگ ) ‘‘کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’ وی دا پیپل ‘‘ ایک نعرہ ، ایک یقین اور ایک حلف ہے ۔ آئین کی یہ روح بھارت کی روح ہے، جو دنیا میں جمہوریت کی ماں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں، آئین نے قوم کے تمام ثقافتی اور اخلاقی جذبات کو خود میں سمو لیا ہے۔ ‘‘ وزیراعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ جمہوریت کی ماں ہونے کے ناطے ملک آئین کے نظریات کو مستحکم کر رہا ہے اور عوام دوست پالیسیاں ملک کے غریبوں اور خواتین کو بااختیار بنا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عام شہریوں کے لئے قوانین کو آسان اور قابل رسائی بنایا جا رہا ہے اور عدلیہ بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لئے بہت ��ے اقدامات کر رہی ہے۔ اپنی یوم آزادی کی تقریر میں فرائض پر زور دینے کا حوالہ دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ آئین کی روح کا مظہر ہے۔ امرت کال کو ’ کرتویہ کال ‘ قرار دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے زور دیا کہ آزادی کے امرت کال میں ، جب قوم آزادی کے 75 سال مکمل کر رہی ہے اور جب ہم ترقی کے اگلے 25 سال کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں، فرائض کی ادائیگی کا منتر قوم کے لئے سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ آزادی کا امرت کال ملک کے تئیں فرض ادا کرنے کا وقت ہے۔ عوام ہوں یا ادارے، ہماری ذمہ داریاں ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئیں ۔ ‘‘ انہوں نے اِس بات کو اجاگر کیا کہ لوگوں کے ’کرتویہ پَتھ ‘ پر چلنے سے ہی ملک ترقی کی نئی بلندیوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ ایک ہفتے کے اندر، بھارت جی 20 کی صدارت حاصل کرنے والا ہے اور انہوں نے ایک ٹیم کے طور پر دنیا میں بھارت کے وقار اور ساکھ کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ جمہوریت کی ماں کے طور پر بھارت کی شناخت کو مزید مضبوط کیا جائے ۔ ‘‘ نوجوانوں پر مرکوز جذبے کو اجاگر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ آئین اپنی کشادگی، مستقبل پر مبنی ہونے اور اپنے جدید ویژن کے لئے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے بھارت کی ترقی کی کہانی کے تمام پہلوؤں میں نوجوانوں کی قوت اور تعاون کو تسلیم کیا۔ مساوات اور با اختیار بنائے جانے جیسے موضوعات کی بہتر تفہیم کے لئے نوجوانوں میں بھارت کے آئین کے بارے میں بیداری بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے ، اس وقت کو یاد کیا ، جب ہمارا آئین تیار کیا گیا تھا اور وہ حالات ، جو ملک کو در پیش تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اس وقت آئین ساز اسمبلی کے مباحثوں میں کیا ہوا، ہمارے نوجوانوں کو ان تمام موضوعات سے آگاہ ہونا چاہیے ۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے آئین میں ان کی دلچسپی بڑھے گی۔ وزیر اعظم نے ، اس کی مثال کے لئے ، اس وقت کو یاد کیا ، جب بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں 15 خواتین ممبران تھیں اور انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ان میں دکشیانی ولایودھن جیسی خواتین ایک پسماندہ معاشرے سے نکل کر وہاں پہنچیں تھیں ۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دکشیانی ولایو دھن جیسی خواتین کے تعاون پر شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے اور بتایا کہ انہوں نے دلتوں اور مزدوروں سے متعلق بہت سے موضوعات پر اہم اقدامات کئے تھے ۔ وزیر اعظم نے درگابائی دیش مکھ، ہنسا مہتا اور راج کماری امرت کور اور دیگر خواتین ممبران کی بھی مثالیں دیں ، جنہوں نے خواتین سے متعلق مسائل میں اہم تعاون کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ جب ہمارے نوجوان ان حقائق سے واقف ہوں گے تو انہیں اپنے سوالوں کے جواب مل جائیں گے ۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ اس سے آئین کے تئیں وفاداری بڑھے گی ، جس سے آئین ، جمہوریت اور مستقبل مزید مستحکم ہو گا ۔ ‘‘ وزیر اعظم نے آخر میں کہا کہ ’’ آزادی کا امرت کال میں، یہ ملک کی ضرورت ہے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ یوم آئین اس سمت میں ہماری قراردادوں کو مزید توانائی بخشے گا۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈاکٹر ڈی وائی چندرچوڑ، قانون و انصاف کے مرکزی وزیر جناب کرن ریجیجو، بھارت کے سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایس عبدالنذیر، قانون و انصاف کے مرکزی وزیر مملکت پروفیسر ایس پی باگھیل ، بھارت کے اٹارنی جنرل جناب آر وینکٹا رمانی، بھارت کے سالیسٹر جنرل جناب تشار مہتا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرجناب وکاس سنگھ اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر یہ پروجیکٹ عدالتوں کے آئی سی ٹی کے ذریعے قانونی چارا جوئی، وکلاء اور عدلیہ کو خدمات فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے شروع کئے گئے اقدامات میں ورچوئل جسٹس کلاک، جَسٹ آئی ایس موبائل ایپ 2.0، ڈیجیٹل کورٹ اور ایس 3 واس ویب سائٹس شامل ہیں۔ ورچوئل جسٹس کلاک عدالتی سطح پر انصاف کی فراہمی کے نظام کے اہم اعدادوشمار کی نمائش کے لئے ایک اقدام ہے، جس میں عدالتی سطح پر دن/ہفتہ/ماہ کی بنیاد پر قائم کئے گئے مقدمات، نمٹائے گئے مقدمات اور زیر التوا مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ عدالت کی طرف سے کیس نمٹانے کی صورتِ حال ، عوام کے ساتھ شیئر کرکے عدالتوں کے کام کاج کو جوابدہ اور شفاف بنانے کی ایک کوشش ہے ۔ عوام ڈسٹرکٹ کورٹ کی ویب سائٹ پر کسی بھی عدالتی ادارے کی ورچوئل جسٹس کلاک تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جَسٹ آئی ایس موبائل ایپ 2.0 ایک ایسا ٹول ہے ، جو عدالتی افسران کے لئے موثر عدالت اور کیس کے بندوبست کے لئے نہ صرف اس کی عدالت بلکہ ان کے ماتحت کام کرنے والے انفرادی ججوں کے زیر التواء اور نمٹائے گئے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ ایپ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی دستیاب کرائی گئی ہے ، جو اب اپنے دائرہ اختیار میں تمام ریاستوں اور اضلاع کے زیر التواء اور معاملات نمٹائے جانے کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل کورٹ ایک ایسی پہل ہے ، جس کا مقصد جج کو عدالتی ریکارڈ کو ڈیجیٹل شکل میں دستیاب کرانا ہے تاکہ پیپر لیس عدالتوں میں منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے۔ ایس 3 واس ویب سائٹس ضلعی عدلیہ سے متعلق مخصوص معلومات اور خدمات کو شائع کرنے کے لئے ویب سائٹس بنانے، ترتیب دینے، تعینات کرنے اور ان کا نظم کرنے کا ایک فریم ورک ہے۔ ایس 3 واس ایک کلاؤڈ سروس ہے ، جو سرکاری اداروں کے لئے محفوظ، توسیع پذیر اور سوگمیہ (قابل رسائی) ویب سائٹس بنانے کے لئے تیار کی گئی ہے۔ یہ کثیر لسانی ویب سائٹ، شہریوں اور معذور افراد کے لئے موزوں ہے۔ PM’s speeches on Constit ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),ভাৰতৰ উচ্চতম ন্যায়ালয়ত সংবিধান দিৱস উদযাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%86%D8%A7-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%DA%86%D9%86%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%92-42-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%84%D8%B3%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D/,"تملناڈو کے معزز گورنر جناب آر این روی جی، تملناڈو وزیراعلی جناب ایم کے اسٹالین،مرکزی وزیر جناب ایل مرگن جی، دیگر وزراء اور معزز شخصیات، انا یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر آر ویل راج، میرے نوجوان دوستوں، ان کے والدین اور اساتذہ۔۔۔ انے ورکم ونکم۔ अनैवरुक्कुम् वणक्कम् سب سے پہلے تو ان تمام لوگوں کو مبارکباد جو آج انا یونیورسٹی کے 42ویں جلسہ تقسیم اسناد میں فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ آپ نے پہلے ہی اپنے ذہنوں میں اپنے لیے ایک مستقبل بنا لیا ہوگا۔ اس لیے آج کا دن نہ صرف کامیابیوں کا دن ہے بلکہ امنگوں کا بھی دن ہے۔ میری دعا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے تمام خواب پورے ہوں۔ انا یونیورسٹی میں تدریسی عملے اور غیر تدریسی معاون عملے کے لیے بھی یہ خاص وقت ہے۔ آپ ق��م ساز ہیں جو کل کے رہنما پیدا کر رہے ہیں۔ آپ نے بہت سے بیچوں کو آتے اور جاتے دیکھا ہوگا لیکن ہر بیچ منفرد ہے۔ وہ اپنی یادوں کا مجموعہ چھوڑ جاتے ہیں۔ میں خاص طور پر ان لوگوں کے والدین کے لئے نیک خواہشات کااظہار کرتا ہوں جو آج گریجویشن کر رہے ہیں۔ آپ کی قربانیاں آپ کے بچے کی کامیابی کے لیے اہم رہی ہیں۔ آج، ہم یہاں چنئی کے شہر میں اپنے نوجوانوں کی کامیابیوں کا جشن منانے آئے ہیں۔ فروری 1897 میں، 125 سال پہلے، سوامی وویکانند نے مدراس ٹائمز سے بات کی تھی۔ ان سے ہندوستان کے مستقبل کے حوالے سے ان کے منصوبے کے بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا: ‘‘میرا ایمان نوجوان نسل پر ہے، جدید نسل، ان میں سے میرے کارکن نکلیں گے۔ وہ انتہائی جواں مردی سے سارا مسئلہ حل کریں گے۔ وہ الفاظ آج بھی اپنی معنویت رکھتے ہیں۔ لیکن اس بار، یہ صرف ہندوستان ہی نہیں ہے جو اپنے نوجوانوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ پوری دنیا ہندوستان کے نوجوانوں کو پرامید نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ کیونکہ آپ ملک کے گروتھ انجن ہیں، اور ہندوستان دنیا کا گروتھ انجن ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ آپ اس کو پورا کریں گے’’۔ دوستو جب ہم اپنے نوجوانوں میں یقین کے اظہار کی بات کرتے ہیں تو ہم بھارت رتن، سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انا یونیورسٹی میں ہر ایک کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ ڈاکٹر کلام کا اس یونیورسٹی سے گہرا تعلق تھا۔ میں نے سنا ہے کہ جس کمرے میں وہ ٹھہرے تھے اسے یادگار میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میری دعا ہے کہ ان کے خیالات اور اقدار ہمارے نوجوانوں کو متاثر کریں۔ دوستو آپ ایک منفرد و دورمیں گریجویشن کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے عالمی غیر یقینی صورتحال کا وقت کہیں گے۔ لیکن میں اسے عظیم موقع کا وقت کہوں گا۔ کووڈ-19 وبائی مرض ایک بے مثال واقعہ تھا۔ یہ ایک صدی میں ایک بار آنے والا بحران تھا جس کے لیے کسی کے پاس کوئی واضح طریقہ کار نہیں تھا۔ اس نے ہر ملک کو آزمائش میں ڈالا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، مشکلات سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ ہم مضبوط قوت ارادی کے مالک ہے۔ ہندوستان نے اپنے سائنسدانوں، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں، پیشہ ور افراد اور عام لوگوں کی بدولت نامعلوم کا سامنا اعتماد سے کیا۔ اس کے نتیجے میں، آج ہندوستان کا ہر شعبہ نئی زندگی کی ہلچل دیکھ رہا ہے۔صنعت ہو، اختراع ہو، سرمایہ کاری ہو یا بین الاقوامی تجارت، ہندوستان سب سے آگے ہے۔ ہماری صنعتی برادری نے بروقت اقدام کیا ہے۔ مثال کے طور پر الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں ۔ پچھلے سال، ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا موبائل فون بنانے والا ملک تھا۔ جدت زندگی کا ایک طریقہ بنتی جا رہی ہے۔ صرف پچھلے 6 سالوں میں، تسلیم شدہ اسٹارٹ اپس کی تعداد میں پندرہ ہزار فیصد اضافہ ہوا! ہاں، آپ نے صحیح سنا ہے ۔ پندرہ ہزار فیصد۔ 2016 میں ان کی تعداد صرف 470 تھی، اب یہ تقریباً 73 ہزار ہے! جب صنعت اور جدت اچھا کام کرتی ہے تو سرمایہ کاری اس کے ساتھ ساتھ آتی ہے۔ پچھلے سال، ہندوستان نے 83 بلین ڈالر سے زیادہ کا ریکارڈ ایف ڈی آئی حاصل کیا۔ ہمارے اسٹارٹ اپس کو بھی وبائی امراض کے بعد ریکارڈ فنڈنگ ملی۔ اس سب سے بڑھ کر، بین الاقوامی تجارتی حرکیات میں ہندوستان کی پوزیشن اب تک کی بہترین ہے۔ ہمارے ملک نے اشیاء اور خدمات کی اب تک کی سب سے زیادہ برآمدات ریکارڈ کیں۔ ہم نے دنیا کے لیے ایک نازک وقت میں غذائی اجناس برآمد کئے۔ ہم نے حال ہی میں اپنے مغرب میں متحدہ عرب امارات اور اپنے مشرق میں آسٹریلیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ہندوستان عالمی سپلائی چین میں ایک اہم کڑی بن رہا ہے۔ ہمارے پاس اب سب سے زیادہ اثر ڈالنے کا موقع ہے، کیونکہ ہندوستان رکاوٹوں کو مواقع میں بدل رہا ہے۔ دوستو آپ میں سے اکثر نے انجینئرنگ یا ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے مضامین میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اختراعات کے اس دور میں، آپ کے حق میں تین اہم عوامل ہیں۔ پہلا عنصرٹیکنالوجی کا ذوق ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے زندگی میں سکون اور آسائش کا احساس بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ غریب سے غریب لوگ بھی اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ کسان بازاروں، موسم اور قیمتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ایپس کا استعمال کرتے ہیں۔ گھر بنانے والے اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ بچے ٹیکنالوجی کے استعمال سے سیکھ رہے ہیں۔ چھوٹے دکاندار ڈیجیٹل ادائیگیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ انہیں نقد رقم دیتے ہیں، تو ان میں سے کچھ دراصل آپ کو بتائیں گے کہ وہ ڈیجیٹل کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوستان ڈیجیٹل ادائیگیوں اور مالیاتی ٹیکنالوجی میں عالمی رہنما ہے۔ تکنیکی اختراعات کا ایک بہت بڑا بازار آپ کے کارنامے دیکھنے کا انتظار کر رہا ہے۔ دوسرا عنصر خطرہ مول لینے والوں پر اعتماد ہے۔ اس سے پہلے، سماجی مواقع پر، ایک نوجوان کے لیے یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ ایک کاروباری شخص ہے۔ لوگ ان سے کہتے تھے کہ ‘بس جاؤ’ یعنی تنخواہ والی نوکری حاصل کرو۔ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے خود سے کچھ شروع کرنے کی کوشش کی ہے! یہاں تک کہ اگر کوئی نوکری میں کام کر رہا ہے، تو اسے اسٹارٹ اپس کے لیے کام کرنا زیادہ مفید سمجھا جاتا ہے۔ خطرہ مول لینے والوں کے عروج کا مطلب آپ کے لیے دو چیزیں ہیں۔ آپ اپنے طور پر خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ یا آپ دوسروں کے ذریعہ پیدا کردہ مواقع کا فائدہ اٹھا کرسکتے ہیں۔ تیسرا عنصر اصلاح کا مزاج ہے۔ اس سے پہلے ایک تصور تھا کہ ایک مضبوط حکومت کا مطلب ہے کہ اسے ہر چیز اور ہر فرد کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ لیکن ہم نے اسے بدل دیا ہے۔ ایک مضبوط حکومت ہر چیز یا ہر فردکو کنٹرول نہیں کرتی۔ یہ نظام میں مداخلتی مزاج کو کنٹرول کرتی ہے۔ ایک مضبوط حکومت بندشیں نہیں لگاتی بلکہ جوابدہ ہوتی ہے۔ ایک مضبوط حکومت ہر میدان میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہ خود کو اپنے دائرے میں محدود رکھتی ہے اور لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ ایک مضبوط حکومت کی طاقت اس کی عاجزی میں ہے کہ وہ یہ قبول کر لے کہ وہ سب کچھ نہیں جان سکتی اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہر شعبے میں اصلاحات نظر آتی ہیں جو لوگوں اور ان کی آزادی کے لیے زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی نوجوانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق فیصلے کرنے کی زیادہ آزادی کو یقینی بناتی ہے۔ تقریباً 25,000 تعمیلات کے وزن کو ختم کرنا زندگی کی آسانی کو بڑھا رہا ہے۔ اینجیل ٹیکس کا خاتمہ، معکوس اثر والے ٹیکس کا خاتمہ، اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی – سرمایہ کاری اور صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ڈرون، خلائی اور جغرافیائی شعبوں میں اصلاحات نئی راہیں کھول رہی ہیں۔ پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں اصلاحات تیزی سے اور بڑے پیمانے پر عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے رہی ہیں۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی کا ذوق، خطرہ مول لینے والوں پر اعتماد اور اصلاح کا مزاج ہے۔ یہ تمام عوامل آپ کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں جہاں مواقع پیدا ہوتے ہیں، برقرار رہتے ہیں اور بڑھتے ہیں۔ دوستو اگلے 25 سال آپ اور ہندوستان دونوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ امرت کال ہے جو آزادی کے 100 ویں سال تک رہنمائی کرتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ آپ جیسے بہت سے نوجوان ہندوستان کے ساتھ ساتھ اپنا مستقبل خود بنائیں گے۔ لہذا، آپ کی ترقی ہندوستان کی ترقی ہے۔ آپ کی تعلیم ہندوستان کی تعلیم ہے۔ آپ کی جیت ہندوستان کی جیت ہے۔ لہذا، جب آپ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے اپنے منصوبے بناتے ہیں… یاد رکھیں کہ آپ خود بخود ہندوستان کے لیے بھی منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے جو صرف آپ کی نسل کو حاصل ہے۔ یہ موقع اپنے ہاتھ سے مت جانے دو اور اس سے بہترین فائدہ اٹھاؤ! ایک بار پھر، مبارکباد اور نیک تمنائیں!",চেন্নাইৰ আন্না বিশ্ববিদ্যালয়ৰ ৪২সংখ্যক সমাৱৰ্তনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%DB%81%D9%85-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%B9%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,نئی دہلی، 24 اکتوبر، کابینہ کے میرے تمام رفقاء، بھارت کی صنعتی زندگی کو رفتار عطا کرنے والے، آئی ٹی پیشے کو تقویت دینے والے تمام تر تجربہ کار حضرات اور آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہماری نوجوان پیڑھی، گاؤوں میں سی ایس سی کے مرکز میں بیٹھے ہوئے بہت سی امیدوں کے ساتھ اپنے خوابوں کو جمع کرکے زندگی گزاررہے ہمارے اسکول، کالج کے طلبا، آئی آئی ٹی سمیت متعدد اداروں کے طلباء، میرے لئے مسرت کی بات ہے کہ جو مجھے سب سے پسندیدہ کام ہے، ایسے موقع پر آج آپ کے درمیان آنے کا موقع ملاہے۔ ہمارے وزیر جناب روی شنکر صاحب، سرکار کے کام کی تفصیلات پیش کررہے تھے، لیکن میں اس کام کے لئے نہیں آیا ہوں، کوئی بھی انسان اپنے کرئیر میں کتنا بھی آگے چلا جائے، کتنی ہی خوشحالی حاصل کرلے، عہدہ اور عزت کتنا ہی حاصل کرلے، ایک طرح سے زندگی میں جو خواب دیکھے ہوں، وہ سارے خواب اپنی آنکھوں کے سامنے اسے اپنی کوششوں سے شرمندہ تعبیر بھی کرلے، اس کے باوجود اس کے دل میں تسلی کے لیے تڑپ رہتی ہے کہ قلبی سکون کیسے حاصل ہو؟ اور ہم نے یہ تجربہ کیا ہے کہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد وہ کسی اور کے لیے کچھ کرتا ہے، کچھ جینے کی کوشش کرتا ہے، اس وقت اس کے سکون کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ میں ابھی شروع میں فلم میں جناب عظیم پریم جی کو سن رہا تھا۔ 04-2003 میں جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا اور وہ میری مدت کار کے دوران مجھ سے ملنے آتے تھے، تو اپنے کاروبار کے متعلق حکومت کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں بات کرتے تھے۔ لیکن اس کے بعد میں نے دیکھا کہ گذشتہ دس پندرہ سال سے جب بھی ملنا ہوا ہے، ایک بار بھی وہ اپنا ،کمپنی کا ، اپنے کارپوریٹ کام کا، اس کے کام کا کبھی کوئی ذکر نہیں کرتے۔ ذکر کرتے ہیں تو وہ جس مشن کو لے کر وہ ان دنوں کام کررہے ہیں، وہ ہےتعلیم کا، اس کا ذکر کرتے ہیں اور اتنی گہرائی سے کرتے ہیں، جتنا کہ وہ اپنی کمپنی کے لیے نہیں کرتے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اس عمر میں، عمر کے اس پڑاؤ پر ، زندگی میں اتنی بڑی کمپنی بنائی، اتنی بڑی کامیابی کا سفر طے ��یا۔ لیکن تسلی مل رہی ہے، ابھی جو کام کررہے ہیں، اس سے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک فرد کی زندگی میں ایسا نہیں ہے، کہ ہم جس پیشے میں ہیں، اگر مان لیجئے کہ ڈاکٹر ہیں تو کسی کی خدمت نہیں کرتے، کرتے ہیں، ایک سائنسداں ہے، تجربہ گاہ کے اندر اپنی زندگی کھپا دیتا ہے اور کوئی ایسی چیز تلاش کرکے لاتا ہے جو پیڑھی در پیڑھی لوگوں کی زندگی بدلنے والی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سماج کے لیے کام نہیں کرتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ خود کے لیے جیتا تھا، یا خود کے نام کے لیے کررہا تھا، جی نہیں۔ جو کررہا تھا، لوگوں کے لئے، لیکن اپنے ہاتھوں سے ، اپنی آنکھوں کے سامنے، اپنی موجودگی میں جو کرتا ہے، اس کی تسلی الگ ہوتی ہے اور آج وہ سکون آخر کار جو اصل ترغیب ہوتی ہے، ہر انسان آپ بھی اپنے آپ دیکھ لیجئے، اپنی خود کی زندگی سے دیکھ لیجئے، اطمینان قلب کے لیے کچھ لوگ یہی کرتے ہیں کہ مجھے سکون ملتا ہے، مجھے اندر سے لطف حاصل ہوتا ہے، مجھے توانائی حاصل ہوتی ہے۔ ہم رامائن میں سن رہے ہیں، کہ گلہری بھی رام سیتو (پل)کی تعمیر میں رام کے ساتھ جڑ گئی تھی۔ لیکن ایک گلہری نے تو ترغیب حاصل کرکے اس مقدس کام میں جڑنا اچھا مانا، لیکن دوسرا بھی ایک نظریہ ہوسکتا ہے کہ رام جی کو اگر کامیاب ہونا ہے، ایشوربھلے ہی ہوں، ان کو بھی گلہری کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب گلہری جڑ جاتی ہے تو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کتنے ہی اقدامات کرلے، حکومت کتنا ہی بجٹ خرچ کرتی ہو، لیکن جب تک عوام الناس کا اس میں حصہ نہیں ہو، شراکت داری نہیں ہوگی، تو ہم جو نتیجہ چاہتے ہیں، اس کا انتظار نہیں کرسکتا ہندوستان۔ دنیا بھی ہندوستان کو انتظار کرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی ہے، دنیا بھی ہندوستان کو، ہندوستان لیڈ کرے، اس توقع سے دیکھ رہی ہے۔ اگر یہ دنیا کی توقع ہے تو ہمیں بھی، ہمارے ملک کو اسی طریقے سے کرنا ہوگا۔ اگر وہ کرنا ہے تو ہندوستان کے عام انسان کی زندگی میں تبدیلی کیسے رونما ہو، میرے پاس جو ہنر ہے، اہلیت ہے، جو قوت ہے، جو تجربہ ہے، اس کا کچھ استعمال میں کسی کے لئے کرسکتا ہوں کیا؟ ایک بات طے ہے کہ کوئی ایسا مقام ہے، جہاں کوئی بھی غریب آئے، کوئی بھی بھوکا آئے، تو کھانا مل جاتا ہے۔ وہاں جو دینے والے لوگ ہیں، وہ بھی بڑے لگاؤ سے دیتے ہیں۔ کھانے والا جا تا ہے وہاں، ایک ایسی صورتحال آتی ہے، ایک ادارہ جاتی انتظام ہے، نظام ہے، میں جاؤں گا، مجھے مل جائے گا، جانے والے کو بھی ، اس کے تئیں خصوصی توجہ نہیں ہوتی ہے کہ دینے والا کون ہے۔ دینے والے کے دل میں بھی کچھ احساس نہیں ہوتا کہ آیا کون تھا۔ کیوں؟ کیونکہ اس کی ایک عادت بن جاتی ہے۔ کوئی آتا ہے تو کھاناکھلاتا ہے۔ وہ چل دیتا ہے۔ لیکن ایک غریب کسی غریب کنبے کے دروازے پر کھڑا ہے، بھوکا ہے، اور ایک غریب اپنی آدھی روٹی بانٹ کرکے دے دیتا ہے، دونوں کو زندگی بھر یاد رہتا ہے۔ اس میں سکون ملتا ہے۔ نظام کے تحت ہونے والی چیزوں کےبجائے از خود ترغیب سے ہونے والی چیزیں کتنی بڑی تبدیلی لاتی ہیں، یہ ہم سب نے دیکھا ہے۔ ہم کبھی ہوائی جہاز سے جارہے ہیں، بغل میں کوئی بزرگ بیٹھے ہیں، پانی پینا ہے، بوتل ہے لیکن کھل نہیں رہی ہے، ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے، ہم فوراً اس کو کھول دیتے ہیں، ہمیں تسلی ملتی ہے۔ یعنی کسی کے لیے جینے کا لطف کچھ اور ہوتا ہے۔ میں نے ایک روایت قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد، جب میں وزیر اعلیٰ تھا، تب بھی کیا کرتاتھا، کسی یونیورسٹی کے کنووکیشن میں جاتا ہوں ت�� مجھے بلانے والوں سے میں اصرار کرتا ہوں کہ آپ اس یونیورسٹی کے نزدیک میں کہیں، سرکاری اسکول ہو، جھگی جھونپڑی کے غریب بچے پڑھتے ہوں، آٹھویں ، نویں، دسویں کے، تو وہ میرے 50 خصوصی مہمان ہوں گے اور اس جلسہ تقسیم اسناد میں اُن کو جگہ دیجئے، ان کو بٹھائیے،ان کو مدعو کیجیے۔ اگر وہ آتے ہیں۔ میرے دل میں رہتا ہے کہ بچے اپنا ٹوٹا ،پھوٹا جیسا بھی ہے اسکول ، پڑھ رہے ہیں، لیکن جلسہ تقسیم اسناد میں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کوئی بہت بڑا لبادہ پہن کر اوپر آرہا ہے، ٹوپی پہنی ہے اور سب لوگ اس کو کوئی سند دے رہے ہیں، اس کے اندر ایک خواب جاگ جاتا ہے۔ ایک بیج بویا جاتا ہےکہ ایک دن میں بھی وہاں جاؤں گا، اور میں بھی کبھی حاصل کروںگا۔ شاید نصابی درجے میں جتنا ہوتا ہے، اس سے زیادہ اس سے ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم بہت سی باتوں ، اس کو ہم کرسکتے ہیں، میں نے، ہمارے آنند جی یہاں بیٹھے ہیں۔ ایک بات ہمیشہ مارک کی ہے اور وہ بھی میری وزیر اعلیٰ کی مدت کار سے اب تک، میں کبھی گجرات کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری کے لئے ملنے جاتا تھا، صنعت کاروں کی میٹنگ کرتا تھا، یہ حضرت کبھی بھی اس سلسلے میں نہ سوال پوچھتے تھے، نہ ذکر کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے، صاحب سماجی کاموں میں کیا کیا ہوسکتا ہے، اب یہ تو مزاج ہے، یہ مزاج سماج کی ، ملک کی بہت بڑی طاقت ہوتا ہے اور آج یہ آخر اس پروگرام میں جڑنے سے مجھے اطمینان اور لطف کیوں حاصل ہورہا ہے۔ میں سوشل میڈیا سے جڑا ہوا انسان ہوں، اس لئے مجھے جو اطلاع بہم پہنچائی جاتی ہے، میں اطلاع کا شکار نہیں ہوں، جو اطلاع مجھے چاہئے، میں کھوج کر کے لیتا ہوں، اور اسی کی وجہ سے مجھے نئی چیز ملتی ہے۔ اگر وہ آج ٹیکنالوجی کا پلیٹ فارم مجھے فراہم کرتا ہے، میں اس میں بھی، میں نے دیکھا ہے، کئی نوجوان اتنا کام کرتے ہیں، تین لوگوں کا گروپ ، چار لوگوں کاگروپ ، سنیچر اتوار چلے جائیں گے، گاؤں میں جائیں گے، کہیں بستی میں جائیں گے، عوام کے درمیان رہیں گے، کبھی بچوں کوپڑھائیں گے، کرتے رہتے ہیں۔ یعنی خاص کرکے بھارت کے زمانہ حال میں 25 سے 40 کے درمیان کی جو پیڑھی ہے، اس میں فطری جذبہ پیدا ہورہا ہے، نظر آتا ہے۔ لیکن اس میں اگر اجتماعیت جڑتی ہے تو وہ ایک طاقت کی شکل میں ابھر کرکے آتی ہے۔ اس کو ہم کہیں نہ کہیں ایک مشن کے ساتھ جوڑ دیں۔ ڈھانچہ جاتی نظام کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک مشن کے ساتھ جوڑدیں، ایک پلیٹ فارم ہو، وہ لچیلا ہو، ہر کوئی اپنی مرضی سے کرتاہو، لیکن جو کرتاہو، وہ کہیں نہ کہیں جمع ہوتا جائے، نتیجہ جمع ہوتا جائے، تو تبدیلی بھی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔ اور یہ بات طے ہے – بھارت کی تقدیر، تکنیک میں ہے۔ جو ٹیکنالوجی آپ کے پاس ہے وہ ہندوستان کی تقدیر کو لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ ان دونوں کو ملاکر کیسے کام کرسکتے ہیں، کوئی ایک مالی ہو، کھلے میدان میں، ایسے ہی بیج چھوڑ دے، موسم ٹھیک ہوجائے گا تو پودھا بھی نکل آئے گا، پھول بھی نکل آئیں گے، لیکن کسی کو بھی وہاں جاکرکے اس کی طرف دیکھنے کا دل نہیں کرے گا۔ لیکن وہی مالی بڑے منظم انداز میں اس رنگ کے پھول یہاں، اتنے سائز کے یہاں ہوں گے، اتنی اونچائی کے یہاں ہوں گے، یہ یہاں ہوگا، یہ ایسا دِکھے گا، ایسا کرکرکے ان پھولوں کو کرتا ہے، تو وہ باغیچہ ہر کسی کے آنے جانے کی ترغیب کا موجب بن جاتا ہے۔ وجہ ؟ اس نے بڑے منظم طریقے سے کام کیا ہے۔ ایک نظام کے تحت کام کیا ہے۔ ہماری یہ جو منتشر قوت ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ان دنوں سوشل اسٹارٹ اپ کا ایک دور شروع ہوا ہے۔ اور جو بچے ملتے ہیں نہ تو پوچھتے ہیں کہ کیا کرتے ہوے، تو بولے ارے صاحب بس کرلیا۔ میں دیکھا تھا، بنگلورومیں ، ایک لڑکا وہ آئی ٹی پیشے میں تھا، کہیں میں نے سوشل میڈیا میں دیکھا تھا، وہ ڈرائیونگ کرتا ہے، بولا دن میں تین چار گھنٹے ڈرائیونگ کرتاہوں، کیوں؟ غریبوں کو لے جاتا ہوں، مدد کرتا ہوں، اسپتال لے جاتاہوں لوگوں کو، مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں نے ایسے آٹو رکشا والے دیکھے جن کے آٹو کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو اسپتال جانا ہے، تو مفت میں لے جاؤں گا۔ میرے دیش کا غریب آٹو رکشہ والا اگر مان لیجئے اس کو اس دن چھ لوگ ایسے مل گئے، جن کو اسپتال لے جانا ہے، تو اس کے بچے بھوکے مریں گے، لیکن اس کو فکر نہیں ہے، وہ بورڈ لگاتا ہے اور ایمانداری سےکرتا بھی ہے ، تو یہ فطری مزاج انسان کے اندر پڑا ہوا ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کچھ کرنا ہے اور وہی ہے، ‘‘میں نہیں ہم’’ اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ میں کو ختم کردینا ہے۔ ہمیں، میں کو توسیع دینی ہے۔ انفرادیت سے اجتماعیت کی جانب سفر کرنا ہے۔ آخر کار فردِ واحد اپنا کنبہ کیوں بڑھاتا ہے۔ بڑے کنبے کے مابین لطف کیوں محسوس کرتا ہے ۔ یہ وسیع کنبے سے بھی وسیع تر کنبہ ،ا ورمیرا سماج، میرا پورا ملک، یہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن جاتا ہے۔ اسی جذبے کو لے کر کے آج خدمت کا جذبہ لے کرکے آئی ٹی 2 سوسائٹی کا سفر ہے یہ۔ ایک طرف آئی ٹی 2 سوسائٹی ہے تو آئی آئی ٹی سوسائٹی بھی ہے۔تو اس جذبے کو لے کر کے ہمیں چلنا ہے۔ میں چاہوں گا کہ سات آٹھ مقامات پر مجھے بات بھی کرنی ہے تو بات چیت شروع کریں۔ ہمارے ملک میں عام شبیہہ ایسی ہے، سرمایہ کاروں کو گالی دینا، تاجروں کو گالی دینا، صنعت کاروں کوگالی دینا فیشن ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہوا، میں حیران ہوں اس سے اور میں اس کا زبردست مخالف ہوں، ملک کو بنانے میں ہرکسی کا تعاون ہوتا ہے۔ آج یہ دیکھا تو پتہ چلے گا کہ ان ساری کمپنیوں نے اپنے سی ایس آر کے توسط سے سارے نظام سے اپنے ہونہار اسٹاف سے کہا کہ پانچ دن تم کو خدمت کے لئے جانا ہے، تو جاؤ، تمہاری نوکری چالو رہے گی۔ چھوٹی چیزیں نہیں ہیں۔ عام زندگی میں بہت بڑا تعاون ہے، لیکن آج جب ایک پلیٹ فارم پر آیا تو سب کی آنکھیں کھل جائیں گی، آج ملک کے ہر کونے میں ہمارے ملک کے لوگ ایسا ایسا کام کررہے ہیں، یہ تو اجتماعیت کی طاقت ہے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ جو ترغیب کی بنیاد ہے، ہم اس میں بھی یہ خود اور خدمت والا جو ہمارا زاویہ ہے، وہ بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔ اور آپ مواصلات کی دنیا کے لوگ ہیں، ٹیکنا لوجی کی دنیا کے لوگ ہیں اور بڑی آسانی سے ان چیزوں کو تیار کرسکتے ہیں۔ تو اس کا اثر بھی بہت ہوسکتا ہے۔ دائرہ کار بھی بہت ہوسکتا ہے۔ اور آپ ان چیزوں سے جڑے ہیں، جو کم لاگت والی ہوتی ہیں۔ تو اس کو جتنا زیادہ ہم کریں گے، ہم ترغیب کی وجہ بنیں گے اور ہماری ان کوششوں سے بیشتر افراد کو ترغیب ملے گی۔ اور یسے ہی ، کتنے ہی پھول کہاں کہاں ملے ہیں، لیکن جب گلدستہ بنتا ہے تو اس کا لطف کچھ اور ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج ان جذباتِ خدمت کا گلدستہ بنانے کا کام ہوا ہے۔ آج یہاں پر اس کوشش سے ، جذبہ خدمت سے، اپنے آپ کو کھپانے والے، نئے نئے شعبوں میں کام کرنے والے لوگ اور وہ بھی ہماری نوجوان پیڑھی کررہی ہے۔ بھارت ماتا کو فخر ہوتا ہوگا کہ میرےملک کے اندر ایسے بھی پھول کھلے ہیں، جو خوشبو پھیلانے کا کام لگاتار کرتے رہتے ہیں۔ متعدد ا��راد کی زندگی بدلنے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ میں سبھی ان نوجوانوں کو بدھائی دیتا ہوں، جنھوں نے اس کام کو بڑی توجہ سے کیا ہے، جی جان سے کیا ہے۔ میں ان سبھی کمپنیوں کا خیرمقدم کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی ذمہ داریوں کے لئے بھی اپنے انتظامات کا استعمال کیا ہے، اپنی صلاحیت کا استعمال کیاہے۔ ہمارے ملک میں ، ملک کو آگے بڑھانے کے لئے، عوام الناس کی شراکت داری ضروری ہے۔ سوا سو کروڑ اہل وطن آگے بڑھنا طے کرلیں گے تو، دنیا کی کوئی طاقت نہیں کہ جو ہندوستان کو پیچھے رکھ سکتی ہے۔ ہندوستان کو آگے آنا ہے، سوا سو کروڑ اہل وطن کو طاقت سے آگے آنا ہے اور صحیح سمت میں آگے آنا ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی سمت سے نتیجہ نہیں آتا ہے، سب ملاکرکے ایک سمت پر چلتے ہیں، تب جاکرکے نتیجہ آتا ہے اور میں بہت رجائیت پسند شخص ہوں، چار سال کے میرے چھوٹے سے تجربے سے میں کہہ سکتا ہوں کی ملک اب تک آگے کیوں نہیں ہوا؟ یہ میرے لیے ایک سوال ہے۔ میرے دل میں یہ سوال نہیں ہے کہ دیش آگے بڑھے گا یا نہیں بڑھے گا؟ میرا یقین ہے کہ ملک بہت آگے بڑھے گا۔ دنیا میں ساری چنوتیوں کو پار کرتے ہوئے ہمارا ملک اپنا مقام حاصل کرکے رہے گا، اس یقین کے ساتھ میں اس پروگرام کی منصوبہ بندی کے لیے سب کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ سب بڑی تعداد میں آئے اور مجھے اتنے طویل عرصے تک آپ سب کو سننے کا آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔ بہت بہت شکریہ تھینک یو!,‘মে’ নেহী হু’ প’ৰ্টেল আৰু এপ্প মুকলি অনুষ্ঠান তথা ‘ছেল্ফ ফৰ ছ’চাইটি’ৰ ওপৰত তথ্য-প্ৰযুক্তি উদ্যোগৰ সৈতে জড়িত লোকসকলৰ সৈতে বাৰ্তালাপ অনুষ্ঠানত প্ৰদান কৰা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-54/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج برطانیہ کی وزیر اعظم محترمہ ایلزابتھ ٹرس سے فون پر بات چیت کی۔ وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم ٹرس کو برطانیہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے سکریٹری تجارت اور سکریٹری امور خارجہ کے اپنے سابقہ رول میں بھارت-برطانیہ دو فریقی تعلقات میں ان کے (ایلزابتھ ٹرس کے) تعاون کے لئے ان کی ستائش کی۔ دونوں رہنماؤں نے بھارت اور برطانیہ کے درمیان جامع اسٹریٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے تئیں عہد بستگی کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا، جن میں روڈ میپ 2030 کے نفاذ کی سمت میں پیش رفت، موجودہ ایف ٹی اے مذاکرات، دفاعی و سکیورٹی تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان عوام سے عوام کے تعلقات شامل ہیں۔ بھارت کے عوام کی طرف سے، وزیر اعظم مودی نے محترمہ ملکہ ایلزابتھ دوئم کی افسوسناک موت پر شاہی خاندان اور برطانیہ کے عوام کے تئیں گہری تعزیت کا اظہار کیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু গ্ৰেট ব্ৰিটেইনৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী এলিজাবেথ ট্ৰাছৰ মাজত টেলিফোনিক বাৰ্তালা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%D9%84%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D9%B9%DA%A9%D8%B3-%D8%AE%D8%AF%D9%85%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%81%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے قومی لاجسٹکس پالیسی کو منظوری دے دی ہے۔ یہ پالیسی لاجسٹکس کے شعبہ کے لیے ایک وسیع بین الضابطہ، بین شعبہ جاتی، کثیر دائرہ اختیار والی اور جامع پالیسی کے فریم ورک کا تعین کرتی ہے۔ یہ پالیسی پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان کی تکمیل کرتی ہے۔ پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان کا مقصد جہاں ایک طرف مربوط بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہے، وہیں دوسری طرف قومی لاجسٹکس پالیسی ہموار کرنے کے عمل، ریگولیٹری فریم ورک، ہنرمندی کے فروغ، اعلیٰ تعلیم میں لاجسٹکس کو مرکزی دھارے میں لانے اور مناسب ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے ذریعے لاجسٹک خدمات اور انسانی وسائل کی کارکردگی کو بہتر کرنا ہے۔ اس کا مقصد تیز رفتار اور جامع ترقی کے لیے ایک تکنیکی طور پر قابل، مربوط، سستا، لچکدار، پائیدار اور قابل اعتماد لاجسٹکس ایکو سسٹم تیار کرنا ہے۔ پالیسی میں اہداف کا تعین کیا گیا ہے اور ان کے حصول کے لیے ایک تفصیلی ایکشن پلان کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ اہداف درج ذیل ہیں: سال 2030 تک عالمی معیار کے مقابلے کے قابل ہونے کے لیے ہندوستان میں لاجسٹکس کی لاگت کو کم کرنا، سال 2030 تک سرفہرست 25 ممالک میں شامل ہونے کے لیے لاجسٹک پرفارمنس انڈیکس کی درجہ بندی کو بہتر بنانا، اور ایک مؤثر لاجسٹکس ایکو سسٹم کے لیے ڈیٹا پر مبنی فیصلے کی حمایت کا طریقہ کار تیار کرنا۔ قومی لاجسٹکس پالیسی ایک مشاورتی عمل کے ذریعے تیار کی گئی ہے جس میں حکومت ہند کی مختلف وزارتوں/ محکموں، صنعت کے متعلقین اور اکیڈمی کے ساتھ مشاورت کے کئی دور منعقد کیے گئے اور عالمی سطح پر رائج بہترین طور طریقوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا۔ پالیسی کے نفاذ پر نظر رکھنے اور تمام متعلقین کی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے، پالیسی موجودہ ادارہ جاتی فریم ورک یعنی پی ایم گتی شکتی این ایم پی کے تحت بنائے گئے سکریٹریز کے بااختیار گروپ (ای جی او ایس) کا استعمال کرے گی۔ ای جی او ایس، نیٹ ورک پلاننگ گروپ (این پی جی) کی طرز پر ایک ’’سروسز امپروومنٹ گرو‘‘ (ایس آئی جی) بھی قائم کرے گا تاکہ لاجسٹک سیکٹر میں عمل کاریوں، ریگولیٹری اور ڈیجیٹل بہتری سے متعلق پیرامیٹرز کی نگرانی کی جاسکے جو این پی جی کے ٹی او آر کے تحت نہیں آتے ہیں۔ یہ پالیسی ملک میں لاجسٹک لاگت میں کمی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ مقامی منصوبہ بندی کے ساتھ گوداموں کی مناسب ترقی، معیارات کو فروغ دینے، لاجسٹک ویلیو چین میں ڈیجیٹلائزیشن اور آٹومیشن اور بہتر ٹریک اور ٹریس میکانزم پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، مختلف متعلقین کے درمیان ہم آہنگی کو آسان بنانے اور مسائل کے فوری حل، ہموار ایگزم عمل، ہنر مند افرادی قوت کا ایک قابل روزگار مجموعہ تیار کرنے کے لیے انسانی وسائل کی ترقی کے لیے مزید اقدامات بھی پالیسی میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ پالیسی واضح طور پر مختلف اقدامات کے زمینی نفاذ کے لیے فوری طور پر ایک ایکشن ایجنڈا بھی پیش کرتی ہے۔ درحقیقت، اس پالیسی کے فوائد تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ممکنہ رسائی کو یقینی بنانے کے لیے، پالیسی کے تحت اہم اقدامات بشمول یونیفائیڈ لاجسٹک انٹرفیس پلیٹ فارم (یو ایل آئی پی)، لاجسٹک خدمات کا پلیٹ فارم، گودام سے متعلق ای ہینڈ بک، پی ایم گتی شکتی پر تربیتی کور��ز اور آئی -گاٹ پلیٹ فارم پر لاجسٹکس کو قومی لاجسٹکس پالیسی کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ اس طرح زمینی عمل درآمد سے متعلق فوری تیاری کا اشارہ دیا گیا ہے۔ نیز، تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مکمل طور پر شامل کیا گیا ہے۔ 14 ریاستوں نے پہلے ہی قومی لاجسٹک پالیسی کی طرز پر اپنی متعلقہ ریاستی لاجسٹک پالیسیاں تیار کر لی ہیں اور 13 ریاستوں کے لیے یہ مسودہ کے مرحلے میں ہے۔ مرکزی اور ریاستی سطح پر پی ایم گتی شکتی کے تحت ادارہ جاتی فریم ورک، جو پالیسی کے نفاذ کی نگرانی بھی کرے گا، پوری طرح سے کام کر رہا ہے۔ اس سے تمام متعلقین کے لیے پالیسی کو تیز رفتار بنانے اور مؤثر طریقے سے اپنانے کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ پالیسی بہت چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں، اور دیگر شعبوں جیسے کہ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں، تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے صارفین کی اشیاٍء اور الیکٹرانکس کی مسابقت کو بڑھانے کی حمایت کرتی ہے۔ زیادہ پیشن گوئی، شفافیت اور معتبریت کے ساتھ، سپلائی چین میں ضیاع اور بڑی انوینٹری کی ضرورت میں کمی آئے گی۔ عالمی ویلیو چینز کا زیادہ سے زیادہ انضمام اور عالمی تجارت میں زیادہ حصہ داری کے علاوہ ملک میں تیز رفتار اقتصادی ترقی میں سہولت فراہم کرنا، اس پالیسی کاایک اور اہم مقصد ہے۔ اس سے عالمی معیارات حاصل کرنے اور ملک کی لاجسٹکس پرفارمنس انڈیکس کی درجہ بندی اور اس کے عالمی مقام کو بہتر بنانے کے لیے لاجسٹک لاگت میں کمی کی توقع ہے۔ یہ پالیسی ہندوستان کے لاجسٹک سیکٹر کو تبدیل کرنے، لاجسٹکس کی کارکردگی کو بہتر بنانے، لاجسٹک لاگت کو کم کرنے اور عالمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک واضح سمت پیش کرتی ہے۔,"লজিষ্টিক সেৱাত অধিক দক্ষতাৰ বাবে ইউনিফাইড লজিষ্টিক ইণ্টাৰফেচ প্লেটফৰ্ম, মানককৰণ, নিৰীক্ষণ ফ্ৰেমৱৰ্ক আৰু দক্ষতা বিকাশৰ বাবে নীতি প্ৰণয়" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D9%B9%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے انٹیل کے سی ای او گیلسنگر کے ساتھ میٹنگ کی اور ٹیک اور تحقیق کے علاوہ اختراع سے متعلق موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے ہندوستان کے تئیں پیٹ گیلسنگر کی پُرامیدی کی بھی تعریف کی ۔ انٹیل کے سی ای او کے ٹویٹ کے ایک جواب میں وزیراعظم نے کہا : آپ سے مل کر مجھے خوشی ہوئی ایٹ پی گیلسنگر ، ہم نے ٹیک تحقیق اور اختراع سے متعلق موضوعات پر کافی مثبت بحث کی ۔ میں بھارت کے تئیں آپ کی پرامیدی کی تعریف کرتا ہوں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ইণ্টেলৰ চিইঅ’ পেট জেলছিংগাৰক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%B3%D8%B1%D8%B2-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%8C%D9%85%DB%8C%DA%A9%D9%84-%D8%A7%DB%8C%D9%86%DA%88-%D9%81%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A7%B0/,"نئی دہلی،12 ستمبر2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے(i) میسرز راشٹریہ کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرز (آر سی ایف) کی زمین ممبئی میٹرو پولیٹین ریجنل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ایم ایم آر دی اے) کو منتقل کرنے ) ii (آر سی ایف کی زمین میونسپل کارپوریشن آف گریٹر ممبئی(ایم سی جی ایم) کو منتقل کرنے کے لئے منظوری کے لئے تجویز اور (iii) ایم ایم آر ڈی اے ؍ایم سی جی ایم کو زمین کی منتقلی کے بدلے وصول ہوئے ؍ قابل وصول تبادلے کے قابل ڈیولپمنٹ رائٹ(ٹی ڈی آر) کےسرٹیفکیٹ کی فروخت کے لئے اپنی منظوری دے دی ہے۔ اس اطلاق پچھلی تاریخوں سے ہوگا۔ پس منظر:راشٹریہ کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرز(آر سی ایف) پبلک سیکٹر میں ہندوستان کی ایک سرکردہ کھاد اور کیمیکل بنانے والی کمپنی ہے۔ یہ سابقہ فرٹیلائزرز کارپوریشن آف انڈیا لمٹیڈ کی تشکیل نو پر 6 مارچ 1978ء کو قائم کی گئی تھی۔فی الحال آر سی ایف کے مستند شیئر کیپٹل 800 کروڑ روپے ہے اور551.69 کروڑ روپے کا پیڈ اپ سرمایہ ہے۔کمپنی کو 1997 ء میں منی رتنا کا درجہ دیا گیا ہے۔ ایم ایم آر ڈی اے نے آر سی ایف کی 48,849.74مربع میٹرزمین(8265مربع میٹر مزاحمت سے آزاد ؍ مفت زمین اور 40584.74 مربع میٹر مزاحمت سے آزاد زمین )حاصل کرلی ہے اور ایسٹرن فری وے –اَنِک پنجراپول لنک روڈ (اے پی ایل آر) کی تعمیر مکمل کرلی ہے اور سال 2014ء میں عوام کے استعمال کے لئے اسے کھول دیا تھا۔ آر سی ایف نے یکم نومبر 2017ء کو 16530 مربع میٹر کا ٹی ڈی آر سرٹیفکیٹ حاصل کیا تھا جو ایک عبوری راحت کے طورپر 8265 مربع میٹر مزاحمت سے آزاد ؍مفت زمین کے بدلے ایم ایم آر ڈی اے کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ 40584.74 مربع میٹر مزاحمت سے آزاد زمین کے بدلے ٹی ڈی آر ؍معاوضے کے لئے آر سی ایف کے دعوے کا فیصلہ ثالث کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ آر سی ایف طویل عرصے سے ایم سی جی ایم سے یہ مانگ کررہی تھی کہ وہ ممبئی کے اپنے ترقیاتی منصوبے سے آر سی ایف کالونی کی اندرونی سڑکوں کو ختم کرے۔ اس کے نتیجے میں آر سی ایف آپسی طورپر طے کئے گئے شرائط کی بنیاد پر معاوضے کے طوپر ٹی ڈی آر کے بدلے 18.3 میٹر ڈی پی سڑک تعمیر کے لئے تقریباً 16000مربع میٹر زمین سونپنے کو تیا رہوگیا تھا۔ م ن۔ح ا۔ن ع (12.09.2018)",মেচাৰ্চ ৰাষ্ট্ৰীয় সাৰ আৰু ৰসায়ন(আৰচিএফ) ৰ ভূমি মুম্বাই মেট্ৰ’পলিটান আঞ্চলিক উন্নয়ন প্ৰাধিকৰণ(এমএমআৰডিএ)ক হস্তান্তৰ কৰিবলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/21-06-2018-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DB%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D9%88%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%D9%88%D8%AA%DA%BE%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%DB%8C%D9%88%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%B9%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,اسٹیج پر موجود سبھی معزز شخصیات اور اس وسیع ، خوبصورت میدان میں موجود میرے سبھی ساتھیوں! میں دیوبھومی اتراکھنڈ کی اس مقدس سرزمین سے دنیا بھر کے یوگا پریمیو کو چوتھے عالمی یوم یوگ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ماں گنگا کی اس سرزمین پر، جہاں چاردھام موجود ہیں، جہاں آدی شنکراچاریہ آئے، جہاں سوامی وویکانند کئی مرتبہ آئے، وہاں یوم یوگ پر ہم سبھی کا اس طرح جمع ہونا، کسی خوش قسمتی سے کم نہیں ہے۔ اتراکھنڈ تو ویسے بھی کئی دہائیوں سے یوگا کا خاص مرکز رہا ہے۔ یہاں کے پہاڑ، خود ہی یوگ اور آیوروید کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔ عام سے عام شہری بھی جب اس سرزمین پر قدم رکھتا ہے ، تو اسے ایک الگ طرح کا ، ایک الوہی احساس ہوتا ہے۔ اس مقدس سرزمین میں انوکھی قوت ہے، احساس ہے، کشش ہے۔ ساتھیو! یہ ہم سبھی بھارتیوں کے لیے فخر کی بات ہے کہ آج جہاں جہاں طلوع ہوتے سورج کے ساتھ جیسے جیسے سورج اپنا سفر طےکرے گا، سورج کی کرن پہنچ رہی ہے، روشنی پھیل رہی ہے، وہاں وہاں لوگ سورج کا استقبال کررہے ہیں۔ دہرادون سے لے کر ڈبلن تک ، شنگھائی سے لے کر شکاگو تک، جکارتہ سے لے کر جوہانسبرگ تک، یوگ ہی یوگ ، یوگ ہی یوگ ہے۔ ہمالیہ کے ہزاروں فٹ اونچے پہاڑ ہوں یا پھر دھوپ سے تپتا ریگستان، یوگ ہر صورت حال میں ، ہر ایک زندگی کو مالامال کررہا ہے۔ جب توڑنے والی طاقتیں حاوی ہوتی ہیں تو بکھراؤ کی صورت حال ہوتی ہے۔ شافراد کے مابین، سماج کے مابین، ممالک کے مابین بکھراؤ آتا ہے۔ سماج میں دیواریں کھڑی ہوتی ہیں، خاندان میں تنازعہ پیدا ہوتا ہے اور یہاں تک کہ آدمی اندر سے ٹوٹتا ہے اور زندگی میں تناؤ بڑھتا جاتا ہے۔ اس بکھراؤ کے درمیان یوگ جوڑتا ہے۔ جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ آج کی مصروف اور تیز دوڑتی زندگی میں یوگ، دل، جسم، دل ، عقل اور روح کو جوڑکر آدمی کی زندگی میں سکون و چین لاتا ہے۔ فردکو خاندان سے جوڑکر خاندان میں خوشحالی لاتا ہے۔ خاندانوں کو سماج کے تئیں ذمہ دار بناکر سماج میں میل ومحبت لاتا ہے۔ سماج ، ملک کو اتحاد کے دھاگے میں پروتے ہیں۔ اور ایسے ملک دنیا میں امن اور ہم آہنگی لاتے ہیں۔ انسانیت، بھائی چارے سے بالیدہ ہوتی ہے اور نشو ونما پاتی ہے۔ یعنی یوگ فرد- خاندان- سماج- ملک- دنیا اور مکمل انسانیت کو مربوط کرتا ہے۔ جب اقوام متحدہ نے یوگ کی تجویز رکھی اور یہ اقوام متحدہ کا ریکارڈ ہے، یہ پہلی تجویز تھی جس کو دنیا کے سب سے زیادہ ملکوں نے اتفاق کیا۔ یہ پہلی تجویز تھی جسے اقوام متحدہ کی تاریخ میں سب سے کم وقت میں منظور کیا گیا اور یہ یوگ آج دنیا کا ہر شہری ، دنیا کا ہر ایک ملک یوگ کو اپنا ماننے لگا ہے اور اب ہندوستان کے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے کہ ہم اس عظیم وراثت کے حامل ہیں، ہم ان عظیم روایات کی وراثت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی وراثت پر فخر محسوس کرنا شروع کریں جو لافانی ہیں اسے چھوڑدیں اور وہ بھی برقراربھی نہیں رہتا۔ لیکن جو وقت کے لیے موزوں ہے، جو مستقبل کی تعمیر میں مفید ہے، ایسی ہمایر عظیم وراثت کو اگر ہم فخر کریں گے تو دنیا کبھی فخر محسوس کرنے کے لیے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔ لیکن اگر ہم ہماری طاقت پر اعتماد نہیں کرتے تو کوئی ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ اگر کنبے میں کنبہ ہی بچے کے وجود کو ہمیشہ امکار کرتا رہے اور یہ توقع رکھے کہ اہل محلہ بچے جکا احترام کریں تو وہ ممکن نہیں ہے۔ جب ماں، باپ، خاندان، بھائی اور بہن ، بچہ کو جیسا بھی ہو قبول کرتے ہیں تب ہی محلے کے لوگ بھی اسے قبول کرتے ہیں۔ آج یوگ نے ثابت کیا ہے کہ جیسے ہندوستان نے ایک بار پھر یوگ کی طاقت کو اپنے ساتھ جوڑ لیا دنیا خود ہی جڑنےلگی ہے۔ یوگ ،آج دنیا کی سب سے پاورفل یونیٹی فورسز میں سے ایک بن گیا ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج پوری دنیا میں یوگ کرنے والوں کے اعدادو شمار جمع کیے جائیں تو حیرت انگیز سچ دنیا کے سامنے آئیں گے۔ الگ الگ ملکوں میں، پارکوں میں، کھلے میدانوں میں، سڑکوں کے کنارے، دفتروں میں، گھروں میں، اسپتالوں میں، اسکولوں میں، کالجوں میں، تاریخی ورثوں کے مقامات میں یوگ کے لیے جمع ہوتے عام لوگ، آپ جیسے لوگ، عالمی ہم آہنگی اور گلوبل فرینڈ شپ کو اور قوت دے رہے ہیں۔ دوستو، یہ دنیا یوگ کو اپنا چکی ہے اور اس کی جھلکیاں بین الاقوامی یوم یوگ کی شک میں دیکھی جاسکتی ہیں جو ہر سال منایا جارہا ہے۔ دراصل یوم یوگ اچھی صحت اور عافیت کے حصول کی جستجو کے لیے ایک عوامی تحریک کی شکل لے چکا ہے۔ دوستو، ٹوکیو سے ٹورنٹو تک، اسٹاک ہوم سے ساؤ پاؤلو تک یوگ لاکھوں افراد کی زندگیوں میں ایک مثبت اثر بن چکا ہے۔ یوگ اس لیے خوبصورت ہے کیونکہ یہ قدیم ہوتے ہوئے جدید ہے۔ یہ لگاتار جاری ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ اس میں ہمارا بہترین ماضی اور حال مضمر ہے اور ہمارے مستقبل کی کرن بھی اس میں ہی پوشیدہ ہے۔ یوگ میں ہم اپنے مسائل کا مکمل حل تلاش کرسکتے ہیں۔ یہ حل انفرادی اور سماجی دونوں طریقوں سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ہماری دنیا ایسی ہے جو کبھی سوتی نہیں۔ ہر ایک لمحے دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ نہ کچھ وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے۔ تیز رفتار والا وجود اپنا ساتھ بہت سا تناؤ ل کر آتا ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر بڑا صدمہ ہوا کہ ہر سال تقریباً 18 ملین افراد دنیا بھر میں امراض قلب کے نتیجے میں فوت ہوجاتے ہیں۔ تقریباً 1.6 ملین افراد ذیابیطس کے نتیجے میں زندگی کی جنگ ہارجاتے ہیں۔ ایک پرسکون، خلاقانہ اور مطمئن زندگی گزارنے کا ذریعہ یوگ ہے۔ میں بتا سکتا ہوں کہ تناؤ کیسے دور کیا جائے اور فضول پریشانیوں سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ یوگ منقسم نہیں متحد کرتا ہے۔ تنازعے کو ہوا نہیں دیتا ہے بلکہ اتحاد کی بات کرتا ہے نکالایف بڑھانے کی بجائے صحت بخشتا ہے۔ یوگ کی کسرت کرنے سے امن ، خوشحالی اور بھائی چارے کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ جتنی زیادہ تعداد میں لوگ یوگا کی کسرت کریں گے اس سے زیادہ کی تعداد میں یوگ سکھانے والے درکار ہوں گے۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران بہت سے افراد یوگ کی تعلیم دے رہے ہیں، نئے ادارے قائم ہورہے ہیں اور ٹیکنالوجی بھی ان کو باہم مربوط کررہی ہے۔ میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ آئندہ آنے والے وقت میں اسے بڑھاوا دیں۔ خدا کرے کہ یہ یوم یوگ ہمیں یوگ کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرنے کا ایک موقع فراہم کرے اور عوام کو جو ہمارے ارد گرد ہیں، اس میں شرکت کی ترغیب دے۔ یہ اس دن کا یہ ایک دائمی اثر ہوگا۔ ساتھیوں، یوگ نے دنیا کو بیماری سے صحت مندی کا راستہ دکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں یوگ کی قبولیت اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کاوینٹری یونیورسٹی اور ریڈ باؤڈ یونیورسٹی کے مطالعے میں بھی سامنے آیا ہے کہ یوگ صرف جسم کو آرام ہی نہیں دیتا بلکہ یہ ہمارے ڈی این اے میں ہونے والے ان مالیکیولر ری ایکشنز کو بھی بدل سکتا ہے جو ہمیں بیمار کرتے ہیں اور ڈپریشن کو پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم آسان اور پرانایام کی باقاعدگی سے کسرت کرتے ہیں تو ہم صحت کے ساتھ ساتھ مختلف امراض سے اپنا تحفظ بھی کرسکتے ہیں ۔ یوگ کی باقاعدگی کاسیدھا اثر کسی بھی خاندان کے میڈیکل خرچوں پر پڑتا ہے۔ ملک کی تعمیر کی ہر کارروائی سے ہر ایکٹی وٹی سے جڑنے کے لیے ہم سبھی کا صحت مند رہنا نہایت ضروری ہے اور یقینی طور پر اس میں یوگ کا بھی بڑا کردار ہے۔ اس لیے آج کے دن میری اپیل ہے کہ جو لوگ یوگ کے ساتھ جڑے ہیں، وہ باقاعدگی لائیں اور جو اب بھی یوگ سے نہیں جڑے ہیں وہ ایک بار کوشش ضرور کریں۔ ساتھیوں، یوگ کی بڑھتی مقبولیت نے دنیا کو بھارت کے اور بھارت کو دنیا کے زیادہ قریب لادیا ہے۔ ہم سبھی مسلسل کوششوں سے آج یوگ کو دنیا میں جو مقام حاصل ہوا ہے وہ وقت کے ساتھ اور مضبوط ہوگا۔ صحت اور خوشحالی انسانیت کے لیے یوگ کے متعلق تفہیم کو اور زیادہ وسعت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ آئیے اپنے اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی کوششوں کو تیز کریں۔ ایک بار پھر میں اس دیو بھومی سے دنیا بھر کے یوگ شائقین کو اپنی نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ اتراکھنڈ کی حکومت کی بھی ستائش کرتا ہوں، جس نے اس عظیم کام کی منصوبہ بندی کی۔ بہت بہت شکریہ۔,দেশৰ কৃষক সমাজৰে হোৱা প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোডীৰ বাৰ্তালাপৰ মূল পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%82%E0%A6%9F%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج بھارت اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے 70 سال پورے ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا ہے کہ ہمارے تعلقات چاہے وہ اسٹریٹجک ہوں، اقتصادی یا عوام سے عوام کے رابطے ہوں، ہر زمرے میں گہرے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے سلسلے وار ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘‘ایسے میں جب کہ ہم آج بھارت اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے 70 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے تعلقات ، چاہے وہ اسٹریٹجک ہوں، اقتصادی ہوں یا عوام سے عوام کے رابطے ہوں، ہر زمرے میں گہرے ہوئے ہیں۔’’ ‘‘حال ہی میں میرے دوست وزیراعظم کیشیدا کے سالانہ چوٹی میٹنگ کے لئے بھارت کے دورے نے کووڈ کے بعد کی دنیا میں خصوصی اسٹریٹجک اور عالمی ساجھیداری میں ہمارے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لئے ایک نقشہ راہ پیش کیا ہے۔ میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وزیراعظم کیشیدا کے ساتھ کام کرتے رہنے کا خواہشمند ہوں۔’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح-و ا- ق ر),ভাৰত আৰু জাপানৰ মাজত কূটনৈতিক সম্পর্ক স্থাপনৰ ৭০সংখ্যক বৰ্ষপূৰ্তিত সন্তোষ প্ৰকাশ প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B5%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%D8%8C-%D8%AA%DA%BE%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بھارت کی جی 20 صدارت کے لیے لوگو، تھیم اور ویب سائٹ کی رونمائی کی۔ وزیر اعظم کے ذریعہ ورچووَل طریقہ سے جاری کیے گئے لوگو، تھیم ذیل میں دیے گئے ہیں: لوگو اور تھیم کی وضاحت: جی 20 کا لوگو بھارت کے قومی پرچم کے زندہ رنگوں – زعفرانی، سفید اور ہرا، اور نیلا – سے ترغیب یافتہ ہے ۔ اس میں بھارت کے قومی پھول کمل کے ساتھ زمین کو جوڑا گیا ہے، جو چنوتیوں کے درمیان ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔ زمین زندگی کے تئیں بھارت کے کرہ ٔ ارض دوست نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جو فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی علامت ہے ۔جی 20 لوگو کے نیچے دیوناگری رسم الخط میں ’’بھارت‘‘ لکھا ہے۔ لوگو ڈیزائن کے لیے منعقدہ ایک کھلے مقابلے کے دوران موصول ہوئی تجاویز کے عناصر کو اس لوگو میں شامل کیا گیا ہے۔ مائی گو پورٹل پر منعقدہ اس مقابلے کو 2000 سے زائد داخلوں کے ساتھ زبردست ردعمل حاصل ہوا۔ یہ جی 20 کی بھارت کی صدارت کے دوران عوامی شراکت داری کی وزیر اعظم کی تصوریت سے ہم آہنگ ہے۔ بھارت کی جی 20 کی صدارت کا عنوان – ’’وسودھیو کٹمب کم‘‘ یا ’’ایک کرۂ ارض، ایک کنبہ، ایک مستقبل‘‘- مہا اُپ نِشد کے قدیم سنسکرت صحیفے سے لیا گیا ہے۔ لازمی طور پر، یہ مضمون زندگی کی تمام اقدار – ان��ان، جانور، پیڑ پودے ، جراثیم – اور زمین پر اور وسیع کائنات میں ان کے باہمی تعلق کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ تھیم انفرادی طرز حیات کے ساتھ ساتھ قومی ترقی کی سطح پر، اپنے متعلقہ، ماحولیاتی طور پر پائیدار اور ذمہ دار متبادلوں کے ساتھ ’لائف‘ (طرز حیات برائے ماحولیات) پر بھی روشنی ڈالتی ہے، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر تغیراتی اقدامات کیے جاتے ہیں اور نتیجتاً ایک صاف ستھرا، سبز اور نیلگوں مستقبل یقینی ہوتا ہے۔ لوگو اور تھیم مل کر بھارت کی جی 20 کی صدارت کے تعلق سے ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں، جو دنیا میں سبھی کے لیے مبنی بر انصاف مساوی ترقی کے لیے ایک پائیدار، جامع، ذمہ دار اور مبنی بر شمولیت انداز میں کوشش کر رہا ہے، وہ بھی ایسی صورتحال میں جب ہم ہنگامہ خیز دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ لوگو اور تھیم ہماری جی 20 کی صدارت کے لیے ایک منفرد بھارتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں ، جو اپنے آس پاس کے ایکو نظام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرکے جینا سکھاتا ہے۔ بھارت کے لیے جی 20 کی صدارت ’’امرت کال‘‘ کے آغاز کی بھی علامت ہے۔ یہ ’’امرت کال‘‘ 15 اگست 2022 کو اس کی آزادی کی 75ویں سالگرہ سے شروع ہوکر اس کی آزادی کے 100ویں برس تک کی 25 برس کی مدت پر مشتمل ہے اور ایک مستقبل پر مبنی، خوشحال، مبنی بر شمولیت اور ترقی یافتہ معاشرہ، جس کی بنیاد میں انسان پر مرتکز نقطہ نظر ہو، کی جانب آگے بڑھنے والا سفر ہے۔ جی 20 ویب سائٹ وزیر اعظم کے ذریعہ بھارت کی جی 20 کی صدارت کی ویب سائٹ www.g20.in کا آغاز بھی کیا گیا۔ یہ ویب سائٹ یکم دسمبر 2022، جس دن بھارت جی 20 کی صدارت کا عہدہ اختیار کرے گا، کو جی 20 کی صدارت کی ویب سائٹ www.g20.in پر بلارکاوٹ منتقل ہو جائے گی۔ جی 20 اور لاجٹکس انتظامات کے بارے میں اہم معلومات کے علاوہ، اس ویب سائٹ کا استعمال جی 20 سے متعلق معلومات کے ذخیرے اور خدمت کے لیے بھی کیا جائے گا۔ اس ویب سائٹ میں شہریوں کے لیے سجھاؤ پیش کرنے کا ایک سیکشن بھی شامل ہے۔ جی 20 ایپ: ویب سائٹ کے علاوہ، اینڈرائڈ اور آئی او ایس، دونوں پلیٹ فارموں پر ایک موبائل ایپ ’’جی 20 انڈیا‘‘ جاری کی گئی ہے۔,"ভাৰতৰ জি-২০ প্ৰেচিডেন্সিৰ ল’গ’, থিম আৰু ৱেবছাইট উন্মোচন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے ماحولیات کے لئے طرز زندگی (لائف ) کے تصورکا حوالہ دیتے ہوئے مہاتماگاندھی کی سائیکل پرسوار ایک تصویر ساجھا کی ہے ۔ آج بائیسیکل کا عالمی دن ہے ۔ وزیراعظم نے ایک ٹوئیٹ کیا ؛ ‘‘ماحولیات کے لئے طرز زندگی ۔ آج بائیسیکل کا عالمی دن ہے اورماحولیاتی توازن کوقائم رکھنے اورصحت مند طرززندگی گزارنے کے لئے مہاتماگاندھی سے زیادہ بہتر ترغیب کس سے حاصل ہوسکتی ہے ۔ ’’,বিশ্ব চাইকেল দিৱসত মহাত্মা গান্ধীৰ এখনি আলোকচিত্ৰ শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81%D8%8C-%D9%BE%D8%AA%DA%BE%D9%88%D8%B1%D8%A7-%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%A5%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پتھورا گڑھ کے کیندریہ ودیالیہ کے طلباء کے ذریعہ ‘پریکشا پہ چرچا ‘کے موقع پر ایک گیت کی پیشکش کا اشتراک کیا ۔ کیندریہ ودیالیہ سنگٹھن کے ایک ٹویٹ کو دوبارہ ٹویٹ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے لکھا ؛ “لاجواب ! سُروں میں پرویا گیا طلباء کا یہ جذبہ امتحان کے جشن میں نئے رنگ بھرنے والا ہے، ان میں جوش و خروش پیدا کرنے والا ہے۔” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 361,পিথোৰাগড়ৰ কেন্দ্ৰীয় বিদ্যালয়ৰ ছাত্ৰ-ছাত্ৰীৰ পৰীক্ষা পে চৰ্চাত গীত পৰিবেশনৰ ভিডিঅ’ শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%DA%AF%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF-%E0%A6%89/,ہرہر مہادیو کاشی میں کہل جالا کی ایہنوا سات وار اور نوتہوار ہولا – کہنے کا مطلب ایہو ، کیہوا روز روز نیا نیاتہوار مناول جالا ۔ آج کے ایہی پرسن میں یہاں جٹل آپ سب لوگن کے پرنام ہا ۔ اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل جی یششوی مکھیہ منتری یوگی آدتیہ ناتھ اسٹیج پر موجود یوپی سرکار کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ سبھی اسمبلی ارکان اور بنارس کے میرے بھائیو اور بہنو! میں سب سے پہلے تو آپ سب کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ اسمبلی کے چناؤ کے وقت میں آپ سب کے بیچ آیاتھا اور اترپردیش میں دوبارہ سرکاریں بنانے کے لئے آپ سب کی مدد مانگی تھی لیکن آپ اترپردیش کے لوگوں نے اور میری کاشی کے لوگوں نے جو حمایت دی اور جوش وامنگ کے ساتھ میرا ساتھ دیا اس لئے میں آج جب چناؤ کے بعد پہلی بار آپ کے بیچ آیاہوں تو قابل احترام کاشی کے لوگوں کا اترپردیش کے لوگوں کا دل سے شکر گزار ہوں، ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ دویہ بھوے نوے کاشی میں چار سالوں سے 8سال سے ترقی کا جو میلہ چل رہا ہے اس کو ہم ایک بار پھر رفتار دے رہے ہیں۔ کاشی ہمیشہ سے زندہ ، لگاتار آگے رہا ہے ۔اب کاشی نے ایک تصویر پورے ملک کو دکھائی ہے جس میں وراثت اور ترقی ہے ۔ ایسی وراثت جسے بھویہ دویہ اور نویہ بنانے کا م لگاتار جاری ہے۔ایسی ترقی جو کاشی کی سڑکوں ، گلیوں تالابوں ، گھاٹوں اورپاٹوں ،ریلوے اسٹیشنوں سے لے کر ہوائی اڈوں تک میں لگاتار رفتار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کاشی میں ایک پروجیکٹ ختم ہوتا ہے تو چار نئے پروجیکٹ شروع ہوتے ہیں ۔ آج بھی یہاں 1700 کروڑروپے سے زیادہ کے درجنوں پروجیکٹس کی شروعات اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔کاشی میں سڑک ،پانی، بجلی، صحت ،تعلیم اور اسے خوبصورتی سے جوڑنے کے لئے ہزاروں کروڑوں روپے کے پروجیکٹس پورے ہوچکے ہیں۔ ہزاروں کروڑروپے کے پروجیکٹوں پر کام لگاتار جاری ہے۔ بھائیو اور بہنو! کاشی کی آتما ختم ہونے والی نہیں لیکن کایا میں ہم لگاتار جدت لانے کے لئے جی جان سے کوشش کررہے ہیں۔ ہماری ترقی کاشی کو اور زیادہ ترقی کی طرف لے جانے اور اسے آگے لے جانے کی ہے۔کاشی کا جدیدبنیادی ڈھانچہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ تعلیم ، ماحولیات ،صفائی ستھرائی اورکاروبار کے لئے جب حوصلہ افزائی اور ترغیب ملتی ہے ، نئے ادارے بنتے ہیں۔ اعتقاد سے جڑے مقدس مقامات کی جاذبیت کو جدید شاندار طریقے سے جوڑا جاتا ہے، تب ترقی میں رفتار آتی ہے۔جب غریبوں کو گھر ، بجلی ، پانی ،گیس ، ٹوائلیٹ جیسی ��ہولیات ملتی ہیں ، بنکروں ،دستکاروں ،ریڑھی پٹری والوں اور ملاحوں سے لے کر بے گھروں تک سبھی کو فائدہ ملتا ہے تب ترقی کا احساس ہوتاہے۔ آج اس پروگرام کے دوران جوسنگ بنیاد اور آغاز کیا گیا ہے، ان میں ترقی ،رفتار اور احساس تینوں کی جھلک ہے۔ میری کاشی سب کا ساتھ سب کا وشواس ،سب کا پریاس کی بہترین مثال ہے۔ بھائیو بہنو! آپ نے مجھے اپنا ممبر پارلیمنٹ بناکر خدمت کا موقع دیا ہے اس لئے جب آپ لوگ کچھ اچھا کام کرتے ہیں تو مجھے دوگنی خوشی ہوتی ہے اور میرا سکو ن اور زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ کاشی کے بیدار شہریوں نے جس طر ح ملک کو سمت دینے والا کام کیا ہے اسے دیکھ میں بہت خوش ہوں۔ کاشی کے لوگوں نے پورے ملک کو پیغام دیا ہے کہ شارٹ کٹ سے ملک کا بھلا نہیں ہوسکتا ۔کچھ لیڈروں کا بھلا ہوجا ئے گا ۔ لیکن ملک کا بھلا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی عوام کا بھلا ہوسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2014 میں آنے کے بعد کاشی میں باہر سے آنے والے لوگ سوال کرتے تھے کہ یہاں اتنا کچھ بندوبست ہے یہ سب ٹھیک کیسے ہوگا ، یہی لوگ پوچھتے کہ ناں۔ ان کی تشویش صحیح بھی تھی، بنارس میں جدھر نظر ڈالووہاں سدھار کی تبدیلی کی گنجائش نظر آتی تھی ۔صاف لگتا تھا کہ بنارس کی صورتحال سنبھالنے کے لئے دہائیوں سے کوئی کام ہوا ہی نہیں ہے ۔اب ایسے میں کسی اور کے لئے شارٹ کٹ چننا بہت آسان تھا ۔لوگوں کو یہ دے دووہ دے دو ،اس سے زیادہ اس کی سوچ جا ہی نہیں سکتی ۔ کو ن اتنی محنت کرے ،کون اپنا سرکھپائے کو ن پسینے بہائے ۔ لیکن میں بنارس کے لوگوں کی داد دوں گا کہ انہوں نے صحیح راستہ دکھایا صحیح راستہ چنا۔ انہوں نے دو ٹوک کہہ دیا کہ کام ایسے ہو جو حا ل فی الحال تو ٹھیک کرے ہی مستقبل میں بھی کئ کئی دہائیوں تک بنارس کو فائدہ پہنچائیں ۔ میرے پیارے کاشی کے بھائیو بہنو ! مجھے بتائیے جو کام ہورہا ہے وہ مستقبل کے لئے بھی کام آنے والا ہے نا۔ آنے والی نسلوںکو بھی کام آنے والا ہے نا۔ یہاں کے نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنانے والا ہے نا۔سارے ہندوستان کو کاشی کی طرف کھینچ لائے گا کہ نہیں لائے گا۔ سارا ہندوستان کاشی دیکھنے آئے گا کہ نہیں آئے گا ۔ ساتھیو ! آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب مستقبل کی منصوبہ بندی ہوتی ہے توکس طرح نتیجے بھی نکلتے ہیں ۔ گزشتہ 8سالوں میں کاشی کا بنیادی ڈھانچہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ کاشی کے تاجروں کو،سبھی کو فائدہ ہورہا ہے اس سے کسان ،مزدور، تاجر سبھی کو فائدہ ہورہا ہے ۔ تجارت بڑھ رہی ہے ، کاروبار بڑھ رہا ہے ،سیاحت فروغ پارہی ہے ۔ رکشا والا بھی کہہ رہا ہے کہ صاحب دن بھر اتنا کام مل رہا ہے ،تاجر کہہ رہا ہے کہ صاحب چھ مہینے کا مال ایک دن میں فروخت ہوجا تا ہے ۔ ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا ہے ،تیزی آئی ہے کہ نہیں آئی ہے ، یہ جو سڑکیں بن رہی ہیں ، یہ جو غریبوں کے گھر بن رہے ہیں، جو پائپ لائن بچھ رہی ہے ، ان میں جو سامان لگتا ہے ،اس سے سیمنٹ ،اسٹیل اور تعمیر سے جڑی دوسری صنعتو ں کا ،چھوٹے موٹے دوکاندار وں کا بھی کاروبار بڑھ رہا ہے ۔ یعنی یہ وارانسی اور اس پورے علاقے میں روزگار کا بھی بہت بڑا وسیلہ بن رہا ہے ۔ بنارس کے لوگ جس دوراندیشی کے ساتھ سوچ رہے ہیں ،اس پر عمل کررہے ہیں ،آج اس کا فائدہ پورے علاقے کو ہورہا ہے۔ آج کاشی کے چاروں طرف دیکھیں تو رنگ روڈ ،چوڑے نیشنل ہائی وے ہوں ، بابت پور سٹی لنک روڈ ہو، آشا پور آر او بی چوک گھاٹ ،لہر تارا فلائی اوور ، مہمور گنج ، منڈواڑی فلائی اوور ۔ یہ سب بنارس کے لوگوں کی زندگی کتن�� آسان بنارہے ہیں ۔ریلوے اوور برج ،ورونا پور برج جب بن جائیں گے تو ان کے بننے سے یہ سہولت اور بڑھنے والی ہے ۔ آج کاشی کی تین اور سڑکوں کو چوڑ ا کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے ۔اس سے مئو ، اعظم گڑھ ، غازی پور ، بلیا ، بھدوئی ، مرزا پور جیسے کئی ضلعوں سے آنا جانا آسان ہوجائے گا اور کاشی میں جام کی پریشانی بھی کم ہوگی۔ بھائیو بہنو ! شہروں کی ان چوڑ ی سڑکوں کو آس پاس کے گاؤوںسے جوڑنے کے لئے آج ضلع کی 9 سڑکوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جاچکا ہے۔ ان سڑکوں سے بارش کے موسم میں جو مشکلات آس پاس کے گاؤوں کے کسانوں ، نوجوانوں کو شہر آنے میں ہوتی ہے وہ دور ہوجائے گی۔ یوگی جی کی سرکار تحصیل اور بلاک ہیڈ کوارٹر س کوضلع ہیڈ کوارٹر سے جوڑنے کے لئے چوڑی سڑکو ں پر کام کررہی ہے۔ وہ کام بھی قابل تعریف ہے ۔ آج سیوا پوری کو بنارس سے جوڑنے والی سڑک کو چوڑا کرنے کا بھی کام شروع ہوگیا ہے۔ یہ جب پورا ہوجائے گا تو وارانسی ضلع کی سبھی تحصیل اور بلاک ہیڈ کوارٹر سات میٹر چوڑی سڑکوں سے جڑ جائیں گے۔ بھائیو بہنو ! جب ساون دروازے دکھا رہا ہے ، پاس آگیا ہے ،دروازے کھٹکھٹانے لگا ہے ، ساون ، ساون اب بہت دور نہیں ہے ، ملک اور دنیا سے بابا کے بھگت بڑی تعداد میں کاشی آنے والے ہیں ۔وشو ناتھ دھام پروجیکٹ پورا ہونے کے بعد یہ پہلا ساون میلہ ہوگا ۔ وشو ناتھ دھام کو لے کر پوری دنیا میں کتنا جوش وخروش ہے یہ آپ نے گزشتہ مہینوں میں خودتجربہ کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ گرمی کے موسم کے باوجود اس بار روزانہ اور ابھی یوگی جی بھی بات کررہے تھے ، روزانہ لاکھوں عقیدت مندوں نے کاشی وشو ناتھ دھام کے درشن کئے ہیں۔ساون کے دوران بھی یہاں بابا کے بھگتوں کو دویہ اور بھویہ اور نئے کاشی کا انوبھو بھی ملے گا۔ بھائیو بہنو ! دنیا بھر کے عقیدت مندوں کو ،سیاحوں کو کاشی میں اعتقاد اور آستھا کا تجربہ ملے یہ ہم سبھی کا عزم ہے ۔ ہمارے یہاں پہلے جب کوئی تیرتھ یاتری آتا تھا تو گاؤں میں لوگ اپنے گھر بلاکر کھانا کھلاتے تھے ۔ہر طرح سے اس کی خدمت کرتے تھے ۔ ہماری کاشی میں بھی پہلے یہی روایت تھی جو باہر سے لوگ آتے تھے ، ان کے یہاں یجمان ہوتے تھے ۔ ان کو وہ اپنے گھر میں رکھ لیتے تھے ۔ بندوبست کرتے تھے ، جذبہ یہ تھا کہ عقیدت مند کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو یا وہ کسی سہولت سے محروم نہ رہ جائے ۔ اسی جذبے پر ہماری سرکار بھی چل رہی ہے ۔ کاشی بھیرو یاترا ، نوگوری یاترا ، نودرگا یاترا ، اشٹھ ونایک یاترا ، آستھا کی ایسی ہر یاترا سگم ہو ، اس کے لئے سرکاری سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ پنچ کوسی پریکرما کے راستے میں متعدد جگہ آرام کے لئے ، پوجا پاٹھ میں سگمتا کے لئے بندوبست کئے جارہے ہیں ۔کاشی کی پہچان یہاں کی گلیوں اور گھاٹوں کو صاف ستھرا اور خوبصورت بنانا ہو ، آرامدہ بنانا ہو یا پھر گنگا جی شفاف بنانے کی عہد ہو اس پر بھی تیز رفتار سے کام چل رہا ہے ۔ بھائیو اور بہنو! ہمارے لئے ترقی کا مطلب صرف چمک دمک نہیں ہے ، ہمارے لئے ترقی کا مطلب ہے غریب دلت محروم پچھڑے ، آدی باسی مائیں اور بہنیں ان سب کو بااختیار بنانا ۔ آج پی ایم آواس یوجنا کے تحت وارانسی کے 600سے زیادہ غریب کنبوں کو اپنا پختہ گھر ملا ہے یعنی 600 نئے لکھ پتی بن گئے ہیں ۔ جن ساتھیوں کا گھر کا خواب آج پورا ہوا ہے ، ان کو بہت بہت مبارک ۔ اور ان کنبوں کی ماؤں اوربہنوں کا خاص کر مبارکباد ۔ کیونکہ ہماری کوشش رہتی ہے کہ گھر بنے تو ماؤں اوربہنوں کے نام پر ہونا چاہئے اوراسی لئے انہیں خاص مبارکباد۔ ہر غریب کنبے کو پکا گھر دینا اور ہر دیہی کنبے کو پائپ کے پانی سے جوڑنا ان عہد پر ہم تیزی سے کام کررہے ہیں۔جل جیون مشن کے تحت درجن بھر پانی کے پروجیکٹوں کا کام شروع ہوچکا ہے۔ ان سے ہزاروں کنبوں کو خاص طور پر بہنوں کو اس سے بہت سہولت حاصل ہوگی۔ماؤں بہنوں بیٹیوں کے لئے بنے آشرے گرہ سے بھی سب کی ترقی کے جذبے مضبوط ہوں گے اور مایوس ماؤں بہنوںاور بیٹیوں کے لئے بنے ان آشرے گرہ سے امید پیدا ہوگی ۔ بھائیو بہنو! ایسی بے مثال اورشاندار ترقی اور یہی تو بندوبست ہے آپ دیکھئے ریڑھی ٹھیلے پرچھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے ساتھیوں کو کتنی مشکل آتی تھی ،اب گودولیہ سے دشاش مید کے بیچ گور و پدوی بنا ہے تو وہا ں اب دشاش مید سمکل بھی بنانے جارہے ہیں ۔ یہ سمکل ریڑھی پٹری والوں کو سہولتوں کے ساتھ اپنی دوکانداری کرنے کا موقع دے گا۔ چوکا گھاٹ، لہر تارا فلائی اوور اس کے نیچے لگ بھگ دو کلومیٹر لمبا ایک مخصوص وینڈنگ زون تیار کیا جارہا ہے ۔سارناتھ میں بھی بدھشٹ سرکٹ کی تعمیر کا جوکام آج شروع ہوا ہے وہاں بھی ریڑھی پٹری والےساتھیوں کے لئے سہولتیں تیار ہوں گی۔ ساتھیوں ! اپنے ایس ای زیڈ ، اقتصادی کوریڈور جیسے بندوبست کے بار ے میں آپ نے بہت سنا ہوگا لیکن ریڑھی پٹری والوں کے لئے خصوصی زونس بھی آپ کاشی میں بنتے دیکھ رہے ہیں ۔سہولت ہی نہیں ، پی ایم سواندھی یوجنا کے تحت پہلی بار اسٹریٹ وینڈرس کو بینک قرض ملناشروع ہوا ہے ۔ ابھی تک ملک بھر میں تقریباََ 33 لاکھ لوگوں کو اس کے لئے قرض مل چکا ہے ۔ جس میں ہزاروں ساتھی میرے کاشی کے بھی ہیں۔ ساتھیو ! ہماری سرکار نے ہمیشہ غریب کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے سکھ دکھ میں ساتھ دینے کی کوشش کی ہے ۔ کورونا کے دوران مفت ٹیکے سے لے کر غریبوں کو مفت راشن کی سہولت تک سرکار نے آپ کی خدمت کا کوئی موقع چھوڑا نہیں ہے ۔ گزشتہ آٹھ سال میں جس طرح ڈجیٹل بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا گیا ہے اس سے بڑا فائدہ غریب اور متوسط طبقے کو ہوا ہے۔ آج بنارس کے آپ لوگ گواہ ہیں کہ کس طرح موبائل فون سستے ہوئے ،فون کرنا تو تقریباََ فری ہوگیا ہے ۔ اب تقریباََ انٹر نیٹ بھی بہت سستا ہوگیا ہے ۔ زندگی آسان ہوگئی ہے ۔ کمائی کے نئے وسائل کھل رہے ہیں ۔ ملک میں فون اور انٹر ٹیٹ یوزر دنوں دن بڑھ رہے ہیں تو اس سے جڑے کاروبار بھی بڑھ رہا ہے ۔ کم سرمایہ کاری میں نوجوانوں کو اس سے جڑی خدمات میں روزگار کے مواقع مل رہے ہیں ۔اسی طرح جو 5 لاکھ روپے تک کا علاج ہم نے مفت کیا ہے ،اس سے غریبوں کی بہت بڑی تشویش اور فکر دور ہوگئی ہے ۔اس سے وہ غریب بھی اسپتال جانے کی ہمت کرپارہے ہیں ، جو کبھی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج کرانے سے محروم رہتے تھے ۔ یعنی اسپتالوں کی مانگ بڑھ رہی ہے ، میڈیکل کالجز کی مانگ بڑھ رہی ہے ۔ گزشتہ 8 سال میں ہم نے اترپردیش میں ہی درجنوں میڈیکل کالج بنائے ہیں ۔ یہاں کاشی میں بھی کینسر کے علاج سے لے کر تمام بیماریوں کے جدید علاج کا کتنا بڑا نیٹ ورک تیار کیا گیا ہے ۔ ساتھیو! ایک طرف ہم ملک کے شہروں کو دھوئیں سے پاک کرنے کے لئے سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کے لئے سہولتوں کو فروغ دے رہے ہیں وہیں دوسری طر ف ہم گنگا جی کا دھیان رکھنے والے ہمارے ملاحوں کی ڈیزل اور پٹرول سے چلنے والی کشتیوں کو سی این جی سے جوڑنے کا بھی متبادل فراہم کررہے ہیں۔ گھاٹ پر موجود ملک کا پہلا سی این جی اسٹیشن کاشی میں ہے اور اس بات پر کاشی فخرکرسکتا ہے۔ ڈیز ل پٹرول سے چلنے والی 650 کشتیوں میں سے 500 کو سی این جی سہولت سے جوڑا جاچکا ہے ۔ اسی سہولت سے سیاحوں کو پرامن طریقے سے گنگا جی کےدرشن کرنے کا سکھ ملے گا ۔ ماحولیات کو فائدہ پہنچے گا ، وہیں ملاحوں کے ایندھن پر ہونے والے خرچ میں بھی بہت کمی آئے گی یعنی کم خرچ میں زیادہ کمائی کےراستے کھلیں گے۔ بھائیو اور بہنو ! کاشی ،علم ، اعتقاد اور بھروسے کا شہر تو ہے ہی ، یہاں کھیل کودکی بھی ایک زبردست روایت ہے اور آج ہوائی اڈے سے یہاں تک سبھی کھلاڑیوں سے میرا ملنا ہوا ہے ۔سارے میرے کھلاڑی ساتھی وہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں ۔اس طرف بھی کھلاڑیوں کا پورا جمگھٹ ہے ۔ آج میں ان کا جوش وخروش دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے لگتا ہے کہ کاشی میں جو اسٹیڈیم بن رہا ہے وہ اب کاشی کو نئی اونچائی پر لے جانے والا ہے ۔ یہاں کے اکھاڑے کسرت اورکشتی سے فٹنس کے لئے ترغیب دے رہے ہیں ۔ آج بھی ناگ پنچمی کے دن ہم ان اکھاڑوں میں پرانے وقت کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن کھیل کودصرف فٹنس اورتفریح کا ہی نہیں بلکہ ملک کی عزت اور وقار کوبڑھانے اور بہتر کیریئیر کا بھی بہترین وسیلہ ہے ۔گزشتہ 8سال میں وارنسی سمیت پروآنچل کے متعدد کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت کی یہ لگارتار کوشش رہی ہے کہ اولمپک اسپورٹس سے جڑے ہر کھیل کی جدید سہولیات ہمارے کاشی میں میسر ہو۔ آج جس اسٹیڈیم پر ہم یہ جلسہ کررہے ہیں ، وہ بہت ہی جلد عالمی سطح کی سہولتوں سے لیس ہونے والا ہے ۔ 6دہائی پہلے بنے اس اسٹیڈیم میں 21 ویں صدی کی سہولتیں تیار کی جائیں گی۔ یہاں 20سے زیادہ گیمس کے لئے الٹرا ماڈرن انڈور سہولتیں ہوں گی۔ بہترین تربیت سیٹ اپ ، فٹنس سینٹر ، ہوسٹل جیسی سہولتیں یہاں ملیں گی۔ بچوں کے لئے کڈس زون بھی ہوں گے تاکہ ان میں کھیلوں کولے کر ،فٹنس کو لے کر جوش وجذبہ پیدا ہو ۔ کم عمر میں ہی ان کا پیشہ ورانہ کھیلوں کی طرف رجحان بڑھے ۔ یہ پورا کمپلیکس جدید سہولتوں کے ساتھ ساتھ پیرا گیمس بھی اس کے مطابق ہوگا۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کراسپورٹس کمپلیکس میں ایتھیلٹس اور باسکٹ بال کی جدید سہولتوں سے بھی نوجوان کھلاڑیوں کو کافی مدد ملے گی۔ بھائیواور بہنو! کاشی کی نہ رکنے والی ترقی کا یہ سلسلہ گنگا جی کی طرح ایسے ہی بہتا رہے ۔اس کے لئے ہم سب کو کوشش کرنی ہے۔ ہاں کاشی کی گنگا جی کی صفائی ستھرائی کا جو عہد ہم نے کیا ہے اسے کبھی بھی بھولنا نہیں ہے۔ یادرکھیں گے نا، یادرکھیں گے نا، ذرا دونوں ہاتھ اوپر کرکے بولئے ۔ بولئے یادرکھیں گے نا،ہماری کوشش صاف رہے گی نا ، ہماری کاشی صاف ستھری رہے گی نا، ہماری ماں گنگا صاف ستھری رہے گی نا ، یہاںکوئی گندگی نہیں کریں گے نا، یہاں کوئی گندگی نہیں ہونے دیں گے نا ، یہ ہماری کاشی ہے ،اس کاشی کو ہمیں ہی بچانا ہے ،اس کاشی کو ہمیں ہی بنانا ہے اور ہم سب مل کر بنائیں گے۔ سڑکوں کو ،گھاٹوں کو، بازاروں کوصاف رکھنا یہ ہم سبھی کا ، کاشی کے لوگوں کافرض ہے ، کاشی کے لوگوں کے اعتماداور بھروسہ باباوشو ناتھ کے آشیر وادسے ہماراعہد پورا ہونے ہی والا ہے ۔ ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ ہر ہر مہادیو!,বাৰাণসীৰ ছিগ্ৰাত এলামি উন্নয়নমূলক আঁচনিৰ শুভাৰম্ভণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%DB%8C-7-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DB%81%D9%84%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%AD-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جرمنی کے شلوس ایل مؤ میں جی 7 کی سربراہ کانفرنس کے پہلو بہ پہلو 27 جون 2022 کو کناڈا کے وزیراعظم عزت مآب جناب جسٹن ٹروڈیو کے ساتھ ایک دوطرفہ ملاقات کی ۔ مشترکہ اقدار کی حامل دو عظیم الشان جمہوری حکومتوں کے رہنماؤں کی حیثیت سے انہوں نے ایک نتیجہ خیز ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں انہوں نے ہندوستان۔ کناڈا دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا اور تجارت، اقتصادی رابطوں، سیکورٹی اور دہشت گردی مخالف تعاون ، اس کے ساتھ ساتھ عوام سے عوام کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق رائے ظاہر کیا ۔ ان رہنماؤں نے باہمی مفاد کے عالمی اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔,জি-৭ সন্মিলনৰ সময়ত কানাডাৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-49-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%86%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%A8%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AA%E0%A7%AF-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF/,نئیدہلی،04جون ۔وزیراعظم جناب نریندرمودی نے آج راشٹرپتی بھو ن میں 49 ویں گورنرس کانفرنس کے ابتدائی اجلاس سے افتتاحی خطاب کیا۔ گورنروں کی کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے تفصیل سے ان امور اور طریقوں کا تذکرہ کیا جن کے ذریعہ گورنر حضرات زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے تجربات کی رابطہ کاری کرسکیں تاکہ عوام الناس کو مختلف مرکزی ترقیاتی اسکیموں کا فائدہ حاصل ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں گورنر ایک ایسا ادارہ ہے جو وفاقی ڈھانچے اور آئینی فریم ورک میں رہتے ہوئے اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے گورنر حضرات بالخصوص جن ریاستوں میں قبائلی آبادی کی تعداد نمایاں طور سے زیادہ ہے ، ان ریاستوں کے گورنر حضرات اس امر کو یقینی بنانے میں اہم کردار اد ا کرسکتے ہیں ۔جن میں قبائلی برادریوں کو تعلیم ، کھیل کو د اور مالیاتی مجموعیت کے میدان میں سرکار ی اقدامات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی برادریوں نے ہمارے ملک کی جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔ جس کا اعتراف ڈجیٹل میوزیم جیسے مواقع کے ذریعہ آنے والی نسلوں کو ، ان کے اجدا د کی ملک کی جدوجہد آزادی میں کلیدی خدمات فراہم کراکے کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گورنر حضرات پر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ز کے مناصب کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ 21 جو ن کو منعقد کئے جانے والے بین الاقوامی یوگا دوس کو نوجوانوں میں یوگا کے بارے میں وسیع تر بیداری پیدا کرنے کے نمایاں موقع کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹیاں بھی مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم پیدائش کی تقریبات میں مرکزی مقام کی حیثیت اختیار کرسکتی ہیں ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے نیشنل نیوٹریشن مشن ،مواضعات کی برق کاری اور ایسپریشنل اضلاع میں ترقیاتی معیار بندی جیسے کلید ی امور کے مرکزی خیال کاتذکرہ کیا ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ گورنر حضرات ان مواضعات کا سفر کرکے جنہیں حال ہی میں برق کاری کی سہولت فراہم کرائی گئی ہے ،خود ہی موقع پر برق کاری کی سہولت فراہم کرائے جانے کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس سال 14 اپریل سے شروع ہونے والے گرام سوراج ابھیان میں سرکار کی سات اسکیموں کو 16 ہزارسے زائد مواضعات میں پوری طرح روبہ عمل لایا جارہا ہے ۔ان مواضعات کو جن بھاگیداری کے ذریعہ سات مسائل سے نجات حاصل ہوگئی ہے اور اب گرام سوراج ابھیان کو مزید 65 ہزار مواضعات میں توسیع دی جارہی ہے ۔ اس توسیع کی تکمیل کا نشانہ 15 اگست مقرر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگلے سال 50 ویں گورنرس کانفرنس ک تیاریاں فوری طورسے شروع کی جانی چاہئیں ۔ یہ کوشش اس اجتماع کو مزید سود مند بنائے جانے معاون ہوسکتی ہے۔ 2911U-,৪৯ সংখ্যক ৰাজ্যপাল সন্মিলনৰ উদ্বোধন পৰ্বত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%90%D9%88%D9%84-%DB%81%D8%A7%D8%B3%D9%BE%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%8C-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A7%D9%93/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%BF/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سول ہاسپٹل ، اسرو ا، احمد آباد میں 1275 کروڑ روپے کی لاگت سے مختلف ہیلتھ کئر سہولیات کا سنگ بنیاد رکھا اور انھیں قوم کے لئے وقف کیا۔ تقریب کے مقام پر پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نے ہیلتھ انفراسٹرکچر پروجیکٹ کاجائزہ لیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم ڈائس پر پہنچے جہاں ان کی عزت افزائی کی گئی۔وزیر اعظم نے ان تمام کی تختی کی نقاب کشائی کی اور قوم کے لئے وقف کیا:۔ (1) گردے کی بیماریوں کے تحقیقی ادارے (آئی کے ڈی آر سی) کی منجو شری مل کیمپس ہیں ۔ (2) سول ہاسپٹل کیمپس اسروا میں گجرات کینسر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ہاسپٹل بلڈنگ آئی سی۔ (3) یو این مہتا ہاسپٹل میں ہوسٹل ۔ (4) ایک ریاست ایک ڈائلائسس پروگرام کے ساتھ گجرات ڈائلائسس پروگرام میں توسیع۔ (5) گجرات ریاست کے لئے کیمو پروگرام۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے ان تمام کی سنگ بنیاد رکھے:۔ (1) نیو میڈیکل کالج، گودھرا ہاسپٹل (3) سول ہاسپٹل ، اسروا میں میڈیکل گرلز کالج (4) رین بسیرا سول ہاسپٹل ، اسروا۔ (5) 125 بستروں والا ڈسٹرکٹ ہاسپٹل ، بھلورا (6) سو بستروں والا سب ڈسٹرکٹ ہاسپٹل، انجر۔ وزیر اعظم نے موروا ہدف، جی ایم ایل، آر ایس جونا گڑھ اور سی ایچ سی واگھل میں سی ایچ سی کے مریضوں کے ساتھ بات چیت کی۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ گجرات میں صحت کے تعلق سے ایک بڑا دن ہے اور انھوں نے ان پروجیکٹوں کی بروقت تکمیل پر تمام متعلقہ لوگوں کو مبارکباد پیش کی۔ جناب مودی نے کہا کہ گجرات کے عوام کو دنیا کی جدید ترین طبی ٹیکنالوجی ، بہتر فائدے اور طبی بنیادی ڈھانچہ ملے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان طبی فائدوں کی دستیابی کے بعد اب جو لوگ مہنگا علاج معالجہ نہیں کراسکتے وہ سرکاری اسپتالوں میں جاسکتے ہیں جہاں طبی ٹیمیں ان کا بروقت علاج کرنے کے لئے موجود ہوں گی۔ وزیر اعظم نے یاد کیا کہ تقریبا ساڑھے تین برس قبل انھیں 1200 شہروں والے زچہ بچہ سپر اسپیشلٹی ہاسپٹل کا افتتاح کرنے کا موقع ملا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گردوں کی بیماریوں کے ادارے اور امراض قلب کے یو این مہتا انسٹی ٹیوٹ کی گنجائش اور خدمات کو وسعت دی جارہی ہے۔ گجرات کینسر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نئی عمارت کے ساتھ بون میرو ٹرانسپلانٹ کی بہتر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ملک کا پہلا سرکاری اسپتال ہوگا جہاں سائبر نائف جیسی جدید ترین ٹیکنالوجی دستیاب ہوگی۔ وزیر اعظم نے ک��ا کہ گجرات تیزی سے ترقی کی نئی بلندیاں سر کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گجرات میں ترقی کی رفتار یہ ہے کہ کبھی کبھی اس کے کاموں اور حصولیابیوں کو شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ بیس ۔ پچیس برس قبل گجرات میں ناقص نظام کی بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس ضمن میں صحت کے شعبے کی پسماندگی ، تعلیمی بد انتظامی ، بجلی کی کمی اور امن وقانون کے مسائل کا ذکر کیا۔ ان سے بھی زیادہ بڑی خرابی تھی ووٹ بینک کی سیاست۔ انھوں نے کہا کہ آج گجرات آگے بڑھ رہا ہے اور ان تمام خرابیوں کو اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج ہائی ٹیک اسپتالوں کے معاملے میں گجرات سب سے آگے ہے۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کا سوال ہے،گجرات کے مقابلے پر کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح گجرات میں پانی ، بجلی اور امن وقانون کی صورتحال نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ آج سب کا ساتھ ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس حکومت گجرات کے لئے انتھک کام کررہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج نقاب کشائی کئے گئے صحت بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں نے گجرات کو ایک نئی پہچان دی ہے اوریہ پروجیکٹ گجرات کے عوام کی صلاحیتوں کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اچھی ہیلتھ سہولیات کے ساتھ گجرات کے عوام اس بات پر بھی فخر کریں گے کہ ہماری ریاست میں عالمی درجے کی طبی سہولیات کا فروغ ہورہا ہے۔ اس سے گجرات کے طبی سیاحت کے امکانات کو بھی بروئے کار لایا جاسکے گا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ صحت کے اچھے انفراسٹرکچر کے لئے نیت اور پالیسیاں دونوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کا دل اور نیت دونوں عوام کے مسائل سے فکر مند طور پر مربوط نہ ہوں تو صحت کے لئے موزوں انفراسٹرکچر کی تشکیل ممکن نہیں۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ جب ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ پورے دل سے کوششیں کی جاتی ہیں تو ان کے نتائج بھی اسی مناسبت سے کثیر جہت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہی گجرات کی کامیابی کا راز ہے‘‘۔ میڈیکل سائنس کی تشبیہ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ ’سرجری‘ سے کام لیا تھا یعنی پرانے غیر متعلقہ نظاموں کو پورے ارادے اور طاقت سے ختم کیا۔ دوسرا 'علاج ' یہ کیا کہ نظام کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیشہ نئی اختراع سے کام لیا، تیسرا قد 'کیئر' کا اٹھایا یعنی صحت کے نظام کی ترقی کے لیے حساس طریقے سے کام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گجرات پہلی ریاست ہے جس نے جانوروں کی بھی دیکھ بھال کی۔ انہوں نے کہا کہ بیماریوں اور عالمی وبا کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ون ارتھ ون ہیلتھ مشن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ حکومت نے احتیاط سے کام کیا اور کہا کہ ’’ہم لوگوں کے پاس گئے، ان کی حالت زار کو سمجھا‘‘۔ عوامی شراکت کے ذریعے لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جب نظام صحت مند ہوا تو گجرات کا صحت کا شعبہ بھی صحت مند ہو گیا اور اب گجرات کو ملک میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ انہوں نے گجرات سے حصل اسباق سے مرکزی حکومت میں استفادہ کیا، بتایا کہ گزشتہ 8 برسوں میں مرکزی حکومت نے ملک کے مختلف حصوں میں 22 نئے ایمس سامنے لائے اور گجرات کو بھی اس کا فائدہ ہوا ہے۔ ""گجرات کو اپنا پہلا ایمس راجکوٹ میں ملا""۔ گجرات میں صحت کے شعبے میں کئے جانے والے کام کی عکاسی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ وہ دن دور نہیں جب گجرات میڈیکل ریسرچ، بائیوٹیک ریسرچ اور فارما ریسرچ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے عالمی سطح پر اپنا نام پیدا کرے گا۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ حکومت کے حساس ہونے کا معاشرہ ہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے جس میں کمزور طبقات کے ساتھ ساتھ مائیں اور بہنیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے جب نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات اور زچگی کی شرح اموات ریاست کے لئے شدید تشویش کا باعث تھیں اور پچھلی حکومتوں نے ایسے ناخوشگوار واقعات کے لیے تقدیر کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ہماری حکومت تھی جس نے ملک کی ماؤں اور بچوں کے لئے ایک موقف اختیار کیا۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ’’گزشتہ بیس برسوں میں ہم نے مطلوبہ پالیسیاں تیار کیں اور انہیں نافذ کیا جس کے نتیجے میں شرح اموات میں زبردست کمی واقع ہوئی‘‘۔ ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ابھیان‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پیدا ہونے والی لڑکیوں کی تعداد اب نوزائیدہ لڑکوں کی تعداد سے بڑھ گئی ہے۔ وزیر اعظم نے اس طرح کی کامیابیوں کا سہرا گجرات کی حکومت کی 'چرنجیوی' اور 'کھلکھلاہٹ' جیسی پالیسیوں کے سر باندھا۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ گجرات کی کامیابی اور کوششیں مرکزی حکومت کے ’اندر دھنش‘ اور ’مترو وندنا‘ جیسے ارادوں کو راستہ دکھا رہی ہیں۔ اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نے غریبوں اور ضرورت مندوں کے علاج کے لئے آیوشمان بھارت جیسی اسکیموں کا ذکر کیا۔ ڈبل انجن والی حکومت کی طاقت کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آیوشمان بھارت اور مکھیہ منتری امریتم یوجنا کا امتزاج ریاست گجرات میں غریبوں کی صحت کی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے۔ ’’صحت اور تعلیم صرف دو شعبے ہیں جو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کی سمت کا تعین کرتے ہیں‘‘۔ 2019 میں 1200 بستروں کی سہولت کے ساتھ سول اسپتال کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہی اسپتال صحت کے سب سے بڑے مرکز کے طور پر ابھرا اور ایک سال بعد دنیا میں پھیلنے والی عالمی وبا ء کوویڈ 19 کے دوران لوگوں کی خدمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس واحد صحت کے بنیادی ڈھانچے نے عالمی وبا کے دوران ہزاروں مریضوں کی جانیں بچائیں‘‘۔ وزیر اعظم نے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لئے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنی بات یہ کہتے ہوئے مکمل کی کہ ’’میری خواہش ہے کہ آپ اور آپ کا خاندان کسی بھی طرح کی بیماری سے محفوظ رہے‘‘۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل، پارلیمانی اراکین، جناب سی آر پاٹل، جناب نرہری امین، جناب کریت بھائی سولنکی اور جناب ہنس مکھ بھائی پٹیل بھی موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے احمد آباد کے سول اسپتال اسروا میں تقریباً 1275 کروڑ روپے کی لاگت سے صحت کی دیکھ بھال کی مختلف سہولیات کا سنگ بنیاد رکھا اور قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے غریب مریضوں کے اہل خانہ کی رہائش کے لئے شیلٹر ہومز کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے کارڈیک کیئر کے لئے نئی اور بہتر سہولت گاہ اور یو این مہتا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اینڈ ریسرچ سنٹر میں ہاسٹل کی نئی عمارت، انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز اینڈ ریسرچ سنٹر کی ایک نئی اسپتالی عمارت اور گجرات کینسر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نئی عمارت وقف کی۔",আহমেদাবাদৰ আছাৰৱা অসামৰিক চিকিৎসালয়ত প্ৰায় ১২৭৫ কোটি টকাৰ বিভিন্ন স্বাস্থ্যসেৱা সুবিধা��� আধাৰশিলা স্থাপন কৰাৰ লগতে দেশবাসীৰ নামত উচৰ্গা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%81%D9%84-%D9%88%D8%B7%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%D8%B1%D8%B4%D9%88-%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8/,نئی دلّی ،یکم مئی، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پرشورام جینتی کے موقع پر اہل وطن کو مبارکباد پیش کی ہے؛ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’اہل وطن کو پرشورام جینتی کی ڈھیروں مبارکباد۔ بھگوان پرشو رام اپنے رحم دلی اور مدد کے ساتھ ہی اپنی شجاعت اور بہادری کے لئے قابل احترام ہیں۔‘‘,পৰশুৰাম জয়ন্তীত দেশবাসীক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%B1%D8%B4%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%91%D8%AA%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D9%84%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%BF-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A6%A3-%E0%A6%86%E0%A6%97/,"نئیدہلی۔17 مارچ، 2018 ؛ کابینہ کے میرے ساتھی جناب رادھا موہن سنگھ جی، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیو راج سنگھ چوہان جی، میگھالیہ کے وزیراعلیٰ جناب کونراڈ سنگما جی، کابینہ کے میرے ساتھی جناب پروشوتم روپالا جی، جناب گجیندر سنگھ شیخاوت جی، محترمہ کرشنا راج جی، سائنسداں حضرات، اور اس تقریب کا مرکز ممالک سے آئے ہوئے میرے کسان بھائی – بہن۔ قومی کرشی انّتی میلے میں ٓپ سبھی کا بہت بہت استقبال ہے۔ اس طرح کے انتی میلوں کی جدید ہندوستان کی راہ کو ہموار کرنے میں بڑا اہم رول ہے۔ اس میلے کے ذریعے سے مجھے جدید ہندوستان کے دو رہنماؤں سے ایک ساتھ، ایک وقت پر بات کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ نیو انڈیا کے ایک رہنما ہمارے کسان، ہمارے انیہ داتا ہیں جو ملک کے لیے جی توڑ محنت کر رہے ہیں۔ دوسرا رہنما ہمارے سائنسداں بھائی ہیں جو نئی نئی ٹکنالوجی کو فروغ دے کر کسان کی زندگی آسان کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی جانکاری فراہم کی گئی ہے کہ تمام ملک کے زرعی سائنسی مراکز میں بھی ہزاوں کسان بھائی – بہن اس وقت تکنیک کے ذریعے سے ہم سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ان سبھی کا بھی میں اس موقعے پر والہانہ استقبال کرتا ہوں۔ بھائیوں اور بہنوں، یہاں آنے سے پہلے میں، یہاں جو بہت بڑا میلہ لگا ہے، اس میں گیا تھا۔ میری کئی سائنسدانوں سے بات ہوئی، کسانوں سے گفتگو کی ، زراعت سے جڑی نئی نئی تکنیکوں کو میں نے دیکھا۔ لائیو ڈیمو سے نئی تکنیکوں کی جو اطلاع دی جا رہی ہیں وہ یقینی طور پر سبھی کے بہت کام آنے والی ہیں۔ آج مجھے یہاں زراعت کے شعبے میں بہتر کام کرنے والے کسان بھائی – بہنوں کی عزت افزائی کرنے کا بھی موقع ملا ہے۔ کرشی کرمن اور پنڈت دین دیال اپادھیائے زراعت کی حوصلہ افزائی ایوارد سے نوازے گئے سبھی ریاستوں اور لوگوں کو میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ انعام آپ کی محنت کا احترام تو ہے ہی ساتھ میں کروڑوں کسان بھائیوں کو ترغیب دینے کا ذریعہ بھی ہیں۔ آج مختلف ریاستوں کو ریکارڈ اناج پیدا کرنے کےلیے اعزاز سے نوزا گیا ہے۔ میں خاص طور سے یہاں میگھالیہ کی بات کرنا چاہوں گا جسے الگ سے ایوارڈ دیا گیا ہے۔ ساتھیوں، رقبے میں چھوٹے اس ریاست نے بڑا کام کر کے دکھایا ہے۔ م��گھالیہ کے کسانوں نے سال 16-2015 کے دوران پیداوار کا پنچ سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس وقت اسٹیج پر میگھالیہ کے نوجوان وزیراعلیٰ موجود ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اس کامیابی کے لیے وہ میگھالیہ میں بھی کسانوں کے لیے ایک اعزاز کا پروگرام بھی منعقد کریں۔ ساتھیوں، آج میرا یہ یقین اور پختہ ہو گیا ہے کہ جب منزل صاف ہو، منزل کو حاصل کرنے کے لیے خود کو دن رات لگانے کا ارادہ ہو، تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے کسان میں وہ حوصلہ ہے کہ وہ مشکل لگنے والے منزل کو بھی حاصل کر سکتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک میں فصل کی پیداوار کی کیا حالت تھی۔ مشکل بھرے اس دور سے ہمارا انیہ داتا ہمیں باہر نکال کر لایا ہے۔ آج ملک میں ریکارڈ فصل پیداوار، ریکارڈ دال پیداوار، ریکارڈ پھل – سبزیوں کی پیداواریت ، ریکارڈ دودھ کی پیداوار ہو رہی ہے۔ اس لیے میں ملک کے ہر کسان کو، کرشی انّتی میں لگی ہر ماتا – بہن – بیٹی کو سو سو بار نمن کرتا ہوں۔ ساتھیوں ، ہمارے ملک کے زراعت کے شعبے نے متعدد معاملے میں پوری دنیا کو راہ دکھائی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ جو چیلنج کاشت کاری سے جڑتی چلی گئیں وہ آج کے اس دور میں بہت اہم ہیں۔ یہ چیلنج ہی کسانوں کی آمدنی کم کرتے ہیں۔ انہیں نقصان پہنچاتے ہیں اور کاشت کاری پر ہونے والے اخراجات کو بڑھاتے ہیں۔ ان چیلنجوں کا پوری مستعدی کے ساتھ ، بہتر سوچ کے ساتھ نمٹنے کے لیے ہماری حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ ان مختلف کاموں کی سمت الگ ہے۔ کسان کی آمدنی کو دوگنا کرنا ، ایک ہدف ہے۔ کسانوں کی زندگی کو آسان بنانا ۔ ہم اس عزم کے راستے پر بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج ملک میں گیارہ کروڑ سے زیادہ سوائل ہیلتھ کارڈ تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ سوائل ہیلتھ کارڈ سے مل رہی جانکاری کے مطابق جو کسان کاشتکاری کر رہے ہیں اُن کی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اخراجات میں بھی کمی آرہی ہے۔ یوریا کی سو فیصد نیم کوٹنگ سے بھی کھاد کی کھپت میں کمی آئی ہے اور فی ہیکٹیئر اناج میں اضافہ ہوا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے ذریعے ہماری سرکار نے کسانوں کو سب سے کم پریمیئم پر بیمہ فراہم کیا ہے۔ بیمہ پر کیپنگ ختم کر کے یہ بندوبست کیا گیا کہ پوری رقم کا بیمہ کیا جائے۔ اس اسکیم کے بعد اب فی کسان ملنے والی کلیم رقم دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ کسان کو تشویش سے دور رکھنے میں ہماری حکومت کا یہ بہت بڑا قدم ہے۔ کسانوں کے مفادات سے جڑے کئی ماڈل ایکٹ بنا کر ریاستی حکومتوں سے انہیں نافذ کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ یہ قانون ریاستوں میں نافذ ہونے کے بعد کسانوں کو بااختیار بنانے میں مدد ملے گی۔ کسانوں کو زیادہ بیج حاصل ہوں، ضروری بجلی ملے، بازار تک رسائی میں کوئی دقت نہ پیش آئے، انہیں فصل کی مناسب قیمت ملے اس کے لیے ہماری حکومت دن رات کوشش کر رہی ہے۔ ساتھیوں اس بجٹ میں کسانوں کو مناسب قیمت دلانے کے لیے ایک بڑے فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت نے طے کیا ہے کہ فہرست میں شامل فصلوں کے لیے کم سے کم امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی ان کی لاگت کا کم سے کم ڈیڑھ گنا اعلان کیا جائے گا۔ اپنے کسان بھائیوں کے سامنے میں اسے اور تفصیل سے سمجھانا چاہتا ہوں۔ بھائیوں اور بہنوں ایم ایس پی کے لیے جو لاگت جوڑی جائے گی اس میں دوسرے مزدوروں کی محنت کی قیمت ، اپنی مویشی – مشین یا کرایے پر لی گئی مویشی یا مشین کا خرچ، بیج کی قیمت ، سبھی طرح کی کھاد کی قیمت، آبپاشی کے اوپر کیا گیا خرچ ، ریاستی حکومت کو دیا گیا لینڈ ریونیو، ورکنگ کیپیٹل کے اوپر دیا گیا سود، لیز لی گئی زمین کے لیے دیا گیا کرایہ اور دیگر خرچ شامل ہیں۔ اتنا ہی نہیں کسان کے ذریعے خود اور اپنے کنبے کے ارکان کی جانب سے کی گئی محنت کی قیمت، پیداوار لاگت میں جوڑا جائے گا۔ ملک کے محنتی کسانوں کی آمدنی سے متعلق یہ بہت اہم اقدام ہیں۔ کم سے کم امدادی قیمت کے اعلان کا پورا فائدہ کسانوں کو ملے ، اس کے لیے ہم ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہےہیں۔ ساتھیوں، کسانوں کو فصل کی مناسب قیمت کے لیے ملک میں زرعی مارکیٹنگ اصلاحات پر بھی بڑے پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ گاؤں کی مقامی منڈیوں کا تھوک مارکیٹ اور گلوبل مارکیٹ تک تال میل بیٹھانا بہت ضروری ہے۔ اکیلی چلتی ہوئی چینٹی آہستہ آہستہ سینکڑوں کیلو میٹر کی دوری طے کر سکتی ہے لیکن اپنی جگہ رکا ہوا گروڑ ایک قدم بھی آگے نہیں جا پاتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت چھوٹی چھوٹی کوشش کر کے بھی ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ساتھیوں ویسے میں نے آپ کو چینٹی کی مثال پیش کی ہے تو اس سے جڑی ایک بات اور یاد آگئی۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ باحیات مخلوق میں انسان ہی صرف نہیں ہے جو کھیتی کرتا ہے۔ انسان کے علاوہ دو تین اور مخلوقات ہیں جو اپنے لیے غذا تیار کرتی ہیں اور چینٹی بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ ایک بار پھر آپ سبھی کے ساتھ نیک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح ,",কৃষি উন্নতি মেলাত ভাষণ আগবঢ়ালে প্রধানমন্ত্রীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D9%88%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A8-%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%A3%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9A/,نئی دہلی، 17/مارچ 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جمہوریہ کوریا کے نومنتخب صدر عالی جناب یون سُک- یول سے آج فون پر بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے جمہوریہ کوریا کے حالیہ صدارتی انتخاب میں کامیابی پر عالی جناب یون کو مبارک باد دی۔ دونوں لیڈروں نے خاص طور پر موجودہ عالمی تناظر میں بھارت اور کوریا کے مابین خصوصی اسٹریٹیجک شراکت داری کو مزید وسیع اور گہرا بنانے کی اہمیت پر اتفاق کیا۔ انھوں نے متعدد ایسے شعبوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جن میں دو فریقی تعاون کو بڑھانے کے امکانات ہیں اور اس سلسلے میں مل جل کر کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ دونوں لیڈروں نے آئندہ سال بھارت اور جمہوریہ کوریا کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 50ویں سال گرہ کو مشترکہ طور پر منانے کی اپنی خواہش پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے جتنا جلد ممکن ہوسکے عالی جناب یون کو بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔,কোৰিয়া গণৰাজ্যৰ নিৰ্বাচিত-ৰাষ্ট্ৰপতি মহামহিম ইউন চুক-ইয়লৰ সৈতে টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D9%88%D9%94-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-5200-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%B1%D9%88%D9%BE%D8%A6%DB%92-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E2%82%B9%E0%A7%AB%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A6-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8B-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF/,وزیراعظم نے دنیا کے پہلے سی این جی ٹرمینل کا سنگ بنیاد رکھا وزیر اعظم نے بھاؤ نگر میں علاقائی سائنس سینٹر کا بھی افتتاح کیا وزیر اعظم نے ساؤنی یوجنا لنک 2 کے پیکیج 7 ، 25 ایم ڈبلیو کے پالیتانہ سولر پی وی پروجیکٹ، اے پی پی ایل کنٹینر پروجیکٹ سمیت مختلف پروجیکٹوں کا افتتاح کیا وزیر اعظم نے ساؤنی یوجنا لنک 2 کے پیکج 9 ، چورواڈلا زون پانی کی سپلائی کے پروجیکٹ سمیت کئی پروجیکٹوں کا سنگِ بنیاد رکھا ’’ اپنے 300 سال کے سفر میں، بھاؤ نگر نے تیزی سے ترقی کی ہے اور سوراشٹر کی ثقافتی راجدھانی کے طور پر اپنی شناخت بنائی ہے ‘‘ ’’ پچھلی دو دہائیوں میں، گجرات کی ساحلی پٹی کو بھارت کی خوشحالی کا گیٹ وے بنانے کی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں‘‘ ’’ بھاؤ نگر بندرگاہ کی قیادت والی ترقی کی ایک تابناک مثال کے طور پر ابھرا ہے‘‘ لوتھل دنیا کی قدیم ترین بندرگاہ ہے اور لوتھل میری ٹائم میوزیم کی تعمیر سے اس جگہ کی ایک نئی شناخت قائم ہو گی ’’ کسانوں کو بااختیار بنانے کے سلسلے میں ماہی گیروں کو کریڈٹ کارڈ جاری کئے گئے ہیں ‘‘ پیچھے رہ جانے والوں کی مدد ڈبل انجن والی حکومت کا عزم ہے ’’ غریبوں کے خواب اور خواہشات مجھے مسلسل کام کرنے کی توانائی دیتے ہیں‘‘ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بھاؤ نگر میں 5200 کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے بھاؤ نگر میں دنیا کے پہلے سی این جی ٹرمینل اور براؤن فیلڈ پورٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے علاقائی سائنس سینٹر کا بھی افتتاح کیا ، جو 20 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر محیط ہے اور تقریباً 100 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے ساؤنی یوجنا لنک 2 کے پیکج 7 ، 25 ایم ڈبلیو کے پالیتانہ سولر پی وی پروجیکٹ، اے پی پی ایل کنٹینر (آوادکروپا پلاسٹومیچ پرائیویٹ لمیٹیڈ) پروجیکٹ سمیت مختلف دیگر منصوبوں کا بھی افتتاح کیا اور ساؤنی یوجنا لنک 2 پیکیج 9 ، چورواڈلا زون آبی سپلائی پروجیکٹ سمیت کئی پروجیکٹوں کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے گرمی کے موسم کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں آنے کے لئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ، جب ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے ، وہیں بھاؤ نگر نے اپنے قیام کے 300 سال مکمل کر لئے ہیں۔ 300 سال کے اس سفر میں بھاؤ نگر نے مسلسل ترقی کی ہے اور سوراشٹر کی ثقافتی راجدھانی کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ بھاؤ نگر کے اس ترقی کے سفر کو آج شروع کئے جانے والے پروجیکٹوں کے ذریعے ایک نئی رفتار ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں پختہ یقین ہے کہ راجکوٹ-جام نگر-بھاؤ نگر کے علاقے میں جلد ہی سورت-وڈودرا-احمد آباد جیسی چمک ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بھاؤ نگر میں صنعت، زراعت اور کاروبار میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ آج کی تقریب ، اس سمت میں ڈبل انجن والی حکومت کی کوششوں کی زندہ مثال ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بھاؤ نگر ساحل پر واقع ایک ضلع ہے اور گجرات میں ملک کی سب سے طویل ساحل پٹی ہے لیکن آزادی کے بعد کی دہائیوں میں ساحلی ترقی پر توجہ میں کمی کی وجہ سے یہ وسیع ساحلی پٹی لوگوں کے لئے ایک طرح کا بڑا چیلنج بن گئی تھی۔ڈبل انجن والی حکومت کی طرف سے کئے گئے کاموں کو اجاگر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں حکومت نے گجرات کی ساحلی پٹی کو بھارت کی خوشحالی کا گیٹ وے بنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔ وزیر اعظم نے ��زید کہا کہ ’’ ہم نے گجرات میں بہت سی بندرگاہیں تیار کیں، کئی بندرگاہوں کو جدید بنایا ، ’’روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے ‘‘ ۔ وزیر اعظم نے اجاگر کیا کہ گجرات ایل این جی ٹرمینل حاصل کرنے والی ملک کی پہلی ریاست تھی اور آج گجرات میں تین ایل این جی ٹرمینل ہیں۔ ساحلی ماحولیاتی نظام کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ، وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے ساحلی صنعتوں اور ان صنعتوں کے لئے توانائی کے نیٹ ورکس کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ماہی گیری کی بندرگاہیں تعمیر کی گئیں اور ماہی گیروں کی برادری کے فائدے کے لئے مچھلی کی پروسیسنگ کو فروغ دیا گیا۔ اس علاقے میں مینگروز ( چمرنگ ) کے جنگلات کو بھی فروغ دیا گیا ۔جناب مودی نے یہ بھی بتایا کہ مرکز میں ، اُس وقت کی حکومت نے کہا تھا کہ ساحلی علاقے کی ترقی کے بارے میں گجرات سے بہت سے سبق سیکھے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے آبی زراعت کو فروغ دینے کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں۔ گجرات کی ساحلی پٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ آج لاکھوں لوگوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بن چکی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کی درآمد و برآمد میں بھی بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ’’ آج گجرات کی ساحلی پٹی قابل تجدید توانائی اور ہائیڈروجن ماحولیاتی نظام کے متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہم نے سوراشٹر کو توانائی کا مرکز بنانے کی کوشش کی ہے۔ آج ملک کی میں توانائی کی ، جو ضروریات ہیں، یہ خطہ اُس کا ایک اہم مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ‘‘ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ بھاؤ نگر کی بندرگاہ ایک خود کفیل بھارت کی تعمیر میں بڑا رول ادا کرے گی اور ریاست میں روزگار کے سینکڑوں نئے مواقع پیدا کرے گی۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ’’ اسٹوریج، ٹرانسپورٹیشن اور لاجسٹکس سے متعلق کاروبار میں توسیع ہوگی۔ الانگ شپ بریکنگ یارڈ کی وراثت کا حوالہ دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ وہیکل اسکریپج پالیسی کا سب سے زیادہ فائدہ بھاؤ نگر کو ہوگا۔ انہوں نے اسکریپ شدہ لوہے سے کنٹینر کی تعمیر کے متعلقہ مواقع پر بھی روشنی ڈالی۔ لوتھل کو ہمارے ورثے کا ایک اہم مرکز قرار دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ دنیا کی قدیم ترین بندرگاہ ہے اور لوتھل میری ٹائم میوزیم کی تعمیر سے اس جگہ کی ایک نئی شناخت بنے گی۔ وزیر اعظم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اسے پوری دنیا کے سیاحتی نقشے پر لانے کے لئے تیزی سے کام جاری ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’ لوتھل کے ساتھ ساتھ، ویلوادار نیشنل پارک میں ایکو ٹورازم سرکٹ بھی بھاؤ نگر، خاص طور پر چھوٹے کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے والا ہو گا ‘‘ ۔ جناب مودی نے اس وقت کو یاد کیا ، جب علاقے کے ماہی گیروں کو بیداری کی کمی کی وجہ سے جان لیوا حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ، جب وزیر اعظم گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، انہوں نے کہا کہ ماہی گیر کو کئی بٹنوں والی ایک خصوصی سرخ ٹوکری دی گئی تھی۔ ہنگامی صورتِ حال میں ماہی گیروں کوسٹ گارڈ کے دفتر سے امداد یا مدد طلب کرنے کے لئے بٹن کو دبانا ہوتا تھا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ماہی گیروں کو ان کی کشتیوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ ’’ کسانوں کو بااختیار بنانے کے خطوط پر ، ماہی گیروں کو کریڈٹ کارڈ جاری کئے گئے‘‘۔ وزیر اعظم نے راجکوٹ میں شروع ہونے والی ساؤنی یوجنا کے نفاذ کے بعد ، جو تبدیلیا�� آئی ہیں ، ان پر اطمینان کا اظہار کیا۔ کچھ حلقوں کی طرف سے ابتدائی طور پر شک و شبہ ظاہر کرنے کے باوجود پروجیکٹ کی مسلسل پیش رفت پر زور دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ آج، ساؤنی یوجنا ، نرمدا کو ان تمام مقامات پر لے جا رہی ہے ، جہاں اسے بہت تیزی پہنچنا چاہیئے ‘‘ ۔وزیر اعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ جن پروجیکٹوں کا آج افتتاح کیا گیا ہے ، وہ نرمدا ندی کے پانی کو بھاؤ نگر اور امریلی کے کئی اضلاع تک لے جائیں گے۔ جناب مودی نے نشاندہی کی کہ اس سے امریلی ضلع کے راجولا اور کھمبھا تعلقہ سمیت بھاؤ نگر کے گڑیا دھر ، جیسر اور مہوا تعلقہ کے کئی گاؤوں کے کسانوں کو بے حد فائدہ پہنچے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’ بھاؤ نگر، گیر سومناتھ، امریلی، بوٹاڈ، جوناگڑھ، راجکوٹ اور پوربندر اضلاع کے سینکڑوں گاؤوں اور درجنوں شہروں تک پہنچنے کے لئے آج کام شروع ہو گیا ہے۔ ‘‘ اپنے خطاب کے اختتام پر ، وزیراعظم نے کہا کہ پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کرنا ڈبل انجن والی حکومت کا عہد ہے۔ جب غریب سے غریب تر کو وسائل اور وقار حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنی سخت محنت اور لگن سے غربت پر قابو پا لیتا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ گجرات میں، ہم اکثر غریب کلیان میلوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک پروگرام کے دوران، میں نے یہاں بھاؤ نگر میں ایک بہن کو ایک تپہیہ سائیکل دی تھی پھر اس بہن نے مجھے بتایا کہ میں نے کبھی تپہیہ سائیکل نہیں چلائی۔ اس لئے مجھے صرف الیکٹرک ٹرائی سائیکل دیں۔ یہ اعتماد اور غریبوں کے یہ خواب آج بھی میری قوت ہیں۔ غریبوں یہ خواب اور یہ امنگیں مجھے مسلسل کام کرنے کی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے بھاؤنگر کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کو یاد کیا اور اپنے پرانے ساتھیوں اور اپنے پرانے وقت کو یاد کیا ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے پروجیکٹ بھاؤ نگر کے روشن مستقبل میں تعاون کریں گے۔ انہوں نے اپنے لئے مسلسل بڑھتے ہوئے پیار کے لئے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل، صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر جناب منسکھ مانڈویا، ممبر پارلیمنٹ جناب سی آر پاٹل، ڈاکٹر بھارتی بین شیال اور جناب نارن بھائی کچاڈیہ دیگر اہم شخصیات کے ساتھ اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھاؤ نگر میں 5200 کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے بھاؤ نگر میں دنیا کے پہلے سی این جی ٹرمینل اور براؤن فیلڈ پورٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ یہ بندرگاہ 4000 کروڑ روپئے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کی جائے گی اور اس میں دنیا کے پہلے سی این جی ٹرمینل کے ساتھ ساتھ دنیا کے چوتھے بڑے لاک گیٹ سسٹم کے لئے جدید ترین بنیادی بھی ہوگا۔ سی این جی ٹرمینل کے علاوہ یہ بندرگاہ خطے میں آنے والے مختلف منصوبوں کی مستقبل کی ضروریات اور مطالبات کو بھی پورا کرے گی۔ بندرگاہ میں ایک انتہائی جدید کنٹینر ٹرمینل، ملٹی پرپز ٹرمینل اور لیکوِڈ ٹرمینل ہوگا ، جس میں موجودہ روڈ وے اور ریلوے نیٹ ورک سے براہ راست رسائی ہوگی۔ اس سے نہ صرف کارگو کی نقل و حمل میں لاگت کی بچت کے لحاظ سے معاشی فوائد حاصل ہوں گے اور خطے کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوگا نیز سی این جی امپورٹ ٹرمینل صاف توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے توانائی کا ایک اضافی متبادل ذریعہ فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھاؤ نگر میں علاقائی سائن�� سینٹر کا بھی افتتاح کیا ، جو 20 ایکڑ اراضی پر محیط ہے اور تقریباً 100 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مرکز میں موضوعات پر مبنی کئی گیلریاں ہیں ، جن میں میرین ایکویٹِک گیلری، آٹوموبائل گیلری، نوبل پرائز گیلری – فزیو لوجی اینڈ میڈیسن، الیکٹرو میکینکس گیلری اور بایو لوجی سائنس گیلری شامل ہیں۔ یہ مرکز بیرونی تنصیبات جیسے اینیمیٹرونک ڈائنوسورس، سائنس کے موضوع پر مبنی ٹوائے ٹرین، نیچر ایکسپلوریشن ٹور، موشن سمیلیٹر، پورٹیبل سولر آبزرویٹری وغیرہ کے ذریعے بچوں کے لئے دریافت اور تلاش کے لئے ایک تخلیقی پلیٹ فارم بھی فراہم کرے گا۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے ساؤنی یوجنا لنک 2 کے پیکج 7، 25 میگاواٹ پالیتانہ سولر پی وی پروجیکٹ، اے پی پی ایل کنٹینر (آوادکروپا پلاسٹومیچ پرائیویٹ لمیٹیڈ) پروجیکٹ سمیت مختلف دیگر منصوبوں کا بھی افتتاح کیا اور ساؤنی یوہنا لنک 2 کے پیکج 9، چورواڈلا زون میں پانی کی فراہمی کے آبی سپلائی کے منصوبے سمیت دیگر پروجیکٹوں کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ ان وسیع تر ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد وزیر اعظم کے عالمی معیار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، شہری نقل و حرکت کو فروغ دینے اور کثیر ماڈل والی کنیکٹی ویٹی کو بہتر بنانے کے وزیر اعظم کے عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے عام انسان کے رہن سہن کو آسان بنانے کے لئے ، حکومت کی مسلسل توجہ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),ভাবনগৰত ₹৫২০০ কোটিৰো অধিক মূল্যৰ প্ৰকল্প উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-8-%D8%A8%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%B9-%D8%B3%D8%A7%D8%AC%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%AF%D9%85%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے narendramodi.in اور نمو ایپ پر خدمت، اچھی حکمرانی اور ناداروں کی فلاح و بہبود کے آٹھ برسوں کی اہم جھلکیاں پیش کیں۔ ٹوئیٹس کے ایک سلسلے کے تحت وزیر اعظم نے کہا: ’’گذشتہ آٹھ برس عوام کی آرزوؤں کی تکمیل سے متعلق رہے۔ ہم خدمت، اچھی حکمرانی اور ناداروں کی فلاح و بہبود سے متعلق اپنی جستجو کے لیے پابند عہد ہیں۔ نمو ایپ پر موجود وِکاس یاترا سیکشن آپ کو ترقی کے اس سفر پر لے جائے گا۔ # خدمت کے 8 برس نمو ایپ پر ایک اہم دلچسپ سیکشن ہے جو کوئز، ورڈ سرچ، گیس دی امیج سیکشن اور دیگر اختراعی طریقوں سے # خدمات کے 8برس کی جھلک پیش کرتا ہے۔ میری آپ سب سے، خصوصاً میرے نوجوان دوستوں سے اپیل ہے کہ اسے ضرور ملاحظہ کریں۔ https://8years.narendramodi.in‘‘ ’’گذشتہ 8 برس عوام کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے رہے ہیں۔ اس دوران ہمارا عزم رہا ہے– خدمت، اچھی حکمرانی اور ناداروں کی فلاح وبہبود۔ نمو ایپ کا ’وِکاس یاترا‘ سیکشن آپ کو ترقی کے اس مکمل سفر پر لے جائے گا۔‘‘ # خدمات کے 8 برس نمو ایپ پر # خدمت کے 8 برس سے متعلق ایک دلچسپ سیکشن ہے۔ اس میں آپ کوئز، ورڈ سرچ، گیس دی امیج جیسے متعدد اختراعی طریقوں سے ملک کی ترقی کے سفر سے مربوط ہو سکتے ہیں ۔ میری آپ سبھی حضرات سے، خصوصاً نوجوان سے اپیل ہے کہ وہ اسے ایک مرتبہ ضرور دیکھیں۔‘‘,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰকাশ কৰিলে ৮ বছৰৰ কাৰ্যকালৰ বিৱৰ���: সেৱা, সুশাসন আৰু দুৰ্বল শ্ৰেণীৰ কল্যাণ – ‘৮ বছৰৰ সেৱা– ভিন্নক্ষেত্ৰত ভাৰতৰ উন্নয়নযাত্ৰা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-11%D9%86%D8%A6%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%88%DB%8C%DA%A9%D9%84-%DA%A9%D8%A7%D9%84%D8%AC%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A7-%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6/,نئی دہلی،12؍جنوری؍2022: تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ جناب ایم کے اسٹالن، کابینی وزیر جناب منسکھ مانڈویا، کابینہ میں میرے ساتھی جناب ایل مروگن ، تمل ناڈو سرکار میں وزیر بھارتی پوار جی، ممبران پارلیمنٹ ، تمل ناڈو اسمبلی کے ممبران، تمل ناڈو کے بھائی اور بہنوں، ونکّم !میں آپ سب کو پونگل اور مکرسنکرانتی کی مبارکباد دیتے ہوئے اپنی بات شروع کرتاہوں، جیسا کہ مشہور نغمہ ہے-தை பிறந்தால் வழி பிறக்கும் آج ہم دو خصوصی وجہوں سے مل رہے ہیں:11میڈیکل کالجوں کا افتتاح اور سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف کلاسیکل تمل کی نئی عمارت کا افتتاح۔ اس طرح ہم اپنے سماج کی صحت کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اپنی ثقافت کے ساتھ ربط کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ دوستو، طبی تعلیم پڑھائی کے ضمن میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ہندوستان میں ڈاکٹروں کمی کے بارے میں تو سب جانتے ہیں، لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے مناسب کوشش نہیں کی گئی۔غالباً پوشیدہ مفاد میں بھی پچھلی حکومتوں کو صحیح فیصلے نہیں لینے دیا اور اس طرح طبی تعلیم تک رسائی ایک اہم مسئلہ بنارہا۔ جب سے ہم نے کام کاج سنبھالا ہے، ہماری حکومت نے اس فرق کو دور کرنے کےلئے کام کیا ہے۔2014ء میں ہمارے ملک میں 387میڈیکل کالج تھے، پچھلے 7برسوں میں ہی یہ تعداد بڑھ کر 596میڈیکل کالج ہوگئی ہے۔یہ 54فیصد کا اضافہ ہے۔2014ء میں ہمارے ملک میں تقریباً 82ہزار میڈیکل انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سیٹیں تھیں۔پچھلے 7برسوں میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 1لاکھ 48ہزار سیٹوں پر پہنچ گئی ہیں۔یہ تقریباً 80 فیصد کا اضافہ ہے۔2014ء میں ملک میں محض 7ایمس تھے، لیکن 2014ء کے بعد منظور شدہ ایمس کی تعداد بڑھ کر 22 ہوگئی ہے۔ساتھ ہی طبی تعلیم کے شعبے کو اور زیادہ شفاف بنانے کے لئے متعدد اصلاحات کی گئی ہیں۔معیار سے سمجھوتہ کئے بغیر میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں کے قیام کے ضابطوں میں نرمی لائی گئی ہے۔ دوستو، مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ پہلی بار ہوگا ، جب کسی ایک ریاست میں ایک پی جھٹکے میں 11میڈیکل کالجوں کا افتتاح ہورہا ہے۔ابھی کچھ دن پہلے میں نے اُترپردیش میں ایک ہی وقت میں 9میڈیکل کالجوں کا افتتاح کیا تھا۔اس لئے مجھے اپنا ہی ریکارڈ توڑنے کا موقع مل رہا ہے۔علاقائی عدم توازن کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔اس تناظرمیں یہ دیکھنا بہت خوش کن ہے کہ جن دو میڈیکل کالجوں کا افتتاح کیا گیا، وہ رماناتھ پورم اور وِردھونگر کے اضلاع میں ہے ، جہاں ان کی شدید ضرورت تھی۔ یہ وہ اضلاع ہیں، جہاں ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک کالج تو نیل گیری کے دور دراز پہاڑی ضلع میں ہے۔ دوستو، زندگی میں پہلی بار آئی کووڈ-19وباء نے صحت سیکٹر کی اہمیت کی پھر سے تصدیق کردی ہے۔ مستقبل اُن معاشروں کا ہوگا ، جو صحت خدمات شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بھارت سرکار اس سیکٹر میں کئی اصلاحات لے کر آئی ہے۔ آیوشمان بھارت کا شکریہ ، غریبوں کے پاس اعلیٰ معیار کی اور سستی صحت خدمت ہے۔گھٹنے ��ی منتقلی اور اسٹینٹ کی لاگت پہلے کے مقابلے ایک تہائی ہوگئی ہے۔پی ایم-جن اوشدھی یوجنا نے سستی دواؤں تک رسائی میں انقلاب لا دیا ہے۔ہندوستان میں ایسے 8000سے زیادہ اسٹور ہیں۔اس منصوبے سے خاص طور سے غریبوں اور متوسط طبقے کو بہت فائدہ ملا ہے۔دواؤں پر خرچ ہونے والی رقم اب بہت کم ہوگئی ہے۔خواتین کے مابین صحت مند طرز زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے ایک روپے کی قیمت پر سینیٹری نیپکن مہیا کئے جارہے ہیں۔میں تمل ناڈو کے لوگوں سے اس منصوبے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی گزارش کروں گا۔ پردھان منتری آیوشمان بھارت انفراسٹرکچر مشن خاص طور سے ضلعی سطح پر صحت بنیادی ڈھانچے اور صحت سے متعلق تحقیق میں اہم فاصلے کو دور کرنا ہے۔تمال ناڈو کے لوگوں کو اس کا زبردست فائدہ ہوگا۔ دوستو، آنے والے برسوں میں ، میں ہندوستان کو معیاری اور سستی صحت دیکھ بھال کے لئے جانے جانے والے مرکز کے شکل میں دیکھتا ہوں۔ ہندوستان میں میڈیکل ٹورزم کا ہب بننے کے لئے ضروری ہر چیز دستیاب ہے۔ میں یہ بات اپنے ڈاکٹروں کی صلاحیتوں کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ میں طبی برادری سے ٹیلی میڈیسن کی طرف بھی دیکھنے کی گزارش کرتاہوں۔آج دنیا نے ہندوستانی روایتوں پر بھی توجہ دینا شروع کردیا ہے، جو آگے چل کر بہت سودمند ثابت ہوتی ہے۔اس میں یوگا، آیوروید اور سِدھا شامل ہیں۔ہم انہیں اس زبان میں مقبول بنانے کےلئے کام کررہے ہیں، جسے دنیا سمجھتی ہے۔ دوستو، سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف کلاسیکل تمل کی نئی عمارت تمل مطالعات کو اور مقبولیت عطا کرے گی۔یہ طلباء اور تحقیقی کام کرنے والوں کو ایک وسیع کینوس مہیا کرے گی۔مجھے بتایا گیا ہے کہ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف کلاسیکل تمل تھیروکّورل کا مختلف ہندوستانی اور غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کرنا چاہتا ہے، یہ ایک اچھا قدم ہے۔میں ہمیشہ تمل زبان اورمالا مال ثقافت کا عاشق رہا ہوں۔ میری زندگی کے سب سے پُر مسرت لمحات میں سے ایک تھا ، جب مجھے اقوام متحدہ میں دنیا کی سب سے قدیم زبان تمل میں کچھ لفظ بولنے کا موقع ملا۔سنگم کلاسک قدیم دور کے خوشحال سماج اور ثقافت کے لئے ایک کھڑکی ہیں۔ہماری سرکار کو بنارس ہندو یونیورسٹی میں تمل مطالعات پر ’سبرامنیم بھارتی چیئر‘قائم کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ہے، جو کہ میرے پارلیمانی حلقے میں واقع ہے۔ اس سے تمل کے بارے میں زیادہ تجسس پیدا ہوگا۔ جب میں نے تھیروکّورل کا گجراتی میں ترجمے کا لانچ کیا تو مجھے پتہ چلا کہ اس زندہ کام کے مالامال خیالات گجرات کے لوگوں سے جڑیں گے اور قدیم تمل ادب میں لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوگا۔ دوستو، ہم نے اپنی قومی تعلیمی پالیسی 2020ء میں ہندوستانی زبانوں اور ہندوستانی معلوماتی نظام کو بڑھاو ادینے پر بہت زور دیا ہے۔تمل کو اب سیکنڈری سطح یا میڈل سطح پر اسکولی تعلیم میں کلاسک زبان کی شکل میں پڑھا جاسکتاہے۔تمل بھاشا-سنگم کی زبانوں میں سے ایک ہے، جہاں اسکولی طلباء آڈیو ویڈیو میں مختلف ہندوستانی زبانوں میں 100 جملوں سے واقف ہوسکتے ہیں۔بھارت وانی پروجیکٹ کے تحت تمل کی سب سے بڑی ای-کنٹنٹ کو ڈیجیٹل کیا گیا ہے۔ دوستو، ہم اسکولوں میں مادری زبان اور مقام زبانوں میں تعلیم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ہماری سرکار نے ہندوستانی زبانوں میں طلباء کے لئے انجینئرنگ جیسے تکنیکی نصاب دستیاب کرانا شروع کردیا ہے۔تمال ناڈو نے کئی باصلاحیت انجینئرتلاش کئے ہیں، ان میں سے کئی اعلیٰ عالمی ٹیکنالوجی اور کاروبار کے قائد بن گئے ہیں۔ میں اُن باصلاحیت تمل غیر مقیم ہندوستانیوں سے ایس ٹی ای ایم نصاب میں تمل زبان کا مواد تیار کرنے میں مدد کی گزارش کرتاہوں۔ ہم تمل سمیت 12مختلف ہندوستانی زبانوں میں انگریزی زبان کے آن لائن نصاب کا ترجمہ کرنے کےلئے ایک آرٹیفشل انٹلی جنس پر مبنی ترجمہ کرنے والے آلات تیار کررہے ہیں۔ دوستو، ہندوستان کی تکسیریت ہماری طاقت ہے۔ ایک بھارت شریشٹھ بھارت تکسیریت میں اتحاد کے جذبے کو بڑھانے اور ہمارے لوگوں کو قریب لانے کی کوشش کرتاہے۔جب ہری دوار میں ایک چھوٹا بچہ تھیروولّور کے مجسمے کو دیکھتا ہے اور ان کی عظمت کے بارے میں جانتا ہے تو ایک بھارت شریشٹھ بھارت تخم ایک نوجوان دماغ میں رکھا جاتا ہے۔ ایسا ہی جذبہ تب دیکھنے کو ملتا ہے، جب ہریانہ کا ایک بچہ کنیا کماری کے شلایادگار پر جاتا ہے، جب تمل ناڈو یا کیرل کے بچے ویربال دِوس کے بارے میں سیکھتے ہیں ، تو وہ صاحبزادوں کی زندگی اور پیغامات سے جڑ جاتے ہیں۔اس سرزمین کے یہ وہ عظیم سپوت ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو قربان کردیا ،لیکن اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ آئیے ہم دیگر ثقافتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ اس سے لطف اندوز ہوں گے۔ دوستو، ختم کرنے سے پہلے میں آپ تمام لوگوں سے گزرش کرنا چاہوں گا کہ کووڈ -19سے متعلق ضابطوں پر عمل کریں، خاص طور سے ماسک ضرور لگائیں ۔ ہندوستان کی ٹیکہ کاری مہم قابل ذکر پیش رفت کررہی ہے۔پچھلے کچھ دنوں میں 15 سے 18سال کی عمر زمرے کے نوجوانوں کو اس کی خوراک ملنا شروع ہوگئی ہے۔بزرگوں اور صحت خدمات سے جڑے ملازمین کے لئے احتیاطی خوراک بھی دی جارہی ہے۔میں ان تمام لوگوں سے جو ٹیکہ کاری کے اہل ہیں، ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ سب کا ساتھ ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے منتر سے متحرک ہوکر ہم سب کو 135کروڑ ہندوستانیوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کےلئے مل کرکام کرنا ہوگا۔وباء سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم اپنے تمام ملک کے شہریوں کو شمولیاتی اور معیاری صحت خدمات کو یقینی بنانے کےلئے کام کرتے رہے ہیں۔ہمیں اپنی خوشحال ثقافت سے سیکھنے اور آنے والی نسلوں کے لئے امرت کال کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔پونگل کے موقع پر ایک بار پھر میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتاہوں کہ یہ ہم سب کے لئے خوشیاں اور خوشحالی لائے۔ وَنکّم شکریہ۔,১১ খন নতুন চিকিৎসা মহাবিদ্যালয় আৰু তামিলনাডুৰ কেন্দ্ৰীয় শাস্ত্ৰীয় তামিল প্ৰতিষ্ঠানৰ এটা নতুন চৌহদৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%AA%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%B9%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A0%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%95-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج میسورو کے سری ستور مٹھ میں ایک پروگرام میں حصہ لیا۔ اس موقع پر ایچ ایچ جگد گرو جناب شیواراتھری دیشکیندر مہاسوامی جی، کرناٹک کے گورنر جناب سدیشورا سوامی جی، جناب تھاور چند گہلوت، وزیر اعلیٰ بساوراج بومائی اور مرکزی وزیر جناب پرہلاد جوشی موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے دیوی چامنڈیشوری کے سامنے جھکے اور مٹھ میں اور سنتوں کے درمیان موجود ہونے پر اظہار ت��کر کیا۔ انہوں نے سری ستور مٹھ کی روحانی روایت کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جو جدید اقدامات جاری ہیں ان سے ادارہ اپنے عہد کو نئی وسعت دے گا۔ وزیر اعظم نے جناب سدیشورا سوامی جی کے ذریعہ نارد بھکتی سوترا، شیو سوترا اور پتنجلی یوگا سوترا کو ، لوگوں کو بہت سے بھاشاؤں کو وقف کیا۔ انہوں نے کہا کہ جناب سدھیشورا سوامی جی کا تعلق قدیم ہندوستان کی ‘شروتی’ روایت سے ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، صحیفہ کے مطابق، علم جیسی عظیم کوئی چیز نہیں ہے، اسی لیے ہمارے باباؤں نے ہمارے شعور کو تشکیل دیا جو علم سے آراستہ اور سائنس سے مزین ہے، جو روشن خیالی سے بڑھتا ہے اور تحقیق سے مضبوط ہوتا ہے۔‘‘وقت اور عہد بدل گئے اور ہندوستان کو کئی طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن، جب ہندوستان کا شعور کم ہوا، تو پورے ملک کے سنتوں اور باباؤں نے پورے ہندوستان کو گھوم کر ملک کی روح کو زندہ کیا’’۔ انہوں نے کہا کہ مندروں اور مٹھوں نے صدیوں کے مشکل دور میں ثقافت اور علم کو زندہ رکھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سچائی کا وجود محض تحقیق پر نہیں بلکہ خدمت اور قربانی پر مبنی ہے۔ سری ستور مٹھ اور جے ایس ایس مہا ودیاپیٹھ اس جذبے کی مثالیں ہیں جو خدمت اور قربانی کو عقیدے سے بھی بالاتر رکھتی ہے۔ جنوبی ہندوستان کی مساوات اور روحانی اخلاقیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ‘‘لارڈ بسویشورا کی طرف سے ہمارے معاشرے کو دی گئی توانائی، جمہوریت، تعلیم اور مساوات کے نظریات، ابھی بھی ہندوستان کی بنیاد میں موجود ہیں۔’’ جناب مودی نے اس موقع کو یاد کیا جب انہوں نے لندن میں بھگوان بسویشور کی مورتی کو وقف کیا اور کہا کہ اگر ہم میگنا کارٹا اور بھگوان بسویشور کی تعلیمات کا موازنہ کریں تو ہمیں صدیوں پہلے مساوی معاشرے کے تصور کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بے لوث خدمت کا یہ جذبہ ہماری قوم کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ امرت کال کا یہ دور سادھووں کی تعلیمات کے مطابق سب کا پریاس کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ہماری کوششوں کو قومی وعدوں سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے ہندوستانی سماج میں تعلیم کے قدرتی نامیاتی مقام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ‘‘آج تعلیم کے میدان میں ‘قومی تعلیمی پالیسی’ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس آسانی کے ساتھ جو ملک کی فطرت کا حصہ ہے، ہماری نئی نسل کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کے لیے مقامی زبانوں میں متبادل دیے جا رہے ہیں۔ جناب مودی نے کہا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ ایک بھی شہری ملک کی وراثت سے بے خبر نہ رہے۔ انہوں نے اس مہم اور لڑکیوں کی تعلیم، ماحولیات، پانی کے تحفظ اور سوچھ بھارت جیسی مہموں میں روحانی اداروں کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے قدرتی کاشتکاری کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے اپنے سے تمام توقعات کو پورا کرنے کے لیے سنتو ں کی عظیم روایت سے رہنمائی اور آشیرواد حاصل کرتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کیا۔,শ্ৰী সুতুৰ মঠৰ এক অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ممبئی میں ماسٹر دی��اناتھ منگیشکر ایوارڈ تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر، وزیر اعظم کو اولین لتا دینا ناتھ منگیشکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ، جسے بھارت رتن لتا منگیشکر کی یاد میں شروع کیا گیا ہے، تعمیر قوم کے تئیں مثالی تعاون پیش کرنے کے لیے ہر سال خصوصی طور پر ایک فرد کو دیا جائے گا۔ مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری، اور منگیشکر کنبہ کے اراکین بھی دیگر افراد کے ساتھ اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعظم نے شروعات میں کہا کہ حالانکہ انہیں موسیقی کا گہرا علم نہیں ہے، تاہم ثقافتی ستائش کے ذریعہ ، ایسا محسوس ہوتا ہے موسیقی ایک ’سادھنا‘ (عبادت) اور جذبات دونوں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ جو غیر مذکور کا اظہار کرے ،وہ لفظ ہے۔ جو اظہار کو توانائی اور شعور سے بھر دے، وہ ’ناد‘ (آواز)ہے۔ اور وہ جو شعور کو جذبات و احساسات سے معمور کرے اور اسے تخلیق اور حساسیت کی انتہا تک لے جائے ،وہ ’سنگیت‘ (موسیقی) ہے۔ موسیقی آپ کو شجاعت اور ماں کی محبت کا احساس دلاسکتی ہے۔ یہ حب الوطنی اور فرض شناسی کی معراج تک لے جا سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں لتا دیدی کی شکل میں موسیقی کی یہ صلاحیت اور طاقت دیکھنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔‘‘ اپنا ذاتی خیال ظاہر کرتے ہوئے ، جناب مودی نےکہا، ’’میرے لیے، لتا دید ی ’سُر سامراگی‘ (سُروں کی ملکہ) اور ایک بڑی بہن تھیں۔ پیڑھیوں کو محبت اور جذبات کا تحفہ دینے والی لتا دیدی سے ایک بہن کی محبت حاصل ہونے سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ عام طور پر ایوارڈس حاصل کرنے میں زیادہ پرسکون محسوس نہیں کرتے، تاہم جب منگیشکر فیملی لتادیدی جیسی بڑی بہن کےنام سے ایوارڈ کا اعلان کرتی ہے تو یہ ان کی محبت کی علامت بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’میرے لیے اسے نہ کہہ دینا مشکل ہے۔ میں اس ایوارڈ کو تمام اہل وطن کے لیے وقف کرتا ہوں۔ جس طرح لتا دیدی کا تعلق عوام سے تھا ، اسی طرح ان کے نام پر مجھے دیا جانے والا یہ ایوارڈ بھی عوام کے لیے ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے متعدد ذاتی قصے سنائے اور ثقافتی دنیا کے لیے لتادیدی کے ذریعہ پیش کیے گئے زبردست تعاون کے بارے میں بتایا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’لتا دیدی کا مادی سفر اس وقت اختتام کو پہنچا جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔انہوں نے آزادی سے قبل بھارت کو اپنی آواز دی، اور ملک کا 75 برسوں کا یہ سفر بھی ان کی آواز سے مربوط ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے منگیشکر کنبے میں حب الوطنی کو لے کر پائے جانے والے جذبات کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا، ’’نغموں کے علاوہ، لتادیدی میں حب الوطنی کا شعور بھی تھا، جس کا وسیلہ ان کے والد محترم تھے۔‘‘ جناب مودی نے ایک واقعہ بیان کیا جب ویر ساورکر کے ذریعہ تحریر کردہ نغمے کو جدوجہد آزادی کے دوران شملہ میں برٹش وائس رائے کے ایک پروگرام میں دیناناتھ جی کے ذریعہ گایا گیا۔ ویرساورکر کے ذریعہ لکھے گئے اس نغمہ میں برٹش سامراج کو چنوتی دی گئی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حب الوطنی کا یہ احساس دیناناتھ جی کی جانب سے ان کے کنبے کو وراثت میں حاصل ہوا۔ لتا جی نے موسیقی کو عبادت مانا لیکن حب الوطنی اور قوم کی خدمت کے جذبے کو بھی ان کے نغموں سے ترغیب حاصل ہوتی ہے۔ لتا دیدی کے شاندار کریئر کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا، ’’لتاجی ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کا پرترنم مظہر تھیں۔ انہوں نے 30 سے زائد زبانوں میں ہزاروں نغمے گائے۔ خواہ ہندی ہو، مراٹھی ہو، سنسکرت یا کوئی دیگر بھارتی زبان ہو، ان کے سُر ہر گھر میں مساوی طور پر گونجے۔‘‘ وزیر اعظم مودی نے مزید کہا، ’’ثقافت سے لے کر یقین تک، مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سے لے کر جنوب تک، لتا جی کے سُروں نے پورے ملک کو متحد کیا۔ عالمی سطح پر بھی، وہ بھارت کی ثقافتی سفیر تھیں۔ ‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ہر ریاست ، ہر خطے کے لوگوں کے ذہنوں میں بسی ہوئی ہیں۔ انہوں نے یہ دکھایا کہ بھارتی رنگوں کے ساتھ موسیقی کس طرح لافانی ہو سکتی ہے۔وزیر اعظم نے اس کنبے کے ذریعہ انجام دیے جانے والے فلاحی کاموں کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کے لیے ترقی کا مطلب سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ہے۔ اس پروجیکٹ میں ’واسودھیو کٹمب کم‘ فلاح عام کا تصور بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ترقی کا ایسا تصور محض مادی صلاحیتو ں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے روحانی شعور بھی اہمیت کا حامل ہے۔اسی لیے، بھارت یوگ، آیوروید اور ماحولیات جیسے شعبوں میں قیادت فراہم کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہاکہ، ’’میرا یقین ہے کہ ہماری بھارتی موسیقی بھی بھارت کے اس تعاون کا ایک اہم حصہ ہے۔آیئے انہیں اقدار کے ساتھ اس ورثے کو زندہ رکھیں اور اسے آگے بڑھائیں، اور اسے امن عالم کا وسیلہ بنائیں۔‘‘,মুম্বাইত অনুষ্ঠিত এক অনুষ্ঠানত ‘লতা দীননাথ মংগেশকাৰ বঁটা’ গ্ৰহণ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%82%D8%AA%D8%B5%D8%A7%D8%AF%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%A8%E0%A7%88%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AE%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BE/,نئی دہلی،17جنوری؍2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے آج عالمی اقتصادی فورم کے ڈیووس ایجنڈے میں اسٹیٹ آف دی ورلڈ خصوصی خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت بہت احتیاط اور اعتماد کے ساتھ عالمی وباءکی ایک اور لہر کے ساتھ نمٹ رہا ہے اور بہت سے امید افزا نتائج کے ساتھ معاشی شعبے میں پیش قدمی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے ایک مضبوط جمہوریت کی حیثیت سے انسانیت کو امید کی جھلک پیش کی ہے، جو جمہوریت اور ٹیکنالوجی میں ہندوستان کی نہ لڑکھڑانے والے اعتماد پر مشتمل ہے، جوکہ ہندوستانیوں کی21ویں صدی، ذہانت اور رویے کو با اختیار بنا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا وباء کے دوران بھارت نے ’ایک کرہ ارض ، ایک صحت‘ کے اپنے وژن کو اپنا کرلازمی دوائیں اور ویکسین برآمد کرکے بہت سی زندگیاں بچائی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دوا تیار کرنے والا ملک ہے اور وہ خود کو دنیا کا دوا سازی کا ایک اہم مرکز سمجھتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہندوستان ریکارڈ تعداد میں سافٹ ویئر انجینئر فراہم کررہا ہے۔50 لاکھ سے زیادہ سافٹ ویئر تیار کرنے والے بھارت میں کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت میں یونیکورنس کی آج تیسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ گزشتہ 6 مہینے کے دوران 10ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اَپس درج کئے گئے۔ انہوں نے ہندوستان کے بڑے ، محفوظ اور کامیاب ڈیجیٹل ادائیگیوں کے پلیٹ فارم کے بارے میں بھی بات کی اور بتایا کہ گزشتہ مہینے میں ہی ادائیگیوں یونیفائیڈ انٹرفیس کے ذریعے 4.4ارب سے زیادہ کے لین دین ہوئے۔وزیر اعظم نے کاروبار کرنے میں آسانی کو بڑھانے اور حکومت کی مداخلت کو کم کرنے کے اقدامات کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں آسانی کا بھی ذکر کیا اور انہیں دنیا میں سب سے مقابلہ جاتی بنانے کے بارے میں بات کی۔ہندوستان کے پاس ڈرونس ، خلاء ، جیو اسپاتئیل(جغرافیائی) میپنگ جیسے غیر منضبط کئے گئے شعبے ہیں اور وہ آئی ٹی اور بی پی او سیکٹروں سے متعلق متروک ٹیلی کام ریگولیشن میں اصلاحات لایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے گزرے ہوئے سال میں 25ہزار سے زیادہ تعمیل کو ختم کردیا ہے۔ ایک ساجھیدار کی حیثیت سے ہندوستان کی بڑھتی ہوئی کشش کا ذکر کرتےہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان عالمی سپلائی چین میں دنیا کا پراعتماد یا بھروسے مند شراکت دار بننے کے تئیں عہد بند ہے اور وہ کئی ملکوں کے ساتھ آزاد تجارتی سمجھوتوں کے لئے راستے بنارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختراع ، ٹیکنالوجی موافقت اور صنعت کاری جذبے میں ہندوستان کی صلاحیتوں نے اسے ایک پسندیدہ عالمی شراکت دار بنا دیا ہے، اسی لئے یہی بہترین موقع ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کی جائے۔انہوں نے صنعت کاری کی نئی بلندی کو چھونے کے لئے بھارتی نوجوانوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں محض 100اسٹارٹ اَپس کے مقابلے میں آج ہندوستان کے پاس 60ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اَپس ہیں۔ان میں سے 80یونیکورنس ہیں اور 2021ء میں خود بخود 40سے زیادہ یونیکورنس ابھر کرسامنے آئے ہیں۔ ہندوستان کے اعتماد کے نقطہ نظر کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ جب دنیا کورونا کی مدت کے دوران نرم مقدار جیسے طریقہ کار پرتوجہ دے رہی تھی ، تو ہندوستان اصلاحات کو مستحکم کررہا تھا۔انہوں نے 6لاکھ گاؤں میں آپٹیکل فائبر، کنکٹی وٹی سے متعلق بنیادی ڈھانچے میں 1.3کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری ، اثاثے مونیٹائزیشن کے ذریعے 80ارب ڈالر حاصل کرنے کے ہدف اورسامان ،عوام اور خدمات کی بے روک ٹوک کنکٹی وٹی کے لئے نئی حرکیات کو فروغ دینے کی خاطر تمام فریقوں کو واحد پلیٹ فارم پر لانے کے لئے گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان جیسے فیزیکل اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے میں چھلانگ لگانے کا ذکر کیا۔ جناب مودی نے فورم کو بتایا کہ نہ صرف ہندوستان خود کفالت کے لئے اپنی جستجو میں عمل (پروسیس)کو آسان بنانے پر توجہ دے رہا ہے، بلکہ وہ سرمایہ کاری اور پیداوار کو بھی ترغیب دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے واضح مظہر 14شعبوں میں 26ارب ڈالر مالیت کی پیداوار سے متعلق ترغیبی اسکیمیں ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اگلے 25سالوں کے مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے پالیسایاں بنا رہا ہے اور اس مدت میں ملک نے زیادہ ترقی اور فلاح و بہبود اور تندرستی کے اہداف کو بھی برقرار رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کا یہ دور سبز، صاف ستھرا، پائیدار اور قابل اعتماد ہوگا۔ وزیر اعظم نے آج کی طرز زندگی اور پالیسیوں کی ماحولیاتی لاگت پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے ان چیلنجوں کی طرف اشارہ کیا جو ہماری طرز زندگی آب و ہوا کی وجہ سے ہے۔ثقافت اور صارفیت نے آب وہوا کے چیلنج کو مزید گہرا کردیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ آج کی ’ٹیک میک یوز ڈسپوز‘معیشت سے گھومنے والی معیشت کی طرف تیزی سے آگے بڑھنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کوپ 26کانفرنس میں مشن لائف(ایل آئی ایف ای) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایل آئی ایف ای(لائف) کو ایک عوامی تحریک بنانا پی-3یعنی ’عوام دوست کرہ ارض’ ایک مضبوط بنیاد بن سکتا ہے ۔زندگی یعنی’ماحولیات کے لئے طرز زندگی‘لچکدار اور پائیدار طرز زندگی کا ایک وژن ہے، جو موسمیاتی بحران اور مستقبل کے غیر متوقع چیلنجوں سے نمٹنے میں کارآمد ثابت ہوگا۔ جناب مودی نے نشان زد تاریخوں سے پہلے ہی آب و ہوا کے نشانے کو حاصل کرنے میں ہندوستان کی متاثر کن ریکارڈ کے بارے میں بھی فورم کو آگاہ کیا۔ وزیر اعظم نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ عالمی نظام کے بدلتے ہوئے حقائق کو اپنا یاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی کنبہ بدلتے ہوئے عالمی نظام میں نئے چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے اور انہوں نے ہر ملک اور عالمی ایجنسی سے اجتماعی کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے اہم مثالوں کے طورپر سپلائی چین میں رخنہ اندازی ، افراط زر اور آب و ہوا میں تبدیلی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کرپٹو کرنسی کی مثال بھی پیش کی، جہاں متعلقہ ٹیکنالوجیز اور ان کے چیلنجز کسی واحد ملک کے فیصلوں کے لئے خود کو قرض نہیں دیتے۔ انہوں نے اس پر ایک ہونے کے لئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ کیا کثیر الجہتی تنظیمیں بدلتے ہوئے منظر نامے میں عالمی نظام کے چیلنجوں سے نمٹنے کی پوزیشن میں ہیں، کیونکہ جب یہ تنظیمیں وجود میں آئیں تو اس وقت دنیا بدل چکی تھی۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ہر جمہوری ملک کو اِ ن اداروں کی اصلاحات کے لئے آگے آنا چاہئے، تاکہ وہ عصر حاضر اور مستقبل کی چیلنجوں سے نمٹنے کا کام پورا کرسکیں۔,বিশ্ব অৰ্থনৈতিক মঞ্চৰ দাভোছ কাৰ্যসূচীত ‘বিশ্বৰ পৰিস্থিতি’ৰ বিষয়ত বিশেষ ভাষণ প্ৰদান কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%8C%D8%B3%D9%88%D8%B1%D8%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%DB%81%D9%84-%D9%82%D8%AF%D9%85%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8/,"(افتتاحی کلمات کنڑ زبان میں) کرناٹک کے گورنر جناب تھاورچند گہلوت جی، محترم وزیراعلیٰ بساوراج بومئی جی، میرے کابینی رفیق پرہلاد جوشی جی ، حکومت کرناٹک کے وزراء ، ممبران پارلیمنٹ، ایم ایل ایز، اسٹیج پر موجود دیگر معزز شخصیات اور میرے میسور والے عزیز بھائیو اوربہنو!۔ کرناٹک ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں ملک کی اقتصادی اور روحانی خوشحالی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ، کرناٹک اس بات کا ایک مکمل نمونہ ہے کہ ہم اپنی قدیم ثقافت کو مالا مال کرتے ہوئے کس طرح 21 ویں صدی کے اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکتے ہیں اور میسور میں یہ جو تاریخ وراثت اور جدیدیت کا اجتماع اس وقت موجود ہے اسے ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے ، اس طرح اس بار یوگا کے بین الاقوامی دن کے موقع پر اپنی وراثت کا جشن منانے کے لئے اور ایک صحت مند طرز زندگی کے ساتھ دنیا کے کروڑوں لوگوں کو جوڑنے کے لئے میسور کاانتخاب کیا گیا ہے ۔ کل، دنیا بھر سے بے شمار لوگ میسور کی اس تاریخی سرزمین کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ لیں گے اور یوگا کریں گے۔ بھائیو اوربہنو، اس سرزمین نے بہت سی عظیم شخصیتیں اس ملک کو دی ہیں، جیسے نلواڑی کرشنا واڈیار، سرایم وسویس ورایا جی اور راشٹر کوی کویمپو۔ان عظیم شخصیات نے ملک کی وراثت اور ترقی میں زبردست کردار اداکیا ہے ۔ ان عظیم شخصیتوں نے ہمیں تعلیم دی ہے اور عام آدمی کی زندگی کو سہولیات اور وقار عطا کرنے کا راستہ دکھایا ہے ۔کرناٹک میں ڈبل انجن والی حکومت ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر پوری طاقت کے ساتھ کام کررہی ہے ۔ آج ہم میسور میں سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواش اور سب کا پریاس جیسے منتر کا نظارہ کررہے ہیں ۔ کچھ پہلے ہی ، حکومت کی بہت سی اسکیموں سے استفادہ کرنے والے لوگو ں سے میں نے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے کی بات کہی اوریہی وجہ تھی کہ میں اسٹیج پر تاخیر سے پہنچ پایا ۔ وہ لوگ مجھے بہت کچھ بتانا چاہتے تھے اور میں نے بھی ان کی باتیں سن کر لطف ا ٹھایا ۔ اس طرح مجھے ان سے کافی دیر تک گفتگو میں مشغول رہنا پڑا۔ان لوگوں نے میرے ساتھ بہت کچھ شیئر کیا، لیکن ہم نے ایسے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ، جو بول نہیں سکتے ہیں، ایک اقدام کیا ہے ۔ آج ایک ایسا سینٹر شروع کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے علاج و معالجہ کے لئے بہتر ریسرچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ، میسور کوچنگ کمپلیکس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے ساتھ ہی میسو ر ریلوے اسٹیشن کو جدید ترین بنایا جائے گا اور یہاں ریل کنکٹویٹی کو بھی مضبوط کیا جائے گا ۔ میسور کے میرے پیارے بھائیواور بہنو، یہ سال آزادی کے حصول کا 75 واں سال ہے ۔ گزشتہ 7 دہائیوں کے دوران ، کرناٹک میں بہت سی حکومتیں آئی اور گئی ہیں ، ملک میں بھی بہت سی حکومتیں اس دوران تشکیل دی گئیں ، ہر حکومت نے دیہی عوام، غریب لوگوں ، دلتوں، محروموں، پسماندہ طبقات، خواتین اورکسانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بہت کچھ باتیں کیں اوران کے لئے کچھ مخصوص منصوبے بھی بنائے ۔ لیکن ان کی رسائی بہت محدود تھی، ان کا اثر محدود تھا اوران کے مفادات بھی ایک مختصر سے علاقے تک محدود تھے ۔ سال 2014 میں جب آپ نے ہمیں مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دیا تو ہم نے پرانے نظاموں اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم نے سرکاری فائدوں اور سرکاری منصوبوں کو ایسے ہر شخص اور عوام کے ایسے ہر طبقے تک پہنچانے کے لئے ایک مشن کے طور پر کام کرنا شروع کیا، جو فائدوں اور منصوبوں کے مستحق تھے۔ ان لوگوں کو وہ منافع ملنے ہی چاہئیں جن پر ان کا حق ہے ۔ بھائیو اوربہنو، گزشتہ 8 برسوں کے دوران، غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنائی گئی اسکیموں کو ہم نے بڑے پیمانے پر وسعت دی ہے ۔ اس سے قبل یہ صرف ایک ریاست تک محدود رہتی تھیں لیکن اب انہیں پورے ملک کے لوگوں کے لئے فراہم کرایا گیا ہے جیسے ایک ملک ایک راشن کارڈ منصوبہ۔ گزشتہ دو برسوں سے ، کرناٹک کے 4.5کروڑ سے زیادہ لوگ مفت راشن کی سہولت حاصل کررہے ہیں ، اگر کرناٹک کاکوئی شخص کام کرنے کے لئے کسی دوسری ریاست میں جاتا ہے تو اسے وہاں بھی یہ سہولت حاصل رہے گی کہ وہ ایک ملک ایک راشن کارڈ کے تحت اپنا راشن حاصل کرسکے ۔ اسی طرح ، آیوشمان بھارت منصوبہ سے بھی ملک بھر میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔ اس منصوبہ کی مدد سے ، اب تک کرناٹک کے 29 لاکھ نادار مریضوں کو مفت علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے نتیجہ کے طور پر غریب لوگ 4000 کروڑ روپئے بچانے میں کامیاب رہے ۔ میری ابھی ابھی نتیش نام کے ایک شخص سے ملاقات ہوئی ۔ایک ایکسیڈینٹ کی بنا پر اس کا پورا چہرہ بگڑ گیا تھا۔ اسےآیوشمان کارڈ کی وجہ سے ایک نئی زندگی مل گئی ، وہ بہت زیادہ خوش اور پر اعتماد تھا، کیوں کہ اس کا چہرہ اپنی پہلی حالت میں واپس آگیا تھا ۔ میں اس کے الفاظ سن کر بےانتہا مسرور ہوا کیوں کہ میں نے یہ دیکھا کہ حکومت کی طرف سے خرچ کیا جانے والا ایک ایک پیسہ غریبوں کی زندگی میں ایک نیا اعتماد پیدا کرسکتا ہے اوران ل��گوں میں نئے عزائم کے لئے ایک مضبوطی کا باعث بن سکتا ہے ۔ دوستو، اگرہم نے براہ راست انہی لوگوں کو پیسہ دے دیا ہوتا ، تو وہ اپنا علاج نہیں کراسکتے تھے، اس منصوبہ سے استفادہ کرنےو الے لوگ کسی دوسری ریاست میں بھی رہتے ہیں، تب بھی انہیں وہیں اس اسکیم کے بھر پور فائدے مل رہے ہیں ۔ دوستو، گزشتہ 8 برسوں کے دوران ہماری حکومت کے ذریعہ وضع کردہ منصوبوں میں، اس جذبہ کو اولین ترجیح دی گئی تھی کہ یہ فوائد معاشرے کے ہر طبقے اور سماج کے ہرعلاقے تک پہنچنے چاہئیں اور ملک کا کونہ کونہ ان سے فیضیاب ہو۔ ایک طرف ، اسٹارٹ اپ پالیسی کے تحت ہم نے نوجوانوں کو بہت سی ترغیبات فراہم کی ہیں، وہیں دوسری طرف آج پردھان منتری کسان سمان ندھی منصوبہ کی رقم بھی کسانوں تک برابر پہنچ رہی ہے ۔ پی ایک کسان ندھی کے تحت، کرناٹک کے 56 لاکھ سے زیادہ چھوٹے کسانوں کےاکاؤنٹس میں اب تک تقریبا 10000 کروڑ روپئے منتقل کئے جاچکے ہیں ۔ ایک طرف ہم نے ملک میں صنعتوں اور مینوفیکچرنگ کے شعبے کو ترقی دینے کےلئے تقریبا 2 لاکھ کروڑ روپئے کی لاگر سے پی ایل آئی اسکیم شروع کی ہے ، تو وہیں دوسری طرف ، مدرا یوجنا ، پردھان منتری سواندھی یوجنا اور کسان کریڈٹ کارڈ مہم کے ذریعہ چھوٹے صنعت کاروں، چھوٹے کسانوں، مویشی پالنے والے کسانوں اور ریڑی پٹری والوں کے لئے بینکوں سے نرم شرائط پر قرضے فراہم کرائے جارہے ہیں۔ یہ جاننے میں آپ کو یقینا دلچسپی ہوگی کہ مدرا یوجنا کے تحت کرناٹک کے لاکھوں چھوٹے صنعت کاروں کو 1 لاکھ 8 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے قرضہ جات فراہم کرائے گئے ہیں ۔ چونکہ یہ ایک سیاسی مقام ہے ، اس لئے اس اسکیم نے گیسٹ ہاؤس اور دیگر متعلقہ خدمات فراہم کرکے لوگوں کی بہت بڑی حد تک مدد کی ہے ۔ پردھان منتری سوندھی یوجنا سے بھی کرناٹک کے 1.5 لاکھ سے زیادہ خوانچہ فروشو ں کو مدد ملی ہے ۔ بھائیو اور بہنو، گزشتہ 8 برسوں کے دوران ،ہم نے سماجی انصاف کو آخری سرے تک پہنچا کر طاقت بخشی ہے ۔ آج غریب لوگوں کو اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ انہیں بھی ان اسکیموں کا فائدہ یقینی طور پر ملے گا جس کے فائدے ان کے پڑوسی ریاستوں کے لوگوں کو اب تک ملتے رہے ہیں۔ ان کی باری بھی آئے گی۔ ملک کے عام لوگوں کے کنبوں میں یہ ا عتماد مضبوطی کے ساتھ راسخ ہوگیا ہے کہ انہیں بلا کسی امتیاز اور کوتاہی کے ان اسکیموں کے 100 فیصد فوائد ملیں گے ۔ کرناٹک کے 3.75 لاکھ غریب کنبوں کو جب پکے مکان مل جائیں گے تو ان کا یہ اعتماد مزید مضوط ہو جائے گا ۔ جس وقت کرناٹک کے 50 لاکھ سے زیادہ کنبوں کو پہلی بار نلکے کے پانی کی سپلائی کی جائے گی تو یہ اعتماد کچھ اور پختہ ہو جائے گا ۔ غریب ا ٓدمی کو جس وقت بنیادی ضروریات کی فکر سے آزادی مل جاتی ہے تو وہ مزید جوش و جذبہ کے ساتھ ملک کی ترقی کے کاموں میں مصروف ہوجاتا ہے ۔ بھائیو اور بہنو، آزادی کا امرت کال کے دوران ہندوستان کی ترقی کے عمل میں ہر فر د کی شراکت داری کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ ہمارے ’دویانگ ‘دوست قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہوتے تھے، ہماری حکومت معذور افراد کے دوسروں پر انحصار کو کم سے کم کرنے کے لئے مسلسل کوششیں کررہی ہے ۔ اس لئے ہماری کرنسی میں ، معذور افراد کی سہولت کے لئے سکوں میں نئی خصوصیات کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ معذور افراد کی تعلیم سے جڑے نصابات کو ملک بھر میں زیادہ مفید بنایا جارہا ہے ۔ عوامی مقامات جیسے بس اڈہ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر دفاتر کو معذور افرادکی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے پر خاص توجہ دی جارہی ہے ۔معذور افراد کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں پیش آنے والی مشکلات کو کم کرنےکی غرض سے ایک مشترک اشاراتی زبان بھی تیار کی گئی ہے ۔ملک کے کروڑوں معذور افراد کو ضروری آلات بلا قیمت فراہم کئے گئے ہیں ۔ آج بھی ، سر ایم وسویس ورایا ریلوے اسٹیشن بنگلور میں، جو کہ ایک جدید ریلوے اسٹیشن ہے ، بریل نقشے اور خصوصی سائن بور ڈ اور ریمپ جیسی سہولیات تمام پلیٹ فارموں کو جوڑنے والے سب وے کے اندر موجود ہیں ۔ میسور میں ، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف اسپیچ اینڈ ہیئرنگ زبردست خدمات فراہم کررہا ہے ۔ان اس انسٹی ٹیوٹ کے لئے ایک سینٹر آف ایکسیلنس کا افتتاح کیا گیا ہے تاکہ ملک کے انسانی وسائل کے ذریعہ معذور افرادکی مدد کی جائے جو ایک مضبوط ہندوستان کی تعمیر کے لئے ایک اہم طاقت بن سکیں۔ ان لوگوں کے لئے جو بول نہیں سکتے، یہ سینٹر ان کی مشکلات کے بہتر حل سے متعلق تحقیق کی حوصلہ افزائی کرے گا، ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور انہیں با اختیار بنانے کے لئے سہولیات فراہم کرے گا۔اس کے ساتھ ہی آج میں اسٹارٹ اپ کی دنیا سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے ایک خصوصی درخواست کرنا چاہوں گا کہ آپ تصورات رکھتے ہیں اور اختراعی فکر کے مالک ہیں ، آپ کے اسٹارٹ اپس میرے معذور بھائیوں اور بہنوں کے لئےبہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ آپ کے اسٹارٹ اپس ایسی بہت سی چیزیں تیار کرسکتے ہیں جو میر ے معذور بھائیوں اور بہنوں کی زندگی میں ایک زبردست نئی مضبوطی لاسکتی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ اسٹارٹ اپس کی دنیا سے جڑے نوجوان میرے معذور بھائیوں سے متعلق فکر میں میرے ساتھ آئیں گے اور ہم باہم مل کر ان لوگوں کے لئے کچھ ا چھا کرگزریں گے ۔ بھائیو اور بہنو، زندگی اور کاروبار کو آسان بنانے میں جدید انفراسٹرکچر سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ کرناٹک میں ڈبل انجن والی حکومت اس سمت میں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں، مرکزی حکومت نے کرناٹک میں 5000 کلومیٹر قومی شاہراہوں کے لیے تقریباً 70 ہزار کروڑ روپے کی منظوری دی ہے۔ آج بنگلور میں 7000 کروڑ روپے سے زیادہ کے قومی شاہراہ کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ مرکزی حکومت اس سال تقریباً 35,000 کروڑ روپے خرچ کرنے جا رہی ہے تاکہ کرناٹک میں قومی شاہراہوں کے ذریعے روزگار کے ہزاروں مواقع اور رابطے پیدا کئے جا سکیں۔ مجھے خوشی ہے کہ کرناٹک میں ڈبل انجن والی حکومت کی وجہ سے، یہ پروجیکٹ شروع ہورہے ہیں اور تیز رفتاری سے مکمل ہو رہے ہیں۔ دوستو گزشتہ 8 برسوں میں ریل رابطے نے کرناٹک کو اور بھی زیادہ فائدہ پہنچایا ہے۔ میسور ریلوے اسٹیشن اور ناگنا ہلی اسٹیشن کو جدید بنانے کے لیے جو کام شروع کیا گیا ہے اس سے یہاں کے کسانوں اور نوجوانوں کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ ناگناہلی کو ایک کوچنگ ٹرمینل اور مضافاتی ٹریفک کے لیے ایم ای ایم یو ٹرین شیڈ کے طور پر بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سے میسور یارڈ پر موجودہ بوجھ کم ہو جائے گا۔ ایم ای ایم یو ٹرینوں کے چلنے سے، وسطی بنگلور، منڈیا اور دیگر ملحقہ علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر میسور شہر سے آنے جانے والے مسافروں کو کافی فائدہ پہنچے گا۔ اس سے میسور کی سیاحت کو بھی زبردست فروغ ملے گا اور سیاحت سے متعلق روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ دوستو، میں آپ کے سامنےاس بات کی ایک اور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح ڈبل انجن والی حکومت کرناٹک کی ترقی اور یہاں کنکٹویٹی کو بہتر بنانے کےلئے کا�� کررہی ہے ۔ 2014 سے قبل مرکزی حکومت ، اپنے ر یلوے بجٹ میں کرناٹک کےلئے ہرسال اوسطا 800 کروڑ روپئے کابجٹ منظور کیا کرتی تھی، میں کرناٹک کے میڈیا سے تعلق رکھنے وا لے اپنے دوستوں سے اس نکتہ کو ذہن میں رکھنے کی درخواست کروں گا کہ گزشتہ حکومت ہر سال اس ریاست کے لئے 800 کروڑ روپئے کا اوسطا التزام رکھتی تھی، لیکن اب اس سال مرکزی حکومت کی طرف سے کرناٹک کے لئے تقریبا 7000 کروڑ روپئے بجٹ میں مختص کئے گئے ہیں ، یہ سیدھے طور پر 6 گناسے زیادہ کااضافہ ہے ۔ کرناٹک کے لئے ریلوے کے شعبے میں 34000 کروڑ روپئے سے زیادہ کی لاگت والے منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ ریلوے لائنوں میں بجلی کے استعمال کے معاملے میں بھی ، ہماری حکومت جس طرح کام کررہی ہے وہ ا ٓپ کے لئے حیران کن ثابت ہوگا۔ میں آپ کو اس کے اعداد وشمار بتاتاہوں۔ اس پر توجہ کیجئے گا۔2014 سے قبل 10 سال کے دوران یعنی 2004 سے 2014 تک ، کرناٹک میں صرف 16 کلو میٹر طویل ریلوے لائن کو بجلی سے آراستہ کیا گیا تھا ، لیکن ہماری حکومت کی مدت کارکے دوران کرناٹک میں تقریبا 1600 کلو میٹر ریلوے لائن کو بجلی سے آراستہ کیا گیا ہے ۔ 10 برس میں 16 کلو میٹر اوران 8 برسوں میں 1600 کلو میٹر ۔یہ ہے ڈبل انجن والی حکومت کے کام کرنےکی رفتار۔ بھائیو اوربہنو کرناٹک میں مجموعی ترقی کی یہ رفتار بدستور قائم رہنی چاہئے ۔ڈبل انجن والی حکومت آپ لوگوں کی اسی طرح خدمت کرتی رہے۔ اس عزم کے ساتھ ہم آپ کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں اورآپ کاآشیرواد ہماری سب سے بڑی مضبوطی ہے ۔ آپ لوگ اتنی بڑ ی تعدادمیں ہمیں آشیرواد دینے کےلئے جمع ہوئے۔ آپ کاآشیرواد ہمیں آپ کی خدمت کرنے کے لئے زبردست تقویت دیتا ہے ۔ میں ان بہت ساری اسکیموں کے لئے ایک بار پھر آپ سب لوگوں کو اپنےدل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں ۔ کرناٹک کے لوگوں نے آج جس انداز میں میرا بنگلورو اور میسور میں استقبال کیا ہے ، اس کے لئے میں آپ کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔کل جب پوری دنیا یوگا کا دن منا رہی ہوگی ، جب یہ دنیا یوگا کے ساتھ جڑ جائے گی اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں میسور پر بھی مرکوز رہیں گی ۔ آپ لوگوں کے لئے میری نیک خواہشات اور دلی مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ!",কৰ্ণাটকৰ মহীশূৰত উন্নয়নমূলক আঁচনি শুভাৰম্ভণিৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱাৰ ভাষণৰ ইংৰাজী উপস্থাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-20-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جمہوریہ فرانس کے صدر عزت مآب جناب ایمانوئل میکرون سے آج بالی میں منعقدہ جی-20 سربراہی اجلاس کے شانہ بشانہ ورکنگ ظہرانے میں ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دفاع، سول نیوکلیئر، تجارت اور سرمایہ کاری جیسے مختلف شعبوں میں جاری باہمی تعاون کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اقتصادی مصروفیت کے نئے شعبوں میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا بھی خیر مقدم کیا۔ باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔,বালিত আয়োজিত জি-20 শিখৰ সন্মিলনৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ফ্ৰান্সৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%93%DA%AF%D8%B1%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0/,آگرہ میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے موقع پروزیراعظم کے خطاب کامتن درج ذیل ہے: نئی دہلی ،10جنوری : بھارت ماتاکی جئے ، بھارت ماتاکی جئے ، بھارت ماتاکی جئے ، اسٹیج پرتشریف فرماں اترپردیش کے گورنر،جناب رام نائک جی ،یہاں کے ہردل عزیز اور باصلاحیت وزیراعلیٰ،جناب آدتیہ یوگی راج جی ، نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹردنیش شرما جی ، رکن پارلیمنٹ پروفیسررماشنکرکٹھریاجی ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدراور پارلیمان رکن ، میرے ساتھی، ڈاکٹرمہندرپانڈے جی ، چودھری بابولال جی ، جناب انیل جین ۔ اسٹیج پرموجود دیگرسبھی تجربہ کار اور آگرہ کے میرے پیارے بھائیواور بہنو! نئے سال میں اترپردیش کا یہ میرا پہلاپروگرام ہے ۔ آپ سبھی کو پورے اترپردیش کے لوگوں کو 2019کی بہت بہت مبارکباد ۔ نئے بھارت کی تعمیر کے علمبردارآپ سبھی لوگوں کو میں سلام کرتاہوں ۔ ساتھیو ، آگرہ میں آپ سبھی کے درمیان آنامیرے لئے خوش قسمتی کا باعث ہے اورمیں نے جب جب بھی یہاں آپ سے حمایت مانگی ہے ،پورے اترپردیش نے پورے بھارت نے بھرپور آشیرواد دیاہے ۔ آپ کے خوابوں اور آپ کی امیدوں پرکھرااترنے کی ایک ایماندارانہ کوشش میں مسلسل کرتارہاہوں اور آپ کا آشیرواد بنارہے کہ میں اس ایمانداری کے راستے پرقربانی کے جذبے سے آپ کی اور اہل وطن کی خدمت کرتارہاہوں ۔ آ پ سبھی کے بھروسے اور امداد کا نتیجہ ہے کہ ‘‘سب کا ساتھ سب کاوکاس ’’کا ہمار ا مشن ایک نئے پڑاو پرپہنچ رہاہے ۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں آگرہ کی ترقی سے جڑے جن ساڑھے تین ہزارکروڑروپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح اورسنگ بنیاد رکھاگیاہے ، وہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے ۔ یہ پروجیکٹ خصوصاپانی سے جڑے ہیں ، تعلیم اورصحت سے جڑے ہیں ، سیورسے جڑے ہیں ، کنکٹی وٹی یعنی آگرہ کو اسمارٹ سٹی بنانے سے جڑے ہیں ۔ ان سبھی پروجیکٹوں کے لئے میں آپ سبھی شہریوں ، بھائیواوربہنوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ جاپان کے ذریعہ اس میں جوتعاون دیاگیاہے اس کے لئے میں جاپان کا بھی دل سے شکریہ اداکرتاہوں ۔ بھائیواوربہنو، آج سبھی اس بات سے خوش ہوں گے کہ برسوں پرانی ایک مانگ آج پوری ہوئی ہے ۔ پورے آگرہ ضلع سے لے کر متھراتک پانی کاسنگین مسئلہ رہاہے ۔ جو زمین کا پانی ہے وہ زیادہ ترکھاراہے ۔ جس کی وجہ سے وہ پینے کے لائق نہیں رہاہے ۔ جس یمناجی کی دھارا نے یہاں زندگی کی امیدیں پیداکیں ، وقت کے ساتھ زندگی عطاکرنے والایہ پانی اتناگندہ ہوگیا، وہ پینے لائق نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اپرگنگانہرسے آگرہ کی پیاس بجھانے کامنصوبہ وضع کیاگیاہے ۔ آج قریب 3ہزورکروڑروپے کی آگرہ آبی جائیداد تکمیل گنگاآب پروجیکٹ آپ سبھی کے لئے وقف ہے ۔ اس سے پورے علاقے کے لاکھوں کنبوں کو پینے کے لئے صاف پانی ملنے والاہے ۔ میں آپ کو یہ بھی جانکاری دیناچاہتاہوں کہ نمامی گنگے مشن کے تحت یمنا جی کی صفائی بھی ہماری ترجیحات میں ہے ۔ بھائیواوربہنو،آگرہ کے آبی مسائل کو دورکرنے کے ساتھ ساتھ شہرکے سیوج نظام کو جدیدبنابنے کے لئے متعدد پروجیکٹ پرکام کیاجارہاہے ۔ اوربھائیوبہنو، اب گنگاجل پینے کی خوش قسمتی آپ کو نصیب ہوئی ہے ، لیکن جب پینے کاصاف پانی ملتاہے توصرف پانی ملتاہے ایسا نہیں ہے ، پانی کی پریشانی دورہوتی ہے ایسا نہیں ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ اثرصحت پرہوتاہے ۔ خاص کرکے غریب زندگی جینے والوں کے لئے یہ سب سے زیادہ فائدہ مندہوتاہے ۔ ایک طرح سے آگرہ میں گنگاجل کا پانی پینے کو ملے ، یہ آگرہ کے عمدہ صحت کی ایک جڑی بوٹی کے طورپر آپ سب کے گھرگھرمیں پہنچ رہاہے ۔ اسی طرح سے پینے کا صاف پانی آگرہ آنے والے سیاحوں کے لئے بھی ایک بہت بڑا کشش کر مرکز بن سکتاہے ، وجہ بن سکتاہے ۔ بیرونی ممالک سے آنے والے مسافرجب دیکھیں گے کہ گنگاجل کا صاف پانی اسے مل رہاہے توآگرہ میں اورزیادہ وقت گزارنے کا اس کا دل چاہے گا اوراس لئے یہ صرف ایک انجینئرنگ ورک کے طورپرنہ دیکھاجائے کہ اتنی لمبی دوری سے کلومیٹروں سے کلومیٹرپائپ لائن ڈال کرپینے کا پانی لایاگیا۔ ایک طرح سے پانی نہیں یہ آگرہ کی زندگی کی امرت دھاراہے جو آگرہ کی زندگی کو ایک نئی طاقت دینے والی ہے ۔ بھائیواوربہنو پورے ملک میں ایک امرت مشن چل رہاہے ۔ اس امرت مشن کے تحت کے مغربی حصہ میں سیویج نیٹ ورک منصوبہ کا سنگ بنیاد بھی آج ہواہے ۔ اس کے تحت جو سیورلائن بچھائی جائیگی اس سے قریب 50ہزار گھرجڑیں گے ۔ ساتھیو، آگرہ ملک کے ان شہروں میں ہے جہاں اسمارٹ سہولتوں کو ترقی دی جارہی ہے ، اسی ترتیب میں آج آگرہ کے نئے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرکاکام شروع کیاگیاہے ۔تقریبا300کروڑروپیوں کی لاگت سے بننے والے اس سینٹرسے پورے شہرکی انتطامات کی مانیٹرنگ ہوگی ۔ پورے شہرکی نگرانی یہیں بیٹھ کر12سو سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمروں سے ہوگی ۔ شہرکے چپے چپے میں کیا چل رہاہے ۔ کسی کو ٹریفک میں پریشانی تو نہیں ہورہی ۔ کہیں کوڑے کچرے کے ڈھیرتو نہیں پڑے ہیں ۔ جس کا صفائی کاکام ہے وہ وقت پرآئے ہیں کہ نہیں آئے ہیں ۔ یہ ساری باتیں سی سی ٹی وی کیمرہ کے ذریعہ چپے چپے کا خیال ایک ہی مقام سے رکھاجائیگا۔ اوربھائیو۔بہنوآگرہ کے لئے سی سی ٹی وی کیمرہ ایک ایسی سہولت ہے ،جو حفاظت کی گارنٹی بھی لاتی ہے ۔ اوربیرونی ممالک کے سیاحوں کو ، ملک کے سیاحوں کو یہ جب حفاظت کا احساس ہوتاہے ۔سی سی ٹی وی کیمر ہ کی نگرانی کااس کو پتہ چلتاہے توہمارا سیاح کو بھروسہ ہوجاتاہے ۔ اورآگرہ دنیابھرکے سیاحوں کے لئے ایک کشش کامرکزہے اورہم چاہتے ہیں کہ آگرہ سیاحوں کے پچھلے 70برسوں کے سارے ریکارڈ توڑنے والاہوجائے تاکہ آگرہ کی اقتصادیات کو ایک نئی طاقت ملے ۔ یہ پانی اوریہ سی سی ٹی وی کیمرہ ، یہ سیویج ٹریٹمنٹ ، یہ اسمارٹ سٹی کی پہل ، سیاحوں کے لئے ایک بہت بڑی سوغات ہے ،بھائیواتناہی نہیں آگرہ کی کنکٹی وٹی کو بہتربنانے کے لئے آج ریل سیتوکا وقف کرنا اورہیلی پورٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھاگیاہے ۔ ساتھیو، آگرہ جب اسمارٹ سٹی کے طورپرقائم ہوجائیگا ، صاف ہوگا، پینےکے صاف پانی کی بات ہو، سی سی ٹی وی کیمرہ ہو،یہاں آنے والے سیاحوں کے لئے بھی ایک بہت بڑی ترغیب ، طاقت ، سنتوش کا ماحول بن جائیگی ۔ تاج محل جیسی تاریخی عمارتوں کی چمک بھی اوربڑھ جائیگی ۔ اس کا سیدھا اثرسیاحت صنعت پرپڑنا بھی طے ہے ۔ بھائیو۔بہنو، کوئی بھی ملک یا شہرتب تک اسمارٹ نہیں بن سکتا جب تک وہ صحت مند نہیں ہوتاہے ۔ اسے دھیان میں رکھتے ہوئے مرکز کی بھاجپاسرکارکے ذریعہ ملک بھرمیں سستا اور بااثرعلاقوں کو متعین کیا جارہاہے ۔ صحت سے جڑے بنیادی ڈھانچے میں بے مثال ترقی ہورہی ہے ۔ پردھان منتری سواستھیہ سرکشایوجناکے تحت اب آگرہ کے ایس این میڈیکل کالج کی توسیع کی جا��ہی ہے ۔یہاں ڈھائی سو سے زائد نئے بسترہوں گے اورسپراسیشلٹی کی سہولت بھی بڑھائی جائیگی ۔ اس کے علاوہ خواتین اسپتال میں 100بستروں کے میٹرنٹی وہینگ اور دوکمیونٹی سینٹرکو بھی وقف کرنے کا مجھے موقع ملاہے ۔ ساتھیو، آنے والے وقت میں ملک میں اسپتالوں کا ایک بڑانیٹ ورک تیارہونے والا ہے ۔ اس سے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں صحت کی سہولتوں کی توسیع توہوگی ہی ، نوجوانوں کو روزگارکے نئے مواقع بھی ملیں گے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ سے آیوش مان یوجناہے ۔ کچھ لوگ اسے مودی کیئربھی کہتے ہیں ۔اس کی کامیابی کا انداز آپ اسی بات سے لگاسکتے ہیں کہ اب ہردن قریب قریب 10ہزارغریب اس منصوبے کے تحت علاج کروارہے ہیں ۔ اور یہ وہ لو گ ہیں جو 4-4،5-5سال سے بیماریوں میں مبتلارہے تھے ۔ سنگین مصیبتوں کا سامناکررہے تھے ۔ پیسے کی کمی میں موت کا انتظارکرتے تھے اورتکالیف برداشت کرتے تھے ۔ بھائیو۔ بہنو، غریب جائے تو جائے کہاں آخرکارآیوشمان بھارت یوجنا نے اتنی تیزی سے ان مصیبت زدہ افراد کی مدد کی ہے ۔ اورگھرمیں ایک فرد بیمارہوتاہے ، سنگین بیماری میں ہوتاہے تو صرف ایک فرد نہیں پورا کنبہ بیمارہوجاتاہے ۔ بچوں کی تعلیم پراثرپڑتاہے ، گھرکے سارے کام بیکارہوجاتے ہیں ۔ ان سب کو بچانے کا کام آیوشمان بھارت یوجنا جسے لوگ مودی کیئر کہتے ہیں اس نے کیاہے اورابھی تو 100دن کے اندراندر زیادہ وقت نہیں ہواہے ۔ 100دن کے اندرہی7لاکھ غریب بھائیو۔بہنو ، بچوں کا علاج یا توہوچکاہے ، یااسپتال میں پہلے ہی سے ان کا علاج چل رہاہے ۔ بھائیواوربہنو، بھاجپاکی سرکارترقی کی پنج دھارا یعنی بچوں کو تعلیم ، نوجوانوں کو کمائی ، بزرگوں کو دوائی ، کاشتکاروں کو سینچائی اور جن جن کی سنوائی اس کے لئے عہدبندہے ۔ اگرکمائی کی بات کریں تو آگرہ سمیت یوپی کا قریب قریب ہرضلع اپنے وسیلہ اور چھوٹی صنعتوں کے لئے جاناجاتاہے ۔آگرہ کا پیٹھا ، یہ تو یہاں کی پہچان ہی ہے، متعدد اور روایتی کام بھی ہمارے آگرہ میں ہوتے ہیں ۔ مرکز اوریوپی حکومت ان چھوٹی صنعتوں کو اورزیادہ طاقت ور بنانے میں لگی ہوئی ہے ۔ یوپی سرکارکے ایک ضلع ، ایک پیداوار یہ منصوبہ یہاں کی چھوٹی چھوٹی اور روایتی صنعتوں کو بڑھاوادینے کے لئے میل کا پتھرثابت ہونے والی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میک ان انڈیا کے ہماری تحریک سے بھی اس کو قوت مل رہی ہے ۔ ساتھیو، چھوٹے ، منجھولے اوربہت چھوٹی صنعتوں مستحکم بنانے کے لئے ہماری سرکاربرابرقدم اٹھارہی ہے ۔چھوٹے صنعت کاروں کو بینکوں سے قرض لینے میں پریشانی نہ آئے اس کے لئے آن لائن قرض کی سہولت کاجدیدانتظام کیاگیاہے اورآپ جان کرکے حیران ہوجائیں گے ۔اترپردیش کے لوگ اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں ، آگرہ کے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ صر ف ان 59منٹ میں ، ایک گھنٹہ بھی نہیں صرف 59منٹ میں ہی ۔ کروڑروپے تک کے لون کی اصولی منظوری دینے کی تکنالوجی کا انتظام کردیاگیاہے ۔ اس کے علاوہ سرکارکے ذریعہ یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ بڑی صنعتوں یاکمپنیوں میں چھوٹے صنعتکاروں کا پیسہ نہ پھنسے ، کیش فلوبنارہے ۔ جو باہرسامان درآمدکرتے ہیں ، وہ جو قرض لیتے ہیں ، ان کو سود میں 2فیصد کی اوررعایت دی گئی ہے ۔ اسی طرح ماحولیات کلیئرنس سے لے کر جانچ تک کے اصولوں کو بہت آسان کردیاگیاہے ۔ان تما م کوششوں سے چھوٹے اورمنجھولے صنعتوں کو آنے والے وقت میں اور رفتارملے گی اور آگرہ میں اورقرب وجوار میں نوجوانوں کو روزگارکے نئے مواقع حاصل ہوں گے ۔ تجارت اورکاروبار��ب پھلتاپھولتاہے جب اصول وقانون آسان ہوتے ہیں ۔ جو تاجرکوبھی سمجھ میں آئے اور گاہک کو بھی سمجھ میں آئے ۔ تاجراورگاہک کے رشتے اوران کے باہمی اعتماد اور بھروسے کو ہی مضبوط کرنے کا انتظام کی یہ جی ایس ٹی ہے ۔ ابھی اس نئے انتظام کو صرف ڈیڑھ برس ہواہے اورلگاتارجن سنوائی ، لوگوں کی شکایتیں سنتے سنتے اس میں بدل ہوتے رہے ہیں اصلاح ہوتے رہے ہیں ۔ اورایک عام انتظام کی سمت میں اتنا بڑا ملک ، اتنا بڑاکام دنیا کے لوگوں کو بھی حیران کررہاہے ۔ بھائیواوربہنو، کچھ لوگ افواہ پھیلارہے ہیں اوراس لئے ایک بات ہم سمجھ کہ پہلے جتنے ٹیکس لگتے تھے اس کے اوپرایک جی ایس ٹی نام کا نیاٹیکس آگیا ، یہ جھوٹ ہے ، یہ افواہ ہے ، جی ایس ٹی یہ کوئی نیاٹیکس نہیں ہے ۔پہلے جو ٹیکس لگتے تھے 25فیصد ، 30فیصد ، 18فیصد ، 20فیصد ،22فیصد اوروہ خفیہ رہتے تھے ، پتہ ہی نہیں چلتاتھا ۔اورہم دیتے رہتے تھے ان سب کو ختم کردیاگیاہے اور جو 40فیصد تھا ، 25فیصد تھا ، 30فیصد تھا ، 35فیصد تھا، 28فیصد تھا ، ان سب کو کم کرتے ہوئے 99فیصد چیزوں کو 18فیصد سے نیچے لایاگیاہے ۔ کوئی 18میں ہے ، کوئی 12میں ہے ، کوئی 5میں ہے اورکوئی زیرومیں ہے اوراس کا فائدہ گاہک جو بیدارہے ، وہ اس کاپورا پورا فائدہ اٹھارہاہے ۔ اوراس لئے بھائیو۔بہنوجی ایس ٹی کو تاجروں اورصارفین کو آسان کرنے کا کام مسلسل چل رہاہے ۔ عوامی شراکت داری سے چلنے والی یہ سرکارآپ سبھی سے مل رہے مشوروں پرعمل کررہی ہے ۔ اوراس لئے ہم نے اب جی ایس ٹی کاونسل سے گذارش کی ہے کہ جی ایس ٹی کے دائرے میں آنے والے صنعت کاروں کی آمدنی کی حد کو ، یہ میں بہت گذارش کی ہے ، فیصلہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے ، فیصلہ جی ایس ٹی کونسل کے ہاتھ میں ہے ۔ جی ایس ٹی کونسل میں سبھی سیاسی پارٹیاں سرکاریں ہیں ، سبھی ریاستی سرکاریں ہیں ۔ اوران سب نے مل کرفیصلہ کرناہے ۔ لیکن میں نے ان سے گذارش کی ہے ۔ کہ جی ایس ٹی کے دائرے میں آنے والے صنعت کاروں کی آمدنی کی حدکو 20لاکھ سے بڑھا کر 75لاکھ تک کیاجائے ۔ اس کے علاوہ متوسط طبقے کے لئے گھربنتے ہیں ان کو بھی صرف اورصرف 5فیصد کے دائرے میں لایاجائے ۔ یہ دونوں باتیں جی ایس ٹی کاونسل کو میں گذارش کے ساتھ کہی ہیں ۔ پچھلی باربھی کہی تھیں لیکن پچھلی بارکچھ ریاستوں نے مخالفت کی ، اتفاق نہیں ہوپایا ۔ میں امید کرتاہوں کہ آنے والے دنوں میں جب جی ایس ٹی کاونسل ملے گی توعوام الناس کی اس بات کا بھی وہ دھیان رکھے گی ۔ ساتھیو، سب کا ساتھ سب کا وکاس یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ اعلیٰ حکمرانی کی روح ہے ۔ ملک میں کوئی طبقے ، کوئی شخص ، کوئی علاقہ مواقع سے محروم نہ رہے یہی کوشش ہماری سرکارکررہی ہے ۔ بھائیو۔بہنو کل پورے ملک نے دیکھا ہے کہ کس طرح لوک سبھا میں ایک تاریخی بل پاس کیاگیاہے ۔ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد غریبی کی وجہ سے بڑی غیرمساوی کو منظورکرتے ہوئے اس کاحل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ عام درجے کے جنرل کیٹگری کے غریب کنبوں کو ، تعلیمی اداروں اورسرکاری خدمات میں تحفظ ملے اس طرف ایک اہم قدم اٹھایاگیاہے ۔ اورمزہ یہ ہے کہ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ پہلے بھی نعرے بازی بہت ہوئی ، انتخابات میں بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گئے ، اورتب میں سب کوکھل کرکے کہتاتھا ۔ انتخاب میں فائدہ ہوکہ نہ ہواس کی پرواہ نہیں کرتاتھا ۔ میں بتادیتاتھا کہ دیکھئے 50فیصد کے باہر اگرکوئی وعدہ کرتاہے توسب بے ایمانی کرتے ہیں ایسا میں کہتاتھا۔ کیونکہ 50فیصد سے اوپرجانا ہے تو آئین میں ��رمیم کے بغیرنہیں جاسکتے ، اگراس کے سوائے کسی نے وعدے کئے تھے تو کوئی پسماندہ طبقات کو جو ملاہے اس میں سے چوری کرناچاہتاتھا۔ کوئی قبائلیوں کو ملاہے اس میں سے چوری کرناچاہتاتھا ، کوئی اوبی سی کو ملاہے اس میں سے چوری کرناچاہتاتھا ۔ اوراس میں سے نکال نکال کرکے اسی کی جھولی بھرناچاہتاتھا۔ تاکہ ان کی ووٹ بینک کی جھولی بھرجائے ۔ اوراس لئے ہم نے کہاتھا کہ پہلے آئین میں ترمیم اس کے لئے ضروری ہے ۔ اورآج مجھے خوشی ہے جو بات کبھی وزیراعلیٰ کے ناطے بولاکرتاتھا آج وزیراعظم کے ناطے میں نے اس بات پرعمل کیا۔ آئین ترمیم کی سمت میں آگے بڑھے اوردلتوں سے کچھ بھی چوری کئے بنا ، قبائلیوں کے حق کو چھینے بغیر، اوبی سی کے حق میں سے کوئی بھی کمی کئے بغیر، علاوہ آئین ترمیم کرکے میں نے میرے دیش کے اعلیٰ ذات کے اعلیٰ طبقے کے لوگوں کو بھی ، غریب بچوں کی فکرکرنے کا کام کیاہے ۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مودی جی یہ انتخاب کے وقت کیوں لائے ، مجھے بتائیے ایسے کوئی چھ مہینے ہمارے ملک میں جاتے ہیں کیاجب کہیں نہ کہیں انتخاب نہ ہوں ، اگرتین مہینے پہلے لاتا تو آپ کہتے مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ ، راجستھان علاقے انتخاب کے لئے لائے ہو، اس کے پہلے لاتا توآپ کہتے کہ کرناٹک کے انتخاب کے لئے لایاہوں ۔ یعنی ہندوستان میں انتخاب سال میں دودوبارچلتے رہتے ہیں ، کہیں نہ کہیں انتخاب چلتے رہتے ہیں اوراس لئے میں کہتارہتاہوں کہ لوک سبھااوراسمبلی کے انتخاب ملک میں ایک ساتھ ہوجائیں ۔ 5سال میں ایک بار ہی انتخاب، ایسا ہونا چاہیئے کہ نہیں ہوناچاہیئے ۔ یہ خرچہ بند ہوناچاہیئے کہ نہیں ہوناچاہیئے ۔ یہ دن رات اسی میں لگے رہنا بندہوناہے کہ نہیں ہوناہے ۔ سرکارپانچاسال پوراکرنے چاہیئے کہ نہیں کرناچاہیئے ۔ وہ بار بارانتخاب میں لگے رہے ۔ پولیس کے لوگ قانون انتظام دیکھیں گے کہ انتخاب کی ڈبے سنبھالیں گے ۔ یہی چلتارہتاہے ۔ لیکن یہ نیتاوں کو ملک کی فکرنہیں ہے ۔ ان کو تو جو ایک دوسرے کا منھ دیکھنے کو تیارنہیں تھے ۔ چوکیدارکو دورسے ہی دیکھ کر کے ایسے گھبراجاتے ہیں ان کو لگتاہے ہمارا جو ہوگا ۔ہوگا ، حساب ۔ کتاب بعد میں دیکھ لیں گے پہلے یہ چوکیدارکو نکالو۔ ارے چوکیدار گیاتو سب لوٹ مارکرکے زندگی گذاراکرلیں گے لیکن چوکیدارہے تب تک جینا مشکل کرکے جائیگا ۔ آپ مجھے بتائیے یہ چوکیدارکو اپنا کام کرناچاہیئے کہ نہیں کرنا ، یہ چوکیدار کوکسی سے ڈرنا چاہیئے کیا؟یہ چوکیدارپے آپ کا آشیرواد ہے کیا؟یہ چوکیدارکو ایمانداری سے اپنا کرناچاہیئے کہ نہیں کرناچاہیئے ۔ ملک کا لوٹا ہوادھن واپس آنا چاہیئے کہ نہیں آناچاہیئے ۔ غریب کو حق ملناچاہیئے کہ نہیں ملناچاہیئے ۔ ہرچوکیدارمیں ہرملک کو ایک چوکیدارکے طورپرکھڑا کرنے پرلگاہواہوں ۔ بھائیو۔بہنو اعلیٰ ذات سماج کے غریبوں کے ریزرویشن کے لئے جوکام ہواہے ، پارلیمنٹ نے بہت بڑا کام کیاہے ۔ ملک کے ہرشہری کا پارلیمنٹ کے سبھی ساتھیوں کا مساوات اورہم آہنگی کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لئے جو جوبھی آگے آئے ہیں ان سب کا میں شکریہ اداکرتاہوں ۔ ساتھیوں ، اس قدم سے ملک کے لاکھوں نوجوان ساتھیوں کو موقع ملے گا جو مواقع کی کمی کی وجہ سے ، غریبی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے تھے ۔ غریبی کسی کی ترقی میں کسی کی زندگی کی سطح کو اوپراٹھانے میں اڑچن نہ بنے اس کے لئے تاریخی پہل کی گئی ہے ۔ بھائیواوربہنوصرف تقرریوں میں ہی ریزرویشن کا انتظام نہیں بلکہ ملک میں اعلیٰ تعلیم ، ٹیکنیکل ا��ر کاروباری تعلیم کے اداروں میں ہم نے ایک اہم کام کیاہے ۔ جیسے ہم نے یہ اعلیٰ ذات سماج کے غریب لوگوں کے لئے ریزرویشن کیا تو ساتھ ساتھ یہ بھی فیصلہ لیاہے کہ جو اعلیٰ تعلیم کی نشستیں ہیں اس میں 10فیصد کا اضافہ کیاجائیگا۔ ہم ایسا کوئی کام نہیں چاہتے جس سے کسی کا حق چھینا جائے ۔ ساتھیو ، اس طرح کے انتظام کو لے کر ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اقتصادی حالات کی بنیاد پر جو ہمارے سماج میں جوایک کھائی بنی ہے ۔ اس کی بنیاد پر برسوں سے اس پرمطالبہ ہورہاہے ۔ اس مانگ کو پورا کرنے کا کام بھارتیہ جنتاپارٹی کی سرکار نے کیاہے ۔ لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ ہمیں ان طاقتوں سے بھی ہوشیاررہنا ہے جو اپنے مفاد کے لئے افواہوں کا بازارگرم کرنے میں جٹ گئی ہیں ۔غریبوں کے دشمن ایسے لوگ سوشل میڈیاسے لے کر کے بڑے بڑے اسٹیج پر اب جھوٹ پھیلانے ، افواہیں پھیلانے کے کام میں جٹ گئے ہیں ۔ سماج میں تقسیم سے جن کا مفاد ثابت ہوتاہے ان کی ہرچال ، ہرسازش کو ہمیں پوری طرح شکست دینا ہے ۔ ساتھیو، سرکارنے ایک اوراہم قدم اٹھایاہے ۔ شہریت سے جڑے آئین میں ترمیم کا ، یہ ملک کے اس عہد کا حصہ ہے جس کے مطابق ہم ان سبھی لوگوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے ۔جو کبھی بھارت ۔سرزمین کا ہی حصہ تھے ۔ تقسیم کے وقت اوراس کے بعد الگ الگ حالات میں چلتے جو ہم الگ ہوئے ان کا اگرجذبات کی بنیاد پر حق تلفی ہوتی ہے توبھارت کا اس کے ساتھ کھڑا ہوناضروری ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ حزب اختلاف کے جوساتھی اس قدم کی مخالفت کررہے ہیں ۔ وہ بھی اس جذبہ کو سمجھیں گے ۔ ساتھیو، بدعنوانی کے خلاف آپ نے ساڑھے چارسال پہلے مجھے جو حکم دیاتھا اس پربھی میں پوری طاقت سے کھرااترنے کی کوشش کررہاہوں ۔ اس وجہ سے کیسے اس چوکیدارکے خلاف کچھ لوگ اکٹھاہونا شروع ہوگئے ہیں ۔ ارے یہ بھی واضح دیکھ رہاہے کہ اترپردیش میں توآپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں بالو ، مورنگ لے کر استحصال زدہ اورمحروموں کے حقوق تک کو بھی کھاجائے ۔ایسے لوگوں نے بدعنوانی میں شراکت داری کی ایک تحریک شروع کی ہے ۔ایک دوسرے کے گھوٹالوں اورگھپلوں کو چھپانے کے لئے ہاتھ ملارہے ہیں ۔ جو کبھی ایک دوسرے سے آنکھ ملانے کے لئے تیارنہیں تھے ۔ بھائیواوربہنوسیاسی مفاد کے لئے لکھنو کے گیسٹ ہاوس کا شرمناک وہ حادثہ اسے بھی بھلادیاگیا۔ مظفرنگرسمیت مغربی یوپی کے مختلف حصوں میں کیاہوا تھا اس کو بھی بھلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ سب کچھ صرف اورصرف اس لئے ہورہاہے ،کیونکہ چوکیدارجاگتاہے ۔چوکیدارسامنے کھڑا ہواہے ۔پوری ایمانداری کے ساتھ کھڑاہواہے ۔چوکیدارکو ہٹانے کے لئے صرف ایک تحریک کے لئے ہرٹکڑے ، ہرتنکے کو جوڑرہے ہیں ۔ جب جانچ ایجنسیاں ان کے کاموں کا حساب مانگ رہی ہیں تو یہ چوکیدارکے خلاف ہی ساز ش رچ رہے ہیں ۔ بھائیواوربہنو، 3-2روز پہلے آپ نے پارلیمنٹ میں دیکھا ہوگا ، ہمیں فخرہے ہمارے ملک کی ایک بیٹی جو پہلی بارملک کی وزیردفاع بنی ہے ۔ اورپہلی بار سواسوکروڑاہل وطن کی حفاظت کی باگ ڈورسنبھال رہی ہے ۔ یہ خاتون فخرکا موضوع ہے ۔ خاتون تحریک ایک مضمون ہے ۔اورجب ہماری وزیردفاع ایک خاتون نے پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کے چھکے چھڑا دیئے ۔ ان کے سارے جھوٹ کو بے نقاب کردیا، آپ نے دیکھا ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں ۔ اورہماری وزیردفاع ایک کے بعد ایک سچائی کو پارلیمنٹ میں سدن پررکھ رہی تھیں ۔ ایسے بوکھلاگئے ، ایسے بوکھلاگئے کہ وہ ایک خاتون کی توہین کرنے پرتلے ہوئے ہیں ۔ ایک خاتون وزیردف��ع کی توہین کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ یہ وزیردفاع کی نہیں یہ پورے ہندوستان کی خواتین کی قوت کی توہین ہے اور جس کی قیمت یہ غیرذمہ داررہنماؤ ں کو اداکرنی پڑیگی ۔ بھائیواوربہنو ، یہ جتنے مرضی کوشش کرلیں لیکن جانچ ایجنسیاں تو اپنا کام کریں گی ، ان لوگوں سے حساب مانگیں گی ۔ ساتھیو، چوکیدار اگران سبھی کو آج حالت میں لانے میں کامیاب ہواہے تو یہ کیسے ہوا ، یہ مودی کی وجہ سے نہیں ہواہے ۔ یہ آپ کی دعاوں کی وجہ سے ہواہے ۔ 130کروڑہندوستانیوں کے یقین کی وجہ سے ہواہے ۔ آپ کے اس یقین پرکھرااترنے کا مسلسل میں کوشش کررہاہوں ۔ بھائیواوربہنو، اب مشیل ماما کی کتھاتویادہوگئی نہ آپ کو ، ہیلی کاپٹراب وہ راز دارہندوستان کے قبضے میں آگیاہے اوراس لئے ان کا پسینہ چھوٹاہواہے ۔ یہ راز دارکچھ بول دیگا توکیاہوگا۔ اوراس لئے راز دارکو پکڑ کرجیل سے لائے تو کانگریس نے اپنا ایک وکیل فوری اس کی حفاظت کے لئے بھیج دیا۔ بھائیواوربہنو ، یہ کیادکھاتاہے اگررازدارکی مدد میں کانگریس کا وکیل پہنچ جاتاہے ، اس کو بچانے کے لئے پہنچ جاتاہے تو دال میں کالاہے یہ دیکھنے کے لئے وقت لگے گا کیا؟سمجھ آجائیگا نا!پردے کے پیچھے کھیل کیاہے پتہ چل جائیگا نا! بھائیواوربہنو، اب چوکیدارسے ان کے پریشانی بڑھ رہی ہے ، ان کو لگتاتھا یہ مودی کچھ بھی کہے لیکن یہ بھی سب سیاسی رہنماؤں کی طرح وقت رہتے ایسے ہی ہوجائیگا ۔ لیکن چارسال ہوگئے لیکن مودی توویساکا ویسا کھڑا رہا تو ان کو لگ رہاہے یہ چوکیدار، یہ چوکیداربچنے نہیں دیگا۔ اور اس لئے پریشان ہیں ۔ ایک بار پھرآپ سبھی کو ترقی کے ان منصوبوں کے لئے میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ اورآپ اتنی بڑی تعداد میں آشیرواد دینے کے لئے آئے ، اس کے لئے بھی میں آپ کا شکریہ اداکرتاہوں ۔ میرے ساتھ بولیئے ۔۔۔ بھارت ماتاکی جئے ، بھارت ماتاکی جئے ، بھارت ماتا کی جئے ، آپ سب کومکرسکرانتی کی پیشگی بہت بہت نیک خواہشات!,আগ্ৰাত বহুমুখী প্ৰকল্পৰ উদ্বোধন তথা আধাৰশিলা স্থাপন কৰি দিয়া প্ৰধান মন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86%DA%88%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7/,"عزت مآب صدرِ محترم جناب پال کگامے, مخصوص مندوبین، میڈیا کے حضرات، یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان کا کوئی وزیر اعظم روانڈا آیا ہے۔ اور میری خوش قسمتی ہے کہ میرے دوست صدرمحترم جناب کگامے جی کی دعوت پر مجھے یہ مبارک موقع حاصل ہوا ہے۔ صدرِ محترم کے دوستانہ الفاظ اور میرا اور میرے وفد کا گرم جوش استقبال اور اعزاز کے لئے میں دل کی گہرائیوں سے ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ صدر محترم خود میرا استقبال کرنے ائیر پورٹ آئے۔ ان کا یہ خصوصی خیر سگالی کا اقدام اب پورے ہندوستان کا اعزاز ہے۔ کل صبح میں کگالی جینوسائیڈ میمورئیل پر خراجِ عقیدت پیش کروں گا۔ 1994 کے قتل عام کے بعد روانڈا نے جو امن کا عمل اختیار کیا ہے وہ صحیح معنوں میں قابل تحسین اور منفرد ہے۔ صدر کگامے کی ماہرانہ قیادت کے سبب ہی اور ان کی مؤثر اور اہل حکومت سے روانڈا آج تیز رفتاری سے معاشی ترقی کر رہا ہے۔ دوستو، ہندوستان اور روانڈا کے مراسم وقت کی کسوٹی پر کھرے اترے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات انتہائی باعث فخ�� ہے۔ ہمارے لیے یہ انتہائی قابل فخر بات ہے کہ روانڈا کی معاشی ترقی اور قومی سفر ترقی میں ہندوستان آپ کا بھروسے مند شراکت دار رہا ہے۔ روانڈا کے سفر ترقی میں ہمارا تعاون آگے بھی جاری رہے گا۔ ہم ٹریننگ، تکنالوجی، انفراسٹرکچر، ڈیولپمنٹ اور پروجیکٹ اسسٹنٹ کے شعبوں میں تعاون کرتے رہے ہیں۔ فائننس منیجٹمنٹ، دیہی ترقی اور آئی سی ٹی جیسے میدانوں میں ہم روانڈا کے لئے ہندوستان کے معروف اداروں میں ٹریننگ دیتے ہیں۔ صلاحیت سازی میں ہم اس تعاون کو اور بڑھانا چاہیں گے۔ آج ہم نے 200 ملین ڈالر کے قرض اور ٹریننگ پر معاہدے کیے ہیں۔ آج ہم نے لیدر اور ڈیری ریسرچ سمیت نئے میدانوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے مختلف میدانوں پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس سلسلے میں میں صدرِ محترم کے ساتھ مثالی گاؤں کے سفر کے بارے میں بالمشافہ گفتگو کروں گا۔ ہندوستان اس سلسلے میں گفتگو کا انتہائی خواہش مند ہے۔ ہندوستان خود بھی ایک زرعی ملک ہے۔ ہمارے ملک کی بیشتر آبادی گاؤوں میں آباد ہے۔ اسی لئے میں دیہی زندگی میں بہتری پیدا کرنے کے لئے روانڈا کے تجربات سے اور صدرِ محترم کی پیش رفت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر، ہاسپٹیلٹی اور ٹورزم سمیت ہم نے ایسے بہت سے شعبے تجویز کیے ہیں جہاں ہندوستان اور روانڈا مضبوط وسیع تر ترقیاتی شراکت دار بن کر ابھر سکتے ہیں۔ ہم اپنے کاروباری اور سرمایہ کاری کے مراسم کو اور زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے صدرِ محتر جناب کگامے اور میں کل دونوں ملکوں کے اہم کاروباریوں سے ملاقات کریں گے اور ان کی تجاویز پر غور کریں گے۔ دوستو، مجھے یہ بتاتے ہوئے انتہائی مسرت ہو رہی ہے کہ ہم جلد ہی روانڈا میں ہائی کمیشن قائم کرنے والے ہیں۔ اس سے نہ صرف ہماری سرکاروں کے درمیان قریبی مذاکرات ہو سکیں گے، بلکہ ساتھ ہی کونسلر پاسپورٹ اور ویز و دیگر سہولیات بھی مہیا ہو سکیں گی۔ ہم دونں ملکوں کے درمیان مراسم کو آنے والے وقت میں مزید بلندی پر لے جانے کی امید رکھتے ہیں۔ میں ایک بار پھر صدر محترم کے تئیں اپنی ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اور سوا سو کروڑ ہندوستانی شہریوں کی جانب سے روانڈا کی عوام کو بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شکریہ۔",ৰুৱাণ্ডা ভ্ৰমণ কালত প্রধানমন্ত্রীৰ প্রেছ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%88%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%81-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%AA%DA%BE-%D8%AF%D9%88%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%80-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC/,ڈنمارک کی عزت مآب ملکہ مارگریتھ II نے آج کوپن ہیگن کے تاریخی امالینبرگ محل میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم نے ان کی ڈنمارک کی تخت نشینی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ملکہ محترمہ کو مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے انہیں حالیہ برسوں میں تیزی سے گہرے ہوتے ہوئے ہندوستان۔ ڈنمارک تعلقات خاص طور پر ماحول دوست منصوبہ جاتی شراکت داری کےبارے میں آگاہ کیا ۔ انہوں نے سماجی مقاصد کو آگے بڑھانے میں ڈنمارک کے شاہی خاندان کے کردار کی بھی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے پرتپاک استقبال اور مہمان نوازی پر ملکہ محترمہ کا شکریہ ادا کیا۔,ডেনমাৰ্কৰ ৰাণী দ্বিতীয় মাৰ্গাৰেটে প্ৰধানমন্ত্ৰীক আদৰণি জনায় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%B1%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B3%D8%B7-%D8%B7%D8%A8%D9%82%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کس طرح حکومت ہند نے متوسط طبقے کے خوابوں کو پورا کرنے کے تئیں کس طرح کام کیا ہے ،اس پر مضامین شئیر کئے ہیں۔ یہ مضامن ان کی ویب سائٹ نریندرمودی ڈاٹ ان پر ڈالے گئے ہیں ۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ نریندر مودی ڈاٹ ان سے ،ایک مائی گو ٹویٹ تھریڈ بھی اس موضوع پر جاری کیا ہے ۔انہوں نے اس موضوع پر ایک مائی گو ٹویٹ تھریڈ بھی شئیر کیا ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا ہے کہ یہ معلوماتی مضامین ہیں کہ حکومت ہند نے کس طرح ہمارے متوسط طبقے کے خوابوں کو پورا کرنے کی جانب کام کیا ہے۔. #8YearsOfAspirationalMiddleClass” ‘‘ پچھلے آٹھ سال میں ایک وسیع تھریڈ زندگی میں آسانی کیسے ہو، بھی جاری کیا گیا ہے۔ #8YearsOfAspirationalMiddleClass’’,‘আকাংক্ষী মধ্যবিত্ত শ্ৰেণীৰ ৮ বছৰ’ সন্দৰ্ভত লেখা আৰু টুইটাৰ থ্ৰেড শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%D9%86%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%A8%D8%AC%D9%B9-2022-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A7%A8/,نمسکار! مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، تعلیم، ہنر کی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق سے وابستہ تمام معززین، خواتین و حضرات، ہماری حکومت نے بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مکالمے، بات چیت کی ایک خاص روایت شروع کی ہے۔ آج کا پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس سلسلے میں بجٹ میں تعلیم اور ہنر کی ترقی کے حوالے سے کی گئی شقوں پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بات چیت کی جائے گی۔ ساتھیوں، ہماری آج کی نوجوان نسل ملک کی مستقبل کی رہنما ہے، وہ مستقبل کے معمار بھی ہیں۔ لہذا آج کی نوجوان نسل کو با اختیار بنانے کا مطلب ہندوستان کے مستقبل کو با اختیار بنانا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ 2022 کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے سے متعلق پانچ چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ پہلا – معیاری تعلیم کی ہمہ گیریت: ہمارے تعلیمی نظام کو وسعت دینے، اس کے معیار کو بہتر بنانے اور تعلیمی شعبے کی استعداد بڑھانے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ دوسرا ہے – ہنر کی ترقی: ملک میں ڈجیٹل اسکلنگ ایکو سسٹم کی تشکیل، جب انڈسٹری 4.0 کی بحث چل رہی ہے تو صنعت کی مانگ کے مطابق اسکل ڈیولپمنٹ پر توجہ دی گئی ہے، تاکہ صنعت کے تعلق کو بہتر بنایا جا سکے۔ تیسرا اہم پہلو ہے- شہری منصوبہ بندی اور ڈیزائن۔ اس میں ہندوستان کے قدیم تجربے اور علم کو آج ہماری تعلیم میں ضم کرنا ضروری ہے۔ چوتھا اہم پہلو ہے- بین الاقوامیت: عالمی معیار کی غیر ملکی یونیورسٹیاں ہندوستان میں آئیں جو ہمارا صنعتی علاقہ ہے، جیسے GIFT City، وہاں Fin Tech سے وابستہ ادارے آئیں، اس کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ پانچواں اہم پہلو ہے- اے جی وی سی- یعنی اینیمیشن ویزول افیکٹس گیمنگ کامک، ان سب میں روزگار کی بے پناہ صلاحیت ہے، ایک بہت بڑی عالمی مارکیٹ ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لیے، اس بات پر یکساں توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ ہم ہندوستانی ٹیلنٹ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ بجٹ نئی قومی تعلیمی پالیسی کو زمین پر لان�� کے لیے ایک طویل سفر طے کرنے والا ہے۔ ساتھیوں، میں کورونا کی آمد سے بہت پہلے ملک میں ڈجیٹل مستقبل کی بات کر رہا تھا۔ جب ہم اپنے دیہات کو آپٹیکل فائبر سے جوڑ رہے تھے، جب ہم ڈیٹا کی لاگت کو ممکنہ حد تک کم رکھنے، کنیکٹیویٹی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے، تو کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن ہر ایک نے وبائی امراض کے وقت ان کوششوں کی اہمیت کو دیکھا ہے۔ یہ ڈجیٹل کنیکٹیویٹی ہے جس نے عالمی وبا کے اس دور میں ہمارے تعلیمی نظام کو رواں دواں رکھا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں ڈجیٹل تقسیم کس طرح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ جدت ہمارے اندر شمولیت کو یقینی بنا رہی ہے۔ اور اب ملک شمولیت سے آگے بھی انضمام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس دہائی میں ہم تعلیمی نظام میں جس جدیدیت کو لانا چاہتے ہیں اس کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے اس سال کے بجٹ میں بہت سے اعلانات کیے گئے ہیں۔ ڈجیٹل تعلیم ہندوستان کے ڈجیٹل مستقبل کی طرف بڑھنے کے وسیع تر وژن کا حصہ ہے۔ اس لیے ای ودیا ہو، ون کلاس ون چینل ہو، ڈجیٹل لیبز ہوں، ڈجیٹل یونیورسٹی ہو، اس طرح کا تعلیمی انفراسٹرکچر نوجوانوں کی بہت مدد کرنے والا ہے۔ یہ ہندوستان کے سماجی و اقتصادی سیٹ اپ میں گاؤں، غریب، دلت، پسماندہ، قبائلی، سبھی کو تعلیم کے لیے بہتر حل فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ ساتھیوں، نیشنل ڈجیٹل یونیورسٹی ہندوستان کے تعلیمی نظام میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور بے مثال قدم ہے۔ میں ڈجیٹل یونیورسٹی میں وہ طاقت دیکھ رہا ہوں کہ یہ یونیورسٹی ہمارے ملک میں سیٹوں کے مسئلے کا مکمل حل دے سکتی ہے۔ جب ہر مضمون کے لیے لامحدود سیٹیں ہوں گی تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیمی دنیا میں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔ یہ ڈجیٹل یونیورسٹی سیکھنے اور دوبارہ سیکھنے کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کے لیے نوجوانوں کو تیار کرے گی۔ میری وزارت تعلیم، یو جی سی، اے آئی سی ٹی ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے درخواست ہے کہ یہ ڈجیٹل یونیورسٹی تیزی سے کام شروع کر سکے، اس بات کو یقینی بنایا جائے۔ شروع سے ہی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم دیکھیں کہ یہ ڈجیٹل یونیورسٹی بین الاقوامی معیار کے ساتھ چلے۔ ساتھیوں، ملک میں ہی عالمی معیار کے ادارے بنانے کا حکومت کا ارادہ اور اس کے لیے پالیسی فریم ورک آپ کے سامنے ہے۔ اب آپ کو اپنی کوششوں سے اس ارادے کو زمین پر اتارنا ہوگا۔ آج مادری زبانوں کا عالمی دن بھی ہے۔ مادری زبان میں تعلیم کا تعلق بچوں کی ذہنی نشوونما سے ہے۔ طبی اور تکنیکی تعلیم کئی ریاستوں میں مقامی زبانوں میں شروع کی گئی ہے۔ اب یہ تمام ماہرین تعلیم کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی ہندوستانی زبانوں میں بہترین مواد اور اس کے ڈجیٹل ورژن کی تخلیق کو تیز کریں۔ ہندوستانی زبانوں میں ای مواد، انٹرنیٹ، موبائل فون، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے اسے سب کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہندوستانی اشاراتی زبان میں بھی ہم ایسے کورسز تیار کر رہے ہیں، جو معذور نوجوانوں کو با اختیار بنا رہے ہیں۔ اس میں مسلسل بہتری لاتے رہنا بہت ضروری ہے۔ ڈجیٹل ٹولز کے لیے، ڈیجیٹل مواد کو بہتر طریقے سے کیسے پہنچایا جائے، اس کے لیے ہمیں اساتذہ کو آن لائن تربیت دینے پر بھی زور دینا ہوگا۔ ساتھیوں، متحرک ہنر مندی خود انحصار ہندوستان کے لیے اور عالمی ہنر کی مانگ کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ جس رفتار کے ساتھ ملازمت کے پرانے کردار بدل رہے ہیں، ہمیں اپنے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کو تیزی سے تیار کرنا ہوگا۔ اس لیے اکیڈمی اور انڈسٹری کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ میں ڈجیٹل ایکو سسٹم فار اسکلنگ اینڈ لائیولی ہوڈ اور e-Skilling Lab کے اعلان کے پیچھے یہی سوچ ہے۔ ساتھیوں، آج ہماری توجہ سیاحت کی صنعت، ڈرون انڈسٹری، اینیمیشن اور کارٹون انڈسٹری، دفاعی صنعت پر زیادہ ہے۔ ہمیں موجودہ صنعتوں اور ان شعبوں سے وابستہ اسٹارٹ اپس کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اینیمیشن، ویژول ایفیکٹس، گیمنگ اور کامک سیکٹرز کی ترقی کے لیے ٹاسک فورس کی تشکیل اس میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔ اسی طرح شہری منصوبہ بندی اور ڈیزائننگ ملک کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کے لیے ایک موقع بھی۔ آزادی کے امرت میں، ہندوستان اپنے شہری منظر نامے کو تبدیل کرنے کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس لیے اے آئی سی ٹی ای جیسے اداروں سے ملک کو خصوصی توقع ہے کہ اس سے متعلق تعلیم و تربیت میں مسلسل بہتری کی جائے۔ ساتھیوں، اس سلسلے میں آپ کی معلومات ملک کے لیے کارآمد ثابت ہوں گی کہ ہم تعلیم کے شعبے کے ذریعے خود کفیل ہندوستان کی مہم کو کس طرح مضبوط کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی مشترکہ کوششوں سے ہم بجٹ میں طے شدہ اہداف کو تیزی سے نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تجربہ یہ ہو رہا ہے کہ اسمارٹ کلاس کے ذریعے، اینیمیشن کے ذریعے، لانگ ڈسٹنس ایجوکیشن کے ذریعے یا ہمارے نئے تصور کے ذریعے کہ ایک کلاس، ایک چینل کے ذریعے ہم گاؤں تک اچھے معیار کی تعلیم کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے بجٹ میں انتظام کیا گیا ہے۔ ہم اسے کیسے نافذ کریں۔ آج جب ہم بجٹ کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو آج یہ توقع نہیں ہے کہ بجٹ کیا ہونا چاہیے، کیونکہ وہ تو ہو چکا ہے۔ اب آپ سے یہ توقع ہے کہ جو چیزیں بجٹ میں ہیں ان کو جلد از جلد کیسے نافذ کیا جائے۔ آپ نے بجٹ کا مطالعہ کیا ہوگا، آپ فیلڈ میں کام کرتے ہیں، بجٹ اور آپ کے کام کی توقعات اور محکمہ تعلیم، اسکل ڈیپارٹمنٹ ان تینوں کو ملا کر، اگر ہم ایک اچھا روڈ میپ بناتے ہیں، ہم ٹائم باؤنڈ کام کی تشکیل کرتے ہیں، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم نے تقریباً ایک مہینے پیشگی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ پہلے بجٹ 28 فروری کو آتا تھا، اب اسے یکم فروری تک لے جایا گیا ہے، کیونکہ اگر بجٹ یکم اپریل سے لاگو ہوتا ہے تو اس سے پہلے بجٹ کے حوالے سے ہر کوئی تفصیلی انتظامات کر لے۔ تاکہ یکم اپریل سے ہم زمین پر بجٹ کا کم کرنا شروع کر سکیں۔ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔ اور میں چاہوں گا کہ آپ لوگوں کو اس میں بہت کچھ ملے… اب جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا، یہ ٹھیک ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب ملک نے سوچا ہے کہ ہم بڑی تعداد میں سینک اسکولوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کی طرف بڑھیں گے۔ اب ملٹری اسکول کیسے ہوں گے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا ماڈل کیا ہوگا، وزارت دفاع اس کے لیے بجٹ دینے جا رہی ہے، پھر فوجی اسکولوں کے اساتذہ کی خصوصی تربیت کیسے ہوگی، آج ہمارے پاس کیا ہے، تربیت کے انتظامات اساتذہ، سینک اسکولوں کے اساتذہ کی خصوصی تربیت کیونکہ اس میں جسمانی حصہ بھی ہوگا، ہم یہ کیسے کر سکیں گے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جس ملک میں نالندہ، ٹیکسلا، ولبھی جیسے بڑے تعلیمی ادارے ہیں، آج ہمارے ملک کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، کیا یہ ہمارے لیے درست ہے؟ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو بچے ہمارے ملک سے باہر جا رہے ہیں، ان پر پیسہ غیر ضروری خرچ ہو رہا ہے، وہ خاندان قرض لے رہا ہے�� کیا ہم دنیا کی یونیورسٹیاں اپنے ملک میں لا کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں، وہ ہمارے اپنے ماحول میں اور کم خرچ میں پڑھ سکیں؟ یعنی پری پرائمری سے لے کر پوسٹ گریجویٹ تک ہمارا پورا بلیو پرنٹ 21ویں صدی سے کیسے ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟ ہمارے بجٹ میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے، ٹھیک ہے، اس کے باوجود، اگر کسی کو لگتا ہے کہ ایسا نہ ہوتا تو اچھا ہوتا، ہم اگلے سال اس کے بارے میں سوچیں گے… اگلے بجٹ میں سوچیں گے۔ اس وقت جو بجٹ ہمارے پاس دستیاب ہے، ہم اس بجٹ کو زمین پر کیسے اتاریں، اسے بہترین طریقے سے کیسے استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے، بہترین نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے۔ اب اٹل ٹنکرنگ لیب کے کام کو دیکھنے والے لوگ الگ ہیں، لیکن اس کا رشتہ تو کسی نہ کسی تعلیمی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم جدت کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، تو ہم اٹل ٹنکرنگ لیب کو کس طرح جدید بنائیں گے۔ یعنی تمام مضامین ایسے ہیں کہ بجٹ کے تناظر میں اور قومی تعلیم کے تناظر میں یہ پہلا بجٹ ہے جسے ہم فوراً نافذ کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کے اس امرت مہوتسو میں امرت عہد کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہو جو ہمیں آپ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر لانے کی ضرورت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب بجٹ پیش کیا جاتا ہے، اس کے بعد وقفہ ہوتا ہے اور تمام اراکین اسمبلی مل کر چھوٹے چھوٹے گروپس میں مل کر بجٹ پر باریک بینی سے بحث کرتے ہیں اور خوب بحث ہوتی ہے، اس سے اچھی چیزیں سامنے آتی ہیں لیکن ہم نے اس کا ایک دائرہ اور بڑھا دیا ہے، ان دنوں ارکان اسمبلی ہی کر رہے ہیں لیکن اب ہم براہ راست محکمہ کے لوگوں سے اسٹیک ہولڈرز سے بات کر رہے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے ہم سب کی کوشش جو میں یہ کہہ رہا ہوں، ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس“… اس بجٹ میں بھی سب کی کوشش بہت اہم ہے۔ آج کی بحث سے وزارت تعلیم، اسکل منسٹری کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ کیونکہ آپ کے الفاظ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ یہ بجٹ بہت اچھا ہے، لیکن اگر آپ اس میں ایسا کریں گے تو یہ مشکل ہوگا، اگر آپ یہ کریں گے تو ٹھیک رہے گا۔ بہت سی عملی چیزیں سامنے آئیں گی۔ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فلسفے کی کوئی بحث نہیں ہے، اسے عملی زندگی میں کیسے زمین پر لایا جائے، اسے کیسے اچھی طرح سے لاگو کیا جائے، اسے آسانی سے کیسے اتارا جائے، حکومت اور سماجی نظام میں کوئی فاصلہ نہیں ہونا چاہیے، کیسے؟ مل کر کام کریں، اسی کے لیے یہ بحث ہے۔ میں ایک بار پھر میرے ساتھ شامل ہونے کے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، دن بھر آپ کی گفتگو سے بہت اچھے نکات سامنے آئیں گے جس کی وجہ سے محکمہ تیز رفتاری سے فیصلے کر سکے گا اور ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے وسائل کو بہتر بنائیں گے۔ اگلے بجٹ کی تیاری کریں گے۔ میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔,শিক্ষা আৰু দক্ষতা খণ্ডত ২০২২ৰ কেন্দ্ৰীয় বাজেটৰ ইতিবাচক প্ৰভাৱক লৈ আয়োজিত ৱেবিনাৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%DA%AF%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئیدہ��ی،28فروری؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج سرگرم حکمرانی اور بروقت نفاذ سے متعلق آئی سی ٹی پر مبنی کثیر ماڈل پلیٹ فارم پرگتی کے ذریعے اپنی 24ویں میٹنگ کی صدارت کی۔ اس سے پہلے پرگتی کی 23 ملاقاتوں میں9.46 لاکھ کروڑ روپے کی کل سرمایہ کاری سے مجموعی طورپر 208 پروجیکٹوں پر نظرثانی کی گئی۔ 17 شعبوں میں عوامی شکایات کے ازالے پر بھی نظر ثانی کی گئی۔ آج 24ویں میٹنگ میں وزیر اعظم نے اتراکھنڈ میں کیدار ناتھ تعمیراتی کام کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ ریاستی حکومت نے ڈرون امیجری کے ذریعے کاموں کی پیش رفت کو پیش کیا۔ وزیر اعظم نے دہلی پولس سے متعلق شکایات سے نمٹنے اور اس کے ازالہ میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے شکایات کے ازالے کے معیار کو بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ، اترپریش، بہار ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر،تمل ناڈو اور کیرالہ سمیت متعدد ریاستوں میں پھیلے ریلوے ، سڑک، بجلی، پیٹرولیم اور کوئلہ کے شعبوں میں 10بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں کی پیش رفت پر نظر ثانی کی۔ا ن پروجیکٹوں پر مجموعی طورپر 40 ہزار کروڑ روپے کی لاگت آرہی ہے۔ وزیر اعظم نے پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا اور پردھان منتری وندنا یوجنا کے نفاذمیں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ م ن۔م ن۔ن ع (28-02-2018),প্ৰগতিৰ যোগেদি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মত বিনিময় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے موربی، گجرات میں ایک میٹنگ کی صدارت کی جس میں وہاں پیش آنے والے افسوسناک پل حادثے کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکام متاثرہ خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہیں اور اس المناک گھڑی میں ان کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنائیں۔ افسران نے وزیر اعظم کو راحت کے کاموں اور متاثرہ افراد کو فراہم کی جانے والی امداد کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ایک تفصیلی اور وسیع انکوائری کی جائے جو اس حادثے سے متعلق تمام پہلوؤں کی نشاندہی کرے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انکوائری سے حاصل ہونے والی اہم معلومات کو جلد از جلد لاگو کیا جانا چاہیے۔ جائزہ میٹنگ میں سی ایم بھوپیندر بھائی پٹیل، وزیر داخلہ ہرش سنگھاوی، گجرات حکومت کے وزیر برجیش میرجا، گجرات کے چیف سکریٹری، ریاستی ڈی جی پی، مقامی کلکٹر، ایس پی، انسپکٹر جنرل آف پولیس، ایم ایل اے اور ایم پی اور دیگر افسران موجود تھے۔ اس سے پہلے موربی پہنچنے پر وزیر اعظم نے پل حادثے کی جگہ کا دورہ کیا۔ وہ مقامی ہسپتال گئے جہاں زخمی صحت یاب ہو رہے ہیں۔ انھوں نے بچاؤ اور امدادی کاموں میں شامل افراد سے بھی بات چیت کی اور ان کے حوصلے کو سراہا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মোৰবিত সমীক্ষা বৈঠকৰ অধ্যক্ষতা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AC-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اسرائیل کے وزیر اعظم عزت مآب بنجامن نتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی۔ وزیر اعظم نےعزت مآب نیتن یاہو کو چھٹی بار اسرائیل کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر اپنی پرتپاک مبارکباد پیش کی اور ان کے کامیاب دور کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ دونوں رہنماؤں نے حالیہ برسوں میں ہند-اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں تیزی سے پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا، اور مختلف شعبوں میں اسٹریٹجک تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے امکانات پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے عزت مآب نتن یاہو کو جلد ہی ہندوستان کا دورہ کرنے ہی دعوت دی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,ইজৰাইলৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী বেঞ্জামিন নেতানয়াহুৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তালা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D9%88%D9%85%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82/,متاثرین کے لئے وزیر اعظم کے قومی راحتی فنڈ پی ایم این آر ایف سے مالی امداد کا اعلان ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کرناٹک کے توماکورو ضلع میں ایک سڑک حادثہ کی وجہ سے ہوئے جانی نقصان پر گہرے رنج و غم اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے متاثرین کے لئے وزیر اعظم کے قومی راحتی فنڈ پی ایم این آر ایف سے مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا ہے: ’’کرناٹک کے توماکورو ضلع میں سڑک حادثہ افسوسناک ہے میں سوگوار کنبوں کے تئیں تعزیت کا اظہار کرتا ہو ں اور زخمیو ں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔وزیر اعظم کے قومی راحتی فنڈ سےمرنے والے افراد کے کنبوں کو2-2 لاکھ روپے دئے جائیں گے ،زخمیوں کو 50-50 ہزار روپے ادا کئے جائیں گے:وزیر اعظم‘‘,কৰ্ণাটকৰ তুমকুৰ জিলাত সংঘটিত পথ দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণহানিৰ ঘটনাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%DA%A9%DB%92%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%D9%84%DA%91%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-130%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91%DB%81%D9%85-%D9%88%D8%B7%D9%86%D9%88%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%A8%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A7%80-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87/,وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے کہاہے کہ بھارت صحت کے شعبے میں نئے سنگ میل قائم کررہاہے ۔ خواہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ تعدادمیں مفت ٹیکہ کاری ہو یا طبی بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر وترقی ہو۔ جناب مودی نے کہاکہ کورونا کے خلاف لڑائی میں 130کروڑہم وطنوں نے جس عزم کا مظاہرہ کیاہے وہ نئے بھارت کی قوت کا مظہرہے ۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا:,ক’ৰোনা-বিৰোধী যুঁজৰ বাবে ১৩০ কোটি দেশবাসীয়ে গ্ৰহণ কৰা সংকল্পই নতুন ভাৰতৰ সামৰ্থ্যকে প্ৰতীয়মান কৰিছে: প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D8%A8%D9%84-%D8%AA%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF-%D8%AA%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندرمودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کو نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت (ایم این آر ای)،بھارت سرکار اور بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی (آئی آر ای این اے) کے درمیان دستخط شدہ ایک اسٹریٹجک شراکت داری معاہدے سے آگاہ کیا گیا۔ اس معاہدے پر جنوری 2022 میں دستخط ہوئے تھے۔ معاہدے کا مقصد بھارت میں قابل تجدید توانائی پرمبنی گرین اینرجی کے شعبے میں حوصلہ مندانہ تبدیلی ،قیادت اور علم کوفروغ دیناہے ۔ یہ بھارت کے توانائی کے شعبے میں تبدیلی کی کوششوں میں مدد کرے گا اور آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے میں بھی دنیا کی مدد کرے گا۔ اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے میں پیش کیے گئے تصور کے شعبے 2030 تک 500 گیگاواٹ کی غیر رکازی ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کی انسٹالڈ صلاحیت کے اس کے حوصلہ مندانہ ہدف کو حاصل کرنے میں بھارت کی مدد کریں گے۔اس سے آتم نربھر بھارت کو بھی فروغ ملے گا۔ معاہدے کی نمایاں خصوصیات میں درج ذیل شعبوں میں بہتر تعاون شامل ہے: بھارت قابل تجدید توانائی اور صاف ستھری توانائی کی ٹکنالوجیزکو فروغ دینے کے بارے میں علم کومشترک کرنے کی سہولت فراہم کرنا طویل مدتی توانائی کی منصوبہ بندی میں بھارت کی کوششوں کی حمایت کرنا بھارت میں اختراعی ماحول کو مضبوط بنانے کے لیے تعاون کرنا گرین ہائیڈروجن کی ترقی کے امکانات اور اس کے استعمال کو فروغ دیکر کفایتی ڈی کاربونائزیشن کی طرف بڑھنا اس طرح،یہ اسٹریٹجک شراکت داری معاہدہ بھارت کی توانائی کے شعبے میں تبدیلی لانے کی کوششوں اور آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے میں دنیا کی مدد کرے گا۔,কেন্দ্রীয় মন্ত্ৰীসভাই ভাৰতৰ নবীন আৰু পুনর্নবীকৰণযোগ্য শক্তি মন্ত্রালয় (এমএনআৰই) আৰু আন্তর্জাতিক পুনর্নবীকৰণযোগ্য শক্তি এজেঞ্চী (আইআৰইএনএ)ৰ মাজত স্বাক্ষৰিত চুক্তিত অনুমোদন কেন্দ্রীয় মন্ত্রীসভা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8/,نئی دہلی۔15 نومبر؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جھارکھنڈ کے عوام کو ریاست جھارکھنڈ کے یوم تاسیس پر مبارکباد دی ہے۔ اپنی مبارکباد کے پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست جھارکھنڈ کے یوم تاسیس پر ریاست کے عوام کو مبارکباد۔ دعا کرتا ہوں کہ جھارکھنڈ ترقی اور خوشحالی کی نئی بلندیوں کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔,ঝাৰখণ্ডৰ প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উপলক্ষে ঝাৰখণ্ডবাসীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%B2-%E0%A6%95%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A6%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF-%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A8-%E0%A6%89/,نئی دہلی:8 نومبر،2021۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایل کے اڈوانی جی کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ: ‘‘محترم اڈوانی جی کو سالگرہ کی مبارکباد۔ ان کی لمبی اور صحت مند زندگی کے لئے دعاگو ہوں۔ لوگوں کو بااختیار بنانے اور ہماری ثقافتی شان کو بڑھانے کے لیے ان کی بے شمار کوششوں کے لیے قوم ان کا مقروض ہے۔ وہ اپنے علمی مشاغل اور بھرپور ذہانت کے لیے بھی بڑے پیمانے پر قابل احترام ہیں’’۔ –———————- ش ح۔م ع۔ ع ن,এল কে আদৱানি জীৰ জন্মদিন উপলক্ষে তেওঁক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D8%B3-%D9%85%DB%8C%D9%85%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%84-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B8/,نئی دہلی،21/ اکتوبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پولیس کے یوم یادگار کے موقع پر نیشنل پولیس میموریل قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے آفات کا سامنا کرنے کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کو اعزاز بخشنے کے لیے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے نام پر یک ایوارڈ کا بھی اعلان کیا۔ آفات کے بعد لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے کئے گئے بہادری اور ہمت کے مظاہرے کے اعتراف میں ہر سال اس ایوارڈ کا اعلان کیا جائے گا۔ جناب نریندر مودی نے نیشنل پولیس میموریل میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے ہاٹ اسپرنگز واقعے میں بچ جانے والے تین ارکان کو اعزاز سے سرفراز کیا۔ انھوں نے نیشنل پولیس میموریل کے میوزیم کا افتتاح بھی کیا اور وزیٹرز بک پر دستخط بھی کئے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قوم کی خدمت کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے والے پولیس اہلکاروں کے حوصلے اور قربانی کو سلام کیا۔ انھوں نے ان پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کو یاد کیا جنھوں نے ہاٹ اسپرنگز، لداخ میں بہادری سے لڑائی کی اور ان کے خاندان اور احباب کے لیے احترام کا اظہار کیا۔ نیشنل پولیس میموریل کو قوم کے نام وقف کرنے میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ میموریل کے وسط میں لگائی گئی لاٹھ پولیس دستوں کی صلاحیت، حوصلے اور خدمت کے جذبے کی نمائندگی کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نیشنل پولیس میموریل سے تعلق رکھنے والی ہر ایک شے شہریوں کو تحریک دے گی اور انھیں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کی بہادری سے متعارف کراتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو امن، سکیورٹی اور خوشحالی قائم ہے وہ پولیس، نیم فوجی اور مسلح افواج کی قربانیوں اور مسلسل کوششوں کے نتیجے میں ہی ممکن ہو پائی ہے۔ وزیر اعظم نے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورسیز اور ریاستی ڈیزاسٹر رسپانس فورسز کی خدمات اور قربانیوں کا بھی ذکر کیا۔ نیشنل پولیس میموریل کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس میموریل کو این ڈی اے حکومت نے ترجیح دی ہے اور وقت پر کام مکمل ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ میموریل حکومت کے اس نظریئے کی عکاسی کرتا ہے کہ قوم کی تعمیر میں کلیدی رول ادا کرنے والے لوگوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کیا جانا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے پولیس دستوں سے کہا کہ وہ روزانہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ٹیکنالوجی اور اختراع اختیار کریں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے پولیس دستوں کی جدیدکاری کی اسکیم (ایم پی ایف) کا ذکر کیا جو ٹیکنالوجی، جدید مواصلاتی نظام اور جدید ہتھیاروں کے ذریعہ پولیس دستوں کی جدید کاری کا کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پولیس دستوں کو پولیس اور معاشرے کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے میں ایک بڑا رول ادا کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے لیے پولیس دستوں کو پولیس اسٹیشنوں کو اور زیادہ عوام دوست بنانا ہوگا۔ نیشنل پولیس میموریل میں ایک وسطی لاٹھ، ایک دیوار شجاعت، جس پر اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اپنی جان کی قربا نی دینے والےپولیس اہلکاروں کے نام کندہ ہیں۔ اور ایک جدید ترین میوزیم شامل ہے، جو شہید پولیس اہلکاروں کی یاد کے نام وقف کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ا گ ۔ را ۔ 21 – 10 – 2018),ৰাষ্ট্ৰীয় আৰক্ষী স্মৃতিসৌধ দেশলৈ উৎসৰ্গা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰঃ সুভাষ চন্দ্ৰ বসুৰ নামত বঁটা ঘোষণা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%B0-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%AC%D8%B3%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%89%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا جناب این وی رامنا جی، جسٹس جناب یو یو للت جی، ملک کے وزیر قانون جناب کرن رجیجو جی، وزیر مملکت پروفیسر ایس پی سنگھ بگھیل جی، ریاستوں کے تمام معزز وزرائے اعلیٰ، مرکز کے زیر انتظام زیر انتظام ممالک کے لیفٹیننٹ گورنرز، سپریم کورٹ آف انڈیا کے معزز جج، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس، معزز مہمان، دیگر تمام معززین موجود ہیں۔ خواتین و حضرات۔ ریاست کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی یہ مشترکہ کانفرنس ہماری آئینی خوبصورتی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس موقع پر مجھے بھی آپ سب کے درمیان کچھ لمحات گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں عدلیہ کا کردار آئین کے سرپرست کا ہے وہیں مقننہ شہریوں کی امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کے ان دونوں طبقات کا یہ امتزاج، یہ توازن ملک میں ایک موثر اور بر وقت عدالتی نظام کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرے گا۔ میں اس تقریب کے لیے آپ سب کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، وزرائے اعلیٰ اور چیف جسٹسز کی یہ مشترکہ کانفرنسیں ماضی میں بھی منعقد ہوتی رہی ہیں۔ اور ان تقریبات نے ہمیشہ ملک کے لیے کچھ نئے خیالات پیش کیے ہیں۔ لیکن اس بار یہ تقریب اپنے آپ میں اور بھی خاص ہے۔ آج یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک اپنی آزادی کے امرت مہوتسو کا جشن منا رہا ہے۔ آزادی کے ان 75 سالوں نے عدلیہ اور ایگزیکٹو دونوں کے کرداروں اور ذمہ داریوں کو برابر واضح کیا ہے۔ جہاں بھی ضروری ہوا، یہ رشتہ ملک کو سمت دینے کے لیے مسلسل تیار ہوا ہے۔ آج آزادی کے امرت مہوتسو میں جب ملک نئے امرت عزائم طے کر رہا ہے، نئے خواب دیکھ رہا ہے، ہمیں مستقبل کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔ 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کر لے گا تو ہم ملک میں کس طرح کا نظام انصاف دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اپنے عدالتی نظام کو 2047 کے بھارت کی امنگوں کو پورا کرنے، ان پر پورا اترنے کے قابل کیسے بنا سکتے ہیں، آج ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے۔ امرت کال میں ہمارا وژن ایک انصاف کے نظام کا ہونا چاہیے جس میں انصاف قابل رسائی ہو، انصاف تیز ہو اور انصاف سب کے لیے ہو۔ ساتھیو، حکومت ملک میں انصاف کی تاخیر کو کم کرنے کے لیے اپنی سطح سے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ہم عدالتی طاقت بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں، عدالتی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ کیس مینجمنٹ کے لیے آئی سی ٹی کا استعمال بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ ماتحت عدالتوں اور ضلعی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹس تک خالی آسامیوں کو پر کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتی بنیادی ڈھانچے ک�� مستحکم کرنے کے لیے بھی ملک میں وسیع پیمانے پر کام کیا جارہا ہے۔ اس میں ریاستوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ ساتھیو، آج ٹیکنالوجی دنیا بھر کے شہریوں کے حقوق، ان کو بااختیار بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں بھی آپ سب ٹیکنالوجی کے امکانات سے واقف ہیں۔ ہمارے معزز جج وقتاً فوقتاً اس بحث کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ حکومت ہند عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے امکانات کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا لازمی حصہ بھی سمجھتی ہے۔ مثال کے طور پر ای کورٹس پروجیکٹ کو آج مشن موڈ میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی ای کمیٹی کی رہنمائی میں عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی انضمام اور ڈیجیٹلائزیشن کا کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں یہاں موجود تمام وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے تمام چیف جسٹسوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اس مہم کو خصوصی اہمیت دیں، اسے آگے بڑھائیں۔ ڈیجیٹل انڈیا کے ساتھ عدلیہ کا یہ انضمام بھی آج ملک کے عام آدمی کی توقع بن گیا ہے۔ آپ دیکھیں، آج چند سال پہلے ہمارے ملک کے لیے ڈیجیٹل لین دین کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ لوگ سوچتے تھے، لوگ شک کرتے تھے، اوہ ہمارے ملک میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا دائرہ کار صرف شہروں تک محدود ہوسکتا ہے، یہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن آج چھوٹے شہروں اور یہاں تک کہ دیہاتوں میں ڈیجیٹل لین دین عام ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں ہونے والے ڈیجیٹل لین دین کی کل تعداد میں سے 40 فیصد ڈیجیٹل لین دین بھارت میں ہوا ہے۔ حکومت سے متعلق خدمات، جن کے لیے شہریوں کو مہینوں کے دفاتر گزارنے پڑے تھے، اب موبائل پر دستیاب ہو رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ فطری بات ہے کہ جس شہری کو آن لائن خدمات اور سہولیات فراہم کی جارہی ہوں، اسے انصاف کے حق کے حوالے سے بھی وہی توقعات ہوں گی۔ ساتھیو، آج جب ہم ٹیکنالوجی اور مستقبل رخی اپروچ کی بات کر رہے ہیں تو اس کا ایک اہم پہلو ٹیک فرینڈلی ہیومن ریسورس بھی ہے۔ ٹیکنالوجی آج نوجوانوں کی زندگی کا ایک فطری حصہ ہے۔ اس طرح ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نوجوانوں کی یہ مہارت ان کی پیشہ ورانہ طاقت بن جائے۔ آج کل کئی ممالک کی قانون یونیورسٹیوں میں بلاک چین، الیکٹرانک ڈسکوری، سائبر سیکورٹی، روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور بائیو ایتھکس جیسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی قانونی تعلیم ان بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہونی چاہیے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ہمیں مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ ساتھیو، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے [جس کا مفہوم ہے] کہ کسی بھی ملک میں سوراج کی بنیاد انصاف ہے۔ لہذا انصاف کو عوام سے، عوام کی زبان میں جوڑنا چاہیے۔ جب تک انصاف کی اساس عام انسان کے لیے نہیں سمجھی جاتی، اس کے لیے انصاف اور ریاستی حکم میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ میں ان دنوں حکومت میں ایک موضوع پر اپنا تھوڑا سا دماغ کھپا رہا ہوں۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں قوانین بناتے ہیں، تو ایک تو وہاں قانونی اصطلاحات میں قانون ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور قانون بھی ہوتا ہے جو عوامی زبان میں ہوتا ہے۔ عام انسان کی زبان میں ہوتا ہے۔ اور دونوں مجاز ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے عام آدمی کو قانونی چیزوں کو سمجھنے میں انصاف کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضروت نہیں پڑتی ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک میں بھی قانون کی مکمل قانونی اصطلاحات تو ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہی بات عام آدمی بھی سمجھ سکے۔ اس کی زبان میں اور اسے بھی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں ایک ساتھ منظور کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں عام آدمی اس کی بنیاد پر بات کر سکے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ روایت ہے۔ میں نے ابھی ایک ٹیم تشکیل دی ہے، وہ اس کا مطالعہ کر رہی ہے۔ ساتھیو، آج بھی ہمارے ملک میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی تمام کارروائیاں انگریزی میں ہیں اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ سی جی آئی نے خود اس موضوع کو چھوا ہے، لہذا کل اخبارات کو مثبت خبروں کا موقع ملے گا، اگر اٹھالیں تو۔ لیکن اس کے لیے بہت انتظار کرنا پڑے گا۔ ساتھیو، ایک بڑی آبادی کو عدالتی عمل سے لے کر فیصلوں تک سمجھنا مشکل لگتا ہے۔ ہمیں اس نظام کو سادہ اور عام لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں عدالتوں میں مقامی زبانوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے ملک کے عام شہریوں کا نظام انصاف پر اعتماد بڑھے گا، وہ اس سے جڑے ہوئے محسوس کریں گے۔ اب اس وقت ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تکنیکی تعلیم اور طبی تعلیم مادری زبان میں کیوں نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے بچے جو باہر جاتے ہیں، دنیا کی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تعلیم حاصل کرکے، پھر میڈیکل کالج کے ذریعے، ہم اپنے ملک میں یہ کام کر سکتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ بہت سی ریاستوں نے تکنیکی تعلیم اور طبی تعلیم کو مادری زبان میں دینے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ تو بعد میں اس سے گاؤں کا غریب بچہ بھی جو زبان کی رکاوٹوں کو محسوس کرتا ہے، اس کے لیے تمام راستے کھل جائیں گے اور یہ بھی ایک بہت بڑا انصاف ہے۔ یہ ایک سماجی انصاف بھی ہے۔ سماجی انصاف کے لیے عدلیہ کے پیمانے پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ زبان بھی سماجی انصاف کی ایک بڑی وجہ بن سکتی ہے۔ ساتھیو، ایک سنجیدہ موضوع عام آدمی کے لیے قانون کی الجھنیں بھی ہیں۔ 2015 میں ہم نے تقریبا 1800 قوانین کی نشاندہی کی تھی جو غیر متعلق ہو چکے تھے۔ ان میں سے جو مرکز کے قوانین تھے، ہم نے اس طرح کے 1450 قوانین کو ختم کر دیا۔ لیکن ریاستوں نے صرف 75 قوانین کو ختم کیا ہے۔ آج یہاں تمام وزرائے اعلیٰ تشریف رکھتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کی ریاست کے شہریوں کے حقوق، ان کی زندگی میں آسانی کے لیے آپ کے پاس بھی قوانین کا اتنا بڑا جال بنا ہوا ہے۔ لوگ آوٹ ڈیٹیڈ قوانین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ ان قوانین کو منسوخ کرنے کی سمت میں قدم اٹھائیں، لوگ بہت دعائیں دیں گے۔ ساتھیو، عدالتی اصلاحات صرف پالیسی کی سرگرمی یا پالیسی معاملہ نہیں ہے۔ ملک میں زیر التوا کروڑوں مقدمات کے لیے پالیسی سے لے کر ٹیکنالوجی تک ملک میں ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور ہم نے اس پر بار بار تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس کانفرنس میں بھی آپ سبھی ماہرین اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے، اس کا مجھے پورا یقین ہے۔ میں اس میٹنگ میں کافی دیر سے بیٹھا ہوں۔ شاید ججوں کو جتنا موقع ملا ہوگا اس سے زیادہ موقع مجھے ملا ہے کیوں کہ میں کہ کئی برسوں تک وزیر اعلی کی حیثیت سے ان اجلاسوں میں شرکت کرتا رہا ہوں۔ اب یہاں بیٹھنے کا موقع آگیا ہے تو یہاں آتا رہتا ہوں۔ ایک طرح سے میں اس محفل میں سینئر ہوں۔ ساتھیو، جب میں اس بارے میں بات کر رہا تھا تو مجھے یقین ہے کہ ان تمام چیزوں میں انسانی حساسیت شامل ہے۔ ہمیں انسانی حساسیت کو بھی مرکز میں رکھنا ہوگا۔ آج ملک میں تقریبا ساڑھے تین لاکھ قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ جیل میں ہیں۔ ان میں سے زیادہ ت�� لوگوں کا تعلق غریب یا عام خاندانوں سے ہے۔ ہر ضلع میں ضلعی جج کی سربراہی میں ان مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی ہوتی ہے جہاں ممکن ہو انھیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ میں تمام وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے اپیل کروں گا کہ اگر ممکن ہو تو انسانی آئین، حساسیت اور قانون کی بنیاد پر ان معاملات کو ترجیح دیں۔ اسی طرح ثالثی عدالتوں اور خاص طور پر مقامی سطح پر زیر التوا مقدمات کو حل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ثالثی کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کی ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ باہمی رضامندی اور باہمی شراکت داری، یہ انصاف کا ایک علیحدہ انسانی تصور ہے۔ اگر ہم اس پر نظر ڈالیں تو ہمارے معاشرے کی یہ نوعیت اب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ ہم نے اپنی ان روایات کو نہیں کھویا ہے۔ ہمیں اس جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور جیسا کہ شیو صاحب نے للت جی کی تعریف کی، میں بھی کرنا چاہوں گا۔ انھوں نے پورے ملک کا سفر کیا، اس کام کے لیے ہر ریاست میں گئے اور سب سے اہم بات یہ کہ کورونا دور میں گئے۔ ساتھیو، مقدمات کم وقت میں فیصل بھی ہوجاتے ہیں، عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے اور سماجی تانے بانے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ ہم نے ثالثی بل کو پارلیمنٹ میں امبریلا لیجسلیشن کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ اپنی ثروت مند قانونی مہارت سے ہم ' ثالثی سے حل' کے طریقے میں ایک عالمی رہنما بن سکتے ہیں۔ ہم پوری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قدیم انسانی اقدار اور جدید اپروچ کے ساتھ اس کانفرنس میں ایسے تمام موضوعات پر تمام عالم لوگوں کی طرف سے تفصیلی بحث اور غور و خوض کیا جائے گا اور وہ امرت لایا جائے گا جو شاید آنے والی نسلوں کے لیے کام آئے۔ اس کانفرنس سے جو نئے خیالات سامنے آئیں گے، جو نئے نتائج سامنے آئیں گے وہ نئے بھارت کی امنگوں کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہوں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سب کا آپ کی رہنمائی پر شکر گزار ہوں اور میں حکومت کی جانب سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت کو ملک کے نظام انصاف کے لیے جو کچھ کرنا ہے چاہے وہ ریاستی حکومت ہو، مرکزی حکومت ہو، وہ سب کچھ کرے گی۔ تاکہ ہم سب ملک کے شہریوں کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے اکٹھے ہو سکیں اور 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال منائے تو ہم انصاف کے میدان میں بھی زیادہ فخر اور زیادہ احترام اور زیادہ اطمینان کے ساتھ آگے بڑھیں، یہی میری نیک خواہشات ہیں۔ آپ کا بہت شکريہ!,মুখ্যমন্ত্ৰী আৰু উচ্চ ন্যায়ালয়ৰ মুখ্য নায়াধীশসকলৰ যুটীয়া সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D9%88-%D8%B1%D9%88%D8%B2-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%AD%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%9C-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%AA/,نئی دہلی۔21؍مارچ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نو روز کے تیوہار کی مبارکباد دی ہے۔ جناب مودی نے نوروز کے تیوہار کے موقع پر اپنے مبارکباد کے پیغام میں کہا ،’’ملک کی پارسی برادری کو نو روز مبارک ۔ خدا کرے کہ آنے والے سال خوشیوں اور یگانگت کے جذبے میں مزید اضافہ کرے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ہر شخص کے خواب اور عزائم پورے ہوں۔‘‘ م ن۔س ش ۔ ع ن۔,নভৰোজ উপলক্ষে দেশবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D9%BE%D9%B9%D9%86%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1-%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B6/,نمسکار! اس تاریخی پروگرام میں ہمارے درمیان موجود بہار کے گورنرجناب پھاگو چوہان جی، یہاں کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار جی، ودھان سبھا کے اسپیکر جناب وجے سنہا جی، بہار قانون ساز کونسل کے کارگزار صدر جناب ادوھیش نارائن سنگھ، نائب وزیر اعلیٰ محترمہ رینو دیوی جی، تاراکیشور پرساد جی ،اپوزیشن لیڈر جناب تیجسوی یادو جی سبھی وزراء اور دیگر مہمانوں اور دیویوں اور معزز حضرات۔ آپ سبھی کو بہار کے لوگوں کو ، بہار ودھان سبھا بھون کی صد سالہ تقریب کی بہت بہت مبارکباد اور نیک تمنائیں ۔ بہار کی یہ خوش قسمتی ہے کہ جو بہار سے لگاؤ رکھتا ہے بہار اس پیار کو کئی گنا کرکے لوٹاتا ہے ۔آج مجھے بہار ودھان سبھا حدود میں آنے والے پہلے وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی ملا ہے ،میں اس محبت اور پیار کے لئے بہار کے ہر ایک شخص کو دل سے سلام کرتا ہوں ،وزیر اعلیٰ جی کا ، اسپیکر صاحب کا بھی دل سے بہت بہت تشکر کا اظہار کرتا ہوں۔ ساتھیوں، مجھے کچھ عرصہ قبل صد سالہ یادگار استمبھ کا افتتاح کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ یہ ستون نہ صرف بہار کے شاندار ماضی کی علامت بنے گا بلکہ یہ بہار کی بہت سی امنگوں کو تحریک بھی دے گا۔ اب سے کچھ دیر پہلے بہار ودھان سبھا میوزیم اور ودھان سبھا گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ میں ان ترقیاتی کاموں کے لیے نتیش کمار جی اور وجے سنہا جی کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اسمبلی کمپلیکس کے شتابدی پارک میں کلپترو لگانے کا بھی خوشگوار تجربہ ہوا ہے۔ کلپترو کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ یہی درخت ہماری امیدوں اور خواہشات کو پورا کرتا ہے۔ جمہوریت میں پارلیمانی اداروں کا کردار یہی ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ بہار ودھان سبھا اسی تسلسل کے ساتھ اپنا یہ کردار ادا کرتی رہے گی اور بہار اور ملک کی ترقی میں اپنا انمول حصہ ڈالتی رہے گی۔ ساتھیوں، بہار ودھان سبھا کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے اور یہاں کی ودھان سبھا کی عمارت میں یکے بعد دیگرے بڑے اور دلیرانہ اور تاریخی فیصلے لیے گئے ہیں۔ آزادی سے پہلے اسی ودھان سبھا سے گورنر ستیندر پرسنا سنہا جی نے دیسی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنے، دیسی چرخہ کو اپنانے کی اپیل کی تھی۔ آزادی کے بعد اسی ودھان سبھا میں زمینداری کو ختم کرنے کا قانو ن پاس کیا گیاتھا۔ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جی کی حکومت نے بہار پنچایتی راج جیسا قانون بھی پاس کیاتھا۔ اس قانون کے ذریعہ، بہار، پنچایتی راج میں خواتین کو 50 فیصد ریزرویشن دینے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ یہ اسمبلی اس بات کی ایک مثال ہے کہ جمہوریت سے لے کر سماجی زندگی تک یکساں شراکت اور مساوی حقوق کے لیے کس طرح کام کیا جا سکتا ہے۔ آج جب میں آپ سے اس کمپلیکس میں ودھان سبھا کی عمارت کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ پچھلے 100 سالوں میں یہ عمارت، یہ کمپلیکس اتنی بڑی ہستیوں کی آواز کی گواہ رہی ہے۔ نام لینے جاؤں تو شاید وقت کم ہو جائے لیکن اس عمارت نے تاریخ کے لکھنے والوں کو بھی دیکھا ہے اور تاریخ نےخود بھی تخلیق کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تقریر کی توانائی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اس تاریخی عمارت میں کہی گئی باتیں، بہار کی ترقی سے متعلق قراردادیں آج بھی ایک توانائی کے طور پر موجود ہیں۔ آج بھی وہ الفاظ گونج رہے ہیں۔ ساتھیوں، بہار ودھان سبھا بھون کا یہ صد سالہ جشن ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ اسمبلی کی عمارت کے 100 سال اور ملک کی آزادی کے 75 سال، یہ محض وقت کا اتفاق نہیں ہے، اس اتفاق کا ایک مشترکہ ماضی بھی ہے اور معنی خیز پیغامات بھی پنہا ہیں۔ بہار میں ایک طرف چمپارن ستیہ گرہ جیسی تحریکیں چلیں تو دوسری طرف اس سر زمین نے ہندوستان کو جمہوریت کی اقدار اور اصولوں پر چلنے کا راستہ بھی دکھایا۔ کئی دہائیوں سے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندوستان کو جمہوریت غیر ملکی راج اور غیر ملکی سوچ کی وجہ سے ملی ہے اور ہمارے لوگ بھی بعض اوقات یہ باتیں کرتے ہیں۔ لیکن، جب کوئی بھی شخص یہ کہتا ہے، تو وہ بہار کی تاریخ اور بہار کے ورثے کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب دنیا کے بڑے حصے تہذیب اور ثقافت کی طرف اپنے پہلا قدم بڑھارہے تھے تب ویشالی میں ایک نفیس جمہوریت کام کر رہی تھی۔جب دنیا کے دوسرے خطوں میں جمہوری حقوق کی سمجھ،فروغ پانا شروع ہوئی تھی تب لچھوی اور وجی سنگھ جیسی جمہوریہ اپنے عروج پر تھیں۔ ساتھیوں، ہندوستان میں جمہوریت کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا یہ قوم ہے، ہماری ثقافت بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ ہزاروں سال پہلے ہمارے ویدوں میں یہ کہا گیا ہے – توان ویشو ورناتم راجیہ توا-میمہ پردیشہ پنچ دیویہ۔ یعنی بادشاہ کو تمام رعایا مل کر منتخب کرےاوردانشوروں کی کمیٹیاں اسے منتخب کریں۔ ویدوں میں کہا گیا ہےکہ ہزاروں سال پورے گرنتھ میں کہا گیا ہے، آج بھی ہمارے آئین میں ایم پیز‘ ایم ایل اے‘ چیف منسٹر‘ وزیراعظم‘ صدر کا انتخاب اسی جمہوری قدر پر منحصر ہے۔ جمہوریت ایک خیال کے طور پر یہاں ہزاروں سالوں سے زندہ ہے کیونکہ ہندوستان جمہوریت کو مساوات اور مساوات کا وسیلہ سمجھتی ہے۔ ہندوستان بقائے باہمی اور ہم آہنگی کے نظریہ پر یقین رکھتا ہے۔ ہم سچائی میں یقین رکھتے ہیں، ہم تعاون میں یقین رکھتے ہیں، ہم ،ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں، اور ہم معاشرے کی مربوط طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے ویدوں نے بھی ہمیں یہ منتر دیا ہے – سم گچھدھوم سم ودھوم، سم وو منانسی جتنم۔ یعنی ہم ایک دوسرے کے ساتھ چلیں، مل کر بولیں، ایک دوسرے کے ذہن، ایک دوسرے کے خیالات کو جانیں اور سمجھیں۔ اس وید منتر میں مزید کہا گیا ہے – سمانو منتر: سمیتی: سامانی۔ ایک ہی ذہن: ساہا چٹامیشن یعنی ہم مل کر سوچیں، اپنی کمیٹیاں، اپنی اسمبلیاں اور ایوان معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ہم خیال ہوں اور ہمارے دل بھی ایک جیسے ہوں۔ صرف ہندوستان ہی بحیثیت قوم جمہوریت کو دل سے قبول کرنے کا اتنا عظیم جذبہ پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جاتا ہوں، بڑے بڑے عالمی فورمز پر حاضر ہوتا ہوں، بڑے فخر سے کہتا ہوں کیونکہ کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے کانوں میں ایک لفظ بھر جاتا ہے۔ ہمارے ذہن کی تخلیق ایک جگہ معلق ہو گئی ہے۔ ہمیں بار بار بتایا گیا ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں اور ہم نے بار بار سننے کی وجہ سے وہی مان لیا ہے۔ آج بھی جب میں عالمی سطح پر جاتا ہوں تو فخر سے کہتا ہوں کہ ہندوستان دنیا میں جمہوریت کی ماں ہے، ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے۔ اور ہمیں اور بہار کے لوگوں کو خصوصی دنیا میں یہ کھیل جاری رکھنا چاہئے کہ ہم جمہوریت کی ماں اور بہار کی شاندار ورثہ ہیں، پالی میں موجود تاریخی دستاویزات بھی اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ بہار کی اس شان کو کوئی مٹا یا چھپا نہیں سکتا۔ اس تاریخی عمارت نے بہار کے اس جمہوری ورثے کو 100 سال سے مضبوط کیا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ عمارت بھی ہم سب کے احترام کی مستحق ہے۔ ساتھیوں، اس عمارت کی تاریخ بہار کے شعور سے وابستہ ہے جس نے غلامی کے دور میں بھی اپنی جمہوری اقدار کو ختم نہیں ہونے دیا۔ ہمیں اس کی تعمیر اور اس کے بعد کے واقعات کو بار بار یاد رکھنا چاہیے۔ کیسے جناب کرشن سنگھ جی،جناب بابو نے انگریزوں کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ حکومت اسی وقت بنائیں گے جب انگریز حکومت منتخب حکومت کے کام کاج میں مداخلت نہیں کرے گی۔ کس طرح جناب بابو جی نے ہندوستان کی رضامندی کے بغیر ملک کو دوسری جنگ عظیم میں جھونکنے کے خلاف حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور بہار کا ہر فرد اس پر فخر کر سکتا ہے۔ اس پیش رفت نے ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ بہار کبھی بھی جمہوریت کے خلاف کوئی چیز قبول نہیں کر سکتا۔ اور بھائیو اور بہنو، ہم سب نے دیکھا ہے کہ کس طرح آزادی کے بعد بھی بہار اپنی جمہوری وفاداری کے لیے اتنا ہی ثابت قدم اور یکساں طور پر قائم رہا۔ بہار نے ڈاکٹر راجندر پرساد کی شکل میں آزاد ہندوستان کو اپنا پہلا صدر دیا۔ لوک نائک جے پرکاش، کرپوری ٹھاکر اور بابو جگجیون رام، متعدد بہادراور نڈر لیڈر اس سر زمین پر پیدا ہوئے۔ یہاں تک کہ جب ملک میں آئین کو کچلنے کی کوشش ہوئی تو بہار نے اس کے خلاف احتجاج کا بگل پھونکا۔ ایمرجنسی کے اس تاریک دور میں بہار کی مٹی نے دکھایا کہ ہندوستان میں جمہوریت کو دبانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اور اس لیے میرا ماننا ہے کہ بہار جتنا زیادہ خوشحال ہوگا، ہندوستان کی جمہوری طاقت اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ بہار جتنا مضبوط ہوگا، ہندوستان اتنا ہی طاقتور ہوگا۔ ساتھیوں، آزادی کا امرت مہوتسو اور بہار قانون ساز اسمبلی کے 100 سال مکمل ہونے کا یہ تاریخی موقع ہم سب کے لیے، ہر عوامی نمائندے کے لیے خود شناسی اور خودکفالت کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ہم اپنی جمہوریت کو جتنا مضبوط کریں گے، اتنی ہی زیادہ طاقت ہمیں اپنی آزادی اور اپنے حقوق کے لیے ملے گی۔ آج اکیسویں صدی میں دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ نئی ضروریات کے مطابق ہندوستان کے لوگوں کی توقعات، ہمارے نوجوانوں کی توقعات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام کو اس کے مطابق تیز رفتاری سے کام کرنا ہو گا۔ آج جب ہم آزادی کے 75 ویں سال میں ایک نئے ہندوستان کی قرارداد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو ان قراردادوں کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہماری پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایمانداری اور خلوص کے ساتھ دن رات محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے رکن پارلیمنٹ، ریاست کے ایم ایل اے کے طور پر، یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ ہم مل کر جمہوریت کو درپیش ہر چیلنج کو شکست دیں۔ ہماری آواز پارٹی اور اپوزیشن کی تفریق سے اوپر اٹھ کر ملک کی خاطر، ملکی مفاد کے لیے متحد ہونی چاہیے۔ ایوان کو عوام سے متعلق موضوعات پر مثبت مکالمے کا مرکز بننے دیں، مثبت کاموں کے لیے ہماری آواز اتنی ہی بلند ہونی چاہیے کہ ہمیں اس سمت میں بھی آگے بڑھنا ہے۔ ہمارے ملک کی جمہوری پختگی ہمارے طرز عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور اس طرح، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ�� ہمیں بھی خود کو دنیا کی سب سے بالغ جمہوریت کے طور پر آگے بڑھانا ہے۔ ساتھیوں، مجھے خوشی ہے کہ آج ملک اس سمت میں مثبت تبدیلی دیکھ رہا ہے۔ میں اگر پارلیمنٹ کی بات کروں توگزشتہ کچھ سالوں میں پارلیمنٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی موجودگی اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کی صلاحیت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اور وجے جی نے اسمبلی کی تفصیلات بھی بتا دی ہیں۔ مثبت،تحریک دینے والے بڑے پیمانے پر موضوعات،فیصلوں،اس کی پوری تفصیلات بتائیں۔ ساتھیوں، اسی طرح پارلیمنٹ میں لوک سبھا کی کارکردگی کی صلاحیت گزشتہ بجٹ کےاجلاس میں بھی 129 فیصدتھی۔ راجیہ سبھا میں بھی 99 فیصد کارکردگی کی صلاحیت ریکارڈ کی گئی۔ یعنی ملک مسلسل نئی قراردادوں پر کام کر رہا ہے، جمہوری صلاح و مشورے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ جن کو انہوں نے منتخب کیا ہے وہ ایوان میں اپنے نقطہ نظر کو سنجیدگی سے رکھتے ہوئے محنت کر رہے ہیں تو ان کا جمہوریت پر اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس اعتماد کو بڑھانا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ساتھیوں، وقت کے ساتھ ہمیں نئے خیالات کی ضرورت ہے، نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ اس لیے جیسے جیسے لوگ بدلتے ہیں، جمہوریت کو بھی نئی جہتوں کا اضافہ کرتے رہنا ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے ہمیں نہ صرف نئی پالیسیوں کی ضرورت ہے بلکہ پرانی پالیسیوں اور پرانے قوانین کو بھی وقت کے مطابق بدلنا ہوگا۔ گزشتہ برسوں میں پارلیمنٹ نے تقریباً 1500 ایسے قوانین کو ختم کیا ہے۔ ان قوانین کی وجہ سے عام آدمی کو درپیش مسائل، ملک کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوئیں اور ایک نیا اعتماد بھی پیدا ہوا۔ ریاستی سطح پر بھی ایسے کئی پرانے قوانین ہیں جو برسوں سے چل رہے ہیں۔ ہمیں مل کر اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھیوں، دنیا کے لیے اکیسویں صدی ہندوستان کی صدی ہے۔ یہ بات ہم مسلسل سنتے آرہے ہیں، ہم بہت سے لوگوں کے منہ سے سنتے ہیں، دنیا کے لوگ بتاتے رہتے ہیں، لیکن اگر میں ہندوستان کی بات کروں تو میں کہوں گا کہ یہ صدی ہندوستان کے لیے فرائض کی صدی ہے۔ ہمیں اس صدی میں، اگلے 25 سالوں میں نئے ہندوستان کے سنہری ہدف تک پہنچنا ہے۔ ہمارے فرائض ہمیں ان مقاصد تک لے جائیں گے۔ اس لیے یہ 25 سال ملک کے لیے فرض شناسی کے راستے پر چلنے کے سال ہیں۔ یہ 25 سال فرض کے احساس کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کرنے کا عرصہ ہے۔ ہمیں اپنے لیے، اپنے معاشرے کے لیے، اپنے ملک کے لیے فرض کی کسوٹی پر خود کو پرکھنا ہے۔ ہمیں فرض کی انتہا کو عبور کرنا ہے۔ آج ہندوستان عالمی سطح پر جو ریکارڈ قائم کر رہا ہے، ہندوستان تیزی سے ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، اس کے پیچھے ہندوستان کے شہریوں کا عزم اور فرض شناسی ہے۔ جمہوریت میں ہمارے گھر عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے ایوانوں اور عوامی نمائندوں کے طرز عمل سے بھی اہل وطن کا ضمیر جھلکنا چاہیے۔ جس طرح سے ہم ایوان میں اپنے آپ کو چلائیں گے، ایوان کے اندر فرض کے احساس پر جتنا زور دیا جائے گا، اہل وطن کو اتنی ہی توانائی اور تحریک ملے گی۔ ایک اور اہم نکتہ، ہمیں اپنے فرائض کو اپنے حقوق سے الگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہم جتنا زیادہ اپنے فرائض کے لیے کام کریں گے ہمارے حقوق اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ فرض سے ہماری وفاداری ہی ہمارے حقوق کی ضمانت ہے۔ اس لیے ہم سب عوامی نمائندوں کو اپنا فرض ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا۔ یہ قراردادیں ہماری اور ہمارے معاشرے کی کامیابی کی راہ ہموار کریں گی۔ آج جب ��م قومی قراردادوں کا امرت لے کر آگے بڑھ رہے ہیں تو ہمیں اپنے فرض میں، اپنی محنت میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ بحیثیت قوم ہمارا اتحاد ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ غریب سے غریب، دلت، مظلوم، استحصال کا شکار،محروم، قبائلی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہر ایک کو ہر ضروری سہولت ملنی چاہیے،یہ ہم سب کا عزم ہونا چاہیے۔آج ملک جن مقاصد کے لیے کام کر رہا ہے، جیسے گھر سب کے لیے، پانی سب کے لیے، بجلی سب کے لیے، ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ بہار جیسی طاقتور اور توانا ریاست میں غریب، پسماندہ، قبائلی اور خواتین کی ترقی بھی بہار کو آگے بڑھا رہی ہے اور اس میں اضافہ کرے گی۔ اور جب بہار ترقی کرے گا تو ہندوستان بھی اپنے سنہری ماضی کو دہراتے ہوئے ترقی اور کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔ اس خواہش کے ساتھ، آپ سب نے مجھے اس اہم تاریخی موقع پر مدعو کیا، مجھے اس تاریخی لمحے کو دیکھنے کا موقع دیا، اس کے لیے میں ریاستی حکومت، اسپیکر اور یہاں کے تمام بزرگ شہریوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سی نیک تمناؤں کے ساتھ، یہ سو سالہ سفر آنے والے سو سالوں کے لیے نئی توانائی کا مرکز بن جائے، اسی ایک امید کے ساتھ، بہت بہت شکریہ! بہت بہت مبارک !,পাটনাৰ বিহাৰ বিধান সভাৰ শতবাৰ্ষিকী উদযাপনৰ সামৰণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%88%D8%B1%D8%AA-%D8%AA%D8%B1%D9%86%DA%AF%D8%A7-%DB%8C%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سورت میں ترنگا ریلی سے خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب کا آغاز سب کو امرت مہوتسو کی بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے کیا اور یاد دلایا کہ چند ہی دنوں میں بھارت اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرنے والا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سب اس تاریخی یوم آزادی کی تیاری کر رہے ہیں، کیونکہ بھارت کے کونے کونے میں ترنگا لہرایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات کا ہر گوشہ جوش و خروش سے بھرا ہوا ہے، اور سورت نے صرف اس کی شان میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پورے ملک کی توجہ سورت پر ہے۔ سورت کی ترنگا یاترا میں ایک طرح سے منی انڈیا نظر آرہا ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات کے لوگ اس میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ سورت نے ترنگے کی حقیقی اتحاد کی طاقت کو دکھایا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بھلے ہی سورت نے اپنے کاروبار اور اپنی صنعتوں کی وجہ سے دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے، آج ترنگا یاترا پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوگی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے سورت کے لوگوں کا اعتراف کیا جنھوں نے ترنگا یاترا میں ہماری آزادی کی جدوجہد کے جذبے کو زندہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کوئی کپڑے بیچنے والا ہے، کوئی دکاندار ہے، کوئی کرگھے کا کاریگر ہے، کوئی سلائی اور کڑھائی کا کاریگر ہے، کوئی ٹرانسپورٹیشن میں ہے، وہ سب جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ انھوں نے سورت کی پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کوششوں کو سراہا جنہوں نے اسے ایک عظیم الشان تقریب میں بدل دیا۔ وزیر اعظم نے ترنگا مہم میں اس جن بھاگیداری (عوامی شرکت) کے لیے سبھی کو مبارکباد دی، خاص طور پر جناب سنور پرساد بڈھیا، اور ’ساکیت – سروس اِز دی گول‘ گروپ سے وابستہ رضاکاروں کو جنہوں نے یہ پہل شروع کی۔ وزیر اعظم نے ممبر پارلیمنٹ جناب سی آر پاٹل جی کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے اس اقدام کو تقویت بخشی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا قومی پرچم خود ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، ملک کی کھادی اور ہماری خود انحصاری کی علامت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سورت نے ہمیشہ اس میدان میں خود کفیل بھارت کی بنیاد تیار کی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ گجرات نے باپو کی شکل میں آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی اور مرد آہن سردار پٹیل جیسے ہیرو دیئے جنہوں نے آزادی کے بعد ایک بھارت شریشٹھہ بھارت کی بنیاد رکھی۔ باردولی تحریک اور ڈانڈی یاترا سے نکلنے والے پیغام نے پورے ملک کو متحد کر دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کا ترنگا اپنے آپ میں صرف تین رنگوں پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے ماضی کے فخر، حال سے ہماری وابستگی اور مستقبل کے ہمارے خوابوں کا عکاس ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا ترنگا بھارت کے اتحاد، بھارت کی سالمیت اور بھارت کے تنوع کی علامت ہے۔ ہمارے مجاہدین آزادی نے ترنگے میں ملک کا مستقبل دیکھا، ملک کے خواب دیکھے اور اسے کبھی کسی طرح جھکنے نہیں دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد جب ہم ایک نئے بھارت کا سفر شروع کر رہے ہیں، ترنگا ایک بار پھر بھارت کے اتحاد اور شعور کی نمائندگی کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ملک بھر میں منعقد ہونے والی ترنگا یاترا ہر گھر ترنگا ابھیان کی طاقت اور لگن کی عکاس ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 13 سے 15 اگست تک بھارت کے ہر گھر میں ترنگا لہرایا جائے گا۔ سماج کے ہر طبقے، ہر ذات اور مسلک کے لوگ بے ساختہ صرف ایک شناخت کے ساتھ اس مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ بھارت کے باضمیر شہری کی پہچان ہے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ یہ بھارت ماتا کے بچے کی پہچان ہے۔ وزیراعظم نے ہر گھر ترنگا مہم کی حمایت میں مرد و خواتین، نوجوانوں، بزرگوں، الغرض ہر کسی کے ذریعے اپنا کردار ادا کرنے پر بے حد اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ ہر گھر ترنگا مہم کی وجہ سے بہت سے غریب لوگ، بنکر اور ہینڈلوم ورکرز کو بھی اضافی آمدنی ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب کا اختتام آزادی کا امرت مہوتسو میں ایسے پروگراموں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کیا، جو ہمارے عزم کو نئی توانائی بخشتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’عوامی شراکت داری کی یہ مہمات نئے بھارت کی بنیاد کو مضبوط کریں گی۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে চুৰাট ত্ৰিৰংগা যাত্ৰাত ভাষণ আগবঢ়ায় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7-%D9%88%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-40/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے آج برطانیہ کے وزیراعظم عزت مآب جناب بورس جانسن کے ساتھ فون پربات چیت کی ۔ دونوں رہنماؤں نے یوکرین کے بحران پرتفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم جناب نریندرمودی نے مخاصمت ختم کرنے اورمذاکرات اورسفارت کاری کے راستے پرواپس آنے سے متعلق بھارت کی مسلسل اپیل کا اعادہ کیا۔ انھوں نے عصری منظرنامہ کی بنیاد کے طورپر بین الاقوامی قوانین اورتمام ملکوں کی علاقائی سالمیت اور اقتداراعلیٰ کے احترام میں بھارت کے اعتماد پرزوردیا۔ دونوں قائدین نے دوطرفہ اورباہمی مفاد کے امورپربھی تبادلہ ٔ خیال کیااورتجارت ، ٹیکنولوجی ، سرمایہ کاری ، دفاع اورسکیورٹی اورعوام سے عوام کے درمیان روابط سمیت تمام مختلف شعبوں میں تعاون میں مزید اضافے کے امکانات پررضامندی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم مودی نے دوطرفہ آزادانہ تجارتی سمجھوتے سے متعلق جاری مذاکرات میں مثبت پیش قدمی پراپنے اطمینان کا اظہارکیا۔ انھوں نے گذشتہ برس دونوں لیڈروں کے درمیان ورچوئل سربراہ کانفرنس کے دوران منظورکئے گئے ‘‘انڈیا –یوکے روڈمیپ 2030’’ پرعمل درآمد میں کی گئی پیش رفت کی بھی ستائش کی۔ وزیراعظم نے باہمی رضامندی کے ساتھ وزیراعظم جانسن کے جلد ہی بھارت کا دورہ کرنے سے متعلق اپنی خواہش کا بھی اظہارکیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু ব্ৰিটেইনৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী বৰিছ জনছনৰ মাজত টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%A8%DB%8C%DA%88%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A7%8D/,نئی دہلی۔ 14 اپریل 2018 ؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے امبیڈکر کے یوم پیدائش پر لوگوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا، ’’امبیڈکر کے یوم پیدائش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ عزت مآب بابا صاحب نے سماج کے سب سے غریب اور محروم طبقوں کے لاکھوں لوگوں میں امید پیدا کی ۔ آئین سازی میں ان کی کوششوں کے لیے ہم ان کے ہمیشہ گراں بار رہیں گے۔ سبھی ہم وطنوں کو امبیڈکر کے یوم پیدائش کی مبارکباد۔ جے بھیم!‘‘,আম্বেদকাৰ জয়ন্তীৰ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D8%A7%DB%8C%D9%86%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D8%B4%DB%8C%D8%B1%D9%88%D8%A7%D8%AF-%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نوراتری کے دوران ماں کاتیاینی سے اُن کے تمام عقیدتمندوں کے لئےآشیرواد طلب کیا ہے۔ جناب مودی نے سبھی کو نئی قوت ارادی اور خود اعتمادی کے لئے بھی دیوی ماں سے فضل طلب کیا۔ انھوں نے دیوی ماں کی مناجات (استوتی) کو بھی مشترک کیا۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ""चन्द्रहासोज्ज्वलकरा शार्दूलवरवाहना। कात्यायनी च शुभदा देवी दानवघातिनी॥ ’’ماں درگا کا کاتیاینی روپ نہایت ہی حیرت انگیز اور مافوق الفطرت ہے۔ آج ان کی پوجا سے ہر کسی کو نئی قوت ارادی اور خوداعتمادی نصیب ہو، ایسی تمنا ہے۔‘‘",মা কাত্যায়নীৰ আশীৰ্বাদ কামনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D8%B2-%D8%A7%D8%B3%D9%85%D8%A8%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AE-%E0%A6%90%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آئین ساز اسمبلی کے تاریخی پہلے اجلاس کے 75 سال منانے کے لئے سرکردہ دانشوروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سلسلے وار ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ: ‘‘ پچھتر75 سال قبل آج ��ی کے دن آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ بھارت کے مختلف حصوں سے سرکردہ شخصیات، مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد اور یہاں تک مختلف النوع مکتب خیال کے حامل افراد بھارت کے عوام کو ایک قابل احترام آئین دینے کے مقصد سے ایک ساتھ یکجا ہوئے تھے۔ ان تمام عظیم شحصیات کو خراج عقیدت۔ آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سچیدا نندا نے کی تھی۔ جو اسمبلی کے معمر ترین ممبر تھے۔ انہیں آچاریہ کرپلانی نے متعارف کرایا تھا اور ایوان کے صدر نشین تک لے گئے تھے۔ آج جب ہم ہماری آئین ساز اسمبلی کی تاریخی نشست کے 75 برس منارہے ہیں۔ میں اپنے جونوان دوستوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ اس مقتدر اجتماع کی کارروائیوں کے متعلق نیز ان معروف جید شخصیات کے متعلق مزید معلومات حاصل کریں، جو اس کا حصہ تھے۔ ایسا کرنے کا عمل ایک دانشورانہ اضافہ علم پر مبنی تجربہ ہوگا۔’’,সংবিধান সভাৰ প্ৰথম ঐতিহাসিক বৈঠকৰ ৭৫ বছৰ উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সংবিধান সভাৰ মহান ব্যক্তিসকলক অভিবাদন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%85%D8%B1%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%AC%DB%8C-%DA%AF%D9%BE%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D9%84-%D9%BE%DA%BE%D9%B9%D9%86%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%93%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A1%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے شری امرناتھ جی گپھا کے پاس باڈل پھٹ جانے کے واقعے میں ہوئی جانوں کے اتلاف پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا: ’’شری امرناتھ جی گپھا کے پاس بادل پھٹ جانے سے شدید صدمہ پہنچا۔ سوگوار کنبوں کے ساتھ میری تعزیت۔ منوج سنہا جی سے بات کی اورصورتحال کا جائزہ لیا۔ بچاؤ اور راحت کاکام جاری ہے۔ متاثرین کو ہر ممکن امداد فراہم کی جارہی ہے۔ ‘‘,শ্ৰী অমৰনাথ গুহাৰ ওচৰত ডাৱৰ বিস্ফোৰণৰ ফলত প্ৰাণ হেৰুওৱালোকৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%DB%81%DB%8C%D9%84%D8%AA%DA%BE-%D9%85%D8%B4%D9%86-%DB%8C%D8%B9%D9%86%DB%8C-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%B5%D8%AD%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A6%9A%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%86/,نئیدہلی03 جنوری ۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کو قومی صحتی مشن (این ایچ ایم ) اور بااختیار پروگرام کمیٹی اور این ایچ ایم کے مشن اسٹیئرنگ گروپ کے فیصلوں سے آگاہ کرایا گیا ہے۔ اہم تفصیلات درج ذیل ہیں: گزشتہ پانچ برسوں کے دوران نیز 18-2017 کے دوران این ایچ ایم کے تحت حاصل کردہ نتائج درج ذیل ہیں : 16-2014 کے دوران زچہ شرح اموات کا تناسب (ایم ایم آر ) 2.7 فیصد کے انحطاط سے ہمکنار ہوا جبکہ 12-2010 کے دوران ایم ایم آر 178 تھا۔ 2011 میں 44 کے مقابلے میں 2016 میں نوزائدہ بچوں کی شرح اموات کا تناسب (آئی ایم آر ) گھٹ کر 34 ہوگیا۔2015 اور 2018 کے دوران آئی ایم آر کا سالانہ شرح انحطاط 8.1 فیصد رہا ۔ 2011 میں 55 کے مقابلے میں 2016 میں پانچ برس سے کم کی عمر کے بچوں کی شرح اموات (یو-5 ایم آر ) گھٹ کر 39 ہوگئی ہے ۔16-2015 کے دوران یو-پانچ ایم آر سالانہ شرح انحطاط 9.3فیصد رہا۔2016 میں مجموعی تولیدی شرح میں (ٹی ایف آر ) 2.3فیصد کا انحطاط رونما ہوا۔16-2011 کے دوران ٹی ایف آر کی سالانہ شرح انحطاط 1.7فیصد دیکھی گئی ہے اور اس کے علاوہ متعدد امراض سے متعلق صحتی اشاریوں نے بھی بہتری کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ان میں درج ذیل نکات شامل ہیں۔ ملیریا کے معاملے میں سالانہ طفیلی جراثیموں کے پھیلاؤ (اے پی آئی ) میں 2016 کے دوران 0.84 کا انحطاط رونما ہوا جبکہ 2011 میں یہ 1.0 تھا۔2017 میں ملیریا کا پھیلاؤ 30 فیصد تک گھٹا اور ملیریا کے نتیجے میں لاحق ہونے والی اموات میں 70فیصد کی تخفیف واقع ہوئی۔ ایک لاکھ کی آبادی پر تپ دق (ٹی بی ) لاحق ہونے کے معاملات 2017 میں گھٹ کر 204 رہ گئے جبکہ 2013 میں 234 معاملات رونما ہوئے۔ایک لاکھ آبادی پر ٹی بی لاحق ہونے کے معاملات 2017 میں 204 رہ گئے جبکہ 2016 میں 211 معاملات رونما ہوئے تھے۔بھارت میں ایک لاکھ آبادی پر ٹی بی کے نتیجے میں رونما ہونے والی اموات جو 2016 میں 32 تھیں ، 2017 میں گھٹ کر 21 رہ گئیں۔ ایک لاکھ آبادی پر جزام لاحق ہونے کے سلسلے میں تعداد کو قو می پیمانے پر تخفیف سے ہمکنار کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ایسے اضلاع کی تعداد جنہوں نے جزام کو یکسر ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔2017 میں ان کی تعداد 554 ہوگئی ہے اور مارچ 2018 تک یہ تعداد گھٹ کر 571 پر آگئی تھی۔ تمام بلاکوں میں کالا آزار لاحق ہونے کے سلسلے میں فی دس ہزار آبادی پر اس مرض کا شکار ہونے والوں کی تعداد ایک سے بھی کم رہ گئی ہے۔ایسے بلاک جہاں دس ہزار آبادی پر اس مرض کے ایک سے زیادہ معاملات سامنے آئے ، ان کی تعداد 2017 میں گھٹ کر 72 رہ گئی جبکہ 2016 میں یہ تعداد 94 تھی۔ تمباکو کے استعمال سے لاحق ہونے والے امراض میں بھی تخفیف ہوئی ۔چار ایسے غیر متعدی امراض مثلاََ کینسر یا سرطان ، ذیا بیطس ، لقوہ اور امراض قلب کے معاملے میں تعداد کے لحاظ سے تخفیف واقع ہوئی اسی طریقے سے پھیپھڑوں کے دائمیامراض میں محتلف اقدامات کے نتیجے میں کمی واقع ہوئی ہے۔تمباکو کا استعمال 17-2016 میں 28.6 فیصد تھا۔اس میں 6فیصد کی تخفیف رونما ہوئی ۔اسی طریقے سے 10-2009 کے مقابلے میں جب یہ تعداد 34.6فیصد تھی، تخفیف لانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,এনএইচএমৰ অধীনত অগ্ৰগতি আৰু এনএইচএমৰ কৰ্তৃত্বশীল আঁচনি সমিতি তথা মিছন সঞ্চালন গোটৰ সিদ্ধান্তসমূহৰ সম্পৰ্কে অৱগত কৰিলে কেবিনেটক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%D8%A7%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 9 اگست 2018، مرکزی کابینہ کی میٹنگ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں منعقدہ ہوئی اور اس میٹنگ میں تامل ناڈو کے سابق وزیراعلی ڈاکٹر ایم کروناندھی کی 7 اگست 2018 کو چنئی کے کاویری اسپتال میں ہوئی رحلت پر تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ کابینہ نے ان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور تعزیتی قرار داد منظوری کی۔ اس تعزیتی قرار داد کا متن درج ذیل ہے۔ ’’کابینہ 7 اگست 2018 کو چنئی کے کاویری اسپتال میں واقع ہوئی تامل ناڈو کے سابق وزیراعلی ڈاکٹر ایم کروناندھی کی اندوہناک رحلت پر رنج وغم کا اظہار کرتی ہے۔ ان کی رحلت سے ملک ایک تجربہ کار اور ممتاز رہنما جسے عرف عام میں محبت سے کلائنگا ر کے نام سے پکارا جاتا تھا، سے محروم ہوگیا ہے۔ آنجہانی 3 جون 1924 کو ضلع ناگا پٹنم کے تھیروکوولائی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنی طویل عوامی اور سیاسی زندگی میں تامل ناڈو کے سیاسی منظر نامے میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ وہ 33 سال کی عمر میں 1957 میں تامل ناڈو اسمبلی میں کُلی تھلائی سے منتخب ہوئے تھے۔1967 میں وہ تامل ناڈو حکومت میں وزیر بن گئے تھے اور بعد ازاں پہلی مرتبہ 1969 میں ریاست کے وزیراعلی بن گئے تھے۔ وہ پانچ مرتبہ تامل ناڈو کے وزیراعلی رہے۔ اپنی سیاسی زندگی اور کریئر کے علاوہ، وہ تمل سینما میں اسکرین رائٹر کے طور پر بہت مقبول رہے تھے۔ انہوں نے سنیما کو دراون تحریک کی ترویج و اشاعت کے لئے ایک میڈیم کے طور پر استعمال کیا تھا۔ ڈاکٹر کروناندھی اپنی تحریراور تقریر کے لئے بھی کافی مشہور و معروف تھے۔ تمل ادب میں انہوں نے نظموں، اسکرین پلے، ناول، سوانح، اسٹیج ڈراموں، ڈائیلاگ اور فلمی نغموں کے ذریعہ اہم تعاون دیا ہے۔ ان کی رحلت سے تامل ناڈو کے عوام اپنےمقبول عام رہنما سے محروم ہوگئے ہیں۔ کابینہ سوگوار کنبے اور تامل ناڈو کے عوام کے تئیں حکومت اور پورے ملک کی جانب سے دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہے‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ن ا۔,তামিলনাডুৰ প্ৰাক্তন মুখ্যমন্ত্ৰী এম.কৰুণানিধিৰ বিয়োগত কেবিনেটৰ শোকপ্ৰকাশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%AC%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔24؍اکتوبر۔وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں کابینہ نے بھارت اور ملاوی کے درمیان حوالگی سے متعلق معاہدے پر دستخط اور توثیق کی منظوری دی۔ اس معاہدے میں دہشت گردوں ، اقتصادی مجرموں اور دیگر مجرموں کو ملاوی سے بھارت کے حوالے کرنے اور بھارت سے ملاوی کے حوالے کیے جانے سے متعلق ایک قانونی لائحہ عمل فراہم کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ اس ۔ ع ن,ভাৰত আৰু মালাৱিৰ মাজত প্ৰত্যৰ্পণ চুক্তি স্বাক্ষৰ আৰু আনুষ্ঠানিক স্বীকৃতি প্ৰদানত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%D9%88%D9%88%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%B2-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D8%B4%D8%A7%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’صدر کووند جی کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ شریمتی دروپدی مرمو جی، وینکیا جی، وزراء سمیت دیگر عمائدین موجود تھے۔ ہمیں عشائیہ میں بنیادی سطح پر کامیابی حاصل کرنے والوں، پدم ایوارڈ یافتہ لوگوں، قبائلی برادری کے رہنماؤں اور دیگر کا خیرمقدم کرتے ہوئے بھی مسرت ہوئی‘‘۔ ’’صدر کووند کے اعزاز میں عشائیہ سے کچھ اور جھلکیاں‘‘۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰাষ্ট্ৰপতি কোবিন্দৰ সন্মানাৰ্থে এক নৈশ ভোজৰ আয়োজন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D9%81-%DA%AF%D9%84%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%BE%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%95-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے معروف گلوکار شری بھوپندر سنگھ کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیاہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا ؛ ’’ شری بھوپندر سنگھ جی کے انتقال پر بہت دکھ ہوا ہے۔ انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں بہت سے یادگار نغمے دیئے ہیں۔ ان کے کام سے متعدد لوگوں کے جذبات متاثر ہوئے ہیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں ان کے کنبے اور مداحوں کے ساتھ ہیں۔ اوم شانتی۔‘‘,বিশিষ্ট গায়ক শ্ৰী ভূপিন্দৰ সিঙৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D9%85%DB%8C%DA%A9%D8%B1%D9%88%D9%86-%D9%88%DB%8C%D8%B1%DB%8C%D8%A6%D9%86%D9%B9-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%AC%DB%81-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AE%E0%A6%AC%E0%A6%B0%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ملک میں کووڈ-19 عالمی وبا کی صورتحال، صحت کے بنیادی ڈھانچے اور نقل و حمل سے متعلق تیاریوں، ملک میں ٹیکہ کاری مہم کی صورتحال اور کووڈ-19 کے نئے ویریئنٹ اومیکرون اور ملک کے لئے اس صحت عامہ کے مضمرات کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ کی سربراہی کی۔ صحت کے سکریٹری نے ایک تفصیلی خاکہ پیش کرتے ہوئے عالمی سطح پر حال ہی میں کیس بڑھنے کی صورتحال پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد ہندوستان میں کووڈ-19 کی صورتحال، مختلف ریاستوں اور اضلاع میں کووڈ کیسوں اور پوزیٹیویٹی شرح کے بارے میں بتایا گیا۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کی جانب سے اب تک کئے گئے ان اقدامات کے بارے میں مطلع کیا گیا، جو آنے والی آزمائشوں سے نمٹنے کے لئے مرکز نے ریاستوں کی مدد کے لئے کئے ہیں۔ جن جگہوں پر زیادہ معاملے سامنے آنے کا اندیشہ ہے، ان کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ ریاستوں کو صحت کے بنیادی ڈھانچے، ٹیسٹنگ کی صلاحیت، آکسیجن اور آئی سی یو بستروں کی دستیابی اور ایمرجنسی کووڈ ریسپونس پیکیج کے تحت کووڈ کے لئے لازمی ادویات کے وافر ذخیرے کی صورتحال بہتر کرنے کے لئے جو مدد دی جا رہی ہے، اس کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔ وزیراعظم نے ضلع کی سطح پر صحت کے خاطر خواہ بنیادی ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں افسران کو ریاستوں کے ساتھ تال میل رکھنے کو کہا۔ پریزنٹیشن میں ہندوستان کی ٹیکہ کاری مہم کے تئیں لگاتار کوششوں پر توجہ دی گئی، جبکہ 15 سے 18 برس کے درمیان کی عمر کے 31 فیصد بچوں کو 7 دن کے اندر ہی پہلی خوراک دی جا چکی ہے۔ وزیراعظم نے اس حصولیابی کا ذکر کیا اور نو عمر بچوں میں ٹیکہ کاری کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کو کہا۔ تفصیلی تبادلۂ خیال کے بعد عزت مآب وزیراعظم نے ہدایت دی کہ زیادہ معاملوں والے کلسٹرز کی سرگرم نگرانی اور الگ تھلگ کر نے کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور اس وقت جن ریاستوں میں زیادہ معاملے سامنے آ رہے ہیں، وہاں مطلوبہ تکنیکی مدد فراہم کی جائے۔ انہوں نے وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ماسک اور جسمانی دوری کو زندگی کا معمول بنانے کو کہا۔ وزیراعظم نے کم علامات والے یا بنا علامات والے مریضوں کو گھر تک محدود رکھنے پر سختی سے عمل کرنے کو کہا اور کمیونٹی کو بڑے پیمانے پر جانکاری فراہم کرنے پر زور دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کی جائے، جہاں متعلقہ ریاستوں کی منفرد صورتحال اور صحت عامہ کے اقدامات پر غوروخوض کیا جائے۔ انہوں نے کووڈ-19 کے معاملوں کے بندوبست کے ساتھ ساتھ غیر کووڈ-19 صحت خدمات جاری رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے ٹیلی میڈیسن میں تیزی لانے کو بھی کہا تاکہ دوردراز کے اور دیہی علاقوں کے عوام کو صحت سے متعلق رہنما خطوط دستیاب ہو سکیں۔ کووڈ-19 سے نمٹنے میں اب تک صحت نگہداشت کارکنوں کی انتھک خدمات کو سراہتے ہوئے انہوں نے ہیلتھ کیئر ورکرز اور فرنٹ لائن ورکرز کے لئے احتیاطی خوراک کے ذریعے ان کا ٹیکہ کاری کا احاطہ مشن کی طرز پر کیا جائے۔ وزیراعظم نے وائرس کے لگاتار شکل تبدیل کرنے کے پیش نظر ٹسٹنگ، ویکسین اور جینوم سیکوینسنگ سمیت ادویات اقدامات کے سلسلے میں لگاتار سائنسی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔ میٹنگ میں مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ، صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر ڈاکٹر من سکھ مانڈویا، صحت اور خاندانی بہبود کی وزیر مملکت محترمہ بھارتی پروین پوار، ڈاکٹر وی کے پال، رکن (ہیلتھ)، نیتی آیوگ، جناب راجیو گوبا، کابینہ سکریٹری، جناب اے کے بھلا، ہوم سکریٹری، جناب راجیش بھوشن (سکریٹری، ایم او ایچ ایف ڈبلیو)، سکریٹری (ادویات سازی) ڈاکٹر راجیش گوکھلے، سکریٹری بایو ٹیکنالوجی ڈاکٹر بلرام بھارگو، ڈی جی-آئی سی ایم آر جناب آر ایس شرما، شہری ہوابازی، امور خارجہ سکریٹری، این ڈی ایم اے ارکان اور دیگر سینئر افسران موجود تھے ۔,অমিক্রনৰ প্রভাবত ক্রমবর্ধমান কোভিড আক্রান্তৰ সংখ্যাৰ বিষয়টোৰ প্ৰতি লক্ষ্য ৰাখি প্রধানমন্ত্রীয়ে দেশত কোভিড-১৯ মহামাৰীজনিত পৰিস্থিতি পর্যালোচনা কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%B1%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A8-2/,نئیدہلی۔14جولائی ، 2018؛ وزیراعظم نریندر مودی نے آج بنارس میں 900 کروڑ روپے سے زائد کے متعدد اہم پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا ان میں وارانسی سٹی گیس ڈسٹریبیوشن پروجیکٹ اور وارانسی – بلیَا میمو ٹرین شامل ہے۔ انہوں نے جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اُن میں پنچ کوشی پریکرما مارگ اور اسمارٹ سٹی مشن اور نمامی گنگے سمیت کئی پروجیکٹ شامل ہیں۔ وزیراعظم نے وارانسی میں انٹرنیشنل کنونشن سینٹر کے لیے بھی سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقعے پر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے ایتھلیٹ ہیما داس کو انڈر ٹوئینٹی ورلڈ ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں 400 میٹر کے مقابلے میں گولڈ میڈل جیتنے کے لیے مبارکباد پیش کی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ گذشتہ چار برسوں سے 21ویں صدی کی ضروریات کے پیش نظر اور قدیم شناخت کو ملحوض خاطر رکھتے ہوئے کاشی شہر کی ترقی کے لیے کوشیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیا بنارس روحانیت اور جدیدیت کے ساتھ نئے ہندوستان کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نئے بنارس کی جھلک پوری دنیا پر عیاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار برسوں میں بنارس میں خاطر خواہ سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہزار کروڑ کے بقدر جن پروجیکٹوں کا افتتاح ہوا ہے یا جن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اسی جاری پروگرام کا حصہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرانسپورٹیشن کے ذریعے تبدیلی کے ویژن کا ذکر کیا اور کہا کہ اعظم گڑھ میں پروانچل ایکسپریس وے کے سنگ بنیاد کا رکھنا اسی عمل کا حصہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بنارس اس خطے میں طبی سائنس کے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی عالمی درجے کا صحت مرکز قائم کرنے کے لیے ایمس کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بنارس اور اس خطے میں بہتر کنکٹیویٹی کے لیے کیے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کاشی ایک اہم بین الاقوامی سیاحتی مرکز کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے انٹرنیشنل کنونشن سینٹر کا ذکر کیا۔ انہوں نے جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے کا بنارس کے لوگوں کے لیے تحفہ دینے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے سیاحت اور سووچھ بھارت ابھیان کے تحت کیے گئے اقدامات کے لیے ریاست کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے چار برس پہلے بنارس میں سڑکوں کی صورتحال اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی کا ذکر کیا۔ انہوں نے نوئیڈا میں حال ہی میں سیمسنگ کے مینوفیکچرنگ یونٹ کے افتتاح کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ موبائل مینوفیکچرنگ یونٹ کے باعث لاکھوں روزگار پیدا ہو رہے ہیں۔ شہر میں گیس کی تقسیم کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنارس میں آٹھ ہزار مکانات کو پائپ کے ذریعے گیس کنکشن فراہم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایندھن کے طور پر سی این جی کے استعمال کا بھی ذکر کیا۔ وزیراعظم نے اس لمحے کو یاد کیا کہ بنارس نے جاپان کے وزیراعظم شنزو آبے اور فرانس کے صدر کا کس طرح خیر مقدم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بنارس کی میزبانی کے لیے ایک اور موقع آنے والا ہے اور یہ موقع پرواسی بھارتی دوس جو کہ جنوری 2019 میں منعقد کیا جائے گا کی شکل میں آرہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,"বাৰাণসীত বিভিন্ন উন্নয়নমুলক প্ৰকল্পৰ উদ্বোধন, আধাৰশিলা স্থাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%DB%8C%D9%86%DB%8C%DA%88%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82/,نمسکار! آپ سب کوآزادی کا امرت مہوتسو اورگجرات دیو کی بہت بہت مبارکباد۔ ہم سب اونٹاریو میں سرگرم سناتن مندر کلچرل سینٹر کے ذریعہ اد ا کئے جارہے کردار سے بخوبی واقف ہیں ، جو کینیڈا میں بھارت کی ثقافت اور بھارتی اقدار کو برقرار رکھنے میں ادا کررہا ہے۔میں نےاس کا کینیڈا کے اپنے دورے میں مشاہدہ کیا ہے کہ آپ اپنی ان کوششوں میں کتنے کامیاب رہے ہیں اور کس طرح آپ نے خوداپنا مثبت تاثر چھوڑا ہے۔ ہم کینیڈا میں 2015 کے اُس یادگار تجربے اور بھارت نژاد افرادکی محبت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ میں سناتن مندر کلچرل سینٹر اور اس اختراعی کوشش سے وابستہ سبھی لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔سناتن مندر میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یہ مجسمہ ، نہ صرف ہماری ثقافتی اقدار کو مستحکم بنائے گا بلکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی علامت بھی ہوگا۔ دوستو، دنیا میں، جہاں کہیں بھی کوئی ہندوستانی رہتا ہے ، چاہے وہ کتنی ہی نسلوں سے وہاں مقیم ہو ،اس کی بھارتیتا اور بھارت کے تئیں اس کی وفاداری میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی ہے۔جس کسی ملک میں بھی کوئی ہندوستانی رہتا ہے، وہ پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ اس ملک کی خدمت کرتا ہے اور وہ جمہوری اقدار اور فرائض کے تئیں ذمہ دار ی کا احساس ، جو کہ اس کے آباو اجداد بھارت سے لے کر آئے تھے، وہ اب بھی اس ہندوستانی کے دل کے کسی کونے میں زندہ ہیں اورہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ایسا اس لئے ہے کہ بھارت ، ایک ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ا یک عظیم روایت ،ایک نظریاتی مرکز اور ایک مقدس عہد پیمائی کی رسم ہے۔بھارت اس اعلیٰ سوچ کا مظہر ہے ، جو واسودیو کٹمبکم کی بات کرتی ہے۔ بھارت دیگر افراد کے نقصان کی قیمت پر خود اپنی فلاح وبہبود کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ بھارت پوری انسانیت اور پوری دنیا کی فلاح وبہبود کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں یا کسی بھی دیگر ملک میں جب ایک بھارتی ثقافت کووقف کوئی ابدی مندر تعمیر کیا جاتا ہے تو وہ اس ملک کی اقدار کو بھی مالامال کرتا ہے۔ اسی لئے اگر آپ کینیڈا میں بھارت کی آزادی کا امرت مہوتسو منارہے ہیں تو یہ جمہوریت کی مشترکہ میراث کا ایک جشن بھی ہے اور اس لئے میرا ماننا ہے کہ بھارت آزادی کا امرت مہوتسو کی اس تقریب سے کینیڈ ا کے عوام کو ، بھارت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا ایک موقع بھی فراہم ہوگا۔ دوستو، امرت مہوتسوسے وابستہ یہ تقریب ،سناتن مندر کلچرل سینٹر کی جائے وقوع اور سردار پٹیل کا مجسمہ ،یہ سبھی اپنے آپ میں ہندوستان کی ایک عظیم تصویر ہے۔ ہمارے مجاہدین آزادی نے جدوجہد آزادی میں کیا خواب دیکھا تھا ؟ انہوں نے ایک آزادملک کے لئے کس طرح جدوجہد کی ؟ ایک ہندوستان ، جو جدید ہو اور جو ترقی یافتہ ہو او ر اس کے ساتھ ایک ہندو ستان جو اپنے نظریات ، اپنی سوچ وفکر اور اپنے فلسفے کے توسط سے اپنی جڑوں سے منسلک ہو ! یہ وجہ ہے کہ سردار صاحب نے سو مناتھ مندر کو بحال کیا تاکہ ہندوستان کو اس کی ہزاروں سالہ میراث کی یاددہانی کرائی جاسکے ۔ جو آزادی کے بعد ایک نئے مقام پر کھڑی ہے۔ گجرات نے اس ثقافتی مہا یگیہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ آج آزادی کا امرت مہوتسو میں، ہم اس جیسا ایک نیا ہندوستان تعمیر کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ہم سردار صاحب کے اس خواب کو پورا کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔اور یہ ‘‘مجسمہ اتحاد ’’ملک کے لئے ایک بڑی ترغیب ہے۔ ‘‘ مجسمہ اتحاد ’’ کی ایک علامت کے طور پر کینیڈا میں سردار پٹیل کا مجسمہ سناتن مندر کلچرل سینٹر میں نصب کیا جائے گا۔ دوستو! آج کی یہ تقریب اس حقیقت کی ایک علامت ہے کہ ہندوستان کا امرت مہوتسو سنکلپ محض بھارت کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے ۔ یہ عزائم دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں اور پوری دنیا کو آپس میں جوڑ رہے ہیں ۔ آج جب ہم ‘‘ آتم نربھر بھارت ’’ مہم کو آؑگے لے جارہے ہیں ، ہم دنیا کی ترقی کے لئے نئے امکانات کاآغاز کرنے کی بھی بات کررہے ہیں۔ آج جب ہم یوگ کو مقبول عام بنانے کے لئے کوششیں کررہے ہیں ، ہم دنیا کے ہرشخص کے لئے ‘‘سروے سانتو نرامیئے’’ کی خواہشات کا بھی اظہار کررہے ہیں۔ آب وہوا کی تبدیلی اور دیر پاترقی جیسے موضوعات پر ہندوستان کی آواز پوری انسانیت کی بھی نمائندگی کررہی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کی اس مہم کو آگے لے جایا جائے۔ہماری سخت محنت صرف ہمارے لئے نہیں ہے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور ہندوستان کی ترقی سے مربوط ہے اور ہمیں دنیا کو اس کا اعتراف کرانا ہوگا۔ آپ سبھی ہندوستانی افراد اور ہندوستان نژاد سبھی افراد کو اس سلسلے میں ایک زبردست کردار ادا کرنا ہوگا۔ امرت مہوتسو کی یہ تقریبات ،دنیاکےسامنے ہندوستان کی کوششوں اور ہندوستان کے نظریات کو پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہونی چاہئے اور یہ ہماری ترجیح بھی ہونی چاہئے ۔میں پُر اعتماد ہو ں کہ اپنے ان نظریات کی پیروی کرکے ، ہم ایک نیا بھارت بھی تخلیق کریں گے اور ایک بہتر دنیا کے خواب کو بھی حقیقت کی شکل دیں گے ۔ یہ بات ذہن نشین کرتے ہوئے آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! اعلان دستبرداری :یہ وزیراعظم کے کلمات کاتقریباََدرست ترجمہ ہے۔اصل کلمات ہندی میں پیش کئے گئے تھے۔,কানাডাৰ সনাতন মন্দিৰ সাংস্কৃতিক কেন্দ্ৰৰদ্বাৰা আয়োজিত এটি কাৰ্য্যক্ৰমত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ মন্তব্যৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D8%A8%DB%8C-%D9%88%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B8%D8%A7%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%B2%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%A6-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کو ہندوستان اور ڈنمارک کے درمیان آبی وسائل کی ترقی اور انتظام کے شعبے میں تعاون پر دستخط شدہ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) سے آگاہ کیا گیا۔ مفاہمت نامے میں تعاون کے وسیع شعبے یہ ہیں: ڈیجیٹلائزیشن اور معلومات تک رسائی میں آسانی مربوط اور سمارٹ آبی وسائل کی ترقی اور انتظام؛ ایکویفر میپنگ، زمینی پانی کی ماڈلنگ، نگرانی اور ریچارج؛ گھریلو سطح پر موثر اور پائیدار پانی کی فراہمی، جس میں غیر آمدنی والے پانی اور توانائی کی کھپت میں کمی شامل ہے؛ زندہ رہنے، لچک اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے کے لیے دریا ئی اور آبی ذخائر کی بحالی؛ پانی کے معیار کی نگرانی اور انتظام؛ گندے پانی کے دوبارہ استعمال/ری سائیکلنگ کے لیے مرغولاتی معیشت سمیت سیوریج/ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال جس میں کیچڑ کا جامع انتظام اور پانی کی فراہمی اور صفائی کے میدان میں قابل تجدید توانائی شامل ہیں؛ فطرت پر مبنی حل سمیت موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور موافقت۔ شہری سیلاب کے انتظام سمیت دریا پر مرکوز شہری منصوبہ بندی۔ پیری شہری اور دیہی علاقوں کے لیے فطرت پر مبنی مائع فضلہ کے خاتمے کے اقدامات۔ اس طرح سے اس مفاہمت نامےسے،آبی وسائل کی ترقی اور انتظام، دیہی پانی کی فراہمیاور تعاون کے دائرہ کار میں حکام، ماہرین تعلیم، پانی کے شعبوں اور صنعت کے درمیان براہ راست تعاون کے ذریعے سیوریج/ گندے پانی کی صفائی کے شعبے میں تعاون کو وسیع پیمانے پر تقویت ملے گی۔ پس منظر: مملکت ڈنمارک کی وزیر اعظم محترمہ میٹ فریڈرکسن اور جمہوریہ ہند کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 28 ستمبر 2020 کو ہندوستان اور ڈنمارک کے درمیان ایک ورچوئل سربراہ کانفرنس کی مشترکہ صدارت کی تھی اور گرین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے قیام پر ایک مشترکہ بیان کا آغاز کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان. مشترکہ بیان میں، دوسری باتوں کے علاوہ، ماحولیات/پانی اور مرغولاتی معیشت اور اسمارٹ سٹیز سمیت پائیدار شہری ترقی کے شعبے میں تعاون کا تصور کیا گیا ہے۔ مورخہ09 اکتوبر 2021 کو ہندوستان کے دورے کے دوران ڈنمارک کی وزیر اعظم محترمہ میٹ فریڈرکسن سے ملاقات کے بعد، گرین اسٹریٹجک پارٹنرشپ پر مشترکہ بیان کی پیروی کے طور پر، وزیر اعظم نے دیگر چیزوں کے علاوہ مندرجہ ذیل اعلان کیا: اسمارٹ آبی وسائل کے انتظام کے لیے سنٹر آف ایکسی لینس کا قیام (سی او ای ایس ڈبلیو اے آر ایم)۔ پاناجی میں اسمارٹ سٹی لیب کی طرز پر وارانسی میں صاف ندیوں کے لیے ایک لیب کا قیام۔ حکومت ہند کی وزارتِ جل شکتی،اور ڈنمارک کی وزارتِ ماحولیات کے درمیان 03 مئی 2022 کو جمہوریہ ہند کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ڈنمارک کے دورے کے دوران ایک لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کیے گئے تھے۔ لیٹر آف انٹینٹ پر ایک وسیع البنیاد مفاہمت نامے میں داخل ہونے کے ارادے کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے جس میں دو نئے اقدام کا احاطہ کیا جائے گا۔ ان میں وارانسی میں آبی وسائل کے انتظام کے لیے ایک سنٹر آف ایکسی لینس اور صاف دریا کے پانی پر ایک اسمارٹ لیب شامل ہیں۔ مجوزہ تعاون کا بنیادی مقصد مجموعی اور پائیدار نقطہ نظر کے ذریعے موجودہ اور مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صاف ستھرے اور محفوظ پانی کو یقینی بنانا ہے۔ لیٹر آف انٹینٹ کی پیروی کے طور پر، ڈی او ڈبلیو آر، آر ڈی اور جی آر، حکومت ہند اور ڈنمارک کی وزارت ماحولیات کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر 12 ستمبر2022 کو جل شکتی کے وزیر موصوف کے ڈنمارک کے دورے دوران دستخط کیے تھے۔,কেবিনেটে জলসম্পদ উন্নয়ন আৰু ব্যৱস্থাপনা সহযোগিতাৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু ডেনমাৰ্কৰ মাজত বুজাবুজিৰ চুক্তি স্বাক্ষৰিত কৰাত অনুমোদন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DB%81-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%85%D8%B2%D8%AF-%D8%A7%D8%B1%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات کو راجیہ سبھا کے لیے ان کی نامزدگی پر مبارکباد دی ہے۔ ایتھلیٹ پی ٹی اوشا، میوزک کمپوزر، الائیاراجا، مخیرّ اور سماجی کارکن جناب ویریندر ہیگڑے، فلم ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹر، جناب وی وجیندر پرساد گارو ایسے نامزد امیدوار ہیں جنہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘قابل ذکر شخصیت پی ٹی اوشا جی ہر ہندوستانی کے لیے ایک حوصلہ افزائی کاوسیلہ ہے۔ کھیلوں میں ان کے کارنامے بڑے پیمانے پر مشہور ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں میں ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی رہنمائی کے لیے ان کا کام بھی اتنا ہی قابل ستائش ہے۔ انہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیے جانے پر مبارکباد۔ @PT,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৰাজ্যসভাৰ নতুন মনোনীত সদস্যসকলক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%D9%BE%D8%B1-%D9%BE%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A8-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%86/,نئی دہلی،15؍دسمبر، صبح بخیر دوستو! عام طور پر سردی کا موسم دیوالی کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ عالمی حرارت اور آب وہوا میں تبدیلی کا اثر ہے کہ ان دنوں اتنی زیادہ سردی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ہمارا سرمائی اجلاس شروع ہورہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس سرمائی اجلاس میں ، جو 2017 میں شروع ہورہا ہے اور 2018 تک جاری رہے گا، حکومت کے کئی اہم معاملات، جن کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے، پارلیمنٹ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ ایک اچھی بحث ہونی چاہئے، ایک مثبت بحث ہونی چاہئے اور یہ بحث نئی نئی تجاویز کے ساتھ ہونی چاہیے……. اس وقت ہی پارلیمنٹ کا ٹائم ملک کے مفاد میں صحیح طرح استعمال ہوسکے گا۔ مجھے کاس کا یقین ہے اور کل بھی ہم نے ایک کُل جماعتی میٹنگ کی تھی جس میں سب کی ایک ہی آواز تھی کہ پارلیمنٹ کا اجلاس مناسب طور پر استعمال کیا جانا چاہئے تاکہ ملک کو آگے لے جایا جاسکے۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ اگر ایوان مثبت انداز میں کام کرے گا تو اس سے ملک کو فائدہ ہوگا، جمہوریت مستحکم ہوگی اور عام آدمی کی توقعات اور امیدوں کو پورا کرنے کے لئے ایک نیا اعتماد قائم کیا جاسکے گا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ! (م ن-و ا- ق ر),সংসদৰ শীতকালীন অধিবেশৰ আৰম্ভ হোৱাৰ প্ৰাকমুহূৰ্তত সংসদ ভৱনৰ বাহিৰত সংবাদ মাধ্যমক উদ্দেশ্যি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া বিবৃতিৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DA%A9%D8%B1%D8%B4%D9%86%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B4%D8%AA%DB%8C-%DA%88%D9%88%D8%A8-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%93-%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%AC%E0%A6%BF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,اظہار تاسف کیا نئی دہلی،13۔نومبر ۔وزیراعظم نریندر مودی نے دریائے کرشنا میں ایک کشتی غرقاب ہوجانے کے حادثے میں ہوئے جانی نقصان پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے ۔ وزیراعظم نے اس حادثے پراپنے پیغام تاسف میں کہا :’’دریائے کرشنا میں کشتی غرقاب ہوجانے کا حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ میری تمام تر ہمدردیاں مہلوکین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں ۔آندھراپردیش سرکار اور این ڈی آر ایف ہیڈ کوارٹر راحت اور بچاؤ کے کام میں مسلسل مصروف ہے ۔‘‘,কৃষ্ণা নদীত নাও ডুবি প্ৰাণহানি হোৱাসকলৰ প্ৰতি দুখ প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/31-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%8C-2022-%D8%A1-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-91-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DA%91%DB%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9%E0%A7%A7-%E0%A7%A6%E0%A7%AD-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ! یہ ’من کی بات ‘کی 91ویں کڑی ہے۔ ہم لوگوں نے پہلے اتنی ساری باتیں کی ہیں، الگ الگ موضوعات پر اپنی باتوں کو ساجھا کیا ہے لیکن اس مرتبہ ’ من کی بات ‘ بہت خاص ہے۔ اس کی وجہ ہے ، اس مرتبہ کا یوم آزادی ، جب بھارت اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرے گا۔ ہم سبھی بہت ہی شاندار اور تاریخی لمحے کے گواہ بنیں گے ۔ ایشور نے ہمارے لئے بہت بڑی خوش قسمتی رکھی ہے۔ آپ بھی سوچیئے ، اگر ہم غلامی کے دور میں پیدا ہوئے ہوتے تو اس دن کا تصور ہمارے لئے کیسا ہوتا ؟ غلامی سے نجات کی وہ تڑپ،غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی وہ بے چینی- کتنی زیادہ رہی ہوگی۔ وہ دن ، جب ہم ہر دن لاکھوں ہم وطنوں کو آزادی کے لئے لڑتے ، جوجھتے ، قربانی دیتے دیکھ رہے ہوتے ۔ اب ہم ہر صبح اس خواب کے ساتھ جاگتے کہ میرا بھارت کب آزاد ہوگا اور ہو سکتا ہے ، ہماری زندگی میں وہ دن بھی آتا ، جب بندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے بولتے ہوئے ، ہم آنے والی نسلوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ، زندگی کھپا دیتے ۔ ساتھیو ، 31 جولائی یعنی آ ج ہی کے دن ، ہم تمام اہل وطن، شہید اودھم سنگھ جی کی شہادت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ میں ، ایسے دیگر تمام عظیم انقلابیوں کو اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ ساتھیو ، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس سے متعلق مختلف پروگراموں میں زندگی کے تمام شعبوں اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس ماہ کے شروع میں میگھالیہ میں منعقد ہوا ۔ میگھالیہ کے بہادر مجاہد ، یو تیروت سنگھ جی کی برسی پر لوگوں نے انہیں یاد کیا ۔ تروت سنگھ جی نے خاصی ہلس پر کنٹرول کرنے اور وہاں کی ثقافت پر حملہ کرنے کی برطانوی سازش کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس پروگرام میں بہت سے فن کاروں نے خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے تاریخ کو زندہ کر دیا ۔ اس میں ایک کارنیوال کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ، جس میں میگھالیہ کی عظیم ثقافت کو بہت خوبصورت انداز میں دکھایا گیا تھا۔ اب سے کچھ ہفتے پہلے کرناٹک میں امرتا بھارتی کناڈارتھی کے نام سے ایک انوکھی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ اس میں ریاست کے 75 مقامات پر آزادی کے امرت مہوتسو سے متعلق عظیم الشان پروگراموں کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ ان میں کرناٹک کے عظیم آزادی پسندوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ادبی کارناموں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ساتھیو ، اسی جولائی میں ایک بہت ہی دلچسپ کوشش کی گئی ہے، جس کا نام ہے ، آزادی کی ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن ۔ اس کوشش کا مقصد جدوجہد آزادی میں بھارتی ریلوے کے کردار سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ملک میں ایسے کئی ریلوے اسٹیشن ہیں، جو تحریک آزادی کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ریلوے اسٹیشنوں کے بارے میں جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔ جھارکھنڈ میں گومو جنکشن کو اب سرکاری طور پر نیتا جی سبھاش چندر بوس جنکشن گومو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ دراصل اس اسٹیشن پر نیتا جی سبھاش کالکا میل میں سوار ہو کر انگریز افسروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ آپ سب نے لکھنؤ کے قریب کاکوری ریلوے اسٹیشن کا نام بھی سنا ہوگا۔ اس اسٹیشن سے رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان جیسے بہادر لوگوں کا نام جڑا ہے۔ بہادر انقلابیوں نے یہاں ٹرین کے ذریعے جانے والے انگریزوں کے خزانے کو لوٹ کر انگریزوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب بھی آپ تمل ناڈو کے لوگوں سے بات کریں گے، آپ کو تھوتھکوڈی ضلع کے وانچی مانیاچی جنکشن کے بارے میں سننے کو ملے گا ۔ اس اسٹیشن کا نام تمل مجاہد آزادی وانچی ناتھن جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے ، جہاں 25 سالہ نوجوان وانچی نے برطانوی کلکٹر کو اس کے کئے کی سزا دی تھی۔ ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ ملک بھر کی 24 ریاستوں میں پھیلے ہوئے ایسے 75 ریلوے اسٹیشنوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان 75 اسٹیشنوں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جا رہا ہے۔ ان میں کئی طرح کے پروگرام بھی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ آپ کو اپنے قریب کے ایسے تاریخی اسٹیشن پر جانے کے لئے بھی وقت نکالنا چاہیئے۔ آپ کو تحریک آزادی کی ایسی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے معلوم ہو جائے گا ، جس سے آپ انجان رہے ہیں ۔ میں آس پاس کے اسکولوں کے طلباء سے گزارش کروں گا، اساتذہ سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے اسکول کے چھوٹے بچوں کو اسٹیشن لے جائیں اور ان بچوں کو سارا واقعہ سنائیں اور سمجھائیں ۔ میرے پیارے ہم وطنو، آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت 13 سے 15 اگست تک ایک خصوصی تحریک ’’ ہر گھر ترنگا، ہر گھر ترنگا ‘‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس تح��یک کا حصہ بن کر 13 سے 15 اگست تک، آپ اپنے گھر پر ترنگا ضرور لہرائیں یا اسے اپنے گھر پر لگائیں ۔ ترنگا ہمیں متحد کرتا ہے، ہمیں ملک کے لئے کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میرا یہ بھی مشورہ ہے کہ 2 اگست سے 15 اگست تک ہم سب اپنی سوشل میڈیا پروفائل تصویروں میں ترنگا لگا سکتے ہیں۔ ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ 2 اگست کا ہمارے ترنگے سے بھی خاص تعلق ہے۔ یہ دن پنگلی وینکیا جی کا یوم پیدائش ہے ، جنہوں نے ہمارے قومی پرچم کو ڈیزائن کیا تھا۔ میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے قومی پرچم کی بات کرتے ہوئے ، مجھے عظیم انقلابی میڈم کاما بھی یاد آ رہی ہیں ۔ ترنگے کو شکل دینے میں ، ان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ ساتھیو ، آزادی کے نام پر منعقد ہونے والی ان تمام تقریبات کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ ہم تمام اہل وطن اپنی ذمہ داری پوری لگن کے ساتھ ادا کریں۔ تب ہی ہم ان لاتعداد آزادی پسندوں کے خواب کو پورا کر سکیں گے۔ ہم ان کے خوابوں کا بھارت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس لئے ہمارے اگلے 25 سالوں کا یہ امرت کال ہر اہل وطن کے لئے فرائض کی انجام دہی کے عہد کی طرح ہے۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے بہادر جنگجوؤں نے ہمیں یہ ذمہ داری سونپی ہے اور ہمیں اسے پوری طرح نبھانا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ہم وطنوں کی کورونا کے خلاف جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ پوری دنیا آج بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجموعی حفظانِ صحت میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ، اس میں سب کی بہت مدد کی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی روایتی طریقے اس میں کتنے کارآمد ہیں۔ کورونا کے خلاف جنگ میں آیوش نے تو ، عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں آیوروید اور بھارتی ادویات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ، جس کی وجہ سے آیوش بر آمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ بھی بہت خوشگوار ہے کہ اس شعبے میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس بھی ابھر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک گلوبل آیوش انویسٹمنٹ اینڈ انوویشن سمٹ کا انعقاد کیا گیاتھا ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس میں تقریباً دس ہزار کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ایک اور بہت اہم بات یہ ہوئی ہے کہ کورونا کے دور میں ادویاتی پودوں پر تحقیق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں کئی تحقیقی مطالعات شائع ہو رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ ساتھیو ، ملک میں مختلف قسم کے ادویاتی پودوں اور جڑی بوٹیوں کے حوالے سے ایک اور شاندار کوشش کی گئی ہے۔ انڈین ورچوئل ہربیریم جولائی کے مہینے میں ہی لانچ کیا گیا تھا۔ یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ ہم ڈیجیٹل دنیا کو اپنی جڑوں سے جوڑنے کے لئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ انڈین ورچوئل ہربیریم محفوظ پودوں یا پودوں کے حصوں کی ڈیجیٹل تصاویر کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے، جو ویب پر مفت دستیاب ہیں۔ اس ورچوئل ہربیریم پر ایک لاکھ سے زیادہ نمونے اور ان سے متعلق سائنسی معلومات دستیاب ہیں۔ ورچوئل ہربیریم میں بھارت کے نباتاتی تنوع کی بھرپور تصویر بھی نظر آتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارتی ورچوئل ہربیریم بھارتی نباتات پر تحقیق کے لئے ایک اہم وسیلہ بن جائے گا۔ میرے پیارے ہم وطنو،’من کی بات ‘میں ، ہم ہر مرتبہ ہم وطنوں کی ایسی کامیابیوں پر گفتگو کرتے ہیں ، جو ہمارے چہروں پر میٹھی مسکراہٹ لاتی ہیں۔ اگر کامیابی کی کہانی میٹھی مسکراہٹیں پھیلاتی ہے اور ذائقہ بھی میٹھا ہے، تو آپ اسے یقینی طور پر سون پر سہاگا کہیں گے۔ ان دنوں ہمارے کسان شہد کی پیداوار میں ایسا معجزہ کر رہے ہیں۔ شہد کی مٹھاس بھی ہمارے کسانوں کی زندگی بدل رہی ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہریانہ میں، یمنا نگر میں، شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک ساتھی رہتے ہیں – سبھاش کمبوج جی۔ سبھاش جی نے سائنسی طریقے سے شہد کی مکھیاں پالنے کی تربیت لی۔ اس کے بعد انہوں نے صرف چھ ڈبوں سے اپنا کام شروع کیا۔ آج وہ تقریباً دو ہزار ڈبوں میں شہد کی مکھیاں پال رہا ہے۔ ان کا شہد کئی ریاستوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ونود کمار جی جموں کے پلّی گاؤں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کالونیوں میں شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال رانی مکھی پالنے کی تربیت لی ہے۔ اس کام سے وہ سالانہ 15 سے 20 لاکھ روپئے کما رہے ہیں۔ کرناٹک کے ایک اور کسان ہیں – مدھوکیشور ہیگڈے جی۔ مدھوکیشور جی نے بتایا کہ انہوں نے مکھیوں کی 50 کالونیوں کے لئے حکومت ہند سے سبسڈی لی تھی ۔ آج ان کے پاس 800 سے زیادہ کالونیاں ہیں اور وہ کئی ٹن شہد فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام میں جدت پیدا کی ہے اور وہ جامن شہد، تلسی شہد، آملہ شہد جیسے نباتاتی شہد بھی بنا رہے ہیں۔ مدھوکیشور جی، شہد کی پیداوار میں آپ کی اختراع اور کامیابی بھی آپ کے نام کو معنی خیز بناتی ہے۔ ساتھیو ، آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری روایتی صحت سائنس میں شہد کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ آیوروید کی کتابوں میں شہد کو امرت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شہد نہ صرف ہمیں ذائقہ دیتا ہے بلکہ صحت بھی دیتا ہے۔ آج شہد کی پیداوار میں اتنی صلاحیت ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اسے اپنا روزگار بنا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ہیں – یو پی میں گورکھپور کے نیمت سنگھ جی۔ نمت جی نے بی ٹیک کیا ہے۔ ان کے والد بھی ڈاکٹر ہیں لیکن تعلیم کے بعد نمت جی نے نوکری کے بجائے خود روزگار کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہد کی پیداوار شروع کی۔ انہوں نے معیار کی جانچ کے لئے لکھنؤ میں اپنی لیب بھی بنوائی۔ نمت جی اب شہد اور مکھی کے موم سے اچھی کمائی کر رہے ہیں اور مختلف ریاستوں میں جا کر کسانوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے آج ملک اتنا بڑا شہد پیدا کرنے والا ملک بن رہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک سے شہد کی برآمد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک نے شہد کی مکھیوں کو پالنے اور شہد کے مشن جیسی مہم شروع کی، کسانوں نے محنت کی اور ہمارے شہد کی مٹھاس پوری دنیا تک پہنچنے لگی۔ اس میدان میں اب بھی بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ، ان مواقع میں شامل ہوں اور ان سے فائدہ اٹھائیں اور نئے امکانات کو حقیقت شکل دیں ۔ میرے پیارے ہم وطنو، مجھے ’من کی بات ‘ کے سننے والے جناب آشیش بہل جی کا ہماچل پردیش سے ایک خط موصول ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے خط میں چمبا ک ’ منجر میلہ ‘کا ذکر کیا ہے۔ در اصل منجر مکا کے پھولوں کو کہتے ہیں ، جب مکا میں پھول آتے ہیں ، تو منجر میلہ بھیا منایا جاتا ہے اور اس میلے میں ملک بھر سے سیاح شرکت کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ اتفاق سے اس وقت منجر کا میلہ بھی چل رہا ہے، اگر آپ ہماچل کی سیر کرنے گئے ہیں تو اس میلے کو دیکھنے کے لئے چمبہ جا سکتے ہیں۔چمبا تو اتنا خوبصورت ہے کہ یہاں لوک گیتوں میں بار بار کہا جاتا ہے – ’’ چمبے ایک دن اونا کنے مہینا رینا ‘‘ یعنی جو لوگ ایک دن کے لئے چمبہ آتے ہیں، وہ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مہینے بھر کے لئے یہاں رک جاتے ہیں۔ ساتھیو ، ہمارے ملک میں میلوں کی بھی بڑی ثقافتی اہم��ت رہی ہے، میلے انسانوں اور دلوں کو جوڑتے ہیں۔ ہماچل میں بارش کے بعد ، جب خریف کی فصلیں پکتی ہیں ، تب ستمبر میں شملہ ، منڈی ، کلو اور سولن میں سیری یا سیر منایا جاتا ہے ۔ ستمبر میں جاگرا بھی آنے والا ہے ۔ جاگرا کے میلوں میں مہاسو دیوتا کا آہوان کرکے بیسو گیت گائے جاتے ہیں۔ مہاسو دیوتا کا یہ جاگر ہماچل میں شملہ، کنور اور سرمور کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ میں بھی ہوتا ہے۔ ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف ریاستوں میں قبائلی سماج کے بھی کئی روایتی میلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ میلے قبائلی ثقافت سے جڑے ہیں، تو کچھ کا انعقاد آدی واسی تاریخ اور وراثت سے جڑا ہے ، جیسا کہ ، اگر آپ کو موقع ملے تو آپ کو تلنگانہ کے میڈارم میں چار روزہ سمکا-سرلمہ جاترا میلہ ضرور دیکھنا چاہیئے۔ اس میلے کو تلنگانہ کا مہا کمبھ کہا جاتا ہے۔ سرلمہ جاترا میلہ دو قبائلی خواتین ہیروئنوں – سمکا اور سرلمہ کے احترام میں منایا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف تلنگانہ بلکہ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی کویا قبائلی برادری کے لئے بھی عقیدے کا ایک بڑا مرکز ہے۔ آندھرا پردیش میں ماری دماّ کا میلہ بھی قبائلی سماج کے عقائد سے جڑا ایک بڑا میلہ ہے۔ ماریدماّ میلہ جیشٹھ اماوسیہ سے اساڑھ اماوسیہ تک چلتا ہے اور یہاں کا قبائلی معاشرہ اسے شکتی پوجا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہاں، مشرقی گوداوری کے پیدھاپورم میں، ماریدماّ مندر بھی ہے۔ اسی طرح راجستھان میں گراسیا قبائل کے لوگ ویساکھ شکل چتر دشی کو ’ سیاوا کا میلا ‘ ، یا ’ منکھارو میلہ ‘ کا انعقاد کرتے ہیں ۔ چھتیس گڑھ میں بستر کے نارائن پور کا ’ماولی میلہ ‘ بھی بہت خاص ہوتا ہے۔ اس کے قریب ہی مدھیہ پردیش کا بھگوریا میلہ بھی بہت مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوریا میلہ راجہ بھوج کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ پھر بھیل بادشاہوں، کسومار اور بلون نے پہلی بار اپنے اپنے دارالحکومتوں میں ان تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ میلے یکساں جوش و خروش سے منائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گجرات میں ترنیتر اور مادھوپور جیسے کئی میلے بہت مشہور ہیں۔ میلے اپنے آپ میں ہمارے معاشرے، زندگی کے لئے توانائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ آپ کے آس پاس بھی ایسے کئی میلے ضرور ہوں گے۔ جدید دور میں، ’ایک بھارت- شریشٹھ بھارت ‘ کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لئے سماج کے یہ پرانے روابط بہت اہم ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو ان سے ضرور جڑنا چاہیئے اور جب بھی آپ ایسے میلوں میں جائیں تو وہاں کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ایک مخصوص ہیش ٹیگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے دوسرے لوگ بھی ان میلوں کے بارے میں جان جائیں گے۔ آپ وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر بھی تصاویر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ آئندہ چند روز میں وزارت ثقافت ایک مقابلہ بھی شروع کرنے جا رہی ہے، جہاں میلوں کی بہترین تصاویر بھیجنے والوں کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا ۔ اس لئے دیر نہ کریں، میلوں کا دورہ کریں، ان کی تصاویر شیئر کریں، اور شاید آپ انعام بھی حاصل کر سکیں ۔ میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو یاد ہو گا ، ’من کی بات ‘ کے ایک ایپی سوڈ میں میں نے کہا تھا کہ بھارت میں کھلونوں کی برآمدات میں پاور ہاؤس بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ میں نے خاص طور پر کھیلوں میں بھارت کے شاندار وراثت پر بات کی تھی ۔ بھارت کے مقامی کھلونے ماحول دوست ہیں، روایت اور فطرت دونوں کے مطابق ہیں۔ آج میں آپ کے ساتھ انڈین ٹوائز کی کامیابیاں بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہماری کھلونا صنعت نے ، جو کامیابی ہمارے نوجوانوں، اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کی وجہ سے حاصل کی ہے ، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ آج جب بھارتی کھلونوں کی بات آتی ہے تو ہر طرف ووکل فار لوکل کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آپ یہ بھی جاننا پسند کریں گے کہ اب بھارت میں بیرون ملک سے آنے والے کھلونوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ پہلے جہاں 3 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے باہر سے آتے تھے، اب ان کی درآمد میں 70 فی صد کمی آئی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اس عرصے کے دوران بھارت نے 2 ہزار 600 کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے بیرونی ملکوں میں برآمد کئے ہیں ، جب کہ پہلے بھارت سے باہر صرف 300-400 کروڑ روپئے کے کھلونے جاتے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کورونا کے دور میں ہوا تھا۔ بھارت کے کھلونا سیکٹر نے خود کو بدل کر دکھایا ہے۔ بھارتی صنعت کار اب بھارتی افسانوں، تاریخ اور ثقافت پر مبنی کھلونے بنا رہے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ کھلونوں کے جھرمٹ ہیں، چھوٹے کاروباری جو کھلونے بناتے ہیں، انہیں اس سے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان چھوٹے کاروباریوں کے بنائے ہوئے کھلونے اب پوری دنیا میں جا رہے ہیں۔ بھارت کے کھلونا بنانے والے بھی دنیا کے معروف عالمی کھلونا برانڈز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی بہت اچھا لگا کہ ہمارا اسٹارٹ اپ سیکٹر بھی کھلونوں کی دنیا پر پوری توجہ دے رہا ہے۔ وہ اس شعبے میں بہت مزے کی چیزیں بھی کر رہے ہیں۔ بنگلور میں شمّی ٹوئیز نام کا ایک سٹارٹ اپ ماحول دوست کھلونوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ گجرات میں آر کڈ زو کمپنی اے آر پر مبنی فلیش کارڈز اور اے آر پر مبنی اسٹوری بکس بنا رہی ہے۔ پونے کی کمپنی فن وینشن آموزش ، کھلونے اور ایکٹیویٹی پزل کے ذریعے سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے میں مصروف ہے۔ میں اسٹارٹ اپس کو مبارکباد دینا چاہوں گا، ایسے تمام مینوفیکچررز ، جو کھلونوں کی دنیا میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ آئیے ، ہم سب مل کر بھارتی کھلونوں کو پوری دنیا میں مزید مقبول بنائیں۔ اس کے ساتھ، میں والدین سے یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھارتی کھلونے، پہیلیاں اور گیمز خریدیں۔ ساتھیو ، کلاس روم ہو یا کھیل کا میدان، آج ہمارے نوجوان ہر میدان میں ملک کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں۔ اس ماہ پی وی سندھو نے سنگاپور اوپن کا اپنا پہلا خطاب جیتا ہے۔ نیرج چوپڑا نے بھی اپنی شاندار کارکردگی کو جاری رکھتے ہوئے عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ملک کے لئے چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آئرلینڈ پیرا بیڈمنٹن انٹرنیشنل میں بھی ہمارے کھلاڑیوں نے 11 میڈلز جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ روم میں منعقدہ ورلڈ کیڈٹ ریسلنگ چیمپئن شپ میں بھی بھارتی کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہمارے کھلاڑی سورج نے گریکو رومن ایونٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 32 سال کے طویل وقفے کے بعد اس ایونٹ میں ریسلنگ کا گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے یہ پورا مہینہ ایکشن سے بھرپور رہا۔ چنئی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کی میزبانی کرنا بھارت کے لئے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔ یہ ٹورنامنٹ 28 جولائی کو شروع ہوا ہے اور مجھے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دن برطانیہ میں کامن ویلتھ گیمز کا آغاز بھی ہوا۔ نوجوانوں کے جوش سے بھرپور بھارتی ٹیم وہاں ملک کی نمائندگی کر رہی ہے۔ میں ہم وطنوں کی طرف سے تمام کھلاڑیوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ بھارت فیفا کے 17 سال سے کم عمر کی خواتین کے عالمی کپ کی بھی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اکتوبر کے آس پاس منعقد ہوگا ، جس سے ملک کی بیٹیوں کا کھیلوں کے تئیں جوش و جذبہ بڑھے گا۔ ساتھیو ، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک بھر میں دسویں اور بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔ میں ان تمام طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے اپنی سخت محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلے دو سال، وبائی امراض کی وجہ سے، انتہائی چیلنجنگ رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں نے ، جس ہمت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ میں سب کے روشن مستقبل کی نیک خواہشات رکھتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے آزادی کے 75 سال پر اپنی گفتگو کا آغاز ملک کے دورے سے کیا۔ اگلی بار جب ہم ملیں گے تو ہمارا اگلے 25 سالوں کا سفر شروع ہو چکا ہوگا۔ ہم سب کو اپنے پیارے ترنگے کو اپنے گھروں اور اپنے پیاروں کے گھروں پر لہرانے کے لئے جمع ہونا ہے۔ اس بار آپ نے یوم آزادی کیسے منایا، کیا آپ نے کوئی خاص کام کیا، وہ بھی میرے ساتھ شیئر کریں۔ اگلی بار، ہم اپنے اس امرت کے تہوار کے مختلف رنگوں کے بارے میں دوبارہ بات کریں گے، تب تک مجھے اجازت دیں۔ بہت شکریہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),৩১.০৭.২০২২ তাৰিখে ‘মন কী বাত’ৰ ৯১তম খণ্ডত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া ৰূপান্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA%D8%8C-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D8%A7%D9%93%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج گجرات کے شہر احمدآباد میں ایس جی وی پی گروکل کے مقام پر ‘بھاؤ وندنا پرو’ کے موقع پر خطاب کیا۔ اس تقریب کا پوجیہ شاستری جی مہاراج کی سوانح عمری ‘‘ شری دھرم جیون گاتھا’’ کے اجرا کے موقع پر کاانعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ عظیم شخصیات کے کارنامے اور واقعات، تحریری شکل میں درج کئے جانے کے بجائے اکثر صرف یادوں اور زبانی روایات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پوجیہ شاستری جی مہاراج کی سوانح حیات کی بدولت ایک ایسی شخصیت کی بے لوث زندگی تحریری شکل میں پیش ہوگی جوعلم کی حصولیابی اور معاشرے اور سماج کی خدمت کے تئیں وقف کردی گئی تھی۔ وزیراعظم نے پوجیہ شاستری جی مہاراج کے قول ‘سبھی کی بھلائی’ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ’’ کے ان کے ویژن کو شاستری جی مہاراج جیسی عظیم شخصیت سے ترغیب حاصل ہوئی ہے اور یہ ویژن ‘‘سروجن ہتائے اور سروجن سکھائے’’ کے فلسفے پر مبنی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ قدیم بھارت کے گروکل کی روایت، ‘‘سروجن ہتائے’’ کی مادی شکل تھی کیوں کہ سماج کے سبھی طبقات کے گروکل شاگرد، ملکر مطالعہ کرتے تھے۔ اس روایت کے اندر عظیم ماضی اور شاندار مستقبل سے جڑنے کے بیج موجود ہیں۔ اس روایت سے ملک کے عام آدمی کو مذہبی، ثقافتی اور سماجی ترغیب ملتی ہے۔ شاستری جی نے اپنے گروکل کے ذریعہ دنیا بھر کی بہت سی زندگیوں کو نمونے کے مطابق ڈھالا ہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ انکی زندگی م��ض نصیحتیں کرنے یا احکامات دینے پر مبنی نہیں تھی بلکہ وہ نظم و ضبط اور تپسیا کا ایک مسلسل دھارا تھی ا ور انہوں نے فرض کے راستے پر مسلسل ہمیں رہنمائی فراہم کی۔ وزیراعظم نے ایس جی وی پی گروکل کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے اس عظیم ادارے کے قدیم دانشمندانہ اصولوں میں جدیدیت کے عناصر کو نمایاں کیا۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا کہ شاستری جی نے وقت کی ضروریات کے مطابق اور انجماد سے بچتے ہوئے قدیم دانشمندانہ اصولوں کو اختیار کرنے پر زور دیا تھا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ مقدس سنتوں اوربھکتی کی تحریک نے جد وجہد آزادی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گروکل پریوار، آزادی کا امرت مہوتسو اور امرت کال میں تعاون کرنے کی خاطر آگے آسکتا ہے۔ وزیراعظم نے عالمی وبا اور یو کرین کی صورتحال سے پیدا غیر یقینی کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے آتم نربھرتا کی اہمیت کا ا عادہ کیا۔ انہوں نے گروکل پریوار سے ووکل فار لوکل بننے کے لئے کہا۔ وزیراعظم نے ان سے کہا کہ وہ روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی ایک فہرست تیار کریں اور درآمد شدہ مصنوعات پر انحصار کی حد کاجائزہ لیں۔ اگر کوئی ایسی چیز دستیاب ہے جس کے بنانے میں ایک ہندوستانی کی پیشہ بھی شامل ہے تو ا یسی کسی بھی چیز کو ہمیشہ ترجیح دی جانی چاہئے۔ اسی طرح گروکل پریوار ایک مرتبہ استعمال کئے جانے والے پلاسٹک سے گریز کرتے ہوئے سوچھ بھارت ابھیان میں تعاون کرسکتا ہے ۔ وزیراعظم نے ان سے کہاکہ وہ صفائی ستھرائی سے متعلق صورتحال کو بہتر بنانے کی غرض سے مجسمہ ا تحاد یا مقامی مجسموں جیسے مقامات پر گروپ کی شکل میں باضابطہ طور پر جایا کریں۔ انہوں نے ماتر بھومی کو کیمیائی اشیا اور دیگر نقصانات سے تحفظ فراہم کرنےکی خاطر قدرتی کاشتکاری کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ گروکل اس سلسلے میں ایک بڑا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ وزیراعظم نے گروکل پریوار سے یہ درخواست کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ وہ پوجیہ شاستری جی مہاراج کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک نئے طریقے سے آزادی کا امرت مہوتسو منائیں۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী মোদীৰ আহমদাবাদ, গুজৰাটৰ এছজিভিপি গুৰুকুলত ভাৱ বন্দনা পৰৱ উপলক্ষে বাৰ্ত" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DA%88%DB%8C%D9%85-%D8%B3%DB%8C%D9%81%D9%B9%DB%8C-%D8%A8%D9%84-2018-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D9%81%D8%A7%D8%B0-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A7%87%E0%A7%9F%E0%A6%95-%E0%A7%A8/,نئیدہلی،14جون ۔وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ڈیم سیفٹی بل 2018 کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی منظوری دے دی ئ فوائد : اس بل سے ہندوستان کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو باندھ یعنی ڈیمز کی حفاظت کا یکساں عمل اختیار کرنے میں معاونت ہوگی ،جس سے ڈیمز کی حفاظت کر یقینی بنایا جاسکے گا اور ان ڈیمز سے حاصل ہونے والے فوائد کی حفاظت کی جاسکےگی ۔علاوہ ازیں اس سے انسانی زندگی ،مویشیوں اور املاک کی حفاظت میں بھی معاونت ہوسکے گی۔ اس ڈیم بل کو معروف ہندوستانی ماہرین اور سرکردہ بین الاقوامی ماہرین سے وسیع تر مشاورت کے بعد قطعی شکل دی گئی ہے ۔ تفصیلات : اس بل کی رو سے ملک کے تمام ڈیمز کی باقاعدہ نگرانی ،معائنے ، کام کاج اور دیکھ بھال کے ذریعہ محفوظ کام کاج کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ اس بل کی رو سے نیشنل کمیٹی آن ڈیم سیفٹی کی تشکیل کی جائے گی، جو باندھوں کی حفاظت کی پالیسیاں بنائے گا اور ضرورت پڑنے پر ضروری ضابطہ بندیوں کی سفارش کرے گا۔ اس بل کی رو سے نیشنل ڈیم سیفٹی اتھارٹی کے نام سے ایک رابطہ کا ر ادارہ قائم کیا جائے گا ، جو ملک میں ڈیمز کی سیفٹی سے متعلق پالیسی ، رہنما اصولوں اور معیارات کی عمل آوری کرے گا۔ اس بل کی رو سے ریاستی سرکار وں کے ذریعہ اسٹیٹ کمیٹی آن ڈیم سیفٹی تشکیل دی جائے گی۔ نیشنل ڈیم سیفٹی اتھارٹی : یہ ادارہ اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن اور ڈیمز کے مالکان سے ڈیم کی حفاظت سے متعلق اعدادوشمار اور طریقوں کے بارے میں رابطہ کاری کرے گا۔ یہ ادارہ ریاستی سرکاروں اور نیشنل اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن کو تکنیکی اور انتظامی امداد دستیاب کرائے گا۔ یہ ادارہ ملک کے تمام ڈیمز کےقومی سطح کے اعداد وشمار کا اندراج کرے گا اور بڑے ڈیمز کی ناکامی کا ریکارڈ بھی رکھے گا۔ یہ ادارہ ملک کے کسی بھی ڈیم کی ناکامی کے اسباب کی جانچ کرے گا۔ یہ ادارہ ملک کے ڈیمز کی تفصیلات کی تفصیلی تفتیش اور عمومی جانچ کے لئے جانچ کی فہرست اور معیاری رہنما اصولوں کی تازہ کاری اور اشاعت کرے گا۔ یہ ادارہ ان تنظیموں کو جنہیں نئے باندھ یعنی ڈیمز کی تعمیر کی ڈیزائننگ کی مفصل تفتیش اور روز مرہ کی جانچ کی ذمہ داری کے کام تفویض کئے جاتے ہیں ، انہیں شناخت اور منظوری دے گا۔ یہ ادارہ دو ریاستوں کی اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن کے درمیان یا کسی ریاست کی اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن اور کسی ڈیم کے مالک کے درمیان غیر فیصل شدہ تنازعے کی جانچ کرے گا اور اس کا معقول حل پیش کرے گا۔ یہ ادارہ کسی ایک ریاست کے ڈیم کے کسی دوسری ریاست کے علاقے میں واقع ہونے جیسے امور کی جانچ کرے گا۔علاوہ ازیں نیشنل اتھارٹی بھی اسٹیٹ ڈیمز سیفٹی آرگنائزیشن کی ذمہ داریاں انجام دے گی تاکہ بین ریاستی ٹکراؤ کے اسباب کو ختم کیاجاسکے ۔ اسٹیٹ کمیٹی آن ڈیم سیفٹی : یہ کمیٹی ریاست کے تمام شناخت شدہ ڈیمز کی نگرانی ، جانچ ، آپریشن اور دیکھ بھال کو یقینی بنائے گا ۔اس کے ساتھ ہی یہ کمیٹی ان ڈیمز کے کام کاج کی بھی نگرانی کرے گی ۔علاوہ ازیں اس کمیٹی کی رو سے ہر ریاستی سرکار ایک’’ اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن‘‘ قائم کرے گی ۔ اس تنظیم نے ڈیم ڈیزائننگ ، ہائیڈو میکنکل انجنئرین ، ہائیڈرولوجی ، جیو ٹیکنیکل انویسٹی کیشن ، انٹسرو مینٹیشن اور ڈیم ری ہیبلی ٹیشن کے شعبوں میں کام کرنے والے فیلڈ سیفٹی ڈیم کے محکموں کے افسرا ن ترجیحی طور پر شامل کئے جائیں گے ۔ پس منظر : ہندوستان میں 5200 سے زائد بڑے ڈیم واقع ہیں اور 450 نئے ڈیم زیر تعمیر ہیں ۔علاوہ ازیں ملک میں ہزاروں اوسط درجے کے اور چھوٹے ڈیم بھی موجودہیں اور ڈیمز کی حفاظت کے قانونی اور ادارہ جاتی ضابطوں اور اصولوں کے فقدان کے نتیجے میں باندھ یعنی ڈیمز کی حفاظت ایک باعث تشویش مسئلہ بن گیا ہے ۔ غیر محفوظ ڈیمز خطرناک ہوتے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے زبردست تباہیاں ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر جان ومال کا نقصان ہوتا ہے ۔ ڈیم سیفٹی بل 2018 میں باندھوں یعنی ڈیمز کی حفاظت سے متعلق تمام مسائل کا تدارک پیش کیا گیا ہے جن میں ڈیمز کی باقاعدہ جانچ ، ایمرجنسی ایکشن پلان ، ڈیم کی حفاظت کے امور کا جامع جائزہ ، ڈیمز کی حفاظت کی خاطر معقول مرمت اور دیکھ بھال کے لئے سرمائے کی فراہمی اور انسٹرومینٹیشن اینڈ سیفٹی مینول شامل ہیں ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,"বান্ধ নিৰাপত্তা বিধেয়ক, ২০১৮ কার্যকৰী কৰাৰ প্রস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%B2%D9%88%D8%B1%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0/,نئی دلّی ،20 فروری، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے میزورم کے عوام کو ان کے ریاستی یوم تاسیس کے موقع پر مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’میزورم کے لوگوں کو ان کے ریاستی یوم تاسیس پر مبارکباد۔ بھارت کو ، دلکش میزو ثقافت اور ملک کی ترقی میں میزورم کے تعاون پربہت فخر ہے۔ میں دعاگو ہو ں کہ میزورم کے عوا م صحت مند اور تندرست رہیں۔ ‘‘,প্ৰতিষ্ঠা দিৱসত মিজোৰামৰ জনসাধাৰণক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-13-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%AF%D8%AA%DB%8C-%D8%B4%DA%A9%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%A9-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,نئی دہلی:12؍اکتوبر2021: ملک کے بنیادی ڈھانچہ کے منظرنامہ سے جڑے ایک تاریخی انعقاد کے تحت وزیراعظم جناب نریندر مودی 13 اکتوبر 2021 کو صبح گیارہ بجے پرگتی میدان، نئی دہلی میں ’پی ایم گتی شکتی – ملٹی – ماڈل کنیکٹی ویٹی کے لئے نیشنل ماسٹر پلان ‘ کا افتتاح کریں گے۔ بھارت میں بنیادی ڈھانچہ یا بنیادی ڈھانچہ جاتی سہولت کی تعمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بے شمار مسائل سامنے آتے رہے تھے ۔ مختلف شعبوں کے بیچ تال میل کا فقدان دیکھا جاتا تھا ۔ مثال کے لئے، ایک مرتبہ کوئی سڑک بن جانے کے بعد دیگر ایجنسیاں زیر زمین کیبل، گیس پائپ لائن، وغیرہ بچھانے جیسی سرگرمیوں کے لئے تعمیر شدہ سڑک کو پھر سے کھود دیتی تھیں۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو کافی دقت پیش آتی تھی، بلکہ یہ ایک فضول خرچ بھی ہوتا تھا ۔ اس مسئلے کے حل کے لئے آپس میں تال میل بڑھانے کے لئے ٹھوس کوشش کی گئی تاکہ سبھی کیبل، پائپ لائن، وغیرہ ایک ساتھ بچھائی جاسکیں ۔ منظوری حاصل کرنے کے عمل میں کافی وقت لگنے، طرح طرح کی ریگولیٹری منظوری لینے، وغیرہ مسئلے کے حل کے لئے بھی بہت سے ٹھوس قدم اٹھائے گئے ہیں۔ گزشتہ سات برسوں میں حکومت نے مجموعی نقطہ نظر کے ذریعہ بنیادی ڈھانچہ جاتی جاتی سہولیت یا انفرااسٹرکچر پر غیرمعمولی توجہ دینا یقینی بنایا ہے۔ پی ایم گتی شکتی اہم انفرااسٹرکچر پرجیکٹوں کے لئے سبھی فریقوں کے لئے جامع منصوبہ کو ادارہ جاتی شکل دے کر گزشتہ سبھی مسائل کو حل کرے گی۔ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر منصوبہ بنانے اور ڈیزائن تیار کرنے کے بجائے منصوبوں کو ایک مشترکہ نظریہ سے تیار اور نافذ کیا جائے گا۔ اس میں مختلف وزارتوں اور ریاستی حکومتوں کے بنیادی ڈھانچہ کے منصوبوں جیسے کہ بھارت مالا، ساگرمالا، اندرون ملک آبی گزرگاہیں، خشک /زمینی بندرگاہیں، اڑان ، وغیرہ کو شامل کیا جائے گا۔ کنکٹیوٹی بہتر کرنے اور بھارتی کاروبار کو اور بھی زیادہ مسابقتی بنانے کے لئے ٹیکسٹائل کلسٹر، ، فارماسیوٹیکل کلسٹر ، ڈیفنس کوریڈور ، الیکٹرانک پارک ، انڈسٹریل کوریڈور ، فشنگ کلسٹر ، ایگری زون جیسے اقتص��دی شعبوں کا احاطہ کیا جائے گا ۔ اس میں مختلف ٹیکنالوجیز کا بھی وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائے گا جن میں بی آئی ایس اے جی -این (بھاسکر آچاریہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ایپلی کیشنز اینڈ جیو انفارمیٹکس ) کے ذریعہ تیار اسرو امیجریسے آراستہ اسپیشیئل پلاننگ کے آلات بھی شامل ہوں گے۔ پی ایم گتی شکتی چھ ستونوں پر مبنیہے جامعیت : اس میں ایک سنٹرلائزڈ پورٹل میں مختلف وزارتوں اور محکموں کی سبھی موجودہ اور منصوبہ بند پہل کی تفصیلات شامل ہوں گی۔ اب پروجیکٹوں کی وسیع تر منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے سلسلے میں اہم ڈیٹا کا تبادلہ کرتے ہوئے ہر محکموں کو ایک دوسرے کی سرگرمیوں سے باخبر رہنے کی سہولت ہوگی۔ اولیت : اس کے توسط سے مختلف محکمہ الگ الگ شعبوں سے متعلق باہمی تبادلے کے ذریعہ اپنے پروجیکٹوں کو اولیت دینے کے اہل ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ استعمال :یہ نیشنل ماسٹر پلان اہم خامیوں کی شناخت کے بعد مختلف پرجیکٹوں کا منصوبہ بنانے میں مختلف وزارتوں کی مدد کرے گا۔ مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جانے کے لئے، یہ ماسٹر پلان وقت اور لاگت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ کارآمد روٹ کا انتخاب کرنے میں مدد کرے گا۔ ہم آہنگی :الگ الگ وزارت اور محکمہ اکثر ایک دوسرے سے الگ تھلک ہو کر کام کرتے ہیں۔ پروجیکٹوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے تعلق سے ان کے درمیان تال میل کی کمی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں تاخیر ہوتی ہے ۔ پی ایم گتی شیل ہر محکمہ کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ حکمرانی کے نظام کی مختلف سطحوں کے درمیان کام کے تال میل کو یقینی بناکر ان کے بیچ جامع طور پر ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد کرے گی۔ تجزیاتی :یہ ماسٹر پلان جی آئی ایس پر مبنی مقامی منصوبہ بندی اور 200 سے زیادہ تہوں والے تجزیاتی آلات کے زڑیعہ ایک ہی مقام پر مکمل ڈاٹا فراہم کرے گا ، جس سے عمل درآمد سے جڑی ایجنسی کو اپنا کام کاج کرنے میں سہولت ہوگی ۔ حرکیات :سبھی وزارت اورمحکمہ اب جی آئی ایس پلیٹ فارم کے توسط سے مختلف شعبوں سے متعلق پروجیکٹوں کی پیش رفت کا تصور، جائزہ اور نگرانی کرنے کے اہل ہوں گے، کیونکہ سیٹ لائٹ امیجری وقتاً فوقتاً زمین پر ہونے والی پیش رفت کی معلومات فراہم کرے گی اور اس کے مطابق پروجیکٹوں کی پیش رفت سے متعلق جانکاری کو مستقل طور پر پورٹل پر اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔ یہ قدم اس ماسٹر پلان کو آگے بڑھانے اور اسے اپ ڈیٹ کرنےسے متعلق اہم اقدامات کی شناخت کرنے میں مدد کرے گا۔ پی ایم گتی شیل اگلی نسل کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر سے متعلق وزیراعظم کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے، جو کہ زندگی کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ کاروبار کو مزید آسان بناتا ہے۔ ملٹی ماڈل کنکٹیوٹی ، ٹرانسپورٹ کے ایک موڈ سے دوسرے موڈ میں لوگوں، اشیا اور سہولیات کی نقل و حمل کے لئے مربوط اور بغیر کسی روک ٹوک کے کنکٹیویٹی فراہم کرے گی۔ یہ قدم بنیادی ڈھانچے کو آخری میل تک کنکٹیویٹی کی سہولت فراہم کرے گا اور سفر میں لوگوں کو لگنے والے وقت کو بھی کم کرے گا۔ پی ایم گتی شیل سے جڑے آئندہ کے پروجیکٹوں، دیگر کاروباری مراکز، صنعتی علاقوں اور آس پاس کے ماحولیات کے بارے میں عوام اور کاروباری برادری کو جانکاری فراہم کرے گی۔ یہ سرمایہ کاروں کو مناسب مقامات پر اپنے کاروبار کا منصوبہ بنانے میں اہل بنائے گی۔ جس سے باہمی تال میل میں اضافہ ہوگا۔ یہ روزگار کے کئی مواقع پیدا کرے گی اور معیشت کو فروغ دے گی۔ یہ لاجسٹکس سے جڑی لاگت میں تخفیف اور سپلائی چین میں بہتری لاکر مقامی پروڈکٹس کی عالمی مسابقتی صلاحیت کو بہتر بنائے گی اور مقامی صنعت اور صارفین کے بیچ مناسب ربط کو بھی یقینی بنائے گی۔ اس پروگرام کے دوران وزیراعظم پرگتی میدان میں نمائش کے ایک نئے کامپلیکس (ایگزیبیشن ہال 2 سے 5) کا بھی افتتاح کریں گے۔ انڈیا ٹریڈ پرموشن آرگنائزیشن کا اہم پروگرام ، انڈیا انٹرنیشنلٹریڈ فیئر (آئی آئی ٹی ایف) 2021 بھی نمائش کے ان نئے ہال میں 14 سے 27 نومبر 2021 کے دوران منعقد کیا جائے گا۔ اس موقع پر کامرس کے مرکزی وزیر ، سڑک ، ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر، ریلوے کے وزیر ، شہری ہوابازی کے وزیر ، جہاز رانی (شپنگ ) کے وزیر، بجلی کے وزیر، پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر بھی موجود رہیں گے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৩ অক্টোবৰত প্ৰধানমন্ত্ৰী গতিশক্তিৰ শুভাৰম্ভ কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔ 19 مارچ میرے دوست، وزیر اعظم کشیدا جی، دونوں ممالک کے مندوبین مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، گجرات کے وزیر خزانہ جناب کنو بھائی ڈیسائی، ہند – جاپان بزنس لیڈر فورم کے تمام اراکین ، آپ سب کا استقبال ہے۔ سب کو نمسکار! وزیر اعظم کشیدا جی اور جاپان سے ہندوستان آنے والے تمام دوستوں کا پرتپاک استقبال۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ دو سال سے زیادہ کے وقفے کے بعد ہم ہندوستان اور جاپان کے مابین سربراہی سطح کی میٹنگوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمارے اقتصادی تعلقات ہندوستان-جاپان خصوصی منصوبہ جاتی اور عالمی شراکت داری کا سب سے مضبوط ستون ہیں۔ کووڈ کے بعد کے دور میں، اقتصادی بحالی اور اقتصادی سلامتی کے لیے، ہند-جاپان اقتصادی شراکت داری نہ صرف دونوں ممالک کو بلکہ خطے اور دنیا کو بھی اعتماد اور لچک فراہم کرے گی۔ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر چلائی جا ر ہیں اصلاحات اور ہماری پیداوار سے منسلک ترغیبی اسکیمیں پہلے سے کہیں زیادہ مثبت ماحولیاتی نظام تیار کر رہی ہیں۔ عالی جناب، ہندوستان کی قومی انفراسٹرکچر پائپ لائن میں ایک پوائنٹ آٹھ ٹریلین ڈالر کے 9000 سے زیادہ منصوبے ہیں جو تعاون کے بہت سے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جاپانی کمپنیاں ہماری کوششوں میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیں گی۔ اور اس کے لیے ہم بھی ہندوستان میں جاپانی کمپنیوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ دوستو ترقی، خوشحالی اور شراکت داری ہند– جاپان تعلقات کا مرکز ہے۔ دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے میں ہندوستان جاپان بزنس لیڈر فورم کا اہم رول ہے۔ اس کے لیے میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,ভাৰত-জাপান বাণিজ্যিক কাৰ্যক্ৰমত প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে প্ৰদান কৰা বক্তব্ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D8%B1-%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%D8%AE%D8%AA%DB%81-%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D9%85%DB%81%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%8B-%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ ملک کے ہرغریب کو پختہ گھر دینے کے لئے حکومت اہم اقدامات کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑسے زیادہ مکان بنائے جاچکے ہیں۔ تمام گھر بنیادی سہولتوں سے آراستہ ہیں اور یہ گھر خواتین کو بااختیار بنانے کی علامت بن گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا ہے :,দেশৰ প্ৰতিটো দৰিদ্র পৰিয়ালক পকী ঘৰ দিয়াৰ বাবে চৰকাৰে গুৰুত্বপূর্ণ পদক্ষেপ লৈছেঃ প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%A7%DA%88%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-31500-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%B1%D9%88%D9%BE%DB%92-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2-2/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے چنئی میں 31,500 کروڑ روپے سے زیادہ کے 11 منصوبوں کو قوم کے نام وقف کیا اور ان کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ منصوبے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دیں گے، رابطے میں اضافہ کریں گے اور خطے میں زندگی گزارنے میں آسانی پیدا کریں گے۔ تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی، وزیر اعلیٰ جناب ایم کے اسٹالن، مرکزی وزیر جناب ایل مورگن اس موقع پر موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے تمل ناڈو میں واپس آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ”تمل ناڈو میں واپس آنا ہمیشہ ہی شاندار ہوتا ہے۔ یہ سر زمین خاص ہے۔ اس ریاست کے لوگ، ثقافت اور زبان شاندار ہیں“ انھوں نے شروع میں کہا۔ انھوں نے کہا کہ تمل ناڈو سے کوئی نہ کوئی ہمیشہ شاندار رہا ہے۔ انھوں نے ڈیفلمپکس دستے کی میزبانی کو یاد کیا اور کہا کہ ”اس بار یہ ٹورنامنٹ میں ہندوستان کی بہترین کارکردگی تھی۔ ہم نے جو 16 تمغے جیتے ہیں، ان میں سے 6 میں تمل ناڈو کے نوجوانوں کا کردار قابل ذکر تھا۔“ زرخیز تمل ثقافت پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ”تامل زبان ابدی ہے اور تمل ثقافت عالمی پیمانے کی ہے۔ چنئی سے کینیڈا تک، مدورائی سے ملائیشیا تک، نمکل سے نیویارک تک، سلیم سے جنوبی افریقہ تک، پونگل اور پوتھنڈو کے مواقع بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حال ہی میں کانز فلم فیسٹیول میں تمل ناڈو کی عظیم سرزمین کے فرزند اور مرکزی وزیر تھیرو ایل مروگن نے روایتی تمل لباس میں ریڈ کارپٹ پر واک کی جس سے پوری دنیا کے تمل لوگوں کو بہت فخر محسوس ہوا۔ انھوں نے کہا کہ جس منصوبے کا افتتاح یا سنگ بنیاد رکھا گیا، اس میں سڑک رابطے پر زور نظر آتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اس کا براہ راست تعلق معاشی خوشحالی سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ بنگلورو-چنئی ایکسپریس وے دو بڑے مراکز کو جوڑے گا اور 4 لین ڈبل ڈیکر ایلیویٹڈ سڑک جو چنئی پورٹ کو مدوراوویل سے جوڑتی ہے، چنئی کی بندرگاہ کو زیادہ موثر بنائے گی اور شہر کی بھیڑ کو کم کرے گی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ پانچ ریلوے اسٹیشنوں کو دوبارہ تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ جدیدیت اور ترقی مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی، اسے مقامی آرٹ اور ثقافت کے ساتھ ضم کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا، مدورائی-تینی ریلوے گیج کنورژن پروجیکٹ کسانوں کی مدد کرے گا کیونکہ اس سے انھیں نئی منڈیاں ملیں گی۔ وزیر اعظم نے پی ایم آواس یوجنا کے تحت تاریخی چنئی لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر مکانات حاصل کرنے ��الوں کو مبارکباد دی۔ ”یہ ایک بہت ہی اطمینان بخش منصوبہ رہا ہے کیونکہ ہم نے ایک عالمی تبدیلی شروع کی ہے.. اور ریکارڈ وقت میں پہلا پروجیکٹ مکمل ہو گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ یہ چنئی میں ہے“، انہوں نے کہا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملٹی ماڈل لاجسٹک پارکس ہمارے ملک کے مال برداری کے ماحولیاتی نظام میں ایک مثالی تبدیلی ثابت ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ مختلف شعبوں میں ان میں سے ہر ایک پروجیکٹ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور آتم نربھر بننے کے ہمارے عزم کو فروغ ملے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ جن قوموں نے انفراسٹرکچر کو سب سے زیادہ اہمیت دی وہ ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہو گئیں۔ انھوں نے فزیکل اور ساحلی انفراسٹرکچر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کی توجہ پوری طرح سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر مرکوز ہے جو اعلیٰ معیار کی اور پائیدار ہو۔ ہمارا مقصد غریب کلیان کو حاصل کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سماجی بنیادی ڈھانچے پر ہمارا زور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ 'سرو جن ہتائے اور سرو جن سکھائے‘ کے اصول پر ہمارا زور ہے۔ وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ حکومت اب اس سے آگے بڑھ گئی ہے جسے روایتی طور پر انفراسٹرکچر کہا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے انفراسٹرکچر کا مطلب سڑکوں، بجلی اور پانی سے لیا جاتا تھا۔ آج ہم ہندوستان کے گیس پائپ لائن نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ آئی-ویز پر کام ہو رہا ہے۔ ہر گاؤں تک تیز رفتار انٹرنیٹ پہنچانا ہمارا وژن ہے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ حکومت ہند تمل زبان اور ثقافت کو مزید مقبول بنانے کے لیے پوری طرح پر عزم ہے۔ اس سال جنوری میں، سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف کلاسیکل تمل کے نئے کیمپس کا چنئی میں افتتاح کیا گیا۔ نئے کیمپس کو مکمل طور پر مرکزی حکومت کی طرف سے فنڈ کیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں تمل اسٹڈیز پر ’سبرامنیہ بھارتی چیئر‘ کا حال ہی میں اعلان کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ بی ایچ یو ان کے حلقے میں واقع ہے اس لیے یہ خوشی بے حد خاص تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سری لنکا مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ وہاں کی پیشرفت سے پریشان ہیں۔ ایک قریبی دوست اور پڑوسی کے طور پر، ہندوستان سری لنکا کو ہر ممکن تعاون فراہم کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ وہ جافنا کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم تھے۔ حکومت ہند سری لنکا میں تمل لوگوں کی مدد کے لیے متعدد منصوبے شروع کر رہی ہے۔ ان منصوبوں میں صحت کی دیکھ بھال، نقل و حمل، رہائش اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران ہمارے مجاہدین آزاد کے خوابوں کو پورا کرنے کے ملک کے اجتماعی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا اختتام کیا۔ وزیر اعظم نے 2960 کروڑ روپے سے زیادہ کے پانچ منصوبوں کو قوم کے نام وقف کیا۔ 75 کلومیٹر لمبا مدورائی-تینی (ریلوے گیج کنورژن پروجیکٹ)، جسے 500 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، رسائی کو آسان بنائے گا اور خطے میں سیاحت کو فروغ دے گا۔ 590 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کی گئی تمبارم – چنگل پٹو کے درمیان 30 کلومیٹر لمبی تیسری ریلوے لائن، مزید مضافاتی خدمات کو چلانے میں سہولت فراہم کرے گی، اس طرح مسافروں کے لیے زیادہ سے زیادہ اختیارات اور سہولت فراہم کرے گی۔ ای ٹی بی پی این ایم ٹی قدرتی گیس پائپ لائن کا 115 کلومیٹر لمبا اینور-چنگل پٹو سیکشن اور 271 کلومیٹر طویل تھروولور-بنگلور سیکشن، جسے بالترتیب تقریباً 850 کروڑ روپے اور 910 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، تمل ناڈو، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتوں کو قدرتی گیس کی فراہمی میں سہولت فراہم کرے گا۔ پروگرام میں پردھان منتری آواس یوجنا-اربن کے تحت 116 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ لائٹ ہاؤس پروجیکٹ – چنئی کے حصے کے طور پر تعمیر کیے گئے 1152 مکانات کا افتتاح بھی عمل میں آیا۔ وزیر اعظم نے 28,540 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیے جانے والے چھ منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ 262 کلومیٹر طویل بنگلورو – چنئی ایکسپریس وے کو 14,870 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔ یہ کرناٹک، آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی ریاستوں سے گزرے گا اور بنگلورو اور چنئی کے درمیان سفر کے وقت کو 2 سے 3 گھنٹے تک کم کرنے میں مدد کرے گا۔ تقریباً 21 کلومیٹر کی لمبائی کی 4 لین کی ڈبل ڈیکر ایلیویٹڈ سڑک جو چنئی پورٹ کو مدوراوویل (NH-4) سے جوڑتی ہے، 5850 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بنائی جائے گی۔ یہ مال بردار گاڑیوں کو چنئی بندرگاہ تک چوبیس گھنٹے پہنچنے میں سہولت فراہم کرے گی۔ NH-844 کے نیرالورو سے دھرما پوری سیکشن کا 94 کلومیٹر طویل 4 لین اور NH-227 کے مینسروتی سے چدمبرم سیکشن کے 31 کلومیٹر طویل 2 لین کو، بالترتیب تقریباً 3870 کروڑ روپے اور 720 روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے، جن سے خطے میں ہموار رابطہ فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس پروگرام کے دوران پانچ ریلوے اسٹیشنوں: چنئی ایگمور، رامیشورم، مدورائی، کٹپاڈی اور کنیا کماری کی تعمیر نو کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ یہ پروجیکٹ 1800 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا، اور جدید سہولیات کی فراہمی کے ذریعے مسافروں کی سہولت اور راحت کو بڑھانے کے مقصد سے شروع کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے چنئی میں تقریباً 1430 کروڑ روپے کے ملٹی ماڈل لاجسٹک پارک کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ یہ ہموار انٹر موڈل مال برداری نقل و حمل فراہم کرے گا اور کئی طرح کے کاموں کی صلاحیت بھی فراہم کرے گا۔","প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে তামিলনাডুত ৩১,৫০০ কোটি টকাৰ অধিক মূল্যৰ ১১ টা প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা উৎসৰ্গা আৰু স্থাপন কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%86%D9%88%D8%AF%DA%BE%D8%B1%DB%8C-%DA%86%D8%B1%D9%86-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%9A/,نئی دہلی۔23 دسمبر، 2017؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیراعظم جناب چودھری چرن سنگھ کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ چودھری چرن سنگھ کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ انہوں نے ملک کی خدمت بہت ہی تندہی سے کی تھی۔ انہوں نے گاؤں کی ترقی کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ کام کیا اور کسانوں کے حقوق کو سرفہرست رکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী চৌধাৰী চৰণ সিঙৰ জন্ম বাৰ্ষিকীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-14-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AA-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 14 جون کو مہاراشٹر کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم ، دوپہر تقریباً 1:45 بجے دیہو، پونے میں جگت گورو شری سنت تُکارام مہاراج مندر کا افتتاح کریں گے۔ شام 4:15 بجے ، وزیر اعظم ممبئی میں واقع راج بھون میں جل بھوشن عمارت اور گیلری آف ریوولوشنریز کا افتتاح کریں گے۔ بعد ازاں، تقریباً 6 بجے شام کو ، وزیر اعظم ممبئی میں، باندرا کرلا کامپلیکس میں ممبئی سماچار کے دُوی شتابدی مہوتسو میں شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم پونے میں وزیر اعظم مودی دیہو، پونے میں جگت گورو شری سنت تُکارام مہاراج مندر کا افتتاح کریں گے۔ سنت تُکارام ایک وارکری سنت اور شاعر تھے، جنہیں ابھنگ مذہبی شاعری اور مذہبی گیت یا کیرتن کے ذریعہ معاشرے پر مبنی عبادت کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ دیہو میں رہتے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد ایک شِلا مندر تعمیر کیا گیا، لیکن اسے رسمی طور پر مندر کی شکل نہیں دی گئی تھی۔ اسے 36 چوٹیوں کے ساتھ پتھروں کی چنائی سے ازسر نو تعمیر کیا گیا ہے ، اور اس میں سنت تُکارام کا مجسمہ بھی موجود ہے۔ وزیر اعظم ممبئی میں وزیر اعظم ممبئی میں واقع راج بھون میں جل بھوشن عمارت اور گیلری آف ریوولوشنریز کا افتتاح کریں گے۔ جل بھوشن 1885 سے مہاراشٹر کے گورنر کی سرکاری رہائش گاہ رہی ہے۔ اس کی مدت حیات مکمل ہونے پر، اس عمارت کو منہدم کر دیا گیا اور اس کی جگہ نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس کا سنگ بنیاد اگست 2019 میں عزت مآب صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ رکھا گیا تھا۔ نوتعمیر شدہ عمارت میں قدیم عمارت کی تمام امتیازی خصوصیات کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ 2016 میں، اُس وقت کے مہاراشٹر کے گورنر، جناب وِدیاساگر راؤ نے راج بھون میں ایک بنکر تلاش کیا تھا۔ انگریزوں کے ذریعہ اس بنکر کو اسلحہ اور گولابارود کے خفیہ ذخیرے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ 2019 میں اس بنکر کی تزئین و آرائش کی گئی۔ مہاراشٹر کے مجاہدین آزادی اور انقلابیوں کے تعاون کی یاد میں، اس بنکر میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد میوزیم تیار کیا گیا ہے۔ یہ میوزیم ، واسودیو بلونت پھڈکے، چافیکر برادران، ساورکر برادران، میڈم بھیکاجی کاما، وی بی گوگٹے، 1946 کی سمندری بغاوت اور دیگر کے ذریعہ پیش کیے گئے تعاون کے لیے خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ وزیر اعظم ممبئی میں واقع باندرا کرلا کامپلیکس میں ممبئی سماچار کے دُوی شتابدی مہوتسو میں شرکت کریں گے۔ ایک ہفتہ واری اخبار کے طور پر ممبئی سماچار کی پرنٹنگ کا آغاز فردون جی مرزبان جی کے ذریعہ یکم جولائی 1822 میں کیا گیاتھا ۔ بعد ازاں ، اس اخبار نے 1832 میں ایک روزنامہ کی شکل اختیار کر لی۔ یہ اخبار 200 برسوں سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس منفرد کارنامہ کے لیے ، اس موقع پر ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا جائے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৪ জুনত মহাৰাষ্ট্ৰ ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دہلی؍09نومبر2017،وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے صنعتی پالیسی اور فروغ کے محکمے کی مندرجہ ذیل تجاویز کو منظوری دے دی ہے۔ نئی دہلی کے دوارکا میں نمائش و کنونشن سینٹر (ای س�� سی) اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پی پی پی اور غیر پی پی موڈ طریقہ کار سے تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔(اس میں نمائش اور کنونشن کے لئے جگہ متعلقہ بنیادی ڈھانچہ، میٹرو؍این ایچ اے آئی کی کنکٹی ویٹی، ہوٹل، دفاتر اور ریٹیل کے لئے جگہ وغیرہ شامل ہے)اس کی تعمیر 2025 تک مکمل ہوگی جس پر لاگت کا تخمینہ 25703 کروڑ روپے ہے۔ اس پروجیکٹ کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے 100 فیصد حصص والی ایک خصوصی مقصد والی سرکاری کمپنی کی تشکیل جو صنعتی پالیسی اور فروغ کے محکمے کے ذریعے قائم کی جائے گی۔ حکومت ہند اس خصوصی مقصد کی کمپنی(ایس پی وی) کو متعلقہ بنیادی ڈھانچے ، نمائش سینٹر کے ایک حصے ، کنونشن سینٹر، میٹرو کنکٹی ویٹی، این ایچ اے آئ کی سڑک کنکٹی ویٹی اور ڈی ڈی اے کو اراضی کے لئے ادا کی جانے والی لاگت، پانی اور سیویج کا بنیادی ڈھانچہ، میٹرو کنکٹی ویٹی کے لئے ریلوے کی زمین اور دیگر غیر پی پی پی عناصر کے لئے اخراجات کی خاطر تین سال کے عرصے کے لئے 2037.39کروڑ روپے کی بجٹ امداد فراہم کرے گی۔ 1381 کروڑ روپے کا حکومت کی ضمانت والے قرض کے طورپر مارکیٹ سے حصول ، سرکار ی ملکیت والی زمین کی فروخت اور ایس پی وی کے سالانہ پروجیکٹ ریوینو کے طورپر 4 ہزار کروڑ روپے کا استعمال ۔ زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اور ایس پی وی کے حاصل کردہ سالانہ ریٹرن کو پروجیکٹ کے غیر پی پی پی عناصر کی فنڈنگ کی لئے استعمال کیا جائے گا۔ ڈی ایم آئی سی ڈی سی پروجیکٹ کے لئے ایک نالج پارٹنر کے طور پر کام کرے گی، جس کے لئے اسے اندرونی اخراجات کا ایک فیصد فیس دی جائے گی، جو کم از کم 5 کروڑ سالانہ اور زیادہ سے زیادہ 10 کروڑ روپے سالانہ تک ہوگی اور ابتدائی دس سال کے لیے ہوگی۔ ایس پی وی کا بورڈ لاگت کے تخمینے کی تفصیلات پر نظر ثانی کرنے ، پروجیکٹ کے کمپونینٹ کی تعداد کو گھٹانے بڑھانے ، پروجیکٹ کے مرحلوں کا تعین کرنےاور پروجیکٹ کے اسکوپ وغیرہ میں تبدیلی کرنے کا اختیار ہوگا، جو پروجیکٹ کے مختلف مرحلوں اور مالی حدود کے اندر طے کیا جائے گا۔ ایس پی وی کوقرضے حاصل کرنے کا بھی اختیار حاصل ہوگا۔ امید ہے کہ اس پروجیکٹ سے 5 لاکھ سے زیادی براہ راست اور بالواسطہ مواقع پیدا ہوں گے۔ روزگار پیدا کرنے کایہ عمل ای سی سی کی سہولیات میں ہوگا اور ای سی سی کے ذریعے زمین کے خردہ ، دفاتر اور میزبانی سے متعلق سہولیات کے لئے استعمال کے ساتھ ہوگا۔ م ن۔و ا۔ن ع (10-11-17),নতুন দিল্লীৰ দ্বাৰকাত প্ৰদৰ্শনী তথা সভাঘৰৰ উন্নয়নৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88-%D8%B1%DB%8C%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA/,نئی دلّی ،28 دسمبر/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج کانپور میٹرو ریل پروجیکٹ کا افتتاح کیا ۔ انہوں نے کانپور میٹرو ریل پروجیکٹ کا معائنہ کیا اور آئی آئی ٹی میٹرو اسٹیشن سے گیتا نگر تک کا میٹرو سے سفر کیا ۔ انہوں نے بینا – پَنکی کثیر مصنوعاتی پائپ لائن پروجیکٹ کا افتتاح کیا ۔ یہ پائپ لائن مدھہ پردیش میں بینا سے کانپور میں پَنکی تک پہنچی ہے اور یہ خطے میں بینا ریفائنری سے پیٹرولیم مصنوعات کی رسائی میں مدد کرے گی ۔ اس موقع پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ ، مرکزی وزیر جناب ہردیپ سنگھ پوری دیگر شخصیات کے ساتھ موجود تھے ۔ وزیر اعظم نے میٹرو کنکٹیویٹی اور پائپ لائن پروجیکٹ کے افتتاح پر کانپور کے عوام کو مبارکباد دی ۔ شہر سے اپنی طویل وابستگی کو یار کرتے ہوئے ، انہوں نے کئی مقامی لوگوں کے حوالے سے اپنی تقریر شروع کی اور کانپور کے خوش باش اور مزاح پسند لوگوں کی باتوں کا حوالہ دیا ۔ انہوں نے دین دیال اپادھیائے ، اٹل بہاری واجپئی اور سندر سنگھ بھنڈاری جیسی شخصیات کی تشکیل میں شہر کے رول کا ذکر کیا ۔ انہوں نے آج کے دن یعنی منگل کے دن کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش پَنکی والے ہنومان جی کے آشیر واد سے اتر پردیش کی ترقی میں ایک اور سنہرے باب کا اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش کی ڈبل انجن والی حکومت آج گزرے ہوئے وقت کے زیاں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوگنی رفتار سے کام کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے اتر پردیش ریاست کی شبیہہ میں تبدیلی کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک ریاست ، جو غیر قانونی ہتھیاروں کے لئے جانی جاتی تھی ، اب دفاعی راہداری کا مرکز ہے اور ملک کے تحفظ اور سلامتی میں تعاون کر رہی ہے ۔ وقت کی حد پر عمل کرنے کے کلچر پر تبصرہ کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ ڈبل انجن والی حکومتیں ، اُن کاموں کو پورا کرنے کے لئے دن رات کام کرتی ہیں ، جن کا آج سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ جناب مودی نے وضاحت کی کہ ہماری حکومت نے کانپور میٹرو کا سنگِ بنیاد رکھا اور ہماری حکومت ہی اِسے وقف کر رہی ہے ۔ ہماری حکومت نے پوروانچل ایکسپریس وے کا سنگِ بنیاد رکھا ، ہماری حکومت نے ہی ، اِس کا کام مکمل کیا ۔ انہوں نے اتر پردیش میں بننے والے سب سے بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈے ، ملک میں سب سے طویل ایکسپریس وے کی تعمیر اور اتر پردیش میں مال برداری کے لئے وقف راہداری جیسی بڑی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا ۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ 2014 ء سے پہلے اتر پردیش میں چلنے والی میٹرو کی کل لمبائی 9 کلو میٹر تھی ۔ 2014 ء اور 2017 ء کے درمیان میٹرو کی لمبائی بڑھ کر 18 کلو میٹر ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آج کانپور میٹرو کو بھی شامل کریں تو ریاست میں میٹرو کی لمبائی ، اب 90 کلو میٹر سے تجاوز کر گئی ہے ۔ ماضی میں غیر یکساں ترقی کو اجاگر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ کئی دہائیوں سے اگر ایک حصہ ترقی کرتا تھا تو دوسرا پیچھے چھوٹ جاتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کی سطح پر سماج میں ، اِس نا برابری کو ختم کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت سب کا ساتھ سب کا وِکاس کے منتر پر کام کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست کی ضروریات کو سمجھنے کے لئے ڈبل انجن کی حکومت ٹھوس کام کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ اس سے پہلے پائپ کے ذریعے پانی اتر پردیش کے کروڑوں گھروں میں نہیں پہنچتا تھا ۔ آج ہم ہر گھر جل مشن کے ذریعے اترپردیش کے ہر گھر میں صاف پانی فراہم کرنے کا کام کر رہے ہیں ۔ ڈبل انجن کی حکومت ، اتر پردیش کو ترقی کی نئی اونچائیوں تک لے جانے کے لئے سنجیدگی اور جوابدہی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ ڈبل انجن کی حکومت جانتی ہے کہ کس طرح بڑے اہداف مقرر کئے جائیں اور کس طرح انہیں حاصل کیا جائے ۔ انہوں نے بجلی کی ترسیل کی صورتِحال ، اس میں بہتری ، شہروں اور دریاؤں میں صفائی ستھرائی کی مثالیں دیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 2014 ء تک شہری غریبوں کے لئے صرف ڈھائی لاکھ مکانات بنائے گئے تھے ، جب کہ پچھلے ساڑھے چار برسوں ک�� دوران 17 لاکھ مکانوں کو منظوری دی گئی ہے ۔ اسی طرح ریڑھی پٹری والوں کو پہلی مرتبہ حکومت کی توجہ ملی ہے اور پی ایم سوا ندھی یوجنا کے ذریعے ریاست میں 7 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو 700 کروڑ روپئے سے زیادہ ملے ہیں ۔ وباء کے دوران حکومت نے ریاست کے 15 کروڑ سے زیادہ شہریوں کے لئے مفت راشن کا بندوبست کیا ۔ 2014 ء میں ملک میں صرف 14 کروڑ ایل پی جی کنکشن تھے ، اب 30 کروڑ سے زیادہ ہیں ۔ صرف اتر پردیش میں ہی 1.60 کروڑ کنبوں کو نئے ایل پی جی کنکشن ملے ہیں ۔ امن و قانون کی بہتر صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے یوگی حکومت کے ذریعے مافیا کلچر کے خاتمے کا ذکر کیا ، جس سے اترپردیش میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے ۔ کاروبار اور صنعت کے کلچر کو فروغ دینے کی خاطر حکومت نے کانپور میں اور فضل گنج میں میگا لیدر کلسٹر کو منظوری دی ہے ۔ ڈیفنس کاریڈور اور ایک ضلع ایک مصنوعات جیسی اسکیموں سے کانپور کے چھوٹے کاروباریوں اور صنعت کاروں کو فائدہ ہوگا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کے ڈر سے اب جرائم پیشہ افراد پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں عہدیداروں کے ذریعے چھاپوں کے ذریعے غیر قانونی رقم کا پتہ لگائے جانے کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ لوگ اب ایسے لوگوں کے ورک کلچر کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ Tweets ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ) (28-12-2021),কানপুৰ মেট্ৰ’ ৰে’ল প্ৰকল্প উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B3%D9%84%D8%B3%D9%84-%D8%AA%DB%8C%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%87-%E0%A6%A4%E0%A7%83/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مسلسل تیسری بار دولت مشترکہ میڈل جیتنے کے لئے بجرنگ پونیا کو مبارکباد دی ہے۔ بجرنگ پونیا نے دولت مشترکہ کھیل ، 2022 میں 65 کلوگرام ریسلنگ کے زمر ےمیں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’باصلاحیت بجرنگ پونیا مستقل مزاجی اور شاندار کارکردگی کا مترادف ہیں۔ انہوں نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ ان کے شاندار کارنامے، ان کے تیسرے مسلسل دولت مشترکہ کھیل میڈل کے لیے ان کو بہت بہت مبارکباد ۔ ان کا جذبہ اور اعتماد دوسروں کو تحریک دیتا ہے۔ میری نیک خواہشات ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,কমনৱেলথ গেমছত একেৰাহে তৃতীয়বাৰৰ বাবে পদক অৰ্জন কৰা বজৰং পুনিয়াক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%81%D8%A7%DA%91%DB%8C-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کی پہاڑی ریاستوں میں ترقی کے بارے میں ایک شہری کے ایک ردعمل کو شیئر کیا ہے، جس میں وزیر اعظم کے عزم کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہاڑی ریاستوں میں ترقی کی روشن مشعل راہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایک شہری کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’میں ہمیشہ سے مانتا آیا ہوں – پہاڑ کی جوانی اور پہاڑ کا پانی پہاڑوں کے کام آنا چاہیے۔ ہماری پہاڑی ریاستوں میں ترقی کی روشن مشعل بننے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে পাহাৰীয়া ৰাজ্যসমূহৰ উন্নয়নক লৈ নাগৰিকৰ প্ৰতিক্ৰিয়া ভাগ বতৰা কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%85%D8%BA%DB%81-%D8%AC%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A6%95-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں مردوں کے 67 کلوگرام زمرے کے باکسنگ مقابلے میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر ہندوستانی باکسر روہت ٹوکس کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ”روہت ٹوکس کے کارنامے سے خوش ہوں۔ میں باکسنگ میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کی محنت اور ثابت قدمی نے بہت اچھے نتائج دیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ آنے والے وقت میں اور بھی کامیابیاں حاصل کرے گا۔ #Cheer4India“,বক্সিংত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে ৰোহিত টোকাছক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%BE%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%8D/,نئی دہلی،06 جنوری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے کسٹمز کے معاملات میں تعاون اور باہمی مدد سے متعلق ہندوستان اور اسپین کے درمیان معاہدے پر دستخط کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ فوائد: یہ معاہدہ کسٹمز کے جرائم کی روک تھام اور تحقیقات اور کسٹمز کی خلاف ورزی کرنےوالوں کی گرفتاری کے لیے قابل اعتماد، فوری اور کم لاگت معلومات اور انٹیلی جنس دستیاب کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے کسٹمز حکام کے درمیان معلومات کے تبادلے کے لیے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرے گا اور کسٹم قوانین کے مناسب انتظام اور کسٹم کے جرائم کی کھوج اور تفتیش اور جائز تجارت میں سہولت فراہم کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ معاہدے میں درج ذیل شرائط شامل ہیں: کسٹم ڈیوٹی کا درست اندازہ، خاص طور پر کسٹم ویلیو کے تعین، ٹیرف کی درجہ بندی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی جانے والی اشیا کی آغازی منزل سے متعلق معلومات؛ کسی بھی دستاویز کی صداقت جو درخواست کرنے والے اتھارٹی کو دیے گئے اعلان (جیسے سرٹیفکیٹ آف اوریجن، انوائس وغیرہ) کی حمایت میں پیش کی گئی ہو۔ درج ذیل کی غیر قانونی نقل و حرکت سے متعلق کسٹم کی خلاف ورزی: اے۔ اسلحہ، گولہ بارود، دھماکہ خیز مواد اور دھماکہ خیز آلات؛ بی۔ آرٹ اور نوادرات کے کام، جو اہم تاریخی، ثقافتی آثار قدیمہ کی قدر کے حامل ہیں؛ سی۔ زہریلا مواد اور دیگر مادے جو ماحول اور صحت عامہ کے لیے خطرناک ہیں۔ ڈی ۔ قابل قدر کسٹم ڈیوٹی یا ٹیکس سے مشروط سازوسامان ؛ ای۔ کسٹم قانون سازی کے خلاف کسٹم جرائم کے ارتکاب کے لیے نئے ذرائع اور طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔,কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটে শুল্ক বিষয়ত সহযোগিতা আৰু পাৰস্পৰিক সহায়ৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু স্পেইনৰ মাজত হোৱা চুক্তিত অনুম���দন জনাইছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D9%B9%D9%86%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%B9%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%B9-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%B1%D8%A7%D8%A8%D8%B7%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%A3-%E0%A6%86%E0%A7%B0/,(1)مرکزی کابینہ نے دانہ پورسے میٹھاپور(2)پٹنہ ریلوے اسٹیشن سے نئے آئی ایس بی ٹی تک دوگلیاروں پرمشتمل پٹنہ میٹروریل پروجیکٹ کی منظوری دے دی دانہ پورسے میٹھاپورتک کے گلیارے کی فاصلے کی طوالت 26.94کلومیٹراور پٹنہ جنکشن سے نئے آئی ایس بی ٹی تک کے گلیارے کی طوالت 14.45کلومیٹرہوگی 13365.77کروڑروپے کی لاگت والایہ میٹروپروجیکٹ 5سال میں مکمل ہوگا نئی دہلی ،14فروری :وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں (1)دانہ پورسے میٹھاپور(2) پٹنہ ریلوے اسٹیشن سے نئے آئی ایس بی ٹی تک دو میٹروریل گلیاروں کی تعمیرکی منظوری دے دی گئی ۔ 13365.77کروڑروپے کی لاگت سے یہ میٹروریل پروجیکٹ 5برس میں مکمل ہوگا۔ پروجیکٹ کی تفصیلات,পাটনাৰ ৰাজহুৱা পৰিবহণ আৰু যোগাযোগ ব্যৱস্থাত উদ্গনি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%84%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D8%A7%D9%84-%D9%B9%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D9%84%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A7%82%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A6%95-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%B2%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم سی ڈبلیو جی 2022 میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر مردوں کی لان بال ٹیم کے کھلاڑی سنیل بہادر، نونیت سنگھ، چندن کمار سنگھ اور دنیش کمار کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ”سنیل بہادر، نونیت سنگھ، چندن کمار سنگھ اور دنیش کمار پر فخر ہے، جنھوں نے لان بال میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ ان کا ٹیم ورک اور استقامت قابل تعریف ہے۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔ #Cheer4India“,ৰূপৰ পদক অৰ্জন কৰা লন বলৰ পুৰুষৰ দলক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A7%87/,نئی دہلی۔28اگست۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں آج مرکزی کابینہ کو ریل کے شعبے میں سائنسی اور تکنیکی تعاون کو مستحکم کرنے اور اسے فروغ دینے کے لئے ریسرچ ڈیزائن اور اسٹینڈرڈ آرگنائزیشن( آر ڈی ایس او) ہندوستان اور کوریا ریل روڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(کے آر آر آئی) کے درمیان تعاون پر مفاہمت نامہ کے بارے میں جانکاری دی گئی۔ اثرات یہ مفاہمت نامہ ہندوستانی ریلوے کے لئے کوریائی ریلوے کے ساتھ مل کر ریلوے کے سیکٹر میں تازہ ترین پیش رفت اور معلومات شیئر کرنے اور لگاتار بات چیت کرنے کاایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔ یہ معلومات شیئر کرنے کے لئے مخصوص تکنالوجی کے شعبوں اور دیگر بات چیت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تکنیکی ماہرین رپورٹوں اور تکنیکی دستاویزات کے تبادلے کے علاوہ تربیت اور سیمیناروں /ورکشاپ کے تبادلے کی راہ ہموار کرے گا۔ تفصیلات یہ مفاہت نامہ مندرجہ ذیل اہم شعبوں میں مخصوص تعاون کا فریم ورک فرام کرے گا۔ آپسی مفادات کے لئے مشترکہ تحقیق کی منصوبہ بندی اور عمل آوری ہندوستان میں جدید ریلوے آر اینڈ ڈی کی سہولتوں کے قیام میں تعاون تکنیکی سیمینار یا فورم کی منصوبہ بندی اور عمل آوری کے ا ٓر آر آئی کے ذریعے آر ڈی ایس اور عملے کے لئے قلیل مدتی تربیتی پروگرام مخصوص پروجیکٹوں کے لئے محدود مدت کے واسطے کے آر آر آئی اور آر ڈی ایس او کے درمیان عملے کے تبادلے کا پروگرام۔ دونوں ملکوں کی ریلوے صنعت کی ترقی کے لئے کنسلٹینسی تعاون کی سرگرمیوں کی کوئی اور دوسری شکل جس پر دونوں فریقوں کے ذریعے اتفاق کیا گیا ہو۔ ریلوے کی وزارت نے مختلف غیرملکی حکومتوں اور نیشنل ریلویز کے ساتھ ریل کے سیکٹر میں تکنیکی تعاون کے لئے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے ہیں۔ تعاون کے نشان زد شعبوں میں ہائی اسپیڈ کوری ڈور، موجودہ راستوں کی رفتار میں اضافہ کرنا، عالمی نوعیت کے اسٹیشنوں کی ترقی، ہیوی ہائی آپریشن اور تمام بنیادی ڈھانچے کی جدید کاری شامل ہیں۔ یہ تعاون ریلوے تکنالوجی اور آپریشن کے شعبوں میں پیش رفت و معلومات کا تبادلے تکنیکی دورے اور آپسی مفاد کے شعبوں میں تربیت/ سیمیناروں اور ورکشاپس پر معلومات کے تبادلے کے ذریعے حاصل کیاجاتا ہے۔,ভাৰত আৰু কোৰিয়াৰ মাজত ৰে’লৱে খণ্ডত সহযোগিতাৰ অৰ্থে স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তি সম্পৰ্কে অৱগত কৰিলে কেবিনেটক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%92-%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-4-5-%D9%84%D8%A7%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%8F%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A7%B0/,نمسکار، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان جی، ریاستی حکومت کے وزراء، ایم ایل اے، پنچایت ممبران، دیگر تمام معززین اور مدھیہ پردیش کے میرے تمام بھائیو اور بہنو، سب سے پہلے، آپ سب کو دھنتیرس اور دیپاولی کی بہت بہت مبارکباد۔ دھنتیرس اور دیپاولی کا یہ موقع ایسا ہے، جب ہم نئی شروعات کرتے ہیں۔ گھر میں نئے رنگ وروغن کرتے ہیں، نئے برتن لاتے ہیں، کچھ نیا شامل کرتے ہیں، اور نئے عزم بھی کرتے ہیں۔ ایک نئی شروعات کر کے ہم زندگی میں نیا پن بھر دیتے ہیں، خوشی اور خوشحالی کا ایک نیا دروازہ کھلتا ہے۔ آج مدھیہ پردیش کے 4.5 لاکھ غریب بہنوں اور بھائیوں کے لیے ایک نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ آج یہ تمام ساتھی اپنے نئے اور پکے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک وقت تھا، جب دھنتیرس پر صرف وہی لوگ گاڑی اور مکان جیسی بڑی اور مہنگی جائیداد خرید سکتے تھے، جن کے پاس وسائلاور پیسے ہوتے تھے ، ان ہی کے لیے دھنتیرس ہوتا تھا۔ لیکن دیکھیں آج ملک کے غریب بھی دھنتیرس پر گرہ پرویش کر رہے ہیں یعنی نئے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ آج میں مدھیہ پردیش کی ان لاکھوں بہنوں کو خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو آج اپنے گھر کی مالکن بنی ہیں، اور آپ کو لاکھوں روپے کے گھر نے لکھ پتی بنا دیا ہے۔ بھائیو اور بہنو، میں ٹیکنالوجی کے ذریعے امنگوں سے بھرے ہوئے لا تعدادلوگوں کو اپنے سامنے بیٹھے دیکھ سکتا ہوں۔ پہلے یہ آرزوئیں، یہ خواب منظرِ عام پر نہیں آتے تھے کیونکہ گھر کے بغیر یہ احساسات دب جاتے، چھپ جاتے، مرجھا جاتے تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ اب جب کہ ان ساتھیوں کو یہ نئے گھر ملے ہیں، انہیں اپنے خوابوں کو سچ کرنے کی نئی طاقت بھی ملی ہے۔ اس لیے یہ دن نہ صرف گھر میں داخل ہونے کا ہے، بلکہ گھر میں خوشیاں، گھر میں نئے عزم، نئے خواب، نیا جوش، نئی خوش قسمتی لانے کا بھی ہے۔ یہ ہماری حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ پچھلے 8 سالوں میں وہ پی ایم آواس یوجنا کے تحت 3.5 کروڑ غریب خاندانوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب پورا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ایسے ہی گھر بنائے اور دیے، چار دیواری بنائی اور دے دی۔ ہماری حکومت غریبوں کے لیے وقف ہے، اس لیے وہ غریبوں کی خواہش، ان کے ذہن، ان کی ضروریات کو سب سے زیادہ سمجھتی ہے۔ ہماری حکومت جو گھر فراہم کرتی ہے، اس کے ساتھ دیگر سہولیات بھی آتی ہیں۔ بیت الخلا ہو، بجلی ہو، پانی ہو، گیس ہو، حکومت کی مختلف اسکیمیں پردھان منتری آواس یوجنا کے ان کروڑوں گھروں کو مکمل کرتی ہیں۔ ساتھیوں، آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے پہلے کا حال بھی یاد آرہا ہے، پہلے بھی اگر غریبوں کے لیے گھر کا اعلان ہوتا تھا تو الگ ٹوائلٹ بنانا پڑتا تھا۔ بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن کے لیے مختلف سرکاری دفاتر کے کئی چکر لگانے پڑتے تھے ۔ پہلے کی حکومتوں میں اس سارے عمل کو مکمل کرنے کے لیے غریبوں کو کئی دفاتر میں رشوت دینی پڑتی تھی۔ یہی نہیں، پہلے غریبوں کے نام پر مکانات کا اعلان کیا جاتا تھا، پھر حکومت بتاتی تھی کہ فلاں گھر بنے گا، یہ حکم دیتی تھی۔ وہ ہی نقشہ دیتی تھی، یہیں سے سامان لانا ہے ، وہی چیزیں لینی ہے ۔ جس نکو اس گھر میں رہنا ہے، اس کی کچھ پسند، ناپسند ہے، اس کی اپنی سماجی روایات ہیں، اس کا اپنا رہن سہن ہے۔ اس کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے جو چند گھر بنائے گئے تھے، ان میں سے اکثر میں گریہ پرویش کبھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن ہم نے یہ آزادی گھر کی مالکن کو، گھر کے مالک کو دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پی ایم آواس یوجنا بہت بڑی سماجی و اقتصادی تبدیلی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نسل اپنی حاصل کردہ دولت اگلی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ یہاں کی سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ بے گھر ہونے کو اگلی نسل کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے اور جو بچہ نسلوں کے اس شیطانی چکر کو توڑتا تھا، اس کی بہت تعریف و توقیر کی جاتی تھی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ملک کے خادم کی حیثیت سے، ملک کی کروڑوں ماؤں کے بچے ہونے کے ناطے مجھے اپنے کروڑوں غریب خاندانوں کو اس شیطانی چکر سے نکالنے کا موقع ملا ہے۔ ہماری حکومت ہر غریب کو اپنی پکی چھت دینے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اسی لیے آج اتنی بڑی تعداد میں گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بھی پی ایم آواس یوجنا کے تحت تقریباً 30 لاکھ گھر بنائے گئے ہیں۔ فی الحال 9-10 لاکھ گھروں پر کام جاری ہے۔ ساتھیوں، لاکھوں کی تعداد میں بننے والے یہ گھر ملک کے کونے کونے میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ آج صبح جب میں روزگار میلے کے پروگرام میں تھا۔ تو میں نے خصوصی طور پر کہا تھا کہ میں شام کو گرہ پرویش کے پروگرام میں شرکت کرنے جا رہا ہوں، اور میں سب کو بتانے جا رہا ہوں کہ اس کا ساتھی بھی کس طرح ملازمت میں مصروف ہے۔ ساتھیوں، آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب گھر بنتے ہیں تو تعمیرات سے متعلق سامان، جیسے اینٹ، سیمنٹ، ریت، بجری،ا سٹیل، پینٹ، بجلی کی اشیاء، بیت الخلا کی نشستیں، نلکے، ان تمام چیزوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ جب یہ ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے تو یہ میٹریل بنانے والی فیکٹریاں زیادہ لوگ رکھتی ہیں، زیادہ ٹرانسپورٹرز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان کو ملازمت دیتے ہیں۔ جن دک��نوں پر یہ سامان فروخت ہوتا ہے وہاں لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے۔ اور یہ بات ستنا سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ ستنا چونا پتھر، سیمنٹ کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ جب گھر بنتے ہیں تو ستنا کے سیمنٹ کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ مکانات کی تعمیر سے منسلک مزدور، مستری، بڑھئی، پلمبر، پینٹر، فرنیچر بنانے والوں کو بھی بہت زیادہ کام ملتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش میں ہی 50 ہزار سے زیادہ مستریوں کو تربیت دی گئی ہے۔ان میں سے 9-10 ہزار ہماری مائیں بہنیں ہیں، لوگ انہیں راج مستری بھی کہتے ہیں، لوگ انہیں رانی مستری بھی کہتے ہیں۔ یعنی اپنی بہنوں کو ایک نئے فن سے جوڑنے کا کتنا بڑا کام ہے، پی ایم آواس یوجنا کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ورنہ تعمیرات کے میدان میں بہنوں کو صرف غیر ہنر مند مزدور سمجھا جاتا تھا۔ اب تک مدھیہ پردیش میں ہی ان گھروں کو بنانے میں 22 ہزار کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اب آپ بھی سوچیں کہ 22 ہزار کروڑ کہاں گئے؟ گھر تو بن گیا، لیکن جس پیسے سے گھر بنایا گیا وہ مدھیہ پردیش کے مختلف کاموں میں گیا، لوگوں کے گھر گیا، دکانداروں کو مل گیا، فیکٹری والوں کو مل گیا تاکہ لوگوں کی آمدنی بڑھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر سب کے لیے ترقی لا رہے ہیں۔ جس کو گھر ملتا ہے وہ بھی ترقی کرتا ہے اور جس گاؤں میں گھر بنتے ہیں وہاں کے لوگ بھی ترقی کرتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، پہلے کی حکومتوں اور ہماری حکومتوں میں بڑا فرق ہے۔ پہلے کی حکومتیں غریبوں کو ترساتی تھیں، انہیں اپنے دفتروں کے چکر لگواتی تھیں۔ ہماری حکومت خود غریبوں تک پہنچ رہی ہے، تاکہ غریبوں کو ہر اسکیم کا فائدہ ملے، اس کے لیے وہ مہم چلا رہی ہے۔ آج ہم سیچوریشن کی بات کر رہے ہیں، یعنی عوامی بہبود کی ہر اسکیم کا فائدہ مستحقین تک کیسے پہنچے؟ کوئی اقربا پروری نہیں، کوئی تمہارا یا میرا نہیں، یہ دینا ہے، یہ نہیں دینا ہے، جس کا حق ہے سب کو دینا ہے۔ سب کو تیزی سے پکے گھر مل گئے۔ چاہے وہ گیس ہو، بجلی کا کنکشن، پانی کا کنکشن، آیوشمان بھارت کے تحت 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج، سب کو جلدی ملنا چاہیے۔ اچھی سڑکیں، اچھے اسکول، کالج اور اچھے اسپتال تک ہر کسی کی رسائی ہونی چاہیے۔ گاؤں گاؤں آپٹیکل فائبر تیزی سے پہنچ گیا۔ ہم اس کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ آخر ہم اس جلدی میں کیوں ہیں، اس کے لیے اتنے بے صبرے کیوں ہیں؟ اس کے پیچھے ماضی کا بہت بڑا سبق ہے۔ ایسی ہر بنیادی سہولیات پچھلی کئی دہائیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ ملک کی ایک بہت بڑی آبادی ان بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کرتی تھی۔ اس کے پاس دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ اس لیے غربت کے خاتمے کا ہر وعدہ، ہر دعویٰ صرف سیاست ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے کسی کے لیے کام نہیں کیا۔ کمانڈر خواہ کتنا ہی پرجوش کیوں نہ ہو لیکن اگر فوجیوں کو لڑائی کے لیے بنیادی سہولیات میسر نہ ہوں تو جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ اسی لیے ہم نے غربت سے نکلنے، غربت کو شکست دینے کے لیے ملک کے ہر شہری کو ان بنیادی سہولیات سے تیزی سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اب غریب سہولتوں سے آراستہ ہو کر اپنی غربت کو تیزی سے کم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اور پھر میں آپ کو بتاؤں ، یہ گھر جوآپ کو دیا گیا ہے، ہے نا؟ یہ صرف رہنے، کھانے، پینے، سونے کی جگہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ گھر ایسا قلعہ ہےجو غربت کو داخل نہیں ہونے دے گا، باقی غربت بھی دور ہو جائے گی، ایسا قلعہ آپ گھر ہے۔ بھائیو اور بہنو، گزشتہ کئی مہینوں سے مرکز�� حکومت 80 کروڑ سے زیادہ ملک کے باشندوں کو مفت راشن دے رہی ہے تاکہ عالمی وبا کے وقت انہیں بھوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے مرکزی حکومت اب تک پی ایم غریب کلیان انیہ یوجنا پر 3 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر چکی ہے اور میں آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں۔ جب ٹیکس دہندہ محسوس کرتا ہے کہ جو ملک کا خزانہ بھرتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، جب انہیں لگتا ہے کہ ان کا پیسہ صحیح جگہ خرچ ہو رہا ہے، تو ٹیکس دہندہ بھی خوش، مطمئن اور زیادہ ٹیکس ادا کرتا رہتا ہے۔ آج ملک کے کروڑوں ٹیکس دہندگان مطمئن ہیں کہ وہ کورونا کے دور میں کروڑوں لوگوں کو کھانا کھلانے میں مدد کر کے کتنی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ آج جب میں چار لاکھ گھر دے رہا ہوں تو ہر ٹیکس دہندہ یہ سوچ رہا ہوگا کہ چلو میں دیوالی منا رہا ہوں لیکن میرا مدھیہ پردیش کا غریب بھائی بھی اچھی دیوالی منا رہا ہے، اسے پکا گھر مل رہا ہے۔ اس کی بیٹی کی زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی۔ لیکن ساتھیو، جب وہی ٹیکس دہندہ دیکھتا ہے کہ اس سے جمع کی گئی رقم میں مفت ریوڑی تقسیم کی جارہی ہے تو ٹیکس دہندہ سب سے زیادہ ناخوش ہوتا ہے۔ آج ایسے بہت سے ٹیکس دہندگان کھلے دل سے مجھے خط لکھ رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ملک کو ریوڑی کلچر سے نجات دلانے کے لیے کمر بستہ ہے۔ ساتھیو، ہماری حکومت کا مقصد شہریوں کی امنگوں کو پورا کرنے کے علاوہ غریب، متوسط طبقے کا پیسہ بچانا بھی ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت اب تک تقریباً 4 کروڑ غریب مریضوں نے مفت علاج کی سہولت حاصل کی ہے۔ اس کی وجہ سے ان تمام خاندانوں کے ہزاروں کروڑ روپے بچ گئے ہیں، جو حکومت نے برداشت کیے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کورونا کے دور میں مفت ویکسینیشن پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے گئے، تاکہ غریب، متوسط طبقے کو اس موذی مرض کی ناگہانی آفت کی وجہ سے جیب سے خرچ نہ کرنا پڑے، قرضے نہ لینے پڑیں۔ پہلے کورونا آیا، پھر دنیا میں جنگ آئی، جس کی وجہ سے آج ہمیں دنیا سے مہنگی کھاد خریدنی پڑ رہی ہے۔ ہم کسانوں کو صرف 266 روپے میں یوریا فراہم کر رہے ہیں، جس کی قیمت آج 2000 روپے سے زیادہ ہے۔ 2000 ہزار روپے کے تھیلے 300 روپے سے کم میں دیئے جاتے ہیں۔ کسانوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے، اس لیے اس سال حکومت اس کے پیچھے 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت کی پی ایم کسان سمان ندھی بھی کسانوں کے لیے ایک وردان یعنی نعمت ثابت ہو رہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا، 16 ہزار کروڑ کی قسط جو کچھ دن پہلے بھیجی گئی تھی، فوری طور پر ہر استفادہ کنندگان کسان تک پہنچ گئی۔ ابھی ہماری حکومت نے کسانوں کے بینک کھاتوں میں 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ جمع کرائے ہیں۔ اور یہ مدد اس وقت پہنچی جب بوائی کا وقت ہوتا ہے، جب کسان کو کھاد کی ضرورت ہوتی ہے، ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسان فصل بیچتے ہیں تو اب پیسے بھی براہ راست بینک اکاؤنٹ میں آتے ہیں۔ منریگا کی رقم بھی براہ راست بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ہماری حاملہ ماؤں کو اچھی خوراک کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ماتر ی وندنا یوجنا کے ہزاروں روپے براہ راست ان تک پہنچتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، اگر آج حکومت یہ سب کچھ کر پاتی ہے تو اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ آپ سب کی خدمت، لگن ہے اور چاہے کوئی ہم پر کتنی ہی تنقید کرے، ہم لگن اور آپ کے آشیرواد کے ساتھ، سیاسی عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ٹیکنالوجی اتنے بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہی ہے۔ ہمارے سائنسدان، ہمارے نوجوان جو بھی نئی ٹیکنالوجی دریافت کرتے ہیں، اسے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج دیکھیں ڈرون کے ذریعے گاؤں گاؤں گھر کا سروے کیا جا رہا ہے۔ پہلے جو کام پٹواری کرتے تھے، محکمہ ریونیو کے ملازمین کرتے تھے، اب وہی کام ٹیکنالوجی کے ساتھ ڈرون آکر کرتے ہیں۔ ملک میں پہلی بار سوامیتوا اسکیم کے تحت گاؤں کے مکانات کے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں اور گاؤں والوں کو ملکیت کا سرٹیفکیٹ دیا جا رہا ہے۔ تاکہ سرحدی تنازعات نہ ہوں، کوئی مکان پر ناجائز قبضہ نہ کر سکے اور ضرورت پڑنے پر بینکوں سے قرض بھی حاصل کر سکے۔ اسی طرح جب زراعت میں بڑے پیمانے پر ڈرون کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے تو کسانوں کو ڈرون کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ہم نے کسانوں کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ ملک بھر میں موجود لاکھوں کھاد کی دکانوں کو پردھان منتری کسان سمردھی کیندر کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ اب کسانوں کو ان کسان کیندروں میں ایک ہی جگہ پر ضرورت کی ہر چیز مل جائے گی۔ مستقبل میں ان مراکز پر بہت سے زرعی آلات اور یہاں تک کہ ڈرون بھی کرائے پر دستیاب ہوں گے۔ یوریا کے حوالے سے بھی بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اب کون سی کمپنی کا یوریا لیں ، کون سی کمپنی کا نہ لیں ، کسان کو اس مشکل سے آزادی مل گئی ہے۔ اب ہر کھاد بھارت کے نام پر ملے گی۔ اس میں قیمت بھی صاف لکھی ہوئی ہے۔ جو لکھا ہے اس سے زیادہ کسان کو دینے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی کوششوں سے کسانوں اور غریبوں کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ ہم سب ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے کام کریں گے۔ ایک بار پھر میں اپنے پکے گھر کے تمام مستفید ین کو مبارکباد دیتا ہوں اور میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ آپ کتنے خوش ہیں۔ تین تین، چار چار نسلیں گذر گئی ہوں گی،لیکن کبھی اپنے گھر میں دیوالی نہیں منائی۔ آج جب آپ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ہی گھر میں دھن تیرس اور دیپاولی منا رہے ہیں، تو اس دیئے کی روشنی آپ کی زندگی میں ایک نئی روشنی لائے گی، میں آپ سب کو بہت بہت مبارکباددیتا ہوں۔ خدا کی رحمتیں آپ کے ساتھ رہیں اور یہ نیا گھر نئی ترقی کی وجہ بن جائے، یہی میری نیک خواہش ہے۔ بہت بہت شکریہ!,মধ্যপ্ৰদেশৰ পিএমএৱাই-জিৰ ৪.৫ লাখৰো অধিক হিতাধিকাৰীৰ ‘গৃহ প্ৰৱেশ’ৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰলিখিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-75000-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%B1%D9%88%D9%BE%DB%92-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE-2/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج مہاراشٹر میں 75,000 کروڑ سے زیادہ کے مختلف منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور قوم کے نام وقف کیا۔ اس میں 1500 کروڑ سے زیادہ مالیت کے قومی ریل منصوبے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ون ہیلتھ (این آئی او)، ناگپور اور ناگ ندی، ناگپور کی آلودگی میں کمی کا منصوبہ شامل ہیں۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے ’سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف پیٹرو کیمیکل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (سی آئی پی ای ٹی)، چندر پور‘ کو بھی قوم کے نام وقف کیا اور ’سینٹر فار ریسرچ، مینجمنٹ اینڈ کنٹرول آف ہیموگلوبینو پیتھیز، چندرپور‘ کا افتتاح کیا۔ اس سے قبل آج، وزیر اعظم نے ناگپور سے بلاس پور تک وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر رو��نہ کیا، ’ناگپور میٹرو فیز I‘ کو قوم کے نام وقف کیا، اور ’ناگپور میٹرو فیز II‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے ہندو ہردے سمراٹ بالاصاحب ٹھاکرے مہاراشٹر سمردھی مہا مارگ کے پہلے مرحلے کا بھی افتتاح کیا جو 520 کلومیٹر کا احاطہ کرتا ہے اور ناگپور اور شرڈی کو جوڑتا ہے۔ وزیر اعظم نے ایمس ناگپور کو بھی قوم کے نام وقف کیا جو کہ 1575 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیا جانے والا جدید ترین سہولیات کے ساتھ ایک ہسپتال ہے، جس میں او پی ڈی، آئی پی ڈی، تشخیصی خدمات، آپریشن تھیٹر اور میڈیکل سائنس کے تمام بڑے اسپیشلٹی اور سپر اسپیشلٹی شعبوں کا احاطہ کرنے والے 38 شعبے ہیں۔ یہ ہسپتال مہاراشٹر کے ودربھ علاقے کو صحت کی جدید سہولیات فراہم کرتا ہے اور گڈچرولی، گونڈیا اور میل گھاٹ کے آس پاس کے قبائلی علاقوں کے لیے ایک اعزاز ہے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سنکشٹی چترتھی کے پر مسرت موقع پر مبارکباد دی اور بھگوان گنپتی کی ستائش کی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ بہت ہی خاص دن ہے جب ناگپور سے ترقیاتی کاموں کا ایک گلدستہ لانچ کیا جا رہا ہے، جو مہاراشٹر کے لوگوں کی زندگیوں کو بدل دے گا۔ ”آج مہاراشٹر کی ترقی کے لیے گیارہ نئے ستاروں کا ایک برج طلوع ہو رہا ہے جو نئی بلندیوں کو حاصل کرنے اور ایک نئی سمت فراہم کرنے میں مدد کرے گا“، انھوں نے کہا۔ تمام 11 منصوبوں کی فہرست بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا، ”ہندو ہردے سمراٹ بالا صاحب ٹھاکرے مہاراشٹر سمردھی مہا مارگ اب ناگپور سے شرڈی تک تیار ہے، ایمس سے ودربھ کے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا، نیز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ون ہیلتھ کا قیام، آئی سی ایم آر کے تحقیقی مرکز کا قیام۔ چندرپور، CIPT چندرپور کا قیام، ناگ ندی کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ناگپور میں مختلف پروجیکٹ، میٹرو فیز I کا افتتاح اور فیز II کا سنگ بنیاد رکھنا، ناگپور سے بلاس پور کے درمیان وندے بھارت ایکسپریس، 'ناگپور کی تعمیر نو کا منصوبہ۔ اور ’اجنی‘ ریلوے اسٹیشن، اجنی میں 42 ہزار ہارس پاور ریل انجن کے مینٹیننس ڈپو کا افتتاح اور ناگپور-اٹارسی لائن کے کوہلی-نرکھیڈ روٹ کا افتتاح شامل ہے۔ وزیر اعظم نے مہاراشٹر کے لوگوں کو ان مکمل اور آنے والے منصوبوں کے لیے مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج کے پروجیکٹ مہاراشٹر کی ڈبل انجن والی حکومت کے کام کی رفتار کا ثبوت ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سمردھی مہا مارگ نہ صرف ناگپور اور ممبئی کے درمیان فاصلے کو کم کر رہا ہے بلکہ مہاراشٹر کے 24 اضلاع کو جدید رابطے سے جوڑ رہا ہے۔ روزگار کے مواقع میں اضافے کے علاوہ، وزیر اعظم نے کہا کہ کنیکٹیویٹی کے ان منصوبوں سے کسانوں، مذہبی مقامات کے زائرین اور صنعتوں کو فائدہ پہنچے گا جو اس خطے میں واقع ہیں۔ ان منصوبوں کی اندرونی منصوبہ بندی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جن منصوبوں کا آج افتتاح کیا گیا ہے وہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے مجموعی وژن کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ”ایمس ناگپور ہو یا سمردھی مہا مارگ، وندے بھارت ایکسپریس ہو یا ناگپور میٹرو، یہ سبھی پروجیکٹ اپنی خصوصیات میں مختلف ہو سکتے ہیں لیکن جب گلدستے کی شکل میں ایک ساتھ رکھا جائے گا تو ایک مکمل ترقی کا نچوڑ ہر شہری تک پہنچے گا،“ انھوں نے کہا۔ ڈبل انجن والی حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ چاہے وہ عام آدمی کے لیے صحت کی دیکھ بھال ہو یا دولت کی تخلیق کی بات ہو، چاہے وہ کسان ک�� با اختیار بنانا ہو یا پانی کا تحفظ کرنا، یہ پہلا موقع ہے جہاں حکومت نے بنیادی ڈھانچے کو انسانی شکل دی ہے جہاں ایک انسانی لمس ہر ایک کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے مجموعی وژن کی مثال دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا، ”آیوشمان بھارت اسکیم جو ہر غریب کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج فراہم کرتی ہے، ہمارے سماجی انفراسٹرکچر کی ایک مثال ہے، کاشی سے کیدارناتھ، اجین تا پنڈھارپور ہمارے عقیدے کے مقامات کی ترقی ہمارے ثقافتی انفراسٹرکچر کی ایک مثال ہے، جن دھن یوجنا، جو 45 کروڑ سے زیادہ غریب لوگوں کو بینکنگ سسٹم سے جوڑتی ہے، ہمارے مالیاتی ڈھانچے کی ایک مثال ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ناگپور ایمس جیسے جدید اسپتال اور میڈیکل کالج کھولنے کی مہم میڈیکل انفراسٹرکچر کی ایک مثال ہے۔ ”انفراسٹرکچر صرف بے جان سڑکوں اور فلائی اوور کا احاطہ نہیں کر سکتا، اس کی وسعت بہت زیادہ ہے“، انہوں نے مزید کہا۔ وزیر اعظم نے گوسی خرد ڈیم کی مثال دی جس کا سنگ بنیاد تیس سے پینتیس سال قبل رکھا گیا تھا جس پر تقریباً 400 کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن اسے کبھی مکمل نہیں کیا گیا۔ جناب مودی نے نشاندہی کی کہ ڈیم کی تخمینہ لاگت اب بڑھ کر 18 ہزار کروڑ روپے ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2017 میں ڈبل انجن والی حکومت کے قیام کے بعد اس ڈیم پر کام تیز کر دیا گیا ہے اور ہر مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نے اطمینان کا اظہار کیا کہ اس سال یہ ڈیم مکمل طور پر بھر گیا ہے۔ وزیر اعظم نے دہرایا، ”آزادی کے امرت کال میں، ملک ترقی یافتہ ہندوستان کے عظیم عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اسے قوم کی اجتماعی طاقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے ریاست کی ترقی ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کا منتر ہے۔ تجربے سے سیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ جب ترقی محدود ہوتی ہے تو مواقع بھی محدود ہوتے ہیں۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ جب تعلیم چند لوگوں تک محدود تھی تو قوم کا ٹیلنٹ سامنے نہیں آ سکتا تھا، جب بہت کم لوگوں کی بینکوں تک رسائی تھی، تجارتی کاروبار بھی محدود رہتا تھا اور جب بہتر رابطے محدود ہوتے تھے۔ صرف چند شہروں تک ترقی بھی اسی حد تک محدود تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے نتیجے میں نہ تو ملک کی بڑی آبادی ترقی کے مکمل فائدے حاصل کر رہی تھی اور نہ ہی ہندوستان کی حقیقی طاقت سامنے آ رہی تھی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ پچھلے 8 سالوں میں یہ سوچ اور نقطہ نظر دونوں ہی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے اصولوں کے ساتھ بدل گئے ہیں۔ جناب مودی نے تبصرہ کیا، ”جو پہلے محروم تھے وہ اب حکومت کی ترجیح بن گئے ہیں۔“ کسانوں کی قیادت میں ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے جناب مودی نے نشاندہی کی کہ ودربھ کے کسانوں کو بھی پی ایم کسان سمان ندھی کا بڑا فائدہ ملا ہے اور یہ حکومت ہے جس نے مویشی پالنے والوں کو ترجیح دیتے ہوئے کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے منسلک کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ہندوستان میں شارٹ کٹ کی سیاست کے ابھرنے کے بارے میں بھی سب کو خبردار کیا۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ سیاسی جماعتیں سیاسی مفادات کے لیے ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی کو لوٹ رہی ہیں اور جھوٹے وعدے کرکے حکومت سازی کے لیے شارٹ کٹ اپنا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک اگلے 25 سالوں میں ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی طرف کام کر رہا ہے، کچھ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہندوستان کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ وزیر اعظم نے پہلے صنعتی انقلاب سے فائدہ نہ اٹھانے اور دوسرے تیسرے صنعتی انقلاب کے دوران پیچھے رہنے کے کھوئے ہوئے مواقع پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جب چوتھے صنعتی انقلاب کا وقت ہے تو ہندوستان اس سے محروم نہیں رہ سکتا۔ ”کوئی بھی ملک شارٹ کٹ کے ساتھ نہیں چل سکتا، ملک کی ترقی کے لیے طویل مدتی وژن کے ساتھ مستقل حل بہت ضروری ہے“، جناب مودی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ وزیر اعظم نے جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے ممالک کی مثالیں دیں جو کبھی غریب سمجھے جاتے تھے لیکن انفراسٹرکچر میں تیزی کے ساتھ اپنی تقدیر بدلنے میں کامیاب ہوئے اور اب معیشت کے بہت بڑے مراکز بن چکے ہیں۔ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ سرکاری خزانے کی ایک ایک پائی نوجوان نسل کے روشن مستقبل کی تعمیر پر خرچ کی جائے۔ وزیر اعظم نے ملک کے نوجوانوں اور ٹیکس دہندگان پر بھی زور دیا کہ وہ خود غرض سیاسی جماعتوں کو بے نقاب کریں جو ’کم کمائیں زیادہ خرچ کریں‘ کی پالیسی پر چلتی ہیں۔ وزیر اعظم نے دنیا کے بہت سے ممالک کو اجاگر کیا جہاں اس طرح کی غلط پالیسی سازی کی وجہ سے پوری معیشتیں تباہ ہو گئیں۔ دوسری جانب وزیراعظم نے ملک میں پائیدار ترقی اور پائیدار حل کی کوششوں کے لیے عوام کی حمایت پر مسرت کا اظہار کیا۔ ”گجرات میں انتخابی نتائج مستقل ترقی اور مستقل حل کی اقتصادی پالیسی کا نتیجہ ہیں“، وزیر اعظم نے مزید کہا۔ اس موقع پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب ایکناتھ شندے، مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس اور سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری اس موقع پر موجود تھے۔","প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মহাৰাষ্ট্ৰত ৭৫,০০০ কোটি টকাৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে আৰু প্ৰকল্পসমূহ দেশবাসীলৈ উৎসৰ্গা কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%BE%DB%8C%D9%B9-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE%D9%88-%D8%8C-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئیدہلی۔23؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کارپیٹ ایکسپو وارانسی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جو خطاب کیا تھا اس کا متن حسب ذیل ہے: نمسکار! وارانسی میں موجود میری وزارتی کونسل کی ساتھی اسمرتی ایرانی جی، کارپیٹ سیکٹر سے جڑے سبھی کاروباری حضرات ، میرے بُنکر بھائی بہن اور وہاں موجود دیگر سبھی حضرات۔ کاشی کی مقدس سرزمین پر ملک بھر سے آئے اور بیرون ملک سے تشریف لائے آپ سبھی کا میں دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ دنیا کے قریب 38 ملکوں کے ڈھائی سو سے زائد مہمان اس ایکسپو کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ جموں وکشمیر ، مغربی بنگال اور ملک کی دیگر ریاستوں کے بھی کارپیٹ سیکٹر سے جڑے لوگ وہاں موجود ہیں۔ میں بنارس کے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ سبھی کا بنارس میں بہت بہت استقبال کرتا ہوں۔ ساتھیو، ملک میں آج کل تیوہاروں کا موسم ہے، دسہرے اور دُرگا پوجا کے بعد مجھے ٹیکنالوجی کے وسیلے سے بنارس سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔ آپ سبھی لوگ دھن تیرس اور دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے، یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب آپ سبھی سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ ان دنوں عام دنوں کے مقابلے کام ذرا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ آپ کی محنت کا ، آپ کے فن کا انعام کو ملے اس کے لئے بھی یہ سب سے بہتر وقت ہوتا ہے۔ ساتھیو، وارانسی اور یوپی کے بنکر اور کاروباری بھائی بہنوں کیلئے تو اس بار کے تیوہار دوہری خوشیاں لے کر کے آئے ہیں۔ دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر میں پہلی بار انڈیا کارپیٹ ایکسپو کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس کے لئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ اب دلّی کے ساتھ ساتھ وارانسی میں بھی ہندوستان کی قالین کی صنعت یعنی کارپیٹ انڈسٹری کو ہمارے بنکرو ں کو، ڈیزائنروں کو اور کاروباریوں کو اپنی ہنرمندی اور اپنی پیداوار دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ جن نشانوں کو لیکر دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر کی تعمیر کی گئی تھی ، ان نشانوں کی تکمیل کی طرف ہم انتہائی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ شعبہ بنکروں کا اور کارپیٹ صنعت کا ہب ہے۔ یہاں ملک کے ہینڈی کرافٹ سے جڑے تقریباً ایک چوتھائی بنکر ، مزدور اور کاروباری بھائی بہن رہتے ہیں۔ وارانسی ہو، بھدوئی ہو یا مرزا پور ہو، یہ کارپوریٹ صنعت کے مرکز رہے ہیں اور اب مشرقی ہندوستان کا یہ پورا علاقہ ملک کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا بھی گلوبل ہب بن رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر بھی ہینڈی کرافٹ کے معا ملے میں بھی اس بین الاقوامی شناخت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ساتھیو، سرکار کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہینڈی کرافٹ چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے ٹیکنالوجی سے لیکر تشہیر اور توسیع تک پر زور دیا جائے۔ وہاں سہولیات بہم کرائی جائیں جہاں پر پیداوار ہوتی ہے۔ اس بار وارانسی میں منعقد یہ انڈیا کارپیٹ ایکسپو اسی کڑی میں ایک اور بڑا قدم تو ہے ہی، ساتھ ہی ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے ہمارے فائیو ایپ کے تصور کا بھی اہم ستون ہے اور جب میں فائیو ایپ کہتا ہوں، تو فائیو ایپ کا مطلب ہے فارم سے فائبر تک ، فائبر سے فیکٹری تک ، فیکٹری سے فیشن تک اور فیشن سے فارن تک یہ کسان اور بنکروں کو دنیا بھر کے بازاروں سے سیدھے طور پر جوڑنے کی ایک بہت ہی بڑی کوشش ہے۔ آنے والے چار دنوں کے دوران ان ایکسپو میں ایک سے ایک بہترین ڈیزائنوں کی نمائش کی جائے گی ، کروڑوں روپیوں کاکاروبار ہوگا ، معاہدے ہوں گے، بزنس کے نئے مواقع کھلیں گے اور بنکروں کو نئے آرڈر ملیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں بیرون ملک سے جو کاروباری بھائی آئے ہیں وہ بھی ہماری تہذیب ، کاشی اور ہندوستان کے بدلے ہوئے کاروباری ماحول کا تجربہ حاصل کرپائیں گے۔ ساتھیو، ہمارے ملک میں ہینڈی کرافٹ کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی سوت کاتنے میں ہتھ کرگھے کی عظیم روایت رہی ہے۔ بنارس کی دھرتی کا تو اس میں اور بھی زیادہ اہم کردار رہا ہے۔ بنارس کی جتنی پہچان کبیر سے جڑی ہے اتنی ہی ہینڈی کرافٹ سے بھی جڑی ہے۔ سنت کبیر سوت بھی کاتتے تھے اور اس کے ذریعے زندگی کا پیغام بھی دیتے تھے۔ کبیر داس جی نے کہا ہے۔ کہی کبیر سنو ہو سنتو، چرخا لکھے جو کوئے جو یہ چرخا لکھ بھئے ، تاکو آواگمن نہ ہوئے یعنی چرخازندگی کا نچوڑ ہے اور جس نے اسے سمجھ لیا اس نے زندگی کا مفہوم بھی سمجھ لیا۔ جہاں ہینڈی کرافٹ یا دستکاری کو زندگی کے اتنے عظیم فلسفے سے جوڑا گیا ہو وہاں بنکروں کی زندگی کو آ��ان بنانے کیلئے جب اس طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں تو بڑی تشفی اور اطمینان کاا حساس ہوتا ہے۔ ساتھیو، ہمارے ملک میں دستکاری یعنی ہینڈی کرافٹ ، تجارت اور کاروبار سے بھی بالاتر حوصلہ افزائی کا، آزادی کیلئے جدوجہد کا اور خودکفالتی یعنی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا سب سے بڑاوسیلہ رہا ہے۔ گاندھی جی ،ستیہ گرہ اور چرخے کی ہماری تحریک آزادی میں کیا اہمیت رہی ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ دستکاری یعنی ہینڈی کرافٹ کے وسیلے سے خودکفالتی کے اس پیغام کو مضبوط بنانے کیلئے آپ سبھی کے تعاون سے سرکار مسلسل کوششیں کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ کارپیٹ یعنی قالین اور غالیچے تیار کرتا ہے۔ گزشتہ چار برسوں سے تو ہاتھ سے بنائے گئے قالین کے معا ملے میں تو ہم دنیا بھر میں ٹاپ پر ہیں یعنی سرفہرست ہیں۔ یہ لاکھوں بنکروں ، ڈیزائنروں ، کاروباریوں کی محنت اور سرکار کی پالیسیوں کے سبب ہی ممکن ہوسکا ہے۔ ساتھیو، آج دنیا بھر کے کارپیٹ بازار کا ایک تہائی سے زائد یعنی 35 فیصد حصہ ہندوستان کے پاس ہے اور آئندہ دو تین برسوں میں 50 فیصد تک ہوجانے کا امکان ہے۔ یعنی آئندہ برسوں میں دنیا میں کارپیٹ کا جتنا بھی کاروبار ہوگا اس کا نصف ہندوستان کے پاس ہوگا یعنی آپ سبھی کے پاس ہوگا۔ ہم نے پچھلے سال 9000 کروڑ روپئے کے قالین برآمد کیے تھے اس سال تقریباً 100 ملکوں کو ہم نے کارپیٹ برآمد کیے ہیں۔ یہ لائق ستائش کام ہے لیکن ہمیں اسے اور آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ 2022 تک یعنی جب ہماری آزادی کے 75 سال پورے ہوں گے اس وقت تک ہم برآمدات کے اعداد وشمار کو ڈھائی گنا سے بھی زائد یعنی 25 ہزار کروڑ روپئے تک لے جائیں گے۔ برآمدات ہی نہیں بلکہ گزشتہ چار برسوں کے دوران ملک میں قالین کے کاروبار میں بھی تین گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ چار برس پہلے جو بازار 500 کروڑ کا تھا وہ آج 1600 کروڑ روپئے کا بن چکا ہے۔ ملک میں قالین مارکٹ کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اس کے پس پشت دو اہم اسباب ہیں ایک تو یہ کہ ملک میں درمیانہ درجے کے طبقے کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دوسرا قالین کی صنعت کیلئے اور اس کی تشہیر و توسیع کیلئے زبردست سہولیات فراہم کرائی جارہی ہیں۔ ساتھیو، اس رجحان کو لیکر ہی ہم چلیں تو ملک میں قالین کی صنعت کے ساتھ ساتھ پورے ٹیکسٹائل سیکٹر کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کارپیٹ بناتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے کارپیٹ فن اور دستکاری کے معاملے میں تو بے نظیر ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہوتے ہیں۔ آپ سبھی کی صلاحیتیں اور آپ سبھی کی ہنرمندی کا ہی کمال ہے کہ آج دنیا بھر میں میڈ اِن انڈیا کارپیٹ ایک بڑا برانڈ بن کر اُبھرا ہے۔ ساتھیو، اس برانڈ کو اور مضبوط کرنے کیلئے سرکار ہر طرح کی کوششیں کرنے کے تئیں عہد بستہ ہے۔ کارپیٹ برآمدات کاروں کو پریشانی نہ ہواس کے لئے لاجسٹک سپورٹ کو اور مضبوط کیا جارہا ہے۔ ملک بھر میں گودام اور شو روموں کی سہولت دینے کی اسکیم پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس سے آپ ایک بڑے مارکٹ تک اپنے سامان کو آسانی سے پہنچا سکیں گے۔ یہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور کوالٹی کو لیکر بھی سہولیات فراہم کرائی جارہی ہیں۔ بھدوئی اور شری نگر میں قالین کی جانچ کیلئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کارپیٹ ٹیکنالوجی یعنی آئی آئی سی ٹی قائم کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک معتبر لیباریٹری قائم کی گئی ہے، کوشش یہ ہے کہ ہماری مصنوعات نقائص سے پوری طرح پاک یعنی زیر ڈیفیکٹ والے اور زیرو ایفیکٹ والے ہوں اس میں خامی بالکل نہ ہو اور ماحولیات کی تشویش بھی ہماری مصنوعات میں نہ جھلکے۔ اس کے علاوہ قالین کے ساتھ ساتھ دستکاری کے دوسرے سامان کی مارکیٹنگ اور بنکروں کو دیگر سہولتوں کی فراہمی کیلئے بھی متعدد انتظامات کئے گئے ہیں۔ یہاں وارانسی میں ہی 9 کامن فیسلٹی سینٹر اور کامن سروس سینٹر بنائے گئے ہیں ، ان سینٹروں کا فائدہ ہزاروں بنکروں کو حاصل ہورہا ہے۔ ساتھیو، معیار کے علاوہ بنکروں کو چھوٹے چھوٹے کاروباریوں کو پیسے کی کمی کا بھی سامنا کرنا نہ پڑے اس کے لئے بھی متعدد کوششیں کی جارہی ہیں۔ مدرا اسکیم کے تحت 50 ہزار روپئے سے لیکر 10 لاکھ روپئے تک کے گارنٹی قرض کی سہولت دی جارہی ہے جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی مدد ہے۔ بنکروں کیلئے تو مدرا اسکیم میں 10 ہزار روپئے کی مارجن منی کا بھی انتظام رکھا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں اب بنکروں کوجو بھی مدد یا قرض یا جارہا ہے وہ بہت ہی کم وقت میں ان کے کھاتوں میں پہنچ رہا ہے۔ ’’پہچان‘‘ کے نام سے جو شناخت نامہ بنکروں کو دیا گیا ہے اس سے بچولیوں کو درمیان سے ہٹانے میں بڑی مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ بھدوئی – مرزا پور میگا کارپیٹ کلسٹر اور شری نگر کارپیٹ کلسٹر میں بنکروں کو جدید لوم دیے گئے ہیں اور لوم چلانے کی ہنرمندی کیلئے تربیت بھی دی جارہی ہے۔ بنکروں کی ہنرمندی اور صلاحیت میں اضافے کیلئے اسکل ڈیولپمنٹ کے متعدد پروگرام چلائے جارہے ہیں۔ ساتھیو، میں پہلے جب بھی بنکر بھائی بہنوں سے بات کرتا تھا تو ایک بات ضرور سننے کو ملتی تھی وہ یہ کہ ہمارے بچے اب اس کام سے جڑنا نہیں چاہتے۔ اس سے سنگین صورتحال بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ آج جب ہم کارپیٹ کے معاملے میں دنیا بھر میں سر فہرست ہیں تو ہماری آئندہ نسلوں کو راغب اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اسی نشانے کے تحت آئی آئی سی ٹی بھدوئی میں قالین ٹیکنالوجی میں بی ٹیک () کا پروگرام چلایا جارہا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی تربیتی اداروں میں اس طرح کے پروگرام شروع کرنے کی اسکیم ہے ، بنکروں کی ہنرمندی کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کے بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ غریب بنکر کنبوں کے بچوں کی اسکول فیس کا 75 فیصد حصہ سرکار کے ذریعے ادا کیا جارہا ہے۔ ساتھیو، آپ کا فن اور آپ کی محنت کو ملک کی طاقت بنانے کیلئے بھی سرکار عہد بستہ ہے۔ آنے والے دور میں ملک کے لئے ، بنارس کیلئے اس فن کا مظاہرہ کرنے کے بہت بڑے بڑے مواقع آنے والے ہیں۔ اگلے سال جنوری میں جو غیرمقیم ہندوستانی کانفرنس کا اہتمام کاشی میں ہونے والا ہے وہ بھی تشہیر کا ایک بہت بڑا وسیلہ ثابت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے ہمارے کاروباری ساتھی ہماری دستکاری کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب کی یادوں اور بدلتی کاشی کا بھی لطف لے سکیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ سبھی کو دھن تیرس، دیپا ولی چھٹ پوجا کی پیش گی مبارکباد دیتا ہوں اور اس کامیاب تقریب کیلئے کاشی کو بین الاقوامی وقار دلانے کی غرض سے میں متعلقہ وزارت کو ، میرے بنکر بھائیو -بہنوں کو ، ایکسپورٹ، امپورٹ سے جڑے سبھی حضرات کو کاشی آنے کیلئے کاشی کو مرکز وقار بنانے کیلئے پھر سے ایک بار بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت بشکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ا س۔ع ن,বাৰাণসীত ভিডিঅ’ কনফাৰেন্সযোগে কাৰ্পেট এক্সপ’ত প্ৰধানমন্ত্��ীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদনমস্কাৰ৷ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-3-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%DB%8C%D9%88%D9%BE%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A9-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AC/,نئی دہلی، 02 جون 2022: وزیراعظم جناب نریندر مودی 3 جون 2022 کو اترپردیش کا دورہ کریں گے۔ صبح گیارہ بجے کے قریب وزیر اعظم لکھنؤ کے اندرا گاندھی پرتشٹھان پہنچیں گے جہاں وہ یوپی انویسٹرز سمٹ کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب 3.0 @ میں شرکت کریں گے۔ دوپہر تقریباً ایک بج کر 45 منٹ پر وزیر اعظم کانپور کے پرونکھ گاؤں پہنچیں گے جہاں وہ عزت مآب صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند کے ساتھ پتری ماتا مندر کا دورہ کریں گے۔ اس کے بعد دوپہر دو بجے کے قریب وہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر بھون کا دورہ کریں گے۔ بعد ازاں دوپہر 2 بج کر 15 منٹ پر میلان کیندر کا دورہ طے ہے۔ یہ مرکز عزت مآب صدر کا آبائی گھر ہے جسے عوامی استعمال کے لیے عطیہ کیا گیا تھا اور اسے کمیونٹی سینٹر (میلان کیندر) میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ دوپہر ڈھائی بجے پرونکھ گاؤں میں ایک عوامی تقریب میں شرکت کریں گے۔ گراؤنڈ بریکنگ تقریب کے دوران وزیراعظم 80 ہزار کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 1406 پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ پروجیکٹ زراعت اور متعلقہ شعبوں، آئی ٹی اور الیکٹرانکس، ایم ایس ایم ای، مینوفیکچرنگ، قابل تجدید توانائی، ادویات، سیاحت، دفاع اور ایرو اسپیس، ہینڈ لوم اور ٹیکسٹائل وغیرہ جیسے متنوع شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ تقریب میں ملک کے اعلی صنعتی رہنما شرکت کریں گے۔ یوپی انویسٹرز سمٹ 21 سے 22 فروری 2018 کو منعقد ہوئی تھی جس میں پہلی گراؤنڈ بریکنگ تقریب 29 جولائی 2018 کو اور دوسری گراؤنڈ بریکنگ تقریب 28 جولائی 2019 کو منعقد ہوئی۔ پہلی گراؤنڈ بریکنگ تقریب کے دوران 61 ہزار 500کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 81 پروجیکٹوں کی داغ بیل ڈالی گئی جبکہ دوسری گراؤنڈ بریکنگ تقریب میں 67ہزار کروڑ روپے سے زائد کی سرمایہ کاری سے 290 پروجیکٹس کی بنیاد رکھی گئی۔,৩ জুনত উত্তৰ প্ৰদেশলৈ যাব প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%8B-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%89/,نئی دہلی،28دسمبر؍2021: بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے اترپردیش کے مقبول وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاون ہردیپ پوری جی، یہاں کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ جی، سادھوی نرنجن جیوتی جی، بھانو پرتاپ ورما جی، یوپی سرکار میں وزیر جناب ستیش مہانا جی، نیلم کٹیار جی، رنویندر پرتاپ جی، لکھن سنگھ جی، یہاں موجود تمام معزز ممبران پارلیمنٹ ، تمام معزز ممبران اسمبلی، دیگر تمام عوامی نمائندگان اور میرے پیارے بھائیو اور بہنوں! رشیوں- مونیوں کی تپ استھلی،آزادی کے مجاہدین اور انقلابیوں کی تحریک کی سرزمین ، آزاد ہندوستان کی صنعتی اہلیت کو توانائی دینے والے اِس کانپور کو میرا سلام۔ یہ کانپور ہی ہے ،جس نے پنڈت دین دیال اپادھیائے، سندر سنگھ بھنڈاری جی اور اٹل بہاری واجپئی جیسے وِجنری قیادت کی تعمیرو تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے اور آج صرف کانپور کو ہی خوشی ہے، ایسا نہیں ہے، ورون دیوتا جی کو بھی اس خوشی میں حصہ لینے کا دل ہوگیا۔ ساتھیوں! کانپور کے لوگوں کا جو مزاج ہے، جو کانپوریا انداز ہے، جو اُن کی حاضر جوابی ہے، اس کی مثال ہی نہیں دی جاسکتی۔ یہ ٹھگّو کے لڈّو کے یہاں کیا لکھا ہوتا ہے؟ ہاں ٹھگّو کے لڈّو کے یہاں کیا لکھا ہے۔ ایسا کوئی سگا کوئی نہیں۔۔۔۔ایسا کوئی سگا نہیں۔ اب آج تک آپ جو کہتے ہیں وہ کہتے رہئے، لیکن میں تو یہیں کہوں گا اور جب میں یہ کہتا ہوں تو کہوں گا یہ کانپور ہی ہے، جہاں ایسا کوئی نہیں ، جس کو دلار نہ ملا ہو۔ساتھیوں، جب تنظیم کے کام کے لئے میرا آپ کے درمیان آنا ہوتا تھا، تو خوب سنتا تھا –جھاڑے رہے کلٹّر گنج!!!آج بھی آپ لو گ بولتے ہیں یا نئی نسل کے لوگ بھول گئے۔ ساتھیوں! آج منگل کا دن ہے اور پنکی والے ہنومان جی کے آشیرواد سے ، آج اترپردیش کی ترقی میں ایک اور سنہرا باب جڑ رہا ہے۔ آج کانپور کو میٹرو کنکٹی وٹی ملی ہے۔ ساتھ ہی بینا ریفائنری سے بھی کانپور اب جڑ گیا ہے۔اس سے کان پور کے ساتھ ساتھ یوپی کے متعدد اضلاع میں پیٹرولیم مصنوعات اب اور آسانی سے دسیتاب ہوں گی۔اِن دونوں منصوبوں کے لئے آپ سب کو ، پورے اترپردیش کو بہت بہت مبارکباد۔ آپ سب کے درمیان آنے سے پہلے آئی آئی ٹی کانپور میں میرا پروگرام تھا۔ میں پہلی بار میٹرو کا سفر کرنے پر کانپور والوں کے احساس ، ان کے جوش و حوصلے کا گواہ بننا چاہتا تھا، اس لئے میں نے میٹرو سے سفر کرنا طے کیا۔ یہ میرے لیے واقعی ایک یادگار تجربہ رہا ہے۔ ساتھیوں! یوپی میں پہلے جن لوگوں نے سرکار چلائی انہوں نے وقت کی اہمیت کبھی نہیں سمجھی۔ 21ویں صدی کے جس عہد میں یوپ کو تیز رفتاری سے ترقی کرنی تھی ، اس قیمتی وقت کو ، اُس اہم موقعے کو پہلے کی سرکاروں نے گنوا دیا۔ان کی اولیت میں یوپی کی ترقی نہیں تھی۔ ان کی عہد بندی یوپی کے لوگوں کے لئے نہیں تھی۔آج اترپردیش میں جو ڈبل انجن کی سرکار چل رہی ہے، وہ گزرے ہوئے عہد میں وقت کا جو نقصان ہوا ہے، اس کی بھرپائی میں بھی مصروف ہے۔ ہم دوگنی رفتار سے کام کررہے ہیں، آج ملک کا سب سے بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈہ یوپی میں بن رہا ہے۔ آج ملک کا سب سے طویل ایکسپریس وے یوپی میں بن رہا ہے۔آج ملک کا پہلا ریجنل ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم یوپی میں بن رہا ہے۔ ڈیڈیکٹیڈفریٹ کوریڈور کا ہب بھی یوپی ہونے والا ہے۔ جس یوپی کبھی غیر قانونی ہتھیاروں والے گینگ کے لئے بدنام کیا گیا تھا، وہیں ملک کے تحفظ کے لئے دفاعی راہداری بن رہی ہے۔ساتھیوں، اِسی لئے یوپی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ فرق صاف ہے۔ یہ فرق صرف منصوبوں-پروجیکٹوں کا ہی نہیں ہے، بلکہ کام کرنے کے طریقے کا بھی ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار جس کام کو شروع کرتی ہے، اسے پورا کرنے کے لئے بھی ہم دن رات ایک کردیتے ہیں۔ کانپور میٹرو کی تعمیر کا یہ کام ہماری سرکار میں شروع ہوا اور ہماری ہی سرکار اس کو وقف بھی کررہی ہے۔ پوروانچل ایکسپریس وے کا افتتاح ہماری سرکار نے کیا ، ہماری ہی سرکار نے اس کا کام پوراکیا۔ دہلی –میرٹھ ایکسپریس وے کا افتتاح ہماری سرکار نے ہی کیا اور اِسے مکمل کرکے عوام کو وقف کرنے کا کام بھی ہم نے ہی کیا۔ میں آپ کو ایسے متعدد پروجیکٹ گنوا سکتاہوں۔یعنی مشرق ہو یا مغرب یا پھر ہمارا یہ علاقہ۔ یوپی میں ہر پروجیکٹ کو وقت پر پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ اِس لئے ضروری ہے ، کیونکہ جب منصوبہ وقت پر پورا ہوتا ہے، تو ملک کے پیسے کا صحیح استعمال ہوا ہے، ملک کے لوگوں کو اِس کا فائدہ ملتا ہے ۔ آپ مجھے بتائیے ٹریفک جام کو لے کر کانپور کے لوگوں کی شکایت برسوں سے رہی ہے۔ آپ کا کتنا وقت اِس میں برباد ہوتا، کتنا پیسہ برباد ہوتا تھا۔ اب آج پہلے مرحلے کی 9کلومیٹر لائن شروع ہونے سے اِن شکایتوں کو دور کرنے کی ایک شروعات ہوئی ہے۔ کورونا کی مشکل چنوتی کے باوجود دو سال کے اندر ہی اِس سیکشن کا شروع ہونا اپنے آپ میں انتہائی قابل تعریف ہے۔ ساتھیوں! آزادی کے بعد دہائیوں تک ہمارے ملک میں، ایک سوچ رہی ہے کہ جو بھی کچھ نیا ہوگا، اچھاہوگا، وہ تین چار بڑے شہروں میں ہی ہوگا۔ ملک کے بڑے میٹرو شہروں کے علاوہ جو شہر تھے، انہیں اپنے حال پرچھوڑ دیا گیا۔ اِن شہروں میں رہنے والوں لوگوں کی کتنی بڑی طاقت ہے، انہیں سہولیات مہیا کرنا کتنا ضروری ہے، یہ پہلے سرکا رچلانے والے کبھی سمجھ ہی نہیں پائے۔ اِن شہروں کی آرزوؤں کو اِن میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کی آرزو پر پہلے جو سرکا رمیں تھے اُنہوں توجہ ہی نہیں دی۔ جو لوگ ابھی ماحول بنانے کی کوشش کررہے ہیں، اُن کی ترقی کی کوئی نیت نہیں تھی، اب ہماری سرکار ملک کے ایسے اہم شہروں کی ترقی کو بھی اولیت دے رہی ہے۔اِن شہروں کے لئے ربط اچھا ہو، وہاں اعلیٰ تعلیم کے اچھے ادارے ہوں، بجلی کی دقت نہ ہو، پانی کی دقت نہ ہو، سیویج سسٹم جدید ہو، اِن سب پر کام کیا جارہا ہے۔اگر میں میٹرو ہی کی بات کروں تو کانپور میٹرو کے پہلے مرحلے کا آج افتتاح ہوا ہے۔آگرہ اور میرٹھ میٹرو پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ کئی دیگر شہروں میں بھی میٹرو کی تجویز ہے۔ لکھنؤ، نوئیڈا اور غازی آباد میں میٹرو کو مسلسل وسعت دی جاری ہے۔ جس تیزی سے یوپی میں میٹرو کا کام ہورہا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ ساتھیوں! میں جو اعدادوشمار دے رہا ہوں، وہ اعدادوشمار ذرا توجہ سے سنیے۔دھیان سے سنیں گے نا۔ دیکھئے سنیئے سال 2014 ءسے پہلے یوپی میں جتنی میٹرو چلتی تھی، اُس کی کل طوالت 9کلو میٹر تھی، سال 2014ء سے لے کر 2017ء کے درمیان میٹرو کی طوالت بڑھ کر 18کلومیٹر ہوئی۔آج کانپور میٹرو کو شامل کردیں، تو یوپی میں میٹرو کی طوالت اب 90کلومیٹر سے زیادہ ہوچکی ہے۔ پہلے کی سرکار کیسے کام کررہی تھی، آج یوگی جی کی سرکار کیسے کام کررہی ہے، تبھی تو یوپی کہتا ہے-فرق صاف ہے۔ ساتھیوں! 2014ء کے پہلے پورے ملک کے صرف پانچ شہروں میں میٹرو کی سہولت تھی۔یعنی میٹرو ریل، صرف میٹرو کہے جانے والے شہروں میں ہی تھی۔ آج تنہا یوپی کے پانچ شہروں میں میٹرو چل رہی ہے۔آج ملک کے 27شہروں میں میٹرو پر کام چل رہا ہے۔اِن شہروں میں رہنے والے غریب خاندانوں، متوسط طبقات کو آج میٹرو ریل کی وہ سہولت مل رہی ہے، جو میٹرو شہروں میں دستیاب ہوتی تھی۔شہری غریبوں کی زندگی کی سطح بلند کرنے کے لئے جو کوشش کی گئی ہے، اُن سے ٹیئر-2، ٹیئر-3شہروں میں نوجوانوں کی خود اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ یوپی میں تو ڈبل انجن سرکار بننے کے بعد اِس میں بہت تیزی آئی ہے۔ ساتھیوں! کوئی بھی ملک ہو یا ریاست، غیر متوازن ترقی کے ساتھ وہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔دہائیوں تک ہمارے ملک میں جو صورتحال رہی کہ ایک طبقے کی تو ترقی ہوئی، دوسرا پیچھے چھوٹ گیا۔ ریاستوں کی سطح پر ، سماج کی سطح پر اس عدم یکسانیت کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔اس لئے ہماری سرکار سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے اصول پر کام کررہی ہے۔سماج کے ہر فرد ، دلت، محروم، پسماندہ طبقات، قبائل سب کو ہماری سرکار کے م منصوبوں سے یکساں ف��ئدہ مل رہا ہے۔ہماری سرکار اُن لوگوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، جنہیں پہلے کبھی پوچھا نہیں گیا، جن پر پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ ساتھیوں! شہروں میں رہنے والے غریبوں کو بھی پہلے کی سرکاروں نے بہت نظر انداز کیا ہے۔ ایسے شہری غریبوں کے لئے آج پہلی بار ہماری سرکار پوری ایمانداری سے کام کررہی ہے۔میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ 2017ء سے پہلے کے 10 سالوں کے دوران یوپی میں شہری غریبوں کے لئے صرف ڈھائی لاکھ پختہ مکان ہی بن پائے تھے۔پچھلے 4.5سال میں یوپی سرکار نے شہری غریبوں کے لئے 17لاکھ سے زیادہ گھر منظور کئے ہیں۔ اِن میں سے 9.5لاکھ بن بھی چکے ہیں اور باقی پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں! ہمارے گاؤں سے بہت سے ساتھی شہروں میں کام کرنے آتے ہیں، اِن میں سے بہت سے لوگ شہروں میں آکر ریہڑھی ، ٹھیلہ ، پٹری پر سامان فروخت کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ آج پہلی بار ہماری ہی سرکار نے اِن لوگوں کی فکر کی ہے۔ اِنہیں بینکوں سے آسانی سے مدد ملے، یہ لوگ بھی ڈیجیٹل لین دین کریں، اس سمت میں ہماری سرکار کام کررہی ہے۔پی ایم سونِدھی یوجنا کا فائدہ یہاں کانپور کے بھی متعدد ریہڑھی پٹری والے ساتھیوں کو ہوا ہے۔یوپی میں سونِدھی یوجنا کے تحت 7لاکھ سے زیادہ ساتھیوں کو 700کروڑ روپے سے زیادہ دیا جا چکا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں! عام لوگوں کی ضروریات کو سمجھنا، ان کی خدمت کرناہم سب کا فرض ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار یوپی کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے دمدار کام کررہی ہے۔یوپی کے کروڑوں گھروں میں پہلے پائپ سے پانی نہیں پہنچتا تھا ۔ آج ہم گھر گھر جل مشن سے، یوپی کے ہر گھر تک صاف پانی پہنچانے میں مصروف ہیں۔کورونا کے اِس مشکل دور میں یوپی کے 15کروڑ سے زیادہ لوگوں کے لئے مفت راشن کا انتظام ہماری ہی سرکار نے کیا ہے۔ ساتھیوں! جو لوگ پہلے سرکار میں تھے، وہ اِس ذہنیت کے ساتھ سرکار چلاتے تھے کہ پانچ سال کے لئے لاٹری لگی ہے، جتنا ہو سکے یوپی کو لوٹتے چلو۔ آپ نے خود دیکھا ہے کہ یوپی میں پہلے کی سرکاریں جو پروجیکٹ شروع کرتی تھیں،ان میں کیسے ہزاروں کروڑوں کا گھپلہ ہوجاتا تھا۔ اِن لوگوں نے کبھی یوپی کے لئے بڑے اہداف پر کام نہیں کیا، بڑے وژن کےساتھ کام نہیں کیا۔ اِنہوں نے خود کو کبھی یوپی کے عوام کے لئے جواب دہ سمجھا ہی نہیں۔ آج ڈبل انجن کی سرکار ایمانداری اور پوری جواب دہی کے ساتھ یوپی کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لئے کام کررہی ہے۔ ڈبل انجن کی سرکار بڑے اہداف طے کرنا اور اُنہیں پوراکرنا جانتی ہے۔کون سوچ سکتا تھا کہ یوپی میں بجلی کی پیداوار سے لے کر ٹرانسمیشن تک میں بہتری آسکتی ہے۔بجلی کیوں گئی، لوگ یہ نہیں سوچتے تھے، انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ گھنٹوں کٹوتی ہونی ہے۔ اُن کی تسلی اِسی سے ہوجاتی تھی کہ بغل والے کے یہاں بھی بجلی گئی ہے یا نہیں۔ ساتھیوں! کون سوچ سکتا تھا کہ گنگا جی میں گرنے والا سیسامؤ جیسا عظیم اور بڑا نالا بھی ایک دن بند ہوسکتاہے، لیکن یہ کام ہماری ڈبل انجن کی سرکار نے کرکے دکھایا ہے۔ بی پی سی ایل کے پنکی کانپور ڈپو کی صلاحیت کو 4گناسے زیادہ بڑھانے سے بھی کانپور کو بہت راحت ملے گی۔ بھائیوں اور بہوں! کنکٹی وٹی اور کمیونکیشن سے جڑے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ گیس اور پیٹرولیم پائپ لائن ، بنیادی ڈھانچے پر جو کام ہوا ہے، اُس کا بھی یوپی کو بہت فائدہ ہوا ہے۔2014ء تک ملک میں صرف 14کروڑ ایل پی جی گیس کنکشن تھے۔آج 30کروڑ سے زیادہ گیس کنکشن ہیں۔ا کیلے یوپی میں ہی تقریباً ایک کر��ڑ 60لاکھ غریب خاندانوں کو نئے گیس کنکشن دیئے گئے ہیں۔ پائپ سے سستی گیس کے کنکشن سے بھی 7سالوں میں 9گنا ہوچکے ہیں۔ یہ اِس لئے ہو پارہا ہے، کیونکہ گزرے ہوئے سالوں میں پیٹرولیم نیٹ ورک کی غیر معمولی توسیع کی گئی ہے۔ بینا –پنکی ملٹی پروڈکٹ پائپ لائن اِس نیٹ ورک کو اور مضبوطی دے گی۔اب بینا ریفائنری سے پیٹرول ڈیزل جیسی مصنوعات کے لئے کانپور سمیت یوپی کے متعدد اضلاع کو ٹرکوں پر منحصر نہیں رہنا ہوگا۔ اِ س سے یوپی میں ترقی کے انجن کو رُکے بغیر توانائی ملتی رہے گی۔ ساتھیوں! کسی بھی ریاست میں سرمایہ کاری کے لئے صنعتوں کے پھلے پھولنے کے لئے قانون و انتظام کا راج ضروری ہے۔ یوپی میں پہلے جو سرکاریں رہیں، انہوں نے مافیا واد کے درخت کو اتنا پھیلا دیا کہ اُس کی چھاؤں میں سارے کام دھندے چوپٹ ہوگئے۔ اب یوگی جی کی سرکار قانون و انتظام کا راج واپس لائی ہے، اس لئے یہاں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور مجرم اپنی ضمانت خود رد کروا کر جیل جارہے ہیں۔ ڈبل انجن کی سرکار اب یوپی میں صنعتی کلچر کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ یہاں کانپور میں میگا لیدر کلسٹر کو منظوری دی جاچکی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کی صلاحیت سازی کے لئے فضل گنج میں ٹیکنالوجی سینٹر کا بھی قیام ہوا ہے۔ دفاعی راہداری ہو یا پھر ایک جن پد، ایک اُتپاد یوجنا ، اس کا فائدہ کانپور کے ہمارے صنعت کار دوستوں کو بھی ہوگا۔ ساتھیوں! مرکزی سرکار کی طرف بھی ایز آف ڈوئنگ بزنس بڑھانے کے لئے مسلسل کام ہورہا ہے۔ نئی اِکائیوں کے لئے کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کرکے 15فیصد کرنا ہو، جی ایس ٹی شروحوں کمی کرنا ہو، ڈھیر ساری قوانین کے جال کو ختم کرنا ہو، فیس لیس اسسمنٹ ہو، اسی سمت میں اٹھائے گئے قدم ہیں۔ نئے شعبوں کو بڑھاوا دینے کے لئے سرکا رنے پیداوار سے مربوط پہل بھی شروع کی ہے۔ سرکارنے کمپنی قوانین کے بہت سارے التزامات کو بھی ختم کردیا ہے، جو ہمارے کاروباری ساتھیوں کے مشکلات میں اضافہ کرتے تھے۔ بھائیوں اور بہنوں! جن پارٹیوں کی اقتصادی پالیسی ہی بدعنوانی ہو، جن کی پالیسی مافیاؤں کا عزت و احترام ہو، وہ اترپردیش کی ترقی نہیں کرسکتے۔ اس لئے ان کو ہر اُس قدم سے پریشانی ہوتی ہے، جس سے سماج کو مضبوطی ملتی ہے۔ سماج کو طاقت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے خواتین کو بااختیار بنانے کےلئے اٹھائے گئے قدموں کی بھی یہ مخالفت کرتے ہیں۔ خواہ تین طلاق کے خلاف سخت قانون ہویا پھر لڑکے یا لڑکیوں کی شادی کی عمر کو برابر کرنے کا موضوع ۔ یہ صرف مخالفت ہی کرتے ہیں۔ البتہ یوگی جی کی سرکار کے کام کو دیکھ کر یہ لوگ یہ بات ضرور کہتے ہیں، یہ توہم نے کیا تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ پچھلے دنوں جو باکس بھر بھر کے نوٹ ملے ہیں، اس کے بعد بھی یہ لوگ یہی کہیں گے کہ یہ بھی ہم نے کیا ہے۔ ساتھیوں! آپ کانپور والے تو کاروبار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ 2017ء سے پہلے بدعنوانی کا جو عطر اِنہوں نے پورے یوپی میں چھڑک رکھا تھا، وہ پھر سب کے سامنے آگیا ہے، لیکن وہ اب منہ پر تالا ڈال کر بیٹھے ہیں۔ کریڈٹ لینے کے لئے آگے نہیں آرہے ہیں۔نوٹوں کا جو پہاڑ پورے ملک نے دیکھا ، وہی اُن کی حصولیابی ہے، یہی اُن کی سچائی ہے۔ یوپی کے لوگ سب دیکھ رہے ہیں، سب سمجھ رہے ہیں، اس لئے وہ یوپی کی ترقی کرنے والوں کے ساتھ ہیں، یوپی کو نئی بلندیوں پر پہنچانے والوں کے ساتھ ہیں۔ بھائیوں-بہنوں آج اتنی بڑی سوغات آپ کے قدموں میں سپرد کرتے وقت کئی طرح کی خوشیوں سے بھرا ہوا یہ ماحول آج کا یہ اہم موقع ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارک باد، بہت بہت شکریہ۔ بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بہت بہت شکریہ۔,কানপুৰ মেট্ৰো প্রকল্পৰ উদ্বোধনত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%92-47%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D8%B3%D8%B7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AC-%E0%A7%A6%E0%A7%AE-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%9A/,نئی دہلی۔26 اگست میرے پیارے ہم وطنوں! نمسکار۔ آج پورا ملک رکشا بندھن کا تہوار منا رہا ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو اس مقدس تہوار کی بہت بہت مبارکباد۔ رکشا بندھن کا تہوار بہن اور بھائی کے آپسی پیار اور اعتماد کی علامت مانی جاتی ہے۔ یہ تہوار صدیوں سے سماجی ہم آہنگی کی بھی ایک بڑی مثال رہی ہے۔ ملک کے تاریخ میں مختلف ایسی کہانیاں ہیں، جن میں ایک حفاظتی بندھن نے دو الگ الگ ریاستوں یا مذہبوں سے جڑے لوگوں کو یقین کی ڈور سے جوڑ دیا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن بعد جنم آشٹمی کا تہوار بھی آنے والا ہے۔ پورا ماحول ہاتھی، گھوڑا، پالکی – جئے کنہیا لال کی، گووندا- گووندا کی نعرے سے گونجنے والا ہے۔ بھگوان کرشن کے رنگ میں شرابور ہوکر جھومنے کی خوشی الگ ہی ہوتی ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں اور خاص کر مہاراشٹر میں دہی ہانڈی کی تیاریاں بھی ہمارے نوجوان کر رہے ہوں گے۔ سبھی ہم وطنوں کو رکشا بندھن اور جنم اشٹمی کی بہت بہت مبارکباد۔ ‘پردھان منتری مہودے! نمسکار۔ اہاں چِنمئی ، بینگلورو-نگرے وجے بھارتی –وِدیالیے ، دشم –ککشایام پٹھامی۔ مہودیہ ادے سنسکرت-دِنم استی۔ سنسکرتم بھاشام سرل اِتی سروے ودنتی۔ سنسکرتم بھاشا وے متر وہ وہ اترہ سمبھاشنم اپی کُرمہ۔ اتہ سنسکرتسیہ مہتوہ – وشیے بھوتہ گہہ ابھی پرایہ اتی روپیاودتو۔’ بھگینی! چنمئی!! بھوتی سنسکرت – پرشنم پرشٹ وتی۔ بہوتتّم! بہوتتّم!! اہم بھوتیاہ ابھینندنم کرومی۔ سنسکرت – سپتاہ – نِمِتّم دیش واسینام سرویشام کرتے مم ہاردک – شُبھکامناہ میں بیٹی چنمئی کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے یہ موضوع اٹھایا۔ ساتھیوں! رکشا بندھن کے علاوہ شراون پورنیما کے دن سنکسرت کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ میں ان سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اس عظیم ورثہ کو سنوارنے اور لوگوں تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہے۔ ہندوستان اس بات پر فخر کرتا ہے کہ تمل زبان دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے اور ہم سبھی ہندوستانی اس بات پر بھی فخر کرتے ہیں کہ کِیویدکال سے موجودہ وقت تک سنسکرت زبان نے بھی علم کی تشہیر میں بہت اہم رول انجام دیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے منسلک علم کا ذخیرہ سنسکرت زبان اور اس کے ادب میں ہے۔ خواہ وہ سائنس ہو یا ٹکنالوجی ہو، زراعت ہو یا صحت ہو، علم فلکیات ہو یا علم تعمیرات ہو، حساب ہو یا مینجمنٹ ہو، اقتصادیات کی بات ہو یا ماحولیات کی ہو، کہتے ہیں کہ عالمی حدت کے چیلنجوں سے نمٹنے کا منتر ہمارے ویدوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔ آپ سب کو جانکر خوشی ہوگی کہ ریاست کرناٹک کے شیو موگا ضلع کے مٹّور گاؤں کے باشندہ آج بھی گفتگو کے لیے سنسکرت زبان کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ آپ کو ایک بات جان کر حیرت ہوگی کہ سنسکرت ایک ایسی زبان ہے، جس میں لامتناہی الفاظ کی تخلیق ممکن ہے۔ دو ہزار دھاتو، 200 لاحقہ، 22 سابقہ اور سماج سے لاتعداد لفظوں کی تخلیق ممکن ہے اور اس لیے کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے احساس یا موضوع کو صحیح طور پر بیان کیا جا سکتا ہے اور سنسکرت زبان کی ایک خاصیت رہی ہے، آج بھی ہم کبھی اپنی بات کو طاقت ور بنانے کے لیے انگریزی کوٹیشن کا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی شعر و شاعری کا استعمال کرتے ہیں لیکن جو لوگ سنسکرت سے اچھی طرح واقف ہیں، انہیں معلوم ہے کہ بہت ہی کم لفظوں میں اتناسٹیک بیان سنسکرت کے الفاظ سے ہوتا ہے اور دوسرا یہ ہماری سرزمین سے، ہماری روایت سے جڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے اسے سمجھنا بھی بہت آسان ہوتا ہے۔ جیسے زندگی میں استاد کی اہمیت سمجھانے کے لیے کہا گیا ہے – ایکم پی اکشرمستو، گرو ششیام پربودھیت۔ پرتویام ناستی تد-درویم ، ید –دتّوا ہریہ نرنی بھوت۔ یعنی کوئی گرو اپنے طلباء کو ایک بھی حرف کا علم دیتا ہے تو پوری سرزمین میں ایسی کوئی شئے یا دولت نہیں، جس سے طلباء اپنے استاد کا وہ قرض ادا کر سکے۔ آنے والے ٹیچرس ڈے کو ہم سبھی اسی احساس کے ساتھ منائیں۔ علم اور گرو ناقابل موازنہ ہیں ۔ بیش قیمت ہیں۔ ماں کے علاوہ استاد ہی ہوتے ہیں، جو بچوں کے خیالات کو صحیح سمت دینے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور جس کا سب سے زیادہ اثر بھی زندگی بھر نظر آتا ہے۔ ٹیچرس ڈے کے موقع پر عظیم مفکر اور ملک کے سابق صدر بھارت رتن ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن جی کو ہم ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔ ان کی یوم پیدائش کو ہی پورا ملک ٹیچرس ڈے کے طور پر مناتا ہے۔ میں ملک کے سبھی استادوں کو آنے والے ٹیچرس ڈے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی سائنس، تعلیم اور طلبا کے تئیں آپ کی خود سپردگی کے جذبے کا استقبال کرتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! سخت محنت کرنے والے یہ ہمارے کسانوں کے لیے مانسون نئی امیدیں لے کر آتا ہے۔ شدید گرمی سے جھلستے پیڑ پودے، خشک ندیوں کو راحت دیتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ بھاری بارش اور تباہ کن سیلاب بھی لاتا ہے۔ فطرت کے ایسے صورتحال بنے ہیں کہ کچھ جگہوں میں دوسری جگہوں سے زیادہ بارش ہوئی۔ ابھی ہم سب لوگوں نے دیکھا۔ کیرالہ میں شدید سیلاب نے عوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ آج ان سخت حالات میں پورا ملک کیرالہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہماری تعزیت ان خاندانوں کے ساتھ ہیں، جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے، زندگی کے جو نقصانات ہوئے ہیں، اس کی بھرپائی تو نہیں ہو سکتی لیکن میں غم میں ڈوبے ہوئے خاندانوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سوا سو کروڑ ہندوستانی دکھ کے اس لمحے میں آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ میری دعاہے کہ جو لوگ اس قدرتی آفات میں زخمی ہوئے ہیں ، وہ جلد سے جلد صحت یاب ہو جائیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ریاست کے لوگوں کے جذبے اور بہادری کے ساتھ کیرالہ فوراً ہی پھر سے اٹھ کھڑا ہوگا۔ آفات اپنے پیچھے جس طرح کی بربادی چھوڑ جاتی ہے، وہ بدقسمتی ہے لیکن آفت کے وقت انسانیت کے بھی نظارے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کَچھ سے کام روپ اور کشمیر سے کنیا کماری تک ہر کوئی اپنے اپنے سطح پر کچھ نہ کچھ کر رہا ہے تاکہ جہاں بھی آفت آئے؛ چاہے کیرالہ ہو یا ہندوستان کے اور اضلاع ہوں اور علاقے ہوں ، عوامی زندگی پھر سے حسب معمول ہو سکے۔ سبھی عمر کے اور ہر کام کے شعبے سے جڑے لوگ اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ہر کوئی یقین دہانی میں مصروف ہے کہ کیرالہ کے لوگوں کی مصیبت کم سے کم کی جا سکے، ان کی تکلیف کو ہم بانٹیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مسلح افواج کے جوان کیرالہ میں چل رہے راحتی کام کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فضائی افواج ہوں ، بری افواج ہوں، بحری ا فواج ہوں، بی ایس ایف ہو، سی آئی ایس ایف ہو، آر اے ایف ہو، ہر کسی نے راحت اور بچاؤ کی مہم میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ میں این ڈی آر ایف کے بہادروں کی سخت محنت کا بھی خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مصیبت کے اس لمحے میں انہوں نے بہت ہی بہترین کام کیا ہے۔ این ڈی آر ایف کی صلاحیت ان کے عہد بستگی اور فوراً فیصلہ لے کر حالات کو سنبھالنے کی کوشش ہر ہندوستانی کے لیے عزت و احترام کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے۔ کل ہی اونم کا تہوار تھا، ہم دعا کریں گے کہ اونم کا تہوار ملک کو اور خاص طور سے کیرالہ کو قوت عطا کرے تاکہ وہ اس آفت سے جلد سے جلد باہر آئیں اور کیرالہ کی ترقی کے سفر کو زیادہ رفتار ملے۔ ایک بار پھر میں سبھی ہم وطنوں کی جانب سے کیرالہ کے لوگوں کو اور ملک بھر کے دیگر حصوں میں جہاں جہاں آفت آئی ہے، یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پوری دنیا مصیبت کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہے۔ میرے پیارے ہم وطنوں! اس بار میں ’من کی بات‘ کے لیے آئے مشوروں کو دیکھ رہا تھا۔ تب ملک بھر کے لوگوں نے جس موضوع پر سب سے زیادہ لکھا، وہ موضوع ہے – ’ہم سب کا پیارا جناب اٹل بہاری واجپئی۔‘ غازی آباد سے کرتی، سونی پت سے سواتی وتس، کیرالہ سے بھائی پروین، مغربی بنگال سے ڈاکٹر سوپن بنرجی ، بہار کے کٹیہار سے اکھلیش پانڈے، نہ جانے کتنے بیشمار لوگوں نے نریندر مودی موبائل ایپپ پر اور مائی گوو پر لکھ کر مجھے اٹل جی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کرنے کی گزارش کی ہے۔ 16 اگست کو جیسے ہی ملک اور دنیا نے اٹل جی کے وفات کی خبر سنی، ہر کوئی غم میں ڈوب گیا۔ ایک ایسے قومی لیڈر، جنہوں نے 14 سال پہلے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ ایک طرح سے گزشتہ 10 سالوں سے وہ سرگرم سیاست سے کافی دور چلے گئے تھے۔ خبروں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے، عوامی طور پر نظر نہیں آتے تھے۔ 10 سال کا وقفہ بہت بڑا ہوتا ہے لیکن 16 اگست کے بعد ملک اور دنیا نے دیکھا کہ ہندوستان کے عام عوام کے ذہن میں یہ دس سال کی مدت نے ایک لمحہ کا بھی وقفہ نہیں ہونے دیا۔ اٹل جی کے لیے جس طرح کا پیار، جو عزت اور جو غم کے احساسات پورے ملک میں امڈ آیا، وہ ان کی عظیم شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے اٹل جی کے اچھے سے اچھے پہلو ملک کے سامنے آ ہی گئے ہیں۔ لوگوں نے انہیں بہترین رکن پارلیمنٹ ، حساس مصنف، عظیم مقرر، مقبول وزیراعظم کے طور پر یاد کیا ہے اور کرتے ہیں۔گڈ گورننس کو قومی دھارے میں لانے کے لیے یہ ملک ہمیشہ اٹل جی کا شکر گزار رہے گا لیکن میں آج اٹل جی کے عظیم شخصیت کا ایک اور پہلو ہے، اسے صرف چھونا چاہتا ہوں اور یہ اٹل جی نے ہندوستان کو جو سیاسی کلچر دیا، سیاسی کلچر میں جو تبدیلی لانے کی کوشش کی، اس کو نظام کے ڈھانچے میں تبدیل کرنے کی جو کوشش کی اور جس کی وجہ سے ہندوستان کو بہت فائدہ ہوا ہے اور آگے آنے والے دنوں میں بہت فائدہ ہونے والا ہے۔ یہ بھی طے ہے۔ ہندوستان ہمیشہ 91ویں ترمیمی ایکٹ 2003 کے لیے اٹل جی کا شکر گزار رہے گا۔ اس تبدیلی نے ہندوستان کی سیاست میں دو اہم تبدیلی کیے۔ پہلا یہ کہ ریاستوں میں کابینہ کا ڈھانچہ کل اسمبلی نشستوں کے 15 فیصد تک محدود کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ پارٹی بدلنے کے قانون کے تحت طے شدہ حد ایک تہائی سے بڑھا کر دو تہائی کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی بدلنے والوں کو نا اہل ٹھہرانے کے لیے واضح ہدایات بھی مقرر کیے گئے۔ کئی سالوں تک ہندوستان میں بھاری بھرکم کابینہ تشکیل دینے کی سیاسی ثقافت ن�� ہی بڑے بڑے جمبو کابینہ کے کاموں کی تقسیم کے لیے نہیں بلکہ سیاسی لیڈران کو خوش کرنے کے لیے بنائی جاتی تھی۔ اٹل جی نے اسے بدل دیا۔ ان کے اس قدم سے پیسوں اور وسائل کی بچت ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی کام کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ اٹل جی دور اندیش ہی تھے، جنہوں نے حالات کو بدلا اور ہماری سیاسی ثقافت میں صحیح روایت پیدا ہوئی۔ اٹل جی ایک سچےقوم پرست تھے۔ ان کے مدتِ کار میں ہی بجٹ پیش کرنے کے وقت میں تبدیلی ہوئی۔ پہلے انگریزوں کی روایت کے مطابق شام کے 5 بجے بجٹ پیش کیا جاتا تھا کیونکہ اس وقت لندن میں پارلیمنٹ شروع ہونے کا وقت ہوتا تھا۔ سال 2001 میں اٹل جی نے بجٹ پیش کرنے کا وقت شام 5 بجے سے بدل کر صبح گیارہ بجے کر دیا۔ ‘ایک اور آزادی’ اٹل جی کے مدت کار میں ہی انڈین فلیگ کوڈ بنایا گیا اور 2002 میں اسے کمیشنڈ کر دیا گیا۔ اس کوڈ میں کئی ایسے ضوابط بنائے گئے ہیں، جن سے سماجی مقامات پر ترنگا لہرانا ممکن ہوا۔ اسی کے تحت زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کو اپنا قومی ترنگا لہرانے کا موقع مل پایا۔ اس طرح سے انہوں نے ہمارے جان سے پیارے ترنگے کو عوام کے قریب لایا۔ آپ نے دیکھا! کس طرح اٹل جی نے ملک میں چاہے انتخابی عمل ہو اور نمائندوں سے متعلق جو خرابی آئے تھے، ان میں جرأتمندانہ قدم اٹھاکر بنیادی اصلاح کیے۔ اسی طرح آج کل آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں ایک ساتھ مرکز اور ریاستوں کے انتخابات کرانے کے بارے میں مباحثے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس موضوع کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں میں لوگ اپنی اپنی باتیں رکھ رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے اور جمہوریت کے لیے ایک اچھا اشارہ بھی ہے۔ میں ضرور کہوں گا اچھی جمہوریت کے لیے ، اعلیٰ جمہوریت کے لیےاچھی روایت کو فروغ دینا، جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے مسلسل کوشش کرنا، مباحثے کو کھلے من سے آگے بڑھانا، یہ بھی اٹل جی کو ایک بہترین خراج عقیدت ہوگی۔ ان کے خوشحال اور ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کا عہد دہراتے ہوئے میں ہم سب کی جانب سے اٹل جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! پارلیمنٹ میں آج کل جب بھی بحث ہوتی ہے تو اکثر رکاوٹ ، ہنگامہ آرائی اور اس کے اختتام کے بارے میں ہی ہوتی ہے لیکن اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو اس کی بحث اتنی نہیں ہوتی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ختم ہوا ہے۔ آپ کو یہ جانکر خوشی ہوگی کہ لوک سبھا کی پروڈکٹیویٹی 118 فیصد اور راجیہ سبھا کی 74 فیصد رہی ۔ پارٹی کے مفاد سے اوپر اٹھ کر سبھی ارکارن پارلیمنٹ نے مانسون اجلاس کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ لوک سبھا نے 21 بل اور راجیہ سبھا نے 14 بلوں کو منظور کیا۔ پارلیمنٹ کا یہ مانسون اجلاس سماجی انصاف اور نوجوانوں کی بہبود کے اجلاس کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں نوجوانوں اور پسماندہ طبقوں کو فائدہ پہنچانے والے کئی اہم بلوں کو پاس کیا گیا۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ دہائیوں سے ایس سی / ایس ٹی کمیشن کی طرح ہی او بی سی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ پسماندہ طبقات کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ملک نے اس بار او بی سی کمیشن بنانے کا عہد مکمل کیا اور اس کو ایک آئینی حق بھی دیا۔ یہ قدم سماجی قانون کے مقصد کو آگے لے جانے والا ثابت ہوگا۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے ترمیمی بل کو بھی پاس کرنے کا کام اس اجلاس میں ہوا۔ یہ قانون ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے مفاد کو اور زیادہ محفوظ کرے گا۔ ساتھ ہی یہ مجرموں کو تشدد کرنے سے روکے گا اور پسماندہ طبقات میں اعتماد دلائے گا۔ ملک کی خواتین کے خلاف کوئی بھی مہذب سماج کسی بھی طرح کے ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا۔ عصمت دری کے مجرموں کو ملک برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے پارلیمنٹ نے مجرمانہ قانون ترمیمی بل کو پاس کر سخت سے سخت سزا کی گنجائش رکھی ہے۔ عصمت دری کے مجرموں کو کم سے کم 10 سال کی سزا ہوگی، وہیں 12 سال سے کم عمر کے بچیوں سے عصمت دری کرنے پر پھانسی کی سزا ہوگی۔ کچھ دن پہلے آپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا مدھیہ پردیش کے مندسور میں ایک عدالت نے صرف دو مہینے کی سماعت کے بعد نابالغ سے عصمت دری کے دو مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ اس کے پہلے مدھیہ پردیش کے کٹنی میں ایک عدالت نے صرف پانچ دن کی سماعت کے بعد مجرموں کو پھانسی کی سزا دی۔ راجستھان میں بھی وہاں کی عدالتوں نے بھی ایسے ہی فوری فیصلے کیے ہیں۔ یہ قانون خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے معاملوں کو روکنے میں اثردار رول ادا کرے گا۔ سماجی تبدیلی کے بغیر اقتصادی ترقی ادھوری ہے۔ لوک سبھا میں تین طلاق بل کو پاس کر دیا گیا، حالانکہ راجیہ سبھا کے اس اجلاس میں ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ میں مسلم خواتین کو یقین دلاتا ہوں کہ پورا ملک انہیں انصاف دلانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب ہم ملک کے مفاد میں آگے بڑھتے ہیں تو غریبوں، پسماندوں، مظلوموں اورمحروموں کے زندگی میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مانسون اجلاس میں اس بار سب نے مل کرایک مثال پیش کیا ہے۔ میں ملک کے سبھی ارکارن پارلیمنٹ کا عوامی طور پر آج دل سے شکر گزار ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! ان دنوں کروڑوں ہم وطنوں کی توجہ جکارتہ میں ہو رہے ایشیئن گیمس پر لگا ہوا ہے۔ ہر دن صبح لوگ سب سے پہلے اخباروں میں ،ٹیلی ویژن میں، خبروں میں، سوشل میڈیا پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس ہندوستانی کھلاڑی نے میڈل جیتا ہے۔ ایشیئن گیمس ابھی بھی چل رہے ہیں۔ میں ملک کے لیے میڈل جیتنے والی سبھی کھلاڑیوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ان کھلاڑیوں کو بھی میری جانب سے بہت بہت مبارکباد ، جن کا مقابلہ ابھی باقی ہیں۔ ہندوستان کے کھلاڑی خاص کر شوٹنگ اور ریسلنگ میں تو بہترین مظاہرہ کر ہی رہے ہیں لیکن ہمارے کھلاڑی ان کھیلوں میں بھی تمغہ لا رہے ہیں ، جن میں پہلے ہمارا مظاہرہ اتنا اچھا نہیں رہا ہے، جیسے ووُش اور روونگ جیسے کھیل – یہ صرف تمغہ نہیں ہیں – رزلٹ ہیں – ہندوستانی کھیل اور کھلاڑیوں کے آسمان چھوتے حوصلوں اور خوابوں کا۔ ملک کے لیے میڈل جیتنے والوں میں بڑی تعداد میں ہماری بیٹیاں شامل ہیں اور یہ بہت ہی مثبت اشارہ ہے – یہاں تک کہ میڈل جیتنے والے نوجوان کھلاڑیوں میں 15-16 سال کے ہمارے نوجوان بھی ہیں۔ یہ بھی ایک بہت اچھا اشارہ ہے کہ جن کھلاڑیوں نے میڈل جیتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر چھوٹے قصبوں اور گاؤوں کے رہنے والے ہیں اور ان لوگوں نے سخت محنت سے اس کامیابی کو حاصل کیا ہے۔ 29 اگست کو ہم قومی کھیل دن منائیں گے اس موقعے پر میں سبھی کھیل کے شائقین کو مبارک باد دیتا ہوں، ساتھ ہی ہاکی کے جادوگر عظیم کھلاڑی جناب دھیان چند جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں ملک کے سبھی شہریوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ضرور کھیلیں اور اپنی صحت کا خیارل رکھیں کیونکہ صحتمند ہندوستان ہی بھرپور اور خوشحال ہندوستان کی تعمیر کرے گا۔ جب انڈیا فٹ ہوگا تبھی ہندوستان کے روشن مستقبل کی تعمیر ہوگی۔ ایک بار پھر میں ایشیئن گیمس میں تمغہ حاصل کرنے والوں کو مبارکباد دیتا ہوں ساتھ ہی باقی کھلاڑیوں کے اچھے مظاہرے کی دعا کرتا ہوں۔ سبھی کو قومی کھیل دن کی بھی بہت بہت مبارکباد۔ ‘‘پردھان منتری جی نمسکار! میں کانپور سے بھاونا ترپاٹھی ایک انجینئرنگ کی طالبہ بات کر رہی ہوں۔ پردھان منتری جی پچھلے من کی بات میں آپ نے کالج جانے والے طلبا و طلبات سے بات کی تھی، اور اس سے پہلے بھی آپ نے ڈاکٹروں سے ، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹس سے باتیں کیں۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آنے والے 15 ستمبر کو جو کہ ایک انجینئرس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ، اس موقع پر اگر آپ ہم جیسے انجینئرنگ کے طلباء و طالبات سے کچھ باتیں کریں، جس سے ہم سب کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ہمیں بہت خوشی ہوگی اور آگے آنے والے دنوں میں ہمیں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب بھی ملے گی، شکریہ۔’’ نمستے بھاونا جی، میں آپ کی سوچ کی قدر کرتا ہوں۔ ہم سبھی نے اینٹ – پتھروں سے گھروں اور عمارتوں کو بنتے دیکھا ہے لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تقریباً بارہ – سو سال پہلے ایک وسیع پہاڑ کو جو کہ صرف سنگل اسٹون والا پہاڑ تھا، اسے ایک خوبصورت، وسیع اور خوبصورت مندر کی شکل دے دیا گیا – شاید تصور کرنا مشکل ہو، لیکن ایسا ہوا تھا اور وہ مندر ہے – مہاراشٹر کے ایلورا میں قائم کیلاش ناتھ مندر۔ اگر کوئی آپ کو بتائے کہ تقریباً ہزار سال پہلے گرینائٹ کا 60 میٹر سے بھی لمبا ایک ستون بنایا گیا اور اس کے چوٹی پر گرینائٹ کا تقریباً 80 ٹن وزنی ایک پہاڑ کے ٹکڑے کو رکھا گیا – تو کیا آپ یقین کریں گے۔ لیکن، تمل ناڈو کے تنجاور کا برہدیشور مندر وہ مقام ہے، جہاں فن تعمیر اور انجینئرنگ کے اس غیریقینی میل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ گجرات کے پاٹن میں 11ویں صدی کی رانی کی واو دیکھ کر ہر کوئی حیرت میں رہ جاتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین انجینئرنگ کی لیباریٹری رہی ہے۔ ہندوستان میں کئی ایسے انجینئر ہوئے، جنہوں نے ناقابل تصور کو تصور کے قابل بنایا اور انجینئرنگ کی دنیا میں چمتکار کہے جانے والے مثال پیش کیے ہیں۔ عظیم انجینئروں کی ہماری وراثت میں ایک ایسا ہیرا بھی ہمیں ملا، جس کے کام آج بھی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور وہ تھے بھارت رتن ڈاکٹر ایم وشویشوریّا ۔ کاویری ندی پر ان کے بنائے کرشن راج ساگر ڈیم سے آج بھی لاکھوں کی تعداد میں کسان اور عوام فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں تو ان کی پوجا کی جاتی ہی ہے، باقی پورے ملک بھی انہیں بہت ہی عزت اور احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ انہیں کی یاد میں 15 ستمبر کو انجینئرس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ان کے بتائے راستوں پر چلتے ہوئے ہمارے ملک کے انجینئر پوری دنیا میں اپنی الگ شناخت بنا چکے ہیں۔ انجینئرنگ کی دنیا کے معجزوں کی بات جب میں کرتا ہوں، تب مجھے آج 2001 میں گجرات کے کچھ میں جو تباہ کن زلزلہ آیا تھا، تب کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ اس وقت میں ایک رضا کار کے طور پر وہاں کام کرتا تھا تو مجھے ایک گاؤں میں جانے کا موقع ملا اور وہاں مجھے 100 سال سے بھی زیادہ عمر کی ایک ماں سے ملنے کا موقع ملا اور وہ میری طرف دیکھ کر ہمارا مذاق اڑا رہی تھی، اور وہ کہہ رہی تھی، دیکھو یہ میرا مکان ہے – کچھ میں اس کو بھونگا کہتے ہیں – بولی اس میرے مکان نے تین – تین زلزلے دیکھے ہیں۔ میں نے خود تین زلزلے دیکھے ہیں۔ اسی گھر میں دیکھے ہیں۔ لیکن کہیں پر آپ کو کوئی بھی نقصان نظر نہیں آیا۔ یہ گھر ہمارے بزرگوں نے یہاں کی فطرت کے مطابق، یہاں کے ماحول کے مطابق بنائے تھے اور یہ بات وہ اتنے فخر سے کہہ رہی تھی تو مجھے یہی خیال آیا کہ صدیوں پہلے بھی ہمارے ماہر انجینئروں نے مقامی حالات کے مطابق کیسی تعمیر کی تھی کہ جس کی وجہ سے عوام محفوظ رہتے تھے۔ اب جب ہم انجینئرس ڈے مناتے ہیں تو ہمیں مستقبل کے لیے بھی سوچنا چاہیے۔ جگہ جگہ پر ورک شاپس کرنے چاہیے۔ بدلتے ہوئے زمانے میں ہمیں کن کن نئی چیزوں کو سیکھنا ہوگا؟ سکھانا ہوگا؟ جوڑنا ہوگا؟ آج کل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایک بہت بڑا کام ہو گیا ہے۔ قدرتی آفاتوں سے دنیا جوجھ رہی ہے۔ ایسے میں اسٹرکچرل انجینئرنگ کی نئی شکل کیا ہو؟ اس کے کورسز کیا ہوں؟ طلبا کو کیا سکھایا جائے؟ تعمیر ماحول دوست کیسے ہو؟ لوکل میٹرئلس کا ویلیو ایڈیشن کر کے کنسٹرکشن کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟ زیرو ویسٹ یہ ہماری ترجیح کیسے بنے؟ ایسی مختلف باتیں جب انجینئرس ڈے مناتے ہیں تو ضرور ہمیں سوچنی چاہیے۔ میرے پیارے ہم وطنوں! تہواروں کا ماحول ہے اور اس کے ساتھ ہی دیوالی کی تیاریاں بھی شروع ہو جاتی ہے۔ ’من کی بات‘ میں ملتے رہیں گے، من کی باتیں کرتے رہیں گے اور اپنے من سے ملک کو آگے بڑھانے میں بھی ہم یکجا ہوتے رہیں گے۔ اسی ایک احساس کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ۔ پھر ملیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,২৬.০৮.২০১৮ তাৰিখে সম্প্ৰচাৰ হোৱাৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ৪৭তম মন কী বাতৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D9%88%D9%88%DA%86%DA%BE%D8%AA%D8%A7-%DB%81%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9B%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 12 ستمبر ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ملک کے سبھی کو لوگوں کو ،’’سووچھتا ہی سیوا ‘‘ کی تحریک میں شامل ہونے کے لئے زور دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2 اکتوبر کو بابائے قوم آنجہانی مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کی سالانہ تقریبات کا آغاز ہوگا۔ یہی وہ دن بھی ہے جس روز سووچھ بھارت مشن نے اپنے چار سال پورے کئے تھے اور اس تحریک تحریک نے ایک عوامی تحریک کی شکل لے لی تھی۔اس کا مقصد آنجہانی مہاتما گاندھی کے صاف ستھرے ہندوستان کے خواب کی عملی تعبیر پیش کرنا ہے ۔ میں، سووچھ بھارت کے لئے کام کرنے والے تمام لوگوں کو سلام کرتا ہوں ۔ ’’سووچھتا ہی سیوا ‘‘ کی تحریک 15 ستمبر سے شروع ہوگی ۔ یہ بابائے قوم آنجہانی مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کاایک عظیم طریقہ بھی ہے ۔ آئیے ہم سب اس تحریک سے جُڑیں اور سووچھ بھارت کے قیام کی کوششوں کو مستحکم بنائیں ۔ 15ستمبر کے صبح ساڑھے نو بجے ہم سب مل کر یہاں آئیں گے اور ’’سووچھتا ہی سیوا ‘‘ کی تحریک کا آغاز کریں گے ۔ میں سووچھ بھارت مشن کو مستحکم بنانے کے لئے زمینی سطح پر انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ کرنے والے لوگوں سے گفتگو کا منتظر ہوں ، جس کے بعدسووچھتا یعنی صفائی ستھرائی کی سرگرمیاں شروع ہوں گی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم 4702U-,স্বচ্ছতাই প্রকৃত সেৱা আন্দোলনৰ অংশ হোৱাৰ বাবে সকলোৰে প্রতি আন্তৰিক আহ্বান প্রধানমন্ত্রীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-2g-%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DA%BE%D9%86%D9%88%D9%84-%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%86%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%A5%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%87%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%8D/,نمسکار جی، ہریانہ کے گورنر جناب بنڈارو دتاتریہ جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی نریندر سنگھ تومر جی، ہردیپ سنگھ پوری جی، رامیشور تیلی جی، ممبران پارلیمنٹ، ایم ایل اے، پانی پت میں بڑی تعداد میں موجود میرے پیارے کسان بھائی اور بہنیں، اس پروگرام سے وابستہ دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات، آپ سب کو بایو ایندھن کا عالمی دن بہت بہت مبارک ہو! آج کا پروگرام پانی پت، ہریانہ سمیت پورے ملک کے کسانوں کے لیے بہت اہم ہے۔ پانی پت کا یہ جدید ایتھنول پلانٹ، جو بایو ایندھن پلانٹ بن گیا ہے، صرف ایک آغاز ہے۔ اس پلانٹ کی وجہ سے دہلی-این سی آر اور پورے ہریانہ میں آلودگی کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ میں ہریانہ کے لوگوں خصوصاً کسان بہنوں اور بھائیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ویسے آج ہریانہ بھی دوہری مبارکباد کا مستحق ہے۔ کامن ویلتھ کھیلوں میں ہریانہ کے بیٹوں اور بیٹیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے، ملک کو کئی تمغے دلائے ہیں۔ ہریانہ کے کھلاڑیوں نے کھیل کے میدان میں جو توانائی دکھائی، اسی طرح اب ہریانہ کے کھیت بھی توانائی پیدا کرکے دکھائیں گے۔ ساتھیوں، فطرت کی پوجا کرنے والے ہمارے ملک میں بایو فیول یا حیاتیاتی ایندھن فطرت کی حفاظت کا مترادف ہے۔ ہمارے کسان بھائی بہن اس بات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے بایو ایندھن کا مطلب سبز ایندھن، ماحول کو بچانے والا ایندھن ہے۔ تم کسان بھائیو اور بہنوں صدیوں سے اتنے با شعور ہیں کہ بیج بونے سے لے کر فصل اگانے اور پھر اسے منڈی تک پہنچانے تک کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ کسان اپنے کھیتوں سے اگنے والی ہر چیز کو استعمال کرنا جانتے ہیں۔ جو کھیت لوگوں کے لیے خوراک اُگاتا ہے، وہیں سے جانوروں کا چارہ بھی آتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر کاشتکار جانتے ہیں کہ کٹائی کے بعد کھیت میں رہ جانے والے بھوسے کا اچھا استعمال کیسے کرنا ہے۔ پرالی کا استعمال جانوروں کے کھانے کے لیے کیا جاتا ہے، بہت سے دیہاتوں میں مٹی کے برتن پکانے کے لیے بھی پرالی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہریانہ جیسے علاقوں میں، جہاں دھان اور گیہوں کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے، وہاں پرالی کا مکمل استعمال نہیں کیا جا سکا۔ اب یہاں کے کسانوں کو پرالی کے استعمال کا ایک اور ذریعہ مل رہا ہے۔ اور اس کا مطلب ہے – جدید ایتھنول پلانٹ، بایو ایندھن پلانٹ۔ پانی پت کا بایو ایندھن پلانٹ بھی پرالی کو جلائے بغیر ٹھکانے لگانے کے قابل ہو جائے گا۔ اور ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بہت سے فائدے بیک وقت ہونے والے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہوگا کہ پرالی جلانے سے جو درد دھرتی ماں کو ہوتا ہے، اس درد سے دھرتی ماں کو آزادی ملے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پرالی کو تلف کرنے کے لیے نیا سسٹم بنایا جا رہا ہے، نئی مشینیں آ رہی ہیں، آمد و رفت کے لیے نئی سہولتیں پیدا ہو رہی ہیں، یہ نئے بایو ایندھن پلانٹ لگ رہے ہیں، ان تمام دیہاتوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو جائیں گے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جو بھوسا کسانوں کے لیے بوجھ تھا، پریشانی کا باعث تھا، وہ ان کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ بن جائے گا۔ چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ آلودگی کم ہوگی، ماحولیات کے تحفظ میں کسانوں کا تعاون مزید بڑھے گا۔ اور پانچواں فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کو متبادل ایندھن بھی ملے گا۔ یعنی جو بھوسا پہلے نقصان پہنچاتا تھا، اس سے یہ پانچ امرت نکلیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے کئی بایو فیول پلانٹ لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، جو لوگ سیاسی مفادات کے لیے شارٹ کٹ اپنا کر مسائل سے بچنے کا رجحان رکھتے ہیں، وہ کبھی بھی مسائل کو مستقل طور پر حل نہیں کر سکتے۔ شارٹ کٹ اپنانے والوں کو کچھ عرصے کے لیے کامیابی مل سکتی ہے، سیاسی فائدے تو مل سکتے ہیں، لیکن مسئلہ کم نہیں ہوتا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ شارٹ کٹ اپنانے سے شارٹ سرکٹ ضرور ہوتا ہے۔ ہماری حکومت شارٹ کٹ پر عمل کرنے کی بجائے مسائل کے مستقل حل میں مصروف ہے۔ برسوں کے دوران پرالی کے مسائل کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ لیکن شارٹ کٹ لوگ اس کا کوئی حل نہ دے سکے۔ ہم کسانوں کے پرالی سے متعلق مسائل کو سمجھتے ہیں، اس لیے ہم انہیں اس سے چھٹکارا پانے کے لیے آسان اختیارات بھی دے رہے ہیں۔ ہم نے پرالی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ان کاشتکاروں کو مالی مدد دی ہے۔ اس سے منسلک جدید مشینوں کی خریداری پر 80 فیصد تک سبسڈی بھی دی گئی۔ اب پانی پت کا یہ نامیاتی ایندھن پلانٹ بھی پرالی کے مسئلے کے مستقل حل میں مدد دینے والا ہے، اس جدید پلانٹ میں دھان اور گندم کے بھوسے کے ساتھ مکئی کا بقیہ حصہ، سڑے ہوئے دانے، ان سب کو ایتھنول بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یعنی کسانوں کی بڑی پریشانی ختم ہو جائے گی۔ ہمارے کسان جو مجبوری میں پرالی جلاتے تھے، جن کی اس وجہ سے بدنامی ہوئی، وہ بھی اب فخر محسوس کریں گے کہ وہ ایتھنول یا بایو ایندھن کی پیداوار میں بھی مدد کر رہے ہیں، قوم کی تعمیر میں مدد کر رہے ہیں۔ حکومت نے ایک اور اسکیم، گوبردھن اسکیم شروع کی ہے، جس میں گائے اور بھینسوں سے پیدا ہونے والے گوبر، کھیتوں سے نکلنے والے فضلے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ گوبر دھن یوجنا بھی کسانوں کی آمدنی بڑھانے کا ایک اور ذریعہ بن رہی ہے۔ ساتھیوں، کھاد ہو، کیمیکل ہو، خوردنی تیل ہو، خام تیل ہو، گیس ہو، ہم آزادی کی کئی دہائیوں سے بہت زیادہ غیر ممالک پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ اس لیے جب عالمی حالات کی وجہ سے سپلائی چین میں خلل پڑتا ہے، ہندوستان بھی مصیبتوں سے نہیں بچ سکتا۔ گزشتہ 8 سالوں سے ملک ان چیلنجز کے مستقل حل پر بھی کام کر رہا ہے۔ ملک میں فرٹیلائزر کے نئے پلانٹ لگ رہے ہیں، نینو فرٹیلائزر تیار ہو رہے ہیں، خوردنی تیل کے لیے بھی نئے مشن شروع ہو گئے ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ سب ملک کو مسائل کے مستقل حل کی طرف لے جائیں گے۔ ساتھیوں، آزادی کے امرت عہد میں ملک خود انحصار ہندوستان کے عزم کو عملی جامہ پہنانے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے گاؤں اور ہمارے کسان خود انحصاری کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ کسان اپنے گاؤں میں اپنی ضروریات کو بڑی حد تک جمع کرتے ہیں۔ گاؤں کا سماجی و اقتصادی نظام ایسا ہے کہ سب ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کے لوگوں میں بچت کا رجحان بھی بہت زیادہ ہے۔ ان کا یہ رجحان ملک کا پیسہ بھی بچا رہا ہے۔ گزشتہ 7 سے 8 سالوں میں پیٹرول میں ایتھنول ملانے سے ملک کے تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے بیرون ملک جانے سے بچ گئے ہیں۔ یعنی جو پیسہ بیرون ملک جاتا تھا، وہ ایک طرح سے ہمارے کسانوں کو مل گیا ہے۔ ساتھیوں، اکیسویں صدی کے نئے ہندوستان میں ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے۔ آج ملک بڑے عہد کر رہا ہے اور ثابت کر کے دکھا رہا ہے۔ کچھ سال پہلے ملک نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ پیٹرول میں ایتھنول کی 10 ف��صد تک آمیزش کا ہدف پورا کرے گا۔ ہمارے کسان بھائیوں اور بہنوں کی مدد سے ملک نے اس ہدف کو وقت سے پہلے حاصل کر لیا ہے۔ آٹھ سال پہلے ہمارے ملک میں ایتھنول کی پیداوار صرف 400 ملین لیٹر کے لگ بھگ تھی۔ آج تقریباً 400 کروڑ لیٹر ایتھنول تیار ہو رہا ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں ایتھنول بنانے کا خام مال ہمارے کسانوں کے کھیتوں سے آتا ہے۔ خاص طور پر گنے کے کاشتکاروں کو اس سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ میں اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں کو ایک اور مثال دیتا ہوں کہ ملک کس طرح بڑے مقاصد حاصل کر رہا ہے۔ 2014 تک ملک میں صرف 14 کروڑ ایل پی جی گیس کنکشن تھے۔ ملک کی آدھی آبادی، مائیں بہنیں، کچن کے دھوئیں میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ بہنوں اور بیٹیوں کی خراب صحت اور تکلیف سے ہونے والے نقصان کا پہلے خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج اجولا اسکیم سے ہی غریب بہنوں کو 9 کروڑ سے زیادہ گیس کنکشن دیے گئے ہیں۔ اب ہم ملک میں تقریباً 100 فیصد ایل پی جی کوریج تک پہنچ چکے ہیں۔ آج ملک میں 14 کروڑ سے بڑھ کر تقریباً 31 کروڑ گیس کنکشن ہیں۔ اس سے ہمارے غریب خاندان، متوسط طبقے کے لوگوں کو کافی سہولت ملی ہے۔ ساتھیوں، ملک میں سی این جی نیٹ ورک کو وسعت دینے اور گھر گھر سستی پائپ گیس فراہم کرنے کے لیے بھی کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ ہمارے ملک میں سی این جی اسٹیشن 90 کی دہائی میں شروع ہوئے تھے۔ 8 سال پہلے تک ملک میں 800 سے کم سی این جی اسٹیشن تھے۔ گھروں میں گیس کے پائپ کنکشن بھی چند لاکھ تھے۔ آج ملک بھر میں ساڑھے چار ہزار سے زائد سی این جی اسٹیشن ہیں اور پائپ گیس کنکشنز کی تعداد ایک کروڑ کو چھو رہی ہے۔ آج جب ہم آزادی کے 75 سال مکمل کر رہے ہیں، ملک اس مقصد پر بھی کام کر رہا ہے کہ اگلے چند سالوں میں ملک کے 75 فیصد سے زیادہ گھرانوں کو پائپ گیس ملے گی۔ ساتھیوں، آج ہم جو سینکڑوں کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائنیں بچھا رہے ہیں، جو جدید پلانٹ، جو کارخانے لگا رہے ہیں، ان سے ہماری نوجوان نسل سب سے زیادہ مستفید ہو گی۔ ملک میں گرین جابز کے نئے مواقع مسلسل پیدا ہوں گے، روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ آج کے مسائل ہماری آنے والی نسلوں کو پریشان نہیں کریں گے۔ یہ ہے حقیقی ترقی، یہ ہے ترقی کے لیے حقیقی عزم۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنوں، ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے صاف نیت، وفاداری، پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے محنت کی انتہا کرنی پڑتی ہے اور حکومت کو بہت زیادہ سرمایہ لگانا پڑتا ہے۔ جب حکومتوں کے پاس پیسہ نہیں ہوگا، سرمایہ نہیں ہوگا تو ایتھنول پلانٹس، بایو گیس پلانٹس، بڑے سولر پلانٹس، ہائیڈروجن گیس پلانٹس جو آج لگائے جارہے ہیں وہ بھی بند ہوجائیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہم رہیں یا نہ رہیں یہ ملک ہمیشہ رہے گا، صدیوں سے زندہ ہے، صدیوں تک زندہ رہے گا۔ اس میں رہنے والے بچے ہمیشہ رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل برباد کرنے کا حق نہیں ہے۔ ساتھیوں، آزادی کے لیے جانیں قربان کرنے والوں نے بھی اسی ابدی جذبے سے کام کیا ہے۔ اگر وہ بھی اس وقت اپنے بارے میں سوچتے، اپنی خود غرضی دیکھتے تو ان کی زندگی میں بھی کوئی مصیبت نہیں آتی۔ وہ سختیوں، گولیوں، پھانسیوں، اذیتوں سے بچ جاتے، لیکن ان کے بچے، یعنی ہم ہندوستانی، آج آزادی کا امرت مہوتسو نہ منا پاتے۔ اگست کا یہ مہینہ انقلاب کا مہینہ ہے۔ اس لیے بحیثیت ملک ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم ایسے ہر رجحان کو پروان نہیں چڑھنے دیں گے۔ یہ ملک کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ساتھیوں، آزادی کے اس امرت مہوتسو میں، آج جب ملک ترنگے کے رنگ میں رنگا ہوا ہے، وہیں کچھ ایسا بھی ہوا ہے، جس کی طرف میں ملک کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس مقدس موقع کو بدنام کرنے، ہمارے بہادر آزادی پسندوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بعض اوقات مریض اپنی طویل بیماری کے علاج سے تھک جاتا ہے، مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے، اچھے ڈاکٹروں سے مشورہ لینے کے باوجود جب فائدہ نہیں ہوتا تو پھر وہ کتنا ہی پڑھا لکھا ہو، توہم پرستی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ وہ جادو ٹونے کرنے لگتا ہے، جادو ٹونے، کالے جادو پر یقین کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مایوسی میں ڈوبے ہوئے منفی خیالوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت کے خلاف جھوٹ پر جھوٹ بولنے کے بعد بھی عوام ایسے لوگوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسی مایوسی میں یہ لوگ بھی اب کالے جادو کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ ابھی ہم نے 5 اگست کو دیکھا کہ کس طرح کالا جادو پھیلانے کی بہت کوشش کی گئی۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کالے کپڑے پہننے سے ان کی مایوسی کا دور ختم ہو جائے گا۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ کتنا ہی کالا جادو کر لیں، توہم پرستی پر یقین رکھیں، عوام کا اعتماد ان پر دوبارہ کبھی قائم نہیں ہو گا۔ اور میں یہ بھی کہوں گا کہ اس کالے جادو کے سامنے، آزادی کے امرت مہوتسو کی توہین نہ کرو، ترنگے کی توہین نہ کرو۔ ساتھیوں، کچھ سیاسی جماعتوں کی خود غرضانہ پالیسی کے برعکس، ہماری حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے منتر پر کام کرتی رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ترقی کے لیے مثبت یقین کی توانائی اسی طرح پیدا ہوتی رہے گی۔ ایک بار پھر، ہریانہ کے بہت سے ساتھیوں، کسانوں اور مویشی پالن کسانوں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد۔ کل رکشا بندھن کا مقدس تہوار بھی ہے۔ بھائی بہن کے پیار کی علامت والے اس تہوار پر ہر بھائی اپنے فرض کو ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ کل بحیثیت شہری ہمیں بھی ملک کے تئیں اپنے فرض کو نبھانے کے عزم کا اعادہ کرنا ہے۔ اس خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ بہت شکریہ !,পানিপথত ২জি ইথানল প্লাণ্টৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%82%D8%AF%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D9%81%D8%A7%D8%AA-%D9%86%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی،06؍جنوری؍2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے قدرتی آفات نظم کے شعبے میں تعاون کے بارے میں ہندوستان اور ترکمانستان کے درمیان مفاہمتی عرضداشت(ایم او یو)پر دستخط کرنے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ اس مفاہمتی عرضداشت میں ایسا سسٹم قائم کرنے کی کوشش ہے جس سے ہندوستان اور ترکمانستان دونوں ہی ملک ایک دوسرے کے قدرتی آفات میکانزم سے مستفید ہوں گے اور یہ قدرتی آفات نظم کے شعبے میں تیاری ، رد عمل اور صلاحیت کی تعمیر کے شعبوں کو مضبوطی مہیا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ اس مفاہمتی عرضداشت میں درج ذیل شعبوں میں باہمی فائدے کی بنیاد پر تعاون کا تصور کیا گیا ہے: ایمرجنسی صورتحال کی نگرانی وہ ما قبل از وقت اندازہ لگانا اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرن��؛ قدرتی آفات نظم میں شامل مناسب اداروں کے ساتھ اہل افسران کے توسط سے بات چیت کرنا؛ قدرتی آفات نظم کے شعبے میں تحقیقی پروجیکٹوں کی مشترکہ منصوبہ سازی ، ترقی اور نفاذ ، سائنسداں اور تکنیکی اشاعتوں و تحقیقی کاموں کے نتائج کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرنا؛ اس مفاہمتی عرضداشت کے دائرے میں آپسی رضامندی سے اطلاعات ، رسالوں یا دیگر اشاعتوں ، ویڈیو اور فوٹو سازو سامان کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرنا؛ متعلقہ شعبوں میں مشترکہ طورسے اجلاسوں، سیمینار، ورکشاپ کے ساتھ ساتھ مشق اور تربیتوں کا انعقاد کرنا؛ قدرتی آفات نظم میں ماہرین اور تجربات کا تبادلہ کرنا؛ کھوج اور بچاؤ کام سے جڑی مہموں میں سب سے پہلے اپنی سرگرمی دکھانے والوں کی تربیت اور ان کی صلاحیت سازی، قدرتی آفات نظم کے شعبے میں صلاحیت سازی کی تعمیر میں مدد کرنے کے لئے تربیت کنندگان اور ماہرین کا تبادلہ؛ قدرتی آفات نظم میں تکنیکی سہولیات اور سازو سامان دستیاب کرانے ، ماقبل انتباہ جاری کرنے والے سسٹم میں اضافہ کرنے اور پارٹیوں کی صلاحیت سازی کے لئے آپسی مفاہمت پر مدد کرنا؛ ایمرجنسی رد عمل میں آپسی مفاہمت پر مدد مہیا کرنا؛ قدرتی آفات مخالف بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے معلومات اور ماہریت سے متعلق امداد کو آپس میں ساجھا کرنا؛ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کے مطابق آپسی مفاہمت سے معیاری نظم سسٹم مہیا کرنا؛ قدرتی آفات نظم سے متعلق دیگر سرگرمیاں ، جن کے بارے میں دونوں فریق کے اہل حکام میں باہمی مفاہمت ہو؛ موجودہ وقت میں ہندوستان نے قدرتی آفات نظم کے شعبے میں تعاون کے لئے سوئٹزر لینڈ، روس، سارک، جرمنی، جاپان، تاجکستان، منگولیا، بنگلہ دیش اور اٹلی کے ساتھ باہمی ؍کثیر رخی معاہدہ؍مفاہمتی عرضداشت ؍اس سے متعلق مشترکہ اعلانیہ ؍تعاون عرضداشت پر دستخط کئے ہیں۔,দুৰ্যোগ প্ৰবন্ধন ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা সন্দৰ্ভত ভাৰত-তুৰ্কমেনিস্তানৰ মাজত সম্পাদিত বুজাবুজিৰ চুক্তিলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%BA%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%81-%D8%B3%DB%81%DB%8C%D9%84-%D8%AF%DB%8C%D9%88-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%D9%BE%D8%B1-%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%B9%E0%A6%B2%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A7%B1-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%95-%E0%A6%A1/,نئی دہلی، 30 دسمبر 2018، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جاے میں ایک نعرہ بلواؤں گا آپ سب کو میرے ساتھ بولنا ہوگا۔ میں کہوں گا مہاراجہ سہیل دیو، آپ سب دونوں ہاتھ اوپر کرکے دو بار بولیں گے، امر رہے امر رہے۔ مہاراجہ سہیل دیو سنگھ امر رہے امر رہے۔ یہاں اتنی زبردست تعداد میں آنے والے بھائیوں اور بہنوں! ملک کی حفاظت کے لیے بہادروں، مادر وطن کی حفاظت کے لیے جاں باز سپاہیوں اور مجاہدوں کو جنم دینے والی یہ دھرتی، جہاں رشیو اور منیوں کے قدم پڑے ہیں، ایسی مقدس زمین پر میرا ایک بار پھر آنا، میرے لیے انتہائی مسرت بخش ہے۔ آپ سبھی کے حوصلے اور جوش ہمیشہ میری توانائی کا سرچشمہ رہا ہے۔ آج بھی سب یہاں اتنی بڑی تعداد میں مجھے آشیرواد دینے کے لیے یہاں پہنچے ہیں، اس کے لیے میں سر جھکا کر آپ سبھی کو سلام کرتا ہوں۔ ساتھیوں! اترپردیش میں میرے آج کے قیام کے دوران پوروانچل کے خطے کو ایک بڑے میڈیکل کالج کی تعمیر ، زراعت سے متعلق اہم تحقیقی کاموں کے سینٹر کے قی��م اور یوپی کی صنعتوں کو مضبوط کرنے کی سمت میں انتہائی اہم قدم اٹھایے جائیں گے۔ اب سے کچھ ہی دیر قبل غازی پور میں نئے میڈکل کالج کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ آج یہاں پوروانچل اور پورے اترپردیش کے افتخار میں اضافہ کرنے والا ایک مقدس کام ہوا ہے۔ ہر ہندوستانی کو اپنا دیس، اپنی تہذیب اور اپنی بہادری کی یاد دلانے کا ایک مقدس کام یہاں ہوا ہے۔ مہاراجہ سہیل دیو کی داستان شجاعت ملک کے لیے ان کے خدمات کو سرجھکا کر سلام کرتے ہوئے اب سے تھوڑی ہی دیر پہلے ان کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ پانچ روپے کی قیمت والا یہ ڈاک ٹکٹ لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر کے ڈاک خانوں کے ذریعے گھر گھر پہنچنے والا ہے۔ مہاراجہ سہیل دیو کو ان کے عظیم خدمات کو ہندوستان کے ہر گوشے میں ہر گھر میں پہنچانے کی ایک کوشش اس ڈاک ٹکٹ کے وسیلے سے ہونے والی ہے۔ ساتھیوں! مہاراجہ سہیل دیو ملک کے ان بہادر جانبازوں میں رہے ہیں، جنہوں نے ماں بھارتی کی عزت وقار کے لیے جدوجہد کی۔ مہاراجہ سہیل دیو سے، سماج کا ہر محروم فردحوصلہ حاصل کرتا ہے، ان کی یاد بھی تو ، ‘‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’’ کے اصول کو نئی طاقت دیتی ہے۔ کہا جاتاہے کہ جب مہاراجہ سہیل دیو کا راج تھا تو لوگ گھروں میں تالا لگانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں عام لوگوں کی زندگی کوآسان بنانے اورغریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے متعدد اہم کام کیے۔ انہوں نے سڑکیں بنوائیں، باغیچے لگوائے، پاٹھ شالائیں کھلوائیں، مندر قائم کیے اور اپنی ریاست کو بہت ہی خوبصورت بنایا۔ جب غیر ملکی حملہ آوروں نے سرزمین ہند پر آنکھ اٹھائی تو مہاراجہ سہیل دیو ان عظیم بہادروں میں تھے، جنہوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمنوں کو شکست دی۔ انہوں نے آس پاس کے راجاؤں کو جوڑ کر ایک ایسی منظم طاقت پیدا کی کہ دشمن ان کے سامنے ٹک نہیں پائے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے تھے، مہاراجہ سہیل دیو سب کے تھے۔ بھائیوں اور بہنوں! ملک کے ایسے بہادر مردوں اور عورتوں کو جنہیں پہلے کی سرکاروں نے فراموش کردیا تھا، انہیں خراج عقیدت پیش کرنا ہماری سرکار نے اپنی ذمہ داری سمجھا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں! اترپردیش کے ضلع بہرائچ کے چتوڑا میں جب بھی ہم مہاراجہ سہیل دیو کو یاد کرتے ہیں تو ضلع بہرائچ کے چتوڑا کو بھی نہیں بھول پاتے۔یہی وہ شکتی تھی جہاں مہاراجہ نے حملہ آوروں کو شکست دے کر ختم کردیا تھا۔ یوگی جی کی سرکار نے اس مقام پر جہاں مہاراجہ سہیل دیو نے زبردست فتح حاصل کی تھی،ان کی یاد میں اس فتح کو یاد کرانے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم الشان یادگار تعمیر کرنے کا بھی اترپردیش سرکار نے فیصلہ کیا ہے۔ میں اترپردیش سرکار کو مہاراجہ سہیل دیو کی یادگار کے لیے تاریخ کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں اور مہاراجہ سہیل دیو سے حوصلہ لینے والے ملک کے ہر گوشے کے ہر فرد کو حوصلہ ملتا رہے، اس کے لیے میں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی سرکار کا عزم محکم ہے کہ جنہوں نے ہندوستان کی حفاظت، ہندوستان کی سماجی زندگی کو اوپر اٹھانے کے لیے خدمات انجام دی ہیں، ان کی یاد کو مٹنے نہیں دیا جائے گا۔ اپنی تاریخ، اپنی قدیمی تہذیب کے سنہرے صفحات پر دھول جمنے نہیں دی جائے گی۔ بھائیوں اور بہنوں! آج سرکار عوام الناس کے لیے سہل بھی ہے اور متعدد مسائل کے مستقل حل کی کوشش کررہی ہے۔ ووٹ کے لیے اعلانات اور فیتے کاٹنے کی رو��یت کو ہماری سرکار نے پوری طرح بدل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج غریب سے غریب فرد کی سماعت کا راستہ کھلا ہے۔ ساتھیو! سماج کے آخری پائیدان پر کھڑے شخص کو باوقار زندگی دینے کی یہ مہم ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے۔ ابھی ایک ٹھوس بنیاد بنانے کی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ اس بنیاد پر مضبوط عمارت تیار کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ پوروانچل میں طبی خدمات کی توسیع اسی سمت میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے۔ صحت کے نظریے سے پوروانچل سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ ہے۔یہاں ایک میڈیکل ہب بنانے کی سمت میں مسلسل تیزی سے کام کیا جارہاہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جس میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، اس سے ہر علاقے کو علاج کی جدید سہولت تو حاصل ہوگی ہی، اس کے ساتھ ہی غازی پور میں نئے اور باصلاحیت ڈاکٹر بھی تیار ہوں گے۔ یہاں کے نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے کا خواب اپنے گھر میں پورا کرنے کا موقع ملے گا۔ تقریباً ڈھائی سو کروڑ کی لاگت سے جب یہ کالج بن کر تیار ہوجائے گا تو غازی پور کا ضلع اسپتال 300 بیڈ کا ہوجائے گا۔ اس اسپتال سے غازی پور کے ساتھ ساتھ آس پاس کے دیگر اضلاع کے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ہمارے عزیز ساتھی منوج سنہا کی بھی اس علاقے میں علاج معالجے کی جدید سہولیات کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں، بہت جلد ہی یہ اسپتال آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ 100 بستر والے میٹیرنیٹی اسپتال کی سہولت بھی جڑ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ضلع اسپتال میں جدید ایمبولینس کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ان سہولیات کو مزید وسیع بنایا جائے گا۔ بھائیوں اور بہنوں! غازی پور کا نیا میڈیکل کالج ہو، گورکھپور کا ایمس ہو، وارانسی میں کھولے جارہے جدید اسپتال ہوں، پرانے اسپتالوں کی توسیع ہو، ان سب پر پوروانچل میں ہزاروں کروڑ روپے کی مالیت کی صحت سہولیات فراہم کرانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ساتھیوں! غریب اور درمیانہ درجے کے لوگوں کی صحت کو آزادی کی تاریخ میں پہلی بار اتنی اولیت دی جارہی ہے، آیوش مان بھارت یوجنا، پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا(پی ایم جے اے وائی)، جیسی عظیم فوائد والی اسکیموں کو لوگ مودی کیئر بھی کہتے ہیں۔ اس پی ایم جے اے وائی آیوش مان کا فائدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ اس اسکیم سے کینسر جیسی سیکڑوں سنگین بیماریوں کی صورت میں پانچ لاکھ روپے تک کا مفت علاج کرائے جانے کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ صرف 100 دن کے اندر ہی ملک بھر کے قریب ساڑھے چھ لاکھ غریب بہنوں اور بھائیوں کا یہ مفت علاج یا تو ہوچکا ہے یا اسپتالوں میں جاری ہے۔ اس سے ہمارے اترپردیش کے 14 ہزار سے زیادہ بہن بھائیوں کو فائدہ ملا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دو دو چار چار برس سے سنگین امراض میں مبتلا تھے اور موت کا انتظار کررہے تھے۔ ڈر لگ رہا تھا کہ اگر علاج کراؤں گا تو پورا کنبہ قرض میں ڈوب جائے گا، وہ علاج نہیں کراتے تھے مصیبت جھیلتے تھے۔ آیوش مان بھارت اسکیم نے ایسے لوگوں کو طاقت دی، حوصلہ دیا، اب وہ بھی اسپتال آتے ہیں، ان کے آپریشن ہوتے ہیں اور صحت مند ہوکر ہنستے کھیلتے اپنے گھر لوٹ رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں سرکار ملک کے ہر کنبے کو پردھان منتری جیون جیوتی اور سرکچھا بیمہ جیسی اسکیموں سے بھی جوڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ مشکل وقت میں دو لاکھ روپے تک کی مدد دستیاب کرائے جانے کے لیے صرف 90 پیسے یومیہ اور ایک روپیہ ماہانہ کے معمولی پریمیم پر یہ اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔ ان اسکیموں سے ملک بھر کے 20 کروڑ سے زائد لوگ جڑ چکے ہیں۔ ان میں تقریباً پونے دو کروڑ لوگ ہمارے اترپردیش کے ہیں۔ ساتھیوں! 400 کروڑ روپیہ 90 پیسے کے بیمے سے ان کنبوں تک پہنچا تو ان کو کتنی طاقت ملی ہوگی۔ سرکاریں جب شفافیت کے ساتھ کام کرتی ہیں، جب عوامی مفاد ذاتی مفاد سے اوپر رکھا جاتا ہے، احساس جب ریاضت کی عادت بن جاتا ہے تو ایسے بڑے بڑے کام قدرتی طور سے ہی ہونے لگتے ہیں۔ جب ہدف کے نظام میں مستقل تبدیلی کی جاتی ہے، تب ایسے بڑے کام ہوپاتے ہیں۔ دور کی سوچ کے ساتھ مستقل اور ایماندار کوششیں کی جاتی ہیں۔ ساتھیوں! کاشی کا رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہو یا وارانسی اور غازی پور میں بنے کارگو سینٹر ہوں، گورکھپور میں بنائے جانے والی فوڈ فیکٹری ہوں، بان ساگر جیسی سینچائی اسکیمیں ہوں، بیج سے بازار تک کے متعدد انتظامات دیش بھر میں کیے جارہے ہیں۔ مجھے میرے ساتھی منوج جی بتا رہے تھے کہ غازی پور میں پیری شیبل کارگو سینٹر بنا ہے، اس سے یہاں کی ہری مرچ اور ہری مٹر دوبئی کے بازاروں میں بک رہی ہے اور کسانوں کو بہتر قیمتیں مل رہی ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں! ووٹ بٹورنے کے لیے سہانا طریقوں کی خوشی کیا ہوتی ہے، وہ ابھی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں دکھائی دی ہے۔ سرکار بدلتے ہی اب وہاں کھاد کے لیے، یوریا کے لیے لمبی قطاریں شروع ہوگئی ہیں، لاٹھیاں چلنے لگی ہیں، کالا بازاری کرنے والے میدان میں آگئے ہیں، کرناٹک میں لاکھوں کسانوں کی قرض معافی کا وعدہ کیاگیا تھا۔ بھائیوں اور بہنوں! یہ سچائی سمجھیں، کرناٹک میں ابھی بھی کانگریس نے پچھلے دروازے سے سرکار بنائی اور کسانوں سے قرض معافی کا وعدہ کیا۔ لاکھوں کسانوں کا قرض معاف ہونا تھا اور کتنا کیا گیا، آپ حیران ہوجائیں گے۔ لاکھوں کسانوں سے قرض معافی کا وعدہ کیا گیاتھا، ووٹ چرا لیے گئے اور چوری کے راستے سے سرکار بنا لی گئی اور کسانوں کو صرف 800 لوگوں کو یہ سہولت حاصل ہوسکی۔آپ مجھے بتائیے یہ کیسے وعدے یہ کیسے کھیل، یہ کسانوں کے ساتھ کیسا دھوکہ ہورہا ہے، اسے آپ سمجھیں، جن کا قرض معاف نہیں ہوا تو نہیں ہوا، اب ان کے پیچھے پولیس چھوڑ دی گئی ہے، جاؤ پیسے جمع کراؤ۔ ساتھیوں! فوری سیاسی مفاد کے لیے جو وعدے کیے جاتے ہیں، جو فیصلے لیے جاتے ہیں، ان سے ملک کے مسائل کا مستقل حل نہیں ہوسکتا۔ 2009 کے چناؤ سے پہلے کیا ہوا، آپ سبھی اس کے گواہ ہیں۔ 2009 کے چناؤ سے پہلے بھی ایسے ہی لوگوں نے قرض معافی کے وعدے کیے تھے، ملک بھر کے کسانوں کے قرض معاف کیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا، میں یہاں جو کسان ہیں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ 2009 میں کیا آپ کا قرض معاف ہوا تھا؟ آپ کے کھاتے میں پیسہ آیا تھا، آپ کو مدد ملی تھی؟، وعدہ کیا گیا تھا کہ نہیں، سرکار بنی تھی لیکن آپ کو بھلا دیا گیا تھا۔ آپ ایسے لوگوں پر بھروسہ کریں گے، ایسی لالی پاپ کمپنی پر بھروسہ کریں گے، ان جھوٹ بولنے والوں پر بھروسہ کریں گے، عوام کو دھوکہ دینے والوں پر بھروسہ کریں گے۔ بھائیوں اور بہنوں! آپ حیران ہوں گے، اس وقت کسانوں پر 6 لاکھ کروڑ روپے کا قرض تھا اور سرکار بننے کے بعد کیسی ڈرامہ بازی کی گئی ، کسانوں کے آنکھوں میں دھول جھونکی گئی، 6 لاکھ کروڑ میں سےصرف 60 ہزار کروڑ کا قرض معاف کیا گیا، کہاں 6 لاکھ کروڑ اور کہاں 60 ہزار کروڑ، اتنا ہی نہیں، سی اے جی کی رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ اس میں سے بہت بڑی رقم ان 35 لاکھ لوگوں کے گھروں میں پہنچ گئی، جو نہ کسان تھے، نہ قرض تھا اور نہ ہی قرض معافی کے حقدار تھے، یہ روپیہ آپ کا گیا، یہ چوری ہوئی کہ نہیں ہوئی۔ قرض معاف ہوا تو لاکھوں لوگوں کو سرٹیفکیٹ بھی نہیں ملے، جس کے نتیجے میں سود بڑھتا گیا، سود چڑھتا گیا اور بعد میں اس بے چارے کسان کو سود سمیت قرض کی ادائیگی کرنی پڑی۔ ساتھیوں! اس قسم کی قرض معافی کا فائدہ کس کو ہوا، کم سے کم کسان کو تو نہیں ہوا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب کانگریس کے اس جھوٹ اور بے ایمانی سے محتاط رہیں۔ یاد رکھیے کہ کانگریس کی سرکار نے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش تک کا نفاذ نہیں کیا تھا۔ کانگریس کی وجہ سے ہی کسانوں کو لاگت کے ڈیڑھ گنے کی قیمت کی سفارش والی فائل برسوں تک کانگریسی دبائے بیٹھے رہے۔ اگر کانگریس نے اپنے زمانے میں آج سے 11 سال قبل سوامی ناتھن کمیشن کو تسلیم کرلیا ہوتا، اس کی سفارشیں نافذ کرلی ہوتیں، کسانوں کو ان کی لاگت کا ڈیڑھ گنا قیمت کی ادائیگی طے ہوجاتی تو آج کسان قرض دار ہوتے ہی نہیں۔ انہیں قرض کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔لیکن آپ کا گناہ ، آپ نے اس فائل کو دبا کر رکھا۔ کسان کو دام نہیں دیئے، کم از کم امدای قیمتیں نہیں دیں، اور کسان قرض دار ہوگیا اور برباد ہوگیا۔ ساتھیوں! کسان کی فصل سے لے کر صنعتوں کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کی بھی یہ سرکار تیار کررہی ہے۔ پوروانچل کی بہتر رابطہ کاری کے لیے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں متعدد کام پورے ہوچکے ہیں اور مستقبل میں متعدد پروجیکٹس پورے ہونے والے ہیں۔ پوروانچل ایکسپریس وے پر تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ پچھلی بار جب میں غازی پور آیا تھا تو تاڑی گھاٹ -غازی پور ریل پل کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جلد ہی یہ بھی خدمت کے لیے چالو کردیا جائے گا، اس سے پوروانچل کے لوگوں کو دہلی اور ہاؤڑہ جانے کے لیے ایک متبادل راستہ مل جائے گا۔ ساتھیوں! گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران مشرقی اترپردیش میں ریلوے کے انتہائی اہم کام ہوئے ہیں۔ اسٹیشن جدید بنائے جارہے ہیں۔دوہری ریل پٹریاں بچھائی جارہی ہیں اور برق کاری کا کام ہورہا ہے۔ نئی ٹرینیں شروع ہوئی ہیں، گاؤں کی سڑکیں ہوں، ڈیجیٹل ہائی وے ہو یا پوروانچل ایکسپریس وے، جب یہ تمام پروجیکٹ پورے ہوجائیں گے، تو اس علاقے کی پوری تصویر ہی بدل جائے گی۔ حال ہی میں وارانسی سے کولکاتا تک جس آبی شاہراہ کا آغاز ہواہے، اس کا فائدہ بھی غازی پور کو ملنا طے ہے، یہاں جیٹی بننے والی ہے، اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا جاچکا ہے، ان تمام سہولیات سے یہ پورا علاقہ تجارت اور کاروبار کا مرکز بنے گا۔ یہاں صنعتیں لگیں گی اور نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع حاصل ہوں گے۔ ساتھیوں! سوراج کے اس عزم محکم کی طرف ہم مسلسل قدم بڑھا رہے ہیں۔ پردھان منتری آواس یوجنا ہو، سوچھ بھارت ابھیان ہو، اجولا یوجنا ہو، آیوش مان بھارت یوجنا ہو، مدرا یوجنا ہو، یا سوبھاگیہ یوجنا ہو، یہ صرف اسکیمیں نہیں، بلکہ بااختیار بنائے جانے کے وسیلے ہیں۔یہ پنچ دھارا بچوں کی پڑھائی، جوانوں کی کمائی، بزرگوں کی دوائی، کسانوں کو سینچائی اور عام لوگوں کی سنوائی کے لیے یہ بہت مضبوط کڑیاں ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں! آنے والا وقت، مستقبل آپ کا ہے، آپ کے بچوں کا ہے، نئی نسل کا ہے، آپ کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے آپ کے بچوں کے مستقبل کو بنانے کے لئے آپ کا یہ چوکیدار بہت ہی ایمانداری سے، بہت ہی لگن کے ساتھ دن رات ایک کررہا ہے۔آپ اپنا بھروسہ اور آشیرواد اسی طرح بنائے رکھیے، کیونکہ چوکیدار کی وجہ سے کچھ چوروں کی راتوں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔ مجھ پر آپ کا اعتماد اور آشیرواد ہی ایک دن ایسا لائے گا، جو ان چوروں کو ان کی صحیح جگہ تک لے جائے گا۔ میں ایک بار پھر آپ کو نئے میڈیکل کالج کے لیے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں اور ایک بار پھر مہاراجہ سہیل دیو کی عظیم شجاعتوں کو سلام کرتے ہوئے اپنی بات تمام کرتا ہوں۔ دو دن بعد 2019 کا سال شروع ہوگا۔ میں اس نئے سال کے لیے بھی آپ کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بھارت ماتا کی جے ، بھارت ماتا کی جے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ س ش۔ ت ع۔,মহাৰাজা সুহলদেৱ স্মাৰক ডাক টিকট উন্মোচন আৰু গাজিপুৰত চিকিৎসা মহাবিদ্যালয়ৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰী ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%DB%8C-7-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D9%84%DA%AF-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%AD-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AD/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 27 جون 2022 کو جرمنی کے شہر شالز ایلماؤ میں جی-7 سربراہ اجلاس سے الگ جنوبی افریقہ کے صدر عالی مرتبت جناب سیرل رامافوسا سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں، خاص طور پر 2019 میں تعاون کے اسٹریٹجک پروگرام پر دستخط کے بعد ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دفاع، تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور تجارت و سرمایہ کاری، خوراک کی حفاظت، دفاع، دواسازی، ڈیجیٹل مالیاتی شمولیت، مہارت کا فروغ، بیمہ، صحت اور عوام سے عوام کے درمیان رابطوں جیسے شعبوں میں باہمی اشتراک و تعاون کو مزید مستحکم اور گہرا کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے جون 2022 میں طے پانے والے ڈبلیو ٹی او معاہدے کا بھی خیرمقدم کیا جو ترقی پذیر ممالک میں کووڈ 19 ویکسین تیار کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ بھارت اور جنوبی افریقہ نے پہلی تجویز پیش کی تھی جس میں کووڈ 19 پر قابو پانے، اس کی روک تھام یا علاج کے سلسلے میں ٹی آر آئی پی ایس معاہدے کی بعض دفعات کے نفاذ پر عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تمام اراکین کے لیے چھوٹ کی تجویز دی گئی تھی۔ کثیرالجہتی اداروں میں مسلسل ہم آہنگی اور ان میں اصلاحات بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی بات چیت ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔م ع۔ع ن (),জি-৭ সন্মিলনৰ সমান্তৰালভাৱে দক্ষিণ আফ্ৰিকাৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D9%86%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D9%86%D8%AA%DA%BE%D8%A7-%D9%BE%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آندھرا پردیش کے اننتھا پورمو ضلع میں پیش آنے والے المناک حادثے میں جانوں کے اتلاف پر اپنے گہرے رنج وغم کااظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے متاثرین کے لئے وزیراعظم قومی راحت فنڈ(پی ایم این آر ایف) سے امدادی رقم کو بھی منظوری دی۔ وزیراعظم کے دفتر نے ایک ٹوئٹ میں کہا: ‘‘ آندھرا پردیش کے اننتھا پورمو ضلع میں ہونے والے المناک حادثے میں جانوں کے اتلاف پر مجھے صدمہ ہے۔ سوگوار کنبوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ جاں بحق ہونے والے ہر فرد کے نزدیکی رشتہ دار کے لئے 2 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے گا۔’’,অন্ধ্ৰ প্ৰদেশৰ অনন্তপুৰ জিলাত সংঘটিত শোকাৱহ দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণহানিৰ ঘটনাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%D9%86%D8%B1-%D9%85%D9%86%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تعلیم اور صلاحیت کے شعبوں پر مرکزی بجٹ 2022 کے مثبت اثرات کے بارے میں ایک ویبنارسے خطاب کیا۔اس موقع پر متعلقہ مرکزی وزراء ،تعلیم ، صلاحیت سازی ، سائنس ، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں کے کلیدی شراکتدار بھی موجود تھے۔ یہ ویبنار، بجٹ سے پہلے اور بعد میں متعلقہ شراکتداروں کے ساتھ تبادلہ خیال اور مذاکرات سے متعلق نئے طریق کا راکایک حصہ تھا۔ وزیر اعظم نے شروع میں ملک کی تعمیر سازی کے عمل میں نوجوان نسل کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ : ہمارے مستقبل کے قومی معمار نوجوانوں کو بااختیار بنانا،بھارت کے مستقبل کو بااختیار بنانا ہے۔ وزیر اعظم نے ان پانچ پہلوؤں کو اجاگر کیا جنہیں مرکزی بجٹ 2022 میں نمایاں طور پر پیش کیا گیا تھا۔پہلا،معیاری تعلیم کو عام بنانے کی غرض سے کلیدی فیصلے کئے گئے ہیں یعنی تعلیمی شعبے کی بڑھی ہوئی صلاحیتوں اور بہتر معیار کے ساتھ تعلیم کے شعبے کی توسیع ۔دوسرا،صلاحیت سازی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے صنعت کے مطالبے اور صنعت کے بہتر روابط کے مطابق صلاحیت سازی ، ایک ڈیجیٹل صلاحیتی ایکو سسٹم ، تیار کرنے پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ تیسرا،شہری منصوبہ بندی اور ڈیزائن کی تیاری سے متعلق بھارت کے قدیم تجربہ اور علم کو تعلیم میں شامل کئے جانے کی بہت اہمیت ہے۔بین الاقوامی نوعیت پر زور دیا گیا ہے۔اس میں عالمی معیار کی غیر ملکی یونیورسٹیوں کی آمد اور فنٹیک سے متعلق انسٹی ٹیوٹس کی حصولیابی کے ساتھ جی آئی ایف ٹی سٹی کے اداروں کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔پانچواں، اینی میشن ویژول ایفیکٹس گیمینگ کومک (اے وی جی وی ) پر توجہ مرکوز کرنا جہاں روزگار کے زبردست امکانات موجود ہیں اورایک بڑی عالمی مارکیٹ کی گنجائش ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘اس بجٹ سے تعلیم سے متعلق قومی پالیسی کو حقیقت کی شکل دینے میں بڑی مدد ملے گی۔’ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ڈیجیٹل کنکٹی وٹی ہی ہے جس نے عالمی وبا کے دوران ملک کے تعلیمی نظام کو جاری رکھا تھا ۔ انہوں نے بھارت میں کم ہوتی ڈیجیٹل تقسیم کا ذکر کیا ۔انہوں نے کہا:‘‘جدت طرازی ہمارے ملک میں سبھی کی شمولیت کو یقینی بنارہی ہے۔اور اب مزید آگے بڑھتے ہوئے ،ملک ارتباط کی جانب پیش قدمی کررہا ہے۔’’انہوں نے زور دیکر کہا کہ ای۔ودّیا ، ایک کلاس ایک چینل ، ڈیجیٹل لیب ،ڈیجیٹل یونیورسٹیاں جیسے اقدامات ،ایک تعلیمی بنیادی ڈھانچہ تیار کررہے ہیں جن کی بدولت ملک کے نوجوانوں کو ایک طویل عرصہ تک مدد ملتی رہے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا:‘‘یہ ملک کے سماجی ۔اقتصادی ڈھانچے میں گاؤوں ،غریبوں ،دلتوں،پسماندہ افراد اور قبائلی لوگوں کو بہتر تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے’’۔وزیر اعظم نے حال ہی میں اعلان شدہ نیشنل ڈیجیٹل یونیورسٹی میں ایک اختراعی اور بے مثال اقدام کا مشاہدہ کیا۔ جس میں یونیورسٹیوں میں سیٹوں کے مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے وزا��ت تعلیم ، یو جی سی ، اور اے آئی سی ٹی ای اور ڈیجیٹل یونیورسٹی کے تمام شراکت داروں پر زور دیا کہ وہ اس پروجیکٹ پر تیزی سے کام کریں ۔انہوں نے ادارے قائم کرنے کے دوران بین الاقوامی معیارات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آج مادری زبان کے بین الاقوامی دن کے موقع پر وزیر اعظم نے مادری زبان کے میڈیم میں تعلیم اور بچوں کی دماغی نشونما کے درمیان رابطے کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مطلع کیا کہ کئی ریاستوں میں میڈیکل اور تکنیکی تعلیم مقامی زبانوں میں دی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نے مقامی بھارتی زبانوں میں ڈیجیٹل شکل میں بہترین مواد تخلیق کرنے کے عمل میں تیزی لانے پر زور دیا ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس قسم کے مواد کو انٹرنیٹ ، موبائل فون ، ٹی وی اور ریڈیو کے توسط سے دستیاب کرائے جانے کی ضرور ت ہے۔ وزیر اعظم نےکہا کہ:‘‘ آتم نربھر بھارت کے لئے عالمی پیمانے پر صلاحیتوں کے مطالبے کے پیش نظر فعال ہنرمندی کی بہت اہمیت ہے ’’۔انہوں نے ملک کو آبادی کی شکل میں جو بالادستی حاصل ہے اسے روزگار کے مطالبات کی بدلتی ہوئی شکلوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اس ویژن کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی ہنر مندی کے لئے ڈیجیٹل ایکو سسٹم اور ذریعہ معاش اور ای ۔اسکلنگ لیبس کا اعلان کیاگیا تھا ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ بجٹی عمل لائی گئیں حالیہ تبدیلیاں کس طرح سے بجٹ کو تغیر کا ایک ذریعہ بنارہی ہیں۔انہوں نے شراکتداروں سے کہا کہ وہ بجٹ کی تجاویز کو خوش اسلوبی کے ساتھ زمینی سطح پر نافذ کریں ۔انہوں نے کہا کہ حالیہ دور میں بجٹ کو ایک مہینے پہلے پیش کرکے ،اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ جب اسے یکم اپریل سے نافذ کیا جائے تو پہلے ہی تمام تیاریاں اور مذاکرات اور تبادلہ خیال کئے جاچکے ہوں۔انہوں نے تمام متعلقہ فریقوں سے کہا کہ وہ بجٹ کی تجاویز کے زیادہ سے زیادہ نتائج کی حصولیابی کو یقینی بنائیں ۔انہوں نے آخر میں کہا کہ ‘‘آزادی کا امرت مہوتسو اور قومی تعلیم کے تناظر میں ،یہ پہلا بجٹ ہے جسے ہم امرت کال کی بنیاد رکھنے کے لئے جلد سے جلد نافذ کرنا چاہتے ہیں۔’’انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘بجٹ اعداد و شمار کا محض ایک کھاتہ نہیں ہے، بلکہ اسےاگر مناسب طریقے سے نافذ کیا جائے تو یہ محدود وسائل کے باوجود بھی زبردست تغیّر اور تبدیلیاں لاسکتا ہے۔,শিক্ষা আৰু দক্ষতাৰ ক্ষেত্রত ২০২২ৰ কেন্দ্রীয় বাজেটৰ ইতিবাচক প্রভাবক লৈ এখন ৱেবিনাৰত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%86%D9%86%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF-%D9%81%D9%88%DA%88-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%B3%D9%86%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%A7%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%B8/,نئی دہلی۔30ستمبر آج وزیر اعظم نریندر مودی نے آنند میں جدید ترین چاکلیٹ پلانٹ کے ساتھ جدیدفوڈ پروسیسنگ سہولیات کا افتتاح کیا۔ انہوں نے چاکلیٹ پلانٹ کو دیکھا اور وہاں انہیں استعمال ہونے والی مختلف ٹیکنالوجی اور مختلف مصنوعات کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے آنند کے لوگوں کااتنی بڑی تعداد میں آنے کے لیے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جن منصوبوں کا افتتاح کیا جا رہا ہے ، وہ کوآپریٹو شعبہ کے لئے بہت ہی نفع بخش ہے۔ انہوں نے کہا کہ امول کا برانڈ تمام دنیا بھر میں جانا جاتا ہے اور یہ دنیا بھر کے لوگوں میں ترغیب کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امول نہ صرف دودھ پروسیسنگ ہے ، بلکہ بااختیار بنانے کا یہ بہترین نمونہ بھی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کوآپریٹو کے ذریعہ ، سردار پیٹل نے ایک ایسا راستہ دکھایا جس میں نہ ہی حکومت اور نہ ہی کسی صنعت کار کوئی عمل دخل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد نمونہ ہے جہاں لوگ واقعتاً اہم ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات میں کوآپریٹو شعبہ میں ہونے والی کوششیں لوگوں، خاص طور پر کسانوں کی مدد کی ہیں۔ انہوں نے شہر ی ترقی سے متعلق سردار پٹیل کی کوششوں کو بھی یاد کیا ۔ 2022 میں بھارت کی آزادی کے 75 ویں سالگرہ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان دودھ کے شعبہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدت اور اضافی قدر پر توجہ دینے کا وقت آ گیا ہے۔ اس سلسلے میں، انہوں نے شہد کی پیداوار پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔,আনন্দত আধুনিক খাদ্য প্রস্তুতকৰণ ব্যৱস্থাৰ উদ্বোধন কৰিলে প্রধানমন্ত্রীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%93%D8%A8-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A8%D9%86-%D8%B2%D8%A7%DB%8C%D8%AF-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%8F%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B9%E0%A6%BF/,نئی دہلی، 14/مئی 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ابوظہبی کے حکمراں عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان کو متحدہ عرب امارات کا نیا صدر منتخب کئے جانے پر مبارک باد دی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا ہے: ’’ابوظہبی کے حکمراں عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان کو متحدہ عرب امارات کا نیا صدر منتخب کئے جانے پر میری نیک خواہشات۔ میں پُرامید ہوں کہ ان کی فعال اور بصیرت افروز قیادت میں ہماری جامع اسٹریٹیجک شراکت داری مزید گہری ہوگی۔ @MohamedBinZayed‘‘,ইউএইৰ নতুন ৰাষ্ট্ৰপতি হিচাপে নিৰ্বাচিত হোৱা মহামহিম শ্বেইখ মহম্মদ বিন জায়েদ আল নাহিয়ানক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-44%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%D8%AD%D9%84%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%AA%E0%A7%AA%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95/,نمسکار! من کی بات کے ذریعے سے پھر ائیک بار آپ سب سے روبرو ہونے کا موقع ملا ہے۔ آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا بحریہ کی 6 خواتین کمانڈروں ، یہ ایک گروپ گزشتہ کئی مہینوں سے سمندری سفر پر تھا۔ ناوک ساگر پریکرما – جی میں ان کے متعلق کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ہندوستان کی ان 6 بیٹیوں نے ، ان کی اس ٹیم نے 250 سے بھی زیادہ دن سمندر کے ذریعے آئی این ایس وی تارینی میں پوری دنیا کی سیر کر 21 مئی کو ہندوستان واپس لوٹی ہیں اور پورے ملک نے ان کا کافی گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ انہوں نے مختلف اوقیانوسوں اور کئی سمندوں میں سفر کرتے ہوئے تقریباً 22 ہزار نیوٹیکلس مائلس کی دوری طے کی۔ یہ دنیا میں اپنے آپ میں ایک پہلا واقعہ تھا۔ گزشتہ بدھوار کو مجھے ان سبھی بیٹیوں سے ملنے کا، ان کے تجربات سننے کا موقع ملا ہے۔ میں ایک بار پھر ان بیٹیوں کو ان کے ایڈوینچر کو، بحریہ کے وقار کو بڑھانے کے لیے ، ہندوستان کا عزت افزائی کرنے کے لیے اور خاص کر دنیا کو بھی لگے کہ ہندوستان کی بیٹیاں کم نہیں ہیں – یہ پیغام پہچانے کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ سینس آف ایڈوینچر کون نہیں جانتا ہے۔ اگر ہم انسانوں کی ترقی کا سفر دیکھیں تو کسی نہ کسی ایڈوینٹر کی کوخ میں ہی ترقی پیدا ہوئی ہے۔ ترقی ایڈوینٹر کی گوم میں ہی تو جنم لیتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کا ارادہ، کچھ لیک سے ہٹ کر کے کرنے کا معنیٰ، کچھ ایکسٹرا ٓرڈینری کرنے کی بات، میں بھی کچھ کر سکتا ہوں – یہ خواہش رکھنے والے بھلے کم ہوں ہوں، لیکن صدیوں تک ، بے حساب لوگوں کو ترغیب ملتی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ماؤنٹ ایوریسٹ پر چڑھنے والوں کے بارے میں کئی نئی نئی باتیں خیال میں آیا ہے اور صدیوں سے ایوریسٹ انسانوں کو چیلنج دیتا رہا اور بہادر لوگ اس چیلنج کو قبول کرتے بھی رہے ہیں۔ 16 مئی کو مہاراشٹر کے چندر پور کے ایک آشرم- اسکول کے 5 آدی واسی بچوں نے قبائلی طلبا – منیشا دھروے، پرمیش آلے، اماکانت مڈوی، کوی داس کاتموڑے، وکاس سویام – ان ہمارے آدی واسی بچوں کے ایک گروپ نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر چڑھائی کی۔ آشرم اسکول کے ان طلبا نے اگست 2017 میں ٹریننگ شروع کی تھی۔ وردھا، حیدرآباد، دارجلنگ، لیہہ ، لداخ – ان کی ٹریننگ ہوئی۔ ان نوجوانوںکو مشن شوریہ کے تحت منتخب کیا گیا تھا اور نام کے ہی مطابق ایوریسٹ فتح کر انہوں نے پورے ملک کو فخر دلایا ہے۔ میں چندر پور کے اسکول کے لوگوں کو ان میرے ننھے منھے ساتھیوں کو، دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ حال ہی میں 16 سالہ شیوانگی پاٹھک ، نیپال کی جانب سے ایوریسٹ فتح کرنے والی سب سے کم عمر کی ہندوستانی خاتون بنی۔ بیٹی شیوانگی کو بہت بہت مبارکباد۔ اجیت بجاج اور ان کی بیٹی دیا ایوریسٹ کی کوہ پیما کرنے والی پہلی خواتین باپ بیٹی کی جوڑی بن گئی۔ ایسا ہی نہیں کہ صرف نوجوان ہی ایوریسٹ کی پیمائی کر رہے ہیں۔ سنگیتا بہل نے 19 مئی کو ایوریسٹ کی پیمائی کی اور سنگیتا بہت کی عمر 50 سے بھی زیادہ ہے۔ ایوریسٹ پر چڑھائی کرنے والے کچھ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے دکھایا کہ ان کے پاس نہ صرف اسکیل ہے بلکہ وہ سینسٹیو بھی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں سوچھ گنگا ابھیان کے تحت بی ایس ایف کے ایک گروپ نے ایوریسٹ کی چڑھائی کی، پر پوری ٹیم ایوریسٹ سے ڈھیر سارا کوڑا اپنے اپنے ساتھ نیچے اتار کر لائی۔ یہ کام تعریف کے قابل تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ یہ صفائی کے تئیں، ماحولیات کے تئیں ان کی بیداری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سالوں سے لوگ ایوریسٹ کی چڑھائی کرتے رہے ہیں اور ایسے کئی لوگ ہیں، جنہوں نے کامیابی سے اسے مکمل کیا ہے۔ میں ان سبھی بہادر جوانوں کو، خاص طور پر بیٹیوں کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے پیوارے ہم وطنوں اور خاص کر میرے نوجوان دوستوں۔ ابھی دو مہینے پہلے جب میں نے فٹ انڈیا کی بات کی تھی تو میں نے نہیں سوچا تھا کہ اس پر اتنا اچھا رسپانس آئے گا۔ اتنی بھاری تعداد میں ہر شعبے سے لوگ اس کے سپورٹ میں آگے آئیں گے۔ جب میں فٹ انڈیا کی بات کرتا ہوں تو میں مانتا ہوں کہ جتنا ہم کھیلیں گے ، اتنا ہی ملک کھیلے گا۔ سوشل میڈیا پر لوگ فٹنیس چیلنج کی ویڈیوس شیئر کر رہے ہیں، اس میں ایک دوسرے کو ٹیگ کر انہیں چیلنج کر رہے ہیں۔ فٹ انڈیا کے اس مہم سے آج ہر کوئی جڑ رہا ہے۔ چاہے فلم سے جڑے لوگ ہوں، اسپورٹس سے جڑے لوگ ہوں یا ملک کے عام لوگ ، فوج کے جوان ہوں، اسکول کی ٹیچر ہ��ں، چاروں طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے – ہم فٹ تو انڈیا فٹ۔ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ مجھے بھی ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی جی نے چیلنج کیا ہے اور میں نے بھی ان کے چیلنج کو قبول کیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ بہت اچھی چیز ہے اور اس طرح کا چیلنج ہمیں فٹ رکھنے اور دوسروں کو بھی فٹ رہنے کے لیے ترغیب دیگا۔ میرے پیارے ہم وطنوں ! من کی بات میں کئی بار کھیل سے متعلق ، کھلاڑیوں سے متعلق ، کچھ نہ کچھ باتیں آپنے میرے سے سنی ہی ہے اور پچھلے بار تو کامن ویلتھ گیمس کے ہمارے ہیرو، اپنی من کی باتیں، اس پروگرام کے ذریعے سے ہمیں بتا رہتے تھے – ’’نمسکار سر! میں چھوی یادو نوئیڈا سے بول رہی ہوں، میں آپ کی من کی بات کی ریگولر کی سماعت کرنے والا ہوں اور آج آپ سے اپنی من کی بات کرنا چاہتی ہوں – آج کل گرمی کی چھٹیاں شروع ہو گئی ہے اور ایک ماں ہونے کے ناطے میں دیکھ رہی ہوں کہ بچے زیادہ تر وقت انٹر نیٹ گیمس کھیلتے ہوئے صرف کرتے ہیں، جب کہ ہم چھوٹے تھے تو ہم روایتی کھیل جو کہ زیادہ تر آؤٹ ڈور گیمس ہوتے تھے، وہ کھیلتے تھے، جیسا کہ ایک گیم تھا جس میں 7 پتھر کے ٹکڑے ایک کے اوپر ایک رکھ کے اسے بال سے مارتے تھے اور اونچ – نیچ ہوتا تھا، کھو –کھو، یہ سب گیمس جو آج کل کھو سے گئے ہیں۔ میری یہ درخواست ہے کہ آپ آج کل کی جینریشن کو کچھ روایتی کھیلوں کے بارے میں بتائیں، جس سے ان کی بھی دلچسپی اس جانب بڑھے، شکریہ۔‘‘ چھوی یادو جی، آپ کے فون کال کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ یہ بات صحیح ہے کہ جو کھیل کبھی گلی گلی ہر بچے کے زندگی کا حصہ ہوتا تھا، وہ آج کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کھیل خاص طور پر گرمی کی چھٹیوں کا خاص حصہ ہوتا تھا۔ کبھی بھری دوپہری میں، تو کبھی رات میں کھانے کے بعد بھی بغیر کسی فکر کے، بالکل بے فکر ہوکر کے بچے گھنٹوں گھنٹوں تک کھیلا کرتے تھے اور کچھ کھیل تو ایسے بھی ہیں، جو پوری فیملی ساتھ میں کھیلا کرتا تھا – پٹّو ہو کنچے ہو، کھو کھو ہو، لٹّو ہو یا گلی ڈنڈا ہو، نہ جانے ….. بے حساب کھیل کشمیر سے کنیا کماری، کچھ سے کام روپ تک ہر کسی کے بچپن کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ الگ الگ جگو وہ الگ الگ ناموں سے جانے جاتے تھے، جیسے اب پٹو ہی یہ کھیل کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ کوئی اسے لاگوری، ساتولیا، سات پتھر، ڈیکوری، ستودیا نہ جانے کتنے نام ہیں ایک ہی کھیل کے۔ روایتی کھیلوں میں دونوں طرح کے کھیل ہیں۔ آؤٹ ڈور بھی ہیں، ینڈور بھی ہیں۔ ہمارے ملک کی گوناگونیت کے پیچھے چھپی یکجہتی ان کھیلوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ہی کھیل الگ الگ جگہ، مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ میں گجرات سے ہوں مجھے پتا ہے گجرات میں ایک کھیل ہے ، جسے چومل استو کہتے ہیں۔ یہ کوڑیوں یا املی کے بیج یا ڈائس کے ساتھ اور 8×8 کے اسکوائر بورڈ کے ساتھ کھلا جاتا ہے۔ یہ کھیل تقریباً ہر ریاست میں کھیلا جاتا ہے۔ کرناٹک میں اسے چوکابار کہتے تھے، مدھیہ پریدش میں اتّو۔ کیرل میں پکیڑاکالی تو مہاراشٹر میں چمپل، تو تمل ناڈو میں دایام اور تھایام، تو کہیں راجستھان میں چنگاپو نہ جانے کتنے نام تھے لیکن کھیلنے ے بعد پتہ چلتا ہے ، ہر ریاست والے کو زبان بھلے نہ جانتا ہو – ارے واہ! یہ کھیل تو ہم بھی کرتے تھے۔ ہم میں سے کون ہوگا، جس نے بچپن میں گلی ڈنڈا نہ کھیلا ہو۔ گلی ڈنڈا تو گاؤں سے لیکر شہروں تک میں کھیلے جانے والا کھیل ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں اسے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ آندھرا پردیش میں اسے گوٹی بلّا یا کرّابلا کے نام سے جانتے ہیں۔ اڈیشہ میں اسے گولی باڑی کہتے ہیں تو مہاراشٹر میں اسے ویتی ڈالو کہتے ہیں۔ کچھ کھیلوں کو اپنا ایک سیزن ہوتا ہے۔ جب ہر کوئی پتنگ اڑاتا ہے جب ہمیں کھیلتے ہیں، ہم میں جو انوکھی کوالیٹیز ہوتی ہیں، ہم انہیں فری ایکسپریس کر پاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کئی بچے ، جو شرمیلے مزاج کے ہوتے ہیں لیکن کھیلتے وقت بہت ہی چنچل ہو جاتے ہیں۔ خود کو ایکسپریس کرتے ہیں، بڑے جو سنجیدہ سے دکھتے ہیں، کھیلتے وقت ان میں جو ایک بچہ چھپا ہوتا ہے، وہ باہر آتا ہے۔ روایتی کھیل کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ وہ ہماری لوجیکل تھنکنگ ، حراستی، شعور، توانائی کو فروغ دیتے ہیں۔ اور کھیل صرف کھیل نہیں ہوتے ہیں، وہ زندگی کے اقدار کو سکھاتے ہیں۔ ہدف طے کرنا، مضبوطی کیسے حاصل کرنا، ٹیم اسپریٹ کیسے پیدا ہونا، آپسی تعاون کیسے کرنا۔ گزشتہ دنوں میں دیکھ رہا تھا کہ بزنس مینیجمنٹ سے جڑے ہوئے ٹریننگ پروگرامس میں بھی اور آل پرسنیلٹی ڈیولپمنٹ اور ینٹر پرسنل اسکلس کے امپرومینٹ کے لیے بھی ہمرے جو روایتی کھیل تھے، اس کا آج کل استعمال ہو رہا ہے اور بڑی آسانی سے اوورآل ترقی میں ہمارے کھیل کام آ رہے ہیں اور پھر ان کھیلوں کو کھیلنے کی کوئی عمر تو ہی ہی نہیں۔ بچوں سے لے کر کے دادا- دادی، نانا –نانی جب سب کھیلتے ہیں تو یہ جو کہتے ہیں نہ جینریشن گیپ، ارے وہ بھی چھو منتر ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی ثقافت اور روایت کو بھی جانتے ہیں۔ کئی کھیل ہمیں سماج، ماحولیات وغیرہ کے بارے میں بھی بیدار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ہمارے یہ کھیل کھو نہ جائیں اور وہ صرف کھیل ہی نہیں کھو جائے گا، کہیں بچپن ہی کھو جائے گا اور پھر اس نظم کو ہم سنتے رہیں گے – یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی یہ گیت ہم سنتے رہ جائیں گے اور اس لیے یہ روایتی کھیل، اس کو کھونا نہیں ہے آج ضرورت ہے کہ اسکول، محلے ، نوجوان گروپ آگے آکر ان کھیلوں کو بڑھاوا دیں۔ کراؤڈ سورسنگ کے ذریعے ہم اپنے روایتی کھیلوں کا ایک بہت بڑا ارکائیو بنا سکتے ہیں ۔ ان کھیلوں کے ویڈیوز بنائے جا سکتے ہیں، جن میں کھیلوں کےضوابط، کھیلنے کے طریقے کے بارے میں دکھایا جا سکتا ہے۔ ایمیشن فلمیں بھی بنائی جا سکتی ہے تاکہ ہماری جو نوجوان نسل ہے، جن کے لیے یہ غلطیوں میں کھیلےجانے والے کھیل کبھی کبھی عجوبہ ہوتا ہے – وہ دیکھیں گے، کھیلیں گے، کھلیں گے۔ میرے پیارے ہم وطنوں!آنے والے 5 جون سے ہمارا ملک ہندوستان سرکاری طور پر عالمی ماحولیات دن کی میزبانی کرے گا۔ یہ ہندوستان کےلیے ایک بہت اہم موقع ہے اور یہ ماحولیات تبدیلی کو کم کرنے کی سمت میں عالم میں ہندوستان کے بڑھتی ہوئی قیادت کو بھی منظوری مل رہی ہے۔ اس کا تعارف ہے۔ اس بار کی موجوع ہے بیٹ پلاسٹک پالیوشن۔ میری آپ سبھی سے اپیل ہے ، اس تھیم کے بھاؤ کو، اس کے اہمیت سمجھتے ہوئے ہم سب یہ یقینی بنائیں کہ ہم پالیتھن، لو گریڈ پلاسٹک کا استعمال نہ کریں اور پلاسٹک پولیوشن کا جو ایک منفی اثر ہمارے ماحولیات پر، جنگلات زندگی پر اور ہمارے صحت پر پڑ رہا ہے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔ عالمی ماحولیات دن کی ویب سائٹ ویڈ-انڈیا 2018 پر جائیں اور وہاں بہت سے مشورہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں دیئے گئےہیں – دیکھیں، جانیں اور انہیں اپنے روز مرہ کی زندگی میں ��تارنے کی کوشش کریں۔ جب بیحد گرمی ہوتی ہے، باڑھ ہوتی ہے۔ بارش رکتی نہیں ہے۔ ناقابل برداشت سردی پڑ جاتی ہے تو ہر کوئی ماہر بن کر کے گلوبل وارمنگ، ماحولیات میں تبدیلی اس کی باتیں کرتا ہے لیکن کیا باتیں کرنے سے بات بنتی ہے کیا؟ ماحولیات کے تئیں حساس ہونا، ماحولیات کی حفاظت کرنا، یہ ہماری عادت ہونی چاہیے، ہمارے تربیت میں ہونی چاہیے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں میں ہم سبھی نے دیکھا کہ ملک کے الگ الگ خطوں میں دھول –آندھی چلی، تیز ہواؤں کے ساتھ ساتھ بھاری بارش بھی ہوئی، جو کہ غیر موسمی ہے۔ جانی نقصان بھی ہوئے، مالی نقصان بھی ہوئے ۔ یہ ساری چیزیں خاص طور پر موسمیات پیٹرن میں جو تبدیلی ہے، اسی کا نتیجہ ہے ہماری ثقافت ہماری روایت نے ہمیں ماحولیات کے ساتھ جدوجہد کرنا نہیں سکھایا ہے۔ ہمیں ماحولیات کے ساتھ پراعتماد سے رہنا ہے، ماحولیات کے ساتھ جڑ کر کے رہنا ہے۔ مہاتما گاندھی نے تو زندگی بھر ہر قدم پر اس بات کی وکالت کی تھی۔ جب آج ہندوستان ماحولیاتی انصاف کی بات کرتا ہے۔ جب ہندوستان نے کوپ 21 اور پیرس سمجھوتے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب ہم نے انٹرنیشنل سولر الائنس کے ذریعے سے پوری دنیا کو یکجا کیا تو ان سب کے بنیاد میں مہاتما گاندھی کے اس سپنے کو پورا کرنے کا ایک جذبہ تھا۔ اس ماحولیاتی دن پر ہم سب اس بارے میں سوچیں کہ ہم اپنے سیارے کو صاف اور سبز بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ کس طرح اس سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا اختراع کر سکتے ہیں؟ بارش کا موسم آنے والا ہے، ہم اس بار ریکارڈ درخت کو لگانے کا ہدف لے سکتےہیں اور صرف درخت لگانا ہی نہیں بلکہ اس کے بڑےہونے تک اس کے رکھ رکھاؤ کا انتظام کرنا۔ میرے پیارے ہم وطنوں اور خاص کر کے میرے نوجوان ساتھیوں! آپ 21 جون کو برابر اب یاد رکھتےہیں، آپ ہی نہیں ، ہم ہی نہیں ساری دنیا 21 جون کو یاد رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کے لیے 21 جون بین الاقوامی یوگ دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور یہ سب سے منظور ہو چکا ہے اور لوگ مہینوں پہلے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان دنوں اطلاع مل رہی ہے، ساری دنیا میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگ دن منانے کی پوری تیاریاں چل رہی ہیں۔ اتحاد کےلیے یوگا اور سماجی ہم آہنگی کا یہ وہ پیغام ہے، جو دنیا نے گزشتہ کچھ سالوں سے بار بار محسوس کیا ہے۔ ثقافت کے عظیم شاعر بھرتوہری نے صدیوں پہلے اپنے شتک تریم میں لکھا تھا – دھیریم یسیا پِتا چھما چا جننی شانتی شچر گیہینی ستیم سونوریم دیا چا بھگینی بھراتا منہ سنیم۔ شیّا بھومی تلم دیشوڈپی وسنم گیانامرتم بھوجنم ایتے یسیہ کٹمبینہ ود سکھے کسماد بھیم یوگینہ۔ صدیوں پہلے یہ کہی گئی بات کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ مسلسل یوگا مشق کرنے پر کھ اچھے عادات رشتےداروں اور دوستوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ یوگ کرنے سے قوت پیدا ہوتا ہے جو ہمیشہ ہی والد کی طرح ہماری حفاظت کرتا ہے۔ معافی کی عادت ہوتی ہے جیسا ماں کا اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے اور دماغی سکون ہماری مستقل دوست بن جاتی ہے۔ بھرتوہری نےکہا ہے کہ مسلسل یوگ کرنے سے سچائی ہماری اولاد، رحم ہماری بہن، خود کو کنٹرول کرنا ہمارا بھائی، خود زمین ہمارا بستر اور علم ہماری بھوک مٹانے والا بن جاتا ہے۔ جب اتنے سارے عادات کسی کے ساتھی بن جائیں تو یوگی سبھی طرح کے ڈر پر فتح حاصل کر لیتا ہے۔ ایک بار پھر میں سبھی ہم وطنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ یہ یوگ کی اپنی وراثت کو آگے بڑھائیں اور ایک صحت مند، خوشحال اور ہم آہنگی قوم کی تعمیر کریں۔ میرے پیارے ہم وطنوں! ا��ج 27 مئی ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جی کا یوم پیدائش ہے۔ میں پنڈت جی کو پرنام کرتا ہوں۔ اس مئی مہینے کی یاد ایک اور بات سے بھی جڑی ہے اور وہ ہے ویر ساورکر۔ 1857 میں یہ مئی کا ہی مہینہ تھا، جب ہندوستانیوں نے انگریزوں کو اپنی طاقت دکھائی تھی۔ ملک کے کئی حصوں میں ہمارے جوان اور کسان اپنی بہادری دکھاتےہوئے ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہم بہت لمبے وقت تک 1857 کے واقعوں کو صرف بغاوت یا سپاہی بغاوت کہتے رہے۔ حقیقت مین اس واقعہ کو نہ صرف کم کر کے آنکا گیا بلکہ یہ ہمارے ضمیر کو دھکا پہنچانے کی بھی ایک کوشش تھی۔ یہ ویر ساورکر ہی تھے، جنھوں نے نڈر ہوکر لکھا کہ 1857 میں کچھ بھی ہوا وہ کوئی بغاوت نہیں تھا بلکہ آزادی کی پہلی لڑائی تھی۔ ساورکر سمیت لندن کے انڈیا ہاؤس کے بہادروں نے اسکی 50ویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز ہے کہ جس مہینے میں آزادی کا پہلا آزادی کی تحریک شروع ہوا، اسی مہینے میں ویر ساورکر جی کا جنم ہوا۔ ساورکر جی کی شخصیت خصوصیات سے بھری ہوئی ،ہتھیار اور نظریہ دونوں کے ماننے والے تھے۔ عام طور پر ویر ساورکر کو ان کی بہادری اور برٹش راج کے خلاف ان کے جدوجہد کے لیے جانتے ہیں لیکن ان سب کے علاوہ وہ ایک شاعر اور سماجی اصلاح کار بھی تھے، جنہوننے ہمیشہ یکجہتی اور بھائی چارے پر زور دیا۔ ساورکر جی کے بارے میں ایک حیرت انگیز واقعہ ہمارے پیارے معزز اٹل بہاری واجپئی جی نے کیا ہے۔ اٹل جی نے کہا تھا – ساورکر معنی تیز، ساورکر معنی وقف، ساورکر معنی تپ، ساورکر معنی تتو، ساورکر معنی ترک، ساورکر معنی عنصر، ساورکر معنی منطق، ساورکر معنی ہمدردی، ساورکر معنی تیر، ساورکر معنی تلوار۔کتنا سٹیک چترن کیا تھا اٹل جی نے۔ ساورکر کویتا اور کرانتی دونوں کو ساتھ لے کر چلے۔ حساس شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہادر تحریک داں بھی تھے۔ میرے پیارے بھائیوں بہنوں! میں ٹی وی پر ایک کہانی دیکھ رہا تھا۔ راجستھان کے سیکر کی کچّی بستیوں کی ہماری غریب بیٹیوں کی۔ ہماری یہ بیٹیاں، جو کبھی کچرا چننے سے لے کر گھر گھر مانگنے کو مجبور تھیں – آج وہ سلائی کا کام سیکھ کر غریبوں کو جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے سل رہی ہیں۔ یہاں کی بیٹیاں، آج اپنے اور اپنے کنبے کے کپڑوں کے علاوہ عام سے لےکر اچھے کپڑے تک سل رہی ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہنرمندی کی ترقی کا کورس بھی کر رہی ہیں۔ ہماری یہ بیٹیاں آج خود مختار بنی ہیں۔ عزت کے ساتھ اپنی زندگی جی رہی ہیں اور اپنے اپنے خاندان کے لیے ایک طاقت بن گئی ہیں۔ میں امید اور یقین سے کہتا ہوں کہ ہماری ان بیٹیوں کو ان کے روشن مستقبل کی مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ اگر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو اور اس کے لیے آپ خود احتساب ہوں تو تمام مشکلوں کے درمیان بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ صرف سیکر کی بات نہیں ہے ہندوستان کے ہر کونے میں آپ کو یہ سب دیکھنے کو ملے گا۔ آپ کے پاس، پڑوس میں نظر ڈالیں گے تو ذہن میں آئے گا کہ لوگ کس طرح سے پریشانیوں کو شکست دیتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جب بھی ہم کسی چائے کی دکان پر جاتے ہیں، وہاں کی چائے کا مزہ لیتے ہیں تو ساتھ کے کچھ لوگوں سے مباحثہ ، غور و فکر بھی ہوتی ہے۔ یہ مباحثہ سیاسی بھی ہوتی ہے، سماجی بھی ہوتی ہے، فلموں کی بھی ہوتی ہے، کھیل اور کھلاڑیوں کی بھی ہوتی ہے، ملک کے مسائل پر بھی ہوتی ہے – کہ ایسے مسائل ہے – اس کا حل ایسے ہوگا – یہ کرنا چ��ہیے لیکن اکثر یہ چیزیں صرف مباحثہ تک ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنے کاموں سے، اپنی محنت اور لگن سے تبدیلی لانے کی سمت میں آگے بڑھتے ہیں، اسے حقیقت کی شکل دیتے ہیں۔ دوسروں کے خوابوں کو اپنا بنا لینے والے اور انہیں پورا کرنے کے لیےخود کو لگا دینے کی کچھ ایسی ہی کہانی اڈیشہ کے کٹک شہر کے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے ڈی پرکاش راؤ کی۔ کل ہی مجھے ڈی پرکاش راؤ سے ملنے کا موقع ملا۔ جناب ڈی پرکاش راؤ گزشتہ پانچ دہائیوں سے شہر میں چائے بیچ رہے ہیں۔ ایک معمولی سی چائے بیچنے والا، آج آپ جان کر حیران ہو جائیں گے 70 سے زیادہ بچوں کی زندگی میں تعلیم کی روشنی بھر رہا ہے۔ انہوں نے بستی اور جھگیوں میں رہنے والے بچوں کے لیے آشا آشواشن نام کا ایک اسکول کھولا۔ جس پر یہ غریب چائے والا اپنی آمدنی کا 50 فیصد رقم اسی میں خرچ کر دیتا ہے۔ وہ اسکول میں آنے والے سبھی بچوں کو تعلیم، صحت اور کھانے کا پورا انتظام کرتے ہیں۔ میں ڈی پرکاش راؤ کی کڑی محنت، ان کی لگن اور ان غریب بچوں کی زندگی کو نئی سمت دینے کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے ان کی زندگی کے اندھیرے کو ختم کر دیا ہے۔ تمسو ماجیوتی مرگمیہ یہ وید واکیہ کون نہیں جانتا ہے لیکن اس کو جی کر کے دکھایا ہے ڈی پرکاش راؤ نے۔ ان کی زنگی ہم سبھی کے لیے ، سماج اور پورے ملک کے لیے ایک ترغیب ہے۔ آپ کے بھی آس پاس میں ایسی تریب والا واقعہ کا سلسلہ وار ہوگا۔ بے حساب واقعات ہوں گی۔ آیئے ہم مثبت کو آگے بڑھائیں ۔ جون کے مہینے میں اتنی زیادہ گرمی ہوتی ہے کہ لوگ بارش کا انتظار کرتے ہیں اور اس امید میں آسامان میں بادلوں کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھتے ہیں۔ اب سے کچھ دنوں بعد لوگ چاند کا بھی انتظار کریں گے۔ چاند دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ عید منائی جا سکتی ہے۔ رمضان کے دوران ایک مہینے کے روزے کے بعد عید کا تہوار جشن کی شروعات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سبھی لوگ عید کو پوری امنگ اور جوش و خروش سے منائیں گے۔ اس موقعے پر بچوں کو خاص طور پر اچھی عیدی بھی ملے گی۔ امید کرتا ہوں کہ عید کا تہوار ہمارے سماج میں یکجہتی کے رشتے کو اور مضبوطی دیں گے۔ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ میرے پیارے ہم وطنوں! آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ پھر ایک بار اگلے مہینے من کی بات میں ملیں گے۔ نمسکار!,প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ৪৪সংখ্যক মন কী বাতৰ লিখিত ৰূপ (২৭.০৫.২০১৮) +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-4-%D8%AC%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D9%85%D8%A7-%D9%88%D8%B1%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AA-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 4 جولائی 2022 کو بھیما ورم، آندھرا پردیش اور گاندھی نگر، گجرات کا دورہ کریں گے۔ صبح تقریباً 11 بجے، وزیر اعظم بھیما ورم میں عظیم مجاہدآزادی الوری سیتارام راجو کی سال بھر جاری رہنے والی 125 ویں یوم پیدائش تقریب کا آغاز کریں گے۔ اس کے بعد، تقریباً 4:30 بجے، وزیر اعظم گاندھی نگر میں ڈیجیٹل انڈیا ویک 2022 کا افتتاح کریں گے۔ بھیماورم میں پی ایم آزادی کا امرت مہوتسو کے ایک حصے کے طور پر، حکومت مجاہدین آزادی کے تعاون کو تسلیم کرنے اور ملک بھر کے لوگوں کو ان کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی بھیما ورم میں عظیم مجاہدآزادی الوری سیتارام راجو کی سال بھر جاری رہنے والی 125 ویں یوم پیدائش تقریب کا آغاز کریں گے۔ وزیر اعظم الوری سیتارام راجو کے 30 فٹ اونچے کانسے کے مجسمے کی نقاب کشائی بھی کریں گے۔ 4 جولائی 1897 کو پیدا ہونے والے الوری سیتارام راجو کو مشرقی گھاٹ کے علاقے میں قبائلی برادریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے انگریزوں کے خلاف ان کی لڑائی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے رامپا بغاوت کی قیادت کی تھی، جس کا آغاز 1922 میں ہوا تھا۔ انھیں مقامی لوگ ‘‘منیام ویروڈو’’ (جنگلوں کا ہیرو) کے نام سے پکارتے ہیں۔ حکومت نے سال بھر جاری رہنے والے جشن کے ایک حصے کے طور پر کئی اقدامات کی منصوبہ بندی کی ہے۔ الوری سیتارام راجو کی جائے پیدائش وجیا نگرم ضلع کے پنڈرنگی میں اور چنتاپلی پولیس اسٹیشن (رمپا بغاوت کے 100 سال پورے ہونے پر – اس پولیس اسٹیشن پر حملہ رمپا بغاوت کا آغاز تھا) کو بحال کیا جائے گا۔ حکومت نے دھیان مدرا میں الوری سیتارام راجو کے مجسمے کے ساتھ موگلو میں الوری دھیان مندر کی تعمیر کو بھی منظوری دی ہے، جس میں مورل پینٹنگز اور اے آ ئی سے چلنے والے انٹرایکٹو سسٹم کے ذریعے مجاہدآ زادی کی زندگی کی کہانی کو دکھایاجائے گا۔ گاندھی نگر میں پی ایم وزیر اعظم ڈیجیٹل انڈیا ویک 2022 کا افتتاح کریں گے، جس کا تھیم ‘کیٹالائزنگ نیو انڈیاز ٹیکڈے’ ہے۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم متعدد ڈیجیٹل اقدامات کا آغاز کریں گے، جن کا مقصد ٹیکنالوجی تک رسائی کو بڑھانا، زندگی میں آسانی کو یقینی بنانے کے لیے خدمات کی فراہمی کو ہموار کرنا اور اسٹارٹ اپس کو فروغ دینا ہے۔ وزیر اعظم ‘ڈیجیٹل انڈیا بھاشینی’ کا آغاز کریں گے جو آواز پر مبنی رسائی سمیت بھارتی زبانوں میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل خدمات تک آسان رسائی کو ممکن بنائے گا اوربھارتی زبانوں میں مواد کی تخلیق میں مدد کرے گا۔ ہندوستانی زبانوں کے لیے اے آئی پر مبنی لینگویج ٹیکنالوجی کے حل کی تعمیر میں کلیدی مداخلت کثیر لسانی ڈیٹاسیٹس کی تخلیق ہوگی۔ ڈیجیٹل انڈیا بھاشنی، بھاشا دان نامی کراؤڈ سورسنگ پہل کے ذریعے ان ڈیٹا سیٹس کو بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر شہریوں کی شمولیت کو قابل بنائے گی۔ وزیر اعظم‘ڈیجیٹل انڈیا جینیسس’ (جدید اسٹارٹ اپس کے لیے جنریشن – نیکسٹ سپورٹ) کا آغاز کریں گے ۔یہ ایک قومی ڈیپ ٹیک اسٹارٹ اپ پلیٹ فارم ہے جس سے ہندوستان کے ٹائر-II اور ٹائر-III شہروں میں کامیاب اسٹارٹ اپس کو دریافت کرنے، مدد کرنے، بڑھنے اور بنانے کے لیےبنایاگیاہے ۔اس اسکیم کے لیے کل 750 کروڑ روپے کا تخمینہ بجٹ رکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم ‘Indiastack.global’ کا بھی آغاز کریں گے – جو کہ انڈیا اسٹیک کے تحت لاگو کیے گئے کلیدی پروجیکٹوں جیسے آدھار، یوپی آئی، ڈیجی لاکر، کوون ٹیکہ کاری پروگرام ، گورنمنٹ کی مارکیٹ پلیس (جی ای ایم)، دیکشا پلیٹ فارم اور آیوشمان بھارت ڈیجیٹل ہیلتھ مشن کا ایک عالمی ڈیپازیٹری ہے ۔ گلوبل پبلک ڈیجیٹل گڈز ریپازیٹری کو بھارت کی یہ پیشکش آبادی کے پیمانے پر ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن پروجیکٹوں کی تعمیر میں بھارت کو لیڈر کے طور پر پوزیشن میں لانے میں مدد کرے گی، اور دوسرے ممالک کے لیے بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگی،جو اس طرح کے ٹیکنالوجی حل کی تلاش میں ہیں۔ وزیر اعظم شہریوں کو ‘مائی اسکیم ’ وقف کریں گے ۔ یہ ایک سروس ڈسکوری پلیٹ فارم ہےجو سرکاری اسکیموں تک رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایک ون اسٹاپ سرچ اور ڈسکوری پورٹل پیش کرنا ہے جہاں صارفین و�� اسکیمیں تلاش کرسکتے ہیں، جن کے وہ اہل ہیں۔ وہ شہریوں کے لیے 'میری پہچان' بھی وقف کریں گے۔ یہ ایک نیشنل سنگل سائن آن اورون سٹی زن لاگ ان ہے ۔ نیشنل سنگل سائن آن (این ایس ایس او) ایک یوزر کی تصدیق کرنے والی سروس ہے، جس میں اسناد کا ایک سیٹ متعدد آن لائن ایپلی کیشنز یا خدمات تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ وزیر اعظم چِپس ٹو اسٹارٹ اپ (C2S) پروگرام کے تحت سپورٹ کیے جانے والے 30 اداروں کے پہلے گروپ کا بھی اعلان کریں گے۔ C2S پروگرام کا مقصد بیچلرز، ماسٹرز اور ریسرچ کی سطح پر سیمی کنڈکٹر چپس کے ڈیزائن کے شعبے میں خصوصی افرادی قوت کو تربیت دینا اور ملک میں سیمی کنڈکٹر ڈیزائن میں شامل اسٹارٹ اپس کی ترقی کے لیے ایک محرک کے طور پر کام کرنا ہے۔ یہ تنظیمی سطح پر رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اداروں کو ڈیزائن کے لیے جدید ترین سہولیات بھی بہم پہنچاتا ہے۔ یہ سیمی کنڈکٹرز میں ایک مضبوط ڈیزائن ماحولیاتی نظام کی تعمیر کے لیے انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن کا حصہ ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا ویک 2022 میں گاندھی نگر میں 4 سے 6 جولائی تک فزیکل تقریبات ہوں گی۔ یہ پروگرام ڈیجیٹل انڈیا کی سالگرہ کا جشن منائے گا اور یہ ظاہر کرے گا کہ کس طرح عوامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم جیسے آدھار، یوپی آئی ،کوون، ڈیجی لاکر وغیرہ نے شہریوں کے لیے زندگی گزارنے میں آسانی پیدا کی ہے۔ یہ عالمی سامعین کے سامنے ہندوستان کی تکنیکی صلاحیتوں کی نمائش کرے گا، اسٹیک ہولڈرز کی ایک وسیع رینج کے ساتھ تعاون اور کاروباری مواقع تلاش کرے گا، اور اگلی نسل کے لیے مواقع کا ٹیکڈ ے پیش کرے گا۔ اس میں حکومت، صنعت اور اکیڈمیا سے تعلق رکھنے والے اسٹارٹ اپ اور لیڈروں کی شرکت ہوگی۔ 200 سے زیادہ اسٹالز کے ساتھ ایک ڈیجیٹل میلہ بھی منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں زندگی میں آسانی پیدا کرنے والے ڈیجیٹل حل کی نمائش کی جائے گی اور وہ حل بھی جو انڈین یونیکورنز اور اسٹارٹ اپس نے تیار کیے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا ویک میں 7 سے 9 جولائی تک ورچوئل موڈ میں انڈیا اسٹیک نالج ایکسچینج بھی ہوگا۔,৪ জুলাইত ভীমাৱৰাম আৰু গান্ধীনগৰ ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B2%D8%A8%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE-3/,نئی دہلی،26؍ستمبر، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور ازبیکستان کے درمیان زراعت اور متعلقہ شعبوں میں تعاون کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کو منظوری دے دی ہے۔ بھارت اور ازبیکستان کے درمیان تعاون کے معاہدے میں مندرجہ ذیل شامل ہیں: 1-قوانین ، معیار اور پیداوار کے نمونوں سے متعلق معلومات کا باہمی مفاد میں تبادلہ۔ 2-ازبیکستان میں مشترکہ زرعی کلیسٹر قائم کرنا۔ 3-فصل کی پیداوار اور ان کو متنوع بنانے کے شعبے میں تجربات کا تبادلہ۔ 4- باہمی طور پر مفید جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بیج کی پیداوار ، ریاستوں اور فریقوں سے متعلق قانون کے مطابق بیج کی تصدیق سے متعلق معلومات کے تبادلے اور بیجوں کے نمونوں کے تبادلے۔ 5-آب پاشی سمیت زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں میں پانی کو کم استعمال کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی خاطر ٹیکنالوجی کا استعمال۔ 6-جینیات ، بریڈنگ ، بائیو ٹیکنالوجی، پودوں کا تحفظ ، مٹی کی زرخیزی کو ��رقرار کو رکھنے ، مشینوں کا استعمال ، آبی وسائل اور سائنسی نتائج کے باہمی نفاذ سمیت مشترکہ سائنسی تحقیق کا انعقاد۔ 7-پودوں کو الگ تھلگ رکھنے کے شعبے میں تعاون کا فروغ اور توسیع۔ 8-مویشی پروری ، مویشیوں کی صحت ، پولیٹری، جینیات اور الگ تھلگ پرورش کرنے کی سہولیات سمیت مویشی پروری کے شعبے میں تجربات کا تبادلہ۔ 9-زراعت اور خوراک کی صنعت کے شعبے میں سائنسی اور عملی سرگرمیوں کے بارے میں تحقیقی اداروں کے درمیان تبادلے ۔(نمائشیں ، میلے، کانفرنس ، سمپوزیا) 10-زراعت اور خوراک کی تجارت میں تعاون۔ 11-خوراک کو ڈبہ بند کرنے سے متعلق مشترکہ پروجیکٹوں کے امکانات تلاش کرنا اور قائم کرنا۔ 12-دونوں فریقوں کے درمیان باہمی طور پر رضامندی کے بعد کسی اور شعبے میں تعاون کرنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (م ن-وا- ق ر),ভাৰত আৰু উজবেকিস্তানৰ মাজত কৃষি আৰু ইয়াৰ প্ৰায়োগিক ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ লক্ষ্যৰে চুক্তি স্বাক্ষৰৰ প্রস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%DA%88%DB%92-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%BE%DB%8C%D8%BA%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اپنے پیغام میں ہماچل پردیش کے عوام کو 75ویں یوم تاسیس پر مبارکباد دی ہے اور اس خوش کن اتفاق کو نوٹ کیا کہ 75واں یوم تاسیس آزادی کے 75ویں سال میں آیا ہے۔ انھوں نے آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران ریاست کے ہر باشندے تک ترقی کا امرت پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ایک ذاتی تبصرہ کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے جناب اٹل بہاری واجپائی کی ایک نظم کا حوالہ دیا اور محنتی اور پر عزم لوگوں کے ساتھ خوبصورت ریاست کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کو یاد کیا۔ سال 1948 میں اس کی تشکیل کے وقت پہاڑی ریاست کے چیلنجوں کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے ہماچل پردیش کے لوگوں کی تعریف کی۔ انھوں نے باغبانی، بجلی کی سرپلس، شرح خواندگی، دیہی سڑک رابطوں، نلکے کے پانی اور ہر گھر تک بجلی پہنچانے میں ریاست کی کامیابیوں کی ستائش کی۔ انھوں نے گزشتہ 7 سے 8 سالوں میں ان کامیابیوں کو آگے بڑھانے کی کوششوں پر زور دیا۔ ”جے رام جی کی نوجوان قیادت میں ’ڈبل انجن کی حکومت‘ نے دیہی سڑکوں کو وسعت دینے، ہائی وے کو چوڑا کرنے، ریلوے نیٹ ورک بنانے کی پہل کی ہے، اس کے نتائج اب نظر آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے رابطہ بہتر ہو رہا ہے، ہماچل کی سیاحت نئے علاقوں میں داخل ہو رہی ہے“، وزیر اعظم نے کہا۔ وزیر اعظم نے سیاحت میں نئی پیش رفت اور مقامی لوگوں کے لیے مواقع اور روزگار کے نئے مواقع پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے خاص طور پر عالمی وبا کے دوران مؤثر اور تیز رفتار ویکسینیشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے صحت کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت کو یاد کیا۔ وزیر اعظم نے ہماچل پردیش کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ امرت کال کے دوران سیاحت، اعلیٰ تعلیم، تحقیق، آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی، فوڈ پروسیسنگ اور قدرتی زراعت کے شعبوں میں کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سال کے بجٹ میں اعلان کردہ وائبرنٹ ولیج اسکیم ہماچل پردیش کو بہت زیادہ فائدہ پہنچائے گی۔ انھوں نے رابطہ بڑھانے، جنگلات ک�� افزودگی، صفائی ستھرائی اور ان اقدامات کے لیے لوگوں کی شرکت پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کی طرف سے خاص طور پر سماجی تحفظ کے شعبے میں مرکزی فلاحی اسکیموں کی توسیع پر تبصرہ کیا۔ جناب مودی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا، ”ایماندار قیادت، امن پسند ماحول، دیوی دیوتاؤں کا آشیرواد اور ہماچل کے لوگ جو سخت محنت کرتے ہیں، یہ سب لا جواب ہیں۔ ہماچل میں تیز رفتار ترقی کے لیے درکار ہر چیز موجود ہے“۔,হিমাচল দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C-%D9%86%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%90/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97/,نئی دہلی:16؍مئی2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بودھ پورنیما کے موقع پر اُترپردیش کے کشی نگر میں مہاپری نروان اِستوپ میں پوجا ارچنا کی۔اس سے پہلے آج وزیر اعظم نے بھگوان بودھ کی جائے پیدائش لمبنی ، نیپال کا دورہ کیا اور مایا دیوی مندر میں پوجا کی۔ انہوں نے نیپال کے وزیر اعظم عزت مآب شیر بہادر دیوبا کے ہمراہ لُمبنی مٹھ علاقے میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر فار بودھ کلچر اینڈ ہیریٹیج کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ جناب مودی نے نیپال کے وزیر اعظم کے ساتھ لُمبنی کے انٹرنیشنل کنوینشن سینٹر اینڈ میڈئیشن ہال میں منعقد 2566ویں بودھ جینتی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ اپنی ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے یہ بھی مطلع کیا کہ سرکار کشی نگر میں بنیادی ڈھانچے کے فروغ کے لئے مختلف نوعیت کی کوششیں کررہی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’کشی نگر میں مہاپری نروان اِستوپ میں پرارتھنا کی ، ہماری سرکار کشی نگر میں بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لئے کئی طرح کی کوششیں کررہی ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح اور زائرین یہاں آ سکے۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কুশীনগৰৰ মহাপ্ৰীনিৰ্বাণ স্তূপত প্ৰাৰ্থনা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81%D9%86%D8%AF-%D9%81%D9%88%D8%AC-%DA%A9%DB%8C-75%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A6-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6-%E0%A6%AB/,نئی دہلی ،22اکتوبر : لال قلعہ میں ‘آزادہند فوج ’کی 75ویں سالگرہ کے موقع پروزیراعظم کی تقریرکا متن درج ذیل ہے: کابینہ کے میرے معاون ، جناب مہیش شرماجی، آزادہند فوج کے رکن اور ملک کے بہادرسپوت اورہم سب کے درمیان جناب لال ٹی رام جی ، سبھاش بابوکے بھتیجے ، بھائی چندرکماربوس جی، بریگیڈیئر آرایس چکاراجی اور یہاں موجود حاضرین ، فوج کے سلامتی دستوں کے سابق افسران ، دیگر اہم شخصیات، بھائیواوربہنو۔ آج 21اکتوبر کا تاریخی دن ، لال قلعہ پرپرچم کشائی کایہ موقع ، آپ تصورکرسکتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو کتناخوش قسمت مانتاہوں ؟یہ وہی لال قلعہ ہے ، جہاں پرvictory paradeکاخواب نیتاجی سبھاش چند بوس نے 75سال قبل دیکھاتھا ۔ آزاد ہندسرکارکے پہلے وزیراعظم کی شکل میں حلف لیتے ہوئے نیتا جی نے اعلان کیاتھا کہ اسی لال قلعہ پرایک دن پوری شان سے ترنگاپھہرایاجائیگا۔ آزاد ہند سرکاراکھنڈبھارت کی سرکارتھی ، غیرمنقسم بھارت کی سرکارتھی ۔ میں وطن والوں کو آزادہند سرکارکے 75سال مکمل ہونے پربہت بہت مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ ساتھیو، اپنے نصب العین کے تئیں جس شخص کا اتنا صاف وژن تھا ۔مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو اپنا سب کچھ داو پرلگانے کے لئے نکل گیا ہو ، جو صرف اورصرف ملک کے لئے وقف ہو، ایسے شخص کو یادکرنے سے ہی نسل درنسل ترغیب پاتی ہے ۔ آج میں سلام کرتاہوں ان والدین کو ، جنھوں نے نیتاجی جیسا بیٹا اس ملک کو دیا۔ جنھوں نے قوم کے لئے قربانی دینے والے بہادرمردوں وبہادرخواتین کو جنم دیا۔ میں سر جھکاتا ہوں ان فوجیوں اوران کے افراد کنبہ کے سامنے جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں سب کچھ نچھاورکردیا۔ میں پوری دنیا میں پھیلے ان بھارتی باشندوں کو بھی یاد کرتاہوں جنھوں نے نیتا جی کے مشن کو تن من دھن سے تعاون کیاتھا اور آزاد، خوشحال ، مستحکم بھارت بنانے میں اپنا قیمتی تعاون دیاتھا۔ ساتھیو، آزاد ہند سرکار، یہ آزاد ہند سرکار، یہ صرف نام نہیں تھا بلکہ نیتا جی کی قیادت میں اس حکومت کے ذریعہ ہرعلاقے سے جڑے منصوبے وضع کئے گئے تھے ۔ اس سرکارکااپنا بینک تھا ، اپنی کرنسی تھی ، اپنا ڈاک ٹکٹ تھا، اپنا خفیہ نظام تھا۔ ملک کے باہر رہ کر ، محدود ذرائع کے ساتھ ، مستحکم حکومت کے خلاف اتنا منظم نظام قائم کرنا ، زبردست انقلاب ،بے مثال ، میں سمجھتاہوں کہ یہ غیرمعمولی کام تھا۔ نیتاجی نے ایک ایسی سرکارکے خلاف لوگوں کو متحد کیا ، جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتاتھا، دنیا کے ایک بڑے حصے میں جس کی حکومت قائم تھی ۔ اگرنیتا جی کی خودکی تحریرپڑھیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ بہادری کے عروج پرپہنچنے کی بنیاد کیسے ان کے بچپن میں پڑگئی تھی ۔ سال 1912کے آس پاس ، آج سے 106سال پہلے ، انھوں نے اپنی ماں کو خط لکھاتھا ، وہ ایک خط اس بات کا گواہ ہے کہ سبھاش بابوکے دل میں غلام بھارت کی حیثیت کولے کر کتنی تکلیف تھی ، کتنی بیچینی تھی ، کتنا درد تھا ۔ دھیان رکھئے گا ،وہ اس وقت صرف 16-15کی عمرکے تھے۔ سیکڑوں برسوں کی غلامی نے ملک کا جو حال کردیاتھا ، اس کا درد انھوں نے اپنی والدہ کو تحریرکئے گئے خط میں ظاہرکیاتھا۔ انھوں نے اپنی والدہ سے خط میں سوال پوچھاتھا کہ ماں کیاہمارا ملک دنوں دن اورزیادہ زوال کی جانب بڑھتاجائیگا؟کیایہ غمزدہ بھارت ماتا کا کوئی ایک بھی پترایسا نہیں ہے جو پوری طرح اپنے مفادکو درکنارکرکے ، تاحیات اپنی زندگی بھارت ماں کی خدمت میں وقف کردے ؟بولوماں ، ہم کب تک سوتے رہیں گے ؟16-15کی عمرمیں سبھاش بابونے اپنی والدہ سے یہ سوال پوچھاتھا ۔ بھائیواوربہنو، اس خط میں انھوں نے والدہ سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب بھی دے دیاتھا۔ انھوں نے اپنی والدہ کو واضح کردیاتھا کہ اب ، اب اورانتظار نہیں کیاجاسکتا، اب اور سونے کا وقت نہیں ہے ، ہم کو اپنی نیند سے جاگناہی ہوگا، کاہلی کو چھوڑنا ہی ہوگااور عمل میں جٹ جاناہوگا۔ یہ سبھاش بابو ، 16-15سال کے !اپنے اند رکی اس زبردست آرزونے کم عمر سبھاش بابوکو نیتاجی سبھاش چند بنادیا۔ نیتاجی کا ایک ہی مقصد تھا ، ایک ہی مشن تھا ۔۔بھارت کی آزادی ۔ماں بھارت کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانا۔ یہی ان کے نظریات تھے اور یہ ان کامیدان عمل بھی تھا۔ ساتھیو، سبھاش بابوکو اپنی زندگی کا مقصد طے کرنے ، اپنے وجود کو وقف کرنے کا اصول سوامی وویکانند اوران تعلیمات سے ملا۔ آتم نوموکشادرم جگت ہتائے چہ۔یعنی دنیا کی خدمت سے ہی نجات کا راستہ کھلتاہے ۔ ان کی فکرکی خاص بنیاد تھی ۔ خدمت خلق۔ اپنے بھارت کی خدمت کے اسی جذبے کی وجہ سے وہ ہرتکلیف سہتے گئے ، ہرچنوتی کو ع��ورکرتے گئے ، ہرسازش کو ناکام کرتے گئے ۔ بھائیواوربہنو، سبھاش بابوان فوجیوں میں رہے ، جنھوں نے وقت کے ساتھ خود کو بدلا اور اپنے مقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے قدم اٹھائے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انھوں نے مہاتماگاندھی کے ساتھ کانگریس میں رہ کر ملک میں ہی کوشش کی اور پھرحالا ت کے مطابق انھوں نے مسلح انقلاب کا راستہ منتخب کیا۔ اس راستے نے آزادی کی تحریک کو اورتیز کرنے میں اہم کرداراداکیا۔ ساتھیو، سبھاش بابو نے جو عالمی سطح پرغوروخوض کیا ، اس کا امرت صرف بھارت نے ہی نہیں چکھا بلکہ اس کافائدہ اوربھی دوسرے ممالک کو ہوا۔ جو ممالک اس وقت اپنی آزادی کی جنگ میں لگے ہوئے تھے ، انھیں سبھاش چندبوس کو دیکھ کر ترغیب ملتی تھی ۔ انھیں لگتاتھا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ ہم بھی متحد ہوسکتے ہیں ، انگریزوں کو للکارسکتے ہیں ، آزاد ہوسکتے ہیں ۔ عظیم مجاہدآزادی نین سن منڈیلا ، بھارت رتن نین سن منڈیلا جی نے بھی کہاتھا کہ جنوبی افریقہ کے طلبأ تحریک کے دوران وہ بھی سبھاش بابو کو اپنا رہنمامانتے تھے ، اپنا ہیرومانتے تھے ۔ بھائیواوربہنو، آج ہم آزاد ہند سرکارکی 75ویں سالگرہ کاجشن منارہے ہیں توچارسال بعد 2022میں آزاد بھارت کے 75برس پورے ہونے والے ہیں ۔ آج سے 75سال قبل نیتاجی نے حلف لیتے ہوئے وعدہ کیاتھا ایک ایسا بھارت بنانے کا ، جہاں سبھی کے پاس مساوی حقوق ہوں سبھی کے پاس یکساں مواقع ہوں ۔ انھوں نے وعدہ کیاتھا کہ اپنی قدیم روایات سے ترغیب لے کران کو اورفخرکرنے والے آسودہ اورخوشحال بھارت کی تعمیرکرنے کا ۔ انھوں نے وعدہ کیاتھا ملک کی متوازن ترقی کا ، ہرعلاقے کی ترقی کا ۔ انھوں نے وعدہ کیاتھا ، ‘بانٹواور راج کرو’ کی اس پالیسی کو ، اسے جڑسے اکھاڑپھینکنے کا ، جس کی وجہ سے بھارت کو اس ‘بانٹوں اور راج کرو’ کی سیاست نے صدیوں تک غلام رکھاتھا۔ آج آزادی کے اتنے برس بعد بھی نیتا جی کا خواب شرمندۂ تعبیرنہیں ہواہے ۔ بھارت متعدد قدم آگے بڑھاہے ، لیکن ابھی نئی اونچائیوں پرپہنچناباقی ہے ۔ اسی مقصد کوحاصل کرنے کے لئے آج بھارت کی سواسوکروڑعوام نئے بھارت کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ایک ایسا نیا بھارت جس کاتصور نیتاجی سبھاش چند بوس نے بھی کیاتھا۔ آج ایک ایسے وقت میں جب کہ تباہ کن طاقتیں ملک کے باہر اور اندر سے ہماری آزادی ، اتحاد اور آئین پرحملہ کررہی ہیں ، بھارت کے ہرشہری کا یہ فرض ہے کہ نیتاجی سے ترغیب پاکر ان طاقتوں سے لڑنے ، انھیں شکست دینے اور ملک کی ترقی میں اپنا مکمل تعاون دینے کا عہد بھی کرے ۔ لیکن ساتھیو ، ان عہدوپیمان کے ساتھ ہی ایک بات اوراہم ہے ۔یہ بات ہے قومیت کا جذبہ ، ہندوستانیت کا جذبہ۔یہیں لال قلعہ پرمقدمے کی سنوائی کے دوران ، آزاد ہند فوج کے فوجی شاہنواز خاں نے کہاتھا کہ سبھاش چند بوس وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے بھارت کے ہونے کا احساس ان کےدل میں بیدارکیا۔ وہ پہلے شخص تھے ، جنھوں نے بھارت کو بھارتیہ کی نظرسے دیکھناسکھایا۔ آخروہ کون سے حالات تھے ، جس کی وجہ سے شاہنواز خاں جی نے ایسی بات کہی تھی ۔ بھارت کو بھارتیہ کی نظرسے دیکھنا اورسمجھنا کیوں ضروری تھا ، یہ آج جب ہم ملک کی حالت دیکھتے ہیں تو اورواضح شکل سے سمجھ پاتے ہیں ۔ بھائیواوربہنو، کیمبرج کے اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے سبھاش بابو نے لکھاتھا کہ ہم بھارتیوں کو یہ سکھایاجاتاہے کہ یورپ ، Great Britainکی ہی بڑی حیثیت ہے ، اس لئے ہماری عادت یورپ کو انگلینڈ کے چشمے سے دیکھنے کی ہ��گئی ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی کہ آزادی کے بعد بھارت اور یہاں کے انتظاموں کے تعمیرکرنے والوں نے بھارت کو بھی انگلینڈ کے چشمے سے ہی دیکھا۔ ہماری تہذیب ، ہماری عظیم زبانوں ، ہماراتعلیمی نظام ، ہمارے نصاب ، ہمارے نظام کواس چھوت میں مبتلاہونے کا بہت نقصان اٹھاناپڑا ۔آج میں اطمینان کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ آزاد بھارت کے بعددہائیوں میں اگرملک کو سبھاش بابو، سردارپٹیل جیسی عظیم شخصیات کی رہنمائی ملی ہوتی تو بھارت کودیکھنے کے لئے بیرونی چشمے نہیں ہوتااور حالات بہت مختلف ہوتے ۔ ساتھیو، یہ بھی افسوسناک ہے کہ ایک کنبے کو بڑا بنانے کے لئے ملک کے مختلف سپوتوں ۔ وہ چاہے سردارپٹیل ہوں ، باباصاحب امبیڈکرہوں، انھیں کی طرح ہی نیتاجی کے تعاون کو بھی بھلانے کی پوری کوشش کی گئی ۔ اب ہماری سرکار حالات کو بدل رہی ہے ۔ آپ سبھی کو اب پتاچلاہوگا، یہاں آنے سے پہلے میں قومی پولیس یادگار وقف سے متعلق پروگرام میں شریک تھا ۔ میں نے نیتاجی سبھاش بوس کے نام پر قومی اعزاز شروع کرنے کا وہاں ایک اعلان کیاہے ۔ ہمارے ملک میں جب نیشنل Calamityہوتی ہے ، آفات کے انتظام اورراحت اوربچاوکے کام میں جو لگتے ہیں ، دوسروں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے والے ایسے جانثاروں کو ، پولیس کے جوانوں کو اب ہرسال نیتاجی کے نام سے ایک اعزاز دیاجائیگا۔ ملک کی شان بڑھانے والے ہمارے پولیس کے جوان ، پاراملیٹری فورس کے جوان اس کے حقدارہوں گے ۔ ساتھیو، ملک کی متوازن ترقی سماج کی ہرایک سطح پر ، ہرایک شخص کو قومی تعمیرکا موقع ، قوم کی ترقی میں اس کا کرداربیتاجی کے وسیع ایک ویژن کا ایک اہم حصہ ہے ۔ نیتا کی قیادت میں بنی آزاد ہند سرکارنے بھی مشرقی بھارت کو بھارت کی آزادی کا گیٹ وے بنایاتھا۔اپریل 1944میں کرنل شوکم ملک کی قیادت میں منی پورکے موئے رانگ میں آزاد ہند فوج نے ترنگاپھہرایاتھا۔ یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے شجاع کو آزادی کی تحریک میں جنوب مشرق اورمشرقی بھارت کے معاون کو وہ مقام نہیں مل پایا ۔ ترقی کی دوڑمیں بھی ملک کا یہ اہم حصہ پیچھے رہ گیاہے آج مجھے اطمینان ہوتاہے کہ جس مشرقی بھارت کی اہمیت کو سبھاش بابونے سمجھا، اسے موجودہ سرکاربھی اتنی ہی اہمیت دے رہی ہے ، اسی سمت میں لے جارہی ہے ، اس علاقے کو ملک کی ترقی کا Growth Engineبنانے کے لئے کام کررہی ہے ۔ بھائیواوربہنو، میں خود کو خوش قسمت مانتاہوں کہ ملک کے لئے نیتاجی جو کچھ بھی دیا ، اس کو ملک کے سامنے رکھنے کا ، ان کے دکھائے راستوں پر چلنے کا مجھے باربارموقع ملاہے ۔ اوراس لئے جب مجھے آج کی اس تقریب میں آنے کے لئے مدعوکیاگیا تومجھے گجرات کے دنوں میں نیتاجی سبھاش چند بوس کے کاموں کی یاد بھی تازہ ہوگئی ۔ ساتھیو، جب میں گجرات میں وزیراعلیٰ تھا ، تب 2009میں تاریخی ہری پورہ کانگریس ، کانگریس کاجلسہ تھا ۔ ہری پورہ کانگریس کے جلسے کی یاد کو ہم نے ایک طرح سے پھرزندہ کیاتھا۔ اس جلسے میں جس طرح سردارولبھ بھائی پٹیل نے ، گجرات کے لوگوں نے نیتاجی کوکانگریس کاصدربننے کے بعد بیل گاڑیوں میں بیٹھ کرکے بہت بڑا جلوس نکالاتھا ، ویسا ہی ، یعنی جو ایک زبردست تقریب کا انعقاد کیاتھا، ٹھیک ویسا ہی منظرہم نے دوبارہ 2009میں ، وہیں پرکھڑا کرکے تاریخ کا احیأ کیاتھا ۔ بھلے ہی وہ کانگریس کا جلسہ تھا ، لیکن وہ تاریخ کا صفحہ تھا ، ہم نے اس کو جی کرکے دکھایاتھا۔ ساتھیو،آزادی کے لئے جو وقف ہوئے ، وہ ان کی خوش قسمتی تھی ۔ ہم جیسے لو گ جنھیں یہ موقع نصیب نہیں ہوا ہے ، ہمارے پاس ملک کے لئے جینے کا ، ترقی کے لئے وقف ہونے کا ، ہم سب کے لئے راستہ کھلاپڑاہے ۔ لاکھوں قربانیاں دے کر ہم سوراج تک پہنچے ہیں ۔ اب ہم سبھی پر، سوا سوکروڑبھارتیوں پراس آزادی کو اچھی طرح بنائے رکھنے کا چیلنج ہے ۔ نیتاجی نے کہاتھا۔ ‘ہتھیاروں کی طاقت اور خون کی قیمت سے تمہیں آزادی حاصل کرنی ہے ۔ پھرجب بھارت آزاد ہوگا توملک کے لئے تمہیں مستقل فوج بنانی ہوگی ، جس کا کام ہوگاہماری آزادی کو ہمیشہ قائم رکھنا’۔ آج میں کہہ سکتاہوں کہ بھارت ایک ایسی فوج کی تعمیرکی طرف بڑھ رہاہے جس کاخواب نیتاجی سبھاش چند بوس نے دیکھاتھا۔ جوش ، جنون اورجذبہ ، یہ توہماری فوجی روایت کا حصہ رہاہی ہے ، اب تکنیکی اورجدیدہتھیاروں کی طاقت بھی اس کے ساتھ شامل کی جارہی ہے ۔ ہماری فوجی قوت ہمیشہ سے ہی اپنے تحفظ کے لئے ہی رہی ہے اورآگے بھی رہے گی ۔ ہمیں کبھی کسی دوسرے کی زمین کا لالچ نہیں رہا۔ ہماری صدیوں پرانی تاریخ ہے ، لیکن بھارت کی سلامتی کے لئے جو بھی چنوتی بنے گا اس کو دوگنی طاقت سے جواب ملے گا۔ ساتھیو، فوج کو مستحکم بنانے کے لئے گذشتہ چاربرسوں میں متعدد اقدام کئے گئے ہیں ۔ دنیا کی اعلا تکنالوجی کو بھارتیہ فوج کا حصہ بنایاجارہاہے ۔ فوج کی قوت ہو یاپھربہادرجوانوں کی زندگی کو سہل اورآسان بنانے کاکام ہو، بڑے اورکڑے فیصلے لینے کا حوصلہ اس سرکارمیں ہے اور یہ آگے بھی برقراررہے گا ۔ سرجیکل اسٹرائک سے لے کر نیتاجی سے جڑی فائلوں کو عام کرنے تک کا فیصلہ ہماری ہی سرکارنے لیاہے ۔ یہاں موجود متعدد سابق فوجی اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ دہائیوں سے چلی آرہی ‘ون رینک ون پنشن ’ کی مانگ کوسرکارنے اپنے وعدے کے مطابق پوراکردیاہے ۔ اتناہی نہیں ، قریب 11000کروڑروپے کا ایئریربھی سابق فوجیوں تک پہنچایاجاچکاہے ، جس سے لاکھوں سابق فوجیوں کافائدہ ملاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارش پرجو پنشن طے کی گئی ہے ،وہ بھی ون رینک ون پنشن لاگوہونے کے بعد طے پنشن کی بنیاد پربڑھی ہے ۔ یعنی میرے فوجی بھائیوں کو پنشن پر ڈبل بونینزہ ملاہے ۔ ایسی متعدد کوششیں سابق فوجیوں کی زندگی کو پرسکون اورآسان بنانے کے لئے کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ فوجیوں کی شجاعت اوربہادری سے آنے والی نسلیں واقف ہوسکیں ، اس کے لئے نیشنل وار میوزیم بھی اپنے حتمی مرحلےمیں پہنچ چکاہے ۔ ساتھیو،کل یعنی 22 اکتوبر کو رانی جھانسی ریجمنٹ کے بھی 75سال پورے ہورہے ہیں ۔ مسلح فوج میں خواتین کی بھی مساوی حصہ داری ہو ، اس کی بنیاد بھی نیتاجی سبھاش چند بوس نے ہی رکھی تھی ۔ ملک کی پہلی مسلح مہیلاریجمنٹ بھارت کی خوشحال روایات کے تئیں سبھاش بابو کے عمیق اعتماد کانتیجہ تھا۔ تمام مخالفتوں کودرکنارکرتے ہوئے انھوں خواتین فوجیوں کی سلامی لی تھی ۔ میں فخرسے کہہ سکتاہوں کہ نیتاجی نے جو کام 75برس پہلے کیاتھا ، اس کو سہی معنوں میں آگے بڑھانے کا کام اس حکومت نے کیاہے ۔ اسی 15اگست ، کو میں نے یہیں لال قلعہ سے ایک بڑااعلان کیاتھا ، میں نے کہاتھا کہ مسلح فوج میں شارٹ سروس کمیشن کے توسط سے تقررخواتین افسروں کو مردوں کے برابرافسروں کی طرح ہی ایک شفاف انتخابی عمل کے ذریعہ مستقل کمیشن دیاجائیگا۔ ساتھیو، یہ سرکارکی ان کوششوں کی تفصیل ہے جو گذشتہ چاربرسوں میں اٹھائے ہیں ۔ مارچ ، 2016میں نیوی میں خواتین کو پائلٹ کرنے کا فیصلہ لیاگیاتھا ۔ کچھ دن پہلے ہی بحریہ کی 6جانباز خواتین افسروں نے سمندرکو جیت کر��نیا کو بھارت کی خاتون طاقت سے واقف کروایاہے ۔ اس کے علاوہ ملک کو پہلی خاتون فائٹرپائلٹ دینے کاکام بھی اسی سرکارکے دوران ہواہے ۔ مجھے اس بات کابھی اطمینان ہے کہ آزاد بھارت میں پہلی بار بھارت کی مسلح افواج کو مضبوط بنانے ، دیکھ ریکھ کرنے کا ذمہ بھی ملک کی پہلی وزیردفاع ، سیتارمن جی کے ہاتھ میں ہے ۔ ساتھیو، آج آپ سبھی کے تعاون سے ، مسلح دستوں کی ہنرمندی اور وابستگی سے ملک پوری طرح سے محفوظ ہے ، اہل ہے اور ترقی کے راستے پرسہی سمت میں تیز رفتارسے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوڑرہاہے ۔ ایک بارپھر، آپ سبھی کو ، اہل وطن کو، اس اہم موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ اتحاد ،سالمیت اور خوداعتمادی کا ہمارا یہ سفرنیتا جی سبھاش چند بوس جی کے آشیروا د سے لگاتارآگے بڑھے ۔ اسی کے ساتھ میرے ساتھ سب بولیں گے : بھارت ماتاکی ۔ جئے بھارت ماتاکی ۔ جئے بھارت ماتاکی ۔ جئے وندے ۔ماترم وندے ۔ ماترم وندے ۔ماترم بہت بہت شکریہ ۔,লালকিল্লাত ‘আজাদ হিন্দ ফৌজ’ৰ ৭৫সংখ্যক বৰ্ষপূৰ্তিৰ স্মাৰক অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D9%81%D9%88%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%A3-%E0%A6%86%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B1/,نئی دہلی،29جنوری 2019؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 25 جنوری 2019ء کو بھارت-جنوبی افریقی تجارتی فورم سے خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا متن حسب ذیل ہے: جمہوریہ جنوبی افریقہ کے صدر عزت مآب جناب سائرل رامفوسا، ہندوستان اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کارپوریٹ ورلڈ کے لیڈر خواتین و حضرات نمسکار! مجھے بھارت-جنوبی افریقہ تجارتی فورم میں آپ لوگوں کے درمیان آکر بے حد خوشی ہورہی ہے۔ہمیں اپنے درمیان آپ کے صدر کو دیکھ کر بے حد اعزاز کا احساس ہورہا ہے۔ یہ بے حد خوشی کی بات ہے کہ آپ کل ہمارے 70ویں یوم جمہوریہ پریڈ میں مہمان اعزازی ہوں گے۔ہماری شراکت داری تاریخ کا اٹوٹ بندھن ہے۔ یہ بھارت اور جنوبی افریقہ کی قومی تحریک آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ اب ہماری شراکت داری مشترک اور مستقبل کی خوشحالی سے متعلق ہے، جو کہ ہمارے عوام کے لئے جناب مدیبا اور مہاتما کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرتا ہے۔ ہم اپنے عوام کے بہتر مستقبل کے لئے اور دنیا کے لئے اپنی شراکت اور اشتراک کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے لال قلعہ قرار داد کے ذریعے 22 سال قبل ایک اہم شراکت داری کے لئے معاہدہ کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا کے دو قدیم دوستوں اور شراکت داروں کے مابین مسلسل بات چیت سے ہم ہر راستے میں ایک دوسرے کے ساتھ آئے ہیں۔ہم باہمی کے علاوہ کثیر سطحی قریبی تعاون کے اپنے عزم پر قائم ہیں۔ حالیہ دنوں میں نئی شروعات ہوئی اور دونوں پرانے دوستوں کے مابین ترقی کی دلچسپ کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان تجارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ 18-2017ء میں دس بلین ڈالر کی حد عبور کر گئی ہے۔ 2018ء میں دو اہم تجارتی اقدامات ہوئے جن سے اس سلسلے میں کافی مدد ملی ہے۔ پہلا قدم اپریل 2018ء میں جوہانسبرگ میں منعقدہ بھارت-جنوبی افریقہ تجارتی کانفرنس تھی، جبکہ دوسری نومبر 2018ء میں جوہانسبرگ میں ہی منعقد ہ بھارت تجارتی فورم میں سرمایہ کاری تھی۔ پھر بھی اس کی اب بھی کافی صلاحیت موجود ہے۔میں تمام ہندوستانی اور جنوبی افریقی حکومت کی ایجنسیوں ، سرمایہ کو فروغ دینے والے اداروں کے علاوہ دونوں ملکوں کے تجارتی لیڈروں سے اس صلاحیت کو حقیقی معنوں میں بروئے کار لانے کے لئے مثبت کارروائی کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہماری ریاستوں میں جنوبی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے اداروں کی شراکت اور موجودگی نمایاں رہی ہے۔ میں اپنے اولین کردار میں بحیثیت ایک گجرات کے وزیر اعلیٰ کے مجھے جنوبی افریقہ کی اہم شراکت کا خیر مقدم کرکے خوشی حاصل ہوئی تھی۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ گزشتہ ہفتہ وائبرنٹ گجرات کے دوران ایک بار پھر ہمیں جنوبی افریقہ سے کثیر تعداد میں اپنے دوستوں کا ، شراکت داروں کا استقبال کرنے کا موقع ملا۔وائبرنٹ گجرات میں ایک دن خصوصی طورپر ‘افریقہ ڈے’ کےطورپر محسوس کیا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے رشتے امید سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ یہ ہماری باہمی معاشی شراکت داری کے لئے بھی کافی اچھا ہے۔ہندوستان کی معیشت فی الحال 2.6ٹریلین ڈالر کے بقدر ہے، جو کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اہم معیشت ہے۔ ہم دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ہندوستان میں ورلڈ بینک کی ایز آف ڈوئنگ بزنس رپورٹ کی تازہ ترین اشاعت میں ہندوستان 77ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران 65مقامات کی بہتری آئی ہے۔ ہم یو این سی ٹی اے ڈی کے ذریعے رجسٹرڈ ایف ڈی آئی میں اعلیٰ مقامات میں سے ایک ہے، لیکن ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ یومیہ بنیاد پر معیشت کے اہم شعبوں میں ضروری تبدیلیاں اور اصلاحات کررہے ہیں۔ ہمارے خصوسی پروگرام جیسے میک اِن انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا اور اسٹارٹ اَپ انڈیا دنیا کی توقعات کے مظہر ہیں۔ ہماری صنعتیں انڈسٹری 4.0 اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کی جانب پیش رفت کی ہے،ان میں آرٹیفیشل انٹلی جنس، 3ڈی پرنٹنگ، روبوٹکس شامل ہیں۔ ہماری حکومت اپنے 1.3بلین عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی تمام کوشش کی گئی ہے۔یہ عوام دنیا میں انسانیت کے چھٹے حصہ ہیں۔ ہم نئے جینریشن کے بنیادی ڈھانچے اورنئی رفتار، ہنرمندی اور پیمانے کے ساتھ نیو انڈیا کی تعمیر کے لئے پابند عہد ہیں۔ میں اس موقع پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ عز ت مآب:جنوبی افریقہ کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے 2018ء میں آپ نے متعدد فعال اقدامات کئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جنوبی افریقہ میں براہ راست سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کے علاوہ تین برسوں کے دوران نوجوان کے لئے 10 لاکھ سے زائد روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے آپ کی تمام کوششیں کامیاب ہوں ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان اس مقاصد کے حصول میں تعاون کررہا ہے، جنوبی افریقہ میں ہماری سرمایہ کاری میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے اور مقامی سطح پر 20 ہزار سے زائد روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ بحیثیت ایک دوست ملک کے طورپر بھارت کو پالیسی اصلاحات میں اپنے تجربات کو تبادلہ کرنے اور زمینی سطح کی ایجنسیاں قائم کرنے سے خوشی ہوگی۔ ہم جنوبی افریقہ میں بھارت کی کمپنیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جنوبی افریقہ کی زیادہ سے زیادہ کمپنیاں بھارتیہ بازار میں داخل ہوں گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نیو انڈیا تمام دستیاب مواقع میں خصوصی طورپر خوراک اور ایگرو پروسیسنگ ، گہری کانکنی، دفاع ، فن ٹیک، بیمہ اور بنیادی ڈھان��ہ کے شعبوں میں آپ کا خیرمقدم کرے گا۔ اسی طرح بھارت بھی اسٹارٹ اپ ، حفظان صحت اور فارما، بائیوٹیک، آئی ٹی اور آئی ٹی پر مبنی شعبوں میں جنوبی افریقہ کے ساتھ شراکت کرسکتا ہے۔ ہمیں حال ہی میں شروع ہوئے گاندھی منڈیل اسکل انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے جنوبی افریقہ کے ہنرمندی کے قصے کا حصہ بننے پر خوشی ہوئی ہے۔ یہ پہل نوجوانوں کو با اختیار بنانے کے لئے ہے۔ ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان دوسرا اہم اشتراک زیورات اور جواہرات کے شعبے میں بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں ممالک ہیرے کی براہ راست خریداری کے لئے امکانات تلاش کرسکتے ہیں۔ اس سے معیشت کی نمو یقینی ہوگی اور خریداروں اور فروخت کاروں کے لئے لاگت میں بھی کمی آئے گی۔جنوبی افریقہ نئی اور قابل احیاء توانائی خصوصاً ‘‘بین الاقوامی شمسی اتحاد’’کے ذریعے ہماری مہم میں بھارت کے ساتھ ہاتھ بٹا سکتا ہے۔ تاجروں اور سیاحوں کیلئے موجودہ ویزا ضابطے کی سہل کاری اور براہ راست رابطے سے ایز آف بزنس اور عوام کے رابطے میں مزید اضافہ ہوگا۔ خواتین و حضرات! بھارت –جنوبی افریقہ شراکت داری میں کافی غیر استفادہ شدہ صلاحیت موجود ہے۔ ہمیں مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ جناب صدر آپ کا دورہ ہمیں اس رشتے کو مزید آگے بڑھانے کے لئے اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ میں مشترکہ کوششوں میں آپ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرنے کے لئے پابند عہد ہوں۔ شکریہ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ م ن۔ش س۔ن ع)),ভাৰত-দক্ষিণ আফ্ৰিকা ব্যৱসায়িক মঞ্চত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%A8/,عزت مآب جناب بنجامن نتن یاہو، اسرائیل کے وزیراعظم۔ بھارت اور اسرائیل کےسرکردہ تاجرین! خواتین و حضرات میں وزیر اعظم نتن یاہو اور اسرائیلی وفد کے ارکان کا اپنے تمام ہم وطنوں کی جانب سےخیرمقدم کرتا ہوں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دونوں ملکوں کے سی ای او ز کا ساتھ ہے۔ وزیر اعظم نتن یاہو اور میں نے ابھی سی ای او کے دو طرفہ فورم کے ذریعے بھارت اور اسرائیل کے سرکردہ تاجرین کے ساتھ ثمرآور بات چیت مکمل کی ہے۔ مجھے سی ای او کی اس بات چیت اور شراکت داری سے بڑی امیدیں ہیں، جو پچھلے سال شروع ہوئی ہے۔ دوستو! میرے دل میں اسرائیل اور اس کے عوام کے لیے ہمیشہ زبردست احترام رہا ہے۔ میں نے 2006 میں گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کیا تھا، پچھلے سال جولائی میں ایک مرتبہ پھر میں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا، جو بھارت کی طرف سے اپنی نوعیت کا ایسا پہلا دورہ تھا۔ یہ بہت ہی خاص دورہ تھا۔ مجھے اپنے قریبی حلقوں میں اختراع، محنت اور استقلال کے قابل قدر جذبے کا تجربہ ہوا، جو مجھے اسرائیل سے حاصل ہوا۔ یہ نئی توانائی اور مقصد ہے ، جس کی وجہ سے پچھلے چند برسوں میں ہمارے تعلقات میں نئی جان پیدا ہوئی ہے۔ اس سے ہمارے تعاون کو نئی اونچائیاں ملنے میں مدد ملے گی۔ ہم بھارت- اسرائیل تعلقا ت میں ایک درخشاں اور نئے باب کی دہلیز پر ہیں۔ یہ باب ہمارے عوام اور باہمی موقعوں کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے شروع ہواہے۔ ہمارے تعلقات کی کایا پلٹ میں تجارت اور صنعت کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ آپ کی مشترکہ کوششیں ہیں، جن سے ہماری بات چیت کو صحیح معنوں میں اہمیت ملے گی اور اس سے ٹھوس کامیابی حاصل ہوگی۔ اگر ہم اپنے لیے بھارتی معیشت اور اسرائیل کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی بات کریں تو ہم مل کر جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ دوستو! مجھے خوشی ہے کہ ہم نے بھارت – اسرائیل صنعتی آر اینڈ ڈی اور ٹیکنالوجیکل انوویشن فنڈ (آئی 4ایف) کے تحت مشترکہ تحقیق و ترقی کے پروجیکٹوں کے لیے پہلی مرتبہ اپیل کی ہے۔ جس کا اعلان پچھلی جولائی کو میرے اسرائیل کے دورے کے دوران کیا گیا تھا۔ اس فنڈ کو اگلے پانچ سال کے عرصے میں استعمال کیا جانا ہے اور یہ ڈگر سے ہٹ کر ٹیکنالوجی کے حل کے سلسلے میں دونوں ملکوں کی مشترکہ صلاحیتوں کے لیے ایک خیرمقدمی موقع ہے، جس تجارتی طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میں دونوں ملکوں کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ اس پلیٹ فارم کی استعمال کریں گی۔ اسی طرح ڈیٹا اینالیٹکس اور سائبر اسپیس سیکیورٹی جیسے میدانوں میں مشترکہ آر این ڈی پروجکٹوں کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کے لین دین میں بھی موقع ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں خوشی ہورہی ہے کہ بھارت- اسرائیل اختراع اور ٹیکنالوجی سے متعلق ایک مکمل اجلاس بھارت میں جولائی 2018 میں ہونے والا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس اجلاس سے نئی ٹیکنالوجی کے مشترکہ فروغ کو رفتار حاصل ہوگی۔ درحقیقت اس کے لیے بنیادی کام کل کے بعد سے آئی کرئیٹ سے شروع ہوگا۔ ہم اس کیمپس کے آغاز کے لیے گجرات جارہے ہیں، جو ایک سرکردہ اختراعی مرکز کے طور پر تیار کیا جارہا ہے۔ دوستو! میں وزیر اعظم نتن یاہو کو گجرات کے دیہی علاقوں میں اس لیے لے کر جارہا ہوں کیونکہ ٹیکنا لوجی اور توانائی کی اصل طاقت اس فائدے میں ہے، جوعام آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔ اسرائیل کو اختراع اور تخلیقی کام کے دوران آنے والے وقفے کے لیے انفرادی نوعیت کے ایک ماحولیاتی نظام کے ساتھ اسٹارٹ –اپ ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کا سہرا اسرائیل کے چھوٹے صنعت کاروں کو جاتا ہے۔ آپ نے اسرائیل کو ایک مضبوط مستحکم اور اختراعی معیشت بنایا ہے۔ آپ نے 80 لاکھ عوام کے ملک کو ٹیکنالوجی کے عالمی پاور ہاؤس کے طور پر درخشاں کیا ہے۔ چاہے یہ واٹر ٹیک ہو یا زرعی ٹیک ہو، چاہے یہ خوراک کی پیداوار ہو، یا یہ اس کی ڈبہ بندی اور تحفظ ہو۔ اسرائیل نئی کامیابیوں اور ترقی کے ساتھ ایک درخشاں مثال رہا ہے۔ چاہے یہ جسمانی یا حقیقی سیکیورٹی ہو، چاہے وہ زمین ہو، پانی ہو، یا خلا ہو۔ آپ کی ٹیکنالوجی نے داد حاصل کی ہے۔ درحقیقت میں نے بھارت میں جہاں پانی کی کمی پائی جاتی ہے، اسرائیل کی خاص طور پر پانی سے متعلق استعداد کو سراہا ہے۔ دوستو! بھارت میں چھوٹی اور بہت چھوٹی سطح پر تین سال سے لگاتار اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ فرق کو نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکے۔ ہمار انعرہ ہے: اصلاح ، کارکردگی اور کایا پلٹ۔ نتیجہ دوگنا ہے ۔ ایک طرف ہمارے طریقہ کار ، لائحہ عمل اور نظام دنیا میں بہترین طریقے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ہم نے تیز رفتار ترقی کو برقرار رکھاہوا ہے۔ گہری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے باوجود ہم سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی بڑی معیشتوں میں شامل ہیں۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی آمد ، ابھی تک سب سے زیادہ ہوئی ہے،جس میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نوجوانوں میں ہنر پیدا کرنے اور انہیں روزگار دینے کے لیے زبردست کام کیا جارہا ہے۔ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ 35 سال سے کم عمر کا ہے اور ٹ��کنالوجی کی مدد سے کی جانے والی ترقی کا منتظر ہے ۔ یہی ہمارا سب سے بڑا موقع ہے اور چیلنج ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے اسٹارٹ- اپ انڈیا مہم شروع کی ہے۔ اس میدان میں بھارت- اسرائیل شراکت داری کے لیے زبردست صلاحیت موجودہ ہے۔ بھارت- اسرائیل اختراعی رابطہ، دونوں ملکوں کے اسٹارٹ- اپ کے درمیان ایک رابطے کا کام کرے گا۔ میں یہ بات کہتا رہا ہوں کہ بھارتی صنعتوں ، اسٹارٹ اپ اور تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ وہ اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ حصہ داری کریں۔ تاکہ معلومات کے ایک بڑے خزانے تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ بھارت اپنے سائز اور نقشے کے اعتبار سے بڑا ملک ہے۔ اسرائیل ایک تیزی والا اور جدید ترین ٹیکنالوجی والا ملک ہے۔ بہت سےایسے نت نئے نظریات اور ٹیکنالوجیزہیں، جو بھارت میں تجارتی سطح پر فائدے مند ہوسکتے ہیں۔ دوستو! آج ہم مصنوعات سازی کے سب سے بڑے ملکوں کے طور پر ابھر چکے ہیں، لیکن ہم نے ابھی تک اس کی تکمیل نہیں کی ہے۔ ہم بھارت کو اپنے نوجوانوں کی توانائی کو بروئے کار لاکر مصنوعات سازی کا عالمی مرکز بنارہے ہیں۔ میک ان انڈیا قدم،اسی لیے تیار کیا گیا ہے کہ یہ کامیابی حاصل کی جاسکے۔ ایک باقاعدہ معیشت کے نئے ماحولیاتی نظام اور ایک متحدہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کے ذریعے ہم ایک نئے بھارتی کی تعمیر کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم بھارت کو معلومات کی بنیاد والا، ہنرمندی کی حمایت والا اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قائم ایک سماج کے طور پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا اور اسکل انڈیا کے ذریعے ہم نے اس کام کا آغاز کردیا ہے۔ مائی گورنمنٹ کے ذریعے خاطر خواہ اصلاحات کی گئی ہیں۔ تجارت اور کمپنیوں کو درپیش بہت سے ضابطہ جاتی اور پالیسی سے متعلق معاملات حل کرلئے گئے ہیں۔ ہم نے بھارت میں تجارت کو آسان بنانے کے سلسلے میں بڑی سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ نتائج سامنے ہیں: پچھلے تین سال میں بھارت عالمی بینک کی تجارتی کو آسان بنانے کی فہرست میں 42 مقام اوپر آچکا ہے۔ ہم ، دو سال میں ڈبلیو آئی پی او کی اختراع سے متعلق عالمی فہرست میں 21 مقام اوپر آگئے ہیں۔ ہم، عالمی اقتصادی فورم کی عالمی مقابل جاتی فہرست میں بھی پچھلے دو سال میں 32 مقام اوپر آگئے ہیں، جو کسی ملک کے لیے بلند ترین مقام ہے۔ عالمی بینک کی لوجسٹکس کا رکردگی کی فہرست میں 19 مقام اوپر آگئے ہیں۔ ہم، یو اینڈی سی ٹی اے ڈی کی تیار کردہ 10 ایف ڈی آئی چوٹی کے ملکوں میں شامل ہیں۔ اور ہم ابھی رُکے نہیں ہیں۔ ہم مزید کافی کچھ اور کافی بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ اثاثے اور ٹیکنالوجی کی آمد کے لیے دفاع سمیت زیادہ تر شعبوں کو ایف ڈی آئی کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ایف ڈی آئی کی 90 فیصدسےزیادہ منظوریوں کو خودکار طریقہ کار میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ہم اب سب سے زیادہ کھلی معیشتوں میں شامل ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہم نے واحد کمپنی کی خوردہ فروخت میں اور تعمیراتی سرگرمیوں میں ایف ڈی آئی کو خود بخود 100 فیصد میں شامل کیے جانے کو منظوری دی ہے۔ہم نے اپنی قومی ہوائی کمپنی ائیر انڈیا کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کھول دیا ہے۔ ہم بھارت میں تجارت کو ہر روز آسان بنارہے ہیں۔ ٹیکس کے معاملے میں ہم نے بہت سی تاریخی اصلاحات کی ہیں۔ ڈگر سے ہٹ کر جی ایس ٹی اصلاح کا نفاذ بڑی کامیابی اور بلا کسی رکاوٹ کے کردیا گیا ہے۔ جی ایس ٹی، مالی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل لین دین کے آغاز کے ساتھ ہی ہم ٹیکس کے جدید نظام کی طرف صحیح معنوں میں رجوع ہوگئے ہیں، جو شفاف بھی ہے اور مستحکم بھی ہے اور جس کا اندازہ پہلے سے لگایا بھی جاسکتا ہے۔ دوستو! میک ان انڈیا کے یے بہت سی اسرائیلی کمپنیوں نے ہاتھ بڑھایا ہے۔ بہت سی دیگر کمپنیوں نے خاص طور پر جن کا تعلق جدید ترین آبی ٹیکنالوجی اور زرعی تکنیک، دفاع اور حٖفاظتی نظام اور دوا سازی معلومات سے ہے، بھارت میں قدم رکھا ہے۔ اسی طرح اسرائیل میں بھی آئی ٹی، سینچائی اور دواسازی جیسےبہت سے شعبوں میں بھارتی کمپنیوں کی موجودگی بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ہماری تجارت میں ہیرے کا ایک خاص مقام ہے۔ آج تجارت کے مشترکہ پروجیکٹوں میں پہلے سے زیادہ مواقع ہیں۔ البتہ یہ محض آغاز ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ہماری تجارت 5 ارب ڈالر سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن یہ اصل صلاحیت سے کہیں کم ہے۔ ہمیں اپنے تعلقا ت کی مکمل گنجائشوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ یہ تعلقات محض سفارتی نوعیت کے ہی نہیں، بلکہ اقتصادی نوعیت کے بھی ہونے چاہئیں۔ ہم اپنی مشترکہ صلاحیتوں کو کیسے بروئے کار لائیں، اس سلسلے میں آپ نے جو مشورے دئیے ہیں ، میں ان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔اختراع، نئی چیزوں کو اختیار کرنا اور مسائل کو حل کرنا، یہ جذبہ دونوں ملکوں کے مزاج میں شامل ہے۔ میں اس کی محض ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اگر ہم کچرے کو کام میں لانے اور اگر ہم اپنے پھلوں، سبزیوں اور باغبانی کو زیادہ قابل قدر بنانے میں شراکت کریں تو تصور کیجئے کہ ہمیں ماحولیاتی اور اقتصادی طور پر کتنا فائدہ ہوگا۔ ہمارے یہاں پانی کی زبردست قلت ہے۔ ہمیں ایسی بھی صورتحال کا سامنا ہے کہ جب ہم کھانے کو پھینک دیتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگ یہاں بھوکے بھی رہتے ہیں۔ دوستو! بھارت کا ترقی کا ایجنڈہ بہت وسیع ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں کے لیے اس میں بہت سے اقتصادی مواقع موجود ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ اسرائیلی عوام تاجروں اور کمپنیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بھارت آئیں اور کام کریں۔ بھارت کی حکومت اور عوام اور تجارتی برادری ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ میں آپ کی کمپنیوں اور پروجیکٹوں کے لیے ہر طرح کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہوں اور یہ کہ میری حکومت جہاں بھی کہیں ضرورت ہوگی آپ کا ساتھ دے گی۔ اور میں بھارت- اسرائیل تجارت اور اقتصادی اشتراک کو رفتار دینے میں وزیراعظم نتن یاہو کاان کی لگاتار حمایت پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے اعتماد ہے کہ ہماری شراکت داری میں بہت سی کامیابیاں مضمر ہیں۔ شکریہ,"ভাৰত-ইজৰাইল ব্যৱসায়িক সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰী বক্তব্য (১৫ জানুৱাৰী, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-10-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%A6-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 10 جون کو گجرات کا دورہ کریں گے۔ صبح سوا دَس بجے وزیراعظم نوساری میں گجرات گورو ابھیان کے دوران متعدد ترقیاتی اقدامات کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ دِن میں سوابارہ بجے کے آس پاس وزیراعظم نوساری میں اے ایم نائک ہیلتھ کیئر کمپلیکس اور نرالی ملٹی اسپیشلٹی ہاسپٹل کا افتتاح کریں گے۔ اس کے بعد سہ پہر پونے چار بجے وہ بھوپال، احمد آباد میں انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ اتھارائزیشن سنٹر اِن-اسپیس کا افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم نوساری میں: وزیراعظم گجرات گورو ابھیان پروگرام میں حصہ لیں گے۔ پروگرام کے دوران وہ نوساری میں ایک قبائلی خطے کھدویل میں تقریباً 3050 کروڑ روپے کی لاگت والے متعدد ترقیاتی اقدامات کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان میں 7 پروجیکٹوں کا افتتاح، 12 پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد اور 14 پروجیکٹوں کا بھومی پوجن شامل ہیں۔ ان پروجیکٹوں سے اس خطے میں پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی ، کنکٹی ویٹی بڑھے گی اور زندگی میں آسانی آئے گی۔ وزیراعظم تاپی، نوساری اور سورت اضلاع کے باشندوں کے لئے 961 کروڑ روپے کی لاگت والے 13 واٹر سپلائی پروجیکٹوں کی بھومی پوجن انجام دیں گے۔ وہ نوساری ضلع میں ایک میڈیکل کالج کا بھی بھومی پوجن کریں گے، جو 542 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا اور اس کے ذریعے خطے کے عوام کو سستی اور معیاری طبی سہولیات حاصل ہوں گی۔ وزیراعظم مدھو بن ڈیم پر مبنی ایسٹول ریجنل واٹر سپلائی پروجیکٹ کا افتتاح کریں گے، جو 586 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نل سے جل پروجیکٹ کا افتتاح وزیراعظم کے ہاتھوں سے ہوگا، جس پر 163کروڑ روپے کی لاگت آ رہی ہے۔ اس پروجیکٹ سے سورت، نوساری، ولساڑ اور تاپی کے باشندوں کو صاف ستھرا اور وافر مقدار میں پانی ملے گا۔ وزیراعظم 85 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ویر پور ویارا سب اسٹیشن کا افتتاح کریں گے، جس سے تاپی ضلع کے باشندوں کو بجلی ملے گی۔ 20 کروڑ روپے کی لاگت اور 14 ایم ایل ڈی کی گنجائش والے سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا بھی افتتاح ہوگا، جس سے ولساڑ ضلع کے واپی شہر میں استعمال شدہ پانی کا بندوبست کیا جائے گا۔ وزیراعظم نوساری میں سرکاری رہائشی کوارٹروں کا افتتاح کریں گے، جس پر 21 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔ وہ پپلا دیوی- جونر-چِچ وِہار- پیپل داہد- سڑک کی تعمیراور ڈانگ میں اسکولی عمارتوں کا بھی افتتاح کریں گے، جن پر 12-12 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ وزیر اعظم سورت، نوساری، ولساڑ اور تاپی اضلاع کے رہنے والوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے 549 کروڑ روپے کے 8 واٹر سپلائی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ نوساری ضلع میں 33 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی کھیرگام اور پپل کھیڈ کو جوڑنے والی چوڑیسڑک کا سنگ بنیاد بھی رکھا جائے گا۔ نوساری اور باردولی کے درمیان براستہ سوپا چار قطاروں والی ایک اور سڑک تقریباً 27 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی جائے گی۔ وزیر اعظم بالترتیب تقریباً 28 کروڑ روپے کی لاگت سے ضلع پنچایت بھون کی تعمیر کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ اور ڈانگ میں رولر کریش بیریئر فراہم کرنے اور ٹھیک کرنے پر اور 10 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ وزیر اعظم اے ایم نائیک ہیلتھ کیئر کمپلیکس میں وزیراعظم نوساری میں اے ایم نائک ہیلتھ کیئر کمپلیکساور نرالی ملٹی اسپیشلٹی ہسپتال کا افتتاح کریں گے۔ وہ ہیلتھ کیئر کمپلیکس میں منعقدہ ایک عوامی تقریب میں شرکت بھی کریں گے جہاں وہ کھرل ایجوکیشن کمپلیکس کا عملی طور پر افتتاح کریں گے اور پھر خطاب کریں گے۔ وزیر اعظم ان اسپیش ہیڈ کوارٹر میں وزیر اعظم احمد آباد کے بوپال میں انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر (ان اسپیش) کے ہیڈ کوارٹر کا افتتاح کریں گے۔ اس موقع پر خلا پر مبنی ایپلی کیشنز اور خدمات کے شعبے میں کام کرنے والی ان اسپیش اور نجی شعبے کی کمپنیوں کے درمیان مفاہمت ناموں کے تبادلہ بھی ہوگا۔ خلائی شعبے میں پرائیویٹ اداروں کو فروغ دینے اور ان کو فعال کرنے سے خلائی شعبے کو بڑا فروغ ملے گا اور ہندو��تان کے باصلاحیت نوجوانوں کے لئے امکانات کی نئی راہیں کھلیں گی۔ ان اسپیس کے قیام کا اعلان جون 2020 میں کیا گیا تھا۔ یہ سرکاری اور نجی دونوں اداروں کی خلائی سرگرمیوں کے فروغ، حوصلہ افزائی اور انہیں منضبط رکھنے کے لئے خلائی محکمے میں ایک خود مختار اور واحد ونڈو نوڈل ایجنسی ہے۔ یہ نجی اداروں کے ذریعہ اسرو کی سہولیات کے استعمال میں بھی آسانی فراہم کرتا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১০ জুনত গুজৰাট ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%D8%AF%D8%B1%D8%AE%D8%B4%D8%A7%DA%BA-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-2019-%DA%A9%DB%8C%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2/,نئی دہلی،16؍جنوری؍وزیراعظم نریندر مودی کَل، 17؍جنوری 2019 سے گجرات کا 3روزہ دورہ کریں گے۔اپنے اِس دورے کے دوران وہ گاندھی نگر، احمد آباد اور ہزیرہ کا دورہ کریں گے۔ کَل اپنی پہلی مصروفیت میں وزیراعظم نریندر مودی گاندھی نگر میں مہاتما مندر نمائش اور کنونشن سنٹر میں درخشاں گجرات عالمی تجارتی شو کا افتتاح کریں گے۔ یہاں ایک ہی جگہ 25سے زیادہ صنعتی اور تجارتی سیکٹروں کی نمائش کی جائے گی۔ شام کووزیراعظم احمد آباد میں سردار ولبھ بھائی پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ کا افتتاح کریں گے۔یہ احمد آباد میونسپل کارپوریشن کےذریعے تعمیر کردہ جدیدترین سُپر اسپیشلٹی سرکاری اسپتال ہے، جو ایمبولینس سمیت تمام جدید سہولیات سے لیس ہے۔ 78میٹر اونچی یہ عمارت حقیقی طور پر صلاحیت اور معیار کی عکاس ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کے جذبے کے ساتھ یہ اسپتال مکمل طور پر کاغذ سے پاک ہوگا۔یہ اسپتال عام آدمی کو خدمات فراہم کرے گا اور آیوشمان بھارت کے ویژن میں مدد گار ہوگا۔ وزیراعظم اسپتال میں سہولیات کا معائنہ کریں گے اور ایک اجتما ع سے خطاب کریں گے۔ بعد میں شام میں وزیراعظم کے ہاتھوں احمد آباد شاپنگ فیسٹیول 2019 کا افتتاح کیا جائے گا۔ یہ فیسٹیول درخشاں کے ساتھ ساتھ منعقد کیاجا رہا ہے۔ وزیراعظم درخشاں گجرات احمد آباد شاپنگ فیسٹیول کے میسکاٹ کی بھی نقاب کشائی کریں گے۔ احمد آباد شاپنگ فیسٹیول 2019 بھارت میں اپنی نوعیت کاپہلا فیسٹیول ہے۔ یہ فیسٹیول شہر کی صنعتوں کو اپنی مصنوعات کی نمائش کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ وزیراعظم اس موقع پر ایک عوامی اجتماع سے بھی خطاب کریں گے۔ اگلے دن 18؍جنوری 2019 کو وزیراعظم گاندھی نگر میں مہاتما مندر نمائش و کنونشن سنٹر میں درخشاں گجرات کانفرنس کے 9ویں ایڈیشن کا افتتاح کریں گے۔درخشاں گجرات کانفرنس کا نظریہ 2003 میں وزیراعظم نریندر مودی نے پیش کیاتھا اور اُس وقت وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس کا مقصد گجرات کو ایک ترجیحی سرمایہ کاری کا مقام بنانا تھا۔ یہ کانفرنس عالمی سماجی-اقتصادی ترقی کے ایجنڈوں پر غوروخوض کرنے، ان میں ساجھیداری اور مؤثر ساجھیداری کو فروغ دینے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ 19؍جنوری 2019 کووزیراعظم ہزیرہ گَن فیکٹری کے قیام کے موقع پر ہزیرہ کا دورہ کریں گے۔ ہزیرہ سے وزیراعظم دادر ناگر حویلی میں سِلواسہ جائیں گے۔ وہ کئی ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گےاور سنگِ بنیاد رکھیں گے۔ اپنے دورے کے آخری مرحلے میں وزیراعظم 19؍جنوری کو ممبئی جائیں گے۔ وہاں وہ بھارتی سنیما کے قومی میوزیم کی نئی عمارت کا افتتاح کریں گے۔ ( م ن ۔ ۔ ک ا),ভাইব্ৰেণ্ট গুজৰাট সন্মিলন ২০১৯ ৰ বাবে কাইলৈ গুজৰাটত উপস্থিত হ’ব প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%86%D9%91%DA%91-%DA%AF%D9%84%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%B4%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%85%D9%88%DA%AF%D8%A7-%D8%B3%D9%88%D8%A8%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%95-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%97%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے معروف کنڑ گلوکار شیو ا موگا سوبنا کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا ہے: ‘‘ شیواموگا سوبنا کی بے مثال شخصیت ان گھروں میں لیا جانے والا نام ہے، جو کنڑ گانوں اور موسیقی کوپسندکرتے ہیں۔ موجودہ نسل کے ساتھ بیش قیمت کنڑ شاعری کو منسلک کرنے کی ان کی کوششوں اور کام کو سراہا گیا ہے۔ان کے انتقال پر افسوس ہے۔ ان کے کنبے اورچاہنے والوں کے تئیں تعزیت پیش کرتا ہوں ۔ اوم شانتی ۔’’,কান্নাড়া গায়ক শিৱমোগ্গা সুব্বান্নাৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D8%8C-%D8%AE%D8%A7%D8%B5-%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D9%BE%D9%86%DA%88%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%95%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جئیشٹھ اشٹمی کے مقدس موقع پر سبھی کو، خاص کر کشمیری پنڈت بہنوں اور بھائیوں کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ’’سبھی کو، خاص کر میرے کشمیری پنڈت بہنوں اور بھائیوں کو جئیشٹھ اشٹمی کی مبارکباد۔ ہم سبھی کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے ماتا کھیر بھوانی سے پرارتھنا کرتے ہیں۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সকলোকে বিশেষকৈ কাশ্মীৰী পণ্ডিত ভগ্নী আৰু ভাতৃসকলক জ্যেষ্ঠ অষ্টমীৰ শুভেচ্ছা জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%DB%8C%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D9%82%D8%A7%D8%A8%D9%84-%D8%A7%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D9%94-%D8%AA%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%81/,نئی دہلی ،8؍مارچ :وزیراعظم جناب ، نریندرمودی کی قیادت میں بھارت اور ہیلینک کے مابین قابل احیأتوانائی کے شعبے میں باہمی تعاون سے متعلق مفاہمتی عرضداشت کے سلسلے میں کابینہ کو جانکاری دی گئی ہے ۔ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت پر وزیرخارجہ محترمہ سشماسوراج نے حکومت ہند کی جانب سے اورہیلینک جمہوریہ کے خارجی امورکے وزیر،جناب نکوس کوٹ زیاس نے نومبر ،2017میں اپنے دورے کے دوران دستخط کئے تھے ۔ طرفین نے نئے اورقابل احیأ توانائی وسائل کے سلسلے میں باہمی تعاون کوفروغ دینے کے لئے امداد باہمی پرمبنی ادارہ جاتی تعلقات قائم کرنے کے لئے اس مفاہمتی عرضداشت پردستخط کئے ہیں ۔ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت کے تحت تعاون سے متعلق مختلف موضوعات پرنظرثانی کی جائے گی، ان کی نگرانی اور ان پرتبادلہ ٔ خیالات عمل میں آئیں گے ۔ ایم اویو کا مقصد طرفین کے مابین مہارت کا تبادلہ اور اطلاعات کی نیٹ ورکنگ بھی شامل ہیں ۔,ভাৰত আৰু হেলেনিকৰ মাজত পুনঃনৱীকৰণযোগ্য শক্তিৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ বাবে বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ ক্ষে��্ৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D8%B5%D8%AF-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%AF%DB%8C-%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%DA%91%DA%BE%DB%92-%DA%86%DA%BE-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%DA%91-%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80-%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%81%E0%A6%9F/,نئی دہلی،12۔اپریل ،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ایئرفورس اسٹیشن کانپور(اے ایف ایس، کانپور) میں واقع دفاعی مقاصد کیلئے دی گئی 6.5628ایکڑزمین پٹےپرکیندریہ ودیالیہ سنگٹھن کو منتقل کئےجانے کو منظوری دے دی ہے۔ اس کا استعمال 6جون 2011 کو کئے گئے فیصلے میں جزوی ترمیم کےساتھ اسکول کی عمارت اور دیگر متعلقہ بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کےلئے کیاجائےگا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تاریخ کو 8.90ایکٹردفاعی مقاصد کے لئے دی گئی زمین اے ایف ایس کانپور میں واقع کے وی ایس کو منتقل کئےجانےکومنظوری دی گئی تھی۔ دفاعی مقاصد سے متعلق یہ زمین حکومت کی موجودہ پالیسی کے تحت بغیر کسی پریمیئم کے سالانہ برائے نام ایک روپے کے پٹے پر منتقل کی جا رہی ہے۔ اس زمین پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے وی ایس اپنے فنڈ سے اپنے ضابطوں کےمطابق کرےگا۔ اے ایف ایس کانپورمیں واقع کیندریہ ودیالیہ ایک عارضی بیرک ٹائپ کی رہائش گاہ میں 1985سے کام کر رہا ہے۔ یہ جگہ اسکول کے لئے طے شدہ خصوصیات سے متعلق ضرورتوں کے لئے ناکافی ہے۔ کے وی ایس کو زمین کی منتقلی سے متعلق کاغذی کارروائی دو ماہ کے اندر مکمل کر لی جائےگی۔ اس کے بعد کے وی ایس پٹے پر دی جا رہی اس زمین پر اسکول کی عمارت وغیرہ کی تعمیر کرے گا۔ م ن ۔م م ۔ ک ا,কানপুৰ বিমান বাহিনী ঘাঁটিত কেন্দ্রীয় বিদ্যালয় সংস্থানৰ গৃহ নিৰ্মাণৰ উদ্দেশ্যে প্রতিৰক্ষা মন্ত্ৰালয়ৰ ৬.৫৬২৮ একৰ ভূমি হস্তান্তৰৰ প্রস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D9%88%D9%B9%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AD%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%95/,نئی دہلی،25/جنوری۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ووٹروں کے قومی دن کے موقع پر سبھی اہل ووٹروں سے زور دے کر کہا ہے کہ وہ جمہوریت کو استحکام دینے کے لئے اپنا رجسٹریشن کرائیں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ووٹروں کے قومی دن پر ہر ایک کو مبارک باد۔ بھارت کے انتخابی کمیشن کو مبارک باد، جو اس دن قائم کیا گیا تھا۔ میں سبھی اہل ووٹروں خاص طور پر نوجوانوں سے زور دے کر کہتا ہوں کہ وہ اپنی حصے داری سے جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنا رجسٹریشن کرائیں۔ ایک ووٹ کی طاقت ایک زبردست طاقت ہے۔‘‘ (م ن ۔ اس۔ م ر(,ৰাষ্ট্ৰীয় ভোটাৰ দিৱসত সকলো যোগ্য ভোটাৰক নিজৰ নাম পঞ্জীয়ন কৰি ভোটাধিকাৰ সাব্যস্ত কৰিবলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ আহ্বান +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,وزیراعظم ج��اب نریندر مودی نے آج آسیان کے وزرا خارجہ اور نمائندوں سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا: ‘‘انہوں نے آسیان ملکوں کے وزرا خارجہ اور نمائندوں کے ساتھ خوشگوار ملاقات کی جب کہ ہم ہندوستان اور آسیان کے درمیان قریبی تعاون کے 30 سال پورا ہونے کا جشن منارہے ہیں۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আছিয়ানৰ বৈদেশিক মন্ত্ৰী আৰু প্ৰতিনিধি সকলক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D8%B4%D9%86-%D9%BE%D8%B1%D9%85-%DB%81%D9%86%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8/,نئی دہلی۔18 فروری وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شری رام کرشن پرم ہنس کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘میں شری رام کرشن پرم کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر نمن کرتا ہوں ۔ انہوں نے ایک ایسے سماج کا خواب دیکھا تھا جو منصفانہ اور تقسیم سے آزاد ہو۔’’ وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر ، جس میں انہوں نے گذشتہ سال شری رام کرشن پرم ہنس خراج عقیدت پیش کیا تھا ، بھی شیئر کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,শ্ৰী ৰামকৃষ্ণ পৰমহংসৰ জন্মজয়ন্তীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%AA%D8%B0%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%AA%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%95-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%A6-2/,نئی دہلی،5 ؍ستمبر؍یوم اساتذہ کے موقع پر تدریسی برادری کو مبارکباد دیتے ہوئے اور ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا کہ اساتذہ ہمیں ترغیب دیتے ہیں، معلومات عطا کرتے ہیں، تعلیم دیتے ہیں اور ہمیں روشن خیال بناتے ہیں۔ لاکھوں اساتذہ کو بھیجے ایک ای-میل میں وزیراعظم نے بچوں کی زندگیوں پر پڑنے والے ان کےغیر معمولی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ ، طلباء میں جو اقدار پیداکرتے ہیں، وہ زندگی بھر ان میں موجود ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا قول نقل کیا، جنہوں نے کہا تھا کہ تدریس ایک انتہائی معزز پیشہ ہے، جس سے کسی کے کردار، صلاحیت اور مستقبل کی تشکیل ہوتی ہے۔ جناب نریندر مودی نےکہا کہ 21ویں صدی کی تشکیل ایسے معاشرے کےذریعے کی جائے گی، جو تعلیم ، تحقیق اور اختراع کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سے ہمارے اساتذہ کا رول انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ اساتذہ کو لکھے مراسلے میں وزیراعظم نے کہاکہ مجھے یقین ہےکہ آپ ٹیکنالوجی میں تازہ ترین پیش رفت سے اپنے طلباء کو باخبر کر رہے ہوں گے اور ٹیکنالوجی رجحانات سے اپنے طلباء کو جوڑ رہے ہوں گے۔وزیراعظم نے اس موقع پر حکومت ہند کی ان چند کوششوں کا تذکرہ کیا، جو تعلیم کے شعبے میں زبردست تبدیلی لانےکے بارےمیں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ جیسے اساتذہ کی یادگاری کوششوں کا شکریہ، توجہ اب کامیاب طور پر منصوبوں سے نتائج کی طرف اور تدریس سے تعلیم کی طرف منتقل ہو گئی۔ اٹل ٹنکرنگ لیب کی وجہ سے ہنرمندی کے فروغ کو زبردست رفتار ملی ہے۔ملک بھر ��یں متعدد یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں تاکہ کوئی بھی نوجوان معیاری تعلیم کی دولت سے محروم نہ رہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ 2؍اکتوبر کو جب ہم مہاتما گاندھی کی 150ویں سالگرہ کی تقریبات منانے کاآغاز کریں گے، وزیراعظم نے طلبہ کے اندر مہاتما گاندھی کے خیالات کو آگے بڑھانے کے لئےتدریسی برادری کو ابھارا۔انہوں نے سوؤچھ بھارت مشن کو مضبوط بنانے میں تدریسی برادری کے زبردست رول کی ستائش کی۔ 2022 تک نیو انڈیا کے اپنے ویژن کا اعادہ کرتے ہوئے، جبکہ ہم آزادی کی 75ویں سالگرہ منائیں گے، وزیراعظم نے تدریسی برادری سے اپیل کی کہ وہ آئندہ 4 سال اُن لوگوں کے خواب اور ویژن کی تکمیل کے تئیں وقف کردیں، جنہوں نے آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کر دی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ کسی بھی ایسے مسئلے پر زیادہ توجہ دیں، جو آپ کے دل سے زیادہ قریب ہو۔ مقامی برادریوں کو تحریک دیں اور اپنے اطراف کے لوگوں کی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی لائیں۔ یہ ہمارے مجاہدین آزادی کو ایک بہترین خراج عقیدت ہوگااور اس سے نئے بھارت کی تعمیر سے متعلق ہمارے عہد میں مضبوطی آئے گی۔,শিক্ষক দিৱসত শিক্ষক সমূদায়লৈ প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীৰ পত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%BA%D8%B0%DB%8C%DB%81-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D9%B9%DB%8C-%D8%A8%DA%86%D8%A7%D9%88%D9%94%DB%94-%D8%A8%DB%8C%D9%B9%DB%8C-%D9%BE%DA%91%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9D%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%9D%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81/,نئی دہلی ،9؍مارچ :وسیع تعداد میں آئی ہوئی ماؤں ، بہنو ، بھائیواورنوجوان دوستو! آج 8مارچ ، پوراعالم 100سالوں سے زائد عرصے سے بین الاقوامی یوم خواتین کے طورپر اس سے جڑاہواہے ۔ لیکن آج پورا ہندوستان جھنجھنوکے ساتھ جڑگیاہے ۔ ٹکنالوجی کی مدد سے جھنجھنو کا یہ خوبصورت منظر پورے ملک کے کونے کونے میں پہنچ رہاہے ۔ میں جھنجھنو یوں ہی نہیں آیاہوں ، سوچ سمجھ کریہاں آیاہوں ، اورآیاکیاآپ نے مجھے کھینچ لیاہے ۔ آپ نے مجھے آنے کے لئے مجبورکردیاہے ۔ اورمجبوری اس بات کی تھی کہ آپ نے ، بیٹی بچاو۔بیٹی پڑھاو،کی اس تحریک کو اس ضلع نے جس شاندار طریقے سے آگے بڑھایا ، یہاں کے ہرکنبے نے ایک بہت بڑا عمدہ کام کیا ، توفطری طورپرمیرےدل نے کہا کہ چلوجھنجھنوکی مٹی کو ماتھے پرچڑھاکرآجاتے ہیں ۔ ابھی وسندھراجی وضاحت سے بیان کررہی تھیں کہ کیسے سورماؤ ں کی سرزمین ہے ، اس سرزمین کی کیاقوت رہی ہے ، اوراس لئے چاہے معاشرے کی خدمت کا کام ہو، چاہے تعلیم کا کام ہو، چاہے ناداروں کی امداد کا کام ہو، چاہے ملک کے لئے مرمٹنے کی بات ہو، اس ضلع نے ثابت کردیاہے ،جنگ ہویا قحط ، ، جھنجھنو جھکنانہیں جانتا ، جھنجھنو جوجھنا جانتاہے ۔اوراس لئے جھنجھنو کی سرزمین سے آج جس کام کو آگے بڑھایاجارہاہے ، ملک کو جھنجھنو سے ترغیب ملے گی ، ملک کو یہاں سے بھی ایک نئی طاقت ملے گی ۔ بیٹی بچاؤ۔بیٹی پڑھاؤ،کواگرکامیابی ملتی ہے ، تودل کو اطمینان ہوتاہے ، لگتاہے کہ چلوبھائی کچھ حالات میں سدھارآیا۔ لیکن کبھی کبھی دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔تکلیف اس بات کی ہوتی ہے کہ جس ملک کی عظیم تہذیب ، جس ملک کی عظیم روایات ، شاستروں میں عمدہ سے عمدہ باتیں ، وید سے ویویکانند تک ، صحیح سمت میں ادراک ، لیکن کیاوجہ ہے وہ کون سی برائی گھرکرگئی کہ آج ہمیں اپنے ہی گھرمیں بیٹی بچانے کے لئے ہاتھ پیرجوڑنے پڑرہے ہیں ، سمجھاناپڑرہاہے ، اس کے لئے بجٹ سے پیسہ خرچ کرناپڑرہاہے ۔ میں سمجھتاہوں کسی بھی معاشرے کے لئے اس سے زیادہ تکلیف کی بات نہیں ہوسکتی ۔ اورکئی دہوں سے ایک بیمارذہنیت کی وجہ ، ایک غلط سوچ کے باعث ، معاشرے کی برائیوں کی بجائے ہم نے بیٹیوں کو ہی بلی چڑھانے کا راستہ چن لیا ۔ جب یہ سنتے ہیں کہ ہزاربیٹوں کے سامنے کہیں 800بچیاں ہیں ، 850بچیاں ہیں ، کہیں 900بچیاں ہیں ، یہ معاشرے کی کیاحالت ہوگئی ، آپ محسوس کرسکتے ہیں ۔ عورت اورمرد کی برابری سے ہی اس معاشرے کا نظام چلتاہے ، معاشرے میں سرگرمیاں بڑھتی ہیں ۔ کئی دہوں سے بیٹیوں کی تردید کرتے رہے ، خارج کرتے رہے ، مارتے رہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سماج میں عدم توازن پیداہوا ۔ میں جانتاہوں ایک آدھ پیڑھی میں یہ سدھارنہیں ہوتاہے ۔ چارچار، پانچ پانچ پیڑھیوں کی برائیاں آج یکجاہوگئی ہیں ۔ پرانا جو نقصان ہے ، اس نقصان کو پوراکرنے میں وقت لگے گا، اسے ہرشخص سمجھتاہے ۔ لیکن اب توہم طے کریں کہ جتنے بیٹے پیداہوں گے ، اتنی ہی بیٹیاں بھی پیداہوں گی ۔ جتنے بیٹوں کی پرورش ہوگی ، اتنی ہی بیٹیوں کی بھی پرورش ہوگی ۔ بیٹی ۔بیٹا دونوں ، ایک سمان ، اس جذبے کو لے کر آگے چلیں گے تو چار،پانچ ،چھ پیڑھی میں برا ہواہے ، وہ شاید ہم اگلی دویاتین پیڑھیوں میں ٹھیک کرپائیں گے ۔ لیکن اس کی پہلی شرط ہے ، ابھی جو بچے پیداہوں گے ، اس میں کوئی عدم توازن نہیں ہوناچاہیئے ۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آج جن اضلاع کو نوازنے کا موقع ملا ، ان پہلے دس اضلاع نے اس کو بخوبی نبھایاہے ۔ یہ جو نئے پیداہونے والے بچے ہیں ، اس میں وہ بیٹوں کی برابری میں بیٹیوں کو لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ آج جن کو نوازنے کا موقع ملا ان ضلعوں کو ، اس ریاست کو ، اس ٹیم کو میں مبارکباد دیتاہوں ۔ انھوں نے اس پاکیزہ کام کو اپنے ذمہ لیا۔ اس سلسلے میں ، میں ملک کے سبھی افسران سے ، سرکارکے سبھی اپنے ساتھیوں سے ، ریاستی سرکاروں سے بھی گذارش کروں گاکہ اسے عوامی تحریک بناناہوگا۔ جب تک اس تحریک سے ایک ایک کنبہ نہیں جڑتاہے اور ساس اس کی سرپرستی نہیں سنبھالتی ہے ، اس کام میں وقت زیادہ لگے گا۔ لیکن اگر(مدر۔ان ۔لأ)یعنی ساس اس کو سنبھال لیتی ہے کہ بیٹی چاہیئے اورایک بار صاف کہہ دیں کہ گھرمیں بیٹی چاہیئے ، کسی کی طاقت نہیں ہے کہ وہ بیٹی کے ساتھ ناانصافی کرسکے ۔ اوراسی لئے ہمیں ایک سماجی تحریک شروع کرناپڑے گی ، عوامی تحریک چھیڑنا ہوگی ۔ بھارت سرکارنے دوسال قبل ہریانہ ، جہاں تناسب ہی تشویشناک تھا ، اس چنوتی کو منظورکرتے ہوئے ہریانہ میں پروگرام کیا۔ ہریانہ کی سرزمین پرجاکر یہ بات بتانا کافی مشکل کام تھا۔ میرے افسروں نے مجھے مشورہ دیاتھا کہ صاحب وہاں تو حالت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ وہاں جائیں گے تواور نیا ہی غلط ہوجائے گا۔ میں نے کہاجہاں سب سے زیادہ پریشانی ہے ، وہاں سے ہی شروع کروں گا۔ اورآج میں ہریانہ کو مبارکباد دیتاہوں ، انھوں نے گذشتہ دوسالوں میں ہی حالات میں بہت تیزی سے تبدیلی پیداکی ہے ۔ بیٹیوں کی پیدائش کی تعداد میں جو اضافہ ہواہے وہ اپنے آپ میں ایک نیا اعتماد اور ایک نئی امید جگاتاہے ۔اوریہ جو پچھلے دوسال کا تجربہ ہے ، اس میں جو کامیابی ملی ہے ، اسے ذہن میں رکھ کر آج 8مارچ ، بین الاقوامی یوم خواتین پربھارت سرکارنے اب وہ منصوبہ 161-160اضلاع تک ہی نہیں ، بلکہ ہندوستان کے سبھی اضلاع میں اس منصوبے کا نفاذ کیاجارہاہے ۔اس کے لئے وہاں حالات اچھے بھی ہوں گے ، زیادہ بہترکی��ے ہوں ، اس کے بارے میں کام کیاجائے گا۔ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا پڑیگا۔یہ جو پرانی سوچ رہی ہے کہ بیٹی کبھی کبھی لگتاہے کہ بوجھ ہوتی ہے ۔ لیکن آج واقعات بتاتے ہیں ، بیٹی بوجھ نہیں ، بیٹی ہی پورے کنبے کی آن بان شان ہے۔ ہندوستان میں دیکھئے آپ ۔ جب سیٹلائٹ ، آسمان میں ہم جاتے ہیں ، سنتے ہیں کہ وہ سیٹلائٹ گیا، منگلاین ہوا، ڈھکنا ہوا، اور جب دیکھتے ہیں توپتہ چلتاہے کہ میرے ملک کی تین خواتین سائنسٹٹوں نے خلأ تکنالوجی میں اتنی زبردست شہرت حاصل کی ہے ، تب پتہ چلتاہے کہ بیٹیوں کی طاقت کیاہوتی ہے ۔جب جھنجھنوکی ہی ایک بیٹی فائٹرجہاز چلاتی ہے ، تب پتہ چلتاہے کہ بیٹیوں کی طاقت کیاہوتی ہے ۔ اولمپک میں جب گولڈمیڈل لے کر آتے ہیں ، میڈل لے کرآتے ہیں ، اورپتہ چلتاہے لانے والی بیٹیاں ہیں توتمام ملک کا سرفخرسے اونچاہوجاتاہے کہ ہماریں بیٹیاں دنیامیں نام روشن کررہی ہیں ۔ اورجو لوگ یہ مانتے ہیں کہ بیٹا ہے توبڑھاپے میں کام آئیگا، حالت کچھ الگ ہی ہے ۔ میں ایسے کنبے دیکھے ہیں ، جہاں بوڑھے ماں ۔باپ ہوں ، چارچاربیٹے ہوں ، بیٹوں کے اپنے بنگلے ہوں ، گاڑیوں کی بھرمارہو، لیکن ماں اورباپ یتیم خانہ میں بڑھاپے کے دن بتاتے ہیں ، ایسے کنبے ہم نے دیکھے ہیں ، اورایسے بھی کنبے دیکھے ہیں کہ بیٹی ، ، ضعیف والدین کی اکلوتی بیٹی ، والدین کو بڑھاپے میں تکلیف نہ ہو، اس لئے روزگارکرتی ہیں ، کام کاج کرتی ہیں ، نوکری پرجاتی ہیں ، محنت کرتی ہیں ، شادی تک نہیں کرتی ہیں ، تاکہ بڑھاپے میں والدین کو تکلیف نہ ہو اور ماں باپ کے لئے اپنی زندگی قربان کردیتی ہیں ۔ اور اس لئے معاشرے میں جوسوچ بنی ہے ، یہ جو خرابی گھرکرگئی ہے ، اس خرابی سے ہمیں باہرآناہے ۔ اوراس کو ایک سماجی تحریک بنانا ، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ کامیابی ، ناکامی کے لئے کوئی حکومت کو بدنام کرے ، ٹھیک ہے وہ کام کرنے والے کرتے رہیں ، لیکن اس کی کامیابی کی بنیاد ، ہرکنبے کا عزم ہی کامیابی کاباعث بن سکتاہے ، اوراس لئے جب تک بیٹا ،بیٹی میں برابری ، بیٹی کے لئے فخرکا جذبہ ، یہ ہمارے ذہن میں نہیں ہوگا، تب تک ماں کی گود میں ہی بیٹیوں کو ماردیاجائے گا۔ 18ویں صدی میں بیٹی کو دودھ پیتی کرنے کی روایت تھی ۔ ایک بڑے برتن میں دودھ بھرکے بیٹی کو ڈبودیاجاتاتھا۔ لیکن کبھی کبھی مجھے لگتاہے کہ ہم 21ویں صدی میں ہونے کے باوجود بھی ان 18ویں صدی کے لوگوں سے بھی برے لگتے ہیں ، کیونکہ 18ویں صدی میں کم سے کم اس بیٹی کو پیداہونے کا توحق حاصل تھا، اس کو اپنی ماں کا چہرہ دیکھنے کی خوش قسمتی نصیب ہوتی تھی ، اس ماں کو اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھنے کی خوشی قسمتی نصیب ہوتی تھی ، اس زمین پراس کو کچھ لمحے کے لئے ہی کیوں نہ ہو ، سانس لینے کا موقع ملتاتھااور بعد میں بہت بڑا گناہ کرکے معاشرے کا سب سے زیادہ برائی والاکام کردیاجاتاتھا۔ لیکن آج ، آج تواس سے بھی زیادہ براکرتے ہیں کہ ماں کے رحم میں ، نہ ماں نے بیٹی کا منھ دیکھا ، اورنہ بیٹی نے ماں کا چہرہ دیکھا ، جدید سائنس کی مدد سے ماں کے رحم میں بیٹی کو ختم کردیاجاتاہے ۔ میں سمجھتاہوں اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ جب تک مانیں گے نہیں کہ بیٹی ہماری آن ۔ بان ۔ شان ہے ، تب تک یہ برائیاں دماغ سے نہیں نکلیں گی ۔ آج مجھے یہاں جن کے کنبے میں بیٹی پیداہوئی ہے ، ان ماؤں سے ، ان بچیوں سے ملنے کی خوشی نصیب ہوئی۔ان کے چہرے پراتنی خوشی تھی ، میں نے ان سے پوچھا کہ کیاآپ کوپتہ ہے ، آپ کو کسی نے بتایاکہ آپ جب پیداہوئی تھیں تومٹھائی بانٹی گئی تھی ؟انھوں نے کہا ،وہ تومعلوم نہیں ہے ، لیکن ہمارے بیٹی پیداہوئی ہے توپورے محلے میں مٹھائی بانٹی تھی اور ایک جشن منایاتھا۔ ہمیں یہ حالات بدلنے ہیں ، اوراس کو بدلنے کی سمت میں جو اہم کام سرکارکے ذریعے کئے جارہے ہیں اسی کے تحت آج اس منصوبے کو پورے ملک میں ہم وسیع پیمانے پرکررہے ہیں ۔ دوسرا ، آج ایک پروگرام کا آغاز ہورہاہے ،تغذیہ مشن کا ، قومی تغذیہ مشن ۔جب کسی کو بھی پی ایم کو گالی دینی ہے ، پی ایم کی تنقید کرنی ہے ، پی ایم کی برائی کرنی ہے تومیری ان سے گذارش ہے کہ جتنی بار آپ پی ایم کی برائی کریں ، پی ایم کی تنقید کریں ، اچھاکہیں ، براکہیں ، بھلا کریں نہ کریں ، لیکن جب بھی پی ایم بولیں ، من میں پی ایم آئے :تو آپ کو نریندرمودی نہیں دکھنا چاہیے ، آپ کو پی ایم سنتے ہی تغذیہ مشن دکھنا چاہیئے ۔ دیکھئے کیسے ایک دم سے گھرگھرپھیل جاتاہے ۔ اورہمارے یہاں بیٹاہے یا بیٹی ، اس کے جسم کا جو وکاس ہونا چاہیئے ، وہ رک جاتاہے ۔ کبھی پیدائش کے وقت ہی بہت کم وزن کا بچہ پیداہوتاہے اوراس میں بھی لاعلمی بہت اہم کرداراداکرتی ہے۔ہمیں اس مسئلے سے باہرنکلناہے ۔ اورپھربھی میں کہتاہوں کہ یہ صرف سرکاری بجٹ سے ہونے والےکام نہیں ہیں ۔یہ تب ہوتاہے کہ جب عوامی تحریک شروع ہوتی ہے ۔ لوگوں کو خواندہ بنایاجاتاہے ، سمجھایاجاتاہے ، اس کے مضمرات کی طرف دیکھاجاتاہے ۔ ناکافی تغذیہ کے خلاف پہلے کام نہیں ہوئے ، ایسا نہیں ہے ۔ ہرسرکارمیں کچھ نہ کچھ منصوبے وضع ہوئے ہیں ۔ لیکن دیکھا یہ گیاہے کہ زیادہ ترہم لوگوں کو لگتاہے کہ اگرجتناکیلوری چاہیئے ، اتنا اگر اس کے پیٹ میں جائیگاتو پھرناقص تغذیہ سے نجات مل جائیگی ۔ لیکن تجربہ کہتاہے کہ صرف کھانا ٹھیک ہوجائے ، اتنے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ یہ پورا ایکونظام درست کرناپڑتاہے ۔ کھانااچھابھی مل جائے لیکن اگروہاں پانی خراب ہے ، کتنا ہی کھاتے جاو ٔ، ناقص تغذیہ کی حالت میں فرق نہیں آتاہے ۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگاکم عمر میں شادی ۔یہ بھی کوپوشت بچوں کے لئے ایک بہت بڑی وجہ سامنے آئی ہے ۔ کم عمری میں شادی ہوجانا، بچے ہوجانا، نہ ماں کے جسم کا وکاس ہواہے ، نہ آنے والے بچے کے جسم پرکوئی بھروسہ کرسکتاہے ۔اوراس لئے زندگی سے جڑے جتنے بھی پہلوہیں ، بیمارہیں تو وقت پردوا ، زچگی کے فوراًبعدماں کے دودھ پلانے کی خوش نصیبی ، پرانے لوگ توکہتے ہیں کہ پیدائش کے فورابعد ماں کا دودھ مت پلاؤ،غلط ہے ۔سچ پوچھئے تو یہ بات غلط ہے ۔ پیدائش کے فوراً بعد ماں کا دودھ اگربچے کو ملتاہے تو پرورش کے دوران بڑا ہونے کی مدت میں کم سے کم مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ اس لئے ماں کو جب ہم پوری طرح یہ مانتے ہیں ، اس کی پوجا کرتے ہیں ، اس کی عظمت کو سمجھتے ہیں تو ہم اس کی رکھوالی کریں گے اوریقینی بنائیں گے کہ اس کی گود میں پلنے والا بچہ بھی سوئے تغذیہ سے محفوظ رہے ۔ غذائیت کی فکرکرنا بھی ایک کام ہے ، اس کے ذریعہ کی جانے والی ٹیکہ کاری کے پروگرام ، خدمات ، بجٹ اور عملہ کی موجودگی کے باوجود کبھی کبھی انجام نہیں دی جاپاتی ۔ آپ نے ابھی جوفلم دکھائی اس میں بتایاگیاہے کہ ہاتھ دھوئے بغیرکھانے سے بدن میں بیماریاں پیداہوتی ہیں ، جو بچے موت کا شکارہوتے ہیں ، ان میں ہاتھ نہ دھوکرکھاناکھانے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ، اس کے ساتھ ہی اس سے پیداہونے والے امراض میں مرنے والوں کی 30سے 40فیصد بچوں کی تعداد وہ ہوتی ہے جن کے کھانے پینے میں صفائی کا خیال نہیں رکھاجاتا۔ اب کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت کون ڈالے گا۔ یہ بات تو ماں ہی سکھاتی ہے اس لئے ماں کو بھی ہاتھ دھونے چاہیئں اوربچے کو کچھ کھاناہے تو ہاتھ دھوکرکھاناچاہیئے ۔ یہ کون سکھائے گا۔ ہمارے روشن مستقبل کے لئے ، ہماری زندگی میں بہتری کے لئے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ، اس کے تحت اس اسکیم کو ایک مشن کے طریقے سے چلایاجارہاہے اورتمام اسکیموں کو ایک ساتھ جوڑ کر خواہ پانی کا مسئلہ ہو یادواؤ ں کا ہو، یاروایتی کی دشواریوں کا ہو، جوبچے اسکول جاتے ہیں وہ ایک عمرکے بعد ان کے دل میں ایک احساس کمتری پیداہوجاتاہے ، یہ احساس کس بات کا ہے ؟اگراس اسکول میں پانچ بچوں کے قدزیادہ ہیں ، باقی پستہ قدہیں ، تو باقی تمام بچوں کو یہ احساس ہوتاہے کہ کاش ہمارا قدبھی اتناہی اونچاہوتا۔پھروہ پیڑیاکسی دوسری جگہ لٹک کرسوچتاہے کہ اس کا قدبڑھ گیاہے ۔ آپ میں سے بیشترلوگوں نے یہ تجربہ کیاہوگا، کہ میراقدبڑھنا چاہیئے ۔ لیکن ہم ان چیزوں پر سائنسی طریقے سے کام نہیں کرتے ۔ ملک میں قدکی طوالت عمرکے حساب سے ہونی چاہیئے ۔ اس میں کافی کمی نظرآتی ہے ۔ ہمارے بچے تندرست ہوں ، ان کاوزن مناسب ہو، اورقدمعقول ہو، ان سب کو پیش نظررکھ کر یہ مبارک نظریہ بنایاگیاہے کہ جب ہماری آزادی کے 75سال ہوں گے ، اس وقت ملک میں پرورش اورغذاوں کے شعبے پرتوجہ مرکوز کرکے ہم فخرکے ساتھ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ ہم اپنے بچوں پرنظرڈالیں توہماراپورادن بہترگذرے ، ایسے ہنستے کھیلتے بچے ہرلمحہ نظرآئیں ، جہاں جائیں وہاں ایسے بچے نظرآئیں ،ہمیں یہی صورت حال پیداکرنی ہے ۔ اس اسکیم کو تقریباً9ہزارکروڑروپے کی لاگت سے آگے بڑھایاجائے گااور مشترکہ معیارات کے ساتھ آشاورکراور دیہی سطح کے رضاکاروں کی ٹکنالوجی کی سہولت سے لیس کرنا ہوگا ۔مستقل بنیاد پرآگر اعدادوشمار جمع کرنے ہوں ، اگراس میں کوئی اتارچڑھاو آتاہے تو فوری طورسے اوپرسے کارروائی کی جائیگی یہ دیکھا جائے گا کہ مسئلہ کا حل کیسے ہو، یہ دیکھنا ہوگا کہ 8مہینے تک بچے کی نموصحیح ڈھنگ سے ہورہی ہے ، وزن صحیح ہے ، بارش کا موسم آگیاہے ، توبیماریوں کا دورشروع ہوگیاہے ۔ اچانک سیکڑوں بچوں کی حالت خراب ہوجاتی ہے ۔ آپ کی 8مہینے کی محنت محض ایک مہینے میں ہی نیچے آجاتی ہے ۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے ۔ لیکن ہمیں اس چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا اورمجھے یقین ہے ہم سب نے جوعہد کیاہے ، اس کام کو اس عہد کے ذریعہ پوراکیاجاسکے گا۔ پردھان منتری ماتروندنایوجنا کے تحت ان والدین کو 6ہزارروپے کی مالی امداد کرکے ان کے حمل کے دوران ان کی فکرکی جائے ، اس کے لئے بھی سرکارتقریباً30لاکھ خواتین سووچھ بھارت مشن سے وابستہ ہیں ۔ جولوگ وہاں ہیں وہ نیچے والے اڈوں کو پکڑلیں ، آندھی ذراتیز ہے ہراس کو ئی اس کو پکڑلے ۔ اسی طرح سے گھرمیں لکڑی کا چولہاجلاکرکے گھرمیں ماں ایک دن میں 400سگریٹ کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں لے جاتی تھی ۔ ہم نے اس سے نجات دلانے کے لئے پردھان منتری اجول یوجنا کے تحت مفت میں گیس کے کنکشن پہنچانے کاکام شروع کیاہے ۔ اورمفت میں گیس کے کنکشن پہنچانے کی وجہ سے قریب قریب ساڑھے تین کروڑکنبوں کو اس سے نجات دلانے کا کام کیاہے ۔ آنے والے دنوں میں بھی ترقی کے اس سفرکو جاری رکھتے ہوئے ، آج جن منصوبوں کی شروعات ہوئی ہے ، اس کو اورتیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں اپنے ملک کو تواناوتندرست بناناہے ۔ ہمارے بچے اگرسشکت ہوگئے تو ہمارے ملک کا مستقبل ��ھی روشن ہوگا۔ اسی عہدکے ساتھ آپ سب اس عوامی تحریک سے جڑیں ۔ میں تمام اہل وطن کو مدعوکرتاہوں ۔یہ انسانیت کاکام ہے ، یہ آنے والی پیڑھی کاکام ہے ، یہ بھارت کے مستقبل کاکام ہے ، آپ سب ہمارے ساتھ جڑیئے ۔ پوری طاقت سے میرے ساتھ بولئے : بھارت ماتاکی ۔جئے بھارت ماتاکی ۔جئے بھارت ماتاکی ۔جئے بہت بہت شکریہ (م ن ۔ ع آ۔820109.03.),ঝুনঝুনুত ৰাষ্ট্ৰীয় পৰিপুষ্টি অভিযান মুকলি আৰু বেটি বচাও বেটি পঢ়াও অভিযানৰ সম্প্ৰসাৰণ অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%AD%D9%88%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%B2%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B6/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ماحولیات کے لئے سازگار اور پائیدار ترقی کی کاوشوں میں شامل تمام لوگوں کی تعریف کی ہے۔ جناب مودی نے کہا ہے کہ اس سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور معیشت دونوں کو رفتار ملے گی۔ سرحدی سڑکوں کی تنظیم کے ایک ٹوئیٹ کے جواب میں جناب مودی نے کہا کہ: بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور سرکلر اکنومی، کو اس سے رفتار ملے گی۔ ان کوششوں میں شامل تمام لوگوں کو مبارکباد ۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে পৰিৱেশৰ অনুকূল আৰু দীৰ্ঘস্থায়ী বিকাশৰ কামত জড়িত সকলো লোকৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%A6-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8/,نئی دہلی۔03 دسمبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا ‘‘مہاتما گاندھی کی ترغیب سے ڈاکٹر راجندر پرساد ملک میں آزادی کی تحریک میں سرگرم ہوئے اور زمینی سطح پر تحریک عدم تعاون جیسی تحریکوں میں حصہ لیا ۔ ملک کے پہلے صدر کے طورپر ڈاکٹر راجندر پرساد کی قیادت اور رہنمائی سے لوگوں کو ترغیب ملی اور ملک کے لئے انہوں نے بیش قیتمی خدمات انجام دیں۔’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,ড০ ৰাজেন্দ্ৰ প্ৰসাদৰ জয়ন্তী উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D9%84%D8%A7-%D9%86%D9%88%D9%86%DA%AF-%D9%BE%D9%88%DA%A9-%D8%AA%DA%BE%D9%88%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DA%BE%D9%84%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%82/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے منی پور میں کانگلا نونگ پوک تھونگ کھلنے پر منی پور کے لوگوں کو مبارکباد دی ہے۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کے ایک ٹویٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ” منی پور کو مبارک ہو! پوری ریاست میں امن، خوشحالی اور خوشی کا جذبہ بڑھے۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 202",মণিপুৰৰ লোকসকলক কাংলা নংপোক থং মুকলি কৰাৰ বাবে অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4/,نئی دہلی، 21 فروری 2019/ عزت مآب جناب اینموسنگ، وزیر برائے تجارت صنعت اور توانائی سرکردہ کاروباری سربراہوں دوستو! آپ سبھی کو سہ پہر کا سلام، مجھے سول میں آج آپ سبھی سے مل کر خوشی ہوئی ہے۔ یہ میری محض بارہ مہینوں کے عرصے میں کوریائی کاروباری سربراہوں کی تیسری گفتگو ہے۔ یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ میری خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوریائی کاروبار ہندوستان کی طرف اپنا رخ کرے۔یہاں تک کہ جب میں گجرات ریاست کا وزیراعلی تھا تو میں نے کوریا کا دورہ کیا تھا۔ کوریا ہمیشہ سے میرے لیے معاشی ترقی کا ایک رول ماڈل تھا اور رہے گا۔ دوستو! ہندوستان آج ، جو 125 ارب لوگوں کا ملک ہے، ایک بڑی تبدیلی کی طرف جارہا ہے۔ یہ ایک زرعی غلبے والی معیشت سے اب ایک ایسی معیشت کی طرف تبدیل ہورہا ہے، جس میں صنعت اور خدمات کا نمایاں رول ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت ہے جو کہ اس دنیا سے قریب ہے، جہاں ایک دوسرے سے رابطہ قائم ہے۔ ایک ایسی معیشت جو اپنی لال فیتا شاہی کے لیے مشہور ہے،اپنے ریڈکارپیٹ کے لیے جانی جاتی ہے۔ ہندوستان مواقع کی سرزمین کے طور پر ابھرا ہے۔ ہم ہندوستان کے اور ہندوستانیوں کے خواب کو پورا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہم ہم خیال ساجھے داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور ان میں ہم ساؤتھ کوریا کو ایک سچا فطری ساجھے دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان اور کوریا کے کاروباری تعلقات نے ایک لمباراستہ طے کیا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں دونوں ملکوں کے کاروباری تعلقات کافی مستحکم ہوئے ہیں۔ ہندوستان کوریا کا چوٹی کے دس تجارتی ساجھے داروں میں سے ایک ہے اور ہندوستان کوریائی سامان کے لیے چھٹا سب سے بڑا برآمدی مقام ہے۔ہماری تجارت سن 2018 میں 21.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اورجامع معاشی ساجھے داری سمجھوتے کو اپگریٹ کرنے کے لیے مذاکرات میں تیزی آئی ہے، تاکہ 2030 تک 50 ارب ڈالر کے باہمی تجارتی نشانے کو حاصل کیا جاسکے۔ صرف تجارت ہی نہیں، سرمایہ کاری کے معاملے میں بھی ہم ایک مثبت رجحان اور رخ دیکھ رہے ہیں اور ہندوستان میں کوریا کی سرمایہ کاری تقریبا چھ ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے۔ 2015 میں میرے کوریا دورے کے بعد ہم نے انویسٹ انڈیا کے تحت ایک خصوصی کوریا فیسیلٹیشن سیل ‘‘کوریا پلس’’ کا آغاز کیا، تاکہ کاروبار کے اس پورے عمل کے دوران سرمایہ کاروں کی رہنمائی اور مدد کی جاسکے۔ ہنڈئی، سیمسنگ، ایل جی الیکٹرانکس ہندوستان میں بھروسہ مند برانڈس بن چکی ہیں اور کیا بھی اس کلب میں جلد شامل ہونے والا ہے۔ 600 سے زیادہ کوریائی کمپنیوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ہم مزید کمپنیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور آپ کے راستے کو آسان بنانے کے لیے کوریائی شہریوں کے واسطے ویزا آن ارائیول یعنی ہندوستان پہنچنے پر ویزاکی سہولت پچھلے سال اکتوبر کے بعد سے شروع کی گئی ہے۔ ہم ہندوستان میں کوریئن تجارتی دفاتر کی موجودگی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ ہم نے حال ہی میں احمدآباد میں KOTRA (کوٹارا( کا چھٹا دفتر قائم کیا ہوا ہے اور میں اب ہندوستان میں کیا ہورہا ہے، اس کے بارے میں آپ کو اور زیادہ بات بتانا چاہتا ہوں۔ہماری معیشت کی ��نیادیں مضبوط ہیں، ہم عنقریب مستقبل میں پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا میں کوئی دوسری بڑی معیشت ہر سال سات فیصد سے زیادہ کی شرح ترقی سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ جی ایس ٹی کی شروعات جیسے سخت پالیسی فیصلے کیے گئے ہیں اور گزشتہ چار سال کے عرصے میں ہم نے عالمی بینک کی کاروبار کو آسانی سے کرنے کے سلسلے میں 77 ویں مقام سے چھلانگ لگا کر 65واں مقام حاصل کرلیا ہے اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم اگلے سال چوٹی کے پچاسویں مقام کی طرف پیش قدمی کریں اور ہمارا آج ایک ایسے سب سے کھلے ملک کے طور پر شمار ہوتا ہے، جہاں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی گنجائش ہے۔ 90 فیصد سے زیادہ ہمارے شعبے اب منظوری کے لیے خود بخود راستے پر ہیں۔ اس کے نتیجے میں اور ہندوستان میں اعتماد کی وجہ سے ہندوستان نے گزشتہ چار سال کے عرصے میں 250 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی ) حاصل کی۔ دوستو! ہندوستان میں ہم نے اپنی ترقی کو شمولیت والی بنانے پر توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مالی شمولیت کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ گزشتہ تین سال کے عرصے میں ہم نے ان لوگوں کے لیے 300 ملین سے زیادہ بینک کھاتے کھولے ہیں، جن کے کبھی بینک کھاتے نہیں تھے۔ اب 99 فیصد ہندوستانی کے پاس ایک بینک کھاتہ ہے اور ان کھاتوں میں 12 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم جمع کی گئی ہے۔ انہوں نے اب قابل استطاعت پنشن اور انشورنس تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ مدرا اسکیم کے تحت ہم نے گزشتہ تین سال کے عرصے میں 128 ملین لوگوں کے لیے 90 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے بہت چھوٹے قرض کو وسعت دی ہے۔ 74 فیصد یہ قرضے خواتین کو گئے ہیں۔ ہم نے ایک بائیومیٹرک شناختی نظام بینک کھاتے اور موبائل فون کی طاقت کو بڑھایا ہے، تاکہ ان لوگوں کو سبسڈیز اور خدمات فراہم کی جاسکیں ، جن کابینک سے لنک نہیں تھا۔ حکومت نے اب فیض پانے والوں کو براہ راست 50 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے سرکاری فائدے منتقل کردیے ہیں۔اس طرح جو خامیاں تھیں، وہ ختم ہوگئی ہیں۔ہم نے دیہی علاقوں میں بجلی پہنچانے میں ایک لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے اب ہندوستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر تسلیم کرلیا ہے، جو 2018 میں دیہی علاقوں میں بجلی یا توانائی پہنچانے میں سب سے کامیاب ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ہم دنیا میں چھٹے سب سے بڑے توانائی پیدا کرنے والے ملک بن گئے ہیں۔یہ اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کی ہماری پہل ہندوستان کو آلودگی سے پاک عالمی معیشت کی سمت بڑھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ وہ ہمارا ایک آلودگی سے اور پاک پائیدار مستقبل کے تئیں عزم ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ملک کے ہر حصے میں رہنے والے لوگوں کی طرز زندگی بدل رہی ہے۔ دوستو! معاشی ترقی عالمی نوعیت کے بنیادی ڈھانچے سے جڑا ہوا ہے۔ چاہے یہ ٹرانسپورٹ ہو، بجلی، بندرگاہ، شپ بلڈنگ، ہاؤسنگ یا شہری بنیادی ڈھانچہ ہو۔کوریا میں مضبوط تکنیکی صلاحیتیں اور گنجائش موجود ہے اور اس کی ہندوستان میں ایک بڑی مانگ ہے۔ ہمارا سن 2022 تک بنیادی ڈھانچے میں700 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنے کا اندازہ ہے۔ ساگرمالا پروجیکٹ کے تحت آنے والے پانچ سال میں بندرگاہ سے متعلق پروجیکٹوں پر دس ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے گی۔یہ شہری فائدوں کی ترقی کو راہ دکھانے اور اسمارٹ شہر تشکیل دینے کے لیے لازمی ہیں، جو سب سے کے لیے پائیدار اور صاف ستھرے مستقبل کو یقینی بناتا ہے۔ 2025 تک ہندو��تان کی 500 ملین سے زیادہ آبادی شہری ہوگی اور یہ ہندوستان میں بہتر حل تیار کرنے میں تعاون کی گنجائش پیدا کرتاہے۔ ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہندوستان اور جنوبی کوریا نے کوریا کی معاشی ترقی تعاون فنڈ اور برآمداتی قرض کے تحت دس ارب ڈالر کی نشاندہی کی ہے، تاکہ اس طرح کے پروجیکٹوں کو مالی رقم دی جاسکے۔تیز معاشی ترقی کے مقصد سے ہندوستان نے پائیدار معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے اصولوں کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کی ہے۔مثال کے طور پر آٹوموبائل سیکٹر میں نیشنل الیکٹرک موبیلٹی مشن کا مقصد سستی اور فعال الیکٹرک گاڑیوں کی حصولیابی ہے۔ جنوبی کوریا الیکٹرک وہیکل تیار کرنے والا ایک سرکردہ ملک ہے اوراس کے پاس ہندوستان میں اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کا ایک بڑا موقع بھی حاصل ہے۔ دوستو! تحقیق اور اختراع کوچوتھے صنعتی انقلاب میں کافی اہمیت حاصل ہوگی اور ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا رول یہ ہے کہ وہ اس نظام میں تعاون کرے۔ اس سلسلے میں ہم نے چار سال کے لیے 14 ارب ڈالر کے فنڈ کے ساتھ اہم پروگرام اسٹارٹ اپ انڈیا شروع کیا ہے، تاکہ ہندوستان میں ایک اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم تیار کیا جاسکے۔ جنوبی کوریا کے صدر جناب مون جائے اِن کی قیادت میں جنوبی کوریا نے 2022 تک 9.4 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے، تاکہ اسٹارٹ اپ اور ماحول دوست پروجیکٹوں کے لیے سرمایے کی فراہمی کو بڑھایا جاسکے۔ انڈیا کوریا اسٹارٹ اپ سینٹرکا ہمارا ویژن کوریائی اسٹارٹ اپ کے لیے ایک ہب فراہم کرے گا اور ہندوستانی ذہانت آزادانہ طور پر ترسیل کرسکے گی۔ ساؤتھ کوریا کی نیشنل آئی ٹی انڈسٹری پروموشن ایجنسی نے پہلے ہی بنگلورو میں اپنا ہندوستانی آفس کھول لیا ہے، تاکہ ہندوستان کے لیے کوریئن اسٹارٹ اپ کی راہ ہموار کی جاسکے۔ اختراع کے شعبے میں دونوں ملکوں نے تحقیق اور اختراع میں تعاون کے لیے انڈیا کوریا فیوچر اسٹریٹجی گروپ اور انڈیا کوریا سینٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ تحقیق ، اختراع اور صنعت کاری پر مبنی مستقبل کے تعاون کے لیے ایک ادارہ جاتی فریم ورک فراہم کیا جاسکے۔ دوستو! یہ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم جمہوریہ کوریا کے ساتھ اور زیادہ مل کر کام کریں، تاکہ اپنے شہریوں کے خواب کو پورا کیا جاسکے۔ حکومتوں کی جانب سے کوششیں ا س وقت تک پوری نہیں ہوں گی، جب تک کہ آپ جیسے کاروباری سربراہ اس طرح کے خواب ایک دوسرے سے شیئر نہیں کرتے۔ میں کوریائی جذبہ اظہار کے ساتھ اپنی بات یہاں ختم کرنا چاہوں گا۔ हुंजा खाम्योन पल्ली खाजीमन हमके खाम्योन मल्ली खम्निदा میں اس کے معانی سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں کہ اگر آپ اکیلے چلتے ہیں تو آپ تیزی سے آگے جائیں گے، لیکن اگر آپ مل کر چلتے ہیں تو آپ اس سے بھی زیادہ آگے جائیں گے۔ شکریہ بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ح ا ۔ ت ع۔,দক্ষিণ কোৰিয়া ভ্ৰমণকালত ভাৰত-দক্ষিণ কোৰিয়া বাণিজ্যিক সন্মিলনত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE%D9%88-2020/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%AA-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F/,نمستے! ایکسپو 2020 دوبئی میں انڈین پویلین میں آپ خیرمقدم ہے۔یہ ایک تاریخی ایکسپو ہے۔ مشرق وس��ی ، افریقہ اور جنوبی ایشیا خطے میں منعقد کیا جانے والا یہ پہلا ایکسپو ہے۔بھارت اس ایکسپو میں شرکرتا ہے اور اس کا پویلین سب سے بڑے پویلینوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایکسپو متحدہ عرب امارات اور دوبئی کے ساتھ ہمارے گہرے اور تاریخی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے سلسلے میں بہت موثر ہوگا۔ آیئے ہم بھارت کی حکومت اور وہاں کے عوام کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابو ظہبی کے حکمراں عزت مآب شیخ خلیفہ بن زائد بن النہیان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئےشروعات کریں ۔ میں متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم اور نائب صدر اور دوبئی کے حکمراں عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم کو بھی مبارکباد پیش کرتاہوں۔ میں اپنے بھائی ابو ظہبی کے ولی عہد عزت مآب شیخ محمد بن زائد النہیان کے لئے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ہم نے اپنی اسٹریٹجک پاٹنرشپ میں جو کامیابی حاصل کی ہے، وہ انہیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ میں اپنے دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام جاری رکھنے کا خواہش مند ہوں۔ دوستو، ایکسپو 2020 کا خاص موضوع ہے : ذہنوں سے جڑنا، مستقبل کی تشکیل۔ اس موضوع میں جو جذبہ پنہاں ہے، اس کو نیو انڈیا کی تشکیل کے لئے آگے بڑھنے کی بھارت کی کوششوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ میں شاندار طریقے سے ایکسپو2020 منعقد کرنے کے لئے متحدہ عرب امارات کی حکومت کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ایکسپو ایک صدی میں ایک بار آنے والے عالمی وبا کے خلاف نوع انسانی کی دوبارہ ابھرنے کی قوت کی ایک دلیل بھی ہے۔ دوستو، بھارت کے پویلین کا موضوع ہے: کھلا پن، موقع اور ترقی۔آج کا بھارت دنیا کے سب سے زیادہ کھلے پن والے ملکوں میں سے ایک ہے جو کہ اختراع کے معاملے میں کھلا ہےاور سرمایہ کاری کے لئے بھی کھلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو مدعو کرتا ہوں کہ آیئے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کیجئے۔ آج بھارت مواقع کی سرزمین ہے۔ چاہے آرٹ کا میدان ہو یا کامرس کا۔ صنعت ہو یا تعلیم، یہاں پتہ لگانے کا موقع ہے، شراکت داری کا موقع ہے اور ترقی کا موقع ہے۔ بھارت آیئے اور ان مواقع کا فائدہ اٹھایئے۔ بھارت زیادہ سے زیادہ ترقی کی پیش کش بھی کرتا ہے۔ پیمانے کی ترقی، خواہش کی ترقی اور نتائج کی ترقی۔ بھارت آیئے اور ہمارے ترقی کی داستان کا ایک حصہ بنیں۔ دوستو، بھارت اپنی شان اور تنوع کے لئے مشہور ہے۔ ہمارے یہاں مختلف قسم کی ثقافتیں، زبانیں، پکوان، طرح طرح کی آرٹس، موسیقی اور رقص موجود ہیں۔اس گونا گونیت کی جھلک ہمارے پویلین میں بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح بھارت صلاحیت سازی کاایک پاور ہاؤس ہے۔ ہمارا ملک نے ٹکنالوجی، تحقیق اور اختراع کے میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ہماری اقتصادی ترقی کو وراثت صنعتوں اور اسٹارٹ اپس کے مجموعے سے تقویت ملتی ہے۔ بھارتی کا پویلین ان متعدد شعبوں میں بھارت کی کامیابیوں کی جھلک پیش کرے گا۔ یہ مختلف شعبوں مثلاً صحت ، ٹیکسٹائل انفرا اسٹرکچر، خدمات اور دیگر میں سرمایہ کاری کے مواقع کی بھی جھلک پیش کرے گا۔ گزشتہ سات برسوں میں حکومت ہند نے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے کئی اصلاحات کی ہیں۔ ہم اس رجحان کو جاری رکھنے کے لئے مزید کوششیں کرتے رہیں گے۔ دوستو، جبکہ بھارت امرت مہوتسو کی شکل میں آزادی کے 75 سالوں کا جشن منا رہا ہے، ہم انڈیا پویلین دیکھنے اور ابھرتے ہوئے نیو انڈیا میں مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے سبھی کو مدعو کرتے ہیں۔ آیئے ہم سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے ساتھ دنیا ��و رہنے کے لئے ایک مزید بہتر مقام بنائیں۔ شکریہ، بہت بہت شکریہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔ (2021۔10۔02),এক্সপ’ ২০২০ ডুবাইত ইণ্ডিয়া পেভিলিয়নত হোৱা সমাৱেশত প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%8C-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8B%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 15 نومبر 2022 کو انڈونیشیا کے شہر بالی میں بھارت نژاد برادری کے 800 سے زائد اراکین اور بھارت کے دوستوں سے خطاب کیا اور ان سے بات چیت کی۔ یہ پرجوش اور متنوع مجمع پورے انڈونیشیا سے اکٹھا ہوا تھا۔ اپنے خطاب کے دوران، وزیر اعظم نے بھارت اور انڈونیشیا کے درمیان قریبی ثقافتی اور تہذیبی روابط کو اجاگر کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان پائیدار ثقافتی اور تجارتی روابط کو اجاگر کرنے کی غرض سے ’’بالی جترا‘‘ کی قدیم روایات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں بھارت اور انڈونیشیا کے مابین مشترکہ چیزوں کو بھی اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے، اپنے گود لیے ہوئے وطن کے لیے سخت محنت اور لگن کے ذریعہ غیر ممالک میں بھارت کے رتبے اور وقار میں اضافہ کرنے کے لیے برادری کے اراکین کی ستائش کی۔ انہوں نے بھارت-انڈونیشیا تعلقات میں مثبت پیش رفت، اور اسے مضبوطی فراہم کرنے میں بھارتی برادری کے اراکین کے ذریعہ اداکیے گئے اہم کردار کے بارے میں بھی بات کی۔ وزیر اعظم نے بھارت کی نمو کی داستان، اس کی حصولیابیوں اور مختلف شعبوں یعنی ، ڈجیٹل تکنالوجی، مالیہ، صحت، ٹیلی مواصلات اور خلاء، میں ملک کی پیش رفت کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ترقی سے متعلق بھارت کے روڈمیپ میں دنیا کی اقتصادی امنگیں شامل ہیں اور آتم نربھر بھارت کا خواب دنیا کی فلاح و بہبود کے جذبہ کا مظہر ہے۔ وزیر اعظم نے برادری کے اراکین اور بھارت کے دوستوں کو 8 سے 10 جنوری 2023 کے درمیان مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں منعقد ہونے والے آئندہ پرواسی بھارتیہ دیوس اجلاس ، اور اس کے بعد گجرات میں منعقد ہونے والے پتنگ میلے میں شرکت کے لیے مدعو کیا ۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে ইন্দোনেছিয়াৰ বালিত ভাৰতীয় বংশোদ্ভুত আৰু ভাৰতৰ বন্ধুসকলৰ সৈতে মতবিনিময় কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D9%86%DA%86%D8%A7%DB%8C-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج احمد آباد میں گجرات پنچایت مہا سمیلن سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں ریاست بھر سے پنچایتی راج کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات باپو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سرزمین ہے۔ انھوں نے کہا کہ باپو نے ہمیشہ دیہی ترقی، خود انحصار گاؤں کی بات کی۔ آج جب ہم امرت مہوتسو منا رہے ہیں، تو ہمیں باپو کے ’گرامین وکاس‘ کے خواب کو پورا کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نے عالمی وبا کے نظم و ضبط اور اچھے انتظام کے لیے گجرات کی پنچایت اور دیہاتوں کے کردار کی تعریف کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ گجرات میں خواتین پن��ایت نمائندوں کی تعداد مرد نمائندوں سے زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ پنچایتی نمائندوں کے ایک ساتھ مشاورت کرنے کی حقیقت سے بڑھ کر ہندوستانی جمہوریت کی مضبوطی کی علامت کوئی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے اس سلسلے میں پنچایت ممبران کی رہنمائی کی کہ کس طرح چھوٹے لیکن انتہائی بنیادی اقدامات کے ساتھ گاؤں کی ترقی کو یقینی بنایا جائے۔ انھوں نے اپنے اسکول کی سالگرہ یا یوم تاسیس منانے کا مشورہ دیا۔ اس کے ذریعہ، انھوں نے اسکول کے کیمپس اور کلاسوں کو صاف کرنے اور اسکول کے لیے اچھی سرگرمیاں انجام دینے کا مشورہ دیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ ملک اگست 23 تک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، انھوں نے اس مدت کے دوران گاؤں میں 75 پربھاتفیری (صبح کے جلوس) نکالنے کا مشورہ دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے، انھوں نے اس مدت کے دوران 75 پروگرام منعقد کرنے کا مشورہ دیا جس میں گاؤں کی پوری آبادی کو اکٹھا ہونا چاہیے اور گاؤں کی مجموعی ترقی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ایک اور تجویز کا اضافہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دیہاتوں کو ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کی یاد میں 75 درخت لگا کر ایک چھوٹا سا جنگل بنانا چاہیے۔ ہر گاؤں میں کم از کم 75 کسان ہونے چاہئیں جو قدرتی طریقے سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زمین کو کھادوں اور کیمیکلز کے زہر سے نجات دلائی جائے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے 75 تالاب بنائے جائیں تاکہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو اور گرمی کے دنوں میں اس سے مدد ملے۔ انھوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایک بھی مویشی کو ویکسین سے محروم نہ رکھا جائے تاکہ انھیں پاؤں اور منہ کی بیماری سے بچایا جا سکے۔ وزیر اعظم نے ان سے پنچایت گھر اور گلیوں میں بجلی کی بچت کے لیے ایل ای ڈی بلب کو اپنانے کی بھی اپیل کی۔ انھوں نے پنچایت ممبران کو مشورہ دیا کہ ایک ممبر دن میں کم از کم ایک بار 15 منٹ کے لیے مقامی اسکول کا دورہ کرے تاکہ گاؤں کا اسکول سخت نگرانی میں رہے اور تعلیم اور صفائی کے اچھے معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔ انھوں نے پنچایت اراکین سے اپیل کی کہ وہ کامن سروس سینٹرز (سی ایس سی) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے لوگوں کو بیدار کریں۔ اس سے لوگوں کو ریلوے بکنگ وغیرہ کے لیے بڑے شہروں کا دورہ کرنے سے بچنے میں مدد ملے گی۔ آخر میں وزیر اعظم نے پنچایت ممبران کو مشورہ دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکول میں کوئی ڈراپ آؤٹ نہ ہو اور کوئی بھی بچہ اسکول یا آنگن واڑی میں داخلے سے چھوٹ نہ جائے۔ وزیر اعظم نے موجود پنچایت ممبران سے وعدے لیے جنھوں نے زبردست تالیوں کے ساتھ اس کی تائید کی۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আহমেদাবাদত গুজৰাট পঞ্চায়ত মহাসন্মিলন সম্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DB%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%A8-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%97-%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 11 مارچ 2022: وزیر اعظم نریندر مودی ملک کی نوجوان نسل خصوصاً طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ان کے ساتھ وقفہ وقفہ سے مکالمات کا اہتمام کرتے ہیں۔ خواہ یہ من کی بات ہو، یا پریکشا پے چرچا ، یا ذاتی گفت و شنید، وزیر اعظم مودی نے ہمیشہ نوجوانوں کی تشویشات اور جستجو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ذرائع کے توسط سے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے ایک حصہ کے طور پر وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر دہرادون سے تعلق رکھنے والے 11ویں درجہ کے طالب علم انوراگ رمولا کے آرٹ اور خیالات کی ستائش کرتے ہوئے انہیں جوابی مراسلہ ارسال کیا ہے۔ انوراگ کے خیالات و نظریات سے متاثر ہوکر وزیر اعظم نے انہیں ایک مراسلہ ارسال کیا، ’’آپ کی نظریاتی بالغ النظری مراسلے میں مستعمل الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے اور بھارت کی آزادی کا امرت مہوتسو کے لیے آپ نے پینٹنگ کا جو موضوع منتخب کیا ہے، مجھے خوشی ہے کہ آپ کو اس نوخیزی کے زمانے سے ہی قومی مفادات سے متعلق موضوعات کی تفہیم کا شعور حاصل ہو گیا ہے اور آپ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر ملک کی ترقی میں اپنے کردار سے واقف ہیں۔‘‘ ایک خود کفیل بھارت کی تعمیر میں تمام اہل وطن کے تعاون کی ستائش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید تحریر کیا ہے کہ ’’آزادی کے اس امرت کال میں، ملک اجتماعی قوت کے ساتھ سب کا پریاس کے اصول کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے۔ آپ کی پیڑھی کا تعاون آئندہ برسوں میں ایک مضبوط اور خوشحال بھارت کی تعمیر میں اہم ثابت ہونے جا رہا ہے۔ انوراگ کے لیے ایک کامیاب مستقبل کی تمنا کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ خلاقیت کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھتے رہیں گے اور اپنی اہلیت کے مطابق کامیابی حاصل کریں گے۔ یہ پینٹنگ نریندر مودی ایپ پر بھی اپ لوڈ کی گئی ہے اور narendramodi.in کا ویب سائٹ انوراگ کو ترغیب فراہم کر رہے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کیا جا سکتا ہے کہ انوراگ نے اس سے قبل وزیر اعظم کو اپنے خیالات سے آگاہ کرتے ہوئے ایک مراسلہ ارسال کیا تھا جس میں قومی مفادات سے متعلق معاملات کو اٹھایا گیا تھا۔ انوراگ نے اپنے مراسلے میں تحریر کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم سے ترغیب حاصل کرتے ہیں کہ برعکس حالات میں بھی انسان کو اپنا تحمل نہیں کھونا چاہئے اپنے مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کے لیے سخت محنت اور خلوص کے ساتھ کام کرنا چاہئے تاکہ ہر کسی کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا جا سکے۔ نوٹ: انوراگ رمولا کو آرٹ اور کلچر کے لیے 2021 کا وزیر اعظم کا نیشنل چلڈرنس ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔,ডেৰাডুনৰ ছাত্ৰ অনুৰাগ ৰামোলাই অতি কম বয়সতে ৰাষ্ট্ৰীয় স্বাৰ্থজনিত বিষয়সমূহত যি দৃষ্টিভংগীৰ পৰিচয় দাঙি ধৰিছে তাৰ প্ৰতি মুগ্ধ হৈ তেওঁলৈ পত্ৰ লিখিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%B3%DB%8C%D9%85%DB%8C%D9%86%D8%A7%D8%B1-%D8%B3%D9%88-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%85%E0%A7%B0/,وزیر ائے اعلی کی کونسل کے میرے ساتھی جناب راج ناتھ سنگھ جی، جناب اجے بھٹ جی، بھارتی بحریہ کے نائب سربراہ ، دفاع کے سکریٹری، ایس آئی ڈی ایم کے صدر، صنعت اور تعلیمی اداروں سے وابستہ سبھی ساتھی، دیگر سبھی معززین، خواتین و حضرات۔ ! بھارتی فوجوں میں خود کفالت کا مقصد 21ویں صدی کے بھارت کے لیے بہت ضروری ہے، بہت لازمی ہے۔ خود کفالت بحریہ کے لیے پہلے خود سواولمبن سیمینار کا انعقاد ہونا ، میں سمجھتا ہوں یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی اہم بات ہے اور ایک اہم قدم ہے اور اس کے لیے میں آپ سبھی کو بہت بہت خیر مقدم کرتا ہوں، آپ سب کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ ساتھیو، فوجی تیاریوں ا��ر خاص طور پر بحریہ کی مشترکہ مشقوں میں یہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ سیمینار بھی مشترکہ مشق کی ایک قسم ہے۔ خود کفالت کے لیے اس مشترکہ مشق میں بحریہ، صنعت، ایم ایس ایم ای، اکیڈمیز، یعنی دنیا بھر کے لوگ اور حکومت کے نمائندے، آج ہر ایک متعلقہ فریق ایک ساتھ مل کر ایک مقصد کے لیے سوچ رہے ہیں۔ مشترکہ مشق کا مقصد یہ ہے کہ تمام شرکاء کو زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہو، ایک دوسرے کے تئیں مفاہمت میں اضافہ ہو، بہترین طور طریقوں کو اپنایا جا سکے۔ ایسے میں اس مشترکہ مشق کا ہدف بہت اہم ہے۔ ہم مل کر اگلے سال 15 اگست تک بحریہ کے لیے 75 سیسی ٹیکنالوجی تیار کریں گے، یہ عزم ہی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی قوت ہے اور آپ کی کوشش، آپ کا تجربہ، آپ کا علم یقیناً اس کو ثابت کرے گا۔ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے، ایسے اہداف کے حصول سے ہمارے خود انحصاری کے مقاصد کو مزید تقویت ملے گی۔ ویسے میں یہ بھی کہوں گا کہ 75 دیسی ٹیکنالوجیز کی تخلیق ایک طرح سے پہلا قدم ہے۔ ہمیں ان کی تعداد کو مسلسل بڑھانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ آپ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جب بھارت اپنی آزادی کے 100 سال کا جشن منا ئے تو ہماری بحریہ غیر معمولی بلندی پر ہے۔ ساتھیو، ہمارے سمندر، ہماری ساحلی سرحدیں، ہماری اقتصادی خود انحصاری کے عظیم محافظ اور ایک طرح سے اضافہ کرنے کے اہل ہیں۔ اس لیے بھارتی بحریہ کا رول مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس لیے بحریہ کے ساتھ ساتھ ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے بحریہ کا بھی خود کفیل ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سیمینار اور اس سے حاصل ہونے والا امرت ہماری افواج کو خود کفیل بنانے میں بہت مدد کرے گا۔ ساتھیو، آج جب ہم دفاع میں خود انحصاری کے مستقبل کی بات کر رہے ہیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ ہم گزشتہ دہائیوں میں جو کچھ ہوا اس سے سبق بھی لیتے رہیں۔ اس سے ہمیں مستقبل کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔ آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بھرپور سمندری وراثت کے دیدار ہوتے ہیں۔ بھارت کا بھرپور تجارتی راستہ اس وراثت کا حصہ رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد سمندر پر غلبہ حاصل کرنے کے اہل تھے کیونکہ انہیں ہوا کی سمت، خلائی سائنس کے بارے میں بہت اچھی معلومات تھیں۔ کس موسم میں ہوا کا رخ کیا ہوگا، ہوا کے رخ کے ساتھ چلتے ہوئے ہم رکے ہوئے مقام تک کیسے پہنچ سکتے ہیں، یہ علم ہمارے اسلاف کی بڑی طاقت تھی۔ یہ معلومات بھی ملک کے بہت کم لوگوں کو ہیں کہ بھارت کا دفاعی شعبہ آزادی سے پہلے بھی بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ آزادی کے وقت ملک میں ہتھیاروں کی 18 فیکٹریاں تھیں جہاں سے توپ خانے سمیت کئی قسم کا فوجی سازوسامان ہمارے ملک میں بنایا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ہم دفاعی ساز و سامان کے ایک اہم سپلائر تھے۔ ایشا پور رائفل فیکٹری میں بنی ہماری توپیں ،مشین گنیں اس وقت بہترین سمجھی جاتی تھیں۔ ہم بہت بڑی تعداد میں برآمد کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ ایک وقت میں ہم اس شعبے میں دنیا کے سب سے بڑے درآمد کار بن گئے۔ اور ہم تھوڑا دیکھتے ہیں کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے بہت تباہی مچی۔ دنیا کے بڑے ممالک کئی طرح کے بحرانوں میں پھنسے ہوئے تھے لیکن انہوں نے اس بحران کو بھی ، قدرتی آفت کو ایک موقع میں بدلنے کی کوشش کی۔ اور انہوں نے اسلحے کی تیاری میں اور دنیا کی بڑی مارکیٹ کو قبضہ میں لینے کی سمت لڑائی میں سے وہ راستہ تلاش کیا اور خود ایک بہت بڑے تعمیر کنندہ اور بہت بڑے سپلائر بن جانے والے ، دفاع کی دنیا میں ، یعنی جنگ برداشت کی لیکن اس میں سے انہوں نے یہ راستہ بھی تلاش کیا۔ ہمیں بھی کورونا کے دور میں اتنے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا، ہم بہت نچلی سطح پر تھے، ہمارے پاس سارے انتظامات نہیں تھے، ہمارے پاس پی پی ای کٹس نہیں تھیں۔ ہم ویکسین کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جس طرح دنیا کے ان ممالک نے پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم سے ایک بہت بڑی ہتھیاروں کی طاقت بننے کی سمت تلاش کی، اسی طرح سائنسی پہلو سے بھارت کو بھی اسی ذہانت کے ساتھ کورونا کے اس دور میں ایک ویکسین تلاش کرنا ہو۔ باقی سامان بنانا ہو، ہر چیز میں پہلے کبھی نہیں ہوا، وہ سارے کام کر دیئے۔ میں مثال اس لیے دے رہا ہوں کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے، ایسا نہیں ہے جی، اور یہ بھی عقلمندی ہے یا نہیں ہے کہ دنیا میں دس لوگوں کے پاس جس طرح کے اوزار ہیں، وہی اوزار لے کر میں اپنے جوانوں کو میدان میں اتار دوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی صلاحیت اچھی ہو، تربیت اچھی ہو، تو شاید وہ اس اوزار کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکے گا۔ لیکن میں کب تک رسک مول لیتا رہوں گا؟ جو اوزار، جو ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہے، ویسا ہتھیارلے کر میرا نوجوان کیوں جائے گا َ؟اس کے پاس وہ ہوگا جو اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ سمجھو اس سے پہلے تو اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ مزاج، یہ مزاج صرف فوجیوں کو تیار کرنے کے لئے نہیں، یہ مزاج اس کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے، اس بات پر بھی منحصر ہے اور اس لئے خود انحصار ہ بھارت، یہ صرف ایک معاشی سرگرمی نہیں ہے دوستوں اور اسی لیے ہمیں پوری طرح اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ساتھیو، آزادی کے بعد پہلی ڈیڑھ دہائی میں ہم نے نئے کارخانے تو بنائے نہیں، پرانے کارخانے بھی اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوتی گئیں۔ 1962 کی جنگ کے بعد مجبوری کے تحت پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں ہوئیں اور اپنی ہتھیاروں فیکٹریوں کو بڑھانے پر کام شروع کر دیا۔ لیکن اس میں بھی تحقیق، اختراع اور ترقی پر زور نہیں دیا گیا۔ اس وقت دنیا نئی ٹیکنالوجی، نئی اختراعات کے لیے نجی شعبے پر انحصار کر رہی تھی، لیکن بدقسمتی سے دفاعی شعبے کو محدود سرکاری وسائل، سرکاری سوچ کے دائرے میں ہی رکھا گیا۔ میں گجرات سے آتا ہوں، احمد آباد کافی عرصے سے میرے کام کی جگہ ہے۔ کسی زمانے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ گجرات میں آپ نے سمندر کے ساحل پر کام کیا ہوگا، بڑی چمنیوں اور ملوں کی صنعت تھی اور مینچسٹر آف انڈیا ں اس طرح کی اس کی پہچان ، کپڑے کے ایک شعبے میں بڑا نام تھا احمد آباد کا۔ کیا ہوا؟ کوئی اختراع نہیں، کوئی ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن نہیں، ٹیکنالوجی کی منتقلی نہیں۔ ایسی اونچی اونچی چمنیاں زمین بوس ہو گئی ہیں دوستو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے۔ اگر یہ ایک جگہ ہوتا ہے تو دوسری جگہ نہیں ہوگا، ایسا نہیں ہے۔ اور اسی لیےاختراع ایک مستقل ضرورت ہے اور وہ بھی دیسی بھی اختراع ہو سکتی ہے۔ بچاؤ مال سے تو کوئی اختراع ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے نوجوانوں کے لیے بیرون ملک موقع موجود ہیں لیکن اس وقت ملک میں موقع بہت محدود تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی جدید ترین فوجی طاقت رہی بھارتی فوج کو رائفل جیسے سادہ ہتھیار کے لیے بھی بیرونی ممالک پر انحصار کرنا پڑا۔ اور پھر عادت بن گئی، ایک بار موبائل فون کی عادت بن جائے، پھر کوئی کتنا ہی کہے کہ بھارت بہت اچھا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے وہاں چھوڑ دو، ٹھیک رہے گا۔ اب عادت بن چکی ہے، اس عادت سے نکلنے کے لیے ایک طرح سے نفسیاتی سیمینار بھی کرنا پڑے گا۔ ساری پریشانی نفسیاتی ہے۔ جس طرح ہم نشے کے عادی افراد کو منشیات سے نجات دلانے کی تربیت دیتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی یہ تربیت ضروری ہے۔ اگر ہمیں خود پر اعتماد ہے تو ہم اپنے ہاتھ میں موجود ہتھیار کی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں اور ہمارا ہتھیار وہ طاقت پیدا کر سکتا ہے دوستو۔ ساتھیو، مشکل یہ بھی تھی کہ اس وقت دفاع سے متعلق بیشتر سودے سوالات کے گھیرےمیں تھے۔ ساری لابی ہے کہ اس کا لیا تو یہ لابی میدان میں اتر گئی، اگر لی تو یہ لابی اترتی تھی اور پھر سیاست دان کو گالی دینا ہمارے ملک میں بہت آسان کام ہو گیا ہے۔ پھر دو چار سال یہی بات چلتی رہی۔ نتیجتاً فوجوں کو جدید ہتھیاروں، آلات کے لیے دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔ ساتھیو، دفاع سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار ہمارے ملک کی عزت نفس، ہمارے معاشی نقصان کے ساتھ ہی حکمت عملی کی شکل بہت زیادہ سنگین خطرہ ہے۔ 2014 کے بعد ہم نے ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے مشن موڈ پر کام شروع کیا ہے۔ گزشتہ دہائیوں کے نقطہ نظر سے سیکھتے ہوئے، آج ہم اپنی تمام کوششوں کی طاقت سے ایک نیا دفاعی نظام تیار کر رہے ہیں۔ آج ڈیفنس آر اینڈ ڈی کو پرائیویٹ سیکٹر، اکیڈمی، ایم ایس ایم ای اور اسٹارٹ اپس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنی پبلک سیکٹر کی دفاعی کمپنیوں کو مختلف شعبوں میں منظم کرکے انہیں نئی طاقت دی ہے۔ آج ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ کس طرح ہم اپنے اہم اداروں جیسے آئی آئی ٹیز کو دفاعی تحقیق اور اختراع سے وابستہ کرتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ٹیکنیکل یونیورسٹیوں یا ٹیکنیکل کالجوں یا انجینئرنگ کی دنیا میں، وہاں پڑھائے جانے والے کورسز سے متعلق دفاعی سازوسامان نہیں ہیں۔ مانگیں گے تو باہر سے ملیں گے، یہاں پڑھنے کی ضرورت کہاں ہے۔ یعنی صرف ایک دائرہ تبدیل ہوا تھا۔ ہم نے اس میں تبدیلی لانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ ڈی آر ڈی او اور اسرو کی جدید ترین جانچ کی سہولیات کے ساتھ ہمارے نوجوانوں اور اسٹارٹ اپس کو زیادہ سے زیادہ طاقت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے میزائل سسٹم، آبدوزوں، تیجس لڑاکا طیاروں جیسے مختلف آلات کو تیز کرنے کے لیے حدوں کو دور کیا، جو اپنے اہداف سے کئی سال پیچھے چل رہے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے پہلے مقامی ساختہ طیارہ بردار بحری جہاز کے شروع ہونے کا انتظار بھی بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔بحری اختراع اور ملک میں ہی ساز و سامان تیار کرنے سے متعلق تنظیم ہو، آئیڈیکس ہو یا پھر ٹی ڈی اے سی ہو یا سبھی خود انحصاری کے ایسے ہی زبردست عزم کو رفتار دینے والے ہوں۔ ساتھیو، گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے نہ صرف دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے بلکہ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ یہ بجٹ ملک میں دفاعی مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کی ترقی میں کارآمد ہو۔ آج دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ بھارتی کمپنیوں سے خریداری میں خرچ ہو رہا ہے۔ اور ہم یہ بات مان لیتے ہیں، آپ میں خاندان کے تمام افراد موجود ہیں، آپ خاندان کی دنیا کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں۔ اگر آپ گھر میں اپنے بچے کو عزت اور پیار نہیں دیں گے اور مقامی لوگ آپ کے بچے سے پیار کریں گے تو ایسا کیا ہو گا؟ تم اسے روز بیکار کہتے رہو گے اور تم چاہتے ہو کہ پڑوسی اسے اچھا کہے، یہ کیسے ہو گا؟ ہم اپنے ہتھیاروں کے پرودکشن کا احترام نہیں کریں گے اور ہم چاہیں گے کہ دنیا ہمارے ہتھیاروں کا احترام کرے، پھر یہ ممکن نہیں ہے، ہمیں اپنے آپ سے آغاز کرنا ہوگا۔ اور برہموس اس کی ایک مثال ہے، جب بھارت نے برہموس کو گلے لگایا تھا، آج دنیا برہموس کو گلے لگانے کے لیے ایک قطار میں کھڑی ہے، دوستو۔ ہمیں اپنی تخلیق کردہ ہر چیز پر فخر ہونا چاہیے۔ اور میں ہندوستانی افواج کو مبارکباد دوں گا کہ انہوں نے 300 سے زائد ہتھیاروں، آلات کی فہرست بنائی ہے، جو بھارت میں بنیں گے اور ہماری افواج استعمال کریں گی، ہم وہ چیزیں باہر سے نہیں لیں گے۔ میں تینوں خدمات کے تمام ساتھیوں کو اس فیصلے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، ایسی کوششوں کے نتائج اب نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ 4-5 سالوں میں ہماری دفاعی درآمدات میں تقریباً 21 فیصد کمی آئی ہے۔ اتنے کم وقت میں اور یہ نہیں کہ ہم نے پیسے بچانے کے لیے کم کیا ہے، ہم نے اس کا متبادل یہاں دیا ہے۔ آج ہم سب سے بڑے دفاعی درآمد کنندہ سے بڑے برآمد کنندہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایپل اور اوروں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن میں بھارت کےدل کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ میں بھارت کے لوگوں کی طاقت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس کورونا کے دور میں، میں نے ایک ایسا موضوع اٹھایا تھا، یہ بہت ہلکا موضوع تھا کہ کورونا کے دور میں، میں ایسی باتیں نہیں کرنا چاہتا کہ اس بحران میں ملک پر بڑا بوجھ پڑ جائے۔ اب اسی لیے میں نے کہا دیکھو بھائی ہم باہر سے کھلونے کیوں لیتے ہیں؟ چھوٹا سا موضوع، باہر سے کھلونے کیوں لیتے ہیں؟ ہمارے کھلونوں کے یہاں ہم کیوں نہیں جاتے؟ ہم اپنے کھلونے دنیا کو کیوں نہیں بیچ سکتے؟ ہمارے کھلونوں کے پیچھے، کھلونا بنانے والے کے پیچھے ہماری ثقافتی روایت کی سوچ تھی، جس سے وہ کھلونے بناتا ہے۔ ایک ٹریننگ ہے، ایک چھوٹی سی بات ہوئی، چند سیمینارز، ایک ورچوئل کانفرنس، انہیں تھوڑا پرجوش کیا۔ آپ حیران رہ جائیں گے، اتنے کم وقت میں میرے ملک کی طاقت دیکھیں، میرے ملک کی عزت نفس دیکھیں، میرے عام شہری کے ذہن کی خواہش دیکھیں، صاحب، بچے دوسروں کو فون کرکے کہتے تھے کہ تمہارے گھر میں کوئی غیر ملکی کھلونا تو نہیں ہے۔ آپ کے گھر میں کھلونا، ٹھیک ہے؟ کورونا کے اندر سے آنے والی پریشانیوں میں سے یہ احساس ان کے اندر بیدار ہوا۔ ایک بچہ دوسرے بچے کو فون کرکے کہتا تھا کہ تم اپنے گھر میں غیر ملکی کھلونے نہیں رکھتے؟ اور نتیجہ یہ نکلا کہ میرے ملک میں کھلونوں کی درآمد میں دو سال کے اندر 70 فیصد کمی آئی۔ یہ کیسا معاشرہ ہے، قدرت کی طاقت دیکھیں اور یہ ہمارے ملک میں کھلونا بنانے والوں کی طاقت ہے کہ ہماری برآمدات میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، یعنی کھلونوں میں 114 فیصد کا فرق آیا ہے۔ میرا کہنے کا مطلب ہے، میں جانتا ہوں کہ کھلونے آپ کے پاس موجود کھلونوں سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ ایپل اور اوروں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں بھارت کے عام انسان کی دماغی طاقت کا موازنہ کر رہا ہوں اور وہ طاقت کھلوے والوں کے کام آ سکتی ہے۔ وہ طاقت میرے ملک کی فوجی طاقت کے لیے بھی کارآمد ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنے ہم وطنوں پر یہ بھروسہ رکھنا چاہیے۔ گزشتہ 8 سالوں میں ہماری دفاعی برآمدات میں 7 گنا اضافہ ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہر ملک کا دل فخر سے لبریز ہو گیا جب اسے معلوم ہوا کہ پچھلے سال ہم نے 13 ہزار کروڑ روپے کا دفاعی سامان برآمد کیا ہے۔ اور اس میں بھی 70 فیصد حصہ داری ہمارے نجی شعبے کی ہے۔ ساتھیو، 21ویں صدی میں فوج کی جدیدیت، دفاعی ساز و سامان میں خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب ملکی سلامتی کو لاحق خطرات بھی پھیل چکے ہیں اور جنگ کے طریقے بھی بدل رہے ہیں۔ پہلے ہم اپنے دفاع کا تصور زمین، سمندر اور آسمان تک کرتے تھے۔ اب یہ دائرہ خلا کی طرف بڑھ رہا ہے، سائبر اسپیس کی طرف بڑھ رہا ہے، اقتصادی اور سماجی خلا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج ہر قسم کے نظام کو ہتھیار میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی نایاب زمین ہے تو اسے ہتھیار میں تبدیل کریں، اگر خام تیل ہے تو اسے ہتھیار میں تبدیل کریں۔ یعنی پوری دنیا کے رویے اور طریقے بدل رہے ہیں۔ اب ون آن ون لڑائی سے زیادہ، لڑائی پوشیدہ، زیادہ جان لیوا ہوتی جا رہی ہے۔ اب ہم صرف اپنے ماضی کو ذہن میں رکھ کر اپنی دفاعی پالیسی اور حکمت عملی نہیں بنا سکتے۔ اب ہمیں مستقبل کے چیلنجز کا اندازہ لگا کر ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے، کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں، ہمارا مستقبل کیا ہو گا، اس کے مطابق خود کو بدلنا ہو گا۔ اور اس میں آپ کا خود انحصاری کا ہدف بھی ملک کو بہت مدد دینے والا ہے۔ ساتھیو، ملک کی حفاظت کے لیے ہمیں ایک اور اہم پہلو پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں بھارت کے خود اعتمادی، اپنی خود انحصاری کو چیلنج کرنے والی قوتوں کے خلاف اپنی جنگ کو بھی تیز کرنا ہوگا۔ جیسے جیسے بھارت عالمی سطح پر خود کو قائم کر رہا ہے، گمراہ کن معلومات، ، غلط معلومات اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعہ مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کو بھی ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہوئے بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی طاقتیں چاہے ملک میں ہوں یا بیرون ملک، ان کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ قومی دفاع اب سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے ہر شہری کو اس سے آگاہ کرنا بھی یکساں ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ نعرہ ہمارے ملک کے عوام تک پہنچے۔ جس طرح ہم خود کفیل بھارت کے لیے پورے حکومتی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح ملک کے دفاع کے لیے پوری قوم کا نقطہ نظر وقت کی ضرورت ہے۔ بھارت کے مختلف لوگوں کا یہ اجتماعی قومی شعور سلامتی اور خوشحالی کی مضبوط بنیاد ہے۔ اس اقدام کے لیے ایک بار پھر، میں وزارت دفاع، ہماری دفاعی افواج، ان کی قیادت کو آگے بڑھنے کی کوششوں کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ آج جب میں کچھ اسٹالز کا دورہ کر رہا تھا اور آپ کی تمام اختراعات دیکھ رہا تھا، تو ہمارے ریٹائرڈ بحریہ کے ساتھیوں نے اپنا تجربہ، اپنی توانائی، اپنا وقت اس اختراعی کام میں لگائیں تاکہ ہماری بحریہ مضبوط ہو، ہماری دفاعی قوتیں مضبوط ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہترین کاوش ہے، اس کے لیے جن لوگوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مشن موڈ میں کام کیا ہے، میں انہیں خاص طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان سب کو عزت دینے کے لیے انتظامات جاری ہیں، اسی لیے آپ سب بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہت شکریہ! بہت بہت نیک خواہشات۔س ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا ب۔ن ا۔,নতুন দিল্লীত এনআইআইঅ’ৰ ‘স্বাৱলম্বনত’ শীৰ্ষক আলোচনা-চক্ৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D8%A7%D8%B5-%D8%AE%D8%B5%D9%88%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0/,نئی دہلی،28ستمبر؍2021: نمسکار جی!مرکزی وزیر برائے زراعت و کسان بہبود جناب نریندر سنگھ تومر جی، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیش بگھیل جی، کابینہ کے میرے دیگر معاون جناب پرشوتم روپالا جی، کیلاش چھودھری جی، بہن شوبھا جی، چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ جناب رمن سنگھ جی، حزب اختلاف کے لیڈر جناب دھرم لال کوشک جی، زراعتی تعلیم سے جڑے تمام وائس چانسلر، ڈائریکٹرز، سائنداں ساتھی اور میرے پیارے کسان بہنوں اور بھائیوں! ہمارے یہاں شمالی بھارت میں گھاگھ اور بھڈری کی زراعت سے متعلق کہاوتیں بہت مقبول رہی ہیں۔ گھاگھ نے آج سے کئی صدی پہلے کہا تھا- جیتے گہیرا جوتے کھیت، پرے بیج، پھل تیتے دیت! یعنی کھیت کی جُتائی جتنی گہری کی جاتی ہے، بیج بونے پر پیداوار بھی اُتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کہاوتیں، بھارت کی زراعت کے سینکڑوں سال پرانے تجربات کے بعد بنی ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ بھارتیہ زراعت ہمیشہ سے کتنی سائنسی رہی ہے۔زراعت اور سائنس کے اس تال میل کا مسلسل بڑھتے رہنا، 21ویں صدی کے بھارت کے لئے بہت ضروری ہے۔ آج اِسی سے جڑا ایک اور اہم قدم اُٹھایا جارہا ہے۔ہمارے ملک کے جدید سوچ والے کسانوں کو یہ وقف کیا جارہا ہے اور چھوٹے چھوٹے کسانوں کی زندگی میں تبدیلی کی اُمید کے ساتھ یہ بہت بڑی سوغات آج میں، میرے ملک کے کروڑ ہا کسانوں کے قدموں میں وقف کررہا ہوں۔ الگ الگ فصلوں کی 35نئی قسمیں آج جاری ہوئی ہیں۔ آج رائے پور میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹک اسٹریس مینجمنٹ کا افتتاح بھی ہوا ہے۔ چار زرعی یونیورسٹیز کو گرین کیمپس ایوارڈ بھی دیئے گئے ہیں۔ میں آپ سبھی کو، ملک کے کسانوں کو، زرعی سائنس دانوں کو بہت بہت مبارکباد دیتاہوں۔ ساتھیوں، پچھلے 7-6سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو زراعت سے جڑی چنوتیوں کے حل کے لئے اولیت کی بنیاد پر استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور سے بدلتے ہوئے موسم میں، نئی صورتحال کے مطابق، زیادہ زخیر بیجوں پر ہمارا فوکس بہت زیادہ ہے۔ حال کے سالوں میں الگ الگ فصلوں کی ایسی 1300سے زیادہ بیج کی قسمیں تیار کی گئی ہیں۔ اسی سلسلے میں آج 35 مزید فصل قسموں کو ملک کے کسانوں کے قدموں میں وقف کیا جارہا ہے۔ فصل کی یہ قسمیں ، یہ بیج،موسمیاتی تبدیلی کے اثر سے کھیتی کو محفوظ کرنے اور عدم زخیزی سے آزاد بھارت کی مہم میں بہت معاون ثابت ہونے والی یہ ہمارے سائنسدانوں کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ نئی قسمیں موسم کی کئی طرح کی چنوتیوں سے نمٹنے میں اہل تو ہیں ہی ، اِن میں تغذیہ عناصر بھی زیادہ ہیں۔اِن میں سے کچھ قسمیں کم پانی والے علاقوں کے لئے ہیں، کچھ فصلیں خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہیں، کچھ جلدی تیار ہو جانے والی ہیں، کچھ کھارے پانی میں ہو سکتی ہیں۔یعنی ملک کی الگ الگ صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِنہیں تیار کیا گیا ہے۔چھتیس گڑھ کے نیشنل انسٹی ٹیو ٹ آف بایوٹک اسٹریس مینجمنٹ کی شکل میں ملک کو ایک نیا قومی ادارہ ملا ہے۔یہ ادارہ موسم اور دیگر حالات کی تبدیلی سے پیدا ہوئی چنوتیوں سے نمٹنے میں ملک کی کوششوں کو سائنسی طور پر رہنمائی کرے گا، سائنسی مدد ملے گی اور اس سے بہت طاقت فائدہ ہوگا۔ یہاں سے جو افرادی قوت تربیت یافتہ ہوگی، جو ہمارا نوجوانوں کا اثاثہ تیار ہوگا، سائنسی ذہن و فکر کےساتھ ، جو ہمارا سائنسداں تیار ہوگا، جو یہاں پر حل نکالے جائیں گے، وہ ملک کی زراعت اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں کارگر ثابت ہوں گے۔ ساتھیوں، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں فصلوں کا کتنا بڑا حصہ، کیڑوں کی وجہ سے برباد ہوجاتاہے۔ اس سے کسانوں کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔پچھلے سال ہی کورونا سے لڑائی کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے ٹڈیوں کے جھنڈ نے متعد د ریاستوں میں بڑا حملہ کردیا تھا۔ بھارت نے بہت کوشش کرکے تب اس حملے کو روکا تھا، کسانوں کا زیادہ نقصان ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے ادارے پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہاں کام کرنے والے سائنسداں ملک کی امیدوں پر کھرا اتریں گے۔ ساتھیوں، کھیتی-کسانی کو جب تحفظ ملتا ہے، حفاظتی حصار ملتا ہے، تو اُس کی اور تیزی سے ترقی ہوتی ہے۔کسانوں کی زمین کو تحفظ دینے کے لئے، اُنہیں الگ الگ مرحلوں میں 11کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ دیئے گئے ہیں۔اِ س کی وجہ سے کسانوں کو اپنی جو زمین ہے، اس کی کیا حدیں ہیں، زمین کی کیا طاقت ہے، کس طرح کے بیج بونے اور اس کس طرح کے فصل بونے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔دوائیاں کون سی ضروری ہیں، کھاد کون سا ضروری پڑے گا، یہ تمام چیزیں اُس سوائل ہیلتھ کارڈ کے سبب ، زمین کی صحت کا پتہ لگ جانے کی وجہ سے کسانوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اُن کا خرچ بھی ہوا ہے اور پیداوار بھی بڑھی ہے۔اِسی طرح سے یوریا کی 100 فیصد نیم کوٹنگ کرکے ہم نے کھاد کو لے کر ہونے والی تشویش کو دور کیا۔ کسانوں کو پانی کا تحفظ دینے کے لئے ہم نے آبپاشی پروجیکٹ شروع کئے۔ دہائیوں سے لٹکے قریب قریب 100 آبپاشی پروجیکٹوں کو پورا کرنے کی مہم چلائی ، بڑے تعدا د میں اس کے لئے پروجیکٹ لگادیا۔کسانوں کو پانی مل جائے، تو وہ پانی سے معجزہ کر دکھا تا ہے۔ اِسی طرح پانی بچانے کے لئے ہم نے مائیکرو ایریگیشن، اسپرنکلر کے لئے بھی بڑی مالی مدد فراہم کرکے کسانوں تک یہ سہولتیں پہنچانے کی کوشش کی۔فصلوں کو بیماری سے بچانے کےلئے، زیادہ پیداوار کے لئے کسانوں کو نئی نئی قسموں کے بیج دیئے گئے۔ کسان کھیتی کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کر ے، اَنّ داتا توانائی دینے والا بھی بنے، اپنی خود کی ضرورتیں بھی پوری کرسکے، اس کے لئے پی ایم کُسُم مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ لاکھوں کسانوں کو سولر پمپ بھی دیئے گئے ہیں۔ اِسی طرح سے آج تو موسم کے بارے میں تو ہمیشہ دنیا بھر میں تشویش رہی ہے، ابھی ہمارے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ جی ، کتنی طرح کی قدرتی آفات آتی رہتی ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیا کیا مصیبتیں آتی ہیں، بڑے اچھے ڈھنگ سے انہوں نے اس کا ذکر کیا۔ زالہ باری اور موسم کی مار سے کسانوں کو تحفظ دینے کے لئے ہم نے کئی چیزوں میں تبدیلی کی۔پہلے کے سارے قوانین میں بدلاؤ کیا، تاکہ کسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔اس نقصان کے وقت اُس کو دقت نہ آئے، یہ ساری تبدیلیاں کیں۔پی ایم فصل بیمہ یوجنا ، اس سے بھی کسانوں کو بہت فائدہ اور تحفظ ملے ، اس کی فکر کی۔ اس تبدیلی کے بعد کسانوں کو قریب قریب یعنی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا میں جو تبدیلی لائی گئی، اُس کی وجہ سے کسانوں کو قریب قریب ایک کروڑ روپے کی کلیم رقم کی ادائیگی کی گئی ہے۔ ایک لاکھ کروڑ روپے اس بحران کی گھڑی میں کسانوں کی جیب میں گیا ہے۔ ساتھیوں، ایم ایس پی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہم نے خرید عمل میں بھی بہتری پیدا کی، تاکہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو اس کا فائدہ مل سکے۔ ربیع سیزن میں 430لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ گیہوں خریدا گیا ہے۔ اس کے لئے کسانوں کو 85ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی گئی ہے۔ کووڈ کے دوران گیہوں خرید مراکز کی تعدا�� 3گنا تک بڑھائی گئی ہے۔ساتھ ہی دلہن –تلہن خرید مراکز کی تعداد بھی 3گنا بڑھائی گئی ہے۔ کسانوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے کسان سمّان نِدھی کے تحت 11کروڑ سے زیادہ رقم ہمارے ہر کسان کو دی گئی ہے اور اس میں زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں۔ 10 میں سے 8 کسان ہمارے ملک میں چھوٹے کسان ہیں، بہت بہت چھوٹی زمین کے ٹکڑے پر پل رہے ہیں۔ ایسے کسانوں کو قریب قریب 1 لاکھ 60ہزار کروڑ سے بھی زیادہ روپے براہ راست اُن کے بینک اکاؤنٹ میں بھیجے گئے ہیں۔ اس میں سے 1لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ رقم تو اسی کورونا کے دور میں بھیجی گئی ہے۔کسانوں کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کےلئے ہم نے اُنہیں بینکوں سے مدد کی اور اس مدد کے پورے عمل کو بہت آسان بنایا گیا ہے۔ آج کسانوں کو اور بہتر طریقے سے موسم کی جانکاری مل رہی ہے۔ حال ہی میں مہم چلاکر 2کروڑ سے زیادہ کسانوں کو کریڈٹ کارڈ دیئے گئے ہیں۔ماہی گیری کرنے والے اور ڈیری سیکٹر سے جڑے کسانوں کو بھی کے سی سی سے جوڑا گیا ہے۔10ہزار سے زیادہ کسان پیداوار تنظیمیں ہوں،ای-نیم یوجنا کے تحت زیادہ سے زیادہ زرعی منڈیوں کو جوڑنا ہو، موجودہ زرعی منڈیوں کی جدید کاری ہو، یہ سارے کام تیزی رفتاری سے کئے جارہے ہیں۔ملک کے کسانوں اور ملک کی زراعت سے جڑے جو کام پچھلے 7-6سالوں میں ہوئے ہیں، انہوں نے آنے والے 25 سالوں کے بڑے قومی عہد کی کامیابی کے لئے ، کیونکہ 25 سال کے بعد ہمارا ملک آزادی کی صدی منائے گا۔ آج ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ 25 سال کے بعد آزادی کی صدی منائیں گے اور اس کے اِن 25 سالوں کے بڑے قومی عہد کی کامیابی کے لئے ایک بڑی مضبوط بنیاد بنادی ہے۔ بیج سے لے کر بازار تک ہوئے یہ کام ایک بڑی اقتصادی طاقت کی شکل میں بھارت کی ترقی کی رفتار کو یقینی بنانے والے ہیں۔ ساتھیوں، ہم سب جانتے ہیں کہ زراعت ایک طرح سے ریاست کا موضوع ہے اور اس کے بارے میں متعدد بار لکھا بھی جاتا ہے کہ یہ تو ریاست کا موضوع ہے۔ بھارت سرکار کو اِس میں کچھ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے ، کیونکہ ریاست کا مسئلہ ہے اور میں جانتا ہوں ، کیونکہ گجرات میں کئی سالوں تک وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ، کیونکہ ریاست کی بھی خصوصی ذمہ داری ہے ، یہ میں جانتا تھا اور اس ذمہ داری کو مجھے نبھانا چاہئے۔ یہ وزیر اعلیٰ ہونے کے ناتے میں پوری کوشش کرتاتھا۔ گجرات کا وزیراعلیٰ رہتے ہوئے میں نے زرعی نظام کو ، زرعی پالیسیوں اور اُن کے کھیتی پر اثرات کو بہت قریب سے محسوس کیا اور ابھی ہمارے نریندر سنگھ تومر جی ، میرے گجرات کے مدت کار میں ، میں کیا کام کررہا تھا، اُس کا بھی ذکر کررہے تھے۔ ایک وقت تھا جب گجرات میں زراعت کچھ فصلوں تک ہی محدود تھی۔ گجرات کے ایک بڑے حصے میں پانی کی کمی کی وجہ سے کسان زراعت چھوڑ چکے تھے۔اُس وقت ایک ہی منتر کو لے کر ہم چلیں۔ کسانوں کو ساتھ لے کر چلیں اور منتر تھا –صورتحال بدلنی چاہئے، ہم حالات ضرورت بدلیں گے۔ اس کے لئے اُس دور میں ہی ہم نے سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع کردیا تھا۔ آج ملک کی زراعت اور باغبانی میں گجرات کی ایک بہت بڑی حصے داری ہے۔اب آج گجرات میں 12مہینے کھیتی ہوتی ہے۔کچھ جیسے خطے میں بھی آج وہ پھل ، سبزیاں پیدا ہوتی ہیں، جن کے بارے میں کبھی سوچ نہیں سکتے تھے۔آج کچھ کے ریگستان میں سے وہاں کی زرعی پیداوار غیر ممالک میں برآمد ہونی شروع ہوگئی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، صرف پیداوار پر ہی فوکس نہیں کیاگیا، بلکہ پوری گجرات میں کولڈ چین کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تیار کیاگیا۔ ایسی متعدد کوششوں سے کھیتی کا دائرہ تو بڑھا ہی ، ساتھ ہی کھیتی سے جڑی صنعتوں اور روزگار میں بھی اضافہ ہوا اور کیونکہ ایک وزیر اعلیٰ ہونے کے ناتے ریاستی سرکار کی ساری ذمہ داری ہوتی ہے، تو مجھے اُس وقت اِن تمام کاموں کو کرنے کا ایک اچھا موقع ملا اور میں نے پوری محنت بھی کی۔ بھائیوں اور بہنوں، کھیتی میں ہوئی ایسی ہی جدید تبدیلیوں کو آزادی کے اس امرت کال میں مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی زراعت ہی نہیں، بلکہ ہمارے پورے ایکو سسٹم کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔موسم میں تبدیلی سے ہماری ماہی پروری، جانوروں کی صحت اور پیداوار بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے، اس کا نقصان کسانوں کو ، ماہی گیر ساتھیوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے سبب جو نئے طرح کے کیڑے ، نئی بیماریاں، وبائیں آرہی ہیں، اس سے انسان اور پشو دَھن کے صحت پر بھی بہت بڑا بحران آرہا ہے اور فصلیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔اِن پہلوؤں پر گہری تحقیقی مسلسل ضروری ہے۔جب سائنس ، سرکار اور سوسائٹی مل کر کام کریں تھے، تو اُس کے نتائج بہت بہتر آئیں گے۔کسانوں اور سائنسدانوں کا ایسا گٹھ جوڑ نئے چیلنجز سے نمٹنے میں ملک کی طاقت بڑھائے گا۔ضلع سطح پر سائنس پر مبنی ایسی زری ماڈل کھیتی کو مزید پیشہ ورانہ ، زیادہ فائدہ مند بنائیں گے۔آج موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کرنے والی تکنیک اور عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے جو مہم شروع کی گئی ہے، اُس کی بنیاد میں یہی جذبہ ہے۔ بھائیوں اور بہوں، یہ وہ وقت ہے، جب ہمیں بیک ٹو بیسک اور مارچ فار فیوچر دونوں میں توازن قائم کرنا ہے۔ جب میں بیک ٹو بیسک کہتا ہوں، تب میری مراد ہماری روایتی زراعت کی اُس طاقت سے ہے، جس میں آج کے زیادہ تر چیلنجوں سے جڑا تحفظاتی حصار تھا۔روایتی طور سے ہم زارعت، ماہی گیری اور مویشی پروری ایک ساتھ کرتے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ساتھ ایک ہی کھیت میں ، ایک وقت میں کئی فصلوں کو بھی اُگایا جاتا تھا۔یعنی پہلے ہمارے ملک کی زراعت کثیر رُخی تھی، لیکن یہ رفتہ رفتہ یک رُخی ہوتی چلی گئی۔ الگ الگ حالات کی وجہ سے کسان ایک ہی فصل اُگا نے لگا ۔اِس حالت کو بھی ہمیں مل کر بدلنا ہی ہوگا۔ آج جب موسمیاتی تبدیلی کی چنوتی بڑھ رہی ہے، تو ہمیں اپنے کاموں کی رفتار کو بھی بڑھانا ہوگا۔ گزرے ہوئے سالوں میں اسی جذبے کو ہم نے کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لئے فروغ دیا ہے۔کسان کو صرف فصل پر مبنی آمدنی نظام سے باہر نکال کر اُنہیں ویلیو ایڈیشن اور کھیتی کے دیگر متبادل کے لئے بھی متحرک کیاجارہا ہے۔ چھوٹے کسانوں کو اس کی بہت ضرورت ہے اور ہمیں پوری توجہ 100 میں سے 80 جو چھوٹے کسان ہیں، ان پر ہی مبذول کرنی ہے۔ہمارے کسانوں کے لئے، اِس میں مویشی پروری اور ماہی گیری کے ساتھ ساتھ شہد کی مکھی پالنا، کھیت میں سولر توانائی کی پیداوار، کچرے سے کنچن ، یعنی ایتھینال، بایوفیول، جیسے متبادل بھی کسانوں کو دیئے جارہے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ چھتیس گڑھ سمیت ملک کے کسان اِن تمام نئی نئی چیزوں کو بہت تیزی سے اپنا رہے ہیں۔زراعت کے ساتھ ساتھ دو چار اور چیزوں کی وسعت کررہے ہیں۔ ساتھیوں، موسم کی مقامی صورتحال کے مطابق فصلوں کی پیداوار ہماری روایتی زراعت کی ایک اور طاقت ہے۔ جہاں خشک سالی رہتی ہے، وہاں اس کے مطابق فصلوں کی پیداوار کی جاتی ہے۔ جہاں سیلاب رہتا ہے، پانی زیادہ رہتا ہے، جہاں برف رہتی ہے، وہاں اُسی طرح کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔ موسم کے حساب سے اُگائی جانے والی اِن فصلوں میں تغذیہ کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور سے جو ہمارے موٹے اناج –ملیٹس ہیں، اُن کی بہت اہمیت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں یہ ہماری صحت کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں، اس لئے آج کی طرز زندگی سے ، جس طرح کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے ہمارے اِن موٹے اناج کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ میرے کسان بھائیوں-بہنوں، آپ کو جان کر خوشی ہوگی بھارت کی کوششوں سے ہی اقوام متحدہ نے اگلے سال یعنی 2023ء کو انٹر نیشنل ایئر آف ملیٹس اعلان کیا ہے۔یہ موٹے اناج کی کھیتی کی ہماری روایت ، ہمارے اناج کو بین الاقوامی سطح پر شوکیش کرنے کا اور نئے بازار تلاش کرنے کا بہت بڑا موقع ہے،لیکن اس کے لئے بھی ابھی سے کام کرنا پڑے گا۔آج اِس موقع پر میں ملک کے تمام سماجی اور تعلیمی اداروں سے کہوں گا کہ موٹے اناج سے جڑے فوڈ فیسٹول لگائیں۔موٹے اناج سے نئی نئی کھانے کی قسمیں کیسے تیار ہوں، اِس کے مقابلے کا اہتمام کریں، کیونکہ 2023 ء میں اگر دنیا میں ہمیں اپنی بات لے کر جانا ہے، تو ہمیں اِن چیزوں میں نیا پن لانا پڑے گا اور لوگوں میں بھی بیداری بڑھائیں۔ موٹے اناج سے جڑی نئی ویب سائٹ بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ لو گ آئیں، موٹے اناج سے کیا کیا بن سکتا ہے، کیا فائدہ ہوسکتا ہے، ایک بیداری مہم چل سکتی ہے۔میں مانتاہوں کہ اس فائدے کیا ہوتے ہیں۔ اس سے جڑے دلچسپ معلومات ہم اِس ویب سائٹ پر رکھ سکتے ہیں، تاکہ لوگ اُس کے ساتھ جڑیں۔ میں تو تمام ریاستوں سے بھی زور دے کر کہوں گا کہ زراعت سے متعلق آپ محکمہ ،آپ کی زرعی یونیورسیٹیاں، آپ کے سائنسداں اور ترقی پسند کسان ، ان میں سے کوئی ٹاسک فورس بنائیے اور 2023ء میں جب دنیا موٹے اناج کا سال منا رہی ہوگی، تب بھارت کو کیسے اُس میں تعاون کرے، بھارت کیسے قیادت کرے، بھارت کے کسان اس سے کیسے فائدہ اٹھائیں، ابھی سے اُس کی تیاری کرنی چاہئے۔ ساتھیوں، سائنس اور ریسرچ کے حل سے اب موٹے اناج اور دیگر اناجوں کو مزید فروغ دیا جانا ضروری ہے۔مقصد یہ کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ ضرورتوں کے حساب سے اِنہیں اگایا جاسکے۔آج فصلوں کی جن قسموں کا لانچ ہوا ہے، اُن میں اِن کوششوں کی جھلک بھی ہمیں دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں 150 سے زیادہ کلسٹر میں وہاں کے حالات کے مطابق زرعی تکنیکوں پر تجربہ چل رہا ہے۔ ساتھیوں، کھیتی کی جو ہماری قدیم روایت ہے، اس کے ساتھ ساتھ مارچ ٹو فیوچر بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ فیوچر کی جب ہم بات کرتے ہیں تو اُس کی بنیاد میں جدید ٹیکنالوجی ہے، کھیتی کے نئے اوزار ہیں۔ جدید زرعی مشینوں اور آلات کو بڑھا وا دینے کی کوششوں کا نتیجہ آج دِکھائی دے رہا ہے۔ آنے والا وقت اسمارٹ مشینوں کا ہے، اسمارٹ آلات کا ہے۔ملک میں پہلی بار گاؤں کی جائیداد کے دستاویز تیار کرنے میں ڈرون کا رول ہم دیکھ رہے ہیں۔ اب کھیتی میں بھی جدید ڈرونز اور سینسرز کے استعمال کو بھی بڑھاوا دینا ہے۔اس سے کھیتی سے جڑا ہائی کوالٹی ڈیٹا ہمیں مل سکتا ہے۔ یہ کھیتی کی چنویتوں سے جڑے ریئل ٹائم حل تیار کرنے میں بھی مدد کرے گا۔حال ہی میں نافذ کی گئی نئی ڈرون پالیسیز میں مزید معاون ثابت ہونے والی ہے۔ ساتھیوں، بیج سے لے کر بازار تک کا جو پورا ایکو سسٹم ہے، ملک جو تیا رکررہا ہے، اسے ہمیں مسلسل جدید بناتے رہنا ہے۔ اس میں آرٹیفیشل انٹلی جنس ، ڈاٹا اینالسٹ��س اور بلاک چین ٹیکنالوجی، ڈیمانڈ اور سپلائی سے جڑے چیلنجز کو دور کرنے میں بہت مدد کرسکتی ہے۔ہمیں ایسی جدت طرازی ، ایسے اسٹارٹ اَپس کو بڑھاوا دینا ہے، جو اِن تکنیکوں کو گاؤں گاؤں تک پہنچاسکیں۔ ملک کا ہر کسان خاص طور سے چھوٹا کسان اِن نئے آلات ، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گاتو زرعی سیکٹر میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔ کسانوں کو کم دام میں جدید ٹیکنالوجی مہیا کرانے والے اسٹارٹ اَپس کے لئے بھی بہتر موقع ہے۔ میں ملک کے نوجواں سے اس کا فائدہ اٹھانے پر زور دوں گا۔ ساتھیوں، آزادی کے اس امرت کال میں ہمیں زراعت سے جڑی جدید سائنس کو گاؤں گاؤں ، گھر گھر تک پہنچانا ہے۔نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس کے لئے کچھ بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ ہمیں اب کوشش کرنی ہے کہ مڈل اسکول سطح تک زراعت سے جڑی تحقیق اور ٹیکنالوجی ہمارے اسکولی نصاب کا بھی حصہ بنے۔ اسکولوں کی سطح پر بھی ہمارے طلباء کے پاس یہ متبادل ہو، جو زراعت کو کیریر کی شکل میں چننے کے لئے خود کو تیار کرسکیں۔ ساتھیوں، آج جو مہم ہم نے شروع کی ہے، اس کو عوامی تحریک میں بدلنے کے لئے ہم سب کو اپنی حصے داری کو یقینی بنانا ہے۔ ملک کو عدم تغذیہ سے پاک کرنے کےلئے جو مہم چل رہی ہے، راشٹریہ پوشن مشن کو بھی یہ مہم طاقتور بنائے گی۔ اب تو سرکار نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری منصوبے کے تحت غریبوں کو ، اسکولوں میں بچوں کو ، فورٹیفائیڈ چاول ہی دیا جائے گا۔حال ہی میں ، میں نے اپنے اولمپک چمپئن سے عدم تغذیہ کو لے کر بیداری بڑھانے کے لئے ہر ایک کھلاڑی سے میں نے گزارش کی تھی کہ آپ کم سے کم آنے والے ایک دو سال میں کم از کم 75اسکولوں کا دورہ کریں، وہاں طلباء سے تغذیہ کے متعلق باتیں کریں۔ کھیل کود کے بارے میں باتیں کریں، ورزش کے بارے میں باتیں کریں۔ آج میں تمام تعلیمی ماہریں، تمام زرعی سائنسدانوں، تمام اداروں سے کہوں گا کہ آپ بھی آزادی کے امرت مہوتسو کے لئے اپنے اہداف طے کریں۔ 75 دن کی مہم کو اٹھالیں، 75 گاؤں کو گود لے کر کوئی تبدیلی کی مہم اٹھالیں، 75اسکولوں کو بیدار کرکے ہر ایک اسکول کو اسی کام میں لگادیں، ایسی ایک اہم اگر ملک کے ہر ضلع میں اپنی سطح پر بھی اور اداروں کی سطح پر بھی چلائی جاسکتی ہے۔ اس میں نئی فصلوں ، فورٹیفائیڈ بیجوں، موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے بارے میں کسانوں کو معلومات دی جاسکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب کی کوشش، یہ سب کی کوشش بہت اہم ہیں۔ ہم سب کی کوشش موسم کی تبدیلی سے ملک کی زراعت کو بچائے گی، کسانوں کی خوشحالی اور ملک کی صحت کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے گی۔ ایک بار پھر تمام کسان ساتھیوں کو، نئی فصلوں کے اقسام اور نئے قومی تحقیقاتی ادارے کے لئے میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ۔جن یونیورسیٹیوں کو آج ایوارڈ ملا ، تاکہ سائنسی نظام ہی، سائنسی من ہی، سائنسی طریقہ ہی چنوتیوں سے آزادی پانے کا بہترین راستہ فراہم کرسکتا ہے، اُن سب کو میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ!,"প্রধানমন্ত্রীয়ে ৰাইপুৰ, ছত্তিশগড়ত ৩৫বিধ বিশেষ গুণসম্পন্ন শস্য দেশৰ উদ্দেশ্যে অৰ্পণ কৰি দিয়া ভাষণৰ পা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A6%81%E0%A6%9A%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD/,میرے پیارے بھائیو اور بہنو! آج ملک بہت ہی مغموم اور دکھی ہے۔ یہاں آئے آپ تمام حضرات کے جذبات کو بھی میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں۔ پلوامہ میں دہشت گردوں نے جو حملہ کیا ہے اس سے ہر ہندوستانی میں غم غصہ ہے۔ ہمارے بہادر جوانوں نے ملک کی حفاظت میں اپنی زندگیوں کی قربانی دی ہے۔ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ یہ یقین دہانی میں جھانسی کی سرزمین سے ، بہادروں اور جانبازوں کی سرزمین سے میں 130 کروڑ ہندوستانیوں کو کرانا چاہتا ہوں۔ ہمارے حفاظتی دستے کی شجاعت و بہادری کو ملک نے دیکھا ہے اور ہمارے ملک میں کوئی ایسا نہیں ہوسکتا جسے ہماری فوج کی شجاعت اور بہادری پر رتی بھر بھی شک ہو۔ ملک کو ان کی صلاحیت اور شجاعت پر پورا بھروسہ ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو! یہاں آشیرواد دینے کے لئے آئے ہوئے میرے پیارے بھائی بہنو، سلامتی دستے کے لئے آگے کی کارروائی طے کرنے کے لئے وقت کیا ہو، جگہ کیا ہو، شکل کیا ہو، وہ سارے فیصلے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پلوامہ حملے کے گناہگار، پلوامہ حملے کے سازشیوں کو ان کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ ہمارا پڑوسی ملک یہ بھول رہا ہے کہ یہ نئی پالیسی اور نئے چلن والا بھارت ہے۔ دہشت گرد تنظیموں اور ان کے آقاؤں نے جس حیوانیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا پورا حساب کیا جائے گا۔ دوستو، ہمارا پڑوسی ملک اس وقت معاشی بدحالی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ وہ اب اس وقت اتنا الگ تھلگ پڑگیا ہے، اس کی حالت اتنی خراب کردی گئی ہے کہ وہ بڑے بڑے ملکوں سے دوری بنانے لگے ہیں۔اس کے لئے اپنا روز مرہ کا خرچ بھی چلانا محال ہوگیا ہے۔ وہ کشکول لیکر گھوم رہا ہے لیکن آج اسے دنیا میں آسانی سے مدد بھی نہیں مل پا رہی ہے۔ بدحالی کے اس دور میں وہ بھارت پر اس طرح کے حملے کرکے پلوامہ جیسی تباہی مچاکر سوچتا ہے کہ بھارت بھی بدحال ہوجائے گا تو ہمارے اس دشمن پاکستان میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ آپ نے جو راستہ اپنایا ہے، آپ نے اپنی بربادی دیکھی ہے۔ ہم نے جو راستہ اپنایا ہے، ہماری دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کوبھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ بھائیو، بہنو، ہمارے پڑوسی، اس کے منصوبے کا ملک کے 130 کروڑ افراد مل کر منہ توڑ جواب دیں گے۔ دوستو، آج دنیا کے بڑے بڑے ملک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارت کے جذبات کی حمایت کررہے ہیں۔ میرے پاس جو پیغامات آرہے ہیں، ان سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ بھی اتنے ہی دکھی ہیں، اتنے ہی غصے میں ہیں۔پوری عالمی برادری دہشت گردی کے ان سرپرستوں کو ختم کردینے کے حق میں ہے۔ دوستو، بہادر بیٹیوں اور بیٹوں کی یہ سرزمین جاتی ہے کہ دشمن جس قدر بھی سازش کرے، اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ یہ سرزمین گواہ ہے کہ ماں بھارتی کی حفاظت اس کےسپوتوں کی حٖفاظت ہمارے لئے سب سے اوپر ہے۔ ساتھیو، یہ سرزمین منی کرنیکا کی شجاعت کی سرزمین ہے جنہو ں نے جھانسی رانی کی شکل میں ملک کی جنگ آزادی میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کیا تھا۔ منی کرنیکا کاشی کی بیٹی تھی اور مجھے فخر حاصل ہے کہ وہاں کے لوگوں نے، کاشی نے مجھے اپنا ممبر پارلیمنٹ بنایا ہے اور اس لئے ان کی سرزمین میری میدان عمل اپنے آپ بندیل کھنڈ سے ایک خصوصی پیار کے ساتھ بھی جوڑ دیتی ہے۔ بندیل کھنڈ نے حب الوطنی سے لیکر ملک کی آستھا تک ہر پل ایک نئی بلندی دینے والی سرزمین ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلے آپ کے بیچ آیا تھا اس وقت آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ نے جو پیار اور خلوص مجھے دے رہے ہیں، اس کو میں سود کے ساتھ لوٹاؤں گا۔ آپ کو یاد ہے نا؟ میں نے ایس�� کہا تھا، آپ کو یاد ہے نا؟ سود کے ساتھ لوٹاؤں گا، یاد ہے نا؟ ہم وعدہ نبھانے والے ہیں۔ ارادے لیکر نکلتے ہیں۔ ارادے پورے کرکے ہی رکتے ہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار سال سے مرکزی حکومت اس کام میں لگاتار جٹی ہوئی ہے اور یہاں بھاجپا کے برسراقتدار آنے کے بعد یوگی جی کی قیادت میں ترقی کی رفتار بڑھی ہے۔ ریاست کی ان کی پوری ٹیم نے ترقی کی رفتار کو مزید تیز کردیا ہے۔ دوستو، وکاس کی پانچ دھارا یعنی بچوں کی پڑھائی، یووا کی کمائی، بزرگوں کی دوائی، کسانوں کی سنچائی اور جن جن کی شنوائی کے لئے بی جے پی سرکار کام کررہی ہے۔ اسی مقصد پر آگے بڑھتے ہوئے ابھی ابھی ہم نے بندیل کھنڈ اور یو پی کی ترقی سے جڑے تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے مالیت کے ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح کیا ہے۔ اس میں سکیورٹی، روزگار، ریل، بجلی، پانی ایسے متعدد پروجیکٹ شامل ہیں۔ بھائیو اور بہنو، اب بندیل کھنڈ کو ملک کی حفاظت اور ترقی کا کاریڈور بنانے کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ جھانسی سے آگرہ تک بن رہا یہ ڈیفنس کاریڈور ملک کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی بندیل کھنڈ اور اترپردیش کے نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی فراہم کرنے والا ہے۔ ملک اور دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے یہاں صنعت کاری میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تقریباً چار ہزار کروڑ روپے کے سمجھوتے بھی ہوچکے ہیں۔ اس ڈیفنس کاریڈور میں ڈیفنس اور ڈیفنس کا ساز و سامان اس کے تعمیر کرنے والے ملکوں کی بڑی بڑی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیاں بھی صنعتیں لگائیں گی۔ بھائیوں اور بہنوں ، جب بڑی صنعتیں لگتی ہیں، تب ان کے آس پاس چھوٹی صنعتوں میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ ایک پورا ایکو سسٹم ، ایک پورا ماحول تیار ہوتا ہے۔جھانسی اور آس پاس کے علاقوں میں جو چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتیں ہیں ان کو اس راہ داری سے بہت بڑا فائدہ ہونے والا ہے۔ اس راہ داری سے یہاں کے لاکھوں نوجوانوں کو براہ راست روزگار ملے گا۔اتنا ہی نہیں ، یہاں کے نوجوانوں کی صلاحیت میں کیسے اضافہ ہو، اسکل ڈیولپمنٹ کیسے ہو، صلاحیت سازی بھی یہاں آنے والی کمپنیاں کریں گی، تاکہ ان کو اس کام کے لئے پیشہ وارانہ مہارت حاصل ہو اور وہ اپنے ہی گاؤں میں رہ کر روزی روٹی کما سکیں، انہیں یہاں سے جانا نہ پڑے۔ میں تو گجرات میں رہتا تھا، شاید ہی بندیل کھنڈ کا کوئی بلاک ایسا ہوگا کہ جہاں کے لوگ گجرات میں ہمارے یہاں نہ رہتے ہوں۔ میں اچھی طرح متعارف رہا ہوں آپ لوگوں سے۔ اور جن لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ بندیل کھنڈ جیسا علاقہ بھی ترقی کا مرکز بن سکتا ہے، میں آپ کو اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں۔ گجرات کے اندر پاکستان کی سرحد پر ریگستان جیسا ایک ہمارا کچھ ضلع ہے، بڑا ضلع ہے۔ کوئی افسر اس طرف، وہاں نوکری کرنے کو جانے کو تیار نہیں اور لوگ بھی وہاں رہنے کو تیار نہیں۔ آبادی میں بھی منفی اضافہ ہوتا تھا، آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہوتی تھی، کیونکہ نہ پانی تھا ، نہ روزی روٹی کا امکان تھا۔ لیکن 2001ء کے زلزلے کے بعد مجھے وہاں ایک وزیر اعلیٰ کے طورپر کام کرنے کی ذمہ داری آئی میرے سر پر۔ اتنے کم وقت میں جو کچھ ضلع ریگستان کے ناطے جانا جاتا تھا، پانی تک مہیا نہیں تھا، کوئی اپنی بیٹی وہاں شادی کے لئے دینے کو تیار نہیں تھا، آج وہ کچھ ضلع ہندوستان کے سب سے تیز تر رفتار سے آگے بڑھنے والے ضلعوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، کچھ کو ترقی کرتے ہوئے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں آج تصور کرسکتا ہوں، یہ بندیل کھنڈ ویسا ہی بن کر رہے گا۔ یہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں۔ اگر کچھ بن سکتا ہے تو بندیل کھنڈ بھی بن سکتا ہے، یہ میرا یقین ہےاور اس لئے اب تک جو ناامیدی میں جیتے رہے ہیں، سوچنے کی بھی کمی رہی ہے، ہم اس سے اس زمین کو باہرنکالنے کا عہد کرکے ایک بہت بڑی تبدیلی کے ارادے کے ساتھ اس ڈیفنس کوریڈور کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، کام کررہے ہیں۔ ساتھیوں! میں ابھی یہاں کے ایک اور چیلنج کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتاہوں۔ یہ چیلنج ہے پانی۔ پانی یہاں کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بندیل کھنڈ کے میرےآپ سبھی لوگوں کو پانی کے لئے کتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، مجھے اس کا اچھی طرح احسا س ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ جی کی سرکار کو بھی اس کا پورا احساس ہے اور آپ کو پانی کے مسئلے سے آزادی دلانے کی کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے آج 9000کروڑ روپے کی پائپ لائن کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ بندیل کھنڈ کی سبھی مائیں اور بہنیں ہمیں بھرپور آشیرواد دیں ، تاکہ ہم اس کام کو جلد سے جلد پورا کرکے پینے کا پانی آپ تک پہنچا دیں۔ آج پانی کے لئے کسی کو سب سے زیادہ گھر میں پریشانی ہوتی ہے، تو وہ ماں بہنوں کو ہوتی ہے۔ ان کی پوری قوت پانی کے پیچھے لگ جاتی ہے۔آپ ماں بہنیں، میں آپ کا قرض چکانے آیا ہوں، آپ کو اس پریشانی سے آزادی دلانے آیا ہوں۔ آپ ہمیں آشیرواد دیجئے تاکہ ہم پائپ لائن سے پانی پہنچا سکیں۔ میں تو کہوں گا کہ یہ پانی کی پائپ لائن ، یہ صرف پائپ لائن کا پروجیکٹ نہیں ہے، یہ تو اس علاقے کی پائپ لائن نہیں، لائف لائن ہے، لائف لائن۔ بھائیوں اور بہنوں! اس پروجیکٹ کو پورا ہونے کے بعد بندیل کھنڈ کے ہر ضلع یعنی جھانسی، للت پور، جالون، ہمیر پور، مہوبا، باندا اور چترکوٹ کے قریب قریب ہر گاؤں کو پینے کا پانی پائپ لائن سے ملنا آسان ہونے والا ہے۔ اسی طرح جھانسی شہر اور آس پاس کے گاؤں کے لئے بھی امرت یوجنا کے تحت مرکزی حکومت نے 600کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبہ بنایا ہے۔ بیتوا ندی کے پانی سے جھانسی شہر کے لوگوں کی پیاس تو بجھے گی ہی، ساتھ ہی آس پاس کے بہت سے گاؤں تک پینے کا پانی پہنچ جائے گا۔ بھائیوں اور بہنوں! یہ تمام پروجیکٹ موجودہ ضرورتوں کو تو پورا کریں گے ہی، مستقبل کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے والے ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں! پہاڑی باندھ منصوبے کی جدید کاری سے بھی کسانوں کو بہت فائدہ ملنے والا ہے۔ پہلے اس باندھ سے کسانوں کے کھیت تک مناسب مقدار میں پانی پہنچتا نہیں تھا اور گیٹ گرنے سے تو رساؤ جاری رہتا ہے۔ اب پانی کا رساؤ بند کردیا ہے، ساتھ ہی اس بجٹ میں بی جے پی حکومت ‘پردھان منتری کسان سمان ندھی’ کے نام سے ایک تاریخی منصوبہ بھی لائی ہے۔ اس کے تحت ایسے کسان ، جن کے پاس پانچ ایکڑ سے کم زمین ہے، ان کے بینک کھاتے میں ہر سال 6000روپے مرکزی حکومت کی جانب سے براہ راست جمع کرائے جائیں گے۔ یہ رقم دد دو ہزار روپے کی قسطوں میں آپ تک پہنچے گی۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ اترپردیش میں بھی 2کروڑ 25 لاکھ کسان، اترپردیش میں 2 کروڑ 25لاکھ کسانوں میں سے 2 کروڑ 14لاکھ کسان اس اسکیم سے فیضیاب ہوں گے۔ جن کو اس کا فائدہ ملنے والا ہے۔ یعنی ایک طرح سے قریب قریب سب کو ، یعنی یوپی کے ہر ضلع میں 95 فیصد سے زیادہ کسانوں کو اس اسکیم سے فائدہ ہوگا۔ ساتھیوں! پی ایم کسان سمان یوجنا کے تحت اگلے دس سال میں کل ملاکر 7.5لاکھ کروڑ ، یہ رقم چھوٹی نہیں ہے، 7.5لاکھ کروڑ روپے کسانوں کے بینک م��ں براہ راست جمع ہونے والے ہیں۔ یہ ہمیشہ یاد رکھئے ، یہ پیسے براہ راست کسانوں کے بینک کھاتوں میں پہنچیں گے، کوئی بچولیہ نہیں ہوگا، کوئی دلال نہیں ہوگا، کوئی آپ کا حق نہیں مار پائے گا۔ ساتھیوں! پچھلے 4.5برسوں میں اتنی تیزی کے ساتھ غریبوں کے ، کسانوں کے بینک کھاتے کھلوائے جارہے تھے، پر اس کے پیچھے بھی ہماری طویل مدت تک کام کرنے کی سوچ تھی، ایسے ہی کھاتے کھلوانے کے لئے محنت نہیں کررہے تھے۔ آپ کے بینک کھاتے کھلوا کر ہماری حکومت نے انتظام کیا ہے کہ آپ کی گیس کی سبسڈی ، منریگا کی مزدوری، پنشن،بچوں کی اسکالرشپ ، یہ سارے پیسے سرکاری خزانے سے ادھر –آپ کہیں نہ جاتے ہوئے سیدھے آپ کے کھاتے میں جمع ہوجائیں اور اس کی وجہ سے لیکیج بند ہوگیا۔آپ جانتے ہیں کہ سیدھے پیسے آپ کے کھاتوں میں جمع کرنے سے ملک کا قریب قریب ایک لاکھ کروڑ روپے بچ رہا ہے، ایک لاکھ کروڑ روپے، پہلے وہ کسی کے جیب میں جاتا تھا۔ آپ کو لوٹنے والے بچولیوں کے بیچ آج مودی دیوار بن کر کھڑا ہے۔ بھائیو اور بہنو، کسانوں کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت نے مویشی پالنے والوں ۔ اور بندیل کھنڈ میں یہ بات بہت ا ہم ہے مویشی پالنے والوں اور ماہی پروری کرنے والوں کے لئے بہت بڑا فیصلہ لیا ہے۔ اب مویشی پالنے والوں کے لئے بھی کسان کریڈیٹ کارڈ سے قرض کی سہولت دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو بڑھا سکیں۔ آج مویشی پالنے والے کو جو ساہو کاروں سے پیسہ لینا پڑتا ہے اور سود ادا کرتے کرتے اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ، اس چکر سے بھی اب مویشی پالنے والوں اور ماہی پروری کرنے والوں کو نکالنے کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور فیصلہ کسانو ں کے مفاد میں لیا گیا ہے۔ پہلے بینکوں سے کسانوں کو ایک لاکھ روپے تک کا زرعی قرض بغیر بینک گارنٹی ملا کرتا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے جھانسی میں اور کسان بھی جدید کھیتی کرنے لگے۔ سائنسی کھیتی کرنے لگے اور اس کا ہاتھ بھی تھوڑ ا فری رہے۔ اس لئے اب ہم نے ایک لاکھ روپے سے زیادہ کرکے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے، اضافہ کردیا گیا ہے۔ یعنی اب کسان ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے تک کا زرعی قرض بغیر بینک گارنٹی دے چکا ہے۔ اس کو ساہو کاروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح پشو دھن کو دھیان میں رکھتے ہوئے سرکار کے ذریعہ کام دینو آیوگ کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس آیوگ کے تحت پانچ سو کروڑ روپے کا التزام گئو ماتا اور گئونسل کی دیکھ بھال اور اس سے منسلک قانون اور ضابطوں کو موثر طریقے سے نافذ کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ بندیل کھنڈ میں جس طرح مویشیوں کے لئے چارہ کا مسئلہ اور گئو نسل کی اسمگلنگ کا سنجیدہ مسئلہ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کام دھینو آیوگ بہت اہم قدم ہے۔ ساتھیو، ان چیلنجوں کے ساتھ ہی آپ کے بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہاں کا ٹرانسمیشن سسٹم بہتر بنایا گیا۔ اب بندیل کھنڈ سمیت مغربی اترپردیش کے کئی علاقوں کے بجلی کے نظام میں بہتری آئے گی۔ اب مغربی اور شمالی گریڈ میں پیدا ہونے والی بجلی کا آسانی سے الگ الگ علاقوں میں ٹرانسمیشن ہوسکے گا۔ ساتھیو، بندیل کھنڈ ایکسپریس وے یا پھر یہاں کی ریل کنیکٹی ویٹی ، ہماری حکومت نے مسلسل اس پر زور دیا ہے ۔ جھانسی سے مانک پور اور کھیرار بھیم سین سیکشن کو دوہرا کرنے کا کام ہو یا پھر جھانسی سے کھیرار اور وہاں سے بھیم سین تک کے روٹ کی برق کاری ہو ، ان تمام پروجیکٹوں سے اس پورے علاقے کو بہت فائدہ ہوگا۔ بھائیو اور بہنو، کسان ہو، جوان ہو یاپھر میرے نوجوان بیٹے بیٹاں ہوں، سب کے لئے ایک مکمل سوچ کے ساتھ ترقی کا منتر لے کر ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس ’، کوئی بھید بھاؤ نہیں ۔ کوئی میرا تیرا نہیں، کوئی اپنا پرایا نہیں، ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس ’ اسی ایک منتر کو لے کر کے ہم نے کام کیا ہے ا ور اس لئے یہ ممکن ہوپارہا ہے کیونکہ آپ نے ساڑھے چار برس قبل ایک مضبو ط حکومت مرکز میں قائم کی تھی اور میں مانو ں گا پورا ملک اترپردیش کا ممنون ہے۔ کیونکہ ہندستان کو تیس سال کے بعد مکمل اکثریت کی سرکار دینا ، ہندستان کو پہلی بار تیس سال کے بعد مستحکم حکومت دینا، ہندستان کو تیس سال کے بعد مضبوط سرکار دینا، ہندستان کو تیس سال کے بعد فیصلہ لینے والی سرکار دینا، اگر اس میں سب سے بڑا رول کسی نے ادا کیا ہے تو یہ میرے اترپردیش نے کیا ہے۔ میرے اترپردیش کے رائے دہندگان نے دیا ہے۔ یہ اترپردیش کے رائے دہندگان کی قوت فیصلہ نے ہندستان کی قسمت بدل دی ہے۔ ہندستان کی قسمت کی سمت بدل دی ہے۔ تیس سال سے مایوسی کے گڑھے میں ڈوبے ہوئے ملک کو نئی امید جگانے کا کام 2014 میں ، یہ اترپردیش کے عوام نے کیا ہے۔ اور مضبوط حکومت کا مطلب کیا ہوتا ہے ، مضبوط حکومت کا عوام کو فائدہ کیا ہوتا ہے، مضبوط حکومت سے دنیا میں شان کیسے پیدا ہوتی ہے ، یہ اترپردیش نے کرکے دکھایا ہے، جس کا فائدہ پورے ہندستان نے پایا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ترقی کے لئے نئے ہندستان کے لئے آپ آنے والے دنوں میں بھی مجھے اور مضبوطی سے آشیرواد دیں گے۔ بھائیو او ربہنو ایک بار پھر ترقی کے روزگار سے جڑے سبھی پروجیکٹوں کے لئے آپ کے لئے میں بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں اوما جی کا بھی خاص طور سے ابھینندن کرتا ہوں کہ ہر چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لے کر اس علاقہ کی ترقی کے لئے جس جذبے سے حکومت کے ہر محکمے کو ہلا تی رہتی ہیں دوڑاتی رہتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں ایک رکن پارلیمنٹ کے طور بھی پورے ملک کی ذمہ داریوں کے ساتھ جس طرح سے وہ ذمہ داریاں پوری کررہی ہیں ، میں اوما جی کا بھی دل سے ابھینندن کرتا ہوں ان کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولئے۔ بھارت ماتا کی -جے بھارت ماتا کی -جے بھارت ماتا کی -جے بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ش س۔و۔ ا گ۔ ن ا۔ج۔ ن ع۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ ঝাঁচীত বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ উচৰ্গা অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-11%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84-%D9%85%DB%81%D8%A7%DA%A9%D9%85%D8%A8%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%B6-%E0%A6%96/,نئی دہلی۔ 12 مارچ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج احمد آباد میں 11 ویں کھیل مہاکمبھ کے افتتاح کا اعلان کیا۔ اس موقع پر گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت اور گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل بھی موجود تھے۔ شروع میں، وزیر اعظم نے اسٹیڈیم میں نوجوانوں کی توانائی اور جوش کے سمندر کا مشاہدہ کیا اور کہا کہ یہ صرف کھیلوں کا مہاکمبھ نہیں ہے بلکہ گجرات کی نوجوان طاقت کا مہاکمبھ بھی ہے۔ وزیراعظم کے خطاب سے قبل ایک شاندار تقریب ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وبائی امراض کی وجہ سے یہ مہا کمبھ دو سال تک نہیں ہوا، لیکن اس شاندار تقریب نے کھلاڑیوں کو نئے اعتماد اور توانائی سے بھر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا “جو بیج میں نے 12 سال پہلے بویا تھا وہ آج ایک بڑا برگد کا درخت بن چکا ہے”۔ وزیر اعظم نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے طور پران کھیلوں کا آغاز کیا تھا۔ گجرات میں 2010 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب نریندر مودی کی بصیرت انگیز قیادت میں 16 کھیلوں اور 13 لاکھ شرکاء کے ساتھ شروع ہواتھا ، کھیل مہاکمبھ آج 36 عام کھیلوں اور 26 پیرا کھیلوں پر مشتمل ہے۔ 45 لاکھ سے زیادہ کھلاڑیوں نے 11ویں کھیل مہاکمبھ کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ پہلے ہندوستانی کھیلوں کے منظر نامے پر چند کھیلوں کا غلبہ تھا اور مقامی کھیلوں کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ کھیل بھی اقربا پروری سے متاثرتھا اور “کھلاڑیوں کے انتخاب میں شفافیت کا فقدان بھی ایک بڑا عنصر تھا۔ کھلاڑیوں کی تمام صلاحیتیں مسائل سے لڑنے میں صرف ہو جاتی تھیں ۔ اس بھنور سے نکل کر آج ہندوستان کے نوجوان آسمان کو چھو رہے ہیں۔ سونے اور چاندی کی چمک ملک کے اعتماد کو چمکا رہی ہے،”۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ آج ہندوستان ٹوکیو اولمپکس اور پیرالمپکس جیسے مقابلوں میں ریکارڈ تعداد میں تمغے جیت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ملک کے نوجوانوں پر مکمل اعتماد ہے۔ “بھارت نے پہلی بار ٹوکیو اولمپکس میں 7 تمغے جیتے تھے۔ یہی ریکارڈ ٹوکیو پیرا اولمپکس میں بھی ہندوستان کے بیٹوں اور بیٹیوں نے بنایا تھا۔ ہندوستان نے اس عالمی مقابلے میں 19 تمغے جیتے تھے۔ لیکن، یہ صرف شروعات ہے۔ہندوستان نہ رکنے والا ہے اور نہ ہی تھکنے والا ہے”، جناب مودی نے زور دے کر کہا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یوکرین سے واپس آنے والے طلباء نے ترنگے کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی گواہی دی ہے۔ اسی طرح کھیلوں کے پوڈیم پر بھی وہی فخر اور حب الوطنی نظر آتی ہے۔ وزیراعظم نے مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی قیادت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا “آج اسٹارٹ اپ انڈیا سے اسٹینڈ اپ انڈیا تک، میک ان انڈیا سے لے کر خود کفیل ہندوستان اور ‘ووکل فار لوکل’ تک، ہندوستان کے نوجوانوں نے خودکو جدید ہندوستان کی ہر مہم کی ذمہ داری لی ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے ہندوستان کی صلاحیت کو قائم کیا ہے۔ وزیراعظم نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ زندگی میں شارٹ کٹ نہ لیں۔ شارٹ کٹ کا راستہ ہمیشہ مختصر رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کامیابی کا صرف ایک ہی منتر ہے – ‘طویل مدتی منصوبہ بندی، اور مسلسل عزم’۔ نہ تو کوئی فتح اور نہ ہی شکست ہمارا آخری پڑاؤ ہو سکتا ہے “۔ وزیر اعظم نے کہا، چونکہ کھیلوں میں کامیابی کے لیے 360 ڈگری اپروچ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ہندوستان ملک میں کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ کھیلو انڈیا پروگرام اس فکر کی ایک عمدہ مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے ملک کی صلاحیتوں کو پہچاننا شروع کیا اور انہیں ہر ممکن تعاون دیا۔ صلاحیت ہونے کے باوجود، ہمارے نوجوان تربیت کی کمی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے تھے، آج کھلاڑیوں کو بہتر سے بہتر تربیتی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ گزشتہ 7-8 سالوں میں کھیلوں کے بجٹ میں 70 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کوچوں کی حوصلہ افزائی اور ترغیبات میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کھیلوں کو ایک قابل عمل کیریئر کے طور پر قائم کرنے میں حاصل ہونے والی پیشرفت کے بارے میں بات کی۔ کوچنگ، مینجمنٹ، ٹرینرز، غذائی ماہرین، اسپورٹس رائٹنگ وغیرہ جیسے شعبوں میں بہت سے موضوعات ہیں جو اس شعبے میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان لے سکتے ہیں۔ منی پور اور میرٹھ میں کھیلوں کی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں اور بہت سے اداروں میں کھیلوں کے کورس شروع ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اتنی بڑی ساحلی پٹی کے پیش نظر بیچ اور واٹر اسپورٹس پر بھی توجہ دینے کو کہا۔ انہوں نے والدین سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنے بچوں میں کھیلوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ کھیل مہاکمبھ نے گجرات میں کھیلوں کے ماحولیاتی نظام میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ عمر کی کوئی پابندی کے بغیر، یہ پوری ریاست سے لوگوں کی شرکت کا مشاہدہ کرتا ہے جو ایک ماہ کی مدت میں مختلف مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ روایتی کھیلوں جیسے کبڈی، کھو کھو، ٹگ آف وار، یوگاسنا، ملاکھمب اور جدید کھیلوں جیسے آرٹسٹک اسکیٹنگ، ٹینس اور فینسنگ کا انوکھا سنگم ہے۔ اس نے زمینی سطح پر کھیلوں میں خام صلاحیتوں کی نشاندہی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے گجرات میں پیرا اسپورٹس پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে একাদশ খেল মহাকুম্ভ মুকলি কৰাৰ কথা ঘোষণা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D9%BE%DB%81%D9%84%D8%A7-%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%AC%D9%85%D9%BE-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کا پہلا ہائی جمپ میڈل جیتنے پر تیجسون شنکر کو مبارکباد دی ہے۔ ہائی جمپ میں تیجسون شنکر کا کانسے کا تمغہ کامن ویلتھ گیمز، 2022 میں ٹریک اینڈ فیلڈ میں بھارت کا پہلا تمغہ بھی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘تیجسون شنکر نے تاریخ رقم کی۔ ا نہوں نے سی ڈبلیو جی میں ہمارا پہلا ہائی جمپ میڈل جیتا۔ کانسے کا تمغہ جیتنے پر انہیں مبارکباد۔ ان کی کاوشوں پر فخر ہے۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔ وہ کامیابیاں حاصل کرتے رہیں۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে হাই জাম্পত ভাৰতৰ প্ৰথমটো পদক জয় কৰাত তেজস্বিন শংকৰক অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DA%88%DB%8C%D8%B4%DB%81-%DA%A9%DB%92%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%B3%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%88%D8%A7-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%A5/,نئی دہلی، 17ستمبر، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اڈیشہ کے شہر جھارسوگوڈا میں ایک سڑک حادثے کی وجہ سے جانیں ضائع ہونے پر گہرےرنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کےدفتر نے ٹوئیٹ کیا ہے ؛ ’’اڈیشہ کے جھارسوگوڈا میں رونما یہ حادثہ افسوس ناک ہے ۔ میں ان لوگوں کے کنبے کے ساتھ ہوں جن کی جانیں اس حادثے میں ضائع ہوئی ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اس حادثے میں جو لوگ زخمی ہوئے ہیں وہ جلد سے جلد صحتیاب ہوں : وزیراعظم‘‘,উৰিষ্যাৰ ঝাৰচুগুড়াত পথ দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱালোকৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%86%D9%88%D9%84%D8%A7-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%86%D9%88%D9%84%D8%A7-%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج کا دھارچولا (بھارت) – دھارچولا (نیپال) میں دریائے مہاکالی پر پل کی تعمیر کے لئے بھارت اور نیپال کے درمیان مفاہمت نامے (ایم او یو) کو منظوری دی۔ مفاہمت نامے پر دستخط کئے جانے سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ پس منظر: قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے بھارت اور نیپال کی دوستی اور تعاون کے منفرتعلقات ہیں جن کی خصوصیت ان کی کھلی سرحد اور عوام سے عوام کے گہرے رشتے اور ثقافتی تعقات ہیں۔ بھارت اور نیپال دونوں مختلف علاقائی فورموں یعنی سارک، بمسٹیک کے ساتھ ساتھ عالمی فورموں میں بھی مل کر کام کر تے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,ধাৰচুলা (ভাৰত) – ধাৰচুলা (নেপাল)ত মহাকালী নদীৰ ওপৰত দলং নিৰ্মাণৰ বাবে ভাৰত আৰু নেপালৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তিত অনুমোদন কেন্দ্ৰীয় কেবিনেট +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B5%D8%AF%D8%B1%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%B1%D8%A7%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%DA%A9%D9%88%D9%88%D9%86%D8%AF-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%82%D9%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A6%A3/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ صدرجمہوریہ جناب رام ناتھ کووند کا عہدہ چھوڑنے کے موقع پر قوم سے متاثر کن خطاب ""اس جذبے کی عکاسی کرتا ہے جس کے ساتھ انہوں نے ہمارے صدرجمہوریہ کی حیثیت سے قوم کی خدمت کی۔"" ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ""صدر کووند کا ایک متاثر کن خطاب۔ ان کےبیان قومی ترقی کے تئیں ان کے جذبے کو ظاہر کرتے ہیں اور اس جذبے کی عکاسی کرتے ہیں جس کے ساتھ انہوں نے ہمارے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے قوم کی خدمت کی ہے۔""",ৰাষ্ট্ৰপতি কোবিন্দৰ ভাষণে ৰাষ্ট্ৰীয় প্ৰগতিৰ প্ৰতি তেওঁৰ আগ্ৰহ প্ৰতিফলিত কৰে: প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-10-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D8%B3%D8%B7-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE-2/,نچلی سطح کے کسانوں کو بااختیار بنانے کے اپنے مصمم عزم و ارادے کے مطابق، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پردھان منتری کسان سمان ندھی (پی ایم۔ کسان) کے تحت مالیاتی فائدے کی 10ویں قسط جاری کی۔ اس سے 10 کروڑ سے زیادہ استفادہ کنندہ کسان خاندانوں کو 20 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم کی منتقلی ممکن ہوئی۔ پروگرام کے دوران وزیراعظم نے تقریباً 351 کسان پیداواری تنظیموں (ایف پی اوز) کو 14 کروڑ روپے سے زیادہ کی اکوٹی گرانٹ بھی جاری کی جس سے 1.24 لاکھ سے زیادہ کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ تقریب کے دوران وزیراعظم نے ایف پی اوز کے ساتھ بات چیت بھی کی۔ مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر اور کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، ایل جیز، وزرائے زراعت اور کسان بھی تقریب سے منسلک ہوئے۔ اتراکھنڈ کے ایف پی او کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ان سے آرگینک کھیتی کو پسند کرنے اور آرگینک پیداوار کے سرٹیفیکیشن کے طریقوں کے بارے میں پوچھا کیا۔ انہوں نے ایف پی او کی آرگینک پیداوار کی مارکیٹنگ کے بارے میں بھی بات کی۔ ایف پی او نے وزیراع��م کو بتا کہ وہ آرگینک کھاد کا انتطام کس طرح کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ قدرتی اور آرگینک زراعت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جائے کیونکہ اس سے کیمیکل فرٹیلائزر پر انحصار کم ہوتا ہے اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پنجاب کے ایف پی او نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہ کس طرح جلائے بغیر پرالی کے نمٹان کرتے ہیں۔ انہوں نے سپر سیڈر اور سرکاری ایجنسیوں سے ملنے والی امداد کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پرالی بندوبست کے ان کے تجربے کو سبھی جگہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ راجستھان کے ایف پی او نے شہد کی پیداوار کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ نیفیڈ کی مدد سے ایف پی او کا تصور ان کے لیے بہت مفید رہا ہے۔ اتر پردیش کے ایف پی او نے کسانوں کی خوشحالی کی ایک بنیاد کے طور پر ایف پی او کی تشکیل کے لیے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اراکین کی بیجوں، آرگینک فرٹیلائزر، باغبانی کی انواع و اقسام کی پیدوار کے معاملے میں مدد کرنے کے اپنے طریقے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے سرکاری اسکیموں کا فائدہ حاصل کرنے میں کسانوں کی مدد کرنے کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ ای-نام سہولتوں سے بھی فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وزیر اعظم کے وژن کو پورا کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے کسانوں کا اعتماد، ملک کی کلیدی طاقت ہے۔ تمل ناڈو کے ایف پی او نے بتایا کہ نابارڈ کی مدد سے انہوں نے بہتر قیمت حاصل کرنے کے لیے ایف پی او تشکیل دیا ہے اور ایف پی او کی ملکیت مکمل طور پر خواتین کے پاس اور خواتین ہی اسے چلاتی ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ علاقے کے موسم کی وجہ سے سورگم کی پیداوار کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ناری شکتی کی کامیابی ان کی ناقابل تسخیر قوت ارادی کا مظہر ہے۔ انہوں نے کسانوں سے کہا کہ وہ باجرہ کی کھیتی سے فائدہ اٹھائیں۔ گجرات کے ایف پی او نے قدرتی زراعت کے بارے میں اور کس طرح گائے پر مبنی زراعت اخراجات اور زمین پر پڑنے والے دباؤ کو کم کر تی ہے، اس کے بارے میں بتایا ۔ خطے کی قبائلی برادریاں بھی اس تصور سے مستفید ہو رہی ہیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ماتا ویشنو دیوی مندر کے احاطے میں بھگدڑ کی وجہ سے جان گنوانے والوں کے لئے تعزیت کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے زخمیوں کے لئے کئے جانے والے انتظامات کے بارے میں ایل جی جناب منوج سنہا سے بات کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج جب ہم نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں، ہمیں گزشتہ سال کی کامیابیوں سے تحریک حاصل کرتے ہوئے ایک نیا سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کو یاد کیا کہ عالمی وبا سے مقابلے کرنے ، ٹیکہ کاری اور مشکل وقت میں کمزور طبقات کے لیے انتظامات کرنے میں ملک کی کوششوں کو یاد کیا۔ کمزور طبقات کو راشن فراہم کرانے کے لئے ملک 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت اپنے طبی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے بے تکان کام کر رہی ہے۔ انہوں نے نئے آکسیجن پلانٹوں، نئے میڈیکل کالجوں، ویلنیس سینٹروں ، آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن اور میڈیکل انفرا اسٹرکچر کی اصلاح کے لئے آیوشمان بھارت ڈیجیٹل ہیلتھ مشن کا ذکر کیا۔ ملک سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا پریاس کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ بہت سے لوگ ملک کے لیے اپنی زندگیاں لگا رہے ہیں، وہ ملک کی تعمیر کر رہے ہیں۔ وز��راعظم نے کہا کہ وہ پہلے بھی یہ کام کیا کرتے تھے لیکن اب ان کے کام کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس سال ہم اپنی آزادی کے 75 سال پورے کرلیں گے۔ یہ وقت ملک کے عزائم کا ایک نیا شاندار سفر شروع کرنے اور نئے جوش و جذبےت کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے‘‘۔ اجتماعی کوشش کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم بتایا کہ ‘‘جب 130 کروڑ ہندوستانی ایک قدم اٹھاتے ہیں، تو یہ محض ایک قدم نہیں ہوتا بلکہ یہ 130 کروڑ قدموں کے برابر ہوتا ہے‘‘۔ معیشت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ بہت سے معاملات میں ہندوستانی معیشت کووڈ سے قبل کے وقت سے بہتر نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج ہمارے ملک کی شرح نمو 8 فیصد سے زیادہ ہے۔ بھارت میں ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح تک پہنچے ہیں۔ جی ایس ٹی وصولی میں بھی ہم نے پرانے ریکارڈز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے برآمدات اور خصوصی طور پر زرعی برآمدات کے معاملے میں نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 2021 میں یو پی آئی پر 70 لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا لین دین ہوا ہے۔ بھارت میں 50 ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپس کام کررہے ہیں، جن میں سے 10 ہزار گزشتہ چھ ماہ کے دوران قائم ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سال 2021 بھارت کی ثقافتی وراث کو مضبوط کرنے کا سال بھی تھا۔ کاشی وشواناتھ دھام اور کیدارناتھ دھام کی تزئین کاری، آدی شنکراچاریہ کی سمادھی کا رینوویشن ، دیوی ان پورنا کی چرائی گئی مورتی کی بازیابی ، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور درگا پوجا اور دھولاویرا کو عالمی وراثت کا درجہ دیئے جانے جیسے اقدامات سے بھارت کی وراثت مستحکم ہوئی ہے اور اس سے یہاں پر سیاحت اور تیرتھ یاترا کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2021 ماتر شکتی کے لیے بھی ایک امید افزا سال تھا۔ نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کے دروازوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لیے سینک اسکولوں کے دروازے کھولے گئے۔ حال ہی میں ختم ہونے والے سال میں لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھاکر لڑکوں کے برابر 21 سال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ 2021 میں بھارت کے کھلاڑیوں نے بھی ملک کا نام روشن کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت ملک کے کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے میں بے مثال سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف دنیا کی قیادت کرتے ہوئے بھارت نے 2070 تک دنیا کے سامنے نیٹ زیرو کاربن اخراج کا نشانہ بھی رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے بہت سے ریکارڈ وقت سے پہلے بھارت کے ذریعہ پورے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھارت ہائیڈروجن مشن پر کام کر رہا ہے،الیکٹرک وہیکلز کے معاملے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان ملک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ایک نئی رفتار دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میک ان انڈیا کو نئی جہات تک پہنچاتے ہوئے ملک چپ مینوفیکچرنگ، سیمی کنڈکٹر جیسے نئے شعبوں کے لیےشاندار منصوبے نافذ کررہا ہے‘‘۔ آج کے بھارت کے موڈ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’’آج ’نیشن فرسٹ‘ کے جذبے کے ساتھ ملک اور قوم کے لئے وقف ہوجانا ہر ایک ہندوستانی کا جذبہ بن گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری کوششوں میں اور ہمارے فیصلوں میں اتحاد نظر آتا ہے، آج کام کو پورا کرنے کے لئے بے چینی پائی جاتی ہے، آج ہماری پالیسیوں میں استحکام اور ہمارے فیصلوں میں دور اندیشی نظر آتی ہے‘‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ پی ایم کسان سمان ندھی بھارت کے کسانوں کے لئے ایک بڑی مدد ہے، اگر ہم آج کی منتقلی کو شامل کرلیں تو کسانوں کے کھاتوں میں 1.80 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم براہ راست منتقل کی جاچکی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایف پی اوز کے ذریعہ چھوٹے کسان اجتماعی طاقت کا احساس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے کسانوں کو ایف پی او کے پانچ فائدے ملے ہیں۔ ان میں اس کی سودا کرنے کی طاقت، پیمانہ، اختراع، رسک مینجمنٹ اور بازارت کے صورتحال کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت میں اضافہ شامل ہیں۔ ایف پی او کے فوائد کوذہن میں رکھتے ہوئے حکومت ہر سطح پر انہیں فروغ دے رہی ہے۔ ان ایف پی اوز کو 15 لاکھ روپے تک کی مدد مل رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں آرگینک ایف پی اوز،تلہن ایف پی اوز، بیمبو کلسٹرز اور ہنی ایف پی اوز جیسے ایف پی اوز قائم کئے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ’’آج ہمارے کسان ’ایک ضلع ایک پروڈکٹ‘ جیسی اسکیموں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ملک کے ساتھ ساتھ عالمی بازار بھی ان کے لئے کھل رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات پر انحصار کو نیشنل پام آئل مشن جیسی اسکیموں سے کم کیا جا رہا ہے، جس کا بجٹ 11 ہزار کروڑ روپے ہے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں زرعی شعبے میں قائم کیے گئے سنگ میل کے بارے میں بات کی۔ اناج کی پیداوار 300 ملین ٹن تک پہنچی، اسی طرح باغبانی اور پھولوں کی پیداوار 330 ملین ٹن تک پہنچی ہے۔ دودھ کی پیداوار میں بھی گزشتہ 6-7 برسوں میں تقریباً 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 60 لاکھ ہیکٹر زمین کو مائیکرو اریگیشن کے تحت لایا گیا۔ پرائم منسٹر فصل بیمہ یوجنا کے تحت ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کا معاوضہ دیا گیا، جب کہ حاصل ہونے والے پریمیم محض 21 ہزار کروڑ روپے تھا۔ ایتھنول کی پیداوار محض سات برسوں میں 40 کروڑ لیٹر سے بڑھ کر 340 کروڑ لیٹر ہو گئی۔ وزیر اعظم نے بائیو گیس کو فروغ دینے کے لیے گوبردھن اسکیم کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گائے کے گوبر کی قیمت ملے گی تو ایسے مویشی بھی کسانوں پر بوجھ نہیں ہوں گے جو دودھ نہیں دیتے۔ حکومت نے کامدھینو کمیشن قائم کیا ہے اور وہ ڈیری شعبے کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر قدرتی زراعت کو فروغ دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیمیکل سے پاک زراعت مٹی کی صحت کے تحفظ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی زراعت اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے تمام کسانوں کو قدرتی زراعت کے طریقوں اور فائدوں سے واقف کرائے جانے کی اپیل کی۔ وزیر اعظم نے کسانوں سے یہ اپیل کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ وہ زراعت میں اختراع اور صفائی ستھرائی جیسی تحریک میں تعاون کرنا جاری رکھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰধানমন্ত্ৰী-কিষাণৰ দশম কিস্তি মুকলি কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%AC%DB%8C%DB%81-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF-%D8%B1%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AD%E0%A7%B1%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 22 جون / کابینہ کے میرے ساتھی تجارت اور صنعت کے وزیر جناب سریش پربھو جی، ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیر جناب ہردیپ سنگھ پوری جی، تجارت اور صنعت کے وزیر مملکت جناب سی آر چودھری جی، تجارت اور متعلقہ محکموں کے سینئر افسران اور یہاں موجود دیگر معززین ۔ سب سے پہلے میں آپ سب کو وانجیہ بھون کا سنگ بن��اد رکھنے پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آج اس کا کام شروع ہو گیا ہے اور جیسا کہ اسٹیج پر ہی بتایا گیا ہے کہ اگلے سال دسمبر تک تعمیر کا کام مکمل ہو جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ وقت کی حدود میں ہی وانجیہ بھون بنے گا اور جلد سے جلد اس کا فائدہ لوگوں کو ملنے لگے گا۔ ساتھیو، وقت کی بات سب سے پہلے میں اس لئے کر رہا ہوں، کیونکہ مجھے اس حکومت کے دوران جتنی بھی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھنےیا افتتاح کرنے کا موقع مجھے ملا،اس میں زیادہ تر میں ایک بات مشترک تھی ۔ مشترک یہ کہ عمارتوں کی تعمیر بھی حکومتوں کے کام کرنے کے طریقوں کا عکاس ہوتی ہے۔ نیو انڈیا کی جانب بڑھتے اور پرانے نظاموں کے بیچ کا فرق بھی اسی سے پتہ چلتا ہے ۔ ساتھیوں، میں آپ کو کچھ مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2016 میں پرواسی بھارتیہ کیندر کا افتتاح ہواتو اس وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اس کیندر کا اعلان اٹل بہاری واجپئی جی کے دور میں ہوا تھا۔ بعد میں اسے اصل شکل میں آتے آتے 12 سال لگ گئے ۔ گزشتہ سال دسمبر میں جس ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر کا افتتاح کیا گیا تھا، اسے بنانے کا فیصلہ بھی 1992 میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا سال 2015 میں، میں نے کہا،کہاں 1992 کہاں 2015،اس کا افتتاح 2017 میں ہوا۔ یعنی فیصلہ ہونے کے بعد24-23 سال لگ گئے ، صرف ایک سینٹر بننے میں ۔ ساتھیو!، اس سال مارچ میں، میں نے مرکزی اطلاعات کمیشن کی نئی عمارت کو بھی ملک کو وقف کیا تھا۔ سی آئی آئی کے لئے ایک نئی عمارت کا مطالبہ بھی 12 سال سے کیا جا رہا تھا لیکن اس کے لئے بھی کام این ڈی اے کی موجودہ سرکار نے ہی شروع کروایا اور طے شدہ مدت میں اسے پورا بھی کیا ۔ ایک اور مثال ہے علی پور روڈ میں تعمیر کر دہ امبیڈ کر قومی یادگار کا۔ دو مہینہ پہلے اس کا بھی افتتاح کیا گیا ہے ۔ اس یادگار کے لئے بھی برسوں تک چرچا ہوئی ۔اٹل جی کے دور میں کام میں تیزی بھی آئی لیکن بعد میں 12-10 سال سب ٹھپ پڑ گیا۔ دلی کی یہ چار الگ الگ عمارتیں علامت ہیں کہ جب سرکار سلوز میں کام نہیں ہوتا ، جب سارے محکمے، وزارتیں ، سلوز سے نکل کر سلوشن کے لئے ، ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لئے مل جل کر کام کرتے ہیں تو کتنا اچھا اور جلدی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ہر کام کو اٹکانے، بھٹکانے ، لٹکانے کی عادت سے ملک اب آگے نکل چکا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج اس میں پانچویں علامت جڑنے کی شروعات ہو چکی ہے۔ اس وانجیہ بھون میں ایک چھت کے نیچے ، کامرس سیکٹر کے ہر شعبہ سے سلوز کو ختم کرنے کا کام اور بہتر طریقہ سے کیا جائے گا۔ میری یہی خواہش ہے۔ ساتھیو، آج بھارت وقت کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارا آبادیاتی منافع کسی بھی ملک کے لئے حسد کا موضوع ہو سکتا ہے۔ہماری جمہوریت کو ہمارے نوجوان نئی توانائی دیتے ہیں۔ یہ نوجوان اکیسویں صدی کے بھارت کی بنیاد ہیں۔ ان کی امیدوں کی تکمیل صرف کچھ وزارتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سبھی کا اجتماعی فریضہ ہے۔ بھارت گذشتہ صدی میں صنعتی انقلاب کا فائدہ اٹھانے سے چوک گیا تھا۔ تب اس کی متعدد وجوہات تھیں لیکن اب اتنی ہی وجہیں ہیں جن کی وجہ سے بھارت اب اس صدی کے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے والوں میں سے ایک بن سکتا ہے ۔ چوتھا صنعتی انقلاب جسے فورتھ انڈسٹریل ریولوشن بھی کہتے ہیں، اس کی اصل بنیاد ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہے اور یقینی طور پر بھارت اس میں دنیا کے کئی ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ آج آپ تجارت کی وزارتوں کے جتنے بھی اہداف کو دیکھیں گے ، جتنے بھی کاموں کو دیکھیں گے تو ا�� میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترجیح ہی آپ کو نظر آئے گی۔ یہ وانجیہ بھون ہی دیکھئے ، جس زمین پر یہ عمارت بنے گی وہ پہلے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سپلائز اینڈ ڈسپوزل کے اختیار میں تھی۔100 سال سے بھی زیادہ پرانا یہ محکمہ اب بند ہو چکا ہے اور اس کی جگہ لی ہے ڈیجیٹل تکنیک پر مبنی گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس جی ای ایم نے ۔ حکومت کس طرح سے اپنی ضرورت کے سامان کی خریداری کرتی ہے اس نظام کو جی ای ایم نے پوری طرح سے بدل دیا ہے۔ آج کی تاریخ میں 117000 سے زیادہ چھوٹے بڑ ے سیلرز ،کمپنیاں اس سے جڑ چکی ہیں۔ ان سیلرز کو 5 لاکھ سے زیادہ آڈرس جی ای ایم کے توسط سے دیئے جا چکے ہیں۔ بہت کم وقت میں جی ای ایم پر 8700 کروڑ روپے کے سامان خریدے گئے ہیں۔ جس طرح جی ای ایم نے ملک کے دوسرے گوشے میں بیٹھے چھوٹے چھوٹے کاروباری اداروں کو اپنے پروڈکٹ براہ راست طور پر حکومت کو بیچنے کاموقع مہیا کرایا ہے، اس کے لئے کامرس وزارت تعریف کی مستحق ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے میں اسے ایک طویل سفر کا آغاز مانتا ہوں۔ جی ای ایم کی توسیع اور اسے کیسے بڑھایا جائے ، کیسے یہ ملک کے ایم ایس ایم ای شعبہ ، چھوٹے کاروباریوں کو انٹرنیشنل کامرس کی طرف لے جائے ، اس بارے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ آج ملک میں 40 کروڑ سے زیادہ اسمارٹ فون ، انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سستا ڈیٹا،آپ کے کاموں کو اور آسان کر رہا ہے ۔ ساتھیو، ہمارے یہاں کہا گیا ہے- کوہی بھارہ سمرتھانام ،کِم دُور بیوسائینام ۔یعنی جو شخص طاقت ور ہوتا ہے اس کے لئے کوئی چیز بھاری نہیں ہوتی ۔ اسی طرح کاروباریوں کے لئے کوئی جگہ دور نہیں ہوتی ۔ آج ٹیکنالوجی نے تجارت کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ دوری دنوں دن کم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی ملک کی تجارتی ثقافت میں جتنی بڑھے گی اتنا ہی فائدہ پہنچائے گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک سال سے بھی کم وقت میں جی ایس ٹی نے ملک میں تجارت کا طریقہ بدل دیا ہے۔ اگر ٹیکنالوجی نہیں ہوتی تو کیا یہ ممکن ہوتا ۔ نہیں ! آج جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی ملک میں بالواسطہ ٹیکس اور اس سے جڑنے والے لوگوں کی توسیع بہت تیزی سے ہو رہی ہے ۔ آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں بالواسطہ ٹیکس نظام سے جہاں صرف 60 لاکھ جڑے ہوئے تھے وہیں جی ایس ٹی کے بعد کے گیارہ مہینوں میں ہی اب تک 54 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے رجسٹریشن کے لئے درخواستیں دی ہیں اور ان میں سے 47 لاکھ سے زیادہ کا اندراج ہو چکا ہے ۔ اس طرح اندراج شدہ لوگوں کی تعداد اب ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے ۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پروسیس کو آسان کرنے پر کم از کم حکومت ، زیادہ سے زیادہ حکمرانی کی راہ پر چلنے پر نتائج بھی آتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ بھی ترقی کی اصل دھارا سے جڑنے کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔ ساتھیو! آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں حکومت نے عوام دوست ، ترقی دوست اور سرمایہ کارانہ دوست ماحول بنانے میں مسلسل کوشش کی ہے ۔ تمام عالمی چیلنجوں کے باوجود بھارت کے میکرو اکنامک انڈیکیٹرس مستحکم بنی ہوئی ہیں۔ افراط زر ہو ، مالی خسارہ ہو یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس ،ان میں پہلے کی حکومتوں کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔ بھارت آج دنیا کے معاشی نظام کو آگے بڑھانے میں اہم ترین رول ادا کر رہا ہے ۔ ابھی پچھلے ہی سہ ماہی میں ملک کی شرح ترقی نے 7.7 فیصد کے اعداد و شمار کو چھو لیا ہے ۔ پچھلے چار سالوں میں ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ آج بھارت ایف ڈی آئی کنفیڈینس انڈی��س میں ٹاپ 2 ایمرجنگ مارکیٹ پرفارمرس میں سے ایک ہے ۔ ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں 142 سے 100 نمبر پر پہنچنا ، لوجسٹکس پر فارمینس انڈیکس میں 19 پوائنٹ کی بہتری ، عالمی مسابقتی عدد اشاریہ میں درجہ بندی 71 سے بہتر ہو کر 39 پر پہنچنا ، عالمی اختراع عدد اشاریہ میں 21 پوائنٹ کا اچھال آنا یہ اسی ویژن کا نتیجہ ہے۔ آپ کو معلوم ضرور ہوگا کہ حال ہی میں بھارت میں دنیا کے سرفہرست پانچ بہترین ٹیکنالوجی ممالک میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے۔ لیکن ان مثبت اشاریوں کے ساتھ ہی آگے بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اب آگے کیا؟ ساتھیو! 7 فیصد، 8 فیصد فی شرح ترقی سے آگے بڑھ کر ہمیں ڈبل ڈیجٹ (دو ہندسوں والی) شرح ترقی حاصل کرنے ہدف پر کام کرنا ہے۔ دنیا کی نظریں آج بھارت کو اس نظریہ بھی دیکھ رہی ہے کہ بھارت کتنے سالوں پانچ ٹریلین ڈالر کے کلب میں شامل ہوتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ وزارت کامرس کو، آپ سبھی ذمے دار افسران کو ان ہداف کو ایک چیلنج کی طرح لیناچاہئے۔اقتصادی مورچے پر کی گئی ترقی سیدھے سیدھے ملک کے عام شہری کی زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس لئے آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب بھی میں کاروبار میں آسانی ، تجارت کرنے میں آسانی کی بات کرتا ہوں تو ساتھ زندگی میں آسانی کا موضوع بھی ہمیشہ اٹھاتا ہوں۔آج کی آپس میں جڑی (انٹر کنیٹڈ) دنیا میں یہ سبھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب بجلی کنکشن لینا آسان ہوتا ہے، تعمیراتی کاموں کو لے کر منظور جلد ہی مل جاتی ہے، جب صنعتوں کو کمپنیوں کو عملوں سے(پروسیس) سے الجھنا نہیں ہوتا، تو اس کا فائدہ عام آدمی تک بھی پہنچتا ہے۔اس لئے آپ لوگوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کہ اب بھی جو الگ الگ سیکٹروں میں بوٹل نیک بچے ہوئے ہیں۔ جہاں پر سیلوس میں کام ہورہا ہے، انہیں جتنا جلدی ہوسکے دور کیاجائے۔ خاص طور پر انفراسیکٹر میں جو دقتیں آتی ہیں،اعلی ٹرانزیکشن کوسٹ ہوتی ہے، مینو فیکچرنگ بڑھانے میں جو باتیں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، خدمات کا نامناسب تنوع پیدا کرتی ہے۔ انہیں روکا جانا ، سدھارا جانا بہت ضروری ہے۔ مجھے خوشی ہے ابھی حال ہی میں محکمہ کامرس نے ملک کے لوجسٹکس سیکٹر کی مربوط ترقی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ اقدامات ملک میں تجارت کے ماحول کو سدھارنے میں بہت بڑا رول نبھانے والے ہیں۔ ساتھیو! مربوط لوجسٹکس عملی منصوبہ آج وقت کی مانگ ہے اور نیو انڈیا کی ضرورت بھی ہے۔ پالیسی میں بدلاؤ کرکے جو اب پروسیجر س ہیں انہیں سدھار کر آج کی جدید تکنیک کا استعمال بڑھا کر اس ہدف کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ محکمہ کامرس اس سمت میں آن لائن پورٹل پر بھی کام کررہا ہے۔ عالمی تجارت میں بھارت کی موجودگی کو اور مضبوط کرنے کے لئے، نئی اونچائی پر پہنچانے کے لئے سبھی وزارتوں اور سبھی ریاستوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنابھی ضروری ہے۔ جس کو ہم کہتے ہیں‘‘ہول آف گورنمنٹ اپروچ’’ اسے اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک اچھا قدم ہے کہ کونسل فار ٹریڈ ڈیولپمنٹ اینڈ پروموشن ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں بین الاقوامی تجارت کو بڑھاوا دینے والا ماحول بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ بھارت کے برآمدات کو بڑھانا ہے تو ریاستوں کو سرگرم شراکت دار بن کر آگے بڑھنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاستوں میں ریاستی سطح کی برآمداتی حکمت عملی کی تشکیل کرکے، انہیں قومی تجارتی پالیسی کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے معاشی تعاون کرتے ہوئے، جتنے بھی شراکت دار ہے انہیں ساتھ لیتے ہوئے، اس سمت میں جتنی تیزی سے آگے بڑھیں گے اتنا ہی ملک کا فائدہ ہوگا۔ ساتھیو! بین الاقوامی بازار میں بھارت کی موجودگی کو بڑھانے کے لئے ہماری روایتی مصنوعات اور بازار ہیں، انہیں بنائے رکھتے ہوئے نئی مصنوعات اور نئے بازاروں پر دھیان دیا جانا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اندرون ملک بہت سی چیلنجوں کے ساتھ ہی ملک کے باہر کی صورت حال کے لئے بھی خود کو اور مضبوط کرنا ہوگا۔ جب ہم قلیل المدتی ترقیاتی فوائد اور طویل المدتی استحکام کے درمیان ایک توازن بنا کر چلیں گے تو اس کے نتیجے بھی دکھائی دیں گے۔ گزشتہ سال دسمبر میں ، میں بیرونی تجارتی پالیسی سے جڑا جووسط المدتی جائزہ کیاگیا تھا، اسے بھی میں بہت مثبت پہل مانتا ہوں۔ مراعات بڑھا کر، ایم ایس این ای شعبے کی مدد( ہینڈ ہولڈنگ) کرکےد رآمد کو بڑھانے کے لئے کی گئی ہر تبدیلی قابل تحسین ہے۔ یہ سیدھے سیدھے ملک کی روزگار ضرورتوں سے بھی منسلک ہوا ہے۔ ایک اور اہم موضوع ہے۔۔ پروڈکٹ کی کوالٹی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014 سے میں نے 15 اگست کو لال قلعہ سے زیرو ڈیفیکٹ، زیرو ایفیکٹ کی اپیل کی تھی۔ کاروبار چھوٹا ہو یا بڑا ہر مینو فیکچرر کو اس بات کے لئے ترغیب دی جانی چاہئے کہ وہ ایسی مصنوعات بنائے ،جس میں زیرو ڈیفیکٹ ہو، کوئی ہمارےدرآمداتی اشیاء کو واپس نہ بھیجیں۔ا س کے ساتھ ہی میں نے زیرو ایفیکٹ کی بات کی تھی، یعنی ہماری مصنوعات ماحولیات پر کوئی منفی اثر نہ ڈالیں۔ مصنوعات کی معیار کو لے کر یہ بیداری میک ان انڈیا کی چمک بڑھانے اور نیو انڈیا کی پہچان کو مضبوط کرنے کا کام کریں گی۔ آپ بھی جب دیکھتے ہوں گے کہ جہاں 2014 میں ہمارے ملک میں صرف دو موبائل مینو فیکچرنگ کمپنیاں تھی، وہ اب بڑھ کر 120 ہوگئی ہیں۔ بہت ہی کم قیمت پر عالمی سطح کے معیاری مصنوعات کو بہتر بنایا جارہا ہے، تو خود کو پر فخر محسوس کرتے ہوں گے۔ ساتھیو! یہ وقت عزم کرنے کا ہے، چیلنجوں کو قبول کرنے کا ہے۔ کیا محکمہ کامرس یہ عزم لے سکتا ہے کہ دنیا کی کل درآمدات میں بھارت کے تعاون کو بڑھا کر دوگنا کریں؟ ابھی کے 1.6 فیصد سے بڑھا کر کم سے کم 3.4 فیصد تک لے جائیں۔ یہ عالمی معیشت میں جی ڈی پی کے بھارت کے تعاون کے برابر ہوگا۔ اس سے ملک میں روزگار کے اور نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ہماری فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے لئے سرکار کے سبھی محکمے اور یہاں موجود ایکسپورٹ پروموشن کے سبھی اراکین کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ ایک اور عزم کیاجاسکتا ہے۔۔ امپورٹ کے تئیں۔ کیا ہم کچھ چنے ہوئے میدانوں میں برآمد پر اپنے انحصار کو کم کرسکتے ہیں؟ چاہے وہ انرجی امپورٹ ہو، الیکٹرانک گڈ س کی برآمد ہو، دفاعی مینوفیکچرنگ کا میدان ہو، یا میڈیکل مشینری کا میدان ہو۔ میک ان انڈیا کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔ گھریلو مینو فیکچرنگ کے ذریعہ برآمد میں دس فیصد کی کمی ملک میں ساڑھے تین لاکھ کروڑ کی آمدنی بڑھا سکتی ہے۔ یہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافے کو دو ہندسوں میں لے جانے میں ایک موثر اعلی کار ثابت ہوسکتا ہے۔ میں آپ کو الیکٹرانک گڈ س کی مینوفیکچرنگ کی ہی مثال دیناچاہتا ہوں۔ کیا یہ آپ سبھی لوگوں کے لئے ایک چیلنج نہیں ہے کہ ملک میں الیکٹرانک گڈ س کی کل مانگ 65 فیصد ہمیں باہر سے خریدنا پڑتی ہے۔ جیسا موبائل فون کے میدان میں ہوا ہے، ویسا ہی کیاآپ اس چیلنج کو قبو ل کرکے، ملک کو الیکٹرانک گڈ س کی مینو فیکچرنگ میں خودکفیل بنا سکتے ہیں؟ ساتھیو! آپ اس سے بھی واقف ہے کہ برآمد پر انحصار کو کم کرنے کی سم�� میں ایک بہت اہم قدم پچھلے سال اٹھایا گیا ہے۔ سرکاری خریداری(پریفرینس ٹو میک ان انڈیا)احکام کے ذریعہ حکومت کے تمام محکموں اور اداروں میں خریدی جارہی اشیاء اور خدمات کو گھریلو وسیلے سے خریدنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ اس احکام کو پوری سنجیدگی کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے آپ سبھی لوگوں کو حکومت کے سبھی اداروں کو اپنےنگراں نظام کو اس احکام کی تعمیل کے لئے پختہ کرناہوگا۔ گھریلو پیداوار کو بڑھانے کےلئے حکومت نے کئی اور اہم فیصلے بھی لئے ہیں وہ چاہے ریگولیٹری فریم ورک ہو ، ریگولیٹری فریم ورک میں آسانی پیدا کرنے کی بات ہو، سرمایہ کار دوست پالیسی ہو، بنیادی ڈھانچے اور لوجسٹکس پر زور ہو، یہ سبھی کیا جارہا ہے تاکہ ہندوستان خودکفیل بنیں،21 ویں صدی کے صنعتی انقلاب میں ایک قدم بھی پیچھے نہ رہ جائے۔ میک ان انڈیا کے ساتھ بڑھتا ہوا یہ فخروانڑجیہ بھون کابھی فخر بڑھا ئے۔ میری یہ تمنا ہے۔ ساتھیو! یہاں آنے سے پہلے ایک اور مبارک کام آپ لوگوں نے مجھ سے کرایا ہے۔ اس احاطے میں مولسری یا بکل کے پودے کو لگانے کا اعزاز مجھے ملا ہے۔مولسری بہت قدیم بہت قدر ہے، یہ بہت سی ادویاتی خوبیوں سے بھرپور ہے اور اس کا درخت سالوں سال سایہ دیتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ بھی یہاں تقریباً ہزار پیڑ اور لگائے جانے کا منصوبہ ہے۔ نئے بننے والے وانڑجیہ بھون کا، فطرت کے ساتھ یہ تال میل ، اس میں کام کرنے والوں لوگوں کو بھی چاق وچوبند رکھے گا، انہیں راحت دے گا۔ ماحولیات کے لئے مناسب لیکن جدید تکنیک لیس ماحولیات میں آپ سبھی نیو انڈیا کے لئے بہترین کارکردگی دیں گے، بہترین کوشش کریں گے، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو وانجیہ بھون کی تعمیر کا کام شروع ہونے پر بہت بہت مبارک باد۔ شکریہ 3247o.,নতুন দিল্লীত বাণিজ্য ভৱনৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF%DB%81-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بالی میں منعقدہ جی-20 سربراہ ملاقات کے شانہ بہ شانہ اٹلی کی وزیر اعظم عزت مآب محترمہ جورجا ملونی سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے وزیر اعظم محترمہ ملونی کو اٹلی کی اولین خاتون وزیر اعظم منتخب کیے جانے پر مبارکباد پیش کی۔ دونوں قائدین نے کاروبار اور سرمایہ کاری، دہشت گردی کے خلاف کاروائی اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کو عمیق بنانے پر تبادلہ خیالات کیے۔ دونوں قائدین نے باہمی مفادات سے وابستہ علاقائی اور عالمی مسائل پر نظریات کا باہم تبادلہ بھی کیا۔ وزیر اعظم مودی بھارت-اٹلی کے درمیان استوار سفارتی تعلقات کے 75 برسوں کا جشن منانے اور آئندہ برس بھارت میں منعقد ہونے والے جی-20 سربراہ اجلاس کے لیے وزیر اعظم ملونی کا بھارت میں خیرمقدم کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔,বালিত অনুষ্ঠিত জি-২০ সন্মিলনৰ মাজতে ইটালীৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-ii-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%8F%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AB%E0%A6%B2-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئیدہلی12 اپریل ۔وزیراعظم نریندر مودی نے آر این ایس ایس II کو کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیجے جانے پر انڈین اسپیس ریسرچ آر گنائزیشن (آئی ایس آر او ) کےسائنسدانوں کو مبارکباددی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی مبارکباد کے پیغام میں کہا کہ نیوی گیشن سیٹلائٹ آئی آر این ایس ایس II کو کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیجے جانے کے لئے سائنسدانوں کو مبارکباد ! یہ کامیابی ہمارے خلائی پروگرام کے فوائد عام آدمی کو دستیاب کرائے گی۔ ہمیں اسرو کی ٹیم پر فخر ہے ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,আইআৰএনএছএছ-২ৰ সফল উৎক্ষেপণৰ বাবে ইছৰোৰ বিজ্ঞানীসকলক প্রধানমন্ত্রীৰ অভিনন্দন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%9C%E0%A6%B2-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AA%E0%A6%BE/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پانی کے عالمی دن کے موقع پر لوگوں سے پانی کے ہر ایک قطرے کو بچانے کا عہد کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ان تمام افراد اور تنظیموں کی بھی ستائش کی جو پانی کی بچت اور تحفظ کے لئے کام کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا؛ ""گزشتہ چند برسوں کے دوران، ملک کے تمام حصوں میں پانی کے تحفظ کے تئیں جس طرح کی کوششیں کی گئی ہیں اور اسے عوامی تحریک بنا دیا گیا ہے یہ کافی خوش کن ہے اور اس کے لئے نئی نئی اختراعی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ میں ان تمام افراد اور تنظیموں کی تعریف کرتا ہوں جو پانی کو بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔"" ""अद्भिः सर्वाणि भूतानि जीवन्ति प्रभवन्ति च।। پانی کے عالمی دن کے موقع پر، ہمیں اس عہد کا ایک بارپھر اعادہ کرنا ہے کہ ہم پانی کے ہر قطرے کو بچائیں گے۔ یہ ملک اپنے شہریوں کے لئے پینے کے لائق پانی کے ہر ہر قطرے کے تحفظ کے تئیں پابندعہد ہے اور اس کے لئے کئی ناقابل فراموش اور بے مثال اقدامات کئے جارہے ہیں جیسے ’ جل جیون مشن ‘ جس کے ذریعہ پورے ملک میں پانی کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ ’’ ماؤں اور بہنوں کی زندگیوں کو آسان بنانے میں جل جیون مشن کافی موثر ثابت ہوررہا ہے۔ ہرہر فرد کی حصہ داری اور شراکت داری کے ذریعہ سے گھر-گھر نل سے پانی پہنچانے کا عہد پورا ہوگا‘‘۔ ""آئیں! ہم سب مل کر، پانی کے تحفظ کے لیے اپنے عہد پر مزید کاربند ہوجائیں تاکہ اپنے اس سیارے (زمین)کو مزید رہنے بسنے کے قابل بنائیں۔پانی کا ہر قطرہ (جسے ہم بچائیں گے)ہمارے لوگوں کی مدد کرےگا اور ہماری ترقی کو مہمیز دےگا ۔""",বিশ্ব জল দিৱসত প্ৰতিটোপাল পানী সংৰক্ষণৰ বাবে প্ৰতিশ্ৰুতিবদ্ধ হ’বলৈ জনসাধাৰণৰ প্ৰতি আহ্বান প্রধানমন্ত্রী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%D8%B3%D9%88%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%D9%86-%D8%AC%DB%92-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A7%8B%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 24 مئی 2022 کو جاپان کے ٹوکیو میں سابق جاپانی وزرائے اعظم یوشیرو موری اور شنزو آبے سے ملاقات کی۔ یوشیرو موری جاپان-انڈیا ایسوسی ایشن (جے آئی اے) کے موجودہ چیئرپرسن ہیں جبکہ شنزو آبے جلد ہی یہ ذمہ داری سنبھالیں گے۔ جے آئی اے، جس کا قیام 1903 میں ہوا تھا، جاپان کی قدیم ترین دوست داری انجمنوں میں سے ایک ہے۔ وزیر اعظم نے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں ہندوستان اور جاپان کے درمیان تبادلوں کو فروغ دینے میں یوشیرو موری کی قیادت میں جے آئی اے کی طرف سے کیے گئے اہم تعاون کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے شنزو آبے کو ان کی نئی ذمہ داریوں پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اور جے آئی اے کے اپنے اہم کردار کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔ رہنماؤں نے ہندوستان-جاپان خصوصی اسٹریٹجک اور عالمی شراکت داری کے وسیع کینوس کے ساتھ ساتھ ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال ہند-بحر الکاہل کے لیے ہندوستان اور جاپان کے مشترکہ وژن پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ثقافتی اور عوام کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ دینے کے طریقوں پر بھی بات چیت کی گئی۔,‘জাপান-ইণ্ডিয়া এছোচিয়েশ্যন’(জিআইএ)ৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-6-%D8%A7%D9%88%D8%B1-7-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AC-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A7%AD-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 6 اور 7 جنوری 2023 کو دہلی میں چیف سکریٹریوں کی دوسری قومی کانفرنس کی صدارت کریں گے۔ یہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان شراکت داری کو مزید فروغ دینے کی طرف ایک اور اہم قدم ہوگا۔ چیف سکریٹریوں کی اس طرح کی پہلی کانفرنس جون 2022 میں دھرم شالہ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس سال چیف سکریٹریوں کی قومی کانفرنس دہلی میں 5 سے 7 جنوری 2023 تک منعقد ہوگی۔ تین روزہ کانفرنس میں ریاستوں کے ساتھ شراکت داری میں تیز رفتار اور پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس میں مرکزی حکومت کے نمائندوں، تمام ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریوں اور دیگر سینئر عہدیداروں اور ڈومین کے ماہرین پر مشتمل 200 سے زائد افراد شرکت کریں گے۔ یہ کانفرنس ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور شمولیت والے انسانی فروغ پر زور دینے کے ساتھ ساتھ ایک وکست بھارت کا مقصد حاسل کرنے کے لیے باہمی تعاون کے لئے بنیاد تیار کرے گی۔ نوڈل وزارتوں، نیتی آیوگ، ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور ڈومین کے ماہرین کے درمیان گزشتہ تین ماہ کے دوران 150 سے زیادہ فزیکل اور ورچوئل مشاورتی میٹنگوں میں وسیع غور و خوض کے بعد کانفرنس کے ایجنڈے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کانفرنس کے دوران بحث چھ شناخت شدہ موضوعات پر ہو گی۔ ان میں (i) ایم ایس ایم ایز پر زور؛ (ii) انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری؛ (iii) کم سے کم تعمیل؛ (iv) خواتین کو بااختیار بنانا (v) صحت اور غذائیت؛ (vi) مہارت کی ترقی شامل ہیں۔ تین خصوصی سیشنز بھی منعقد کیے جائیں گے جن میں ، (i) وکست بھارت ؛ (ii) اشیا اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی ) کے پانچ سال– اسباق اور تجربات؛ اور (iii) عالمی جغرافیائی سیاسی چیلنجز اور ہندوستان کا ردعمل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، چار موضوعات پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جن میں (i) ووکل فار لوکل؛ (ii) ملیٹس کا بین الاقوامی سال؛ (iii) جی 20: ریاستوں کا رول اور (iv) ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ کانفرنس میں ہر ایک تھیم کے تحت ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے بہترین طور طریقوں کو بھی پیش کیا جائے گا تاکہ ریاستیں ایک دوسرے سے سیکھ سکیں۔ وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق، مرکزی کانفرنس سے پہلے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ تین ورچوئل کانفرنسیں بھی منعقد کی گئی تھیں جن کے موضوعات میں (i) ترقی کی بنیاد کے طور پر اضلاع (ii) سرکلر اکانومی؛ (iii) ماڈل مرکز کے زیر انتظام علاقے شامل ہیں۔ ان ورچوئل کانفرنسوں کے نتائج چیف سیکرٹریز کی قومی کانفرنس میں پیش کیے جائیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,৬ আৰু ৭ জানুৱাৰীত দিল্লীত মুখ্য সচিবসকলৰ দ্বিতীয় ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনত অধ্যক্ষতা কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D9%BE%D8%AF%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%88%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%81%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج پدم ایوارڈس عطا کئے جانے کی تقریب میں شرکت کی ۔ یہ ایوارڈس زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیتوں کو عطا کئے گئے۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ‘‘میں نے پدم ایوارڈس تقریب میں شرکت کی ،جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیتوں کو پدم ایوارڈس عطا کئے گئے ۔ ہمیں معاشرے کے تئیں ان کی حصولیابیوں اورتعاون پر زبردست فخر ہے۔’’,পদ্ম বঁটা প্ৰদান অনুষ্ঠানত অংশ গ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%86%D8%A4-%D8%B1%DB%8C%DB%81%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%AD%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دلّی ، 19 مارچ؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نؤریہہ کے موقع پر عوام کو مبارک باد پیش کی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’ نؤ ریہہ مبارک ! نئے سا ل کی شروعات کے موقع پر میری دعا ہے کہ ہر ایک کی زندگی خوشیوں سے بھر پور ہو ۔ ہر ہندوستانی کشمیری پنڈت برادری کے مالا مال کلچر پر بہت زیادہ فخر کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,নভৰে উপলক্ষে দেশবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D9%84-%D8%A2%D9%81-%D8%A8%D8%B2%D9%86%D8%B3%D8%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%92-20-%D8%A8%D8%B1%D8%B3-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE/,تلنگانہ کی گورنر محترمہ تملسائی سوندر راجن جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی شری جی کرشن ریڈی جی، حکومت تلنگانہ کے وزیر، انڈین اسکول آف بزنس اگزیکیوٹیو بورڈ کے چیئرمین، ڈین، دیگر پروفیسر حضرات، اساتذہ، والدین اور میرے نوجوان ساتھیو! آج انڈین اسکول آف بزنس نے اپنے قابل افتخار سفر کا ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ہم سبھی آئی ایس بی کے قیام کے 20 برس مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ آج متعدد ساتھیوں کو اپنی ڈگری حاصل ہوئی ہے، طلائی تمغات حاصل ہوئے ہیں۔ آئی ایس بی کو کامیابی کے اس مقام پر پہنچانے میں متعدد لوگوں کی تپسیا شامل رہی ہے۔ آج میں ان تمام افراد کو یاد کرتے ہوئے آپ سبھی کو، آئی ایس بی کے پروفیسر حضرات کو، فیکلٹی، تمام اساتذہ کو، والدین کو، آئی ایس بی کے سابق طلبا کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، سال 2001 میں اٹل جی نے اسے ملک کے لیے وقف کیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک تقریباً 50 ہزار اگزیکیوٹیو حضرات یہاں سے تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ آج آئی ایس بی ایشیا کے سرکردہ بزنس اسکولوں میں سے ایک ہے۔ آئی ایس بی سے نکلنے والے جو پیشہ واران ہیں۔ وہ ملک کے کاروبار کو رفتار عطا کر رہے ہیں، بڑی بڑی کمپنیوں کا مینجمنٹ سنبھال رہے ہیں۔ یہاں طلبا نے متعدد اسٹارٹ اپس قائم کیے ہیں، متعدد یونیکارنوں کی تعمیر میں ان کا کردار رہا ہے۔ یہ آئی ایس بی کے لیے حصولیابی تو ہے ہی پورے ملک کے لیے بھی باعث فخر ہے۔ ساتھیو، مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ حیدرآباد اور موہالی کیپمس کی پہلی مشترکہ گریجویشن تقریب ہے۔ آج جو طلبا پاس ہوکر نکل رہے ہیں، ان کے لیے یہ اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ اس وقت ملک اپنی آزادی کے 75 برس کا جشن منا رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ہم گذشتہ 75 برسوں کی حصولیابیوں کو دیکھ رہے ہیں اور آنے والے 25 برسوں کے عزائم کا منصوبہ بھی وضع کر رہے ہیں۔ آزادی کے اس امرت کال میں، آئندہ 25 برسوں کے لیے جو عزم ہم نے لیا ہے، اس کی حصولیابی میں آپ سبھی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اور آج بھارت میں جو امید ہے، لوگوں میں جو خوداعتمادی ہے، نئے بھارت کی تعمیر کے لیے جو قوت ارادی ہے، وہ آپ کے لیے بھی متعدد امکانات کے دروازے کھول رہی ہے۔ آپ خود دیکھئے، آج بھارت جی20 ممالک کے گروپ میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اسمارٹ فون ڈاٹا کنزیومر کے معاملے میں بھارت سرفہرست ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد کو دیکھیں تو بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عالمی خوردہ عدد اشاریہ میں بھی بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکونظام بھارت میں ہے۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی صارف منڈی بھارت میں ہے۔ ایسی کئی چیزیں میں آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ کورونا جیسے عالمی وبائی مرض میں ہم سب نے اور دنیا نے بھارت کی طاقت دیکھی ہے۔ صدی کی اس سب سے بڑی آفت میں عالمی سپلائی چینوں میں اتنا بڑا خلل پیدا ہوا، پھر جنگ نے بھی اس بحران میں مزید اضافہ کر دیا۔ ان سب کے درمیان بھی، بھارت آج نمو کے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ گذشتہ برس بھارت میں اب تک کی سب سے زیادہ، ریکارڈ ایف ڈی آئی آمد عمل میں آئی۔ آج دنیا یہ محسوس کر رہی ہے کہ بھارت ترقی کے لیے پابند عہد ہے۔ اور یہ صرف تنہا حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوا ہے۔ اس میں آئی ایس بی جیسے بزنس اسکولوں کا، یہاں سے نکلنے والے پیشہ واران کا، ملک کے نوجوانوں کا بھی بہت بڑا تعاون ہے۔ خواہ اسٹارٹ اپس ہوں، یا روایتی کاروبار ہوں، خواہ مینوفیکچرنگ ہو یا خدمات کا شعبہ ہو، ہمارے نوجوان یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کر سکتے ہیں۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں نہ، آپ کو بھروسہ ہے کہ نہیں اپنے آپ پر۔ مجھے آپ پر بھروسہ ہے۔ آپ کو اپنے آپ پر ہے؟ ساتھیو، اسی لیے آج دنیا بھارت کو، بھارت کے نوجوانوں کو، اور بھارت کی مصنوعات کو ایک نئے احترام اور نئے اعتماد کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ ساتھیو، بھارت جس پیمانے پر جمہوری طریقہ سے متعدد چیزیں اپنے یہاں کر سکتا ہے، جس طریقہ سے ہم یہاں کوئی پالیسی یا فیصلہ نافذ کر سکتے ہیں، وہ پوری دنیا کے لیے مطالعہ یا سیکھنے کا موضوع بن جاتا ہے۔ اور اس لیے ہم اکثر و بیشتر بھارتی حل کو عالمی سطح پر نافذ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور اس لیے میں آج اس اہم دن کے موقع پر آپ سے کہوں گا کہ آپ اپنے انفرادی اہداف کو، ملک کے اہداف کے ساتھ مربوط کیجئے۔ آپ جو سیکھتے ہیں، آپ جو بھی پہل قدمیاں انجام دیتے ہیں، اس سے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوگا، اس بارے میں ہمیشہ سوچنا چاہئے، ضرور سوچئے۔ آج ملک میں خواہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مہم ہو، ڈیڑھ ہزار سے زیادہ پرانے قوانین اور ہزاروں تعمیلات کو ختم کرنے کا کام ہو، ٹیکس سے متعلق دیگر قوانین کو ختم کرکے جی ایس ٹی جیسے شفاف نظام کا قیام ہو، صنعت کاروں اور جدت طرازی کو فروغ دینا ہو، نئی اسٹارٹ اپ پالیسی ہو، ڈرون پالیسی ہو، دیگر نئے شعبوں کو کھولنا ہو، 21ویں صدی کی ضروریات کو پورا کرنے والی قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنا ہو، یہ ساری بڑی تبدیلیاں آپ جیسے نوجوانوں کے لیے ہی تو ہو رہی ہیں۔ آپ جیسے نوجوانوں کی جانب سے موصول ہونے والے جو حل ہیں، ان حلوں کو نافذ کرنے کے لیے آپ کے خیالات کو ملک کی طاقت بنانے کے لیے ہماری حکومت ہمیشہ ملک کی نوجوان طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ساتھیو، آپ نے سنا ہوگا کئی مرتبہ میں ایک بات کو بار بار دوہراتا بھی ہوں اور اکثر و بیشتر میں ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم، کی بات کرتا ہوں۔ یہ منتر ، ملک میں آج جو حکمرانی ہے، اس کی وضاحت کرتا ہے۔یہ آپ جیسے مینجمنٹ کے طلبا، پیشہ واران کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ میں یہ ساری باتیں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ آپ لوگ یہاں سے نکلنے کے بعد بہت سارے پالیسی فیصلے لینے والے ہیں۔ پالیسی صرف ڈرائنگ بورڈ پر اچھی ہو، کاغذ پر بہتر ہو، زمین پر اگرنتیجہ نہ دے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے پالیسی کا تجزیہ، نفاذ اور حتمی نتیجے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کے منتر نے کیسے پالیسیوں کی ، ملک کی حکمرانی کی ازسر نو وضاحت کی ہے، یہ بھی میں چاہوں گا کہ آپ جیسے نوجوانوں کے لیے جاننا بہت ضروری ہے۔ ساتھیو، گذشتہ 8 برسوں کا موازنہ اگر آپ اس سے پہلے کی تین دہائیوں سے کریں گے تو، ایک بات پر ضرور غور کریں گے۔ ہمارے ملک میں اصلاحات کی ضرورت تو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی تھی لیکن سیاسی قوت ارادی میں ہمیشہ کمی رہتی تھی۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران مسلسل قائم رہے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک نے طویل عرصے تک سیاسی قوت ارادی کی کمی ملاحظہ کی۔ اس وجہ سے ملک اصلاحات سے، بڑے فیصلے لینے سے دور ہی رہا ہے۔ 2014 کے بعد سے ہمارا ملک سیاسی قوت ارادی کو بھی دیکھ رہا ہے اور مسلسل اصلاحات بھی متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ ہم نے دکھایا ہے کہ اگر ایمانداری کے ساتھ، قوت ارادی کے ساتھ اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تو عوامی حمایت میں اپنے آپ اضافہ ہوتا ہے۔ فن ٹیک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس ملک میں کبھی بینکنگ کو ہی ایک خصوصی حق تسلیم کیا جاتا تھا، اس ملک میں فن ٹیک عوام الناس کی زندگی میں تبدیلی برپا کر رہی ہے۔ جہاں کبھی بینکوں کے تئیں بھروسہ قائم کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی تھی، وہاں اب دنیا کا 40 فیصد ڈجیٹل لین دین عمل میں آرہا ہے۔ ہمارے صحتی شعبہ کو بھی یہ مانا جاتا تھا کہ یہ کسی بڑی چنوتی کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ لیکن صحتی شعبہ میں اصلاحات کا اور ملک کی قوت ارادی کا نتیجہ ہم نے 100برسوں کے سب سے بڑے وبائی مرض کے دوران دیکھا ہے۔ کورونا نے جب دستک دی تب ہمارے پاس پی پی ای کٹس بنانے والے مینوفیکچرر بہت ہی کم یعنی نہ کے برابر تھے، کورونا کے لیے مخصوص بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے 1100 سے زائد پی پی ای مینوفیکچررس کا نیٹ ورک بھارت میں تیار ہوگیا۔ کورونا کی جانچ کے لیے بھی شروعات میں کچھ درجن ہی تجربہ گاہیں تھیں۔ بہت کم وقت میں ملک میں ڈھائی ہزار سے زائد تجربہ گاہوں کا نیٹ ورک تیار ہوگیا۔ کووِڈٹیکوں کے لیے تو ہمارے یہاں یہ فکر لاحق تھی کہ ہمیں غیر ملکی ٹیکہ مل پائے گا بھی یا نہیں۔ لیکن ہم نے اپنے ٹیکے تیار کیے۔ اتنے ٹیکے بنائے کہ بھارت میں بھی 190 کروڑ سے زائد خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔ بھارت نے دنیا کے 100 سے زائد ممالک کو بھی ٹیکے ارسال کیے ہیں ۔ اسی طرح طبی تعلیم میں بھی ہم نے یکے بعد دیگرے متعدد اصلاحات متعارف کرائیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ 8 برسوں میں طبی کالجوں کی تعداد 380 سے بڑھ کر 600 سے بھی زائد ہوگئی ہے۔ ملک میں میڈیکل کی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سیٹیں 90 ہزار سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہو چکی ہیں۔ ساتھیو، گذشتہ آٹھ برسوں میں ملک نے جو قوت ارادی کا ثبوت پیش کیا ہے، اس کی وجہ سے ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔اب نوکر شاہی بھی پوری قوت سے اصلاحات کو زمین پر اتارنے میں مصروف عمل ہے۔ نظام وہی ہے، لیکن اب بہت ہی تسلی بخش نتائج سامنے آر ہے ہیں۔ اور ان آٹھ برسوں میں جو سب سے بڑی ترغیب ہے، وہ ہے عوامی شراکت داری۔ ملک کی عوام خود آگے بڑھ کر اصلاحات کو مہمیز کر رہی ہے۔ اور ہم نے یہ سووَچھ بھارت مہم کے دوران بھی دیکھا ہے۔ اور اب ووکل فار لوکل اور آتم نربھر بھارت مہم میں بھی ہم عوامی شراکت داری کی طاقت ملاحظہ کر رہے ہیں۔ جب عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو نتائج ضرور سامنے آتے ہیں، جلد سامنے آتے ہیں۔ یعنی سرکاری نظام میں سرکار اصلاحات متعارف کراتی ہے، نوکرشاہی عمل درآمد کرتی ہے اور عوام کے تعاون سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ساتھیو، یہ آپ کے لیے تفصیلی مطالعہ کا ایک بہت بڑا موضوع ہے، ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کی یہ جو قوت ہے، وہ آپ کے لیے تحقیق کا موضوع ہے۔ آئی ایس بی جیسے بڑے ادارے کو مطالعہ کرکے، تجزیہ کرکے دنیا کے سامنے اسے لانا چاہئے۔ یہاں سے جو نوجوان ساتھی پڑھ کر نکل رہے ہیں، انہیں بھی ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم کے اس منتر کو ہر شعبہ میں نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ساتھیو، میں آپ کی توجہ، ملک کے کھیل کود کے ایکو نظام میں رونما ہوئی تبدیلی کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ 2014 کے بعد ہمیں کھیل کے میدان میں غیر معمولی مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ہمارے ایتھلیٹوں کی خوداعتمادی۔ خوداعتمادی تب آتی ہے، جب صحیح ٹیلنٹ کی تلاش ہوتی ہے، جب ٹیلنٹ کی مدد کی جاتی ہے، جب ایک شفاف انتخاب ہوتا ہے، تربیت کا، مقابلہ کا ایک بہتر بنیادی ڈھانچہ حاصل ہوتا ہے۔ کھیلو انڈیا سے لے کر اولمپکس پوڈیم اسکیم تک ایسی متعدداصلاحات کے چلتے آج کھیل کود کو تغیر سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں۔ ساتھیو، مینجمنٹ کی دنیا میں کارکردگی،قدروقیمت میں اضافہ، پیداواریت، ترغیب، ان موضوعات پر بہت باتیں ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو عوامی پالیسی میں اس کی اعلیٰ مثال دیکھنی ہے، تو آپ کو توقعاتی اضلاع پروگرام کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ ہمارے ملک میں 100 سے زائد ایسے اضلاع تھے، جو ترقی کی دوڑ میں کاف�� پیچھے تھے۔ ملک کی تقریباً تمام ریاستوں میں ایک یا دو، یا کہیں پر زیادہ توقعاتی اضلاع ہیں۔ ترقی سے وابستہ ہر پیمانے میں یہ اضلاع بہت کم ترقی کرتے تھے۔ اس کا براہِ راست اثر ملک کی مجموعی کارکردگی پر مرتب ہوتا تھا۔ ان کو یہ سمجھ کر ، کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے، تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے، حالات خراب ہیں، اور اس لیے حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ ان کو پسماندہ قرار دے دیتی تھیں۔ یہ تو پسماندہ ضلع ہے، اگر یہی سوچ ہے تو ان کے من میں بھی یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ ایسے ہی رہے گا، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سرکاری نظام میں جن افسران کو سب سے کم پروڈکٹیو خیال کیا جاتا تھا، نکما مانا جاتا تھا، ان کو اکثر ان اضلاع میں تعینات کردینا کہ، جاؤ بھائی تم تمہارا جانو، تمہارا نصیب جانے، پڑے رہو۔ لیکن ساتھیو، ہم نے سوچ بدلی۔ جسے کل تک پسماندہ ضلع کہتے تھے۔ ہم نے کہا یہ پسماندہ نہیں ہے، یہ توقعاتی ضلع ہے۔ ہم نے ان کو توقعاتی ضلع قرار دیا، اور ہم نے طے کیا کہ ہم ان اضلاع میں ترقی کی امنگیں جگائیں گے، ایک نئی بھوک جگائیں گے۔ ملک کے اہل، نوجوان افسران کو نشان زد کرکے ان اضلاع میں بھیجا گیا۔ ان اضلاع میں ہونے والے ہر کام کی خصوصی طور پر نگرانی کی گئی، ڈسیک بورڈ پر رئیل ٹائم مانٹرنگ کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ جہاں جہاں کمیاں نظر آتی تھیں، ان کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ساتھیوں آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ آج حالت یہ ہے کہ ان میں سے کئی اضلاع آج ملک کے دوسرے بہتر سمجھے جانے والے اضلاع سے کہیں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جنہیں کبھی پسماندہ اضلاع کہتے تھے، ملک کے ترقی کے پیمانے کو متاثر کرتے تھے، وہ آج توقعاتی اضلاع بن کر ملک کی ترقی کو رفتار فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم نے ریاستوں سے کہا ہے کہ اس نقطہ نظر کو مزید وسعت دیں۔ ہر ضلع میں ایسے بلاکس ہوتے ہیں جو ترقی کے معاملے میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے بلاکس کی نشاندہی کرکے توقعاتی بلاکس مہم کو اب آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ملک میں ہو رہی یہ تبدیلی، ان کی جانکاری، آپ کو پالیسی فیصلوں میں، مینجمنٹ میں بہت مدد فراہم کرے گی۔ ساتھیو، آپ کے لیے یہ سب جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ آج ملک میں ’کاروبار‘ کے معنی بھی بدل رہے ہیں اور ’کاروبار‘ کا دائرہ بھی وسیع ہو رہا ہے۔ آج بھارت میں اقتصادی پیش منظر، چھوٹے، متوسط، جھونپڑی، اور یہاں تک کہ غیر رسمی صنعتوں تک پھیل رہا ہے۔ یہ کاروبار لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی طاقت بہت زیادہ ہے، ان میں آگے بڑھنے کے لیے عہدبستگی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے آج جب ملک اقتصادی ترقی کے نئے باب رقم کر رہا ہے تو ہمیں ایک اور بات یاد رکھنی ہوگی۔ ہمیں چھوٹے کاروباریوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھنا ہوگا۔ ہمیں انہیں زیادہ بڑے پلیٹ فارم فراہم کرنے ہوں گے، ترقی کے لیے زیادہ بہتر مواقع فراہم کرنے ہوں گے۔ ہمیں انہیں اندرونِ ملک اور غیر ممالک میں نئے نئے بازاروں سے مربوط کرنے میں مدد فراہم کرنی ہوگی۔ہمیں انہیں زیادہ سے زیادہ تکنالوجی سے جوڑنا ہوگا۔ اور یہیں آئی ایس بی جیسے ادارے، آئی ایس بی کے طلباء کا کردار ازحد اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ مستقبل کے بزنس لیڈر کے طور پر آپ سبھی کو ہر بزنس کو مزید بڑا کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا، ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی۔ اور آپ دیکھئے گا، آپ چھوٹے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد کریں گے تو آپ لاکھوں صنعتوں کے قیام میں مدد کریں گے، کروڑوں کنبوں ��ی مدد کریں گے۔ بھارت کو مستقبل کے لیے تیار کرنے میں ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت آتم نربھر بنے۔ اور اس میں آپ جیسے کاروباری پیشہ واران کا بھی ازحد اہم کردار ہے۔ اور یہ آپ کے لیے ایک طرح سے ملک کی خدمت کی ایک مثال ہوگی۔ ساتھیو، ملک کے لیے کچھ کرنے کا، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا آپ کا جذبہ، ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گا۔ مجھے آئی ایس بی پر، آئی ایس بی کے طلبا پر، آپ تمام نوجوانوں پر بہت بھروسہ ہے، بہت اعتماد ہے۔ آپ ایک مقصد کے ساتھ اس مقتدر ادارے سے باہر نکلیں۔ آپ اپنے اہداف کو قوم کے پختہ عزائم کے ساتھ مربوط کیجئے۔ ہم جو کچھ بھی کریں گے، اس سے ایک قوم کے طور پر ہم بااختیار بنیں گے، اس عہدبستگی کے ساتھ جب آپ کوئی بھی کوشش کریں گے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ایک مرتبہ پھر آج جن جن ساتھیوں کو مجھے میڈل دینے کا موقع حاصل ہوا ہے اور جن حضرات نے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کو ان کے کنبہ اراکین کو بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اور آئی ایس بی بھارت کے ترقی کے سفر میں ایسی پیڑھیوں کو تیار کرتا رہے، ایسی پیڑھیاں قوم کے لیے وقف ہونے کے احساس سے کام کرتی رہیں، اسی ایک امید کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!,হাইদৰাবাদস্থিত ‘ইণ্ডিয়ান স্কুল অব বিজনেছ’ৰ ২০ বৰ্ষপূৰ্তি সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D9%84%DA%A9%D8%A7%D8%AC%DB%8C%D8%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%AA%D8%B9%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%B4%D8%AF%DB%81-%D8%A7%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%95%E0%A7%88/,پروگرام میں موجود کابینہ میں میرے ساتھی جناب ہردیپ سنگھ پوری جی، وزیر مملکت جناب کوشل کشور جی، میناکشی لیکھی جی، دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب ونے کمار سکسینہ جی، دہلی کے تمام معزز اراکین پارلیمنٹ، دیگر تمام معززین اور جوش و جذبے سے پُر تمام استفادہ کنندگان۔ بھائیو اور بہنو! وگیان بھون میں پروگرام تو بہت ہوتے ہیں۔ کوٹ، پینٹ، ٹائی والے بھی بہت لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن آج جس طرح یہاں سب ہمارے خاندان کے لوگ نظر آرہے ہیں ، ان کا جو جوش و جذبہ نظر آرہا ہے۔ وہ واقعی وگیان بھون بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج دہلی کے سینکڑوں خاندانوں کے لیے، ہزاروں غریب ہمارے بھائی بہنوں کے لیے یہ بہت بڑا دن ہے۔ برسوں سے جو خاندان دہلی کی جھگیوں میں رہ رہے تھے، آج ان کے لیے ایک طرح سے زندگی کی نئی شروعات ہونے جارہی ہے۔ دہلی کے غریب خاندانوں کو پکا گھر دینے کی جو مہم شروع ہوئی ہے وہ یہاں کے ہزاروں غریب خاندانوں کا خوابوں پورا کرے گی۔ آج یہاں سینکڑوں استفادہ کنندگان کو ان کے گھر کی چابی ملی ہے اور مجھے جن چار پانچ خاندانوں سے ملنے کا موقع ملا، میں دیکھ رہا تھا، ان کے چہرے پر جو خوشی ، جو اطمینان اور وہ اپنے کسی نہ کسی جذبے کا اظہار کرتے تھے، وہ اندر کی جو خوشی تھی وہ ظاہر ہورہی تھی، ایک اطمینان ان کے چہرے پر مہک رہا تھا۔ اکیلے کالکاجیایکسٹینشن فرسٹ فیز میں ہی 3000 سے زیادہ گھر بناکر تیار کرلئے گئےہیں اور بہت ہی جلد یہاں رہنے والے دوسرے خاندانوں کو بھی ’ گریہہ پرویش‘ کا موقع ملے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں حکومت ہند کےذریعہ کی جانے والی یہ کوشش دہلی کو ایک آئیڈیل شہر بنانے میں بڑا رول ادا کرے گی۔ ساتھیو، دہلی جیسے بڑے شہروں میں ہم جو ترقی دیکھتے ہیں، بڑے خواب اور بلندیاں دیکھتے ہیں، ان کی بنیاد میں میرے ان غریب بھائی بہنوں کی محنت ہے، ان کا پسینہ ہے، ان کی مشقت ہے لیکن بد قسمتی دیکھئے، سچائی یہ بھی کہ شہروں کی ترقی میں جن غریبوں کا خون پسینہ لگتا ہے، وہ اسی شہر میں بدحالی کی زندگی جینے کے لئے مجبور ہوتے رہےہیں۔ جب تعمیر کا کام کرنے والا ہی پیچھے رہ جاتا ہے، تو تعمیر بھی ادھوری ہی رہ جاتی ہے اور اسی لئے گزشتہ سات دہائیوں میں ہمارے شہر کلی ترقی سے متوازن ترقی سے، جامع ترقی سے محروم رہ گئے۔ جس شہر میں ایک طرف اونچی اونچی شاندار عمارتیں اور چمک دمک ہوتی ہے، اسی کی بغل میں جھگی جھونپڑیوں میں بدحالی نظر آتی ہے۔ ایک طرف شہر میں کچھ علاقوں کو پوش کہا جاتا ہے، تو دوسری طرف کئی علاقوں میں لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کےلئے ترستے رہے ہیں۔ جب ایک ایک ہی شہر میں اتنی نابرابری ہو، اتنا بھید بھاؤ ہو، تو کلی ترقی کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے۔آزادی کے امرت کال میں ہمیں اس کھائی کو پاٹنا ہی ہوگا اور اس لئے ہی آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشوا س اور سب کا پریاس‘ اس منتر پر چل کر سب کو اوپر اٹھانے کے لئے کوشش کررہا ہے۔ ساتھیو، کئی دہائیوں تک ملک میں جو نظام رہا، اس میں یہ سوچ بن گئی تھی کہ غریبی صرف غریب کاہی مسئلہ ہے۔ لیکن آج ملک میں جو حکومت ہے، وہ غریب کی حکومت ہے۔ اس لئے وہ غریب کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتی اور اس لئے آج ملک کی پالیسیوں کے مرکز میں غریب ہے۔ آج ملک کے فیصلوں کے مرکز میں غریب ہے۔خاص طور پر شہر میں رہنے والے غریب بھائی بہنوں پر بھی ہماری حکومت اتنی ہی توجہ دے رہی ہے۔ ساتھیو، کوئی بھی یہ جان کر حیران رہ جائے گاکہ یہاں دہلی میں ہی 50 لاکھ سے زیادہ لوگ ایسے تھے، جن کے پاس بینک کھاتہ تک نہیں تھا۔یہ لوگ بھارت کے بینکنگ نظام سے نہیں جڑے تھے۔ بینکوں سے ملنے والے ہر فائدے سےمحروم تھے۔ بلکہ سچائی یہ بھی تھی کہ غریب بینک کے دروازے تک جانے سے ڈرتا تھا۔ یہ لوگ دلی میں تھے لیکن دہلی ان کے لئے بہت دور تھی۔ اس صورت حال کو ہماری حکومت نے تبدیل کیا۔ مہم چلاکر دہلی کے غریبوں کے ، ملک کے غریبوں کے بینک کھاتے کھلوائے گئے۔ تب کسی نے شاہد ہی یہ سوچا ہوگا کہ اس کے کیا کیا فائدے ہوسکتے ہیں۔ آج دہلی کے غریب کو بھی حکومت کی پالیسیوں کا سیدھا فائدہ مل رہا ہے۔ آج دلی میں ہزاروں ساتھی ریہڑی پٹری کی دکان لگاتے ہیں، سبزیاں اور پھل بیچتے ہیں۔ کئی ساتھی آٹو رکشا چلاتے ہیں، ٹیکسی چلاتے ہیں۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کے پاس آج بھیم۔ یو پی آئی نہ ہو۔ پیسے سیدھے موبائل پر آتے ہیں۔ موبائل سے پے منٹ بھی ہوجاتا ہے۔ اس سے کتنا بڑا اقتصادی تحفظ ملا ہے۔ بینکنگ نظام سے جڑنے کی یہی طاقت پی ایم سواندھی یوجنا کی بھی بنیاد بنی ہے۔ اس یوجنا کے تحت شہر میں رہنے والے ہمارے ریہڑی پٹری والےبھائیوں اور بہنوں کو اپنا کام آگے بڑھانے کے لئے مالی مدد دی جارہی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ دہلی کے بھی 50 ہزار سے زیادہ ریہڑی پٹری والےمیرے بھائی بہنوں نے سواندھی یوجنا کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ مُدرا یوجنا کے تحت بغیر گارنٹی دی گئی 30 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد بھی دہلی کے چھوٹے کاروباریوں افراد کو کافی مدد ملی ہے۔ ساتھیو، ہمارے غریب ساتھیوں کو ایک بڑی دقت راشن کارڈ سے متعلق بدانتظامی سے بھی ہوتی ہے۔ ہم نے ون نیشن، ون راشن کارڈ کا انتظام کرکے ملک کے لاکھوں غریبوں کی زندگی کو آسان بنایا ہے۔ہمارے جو مہاجر مزدور دوسری ریاستوں سے کام کرنےآتے ہیں، پہلے ان کا راشن کارڈ یہاں بیکار ہوجاتا تھا۔ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جاتا تھا۔ اس سے ان کےلئے راشن کا مسئلہ پیدا ہوجاتا تھا۔ ’ون نیشن، ون راشن کارڈ‘ کے ذریعہ اس فکر سے نجات مل رہی ہے۔ اس اسکیم کا فائدہ کورونا عالمی وبا کے دور میں دہلی کے غریبوں نے بھی اٹھایا ہے۔ اس عالمی بحران کے وقت میں دہلی کے لاکھوں غریبوں کو مرکزی حکومت گزشتہ دو سال سے مفت راشن بھی دے رہی ہے۔ اس پر صرف دہلی میں ہی مرکزی حکومت کے ذریعہ ڈھائی ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کئے گئےہیں۔ یہ جنتی چیزیں میں نے شمار کرائی ہیں، اب بتایئے کتنے روپیوں کا مجھے اشتہار دینا چاہیے تھا۔ کتنے اخبار کے پیچ بھرنے پڑتے۔ اخبار میں مودی فوٹو چمکتی ہو، اور کتنے دے دیتے۔ اتنا سارا کام میں ابھی جو شمار کرارہا ہوں ، ابھی تو بہت کم شمار کرا رہا ہوں، ورنہ وقت بہت زیادہ چلا جائے گا کیونکہ ہم آپ کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے جیتے ہیں۔ ساتھیو، دہلی میں مرکزی حکومت نے 40 لاکھ سے زیادہ غریبوں کو بیمہ کا تحفظ بھی فراہم کرایا ہے۔دواؤں کا خرچ کم کرنے کے لئے جن اوشدھی کیندروں کی سہولت دی ہے۔ جب زندگی میں یہ تحفظ ہوتا ہے، تو غریب مطمئن ہوکر پوری طاقت سے محنت کرتا ہے۔ وہ خود کو غریبی سے باہر نکالنے کےلئے غریبی سےلڑائی لڑنے کےلئے، غریبی کو شکست دینے کےلئے جی جان سے جھک جاتا ہے۔ یہ اطمینان غریب کی زندگی میں کتنا اہم ہوتا ہے۔ وہ کسی غریب سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ ساتھیو، دہلی میں ایک اور معاملہ دہائیوں پہلے تعمیر ہونے والی غیر منظور شدہ کالونیوں کا بھی رہا ہے۔ ان کالونیوں میں ہمارے لاکھوں بھائی بہن رہتے ہیں۔ ان کی پوری پوری زندگی اسی فکر میں نکل رہی تھی کہ ان کے گھروں کا ہوگا کیا؟ دہلی کے لوگوں کی اسی فکر کو کم کرنے کا کام بھی مرکزی حکومت نےکیا۔ پی ایم اودے یوجنا کے ذریعہ سے دہلی کی غیر منظور شدہ کالونیوں میں بنے گھروں کو باضابطہ کرنے کا کام چل رہا ہے۔ اب تک ہزاروں لوگ اس اسکیم کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ مرکزی حکومت نے دہلی کے متوسط طبقے کی بھی، ان کے گھر کا خواب پورا کرنے میں بہت مدد کی ہے۔ دہلی کے نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ اپنا گھر بنا پائیں، اس کے لئے انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے سود میں سبسڈیدی گئی ہے۔ اس پر بھی مرکزی حکومت کی طرف سے 700 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کئے گئے ہیں۔ ساتھیو، مرکزی حکومت کا مقصد ہے کہ ہم دلی کو ملک کی راجدھانی کےمطابق ایک شاندار، سہولتوں والا شہر بنائیں۔ دہلی کی ترقی کو رفتار دینے کےلئے ہم نے جو کام کئے ہیں، دہلی کے لوگ ، دہلی کے غریب، دہلی کا بہت بڑا متوسط طبقہ ، وہ ان سب کے گواہ کے طور پر ہر جگہ اپنی بات بتاتے ہیں۔ اس بار لال قلعہ سے میں نے ملک کی خواہش مند سوسائٹی کی بات کی تھی۔ دہلی کا غریب ہو یا متوسط طبقہ، وہ خواہش مند بھی اور بے مثال صلاحیت سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی سہولت ، اس کی خواہش کی تکمیل حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ ساتھیو، سال 2014 میں جب ہماری حکومت آئی تھی، تو دہلی ۔ این سی آر میں 190 کلو میٹر روٹ پر ہی میٹرو چلا کرتی تھی۔ آج دہلی۔ این سی آر میں میٹرو کی توسیع تقریباً 400 کلو میٹر تک ہوچکی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں یہاں 135 نئے میٹرو اسٹیشن تیار کئے گئے ہیں ۔ آج میرے پاس دہلی میں کالج جانے والے کتنے ہی بیٹےبیٹیاں ، بڑی تعداد میں نوکری پیشہ لوگ چٹھی لکھ کر میٹرو سروس کےلئے ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں۔ میٹرو کی س��ولت کی توسیع ہونے سے ہر روز ان کےپیسے بھی بچ رہےہیں اور وقت کی بھی بچت ہورہی ہے۔ دہلی کو ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ سے راحت دلانے کے لئے حکومت ہند کے ذریعہ 50 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے سڑکوں کو چوڑا کیا جارہا ہے، جدید بنایا جارہا ہے۔دہلی میں جہاں ایک طرف پیری فیرل ایکسپریس وے بن رہے ہیں، تو دوسری جانب کرتویہ پتھ جیسی تعمیر بھی ہورہی ہے۔دوارکا ایکسپریس وے ہویا اربن ایکسٹینشن روڈ ، اکشر دھام سے باغپت چھ لین ایکسزکنٹرول ہائی وے ہو یا گرورو گرام سونا روڈ کی شکل میں ایلی ویٹیڈ کوریڈور ۔ ایسے کتنے ہی ترقیاتی کام دہلی میں مرکزی حکومت کے ذریعہ کئےجارہےہیں جو ملک کی راجدھانی میں جدید انفرا اسٹرکچر کو توسیع دیں گے۔ ساتھیو، دہلی ۔ این سی آر کے لئے ریپڈ ریل جیسی خدمات بھی مستقبل قریب میں ہی شروع ہونے جارہی ہیں۔ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کی جو شاندار تعمیر ہونے جارہی ہے، اس کی تصویریں بھی آپ نے ضرور دیکھی ہوں گی۔ مجھے خوشی ہے کہ دوارکا میں 80ہیکٹئر زمین پر بھارت وندنا پارک کی تعمیر کا کام اب آئندہ چند مہینوں میں پورا ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ڈی ڈی اے کے ذریعہ دہلی کے 700 سے زیادہ بڑے پارکوں کی دیکھ ریکھ کی جاتی ہے۔ وزیراعظم بیراج سے لے کر اوکھلا بیراج کے درمیان کا جو 22 کلو میٹر کا اسٹریچ ہے، اس پر بھی ڈی ڈی اے کے ذریعہ مختلف پارک تیار کئے جارہےہیں۔ ساتھیو، آج میرے اتنے سارے بھائی بہن اپنی زندگی میں ایک نئی شروعات کرنےجارہے ہیں تو میں ان سےضرور کچھ توقعات بھی رکھتا ہوں۔ اگر میں آپ سے کوئی توقع رکھوں گا، تو پوری کروگے نا؟ میں بتا سکتا ہوں کوئی کام آپ لوگوں کو؟ کریں گے؟ بھول جائیں گے، پھر بھول جائیں گے، نہیں بھول جائیں گے۔ اچھا حکومت ہند کروڑوں کی تعداد میں غریبوں کےلئےگھر بنا رہی ہے۔ گھر میں نل سے پانی دے رہی ہے۔ بجلی کا کنکشن دے رہی ہے۔ ماؤں بہنوں کو بغیر دھوئیں کےکھانےبنانے کی سہولت ملے، اس کے لئےاجولا سلینڈر بھی مل رہا ہے۔ ان سہولتوں کے درمیان ہمیں یہ بات پکی کرنی ہے کہ ہم اپنے گھر میں ایل ای ڈی بلب ہی استعمال کریں گے۔ کریں گے؟ دوسری بات ہم کسی بھی حالت میں کالونی میں پانی کو برباد نہیں ہونے دیں گے، ورنہ آپ کو معلوم ہے کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔ باتھ روم میں بالٹی رکھ دیتے ہیں، نل چالو رکھتےہیں۔ صبح چھ بجے اٹھنا ہے تو گھنٹی کا کام کرتا ہے، پانی آئے گا، بالٹی کی آواز آئےگی تو لگے گا۔ دیکھئے پانی بچانا بہت ضروری ہے، بجلی بچانا بہت ضروری ہے اور اس سے بھی آگے ایک بات ہمیں یہاں جھگی جھونپڑی کا ماحول نہیں بننے دینا ہے۔ ہماری کالونی صاف ستھری ہو،خوبصورت ہو، صفائی ستھرائی کا ماحول ہو اور میں تو کہوں گا کہ آپ ہی لوگ اپنی کالونی میں ٹاور ٹاور کے درمیان میں مسابقت کیجئے۔ ہر مہینے مقابلہ ، کون سا ٹاور سب سے زیادہ صاف ستھرا ہے۔ جھگیوں کی بارے میں اتنی دہائیوں سے جو تصور بناکر کے رکھا گیا تھا، جھگیوں کو جس طرح گندگی سےجوڑا جاتا تھا، اب ہماری ذمہ داری ہے، اس کو ختم کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے ۔ آپ تمام لوگ دہلی اور ملک کی ترقی میں اسی طرح اپنا رول ادا کرتے رہیں گے۔ دہلی کے ہر ایک شہری کے تعاون سے دہلی اور ملک کی ترقی کا یہ سفر بغیر رکاوٹ کے آگے بڑھتا رہے گا۔ اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو ایک بار پھر بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت مبارک ہو! بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,দিল্লীৰ কালকাজীত নতুনকৈ নিৰ্মিত ইডব্লিউএছ ফ্ল��ট উদ্বোধনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%D9%86%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9C/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع پر ناری شکتی کو سلام پیش کیا ہے۔اپنی بہت سی ٹویٹس میں، وزیراعظم نے کہا : ‘‘یوم خواتین کے موقع پر ، میں ناری شکتی اور ان کی مختلف شعبوں میں حصولیابیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ بھارتی حکومت خواتین کے وقار اوران کے لئے مواقع پر تاکید کے ساتھ مختلف منصوبوں کے ذریعہ خواتین کو اختیارات کی تفویض پراپنی توجہ مرکوز رکھے گی’’۔ ‘‘مالی شمولیت سے لے کر سماجی تحفظ تک، معیاری طبی دیکھ بھال سے لے کر رہائش کی فراہمی تک اور تعلیم سے لے کر صنعت کاری تک ہماری ناری شکتی کو ہندوستان کی ترقی کے سفر کے دوران صف اول میں رکھنے کے لئے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں ۔یہ کوششیں آنے والے وقتوں میں مزید جوش وجذبہ کے ساتھ قائم رکھی جائیں گی’’۔ ‘‘آج شا م 6 بجے، میں کچھ میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام سے خطاب کروں گا، جس میں ہمارے معاشرے کے لئے خواتین سنتوں کی خدمات کو اجاگر کیا جائے گا ’’۔ اس میں خاص توجہ ثقافت کے مختلف پہلوؤں اور مرکز کی طرف سے ا ٹھائے گئے مختلف فلاح و بہبود کے اقدامات وغیرہ پر مرکوز کی جائے گی ۔https://t.co/ImLHzdJpEQ""",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আন্তৰ্জাতিক নাৰী দিৱসত নাৰী শক্তিক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دولت مشترکہ کھیل 2022 میں مردوں کی 10,000 میٹر ریس واک میں کانسی کا تمغہ جیتنے پر سندیپ کمار کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’برمنگھم گیمز میں ہمارے ریس واکنگ دستے کی کامیابی کو دیکھ کر اچھا لگا۔ سندیپ کمار کو 10,000 میٹر ایونٹ میں کانسی کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد۔ ان کی آئندہ کوششوں کے لیے میں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ #Cheer4India‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔","প্রধানমন্ত্রীয়ে কমনৱেলথ গেমছ ২০২২ত পুৰুষৰ ১০,০০০ মিটাৰৰ ৰেচ ৱাকত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাত সন্দীপ কুমাৰক অভিনন্দন জনা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نئی دہلی میں چیف سکریٹریوں کی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ پالیسی سے متعلق اہم موضوعات پر خیالات کا تبادلہ کرنے اور ہندوستان کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے ٹیم کے جذبے کو مضبوط کرنے کے واسطے یہ ایک شاندار فورم ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ چیف سیکرٹریوں کی کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ پالیسی سے مت��لق اہم موضوعات پر خیالات کا تبادلہ کرنے اور ہندوستان کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے ٹیم کے جذبے کو مضبوط کرنے کا ایک شاندار فورم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,নতুন দিল্লীত অনুষ্ঠিত মুখ্য সচিবসকলৰ সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অংশগ্ৰহ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%D8%A8%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%A6%E0%A6%BE/,بھارت ماتا کی جے، نمسکار ، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ماں بھارتی کی سنتانوںکو آج جرمنی میں آکر ملنے کا موقع ملا ہے آپ سبھی سے مل کر مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگ جرمنی کے الگ الگ شہروں سے آج یہاں برلن پہنچے ہیں۔آج صبح میں بہت حیران تھا کہ ٹھنڈ کا وقت ہے یہاں بھارت میں گرمی بہت ہے ان دنوں لیکن کئے چھوٹے چھوٹے بچے بھی صبح ساڑھے چار بجے آگئے تھے ۔آپ کا پیار ،آپ کا آشیر وار ، یہ میری بہت بڑی طاقت ہے ۔ میں جرمنی پہلے بھی آیا ہوں ۔ آپ میں سے کئی لوگوں سے پہلے ملابھی ہوں ، آپ میں سے کئے لوگ جب بھارت آئے ہیں تب بھی کبھی کبھی ملنے کا موقع ملا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری جو نئی نسل ہے ، جو نوجوان نسل ہے ، یہ بہت بڑی تعداد نظر آرہی ہے اور اس کا سبب نوجوان میں جوش بھی ہے لیکن آپ نے اپنے مصروف لمحات میں سے یہ وقت نکالا ۔ آپ یہاں آئے ۔ میں تہہ دل سے آپ سب کا بہت شکرگزار ہوں ۔ ابھی ہمارے سفیر بتارہے تھے کہ یہاں تعدادکے اعتبار سے تو جرمنی میں بھارتیو ں کی تعداد کم ہے لیکن آپ کے پیار میں کوئی کمی نہیں ہے۔آپ کے جوش میں کوئی کمی نہیں ہے اور یہ منظر آج جب ہندوستان کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کا بھی دل فخر سے بھر جاتا ہے دوستو! ساتھیو! آج میں آپ سے نہ میں میری بات کرنے آیا ہوں نہ مودی سرکار کی بات کرنے آیاہوں لیکن آج دل کرتا ہے کہ جی بھر کے آپ لوگوں کو کروڑوں کروڑوں ہندوستانیوں کی صلاحیت اور لیاقت کی بات کروں ۔ان کا فخر سے احترام اورعز ت کروں ، ان کے گیت گاؤں اور جب میں ہندوستانیوں کی بات کرتا ہوں تو صرف وہ لوگ نہیں جو وہاں رہتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو یہاں رہتے ہیں۔ میری اس بات میں دنیا کے ہرکونے میں بسنے والے ماں بھارتی کی سنتانوں کی بات ہے۔ میں سب سے پہلے جرمنی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑرہے آپ سبھی بھارتیوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اور تہہ دل سے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں ۔ ساتھیو! اکیسویں صدی کا یہ وقت بھارت کے لئے ، ہم بھارتیوں کے لئے اور خاص کر ہمارے نوجوانو ں کے لئے بہت اہم وقت ہے۔ آج بھارت من بناچکا ہے اور بھارت نے وہ من بنالیا ہے ، بھارت آج عز م کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔آج بھارت کو پتہ ہے کہ کہاں جانا ہے ، کیسے جانا ہے ، کب تک جانا ہے اور آپ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی ملک کا من بن جاتا ہے تو وہ ملک نئے راستوں پر بھی چلتا ہے او ر من چاہی منزلوں کو حاصل کرکے بھی دکھاتا ہے۔ آج کا خواہش سے بھرا ہندوستان ، آرزومند بھارت ، آج کا نوجوان ،بھارت ملک کی تیز ترقی چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے لئے سیاسی استحکام اور مضبوط قوت ارادی کتنی ضروری ہے ، کتنی لازمی ہے۔وہ آج کے ہندوستان کو پوری طرح سمجھتا ہے اور اس لئے بھارت کے لوگوں نے تین دہائیوں سے چلے آرہے سیاسی استحکام کے م��حول کو ایک بٹن دباکر ختم کردیا ہے۔ بھارت کے ووٹرس کو پچھلے سات آٹھ سال میں اس کے ووٹ کی طاقت کیا ہوتی ہے اور ایک ووٹ ہندوستان کو کیسے بدل سکتا ہے، اس کا احساس ہونے لگا ہے۔مثبت تبدیلی اور تیز ترقی کی آرزو بھی تھی کہ جس کے پیش نظر 2014 میں بھارت کے عوام نے قطعی اکثریت والی سرکار چنی اور 30سال بعد ایسا ہوا ہے۔ یہ بھارت کی عظیم قوم کی دوراندیشی ہے کہ سال 2019 میں اس نے ملک کی سرکار کو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنادیا ۔ بھارت کو چوطرفہ آگے بڑھانے کے لئے اس طرح کی فیصلہ کن سرکار چاہئے ، ویسے سرکار کو بھی بھارت کے عوام نے اقتدار سونپا ہے ۔ میں جانتا ہو ں ساتھیو کہ امیدوں کا کتنا بڑا آسمان مجھ سے جڑا ہوا ہے ۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محنت کے عمل سے خود کو کھپا کر ایک ایک بھارتیوں کے تعاون سے ان بھارتیوں کی قیادت میں بھارت نئی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ بھارت ان وقت نہیں گنوائے گا ، بھارت اب وقت نہیں کھوئے گا۔ آج وقت کیا ہے ،اس وقت کی لیاقت کیا ہے اور اسی وقت میں پانا کیا ہے وہ ہندوستان پور ی طرح جانتا ہے۔ ساتھیو! اس سال ہم اپنی آزادی کا 75 واں سال منارہے ہیں۔ میں ملک کا پہلا وزیر اعظم ایسا ہوں جو آزاد ہندوستان میں پیدا ہوا ہے ۔ بھارت جب اپنی آزادی کے 100سال منائے گا۔ ابھی 25سال ہمارے پاس ہیں۔ اس وقت ملک جس اونچائی پر ہوگا اس ہدف کو لے کر آج ہندوستان مضبوطی کے ساتھ ایک کے بعد ایک قدم رکھتے ہوئے تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو! بھارت میں نہ کبھی وسائل کی کمی رہی اور نہ ہندوستانیوں کی کمی رہی۔آزادی کے بعد ملک نے ایک راستہ طے کیا ، ایک سمت طے کی ، لیکن وقت کے ساتھ جو بہت ساری تبدیلیاں ہونی چاہئیں تھیں ،جس تیزی سے ہونی چاہئیں تھیں،جتنے وسیع ہونے چاہئیں تھے کسی نہ کسی وجہ سے ہم کہیں پیچھے چھوٹ گئے ۔ بیرونی حکومت نے بھارتیوں کا سال در سال جو اعتماد اور بھروسہ کچلا تھا اس کی بھرپائی کا ایک ہی طریقہ تھا کہ پھرسے ایک بار بھارت کی عوام میں اعتماد پید ا کرنا ، خود پر فخر کرنا اور اس کے لئے سرکار کے تئیں بھروسہ بنانا بہت ضروری تھا۔انگریزوں کی روایت کی بدولت حکومت اور عوام کےدرمیان بھروسے کی ایک بہت بڑی کھائی تھی ،شک کے بادل منڈلارہے تھے کیونکہ انگریزوں کی حکومت میں جو دیکھا تھا اس کی تبدیلی نظر آنی چاہئے ۔اس رفتار کی کمی تھی اور اس لئے وقت کا تقاضا تھا کہ عام انسان کی زندگی میں سرکار کم ہوتی چلی جائے ۔سرکار ہٹتی جائے ، کم سے کم حکومت زیادہ سے زیادہ حکمرانی ، جہاں ضرورت ہو وہاں سرکار کی کمی نہیں ہونی چاہئے ۔ لیکن جہاں ضرورت نہ ہو، وہاں سرکار کا اثر بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ساتھیو! ملک آگے بڑھتا ہے جب ملک کے لوگ خود اس کی ترقی کی قیادت کریں ۔ ملک آگے بڑھتا ہے جب ملک کے لوگ آگے آکر اس کی سمت طے کریں ۔ اب آج کے بھارت میں سرکار نہیں ، مودی نہیں ، ملک کا ہر شہری ڈرائیونگ فورس پر بیٹھی ہو ئی ہے اس لئے ہم ملک کے لوگوں کی زندگی سے سرکار کا دباؤ بھی ہٹ رہا ہے اور میں ہمیشہ کہتا ہوں ، ریفارمس کے لئے سیاسی بصیرت چاہئے۔ کارکردگی کے لئے حکومت مشنری کا قیام چاہئے اور اصلاحا ت کے لئے عوام کی حصہ داری چاہئے ۔تب جاکر اصلاحات ، کارکردگی ، ٹرانسفارم کی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ آج بھارت ایز آف لیونگ ، ایز آف ڈوئنگ بزنس ، خدمات کی فراہمی اور معیار ،مصنوعات کی کوالٹی ، ہرشعبے میں تیزی سے کام کررہی ہے۔ نئی بلندی چھو رہی ہے۔وہی ملک ہے آپ جسے چھوڑ کر آئے تھے یہاں ،دیش وہی ہے ، بیورو کریسی بھی وہی ہے ، ٹیبل بھی وہی ہے ،قلم بھی وہی ہے ،فائل بھی وہی ہے ، وہی سرکار مشین ہے ، لیکن اب نتیجے بہتر مل رہے ہیں۔ ساتھیو! 2014سے پہلے جب بھی میں آپ جیسے ساتھیو سے بات کررہا تھا اور آپ کو بھی پرانے دن یاد ہوں گے یا آج کبھی جاتے ہوں گے تو دیکھتے ہوں گے ، جہاں بھی دیکھو لکھا ہوتا تھی ،ورک ان پروگریس ، میں کسی کی تنقید نہیں کررہا ، لیکن ہمارے یہاں ہوتا یہی رہا کہ پہلے کہیں سڑک بنتی ہے پھر بجلی کے لئے سڑک کھودی جاتی ہے ، پھر پانی والے آتے ہیں ، پھر ٹیلی فون والے آتے ہیں۔وہ کچھ اور ہی کھڑا کردیتے ہیں۔ ایک سڑک بجٹ خرچ ہورہا ہے ، کام ختم نہیں ہورہا ہے ۔ یہاں میں نے صرف ایک مثال دی ، کیونکہ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ کیونکہ سرکاری محکموں کا ایک دوسرے کے پاس نہ تو رابطہ ہوتا ہے اور نہ ہی جانکاریوں کا کوئی تال میں ہے۔سب اپنی اپنی دنیا بناکر اس میں بناکر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ہر ایک کے پاس رپورٹ کارڈ ہے۔ میں نے اتنی سڑک بنادی ، کوئی کہے گا میں نے اتنی تار ڈال دی ، کوئی کہے گا میں نے اتنی پائپ ڈال دی لیکن نتیجہ ورک ان پروگریس ۔ ان سلسلوں کو توڑ نے کے لئے اب ہم نے پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان بنایا ہے ۔چاروں طرف اس کی تعریف ہورہی ہے۔ ہم ہر ڈپارٹمنٹل سائلوس کو توڑ کر بنیادی ڈھانچے سے جڑے ہر پروجیکٹ میں سبھی شراکتداروں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لے کر آئے ہیں۔ اب سرکاریں سبھی محکموں میں اپنے اپنے حصوںکا کام ایڈوانس میں پلان کررہی ہیں۔اس نئی اپروچ نے ترقی کے کاموں کی رفتار کو بڑھادیا ہے اور اسکیل بھی بڑھادیا ہے اور بھارت کی آج اگر جو سب سے بڑی طاقت ہے تو وہ اسکوپ ہے ،رفتار ہے اور پیمانہ ہے۔ آج بھارت میں سوشل اور فزیکل بنیادی ڈھانچہ اس پر بے تحاشہ سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ آج بھارت میں نئی تعلیمی پالیسی کو لاگو کرنے کے لئے اتفاق رائے کا ماحول بن رہا ہے تو دوسری طر ف نئی صحت پالیسی اس کو لاگو کرنے پر کام چل رہا ہے ۔ آج بھارت میں ریکارڈ تعداد میں نئے ہوائی اڈے بنائے جارہے اور چھوٹے چھوٹے شہروں کو ائیر روٹ سے جوڑا جارہا ہے ۔ بھارت میں میٹرو کنکٹوٹی پر جتنا کام آج ہورہا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے ۔ بھارت میں آج ریکارڈ تعداد میں گاؤوں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑا جارہا ہے۔ سوچیں کہ کتنے لاکھ گاؤوں میں آپٹیکل فائبر نیٹ ورک پہنچے گا۔ ہندوستان کے گاؤں دنیا کے ساتھ کس طرح سے اپنا ناطہ جوڑیں گے ،جس کا آپ تصور کرسکتے ہیں۔ بھارت میں اور جرمنی میں بیٹھے ہوئے آپ لوگ زیادہ اس بات کو سمجھ پائیں گے کہ بھارت میں جتنی فاسٹ انٹر نیٹ کنکٹوٹی ہے اور اتنا ہی نہیں تالیاں تو اب بجنے والی ہیں، تالیاں اس بات پر بجنے والی ہیں کہ جتنا سستا ڈاٹاہے وہ بہت سے ملکوں کے لئے سوچ سے باہر ہے ۔ پچھلے سال پوری دنیا میں ہوئے رئیل ٹائم ڈجیٹل پیمنٹس ، کان کھول د و رئیل ٹائم ڈجیٹل پیمنٹ میں سے میں پوری دنیا کی بات کررہا ہوں ، اب بھارت چھوٹا نہیں سوچتا ہے ، رئیل ٹائم میں سے 40 فیصد حصہ داری بھارت کی ہے ۔ ساتھیو ! میں ایک اور بات آپ کو بتادوں ،جسے جان کر پتہ نہیں آپ بیٹھے رہیں گے پتہ نہیں ، آپ کو ضرور اچھا لگے گا ، بھارت میں اب سفر کرتے وقت، کہیں آتے جاتے وقت جب میں نقدی لے کر چلنے کی مجبوری تقریباََ ختم ہوچکی ہے ۔دور سے دور کے گاؤں تک میں بھی اپنا موبائل فون پر ہی ہر طرف کے پیمنٹ آپ کے لئے کافی ہے دوستو۔ ساتھیو! آج بھارت میں گورننس میں ٹکنالوجی کو جس طرح شامل کیا جارہا ہے وہ نئے بھارت کی نئی سیاسی قوت ارادی دکھا تا ہے اور جمہوریت کی فراہمی کی صلاحیت کا بھی ثبوت ہے۔ آج مرکز،ریاست اور لوکل سرکارو ں کے لگ بھگ یہ بھی آنکڑے تھوڑا آپ کے لئے عجوبہ ہوگا ، مرکزی سرکار ،ریاستی سرکار اور لوکل سیلف گورنمنٹ ان کی قریب قریب 10 ہزار خدمات آن لائن دستیاب ہیں۔ سرکاری مدد ہو ،اسکالر شپ ہو، کسان کی فصل کی قیمت ہو ،سب کچھ اب ڈائریکٹ بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہوتے ہیں ۔ اب کسی پردھان منتری کو یہ کہنا نہیں پڑے گا کہ میں دلی سے ایک روپیہ بھیجتا ہوں اور 15 پیسے پہنچتے ہیں ۔ وہ کونسا پنجہ تھا جو 85 پیسے کھینچ لیتا تھا ۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے کہ گزشتہ 7، 8سال میں بھارت سرکار نے آنکڑے یاد رہیں گے ۔ میں اتنا سارا بتارہا ہوں ، ڈرو مت یہ آپ ہی کی ہمت ہے ،آپ ہی کا کمال ہے ،پچھلے سا ت آٹھ سال میں بھارت سرکار نے ڈائریکٹ بینی فٹ ٹرانسفر ، ڈی بی ٹی سیدھا ایک کلک کیا جو حقدار ہے اس کے کھاتے میں پیسے چلے گئے ،براہ راست جو ڈی بی ٹی کے ذریعہ ہم نے پیسے بھیجے وہ رقم ہے 22 لاکھ کروڑروپے سے بھی زیادہ ، یعنی اب آپ جرمنی میں ہیں تو آپ کو بتادوں 300 ارب ڈالر سے بھی زیادہ مستفیدین کے کھاتے میں پیسے پہنچے ہیں ۔ بیچ میں کوئی بچولیہ نہیں ، کوئی کٹ کی کمپنی نہیں ، کہیں کٹ منی نہیں ،اس وجہ سے نظام میں کتنی بڑی شفافیت آئی ہے اور اس کی وجہ ، جو بھروسے کی کھائی تھی اس کھائی کو بھرنے کا بہت بڑا کام ان پالیسیوں کی وجہ اس نیت کے سبب اور اس ٹکنالوجی کےتوسط سے ہوپایا ہے۔ ساتھیو! ایسے ٹولز جب ہاتھ میں آتے ہیں ، جب شہری بااختیار ہوتا ہے تو بہت فطر ی ہے کہ وہ خوداعتمادی سے بھر جاتا ہے، وہ خود عزم لینا شروع کرتا ہے اور وہ خود عہد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے محنت کرکے دیکھتا ہے۔اور تب جاکرملک دوستو آگے بڑھتا ہے ۔اس لئے دوستو ،نیا بھارت آپ صرف سکیور فیوچر کی نہیں سوچتا بلکہ بھارت رسک لیتا ہے ، اینوویٹ کرتا ہے ، انکیوبیٹ کرتا ہے، مجھے یاد ہے 2014 کے آس پاس ہمارے ملک میں اتنا بڑا دیش صرف 200، 400 اسٹارٹ اپس ہوا کرتے تھے ،کتنے ،ذرا یاد رکھ کے بولو نا یار اور آج 8 سال پہلے 200، 300، یا 400 اسٹارٹ اپس ۔ آج 68ہزارسے بھی زیادہ اسٹارٹ اپس ۔ دوستو، مجھے بتائیے ، آپ نے سننے کے بعد کہاں 400 کہاں 68000 ۔ 200 ، 400 سے 68000 آپ کا سینا فخر سے بھرگیا کہ نہیں ۔ بھرگیا ۔ آپ کا ماتھا اونچا ہوا کہ نہیں ، اور ساتھیو اتنا ہی نہیں بلکہ تعداد ایک بات ہے آج دنیا کے سارے پیرامیٹرز کہہ رہے ہیں اس میں درجنوں اسٹارٹ اپ یونیکارن بن چکے ہیں اور اب معاملہ یونیکارن پر اٹکا نہیں ہے۔ دوستو ، آ ج میں ،فخر سے کہتا ہے ، میرے ملک میں بہت سارے یونیکارن دیکھتے ہی دیکھتے ڈیکاکارن بھی بن رہے ہیں یعنی 10 ارب ڈالرس کا لیبل بھی پاکررہے ہیں ۔ مجھے یاد ہے میں جب گجرات میں سی ایم والی نوکری کرتا تھا اورکسی بھی ہمارے ساتھی بابو کو پوچھتا ہے ، بچے کیا کرتے ہیں تو بولے آئی اے ایس کی تیاری کرتا ہے۔ زیادہ تر یہی کرتے تھے ۔آج بھارت سرکار میں بابوؤں سے پوچھتا ہوں کہ بھئی بیٹے بیٹی کیا کررہے ہیں بولے وہ تو اسٹارٹ اپ میں لگ گئے ہیں۔ یہ تبدیلی چھوٹی نہیں ہے دوستو! ساتھیو! بنیادی بات کیا ہے ، بنیادی بات یہی ہے آج سرکار انوویٹرس کے پاؤں میں زنجیر ڈال کر نہیں ، ا ن میں جوش بھر کر انہیں آگے بڑھارہی ہے ۔ اگر آپ کو جیواسپیشل علاقے میں انوویشن کرنا ہو تو نئے طرح کے ڈرون بنانے ہوں یا خَلاء کے شعبے میں کوئی نئی سیٹلائٹ یا راکٹ بنانا ہو اس کے لئے سب سے پہلا، سب سے نرچرنگ ماحول آج ہندوستان میں دستیاب ہے دوستو، ایک وقت میں بھارت میں کوئی نئی کمپنی رجسٹر ڈ کرانا چاہتا تھا تو اسے رجسٹری میں کاغذ ڈالنے کے بعد وہ بھول جاتا تھا تب تک رجسٹری نہیں ہوتی تھی ، مہینے لگ جاتے تھے ، جب بھروسہ بڑھ جاتا ہے ،سرکار کا شہریوں پر بھروسہ بڑھتا ہے ۔شہریوں کا سرکار پر بھروسہ بڑھتا ہے ۔عدم اعتماد کی کھائی پُر ہوتی ہے۔ آج اگر کمپنی رجسٹرڈ کرنی ہے تو 24 گھنٹے لگتے ہیں دوستو 24 گھنٹے ۔گزشتہ کچھ سالوں میں سرکار کی ایک عادت تھی ، ایک چیمبر ہو آفس کا ،6ٹیبل ہوں ، نمبر ایک نے جنوری میں آپ سے کچھ چیزیں مانگیں ، نمبر کی ٹیبل والا فروری میں پھر وہی مانگے گا۔ پھر نمبر 5 والا ٹیبل فروری اینڈ میں کہے گایار وہ کاغذ لاؤذرا مجھے ضرورت ہے یعنی شہریوں کو لگاتار ہزارو ں کی تعداد میں دوستوCompliance یہ لاؤ وہ لاؤ اور وہ لے کر کہ کیا کرتے تھےیہ وہ جانے اور آپ جانیں۔ ساتھیو! آ پ حیران ہوجائیں گے جب یہ کام بھی مجھے ہی کرنا پڑرہا ہے ، 25000سے زیادہ کمپلائنس ختم کیا ہم نے ،اتنا ہی نہیں میں 2013 میں چناؤ کے لئے تیاری کررہا تھا کیونکہ میری پارٹی نے اعلان کردیاتھا کہ اس کو وزیر اعظم بنانے والے ہیں تو میں ایسی تقریر کرتا تھا تو ایک دن دلی میں سب تاجروں نے مجھے بلایا تو تاجروں کی بہت بڑی کانفرنس تھی اور اس میں جو میرے آگے شخص بول رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ دیکھئے وہ قانون بنا ہے ، وہ قانون بناہے ، بہت سارے قانون بتارہے تھے وہ ۔ اب چناؤ کے وقت تو سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں یہ کردوں گا لیکن دوستو ، میں ذرا دوسری مٹی کا انسان ہوں ۔ میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا وہ 2013 کی بات ہے میں تقریر کرنے کھڑا ہوا میں نے کہا بھائی آپ لوگ قانون بنانے کی بات کرتے ہیں ، میرا تو ارادہ ہی الگ ہے مجھے پتہ نہیں میں آپ کو بتاؤں گا مجھے آپ ووٹ دیں گے کہ نہیں دیں گے ، میری تو چھٹی کردیں گے آپ لوگ ۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں ہر دن ایک قانون ختم کردوں گا آکر کے۔بہت لوگوں کو حیرانی ہوئی تھی کہ یہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں ہے۔ سرکار کیا ہوتی ہے۔ ایسا ہی مانا ہوگا اور کیا ، لیکن آج دوستو ، میں آج آپ کو اپنا حساب دے رہا ہوں ۔ پہلے 5سال میں 1500قانون ختم کردئے دوستو، یہ سب کیوں ، یہ شہریوں پر ، یہ قوانین کے جنجال کو بوجھ کیوں ۔ یہ بھارت ملک آزادہوچکا ہے۔ نہ دیش مودی کا نہیں ہے،دیش 130کروڑشہریوں کا ہے۔ اب دیکھئے دیش میں پہلے تو ہماری دیش کی خصوصیت دیکھئے صاحب ۔دیش ایک آئین دو تھے کیوں اتنی دیر لگی ۔ پرانے زمانے میں کہتے تھے ٹیوب لائٹ معلوم ہے نا دو آئین تھے۔ پہلے تو دوآئین تھے۔ سات دہائیاں ہوگئیں دوستو ،سات دہائی ہوگئیں ایک دیش ایک آئین لاگوکرتے کرتے اب لاگو ہوا ہے دوستو ، غریب کو راشن کارڈ دوستو اگر وہ جبل پور میں رہتا ہے راشن کارڈ وہاں کا ہے اور اگر مجبوراََ اس کو جے پور میں جانا پڑاتوزندگی گزارنے کے لئے تووہ راشن کارڈ کام نہیں آتا تھا، ملک ایک ہی تھا لیکن راشن کارڈ الگ سے ۔ آج ون نیشن ون راشن کارڈ ہوگیا۔ پہلے کوئی ملک میں انویسٹمنٹ کرنے آتا تھا ، گجرات میں جاتا تھا تو ایک ٹیکسیشن ، مہاراشٹر میں تو دوسرا ٹیکسیشن ، بنگال میں جاتا تھا تو تیسرا ٹیکسیشن ۔ اگر اس کی تین چار کمپنیاں ، ایک کمپنی گجرات میں ،دوسری کمپنی مہاراشٹر میں ، تیسری کمپنی بنگال میں ۔ تو تینوں جگہوں پر الگ الگ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو ا��گ الگ قوانین سے کام چلتا تھا۔دوستو، آج ٹیکس کا بندوبست ایک جیسی لاگو ہوگئی کہ نہیں ہوگئی اور ہماری وزیر خزانہ یہاں بیٹھی ہیں نرملاجی ۔ اپریل مہینے میں کیا ہوا معلوم ہے نا ، جی ایس ٹی کا ریکارڈ کلکشن ہوگیا ہے۔ ایک لاکھ 68 ہزارکروڑروپے ۔ ون نیشن ون ٹیکس کی سمت میں یہ مضبوطی کے ساتھ ہوا کہ نہیں ہوا دوستو۔ ساتھیو! میک ان انڈیا آج آتم نربھر بھارت کا ڈرائیونگ فورس بن رہی ہے ، خود اعتمادی سے بھرا بھارت آج پروسیس ہی آسان نہیں کررہا بلکہ پروڈکشن لنگ انسینٹو سے انویسٹمنٹ کو سپورٹ بھی کررہا ہے۔ اس کا بڑا اثر بھارت سے ہونے والے ایکسپورٹ پر بھی دیکھ رہا ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے 400 بلین ڈالر کا برآمدات کا ریکارڈ توڑدیا ہے ۔ اگر ہم گڈس اینڈ سروسز کو دیکھیں تو پچھلے سال بھارت سے 670 بلین ڈالر یعنی قریب قریب 50 لاکھ کروڑروپے کی برآمد ہوئی ہے۔ تخمینہ دیکھ کر کے تالیوں کےلئے یہ ہاتھ جم گئے کیا۔ہندوستان کے کئی نئے ضلعے نئے نئے ملکوںمیں ، میں نے ڈیسٹینیشن پر برآمد کے لئے اپنا دائرہ بڑھارہے ہیں اور تیزی سے برآمد ہورہی ہے اور اس کا ایک مزہ بھی ہے ،جو آج ملک میں بن رہا ہے نا۔ زیرو ڈفیکٹ زیرو ڈفیکٹ کے منتر سے لے کر چل رہا ہےکہ پروڈکشن کی کوالٹی میں ڈیفیکٹ نہیں ہے اور پروڈکشن میں اینوائر منٹ پر کوئی افیکٹ نہیں ہے۔ ساتھیو! اکیسویں صدی کی اس تیسری دہائی کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ آج انڈیا از گوئنگ گلوبل ۔ کورونا کے اسی دور میں بھارت میں 150سے زیادہ ملکوں کو ضروری دوائیاں بھیج کر کافی زندگیاں بچانے میں مدد کی ہے ۔ جب بھارت کو کووڈ کے ویکسین بنانے میں کامیابی ملی تو ہم نے اپنی ویکسین سے تقریباََ 100 ملکوں کی مدد کری ہے دوستو۔ ساتھیو ! آج کی تازہ خبر ،رکاوٹ کے لئے افسوس ہے۔ آج ،گیہوں کی کمی کا سامنا دنیا کررہی ہے۔ فوڈ سکیورٹی کو لے کر دنیا میں بڑے بڑے ملک فکر مند ہیں ۔اس وقت ہندوستان کے کسان دنیا کا پیٹ بھرنے کے لئے آگے آرہے تھے دوستو! ساتھیو ! جب بھی انسانیت کے سامنے کوئی بحران حل کے ساتھ سامنے آتا ہے ، جو بحران لے کر آتے ہیں ، بحران ان کو مبارک ، حل لے کر ہم آتے ہیں ،دنیا کی جے جے کار دِکھتا ہے دوستو۔ یہی دوستو ، یہی نیا بھارت ہے ، یہی نئے بھارت کی طاقت ہے۔ آپ میں سے جو لوگ سالوں سے بھارت نہیں آئے ہیں،شرمندگی مت محسوس کرو لیکن ان کو ضرور لگتا ہوگا ۔آخر یہ ہوا کیسے ۔ اتنی بڑی تبدیلی آئی کیسے ۔ جی نہیں ساتھیو۔ آپ کا جواب غلط ہے۔ مودی نے کچھ نہیں کیا ہے ۔ 130 کروڑ ہم وطنوں نے کیا ہے۔ ساتھیو! گلوبل ہوتے بھارت میں آپ کا تعاون بھی ہونے والا ہے ۔ اہم ہونے والا ہے۔ آج بھارت میں لوکل کے تئیں جوکریز پیدا ہوا ہے ویسا ہی ہے ، جب آزادی کی تحریک کے وقت سودیشی چیزوں کے لئے پیدا ہوا تھا ۔عرصے تک ہم نے دیکھا کہ لوگ یہ بتایا کرتے تھے کہ یہ چیز ہم نے اس دیش سے خریدی ہے ، یہ چیز اس دیش کی ہے ، لیکن آج بھارت کے لوگوں میں اپنی مقامی اشیا کو لے کر فخر کا نیا تجربہ ہوا ہے ۔ آ پ کو بھی پتہ ہوگا آج سے 20 سا ل پہلے ،10سال پہلے میں فلانی تاریخ کو آرہاہوں تو پھر اس گھرسے خط آتا تھا کہ آتے وقت یہ لے آنا آج جب جاتے ہو تو گھر سے خط آتا ہے کہ یہا ں سب ملتا ہے ، مت لانا ۔ میں صحیح بتارہا ہوں کہ نہیں بتارہا ہوں ، یہی ہے نا دوستو ۔ یہی طاقت ہے اور اسی لئے میں کہتا ہوں ووکل فور ووکل ۔ لیکن آپ کا لوکل یہاں والا نہیں دوستو ، یہ جو دم پیدا ہوا نا اس چیز کو بنانے میں کسی بھارتی کی محنت لگی ہے۔ ہر اس چیز کے کسی بھارتی کی پسینے کی مہک ہے دوستو۔ اس مٹی کی سوگندھ ہے دوستو۔ اور اسی لئے جو ہندوستان میں بناہوا ہوں ، ہندوستان کی مٹی کی ،جس میں سوگندھ ہوں، ہندوستان کے نوجوان کا جس میں پسینہ لگا ہو وہ ہمارے لئے فیشن اسٹیٹمنٹ ہونا چاہئے دوستو ۔ آپ دیکھئے ایک بار یہ فیلنگ تجربہ کریں گے نہ تو وائبریشن اغل بغل میں پہنچتے دیر نہیں لگی اور پھر دیکھنا کب جاؤگے آپ ۔ ابھی میں ہندوستان جارہا ہوں دس دن کے لئے تو یہاں سے لوگ خط دیں کہ واپس جاتے ہوئے ہندوستان سے یہ چیز لے آنا ۔ تو ایسا ہونا چاہئے کہ نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ کام آپ کو کرنا چاہئے کہ نہیں کرنا چاہئے۔ دوستو! میں ایک شاندار مثال پیش کرتا ہوں آپ کو بڑی سمپل سے مثال اور میں مثا ل دینا چاہتا ہوں کھادی کی ۔آپ سب کھادی کو جانتے ہیں ۔ کھادی اور نیتا کا چولی دامن کا ناطہ تھا ، نیتا اور کھادی الگ نہیں ہوتے تھے۔ کھادی آتے ہی نیتا دکھتا تھا ، نیتا آتے ہی کھادی دکھتی تھی ،جس کھادی کو مہاتما گاندھی نے جیا ، جس کھادی نے بھارت میں آزادی کی تحریک کو طاقت دی ، لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد اس کھادی کا بھی وہی حال ہوا جو آزادی کے دیوانوں کے خوابوں کا ہوا تھا۔ کیا ملک کا فرض نہیں تھا ،جس کھادی سے غریب ماں کو روز ی ملتی ہے ،جس کھادی سے بیوہ ماں کو اپنے بچوں کو بڑا بنانے کے لئے سہارا ملتا تھا لیکن دھیرے دھیرے اس کو اس کے نصیب پر چھوڑ دیا گیا اور ایک طرح سے وہ موت کے کگار پر آکر کھڑا تھا ۔ میں وزیر اعلیٰ بناتو میں نے بیڑہ اٹھایا ۔ میں نے کہا بھائی آپ بڑے فخرسے کہتے ہیں ، گھر میں کسی کو کہ میرے پاس کوئی یہ فیبرک ہے ، یہ فیبرک ہے ، یہاں کی ساڑ ی ہے ، یہاں کا کرتہ ہے۔ کہتے ہیں نا۔ ہاں بولوتوسہی ۔ارے سچ بولنے میں کیا جاتا ہےیار ۔ تو میں کہتا تھا یار ایک کھادی بھی تو رکھ لو ، میرے پاس یہ فیبرک ہے کھادی بھی تو رکھ لو ۔ ساتھیو ! بات بہت چھوٹی تھی لیکن میں آج ملک کے سامنے سرجھکاتا ہوں ۔ میرے دیش میں اس بات کو بھی گلے لگایا اور آپ کو بھی جان کر لطف ہوگا آزادی کے 75 سال کے بعدآج پہلی بار جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منارہا ہے ، اس سال کھادی کا کاروبار ایک لاکھ کروڑروپے کو پار کرگیا پہلی بار ہوا ۔ کتنی غریب بیوہ ماؤں کو روز ی روٹی ملی ہوگی دوستو ۔پچھلے 8سال میں کھادی کی پیداوار میں لگ بھگ پونے 200 فیصد کا اضافہ ہوا آپ دائرہ دیکھئے دوستو ، میں جس مزاج سے اسٹارٹ اپ کی بات کرتا ہوں میں اسی مزاج سے کرتا ہوں نا ،اسی مزاج سے کھادی کی بھی بات کرتا ہوں ،جس مزاج سے میں سیٹلائٹ کی بات کرتا ہوں اسی مزاج سے میں سوائل کی بھی بات کرتا ہوں۔ ساتھیوں ! آج میں آپ سبھی سے یہ اپیل کروں گا کہ بھارت کے لوکل کو گلوبل بنانے میں آپ بھی میرا ساتھ دیجئے ۔ یہاں کے لوگوں کو بھارت کے لوکل کی تکسیریت ، بھارت کے لوکل کی طاقت ، بھارت کے لوکل کی خوبصورتی سے تعارف آپ بہت آسانی سے کرواسکتے ہیں۔ سوچئے ،دنیا میں اتنا بڑا انڈین ڈائسفورا ہر ملک میں پھیلا انڈین ڈائسفورا اور انڈین ڈائسفورا کی خوبیاں یہ ہیں کہ جیسے دودھ میں شکر مل جاتی ہے ۔ ہے نا ۔ ویسا ہی مل جاتا ہے یہ ۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا ویلیو ایڈیشن کرتے وقت ۔ دودھ کو میٹھا بنادیتا ہے۔ جس کے پاس یہ اہلیت ہے وہ آسانی سے ہندوستان کے لوکل کو اپنی کوششوں سے جرمنی کی سرزمین پر گلوبل بناسکتا ہے۔ کروگے۔ کیسی آواز دب گئی ۔ کہنے میں کیا جاتا ہے۔ مودی جی کہا اب دوبارہ آئیں گےدوستو ، ��یں آپ پر بھروسہ کرتا ہوں ۔ آپ کریں گے مجھے یقین ہے دوستو! کیا آپ کو اور ایک بات یاددلانا چاہتا ہوں ہمارا یوگ ہو ، ہمارا آیووید ہو ، ہماری ٹریڈشنل میڈیسن کے پروڈکٹ ہوں ، آپ سوچ نہیں سکتے آج اس کا اتنا پوٹینشئل ہے ، آپ ہندوستان سے ہے ایسا کہتے کہ سامنے والا آپ سے پوچھتا ہوگا ،یوگ جانتے ہو ، پوچھتا ہے کہ نہیں پوچھتا ہے اور آپ کچھ بھی نہیں جانتے صرف ناک پکڑنا بتادوگے تو بھی مانے گا ہاں یار یہ بھی ماسٹر ہے ۔ بھارت کے رشی منیوں کی تپسیا کی آبرو اتنی ہے کہ آپ ایک چھوٹا سا بورڈ لگادو یا کوئی آن لائن پلیٹ فارم کھڑا کردو اور ناک پکڑنا سکھادو ڈالر سے کر فیس دینے آئے گا کہ نہیں آئے گا۔ کیا برانڈ ویلیو بنائی ہوگی آپ نے رشی منیوں کے ساتھ ہزاروں سال پہلے جو رشی منیوں نے جو تپ کرکے چھوڑ دیا وہ راستہ آج دنیا وہ لے کر کے آئی ہے لیکن کیا آپ اس کے ساتھ جڑے ہیں کیا ۔ میں آپ سے اپیل کروں گا ۔21 جون کو انٹر نیشنل یوگ ڈے بہت دور نہیں ہے ابھی سے ٹولیاں بناکر چاروں طر ف چھا جائے دوستو! ہرکسی کو ناک پکڑنا سکھادو دوستو ۔ ناک کاٹنا نہیں سکھادو ۔ ساتھیو! آج آپ کے بیچ ایک موضوع کی چرچا کرناچاہتا ہو ں وہ کلائیمیٹ ایکشن بھارت میں کلائمیٹ چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہم عوامی طاقت سے ٹیک پاور تک ہر سمادھان پر کام کررہے ہیں ۔ گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے بھارت میں ایل پی جی کی کوریج کو 50 فیصد سے بڑھاکر تقریباََ 100 فیصد کردیا ہے۔ بھارت کا ایل ای ڈی بلب اب جرمنی والے ہیں تو ذرا بلب والی بات جلدی سمجھوگے ۔ بھارت کا لگ بھگ ہر گھر اب ایل ای ڈی بلب استعمال کررہا ہے ۔اجولا یوجنا کے تحت ہم نے ملک میں تقریباََ 37 کروڑ ایل ای ڈی بلب تقسیم کئے ہیں اور ایل ای ڈی بلب کا استعمال توانائی بچت کے لئے ہوتا ہے اور آپ جرمنی میں سینا ٹھوک کر لوگوں کو کہہ سکتے ہیں کہ بھارت نے ایک چھوٹی سی تبدیلی لاکر کیا کیا ہے اور کی وجہ سے تقریباََ 48000 ملین کلوواٹ اوور بجلی بچی ہے اورہرسال تقریباََ 4 کروڑٹن کاربن ایمی شن کم ہوا ہے ۔ ساتھیو ! ایسی ہی کوششوںکی وجہ سے آج بھارت غیر معمولی طور پر گرین جاپس کے شعبے میں ایک نیا فیلڈ کھول رہا ہے ، آگے بڑھ رہا ہے ، مجھے خوشی ہے کہ بھارت اور جرمنی نے بھی لیکن انرجی کو لے کر ایک بہت بڑی پارٹنر شپ کی طرف ایک قدم اٹھا یا ہے۔ ساتھیو! آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم نے کلائیمیٹ ،ذمہ داری کو اگلے لیبل پر بھی لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں مثال دیتا ہوں کہ بھارتیوں نے ملک کے ہرضلع میں ہر ڈسٹرکٹ یعنی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ میں کیا بتارہا ہو ں ۔ ہر ڈسٹرکٹ میں 75 نئے امرت سروور بنانے کا عہد لیا ہے۔ تالاب بنانے کا۔ چاند ی ملک میں تقریبا ََ آنے والے 500 دن میں 50000 نئی باڈیز بنیں گے ، پونڈس بنیں گے یا تو پرانے پونڈس کو پھر سے متحرک کیا جائے گا ۔ پانی ہی زندگی ہے ۔ پانی ہے تو کل ہے ۔ لیکن پانی کے لئے بھی تو پسینہ بہانا پڑتا ہے دوستو۔ کیا آپ اس مہم سے جڑ سکتے ہیں دوستو۔ آپ جس گاؤں سے آئے ہیں اس گاؤں میں تالاب بنے ۔ا س تالاب کو بنانے میں آپ کا بھی تعاون ہو ۔ آپ بھی ان کو تحریک دیں اور آزادی کے امرت مہوتسو میں امرت سروور بنانے میں دنیا میں پھیلے ہوئے ہر ہندوستانی کا تعاون تھا ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کو کتنا مزہ آئے گا۔ ساتھیو! بھارت کی بہترین سمجھ رکھنے والے مشہور جرمن اسکالر میکس مولر نے انڈویورپئن ورلڈ کے شئیر ڈ فیوچر کی بات کی تھی ۔ آپ میں سے سب لوگ یہاں دن 10 بار اس کا تذکر ہ کرتے ہوں گے ۔ اکیسویں صدی میں اس کو زمین پر اتارنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ بھارت اوریورپ میں مضبوط ساجھیداری دنیا میں امن اور خوشحالی کو یقینی بناسکتی ہے ۔ یہ ساجھیداری لگاتار بڑھتی رہے ۔ آپ بھی اسی جوش اور جذبے کے ساتھ انسانوں کی بہبود کے لئے بھارت کی فلاح میں کچھ نہ کچھ تعاون کرتے رہیں ۔ ہم تو وسودیو کٹمبکم والے لوگ ہیں ۔ساتھیو، آپ جہاں ہوں بہت آگے بڑھو پھلو پھولو، آپ کے سارے خواب پورے ہوں ۔ یہ میری آپ کے لئے نیک خواہشات ہیں اور 130 کروڑ ہم وطنوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔ آپ خوش رہیں ،صحت مندرہیں ۔ بہت بہت شکریہ!,জাৰ্মানীৰ বার্লিনত সমূদায়ৰ অভ্যৰ্থনা অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-7-%D8%A7%DA%AF%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%AD-%E0%A6%86%E0%A6%97%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,نئی دہلی،05 اگست ،2021 / وزیراعظم جناب نریندر مودی 7 اگست ، 2021 کو صبح 11 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا (پی ایم جے کے اے وائی ) کے مستفیدین کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ اس اسکیم کے بارے میں مزید بیداری پیدا کرنے کے لیے ریاستی سرکار ایک زبردست مہم چلا رہی ہے تاکہ کوئی بھی اہل شخص فائدے سے محروم نہ رہے۔ ریاست میں 7 اگست ، 2021 کو پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا کا دن منا رہی ہے۔ پی ایم جی کے اے وائی کے تحت مدھیہ پردیش میں 4.83کروڑ مستفیدین کو مناسب قیمت والی 25000 سے زیادہ دوکانوں سے مفت راشن دیا جا رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل اور وزیراعلیٰ جناب شیو راج سنگھ چوہان بھی اس موقعے پر موجود ہوں گے۔ تقریب میں اترا کھنڈ ، ہماچل پردیش، اروناچل پردیش، آسام، تریپورہ، ہریانہ اور گوا کے خوراک کے شعبے کے وزراء اور افسر ان بھی شرکت کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ اس۔ ت ح ۔ 7511U –,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৭ আগষ্টত মধ্য প্ৰদেশৰ পিএমজিকেএৱাইৰ হিতাধিকাৰীসকলৰ সৈতে মত-বিনিময় কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7-%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%DB%8C%D9%84%DA%AF%D9%88-%D8%B3%D9%8F%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%D8%B1%D8%B4%D9%86%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%97%E0%A7%81-%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تیلگو سُپر اسٹار کرشنا گارو کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے کہا ہے کہ کرشنا گارو کی وفات سے سینما اور تفریح کی دنیا کا ایک عظیم نقصان ہوا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا: کرشنا گارو ایک مایہ ناز سُپر اسٹار تھے، جنہوں نے اپنی شاندار اور ہمہ گیر اداکاری اور اثرانگیز شخصیت سے لوگوں کے دل جیتے۔ ان کا انتقال ، سینما اور تفریح کی دنیا کا ایک عظیم نقصان ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں @ahesh اور ان کے پورے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔اوم شانتی‘‘,তেলেগু চুপাৰষ্টাৰ কৃষ্ণ গাৰুৰ মৃত্যুত গভীৰ শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%DA%88-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%DB%8C%D8%B3%DB%8C%D9%B0/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%A1-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A4-%E0%A6%AF%E0%A7%80%E0%A6%9A%E0%A7%81-%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ عیسیٰ مسیح کے خدمت اور بھائی چارے سے متعلق نظریات متعدد افراد کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے گڈ فرائیڈے کے موقع پر ٹوئیٹ کیا: ’’آج گڈ فرائیڈے کے موقع پر ہم عیسیٰ مسیح کی بہادری اور قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔ خدمت اور بھائی چارے سے متعلق ان کے نظریات متعدد افراد کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔‘‘,গুড ফ্ৰাইডেত যীচু খ্ৰীষ্টৰ সাহস আৰু ত্যাগৰ কথা স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%AC%DB%92-%D8%A7%DB%92-%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%8F%E0%A6%93%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%8F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 17 اکتوبر کو شام 4 بجے گجرات میں ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے پی ایم جے اے وائی- ایم اے یوجنا کے تحت آیوشمان کارڈس کی تقسیم کا آغاز کریں گے۔ 2012 میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ، وزیر اعظم نے نادار شہریوں کو بیماری اور طبی معالجہ کے افزوں اخراجات سے محفوظ رکھنے کے لیے ’’مکھیہ منتری امروتم (ایم اے)‘‘ اسکیم شروع کی تھی۔سال 2014 میں، ’’ایم اے‘‘ اسکیم کی توسیع ان کنبوں پر احاطہ کرنے کے لیے کی گئی، جن کی سالانہ آمدنی کی حد 4 لاکھ روپئے تک تھی۔ بعد ازاں، اس اسکیم کے تحت دیگر طبقات پر بھی احاطہ کیا گیا۔اس اسکیم کو مکھیہ منتری امراتم واتسلیہ (ایم اے وی) اسکیم کے طورپر نیا نام دیا گیا۔ اسکیم کی کامیابی کے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے، وزیر اعظم نے 2018 میں آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (اے بی – پی ایم جے اے وائی) کا آغاز کیا، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی صحتی بیمہ اسکیم ہے جو کنبہ اراکین اور عمر کی حد مقرر کیے بغیر ہسپتالوں میں پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری حفظانِ صحت خدمات کے لیے ، فی کنبہ سالانہ 5 لاکھ روپئے تک کی مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ اے بی-پی ایم جے اے وائی کے آغاز کے ساتھ، گجرات نے 2019 میں اے بی – پی ایم جے اے وائی اسکیم میں ایم اے / ایم اے وی اسکیم کو ضم کر دیا اور اسے پی ایم جے اے وائی-ایم اے کا نیا نام دیا۔ایم اے / ایم اے وی اور اے بی – پی ایم جے اے وائی کے مستفیدین مربوط پی ایم جے اے وائی- ایم اے کارڈ کے مستحق بن گئے۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم مودی ان کارڈوں کی تقسیم کا آغاز کریں گے۔ مستفیدین کے ای-کے وائی سی کو مکمل کرنے کے بعد، قومی صحتی اتھارٹی کے پینل میں موجود ایجنسیوں کے ذریعہ گجرات بھر میں تمام مستفیدین کو 50 لاکھ رنگین آیوشمان کارڈ ان کے گھروں پر تقسیم کیے جائیں گے۔,গুজৰাটত ‘পিএমজেএওৱাই-এমএ’ যোজনা ‘আয়ুষ্মান কাৰ্ড’ বিতৰণ অভিযানৰ শুভাৰম্ভ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA-%D8%A7%D9%93%D9%86%D9%86%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D9%88%D9%84-%DA%A9%DB%92-%DA%86%D8%A7%DA%A9%D9%84%DB%8C%D9%B9-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%B2-%E0%A6%9A%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%87/,نئی دہلی ،یکم اکتوبر :گجرات کے تحت آنند میں امول کے چاکلیٹ پ��انٹ اوردیگرپروجیکٹوں کے افتتاح کے موقع پرکی گئی وزیراعظم کی تقریرکا متن درج ذیل ہے: اسٹیج پرتشریف فرماں تمام حضرات اوربڑی تعداد میں تشریف لائے ہوئے میرے پیارے بھائیواوربہنو! کیم چھو؟میں دیکھ رہاہوں کہ اتنا بڑاپنڈال بھی چھوٹا پڑگیا۔ وہاں بہت لوگ باہردھوپ میں کھڑے ہیں ۔ آپ سب اتنی بڑی تعداد میں آشیرواد دینےکے لئے آئے ، اس کے لئے ہم سب آپ کے بہت بہت ممنون ہیں ۔ آج قریب قریب 1100کروڑروپے کے کام کاافتتاح ، قوم کے نام وقف کرنے اورسنگ بنیاد رکھنے کا آپ سب نے مجھے موقع فراہم کیاہے ۔ آپ نے میری جو عزت افزائی کی ہے ، اس کے لئےبھی امداد باہمی کی تحریک سے جڑے ہوئے میرے سبھی کسان کنبوں کا میں عزت کے ساتھ نمن کرکے شکریہ اداکرتاہوں ۔ آج دنیا کے 40سے بھی زیادہ ملکوں میں امول برانڈ، اس کی ایک پہچان بن گئی ہے ۔ اورمیں حیران تھا کچھ ملکوں میں جب مجھے جانے کا موقع نصیب ہوا تو کچھ جو وفود ملناچاہتے تھے ، کچھ ہندوستانی سماج سے وہاں رہنے والے لوگ تھے ، کچھ وہاں کے لوگ تھے اور ایک بات کہنے والے مل جاتےتھے کہ ہمارے یہاں بھی امول کے پروڈکٹ کی سپلائی کا کچھ انتظام کیجئے ۔ اور یہ بات جب سنتاتھا تو اتنا فخرہوتاتھا کہ کاشتکاروں کی امداد باہمی کی تحریک سے قریب قریب سات دہوں کے لگاتارجواں مردی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک اورملک کے باہرامول ایک پہچان بن گیاہے ، امول ایک ترغیب بن گیاہے ، امول ایک لازمیت بن گیاہے ۔ یہ حصولیابی چھوٹی نہیں ہے ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ یہ ایک صرف کو ئی پیداکرنے والی صنعتی اکائی نہیں ہے ، یہ کوئی صرف ملک پروسیسنگ کے طریقہ ہی نہیں ہے ، یہ ایک معیشت کا متبادل ماڈل بھی ہے ۔ ایک طرف سماج وادی اقتصادی ڈھانچہ ، دوسری طرف پونجی وادی اقتصادی ڈھانچہ ، ایک طرف حکومت کے قبضے والی معیشت ، دوسری طرف دھنا سیٹھوں کے قبضے والی معیشت ۔ دنیا ان ہی دونوں نظاموں سے واقف رہی ہے ۔ سردارصاحب جیسی عظیم شخصیات نے اس بیج کو بویاجو آج تیسری معیشت کا نمونہ بن کر کے ابھراہے ، جہاں نہ سرکارکا قبضہ ہوگا ، نہ دولت مندوں کا قبضہ ہوگا ، وہ امداد باہمی تحریک ہوگی اورکاشتکاروں کے ، شہریوں کے ، عوام الناس سے ہی امداد باہمی سے معیشت کی تشکیل نو ہوگی ، پنپے گی ، بڑھے گی اورہرکوئی اس کا حصہ دارہوگا۔ یہ معیشت کا ایک ایسا ماڈل ہے جو سماجواداور پونجی واد کو ایک متبادل فراہم کرتاہے ۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ آزادی کے قریب ایک سال پہلے اس امول کی ایک باقاعدہ طریقے سے تشکیل ہوئی تھی ، لیکن امداد باہمی تحریک اس سے بھی پہلے وجودمیں تھی ۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا جب سردارولبھ بھائی پٹیل احمد آباد میونسپلٹی کے اس وقت کارپوریشن نہیں تھا ، نگرپالیکاتھی ، اس نگرپالیکا کے چیئرمین ا ن کاانتخاب ہوا، وہ نگرپالیکاکے صدربنے ۔ اور دریاپور سے انتخاب جیت کرکے آئے تھے ،جہاں کبھی ہمارے کوشک بھائی جیتتے تھے ۔ اورسردار صاحب میونسپلٹی میں صرف ایک ووٹ سے جیت کرکے آئے تھے ، ایک ووٹ سے ۔ اوربعد میں چیئرمین بنے ۔ گجرات میں پہلی بار شہری ترقی کا منصوبہ ہونا چاہیئے ، شہری ترقی کی منصوبہ بند ی ہونی چاہیئے ، اس نظریے کے جب سرداد صاحب احمدآباد میونسپلٹی کے صدر تھے ، تب پہلی بار گجرات میں تعارف ہوا۔ اوراسی وقت انھوں نے سب سے پہلا تجربہ کیا کوآپریٹوہاؤسنگ سوسائٹی کا ۔ امداد باہمی کی بنیاد پر مکانات کی تعمیر کاکام ، متوسط طبقے کو مکان ملے ۔اور اس وقت ایک پریتم رائے دیسائی ہواکرتے تھے ، جن کو سردار صاحب نے کام دیا اورگجرات میں وردیش میں پہلی ہاؤسنگ سوسائٹی بنی ۔ جس کی قیادت ، رہنمائی ، رچنا سردارصاحب کی رہنمائی میں پریتم دیسائی نے کی تھی ۔ اور 28جنوری ، 1927کو سردار صاحب نے اس کا افتتاح کیاتھا۔ اورافتتاح کرنے کے ساتھ انھوں نے ایک نیا ماڈل ہے ترقی کا ، اس بات کو لوگ یادرکھیں اس لئے پریتم رائے دیسائی کی عزت افزائی کرتے ہوئے انھوں نے اس سوسائٹی کانام پریتم نگررکھاتھا۔ آج بھی احمدآباد میں پریتم نگراس امداد باہمی کی پہلی کامیاب یعنی ایک طریقے سے کامیابی کی پہلی یادگارموجود ہے ۔ اوراسی میں سے آگے جاتے جاتے ہرشعبے میں امداد باہمی کے رجحان کو اورخاص کرکے گجرات اورمہاراشٹر، کیونکہ اس وقت وسیع ترمہاراشٹرتھا۔ اس پورے علاقے میں امدادباہمی ، یہ انتظام نہیں ، امداد باہمی ۔یہ اصولوں سے بندھی ہوئی کو ئی تخلیق نہیں ، امداد باہمی ایک سنسکارکے طورپرہمارے یہاں جن مانس میں قائم ہوئی اوراسی کا نتیجہ ہے کہ آج گجرات کی امداد باہمی تحریک سے جڑے لوگ پورے ملک کے لئے ایک ماڈل کے طورپر کام کرتے ہیں ۔ آج امول سے آگے جنوبی گجرات میں اس میں اپنا قدم رکھا۔ دودھ ساگرڈیری بناس ڈیری بنی۔ کبھی کبھی میں سوچتاہوں کہ اس اعلیٰ نظریات کے حامل ہمارے یہاں امداد باہمی کے لوگ نہ ہوتے تو گجرات جو دس سال میں سات سال قحط کے حالات میں جینے کے لئے مجبورہواکرتاہے ، اس وقت وہ مصیبت تھی ، آج وہ کم ہواہے ۔ وہ کاشتکار، وہ مویشی پالنے والے ، اس پریشانیوں سے کیسے گذاراکرتاہے ۔ یہ دودھ پیداوارمنڈلی نے کسانوں کے اس مسئلے کا حل تلاش کیااورقحط پڑجائے تو بھی مویشی پروری اور دودھ فروخت کرکے کاشتکاراپنا گذاراکرلیتاتھا، مویشی پالنے والے گذاراکررہے تھے اور زندگی چل پڑتی تھی ۔ لیکن بعد میں ایک ایسا بھی وقت آیا ، کسی نہ کسی وجہ سے گاندھی نگر میں ایسے لوگ بیٹھے کہ جنھوں نے اس امداد باہمی ڈیری صنعت کو رکاوٹیں پیداکرنے والے اصول بنائے ۔ کچھ ۔ سوراشٹرمیں ایک طریقے سے ڈیری بنانا چلانا ایک بوجھ بن گیا ، جب کہ مویشی پروری کچھ سوراشٹرمیں زیادہ تھی۔ جب ہم لوگوں کو خدمت کرنے کا موقع ملا ہم نے روپ بدل دیا۔ہم نے کہا۔ ہرجگہ پر حوصلہ افزائی کی جائے ۔ اورمیں محسوس کررہاہوں آج قریب قریب گجرات کے سبھی ضلعو ں میں مویشی پروری کے لئے ، کاشتکارکے لئے ، دودھ کی پیداوارکے لئے ایک بہت بڑاموقع فراہم ہواہے ۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بڑے قابل مانتے ہیں ، عالم مانتے ہیں اورجب ان کے دائرے کے باہر کی چیز آتی ہے ان کا من ، ان کا تکبراسے تسلیم کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتا۔ مخالفت کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے اور اس لئے اس کا مضحکہ اڑانا ، مذاق اڑانا اور ایسی ہلکی ہلکی باتیں کرنا ، جس کا آپ تصوربھی نہیں کرسکتے ۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں اورمجھے برابر یاد ہے جب کچھ میں وہائٹ ڈیزرٹ رنوتسوکا آغاز کررہے تھے ، رنوتسوکو بڑھا رہے تھے ، زلزلے بعد کچھ کی معیشت کو وایبرنٹ کرنے کے لئے متعدد منصوبے وضع کررہے تھے تو ایک باروہاں اپنی تقریرمیں میں نے کہاتھا کہ ۔ میں نے کہاتھا کہ جہاں تک میری جانکاری ہے ، جو اونٹ کا دودھ ہوتاہے اونٹی کا دودھ وہ بہت زیادہ تغذیاتی اہمیت والا ہوتاہے ۔ ہمارے بچوں کی صحت کے لئے بہت کام آسکتاہے ۔ ہم پتہ نہیں اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی نے کیاگناہ کردیاکہ اونٹ کے دودھ کو لے کرکے جہاں جاتا ، میری مذاق اڑائی جاتی تھی ، کارٹون بنتے تھے ، مکھول اڑایاجاتاتھا ، پتہ نہ��ں ایسے ایسے بھدے فقرے بولے جاتے تھے ۔ آج مجھے خوشی ہوئی کہ امول کی کیمل کے دودھ سے بنی ہوئی چاکلیٹ ، بہت بڑی اس کی مانگ ہے ۔اورابھی مجھے رام سنگھ بھائی بتارہے تھے کہ گائے کے دودھ سے ڈبل قیمت اونٹ کے دودھ کی آج ہوگئی ہے ۔ کبھی کبھی انجانے میں لوگ کیاحال کردیتے ہیں ، اس کی یہ مثال ہے ۔ اب ریگستان کے اندراونٹ کو پرورش کرنے والے انسان کو جب اتنا بڑا مارکیٹ ملے گا تو اس کی روزی روٹی کا ایک نیا سہارا تیارہوجائیگا، اورمجھے خوشی ہے کہ آج اتنے سالوں کے بعد امول نے میرے اس خواب کو شرمندہ ٔ تعبیرکردیا۔تغذیہ کے لئے ، نیوٹریشن کے لئے ہمارے ملک میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہم محسوس کرتے آئے ہیں ۔ جب میں گجرات میں وزیراعلیٰ تھا ، تب میں تغذیہ مشن کو لے کرکے بہت کچھ چیزیں شروع کرتاتھا۔ کیونکہ میر ا یہ فیصلہ رہاہے کہ ہمارے یہاں ماں اوربچہ ، اگریہ صحت مندہوں گے توہندوستان کبھی بیمارنہیں ہوسکتاہے ، ہمارا بھارت بھی صحت مندرہ سکتاہے ۔ مجھے آج ایک اورخوشی ہوئی کہ یہاں پر شمسی توانائی اور امداد باہمی پرمبنی تحریک ، اس دونوں کا ملن کیاگیاہے۔ اگرکھیت میں فصل پیداہوتی ہے تب کھیت میں بجلی بھی پیدا ہوگی ۔ اورمیں ان کاشتکاروں کا احترام کرتاہوں ، ان 11کاشتکاروں نے مل کرکے ، کوآپریٹوبناکرکے بجلی پیداکی ، کھیتی میں امداد کی ، جو زائد تھی وہ ریاستی سرکارکی پالیسی کی وجہ سے اب خریدی جارہی ہے ۔ اورمجھے بتایاگیاہے کہ اس امداد باہمی کو سال بھر میں 50ہزارروپے کی علاوہ آمدنی ہوگی ۔ امداد باہمی کے شعبے میں یہ چروترکی سر زمین ہروقت ، سدانئے استعمال کرنے کے لئے ہمت رکھتی ہے ۔ حکومت ہند نے تین اہم منصوبوں کو آگے بڑھا یا ، ایک جن دھن ، ون دھن اور تیسرا گوبردھن ۔ جن دھن ، ون دھن ، گوبردھن ۔ فضلے میں سے دولت ،مویشی کا جوفضلے ہیں اس میں سے بھی دولت اورگوبردھن میں سے گیس بنانا ، بجلی بنانا، فرٹیلائزربنانا، اورمجھے برابریاد ہے کہ ڈاکور امریتھ کے پاس ہمارے ایک بڑے جوشیلے کام کرنے والے ساتھی تھے ، انھوں نے 12-10گاوؤں سے سارا گوبر جمع کرنے کا پروجیکٹ شروع کیا۔ اورایک بڑا گوبرگیس پلانٹ بناکر کے آس پاس کے گاوؤں میں وہ گیس پہنچانے کا منصوبہ اس وقت کرتے تھے ۔ آج بھی جیسے 11کاشتکار یکجاہوکرکے ایک سولار پمپ کے لئے بجلی پیداکرنے کا کام اور بعد میں بجلی بیچنے کا کام ، کھیتی بھی چلتی رہے اورسولار کی بھی کھیتی ہوتی رہے ، ویسا ہی ، 11-11گاوں جمع ہوکرکے بہت بڑا عمدہ گوبردھن کا بھی مشن موڈ میں کام کرسکتے ہیں ۔ آج میں چروترکی سرزمین پرآیاہوں ، سردارصاحب کی جدوجہد سے ، متعدد امدادی شعبے کی عظیم شخصیات کی جدوجہد سے یہاں جو کام ، یہاں جو روایت ہیں ، میں امید کرتاہوں کہ آنے والے دنوں میں امول مارگ درشن کرے ، اورلوگ مارگ درشن کریں اوراس گوبردھن یوجنا کو ہم حقیقی معنوں میں صاف وشفاف بھارت مہم بھی ہوگی، فضلے میں دولت ہوگی ،صاف توانائی ملے گی اور ملک کو بیرونی ممالک سے جو چیزی لانی پڑرہی ہیں ، اس پرانحصارنہیں کرنا پڑے گا ۔ ہم اس میں ملک کی خدمت کا ایک اچھا راستہ کھلے گا ۔ آنے والے دنوں میں اس کا م کوبھی یہاں کے لوگ اگرکریں گے تو ملک کے لئے ایک بڑا نمونے کے طورپر ، کام ہوسکتاہے ، ایسا میرا یقین ہے ۔ اب دوسال کے بعد امول کو 75سال ہوجائیں گے ۔ اور2022میں بھارت کی آزادی کو 75سال ہوجائیں گے ۔ میں نے دیکھاہے کہ امول ، کبھی رکنے کا نام نہ لینا ، یہ امول نہیں ہے ۔ وہ نیا سوچنا ، نیا کرنا ، حوصلہ کرنا ، یہ امول کی فطرت میں ہے ۔ یہاں کی پوری جو ٹولی ہے ، یہاں کا جو ورک کلچرہے ، اس کو سنبھالنے والے جو پیشہ ورہیں ، یہاں کے جو امدادباہمی کی تحریک کے رہنماہیں ، سب کا میں نے کیونکہ میں اس کے ساتھ سالوں سے جڑا ہواہوں ، اس کو سمجھنے کا ہمیشہ میں نے کوشش کی ہے ۔ وہ حوصلہ مندہیں ، نئی چیز کرنے کی فطر ت رکھتے ہیں ۔ میں امول میں بیٹھے ہوئے سبھی پیشہ وروں سے ، امول کی قیادت کرنے والے امدادباہمی تحریک کے تمام رہنماوں سے آج گذارش کرنے آیاہو ۔ جب امول کے 75سال ہوں گے اور جب ہندوستان کی آزادی کے 75سال ہوں گے ، دونوں برسوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کیاامول کوئی نئے مقاصد حاصل کرسکتاہے ۔ نئے نشانے معین کرسکتاہے کیا؟اوراس 75سال کے اندر ہم ایسا 75سال بنائیں گے کہ ہم ابھی سے ، ہمارے پاس دوتین سال کا وقت ہے ۔ ملک کی آزادی کے درمیان میں ہمارے پاس وقت ہے75سال میں ۔ تو ہم کچھ ایسے مقاصد طے کرکے ہمارے جتنے بھی لوگ ہمارے ساتھ جڑے ہیں ، ان کو لے کرکے ملک اوردنیا کو کوئی نئی چیزدے سکتے ہیں کیا؟ آج پوری دنیا میں دودھ پروسیسنگ میں ہم دسویں نمبر ہیں ۔ اگرامول چاہے ، عہدکریں کی آزادی کے 75سال ہوتے ہوتے ہم دس نمبر سے بڑھ کرکے تین نمبر پرپہنچنے کاتعین کرکے چل سکتے ہیں کیا؟مجھے مشکل نہیں لگ رہاہے ۔ ہمارے ملک میں ایک وقت تھا جب ہم فقدان کے زیر اثرزندگی گذارتے تھے ۔ فقدان کے مسائل سے پریشان تھے ۔ اورتب انتظامیہ کے فیصلے کا طریقہ ، سوچنے کا طریقہ کام کرنے کے طریقے ، الگ ہواکرتے تھے ۔ ہم نے بہت تیزی سے اس میں سے باہر آناملک کے لازمی ہوگیاہے ۔ آج ہمارے سامنے خطرے کا فقدان نہیں ہے ۔ آج ملک کے سامنے چنوتی ہے بہتات کی ۔ اتنی بڑی مقدار میں کاشتکارپیداوارکرتاہے کہ کبھی کبھی بازارگرجاتاہے ، کاشتکارکابھی نقصان ہوجاتاہے کیونکہ بہتات ہے ۔ پہلے وقت تھا کہ پیداواربہت کم ہوتاتھا ، باہرسے ہم۔ گیہوں تک باہرسے لاکرکے پیٹ بھرتے تھے ۔ جیسے سفید انقلاب ہواویسے ہی زراعتی انقلاب آیا، ملک کے اناج کے ذخائربھرے ۔لیکن اب ہماری ضرورت سے بھی زیادہ کچھ چیزوں میں ہم زیادہ ہیں ۔ ایسی صورت حال کا ذریعہ ، اس کا پروسیسنگ ہوتاہے ، ویلیوایڈیشن ہوتاہے ۔ اگرہم اس ڈیری صنعت کو فروغ نہ دیتے ،دودھ کے نئے نئے طریقے ، نئے نئے پروڈکٹ نہ بناتے تو شاید یہ دودھ کی پیداواربھی کاشتکارچھوڑدیتا ، مویشی پروری چھوڑ دیتا کیونکہ اس کو ٹکنے کے امکانات ہی نہیں تھے ۔ لیکن یہ انتظام ہونے کے وجہ سے کاشتکاردودھ پیداوارمیں آج بھی اسی جوش کے ساتھ جڑاہواہے ۔ اسی طرح سے ہمارے لئے زرعی مصنوعات ، اس میں بھی ویلیوایڈیشن ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا ، تو یہی آنند میں ایک روز زراعتی میلہ لگاتھا تو میں اس میں آیاتھا ۔تومیرا ایک پرانا ساتھی مجھے وہاں مل گیا ۔ اب میں بھی بڑا حیران تھا ، کوٹ پینٹ ،ٹائی پہن کرکے کھڑاتھا ، میں نے کہاکیابات ہے بھائی ، تم توبہت بدل گئے ہو، کیاکررہے ہو آج کل ؟تو اس نے مجھ کیا کہا۔ آپ نے یہاں سردہوئے جنا، سدرمانو پاندڑا،اینوپاوڈربناوری بیچوسوں ، انے بہت موٹی کمائی کروں سوں !اس کو کہتے ہیں ویلیوایڈیشن ۔ یعنی پہلے سرد وہ پہلاپڑھوں تھوں ، پاندرہ پہلے پڑھا تھا نیچے پڑھتاتھا، پن اینی نیوٹریشن ولیونی خبر نوتھی ۔کوئی اے کام میں لوگیونے تو۔ ہماری ہرایگرو پروڈکٹ میں وہ طاقت ہے ۔ ٹماٹرپیدازیادہ ہوتے ہیں ،ٹماٹرکا مارکیٹ ڈاون ہوجاتاہے ، ٹماٹردودن ، تین دن میں خر��ب ہوجاتے ہیں ، لیکن اگرٹماٹرکا ویلیوایڈیشن ہوتاہے ، پرووسینسگ ہوتاہے ، کیچ اپ بن جاتاہے ، بڑھیا سی بوتل میں پیک ہوجاتاہے ، مہینوں تک خراب نہیں ہوتاہے اوردنیا کے بازارمیں بک جاتاہے ۔ ہمارے کاشتکارکو کبھی نقصان نہیں ہوتاہے ۔ اوراس لئے جس طرح سے دودھ کا پروسیسنگ ، اس نے ہمارے کاشتکاروں کو ایک بڑی طاقت دی ہے ۔ آنے والے دنوں میں ہم نے زرعی مصنوعات کا بھی پروسیسنگ ، ویلیوایڈیشن ، قیمت میں اضافہ ، اس کو ہمیں بل دینا ہے ۔ اوراسی لئے حکومت ہند نے وزیراعظم کرشی سمپدا یوجنا کے تحت ہندوستان میں ہمارے زرعی پیداوارکو اورزیادہ طاقت ملے ، اس سمت میں ہم کام کررہے ہیں ۔ میں نے کبھی ہمارے اس ڈیری والوں سے کہاتھا ۔ امریلی اور بناس ڈیری نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ شاید اوروں نے کیاہوگا لیکن مجھے شاید جانکاری نہ ہو۔ ان کو میں نے کہاتھا کہ جیسے ہم نے سفید انقلاب کیا ویسے ہمیں سویٹ ریولیشن بھی کرنا چاہیئے ۔ اورجو ہمارے کاشتکاربھائی اس دودھ منڈلی سے جڑے ہیں ، ان کو شہد کی مکھی پروری کی بھی تربیت دینی چاہیئے ۔اوروہ جو شہد کی پیداوار کریں ، جب ہم دودھ لینے جائیں ، اس کے ساتھ شہد بھی لے کرکے آئیں ۔ اورجیسے اس پلانٹ میں اس کا پیکیجنگ کرتے ہیں ، ویسا ہی ایک پیکیجنگ کریں ۔ امریلی ضلع اور بناس ، دونوں ڈیری آج شہد پیداوارکی سمت میں بہت بڑا تعاون کررہے ہیں ۔ ہندوستان میں پہلے جتنا شہد پیداہوتاتھا، اس سے آج کئی گنا شہد پیداہونا شروع ہوا ہے اوروہ بیرونی ممالک میں جانے لگاہے ۔ اگروہ بکے گانہیں ، گھرمیں کھایاجائیگا توبھی بچو ں کی تغذیہ کے کام میں آئیگا۔ اس سمت میں الگ سے محنت نہیں ہے ۔ جیسے وہ ہی کھیت چھوٹا ساکیوں نہ ہو، اگراس پرسولرپینل لگائیں ، زیادہ قیمت مل جائیگی ۔ اسی کے اندر شہدکی مکھی پروری کی کچھ چیزیں لگادیں ، اورزیادہ کمائی ہوجائیگی ۔ اس کے لئے ہم 2022، آزادی کے 75سال تک ہندوستا ن کے کاشتکاروں کی آمدنی میں دوگنی کرنے کے لئے ایسے متعدد نئے نئے تصوراتی خاکوں کو مربوط کررہے ہیں ۔ میں امید کرتاہوں کہ ہم اس کے ساتھ جڑیں ۔ اورایک خیال میں نےپہلے ظاہرکیاتھا ، میں اس کو کرنہیں پایا، جب میں یہاں تھا، لیکن ہم کرسکتے ہیں ۔ جیسے یہاں ٹیک ہوم راشن ، اس کے موضوع پراچھا کام ہواہے ۔ یہاں پربچوں کی تغذیہ کے لئے بال امول کی رچنا کے بارے میں بہت اچھاکام ہواہے ۔ ہم دوپہرکے کھانے کی سمت میں بھی بڑا کام کرسکتے ہیں ۔ جن گاوؤں میں ہم دودھ لینے جاتےہیں ،سینٹرلی اگرہم بڑا ککنگ پلانٹ لگائیں ، اورجب ہماری گاڑی دودھ لینے جاتی ہےصبح توساتھ میں وہاں جو اسکول ہوگی ، ان بچوں کے لئے بہت بڑھیا ٹیفن کے اندردوپہرکاکھانالے کرکے جائیں ۔ اسکول کے بچوں کے لئے وہاں ٹیفن چھوڑدیاجائے ۔ ٹیفن بھی ایسا بڑھیا ہو کہ گرم گرم کھانا ملے اور جب دوسرے دن جب دودھ واپس آتاہے تو ساتھ میں خالی ٹیفن بھی چلاآئے ۔کوئی زیادہ نقل وحمل کا خرچ کئے بنا ہم آرام سے ، ہماری جہاں جہاں دودھ منڈلی ہے وہاں کے اسکولوں میں سرکارپیسے دیتی ہے ، ہم صرف منیجمنٹ کریں ۔ میں یقین دلاتاہوں کہ جس طرح سے اسکان کے ذریعہ دوپہرکے کھانے کے منصوبے کو تقویت ملی ہے ، ہماری سبھی ڈیری بہت عمدہ طریقے سے ہمارے ان بچوں کو اسی نظام کے تحت کھانا پہنچاسکتی ہے ۔ ایک ہی نظام کا ملٹی پل یوٹلٹی ، اس کو دھیان میں رکھ کرکے اگرہم منصوبے بنائیں گے ، میں یقین سے کہتاہوں کہ ہم صرف کچھ محدود شعبوں میں ہی نہیں ، زندگی کے ہرشعبے میں اثرپیداکر��ے کا کام کرسکتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ دھرمچ کے ہمارے لو گ، پورے ملک میں میں نے دیکھا ہے کہ جو گوچر کی زمین ہوتی ہے ، اس پرہمیشہ جھگڑا ہوتاہے ۔ کسی نے ان کروچ منٹ کردیا ، ڈھکناکردیا ، فلانا کردیا۔ لیکن ہمارے دھرمچ کے بھائیوں نے سالوں پہلے کوآپریٹوسوسائٹی بنائی اورگوچر کی ترقی کوآپریٹوپرکیا اورروزانہ ، گرین گراس ہوم ڈیلیوری دیتے تھے اس وقت ۔ آج تو مجھے معلوم نہیں ۔ میں پہلے کبھی آیاکرتاتھا ۔ ہو م ڈیلیووری دیتے تھے گرین گراس ، اگردو مویشی ہیں ، توآپ کو اتناکلوچاہیے ، پہنچادیتے تھے ۔ اوراس میں سے جوکمائی ہوتی تھی اس سے وہ گوچر کی سرزمین کے ڈیولپمنٹ کا جدید کام انھوں نے کھڑا کیا۔ میراکہنا کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کی سوچ میں امدادباہمی کے روایات پڑی ہیں ۔ ہم اس امداد باہمی کی وسیع شکل کیسے بنائیں ، ہم کیسے اورچیزوں کے ساتھ جڑیں اور اس کو آگے بڑھانے کی سمت میں ہم کیسے کام کریں ۔ میں پھرایک بار آج امول کنبے کو اس چروترکی سرزمین کے میرے پرگتی شیل کاشتکارکے بیٹوں کو ، اس سرزمین کے جواں مرد سردارولبھ بھائی پٹیل کو یادکرتے ہوئے اورانھوں نے جو عمدہ روایت قائم کی ہے اس روایت سے وابستہ امداد باہمی کے شعبے کو وقف تمام افراد کو بصد احترام یاد کرتے ہوئے میں آج اس بہت بڑی اسکیم کو، مختلف النوع اسکیموں کو، گجرات کی سرزمین کو ، ملک کی سرزمین کو وقف کرتے ہوئے ازحد فخرکے احساس کے ساتھ ،آپ سب کو بہت بہت نیک تمنائیں پیش کرتاہوں ۔ اورحکومت ہند کی جانب سے یقین دلاتاہوں کہ ، ان تمام کاموں میں اسے آگے بڑھانے میں دہلی کی حکومت کبھی پیچھے نہیں رہےگی ۔ حکومت ہند کندھے سے کندھا ملاکرکے اس کی ترقی کے لئے آپ کی شراکت داربنے گی ۔ اسی گذارش کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولیں گے : بھارت ماتا کی ۔جئے کیوں بھائی ، کیاہوگیا، یہ میراچروترہے ،آواز ایسی نہیں ہوتی ۔ بھارت ماتاکی ۔جئے ۔ یہ بات ہوئی ، شاباش ۔ شکریہ,গুজৰাটৰ আনন্দত আমুল চকলেটৰ কাৰখানা তথা অন্যান্য প্ৰকল্পৰ মুকলি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%D9%85%D9%84%DA%A9-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ساکشی ملک کو دولت مشترکہ کھیل 2022 میں 62 کلوگرام ریسلنگ میں گولڈ میڈل جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’ہمارے ایتھلیٹس دولت مشترکہ کھیل برمنگھم میں ہمیں مسلسل فخر کرنے کا موقع فراہم کرر رہے ہیں۔ کھیلوں میں ساکشی ملک کی شاندار کارکردگی نے بہت متاثر کیا۔ میں انہیں باوقار گولڈ میڈل جیتنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ وہ ٹیلنٹ کا پاور ہاؤس ہیں اور ان میں اعلی درجے کا لچیلا پن موجود ہے‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,কমনৱেল্থ গেমছত মল্লযুঁজৰ ৬২ কেজি শাখাত স্বৰ্ণ পদক অৰ্জন কৰা সাক্ষী মালিকক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%86%DB%8C-%DA%86%D9%86-%D9%BE%D9%86%DA%AF-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%99%E0%A6%95-%E0%A6%9F%E0%A7%87/,نئی دہلی، 20 مارچ 2018/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج عوامی جمہوریہ چین کے صدر جناب چی چن پنگ کو ٹیلی فون کیا اور انہیں عوامی جمہوریہ چین کا دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی دو بڑی طاقتوں کی حیثیت سے ہندستان اور چین کے درمیان باہمی تعلقات 21ویں صدی کو ‘ایشیا کی صدی ’بنانے میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ وہ باہمی دلچسپی کے قومی اور علاقائی مسائل پر قریبی صلاح و مشورہ کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ج ۔ ج۔,ৰাষ্ট্ৰপতি জি জিনপিঙক টেলিফোনযোগে শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A7%B0/,نئی دہلی،20/ اکتوبر اسٹیج پر موجود مہاراشٹر کے گورنر محترم ساگر راؤ جی، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب دیویندر جی،اسمبلی کے اسپیکر ہری بابو جی، وزرا کی کونسل کے میرے ساتھی جناب سبھاش دھامرے جی، سائیں بابا سنستھان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم سریش ہاورے جی، مہاراشٹر کے تمام وزرا، پارلیمنٹ کے میرے ساتھی ، مہاراشٹر کے ارکان اسمبلی اور یہاں بڑی تعداد میں موجود میرے پیارے بھائیو اور بہنوں آپ سبھی کو، پورے مہاراشٹر، پورے ہندوستان کو اور ملک کے تمام عوام کو دسہرے اور وجے دشمی کی بہت بہت مبارکباد۔ ہم سبھی کی یہ کوشش رہتی ہے کہ ہر سال تہوار کو اپنوں کے ساتھ منائیں، میری بھی یہ کوشش رہتی ہے کہ ہر تہوار ملک کے عوام کے ساتھ جاکرکے مناؤں۔ اسی جذبے کے ساتھ آج آپ سبھی کے درمیان حاضر ہونے کا مجھے موقع ملا ہے۔ جس طرح آپ سبھی دسہرے کے مبارک موقع پر بڑی تعداد میں یہاں مجھے آشیرواد دینے آئے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ کہیں جگہ بھی نہیں بچی، آدھے لوگ تو دھوپ میں کھڑے ہیں۔ میں آپ سب کا اور آپ کا یہی اپنا پن، یہی میری لیاقت ہے اور آپ کی اس محبت کے لیے ، آپ کی یہ محبت مسلسل نئی توانائی بخشتی ہے، مجھے طاقت دیتی ہے۔ ساتھیو! دسہرے کے ساتھ ساتھ ہم آج شرڈی کی اس پاکیزہ سرزمین پر ایک اور پاکیزہ موقع کے شاہد بن رہے ہیں، سائیں بابا کی سمادھی کی صد سالہ تقریب کو بھی آج پورا ہونے کا، مکمل ہونے کا، اختتام پذیر ہونے کا یہ موقع تھا۔ تھوڑی دیر قبل ہی مجھے سائیں بابا کے درشن میں، ان کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا، میں جب بھی پوجیہ سائیں بابا کا درشن کرتاہوں، ان کو یاد کرتاہوں تو کروڑوں عقیدتمندوں کی طرح جیسے آپ لوگوں کے دل میں جذبہ جاگتا ہے ویسے ہی عوامی خدمت کا جذبہ اور عوامی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنے کا ایک نیا ولولہ اس سرزمین پر سے ملتا ہے۔ بھائیو اور بہنو! شرڈی کے ذرّے ذرّے میں سائیں کے منتر، ان کی سیکھ ہے۔ عوامی خدمت ، ایثار اور تپسیا کی جب بات ہوتی ہے تو شرڈی کی مثال ہر کوئی پیش کرتا ہے۔ یہ ہمارا شرڈی تاتیہ پاٹل جی کی نگری ہے، یہ دادا کوتے پاٹل جی نگری ہے، یہ مادھو راؤ دیش پانڈے، مالساپتی جیسے عظیم انسان اسی سرزمین نے دیئے ہیں۔ کاشی رام شپی اور اپّا جاگلے، سائیں بابا کے آخری وقت تک خدمت ک��تے رہے۔ کونڈا جی، گوا جی اور تکارام کو کون بھول سکتا ہے۔ اس پاک سرزمین کے عظیم فرزندوں کو میں سلام کرتا ہوں۔ بھائیو اور بہنو! سائیں کا منتر ہے سب کا مالک ایک ہے۔ سائیں کے چار لفظ جیسے معاشرے کو ایک کرنے کا بنیادی مقولہ بن گئے ہیں۔ سائیں سماج کے تھے اور سماج سائیں کا تھا۔ سائیں نے سماج کی خدمت کے کچھ راستے بتائے تھے اور مجھے خوشی ہے کہ سائیں بابا کے دکھائے راستے پر شری سائیں سنستھان، ٹرسٹ مسلسل سماج کی خدمت کر رہا ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے سماج کو بااختیار بنانا ہو، روحانیت کے ذریعے خیالات میں تبدیلی لانی ہو، سماج میں یکسانیت اور ساتھ ساتھ رہنے کے جذبے کو پھیلانا ہو ، اس کے لیے آپ کی کوشش بہت ہی قابل ستائش ہے۔ آج بھی اس سرزمین پر عقیدت، روحانیت اور ترقی سے جڑے متعدد پروجیکٹوں کی شروعات ہوئی ہے اور میں مہاراشٹر سرکار کو مبارکباد دیتا ہوں کہ غریبوں کی بہبود کے اتنے بڑے منصوبے کے لیے اس سے بڑھ کر کے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ سائیں کے قدموں میں بیٹھ کرکے غریبوں کے لیے کام کرنا اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے اور اس لیے مہاراشٹر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ درشن کرنے والوں کے لیے بننے والے کیمپس کے بھومی پوجن کے موقع پر موجود ہونے پر مجھے خوشی ہو رہی ہے۔ آج ہی کے دن سائیں بابا انگلش میڈیم اسکول کنیا ودھیالیہ اور کالج کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سائیں کی زندگی اور فلسفے کو لے کر شروع ہونے والے سائیں نولج پارک سے لوگوں کو سائیں کی سیکھ سمجھنے میں اور آسانی ہوگی۔ ساتھیو، آج یہاں 10 میگاواٹ کی ایک سولر یونٹ کا کام بھی شروع ہوا ہے۔ اس سے سنستھان کے وسائل بڑھیں گے اور صاف ستھری توانائی میں سنستھان کی بہت حصے داری ہوگی۔ ایک طرح سے سائیں ٹرسٹ کی جانب سے کروڑوں عقیدتمندوں کے لیے اس دسہرہ کو وجے دشمی کا ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔ ساتھیو، نوراتر سے لے کر دیوالی تک سال کا یہ وقت ہوتا ہے جب ہمارے ملک کے لوگ گھر، گاڑی، گہنے جیسے کئی سامان خریدتے ہیں، جس کی جتنی حیثیت ہوتی ہے اسی حساب سے پیسے بچاتا ہے اور اپنے خاندان کو تحفہ دیتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ دسہرے کے اس مبارک موقع پر مجھے مہاراشٹر کے ڈھائی لاکھ بھائیوں اور بہنوں کو اپنا گھر سونپنے کا موقع ملا ہے۔ میرے وہ بھائی بہن جن کے لیے خود کا گھر ہمیشہ ہی خواب رہا ہے، اپنے اس عظیم خاندان کے ارکان کو ایک ساتھ گرہ پرویش کرانے سے اس سے بڑی اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں سمجھتا ہوں، دسہرے کی پوجا بھلا میرے لئے اس خدمت سے بڑی کیا ہوسکتی ہے۔ آپ سبھی لوگوں کو پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنے ان نئے گھروں کی آپ کی زندگی میں آئے اس مبارک موقع کی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہے۔ یہ نئے گھر آپ کے اپنے خوابوں کی علامت تو ہیں ہی۔ آپ کی امیدوں کو نئی جہت دینے والے بھی ہیں۔ اب آپ کی زندگی، آپ کے بچوں کی زندگی بامعنی تبدیلی کے راستے پر آگے بڑھ چکی ہیں۔ یہ غریبی پر فتح کی طرف ایک بہت بڑا پہلا اہم قدم ہے۔ ساتھیو، اپنا گھر زندگی کو آسان بنادیتا ہے اور غریبی سے لڑنے کا نیا جوش پیدا کرتا ہے۔ ایک احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہم نے سوچا ہے کہ 2022، بھارت کی آزادی کے 75 سال ہوں گے۔ ملک کے ہر بے گھر غریب خاندان کو اس کا خود کا گھر دینے کا نشانہ رکھ کرکے ہم کام کر رہے۔ مجھے خوشی ہے کہ قریب قریب آدھا راستہ ہم اتنی کم مدت میں پار کرچکے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، غریب ہو یا ��توسط طبقے کا خاندان، گذشتہ چار برسوں میں اسے جھگی سے، کرایے کے مکان سے نکال کر اپنا گھر دینے کی سمت میں حکومت نے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔ کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا مقصد غریبوں کو گھر دے کر غریبوں کو بااختیار بنانے کی بجائے ایک خاص خاندان کے نام کا پروپیگنڈہ کرنا یہی ان کا مقصد تھا۔ ووٹ بینک تیار کرنا یہی ان کا مقصد تھا۔ گھر اچھا ہو، اس میں ٹوائلٹ ہو، بجلی ہو، پانی ہو، گیس کا کنکشن ہو۔ اس پر پہلے کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ جب کسی منصوبے کی بنیاد میں سیاسی فائدہ وہ مرکز میں نہیں ہوتا ہے، سیاسی فائدے کی بجائے صرف اور صرف غریب کی بہبود ہوتی ہے تو اس کی زندگی کو آسان بنانے کی تحریک ملتی ہے تب کام کی رفتار کیسے بڑھتی ہے یہ آج ملک کے سامنے جیتی جاگتی مثال ہے۔ ساتھیو، پہلے جو حکومت تھی، اس پچھلی حکومت نے اپنے آخری چار سال کی مدت میں پورے ملک میں صرف پچیس لاکھ گھر بنائے تھے۔ چار سال میں پچیس لاکھ۔۔۔۔ کتنے ۔۔۔۔ ذرا بولئے نہ کیا ہو ۔۔۔۔۔ چار سال میں کتنے گھر بنائے تھے؟ چار سال میں کتنے گھر بنائے تھے؟ 25 لاکھ، جبکہ گذشتہ چار برسوں میں ہماری حکومت بننے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے مرکز میں آنے کے بعد ایک کروڑ 25 لاکھ گھر بنائے ہیں۔ ان کے چار سال کے 25 لاکھ اور ہمارے چار سال کے ایک کروڑ 25 لاکھ۔ اگر وہی حکومت ہوتی تو اتنے گھر بنانے کے لیے 20 سال لگ جاتے۔۔۔۔ 20 سال اور آپ کو بھی 20 سال تک اس گھر کے لیے انتظار کرنا پڑتا۔ تیز رفتار سے کام کرنے والی حکومت غریبوں کو تیز رفتار سے کیسے کام دیتی ہے اس کی یہ مثال ہے۔ اور آپ دیکھئے سب کچھ تو وہی ہے۔ وہی ذرائع، وہی وسائل، وہی لوگ لیکن صاف نیت سے غریب کی خدمت کے جذبے سے جب کام ہوتا ہے تو ایسے ہی تیز رفتار سے نتیجے بھی ملتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو! پہلے کی حکومت نے ایک مکان بنانے میں قریب قریب 18 مہینے لگائے تھے، ڈیڑھ سال لگتا تھا اس حکومت میں ایک سال کے اندر اندر 12 مہینے سے بھی کم مدت میں گھر تیار ہوجاتا ہے۔ وقت تو کم ہوا ہی ہے ہم نے گھر کا سائز بھی بڑھایا ہے اس کے ساتھ ساتھ گھر بنانے کے لیے سرکاری مدد کو بھی 70 ہزار روپئے سے بڑھا کرکے ایک لاکھ 20 ہزار روپئے کردیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیسے سیدھے بینک کھاتے میں جمع ہو رہے ہیں۔ اور اس استفادہ کنندگان کا انتخاب سائنسی اور شفاف طریقے سے ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ گھر پائیدار ہو، اس میں ٹوائلٹ سمیت ساری بنیادی سہولتیں ہوں، اس پر بھی خاص توجہ دی جارہی ہے۔ میں ایک بار پھر پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت آج اپنا گھر حاصل کرنے والوں کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ اور مجھے جب آج کچھ خاندانوں سے الگ الگ ضلعوں میں بات کرنے کا موقع ملا ان بہنوں کی خود اعتمادی، ان کے چہرے کی خوشی، مجھے کتنی مسرت ملتی تھی، آپ تصور نہیں کرسکتے جب میرا کوئی غریب خاندان اس کے چہرے پر خوشی نظر آتی ہے تو زندگی کام کرنے کی جیسےسرشار ہوجاتی ہے۔ نیا کام کرنے کی توانائی مل جاتی ہے، آج ان سبھی بہنوں نے جو آشیرواد دیئے میں پھر ایک بار اس عزم کو دہراتا ہوں کہ آپ کی خدمت کے لیے ہم پل پل اپنی زندگی آپ کے لیے کھپاتے رہیں گے۔ بھائیو اور بہنو! ملک کے ہر گھر کو ٹوائلٹ کی سہولت سے جوڑنے کی مہم اب آخری مرحلے پر ہے۔ مہاراشٹر نے تو اس معاملے میں قابل تعریف کام کیا ہے۔ آپ سبھی نے پورے مہاراشٹر نے خود کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک قرار دیا ہے۔ اس کے لیے ریاست کے 11 کروڑ شہریوں کو بھی میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اس سے مہاراشٹر کے گاؤں اور گلیاں صاف ستھری تو رہیں گی ہی، ساتھ میں ڈائریاں جیسے متعدد امراض سے غریب کسان خاندانوں کے بچوں کی زندگی محفوظ رہے گی۔ ساتھیو! جب غریبوں کی زندگی اور صحت کی بات آتی ہے۔ جو آج کل پوری دنیا میں آیوشمان بھارت یعنی پی ایم جے اے وائی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کی بڑی چرچا ہو رہی ہے۔ اس کے تحت ہر سال ملک کے قریب پچاس کروڑ شہریوں کو سنگین مرض کی صورت میں مفت علاج کو یقینی بنایا گیا۔ مہاراشٹر کے بھی لاکھوں خاندانوں تک اس منصوبے کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ابھی تو اس کو شروع ہوئے مہینہ بھی نہیں ہوا ہے لیکن ملک بھر کے اسپتالوں میں قریب قریب ایک لاکھ مریض اس کا فائدہ حاصل کرچکے ہیں۔ اس منصوبے کی وجہ سے کسی غریب کی پتھری کا مفت علاج ہوا ہے۔ توکسی غریب کے ٹیومر کو ہٹایا گیا ہے۔ کسی کا پچاس ہزار کا میڈیکل کا بل بھرا گیا تو کسی کا تین لاکھ کا۔ ساتھیو! اس منصوبے کے تحت اب تک جو کلیم دیا گیا ہے وہ اوسطا فی کس تقریباً 20 ہزار روپیہ دیا گیا ہے۔ اب آپ سوچئے ہزاروں کی یہ رقم اس غریب کو اپنی جیب سے خرچ کرنی پڑ رہی تھی۔ وہ کر بھی نہیں پاتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ اسپتال جانے سے بچتا تھا۔ اب سرکار اس غریب کے ساتھ کھڑی ہے۔ پیسے کی فکر مت کیجئے پہلے اپنا علاج کروایئے۔ ساتھیو! آیوشمان بھارت یوجنا کی وجہ سے ملک میں جدید میڈیکل انفراسٹرکچر کا نیا ڈھانچہ تیار ہو رہا ہے، خاص طور پر ٹیئر-II ٹیئر-IIIشہروں میں ہزاروں نئے اسپتال کھلنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ یہ اسپتال ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے لاکھوں نئے مواقع لے کر آئیں گے۔ بھائیو اور بہنو! معاشرے کا ہر طبقہ ، ہر فرد سکھی ہو، سب کی زندگی آسان اور باسہولت ہو اسی مقصد کے ساتھ سرکار کام کر رہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ریاست کے حصے ہمارے مہاراشٹر میں ورون دیو کی مہربانی کچھ کم ہوئی ہے، بارش کم ہوئی ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت اس کے ذریعے سے آپ کو جلد سے جلد راحت ملے گی ہی، اس کے علاوہ حکومت مہاراشٹر جو قدم اٹھائے گی اس میں مرکز بھی کندھے سے کندھا ملاکرکے پورا تعاون کرے گا۔ بھائیو اور بہنو! پانی کے اس بحران سے ملک کے کسانوں کو نکالنے کے لیے حکومت پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت برسوں سے اٹکے ہوئے پروجیکٹوں کو پورا کرنے کا کام کر رہی ہے۔ اس کے تحت مہاراشٹر میں بھی کئی بڑے پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ حکومت مہاراشٹر نے بھی اپنے جل یکت شور ابھیان کے ذریعے سے پانی کے بحران سے نمٹنے کی ایک بے مثال کوشش کی ہے۔ یہ بہت اطمینان کی بات ہے کہ اس ابھیان کی وجہ سے ریاست کے 16 ہزار گاؤں سوکھے سے پاک ہوچکے ہیں۔ اور قریب 9 ہزار گاؤں کو سوکھے سے نجات دلانے کا کام تیزی سے چل رہا ہے۔ میں مہاراشٹر کے لوگوں کی اس بات کے لیے بھی تعریف کروں گا کہ انھوں نے سینچائی ٹینکوں کی صفائی ڈی سلٹیشن کی مہم کو بہت کامیابی کے ساتھ چلایا ہے۔ آبپاشی کے ٹینکوں سے 9 کروڑ مربع میٹر کی سلٹ نکالنے کا کام آسان نہیں ہے لیکن آپ لوگوں نے عوامی شراکت سے ایک لاثانی کام کرکے پورے ملک کو راستہ دکھایا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہی کام اگر کسی ٹھیکے دار کو دیدیتے تو 600 کروڑ سے بھی زیادہ خرچ ہوتا لیکن یہی کام آپ نے اپنی محنت سے کردکھایا ہے۔ ساتھیو! اگر فصل زیادہ بھی ہو اور اس کی مناسب قیمت بھی ملے اس کے لیے بھی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ ہماری حکومت ہے جس نے ایسے ایم ایس پی کو لیکر کسانوں کے برسوں پرانے مطالبے کو پورا کیا ہے۔ حکومت نے گنے سمیت خریف اور ربیع کی 21 فصلوں کو امدادی قیمت میں لاگت کے اوپر پچاس فیصد کا فائدہ مقرر کیا ہے۔ اس تاریخی فیصلے سے اس سال ملک کے کسانوں کو ہزاروں کروڑ روپئے کی فاضل آمدنی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ ساتھیو! کھیتی کے ساتھ ساتھ حکومت سیاحت کو بھی بڑھاوا دے رہی ہے۔ مہاراشٹر میں تو شرڈی جیسے عقیدت سے جڑے بڑے مقام پر تو دوسری جانب اجنتا ایلورا جیسے دلکش مقامات بھی ہیں جہاں دنیا بھر کے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ عقیدت، روحانیت اور تاریخ کو نوجوانوں کے روزگار سے جوڑنے کی ایک بہت بڑی مہم ہم نے شروع کی ہے۔ ملک کے ٹورسٹ سرکٹ کو آپس میں جوڑا جارہاہے۔ وہاں سہولتیں تیار کی جارہی ہیں۔ یہاں شرڈی میں بھی پچھلی بار جب یہ صد سالہ تقریب کا آغاز کرنے ہمارے قابل احترام صدر جمہوریہ آئے تھے، انھوں نے ایئرپورٹ کا تحفہ دیا تھا۔ مجھے کہا گیا ہے کہ یہاں سے اب جو فلائٹ چل رہی ہے ان میں آنے والے وقت میں اور اضافہ کیا جائے گا تاکہ ملک اور دنیا کا ہر ایک سائیں بھگت آسانی سے یہاں آکرکے درشن کرسکے۔ بھائیو اور بہنو، مہاراشٹر کی سرزمین نے ہمیشہ سماجی یکسانیت کا سبق ملک کو پڑھایا ہے۔ ویر شیواجی ہو، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر ہوں یا پھر پوجیہ مہاتما جیوتی با پھولے ہوں سب نے ان اقدار کو قائم کیا جو مساوات اور اتحاد کو سماجی طاقت مانتے ہیں۔ آپ نے ان عظیم سنتوں کا سبق ہمیشہ یاد رکھنا اور لالچ کے لیے سماج میں تفریق کرنے والی ہر طاقت ، ہر برائی کو ہمیں شکست دینی ہے۔ توڑنا آسان ہے جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں جوڑنے والی طاقت کو مستحکم کرنا ہے، توڑنے والی طاقتوں کو شکست دینی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا یہی عزم اسی وجے دشمی کو ہمیں کرنا ہے اور اسی لئے میں آپ سبھی سے اصرار کروں گا کہ ہم سب اس پیغام کو لے کر کے آگے بڑھیں اور اسی پیغام کے راستے ہمیں آگے چلنا ہے۔ سائیں بابا نے جو راستہ دکھایا ہے اسی راستے پر ہمیں آگے چلنا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ساتھیو، آج میں اس پاکیزہ مقام پر ہوں صد سالہ تقریب کا اختتام کر رہا ہوں، اس 31 اکتوبر کو ریاست میں آپ سبھی کی حکومت چار سال پورے کرنے والی ہے۔ میں دیویندر فڑنویس جی اور ان کی پوری ٹیم کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ یوں ہی پوری طاقت سے مہاراشٹر کے باشندوں کی خدمت کرتے رہیں اور آپ کو یہاں کے عوام کا آشیرواد ملتا رہے۔ میری یہی خواہش ہے۔ اسی یقین کے ساتھ ایک بار پھر ان سبھی خاندانوں کو بہت بہت مبارکباد جن کو آج دسہرے کے دن خود کا اپنے من کا اپنے خوابوں کا گھر ملا ہے۔ یہ نئے گھر آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنیں ان گھروں میں رہتے ہوئے آپ اور آپ کے خاندان زندگی میں اور آگے بڑھیں، ترقی کریں، آپ کے بچے کامیابی کی نئی بلندیوں پر پہنچیں۔ اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں اور آپ سب کو اس مبارک موقع پر یہاں بلانے کے لیے، اس خدمت کا موقع دینے کے لیے، میں شری سائیں ٹرسٹ کا بھی ممنون ہوں۔ آنے والا ہر تہوار آپ سبھی کی زندگیوں میں خوشیاں لے کر کے آئے۔ اسی نیک خواہش کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ۔ شکریہ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,শ্ৰী ছাইবাবা সমাধিৰ শতবৰ্ষ উদযাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%DA%88%D9%B9%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%A8-%E0%A6%9A%E0%A6%BF-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,نئی دہلی۔27 جنوری ؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج یوم جمہوریہ تقریبات کے سلسلے میں دلی میں مقیم جھانکی آرٹسٹوں، قبائلی مہمانوں ، این سی سی کیڈٹوں اور این ایس ایس رضاکاروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔ تین مورتی لان میں جمع ہوئے این سی سی کیڈٹوں کے گروپ کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کی رنگارنگی کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے اطراف رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے نوجوان ملک میں اہم تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک کو مسلح افواج پر فخر ہے۔ اس جذبے کے پیش نظر ہمیں ملک کی خدمت کر رہے بہادر اشخاص کے بارے میں جاننا چاہیے۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ متعدد پولیس اہلکار ، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا ہے اور ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی قربانی کے بارے میں جانیں۔ وزیراعظم نے صفائی کی اہمیت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یوم جمہوریہ کی تقریب ایک خاص موقع تھا اس لیے کہ اس کی تقریبات میں دس ملکوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,এন চি চিৰ কেডেট আৰু প্ৰদৰ্শনীৰ শিল্পীসকলৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%DA%BE%D9%B9%D9%85%D9%86%DA%88%D9%88%D8%8C-%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A0%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,نئی دہلی،30؍اگست، عالی جناب : رائٹ آن ریبل وزیراعظم اولی جی، بمسٹک رکن ممالک سے آئے میرے ساتھی رہنمایان، سب سے پہلے میں اس چوتھے بمسٹک سربراہ اجلاس کی میزبانی اور کامیاب اہتمام کے لئے نیپال حکومت اور وزیراعظم اولی جی کے تئیں دل سے اظہار تشکر کرنا چاہتاہوں۔ حالانکہ میرے لئے یہ پہلا بمسٹک سربراہ اجلاس ہے لیکن 2016 میں مجھے گوا میں برکس سمٹ کے ساتھ بمسٹک ریٹریٹ کی میزبانی کرنے کا موقع ملا تھا۔ گوا میں ہم نے جو لائحہ عمل طے کیا تھا اسی کے مطابق ہماری ٹیموں نے قابل ستائش اعمال کئے ہیں۔ اس میں شامل ہیں: پہلی سالانہ بمسٹک ڈیزاسٹر انتظام مشق کا اہتمام۔ قومی سلامتی کے سربراہوں کی دو ملاقاتیں، بمسٹک ٹریڈ فیسلی ٹیشن معاہدے پر تبادلہ خیالات میں رونما ہوئی پیش رفت، بمسٹک گرڈ انٹر کنکشن کے موضوع پر معاہدہ، اس کے لئے میں سبھی ممالک کے مندوبین کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ حضرات! ان تمام شعبوں کے تمام ممالک کے ساتھ بھارت کے صرف سفارتکارانہ تعلق نہیں ہیں، ہم تمام ملک صدیوں سے تہذیب، تاریخ، فنون، لسانیات، کھان پان اور ہماری مشترکہ ثقافت کے اٹوٹ تعلقات سے مربوط رہے ہیں۔ اس شعبے کے ایک جانب عظیم ہمالیہ کوہستانی سلسلہ ہے، دوسری جانب ہند اور پیسفک سمندروں کے درمیان واقع خلیج بنگال۔ خلیج بنگال کا یہ علاقہ ہم سبھی کی ترقی، سلامتی اور خوشحالی کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بھارت کی نیبر ہڈ فرسٹ یعنی پڑوسی کو پہلی ترجیح اور ایکٹ ایسٹ یعنی مشرق کی جانب دیکھیں، دونوں پالیسیوں کا اتصال اسی خلیج بنگال میں ہوتا ہے۔ حضرات! ہم سبھی ترقی پذیر ممالک ہیں، اپنے اپنے ملکوں میں امن، خوشحالی ہمارے لئے سب سے بڑی ترجیح ہے لیکن آج کی باہمی طور پر مربوط دنیا میں کوئی اکیلے کام نہیں کرسکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ چلنا ہے، ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے، ایک دوسری کی کوششوں کا لازم حصہ بننا ہے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ سب سے بڑا موقع ہے کنکٹی ویٹی کا۔ تجارتی رابطہ کاری، اقتصادی رابطہ کاری، نقل وحمل کی رابطہ کاری، ڈیجیٹل رابطہ کاری اور پیپل ٹو پیپل کنکٹی ویٹی یعنی عوام سے عوام کے مابین رابطہ، تمام زاویوں پر ہمیں کام کرنا ہوگا۔ بمسٹک میں ساحلی جہاز رانی اور موٹر گاڑی سمجھوتوں کو آگے بڑھانے کے لئے ہم مستقبل میں بھی ملاقات کی میزبانی کرسکتے ہیں۔ ہمارے صنعت کاروں کے مابین تعلق اور رابطہ بڑھانے کے لئے بھارت بمسٹک اسٹارٹ اپ اجتماع کا اہتمام کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم میں سے بیشتر ممالک زرعی ممالک ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے خدشات کا سامنا کررہے ہیں، اس پس منظر میں زرعی تحقیق، تعلیم اور ترقی پر تعاون کے لئے بھارت موسمیاتی اسمارٹ کاشتکاری نظام کے موضوع پر ایک بین الاقوامی اجلاس کا اہتمام کرے گا۔ ڈیجیٹل کنکٹی ویٹی کے شعبے میں بھارت اپنے قومی نالج نیٹ ورک کو سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال میں ترقی دینے کے لئے پہلے سے ہی عہد بند ہے۔ ہم اسے میانمار اور تھائی لینڈ میں بھی بڑھانے کی تجویز رکھتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تمام بمسٹک ملک اس سال اکتوبر میں نئی دہلی میں منعقد کی جارہی بھارت موبائل کانگریس میں شراکت دار ہوں گے۔ اس کانگریس میں بمسٹک وزارتی اجتماع بھی شامل ہے۔ بمسٹک کے رکن ممالک کے ساتھ رابطہ کاری بڑھانے میں بھارت کے شمال مشرقی خطے کا اہم کردار ہوگا۔ بھارت کے شمال مشرقی خطے کی ترقی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی شمال مشرقی خطے میں نام کی ایک پہل قدمی ہے۔ ہم اس پروگرام کو بمسٹک ممالک کے لئے توسیع دینے کی تجویز رکھتے ہیں۔ اس کےتوسط سے دہی علاقوں میں توانائی، فضلہ انتظام، زراعت اور صلاحیت سازی کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ ساتھ بھارت کے شمال مشرقی خلائی اپلی کیشن مرکز میں بمسٹک ممالک کے محققین طلباء اور پیشہ وارانہ کے ہم 24 وظائف بھی فراہم کریں گے۔ حضرات! اس علاقے کے عوام کے مابین صدیوں پرانے تعلقات ہمارے رابطے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اور ان روابط کی ایک خصوصی کڑی بدھ مذہب اور بدھ فلسفہ رہا ہے۔ اگست 2020 میں بھارت بین الاقوامی بدھسٹ اجتماع کی میزبانی کرے گا۔ میں بمسٹک ممالک کو اس موقع پر مہمان ذی وقار کی شکل میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ ہماری نوجوان پیڑھی کے مابین رابطہ کاری کو فروغ دینے کے لئے بمسٹک نوجوان ملاقات اور بمسٹک بینڈ فیسٹول کے اہتمام کی تجویز بھارت پیش کرنا چاہتا ہے، اس کے ساتھ ہی ہم بمسٹک یوتھ واٹر اسپورٹس کا اہتمام بھی کرسکتے ہیں۔ بمسٹک ممالک کے نوجوان طلباء کے لئے نالندہ یونیورسٹی میں 30 وظائف اور جپمر انسٹی ٹیوٹ میں ایڈوانسڈ میڈسین کیلئے 12 ریسرچ فیلو شپ بھی دی جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کے آئی ٹیک پروگرام کے تحت سیاحت، ماحولیات، تباہ کاری انتظام، قابل احیاء توانائی، زراعت ، تجارت، اور ڈبلیو ٹی او جیسے موضوعات پر سو مختصر مدتی تربیتی کورس بھی فراہم کرائے جائیں گے�� خلیج بنگال میں فنون، ثقافت ، بحری قوانین اور دیگر موضوعات پر تحقیق کے لئے ہم نالندہ یونیورسٹی میں خلیج بنگال مطالعات کا ایک مرکز بھی قائم کریں گے۔ اس مرکز میں تمام ملکوں کی زبانوں کے ایک دوسرے سرے وابستہ سلسلے کے بارے میں بھی تحقیق کی جاسکتی ہے۔ ہم تمام ملکوں کی اپنی طویل تاریخ اور اس سے وابستہ سیاحت کے مضمرات کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے تاریخی عمارتوں اور مقابر کی مرمت اور احیاء کے لئے تعاون کرسکتے ہیں۔ حضرات! علاقائی اتحاد اور اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہماری مشترکہ کوششوں کی کامیابی کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے خطے میں امن اور سلامتی کا ماحول قائم ہو۔ ہمالیہ اور خلیج بنگال سے مربوط ہمارے ملک بار بار قدرتی آفات کا سامنا کرتے رہتے ہیں، کبھی سیلاب، کبھی سائیکلون، کبھی زلزلہ، اس پس منظر میں ایک دوسرے کے ساتھ انسانی وسائل کی امداد اور آفات ارض وسماں کی صورت میں راحت کاری کی کوششوں میں ہمارا تعاون اور تال میل بہت ضروری ہے۔ ہمارے خطے کی جغرافیائی صورت حال عالمی بحری تجارتی راستے سے مربوط ہے اور ہم سبھی کی معیشتوں میں بھی نیلگوں معیشت کی خاص اہمیت ہے، ساتھ ہی آنے والے ڈیجیٹل عہد میں ہماری معیشتوں کے لئے سائبر معیشت کی اہمیت بھی افزوں طور پر بڑھے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ ہمارے خطہ جاتی سلامتی تعاون میں ان تمام موضوعات پر تعاون بڑھانے کی سمت میں ہمیں ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے اور اس لئے اگلے مہینے بھارت میں منعقد ہونے جارہی بمسٹک کثیر ملکی عسکری فیلڈ تربیت مشق اور بری افواج کے سربراہان کے اجتماع کا میں خیر مقدم کرتا ہوں۔ بھارت بمسٹک ممالک کی سہ خدماتی انسانی امداد اور قدرتی آفات کی صورت میں راحت رسانی کی مشق کی بھی میزبانی کرے گا۔ دوسرے سالانہ بمسٹک ڈیزاسٹر انتظام کی مشق کی میزبانی کے لئے بھی بھارت تیار ہے۔ ہم ڈیزاسٹر انتظام کے شعبے میں مصروف عمل افسران کے لئے صلاحیت سازی میں بھی تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت نیلگوں معیشت پر تمام بمسٹک ملکوں کے نوجوانوں کا ایک ہیکتھن منعقد کرے گا۔ اس سے نیلگو معیشت کے امکانات اور تعاون پر توجہ مرکوز کرنے کا راستہ ہموار ہوگا۔ حضرات! ہم میں سے کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے دہشت گردی اور دہشت گردی کے نیٹ ورک سے مربوط ٹرانس نیشنل جرائم اور منشیات کی تجارت جیسے مسائل کا سامنا نہیں کیا ہو۔ منشیات سے متعلق موضوعات پر بمسٹک فریم ورک میں ایک کانفرنس کا اہتمام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یہ مسائل کسی ایک ملک کے قانون وانتظام سے مربوط مسائل نہیں ہیں، ان کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں متحد ہونا ہوگا اور اس کے لئے ہمیں معقول قوانین اور ضوابط کا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوگا۔ اس پس منظر میں ہمارے قانون ساز خصوصا خواتین اراکین پارلیمنٹ کا باہمی رابطہ معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہمیں بمسٹک ویمن پارلیمنٹرینس فورم کی تشکیل کرنی چاہئے۔ حضرات! پچھلی دو دہائیوں میں بمسٹک نے قابل ذکر پیش رفت حاصل کی ہے تاہم ابھی ہمارے سامنے بہت لمبا سفر باقی ہے۔ ہمارے اقتصادی اتحاد کو اور عمیق بنانے کے لئے ابھی بہت سے امکانات ہیں اور یہی ہمارے عوام کی ہم سے توقع بھی ہے۔ یہ چوتھی سربراہ ملاقات ہمارے عوام کی توقعات ، امیدوں اور آرزؤوں کو پورا کرنے کی سمت میں ٹھوس قدم اٹھانے کا بہت اچھا موقع ہے۔ اس چوتھی سربراہ ملاقات کا اعلانیہ بہت سے اہم فیصلوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ان سے بمسٹک کے ڈھانچے اور ض��ابط کو بہت تقویت حاصل ہوگی۔ ساتھ ہی بمسٹک کے خصوصی اعمال کو ٹھوس شکل اور مضبوطی فراہم کرنے کے لئے اس سربراہ ملاقات کی کامیابی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس کے لئے میں میزبان ملک، نیپال کی حکومت، اولی جی اور تمام شریک رہنماؤں کی قیادت کا دلی خیر مقدم کرتا ہوں۔ آگے بھی بھارت آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلنے کے لئے عہد بند ہے۔ شکریہ ! بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-وا- ق ر),নেপালৰ কাঠমাণ্ডুত বিমষ্টেক সন্মিলনৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D9%84%D8%B2-%D9%B9%DB%8C%D8%A8%D9%84-%D9%B9%DB%8C%D9%86%D8%B3-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%95-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%B2-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%B8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 میں مردوں کے سنگلز ٹیبل ٹینس میں گولڈ میڈل جیتنے پر شرت کمل کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’ @sharathkamal1 کے ذریعہ حاصل کیا گیا کا گولڈ میڈل تاریخ میں ایک بہت ہی خاص اہمیت کے ساتھ درج کیا جائے گا۔ انہوں نے صبر، عزم اور لچک کی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے زبردست مہارت کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ یہ میڈل ہندوستانی ٹیبل ٹینس کو زبردست فروغ دے گا۔ان کے لئے مبارکباد اور نیک خواہشات۔ #Cheer4India‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,পুৰুষৰ একক টেবুল টেনিছত সোণৰ পদক লাভ কৰাৰ বাবে শৰথ কমলক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰঅভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D8%AE%D8%B5%D8%AA-%D9%BE%D8%B0%DB%8C%D8%B1-%D8%B1%D8%A7%D8%AC%DB%8C%DB%81-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%88%D8%B2-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%85%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AA/,نئی دہلی۔28مارچ/ ایوان کے معزز چیئرپرسن اوراراکین! ہم میں سے کچھ ساتھی اب اس تجربے کو لے کر کے سماجی خدمات کے اپنے کام اور کردار کومزید مضبوط کریں گے۔ ایسا میرا مکمل یقین ہے۔ ایوان سے رخصت ہونے و الے معزز ارکان میں سے ہر ایک کا ا پنا تعاون ہے۔ ہر ایک کا اپناحصہ ہے۔ ان ارکان میں سے ہر کوئی ملک کے روشن مستقبل کے لئے اس ایوان میں رہتے ہوئے جو بھی تعاون کرسکتے تھے، کرنے کی بھرپور کوشش کی اور ان سب کو ملک کبھی فراموش نہیں کرسکتا ہے۔ میری طرف سے آپ کی سب سے بہترین خدمات کے لئے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد اور مستقبل کے لئے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات بھی ہیں. یہ ایوان ان عظیم ہستیوں کا ہے جن کی زندگی کا تجربہ ایوان کی قدرو قیمت میں اضافہ کرتا ہے۔سماج زندگی کی امیدوں اور آرزؤں کو ایک منصفانہ انداز سے ترازو سے تول کر کے، مستقبل کے سماجی نظام کے لئے کیا مکمل کرنے والا ہوگا ا ور کیا مکمل کرنے والا نہیں ہوگا ، اس کا لیکھا جوکھا کرنے کا جذبہ اس عظیم ا یوان میں رہتا ہے۔ معزز ہستیوں میں رہتا ہے اور یہی سبب ہے جو بات یہاں بتائی جاتی ہے اس کی اپنی ایک خصوصی قیمت ہوتی ہے، اس کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے اور یہ ا ہمیت ہی ہےجو ہماری پالیسی سازی میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے درمیان قابل احترام پراشرن جی جیسی عظیم شخصیت، جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک پروفیشنل ازم کے ساتھ ساتھ ایک قربانی اور تیاگ کی حامل زندگی بھی بسر ��ی ہے ۔ ایسے لوگ ہمارے درمیان تھے ، افسوس ایوان میں ہمیں ان سے اب فائدہ حاصل نہیں ہوپائے گا۔ دو ایسے شخص ہیں ، ہندوستان جن کے لئے فخر کرتا ہے، ایسے کھلاڑی جناب دلیپ جی اور سچن جی ہیں۔ یہ دونوں بھی اب آنے والے دنوں میں ہمارے درمیان میں نہیں رہیں گے اور ان سے ہمیں فائدہ نہیں مل پائے گا۔ پروفیسر کورین صاحب کو ہمیشہ یاد کریں گے، ان کا ہنستا ہوا چہرہ ہمیشہ یاد آئے گا، ان سے ہمیں سیکھناچاہئے کہ بات تو وہی بتانی ہے لیکن ہنستے ہوئے بتانی ہے۔ یہی ان کی خصوصیت رہی اور اسی کے سبب مشکل کی گھڑی میں بھی ایوان کو ٹھیک سے چلانے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جن کے پیچھے پارٹی اور پارٹی کی نظریات نہ ہوں۔ بہت کم لوگ ہیں ، زیادہ تر ہم وہی لوگ ہیں جن کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور اس لئے یہ بات فطری امر ہے ،یہاں پر ان باتوں کو قائم کرنے کے لئے ہم لوگوں کی کوشش بہت فطری بھی ہیں۔ لیکن یہ بھی امید رہتی ہے کہ جو گرین ہاؤس میں ہوتا ہے وہ ریڈ ہاؤس میں ہوناچاہئے، ضروری نہیں ہے اور اس لئے ،کیونکہ ایک عظیم ایوان کااپنا ایک مقام ہوتا ہے، یہاں ہر ایک نے ا پنے اپنے کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ میں مانتا ہوں، شاید آپ میں سے بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے سوچا ہوگا کہ جب ایوان کا آخری اجلاس ہوگا تو میں یہ موضوع اٹھاؤں گا، میں ایسی تیاری کرکے آؤں گا کہ جاتے جاتے ایک بڑی تاریخی تقریر کرکے جاؤں گا۔میں ایسے خیالات پیش کرکے ،ملک کے لئے کچھ نہایت اہم کام کے لئے اپناتعاون پیش کرکے جاؤں گا ،لیکن شاید وہ خوش نصیبی جاتے جاتے آپ لوگوں کو نہیں ملی۔اس کے لئے یہاں کی ذمہ داری نہیں ہے، یہاں سے وہاں تک ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ آپ کو ایسے ہی جانا پڑ رہا ہے۔ اچھا ہوتا آپ کو جانے سے پہلے کسی اہم فیصلے میں، بہت ہی بہترین قسم کا کردار ادا کرکے اور آخر میں کوئی بہترین چیز چھوڑ کرکے جانے کا موقع مل گیا ہوتا تو آپ کو یقیناً ایک خاص اطمینان ہوتا۔ لیکن شاید اس ایوان کے اراکین کا ہی قصور رہا ہے کہ آپ اس خوش قسمتی سے محروم رہ گئے۔کل تو لگ رہا تھا کہ شاید آج یہ بھی موقع چھوٹ جائے گا۔ لیکن چیئرمین صاحب نے کافی محنت کی،سب کو سمجھانے کی کوشش کی، سب کو ساتھ لینے کی کوشش کی،جناب وجے جی بھی لگے رہے اور آخر کار یہ ممکن ہوا کہ آج سبھی رخصت ہونے والے اراکین اپنے احساس کو ظاہر کرپائیں گے۔ لیکن پھر بھی کسی اہم فیصلے میں جو تعاون، تاریخ جس کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے، وہ خوش نصیبی آپ کو ، جاتے وقت والا ،درمیان میں تو آپ کو ضرور موقع ملا ہےجس کا آپ نے استعمال بھی کیا ہے، وہ ایک چھوٹ گیا ہے۔ طلاق ثلاثہ جیسا اہم فیصلہ جو کہ ہندوستان کی آنے والی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کرنے والا ہے، اس کا فیصلہ کرنے کے عمل سے آپ محروم رہ گئے، ایوان میں جو واپس آئے ہیں ان کو تو یہ موقع ملے گا۔لیکن جو رخصت ہو رہے ہیں ان کو شاید اس تاریخی اہم فیصلے سے محروم رہناپڑا، اس کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تو من میں کسک، آج نہیں تو دس سال، بیس سال، پچیس سال بعد ضرور رہے گی، ایسا میں مانتا ہوں لیکن اچھا ہوتا یہ ساری چیزیں ہم ممکن کرپاتے۔ میں پھر ایک بار ان معزز اراکین کو اپنی جانب سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں جو ا یوان سے رخصت ہورہے ہیں۔ میں آپ کے ایک ساتھی ہونے کے ناطے آپ سے ایک گزارش کروں گا کہ آپ یہ مت مانئے کہ ایوان کے دروازے بند ہونے سے اس پورے احاطے کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ آپ کے لئے اس احاطے کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، وزیراعظم کا دفتر کھلا ہوا ہے۔ ملک کے مفاد میں آپ کے دل میں جب بھی ، جو بھی خیال آئے ، آپ ضرور آئیں، مجھے اچھا لگے گا، آپ کو سننے کا، آپ کو سمجھنے کا ،اور آپ کے نظریات کو، جہاں بھی ہوں گے آپ تعاون دیں گے ۔ میں اس کو آگے پہنچانے کی ضرور کوشش کروں گا۔ میں پھر ایک بار آپ سبھی کو بہت بہت شکریہ کہتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔,ৰাজ্যসভাৰ সদ্যঅৱসৰপ্রাপ্ত সদস্যসকলক উদ্দেশ্যি আগবঢ়োৱা প্রধানমন্ত্রীৰ বিদায়ী ভাষণৰ লিখিত ৰূপ (২৮.০৩.২০১৮) +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0/,نئی دہلی،10جولائی 2022/ اس پروگرام ساتوک چیتنا سے سمردھی میں موجود تمام معزز سنتوں، سادھوی مٹھ کی تمام سادھوی ماتائیں، خصوصی مہمان، اور تمام عقیدت مندوں! آپ سب کو نمسکار! معزز سنتوں کی رہنمائی میں آج سوامی آتمستھانندجی کییوم پیدائش کی صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ میرے لیے ذاتی طور پر بھی کئی جذبات اور یادداشتوں سے بھرا ہوا ہے ۔ بہت سی باتوں کو اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے ہے۔ سوامی جی نے 100 کے نزدیک ہی اپنا جسم تیاگا تھا۔ مجھے ہمیشہ ان کا آشیرواد ملا، ان کی قربت کا موقع ملتا رہا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آخری وقت تک میرا ان سے رابطہ بنا رہا۔ ایک بچے پر جیسے پیار برسایا جاتا ہے، وہ ویسے ہی مجھ پر پیار برساتے رہے۔ آخری پل تک ان کا مجھ پر آشیرواد بنا رہا۔ اور میںیہ محسوس کرتا ہوں کہ سوامی جی مہاراج اپنے چیتن روپ میں آج بھی ہمیں اپنے آشیرواد دیتے رہیں۔ ان کی زندگی اور مشن کو عوام تک پہنچانے کے لیے آج دو یادگار ایڈیشن، تصویری سوانح حیات اور ڈاکومنٹری بھی ریلیز ہو رہی ہیں۔ میں اس کام کے لئے رام کرشن مشن کے سربراہ عزت مآب سوامی اسمرنا آنند جی مہاراج کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، سوامی آتمستھانندجی کو شری رام کرشن پرم ھنس کے شاگرد، معزز سوامی وجنانند جی سے دیکشا (تعلیم) ملی تھی۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس جیسے سنت وہ علم، وہ روحانی طاقت ان میں واضح طور پر جھلکتی تھی۔ آپ سبھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سنیاس کی کتنی عظیم روایت ہے۔ سنیاس کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ وان پرست آشرم بھی سنیاس کی سمت میں ایک قدم مانا گیا ہے۔ سنیاس کے معنی ہی ہیں ۔ خود سے اوپر اٹھ کر سماج کے لیے کام کرنا، سماج کے لیے جینا،، خود کی توسیع سماج تک۔سنیاسی کے لئے جانداروں کی خدمت میں پربھو سیوا کو دیکھنا، جانداروں میں شیو کو دیکھنا،یہی تو سب سے بہترین ہے۔ اس عظیم روایت کو، سنیستھ روایت کو سوامی وویکانند جی نے جدید شکل میں ڈھالا۔ سوامی آتمستھانندجی نے سنیاس کے روپ کو زندگی میں جیااور عملی جامہ پہنایا۔ ان کی سرپرستی میں بیلور مٹھ اور شری رام کرشن مشن نے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ نیپال، بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں بھی راحت اور بچاؤ کی بے مہمیں چلائیں۔ انہوں نے مسلسل دیہی علاقوں میں عوام کی بھلائی کے کام کئے، اس کے لئے ادارہ قائم کیا۔ آج یہ ادارہ غریبوں کو روزگارزندگی گزار نے میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔سوامی جی غریبوں کی خدمت کو، علم کی تشہیر کو، اس سے جڑے کاموں کو پوجا سمجھتے تھے۔ اس کے لیے مشن موڈ میں کام کرنا، نئی تنظیموں کو بنانا، اداروں کو مضبوط کرنا، اندرا کے لیے رام کرشن مشن کی ترغیب تھے۔ جیسے ہمارے یہاںکہتے ہیں کہ، جہاں بھی ایشور بھاؤ ہے وہیں تیرتھ ہے۔ ایسے ہی، جہاں بھی ایسے سنت ہیں، وہیں انسانیت، خدمت یہ ساری باتیں مرکوز ہیں۔سوامی جی نے اپنی سنیاسی زندگی سے یہ ثابت کر دکھایا۔ ساتھیو، سینکڑوں سال پہلے آدی شنکر آچاریہ ہوں یا جدید دور میں سوامی وویکا نند ، ہماری سنت روایت ہمیشہ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا مظاہرہ کرتی ہے۔ رام کرشن مشن کا تو قیام ’ایک بھارت ، شریشٹھ بھارت‘ نظریے سے وابستہ ہوئی ہے۔ سوامی وویکا نند جی نے اسی عزم کو اپنے مشن کے طورپر جیا تھا۔ ان کی پیدائش بنگال میں ہوئی تھی۔ لیکن آپ ملک کے کسی بھی حصہ میں جایئے ، آپ کو ایسا شاید ہی کوئی علاقہ ملے گا جہاں وویکا نند جی نہ گئے ہوں، یا انکا اثر نہ ہو۔ ا ن کے سفر نے غلامی کے اس دور میں ملک کو اس کے قدیم قومی بیداری کا احساس کرایا ، ان میں نئی خود اعتمادی پھونکی۔ را م کرشن مشن کی اسی روایت کو سوامی اتمسانندجی نے پوری زندگی میں آگے بڑھایا۔ انہوں نے ملک کے الگ الگ حصوں میں اپنی زندگی گذاری، متعدد کام کئے ، اور جہاں بھی وہ رہے وہاں پوری طرح رچ بس گئے۔ گجرات میں رہ کر وہ اتنی اچھی گجراتی بولتے تھے، اور میری تو خوش قسمتی رہی ہے کہ زندگی کے آخری دور میں بھی جب ان سے بات ہوتی تھی تو گجراتی میں ہوتی تھی۔ مجھے بھی ان کی گجراتی سننا بہت اچھا لگتا تھا۔ اور میں آج یاد کرنا چاہتا ہوں کہ جب کچ میں زلزلہ آیا تھا تو ایک پل بھی انہوں نے نہیں لگایا او ر اسی وقت ، تب تو میں سیاست میں کسی عہدہ پر نہیں تھا، ایک کارکن کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس وقت انہوں نے میرے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لیا ۔ پوری تفصیل سے اور پورے وقت انکی رہنمائی میں اس وقت کچ میں زلزلہ سےمتاثر لوگوں کو راحت دینے کے لئے بہت سارے کام اٹھائے۔اسی لئے رام کرشن مشن کے سنتو ں کو ملک میں قومی یکجہتی کے پیغام دینے والوں ، اس روپ میں ہرکوئی جانتا ہے اور جب وہ بیرون ملک جاتے ہیں ، تو وہاں ہندستانیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ساتھیو، رام کرشن مشن کی یہ بیدار روایت رام کرشن پرم ہنس جیسی دیویہ وبھوتی کی سادھنا سے ظاہر ہوئی ہے۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس ، ایک ایسے سنت تھے جنہوں نے ماں کالی کو واضح طور پر ملاقات کی تھی، جنہوں نے ماں کالی کے قدموں میں اپنا وجود سپرد کردیا تھا۔ وہ کہتے تھے -یہ کل عالم ،یہ چر اچر ، سب کچھ ماں کی چیتنا سے ظاہر ہے ۔یہی چیتنا بنگال کی کالی پوجا میں نظر آتی ہے۔ یہی چیتنا بنگال اور پورے ہندستان کی عقیدت میں دیکھتی ہے ۔ اسی چیتنا اور طاقت کے ایک مجموعے یا کنج کو سوامی وویکا نند کے عظیم شخص کے شکل میں سوامی رام کرشن پرم ہنس نے اپنایا تھا۔ سوامی وویکانندکو ماں کالی کا جو احساس اور تجربہ ہوا، ان کی جو روحانی درشن ہوئے اس نے ان کے اندر غیر معمولی توانائی اور صلاحیت کو بھر دیا تھا۔ سوامی وویکانند جیسا عظیم شخصیت، اتنا وسیع کردار لیکن جگن ماتا کالی کییاد میں وہ ان کی عقیدت میں چھوٹے بچے کی طرح کھوجاتے تھے۔ بھکتی کی ایسی ہی شفافیت اور طاقت سادھنا کی ایسی ہی صلاحیت میں سوامی اتمستھانند جی کے اندر بھی دیکھتا تھا ۔ اور ان کی باتوں میں بھی کالی کی بات ہوتی تھی۔ اور مجھے یاد ہے، جب بیلور مٹھ جانا تھا، گنگا کے کنارے بیٹھ کر اور دور ما کالی کا مندر دیکھائی دیتا ہو، ت�� بہت فطری تھا، ایک لگاؤ بن گیا تھا۔ جب عقیدت اتنی پاک ہوتی ہے تو شکتی براہ راست ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اسی لیے، ماں کالی کاغیرمحدودآشیروار ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ ہے۔ آج ہندوستان اسی روحانی توانائی کے ساتھ پورے عالم کے بہبود کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو، ہمارے سنتوں نے ہمیں دکھایا ہے کہ جب ہمارے خیالات میں وسعت ہوتی ہے تو اپنی کوششوں میں کبھی تنہا نہیں ہوتے! آپ ہندستان کی سرزمین پر ایسے کتنے ہی سنتوں کی زندگی کا سفر دیکھیں گے جنہوں نے صفر وسائل کے ساتھ پہاڑ جیسے عزموں کوپوراکیا ہے ۔ یہی یقین ، یہی خود سپردگی یعنی معزز استھانند جی میں نے وہی عقیدہ دیکھا تھا، یہ لگن پوجیا اتمستھانند جی کی زندگی میں بھی۔ دیکھی تھی۔ ان سے میرا گرو کا جذبہ بھی رہا ہے۔ میں نے ان جیسے سنتوں سےبےلوث ہوکر سو فی صد خودسپردگی کے ساتھ خود کو کھپانے کی سیکھ لی ہے۔ اس لیے میںیہ کہتا ہوں کہ جب ہندوستان کا ایک شخص، ایکرشی اتنا کچھ کرسکتا ہے، توہم 130 کروڑاہل وطنوں کے اجتماعی عزائم سے کون سا مقصد پورا نہیں ہوسکتا؟ ہم سوچھ بھارت مشن میں عزم کی اس طاقت کو بھی دیکھتے ہیں۔ لوگوں کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ ہندوستان میں ایسا مشن کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن، ہم وطنوں نے عہد کیا، اور دنیا اس کا نتیجہ دیکھ رہی ہے۔ڈیجیٹل ادائیگیوں کے آغاز کے وقت یہ کہا گیا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی ہندوستان جیسے ملک کے لیے نہیں ہے۔ لیکن آج وہی ہندوستان ڈیجیٹل ادائیگی کے میدان میں عالمی رہنما بن کر ابھرا ہے۔ اسی طرح کورونا وبا کے خلاف ویکسینیشن کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ دو سال پہلے بہت سے لوگ حساب لگاتے تھے کہ ہندوستان میں ہر ایک کو ویکسین لگنے میں کتنا وقت لگے گا، کوئی کہتا تھا کہ 5 سال، کوئی کہتا تھا 10 سال، کچھ کہتے تھے 15 سال! آج ہم ڈیڑھ سال کے اندر ویکسین کی 200 کروڑ خوراکوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ مثالیں اس بات کی علامت ہیں کہ جب عزائم اصل ہوں تو کوششیں مکمل ہونے میں دیر نہیں لگتی، رکاوٹیں بھی راستے میں آتی ہیں۔ اور آزادی لئ لئےا مرت مہوتسو میں انسانی خدمت کے ایک اعلی کام میں آ پ کا محرک ہونا بہت بڑی تبدیلی لاسکتا ہے۔ آپ ہمیشہ سماج کے سکھ دکھ کے ساتھی رہی ہیں۔ سبھی سال نئی توانائی ، نئی ترغیبک کا سال بنا رہے۔آزادی کا امرت مہوتسو ملک میں فرض کا جذبہ جگانے میں کامیاب ہو ان میں ہم سب کا ایک بہت تبدیلی لاسکتاہ ے۔ اسی جذبے کے ساتھ آپ سنتوں کو ایک بار پھر میرا پرنام۔ بہت بہت شکریہ! ش ح۔ ش ت۔ج,স্বামী আত্মাস্থানানন্দৰ শতবাৰ্ষিকী উদযাপনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7/,نئی دہلی،5 مئی 2022/ !نمسکار! شالوم! اسرائیل کے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر، حکومت ہند اور تمام ہندوستانیوں کی طرف سے، میں اپنے تمام اسرائیلی دوستوں کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سال ہم اپنے سفارتی تعلقات کی تیسویں سالگرہ بھی منا رہے ہیں۔ گو کہ یہ باب نیا ہے لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم اپنے تعلقات کو مزید گہرا کریں گے۔ شکریہ! توڈا ربّا! تردید – یہ وزیر ا��ظم کے پیغام کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل پیغام ہندی میں دیا گیا ہے۔ https://pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1823072,ইজৰাইল দিৱস উপলক্ষে প্রধানমন্ত্রী শ্রী নৰেন্দ্র মোদীৰ বার্তাৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%DA%A9%D9%88-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0/,نئی دلّی ، 24 ستمبر؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جناب ابراہیم محمد صالح کو گزشتہ روزمالدیپ کے صدارتی انتخاب میں منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی ۔ وزیر اعظم نے جناب صالح کی قیادت میں مالدیپ کی خوش حالی ، امن اور جمہوریت کے استحکام کے لئے بھی نیک خواہشات پیش کی ہیں ۔ جناب صالح نے مبارک باد اور نیک خواہشات کے لئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ملکوں کے درمیان مزید گہرے دوستانہ اور اچھے پڑوس کے تعلقات کے استحکام کے لئے رضا مندی کا اظہار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,মালদ্বীপৰ ৰাষ্ট্ৰপতি নিৰ্বাচনত জয়ী হোৱাৰ বাবে ফোনযোগে শ্ৰীযুত ইব্ৰাহীম ছলীক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF%DB%81-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%A7%D9%B9%D9%84%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A7%8B-2/,عزت مآب جناب وزیراعظم جوسیپّے کونتے صاحب ، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق کارڈاکٹر ہرش وردھن صاحب، اس ٹیکنالوجی سربراہ اجلاس میں موجود ٹیکنالوجی کی دنیاسے جڑے سبھی ساتھیوں، خواتین اور حضرات۔ نمسکار! چاؤ، کومے ستائی! اٹلی سے یہاں سبھی تشریف لائے مہمانوں کا خاص طور سے دلی خیرمقدم ہے! بینوینوتو اِن انڈیا! دوستو، یہ 24واں ٹیکنالوجی سربراہ اجلاس ہے ، اس سربراہ اجلاس میں شراکت دار ملک کی حیثیت سے اٹلی کی حصہ داری اور ساتھ ہی وزیراعظم کونتے صاحب کی باوقار موجودگی ہمارے لئے انتہائی باعث افتخار ہے۔ یہاں آنے سے قبل اپنی سرکاری ملاقات کے دوران وزیراعظم جناب کونتے صاحب کے ساتھ میری تفصیل سے گفتگو ہوئی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے تئیں ان کا جوش اور ان کی عہدبستگی کا میں نے خود تجربہ کیا ہے۔ یہ سال ہمارے لئے اس لئے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ سال ہندوستان اور اٹلی کے سفارتی تعلقات کی استواری کا 70واں سال ہے۔ اسی سال سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے تعاون کے 40 برس مکمل ہورہے ہیں۔ اس مبارک موقع پر وزیراعظم کونتے صاحب کا سفر ہند اپنے آپ میں ایک الگ ہی اہمیت رکھتا ہے۔ دوستو، آج وہ وقت ہے جب ٹیکنالوجی کے بغیر زندگی کا تصور کرنا دشوار ہے۔ آج تقریباً ہر شخص کی زندگی ٹیکنالوجی سے کسی نہ کسی طور سے جڑی ہوئی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران تو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک ٹیکنالوجی کا اثر سماج کے آخری سرے تک پہنچ بھی نہیں پاتا کہ اس سے بہتر ٹیکنالوجی وجود میں آجاتی ہے۔ ان حالات میں سبھی ملکوں کے سامنے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ساتھ چلنے کا چیلنج ہے تو متعدد مواقع بھی دستیاب ہیں۔ ہندوستان نے تو ٹیکنالوجی کو سماجی انصاف تفویض اختیارات ،شمولیت ،اہل سرکاری نظام اور شفافیت کا وسیلہ بنالیا ہے۔ سرکاری خدمات کی آخری سرے تک مؤثر فراہمی کو ٹیکنالوجی کے وسیلے سے یقینی بنایا جارہا ہے۔ خاص طور سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ایک وسیع تک انفراسٹرکچر فروغ دیا جارہا ہے تاکہ عام آدمی کو اور آسانی سے سہولیات کا فائدہ حاصل ہوسکے۔ ٹیکنالوجی کو ہم ایزآف لیونگ (زندگی جینے کی آسانی)کا اہم وسیلہ مانتے ہیں۔ آج دنیا کی سب سے بڑی ڈائریکٹ بینیفٹ اسکیم میں سے ایک اسکیم ہندوستان میں چلائی جارہی ہے۔ سرکاری امداد راست طور سے استفادہ کنندگان کے بینک کھاتوں میں پہنچائی جارہی ہے۔ برتھ سرٹیفکیٹ سے لیکر ضعیفی کی پنشن تک کی متعدد سہولیات آج آن لائن ہیں۔ مرکز اور ریاستی سرکاروں کی 300 سے زائد خدمات کو امنگ ایپ کے وسیلے سے ایک پلیٹ فارم پر لایا گیا ہے۔ ڈیجیٹل پیمنٹ آج کل ماہانہ ڈھائی سو کروڑ ٹرانزکشن کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ملک بھر میں قائم تین لاکھ سے زائد کامن سروس سینٹر سے گاؤں گاؤں میں آن لائن خدمات فراہم کرائی جارہی ہیں۔ پچھلے چار برسوں میں بھارت میں ایک جی بی ڈیٹا کی قیمت 90 فیصد سے زیادہ تک کم ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ سستا ڈیٹا ملک کے ہر شہری کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فراہم کرانے کا مؤثر وسیلہ بن رہا ہے۔ دوستو، ہندوستان اب اپنی آئی ٹی سافٹ ویئر پاور کی شناخت کو اگلی سطح پر لے جانے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم ہندوستان میں سائنس ٹمپرس سے ٹیکنالوجیکل ٹمپرس فروغ دینے پر زور دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں اٹل ٹنکرنگ لیب کے وسیلے سے اسکولوں میں جدت طرازی کیلئے، مستقبل کی تکنیک کیلئے ٹمپرامنٹ کو فروغ دیاجارہا ہے۔ اٹل اینوویشن مشن کے وسیلے سے ملک بھر میں ایسے نوجوانوں کا نیٹ ورک تیار کیا جارہا ہے جو چوتھے صنعتی انقلاب کا مضبوط ستون بنیں گے۔ ہندوستان میں جو جدت طرازیاں یا اینوویشن ہورہے ہیں ان میں کوالٹی پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ ہندوستان کا خلائی پروگرام اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کی کامیابی تو خود اٹلی نے بھی محسوس کی ہے۔ آج ہندوستان اٹلی سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کے سیٹلائٹ بہت کم خرچ پر خلا میں بھیج رہا ہے ، یہ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا فائدہ گھر گھر تک پہنچانے میں فائدے مند ثابت ہورہے ہیں۔ ساتھیو، آج جب پوری دنیا انڈسٹری فور پوائنٹ زیرو پر گفت کررہی ہے ایسے میں ہندوستان اور اٹلی کی قدیمی تہذیبوں کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط کرنے سے نئے مواقع تو پیدا ہی ہوں گے ا س کے ساتھ چیلنجوں کا مقابلہ بھی ہم مؤثر طریقے سے کر پائیں گے۔ دوستو، آج ہندوستان دنیا کی بہت تیزی سے ترقی کرنےو الی معیشتوں میں شامل ہے ، ہندوستان کا وسیع ڈومیسٹک مارکٹ یعنی گھریلو بازار ، نوجوانوں کی آبادی ، ٹیکنالوجی اور اینوویشن کا ایکوسسٹم ایک ساتھ ملکر دنیا کی گروتھ کا ایک طاقتور انجن ثابت ہونے والا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اٹلی کے پاس بھی مالامال وراثت موجود ہے، مینوفیکچرنگ کی دنیا میں اٹلی کا نام اعلیٰ معیاری کیلئے جانا جاتا ہے۔ اس سے ہندوستان اور اٹلی ساتھ ملکر ہائی کوالٹی ریسر چ کے میدان میں اپنا تعاون مزید مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس تعاون کے وسیلے سے ہم عالمی چیلنجوں کے حل کے لئے مشترکہ ٹیکنالوجی سولوشن تیار کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے ، فضا کو صاف ستھری بنانے، انسانی فلاح کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کو مضبوط کرنا ، ��ہلے مقابلے میں آج سب سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ دونوں ملکوں کی سائنسداں برادری اور کاروباری اکابرین ملکر ریسرچ اور اینوویشن کے کٹنگ ایج شعبوں میں تعاون کررہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی ، انوائرمنٹل سائنس یعنی ماحولیاتی سائنس ، نیورو سائنس اور آئی ٹی سے لیکر تہذیبی وراثت کی حفاظت تک سبھی شعبوں میں ہمارا وسیع تر تعاون موجود ہے۔ دوستو، تعاون کے اس جادے کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی ہمارا نشانہ یہ یقینی بنانا بھی ہے کہ تحقیق وترقی کے نتائج تجربہ گاہوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ ان کے فوائد سماج اور عوام الناس تک بھی پہنچائے جائیں۔ میں اسی لئے ہمیشہ کہتا ہوں کہ سائنس اِز یونیورسل یعنی سائنس آفاقی ہے، ٹیکنالوجی ہیزٹو بی لوکل یعنی ٹیکنالوجی کو مقامی بننا ہے۔ ہندوستان میں اپنی تاریخی وراثت کے تحفظ کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یعنی شری (ایس ایچ آر آئی ) کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اس کا مقصد تاریخی یادگاروں کی حفاظت اور بحالی کیلئے ٹیکنالوجی سے جڑے حل تلاش کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی ، ٹورزم اور ہسٹری کا سنگم ان تینوں میں دکھائی دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران سربراہ اجلاس میں ہونے والی گفتگو سے دونوں ملکوں کے درمیان ٹیکنالوجی ٹرانسفر ، جوائنٹ وینچرز اور مارکیٹ ایکسس کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یہ سربراہ اجلاس ہمارے مشترکہ مستقبل کی گفتگو میں اہم کردار ادا کرے گا۔ دوستو، آج ہند- اٹلی دو فریقی انڈسٹریل ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کوآپریشن پروگرام کے اگلے مرحلے کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے مجھے ازحد مسرت ہورہی ہے اس سے ہماری صنعتیں اور تحقیقی ادارے کسی بھی قسم کی دشواری کے بغیر نئی مصنوعات اور پروٹوٹائپس کو فروغ دے سکیں گے۔ ’’نوہاؤ‘‘ کو وقت کی مانگ کے مطابق ’’شو ہاؤ‘‘ میں تبدیل کیاجاسکے۔ دونوں ملکوں میں معاشی مراسم اور مضبوط کرنے کیلئے ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جوائنٹ کمیشن آن ایکونومک کو آپریشن(جےسی ای سی) کی رہنمائی میں ایک سی ای او فورم بھی تشکیل دیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کےد رمیان دو طرفہ سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے کاروبار میں پیش آنے والی دشواریوں کو بھی دور کرنے کیلئے ایک فاسٹ ٹریک میکانزم بنانے پر بھی اتفاق رائے قائم ہوا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہندوستان اور اٹلی نے ایل اے ڈی یعنی لائف اسٹائل ایکسیسریز ڈیزائن کے میدان میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اس میں بھی لیدر سیکٹر ، ٹرانسپورٹیشن اینڈ آٹوموبائل ڈیزائن یعنی ٹی اے ڈی پر بھی خاص طور سے توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی ازحد مسرت ہورہی ہے کہ ہمارے دونوں ملک تہذیبی وراثتوں کے تحفظ ، قابل تجدید توانائی ، لائف سائنسز اور جیوہیزارڈ جیسے چنندہ میدانوں میں میکوشل پر مبنی انڈیا – اٹالین سینٹر آف ایکسیلنس بھی قائم کئے جا ئیں گے اس سے نہ صرف اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیاں ، تحقیقی ادارے اور صنعتیں آپس میں جوڑی جاسکیں گی جن سے ہمیں درپیش چیلنجوں کا تکنیکی حل بھی نکالا جاسکے گا۔ دوستو، ٹیکنالوجی سربراہ اجلاس کی کامیابی کیلئے میں سبھی منتظمین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔ میں اٹلی کی سرکار کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک شراکتدار ملک کی حیثیت سے جڑنے کی ہماری دعوت قبول کی ۔ ٹیکنالوجی سربراہ اجلاس کے سبھی شرکاء کے تئیں بھی ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ سبھی کا تعاون اور موجودگی اس سربراہ اجلاس کی کامیابی کیلئے انتہائی اہم رہی ہے۔ میں ایک بار پھر عزت مآب وزیراعظم کونتے صاحب کے تئیں اظہار ممنونیت کرتا ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کو رونق بخشی ، یہی نہیں بلکہ انہوں نے ہند۔ اٹلی کی نئی شراکت داری کی تشکیل نو کو اپنی ذاتی رہنمائی ، نظریے اور عہدبستگی کا انمول تحفہ بھی دیا ہے۔ گراتسیے ملّے بہت بہت شکریہ,নতুন দিল্লীত অনুষ্ঠিত হোৱা ভাৰত-ইটালী প্ৰযুক্তি সন্মিলনৰ বিদায় অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-18%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%86-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%A7%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%85%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%D8%B3%D8%A7%D9%84%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی ، 18 مارچ 2022 کو صبح گیارہ بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ملیالم روزنامہ ‘ماتری بھومی ’ کی صد سالہ تقریب کے سال بھر چلنے والے جشن کا افتتاح کریں گے۔ روزنامہ ماتری بھومی کی شروعات 18 مارچ 1923 کو ہوئی تھی۔ اپنے اس 100سال کے سفر کے دوران اس نے قومی مفاد کےمتعدد امور کو اجاگر کرتے ہوئے سماجی اصلاحات اورترقیاتی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں سرکردہ رول ادا کیا ہے۔ماتری بھومی کے 15 ایڈیشن اور 11جرائد نکلتے ہیں ۔اس کے علاوہ ماتری بھومی عصری دلچسپی کے متعدد امور پر مختلف موضوعات پر کتابیں شائع کرنے کا بھی کام کرتا ہے۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৮ মাৰ্চ, ২০২২ত ‘মাতৃভূমি’ৰ শতবৰ্ষৰ ক্ৰমত বছৰজুৰি চলিবলগীয়া সমাৰোহৰ উদ্ঘাটন কৰিব" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C-%D9%81%DB%8C%DA%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج روسی فیڈریشن کے صدر عزت مآب ولادیمیر پوتن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ دونوں لیڈروں نے دسمبر 2021 میں صدر پوتن بھارت دورے کے دوران لیے گئے فیصلوں کے نفاذ کا جائزہ لیا۔ خصوصی طور پر انہوں نے اس سلسلے میں تبادلہ خیال کیا کہ زرعی سامان، فرٹیلائزرز اور فارما مصنوعات کے سلسلے می دو طرفہ تجارت کی کس طرح مزید حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ دونوں لیڈرون نے بین الاقوامی توانائی اور فوڈ مارکیٹ سمیت عالمی معاملات پر بھی بات چیت کی یوکرین کی موجودہ صورتحال کے ضمن میں وزیر اعظم نے بات چیت اور سفارت کاری کے حق میں بھارت کے دیرینہ موقف کو دہرایا۔ دونوں لیڈروں نے عالمی اور دوطرفہ معاملات پر مستقل طور پر مشاورت برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,ৰাছিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতি ভ্লাদিমিৰ পুটিনৰ সৈতে টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%85%D8%B4%D9%88%D8%B1%DB%92-%D8%B7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے لوگوں کو دعوت دی ہے کہ وہ من کی بات کے آئندہ سیشن میں ان موضوعات اور مسائل پر اپنے خیالات سے واقف کرائیں، جو ان کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ اپنے خیالات کا اظہار مائی گوو ، نمو ایپ 1800-11-7800 ڈائل کرکے اپنا میسیج ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ من کی بات پروگرام کا 88 واں ایپی سوڈ 24 اپریل 2022 کو نشر ہوگا۔ وزیراعظم نے مائی گوو کی دعوت کو شیئر کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا۔ ‘‘ من کی بات کے ذریعہ ہم میدانی سطح پر تبدیلی لانے والے لوگوں کے غیر معمولی کاموں کا جشن مناتے ہیں۔ کیا آپ ایسے باعث تحریک زندگی کے سفر کے بارے میں جانتے ہیں ؟ انہیں اس مہینے کی 24 تاریخ کے پروگرام کے لئے شیئر کریں۔ مائی گوو نمو ایپ پر لکھیں یا پیغام ریکارڈ کرنے کے لئے 1800-11-7800 ڈائل کریں۔’’,মন কী বাতৰ অৰ্থে চিন্তাৰাজি শ্বেয়াৰৰ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%AF-%D8%A7%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-10/,"نئی دہلی:20؍اپریل2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج داہود میں آدی جاتی مہا سمیلن میں شرکت کی ، جہاں انہوں نے تقریباً 22000کروڑ روپے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔وزیر اعظم نے 1400کروڑروپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح کیا۔انہوں نے داہود ضلع شمالی خطہ علاقائی آبی سپلائی منصوبے کا بھی افتتاح کیا ، جو نرمدا ندی بیسن پر تقریباً 840کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہوا ہے۔یہ داہود ضلع اور دیوگڑھ بریا شہر کے تقریباً 280 گاؤں کی پانی سپلائی کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے تقریباً 335کروڑ روپے کے داہود اسمارٹ سٹی کے پانچ پروجیکٹوں کا بھی افتتاح کیا۔ان پروجیکٹوں میں اِنٹی گریٹیڈکمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (آئی سی سی سی)عمارت ، اسٹارم واٹر ڈرینج سسٹم ، سیوریج ورکس، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم اور رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم شامل ہے۔پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت پنچ محل اور داہود اضلاع کے 10,000قبائل کو 120 کروڑ روپے سے فائدہ پہنچایاگیا۔وزیر اعظم نے دیگر پروجیکٹوں کے ساتھ 66کے وی گھوڑیا سب اسٹیشن، پنچایت ہاؤس، آنگن واڑی کا افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے داہود میں پیداواری اِکائی میں 9000 ایچ پی الیکٹرک لوکو موٹیو کی مینوفیکچرنگ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اِ س پروجیکٹ پر تقریباً 20,000کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔بھاپ انجنوں کی معیادی اوور ہال کے لئے 1926میں قائم داہود ورکشاپ کے بنیادی ڈھانچہ میں اصلاحات کے ساتھ الیکٹرک لوکو موٹیو مینوفیکچرنگ اِکائی میں اَپ گریڈ کیا جائے گا۔اس سے 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو براہ راست اور بالواسطہ طورپر روزگار ملے گا۔وزیر اعظم نے تقریباً 550کروڑ روپے کے ریاستی سرکار کے مختلف پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اِس میں تقریباً ایک کروڑ روپے کی آبی سپلائی سے متعلق تقریباً300کروڑ روپے کے پروجیکٹ شامل ہیں۔داہود اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کی لاگت تقریباً 175کروڑ روپے، دودھی متی ریور پروجیکٹ سے متعلق کام اورگھوڑیا میں جی ای ٹی سی او سب اسٹیشن وغیرہ کے کام بھی شامل ہیں۔اس موقع پر مرکزی وزیر جناب اشونی ویشنو ، محترمہ درشنا جردوش، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل اورگجرات سرکار کے متعدد وزراء کے ساتھ دیگر لوگ موجود تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مقامی قبائلی برادری کے ساتھ اپنے طویل جڑاؤ کو یاد کیااور انہیں ملک کی خدمت کے لئے متحرک کرنے کے لئے ان کے آشیرواد کو اس کا کریڈٹ دیا۔ انہوں نے ایک ایسے پس منظر کے لئے ان کی حمایت اور آشیرواد کو کریڈٹ دیا ، جہاں مرکز اور ریاست میں ڈبل انجن سرکار کے ذریعے قبائلی فرقوں اور خاص طور سے خواتین کے تمام مسائل کو حل کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج جن پروجیکٹوں کا افتتاح ہوا ہے، اُن میں سے ایک پینےکے پانی سے جڑی اسکیم ہے اور دوسرا داہود کو اسمارٹ سٹی سے جڑا پروجیکٹ ہے۔ اس سے خطے کی ماؤں اور بیٹیوں کی زندگی میں آسانی پیدا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ داہود میک اِن انڈیا مہم میں تعاون دے گا، کیونکہ داہود میں پیداواری اِکائی میں 20ہزارکروڑ روپے کے 9000ایچ پی الیکٹرک لوکو موٹیو آرہے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کیسے داہود کا ریلوے شعبہ مر رہا تھا، جب بہت پہلے وہ یہاں کے ملازمین کے گھروں کا دورہ کرنے آتے تھے۔انہوں نے خطے کے ریلوے ڈھانچے کو ازسر نو زندہ کرنے کا عہد لیا اورآج اس خواب کے پورا ہونے پر مسرت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ اس وسیع سرمایہ کاری سے علاقے کے نوجوانوں کو نئے مواقع فراہم ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ریلوے کو تمام پہلوؤں سے جدید کیا جارہا ہے اور ایسے جدید لوکو موٹیو کی تعمیر",প্রধানমন্ত্রী শ্রী নৰেন্দ্র মোদীয়ে গুজৰাটৰ দাহোদ আৰু পঞ্চমহলত ২২ হাজাৰ কোটি টকা মূল্যৰ প্রকল্পৰ উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%D9%88%DA%A9-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6-%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 4 ستمبر 2017، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے لوک سبھا کے ممبر پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر جناب سلطان احمد کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ’’لوک سبھا کے ایم پی اور سابق مرکزی وزیر جناب سلطان احمد کے انتقال نے مجھے افسردہ کردیا ہے۔ غم کی اس گھڑی میں میرے خیالات مرحوم کے افراد خاندان اور ان کے حامیوں کے ساتھ ہیں‘‘۔ م ن۔ج ۔ ن ا۔ (04-09-17),লোকসভাৰ সাংসদ তথা প্ৰাক্তন কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰী শ্ৰী চুলতান আহমেদৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%85%D8%A8%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نپیال کے عزت مآب وزیر اعظم جناب شیر بہادر دیوبا کے ساتھ لمبنی مٹھ علاقہ، لمبنی، نیپال میں بھارت بین الاقوامی بودھ ثقافت و وراثت مرکز کی تعمیر کے لیے شلانیاس کیا۔ اس مرکز کی تعمیر انٹرنیشنل بودھ کنفیڈریشن (آئی بی سی)، نئی دہلی کے ذریعے لمبنی ڈیولپمنٹ ٹرسٹ (ایل ڈی ٹی) کی ایک زمین پر کیا جائے گا، جسے آئی بی سی اور ایل ڈی ٹی کے درمیان مارچ، 2022 میں دستخط شدہ ایک معاہدہ کے تحت آئی بی سی کو دیا گیا تھا۔ شلانیاس کی تقریب، جسے تین اہم بودھ روایتوں، تھیرواد، مہایان اور وجریان کے بھکشوؤں کے ذریعے ادا کیا گیا، کے بعد دونوں وزرائے اعظم نے مرکز کے ایک ماڈل کی بھی نقاب کشائی کی۔ تعمیر مکمل ہو جانے کے بعد، یہ دنیا بھر کے تیرتھ یاتریوں اور سیاحوں کا خیر مقدم کرنے والا ایک عالمی معیار کا سہولیتی مرکز ہوگا، جہاں عقیدت مند بودھ مذہب کی روحانی شکلوں کے مجموعہ کا دیدار کر سکیں گے۔ یہ ایک جدید عمارت ہوگی، جو بجلی، پانی اور فضلے کے انتظام کے معاملے میں ’مجموعی صفر‘ (نیٹ زیرو) کے معیاروں کے مطابق ہوگی اور اس مرکز میں پوجا کا ہال، دھیان لگانے کے مراکز، لائبریری، نمائشی ہال، کیفیٹیریا، دفاتر اور دیگر سہولیات بھی ہوں گی۔,নেপালৰ লুম্বিনীত ভাৰত আন্তৰ্জাতিক বৌদ্ধ সংস্কৃতি আৰু ঐতিহ্য কেন্দ্ৰৰ শিলান্যা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D9%85%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%B9-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%9F%E0%A6%B2-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%A8-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے، اٹل اختراعی مشن (اے آئی ایم) کو، مارچ 2023 تک جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ اے آئی ایم ملک میں اختراعی ثقافت اور کاروباری ماحولیاتی نظام کی تشکیل کے اپنے مطلوبہ ہدف پر کام کرے گا۔ اے آئی ایم یہ کام ،اپنے مختلف پروگراموں کے ذریعے کرے گا۔ مطلوبہ اہداف، جو اے آئی ایم کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے وہ ہیں: 10000 اٹل ٹنکرنگ لیبز (اے ٹی ایلز) کا قیام، 101 اٹل انکیوبیشن سینٹرز (اے آئی سیز) کا قیام، 50 اٹل کمیونٹی انوویشن سینٹرز (اے سی آئی سیز) کا قیام اور اٹل نیو انڈیا چیلنجز کے ذریعے 200 اسٹارٹ اپس کی معاونت کرنا۔ مبلغ 2000+ کروڑ روپے کے بجٹ جاتی مجموعی اخراجات، قیام اور استفادہ کنندگان کی مدد کے عمل میں خرچ کیے جائیں گے۔ یہ مشن نیتی آیوگ کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ 2015 کی بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ کے اعلان کے مطابق، اے آئی ایم کے مقاصد اسکول، یونیورسٹی، تحقیقی اداروں، ایم ایس ایم ای اور صنعت کی سطحوں پر مداخلتوں کے ذریعے، ملک بھر میں اختراعی اور کاروباری شخصیت کے ایکو سسٹم کی تشکیل اور اسے فروغ دینا ہے۔ اے آئی ایم نے بنیادی ڈھانچے کی تخلیق اور ادارے کی تعمیر، دونوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ جیسا کہ ان مثالوں سے ظاہر ہے، اے آئی ایم نے قومی اور عالمی سطح پر جدت طرازی کے ایکو سسٹم کو مربوط کرنے پر کام کیا ہے: اے آئی ایم نے مختلف بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات استوار کیے ہیں تاکہ جدت اور کاروبار پر ہم آہنگی کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ ان میں روس کے ساتھ، اے آئی ایم – سیریس اسٹوڈنٹ انوویشن ایکسچینج پروگرام، ڈنمارک کے ساتھ، اے آئی ایم – آئی سی ڈی کے (انوویشن سینٹر ڈنمارک) واٹر چیلنج، اور آسٹریلیا کے ساتھ، آئی اے سی ای (انڈیا آسٹریلین سرکلر) اکانومی ہیکاتھون) شامل ہیں۔ اے آئی ایمز نے ان اسپرینیور کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا، جو کہ ہندوستان اور سنگاپور کے درمیان منعقد ہونے والی انوویشن اسٹارٹ اپ سربراہ کانفرنس ہے۔ اے آئی ایم نے دفاعی اختراعی تنظیم قائم کرنے کے لیے، وزارت دفاع کے ساتھ شراکت کی ہے، جو دفاعی شعبے میں جدت کے ساتھ ساتھ خریداری کو فروغ دے رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں، اے آئی ایم نے ملک بھر میں اختراعی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے ایک ادارہ جاتی طریقہ کار فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ اپنے پروگراموں کے ذریعے، اس نے اسکول کے لاکھوں بچوں میں جدت کا جذبہ اجاگر کیاہے۔ اے آئی ایم کی حمایت یافتہ اسٹارٹ اپس نے سرکاری اور نجی ایکویٹی سرمایہ کاروں سے 2000+ کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں اور کئی ہزار ملازمتیں کے مواقع پیدا کئے ہیں۔ اے آئی ایم نے، قومی مفاد کے موضوعات پر کئی اختراعی چیلنجز کو بھی انجام دیا ہے۔ اے آئی ایم کے پروگرام، ایک ساتھ، 34 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا احاطہ کرتے ہیں جس کا مقصد اختراعی ماحولیاتی نظام میں زیادہ سے زیادہ شرکت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہندوستان کے آبادیاتی ڈیویڈنڈ کا فائدہ اٹھانا ہے۔ مشن کوجاری رکھنے کے لیے کابینہ کی منظوری کے ساتھ ہی، اے آئی ایم ایک جامع اختراعی ماحولیاتی نظام کی تشکیل کے لیے ایک اور ایسی بڑی ذمہ داری بھی قبول کرتا ہے جہاں جدت طرازی اور کاروبار میں مشغول ہونا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔,কেবিনেটে অটল উদ্ভাৱন অভিযানৰ সম্প্ৰসাৰণত অনুমোদন জনাইছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%82%DB%8C%D8%AF%D8%AA-%D9%85%D9%86%D8%AF%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%80-%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%AE/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے عقیدت مندوں سے گجرات کے امباجی تیرتھ دھام میں ساؤنڈ اینڈ لائٹ شو میں شرکت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 51 شکتی پیٹھوں کا پریکرما فیسٹیول آج شام 7 بجے سے شروع ہو رہا ہے۔ ہمارے پُرانوں(قدیم مقدس کتابیں) کو ساؤنڈ اینڈ لائٹ شو میں دکھایا جائے گا۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ''امباجی تیرتھ دھام، گجرات میں عقیدت مندوں کے لیے ایک بہت ہی مبارک موقع آیا ہے۔ آج شام 7 بجے سے، یہاں 51 شکتی پیٹھوں کا پریکرما میلہ شروع ہو رہا ہے، جس میں ہمارے پُرانوں کی دلکش پیشکش سے منسلک لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی شامل ہے۔ آپ سب سے میری اپیل ہے کہ اس عظیم الشان انوشٹھان(مذہبی رسم) کا حصہ ضرور بنیں۔""",গুজৰাটৰ অম্বাজী তীৰ্থধামত ধ্বনি আৰু পোহৰ প্ৰদৰ্শনীত ভক্তসকলক অংশগ্ৰহণ কৰিবলৈ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%84-%DA%AF%DB%8C%D9%B9%D8%B3-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%DB%92-%DA%A9%DB%8C-200-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91-%D8%AE%D9%88%D8%B1%D8%A7%DA%A9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%B4%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A7%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھارت کی ٹیکہ کاری مہم کو تقویت بہم پہنچانے میں سائنس دانوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی اجتماعی کوششوں کی ستائش کی ہے۔ وزیر اعظم نے بل گیٹس کے مبارکبادی پیغام والے ٹوئیٹ کے جواب میں ٹوئیٹ کیا: ’’بھارت کی ٹیکہ کاری مہم رفتار اور پیمانے کے لحاظ سے بہت بڑی ہے۔ اس مہم کو سائنس دانوں، ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت کئی لوگوں کی اجتماعی کوششوں سے تقویت حاصل ہوئی ہے۔ ساتھ ہی، بھارت کے لوگوں نے سائنس میں غیرمعمولی اعتماد جتایا ہے اور وقت پر اپنی خوراکیں لی ہیں۔‘‘,প্ৰতিষেধক প্ৰদানৰ সংখ্যাই ২০০ কোটি পালিৰ ঘৰ অতিক্ৰমণৰ মুহূৰ্তত প্ৰধানমন্ত্ৰীক ���িল গেট্ছৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DB%81%D9%86%D8%AF-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%D9%86%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B1%D8%A7%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6-%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,دونوں پروجیکٹوں سے پنجاب کے مکتسر، فرید کورٹ اور فیروز پور کے علاقوں میں پانی کے جماؤ پر قابو پایا جاسکے گا نئی دہلی۔26ستمبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے اگلے پانچ برسوں (2018-19 تا2022-23)کے دوران راجستھان معاون نہر اور سرہند معاون نہر کی مرمت کاری پر عملدرآمد کے لئے بالترتیب 620.42 کروڑ روپئے اور 205.758 کروڑ روپئے کی مرکزی مالی امداد کی منظوری دی ہے۔ اثرات ان دونوں پروجیکٹوں پر عملدرآمد سے جنوب مغربی پنجاب کے مکتسر، فریدکورٹ اور فیروز پور اضلاع میں 84800 ہیکٹیر اراضی میں پانی کے جماؤ کے مسئلے کو حل کرنے میں مددملے گی۔ ان پروجیکٹوں کےنافظ ہونے کے بعد جنوب مغربی پنجاب کے علاقوں میں پانی کے جماؤ کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور دونوں نہروں میں پانی کے بہاؤ اور پانی کی دستیابی میں بھی اضافہ کیا جاسکے گا۔ II –,ছিৰহিন্দ ফিডাৰ কেনেল আৰু ৰাজস্থান ফিডাৰ কেনেলৰ সংস্কাৰৰ বাবে ৮২৫ কোটি টকা আৰ্থিক সাহায্যত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C3-%D8%A7%DA%AF%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%A4%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%86%E0%A6%97/,نئی دہلی یکم اگست 2021 : وزیراعظم جناب نریندرمودی ، 3 اگست 2021 کو دوپہر بارہ بجکر 30 منٹ پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ پردھان منتری غریب کلیان یوجنا سے مستفید ہونے والے افراد سے بات چیت کریں گے۔ اس اسکیم کے بارے میں مزید بیداری پیدا کرنے کی غرض سے ریاست میں عوامی شرکت کے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا جارہا ہے۔ پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی) کے بارے میں پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی خوراک کی یقینی فراہمی سے متعلق ایک اسکیم ہے جس کا خیال وزیراعظم نے کووڈ-19 کے اقتصادی اثرات کو کم کرنے میں مدد کرنے اور مالی مدد فراہم کرنے کی غرض سے پیش کیا ہے۔ پی ایم جی کے اے وائی کے تحت خوراک کی یقینی فراہمی سے متعلق قومی قانون کےدائرہ میں آنے والے تمام مستفید افراد کو 5 کلو گرام فی شخص کے حساب سے اضافی اناج دیا جاتا ہے۔ گجرات کے وزیراعلی اور نائب وزیر اعلی بھی اس موقع پر موجود ہوں گے۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে তৃতীয় আগষ্টত গুজৰাটত প্রধানমন্ত্রী গৰীব কল্যাণ অন্ন যোজনাৰ সুবিধাভোগীসকলৰ সৈতে মত বিনিময় কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%D8%8C-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%84%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D9%B9%DA%A9%D8%B3-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A7%B1%E0%A6%A8-2/,مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی، ملک کے لاجسٹکس اور صنعتی شعبے کے مندوبین، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات، آزادی کے امرت کال میں آج مل�� نے ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ بھارت میں آخری میل تک بہم رسانی تیزی سے ہو، نقل و حمل سے متعلق چنوتیاں ختم ہوں، ہمارے مینوفیکچررس کا، ہماری صنعتوں کا وقت اور پیسہ دونوں کی کفایت ہو، اسی طرح سے ہمارا جو ایگرو پروڈکٹ ہے۔ تاخیر کی وجہ سے اس کی جو بربادی ہوتی ہے۔ اس سے ہم کیسے آزادی حاصل کریں؟ ان سارے مسائل کا حل تلاشنے کی ایک مسلسل کوشش شروع کی ہے اور اسی کی ایک شکل ہے آج قومی لاجسٹکس پالیسی، اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے ان تمام نظاموں میں اصلاح کے لیے اور اس شعبہ میں کام کرنے والی حکومت کی الگ الگ اکائیوں کے درمیان میں بھی ایک ہم آہنگی قائم ہوگی۔جامع نقطہ نظر رہے گا۔ اور اس کا نتیجہ ہم جو رفتار چاہتے ہیں، اس رفتار کو ملے گا۔ اور میری آپ سب سے درخواست ہے، مجھے یہاں آنے میں جو 5-7 منٹ کی تاخیر ہوئی اس کی وجہ تھی۔ یہاں ایک چھوٹی سی نمائش لگی ہے۔ وقت کی قلت کے سبب میں بہت باریکی سے تو نہیں دیکھ سکا، لیکن سرسری نظر سے میں دیکھ رہا تھا۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ وقت نکال کر 15-20 منٹ اسی کیمپس میں ہے- ضرورت دیکھ کر کے جایئے۔ کس طرح سے تکنالوجی اس شعبے میں کردار ادا کر رہی ہے؟ خلائی تکنالوجی کا ہم لوگ کیسے استعمال کر رہے ہیں؟ اور ایک ساتھ ساری چیزوں کو دیکھیں گے تو آپ اس شعبے میں ہوں گے تو بھی شاید آپ کو بہت سی نئی چیزیں حاصل ہوں گی۔ آج ہم دنیا کی 5ویں سب سے بڑی معیشت ہیں۔ کیوں آپ کو خوشی نہیں ہے؟ دیر آئے درست آئے۔ ہوتا ہے کبھی بھی۔ کیونکہ چاروں جانب اتنی منفی سوچ کی بھرمار ہوتی ہےکہ اس میں کبھی کبھی اچھائیوں کو تلاشنے میں خاصہ وقت صرف ہو جاتا ہے، اور ملک بدل رہا ہے جی۔ ایک وقت تھا ہم کبوتر چھوڑتے تھے۔ آج چیتا چھوڑتے ہیں۔ ایسے ہی تھوڑی نہ ہوتا ہے۔ لیکن آج صبح چیتا چھوڑنا، شام کو لاجسٹکس پالیسی کو ، کوئی میل تو ہے یہ۔ کیونکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ چیتے کی رفتار سے جائے۔ ملک اسی تیز رفتار سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ساتھیو، میک ان انڈیا اور آتم نربھر بھارت بنتے بھارت کی بازگشت صرف بھارت میں نہیں باہر بھی سنائی دیتی ہے۔ آج بھارت برآمدات کے بڑے ہدف طے کر رہا ہے، پہلے تو یہ طے کرنا ہی بڑا مشکل رہتا ہے۔ اتنا بڑا، پہلے تو اتنا تھا، اب ایک دم ایسا۔ لیکن ایک مرتبہ طے ہو جائے تو ملک کر بھی دیتا ہے۔ ملک آج ان اہداف کو پورا کر رہا ہے۔ بھارت کے مینوفیکچرنگ شعبہ کی طاقت ایک طرح سے بھارت مینوفیکچرنگ کے مرکزکی شکل میں ابھر رہا ہے۔ یہ دنیا کے من میں مستحکم ہو رہا ہے۔ اسے تسلیم کیا جاچکا ہے۔ جو لوگ پی ایل آئی اسکیم کا مطالعہ کریں گے، ان کو پتہ چلے گا کہ دنیا نے اس کو تسلیم کر لیا ہے جی۔ ایسے میں قومی لاجسٹکس پالیسی، ہر شعبے کے لیے بہت ہی نئی توانائی لے کر آئی ہے۔ میں سبھی شراکت داران کو، تاجروں کو، کاروباریوں کو، برآمدکاروں کو، ملک کے کاشتکاروں کو، میں آج اس اہم پہل قدمی کے لیے جو اُن کے لیے ایک طرح سے جڑی بوٹی ان کے ہاتھ لگنے والی ہے، اس کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، یہاں اس پروگرام میں متعدد پالیسی ساز، صنعتی شعبے کی تمام بڑی شخصیات موجود ہیں، جو اس شعبے میں روزمرہ کی ان کی زندگی ہے۔ مشکلات کو انہوں نے برداشت کیا ہے، راستے تلاش کیے ہیں۔ کبھی شارٹ کٹ بھی تلاش کیے ہوں گے، لیکن کیے ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں اور جو کل کچھ لوگ لکھیں گے، اس کو میں آج کہہ دیتا ہوں۔ پالیسی اپنے آپ میں نتیجہ نہیں ہوتی ہے، پالیسی شروع ہوتی ہے، اور پالیسی +کارکردگی = ترقی، یعنی پالیسی کے ساتھ کارکردگی کا پیرامیٹر ہو، کارکردگی کا روڈمیپ ہو، کارکردگی کے لیے ٹائم لائن ہو۔ یہ جب جڑ جاتی ہے۔ تو پالیسی + کارکردگی = ترقی ۔ اور اس لیے آپ پالیسی کے بعد حکومت کی اور اس شعبے سے جڑے ہوئے تمام سرکردہ شخصیات کی کارکردگی کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اگر پالیسی نہیں ہے تو کہتے ہیں نہیں نہیں پہلے سے تو بہت اچھا ہے۔ پالیسی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں وہاں جانا تھا بھائی تم تو یہاں رُکے ہو۔ ایسے جانا تھا تم تو ایسے ہی چلے گئے۔ پالیسی ایک طرح سے ڈرائیونگ فورس کے طورپر کام کرتی ہے۔ گائیڈنگ فورس کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اور اس لیے اس پالیسی کو محض ایک کاغذ یا دستاویز کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ ہمیں جس چیتے کی رفتار سے مشرق سے مغرب تک مال لے جانا ہے۔ اس رفتار کو ہم نے پکڑنا ہے جی۔ آج کا بھارت کوئی بھی پالیسی وضع کرنے سے قبل، اسے نافذ کرنے سے قبل، اس کے لیے ایک زمین ہموار کرتا ہے، اور تبھی وہ پالیسی کامیابی سے نافذ ہوپاتی ہے، اور تب جا کر کے ترقی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ نیشنل لاجسٹکس پالیسی بھی اچانک ایک دن ایسے ہی لانچ نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کے پس پشت آٹھ برسوں کی محنت ہے، پالیسی کے تحت تبدیلیاں کی گئی ہیں، اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ اور اگر میں اپنے لیے کہوں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ 2001 سے 2022 تک میرا 22 سال کا تجربہ اس میں شامل ہے۔ لاجسٹکس کنکٹیویٹی کو سدھارنے کے لیے منظم بنیادی ڈھانچہ ترقی کے لیے ہم نے ساگرمالا، بھارت مالا جیسی اسکیمیں شروع کیں، نافذ کیں۔ کلی طور پر وقف مال بھاڑا گلیاروں کے ذریعہ اس کام میں بے مثال تیزی لانے کی ہم نے کوشش کی ہے۔ آج بھارتی بندرگاہوں کی مجموعی صلاحیت میں کافی اضافہ رونما ہوا ہے۔ کنٹینر بحری جہاز کا ٹرن اراؤنڈ وقت 44 گھنٹے سے گھٹ کر اب 26 گھنٹے پر آگیا ہے۔ آبی گزرگاہوں کے ذریعہ ہم ماحولیات دوست اور لاگت کے لحاظ سے مؤثر نقل و حمل کر پائیں، اس کے لیے ملک میں متعدد نئے آبی راستے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ برآمدات میں مدد حاصل ہو، اس کے لیے ملک میں تقریباً 40 ایئر کارگو ٹرمنل بھی بنائے گئے ہیں۔ 30 ہوائی اڈوں پر کولڈ اسٹوریج سہولتیں مہیا کرائی گئی ہیں۔ ملک بھر میں 35 کثیر جہتی لاجسٹکس مراکز بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ آپ تمام حضرات نے دیکھا ہوگا کہ کورونا کے وقت ملک نے کسان ریل اور کرشی اُڑان کا بھی استعمال شروع کیا۔ ملک کے دور دراز کے علاقوں سے زرعی پیداوار کو اہم منڈیوں تک پہنچانے میں انہوں نے بہت مدد کی۔ کرشی اُڑان نے کاشتکاروں کی پیداوار کو غیر ممالک تک پہنچایا۔ آج ملک کے تقریباً 60 ہوائی اڈوں سے کرشی اُڑان کی سہولت دستیاب ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ میری تقریر سننے کے بعد ہمارے کچھ صحافی دوست مجھے فون کریں گے کہ یہ تو ہمیں معلوم ہی نہیں تھا۔ آپ میں سے بھی بہت لوگ ہوں گے، جن کو لگتا ہوگا کہ ، اچھا اتنا سارا ہوا ہے۔ کیونکہ ہمیں دھیان نہیں ہوتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے ان پروجیکٹوں پر لاکھوں کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کے ساتھ ہی، حکومت نے تکنالوجی کی مدد سے بھی لاجسٹکس شعبے کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ ای۔سنچت کے توسط سے پیپر لیس ایکسم تجارتی ضابطہ ہو، کسٹمز میں فیس لیس اسیسمنٹ ہو، یا پھر ای۔وے بل اور فاسٹیگ کی تجویز ہو، ان سبھی نے لاجسٹکس شعبے کی اثرانگیزی میں بہت اضافہ کیا ہے۔ ساتھیو، لاجسٹکس شعبے کی ایک اور بڑی چنوتی کو بھ�� ہماری حکومت نے گذشتہ برسوں میں ختم کر دیا ہے۔ پہلے الگ الگ ریاستوں میں متعدد ٹیکس ہونے کی وجہ سے لاجسٹکس کی رفتار پر جگہ جگہ بریک لگ جاتا تھا۔ لیکن جی ایس ٹی نے اس مشکل کو آسان کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی طرح کے پیپر ورک کم ہوئے، جس سے لاجسٹکس کا عمل آسان ہو گیا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں حکومت نے جس طرح ڈرون پالیسی میں تبدیلی کی ہے، اسے پی ایل آئی اسکیم سے جوڑا ہے، اس سے ڈرون کا استعمال مختلف چیزوں کی بہم رسانی میں بھی ہونے لگا ہے۔ اور آپ مان کر چلئے نوجوان نسل ضرور میدان میں آئے گی۔ ڈرون ٹرانسپورٹیشن ایک بہت بڑا شعبہ تیار ہونے والا ہے اور میں چاہوں گا کہ دور دراز جو ہمالیہ رینجز کے چھوٹے چھوٹے مواضعات میں زرعی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کو ڈرون سے ہم کیسے لائیں؟ جہاں ساحل سمندر ہے اور زمین سے گھرا علاقہ ہے، اگر ان کو مچھلی چاہئے تو ڈرون سے تازہ مچھلی پہنچانے کا بڑے شہروں میں، زمین سے گھرے علاقے میں کیسے انتظام ہو، یہ سب آنے والا ہے جی۔ اگر یہ آئیڈیا کسی کو کام آئے تو مجھے رائلٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھیو، میں اس لیے ان ساری باتوں کو کہتا ہوں۔ خصوصاً دشوار گزار علاقوں میں، پہاڑی علاقوں میں ڈرون نے ادویہ لے جانے میں، ویکسین لے جانے میں ہمیں گذشتہ دنوں بہت مدد پہنچائی ہے۔ ہم اس کا استعمال کر چکے ہیں۔ آنے والے وقت میں، میں نے جیسے کہا کہ ڈرون کا نقل و حمل شعبہ میں زیادہ سے زیادہ استعمال، لاجسٹکس شعبہ کے لیے بہت مددگار ثابت ہونے والا ہے اور ہم نے بڑی ترقی پسند پالیسی پہلے ہی آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ ساتھیو، ایک کے بعد ایک اس طرح کی اصلاحات کے بعد ہی ملک میں لاجسٹکس کی ایک مضبوط بنیاد بنانے کے بعد ہی اتنا سارا ہو چکا ہے، اس کے بعد ہم یہ نیشنل لاجسٹکس پالیسی لے کر کے آئے ہیں۔ کیونکہ ہم نے ایک طرح سے ٹیک آف اسٹیج پر لاکر کے چھوڑا ہوا ہے۔ اب آپ سب ساتھیوں کی اس لیے ضرورت ہے کہ اب اتنی ساری پہل قدمیاں ، اتنی ساری سہولتیں پیدا ہو چکی ہیں۔ لیکن پھر بھی ٹیک آف کے لیے ہم سب کو جڑنا ہے اور ٹیک آف کرکے رہنا ہے۔ اب یہاں سے لاجسٹکس شعبہ میں جو تیزی آئے گی، میں خواب پورا کر سکتا ہوں دوستو۔ یہ جو تبدیلی ہے وہ بے مثال نتائج لانے والی ہے۔ اور اگر ایک سال کے بعد اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ خود بھی یقین کریں گے کہ ہاں ہم نے تو سوچا نہیں تھا یہاں سے یہاں تک پہنچ گئے۔ دیکھئے 13-14 فیصد کی لاجسٹکس لاگت کی سطح کو ہمیں جلد سے جلد مل کر اس کو واحد ہندسے میں لانے کا ہدف رکھنا ہی چاہئے۔ اگر ہمیں عالمی سطح پر مقابلہ کرنا ہے تو یہ ایک طرح سے بہت ہی آسان کام ہے۔ بقیہ ساری چیزوں میں ہمیں لاگت کم کرنے میں شاید پچاس اور چیزیں مشکل کر سکتی ہیں۔ لیکن ایک طرح بہت ہی آسان کام ہے۔ ہماری کوشش سے ہی، اثرانگیزی سے ہی، کچھ اصولوں پر عمل کرنے سے ہی، ہم 13-14 فیصد سے واحد ہندسے میں آسکتے ہیں جی۔ ساتھیو، قومی لاجسٹکس پالیسی کے توسط سے دو اور بڑی چنوتیوں کو حل کیا گیا ہے۔ کتنی ہی جگہ، ایک مینوفیچرر کو اپنے کام کے لیے الگ الگ اضلاع میں الگ الگ لائسنس لینا پڑتا ہے۔ ہمارے برآمدکاروں کو بھی ایک طویل ضابطے سے گزرنا ہوتا ہے۔ اپنے سامان کو ٹریک اور ٹریس کرنے کے لیے برآمدکاروں کو ایکسپورٹرس شپنگ بل نمبر، ریلوے کنسائنمنٹ نمبر، ای۔وے بل نمبر، نہ جانے کتنے نمبروں کو جوڑنا پڑتا ہے۔ تب جاکر وہ ملک کی خدمت کر سکتا ہے جی۔ اب آپ لوگ اچھے ہیں تو زیادہ شکایت کی نہیں ہے۔ لیکن آپ کے درد کو میں سمجھتا ہوں اس لیے میں اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔آج جو یونیفائیڈ لاجسٹکس انٹرفیس پلیٹ فارم یعنی یو ایل آئی پی (یولِپ) اور یہی میں کہتا ہوں یولِپ، یولِپ لانچ ہوا ہے، اس سے برآمدکاروں کو اس طویل ضابطے سے نجات ملے گی۔ اور اس کا ایک ڈیمو پیچھے نمائش میں ہے، آپ دیکھیں گے کہ کتنی تیزی سے آپ خود فیصلہ کرکے کام آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یو ایل آئی پی (یو لِپ)، نقل و حمل کے شعبے سےوابستہ تمام ڈجیٹل خدمات کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لے کر آئے گا۔ نیشنل لاجسٹکس پالیسی کے تحت آج ایز آف لاجسٹکس سروسز – ای- لاگس نام سے بھی ایک ڈجیٹل پلیٹ فارم شروع ہوا ہے۔ اس پورٹل کے توسط سے صنعتی انجمنیں ایسے کسی بھی معاملے کو، جس سے ان کے آپریشنز اور کارکردگی میں پریشانی آرہی ہے، اسے سیدھے سرکاری ایجنسی کے ساتھ اٹھا سکتی ہیں۔ یعنی بہت ہی شفاف طریقہ سے بغیر کسی رکاوٹ کے حکومت کے دروازے تک آپ کو پہنچانے کا ایک نظام تیار ہو گیا ہے۔ ایسے معاملات کا تیزی سے حل ہو سکتا ہے اس لیے بھی پورا انتظام کیا گیا ہے۔ ساتھیو، قومی لاجسٹکس پالیسی کو سب سے زیادہ حمایت اگر کسی سے ملنے والی ہے، تو وہ ہے پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ملک کی تمام ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے ، ہماری اکائیاں سب کے سب اس سے جڑ چکے ہیں اور تقریباً تمام محکمے ایک ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر چکے ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے الگ الگ بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں سے جڑی معلومات اس کا ایک بہت بڑا ڈاٹا بیس تیار ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آج مرکز اور ریاستی حکومتوں سے تقریباً ڈیڑھ ہزار لیئرس یعنی 1500 لیئرس میں ڈاٹا، پی ایم گتی شکتی پورٹل پر آرہا ہے۔ کہاں کون سے پروجیکٹ ہیں، کہاں فاریسٹ لینڈ ہے، کہاں ڈفینس لینڈ ہے، اس طرح کی ساری معلومات ایک واحد مقام پر آنے لگی ہے۔ اس سے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کی منصوبہ بندی بہتر ہوئی ہے، منظوری کا عمل تیز ہوا ہے اور جو بعد میں مسائل ذہن میں آتے تھے، ان مسائل کا حل کاغذ پر ہی پہلے سے پکا ہو جاتا ہے۔ ہمارے بنیادی ڈھانچے میں جو خلاء ہوتی تھیں، وہ بھی پی ایم گتی شکتی کی وجہ سے تیزی سے دور ہو رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے، ملک میں پہلے کس طرح بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کا بغیر سوچے سمجھے اعلان کرنے اور انہیں دہائیوں تک لٹکائے رکھنے کا رواج تھا۔ اس کا بہت بڑا نقصان ملک کے لاجسٹکس شعبے نے اٹھایا ہے۔ اور یہ جب لاجسٹک پالیسی کی بات میں کر رہا ہوں۔ اس کا ایک انسانی چہرہ بھی ہے جی۔ ہم ان نظاموں کو ڈھنگ سے چلائیں تو کسی بھی ٹرک ڈرائیور کو رات کو باہر سونا نہیں پڑے گا۔ وہ بھی ڈیوٹی کرکے رات کو گھر آ سکتا ہے، رات کو سو سکتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ بندی نظام سب آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کتنی بڑی خدمت ہوگی۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پالیسی اپنے آپ میں ملک کے سوچنے کے پورے طریقہ کو بدلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ساتھیو، گتی شکتی اور قومی لاجسٹکس پالیسی مل کر اب ملک کوکام کے ایک نئے رواج کی جانب لے جا رہی ہیں۔ حال ہی میں منظورشدہ گتی شکتی یونیورسٹی یعنی ہم نے اس کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل ترقیات کا کام بھی ساتھ ساتھ کیا ہے۔ پالیسی تو اب آج لا رہے ہیں۔ گتی شکتی یونیورسٹی سے، یونیورسٹی سے جو ٹیلنٹ نکلے گا، اس سے بھی اسے بہت بڑی مدد ملنے والی ہے۔ ساتھیو، بھارت میں ہو رہی ان کوششوں کے درمیان ہمیں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آج دنیا کا بھارت کے تئیں نظریہ بدل رہا ہے۔ آج دنیا، بھارت کا بہت مثب�� طریقہ سے جائزہ لے رہی ہے، ہمارے ملک میں تھوڑی دیر لگتی ہے۔ لیکن باہر ہو رہا ہے۔ دنیا بھارت سے بہت امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بھارت آج ’جمہوریت کی سوپرپاور‘ کے طورپر ابھر رہا ہے۔ ماہرین اور جمہوری سوپر پاور، ماہرین بھارت کی شاندار صلاحیت ایکو نظام سے بہت متاثر ہیں۔ ماہرین بھارت کے ’عزم‘ اور ’ترقی‘ کی ستائش کر رہے ہیں۔ اور یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ بھارت اور بھارت کی معیشت نے عالمی بحران کے درمیان جس طرح کی لچک دکھائی ہے، اس نے دنیا کو نئے اعتماد سے بھر دیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں بھارت نے جو اصلاحات کی ہیں، جو پالیسیاں نافذ کی ہیں، وہ واقعی بے مثال ہیں۔ اور اس لیے بھارت کے تئیں دنیا کے اعتماد میں مسلسل اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں دنیا کے اس بھروسے پر پوری طرح کھرا اترنا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہم سبھی کا فرض ہے، اور ایسا موقع گنوانا ہمارے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ آج لانچ ہوئی نیشنل لاجسٹکس پالیسی، مجھے پختہ یقین ہے، ملک کے زندگی کے ہر شعبے میں ایک نئی رفتار لانے میں مدد فراہم کرنے والی ہے۔ ساتھیو، ترقی یافتہ بننے کا عزم لے کر چل رہے بھارت کو آپ میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا، جو یہ نہیں چاہتا ہوگا کہ ہمارا ملک ایک ترقی یافتہ ملک بنے، کوئی نہیں ہوگا جی۔ پریشانی یہی ہوتی ہے، چلو یار کوئی کرے گا۔ مجھے یہی بدلنا ہے، ہمیں مل کر کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ بھارت کے عزم کو لے کر چل رہے بھارت کو اب ترقی یافتہ ممالک سے اور زیادہ مسابقت کرنی ہے، اور یہ ہم مان کر چلیں، جیسے جیسے ہم طاقتور ہوں گے، ہمارا مقابلہ زیادہ طاقتور لوگوں سے ہونے والا ہے۔ اور اس کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہئے، جھجھکنا نہیں چاہئے جی، آجاؤ تیار ہیں۔ اور اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمارا ہر پروڈکٹ، ہماری ہر پہل قدمی ہمارے پروسیس بہت ہی مسابقتی ہونے چاہئیں۔ خدمات کا شعبہ ہو، مینوفیکچرنگ کا شعبہ ہو، آٹو موبل ہو، الیکٹرانکس ہو، ہمیں ہر شعبہ میں بڑے اہداف طے کرنے ہیں اور انہیں حاصل بھی کرنا ہے۔ آج بھارت میں تیار مصنوعات کو لے کر دنیا کی توجہ محض ہماری پیٹھ تھپتھپانے تک محدود نہیں رہنی چاہئے۔ ہمیں عالمی منڈی کو قبضہ کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے دوستو۔ بھارت کی زرعی مصنوعات ہوں، بھارت کے موبائل ہوں یا پھر بھارت کی برہموس میزائل، دنیا میں آج ان کا خوب ذکر ہو رہا ہے۔ کورونا کے دور میں بھارت میں بنی ویکسین اور ادویہ نے دنیا کے لاکھوں افراد کی جان بچانے میں مدد کی ہے۔ آج صبح میں ازبکستان سے آیا۔ تو کل آخر میں رات کو میں ازبکستان کے محترم صدر سے بات کر رہا تھا۔ دیر ہو چکی تھی، لیکن وہ اتنے پرجوش انداز میں بتا رہے تھے کہ بولے ہمارے یہاں ازبکستان میں پہلے یوگ کے تئیں ایک طرح کی نفرت کا ماحول تھا۔ لیکن آج صورتحال ایسی ہے کہ ہر گلی محلے میں اتنا یوگ چل رہا ہے کہ ہمیں بھارت سے ٹرینرس کی ضرورت ہے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا بھارت کی طرف دیکھنے کا سوچنے کا نظریہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ بھارت میں تیارمصنوعات دنیا کے بازاروں میں غلبہ حاصل کریں، اس کے لیے ملک میں سپورٹ سسٹم کا مضبوط ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ نیشنل لاجسٹکس پالیسی ہمیں سپورٹ سسٹم کو جدید بنانے میں بہت مدد کرے گی۔ اور ساتھیو، آپ سبھی جانتے ہیں کہ جب ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، ملک میں لاجسٹکس سے متعلق مشکلات کم ہوتی ہیں، تو اس کا بڑا فائدہ ہماری چھوٹی صنعتوں کو اور ان میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ لاجسٹکس شعبے کی مضبوطی عام انسانوں کی زندگی ہی آسان نہیں بنائے گی بلکہ محنت اور مزدوروں کی عزت میں اضافہ میں بھی مدد فراہم کرے گی۔ ساتھیو، اب بھارت کے لاجسٹکس شعبے سے الجھنیں ختم ہوں گی، امیدیں بڑھیں گی، یہ شعبہ اب ملک کی کامیابی کو نئی بلندی تک لے جائے گا۔ قومی لاجسٹکس پالیسی میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کے ، کاروبار کی توسیع کے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنے کے لامحدود امکانات موجود ہیں۔ ہمیں ان امکانات کو مل کر پورا کرنا ہے۔ اسی عزم کے ساتھ آپ سب کو ایک مرتبہ پھر ڈھیر ساری نیک خواہشات اور اب چیتے کی رفتار سے سامان کو اٹھانا ہے، لے جانا ہے، یہی میری آپ سے توقع ہے، شکریہ۔,নতুন দিল্লীৰ বিজ্ঞান ভৱনত ৰাষ্ট্ৰীয় লজিষ্টিক নীতিৰ শুভাৰম্ভণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%A7-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%B3%D9%B9%DB%8C%D8%8C-%DA%86%D9%86%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%92-42%D9%88%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%BE/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج چنئی میں انا یونیورسٹی کے 42ویں جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت کی۔ تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی، وزیر اعلیٰ جناب ایم کے اسٹالن، مرکزی وزیر جناب ایل مروگن اس موقع پر موجود تھے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے طلباء کو ڈگریاں حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا، ان تمام لوگوں کو مبارکباد جو آج انا یونیورسٹی کے 42ویں جلسہ تقسیم اسناد میں فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ آپ نے پہلے ہی اپنے ذہنوں میں اپنے لیے ایک مستقبل بنا لیا ہوگا۔ اس لیے آج کا دن نہ صرف کامیابیوں کا دن ہے بلکہ امنگوں کا بھی ہے، ۔ انہیں کل کا لیڈر قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے والدین کی قربانیوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے تعاون کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے سوامی وویکانند کے ان الفاظ کو، جو ہندوستان کے نوجوانوں کے امکانات کے بارے میں ہے، اس شہر میں دوہرایا جسے 125 سال پہلے مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ وزیر اعظم نے ریمارکس دیئے کہ‘‘پوری دنیا ہندوستان کے نوجوانوں کی طرف پر امید نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ کیونکہ آپ ملک کے گروتھ انجن ہیں اور ہندوستان دنیا کا گروتھ انجن ہے’’۔ وزیر اعظم نے سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی انا یونیورسٹی کے ساتھ وابستگی کو بھی یاد کیا۔ وزیر اعظم نے کہا۔‘‘ان کے خیالات اور اقدار ہمیشہ آپ کو متاثر کرتے رہیں’’۔ وزیر اعظم نے اس بات کا ذکر کیا کہ کووڈ-19 وبائی بیماری ایک بے مثال واقعہ ہے۔ یہ ایک صدی میں ایک بار آنے والا بحران تھا جس کے لیے کسی کے پاس کوئی واضح طریقہ کار نہیں تھا۔ اس نے ہر ملک کو آزمائش میں ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ مشکلات کے اس دور سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری قوت ارادی کس قدر مضبوط ہے۔ ہندوستان نے اپنے سائنسدانوں، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور عام لوگوں کی بدولت نامعلوم مصیبت کا سامنا اعتماد سے کیا۔ انہوں نے کہا، اس کے نتیجے میں، ہندوستان کے ہر شعبے میں ایک نئی زندگی کی ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ صنعت، سرمایہ کاری، اختراع یا بین الاقوامی تجارت، سبھی میدانوں میں ہندوستان سب سے آگے نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان پچھلے سال دنیا کا دوسرا سب سے بڑا موبائل فون بنانے والا ملک تھا۔ جدت زندگی کا ایک طریقہ بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پچھلے 6 سالوں میں، تسلیم شدہ اسٹارٹ اپس کی تعداد میں 15,000 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ ہندوستان نے گزشتہ سال 83 بلین ڈالر سے زیادہ کا ریکارڈ ایف ڈی آئی حاصل کیا۔ ہمارے اسٹارٹ اپس کو بھی وبائی امراض کے بعد ریکارڈ فنڈنگ ملی۔ اس سب سے بڑھ کر، بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں میں ہندوستان کی پوزیشن اب تک کی بہترین ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر سامنے آنے والی اختراعات کے اس دور میں، تین اہم باتیں خاص طور پر ہندوستان کے حق میں جاتی ہیں۔ پہلا عنصر یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹیکنالوجی کا ذوق ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ زندگی میں سکون او ر آسائش کا احساس بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ غریب سے غریب لوگ بھی اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ ‘‘دوسرا عنصر خطرہ مول لینے والوں پر اعتماد ہے۔ پہلے سماجی مواقع پر ایک نوجوان کے لیے یہ کہنا مشکل ہوتا تھا کہ وہ ایک کاروباری شخص ہے۔ لوگ ان سے کہتے تھے کہ ‘بس جاؤ’ یعنی تنخواہ والی نوکری حاصل کرو۔ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ تیسرا عنصر یہ ہے کہ ہمارے یہاں اصلاح کا مزاج ہے۔ وزیر اعظم نے سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پہلے، ‘‘ایک تصور تھا کہ ایک مضبوط حکومت کا مطلب ہے کہ اسے ہر چیز اور ہر فردکو کنٹرول کرنا چاہیے۔ لیکن ہم نے اسے بدل دیا ہے۔، انہوں نے وضاحت کی کہ ایک مضبوط حکومت ہر چیز یا سب کو کنٹرول نہیں کرتی۔ یہ نظام کے مداخلتی مزاج کو کنٹرول کرتی ہے۔ ایک مضبوط حکومت پابندیاں عائد نہیں کرتی بلکہ جوابدہ ہوتی ہے۔ ایک مضبوط حکومت ہر میدان مداخلت نہیں کرتی۔ یہ خود کو اپنے محدود دائرے میں رکھتی ہے اور لوگوں کی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لئے راہ ہموار کرتی ہے’’۔ انہوں نے مزید زور دیا کہ ‘‘ایک مضبوط حکومت کی طاقت اس کی عاجزی میں مضمر ہے کہ وہ یہ قبول کر لے کہ وہ سب کچھ نہیں جان سکتی اور نہ ہی کر سکتی ہے’’، یہی وجہ ہے کہ اصلاحات ہر جگہ لوگوں اور ان کی صلاحیتوں کے لیے زیادہ جگہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے نوجوانوں کو فراہم کی جانے والی آزادی اور لچک اور کاروبار میں آسانی کے لیے 25,000 تعمیلات کو ختم کرنے کی مثالیں دیں۔ انہوں نے کہا۔ اینجل ٹیکس کا خاتمہ، معکوس محصول کا خاتمہ، اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی – سرمایہ کاری اور صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ڈرون، خلائی اور جغرافیائی شعبوں میں اصلاحات نئی راہیں کھول رہی ہیں’’۔ وزیراعظم نے نوجوانوں اور قوم کی ترقی کے درمیان تعلق پر زور دیا۔ انہوں نے آخر میں کہا ‘‘آپ کی ترقی ہندوستان کی ترقی ہے۔ آپ کی تعلیم ہندوستان کی تعلیم ہے۔ آپ کی جیت ہندوستان کی جیت ہے۔’’ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے 69 گولڈ میڈل جیتنے والوں کو گولڈ میڈل اور سرٹیفکیٹس سے نوازا۔ انا یونیورسٹی 4 ستمبر 1978 کو قائم کی گئی تھی۔ اس کا نام تامل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ سی این انادورائی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کے 13 کانسٹی چوینٹ کالج، 494 ملحقہ کالج تامل ناڈو میں پھیلے ہوئے ہیں اور 3 علاقائی کیمپس ترونیل ویلی، مدورائی اور کوئمبٹور ہیں ۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে চেন্নাইৰ আন্না বিশ্ববিদ্যালয়ৰ ৪২ সংখ্যক দীক্ষান্ত সমাৰোহত সম্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%E2%80%8F-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D8%B3%D9%85%D8%B1%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A6%E0%A7%8D/,‏وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ناگپور میں ہندو ہردے سمراٹ بالا صاحب ٹھاکرے مہاراشٹر سمردھی مہامرگ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا، جو 520 کلومیٹر طویل ہے اور ناگپور اور شرڈی کو جوڑتا ہے۔ ‏ ‏وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا:‏ ‏’’ہم اعلی معیار کے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے لیے عزم بستہ ہیں اور ناگپور اور شرڈی کے درمیان مہامارگ اس کوشش کی ایک کڑی ہے۔ اس جدید سڑک منصوبے کا افتتاح کیا اور مہامارگ پر بھی گاڑی چلائی۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے مہاراشٹر کی اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔‏‘‘ ‏وزیر اعظم کی آمد پر ان کا استقبال کیا گیا اور ان کے ساتھ ‏‏مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب ایکناتھ شندے، مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ جناب دیویندر فڑنویس اور سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری بھی‏‏ موجود تھے۔‏ ‏پس منظر‏ ‏وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندو ہردے سمراٹ بالا صاحب ٹھاکرے مہاراشٹر سمردھی مہامرگ کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا، جو 520 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے اور ناگپور اور شرڈی کو جوڑتا ہے۔‏ ‏سمردھی مہامرگ یا ناگپور-ممبئی سپر کمیونیکیشن ایکسپریس وے پروجیکٹ ملک بھر میں بہتر رابطے اور بنیادی ڈھانچے کے وزیر اعظم کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ تقریباً 55،000 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا 701 کلومیٹر ایکسپریس وے – ہندوستان کے سب سے طویل ایکسپریس وے میں سے ایک ہے، جو مہاراشٹر کے 10 اضلاع اور امراوتی، اورنگ آباد اور ناسک کے ممتاز شہری علاقوں سے گزرتا ہے۔ ایکسپریس وے سے ملحقہ 14 دیگر اضلاع کے رابطے کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی، اس طرح ودربھ، مراٹھواڑہ اور شمالی مہاراشٹر کے علاقوں سمیت ریاست کے تقریباً 24 اضلاع کی ترقی میں مدد ملے گی۔‏ ‏وزیر اعظم گتی شکتی کے تحت مربوط منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کے رابطے کے منصوبوں کے مربوط نفاذ کے وزیر اعظم کے وژن کو آگے بڑھاتے ہوئے سمردھی مہامارگ دہلی ممبئی ایکسپریس وے، جواہر لال نہرو پورٹ ٹرسٹ اور اجنتا ایلورا غاروں، شرڈی، ویرول، لونار وغیرہ جیسے سیاحتی مقامات سے منسلک ہوگا۔ سمردھی مہامارگ مہاراشٹر کی اقتصادی ترقی کو ایک بڑا فروغ فراہم کرنے میں انقلاب آفریں ثابت ہوگا۔‏,নাগপুৰত মহাৰাষ্ট্ৰ সমৃদ্ধি মহামাৰ্গ উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AE/,نئی دلّی ،23 اپریل، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نےنئی دہلی میں مرکزی وزیر سربانند سونووال کی رہائش گاہ پر بیہو کی تقریبات میں شرکت کی۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’اپنے کابینہ ساتھی @سربانند سونووالکی رہائش گاہ پر رنگا رنگ بیہو کے جشن میں شرکت کی۔ بھارت کوآسام کی دلکش ثقافت پر فخر ہے۔‘‘,নতুন দিল্লীত কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰী সৰ্বানন্দ সোণোৱালৰ বাসগ���হত বিহু উদযাপন অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%DB%81-%DA%86%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AE/,جیسا کہ اس سال پریکشا پہ چرچا کی تاریخوں کا آج اعلان کیا گیا، وزیر اعظم نے سب لوگوں سے اس منفرد بات چیت میں حصہ لینے کو کہا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: پریکشا پہ چرچا سب سے دلچسپ پروگراموں میں سے ایک ہے، جس سے امتحانات کو تناؤ سے پاک بنانے اور ہمارے امتحان کے سورماؤں # کو سپورٹ کرنے کے طریقوں پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں اس مہینے کی 27 تاریخ کو ہونے والے پروگرام کا منتظر ہوں اور آپ سب سے اس منفرد گفتگو میں حصہ لینے کی درخواست کرتا ہوں۔ پی پی سی 2023 #,পৰীক্ষা পে চৰ্চা মত-বিনিময়ত সকলোকে অংশগ্ৰহণৰ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%84%D8%AF%D8%A7%D8%AE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B3-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9B-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دہلی،27 مئی ،2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لداخ میں ایک بس حادثے میں ہندوستانی فوج کے جوانوں کی ہلاکت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نےایک ٹویٹ میں کہا; ‘‘لداخ میں بس حادثے سے غمزدہ ہوں، جس میں ہم نے اپنے بہادر فوجی جوانوں کو کھو دیا ہے۔ میرے خیالات سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ زخمی جلد ہی صحت یاب ہو ں گے۔ متاثرین کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔’’ 444444444444444,লাডাখত বাছ দুৰ্ঘটনাত ভাৰতীয় সেনাৰ জোৱানৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%DB%8C-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92%DA%AF%D8%B1%D9%85%D8%AC%D9%88%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%80-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%AE%E0%A6%95-%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%B9/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کاشی تمل سنگم کے لیے جوش و خروش کا اظہار کیا ہے جو ہندوستان کے شمالی اور جنوبی خطوں کے درمیان موجود لازوال بندھن کی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بھارت شریشٹھا بھارت کے جذبے کا جشن ہوگا جبکہ تمل زبان کے ساتھ ساتھ ثقافت کی خوبصورتی کا بھی جشن منایا جائے گا۔ مرکزی وزیر ڈاکٹر ایل مروگن کے ایک ٹویٹ کا اشتراک کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘کاشی تمل سنگم ایک ایسا پروگرام ہے جس کے بارے میں میں خاص طور پر پرجوش ہوں۔ یہ ایک بھارت شریشٹھا بھارت کے جذبے کا جشن ہوگا اور خوبصورت تمل زبان کے ساتھ ساتھ خوبصورت تمل ثقافت کا بھی جشن ہوگا’’۔,কাশী-তামিল সংগমক লৈ উৎসাহিত প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AA%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AF%DB%8C%D9%BE-%D8%A7%D8%AA%D8%B3%D9%88-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%80/,"سیاوَر رام چندر کی جئے، سیاوَر رام چندر کی جئے، سیاوَر رام چندر کی جئے، اسٹیج پر تشریف فرما اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، دیوتا کے برابر تمام اودھ کے باشندو، تمام رام بھکتو، بھارت بھکتو، ملک اور دنیا میں موجود خواتین و حضرات، آج ایودھیا جی چراغوں کے ساتھ روشن ہیں، جذبات کے ساتھ بھویہ ہیں۔ آج ایودھیا شہر بھارت کے ثقافتی احیا کے سنہری باب کی عکاسی کرتا ہے۔ جب میں رام ابھیشیک کے بعد یہاں آ رہا تھا تو میرے ذہن میں جذبات کی، احساسات کی، جذباتیت کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب بھگوان شری رام 14 سال کی جلاوطنی کے بعد ایودھیا آئے ہوں گے تو ایودھیا کو کیسے سجایا گیا ہوگا، اسے کیسے سنوارا گیا ہوگا؟ ہم نے تریتا عہد کی اس ایودھیا کے درشن نہیں کیے، لیکن بھگوان رام کے آشیرواد سے آج ہم امرت کال میں لافانی ایودھیا کے آلوککتا کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ساتھیو، ہم اس تہذیب اور تمدن کے علمبردار ہیں جن کی زندگی کا فری حصہ تہوار اور پرب رہے ہیں۔ جب بھی معاشرے نے یہاں کچھ نیا کیا، ہم نے ایک نیا تہوار رچ دیا۔ ہم نے سچائی کی ہر فتح، جھوٹ کے ہر خاتمے کے انسانی پیغام کو جس مضبوطی سے زندہ رکھا، اس میں بھارت کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بھگوان شری رام نے ہزاروں سال پہلے راون کے ظلم کو ختم کیا تھا، لیکن آج ہزاروں سال بعد بھی اس واقعے کا ہر انسانی پیغام، روحانی پیغام ہر دیے کی شکل میں لگاتار اشاعت ہوتی رہتی ہے۔ ساتھیو، دیوالی کے دیے ہمارے لیے صرف ایک چیز نہیں ہیں۔ وہ بھارت کے آدرشوں، اقدار اور فلسفے کی زندہ توانائی کی شعاعیں ہیں۔ آپ دیکھیں، جہاں تک نظر جارہی ہے، روشنیوں کی یہ جگمگ، اجالوں کا یہ اثر، رات کی پیشانی پر شعاعوں کا یہ پھیلاؤ، بھارت کے بنیادی منتر 'ستیہ میو جیتے' کا اعلان ہے۔ یہ ہمارے اپنشد کے ان جملوں کا اعلان ہے – ""ستیہ میو جیتے نانرتم ستین پنتھا ویتو دیویانہ""۔ یعنی سچائی کی فتح ہوتی ہے، جھوٹ کی نہیں۔ یہ ہمارے رشیوں کے اقوال کا اعلان ہے – ""رامو راجمنی: سدا وجیتے""۔ یعنی فتح ہمیشہ رام کے اخلاق سے ہوتی ہے، راون کی بداخلاقی سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سادھوسنتوں نے جسمانی چراغ میں بھی شعوری توانائی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا – دیپو جیوتی پربراہم دیپو جیوتی جناردھن۔ یعنی دیوں کی روشنی برہما کی شکل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ روحانی روشنی بھارت کی ترقی کی رہنمائی کرے گی، بھارت کے احیا کی راہنمائی کرے گی۔ ساتھیو، آج اس مبارک موقع پر ان لاکھوں چراغوں کی روشنی میں میں ہم وطنوں کو ایک اور بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ رام چرت مانس میں گوسوامی تلسی داس جی نے کہا ہے – ""جگت پرکاشیا پرکاسک رامو""۔ یعنی بھگوان رام وہ ہیں جو پوری دنیا کو روشنی دیتے ہیں۔ یہ پوری دنیا کے لیے ایک مشعل راہ کی طرح ہیں۔ یہ کون سی روشنی ہے؟ یہ رحم دلی اور دردمندی کا نور ہے۔ یہ انسانیت اور وقار کا نور ہے۔ یہ مساوات اور محبت کی روشنی ہے۔ یہ روشنی ہے – سب کے ساتھ، یہ روشنی ہے – سب کو ساتھ لے جانے کے پیغام کی۔ مجھے یاد ہے، برسوں پہلے، میں نے بچپن میں دیپک پر گجراتی میں ایک نظم لکھی تھی۔ اور نظم کا عنوان تھا – دیا۔ گجراتی میں کہتے ہیں – دیوو۔ مجھے آج اس کی چند سطریں یاد آتی ہیں۔ میں نے لکھا تھا مفہوم: چراغ امید بھی دیتا ہے اور چراغ گرمی بھی دیتا ہے۔ چراغ آگ بھی دیتا ہے اور چراغ سکون بھی دیتا ہے۔ ہر کوئی چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے، لیکن دیا اندھیری ��ام میں بھی سہارا دیتا ہے۔ چراغ خود جلتا ہے اور تاریکی کو بھی جلاتا ہے، چراغ انسان کے ذہن میں لگن کا احساس لاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو جلاتے ہیں، اپنے آپ کو حرارت دیتے ہیں، اپنے آپ کو کھپاتے ہیں، لیکن جب کامیابی کی روشنی پیدا ہوتی ہے، تو ہم اسے پوری دنیا میں بے لوث طور پر پھیلا دیتے ہیں، اسے پوری دنیا کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، جب ہم خود غرضی سے بالاتر ہو کر پرمارتھ کا یہ سفر طے کرتے ہیں تو ہمہ جہتی کا عزم خود بخود اس میں جذب ہو جاتا ہے۔ جب ہمارے عزائم پورے ہوتے ہیں تو ہم کہتے ہیں، 'ادم نہ مم'۔ یعنی یہ کارنامہ میرے لیے نہیں بلکہ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ دیپ سے دیوالی تک یہ بھارت کا فلسفہ ہے، یہی بھارت کی سوچ ہے، یہی بھارت کی ابدی ثقافت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ قرون وسطی کے دور اور جدید دور تک بھارت کو کتنی تاریکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جن طوفانوں میں عظیم تہذیبوں کے سورج غروب ہوگئے ان میں ہمارے چراغ جلتے رہے، روشنی دیتے رہے، پھر ان طوفانوں کو پرسکون کیا اور روشن ہو اٹھے۔ کیونکہ، ہم نے چراغ جلانا بند نہیں کیا۔ ہم نے اعتماد بنانا بند نہیں کی۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ کورونا حملے کی مشکلات کے درمیان ہر بھارتی چراغ کے ساتھ کھڑا تھا۔ اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ میں بھارت کتنا طاقتور رہا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اندھیروں کے ہر دور سے نکل کر بھارت نے ماضی میں اپنی طاقت کی روشنی کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے، یہ مستقبل میں بھی پھیلے گا۔ جب روشنی ہمارے اعمال کی گواہی دیتی ہے تو اندھیرے کا خاتمہ خود بخود یقینی ہوجاتا ہے۔ جب چراغ ہمارے اعمال کی گواہی دیتا ہے، نئی صبح کا اعتماد، نئی شروعات خود بخود مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ، آپ سب کو ایک بار پھر دیپ اتسو کی بہت بہت مبارک باد۔ میرے ساتھ پوری عقیدت کے ساتھ بولیں- سیاوَر رام چندر کی جئے، سیاوَر رام چندر کی جئے، سیاوَر رام چندر کی جئے۔",উত্তৰপ্ৰদেশৰ অযোধ্যাত দীপোৎসৱ উদযাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C%D8%8C-%DA%AF%D9%88%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%8C-%D8%A8%DA%BE%D9%B9%D9%86%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%80-%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A3/,نئی دہلی،24؍اکتوبر،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے رائے بریلی (اترپردیش) ، گورکھپور (اترپردیش) ، بھٹنڈہ (پنجاب) ، گوہاٹی (آسام) ، بلاسپور ( ہماچل پردیش) اور دیو گھر (جھارکھنڈ) میں نئے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے لئے 225000 روپے کی بیسک تنخواہ کے ساتھ این پی اے ملاکر زیادہ سے زیادہ 237500 روپے کی تنخواہ پر الگ الگ ایک ایک ڈائریکٹر کا عہدہ قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ کا چیف ایگزیکیٹو افسر ہوگا اورا نسٹی ٹیوٹ کے مجموعی انتظام کا انچارج ہوگا اور وہ انسٹی ٹیوٹ کے دیگر عہدیداروں اور ملازمین کو ان کے فرائض تفویض کرے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-وا- ق ر),"ৰায়বেৰেলী, গোৰখপুৰ, ভাটিণ্ডা, গুৱাহাটী, বিলাসপুৰ আৰু দেওঘৰত স্থাপিত এইমছৰ প্ৰত্যকতে এটাকৈ সঞ্চালক পদ সৃষ্টি কৰি তেওঁলোকৰ বাবে প্ৰাৰম্ভিক দৰমহা ২,২৫,০০০(স্থায়ী) আৰু এনপিএসহত ২,৩৭,৫০০ টকা প্ৰদানত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%8C-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B2/,نئیدہلی،09۔نومبر۔وزیر اعظم نریندر مودی ، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم محترمہ شیخ حسینہ واجد اورمغر بی بنگال کی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بنرجی نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رابطہ کاری کے منصوبوں کا مشترکہ طورسے آغاز کیا۔ ان منصوبوں میں دوسرا بھیرو اور ٹیٹاریلوے برج اورکولکتہ کے علاقے چت پور میں بین الاقوامی ریل مسافر ٹرمنس کا قیام شامل ہے ۔ اس موقع پر مذکورہ بالا تینو ں سرکردہ شخصیات نے کولکتہ اور کھلنہ کے درمیان چلائی جانے والی بندھن ایکسپریس کے ابتدائی سفر کا جھنڈی دکھاکر افتتاح کیا ۔ اس تقریب میں مرکزی وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج نے بھی دہلی سے شرکت کی ۔ اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے ان منصوبوں سے وابستہ اوراس تقریب میں موجود سے سلام وپیام کے بعد کہا کہ اب سے کچھ دن قبل ہندوستان اور بنگلہ دیش دونو ں ملکوں نے دیوالی ،درگا پوجا اورکالی پوجا کے عظیم تہوار منائے تھے ۔’’ میں اس موقع پر ان دونوں ملکوں کے عوام کو تہواروں کے اس موسم کی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ آپ سے ایک بار پھر ملاقات کا موقع ملا ۔ آپ کی بہتر صحت کے لئے ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔ میرا شروع ہی یہ ماننا رہا ہے کہ پڑوسی ملکوں کے لیڈروں کے تعلقات صحیح معنوں میں پڑوسیوں جیسے ہونے چاہئیں ۔ جب جی چاہے بات ہوجائے ،سفر ہوجائے ۔ ان معاملوں میں پروٹوکول کی پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں ‘‘۔ ابھی کچھ روز پہلے ساؤتھ ایشیا سیٹلائٹ کو لانچ کئے جانے کے موقع پر اسی طرح ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ گفتگو کی تھی اور پچھلے سال پیٹرا پول آئی سی پی کا افتتاح بھی ہم نے اسی طرح کیا تھا ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری رابطہ کاری کو مضبوط کرنے والے اہم منصوبوں کا افتتاح ہم نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ کیا ہے ۔ رابطہ کاری سب سے اہم امر عوام سے عوام کی رابطہ کاری ہے ۔ آج انٹرنیشنل پیسنجر ٹرمنس کے افتتاح سے کولکتہ –ڈھاکہ میتری ایکسپریس اور کولکتہ –کھلنہ بندھن ایکسپریس سے مسافروں کو زبردست سہولت حاصل ہوگی ۔اس سے انہیں نہ صرف کسٹم اور امیگریشن میں آسانی ہوگی بلکہ ان کے سفر کے وقت میں تین گھنٹے کی بچت ہوگی۔ میتری اور بندھن نامی ان دونوں ریل خدمات کے نام بھی ہمارے مشترکہ تصورات کے مطابق ہیں ۔ جب بھی رابطہ کاری کی بات کی جاتی ہے تو مجھے ہمیشہ آپ کے 1965 سے قبل کے رابطہ کاری بحال کرنے کے تصور کا خیال آتا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم اس سمت میں مسلسل قدم قدم آگے ڑھ رہے ہیں ۔ آج ہم نے دو ریلوے پلوں کا بھی افتتاح کیا ہے ۔ تقریباََ 100 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کئے جانے والے یہ پل بنگلہ دیش کے ریل نظام کو مضبوط بنانے میں معاون ہوں گے ۔ بنگل دیش ترقیاتی کاموں میں معتبر شراکتدار ہونا ہندوستان کے لئے باعث فخر ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے 8 ارب ڈالر کی رعایتی سرمایہ کاری کی عہد بستگی کے تحت مختلف منصوبے ترقی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ترقی اور رابطہ کاری دونوں ایک دوسرے سے جڑے شعبے ہیں اور ہمارے ان دونوں ملکوں کے درمیان جو صدیوں قدیم تاریخی رابطے ہیں خاص طورسے مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے درمیان جو رابطے موجود ہیں انہیں مزیر مضبوط کرنے کی سمت میں ہم نے کچھ اوراقدامات بھی کئے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جیسے جیسے ہمارے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا اور ہمارے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رشتے مضبوط ہوں گے ،ویسے ویسے ہم ترقی اور خوشحالی کی نئی بلندیوں کو چھو پائیں گے ۔ میں اس کام میں تعاون کے لئے بنگلہ دیش کیوزیر اعظم محترمہ شیخ حسینہ اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں ۔ م ن ۔س ش۔رم,"প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদী, বাংলাদেশৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী আৰু পশ্চিমবংগৰ মুখ্যমন্ত্ৰীয়ে যৌথভাবে শুভাৰম্ভ কৰিলে ভাৰত-বাংলাদেশ সংযোগী প্ৰকল্পৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%9B-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4/,نئی دہلی،18؍جولائی،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے علاقائی ہوابازی ، ساجھیداری تعاون کے بارے میں برکس ملکوں کے درمیان ، جن میں برازیل ، روس ، بھارت ، چین ا ور جنوبی افریقہ شامل ہیں، مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ خصوصیات: اس کا مقصد یہ ہے کہ برکس ممالک شہری ہوابازی کے شعبے میں تعاون کے لئے ایک ادارہ جاتی فریم ورک کے قیام سے فائدہ اٹھاسکیں۔ تعاون کے لئے مندرجہ ذیل شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ عوامی پالیسیاں اور علاقائی خدمات میں بہترین پریکٹس۔ علاقائی ہوائی اڈے۔ ہوائی اڈوں کے بنیادی ڈھانچوں کا بندوبست اور ہوائی جہازوں کی خدمات۔ ریگولیٹری ایجنسیوں کے درمیان تکنیکی تعاون۔ اختراعات ۔ عالمی اقدامات پر غو وخوض سمیت ماحولیات کی پائیداری۔ اہلیت اور تربیت۔ دیگر شعبوں میں تعاون۔,ব্ৰিকছ ৰাষ্ট্ৰসমূহৰ মাজত আঞ্চলিক অসামৰিক পৰিবহণৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ সন্দৰ্ভত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D8%A7%D9%84%DA%86%D8%B1-%D8%B2%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D9%BE%D9%84%D8%A7%D9%86%D9%B9-%D8%8C-%D8%A7%DA%88%DB%8C%D8%B4%DB%81-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%96/,نئیدہلی۔22ستمبر 2018 ؛ اسٹیج پر موجود اڈیشہ کے گورنر پروفیسر گنیشی لال جی، ریاست کے وزیراعلیٰ، میرے دوست جناب نوین پٹنائک جی، مرکز میں کابینہ کے میرے ساتھی جناب جیوئل اورم جی، جناب دھرمیندر پردھان جی، کابینہ میں میرے ساتھی جناب ستپتی جی، یہاں کے رکن برجکشور پردھان جی، اور پیارے بھائیوں اور بہنوں۔ اس کے بعد مجھے ایک بڑی ریلی میں بولنا ہے اور اس لیے میں اس کی تفصیلی گفتگو یہاں نہ کرتے ہوئے بہت ہی کم لفظوں میں اس موقعے پر ، اس کے تئیں میں خوشی کا اظہار کرتاہوں اور مقررہ وقت میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے عہد کے ساتھ میں متعلقہ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ایک طرح سے یہ تجدید کا کام کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ کئی دہائیوں پہلے جو خواب دیکھے تھے ، لیکن کسی نہ کسی کمی کی وجہ سے وہ سارے خواب بکھر چکے تھے۔ اور یہاں کے لوگوں نے بھی امید چھوڑ دی تھی کہ کیا اس پروجیکٹ کو ، اس شعبے کو دوبارہ زندگی حاصل ہو سکتی ہے کیا؟ لیکن ہم نے عہد کیا ہے ملک میں نئی توانائی کے ساتھ، نئی رفتار کے ساتھ ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، اور اس عزم کو پار کرنے کے لیے ایسے کئی بہت بڑے پروجیکٹس، کئی بڑے منصوبے، کئی بڑے اقدام، اس میں بھی توانائی چاہیے، اس میں بھی قوتِ عزم چاہیے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تقریباً 13 ہزار کروڑ روپیے کی لاگت سے آج اس پروجیکٹ کی پھر سے تجدید کاری کا کام یہاں شروع ہو رہا ہے۔ مکمل طور پر ہندوستان کے لیے یہ نئی ٹیکنالوجی ہے۔ کول گیسی فکیشن کے ذریعے یہاں کے اس کالے ڈائمنڈ کو ایک نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف اس شعبے بلکہ ملک کو بھی نئی سمت ملنے والی ہے۔ ملک کو باہر سے جو گیس لانا پڑتا ہے، باہر سے یوریا لانا پڑتا ہے، اس سے بھی نجات ملے گی اور بچت ہوگی۔ اس شعبے کے نوجوانوں کے لیے یہ روزگار کا بھی بڑا موقع ہے۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار لوگ اس پروجیکٹ کے ساتھ جڑیں گے اور اس کی وجہ سے اس کے آس پاس بھی بہت سی تنظیمیں فروغ پائیں گی، جس کا فائدہ یہاں ملے گا۔ ترقی کی سمت کیسے بدلی جا سکتی ہے – نیتی صاف ہو، نیت ملک کے لیے وقف ہو، تب فیصلے بھی اعلیٰ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں نورتن، مہارتن، رتن – ایسے کئی سرکاری پی ایس یوز کا چرچہ ہم سنتے آئے ہیں۔ کبھی اچھی خبر، کبھی بُری خبریں آتی رہتی ہیں۔ لیکن ان کو ملا کر کے، ایک نئی قوت بن کر کے کیسے کسی پروجیکٹ کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، یہ ایک نئی مثال ملک کے سامنے ہوگی کہ جب ملک کے اس طرح کے جواہرات یکجا ہو کر کے ، مہا رتن یکجا ہو کر کے اس پروجیکٹ کی ذمہ داری لیں گے اور ان سب کی مہارت ، ان سب کی دولت اس کام میں لگے گی اور اڈیشہ کی زندگی کو اور ملک کے کسانوں کی ضروریات کو مکمل کرنے کی وجہ بنے گی۔ مجھے بتایا گیا ہے،کیونکہ میں ایسے پروجیکٹس میں جاتا ہوں تو میں پوچھتا ہوں کہ پروڈکشن کی تاریخ بتایئے۔ انہوں نے مجھے 36 مہینے میں بتایا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، 36 مہینے کے بعد میں پھر سے یہاں آپ کے درمیان آؤنگا اور اس کا افتتاح بھی آپ کے درمیان کروں گا۔ اس یقین کےساتھ میں پھر ایک بار وزیراعلیٰ کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنے بات کو ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,উৰিষ্যাৰ তালকেৰ সাৰ কাৰখানাৰ শিলান্যাস মুকলি কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%82%D8%B2%D8%A7%D8%AE%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج قزاخستان میں صدارتی انتخابات میں کامیابی پر صدر قاسم جومارت توقایف کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: قزاخستان میں صدارتی انتخابات میں کامیابی پر صدر ایٹ توقایف کے زیڈ (@TokayevKZ)کو میری دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ میں باہمی شراکت داری کو مزید مستحکم بنانے کے لیے مل کر کام کرتے رہنے کا منتظر ہوں ۔ ایٹ اکورڈا پریس۔ (@AkordaPress) ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ح ا ۔ ن ا۔,কাজাখাস্তানত ৰাষ্ট্ৰপতি নিৰ্বাচনত জয়লাভ কৰাৰ বাবে ৰাষ্ট্ৰপতি কাছিম-জোমাৰ্ট টোকায়েভক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF%DB%8C-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%D9%BE%D8%B1-%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%A6-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%80%E0%A6%A6%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%B2-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج شہیدی دیوس کے موقع پر بھگت سنگھ، سکھدیو اور راج گرو جیسے شہیدوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’شہید دیوس پر بھارت ماتا کے امر سپوت ویر بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور راج گرو کو کوٹی کوٹی نمن۔مقدس سرزمین بھارت کے لئے مرمٹنے کا ان کاجذبہ ہم وطنوں کو ہمیشہ تحریک دیتا رہے گا۔ جے ہند,শ্বহীদ দিৱসত শ্বহীদসকললৈ শ্ৰদ্ধা নিবেদন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D9%85%D9%86%DA%AF%DA%BE%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں جاری دولت مشترکہ کھیلوں،سی ڈبلیو جی 2022 میں ویٹ لفٹنگ میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر گردیپ سنگھ کو مبارکباددی ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا: ‘‘ سخت محنت اور لگن کی بدولت غیر معمولی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔اورگردیپ سنگھ نے دولت مشترکہ کھیلوں میں ویٹ لفٹنگ مقابلوںمیں کانسے کا تمغہ جیت کر یہی کر دکھادیا ہے۔ انہوں نے ہمارے شہریوں میں خوشیوں کے جذبات میں اضافہ کردیا ہے۔ انہیں مبارکباداور نیک خواہشات ۔,বাৰ্মিংহামত অনুষ্ঠিত কমনৱেলথ গেমছৰ ভাৰোত্তোলনত ব্ৰঞ্জৰ পদক লাভ কৰাৰ বাবে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে গুৰদীপ সিঙক অভিনন্দন জ্ঞাপন কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%A7%D8%A8%D9%88-%D8%A8%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%B9%D8%B1%D9%BE%D9%84-%D8%AC%D9%85%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%B2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 میں ایتھلیٹکس مردوں کے ٹرپل جمپ مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر عبداللہ ابوبکر کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’خوشی ہے کہ عبداللہ ابو بکر نے برمنگھم میں ہونے والے ٹرپل جمپ ایونٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ یہ تمغہ سخت محنت اور پختہ عزم کا نتیجہ ہے۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے ان کے لیے نیک خواہشات۔ #Cheer4India ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ট্ৰিপল জাম্প ইভেণ্টত ৰূপৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে আব্দুল্লা আবুবেকাৰলৈ শুভেচ্ছা জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DB%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D9%88%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D9%8B-18000-%DA%A9%D8%B1%D9%88%DA%91/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A7%A6%E0%A7%A6%E0%A7%A6%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%AC/,نئی دہلی، 4/دسمبر 2021 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دہرادون میں تقریباً 18000 ہزار کروڑ روپے کے متعدد پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ ان میں دہلی – دہرادون اقتصادی گلیارہ (ایسٹرن پیری فیرل ایکسپریس وے جنکشن سے دہرادون تک)، دہلی – دہرادون اقتصادی گلیارے سے ہلگوا سہارنپور کو بھدرآباد، ہری دوار سے جوڑنے والا گرین فیلڈ الائنمنٹ پروجیکٹ، ہری دوار رنگ روڈ پروجیکٹ، دہرادون – پاونتا صاحب (ہماچل پردیش) روڈ پروجیکٹ، نجیب آباد – کوٹ دوار سڑک چوری کرنے والا پروجیکٹ اور لکشمن جھولا کے مقابل دریائے گنگا پر ایک پل شامل ہیں۔ انھوں نے چائلڈ فرینڈلی سٹی پروجیکٹ، دہرادون، دہرادون میں واٹر سپلائی، روڈ اینڈ ڈرینیج سسٹم کا فروغ، شری بدری ناتھ دھام اور گنگوتری – یمنوتری دھام میں بنیادی ڈھانچے کے فروغ سے متعلق کاموں اور ہری دوار میں میڈیکل کالج کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ انھوں نے ایسے سات پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جن کا اصل مقصد ان خطہ میں تودے کھسکنے کے دیرینہ مسئلے کو حل کرکے سفر کو محفوظ بنانا ہے۔ ان میں دیو پریاگ سے سری کوٹ تک کی سڑک چوڑی کرنے کا پروجیکٹ، این ایچ- 58 پر برہم پوری سے کوڈی بالا سڑک کو چوڑا کرنا، 120 میگاواٹ کا دیاسی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ جسے دریائے جمنا پر بنایا گیا ہے، دہرادون میں ہمالین کلچر سینٹر اور دہرادون میں جدید ترین کی پرفیومری اینڈ آروما لیباریٹری (سینٹر فار آرومیٹک پلانٹس) شامل ہیں۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اتراکھنڈ صرف عقیدت کا مرکز نہیں ہے، بلکہ یہ سخت محنت اور عزم مصمم کی علامت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کی ترقی مرکز اور ریاست کی ڈبل انجن سرکار کی اعلیٰ ترین ترجیحات میں شامل ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس صدی کے آغاز میں اٹل جی نے بھارت میں کنیکٹیوٹی میں اضافہ کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی۔ تاہم وزیر اعظم کے بقول اس کے بعد ملک میں دس برس تک ایسی حکومت رہی جس نے ملک اور اتراکھنڈ کا گراں قدر وقت برباد کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’دس برسوں تک گھپلے ہوئے، ملک میں بنیادی ڈھانچے کے نام پر گھپلے ہوئے۔ ہم نے ملک کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لئے دوہری محنت سے کام کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔‘‘ کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’آج بھارت جدید بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ارادے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت کی پالیسی ’گتی شکتی‘ یعنی دوہری اور تہری رفتار کے ساتھ کام کرنے کی ہے۔‘‘ کنیکٹیوٹی کے فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2012 میں کیدار ناتھ المیہ سے قبل 5 لاکھ 70 ہزار افراد نے درشن کیا تھا۔ اس وقت یہ ایک ریکارڈ تھا، جبکہ 2019 میں کورونا کے آغاز سے قبل دس لاکھ سے زیادہ افراد کیدار ناتھ کے درشن کے لئے آتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کیدار ناتھ دھام کی تعمیر نو سے درشن کے لئے آنے والے لوگوں کی نہ صرف تعداد بڑھی ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار اور اپنا روزگار آپ کرنے کے متعدد مواقع بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے دہلی – دہرادون اقتصادی گلیارے کا سنگ بنیاد رکھے جانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ بن کر تیار ہوجائے گا تو دہلی سے دہرادون کے سفر میں لگنے والا وقت کم ہوکر تقریباً آدھا رہ جائے گا۔ ہمارے پہاڑ نہ صرف عقیدے اور ہماری ثقافت کی مضبوط بنیادیں ہیں بلکہ وہ ہمارے ملک کی سلامتی کے قلعے بھی ہیں۔ ملک کی چوٹی کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کو نسبتاً زیادہ آسان بنانا بھی ہے۔ بدقسمتی سے وہ لوگ جو دہائیوں تک حکومت میں رہے، یہ خیال ان کی پالیسی سے متعلق سوچ میں کہیں نہیں رہا۔ ترقی کی رفتار کا موازنہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2007 اور 2014 کے درمیان، سات برسوں میں مرکزی حکومت نے اتراکھنڈ میں محض 288 کلومیٹر قومی شاہراہیں بنائیں جبکہ موجودہ حکومت نے اپنے سات برسوں میں اتراکھنڈ میں 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ قومی شاہراہیں بنوائی ہیں۔ وزیر اعظم نے سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی پہاڑی علاقوں میں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے سلسلے میں اتنی سنجیدگی کے ساتھ کام نہیں کرتی تھیں جتنی سنجیدگی سے انھیں کرنا چاہئے تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرحد کے قریب سڑکیں بنائی جانی چاہئے، پل بنائے جانے چاہئے، لیکن انھوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ جناب مودی نے کہا کہ ’وَن رینک ون نیشن‘، جدید ہتھیار، دہشت گردوں کو معقول جواب دینا جیسے اہم امور پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ہر سطح پر فوج کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج جو حکومت ہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے دباؤ میں نہیں آتی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ’نیشن فرسٹ، آل ویز فرسٹ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے صرف ایک ذات، مذہب کی ناز برداری کرنے اور ترقیاتی پالیسیوں میں تفریق کرنے کی سیاست کو ہدف تنقید بنایا۔ انھوں نے سیاست کی بے راہ روی پر بھی حملہ کیا، جو لوگوں کو مضبوط نہیں بننے دیتی اور انھیں اپنی ضرورتوں کی حکومت کا محتاج بنادیتی ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی سوچ پر بھی روشنی ڈالی جس نے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل راہ ہے، مشکل ہے لیکن یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ ملک کے لوگوں کے مفاد میں ہے۔ یہ راستہ ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس۔ ہم نے کہا ہے کہ ہم جو بھی اسکیم لے کر آئیں گے بغیر کسی تفریق کے سب کے لئے لے کر آئیں گے۔ ہم نے ووٹ بینک کی سیاست کو بنیاد نہیں بنایا، بلکہ ملک کے عوام کی خدمت کو ترجیح دی۔ ہمارا نقطہ نظر ملک کو مضبوط کرنے کا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا اختتام اس یقین دہانی کے ساتھ کیا کہ امرت کال کے وقت کے دوران ملک نے ترقی کی جو رفتار پکڑی ہے وہ نہ رکے گی، نہ سست پڑے گی بلکہ ہم اسے زیادہ یقین اور عزم کے ساتھ مزید تیز کریں گے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا اختتام اس نظم کے ساتھ کیا: ’’جہاں پون بہے سنکلپ لئے جہاں پربت گرو سکھاتے ہیں جہاں اونچے نیچے سب رستے بس بھکتی کے سر میں گاتے ہیں اس دیو بھومی کے دھیان سے ہی میں سدا دھنیہ ہوجاتا ہوں ہے بھاگیہ میرا، سوبھاگیہ میرا، میں تم کو شیش نواتا ہوں تم آنچل ہو بھارت ماں کا جیون کی دھوپ میں چھاؤں ہو تم بس چھونے سے ہی تر جائیں سب سے پوتر وہ دھرا ہو تم بس لئے سمرپن تن من سے میں دیو بھومی میں آتا ہوں میں دیو بھومی میں آتا ہوں ہے بھاگیہ میرا سوبھاگیہ میرا میں تم کو شیش نواتا ہوں جہاں انجلی میں گنگا جل ہو جہاں ہر ایک من بس نشچھل ہو جہاں گاؤں گاؤں میں دیش بھکت جہاں ناری میں سچا بل ہو اس دیو بھومی کا آشیرواد لئے میں چلتا جاتا ہوں اس دیو بھومی کا آشیرواد میں چلتا جاتا ہوں ہے بھاگیہ میرا سوبھاگیہ میرا میں تم کو شیش نواتا ہوں منڈوے کی روٹی ہڑکے کی تھاپ ہر ایک من کرتا شیوجی کا جاپ رشی منیوں کی ہے یہ تپو بھومی کتنے ویروں کی یہ جنم بھومی میں تم کو شیش نواتا ہوں اور دھنیہ دھنیہ ہوجاتا ہوں‘‘,"দেৰাদু���ত ১৮,০০০কোটি টকা ব্যয় সাপেক্ষ বিভিন্ন প্ৰকল্পৰ উদ্বোধন আৰু আধাৰশিলা স্থাপন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D9%86%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ہماچل پردیش میں اونا کے امب اندورا سے نئی دلی تک چلنے والی نئی وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ وزیراعظم نے وندے بھارت ایکسپریس کے ٹرین کوچز کا معائنہ کیا اور اس میں سوار ہوکر مختلف سہولیات کا جائزہ بھی لیا۔ جناب مودی نے وندے بھارت ایکسپریس کے لوکوموٹیو انجن کے کنٹرول سینٹر اور اونا ریلوے اسٹیشن کا بھی پوری طرح معائنہ کیا۔ وزیراعظم کے ہمراہ ہماچل پردیش کے وزیراعلی جناب جے رام ٹھاکر، ہماچل پردیش کے گورنر جناب راجندر وشوناتھ ارلیکر، ریلوے کے مرکزی وزیر جناب اشونی ویشنو اور اطلاعات ونشریات کے مرکزی وزیر جناب انوراگ سنگھ ٹھاکر بھی اس وقت موجود تھے، جب وہ ہماچل پردیش کے اونا ضلع میں امب اندورا ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ٹرین کے چلنے سے خطے میں سیاحت کے فروغ میں مدد ملے گی اور سفر آسان ہوسکے گا اور سفر تیزی سے ممکن ہوسکے گا۔اونا سے نئی دہلی کے سفر کے وقت میں دو گھنٹے کی کمی بھی واقع ہوگی۔ امب اندورا سے نئی دلی تک چلنے والی، یہ ملک میں شروع ہونے والی چوتھی وندے بھارت ٹرین ہوگی اور یہ پہلے والی ٹرینوں کے مقابلے میں ایک جدید ورژن ہے، جو بہت ہلکی اور کم مدت میں زیادہ رفتار سے چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وندے بھارت دوئم زیادہ جدیداور بہتر سہولتوں سے لیس ہے اور محض 52 سیکنڈ میں صفر سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 180 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ بہتر اور جدید سہولت والی وندے بھارت ایکسپریس کا وزن 392 ٹن ہوگا ،جب کہ اس کے مقابلے پہلی ٹرین کا وزن 430 ٹن تھا۔ اس میں وائی فائی کنٹینٹ آن ڈیمانڈ کی سہولت بھی ہوگی۔ ہر کوچ میں 32 اسکرین ہیں، جو مسافروں کی معلومات اور انفوٹینمنٹ فراہم کرتی ہیں، اس کے مقابلے میں پچھلے ورژن میں ہر کوچ میں 24 اسکرین تھی۔ وندے بھارت ایکسپریس ماحول دوست بھی ہوگی، کیونکہ اے سی 15 فیصد زیادہ توانائی کے حامل ہوں گے۔ ٹریکشن موٹر کی دھول سے پاک صاف ہوا کولنگ کے ساتھ، سفر زیادہ آرام دہ ہو جائے گا۔ سائیڈ ری کلینر سیٹ کی سہولت، جو پہلے صرف ایگزیکٹو کلاس کے مسافروں کو فراہم کی جاتی تھی، اب تمام کلاسوں کے مسافروں کے لیے دستیاب کرائی جائے گی۔ ایگزیکٹو کوچز میں 180 ڈگری تک گھومنے والی سیٹیں اس کی اضافی خصوصیت میں شامل ہیں۔ وندے بھارت ایکسپریس کے نئے ڈیزائن میں، ہوا صاف کرنے کے لیے چھت پر نصب پیکیج یونٹ (آر ایم پی یو) میں فوٹو کیٹلیٹک الٹرا وائلٹ ایئر پیوریفیکیشن سسٹم نصب کیا گیا ہے، جس کی سفارش سنٹرل سائنٹیفک انسٹرومینٹس آرگنائزیشن (سی ایس آئی او)، چندی گڑھ کی طرف سے کی گئی ہے۔ یہ نظام آرایم پی یو کے دونوں سروں پر ڈیزائن اور نصب کیا گیا ہے ،تاکہ تازہ ہوا اور واپسی ہوا کے ذریعے آنے والے جراثیم، بیکٹیریا، وائرس وغیرہ سے پاک ہوا کو فلٹر اور صاف کیا جا سکے۔ وندے بھارت ایکسپریس دوئم متعدد اعلیٰ اور ہوائی جہاز جیسے سفر کے تجربات پیش ��رتی ہے۔ یہ جدید ترین حفاظتی خصوصیات سے لیس ہے، جس میں مقامی طور پر تیار کردہ ٹرین کے ٹکراؤ سے بچاؤ کا نظام کووَچھ شامل ہے۔,হিমাচল প্ৰদেশৰ উনাৰ পৰা নতুন দিল্লীলৈ ‘বন্দে ভাৰত এক্সপ্ৰেছ’ৰ যাত্ৰাৰ শুভাৰম্ভ ঘোষণা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D9%85%D8%B1%D9%82%D9%86%D8%AF%D8%8C-%D8%A7%D8%B2%D8%A8%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 22ویں اجلاس کے موقع پر آج سمرقند، ازبکستان میں روسی فیڈریشن کے صدر جناب ولادیمیر پتن سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے مختلف سطحوں پر رابطوں سمیت دو طرفہ تعلقات میں پائیدار رفتار کو سراہا۔ صدر پوتن نے اس ماہ کے شروع میں ولادی ووستوک میں ایسٹرن اکنامک فورم میں وزیر اعظم کے ویڈیو پیغام کی تعریف کی۔ رہنماؤں نے دو طرفہ تعاون کے اہم امور کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے تناظر میں عالمی غذائی تحفظ، توانائی کی حفاظت اور کھادوں کی دستیابی سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔ یوکرین میں جاری تنازعے کے تناظر میں، وزیر اعظم نے دشمنی کے جلد خاتمے اور مذاکرات اور سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سال دونوں رہنماؤں کی یہ پہلی ملاقات تھی، جو سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہوئی ہے۔ انھوں نے رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔,উজবেকিস্তানৰ সমৰকন্দত ৰাছিয়ান ফেডাৰেশ্যনৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰে মিলিত প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D9%8F%D9%84%D9%91%D9%88-%D8%AF%D8%B3%DB%81%D8%B1%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%B6%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B8%E0%A7%82/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ہماچل پردیش کے کُلّو کے ڈھال پور گراؤنڈ میں کُلّو دسہرہ کی تقریبات میں شرکت کی۔ وزیراعظم کی آمد پر ان کا استقبال کیا گیا اور ان کی عزت افزائی کی گئی۔ اس کے بعد بھگوان رگھوناتھ جی کی آمد ہوئی اور اس طرح رتھ یاترا کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر وزیراعظم کے استقبال کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وزیر اعظم لاکھوں دیگر عقیدت مندوں کے ساتھ مرکزِ نگاہ بننے والے مقام تک پہنچے اور بھگوان رگھوناتھ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر موجود سبھی لوگوں کا ہاتھ جوڑ کر استقبال کیا اور تاریخی کُلّو دسہرہ کی تقریبات میں دیوتاؤں کے عظیم اجتماع کے ساتھ عبادتی رتھ یاترا کا مشاہدہ کیا۔ یہ ایک تاریخی اور پہلا موقع تھا جب ہندوستان کے وزیر اعظم نے کلو دسہرہ کی تقریبات میں شرکت کی۔ بین اقوامی کُلّو دسہرہ میلے کا 5 سے 11 اکتوبر 2022 تک کُلّو کے ڈھال پور گراؤنڈ میں جشن منایا جانا ہے۔ یہ تہوار اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ وادی کے 300 سے زیادہ دیوتاؤں کا اجتماع گاہ ہے۔ تہوار کے پہلے دن دیوتا اپنی اچھی طرح سے سجی ہوئی پالکیوں میں سب سے بڑے دیوتا بھگوان رگھوناتھ جی کے مندر میں ان کی تعظیم کرتے ہیں اور پھر ڈھال پور گراؤنڈ کی ط��ف روانہ ہوتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب جے رام ٹھاکر، ہماچل پردیش کے گورنر جناب راجندر وشوناتھ آرلیکر، اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر جناب انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے ریاستی صدر جناب سریش کمار کشیپ اور دیگر بھی وزیر اعظم کے ساتھ تھے۔ اس سے پہلے آج دن میں وزیر اعظم نے ایمس، بلاسپور کو قوم کے نام وقف کیا۔انہوں نے لوہنو واقع بلاس پور کے مقام پر ہماچل پردیش کے متعدد پروجیکٹوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد بھی رکھا۔ ش ح۔ع س۔ ک ا,কুল্লুৰ দশেৰাৰ কাৰ্য্যসূচীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অংশগ্ৰহণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%A7%D8%AC%D8%A8%DB%8C-%D9%84%D8%A7%DA%AF%D8%AA-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D8%B4%D9%85%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%D8%AC%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B5%D9%84%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E/,’’واجبی لاگت والی شمسی بجلی کے لئے صلاحیت سازی کے سلسلے میں بھارت نژاد افراد کا کردار‘‘ کے موضوع پر پراواسی بھارتی دیوس کے پینل میں شامل اراکین نے آج وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ پینل میں شامل اراکین میں معروف ماہرین، ماہرین تعلیمات، اختراع کاران، صنعت کاران، بھارت اور بیرون بھارت کے صنعت کارشامل تھے۔ ان تمام اراکین نے یوٹیلیٹی اسکیل سولر، آف گرڈ اور مائکرو گرڈ سولوشنس، سولر ذخیرے، اگلی پیڑھی کی شمسی تکنالوجیوں اور قابل احیا شعبے کے لئے اختراع پر مبنی مالی متبادل جیسے شعبوں میں گذشتہ دو دنوں کے دوران عمل میں آئے تبادلہ خیالات کے نتائج پیش کیے۔ وزیر اعظم نے عملی سفارشات کا خیر مقدم کیا اور وزارت خارجہ اور نئی اور قابل احیا توانائی کی وزارت کو ہدایت دی کہ وہ ماہرین کے ان نتائج کو آگے بڑھائے اور پالیسی سازی میں مفید عناصر کے نتائج کو بروئے کار لائے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ “সৌৰশক্তি সুলভ কৰি তোলাৰ ক্ষেত্ৰত সক্ষমতা সৃষ্টিত ভাৰতীয় বংশোদ্ভৱৰ ভূমিকা” শীৰ্ষক প্ৰৱাসী ভাৰতীয় সমিতিৰ বিষয়ববীয়াৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A2%D9%88%D8%A7%D8%B3-%DB%8C%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج پردھان منتری آواس یوجنا-اربن (پی ایم اے وائی-یو) کو 31 دسمبر 2024 تک جاری رکھنے کے لیے ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کی تجویز کو منظوری دے دی ہے جس میں 31 مارچ 2022 تک پہلے سے منظور شدہ 122.69 لاکھ مکانات کی تکمیل کے لیے مالی امداد فراہم کی جانی ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا-اربن:سب کے لیے مکان حکومت ہند کی طرف سے نافذ کیے جانے والے بڑے فلیگ شپ پروگراموں میں سے ایک ہے جو ریاستوں/مرکزکے زیرانتطام علاقوں/مرکزی نوڈل ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے شہری علاقوں میں تمام اہل مستفیدین کو ہرقسم کے موسم کیلئے پکے مکانات فراہم کرتا ہے۔ اس اسکیم کے تحت 2011 کی مردم شماری کے مطابق تمام نوٹیفائی کئے گئے بلدیات اور بعد میں نوٹیفائی کیے گئے قصبوں کےعلاوہ نوٹیفائی کئے گئے منصوبہ بندی/ترقیاتی علاقوں سمیت ملک کے پورے شہری علاقے کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ اس اسکیم کو چار عمودی طریقوں سے لاگو کیا جا رہا ہے: بینیفشری لیڈ کنسٹرکشن/ اینہانسمنٹ (بی ایل سی) ، شراکت میں سستی رہائش (اے ایچ پی) ، ان سیتو سلم ری ڈیولپمنٹ (آئی ایس ایس آر) اور قرض سے منسلک رعایتی اسکیم (سی ایل ایس ایس)۔ جب کہ حکومت ہند مالی امداد فراہم کرتی ہے، ریاستی حکومتیں/ مرکز کے زیر انتظام علاقے مستفیدین کے انتخاب سمیت اس اسکیم کو نافذ کرتی ہیں۔ 2004 سے 2014 کے دوران شہری ہاؤسنگ اسکیم کے تحت 8.04 لاکھ مکانات مکمل کیے گئے۔ مودی حکومت کے تحت، تمام اہل شہری باشندوں کو سیچوریشن موڈ میں مکانات فراہم کرنے کے معاملے کو توجہ میں لایا گیا اور پی ایم اے وائی-اربن کی اسکیم کا تصور کیا گیا۔ سال 2017 میں مکانات کی اصل متوقع مانگ 100 لاکھ مکانات تھی۔ اس اصل متوقع مانگ کے خلاف کل 102 لاکھ مکانات مکمل ہو چکے ہیں یا زیر تعمیر ہیں۔ نیز ان میں سے 62 لاکھ مکانات مکمل ہو چکے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت منظور کیے گئے 123 لاکھ مکانات میں سے 40 لاکھ مکانات کے لیے پچھلے 2 سالوں کے دوران ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی طرف سے تجاویز تاخیر سے پیش کی گئیں۔ جنہیں مکمل کرنے کے لیے مزید دو سال درکار ہیں۔ لہذا، ریاستوں کے ساتھ ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی طرف سے کی گئی درخواستوں کے مطابق، مرکزی کابینہ نے پردھان منتری اربن ہاؤسنگ اسکیم کے نفاذ کی مدت میں توسیع کردی ہے اور اب اس اسکیم کو 31 دسمبر 2024 تک نافذ کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت نے اس اسکیم کے لیے 2015 سے اب تک 2.03 لاکھ کروڑ روپے کی منظوری دی ہے، جو 2004 اور 2014 کے درمیان مرکز کی طرف سے فراہم کردہ 20,000 کروڑ روپے سے کافی زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت نے 31 مارچ 2022 تک 1,18,020.46 کروڑ روپے کی مرکزی امداد/سبسڈی تقسیم کی ہے اور 31 دسمبر 2024 تک 85,406 کروڑ روپے کی امداد/سبسڈی تقسیم کی جائے گی۔ یہ اسکیم ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی درخواستوں کی بنیاد پر 31 دسمبر 2024 تک جاری رہے گی، اس طرح بی ایل سی، اے ایچ پی اور آئی ایس ایس آر جیسے مختلف اقدامات کے تحت پہلے سے منظور شدہ مکانات کی تعمیر کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔",কেবিনেটে “প্ৰধানমন্ত্ৰী আৱাস যোজনা-নগৰীয়া (পিএমএৱাই-ইউ)- ‘সকলোৰে বাবে আৱাস’ মিছন”ক ৩১ ডিচেম্বৰ ২০২৪লৈকে অব্যাহত ৰাখিবলৈ অনুমোদন দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D9%84%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A8%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-125%D9%88%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%95-%E0%A6%8F%E0%A6%9B-%E0%A6%8F%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A7%A7%E0%A7%A8%E0%A7%AB-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96/,نئی دہلی، 1جنوری 2018/ آج ایک بہت اچھا موقع ہے جب ہم ملک کے لئےاپنی زندگی وقف کردینے والے ملک کے عظیم سپوت کو یاد کر رہے ہیں یہ ملک کے لئے مسلسل کام کرنے کا ، خود کو کھپا دینے کا جذبہ ہے ، جوہمیں دین ، وقت، پہر، کی فکر مندیوں سے ماورہ ، اس طرح ساتھ لاتا ہے۔ آچاریہ ستیندر ناتھ بوس کے 125ویں یوم پیدائش پر میں آپ سبھی اور خاص طور پر سائنس داں برداری کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ دوستو! ہر سال کے آغاز میں مجھے معروف سائنس دانو ں کے ساتھ بات چیت کرکے خوشی ہوتی ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ آج آپ کے ساتھ اپنے کچھ خیالات مشترک کرنے کا ایک مبارک موقع ملا ہے۔ آج ہم سال بھر تک جاری رہنے والے آچاریہ ستیندر ناتھ بوس کے 125ویں یوم پیدائش سے متعلق تقریبات کا آغاز کررہے ہیں۔ ان کی پیدائش آج ہی کے دن 1894 میں ہوئی تھی۔ اپنے وقت اور سماج سے بہت آگے ��ی ان کی فکر کے تعلق سے میرے دل میں بے پناہ احترام ہے۔ ساتھیو! دیش بندھو چترنجن داس نے اپنی ایک شاعری میں کہا تھا ‘‘بنگال کے پانی اور بنگال کی مٹی میں ایک ابدی حقیقت پنہاں ہے’’۔ یہ وہ حقیقت ہے جو بنگال کے لوگوں کو غور و فکر کی اس سطح پر لے جاتی ہے جہاں پہنچنا مشکل ہوتا ہے ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے بنگال نے صدیوں تک ملک کا محور بن کر ملک کو تھامے رکھا ہے۔ تحریک آزادی کی بات ہو ، اد ب ہو، سائنس ہو ، کھیل ہو، ہر شعبہ میں بنگال کے پانی اور بنگال کی مٹی کا اثر واضح نظر آتا ہے ۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس ، سوامی وویکا نند ، گرو ور رابندر ناتھ ٹیگور، سبھاش چندر بوس، شیاما پرساد مکھرجی، بنکم چندر، شرت چندر ،ستیہ جیت رائے، آپ کسی بھی شعبہ کا نام لیجئے ، بنگا ل کا کوئی نہ کوئی ستارہ وہاں چمکتا ہوا نظر آئے گا۔ ہندستان کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ اس سرزمین میں ایک سے بڑھ کر ایک سائنس دا ں بھی پوری دنیا کو دیئے۔ آچاریہ ایس این بوس کے علاوہ جے سی بوس، میگھ ناد ساہا ، کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے ملک میں جدید سائنس کی بنیاد مضبو ط کی۔ بہت کم وسائل اور بہت زیادہ جدوجہد کے دوران انہوں نے اپنےافکار و ایجادا ت سے لوگوں کی خدمت کی۔ آج بھی ہم ان کی عہد بستگی اور تخلیقیت سے سیکھ رہے ہیں۔ دوستو! ہم آچاریہ ایس این بوس کی حیات و خدمات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک خود آگاہ اسکالر تھے۔ انہوں نے بہت سی رکاوٹوں کے باوجود کامیابی حاصل کی ان میں باقاعدہ تحقیقی تعلیم کا فقدان اور عالمی سائنسی برادری کے ساتھ معمولی رابطہ شامل ہیں۔ 1924 میں انہوں نے جو غیر معمولی کارنامہ انجام دیا وہ سائنس کے تئیں اپنے آپ کو وقف کردینے کی ا ن کی تنہا کوشش کا نتیجہ تھا۔ ان کے اس کارنامے نے کوائنٹم اسٹیٹسٹکس کی بنیادیں رکھیں اور جدید آٹومک تھیوری کی بنیاد بھی رکھی۔ آئنسٹائن کے سوانح نگار ابراہم پیس نے ان کے کام کو قدیم کوانٹم تھیوری سے متعلق آخری چار انقلابی پیپرز میں سے ایک قرار دیا ہے۔ سائنس کی تاریخ میں بوس اسٹیٹسٹکس، بوس آئنسٹائن کنڈینشیشن اور ہگز بوسن جیسے کنسیپٹ اور ٹرم کے لئے ستیندر ناتھ بوس کے نام کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے کام کی بنیادی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا کہ بعد میں علم طبعیات کے شعبے میں متعدد نوبل انعامات ان کے تصورات کو آگے بڑھانے والے ریسرچ اسکالروں کو دیا گیا ہے۔ پروفیسر بوس مقامی زبانوں میں سائنس کی تعلیم دیئے جانے کے مجاہد تھے۔ انہوں نے بنگالی سائنس میگزین گیان و بگیان شروع کیا ۔ نوجوانوں کے اندر سائنس کی سمجھ اور محبت کو فروغ دینے کے لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم سائنس کمیونی کیشن کو بڑے پیمانے پر فروغ دیں ۔ اس کام میں زبان رکاوٹ نہیں بلکہ ایک وسیلہ ہونی چاہئے۔ ساتھیو! ہندستان کا سائنسی تحقیق سے متعلق ماحول بہت مضبوط رہا ہے۔ ہمارے یہاں نہ صلاحیت کی کمی ہے ، نہ محنت کی اور نہ ہی مقصد کی۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہندستان سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبےمیں تیزی سے ابھرا ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کا شعبہ ہو، خلائی ٹکنالوجی ہو ، میزائل ٹکنالوجی ہو ، ہندستان نے اپنی دھاک پوری دنیا پر جمائی ہے۔ ہمارے سائنس دانوں ، ہمارے ٹکنالوجی ماہرین کی یہ حصولیابیاں پورے ملک کے لئے باعث فخر ہیں۔ جب اسرو کے راکٹ سے ایک بار میں سو سے زیادہ سیارچےداغے جاتے ہیں تو پوری دنیا آنکھیں پھاڑ کر کے دیکھتی ہے۔ اس وقت ہم ہندستا ن کے لوگ اپنا سر اونچا کرکے اپنے سائنس دانوں کی اس کامیابی سے خوش ہوتے ہیں۔ ساتھیو! آپ لیب میں جو محنت کرتے ہیں ، اپنی زندگی کھپاتے ہیں ، وہ صرف لیب میں ہی رہ جائے تو یہ ملک کے ساتھ ، آپ کے ساتھ بہت بڑی بے انصافی ہوگی۔ ملک کی سائنسی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لئے آپ کی محنت تب اور رنگ لائے گی جب آپ اپنے بنیادی معلومات کو ، آج کے دور کے حساب سے ملک کے عوام تک پہنچاپائیں ۔ اس لئے آج بہت ضروری ہے کہ ہماری جائیداد ، ہماری ریسرچ کا حتمی نتیجہ طے ہو۔ کیا آپ کی ایجادات سے کسی غریب کی زندگی آسان ہورہی ہے ، متوسط طبقے کے کسی شخص کی مشکلیں کم ہورہی ہیں؟ جب ہمارے سائنسی تجربات کی بنیاد ہمارے سماجی اقتصادی مسائل کا حل ہوگا ، تو آپ کو حتمی نتیجہ ، اپنا ہدف طے کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک کے سائنس داں روایت سے ہٹ کر اپنی سوچ سے ملک کو ایسے تخلیقی تکنیکی حل دیتے رہیں گے ، جس کا فائدہ عام لوگوں کو ہوگا، جو ان کی زندگی کو اور آسان بنائے گا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ الگ الگ سائنسی اداروں میں ، شمسی توانائی ، صاف ستھری توانائی، پانی کے تحفظ ، کچرا بندوبست جیسے موضوعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحقیق و ترقی سے متعلق پروجیکٹ شروع کئے ہیں۔ ا سطرح ک پروجیکٹوں اور ان کے نتائج لیب میں نہ رہ جائیں یہ بھی ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ معزز سائنس داں اور طلبا ، آپ سب نے کوائنٹم میکنکس کا مطالعہ کیا ہے اور شاید آپ اس کے ماہر بھی ہوں ۔ میں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ کئی اسباق ہیں جن کی تعلیم روزمرہ کی زندگی میں فزکس ہمیں دیتا ہے۔ کوئی کلاسیکل پارٹیکل کسی گہرے کنویں کے اندر سے آسانی کے ساتھ نہیں نکل سکتی لیکن کوائنٹم پارٹیکل ایسا کرسکتا ہے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ہم اپنے آپ کو تنہائی کا قیدی بنا لیتے ہیں ۔ ہم مشکل سے ہی تعاون کرتے ہیں ، اشتراک کرتے ہیں ا ور دوسرے اداروں اور قومی تجربہ گاہوں کے سائنس داں دوستوں کے ساتھ انکا اشتراک کرتے ہیں۔ اپنے حقیقی امکانات تک رسائی اور ہندستانی سائنس کو اس کا واجب مقام دلانے کے لئے ہمیں کوائنٹم پارٹیکل کی طرح ہونا چاہئے جو اپنی قیود سے نکل جاتا ہے۔ یہ چیز آج زیادہ ہی اہم ہے کیونکہ سائنس بڑی حد تک کثیر موضوعاتی ہوگئی ہے اور اس کے لئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے سائنس کے شعبے اب کثیر رخی نقطہ نظر پر کام کررہے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ سائنس سے متعلق بنیادی ڈھانچے کے اشتراک کے لئے ایک پورٹل تیار کیا جانا چاہئے جس میں وسائل کے شفاف اور موثر ٹیگنگ اور شیئرنگ کی سہولت ہو۔ اکیڈمک اور آر این ڈی اداروں کے درمیان مضبوط اشراک کے لئے ایک میکانزم تیار کیا جارہا ہے۔ شہر وار آر این ڈی کلسٹرز بنائے جارہے ہیں تاکہ اکیڈمیاں، اداروں، صنعتوں سے تعلق رکھنے والے سبھی سائنس و ٹکنالوجی کے شراکت داروں کو ایک ساتھ لایا جاسکے۔ اس کوشش کی کامیابی کا انحصار سبھی تعلیمی اداروں اور تجربہ گاہوں کو اس حکمت عملی کے تحت لانے کی ہماری لیاقت پر ہے۔ اس کے لئے سبھی کی دل کی گہرائیوں کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہوگی۔ یہ میکانزم اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک کے کسی دور دراز علاقے میں رہنے والا سائنس داں بھی آئی آئی ٹی دہلی یا دہرادون میں واقع سی ایس آئی آر لیب وغیرہ میں موجود وسائل تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکے۔ہمارا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہونا چاہیے کہ ہماری سبھی کوششیں اور سرگرمیاں ہمیشہ مختلف اجزا کے جوڑ سے کہیں زیادہ ہو�� ساتھیو! ترقی، نمو اور یکسر تبدیلی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی ایک غیر معمولی انجن کی طرح کام کرتی ہے۔ میں آپ لوگوں سے، ملک کی سائنس داں برادری سے پھر درخواست کروں گا کہ اپنی ایجادات کی سمت ہمارے سماجی ۔ اقتصادی چیلنجوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے طے کریں۔ آپ کے علم میں ہے کہ ملک میں لاکھوں لوگ بالخصوص آدی واسی برادری میں ہزاروں بچے سکل سیل انیمیا کے شکار ہیں۔ اس پر دہائیوں سے ریسرچ ہورہی ہے لیکن کیا ہم ٹھان سکتے ہیں کہ اس بیماری کا سستا اور آسان علاج ہم پوری دنیا کو دیں گے؟ کیا سوء تغذیہ کے چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لئے اور زیادہ سستی اور پروٹین والی دالوں کی نئی اقسام تیار کی جاسکتی ہیں۔ کیا سبزیوں اور ہمارے اناج کی کوالیٹی کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ کیا ندیوں کی صفائی کے لئے، ندیوں کو خس و خاشاک سے آزادی دلانے کے لئے، ندیوں کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے نئی ٹکنالوجی پر کام اور تیز کیا جاسکتا ہے؟ کیا ملیریا، ٹی بی ، جاپانی بخار جیسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے نئی دوائیاں، نئے ٹیکے تیار کئے جاسکتے ہیں؟ کیا ہم ایسے شعبوں کا انتخاب کرسکتے ہیں جہاں ہمارے روایتی علوم اور جدید سائنس کو تخلیقی طریقے سے مخلوط کیا جاسکتا ہے؟ دوستو! متعدد وجوہات سے ہم پہلے صنعتی انقلاب سے چوک گئے۔ آج ہم ایسے ہی مواقع کو نہیں کھو سکتے۔ مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا اینالیٹکس، مشین لرننگ، سائبر فزیکل سسٹمز، جینومکس اور الیکٹرک وہیکلس جیسے شعبے، نئے چیلنج ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ براہ کرم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک ملک کے طور پر ہم ان ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں اور اختراعات کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکیں۔ ان چیلنجوں سے ہماری سائنس برادری جس طرح نمٹے گی ان سے اسمارٹ مینوفیکچرنگ، اسمارٹ سٹیز، انڈسٹری 4.0 اور انٹرنٹ آف تھنگز جیسے شعبوں میں ہماری کامیابی کا تعین ہوگا۔ ہمارا سائنسی ماحول موجدوں اور صنعت کاروں کے براہ راست رابطے میں ہونا چاہیے تاکہ ہم انہیں پروان چڑھا سکیں، انہیں ترتیب دے سکیں اور انہیں مضبوط بناسکیں۔ ساتھیو! ہمارے ملک کے پاس آبادی سے متعلق جتنی طاقت ہے، اس سے پوری دنیا کو حسد ہوسکتی ہے۔ اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت اسٹینڈ اپ انڈیا، اسٹار اپ انڈیا، اسکل ڈیولپمنٹ مشن، پردھان منتری مدرا یوجنا جیسے پروگرام چلا رہی ہے۔ اسی کڑی میں ہم ملک میں 20 ایسے اداروں کی تعمیر کی کوشش کررہے ہیں جو دنیا میں اپنی دھاک جمائے، جن کی پہچان عالمی معیار کے طور پر ہو۔ انسٹی ٹیوٹ آف ایمیننس یعنی شہرت کے حامل ادارے، مشن میں شامل ہونے کے لئے حکومت اعلی تعلیم سے وابستہ نجی اور سرکاری اداروں کو خود کنٹرول کررہی ہے۔ ہم نے ضابطوں میں تبدیلی کی ہے، قوانین بدلے ہیں۔ پبلک سیکٹر کے جو ادارے منتخب ہوں گے، انہیں ایک مقررہ وقت میں ایک ہزار کروڑ روپے کی اقتصادی مدد بھی دی جائے گی۔ میری ایس این بوس نیشنل سینٹر فار بیسک سائنسز اور ایسے ہی دیگر اداروں سے درخواست ہے کہ وہ بھی اپنے ادارے کو ٹاپ رینکنگ والا ادارہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی کریں، اس پر کام کریں۔ آج میری ایک درخواست آپ سے یہ بھی ہے کہ اپنے اداروں میں اس طرح کا ماحولیاتی نظام بنائیں جس سے طلبا اور نوجوان ریسرچ کے لئے مزید راغب ہوسکیں۔ اگر ہر سائنس داں صرف ایک بچے کی سائنس کی تعلیم، ریسرچ کے تئیں اس کا رجحان بڑھانے کےلئے اپنا تھوڑا سا وقت دینے لگے تو ملک میں لاکھوں طلبا کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ آچاریہ ایس ا��ن بوس کے 125 ویں یوم پیدائش کے سال میں یہ انہیں سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔ ساتھیو! 2017 میں ہم سبھی نے ،سوا سو کروڑ ہندوستانیوں نے مل کر ایک عہد کیا ہے۔ یہ عہد ہے نیو انڈیا کا۔ یہ عہد ہے 2022 تک اپنے ملک کو داخلی برائیوں سے آزاد کرنے کا۔ یہ عہد ہے اس ہندوستان کی تعمیر کا جس کا خواب ہمارے مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا۔ سال 2018کا یہ سال اس عہد کے لئے بہت اہم ہے۔ یہی وہ سال ہے جب ہمیں اپنی ساری قوت، اپنی ساری توانائی اس عہد کی تکمیل کے لئے مرکوز کرنی ہے۔ ملک کے ہر شخص، ہر کنبے، ہر ادارے، ہر تنظیم، ہر محکمے، ہر وزارت کو اپنا تعاون دینا ہے۔ جیسے کسی اسٹیشن سے ٹرین چلتی ہے تو وہ 5 ، 10 منٹ کے بعد اپنی پوری رفتار میں آتی ہے، ویسے ہی 2018 کا یہ سال ہمیں اپنی پوری رفتار میں لانے کے لئے ہے۔ ملک کی سائنس داں برادری کو بھی ، سائنس اور ٹکنالوجی سے وابستہ ہر شخص کو اپنی ایجادات اور ریسرچ کا محور نیو انڈیا کی تعمیر کو بنانا ہوگا۔ آپ کی ایجادات ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو مضبوط کریں گی۔ملک کو مضبوط کریں گی۔ آخر آدھار ہو، ڈائرکٹر بنیفٹ ٹرانسفر ہو، سوائل ہیلتھ کارڈ ہو، اسکیموں کی سیٹلائٹ اور ڈرون سے نگرانی ہو، یہ سارے نظام آپ کے ہی بنائے ہوئے ہیں۔ ایسا اور کیا کیا کیا جاسکتا ہے، کیسے روزگار پیدا کرنے والی اقتصادی ترقی میں مدد کی جاسکتی ہے، اس بارے میں سائنسی ادارے بہت تعاون دے سکتے ہیں، خاص طور پر ملک کے دیہی علاقوں میں ان کی ضرورت کے حساب سے نئی ٹکنالوجی کی دریافت کرنے، نئی ٹکنالوجی کو گاؤں تک پہنچانے میں آپ کا تعاون بہت اہم ہے۔ ساتھیو! ہاؤسنگ، پینے کے پانی، توانائی، ریلویز، ندیوں، سڑکوں، ہوائی اڈوں، سینچائی، مواصلات، ڈیجیٹل انفرااسٹریکچر جیسے متعدد شعبوں میں نئی نئی ایجادات آپ کی منتظر ہیں۔ حکومت آپ کے ساتھ ہے، وسائل آپ کے ساتھ ہیں، لیاقت آپ میں کسی سے کم نہیں ہے، اس لئے کامیابی کو بھی آپ تک آنا ہی ہوگا۔ آپ کامیاب ہوں گے تو ملک کامیاب ہوگا۔ آپ کے عزائم حقیقت کی شکل لیں گے تو ملک کے عزائم کی بھی تکمیل ہوگی۔ دوستو! کسی چیز کا افتتاح تبھی نتیجہ خیز ہوتا ہے جب آپ اس کے لئے تیار کئے گئےلائحہ عمل پر قدم بڑھائیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہے کہ آج جس چیز کا آغاز کیا گیا ہے، اس کو آگے بڑھانے کے لئے اقدامات کا ایک سلسلہ بھی وضع کیا گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں 100 آؤٹ ریچ لیکچر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔متعدد قومی اور بین الاقوامی کانفرنس اور سائنسی نکتہ نظر سے چیلجنگ مسائل کے 125 حل سے متعلق مسابقہ بھی ایجنڈے پر ہے۔ بہترین افکار کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ بھی برقرار رہتی ہے۔ آج بھی آچاریہ بورس کا کام سائنس دانوں کے لئے باعث ترغیب ہے۔ سائنسی تحقیق کے ابھرتی ہوئے گوشوں میں آپ کی کامیابی کے لئے آپ کی محنت کے تئیں میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔مجھے پوری امید ہے کہ آپ کی انتھک کوششوں سے ملک کا مستقبل مزید بہتر اور تابناک ہوگا۔ میری دعا ہے کہ نئے سال میں آپ کی آرزوؤں اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کی تکمیل ہو۔ جے ہند! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔م م ۔ ج۔ن ا۔,অধ্যাপক এছ.এন. বসুৰ ১২৫ সংখ্যক জন্ম বৰ্ষপূৰ্তি সমাৰোহৰ আৰম্ভণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%82%D9%88%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نئی دہلی ،یکم ؍مارچ :مرکزی کابینہ نے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی قیادت میں افرادی قوت کے شعبے میں بھارت اور اردن کے مابین تعاون کے لئے مفاہمتی عرضداشت پردستخط کئے جانے کی تجویز کو اپنی منظوری دے دی ہے ۔ اس مفاہمتی عرضداشت کا مقصد یہ ہے کہ طرفین کے مابین ٹھیکہ داری سے متعلق روزگار کی انتظامیہ اور ا س کے عملی پہلوؤ ں سے متعلق بہترین طریقہ ہائے کارکو فروغ دینے کے لئے باہمی تعاون کو بڑھاوادیاجائے ۔,ভাৰত আৰু জৰ্দানৰ মাজত মানৱ সম্পদৰ ক্ষেত্ৰত পাৰস্পৰিক সহযোগিতাৰ বাবে বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%85%D8%A8%D9%88-%DA%AF%DA%BE%D9%88%DA%91%D8%A7-%D8%8C%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%DA%AF-%D8%A8%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%81%E0%A6%98%E0%A7%8B%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج گجرات میں جمبو گھوڑا پنچ محل میں 860 کروڑ روپے کی لاگت والےپروجیکٹوں کے سنگ بنیاد رکھے اور انہیں قوم کے لئے وقف کیا۔ حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گجرات کے آدیواسی اور قبائلی برادریوں کے لئے آج کا دن ایک یادگاردن ہے۔ وزیراعظم نے آج مان گڑھ کے اپنے دورے کا ذکر کیا، جہاں انہوں نےگووند گرو اور ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنےوالے سینکڑوں قبائلی مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ ‘‘اس علاقے سے اپنے پرانے روابط کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے جمبو گھوڑا میں اپنی موجودگی پر فخر کا اظہار کیا، جو ہندوستان کی قبائلی برادری کی عظیم قربانیوں کی سرزمین ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج ہم اپنے امر مجاہدین شہید جوریا پرمیشور، روپ سنگھ نائک، گلالیا نائک، راؤجیدا نائک اور باباریا گلما نائک کو سلام پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کررہے ہیں۔ ’’ وزیراعظم نے کہا کہ آج اس پورے خطے میں صحت، تعلیم اور ہنر مندی کے فروغ کے سسینکڑوں کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو قوم کے لئے وقف کیا جا رہا ہے اور سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ گووند گرو یونیورسٹی اور کیندریہ ودیالیہ کے نئے انتظامی کیمپس کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ان پروجیکٹوں سے ہمارے قبائلی بچوں کو بہت مدد ملے گی۔ جمبو گھوڑا کا ایک مقدس مقام سے موازنہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے قبائلیوں کی بہادری اور آزادی کی لڑائی کی تابناک تاریخ پر روشنی ڈالی اور نائی کڑا تحریک کا ذکر کیا، جس سے 1857کی بغاوت کو رفتار ملی تھی۔ پرمیشور جوریا نے تحریک کو وسعت دی اور روپ سنگھ نائک نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ یہ لوگ مل کر تاتیا ٹوپے کے لئے لڑے، جس کا 1857 کی بغاوت میں اہم کردار ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع کو یاد کیا، جب انہیں اس درخت کے آگے سرجھکانے کا موقع ملا تھا، جس پر انگریزوں نے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ 2012 میں وہاں ایک کتاب کا اجراء بھی کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے بہت عرصہ قبل گجرات میں شروع ہوئی ایک رسم کا ذکر کیا کہ اسکولوں کے نام شہیدوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ ویدک اور ڈانڈیا پورہ کے پرائمری اسکولوں کو سنت جوریا پرمیشور اور روپ سنگھ نائک سے موسوم کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے مطلع کیا کہ آج ان اسکولوں کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ د��نوں اسکولوں میں دونوں قبائلی سورماؤں کے ایک بڑے مجسمے کا افتتاح کیا گیا، جو آج تعلیم اور جدوجہد آزادی میں قبائلی سماج کی حصہ داری دونوں کے مراکز بن چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں کے ہاتھوں سامنے آئی ترقیاتی خلیج ان کو وراثت میں ملی ، جب دو دہائیوں قبل انہیں گجرات کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تعلیم، تغذیہ اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے انہوں نے سب کا پریاس کے جذبے کے ساتھ کام شروع کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے قبائلی بھائی بہنوں نے تبدیلی کی ذمہ داری سنبھالی اور حکومت نے ایک دوست کی طرح انہیں ہر ممکن مدد پہنچائی۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ تبدیلی راتوں رات نہیں آئی، بلکہ یہ لاکھوں قبائلی علاقوں میں شروع کئے گئے پرائمری سے سکنڈری سطح تک کے دس ہزار اسکولوں اور ایکلویہ ماڈل اسکولوں، بیٹیوں کے لئے رہائشی اسکولوں اور آشرم شالاؤں کے بارے میں بتایا۔ وزیراعظم نے بیٹیوں کے لئے بسوں کے مفت سفر اور اسکولوں میں تغذیہ بخش خوراک کی دستیابی جیسی سہولیات کا ذکر کیا۔ کنیا شکشا رتھ کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کے لئے آمادہ کرنے کی جانب حکومت کوششوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اسکولوں میں سائنسی تعلیم کی کمی کا ذکر کیا اور کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں قبائلی اضلاع میں گیارہ سائنس کالج، گیارہ کامرس کالج اور سینکڑوں ہوسٹل کھولے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے بیس پچیس سال قبل قبائلی علاقوں میں اسکولوں کی سنگین قلت کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو قبائلی یونیورسٹیاں، گودھرا میں گرو یونیورسٹی اور نرمدا میں برسا منڈا یونیورسٹی موجود ہیں، جو اعلیٰ تعلیم کے بہترین ادارے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ گووند گرویونیورسٹی میں نئے کیمپس کے افتتاح کے بعد سہولیات میں مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ احمد آباد کی اسکل یونیورسٹی سے پنچ محل سمیت قبائلی برادری کے نوجوانوں کا فائدہ ہوگا۔ جناب مودی نے کہا کہ یہ ملک کی پہلی یونیورسٹی ہے، جسے ڈرون پائلٹ لائسنس کی منظوری حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں قبائلی اضلاع کی ہمہ جہت ترقی میں ون بندھو کلیان یوجنا کے اہم رول پر روشی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 14 برسوں میں قبائلی علاقوں میں اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ خرچ کئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے مطلع کیا کہ گجرات کی حکومت نے آنے والے برسوں میں مزید ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پورے خطے کی مجموعی ترقی کے بارے میں بتاتے ہوئے وزیراعظم نے پائپ والے پانی کی سہولت مائیکرو آبپاشی اور قبائلی علاقوں میں ڈیری سیکٹر کے فروغ کا ذکر کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قبائلی بہنوں کو بااختیار بنانے اور ان کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے سکھی منڈل قائم کئے گئے۔ گجرات میں تیزی سے ہونے والی صنعت کاری کے فائدے قبائلی نوجوانوں تک پہنچنے چاہئیں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے کئی جدید تربیتی مراکز مثلاً ووکیشنل سنٹرز، آئی ٹی آئی اور کسان وکاس کیندروں کے کھولے جانے کا ذکر کیا، جن سے تقریباً اٹھارہ لاکھ قبائلی نوجوانوں کو ٹریننگ حاصل کرنے میں مدد ملی ہے اور روزگار حاصل ہوا ہے۔ بیس پچیس سال قبل سکل سیل وباء پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں ڈسپنسریاں بہت کم تھیں، لیکن آج ڈبل انجن حکومت نے گاؤں کی سطح پر ��ینکڑوں اسپتال کھولے ہیں اور قبائلی علاقوں میں 1400 سے زیادہ صحت اور طبی نگہداشت مراکز قائم کئے ہیں۔ ہندوستان میں قبائلی معاشروں کی بہتری میں مرکزی حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ یہ بی جے پی کی حکومت ہے جس نے پہلی مرتبہ قبائلی سماج کے لئے ایک الگ وزارت بنائی اور ون دھن جیسی کامیاب اسکیم کو نافذ کیا۔ وزیراعظم نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے حکومت کی طرف سے برطانوی عہد سے جاری بانس کی کاشت اور فروخت پر پابندی کے قانون کو ختم کرنے، جنگلاتی پیداوار کی مسلسل نظر انداز کرنے کا سلسلہ ختم کرنے، 80 سے زیادہ مختلف جنگلاتی پیداوار پر آدیواسیوں کو ایم ایس پیکا فائدہ پہنچانے اور قبائلیوں کی زندگی کو آسان بناتے ہوئے ان کے فخر کو بڑھانے کے لیے کام کرنے کی مثالیں دیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلی بار قبائلی معاشرے کو ترقی اور پالیسی سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا احساس ہوا ہے۔ انہوں نے بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش کو جن جاتیہ گورو دیوس کے طور پر منانے کے حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ وزیر اعظم نے غریب، پسماندہ، پچھڑی ہوئی اور قبائلی برادریوں کے لئے ڈبل انجن والی حکومت کی مسلسل کوششوں پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے مفت راشن اسکیم، مفت کوویڈ ویکسین، غریبوں کے لئے 5 لاکھ روپے تک کا علاج، حاملہ خواتین کی مدد تاکہ انہیں غذائیت سے بھرپور کھانا ملے اور چھوٹے کسانوں کے لئے کھادوں کی خاطر قرض حاصل کرنے کے لئے پی ایم کسان سمان ندھییوجنا، بیج، بجلی کے بل وغیرہ کی مثالیں دیں۔ جناب مودی نے کہا کہ براہ راست مدد ہو یا پھر پکے مکانات، رفع حاجت گاہ، گیس کنکشن اور پانی کے کنکشن جیسی سہولیات، ان کا سب سے زیادہ فائدہ قبائلی، دلت اور پسماندہ خاندانوں کو پہنچا ہے۔ قبائلی جانبازوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے جنہوں نے ہندوستان کی ثقافت اور عقیدے کو بچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے وزیر اعظم نے چمپانیر، پاوا گڑھ، سوم ناتھ اور ہلدی گھاٹی کی مثالیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ اب پاوا گڑھ مندر کی تزئین و آرائش کر دی گئی ہے اور پرچم پوری شان و شوکت سے لہرایا گیا ہے۔ اسی طرح امباجی ماتا کا دھام ہو اور دیوموگرا ماں کا مندر کی ترقی کے لئے بھی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ وزیر اعظم نے روزگار کے فروغ میں سیاحت کے اہم کردار کو تسلیم کیا۔ انہوں نے پنچ محل جیسے مقامات، چمپانیر-پاوا گڑھ جو قدیم فن تعمیر کے لئے مشہور ہے کا ذکر کیا جو سیاحت کے نقطہ نظر سے انتہائی پُرکشش ہیں، اسی طرح جمبوگھوڈا میں جنگلاتی زندگی، ہتھنی ماتا آبشار، دھن پوری میں ماحولیاتی سیاحت کے مقامات، کڑا ڈیم، دھنیشوری ماتا مندر اور جنڈ ہنومان جی کا بھی ذکر کیا جو سیاحت کے نقطہ نظر سے انتہائی پُرکشش ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والے دنوں میں ان مقامات کو ٹورازم سرکٹ کے طور پر تیار کیا جائے گا جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قبائلیوں کے لئے قابل فخر مقامات اور مذہبی مقامات کی ترقی سے سیاحت کی کافی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اپنا خطاب مکمل کرتے ہوئے وزیراعظم نے ڈبل انجن والی حکومت کی ترقی کے وسیع دائرہ کار کی تعریف کی اور کہا کہ ترقی کے ثمرات سب تک پہنچتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ محنت اور لگن کے ساتھ بنیادی تبدیلی لانے کیلئے ہماری نیت صاف ہے، ان الفاظ کے ساتھ خطبہ ختم کیا کہ ہم مل کر ایک ترقییافتہ گجرات اور ایک ترقییافتہ ہندوستان بنائیں گے�� اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل، پارلیمانی اراکین اور حکومتِ گجرات کے وزراء موجود تھے۔ پس منظر وزیر اعظم نے جمبوگھوڈا، پنچمحل میں تقریباً 860 کروڑ روپے کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ انہوں نے شری گووند گرو یونیورسٹی، گودھرا کے نئے کیمپس، وڈیک گاؤں میں واقع سنت جوریا پرمیشور پرائمری اسکول اور میموریل اور ڈنڈیا پورہ گاؤں میں واقع راجہ روپ سنگھ نائک پرائمری اسکول اور میموریل کو بھی قوم کے نام وقف کیا۔ وزیر اعظم نے کیندریہ ودیالیہ، گودھرا کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے گودھرا میڈیکل کالج کی ترقی اور کوشلیا کی توسیع – دی اسکل یونیورسٹی کا بھی سنگ بنیاد رکھا، جس کی مالیت 680 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔,গুজৰাটৰ জাম্বুঘোডাত প্ৰায় ৮৬০ কোটি টকাৰ প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা আৰু দেশবাসীৰ নামত উৎসৰ্গা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-5-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A7%8C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-2/,نئی دہلی 04 اکتوبر2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی پانچ اکتوبر 2021 کو صبح ساڑھے دس بجے اندراگاندھی پر تشٹھان لکھنؤ، اترپردیش میں ’’آزادی ایٹ-75 نیا شہری ہندوستان: شہری منظرنامے میں کایا پلٹ‘‘ کانفرنس اور ایکسپو کاافتتاح کریں گے۔ وزیر اعظم اترپردیش کے 75 ضلعوں میں 75 ہزار مستفدین کو پردھان منتری آواس یوجنا۔ شہری (PMAY- ش ح۔رف۔ س ا,লক্ষ্ণৌত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উদ্বোধন কৰিব ‘আজাদী@৭৫-নিউ আৰ্বান ইণ্ডিয়া : ট্ৰেন্সফৰ্মিং আৰ্বান লেণ্ডস্কেপ’ শীৰ্ষক সন্মিলন তথা বাণিজ্যমেল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86-%D8%8C-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A8-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%A1-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%B1/,نئی دہلی ،9فروری :فلسطین ، متحدہ عرب امارات اور عمان روانہ ہونے سے قبل وزیراعظم کے بیان کا متن درج ذیل ہے : ‘‘میں 9سے 12فروری کے دوران فلسطین ،متحدہ عرب امارات اورعمان کے دورے پررہوں گا۔ میں پانچویں بار خلیج اورمغربی ایشیائی خطے کے دورے پر جانے سے خوش ہوں ۔ میں اردن کے شاہ عبداللہ کا ممنون ہوں، جنھوں نے اس سفرکو ممکن بنایاہے ۔ مجھے امید ہے کہ میں 9فروری ،کو عمان میں ان سے ملاقات کروں گا۔ بھارت کے کسی وزیراعظم کا فلسطین کا یہ پہلادورہ ہوگا۔مجھے توقع ہے کہ میں صدرمحمود عباس سے گفت وشنید کروں گااور فلسطینی عوام اور فلسطین کی ترقیات کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کروں گا۔ میں 10سے 11فروری کے دوران متحدہ عرب امارت کے دورے پرجاؤں گا،جہاں میں 2015کے بعد دوبارہ جارہاہوں ۔ متحدہ عرب امارات ایک قابل قدر کلیدی شراکت دارہے، جس کے ساتھ ہمارے تمام بڑے دائروں میں اہم تعاون پرمبنی رشتے ہیں، جن میں معیشت ، توانائی ، اعلیٰ تکنالوجی اورسلامتی جیسے پہلوشامل ہیں ۔ میں ان شعبوں میں ہونے والی اپنی پیش رفت اور یواے ای نائب صدراوروزیراعظم اوردوبئی کے فرمانرواعالیجناب شیخ محمدبن راشدالمختوم اورابوظہبی کے ولیعہد شہزادے عالیجناب شیخ محمد بن زید النہیان سے بھی وسیع تبادلہ خیالات کروں گا۔ متحدہ عرب امارات کی قیادت کی دعوت پرمیں ابوظہبی میں عالمی گورنمنٹ سربراہ ملاقات کے چھٹویں اجلاس سے خطاب کروں گا جہاں بھارت مہمان ذی وقارکے طورپرشامل ہوگا۔ اسی دن میں ابوظہبی میں ، سرکردہ یواے ای ، اور عرب کے سی ای اوحضرات سے دستیاب وسیع اقتصادی مواقع کے بارے میں بھی تبادلہ خیالات کروں گااوران امکانات کا جائزہ لوں گا کہ کاروباری شراکت کو مزید ترقی دینے کے لئے اورکیاجاسکتاہے ۔ عمان ہمارا قریبی بحری ہمسایہ ہے ۔ جس سے ہمارے عمدہ تعلقات ہیں ۔ میں عمان کےعالیجناب سلطان سے بھی بات چیت کروں گااور دیگرکلیدی رہنماوں سے بھی ملوں گا۔ میں بھارت کے ساتھ مضبوط اقتصادی اورکاروباری تعلقات استوارکرنے کی غرض سے عمان کے سرکردہ کاروباریوں سے بھی گفت وشنید کروں گا۔عمان ہماراقریبی بحری ہمسایہ ہے اور اس سے ہمارے عمدہ ترین تعلقات استوارہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ 11اور 12فروری کو بطوروزیراعظم پہلی مرتبہ میں یہاں کے دورے پررہوں گا ۔ بھارت اور عمان صدیوں پرانے عوامی تعلقات کے حامل رہے ہیں اور عوام سے عوام کے مابین تبادلے ہوتے رہے ہیں ۔ 11فروری کی شام میں عمان کے عالیجناب سلطان سے ملاقات کروں گا ۔ میں وزرأکی کونسل کی ڈپٹی وزیراعظم ، عالی مقام سید فہد بن محمود السعید اور بین الاقوامی تعلقات اور تعاون پرمبنی امورکے ڈپٹی وزیراعظم عالی مقام سید اسد بن طارق السعید سے بھی ملاقات کروں گا۔ ہم اپنے روایتی مضبوط روابط کو مزید پروان چڑھانے کے لئے باہمی تعاون کا جائزہ لیں گے ۔ 12فروری کو میں عمان کے سرکردہ کاروباریوں سے ملاقات کروں گا اور مضبوط ترین اقتصادی اورکاروباری تعلقات استوارکرنے اورپروان چڑھانے کے سلسلے میں گفت وشنید کروں گا۔ عمان اوریواے ای دونوں جگہ مجھے بڑی تعداد میں بھارت نژاد افراد سے ملاقات کا موقع حاصل ہوگا ،جنھوں نے ان ممالک میں اپنا ٹھکانہ بنارکھاہے ۔ 9ملین سے زائد بھارتی کارکنان خلیجی خطے میں رہتے اورکام کرتے ہیں، جن میں سے تقریباًایک تہائی افراد صرف متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں ۔ عمان میں بھارتیوں کی تعداد دیگرممالک کے یہاں سکونت پذیر افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔ بیرون ملک سکونت پذیربھارتی برادری بھارت اور خلیجی ممالک کے مابین دوستی کے ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ تمام افراد اپنے اپنے میزبان ممالک میں رونماہونے والی خوشحالی میں سرگرمی سے اپنا تعاون دیتے ہیں ۔مجھے امید ہے کہ میں اس دورے کے توسط سے مغربی ایشیا اور خلیجی خطے میں بھارت کی افزوں اہمیت کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہوں گا۔’’,"পেলেষ্টাইন, ইউনাইটেড আৰৱ এমিৰেটছ আৰু ওমানলৈ ৰাওনা হোৱাৰ পূৰ্বে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বিবৃতি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%92-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%8C%E0%A6%A6%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A7%8D/,عالی مرتبت محمد بن سلمان بن عبد العزیز السعود ، صدیقی ، ( میرے دوست ) ، مرحبہ بکم فی الہند ( آپ کا ہندوستان میں استقبال ہے ) ، دوستو ، ہندوستان میں سعودی عرب کے شہزادے اور ان کے وفود کا پہلی مرتبہ استقبال کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے ۔ ہندوستان اور سعودی عرب کے اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی رشتے صدیوں پرانے ہیں اور ہمیشہ سے خوشگوار اور دوستانہ رہے ہیں ۔ ہمارے لوگوں کے درمیان اس گہرے اور قریبی تعلقات ہمارے ملکوں کے لئے ایک زندہ پُل یعنی لیونگ برج ہیں ۔ عزت مآب کی ، اور رائل ہائنس آپ کی ذاتی دلچسپی اور رہنمائی سے ہمارے دو طرفہ تعلقات میں اور بھی گہرائی ، خلوص اور طاقت آئی ہے ۔ آج ، 21 ویں صدی میں ، سعودی عرب ، ہندوستان کا سب سے قیمتی اسٹریٹیجک شراکت دار ہے ۔ یہ ہمارے وسیع تر پڑوس میں ہے ، ایک قریبی دوست ہے اور ہندوستان کی توانائی اور تحفظ کا اہم وسیلہ بھی ہے ۔ 2016 ء میں سعودی عرب کے میرے دورے کے دوران ، ہم نے اپنے تعلقات کو خصوصی طور سے ، توانائی اور تحفظ کے میدان میں کئی نئی جہتیں دی تھیں ۔ آپ سے ارجنٹینا میں دو ماہ پہلے ہی ملاقات کے نتیجے کی شکل میں تحفظ ، تجارت اور سرمایہ کاری کے میدانوں میں ہمارے اسٹریٹیجک شراکت داری کے خلاصے نے نئی توسیع حاصل کی ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے مشوروں کی فہرست کے مطابق ہماری سال میں دو بار سربراہ کانفرس اور اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے قیام کے لئے رضامندی ہوئی ہے ۔ ان سے ہمارے تعقات کو مضبوطی اور رفتار اور ترقی کا فائدہ ملے گا ۔ دوستو ، آج ہم نے دو طرفہ تعلقات کے سبھی موضوعات پر وسیع تر اور مثبت تبادلۂ خیال کیا ہے ۔ ہم نے اپنے اقتصادی تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہمارے معاشی نظام میں سعودی عرب سے ادارہ جاتی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لئے ، ایک ڈھانچہ قائم کرنے پر رضامند ی ہوئی ہے ۔ نئے ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا استقبال کرتا ہوں ۔ عالی مرتبت ، آپ کے ‘ ویژن 2030 ’ اور آپ کی قیادت میں ہو رہے اقتصادی سدھار ، ہندوستان کے اہم پروگراموں جیسے ‘ میک اِن انڈیا ’ ، ‘اسٹارٹ اَپ انڈیا ’ تکمیلہ ہیں ۔ ہمارے توانائی سے متعلق تعلقات اسٹریٹیجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری اور اسٹریٹیجک پیٹرولیم ریزرو میں سعودی عرب کی حصہ داری ، ہمارے توانائی تعلقات کو بائرس سیلرس ریلیشن سے بہت آگے لے جاتی ہے ۔ ہم قابل ِ تجدید توانائی کے میدان میں اپنے تعاون کو مضبوط کرنے پر رضامند ہوئے ہیں ۔ ہم بین الاقوامی سولر الائنس میں سعودی عرب کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ ایٹمی توانائی کے پُر امن استعمال ، خصوصی طور پر واٹر ڈسلینیشن اور صحت کے لئے ہمارے تعاون کا ایک اور پہلو ہو گا ۔ خصوصی طور پر اپنے اسٹریٹیجک ماحول کے سلسلے میں ، ہم نے آپسی حفاظت اور تعاون کو مضبوط کرنے اور اس کی توسیع کرنے پر بھی کامیاب تبادلۂ خیال کیا ہے ۔ گذشتہ سال ہندوستان ، سعودی عرب میں مقتدر عوامی جلسہ میں مہمان خصوصی تھا ۔ آج ہم نے اپنے ثقافتی تعلقات کو اور مضبوط کرنے کا ہدف رکھا ہے ۔ تجارت اور سیاحت کو بڑھانے کے لئے سعودی عرب کے شہریوں کے لئے ای ویزا کی توسیع کی جا رہی ہے ۔ ہندوستانیوں کے لئے حج کوٹے میں اضافے کے لئے ہم عزت مآب اور عالی مرتبت کے ممنون ہیں ۔ 2.7 ملین ہندوستانی شہریوں کی سعودی عرب میں پُر امن اور کار آمد حاضری ہمارے درمیان ایک اہم کڑی ہے ۔ عالی مرتبت نے سعودی عرب کی ترقی میں اُن کے مثبت تعاون کی ستائش کی ہے ۔ آپ نے ہمیشہ اُن کی بھلائی کا خیال رکھا ہے ۔ اس کے لئے اُن کی شکر گزار ی اور دعائیں آپ کی ساتھ ہیں ۔ دوستو ، پچھلے ہفتے پلوامہ میں ہوئے وحشیانہ دہشت گردانہ حملہ اِس انسانیت مخالف خطرے سے دنیا پر چھائے ہوئے قہر کی ایک اور ظالم نشانی ہے ۔ اس خطرے سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لئے ہم اس بات پر رضامند ہیں کہ دہشت گردی کو کسی بھی طرح کی حمایت دے رہے ملکوں پر سبھی ممکنہ دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنا اور اس کی حمایت ختم کرنا اور دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو سزا دلانا بہت ضروری ہے ۔ ساتھ ہی انتہا پسندی کے خلاف تعاون اور اس کے لئے ایک مضبوط عملی منصوبے کی بھی ضرورت ہے تاکہ تشدد اور دہشت گردی کی طاقتیں ہمارے نو جوانوں کو گمراہ نہ کر سکیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ سعودی عرب اور ہندوستان اس بارے میں مشترکہ خیال رکھتے ہیں ۔ دوستو ، مغربی ایشیا اور خلیج میں امن اور سالمیت یقینی بنانے میں ہمارے دونوں ملکوں کے مشترکہ فوائد ہیں ۔ آج ہماری بات چیت میں ، اس میدان میں ہمارے کاموں میں تال میل لانے اور ہماری حصہ داری کو تیزی سے آگے بڑھانے پر رضامندی ہوئی ہے ۔ ہم اس بات پر بھی رضامند ہوئے ہیں کہ کاؤنٹر ٹیرر زم ، سمندری حفاظت اور سائبر سکیورٹی جیسے میدانوں میں اور مضبوط دو طرفہ تعاون دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند رہیں گے ۔ عالی مرتبت ، آپ کے دورے نے ہمارے رشتوں میں تیز ترقی کو ایک نئی جہت دی ہے ۔ میں ایک بار پھر ہماری دعوت کو قبول کرنے کے لئے عالی مرتبت کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ میں ان کے اور ان کے نمائندۂ وفود کے سبھی اراکین کی ہندوستان میں ان کی خوش آئند اقامت کی تمنا کرتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ش ت ۔ ع ا ),ছৌদি আৰৱৰ সম্ৰাটৰ ভাৰত ভ্ৰমণকালত প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ প্ৰেছ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D8%A7%DA%BA-%D8%AC%D8%AA%D9%86%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D8%AF%DB%81-%DB%81%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%D8%A7%D8%AA%D9%86%DB%8C-%DB%81%DB%8C-%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%AF%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%87-%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%9C-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%BF/,اپنی ماں کے 100ویں سال میں داخل ہونے کے ساتھ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایک جذباتی بلاگ لکھا۔ انہوں نے اپنی ماں کے ساتھ گزرے ہوئے کچھ پلوں کو یاد کیا۔ انہوں نے ان کو بڑا کرنے کے دوران ماں کے ذریعہ دی گئی قربانیوں کو یاد کیا اور اپنی ماں کی مختلف خوبیوں کا ذکر کیا جس سے ان کےذہن، شخصیت اور خود اعتمادی کو شکل ملی۔ وزیر اعظم مودی نے لکھا۔’’آج مجھے یہ بتاتے ہوئے بے حد مسرت اور خوش نصیبی کا احساس ہورہا ہے کہ میری ماں محترمہ ہیرابا مودی اپنے 100ویں سال میں داخل ہوری ہیں۔ یہ ان کا جنم شتابدی سال ہونے جارہا ہے۔‘‘ لچک کی علامت بچپن میں اپنی ماں کے سامنے آئی ہر مشکلات کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا۔’’میری ماں جتنی سادہ ہیں، اتنی ہی غیر معمولی ہیں۔ بالکل دوسری تمام ماؤں کی طرح۔‘‘چھوٹی سی عمر میں ہی وزیر اعظم مودی کی ماں نے اپنی ماں کو کھودیا تھا۔انہوں نے کہا’’انہیں میری نانی کا چہرہ یا ان کی گود تک یاد نہیں۔ انہوں نے اپنا پورا بچپن اپنی ماں کے بغیر بتایا ہے۔‘‘ انہوں نے وَڈنگر میں مٹی کی دیواروں اور مٹی کی کھپریل کی چھت سے تعمیر اپنے چھوٹے سے گھر کویاد کیا،جہاں وہ اپنے ماں، باپ اور بھائی بہن کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ انہوں نے روز مرہ کی آنے والی مشکلات کا ذکر کیا جن کا ان کی ماں نے سامنا کیا اور ان پر کا��یابی حاصل کیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے ان کی ماں نہ صرف گھر کے تمام کام کیا کرتی تھیں، بلکہ کم گھریلو آمدنی کی بھرپائی کے لئے کام کیا کرتی تھیں۔ وہ کچھ گھروں میں برتن صاف بھی کرتی تھیں اور گھریلو اخراجات میں مدد کے مقصد سے چرخہ چلانے کے لئے وقت بھی نکالتی تھیں۔ وزیر اعظم مودی یاد کرتے ہوئے کہا’’بارش کے دوران ہماری چھت سے پانی ٹپکتا تھا اور گھر میں پانی بھر جاتا تھا۔ ماں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے بالٹیاں اور برتن رکھتی تھیں۔اپنے ناموافق حالات میں بھی ماں لچیلے پن کی زندہ تصویر تھیں۔‘‘ صاف صفائی میں لگے لوگوں کے تئیں گہرا احترام وزیر اعظم جناب مودی نے کہا کہ صفائی ایک ایسا کام تھا جس کے لئے ان کی ماں ہمیشہ چوکنا رہیں۔ انہوں نے اپنی ماں کی صفائی ستھرائی برقرار رکھنےسے جڑی کئی مثالیں دیں۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کی ماں صاف صفائی میں لگے لوگوں کے تئیں بہت احترام رکھتی تھیں۔ جب بھی کوئی ان کے گھر سے لگی نالی کی صفائی کرنے آتا تھا تو ان کی ماں اسے چائے پلائے بغیر نہیں جانےد یتی تھیں۔ دوسروں کی خوشی میں خوشی تلاش کرنا وزیر اعظم مودی نے بتایا کہ ان کی ماں دوسرے لوگوں کی خوشیوں میں اپنی خوشی تلاش کرلیتی تھیں اور ان کا دل بہت بڑا تھا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ’’میرے والد کے ایک قریبی دوست پاس کے گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ ان کی بے وقت موت کے بعد،میرے والد اپنے دوست کے بیٹے عباس کو ہمارے گھر لے آئے۔ وہ ہمارے ساتھ رہا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ماں کو ہم بھائی بہنوں کی طرح عبا س سے بھی بہت پیار تھا اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ہر سال عید پر وہ اس کے پسندیدہ کھانے بناتی تھیں۔ تہواروں پرپڑوس کے بچوں کا ہمارے گھر پر آنا اور ماں کی خاص تیاریوں سے لطف اندوز ہونا ایک عام بات تھی۔‘‘ وزیر اعظم مودی کی ماں ان کے ساتھ عوامی طور پر صرف دو مواقعوں پر گئیں بلاگ پوسٹ میں، وزیر اعظم مودی نے ان دو مواقع کے بارے میں بتایا جب وہ اپنی ماں کے ساتھ عوامی طور سے گئے تھے۔ایک بار احمد آباد کی ایک عوامی تقریب میں گئے، جب انہوں نے سری نگر سے واپس لوٹنے پر ان کے ماتھے پر تلک لگایا تھا، جہاں انہوں نے ایکتا یاترا پوری کرتے ہوئے لال چوک پر قومی پرچم لہرایا تھا۔ دوسرا مواقع تب آیا جب وزیر اعظم مودی نے 2001 میں پہلی بار گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا۔ وزیر اعظم مودی کی ماں نے زندگی میں ایک سبق پڑھایا وزیر اعظم مودی نے لکھا کہ ان کی ماں نے انہیں یہ احساس دلایا کہ رسمی طورپرتعلیم حاصل کیے بغیر سیکھنا ممکن ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ ساجھا کیا،جب وہ اپنی سب سے بڑی استاد- اپنی ماں کے ساتھ اپنے تمام اساتذہ کا عوامی طورپر اعزاز کرنا چاہتے تھے، حالانکہ ان کی مان نے یہ کہہ کر آنے سے انکار کردیا کہ ’’دیکھ میں ایک عام عورت ہوں۔ میں نے تمہیں بھلے ہی پیدا کیا ہے، لیکن تمہیں ایشورنے پڑھایا اور بڑا کیا ہے۔‘‘ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ بھلے ہی ان کی ماں پروگرام میں نہیں آئیں، لیکن انہوں نے یہ یقینی بنایا کہ وہ اپنے مقامی استاد جیٹھا بھائی جوشی جی کے خاندان سے کسی کو بلائیں، جنہوں نے انہیں حروف کا علم یعنی الفابیٹ کی تعلیم دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ’’ ان کی سوچ کا عمل اور دور اندیشی انہیں ہمیشہ چونکاتی رہی ہے۔‘‘ ایک فرض شناس شہری وزیر اعظم مودی نے بتایا کہ ایک فرض شناس شہری کے طور پر ان کی ماں نے الیکشن کی شروعات کے بعد سےپنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک ہرالیکشن می�� ووٹ ڈالا۔ ایک انتہائی سادہ طرز زندگی کواپنانا ماں کے انتہائی سادہ طرز زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے لکھا کہ آج بھی، ان کی ماں کے نام پر کوئی جائیداد نہیں ہے۔وزیر اعظم مودی نے کہا ’’میں نے انہیں کوئی سونے کا زیور پہنے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان میں کوئی دلچسپی ہے۔ہمیشہ کی طرح،وہ آج بھی اپنے چھوٹے سے کمرے میں بے حد سادہ زندگی گزارتی ہیں۔‘‘ موجودہ دور میں رونما ہونےوالے واقعات کی معلومات رکھنا وزیر اعظم مودی نے کہا کہ وہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی معلومات رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے بلاگ میں بتایا۔’’حال ہی میں،میں نے ان سے پوچھا کہ وہ روزانہ کتنی دیر ٹی وی دیکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹی وی پر زیادہ تر لوگ ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف رہتے ہیں اور وہ صرف انہیں ہی دیکھتی ہیں، جو سکون سے خبریں پڑھتے ہیں اورہر بات ٹھیک سے بتاتے ہیں ہیں۔ مجھے مسرت آمیزحیرت ہوئی کہ ماں واقعات پر اتنی نظر رکھتی ہیں۔‘‘ اتنی عمر ہونے کے باوجود اچھی یادداشت وزیر اعظم مودی نے 2017ء کے ایک واقعہ کے بارے میں بتایا، جس سے ان کی زیادہ عمر کے باوجود سرگرم رہنے کا پتہ چلتا ہے۔ 2017ء میں وزیر اعظم مودی سیدھے کاشی سے اپنی ماں سے ملنے گئے تھے اور ان کے لیے پرساد لے کر آئے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا’’جب میں ماں سے ملا تو انہوں نے فوراً مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے کاشی وشوناتھ مہادیو کو نمن کیا۔ ماں ابھی تک پورا نام کاشی وشوناتھ مہادیو بولتی ہیں۔اس وقت بات چیت کے دوران انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کاشی وشوناتھ مندر جانے والی گلیاں اب بھی پہلے جیسی ہیں، جیسے کسی کے گھر کے اندرمندر ہو۔ میں حیرت زدہ رہ گیا اور پوچھا کہ آپ کب مندر گھومنے گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کاشی کئی سال پہلے گئی تھیں، لیکن حیرت کی بات تھی کہ انہیں سب کچھ یاد تھا۔ دوسروں کی پسند کا احترام کرنا وزیر اعظم مودی نے آگے کہا کہ ان کی ماں نہ صرف دوسروں کی پسند کا احترام کرتی ہیں، بلکہ اپنی پسندتھوپنے سے گریز بھی کرتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بتایا کہ’’خاص طور سے میرے اپنے معاملہ میں انہوں نے میرے فیصلوں کا احترام کیا،کبھی میرے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی اور مجھے حوصلہ دیا۔بچپن سے ہی انہیں لگتا تھا کہ میرے اندر ایک مختلف سوچ فروغ پارہی ہے۔ ‘‘ یہ وزیر اعظم مودی کی ماں تھیں،جنہوں نے ان کی مکمل حمایت کی جب انہوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ لیا۔ان کی خواہشات کو سمجھتے ہوئے اور انہیں اپنی آشیرواد یتے ہوئے ان کی ماں نے کہا۔’’ویسا ہی کرو جیسا تمہارا دل کہتا ہے۔‘‘ غریبوں کی بہبود پر توجہ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کی ماں نے ہمیشہ اپنی پختہ عہد اور غریبوں کی بھلائی پر توجہ دینے کے لئے متحرک کیا۔ انہوں نے 2001ءکے ایک واقعہ کے بارے میں بتایا ،جب انہیں گجرات کا وزیر اعلیٰ اعلان کیا گیاتھا۔ گجرات پہنچنے کے بعد وزیر اعظم سیدھے اپنی ماں سے ملنے گئے ۔وہ بہت خوش تھیں اور ان سے کہا۔’’میں سرکار میں تمہارے کام کو نہیں سمجھتی،لیکن میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ کبھی رشوت مت لینا۔‘‘ ان کی ماں انہیں مطمئن کرتی رہیں کہ انہیں کبھی بھی ان کی فکر نہیں کرنی چاہئے اور اپنی بڑی ذمہ داریوں کا دھیان رکھنا چاہئے۔ جب بھی وہ ان سے فون پر بات کرتے ہیں، ان کی ماں کیتی ہیں۔’’کبھی کچھ غلط مت کرنا یا کسی کے ساتھ برامت کرنا اور غریبوں کے کام لئے کام کرتے رہنا۔‘‘ زندگی کا منتر -سخت محنت وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کے والدین کی ایمانداری اور خودداری،ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔غریبی اور ان سے جڑی چنوتیوں کے ساتھ جدوجہد کے باوجود وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے ماں باپ نے کبھی بھی ایمانداری کا راستہ ترک نہیں کیا اور اپنی خودداری سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کا ان کا اہم منتر مسلسل سخت محنت تھی۔ ماترشکتی کی علامت وزیر اعظم مودی نے کہا،’’میری ماں کی زندگی کی کہانی میں، میں ہندوستان کی ماترشکتی کی تپسیا،قربانی اور تعاون دیکھتا ہوں۔ جب بھی میں ماں اور ان کے جیسی کروڑوں خواتین کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہندوستانی خواتین کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔‘‘ وزیر اعظم مودی نے اپنی ماں کی زندگی کی کہانی کا کچھ لفظوں میں اس طرح ذکر کیا کیا ہے۔ ’’ محرومیوں کی ہر کہانی سے الگ، ایک ماں کی شاندار داستان ہے ہر جدوجہد سے کہیں بلند، ایک ماں کا پختہ عزم ہے۔‘‘,"“মোৰ মা যিমানেই সহজ-সৰল, সিমানেই অসাধাৰণ”: মাতৃৰ ১০০ বছৰীয়া জন্মদিনত প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীৰ আৱেগিক ব্লগ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%AF%D8%A7%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%86%E0%A7%9F%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور جمہوریہ مالدیپ کے عدالتی کمیشن کے درمیان عدالتی تعاون کے شعبے میں مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کو منظوری دے دی ہے۔ عدالتی تعاون کے شعبے میں بھارت اور دوسرے ملکوں کے ساتھ دستخط کیا گیا یہ آٹھواں مفاہمت نامہ ہے۔ یہ مفاہمت نامہ عدالتوں کو ڈیجیٹل بنانے کے لئے اطلاعاتی ٹکنالوجی کے فوائد کو حاصل کرنے کے واسطے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا اور دونوں ملکوں میں آئی ٹی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس کے فروغ کے لئے اہم ثابت ہوگا۔ حالیہ برسوں میں بھارت اور مالدیپ کے درمیان قریبی تعلقات میں کثیر جہتی اضافہ ہوا ہے۔ قانون و انصاف میں تعاون پر اس معاہدے پر دستخط کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف عدالتی اور دیگر قانونی شعبوں میں معلومات اور ٹکنالوجی کا تبادلہ ہوسکے گا بلکہ دونوں ممالک ’’پڑوسی پہلے‘‘ کی پالیسی کے مقاصد کو مزید فروغ دے سکیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ و ا ۔ ن ا۔,মালদ্বীপৰ ন্যায়িক আয়োগৰ মাজত ন্যায়িক সহযোগিতা ক্ষেত্ৰত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%81%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%DB%8C-%D9%86%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1%D8%8C-%DA%A9%D8%B4%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1%D8%8C-%DB%8C%D9%88%D9%BE%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5/,اس مقدس و مبارک پروگرام میں موجود اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ محترم یوگی آدیتیہ ناتھ جی، کابینہ میں میرے ساتھی جناب جی کشن ریڑی جی، جناب کرن رجیجو جی، جناب جیوترادتیہ سندھیا جی، سری لنکا سے کشی نگر تشریف لائے سری لنکا سرکار میں کابینی وزیر جناب نمل راج پکشا جی، سری لنکا سے آئے انتہائی محترم ہمارے دیگر مہمان، میا مار، ویتنام، کمبو��یا، تھائی لینڈ ، لاؤ پی ڈی آر، بھو ٹان اور جنوبی کوریا کے ہندستان میں ایکسیلنسی سفیر، سری لنکا، منگولیا، جاپان، سنگاپور، نیپال اور دیگر ملکوں کے اعلیٰ سیاستداں، تمام قابل احترام بھکتو اور بھگوان بدھ کے سبھی پیرو کار ساتھیو! اشون مہینے کی پور نما کایہ مقدس دن، کشی نگر کی مقدس سرزمین اور اپنی باقیادت کی شکل میں بھگوان بدھ کی موجودگی! بھگوان بدھ کی مہربانی سے آج کے دن کئی غیر معمولی سنگت کئی غیر معمولی اتفاقات سے ایک ساتھ ظاہر ہو رہے ہیں۔ ابھی یہاں آنے سے پہلے مجھے کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈے کو قوم کے لیے وقف کرنے کا موقع ملا۔ کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے زریعے پوری دنیا سے کروڑوں بدھ عقیدتمندوں کو یہاں آنے کا موقع ملے گا۔ ان کا سفر آسان ہوگا۔ اس انٹرنیشنل ائر پورٹ پر سری لنکا سے پہنچی پہلی فلائٹ سے قابل اقدام آپ سب کی موجودگی ہندستان اور سری لنکا کی ہزاروں سال پرانی روحانی، مذہبی اور ثقافتی وراثت کی مظہر ہے۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ سری لنکا میں بدھ دھرم کا پیغام سب سے پہلے ہندستان سے سمراٹ اشوک کے بیٹے مہندر اور بیٹی سنگھ مترلے کر گئے تھے۔ مانا جاتا ہے کہ آج ہی کے دن ارہت مہندر نے واپس آکر اپنے والد کو بتایا تھا کہ سری لنکا نے بدھ کا پیغام کتنے ولولے کے ساتھ اپنایا ہے۔ اس خبر نے یہ یقین بڑھایا تھا کہ بدھ کا پیغام پوری دنیا کے لیے ہے۔ بدھ کا دھما ، انسانیت کے لیے ہے۔ اس لیے آج کا یہ دن ہم تمام ملکوں کے صدیوں پرانی ثقافتی تعلقات کو نئی طاقت دینے کا بھی دن ہے۔ میں آپ سبھی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ آج بھگوان بدھ کے مہاپری نروان کے مقام پر ان کے سامنے حاضر ہیں۔ میں سری لنکا اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے محترم مہمانوں کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہمارے انتہائی محترم مہا سنگھ جو ہمیں آشیرواد دینے کے لیے موجود ہیں ۔ میں انہیں بھی پوری عقیدت کے ساتھ نمن کرتا ہوں۔ آپ نے ہم سب کو بھگوان کے درشن کا موقع بخشا ہے۔ اہاں کشی نگر کے اس پروگرام کے بعد آپ میرے پالمانی علاقے وارانسی بھی جا رہے ہیں۔ آپ کے پاس قدم وہاں بھی پڑے ینگے اور خوشی لی کر آئیں گے۔ ساتھیو! میں آج انٹر نیشنل بدھسٹ کنفیڈریشن کے سبھی ارکان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ جس طرح جدید دنیا میں بھگوان بدھ کے پیغام کو پھیلا رہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ آج اس موقع پر میں اپنے پرانے ساتھی جناب شکتی سنہا جی کو بھی یاد کر رہا ہوں۔ انٹر نیشنل بدھسٹ کنفیڈریشن کے ڈی جی کے طور پر کام کر رہے شکتی سنہا جی کا کچھ دن پہلے سورگباس ہوا ہے۔ بھگوان بدھ میں ان کا عقیدی ، ان کی خود سپردگی ہم سب کے لیے ایک ترغیب ہے۔ ساتھیو! آپ سبھی جانتے ہیں آج ایک اور اہم موقع ہے۔ بھگوان بدھ کے تشتا سے دھرتی پر واپس آنے کا۔ اسی لیے اشون پور نما کو آج ہمارے بکھشو اپنے تین مہینے کا ورشا واس بھی پورا کرتے ہیں۔ آج مجھے بھی ورشا واس کے بعد سنگھ بھکشوؤں کو چیور دان کا موقع ملا ہے۔ بھگوان بدھ کا یہ بودھ انوکھا ہے جس نے ایسی روایات کو جنم کیا۔ برسات کے مہینوں میں ہماری فطرت، ہمارے آس پاس کے پیڑ پودے نئی زندگی لے رہے ہوتے ہیں۔ جانداروں کے ساتھ اہنسا یتقن عدم کا عہد اور پودوں میں بھی پر ماتما دیکھنے کا جذبہ ۔ ودھ کا یہ پیغام اتنا پر زور ہے کہ آج بھی ہمارے بھیکشو ویسے ہی جی رہے ہیں۔ جو عقیدتمند ہمیشہ سر گرم رہے ہیں۔ وہ ان تین مہینوں میں پڑ جاتے ہیں تاکہ کہیں کوئی نمودار ہونے کو تیار، بیج کچل نہ جائے، نکھرتی ہوئی فطرت میں رکاوٹ نے آجائے ۔ یہ ورشا وا س نہ صرف باہر کی فطرت کو بلکہ ہمارے اندر کی فطرت کو بھی بحال ہونے کا موقع دیتا ہے۔ ساتھیو! دھم کی ہدایت ہے۔ یتاھی رجورن پفھ، وڑوت سگنرھک! ایوم سبھا ستا واچا، سفل ہوتی کبتوں۔ یعنی کہ اچھی زبان اور اچھے خیالات کو اگر اتنی ہی عقیدت سے اختیار کیا جائے تو اس کا نتیجہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا خوشبو کے ساتھ پھول ۔ کیونکہ بنا اخلاق کے اچھی سے اچھی بات بنا خوشبو کے پھول کی طرح ہوتی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی بدھ کے خیالات کو صحیح معنی میں اختیار کیا گیا ہے وہاں سخت سے سخت حالات میں بھی ترقی کے راستے بنے رہے۔ بدھ اسی لیے عالمگیر ہیں، کیونکہ بدھ اپنے اندر سے شروعات کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ بھگوان بدھ کی داتائی سے عالمگیر ذمہداری یعنی ہمارے آس پاس ، ہمارے کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ ہم سے جو کچھ واقع ہو رہا ہے ہم اگر اس میں اپنی کوشش جوڑ ینگے تو ہم اس تخلیق کو رفتار دینگے۔ آج جب دنیا ماحولیات کے تحفظ کی بات کرتی ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی فکر کرتی ہے۔ تو اسکے ساتھ بہت سے سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم بدھ کے پیغام کو اپنا لیتے ہیں تو کس کو کرنا ہے۔ اسکی جگہ کیا کرنا ہے ، اسکی راہ اپنے آپ دکھائی دینے لگتا ہے۔ ساتھیو! ہزاروں سال پہلے بھگوان بدھ جب اس دھرتی پر آئے تو آج جیسی سہولیات نہیں تھیں لیکن پھر بھی بدھ دنیا کے کروڑوں کروڑ لوگوں تک پہنچ گئے۔ میں نے الگ الگ ملکوں میں بودھ دھرم سے جڑے مندروں، وہاروں میں خود یہ محسوس کیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کینڈی سے کیوٹو ، ہنوئی سے ہممبن ٹوٹا تک، بھگوان بدھ اپنے خیالات کے زریعے مٹھوں اور شناخت کے زریعے ہر جگہ ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ کینڈی میں شر ی ڈلاڈامالگودا درشن کرنے پہنچا تھا، سنگاپور میں میں نے ان کے دندان باقیات کو دیکھا اور کیوٹو میں کنکارکنجی جانے کا بھی مجھے موقع ملا ہے۔ اسی طرح جنوب مشرق کے ملکوں کے بھکشوؤں کا آشرواد بھی مجھے ملتا رہا ہے۔ الگ الگ ملک ، الگ الگ لباس، لیکن انسانیت کی روح میں بسے بدھ سب کو جوڑ دیتے ہیں۔ ہندستان نے بھگوان بدھ کی اس نصیحت کو اپنی ترقی کے سفر کا حصہ بنایا ہے۔ اسے اپنایا ہے۔ ہم نے گیان کو عظیم پیغامات کو، عظیم روحوں کے خیالات کو باندھنے میں کبھی بھروسہ نہیں کیا۔ ہم نے جو کچھ بھی ہمارا تھا ، اسے انسانیت کے لیے وقف کیا ہے۔ اسی لیے رحم، ہمدردی جیسی انسانی اقدام آج بھی اتنی ہی آسانی سے ہندستان کے دل میں رچی بسی ہوئی ہے۔ اسی لیے بدھ آج بھی ہندستان کے آئین کی ترغیب ہیں۔ بدھ کا دھم چکر ہندستان کے ترنگے پر براجمان ہوکر ہمیں آگے بڑھا رہا ہے۔ آج بھی ہندستان کی پارلمنٹ میں کوئی جاتا ہےاس منتر پر نظر پڑتی ہے۔ دھرم چکر پر اورت نائے! ساتھیو! عام طور پر یہ بھی یال رہتا ہے کہ بودھ دھرم کا اثر خاص طور سے مشرق کے حصے میں ہی زیادہ رہا، لیکن تاریخ کو باریکی سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے۔ کہ بدھ نے جتنا اثر پورب پر ڈالا اتنا ہی مغرب اور شمال پر بھی ان کا اثر ہے۔ گجرات کا وڈنگر، جو میری پیدائش بھی ہے۔ وہ ماضی میں بودھ دھرم سے جڑا ایک اہم مقام رہا ہے۔ ابھی تک ہم ہون سانگ کے مثالوں کے زریعے ہی اس تاریخ کو جانتے تھے لیکن اب تو وڈنگر میں کھدائی کے زریعے آثار قدیمہ مٹھ اور استوپ بھی ملک چکے ہیں۔ گجرات کا یہ ماضی اس بات کا ثبوت ہے کہ بدھ سمتوں اور حدوں سے جڑے ہوئے تھے۔ گجرات کی دھرتی پر جنم لینے والا مہاتما گاندھی تو بدھ کے سپائی ��ور عدم تشدد کے پیغامات کے جدید نقیب رہے ہیں۔ ساتھیو ! آج ہندستان اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منارہا ہے۔ اس امرت مہوتسو میں ہم اپنے مستقبل کے لیے ، انسانیت کے مستقبل کے لیے عہد کر رہے ہیں۔ ہمارے ان امرت عزائم کے مرکز میں بھگوان بدھ کا وہ سندیش ہے جو کہتا ہے۔ اپ مادر، امت پدن پدامو مچونو پدن اپ متا نا مینتی یہ پمتا یتھا متا یعنی پرماد نہ کرنا امرت یہ ہے اور پرماد ہی موت ہے۔ اس لیے آج ہندستان نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، پوری دنیا کو ساتھ لے کرآگے چل رہا ہے۔ بھگوان بدھ نے کہا تھا ۔ ‘‘اب دیپو بھوا’’ یعنی اپنا چراغ حود بنو۔ جب انسان خود روشن ہوتا ہے تو وہ دنیا کو بھی روشنی دیتا ہے۔ یہی ہندستان کے لیے آتم نربھر بننے کا محرک ہے۔ اپنے اسی خیال کو آج ہندستان سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے منتر کے ساتھ آتے بڑھ رہا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بھگوان بدھ کے ان نظریات و خیالات پر چلتے ہوئے ہم سب ایک ساتھ مل کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے راستے کو روشن کرینگے۔ اسی تمنا کے ساتھ آپ سبھی کا بہت شکریہ بھبوتو سب منگلم نمو بدھائے <><><><><> ش ح،ع س، ج,উত্তৰ প্ৰদেশৰ কুশীনগৰস্থিত ‘মহানিৰ্বাণা মন্দিৰ’ত উদযাপিত ‘অভিধম্ম দিৱস’ত প্ৰদান কৰা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%81%D9%86-%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A8%DB%8C%D8%B1%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AE%D9%84%D8%A7-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%B0%E0%A7%8D/,نئیدہلی14فروری۔مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم جناب نریندرمودی کی قیادت میں بھارت اور فن لینڈ کے مابین بیرونی خلا کے پرامن استعمال کے شعبے میں باہمی تعاون کے لئے ایک مفاہمتی عرضداشت پردستخط کئے جانے کو اپنی منظوری دے دی ہے ۔واضح رہے کہ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت پر پہلے یعنی دس جنوری 2019 کو نئی دلی میں دستخط کئے جاچکے ہیں۔ اثرات : مذکورہ دستخط شدہ ایم او یو ارضیات کی ریموٹ سینسنگ ،سیارچہ مواصلات ،سیارچہ محل وقوع ، خلائی سائنس اور بیرونی خلا کی کھوج وغیرہ کے شعبوں میں نئی تحقیقاتی سرگرمیوں اور امکانات کے استعمال کو تلاش کرنے کے عمل کو مہمیز کرے گی۔ فن لینڈ کی حکومت کے ساتھ تعاون بنی نوع انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے خلائی ٹکنالوجی کے استعمال کے شعبے میں ایک مشترکہ سرگرمی کا راستہ ہموار کرے گا۔ تفصیلات : مذکورہ مفاہمتی عرضداشت درج ذیل امکانی مضمرات کے شعبوں میں تعاون کا راستہ ہموار کرے گی۔ ارضیات کی ریموٹ سینسنگ۔ سیارچہ مواصلاتی اور سیارچے پر مبنی نیوی گیشن ۔ خلائی سائنس اور سیارہ جاتی تلاش ، خلائی اشیا اور زمینی نظام کی ترقی ،ٹیسٹنگ اور آپریشن ۔ بھارتی خلائی گاڑیوں کے ذریعہ فن لینڈ کے خَلائی سیارچوں کو خلا میں بھیجنا۔ خلائی اعدادوشمار کی پروسیسنگ اور استعمال ۔ خلائی تکنالوجیوں پر مبنی اختراعاتی استعمال کو فروغ دینا اور حل نکالنا نیز خفیہ مصنوعی اطلاعات کا استعمال ۔ ابھرتی ہوئے نئے خلائی مواقع کے سلسلے میں تعاون اور ڈاٹا ایکو نظام اور بیرونی خلا کے لئے ہمہ گیر استعمال ۔ اس مفاہمتی عرضداشت کے تحت شرکأ کار یا ان کی اجازت ملنے پرکوئی دیگر ادارہ یعنی نفاذ سے متعلق ایجنسیاں ، ضرورت ہونے پر ٹیمیں تشکیل دے سکتی ہیں تاکہ نفاذ جاتی انتظامات کے تحت مخصوص امداد باہمی پر مبنی پروجیکٹوں کا انتظام کیا جاسکے ۔ نفاذ کی حکمت عملی اورنشانے : مندوبین اپنی اپنی جانب سے اس ایم او یو کے تحت امداد باہمی پر مبنی سرگرمیوں کے لئے ایک ایک کوارڈی نیٹر نامزدکرے گی۔ اس سلسلے میں بھارت اور فن لینڈ میں متبادل ملاقات کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ باہمی فیصلے لئے جاسکتے ہیں۔ مندوبین یا ا ن کے ذریعہ اجازت حاصل ہونے پر متعلقہ نفاذ ایجنسیاں نفاذ انتظامات کے سلسلے میں پروجیکٹ کی ٹیمیں تشکیل دے سکتی ہیں۔ مذکورہ مفاہمتی عرضداشت پر فن لینڈ کی حکومت کی جانب سے خلا کے شعبے میں تعاون کے تئیں دلچسپی کا اظہار کئے جانے کے بعد دستخط عمل میں آئے تھے ۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,বহিৰ্মহাকাশৰ শান্তিপূর্ণ ব্যৱহাৰৰ ক্ষেত্রত ভাৰত আৰু ফিনলেণ্ডৰ মাজত সহযোগিতা সংক্রান্তীয় বুজাবুজি চুক্তিৰ স্বাক্ষৰৰ বাবে কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC/,نئی دلّی ،یکم جنوری، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے قوم کو نئے سال کی مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’2022 مبارک دعاگو ہوں کہ یہ سال سبھی کی زندگیوں میں ڈھیروں خوشیاں اور بہتر صحت لے کر آئے۔ ہم ترقی اور خوشحالی کی نئی بلندیوں پر جائیں اور اپنے عظیم مجاہدین آزادی کے خوابوں کوپورا کے لئے مزید محنت کریں۔‘‘,নৱ বৰ্ষ উপলক্ষে ৰাষ্ট্ৰবাসীক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A7%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جناب کے کامراج کو ان کی سالگرہ پر یاد کیا۔جناب مودی نے کہا کہ جناب کامراج نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہدکے لئے ناقابل فراموش تعاون دیاہے اور ایک درد مند منتظم کے طور پر اپنی حیثیت منوائی ہے۔ وزیراعظم نے ٹویئٹ میں کہا۔ ‘‘جناب کامراج کی ان کے یوم پیدائش پر یاد کرتا ہوں۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہدکے لئے ناقابل فراموش تعاون دیاہے اور ایک درد مند منتظم کے طور پر اپنی حیثیت منوائی ہے۔انہوں نے غربت اور انسانی مصائب کو کم کرنےکے لئے سخت محنت کی۔انہوں نے صحت اور تعلیم کو بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کی۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শ্ৰী কে কামৰাজক তেওঁৰ জন্ম জয়ন্তীত স্মৰণ কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DA%BE%DA%91%D9%88%DA%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%8F%D8%AA%DA%A9%D8%B1%D8%B4-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D8%B1%D9%88%DB%81-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%9A%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A7%8E%E0%A6%95%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8/,نئی دہلی، 12/مئی 2022 ۔ نمسکار! آج کا یہ اُتکرش سماروہ سچ مچ عمدہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ایمانداری سے، ایک عزم کے ساتھ استفادہ کنندہ تک پہنچتی ہے، تو کتنے بامعنی نتیجے حاصل ہوتے ہیں۔ میں بھڑوچ ضلع انتظامیہ کو گجرات حکومت کو سماجی تحفظ سے وابستہ 4 منصوبوں کے سو فیصد سیچوریشن کوریج کے لئے آپ سب کو جتنی مبارک باد دوں اتنی کم ہے۔ آپ سب بہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ابھی میں جب ان منصوبوں کے استفادہ کنندگان سے بات چیت کررہا تھا، تو میں دیکھ رہا تھا کہ ان کے اندر کتنی طمانیت ہے، کتنی خوداعتمادی ہے۔ مصیبتوں سے مقابلہ کرنے میں جب حکومت کی چھوٹی سی بھی مدد مل جائے، اور حوصلہ کتنا بلند ہوجاتا ہے اور مصیبت خود مجبور ہوجاتی ہے اور جو مصیبت کو جھیلتا ہے وہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ آج میں آپ سب کے ساتھ بات چیت کرکے محسوس کررہا تھا۔ ان 4 منصوبوں میں جن بہنوں کو، جن کنبوں کو فائدہ ملا ہے وہ میرے آدیواسی سماج کے بھائی بہن، میرے دلت – پسماندہ طبقے کے بھائی بہن، میرے اقلیتی سماج کے بھائی بہن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات کی عدم دستیابی کے سبب متعدد لوگ اسکیموں کے فائدے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اسکیمیں کاغذ پر ہی رہ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی اسکیموں کا فائدہ بے ایمان لوگ اٹھا لے جاتے ہیں، لیکن جب ارادہ ہو، نیت صاف ہو، نیکی سے کام کرنے کا ارادہ ہو اور جس بات کو لے کر میں ہمیشہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں، وہ ہے – سب کا ساتھ – سب کا وکاس کا جذبہ، جس سے نتیجے بھی برآمد ہوتے ہیں۔ کسی بھی منصوبے کا سو فیصد مستفیدین تک پہنچنا ایک بڑا ہدف ہے۔ کام مشکل ضرور ہے، لیکن راستہ صحیح یہی ہے۔ میں سبھی مستفیدین کو، انتظامیہ کو یہ آپ نے جو حاصل کیا ہے، اس کے لئے مبارک باد دینی ہی ہے۔ ساتھیو! آپ جانتے ہیں اچھی طرح، ہماری حکومت جب سے آپ نے مجھے گجرات سے دہلی کی خدمت کے لئے بھیجا، ملک کی خدمت کے لئے بھیجا، اب اس کو بھی 8 سال ہوجائیں گے۔ 8 سال خدمت، اچھی حکمرانی اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہے ہیں۔ آج جو کچھ بھی میں کرپا رہا ہوں، وہ آپ ہی لوگوں سےسیکھا ہے۔ آپ ہی کے درمیان جیتے ہوئے، ترقی کیا ہوتی ہے، دکھ درد کیا ہوتا ہے، غریبی کیا ہوتی ہے، مصیبتیں کیا ہوتی ہیں، ان کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے اور وہی تجربہ ہے جس کو لے کر آج پورے ملک کے لئے، ملک کے کروڑوں کروڑوں شہریوں کے لئے، خاندان کے ایک فرد کے طور پر کام کررہا ہوں۔ حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے متعلق منصوبوں سے کوئی بھی استفادہ کنندہ جو اس کا حقدار ہے، وہ حق دار چھوٹنا نہیں چاہئے۔ سب کو فائدہ ملنا چاہئے جو حق دار ہے اور پورا فائدہ ملنا چاہئے۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو! جب ہم کسی بھی منصوبے کے سو فیصد ہدف کو حاصل کرتے ہیں تو یہ 100 فیصد صرف اعداد و شمار نہیں ہے۔ اخبار میں اشتہار دینے کا معاملہ نہیں ہے صرف۔ اس کا مطلب ہوتا ہے – حکومت، انتظامیہ، حساس ہے۔ آپ کے سکھ دکھ کا ساتھی ہے۔ یہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ آج ملک میں ہماری حکومت کے آٹھ سال پورے ہورہے ہیں اور جب آٹھ سال پورے ہورہے ہیں تو ہم ایک نئے عزم کے ساتھ، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے ایک دن ایک بہت بڑے لیڈر ملے، سینئر لیڈر ہیں۔ ویسے ہماری مسلسل مخالفت بھی کرتے رہے، سیاسی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن میں ان کا احترام بھی کرتا رہا ہوں۔ تو کچھ باتوں کے سبب ان کو تھوڑا شکوہ و گلہ تھا تو ایک دن ملنے آئے۔ تو کہا مودی جی یہ کیا کرنا ہے۔ دو دو بار آپ کو ملک نے وزیر اعظم بنادیا۔ اب کیا کرنا ہے۔ ان کو لگتا تھا کہ دو مرتبہ وزیر اعظم بن گیا مطلب بہت کچھ ہوگیا۔ ان کو پتہ نہیں ہے کہ مودی کسی الگ مٹی کا ہے۔ گجرات کی سرزمین نے اس کو تیار کیا ہے اور اس لئے جو بھی ہوگیا اچھا ہوگیا، چلو اب آرام کرو، نہیں میرا خواب ہے – سیچوریشن۔ سو فیصد ہدف کی طرف ہم آگے بڑھیں۔ سرکاری مشینری کو ہم عادت ڈالیں۔ شہریوں میں بھی ہم اعتماد پیدا کریں۔ آپ کو یاد ہوگا 2014 میں جب آپ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا تھا تو ملک کی تقریباً نصف آبادی بیت الخلاء کی سہولت سے، ٹیکہ کاری کی سہولت سے، بجلی کنیکشن کی سہولت سے، بینک اکاؤنٹ کی سہولت سے سیکڑوں میل دور تھی، ایک طرح سے محروم تھی۔ ان برسوں میں ہم سبھی کی کوششوں سے متعدد منصوبوں کو سو فیصد سیچوریشن کے قریب قریب لا پائے ہیں۔ اب آٹھ سال کے اس اہم موقع پر، ایک بار پھر کمر کس کے، سب کا ساتھ لے کر، سب کی کوشش سے آگے بڑھنا ہی ہے اور ہر ضرورت مند ہو، ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کے لئے جی جان سے لگ جانا ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ ایسے کام مشکل ہوتے ہیں، لیڈران بھی ان کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن میں سیاست کرنے کے لئے نہیں، میں صرف اور صرف اہل وطن کی خدمت کرنے کے لئے آیا ہوں۔ ملک نے عزم کیا ہے سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا، اور جب سو فیصد پہنچتے ہیں نا، تو سب سے پہلے جو نفسیاتی تبدیلی آتی ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں ملک کا شہری سائل کی حالت سے باہر نکل جاتا ہے پہلے تو۔ وہ مانگنے کے لئے قطار میں کھڑا ہے، یہ احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ یہ میرا ملک ہے، یہ میری حکومت ہے، ان پیسوں پر میرا حق ہے، میرے ملک کے شہریوں کا حق ہے۔ یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور اس کے اندر فرض کے بیج بھی بودیتا ہے۔ ساتھیو! جب سیچوریشن ہوتا ہے نا تو تفریق کی ساری گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ہر کسی کو اعتماد رہتا ہے، بھلے اس کو پہلے ملا ہوگا، لیکن بعد میں بھی مجھے ملے گا ہی۔ دو مہینے بعد ملے گا، چھ مہینے بعد ملے گا، لیکن ملنے والا ہے۔ اس کو کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی اور جو دینے والا ہے وہ بھی کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ تم میرے ہو، اس لئے دے رہا ہوں۔ وہ تو میرا نہیں ہے اس لئے نہیں دے رہا ہوں۔ تفریق نہیں کرسکتا اور ملک نے عزم کیا ہے سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا۔ آج جب سو فیصد ہوتا ہے تو نازبرداری کی سیاست تو ختم ہی ہوجاتی ہے۔ اس کے لئے کوئی جگہ نہیں بچتی ہے۔ سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا مطلب ہوتا ہے، سماج میں آخری پائیدان پر کھڑے شخص تک پہنچنا۔ جس کا کوئی نہیں ہے، اس کے لئے حکومت ہوتی ہے۔ حکومت کے عزائم ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی ساتھی بن کر چلتی ہے۔ یہ احساس ملک کے دور دراز جنگلوں میں رہنے والا میرا آدیواسی ہو، جھگی جھونپڑی میں جینے والا میری کوئی غریب ماں بہن ہو، بڑھاپے میں تنہا زندگی گزارنے والا کوئی شخص ہو، ہر کسی میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ اس کے حق کی چیزیں اس کے دروازے پر آکر دینے کے لئے کوشش کی ہے۔ ساتھیو! سو فیصد مستفیدین کی کوریج یعنی ہر خیال، ہر مذہب، ہر طبقے کو یکساں طور پر سب کا ساتھ، سب کا وکاس سو فیصد فائدہ غریبوں کی بہبود کی ہر اسکیم سے کوئی چھوٹے نہ، کوئی پیچھے نہ رہے۔ یہ بہت بڑا عزم ہے۔ آپ نے آج جو راکھی دی ہے نا، سب بیوہ ماؤں نے، میرے لئے جو راکھی بھی اتنی بڑی بنائی ہے راکھی، یہ سب دھاگا نہیں ہے۔ یہ آپ نے مجھے ایک طاقت دی ہے، قوت دی ہے، اور جن خوابوں کو لے کرکے چلے ہیں، ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے طاقت دی ہے۔ اس لئے آج جو آپ نے مجھے راکھی دی ہے اسے میں انمول تحفہ مانتا ہوں۔ یہ راکھی مجھے ہمیشہ ملک کے غریبوں کی خدمت کے لئے، سو فیصد سیچوریشن کی طرف حکومتوں کو دوڑانے کے لئے تحریک بھی دے گی، حوصلہ بھی دے گی اور ساتھ بھی دے گی۔ یہی تو ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس۔ آج راکھی بھی سب بیوہ ماؤں کی کوشش سے بنی ہے اور میں تو جب گجرات میں تھا، بار بار میں کہتا تھا، کبھی کبھی خبریں آتی تھیں۔ میرے متعلق، میری سکیورٹی کو لے کر خبریں آتی تھیں۔ ایک آدھ بار تو میری بیماری کی خبر آئی تھی تب میں کہتا تھا بھائی مجھے ماؤں بہنوں کی حفاظتی ڈھال ملی ہوئی ہے۔ جب تک یہ ماؤں بہنوں کی حفاظتی ڈھال مجھے ملی ہوئی ہے اس حفاظتی ڈھال کو توڑکر کوئی بھی مجھے کچھ نہیں کرسکتا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں ہر قدم پر، ہر لمحہ مائیں بہنیں، ان کا آشیرواد ہمیشہ مجھ پر رہتا ہے۔ ان ماؤں بہنوں کا جتنا قرض میں چکاؤں اتنا کم ہے۔ اور اسی لئے ساتھیو، اسی سنسکار کے سبب میں نے لال قلعہ سے ہمت کی تھی ایک بار بولنے کی، مشکل کام ہے میں پھر کہہ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے یہ مشکل کام ہے، کیسے کرنا مشکل ہے میں جانتا ہوں۔ سب ریاستوں کو آمادہ کرنا، ساتھ لینا مشکل کام ہے میں جانتا ہوں۔ سبھی سرکاری ملازمین کو اس کام کے لئے دوڑانا مشکل ہے، میں جانتا ہوں۔ لیکن یہ آزادی کا امرت کال ہے۔ آزادی کے 75 سال ہوئے ہیں۔ اس امرت کال میں بنیادی سہولتوں سے متعلق منصوبوں کے سیچوریشن کی بات میں نے لال قلعہ سے کہی تھی۔ سو فیصد جذبۂ خدمت کی ہماری یہ مہم سماجی انصاف، سوشل جسٹس کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے گجرات کے مردیہ اور مکم وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل، ان کی قیادت میں گجرات حکومت اس عزم کی تکمیل میں پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہے۔ ساتھیو! ہماری حکومت نے سماجی تحفظ، عوامی بہبود اور غریبوں کے وقار کا یہ سارا جو میری سیچوریشن کی مہم ہے، اگر ایک لفظ میں کہنا ہے تو یہی ہے غریب کو وقار۔ غریب کے وقار کے لئے حکومت۔ غریب کے وقار کے لئے عزم اور غریب کے وقار کے سنسکار۔ یہی تو ہمیں تحریک دیتے ہیں۔ پہلے ہم جب سماجی تحفظ کی بات سنتے تھے، تو اکثر دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی مثال دیتے تھے۔ بھارت میں ان کو نافذ کرنے کی جو بھی کوششیں ہوئی ہیں ان کا دائرہ اور اثر دونوں بہت محدود رہے ہیں۔ لیکن سال 2014 کے بعد ملک نے اپنے دائرے کو وسیع کیا، ملک سب کو ساتھ لے کر چلا۔ نتیجہ ہم سبھی کے سامنے ہے۔ 50 کروڑ سے زیادہ اہل وطن کو 5 لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت ملی، کروڑوں لوگوں کو 4 لاکھ روپئے تک کا حادثہ اور لائف انشورنس کی سہولت ملی، کروڑوں بھارتیوں کو 60 سال کی عمر کے بعد ایک مقررہ پنشن کا نظام ملا۔ اپنا پختہ گھر، بیت الخلاء، گیس کنکشن، بجلی کنکشن، پانی کا کنکشن، بینک میں اکاؤنٹ، ایسی سہولتوں کے لئے تو غریب سرکاری دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر ان کی زندگی ختم ہوجاتی تھی۔ وہ ہار جاتے تھے۔ ہماری حکومت نے ان سارے حالات کو بدلا، اسکیموں میں بہتری لائی، نئے ہدف مقرر کئے اور انھیں مسلسل ہم حاصل بھی کررہے ہیں۔ اسی کڑی میں کسانوں کو پہلی بار براہ راست مدد ملی۔ چھوٹے کسانوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں تھا بھائی اور ہمارے ملک میں 90 فیصد چھوٹے کسان ہیں۔ 80 فیصد سے زیادہ، قریب قریب 90 فیصد۔ جن کے پاس 2 ایکڑ زمین مشکل سے ہے۔ ان چھوٹے کسانوں کے لئے ہم نے ایک منصوبہ بنایا۔ ہمارے ماہی گیر بھائی بہن، بینک والے ان کو پوچھتے نہیں تھے۔ ہم نے کسان کریڈٹ کارڈ جیسا ہے وہ ماہی گیروں کے لئے شروع کیا۔ اتنا ہی نہیں، ریہڑی پٹری ٹھیلے والوں کو پی ایم سواندھی کی شکل میں بینک سے پہلی بار مدد یقینی بنی ہے اور میں تو چاہوں گا اور ہماری سی آر پاٹل جو بھارتی جنتا پارٹی کے کارکنوں نے سبھی شہروں میں یہ ریہڑی پٹری والوں کو سواندھی کے پیسے ملے۔ ان کا کاروبار سود کے چکر سے آزاد ہوجائے۔ جو بھی محنت کرکے کمائیں وہ گھر کے کام آئے۔ اس کے لئے جو مہم چلائی ہے، میں چاہوں گا بھڑوچ ہو، انکلیشور ہو، والیا ہو، سبھی اپنے ان شہروں میں بھی اس کا فائدہ پہنچے۔ ویسے تو بھڑوچ سے مجھے براہ راست ملاقات کرنی چاہئے اور کافی وقت سے آیا نہیں، تو من بھی ہوتا ہے، کیونکہ بھڑوچ کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا رہا ہے۔ اور بھڑوچ تو اپنی ثقافتی وراثت ہے، تجارت کا، ثقافتی وراثت کا ہزاروں سال پرانا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا دنیا کو ایک کرنے میں بھڑوچ کا نام تھا۔ اور اپنی ثقافتی وراثت، اپنے کسان، اپنے آدی واسی بھائیوں، اور اب تو صنعت و تجارت سے جگمگا رہا ہے۔ بھڑوچ – انکلیشور جڑواں شہر بن گیا ہے۔ پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اور میں جتنے وقت رہا، پرانے دن سب یاد ہیں۔ آج جدید ترقی کے سبب بھڑوچ ضلع کا نام ہورہا ہے۔ متعدد کام ہورہے ہیں اور فطری بات ہے بھڑوچ جب، بھڑوچ کے لوگوں کے پاس آتا ہوں تب پرانے پرانے لوگ سب یاد آتے ہیں۔ متعدد لوگ، پرانے پرانے دوست، سینئر دوست، کبھی کبھی، ابھی بھی رابطہ ہوتا ہے۔ بہت سالوں پہلے میں جب سنگھ کا کام کرتا تھا، تب بس میں سے اتروں، تب چلتا چلتا مکتی نگر سوسائٹی جاتا تھا۔ مول چند بھائی چوہان کے گھر، ہمارے بپن بھائی شاہ، ہمارے شنکر بھائی گاندھی، متعدد دوست سب پرانے پرانے اور جب آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں، تب مجھے میرے بہادر ساتھی شریش بنگالی بہت یاد آتے ہیں۔ سماج کے لئے جینے والے۔ اور ہمیں پتہ ہے للو بھائی کی گلی سے نکلتے ہیں تب اپنا پانچ بتی ایکسٹینشن۔ ابھی جو 20-25 سال کے جوان لڑکے لڑکیاں ہیں، ان کو تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ یہ پانچ بتی اور للو بھائی کی گلی کا کیا حال تھا۔ ایک دم پتلے راستے، اسکوٹر پر جانا ہو تو بھی مشکل ہوجاتی تھی۔ اور اتنے سارے گڈھے، کیوں کہ مجھے اب بھی یاد ہے میں جاتا تھا۔ اور پہلے تو مجھے کوئی عوامی جلسہ کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ سالوں پہلے بھڑوچ والوں نے مجھے پکڑا، اپنی شکتی نگر سوسائٹی میں۔ تب تو میں سیاست میں آیا بھی نہیں تھا۔ شکتی نگر سوسائٹی میں ایک میٹنگ رکھی تھی، 40 سال ہوگئے ہوں گے۔ اور میں حیران ہوگیا کہ سوسائٹی میں کھڑے رہنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اور اتنے سارے لوگ، اتنے سارے لوگ، آشیرواد دینے آئے تھے۔ میرا کوئی نام نہیں، کوئی جانتا نہیں، پھر بھی زبردست اور بڑا جلسہ ہوا۔ اس دن تب تو میں سیاست میں کچھ تھا ہی نہیں۔ نیا نیا تھا، سیکھ رہا تھا۔ اس وقت مجھے کتنے صحافی دوست ملے، میری تقریر ختم ہونے کے بعد۔ میں نے ان سے کہا، آپ لکھ کر رکھ لو، اس بھڑوچ کے اندر کانگریس کبھی بھی جیتے گی نہیں۔ ایسا میں نے اس وقت کہا تھا۔ آج سے 40 سال پہلے۔ تب سب ہنسنے لگے، میرا مذاق اڑانے لگے، اور آج مجھے کہنا ہے کہ بھڑوچ کے لوگوں کے پیار اور آشیرواد سے وہ بات میری صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اتنا سارا پیار، بھڑوچ اور آدی واسی کنبوں کی طرف سے، کیونکہ میں سارے گاؤں گھومتا تھا، تب متعدد قبائلی خاندانوں کے درمیان رہنے کا، ان کے سکھ دکھ میں کام کرنے کا، ہمارے ایک چندو بھائی دیش مکھ تھے پہلے، ان کے ساتھ کام کرنے کا، پھر ہمارے من سکھ بھائی نے سارا کام کاج سنبھال لیا۔ ہماری بہت ساری ذمے داری انھوں نے لے لی۔ اور اتنے سارے ساتھی، اتنے سارے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے، وہ سب دن جب آپ کے درمیان آیا ہوں، تب آپ کے سامنے آتا تو کتنا مزا آتا۔ اتنا دور ہوں تب بھی سب یاد آنے لگا۔ اور اس وقت یاد ہے، سبزی بیچنے والے کے لئے راستہ اتنا خراب کہ کوئی آئے تب اس کی سبزی بھی نیچے گر جائے۔ ایسی حالت تھی۔ اور جب میں راستے پر جاتا تو دیکھتا کہ غریب کا تھیلا الٹا ہوگیا، تب میں اسے سیدھا کرکے دیتا تھا۔ ایسے وقت میں، میں نے بھڑوچ میں کام کیا ہے۔ اور آج چاروں طرف بھڑوچ اپنا ترقی کررہا ہے۔ سڑکوں میں بہتری آئی ہے، طرز زندگی بہتر ہوا ہے، تعلیمی ادارے، طبی نظامات، تیز رفتار سے اپنا بھڑوچ ضلع آگے بڑھا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ پورا آدی واسی ایکسٹینشن عمر گاؤں سے امباجی، پورے آدی واسی پٹے میں، گجرات میں آدی واسی وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ لیکن سائنس کے اسکول نہیں ہیں، بولو، سائنس کے اسکول، میرے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد شروع کرنے کا موقع ملا۔ اور جب سائنس کے اسکول ہی نہ ہوں تو کسی کو انجینئرنگ بننا ہو، ڈاکٹر بننا ہو تو کیسے بنے؟ ابھی ہمارے یعقوب بھائی بات کررہے تھے، بیٹی کو ڈاکٹر بنانا ہے، کیوں بننے کا امکان پیدا ہوا، کیونکہ کوشش شروع ہوئی بھائی۔ اس لئے بیٹی نے بھی طے کیا کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ آج تبدیلی آئی ہے نا۔ اسی طرح سے بھڑوچ میں صنعتی ترقی، اور اب تو اپنا بھڑوچ متعدد مین لائن، فرنٹ کوریڈور اور بلٹ ٹرین کہو، ایکسپریس وے کہو، کوئی آمد و رفت کا ذریعہ نہیں جو بھڑوچ کو نہ چھوتا ہو۔ اس لئے ایک طرح سے بھڑوچ نوجوانوں کے خوابوں کا ضلع بن رہا ہے۔ نوجوانوں کی امنگوں کا شہر اور اس کی توسیع بن رہا ہے۔ اور ماں نرمدا اسٹیچو آف یونٹی کے بعد تو، اپنا بھڑوچ ہو یا راج پیپلا ہو، پورے ہندوستان میں، اور دنیا میں آپ کا نام چھا گیا ہے، کہ بھائی اسٹیچو آف یونٹی جانا ہو تو کہاں سے جانا؟ تو کہا جاتا ہے بھڑوچ سے، راج پیپلا سے جانا۔ اور اب ہم دوسرا ویئر بھی بنارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے بھڑوچ نرمدا کے کنارے پینے کے پانی کی مشکل ہوتی تھی۔ نرمدا کے کنارے ہو، اور پینے کے پانی کی مشکل پڑے، تو اس کی تدبیر کیا ہوگی؟ تو اس کا حل ہم نے ڈھونڈ لیا۔ تو پورے سمندر کے اوپر پورا بڑا ویئر بنادیا۔ تو سمندر کا کھارا پانی اوپر آئے نہیں۔ اور نرمدا کا پانی رکا رہے اور نرمدا کا پانی کیویڈیا سے بھرا رہے۔ اور کبھی بھی پینے کے پانی کی مشکل نہ پڑے، اس کا کام چل رہا ہے۔ اور میں تو بھوپیندر بھائی کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کتنا سارہ فائدہ ہوگا آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ اس لئے دوستو، مجھے آپ لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، مجھے بہت خوشی ملی۔ پرانے پرانے دوستوں کی یاد آئے فطری بات ہے، ہمارے بلیو ایکونومی کا جو کام چل رہا ہے، اس میں بھڑوچ ضلع بہت کچھ کرسکتا ہے۔ سمندر کے اندر جو دولت ہے، اپنا ساگر کھیڑو منصوبہ ہے، اس کا فائدہ اٹھاکر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ تعلیم ہو، صحت ہو، جہازرانی ہو، کنیکٹیوٹی ہو، ہر شعبے میں بہت تیزی سے آگے بڑھنا ہے۔ آج مجھے خوشی ہوئی کہ بھڑوچ ضلع نے بڑی پہل کی ہے۔ آپ سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ جے جے گروی گجرات، وندے ماترم۔,গুজৰাটৰ ভাৰুচত ���উৎকর্ষ সমাৰোহ’ অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%86%D8%A7%DA%88%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%9F%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%AD/,نئی دہلی۔30؍اگست۔ مرکزی کابینہ کو جس کی صدارت وزیراعظم نریندر مودی نے کی۔ آج بتایا گیا کہ ہندوستان اور کناڈا نے مشترکہ طور پر دیوالی کے موضوع پر دو یادگاری ڈاک ٹکٹوں کا ایک سیٹ جاری کرنے سے اتفاق کیا ہے۔یہ مشترکہ ڈاک ٹکٹ 21ستمبر2017 کو جاری کیا جائے گا۔اس سلسلے میں ہندوستان کے ڈاک کے محکمہ اور کناڈا کے محکمہ ڈاک کے درمیان ایک مفاہمت نامہ پر پہلے ہی دستخط کئے جاچکے ہیں۔ ہندوستان اور کناڈا کے درمیان طویل مدتی قریبی تعلقات ہیں جو جمہوریت، تکثریت، سب کے لئے یکسانیت اور قانون کی حکمرانی کے جذبہ پر مبنی ہیں۔ عوام سے عوام کے درمیان مضبوط رابطہ اور کناڈا میں بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کی سکونت کی وجہ سے ان تعلقات کی بنیاد مزید مضبوط ہوئی ہے۔ دیوالی کا موضوع دونوں ملکوں کے لئےتقافتی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے کناڈا میں موجود بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کی وجہ سے منتخب کیا گیا ہے۔ م ن۔ ج۔ رض,ভাৰত আৰু কানাডাই যুটীয়াভাবে ডাক টিকট প্ৰকাশ কৰাৰ বিষয়ে অৱগত কৰিলে কেবিনেটক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D8%A7%D9%BE%D9%88%DA%91-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DB%8C%D9%85%DB%8C%DA%A9%D9%84-%D9%81%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B8/,نئی دہلی،4 جون 2022/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اتر پردیش کے ہاپوڑ میں ایک کیمیکل فیکٹری میں ہونے والے حادثے کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا; اتر پردیش کے ہاپوڑ میں ایک کیمیکل فیکٹری میں ہونے والا حادثہ بے حد المناک ہے۔ وہ جن لوگوں کو جان گنوانی پڑتی ہے، ان کے رشتے داروں کے تئیں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔ زخمیوں کے علاج اور دوسری ہرمدد کے لئے ریاستی حکومت پوری تندہی سےلگی ہوئی ہے۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ হাপুৰৰ ৰাসায়নিক কাৰখানাত দুৰ্ঘটনাত প্ৰাণ হেৰুওৱা লোকসকলৰ প্ৰতি প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শোক প্ৰকাশ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%86%D8%AC%DA%AF%DB%8C%D8%B1-%DA%86%D9%85%D9%BE%D8%A7-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔22ستمبر 2018 ؛ وزیراعظم نریندر مودی نے آج چھتیس گڑھ کا دورہ کیا۔ جنجگیر – چمپا میں انہوں نے زراعت اور روایتی ہینڈلوم سے متعلق ایک نمائش کا معائنہ کیا۔ انہوں نے قومی شاہراہوں اور پینڈرا – انوپ پور تیسری ریلوے لائن کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیراعظم نے مرکزی اور ریاستی حکومت کی مختلف فلاحی اسکیموں کی منتخبہ مستفیدین کو سرٹیفکیٹ وغیرہ سونپا۔ ایک بڑی کسان ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واج��ئی کا ذکر کیا جن کا حال ہی میں انتقال ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے تین ریاست اتراکھنڈ، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ بنائے تھے ۔ ترقی سے متعلق ان کے ویژن کے پیش نظر آج یہ سبھی ریاستیں تیز رفتار ترقی کر رہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت ترقی کے تئیں عہد بستہ ہے اور لوگوں کی خواہشات پورا کرنے کی خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہوہ لوگوں کی زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ حکومت ووٹ بینک بنانے اور انتخاب جیتنے کے لیے اسکیم چلانے میں یقین نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد ایک نیا اور جدید چھتیس گڑھ بنانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سب کا ساتھ سب کی ترقی کے ساتھ ہمارا مشن جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویلیو ایڈیشن کے ذریعے وہ کسانوں کے فائدے کو یقینی بنانے کی غرض سے کڑی مشقت کر رہے ہیں۔ پردھان منتری کسان سمپدا یوجنا اس مشن میں کسانوں کے لیے مدد گار ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مشن کے طور پر بیت الخلاء کی تعمیر کا کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجولا یوجنا کے تحت غریبوں کو گیس کنکشن دیئے گئے ہیں اور اب سوبھاگیہ یوجنا کے تحت ہر ایک گھر میں بجلی کا کنکشن یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,চত্তীশগড়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীঃ জঞ্জগিৰ-চম্পাত কৃষক সন্মিলনত ভাষণ প্ৰদান; একাধিক গুৰুত্বপূৰ্ণ প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%8C%D9%84%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%8C-%D9%85%DB%8C%DA%AF%DA%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-2450-%DA%A9%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%98%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شیلانگ، میگھالیہ میں آج 2450 کروڑ روپے سے زیادہ کے متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا، افتتاح کیا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا۔ اس سے پہلے دن میں، وزیر اعظم نے شیلانگ میں اسٹیٹ کنونشن سینٹر میں شمال مشرقی کونسل کی میٹنگ میں شرکت کی اور اس کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شریک ہوئے۔ متعدد پروجیکٹوں میں 320 مکمل اور 890 زیر تعمیر 4 جی موبائل ٹاورز کا افتتاح، اُمساولی میں آئی آئی ایم شیلانگ کا نیا کیمپس، شیلانگ – دینگ پاسوہ روڈ جو نئی شیلانگ سیٹلائٹ ٹاؤن شپ کو بہتر کنیکٹیویٹی فراہم کرے گی اور تینوں ریاستوں یعنی میگھالیہ، منی پور اور اروناچل پردیش میں چار دیگر سڑکوں کے پروجیکٹ شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے مشروم ڈیولپمنٹ سینٹر میں اسپان لیباریٹری اور میگھالیہ میں شہد کی مکھیاں پالنے کے مربوط ترقیاتی مرکز اور میزورم، منی پور، تریپورہ اور آسام میں 21 ہندی لائبریریوں کا بھی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے آسام، میگھالیہ، منی پور، میزورم اور تریپورہ کی ریاستوں میں چھ سڑک پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے تورا اور شیلانگ ٹیکنالوجی پارک فیز-II میں مربوط مہمان نوازی اور کنونشن سینٹر کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ میگھالیہ ایک ایسی ریاست ہے جو فطرت اور ثقافت کے لحاظ سے خوشحال ہے اور یہ خوشحالی لوگوں کی گرمجوشی اور خوش آئند فطرت سے ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے میگھالیہ کے باشندوں کو ریاست میں مزید ترقی کے لیے کنیکٹیویٹی، تعلیم، ہنر اور روزگار سے لے کر آئندہ اور نئے افتتاح کیے گئے متعدد پروجیکٹوں کے لیے مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے سب کی توجہ اس حسن اتفاق کی طرف مبذول کرائی کہ آج کی عوامی تقریب فٹبال کے میدان میں اس وقت ہو رہی ہے جب فٹبال کا ورلڈ کپ چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایک طرف فٹبال کے مقابلے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ہم فٹبال کے میدان میں ترقی کے مقابلے میں آگے ہیں۔ فٹبال کا ورلڈ کپ قطر میں ہونے کے باوجود یہاں کے لوگوں کا جوش و خروش کم نہیں ہے۔‘‘ فٹبال میں دکھائے جانے والے ریڈ کارڈ سے ایک ایسے شخص کو تشبیہ دیتے ہوئے جو اسپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف جاتا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے شمال مشرق کی ترقی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو سرخ کارڈ دکھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’چاہے وہ بدعنوانی ہو، امتیازی سلوک ہو، اقربا پروری ہو، تشدد ہو یا ووٹ بینک کی سیاست خطے کی ترقی میں خلل ڈالنے کے لیے، ہم ان تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے لگن اور ایمانداری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ اگرچہ اس طرح کی برائیاں بہت گہری ہیں لیکن ہمیں ان میں سے ہر ایک کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کھیلوں کی ترقی پر زور دینے پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت ایک نئے نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے فوائد شمال مشرقی علاقوں میں بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی پہلی اسپورٹس یونیورسٹی کے علاوہ شمال مشرقی خطہ کثیر مقصدی ہال، فٹ بال کا میدان اور ایتھلیٹکس ٹریک جیسے متعدد بنیادی ڈھانچے سے لیس ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے نوے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ وزیر اعظم نے یقین دہانی کے ساتھ کہا کہ اگرچہ ہم قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ میں کھیلنے والی بین الاقوامی ٹیموں کو دیکھ رہے ہیں، لیکن وہ نوجوانوں کی طاقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور کہا کہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان بھی اس طرح کے جشن کا اہتمام کرے گا اور ہر ہندوستانی بھی ہماری ٹیم کی حوصلہ افزائی کرے گا جو اس میں حصہ لے گی۔ ’’ترقی صرف بجٹ، ٹینڈرز، سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح تک محدود نہیں ہے‘‘، وزیر اعظم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2014 سے پہلے ایسا ہی معمول تھا، ’’آج ہم جس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ہمارے ارادوں میں تبدیلی، عہد، ترجیحات اور ہمارے کام کے کلچر کا نتیجہ ہے۔ نتائج ہمارے عمل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’ارادہ جدید انفراسٹرکچر، جدید کنیکٹیویٹی کے ساتھ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کرنا ہے۔ سب کا پریاس (سب کی کوششوں) کے ذریعے تیز رفتار ترقی کے مقصد سے ہندوستان کے ہر علاقے اور طبقے کو جوڑنے کا ارادہ ہے۔ ترجیح محرومیوں کو دور کرنا، فاصلوں کو کم کرنا، استعداد کار میں اضافہ کرنا اور نوجوانوں کو زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ اور ورک کلچر میں تبدیلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہر پروجیکٹ اور پروگرام کو مقررہ وقت میں مکمل کیا جائے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ مرکزی حکومت اس سال صرف بنیادی ڈھانچے پر 7 لاکھ کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے، جبکہ 8 سال پہلے یہ خرچ 2 لاکھ کروڑ روپے سے کم تھا۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ جب بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کی بات آتی ہے تو ریاستیں اپنے اندر مقابلہ کر رہی ہیں۔ شمال مشرق میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے شمال مشرق کے تمام دارالحکومتوں بشمول شیلانگ کو ریل سروس سے جوڑنے اور ہفتہ وار پروازوں کی تعداد جو 2014 سے پہلے 900 تھی، اسے بڑھا کر آج 1900 تک کرنے والے تیز رفتار کام پر روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ اڑان اسکیم کے تحت میگھالیہ میں 16 روٹس پر پروازیں چل رہی ہیں اور نتیجہ میگھالیہ کے لوگوں کے لیے سستا ہوائی کرایہ ہے۔ میگھالیہ اور شمال مشرق کے کسانوں کو ہونے والے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ یہاں اگائے جانے والے پھل اور سبزیاں کرشی اڑان اسکیم کے ذریعے ملک اور بیرون ملک کے بازاروں تک آسانی سے دستیاب ہیں۔ وزیر اعظم نے سب کی توجہ ان کنیکٹیوٹی پروجیکٹوں کی طرف مبذول کرائی جن کا آج افتتاح کیا گیا ہے اور بتایا کہ میگھالیہ میں قومی شاہراہ کی تعمیر پر گزشتہ 8 سالوں میں 5 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں جبکہ میگھالیہ میں پردھان منتری سڑک یوجنا کے تحت گزشتہ 8 سالوں میں دیہی سڑکوں کی تعمیر کی تعداد پچھلے 20 سالوں میں بنائی گئی سڑکوں کی تعداد کے مقابلے سات گنا زیادہ ہے۔ شمال مشرق کے نوجوانوں کے لیے بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ 2014 کے مقابلے شمال مشرق میں آپٹیکل فائبر کوریج میں 4 گنا اور میگھالیہ میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطہ کے ہر حصے تک موبائل کنیکٹیویٹی پہنچانے کے لیے 5 ہزار کروڑ کی لاگت سے 6 ہزار موبائل ٹاور لگائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے زور دے کرکہا، ’’یہ بنیادی ڈھانچہ میگھالیہ کے نوجوانوں کو نئے مواقع فراہم کرے گا۔‘‘ تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں، وزیر اعظم نے کہا کہ آئی آئی ایم اور ٹیکنالوجی پارک کی تعلیم کے ساتھ، خطے میں کمائی کے مواقع بڑھیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شمال مشرق میں 150 سے زیادہ ایکلویہ اسکولوں کی تعمیر کا کام چل رہا ہے جن میں سے 39 میگھالیہ میں ہیں۔ وزیر اعظم نے پروت مالا اسکیم کی مثال دی جو روپ ویز کا جال بنا رہی ہے اور پی ایم ڈیوائن اسکیم جو بڑے ترقیاتی منصوبوں کی آسانی سے منظوری کو یقینی بنا کر شمال مشرق کی ترقی کو ایک نئی تحریک دینے والی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’پی ایم ڈیوائن کے تحت اگلے 4-3 سالوں کے لیے 6000 کروڑ روپے کا بجٹ طے کیا گیا ہے۔‘‘ شمال مشرق کی سابقہ حکومتوں کے ’تقسیم‘ والے نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت ’خدائی‘ ارادوں کے ساتھ آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’خواہ وہ مختلف کمیونٹیز ہوں، یا مختلف علاقے، ہم ہر قسم کی تقسیم کو دور کر رہے ہیں۔ آج، شمال مشرق میں، ہم تنازعات کی سرحدوں پر نہیں بلکہ ترقی کی راہداریوں کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں۔‘‘ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 8 سالوں میں بہت سی تنظیموں نے تشدد کا راستہ ترک کر کے مستقل امن میں پناہ لی ہے۔ شمال مشرق میں افسپا کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کی مدد سے حالات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں جبکہ ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعات کو بھی حل کیا جا رہا ہے جو دہائیوں سے چلے آ رہے تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ شمال مشرق، سرحد پر صرف ایک سرحدی علاقے کے بجائے سلامتی اور خوشحالی کا دروازہ ہے۔ وزیر اعظم نے متحرک گاؤں کی اسکیم کی وضاحت کی جس کے تحت سرحدی دیہاتوں کو بہتر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دشمن کو فائدہ پہنچنے کے خدشے کے پیش نظر سرحدی علاقوں میں کنیکٹیویٹی کو پھیلانے کا کام نہیں کیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم نے ��ہا، ’’آج ہم دلیری سے سرحد پر نئی سڑکیں، نئی سرنگیں، نئے پل، نئی ریلوے لائنیں، اور فضائی پٹی بنا رہے ہیں۔ ویران سرحدی دیہات کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ ہمارے شہروں کے لیے جس رفتار کی ضرورت ہے وہ ہماری سرحد کے لیے بھی ضروری ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے تقدس مآب پوپ کے ساتھ اپنی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے آج انسانیت کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا اور ان سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے اتفاق رائے پر پہنچے۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’ہمیں اس جذبے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ حکومت کی طرف سے اپنائی گئی امن اور ترقی کی سیاست پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا ہمارا قبائلی معاشرہ ہے۔ قبائلی معاشرے کی روایت، زبان اور ثقافت کو برقرار رکھتے ہوئے قبائلی علاقوں کی ترقی حکومت کی ترجیح ہے۔ بانس کی کٹائی پر پابندی کو ختم کرنے کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ اس سے بانس سے منسلک قبائلی مصنوعات کی تیاری کو تحریک ملی۔ انہوں نے بتایا، ’’شمال مشرق میں جنگلات سے حاصل کی جانے والی پیداوار کی قدر میں اضافے کے لیے 850 ون دھن کیندر قائم کیے گئے ہیں۔ بہت سے سیلف ہیلپ گروپس ان کے ساتھ منسلک ہیں، جن میں سے اکثر کا تعلق ہماری بہنوں سے ہے۔‘‘ جناب مودی نے کہا کہ گھر، پانی اور بجلی جیسے سماجی بنیادی ڈھانچے سے شمال مشرق کو بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں 2 لاکھ نئے گھرانوں کو بجلی کا کنکشن ملا ہے۔ غریبوں کے لیے 70 ہزار سے زائد گھروں کی منظوری دی گئی اور 3 لاکھ گھرانوں کو پائپ سےپانی کے کنکشن ملے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قبائلی خاندان ان سکیموں سے سب سے زیادہ مستفید ہوئے ہیں۔ اپنے خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے خطے کی ترقی کی مسلسل رفتار کی خواہش کی اور لوگوں کی دعاؤں کو تمام توانائی کی بنیاد قرار دیا جو شمال مشرق کی ترقی میں لگائی جا رہی ہے۔ انہوں نے آنے والے کرسمس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ جناب کونراڈ کے سنگما، میگھالیہ کے گورنر، بریگیڈیئر (ڈاکٹر) بی ڈی مشرا (ریٹائرڈ)، مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ، مرکزی وزراء جناب جی کشن ریڈی، جناب کرن رجیجو اور سربانند سونووال، مرکزی وزیر مملکت جناب بی ایل ورما، منی پور کے وزیر اعلیٰ جناب این بیرن سنگھ، میزورم کے وزیر اعلیٰ جناب زورم تھنگا، آسام کے وزیر اعلی جناب ہمنتا بسوا شرما، ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ جناب نیفیو ریو، سکم کے وزیر اعلیٰ جناب پریم سنگھ تمانگ، اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب پیما کھنڈو اور تریپورہ کے وزیر اعلیٰ جناب مانک ساہا اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر ایک قدم کے طور پر جو خطے میں ٹیلی کام کنیکٹیویٹی کو مزید فروغ دے گا، وزیر اعظم نے قوم کے نام 4 جی موبائل ٹاورز وقف کیے، جن میں سے 320 سے زیادہ مکمل ہو چکے ہیں اور تقریباً 890 زیر تعمیر ہیں۔ انہوں نے امساولی میں آئی آئی ایم شیلانگ کے نئے کیمپس کا افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے شیلانگ – دینگپاسوہ روڈ کا بھی افتتاح کیا، جو شیلانگ کے نئے سیٹلائٹ ٹاؤن شپ کو بہتر رابطہ فراہم کرے گا اور شیلانگ کو جام سے نجات دلائے گا۔ انہوں نے تین ریاستوں میگھالیہ، منی پور اور اروناچل پردیش میں چار دیگر سڑک پروجیکٹوں کا بھی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے میگھالیہ میں مشروم ڈیولپمنٹ سینٹر میں اسپان لیباریٹری کا افتتاح کیا تاکہ مشروم کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور کسان��ں اور کاروباریوں کو ہنر کی تربیت بھی فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے میگھالیہ میں شہد کی مکھیوں کے پالنے والے کاشتکاروں کے ذریعہ معاش کو بہتر بنانے کے لیے مربوط مکھی پالنے کے ترقیاتی مرکز کا بھی افتتاح کیا۔ انہوں نے میزورم، منی پور، تریپورہ اور آسام میں 21 ہندی لائبریریوں کا بھی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے آسام، میگھالیہ، منی پور، میزورم اور تریپورہ کی ریاستوں میں چھ سڑک پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے تورا اور شیلانگ ٹیکنالوجی پارک فیز–II میں مربوط مہمان نوازی اور کنونشن سینٹر کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ ٹیکنالوجی پارک فیز–II میں تقریباً 1.5 لاکھ مربع فٹ کا تعمیر شدہ رقبہ ہوگا۔ یہ پیشہ ور افراد کے لیے نئے مواقع فراہم کرے گا اور توقع ہے کہ 3000 سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ انٹیگریٹڈ ہاسپیٹلیٹی اینڈ کنونشن سینٹر میں کنونشن ہب، گیسٹ رومز، فوڈ کورٹ وغیرہ ہوں گے۔ یہ سیاحت کو فروغ دینے اور خطے میں ثقافتی ورثے کی نمائش کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ فراہم کرے گا۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মেঘালয়ৰ শ্বিলঙত ২৪৫০ কোটি টকাৰ অধিক মূল্যৰ একাধিক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে, উদ্বোধন কৰে আৰু দেশবাসীলৈ উৎসৰ্গা কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D9%86%D8%AA-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D9%BE%D8%A7%D9%84%DA%A9%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%AE-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC/,پنڈھر پور میں عقیدت مندوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کوشش کے تحت وزیر اعظم جناب نریندر مودی 8 نومبر 2021 کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شری سنت دنیشور مہاراج پالکھی مارگ ،قومی شاہراہ نمبر 965 کے پانچ سیکشنوں اور شری سنت تُکارام مہاراج پالکھی مارگ ، قومی شاہرہ نمبر 965 جی کے تینسیکشنوں کوچار لین کا بنانے کیلئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان قومی شاہراہوں کے دونوں طرف 'پالکھی' کے لئے مخصوص راستے بنائے جائیں گے جو عقیدت مندوں کو بے خلل اور محفوظ راستہ فراہم کریں گے۔ دیوے گھاٹ سے موہول تک سنت دنیشور مہاراج پالکھی مارگ کا تقریباً 221 کلومیٹراور پٹاس سے ٹونڈلے – بونڈلے تک سنت تُکارام مہاراج پالکھی مارگ کا تقریباً 130 کلومیٹر کے راستے چار لینوالے ہوں گے جن کے دونوں اطراف میں 'پالکھی' کے لئے پیدل چلنے کے مخصوص راستے ہوں گے۔ ان پر بالترتیب 6690 کروڑ روپے سے زیادہ اور تقریباً 4400 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ تقریب کے دوران وزیراعظم پنڈھارپور سے رابطے کو بڑھانے کے لئے مختلف قومی شاہراہوں پر زائد از 223 کلومیٹر کے مکمل اور اپ گریڈ شدہ سڑکوں کے پروجیکٹوں کو بھی قوم کے نام وقف کریں گے۔ ان کی تعمیر پر 1180 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت آئی ہے۔ ان پروجیکٹوں میں مہاسواد – پیلیو – پنڈھر پور (قومی شاہراہ نمبر 548 ای)، کردوواڑی – پنڈھرپور (قومی شاہراہ نمبر 965 سی)، پنڈھرپور – سنگولا (قومی شاہراہ نمبر 965 سی)، قومی شاہراہ نمبر 561 اے اور قومی شاہراہ نمبر 561 اے کے تیمبھرنی-پنڈھر پور سیکشن اور قومی شاہراہ نمبر 561 اے کے پنڈھر پور – منگل ویدھا – اُمادی سیکشن شامل ہیں۔ اس موقع پر روڈ ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ موجود ہوں گے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ৮ নৱেম্বৰত শ্ৰী সন্ত জ্ঞানেশ্বৰ মহাৰাজ পালখী মাৰ��গ আৰু শ্ৰী সন্ত তুকাৰাম মহাৰাজ পালখী মাৰ্গৰ প্ৰধান খণ্ডসমূহক চাৰি লেন বনোৱাৰ কামৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C%DA%AF%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D9%84%DA%86%D8%B1%D9%84-%D8%B1%DB%8C%D8%B3%D8%B1%DA%86%D8%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6-3/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی میں پی ایم کسان سمان سمیلن کا افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے کیمکلز اور فرٹیلائزر کی وزارت کے تحت چھ سو پردھان منتری کسان سمردھی کیندوں (پی ایم کے ایس کے ) کا فتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے اس کے علاوہ پردھان منتری بھارتیہ جن اروارک پری یوجنا۔ ایک ملک ایک فرٹیلائزر کا بھی آغاز کیا۔ تقریب کے دوران وزیر اعظم نے براہ راست فائدوں کی منتقلی کے ذریعہ کسان منتری کسان سمان ندھی (پی ایم۔ کسان) کے تحت سولہ ہزار کروڑ روپے کی بارہویں قسط بھی جاری کی۔ وزیر اعظم نے ایگری اسٹارٹ اپ اینڈ کنکلیو اور ایگزبیشن کا بھی افتتاح کیا۔ تقریب کے دوران وزیر اعظم نے فرٹیلائزر سے متعلق ایک ای میگزین انڈین ایج کا اجراء بھی کیا۔ جناب مودی نے اسٹارٹ اپ ایگزیبیشن کے تھیم پویلین کا بھی جائزہ لیا اور نمائش کے لئے رکھی گئی مصنوعات کو دیکھا۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک ہی چھت تلے جے جوان، جے کسان، جے وگیان، جے انوسندھان کی موجودگی کا ذکرکیا اور کہا کہ ہم آج اس منترا کو عملی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسان سمیلن کسانوں کی زندگی کو آسان بنانے ان کی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور جدید ترین زرعی تکنیک کے فروغ کا ایک ذریعہ ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ چھ سو سے زیادہ پردھان منتری سمردھی کیندروں کا آج افتتا ح کیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ کیندر نہ صرف یہ کہ فرٹیلائزر فروخت کرنے کے مراکز ہیں بلکہ ملک کے کسانوں کے ساتھ ایک گہرے تعلق قائم کرنے کا میکنزم ہیں۔ پردھان منتری کسان سمان ندھی کی تازہ قسط کے بارے میں جناب مودی نے کہا کہ یہ رقم بنا کسی بچولئے کے براہ راست کسانوں کے کھاتوں میں جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کروڑوں کسان کنبوں کے لئے سولہ ہزار کروڑ روپے کی ایک اور قسط پردھان منتری کسان سمان ندھی کے طور پر جاری کی گئی ہے اور انھوں نے اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ یہ قسط دیوالی سے بلکل پہلے کسانوں کے پاس پہنچ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آج پردھان منتری بھارتیہ جن اروارک پری یوجنا۔ ایک ملک ایک فرٹیلائزر کا بھی آغاز ہوا ہے جو کسانوں کو بھارت برانڈ کی معیاری فرٹیلازر کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کی اسکیم ہے۔ 2014 سے پہلے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے جب کسانوں کو پریشان کن زرعی شعبے سے نمٹنا پڑتا تھا اور یوریا کی کالا بازاری عام تھی تو کسانوں کو اپنے حق کے لئے بھی تکلیفیں اٹھانا پڑتی تھیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے یوریا کی کالابازاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے سو فی صد نیم کو ٹنگ کا آغاز کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے برسوں سے بند پڑی ملک کی چھ سب سے بڑی یوریا کمپنیوں کو پھر سے کھلوانے کے لئے سخت محنت کی۔ ان اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے جن سے کسانوں کو بے انتہا فائدے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کہا کہ ہندوستان رقیق نینو یوریا پیداوار میں خود کفالت کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جناب م��دی نے کہا کہ نینو یوریا کم لاگت سے زیادہ پیداوار کا ذریعہ ہے۔ اس کے فائدے بتاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج پورے ایک بورا یوریا کا متبادل نینو یوریا کی ایک بوتل ہے۔ انھوں نے کہا کہ یوریا کی نقل وحمل کی لاگت میں زبردست کمی آئے گی۔ وزیر اعظم نے ہندوستان میں فرٹیلائزر اصلاحات کے دو نئے اقدامات کا ذکر کیا۔ پہلا یہ کہ آج ایک قدم اٹھایا گیا ہے کہ 3.25 لاکھ سے زیادہ فرٹیلائزر دوکانوں کو پردھان منتری کسان سمردھی کیندروں میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ یہ وہ مراکز ہوں گے جہاں کسان نہ صرف فرٹیلائزر اور بیج خرید سکیں گے بلکہ مٹی کی جانچ بھی کراسکیں گے اور زرعی تکنیک کے بارے میں سود مند معلومات بھی حاصل کریں سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ ایک ملک ایک فرٹیلائزر کے ذریعہ کسانوں کو فرٹیلازر کے معیار اور اس کی دستیابی سے متعلق الجھنوں سے نجات ملے گی۔ اب ملک میں فروخت ہونے والا یوریا ایک ہی نام ایک ہی برانڈ ایک ہی معیار کا ہوگا اور یہ برانڈ ہے۔ بھارت۔ اب پورے ملک میں یوریا بھارت برانڈ کا ہی ملے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے فرٹیلائزر کی قیمت کم ہوگی اور اس کی دستیابی بڑھے گی۔ ٹیکنالوجی پر مبنی جدید طور طریقوں کے استعمال پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں زراعت میں نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے اور کھلے دماغ ہے نئی ٹیکنالوجی کو قبول کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ اب تک 22 کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ تقسیم کئے جاچکے ہیں اور گزشتہ سات آٹھ برسوں میں کسانوں کو بیجوں کی 1700 ایسی نئی قسمیں دستیاب کرائی گئی ہیں جو آب وہوا کی تبدیل شدہ صورتحال کے مواقف ہیں۔ وزیر اعظم نے عالمی سطح پر باجرے میں بڑھتی دلچسپی کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ آج ملک میں ایسے بہت سے مراکزی بنائے جارہے ہیں جہاں روایتی موٹے اناجوں کےبیجوں کا معیار بہتر کیا جارہا ہے اور باجرہ بھی اس کی مثال ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کے موٹے اناجوں کو مقبول بنانے کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے مطلع کیا کہ اگلا سال موٹے اناجوں کے بین الاقوامی سال کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے آبپاشی کے لئے پانی کے بے جا استعمال کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس جانب کئی اقدامات کررہی ہے مثلا ہر بوند پہ زیادہ فصل، مائیکرو اریگیشن اور ڈرپ آبپاشی وغیرہ۔ 70 لاکھ ہیکٹیئرز سے زیادہ زمین کو گزشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران مائیکروں آبپاش کے تحت لایا گیا ہے۔ قدرتی کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے مطلع کیا کہ یہ مستقبل کی آزمائشوں کو حل کرنے کا معقول وسیلہ ہے ۔ گجرات، ہماچل پردیش اور آندھراپردیش اور یوپی کے کسان اس پر کام کررہے ہیں۔ گجرات میں اس پر ضلع اور پنچایت سطح پر بھی کام ہورہا ہے۔ پی ایم کسان کے انقلابی اقدام کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پی ایم کسان سمان ندھی اس بات کی نظیر ہے کہ کس طرح چھوٹے کسان جدید ٹیکنالوجی سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس اسکیم کے آغاز کے بعد سے دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقومات کسانوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست پہنچائی گئی ہیں۔ ملک کے 85 فیصد چھوٹے کسان ہیں ان کے لئے یہ ایک بڑی مدد ہے۔ ہمارے کسانوں کی زندگی میں آسانی لانے کے اقدام کے طور پر بہتراور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہم کسان اور مارکیٹ کے درمیان کے فاصلے کو کم کررہے ہیں۔ اس کا زیادہ فائدہ بھی چھوٹے کسانوں کو پہنچے گا جو جلد خراب ہوجانے والی اشیاء مثلا پھلوں، ترکاریوں، دودھ اور مچھلی سے جڑا ہوا ہے۔ کسان ریل اور کرشی اڑان سروس بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔ یہ جدید طریقے آج کسانوں کے کھیتوں کو ملک بھر کے شہروں سے جوڑرہے ہیں اور بیرون ملک بھی پہنچارہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہندوستان زرعی برآمدات کے معاملے میں دنیا کے دس سرکردہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر میں عالمی وباء کے باوجود برآمدات میں اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک ضلع ایک پیداوار اسکیم کے تحت ان اقدامات کو مضبوط کیا جارہا ہے اور ضلع کی سطح پر برآمداتی مراکز قائم کئے جارہے ہیں۔ بڑے فوڈ پارکوں کی تعداد دو سے بڑھ کر 23ہوگئی ہے۔ e-NAM نے کسانوں کی نزدگی پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ وزیر اعظم نے مطلع کی اکہ 1.75 کروڑ سے زیادہ کسانوں اور 2.5 لاکھ سے زیادہ کاروباریوں کو e-NAM سے جوڑا جاچکا ہے۔ e-NAM کے ذریعہ لین دین دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ تک پہنچ گیا ہے۔ ملک میں زرعی شعبے میں اسٹارٹ اپس کی بڑھتی تعداد پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ زرعی شعبے اور دیہی معیشت کی فروغ کے لئے اہم ہے ۔ جناب مودی نے کہا کہ اسٹارٹ اپس اور اختراع کار نوجوان ہندوستانی زراعت کا مستقبل ہیں۔ لاگت سے نقل وحمل تک ہمارے اسٹارٹ اپس کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ آتم نربھرتا پر اپنے مسلسل اصرار کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ خوردنی تیل، کھاد اور خام تیل جیسی اہم مصنوعات بھاری مالیاتی اخراجات آتے ہیں اور یہ اور عالمی حالات سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں سپلائی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی اے پی اور دیگر کھادوں کی مثالیں دیں جن کی قیمتیں بے حد بڑھ گئیں اور ہندوستان کو یوریا جہاں 75-80 روپے فی کلو کے حساب سے خریدنا پڑا ہے وہیں یہ کسانوں کو 5-6 روپے فی کلو کے حساب سے فراہم کی جاتی رہی۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ حکومت اس سال بھی کسانوں کو سستی کھاد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے 2.5 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ انہوں نے خام تیل اور گیس کے حوالے سے غیر ملکی انحصار کو کم کرنے کی خاطر بائیو فیول اور ایتھنول کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا۔ اپنے خطبے کو مکمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ہندوستان کے کسانوں پر زور دیا کہ وہ مشن آئل پام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں جو کہ خوردنی تیل کے شعبے میں اتم نربھرتا حاصل کرنے کی رُخ پر اٹھایان جانے والا قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تیل کے بیجوں کی پیداوار میں اضافہ کرکے ہندوستان خوردنی تیل کی کھپت کو کم کرسکتا ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ اس میدان میں ہمارے کسانوں کی قابلیت کہیں زیادہ ہے۔ دالوں کی پیداوار کے حوالے سے 2015 میں اپنی پکار کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے دالوں کی پیداوار میں 70 فیصد اضافے پر خوشی کا اظہار کیا اور کسانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس تمہید کے ساتھ کہ ہم آزادی کے امرت مہوتسو میں زراعت کو پُرکشش اور خوش حال بنائیں گے وزیر اعظم نے تمام کسانوں اور نئی صنعتوں کے حق میں نیک خواہشات کے ساتھ اپنے خطبہ مکمل کیا۔ اس موقع پر زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر، کیمیکل اور کھاد کے مرکزی وزیر جناب من سکھ مانڈویہ، زراعت اور کسانوں کی بہبود کی مرکزی وزیر مملکت محترمہ شوبھا کرندلاجے اور جناب کیلاش چودھری کے علاوہ کیمیکل اور کھاد کے مرکزی وزیر مملکت جناب بھگوانت کھوبا بھی موجود تھے۔ پس منظر اس تقریب نے ملک ��ھر سے 13,500 سے زیادہ کسانوں اور تقریباً 1500 نئی زرعی صنعتوں کو اکٹھا کیا ہے۔ تقریب میں مختلف اداروں کے ایک کروڑ سے زیادہ کسانوں کی شرکت متوقع ہے۔ محققین، پالیسی ساز اور دیگر ذمہ داران بھی سمیلن میں شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم نے کیمیکل اور کھاد کی وزارت کے تحت 600 پردھان منتری کسان سمردھی کیندروں (پی ایم کے ایس کے) کا افتتاح کیا۔ اس اسکیم کے تحت ملک میں کھاد کی خوردہ دکانوں کو مرحلہ وار پی ایم کے ایس کے میں تبدیل کیا جائے گا۔ پی ایم کے ایس کے کے ذریعہ کسانوں کی وسیع اقسام کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا اور زرعی سامان (کھاد، بیج، آلات)، مٹی، بیج، اور کھاد کے لئے جانچ کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ نیز کسانوں میں بیداری پیدا کرنے کے علاوہ مختلف سرکاری اسکیموں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی۔ ساتھ ہی بلاک/ضلع سطح کے آؤٹ لیٹس پر خوردہ فروشوں کی مستقل استعداد کار کو یقینی بنایا جائے گا۔ کھاد کی 3.3 لاکھ سے زیادہ دکانوں کو پی ایم کے ایس کے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ وزیر اعظم نے پردھان منتری بھارتیہ جن اروارک پریوجنا – ایک ملک ایک کھاد کا بھی آغاز کیا۔ اس اسکیم کے تحت وزیر اعظم بھارت یوریا بیگز لانچ کریں گے جس سے کمپنیوں کو واحد برانڈ نام ’بھارت‘ کے تحت کھاد کی مارکیٹنگ میں مدد ملے گی۔ کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وزیر اعظم کے مسلسل عزم کی عکاسی کرتے ہوئے تقریب کے دوران وزیر اعظم نے پردھان منتری کسان سمان ندھی (پی ایم-کسان) کے تحت براہ راست بینیفٹ ٹرانسفر کے ذریعے 16,000 کروڑ روپے کی 12 ویں قسط کی رقم بھی جاری کی۔ اس اسکیم کے تحت اہل کسان خاندانوں کو فی خاندان 2000 روپے کی مساوی اقساط میں ہر سال 6000 روپے کے فوائد فراہم کئے جاتے ہیں۔ اب تک اہل کسان خاندانوں کو پی ایم کسان کے تحت 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے فوائد مل چکے ہیں۔ وزیراعظم نے ایگری اسٹارٹ اپ کانکلیو اور نمائش کا بھی افتتاح کیا۔ اس میں تقریباً 300 نئی صنعتیں اپنی جدت طرازی کا مظاہرہ کریں گی جن کا تعلق منجملہ اور چیزوں کے درست کاستکاری، فصل کے بعد اور قدر کی افزونی کے معملات سلجھانے، متعلقہ زراعت، کچرے سے منافع کشید کرنے، چھوٹے کسانوں کے لیے میکانائزیشن، سپلائی چین مینجمنٹ، اور زرعی لاجسٹک سے ہے۔ یہ پلیٹ فارم نئی صنعتوں کو کسانوں، ایف پی اوز، زرعی ماہرین، کارپوریٹ اداروں وغیرہ کے ساتھ بات چیت کرنے میں سہولت فراہم کرے گا۔ نئی صنعتیں اپنا تجربہ بھی شیئر کریں گی اور تکنیکی سیشنز میں دوسرے ذمہ داران کے ساتھ بات چیت کریں گی۔ اس تقریب کے دوران وزیر اعظم نے کھاد سے متعلق ایک ای میگزین ’انڈین ایج‘ کا بھی اجرا کیا۔ یہ رسالہ ملکی اور بین اقوامی کھاد کے منظرناموں کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔ اس میں حالیہ پیش رفت، قیمت کے رجحانات کا تجزیہ، دستیابی اور کھپت کے علاوہ کسانوں کی کامیابی کی کہانیاں شامل ہوں گی۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে নতুন দিল্লীৰ ভাৰতীয় কৃষি গৱেষণা প্ৰতিষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰী কিষাণ সন্মান সন্মিলন ২০২২ উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DA%A9-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE/,نئی دہلی، 13 فروری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج کینیا کے سابق وزیر اعظم عزت مآب ریلا امولو اوڈنگا سے ملاقات کی، جو ایک نجی دورے کے تحت فی الحال بھارت میں ہیں ۔ دونوں قائدین نے دہائیوں قدیم دوستانہ نجی تعلقات ساجھا کیے۔ وزیر اعظم مودی نے تقریباً ساڑھے تین برسوں بعد جناب اوڈنگا سے ملاقات ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم مودی نے 2008 سے جناب اوڈنگا کے ساتھ متعدد مرتبہ ہوئی گفت و شنید اور 2009 اور 2012 میں فعال گجرات سربراہ ملاقات کے لیے موصوف کی حمایت کا ذکر کیا۔ دونوں قائدین نے باہمی مفادات پر مبنی دیگر موضوعات پر بھی تبادلہ خیالات کیے۔ وزیر اعظم نے بھارت۔کینیا تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے اپنی عہدبستگی کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم مودی نے جناب اوڈنگا کو ان کی بہتر صحت اور مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک ترین خواہشات بھی پیش کیں۔,কেনীয়াৰ প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী মহামহিম ৰেইলা অমলো অডিংগাৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সাক্ষাত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A8%DB%8C-%D9%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%86/,نئیدہلی۔24؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے، آئی ٹی بی پی کے یوم تاسیس کے موقع پر، آئی ٹی بی پی کنبے کو مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے تہنیتی پیغام میں ،وزیراعظم نے کہا ہے کہ آئی ٹی بی پی کنبے کو ،ان کے یوم تاسیس پر مبارکباد ۔ اس فورس نے، اپنی شجاعت اور انسانیت نواز روایات کی بنیاد پر، اپنا ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ آئی ٹی بی پی ہمالیائی علاقوں سے خاص طور پر قریب رہ کر اپنے فرائض انجام دیتی ہے اور اعلیٰ طول البلد آپریشنوں میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔۔ع ن۔ 24-10-2017,প্ৰতিষ্ঠা দিবস উপলক্ষে আইটিবিপিক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/2021-%D8%A8%DB%8C%DA%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A2%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%86%DB%8C%D8%B2-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%AB%E0%A6%8F%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A7-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95/,انڈین فارن سروس (آئی ایف ایس) کے 2021 بیچ کے آفیسر ٹرینیز نے آج 7، لوک کلیان مارگ میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی۔ ایک بے تکلفانہ اور غیر رسمی اندازمیں وزیر اعظم نے سروس جوائن کرنے پر آئی ایف ایس آفیسر ٹرینیز کو مبارکباد دی اور کہا کہ اب انہیں عالمی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کرنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے ان کے ساتھ سروس جوائن کرنے کی وجہ کے بارے میں بات چیت کی۔ موٹے اناج کے بین الاقوامی سال 2023 کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے تفصیل سے بات کی کہ وہ کس طرح جوار باجرے کو مقبول بنانے میں تعاون کرسکتے ہیں تاکہ ہمارے کسانوں کو فائدہ ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ موٹا اناج (ملیٹس) کس طرح ماحول دوست ہے اور صحت کے لیے بھی فائدے مند ہے۔ انہوں نے لائف (لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ) کا بھی ذکرکیا اور بتایا کہ کس طرح ماحولیات کے فائدے کے لیے اپنے طرز زندگی میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ آفیسر ٹرینیز نے پنچ پران کے بارے میں بات چیت کی جن پر اس سال کے یوم آزادی کی تقریر میں وزیراعظم نے زور دیا تھا اور بتایا کہ کس طرح آئی ایف ایس افسر ان ان کے حصول میں تعاون کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے آفیسر ٹرینیز سے آئندہ 25 برسوں کے لیے سوچنے اور طویل مدتی منصوبہ تیار کرنے کی اپیل کی کہ وہ کس طرح اس مدت کے دوران ترقی کر سکتے ہیں اور ملک کی ترقی کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,আইএফএছ ২০২১ বেটছৰ প্ৰশিক্ষাৰ্থী বিষয়াসকলে প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D9%88%D8%AA%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%A5%E0%A6%B2-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نمسکار، تاریخی اور عالمی ورثہ لوتھل میں آپ سب براہ راست موجود ہیں۔ میں ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت دور دہلی سے آپ سے جڑا ہوا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میں آپ سب کے درمیان ہوں۔ حال ہی میں، میں نے نیشنل میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس سے متعلق ڈرون کے کام دیکھے، ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ میں مطمئن ہوں کہ اس پروجیکٹ سے متعلق کام بہت تیزی سے جاری ہے۔ ساتھیو، اس سال لال قلعہ سے پنچ پران کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں نے اپنے ورثے پر فخر کی بات کی۔ اور اب ہمارے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ہمارا سمندری ورثہ ایک ایسا ہی عظیم ورثہ ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے سپرد کیا تھا۔ کسی بھی جگہ یا زمانے کی تاریخ آنے والی نسل کو متاثر بھی کرتی ہے اور مستقبل کے لیے بھی خبردار کرتی ہے۔ ہماری تاریخ کی ایسی بہت سی کہانیاں ہیں، جنہیں فراموش کر دیا گیا ہے، انہیں محفوظ کرنے اور آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے طریقے تلاش نہیں کیے گئے۔ ہم تاریخ کے ان واقعات سے کتنا کچھ سیکھ سکتے تھے ۔ ہندوستان کا سمندری ورثہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم بات ہوئی ہے۔ صدیوں پہلے ہندوستان کی تجارت اور کاروبار دنیا کے ایک بڑے حصے پر محیط تھا۔ ہمارے تعلقات دنیا کی ہر تہذیب کے ساتھ تھے تو اس کے پیچھے ہندوستان کی سمندری طاقت کا بڑا ہاتھ تھا۔ لیکن غلامی کے طویل دور نے نہ صرف ہندوستان کی اس صلاحیت کو توڑا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہندوستانی بھی اپنی اس صلاحیت سے لاتعلق ہوگئے۔ ہم بھول گئے کہ ہمارے پاس لوتھل اور دھولاویرا جیسا عظیم ورثہ ہے جو ہزاروں سال پہلے بھی سمندری تجارت کے لیے مشہور تھا۔ ہمارے جنوب میں چولا سلطنت، چیرا خاندان، پانڈیا خاندان بھی آئے جنہوں نے سمندری وسائل کی طاقت کو سمجھا اور اسے بے مثال عروج دیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی سمندری طاقت کو بڑھایا بلکہ اس کی مدد سے وہ تجارت کو دور دراز کے ممالک تک لے جانے میں بھی کامیاب رہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج نے بھی ایک مضبوط بحریہ تشکیل دی اور غیر ملکی حملہ آوروں کو چیلنج کیا۔ یہ سب ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا قابل فخر باب ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں، ہزاروں سال پہلے کَچھ میں بڑے جہاز بنانے کی پوری صنعت چلتی تھی۔ ہندوستان میں بنائے گئے بڑے جہاز پوری دنیا میں فروخت کئے جاتے تھے۔ وراثت کے تئیں اس بے حسی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ہم نے ہندوستان کے فخر کے ان مراکز کو، دھولاویرا اور لوتھل کو واپس اسی شکل میں لے کر آنے کا فیصلہ کیا جس شکل میں وہ کبھی مشہور تھے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس مشن کو بہت تیزی سے پورا کیا جا رہا ہے۔ ساتھیو، آج جب میں لوتھل پر بحث کر رہا ہوں تو میری توجہ ان روایات کی طرف بھی مبذول ہو رہی ہے جو ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں۔ آج گجرات کے کئی علاقوں میں سکوتر ماتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ اسے سمندر کی دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے لوتھل پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت بھی سکوتر ماتا کی پوجا کسی نہ کسی شکل میں ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر میں آنے سے پہلے سکوتر دیوی کی پوجا کی جاتی تھی، تاکہ وہ اپنے سفر میں ان کی حفاظت کریں۔ مورخین کے مطابق سکوتر ماتا کا تعلق سوکوترا کے جزیرے سے ہے جو آج خلیج عدن میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھی خلیج کھمبات سے سمندری تجارتی راستے دور دور تک کھلے تھے۔ ساتھیو، حال ہی میں وڈ نگر کے قریب کھدائی کے دوران سکوتر ماتا کے مندر کا پتہ چلا ہے۔ کچھ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن سے قدیم زمانے میں یہاں سے سمندری تجارت کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ اسی طرح سریندر نگر کے جھنجھواڑہ گاؤں میں لائٹ ہاؤس ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ رات کو جہازوں کو راستہ دکھانے کے لیے لائٹ ہاؤس بنائے گئے تھے۔ اور ملک کے لوگ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ جھنجھواڑہ گاؤں سے سمندر تقریباً سو کلومیٹر دور ہے۔ لیکن اس گاؤں میں ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے اس گاؤں میں بہت مصروف بندرگاہ ہوا کرتی تھی۔ اس سے اس پورے خطے میں زمانہ قدیم سے سمندری تجارت کے پھلنے پھولنے کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ ساتھیو، لوتھل نہ صرف وادی سندھ کی تہذیب کا ایک بڑا تجارتی مرکز تھا بلکہ یہ ہندوستان کی سمندری طاقت اور خوشحالی کی علامت بھی تھا۔ لوتھل کو جس طرح سے ہزاروں سال پہلے ایک بندرگاہی شہر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، وہ آج بھی بڑے بڑے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لوتھل کی کھدائی میں پائے جانے والے شہر، بازار اور بندرگاہ کی باقیات اُس دور سے تعلق رکھنے والی شہری منصوبہ بندی اور فن تعمیر کے حیرت انگیز نظارے پیش کرتی ہیں۔ قدرتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جس قسم کا نظام یہاں تھا، اس میں آج کی منصوبہ بندی کے ماہرین کے لیے بھی بہت کچھ سیکھنے کو موجودہے۔ ساتھیو، ایک طرح سے، اس خطے کو دیوی لکشمی اور دیوی سرسوتی دونوں نے نوازا تھا۔ کئی ممالک سے تجارتی تعلقات کی وجہ سے یہاں پیسے کی ریل پیل بھی رہتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت لوتھل کی بندرگاہ پر 84 ممالک کے جھنڈے لہرائے جاتے تھے۔ اسی طرح قریبی علاقے میں موجوود ولّبھی یونیورسٹی دنیا کے 80 سے زیادہ ممالک کے طلباء کو وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی طرف راغب کرتی تھی۔ ساتویں صدی میں اس علاقے میں آنے والے چینی فلاسفروں نے بھی لکھا ہے کہ ولّبھی یونیورسٹی میں اس وقت 6 ہزار سے زیادہ طلبہ تھے۔ یعنی سرسوتی دیوی کا کرم بھی اس علاقہ پر اپنا سایہ کیا ہوا تھا۔ ساتھیو، لوتھل میں جو ہیریٹیج کمپلیکس بنایا جا رہا ہے اسے اس طرح بنایا جا رہا ہے کہ ہندوستان کے عام سے عام لوگ بھی اس تاریخ کو آسانی سے جان سکیں اور سمجھ سکیں۔ اس میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اسی دور کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہزاروں سال پہلے کی وہی شان و شوکت، وہی طاقت، اس زمین پر دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا ایک بہت بڑا مرکز بن جائے گا۔ یہ کمپلیکس روزانہ ہزاروں سیاحوں کے استقبال کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ جس طرح ایکتا نگر میں واقع اسٹیچو آف یونٹی ہر روز سیاحوں کے آنے کا ریکارڈ بنا رہا ہے، اسی طرح وہ دن دور نہیں جب ملک کے کونے کونے سے لوگ لوتھل کے اس ہیریٹیج کمپلیکس کو دیکھنے آئیں گے۔ اس سے یہاں ہزاروں نئے روزگار اور خود روزگار ی کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس علاقے کو اس بات کا بھی فائدہ ہوگا کہ یہ احمد آباد سے زیادہ دور نہیں ہے۔ مستقبل میں شہروں سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں آئیں گے، جس سے یہاں کی سیاحت میں اضافہ ہوگا۔ ساتھیو، اس خطے نے جو مشکل بھرے دن دیکھے ہیں میں اُنہیں کبھی نہیں بھولوں گا۔ ایک زمانے میں سمندر بھی پھیلا ہوا تھا، اس لیے بہت بڑے علاقے میں کوئی فصل پیدا کرنا مشکل تھا۔ آج سے 20-25 سال پہلے لوگوں نے یہاں کے وہ دن دیکھے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر سینکڑوں ایکڑ زمین کے لیے بھی کوئی قرض نہیں دیتا تھا۔ قرض دینے والا بھی کہتا تھا کہ زمین کا کیا کروں گا، زمین سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس دور سے آج ہم نے لوتھل اور اس پورے خطے کو باہر نکالا ہے۔ اور ساتھیو، لوتھل اور خطے کو اس کی ماضی کی شان و شوکت والے دور میں واپس لانے کے لیے ہماری توجہ صرف ورثے کے احاطے تک محدود نہیں ہے۔ آج گجرات کے ساحلی علاقوں میں جدید بنیادی ڈھانچے سے متعلق بے شمار کام ہورہے ہیں ، ساحلی علاقوں میں مختلف صنعتیں لگ رہی ہیں۔ ان منصوبوں پر لاکھوں کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ اب سیمی کنڈکٹر پلانٹ بھی یہاں کے افتخار میں مزید اضافہ کرے گا۔ ہماری حکومت اس علاقے کو دوبارہ اسی طرح ترقی یافتہ بنانے کے لیے پوری قوت سے کام کر رہی ہے جس طرح ہزاروں سال پہلے یہاں ترقی کی گئی تھی۔ جو لوتھل اپنی تاریخ کی وجہ سے ہمارے اندر فخر کے احساس کو اُبھارتا ہے ، وہی لوتھل اب آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارے گا۔ ساتھیو، میوزیم صرف چیزوں یا دستاویزات کو ذخیرہ کرنے اور ڈسپلے کرنے کا ایک ذریعہ نہیں ہے۔ جب ہم اپنے ورثے کی قدر کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے جذبات کو بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ جب ہم ملک بھر میں بنائے جانے والے ٹرائبل فریڈم فائٹر میوزیم کو دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے قبائلی بہادر مردو خواتین نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں کتنے بڑے پیمانے پر حصہ لیا ہے ۔ جب ہم نیشنل وار میموریل اور نیشنل پولیس میموریل دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ہمارے بہادر بیٹے اور بیٹیاں ملک کی حفاظت کرتے ہوئے، ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ جب ہم پرائم منسٹر میوزیم جاتے ہیں تو ہمیں جمہوریت کی طاقت کا پتہ چلتا ہے، ہمارے ملک کے 75 سال کے سفر کی جھلک ملتی ہے۔ کیوڑیہ، ایکتا نگر میں مجسمہ اتحاد ہمیں ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لیے کوششوں، سخت کوشی اور تپسیا کی یاد دلاتا ہے۔ اور آپ سب جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑا تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ اب کیوڑیا میں سردار پٹیل کا مجسمہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ سردار صاحب نے تمام بادشاہوں اور شہزادوں کو اکٹھا کرنے کا کام کیا، تو اسی طرح ملک کے بادشاہوں اور شہزادوں کو جنہوں نے ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لیے تخت حکومت قربان کردیئے، ان کے لئے بھی ہم ایک میوزیم بنا رہے ہیں۔ ابھی اس کی ڈیزائننگ کا کام جاری ہے، تحقیقی کام جاری ہے۔ جس کی وجہ سے شہزادے اور شہزادے کیسے ہوتے تھے، کیا کرتے تھے، انہوں نے ملک اور معاشرے کی بھلائی کے لیے کتنا کام کیا تھا، اور سردار صاحب کی قیادت میں ملک کی یکجہتی کے لیے کتنا کام کیا تھا؟ یعنی پورا ایک دور تھا جو ایکتا نگر میں دکھائی دیتا تھا۔ کوئی شہر میں جائے تو راجے-رجواڑوں سے لے کر سردار صاحب تک کے سفر میں ہندوستان کو کیسے متحد کیا گیا ، ان ساری معلومات کی فراہمی کے لئے کام وہاں ہو رہا ہے اور ساتھ ہی تحقیقی کام بھی ہو رہا ہے، مستقبل قریب میں تعمیراتی کام بھی شروع کیا جائے گا۔ گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے ملک میں جن وراثتوں کو ترقی دی ہے اُن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ورثے کی وسعت کتنی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوتھل میں تعمیر ہونے والا نیشنل میری ٹائم میوزیم بھی تمام ہندوستانیوں کو اپنے سمندری ورثے کے بارے میں فخر کے احساس سے سرشار کردے گا۔ لوتھل اپنی پرانی شان وشوکت کے ساتھ پھر سے دنیا کے سامنے آئے گا، اس یقین کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ! آپ سب کے لیے بہت بہت نیک خواہشات۔ اور اس وقت جب کہ یہ تمام بھائی اور بہنیں یہاں لوتھل میں یکجا ہوئے ہیں ، تو دیپاولی نزدیک آ تی جارہی ہے، اس لیے آپ سب کو بہت بہت مبارک اور خوشحال دیوالی اور گجرات میں نیا سال آنے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس لیے آپ کو بھی نیا سال بہت بہت مبارک ہو۔ سب کا بہت بہت شکریہ۔ وضاحت: وزیر اعظم کی تقریر کا کچھ حصہ گجراتی زبان میں بھی ہے، جس کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے۔,"লোথল, গুজৰাটত ভিডিঅ’ কনফাৰেঞ্চৰ জৰিয়তে নেশ্যনেল মেৰিটাইম হেৰিটেজ কমপ্লেক্স স্থলীৰ কামৰ অগ্ৰগতিৰ পৰিদৰ্শনৰ সময়ত প্রধানমন্ত্রীয়ে দিয়া ভাষণৰ পাঠ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%DB%8C%DA%AF%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں دیگر قائدین کے ساتھ ایک ظہرانے میں شرکت کی جہاں، سال 2023 کو باجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیے جانے سے متعلق بھارت کی تیاریوں کے مدنظر باجرے سے تیار پکوان پیش کیے گئے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’اب جبکہ ہم 2023 کو باجرے کے بین الاقوامی سال کے طور پر منانے کی تیاری کر رہے ہیں، ایسے میں پارلیمنٹ میں منعقدہ ایک پرتکلف ظہرانے میں شرکت کی جہاں باجرے سے تیار پکوان پیش کیے گئے۔ مختلف جماعتوں کی شرکت دیکھ کر مسرت ہوئی۔‘‘,সংসদত দুপৰীয়া বাজৰাৰ ব্যঞ্জনৰ সোৱাদ ল’লে প্ৰধানমন্ত্ৰী আৰু আন-আন নেতাসকল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں پردھان منتری سنگرہالیہ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آج منائے جانے والے مختلف تہواروں کا ذکر کیا۔ انھوں نے بابا صاحب امبیڈکر کو بھی خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ”جس آئین کے بابا صاحب اصل معمار تھے، اس آئین نے ہمیں پارلیمانی نظام کی بنیاد دی۔ اس پارلیمانی نظام کی بنیادی ذمہ داری ملک کے وزیر اعظم کے دفتر پر عائد ہوتی رہی ہے۔ یہ میری خ��ش قسمتی ہے کہ آج مجھے وزیر اعظم کے میوزیم کو قوم کے نام وقف کرنے کا موقع ملا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر موجود سابق وزرائے اعظم کے اہل خانہ کا بھی شکریہ ادا کیا اور انھیں مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تب یہ میوزیم ایک عظیم محرک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ان 75 سالوں میں ملک نے کئی قابل فخر لمحات دیکھے ہیں۔ تاریخ کے دریچے میں ان لمحات کی اہمیت بے مثال ہے۔ وزیر اعظم نے آزادی کے بعد سے تمام حکومتوں کے تعاون کو سراہا۔ انھوں نے کہا کہ آزاد ہندوستان میں بننے والی ہر حکومت نے ملک کو آج اس بلندی پر پہنچانے میں اپنا تعاون کیا ہے۔ میں نے یہ بات لال قلعہ سے بھی کئی بار دہرائی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میوزیم ہر حکومت کے مشترکہ ورثے کا زندہ عکس بھی بن چکا ہے، وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ملک کے ہر وزیر اعظم نے آئینی جمہوریت کے اہداف کے حصول کے لیے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ ”انہیں یاد کرنا آزاد ہندوستان کے سفر کو جاننا ہے۔ یہاں آنے والے لوگ ملک کے سابق وزرائے اعظم کی شراکت، ان کے پس منظر، ان کی جدوجہد اور تخلیقات سے واقف ہوں گے“، انھوں نے مزید کہا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ بہت سے وزرائے اعظم کا تعلق عام خاندانوں سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے لیڈروں کا انتہائی غریب، کسان خاندانوں سے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنا ہندوستانی جمہوریت اور اس کی روایات میں یقین کو مضبوط کرتا ہے۔ ”اس سے ملک کے نوجوانوں کو یہ اعتماد بھی ملتا ہے کہ ایک عام خاندان میں پیدا ہونے والا فرد بھی ہندوستان کے جمہوری نظام میں اعلیٰ عہدوں پر پہنچ سکتا ہے“، جناب مودی نے کہا۔ وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ میوزیم نوجوان نسل کے تجربات کو وسعت دے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان آزاد ہندوستان کے اہم مواقع کے بارے میں جتنا زیادہ جانتے ہیں، ان کے فیصلے اتنے ہی زیادہ متعلقہ ہوں گے۔ جمہوریت کی ماں کے طور پر ہندوستان کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ”ہندوستان کی جمہوریت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل بدلتی رہی ہے۔ ہر دور میں، ہر نسل میں جمہوریت کو مزید جدید اور با اختیار بنانے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چند استثنات کو چھوڑ کر، ہندوستان میں جمہوری طریقے سے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی قابل فخر روایت رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسی لیے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنی کوششوں سے جمہوریت کو مضبوط کرتے رہیں۔ ہندوستانی ثقافت کے جامع اور موافق عناصر پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ ہماری جمہوریت ہمیں جدیدیت اور نئے خیالات کو قبول کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہندوستان کی شاندار تاریخ اور خوشحال دور کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ہندوستان کے ورثے اور حال کی صحیح تصویر کے بارے میں بیداری پھیلانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ بیرون ملک سے چوری شدہ ورثے کو واپس لانے کی حکومت کی کوششیں، شاندار ورثے کے مقامات پر جشن منانا، جلیانوالہ میموریل، بابا صاحب کی یاد میں پنچ تیرتھ، فریڈم فائٹر میوزیم، قبائلی ہسٹری میوزیم جیسی جگہوں پر آزادی پسندوں کی یادوں کو محفوظ کرنا اس سمت میں اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔ میوزیم کے لوگو پر تبصرہ کرتے ہوئے جس میں بہت سے ہاتھ چکر کو پکڑے ہوئے ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ چکر 24 گھنٹے تسلسل اور خوشحالی اور محنت کے عزم کی علامت ہے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ یہ عزم، شعو�� اور طاقت آنے والے 25 سالوں میں ہندوستان کی ترقی کا تعین کرنے والی ہے۔ وزیر اعظم نے بدلتے ہوئے عالمی نظام اور اس ترتیب میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی حیثیت کو اجاگر کیا۔ ”آج جب ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے، دنیا ہندوستان کی طرف امید اور اعتماد کے ساتھ دیکھ رہی ہے، تو ہندوستان کو بھی اس موقع پر آگے بڑھنے کی اپنی کوششیں تیز کرنی ہوں گی“، جناب نریندر مودی نے کہا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদীয়ে নতুন দিল্লীত প্ৰধানমন্ত্ৰী সংগ্ৰহালয় উদ্বোধন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%DB%8C%D9%BE%D8%A8%D9%84%DA%A9-%D9%B9%DB%8C-%D9%88%DB%8C-%D8%B3%D9%85%D9%B9-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%8D/,نئی دہلی،18دسمبر / سب سے پہلے میں یہاں ممبئی کے اسپتال میں ہوئے حادثے پر اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہوں ۔ میری وزیراعلیٰ صاحب سے اس بارے میں بات ہوئی ہے۔ ریاستی حکومت متاثرہ کنبوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ اس حادثے میں جن خاندانوں نے اپنوں کو کھویا ہے ان کے تئیں میری تہہ دل سے تعزیت ۔ ساتھیوں! صحافی کے ذریعےترغیب یافتہ ، صحافی کے ذریعے چلایا جا رہا ، خالص صحافت کے تئیں پابند عہد ، ریپبلک ٹی وی ایک مضبوط تجربہ ہے۔ بہت کم وقت میں آپ کے چینل نے اپنی پہچان بنائی ہے۔ آپ سبھی ملک کے عوام تک صحیح اطلاعات پہنچانے میں اہم رول ادا کرر ہے ہیں۔ میں ریپبلک ٹی وی کی پوری انتظامیہ کو ، یہاں کام کرنے والے ہر ایک صحافی کو ، ملک کے الگ الگ حصوں میں کام کرر ہے رپوٹروں اور اسٹنگروں کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ ملک کی دَشا اور دِشا پر غور کرنے کے لئے اس طرح کے پروگرام کر کے آپ نئے افکار ، نئے حل کیلئے بھی لوگوں کو رغبت دلا رہے ہیں۔اس کے لئے بھی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ ساتھیوں ! آزادی سے قبل آزادی کے دیوانے ہی صحافت کرتے تھے ۔ رسائل و جرائد آزادی کا بگل بجاتے تھے ۔ آزاد بھارت میں سکھی اور خوشحال ملک کے لئے مثبت خبروں کی بھی بہت ضرورت ہے۔ اہل وطن میں کچھ کرنے کی خواہش بیدار ہو ، ملک کو آگے بڑھنے کی خواہش پیدا ہو ، یہ بہت ضروری ہے۔ جیسی سوراج آندولن کی روح تھی ویسی ہی سوراج کی تحریک کی توانائی ہونی چاہئے۔ بھارت ، دنیا میں ایک طاقت کے طور پر ابھرے ، اس کے لئے کئی شعبوں میں ہمیں عالمی بلندی کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ چاہے سائنس ہو ، ٹیکنالوجی ہو ، اینوویشن ہو ، اسپورٹس ہو ،اسی طرح دنیا میں بھارت کی آواز بلند کرنے کے لئے ہمارا میڈیا بھی عالمی پہنچ بنائے ، عالمی پہچان بنائے ، یہ وقت کی مانگ ہے۔ آج بھارت کے میڈیا ورلڈ کو اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے۔ ساتھیوں ! سرجنگ انڈیا ،یہ دو الفاظ 130 کروڑ بھارتیوں کے جذبات کا اظہار ہیں۔ وہ احساسات ہیں ، وہ وائبریشن ہیں ، جسے آج پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ سماجی زندگی کے ہر پہلو میں وہ عالمی پلیٹ فارم پر اپنی صحیح جگہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت کی معیشت کو ، بھارت کا ٹیلنٹ ہو ، بھارت کا سماجی نظام ہو ، بھارت کی ثقافتی قدریں ہوں یا پھر بھارت کی فوجی طاقت ، ہر سطح پر بھارت کی پہچان اور مضبوط ہو رہی ہے۔ ساتھیوں ! آج میں میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہوں ، سوال آپ کو بہت محبوب ہوتے ہیں ۔اس لئے میں بھی کچھ سوالوں کے ساتھ اپنی بات کی شروعات کروں گا۔ کہتے ہیں جیسا سنگ ویسا رنگ، کچھ پل آپ کے ساتھ کا سنگ ہے تو مجھے بھی عادت لگتی ہے۔ جیسے آپ کے سوالوں میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے ، ویسے ہی میرے سوالوں میں بھی آپ کو سرجنگ انڈیا کے بہت سے جواب اپنے آپ مل جائیں گے۔ ساتھیوں ! کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت اتنی جلد 5ٹریلین ڈالر کی معیشتوں کے کلب میں شامل ہونے کی طرف اپنا قدم بڑھا دے گا؟کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ ایز آف ڈوئنگ بزنس یعنی کاروبار کرنے کی سہولت سے متعلق درجہ بنادی میں 142 سے 77 ویں مقام پر آ جائے گا۔ بھارت ٹاپ 50 میں آنے کی طرف تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہا ہے۔ کیا چار سال قبل کسی نے سوچاتھا کہ بھارت میں اے سی ٹرین میں چلنے والے لوگوں سے زیادہ لوگ ہوائی سفر کرنے لگیں گے؟ہوائی جہاز میں پیٹھے ہوں گے ؟ کیا چا سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ رکشہ چلانے والا بھی ، سبزی والا بھی اور چائے والا بھی بھیم ایپ کا استعمال کرنے لگے گا۔ اپنی جیب میں روپئے ڈیبٹ کارڈ رکھ کر اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کرے گا؟ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت کا شہری ہوا بازی کا شعبہ اتنی تیزی سے آگے بڑھے گا کہ کمپنیوں کو ایک ہزار نئے ہوائی جہاز کا آرڈر دینا پڑے گا؟اور آپ کو جانکر حیرانی ہوگی کہ آزادی سے اب تک کچھ 450ہوائی جہازآپریشنل ہیں ۔ پرائیویٹ ہو ، پبلک ہو ، سرکاری ہو ،کچھ بھی ہو ۔ایک سال میں ایک ہزار نئے ہوائی جہاز کا آرڈر یہ بتاتا ہے کہ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت میں نیشنل واٹر ویز ایک سچائی بن جائے گی،کولکاتہ سے ایک جہاز گنگا ندی پر چلے گا اور بنارس تک سامان لے کر آئے گا۔ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ ہم بھارت میں ہی بنی ،بغیر انجن والی ایسی ٹرین کا تجربہ کر رہے ہوں گے جو 180کلو میٹر فی گھنٹ کی رفتار سے دوڑے گی۔ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ بھارت ایک بار میں 100 سٹیلائٹ داغنے کا ریکارڈ بنائے گا۔اور اتنا ہی نہیں گگن یان کے ہدف پر بھی وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ کیا چار سال پہلے کسی نے سوچا تھا کہ اسٹارٹ اپ کی دنیا سے لے کر اسپورٹس کی دنیا میں بھارت کا وقار اتنا زیادہ بڑھ جائے گا؟ ساتھیوں ! چار سال پہلے یہ بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ہیلی کاپٹر گھپلے کا اتنا بڑا رازا دار کرشچین مشل بھارت میں ہوگا، ساری کڑیاں جوڑ رہا ہوگا۔ چار سال پہلے یہ بھی کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ 1984 کے سکھ قتل عام کے قصوروار کانگریسی لیڈر کو سزا ملنے لگے گی، لوگوں کو انصاف ملنے لگے گا۔ آخر یہ تبدیلی کیوں آئی؟ ملک وہی ہے ، لوگ وہی ہیں ، بیورو کریسی وہی ہے ، ہمارے وسائل وہی ہیں ، پھر بھی اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ ساتھیوں! ہمارے یہاں ایک سائیکالوجی رہی ہے کہ جب حکومت کے خلاف الزام لگاتے ہوئے کوئی عدالت میں جاتا ہے تو مانا جاتا ہے کہ سرکار غلط ہوگی اور الزام لگانے والا صحیح ہوگا۔ یہ عام طور پر ہمارا خیال ہے، گھپلے ہوں ، بدعنوانی کے الزامات ہوں ، یہی ایک ذہنیت ہمارے من میں گھر کر گئی ہے، کیونکہ ہم نے وہی دیکھا ہے پہلے ۔ لیکن یہ بھی پہلی بار ہوا ہے جب کچھ لوگ حکومت پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت گئے اور عدالت سے انہیں دو ٹوک جواب ملا کہ جو کام ہوا ہے ، وہ پوری شفافیت سے ہوا ہے، ایمانداری سے ہوا ہے ۔ ہمارے ملک میں ایسا بھی ہوگا ، چار سال پہلی یہ بھی کسی نے نہیں سوچا تھا۔ بھائیو اور بہنومیں اکثر دیکھتا ہوں کہ آپ لوگ براڈ کاسٹ کے دوران پہلے اور اب بھی ٹو ونڈو یعنی دو طرح کی صورتحال کا فرق بہت دلچسپی سے دکھاتے ہیں ۔ میرے پاس بھی پہلے اور اب کی بہت دل��سپ تصویریں ہیں جو سرجنگ انڈیا کو مزید موثر بناتی ہیں۔ ساتھیوں! آج ملک کے سامنے 2014 سے پہلے کی ایک تصویر ہے جب سووچھتا یعنی صفائی ستھرائی کا دائرہ 40 فیصد سے بھی کم تھا ۔ اب 2018 کے آخر میں وہیں دائرہ بڑھ کر 97 فیصد پہنچ چکا ہے۔ آج ملک کے سامنے 2014 سے پہلے کی تصویر ہے جب ملک میں 50 فیصدلوگوں کے پاس بینک کھاتے نہیں تھے ۔اب 2018 کے آخر میں ملک کا ہر خاندان بینکنگ نظام سے جڑ چکا ہے۔ آج ملک کے سامنے 2014 سے پہلے کی ایک اور تصویر ہے ٹیکس دینے والوں کی تعداد تین کروڑ 80 لاکھ تھی ۔ اب اس سال یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 7 کروڑ ہو چکی ہے۔ آج ملک کے سامنے 2014 کے پہلے کی ایک تصویر ہے جہاں صرف 65 لاکھ کاروباری ٹیکس دینے کے لئے رجسٹرڈ تھے۔ اب آج صورتحال یہ ہے کہ صرف ڈیڑھ سال میں 55 لاکھ نئے کاروباری رجسٹریشن کے لئے آگے آئے ہیں ۔ آج ملک کے سامنے 2014 کے پہلے کی ایک تصویر ہے جہاں موبائل بنانے والی صرف دو کمپنیاں تھیں۔آج ایسی ہی موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی تعداد بڑھ کر 120 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ 2 سے 120 ۔ ساتھیوں! پہلے اور اب میں یہ تبدیلی، سرجنگ انڈیا کی بہت مضبوط تصویر سامنے رکھتی ہے ۔ یہ سب اسلئے ہو رہا ہے کہ آج ملک میں پالیسی سے چلنے والی حکمرانی اور پری ڈیکٹیبل ٹرانسپیرنٹ پالیسیز یعنی طے شدہ شفاف پالیسیوں کو بنیاد بنا کر ہماری حکومت آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں دوگنی رفتار سے ہائیوے بن رہے ہیں ، دو گنی رفتار سے ریل لائنوں کی دوہری کاری ہو رہی ہے، برق کاری ہو رہی ہے ، 100 سے زیادہ نئے ہوائی اڈوں اور ہیلی پورٹ پر کام ہو رہا ہے۔ 30-30، 40-40 سال سے اٹکے ہوئے پروجیکٹوں کو پورا کیا جا رہا ہے۔ آج آپ بھارت میں کہیں بھی جائیں ، ایک سائن بورڈ ضرور دیکھنے کو ملے گا ، ورک اِن پروگریس۔ ساتھیوں! یہ سائن بورڈ صحیح معنیٰ میں یہ دکھاتا ہے کہ ’انڈیا اِن پروگریس‘۔صرف سڑکیں ، فلائی اوور ، میٹرو نہیں یہاں نیا بھارت بنانے کا کام ہو رہا ہے۔ میں آج اُس شہر میں ہوں جس کے لئے کہتے ہیں کہ ’دی سٹی دیٹ نیور اسٹاپس‘یعنی وہ شہر جو کبھی رکتا نہیں ہے۔ میں یہاں کھڑا ہو کر آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج ’انڈیا اِز اے کنٹری دیٹ نیور اسٹاپس‘ یعنی ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو کبھی ٹھہرتا نہیں ہے۔ نہ رکیں گے ، نہ دھیما پڑیں گے ، نہ تھکیں گے، یہ انڈیا نے ٹھان لیا ہے۔ ساتھیوں ! یہاں ممبئی میں بھی 22 کلو میٹر لمبے ممبئی ٹرانس ہاربر لنک کی تعمیر، ممبئی –احمدآباد بلیٹ ٹرین کا کام ، ڈبل لائن سب –اربن کاریڈور کا کام ، سینکڑوں کلو میٹر کے میٹرو کاریڈور کا کام ، سب 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اندھیری –ورار کے مصروف سیکشن میں نئی ٹرینیں بھی دی جا رہی ہیں ، جس سے اس ریل لائن کی صلاحیت 33 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ساتھیوں ! ملک کی یہ ضرورتیں پہلے بھی تھیں ، ممبئی کی یہ ضرورتیں ، پہلے بھی تو تھیں ، کئی دہائیوں سے تھیں،لیکن کام اب ہو رہا ہے ۔ سوچیئے کیوں ؟ اس کا بھی جواب میں آپ کو دینا چاہتا ہوں اور کوشش کروں گا کہ آپ ٹی وی والوں کے طور طریقوں سے ہی جواب دوں ۔ میں ،جب کبھی وقت ملتا ہے تو ارنب کو دیکھتا ہوں ۔ دیکھنے سے زیادہ سنتا ہوں کہ کیسے وہ بہت سارے گیسٹ کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور سوال جواب کرتے ہیں ۔ 2ونڈو اور ملٹیپل ونڈو کا پورا تام جھام ہوتا ہے۔ ساتھیوں ! ایسا ہی ایک ملٹیپل ونڈو ہر مہینے دلی میں وزیراعظم کے دفتر میں بھی بنتا ہے۔ یہ میٹنگ ہوتی ہے ترقی کی اور اس میں حساب کتاب لیا جاتا ہے۔ دہائیوں سے اٹکے ہوئے پروجیکٹوں کا ۔ گذشتہ چار سال میں کھوج کھوج کر میں نے وہ پروجیکٹ نکالے ہیں جو جانے کب سے فائلوں میں دبے ہوئے تھے ۔ میں آپ کو جانکاری دینا چاہتا ہوں کہ اب تک 12 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کے پرانے پروجیکٹوں کا جائزہ اس میٹنگ میں لیا جا چکا ہے۔ ایک ایک پروجیکٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے ، کیسے محنت ہوتی ہے ، یہ بھی میں آپ کو ممبئی کی مثال دے کر ہی بتاتا ہوں۔ ساتھیوں ! مجھے یاد ہے تقریباً تین سال قبل ’پرگتی ‘کی میٹنگ میں نوی ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا موضوع سامنے آیا تھا تو میں حیران رہ گیا تھا ۔ ممبئی میں دوسرے ہوائی اڈے کے تعلق سے نومبر 1997 میں پہلی بار کمیٹی بنی تھی ۔ تب سے لے کر قریب قریب 20 سال تک صرف فائلیں ہی ادھر سے ادھر دوڑتی رہیں ، میں کہوں کا اڑتی رہیں۔ اس بیچ کتنی سرکاریں آئیں ، کتنی چلی گئیں ، فائلیں اڑتی رہیں، جہاز کبھی نہیں اڑا۔ لیکن نوی ممبئی ایئرپورٹ کی فائل آگے نہیں بڑھ پائی۔ پرگتی کی میٹنگ میں ملٹیپل ونڈو بنا کر ،سارے افسروں ، سارے محکموں کو ایک ساتھ ، آمنے سامنے لاکر ہماری سرکار نے اس پروجیکٹ کے سامنے آ رہے سارے روڑے دور کئے اور اب نوی ممبئی ایئرپورٹ پر تیزی سے کام چل رہا ہے ۔ سوچیئے ، یہ صرف ایک پروجیکٹ کی کہانی ہے۔ اور میں پھر بتا دوں ، ایسے ہی 12 لاکھ کروڑ روپئے کے پروجیکٹ کو ہم تیز رفتاری سے آگے بڑھا چکے ہیں ۔ سرجنگ انڈیا کے پیچھے جو ورک کلچر میں تبدیلی آئی ہے یہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ساتھیوں ! کچھ سال پہلے ایک پلیٹ فارم پر میں نے دوستوں کی ایک کہانی سنائی تھی ۔ ایک بار یہ دونوں دوست جنگل میں ٹہلنے کے لئے چلے گئے لیکن بڑا گھنا جنگل تھا، خوفناک جانور تھے تو اپنے ساتھ حفاظت کا بھی سامان رکھے ہوئے تھے ، بہترین کوالٹی کا پستول، بندوق اپنے ساتھ تھی۔اور پھر ان کو نظر نہیں آ رہا ہوگا تو رک کر کے گاڑی سے اترکے سوچا کہ ذرا ٹہل لیں تو ٹہلنے کے لئے نکل پڑے اور جب ٹہلنے کے لئے نکل پڑے تو اچانک ایک شیر آ گیا اور سامان تو گاڑی میں پڑا تھا، بندوق تو گاڑی میں پڑی تھی ، وہیں چھوڑ آئے اور یہ ٹہل رہے تھے کہ شیر آگیا۔ لیکن اب اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کریں؟ بھاگے تو بھاگ کے جائیں کہاں ؟ لیکن اس میں سے ایک جو تھا اس نے اپنی جیب سے ریوالور کا لائسنس نکال کر شیر کو دکھایا کہ دیکھ میرے پاس ہے۔ ساتھیوں! ہمارے ملک میں یہی ہوتا رہا ہے۔ ساتھیوں، یہی ہماری پہلے کی سرکار وں کا ایپروچ تھا۔ کچھ بھی ہو ایکٹ دے دو ایکشن کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تھا۔ جب میں نے یہ کہانی سنائی تھی تب تو میں وزیراعظم بھی نہیں تھا۔ تب میں نے کہا تھا کہ ہمیں ایکٹ سے بھی آگے بڑھ کر مضبوطی کے ساتھ ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ہم نے اسے کیسے حقیقت کا روپ دیا، میں آپ کو بتاتا ہوں ۔ ساتھیوں! سابقہ حکومت غذائی تحفظ قانون لے کر آئی، بہت گانے بجائے، ان کے جو گیت گانے والے لوگ ہیں، بہت چلا چلا کے گاتے رہتے تھے۔ بہت ہلا کیا گیا، بہت تالیاں بٹوری گئیں، لیکن ہم جب 2014 میں اقتدار میں آئے تب تک صرف 11 ریاستوں نے ہی اس کا فائدہ اٹھایا تھا۔ سوچئے اتنی تالیاں بٹورنے کے بعد بھی بھارت کی بڑی آبادی اس کا فائدہ نہیں لے پارہی تھی۔ ہم نے آنے کے بعد اس بات کو یقینی بنایا کہ سبھی 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام لوگوں کو اس کا فائدہ پہنچے۔ اسی طرح 2013-14 میں بڑا ذکر چل رہا تھا کہ گیس کے 10 سلنڈر دیں گے یا 12 سلنڈر دیں گے اور اس کے نام پر الیکشن لڑے جارہے تھے، لیکن 2014 تک بھارت کے صرف 55 فیصد گھروں میں ہی گیس کا کنکشن تھا۔ آپ سوچئے، 10 سلنڈر،12 سلنڈر کے نام پر انتخابات لڑے گئے اور ملک کی آدھی آبادی کے پاس تو گیس کا کنکشن ہی نہیں تھا۔ ساتھیوں! ہماری حکومت ،مسائل کے مستقل حل کے لیے کام کررہی ہے۔ ملک کے سامنے جو چیلنج ہیں، ان کے مستقل حل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہم ایسے سسٹم کو توڑ رہے ہیں، ختم کررہے ہیں، جنہوں نے دہائیوں سے ملک کی ترقی کو روک رکھا تھا۔ میں آپ کو انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ یعنی آئی بی سی کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ ساتھیوں! ہمارے ملک میں قرض کے تعلق سے ایک عجیب سی روایت تھی کہ کوئی غریب یا نچلے متوسط طبقے کا فرد ایک لاکھ کا قرض بینک سے لے اور اسے لوٹانہ پائے، تو اس کا بچنا مشکل ہوجاتا تھا، لیکن اس کے علاوہ ایک اور تصویر سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔ ملک میں ہزاروں ایسی بڑی بڑی کمپنیاں تھیں، جو بینک سے پانچ دس لاکھ نہیں، پانچ دس کروڑ نہیں، بلکہ پانچ سو ہزار کروڑ روپے کا قرض لیتی تھیں۔ لیکن الگ الگ اسباب سے جب یہ کمپنیاں بیمار ہوجاتی تھیں، خسارے میں چلی جاتی تھیں، بینکوں کا پیسہ نہیں لوٹا پاتی تھیں، تو ان کمپنیوں اور ان کمپنیوں کے مالکوں کا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ساتھیوں! آزادی کے بعد سے 70 سال سے ملک میں یہی نظام چلا آرہا تھا۔ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں تھا؟ایسا اس لیے تھا کیوں کہ ان کمپنیوں کو ایک خاص طرح کا سیکورٹی کورملا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا سیکورٹی کور تھا جس میں کچھ خاص لوگوں، کچھ خاص خاندانوں کی ہدایت چلتی تھی۔یہ ایسا سیکورٹی کور تھا جو بینکوں کو کارروائی سے روکتا تھا، جو کمپنیوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتاتھا کہ کیوں لوٹاؤ بینکوں کا پیسہ، کون آپ سے پیسے مانگنے آرہا ہے؟ بھائیوں اور بہنوں! مجھے معلوم ہے کہ کتنی دقتیں آئیں، کس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن 2016 میں انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ بنا کر میں نے اس سیکورٹی کور کو توڑ دیا۔ آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ بینکوں سے قرض لے کر بیٹھ جانے والے، بیمار کمپنی کے بہانے ملک کا ہزاروں کروڑ روپیہ لے کر بیٹھے ایسے لوگ، ایسی کمپنیاں خود اپنا پیسہ لوٹانے لگی ہیں۔ بھائیوں اور بہنو! صرف دو سال میں اب تک سوا لاکھ کروڑ روپے خود چل کر ایسی کمپنیوں نے بینکوں کو اور اپنے دین داروں کو لوٹائے ہیں، اس میں سے بہت سی رقم چھوٹے سپلائرس کی تھی، چھوٹے کاروباریوں کی تھی، ایم ایس ایم ای سیکٹر کی تھی۔ جن کمپنیوں پر اس قانون کا ڈنڈا چلا ہے، ایسی کمپنیوں سے اب تک پونے دو لاکھ کروڑ روپے کا قرض واپس لیا جاچکا ہے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو 2016 میں جو نیا قانون بنایا، اس کے بعد تقریباً تین لاکھ کروڑ روپے کا قرض ان کروڑپتیوں کو، ان کی کمپنیوں کو اپنے بینکوں کو، اپنے دین داروں کو چکانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ ساتھیوں! اسی طرح بینکوں کو لوٹ کر جو بھگوڑے ہوجاتے ہیں، ان کے لیے بھی سخت قانون اپنا کام کررہا ہے۔ اب ملک ہی میں نہیں بیرون ملک بھی ایسے مجرموں کے اثاثے قرق ہورہے ہیں۔ ایسے تمام مجرموں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے، اس کے لیے حکومت پابند عہد ہے۔ ساتھیوں! بدعنوانی کو بھارت میں نارمل مان لیا گیا تھا۔بھارت میں یہ تو چلتا ہی ہے، اتنا تو چلتا ہی ہے۔ اگر کوئی سامنے سے آواز اٹھاتا تھا، قاعدہ قانون بھی یاد دلاتاتھا، تو سامنے سے فوراً جواب ملتا تھا کہ یہ بھارت ہے، یہاں ایسا ہی چلتا ہے۔ ایسا ہی کیوں چلنا چاہیے�� کب تک چلنا چاہیے؟ صورت حال کو ویسی ہی کیوں رہنا چاہیے؟ ایسی صورت حال کو بدلنا کیوں نہیں چاہیے؟ ساتھیوں! گزشتہ چار ساڑھے چار سال میں ، میں اسی صورت حال کو بدلنے کی کوشش کررہا ہوں، ملک کو پیچھے لے جانے والی بندشوں کو توڑنے کا کام کررہا ہوں۔ کچھ لوگ ملک کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن مجھے سچائی کی طاقت پر بھروسہ ہے اور حق پرست اہل وطن پر میرا بھرپور اعتماد ہے۔ بھائیوں اور بہنوں! آج بھارت کی خارجہ پالیسی ، گھریلو معاملات، نازبرداری کے دباؤ کے تحت نہیں چل رہے ہیں، بلکہ ہماری سبھی پالیسیاں، سارے پروجیکٹ ، سروجن ہتائے سروجن سکھائے اور ملکی مفاد سے طے ہوتی ہیں۔ ہمیں کہاں جانا ہے، کس ملک کے ساتھ رشتے رکھنے ہیں، وہ دونوں ملکوں کے باہمی مفادات سے طے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے پاسپورٹ کی طاقت آج بڑھی ہے۔ آج پوری دنیا میں بھارت کی آواز سنجیدگی سے سنی جارہی ہے۔ دنیا کے طاقتور اداروں میں بھارت کو نمائندگی مل رہی ہے۔ بھارت کی فکرمندیوں کے تئیں حساسیت کے ساتھ غور ہوتا ہے اور بھارت کے لیے خصوصی التزامات کیے جاتے ہیں۔ اوپیک جیسے اداروں میں نمائندگی نہ ہونے کے باوجود بھارت کی بات سنی جاتی ہے۔ ساتھیوں! یہ دنیا میں بھارت کے تئیں بڑھے اعتماد اور ہمارے مضبوط رشتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ بھارت کو دھوکہ دینے والے، ہمارے نظامات سے کھیلنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑ ا کیا جارہا ہے۔ ان کو بھارت کو سونپا جارہا ہے۔ ساتھیوں! جب عوامی زندگی میں شرافت، شفافیت ہو اور لوگوں کے لیے کام کرنے کے تئیں کنوکشن ہو، کمٹمنٹ ہو، تو بڑے اور کڑے فیصلے لینے کا حوصلہ اپنے آپ آجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں دہائیوں سے جی ایس ٹی کی مانگ تھی۔ آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد بازار کی خامیاں دور ہورہی ہیں اور سسٹم کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ معیشت میں شفافیت کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں۔ سماج کے محنتی اور جفاکوش لوگ، جو بازار سے وابستہ ہیں، انہیں ایک صاف ستھری، آسان، انسپکٹر راج سے آزاد نظام مل رہا ہے۔ پورے بھارت نے ایک من ہو کر، اتنے بڑے ٹیکس ریفارم کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ ہر کسی نے اپنا تعاون دیا ہے۔ ہمارے کاروباریوں اور لوگوں کے اسی جذبے کا نتیجہ ہے کہ بھارت اتنی بڑی تبدیلی کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی چھوٹے چھوٹے ٹیکس ریفارم کا نفاذ آسان نہیں ہوتا ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہاکہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل رجسٹرڈ انٹرپرائززکی تعداد محض 66 لاکھ تھی، جو اب بڑھ کر ایک کروڑ 20 لاکھ ہوگئی ہے۔ شروعاتی دنوں میں جی ایس ٹی الگ الگ ریاستوں میں ویٹ اور ایکسائز کا جو نظام تھا، اسی کے سائے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ جیسے جیسے صلاح ومشورہ ہوا، متعلقین سے بات ہوئی، ریاستی حکومتوں سے بات ہوئی، ماہرین معاشیات سے بات ہوئی، ٹیکس پریکٹشنروں سے بات ہوئی، دھیرے دھیرے اس میں تبدیلی آتی گئی۔ ساتھیوں! آج جی ایس ٹی کا نظام کافی حد تک قائم ہوگیا ہے اور ہم اب بھی ضرورت کے مطابق عوام کی سہولت کے حساب سے اس کو ڈھالنے کے تئیں پابند عہد ہیں۔یہ بہت اہم بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج ہم اس صورت حال کی طرف پہنچ رہے ہیں، جہاں 99 فیصد اشیا، 18 فیصد یا اس سے کم ٹیکس کے دائرے میں لائی جاسکتی ہیں اور ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد جو ایک آدھ فیصد لگژری آئٹمس ہوں گے، وہی شاید 18 فیصد کے باہر رہ جائیں گے۔ جیسے کوئی ہوائی جہاز خرید کر کے لاتا ہے، کوئی بہت بڑی مہنگی گاڑی خرید کر لاتاہے، شراب ہے، سگریٹ ہے، ایسی کچھ چیزیں مشکل سے ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ ہماری یہ رائے ہے کہ جی ایس ٹی کو جتنا سہل اور آسان بنایا جاسکتا ہے، اسے بنایا جانا چاہیے اور یہ واضح ہے، اور میں تو ابھی جو، جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ ہوگی،اس کے لیے بھی میں نے اپنے مشورے دے دیے ہیں، کیونکہ اسے سبھی ریاستیں مل کر طے کرتی ہیں۔ 99 فیصد، چیزیں 18 فیصد سے نیچے کے دائرے میں آجائیں گی۔ آدھا پونا یا ایک فیصد ، ہوائی جہاز، بڑی گاڑی ہو، شراب ہو، سگریٹ ہو، ایسی چیزوں کو چھوڑ کر عام انسان سے متعلق ساری چیزیں 99 فیصد، 18 فیصد سے نیچے ہوجائیں گی اور یہ کام ہم لگاتار کرتے کرتے ہدف کو پار کرنے کی سمت میں پہنچ رہے ہیں۔ ساتھیوں! میری اور میری حکومت کی یہ واضح سوچ اور ویژن ہے۔ دنیا کا سب سے بڑی نوجوانوں کی آبادی والا ملک چھوٹے سپنے نہیں دیکھ سکتا۔ سپنے ، امنگیں اور اہداف تو بلند ہی ہونے چاہییں۔ ہم بڑے ہدف کی سمت میں ایمانداری سے کوشش کریں گے، تو اسے حاصل بھی کرسکیں گے۔ لیکن ہدف ہی چھوٹا رکھو گے، تو کامیابی بھی چھوٹی نظر آئے گی۔ ساتھیوں! حکومت کا پورا نظام، پوری مشینری، 70 سال سے پائیدار اور ترقی سے بنی ہے۔ چار ساڑھے چار سال پہلے بھی یہی نظام تھا، یہی مشینری تھی، لیکن آج کام کرنے کی اسپیڈ اور اسکیل دونوں کئی گنا بڑھ گیے ہیں۔ آج متعدد اہداف ایسے ہیں، جن کی طرف ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سب کے پاس اپنا گھر ہو، ہر گھر میں 24 گھنٹے روشنی ہو، صاف پانی اور صاف ایندھن سب کو دستیاب ہو، ان اہداف کے بہت قریب آج بھارت پہنچ رہا ہے۔ بچوں کو پڑھائی، نوجوانوں کو کمائی، بزرگوں کو دوائی، کسانوں کو سینچائی اور جن جن کی سنوائی، ان اہداف کے حصول کے لیے ہمارا ایک ایک لمحہ وقف ہے۔ ساتھیوں! ایک نیا اعتماد لیے، نیو انڈیا، عالمی فلک پر اپنا رول طے کررہا ہے۔نئے گلوبل آرڈر میں اپنے رول کو ری ڈیفائنڈ کررہا ہے۔ آنے والے دو دنوں میں اس رول پر ملک و بیرون ملک سے تشریف لائے مہمان یہاں سنجیدہ غوروفکر کریں گے۔ اس کے لیے میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارک باد۔ نئی توانائی پر سوار نیو انڈیا کے بارے میں بتانے کا آپ نے موقع دیا، اس کے لیے آ پ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتاہوں اور مجھے یقین ہے کہ جس سپنے کو لے کر صحافت سے وابستہ کچھ نوجوانوں نے ری پبلک ٹی وی کا تجربہ کیا ہے اور اب تو ہندی میں بھی جارہے ہیں، ملک کی دیگر زبانوں میں بھی جانے کا سوچیں گے۔ لیکن دنیا میں بھی اپنی جگہ بنانے کا سپنا لے کر چلیں گے، انہیں نیک خواہشات کے ساتھ بہت بہت شکریہ۔,মুম্বাইত অনুষ্ঠিত ৰিপাব্লিক টিভি সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B4-%D9%BE%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سری گرو گوبند سنگھ جی کے پرکاش پرب کے موقع پر سری گرو گوبند سنگھ جی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’میں سری گرو گوبند سنگھ جی کے پرکاش پرب کے مقدس موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور انسانیت کی خدمت کے تئیں ان کے گراں قدر تعاون کو یاد کرتا ہوں۔ ان کا بے مثال اور غیر معمولی حوصلہ، لوگوں کو آنے والے سالوں میں ب��ی مسلسل ترغیب دیتا رہے گا۔‘‘,প্ৰকাশ পূৰ্ব উপলক্ষে শ্ৰী গুৰু গোবিন্দ সিং জীক প্ৰণাম জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/7%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1%D8%8C2018%DA%A9%D9%88%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%85%D9%86%D8%B2%D9%84-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C%DB%81-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AD-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A7%B0-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87/,نئی دہلی ،8اکتوبر : 7اکتوبر،2018کواتراکھنڈ ایک منزل :سرمایہ کاروں کی باہم ملاقات 2018میں وزیراعظم کی تقریرکے متن کی خاص خاص باتین درج ذریل ہیں : اتراکھنڈکی گورنر ، محترمہ بیبی رانی موریہ جی ، مرکزی کابینہ کے میرے تمام معاونین ، ریاست کے وزیراعلیٰ،جناب ترویندرسنگھ جی راوت ، اتراکھنڈ کابینہ کے سبھی اراکین ، سنگاپورکے وزیراطلاعات ونشریات ،جناب ایس ایشورن جی ، جاپان اورچیک جمہوریہ کے سفیر، ، اندرون او ربیرونی ممالک سے تشریف لائے تمام صنعت کارساتھیو، دیویو اورسجّنو! باباکیدارکی چھترچھایامیں چاردھام کی پاکیزگی کے لئے دیودھاراتراکھنڈ میں تشریف لائے ملک وبیرون ملک کے سبھی ساتھیوں کا بہت بہت خیرمقدم اور استقبال ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یہاں بھارت کے اقتصادی ماحولیات کے ساتھ ساتھ ہزاروں برسوں سے چلی آرہی ہماری ثقافتی تنوع کو اورخوشحالی سے اس کا احساس کریں گے ، اس کا تعارف کریں گے اورایک نئی چیتنا حاصل کرکے یہاں سے لوٹیں گے ۔ ساتھیوں ، اتراکھنڈ کی اس سرزمین پرہم سبھی ایسے وقت میں اکھٹے ہوئے ہیں جب ہندوستا ن میں تیز رفتارسے اقتصادی اور سماجی تبدیلی رونماہورہی ہے ۔ ملک بہت بڑی تبدیلی کے دورسے گذررہاہے ۔ ہم نئے ہندوستان کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں ۔ دنیا کی ہربڑی تنظیم کہہ رہی ہے کہ ہندوستان آنے والی دہائیوں میں عالمی ترقی کا اہم انجن بننے والا ہے ۔ آج بھارت کی اقتصادی حالت مزید مستحکم ہوئی ہے ۔ مالی خسارہ کم ہواہے ، مہنگائی کی شرح قابو میں ہے۔ ہمارے یہاں دنیا میں سب سے تیز رفتارسے متوسط طبقے کا بڑے پیمانے پر، متوسط طبقے کانشرہورہاہے ۔ 80کروڑسے زائد نوجوان ، یہ طاقت ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ ، آرزوؤں اور سامتھریہ سے بھرپورہے ۔ ساتھیو، آج ہندوستان میں جس رفتار اور ہنرمندی پراقتصادی ترقی ہورہی ہے ، وہ ابھوت پورو ہیں ۔ پچھلے دوبرسوں میں ہی مرکز اور ریاستی سرکاروں کے ذریعہ دس ہزار سے زیادہ قدم اٹھائے گئے ہیں ۔ ان اقدام کی وجہ سے بھارت نے تجارت میں آسانیاں لانے ، اس میں 42اعداد کی اصلاح کی ہے ۔ اس سدھارمیں کے عمل میں ہم نے 1400سے زیادہ قوانین ختم کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھارت میں ٹیکس نظام میں بھی بہت سے اصلاحات کئے ہیں ۔ ٹیکس سے جڑے معاملات کے حل کو اورشفاف اورتیز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دیوالیہ ہونے اوردیوالیہ قراردیئے جانے سے متعلق ضابطے سے آج کاروبارآسان ہواہے ، بینکنگ نظام کو بھی طاقت ملی ہے ۔ جی ایس ٹی کے طورپربھارت نے آزادی کے بعد سب سے بڑا ٹیکس اصلاحات کیاہے ۔ جی ایس ٹی نے ملک کو سنگل مارکیٹ میں تبدیل کردیاہے اور ٹیکس بیس بڑھانے میں بھی بہت بڑی مدد کی ہے ۔ ہمارا بنیادی ڈھانچہ شعبہ بھی ریکارڈ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاہے ۔ گذشتہ برس ہی بھارت میں قریب قریب 10000کلومیٹرقومی شاہراہوں کی تعمیرکی گئی ہے ۔ یعنی قریب قریب 27کلومیٹرروزانہ کی رفتارسے تعمیر ی کام چل رہاہے ۔ یہ پہلے کی سرکاروں کے مقابلے میں دوگناہے ۔ ریلوے لائن کی تعمیرمیں دوگنی تیز رفتارسے کام کیاجارہاہے ۔ اس کے علاوہ متعدد شہروں میں نئی میٹرو، ہائی اسپیڈ ریل پروجیکٹ ، ڈیڈی کیٹڈ کوریڈور ، اس کے لئے بھی کام چل رہاہے ۔ حکومت 400ریلوے اسٹیشنوں کی جدیدکاری کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ اگرمیں سیاحت شعبے کی بات کروں ، بھارت میں یہ شعبہ بھی ریکارڈ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاہے ۔ اسکی رفتاراور تیز کرنے لئے ملک میں قریب قریب 100نئے ایئرپورٹ اور ہیلی پیڈ بنانے پرکام کیاجارہاہے ۔ اڑان یوجنا کے مادھیم سے ملک میں ٹائر2، ٹائر3شہروں میں فضائی رابطہ فراہم کرانے کی کوشش کی جاری ہے ۔ بھارت میں 100سے زیادہ نیشنل واٹرویز بنانے پربھی کام کیاجارہاہے ۔ ساتھیو، ان کے علاوہ آج بھارت میں سبھی کے لئے مکانات، سبھی کے لئے بجلی ، سبھی کے لئے صاف ستھراایندھن ، سبھی کے لئے صحت ، سبھی کے لئے بینکنگ ، جیسے الگ الگ متعدد منصوبے اپنے نشانے کو پوراکرنے کی جانب سے تیزری فتارسے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ یعنی کل ملاکردیکھیں تو آج یہ کہاجاسکتاہے کہ چوطرفہ تبدیلی کے اس دورسے آپ کے لئے ، ملک ۔ بیرون ملک سرمایہ کاروں کے لئے ، بھارت میں اعلیٰ ترین ماحول بناہواہے ۔ ابھی حال ہی میں شروع کی گئی ‘آیوش مان بھارت یوجنا ’ کی وجہ سے بھی ہندوستان میں طبی شعبے میں سرمایہ کاری کاامکان پیداہے ۔ اس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ٹائر2، ٹائر3شہروں میں نئے اسپتال بنیں گے ، میڈیکل کالج بنیں گے ، پارامیڈیکل ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوشنز بنیں گے ، پارامیڈیکل انفراسٹریکچر مضبوط ہوگا۔ آپ تصورکرسکتے ہیں کہ آیوش مان بھارت منصوبے کے تحت ملک کے 50کروڑسے زائد شہریوں کو، اس کے کنبے کو 5لاکھ روپے تک صحت انشورنس کی یقین دہانی حاصل ہورہی ہے ، مطلب امریکہ ، کینڈااورمیکسکو ، اس کی کل آبادی سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ملے گا۔ پورے یورپ کی جو تعداد ہے ، اس سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ملے گا ۔ اب یہ فائدہ دینے لئے کتنے اسپتالوں کی ضرورت پڑے گی ، کتنے ڈاکٹروں کی ضرورت پڑیگی ۔ کتنے سرمائے کا امکان ہے اور مریض کے لئے اور ادائیگی ابھی سے ریڈی ہے اور اس لئے سرمایہ کاری کرنے والے کے لئے بھی ریٹرن کا اشورنس ہے ۔ یہ اپنے آپ میں طبی شعبے میں بھارت میں مالی سرمایہ کاری کاایک بڑا موقع نصیب ہواہے ، جو ٹائر2، ٹائر3شہروں میں اعلیٰ سطح کے اسپتال بنانے کے امکانات پیداکرتاہے ۔ ساتھیو، آج بھارت میں بنیادی ڈھانچے پرجتنا خرچ کیاجارہاہے ، پہلے کبھی نہیں کیاگیا۔ اس وجہ سے سرمایہ کاری کے زبردست امکانات کے ساتھ ہی روزگارکے لاکھوں نئے مواقع پیداہورہے ہیں ۔ پوٹینشیل ، پالیسی اور پرفارمینس یہی ترقی کی بنیادہے ۔ نیوانڈیا سرمایہ کاری کی بہترین منزل ہے اور اتراکھنڈ کی منزل اس صفحے کا منورحصہ ہے ۔ اتراکھنڈ ملک کی ان ریاستوں میں ہے ، جونیو انڈیاہمارے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کوری پریزنٹ کرتے ہیں ۔ آج کا اتراکھنڈ نوجوان ہے ، آرزوؤں سے بھرپورہے ، توانائی سے لبالب ہے ۔ یہاں دستیاب بے پناہ امکانات کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لئے ، ترویندرراوت کی حکومت میں سمجھتاہوں ، بھرپور کوششیں کررہی ہے ۔ اتراکھنڈ منزل یہ اسٹیج ان ہی کوششوں کا اظہارہے ۔ اب اہم یہ ہے کہ اس اسٹیج پرجوباتیں ہوئی ہیں ، جس یقین کو ظاہرکیاگیاہے ، جوجوش ظاہرکیاگیاہے ، وہ جلد ہی زمین پراترے۔ جس سے اتراکھنڈ کے نوجوان ساتھیوںکو زیادہ سے زیادہ روزگارملے ۔ ساتھیوآنجہانی اٹل بہاری واجپئی جی نے جب اتراکھنڈ بنانے ک�� فیصلہ لیاتھا ، تب حالات بہت پریشان کن تھے ۔ سیاسی غیریقینی صورت حال کے ساتھ ساتھ بہترمستقبل کے لئے پہاڑجیسے چیلنج ہمارے سامنے تھے ۔ لیکن آج اتراکھنڈ ترقی کے راستے پرتیز رفتارسے دوڑرہاہے ۔ گذشتہ چاربرسوں میں مائیکرو اسمال اور اور میڈیم انٹرپرائزز یعنی ایم ایس ایم ای ، اس کو بڑھاوادینے کے لئے ، ان کو مستحکم کرنے کے لئے متعدد قدم اٹھائے گئے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ چھوٹی صنعتوں کو ہائرکریڈٹ ، سپورٹ کیپٹل ، انٹریسٹ سبسیڈی ، لوورٹیکس اور اننوویشنز پر دھیان دیاجارہاہے ۔حال میں سرکار نے فیصلہ لیاہے کہ ۔ اب ایم ایس ایم ای کے لئے ایک کروڑروپے تک کا قرض بہت کم وقت میں منظورہوجائیگا۔ اتراکھنڈ میں کسی پروجیکٹ کی کلیئرنس کو لے کرکے سرمایہ کارکو سرکاری دفتروں کے چکرنہ کاٹنے پڑیں ، اس کے لئے مختلف النوع نظام کو آن لائن کیاگیاہے ۔ پری ویش ، اس پری ویش کے نام سے آن لائن فوریسٹ کلیئرنس کے لئے ایک پورٹل کام کررہاہے ، جس سے یہ عمل آسان ہونے کے ساتھ ساتھ تیز بھی ہواہے ۔ گذشتہ چاربرسوں کے دوران اتراکھنڈ میں کنکٹی وٹی بڑھانے کے لئے متعدد کوششیں کی گئی ہیں ۔ ہائی وے ، ریلوے ، فضائی راستے ، ہرطرح سے اتراکھنڈ کو مربوط کیاجارہاہے ۔ گاوں ۔گاوں میں پکی سڑکیں پہنچ رہی ہیں ۔ اتنا ہی نہیں ، چاردھام بارہ ماسی استعمال کے لائق سڑکیں اور رشی کیش ۔ کرن پریاگ ریل لائن کا کام تیز رفتاری سے چل رہاہے ۔ ساتھیو، بہتررابطے کا سب سے بڑا فائدہ یہاں کے سیاحت کے شعبے کو حاصل ہونے جارہاہے ۔ فطرت نے تو اس ریاست کومالامال کیا ہی ہے ،ساتھ میں عقیدت اورثقافت کا بھی وردان دیاہے ۔فطرت ہو ، ایڈوینچر(مخاطری) ہو ، ثقافت ہویاپھریوگ ، میڈیسن ہو، اتراکھنڈ سیاحت کا ایک مکمل پیکیج ہے ، ایک مثالی منزل ہے ۔ اب تو اتراکھنڈ سرکار نے الگ سیاحت پالیسی بناکر سیاحت کو ایک صنعت کی حیثیت دے دی ہے ،صنعت کا درجہ دے دیاہے ۔ 18سالوں میں پہلی بار13اضلاع میں نئی 13منزلیں ، سیاحت منزلوں کو شناخت کرکے ترقی دینے کی پہل کی گئی ہے ۔ اس سے یقینی طورپر ریاست کے نوجوانوں کو روزگارکے متعدد مواقع نصیب ہوں گے ۔ ساتھیو، اتراکھنڈ میں آرگینک ریاست بنانے کے مکمل امکانات ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ کلسٹربیسڈ آرگینک فارمنگ کے تحت ریاست کو آرگینک ریاست بنانے کی سمت میں کام شروع کردیاگیاہے ۔ آرگینک فارمنگ کو مارکیٹ فراہم کرانے کے لئے مرکزی حکومت بھی متعدد کوششیں کررہی ہے۔ ساتھ ہی ملک میں فوڈ پروسیسنگ کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ فوڈ پروسیسنگ شعبے کو مضبوط کرنے کے لئے حکومت نے فوڈ پروسیسنگ میں 100فیصد براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو ، ایف ڈی آئی کو بھی منظوری دے دی ہے ۔فوڈ پروسیسنگ کے معاملے میں بھی آج بھارت دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے ۔ چاہے اناج کی پیداوارہو، پھل اورسبزیوں کی پیداوارہو، دودھ کی پیداوارہو، متعدد شعبوں میں بھارت دنیا میں پہلے تین مقامات میں سے ہے ۔ ہمارے کاشتکاروں کی پیداوار ضائع نہ ہو، ان کو اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے ، اس کے لئے فوڈ پروسیسنگ پرہماری توجہ مرکوز ہے ۔اس میں بھی اتراکھنڈ کا سنہرامستقبل ہے۔ میں آپ سبھی سے زراعت میں زرعی تجارت میں سرمایہ کاری اور بنانے کا خاص اصرار کروں گا ۔ زراعت میں ہونے والا ویلیوایڈیشن کاشتکاروں کی آمدنی بڑھانے میں اہم کردار اداکرتاہے اورمیں مانتاہوں کہ ہم جتنا زیادہ سرمایہ ، نجی سرمایہ ، زرعی شعبے میں کریں گے ، ہم پروسیسنگ ہو ، ویلیوایڈیشن ہ�� ، کولڈ اسٹوریج ہو ، وئرہاوسنگ ہو ، نقل وحمل کے لئے مخصوص ٹائپ کے اسپیشل ٹائپ کے کیریجس ہوں ، یہ سارے امکانات ہندوستان کی دیہی اقتصادیات کی طاقت ، اور جو بھارت کی اقتصادی صلاحیت کو ایک نیا زاویہ دینے کے امکانات سے مالامال ہے ۔ ساتھیو، آج قابل احیأ توانائی کے معاملے میں عالمی رہنما بننے کی جانب گامزن ہے ۔ دنیا کی رہنمائی کرنے کی طاقت آج ہندوستان میں ہے ۔ ہم نے طے کیاہے کہ ، 2030تک ہماری 40فیصد بجلی کی صلاحیت نان فوسل فیول بیسڈ یعنی غیرنامیاتی فضلے پرمبنی ذرائع سے پیداہوگی ۔اتناہی نہیں ، 2022،جب بھارت کی آزادی کے 75سال ہوں گے ، 2022تک 175جی ڈبلیوقابل احیأ توانائی کا نشانہ لے کرکے ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اس میں بھی شمسی بجلی کا ایک بڑا حصہ ہونے والاہے ۔ بین الاقوامی سولر الائنس یعنی آئی ایس اے کے پیچھے بھی یہی نظریہ کارفرما ہے ۔ دنیا کی توانائی کی ضرورتیں پوری ہوں اورماحولیات سے بھی محفوظ رہے ، اس کے لئے ہمارا تو ایک ہی اصول ہے۔ ایک عالم ، ایک شمس ، ایک گرڈ ، اتراکھنڈ میں بھی قابل احیأ توانائی کی ترویج کے لئے ریاستی سرکارلگاتارکام کررہی ہے ۔ ہائیڈل پاورتو اس ریاست کی طاقت ہے ہی ، اب سولرتوانائی جیسے نئے وسیلے کی قوت جڑجانے سے اتراکھنڈ توانائی سرپلس ریاست بننے کی پوری صلاحیت رکھتاہے ۔ اتراکھنڈ ہندوستان کو توانائی کاحامل بناسکتاہے ، اتنے مضمرات اتراکھنڈ میں موجود ہیں ۔ ساتھیو، گذشتہ چاربرسوں میں میک ان انڈیا ایک بہت بڑ ا برانڈ بناہے ۔ ہمارااصرارہے میک ان انڈیا ، نہ صرف ہندوستان کے لئے بلکہ پوری دنیاکے لئے ۔ دنیا نے ہمارے اس بلاوے کوتسلیم کیاہے ، جس کے چلتے اطلاعاتی تکنالوجی کے ساتھ ساتھ اب الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کا بھی بھارت محوربنتاجارہاہے ۔ آج دنیا کی سب سے بڑی موبائیل فون مینوفیچکرنگ یونٹ ، اس کے ساتھ ساتھ 120سے زیادہ فیکٹریاں بھارت میں کام کررہی ہیں ۔ دنیا کے متعدد بڑے برانڈ آج میک ان انڈیا کاحصہ ہیں ۔ وہیں آٹوموبائیل شعبے میں بھی بھارت بہت تیزی سے ترقی کررہاہے ۔ اس کام میں جاپان اتراکھنڈ کا شراکت دارہے ۔ دوستوں آپ کوجان کرکے خوشی ہوگی ، جاپان کی کمپنی ،جاپان کے پروڈکٹ ، وہ کارآج ہندوستان میں بنتی ہے اوراس کا رکو جاپان درآمدکرتاہے ۔ ساتھیو، آج اس پروگرام کے توسط سے آپ سبھی کو ان تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے ، اتراکھنڈ اور نیو انڈیا کی گروتھ اسٹوری کا حصہ بننے کے لئے میں آپ کومدعوکرتاہوں ۔ مجھے پورایقین ہے کہ آنے والے دو دنوں میں جو مفاہمتی عرضداشت پردستخط ہوں گے ، وہ بہت ہی جلدفائدہ مند بھی ہوں گے اور مجھے یقین ہے کہ بھارت کی ترقی ہماری ریاستوں کے مضمرات کو زیادہ سے زیادہ اس کو اگربروئے کارلائیں تو اس ملک کے ترقی کے سفرکو دنیا کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ اوریہ خوشی کی بات ہے کہ آج ریاستوں کے درمیان ایک صحت مند نظریہ شروع ہواہے ۔ ہرریاست دوسرے صوبے سے آگے بڑھناچاہتی ہے ، انوویٹوکرنا چاہتی ہے ۔ اپنے صوبے کی صلاحیت کی بنیاد پرکرناچاہتی ہے ۔ اورجب ریاست اپنی صلاحیت کولے کرکے چلتی ہے تو میں مانتاہوں وہ ریاست پیچھے ہوتی ہے ۔ دنیا کے کئئ ممالک سے ہماری ریاستوں کی طاقت زیادہ ہے ، ہمارے صوبوں میں اہلیت زیادہ ہے ۔ دنیا کے کئی چھوٹے ملکوں کے مقابلے میں ہمارے صوبوں میں مضمرات بہت پڑے ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ راوت جی کی قیادت میں یہ 18سال کی سرکار، 18سال کی ایسی توانائی سے بھرپور عمرمیں یہ ریاست نئی اونچائیوں کو حاصل کریگی اور 2025میں جب آپ 25سال مناتے ہوں گے ، تب آپ کے سارے خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوچکے ہوں گے ۔ ایک مبارک شروعات اس ازحد مبنی بر کوشش کے ساتھ ہوئی ہے ۔ میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں اور بھارت سرکارکی طرف سے آپ کو پوراتعاون ملے گا ، اس کا یقین دلاتاہوں ۔بہت بہت شکریہ ۔,"৭ অক্টোবৰ, ২০১৮ত ডেষ্টিনেচন উত্তৰাখণ্ডঃ বিনিয়োগকাৰীৰ সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%DB%8C%D8%B1%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A8%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AB%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%86%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,نئی دہلی۔ 08 جولائی وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جاپان کے سابق وزیر اعظم جناب شینزو آبے کو خراج عقیدت پیش کی ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’جناب آبے کے انتقال سے جاپان اورپوری دنیا ایک عظیم دور اندیش قائد سے محروم ہو گئی ہے۔ اور، میں نے اپنے ایک عزیز دوست کو کھو دیا ہے۔ میرے دوست آبے سان کو خراج عقیدت ….‘‘ ’’میں سال 2007 میں پہلی بار آبے سان سے ملا تھا اور اس پہلی ملاقات کے بعد سے ہی ہمارے درمیان باہمی تبادلہ خیال کے بے شمار یادگار لمحے رہے ہیں۔ میں ان میں سے ہر ایک لمحہ کی قدر کروں گا۔ جناب آبے سان نے ہندوستان-جاپان کے تعلقات کونیا استخگام بخشا ۔ انہوں نے اسوقت جاپان کے ذریعہ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کو یقینی بنایا تھا جب ’جدید ہندوستان‘ اپنے یہاں ترقی کو رفتار فراہم کر رہا تھا۔‘‘ ’’جہاں تک عالمی قیادت کا تعلق ہے، آبے سان اپنے وقت سے آگے تھے۔کواڈ، آسیان کی زیرقیادت مختلف فورم ، ہند –بحر الکاہل پہل، ایشیا-افریقہ گروتھ کوریڈور اور کولیشن فار ڈیزاسٹر ریسیلینٹ انفراسٹرکچر ، یہ سبھی ان کے متعدد اہم خدمات سے بے حد مستفید ہوئے تھے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,"‘মাই ফ্ৰেইণ্ড, আবে ছান’ – শ্বিনজো আবেৰ প্ৰতি শ্ৰদ্ধাঞ্জলি শ্বেয়াৰ কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%A7%D8%B3%D9%B9-%D8%B1%D9%B9%DB%8C%D9%84%D9%86%DA%AF-%DA%A9%D9%85%D9%BE%D9%86%DB%8C-%D9%84%D9%85%DB%8C%D9%B9%DA%88-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%82-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 23 مئی، 2022 کو ٹوکیو میں یونیکلو کی بنیادی کمپنی، فاسٹ رٹیلنگ کمپنی لمیٹڈ کے چیئرمین، صدر اور سی ای او جناب تداشی یانائی سے ملاقات کی۔ میٹنگ میں انہوں نے بھارت کے تیزی سے بڑھتے کپڑے و ملبوسات کے بازار اور بھارت میں ٹیکسٹائل پروجیکٹوں کے لیے پیداوار سے جڑی ترغیبی (پی ایل آئی) اسکیم کے تحت سرمایہ کاری کے مواقع پر بات چیت کی۔ انہوں نے صنعتی ترقی، بنیادی ڈھانچہ، ٹیکس کے نظام اور افرادی قوت کے شعبوں سمیت بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار میں آسانی سے متعلق مختلف اصلاحات پر بھی گفتگو کی۔ وزیر اعظم نے ٹیکسٹائل کا مینوفیکچرنگ ہب بننے کے بھارت کے سفر میں، خاص طور سے کپڑا بنانے میں ٹیکنالوجیوں کے استعمال کے شعبے میں یونیکلو کو زیادہ حصہ داری کے لیے مدعو کیا۔ وزیر اعظم نے ٹیکسٹائل کے شعبے کو مزید مضبوط کرنے کے مقصد سے شروع کی گ��ی پی ایم-متر اسکیم میں بھی حصہ لینے کے لیے یونیکلو کو مدعو کیا۔,ফাষ্ট ৰিটেইলিং কোম্পানী লিমিটেডৰ অধ্যক্ষ তথা মুখ্য কাৰ্যবাহী বিষয়া শ্ৰীযুত তাদাশী য়ানাইৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%80-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندی دیوس کے موقع پر عوام کو مبارکباد پیش کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ، ’’زبان وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی سماج اپنا علم، ثقافت اور اقدار آنے والی پیڑھیوں تک پہنچاتا ہے۔ ہندی دیوس کے موقع پر ہندی زبان کی نشر و اشاعت میں مصروف ماہرین لسانیات اور ہندی سے محبت کرنے والے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد۔‘‘,হিন্দী দিৱস উপলক্ষে দেশবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰী শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B0%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر ہمارے دیویانگ بہنوں اور بھائیوں کے عزم و استقامت اور کامیابیوں کی تعریف کی ہے۔ ٹویٹس کی ایک سیریز میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر، میں اپنے دیویانگ بہنوں اور بھائیوں کے عزم و ستقامت اور کامیابیوں کی تعریف کرتا ہوں۔ ہماری حکومت نے بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جنہوں نے معذور افراد کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں اور انہیں نمایاں مقام حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے‘‘۔ ’’ہماری حکومت رسائی پر یکساں طور پر توجہ مرکوز رکھتی ہے، جس کی جھلک فلیگ شپ پروگراموں اور نیکسٹ جین انفراسٹرکچر کی تخلیق میں ملتی ہے۔ میں ان تمام لوگوں کی کوششوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں جو معذور افراد کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے نچلی سطح پر کام کر رہے ہیں ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় দিব্যাংগজন দিৱসত দিব্যাংগ ভগ্নী আৰু ভাতৃসকলৰ ধৈৰ্য তথা প্ৰাপ্তিৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D9%86%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88%DA%86-%D9%81%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF-%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%A1%E0%A6%AC%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,نئی دہلی ،10اکتوبر :ہریانہ میں ریل کوچ فیکٹری کاسنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب کے موقع پر وزیراعظم کی تقریرکے متن کے خاص خاص باتیں درج ذیل ہیں : میں بولوں گا۔سرچھوٹورام آپ سب بولیں گے ، دوباربولیں گے ، امررہے ، امررہے ! سرچھوٹورام ۔ امررہے ، امررہے ۔ سرچھوٹورام ۔ امررہے ، امررہے ۔ سرچھوٹورام ۔ امررہے ، امررہے ۔ دیش کی سیماپے رکشا کرن میں سب تے گھنے جوان ، دیش کی کروڑوں آبادی کا پیٹ بھرن میں سب تے آگے کسان اورکھیلوں میں سب تے زیادہ میڈل جیتان آلے کھلاڑی دین آلے ہریانہ کی دھرتی ن�� میں پرنام کرتاہوں ۔ دیش کا نام ، سوابھیمان بادھان میں سب تے آگے رہن میں ہریانویوں کا کوئی مقابلہ نہیں سے ۔ منچ پرتشریف فرماں ہریانہ کے گورنرجناب نارائن آریہ جی ، مرکزی کابینہ کے میرے معاون چودھری بریندرسنگھ جی ، جنان کرشن پال گرجرجی ، ہریانہ کے ہردلعزیز وزیراعلیٰ جناب منوہرلال جی ، جموں کشمیر کے گورنر جناب ستپال ملک جی ، ہماچل پردیش کے گورنراور اسی سرزمین پرپیداہوئے جناب اچاریہ دیوورت جی ، ہریانہ حکومت میں وزیر ہمارے پرانے ساتھی بھائی اوپی دھن کڑ جی ، ایم ایل اے میں جناب سبھاش برالاجی ، اورہریانہ کے ساتھ ہی پنجاب اور راجستھان سے آئے میرے پیارے بھائیواوربہنو۔ میں آج مہارے دین بندھو چھوٹورام کی مورتی تھمنے سوپن آیاہوں ۔اس تے بڑامیرے خاطر خوشی کاکونسا دن ہوسکتاہے ۔ ساتھیو، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے اس سانپلامیں کاشتکاروں کی آواز ، کاشتکاروں کے مسیحا، رہبراعظم دین بندھو چودھری چھوٹورام کے اتنے عظیم اور زبردست مجسمے کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع نصیب ہوا ہے ۔ یہاں اس تقریب میں آنے سے پہلے میں چودھری چھوٹورام جی کی یاد میں بنے سنگراہلیہ میں بھی گیاتھا ۔اب اس سنگراہلیہ کے ساتھ ہی ہریانہ کی سب سے اونچی پرتیما سانپلا، روہتک کی ایک اورپہچان بن گئی ہے ۔ اورمیری خوش قسمتی ہے اسی اکتوبرمیں کسانوں کے مسیحا ، سرچھوٹورام جی کا ہریانہ کے سب سےبڑے مجسمے کی نقاب کشائی کرنے کا موقع ملاتو31اکتوبر کو سردارولبھ بھائی پٹیل کی یوم ولادت پردنیا کا سب سے اونچامجسمہ ، اس کی نقاب کشائی کرنے کی خوش قسمتی بھی نصیب ہو گی ۔اوردونوں ہی ممتاز شخصیات کاشتکارتھیں ، کاشتکاروں کے لئے تھے اورکاشتکاروں کو ملک سے جوڑنے کا کام کیاتھا۔ اوردوسری خصوصیت ہے اس مجسمے کو تعمیر کیاہے جناب ستارجی نے ۔ اب 90سے بھی زیادہ عمرہوگئی ہے ، ابھی بھی کام کرتے ہیں ۔ اوروہی ہمارے ستارجی نے دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ، سردارولبھ بھائی پٹیل کا بھی ،انھوں نے ہی بنایاہے ۔ میں ہریانہ ، راجستھان اورپنجاب کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے ہمارے سبھی بیدار شہریوں کو مبارکباد دیتاہوں ۔ بھائیواوربہنوہمارے ملک میں وقت وقت پرایسی عظیم شخصیات وجود میں آتی رہی ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی صرف اور صرف سماجی خدمت اور ملک کو صحیح راہ دکھانے میں گذاردی ہے ۔ کتنی ہی غریبی ہو، تنگی ہو، کتنی ہی مشکلیں ہوں ، جدوجہد ہو ، ایسے لوگ ہرچیلنج کو پارکرکے خود کو کھپا کرسماج کو مضبوط کرتے رہے ہیں ۔ یہ ہم سبھی کے لئے فخرکی بات ہے کہ ہریانہ کی اس سرزمین پرچودھری چھوٹورام جی پیداہوئے ۔ چودھری چھوٹورام جی ملک کے ان سماجی اصلاح کاروں میں تھے جنھوں نے ہندوستان کی تعمیر میں اہم کرداراداکیا۔ وہ کسانوں ، مزدوروں ، ناداروں ، محروموں کی بلند اور اہم آواز تھے ۔ وہ سماج میں تفریق پیداکرنے والی ہرطاقت کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہوئے ۔ زراعت سے جڑے مسائل ، کاشتکاروں ، چھوٹی صنعتوں کے سامنے آنے والی پریشانیوں ، چیلنجوں کو انھوں بہت ہی قریب سے دیکھا، سمجھااور ان چیلنجوں کوکم کرنے کی بھی کوشش کی ۔ ساتھیو، آج سرچھوٹورام کی روح جہاں بھی ہوگی ، یہ دیکھ کرخوش ہوگی کہ آج کے ہی دن سونی پت میں ایک جدیدتکنیک والےریل کوچ کارخانے کا سنگ بنیاد بھی رکھاگیاہے ۔ قریب قریب 500کروڑروپے کی لاگت سے اس کارخانے کاتعمیر ی کام کیاجائیگا۔ اس ریل کوچ فیکٹری میں ہرسال پیسنجرٹرین کے 250ڈبوں کی مرمت اور انھیں جدیدطریقے سے آراستہ ��رنے کاکام کیاجائیگا ۔ اس کوچ فیکٹری کے بننے کے بعد مسافرڈبوں کے رکھ رکھاو کے لئے ڈبوں کو اب دورکی فیکٹری میں بھیجنے کی مجبوری ختم ہوجائیگی ۔ اوراس سے علاقے میں چلنے والی ٹرینوں میں مسافرڈبوں کی دستیابی بڑھے گی اور لوگوں کو آرام دہ کوچ کی سہولت بھی میسرہوجائیگی ۔ بھائیواوربہنو، یہ کارخانہ صرف سونی پوت میں ہی نہیں بلکہ ہریانہ کی صنعتی ترقی کو فروغ دینے میں بھی مدد کریگا۔ کوچ کی مرمت کے لئے جس سامان کی بھی ضرورت ہوگی ، اس کی فراہمی یہاں کی چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو بھی اس کی وجہ سے نئے نئے کام کا موقع ملے گا، فائدہ ہوگا۔ چاہے سیٹ کورہوں ، پنکھے ہوں ، بجلی کی فٹنگ ہوں ، کوچ میں لگنے والی تمام سہولتیں ہوں ، انھیں فراہم کرانے کا بڑاموقع ہریانہ کی چھوٹی موٹی صنعتو ں کو بھی ملے گا۔ آپ سوچیئے ، اس کوچ کارخانے سے یہاں کے نوجوانوں کو روزگارکے کتنے نئے مواقع فراہم ہونے جارہے ہیں ۔ ایک کارخانے سے ایک اورفائدہ ہوگا ۔ یہاں کے انجینئراور ٹیکنیشنوں کو اس کارخانے کی وجہ سے ریل کوچ کی مرمت کے شعبے میں لوکل ایکسپرٹائز کی بھی ترقی ہوگی ، یعنی یہاں کے انجینئر، ٹیکنیشئن اس کارخانے کی وجہ سے ایک الگ ہی طرح کی خصوصیت اور خاصیت حاصل کریں گے ۔ آنے والے دنوں میں یہاں کے ماہرین ملک کے دوسرے حصوں میں جاکربھی اپنی خصوصیت کافائدہ ملک کو دے پائیں گے ۔ ساتھیو ، یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے کئی برسوں تک ہریانہ میں کام کرنے کا موقع ملاہے ۔ اورجب میں یہاں پارٹی کا کام کرتاتھا تو شاید ہی کوئی دن ایسا جاتاہوکہ مجھے کوئی نہ کوئی شخص سرچھوٹورام جی کے بارے میں ، ان کی عظمت کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات نہ سناتاہو ۔ ان کے بارے میں جوکچھ بھی میں نے پڑھا۔سنا، وہ اس شخص کو ترغیب دینے والاہے جو چیلنجوں کامقابلہ کرکے ملک اورسماج کے لئے کچھ کرناچاہتاہے ۔ یہیں روہتک میں چودھری صاحب نے کہاتھا کہ میرے لئے کاشتکار غریبی کی بھی علامت ہیں اور انگریزی فوج کے مظالم کے خلاف پرچم بلندکرنے والے یہ فوجی بھی ہیں ۔ یہ سرچھوٹورام کے الفاظ تھے ۔ ساتھیو، آج ہریانہ میں ایسا کوئی گاوں نہیں جہاں کاکوئی فرد فوج سے نہ جڑاہواہو۔ فوج سے جڑکر ملک کی خدمت کاجذبہ بیدارکرنے کاسہرا کافی حدتک دین بندھوچھوٹورام جی کو جاتاہے ۔ انھو ں نے ہی یہاں کاشتکاروں کو بڑی تعداد میں فوج میں بھرتی ہونے کے لئے راغب کیا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران یہاں کے بہت سے فوجی عالمی امن کے لئے لڑے تھے ۔ ساتھیو، اپنی زندگی میں وہ آزاد بھارت کو نہیں دیکھ پائے ، لیکن بھارت کے چیلنجوں کو اس کی امیدوں ، اس کی آرزووں اور اس کی ضرورتوں کو انھوں نے بخوبی سمجھاتھا۔ وہ ہمیشہ انگریزوں کی ‘تقسیم کرواورراج کرو’کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ۔ چودھری چھوٹورام جی نے اوران کے ان ہی نظریات کی وجہ سے سیاست کی ہردفعہ میں سر چھوٹورام جی کااحترام ہوتاتھا۔ ان کاقد، ان کی شخصیت کتنی بڑی تھی اس کا انداز ہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ سردارپٹیل نے ایک بارسرچھوٹورام کے لئے کہاتھا اورمیں مانتاہوں ہریانہ کا ہرشہری اس واقعے پرفخرکرسکتاہے ۔ سردارولبھ بھائی پٹیل نے کہاتھاکہ اگرآج چودھری چھوٹورام جی حیات ہوتے تو مجھے تقسیم کے بعد ، بھارت تقسیم کے بعد ، اس تقسیم کے وقت پنجاب کی فکرمجھے نہ کرنی پڑتی ، چھوٹورام جی سنبھال لیتے ۔ یہ سردارولبھ بھائی پٹیل نے سرچھوٹورام جی کی اہلیت اور قوت کا تعارف کرایاہے ۔ مغرب اور مشرق بھارت کے ایک بڑے ح��ے میں ان کا اثراتنا زبردست تھاکہ انگریز حکمراں بھی ان کی بات ماننے سے انکارکرنے سے پہلے سوبارسوچنے کے لئے مجبورہوتے تھے ۔ چودھری چھوٹورام جی اور ساہوکارکاواقعہ ، میں بھی کبھی کبھی کم سے کم 100بارسناہوگا۔ آپ سب بخوبی واقف ہوں گے ۔ساہوکارنے ان کو قرض دینے کے بجائے پٹواری بننے کی صلاح دے دی تھی ۔لیکن ساہوکار کو بھی انداز ہ نہیں تھا کہ جس کو پٹواری بننے کا مشورہ دے رہے ہیں ، وہ ایک دن پنجاب کے ہزاروں پٹواریوں کی قسمت طے کرنے والاہے ۔ صرف اورصرف اہلیت کے بل پرجدوجہد کرتے ہوئے چودھری صاحب پنجاب کے ریوینیومنسٹربن گئے تھے ۔ بھائیواوربہنو، وزیررہتے ہوئے انھوں نے پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک کے کاشتکارں کے لئے ، کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے ، بھارت کے ریوینیونظام کے لئے ، فصلوں کی مارکیٹنگ کے لئے ایسے قانون بنائے ، جوآج تک ہمارے نظام کا حصہ ہیں ۔ کاشتکاروں کوقرض سے جڑے قانون ہوں ، امدادی قیمت سے جڑا قانون ہو یاپھرزراعت منڈیوں سے جڑے قانون ، ان کی بنیادچودھری صاحب نے ہی رکھی تھی ۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سارے کام اس وقت ہوئے جب ملک غلام تھا۔ چودھری صاحب کے سامنے تمام طرح کی سیمائیں تھیں لیکن باوجود اس کے انھوں نے کاشتکاروں کے لئے نہ صرف سوچا بلکہ کرکے بھی دکھاہے ۔ وہ ایگرو انڈسٹریز کو بڑھانے کے حقوق کے حمایتی تھے ۔اس دورمیں بھی انھوں نے کاٹیج انڈسٹریز ، چھوٹی صنعتوں کو مستحکم کرنے پرزوردیاتھا۔ وہ صنعتوں کولگاتارراغب کرتے تھے کہ وہ ملک کے کاشتکاروں سے جڑیں ، زراعت کے شعبے سے ہرکسی کو جڑناچاہیئے ۔ ساتھیو، چھوٹورام جی کی اس دوراندیشی کو دیکھتے ہوئے چکرورتی راج گوپالاچاریہ جی نے کہاتھا ، راج گوپالاچاریہ جی چھوٹورام کے لئے کہاتھا کہ چودھری چھوٹورام جی نہ صرف اونچے نشانے طے کرناجانتے ہیں بلکہ ان نشانوں کو حاصل کیسے کیاجائے ، اس کاراستہ بھی انھیں اچھی طرح معلوم تھا۔ بھائیواوربہنو، ملک کے بہت سے لوگوں کو تواتنابھی نہیں معلوم ہوگا ، یہ جوبھاکھڑا باندھ ہے ، اس کی اصلی سوچ چودھری صاحب کی ہی تھی ۔ انھوں نے ہی بلاسپور کے راجہ کے ساتھ بھاکھڑا باندھ پردستخط کئے تھے ۔ اس بات کا پنجاب ، ہریانہ ، راجستھان کے لوگوں کو ، کاشتکاروں کو جو فائدہ آج بھی مل رہاہے ، وہ ہم سبھی دیکھ رہے ہیں ۔ سوچیئے کتنا بڑا وژن تھا ان کا ، کتنی دوراندیشی تھی ان میں ۔ ساتھیو، جس شخص نے ملک کے لئے اتنا سب کچھ کیا، اتنے زبردست اصلاحی کام کئے ، ایسا وژن سامنے رکھا ، اس کے بارے میں جاننا ، سمجھنا ہرشخص کا حق ہے ،ادھیکارہے ۔ کئئ بار تومجھے حیرانی ہوتی ہے کہ اتنے ممتاز شخص کو توایک علاقے کے دائرہ میں ہی محدود کیوں کیاگیاہے ۔ میرامانناہے کہ اس سے چودھری صاحب کے قدپرتوکوئی اثرنہیں پڑا لیکن ملک کی متعدد پیڑھیاں ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنے سے محروم رہ گئیں ۔ بھائیواوربہنو، ہماری حکومت ملک کے لئے اپنی زندگی نچھاورکرنے والے ہرایک شخص کی حوصلہ افزائی کرنے کاکام کررہی ہے ۔ گذشتہ چاربرسوں سے نہ صرف عظیم شخصیات کی عزت افزائی کاکام ہورہاہے بلکہ ان کے دکھائے گئے راستوں کوتوسیع دی جارہی ہے ۔ کاشتکارکو ، چھوٹی صنعتوں کو مدد کے لئے ساہوکاروں کے بھروسے نہ رہناپڑے ، اس کے لئے بینکوں کے دروازے کھول کررکھے گئے ہیں ۔ جن دھن یوجنا کے تحت ہریانہ کے بھی قریب ساڑھے چھیاسٹھ لاکھ بھائی بہنوں کے کھاتے کھولئے گئے ہیں ۔ حکومت کے ذریعہ امدادباہمی کے بینکوں سے قرض لینا اورآ��ان کردیا گیاہے ۔حال میں ہی انڈیاپوسٹ پیمنٹ بینک بھی شروع ہواہے ۔ اس سے آپ کواپنے گاوں میں ہی ڈاکئے کے وسیلے سے گھرپرہی بینکنگ خدمات حاصل ہونی طے ہوگئی ہیں ۔ ساتھیو، چودھری صاحب نے جس طرح کاشتکاروں ، مزدوروں کی بھلائی کے لئے ہمدردی کے ساتھ سوچا ، اسی طرح ہماری سرکاربھی بیج سے بازارتک کی ایک مستحکم نظام قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ کاشتکارکو اس کی پیداوارکی مناسب قیمت ملے ، موسم کی مار سے کاشتکاروں کو تحفظ کووچ ملے ، جدیدبیج ملیں ، ضرورت کے مطابق یوریاملے ، سینچائی کے مناسب انتظام ملے ، مٹی کوقوت ملے ، اس پرلگاتارکام جاری ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کا فائدہ ہریانہ کو بھی مل رہاہے ۔ ملک کے قریب قریب 50لاکھ کاشتکارکنبوں کو سوئیل ہیلتھ کارڈ ملے ہیں ۔ قریب ساڑھے چھ لاکھ کاشتکارفصل بیمہ سے جڑے ہیں جن کوساڑھے تین سوکروڑ سے زیادہ کی دعوے کی رقم بھی مل چکی ہے ۔ جہاں گذشتہ 30-40برسوں تک پانی نہیں پہنچا ، وہاں آج پانی پہنچایاجارہاہے ۔ حال میں لکھوارباندھ کے لئے چھ ریاستوں کے درمیان تاریخی معاہدہ ہواہے ۔ اس سے بھی ہریانہ کا بہت فائدہ ہونے والا ہے ۔ ساتھیو،10،9،8دہائی پہلے چودھری صاحب نے کاشتکاروں کے فصل کی مناسب قیمت دلانے کے لئے زراعت پیداوارمنڈی قانون بنایاتھا۔ ہماری سرکارنے بھی پی ایم آشا یعنی پردھان منتری ان داتاآئے سنرکشن ابھیان شروع کیاہے ۔ اس کے تحت حکومت نے یہ انتظام کیاہے کہ اگرکاشتکاروں کو امدادی قیمت سے کم قیمت بازارمیں مل رہی ہے تو ریاستی سرکار اس کانقصان پورا کرسکے ۔ اتناہی نہیں ، ہم نے وعدہ کیاتھا کہ لاگت پرکم سے کم 50فیصد فائدہ کاشتکاروں کو ملے ، وہ بھی پوراکیاجاچکاہے ۔ ساتھیو آج ہریانہ ملک کی ترقی کو رفتار رہاہے ۔ یہ رفتارلگاتارتیزہو اس کے لئے ہم سبھی کوکام کرناہے ۔ یہ پیغام چودھری چھوٹورام جی کاہم سبھی کے لئے ہے ۔ ساماجک اہلیت اورقومی اتحاد کے لئے نچھاورقومی شخص کو حقیقی خراج عقیدت تبھی ہوگا جب ہم مل کرکے ان کے خوابوں کاہندوستان بنائیں گے ، نیابھارت بنائیں گے ۔کچھ دنوں میں یوم ہریانہ بھی آنے والاہے ۔ اس کے لئے بھی میں سبھی ہریانہ کے باشندگان کوپیشگی میں بہت بہت نیک خواہشات بھی دیتاہوں اورآپ سب اتنی بڑی تعداد میں اورسر چھوٹورام جی کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے ، اس کےلئے میں آپ سب کو دل سے مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ بہت بہت شکریہ !,হাৰিয়ানাত ৰে’লৰ ডবা নিৰ্মাণ কাৰখানাৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%BE%DB%8C-%DA%A9%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 25 اپریل 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج یوروپی کمیشن کی صدر محترمہ اُرسولا وون ڈر لیئن کا خیرمقدم کیا۔ وزیر اعظم نے اس سال رائےسینا ڈائیلاگ میں افتتاحی خطبہ کی رضامندی دینے کے لیے یوروپی کمیشن کی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ آج، بعد ازاں ان کا خطبہ سننے کے لیے پرجوش ہیں۔ دونوں قائدین نے اتفاق کیا کہ بڑے اور فعال جمہوری معاشرے کے طور پر ، بھارت اور یوروپ متعدد عالمی مسائل پر یکساں اقدار اور مشترکہ نقطہ نظر ساجھا کرتے ہیں ۔ انہوں نے ایک آزاد تجارتی معاہدے اور سرمایہ کار�� معاہدے پر آئندہ مذاکرات کے ازسر نو آغاز سمیت بھارت ۔ یوروپی یونین کلیدی شراکت داری کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ بھارت ۔ یوروپی یونین تعلقات کے تمام تر پہلوؤں کو سیاسی سطح کی نگرانی فراہم کرنے اور باہمی تعاون کے مختلف شعبوں کے درمیان تال میل کو یقینی بنانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تجارتی اور تکنالوجی کمیشن قائم کیا جائے۔ دونوں قائدین نے گرین ہائیڈروجن جیسے شعبوں میں بھارت اور یوروپی یونین کے درمیان اشتراک کے امکانات سمیت موسمیات سے متعلق مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیالات کیے ۔ انہوں نے کووِڈ۔19 کے جاری خطرے پر بھی تبادلہ خیالات کیے اور دنیا کے تمام ترحصوں تک ٹیکوں اور معالجاتی خدمات کی مساویانہ رسائی کو یقینی بنانے کی کوششوں پر زور دیا۔ اس کے علاوہ، میٹنگ کے دوران اہم جغرافیائی سیاسی امور پر تبادلہ خیالات کیے گئے، جن میں یوکرین کی صورتحال اور بھارت ۔ پیسفک خطے میں رونماہونے والے واقعات جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔,নতুন দিল্লীত ইউৰোপিয়ান কমিশ্যনৰ ৰাষ্ট্ৰপতি উৰ্চুলা ভন ডেৰ লেয়েনৰে বৈঠক প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D9%85-%D9%BE%D8%B0%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,"نئی دہلی۔ 19 جنوری وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ہزیرا میں واقع ایل اینڈ ٹی آرمرڈ سسٹمز کمپلیکس کو قوم کے نام وقف کیا۔ انہوں نے کمپلیکس کا دورہ بھی کیا اور اس پروجیکٹ کے پیچھے اختراعی جذبے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے نو ساری میں نرالی کینسر اسپتال کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس اسپتال سے خطے کے لوگ کینسر کے علاج کے احتیاطی اور معالجاتی پہلوؤں کی فراہمی سے مستفید ہوں گے۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم کا دورۂ گجرات اختتام پذیر ہوا اور اب ان کے تین روزہ دورے کی اگلی منزل سلواسا اور ممبئی ہوگی۔ وزیر اعظم کے دورۂ گجرات کے پہلے دن وائبرینٹ گجرات چوٹی کانفرنس کے سلسلے میں نمائشی مرکز میں اہم عالمی ٹریڈ شو کا افتتاح کیا گیا۔ وزیر اعظم نے احمد آباد میں جدید ترین سہولیات والے اسپتال سردار ولبھ بھائی پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ کا افتتاح کیا ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سبھی کے لیے ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے سمت میں اپنی عہد بستگی برقرار رکھتے ہوئے ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’جدید ہندوستان کی جانب بڑھتے قدم کی راہ ہموار کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے ذریعہ سابرمتی ریور فرنٹ میں احمد آباد شاپنگ فیسٹول -2019 کا افتتاح بھی توجہ کا مرکز رہا ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ملک میں تجارت کے لیے ایک خوشگوار ماحول بنانے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے دورۂ گجرات کے دوسرے دن تین روزہ طویل وائبرینٹ گجرات چوٹی کانفرنس –2019 کا انعقاد کیا گیا ۔ وزیر اعظم مودی نے گاندھی نگر کے مہاتما مندر ایگزبیشن کنوینشن سینٹر میں نویں چوٹی کانفرنس کا افتتاح کیا ۔ اس موقع پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے ساتھ تجارت کرنا ایک عظیم موقع ہے ۔ اس دوران ، وزیر اعظم نے ہندوستان کے دورے پر آئے ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف، چیک جمہوریہ کے وزیر اعظم مسٹر آندریز بابس، مالٹا کے وزیر اعظم ڈاکٹر جوزف مسکٹ اور ڈنمارک کے وزیر اعظم مسٹر لارس لوکے راس موسین کے ساتھ 18 جنوری 2019 کو باہمی بات چیت کی۔ اس کے بعد گاندھی نگر ، گجرات میں ڈانڈی کوٹیرکے مقام پر تھری ڈی لیزر پروجیکشن شو کا انعقاد کیا گیا۔ صنعتی دنیا کے سربراہوں نے وائبرینٹ گجرات چوٹی کانفرنس کے موقع پر متعدد سرمایہ کاری پروجیکٹوں کا اعلان کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ را( ,",গুজৰাট ভ্ৰমণ সামৰিলে প্ৰধানমন্ত্রীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D9%86-%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے، کوپن ہیگن میں دوسری ہند-نارڈک سربراہ کانفرنس کے موقع پر، فن لینڈ کی وزیر اعظم عزت مآب محترمہ سانا مارین سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ دونوں فریقوں نے 16 مارچ 2021 کو ہونے والی دو طرفہ ورچوئل سربراہ کانفرنس کے نتائج کے نفاذ میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے نوٹ کیا کہ سائنس اور تعلیم میں پائیداری، ڈیجیٹلائزیشن اور تعاون جیسے شعبے دو طرفہ شراکت کے اہم ستون ہیں۔ انہوں نے،مصنوعی انٹیلیجنس، کوانٹم کمپیوٹنگ، مستقبل کی موبائل ٹیکنالوجیوں، کلین ٹیکنالوجیوں اور سمارٹ گرڈز جیسی نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے شعبوں میں تعاون میں اضافہ کرنے کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم نے فن لینڈ کی کمپنیوں کو ہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرنے اور ہندوستانی بازارمیں، خاص طور پر ٹیلی کام بنیادی ڈھانچے اور ڈیجیٹل تبدیلیوں میں پیش کیے جانے والے بے پناہ مواقع سے، فائدہ اٹھانے کی دعوت دی۔ علاقائی اور عالمی صورت حال اور بین الاقوامی تنظیموں میں وسیع ترتعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔,ফিনলেণ্ডৰ প্রধানমন্ত্রীৰ সৈতে প্রধানমন্ত্রীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%84%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D8%B4-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,نئی دہلی، 17/اکتوبر2021 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ جناب پینا رائی وجین سے بات کی اور کیرالہ میں بھاری بارش اور تودے کھسکنے کے سبب پیدا ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم نے کیرالہ میں بھاری بارش اور تودے کھسکنے کے واقعات کے سبب جانوں کے اتلاف پر تعزیت کا اظہار بھی کیا۔ یکے بعد دیگرے کئے گئے اپنے ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ’’کیرالہ کے وزیر اعلیٰ جناب پینا رائی وجین سے بات کی اور کیرالہ میں بھاری بارش اور تودے کھسکنے کے سبب پیدا ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ حکام زخمیوں اور متاثرین کی مدد کے لئے زمینی سطح پر کام کررہے ہیں۔ میں ہر شخص کی صحت و سلامتی کے لئے دعاگو ہو۔ یہ افسوسناک ہے کہ کیرالہ میں بھاری بارش اور تودے کھسکنے کے سبب کچھ لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ غمزدہ کنبوں کے تئیں تعزیت۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কেৰালা�� প্ৰবল বৃষ্টিপাত আৰু ভূমিস্খলনৰ বিষয়ে কেৰালাৰ মুখ্যমন্ত্ৰীৰে কথা পাত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند کےلئے الوداری تقریب میں شرکت کی۔ ایک ٹوئیٹ وزیراعظم نے کہا: ’’آج ، پارلیمنٹ میں، صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند جی کے لئے منعقد الوداعی تقریب میں شرکت کی۔ اس میں وزراء اورمختلف پارٹیوں کے رہنماشریک ہوئے۔‘‘,সংসদত ৰাষ্ট্ৰপতি শ্ৰী ৰামনাথ কোবিন্দৰ বিদায় অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%D8%A7-%D8%A7%D8%AE%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B1-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A7%AE%E0%A6%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%9B%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے narendramodi.in ویب سائٹ پر دستیاب مختلف مضامین کی تفصیلات شیئر کی ہیں جس میں خواتین کو با اختیار بنانے کی سمت میں حکومت کے ذریعے کیے جانے والے کاموں کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ جناب مودی نے MyGov کا ایک ٹویٹ تھریڈ بھی شیئر کیا ہے، جس میں خواتین کی فلاح اور انہیں با اختیار بنانے کے لیے حکومت کی مختلف اسکیموں اور اقدامات کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ میں کہا: ’’خواتین کو مزید با اختیار بنانے کے لیے ایک نئی مثال کیسے قائم کی جاتی ہے، اس پر آپ کو ان مضامین کو پڑھنے میں مزہ آئے گا۔ ان کوششوں میں مختلف شعبوں کو شامل کیا گیا ہے اور خواتین کے لیے مزید اعزاز کے ساتھ ساتھ مواقع کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ ’’#خواتین کو با اختیار بنانے کے 8 سال‘‘ ’’بھارت کی خواتین کو با اختیار بنانے کے کام کے بارے میں تفصیلی معلومات۔ ’’#خواتین کو با اختیار بنانے کے 8 سال‘‘,‘মহিলা সবলীকৰণৰ ৮টা বছৰ’-ৰ সবিশেষ জনালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%B3%DB%8C%D9%85%DB%8C%D9%86%D8%A7%D8%B1-%D8%B3-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%8F%E0%A6%A8%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%85/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج این آئی آئی او (بحریہ سے متعلق اختراع اور ملک میں ہی ساز و سامان تیار کرنے سے متعلق تنظیم) سیمینار ’سواولمبن ‘ سے خطاب کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کی دفاعی فوجوں میں خود کفالت کا مقصد 21 ویں صدی کے بھارت کے لئے نہایت اہم ہے۔ خود کفیل بحریہ کے لئے پہلے سواولمبن (خود کفالت) سیمینار کا انعقاد کیا جانا اس سمت میں کافی اہم قدم ہے۔ وزیراعظم نے کہا بھارت کے لئے نئے طریقہ کار تشکیل دینے کی اس مدت میں 75 قسم کی دیسی ٹکنالوجیز تیار کرنے کا عزم اپنے اندر ایک جذبے کا حامل ہے اور انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ بہت جلد پورا ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی یہ پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’ ہمیں دیسی ٹکنالوج��ز کی تعداد میں لگاتار اضافہ کرنے پر کام کرنا ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جب بھارت اپنی آزادی کے 100 سال پورے کی تقریبات منائے ، اس وقت ہماری بحریہ کو ایک بے مثال بلند ی پر ہونا چاہیے‘‘۔ بھارتی معیشت میں سمندر اور ساحلوں کی اہیت کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی بحریہ کا رول لگاتار بڑھ رہا ہے۔ لہذا بحریہ کی خود کفالت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ملک کی شاندار بحری روایت کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کا دفاعی شعبہ آزادی سے پہلے بھی بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ آزاد کے وقت ملک میں ہتھیار بنانے والی 18 فیکٹریاں تھیں، جہاں بکتر بند توپوں سمیت بہت سی قسم کا فوجی ساز و سامان ملک کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ بھارت دوسری جنگ عظیم میں دفاعی ساز و سامان کا ایک اہم سپلائر تھا۔ انہوں نے کہا ’’ہماری توپیں، مشین گنیں، ایشا پور رائفل فیکٹری میں تیار کی جاتی تھیں۔ جنہیں بہترین مانا جاتا تھا۔ ہم بڑے پیمانے پر برآمد کیا کرتے تھے لیکن پھر کیا ہوا کہ ایک وقت ہم اس میدان میں دنیا کے سب سے بڑے درآمدکار بن گئے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ان ملکوں کی طرح جنہوں نے ہتھیاروں کے بڑے برآمد کاروں کے طور پر ابھرنے کے لئے جنگ عظیم کے چیلنج پر اثاثہ لگایا، بھارت نے بھی کورونا مدت کے دوران منفی حالات کو موقع میں بدلا اور معیشت ، مینوفیکچرنگ اور سائنس میں بڑی ترقی کی۔ انہوں نے اس حقیقت کا ذکر کیا کہ آزادی کی شروع کی دہائی کے دوران دفاعی ساز و سامان کی تیاری کے فروغ پر کوئی توجہ نہیں تھی اور تحقیق و ترقی محض سرکاری شعبے تک محدود ہونے کی وجہ سے انتہائی محدود تھی۔ انہوں نے کہا ’’اختراع نہایت اہم ہے اور اسے دیسی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ انہونے کہا کہ درآمد شدہ اشیا اخترا ع کا وسیلہ نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے درآمد شدہ اشیا کے لئے پسندیدگی میں ایک تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا‘‘ ۔ وزیراعظم نےکہا کہ خود کفیل دفاعی نظام معیشت کے لئے اہمی کا حامل ہے اور دفاعی نقطہ نظر سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا ملک نے 2014 کے بعد سے اس انحصار میں کمی لانے کے لئے مشن کی شکل میں کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے مختلف شعبوں میں انتظام کرکے اپنی سرکاری شعبے کی دفاعی کمپنیوں کو نئی طاقت بخشی ہے۔ آج ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ ہم اپنے آئی آئی ٹی جیسے اعلی اداروں کو دفاعی تحقیق اور اختراع سے وابستہ کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’پچھلی دہائیوں کے طریقہ کار سے سیکھ لیتے ہوئے آج ہم ہر ایک کی کوششوں کی طاقت کے ساتھ ایک نیا دفاعی نظام تیار کررہے ہیں۔ آج دفاع سے متعلق آر اینڈ ڈی، نجے شعبے ، ماہرین تعلیم، ایم ایس ایم ای اور اسٹارٹ اپس کے لئے کھول دی گئی ہے‘‘۔ اس کی وجہ سے طویل عرصے سے زیر التوا پروجیکٹوں میں ایک نئی رفتار پیدا ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے اعتماد کا اظہار کیا کہ ملک ہی میں تیار کئے گئے پہلے طیارہ بردار جہاز کو کام پر لگانے کا انتظار جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے آٹھ سال میں حکومت نہ صرف دفاع سے متعلق اپنے بجٹ میں اضافہ کیا ہے ’’ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ یہ بجٹ خود ملک میں دفاعی مینوفیکچرنگ کا نظام تیار کرنے میں بھی کار آمد ہو۔ آج دفاعی ساز و سامان کی سرکاری خرید کے لئے ایک بڑی رقم مختص کی جاتی ہے جسے بھارتی کمپنیوں کی طرف سے خریداری پر خرچ کیا جارہا ہے‘‘۔ انہوں نے ان 300 اشیا کی ایک فہرست تیار کرنے پر بھی دفاعی فوجوں کو سراہا، جو درآمد نہیں ��ی جائیں گی۔ پچھلے چار پانچ سال میں وزیراعظم نے کہا کہ دفاع سے متعلق درآمدات میں تقریباً 21 فیصد کی کمی آئی ہے۔ آج ہم ایک سب سے بڑے دفاعی درآمد کار سے ایک بڑے برآمدکار میں تبدیل ہورہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ پچھلے سال 13 ہزار کروڑ روپے مالیت کی دفاعی برآمدات کی گئی تھیں، جس میں سے 70 فیصد سے زیادہ نجی شعبے کے لئے تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اب قومی سلامتی کو ہی بڑے پیمانے پر خطرے لاحق ہوگئے ہیں، تو جنگ کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ اس سے پہلے ہم اپنا دفاع محض زمین، سمندر اور آسمان تک سو چ سکتے تھے لیکن اب یہ دائرہ خلا تک وسعت پا رہا ہے۔ سائبر اسپیس تک جارہا ہے، اقتصادی اور سماجی خلا تک جارہا ہے۔ ایسے منظر نامے میں، وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ہی سرگرم ہونا ہوگا اور ہمیں اس کے مطابق ہی خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خود کفالت سے ملک کو اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر ترقی کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے نئے خطر ے سے خبردار کیا۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ کو بھی تیز کرنا ہوگا جو بھارت کی خود اعتمادی اور ہماری خود کفالت کو چیلنج کررہی ہیں۔ چونکہ بھارت عالمی سطح پر خود کو مستحکم کررہا ہے، لہذا گمراہ کن معلومات ، غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈے سے لگاتار حملے کئے جارہے ہیں۔ ہمیں خود پر اعتماد رکھتے ہوئے ان فوجوں کو جو ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہی، خواہ وہ ملک میں ہیں یا ملک سےباہر، ان کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ ملک کا دفاع اب محض سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ کافی زیادہ وسیع ہوچکا ہے، لہذا اتنا ہی ضروری ہے کہ اس کے بارے میں ہر ایک شہری کو بیدار کیا جائے‘‘۔ لہذا ، انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے یہ بھی کہا ’’جیساکہ ہم ایک خود کفیل بھارت کے لئے پوری حکومت کے نظریئے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح پورے ملک کا نظریہ بھی ملک کے دفاعی کے لئے وقت کی ضرورت ہے، بھارت کے مختلف عوام کا یہ اجتماعی قومی شعور سلامتی اور خوشحالی کی مضبوط بنیاد ہے‘‘۔ این آئی آئی او سیمنار ’سواو لمبن‘ یہ آتم نربھر بھارت ایک کلیدی ستون ہے، جس کےذریعہ دفاعی شعبے میں خود کفالت حاصل کی جارہی ہے۔ اس کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے پروگرام کے دوران وزیراعظم نے ’اسپرنٹ چیلنجز‘ کی نقاب کشائی کی، جس کا مقصد بھارتی بحریہ میں ملک ہی میں تیار کی گئی ٹکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے حصے کے طور پر این آئی آئی او نے دفاعی اختراع سے متعلق تنظیم (ڈی آئی او) کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے کم سے کم 75 نئی دیسی ٹکنالوجیز / مصنوعات کو بھارتی بحریہ میں شامل کرنے کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ اس اجتماعی پروجیکٹ کو اسپرنٹ کا نام دیا گیا ہے(آئیڈیکس، این آئی آئی او اور ٹی ڈی اے سی کے ذریعہ تحقیق و ترقی میں پول وولٹنگ کو مدد دینا)۔ سیمینار کا مقصد بھارتی صنعت اور تعلیمی اداروں کو دفاع کے شعبے میں خود کفالت حاصل کرنے کی جانب راغب کرنا ہے۔ دو روزہ سیمینار (18، 19 جولائی) سے صنعت ، تعلیمی اداروں، خدمات اور حکومت کی سرکردہ شخصیتوں کےلئے ایک پلیٹ فارم فراہم ہوگا کہ وہ دفاع کے شعبے کے لئے اپنے نظریات پیش کرنے اور سفارشات پیش کرنے کے مقصد سے ایک مشترک پلیٹ فارم پر یکجا ہوں۔ اختراع، ساز و سامان ملک میں تیار کئے جانے ، اسلحہ اور ہوا بازی کے لئے خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوں گے۔ سیمینار کے دوسرے دن حکومت کے ساگر (خطے میں سبھی کے لئے سلامتی اور ترقی )وژن کے مطابق بحر ہند کے خطے تک رسائی حاصل کی جائے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে এনআইঅ’ চেমিনাৰ ‘স্বাৱলম্বন’ত ভাষণ প্ৰদান কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92%D8%8C-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%B1%E0%A7%87-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%AF/,نئی دہلی،27/جون۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں، ہندوستان اور انڈونیشیاء کے درمیان ریلویز کے شعبے میں تکنیکی تعاون معاہدے پر ہوئے سمجھوتے( ایم او یو) کے بارے میں آگاہ کرایا۔ اس مفاہمت نامے پر 29مئی 2018 کو دستخط کئے گئے تھے۔ اس مفاہمت نامے کے تحت جن کلیدی میدانوں میں توجہ مرکوز کی جائے گی اور تعاون کا فریم ورک فراہم کیاجائے گا ، ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔ (اے)معلومات، ٹیکنالوجی، ہنر مندی اور صلاحیت کے فروغ سمیت ادارہ جاتی تعاون کا تبادلہ (بی)ریلوے رولنگ اسٹاک کی تجدید کاری اور ریلویز میں سگنلنگ اور مواصلاتی نظام کی جدید کاری (سی)ریلوے کے آپریشنز، انتظامیہ اور قواعد وضوابط کی جدیدیت۔ (ڈی) بین۔ ماڈل ٹرانسپورٹ، لوجسٹکس پارکس اور مال برداری ٹرمنلز کافروغ۔ (ای)مقررہ (فکسڈ) بنیادی ڈھانچہ کی جس میں ٹریکس، پل، سرنگیں، اوور ہیڈ برق کاری اور بجلی کی فراہمی نظام شامل ہیں، تعمیر اور رکھ رکھاؤ کے لئے ٹیکنالوجی کا تبادلہ ۔ (ایف)تعاون کے دیگر میدان جو دونوں اطراف سے فیصلہ کئے جاسکتے ہیں۔ پس منظر: ریلویز کی وزارت نے مختلف بیرونی حکومتوں اور قومی ریلویز کے ساتھ ریلوے کے شعبے میں تکنیکی تعاون کے لئے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے ہیں۔ جن میدانوں میں تعاون کی شناخت کی گئی ہے ان میں، تیز رفتار کاری ڈورس، موجودہ روٹوں پر رفتار کو بڑھانا، عالمی پیمانے کے اسٹیشنوں کو فروغ، ہیوی ہال آپریشنز اور ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی تجدید کاری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تعاون یا امداد ریلوے کی ٹیکنالوجی اور ا ٓپریشنز کے میدانوں میں فروغ کے لئے معلومات کے تبادلے کے ذریعہ حاصل کی جائے گی۔ نیز اس کے تحت معلومات کا مشترک کرنا، تکنیکی دورے، تربیتیں اور سیمینار باہمی مفاد پر ان میدانوں میں سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد شامل ہے۔,ৰে’লৱে খণ্ডত কাৰিকৰী সহযোগিতা বৃদ্ধিৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু ইণ্ডোনেছিয়াৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিৰ সন্দৰ্ভত কেবিনেটক অৱগত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%DB%81%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%DA%AF%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A7%B1%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 29 اپریل، 2022/ این آئی ڈی فاؤنڈیشن کے چیف سرپرست اور چنڈی گڑھ یونیورسٹی کے چانسلر میرے دوست جناب ستنام سنگھ سندھو جی، این آئی ڈی فاؤنڈیشن کے تمام ممبران اور تمام معزز ساتھی! مجھے پہلے بھی آپ میں سے کچھ سے ملنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ گرودواروں میں جانا، خدمت میں وقت گزارنا، لنگر لینا، سکھ خاندانوں کے گھروں میں رہنا میری زندگی کا بہت فطری حصہ رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً یہاں کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں سکھ سنتوں کے قدم پڑتے رہتے ہیں اور یہ میری بڑی خوش قسمتی رہی ہے۔ مجھے اکثر ان کی صحبت نصیب ہوتی ہے۔ بھائیو بہنو، جب میں غیر ملکی دورے پر جاتا ہوں تو وہاں سکھ برادری کے لوگوں سے ملتا ہوں تو مجھے بڑا فخرمحسوس ہوتا ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو میرا 2015 میں کینیڈا کا سفر یاد ہوگا! اور دلائی جی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں وزیر اعلیٰ نہیں تھا۔ چار دہائیوں میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا کینیڈا کا یہ پہلا دو طرفہ دورہ تھا اور میں اوٹاوا اور ٹورنٹو گیا تھا۔ مجھے یاد ہے تب میں نے کہا تھا کہ میں وینکوور جاؤں گا اور میں وہاں جانا چاہتا ہوں۔ میں وہاں گیا، مجھے گردوارہ خالصہ دیوان میں سر جھکانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مجلس کے ارکان کے ساتھ اچھی باتیں ہوئیں۔ اسی طرح جب میں 2016 میں ایران گیا تو وہاں بھی تہران میں بھائی گنگا سنگھ سبھا گوردوارہ جانے کا شرف حاصل ہوا۔ میری زندگی کا ایک اور ناقابل فراموش لمحہ میرا فرانس میں نواہاپلے انڈین میموریل کا دورہ ہے۔ یہ یادگار پہلی جنگ عظیم کے دوران بھارتی فوجیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور ان میں بڑی تعداد ہمارے سکھ بھائیوں اور بہنوں کی تھی۔ یہ تجربات اس بات کی ایک مثال ہیں کہ کس طرح ہمارا سکھ معاشرہ بھارت اور دوسرے ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک مضبوط کڑی کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے اس سلسلے کو مزید مضبوط کرنے کا موقع ملا ہے اور میں اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہوں۔ ساتھیو، ہمارے گروؤں نے ہمیں ہمت اور خدمت سکھائی ہے۔ ہمارے بھارت کے لوگ بغیر کسی وسائل کے دنیا کے مختلف حصوں میں گئے، اور اپنی محنت سے کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ جذبہ آج نئے بھارت کی روح بن چکا ہے۔ نیا بھارت پوری دنیا پر اپنی چھاپ چھوڑ کر نئی جہتوں کو چھو رہا ہے۔ کورونا وبا کا یہ دور اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ وبا کے آغاز میں پرانے ذہن کے لوگ بھارت کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہتا رہا۔ لیکن، اب لوگ بھارت کی مثال دیتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ دیکھیں بھارت نے یہ کیا ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ بھارت کی اتنی بڑی آبادی ہے، بھارت کو ویکسین کہاں سے ملے گی، لوگوں کی جانیں کیسے بچیں گی؟ لیکن آج بھارت ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ ہمارے ملک میں ویکسین کی کروڑوں خوراکیں دی گئی ہیں۔ آپ کو یہ سن کر بھی فخر ہو گا کہ 99 فیصدٹیکہ کاری ہماری اپنی میڈ ان انڈیا ویکسینز کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس عرصے میں، ہم دنیا کے سب سے بڑے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے طور پر ابھرے ہیں۔ ہمارے یونی کورن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت کا یہ بڑھتا ہوا قد، یہ بڑھتی ہوئی ساکھ، اگر کسی کا سر اس سے اونچا ہوا ہے تو وہ ہماری بیرون ملک مقیم بھارتی برادری کا ہے۔ کیونکہ جب ملک کی عزت بڑھتی ہے تو بھارتی نژاد کروڑوں لوگوں کی عزت بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ ان کے بارے میں دنیا کا نظریہ بدل جاتا ہے۔ اس احترام کے ساتھ نئے موقعے، نئی شراکت داری اور تحفظ کا مضبوط احساس آتا ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے بیرون ملک مقیم بھارتی برادری کو بھارت کا قومی سفیر سمجھا ہے۔ حکومت جسے بھیجتی ہے وہ سفیر ہے۔ لیکن آپ قومی سفیر ہیں۔ آپ سب بھارت سے باہر ہیں، ماں بھارتی کی بلند آواز، بلند شناخت۔ بھارت کی ترقی دیکھ کر آپ کا سینہ بھی چوڑا ہوتا ہے، آپ کا سر بھی فخر سے بلند ہوتا ہے۔ بیرون ملک رہتے ہوئے آپ اپنے ملک کی بھی فکر کرتے ہیں۔ لہذا، بیرون ملک رہتے ہوئے بھارت کی کامیابی کو آگے بڑھانے میں، بھارت کی شبیہ کو مزید مضبوط کرنے میں آپ کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہم دنیا میں کہیں بھی رہتے ہیں، بھارت پہلے، قوم سب سے پہلے ہمارا پہلا ایمان ہونا چاہیے۔ ساتھیو، ہمارے تمام دس گروؤں نے قوم کو سرفہرست رکھ کر بھارت کو متحد کیا تھا۔ گرو نانک دیو جی نے پوری قوم کے شعور کو بیدار کیا، پوری قوم کو اندھیروں سے نکالا اور روشنی کی راہ دکھائی۔ ہمارے گرو نے پورے بھارت میں مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک کا سفر کیا۔ ہر جگہ، جہاں بھی جاتے ہیں، ان کے پاس نشانیاں ہیں، ان کے پاس الہام ہے، ان کے لیے ایمان ہے۔ پنجاب میں گوردوارہ ہرمندر صاحب جی سے لے کر اتراکھنڈ کے گوردوارہ شری ہیم کنڈ صاحب تک، مہاراشٹر کے گوردوارہ حضور صاحب سے لے کر ہماچل میں گوردوارہ پاونٹا صاحب تک، بہار میں تخت شری پٹنہ صاحب سے لے کر گجرات کے کچھ میں گوردوارہ لکھپت صاحب تک، ہمارے گرووں نے لوگوں کو متاثر کیا، اس زمین کو اپنے قدموں سے پاک کیا۔ اس لیے سکھ روایت دراصل 'ایک بھارت، شریسٹھ بھارت' کی زندہ روایت ہے۔ بھائیو اور بہنو، سکھ برادری کی جدوجہد آزادی میں اور آزادی کے بعد بھی ملک کے لیے جو تعاون دیا گیا ہے اس کے لیے پورا بھارت شکر گزار ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا تعاون ہو، انگریزوں کے خلاف جنگ ہو یا جلیانوالہ باغ، ان کے بغیر نہ بھارت کی تاریخ مکمل ہے اور نہ ہی بھارت مکمل ہے۔ آج بھی سرحد پر کھڑے سکھ فوجیوں کی بہادری سے لے کر ملک کی معیشت میں سکھ برادری کی شراکت اور سکھ بیرون ملک مقیم بھارتیوں کے تعاون تک سکھ برادری ملک کی ہمت، ملک کی طاقت اور ملکی محنت کی مترادف ہے۔ ساتھیو، آزادی کا امرت مہوتسو ہماری آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت اور ورثے کا جشن منانے کا موقع ہے۔ کیونکہ، بھارت کی جدوجہد آزادی صرف ایک محدود مدت کا واقعہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ہزاروں سال کا شعور اور نظریات جڑے ہوئے تھے۔ اس کے پیچھے روحانی اقدار اور بہت سی قربانیاں وابستہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ملک ایک طرف آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے تو وہیں لال قلعہ میں گرو تیغ بہادر جی کا 400 واں پرکاش پرو بھی منا رہا ہے۔ گرو تیغ بہادر جی کے 400 ویں پرکاش پرو سے پہلے، ہم نے بھی گرو نانک دیو جی کے 550 ویں پرکاش پرو کو ملک اور بیرون ملک پوری عقیدت کے ساتھ منایا۔ ہمیں گرو گوبند سنگھ جی کے 350 ویں پرکاش پرو کی بھی خوش قسمتی ملی۔ ساتھیو، اس کے ساتھ کرتارپور صاحب کوریڈور بھی اسی عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ آج لاکھوں عقیدت مندوں کو وہاں سر جھکانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ لنگر کو ٹیکس فری بنانے سے لے کر، ہرمندر صاحب کو ایف سی آر اے کی اجازت دینے سے لے کر، گوردواروں کے ارد گرد صفائی کو بڑھانے سے لے کر انہیں بہتر بنیادی ڈھانچے سے جوڑنے تک، ملک آج ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور میں ستنام جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس طرح انہوں نے کیا تھا۔ ویڈیو مرتب کرکے دکھایا گیا ہے۔ ہر شعبے میں کس طرح پوری لگن کے ساتھ کام کیا گیا ہے اس کا پتہ چل سکتا ہے۔ آپ کو وقتاً فوقتاً جو مشورے ملتے ہیں، آپ نے آج بھی مجھے کئی مشورے دیے ہیں۔ میری کوشش ہے کہ ان کی بنیاد پر ملک خدمت کی راہ پر آگے بڑھتا رہے۔ ساتھیو، ہمارے گروؤں کی زندگی کا سب سے بڑا الہام ہمارے فرائض کا احساس ہے۔ 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پرایاس' کا یہ منتر ہم سب کے لیے بھارت کے روشن مستقبل کو یقینی بناتا ہے۔ یہ فرائض صرف ہمارے حال کے نہیں ہیں، یہ ہمارے اور ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے بھی ہیں۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر آج ملک اور دنیا کے سامنے ماحولیات ایک بڑا بحران ہے۔ اس کا حل بھارت کی ثقافت اور روایات میں مضمر ہے۔ سکھ معاشرہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔سکھ معاشرے میں ہم اپنے جسم کا جتنا خیال رکھتے ہیں اتنا ہی ماحول اور کرہ ارض کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ آلودگی کے خلاف کوششیں ہوں، غذائی قلت کے خلاف جنگ ہو، یا اپنی ثقافتی اقدار کے تحفظ کے لیے، آپ سب اس طرح کی ہر کوشش سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری آپ سے ایک اور گزارش ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ امرت مہوتسو میں نہ صرف ملک کے تمام اضلاع میں یعنی ہر ضلع میں 75 امرت سرووروں کا حل نکالا گیا ہے۔ آپ اپنے جسموں میں امرت کی جھیلوں کی تخلیق کے لیے مہم بھی چلا سکتے ہیں۔ ساتھیو، انسانی زندگی کی عزت نفس اور وقار کا جو سبق ہمارے گروؤں نے ہمیں سکھایا، ہم ہر سکھ کی زندگی میں بھی اس کا اثر دیکھتے ہیں۔ آزادی کا امرت مہوتسو آج یہ ملک کا عزم ہے۔ ہمیں خود انحصار بننا ہے، غریب ترین شخص کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ان تمام کاوشوں میں آپ سب کی فعال شرکت اور آپ کا فعال تعاون بہت ضروری اور ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گروؤں کے آشیرواد سے ہم کامیاب ہوں گے اور جلد ہی ہم ایک نئے بھارت کے مقصد تک پہنچ جائیں گے۔ اس عزم کے ساتھ، میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا یہاں آنا میرے لیے محض رفاقت سے بڑھ کر ہے۔ اور اس لیے آپ پر مہربانی ہو اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ یہ وزیراعظم کی رہائش گاہ ہے، یہ مودی کا گھر نہیں ہے۔ یہ آپ کا دائرہ اختیار ہے، یہ آپ کا ہے۔ اپنے اس احساس کے ساتھ، ہمیں ہمیشہ ماں بھارتی کے لیے، اپنے ملک کے غریبوں کے لیے، اپنے ملک کے ہر معاشرے کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ گروؤں کی رحمتیں ہم پر رہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واہے گرو کا خالصہ۔ واہے گرو کی فتح۔,নতুন দিল্লীত নিজা বাসভৱনত এটা শিখ প্ৰতিনিধি দলক সম্বোধি দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B0%D8%B4%D8%AA%DB%81-%D9%85%D8%A7%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گزشتہ ماہ (نومبر 2022) کے من کی بات کے ایپی سوڈ پر مبنی ایک کتابچہ شئیر کیا ہے، جس میں بھارت کی جی-20 صدارت، خلاءمیں مسلسل بڑھتے قدم، موسیقی کے آلات کی برآمدگی میں اضافہ اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘اس ای- بک پر ایک نظر ڈالیں، جس میں گذشتہ ماہ کے # من کی بات میں شامل موضوعات، جیسے بھارت کی جی-20 صدارت، خلاء میں ہمارے مسلسل بڑھتے قدم، موسیقی کے آلات کی برآمدگی میں اضافہ اور دیگر دلچسپ تحریریں شامل ہیں۔’’ http://davp.nic.in/ebook/h_nov/index.html""",যোৱা মাহৰ মন কী বাতৰ আধাৰত এখনি পুস্তিকা শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DB%8C%DA%86%D8%B1%D8%B2-%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%AA%D8%B0%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%95/,یوم اساتذہ کے موقع پر وزیر اعظم، جناب نریندر مودی نے نئی دہلی میں اساتذہ کے قومی ایوارڈز کے جیتنے والوں سے بات چیت کی۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سرو پلی رادھا کرشنن کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے اساتذہ کو بتایا کہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ موجودہ صدر جمہوریہ ہندکے ذریعہ مبارکب اد دی جائے جو کہ ایک ٹیچر بھی ہیں اور اڈیشہ کے دور دراز مقامات پر پڑھا چکی ہیں ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ’’آج جب ملک نے آزادی کا امرت مہوتسو کے اپنے شاندار خوابوں کو پورا کرنا شروع کردیا ہے، تعلیم کے میدان میں سرو پلی رادھا کرشنن کی کوششیں ہم سب کو تحریک دیتی ہیں۔ اس موقع پر میں قومی ایوارڈ حاصل کرنے والے تمام اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘۔ وزیر اعظم نے اساتذہ کے علم اور لگن پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ان کی سب سے بڑی خوبی ایک مثبت نقطہ نظر ہے جس سے انہیں طلباء کی بہتری کے لیےان کے ساتھ انتھک محنت کرنے کی صلاحیت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اساتذہ کا رول انسان کو روشنی دکھاناہے اور وہی ہیں جوخواب بوتے ہیں اور ان خوابوں کو عزم میں تبدیل کرنے کی تعلیم دیتے ہیں ‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 2047 کی ہندوستان کی ریاست اور تقدیر آج کے طلباء پر منحصر ہے اور ان کا مستقبل آج کے اساتذہ تشکیل دے رہے ہیں، اس لیے آپ طلباء کی زندگیوں کو تشکیل دینے میں مدد کر رہے ہیں اور ملک کے نقش و نگار بھی تیار کررہے ہیں‘‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب استاد طالب علم کے خوابوں سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ ان کا احترام اور شفقت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے طلباء کی زندگی کے مختلف شعبوں میں تنازعات اور تضادات کو دور کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ایک طالب علم کو اسکول، معاشرے اور گھر میں کیا تجربہ ہوتا ہے اس میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طلباء کی پرورش کے لیے اساتذہ اور پارٹنرز کا طلباء کے اہل خانہ کے ساتھ ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے طلباء کے لئے پسندیدگی و ناپسندیدگی کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے ہر ایک طالب علم کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ قومی تعلیمی پالیسی کو ملنے والی پذیرائی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کا ایک سے زیادہ بار مطالعہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے مہاتما گاندھی کی مثال پیش کی جہاں انہوں نے بھگوت گیتا کو بار بار پڑھا اور ہر بار انہیں ایک نیا معنی ملا۔ وزیر اعظم نے قومی تعلیمی پالیسی کو اس طرح نافذکرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ یہ سرکاری دستاویز طلبہ کی زندگیوں کی بنیاد بن جائے۔ انہوں نے کہا ’’اساتذہ نے پالیسی کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے‘‘۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں اساتذہ کا ایک اہم کردار ہے۔ وزیر اعظم نے ’پنچ پران‘ کے اپنے یوم آزادی کے اعلان کا ذکر کیا اور تجویز پیش کی کہ ان پنچ پران پر اسکولوں میں باقاعدگی سے تبادلہ خیال کیا جائے تاکہ طلباء کے سامنے ان کا اصل مقصد واضح ہو۔ انہوں نے کہا کہ ان تجاویز کو ملک کی ترقی کے ایک راستے کے طور پر سراہا جا رہا ہے اور ہمیں انہیں بچوں اور طلباء تک پہنچانے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’پورے ملک میں کوئی طالب علم ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کا 2047 کے بارے میں کوئی خواب نہ ہو ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈانڈی یاترا اور بھارت چھوڑو تحریک کے درمیانی برسوں میں ملک میں جو جذبہ پھیلا تھا، اسی کو پھر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔ برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی 5ویں سب سے بڑی معیشت بننے کی ہندوستان کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان پر تقریباً 250 سال تک حکمرانی کرنے والوں کو پیچھے چھوڑنے کی خوشی چھٹی سب سے بڑی معیشت سے پانچویں بڑی معیشت کا درجہ حاصل کرنے کے محض اعدادوشمار سے بہت زیادہ ہے۔ وزیر اعظم نے ترنگا کے جذبے پر روشنی ڈالی جس کی وجہ سے ہندوستان آج کی دنیا میں نئی بلندیوں کو حاصل کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’’یہ جذبہ آج ضروری ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے سبھی سےاپیل کی کہ وہ ملک کے لیے جینے، محنت کرنے اور مرنے کے اسی جذبے کو روشن کریں جیسا کہ 1930 سے 1942 تک دیکھا گیا تھا جب ہر ہندوستانی انگریزوں سے آزادی کے لیے لڑ رہا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنے ملک کو پیچھے نہیں رہنے دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہزاروں سال کی غلامی کی زنجیریں توڑ دی یں اور اب ہم رکنے والے نہیں ہیں، ہم آگے ہی بڑھیں گے”۔ اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ملک کے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کے مستقبل میں اسی طرح کے جذبے کو پھیلائیں تاکہ اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جائے۔ اس موقع پر مرکزی وزیر تعلیم جناب دھرمیندر پردھان اور وزیر مملکت برائے تعلیم محترمہ اناپورنا دیوی بھی موجود تھیں۔ پس منظر اساتذہ کے قومی ایوارڈز کا مقصد ملک کے چند بہترین اساتذہ کی منفرد خدمات کا اعتراف کرنا اور انہیں اعزاز بخشنا ہے جنہوں نے اپنے عزم اور محنت سے نہ صرف اسکولی تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا بلکہ اپنے طلباء کی زندگیوں کو بھی سنوارا۔ اساتذہ کے قومی ایوارڈز ایلیمنٹری اور سیکنڈری اسکولوں میں کام کرنے والے باصلاحیت اساتذہ کو عوامی شناخت سے نوازتے ہیں۔ اس سال ایوارڈ کے لیے ملک بھر سے 45 اساتذہ کا انتخاب ایک سخت اور شفاف آن لائن تین مرحلے کے عمل کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে শিক্ষক দিৱসত ৰাষ্ট্ৰীয় বঁটা বিজয়ী শিক্ষকসকলৰ সৈতে বাৰ্তালাপ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%B1%D9%85%D9%86%DA%AF%DA%BE%D9%85-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%88%DB%8C%D9%84%D8%AA%DA%BE-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B2-2022%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D9%84%DB%8C%D9%86%DB%92-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B/,چلئے، ویسے تو سب سے بات کرنا میرے لیے بہت ہی تحریک بخش ہوتا ہے، لیکن سب سے شاید بات کرنا ممکن نہیں ہوتاہے، البتہ الگ الگ وقت میں آپ میں سے کئی لوگوں سے کسی نہ کسی شکل میں مجھے رابطے میں رہنے کا موقع ملا ہے، بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے، لیکن میرے لیے خوشی ہے کہ وقت آپ نکال کر میری رہائش گاہ پر آئے اور خاندان کے ایک ممبر کی شکل میں آئے ہیں، تو آپ کی کامیابی کا داستان آپ کے ساتھ جڑ کرکے ہر ہندوستانی فخر کرتا ہے، میں بھی فخر محسوس کررہا ہوں۔ آپ سب کا میرے یہاں بہت بہت استقبال ہے۔ دیکھئے دو دن بعد ملک آزادی کے 75سال پورا کرنے والا ہے۔ یہ فخر کی بات ہے کہ ملک آپ تمام لوگوں کی محنت سے ایک تحریک بخش حصولیابی کے ساتھ آزادی کے امرت کال میں داخل ہورہا ہے۔ ساتھیوں، پچھلے کچھ ہفتوں میں ملک نے کھیل کے میدان میں دو بڑی حصولیابیاں حاصل کی ہیں۔ دولت مشترکہ کھیلوں میں تاری��ی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ملک نے پہلی بار چیس اولمپیاڈ کا انعقاد کیا ہے۔ نہ صرف کامیاب انعقاد کیا ہے، بلکہ شطرنج میں اپنی خوشحال روایت کو جاری رکھتے ہوئے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔میں چیس اولمپاڈ میں حصہ لینے والے تمام کھلاڑیوں کو اور تمام میڈل حاصل کرنے والوں کو بھی آج اس موقع پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیوں، دولت مشترکہ کھیلوں کے آغاز سے پہلے میں نے آپ سب سے کہا تھا، ایک طرح سے وعدہ کیا تھا کہ جب آپ لوٹیں گے تو ہم مل کر کامیابی کا جشن منائیں گے۔ میرا یہ یقین تھا کہ آپ کامیاب ہوکر آنے والے ہیں اور میرا یہ مینجمنٹ بھی تھا کہ میں خواہ کتنی ہی مصروفیت ہوگی، آپ لوگوں کے لئے وقت نکالوں گا اور کامیابی کا جشن مناؤں گا۔ آج یہ کامیابی کے جشن کا ہی موقع ہے ۔ ابھی جب آپ سے میں بات کررہا تھا تو میں وہ خود اعتمادی، وہ حوصلہ دیکھ رہا تھا اور وہی آپ کی شناخت ہے، وہی آپ کی شناخت سے جڑ چکا ہے۔ جس نے میڈل جیتا، وہ بھی اور جو آگے میڈل جیتنے والے ہیں، وہ بھی آج ستائش کے حقدار ہیں۔ ساتھیوں، ویسے میں آپ کو ایک بات اور بتانا چاہتا ہوں۔ آپ سب تو وہاں مقابلہ کررہے تھے، لیکن ہندوستان میں کیونکہ وقت مختلف رہتا ہے، یہاں کروڑوں ہندوستانی رت جگا کررہے تھے۔ دیر رات تک آپ کے ہر ایکشن، ہر کارکردگی پر ملک کے شہریوں کی نظر تھی۔بہت سے لوگ الارم لگاکر سوتے تھے کہ آپ کی کارکردگی کا اَپ ڈیٹ لیں گے۔کتنے ہی لوگ بار بار جاکر چیک کرتے تھے کہ اسکور کیا ہوا ہے، کتنے گول، کتنے پوائنٹ ہوئے ہیں۔ کھیلوں کے تئیں اس دلچسپی کو بڑھانے میں، اس طرح کی کشش بڑھانے میں،آپ سب کا بہت بڑا رول ہے اور اس کے لئے آپ سب مبارکباد کے اہل ہیں۔ ساتھیوں، اس بارکی جو ہماری کارکردگی رہی ہے، اس کا ایماندارانہ تجزیہ صرف میڈل کی تعداد سے ممکن نہیں ہے۔ ہمارے کتنے کھلاڑی اس بار نیک ٹو نیک(قریبی)مقابلہ کرتے نظرآئے۔ یہ بھی اپنے آپ میں کسی میڈل سے کم نہیں ہے۔ ٹھیک ہے کہ پوائنٹ ون سیکنڈ، پوائنٹ ون سینٹی میٹر کا فاصلہ رہ گیا ہوگا، لیکن اسے بھی ہم کور کرلیں گے۔ یہ میرا آپ کے تئیں مکمل یقین ہے۔ میں اس لیے بھی پرجوش ہوں کہ جو کھیل ہماری طاقت رہے ہیں، ان کو تو ہم مضبوط کرہی رہے ہیں، ہم نئے کھیلوں میں بھی اپنی چھاپ چھوڑ رہے ہیں۔ ہاکی میں جس طرح ہم اپنی وراثت کو پھر حاصل کررہے ہیں، اس کے لئے میں دونوں ٹیموں کی کوشش، ان کی محنت، ان کے مزاج، اس کی بہت بہت ستائش کرتا ہوں۔ پوری پوری تعریف کرتا ہوں۔ پچھلی بار کے مقابلے میں اس بار ہم نے4 نئے کھیلوں میں جیت کا نیا راستہ بنایا ہے۔ لان باؤلس سے لے کر ایتھلیٹکس تک غیر معمولی کارکردگی رہی ہے۔ اس کارکردگی سے ملک میں نئے کھیلوں کے تعلق سے نوجوانوں کا رجحان بہت بڑھنے والا ہے۔ نئے کھیلوں میں ہمیں اسی طرح اپنی کارکردگی کو بہتر کرتے ہوئے چلنا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں پرانے سارے چہرے میرے سامنے ہیں۔ شرت ہوں، کتامبدی ہوں، سندھو ہوں، سورو ہوں، میرابائی ہوں، بجرنگ ہوں، ونیش ، ساکشی، آپ تمام سینئر ایتھلیٹس نے امید کے مطابق لیڈ کیا ہے۔ ہر ایک کا حوصلہ بلند کیا ہے اور وہیں ہمارے نوجوان ایتھلیٹ نے تو کمال ہی کردیا ہے۔کھیلوں کی شروعات سے پہلے میری جن نوجوان ساتھیوں سے بات ہوئی تھی ، انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔ جنہوں نے ڈیبو کیا ہے، ان میں سے 31ساتھیوں نے میڈل حاصل کئے ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ آج ہمارے نوجوانوں کا اعتماد کتنا بڑھ رہا ہے۔ جب تجربے کار شرت ڈومینیٹ کرتے ہیں اور اویناش پرینکا اور سندیپ، پہلی بار دنیا کے بہترین ایتھلیٹس کو ٹکر دیتے ہیں، تو نئے بھارت کی اسپرِٹ دکھائی دیتی ہے۔اسپرِٹ یہ ہے کہ-ہم ہر ریس میں، ہر کمپٹیشن میں اڑے ہیں، تیار کھڑے ہیں۔ ایتھیلیٹکس کے پوڈیم پر ایک ساتھھ دو دو مقام پر ترنگے کو سلامی دیتے ہوئے ہندوستانی کھلاڑی کو ہم نے کتنی بار دیکھا ہے اور ساتھیوں، اپنی بیٹیوں کی کارکردگی سے تو پورا ملک ہی مگن ہے۔ ابھی جب میں پوجا سے بات کررہا تھا تو میں نے تذکرہ بھی کیا، پوجا کا وہ جذباتی ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا کے توسط سے کہا بھی تھا کہ آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ملک کے لئے فاتح ہیں،بس اپنی ایمانداری اور محنت نے کبھی کمی نہیں چھوڑنا ہے۔ اولمپکس کے بعد ونیش سے بھی میں نے یہی کہا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے مایوسی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ باکسنگ ہو، جوڈو ہو، کشتی ہو، جس طرح بیٹیوں نے ڈومینیٹ کیا ، وہ حیرت انگیز ہے۔ نیتو نے تو مخالفین کو میدان چھوڑنے پر ہی مجبور کردیا۔ ہرمن پریت کی قیادت میں پہلی بار میں ہی کرکٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی بہترین رہی ہے، لیکن رینوکا کی سوئنگ کا توڑ کسی کے پاس اب بھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کے درمیان ٹاپ وکیٹ ٹیکر رہنا، کوئی معمولی حصولیابی نہیں ہے۔ ان کے چہرے پر بھلے ہی شملا کی شانتی رہتی ہو، پہاڑوں کی معصوم مسکان رہتی ہو، لیکن ان کا جارحانہ انداز بڑے بڑے بلے بازوں کے حوصلے پست کردیتا ہے۔ یہ کارکردگی یقینی طور سے دور دراز کے علاقوں میں بھی بیٹیوں کو متحرک کرے گی، حوصلہ بخشے گی۔ ساتھیوں، آپ سب ملک کو صرف ایک میڈل نہیں، صرف جشن منانے، فخر کرنے کا موقع ہی دیتے ہیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو آپ مزید مضبوط کرتے ہیں۔ آپ کھیل میں ہی نہیں، دوسرے شعبوں میں بھی ملک کے نوجوانوں کو بہتر کرنے کے لئے متحرک کرتے ہیں۔ آپ سب ملک کو ایک عہد، ایک ہدف کے ساتھ جوڑتے ہیں، جو ہماری آزادی کی لڑائی کی بھی بہت بڑی طاقت تھی۔ مہاتماگاندھی، نیتا جی سبھاش چندر بوس، منگل پانڈے، تاتیہ ٹوپے، لوک مانیہ تلک، سردار بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خاں اور رام پرساد بسمل لاتعداد مجاہدین، لاتعداد انقلابی، جن کا راستہ الگ تھا، لیکن ہدف ایک تھا۔ رانی لکشمی بائی، جھلکاری بائی، دُرگا بھابھی، رانی چینمّا، رانی گائی دنلیو اور ویلو نچیار جیسی لاتعداد بہادر خواتین نے ہر روایت کو توڑتے ہوئے آزادی کی لڑائی لڑی۔ برسا منڈا ہوں اور الّوری سیتا رام راجو ہوں، گووند گرو ہوں، جیسے متعدد عظیم قبائلی مجاہدین آزادی نے صرف اور صرف اپنے حوصلے، اپنے جذبے سے اتنی طاقتور فوج سے ٹکر لی۔ڈاکٹر راجندر پرساد، پنڈٹ نہرو، سردار پٹیل، بابا صاحب امبیڈکر، آچاریہ وینووا بھاوے، نانا جی دیشمکھ، لال بہادر شاستری، شیاما پرساد مکھرجی جیسی متعدد شخصیتوں نے آزاد ہندوستان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی زندگی صرف کردی۔ آزادی کی لڑائی سے لے کر، آزاد ہندوستان کے تعمیر نو میں جس طرح سے پورے ہندوستان نے متحد ہوکر کوشش کی، اسی جذبے سے آپ بھی میدان میں اترتے ہیں۔آپ سب کی ریاست ، ضلع، گاؤں ، زبان بھلے ہی کچھ بھی ہوں، لیکن آپ ہندوستان کے وقار، اس کے احترام کے لئے ، ملک کی عزت کے لئے اپنی بہترین کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ آپ کے لئے بھی تحریک کی طاقت ترنگا ہے اور ترنگے کی طاقت کیا ہوتی ہے، یہ ہم نے کچھ وقت پہلے ہی یوکرین میں دیکھا ہے۔ ترنگا میدان جنگ سے باہر نکلنے میں ہندوستان کی ہی نہیں، بلکہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے بھی حفاظتی حصار بن گیا تھا۔ ساتھیوں، پچھلے کچھ وقت میں ہم نے دوسرے ٹورنامنٹ میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ورلڈ ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں ہماری اب تک کی سب سے کامیاب ترین کارکردگی رہی ہے۔ ورلڈ انڈر -20ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں بھی بہت قابل ستائش کارکردگی رہی ہے۔ اسی طرح ورلڈ کیڈیٹ ریسلنگ چمپئن شپ اور پیرا بیڈمنٹن انٹرنیشنل نورنامنٹس اس میں بھی کئی نئے ریکارڈ بنائے گئے ہیں۔ یہ ہندوستانی کھیل کے لئے یقینی طور سے حوصلے اور امنگ کا وقت ہے۔ یہاں متعدد کوچ بھی ہیں، کوچنگ اسٹاف کے ممبرز بھی ہیں اور ملک میں کھیل انتظامیہ سے جڑے ساتھی بھی ہیں۔ ان کامیابیوں میں آپ کا رول بھی بہترین رہا ہے۔ا ٓپ کا رول بہت اہم ہوتا ہے، لیکن یہ بھی تو میرے حساب سے شروعات ہے، ہم اسی پر تکیہ کرکے خاموش بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ ہندوستان کے کھیلوں کا سنہری عہد دستک دے رہا ہے دوستوں۔ مجھے خوشی ہے کہ کھیلوں انڈیا کے پلیٹ فارم سے نکلنے لاتعداد کھلاڑیوں نے اس بار بہترین کارکردگی پیش کی ہے۔ ٹی او پی ایس کا بھی مثبت اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نئے ٹیلنٹ کی تلاش اور ان کو پوڈیم تک پہنچانے کی ہماری کوششوں کو ہمیں مزید تیز کرنا ہے۔ ہم پر ایک ایسے اسپورٹنگ ایکو سسٹم کی تعمیر کی ذمہ داری ہے جو دنیا میں بہترین ہو، مخصوص ہو، ڈائیورس ہو، ڈائنمک ہو۔ کوئی بھی ٹیلنٹ چھوٹنا نہیں چاہئے، کیونکہ وہ ملک کا اثاثہ ہے، ملک کی امانت ہے۔ میں تمام ایتھلیٹس سے بصد اصرار کہوں گا کہ آپ کے سامنے اب ایشین گیمز ہے، اولمپکس ہے، اپ جم کر تیاری کیجئے۔ آزادی کے 75سال کے موقع پر میری آپ سے ایک اور گزارش ہے۔ پچھلی بار میں نے آپ سے ملک کے 75اسکولوں، تعلیمی اداروں میں جاکر بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی گزارش کی تھی۔ میٹ دی چمپئن مہم کے تحت متعدد ساتھیوں نے مصروفیتوں کے درمیان یہ کام کیا بھی ہے۔ اس مہم کو جاری رکھیں ، جو ساتھی ابھی نہیں جا پائے ہیں، ان سے بھی میری درخواست ہے کہ آپ ضرور جائیں۔ آپ کو ملک کا نوجوان اب رول ماڈل کے طور پر دیکھتا ہے اور اسی لیے آپ کی باتوں کو وہ دھیان سے سنتا ہے۔ آپ کی صلاح کو زندگی میں اتارنے کے لئے وہ اُتاولا ہے ، اس لئے آپ کے پاس یہ جو اہلیت پیدا ہوئی ہے، جس کو منظوری مل چکی ہے، جو اعزاز بڑھا ہے، وہ ملک کی نوجوان نسل کے لئے بھی کام آنا چاہئے۔ میں ایک باپھر آپ سب کو کامیابی کے اس سفر کو اپنی لاتعداد نیک خواہشات پیش کرتا ہوں! بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں! شکریہ!,"বাৰ্মিংহাম কমনৱেলথ গেমছ, ২০২২ ত অংশগ্ৰহণকাৰী ভাৰতীয় খেলুৱৈসকলৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মত-বিনিময়ৰ অসমীয়া অনুবাদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC/,وہ ہزاری باغ ، دمکا اور پلامو میں میڈیکل کالجوں کا افتتاح کریں گے سینٹر فار ٹرائبل اسٹیڈیز ، آچاریہ ونوبابھاوے یونیورسٹی ، ہزاری باغ کا سنگ بنیاد رکھیں گے ، متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کی نقاب کشائی کریں گے ، پردھان م��تری جن آروگیہ یوجنا –آیوشمان بھارت کے استفادہ کنندگان سے بات چیت کریں گے نئی دہلی، 16 فروری 2019/وزیراعظم جناب نریندر مودی کل 17 فروری کو جھارکھنڈ میں ہزاری باغ اور رانچی کا دورہ کریں گے ۔ وہ صحت، تعلیم ، پانی کی سپلائی اور صفائی ستھرائی سے متعلق کئی پروجیکٹوں کی نقاب کشائی کریں گے۔ کئی پروجیکٹوں سے جھارکھنڈ کی قبائلی آبادی کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔ ہزاری باغ میں ، وزیراعظم درج ذیل پروجیکٹوں کی نقاب کشائی کریں گے : وزیراعظم ہزاری باغ ، دمکا اور پلامو میں تین میڈیکل کالج کی عمارتوں کا افتتاح کریں گے۔ وہ ہزار باغ ، دمکا ، پلامو او ر جمشید پور میں پانچ سو بستر والے چار اسپتالوں کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم ، رام گڑھ اور ہزار ی باغ اضلاع میں چار دیہی واٹر سپلائی اسکیموں کاافتتاح کریں گے۔ وہ ان دو اضلا ع میں چھ اضافی دیہی واٹر سپلائی اسکیموں اور ہزار باغ میں ایک شہری واٹر سپلائی اسکیم کے لئے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم نمامی گنگے پہل کے تحت صاحب گنج سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور مدھوسودن گھاٹ کا افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم رام گڑھ میں ویمن انجینئرنگ کالج بلڈنگ کا بھی افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم خصوصی طور پر کمزور قبائلی فرقوں کی رہائش والے علاقے میں واٹر سپلائی اسکیموں کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ وزیراعظم سینٹر فار ٹرائبل اسٹیڈیز ،آچاریہ ونوبابھاوے یونیورسٹی ، ہزاری باغ کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ وزیراعظم ای نام کے تحت موبائل فون خریدنے کے لئے کسانوں کے لئے ڈی بی ٹی اسکیم کا آغاز کرنے کے لئے منتخبہ استفادہ کنندگان کو چیک تقسیم کریں گے۔ وزیراعظم تغذیہ کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے سرکاری اسکولوں میں طلبا کے لئے گفٹ ملک اسکیم شروع کرنے کے لئے اسکول کے منتخبہ بچوں کو پیکٹ بند دودھ تقسیم کریں گے۔ رانچی میں وزیراعظم مودی نے پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا –آیوشمان بھارت کے استفادہ کنندگان سے بات چیت کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ ا گ ۔ ج۔ 1051U-,কাইলৈ ঝাৰখণ্ড ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88-%D9%BE%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%84%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%B1%DB%8C%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%B2%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعے، یوپی کے بلرام پور میں سریو نہر قومی پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ، مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت اس موقع پر موجود شرکاء میں شامل تھے۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف، جنرل بپن راوت کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ان کی وفات ہر ہندوستانی، ہر محب وطن کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جنرل بپن راوت جی جتنے جانباز تھے، ملک کی افواج کو خود کفیل بنانے کے لیے جتنی محنت کر رہے تھے، پورا ملک اس کا گواہ رہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھلے ہی بھارت صدمہ میں ہے ’لیکن درد کو برداشت کرتے ہوئے بھی ہم نہ تو اپنی رفتار روکتے ہیں اور نہ ہی پیش رفت۔ بھارت رکے گا نہیں، بھارت تھمے گا نہیں۔ ملک کی افواج کو خود کفیل بنانے کی مہم، تینوں افواج میں تال میل کو ��ضبوط کرنے کی مہم تیزی سے آگے بڑھتی رہے گی۔ جنرل بپن راوت، آنے والے دنوں میں، اپنے بھارت کو نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دیکھیں گے۔ ملک کی سرحدوں کی سیکورٹی بڑھانے کا کام، بارڈر انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کا کام جاری رہے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ یوپی کے سپوت، دیوریا کے رہنے والے گروپ کیپٹن ورون سنگھ کی زندگی بچانے کے لیے ڈاکٹر جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’میں ماں پاٹیشوری سے ان کی زندگی کی حفاظت کرنے کی پرارتھنا کرتا ہوں۔ ملک آج ورون سنگھ جی کی فیملی کے ساتھ ہے، جن جانبازوں کو ہم نے کھویا ہے ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کی ندیوں کے پانی کا صحیح استعمال ہو اور کسانوں کے کھیت تک مناسب مقدار میں پانی پہنچے، یہ سرکار کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ سریو نہر قومی پروجیکٹ کی تکمیل اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سوچ ایماندار ہوتی ہے تو کام بھی دمدار ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تھا، تو اس کی لاگت 100 کروڑ روپے سے بھی کم تھی۔ آج یہ تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد پورا ہوا ہے۔ پہلے کی سرکاروں کی لاپروائی کی وجہ سے 100 گنا زیادہ قیمت ملک کو چکانی پڑی ہے۔ ’’سرکاری پیسہ ہے تو مجھے کیا، یہ سوچ ملک کی متوازن اور جامع ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔ اسی سوچ نے سریو نہر پروجیکٹ کو لٹکایا بھی، بھٹکایا بھی۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا، ’’سریو نہر پروجیکٹ پر جتنا کام 5 دہائیوں میں ہو پایا تھا، اس سے زیادہ کام ہم نے 5 سال سے پہلے کرکے دکھایا ہے۔ یہی ڈبل انجن کی سرکار ہے۔ یہی ڈبل انجن کی سرکار کے کام کی رفتار ہے۔ ہماری ترجیح کام کو وقت پر پورا کرنے کی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے زیر التواء پروجیکٹوں کی لمبی فہرست پیش کی جیسے کہ بان ساگر پروجیکٹ، ارجن سہایک سینچائی پروجیکٹ، گورکھپور میں ایمس اور فرٹیلائزر پلانٹ جسے ڈبل انجن کی سرکار کے ذریعے پورا کیا گیا ہے۔ انہوں نے سرکار کے عزائم کی مثال کے طور پر کین بیتوا لنک پروجیکٹ کا بھی ذکر کیا۔ 45 ہزار کروڑ روپے کے اس پروجیکٹ کو کابینہ کی پچھلی میٹنگ میں منظوری دی گئی ہے۔ یہ پروجیکٹ بندیل کھنڈ خطہ میں پانی کے مسئلہ سے نجات حاصل کرنے میں کلیدی رول ادا کرے گا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہاکہ چھوٹے کسانوں کو پہلی بار سرکاری اسکیموں سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس سمت میں اٹھائے گئے کچھ قدم یوں ہیں: پی ایم کسان سمان ندھی، ماہی گیری اور ڈیئری اور شہد کی مکھی پالنے میں متبادل آمدنی اور ایتھنال میں مواقع کی فراہمی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں، اکیلے اتر پردیش سے 12 ہزار کروڑ روپے کی ایتھنال خریدی گئی ہے۔وزیر اعظم نے قدرتی کاشتکاری اور بجٹ فارمنگ کے بارے میں 16 دسمبر کو منعقد ہونے والے پروگرام میں کسانوں کو شریک ہونے کی دعوت دی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی ایم اے وائی کے تحت ریاست کے 30 لاکھ سے زیادہ کنبوں کو پختہ مکان فراہم کیے گئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مکان اُن کنبوں کی خواتین کے نام سے ہیں۔ وزیر اعظم نے سوامتیہ یوجنا کے فوائد پر بھی روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کورونا کے دور میں ہم نے پوری ایمانداری سے کوشش کی ہے کہ کوئی غریب بھوکا نہ سوئے۔ ابھی اس لیے پی ایم غریب کلیان انّ یوجنا کے تحت مل رہے مفت راشن کی تحریک کو ہولی سے آگے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے یہاں مافیاؤں کو تحفظ ملتا تھا۔ آج ایسے مافیاؤں کی صفائی چ�� رہی ہے اور فرق صاف دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے شہ زوروں کو بڑھاوا ملتا تھا۔ آج، یوگی جی کی سرکار غریب، دلت، پچھڑے، آدیواسی، سبھی کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ اسی لیے یوپی کے لوگ کہتے ہیں – فرق صاف ہے۔ پہلے مافیاؤں کے ذریعے زمینوں پر ناجائز قبضے کرنا عام بات تھی لیکن آج، یوگی جی ایسے ناجائز قبضوں پر بلڈوزر چلوا رہے ہیں۔ اسی لیے یوپی کے لوگ کہتے ہیں – فرق صاف ہے۔,উত্তৰ প্ৰদেশৰ বলৰামপুৰত সৰয়ু নহৰ ৰাষ্ট্ৰীয় প্ৰকল্প উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%88%D8%A7-%D8%B4%DB%8C%D9%88%D8%B1-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A3-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ودودرہ کے کاریلی بوگ میں منعقد ’یووا شیور‘ سے خطاب کیا۔ شری سوامی نارائن مندر، کنڈل دھام اور شری سوامی نارائن مندر کاریلی بوگ ودودرہ نے اس شیور کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے صحیفے نے ہمیں سکھایاہے کہ ہر نسل میں لگاتار کردار سازی ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیاکہ شیور ، جیسا کہ آج منعقد کیا جا رہا ہے، نہ صرف نوجوانوں میں اچھے’سنسکار‘ پیدا کرنے کی کوشش ہے بلکہ سماج، شناخت، فخر اور قوم کی تخلیق نو کے لیے ایک نیک اور فطری مہم بھی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کی اپیل کی کہ ایک نئے بھارت کی تعمیر کے لیے اجتماعی عزم کیا جائے اور ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ ایک نیا بھارت ، جس کی شناخت نئی ہے، آگے کی طرف دیکھتا ہے اور اس کی روایات قدیم ہے۔ ایک نیا بھارت جو نئی سوچ اور پرانی ثقافت کو ایک ساتھ لے کر آگے بڑھتا ہے اور پوری انسانیت کو ایک سمت دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’جب کبھی بھی چیلنج سامنے آتے ہیں، ہندوستان امید کے ساتھ پیش ہوتا ہے، جب کبھی بھی مسائل آتے ہیں ہندوستان حل کے ساتھ سامنے آتا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا بحران کے درمیان دنیا کو ویکسین اور ادویات کی فراہمی سے لے کر خود کفیل ہندوستان کی امید تک، سپلائی چین میں خلل پڑنے کے درمیان عالمی بدامنی اور تنازعات کے دوران، ہندوستان امن کے لیے ایک قابل قوم کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہندوستان آج دنیا کی ایک نئی امید ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم پوری انسانیت کو یوگ کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ ہم انھیں آیوروید کی طاقت سے متعارف کرا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت کے ساتھ حکومت کے کام کرنے کا انداز اور معاشرے کی سوچ بدل گئی ہے۔ آج ہندوستان کے پاس دنیا میں تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ نظام ہے جس کی قیادت ہندوستان کے نوجوان کر رہے ہیں۔ ’سافٹ ویئر سے خلا تک ، ہم ایک نئے مستقبل کے لیے ایک تیار ملک کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں، ہمارے لیے سنسکار کا مطلب تعلیم، خدمت اور حساسیت ہے۔ ہمارے لیے سنسکار کا مطلب خود کو وقف کرنا، عزم اور طاقت ہے۔ آیئے ہم خود کو اوپر اٹھائیں، لیکن ہماری ترقی کو دوسروں کی فلاح کا ذریعہ بھی بننا چاہئے۔۔ ہم کامیابی کی بلندیوں کو چھوئیں، لیکن ہماری کامیابی سب کے لیے خدمت کا ذریعہ بھی بننا چاہئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھگوان سوامی نارائن کی تعلیمات کا یہ نچوڑ ہے اور یہ ہندوستان کی فطرت بھی ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے وڈودرا کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا ذکر کیا اور اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی میں اس مقام کی اہمیت کے بارے میں ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اسٹیچو آف یونٹی‘ کے ساتھ وڈودرا عالمی توجہ کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی، اسی طرح پاوا گڑھ مندر بھی ہر طرف کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’سنسکار نگری‘وڈودرا، پوری دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ ودورا میں بنی میٹرو کوچز دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ ودودرا کی طاقت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حالانکہ ہمیں آزادی کی جدوجہد میں ملک کے لیے جان دینے کا موقع حاصل نہیں ہوا تھا لیکن ہم ملک کے لیے جی سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’15 اگست 2023 تک، کیا ہم نقدی کے لین دین کوروک سکتے ہیں اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کو اپنا سکتے ہیں؟ آپ کا معمولی تعاون چھوٹے کاروباریوں اور خوانچہ فروشوں کی زندگیوں میں ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اسی طرح پلاسٹک کے ایک بار کے استعمال کو روکنے اور صفائی ستھرائی کے علاوہ نقص تغدیہ کو روکنے کے لیے ہمیں عہد کرنا چاہئے‘‘۔ وزیر اعظم نے کاشی کے گھاٹوں کو صاف کرنے کے لیے ناگالینڈ کی ایک لڑکی کی جانب سے مہم کا بھی ذکر کیا۔ اس نے اکیلے ہی صفائی کی مہم کا سفر شروع کیا، لیکن اس کے بعد کئی لوگ اس میں جڑ گئے۔ یہ عزم کی طاقت کی جھلک کو پیش کرتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم نے ملک کی مدد کرنے کے لیے بجلی بچانے یا قدرتی کھیتی اپنانے جیسے چھوٹے اقدامات پر عمل کرنے کے لیے بھی کہا۔,শ্ৰী স্বামীনাৰায়ণ মন্দিৰে আয়োজন কৰা ‘যুৱ শিবিৰ’ সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%81%D9%84%DB%92-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B7%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%A8%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A8%D8%AD%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A5%E0%A6%AE%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%A5%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پہلے مقامی طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کو کمیشن دیا۔ تقریب کے دوران، وزیر اعظم نے نوآبادیاتی ماضی کو ختم کرتے ہوئے اور مالا مال ہندوستانی سمندری ورثے کے لیے نئے بحری نشان (نشان) کی نقاب کشائی کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج یہاں کیرالہ، ہندوستان ،کے ساحل پر، ہر ہندوستانی، ایک نئے مستقبل کا آفتاب طلوع ہوتے دیکھ رہا ہے۔ آئی این ایس وکرانت پر منعقد ہونے والا یہ پروگرام عالمی افق پر ہندوستان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو خراج تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم آزادی پسندوں کے خواب کی تعبیر دیکھ رہے ہیں جہاں انہوں نے ایک اہل اور مضبوط ہندوستان کا تصور کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا ’’وکرانت بہت بڑا، وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ وکرانت اپنے آپ میں ممتاز ہے، وکرانت خاص بھی ہے۔ وکرانت صرف ایک جنگی جہاز نہیں ہے۔ یہ 21ویں صدی میں ہندوستان کی محنت، ہنر، اثر و رسوخ اور عزم کا ثبوت ہے۔ اگر اہداف دور ہیں تو سفر بھی طویل ہے، سمندر اور چیلنجز بھی لامتناہی ہیں – ایسے میں ہندوستان کا جواب ہے وکرانت۔ آزادی کے امرت مہوتسو کا لاجواب امرت وکرانت ہے۔ وکرانت ہندوستان کے خود انحصار ہونے کا ایک انوکھا عکس ہے۔ قوم کے نئے رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج کے ہندوستان کے لیے کوئی بھی چیلنج زیادہ مشکل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’’آج ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جو دیسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اتنا بڑا طیارہ بردار بحری جہاز تیار کرتے ہیں۔ آج آئی این ایس وکرانت نے ملک کو ایک نئے اعتماد سے بھر دیا ہے، اور ملک میں ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے۔ وزیر اعظم نے بحریہ، کوچین شپ یارڈ کے انجینئروں، سائنسدانوں اور خاص طور پر اس منصوبے پر کام کرنے والے کارکنوں کے تعاون کا اعتراف کیا اور ان کی ستائش کی۔ انہوں نے اونم کے پرمسرت اور مقدس موقع کا بھی حوالہ دیا اور جو اس موقع پر مسرتوں میں مزید اضافہ کر رہے ہیں ۔ آئی این ایس وکرانت کے ہر حصے کی اپنی خوبیاں ہیں، ایک طاقت ہے، اپنا ایک ترقی کا سفر ہے۔ یہ مقامی صلاحیت، مقامی وسائل اور مقامی مہارتوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ایئر بیس میں نصب اسٹیل بھی دیسی ہے، جسے ڈی آر ڈی او کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور اسے ہندوستانی کمپنیوں نے تیار کیا ہے۔ کیرئیر کے بڑے تناسب کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایک تیرتے ہوئے شہر کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بجلی پیدا کرتا ہے وہ 5000 گھرانوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے اور استعمال ہونے والی وائرنگ کوچی سے کاشی پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی این ایس وکرانت پنچ پران کی روح کا ایک زندہ مجسمہ ہے جس کا اعلان انہوں نے لال قلعہ کی فصیل سے کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ہندوستانی بحری روایت اور بحری صلاحیتوں کے بارے میں بھی گفتگوکی۔ انہوں نے کہا کہ چھترپتی ویر شیواجی مہاراج نے اس سمندری طاقت کے بل بوتے پر ایسی بحریہ بنائی جس نے دشمنوں کو اپنے پاؤں کی انگلیوں پر کھڑا رکھا۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو وہ ہندوستانی جہازوں کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر ان کے ذریعے تجارت کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کی سمندری طاقت کی کمر توڑنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں ایک قانون بنا کر ہندوستانی جہازوں اور تاجروں پر کس طرح سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ آج 2 ستمبر 2022 کی تاریخ، تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ جب ہندوستان نے غلامی کا نشان، غلامی کا بوجھ اتار دیا ہے۔ ہندوستانی بحریہ کو آج سے نیا پرچم مل گیا ہے۔ اب تک غلامی کی پہچان ہندوستانی بحریہ کے جھنڈے پر تھی۔ لیکن آج سے چھترپتی شیواجی سے متاثر ہو کر بحریہ کا نیا پرچم سمندر اور آسمان میں لہرائے گا۔ وزیر اعظم نے تبصرہ کیا کہ جب وکرانت ہمارے بحری خطے کی حفاظت کے لیے اترے گا تو بحریہ کی کئی خواتین سپاہیوں کو بھی وہاں تعینات کیا جائے گا۔ سمندر کی بے پناہ طاقت، لامحدود خواتین کی طاقت کے ساتھ، یہ نئے ہندوستان کی بلند شناخت بن رہی ہے۔ اب ہندوستانی بحریہ نے خواتین کے لیے اپنی تمام شاخیں کھول دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو پابندیاں تھیں وہ اب ہٹائی جا رہی ہیں۔ جس طرح اہل موجوں کے لیے کوئی سرحد نہیں ہوتی اسی طرح ہندوستان کی بیٹیوں کے لیے بھی کوئی سرحد یا پابندیاں نہیں ہوں گی ۔ وزیراعظم نے کہا قطرہ قطرہ پانی ایک وسیع سمندر کی طرح بن جاتا ہے۔ انہوں نے اس یوم آزادی پر دیسی توپوں سے سلامی کا بھی ذکر کیا۔ اسی طرح اگر ہندوستان کا ہر شہری 'ووکل فار لوکل' کے منتر کو جپنا شروع کردے تو ملک کو خود انحصار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ بدلتی ہوئی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں، ہند-بحرالکاہل کے علاقے اور بحر ہند میں سیکورٹی خدشات کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ لیکن، آج یہ علاقہ ہمارے لیے ملک کی اہم دفاعی تر��یح ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہم بحریہ کے لیے بجٹ بڑھانے سے لے کر اس کی صلاحیت بڑھانے تک ہر سمت میں کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایک مضبوط ہندوستان ایک پرامن اور محفوظ دنیا کی راہ ہموار کرے گا۔ اس موقع پر کیرالہ کے گورنر جناب عارف محمد خان، وزیر اعلیٰ جناب پنارائی وجین جی ،مرکزی وزراء جناب راج ناتھ سنگھ، جناب سربانند سونووال، جناب وی مرلی دھرن، جناب اجے بھٹ، قومی سلامتی کے مشیرجناب اجیت ڈووال، چیف آف نیول اسٹاف جناب آر ہری کمار شرکا میں موجود تھے۔ آئی این ایس وکرانت آئی این ایس وکرانت کو ہندوستانی بحریہ کے اندرون ملک وار شپ ڈیزائن بیورو (ڈبلیو ڈی بی) نے ڈیزائن کیا ہے اور کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ نے بنایا ہے، جو بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی وزارت کے تحت ایک پبلک سیکٹر شپ یارڈ ہے، وکرانت کو جدید ترین آٹومیشن خصوصیات کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ یہ ہندوستان کی سمندری تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا جہاز ہے۔ دیسی طیارہ بردار بحری جہاز کا نام اس کے نامور پیشرو کے نام پر رکھا گیا ہے، ہندوستان کا وہ پہلا طیارہ بردار بحری جہاز جس نے 1971 کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس میں بڑی تعداد میں مقامی آلات اور مشینری کا استعمال ہوا ہے، جس میں ملک کے بڑے صنعتی گھرانوں کے ساتھ ساتھ 100 سے زیادہ ایم ایس ایم ایز شامل ہیں۔ وکرانت کی کمیشننگ کے ساتھ، ہندوستان کے پاس دو آپریشنل ائیرکرافٹ کیریئر ہوں گے، جو ملک کی بحری سلامتی کو تقویت دیں گے۔ تقریب کے دوران، وزیر اعظم نے نوآبادیاتی ماضی سے انحراف کرتے ہوئے مالامال ہندوستانی سمندری ورثے کے لیے نئے بحری نشان (نشان) کی نقاب کشائی بھی کی۔,প্ৰথমখন থলুৱা বিমানবাহী জাহাজ আইএনএছ বিক্ৰান্তৰ শুভাৰম্ভ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-21%D8%8D%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1-%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%A7-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 21؍اکتوبر 2022 کو اُترا کھنڈ کا دورہ کریں گے۔ کیدار ناتھ میں وہ تقریباً 8:30بجے شری کیدار ناتھ مندر میں درشن اور پوجا کریں گے۔ وزیر اعظم صبح تقریباً 9بجے کیدارناتھ روپ وے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس کے بعد وہ آدی گرو شنکراچاریہ سمادھی استھل کا درشن کریں گے۔ صبح تقریباً 9:25 بجے وزیر اعظم منداکنی آستھاپتھ اور سرسوتی آستھا پتھ کے ساتھ ترقیاتی کاموں کی پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ اس کے بعد وزیر اعظم بدری ناتھ پہنچیں گے، جہاں وہ صبح تقریباً 11:30بجے شری بدری ناتھ مندر کا درشن اور پوجا کریں گے۔ دوپہر 12 بجے وہ ریور فرنٹ کے ترقیاتی کاموں کی پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔اس کے بعد دوپہر 12:30بجے مانا گاؤں میں سڑک اور روپ وے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس کے بعد دوپہرتقریباً 2 بجے وہ ارائیول پلازہ اور جھیلوں کے ترقیاتی کاموں کی پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ کیدار ناتھ میں روپے وے تقریباً 9.7کلومیٹر طویل ہوگا اور گوری کُنڈ کو کیدارناتھ سے جوڑے گا، جس سے دونوں مقامات کے درمیان سفر کا موجودہ وقت 7-6گھنٹے سے کم ہوکرتقریباً 30 منٹ کا ہوجائے گا۔ہیم کُنڈ روپ وے گووند گھاٹ کو ہیم کُنڈ صاحب سے جوڑے گا۔ یہ تقریباً 12.4کلومیٹر طویل ہوگا اور سفر کے وقت کو ایک دن سے کم کرکے محض 45منٹ ��ک ہی محدود کردے گا۔یہ روپ وے گھانگریہ کو بھی جوڑے گا، جو پھولوں کی وادی نیشنل پارک کا داخلی دروازہ ہے۔ روپ وے جسے تقریباً 2430کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا جائے گا ، آمدو رفت کا ایک ماحولیات کے عین مطابق ذریعہ ہے اور جو آمدو رفت کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ استحکام بھی مہیا کرے گا۔ اس اہم بنیادی ڈھانچہ ترقی سے مذہبی سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا، جس سے خطے میں اقتصادی ترقی کو بڑھاوا ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوں گے۔ دورے کے دوران تقریباً 1000کروڑ روپے کے سڑک چوڑا کرنے کے پروجیکٹوں کا بھی سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔دو سڑک چوڑا کرنے والے پروجیکٹ-مانا سے مانا درّا(این ایچ 07)اور جوشی مٹھ سے ملاری (این 107بی) تک –ہمارے سرحدی علاقوں میں ہر موسم میں سڑک رابطہ فراہم کرنے کی سمت میں ایک اور قدم ہوگا۔ کنکٹی وٹی کو بڑھاوا دینے کے علاوہ یہ پروجیکٹ حکمت عملی کے نقطہ نظر سے بھی سود مند ثابت ہوں گے۔ کیدار ناتھ اور بدری ناتھ ہندوؤں کے سب سے اہم مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔یہ علاقہ ایک سکھ مذہبی مقام ہیم کُنڈ صاحب کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ شروع کئے جارہے کنکٹی وٹی پروجیکٹ مذہبی اہمیت کے حامل مقامات تک رسائی کو آسان بنانے اور بنیادی ڈھانچے میں وزیر اعظم کے عہد کا آئینہ ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২১ অক্টোবৰত কেদাৰনাথ আৰু বদ্ৰীনাথ ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AC%DB%8C%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,ہرہر مہادیو! جئے شری مہاکال، جئے شری مہاکال مہاراج کی جئے! مہاکال مہادیو، مہاکال مہا پربھو۔ مہاکال مہارودر، مہاکال نموستوتے۔ اجین کی مقدس سرزمین پر ہونے والے اس ناقابل فراموش پروگرام میں موجود ملک بھر کے تمام چرن- ونگ سنتوں، قابل احترام سادھو اور سنیاسیوں، مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، چھتیس گڑھ کی گورنر محترمہ انوسوئیا اُوئیکے جی، جھارکھنڈ کے گورنر جناب رمیش بینس جی، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ بھائی شیوراج سنگھ چوہان جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، ریاستی حکومت کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین پارلیمنٹ، بھگوان مہاکال کے تمام عقیدت مند، خواتین و حضرات، جئے مہاکال! اجین کی یہ توانائی، یہ جوش! اونتیکا کی یہ چمک، یہ کمال، یہ خوشی! مہاکال کی یہ شان، یہ عظمت! ‘مہاکال لوک’ میں دنیا وی کوئی چیز نہیں ہے۔ شنکر کی صحبت میں کوئی بھی چیز معمولی نہیں ہے۔ سب کچھ مافوق الفطرت، غیر معمولی ،ناقابل فراموش اور ناقابل یقین ہے۔ میں آج محسوس کر رہا ہوں، جب مہاکال ہماری نفس کشی اور سادگی سے خوش ہوتا ہے، تو اس کے آشیرواد سے ایسی عظیم الشان اشکال پیدا ہوتی ہیں اور وقت کی لکیریں مٹ جاتی ہیں، وقت کی حدیں کم ہو جاتی ہیں، اور لامحدود امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ آخر سے لامحدود سفر شروع ہوتا ہے۔ مہاکال لوک کی یہ شان و شوکت بھی آنے والی کئی نسلوں سے الگ مافوق الفطرت الوہیت کا نظارہ بھی دے گی، ہندوستان کے ثقافتی اور روحانی شعور کو توانائی بخشے گی۔ اس شاندار موقع پر، میں راج دھیراج مہاکال کے قدموں میں صد صد نمن کرتا ہوں۔ میں آپ سب کو، ملک اور دنیا میں مہاکال کے تمام عقیدت مندوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر، میں شیوراج سنگھ چوہان اور ان کی حکومت کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں، جو اتنی لگن کے ساتھ مسلسل اس خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، میں مندر کے ٹرسٹ سے منسلک تمام لوگوں، سنتوں اور اسکالر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، جن کے تعاون سے یہ کوشش کامیاب ہوئی ہے۔ ساتھیوں، مہاکال کے شہر اُجّین کے بارے میں ہمارے یہاں کہا گیا ہے کہ ‘‘پرلیو نہ بادھتے تتر مہاکال پوری’’یعنی مہاکال کا شہر تباہی کی تباہ کاریوں سے پاک ہے۔ ہزاروں سال پہلے، جب ہندوستان کی جغرافیائی نوعیت آج سے مختلف رہی ہوگی، تب یہ مانا جاتا رہا ہے کہ اُجین ہندوستان کے مرکز میں ہے۔ ایک طرح سے، علم نجوم کے حساب سے اجین نہ صرف ہندوستان کا مرکز رہا ہے، بلکہ یہ ہندوستان کی روح کا مرکز بھی رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس کا شمار ہماری مقدس سات پوریوں میں ہوتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں بھگوان کرشن خود آئے اور تعلیم حاصل کی۔ اجین نے مہاراجہ وکرمادتیہ کی وہ شان دیکھی ہے، جس نے ہندوستان کے نئے سنہرے دور کا آغاز کیا تھا۔ مہاکال کی اس سرزمین سے وکرم ساونت کی شکل میں ہندوستانی علم تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا تھا۔ اجین کے ذرے ذرے تاریخ کے ہر لمحے میں قید ہیں، ہر ذرے میں، روحانیت جذب ہے، اور ہر گوشے میں خدائی توانائی پھیل رہی ہے۔ وقت کے چکر کے 84 کلپوں کی نمائندگی کرنے والے 84 شیولنگ ہیں۔ یہاں 4 مہاویر، 6 ونائک، 8 بھیرو، اشٹماترکائیں ، 9 نوگرہ ، 10 وشنو، 11 رودر، 12 آدتیہ، 24 دیویاں، اور 88 تیرتھ ہیں اور اس سب کے مرکز میں راجادھیراج کالادھیراج مہاکال ویراجمان ہیں۔ یعنی، ایک طرح سے، ہماری پوری کائنات کی توانائی ہمارے رشیوں نے ایک علامتی شکل میں اُجین میں قائم کی ہے۔ لہٰذا، اُجین نے ہزاروں سالوں سے ہندوستان کی ترقی و خوشحالی، علم و وقار، تہذیب اور ادب کی رہنمائی کی ہے۔ اس شہر کا فن تعمیر کیسا تھا، شان و شوکت کیسی تھی، دستکاری کیسی تھی، خوبصورتی کیسی تھی، یہ ہم عظیم شاعر کالی داس کے میگھدوتم میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کی ثقافت اور روایات کی عکاسی ہمیں آج بھی بان بھٹ جیسے شاعروں کی شاعری میں ملتی ہے۔ یہی نہیں قرون وسطی کے ادیبوں نے بھی یہاں کے فن تعمیر کی تعریف کی ہے۔ بھائیو اور بہنو، کسی قوم کی ثقافتی شان اس وقت وسیع ہوتی ہے جب عالمی سطح پر اس کی کامیابی کا پرچم لہرایا جاتا ہو اور کامیابی کی بلندی تک پہنچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قوم اپنی ثقافتی بلندیوں کو چھوئے، اپنے تشخص کے ساتھ فخر سے سربلند کرے۔ اسی لیے آزادی کے امرت کال میں ہندوستان نے غلامی کی ذہنیت سے آزادی اور اپنی وراثت پر فخرجیسے پنچ پران کی اپیل کی ہے۔ اسی لیے آج ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر پوری رفتار سے جاری ہے۔ کاشی میں وشوناتھ دھام، ہندوستان کے ثقافتی دارالحکومت کے فخر میں اضافہ کر رہا ہے۔ سومناتھ میں ترقیاتی کام نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ اتراکھنڈ میں بابا کیدارناتھ کے آشیرواد سے کیدارناتھ-بدری ناتھ تیرتھ علاقے میں ترقی کے نئے باب لکھے جا رہے ہیں۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ چار دھام پروجیکٹ کے ذریعے ہمارے چاروں دھام آل ویدر روڈس سے جڑنے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں، آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کرتارپور صاحب کوریڈور کھلا ہے، ہیم کنڈ صاحب کو روپ وے سے جڑنے جا رہا ہے۔ اسی طرح سودیش درشن اور پرساد یوجنا کے ذریعے ملک بھر میں ہمارے روحانی شعور کے ایسے بہت سے مراکز کا فخر بحال کیا جا رہا ہے اور اب اس ضمن میں یہ عظیم الشان ‘مہاکال لوک’ بھی ماضی کی شان کے ساتھ مستقبل کے استقبال کے لیے تیار ہے۔ آج جب ہم اپنے قدیم مندروں کو شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب تک دیکھتے ہیں، ان کی وسعت، ان کا فن تعمیر ہمیں حیرت سے بھر دیتا ہے۔ کونارک کا سوریہ مندر ہو یا مہاراشٹر کے ایلورا کا کیلاش مندر، دنیا میں کون حیران نہیں ہوتا؟ کونارک سوریہ مندر کی طرح، گجرات میں موڈھیرا سورج مندر بھی ہے، جہاں سورج کی پہلی کرنیں براہ راست مقدس مقام میں داخل ہوتی ہیں۔ اسی طرح، تمل ناڈو کے تنجور میں راجاراج چولا کا تعمیر کردہ برہدیشور مندر ہے۔ کانچی پورم میں وردراجا پیرومل مندر ہے، رامیشورم میں رامناتھ سوامی مندر ہے۔ بیلور میں چنناکیشوا مندر ہے، مدورئی میں میناکشی مندر ہے، تلنگانہ میں رامپا مندر ہے، سری نگر میں شنکراچاریہ مندر ہے۔ اس طرح کے بہت سے مندر ہیں، جو غیرمثالی، ناقابل تصور، ‘نہ بھوتو نہ بھوشیتی’ کی زندہ مثالیں ہیں۔ جب ہم انہیں دیکھتے ہیں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس دور میں انہوں نے کس ٹیکنالوجی سے تعمیر کیا ہوگا ۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے تمام سوالوں کے جواب نہ ملیں، لیکن ان مندروں کے روحانی اور ثقافتی پیغامات آج بھی اتنی ہی وضاحت کے ساتھ سنے جا سکتے ہیں۔ جب نسلیں اس ورثے کو دیکھتی ہیں، اس کے پیغامات سنتی ہیں، تو یہ ایک تہذیب کے طور پر ہمارے تسلسل اور لافانی ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مہاکال لوک میں اس روایت کو فنون اور دستکاری کے ذریعے مؤثر طریقے سے کندہ کیا گیا ہے۔ مندر کا یہ پورا صحن شیو پران کی کہانیوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہاں آئیں گے تو مہاکال کے درشن کے ساتھ ساتھ آپ کو مہاکال کی شان اور اہمیت بھی نظر آئے گی۔ پنچ مکھی شیو، ان کا ڈمرو، سرپ، ترشول، اردھ چندر اور سپت رشی، ان کی یکساں عظیم الشان شکلیں یہاں نصب کی گئی ہیں۔ یہ فن تعمیر، اس میں علم کی یہ شمولیت، یہ مہاکال لوک کو اس کی قدیم شان سے جوڑتی ہے جو اس کی اہمیت کو اور بھی بڑھاتی ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہمارے صحیفوں میں ایک جملہ ہے – شیوم گانمیہ۔ اس کا مطلب ہے، شیو ہی علم ہے اور علم ہی شیو ہے۔ کائنات کا سب سے بڑا درشن شیو کے درشن میں ہے اوردرشن ہی شیو کا درشن ہے۔ اس لیے میں مانتا ہوں، ہمارے جیوترلنگوں کی یہ ترقی ہندوستان کی روحانی روشنی کی ترقی ہے، ہندوستان کے علم اور فلسفے کی ترقی ہے۔ ہندوستان کا یہ ثقافتی فلسفہ ایک بار پھر چوٹی پر پہنچ کر دنیا کی رہنمائی کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ ساتھیوں، بھگوان مہاکال واحد ایسے جیوترلنگ ہیں جو دکشن مکھی ہیں ۔ یہ شیو کے ایسے روپ ہیں جن کی بھسم آرتی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ہر عقیدت مند یقینی طور پر اپنی زندگی میں بھسم آرتی کا درشن کرنا چاہتا ہے۔ بھسم آرتی کی مذہبی اہمیت یہاں موجود تمام سنت زیادہ گہرائی سے بتا سکیں گے لیکن اس روایت میں ہمارے ہندوستان کی جانفشانی بھی نظر آتی ہے۔ مجھے اس میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر وجود کو بھی دیکھتا ہوں کیونکہ، شیو جو ‘‘سوئیں بھوتی وبھوشن’’ ہے، یعنی جو بھسم کو دھارن کرنے والے ہیں، وہ سروادھیپہ سرودا بھی ہے یعنی وہ لافانی بھی ہے اور ناقابل فنا بھی۔ لہذا، جہاں مہاکال ہے، وہاں ادوار کی کوئی حد نہیں ہے۔ لامحدودیت کا سفر بھی اختتام سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ہماری تہذیب کا روحانی اعتماد ہے جس کی وجہ سے ہندوستان ہزاروں سالوں سے امر بنا ہوا ہے۔ ازرا امر بنا ہوا ہے۔ ابھی تک ہمارے عقیدے کے یہ مراکز بیدار ہیں، ہندوستان کا ��عور بیدار ہے، ہندوستان کی روح بیدار ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے، کوششیں ہوئیں، حالات بدلے، اقتدار کی تبدیلی ہوئی، ہندوستان کا استحصال بھی ہوا، آزادی بھی گئی۔ التمش جیسے حملہ آوروں نے اجین کی توانائی کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ہمارے رشیوں نے کہا ہے – چندرشیکھرم آشرایے ممے کمے کرشیتی وے یما؟ یعنی مہاکال شیو کی پناہ میں موت بھی ہمارا کیا کرے گی؟ اور اس طرح، ہندوستان اپنے عقیدے کے ان مستند مراکز کی توانائی سے دوبارہ سر اٹھا کر ابھرا۔ ہم نے پھر اپنی لافانی ہونے کا وہی عالمگیر اعلان کیا۔ ہندوستان نے پھر مہاکال آشیرواد سے کال کے کپال پر لازوال وجود کا ایک نوشتہ لکھا۔ آج ایک بار پھر، آزادی کے اس امرت کال میں امر اونتیکا ہندوستان کی ثقافتی لافانی کا اعلان کر رہی ہے۔ اجین، جو ہزاروں سالوں سے ہندوستانی علم تاریخ کا مرکز رہا ہے، ایک بار پھر ہندوستان کی شان و شوکت کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔ ساتھیوں، ہندوستان کے لیے مذہب کا مطلب ہے اپنے فرائض کا اجتماعی عزم! ہماری قراردادوں کا مقصد دنیا کی فلاح، انسانیت کی خدمت ہے۔ ہم شیو کی پوجا میں بھی کہتے ہیں – نمامی وشواسیہ ہیتے رتم تم، نمامی روپانی بہونی دھتے! یعنی ہم وشواپتی بھگوان شیو کو نمن کرتے ہیں، جو کئی طریقوں سے پوری دنیا کے مفادات میں مصروف ہیں ۔ یہ جذبہ ہمیشہ ہندوستان کے عقیدت مندوں، مندروں، خانقاہوں اور عقیدت کے مراکز کی رہی ہے۔ یہاں ملک اور دنیا بھر سے لوگ مہاکال مندر میں آتے ہیں۔ جب سنہست کمبھ ہوتا ہے، لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ بے شمار تنوع بھی ایک منتر، ایک قرارداد سے یکجا ہو سکتے ہیں، اس سے اچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہزاروں سالوں سے ہمارے کمبھ میلے کی روایت انتہائی اجتماعی منتھن کے بعد جو امرت نکلتا ہے ،اس سے عہد لے کر بارہ سال تک اس کے نفاذ کی روایت رہی ہے۔ پھر بارہ سال کے بعد جب کمبھ ہوتا تھا تو ایک بار پھر امرت منتھن ہوتا تھا۔ پھر عہد کیا جاتاتھا۔ پھربارہ سال کیلئے چل پڑتے تھے۔ مجھے گزشتہ سال یہاں کمبھ میلے میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ مہاکال کا بلاوا آیا اور یہ بیٹا آئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے اور اس وقت کنبھ کی ہزار سال پرانی روایت جو ذہن میں چل رہی تھی، اس وقت غوروفکر جاری تھا۔ ماں شپرا کے کنارے بہت سے خیالات میں گھرا ہوا تھا اور اس وقت میرے دماغ کچھ الفاظ آئے، پتہ نہیں کہاں سے آیا، کیسے آیا، اور جو احساس پیدا ہوا وہ ایک قرارداد بن گیا۔ آج وہ سریشٹی کی شکل میں نظر آرہا ہے دوستو۔ میں ایسے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس وقت کے جذبے کو محسوس کرکے اس کا ثمرہ دکھایا ہے۔ ہر ایک کے ذہن میں شیو اور شیوتو کے سامنے سرجھکانے، ہر کسی کے ذہن میں شپرا کے لیے عقیدت، حیاتیات اور فطرت کے لیے حساسیت، اور اتنا بڑا اجتماع! دنیا کی بھلائی کے لیے یہاں کتنی ترغیبات مل سکتی ہیں؟ بھائیو اور بہنو، ہماری ان عقیدت مندوں نے صدیوں سے قوم کو پیغام دیا ہے اور طاقت بھی دی ہے۔ کاشی جیسے ہمارے مرکز مذہب کے ساتھ علم، فلسفہ اور فن کی راجدھانی بھی رہے۔ اجین جیسے ہمارے مقامات فلکیات، فلکیات سے متعلق تحقیق کے اعلیٰ مرکز رہے ہیں۔ آج جب نیا ہندوستان اپنی قدیم اقدار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو عقیدت کے ساتھ سائنس اور تحقیق کی روایت کو بھی زندہ کر رہا ہے۔ آج ہم فلکیات کے شعبے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے برابر کھڑے ہورہے ہیں۔ آج بھارت دوسرے ممالک کے سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیج رہا ہے۔ مشن چندریان اور مشن گگنیان جیسے مشنوں کے ذریعے، ہندوستان آسمان میں وہ چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہے، جو ہمیں ایک نئی بلندی عطا کرے گا۔ آج دفاعی شعبے میں بھی ہندوستان پوری قوت کے ساتھ خود انحصاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح، آج ہمارے نوجوان ہنرمندی، اسپورٹس، ، اسپورٹس سے اٹارٹ اپس، ایک ایک چیز نئے اسٹارٹ اپ کے ساتھ، نئے یونی کورنز کے ساتھ ہر شعبے میں بھارت کی صلاحیت کا ڈنکا بجارہے ہیں۔ اور بھائیو اور بہنو، ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے، یہ نہ بھولیں کہ جہاں جدت ہے وہاں تزئین و آرائش بھی ہے۔ غلامی کے دور میں ہم نے جو کھویا، آج ہندوستان اس کی تزئین و آرائش کر رہا ہے، فخر اور وقار کے ساتھ ہندوستان کی شان و شوکت بحال ہو رہی ہے اور اس کا فائدہ، نہ صرف ہندوستان کے لوگوں کوبلکہ پوری دنیا کو ملے گا، پوری انسانیت کو ملے گا۔ مہاکال کے آشیرواد سے ہندوستان کی شان و شوکت پوری دنیا کی ترقی کے نئے امکانات کو جنم دے گی۔ ہندوستان کی الوہیت پوری دنیا کے لیے امن کی راہ ہموار کرے گی۔ اس یقین کے ساتھ میں ایک بار پھر بھگوان مہاکال کے قدموں میں سر جھکاکر نمن کرتا ہوں۔ میرے ساتھ پوری عقیدت کے ساتھ بولئے، جئے مہاکال! جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال۔,মধ্যপ্ৰদেশৰ উজ্জয়িনীত ৰাজহুৱা সভাত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনূবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DB%8C%D9%86%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%B1%D9%88-%D9%B9%DB%8C%DA%A9-%D8%B3%D9%85%D9%B9-%D8%B3%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج کہا کہ بھارت کے اختراعی نوجوانوں نے ٹیک اور ہنر کی عالمگیریت کو یقینی بنایا ہے اور کہا کہ ‘‘بھارت میں ٹیکنالوجی ، مساوات اور تفویض اختیارات کی طاقت ہے’’۔ وزیراعظم ویڈیو پیغام کے ذریعہ بینگلورو ٹیک سمٹ سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے بینگلورو کو ٹیکنالوجی اور فکر پر مبنی قیادت ، شمولیت اور ایک اختراعی شہر قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ برسوں سے بینگلورو بھارت کے اختراعی عدد اشاریہ میں پہلے مقام پر رہا ہے۔ بھارت کی ٹیکنالوجی اور جدت طرازی نے پہلے ہی دنیا کو متاثر کیا ہے۔ تاہم وزیراعظم نے زور دیا کہ بھارت کے اختراعی نوجوانوں اور بڑھتی ہوئی ٹیک رسائی کی وجہ سے مستقبل موجودہ وقت سے زیادہ وسیع ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے نوجوانوں نے ٹیک عالمگیریت اور ہنر کی عالمگیریت کو یقینی بنایا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘ہم دنیا کی بھلائی کے لئے اپنے ہنر کا استعمال کر رہے ہیں’’۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ بھارت عالمی اختراعی اشاریئے میں 2015 میں 81 ویں مقام سے 40 ویں مقام پر آگیا ہے۔ 2021 سے بھارت میں یونی کارن اسٹارٹ اپس کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے، کیونکہ بھارت 81000 تسلیم شدہ اسٹارٹ اپس کے ساتھ تیسرے سب سے بڑے اسٹارٹ کے طور پر ابھرا ہے۔ بھارت کے ہنر مندی کے پول نے سینکڑوں بین الاقوامی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ،کہ وہ بھارت میں تحقیق و ترقی کے اپنے مراکز قائم کریں۔ بھارتی نوجوانوں کے لیے ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی رسائی کی وضاحت کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ملک میں رونما ہونے والے موبائل اور ڈیٹا انقلاب کے بارے میں بات کی۔ پچھلے 8 سالوں میں براڈ بینڈ کنکشن 60 ملین سے بڑھ کر 810 ملین تک پہنچ گئے۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 150 ملین سے 750 ملین تک پہنچ گئی۔ انٹرنیٹ کی ترقی دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی بنسبت تیز ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ ""ایک نئی آبادی کو انفارمیشن سپر ہائی وے سے جوڑا جا رہا ہے۔"" انہوں نے بھارت میں ٹکنالوجی کو جمہوری بنانے پر بھی زور دیا۔ بھارت نے یہ بھی دکھایا ہے کہ ٹیکنالوجی کو انسانی ٹچ کیسے دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ""بھارت میں، ٹیکنالوجی مساوات اور بااختیار بنانے کی طاقت ہے۔"" انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی صحت بیمہ اسکیم آیوشمان بھارت کی مثال دی، جو تقریباً 200 ملین خاندانوں یعنی 600 ملین لوگوں کے لیے تحفظ فراہم کرتی ہے اور کووڈ ٹیکہ کاری مہم، دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم ہے،جو کہ ٹیک پلیٹ فارمز پر چلائی جاتی ہے۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے کی مثالیں بھی دیں، جیسے اوپن کورسز کے سب سے بڑے آن لائن ذخیروں میں سے ایک جہاں 10 ملین سے زیادہ کامیاب آن لائن اور مفت سرٹیفیکیشن ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے ڈیٹا کی سب سے کم شرح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے غریب طلباء کو وباءکے دوران آن لائن کلاسز میں شرکت کرنے میں مدد ملی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بھارت غریبی کے خلاف لڑائی میں ٹیکنالوجی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے غریب دوست اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے سوامیتوا اسکیم اور جن دھن آدھار موبائل (جے اے ایم) ٹرینٹی کے لیے ڈرون کے استعمال کی مثالیں دیں،تاکہ غریب دوست اقدامات کی وضاحت کی جاسکے۔ سوامیتوا اسکیم نے جائیداد کے ریکارڈ میں صداقت اور غریبوں کوقرض تک رسائی کو یقینی بنایا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ جے اے ایم نے فوائد کی براہ راست منتقلی کو یقینی بنایا اور بہت سی فلاحی اسکیموں میں اہم ول ادا کیا۔ وزیر اعظم نے جی ای ایم کا بھی حوالہ دیا، جو کہ ‘ حکومت کے ذریعہ چلایا جانے والا ایک کامیاب ای -کامرس پلیٹ فارم ہے۔ ""ٹیکنالوجی نے چھوٹے کاروباروں کو ایک بڑا گاہک تلاش کرنے میں مدد کی ہے۔ ساتھ ہی اس سے بدعنوانی کی گنجائش بھی کم ہو گئی ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی نے آن لائن ٹینڈرنگ میں مدد کی ہے۔ اس سے منصوبوں میں تیزی آئی ہے اور شفافیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جناب مودی نے جی ای ایم کی طرف سے کی گئی پیش رفت کو نمایا کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘اس پر پچھلے سال ایک ٹریلین روپے کی مالیت کی خریداری بھی ہوئی ہے""۔ وزیراعظم نریندر مودی نے الگ تھلک رہنے کے رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اختراع اہم ہے لیکن جب اس کے ساتھ ارتباط ہوتا ہے تو یہ ایک طاقت بن جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال الگ تھلگ رہنے کے رجحان کو ختم کرنے، ہم آہنگی کو فعال کرنے اور سروس کو یقینی بنانے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ مشترکہ پلیٹ فارم پر، کوئی الگ تھلگ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت آئندہ کچھ برسوں میں بنیادی ڈھانچے میں 100 ٹریلین روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ گتی شکتی مشترکہ پلیٹ فارم سے مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیں، ضلع انتظامیہ اور مختلف محکمے آپس میں تال میل کر سکتے ہیں۔ پروجیکٹوں سے متعلق معلومات ، زمین کا استعمال اور ادارے ایک ہی جگہ پر دستیاب ہیں۔ لہذا، ہر فریق ایک ہی ڈیٹا کو دیکھتا ہے۔ اس سے ہم آہنگی بہتر ہوتی ہے اور مسائل ہونے سے پہلے ہی حل ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے منظوریوں میں تیزی آت�� ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت اب لال فیتے کے لیے مشہور جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاروں کے لیے سرخ قالین کے لیے جانا جاتا ہے۔ ""چاہے وہ ایف ڈی آئی کی اصلاحات ہوں، یا ڈرون کے ضابطوں کو سہل بنانا ہو، سیمی کنڈکٹر سیکٹر میں اقدامات، مختلف شعبوں میں پیداواری ترغیبی اسکیمیں، یا کاروبار کرنے میں آسانی میں اضافہ، بھارت کے پاس ساتھ آنے کے بہت سے بہترین عوامل ہیں""۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک اپیل سے اپنی بات ختم کی ۔ انہوں نے کہا کہ ""آپ کی سرمایہ کاری اور ہماری اختراعات حیرت انگیز کام کر سکتی ہیں۔ آپ کا اعتماد اور ہماری تکنیکی صلاحیت چیزوں کو انجام تک پہنچا سکتی ہے۔ میں آپ سبھی کو اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ ہم دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں اس کی قیادت کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح- ف ا- ق ر)",বেংগালুৰু প্ৰযুক্তি সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ প্ৰদান +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%AF%D9%84%D8%AC-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%DA%A9%D8%B4%D9%86-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DA%BE%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A7%AA-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF/,نئیدہلی7 مارچ ۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے چار مارچ 2019 کو گجرات کے شہر ادلج میں شکشن بھون اور ودیارتھی بھون کی عمار ت کا سنگ بنیادرکھے جانے کی تقریب میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے: بھارت ماتاکی-جے بھارت ماتاکی-جے بھارت ماتاکی-جے بڑی تعداد میں یہاں آئے سماج کے سبھی طبقوں کے سینئیر حضرات میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ایسے مقدس موقع پر آپ کےدرمیان آنے کی دعوت ملی ہے اور آپ کا آشیرواد حاصل کی کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ہمارے ملک میں دنیا کے لوگوں کے لئے ہمارا مذہب ، ہماری روایت اور ہماری تہذیب سمجھنا بہت بھاری کام ہے ۔تکلیف جلدی سے مجھ میں نہیں آتی ۔ ہمارے وہاں کوئی ایک مذہب صحیفہ تو ہے نہیں ، کوئی ایک بھگوان نہیں ،اس قدر ہمہ جہتی ہے کہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہم کیا ہیں اور یہی ہماری خصوصیت ہے ۔ ہم ایسے لوگ ہیں جس میں بھگت بھی بھگوان جیسا ہی ہوتا ہے ۔ اگر بھگت پہلوان ہے تو بھگوان ہنومان ہوتے ہیں ۔ بھگت اگر تعلیم کی ریاضت کرتا ہوتو بھگوان سرسوتی ہے۔بھگت کو اگر روپے پیسے سے پیار ہوتو بھگوان لکشمی جی ہیں۔ یہ ہماری خصوصیت ہے ۔اس لئے سماجی زندگی میں جس نے سب سے زیادہ رزق دینے والے کا کام کیا ،ذرے ذرے میں من بھر کے جس نے سماجی خدمت کی فکر کی ، ہمارے سماج یعنی ہماراکسان سماج ہے ، آپ کاٹھیاواڑ میں کھیڑوں کہیں تو اس کا مطلب بھی لیووا پٹیل ہوتا ہے ۔ جیسا بھگت ویسا بھگوان یہی ہماری خصوصیت رہی ہے ، اسی خصوصیت کے ایک جزو کی شکل میں آج باقاعدہ طریقے سے دیوی انّ پورنا ماں کا ایک علاقہ عقیدت اور ایک علاقہ حوصلہ افزائی ملک کے نام وقف کیا گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی سمت میں جائیں ، 20 یا25 کلومیٹر آگے جائیں تو آپ کو کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ملے گی جہاں کوئی مندر ،کوئی بابا ، کوئی جوگی ، کوئی سادھوبابا بیٹھا ہوگا۔ گھرمیں آنے والے کو بھوکا نہ جانے دیں ۔ رات میں رکنا ہوتو اس کا انتظام کریں ۔ یہ روایت ہندوستان کے کونے کونے میں ہے ۔ ہماری ہزاروں برس کی روایت ہے ، رہنا یا کھانا، جنہوں نے نرمدا کی کریکرما کی ہوگی تو انہیں معلوم ہوگا کہ نرمدا ندی کے کنارے کے گاؤں وہی ہیں ، وہ لوگ بھی وہی ہیں ، آنے والےنئے ہوتے ہیں۔ نرمدا کے ساحل پر ہزاروں لوگ پریکرما کرتے ہیں۔ ایک بار بھی کسی کو بھوکا نہیں رہنا پڑتا ۔ گاؤں کے لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے ملک کی ایک خصوصیت ہے۔ ہمارے ملک میں اب یہ رواج ہے کہ سب کچھ سرکار ہی کرے اور اگر نہ ہوتو سرکار سے جواب مانگا جائے، ہندوستان میں یہ روایت نہیں تھی ،ایسا کوئی رواج ہی نہیں تھا ۔دھرم شالہ بنائی جاتی تھی ، گؤ شالہ بنائی جاتی تھی ،پانی کے پیاؤ بنائے جاتے تھے ، یہ سارے کام سرکار نہیں کرتی تھی۔ سماجی طاقت سے کئے جاتے تھے ۔دھرم شالہ ہو، پانی کا پیاؤ ہویا لائبریری ہو ،دھیرے دھیرے سماج اور اس کی طاقتیں نادانستگی میں ہی دبا دی گئیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ریاست ،ریاست کا کام کرے ۔ سماج پھلے پھولے ،سماج طاقتور ہوگا تو ملک جلد ہی طاقتور بن جائے گا۔سرکار کی طاقت یکجا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس بنیادی روایت میں اس طرح کی سبھی ذہنیتوں کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی ہے اور اس کے حصے میں آنے والے دنوں میں اس طرح کی چیزوں کو کوئی سیاسی داؤں پیچ نہیں ہوتے ، یہ سماج کی بنیادی طاقت ہے ۔ آج ہزاروں کروڑ روپے کی قیمت کی عمارتی لکڑی بیرونی ملکوں سے لانی پڑتی ہے ۔ ہماری یہ بیٹیاں بھی بڑی ہوں اور عمارت کی لکڑی بھی بڑی ہو ،وہ باہر سے عمارتی لکڑی لانا بند ہو ، ہماری مذہبی روایات کو اقتصادی انتظامات کے ساتھ کس طرح جوڑا جاسکتا ہے ۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جگہ اس طرح کے کام کرسکتی ہے ۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو اگر کوئی ذات پات کے رنگ میں رنگے تو غلط بات ہے ۔ ملک کا ایک عظیم قائد اسٹیچو آف یونٹی یعنی دنیا کو آج سراونچا کرکے دیکھنا ہی پڑتا ہے کہ یہ ہمارے سردار صاحب ہیں۔ پوری دنیا کی سب سے بلند یادگار کون سی ہے تو سردار پٹیل کا اسٹیچو آف لبرٹی کہنا ہی پڑے گا ،اس میں کوئی منھ نہیں چھپا سکتا ۔ مجھے نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی ریکارڈ توڑ سکے گا۔مجھے یہاں ایک دوسری بات کرنی ہے ۔ اس امول ڈیری کی پیدائش ہوئی تو اس کی بنیاد ڈالنے والے کون تھے ،شروع کس نے کی ؟ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ انہیں ذات پات کے رنگ میں نہ رنگنا ۔ انہیں ذات پات کے رنگ میں رنگنا پاپ ہے ۔ ہم ماں انّ پورناسے جڑچکے ہیں تو آئیے ایک ذمہ داری یہ بھی اٹھائیں اور سیدھے سیدھے کسانوں کے ساتھ جڑ جائیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ ٹرسٹ والے جس طرح سردار صاحب کی حوصلہ افزائی سی امول کا یہ پورا کاروبار کرکے چلارہے ہیں ۔اسی طرح انّ پورنا کی حوصلہ افزائی سے غذائی اشیا کی افزودگی ،کسان کی پیداوار کی قیمت میں اضافہ ان تمام باتوں کے لئے ایک سائنسی طریقے سے نظام کو فروغ دینا ہوگا۔ شیر تھا کی مرچ فیمس ہولیکن شیر تھا کی مرچ اگر لال ہوتو زیادہ کمائی ہوتی ہے اور لال مرچ کا اگر پاؤڈر بنے تو اور زیادہ کمائی ہوتی ہے ۔ اس کی پیکنگ اچھی ہوتو اور زیادہ پیسے ملتے ہیں ۔ فوڈ پراسیسنگ یعنی غذائی افزودگی سے قیمتوںمیں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہمارے کسان کو اس کی پیداوار کے لئے اس یونٹ کا فائدہ حاصل ہو ،بڑی سطح پر اس کا کام ہو ، اس میں ریسرچ ہو ، میں مانتا ہوں کہ صحیح معنوں میں ہم ماں ان پورنا کے قدموں میں سب کو یہاں سرجھکانے کی حالت پیداکرسکتے ہیں ۔ میں چاہوں گا کہ یہاں جو میری صنعتی دنیا کے جو لوگ بیٹھے ہیں وہ اس پر ضرور بالضرور غور کریں ۔ ایک عقیدہ ، ایک روحانیت کو زندگی کی ترقی میں کس طرح استعمال کرسکتے ہیں اس پر غٰورکیا جانا چاہئے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس میں پانچ عناصر کو مرکز میں رکھ کر ماتا ان پورنا دھام کی تعمیر کی گئی ہے ۔ہمارے یہاں رام چرت مانس کی ایک چوپائی ہے : چھتی جل پاون گگن سمیرا ! پنچ رچت اتی ادھم شریرا !! یعنی ہمار ا یہ جسم پانچ عناصر سے بنا ہوا ہے ۔ پانچ عناصر سے بنی ہوئی یہ کایا اسی جذبے سے پانچ عناصر کے بنیادی مفہوم کو کے امتزاج کی جب یہاں کوشش ہورہی ہے تو مجھے پورا یقین ہے کہ اس بنیادی عنصر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سماج کے آئندہ کل کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں اجاگر کریں گے۔ نرہری بھائی کی جو خود اعتمادی ہے کہ 2020 میں اس کا افتتاح کریں گے اوردوسرے کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا اور میرا یقین اس سے سو ا گنا زیادہ ہے ۔ گھر پر کوئی بلائے تو کون منع کرسکے گا ۔ یہاں کوئی میں مہمان تھوڑئی ہوں ۔یہ تو گھر آنے کی خوشی ہے کہ ماں ان پورنا کے قدموںمیں آئیں اور پورے ملک کی اناج کی ضرورت پورے کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہو۔ آج جب میں کسانوں کے درمیان آیا ہوں تو اس ملک کے ذرےذرے میں من سمو دینے والے ریاضت کار ،زرعی دنیا کے لوگوں کے درمیان میں آیا ہوں ،تب جے جوان جے کسان دونوں کی ہی اپنی قیمت ہے ۔کسان کی طاقت ، جوان کی طاقت ملک کو غذائی سلامتی فراہم کرنا ہے اور ملک کی سرحدوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور دونوںک کی سماجی طاقت سے یہ ملک ترقی کے تمام مواقع حاصل کرتا رہے گا ۔ میں ایک بار پھر آپ سب کے بیچ آنے کا موقع دینے کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ماتا ان پورنا کے قدموںمیں وندن کرتا ہوںاور آپ سب کے روشن مستقبل کے لئے دیوی ان پورنا کے قدموںمیں پرارتھنا کرکے اپنی بات تمام کرتا ہوں۔ شکریہ ! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,"আদালাজত ৪ মাৰ্চ, ২০১৯ তাৰিখে শিক্ষণ ভৱন আৰু বিদ্যাৰ্থী ভৱনৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%88%D8%B3%D8%B7%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%D9%88%D8%B1%DA%86%D9%88%D8%A6%D9%84-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 27 جنوری، 2022 کو ورچوئل فارمیٹ میں پہلی بھارت-وسطی ایشیا چوٹی کانفرنس کی میزبانی کی، جس میں جمہوریہ قزاقستان، جمہوریہ کرغزستان، جمہوریہ تاجکستان، ترکمانستان اور جمہوریہ ازبکستان کے صدور نے شرکت کی۔ یہ پہلی بھارت-وسطی ایشیا چوٹی کانفرنس، ہندوستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی۔ چوٹی کانفرنس کے دوران، وزیر اعظم مودی اور وسطی ایشیائی رہنماؤں نے بھارت-وسطی ایشیا کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے اگلے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ قائدین نے چوٹی کانفرنس کے طریقہ کار کو ہر 2 سال بعد منعقد کرنے کا تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے اسے ادارہ جاتی بنانے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے سربراہی اجلاس کی زمینی سطح پر تیاری کے لیے وزرائے خارجہ، وزرائے تجارت، وزرائے ثقافت اور سیکورٹی کونسل کے سیکرٹریوں کی باقاعدہ میٹنگوں پر بھی اتفاق کیا۔ نئے میکانزم کی مدد کے لیے نئی دہلی میں ایک بھارت-وسطی ایشیا سیکریٹریٹ قائم کیا جائے گا۔ رہنماؤں نے تجارت اور کنیکٹویٹی، ترقیاتی تعاون، دفاع اور سلامتی اور خاص طو�� پر ثقافتی اور عوام سے عوام کے درمیان رابطوں کے شعبوں میں تعاون کو مزید آگے بڑھانے کے لیے دور رس تجاویز پر تبادلہ خیال کیا۔ ان میں توانائی اور کنیکٹویٹی پر ایک گول میز؛ افغانستان اور چابہار بندرگاہ کے استعمال پر اعلیٰ سرکاری سطح پر مشترکہ ورکنگ گروپس؛ وسطی ایشیائی ممالک میں بودھ مذہب سے متعلق نمائش اور مشترکہ الفاظ پر مبنی بھارت-وسطی ایشیا لغت کی تدوین، انسداد دہشت گردی کی مشترکہ مشقیں، وسطی ایشیائی ممالک سے سالانہ 100 رکنی نوجوانوں کے وفد کا دورۂ ہند اور وسطی ایشیائی سفارت کاروں کے لیے خصوصی کورسز شامل ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ رہنماؤں نے حقیقی نمائندگی پر مبنی اور جامع حکومت کے ساتھ پرامن، محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے افغان کے عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے ہندوستان کے جاری عزم سے آگاہ کیا۔ رہنماؤں کی طرف سے ایک جامع مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جو کہ ایک پائیدار اور جامع بھارت-وسطی ایشیا شراکت داری کے لیے ان کے مشترکہ وژن کی ترجمانی کرتا ہے۔,ভাৰত-মধ্য এছিয়া ভাৰ্চুৱেল সন্মিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-6-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%B2%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%AE%D8%B2%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%BE%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AC-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 6 جون 2022 کو صبح 10:30 بجے نئی دہلی کے وگیان بھون میں وزارت خزانہ اور کارپوریٹ امور کی وزارت کی شاندار ہفتہ تقریبات کا افتتاح کریں گے۔ یہ ہفتہ 6 سے 11 جون 2022 تک آزادی کا امرت مہوتسو (اے کے اے ایم) کے حصے کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کریڈٹ سے متعلق سرکاری اسکیموں کے قومی پورٹل – جن سامرتھ پورٹل کا افتتاح کریں گے۔ یہ ایک اسٹاپ ڈیجیٹل پورٹل ہے جو حکومت کی کریڈٹ سے متعلق اسکیموں کو مربوط کرتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا پلیٹ فارم ہے جو مستحقین کو قرض دینے والوں سے براہ راست جوڑتا ہے۔ جن سامرتھ پورٹل کا بنیادی مقصد مختلف شعبوں کی جامع نشو و نما اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ سادہ اور آسان ڈیجیٹل عمل کے ذریعہ صحیح قسم کے حکومتی فوائد حاصل کر سکیں۔ پورٹل تمام منسلک اسکیموں کی مکمل کوریج کو یقینی بناتا ہے۔ وزیر اعظم ایک ڈیجیٹل نمائش کا افتتاح کریں گے جس میں دونوں وزارتوں کے گزشتہ آٹھ سالوں کے سفر کی نشاندہی کی جائے گی۔ وزیراعظم ایک روپے، دو روپے ، پانچ روپے ، دس روپے کے سکوں کی خصوصی سیریز بھی جاری کریں گے۔ سکوں کی ان خصوصی سیریز میں اے کے اے ایم کا تھیم لوگو شامل ہوگا اور بینائی سے محروم افراد بھی آسانی سے ان کی شناخت کر سکیں گے۔ یہ پروگرام ملک بھر میں 75 مقامات پر بیک وقت منعقد کیا جائے گا اور ہر مقام کو مرکزی مقام کے ساتھ ورچوئل موڈ کے ذریعہ مربوط کیا جائے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( (05.06.2022),৬ জুনত বিত্ত আৰু কর্প’ৰেট পৰিক্ৰমা মন্ত্রণালয়ৰ আইকনিক সপ্তাহ উদযাপন কাৰ্যসূচী উদ্বোধন কৰিব প্রধানমন্ত্রীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D9%BE%D8%B0%DB%8C%D8%B1-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%9C%E0%A6%A8-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%82%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%BF/,نئی دہلی، 2/فروری 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ صدی میں ایک بار آئی قدرتی آفت کے درمیان یہ بجٹ ترقی کے نئے یقین کے ساتھ آیا ہے۔ انھوں نے کہا ’’یہ بجٹ معیشت کو مضبوطی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لئے نئے مواقع پیدا کرے گا۔‘‘ لوک سبھا میں مرکزی بجٹ پیش کئے جانے کے بعد اپنے تبصرے میں وزیر اعظم نے کہا کہ بجٹ ’’زیادہ بنیادی ڈھانچے، زیادہ سرمایہ کاری، زیادہ ترقی اور زیادہ نوکریوں کے مواقع سے پُر ہے‘‘ اس سے گرین جابس سیکٹر کی راہ مزید ہموار ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ یہ بجٹ نہ صرف موجودہ مسائل کا حل فراہم کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کے روشن مستقبل کو بھی یقینی بناتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کسانوں کے لئے ڈرون، وندے بھارت ٹرین، ڈیجیٹل کرنسی، 5 جی سروسیز، نیشنل ڈیجیٹل ہیلتھ ایکو سسٹم جیسے اقدامات کے توسط سے زندگی کے ہر شعبے میں جدید کاری اور ٹیکنالوجی کی تلاش سے ہمارے نوجوانوں، متوسط طبقے، غریب، دلت اور پسماندہ طبقات کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ غریبوں کی فلاح اس بجٹ کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ بجٹ کا مقصد ہر غریب خاندان کے لئے پختہ گھر، بیت الخلاء، نل کا پانی اور گیس کنکشن کو یقینی بنانا ہے۔ ساتھ ہی جدید انٹرنیٹ کنکٹیویٹی پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نے ذکر کیا کہ ملک میں پہلی بار ’پربت مالا‘ منصوبہ ہماچل، اتراکھنڈ، جموں و کشمیر اور شمال مشرق جیسے خطوں میں شروع کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ پہاڑی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظم فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ لاکھوں ہندوستانیوں کے اعتقاد کا مرکز گنگا کی صفائی کے ساتھ ساتھ حکومت پانچ ریاستوں اتراکھنڈ، اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں ندی کے کنارے قدرتی کھیتی کو بڑھاوا دے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کسانوں کی فلاح کے لئے ایک اہم قدم ہے اور اس سے گنگا کو کیمیکل سے آزاد بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ بجٹ کے التزامات کا مقصد زراعت کو پرکشش اور نئے مواقع سے بھرا ہوا بنانا ہے۔ نئے ایگریکلچر اسٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے خصوصی فنڈ اور فوڈ پروسیسنگ صنعتوں کے لئے پیکیج جیسے اقدامات سے کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایم ایس پی خرید کے ذریعے 2.25 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کسانوں کے کھاتے میں ٹرانسفر کئے جارہے ہیں۔ کریڈٹ گارنٹی میں ریکارڈ اضافہ کے ساتھ ہی بجٹ میں متعدد منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ’’گھریلو صنعت کے لئے ڈیفنس کیپٹل بجٹ کے 68 فیصد ریزرویشن سے ہندوستان کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو بہت فائدہ ہوگا۔ 7.5 لاکھ کروڑ روپئے کی عوامی سرمایہ کاری معیشت کو نئی رفتار دے گی اور چھوٹی و دیگر صنعتوں کے لئے نئے مواقع پیدا کرے گی۔ وزیر اعظم نے وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو عوام دوست اور ترقی پذیر بجٹ کے لئے مبارک باد دیتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔,এখন ‘জন-অনুকূল আৰু প্ৰগতিশীল বাজেট’ৰ বাবে বিত্ত মন্ত্ৰী আৰু তেওঁৰ দলক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D9%81-%DA%AF%D9%84%D9%88%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D9%84%D8%AA%D8%A7-%D9%85%D9%86%DA%AF%DB%8C%D8%B4%DA%A9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%A6%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%B2%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%82/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے معروف گلوکارہ لتا منگیشکر کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے ان کے خاندان سے بات کرتے ہوئے اظہار ہمدردی کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آنے والی نسلیں انہیں بھارتی ثقافت کی ایک عظیم شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں گی، ان کی شیریں آواز میں لوگوں کو مسحور کردینے کی بے مثال صلاحیت تھی۔ وزیراعظم نے متعدد ٹوئیٹ میں کہا؛ ’’میں اس دکھ کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، مشفق اور دیکھ بھال کرنے والی لتا دیدی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ ان کے جانے سے ملک میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے، جسے کبھی پُر نہیں کیا جاسکتا۔ آنے والی نسلیں انہیں بھارتی ثقافت کی ایک عظیم شخصیت کے طور پر یاد رکھیں گی، ان کی شیریں آواز میں لوگوں کو مسحور کردینے کی بے مثال صلاحیت تھی۔‘‘ ’’لتا دیدی کے گیتوں میں جذبات کا تنوع تھا، انہوں نے دہائیوں تک بھارتی فلمی دنیا میں ہونے والی تبدیلی کو قریب سے دیکھا ۔ فلموں سے الگ ، وہ ہمیشہ بھارت کی ترقی کے تئیں پرجوش تھیں۔ وہ ہمیشہ ایک مضبوط اور ترقی یافتہ بھارت دیکھنا چاہتی تھیں۔‘‘ ’’میں اسے اپنے لئے عزت افزائی مانتا ہوں کہ مجھے لتا دیدی سے ہمیشہ بے انتہا پیار ملا ہے۔ ان کے ساتھ میری بات چیت ہمیشہ یاد رہے گی۔ میں لتا دیدی کے انتقال پر اپنے اہل وطن کے ساتھ انتہائی غمزدہ ہوں۔ ان کے خاندان سے بات کی اور اظہار ہمدردی کیا۔ اوم شانتی! ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ف ا۔ ق ر۔ 1222U-,কিংবদন্তি গায়িকা লতা মংগেশকাৰৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D9%84-%DB%8C%D8%B9%D9%86%DB%8C-15-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-2019-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%DB%8C%D8%B1%D9%84%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A7%A7%E0%A7%AB-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%95%E0%A7%87/,نئی دہلی، 14 جنوری 2019، وزیراعظم جناب نریندر مودی کل یعنی 15 جنوری 2019 کو کیرلہ میں کولم اور تیرو اننت پورم کا دورہ کریں گے۔ کولم میں وزیراعظم قومی شاہراہ نمبر 66 پر واقع کولم بائی پاس کا افتتاح کریں گے۔ یہ 13 کلومیٹر طویل دو لین والا بائی پاس ہے جس کی تعمیر پر 352 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔اس بائی پاس پر اشٹھا مڈی جھیل کے اوپر تین بڑے پُل ہیں جن کی کل لمبائی 1540 میٹر ہے۔اس پروجیکٹ سے الپوزہ اور تیرواننت پورم کے درمیان سفری وقت میں کمی آئے گی اور کولم شہر میں اس سے ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ کم ہوگی تیرو اننت پور میں وزیراعظم جناب نریندر مودی پدمنابھا سوامی مندر کے درشن بھی کریں گے۔ان کے ذریعہ مندر کے درشن کے لئے آنے والے لوگوں کے لئے چند سہولتوں کی تعمیر کی مناسبت سے ایک تختی کی نقاب کشائی کئے جانے کا بھی امکان ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ م ن۔م م ۔ن ا۔ (,"কাইলৈ (১৫ জানুৱাৰী, ২০১৯) কেৰালা ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6-%E0%A6%AA/,نئی دہلی۔ 05 جنوری اسٹیج پر براجمان جھارکھنڈ کی گورنر محترمہ دروپدی مرمو جی، ریاست کے جواں ہمت وزیر اعلی جناب رگھوور داس جی، کابینہ کے میرے ساتھی جناب سدرشن بھگت جی، بہار اور جھارکھنڈ سے آئے ہوئے پارلیمنٹ کے میرے ساتھی، جھارکھنڈ کابینہ کے معزز ارکان اور اتنی بڑی تعداد میں تشریف لائے ہوئے میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں اور میں دیکھ رہا ہوں، میرے سامنے جو دکھتا ہے اب پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اصل میٹنگ وہاں ہے کہ یہاں ہے۔ شاید اس سے تین گنا لوگ وہاں ہیں اور جو باہر دھوپ میں کھڑے ہیں، مجھے پتہ نہیں کہ انہیں سنائی دیتا ہوگا کہ نہیں دیتا ہوگا، اتنی بڑی تعداد میں اتنے امنگ اور جوش و خروش کے ساتھ آپ سب ہم لوگوں کو آشیرواد دینے کے لئے آئے۔ میں آپ کا سر جھکا کر خیر مقدم کرتا ہوں، آپ کو سلام کرتا ہوں۔ جھارکھنڈ کی ترقی کا سفر ، آپ سبھی اس ترقی کے سفر کے حصہ دار ہیں۔ یہ آپ کا ساتھ اور تعاون ہے جس کے باعث یہ ترقی کا سفر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سال 2019 شروع ہو گیا ہے اور پہلا ہی ہفتہ ہے جب میں آپ کے درمیان آیا ہوں۔ میں آپ سبھی کو بھی بہت بہت مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ بہادروں کی سرزمین پلاموں ، جہاں انگریزوں کو ناکوں چنے چبوانے والے مجاہد آزادی نیلامبر پتامبر کی بہادری کی کہانی زندگی کا حصہ ہے۔ اس سرزمین کے ہر سپوتوں ، ہر بہادروں ، ہر بیٹی کو ہم سب سلام کرتے ہیں ۔ میں پردھان منتری آواس یوجنا کے ان 25 ہزار مستفیدہونے والے کنبوں کو بھی خصوصی مبارکباد دیتا ہوں جو آج اپنے نئے گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ نئے سال میں نئے گھر کی انہیں دوہری مبارکباد اور گھر پکّا ہوتا ہے تو عزم بھی پکّا ہو جاتا ہے اور خواب بھی سہانے لگنے لگتے ہیں ۔ اور اس لیے پکّے نئے گھرسے مستفید ہونے والوں کو بہت بہت مبارکباد۔ ساتھیوں، آج مجھے کسانوں کی زندگی بدلنے والی زراعت سے جڑی ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے سے زائد کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ آج جن آبپاشی کے منصوبوں پر کام شروع ہوا ہے وہ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی ہماری کوشش کا اہم حصہ ہے۔ آپباشی پر خرچ کم ہو تو لاگت اپنے آپ کم ہوجاتی ہے۔ لہذا ملک میں آبپاشی کے روایتی نظام سے لے کر نئی تکنیک کو کسانوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ جلد ہی 12 کروڑ روپے کی سون کنہر پائپ لائن منصوبے سے یہاں کے 14 ہزار سے زائد ہیکٹر زمین کی آبپاشی ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس علاقے کے 3 لاکھ سے زیادہ افراد کے لئے پینے کا پانی دستیاب ہو رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 25 کلو میٹر سے زائد طویل پائپ زمین کے اندر بچھایا جائے گا یعنی زمین پر کھیتی بھی ہوتی رہے گی اور آبپاشی کی سہولت بھی رہے گی۔ ساتھیوں ، کسانوں کو مضبوط کرنے کے لیے جن منصوبوں پر کام ہو نا چاہیے تھا ان کو لے کر سابقہ حکومتوں کا کیا رویہ رہا ، اس کی گواہی یہاں کا اتر کویل منصوبہ دے رہا ہے۔ یہ منڈل ڈیم پروجیکٹ اس کی گواہ ہے۔ سوچئے 47 سال یعنی آدھی صدی یہ منصوبہ کھنڈر کی شکل میں ادھورا لٹکا پڑا ہے۔ 1972 میں اس کی فائلیں چلی تھیں اور پھر لٹکتی رہی، بھٹکتی رہی۔ پچھلے 25 سالوں سے اس منصوبہ کا کام ایک طرح سے ٹھپ ہی پڑا تھا۔ آپ مجھے بتائیے کہ کیا کسی ڈیم منصوبے کو مکمل ہونے میں آدھی صدی لگنی چاہئے، کیا یہ خشک سالی سے متاثر علاقے میں کسانوں کے ساتھ کی گئی ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ نہیں ہے۔ ساتھیوں یہ منصوبہ کسانوں کے ساتھ، ٹھگی کے ساتھ ہی، ملک کے ایماندار ٹیکس دہندگان کے ساتھ بے ایمانی کا بھی ثبوت ہے۔ جس منصوبے کو 30 کروڑ روپے صرف 30 کروڑ روپیہ میں پورا ہونا تھا، اب لگ بھگ دو ہزار 400 کروڑ روپے میں مکمل ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پورے منصوبہ کے لئے ملک کے ٹیکس دہندگان کو تقریبا 80 گنا زیادہ قیمت ادا کرنی ہوگی۔ آپ مجھے بتائیے جنہوں نے ایسا کیا ہے وہ معاشرے کے گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں، وہ کسانوں کے گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں، وہ آپ گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں، وہ بہار کے گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں، وہ جھارکھنڈ کے گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں۔ ایسے گنہگاروں کو سزا ملنی چاہئے کہ نہیں ملنی چاہئے … ایسے گنہگاروں کے خلاف مودی کو لڑنا چاہئے کہ نہیں لڑنا چاہئے … ایک چوکیدار کو یہ کام کرنا چاہئے کہ نہیں کرنا چاہئے …. آزادی کے بعد اتنے سالوں تک ملک کیسے چلا ہے ، یہ منصوبہ اس کا حل ہے، کسانوں کی بد حالی کا یہ جیتا جاگتا ایک کیس اسٹڈی کرنے جیسا کام ہے۔ یہ منصوبہ اس بات کا بھی گواہ ہے کہ کیسے پہلے جھارکھنڈ اور بہار کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ بھائیو اور بہنوں یہ کسان کو صرف ووٹ بینک سمجھنے والے اور کسان کو اَن داتا سمجھنے والے …. ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے لئے کسان ووٹ بینک ہے، ایک طرف ہم لوگ ہیں جن کے لئے ہمارا کسان اَن داتا ہے۔ یہ فرق ہے ،جو پہلے تھے انہوں نے کسانوں کو ووٹ بینک سمجھا اور آج ہم ہیں جو آپ کو اَن داتا مان کر آپ کی کھیتی میں آنے والی ہر مشکلیں دور کرنے کی ایمانداری سے کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، آج کچھ لوگ اس موقع کو اس شکل میں دیکھیں گے کہ آج اتنے سالوں سے لٹکا ہوا ایک کام آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بات اتنی چھوٹی نہیں ہے۔ آپ غور کیجئے جب متحدہ بہار تھا ، جھارکھنڈ نہیں بنا تھا ۔ ایک ہی سرکار پٹنہ میں بیٹھتی تھی اگر تھوڑی سی حساسیت کسانوں کے تئیں ہوتی ، یہاں کے لوگوں کی مصیبتوں کی تھوڑا سی بھی واقفیت ہوتی تو ایک متحدہ بہار رہتے ہوئے یہ کام اتنے دنوں تک لٹکا ہوا نہیں ہوتا اور تیس کروڑ کا 24 سو کروڑ کامعاملہ نہیں ہوتا۔ دوسری بات آج ہندوستان میں پانی کو لے کر آس پاس کی ریاستوں کے درمیان ایسی لڑائی چل رہی ہے ، سپریم کورٹ میں معاملہ پڑا ہوا ہے ۔ پانی بہہ رہا ہے ، سمندر میں جا رہا ہے۔ لیکن اپنے سیاسی وجوہات سے لڑائیاں لڑی جا رہی ہیں۔ آج کا یہ واقعہ خاص طور پر ملک کو دیکھنا ہوگا ۔ میں بہار کے وزیر اعلی اپنے دوست نتیش کمار جی کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ میں جھارکھنڈ کے اپنے رفیق خاص وزیر اعلی رگھوور داس جی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ دونوں حکومتوں نے مل کر ، دونوں ریاستوں سے جڑے ہوئے اس منصوبے کو انہوں نے مکمل کرنے کی سمت میں دانشورانہ قدم اٹھایا ہے ۔ میں بہار سے آئے ہوئے اپنے ارکان پارلیمنٹ کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔ میں جھارکھنڈ کے اپنے ارکان پارلیمنٹ کا استقبال کرتا ہوں ۔ دونوں ریاستوں کے ارکان پارلیمنٹ مل کر جب بھی میرے پاس آئے جھارکھنڈ اور بہار کے دونوں سمت کے ساتھ ساتھ ، ساتھ میں آئے اور یہ مسئلہ اس ریاست کا۔۔۔ اس ریاست کا نہیں ، ہمارے ملک کے کسانوں کا ہے ان کو فائدہ ملنا چاہیے ۔۔۔ مل جل کر اور ان سبھی ایم پی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اس ایک معاملہ کو لے کر وہ سبھی چین سے بیٹھے نہیں ہیں، چین سے سوئے نہیں ہیں۔ آپ کے لیے یہ دن رات دوڑتے رہے ہیں اور مجھے بھی دوڑاتے رہے ہیں۔ اور اس لیے میں ارکان پارلیمنٹ کا آج خاص طور پر خیر مقدم کرتا ہوں اور اس لیے آج یہ ڈیم بن رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے وفاق کو ایک توانائی دینے کا کام بہار اور جھارکھنڈ دونوں حکومتوں نے مل کر کیا ہے۔ یہ میرے لیے خاص طور پر فخر کی بات ہے ۔ لطف کی بات ہے ، اور ملک کی دیگر ریاستوں کے لیے بھی اس میں بہت کچھ سیکھنے کا ہے ۔ اور اس لیے میں خاص طور پر ارکان پارلیمنٹ کو دونوں ریاستوں کی حکومتوں کو دونوں وزراء اعلی کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ ساتھیوں، آج کچھ لوگ ملک کے کسانوں کو قرض معافی کے نام پر بہلا رہے ہیں ، کسانوں سے جھوٹ بول رہے ہیں ۔ مجھے پتہ ہے کہ انہوں نے کبھی اتر کویل منصوبہ کا نام تک نہیں سنا ہوگا ان کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ کویل ایک پرندہ کا نام ہے کہ ڈیم کا نام ہے یا ندی کا نام ہے ، کچھ معلوم نہیں ہوگا۔ جب ان کی حکومت مرکز میں تھی تو ان لوگوں نے پرواہ ہی نہیں کی کہ ملک میں جو آبپاشی کے منصوبے برسوں سے اٹکے ہوئے ہیں ، ادھورے ہیں ، انہیں پورا کیا جائے ۔ آپ مجھے بتائیے ۔۔۔ کہ یہ تقریبا آدھی صدی سے لٹکا ہوا پروجیکٹ وقت پر مکمل ہوا ہوتا تو اس علاقے کا کسان کبھی قرضدار بنا ہوتا کیا۔۔۔ اس کوقرض لینا پڑتا کیا ۔۔۔ وہ قرض میں ڈوبتا کیا ۔۔ ۔ اس کو پہلے آپ نے قرض لینے کے لیے مجبور کر دیا ۔ اس کی زندگی بغیر قرض کے ناممکن بنا دیا اور اب سیاست کرنے کے لیے نکل پڑے ہیں ۔ اچھا ہوتا اگر کسانوں کے تئیں تھوڑی سی بھی حساسیت ہوتی ۔۔۔ ایسے سارے کام پورے کر دیے ہوتے تو میرا کسان کبھی قرض کے بوجھ میں ڈوبا نہیں ہوتا ۔ ارے ۔۔۔ وہ تو دنیا کو قرض دینے کی طاقت بن گیا ہوتا ۔ بھائیو اور بہنوں ، جب ہماری حکومت آئی تو کسان کے کھیت میں پانی پہنچانے کا بیڑہ ہم نے اٹھایا ۔ جب پرانے ادھورے منصوبوں کے کاغذ نکلوائے تو ایسے ایسے کارناموں کا پتہ چلا کہ میری آنکھیں کھل گئیں ۔۔۔ کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ ایک طرح سے آنکھیں پھٹ گئیں ۔۔۔ ایسا کام کر کے گئے ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ صرف اتر کویل منصوبہ نہیں متعدد ایسے آبپاشی کے منصوبے تھے جہاں ڈیم بن گئے ۔۔۔ نہر نہیں بنے ۔ نہر بن گئے تو ڈیم کا کام ادھورا پڑا ہوا تھا۔ ڈیم اور نہر دونوں بن گئے تو اس کو جوڑنے کا کا م نہیں ہوا ہے ۔ ایسا ۔۔۔ کوئی پرواہ ہی نہیں ، پیسے گئے تو گئے ، زمین گئی تو گئی ، کسان مر رہا ہے تو مر رہا ہے ۔ یہی کام کرتے رہے ہیں ۔ کسانوں کے ساتھ ، ملک کے آبپاشی کے منصوبے کے ساتھ اس قسم کی ناانصانی کی جا رہی ہے ۔ میں نے ملک بھر کے ایسے منصوبوں کی فہرست بنوائی ، بجٹ میں رقم کا انتظام کیا اور پھر شروع کیا پردھان منتری آبپاشی منصوبہ ۔ آج اس منصوبہ کے باعث ملک کے ان 99 بڑے منصوبوں کو پورا کیا جا رہا ہے ۔ جو 30-30 ،40-40 سال سے اٹکا پڑا تھا، فائلیں بھی کھو گئی تھیں۔ بھائیو اور بہنوں، اگر مجھے سیاست کرنی ہوتی ، اگر مجھے کسانوں کو ووٹ بینک کا حصہ ہی بنا کر رکھنا ہوتا تو میرے لیے تو بہت آسان تھا ۔ یہ ایک لاکھ کروڑ روپے کے اتنے سارے منصوبوں کے پیچھے محنت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دن رات تفتیش کرنے کی کیا ضرورت تھی، بابوؤں کو دوڑنے کی کیا ضرورت تھی ۔ سیدھا سیدھا ایک لاکھ روپے کسانوں کا قرض معاف کر کے تقسیم کر دیتا ۔ لیکن میں نے کسانوں کو گمراہ کرنے والا راستہ نہیں منتخب کیا ، پاپ نہیں کیا ۔ قرض معافی تو ایک نسل کی ہوجاتی ، ایک سال کی ہو جاتی تاہم ایک لاکھ کروڑ سے جو پانی آئے گا وہ آنے والی صدیوں تک لوگوں کا بھلا کرے گا۔ کسان کی 5-5، 25-25 نسل کا بھلا کرے گا۔ وہ کبھی قرضدا رنہ بنے یہ طاقت اس کو ملنے کا کام ہم نے کیا ۔ ہم نے وہ ووٹ بینک کی سیاست نہیں کی۔ ہم نے اپنے کسان کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے اور اس لیے بھائیوں اوربہنوں یہ چناؤ جیتنے کے جو کھیل چل رہے ہیں اسی کھیل کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے بھی کسان کو قرضداربنا کر رکھ دیا ہے ۔ انہوں نے نوجوان کو درخواست گزاربنا کر رکھا ہوا ہے ۔ انہوں نے ماؤں اور بہنوں کو غیر محفوظ بنا کر رکھا ہوا ہے ۔ انہوں نے ایسی حالت بنا رکھی ہے کہ لوگ حکومت کے بھروسے جئیں ، اس حالت کو بدلنے کے لیے میں کوشش کر رہا ہوں ۔ ملک حکومت سے نہیں ، ملک ہم وطنوں سے چلنا چاہیے ۔ ملک ہم لوگوں کے لیے نہیں آپ کے لیے ہونا چاہیے ، آپ کی طاقت کے بھروسے چلنا چاہیے۔ اسی ارادے سے کام کر رہے ہیں۔ بھائیوں اور بہنوں ، حکومت کی مسلسل کوششوں کے باعث آج متعدد منصوبے مکمل ہوئے ہیں اور میں زیادہ تر دیکھ رہا ہوں بہت سے پروجیکٹ آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں ۔ اور آخری مرحلے میں ہے ۔ اسی بات کو لے کر ، سابقہ حکومتیں جو کسانوں کو ووٹ بینک سمجھنے والوں اور ہماری حکومت کسانوں کا اَن داتا سمجھتی ہے۔ اس کا سیدھا سیدھا فرق ہے ۔ آپ کو یہ فرق ۔۔۔ یہ ٹی وی کے ایر کنڈیشنر روم میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کبھی پتہ نہیں چلے گا ، اخبار کی سرخیوں میں پتہ نہیں چلے گا اور اس لیے بھائیوں اور بہنوں ، ملک کے تابناک مستقبل کے لیے کسانوں کو طاقتور بنانا ہے اس راہ پر چلنا ہے اور ہمیں صرف اور صرف اپنے عمل اور اپنے قول سے کسانوں کی خدمت کرنا ہے ، ملک کی خدمت کرنا ہے ، یہ اپنا دھرم مان کر ہم کام کر رہے ہیں ۔ ساتھیوں آپ جانتے ہیں کہ ہم اس پر کتنی رقم خرچ کر رہے ہیں ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں ۔۔۔ تقریبا 90 ہزار کروڑ روپے یعنی ایک طرح سے ایک لاکھ کروڑ روپیہ ۔۔۔ یہ ہے ہمارے کام کرنے کا طریقہ ۔ ساتھیوں ہماری حکومت کھیتی اور کسانوں کو طاقتور بنانے کے لیے ایک نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہماری کوشش بیج سے بازار تک نئے انتظامات تیار کر کے کسانوں کو مضبوط کرنے کی ہے ۔ بھائیوں اور بہنوں ، ملک کی تمام حکومتوں نے آزادی کے بعد سے ہی اپنی سمجھ اور صلاحیتوں کے لحاظ سے کام کیا ہے ۔ کسی نے نام پر دھیان دیا تو کسی نے کام پر دھیان دیا ۔ آ ج یہاں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 25 ہزار لوگوں کو نئے گھر ملے ہیں ۔ اور اس لیےمیں آپ کو ایک مثال اس منصوبے کا بھی دینا چاہتا ہوں۔ ساتھیوں ساڑھے چار سال پہلے جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو آپ سبھی نے موقع دیا تھا تو ہم نے ملک کے غریبوں سے ، بے گھروں سے ایک وعدہ کیا تھا ۔ ایک وعدہ یہ کہ 2022 تک ملک کے گاؤں ہوں یا شہر ہوں سبھی ہم وطنوں کے سر پر پکّی چھت دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کوشش میں ہماری حکومت نے پردھان منتری آواس یوجنا شروع کی ۔ شہروں کے لیے الگ ، گاؤں کے لیے الگ، جب ہم نے اس منصوبے کو شروع کیا تو پھر یہ سوال اٹھا یا گیا کہ ایسے منصوبے تو پہلے بھی تھے، آپ الگ کیا کریں گے ، کیسے کریں گے ، آپ تو صرف نام بدل رہے ہیں ۔ شاید وہ نام بدلنے سے تلملائے ہوں گے ۔ تاہم اس منصوبہ میں اصل تبدیلی کیا ہوئی ، کیسے ہوئی ، اس کا اثر کیا رہا ۔ یہ آج میں آپ کے توسط سے جھارکھنڈ کی مقدس سر زمین سے اپنے ملک کے ہر غریب فرد تک پہنچانا چاہتا ہوں ۔ بھائیوں اور بہنوں ہمارے ملک میں غریبوں کو گھر دینے کے لیے منصوبے پہلے بھی تھے ۔ لیکن وہ کسی خاندان کے نام سے چلتے تھے ۔ اس میں گھر کی فکر کم ہوتی تھی خاندان کا نام برقرار رکھنے کی فکر ہوتی تھی۔ ہم نے آکر تبدیلی کی ۔۔۔ ہم نے نریندر مودی آواس یوجنا نہیں بنائی، ہم نے نمو آواس یوجنا نہیں بنائی ، ہم نے رگھو ور داس آواس یوجنا نہیں بنائی ، ہم نے سادہ سی بات بتا دی کہ پردھان منتری آواس یوجنا کو ،جب بھی کوئی آئے گا وہ اس کو آگے بڑھائے گا۔ نام کا جھگڑا نام کے لیے نہیں کام کے لیے ہونا چاہیے ۔ میں جاننا چاہتا ہوں یہاں کسی کو یاد ہوگا کہ پہلے جن بڑے بڑے نیتاؤں کے نام پر پروجیکٹ چلتے تھے وہ گھر ہے کہاں ۔۔۔ کاغذ پر نظر آئیں گے ۔۔۔ زمین پر نظر نہیں آئیں گے ۔ یہ روپے کہاں گئے ۔۔۔ کہاں گئے وہ لوگ، کہاں گئے وہ گھر ، کہاں گئے وہ پیسے ، یہی کھیل چلتا رہا بھائیوں اور بہنوں۔ پہلے کے منصوبوں میں کیا کیا ہوتا تھا ۔ جب تک ان کے خاصداروں کو ان کے آس پاس کے چیلے چپاٹوں کو بخشش نہیں دیتے تب تک آپ کا نام بھی طے نہیں ہوتا تھا ۔ ساتھیوں ، ملک میں پہلے جو آواس یوجنا تھی ، اس میں کسے گھر ملے گا ، کیسے ملے گا اس کے انتخاب کے عمل میں بہت بڑے بڑے کھیل ہوا کرتے تھے۔ دلالی ہوا کرتی تھی۔ میں عوامی طور پر پوچھ رہا ہوں ، یہ جو مجھے سرٹیفکٹ دکھا رہے تھے ، 25ہزار لوگوں کو گھر ملا ہے ایسے لوگ بیٹھے ہیں۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا پردھان منتری آواس یوجنا پانے کے لیے آپ کو کسی کو رشوت دینی پڑی ہے ، زور سے بتائیے وہ سرٹیفکٹ اوپر کر کے بتائیے ، دینی پڑی ہے ۔۔۔ کسی کو پیسہ دینے پڑے ہیں ، کسی نے آپ سے پیسے مانگے ہیں ۔ میں ملک بھر کے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں ۔ دلالوں کے لیے ہمارے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ، بچولیے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور اس لیے غریب کے اکاؤنٹ میں سیدھے بینک سے پیسے جمع کر ا رہے ہیں ۔ نام طے کرنے میں بھی ہم نے سائنسی طریقہ کار اپنایا ہے ۔ 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر اور پہلے تو بی پی ایل لسٹ تھی اور وہ بھی بدلتی رہتی تھی ۔ لوگ شکایتیں کرتے رہتے تھے کہ میرا نام نہیں ہے ۔ پہلے تھا لیکن اب کٹ گیا ہے ۔ وہ کٹتا اس لیے تھا وہ درمیانی کی جیب میں کچھ ڈالتا نہیں تھا ۔ پردھان منتری آواس یوجنا میں ہم نے سب سے پہلے نظام کو درست کیا ۔ اب گاؤں میں کسے گھر ملے گا یہ 2011 میں جو مردم شماری ہوئی تھی اس کی بنیاد پر گرام سبھاؤں کے ذریعہ طے کیا جاتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں اگر کسی وجہ سے کسی کا نام اس فہرست میں نہیں ہے یا کسی کو کوئی شکایت ہے تو اسے بھی اپیل کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے ۔ گھر تقسیم کرنے میں شفافیت لانے کے لیے ہماری حکومت نے یہ بھی طے کیا ہے کہ جن لوگوں کو گھر دیا جا رہا ہے ان کی فہرست کو گرام پنچایتوں کی دیواروں پر لگایا جائے گا۔ پورے گاؤں کو پتہ چلنا چاہیے کہ فلاں فلاں حقدار ہے اور ان کو گھر ملنے والا ہے ۔ یعنی ہر سطح پر ہماری یہ کوشش رہی کہ غریبوں کو گھر ملے جبکہ پہلے ہر سطح پر کوشش ہوتی تھی کہ غریبوں کا نام کٹے ، فہرست سے نام نکلے اور دلالوں کی جیب بھرتی رہے ۔ یہی کاروبار ہو رہا تھا ۔ بھائیوں اور بہنوں ، پرانے منصوبے سے الگ ایک اور اہم کام ہم نے کیا ، آج جنہیں گھر ملے ہیں وہ بھی اس کے گواہ ہیں کہ پہلے یہاں مستفید ہونے والوں کا آن لائن رجسٹریشن ہوتا ہے اور پھر اس کے بینک اکاؤنٹ کی تصدیق کی جاتی ہے ۔ یہ بھی اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مستفید ہونے والوں کے اکاؤنٹ میں سیدھے رقم منتقل کرنے میں کوئی دقت نہ آئے ۔ بھائیوں اور بہنوں ، پہلے کے منصوبے میں حالت یہ رہتی تھی کہ الگ الگ سطحوں پر الگ الگ بینک اکاؤنٹ ہوتے تھے ۔ جہاں سے مستفید ہونے والوں کو رقم دی جاتی تھی ۔ اس وجہ سے اکثر ان کا پیسہ اٹک جاتا تھا ۔ اب ہم نے ریاستی سطح پر صرف ایک اکاؤنٹ بنا دیا ہے جہاں سے سبھی مستفید ہونے والوں کو رقم منتقل کی جاتی ہیں۔ یعنی گھر حاصل کرنے والوں کی ایک اور دقت کو دور کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے ۔ اب آتے ہیں گھروں کی تعمیر کی مانیٹرنگ پر ۔۔۔ پہلے کے منصوبوں میں کس طرح کے گھر بنتے تھے ، آپ نے بھی دیکھا ہوگا ، ان کی ایسی بری حالت رہتی تھی کہ لوگ گھر ملنے کے بعد بھی اس میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ یہ حالت اس لیے تھی کیونکہ پہلے کے منصوبوں میں مانیٹرنگ کا کوئی مناسب طریقہ ہی نہیں تھا ۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بننے والے گھروں کے معیار پر نظر رکھنے کے لیے ہم نے نیا نظام قائم کیا ۔ اب جو گھر بنتے ہیں ان میں تعمیر کے دوران تین الگ الگ سطحوں پر فوٹو لی جاتی ہے ۔ اس کی جیو ٹیگنگ کی جاتی ہے ۔ یعنی کس تاریخ پر فوٹو لی ، کہاں پر لی ، یہ سبھی جانکاری درست طریقے سے جمع کی جاتی ہے ۔ اتنا ہی نہیں حکومت نے جو انتظامات کیے ہیں اس میں یہ بھی انتظام کیا ہے کہ ان فوٹو کو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ۔ بھائیوں اور بہنوں ، پہلے جو گھر ملتے تھے اس میں صرف خالی چار دیواریں ہوتی تھیں ۔ اب جو گھر مل رہے ہیں اس میں تمام بنیادی سہولتیں ہیں جو ایک کنبے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ بجلی کا کنکشن، رسوئی گیس کا کنکشن ، بیت الخلاء ،یہ ساری سہولتیں گھر کے ساتھ ہی مل رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا کام کیا ہے ۔ ہم نے گھر کے ڈیزائن کو لے کر ۔۔۔ پہلے چھوٹے چھوٹے گھر بنتے تھے ، ہم نے ان کا رقبہ ۔۔۔ دائرہ بڑھا دیا ۔ جنہیں گھر ملتا ہے انہیں ڈیزائن کے کئی متبادل بھی دستیاب کرائے جاتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ مقامی ساز و سامان کا استعمال کرتے ہوئے کم لاگت میں جدید تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے نئے ڈیزائن کے گھر لوگوں کو دیے جائیں ۔ ساتھیوں ، آج جو میں آپ کو بتا رہا ہوں وہ یہاں موجود ہزاروں لوگوں کا اپنا تجربہ ہے لیکن ملک میں بہت سے لوگ جو اس سلسلے میں جاننا بھی نہیں چاہتے اب انہیں بتانے اور جتانے کا وقت آ گیا ہے ۔ آج جو لوگ مجھ پر کیچڑ اچھال رہے ہیں جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں اپنے پانچ سال میں غریبوں کے لیے پانچ سال میں ذرا یاد رکھو گے ، اعداد و شمار میں بتاتا ہوں، یاد رکھوگے میں جو بتا رہا ہوں یاد رکھوگے پکّا رکھو گے۔ ان کی جب سرکار تھی ۔ میڈم ریموٹ کنٹرول سے جب سرکار چلا رہی تھیں تب غریبوں کے لیے گاؤں میں پانچ سال میں صرف 25 لاکھ گھر بنوائے تھے اور جب سے یہ سیوک آیا ہے ، آپ کی خدمت کے لیے آیا ہے مودی۔۔۔ سیوک نے پانچ سال میں اور اس سے بھی کم عرصے میں ایک کروڑ 25 لاکھ گھر بنوا دیے ۔۔۔ ایک کروڑ 25 لاکھ یعنی ان کے پانچ سال میں جتنے بنے تھے اس سے پانچ گنا زیادہ ۔ مطلب، ہم نے جتنا کام کیا وہ کرتے تو ان کو اور 25 سال لگ جاتے ۔ مطلب ،آپ کے بچے بھی بڑے ہو جاتے لیکن آپ جھونپڑی میں ہی زندگی گزارتے۔ اتنا ہی نہیں یہ ہمارا ہی کام کرنے کا طریقہ ہے کہ پہلے کی حکومت میں جہاں ایک گھر بننے میں تقریبا 18 مہینے لگتے تھے اب جس طرح کی ٹکنالوجی ، جس طرح کے وسائل ، جس طرح کے انتظام کو ہم نے نافذ کیا ہے 18 مہینے سے زیادہ کا وقت پہلے لگتا تھا آج 12 مہینے سے بھی کم وقت میں وہ اپنے گھر میں رہنے چلا جاتا ہے اور بھائیوں ، بہنوں ، ہمارے ملک میں گھر ہے تو مردوں کے نام پر ، گاڑی ہے تو مردوں کے نام پر، زمین ہے ، کھیتی ہے تو مردوں کے نام پر، دکان ہے مردوں کے نام پر، جو کچھ بھی ہے مردوں کے نام پر اور مرد آنجہانی ہو جائے تو اس کے بیٹے کے نام پر ، بیچاری ماں کے نام کچھ ہے ہی نہیں۔ ہم نے طے کیا کہ پردھان منتری آواس یوجنا کنبے کی جو سرپرست خاتون ہے اس کے نام پر دیا جائے گا۔ میری مائیں – بہنیں طاقت ہیں۔۔۔ اسی کے اکاؤنٹ میں پیسہ جم�� ہوگا ۔ یہ جو مکان بن رہا ہے اس کے پیچھے یہ بھی سبب ہے کہ پیسے ادھر ادھر نہیں جاتے ہیں ، وہ بہنیں دھیان دے کر مکان بنوا دیتی ہیں۔ ملک میں جو بھی بے گھر ہیں ان کو گھر ملنے میں ۔۔۔ ہمارا وعدہ ہے ، کام تیز رفتاری سے چل رہا ہے ، ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں جن کو مکان دینا ہے۔ جن کو گھر ملا نہیں ان کو میں یقین دلاتا ہوں ۔ ہم نے کر کے دکھایا ہے پانچ گنا تیزی سے کام ساڑھے چار سال میں کر کے دکھایا ہے ۔ 2022 میں مکان کا کام پورا کرنے کے ارادے سے دوڑ رہے ہیں۔ جس کو نہیں ملا ہے اس کو بھی مکان ملے گا یہ میں یقین دلانا چاہتا ہوں۔ میرے سامنے ایسے متعدد بھائی بہن بیٹھے ہیں جو گواہ ہیں کہ ان کو کتنی آسانی سے بغیر کسی کو کھلائے پلائے اپنا گھر مل گیا اور میں نے پوچھ لیا ہے ابھی ۔۔۔ ساتھیوں، میں خود حکومتی منصوبوں سے مستفید ہونے والوں سے گفتگو کرتا رہتا ہوں۔ ایسے ہی یہاں جھارکھنڈ کے مستفید ہونے والوں سے میں نے بات چیت کی ہے اور جس سے مجھے پتہ چلا ہے کہ کس طرح کی تبدیلی آئی ہے۔ مجھے ایک بار ویڈیو کانفرنسنگ سے جھارکھنڈ کی بہنوں سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔ کھنڈی کی بہن نیرو، انجلی ،گایتری سمیت متعدد ایسی بہنوں سے اس دوران میری کافی بات چیت ہوئی تھی۔ اس میں بہنوں نے بتایا کہ کیسے انہوں نے اپنا گھر بنایا۔ جھارکھنڈ کی حکومت نے جو رانی مستری بنانے کی ٹریننگ دی ہے اس کے بعد پہلے انہوں نے دوسروں کے لیے بیت الخلاء بنایا اور بعد میں اپنے لیے گھر بنایا ۔ بھائیوں اور بہنوں ، ایسے تمام مستفید ہونے والے بتاتے ہیں کیسے چارقسطوں میں سیدھے ان کے بینک اکاؤنٹ میں تقریبا سوا لاکھ روپے پہنچ رہے ہیں۔ بیت الخلاء کے الگ سے پیسے مل رہے ہیں۔ پہلے صرف 70 ہزار روپے ملتے تھے اس پر گھر پر کتنے لگتے تھے ، یہ آپ ان کو پوچھئے جن خوش قسمت لوگوں کے پہلے کی حکومت کے دوران گھر منظور ہوئے ۔ ساتھیوں، غریب کو جب گھر مل جاتا ہے تو اس کی خود اعتمادی عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔ جب اس کو گرمی ، سردی ، برسات کی فکر نہیں رہتی تو وہ کمائی پر دھیان دیتا ہے اور اس کی زندگی کا معیار اوپر اٹھنے لگتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں یہ جو گھر بن رہے ہیں وہ کنبے کی خاتون رکن کے نام پر ہم دے رہے ہیں ایسے میں صرف ایک گھر سے ہی غریب کوبااختیار بنانے کی پوری تحریک شروع کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ گھر بھی مل رہا ہے ، روزگار بھی ، عزت نفس بھی اور خود اعتمادی سے بھی جو غریبی کو ہندوستان سے ختم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو رہی ہے ۔ جب گھر کی بات ہوتی ہے توایک اور بڑا فرق پہلے کے مقابلے میں یہ ہے کہ آزادی کے بعد پہلی بار کسی حکومت نے متوسط طبقے کے گھر کی بھی فکر کی ہے۔ متوسط طبقے کو معاشی مدد کے ساتھ ہی سود میں بھی راحت دی جا رہی ہے۔ اس ملک کے ہر شہری کا اپنے گھر کا خواب پورا ہو ، اسی طرح ہم پوری ایمانداری سے کوشش کر رہے ہیں اور اگر متوسط طبقے کا کنبہ 20 لاکھ روپے کا فلیٹ لینے جاتا ہے تو بینک سے اس نے قرض لیا ہے تو ہم نے اس میں مددایسی کی ہے کہ 20سال میں جب پیسہ جمع کرے گا تو پہلے کے مقابلے میں اس کا چھ لاکھ روپے کم ہو جائے گا، بچ جائے گا۔ یہ کام متوسط طبقہ کے کنبوں کے لیے ہم نے کیا ہے ۔ 20 لاکھ روپیہ ادا کرتے کرتے اس کو چھ لاکھ روپیہ بچانے کا کام سود کم کر کے ہم نے کیا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، جھارکھنڈ ،یہاں کے قبائلیوں کی یہاں کے عام لوگوں کی جد جہد کا نتیجہ ہے ۔ یہ ریاست آپ سبھی کے امنگوں کی علامت ہے۔ جس کو اٹل جی کی حکومت نے عزت بخشی تھی۔ اس کی متوازن اور مجموعی ترقی کے لیے مرکزاور جھارکھنڈ کی حکومتیں پوری ایمانداری سے مصروف عمل ہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس ہمارا راستہ بھی ہے اور مقصد بھی ہے۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ یہاں سے جس آیوش مان بھارت ، پردھان منتری آواس یوجنا ، پی ایم جے یوجنا کی شروعات جنہیں مودی کیئر کے نام سے لوگ جانتے ہیں، تین مہینہ پہلے کی گئی تھی وہ آج لاکھوں غریبوں کو زندگی کا عطیہ دے رہی ہے۔ صرف سو دن کے اندر ہی لگ بھگ چھ سات لاکھ سے زیادہ بہن بھائیوں کو ملک بھر کے ہزاروں اسپتالوں میں یا تو علاج مل چکا ہے یا پھر وہ اسپتال میں علاج کرا رہے ہیں۔ اس میں جھارکھنڈ کے بھی تقریبا 28 ہزار لوگوں کو مدد ملی ہے ۔ ساتھیوں ، آج آیوش مان یوجنا اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ہر روز تقریبا 10 ہزار لوگوں کو اس کا فائدہ مل رہا ہے ۔ یعنی یہ یوجنا ہر روز 10 ہزار لوگوں کی جان بچانے ، ان کی پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھائیوں اور بہنوں ترقی کی پنچ دھارا یعنی بچوں کی پڑھائی، نوجوانوں کو روزگار، کسانوں کو سینچائی ، بزرگوں کو دوا اور عام لوگوں کو سننا ، ایسا جدید ہندوستان بنانے میں ہم مصروف ہو گئے ہیں۔ آپ سبھی جھارکھنڈ کے لوگوں کا بھرپور آشیرواد ہمارے ساتھ رہاہے ۔ نئے بھارت کے لیے رہا ہے ، نئے جھارکھنڈ کے لیے رہا ہے ۔ ترقی کے تئیں اپنے اعتماد کو آپ یونہی بنائے رکھیں گے ، اسی جذبے کے ساتھ میں پھر ایک بار نتیش کمار اور رگھوور داس جی کو دونوں کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ اپنے سبھی ارکان پارلیمنٹ کو مبارکباد دیتا ہوں اور جنتا جناردھن کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ اس منصوبے کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ اور آپ نے اتنی بڑی تعداد میں آ کر ، اتنے صبر و تحمل کے ساتھ آشیرواد دیا اس کے لیے میں پھر ایک بار سر جھکا کر سلام کرتا ہوں ۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولیئے ۔۔۔ دونوں مٹھی بند کر کے بولیئے ۔۔۔ بھارت ماتا کی جے …. ایسے نہیں، بھارت ماتا کی جے …. شاباش …. بھارت ماتا کی جے …. بھارت ماتا کی جے …. بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ را(,ঝাৰখণ্ডত বহুমুখী বিকাশ প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন সমাৰোহত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A8/,"و زیراعظم جناب نریندر مودی نے کیدارناتھ میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا سنگ بنیادرکھا اور قوم کے نام وقف کیا۔ وزیراعظم نے شری آدی شنکر آچاریہ سمادھی کا افتتاح کیا اور شری آدی شنکرآچاریہ کے مجسمے کی نقاب کشائی کی۔انہوں نے بنیادی ڈھانچے سے متعلق چلائے جانےو الے کاموں کا جائزہ بھی لیا۔وزیراعظم نے کیدارناتھ مندر میں پرارتھنا بھی کی۔کیدارناتھ کی تقریب کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں 12 جیوتر لنگوں ، 4دھاموں میں اور عقیدت کے بہت سے مقامات پر بھی پرارتھنا اور تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ ان تمام تقریبات کو کیدارناتھ کی اہم تقریب سے منسلک کیا گیا ہے۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بھارت کی عظیم روحانی رشی روایت کی تعریف کی اور کیدارناتھ آنے کے اپنے ناقابل بیان احساس کا اظہار کیا۔گزشتہ روز نوشیرہ میں فوجیوں کے ساتھ اپنی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہ�� کہ گزشتہ روز دیوالی کے دن انہوں نے 130 کروڑ ہندوستانیوں کے احساسات کو فوجیوں تک پہنچایا اور آج گووردھن پوجا کے موقع پر وہ فوجیوں کی سرزمین پر موجود ہیں ، جہاں پر باباکیدار کی متبرک موجودگی بھی ہے ۔ وزیراعظم نے رام چرت مانس کی چوپائیوں کا حوالہ بھی دیا: 'अबिगत अकथ अपार, नेति-नेति नित निगम कह' اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تجربات اتنے فوق الفطرت اور ایسے لامحدود ہوتے ہیں کہ ان کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہی مجھے بابا کیدار ناتھ کی پناہ میں آکر محسوس ہوا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ نئی سہولیات مثلاََ شیلٹروں تسہیل کے مراکز سے پجاریوں او ر بھگتو ں کی زندگی میں آسانی آئے گی اور وہ اس تیرتھ استھان کے روحانی تجربے میں پوری طرح ڈوب سکیں گے۔ سال 2013 میں کیدارناتھ میں آنے والے سیلاب کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ برسوں پہلے سیلاب سے جو نقصان ہوا تھا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا‘‘ جولوگ یہاں آیاکرتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ کیا ہمارا کیداردھام ایک بار پھر کھڑا ہوگا ؟ لیکن میرے اندر کی آواز کہہ رہی تھی کہ یہ پہلے سے زیادہ فخر کے ساتھ کھڑ ا ہوگا۔’’ وزیراعظم نے کہا کہ بھگوان کیدار کی مہربانی سے اور آدی شنکر آچاریہ کی تحریک سے اور بھج زلزلے کے بعد اس سلسلے میں انتظامات کرنے کے اپنے تجربےسے وہ ان مشکل لمحات میں مددکرسکے ۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربے کا ذکرکیا اور کہا کہ یہ ان پر کی جانے والی کرپا ہی ہے کہ وہ اس مقام کی خدمت کرسکے ،جس نے ان کی زندگی میں اس سے قبل ان کی نشوونما کی ۔انہوں نے تمام ورکرز ، پجاریوں ، پجاریوں کے راول خاندانوں ، افسروں اور وزیراعلیٰ کا دھام میں مسلسل ترقیاتی کاموں کو جاری رکھنے کے لئے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ڈرون اور دیگر ٹکنالوجیز کے ذریعہ کام کا جائزہ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ‘‘ اس قدیم سرزمین پر جدیدیت کےساتھ روحانیت کا یہ اشتراک ، یہ ترقیاتی کام بھگوان شنکر کی کرپا کا نتیجہ ہیں۔ ’’ آدی شنکر آچاریہ کا ذکر کرتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ سنسکرت میں شنکر کا مطلب ""शं करोति सः शंकरः"".ہے ۔ یعنی جو فلاح کرتا ہے وہ شنکر ہے ۔اس گرامر کی آچاریہ شنکر نے براہ راست تصدیق کی ۔ انہو ں نے کہا کہ ان کی زندگی غیر معمولی تھی ،کیونکہ وہ عام لوگوں کی بہبود کے لئے وقف تھی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب روحانیت اور مذہب فرسودہ رسومات میں تبدیل ہوگئے ہیں جبکہ بھارتی فلسفہ انسانی بہبود کی بات کرتا ہے اور زندگی کو کلّی اعتبارسے دیکھتا ہے ۔ آدی شنکر آچاریہ نے معاشرے کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے کام کیا۔ وزیراعظم نے زوردے کر کہا کہ آج ہماری ثقافتی وراثت اور اعتقاد کے مراکز کو مناسب فخر کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ وہ اسی کے مستحق ہیں اور انہیں اسی طرح دیکھا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا‘‘ ایودھیا میں بھگوان شری رام کا ایک شاندار مندرتعمیر کیا جارہا ہے ۔ ایودھیاکو اپنی شان واپس مل رہی ہے ۔ محض دورو ز قبل پوری دنیا نے ایودھیا میں شاندار دیپوتسو دیکھا۔ آج ہم اس بات کا تصور کرسکتے ہیں کہ بھارت کی قدیم ثقافتی شکل کیا ہونی چاہئے۔’’ وزیراعظم نے کہا کہ آج بھارت اپنی وراثت کے بارے میں پُر اعتماد ہے۔ انہوں نے کہا : ‘‘ آج بھارت نے اپنے لئے مشکل اہداف اور معینہ مدت قائم کی ہے۔آج معینہ مدت اور اہداف کے بارے میں ہچکچاہٹ بھارت کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔’’ جنگ آزادی کے مجاہدین کی خدمات کا ذکرکرتے ہوئے وزیراعظم نے اہل وطن سے کہا کہ وہ بھارت کی شاندار جنگ آزادی سے متعلق مقامات اور مقدس تیرتھ کے مقامات کودیکھیں اور بھارت کی روح سے واقف ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اکیسویں صد ی کی تیسری دہائی کا تعلق اتراکھنڈ سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چار دھام روڈ پروجیکٹ پر کام بہت تیزی سے چل رہا ہے ۔ یہ سڑک چار دھام ہائی و یزسے جُڑ ے گی۔ مستقبل میں ،کام شروع کیا جاچکا ہے کہ بھگت کیدارناتھ جی میں کیبل کار کے ذریعہ آسکیں گے۔ قریب ہی مقدس ہیم کنڈ صاحب جی بھی ہیں۔ ہیم کنڈ صاحب جی میں درشن کرنے کوآسان بنانے کے لئے ایک راپ وے تیار کرنے پر بھی کام چل رہا ہے ۔انہوں نے کہا:‘‘زبردست امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور اتراکھنڈ کے عوام کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد کرتے ہوئے ریاستی حکومت اتراکھنڈ کی ترقی کے مہایگیہ میں مصروف ہے ۔’’ وزیراعظم نے کورونا کے خلاف لڑائی میں اتراکھنڈ نے جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا اس کی تعریف کی ۔ جغرافیائی مشکلات پر قابو پاتے ہوئے آج اتراکھنڈ اور اس کے عوام نے 100فیصد ایک خوراک کا نشانہ حاصل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتراکھنڈ کے لوگوں کی طاقت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتراکھنڈ بہت اونچے مقام پر واقع ہے ۔ میرا اتراکھنڈ اپنی اونچائی سے بھی زیادہ بلندیاں سرکرے گا۔’’ شری آدی شنکر آچاریہ سمادھی کو 2013 کے سیلاب میں تباہی کے بعد پھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔تعمیر نو کے پورے کام کو وزیر اعظم کی رہنمائی میں انجام دیا گیا ہے ،جنہوں نے پروجیکٹ کے کام کاج کا مسلسل جائزہ لیا ہے اورنگرانی کی ہے ۔ آج بھی وزیراعظم نے سرسوتی آستھا پتھ کے ساتھ ساتھ جاری کام کاج ، حال ہی میں مکمل کئے گئے کلیدی بنیادی ڈھا نچہ پروجیکٹوں کا جائزہ لیا ۔ جن میں سرسوتی پشتہ دیوار آستھا پتھ اور گھاٹ ، منداکنی پشتہ دیوار آستھا پتھ ، تیرتھ پروہت ہاؤسیز او ر دریائے منداکنی پر گروڑ چٹی برج شامل ہے ۔ یہ پروجیکٹ 130 کروڑروپے سے زیادہ کی لاگت سے مکمل کئے گئے ہیں۔ انہوں نے 180 کروڑروپے سے زیادہ مالیت کے کئی پروجیکٹوں کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھے ۔ ان پروجیکٹوں میں سنگم گھاٹ ، فرسٹ ایڈ اور ٹورسٹ فیسیلی ٹیشن سینٹر ایڈمن آفس اور اسپتال ، دو گیسٹ ہاؤسز ، پولیس اسٹیشن ، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ، منداکنی آستھا پتھ کیو مینجمنٹ اور رین شیلٹر اورسرسوتی سوِک امینیٹی بلڈنگ شامل ہیں۔",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কেদাৰনাথত বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰে আৰু ইয়াক ৰাষ্ট্ৰলৈ উৎসৰ্গা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%82%D8%AA%D8%B5%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%DB%8C%DA%AF%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E-%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A6%BE-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A6/,نئی دہلی، 10 جنوری 2018، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نیتی آیوگ کے زیر اہتمام ’’اقتصادی پالیسی۔ آگے کا راستہ‘‘ کے موضوع پر 40 سے زائد ماہرین اقتصادیات اور دیگر ماہرین کے ساتھ منعقدہ انٹرا ایکٹیو سیشن یعنی گفت وشنید کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس اجلاس کے دوران، مندوبین نے مختلف اقتصادی موضوعات، مثلاً مجموعی۔ معیشت ، زراعت اور دیہی ترقیات، روزگار، صحت اور تعلیم، مینوفیکچرنگ اوربرآمدات، شہری ترقیات، بنیادی ڈھانچہ اور کنکٹی وٹی جیسے موض��عات پر اپنے اپنے نظریات و خیالات کو باہم ساجھا کیا۔ وزیر خزانہ جناب ارون جیٹلی نے تمام مندوبین کا اپنی پرمغز آرا ءاور تجاویز پیش کرنے کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس گفت و شنید میں شریک ہوتے ہوئے، وزیراعظم نے، معیشت کے مختلف پہلوؤں پر، مختلف مندوبین کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز اور مشاہدات کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ بطور خاص انہوں نے مختلف موضوعات کے ماہرین کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کی عمدگی کی ستائش کی۔ اس میٹنگ میں ایسے متعدد مرکزی وزرا نے بھی شرکت کی جو اقتصادی موضوعات و معاملات کے نگراں ہیں۔شرکاء میں نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین جناب راجیو کمار، مرکزی حکومت اور نیتی آیوگ کے سینئر افسران بھی شامل تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ ن ا۔ (10-01-18),বিশেষজ্ঞ তথা অৰ্থনীতিবিদৰ লগত হোৱা নীতি আয়োগৰ “অৰ্থনৈতিক নীতি – আগুৱাই যোৱাৰ পথ” শীৰ্ষক বাৰ্তালাপত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ উপস্থিতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A2%D8%AC-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DB%8C-20-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%DB%81%D9%88%DA%AF%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,مجموعی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے، بین الاقوامی ٹیکسیشن کے نظام کو معقول تر بنانے، ممالک پر عائد قرض کے بوجھ سے انہیں راحت بہم پہنچانے کے معاملے میں – سابقہ جی 20 کی 17 صدارتوں نے متعدد دیگر نتائج کے علاوہ اہم نتائج بہم پہنچائے۔ ہم ان حصولیابیوں سے فوائد حاصل کریں گے اور ان کو مزید جلا بخشیں گے۔ تاہم، اب جبکہ بھارت اس اہم ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے جا رہا ہے، میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں – کیا جی20 مزید آگے جا سکتا ہے؟ کیا ہم اندازِ فکر میں ایک بنیادی تغیر لانے کے معاملے میں محرک ثابت ہو سکتے ہیں جو مکمل بنی نوع انسانیت کے لیے مفید ثابت ہو؟ میرا یقین ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ ہمارے انداز فکر ہمارے گردو پیش کی صورتحال سے نشو و نما حاصل کرتے ہیں۔ تمام تر تاریخوں پر نظر ڈالنے سے، بنی نوع انسانیت کی نمائندگی ہمیشہ قلت کی شکار نظر آتی ہے۔ ہم محدود وسائل کے لیے باہم نبرد آزما رہے کیونکہ ہماری بقاء کا انحصار دوسروں کو ان وسائل سے محروم رکھنے پر تھا۔ تصورات ، نظریات اور شناخت کے مابین تصادم اورمقابلے نے ہمارے معمول کی شکل اختیار کرلی تھی۔ بدقسمتی سے، ہم آج بھی اسی تصادم اور مقابلے پر مبنی اندازِ فکر کے اسیر ہیں۔ ہمیں یہ بات اس وقت مشاہدہ میں آتی ہے جب ممالک سرزمین یا وسائل کے لیے جنگ آزما نظر آتے ہیں۔ ہم اس کا مشاہدہ اس وقت بھی کرتے ہیں جب لازمی اشیاء کی بہم رسانی اسلحوں کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ ہم اس صورت حال سے اس وقت بھی روبرو ہوتے ہیں جب چند لوگ اس کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں اور وہ بھی ان حالات میں جب اربوں صحت کے اعتبار سے کمزور افراد کو اس کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ مناقشہ اور طمع انسانی فطرت میں شامل ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ اگر سارے انسان داخلی طورپر مفاد پرست ہوتے، تو پھر اس صورت میں ان متعدد روحانی روایات کی طرف انسانوں کے مستقل طور پر جھکاؤکا کیا جواز پیش کیا جائے گا جو ہم سبھی کے بنیادی طور پر ایک وجود کی طرح ہونے کی وکالت کرتی ہیں؟ ایک ایسی روایت، جو بھارت میں بہت مقبول ہے، اس کے تحت تمام تر ذی روح وجوووں کو، یہاں تک کہ بے جان چیزوں کو بھی اُنہی پانچ بنیادی عناصر کا مرقع مانتی ہے، یعنی عناصر خمسہ زمین، پانی، آگ، ہوا اور خلاء۔ ان ہی پانچ عناصر کے مابین ہم آہنگی – ہمارے اندر موجود ہے- اور ہماری طبیعاتی ، سماجی اور ماحولیاتی خیروعافیت کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت کی جی 20 صدارت اس آفاقی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گی۔ لہٰذا ہمارا موضوع – ایک کرہ ٔ ارض ، ایک کنبہ، ایک مستقبل ،محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ اس میں بنی نوع انسانیت سے متعلق صورتحال میں رونما ہوئیں حالیہ تبدیلیوں کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ہم جس کے اجتماعی احساس و ادراک سے قاصر رہے ہیں۔ آج، ہمارے پاس دنیا میں تمام افراد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے وافر پیداوار کرنے کے وسائل دستیاب ہیں۔ آج، ہمیں اپنی بقاء کے لیے دوسروں سے نبردآزما ہونے کی ضرورت نہیں ہے- ہمارا عہد جنگ کا عہد ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ دراصل ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے۔ آج، ہمارے سامنے درپیش سب سے بڑی چنوتی – موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور وبائی امراض ہیں- انہیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہوئے بغیر ، صرف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے، آج کی تکنالوجی ہمیں پوری بنی نوع انسانیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے متعین کردہ پیمانے کے مطابق مسائل کا حل نکالنے کے ذرائع فراہم کرتی ہے۔ وسیع تر ورچووَل دنیا جہاں ہم آج سکونت پذیر ہیں، اس میں ڈجیٹل تکنالوجیوں کی عملی افادیت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ بھارت دنیا کے لیے ایک کائنات صغرا کی حیثیت رکھتا ہے ،جہاں پوری بنی نوع انسانیت کا چھٹا حصہ، لسانیات، مذاہب، رسم و رواج اور عقائد کے زبردست تنوع کے ساتھ سکونت پذیر ہے اجتماعی طور پر فیصلہ سازی کی قدیم ترین روایات کے ساتھ، بھارت جمہوریت کے بنیادی ڈی این اے میں اپنا تعاون فراہم کرتا ہے۔ مادرِ جمہوریت کے طور پر بھارت کا قومی اتفاق رائے صرف احکامات کے ذریعہ وضع نہیں کیا جاتا، بلکہ کروڑوں آزاد آوازیں مل کر ایک ہم آہنگی کی حامل موسیقی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ آج، بھارت سب سے زیادہ تیز رفتار کی حامل نمو پذیر وسیع ترین معیشت ہے۔ ہمارا شہریوں پر مرتکز حکمرانی کا ماڈل ، ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی خلاقانہ صلاحیتوں کو بالیدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمارے ازحد حاشیے پر زندگی بسر کرنے والے شہریوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ ہم نے قومی ترقی کو بھرپور اور جامعہ حکمرانی کے معاملے میں نہ صرف ایک عمل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے، بلکہ اسے شہریوں کی قیادت والی عوامی تحریک کی شکل میں لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ ہم نے ٹیکنالوجی کو اس انداز سے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے تاکہ ایسا ڈجیٹل عوامی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے جو کھلاہوا، مبنی بر شمولیت اور باہم اثر پذیر ہو۔ ان چیزوں نے سماجی تحفظ، مالی شمولیت اور الیکٹرانک ادائیگیوں سمیت مختلف النوع شعبوں میں انقلابی پیش رفت پر مبنی نتائج بہم پہنچائے ہیں۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر، بھارت کے تجربات ممکنہ عالمی مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ اپنی جی 20 کی صدارت کے دوران، ہم بھارت کے تجربات، علمی استطاعت اور ماڈلوں کو دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر دنیا کے لیے نمونوں کے طور پر پیش کریں گے۔ ہماری جی 20 کی ترجیحات نہ صرف ہمارے جی 20 شراکت داروں کی مشاورت سے طے ہوں گی بلکہ گلوبل ساؤتھ کے رفقائے کار، جن کی آواز اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے، ہم ان کی باتوں کا بھی لحاظ رکھیں گے۔ ہماری ترجیحات ایک کرۂ ارض کی صحت بحال کرنے، ہمارے ایک کنبے کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور ہمارے ایک مستقبل کے لیے امید بہم پہنچانے پر مشتمل ہوں گی۔ ہمارے کرۂ ارض کی صحت بحال کرنے کے لیے ہم ہمہ گیر ماحولیات دوست انداز ہائے حیات کی حوصلہ افزائی کریں گے جو فطرت کے تئیں ایک نگراں کی بھارت کی روایت پر مبنی ہوگی۔ انسانی کنبے کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے، ہم خوراک، کیمیاوی کھاد اور طبی مصنوعات کی عالمی سپلائی کو سیاست کی گرفت سے آزاد کرانے کی خواستگاری کریں گے تاکہ ارضیاتی-سیاسی کشیدگیاں بنی نوع انسان سے متعلق بحران نہ پیدا کر دیں۔ ہمارے اپنے کنبوں میں، جیسا کہ ہوتا ہے، جن کی ضروریات سب سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں ان پر توجہ مرکوز کرنا ہماری پہلی فکر ہوتی ہے۔ اپنی مستقبل کی پیڑھیوں میں امید جگانے کے لیے ہم ازحد طاقتور ممالک کے مابین دیانت دارانہ گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ زبردست تباہی کے ہتھیاروں کی وجہ سے جو خطرات درپیش ہیں انہیں کم کرنے پر بات چیت کا اہتمام کرنا چاہیں گے اور عالمی سلامتی کے اضافہ کی بھی فکر کریں گے۔ بھارت کا جی 20 کا ایجنڈا مبنی بر شمولیت، اولوالعزم، عمل سے مملو، اور فیصلہ کن ہوگا۔ آیئے ہم بھارت کی جی 20 صدارت کو بحالیٔ صحت اور ہم آہنگی و امید کی صدارت بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوکر کام کریں۔ آیئے ہم سب ایک نئی مثال- بنی نوع انسانیت پر مرتکز عالم کاری کا خاکہ وضع کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں۔,"আজিৰে পৰা ভাৰতে জি-২০ৰ সভাপতিত্ব আৰম্ভ কৰিছে -শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোডী, প্ৰধানমন্ত্ৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%DA%88%DB%8C%D8%B1%DB%8C-%D9%81%DB%8C%DA%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D9%86-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%DA%88%DB%8C%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A6%A7-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87/,اترپردیش کے ہر دل عزیز وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، مرکزی کابینہ میں میرے معاون جناب پروشوتم روپالا جی، دیگر وزراء حضرات، اراکین پارلیمنٹ، بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن کے صدر پی برجالے جی، آئی ڈی ایف کی ڈی جی کیرولین ایمنڈ جی، یہاں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات! مجھے خوشی ہے کہ آج ڈیری کے شعبہ سے وابستہ دنیا بھر کے ماہرین اور اختراع کار بھارت میں یکجا ہوئے ہیں۔ میں عالمی ڈیری سربراہ ملاقات میں الگ الگ ممالک سے تشریف لائے تمام معززین کا بھارت کے کروڑوں مویشیوں کی جانب سے، بھارت کے کروڑوں شہریوں کی جانب سے، بھارت سرکار کی جانب سے تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ ڈیری شعبہ کی قوت نہ صرف دیہی معیشت کو رفتار فراہم کرتی ہے، بلکہ یہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی روزی روٹی کا بھی اہم وسیلہ ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ سربراہ ملاقات، خیالات، تکنالوجی، مہارت اور ڈیری شعبہ سے وابستہ روایات کی سطح پر ایک دوسرے کی معلومات میں اضافہ کرنے اور ایک دوسرے سے سیکھنے میں بہت بڑا کردار ادا کرے گی۔ ساتھیو، آج کی اس تقریب کا اہتمام ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب بھارت نے اپنی آزادی کے 75 برس مکمل کر لیے ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ آج کے اس اہتمام سے، بھارت کے 75 لاکھ سے زائد ڈیری کاشتکار بھی تکنالوجی کے توسط سے اس پروگرام میں ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی سربراہ ملاقات کے لیے اور اس میں آخری میل تک استفادہ کنندگان ہمارے ایسے ہی کاشت��ار بھائی بہن ہوتے ہیں۔ میں عالمی ڈیری سربراہ ملاقات میں اپنے کاشتکار ساتھیوں کا بھی خیرمقدم کرتا ہوں، انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، پشو دھن اور دودھ سے وابستہ پیشہ بھارت کی ہزاروں برس قدیم ثقافت کا جزو لاینفک رہا ہے۔ ہماری اس وراثت نے بھارت کے ڈیری شعبہ کو کچھ خصوصیات کے ساتھ مضبوط کر دیا ہے۔ اس سربراہ اجلاس میں دیگر ممالک سے جو ماہرین آئے ہیں، میں ان کے سامنے ان خصوصیات کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ، بھارت میں ڈیری شعبہ کی اصل طاقت چھوٹے کاشتکار ہیں۔بھارت کے ڈیری شعبہ کی شناخت ’’ماس پروڈکشن‘‘ سے زیادہ ’’پروڈکشن بائے ماسیز‘‘ کی ہے۔ بھارت میں ڈیری شعبہ سے وابستہ بیشتر کاشتکاروں کے پاس یا تو ایک مویشی ہے، 2 مویشی ہیں یا تین مویشی ہیں۔ ان ہی چھوٹے کاشتکاروں کی محنت اور ان کے پشو دھن کی وجہ سے آج بھارت پوری دنیا میں سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ آ ج بھارت کے 8 کروڑ سے زائد کنبوں کو یہ شعبہ روزگار بہم پہنچاتا ہے۔ بھارت کے ڈیری شعبہ کی یہ انفرادیت آپ کو کہیں اور شاید ہی کبھی مل جائے۔ آج عالمی ڈیری سربراہ ملاقات میں اس کا ذکر میں اس لیے بھی کر رہا ہوں، کیونکہ دنیا کے دیگر غریب ممالک کے کاشتکاروں کے لیے یہ ایک بہترین کاروباری نمونہ بن سکتا ہے۔ ساتھیو، بھارت کے ڈیری شعبہ کی اس خاصیت کو ایک اور انفرادیت سے زبردست حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ڈیری شعبہ کی دوسری خصوصیت ہے، بھارت کا ڈیری کوآپریٹیو نظام۔ آج بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو کا ایک ایسا زبردست نیٹ ورک ہے، جس کی مثال پوری دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ یہ ڈیری کوآپریٹیو ادارے ملک کے دو لاکھ سے زائد مواضعات میں، تقریباً دو کروڑ کاشتکاروں سے دن میں دو مرتبہ دودھ جمع کرتے ہیں، اور اسے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ اس پورے عمل میں بیچ میں کوئی بچولیا نہیں ہوتا، اور صارفین سے جو پیسہ ملتا ہے، اس کا 70 فیصد سے زائد کاشتکاروں کی جیب میں ہی جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اگر میں ریاست گجرات کی بات کروں تو یہ سارے پیسے راست طور پر خواتین کے بینک کھاتوں میں جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اتنا زیادہ تناسب کسی دیگر ملک میں نہیں ہے۔ اب تو بھارت میں ہو رہے ڈجیٹل انقلاب کی وجہ سے ڈیری شعبہ میں زیادہ تر لین دین تیز رفتار سے ہونے لگا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کا ڈیری کو آپریٹیو مطالعہ ، ان کے بارے میں معلومات، ڈیری شعبہ میں تیار کیا گیا ڈجیٹل ادائیگی نظام، دنیا کے بہت سے ممالک کے کاشتکاروں کے بہت کام آسکتا ہے۔ اس لیے بھارت کے ڈیری شعبہ کی ایک اور بڑی طاقت ہے، ایک اور انفرادیت ہے، ہمارے دیسی جانوروں کی، بھارت کے پاس گایوں کی، بھیسوں کی جو دیسی نسلیں ہیں، وہ دشوارترین موسم میں بھی زندہ رہنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ میں آپ کے سامنے گجرات کی بنّی بھینس کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ بنّی بھینس کچھ کے ریگستان اور وہاں کے حالات کی ایسی عادی ہوگئی ہیں کہ دیکھ کر کئی مرتبہ حیرانی ہوتی ہے۔ دن میں شدید دھوپ ہوتی ہے، بہت گرمی ہوتی ہے، کڑک دھوپ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بنّی بھینس رات کے کم درجۂ حرارت میں گھاس چرنے کے لیے نکلتی ہیں۔ غیر ممالک سے آئے ہمارے ساتھیوں کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ اس وقت بنّی بھینس کے ساتھ کوئی اس کا رکھوالا، اس کا کاشتکار اس کے ساتھ نہیں ہوتا ہے، وہ گاؤوں کے قریب بنے چارہ گاہوں میں خود ہی جاتی ہیں۔ ریگستان میں پانی کم ہوتا ہے، اس لیے بہت کم پانی میں بھی بنّی بھینس کا کام چل جاتا ہے۔ بنّی بھینس رات میں 10-10، 15-15 کلو میٹر دور جاکر گھاس چرنے کے بعد بھی صبح اپنے آپ گھر چلی آتی ہے۔ ایسا بہت کم سننے میں آتا ہے کہ کسی کی بنی بھینس کھو گئی ہو یا غلط گھر میں چلی گئی ہو۔ میں نے آپ کو صرف بنی بھینس کی ہی مثال دی ہے، لیکن بھارت میں مرّاہ، مہسانہ، جعفرآبادی، نیلی روی، پنڈھر پوری جیسی بھینس کی متعدد نسلیں آج بھی اپنے اپنے طریقہ سے نشو و نما پا رہی ہیں۔ اسی طرح گائے ہو، اس میں گیر گائے، سہی وال، راٹھی، کانکریج، تھاپرکر، ہریانہ، ایسی ہی متعدد گایوں کی نسلیں ہیں، جو بھارت کے ڈیری شعبہ کو منفرد بناتی ہیں۔ بھارتی نسل کے یہ بیشتر جانور، موسمی حالات سے ہم آہنگ بھی ہوتے ہیں اور موسم سے موافقت بھی رکھتے ہیں۔ ساتھیو، ابھی تک میں نے آپ کو بھارت کے ڈیری شعبہ کی تین خصوصیات بتائی ہیں، جو اس کی شناخت ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کی قوت ، کوآپریٹیو اداروں کی قوت اور بھارتی نسل کے جانوروں کی قوت مل کر ایک الگ ہی قوت پیدا کرتی ہے۔ تاہم بھارت کے ڈیری شعبہ کی ایک چوتھی انفرادیت بھی ہے، جس کا اُتنا ذکر نہیں ہوتا، جس کو اتنی پہچان نہیں مل پاتی۔ غیر ممالک سے آئے ہمارے مہمان شاید یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ بھارت کے ڈیری شعبہ میں خواتین کی قوت 70 فیصد افرادی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ بھارت کے ڈیری شعبہ کی اصل قوت خواتین ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بھارت کے ڈیری کوآپریٹیو اداروں میں بھی ایک تہائی سے زائد رکن خواتین ہی ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، بھارت میں جو ڈیری شعبہ ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کا ہے، جس کی قدرو قیمت دھان اور گیہوں کی مجموعی پیداوار سے بھی زائد ہے، اس کی سب سے بڑی قوت، بھارت کے دیہی علاقوں میں آباد خواتین ہیں، ہماری مائیں ہیں، ہماری بیٹیاں ہیں۔ میں عالمی ڈیری سربراہ ملاقات سے جڑے تمام معززین سے بھارت کی ناری شکتی کے اس کردار کو تسلیم کرنے، اسے مختلف عالمی پلیٹ فارموں تک لے جانے کی بھی درخواست کروں گا۔ ساتھیو، 2014 کے بعد ہماری حکومت نے بھارت کے ڈیری شعبہ کی قوت میں اضافہ کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ آج اس کا نتیجہ دودھ پیداوار سے لے کر کاشتکاروں کی افزوں آمدنی میں بھی نظر آرہا ہے۔ 2014 میں بھارت میں 146 ملین ٹن دودھ پیدا ہوتا تھا۔ اب یہ بڑھ کر 210 ملین ٹن تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی تقریباً 44 فیصد کا اضافہ۔ آج پوری دنیا میں دودھ پیداوار 2 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے، جبکہ بھارت میں اس کی رفتار 6 فیصد سے بھی زائد ہے۔ بھارت میں دودھ کی فی کس دستیابی پوری دنیا کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ گشتہ 3-4 برسوں میں ہی بھارت کے چھوٹے کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں ہماری حکومت نے تقریبا 2 لاکھ کروڑ روپئے راست طور پر منتقل کیے ہیں۔ اس کا بہت بڑا حصہ ڈیری شعبہ سے وابستہ کاشتکاروں کے کھاتوں میں بھی گیا ہے۔ ساتھیو، آج ہماری توجہ ملک میں ایک متوازن ڈیری ایکونظام کی تعمیر پر مرتکز ہے۔ ایک ایسا ایکو نظام جس میں ہماری توجہ دودھ اور اس سے جڑی مصنوعات کی کوالٹی پر تو ہے ہی، ساتھ ہی دوسری چنوتیوں کے حل پر بھی ہے۔ کاشتکاروں کو اضافی آمدنی، غریب کی اختیارکاری، صفائی ستھرائی، کیمیکل سے مبرا کھیتی، صاف ستھری توانائی اور مویشیوں کی نگہداشت، یہ سبھی آپس میں مربوط ہیں۔ یعنی ہم ڈیری شعبہ کو، مویشی پروری کو بھارت کے مواضعات میں سبز اور ہمہ گیر نمو کا بہت بڑا وسیلہ بنا رہے ہیں۔ راشٹریہ گوکل مشن، گوبردھن یوجنا، ڈیری شعبہ کا ڈجیٹائزیشن اور مویشیوں کی آفاقی ٹیکہ کاری، اسی سمت میں ہو رہی کوششیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بھارت میں جو سنگل یوز پلاسٹک کو بند کرنے کی مہم چلائی گئی ہے، وہ ماحولیات کے نقطہ نظر سے تو اہمیت کی حامل ہے ہی، ساتھ ہی جو بھی ہر ذی روح کے تئیں رحم دلی کا یقین رکھتے ہیں، جو پشو دھن میں، اس کی فلاح میں یقین رکھتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ پلاسٹک مویشیوں کے لیے کتنا خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ گائے اور بھینس کے لیے کتنا خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ وہ سنگل یوز پلاسٹک کو بھی بند کرنے ، ختم کرنے کی ہم نے مسلسل بہت کوششیں کی ہیں۔ ساتھیو، بھارت کے ڈیری شعبہ کا جتنا بڑا اسکیل ہے، اسے سائنس کے ساتھ جوڑکر مزید توسیع دی جا رہی ہے۔ بھارت، ڈیری کے شعبے کا سب سے بڑا ڈاٹا بیس تیار کر رہا ہے۔ ڈیری شعبہ سے وابستہ ہر مویشی کی ٹیگنگ ہو رہی ہے۔ جدید تکنالوجی کی مدد سے ہم مویشیوں کی بایومیٹرک شناخت کر رہے ہیں۔ ہم نے اسے نام دیا ہے – پشو آدھار۔ پشو آدھار کے ذریعہ مویشیوں کی ڈجیٹل شناخت کی جا رہی ہے، جس سے ان کی صحت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ڈیری مصنوعات سے وابستہ منڈی کو توسیع دینے میں مدد ملے گی۔ ساتھیو، آج بھارت کی بڑی توجہ مویشی پالن کے شعبہ میں صنعت کاری کو فروغ دینے پر بھی ہے۔ ڈیری کے شعبہ سے وابستہ چھوٹے کاشتکاروں کی طاقت کو ہم فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنس اور خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کے توسط سے متحد کر رہے ہیں، ان کو بڑی مارکیٹ فورس بنا رہے ہیں۔ اپنی نوجوان صلاحیت کا استعمال ہم زراعت اور ڈیری کے شعبوں میں اسٹارٹ اپ اداروں کے قیام میں بھی کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے گا کہ بھارت میں گذشتہ 5-6 برس میں زراعت اور ڈیری شعبہ میں ایک ہزار سے زائد اسٹارٹ اپ ادارے قائم ہوئے ہیں۔ ساتھیو، بھارت کس طرح منفرد کوششیں کر رہا ہے، اس کی ایک مثال گوبردھن اسکیم بھی ہے۔ ابھی ہمارے روپالا جی نے معیشت میں گوبر کی بڑھتی اہمیت کا ذکر کیا تھا۔ آج بھارت میں مویشیوں کے گوبر سے بایوگیس اور بایو – سی این جی بنانے کی ایک بہت بڑی مہم چل رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ڈیری پلانٹس اپنی ضرورت کی زیادہ تر بجلی گوبر سے پوری کریں۔ اس سے کاشتکاروں کو گوبر کا بھی پیسہ ملنے کا راستہ بن رہا ہے۔ اس عمل میں جو نامیاتی کھاد بنتی ہے، اس سے کاشتکاروں کو کھیتی کے لیے ایک راستہ مل جائے گا۔ اس سے کھیتی کی لاگت بھی کم ہوگی اور مٹی بھی محفوظ رہے گی۔ بھارت میں آج قدرتی کھیتی پر بھی غیر معمولی طور پر زور دیا جا رہا ہے، جس میں مویشیوں کا بہت بڑا کردا ر ہے۔ ساتھیو، میں اکثر کہتا ہوں کہ کھیتی میں ایک فصل کی کاشت ہی حل نہیں ہے، بلکہ تنوع کی بہت ضرورت ہے۔ یہ بات مویشی پالن پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے آج بھارت میں دیسی نسلوں اور مخلوط نسلوں، دونوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سے تبدیلی آب و ہوا سے ہونے والے نقصان کے خطرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔ ساتھیو، ایک اور بڑا خطرہ مویشیوں کو لاحق ہونے والی بیماریوں کا ہے۔ مویشی جب بیمار ہوتا ہے تو یہ کاشتکار کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے، اس کی آمدنی کو متاثر کرتا ہے۔ یہ مویشیوں کی اہلیت، اس کے دودھ اور اس سے جڑی دوسری مصنوعات کی کوالٹی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے بھارت میں ہم مویشیوں کی عام ٹیکہ کاری پر بھی زور دے رہے ہیں۔ ہم نے عزم کیا ہے کہ 2025 تک ہم صد فیصد مویشیوں کو کھر پکا منھ پکا بیماری اور بروس لاسیس کا ٹیکہ لگائیں گے۔ ہم اس دہائی کے آخر تک ان بیماریوں سے پوری طرح سے نجات حاصل کرنے کا ہدف لے کر چل ر ہے ہیں۔ ساتھیو، آج آپ کے درمیان بحث کرتے ہوئے میں ڈیری شعبہ کے سامنے آئی سب سے تازہ چنوتی کا بھی ذکر کروں گا۔ گذشتہ کچھ دنوں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں لمپی نام کی بیماری سے پشو دھن کو نقصان ہوا ہے۔ مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت اس پر قابو پانے کی پرزور کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے سائنس دانوں نے لمپی اسکن ڈسیز کا اندرونِ ملک ٹیکہ بھی تیار کر لیا ہے۔ ٹیکہ کے علاوہ جانچ میں تیزی لاکر، مویشیوں کے نقل و حمل پر قابو پاکر اس بیماری کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ساتھیو، مویشیوں کی ٹیکہ کاری ہو یا پھر کوئی دوسری تکنالوجی، بھارت پوری دنیا کے ڈیری شعبہ میں تعاون دینے کے لیے اور سبھی ممالک سے سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے۔ بھارت نے اپنے خوراک سلامتی معیار پر بھی بہت تیزی سے کام کیا ہے۔ آج بھارت مویشیوں کے شعبہ کے لیے ایسے ڈجیٹل نظام پر کام کر رہا ہے، جو اس شعبہ کی اینڈ ٹو اینڈ سرگرمیوں پر احاطہ کرے گا۔ اس سے اس شعبہ میں اصلاح کے لیے ضروری ٹھیک ٹھیک جانکاری حاصل ہو سکے گی۔ ایسی ہی متعدد تکنالوجیوں کو لے کر جو کام دنیا بھر میں ہو رہے ہیں، ان کو یہ سربراہ ملاقات اپنے سامنے رکھے گی۔ اس سے جڑی مہارت کو ہم کیسے ساجھا کر سکتے ہیں، اس کے راستے سجھائے گی۔ میں ڈیری صنعت کے عالمی قائدین کو بھارت میں ڈیری شعبہ کو مضبوط بنانے کی مہم میں شامل ہونے کے لیے مدعو کرتا ہوں۔ میں بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن کی بھی ان کے بہترین کام اور تعاون کے لیے ستائش کرتا ہوں۔ آپ سبھی کا، غیر ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا، پھر سے خیرمقدم کرتا ہوں، ان کا استقبال کرتا ہوں اور ایک طویل عرصے کے بعد تقریباً 5 دہائیوں کے بعد بھارت کو آپ سب کا خیرمقدم کرنے کا موقع حاصل ہوا، آپ سب کے ساتھ تبادلہ خیالات کا موقع حاصل ہوا اور یہاں سے جو غور و فکر سے امرت نکلے گا، وہ ہمارے اِس امرت کال میں ملک کی دیہی زندگی کے نظام کو ترقی دینے میں، ملک کے پشو دھن کی صلاحیت کو مضبوط بنانے میں اور ملک کے غریب سے غریب تر کی اختیارکاری میں بھی بہت بڑا تعاون دے گا، اسی امید کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ۔,আন্তৰ্জাতিক দুগ্ধ ফেডাৰেচন বিশ্ব দুগ্ধ সন্মিলন ২০২২ৰ উদ্বোধনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%81%DA%A9%D9%91%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-90%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D9%85%DB%8C%D9%B9%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A7%AF%E0%A7%A6-%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7-2/,نئی دہلی، 13 دسمبر ؍ فکّی کے صدر کے جناب پکنج آر۔ پٹیل جی، مستقبل کے صدر جناب رمیش سی شاہ جی، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سنجے بارو جی، اور یہاں موجود تمام معزز شخصیات ۔ وزیر اعظم نے جناب نریندر مودی نے کہا کہ آج سب اپنے سال بھر کے کام کاج کا حساب کتاب لے کر بیٹھے ہیں۔ اس سال فکّی کے 90 سال بھی مکمل ہوگئے ہیں۔ کسی بھی ادارے کے لیے یہ بہت فخر کی بات ہے۔ آپ سبھی کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔ ساتھیو! 1927 کے آس پاس کا وقت تھا جب سائمن کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف جس طرح باقی صنعتی دنیا میں احتجاج ہوا وہ اپنے آپ میں ایک تاریخی اور ترغیبی واقعہ تھا۔ اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر صنعتی دنیا نے سائمن کمیشن کے قیام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ جیسے اس و��ت بھارتی سماج کا ہرحصہ ملک کے مفاد کے لیے آگے آیا، ویسے ہی بھارتی صنعت کاروں نے بھی اپنی تمام طاقت ملک کی تعمیر میں لگادی۔ بھائیو اور بہنو! جیسے 90 سال پہلے عام آدمی اپنی روز مرہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملک کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لیے آگے آیا تھا ویسا ہی دور اب پھر شروع ہوا ہے۔ اس وقت ملک کے لوگوں کی امیدیں اور خواہشات جس سطح پر ہیں اسے آپ سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ ملک کی ان اندرونی برائیوں سے، بدعنوانی سے، کالا دھن سے پریشان ہوچکے ہیں، ان سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اس لیے آج ہر ادارہ چاہے وہ کوئی سیاسی دل ہو، یا پھر فکّی جیسی صنعتی تنظؔیم، اس کے لیے یہ منتھن کا وقت ہے کہ وہ ملک کی ضروریات اور ملک کے لوگوں کے جذبات کو سمجھتے ہوئے اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کریں۔ ساتھیو، آزادی کے بعد کے سالوں میں ملک میں بہت کھ ہوا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان سالوں میں ہمارے سامنے کئی چیلنجز بھی آئے ہیں۔ آزادی کے بعد کے 70 سالوں میں ہمارے یہاں ایک ایسا نظام بنا جس میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی غریب ہمیشہ اس نظام سے لڑ رہا تھا۔ بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے اسے جدوجہد کرنا پڑ رہا تھا۔ اس غریب کو بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہے تو سسٹم آڑے آجاتا تھا، اسے گیس کنکشن چاہئے تو دس جگہ چکر لگانا پڑتا تھا، اپنی پینشن پانے کے لیے، اسکالر شپ پانے کے لیے یہاں وہاں کمیشن دینا پڑتا تھا۔ سسٹم کے ساتھ اس لڑائی کو بند کرنے کا کام میری سرکار کر رہی ہے۔ ہم ایک ایسے نظام کی تعمیر کر رہے ہیں جو نہ صرف ٹرانسپیرنٹ ہو بلکہ حساس بھی ہو۔ ایک ایسا نظام جو لوگوں کی ضروریات کو سمجھے۔ اس لیے جب ہم نے جن دھن یوجنا کی شروعات کی تو اسے اتنا شاندار ریسپونس ملا۔ آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ جب یہ اسکیم شروع ہوئی تو، ہم یہ ہدف طے نہیں کرپائے تھے کہ کتنے غریبوں کے بینک اکاؤنٹ کھولنے ہیں۔ کیونکہ سرکار کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا نہیں تھا ، ایسی کوئی جانکاری تھی ہی نہیں۔ ہمیں بس یہ احساس تھا کہ غریب کو بینک کے دروازے سے لوٹا دیا جاتا ہے، کبھی ڈانٹ کر، کبھی تمام کاغذوں کا بہانہ بناکر ۔ آج جب میں دیکھتا ہوں کہ جن دھن یوجنا کے ذریعے 30 کروڑ سے زیادہ غریبوں نے اپنے بینک کھاتے کھلوائے ہیں، تو لگتا ہے کہ غریبوں کی کتنی بڑی ضرورت پوری ہوئی ہے۔ ایک مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ دیہی علاقے میں جہاں ایسے کھاتے زیادہ کھلے ہیں، وہاں افراط زر کی شرح میں کمی آئی ہے۔ یعنی غریبوں کی زندگی میں کتنا بڑا بدلاؤ اس ایک اسکیم سے آیا ہے۔ بھائیو اور بہنو، ہماری سرکار نے لوگوں کے مسائل ، ان کی ضروریات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنی یوجنائیں بنائی ہیں۔ لوگوں کی زندگی آسان بنے، ایز آف لونگ بڑھے، اس وژن کو ترجیح دی گئی ہے۔ غریب خواتین کو گیس کے دھوئیں سے آزادی ملے، اس لیے اجولا یوجنا شروع کی تھی۔ ہم نے تین کروڑ سے زیادہ خواتین کو مفت گیس کنکشن دیئے ہیں۔ اب ایک اور مطالعے میں سامنے آیا ہے کہ اس یوجنا کے بعد دیہی علاقوں میں فیول انفلیشن میں بھی کمی آئی ہے۔ یعنی غریب کو ایندھن کے لیے اب کم پیسے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ ہم غریب کی ایک ایک ضرورت، ایک ایک مسئلے کو پکڑ کر اسے سلجھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ غریب خواتین کو لگاتار شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ان کی صحت اور تحفظ پر اثر نہ ہو، اس لیے سوچھ بھارت مشن کے تحت پانچ کروڑ سے زیادہ بیت الخلابنوائے گئے۔ غریبوں کے رہنے کے لیے پکے گھر مل سکیں، وہ جتنا کرایے پر خرچ کرتے ہیں، لگ بھگ اتنے میں ہی ان کے پاس اپنا گھر ہوجائے، اس لیے پردھان منتری آواس یوجنا شروع کی گئی ہے۔ ساتھیو، وگیان بھون کی ان چمچماتی ہوئی لائٹوں، اتنی سجاوٹ، یہ جو پورا ماحول ہے،اس سے بہت الگ دنیا آپ کو ملک کے دور دراز علاقوں ، ملک کے دیہاتوں میں ملے گی۔ میں غریبی کی اسی دنیا سے نکل کر آپ کے بیچ آیا ہوا ہوں۔ محدود وسائل، محدود پڑھائی لیکن سپنے بہت لامحدود۔ اسی دنیا نے ہی مجھے سکھایا ہے کہ ملک کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے، غریبوں کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے کام کرو، فیصلے لو، انھیں نافذ کرو۔ جیسے مدرا یوجنا نوجوانوں ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کر رہی ہے، یہ ضرورت ہے بینک گارنٹی۔ کوئی بھی نوجوان اپنے دم پر جیسے ہی کچھ کرنا چاہا ہے، اس کے سامنے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ مدرا یوجنا کے تحت یہ گارنٹی سرکار دے رہی ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں تقریباً پونے دس کروڑ لون ہم نے منظور کیے ہیں، بنا بینک گارنٹی نوجوانوں کو چار لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ دیئے گئے ہیں۔ نوجوانوں کی بہت بڑی ضرورت کے ساتھ سرکار کھڑی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کو پچھلے تین سالوں میں تقریبا تین کروڑ نئے صنعتکار ملے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے مدرا یوجنا کے تحت پہلی بار بینک سے لون لیا ہے۔ ان تین کروڑ لوگوں نے ملک کی چھوٹی صنعتی سیکٹر، یا ایم ایس این ای سیکٹر کا دائرہ اور بڑھایا ہے، اس سے مضبوط کیا ہے۔ سرکار ، سرکاری اسٹارٹ اپ کو بھی بڑھاوا دے رہی ہے۔ اسٹارٹ اپ کی سب سے بڑی ضرورت ہے رسک کیپٹل۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سرکار نے سبسڈی کے تحت ایک فنڈ آف فنڈ بنایا ہے۔ اس قدم کے بعد سبسڈی کے ذریعے کی گئی سرمایہ کاری کو دیگر سرمایہ کاروں کے تعاون سے ، چار سے ساڑھے چار گنا زیادہ لیوریج دیا گیا۔ اسے اسٹارٹ اپ کو جن کے پاس نئے آئیڈیاز ہیں، انھیں پونجی ملنے میں مدد مل رہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، اسٹارٹ اپ کے ایکو سسٹم میں متبادل سرمایہ فنڈز کے ذریعے کی گئی سرمایہ کاری اہم ہے۔ گذشتہ تین سالو ںمیں سرکار کے ذریعے لیے گئے پالیسی فیصلوں کے سبب ایسے سرمایے میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ سرکار ملک کے نوجوانوں کی ضرورتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے فیصلے لے رہی ہے، اسکیمیں بنا رہی ہے۔ اس کا بالکل کنٹراسٹ آپ کو گذشتہ سرکار میں دیکھنے کو ملے گا۔ اس دوران کچھ بڑے صنعتکاروں کو لاکھوں کروڑ کے لون دیئے گئے۔ بینکوں کو دباؤ ڈال کر پیسہ دلوایا گیا۔ ساتھیو! فکّی کا اپنے بارے میں کہنا ہے۔ انڈسٹریز وائس فار پالیسی چینج۔ آپ انڈسٹری کی وائس سرکار تک پہنچاتے ہیں۔ آپ کے سروے آتے رہتے ہیں۔ سیمینار چلتے رہتے ہیں۔ مجھے جانکاری نہیں ہے کہ پہلے کی سرکار کی پالیسیوں نے جس طرح بینکنگ شعبے کا برا حال کیا اس پر فکّی نے کوئی سروے کیا ہے یا نہیں؟ آج کل نان پرفارمنگ ایسٹ، این پی اے ۔ این پی اے کا جو شور مچ رہا ہے، وہ پہلے کی سرکار میں بیٹھے ماہر معاشیات کی اس سرکار کو دی گئی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ میری دلچسپی بھی یہی جاننے میں ہے کہ جب سرکار میں بیٹھ کچھ لوگوں کے ذریعے بینکوں پر دباؤ ڈال کر کچھ خصوصی صنعتکاروں کو لون دلوایا جارہا تھا، تب فکّی جیسے ادارے کیا کر رہے تھے۔ پہلے ہی سرکار میں بیٹھے لوگ جانتے تھے، صنعتی دنیا بھی جانتی تھی بازار سے جڑے ادارے بھی جانتے تھے کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ یہ یوپی اے سرکار کا سب سے بڑا گھوٹالہ تھا۔ کامن ویلتھ، 2جی، کوئلہ، ان سبھی کہیں ��یادہ بڑا گھوٹالہ۔ یہ ایک طرح سے سرکار میں بیٹھے لوگوں کے ذریعے صنعت کاروں کے توسط سے عوام کی گاڑھی کمائی کی لوٹ تھی۔ کیا ایک بار بھی کسی سروے میں ، کسی مطالعے میں اس طرف اشارہ کیا گیا۔ جو لوگ چپ رہ کر سب کچھ دیکھتے رہے، کیا انہیں جاگنے کی کوشش کسی ادارے کی ذریعے کی گئی؟ ساتھیوں، بینکنگ نظام کی اس خراب حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے ، بینکنگ نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے سرکار لگاتار قدم اٹھارہی ہے۔ بینکوں کا مفاد محفوظ ہوگا، گراہکوں کا مفاد محفوظ ہوگا تبھی ملک کا مفاد محفوظ ہوگا۔ ایسے میں فکی جیسے اداروں کا بڑا رول ہے۔ صحیح جانکاری کے ساتھ صنعتی دنیا اور لوگوں کو بیدار کرنے کی بھی ہے۔ اب جیسے گزشتہ کچھ دنوں سے مالی ریزولیشن اینڈ ڈپازٹ انشورنس بل ، ایف آر ڈی آئی کو لے کر افواہیں پھیلائی جارہی ہے۔ سرکار گراہکوں کے مفاد کو محفوظ بنانے کے لیے، بینکوں میں جمع ان کی رقم کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کررہی ہے، لیکن خبریں اس کے بالکل برعکس چلائی جارہی ہیں۔صنعتی دنیا کو اور عام شہریوں کو بھرم میں ڈالنے والی ایسی کوششوں کو ناکام کرنے میں فکی جیسے ادارے کا بھی تعاون بہت ضروری ہے۔ آپ گورنمنٹ کی Voice(آواز) صنعت کی آواز اور عوام کی آواز کے ساتھ تال میل کیسے قائم کریں گے یہ بھی آپ کو سوچنا ہوگا۔ یہ تال میل کیوں لازم ہے، اس کی ایک اور مثال دوں گا۔ ساتھیوں، ہندوستانی صنعت کی پرانی مانگ تھی کہ اسے جی ایس ٹی چاہیے، جی ایس ٹی چاہیے اب جب جی ایس ٹی لاگو ہو چکا ہے تو اسے بااثر بنانے کے لیے آپ کا ادارہ کیا رول نبھارہا ہے؟ جو لوگ سوشل میڈیا پر ہیں، انہوں نے دھیان دیا ہوگا کہ بہت دنوں تک لوگ ریسٹورنٹ کے بل پوسٹ کر رہے تھے کہ ٹیکس بھلے کم ہوگیا، لیکن کچھ ریسٹورنٹ والوں نے بنیادی لاگت بڑھا کر پھر حساب برابر کردیا۔ یعنی گراہک تک وہ فائدہ پہنچا ہی نہیں جو پہنچنا چاہئے تھا۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرکار اپنی طرف سے کوشش کررہی ہے، لیکن کیا فکی کی طرف سے لوگوں میں ، تاجروں میں کسی طرح کی بیداری لانے کی کوشش ہوئی۔ بھائیو اور بہنوں، جی ایس ٹی جیسے نظام راتوں رات نہیں کھڑے ہوتے اور ہم تو پچھلے 70 سال کے بنائے ہوئے نظام کو بدل رہے ہیں۔ ہمارا یہ بھی نشانہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تاجر اس نظام سے جڑیں۔ چاہے لاک روپے مہینے کا ٹرن اوور ہو یا دس لاکھ کا، چھوٹے سے چھوٹے تاجر کو ہم فارمل سسٹم میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ سرکار کو پیسہ کمانا ہے، ٹیکس وصول کرنا ہے۔ سرکار یہ سب اس لیے کررہی ہے، کیونکہ نظام جتنا فارمل ہوگا، جتنا شفاف ہو گا اتناہی غریبوں کو فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ فارمل سسٹم کی وجہ سے انہیں آسانی سے بینکوں سے قرض ملے گا۔ خام مال کی خوبی بڑھے گی اور لاجسٹک کی لاگت بھی گھٹے گی۔یعنی عالمی کاروبار میں چھوٹے صنعت کار بھی زیادہ مقابلہ جاتی ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ فکی نے بڑے پیمانے پر چھوٹے تاجروں کی رہنمائی کے لیے کوئی اسکیم ضرور بنا رکھی ہوگی۔ بھائیو اور بہنو! مجھے بتایا گیا ہے کہ فکی کے ایم ایس ایم ای ورٹکل کی تشکیل 2013 میں کی گئی تھی۔ 90 سال کے اس ادارے میں ایم ایس ایم ای ورٹکل صرف چار سال پہلے بنی۔ میں کچھ اور تبصرہ تو نہیں کروں گا مگر اتنا ضرور چاہوں گا کہ آپ کا یہ ورٹکل کرنسی اسکیم، اسٹارٹ اَپ انڈیا، اسٹینڈ اَپ انڈیا جیسی اسکیموں کی تشہیر بڑھانے میں اور مدد کریں۔اتنا تجربہ کار ادارہ اب ہماری چھوٹی صنعتوں کی ہینڈ ہولڈنگ کرے گی، تو وہ بھی اور زیا��ہ اور جوش کے ساتھ کام کرے گی۔ سرکار نے گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس-یعنی جی ای ایم نام سے جو نظام کھڑا کیا ہے اس سے بھی ملک کے چھوٹے صنعت کاروں کو جوڑنے میں آپ کو اپنی کوشش بڑھانی ہوگی۔ جی ای ایم کے توسط سے اب چھوٹے چھوٹے مینوفیکچرر بھی اپنا سامان سرکار فروخت کرسکتے ہیں۔ میری آپ سے ایک توقع یہ ہے کہ ایم ایس ایم ای کا جو پیسہ بڑی کمپنیوں پر بقایہ رہتا ہے، اس کی ادائیگی وقت پر ہو جائے، اس کیلئے بھی کچھ کیجئے۔ قاعدہ ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹے صنعت کاروں کا پیسہ زیادہ تر بڑی کمپنیوں کے پاس اٹکا رہتا ہے۔ تین مہینے، چار مہینے بعد انہیں پیمنٹ ملتا ہے۔ کاروباری رشتے نہ بگڑ جائیں اس لئے چھوٹا صنعت کار اپنے پیسے مانگنے میں بھی ہچکچاتا ہے۔ اس کی اس تشویش کو، اس مسئلے کو دور کرنے کیلئے بھی آپ کی طرف سے کوشش کی جانی چاہئے۔ ساتھیوں ایسی بہت سی وجوہات ہیں، جن کے باعث ہمارا ملک پچھلی صدی میں صنعتی انقلاب کا پوری طرح فائدہ نہیں اٹھاپایا۔ آج بہت سی وجوہات ہیں، جن کے سبب بھارت نئے انقلاب کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ سرکار ملک کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے نئی پالیسیاں بنا رہی ہے۔ پرانے قانون ختم کر رہی ہے، نئے قانون بنا رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے بانس کو لے کر بھی ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔ بانس پیڑ ہے یا نہیں ہے ، اسے لے کر ہمارے یہاں دو الگ الگ قانون تھے، اب سرکار نے طے کر دیا ہے کہ جنگلوں سے باہر جو بانس اگتاہے، اسے پیڑ نہیں مانا جائےگا۔ اس فیصلے سے ان لاکھوں چھوٹے صنعت کاروں کا فائدہ ہوگا، جو بانس پر مبنی صنعت سے منسلک ہیں۔ ساتھیوں مجھے بتایا گیا ہے کہ فکی کے ارکان میں سب سے زیادہ لوگ مینوفیکچرنگ کمپنیوں سے جڑے ہیں۔ انجینئرنگ سامان، بنیادی ڈھانچہ، ریئل اسٹیٹ تعمیری سامان جیسی کمپنیاں فکی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ بھائیو اور بہنو پھر کیوں ایسا ہوا کہ بلڈروں کی منمانی کی خبر پہلے کی سرکار تک نہیں پہنچی۔ متوسط طبقہ پس رہاتھا، زندگی بھر کی کمائی بلڈ ر کو دینے کے بعد بھی اسے گھر نہیں مل رہے تھے اور پھر بھی کچھ ٹھوس قدم نہیں اٹھائے جا رہے تھے، کیوں؟۔ آر ای آر اے جیسے قانون پہلے بھی تو بنائے جا سکتے تھے، لیکن نہیں بنے۔ متوسط طبقے کی اس پریشانی کو اس سرکار نے ہی سمجھا اور قانون بنا کر بلڈروں کی منمانی پر روک لگائی۔ بھائیو اور بہنو ہم نے ہی اس بات کو سمجھا کہ مارچ میں بجٹ پیش ہونے پر اسکیموں کو سال بھر کام کرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ مانسون کی وجہ سے تین چار مہینے برباد ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس سال بجٹ کا وقت ایک مہینے پہلے کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس سال محکموں کو معینہ وقت پر پیسہ ملااورمنصوبوں پر کام کرنے کیلئے پورا ایک برس ملا۔ ساتھیو اس سرکار نے یوریا کو لے کر نئی پالیسی تیار کی، ٹیکسٹائل کے شعبے کو لے کر نئی پالیسی تیار کی۔ ہواباز، کے شعبے کیلئے پالیسی تیار کی، ٹرانسپورٹ شعبے کے انٹیگریشن کو لے کر پالیسی تیار کی، صحت کو لے کر نئی پالیسی تیار کی گئی اور صرف ایسا نہیں ہے کہ پالیسی بنانی ہے، تو پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ ہم نے یوریا کو لے کر پالیسی تبدیل کی، تو ملک میں یوریا کے نئے کارخانوں کے بغیر 18 سے 20لاکھ ٹن یوریا کی پیداوارمیں اضافہ ہوگیا۔ٹیکسٹائل کے شعبے میں نئی پالیسی روزگارکے ایک کروڑمواقع پیدا کرے گی۔ ہوابازی کے شعبے کی پالیسی میں جو تبدیلی کی گئی ہے، اس سے ہوائی چپل والوں کو بھی ہوائی اڑان کی سہولت ملے گی۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے کا انٹیگر��شن آمدورفت کے مختلف انتظامات پر بارکم کرے گا۔ گزشتہ تین برسوں میں 21 سیکٹروں کے سلسلے میں 87 اہم اصلاحات کی گئی ہیں۔ دفاعی شعبے، تعمیری شعبے، مالیاتی خدمات، فوڈ پروسیسنگ جیسے کتنے ہی شعبوں میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اسی کا نتیجہ آپ کو معیشت سے منسلک مختلف پیرامیٹرس میں نظر آ رہا ہے۔ کاروبار میں آسانی کی رینکنگ میں ہندوستان صرف تین برسوں میں 142سے 100ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ ہندوستان کا زرمبادلہ کا ریزرو تقریبا 30ہزار کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 40ہزار کروڑ ڈالرسے زیاد ہ ہو گیا ہے۔ عالمی مسابقتی عدد اشاریہ میں ہندوستان کی رینکنگ میں 32 نمبروں کی بہتری آئی ہے۔ عالمی اختراعی عدد اشاریہ میں بھارت کی رینکنگ میں 21 درجہ بلند ہوئی ہے۔ لاجسٹکس پرفارمنس انڈیکس میں 19 درجات کی بہتری آئی ہے۔ اگرمجموعی ایف ڈی آئی کی بات کریں، تو گزشتہ تین برسوں میں ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تقریباً 70فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں میں،فکی، تعمیراتی شعبے سے وابستہ ارکان بہت زیادہ ہیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ تعمیراتی شعبے میں اب تک کی مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری کا 75فیصد حصہ گزشتہ تین برسوں میں حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح ایئر ٹرانسپورٹ سیکٹر ہو، کانکنی کا شعبہ ہو، کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر ہو، برقی آلات ہوں سبھی میں اب تک ہوئی سرمایہ کاری کی نصف سے زیادہ سرمایہ کاری گزشتہ تین برسوں میں ہوئی ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے کچھ اور اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ دو تین دن پہلے آئے یہ اعداد و شمار آپ کو معلوم ہوں گے، لیکن ان کی طرف آپ کی توجہ پھر سے دلانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، گھریلو بازر میں پیسنجر وہیکل کی فروخت کی شرح نومبر میں 14 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ کمرشیل وہیکل کی فروخت، جو کہ ملک میں اکونومک ایکٹی وٹی کو ظاہر کرتی ہے، اس میں 50 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ تھری وہیلر کی فروخت، جسے روزگار کا بھی ایک اشاریہ مانا جاسکتا ہے، اس میں نومبر کے مہینے میں، تقریباً 80 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹو وہیلر، جس کی فروخت گاوں اور متوسط طبقے کی آمدنی میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے، اس میں 23 فیصدسے زیادہ کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ساتھیو! آپ کو معلوم ہے کہ اتنی بڑی سطح پر تبدیلی اسی وقت آتی ہے جب معیشت پر عام آدمی کا بھروسہ ہوتا ہے۔ یہ سدھار اس بات کا ثبوت ہے کہ زمینی سطح پر جاکر حکومت بڑے انتظامی، مالی اور قانونی قدم اٹھا رہی ہے۔ یہ سدھار اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ سرکار کی سماجی اصلاحات، اقتصادی اصلاحات بھی اپنے آپ لا رہےہیں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ایک بڑا رول ادا کررہےہیں۔ جیسے میں اگر آواس یوجنا کی بات کروں تو سرکار اس مقصد کے لئے کام کررہی ہے کہ 2022 تک ملک کے غریب کے پاس اپنا گھر ہو۔ اس کے لئے گاوؤں میں، شہروں میں لاکھوں گھروں کی تعمیر کی جارہی ہے۔ ان گھروں کو بنانے کے لئے افراد قوت تو مقامی سطح پرہی حاصل کی جارہی ہے۔ گھروں کی تعمیر میں جو سامان لگ رہا ہے، وہ بھی مقامی بازار سے ہی آرہا ہے۔ اسی طرح ملک میں گیس پائپ لائن بچھانے کا جو کام ہورہا ہے اس سے کئی شہروں میں، سٹی گیس ڈسٹری بیوشن سسٹم کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ جن شہروں میں سی این جی پہنچ رہی ہے، وہاں پر روزگار کے معاملے میں ایک نیا ماحولیاتی نظام بن رہا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں، ہم ملک کی سبھی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے کام کریں گے۔ تب ہی لوگوں کی امیدوں اور خواہشات کی تکمیل ہوگی۔ فکی س�� وابستہ ممبر کمپنیوں کو اس بارے میں بھی غور کرنا چاہیے کہ کیسے ہم ان چیزوں کی ملک میں پیدا وار کریں جنہیں ہمارا ملک باہر سے منگوانے کے لئے مجبور ہے۔ کتنے ہی شعبوں میں ہم سے ہی خام مال لیکر، ہم کو ہی واپس بیچا جاتا ہے۔ اس صورتحال سے ہمیں اپنے ملک کو باہر نکالنا ہے۔ آرٹی فیشل انٹلی جنس، سولر پاور سیکٹر، ہیلتھ کیئر ان سبھی کو فکی کے تجربے کا فائدہ مل سکتا ہے۔ کیا آپ کی تنظیم ملک کے ایم ایس ایم ای شعبے کے لئے تھنک ٹینک کے طور پر کام کرسکتی ہے؟ بھائیو اور بہنوں کرنے کے لئے بہت کچھ ہے بس ہمیں عہد کرنا ہے اور اسے ثابت کرنا ہے۔ جب ہمارے پختہ ارادے ثابت ہوجائیں گے تو ملک درست ہوجائے گا۔ ہاں بس اس بات کا دھیان رکھنا ہے کہ جیسے کرکٹ میں کچھ بلے باز 90 پر آکر 100 رن بنانے کے انتظار میں آہستہ کھیلنے لگتے ہیں، ویسے ہی فکی نہ کرے۔ اٹھئے سیدھے ایک چھکا ایک چوکا اور سینکڑا پار کریں۔ میں ایک بار پھر فکی کو اس کے ارکان کو نیک خواہشات کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ج۔ ح ا۔ ش ت۔ ا گ ۔ ن ا۔ن ع۔ را۔ ک ا۔,ফিক্কিৰ ৯০ তম বাৰ্ষিক সাধাৰণ সভাৰ আৰম্ভণি অনুষ্ঠানত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ সাৰাংশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%85%DB%8C%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-45/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج کمیونسٹ پارٹی آف ویتنام کے جنرل سکریٹری محترم نگوین فوترونگ کے ساتھ فون پر بات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ہندوستان اور ویتنام کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک دوسرے کی ستائش کی۔ انہوں نے ہندوستان-ویتنام جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے تحت وسیع پیمانے پر تعاون کی تیز رفتاری پر اطمینان کا اظہار کیا جو 2016 میں وزیر اعظم کے دورہ ویتنام کے دوران قائم ہوئی تھی۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی اور ہند-بحرالکاہل ویژن کے ایک اہم ستون کے طور پر ویتنام کی اہمیت کو دہرایا، اور موجودہ اقدامات پر تیز رفتار پیش رفت کے لیے کام کرنے کے علاوہ دو طرفہ تعلقات کے دائرہ کار کو بڑھانے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے ویتنام میں ہندوستان کے فارما اور زرعی مصنوعات کے لیے مارکیٹ تک رسائی کی زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کی بھی درخواست کی۔ وزیر اعظم نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور تہذیبی روابط کو اجاگر کیا اور ویتنام میں چام یادگاروں کی بحالی میں ہندوستان کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شراکت داری کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے یوکرین میں جاری بحران اور بحیرہ جنوبی چین کی صورتحال سمیت مشترکہ دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু ভিয়েটনামৰ কমিউনিষ্ট পাৰ্টিৰ সাধাৰণ সম্পাদক মহামহিম নুয়েন ফু ট্ৰঙৰ মাজত টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-14-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%B3-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%B6-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%9B-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 23 – 24 جون ، 2022 ء کو چین کے صدر شی جن پنگ کی صدارت میں ورچوئل طور پر منعقدہ 14ویں برکس سربراہ کانفرنس میں بھارتی شرکت کی قیادت کی ۔ 23 جون کو ہونے والی ، اِس سربراہ کانفرنس میں برازیل کے صدر جیر بولسو نارو، روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے بھی شرکت کی ۔ سربراہ اجلاس کے غیر برکس تعلقات کے زمرے میں عالمی پیش رفت پر اعلیٰ سطحی مذاکرات 24 جون کو منعقد ہوئے ۔ 23 جون کو لیڈروں نے انسداد دہشت گردی، تجارت، صحت، روایتی ادویات، ماحولیات، سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع، زراعت، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبوں سمیت عالمی تناظر میں اہم امور پر تبادلہ ٔخیال کیا۔ اس میں کثیر جہتی نظام میں اصلاحات ، کووڈ – 19 عالمی وباء ، عالمی اقتصادی بحالی اور دیگر امور بھی شامل تھے ۔ وزیر اعظم نے برکس کی شناخت کو مستحکم کرنے پر زور دیا اور برکس کی دستاویزات، برکس ریلوے ریسرچ نیٹ ورک کے لئے آن لائن ڈاٹا بیس قائم کرنے اور ایم ایس ایم ایز کے درمیان تعاون کو مستحکم کرنے کی تجویز پیش کی ۔ بھارت برکس ملکوں میں اسٹارٹ اپس کے درمیان روابط کو مستحکم کرنے کی خاطر ، اِس سال برکس اسٹارٹ اَپس تقریب کا انعقاد کرے گا ۔ وزیر اعظم نے ، اِس بات کو بھی اجاگر کیا کہ برکس ارکان کے طور پر ہمیں ایک دوسرے کی سلامتی کو سمجھنا چاہیئے اور دہشت گرد قرار دیئے جانے میں باہمی تعاون فراہم کرنا چاہیئے اور اس اہم معاملے کو سیاسی شکل نہیں دی جانی چاہیئے ۔ سربراہ اجلاس کے اختتام پر برکس لیڈروں نے ’’ بیجنگ اعلانیہ ‘‘ کو منظوری دی ۔ 24 جون کو، وزیر اعظم نے افریقہ، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل سے کیریبین تک بھارت کی ترقیاتی شراکت داری ؛ ایک آزاد ، کھلے جامع اور اصولوں پر مبنی سمندری علاقے پر بھارت کی توجہ ؛ بحیرۂ ہند کے خطے سے لے کر بحرالکاہل تک تمام ملکوں کی علاقائی سالمیت اور اقتدارِ اعلیٰ کے لئے احترام ؛ اور کثیر جہتی نظام میں اصلاحات پر زور دیا کیونکہ ایشیا کا ایک بڑا حصہ ، پورا افریقہ اور لاطینی امریکہ کی عالمی فیصلہ سازی میں کوئی آواز نہیں ہے ۔ وزیراعظم نے سرکلر معیشت کی اہمیت کا اجاگر کیا اور ماحولیات کے طرز زندگی ( لائف ) مہم میں شامل ہونے کے لئے شریک ملکوں کے شہریوں کو مدعو کیا ۔ شرکت کرنے والے مہمان ملکوں میں الجیریا ، ارجنٹینا ، کمبوڈیا، مصر، ایتھوپیا، فجی، انڈونیشیا، ایران، قزاقستان، ملیشیا، سینیگال، تھائی لینڈ اور ازبکستان شامل تھے۔ اس سے پہلے 22 جون کو برکس بزنس فورم کی افتتاحی تقریب میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے برکس بزنس کونسل اور برکس ویمن بزنس الائنس کی ستائش کی ، جنہوں نے کووڈ – 19 وباء کے باوجود اپنا کام جاری رکھا۔ وزیر اعظم نے برکس کی کاروباری برادری کو مشورہ دیا کہ وہ سماجی اور اقتصادی چیلنجوں کے لئے ٹیکنا لوجی پر مبنی حل کے شعبے ، اسٹارٹ اپس اور ایم ایس ایم ایز میں مزید تعاون کریں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),‘চতুৰ্দশ ব্ৰিকছ শীৰ্ষ সন্মিলন’ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অংশগ্ৰহ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%A7%D9%86%D8%AA%DB%8C-%D9%86%DA%A9%DB%8C%D8%AA%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D8%8C-%D9%88%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%A8%E0%A6%BF/,نئی دہلی،25مئی 2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج مغربی بنگال میں شانتی نکیتن کا دورہ کیا۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شانتی نکیتن میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا استقبال کیا۔گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دونوں لیڈروں نے وزیٹر بک پر دستخظ کئے۔اس کے بعد دونوں لیڈروں نے وشو بھارتی یونیورسٹی کے تقسیم اسناد کے جلسے میں شرکت کی۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ہندوستان کے حکمرانی کے جمہوری نظام کو ایک عظیم ٹیچر قرار دیا، جو 125 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو تحریک بخشتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ آج گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور کی مقدس سرزمین پر دانشوروں کے درمیان موجود ہیں۔ انہوں نے ان طلباء کو مبارکباد دی جنہوں نے آج ڈگریاں لی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے، انہوں نے صرف ایک ڈگری ہی نہیں لی، بلکہ وہ ایک عظیم روایت کے وارث بھی بن گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ویدوں کی تعلیمات ، جو پوری دنیا کو ایک گھونسلے یا ایک گھر کے طورپر تشبیہ دیتی ہیں، ان کی وشو بھارتی یونیورسٹی کی اقدار میں عکاسی ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش ایسے دو ملک ہیں ، جن کے مفادات، باہمی تعاون ایک دوسرے کے ساتھ تال میل سے جڑا ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کا دنیا بھر میں احترام کیا جاتا ہے۔انہوں نے ذکر کیا کہ انہیں تین سال پہلے تاجکستان میں گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کے مجسمے کی نقاب کشائی کا موقع ملا تھا۔انہوں نے کہا کہ آج بھی ٹیگور کودنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ایک مضمون کے طورپر پڑھایا جاتا ہے۔انہوں نے گرودیو کو ایک عالمی شہری قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے ہمیشہ چاہا کہ ہندوستانی طلباء دنیا بھر میں ہونے والی پیش رفت سے آگا ہ رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ہندوسانیت کو بھی پوری طرح برقرار رکھیں۔ انہوں نے صلاحیت سازی اور قریبی گاؤں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لئے وشو بھارتی یونیورسٹی کی کوششوں کے لئے اس کی تعریف کی۔ انہوں نے یونیورسٹی کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ 2021 میں اپنی صد سالہ تقریب میں ان کوششوں کو 100 گاؤں تک توسیع دیں۔ انہوں نے یونیورسٹی پر زور دیا کہ وہ ان 100 گاؤوں کی مجموعی ترقی کے لئے کام کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وشو بھارتی یونیورسٹی جیسے ادارے 2022 تک ایک نئے بھارت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے تعلیم کے شعبوں میں مرکزی حکومت کے اقدامات کو اجاگر کیا۔ بنگلہ دیش بھون کے افتتاح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اسے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ثقافتی تعلقات کی علامت قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی اور اس سرزمیں کی ایک تاریخ ہے کہ انہوں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں کی جددجہد آزادی کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں ملکوں کی مشترکہ وراثت کی بھی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کا ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں میں برابر احترام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نیتا جی سبھاش چندر بوس ، سوامی وویکا نند اور مہاتماگاندھی کا بنگلہ دیش میں بھی اتنا ہی احترام کیا جاتا ��ے، جتنا ہندوسان میں۔ اسی سلسلے میں انہوں نے کہا کہ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کا اتنا ہی تعلق بنگلہ دیش سے ہے، جتنا ہندوستان سے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کے آفاقی انسانیت پر اعتقادکا اظہار مرکزی حکومت کے بنیادی اصول’’ سب کا ساتھ ،سب کا وکاس‘‘ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظلم و زیادتی اور دہشت گردی کے خلاف ہندوستان او ربنگلہ دیش کا مشترکہ عزم بنگلہ دیش بھون کے ذریعے مستقبل کی نسلوں کو تحریک دلاتا رہے گا۔ انہوں نے پچھلے سال نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ذریعے ہندوستانی سپاہیوں کی عزت افزائی کو یاد کیا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلے چند برس دونوں ملکوں کے تعلقات کے لئے سنہرا دور رہا ہے۔ انہوں نے زمینی سرحد کے معاملے کے حل اور کئی کنکٹی وٹی پروجیکٹوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دونوں ملکوں کے مقاصد ایک ہیں او ران اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ایک ہی راستے پر گامزن ہیں۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শান্তি নিকেতন ভ্ৰমণ, বিশ্ব ভাৰতী বিশ্ববিদ্যালয়ৰ সমাৱৰ্তন অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ, বাংলাদেশ ভৱন উদ্বোধন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D9%88%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D8%AA%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A6%97%E0%A6%AC%E0%A7%9D%E0%A7%8B/,نئی دہلی،27؍مارچ۔میرے پیارے ہم وطنو! آج، 27؍مارچ، کچھ ہی دیر قبل ہندوستان نے ایک بے مثال کامیابی حاصل کی ہے۔ ہندوستان نے آج اپنا نام خلائی سُپر پاور– اسپیس پاور– کے طور پر درج کرا دیا ہے۔ اب تک دنیا کے تین ممالک –امریکہ، روس اور چین– کو یہ صلاحیت حاصل تھی۔ اب بھارت چوتھا ملک ہے، جس نے آج یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر ہندوستانی کے لئے اِس سے بڑے فخر کا لمحہ نہیں ہو سکتا ہے۔ کچھ ہی دیر قبل، ہمارے سائنس دانوں نے خلاء میں، اسپیس میں، 300 کلو میٹر دور، ایل ای او-لا اَرتھ اوربِٹ- میں ایک لائیو سیٹلائٹ کو مار گرایا ہے۔ ایل ای او – لا اَرتھ اوربِٹ – میں یہ لائیو سیٹلائٹ ، جو کہ ایک پہلے سے مقررہ نشانہ تھا، اسے اینٹی سیٹلائٹ (اے – سیٹ) میزائل کے ذریعے مار گرایا گیا ہے۔ صرف 3 منٹ میں کامیابی کے ساتھ یہ آپریشن پورا کیا گیا ہے۔ مشن شکتی – یہ انتہائی مشکل آپریشن تھا، جس میں بہت ہی اعلیٰ درجے کی تکنیکی صلاحیت کی ضرورت تھی۔ سائنس دانوں کے ذریعے سبھی مقررہ نشانے اور مقصد حاصل کر لئے گئے ہیں۔ ہم سبھی ہندوستانیوں کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ یہ پرَاکرم ہندوستان میں ہی تیار کردہ اینٹی سیٹلائٹ (ا ے-سیٹ) میزائل کے ذریعے پورا کیا گیا۔ سب سے پہلے میں مشن شکتی سے جڑے سبھی ڈی آر ڈی او سائنس دانوں، محققین اور دیگر متعلقہ اہلکاروں کو مبارکباد دیتا ہوں، جنہوں نے اس غیر معمولی کامیابی کو حاصل کرنے میں تعاون کیا۔ آج پھر انہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ہمیں اپنے سائنس دانوں پر کافی فخر ہے۔ خلاء آج ہمارے طرز زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ آج ہمارے پاس کافی تعداد میں سیٹلائٹ دستیاب ہیں، جو الگ الگ شعبوں کی ترقی میں اپنا بیش قیمتی تعاون دے رہے ہیں۔ مثلاً زراعت، دفاع، سلامتی، آفات بندوبست، مواصلات، موسم، نیوی گیشن، تعلیم وغیرہ۔ ہمارے سیٹلائٹوں کا فائدہ سبھی کو مل رہا ہے۔ چاہے وہ کسان ہوں، ماہی گیر ہوں، طلبہ ہوں، سلامتی اہلکار ہوں۔ دوسری طرف چاہے وہ ریلوے ��و، ہوائی جہاز، پانی کے جہازوں کا انتظام ہو، ان سبھی جگہوں پر سیٹلائٹوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں اسپیس اور سیٹلائٹ کی اہمیت بڑھتے ہی جانے والا ہے۔ شائد زندگی اس کے بغیر ادھوری ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں ان سبھی سیٹلائٹوں کے تحفظ کا پختہ انتظام کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ آج کی اینٹی سیٹلائٹ (اے-سیٹ) میزائل ہندوستان کی سلامتی کے نقطۂ نظر سے اور ہندوستان کی ترقی کے سفر کے نقطۂ نظر سے ملک کو ایک نئی مضبوطی عطا کرے گا۔ میں آج عالمی برادری کو بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے جو نئی صلاحیت حاصل کی ہے، یہ کسی کیخلاف نہیں ہے۔ یہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہندوستان کی حفاظتی پہل ہے۔ ہندوستان ہمیشہ سے ہی خلاء میں ہتھیاروں کی دوڑ کا مخالف رہا ہے اور اس سے اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج کا یہ تجربہ کسی بھی طرح کے بین الاقوامی قانون نیز مفاہمت ناموں ؍معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ ہم جدید ترین تکنیک کا استعمال ملک کے 130 کروڑ شہریوں کے تحفظ نیز ان کی فلاح و بہبود کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔ اس شعبے میں شانتی اور سلامتی کا ماحول بنانے کے لئے ایک مضبوط ہندوستان کا ہونا ضروری ہے۔ہمارا اسٹریٹجک مقصد امن و امان کو برقرار رکھنا ہے نہ کہ جنگ کا ماحول بنانا۔ پیارے ہم وطنو! ہندوستان نے خلاء کے شعبے میں جو کام کیا ہے، اس کا بنیادی مقصد ہندوستان کا تحفظ، ہندوستانی کی اقتصادی ترقی اور ہندوستان کی تکنیکی ترقی ہے۔ آج کا یہ مشن اُن خوابوں کو تحفظ فراہم کرنے کی سمت ایک اہم قدم ہے، جو ان تینوں ستون کے تحفظ کے لئے ضروری تھا۔ آج کی کامیابی کو آنے والے وقت میں ایک محفوظ ملک ، خوشحال ملک اور امن پسند قوم کی طرف بڑھتے قدم کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو مستقبل کے چیلنجوں کے لئے تیار کریں۔ ہمیں مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا کرنےنیز اپنے لوگوں کے معیار زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے جدید تکنیک کو اپنانا ہی ہوگا۔ ملک کے سبھی شہری مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا خود اعتماد ی سے کریں اور محفوظ محسوس کریں، یہی ہمارا مقصد ہے۔ مجھے اپنے لوگوں کی طاقت، عزم، لگن اور صلاحیت پر مکمل یقین ہے۔ ہم یقیناً متحد ہو کر ایک طاقتور ، خوشحال اور محفوظ ہندوستان کی تعمیر کریں۔ میں ایسے ہندوستان کا تصور کرتا ہوں، جو اپنے وقت سے دو قدم آگے کی سوچ سکے اور چلنے کی ہمت بھی جُٹا سکے۔ سبھی ہم وطنو کو آج کی اس عظیم کامیابی کے لئے بہت بہت مبارکباد۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ (27.03.2019) م ن ۔ م ع ۔ک ا,দেশবাসীক উদ্দেশ্যি আগবঢ়োৱা প্ৰধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%8C%D9%BE%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE/,نئی دہلی۔07 اپریل نیپال کے وزیر اعظم جناب کے پی شرما اولی ہندوستان کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی دعوت پر 6 تا 8 اپریل ہندوستان کے سرکاری دورے پر ہیں۔ 07 اپریل 2018 کو دونوں وزراء اعظم نے دونوں ملکوں کے مابین کثیر جہتی تعلقات جامع انداز میں جائزہ لیا۔ انہوں نے دونوں حکومتوں ، نجی شعبوں کے مابین اور عوامی سطح پر بڑھتی شراکت داری کا استقبال کیا ۔ دونوں وزراء اعظم نے دونوں ملکوں کے ��اہمی تعلقات کو برابری، باہمی اعتماد ، احترام اور مفاد کی بنیاد پر نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ۔ دونوں ملکوں کی مشترکہ تاریخی، ثقافتی رشتے اور قریبی عوامی رابطے کی ٹھوس بنیاد پر قائم ہندوستان اور نیپال کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے دونوں وزراء اعظم نے باہمی رشتے کو مستحکم کرنے کے لیے مستقل اعلی سطحی سیاسی تبادلے کی اہمیت پر زور دیا ۔ وزیر اعظم اولی نے کہا کہ ان کی حکومت ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کو بہت اہمیت دیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیپال کی حکومت اقتصادی کایا پلٹ اور ترقی کی غرض سے ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی سے مستفید ہونے کے لیے باہمی رشتوں کو فروغ دینا چاہتی ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم اولی کو یقین دلایا کہ ہندوستان حکومت نیپال کی ترجیحات کے مطابق نیپال کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے پابند عہد ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ حکومت ہند کا تصور ‘سب کا ساتھ ، سب کا وکاس’ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ شمولیت والی ترقی و خوشحالی کے مشترکہ تصور کے لیے ہندوستان کا ایک رہنما فریم ورک ہے ۔ وزیر اعظم اولی نے کہا کہ سیاسی تاریخی تبدیلی کے بعد ان کی حکومت نے ‘‘خوشحال نیپال، خوشحال نیپالی’’ کے مقصد سے اقتصادی تبدیلی کو ترجیح دی ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے نیپال میں بلدیاتی، وفاقی اور پہلی ریاستی سطح کے کامیاب انتخابات کے لیے نیپال کی حکومت اور عوام کو مبارکباد دی اور استحکام اور ترقی کے لیے ان کے ویژن کی تعریف کی۔ دونوں وزراء اعظم نے نیپال کے بیر گنج میں مربوط چیک پوسٹ کا افتتاح کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کے جلد از جلد آپریشنل ہونے کے بعد سرحد پار تجارت ،سامانوں کی نقل و حمل اور لوگوں کی آمدورفت سے مشترکہ ترقی کے زبردست مواقع حاصل ہوں گے۔ دونوں وزراء اعظم نے موتیہاری میں موتیہاری-املیکھ گنج سرحد پار پٹرولیم مصنوعات پائپ لائن کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی۔ دونوں وزراء اعظم نے نیپال میں باہمی منصوبوں کے تیز رفتار نفاذ اور مختلف شعبوں میں تعاون کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے موجودہ باہمی طریقہ کار کے احیاء کی ضرورت پر زور دیا ۔ دونوں وزراء اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے مابین کثیر جہتی شراکت داری کو رفتار حاصل ہوا ہے ۔ وزیر اعظم اولی نے ان کا اور ان کے وفد کو مدعو کرنے اور ان کے والہانہ استقبال کے لیے وزیر اعظم مودی کا شکریہ ادا کیا ۔ وزیر اعظم اولی نے وزیر اعظم مودی کو بہت جلد نیپال کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔ وزیر اعظم نے ان کی دعوت کو قبول کیا ۔ سفارتی چینلوں کے ذریعہ اس دورے کی تاریخ کو حتمی شکل دی جائے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,"নেপালৰ প্রধানমন্ত্রীৰ ভাৰত ভ্ৰমণকালত ভাৰত-নেপালৰ যুটীয়া বিবৃতি (৭ এপ্রিল, ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%93%D8%A8-%D9%85%DB%8C%D8%AE%D8%A7%D8%A6%D9%84-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D8%A8%D8%A7%DA%86%D9%88%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے عزت مآب میخائل گورباچوف کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘میں 20ویں صدی کے سرکردہ سیاستدانوں میں سے ایک جناب میخائل گورباچوف کے خاندان اور دوستوں کے تئیں اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جنہوں نے تاریخ کے دھارے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ہم ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں ان کے تعاون کو یاد کرتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ ’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মিখাইল গৰ্বাচেভৰ মৃত্যুত সমবেদনা জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-28-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%85%E0%A6%B9%E0%A6%BE-%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A6%A1-2/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی 28 دسمبر 2021 کو کانپور کا دورہ کریں گے اور تقریباً 1:30 بجے دوپہر کانپور میٹرو ریل پروجیکٹ کے مکمل شدہ حصے کا افتتاح کریں گے۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم بینا پنکی ملٹی پروڈکٹ پائپ لائن پروجیکٹ کا بھی افتتاح کریں گے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم صبح تقریباً 11 بجے آئی آئی ٹی کانپور کے 54ویں کنووکیشن تقریب میں شرکت کریں گے۔ شہری نقل و حرکت کو بہتر بنانا وزیر اعظم کی توجہ کا ایک اہم ترین شعبہ رہا ہے۔ کانپور میٹرو ریل پروجیکٹ کے مکمل شدہ حصے کا افتتاح اس سمت میں ایک اور قدم ہے۔ یہ مکمل کیا گیا 9 کلومیٹر طویل حصہ آئی آئی ٹی کانپور سے موتی جھیل تک ہے۔ وزیر اعظم کانپور میٹرو ریل پروجیکٹ کا معائنہ کریں گے اور آئی آئی ٹی میٹرو اسٹیشن سے گیتا نگر تک میٹرو کی سواری کریں گے۔ کانپور میں مکمل میٹرو ریل پروجیکٹ کی کل لمبائی 32 کلومیٹر ہے، اور اسے 11,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم بینا پنکی ملٹی پروڈکٹ پائپ لائن پروجیکٹ کا افتتاح کریں گے۔ 356 کلومیٹر طویل اس پروجیکٹ میں تقریباً 3.45 ملین میٹرک ٹن سالانہ کی گنجائش ہے۔ مدھیہ پردیش میں بینا ریفائنری سے کانپور کے پنکی تک پھیلا ہوا یہ پروجیکٹ 1500 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بنایا گیا ہے۔ اس سے خطے کو بینا ریفائنری سے پیٹرولیم مصنوعات تک رسائی میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم آئی آئی ٹی کانپور کے 54ویں کنووکیشن کے مہمان خصوصی ہوں گے۔ کنووکیشن کے دوران، تمام طلبا کو نیشنل بلاک چین پروجیکٹ کے تحت انسٹی ٹیوٹ میں تیار کردہ اندرون خانہ بلاک چین پر مبنی ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈجیٹل ڈگریاں جاری کی جائیں گی۔ وزیر اعظم بلاک چین پر مبنی ڈجیٹل ڈگریوں کا اجرا کریں گے۔ ان ڈجیٹل ڈگریوں کی عالمی سطح پر تصدیق کی جا سکتی ہے اور ان کی جعل سازی نہیں کی جا سکتی ہے۔",প্রধানমন্ত্রীয়ে অহা ২৮ ডিচেম্বৰত কানপুৰ ভ্ৰমণ কৰিব আৰু কানপুৰ মেট্রো ৰে’ল প্রকল্পৰ উদ্বোধন কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-92-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D8%B3%D8%B7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AE-%E0%A7%A6%E0%A7%AE-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ! اگست کے اس مہینے میں آپ سبھی کے خطوط، پیغامات اور کارڈز نے میرے دفتر کو تین رنگوں سے بھر دیا ہے۔ مجھے شاید ہی کوئی ایسا خط ملا ہو ، جس پر ترنگا نہ ہو، یا ترنگے اور آزادی سے متعلق بات نہ ہو۔ بچوں نے ، نو جوان ساتھیوں نے تو امرت مہوتسو پر بہت خوبصورت خوبصورت تصاویر اور فن پارے بھی بنا کر بھیجے ہیں ۔ آزادی کے اس مہینے میں، ہمارے پورے ملک میں، ہر شہر، ہر گاؤں میں، امرت مہوتسو کی امرت دھارا بہہ رہی ہے۔ امرت مہوتسو اور یومِ آزادی کے اس خاص موقع پر ہم نے ملک کی اجتماعی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ بیداری کا ایک احساس ہوا ہے۔ اتنا بڑا ملک، اتنے تنوع، لیکن جب ترنگا لہرانے کی بات آئی تو سب ایک ہی جذبے میں بہتے دکھائی دیئے ۔ ترنگے کی شان کے پہلے محافظ بن کر لوگ خود آگے آئے۔ ہم نے صفائی مہم اور ٹیکہ کاری مہم میں بھی ملک کا جذبہ دیکھا تھا۔ حب الوطنی کا وہی جذبہ ہمیں امرت مہوتسو میں دوبارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہمارے سپاہیوں نے اونچے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر، ملک کی سرحدوں پر اور سمندر کے بیچ ترنگا لہرایا۔ لوگ ترنگا مہم کے لئے مختلف اختراعی آئیڈیاز بھی لے کر آئے۔ جیسے نوجوان ساتھی، کرشنیل انل جی نے ، جو ایک پزل آرٹسٹ ہیں ، انہوں نے ریکارڈ وقت میں خوبصورت ترنگا موزیک آرٹ تیار کیا ہے۔ کرناٹک کے کولار میں لوگوں نے 630 فٹ لمبا اور 205 فٹ چوڑا ترنگا پکڑ کر ایک انوکھا نظارہ پیش کیا۔ آسام میں سرکاری ملازمین نے دیگھالی پوکھوری وار میموریل پر ترنگا لہرانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے 20 فٹ کا ترنگا بنا یا ۔ اسی طرح اندور میں لوگوں نے انسانی چین کے ذریعے بھارت کا نقشہ بنایا۔ چنڈی گڑھ میں نوجوانوں نے ایک عظیم انسانی ترنگا بنایا۔ ان دونوں ہی کوسشوں کو گینز ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا ہے۔ اس سب کے درمیان ہماچل پردیش کی گنگوٹ پنچایت سے ایک بڑی تحریک دینے والی مثال بھی دیکھنے کو ملی ہے ۔ یہاں پنچایت میں یوم ِ آزادی کے پروگرام میں مہاجر مزدوروں کے بچوں کو مہمان خصوصی کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ ساتھیو ، امرت مہوتسو کے یہ رنگ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے کو ملے۔ بوتسوانا میں مقامی گلوکاروں نے بھارت کی آزادی کے 75 سال منانے کے لئے حب الوطنی کے 75 گیت گائے۔ اس میں خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ 75 گیت ہندی، پنجابی، گجراتی، بنگالی، آسامی، تامل، تیلگو، کنڑ اور سنسکرت جیسی زبانوں میں گائے گئے۔ اسی طرح نمیبیا میں بھارت – نمیبیا کے ثقافتی–روایتی تعلقات پر خصوصی ٹکٹ جاری کیا گیا ۔ ساتھیو ، میں ایک اور خوشی کی بات بتانا چاہتا ہوں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے دوردرشن سیریل ’سوراج‘ کی اسکریننگ رکھی تھی ۔ مجھے اس کے پریمیئر میں جانے کا موقع ملا۔ ملک کی نوجوان نسل کو تحریک آزادی میں حصہ لینے والے ان ہیروز اور ہیروئنوں کی کاوشوں سے روشناس کرانے کا یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ یہ ہر اتوار کو رات 9 بجے دوردرشن پر نشر ہوتا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ 75 ہفتوں تک جاری رہے گا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ وقت نکال کر خود بھی دیکھیں اور اپنے گھر کے بچوں کو بھی دکھائیں اور اسکول کالج والے بھی پیر کو اسکول کالج کھلنے پر اس کی ریکارڈنگ کرکے ایک خصوصی پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں تاکہ آزادی کے اِن ہیرو کے تئیں ہمارے ملک میں ایک نئی بیداری پیدا ہو ۔ آزادی کا امرت مہوتسو اگلے سال یعنی اگست ، 2023 ء تک جاری رہے گا ۔ ملک کے لئے، مجاہدینِ آزادی کے لئے، جو مضمون نویسی وغیرہ ہم کر رہے تھے ، ہمیں انہیں اور آگے بڑھانا ہے ۔ میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اجداد کا علم، ہمارے اجداد کی دور اندیشی اور ہمارے اجداد کی اتحاد کی فکر آج بھی کتنی اہم ہے ، جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے ۔ ہزاروں سال پرانا ہمارا رِگ وید – رِگ وید میں کہا گیا ہے : ओमान-मापो मानुषी: अमृक्तम् धात तोकाय तनयाय शं यो:। यूयं हिष्ठा भिषजो मातृतमा विश्वस्य स्थातु: जगतो जनित्री:।| یعنی – اے پانی تو انسانیت کا بہترین دوست ہے۔ تو ہی زندگی دینے والا ہے، تجھ سے رزق پیدا ہوتا ہے اور تجھ سے ہمارے بچوں کی فلاح ہوتی ہے۔ تو ہی ہمارا محافظ ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے دور رکھے۔ آپ بہترین دوا ہیں اور آپ ہی اس کائنات کو پالنے والے ہیں۔ سوچیے ، ہماری تہذیب میں ہزاروں سال پہلے پانی اور پانی کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھایا گیا ہے ۔ جب ہم اس علم کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہم جوش میں آجاتے ہیں لیکن جب اسی علم کو ملک اپنی صلاحیت کے طور پر اعتراف کرتا ہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، چار مہینے پہلے ’من کی بات‘ میں ہی میں نے امرت سروور کی بات کی تھی۔ اس کے بعد مختلف اضلاع میں مقامی انتظامیہ جمع ہوئی، رضاکار تنظیمیں جمع ہوئیں اور مقامی لوگ جمع ہوئے– دیکھتے ہی دیکھتے امرت سروور کی تعمیر ایک عوامی تحریک بن گئی ہے۔ جب ملک کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہو، اپنے فرض کا احساس ہو، آنے والی نسلوں کی فکر ہو تو طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے اور عزم بھی بلند ہو جاتا ہے۔ مجھے تلنگانہ کے وارنگل سے ایک عظیم کوشش کا علم ہوا ہے۔ یہاں ایک نئی گرام پنچایت بنائی گئی ہے، جس کا نام ہے ’منگتیا والیا ٹھانڈا ‘ ۔ یہ گاؤں جنگل علاقے کے قریب ہے۔ گاؤں کے قریب ہی ایک ایسی جگہ تھی ، جہاں مانسون میں بہت سا پانی جمع ہو جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی پہل پر اب اس جگہ کو امرت سروور ابھیان کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس بار مانسون کے دوران ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ جھیل پانی سے بھر گئی ہے۔ میں آپ کو مدھیہ پردیش کے منڈلا میں موچا گرام پنچایت میں بنائے گئے امرت سروور کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہ امرت سروور کانہا نیشنل پارک کے قریب بنایا گیا ہے اور اس نے اس علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اتر پردیش کے للت پور میں نو تعمیر شدہ شہید بھگت سنگھ امرت سروور بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ یہاں کی نیواری گرام پنچایت میں بنی یہ جھیل 4 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ جھیل کے کناروں پر شجرکاری اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہے۔ جھیل کے قریب 35 فٹ اونچے ترنگے کو دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آرہے ہیں۔ امرت سروور کی یہ مہم کرناٹک میں بھی زور و شور سے جاری ہے۔ یہاں باگل کوٹ ضلع کے گاؤں ’بلکیرور ‘ میں لوگوں نے ایک بہت ہی خوبصورت امرت سروور بنایا ہے۔ در اصل ، اس علاقے میں پہاڑ سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے لوگوں کو بہت مشکل ہوتی تھی ، کسانوں اور ان کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا تھا ۔ امرت سروور بنانے کے لئے گاؤں کے لوگ سارے پانی کو چینلائز کرکے ایک طرف لے آئے۔ اس سے علاقے میں سیلاب کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ امرت سروور ابھیان نہ صرف آج ہمارے بہت سے مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس مہم کے تحت کئی مقامات پر پرانے آبی ذخائر کو بھی از سر نو بنایا جا رہا ہے۔ امرت سروور کو جانوروں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تالابوں کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کے اردگرد ہریالی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں، کئی جگہو�� پر لوگ امرت سروور میں ماہی پروری کی تیاریوں میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ میری آپ سب سے، خاص کر میرے نوجوان دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ امرت سروور مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پانی کو جمع کرنے اور اس کے تحفظ کی ان کوششوں کو پوری طاقت سے آگے بڑھائیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، آسام کے بونگئی گاؤں میں ایک دلچسپ پروجیکٹ چلایا جا رہا ہے – پروجیکٹ سمپورن۔ اس پروجیکٹ کا مقصد تغذیہ قلت کے خلاف لڑنا ہے اور اس لڑائی کا طریقہ بھی بہت منفرد ہے۔ اس کے تحت کسی آنگن واڑی سنٹر سے کسی صحت مند بچے کی ماں ایک تغذیہ کی کمی والے بچے کی ماں سے ہر ہفتے ملتی ہے اور تغذیہ سے متعلق تمام معلومات پر تبادلۂ خیال کرتی ہے۔ یعنی ایک ماں دوسری ماں کی سہیلی بنتی ہے، اس کی مدد کرتی ہے، اسے سکھاتی ہے۔ اس منصوبے کی مدد سے اس خطے میں ایک سال میں 90 فیصد سے زیادہ بچوں میں تغذیہ کی کمی دور ہوئی ہے ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں، کیا گانا اور موسیقی اور ترانے بھی تغذیہ کی کمی کو دور کرنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ مدھیہ پردیش کے دتیا ضلع میں ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ ! اس ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ میں کامیابی کے ساتھ اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس کے تحت ضلع میں بھجن کیرتنوں کا انعقاد کیا گیا ، جس میں تغذیہ گرو کہلانے والے اساتذہ کو بلایا گیا۔ ایک مٹکا پروگرام بھی منعقد کیا گیا، جس میں خواتین آنگن واڑی مرکز میں مٹھی بھر اناج لاتی ہیں اور اس اناج سے ہفتہ کے روز ’ بال بھوج ‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سے آنگن واڑی مراکز میں بچوں کی حاضری بڑھنے سے تغذیہ کی کمی بھی کم ہوئی ہے۔ جھارکھنڈ میں تغذیہ کی قلت کے بارے میں بیداری بڑھانے کے لئے ایک انوکھی مہم بھی چل رہی ہے۔ جھارکھنڈ کے گریڈیہہ میں سانپ سیڑھی کا ایک کھیل تیار کیا گیا ہے۔ کھیل کے ذریعے بچے اچھی اور بری عادات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ ساتھیو ، میں آپ کو تغذیہ سے متعلق بہت سے نت نئے تجربات کے بارے میں بتا رہا ہوں کیونکہ آنے والے مہینے میں ہم سب کو اس مہم میں شامل ہونا ہے۔ ستمبر کا مہینہ تہواروں کے ساتھ ساتھ تغذیہ سے متعلق ایک بڑی مہم کے لئے وقف ہے۔ ہم ہر سال 1 سے 30 ستمبر تک پوشن ماہ مناتے ہیں۔ پورے ملک میں تغذیہ کی کمی کے خلاف بہت سی تخلیقی اور متنوع کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال اور عوام کی شرکت بھی نیوٹریشن مہم کا ایک اہم حصہ بن گئی ہے۔ ملک میں لاکھوں آنگن واڑی کارکنوں کو موبائل آلات دینے سے لے کر آنگن واڑی خدمات کی رسائی کی نگرانی تک، پوشن ٹریکر بھی شروع کیا گیا ہے۔ تمام امنگوں والے اضلاع اور شمال مشرق کے ریاستوں میں 14 سے 18 سال کی بیٹیوں کو بھی پوشن ابھیان کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ تغذیہ کی کمی کے مسئلے کا حل صرف ان اقدامات تک محدود نہیں ہے – اس لڑائی میں بہت سے دوسرے اقدامات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جل جیون مشن کو لے لیجئے، تو یہ مشن بھارت کو تغذیہ کی کمی سے پاک بنانے میں بھی بہت بڑا اثر ڈالنے والا ہے۔ سماجی بیداری کی کوششیں تغذیہ کی قلت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ آنے والے پوشن ماہ میں آپ کو تغذیہ کی قلت یا مال نیوٹریشن کو دور کرنے کی کوششوں میں ضرور حصہ لیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، چنئی سے سری دیوی وردراجن جی نے مجھے ایک ریمائنڈر بھیجا ہے۔ انہوں نے مائی گوو پر اپنی بات کچھ اس طرح لکھی ہے – نئے سال کے آنے میں 5 ماہ سے بھی کم وقت بچا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ آنے والا نیا سال جوار باجرے کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جائے گا۔ انہوں نے مجھے ملک کا جوار باجرے کا نقشہ بھی بھیجا ہے۔ یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا آپ ’من کی بات ‘ کے آنے والے ایپی سوڈ میں اس پر بات کر سکتے ہیں؟ مجھے اپنے ہم وطنوں میں ایسا جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کرکے سال 2023 ء کو جوار باجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوگی کہ بھارت کی اس تجویز کو 70 سے زیادہ ممالک کی حمایت ملی تھی ۔ آج پوری دنیا میں اسی موٹے اناج کا ، جوار باجرے کا کریز بڑھتا جا رہا ہے۔ ساتھیو ، جب میں موٹے اناج کی بات کرتا ہوں تو میں آج اپنی ایک کوشش کو بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصے سے ، جب کوئی بھی غیر ملکی مہمان بھارت آتا ہے، جب سربراہ مملکت بھارت آتے ہیں تو میری کوشش رہتی ہے کہ کھانے میں بھارت کے موٹے اناج یعنی ملٹس سے بنے ہوئے پکوان بنواؤں اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان اہم شخصیات کو یہ کھانے بہت پسند آتے ہیں اور ہمارے موٹے اناج کے تعلق سے ، ملٹ کے تعلق سے ، وہ بہت سی معلومات حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ ملٹس ، موٹے اناج عہدِ قدیم سے ہی ہماری زراعت، ثقافت اور تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ ہمارے ویدوں میں موٹے اناج کے بارے میں تحریر ملتی ہے اور اسی طرح پرانانورو اور تولکپیم میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، وہاں کے لوگوں کے کھانے میں آپ کو الگ الگ طرح کے موٹے اناج دیکھنے کو ضرور ملیں گے ۔ ہماری تہذیب کی طرح ملٹ میں بھی بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ جوار، باجرہ، راگی، ساواں ، کنگنی، سینا، کوڈو، کٹکی، کٹو، یہ سب موٹے اناج ہی تو ہیں ۔ بھارت دنیا میں موٹے اناج کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے، اس لئے اس پہل کو کامیاب بنانے کی بڑی ذمہ داری بھی ہم بھارتیوں کے کندھوں پر ہے۔ ہم سب کو مل کر اسے ایک عوامی تحریک بنانا ہے اور ملک کے لوگوں میں موٹے اناج کے تئیں بیداری بڑھانی ہے اور ساتھیو ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں، ملٹ کسانوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور وہ بھی خاص طور پر چھوٹے کسانوں کے لئے۔ دراصل، فصل بہت کم وقت میں تیار ہو جاتی ہے اور اسے زیادہ پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ملٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کے لئے ، خاص طور پر بہت فائدہ مند ہے۔ ملٹ کے بھوسے کو بھی بہترین چارہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل نوجوان نسل صحت مند رہنے اور کھانے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ اس حساب سے بھی دیکھیں تو ملٹ میں پروٹین، فائبر اور منرل بھرپور ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے سپر فوڈ بھی کہتے ہیں۔ ملٹ کے ایک نہیں بلکہ بہت سے فوائد ہیں۔ موٹاپا کم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل سے متعلق امراض کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ معدے اور جگر کی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہیں۔ ہم نے تھوڑی دیر پہلے تغذیہ کی قلت کے بارے میں بات کی تھی۔ ملٹ تغذیہ کی کمی سے لڑنے میں بھی بہت فائدہ مند ہے کیونکہ یہ پروٹین کے ساتھ ساتھ توانائی سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ آج ملک میں ملٹ کو فروغ دینے کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ اس سے متعلق تحقیق اور اختراع پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ، ایف پی او کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ میرے کسان بھائیوں اور بہنوں سے میری درخواست ہے کہ ملٹ یعنی موٹے اناج کو زیادہ سے زیادہ اپنائیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ آج بہت سے ایسے اسٹارٹ اپس ابھر رہے ہیں، جو ملٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ملٹ کوکیز بنا رہے ہیں، جب کہ کچھ ملٹ پین کیک اور ڈوسا بھی بنا رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں ، جو ملٹ کی انرجی بارز اور ملٹ کا ناشتہ تیار کر رہے ہیں۔ میں اس شعبے میں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ اس تہوار کے موسم میں، ہم زیادہ تر پکوانوں میں ملٹ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ آپ اپنے گھروں میں بننے والی ایسی ڈشز کی تصویریں سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ لوگوں میں ملٹ کے بارے میں آگاہی بڑھانے میں مدد ملے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے، میں نے اروناچل پردیش کے سیانگ ضلع کے جورسنگ گاؤں سے ایک خبر دیکھی۔ یہ خبر اس تبدیلی کی تھی ، جس کا اس گاؤں کے لوگ کئی سالوں سے انتظار کر رہے تھے۔ دراصل، جورسنگ گاؤں میں اس ماہ یوم ِآزادی کے دن سے 4 جی انٹرنیٹ خدمات شروع ہو گئی ہیں۔ پہلے کبھی گاؤں میں بجلی پہنچنے پر لوگ خوش ہوتے تھے، اب نئے بھارت میں ویسی ہی خوشی 4 جی پہنچنے پر ہوتی ہے ۔ اروناچل اور شمال مشرق کے دور دراز علاقوں میں 4 جی کے طور پر ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ایک نئی صبح لے کر آئی ہے ، جو سہولتیں کبھی صرف بڑے شہروں میں دستیاب تھیں، ڈیجیٹل انڈیا نے انہیں ہر گاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں نئے ڈیجیٹل انٹرپرینیور پیدا ہو رہے ہیں۔ راجستھان کے اجمیر ضلع کے سیٹھا سنگھ راوت جی ’ درزی آن لائن ‘ ، ای اسٹور چلاتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ کیا ہوا، آن لائن درزی!! دراصل سیٹھا سنگھ راوت کووڈ سے پہلے ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے۔ جب کووڈ آیا تو راوت جی نے اس چیلنج کو مشکل نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر لیا۔ انہوں نے ’ کامن سروس سنٹر ‘ یعنی سی ایس سی ای اسٹور جوائن کیا اور آن لائن کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ گاہک، بڑی تعداد میں، ماسک کا آرڈر دے رہے تھے۔ انہوں نے کچھ خواتین کو کام پر رکھا اور ماسک بنوانے لگے ۔ اس کے بعد انہوں نے ’ درزی آن لائن ‘ کے نام سے اپنا آن لائن اسٹور شروع کیا ، جس میں وہ اور بھی کئی طرح کے کپڑے بناکر بیچنے لگے ۔ آج ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت سے سیٹھا سنگھ جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب انہیں پورے ملک سے آرڈر ملتے ہیں۔ انہوں نے یہاں سینکڑوں خواتین کو روزگار دیا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا نے یوپی کے اناؤ میں رہنے والے اوم پرکاش سنگھ جی کو بھی ڈیجیٹل انٹرپرینیور بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک ہزار سے زیادہ براڈ بینڈ کنکشن قائم کئے ہیں۔ اوم پرکاش جی نے اپنے کامن سروس سینٹر کے ارد گرد ایک مفت وائی فائی زون بھی بنایا ہے، جو ضرورت مند لوگوں کی بہت مدد کر رہا ہے۔ اوم پرکاش جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے 20 سے زیادہ لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے۔ یہ لوگ گاؤں کے اسکولوں، اسپتالوں، تحصیل دفاتر اور آنگن واڑی مراکز کو براڈ بینڈ کنکشن فراہم کر رہے ہیں اور اس سے روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کامن سروس سینٹر کی طرح، ایسی کتنی کامیابی کی کہانیاں گورنمنٹ ای–مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم پورٹل پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ساتھیو ، مجھے گاؤوں سے اس طرح کے بہت سے پیغامات ملتے ہیں، جو انٹرنیٹ سے ہونے والی تبدیلیوں کو میرے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہمارے نوجوان دوستوں کے مطالعہ اور سیکھنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جب یوپی کی گڑیا سنگھ اناؤ کے امویا گاؤں میں اپنے سسرال آئیں ، تو انہیں اپنی پڑھائی کے فکر ہوئی لیکن بھارت نیٹ نے ان کی اس فکر کو حل کر دیا ۔ گڑیا نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اپنی گریجویشن بھی مکمل کی۔ گاؤں گاؤں میں ایسی کتنی زندگیوں کو ڈیجیٹل انڈیا مہم سے نئی طاقت مل رہی ہے۔ آپ مجھے گاؤوں کے ڈیجیٹل انٹرپرینیورس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھ کر بھیجیں اور ان کی کامیابی کی کہانیوں کو سوشل میڈیا پر بھی ضرور ساجھا کریں ۔ میرے پیارے ہم وطنو، کچھ وقت پہلے، مجھے ہماچل پردیش سے ’من کی بات‘ کے سننے والے رمیش جی کا خط ملا۔ رمیش جی نے اپنے خط میں پہاڑوں کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پہاڑوں پر بستیاں بھلے ہی دور دور بستی ہیں لیکن لوگوں کے دل ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ در اصل ، ہم پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کی زندگیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پہاڑوں کے رہن سہن اور ثقافت سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر ہم حالات کے دباؤ میں نہ آئیں تو آسانی سے ان پر قابو پا سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم مقامی وسائل سے خود کفیل کیسے ہو سکتے ہیں۔ پہلا سبق ، جس کا میں نے ذکر کیا، اس کی ایک خوبصورت تصویر ان دنوں اسپیتی کے علاقے میں دیکھی جا رہی ہے۔ اسپیتی ایک قبائلی علاقہ ہے۔ یہاں ان دنوں مٹر توڑنے کا کام جاری ہے۔ پہاڑی کھیتوں میں یہ ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے لیکن یہاں گاؤں کی عورتیں اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کے کھیتوں سے مٹر چنتی ہیں۔ اس کام کے ساتھ خواتین مقامی گیت ’ چھپرا ماجھی چھپرا ‘ بھی گاتی ہیں یعنی یہاں باہمی تعاون بھی لوک روایت کا حصہ ہے۔ مقامی وسائل کے استعمال کی بہترین مثال اسپیتی میں ملتی ہے۔ اسپیتی میں، کسان جو گائے پالتے ہیں ، ان کے گوبر کو خشک کرکے بوریوں میں بھرتے ہیں۔ جب سردیاں آتی ہیں تو یہ بوریاں اس جگہ رکھ دی جاتی ہیں ، جہاں گائے رہتی ہے ، جسے یہاں کوڑھ کہتے ہیں۔ برف باری کے دوران یہ بوریاں گا یوں کو سردی سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سردیوں کے بعد گائے کے اس گوبر کو کھیتوں میں کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی جانوروں کے فضلے سے ان کی حفاظت بھی اور کھیتوں کے لئے کھاد بھی۔کھیتی کی لاگت بھی کم اور کھیت میں پیداوار بھی زیادہ ۔ اسی لئے تو یہ علاقہ ان دنوں قدرتی کھیتی کے لئے بھی تحریک بن رہا ہے۔ ساتھیو ، اسی طرح ہماری کی کئی قابل ستائش کوششیں ہماری ایک پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اتراکھنڈ میں کئی قسم کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں ، جو ہماری صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہیں۔ ان میں سے ایک پھل ہے – بیڑو۔ اسے ہمالیائی انجیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پھل میں معدنیات اور وٹامنز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ اسے نہ صرف پھل کی شکل میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اسے کئی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کی ان خوبیوں کے پیش نظر اب بیڑو کے جوس، جیم، چٹنیاں، اچار اور خشک میوہ جات کو خشک کرکے تیار کیا گیا ہے۔ پتھورا گڑھ انتظامیہ کی پہل اور مقامی لوگوں کے تعاون سے بیڑو کو مختلف شکلوں میں بازار تک پہنچانے میں کامیابی ملی ہے۔ بیڑو کو پہاڑی انجیر کے نام سے برانڈنگ کرکے آن لائن مارکیٹ میں بھی لانچ کیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے کسانوں کو نہ صرف آمدنی کا نیا ذریعہ ملا ہے بلکہ بیڑو کی ادویاتی خصوصیات کے فوائد دور دور تک پہنچنے لگے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات ‘ میں شروعات میں ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو کے بارے میں بات کی ہے۔ یوم آزادی کے عظیم تہوار کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں کئی اور تہوار بھی آنے والے ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد بھگوان گنیش کی پوجا کا تہوار گنیش چترتھی ہے۔ گنیش چترتھی، یعنی گنپتی بپا کے آشیرواد کا تہوار۔ گنیش چترتھی سے پہلے اونم کا تہوار بھی شروع ہو رہا ہے۔ اونم خاص طور پر کیرالہ میں امن اور خوشحالی کے جذبے کے ساتھ منایا جائے گا۔ ہرتالیکا تیج بھی 30 اگست کو ہے۔ اوڈیشہ میں یکم ستمبر کو نوا کھائی کا تہوار بھی منایا جائے گا۔ نوا کھائی کا مطلب ہوتا ہے ، نیا کھانا یعنی یہ بھی بہت سے دوسرے تہواروں کی طرح ہماری زرعی روایت سے جڑا ایک تہوار ہے۔ اس دوران جین سماج کا سموت سری تہوار بھی ہوگا۔ ہمارے یہ تمام تہوار ہماری مالا مال ثقافت اور بھر پور زندگی کے مترادف ہیں۔ میں آپ سب سے ان تہواروں اور خاص مواقع کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ان تہواروں کے ساتھ ساتھ کل 29 اگست کو میجر دھیان چند جی کے یوم پیدائش پر قومی کھیلوں کا دن بھی منایا جائے گا۔ ہمارے نوجوان کھلاڑی عالمی پلیٹ فارمز پر ہمارے ترنگے کی شان کو بڑھاتے رہیں، یہی دھیان چند جی کو ہمارا خراج عقیدت ہوگا۔ آئیے ، ہم سب مل کر ملک کے لئے کام کرتے رہیں، ملک کی عزت میں اضافہ کرتے رہیں، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ اگلے مہینے ایک بار آپ سے ’ من کی بات ‘ ہوگی ۔ بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),২৮.০৮.২০২২ তাৰিখে ‘মন কী বাত’ৰ ৯২তম খণ্ডত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D8%B1-%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%D8%AA%D8%B1%D9%86%DA%AF%D8%A7-%D9%85%DB%81%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%A6%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ہر گھر ترنگا مہم میں لوگوں کی پرجوش شراکت داری کا ذکر کیا ۔ اور کہا کہ یہ جذبہ ملک کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو بھی ساجھا کیا، جس میں انہوں نے رکشا بندھن کے موقع پر بچوں کے ساتھ بات چیت کی اور انہیں ترنگا دیا ۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’ہر گھر ترنگا مہم کو لے کر اہل وطن کے درمیان جس طرح کا جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے ، وہ ملک کے اتحاد و یکجہتی کے اٹوٹ جذبے کی علامت ہے۔ یہ جذبہ امرت کال میں بھارت کو ایک نئی بلندی پر لے جانے والا ہے۔ # ہر گھر ترنگا‘‘ ہر ہندوستانی کا ترنگے سے خصوصی رشتہ ہے۔ آج میں نے نوجوان دوستوں کو ترنگا دیا۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ سب کچھ بیاں کر دیتی ہے!,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ঘৰে ঘৰে ত্ৰিৰঙ্গা অভিযানৰ প্ৰতি জনসাধাৰণৰ উৎসাহক প্ৰশংসা কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D9%85%D9%86%DA%AF%DA%BE%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%DB%81%DB%92-%D8%AF%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں کھیلے جا رہے دولت مشترکہ گیمز 2022 کے دوران طلائی تمغہ جیتنے پر ویٹ لفٹر جیریمی لال رِنُنگا کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ہماری یووا شکتی تاریخ رقم کر رہی ہے! @raltejeremy جیریمی لال رِنُنگا کو مبا��کباد، جنہوں نے اپنے اولین کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغہ جیتا ہے اور ساتھ ہی سی ڈبلیو جی میں ایک غیر معمولی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نوعمری میں ہی وہ زبردست فخر اور عظمت کا باعث ثابت ہوئے ہیں۔ مستقبل کی ان کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔‘‘,"কমনৱেল্থ গেমছ, ২০২২ত স্বৰ্ণ পদক জয়ী ভাৰত্তোলক মীৰাবাই চানুক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D9%88-%D8%AC%DA%AF%D8%AC%DB%8C%D9%88%D9%86-%D8%B1%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%81-%E0%A6%9C%E0%A6%97%E0%A6%9C/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے بابو جگجیون رام جی کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ ایک ٹویٹ میں ، وزیراعظم نے کہا: ’’بابوجگجیون رام جی کو ان کے یوم ولادت پرخراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ہمارا ملک ان کی قابل تعریف خدمات کو یاد رکھے گا، چاہے وہ تحریک آزادی سے پہلے کی ہوں یا حصول آزادی کے بعد کی ۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں اورغریب غرباء سے ہمدردی کے لئے ان کی بڑے پیمانے پر ستائش کی جاتی تھی ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ س ب ۔ ف ر,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বাবু জগজীৱন ৰামৰ প্ৰতি তেওঁৰ জন্ম জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D8%B1%D9%85%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%A3-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D/,نئی دہلی،27 جون 2018؍مرکزی کابینہ نے جس کی صدارت وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کی ۔ شہری ہوابازی کے شعبے میں تعاون کے لئے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان ایک اعلامیہ کے تعلق سے مفاہمت نامے پر دستخط کئے جانے کی منظوری دی ہے۔ اس مشترکہ اعلامیہ سے ہندوستان اور جرمنی کے درمیان فضائی ٹرانسپورٹ کے محفوظ ، مؤثر اور تسلی بخش فروغ میں مدد ملے گی۔ مشترکہ اعلامیہ کی شکل میں یہ مفاہمت نامہ دونوں ملکوں کے درمیان شہری ہوابازی کے تعلقات میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، سیاحت اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ وہ شہری ہوابازی کے شعبے میں معلومات اور تجربے کے تبادلے کے ذریعے تعاون میں اضافہ کیا جائے۔ اس مشترکہ اعلامیہ کا اصل مقصد مندرجہ ذیل شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ہوابازی کا تحفظ اور فضائی ٹریفک کا بندوبست ہوابازی کی حفاظت سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں معلومات اور بہترین کارکردگی سے ایک دوسرے کا آگاہ کرنا، جن میں سیمیناروں ، مذاکروں ، دوروں اور دیگر موزوں سرگرمیوں کے ذریعے ایئرٹریفک کا بندوبست بھی شامل ہے۔ ہیلی کاپٹر اڈوں اور ہیلی کاپٹر ایمرجنسی میڈیکل خدمات(ایچ ای ایم ایس) ہیلی کاپٹر اڈوں اور ہیلی کاپٹر ایمرجنسی میڈیکل خدمات سے متعلق اطلاعات اور بہترین کارکردگی سے ایک دوسرے کو واقف کرانا۔ ضابطے اور پالیسی اہم بین الاقوامی مسائل پر آئی سی اے او میں مسلسل تال میل۔ کارپوریٹ اور بزنس ایویشن کاروباری اور غیر تجارتی ہوابازی کے تعلق سے سہولتوں کے سلسلے میں معلومات کا تبادلہ۔ ماحولیات ہوائی اڈوں کے تئیں حکومت کی فروگزاشت کے سلسلے میں تجربات کا تبادلہ، خاص طورپر ہوائی اڈوں کی ترقی اور منصوبہ بندی میں دیر پا اور ماحول دوست ترقی پر توجہ۔ آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی اہمیت کے تعلق سے بین الاقوامی سطح پر تال میل اور اندرون ملک اور بین الاقوامی دونوں سطح پر ہوا بازی سے وابستہ زہریلی گیسوں کے اخراج(جی ایچ جی) کے مسائل پر توجہ دینا۔ تربیت اور صلاحیت سازی تکنیکی اور غیر تکنیکی تعاون اور تربیت میں شراکت داری کے امکانات تلاش کرنا ، خاص طورپر ہوا بازی کے تحفظ کے فروگزاشت کے معاملے میں۔,অসামৰিক বিমান পৰিবহণ খণ্ডত সহযোগিতাৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু জাৰ্মানীৰ মাজত প্ৰস্তাৱিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-20-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6/,نئی دہلی :19 ؍اکتوبر2021: وزیراعظم جناب نریندر مودی 20 اکتوبر 2021 کو اتر پردیش کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم صبح 10 بجے کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کریں گے۔ اس کے بعد ، تقریباً 11:30 بجے ،وہ مہاپری نروان مندر میں ابھی دھمّ کے دن کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم تقریبا دوپہر 1:15 بجے کشی نگر میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کے لیے ایک عوامی تقریب میں شرکت کریں گے۔ کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے افتتاح کے موقع پر کولمبو، سری لنکا کا ایک طیارہ ہوائی اڈے پر اترے گا۔ اس طیارہ میں سری لنکا کا ایک وفد بھارت کے دورے پر آئے گا جس میں 100 سے زیادہ بودھ بھکشو اور اہم شخصیات شامل ہوں گی۔ اس وفد میں 12رکنی مقدس یادگاری نشان دستہ بھی شامل ہوگا، جو نمائش کے لئے بدھ کے مقدس یادگاری نشان ساتھ لائیں گے۔ وفد میں سری لنکا میں بودھ دھرم کے سبھی چار نکاتوں ( آرڈرز) یعنی اسگیریا ، امر پورہ، رامنیا، مالوٹّا کے انونایاک (ڈپٹی ہیڈ) کے ساتھ ساتھ کابینہ وزیر جناب نمل راج پکشے کی قیادت میں سری لنکاحکومت کے پانچ وزرا بھی شامل ہوں گے ۔ کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈہ کی تعمیر 260 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے کی گئی ہے ۔ یہ گھریلو اور بین الاقوامی تیرتھ یاتریوں کو بھگوان بدھ کے مہاپری نروان مقام پر جانے میں سہولت فراہم کرے گا۔یہ ہوائی اڈہ دنیا بھر کے بدھ تیرتھ مقامات کو جوڑنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ اترپردیش اور بہار کے آس پاس کے اضلاع کو فضائی سفر کی سہولت فراہم کرے گا۔ایئرپورٹ کی تعمیر اس خطے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔ مہاپری نروان مندر میں ابھیدھمّ دیوس وزیر اعظم مہاپرینروان مندر جائیں گے، بھگوان بدھ کی مورتی کی ارچناکریں گے اور چیور پیش کریں گے اور بودھی درخت کا پودا لگائیں گے۔ وزیر اعظم ابھیدھمّ کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں شرکت کریں گے۔ اس دن بودھ بھکشوؤں کے لیے تین مہینے کے رینی ریٹریٹ -ورشواس اور واسا کے اختتام کی علامت ہے۔ اس دوران وہ وہار اور مٹھ میں ایک جگہ پر رہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں سری لنکا ، تھائی لینڈ ، میانمار ، جنوبی کوریا ، نیپال ، بھوٹان اور کمبوڈیا کے سرکردہ بھکشووں کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے سفرا بھی شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم گجرات کے وڈنگر اور دیگر مقامات کی کھدائی سے حاصل اجنتا فریسکوس، بودھ سوترا کیلی گرافی اور بودھ نوادرات کی نمائش کو بھی دیکھیں گے۔ ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد وزیر اعظم کشی نگر واقع بروا جنگل کی ایک عوامی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ اس تقریب میں وہ 280 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے تعمیر ہونے والے راجکیہ میڈیکل کالج ، کشی نگر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ میڈیکل کالج میں 500 بستروں پر مشتمل اسپتال ہوگا اور تعلیمی سال 2023-2022 میں 100 طلباء کا ایم بی بی ایس کورس میں داخلہ ہوگا ۔ وزیر اعظم 180 کروڑ روپئے سے زیادہ کی لاگت والے 12 ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔,২০অক্টোবৰত উত্তৰ প্ৰদেশ ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আৰু কুশীনগৰ বিমান বন্দৰৰ শুভ উদ্বোধন ঘোষণা কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%88%D9%BE%D8%A7%D9%84%D8%8C-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%DB%94-%D8%A7%D8%B3%D9%BE%DB%8C%D8%B3-%D8%B5%D8%AF%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%B9%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%A8-%E0%A6%B8/,نمسکار! مرکزی کابینہ کے میرے رفقاء اور اسی علاقے کے رکن پارلیمنٹ ، مرکزی وزیر داخلہ جناب امیت شاہ، گجرات کے ہر دل عزیز وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل جی، قومی سلامتی مشیر جناب اجیت ڈووال جی، پارلیمنٹ میں میرے رفیق جناب سی آر پاٹل، آئی این ۔ اسپیس کے چیئرمین پون گوئنکا جی، خلائی محکمہ کے سکریٹری جناب ایس سومناتھ جی، بھارت کی خلائی صنعت کے تمام نمائندگان، دیگر معززین اور خواتین و حضرات۔ آج 21ویں صدی کے جدید بھارت کے ترقی کے سفر میں ایک شاندار باب کا اضافہ ہوا ہے۔ انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر یعنی آئی این اسپیس کے صدر دفاتر کے لیے تمام اہل وطن کو اور خصوصاً سائنسی برادری کو میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو کچھ مزیدار یا دلچسپ پوسٹ کرنا ہوتا ہے، تو اس سے پہلے وہ ایلرٹ کرتے ہیں اور ایلرٹ میں میسجنگ کرتے ہیں– ’’واچ دِس اسپیس‘‘، بھارت کی خلائی صنعت کے لیے ، آئی این اسپیس کا لانچ ہونا، ’واچ دِس اسپیس‘ لمحہ جیسا ہی ہے۔ آئی این اسپیس، بھارت کے نوجوانوں کو، بھارت کے بہترین سائنسی اذہان کو اپنی صلاحیت دکھانے کا ایک غیر معمولی موقع ہے۔ خواہ وہ سرکاری شعبہ میں کام کر رہے ہوں یا نجی شعبے میں، آئی این اسپیس سبھی کے لیے بہترین موقع لے کر آیا ہے۔ آئی این اسپیس میں بھارت کی خلائی صنعت میں انقلاب برپا کرنے کی اہلیت ہے اور اس لیے میں اس بات کو ضرور کہوں گا کہ ’واچ دِس اسپیس‘ ، آئی این اسپیس اِز فار اسپیس، آئی این اسپیس اِز فار پیس، آئی این اسپیس اِز فار ایس۔ ساتھیو، دہائیوں تک بھارت میں خلائی شعبہ سے وابستہ نجی صنعت کو صرف وینڈر یعنی فروخت کار کے طور پر ہی دیکھا گیا۔ حکومت ہی تمام خلائی مشنوں اور پروجیکٹوں پر کام کرتی تھی۔ ہمارے نجی شعبہ کے افراد سے حسب ضرورت کچھ پرزے یا آلات لے لیے جاتے تھے۔ نجی شعبہ کو صرف وینڈر بنا دینے کی وجہ سے اس کے سامنے آگے بڑھنے کے راستے ہمیشہ مسدود رہے، ایک دیوار حائل رہی۔ جو سرکاری نظام میں نہیں ہے، بھلے ہی وہ کوئی سائنس داں ہو یا پھر کوئی نوجوان، وہ خلائی شعبہ سے وابستہ اپنے آئیڈیاز پر کام ہی نہیں کر پاتے تھے۔ اور ان سب میں نقصان کس کا ہو رہا تھا؟ نقصان ملک کا ہو رہا تھا۔ اور یہ بات گواہ ہے کہ آخر بڑے آئیڈیاز ہی تو کامیابی دلاتے ہیں۔ خلائی شعبہ میں اصلاح کرکے، اسے ساری بندشوں سے آزاد کرکے، آئی این اسپیس کے توسط سے نجی صنعت کو بھی تعاون فراہم کرکے ملک آج فاتحین پیدا کرنے کی مہم شروع کر رہا ہے۔آج نجی شعبہ صرف وینڈر بن کر نہیں رہے گا بلکہ خلائی شعبہ میں بڑے فاتح کا کردار ادا کرے گا۔ بھارت کے سرکاری خلائی اداروں کی طاقت اور بھارت کے نجی شعبہ کا جوش و جذبہ جب باہم مربوط ہوگا تو اس کے لیے آسمان بھی کم پڑے گا۔ ’آسمان بھی ہماری حد نہیں ہے‘! جیسے بھارت کے آئی ٹی شعبہ کی طاقت آج دنیا ملاحظہ کر رہی ہے، ویسے ہی آنے والے دنوں میں بھارت کے خلائی شعبہ کی طاقت نئی بلندی پر ہوگی۔ آئی این اسپیس، خلائی صنعت، اسٹارٹ اپ ادارے اور اِسرو کے درمیان تکنالوجی کے تبادلے کے لیے بھی سہولت فراہم کرانے کا کام کرے گا۔ نجی شعبہ، اِسرو کے وسائل کا استعمال بھی کر سکے، اِسرو کے ساتھ مل کر کام کر سکے، اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ساتھیو، خلائی شعبہ میں یہ اصلاح کرتے وقت، نوجوانوں کی زبردست قوت ہمیشہ میرے ساتھ رہی اور ابھی جن اسٹارٹ اپس اداروں کو میں دیکھ کر آیا ہوں، بہت چھوٹی عمر کے نوجوان اور بہت بلند حوصلوں کے ساتھ وہ آگے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں، ان کو دیکھ کر، ان کو سن کر میرا دل مسرور ہوگیا۔ میں ان تمام نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خلائی شعبہ میں پہلے جو نظام تھا، اس میں بھارت کے نوجوانوں کو اتنے مواقع نہیں حاصل ہو رہے تھے۔ ملک کے نوجوان، اپنے ساتھ، اختراع، توانائی اور تلاش کے جذبے کو لے کر آتے ہیں۔ ان کی خطرہ مول لینے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نوجوان کوئی عمارت بنانا چاہے تو کیا ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف پی ڈبلیو ڈی سے بنواؤ۔ اگر کوئی نوجوان اختراع کرنا چاہتا ہے تو کیا اسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام صرف سرکاری سہولتوں سے ہی ہوگا۔ یہ سننے میں ہی عجیب لگتا ہے لیکن ہمارے ملک میں الگ الگ شعبوں میں یہی حالت تھی۔ یہ ملک کی بدنصیبی رہی کہ وقت کے ساتھ قواعد اور بندشوں کے درمیان جو فرق ہوتا ہے، اسے فراموش کر دیا گیا۔ آج جب بھارت کا نوجوان، تعمیر قوم میں زیادہ سے زیادہ حصہ دار بننا چاہتا ہے تو ہم اس کے سامنے یہ شرط نہیں رکھ سکتے کہ جو کرنا ہے، سرکاری راستے سے ہی کرو۔ ایسی شرط کا زمانہ گزر گیا ہے۔ ہماری حکومت بھارت کے نوجوانوں کے سامنے موجود رکاؤٹوں کو دور کر رہی ہے، مسلسل اصلاحات متعارف کرا رہی ہے۔ دفاعی شعبہ کو نجی شعبہ کے لیے کھول دینا، جدید ڈرون پالیسی وضع کرنا ہو، جیو اسپیشل ڈاٹا رہنما خطوط بنانے ہوں، ٹیلی مواصلات۔آئی ٹی شعبہ میں ’کہیں بھی رہ کر کام کرنے‘ کی سہولت فراہم کرنا ہو، حکومت ہر سمت میں کام کر رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم بھارت کے نجی شعبے کے لیے زیادہ سے زیادہ کاروبار کرنے میں آسانی کا ماحول تیار کریں، تاکہ ملک کا نجی شعبہ، اہل وطن کے لیے زندگی کو آسان بنانے میں اتنی ہی مدد کرے۔ ساتھیو، یہاں آنے سے قبل ابھی میں آئی این اسپیس کی تکنیکی تجربہ گاہ اور کلین روم بھی دیکھ رہا تھا۔ یہاں سیٹلائٹ کے ڈیزائن، فیبری کیشن، اسمبلی، انٹیگریشن اور ٹیسٹنگ کے لیے جدید سازو سامان بھارتی کمپنیوں کے لیے دستیاب ہوں گے۔ یہاں اور بھی کئی جدید سہولتیں اور بنی��دی ڈھانچے تیار کیے جائیں گے جو خلائی صنعت کی طاقت میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ آج مجھے نمائش کے علاقے کو دیکھنے، خلائی صنعت اور خلائی اسٹارٹ اپ اداروں کے افراد سے بات چیت کرنے کا بھی موقع حاصل ہوا۔ مجھے یاد ہے جب ہم خلائی شعبہ میں اصلاحات کر رہے تھے، تو کچھ لوگ اس شک میں مبتلا تھے کہ خلائی صنعت میں کون نجی کمپنی آئے گی؟ لیکن آج خلائی شعبہ میں آئیں 60 سے زائد بھارتی نجی کمپنیاں، پہلے سے ہی اس شعبہ میں آگے ہیں، اور ان کو دیکھ کر آج مجھے خوشی ہوئی ہے ۔ مجھے فخر ہے کہ ہمارے نجی شعبے کے ساتھیوں نے لانچ وہیکل، سیٹلائٹ، گراؤنڈ سیگمنٹ اور اسپیس ایپلی کیشن کے شعبوں میں تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ پی ایس ایل وی راکیٹ تیار کرنے کے لیے بھی بھارت کی نجی کمپنیاں آگے آئی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، کئی نجی کمپنیوں نے تو اپنے خود کے راکیٹ ڈیزائن بھی تیار کر لیے ہیں۔ یہ بھارت کے خلائی شعبہ کے لامحدود امکانات کی ایک جھلک ہے۔ اس کے لیے میں اپنے سائنس دانوں، صنعت کاروں، نوجوان صنعت کاروں اور تمام اہل وطن کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس پورے سفر میں یہ جو نیا موڑ آیا ہے، ایک نئی بلندی کا راستہ منتخب کیا ہے، اس کے لیے اگر مجھے کسی کو سب سے زیادہ مبارکباد دینی ہے، کسی کو سب سے زیادہ شکریہ ادا کرنا ہے تو میرے اِسرو کے لوگوں کا۔ ہمارے اِسرو کے سابق سکریٹری یہاں بیٹھے ہیں جنہوں نے اس بات پر عملاً رہنمائی کی اور اب ہمارے سومناتھ جی اس کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اس لیے میں اس کا سہرا میرے اِسرو کے ان ساتھیوں کے سر باندھ رہا ہوں۔ ان سائنس داں حضرات کے سر باندھ رہا ہوں۔ یہ چھوٹا فیصلہ نہیں ہے دوستوں، اور یہ اسٹارٹ اپ سے وابستہ لوگوں کو پتہ ہے کہ اتنے اہم فیصلے کی وجہ سے وہ بھارت کو اور دنیا کو کیا کچھ دینے کے لیے بلند حوصلے رکھتے ہیں اور اس لیے یہ سہرا اِسرو کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر اقدامات کیے ہیں، چیزوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے کوشش کی ہے اور جہاں اپنا ہی اختیارتھا، وہ کہہ رہے ہیں، آیئے ملک کے نوجوانوں، یہ آپ کا ہے، آپ آگے بڑھیئے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا انقلابی فیصلہ ہے۔ ساتھیو، اس وقت ہم اپنی آزادی کے 75 برسوں کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ آزاد بھارت میں ہماری جن کامیابیوں نے کروڑوں اہل وطن کو ترغیب فراہم کی، انہیں خوداعتمادی عطا کی، ان میں ہماری خلائی حصولیابیوں کا خصوصی تعاون ہے۔ اِسرو جب کوئی راکیٹ لانچ کرتا ہے، کوئی خلائی مہم انجام دیتا ہے، تو پورا ملک اس سے جڑ جاتا ہے، فخر محسوس کرتا ہے۔ ملک اس کے لیے دعائیں کرتا ہے، اور جب وہ کامیاب ہوتا ہے تو ہر اہل وطن، خوشی، امنگ اور فخر سے اس کا اظہار کرتا ہے اور اس کامیابی کو بھارت کا ہر شہری خود کی کامیابی مانتا ہے۔ اور اگر کہیں کوئی ناخوشگوار یا ناقابل تصور واقعہ پیش آتا ہے، تو بھی ملک اپنے سائنس دانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ کوئی سائنس داں ہے یا کسان۔ مزدور ہے، سائنس کی تکنیکات کو سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا ہے، ان سب سے اوپر ہمارا خلائی مشن ملک کے جن گن کے من کا مشن بن جاتا ہے۔ مشن چندریان کے دوران ہم نے بھارت کی اس جذباتی یکجہتی کو دیکھا تھا۔ بھارت کا خلائی مشن ایک طرح سے ’’آتم نربھر بھارت‘‘ کی سب سے بڑی شناخت رہا ہے۔ اب جب اس مشن کو بھارت کے نجی شعبہ کی قوت حاصل ہوگی، تو اس کی طاقت میں کتنا اضافہ ہو جائے گا، آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ساتھیو، 21ویں صدی کے اس دور میں آپ کی ہماری زندگی میں، ہر روز خلائی تکنالوجی کا کردار بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ جتنا بڑا کردار، اتنی زیادہ ایپلی کیشن، اتنے ہی زیادہ امکانات۔ 21ویں صدی میں خلائی تکنالوجی ایک بڑے انقلاب کی بنیاد بننے والی ہے۔ خلائی تکنالوجی اب محض دور اسپیس کی نہیں، بلکہ ہمارے پرسنل اسپیس کی تکنالوجی بننے جا رہی ہے۔ عام انسانی زندگی میں خلائی تکنالوجی کا جو کردار ہے، روزمرہ کی زندگی میں جس طرح خلائی تکنالوجی شامل ہے، اس کی جانب اکثر دھیان جاتا۔ ہم ٹی وی کھولتے ہیں، اتنے سارے چینلز ہمارے لیے دستیاب ہیں۔ لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ سیٹلائٹ کی مدد سے ممکن ہو رہا ہے۔ کہیں جانا ہو، یہ دیکھنا ہو کہ ٹریفک ہے یا نہیں ہے، سب سے چھوٹا راستہ کون سا ہے، یہ سب کس کی مدد سے ہو رہا ہے؟ سیٹلائٹ کی مدد سے ہو رہا ہے۔ شہری منصوبہ بندی کے اتنے کام ہیں، کہیں سڑک بن رہی ہے، کہیں پل تعمیر ہو رہا ہے، کہیں اسکول، کہیں ہسپتال بن رہے ہیں، کہیں گراؤنڈ واٹر ٹیبل چیک کرنا ہے، بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کی نگرانی کرنی ہے، یہ سارے کام سیٹلائٹ کی مدد سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ ہمارے جو ساحلی علاقے ہیں، ان کی منصوبہ بندی کے لیے، ان کی ترقی میں بھی خلائی تکنالوجی کا بڑا کردار ہے۔ سمندر میں جانے والے ماہی گیروں کو بھی سیٹلائٹ کے ذریعہ ماہی گیری اور سمندری طوفانوں کی پیشگی معلومات حاصل ہو جاتی ہے۔ آج بارش کی پیشن گوئی کی جارہی ہے ، جو تقریباً صحیح ثابت ہورہی ہیں۔ اسی طرح جب سمندری طوفان آتا ہے، اس کا ٹھیک ٹھیک فال پوائنٹ کیا ہوگا، کس سمت میں جائے گا، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ پر وہ فال کرے گا، یہ ساری باریکیاں سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل ہو رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، زرعی شعبہ میں خواہ فصل بیمہ یوجنا ہو، سوئل ہیلتھ کارڈس کی مہم ہو، سبھی میں خلائی تکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ خلائی تکنالوجی کے بغیر ہم آج جدید ہوابازی شعبہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ سب عام انسانی زندگی سے وابستہ معاملات ہیں۔ مستقبل میں اور آپ کو معلوم ہوگا، اس مرتبہ ہم نے ٹی وی کے توسط سے بچوں کو ٹیوشن دینے ، پڑھانے کی ایک بڑی مہم شروع کرنے کا منصوبہ بجٹ میں پیش کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، جو مسابقتی امتحانات میں حصہ لینے جا رہے ہیں اور جن بچوں کو گاؤں چھوڑکر بڑے شہروں میں بہت مہنگی فیس دے کر ٹیوشن لینا پڑتا ہے، اس کو بھی ہم سیٹلائٹ کے توسط سے اس کے گھر تک، اس کی ضرورت کے مطابق نصاب تیار کروا رہے ہیں تاکہ بچوں کو اضافی خرچ نہ کرنا پڑے اور غریب سے غریب کا بچہ بھی اچھے سے اچھا ٹیوشن سیٹلائٹ کے توسط سے اپنی ٹی وی اسکرین پر، اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر، اپنے موبائل پر بآسانی حاصل کر سکے، ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ ساتھیو، مستقبل میں ایسے ہی متعدد شعبوں میں خلائی تکنالوجی کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونے والا ہے۔ ہم کیسے خلائی تکنالوجی کو عام زندگی کے لیے زیادہ سے زیادہ آسان بنا سکیں، کیسے خلائی تکنالوجی زندگی جینے کو مزید آسان بنانے کا وسیلہ بنے، اور، کیسے ہم اس تکنالوجی کا استعمال ملک کی ترقی اور قوت کے لیے کر سکتے ہیں، اس سمت میں آئی این اسپیس اور نجی کمپنیوں کو مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیو اسپیشل میپنگ سے وابستہ متعدد امکانات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ نجی شعبہ کا ان میں بہت بڑا کردار ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس آج سرکاری سیٹلائٹ کا بڑا ڈاٹا دستیاب ہے۔ اب آنے والے وقت میں نجی شعبہ کے پاس بھی اپنا کافی ڈاٹا ہوگا۔ ڈاٹا کا یہ سرمایہ دنیا میں آپ کو بہت بڑی طاقت دینے والا ہے۔ اس وقت دنیا میں خلائی صنعت کا سائز قریب 400 بلین ڈالر کے بقدر ہے۔ 2040 تک اس کے ایک کھرب ڈالر کے بقدر کی صنعت بننے کے امکانات ہیں۔ آج ہمارے پاس صلاحیت بھی ہے، تجربہ بھی ہے، لیکن آج اس صنعت میں ہماری شراکت داری محض عوامی شراکت داری تک ہے، یعنی نجی شراکت داری محض 2 فیصد ہے۔ ہمیں عالمی خلائی صنعت میں اپنا شیئر بڑھانا ہوگا، اور اس میں ہمارے نجی شعبہ کا بڑا کردار ہے۔ میں آنے والے وقت میں خلائی سیاحت اور خلائی سفارتکاری کے شعبہ میں بھی بھارت کا مضبوط کردار دیکھ رہا ہوں۔ بھارت کی خلائی کمپنیاں عالمی درجہ کی حامل ہوں، ہمارے پاس عالمی خلائی کمپنی ہو، یہ پورے ملک کے لیے فخر کی بات ہوگی۔ ساتھیو، ہمارے ملک میں لامحدود امکانات ہیں، تاہم لامحدود امکانات کبھی بھی محدود کوششوں سے پورے نہیں ہو سکتے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، ملک کے نوجوانوں کو یقین دلاتا ہوں، سائنسی مزاج کے حامل، خطرات مول لینے کی صلاحیت کے حامل نوجوانوں کو یقین دلانا چالتا ہوں کہ خلائی شعبہ میں اصلاحات کا یہ سلسلہ آگے بھی مسلسل جاری رہے گا۔ نجی شعبہ کی ضرورتوں کو سناجائے، سمجھا جائے، کاروباری امکانات کا جائزہ لیا جائے، اس کے لیے مضبوط میکنزم تیار کیا گیا ہے۔ آئی این اسپیس اس سمت میں نجی شعبہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک سنگل ونڈو آزاد نوڈل ایجنسی کے طور پر کام کرے گا۔ سرکاری کمپنیوں، خلائی صنعت، اسٹارٹ اپ اداروں سمیت دیگر اداروں کے درمیان تال میل کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے بھارت، نئی بھارتی خلائی پالیسی پر بھی کام کر رہا ہے۔ ہم خلائی شعبہ میں کاروبار کرنا آسان بنانے کو فروغ دینے کے لیے بھی جلد ہی ایک پالیسی لے کر آنے والے ہیں۔ ساتھیو، آنے والے دنوں میں ، انسانیت کا مستقبل اور اس کی ترقی، دو ایسے شعبے ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ہیں، ہم جتنا جلدی اس میں مواقع تلاش کریں گے، دنیا کی اس دوڑ میں ہم تاخیر کیے بغیر جتنا آگے بڑھیں گے، ہم حالات کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں ، اس پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ وہ دو شعبے ہیں – خلاء اور سمندر، یہ بہت بڑی طاقت بننے والے ہیں اور آج ہم پالیسیوں کے ذریعہ ان سب پر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ مربوط ہونے کے لیے ملک کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔ خلاء کے لیے ہمارے نوجوانوں میں، خصوصاً طلباء میں جو تجسس پایا جاتا ہے وہ بھارت کی خلائی صنعت کی ترقی کے لیے بڑی طاقت ہے۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ملک میں تیارشدہ ہزاروں اٹل اختراعی تجربہ گاہوں میں طلبا کو خلاء سے وابستہ موضوعات سے مسلسل متعارف کرایا جائے، انہیں اپ ڈیٹ رکھا جائے۔ میں ملک کے اسکولوں اور کالجوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے طلبا کو خلاء سے وابستہ بھارتی اداروں اور کمپنیوں کے بارے میں بتائیں، ان کی تجربہ گاہوں کا دورہ کرائیں۔ اس شعبہ میں جس طرح مسلسل بھارتی نجی کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اس بھی انہیں مدد حاصل ہونے والی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت میں پہلے، مجھے معلوم نہیں ہے کہ ایسا کیوں تھا، لیکن تھا۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سے پہلے کی صورتحال یہ تھی کہ جب سیٹلائٹ لانچ ہوتا تھا تو اس پورے علاقے میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ہم جیسے جو لیڈر ہوتے ہیں ان کو وی آئی پی کی طرح وہاں 12۔15 لوگوں کے ساتھ مدعو کرکے دکھایا جاتا تھا کہ سیٹلائٹ لانچ ہو رہا ہے اور ہم بھی بڑے خوش ہو کر دیکھ رہے تھے۔ لیکن میری سوچ مختلف ہے۔ میرا کام کرنے کا طریقہ مختلف ہے ، میں وہاں پہلی مرتبہ بطور وزیر اعظم گیا ، تو ہم نے ایک فیصلہ کیا ۔ ہم نے دیکھا کہ طلباء میں دلچسپی ہے، تجسس ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں سے ہمارے سیٹلائٹ لانچ ہوتے ہیں، وہ شری ہری کوٹا میں ہم نے ایک بہت بڑی لانچ دیکھنے کی، جب سیٹلائٹ جاتا ہے ، اس کو دیکھنے کے لیے وِیو گیلری کی تعمیر کی ہے اور کوئی بھی شہری کوئی بھی اسکول کا طالب علم اس پروگرام کو دیکھ سکتا ہے اور بیٹھنے کا بھی انتظام چھوٹا نہیں ہے۔ 10 ہزار لوگ بیٹھ کر اس سیٹلائٹ کو دیکھ سکیں، اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ چیزیں چھوٹی لگتی ہیں لیکن بھارت پر اس کے بڑے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ساتھیو، آئی این اسپیس صدر دفاتر کا افتتاح آج ہو رہا ہے، یہ ایک طرح سے سرگرمیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ گجرات الگ الگ شعبوں میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے بڑے اداروں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ میں بھوپیندر بھائی اور ان کی پوری ٹیم کو، حکومت گجرات کے ہمارے تمام ساتھیوں کو ان کی اس پہل قدمی کے لیے ہر فعال پالیسی کی حمایت کرنے کے لیے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور آپ کو معلوم ہے ابھی کچھ ہفتے قبل ہی جام نگر میں ڈبلیو ایچ او کے عالمی مرکز برائے روایتی ادویہ کاکام شروع ہوا ہے۔ قومی سلامتی یونیورسٹی ہو، نیشنل لاء یونیورسٹی ہو، پنڈت دین دیال اینرجی یونیورسٹی ہو، نیشنل فارینسک سائنس یونیورسٹی ہو، نیشنل اننوویشن فاؤنڈیشن ہو، چلڈرنس یونیورسٹی ہو، کتنے ہی قومی ادارے یہاں آس پاس موجو د ہیں۔ بھاسکراچاریہ انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ایپلی کیشنز اینڈ جیو انفارمیٹکس، یعنی بی آئی ایس اے جی، اس کے قیام نے ملک کی دیگر ریاستوں کو بھی ترغیب فراہم کی ہے۔ ان بڑے اداروں کے درمیان اب آئی این اسپیس بھی اس جگہ کی شناخت میں اضافہ کرے گا۔ ملک کے نوجوانوں ، خصوصاً گجرات کے نوجوانوں سے میری درخواست ہے کہ ان بہترین بھارتی اداروں کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے، آپ کے فعال کردار سے بھارت خلائی شعبہ میں نئی بلندیاں سر کرے گا۔ اور آج کے اس مبارک موقع پر ، خصوصاً نجی شعبہ نے جس جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لیا ہے، جو نوجوان نئے حوصلے، نئے عزائم کے ساتھ آگے آئے، ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں اِسرو کے تمام سائنس دانوں کو بھی اور اِسرو کی پوری ٹیم کو بھی بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ گوئنکا نجی شعبہ میں بہت کامیاب شخصیت رہی ہے، ان کی قیادت میں آئی این اسپیس حقیقی معنوں میں جو خواب ہمارا ہے، اس خواب کو پورا کرنے کی طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ انہیں توقعات اور ڈھیر ساری نیک خواہشات کے ساتھ، میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔,আহমেদাবাদৰ ভূপালত আইএন-স্পেচৰ মুখ্য কাৰ্যালয় উদ্বোধনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%B1%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%A7%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,اندرونی حصے میں رودرابھیشیک کیا ادی گرو شنکرآچاریہ سمادھی استھل پر حاضر�� دی منداکنی آستھاپتھ اور سرسوتی آستھاپتھ میں کام کی پیش رفت کا جائزہ لیا کیدارناتھ دھام پروجیکٹ کے شرمجیویوں سے بات چیت کی وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج کیدار ناتھ کا دورہ کیا اور شری کیدارناتھ مندر کا درشن اور پوجا کی۔ روایتی پہاڑی لباس میں وزیراعظم نے اندرونی حصے میں رودر ابھیشیک کیا اور نندی کی مورتی کے سامنے پوجا کی۔ وزیراعظم ادی گروشنکرآچاریہ استھل پر بھی گئے اور وہاں منداکنی آستھاپتھ اور سرسوتی آستھا پتھ کے حصے میں کام کی پیش رفت کاجائزہ لیا۔ وزیراعظم نے کیدارناتھ دھام پروجیکٹ کے شرمجیویوں سے بات چیت بھی کی ۔ وزیراعظم کے ہمراہ اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ جناب پُشکر سنگھ دھامی اور اتراکھنڈ کے گورنر ریٹائرڈ جنرل گرمیت سنگھ بھی تھے۔ کیدارناتھ اہم ترین ہندوزیارت گاہ میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ سکھ زائرین کے مقدس مقام ہیم کنڈ صاحب کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ رابطے کے شروع کردہ پروجیکٹ مذہبی اہمیت کے حامل مقامات تک آسان رسائی اور وہاں بنیادی ساختیاتی ترقی کے حوالے سے وزیراعظم کے عہد کامظہر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ع س۔ ع ن۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উত্তৰাখণ্ডৰ শ্ৰী কেদাৰনাথ ধাম দৰ্শন কৰি পূজা-অৰ্চনা কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D9%85-%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D9%85%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D9%85%D9%86%D8%A7%D9%88%D9%94%DA%BA-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%AE%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 30 اگست 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جنم اشٹمی کی نیک تمناؤں کے لئے لتامنگیشکر جی کے تئیں اظہار تشکر کیا۔ اساطیری گلوکارہ نے وزیر اعظم مودی کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنا ایک گجراتی بھجن بھی ٹوئیٹ کے ساتھ منسلک کیا تھا۔ وزیر اعظم نے جواب میں ٹوئیٹ کیا: ’’آشیرواد کے لئے بہت بہت شکریہ @ منگیشکر لتا دیدی۔ آپ کو بھی جنم اشٹمی کی ڈھیر ساری نیک خواہشات۔ آپ کی آواز سے سجا یہ بھجن مسحورکن ہے۔‘‘,জন্মাষ্টমীত জনোৱা শুভেচ্ছাৰ বাবে লতা মংগেশকাৰ জীক ধন্যবাদ জনালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-18-%D8%B3%DB%92-20-%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84-%D8%AA%DA%A9-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A6%8F%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE/,وزیراعظم جناب نریند ر مودی 18 سے 20 اپریل 2022 تک گجرات کا دورہ کریں گے۔ 18 اپریل کو شام6 بجے کے قریب وزیراعظم گاندھی نگر میں اسکولوں کیلئے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر ز کا دورہ کریں گے۔ 19 اپریل کو دن میں 9 بج کر 40 منٹ پر دیودَر، بناس کانٹھا میں بناس ڈیری سنکل میں متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کو قوم کے لئے وقف کریں گے یا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس کے بعد دن میں ساڑھے 10 بجے کے قریب وزیراعظم گاندھی نگر میں عالمی آیوش سرمایہ کاری اور اختراع چوٹی کانفرنس کا افتتاح کریں گے۔ اس کے بعد ساڑھے 3 بجے وہ داہود میں آدی جاتی مہا سمیلن میں شرکت کریں گے اور کئی ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے یا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم اسکولوں کے لئے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز میں: وزیراعظم 18 اپریل کو شام 6 بجے کے قریب گاندھی نگر میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر فار اسکولس جائیں گے۔ یہ مرکز سالانہ 500 کروڑ سے زیادہ ڈیٹا سیٹ اکٹھا کرتا ہے تاکہ طلبہ کی مجموعی تعلیمی استعداد میں اضافہ کیاجا سکے۔ اس مرکز میں روزانہ اسکولی اساتذہ اور طلبہ کی حاضری ریکارڈ ہوتی ہے اور طلبہ کے سیکھنے کے عمل کی وقتاً فوقتاً جانچ کی جاتی ہے۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر فار اسکولس کو عالمی بینک نے عالمی سطح کی بہترین کارکردگی مانا ہے اور دیگر ملکوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ یہاں آئیں اور اس کے طریقۂ کار کے بارے میں سیکھیں۔ وزیراعظم بناس ڈیری سنکل، دیودر، بناس کانٹھا میں: وزیراعظم دیودر، بناس کانٹھا ضلع میں ایک نئے ڈیری کمپلیکس اور آلوؤں کی پروسیسنگ کے ایک پلانٹ کو قوم کیلئے وقف کریں گے، جس کی لاگت پر 600 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ یہ پروگرام 19؍ اپریل کو صبح 9 بج کر 40 منٹ کے آس پاس ہوگا۔ نیا ڈیری کمپلیکس ایک گرین فیلڈ پروجیکٹ ہے۔ اس میں روزانہ 30 لاکھ لیٹر دودھ تیار ہوگا۔ 80 ٹن مکھن، ایک لاکھ لیٹر آئس کریم، 20 ٹن کھویا اور 6 ٹن چاکلیٹ تیار کی جائے گی۔ آلوؤں کی پروسیسنگ کے پلانٹ میں آلو کی مختلف اشیاء مثلاً فرنچ فرائی، آلو کے چپس، آلو ٹکی، پیٹیز وغیرہ تیار کی جائیں گی۔ ان پلانٹوں کے ذریعے مقامی کسان با اختیار بنیں گے اور خطے میں دیہی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا۔ وزیراعظم بناس کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن کو بھی قوم کے لئے وقف کریں گے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن کسانوں کو زراعت سے متعلق سائنسی معلومات پہنچانے کے مقصد سے قائم کیا گیاہے اور اس سے 1700 کے قریب گاؤوں کے تقریباً 5 لاکھ کسانوں کو جوڑا جائے گا۔ وزیراعظم پالن پور میں بناس ڈیری پلانٹ میں پنیر اور مصنوعات تیار کرنے کی توسیع شدہ سہولتوں کو بھی قوم کے لئے وقف کریں گے۔ وزیراعظم داما، گجرات میں نامیاتی کھا د اور بایو گیس پلانٹ کو بھی قوم کے لئے وقف کریں گے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی 100 ٹن کی صلاحیت والے 4 گوبر گیس پلانٹوں کے لئے بھی سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ پلانٹ کھِمانا، رتن پورا- بھلڑی اور رادھن پور اور تھاور میں قائم کئے جائیں گے۔ روایتی طریقہ علاج کا ڈبلیو ایچ او عالمی مرکز: وزیراعظم 19؍ اپریل کو دن میں ساڑھے تین بجے کے قریب جام نگر میں روایتی میڈیسن کے ڈبلیو ایچ او مرکز کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس موقع پر ماریشس کے وزیراعظم جناب پروند کمار جگن ناتھ اور ڈبلیو ایچ او کے ڈائرکٹر جنرل بھی موجود ہوں گے۔ عالمی آیوش سرمایہ کاری اور اختراع چوٹی کانفرنس: مہاتما مندر، گاندھی نگر، گجرات میں ہونے والی عالمی آیوش سرمایہ کاری اور اختراع چوٹی کانفرنس کا وزیراعظم کے ہاتھوں 20 اپریل کو صبح ساڑھے 10 بجے افتتاح ہوگا۔ماریشس کے وزیراعظم اور ڈی جی، ڈبلیو ایچ او بھی اس موقع پر موجود رہیں گے۔ تین روزہ چوٹی کانفرنس میں 5 مکمل اجلاس، 8 راؤنڈ ٹیبل، 6 ورکشاپ اور 2 سمپوزیم ہوں گے۔ اس میں 90 کے قریب ممتاز مقررین اور تقریباً 100 نمائش کار شامل ہوں گے۔ اس میں صنعتی اکابرین ، ماہرین تعلیم اور اسکالروں کو مستقبل کے اشتراک کیلئے یکجا ہونے کا موقع ملے گا۔ وزیراعظم آدی جاتی مہا سمیلن، داہود میں: وزیراعظم 20 اپریل کو تقریباً ساڑھے 3 بجے آدی جاتی مہا سمیلن میں شرکت کریں گے، جہاں وہ تقریباً 22 ہزار کروڑ روپے کی لاگت والے متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے یا سنگِ بنیاد رکھیں گے۔ سمیلن میں 2 لاکھ سے زیادہ افراد کے شامل ہونے کی توقع ہے۔ وزیراعظم 1400 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے۔ جناب مودی داہود ضلع جنوبی ایریا ریجنل واٹر سپلائی اسکیم کا ا��تتاح کریں گے، جو 840 کروڑ روپے کی لاگت سے دریائے نرمدا کے پاس تعمیر کی جائے گی۔ اس کے تحت داہود ضلع کے 280 گاؤوں اور دیوگڑھ بریا سٹی کی پانی کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا۔ وزیراعظم داہود اسمارٹ سٹی کے 335 کروڑ روپے کی لاگت والے 5 پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم دیگر کے علاوہ 66 کے وی گھوڑیا اسٹیشن، پنچایت ہاؤس، آنگن واڑی وغیرہ کا بھی افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم داہود کی پروڈکشن یونٹ میں 9000 ایچ پی الیکٹرک لوکو موٹوز کی تیاری کا بھی سنگ بنیاد رکھیں گے۔ اس پروجیکٹ پر تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ داہود ورکشاپ 1926میں قائم کی گئی تھی، اسے بہتر بنا کر الیکٹرک لوکو موٹو مینو فیکچرنگ یونٹ میں تبدیل کیاجائے گا۔ اس سے 10000 ہزار سے زیادہ افراد کو براہ راست یا بالواسطہ روزگار حاصل ہوگا۔ وزیراعظم ریاستی حکومت کے مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کا بھی سنگ بنیاد رکھیں گے، جن پر 550 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ اس میں واٹر سپلائی سے متعلق پروجیکٹ (300 کروڑ روپے)، داہود سمارٹ سٹی پروجیکٹ (175 کروڑ) ، گھوڑیا میں جی ای ٹی سی او سب اسٹیشن وغیرہ کے پروجیکٹ شامل ہیں۔,১৮-২০এপ্রিলত গুজৰাট ভ্ৰমণ কৰিব প্রধানমন্ত্রীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B4%D9%85%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F/,نئی دہلی، 11 اپریل 2018/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے آج ہندستان اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کے درمیان ہیڈکوارٹرس (ہوسٹ کنٹری) سمجھوتے کو منظوری دے دی ہے اور وزارت خارجہ کو ہیڈکوارٹرس سمجھوتے پر دستخط کرنے کا اختیار دے دیاہے۔ اس سمجھوتہ پر 26 مارچ 2018 کو دستخط کئے گئے تھے۔ ہیڈکواٹرس سمجھوتہ ہندستان اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کے درمیان فنکشنل انتظامات کو ادارہ جاتی بنائے گا۔ یہ بین الاقوامی بین حکومتی تنظیم کے طور پر بین الاقوامی شمسی اتحاد کے بلا رکاوٹ تبدیلی میں مدد کرے گا۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد کا قیام ہندستان سمیت بین الاقوامی شمسی اتحاد آئی ایس اے کے رکن ممالک میں شمسی تکنالوجی کے فروغ میں تیزی لانے کے لئے رہنمائی کرے گا اور ہندستان سمیت ممبر ملکوں میں آئی اے ایس کے قیام میں تیزی آئے گی۔,ভাৰত আৰু আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় সৌৰ মৈত্ৰীৰ মাজত মুখ্য কাৰ্যালয় (আয়োজক দেশ) চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AC%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%95/,نئی دہلی،30مئی 2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ہندوستانی برادری سے خطاب کیا۔ انہوں نے ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان خصوصی رشتے کا ذکر کرتے ہوئے رواں سال کے اوائل میں نئی دہلی میں منعقدہ یوم جمہوریہ تقریبات کو یاد کیا، جہاں انڈونیشیا سمیت دس آسیان ملکوں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتفاق نہیں تھا کہ 1950ء میں انڈونیشیا کے صدر، نئی دہلی میں منعقدہ یوم جمہوریہ کی پریڈ میں مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا میں موجود ہند نژاد برادری کے افراد انڈونیشیا کے باعزت شہری ہیں، لیکن وہ ہندوستان میں موجود اپنی جڑوں سے جڑا رہنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران میں ہندوستان میں بے مثال تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ انہوں نے اس تناظر میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)، ہندوستانی معیشت کا کھلاپن، کاروبار کرنے میں آسانی اور ہندوستانی معیشت میں آئی مسابقت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اپنی جمہوری قدروں اور تنوع پر فخر ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بالی-جاترا کی مثال پیش کی اور اسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالنے کے لئے اشیائے خوردونوش اور زبان میں یکسانیت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج صبح انہوں نے اور صدر ودوڑو نے مشترکہ طورپر پتنگ نمائش کا افتتاح کیا ، جس میں رامائن اور مہابھارت کے مرکزی خیالات شامل تھے۔ ہندوستان میں ہورہی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت ایک ایسا نظام بنا رہی ہے، جو ترقی دوست ہیں اور بد عنوانی سے پاک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ سے آگے بڑھ کر اب ’’ایز آف لیونگ‘‘ پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا پورا عمل شفاف اور حساسیت پر مبنی ہے۔ انہوں نے بنیادی ڈھانچہ جاتی ترقی کے مختلف شعبوں میں آ رہی ڈرامائی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے ہندوستان کے فعال اسٹارٹ اپ معاشی نظام اور دی انٹرنیشنل سولر الائنس(بین الاقوامی شمسی اتحاد) کے بارے میں بھی بتایا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان اور انڈونیشیا دونوں کو ضرورت کے وقت میں مدد کرنے کے لئے حساس رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کسی کے پاسپورٹ کا رنگ نہیں دیکھتا اور سب کی ضرورت کے وقت پر انسانی بنیاد پر مدد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور انڈونیشیا صرف اپنے ناموں سے ایک جیسے نہیں ہے، بلکہ ان کی تہذیب وثقافت ، روایات اور جمہوری قدریں بھی یکساں ہیں۔ وزیر اعظم نے ہند نژاد برادری کو ہندوستان میں آرہی تبدیلیوں کو بہ خود دیکھنے کے لئے ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ م ن۔ش س۔ن ع (30.05.2018),জাকাৰ্টাত ভাৰতীয় সমূদায়ক সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%B1%D8%8C-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DB%81%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%B3%DB%92-%D8%B3%D9%85%D8%B1%D8%AF%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%B9%E0%A6%95%E0%A6%BE/,بھارت ماتا کی جے، گجرات کے مقبول عام وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق امیت بھائی شاہ، من سکھ مانڈویا، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی سی آر پاٹل، حکومت گجرات میں وزیر جگدیش بھائی وشو کرما، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، حکومت گجرات کے تمام وزراء حضرات، سہکارِتا آندولن سے وابستہ تمام سینئر عہدیداران! اِفکو کے دفتر میں بھی ایک بڑا پروگرام اس کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ یہاں موجود اِفکو کے چیئرمین دلیپ بھائی، افکو کے تمام ساتھی، ملک بھر میں لاکھوں مقامات پر آج سارے کاشتکار گجرات کے گاندھی نگر کے مہاتما مندر سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں ان تمام کاشتکاروں کو بھی نمسکار کرتا ہوں۔ آج یہاں ہم سہکار سے سمردھی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ سہکار گاؤں کی خودانحصاری کا بھی بہت بڑا وسیلہ ہے اور اس میں آتم نربھر بھارت کی توانائی شامل ہے۔ آتم نربھر بھارت کی تعمیر کے لیے گاؤں کا آتم نربھر ہونا بہت ضروری ہے۔ اور اس لیے محترم باپو اور سردار صاحب نے جو راستہ ہمیں دکھایا اس کے مطابق آج ہم ماڈل کوآپریٹیو ولیج کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گجرات کے ایسے 6 مواضعات نشان زد کیے گئے ہیں، جہاں پوری طرح سے کوآپریٹیو نظام نافذ کیے جائیں گے۔ ساتھیو، آج آتم نربھر زراعت کے لیے ملک کے اولین نینو یوریا پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے بھی میں سچے دل سے بتاتا ہوں کہ میں ایک خاص مسرت کا احساس کرتا ہوں۔ ذرا تصور کیجئے آج جب کاشتکار یوریا لینے جاتا ہے۔ اس منظر کو ذرا دل میں لایئے اور ہونے والا کیا ہے اس کا میں بیان کر سکتا ہوں، اس کو ذرا دل میں لایئے۔ اب یوریا کی ایک بوری اُس کی جتنی طاقت ہے۔ یعنی یوریا کی بوری کی طاقت ایک بوتل میں آگئی ہے۔ یعنی نینو یوریا کی نصف لیٹر بوتل کاشتکار کی ایک بوری یوریا کی ضرورت کو پورا کرے گی ۔ نقل و حمل کا کتنا خرچ ہوجائے گا ، باقی سب چیزوں کا۔ اور تصور کیجئے، چھوٹے کاشتکاروں کے لیے یہ کتنا بڑا سہارا ہے۔ ساتھیو، یہ جو جدید پلانٹ کلول میں لگا ہے اس کی صلاحیت ابھی ڈیڑھ لاکھ بوتل پروڈکشن کی ہے۔ تاہم آنے والے وقت میں ایسے 8 اور پلانٹ ملک میں لگنے والے ہیں۔ اس سے یوریا پر غیر ملکی انحصار کم ہوگا، ملک کا پیسہ بھی بچے گا۔ مجھے امید ہے یہ اختراع صرف نینو یوریا تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں دیگر نینو فرٹیلائزر بھی ہمارے کاشتکاروں کو مل سکتی ہیں۔ ہمارے سائنس داں حضرات اس پر آج کام بھی کر رہے ہیں۔ ساتھیو، کھاد کے لیے اس نینو تکنالوجی میں آتم نربھرتا کی جانب جو قدم ہم نے رکھا ہے، وہ کتنا اہم ہے، یہ میں چاہوں گاکہ ہر اہل وطن کو سمجھنا چاہئے۔ بھارت کھاد کے معاملے میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا صارف ہے، لیکن پیداواریت کے معاملے میں ہم تیسرے نمبر پر ہیں۔ علاوی ازیں 7۔8 برس پہلے تک ہمارے یہاں زیادہ تر یوریا کھیت میں جانے کے بجائے کالا بازاری کی نذر ہو جاتا تھا اور کاشتکار اپنی ضرورت کے لیے لاٹھیاں کھانے کو مجبور ہو جاتا تھا۔ ہمارے یہاں جو بڑی یوریا کی فیکٹریاں تھیں، وہ بھی نئی تکنالوجی کی قلت میں بند ہوگئی تھیں اور اس لیے 2014 میں حکومت تشکیل دینے کے بعد ہم نے یوریا کی صدفیصد نیم کوٹنگ کا ذمہ لیا، اس کو کرکے دکھایا۔ اس سے ملک کے کاشتکاروں کو وافر مقدار میں یوریا حاصل ہونا یقینی ہوا۔ ساتھ ہی ہم نے اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور تلنگانہ میں، جو 5 بند پڑے ہوئے کارخانے تھے، انہیں پھر سے مصروف عمل بنانے کا کام شروع کیا۔ اور اس میں یوپی اور تلنگانہ کی جو فیکٹریاں مصروف عمل ہوچکی ہیں، ان میں پیداواریت ہو رہی ہے۔ اور باقی فیکٹریاں بھی اپنا کام بہت جلد شروع کر دیں گی۔ ساتھیو، فرٹیلائزر کی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھارت دہائیوں سے بہت بڑی حد تک غیرممالک پر منحصر ہے، ہم درآمد کرتے ہیں۔ ہم اپنی ضرورت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ درآمد کرتے ہیں، لیکن پوٹاش اور فاسفیٹ کے معاملے میں تو ہمیں تقریباً صد فیصد غیر ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ دو برسوں میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں فرٹیلائزر کی قیمتوں میں اضافہ رونما ہوا ہے۔ وہ شاید کم تھا تو جنگ نے دستک دے دی۔ جنگ سے صورتحال نے فرٹیلائزر کی عالمی منڈی میں دستیابی کو محدود کر دیا اور قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا۔ ساتھیو، کاشتکاروں کے تئیں حساس ہماری حکومت نے طے کیا کہ بین الاقوامی صورتحال قابل تشویش ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، فرٹیلائزر حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر میں دوڑنا پڑ رہا ہے۔ مصیبتیں ہیں۔ لیکن ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ یہ ساری مصیبتیں ہم برداشت کرتے رہیں گے۔ لیکن کاشتکاروں پر ان حالات کو اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔ اسی لیے مشکلات کے باوجود بھی ہم نے ملک میں فرٹیلائزر کا کوئی بڑا بحران نہیں پیدا ہونے دیا۔ ساتھیو، بھارت غیر ممالک سے یوریا درآمد کرتا ہے، اس میں یوریا کے 50 کلو کے ایک تھیلے کی قیمت 3500 روپئے ہے۔ تین ہزار پانچ سو روپئے کا ایک تھیلا، یاد رکھیئے۔ لیکن ملک کے گاؤں میں کاشتکار کو وہی یوریا کا ایک تھیلا 3500 روپئے سے خرید کر صرف 300 روپئے میں دیا جاتا ہے، تین سو روپئے میں۔ یعنی یوریا کے ایک تھیلے پر ہماری حکومت 3200 روپئے سے زیادہ کا بوجھ خود برداشت کررہی ہے۔ اسی طرح ڈی اے پی کے 50 کلو کے بیگ پر سابقہ حکومتیں 500 روپئے کا بوجھ برداشت کر تھی تھیں، ایک تھیلے پر۔ بین الاقوامی منڈی میں ڈی اے پی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے باوجود، ہماری حکومت نے مسلسل کوشش کی ہے کہ کاشتکاروں پر اس کا بوجھ کم سے کم ہو۔ یعنی 12 مہینے کے اندر ہر بیگ ڈی اے پی پر پانچ گنا بوجھ مرکزی حکومت نے اپنے اوپر لیا ہے۔ بھارتی کاشتکار کو پریشانی نہ ہو، مرکزی حکومت نے اس کے لیے گذشتہ برس فرٹیلائزر میں ایک لاکھ 60 ہزار کروڑ روپئے کی سبسڈی فراہم کی ہے۔ کاشتکاروں کو حاصل ہونے والی یہ راحت اس سال تقریباً دو لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ ہونے والی ہے۔ ساتھیو، ملک کے کاشتکاروں کے مفاد میں جو بھی ضروری ہو، وہ ہم کرتے ہیں، کریں گے اور ملک کے کاشتکاروں کی قوت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ لیکن ہمیں سوچنا بھی چاہئے کہ کیا ہم 21ویں صدی میں اپنے کاشتکاروں کو صرف غیر ملکی صورتحال پر منحصر رکھ سکتے ہیں؟ ہر سال یہ جو لاکھوں کروڑ روپئے مرکزی حکومت خرچ کر رہی ہے، یہ غیر ممالک کے پاس کیوں جائیں؟ کیا یہ بھارت کے کاشتکاروں کے کام نہیں آنے چاہئیں؟ مہنگے فرٹیلائزر سے کسانوں کی بڑھتی لاگت کو کم کرنے کا کوئی مستقل حل کیا ہمیں نہیں تلاش کرنا چاہئے؟ ساتھیو، یہ سوالات ہیں جو ماضی میں بھی ہر حکومت کے سامنے آتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سارے معاملات صرف میرے سامنے آئے ہیں۔ لیکن پہلے صرف مسئلے کا عارضی حل تلاش کیا گیا، آئندہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو، اس کے لیے بہت محدود کوششیں کی گئیں۔ گذشتہ 8 برسوں میں ہم نے عارضی حل بھی تلاش کیے ہیں اور مسائل کے مستقل حل بھی ۔ کورونا وبائی مرض جیسی صورتحال مستقبل میں نہ پیدا ہو، اس کے لیے صحتی بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ خوردنی تیل کا مسئلہ کم سے کم ہو، اس کے لیے مشن آئل پام پر کام چل رہا ہے۔ کچے تیل پر غیر ملکی انحصار کم کرنا ہے، اس کے لیے حیاتیاتی ایندھن، گرین ہائیڈروجن اور دوسرے طریقوں پر آج بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں۔ نینو تکنالوجی پر جامع سرمایہ کاری بھی اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح قدرتی طریقہ کاشت کے لیے کاشتکاروں کوترغیب فراہم کرانے کی غرض سے جو مہم ملک میں جاری ہے، وہ بھی مستقل حل کا حصہ ہے۔ اور میں گجرات کے کاشتکاروں کو خصوصی طور پر مبارکباد دیتا ہوں۔ گجرات کا کاشتکار ترقی پسند ہے، چھوٹا کاشتکار ہوتو بھی ہمت کرنے کی عادت رکھتا ہے اور جس طرح مجھے گجرات سے خبریں موصول ہو رہی ہیں، کہ گجرات کا چھوٹا کاشتکار بھی قدرتی طری��ہ کاشت کی جانب رخ کر رہا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں گجرات میں کاشتکار قدرتی طریقہ کاشت کے راستے پر چل رہے ہیں۔ میں ان سب کاشتکاروں کو دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس پہل قدمی کے لیے میں انہیں سلام کرتا ہوں۔ ساتھیو، آتم نربھرتا میں بھارت کے متعدد مسائل کا حل پنہاں ہے۔ اور آتم نربھرتا کا ایک بہترین ماڈل کوآپریٹیو نظام بھی ہے۔ اس کا ہم نے گجرات میں احساس کیا ہے، اور آپ سبھی ساتھی اس کامیابی کے سپاہی ہیں ۔ گجرات کے کوآپریٹیو شعبے سے وابستہ تمام سورما بیٹھے ہیں۔ میں ہر کسی کا چہرہ بیٹھے بیٹھے دیکھ رہا تھا۔ سب پرانے ساتھی جو آج کوآپریٹیو شعبے میں گجرات کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسے ایک سے بڑھ کر ایک سورما میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ خوشی ہو رہی ہے، جس تپسیا سےآپ اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں اور کوآپریٹیو جذبےکو لے کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ ساتھیو، گجرات تو اس لیے بھی خوش نصیب رہا ہے کہ محترم باپو اور سردار صاحب کی قیادت ہمیں حاصل ہوئی۔ محترم باپو نے امدادِ باہمی سے خودانحصاری کا جو راستہ دکھایا، اس کو سردار صاحب نے زمین پر اتارنے کا کام کیا۔ اور جب کوآپریٹیونظام کی بات آتی ہے ،تو جیسے امیت بھائی نے وضاحت کی، وینکٹ بھائی مہتا کی یاد آنا فطری بات ہے، اور آج بھی حکومت ہند ایک بہت بڑا ادارہ ان کے نام پر چلاتی ہے۔ لیکن اسے بھی دھیرے دھیرے فراموش کر دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ہم نے بجٹ میں 25 کروڑ کی تجویز رکھ کر اس کو مزید طاقتور بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ہمارے یہاں تو ہاؤسنگ کے لیے سوسائٹی، کوآپریٹیو سوسائٹی ، اس کا پہلا استعمال ہمارے یہاں ہوا ہے۔ یہ جو ہمارے پال ریڈی میں پریتم نگر ہے، وہ پریتم نگر اسی کی مثال ہے۔ ملک کی پہلی کوآپریٹیو ہاؤسنگ اسکیم کی وہ زندہ جاوید مثال ہے۔ ساتھیو، کوآپریٹیو شعبہ میں امول نے اپنی ایک شناخت قائم کی۔ امول جیسے برانڈ نے پوری دنیا میں گجرات کی کو آپریٹیو تحریک کی ایک طاقت کا ثبوت پیش کیا ہے، شناخت قائم کی ہے۔ گجرات میں ڈیری، چینی اور بینکنگ کوآپریٹیو تحریک کی کامیابی کی مثال ہے۔ گذشتہ برسوں میں تو پھل۔ سبزی سمیت دوسرے شعبوں میں بھی کوآپریٹیو شعبے کے دائرے میں اضافہ ہوا ہے۔ بھائیو اور بہنو کو آپریٹیو نظام کے کامیاب استعمال میں ایک بہت بڑا ماڈل ملک کی دیہی معیشت کو بااختیار بنانے کے لیے ہمارے سامنے ہے۔ ڈیری شعبہ کے کوآپریٹیو ماڈل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آج بھارت دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے جس میں گجرات کی بہت بڑی حصہ داری ہے۔ گذشتہ برسوں میں ڈیری کا شعبہ تیزی سے آگے بڑھ بھی رہا ہے اور دیہی معیشت میں زیادہ تعاون بھی دے رہا ہے۔ آج بھارت ایک سال میں تقریباً 8 لاکھ کروڑ روپئے کا دودھ پیدا کرتا ہے۔ 8 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر دودھ اور بنیادی طور پر یہ کاروبار زیادہ تر ہماری مائیں۔بہنیں سنبھالتی ہیں۔ اس کی دوسری جانب دیکھئے گیہوں اور دھان کا بازار اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو وہ دودھ پیداوار سے بھی کم ہے۔ یعنی دودھ کا کاروبار اگر 8 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر ہے تو گیہوں اور دھان کا مجموعی کاروبار اس سے بھی کم ہے۔ آپ دیکھئے دودھ پیداوار میں ہمارے ملک نے کتنی بڑی طاقت کھڑی کی ہے۔ اسی طرح ہم مویشی پالن کے پورے شعبہ پر نظر ڈالیں تو یہ ساڑھے 9 لاکھ کروڑ روپئے سے زائد کا ہے۔ یہ بھارت کے چھوٹے کاشتکاروں، زمین سے محروم مزدوروں کے لیے بہت بڑا سہارا ہے۔ ساتھیو، گذشتہ دہائیوں میں گجرات میں اگر مواضعات میں زیادہ خوشحالی دیکھنے کو ملی ہے، تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ ڈیری کے شعبہ سے وابستہ کو آپریٹیوز رہے ہیں۔ اور آپ کو حیرانی ہوگی کہ ہم اگر کسی بھی چیز کی یاد دلاتے ہیں تو کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی پر تنقید کر تے ہیں۔ ہم تنقید نہیں کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کوئی چیز کو یاد اس لیے کرنا ہوتا ہے کہ پہلے کیا ہوتا تھا۔ ہمارے ملک میں، ہمارے گجرات میں کچھ سوراشٹر میں ڈیری کا کام کرنے، ڈیری تشکیل دینے پر روک لگانے کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ یعنی اسے ایک طرح سے غیر قانونی سرگرمی کے زمرے میں ڈال دیا گیا تھا۔ جب میں یہاں تھا تو ہم نے کہا کہ بھئی یہ امول ترقی کر رہا ہے، تو کچھ کی ڈیری بھی ترقی کر سکتی ہے۔ امریلی کی ڈیری بھی ترقی کر سکتی ہے۔ ہم روک کر کیوں بیٹھے ہیں؟ اور آج گجرات میں چہار جانب ڈیری کا شعبہ ازحد مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ گجرات میں دودھ پر مبنی صنعتوں کا بڑے پیمانے پر فروغ اس لیے ہوا کیونکہ اس میں حکومت کی جانب سے پابندیاں کم سے کم رہیں۔ حکومت جتنا بچ کر رہے، بچنے کی کوشش کی اور کوآپریٹیو شعبوں کو پھلنے پھولنے کی مکمل آزادی فراہم کی۔ حکومت یہاں صرف ایک سہولت فراہم کا کاکردار ادا کرتی ہے، باقی کا کام یا تو آپ جیسے ہمارے کوآپریٹیو شعبے کے لیے وقف ساتھی کر رہے ہیں، یا ہمارے کاشتکار بھائی بہن۔ دودھ پیدا پروڈیوسر اور کاروبار کرنے والا نجی اور کوآپریٹیو شعبہ، دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک بہترین سپلائی او رویلیو چین انہوں نے کھڑی کی ہے۔ ساتھیو، ڈیری شعبہ میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہمارے چھوٹے کاشتکار ہیں، اور جیسا میں نے پہلے کہا ہماری مائیں بہنیں اس کام کو سنبھالتی ہیں۔ گجرات میں تقریباً 70 لاکھ بہنیں آج اس تحریک کا حصہ ہیں۔ 70 لاکھ بہنیں، 50 لاکھ سے زیادہ کنبے ہوں گے ہی ۔ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مِلک کوآپریٹیو سوسائٹیاں آج گجرات میں ہماری مائیں بہنیں چلا رہی ہیں۔ امول جیسی بین الاقوامی برانڈ کو بنانے میں بھی گجرات کی ہماری بہنوں کا بہت بڑا کر دار ہے۔ ایک طرح سے کوآپریٹیو شعبہ نے گجرات میں خواتین صنعت کاری کو نئی جہتیں عطا کی ہیں۔ ہم لجت پاپڑ تو جانتے ہی ہیں، قبائلی علاقوں کی غریب ماؤں بہنوں سے شروع کیا گیا یہ کام آج ایک ملٹی نیشنل برانڈ بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستانی پہنچاہوگا تو لجت پاپڑ بھی پہنچا ہوگا۔ اور پہلی مرتبہ مجھے فخر اس کا بات کا ہے کہ اتنے برسوں سے لجت پاپڑ کا کام بڑھ رہا ہے، اتنا بڑھا لیکن کبھی کسی نے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے پہلی مرتبہ پدم شری کا ایوارڈ ان کو دیا جنہوں نے لجت پاپڑ کو ، اب تو ان کی عمر 90 سے تجاوز کر گئی ہے،گجراتی ہیں، ممبئی میں رہتی ہیں۔ لیکن وہ ماتاجی آئیں اور انہوں نے آشیرواد دیا۔ یعنی ہمارا کوآپریٹیو جذبہ اور ہماری ماؤں بہنوں کا یہ ہنر اگر امول برانڈ بن جاتا ہے تو لجت بھی تو ایک برانڈ بن گیا ہے۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کا مینجمنٹ سے متعلق ہنر اگر دیکھنا ہے تو کوآپریٹیوز میں ہم اسے واضح طورپر دیکھ سکتے ہیں۔ ساتھیو، سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وِشواس اور سب کا پریاس ، اس اصول پر ہم عمل پیرا ہیں۔ یہ منتر اپنے آپ میں کوآپریٹیو نظام کی روح ہے۔ یہ اصول کوآپریٹیو نظام کی حدود کے اندر ہی ہے۔ اس لیے کوآپریٹیو جذبہ کو آزادی کے امرت کال کے جذبے سے مربوط کرنے کے لیے ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسی مقصد کے ساتھ مرکز میں کو آپریٹیو شعبہ کے لیے علیحدہ وزارت تشکیل دی گئی۔ اور کوشش یہی ہے کہ ملک ��یں کوآپریٹیو شعبہ پر مبنی اقتصادی ماڈل کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لیے یکے بعد دیگرے نئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ کوآپریٹیو کمیٹیوں کو، اداروں کو ہم منڈی میں مسابقتی بنائیں، انہیں بازار کے دیگر اداروں کے ساتھ مسابقت کے لیے مساوی مواقع فراہم کرائیں۔ گذشتہ برسوں میں ہم نے کوآپریٹیو سوسائٹیوں سے وابستہ ٹیکس میں بھی تخفیف کرکے انہیں راحت بہم پہنچائی ہے۔ امیت بھائی نے اس کا ذکر بہت کم الفاظ میں کیا لیکن ہم نے بہت سارے اقدامات کیے ہیں۔ سرچارج کی بات انہوں نے کہی اور پہلے تو شکایت رہتی تھی۔ اس میں اصلاح کرتے کرتے ہوئے ہم نے کوآپریٹیو کمیٹیوں کو کاشتکار پیدواری اداروں کے مساوی کر دیا ہے۔ اس سے کوآپریٹیو کمیٹیوں کو ترقی حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ ساتھیو، یہی نہیں کو آپریٹیو کمیٹیوں کو، کوآپریٹیو بینکوں کو جدید ڈجیٹل تکنالوجی سے مربوط کرنے کی بھی ایک بہت بڑی کوشش جاری ہے۔ گجرات میں اس میں قابل ستائش کام شروع ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، میں جب وزیر اعلیٰ تھا تو کوآپریٹیو شعبہ میں ، جس امیت بھائی نے کچھ وضاحت کی، انکم ٹیکس لگتا تھا، اور میں حکومت ہند کو مراسلے ارسال کرتا رہتا تھا، اور حکومت ہند میں بھی یہ محکمہ وہ لوگ سنبھالتے تھے جو خود کوآپریٹیو تحریک سے وابستہ تھے۔ لیکن انہوں نے گجرات کی بات نہیں مانی، ملک کے کوآپریٹیو شعبہ کے لوگوں کی بات نہیں مانی۔ ہم نے اس مسئلے کو بھی حل کر دیا۔ ساتھیو، مجھے بتایا گیا ہے کہ ضلع کوآپریٹیو بینکوں نے تقریباً 8 لاکھ کاشتکاروں کو روپے کسان کارڈ جاری کیے ہیں۔ باقی بینکوں کی طرح ہی آن لائن بینکنگ کی سہولتیں بھی آج کاشتکاروں کو حاصل ہو رہی ہیں۔ جب ملک کی تمام 63 ہزار پرائمری ایگری کلچرل کریڈٹ سوسائٹی ۔ پی اے سی ایس کمپیوٹرائزڈ ہو جائیں گی، تو ہمارے کوآپریٹیو شعبے کی تصویر مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔ اس سے ہمارے کاشتکاروں کو بہت فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ ان سوسائٹیوں کے بیشتر اراکین کاشتکار ہی ہیں۔ میرے لیے خوشی کی ایک بات اور بھی ہے کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ اب کوآپریٹیو شعبہ سے وابستہ کئی افراد حکومت ہند کا جو جی ای ایم پورٹل ہے، کچھ بھی خریداری کرنی ہے تو جی ای ایم پورٹل کے توسط سے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک شفافیت پیدا ہوگئی ہے، رفتار میں اضافہ رونما ہوا ہے اور کم خرچ میں ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں۔ حکومت ہند کے جی ای ایم پورٹل کو، کوآپریٹیو شعبہ کے لوگوں نے قبول کر لیا ہے۔ اس لیے میں کوآپریٹیو شعبہ کے لوگوں کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، کوآپریٹیو نظام کی سب سے بڑی طاقت بھروسہ ہے، تعاون ہے، سب کی قوت سے تنظیم کی قوت میں اضافہ کرنا ہے۔ یہی آزادی کے امرت کال میں بھارت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہمارے یہاں جسے بھی چھوٹا جان کر کمتر سمجھا گیا، اس کو امرت کال میں بڑی طاقت بنانے پر ہم کام کر رہے ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو آج ہر طرح سے بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعتوں، ایم ایس ایم ای، کو بھارت کی آتم نربھر سپلائی چین کا مضبوط حصہ بنایا جا رہا ہے۔ جو ہمارے چھوٹے دوکاندار ہیں، تاجر ہیں، ان کو بھی ایک ڈجیٹل تکنالوجی کا پلیٹ فارم، او این ڈی سی-ڈجیٹل تجارت کے لیے کھلا نیٹ ورک، فراہم کرایا جا رہا ہے۔ اس سے ڈجیٹل اسپیس میں صحت مند مسابقت کو فروغ حاصل ہوگا، ملک کے چھوٹے کاروباریوں کو بھی مساوی موقع حاصل ہوگا۔ یہ بھارت کی ای۔کامرس مارکیٹ کے امکانات کو تقویت بہم پہنچائے گا، جس کا گجرات کے چھوٹے کاروباریوں کو بھی یقینی طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔ ساتھیو، گجرات تجارت و کاروبار کی روایات سے وابستہ ریاست رہی ہے۔ اچھے تاجر کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ مشکل حالات میں بھی کاروبار کو اچھی طرح کیسے سنبھالتا ہے۔ حکومت کی بھی یہی کسوٹی ہوتی ہے کہ چنوتیوں کے درمیان وہ راستہ نکالنے کے لیے کیسے نئے نئے طریقے تلاش کرتی ہے۔ یہ جتنی بھی تجاویز، جتنی بھی اصلاحات گذشتہ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں، یہ مصیبت کو موقع پر تبدیل کرنے کی ہی ہماری کوشش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوآپریٹیو شعبہ کا ہمارا جذبہ ہمیں اپنے عزائم کی تکمیل میں مدد فراہم کرے گا۔ اور ابھی ایک بہت ہی اچھا جملہ بھوپیندر بھائی نے اپنی تقریر میں کہا کہ آزادی سے پہلے کا ایک ہتھیار تھا عدم تعاون۔آزادی کے بعد خوشحالی کا ایک ہتھیار ہے تعاون۔ عدم تعاون سے تعاون تک کا یہ سفر خوشحالی کی بلندیوں کو حاصل کرنے والی، سب کا ساتھ، سب کا وِکاس کے اصول کو عملی جامہ پہنانے والی ہماری راہ ہے۔ اس راہ پر خوداعتمادی کے ساتھ ہم چلیں، ملک کے لوگوں کو بھی اس مقدس کام سے ہم جوڑیں، گجرات کی کوآپریٹیو تحریک کی توسیع بھارت کے دیگر شعبوں میں جتنی زیادہ ہو اس شعبے کے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام آئے گی۔ میں حکومت گجرات کا بہت شکرگزار ہوں کہ کوآپریٹیو شعبہ کی ان معروف شخصیات کے ساتھ آج ملاقات کا موقع حاصل ہوا کیونکہ میں جب گجرات میں تھا، تو ہمیشہ انہیں اپنی شکایتیں لے کر آنا پڑتا تھا۔ لیکن آج وہ اپنا رپورٹ کارڈ لے کر آتے ہیں۔ تو ہم اتنے کم وقت میں اس مقام تک پہنچ گئے، ہم اپنی سوسائٹی کو اس مقام تک لے آئے ہیں، ہم نے اپنے ادارے کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے ہماری کاروباری آمد اتنی تھی اور اب اتنی ہوگئی۔ بڑے فخر کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سوسائٹی کے لوگ مل جاتے ہیں، کہتے ہیں– صاحب ہم سب تو اب کمپیوٹر چلاتے ہیں، صاحب ہمارے یہاں کام آن لائن ہونے لگا ہے۔ یہ جو تبدیلی گجرات کے کوآپریٹیو شعبہ میں نظر آرہی ہے وہ اپنے آپ میں باعث فخر ہے۔ میں آج آپ کی اس محنت شاقہ کو سلام کرتا ہو، اس عظیم روایت کو سلام کرتا ہوں اور آج جب ہم آزادی کے 75 برسوں کا جشن منا رہے ہیں، تب جس کے بیج پہلے بوئے گئے تھے آج وہ برگد کا تناور درخت بن کر گجرات کی عام زندگی میں تعمیری کاموں میں اقتصادی نظام کی بنیاد پر کوآپریٹیو تسلط کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔ وہ اپنے آپ میں ایک خوشی کی بات ہے۔ میں سب کو پرنام کرتے ہوئے ، تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولیئے، بھارت ماتا کی –جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی – جے، شکریہ۔,গুজৰাটৰ গান্ধীনগৰত ‘সহকাৰ ছে সমৃদ্ধি’ কাৰ্যসূচীত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ ইংৰাজী পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AA%DB%8C%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A8%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%DB%81-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AD%E0%A7%B1%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A7%8D/,نئی دہلی،22/جون۔ حکومت ہند کی وزارت مالیات کے تحت اقتصادی امور کا محکمہ، ایشیائی بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری بینک(اے آئی آئی بی) کی تیسری سالا نہ میٹنگ کی میزبانی کرے گا۔یہ میٹنگ بھارت کے شہر ممبئی میں 25 سے 26 جون 2018 تک ہوٹل ٹرائڈینٹ/ اوبرائے اور ا ین سی پی اے میں منعقد کی جائے گی۔ ماضی میں یہ میٹنگ چین کی راجدھانی بیجنگ اور جیجو میں 2016 میں نیز 2017 میں جمہوریہ کوریا میں منعقد کی گئی تھی۔ اس سال کی میٹنگ کا موضوع ہے‘‘ بنیادی ڈھانچے کے لئے مالیہ کی فراہمی: اختراع اور اشتراک’’ جس میں مختلف تنظیموں کے رہنما اور سرکاری افسران ، بنیادی ڈھانچے سے متعلق سرمایہ کاری کے ذریعہ دیرپا مستقبل تعمیر کرنے کے لئے اپنے نت خیالات اور تجربات سے ایک دوسرے کو واقف کرائیں گے۔ اے آئی آئی کی اس تیسری سالانہ میٹنگ کے لئے ،حکومت مہاراشٹر صنعت کا محکمہ مرکزی محکمہ ہے۔ حکومت مہاراشٹر کا، مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن( ایم آئی ڈی سی) ،مرکزی ایجنسی ہے، بھارت صنعت کی کنفیڈریشن(سی آئی آئی) پروفیشنل کانفرنس آرگنائزر( پی سی او) ہے، ترقی پذیر ملکوں کے تحقیق اور اطلاع کے نظام(آر آئی ایس) معلومات کا شراکت دار ہے۔ اس دو روزہ میٹنگ میں چوٹی کے پالیسی ساز ،اے آئی آئی بی رکن ممالک کے وزراء، شراکت دار اداروں پرائیویٹ شعبے اور سول سوسائٹی تنظیموں کے عہدے دار حصہ لیں گے۔ اس کے علاوہ مختلف میدانوں کے سرکردہ ماہرین مذاکرات کریں گے اور ماحولیاتی اور سماجی طور پر دوستانہ انداز میں ایشیا کے بنیادی ڈھانچے کے فرق پر گہرائی سے اظہار خیال کریں گے۔ بہت سے اعلی اختیاراتی سرکاری افسران اس میٹنگ میں موجود رہیں گے۔ اس موقع پر وزیراعظم جناب نریندر مودی اے آئی آئی بی کی تیسری سالانہ میٹنگ کا 26 جون2018 کو افتتاح کریں گے۔ اس کے علاوہ ریلوے، کوئلے، مالیہ اور کارپوریٹ امور کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل اور وزارت مالیات کے تحت اقتصادی امور کے محکمے کے سیکریٹری جناب سوبھاش چندر گرگ بھی میٹنگ میں شرکت کریں گے۔ یہ شخصتیں بھارت میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ماحولیاتی منظر نامہ پر تبادلہ خیال کریں گے اور تیسری سالانہ میٹنگ کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات سے ایک دوسروں کو واقف کرائیں گے۔ اس سال ایشیائی بنیادی ڈھانچہ فورم کا بھی آغاز کیاجائے گا جو قابل عمل اور پروجیکٹ پر مبنی طریقہ کار میں بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے والوں کو یکجا کرے گا۔ اے آئی آئی بی کی سالانہ میٹنگ کے دوران حکومت ہند میزبان ملکوں کے بہت سے سیمینار منعقد کرے گی۔ اس تقریبات کا مقصد بنیادی ڈھانچے میں رقم لگائے جانے کے اہم پہلوؤں پر غوروخوص کرنا ہے۔ حکومت ہند کی وزارت خزانہ کا اقتصادی امورکا محکمہ کامرس اور صنعت کے بھارتی ایوانوں(ایف آئی سی سی آئی) کے ساتھ مل کر ایک نمائش کا اہتمام کررہا ہے۔جس کاموضوع ہے ‘‘انڈیا انفراسٹرکچر ایکسپو 2018’’ یہ نمائش ا یشیائی بنیادی ڈھانچہ سرمایہ کاری کی تیسری سالانہ میٹنگ کے ساتھ ساتھ چلے گی۔اس نمائش کا مقصد کمپنیوں کو سرکاری اور پرائیویٹ شعبے کی طرف سے یہ پیش کش کرنا ہے کہ وہ ا پنے تازہ ترین نظریات، تکنالوجی کا مظاہرہ کریں ۔,বাণিজ্য ভৱনৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D9%B9%D8%B1%D9%88-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%DB%94-2019-%DA%A9%D8%A7%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D8%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%BF-%E0%A6%95-3/,تیل اور گیس کے لئے شفاف اور لچیلے بازاروں کے ساتھ ذمہ دارانہ طریقے سے قیمتوں کے تعین کی ضرورت ہے:پی ایم توانائی کے منصفانہ نظام پر مبنی دور کے آغاز میں ہن��وستان کا تعاون اہم ہے:پی ایم وزیراعظم نے کہا:‘ بیلو فلیم، انقلاب جاری ہے۔ ایل پی جی کوریج 90 فیصد سے زیادہ ہے نئی دہلی، 11 فروری 2019،ہندوستان کی اہم ہائیڈورکاربن کانفرنس پیٹروٹیک 2019 تیرہویں ایڈیشن کا افتتاح آج وزیراعظم نریندرکیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا کے انڈیا ایکسپو سینٹر میں کیاگیا ہے۔ اپنے افتتاحی خطاب میں وزیراعظم نے سماجی، اقتصادی ترقی کے ایک اہم ڈرائیور کے طور پر توانائی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ‘‘معیشت کی تیز رفتار ترقی کے لئے توانائی کی مناسب قیمت پر استحکام کے ساتھ مسلسل سپلائی ضروری ہے۔ اس سے سماج کے غریب اور محروم طبقات کو بھی اقتصادی فائدوں میں شریک ہونے میں مدد ملتی ہے۔ توانائی کی کھپت کی مشرق سے مغرب میں منتقلی کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ معدنی تیل کے انقلاب کے بعد امریکہ دنیا میں سب سے بڑا تیل اور گیس کا پروڈیوسر بن گیا ہے لیکن سستی قابل تجدید توانائی ،ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ایپلی کیشن کے آجانے سے پائیدار ترقی کے بہت سے مقاصد کے حصول میں تیزی آجانے کے اشارے مل رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ وقت کی ضرورت ہے کہ‘‘ قیمتوں کا ذمہ داری کے ساتھ تعین کرنے کی سمت میں آگے بڑھے تاکہ پیدا کرنے والے اور صارفین کے مفادات میں توازن قائم کیا جاسکے۔ہمیں تیل اور گیس دونوں کے لئے شفاف اورلچیکے بازار کی جانب بڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔اسی وقت ہم بہترین طریقے سے انسانیت کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں گے۔’’ آب وہوا کی تبدیلی کے چیلنج کا سامنے کرنے میں ساتھ دینے کے لئے عالمی برادری سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیرس میں سی او پی۔21 میں ہم نے جو نشانے طے کئے تھے انہیں پورا کیاجاسکتا ہے۔اس معاملے میں ہندوستان کے ذریعہ اپنی عہد بندی کو پورے کرنے کی سمت میں کئے گئے اقدامات کا ذکر کیا۔ وزیراعظم نے توانائی کے شعبے میں تعاون کرنے اور مستقبل کے لئے ان کے نظریے کے لئے عزت مآب ڈاکٹر سلطان الجابر کو مبارک باد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ صنعت 4.0 سے نئی ٹیکنالوجی اور طریقے کار کے ساتھ صنعتیں چلانے کی طریقے میں تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کمپنیاں اپنی کارگزاری کو بہتر بنانے ، تحفظ میں اضافہ کرنے اور لاگت کو کم کرنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی اختیار کررہی ہیں۔ وزیراعظم نے صاف ستھری ، سستی پائیدار توانائی کی منصفانہ سپلائی کی سبھی لوگوں تک رسائی پر زور دیا۔انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ‘‘ ہم ایسے دور میں آگئے ہیں جہاں بہت زیادہ توانائی دستیاب ہے ۔ اس کے باوجود دنیا میں ایک بلین سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جنہیں بجلی کی سہولت حاصل نہیں ہے۔اس سے بھی زیادہ لوگوں کی صاف ستھری رسوئی گیس تک رسائی نہیں ہے’’انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں توانائی تک رسائی میں ان مسائل کو حل کرنے میں سبقت حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہندوستان دنیا میں سب سے تیز ترقی کرنے والی بڑی معیشت بن گیا ہے اور 2030 تک یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے اور دنیا میں توانائی کی سب سے زیادہ کھپت کرنے والا تیسرا ملک بن سکتا ہے۔2040 تک ہندوستان میں توانائی کی مانگ دوگنی ہوجانے کی توقع ہے اور ہندوستان توانائی کی کمپنیوں کے لئے ایک پسندیدہ بازار بنا رہے گا۔ وزیراعظم نے دسمبر 2016 میں منعقدہ گزشتہ پیٹرو ٹیک کانفرنس کو یاد کیا جس میں انہوں نے ہندوستان کی توانائی کے مستقبل کے چار ستونوں کا ذکر کیا:توانائی ��ک رسائی، توانائی کی صلاحیت، توانائی کا استحکام اور توانائی کاتحفظ۔ توانائی کا انصاف بھی ایک اہم مقصد ہے اور اب ہندوستان میں اسے اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا‘‘اس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے بہت سی پالیسیاں تیار کی ہے اور ان کا نفاذ کیا ہے۔اب ان کوششوں کے نتیجے سامنے آگئے ہیں۔ بجلی ہمارے سبھی دیہی علاقوں تک پہنچ گئی ہے’’وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کاانصاف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب لوگ اپنی اجتماعی طاقت میں یقین کریں۔ اس بات کااعلان کرتے ہوئے کہ بلیو فلیم انقلاب جاری ہے، ایل پی جی کوریج پانچ سال قبل 55 فیصد تک تھا جو کہ بڑھ کر اب 90 فیصد سے زیادہ ہوگیا ہےوزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہندوستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں بڑی اصلاحات ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا ‘‘ آج دنیا میں ہندوستان کے پاس چوتھی سب سے بڑی ریفائن کرنے کی صلاحیت ہے۔ 2030 تک اس میں تقریباً 200 ملین میٹرک ٹن تک کا مزید اضافہ ہوگا’’۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان گیس پر مبنی معیشت بننے کی سمت میں تیزی سے اقدامات کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘‘تقریباً16ہزار کلو میٹر گیس پائپ لائن تعمیر کی جاچکی ہے اور مزید 11 ہزار کلو میٹر زیر تعمیر ہے۔سٹی گیس ڈسٹری بیوشن کے لئے دسویں کوشش میں 400 سو اضلاع کو کور کیا گیا ہے اور ہماری آبادی کے 7فیصد سٹی گیس ڈسٹری بیوشن کےے کوریج میں اضافہ کیا گیا ۔’’ تیل اور گیس شعبے کی اہم کمپنیاں پیٹرو ٹیک2019 میں شرکت کررہی ہیں۔گزشتہ چوتھائی صدی میں پیٹروٹیک میں توانائی کے شعبوں کو در پیش مسائل اور چیلنجوں کے حل کے لئے با ت چیت کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا ہے۔ پیٹروٹیک توانائی کے شعبے کے مستقبل کے بارے میں غوروخوض کے لئے ایک بہترین موقع فراہم کراتا ہے اور اس بات پر غور کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کراتا ہے کہ کس طرح دنیا میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کس طرح بازار کے استحکام اور شعبے میں مستقبل کی سرمایہ کاری کو متاثر کریں گی۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মুকলি কৰিলে পেট্ৰ’টেক ২০১৯, ক’লে – আৰ্থসামাজিক বিকাশৰ মূল চালিকা শক্তিয়েই হৈছে শক্তি খণ্ড" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%88%D9%86%D8%A7-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D9%85%DB%8C%DB%81-%D9%85%D8%A7%D8%AA%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 10/ اپریل 2022 ۔ اومیہ ماتا کی جے! گجرات کے مقبول، نرم دل اور مضبوط قوت ارادی والے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی بھائی پرشوتم روپالا، ریاستی حکومت کے سبھی وزراء، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی، دیگر سبھی اراکین اسمبلی، پنچایتوں، میونسپل کارپوریشنوں میں سبھی منتخب عوامی نمائندے، اوما دھام گھاٹلا کے صدر بال جی بھائی پھلدو، دیگر عہدیداران اور سماج کے دور دور سے آئے سبھی معززین اور بڑی تعداد میں موجود مائیں اور بہنیں – جنھیں آج ماں اومیہ کے 14ویں پاٹوتسو کے موقع پر میں خاص طور پر سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ سبھی کو اس مبارک باد موقع پر ڈھیر ساری نیک خواہشات، بہت بہت مبارکباد۔ گزشتہ دسمبر میں مجھے ماتا اومیہ دھام مندر اور اومیہ دھام کیمپس کا سنگ بنیاد رکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا اور آج مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے گھاٹیلا کی اس عظیم الشان تقریب میں مدعو کیا ہے۔ اگر میں براہ راست آیا ہوتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی، لیکن میں براہ راست نہیں آ سکا پھر بھی دور سے پرانے معززین کے درشن ہو سکتے ہیں ، وہ بھی میرے لیے خوشی کا موقع ہے۔ آج چیترا نوراتری کا نواں دن ہے۔ میں آپ سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں کہ ماں سدھا تری آپ کی تمام خواہشات پوری کریں ۔ ہمارا گرنار جپ اور تپ کی سرزمین ہے۔ گرنار دھام میں رونق افروز ماں امبا۔ اور اسی طرح تعلیم اور دیکشا کا مقام بھی یہی گرنار دھام ہے۔ اور میں اس مقدس سرزمین کو سلام کرتا ہوں جہاں بھگوان دتاتریہ براجمان ہیں۔ یہ بھی ماں کا کرم ہے کہ ہم سب مل کر ہمیشہ گجرات کی فکر کرتے رہے ہیں، گجرات کی ترقی کے لیے کوشاں رہے ہیں، گجرات کی ترقی کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے رہے ہیں اور مل کر کر رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اس اجتماعیت کی طاقت کو محسوس کیا ہے۔ آج جب بھگوان رام چندر جی کا پراگٹیہ مہوتسو بھی ہے، ایودھیا میں یہ تہوار بڑی شان و شو کت سے منایا جا رہا ہے، ملک بھر میں منایا جا رہا ہے، یہ بھی ہمارے لیے ایک اہم بات ہے۔ آپ سب کے درمیان آنا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں، ماں اومیہ کے قدموں میں جانا کوئی نئی بات نہیں۔ شاید پچھلے 35 سالوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں، کسی موقع پر میں آپ کے درمیان نہ آیا ہوں۔ اسی طرح آج ایک بار پھر مجھے معلوم ہوا، مجھے کسی نے ابھی بتایا تھا، 2008 میں مجھے یہاں افتتاح کے لیے آنے کا موقع ملا تھا ۔ یہ مقدس مقام ایک طرح سے تعظیم کا مرکز رہا ہے، لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ سماجی شعور کا مرکز بھی بن گیا ہے۔ اور سیاحت کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ 60 سے زائد کمرے بنائے گئے ہیں، کئی شادی ہال بنائے گئے ہیں، ایک عظیم الشان کھانے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ ایک طرح سے ماں اومیہ آشیرواد سے آپ سب کی طرف سے ماں اومیہ کے عقیدت مندوں اور سماج کو شعور دینے کے لیے جو بھی ضرورتیں ہیں پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور میں تمام ٹرسٹیوں، نگرانوں اور ماں اومیہ کے عقیدت مندوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے 14 سال کے اس مختصر عرصے میں کام کو بڑھایا ہے۔ ابھی ہمارے وزیر اعلیٰ نے بہت جذباتی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دھرتی ہماری ماں ہے اور اگر میں اومیہ ماتا کا بھکت ہوں تو میرے پاس اس دھرتی ماں کو تکلیف دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیا ہم اپنی ماں کو بغیر کسی وجہ کے گھر میں دوائی دیں گے؟ کیا آپ بغیر کسی وجہ کے خون چڑھانے وغیرہ کا کام کریں گے؟ ہم جانتے ہیں کہ ماں کو اتنا ہی دینا پڑتا ہے جتنا انہیں چاہئے ۔ لیکن ہم نے ماں دھرتی کے لیے فرض کر لیا ہے کہ انہیں یہ چاہیے، وہ چاہئے … پھر ماں بھی اوب جائیں کہ نہ اوب جائیں ۔ اور اس کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنی مصیبتیں آرہی ہیں۔ اس ماں دھرتی کو بچانا ایک بڑی مہم ہے۔ ہم ماضی میں پانی کے بحران میں زندگی گزار رہے تھے۔ خشک سالی ہماری مستقل تشویش تھی۔ لیکن جب سے ہم نے چیک ڈیم کی مہم شروع کی، پانی ذخیرہ کرنے کی مہم شروع کی، پر ڈراپ مور کراپ کی مہم شروع کی، ڈرپ اریگیشن کی مہم چلائی ، سونی ا سکیم نافذ کی، پانی کے لیے بہت کوششیں کیں۔ گجرات میں جب میں وزیر اعلیٰ تھا اور کسی دوسری ریاست کے وزیر اعلیٰ سے بات کرتا تھا کہ ہمیں یہاں پانی کے لیے اتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہماری حکومت کا زیادہ تر وقت پانی کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے، تو دوسری ریاستیں حیران ہوتی تھیں ، کیونکہ انہیں اس مصیبت کا اندازہ نہیں تھا۔ ہم آہستہ آہستہ اس مصیبت سے نکل آئے، کیونکہ ہم نے ایک عوامی تحریک شروع کی۔ آپ سب کے تعاون سے ایک عوامی تحریک چلائی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عوامی تحریک چلائی ۔ اور آج پانی کے تئیں بیداری ہے۔ لیکن پھر بھی میرا ماننا ہے کہ ہمیں پانی کے تحفظ کے لیے بالکل بھی لاتعلق نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ کام ہر بارش سے پہلے کرنا ہے۔ تالاب گہرے بنانے ہیں، نالیاں صاف کرنی ہیں، یہ سب کام کرنے ہیں، تب ہی پانی جمع ہوگا اور پانی زمین میں اترے گا۔ اسی طرح اب سوچنا پڑے گا کہ کیمیکل سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ ورنہ ایک دن دھرتی ماں کہے گی کہ اب بہت ہو گیا.. تم جاؤ.. میں تمہاری خدمت نہیں کرنا چاہتی اور چاہے آپ کتنا ہی پسینہ بہا لیں، کتنے ہی مہنگے بیج بو لیں، کوئی پیداوار نہیں ہوگی۔ اس دھرتی ماں کو بچانا ہے۔ اور اس کے لیے یہ اچھی بات ہے کہ گجرات میں ہمیں ایسے گورنر ملے ہیں جو قدرتی کھیتی کے لیے پوری طرح وقف ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ گجرات کے ہر تعلقہ میں گئے اور قدرتی کھیتی کے لیے کسانوں کی کئی کانفرنسیں منعقد کیں۔ میں خوش ہوں ۔ روپالا جی بتا رہے تھے کہ لاکھوں کسان قدرتی کھیتی کی طرف بڑھے ہیں اور وہ قدرتی کھیتی کو اپنانے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔ اب جب کہ وزیر اعلیٰ نے کال دی ہے، ہمیں ایک نرم اور پرعزم وزیر اعلیٰ مل گیا ہے، تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے جذبات کو سچ کریں۔ گجرات کے دیہاتوں میں کسان قدرتی کھیتی کے لیے آگے آئے۔ جس طرح کیشو بھائی اور میں نے پانی کے لیے محنت کی، اسی طرح بھوپیندر بھائی ماں دھرتی کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ گجرات کے تمام لوگوں کو اس دھرتی ماں کو بچانے کی کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ جو بھی کام کرتے ہیں اس میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اونجھا میں بیٹی بچاؤ کے حوالے سے بہت پریشان تھا۔ ماں اومیہ کا تیرتھ ہو اور بیٹیوں کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ پھر میں ایک بار ماں اومیہ کے قدموں میں گیا اور معاشرے کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ آپ سب مجھ سے وعدہ کریں کہ بیٹیوں کو بچانا ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ گجرات میں ماں اومیہ کے عقیدت مندوں، ماں کھوڈل دھام کے عقیدت مندوں اور پورے گجرات نے اس بات کو اٹھالیا ۔ اور گجرات میں بیٹیوں کو بچانے کے لیے ،اور ماں کے پیٹ میں بیٹیوں کو نہیں مارنا چاہیے، اس کیلئے کافی بیداری آئی۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ گجرات کی بیٹیاں کیا کمال کر رہی ہیں، ہمارے مہسانہ کی بیٹی دیویانگ نے اولمپکس میں جا کر پرچم لہرایا۔ اس بار اولمپکس میں جانے والی کھلاڑیوں میں گجرات کی 6 بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ کون فخر نہیں کرے گا– اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اومیہ ماں کی سچی عقیدت یہ ہے کہ یہ طاقت ہمارے اندر آتی ہے، اور اس طاقت کی مدد سے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ہم جتنا زیادہ قدرتی زراعت پر زور دیں گے، ہم بھوپیندر بھائی کی اتنی ہی مدد کریں گے، ہماری دھرتی ماں سرسبز ہو جائے گی۔ گجرات کھل اٹھے گا ،آج آگے تو بڑھا ہی ہے، لیکن مزید کھل اٹھے گا۔ اور ایک دوسرا خیال بھی میرے ذہن میں آتا ہے، ہمارے گجرات میں بچےسوئے تغذیہ کا شکار ہیں، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ گھر میں ماں کہتی ہے کھا لو مگر وہ نہیں کھاتا ۔ غربت نہیں ہے لیکن کھانے پینے کی عادات ایسی ہیں کہ جسم کو پرورش نہیں ملتی۔ اگر بیٹی کو خون کی کمی ہو اور وہ بیس چوبیس سال میں شادی کر لے تو اس کے پیٹ سے کیسا بچہ پیدا ہو گا؟ ماں مضبوط نہ ہو تو بچے کا کیا بنے گا؟ اس لیے بیٹ��وں کی صحت کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے اور عام طور پر تمام بچوں کی صحت کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ماتا اومیہ کے تمام عقیدت مند گاؤں گاؤں جائیں گے اوروہ پانچ دس بچے حاصل کریں گے – خواہ وہ کسی بھی معاشرے سے ہوں – اور وہ اس بات کی کوشش کریں گے کہ وہ اب سوئے تغذیہ کا شکار نہیں ہوں- ہمیں ایسا عزم کرنا چاہیے۔ کیونکہ بچہ مضبوط ہوگا تو خاندان بھی مضبوط ہوگا اور معاشرہ بھی مضبوط ہوگا اور ملک بھی مضبوط ہوگا۔ آپ پا ٹوتسو کر رہے ہیں، آج خون کے عطیہ وغیرہ کے پروگرام بھی ہو چکے ہیں۔ اب یہ کریں ماں اومیہ ٹرسٹ کے ذریعے گاؤں گاؤں میں صحت مند بچوں کا مسابقہ کروائیں۔ دو، تین، چار سال کے تمام بچوں کی تپاس ہو اور جو تندرست ہو اسے انعام دیا جائے ۔ سارا ماحول بدل جائے گا۔ یہ ایک چھوٹا سا کام ہے، لیکن ہم اسے اچھی طرح سے کر سکتے ہیں۔ ابھی مجھے بتایا گیا کہ یہاں بہت سے شادی ہال بنائے گئے ہیں۔ بارہ مہینے شادیاں نہیں ہوتیں۔ اس جگہ کا کیا استعمال ہوتا ہے ؟ ہم وہاں کوچنگ کلاسز چلا سکتے ہیں، یہاں غریب بچے آئیں ، معاشرے کے لوگ پڑھانے کا کام کریں ۔ ایک گھنٹے کے لیے، دو گھنٹے کے لیے، جگہ کافی کام آئے گی۔ اسی طرح یوگا کا مرکز بھی ہو سکتا ہے۔ ہر صبح ماں اومیہ کے درشن بھی ہوجائیں، گھنٹے دو گھنٹے یوگا پروگرام ہو، اور اس جگہ کا اچھا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جگہ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، تب ہی یہ حقیقی معنوں میں سماجی شعور کا مرکز بنے گا۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ یہ آزادی کے امرت مہوتسو کا وقت ہے – ایک طرح سے یہ ہمارے لیے بہت اہم دور ہے۔ 2047 میں جب ملک آزادی کی سو سالہ تقریبات منا رہا ہوگا تو ہم کہاں ہوں گے، ہمارا گاؤں کہاں ہوگا، ہمارا معاشرہ کہاں ہوگا، ہمارا ملک کہاں تک پہنچ چکا ہوگا، یہ خواب اور عزم ہر شہری میں پیدا ہونا چاہیے۔ اور آزادی کے امرت مہوتسو سے ہم ایسا شعور لا سکتے ہیں، تاکہ معاشرے میں اچھے کام کیے جا سکیں، جس سے ہماری نئی نسل کو اطمینان حاصل ہو۔ اور اس طرح میرے ذہن میں ایک چھوٹا سا خیال آیا، کہ آزادی کے امرت مہوتسو پر، ہر ضلع نے آزادی کے 75 سال مکمل کر لیے ہیں، تو 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ پرانی جھیلیں ہیں، انہیں بڑی، گہری اور بہتر بنائیں۔ ایک ضلع میں 75۔ آپ سوچیں آج سے 25 سال بعد جب آزادی کی صد ی منائی جارہی ہو گی تو وہ نسل دیکھے گی کہ ہمارے گاؤں کے لوگوں نے 75 سال بعد یہ تالاب بنایا تھا۔ اور اگر کسی گاؤں میں تالاب ہو تو وہاں طاقت ہوتی ہے ۔ پاٹیدار تبھی پانیدار بنتے ہیں جب پانی ہو۔ اس لیے ہم بھی ماں اومیہ کی رہنمائی میں اس 75 تالاب کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اور یہ کوئی بڑا کام نہیں، ہم نے لاکھوں چیک ڈیم بنائے، ہم ایسے لوگ ہیں۔ آپ تصور کریں کہ یہ کتنی بڑی خدمت ہوگی۔ 15 اگست 2023 سے پہلے کام مکمل کر لیں گے۔ معاشرے کو تحریک ملے، ایسا کام ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ ہر 15 اگست کو تالاب کے قریب پرچم کشائی کا پروگرام بھی گاؤں کے سینئر کو بلا کر منعقد کیا جائے – ہم جیسے لیڈروں کو مدعو نہ کریں۔ گاؤں کے سینئر کو بلا کر پرچم کشائی کا پروگرام منعقد کریں۔ آج بھگوان رام چندر جی کا جنم دن ہے۔ جب ہم بھگوان رام چندر جی کو یاد کرتے ہیں، ہمیں شبری یاد آتی ہے ، ہمیں کیوٹ یاد آتے ہیں، ہمیں نشاد راجہ یاد آتے ہیں، سماج کے ایسے چھوٹے لوگوں کا نام آتا ہے کہ بھگوان رام کا مطلب یہ سب کچھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو معاشرے کے پسماندہ طبقے کا خیال رکھتا ہے، وہ مستقبل میں لو��وں کے ذہنوں میں عزت کا مقام پاتا ہے۔ ماں اومیہ کے عقیدت مند سماج کے پسماندہ لوگوں کو اپنا سمجھتے ہیں – کسی بھی معاشرے کا دکھی، غریب – خواہ وہ کچھ بھی ہو۔ بھگوان رام کو بھگوان اور پورن پرشوتم کہا جاتا ہے، اس کی اصل میں یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے کے چھوٹے لوگوں کے لیے جس طرح زندگی گزاری اور ان کے درمیان کس طرح زندگی گزاری، ان کی شان کم نہیں ہے ۔ ماں اومیہ کے عقیدت مند بھی خود آگے بڑھیں، لیکن کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے، انہیں بھی اس کی فکر کرنی چاہیے۔ تبھی ہمارا آگے بڑھنا درست ہو گا، ورنہ جو پیچھے رہ گیا ہے وہ آگے بڑھنے والے کو پیچھے کھینچ لے گا۔ پھر ہمیں مزید محنت کرنی پڑے گی، اس لیے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے پیچھے والوں کو آگے لاتے رہیں گے تو ہم بھی آگے بڑھیں گے۔ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ آزادی کا یہ امرت مہوتسو، بھگوان رام کا پراگٹیہ مہوتسو اور ماں اومیہ کا پوٹوتسو اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے ہیں، پھر جس رفتار سے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، آپ دیکھیں، کورونا کتنا ہے۔ ایک بہت بڑا بحران آیا ہے، اور اب بحران ختم ہو گیا ہے، ہمیں یقین نہیں کیونکہ یہ اب بھی کہیں کہیں دکھائی دے رہا ہے۔ کافی بہو روپی ہے یہ بیماری۔ اس کے سامنے مقابلہ کرنے کے لئے تقریبا 185 کروڑ خوراکیں ۔دنیا کے لوگ سنتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا – آپ سب کے تعاون کی وجہ سے۔ اس لیے ہم بڑے پیمانے پر بیداری لائیں گے۔ اب صفائی کی مہم، ہماری فطرت کیوں نہ بن جائے، ہم پلاسٹک کا استعمال نہیں کریں گے- کیوں نہ ہماری فطرت بن جائے، ہم سنگل یوز پلاسٹک کا استعمال نہیں کریں گے۔ گائے کی پوجا کرتے ہیں، ماں اومیہ کے عقیدت مند ہیں، جانور کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر وہ پلاسٹک کھاتی ہے تو ماں اومیہ کے عقیدت مند ہونے کے ناطے یہ درست نہیں ہے۔ اگر ہم ان سب چیزوں کو لے کر آگے بڑھیں تو.. اور مجھے خوشی ہے کہ آپ نے سماجی کاموں میں اضافہ کیا ہے۔ پوٹوتسو کے ساتھ، پوجا پاٹھ ، تعظیم، عقیدہ، جو کچھ بھی ہوتا ہے ،وہ ہوتا ہے ، لیکن اس سے آگے آپ نے پوری نوجوان نسل کو ساتھ لے کر، خون کا عطیہ وغیرہ کا جو بھی کام کیا ہے ۔ میری تمام نیک تمنائیں ہیں۔ آپ کے درمیان دور سے ہی سہی لیکن ّآنے کا موقع ملا ، میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے ۔ آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ۔ ماں او میہ کے قدموں میں پرنام ! شکریہ!,গুজৰাটৰ জুনাগড়ত উমিয়া মাতা মন্দিৰৰ চতুৰ্দশ প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উদযাপন উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰী মোডীৰ বাৰ্তাৰ অসমীয়া ৰূপান্তৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/24%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84-%D8%8C2018%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%84%D8%A7%D8%8C-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AA-%E0%A6%8F%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6/,نئی دہلی ،25؍اپریل : یوم قومی پنچایتی راج کے سلسلے میں راشٹریہ گرام سوراج ابھیان کے موقع پرمانڈلا، مدھیہ پردیش میں 24اپریل ، 2018کووزیراعظم نے جو تقریرکی ہے ، اس تقریرکے بعض اہم اقتباسات درج ذیل ہیں : اسٹیج پرتشریف فرماں مدھیہ پردیش کی گورنر،آنندی بین پٹیل ، ریاست کے وزیراعلیٰ،جناب شیوراج سنگھ ، مرکز میں کابینہ کے میرے ساتھی ،جناب نریندرسنگھ جی تومر، جناب پروشوتم روپالا، ، ریاستی سرکارکے وزیرگوپال جی ، اوم پرکاش جی ، سنجے جی ، سنسد میں میرے ساتھی، جناب فگن سنگھ کلستے جی ، محترمہ سمپتیاوی کے جی او ر اب بھارتیہ جنتاپارٹی کے جو صدربنے ہیں اورہمارے جبل پورکے ایم پی ہیں ، جناب راکیش سنگھ جی ، منڈلاضلع پنچایت کی صدرمحترمہ سرسوتی مراوی جی اور آج بڑے فخرکے ساتھ ایک اورتعارف بھی کرواناچاہتاہوں ،ہمارے درمیان تشریف فرماں تریپورہ کے نائب وزیراعلیٰ ۔گذشتہ دنوں تریپورہ کے انتخاب نے ایک تاریخی کام انجام دیا۔ وہاں کی عوام نے ایک تاریخی فیصلہ کیا اور زبردست اکثریت سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی سرکاربنائی ۔ تریپورہ میں زیادہ ترجن جاتیہ سمودائے رہتاہے ۔ آپ کے یہاں جیسے گونڈروایت کی تاریخ ہے ویسے ہی تریپورہ میں آدی جاتی کے لوگوں کا ، جن جاتیہ سمودایوں کا ، وہاں کے راج شاسن کی ایک بہت بڑی لمبی تاریخ ہے ۔ اورمجھے خوشی ہے کہ آج اس تریپورہ کے نومنتخب نائب وزیراعلیٰ، جناب جشنو دیوورما جی میرے درمیان میں ہیں اوروہ تریپورہ کے اس جن جاتیہ سمودائے سے آتے ہیں اوراس راج پریوار سے آتے ہیں ، جنھوں نے انگریز سلطنت کے سامنے لوہا لیاتھا ، آج میں یہاں مدھیہ پردیش کی سرزمین پران کا استقبال کرتے ہوئے فخرمحسوس کررہاہوں ۔ بھائیو، بہنو،ہم سب آج ماں نرمداکی گود میں اکھٹے ہوئے ہیں ۔ میں سب سے پہلے قریب قریب 1300کلومیٹرلمبے پٹ والی ماں نرمدا ، یہاں سے شروع ہوکرگجرات میں سمندری تٹ تک جانے والی ماں نرمدا ، ہمارے کروڑوں لوگوں کی زندگی کوسنبھالنے ۔سنوارنے والی ماں نرمدا ، ہماری پشوپالن ہو ، ہماری کرشی ہو ، ہمارا گرامین جیون ہو ، صدیوں سے ماں نرمدا نے ہمیں نئی زندگی دینے کاکام کیاہے ۔ میں اس ماں نرمدا کوپرنام کرتاہوں ۔ آج میری خوش قسمتی ہے ، مجھے اس علاقے میں پہلے بھی آنے کی خوش نصیبی ملتی رہی ہے ۔ رانی درگاوتی ، پراکرم کی گاتھائیں ، تیاگ اور بلیدان کی گاتھائیں ہم سب کو پریرنا دیتی رہی ہیں ۔ اوریہ ہمارے ملک کی خصوصیت رہی ہے چاہے رانی درگاوتی ہو، چاہے رانی اونتی بائی ہو، سماج کے لئے جدوجہدکرتے رہنا، بیرونی سلطنت کے سامنے کبھی نہیں جھکنا، جینا توشان سے جینا ، مرنا تو سنکلپ کو لے کرکے مرنا، اس روایت کے ساتھ آج ہم اس سرزمین پراپنی آدی جاتی کے قابل فخرپروگرام کا آغاز کررہے ہیں ۔ لیکن ساتھ ساتھ آج یوم پنچایت بھی ہے ۔ لائق احترام باپوکے خوابوں کو شرمندہ ٔ تعبیرکرنے کا یہ ایک بہت اہم موقع ہے کیونکہ مہاتماگاندھی کی پہچان بھارت کے دیہاتوں سے ہے ، اس عہد کو بارباردوہرایاتھا ۔ مہاتماگاندھی نے گرام سوراج کی کلپنادی تھی ۔ مہاتماگاندھی نے گرام اودیے سے راشٹراودیے ، اس راستے پرچلنے کے لئے ہمیں ترغیب دی تھی ۔ اورآج یوم پنچایت راج پرمیں ملک کی قریب دولاکھ چالیس ہزارپنچایتوں کو ، ان پنچایتوں میں رہنے والے کوٹی کوٹی میرے بھارت واسیوں کو ، ان پنچایتوں کے عوامی نمائندوں کے طورپربیٹھے ہوئے 30لاکھ سے زیادہ عوامی نمائندوں کو اور اس میں بھی ایک تہائی سے زیادہ ہماری ماں بہنیں ، جو آج دیہی زندگی کی قیادت کررہی ہیں ، ایسے سب کو آج یوم پنچایتی راج پرپرنام کرتاہوں ، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتاہوں ۔ اورمیں ان کو یقین دلاناچاہتاہوں آپ کواپنے گاوں کی ترقی کے لئے ، آپ کو اپنے گاوں کے لوگوں کو مستحکم بنانے کے لئے ، آپ کواپنے گاوں کے مسائل سے نجات دلانے کے لئے آپ جوبھی عہد کریں گے ان وعدوں کو پوراکرنے کے لئے ہم بھی ، بھارت سرکاربھی کندھے سے کندھا ملاکرآپ کے ساتھ چلے گی ۔آپ کے خوابوں کے ساتھ ہمارے خواب بھی جڑیں گے ، اورہم سب کے خوابوں کومل کرکے سواسوکروڑدیش واسیوں کے خوابوں کو ہم پورا کرکے رہیں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ یوم پنچایت راج پرگاوں کے لئے کچھ کرنے کا عہدکریں ۔ پرانے زمانے میں کبھی کبھی ہم جب یہاں منڈلامیں آتے ہیں تواسی قلعے کی پہچان ہوتی ہے ، اس شاہی کنبے کے انتظام کی پہچان ہوتی ہے اورہم سب بڑاسینہ تان کرکہتے ہیں کہ صدیوں پہلے گونڈ بادشاہوں نے کتبا بڑاکام کیاتھا، کیسا زبردست انتظام کیاتھا۔ اس وقت شاہی انتظامات تھے ، شاہی روایات تھیں اور شاہی روایات سے جڑے ہوئے لوگ اپنے علاقے کے عوام کی بھلائی کے لئے کچھ ایسا کام کرنے کی کوشش کرتے تھے، جس کو آج صدیوں کے بعد بھی ہم تاریخ کے ذرائع سے تصورکرتے ہیں ، فخرکرتے ہیں اور ہم آنے والی پیڑھیوں کو بتاتے ہیں ۔ اس زمانے میں جوانتظام تھا ، اسی انتظام کے تحت ایس ہوتاتھا۔ اب جمہوریت ہے ، ایک معینہ مدت کے لئے دیہات کے لوگوں نے ہمیں ذمہ داری سونپی ہے ، گاوں کے لوگوں نے ہم پربھروسہ کیاہے ۔ایسا کون پنچایت کا پردھان ہوگا ، ایسا کون پنچایت کا نمائندہ ہوگا جس کے دل میں یہ خواہش نہ ہو کہ یہ پانچ سال جواسے ملے ہیں ، ان پانچ سالوں کے دوران گاوں کے لئے یہ 5اچھے کام ، 10اچھے کام ، 15اچھے کام اس کی مدت کے دوران ہی مکمل کیے جائیں ۔ یہ عہد اورتب جاکرکے 20سال ، 25سال کے بعد ، جب آپ بوڑھاپے سے گزرتے ہوں گے ، گھرمیں پوتے پوتیوں کولے کرکے کبھی راستے میں نکلیں گے ، توآپ بھی اپنے پوتے پوتیوں کوبتائیں گے کہ 25سال پہلے میں پنچایت کا پردھان تھا ، 25سال پہلے میں پنچایت میں چن کرکے آیاتھااوردیکھواپنے وقت میں ، میں نے یہ تالاب کاکام کیاتھا، میرے زمانے میں یہ اسکول قائم ہواتھا ، یہ پیڑمیں نے لگوائے تھے ، اپنے زمانے میں میں نے یہ کام کیاتھا ، اپنے وقت میں میں نے کنواں کھدوایاتھا ، گاوں کوپانی ملاتھا۔ آپ بھی ضرورچاہیں گے کہ کچھ ایسا کام کرکے جائیں کہ جب اپنے پوتے پوتیوں کوآپ کہیں کہ جنتا نے آپ کو منتخب کرکے بٹھایاتھا اورآپنے 25سال ، 30سال پہلے یہ کام کیاتھا اور جس کا ہمیں سنتوش ہے ۔ کون پنچایت کانمائندہ ہوگا جس کے دل میں یہ تمنانہ ہوگی ؟ میں آپ کے دل میں وہ خواہش پیداکرناچاہتاہوں ۔ میں آپ کوعزم مصمم والا انسان بناناچاہتاہوں ۔ اپنے گاوں کے لئے کچھ کرگزرنے کاارادہ اور اس کے لئے جو پانچ سال ملتے ہیں ، وہ پانچ سال پل پل جنتاجناردن کے لئے کھپادینے کااگرعہد لے کرچلیں تودنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے ، دنیا کی کوئی چنوتی نہیں ہے ، کوئی ایسی مصیبت نہیں ہے ، جس پرہم غالب آکرہم اپنے گاوں کی زندگی میں تبدیلی نہ لاسکیں ۔ کبھی کبھی گاوں کی ترقی کی بات آتی ہے تو زیادہ ترلوگ بجٹ کی باتیں کرتے ہیں ۔ کبھی زمانہ تھا جب بجٹ کی وجہ سے شاید مصبتیں رہی ہوں ، لیکن آج بجٹ کی فکرکم ہے ، آج فکرہے کہ بجٹ کے فنڈ کے پیسے کاصحیح استعمال ہو؟صحیح وقت پرکیسے ہو؟صحیح کام کے لئے کیسے ہو؟صحیح لوگوں کے لئے کیسے ہو؟اورجوہواس میں ایمانداری بھی ہو، شفافیت بھی ہواور گاوں میں ہرکسی کو پتاہوناچاہیے کہ یہ کام ہوا، اتنے پیسوں سے ہو ا اوریہ گاوں کو میں حساب دے رہاہوں ۔ یہ عادت ، مسئلہ پیسے کا نہیں ہے ، لیکن مسئلہ اولین ترجیح کاہوتاہے ۔ آپ مجھے بتائیے ، گاوں میں اسکول ہیں ، اسکول کی اچھی عمارت ہے ، گاوں میں ماسٹرصاحب کا تقررکیاگیاہے ، ماسٹرصاحب کو تنخواہ مستقل مل رہی ہے ، اسکول اپنے وقت پرکھل رہاہے ، لیکن اگراس کے باوجود بھی میرے گاوں کے 25-5بچے اسکول ن��یں جاتے ہیں ، کھیت میں جاکرچھپ جاتے ہیں ، پیڑپرجاکربیٹھ جاتے ہیں ، اور 25-5بچے ان پڑھ رہ جاتے ہیں ، مجھے بتائیے یہ 25-5بچے انپڑھ رہ گئے ، کیایہ بجٹ کامسئلہ تھا؟جی نہیں ، ماسٹرکا مسئلہ تھا؟ جی نہیں ۔ہم گاوں کے لوگوں نے ہمارے گاوں واسیوں کو یہ جو بات سمجھانی چاہیئے کہ بھئی اسکول ہے ، ماسٹرصاحب ہیں ، سرکارفیس دیتی ہے ، سرکاریونیفارم دیتی ہے ، سرکار دوپہرکاکھانا دیتی ہے۔ آؤ ،ہمارے گاوں میں ایک بھی بچہ اسکول سے چھوٹ نہ جائے ۔ہمارے گاوں کا ایک بھی بچہ انپڑھ نہ رہ جائے ، کیا ہم یہ عہد نہیں کرسکتے ؟ ہمارے والدین ناخواندہ رہے ہوں گے ، ان کو شاید وہ خوش قسمتی نہیں ملی ہوگی ۔ اس وقت کی سرکاروں کے رہتے ہوئے وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے ہوں گے لیکن ہم اگرپنچایت میں منتخب ہوکرآئے ہیں ، ریاست میں بھی سرکار، مرکز میں بھی سرکار،بچوں کی تعلیم کے لئے مواقع ہیں ، بیٹیوں کی تعلیم کے لئے خصوصی مواقع ہیں ، توکیاہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے پانچ میں ایسا کام کریں کہ اسکول جانے کی عمرمیں ایک بھی بچہ انپڑھ نہ رہے ۔ آپ دیکھیئے وہ بچہ جب بڑاہوگا، اچھی پڑھائی کرکے آگے نکلے گا ، وہ بچہ بڑاہوکرکے کہے گا کہ میں توغریب ماں کا بیٹاتھا، کبھی ماں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے جاتاتھا، لیکن میرے گاوں کے پردھان جی تھے ، وہ کھیت میں سے مجھے پکڑکر لے گئے تھے اورمجھے کہابیٹے ابھی تیری عمرکھیت میں کام کرنے کی نہیں ہے ، چل اسکول چل ، پڑھائی کر، اورپردھان جی مجھے لے گئے تھے ۔ اسی کی بدولت آج میں ڈاکٹربن گیا ، آج میں انجینئر بن گیا ، آج میں IASافسربن گیا ، میرے کنبے کے افراد کی زندگی بدل گئی ۔ ایک پردھان جی کی وجہ سے ایک زندگی بھی بدل جاتی ہے توپورا ہندوستان بدلنے کے لئے صحیح سمت میں چل پڑتاہے ۔ اوراس لئے میرے پیارے سبھی نمائندوں ، یہ یوم پنچایت راج ، یہ ہمارے عہد کا دن ہوناچاہیئے ۔ آپ مجھے بتائیے اورآج کے زمانے میں صحت شعبے میں اتنے اچھے سدھارہوئے ہیں ۔ اگرپولیوکی خوراک صحیح وقت پربچوں کو پلادی جائے توہمارے گاوں میں بچوں کوپولیوہونے کا امکان نہیں ہے ، بچ جاتاہے ۔ آپ مجھے بتائیے آج بھی آپ کے گاوں میں کوئی 40سال کا، کوئی 50سال کا شخص پولیوکی وجہ سے پریشانی کی زندگی جیتاہوگا، معذوری کی حالت میں آپ دیکھتے ہوں گے ، آپ کے من میں پیڑاہوتی ہوگی کہ نہیں ہوتی ہوگی ؟آپ کو لگتاہوگا کہ نہیں لگتاہوگا ، ارے بھگوان نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کردیا ، بیچارہ چل بھی نہیں پاتاہے ۔ آپ کے من میں ضروریہ جذبہ پیداہوتاہوگا۔ میرے بھائیو، بہنو، 50-40سال کی عمرمیں اس شخص کو خوش قسمتی نصیب نہیں ہوئی ۔ لیکن آج ، آج پولیو کا خوراک ، آپ کے گاوں کے کسی بھی بچے کو اپاہج نہیں ہونے دیتاہے ، معذورنہیں ہونے دیتاہے ، اس کو پولیوکی بیماری نہیں آسکتی ہے ۔ کیاپولیوکا خوراک ، اس کے لئے بجٹ لگے گا کیا؟ڈاکٹرآتے ہیں ، سرکارآتی ہے ، پیسے خرچ کئے جاتے ہیں ، پولیو کی خوراک کی تاریخ کی ٹی وی میں ، اخبارمیں لگاتاراعلان ہوتاہے ۔ کیامیں پنچایت میں سے منتخب شخص ، میں میرے گاوں میں پولیو کے خوراک کے اندرکبھی بھی کوتاہی نہیں برتوں ، کیا یہ فیصلہ میں کرسکتاہوں کہ نہیں کرسکتا؟کیا یہ کام میں کرسکتاہوں کہ نہیں کرسکتاہوں ؟ لیکن کبھی کبھی نمائندوں کومحسوس ہوتاہے کہ یہ کام توسرکاری بابووں کا ہے ، ہمارا کام نہیں ہے ۔ جی نہیں ، میرے پیارے بھائیو، بہنو، ہم عوام کے خادم ہیں ، ہم سرکارکے خادم ن��یں ہیں ۔ ہم عوامی نمائندگی عوام کو راحت پہنچانے کے لئے آتے ہیں اوراس لئے ہماری طاقت ، ہمارا وقت اگراسی کام کے لئے لگتاہے تو ہم اپنے گاوں کی زندگی بدل سکتے ہیں ۔ آپ مجھے بتائیے ، میں چھوٹی چھوٹی باتیں اس لئے بتاتاہوں ، کہ کبھی کبھی بڑی باتیں کرنے کے لئے تو بہت صحیح جگہ ہوتی ہے اوربڑے بڑے لوگ بڑی بڑی باتیں بتاتے بھی رہتے ہیں ۔ لیکن ہمیں اپنے گاوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی تبدیلی آتی ہے ۔ ہمیں معلوم ہے ہمارے گاوں کا کسان ، کیااس کویہ پتہ ہے کہ اگرجس کھیت میں اس کاپیٹ بھرتا ہے ، جس کھیت سے وہ سماج کا پیٹ بھرتا ہے ،اگراس مٹی کی صحت اچھی نہیں ہوگی ، توکبھی نہ کبھی وہ دھرتی ماتاروٹھ جائےگی کہ نہیں جائیگی ؟دھرتی ماتا آج جتنی فصل دیتی ہے ، وہ دینا بند کریگی کہ نہیں کریگی ؟ہم بھی بھوکھے مریں گے اوربھی بھوکھے مریں گے ۔ہماری آنے والی پیڑھی بھی غریبی میں گذارا کرنے کے لئے مجبور ہوجائیگی ۔ کیاکبھی سوچا ہے ہم کبھی گاوں کے لوگوں کو بٹھائے ، بٹھا کرکے طے کریں کہ بھائی بتاو ، ہم جلدی جلدی فصل ، زیادہ زیادہ فصل دکھائی دے اس لئے اتنی بڑی مقدارمیں یوریاڈالتے ہیں ۔ بغل والے نے ایک تھیلا یوریا ڈال دیا تو میں بھی ایک تھیلا ڈال دیتاہوں ۔ بغل والے نو دوتھیلے ڈال دیئے تو میں بھی دوتھیلے ڈال دیتاہوں ۔ بغل والے نے لال ڈبے والی دوائی ڈال دی تو میں بھی لال ڈبے والی دواڈال دوں اوراس کی وجہ سے میں میری زمین کوبربادکرتاہوں ۔ کیاگاوں کے لوگ مل کرکے طے کریں کہ ہم اگرپہلے پورے گاوں میں 50تھیلایوریا آتاتھا ، اب ہم 40تھیلے سے چلائیں گے ، 40بیگ سے چلائیں گے ۔ یہ بتایئے ، گاوں کے 10بیگ کا پیسہ بچے گا کہ نہیں بچے گا ؟گاوں کے اندریوریا کی وجہ سے جوہماری مٹی کی صحت خراب ہورہی ہے ، ہماری زمین برباد ہورہی ہے ، اس کو بچانے کی تھوڑی سی بھی ہماری کوئی بنیاد بنے گی کہ نہیں بنے گی ؟پیسے بھی بچیں گے ، دھیرے دھیرے فصل بھی اچھی لگنے لگے گی ۔ ہماری ماں ، دھرتی ماتاہم پرخوش ہوجائےگی، وہ بھی ہمیں آشیرواد برسائیگی کہ دوائیاں پلا پلا کرمجھے ماررہاتھا۔ اب میرابیٹا سدھرگیاہے ، اب میں بھی ایک دھرتی ماں کی طرح اس کا پیٹ بھرنے کے لئے زیادہ کروں گی ۔ آپ مجھے بتایئے کرسکتے ہیں کہ نہیں کرسکتے ؟ میں آپ سے ، میرے آدی واسی بھائیوں سے پوچھنا چاہتاہوں ، میں جن جاتی کے بھائیوں سے پوچھناچاہتاہوں کیایہ کام ہم کرسکتے ہیں کہ نہیں کرسکتے ؟کرسکتے ہیں کہ نہیں کرسکتے ہیں ؟ بھائیو، بہنو ، سرکارنے ایک بہت اہم کام کے بارے میں سوچاہواہے ۔ ہمارے ملک کی بدنصیبی رہی ہے کہ آزادی کی لڑائی کچھ ہی لوگوں کے آس پاس، کچھ ہی کنبوں کے آس پاس سمٹ گئی ۔سچے شہدا کی کہانیوں کی تاریخ کے صفحوں پربھی درج ہونے سے پتہ نہیں کیا مصیبت آئی ، میں نہیں جانتا۔ اگر1857سے دیکھیں ، اس کے پہلے بھی سیکڑوں سالوں کی غلامی کے کال کھنڈ میں کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گیاہے کہ ہندوستان کے کسی نہ کسی علاقے میں عزت نفس کے لئے ، تہذیب کے لئے ، آزادی کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیوں نہ دی ہوں ۔ سیکڑوں سالوں تک لگاتاردی ہیں ۔ لیکن مانو1857کے بعد بھی دیکھیں ، بہت کم لوگوں کو پتہ ہے اورہمیں بھلادیاگیاہے کہ میرے جن جاتی کے بھائیو۔بہنونے بھارت کی آزادی کے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں ۔ بھارت کی شان کے لئے کتنی بڑی بڑی لڑائیاں لڑی ہیں ۔ درگاوتی ، آونتی بائی کوتویاد کرتے ہیں ، برسامنڈا کو یاد کرتے ہیں ، کتنے لوگوں نے دیئے ہیں ۔ میراخواب ہے ک�� ہندوستان کے ہرصوبے میں ، جہاں جہاں جن جاتیہ سمودائے کے ہمارے بزرگوں نے آزادی کی لڑائی لڑی ہے ، ان کا ہرصوبے میں ایک جدید میوزیم قائم کیاجائے گا۔ اسکول کے بچوں کووہاں لے جایاجائے گااوران کو بتایا جائےگا کہ یہ ہمارے جنگلوں میں رہنے والے ہمارے جن جاتیہ بھائیوں نے ہمارے ملک کی تہذیب اورتاریخ کے لئے کتنی قربانیاں دی تھیں اورآنے والے دنوں میں مدھیہ پردیش میں بھی یہ کام ہونے والا ہے ۔ اوراس لئے میرے بھائیو، بہنو، آج ہم منڈلا کی سرزمین سے ماں درگاوتی کاتصورکرتے ہوئے آدی میلہ کررہے ہیں ، تب پنچایت راج کے بھی اس اہم تیوہارپرہمارا پنچایت راج میں مضبوطی آئے ، ہماری جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں ، ہمارے عوامی نمائندگان ماں بھارتی کے مفاد کے لئے ، اپنے گاوں کے مفاد کے لئے اپنے آپ کو کھپادیں ۔ اسی ایک بھاونا کے ساتھ میں آپ سب کودلی بہت بہت نیک خواہشات دیتاہوں ۔ جناب تومرجی ، روپالا جی اور ان کے محکمہ کے سبھی افسران کو بھی میں دل سے مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ کیونکہ انھوں نے ملک بھر میں گرام سوراج ابھیان چلایاہے ۔ آنے والی 30اپریل کوآیوش مان بھارت کا لوک جاگرن ہونے والاہے ۔ 2مئی کو کسانوں کے لئے کاریہ شالائیں ہونے والی ہیں ۔ گاوں کے جیون سے جڑی ہوئی باتیں جڑنے والی ہیں ۔ آپ سب بڑے جوش اورامنگ کے ساتھ اس کے ساتھ جڑیں ۔ ان ہی توقعات کے ساتھ بہت بہت نیک خواہشات ، بہت بہت مبارکباد ۔ (م ن ۔ ع آ۔),"২৪ এপ্ৰিল, ২০১৮ত মধ্যপ্ৰদেশৰ মান্দলাত ৰাষ্ট্ৰীয় পঞ্চায়তী ৰাজ দিৱসত ৰাষ্ট্ৰীয় গ্ৰাম স্বৰাজ অভিযানৰ শুভাৰম্ভণি অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূপ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%B1%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%D9%BE%DB%81-%DA%86%D8%B1%DA%86%D8%A7-2-0-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D9%86%D9%88%D8%A7%D9%86-%D8%B3%DB%92-%D8%B7%D9%84%D8%A8%D8%A7%D8%A1-%D8%8C-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BE-%E0%A7%A8-%E0%A7%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95/,نئیدہلی۔30؍جنوری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کے ساتھ پرکشا پہ چرچا 2.0 کے موضوع پر طلباء ،والدین اور اساتذہ کے ساتھ وزیراعظم کے گفتگو کا متن حسب ذیل ہے: ’’مجھے گزشتہ برس بھی امتحان کی تیاری کرنے والے طلباء سے ملاقات کا موقع ملا تھا ، اس بار بھی مجھے یہ موقع ملا ہے ، میں محکمہ تعلیم کا ممنون ہوں کہ مجھے آپ لوگوں سے ملنے کا موقع دیا گیا۔ آج خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی سبھی ریاستوں کے طلباء یہاں موجود ہیں۔ ایک طرح سے چھوٹا ہندوستان میرے سامنے ہے۔ لیکن اگر دوسری طرح سے دیکھا جائے تو مستقبل کا ہندوستان بھی میرے سامنے ہے۔ آپ سے گفتگو سے پہلے ہی آج صبح ہمارے سابق وزیردفاع جارج فرنانڈیز کی موت ہوگئی ، وہ ایک جفاکش لیڈر تھے ، جائے پیدائش کہیں ، علاقہ کار کہیں اور نمائندگی کہیں، ایک طرح سے آنجہانی جارج فرنانڈیز پورے ہندوستان میں رچے بسے تھے۔ ایمرجنسی کے دور میں جمہوریت کے قیام کیلئے انہوں نے بہت بڑی جدوجہد کی تھی لیکن وہ گزشتہ کئی برسوں سے بیمار اور بے ہوش تھے۔ کئی برسوں تک صاحب فراش رہنے کے بعد آج وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، میں جارج صاحب کو بصد احترام گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، پرکشا پہ چرچا میں پچھلی بار اور اس بار تجربے کی بنیاد پر تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں ، دنیا کے متعدد ملکوں کے لوگوں کی مانگ تھی تو وہ بھی یہاں جمع ہورہے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کی سبھی ریاستوں کے نمائندے اور وہاں کے طلباء جن میں سینئر طلباء بھی شامل ہیں، طلباء کے والدین اور اساتذہ شامل ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ ایک طرح سے طلباء کی زندگی سے جو راست طور پر رابطے میں آتے ہیں ، ان سب سے گفتگو کرنے کا موقع ملے ۔ ابھی جو ایک رقص کا مظاہر ہ ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ اس میں جو بات بتائی گئی ہے اس کے بعد میری تقریر کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تمام باتیں اس میں شامل ہیں، اگر ہم آج اسے ہی آج کا پیغام مان لیں تو مجھ سمیت یہاں موجود اور ملک بھر میں اس پروگرام کو دیکھنے والےسبھی لوگوں میں ایک نیا اعتماد ، نیا بھروسہ ، نئی امید پیدا کرنے والا رقص تھا۔ میں ان سب کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور اس پورے پروگرام میں رینا نے جو کمال دکھایا ہے دو ہاتھ نہیں ، ایک پیر نہیں، پھر بھی زندگی کا جذبہ کچھ اور ہی ہے۔ ابھی ہم دیکھ رہے تھے پرانا ویڈیو، ا س میں بھی میں نے بتایا تھا کہ یہاں آپ بھول جائیے کہ آپ کسی تقریب میں بیٹھے ہیں، آپ یہ سمجھیے کہ آپ اپنے کنبے میں بیٹھے گفتگو کررہے ہیں اور ہمارے ہی کنبے کا کوئی انتہائی مانوس چہرہ ہم سے گفتگو کررہا ہے، اگر فضا ایسی ہی ہلکی پھلکی رہے گی تو شاید مجھے بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ میرے لیے یہ پروگرام کسی کو نصیحت یا تلقین کرنے کیلئے نہیں ہے ، نہ مجھے والدین کو کوئی نصیحت کرنی ہے، نہ اساتذہ کو اور نہ ہی طلباء کو۔ میں یہاں آپ کے درمیان خود کو آپ کے جیسا ، آپ ہی جیسی ذہنی و قلبی صورتحال میں کچھ لمحے جینا چاہتا ہوں، جس طرح آپ جیتے ہیں۔ آئیے شروع کرتے ہیں، کہاں سے شروع کریں گے؟ ناظم: محترم اس بار طلباء بھی ہیں ، اساتذہ بھی ہیں اور والدین بھی ہیں، یہ تمام لوگ ملک اور بیرون ملک دونوں سے تعلق رکھتے ہیں، سب سے پہلے کولکاتا کی رولی دتّا ہیں، وہ ایک ٹیچر ہیں اور آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہیں۔ سوال کرنے والی خاتون:نمسکار سر! مائی نیم اِز رولی دتّا اینڈ آئی ٹیچ بائیولوجی ایٹ کیندریہ ودیالیہ کولکاتا، مائی کوئسچن ٹو یو سر ، اِز ایزاے ٹیچر، ہمیں ان والدین سے کیا کہنا چاہئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگزام سے ان کے بچوں کا مستقبل یا تو بن سکتا ہے یا بگڑ سکتا ہے؟ ناظم: محترم اسی سے ملتا جلتا ایک اور سوال ہے، ہمارے درمیان روہت شری جی ہیں، جو بیسکلی کیرل سے ہیں، لیکن دلّی میں رہ کر سول سروسز کی تیاری کررہے ہیں، یہ آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ سوال کرنے والا: محترم وزیراعظم صاحب نمسکار، میرا نام روہت شری ہے، میں کیرالا کا رہنے والا ہوں، میں بھی دلّی میں یوپی ایس سی کی تیاری کررہا ہوں، محترم ہمارے والدین اور اساتذہ ہم سے کچھ زیادہ ہی امیدیں رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم پر بہت پریشر بنارہتا ہے ،محترم مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا بھی حال کچھ ہمارے جیسا ہی ہے، اہلیان وطن کو آپ سے کچھ زیادہ ہی امیدیں ہیں، محترم وزیراعظم ہمیں بتائیے آپ ان توقعات کے ساتھ کیسے ڈیل کرتے ہیں اور ہم ا س کے ساتھ کیسے ڈیل کریں؟ ناظم: محترم آپ سے گزار ش ہے کہ براہِ کرم آپ انہیں حوصلہ دیں۔ مودی جی: آپ کیرل سے ہیں، لیکن مجھ سے بھی زیادہ اچھی ہندی بول رہے ہیں، آپ میں سے بہت سے لوگ جب دسویں یا بارہویں درجے میں گئے ہوں گے یا فائنل امتحان ہوگا، کسی کو دن میں دس بار سننا پڑتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا ہے، دوستوں کے ساتھ ٹیلی فون پر بیٹھے رہتے ہیں، چلو کمپیوٹر چھوڑو کچھ پڑھائی کرو، کیا کررہے ہو، ایسا ہی ہوتا ہے نا؟ سچ بتائیے۔ دراصل امتحان کی ا��میت تو ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور میں تو یہ بھی ہیں کہہ سکتا ہوں کہ اس کی پرواہ نہ کرو، جو ہوگا دیکھا جائیگا۔ لیکن کیا امتحان زندگی کا امتحان ہے کہ اس کلاس کا امتحان ہے، اگر اس بار دل میں طے کریں ، بھائی اگزام دسویں کا ہے یا اگزام بارہویں کا ہے، یہ میری زندگی کی کسوٹی نہیں ہے۔ اگر ہم اتنا سا سوچ لیں تو ہمارا بوجھ بہت حد تک کم ہوجائیگا۔ شاید اس کام کیلئے ہمارا فوکس بڑھ جائیگا ، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ یہ جو کچھ کہتے ہیں نا، اب دسویں میں گئے تو سب بیکار زندگی پوری ایسا کچھ نہیں ہے۔ امتحان کے گلیارے سے نکلی ہوئی زندگی ہوتی ہے،محض ایسا ہی نہیں ہے اس کے باہر بھی بہت بڑی دنیا ہوتی ہے۔ اب سے کافی عرصہ پہلے میں نے ایک کویتا پڑھی تھی ، اس میں ایک بہت ہی خوبصورت جملہ تھا، پوری کویتا تو مجھے یاد نہیں لیکن یہ جملہ بڑا شاہکار ہے، ’’کچھ کھلونوں کے ٹوٹنے سے بچپن نہیں مرا کرتا ‘‘ میں سمجھتا ہوں اس میں بہت بڑا پیغام ہے۔ کھلونے کے ٹوٹنے سے بچپن نہیں مرتا۔ ایک آدھ اگزام میں کچھ ادھر ادھر ہوجائے تو زندگی ٹھہر نہیں جاتی۔ زندگی میں ہر لمحے کو کسوٹی ہونا ضروری ہے۔ کسوٹی ہمیں کستی ہے، کسوٹی سے ہم ایک نئی توانائی حاصل کرتے ہیں، ہمارے داخل میں جو بہترین سے بہترین علوم ہیں، ان کے ظاہر ہونے کا موقع ہوتا ہے، اگر ہم اپنے آپ کو کسوٹی کی ترازو پر نہیں رکھیں گے تب زندگی میں جمود پیدا ہوجائے گا اور ٹھہر اؤ زندگی نہیں ہوسکتا۔ زندگی کا مطلب ہی رفتار ہوتا ہے۔ زندگی کامطلب ہی ہوتا ہے خواب۔ زندگی کامطلب ہی ہوتا ہے ان خوابوں کو جی جان سے محنت کرکے عملی تعبیر دینے کیلئے جٹ جانا ورنہ اس زندگی کا کیا مطلب ہے ، اور دوسری بات ہے پریشر کبھی کبھی تو بچوں کی ذہنی صورت ایسی ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسی صورتحال میں پہنچ جاتے ہیں کہ ماں ، ممی ، پاپا کچھ بھی کہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ اب وہ ہمیں بگاڑ رہے ہیں۔ میں کچھ بھی کررہا ہوں یہ صحیح ہے، یہ کچھ نہیں سمجھتے۔ میں خاص طور سے طلباء سے کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے ہم اپنے والدین کی بات پر فوری طور سے ردعمل کا اظہار نہ کریں، اسے غور سے سنیں اور اسے سنتے وقت بھی انہیں محسوس ہونا چاہئے کہ آپ ان کی بات توجہ سے سن رہے ہیں، آپ کو اچھا لگ رہاہے، بہت ہی شوق سے سن رہے ہیں۔ ایک آدھ بار یہ بھی پوچھیے ، ارے مما سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک آدھ بار یہ کرلیجیے شام ہوتے ہوتے مما کہیں گی بیٹا صبح میں نے تجھے بہت کچھ کہہ دیا آپ کو ، مما کو سمجھانا نہیں پڑے گا وہ اپنے آپ ہی سمجھ جائیں گی۔ اس لئے چھوٹی چیزیں عملی ہوتی ہیں اور پھر کبھی جب ممی پاپا اچھے موڈ میں ہوں تو آپ بھی اپنا نظریہ پیش کرسکتے ہیں۔ میں نے بہت سوچا، آپ نے اس دن کہا تھا نا، منڈے کو ، بہت اچھی بات بتائی تھی۔ میں نے کوشش بھی کی پھر بھی، کم پڑگیا۔ مجھے بتایا کیسے کروں؟ آپ کا اگزام تمام ہوا ان کا امتحان شروع۔ گھنٹے بھر تو ان کو سمجھ میں نہیں آئے گا کیا جواب دیں؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کو ماں کی بولتی بند کرنا سکھاتا ہوں لیکن کبھی کبھی نہ سننے سے بھی ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں والدین کے ساتھ دوستانہ ماحول میں آپ کی گفتگو شروع ہوگی، وہ آپ کے ہیلپنگ ہینڈ بن جائیں گے۔ میری والدین سے بھی گزارش ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ نے بچپن میں سوچا تھا کہ ڈاکٹر بننا ہے، اب کلرک بن گئے، تو ساری سزا بچوں کو دے رہے ہوں، وہ ماں باپ ناکام ہیں جو اپنی زندگی کی ادھوری چیزیں اپنے بچوں پر تھوپ کرک�� ان سے کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے اندر جوامکانات موجود ہیں، جو طاقت ہیں، اس کو جاننے یا پہچاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ اس کے لئے ماں باپ کو ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا گھر میں، چھوٹا بچہ اٹھ کر چلنا سیکھتا ہے، تو ماں کیا کرتی ہے، وہ اٹھتا ہے ایک دو قدم چل کے گر جاتا ہے، تو کیا ماں اسے ڈانٹتی ہے؟ نہیں تالی بجاتی ہے جس سے بچے کو لگتا ہے کہ گرنا بری بات نہیں ہے۔ اب کسی ماں کو یہ لگے کہ وزیراعظم نے یہ لیکچر دیا تھا کہ بچہ گرجائے تو تالی بجانا کیا کسی کتاب میں پڑھا تھا، لیکن ماں کو توبچے کا حوصلہ بڑھانا ہے۔ پھر بچہ کیا کرے گا۔ تین چار قدم چلنا سیکھے گا تو ماں اس کی کوئی پسندیدہ چیز لیکر دور کھڑی رہے گی اور کہے گی آؤ آؤ ، ہٹتی جائے گی، بچے کو لگے گا کہ ذرا دوڑ کر اسے لے آؤں ماں باپ ا س کا حوصلہ بلند کرتے ہیں لیکن یہ سب علم ہونے کے بعد بچپن میں ان سبھی مرحلوں سے گزرنے کے بعد بھی ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ماں باپ کو محسوس ہوتا ہے کہ بس اب بچہ تیا رہوگیا، مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غلطی یہیں سے شروع ہوتی ہے، ماں باپ کو بچے کو زندگی بھر اسی روپ میں دیکھنا چاہئے ، پچکارنا چاہئے، حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اگر گر بھی جاتا ہے تو حوصلہ بلند کرنا چاہئے۔ نیچے گرتا ہوا دیکھ کر اس کو ڈانٹتے رہنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جہاں تک توقعات اور امیدوں کا سوال ہے ، ایک طرح سے امیدیں اچھی چیز ہوتی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا ماں بچے کو دور رہ کر دوڑاتی ہے، وہاں بچے کو امید رہتی ہے کہ اب بس دس قدم دوڑ کر ماں کے پاس پہنچا جاسکتا ہے۔ امید یقیناً موجود ہوتی ہے، امیدوں کی وجہ سے ہی ہمارے اندر کچھ کرنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے اگر امیدیں نہیں ہوں گی ، تو مجھے بتائیے ایک مریض ہو جس میں زندگی جینے کی خواہش نہ ہو، صحتیاب ہونے کی خواہش ہی نہ ہو، ایسے ہی سب کچھ چھوڑ کر موت کا انتظار کررہا ہو، کتنے ہی بہتر سے بہتر لے آئیں ، کتنے ہی بہتر سے بہتر اسپتال میں داخل کرائیں کیا وہ پیسینٹ ٹھیک ہوسکتا ہے؟ مایوسی کے غار میں ڈوبا ہوا سماج ، شخص یا کنبہ کبھی کسی کا بھلا کرسکتا ہے۔ اس لئے امید اور توقع آئندہ کی رفتار کیلئے لازمی ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے سوال پوچھا، آپ آئی اے ایس بننا چاہتے ہیں توآپ کے دل میں یہ سوال فطری تھا، یہ بہت ہی فطری ہے کہ سماج میں توقعات ہوں، ناامیدی نہیں ہونی چاہئے، ورنہ یہ چھوڑ و یا ر موتی تو ایسے ہی ہے کچھ ہونے والا ہیں ہے، چلو یار اپنا کام کریں، وہ کہتا ہے مودی جی آپ ہو اور یہ نہیں ہوتا ہے، یہ تو اعتماد ہے، میں توچاہتاہوں لوگ کہتے ہیں کہ مودی نے بہت سے عزائم بیدا ر کردیے۔ میں چاہتا ہوں کہ سوا سو کروڑ اہلیان وطن میں سوا سو کروڑ عزائم بیدار ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی توقعات کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو سنجو کر رکھنا چاہئے۔ ناظم : سر، جموں سے ہمارے ساتھ جڑ رہے ہیں کرشن کمار شرما، جو ایک باپ ہیں ، ان کی ایک پریشانی ہے جو آپ سے شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ سوال کرنے والا: نمسکارصاحب، میرانام کرشن شرما ہے، میں روپ نگر، جموں کا رہنے والا ہوں، آج کل بچو ں پر ہی نہیں ہم پیرینٹس پر بھی دباؤ ہوتا ہے۔ کس کا بچہ کتنے اچھے مارکس لاتا ہے، اس ٹینشن سے باہر کیسے نکلا جائے؟ شکریہ سر۔ ناظم : محترم ایسا ہی ایک سوال ہے ، نارتھ ایسٹ یعنی امپھال سے ، نیلا کماری نے پوچھا ہے۔ یہ بھی ایک بچے کی ماں ہیں۔ سوال کرنے والی خاتون : آئی ایم نیلاکماری فرام امپھال ، منی پور، ایز اے پیرنٹ اینڈ اے ورکنگ وومین آئی ووڈ لائک ٹو نو ہاؤ کین آئی ڈسٹریس مائی سیلف ڈیورنگ اگزامیشن آف مائی چلڈرن، تھینک یو سر۔ ناظم: بنگلور سے ایک ایسا ہی سوال پوچھ رہی ہیں لاونیا ، یہ ایک طالبہ علم ہیں۔ سوال کرنے والی بچی: گُڈ مورنگ، آئی ایم لاونیّا، آئی ایم اسٹڈئنگ اِن سینٹ میری اسکول بنگلورو، مائی کوئسچن ٹو آنریبل پرائمنسٹر اِز گڈ مورننگ سر! ٹوڈے مائی کوئسچن اِز ہاؤ کین وی اسٹوڈنٹس اوور کم دی فیئر کرئیٹڈ بائی آور پیرینٹس ٹیچرس اینڈ آؤ ر لویڈ وہنس ۔ ناظم: ہم اسٹوڈنٹ ، ہمارے پیرینٹس ، ہمارے ٹیچرس اور ہمارے قریبی لوگوں کے ذریعے بنائے گئے دباؤ کا ڈر دل سے کیسے نکالیں؟ بچوں اور پیرینٹس دونوں کے تناؤ کی بات ہورہی ہے۔سر! ہم سب آپ کا جواب سننے کیلئے بے چین ہیں۔ مودی جی: والدین سے میری یہی گزارش ہے کہ آپ کے خواب بھی ہونے چاہئے اور توقعات بھی ہونی چاہئے، لیکن پریشر سے حالات بگڑ جاتے ہیں،آپ نے بہت اچھا کھانا بنایا، بچہ اپنے من سے کھارہا ہے، لیکن آپ نے چونکہ اچھا بنایا ہے، اسلئے آپ بچوں سے کہو کھاؤ اور کھاؤ وہ کھڑا ہوکر چلا جاتا ہے، پریشر سے ری ایکشن ہوتا ہے، ہمیں اس کا پورا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو، لیکن والدین ایسا کیوں کرتے ہیں اس کے پس پشت ایک نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے یار دوستوں یا فیملی فنکشن میں یا سوشل فنکشن میں جاتے ہیں تو اپنے بچے کا رپورٹ کارڈ اپنا وزٹنگ کارڈ بناکر لے جاتے ہیں۔ مسئلے کی سب سے بڑی جڑ یہی ہے کہ ان کو سوسائٹی میں میرا بیٹا یہ ، میرے بیٹے نے یہ کیا، وہ اسی کو لیکر گھومتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ آپ کو گھر میں آکر اگر آپ ٹھیک نہ کریں تو آپ کو ڈانٹتےبھی ہیں۔ میں کیسے جاؤں گا اس کی شادی میں ، تو کیا رزلٹ لایا ہے۔ وہ جب پوچھیں تو میں کیا کروں گا ایسا ہی ہوتا ہے نا؟ یعنی آپ کی کامیابی یا ناکامی ان کی سوشل لائف پر جیسے بہت بڑا پہاڑ گر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا سماج میں ایک مقام بنارہے۔ اسی لئے بچوں پر پریشر بنانا ماں باپ کی عادت بن جاتی ہے۔ ان کاارادہ نہیں ہے، ہمیں ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کرنی چاہئے لیکن وہ بھی اگر صحیح طریقے سے کریں تو، حقیقت میں ماں باپ ایک عمر کے بعد بچے سے رشتہ توڑ لیتے ہیں۔ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو وہی ماں باپ اس کی غلطیوں کا بیان اپنے مہمانوں سے فخر کے طو رپر کرتے ہیں، کل اس نے ایسا کردیا، دودھ کی بوتل گرادی، مطلب یہ کہ غلطیوں کا بیان کرتے ہیں۔ لیکن آٹھ سال کی عمر کے بعد لگتا ہی نہیں ہے کہ اس کی ہر باریکی کو دیکھنا چاہئے۔ اب اس میں کون سا بدلاؤ آرہاہے، اس کی پسند کیا بن رہی ہے، کیسے کررہاہے، یہ سب بچے کی آٹھ سال کی عمر تک ہوتا ہے۔ بعد میں سب کچھ ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ بچہ جب تین مہینے یا چھ مہینے کا تھا اس وقت آپ جتنی باریکی سے اسے آبزرو کرتے تھے اس کو بالغ ہونے تک اسی طرح آبزرو کرناچاہئے۔ لیکن آبزرو کرنے یہ مطلب نہیں کہ آپ نے سوچا اس سمت میں ڈھلنا چاہئے، دیکھتے رہنا چاہئے، اگر اتنا سا کرلیں تو یہ جو پریشر کا ماحول بن جاتا ہے اس سے نجات مل جائے گی۔ ناظم : محترم وزیراعظم ، اس وقت ہمارے درمیان ایک ماں موجود ہیں، جو بیسکلی آسام سے ہیں، لیکن دلّی میں رہتی ہیں، تھوڑا پریشان ہیں۔ ان کا مسئلہ مجھے لگتا ہے کہ بہت کامن پرابلم ہے، کچھ کہنا چاہتی ہیں مدھومیتا سین گپتا۔ سوالی خاتون: عزت مآب وزیراعظم صاحب نمس��ار ، میرا نام مدھومیتا سین گپتا ہے، میرابیٹا نویں کلاس میں پڑھتا ہے، سر میرا بیٹا پڑھائی میں پہلے بہت اچھا تھا ٹیچر اپریشیٹ کرتے تھے، لیکن اب کچھ وقت سے اس کارجحان آن لائن گیمس کی طرف کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی پڑھائی پر اثر پڑرہا ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن مجھے لگتا ہے میں ناکام ہوں۔ براہ کرم میری رہنمائی کریں کہ میں اس صورتحال کو کیسے سنبھالوں، شکریہ۔ ناظم: محترم براہ کرم اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ مودی جی: کیا یہ پی یو بی جی والا ہے؟ یاتو فرنٹ لائن والا ہوگا، یہ مسئلہ بھی ہے اور حل بھی ہے۔ ہم یہ چاہیں کہ ہمارے بچے ٹیکنالوجی سے دور چلے جائیں، تو پھر تو ایک طرح سے وہ ساری زندگی سے پیچھے کی طرف چلے جائیں گے۔ اس لئے ٹیکنالوجی کے معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کا کیا استعمال کرنا ہے ، کیا ٹیکنالوجی اس کو روبوٹ بنارہی ہے یا انسان بنارہی ہے؟ ماں باپ اگر تھوڑی دلچسپی لیں ، کبھی کھانا کھاتے وقت بات کریں ٹیکنالوجی کی ، کہ بتائیے بھائی آج کل کیا چل رہا ہے، ٹیکنالوجی کے میدان میں کیا کیا نیا آیا ہے۔ کس طرح کے نئے نئے ایپس آئے ہیں، اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو اس بچے کو لگے گا کہ میں جو کررہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ میرے باپ اس میں میری مدد کریں۔ میں دیکھ رہا ہوں یہاں ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون ہے، ہوسکتا ہے کچھ لوگ یہاں وزیراعظم کے پروگرام میں ہو ں گے لیکن کوشش کرتے ہوں گے دوست کو بتانے کیلئے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں، اس سے کیا ہوتا ہے ہم دھیرے دھیرے سکڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بڑی نیرو بن جاتی ہے، تو شاید اس سے زندگی کو بہت بڑا نقصان اٹھانا ہوگا۔ ٹیکنالوجی کا استعمال ہمارے فروغ کیلئے ہونا چاہئے میری طاقت میں اضافے کیلئے ہونا چاہئے اور اس کے لئے ٹیچرس کو بھی بار بار ان موضوعات پر بات کرنی چاہئے بصورت دیگر جیسے بچے کھیل کے میدان میں نہیں ہیں، کبھی کبھی ماں باپ کو لگتا ہے پڑھنا بہت اچھا ہے، لیکن امتحان سے کچھ دن پہلے بچہ بیمار ہوجاتا ہے تو ماں باپ کو پسینہ آنے لگتے ہیں، ارے بھائی کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے کھیل کے میدان میں بھی بھیجو۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا تو کبھی کبھی بچوں کے ساتھ بات چیت کرنے کاموقع ملتا تھا، یہ پروگرام اس وقت سے مسلسل جاری ہے۔ اب اس کا نقشہ بدل گیا ہے لیکن میں یہ پروگرام کرتا رہا ہوں، میں کبھی بچوں سے پوچھتا تھا کہ کتنے بچے ایسے ہیں جن کو دن میں چار بار محنت کرنے سے پسینہ آتا ہے، آپ حیران ہوجائیں گے گاؤوں کے بچے بھی کہتے تھے کہ نہیں ایسا تو نہیں ہوتا اب ایسی کیسی زندگی؟ ہنسنا کھیلنا کھلے میدان میں یہ سب زندگی کا حصہ ہونا چاہئے۔ یہی ایک نئی بلندی دیتا ہے، اس کے لئے ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کیسے ہو؟ میں خود ٹیکنالوجی کو انتہائی طاقتور ماننے والا شخص ہوں، میں خود اس کا استعمال کرتا ہوں، آج بھی میں دنیا کے اتنے دیشوں کے ساتھ اور دیش کے لوگوں کے ساتھ بات کررہا ہوں، تو اس کی وجہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ ایک ہی چیز کے دو اچھے پہلو ہوتے ہیں، ایک کسی کو بہت محدود کردیتا ہے تو دوسرے کو بہت کشادہ بنادیا ہے۔ آپ کی یہ تشویش صحیح ہے لیکن آپ اس کے ساتھ بیٹھیے اس کو کام دیجیے کہیے کہ میں نے سنا ہے کہ نارتھ ایسٹ میں ایک ایسا چاول پکاتے ہیں دیکھو بیٹا ٹیکنالوجی میں ذرا ڈھونڈ کر بتاؤ کیسے بنتا ہے چاول، تو اس کو لگے گا ہاں ماں مجھے ٹیکنالوجی کی مدد سے چاول پکانے کا ناگالینڈ کا طریقہ کیا ہے۔ وہ سیکھنا چاہتی ہیں، وہ ٹیکنالوجی آپ دونوں کو جوڑنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کا بھی دل ٹیکنالوجی سے نئی نئی چیز جاننے کا ہوسکتا ہے۔ آپ کبھی اس سے پوچھ سکتے ہیں کہ بھائی آج ہم نے سنا ہے کہ اسپیس میں ایسا ہوا ہے، یا آج ہم نے سنا ہے کہ سائیکلون آنا ہے، تو تم دیکھو ذرا سائیکلو ن آنے کی خبر یہ لوگ کیسے دیتے ہیں، تو بچہ فوراً اس پر کام کرنا شروع کردیگا۔ آپ رفتہ رفتہ اسے ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کی طرف لے جائیے اور اس کو لگنا چاہیے کہ بچہ ترقی کی سمت میں جارہا ہے تو غلط راستے پر جانے کے بجائے وقت برباد کرنے کے بجائے، خود ہی کھیل کود میں رہنے کے بجائے، وہ پلے اسٹیشن سے پلے فیلڈ میں چلا جائیگا۔ ہم سب کو اس سمت کوششیں کرنی چاہئے۔ ناظم: سر، ونش اگروال فریدآباد سے ہیں، یہیں پر اس وقت موجود ہیں، ان کا سوال تھوڑا ہٹ کر ہے۔ سوال کرنے والا شخص: نمسکار سر، میرا نام ونش اگروال ہے اور میں مانورچنا انٹرنیشنل اسکول کی دسویں کلاس کا طالب علم ہوں ، میرا آپ سے سوال ہے ہمیں اپنے نشانے کیسے معین کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنے نشانے معین کرنے میں کنزرویٹو ہونا چاہئے یا ہمیشہ بڑا نشانہ معین کرنا چاہئے، اس میں آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے؟ ناظم : محترم اس پر ہم سب کو کچھ بتائیں۔ مودی جی: میں آپ سے ایک سوال پوچھوں، ذرا ہاتھ اوپر کرنا، ایسے کتنے لوگ مانتے ہیں کہ نشانہ بہت چھوٹا ہوناچاہئے، ذرا ہاتھ اٹھائیں۔ دو تین لوگ ہی ہیں، جو مانتے ہیں نشانہ بڑا ہونا چاہئے کتنے ہیں، تو جمہوری طریقے میں طے ہوگا کہ ہم گجرات میں ہیں ، بچپن سے ایک کہاوت سنتے آئے ہیں، نشانہ چوک معاف ۔ یعنی کہ نشانہ چوک جاتے ہیں تو معاف ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر نشانہ نیچا رکھتے ہیں تو اس کے لئے کوئی معافی نہیں ہوتی ہے۔ نشانے کے تعین میں میری ایک رائے رہتی ہے کہ نشانہ ایسا ہونا چاہئے جس تک آپ کی رسائی ہو، لیکن آپ کی گرفت نہ ہو۔ یعنی لگتا ہے بھائی مان لیجئے کہ مجھے یہاں چھونا ہے، میں کوشش کررہا ہوں لیکن چھو نہیں پارہا ہوں، میری پکڑ میں نہیں ہے، لیکن ایک فٹ اگر اوپر جمپ لگادوں تو میں پکڑ سکتا ہوں، مطلب میری پہنچ میں ہے، میری پکڑ میں نہیں ہے۔ ایک بار پہنچ والا نشانہ طے ہوجائے جب پکڑ میں آجائے گا تو پھر نئے نشانے کاحوصلہ اسی سے پیدا ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم کچھ نہ کرنے کیلئے بڑی بڑی باتیں کرتے رہے ہیں۔ میں نے کچھ بچے ایسے دیکھے ہیں جو گریجویشن کے بعد پوچھیں گے کہ کیا کرتے ہو، میں نے دیکھا وہ کہتے تھے میں سی اے کررہا ہوں، میں حیران تھا اتنے سارے لوگ سی اے کررہے ہیں کیوں کررہے ہیں؟ تو میں نے کچھ ان کے کنبے کو ادھر ادھر باتیں کرتے دیکھا تو میں نے پایا کہ کچھ نہیں کرتا ہوں یہ جواب بڑا بھاری رہتا ہے۔ بیس بائیس سال کی عمر بھی ہوگئی ہے ، رشتے آتے ہیں، تو ماں باپ کیا جواب دیں ، وہ بھی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ بھئی سی اے کررہا ہے۔ یہ نشانہ نہیں ہے یہ ایک طرح سے چال بازی ہے آپ کو محفوظ کرنے کی۔ ہمیں پہلے اپنے آپ کو بخوبی جانناچاہئے اپنے طریقے سے کسی کے حوالے سے نہیں۔ اپنے ماں باپ کے خوابوں کے حوالے سے نہیں۔ اپنے ٹیچر کے خوابوں کے حوالے سے نہیں ۔ اپنے وزیراعظم کی تقریر کے حوالے نہیں ، خود اپنے حوالے سے اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں نےپہلے جو طے کیا تھا ، اس کا کیا ہوا، اس سے آپ کو پتہ چلے گا ہاں میں اتنا ہی تو کرسکتا ہوں۔ اس لئے طے کرو یہاں نہیں رُکنا ہے پانچ قدم اور آگے جانا ہے،نشانہ اپنی طاقت کے ساتھ جڑا ہوا ہونا چاہئے۔ اپنے خوابوں کی طرف لے جانے والا ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ خواب ہی مرے پڑے ہوں، تو طاقت بھی مرتی چلی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی بڑی پہاڑی پر چڑھتا ہے تو پہلے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کو نشانہ بنا کرکے چڑھتے چڑھتے پھر اگلی چوٹی پر جاتا ہے۔ ہمیں بھی یہی کوشش کرنی چاہئے۔ تب ہی نشانے کو زندگی کے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں اور نشانہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر نشانہ حاصل نہیں ہوا ہے تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ، دیکھنا چاہئے کہ میں نے طے کیا تھا کہ کہاں کمی ہوگئی۔ میری محنت میں کہاں کمی رہی۔ میری پلاننگ میں کہاں کمی رہی۔ ان چھوٹے چھوٹے نشانوں کی تصدیق کرتے رہیں گے تو بڑے نشانوں تک پہنچنے کے سفر میں کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوگا۔ ناظم: تملناڈو کے ایک طالب علم نرین آپ سے اپنے دل کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ سوالی طالب علم: سر ، آئی ایم نریندرن فرام تملناڈو ، وہاٹ موٹی ویٹس یو اینڈ آلسو ہاؤ ٹو مینج ٹائم، تھینک یو سر۔ ناظم: جب ہمیں اگزام کھیل یا کسی مقابلے میں ناکامی ملتی ہے تو آپ کے ذریعے ملک کو بلندیوں تک لے جانے کی آپ کی کوششیں ہمیں حوصلہ دیتی ہیں۔ 17 گھنٹوں کی آپ کی روز مرہ کی مصروفیت آپ کو توانا بنائے رکھنے اور بغیر تھکن محسوس کیے آپ کو حوصلہ مند رکھنے میں کیا چیز ہے جو آپ کو موٹیویٹ کرتی ہے۔ ہم اپنے نشانے کو پانے کیلئے پراپر ٹائم مینجمنٹ شیڈول کی پابندی کیسے کریں؟ مودی جی:آپ نے اپنے کنبے میں دیکھا ہوگا ، آپ کبھی تھک جاتے ہوں گے ، کبھی بور ہوجاتے ہوں گے، آپ کا دل بھی کرتا ہوگا ، نہیں یار کچھ اور کریں، لیکن کیا کبھی سوچا ہے کہ ہماری ماں کا بھی تو بدن ہوتا ہے اس کو بھی کبھی تکان محسوس ہوتی ہوگی، وہ بھی کبھی بیمار ہوتی ہوگی، اس کا بھی دل کرتا ہوگا، چلو آج سوجائیں۔ لیکن وہ خواہ کتنی ہی بیمار کیوں نہ ہو بچے کے اسکول سے آنے کے وقت ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ دروازے پر کھڑی رہتی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ ماں تمہیں یہ توانائی کہاں سے آتی ہے، تم چوبیس گھنٹے کے آٹھ گھنٹے کچن میں کھڑی رہتی ہو، اِدھر دوڑتی ہو، ٹیلی فون آیا تو اس کو اٹھا لیتی ہے، گھر کی گھنٹی بجی تو دوڑ جاتی ہو، مہمان آیا تو، پانی پلادیتی ہو، کام والی نہیں آئی تو بلانے کا انتظام کرتی ہو، اتنی ساری چیزیں کیسے کرلیتی ہو، ماں کا دل کہتا ہے کیوں ۔ کنبہ میرا ہے، اس کے لوگ میرے ہیں، تو کون کریگا؟ جب اپنے پن کا یہ جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، تو توانائی اپنے آپ خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ تھکن کبھی گھر کا دروازہ نہیں دیکھتی، میرے لیے بھی سوا سو کروڑ اہلیان وطن میرا کنبہ ہیں، میرا پریوار ہے، تو میں تھکن نہیں محسوس کرتا ۔ ہر پل سوچتا رہتا ہوں، رات کو جب بستر پر جاتا ہوں تو صبح کی سوچ کر سوجاتا ہوں، دن بھر کتنا کیا یانہیں کیا بعد کی بات ہے۔ کل صبح نئے جوش سے میں نکل پڑوں گا ۔ یہ سوچ کر بستر پر جاتا ہوں اور نئی اُمنگ اور نئی توانائی کےساتھ آتا ہوں۔ جہاں تک مینجمنٹ کا سوال ہے اگر کسی سے وقت مانگیے اور وہ یہ کہے کہ میں بہت بیزی ہوں میرے پاس ان دنوں وقت نہیں ہے تو آپ لکھ کے رکھ لیجیے وہ جھوٹ بولتا ہے یعنی اس کو وقت کا استعمال کرنا آتا ہی نہیں ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا اگر آپ اپنے وقت کے بارے میں بیدار ہوں۔ آپ میں سے بہت کم لوگ ہونگے جنہوں نے واقعی اپنے چوبیس گھنٹوں کی مصروفیت کا کم از کم ایک ہفتے کا تجزیہ کیا ہو۔ آپ ایک کام کیجئے بیتے ہوئے ہفتے میں صبح سے ش��م تک آپ نے کیا کیا وقت کا استعمال کس طرح کیا، آپ کو ہی نہیں معلوم کہ میں نے یہ کام کیا، یار میں نے تو بیکار میں ہی وقت خراب کردیا۔ میں تو یہاں خالی بیٹھا تھا، میں تو ایسی ہی باتیں کررہا تھا، میں اس چیز کو دیکھا کرتا تھا ، آپ فوراً سوچیں گے نہیں، ان چیزوں کو کم کروں تو وقت نکال سکوں گا۔ اسے اپنے طور پر استعمال کرسکوں گا ٹائم مینجمنٹ دراصل ہمارے اپنے ہاتھ کی بات ہے۔ ہم اس کو بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں اور اس کے لئے کوئی بہت بڑے ایم بی اے ،آکسفورڈ کی بہت بڑی کتاب پڑھنی ضروری نہیں ہے۔ آپ سمپلی اپنے یہاں گھر کے کام کیلئے آنے والی کام والی کوذرا آبزرو کیجئے ، ان دنوں ایک ہی کنبے میں گھر کاکام کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں، وہ دس بارہ گھروں میں کام کرلیتی ہیں۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ گیارہ بجے کپڑے دھونے ہوتے ہیں،ان کے گھر میں بارہ بجے کچن میں جانا ہے، آپ دیکھیں گے سائیکل ہوگی، اسکوٹی ہوگی ٹریفک کا سارا حساب کتا ب ہوگا، ان کاٹائم مینجمنٹ بالکل پرفیکٹ ہوگا۔ وہ تین چار بجے تک جتنے گھروں میں کام کرتی ہے یا کرتا ہے، بالکل پرفیکٹ ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ کرتا ہے۔ آپ نے دیکھاگا کہ کسی گھر میں اگر نہانے میں دیر ہوئی ہے، کپڑے دھونے باقی ہیں تو وہ کہہ دیتی ہے ٹھیک ہے ، رکھے رہو کل ساتھ میں دھوؤں گی، آج نہیں۔ میرا وقت طے ہے۔ دراصل غلطی یہ ہے کہ آپ نے آبزرو نہیں کیا جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ ہنستے کھیلتے کام کرتے رہتے ہیں، ان پر وقت کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا۔ انہیں کبھی ٹرین پکڑنے کیلئے بھاگنا نہیں پڑتا۔ کبھی لنچ باکس لینا بھول جاتے ہیں ، کبھی چشمہ بھول جاتے ہیں، کبھی کتاب، کچھ نہیں ہوتا سب پرفیکٹ چلتا ہے۔ انہوں نے اپنے وقت کی قیمت سمجھی ہے۔ ہم سنتے ہی آئے ہیں ٹائم اِز منی۔ لیکن ہماری عادت یہ ہے کہ ہم اسی کو سب سے زیادہ برباد کرتے ہیں۔ ہم طے کرلیں کچھ رہ جائے تو رہ جائے وقت برباد نہیں ہونا چاہئے۔ چوبیس گھنٹے آپ کے پاس بھی ہیں، خدا نے اس میں سماجی انصاف کاانتظام کیا ہوا ہے، امیر سے امیر شخص کے پاس بھی چوبیس گھنٹے کا وقت ہی ہے اس لئے اس کا سب سے اچھا استعمال کرنے کی عادت آسانی سے بنائی جاسکتی ہے۔ ناظم: سر پٹھانکوٹ سے ایک طالب علم جڑ رہے ہیں، نام ہے امت چوہان۔ سوال کرنے والا: نمسکار سر!ہاؤ ٹو اسٹڈی ود انٹرسٹ اینڈ فن؟ ناظم: بتائیں تاکہ ہم پڑھائی کو فن اور انٹرسٹ کی طرح لیں، تناؤ کی طرح نہیں۔ ماننیہ امتحان کے دباؤ سے ہی متعلق سوال پوچھا ہے۔ سرپریت ڈینگول نے کاٹھمنڈو سے ، یہ ایک اسٹوڈینٹ ہے۔ سوال کرنے والا: گڈمورننگ سر! میں سرپریت ڈینگول کاٹھمنڈو سے ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امتحان ہماری شخصیت کو نکھارتے ہیں ہا ہماری شخصیت کو دبادیتے ہیں۔ شکریہ سر! ناظم: ہم پرائمری جماعت سے ہی امتحان کے لفظ جینا شروع کرتے ہیں ۔ یہ ہماری شخصیت کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ محترم کیا آپ سوچتے ہیں کہ امتحان شخصیت کو نکھارتا ہے یا پھر امتحان ہماری شخصیت کے مکمل فروغ میں رکاوٹ ہے۔ محترم مہربانی کرکے ہمیں ان دونوں ہی سوالوں کے بارے میں بتائیں۔ مودی جی: دیکھئے کسوٹی بری نہیں ہوتی ہے۔ ایگزام برا نہیں ہوتا ہے ہم اس کے ساتھ کس طرح سے اس کی طرف دیکھتے ہیں، کس طرح سے اس کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں، اس پر انحصار کرتا ہے۔ میرا تو اصول ہے کہ کسوٹی کستی ہے، کسوٹی کوسنے کے لئے نہیں ہوتی ہے، لوگ کسوٹی کو ہی کوستے ہیں، حقیقت میں اگر ہم ، اب مان لیجئے کسی کو اولمپک کھیلنے کے لئے جانا ہے، اگر وہ تحصیل میں کھیلا نہیں ہے ، ڈسٹرکٹ میں کھیلا نہیں ہے ، اسٹیٹ میں کھیلا نہیں ہے ، انٹراسٹیٹ نہیں کھیلا ہے ، نیشنل نہیں کھیلا ہے اور وہ اولمپک کے سپنے دیکھے گا تو کہاں سے ہوگا بھائی۔ اس کو ہر پل کسوٹی میں کسنا پڑے گا۔ اس لئے ہم ایگزام کو کسوٹی کو موقع تصور کریں ، یہ ایک موقع ہے۔ اگر ہم اس کو موقع مانیں گے تو آپ کو اس کا مزہ آئے گا اور جب مقابلہ ہوتا ہے تو یہ بھگوان میں ہر شخص کے اندر ایک غیر معمولی طاقت دی ہوتی ہے ۔ اب دیکھئے ، آپ نارمل آواز میں کبھی بات کرتے ہیں، لیکن بھیڑ میں کسی کو بلانا ہوتا ہے تو ایک ایسی انرجی آپ کے اندر، آپ اتنی زور سے بولتے ہیں، جیسے آرمی کا کوئی افسر کی بھی آواز نہ نکلے، اتنی بڑی آواز نکلتی ہے آپ کی۔ بھلے ہی ایک پل کے نکلے ہی لیکن توانائی اندر پڑی ہوئی ہے ۔ ایک وقت تھا موقع آیا ، آپ کی توانائی باہر آئی ۔ آپ کے اندر بہت کچھ پڑا ہوتا ہے ، آپ کو مشاہدہ کرنا چاہئے کہ اس کسوٹی کے وقت میری کونسی اہلیت ابھر کر آئی ہے ، تبھی تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ایسی چیز آپ کے دل میں سے آتی ہوگی ، ایسے خیال آتے ہوں گے، دوستوں کے ساتھ بات چیت میں ایسا جملہ نکلتا ہوگا ، جو کبھی آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے اندر بھگوان نے بہت سی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اس صلاحیت کو پرکھنے کے لئے آپ کا اپنا کوئی نظام نہیں ہے ۔ یہ تو ایگزام آپ کو وہ موقع دیتا ہے، آپ کی اپنی صلاحیت کو پرکھنے کے لئے ۔ دوسرا ، ہم امتحان کے لئے زندگی نہیں جیتے ہیں، ہم خود کے لئے زندگی جئیں، جب ہم خود کے لئے زندگی جیتے ہیں ، ہمیں لگتا ہے کہ علم ہونا چاہئے، اگر علم حاصل کرنا شروع کریں ، تو آپ دیکھ لیجئے نمبر اپنے آپ آپ کے پیچھے آئیں گے، آپ کا پیچھا کرتے کرتے آپ کے دروازے پر آکر کھڑے رہیں گے۔ لیکن غلطی ہم کرتے ہیں ، ہم مارکس کے پیچھے بھاگتے ہیں ، زندگی پیچھے چھوٹ جاتی ہے ۔ ہم زندگی سے جڑتے چلیں، علم حاصل کرتے چلیں، مارکس اپنے آپ پیچھے آپ کے دوڑ کر کے آئیں گے، مارکس خود آپ کو گلے لگانے کے لئے آپ کے پیچھے دوڑیں گے۔ تو اس لئے اس کو دیکھنے کا طریقہ ، یہ اگر آپ کا صاف ستھرا ہوگا ، مجھے یقین ہے کہ امتحان کبھی بھی، کبھی بھی بوجھ نہیں لگے گا۔ سچ مچ میں تو ایگزام کو ایک تقریب کے طور پر ایک موقع آیا ہے ، چلو وہاں مزاہ آئیے گا، کھیل دیکھتا ہوں، یہ موڈ چاہئے۔ ناظم: محترمہ وزیراعظم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سلیم ایک اسٹوڈینٹ ہیں جو آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ سوال کرنے والا: نمسکار سر! میرا نام محمد سلیم ہے ، میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سال اول کا طالب علم ہوں، میں سوچتا ہوں بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد طلباء کے دل میں سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیریئر کا چناؤ کیسے کریں، اسی طرح دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد طلباء کے دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کونسی اسٹریم کا انتخاب کریں، والدین بچوں کی دلچسپی کو نہ سمجھتے ہوئے انہیں سائنس اسٹریم میں جانے کے لئے زور ڈالتے ہیں، مہربانی کرکے اس موضوع پر ہماری رہنمائی کریں۔شکریہ! ناظم: اور اب بنارس ہندو یونیورسٹی سے شیام بھوی شکلا، جو ایک طالب علم ہیں، آپ کی رہنمائی چاہتے ہیں۔ سوال کرنے والا: نمسکار سر! میں شمبھوی شکلا ، بی اے تھرڈ ایئر کا ایک طالب علم، وسنت کالج، راج گھاٹ ، بی ایچ یو، وارانسی۔ سر! میرا سوال یہ ہے کہ یہ وقت ہے میرے ماسٹرس کے انٹرس امتحان کی تیاری کا۔ تو سر پلیز مجھے بہتر جواب اور کیریئر حاصل کرنے کے لئے رہنمائی کریں۔ بہت بہت شکریہ! ناظم: سر! داخلہ امتحان کی تیاری کررہی ہوں ، ہم بیچلر اسٹوڈینٹس کی زندگی کا ایک نیا دور ہے، بہتر نوکری اور کورس کو پانے میں آنے والے چیلنجوں کے بارے میں مہربانی کرکے ہماری رہنمائی کریں۔ سوال کرنے والا: محترم وزیراعظم میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ جیسے ہر بچے کی صلاحیت الگ الگ ہوتی ہے ، کچھ لوگ لکھ سکتے ہیں ، کچھ لوگ گانا گاسکتے ہیں ، کچھ لوگ ڈانس کرسکتے ہیں ، پر ضروری نہیں کہ وہ لوگ میتھ کرسکیں، سائنس کرسکیں، جو ہمارے ملک میں بہت بڑی بات مانی جاتی ہے ، میتھ اور سائنس کرنا۔ تو اپنے ماں باپ کو یہ کیسے سمجھائیں کہ اگر ہم نہیں کرسکتے ہیں ، میتھ یا سائنس تو ہم کسی اور چیز میں بہت اچھے ہیں ، اور اس میں کوئی ایسی بہت بڑی بات نہیں ہے کہ ہم کسی ایک چیز میں اچھے نہ ہوں۔ ناظم: محترم مہربانی کرکے اس بارے میں ہم سب کو ترغیب دیں۔ مودی جی: آپ کی تشویش بہت فطری ہے کہ بچوں کو مناسب رہنمائی نہیں ملتی۔ ایسے وقت ایک صحیح رہنمائی ملنی چاہئے وہ نہیں ملتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے تجربے کی باتیں بتاتے رہتے ہیں ، ماں ایک مشورہ دے گی تو والد دوسرا مشورہ دیں گے، تو انکل تیسررا مشورہ دیں گے، محلے کے دوست اور چوتھا مشورہ دیں گے اور ہم کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ یہ کنفیوز ہونے کے پیچھے ایک وجہ یہ ہے ، ہمیں اپنے بارے میں پتہ ہے کیا؟ میرا اپنا پیشن کیا ہے ؟ میری دلچسپی کیا ہے؟ اور میری دلچسپی کے مطابق ، اس سے پہلے کچھ کرپایا ہوں کیا؟ میرے خواب کیا ہے ، وہ بعد کی بات ہے ، پہلے میرا پیشن کیا ہے اور اس کے بعد آپ ماں باپ کو بھی مطمئن کرسکتے ہیں ۔ دیکھئے ، آٹھویں جماعت میں میں نے ایسا کیا تھا ، نویں میں میں نے ایسا کیا تھا ، میرے ٹیچر مجھے بتارہے تھے ، اس وقت جب تحصیل کے اندر کمپٹیشن تھا ، تو میں گیا تھا ، میں یہ کرکے آیا تھا ، مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر یہ قوت ہے ، تبھی ہم نے اپنے ٹیچر ، جس سے ہمیں لگاؤ ہے ، ان کے ساتھ باتیں کرنی چاہئے کہ صاحب آپ مجھے چار سال سے پڑھارہے ہیں، مجھے دیکھتے ہو ، آپ کو کیا لگتا ہے ، مجھے کیا کرنا چاہئے اور ایسا نہیں کہ ٹیچر وقت نہیں دیتے، اگر کوئی طالب علم ٹیچر کے تئیں جذباتی طور پر جڑتا ہے تو ٹیچر کو بھی لگتا ہے کہ ہاں، اس شاگر کو میں وقت دوں، اس کو گائڈ کروں، اس کو بھی لگتا ہے ۔ لیکن زیادہ کنفیوزن اس بات کا نہیں ہوتا ہے کہ کوئی آپ کو کیا کہتا ہے ، ماں باپ کیا کہتے ہیں ، آپ خود کنفیوز ہیں ، یہ مسئلہ ہے۔ کنفیوز اس لئے ہیں کیونکہ آپ کو پتہ نہیں ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے ، مجھے برابر یاد ہے کہ میں بہت سال پہلے بڑودہ میں ایم ایس یونیورسٹی کے ہاسٹل میں جایا کرتا تھا ، طلباء سے تعارف کرنے ، یہ میں کوئی 77، 78 ، 79 کے دور کی بات کررہا ہوں ، تو ان سے ملتا تھا ، بیٹھتا تھا ، بات کرتا تھا، تو میں ایسے ہی کبھی ان کو پوچھتا تھا ، آپ کے من میں ارادہ کیا ہے ، کیا سوچتے ہو، تو زیادہ بچے جواب دیتے تھے کہ ایک بار گریجویٹ ہوجاؤں ۔ آگے کا پتہ ہی نہیں اس کو ، ایک بار گریجویٹ ہوجاؤں ۔ ایک بار میں پوچھ رہا تھا ، تو ایک بچہ وہاں وہ گجرات کے باہر کا تھا ، وہ وہاں پڑھتا تھا، اس نے کہا کہ آئی وانٹ ٹو رول۔ میں نے ڈانٹا، بولے آئی وانٹ ٹو رول، تو میں نے کہا راج نیتی میں جانا چاہتے ہو کیا، نہیں بولا، راج نیتی میں نہیں جانا ہے ، بولے مجھے بابو بننا ہے ، بابو ہی تو شاسن کرتے ہیں ، راج نیتا تو آتے ہیں جاتے ہیں ، میں یہ 40 سال پہلے کا واقعہ اس لئے سنا رہا ہوں کہ اس بچے کو اتنی کلیرٹی تھی کہ مجھے کیا کرنا ہے اور بعد میں میں نے ذرا جانکاری لی تو میں نے سنا وہ ایسے ہی گورنمنٹ سیکشن میں چلا گیا ہے اور اچھی پوزیشن پر وہ پہنچا تھا۔ اس کے جو دوست لوگ تھے ان سے میں نے سنا تھا ۔ کہنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے دل میں وضاحت ہونی چاہئے ، خیالات کی وضاحت ، کنوکشن میں اعتماد ، میرا کنوکشن میں بھروسہ ہونا چاہئے اور کریج ٹو ایکٹ ، اس کے مطابق کام کرنے والا میرا جذبہ اور میرا جسم ، میرا من ، میرا ذہن ، میرا وقت ، یہ اگر ہم ڈیولپ کریں تو ہم آسانی سے اس سمت میں جارہے ہیں۔ سائنس ، میتھ اس کی اپنی ایک اہمیت ہے ، لیکن باقی اسٹریم کی اہمیت نہیں ہے ۔ یہ جو ہمارے ملک میں سوچ بنی ہے وہ تھیک نہیں ہے۔ سائنس اور میتھ میں ہمارے اہمیت دینے کے باوجود بھی جتنی تعداد میں وہاں لوگ جانے چاہئیں ، نہیں جاتے۔ تشویش کی بات ہے کہ اس کی وجہ ہے ابتدائی دور میں اس کو اس طرح جو موٹی ویشن ملنا چاہئے وہ ہمارے یہاں شائد کچھ کمی ہے اور اس کی وجہ سے کچھ ٹیچروں نے کچھ اسکول نے کچھ والدین نے خصوصی دلچسپی لے کر کے ان چیزوں کو ڈیولپ کیا تو بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ ہیں ، ٹھیک ہے بھائی گیریجویٹ کے کارخانے میں چلے جائیں گے ، ادھر سے کارخانے سے نکلتے جائیں گے ، یہی چلتا رہتا ہے اور اس لئے آپ کی یہ تشویش بہت فطری ہے ۔ میرا مشورہ یہی رہے گا کہ آپ دباؤ میں آکر کے مت سوچئے ، آپ اپنی اہلیت کی بنیاد پر اور اس میں کسی کی مدد بھی لیجئے ، ایسا نہیں ہے کہ آپ کا اپنا جج منٹ غلط ہو ، لیکن اگر کھل کر بات کریں گے تو شائد آپ کو صحیح رہنمائی آپ کے اگل بغل کے لوگوں سے ملے گی۔ اسٹوڈینٹ زینتھ: گوڈ مارننگ سر! میرا نام زینتھ ہے اور میں ماسکو میں کیندریہ ودیالیہ کا نویں کلاس کی طالب علم ہوں ، آپ نے ہمارے والدین کو پچھلے سال کئی مشورے دئے تھے، اس کے نتیجے میں میرے والدین کے روئے میں تبدیلی آئی ہے اور اب میں ان کے ساتھ اپنے امتحان کی کشیدگی اور فیل ہونے کے خدشے کے بارے میں بات کرتا ہوں ۔ ان کے ایک ہی بیان سے کہ تم یہ کام کرسکتے ہو ، مجھے تحریک ملتی ہے ۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ پچھلے ہفتے آپ نے ہمارے والدین کو بہت اچھی اچھی صلاح دی تھی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا نظریہ ہی بدل گیا۔ اب میں اپنے والدین سے میرے امتحان اور کامیاب ہونے کا ڈر ان کے بارے میں بات چیت کرتی ہوں۔ ان کا مسکرانہ اور یہ کہنا کہ تم یہ کرسکتی ہو ، مجھے اور زیادہ ترغیب دیتا ہے۔ اس کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ! مودی جی: آپ نے کریڈٹ مجھے دے دیا۔ دراصل کریڈٹ آپ کے ماں باپ کو جاتا ہے ۔ کیونکہ انہوں نے صحیح بات کو پکڑا اور پکڑنے کے بعد اپنی جو بھی پرانی ہیبٹ تھی یا ایگو تھا، اس کو چھوڑ کر کے نئے طریقے سے انہوں سوچنے کا خیال کیا۔ یہ بات صاف ہے کہ والدین کا مثبت رویہ بچے کی زندگی کی بہت طاقت بن جاتا ہے۔ ٹیچرس کا بھی آپ نے دیکھا ہوگا ، کچھ ٹیچرس ایسے ہوتے ہیں جو تین چار بچوں کے لئے ان کا لگاؤ ہوتا ہے ، وہ سوال پوچھیں گے تو ان سے بات کریں گے ، کوئی آیا سوال پوچھ رہا ہے ، وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اسی کو کہیں گے ، اچھا بولو، ان کو پیارا لگتا ہے ، ان کو لگتا ہے کہ وہ فورا درست کرلیتا ہے اور اس کی وجہ کلاس کے باقی بچوں کے دل میں اس ٹیچر کے تئیں ایک کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے ، اس کا نتیجہ ہوتا ہے اسی طریقے سے ماں باپ بھی کبھی اپنے یار دوستوں کے یہاں گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ پتہ چلے کہ ہاں ان کے بیٹے نے یہ کیا، تو اس کو بلائیں گے کہ اے سن، دیکھ اس نے کیا کیا، یعنی 25 لوگوں کی بھاری سبھا میں رشتے داروں کے درمیان ماں باپ اس کو وہیں سکھانا چاہتے ہیں ، دیکھ یہ موہن بھائی کے بیٹے نے کیا کیا، دیکھ تو ہے کہ کچھ کرتا نہیں ہے، ہوگیا معاملہ ختم اور ایسی عادت قریب سب کو ہوتی ہے ۔ آپ گھر میں بھی جاؤگے تو سنائیں گے کہ دیکھا ماما کا بیٹا کتنا آگے نکل گیا۔ تم خود سوچو۔ یہ جو کمپیریزن ہے ، یہ ماں باپ نے ، ٹیچر کو کبھی نہیں کرانی چاہئے۔ اس سے اس کو بہت مایوسی ملتی ہے ۔ اس کو مایوس کردیتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا نفیساتی نتیجہ لاتے ہیں، جس کا شائد ہم نے بھی تصور نہیں کیا ہے ۔ ہمارا کام ہونا چاہئے کہ اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ ٹھیک ہے کمزور ہے بچہ ، لیکن وہ کمزور کیوں ہے، کیونکہ آپ نے 90 فیصد لانے والے سے موازنہ کرنا شروع کیا، اس لئے آپ کو برا لگتا ہے ۔ لیکن آپ اس کو یہ کہو ، دیکھ بیٹا تم پچھلی بار 55 فیصد لائے تھے اور اس بار 60 فیصد لائے ، کیا کمال کردیا تم نے ، بیٹا تم نے میرا نام روشن کردیا ہے ۔ 55 سے 60 کی جو خوشی ہے وہ اس کو 60 سے 90 لانے کی خوشی دے سکتی ہے ۔ لیکن 90 کیوں نہیں لایا اس لئے 60 کو کوستے رہو گے ، تو بچہ 60 سے 40 کی طرف چلا جائے گا، 60 سے 70 کی طرف نہیں جائے گا اور یہ ماحول بہت ضروری ہے ۔ ہم کوستے رہیں گے ، ہم اس کو نیچا دیکھاتے جائیں گے ، بچوں کو تو ہم اس کو کبھی طاقت ور نہیں بناسکتے ہیں۔ میں سرکار میں کام کرتا ہوں ، اگر مجھے کوئی چھوٹی بھی بات کسی موقع پر کہنی ہے تو الگ سے کبھی مل جائے تو بتاتا ہوں ، دیکھو یار ، اس کا کیسے کریں گے۔ لیکن اجتماع میں جب ملتا ہوں ، میں جی جان سے اس کی تعریف کرتا ہوں اور وہ تعریف جھوٹی نہیں ہوتی ہے، انہوں نے بھی اپنے وقت میں جو بھی قوت ہے ، تجربہ ہے ، پورا نچوڑ دیا ہوتا ہے ۔ ٹھیک ہے ، وزیراعظم کی امید سے دو قدم پیچھے رہ گیا ہوگا لیکن اس کی وجہ اس کی محنت بیکار نہیں ہے جی، ٹیم اسپرٹ کے لئے یہ خوبی بہت ضروری ہے۔ میری بھی آپ سے گزارش رہے گی ، آپ اپنا موازنہ اپنے پرانے ریکارڈ سے کیجے، آپ کمپٹیشن اپنے ریکارڈ سے کیجئے، آپ اپنے ریکارڈ بریک کیجئے، آپ اگر خود کے ریکارڈ بریک کریں گے تو آپ کو کبھی بھی مایوسی میں ڈوبنے کا موقع نہیں آئے گا، آپ اپنے آگے بڑھنا اور اس میں آپ کو پتہ ہے کہ میں تین گھنٹے نان اسٹاپ کام کرسکتا ہوں، ساڑھے تین کا کرنا ہے تو تین کا پتہ ہے، تو ساڑھے تین کا سوچ سکتے ہو۔ سامنے والا پانچ کا کرسکتا ہے ، تو میں پانچ نہیں کرسکتا، چھوڑو یار، میں تین کے ساڑھے تین کیسے کرلوں۔ یہ بدلاؤ بہت ضروری ہے ، اگر آپ نے یہ کرلیا تو میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو کسی تناؤ سے گزرنا پڑے گا۔ طالب علم جے پریت سنگھ: نمسکار سر! میرا نام جے پریت سنگھ شاہ پوری ہے۔ میں سینٹرل اسکول تہران ایمبسی اسکول میں پڑھتا ہوں، میں ایران کے تہران سے بول رہا ہوں۔ سر میرا آپ سے ایک سوال ہے ، سیکھتے وقت تعریف ملے تو سکھانے میں زیادہ مزہ آتا ہے ، تو ہمارے والدین اور ٹیچرس یہ کیوں نہیں اپناتے۔ کلاس میں دو تین بچوں کو چھوڑ کر باقی بچوں کو اچھا کرنے پر بھی انہیں تعریف نہیں ملتی ، تو کیا سر! آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا تھا؟ شکریہ! مودی جی: ایک تو یہ سب ہم کو کیوں نظر آتا ہے ، اس بات پر ہمارا دھیان کیوں نہیں جاتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اوور کانشس اور اندر سے ہم کمزور ہیں ، جب تک کوئی پچکارتا نہیں ہے ، سہلاتا نہیں ہے، تب تک مجھے میرے کئے ہوئے کا مزہ آتا نہیں ہے۔ جس کے اندر خود اعتمادی ہوتی ہے وہ تالیوں کی گونج کتنی بجی ، کتنی نہیں بجی ، اس کی پروا نہیں کرتا ہے جی، اس کو یقین ہوتا ہے ا��ر میں مانتا ہوں کہ سب سے پہلے یہ باقی چیزوں کے بجائے آپ کے اندر اپنے آپ پر وہ اعتماد ہونا چاہئے کہ کوئی ہمیں سراہے یا نہ سراہے ، کوئی پچکارے یا نہ پچکارے، ہمارے لئے کوئی اچھا کرے یا نہ کرے ، لیکن میں خود ایک ایسی صورت پیدا کروں گا کہ کبھی نہ کبھی میرے ٹیچر کو مجھے نوٹس کرنا پڑے گا، ان کو چیلنج نہیں کرنا ، من میں رکھنا ہے ، میں ان کو جیت کر رہوں گا اور ایک بار آپ نے ان کو جیتنا طے کرلیا ہے تو آپ دیکھئے بچے میں طاقت ہوتی ہے ، تین مہینے میں ٹیچر کو جیت لے گا۔ ایک اور موضوع بھی بیچ میں ایک سوال آیا تھا میرے دل میں خیال آیا، دیکھئے کبھی کبھار کیا ہوتا ہے۔ ٹیچر بھی اس بچے پر اعتماد کرتا ہے یا دلچسپی لیتا ہے ، جب ٹیچر کو لگتا ہے کہ اس کے اہل خانہ بچے میں دلچسپی لیتے ہیں، ایسے بہت ماں باپ ہوں گے ، جنہوں نے بچے کو ساتویں سے دسویں یا بارہویں تک ، کون ٹیچر پڑھا رہا ہے ، پتہ نہیں ہوگا۔ کیا کبھی بچے کے یوم پیدائش پر دوستوں کے ساتھ ماں باپ نے ٹیچر کو بلایا کیا، ماں باپ کبھی اسکول میں جاکر کہ کسی ٹیچر کا جنم دن ہے ، بچے نے کہا میرے ٹیچر کا جنم دن ہے ، ماں باپ اسکول چلے گئے ، بچے کے ٹیچر کو سالگرہ پر مبارک باد دی اور کہا کہ دیکھئے میرے پاس تو گھر میں بچہ تین چار گھنٹے رہتا ہے ، پانچ چھ گھنٹے آپ کے پاس رہتا ہے ، اب اس کی زندگی تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو میں مبارک باد دینے آیا ہوں ، وہ ٹیچر کا دل کیا کرے گا، بتائے ۔ اس کو لگے گا کہ بھائی یہ بچہ تو انہوں نے مجھے سونپ دیا ہے ، میری ذمہ داری ہے لیکن والدین کا یہ رول ہی نہیں رہا ہے ۔ ٹیچر کو نہ کوئی اپنے گھر بلاتا ہے نہ ماں باپ جاتے ہیں ، بچے نے آکر کہہ دیا کہ ٹیچر نے مجھے ڈانٹا ، بس ہوگیا۔ ماں باپ ، سچ کیا جھوٹ کیا، بچہ کیا کہہ رہا ہے ، کیا نہیں کہہ رہا ہے ، اور کوئی مصیبت کی بیماری رورہا ہے ، کیا ہے ، بہانے بازی کررہا ہے ، کچھ نہیں ، کیا سمجھتے ہو، میں آر ٹی آئی کروں گا، میں ایف آئی آر لکھواؤں گا ، بہت ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنے بچے میں کوئی کمی نہیں محسوس کرتے۔ کبھی نہیں محسوس کرتے ۔ اور اس کی وجہ سے اپنا تو شائد سنبھل جاتا ہوگا لیکن بچے کی زندگی کے لئے پریشانی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اچھا ہے، ٹیچر، مینجمنٹ ، اسٹوڈینٹ اور پیرنٹس ، ان کا ایک میل ہونا چاہئے۔ انٹرکنکٹڈ ہونا چاہئے، وہ اپنے اپنے طریقے سے چاروں کونوں میں الگ کام کریں گے ، نہیں ہوگا۔ یہ نظام خوش اسلوبی سے فروغ پاسکتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی ملتا ہے اور میں مانتا ہوں کہ ہم لوگوں کی کوشش رہنی چاہئے کہ جن اساتذہ کے پاس ہم پڑھتے ہیں ، ان کے تئیں پورے خاندان میں احترام کا جذبہ ہو۔ وہ ٹیچر کے پاس جتنا بھی علم ہے نہ وہ آپ کے لئے وہ نچوڑے گا ، آپ دیکھنا اسپیشل اٹینشن کرے گا۔ طالب علم سارا: میں بارہویں کلاس کی طالب علم ہوں، میں اس بات کا مشاہدہ کررہی ہوں کہ امتحان پر پوچھے گئے سوالوں اور جس مقصد سے ہم پڑھائی کررہے ہیں، اس میں آپس میں کوئی تال میل نہیں ہے۔ ہمارے ٹیچر اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں ایک اچھا انسان بننا چاہئے، لیکن سوال نامے میں یہ تشویش ظاہر ہی نہیں ہوتی ، ہماری تعلیمی نظام کے لئے ایک صلاح ہے ، کہ ہمارا امتحان تعلیم کے مقصد سے جڑا ہوا ہونا چاہئے اور اس بات کے تئیں ٹیچروں ، طلبا ، والدین اور بورڈ ایگزام کرنے والے سبھی کو بیدار ہونا چاہئے ۔ محترم اس بارے میں آپ کے خیالات ہم سب جاننا چاہیں گے۔ مودی جی: دیکھئے بنیادی طور پر تعلیم میں یہ ساری باتیں ہوتی ہیں۔ یہ پڑھائی جو ہے وہ راتو رات تیار نہیں ہوئی ہے ۔ ہزاروں سال سے انسانی ترقی کے سفر کے ساتھ ساتھ نئی نئی چیزیں جڑ تی گئی ہیں۔ نئے نئےطریقے جڑتے گئے لیکن پریشانی تب ہوتی ، ہم نے تعلیم کو زندگی سے کاٹ کر کے ایگزام سے جوڑ دیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم کو لگتا ہے کہ اسکول میں جو بتایا گیا ہے ، اب جیسے مان لیجئے، اسکول کے اندر آپ نے دیکھا ہوگا ، کہیں پر سیاحتی مقام پر آپ جائیں گے تو پانچویں چھٹی ساتویں کلاس کے بچے اگر وہاں سیاحت کے طور پر کہیں اسکول بس آئی ہے اور ٹیچر نے بتایا ہے کہ ایسے چلنا ہے ، تو سبھی بچے ایسے ہی چلیں گے، ایسا ہوتا ہے نا، ہاتھ پیچھے کرکے پورا ٹور دیکھیں گے، ایسے کرتے ہیں نا۔ اب یہ تعلیم میں نہیں ہے لیکن یہ اس نے جو سکھایا کیا وہ زندگی سے جڑا ہوا موضوع نہیں ہے کیا، ڈسپلن، مطلب میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ ہاتھ پیر ایسے کرنا ہی مت ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی سب چیزیں ہوتی ہیں، ہمارا اس پر دھیان نہیں ہوتا یا تو جو ٹیچر بتاتا ہے وہ سلیبس کی معلومات تو دیتا ہے لیکن یہ چیز زندگی میں کیسے کام آتی ہے وہ نہیں بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے ہر پہلو کو زندگی کے ساتھ جوڑ کرکے پیش کرنا یہ ٹیچر س کی عادت ہونی چاہئے۔ میں چھوٹی سے بات بتاتا ہوں، میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے ایک ٹیچر تھے، میں سرکاری اسکول میں پڑتا تھا، گورنمنٹ پرائمری اسکول میں اور میرا جو گاؤں تھا وہ گائیکوارڈ اسٹیٹ تھا، تو گائیکوارڈ راجہ کی ایک خصوصیت تھی کہ جہاں بھی ان کا راج ہوتا تھا، وہاں پرائمری اسکول ہوتے تھے، بچیوں کی تعلیم لازمی ہوتی تھی، پوسٹ آفس ہوتا تھا، تالاب ہوتا تھا، لائبریری ہوتی تھی، ایسی ان کی کچھ خصوصیات تھیں۔ جہاں جہاں ان کا راج ہوتا تھا ، اتنی چیزیں ہوتی تھیں تو میرے گاؤں بھی ان کا ایک اسکول تھا، تو سرکاری اسکول تھا، میں اس میں پڑتاتھا، ہمارے ٹیچر کی خصوصیت تھی وہ کیا کہتے تھے، ہم سبھی اسٹوڈینٹس کو کہتے تھے کہ چلو تم پانچ کھڑے ہوجاؤ تم کل گھر سے تم پانچ مونگ کے دانے لاؤ گے ، تم سات مونگ کے دانے لاؤ گے، تم نو مونگ کے دانے لاؤ گے ، دوسرے کو کہتے تھے تم تین چنے کے دانے لاؤ گے ، پانچ چاول کے دانے لاؤ گے ، ایسے وہ اناج کے کچھ دانے ، زیادہ نہیں تھوڑے لے کر آؤ گے، تو بچہ کیا کرتا تھا یاد رکھتا تھا کہ مجھے پانچ مونگ کے دانے لے جانے ہیں، تو گھر میں کس کو مونگ کہتے ہیں ، سیکھ جاتے تھے، پکڑ کر لے آتا تھا، سنبھال کر کے ، تو پھر مونگ کو پڑھانا نہیں پڑتا تھا، اس کو مونگ کہتے ہیں۔ میں بالکل بچپن کی بات بتارہا ہوں۔ پھر ٹیچر کیا کرتے تھے، ساری چیزو کو مکس کردیتے تھے، پھر بچوں کو کہتے تھے ، اچھا بھائی پانچ بچے آجاؤ، ان میں ایک کہیں گے پانچ چنا ڈھونڈو، تو اس کو ارتھ میٹک آگیا، چنا پہچان گیا، دوسرے کو کہتے تھے کہ چاول پانچ اٹھاؤ اور دکھاؤ ، یعنی پڑھانے کا ان کا اپنا ایک طریقہ تھا۔ اب بات چھوٹی ہے لیکن زندگی سے کیسے جوڑدیتے تھے، مطلب کہ تعلیم میں صرف ایسا ہے یہی نہیں ہے ہوتا سب ہے، گیت ہوتا ہے ،سنگیت ہوتا ہے ، خواب ہوتے ہیں ، سب ہوتا ہے ، لیکن ہم نے اپنے آپ کو پریوار نے ٹیچر نے سب نے رینکنگ، رینکنگ، رینکنگ وہی مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ زندگی کو کھول دے، زندگی کو ہم پھیلادیں، ہر چیز میں اپنا پن سیکھنا شروع کردیں تو اپنے آپ کو دیکھئے خود کی زندگی بدلے گی، احاطے کی بھی زندگی بدلے گی۔ طالب علم مولی سنگھ: نمسکار! محترمہ وزیراعظم جی! میں ہوں مولی سنگھ ، ٹھاکر تیج سنگھ ، آگرہ سے ۔ اور میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ بہت سارے طلباء گھر سے دور رہ کر پڑھائی کرتے ہیں وہ نئی جگہ پر جلدہ ایڈپپٹ نہیں ہوتے پاتے ہیں۔ ایڈجسٹ نہیں ہوپاتے ہیں، کئی سارے طلباء کو ہوم سکنس اور ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ کیسے اس صورت حال سے نمٹیں اور کیسے ان کے والدین اور ان کے ٹیچر ان کی مدد کرسکتے ہیں؟ شکریہ ! مودی جی : بھارت جیسے ملک میں یہ ڈپریشن والی بات جو ہے ، وہ پریشان کرنے والی ہے بھارت کی بنیادی سماج کی تشکیل ہے اس میں پریشر کو ریلیز کرنے کی گنجائش ہے ۔ آسان طریقہ ہے ، لیکن بدقسمتی سے سماج کے ڈھانچے میں جو تبدیلی آئی ہے ، تبدیلی آتی رہتی ہے ، وہ کوئی بری چیز نہیں ہے، لیکن کچھ ایسی چیزیں آئی ہیں جس نے یہ صورت حال پیدا کی ہے ۔ پہلے ہماری جوائنٹ فیملی ہوا کرتی تھی اور جوائنٹ فیملی ہونے کی وجہ سے دو باتیں پتا جی کو نہیں کرسکتاتھا وہ دادی ماں کے آگے کہہ دیتا تھا، دل ہلکا ہوجاتا تھا۔ دو باتیں دادی ماں سے کہتا تھا لیکن لگتا تھا کہ ذرا ماں سے پوچھ لوں تو وہ وہاں جاکر کے اس طرح اس کو ایک موقع ملتا تھا ، اپنے آپ کو ایکسپریس کرنے کا ، آج صورت حال ایسی ہے کہ ایکسپریشن کے لئے کم سپریشن کے لئے زیادہ ، اس طرف ہم بڑھ گئے ہیں اور یہ جو کوکر پھٹ جاتا ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس طرح کی بھاپ بھر جاتی ہے اس کو باہر نکالنے کے لئے جگہ چاہئے۔ ماں باپ نے بچے کے ساتھ اس کی دلچسپی کے مطابق کھلے دل سے باتیں کرنی چاہئے ۔ اگر مان لیجئے وہ ہاسٹل بھی چلا گیا تو اس کو یقین ہے کہ ان صورت حال میں میرے ماں باپ کو میں بتاؤں گا تو سمجھیں گے لیکن اگر آپ مارکس آئے، کیوں دیر سے آئے ،۔ کس کے ساتھ گئے تھے، فون پر کس سے بات کی تھی، اسی میں لگے رہے تو یہ کٹ آف اسٹیج بہت بڑا مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ دوسرا یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ڈپریشن اچانک نہیں آتا ، یہ بہت ایک لمبا پروسس ہوتا ہے ، کچھ ایک ہوتا ہے جو ، جوش میں کچھ کردے ، وہ ایک الگ بات ہے ، لیکن زیادہ تر آہستہ آہستہ لڑھکتا جاتا ہے ۔ بیدار ماں باپ دیکھتے ہیں کہ ارے کیا بات ہے بھائی ، یہ پہلے تو بڑا کہتے تھے کہ کھاتا نہیں ہے ، اچانک بیٹھتا ہے ، بس کھاتا ہی رہتا ہے ۔ یہ اچانک اس کا وزن بڑھ رہا ہے، نفسیاتی طور پر کیا ہوا ہے ، فورا ماں باپ دیکھتے ہیں کہ بھئی کچھ ہوگا تبھی یہ اسٹریس میں ہے ، کچھ نہ کچھ زیادہ کھا رہا ہے کبھی سوتا نہیں تھا دوپہر کو ، آج آفس سے آگیا اچانک سوگیا، کمرے میں چلا گیا ہے تو منھ ڈھک کر بیٹھ گیا ہے ، کیا کررہا ہے ، اگر اس کو وہ سمجھ داری سے لیتے ہیں اور اس کو اسی وقت ہینڈل کرتے ہیں، ماں باپ کو دیکھنا چاہئے کہ وہاں کسی نہ کسی خاندان سے اس کو ہم جوڑ سکتے ہیں کیا ، بچوں کو جان پہچان والے ، اس کے لئے کچھ تھوڑا خرچ کرنا پڑے تو خرچ کرنا چاہئے اور اسے کہنا چاہئے کہ ذرا بھئی ہفتے میں ایک دن چھٹی ہو تو بچے کو ذرا گھر بلالینا ، آ پ بھی کبھی ہو آنا ، اور اگر بچے میں تھوڑ ا بہت ہوگا تو اس کو ایک نیا خاندان مل جائے گا۔ دوسرا کاؤنسلنگ سے ہمیں ہچکچا نا نہیں چاہئے ، کبھی کبھی ماں باپ کو لگتا ہے کہ کہیں لیک ہو جائے گا تو ، کسی کو پتہ چلے کا تو بیتے کا کاؤنسلنگ چل رہا ہے ، ہم اس سے عزت بھی گنواتے ہیں ، بچہ بھی گنواتے ہیں ، کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہئے ، تھوڑی سی بھی علامات نظر آتی ہیں تو ہمیں اس کی کونسلنگ کرنی چاہئے ۔ بچے کے ساتھ صحیح طریقے سے کام کرنے والے ایکسپرٹ ہوتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ اس کے اندر کی جو بھی بیماریاں ہیں، اس کو نکال دیتے ہیں۔ یہ ہاسٹل میں جو رہتے ہیں، ان کو میرے ایک چھوٹے سے اپنے تجربے کی بنیاد پر میں بتاتا ہوں یہ کرسکتے ہیں کام۔ ہوسکتا ہے کہ کسی واقعے نے آپ کو پریشان کردیا ہے۔ یا کچھ آپ نے سنا ہے ، آپ بے چین ہیں، دل میں غصہ ہے ، دل کے درد کو ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے ، کچھ نہیں ، آپ ہوسکے تو ہاسٹل کے باہر جایئے، کسی پیڑ کے نیچے اکیلے بیٹھ کے ایک اور نوٹ بک لے جایئے۔ اس کاغذ پر سارے واقعے کی تفصیلات لکھ دیجئے ۔ لکھتے چلے جایئے ۔ کیا ہو ا، کیسے ہوا ، کس نے کیا کہا ، خود کو کیا لگا ، سارا جتنا جیسے فلم دکھائی دیتی ہے ، ایسے ہی سارا لکھتے چلے جایئے ۔ پھر اس کو پڑھیئے مت، وہیں پر اس کو پھاڑ کر کے جیب میں ٹکڑے ڈال لیجئے ، یہ سووچھ بھارت ، کہیں اور مت ڈالنا ۔ پھر بھی من ہلکا نہیں ہوا ، دوبارہ لکھئے ۔ پہلے اگر آپ نے 8 پیج لکھا ہوگا دوبار لکھیں گے تو تین چار پیج میں وہی بات آجائے گی ۔ پھر بھی اس کو پھاڑ دیجئے، ٹکڑے جیب میں ڈال لیجئے۔ تیسری بات لکھئے، اب دیکھو گے کہ وہی بات ایک ڈیڑھ پیج میں آجائے گی۔ اندر کا جو ہے ، وہ کاغذ پر ٹپکتا جائے گا، اندر سے کم ہوتا جائے گا۔ آپ ایبسلیوٹلی ریلیکس فیل کریں گے۔ آپ کو یہ بھی ڈر نہیں رہے گا کہ کوئی پڑھ لے گا تو ، کسی کو بتاؤں گا تو ، ہم بات کیوں بتاتے نہیں ہیں۔ ڈر لگتا ہے ، یار اس کو بتاؤں گا ، وہ کسی اور کو بتائے گا ، تو میری تو بے عزتی ہوجائے گی۔ خود ہی اندر ، ایک جگہ ہے ، خود ہی لکھئے، اس کو پھاڑ دیں ، آپ دیکھ لینا گھر میں بھی ، ایسا ماحول بگڑ گیا ہو ، ممی ناراض ہوں ، فلانا ڈھمکانا ہو، اور مان لیجئے آپ لکھتے ہیں ، آپ الگ سے بیٹھ کر لکھ لیجئے، آپ کے اندر کے ساری جو انسانی درد ہیں وہ کاغذ کے سہارے باہر نکل آئیں گے۔ یہی الٹی میٹ حل نہیں ہے ۔ چھوٹا سا حل ہے ۔ یہ چھوٹا سا حل بھی کچھ پل کے لئے تو آپ کو سہارا دے سکتا ہے۔ کچھ دن کے لئے آپ کا سہارا بن سکتا ہے۔ خود کو کھڑے ہونے کی طاقت دے سکتا ہے۔ دوسرا کوئی ایک اگر ہاسٹل میں رہتا ہو تو کوئی سینئر اسٹوڈینٹ ہو یا ٹیچر ہو ، کوئی ایک ہمیں ڈھونڈ کر رکھنا چاہئے، جس پر ہم بھروسہ کریں۔ اسے کبھی من کی باتیں بتایا کریں۔ دیکھو یار! اس بار تو ماں کا فون ہی نہیں آیا ۔ چیز بڑھی نہیں ہوگی ۔ اس کے سامنے کہہ دو ، وہ کہے گا ۔ وہ آپ سے شائد عمر میں چھوٹا ہوگا، تو کہے گا ، ارے فکر مت کر یار، ماں کام میں ہوگی۔ ہمیں لگتا ہے ہماری دوائی ہوگئی۔ ہمارا علاج ہوگیا، کیوں۔ کسی نے کہہ دیا ہاں، ماں کام میں ہوگی ، میرا من کہاں چل رہا تھا دو گھنٹے سے ، دیکھو آج جنم دن ہے ، آج فون نہیں آیا ۔ ہوسکتا ہے وہاں انٹرنیٹ کنکٹی ویٹی کی پرابلم ہو۔ اور ہم غصہ ماں پر نکالتے ہیں۔ ٹیکنالوجی فیلئر ہوسکتا ہے۔ تو وہ ایک چھوٹی سے پرابلم ہو ، ارے فکر مت کرو، چلو کھالیتے ہیں ، چلو یار ہاسٹل میں چلو ، کھالیتے ہیں ۔ کوئی بات نہیں تیرا جنم دن ہے ، ماں کا فون آیا نہیں ، چلو ، ہم لوگ جاتے ہیں ، میرے پاس پیسے ہیں ، ہم لوگ چاکلیٹ کھالیتے ہیں۔ ایک آد دوست تناؤ بھری زندگی کو بھی بہت ہلکے پھلکے سے ٹھیک کردیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں زندگی میں ایسے کھلے پن ہوں، اور میں تو بہت چھوٹی عمر سے باہر ہوں ، تو میں نے زندگی کو بہت الگ طریقے سے دیکھا ہے۔ الگ اتار چڑھاؤ سے زندگی میری گزری ہے۔ اسی نے مجھے جینا سکھایا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ شاید ، میری جیسی زندگی الگ تھی تو سب کو کام نہیں آسکتی ہے، لیکن چھوٹی سی یہ کوشش ہے ، لیکن ڈپریشن کو بچوں کو لائٹ میں نہیں لینا چاہئے، نہ سرپرستوں کو لینا چاہئے، ن�� ٹیچر کو لینا چاہئے۔ یہ اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اگر وقت رہتے صحیح طریقے سے ان کو آپ کمیونیکیٹ کریں گے ، بات چیت کریں گے، وقت بتائیں گے ، تو حالات کو بڑی آسانی سے نکالا جاسکتا ہے اور ہندوستانی سماجی نظام ایسا رہا ہے کہ جس نے ہمیں خاندان میں ہی ایک طرح سے ہمارا ڈی این اے ایسا بنا ہوا ہے ، ہم ایسی چیزوں کو آسانی سے جھیل سکتے ہیں۔ ایسی چیزوں سے جوجھ سکتے ہیں اور ایسی چیزوں سے زندگی کے راستے کھول سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی بھی اس سمت میں آگے بڑھیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آخری سوال تھا۔ مجھے بہت اچھا لگا آپ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرکے۔ بہت اچھے سوال آپ لوگوں کے تھے۔ آخری سوال تھا، مجھے بہت اچھا لگا۔ آپ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرکے۔ مجھے بھی آرام سے آپ لوگوں کے ساتھ بات کرنے کا موقع ملا، لیکن میری والدین سے آخری ایک درخواست ہے کہ آپ کبھی ، اگر آپ کا بیٹا 14 سال کا ہے ، تو دن میں ایک بار ماں اور باپ دونوں دن میں ایک بار آپ جب 14 سال کے تھے ، تب کیا ہوتا تھا، تب آپ کے من میں خیال کیا آتے تھے، تب آپ کے ماں باپ جو کرتے تھے ، اس سے آپ کو کیا ہوتا تھا، ایک بار یاد کرلیں گے تو آپ کے اور آپ کے بچوں کے درمیان کا تناؤ کبھی بھی نہیں بڑھے گا۔ خود ایک بار یاد کیجئے، کہ آپ جب 14 سال کے تھے، تو 14 سال کے بچے کے ساتھ کیا کرنا ہے، وہ آپ کا ہی تجربہ آپ کو سکھادے گا۔ آپ کے ماں باپ سے جو آپ نے سیکھا ہے ، وہ سکھادے گا۔ لیکن بہت ماں باپ ہیں ، وہ اگر 50 کے ہوگئے تو چاہتے ہیں کہ بچہ بھی 50 کے حساب سے ان سے بات چیت کرے۔ ضرورت ہے بیٹا 14 سال کا ہے ، باپ 50 سال کا ہے ۔ باپ 14 کا بن کر اس بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کرے۔ کافی مسائل خاندان کے سلجھ جائیں گے۔ میں پھر ایک بار سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ یہ ایگزام فیسٹول بنے ، آپ زندگی میں کامیاب بنیں، زندگی کو جیتے ، خوبیوں کا اثاثہ آپ کی زندگی کی طاقت ہے۔ پرچے میں لکھے ہوئے سوال، یہ زندگی میں الٹی میٹ نہیں ہوتے۔ ہم اپنے آپ کو ایجوکیٹ بھی کریں، ہم اپنے آپ کو ٹرینڈ بھی کریں، جتنی اہمیت تعلیم کی ہے ، اتنی ہی اہمیت زندگی میں تربیت کی بھی ہے۔ یہ توازن بناکر چلیں۔ میری آپ سب کو بہت بہت مبارک باد۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔س ش،و ا،ش ت۔ع ن، ق ر 30-01-2019,পৰীক্ষা পে চৰ্চা ২.০ৰ উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92-%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%88%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8B-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF/,نمسکار، چنڈی گڑھ کے ایڈمنسٹریٹر جناب بنواری لال پروہت جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب بھوپندر یادو جی، جناب رامیشور تیلی جی، تمام ریاستوں کے معزز وزرائے محنت، لیبر سکریٹریز، دیگر شخصیات، خواتین و حضرات، سب سے پہلے میں بھگوان تروپتی بالا جی کے چرنوں میں نمن کرتا ہوں۔ جس مقدس مقام پر آپ سبھی موجود ہیں، وہ بھارت کی محنت اور قابلیت کا گواہ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے، اس کانفرنس سے نکلے خیالات ملک کی محنت سے متعلق قابلیت کو مضبوط کریں گے۔ میں آپ سبھی کو، اور خاص کر محنت کی وزارت کو اس پروگرام کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، اس 15 اگست کو ملک نے اپنی آزادی کے 75 سال پورے کیے ہیں، آزادی کے امرت کال میں داخل ہوا ہے۔ امرت کال میں ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لیے ہمارے جو خواب ہیں، جو آرزوئیں ہیں، انہیں پورا کرنے میں بھارت کے محنت کشوں کی طاقت کا بہت بڑا رول ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ملک منظم اور غیر منظم شعبے میں کام کرنے والے کروڑوں محنت کش ساتھیوں کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے۔ پردھان منتری شرم یوگی مان دھن یوجنا، پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا، پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا، جیسی متعدد کوششوں نے مزدوروں کو ایک قسم کا سیکورٹی کور دیا ہے۔ ایسی اسکیموں کی وجہ سے غیر منظم شعبہ کے محنت کشوں کے من میں یہ جذبہ پیدا ہوا ہے کہ ملک ان کی محنت کی بھی اتنی ہی عزت کرتا ہے۔ ہمیں مرکز اور ریاستوں کی ایسی تمام کوششوں کو پوری سنجیدگی سے ایک ساتھ لانا ہوگا، تاکہ مزدوروں کو ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکے۔ ساتھیو، ملک کی ان کوششوں کا کتنا اثر ہماری معیشت پر پڑا ہے، اس کے گواہ ہم کورونا کے دور میں بھی بنے ہیں۔ ’ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم‘ اس کی وجہ سے لاکھوں چھوٹی صنعتوں کو مدد ملی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، اس اسکیم کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا روزگار جانا تھا، وہ نہیں گیا، وہ روزگار بچ گیا۔ کورونا کے دور میں ای پی ایف او سے بھی ملازمین کو بڑی مدد ملی، ہزاروں کروڑ روپے ملازمین کو ایڈوانس کے طور پر دیے گئے۔ اور ساتھیو، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ضرورت کے وقت ملک نے اپنے محنت کشوں کا ساتھ دیا، ویسے ہی وبائی مرض پر قابو پانے میں محنت کشوں نے بھی پوری طاقت لگا دی ہے۔ آج بھارت پھر سے دنیا کی سب سے تیزی سے آگے بڑھ رہی معیشت بنا ہے، تو اس کا بہت بڑا کریڈٹ ہمارے مزدوروں کو ہی جاتا ہے۔ ساتھیو، ملک کے ہر مزدورکو سماجی تحفظ کے دائرے میں لانے کے لیے، کس طرح کام ہو رہا ہے، اس کی ایک مثال ’ای –شرم پورٹل‘ بھی ہے۔ یہ پورٹل پچھلے سال شروع کیا گیا تھا، تاکہ غیر منظم شعبہ کے مزدوروں کے لیے آدھار سے جڑا نیشنل ڈیٹا بیس بن سکے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس ایک سال میں ہی، اس پورٹل سے 400 الگ الگ شعبوں میں کام کرنے والے تقریباً 28 کروڑ محنت کش جڑ چکے ہیں۔ خاص طور سے اس کا فائدہ کنسٹرکشن ورکرز کو، مہاجر مزدوروں کو، اور ڈومیسٹک ورکرز کو مل رہا ہے۔ اب ان لوگوں کو بھی یونیورسل اکاؤنٹ نمبر جیسی سہولیات کا فائدہ مل رہا ہے۔ مزدوروں میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے ’ای-شرم پورٹل‘ کو نیشنل کریئر سروس، اسیم پورٹل اور اُدیَم پورٹل سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں موجود آپ سبھی سے میری گزارش ہے کہ نیشنل پورٹلس کے انٹیگریشن کے ساتھ ساتھ ہم اسٹیٹ پورٹلس کو بھی ساتھ میں انٹیگریٹ کرنے پر ضرور کام کریں۔ اس سے ملک کے سبھی مزدوروں کے لیے نئے مواقع کھلیں گے، تمام ریاستوں کو ملک کے محنت کشوں کی طاقت کا مزید مؤثر فائدہ ملے گا۔ ساتھیو، آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسے کتنے لیبر قانون رہے ہیں جو انگریزوں کے وقت سے چلے آ رہے تھے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں ہم نے ملک میں غلامی کے دور کے، اور غلامی کی ذہنیت والے قوانین کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ملک اب ایسے لیبر قوانین کو بدل رہا ہے، رِفارم کر رہا ہے، انہیں آسان بنا رہا ہے۔ اسی سوچ سے 29 لیبر قوانین کو 4 آسان لیبر کوڈز میں بدلا گیا ہے۔ اس سے ہمارے مزدور بھائی بہن کم از کم تنخواہ، روزگار کی گارنٹی، سماجی تحفظ اور ہیلتھ سیکورٹی جیسے موضوعات پر مزید با اختیار ہوں گے۔ نئے لیبر کوڈز میں انٹر اسٹیٹ مائگرینٹ لیبرز کی تشریح کو بھی درست کیا گیا ہے۔ ہمارے مہاجر مزدور بھائی بہنوں کو ’وَن نیشن، ون راشن کارڈ‘ جیسی اسکیم سے بھی بہت مدد ملی ہے۔ ساتھیو، ہمیں ایک اور بات یاد رکھنی ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ اگر ہم نے خود کو تیزی سے تیار نہیں کیا تو پھر پچھڑے پن کا خطرہ ہو جائے گا۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے صنعتی انقلاب کا فائدہ اٹھانے میں بھارت پیچھے رہ گیا تھا۔ اب چوتھے صنعتی انقلاب کے وقت بھارت کو تیزی سے فیصلے بھی لینے ہوں گے اور انہیں تیزی سے لاگو بھی کرنا پڑے گا۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ، جس طرح نیچر آف جاب بدل رہا ہے، وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ آج دنیا ڈیجیٹل دور میں داخل ہو رہی ہے، پورا عالمی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج ہم سب جی آئی جی اور پلیٹ فارم ایکانومی کے طور پر روزگار کے ایک نئے باب کے گواہ بن رہے ہیں۔ آن لائن شاپنگ ہو، آن لائن ہیلتھ سروس ہو، آن لائن ٹیکسی اور فوڈ ڈیلیوری ہو، یہ آج شہری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ لاکھوں نوجوان ان خدمات کو، اس نئے بازار کو رفتار عطا کر رہے ہیں۔ ان نئے امکانات کے لیے ہماری صحیح پالیسیاں اور صحیح کوششیں، اس شعبے میں بھارت کو گلوبل لیڈر بننے میں مدد کریں گی۔ ساتھیو، ملک کی وزارت لیبر امرت کال میں سال 2047 کے لیے اپنا وژن بھی تیار کر رہی ہے۔ مستقبل کی ضرورت ہے- فلیگزیبل ورک پلیسز، ورک فرام ہوم ایکو سسٹم۔ مستقبل کی ضرورت ہے- لچکدار کام کے گھنٹے۔ ہم فلیگزیبل ورک پلیس جیسے انتظامات کو خواتین مزدوروں کی حصہ داری کے لیے موقع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس 15 اگست کو لال قلعہ سے میں نے ملک کی خواتین کی مکمل حصہ داری کی اپیل کی ہے۔ خواتین کی طاقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے بھارت اپنے اہداف کو اور تیزی سے حاصل کر سکتا ہے۔ ملک میں نئے ابھر رہے سیکٹرز میں خواتین کے لیے کیا کچھ اور کر سکتے ہیں، ہمیں اس سمت میں بھی سوچنا ہوگا۔ ساتھیو، 21ویں صدی میں بھارت کی کامیابی اس بات پر بھی منحصر ہوگی کہ ہم اپنے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کا کتنی کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ ہم ہائی کوالٹی اسکلڈ ورک فورس کرئیٹ کر عالمی مواقع کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بھارت دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ مائگریشن اور موبلٹی پارٹنرشپ ایگریمنٹس بھی سائن کر رہا ہے۔ ملک کی تمام ریاستوں کو ان مواقع کا فائدہ ملے، اس کے لیے ہمیں کوششیں بڑھانی ہوں گی، ایک دوسرے سے سیکھنا ہوگا۔ ساتھیو، آج جب اتنے بڑے موقع پر ہم سبھی ایک ساتھ اکٹھا ہوئے ہیں تو میں تمام ریاستوں سے، آپ سبھی سے مزید اپیل بھی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سبھی واقف ہیں کہ ہمارے بلڈنگ اینڈ کنسٹرکشن ورکرز، ہماری ورکس فورس کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ان کے لیے جس ’سیس‘ کا انتظام کیا گیا ہے، اس کا پورا استعمال ضروری ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس سیس میں سے تقریباً 38 ہزار کروڑ روپے ابھی بھی ریاستوں کے ذریعے استعمال نہیں ہو پائے ہیں۔ ای ایس آئی سی، آیوشمان بھارت یوجنا کے ساتھ مل کر کیسے زیادہ سے زیادہ مزدوروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، اس جانب بھی ہمیں دھیان دینا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری یہ مشترکہ کوشش ملک کی حقیقی قابلیت کو سامنے لانے میں اہم رول نبھائے گی۔ اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! اور مجھے یقین ہے کہ اس دو روزہ اجلاس میں آپ نئے عزائم کے ساتھ، نئے اعتماد کے ساتھ ملک کے محنت کشوں کی طاقت کی قابلیت کو بڑھانے میں کامیاب ہوں گے۔ بہت بہت شکریہ!,সকলো ৰাজ্য আৰু কেন্দ্ৰীয় শাসিত প্ৰদেশৰ শ্ৰম মন্ত্ৰীসকলৰ ৰাষ্ট্ৰীয় শ্ৰ�� সন্মিলনত ভিডিঅ’ কনফাৰেঞ্চিঙৰ মাধ্যমত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%B9%D9%84-%D8%A8%DB%81%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D9%88%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D9%86%DB%8C%DB%81-%D8%AA%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%9F%E0%A6%B2-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%93/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپئی کی پنیہ تتھی پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’آج عزت مآب اٹل جی کی پنیہ تتھی کے موقع پر سدیو اٹل جاکر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ہم بھارت کی خدمت کی غرض سے اٹل جی کی کوششوں سے ہمیشہ ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے بھارت کی کایا پلٹ کرنے اور ہمارے ملک کو اکیسویں صدی کی چنوتیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنے کی غرض سے قائدانہ کوششیں کیں‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ ع م۔ ن ا۔ (2022۔08۔16),অটল বিহাৰী বাজপেয়ীক তেওঁৰ পুণ্য তিথিত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%88%DB%8C%D9%84%D8%AA%DA%BE-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B2-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کامن ویلتھ گیمز 2022 میں خواتین کے 48 کلو گرام باکسنگ میں طلائی تمغہ جیتنے پر نیتوگھنگھاس کو مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’نیتو گھنگھاس کو کامن ویلتھ گیمز 2022 میں سخت محنت سے کمائے گئے اور شاندار طریقے سے طلائی تمغہ حاصل کرنے کے لیے مبارکباد۔ انھوں نے انتہائی لگن اور انتہائی شوق کے ساتھ کھیلوں کو آگے بڑھایا۔ ان کی کامیابی، باکسنگ کو مزید مقبول بنانے والی ہے۔ ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے میری نیک خواہشات۔#چیئر فار انڈیا‘‘,‘চিডব্লিউজি ২০২২’ত মহিলাৰ ৪৮ কিলোগ্ৰাম শাখাৰ বক্সিং-ত সোণৰ পদক জয়ৰ বাবে নীতু ঘংঘছক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D8%A7%D9%85-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%A8%D9%84-%D8%B3%DB%8C%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی، 19 اپریل 2022: نمسکار!! ماریشس کے وزیر اعظم جناب پرویند کمار جگناتھ جی، عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب سربانند سونووال جی، ڈاکٹر منسکھ منڈاویا، جناب مُنجپارہ مہندر بھائی، یہاں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات۔ آج ہم سب دنیا بھر میں صحت اور تندرستی کا ایک بہت بڑے واقعے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میں عالمی ادارہ صحت میں خاص طور پر ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس کا شکر گزار ہوں۔ اس وقت ڈاکٹر ٹیڈروس نے بھارت کی ستائش میں جو الفاظ کہے ہیں، میں ہر بھارتی کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور جس طرح انہوں نے گجراتی، ہندی، انگریزی کو ایک طرح سے تریوینی کا احساس دلایا ہے اور ہر بھارتی کے دل کو چھولیا ہے، میں انہیں خاص طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر ٹیڈروس کے ساتھ میری واقفیت پرانی ہے اور جب بھی ہم ملے ہیں، انھوں نے بھارت کے گروؤں نے کس طرح سیکھا، وہ اس کا ذکر بڑے فخر اور خوشی کے ساتھ کرتے ہیں اور بھارت کے لیے ان کا لگاؤ آج یہاں ایک ادارے کے طور پر ظاہر ہو رہا ہے ۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ میرا ایک بچہ ہے، جسے میں آپ کو دے رہا ہوں، اب اس کی پرورش و پرداخت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ میں ڈاکٹر ٹیڈروس کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ نے جس اعتماد کے ساتھ بھارت کو یہ ذمہ داری سونپی ہے اور جس جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ ہمارے وزیر اعلی بھوپیندر بھائی پٹیل نے یہ ساری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ہے، مجھے یقین ہے کہ ہم آپ کی امیدوں اور توقعات پر پورے اتریں گے۔ میں اپنے دوست اور ماریشس کے وزیر اعظم جناب جگناتھ جی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا ان کے خاندان کے ساتھ تقریباً تین دہائی پرانا رشتہ ہے۔ جب بھی میں ماریشس جاتا، ان کے گھر جاتا، ان کے والد سے ملتا۔ ان کے خاندان کے سب سے زیادہ رابطے رہے، تین دہائیوں کا یہ پرانا رشتہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج میری دعوت پر وہ میری آبائی ریاست گجرات آئے۔ اور انہوں نے گجراتی زبان سے وابستگی جوڑ کر ہم سب کے دل بھی جیت لیے ہیں۔ اب ہم نے بنگلہ دیش کے وزیر اعظم، بھوٹان کے وزیر اعظم اور نیپال کے وزیر اعظم کے خیالات سنے ہیں۔ تمام نے عالمی ادارہ صحت گلوبل سینٹر فار ٹریڈیشنل میڈیسن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ میں سب کا شکر گزار ہوں۔ ساتھیو عالمی ادارہ صحت نے روایتی طب کے اس مرکز کے طور پر بھارت کے ساتھ ایک نئی شراکت داری کا آغاز کیا ہے۔ یہ روایتی طب کے شعبے میں بھارت کے تعاون اور بھارت کی صلاحیت دونوں کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ بھارت اس شراکت داری کو پوری انسانیت کی خدمت کی ایک بہت بڑی ذمہ داری کے طور پر لے رہا ہے۔ یہ مراکز دنیا بھر میں پھیلی روایتی ادویات کے تعاون سے دنیا کے عوام کو بہتر طبی حل فراہم کرنے میں مدد گار ہوں گے۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جام نگر کی سرزمین پر ڈاکٹر ٹیڈروس اور پرویند جی کی موجودگی میں یہ صرف ایک عمارت کا سنگ بنیاد ہی نہیں ہے بلکہ میں دنیا بھر میں نیچروپیتھی پر یقین رکھنے والے ہر شخص کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج جب بھارت آزادی کے امرت مہوتسو منا رہا ہے، اس دور میں جو سنگ بنیاد رکھا گیا ہے وہ آنے والے 25 سالوں تک دنیا بھر میں روایتی طب کے دور کا آغاز کر رہا ہے۔ میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہوں کہ مجموعی صحت کی دیکھ بھال کی بڑھتی ہوئی کشش کی وجہ سے آنے والے 25 سالوں میں جب ملک آزادی کی صد سالہ سالگرہ منائے گا تو روایتی طب دنیا کے ہر خاندان کے لیے انتہائی اہمیت کا مرکز بن جائے گی، یہ اس کا سنگ بنیاد ہے۔ اور آیوروید میں امرت کلش کو بہت اہمیت حاصل ہے اور یہ پروگرام امرت کال میں شروع ہو رہا ہے، اس لیے میں ایک نئے یقین کے ساتھ دور رس اثرات کے اثرات دیکھ رہا ہوں اور مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہے کہ یہ عالمی مرکز ہمارے اس جام نگر میں قائم کیا جارہا ہے۔ جام نگر کا آیوروید کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ قبل جام نگر میں دنیا کی پہلی آیوروید یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ آیوروید میں آیوروید کے بہترین انسٹی ٹیوٹ – انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچنگ اینڈ ریسرچ میں سے ایک یہ ہے۔ اب عالمی ادارہ صحت کا یہ عالمی مرکز عالمی سطح پر تندرستی کے شعبے میں جام نگر کی شناخت کو ایک نئی بلندی عطا کرے گا۔ بیماری سے پاک رہنا، صحت مند رہنا زندگی کے سفر کا ایک اہم حص�� ہوسکتا ہے، لیکن تندرستی حتمی مقصد ہونا چاہیے۔ ساتھیو ہماری زندگی میں تندرستی کی کیا اہمیت ہے، ہم نے کوویڈ وبا کے اس دور میں اسی کا تجربہ کیا ہے۔ لہذا آج دنیا صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کی ایک نئی جہت کی تلاش میں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال کے لیے یہ نعرہ “ہمارا سیارہ ہماری صحت” دے کر، جنہوں نے بھارت کے ‘ایک زمین، ایک صحت’ کے اس تصور کو آگے بڑھایا ہے۔ ساتھیو ہزاروں سال پہلے لکھے گئے اتھروویدا میں ہم سے کہا گیا ہے- جیوم شردہ شتم۔ یعنی 100 سال تک جئیں! ہماری روایت میں سو سال کی عمر کی خواہش بہت فطری رہی ہے کیونکہ اس وقت 100 سال کی عمر حاصل کرنا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اور ہمارے روایتی نظام طب نے اس میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ بھارت کا روایتی نظام طب صرف علاج تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ یہ زندگی کی ایک جامع سائنس ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ آیوروید میں شفا اور علاج کے علاوہ سماجی صحت، ذہنی صحت، خوشی، ماحولیاتی صحت، ہمدردی، ہمدردی، حساسیت اور پیداواری صلاحیت سب کچھ اس امرت کلش میں شامل ہے۔ اس لیے ہمارے آیوروید کو زندگی کا علم سمجھا جاتا ہے اور جس طرح چار وید شہرت رکھتے ہیں اسی طرح آیوروید کو پانچواں وید کہا جاتا ہے۔ ساتھیو آج جدید دنیا کا جو طرز زندگی ہے، ہمارا روایتی علم ان نئی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے بہت اہم ہے جنھیں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح اچھی صحت کا متوازن غذا سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کا خیال تھا کہ کسی بھی بیماری کا آدھا علاج متوازن غذا میں چھپا ہوا ہے۔ ہمارے روایتی نظام طب اس بارے میں معلومات سے بھرے ہوئے ہیں کہ کس موسم میں کیا کھانا ہے، کیا نہیں کھانا ہے۔ اور ان معلومات کی بنیاد، سینکڑوں سالوں کے تجربے کی کشید ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بھارت میں ایک وقت تھا جب ہمارے بزرگ باجروں خصوصا موٹے اناج کے استعمال پر بہت زور دیتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اس کے استعمال کو کم ہوتے دیکھا ہے اور آج کل ہم باجروں کی بحث کو دوبارہ بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مجھے اس بات پر بھی اطمینان ہے کہ باجروں کے استعمال کو فروغ دینے کی بھارت کی تجویز کو اقوام متحدہ نے قبول کر لیا ہے۔ 2023 کو بین الاقوامی ملیٹس ایئر قرار دینا انسانیت کے لیے ایک بہت فائدہ مند قدم ہے۔ عزت مآب معززین، کچھ عرصہ قبل بھارت میں شروع ہونے والے ‘قومی غذائیت مشن’ نے بھی ہمارے قدیم اور روایتی علم کو مدنظر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ کوویڈ-19 وبا کے دوران بھی ہم نے آیوش نظام کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا۔ “آیوش کاڑھا” آیوروید پر مبنی کوشاندہ بہت مقبول ہوا۔ آیوروید، سِدھ، یونانی دواؤں کی عالمی سطح پر بھی بڑی مانگ دیکھی جارہی ہے۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک اپنے آپ کو مقامی امراض سے بچانے کے لیے روایتی جڑی بوٹیوں کے نظام کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ ساتھیو بھارت آیوروید اور انٹیگریٹو میڈیسن کے شعبے میں بھارت کے تجربے کو دنیا کے ساتھ بانٹنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ ذیابیطس، موٹاپا، ڈپریشن جیسی بہت سی بیماریوں سے لڑنے میں بھارت کی یوگ کی روایت دنیا میں بہت مفید ہے۔ یوگ عالمی یوم یوگ کے ذریعے رائج ہوتا جا رہا ہے اور یوگ دنیا بھر کے لوگوں کو ذہنی دباؤ کو کم کرنے، دماغ کے جسم کے شعور میں توازن برقرار رکھنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ یہ نئے ادارے یوگ کے دائرہ کار کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کریں۔ عزت مآب معززین، آج اس موقع پر میں اس عالمی مرکز کے لیے پانچ اہداف بھی طے کرنا چاہوں گا۔ پہلا مقصد ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے روایتی علم مرتب کرنا، ان کا ڈیٹا بیس بنانا ہے۔ مختلف ممالک میں روایتی طب کی مختلف روایات رہی ہیں۔ ان روایات کو مرتب کرتے ہوئے اس مرکز میں ایک عالمی مجموعہ یا ذخیرہ تخلیق کیا جانا چاہیے۔ یہ مراکز ان روایات کے علما کے مصادر یعنی بنیادی طریقوں کا مطالعہ کرکے ان روایات کو مرتب بھی کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ روایتی ادویات کے بارے میں اہم معلومات جو مختلف ممالک میں موجود ہیں، آنے والی نسلوں کی مدد کرتی رہیں۔ ساتھیو جی سی ٹی ایم کو روایتی ادویات کی جانچ اور تصدیق کے لیے بین الاقوامی معیار بھی بنانا چاہیے۔ یہ آپ کی تنظیم کا دوسرا مقصد ہوسکتا ہے۔ اس سے ان ادویات پر ہر ملک کے لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کی بہت سی روایتی ادویات، یہاں تک کہ غیر ملکیوں کو بھی یہ بہت موثر لگتی ہیں۔ لیکن عالمی معیار کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کی باقاعدہ تجارت محدود ہے۔ لہذا، ان کی دستیابی بھی کم ہے۔ میرے خیال میں بہت سے دوسرے ممالک کو بھی ایسا ہی مسئلہ درپیش ہوگا۔ اس عالمی مرکز کو بھی اس کے حل کی طرف کام کرنا چاہیے۔ جنہوں نے حال ہی میں آیوروید، پنچ کرما اور یونانی کے لیے بینچ مارک دستاویزات بھی تیار کی ہیں۔ اسے بھی وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھیو جی سی ٹی ایم کو ایک ایسا پلیٹ فارم بننا چاہیے جہاں دنیا کے روایتی نظام طب کے ماہرین اکٹھے ہوں، سر جوڑ کر بیٹھیں، اپنے تجربات شیئر کریں۔ ان کوششوں کو یہ گلوبل سینٹر اپنا تیسرا مقصد بنا سکتا ہے۔ کیا یہ ادارہ، جو ایک سالانہ تقریب کرسکتا ہے، روایتی طب کا سالانہ تہوار مناسکتا ہے جس میں دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کے ماہرین اپنی نظام طب کو شیئر کرسکیں۔ ساتھیو میرے خیال میں اس مرکز کا چوتھا مقصد تحقیق میں سرمایہ کاری سے متعلق ہونا چاہیے۔ جی سی ٹی ایم کو روایتی ادویات کے شعبے میں تحقیق کے لیے فنڈنگ کو متحرک کرنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جدید فارما کمپنیوں کے لیے تحقیقی شعبے میں اربوں ڈالر دستیاب ہیں۔ ہمیں اسی طرح کے وسائل، روایتی طب میں بھی تحقیق کی تیاری کرنی چاہیے۔ پانچواں مقصد علاج کے پروٹوکول سے وابستہ ہے۔ کیا جی سی ٹی ایم کچھ مخصوص بیماریوں کے لیے مجموعی علاج کے پروٹوکول تیار کر سکتا ہے جس میں مریض جدید اور روایتی دونوں ادویات سے فائدہ اٹھاسکے؟ ان قدیم سائنسوں کو آپ کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں موثر انضمام بہت سی بیماریوں سے لڑنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ساتھیو ہم بھارتی وسودھیوا کٹومبکم اور سروے سنتو نرمیہ کے جذبے سے جینے والے لوگ ہیں۔ پوری دنیا ایک خاندان ہے اور یہ پورا خاندان ہمیشہ صحت مند رہنا چاہیے، یہ ہمارا فلسفہ رہا ہے۔ آج جی سی ٹی ایم کے قیام سے بھارت کی یہ روایت مزید ثروت مند ہورہی ہے۔ اسی امید کے ساتھ کہ دنیا بھر کے لوگوں کی صحت کو عالمی ادارہ صحت کا یہ مرکز بہتر بنائے گا، میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ اور اب میں دونوں مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے وقت نکالا، اس تقریب کو بلندی بخشی، اس کی رونق کو بڑھایا۔ آپ سب کا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ، نمسکار!,জামনগৰত বিশ্ব স্বাস্থ্য সংস্থাৰ পৰম্পৰাগত চিকিৎসাৰ আন্তৰ্জাতিক কেন্দ্ৰৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%AC%D9%84%D8%B3%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%AC%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95/,نئی دہلی۔11 اگست آج 11 اگست ہے۔ 110 سال قبل ، ملک کی آزادی کے لئے آج کے ہی دن کھودی رام بوس نے مادر وطن کے لیے اپنا لئے سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ میں اس بہادر انقلابی کو سلام کرتا ہوں، ملک کی طرف سے ان کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، آزادی کے لیے جنھوں نے قربانیاں دیں ، اپنا سب کچھ نچھاور کیا ، وہ لازوال ہو گئے ، وہ ترغیب کے مجسمہ بن گئے ۔ لیکن ہم لوگ ہیں جنہیں آزادی کے لئے مرنے کا موقع نہیں ملا، لیکن ہماری یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ہم آزاد بھارت کے لئے جی سکتے ہیں، ہم ملک کے آزادی کو قوم کی تعمیر نو کے لئے زندہ رہ کر زندگی کا ایک نیا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ آج میں اپنے سامنے، آپ کے اندر، آپ کے چہرے پر جو جوش و خروش دیکھ رہا ہوں جو اعتماد دیکھ رہا ہوں، وہ اس بات پر یقین دلانے والا ہے کہ ہم صحیح راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ساتھیوں، آئی آئی ٹی بمبئی آزاد ہندوستان کے ان اداروں میں سے ہے جن کا تصور ٹیکنالوجی کے ذریعہ قومی تعمیر کو نئی سمت دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ گزشتہ 60 سالوں سے ، آپ مسلسل اپنے نے اس مشن میں مصروف عمل ہیں۔ 100 طلباء کے ساتھ شروع ہوا سفر آج 10 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ اس دوران، آپ نے خود کو دنیا کے سر فہرست اداروں میں شامل بھی کیاہے ۔ یہ ادارہ ااپنی ڈائمنڈ جوبلی منا رہا ہے ۔ تاہم اس سے زیادہ اہم ہیں وہ سبھی ہیرے جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں ، جنھیں آج ڈگریاں مل رہی ہیں اور جو یہاں سے ڈگری حاصل کر کے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ آج اس موقع پر سب سے پہلے میں ڈگری حاصل کرنے والے ملکی و غیر ملکی طلباء کو اور ان کے اہل خانہ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کا استقبال کرتا ہوں ۔ آج یہاں ڈاکٹر رمیش وادھوانی جی کو ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری بھی دی گئی ہے۔ ڈاکٹر وادھوانی کو بھی میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔ رمیش جی نے ٹکنالوجی کو عام آدمی کی ضروریات سے جوڑنے کے لیے عمر بھر خدمات انجام دیں۔ وادھوانی فاؤنڈیشن کے ذریعہ انھوں نے نوجوانوں کے لیے روزگار کی تخلیق ، ہنرمندی ، اختراع اور تجارت کا ماحول تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ ایک ادارہ کی حیثیت سے آپ سبھی کے لیے بھی باعث فخر ہے کہ یہاں سے نکلے وادھوانی جی جیسے متعدد طلباء طالبات آج ملک کی ترقی میں سرگرم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ چھ دہائیوں کی مسلسل کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آئی آئی ٹی بمبئی نے ملک کے گنے چنے اداروں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ اور ابھی آپ کو بتایا گیا کہ آپ کو ایک ہزار کروڑ روپیہ کی اقتصادی مدد ملنے والی ہے جو آنے والے وقت میں یہاں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں کام آنے والا ہے ۔ اس کے لیے بھی میں آپ کو اور پوری اس ٹیم کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ —— ساتھیوں، آئی آئی ٹی بمبئی ملک کے ان اداروں میں سے ہے جو جدید ہندوستان کی جدید ٹیکنالوجی کے لئے کام کر رہاہے۔ آنے والے دو دہائیوں میں، دنیا کی ترقی کتنی اور کیسی ہوگی ، یہ جدت اور نئی ٹیکنالوجی طے کرے گی۔ایسے میں آپ کے اس ادارہ کا آئی آئی ٹی کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے چاہے 5G براڈبینڈ ٹیکنالوجی ہو، مصنوعی انٹلی جینس ہو، بلاک چین ٹکنالوجی ہو، بگ ڈاٹا انالائسس ہو یا پھر مشین لرننگ ، یہ وہ تکنیک ہے جو آنے والے وقت میں اسمارٹ مینو فکچرنگ اور اسمارٹ سیٹیز کے تصور کے لیے اہم ثابت ہونے والی ہے۔ اب سے کچھ دیر بعد جس نئی عمارت کا افتتاح ہوگا وہ بھی اس سمت میں اہم ثابت ہونے والا ہے۔ انجنیئرنگ اور توانائی سائنس کے محکمے اور انجینئرنگ اور ماحولیات سائنس کے مرکز اس نئی عمارت میں کام کرنے والے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی اور ماحولیات ملک اور دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے ، اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں یہاں ان دونوں شعبوں میں تحقیق کے لیے بہتر ماحول بنے گا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس عمارت میں شمسی لیب بھی قائم کیا جا رہا ہے، جس سے طلباء کو شمسی توانائی سے متعلق تحقیقات میں آسانی ہوگی۔ شمسی توانائی کے علاوہ، حیاتیاتی ایندھن بھی آنے والے دنوں میں صاف توانائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوگا۔ میں نے کل دہلی میں حیاتیاتی ایندھن کے دن کے موقع پر بھی کہا تھا کہ اس سے منسلک ٹیکنالوجی کو لے کر انجینئرنگ کے چھوٹے سے لے کر بڑے ادارے میں تعلیم دی جائے ، تحقیق ہو۔ ساتھیوں، آئی آئی ٹی کو ملک اور دنیا انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے روپ میں جانتی ہے۔ لیکن آج ہمارے لیے اس کی تعریف تھوڑی بدل گئی ہے۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کی تعلیم سے جڑے ادارہ تک محدود نہیں رہ گئے ہیں بلکہ آئی آئی ٹی آج ہندوستان کی یکسر تبدیلی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ ہم جب یکسر تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اسٹارٹ اَپ کے جس انقلاب کی طرف ملک آگے بڑھ رہا ہے، اس کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہمارے IIT ہیں۔ آج دنیا آئی آئی ٹی کو یونی کورن اسٹار اپس کی نرسری کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ یعنی وہ اسٹارٹ اَپ ابھی ہندوستان میں شروع ہو رہے ہیں جن کی مستقبل میں قیمت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہونے کا امکان بتایا گیا ہے۔ یہ ایک طرح سے تکنیک کے آئینے ہیں جس میں دنیا کو مستقبل نظر آتا ہے۔ ساتھیوں، آج دنیا بھر میں جتنے بھی بلین ڈالر اسٹارٹ اپس ہیں، ان میں درجنوں ایسے ہیں جن کو آئی آئی ٹی سے نکلے لوگوں نے قائم کیا ہے۔ آج میں اپنے سامنے مستقبل کے ایسے بہت سے متعدد یونیکورن فاؤنڈرز کو دیکھ رہا ہوں۔ دوست، انوویشن اور انٹرپرائز ہندوستان ترقی یافتہ معیشت بنانے کے لیے سنگ بنیاد بننے جا رہے ہیں۔ ایک طویل مدتی پائیدار ٹیکنالوجی پر مبنی اقتصادی ترقی اسی بنیاد پر ممکن ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم نے اسٹارٹ اَپ انڈیا اور اٹل اختراع مشن جیسی مہم شروع کی ہے جن کے نتائج اب ملنے لگے ہیں۔ آج ہندوستان اسٹارٹ اَپ کے شعبہ میں دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ماحولیاتی نظام ہے ۔ 10 ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو ملک میں فروغ دیا جا رہا ہے اور فنڈنگ کا بھی ایک وسیع تر انتظام کیا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، آج اختراع انڈیکس کی درجہ بندی میں ہم مسلسل اوپر چڑھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم سے لے کر ماحولیات تک کی جو ہماری مجموعی اپروچ ہے اس کا نتیجہ آج دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ ملک میں سائنسی رجحان کو فروغ دینے، تحقیق کا ماحول بنانے کے لیے اعلی تعلیم میں بنیادی ڈھانچے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں 7 نئے آئی آئی ٹیز، 7 نئے آئی آئی ایم ، 2 آئی آئی ایس ای آر اور 11 IIITs منظور کئے گئے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے، آر آئی ایس ای یعنی تعلیم میں بنیادی ڈھانچے اور نظام کی تجدید کاری کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت آنے والے چار برسوں میں ایک لاکھ کروڑ روپئے جٹانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ نئے ادارے ، نئے بنیادی ڈھا��چے ضروری ہیں لیکن اس سے بھی ضروری وہاں سے تیار ہونے والی ہنرمندطاقت ہے۔ حکومت اس پر توجہ دے رہی ہے۔ ساتھیوں! ملک آج ہر سال لگ بھگ 7 انجینئر کیمپس میں یار کرتا ہے، لیکن کچھ لوگ ڈگری لے کر ہی نکلتے ہیں ان میں ہنرمندی کی صلاحیت اتنی فروغ نہیں ہوپاتی۔ میں یہاں موجود اساتذہ سے، دانشوروں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں سوچیں کیسے معیار کو سدھارا جائے ۔اس پرتجاویز لے کر آئیں۔مقدار ہی نہیں بلکہ معیار بھی اعلی سطح کا ہو۔یہ یقینی بناناآپ سبھی کی ہم سبھی کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے حکومت کوشش بھی کر رہی ہے۔ آپ کی جانکاری میں ہوگا کہ حکومت وزیر اعظم کے ریسرچ فیلو اسکیم چلا رہی ہے۔ اس کے تحت، ہر سال ملک کے ایک ہزار انجینئرنگ کے طلبا کو تحقیق کے لیے وسائل دستیاب کرائے جارہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں اس یوجنا میں منتخب طالب علموں کو پی ایچ ڈی کے لیے ، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایس سی جیسے معروف اداروں میں ہی داخلہ ملنے کا انتظام ہوتا ہے۔یہ فیلوشیش آپ کو ملک میں رہتے ہوئے ہی تحقیق کے لئے بہترین سہولیات فراہم کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ آئی آئی ٹی بمبئی کے طلبا وطالبات کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ساتھیوں! یہاں جتنے لوگ بھی بیٹھے ہیں وہ یا تو اساتذہ ہیں یا پھر مستقبل کے قائد ہیں۔ آپ آنے والے وقت میں ملک کے لئے یا کسی ادارے کے لئے پالیسی سازی کے کام میں شامل ہونے والے ہیں۔آپ جیسے ٹیکنالوجی اوراختراع سے نئے اسٹارٹ اپ کے لئے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اس کے لئے آپ کا ایک متعین تصور بھی ہوگا۔ ساتھیوں! پرانے طور طریقوں کو چھوڑنا اکثر آسان نہیں ہوتا۔ سماج اور حکومتی انتظامات کے ساتھ بھی یہی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ ہزاروں برسوں سے جو عادتیں فروغ پائی ہیں سیکڑوں سالوں سے جو نظام چل رہا تھا ان کی تبدیلی کے لیےقائل کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن اب آپ کی سوچ اور عمل کے مرکز میں وابستگی، ترغیب اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو آپ ساری مشکلوں کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آج حکومت آپ سبھی کی، ملک میں کروڑوں نوجوانوں کی خواہشات کو سامنے رکھ کر کام کر رہی ہے۔ میرا آپ سبھی سے بھی یہی درخواست ہے کہ اپنی ناکامی کی الجھن کو دل سے نکالیں۔ کامیابی ملے گی، نہیں ملے گی، کروں یا نہ کروں، الجھن کو نکالیں اور ترغیب پر توجہ دیں۔ بلند مقاصد، اونچی فکر آپ کی زیادہ حوصلہ افزائی کرے گی۔ الجھن آپ کی صلاحیت کو سرحدوں میں باندھ دے گا۔ ساتھیوں! صرف خواہشات ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ مقصد اہم ہوتا ہے۔ آپ میں سے آج جویہاں سے باہر نکل رہے ہیں یا پھر آنے والے سالوں میں نکلنے والے ہیں آپ سبھی کسی نہ کسی ادارے سے جڑنے والے ہیں، کسی نئے ادارے کی بنیاد ڈالنے والے ہیں۔ مجھے امید ہے ایسے ہر کام میں آپ ملک کی ضرورتوں، ہم وطنوں کی ضرورتوں کا ضرور دھیان رکھیں گے۔ ایسے متعدد مسائل ہیں جن کا حل آپ سبھی تلاش کرسکتے ہیں۔ ساتھیوں! سوا سو کروڑ کی ہم وطنوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایز آف لیونگ یقینی بنانے کے لیے آپ کی ہر کوشش ، ہر فکر کے ساتھ یہ حکومت کھڑی ہے، آپ کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہے۔ اس لئے میری جب بھی آپ جیسے طالب علموں،سائنس دانوں ،صنعتکاروں سے بات ہوتی ہے تو میں آئی آئی ٹی جیسے تمام اداروں کے ارد گرد، شہروں میں قائم سائنس کے کلسٹرز کی بات ضرور کرتا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ طلباء، اساتذہ، صنعت، اسٹارٹ اپ سے جڑے تمام لوگوں کو ایک جگہ پر ��یک دوسرے کی ضروریات کے حساب سے کام کرنے ، تحقیق وترقی کرنے کا موقع ملے۔اب جیسے ممبئی کے جس علاقے میں آپ کا ادارہ ہے اُسے ہی لیجئے۔ مجھے جانکاری دی گئی ہے کہ یہاں گریٹر ممبئی میں لگ بھگ 800 کالج اور ادارے ہیں جن میں ساڑھے نو لاکھ نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آج، جب ہم تقسیم اسناد کے لیے جمع ہوئے ہیں یہ اس ادارے کا ڈائمنڈ جوبلی سال بھی ہے۔ اس موقع پر آپ کو میں ایک عزم سے جوڑنا چاہتا ہوں۔ کیا آئی آئی ٹی بمبئی شہروں میں مقیم سینٹر آف ایکسلینس کا مرکز بن سکتا ہے؟ ساتھیوں! آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ سرکاری نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) کو قانون بناکراور بھی خودمختاری دی ہے۔ حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ آئی آئی ایم سے پڑھ کر نکلے طلبا –سابق طلبا، ان اداروں میں اور زیادہ سرگرم رول ادا کریں۔ آئی آئی ایم کے بورڈ آف گورنرز نے بھی ان کو نمائندگی دی جارہی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آئی آئی ٹی جیسے اداروں کو بھی اپنے سابق طلبا کے تجربات کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس طرح کے فیصلے پر غور کرنا چاہئے۔ ایسا ہونے پر سابق طلبا کو بھی اپنے اداروں کے لیے کچھ بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ میرے سامنے بیٹھے ہر طالب علم مستقبل کا سابق طالب علم ہے۔ اور میری اس بات سے آپ سبھی متفق ہوں گے کہ سابق طلبا ایک ایسی طاقت ہے جو اس ادارے کونئی بلندیاں دینے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ صرف آئی آئی ٹی بمبئی کے لئے 50 ہزار سے زیادہ سابق طلبا ہیں۔ ان کے علم ، ان کے تجربے سے بہت بڑا فائدہ آپ کو مل سکتا ہے۔ ساتھیوں! یہاں پہنچنے کے لیے آپ نے بہت جدوجہد کی ہے۔ آپ میں سے متعدد ساتھی ایسے ہوں گے ،جو مسائل کا سامنا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ آپ میں حیرت انگیز صلاحیت ہے،جس کے بہتر نتائج بھی آپ کو مل رہے ہیں۔ لیکن ایسے بھی لاکھوں نوجوان ہیں جو یہاں آنے کے لئے جد وجہد کرتے ہیں تاہم انہیں کامیابی نہیں مل پاتی۔ ان میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے ایسا نہیں ہے۔ مواقع اور رہنمائی کی کمی میں انہیں یہ موقع نہیں مل پایا ہے۔ایسے متعدد طلبا کی زندگی میں ان کی رہنمائی کرکے آپ ایک نئی توانائی، نیا شعور شعور، نئی روشنی پیدا کرسکتے ہیں۔یہ اور بھی بہتر ہوگا اگر آئی آئی ٹی بمبئی آس پاس کے اسکولوں کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام بنائے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہاں کیپس میں لانے کا انتظام ہوتاکہ وہ سائنسی تحقیق کے راغب ہوں۔ آپ کی جانکاری میں ہو گا کہ اب اٹل ٹنکرنگ لیب کی بھی ایک بہت بڑی مہم ملک کے اسکولوں میں چلائی جارہی ہے۔جہاں مصنوعی انٹلی جنس، تھری ڈی پرنٹنگ جیسی نئی ٹیکنالوجی سےبچوں کو متعارف کرایا جارہا ہے۔ اسکولوں میں اس قسم کے آؤٹ ریچ سے اس مہم کو بھی مدد کرے گی۔ ممکن ہے کہ ننھے ذہن کے نئی فکر سے کبھی کبھی ہم بڑوں کو، آپ سبھی کو بھی کچھ نئی ترغیب مل جائے۔ ساتھیوں! آج جو ڈگری آپ کو مل رہی ہے یہ آپ کے لگن، مقصد کے تئیں آپ کی خودسپردگی کی علامت ہے۔ یاد رکھئے کہ یہ صرف ایک پڑاؤ ہے، اصل چیلنج آپ کا باہر انتظار کر رہا ہے۔ آپ نے آج تک جو حاصل کیا اور مستقبل میں جو کرنے جارہے ہیں اس سے آپ کی اپنی آپ کے خاندان کی سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ جو کرنے والے ہیں اس سے ملک کی نئی نسل کا مستقبل بھی بنے گا اور جدید ہندوستان بھی مضبوط ہوگا۔ کروڑوں امیدوں کو پورا کرنے میں آپ کامیاب ہوں، اس کے لیے ایک بار پھر بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت مبارک باد پیش کر��ا ہوں، آپ سب کے درمیان کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,আইআইটি বোম্বেৰ ৫৬সংখ্যক বাৰ্ষিক সমাৱর্তন অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D8%A7%DA%A9%D8%B1%D9%85-%D9%BE%D8%B1%D9%88-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D8%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نئی دہلی،28؍ستمبر، وزیراعظم جناب نریندر مودی کمانڈروں کی مشترکہ کانفرنس میں شرکت کے لئے آج صبح جودھپور پہنچے۔ انہوں نے جودھپور میں ایئرفورس اسٹیشن پر تینوں افواج کے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔ وزیراعظم نے کونارک جنگی یادگار پر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ویزیٹرس بک میں وزیراعظم نے لکھا ہے کہ ملک مسلح افواج پر فخر کرتا ہے جو مادر وطن کا تحفظ کرنے کے لئے پوری طرح عہد بستہ اور وقف ہیں۔ انہوں نے ان بہادر شہیدوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے عظیم قربانی پیش کیں اور وہ آئندہ نسلوں کے لئے تحریک کی علامت ہیں۔ کونارک اسٹیڈیم میں وزیراعظم نے پراکرم پرو کا افتتاح کیا۔ انہوں نے اس موقع پر لگائی گئی ایک نمائش کو بھی دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن-وا- ق ر),"পৰাক্ৰম পৰ্ব উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ, কোনাৰ্ক ৱাৰ মেম’ৰিয়েলত শ্বহীদলৈ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D9%85-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%95-%E0%A6%AD%E0%A7%80%E0%A6%AE-%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%99%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%A4/,نئی دہلی1 3؍مئی 2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پروفیسر بھیم سنگھ کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ پروفیسر بھیم سنگھ جی کو زمینی سطح پر سرگرم ایک عوامی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اپنی زندگی جموں وکشمیر کی فلاح وبہبود کے لئے وقف کردی تھی۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’پروفیسر بھیم سنگھ جی کو زمینی سطح پر سرگرم ایک عوامی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جنہوں نے اپنی زندگی جموں وکشمیر کی فلاح وبہبود کے ئے وقف کردی تھی۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ مجھے ان کے ساتھ متعدد مرتبہ ہوئی بات چیت ہمیشہ یاد رہے گی۔ ان کے انتقال پر دکھ ہوا ہے۔ ان کے اہل خانہ اور حامیوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔اوم شانتی,অধ্যাপক ভীম সিঙৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-2022%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%88%D9%86-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D9%82%D8%A8%D9%84-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%BE/,نمسکار ساتھیو، یہ اجلاس موسم سے تو جڑا ہوا ہے، اب دہلی میں بارش نے بھی دستک دینی شروع کردی ہے ۔ لیکن پھر بھی نہ باہر کی گرمی کم ہورہی ہے اور پتہ نہیں اندر بھی گرمی کم ہوگی یا نہیں ہوگی۔ یہ دور ایک طرح سے بہت اہم ہے، یہ آزادی کے امرت مہوتسو کادور ہے، 15 اگست کی خاص اہمیت ہے اورآنےو الے 25 سال کےلئے ملک جب صدی منائے گاتو ہمارا25 سال کاسفر کیسا رہے، ہم کتنی تیز رفتار سے چلیں، کتنی نئی بلندیوں کوپار کریں، اس کے عہد لینےکا ایک دور ہے اور ان عہد کے تئیں وقف ہو کر ملک کو سمت دیناہے ۔ ایوان ملک کی قیادت کرے، ا یوان کے سبھی عزت مآب ممبر ملک میں نئی توانائی بھرنےکے لئےعہد بند بنیں۔ اس لحاظ سے یہ اجلاس بھی بہت اہم ہے۔ یہ ا جلاس اس لئے بھی اہم ہے کہ اسی وقت صدر کا عہدہ اور نائب صدر کے عہدے کے چناؤ ہورہے ہیں، آج ووٹ بھی ڈالے جارہے ہیں اوراسی دور میں ملک کو نئے صدر، نئے نائب صدر ، ان کی رہنمائی شروع ہوگی۔ ہم ہمیشہ ایوان کو بحث و مباحثے کاایک وسیلہ مانتے ہیں، مقد جگہ مانتےہیں، جہاں کھلے من سے بحث ہو، ضرورت پڑے تو بحث ومباحثے ہوں ، تنقید بھی ہو ، بہت اچھے ڈھنگ سے تجزیہ کرکے چیزوں کو باریکیوں سے خلاصہ ہو تاکہ پالیسی اور فیصلوں میں بہت ہی مثبت تعاون فراہم ہوسکے۔ میں سبھی قابل احترام ارکان پا رلیمنٹ سے یہ اپیل کروں گا کہ بہت غوروفکر ، سوچ سمجھ کر بحث و مباحثے اور گفتگو کے علاوہ ایوان کو جتنا زیادہ سود مند بناسکیں، اسی لئے سب کا تعاون ہو اور سب کی کوشش سے جمہوریت چلتی ہے۔سب کی کوششوں سے ہی ایوان چلتا ہے، سب کی کوشش سے ہی ایوان مثبت اوراچھے فیصلے کرتاہے۔ اوراس لئے ایوان کے وقار کو بڑھانے کے لئے بھی ہم سب اپنے فرض پورا کرتے ہوئے اس اجلاس کا قومی مفاد میں سب سے زیادہ استعمال کریں اور ہر پل یاد رکھیں کہ آزادی کے لئے جنہوں نے اپنی زندگی کھپادی، اپنی زندگی بتائی، زندگی جیلو ں میں کاٹی،کتنی شہادتیں ہوئیں، ان کے خوابوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اور جب 15 اگست سامنے ہے، تب ایوان کا سب سے زیادہ مثبت استعمال ہو، یہی میری سب سے گزارش ہے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ,২০২২ বৰ্ষৰ সংসদৰ বৰ্ষাকালীন অধিৱেশনৰ প্ৰাকমুহূৰ্তত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বিবৃতিৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%8F%D9%84-%DA%AF%D8%B1%D9%88%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%D8%AC-%D8%B1%D8%B4%DB%8C-%D9%85%D9%86%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF-%E0%A6%AE/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لکولِش روایت کے کُل گرو سوامی راج شری منی کے انتقال پر گہرے غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے گذشتہ برسوں میں یوگا میں ان کی شاندار شراکت کو سراہا ۔ انہوں نے مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے دعا کی اور سوگوار لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ""લકુલીશ પરંપરાના કુલગુરુ સ્વામિ રાજર્ષિ મુનિના બ્રહ્મલીન થયાના સમાચાર દુ:ખદ છે. તેઓએ વર્ષો સુધી યોગના સંવર્ધન અને વિકાસનું કાર્ય કર્યું. સદ્ગતના આત્માની શાંતિ માટે અંતરમનથી પ્રાર્થના તથા શોકગ્રસ્ત અનુયાયીઓને સાંત્વના ॥""",কুলগুৰু স্বামী ৰাজৰ্ষি মুনিৰ দেহাৱসানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DB%81%D8%A7%DA%A9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B9%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%A6%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95/,نئی دہلی، 05 اگست 2021: وزیر اعظم ج��اب نریندر مودی نے اولمپکس میں کانسے کا تمغہ جیتنے والی مردوں کی بھارتی ہاکی ٹیم کی ستائش کی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہر ہندوستانی کے دل اور دماغ میں ہاکی کے لئے ایک خصوصی مقام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاکی اور کھیلوں کے ہر ایک شائق کے لئے 5 اگست 2021 ازحد یادگار دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ٹوئیٹس کے ایک سلسلے کے تحت وزیر اعظم نے بھارتی ٹیم کے ہر ایک کھلاڑی کو ستائش سے نوازا۔ اس سے قبل، وزیر اعظم نے بھارت کی شاندار فتح پر کچھ اس طرح اپنا ردعمل دیا تھا اترپردیش میں پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا کے مستفیدین سے گفت و شنید کے دوران ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم نے بھارتی ہاکی ٹیم کے شاندارلمحے کے لئے اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔,ভাৰতীয় হকী দলৰ প্ৰতিগৰাকী খেলুৱৈ-সদস্যক প্ৰশংসা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A2%D8%A6%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4/,چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ جی، مرکزی وزیر قانون جناب کرن جی، جسٹس سنجے کشن کول جی، جسٹس جنابایس عبدالنذیر جی، وزیر مملکت برائے قانون جناب ایس پی سنگھ بگھیل جی، اٹارنی جنرل آر وینکٹ رامنی جی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ جی، وہاں موجود تمام جج، معزز مہمان، خواتین و حضرات! آپ سبھی کو اور سبھی ہم وطنوں کو یوم آئین مبارک ہو! 1949 میں آج ہی کے دن آزاد بھارت نے اپنے لیے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھی تھی۔ اس بار یوم آئین بھی خاص ہے کیونکہ بھارت نے اپنی آزادی کے 75 سال پورے کر لیے ہیں، ہم سب امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ میں آئین ساز اسمبلی کے تمام اراکین بشمول بابا صاحب امبیڈکر، جنھوں نے جدید بھارت کا خواب دیکھا تھا، کو احترام کے ساتھ آئین کے تمام معماروں کے سامنے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ گذشتہ سات دہائیوں میں مقننہ، عدلیہ اور عاملہ سے تعلق رکھنے والے ان گنت افراد نے بھی آئین کی ترقی اور توسیع کے سفر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ میں اس موقع پر ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج 26/11، ممبئی دہشت گردانہ حملے کا دن بھی ہے۔ آج سے 14سال پہلے جب بھارت اپنے آئین اور اپنے شہریوں کے حقوق کا تہوار منا رہا تھا، اسی دن انسانیت کے دشمنوں نے بھارت پر سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ میں ممبئی دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ساتھیو، آج کے عالمی حالات میں پوری دنیا کی نظریں بھارت پر لگی ہوئی ہیں۔ بھارت کی تیز رفتار ترقی، بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور بھارت کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی شبیہ کے درمیان، دنیا ہمیں بڑی توقعات کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ ایک ایسا ملک جس کو خدشہ تھا کہ وہ اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ پائے گا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بکھر چکا ہے، آج پوری طاقت کے ساتھ اپنی تمام تر تنوع پر فخر کرتے ہوئے یہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ اور اس سب کے پیچھے ہماری سب سے بڑی طاقت ہمارا آئین ہے۔ ہمارے آئین کی تمہید کے آغاز میں مرقوم ہے 'ہم لوگ'، یہ صرف الفاظ نہیں ہیں۔ 'ہم لوگ' ایک دعوت، ایک عہد، ایک یقین ہے۔ آئین میں مرقوم یہ جذبہ بھارت کی بنیادی روح ہے، جو دنیا میں جمہوریت کی ماں رہا ہے، مدر آف ڈیموکریسی رہا ہے۔ یہی احساس ویشالی کے جمہوریہ میں، ویدوں کی تخلیقات میں دیکھا جاتا ہے۔ مہابھارت میں بھی کہا گیا ہے: لوک رنجنم ایو اترا، راگم دھرما سناتنہ ستسیہ رکشنم چیو، ویوہارسیہ چارجوَم یعنی عوام یعنی شہریوں کو خوش رکھنا، سچائی کے ساتھ کھڑا ہونا اور اچھے معاملات، یہی ریاست کا رویہ ہونا چاہئیں۔ جدید تناظر میں بھارت کے آئین نے ملک کے ان تمام ثقافتی اور اخلاقی احساسات کو شامل کیا ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ آج ملک مادرِ جمہوریت کے طور پر ان قدیم نظریات اور آئین کی روح کو مسلسل مضبوط بنا رہا ہے۔ عوام دوست پالیسیوں کی طاقت سے آج ملک و قوم کے غریب، ملک کی ماؤں اور بہنوں کو بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ آج عام آدمی کے لیے قوانین کو آسان بنایا جا رہا ہے۔ ہماری عدلیہ بھی بروقت انصاف کے لیے مسلسل کئی بامعنی اقدامات کر رہی ہے۔ آج بھی مجھے سپریم کورٹ کے ذریعے شروع کی گئی ای پہل شروع کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں آپ سب کو اس آغاز کے لیے اور 'انصاف کو آسان بنانے' کے لیے آپ کی کوششوں کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو، آزادی کا یہ امرت کال ملک کے لیے ایک فرض نبھانے کا عہد ہے۔ چاہے وہ فرد ہوں یا ادارے، آج ہماری ذمہ داریاں ہماری اولین ترجیح ہیں۔ اپنے فرض کی راہ پر چل کر ہی ہم ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔ آج بھارت کے سامنے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، بھارت ہر چیلنج پر قابو پا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد بھارت کو جی 20 کی صدارت بھی ملنے والی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ٹیم انڈیا کے طور پر دنیا میں بھارت کی ساکھ کو بڑھائیں، دنیا میں بھارت کے تعاون کو آگے بڑھائیں۔ ہمیں مادرِ جمہوریت کے طور پر بھارت کی شناخت کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔ ساتھیو، ہمارے آئین کی ایک اور خصوصیت ہے، جو آج کے نوجوان بھارت میں اور بھی زیادہ معتبر ہو گئی ہے۔ ہمارے آئین سازوں نے ہمیں ایک ایسا آئین دیا ہے جو کھلا، مستقبل رخی ہے اور اپنے جدید وژن کے لیے جانا جاتا ہے۔ لہٰذا فطری طور پر ہمارے آئین کی روح نوجوانوں پر مرکوز ہے۔ آج چاہے کھیل ہو یا اسٹارٹ اپ، انفارمیشن ٹکنالوجی ہو یا ڈیجیٹل ادائیگی، نوجوان طاقت بھارت کی ترقی کے ہر پہلو میں اپنا جھنڈا لہرا رہی ہے۔ ہمارے آئین اور اداروں کے مستقبل کی ذمہ داری بھی ہمارے ان نوجوانوں کے کندھوں پر ہے۔ لہٰذا آج یوم آئین کے موقع پر میں حکومت کے انتظامات، ملک کی عدلیہ سے بھی درخواست کروں گا۔ آج کے نوجوانوں میں آئین کی تفہیم کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئینی موضوعات پر بحث و مباحثے کا حصہ بنیں۔ جب ہمارا آئین بنا تو ملک کے سامنے کیا حالات تھے، اس وقت آئین ساز اسمبلی کی بحث میں کیا ہوا، ہمارے نوجوانوں کو ان تمام موضوعات سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اس سے آئین میں ان کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس سے نوجوانوں میں مساوات اور بااختیار بنانے جیسے موضوعات کو سمجھنے کے لیے ایک نقطہ نظر پیدا ہوگا۔ مثال کے طور پر ہماری آئین ساز اسمبلی میں 15خواتین ارکان تھیں۔ اور ان میں سے ایک 'دکشائینی ویلایدھن' تھیں، وہ خاتون جو ایک طرح سے محروم معاشرے سے نکل کر وہاں پہنچی تھیں۔ انھوں نے دلتوں، مزدوروں سے متعلق کئی موضوعات پر اہم مباحث کیے۔ درگا بائی دیشمکھ، ہنسا مہتا، راجکماری امرتکور، اس طرح کی بہت سی خواتین اراکین نے بھی خواتین سے متعلق امور پر اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی شراکت پر شاذ و نادر ہی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ جب ہمارے نوجوان انھیں جانیں گے تو انھیں ان کے سوالات کے جوابات بھی ملیں گے۔ اس سے آئین کے تئیں جو وفاداری پیدا ہوگی وہ ہماری جمہوریت، ہمارے آئین اور ملک کے مستقبل کو مضبوط کرے گی۔ آزادی کے امرت دور میں یہ بھی ملک کی ایک اہم ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ یوم آئین اس سمت میں ہماری قراردادوں کو مزید توانائی دے گا۔ اس یقین کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ!,সংবিধান দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-21-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D9%88%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%A7-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%81/,نئی دہلی20، جنوری 2022 وزیراعظم جناب نریندر مودی 21 جنوری 2022 کو صبح 11 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سومناتھ میں نئے سرکٹ ہاؤس کا افتتاح کریں گے۔افتتاحی تقریب کےبعد وزیراعظم اس موقع پر موجود لوگوں سے خطاب بھی کریں گے۔ سومناتھ مندر کو دیکھنے کے لیے ہر سال بھارت اور باہری ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں۔ نئے سرکٹ ہاؤس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی، کیونکہ حکومت کا موجودہ دفتر مندر سے کافی دور واقع ہے۔ اس سرکٹ ہاؤس کو 30 کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا گیا ہے اور یہ سومناتھ مندر کے قریب ہی واقع ہے۔ یہ اعلی درجے کی سہولیات سے لیس ہے، جس میں سوٹ، وی آئی پی اور ڈیلکس کمرے، کانفرنس روم، آڈیٹوریم ہال وغیرہ شامل ہیں۔ اسے اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہر کمرے سے سمندر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২১ জানুৱাৰীত সোমনাথত নতুন চাৰ্কিট হাউচ উদ্বোধন কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%AF%D9%88-%D9%81%DB%8C%D8%B5%D8%AF-%D9%85%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BE/,نئی دہلی ، 08 مارچ ۔وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں مرکزی سرکار کے ملازمین کے لئے مہنگائی بھتے کی اضافی قسط جاری کئے جانے اور پنشن یافتگان کو یکم جنوری 2018 سے مہنگائی بھتے کی اضافی قسط جاری کئے جانے کی منظوری دے دی گئی ۔ مہنگائی بھتے کی یہ منظوری مہنگائی کی بھرپائی کے لئے بنیادی تنخواہ / پنشن کے پانچ فیصد میں دو فیصد اضافے کی مظہر ہے ۔ اس اضافے سے مرکزی سرکار کے 48.41 لاکھ ملازمین اور 61.17 لاکھ پنشن یافتگان کو فائدہ حاصل ہوسکے گا۔ مہنگائی بھتے اور مہنگائی کی بھرپائی کے لئے دی گئی منظوری سے سرکاری خزانے کو 6077.72 کروڑروپے کا سالانہ کا بار برداشت کرنا ہوگا اور سال 19-2018 میں (جنوری 2018 سے فروری 2019 تک 14 ماہ کی مدت تک کے لئے ) 7090.68 کروڑروپے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ مہنگائی بھتے میں یہ اضافہ اس منظورشدہ فارمولے کے مطابق ہے ،جو ساتویں مرکزی تنخواہ کمیشن کی سفارشات پر مبنی ہے ۔,কেন্দ্ৰীয় চৰকাৰৰ কৰ্মাচাৰীৰ মহাৰ্ঘ ভাট্টা ২ শতাংশ বৃদ্ধিৰ বাবে কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D9%86-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3%D8%AF%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-2/,نئی دہلی،28فروری؍2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سائنس کے قومی دن کے موقع پر سائنسدانوں کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’تمام سائنسدانوں اور سائنس کےقومی دن کے موقع پر شائقین کو قومی یوم سائنس کی مبارکباد۔آئیے ہم سائنس کے تئیں اپنی اجتماعی ذمہ داری کو پورا کرنے اورانسانی ترقی کے لیے سائنس کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے عزم کی توثیق کریں۔ کل #من کی بات کے دوران میں نے یہی بات کہی ہے ۔,ৰাষ্ট্ৰীয় বিজ্ঞান দিৱসত বৈজ্ঞানিকসকলক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B9%D8%AF%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%88%DA%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%DB%81%D9%88%D9%84%D8%AA%D9%88%DA%BA-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A6%97/,"کابینہ نے عدلیہ کی بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی مرکزی سرپرستی میں چلنے والی اسکیم کو جاری رکھنے کی منظوری دے دی نئی دہلی۔16؍نومبر۔مرکزی کابینہ نے جس کی صدارت وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کی۔ بنیادی ڈھانچے کی سہولتوں میں ترقی سے متعلق مرکزی سرپرستی والی اسکیم( سی ایس ایس ) کو 12 ویں پانچ سالہ منصوبے یعنی 1-04-2017 سے 31-03-2020 تک سے بھی زیادہ آگے جاری رہنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس پر نیشنل مشن فور جسٹس ڈلیوری اینڈ لیگل ریفارمس کے ذریعہ ایک مشن موٹ کے طور پر عمل کیا جائے گا۔ جس پر اندازاً3,320 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ ایک آن لائن نگراں نظام کے قیام کی منظوری بھی دی گئی ہے تاکہ انصاف کا محکمہ زیر تعمیر کورٹ ہالوں اور رہائشی یونٹوں کی پیش رفت اور تکمیل کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے اور اس اسکیم کے تحت مستقبل میں پورے ملک میں تعمیر کئے جانے والے کورٹ ہالوں اور رہائشی یونٹوں کے بارے میں بہتر انتظامات کرسکے۔ اسکیم کے فائدے اس اسکیم کے ذریعہ پورے ملک میں ججوں/ضلع اور ذیلی عدالتوں کے جوڈیشیل افسروں کے لئے مناسب تعداد میں کورٹ ہالوں اور رہائشی یونٹوں کی فراہمی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ان میں ضلع ،ذیلی ضلع، تعلقہ، تحصیل، گرام پنچایت اور گاؤں کی سطح کے عدالتی لوگ شامل ہے۔ اس سے پورے ملک میں عدلیہ کی کارگردگی میں بہتری پیدا کرنے میں مدد ملے گی اور اس کی رسائی ہر شہری تک ہوسکے گی۔ مالی امداد عدالتی افسروں / ضلع ججوں اور ذیلی عدالتوں کے لئے کورٹ ہال اور رہائشی یونٹ کی تعمیر کے سلسلے میں عدلیہ کے لئے بنیادی ڈھانچے کی سہولتوں کو فروغ دینے کے مقصد سے مرکزی امداد ، سی ایس ایس کے تحت ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو دی جاتی ہے۔اس میں فنڈ میں حصہ داری مرکز اور ریاستوں کے درمیان 60 اور 40 کی ہوتی ہے۔لیکن اس میں شمال مشرقی اور ہمالیائی ریاستیں شامل نہیں ہے۔ شمال مشرقی اور ہمالیائی ریاستوں کے لئے فنڈ میں حصہ داری 90 اور 10 کی ہوتی ہے۔ البتہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لئے فنڈ کی 100 فیصد ادائیگی مرکز کے ذمہ ہوتی ہے۔اس سے ضلع اور ذیلی عدالتوں کے جوڈیشیل افسروں کے لئے3ہزار کورٹ ہالوں اور 1,800 رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے موجودہ پروجیکٹوں کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔ اسکیم کا جائزہ انصاف کا محکمہ جائزے کا آن لائن نظام قائم کرے گا جس سے زیر تعمیر کورٹ ہالوں اور رہائشی یونٹوں کی تعمیر کی پیش رفت اور تکمیل ک�� بارے میں معلومات حاصل کرنےنیز انتظام کے بہتر جائزے میں مدد ملے گی۔ جائزہ کمیٹی کی مختلف ریاستوں میں چیف سیکریٹیوں اور پی ڈبلیو ڈی کے اہلکاروں کے ساتھ پابندی کے ساتھ میٹنگیں ہوں گی۔ تاکہ تیز رفتار اور اچھی تعمیر کو یقینی بنایا جاسکے۔اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ مرکز جو رقومات جاری کرتا ہے وہ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ کو کسی تاخیر کے بغیر پہنچ جائیں۔",ন্যায়পালিকাৰ বাবে আন্তঃগাঁথনিৰ ব্যাপক উন্নয়ন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D9%90%D8%B4%D9%88-%DA%A9%DB%92%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%D9%88-%D8%AE%D9%88%D8%B4%D8%AD%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%81-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے وِشو کے موقع پر ، خصوصاً دنیا بھر میں آباد ملیالی عوام کو نیک ترین خواہشات پیش کیں۔ وزیر اعظم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ’’وِشو کے خصوصی موقع پر ، خصوصاً دنیا بھر میں آباد ملیالی عوام کے لیے نیک ترین خواہشات۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہ سال سبھی کی زندگیوں کو ڈھیر ساری خوشیوں اور اچھی صحت سے معمور کردے۔‘‘,বিষু উপলক্ষে সুস্বাস্থ্য আৰু সুখ কামনা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A6%A4/,نئی دہلی 13 اگست2021: نمسکار! مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب نتن گڈکری جی، گجرات کے وزیراعلیٰ جناب وجے روپانی جی، آٹو انڈسٹری سے جڑے سبھی اسٹیک ہولڈرز، سبھی او ای ایم ایسوسی ایشنز، میٹل اور اسکریپنگ انڈسٹری کے سبھی ممبرز، خواتین اور حضرات ! 75 ویں یوم آزادی سے پہلے آج کا یہ پروگرام ، آتم نربھربھارت کے بڑے اہداف کو کو ثابت کرنے کی سمت میں ایک اور اہم قدم ہے۔ آج ملک نیشنل آٹوموبائل اسکریپج پالیسی لانچ کررہا ہے۔ یہ پالیسی نئے بھارت کی موبیلٹی کو ، آٹو سیکٹر کو نئی شناخت دینے والی ہے۔ ملک میں وھیکل پاپولیشن کے ماڈرنائزیشن کو ، ان فٹ وھیکل کو ایک سائنٹفک مینر میں سڑکوں سے ہٹانے میں یہ پالیسی بہت بڑا رول ادا کرے گی۔ ملک کے قریب قریب ہر شہری ، ہرانڈسٹری ، ہر شعبے میں اس سے مثبت تبدیلی آئے گی۔ ساتھیو ، آپ سبھی جانتے ہیں کہ ملک کی معیشت کے لئے موبلیٹی کتنا بڑا فیکٹر ہے۔ موبلیٹی میں آئی تجدید ، ٹریول اور ٹرانسپورٹیشن کا بوجھ تو کم کرتی ہی ہے ، معاشی ترقی کے لئے بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔21 ویں صدی کا بھارت کلین، کنجیشن فری اور کنوینئنٹ موبیلیٹی کا ہدف لے کر چلے ، یہ آج وقت کا تقاضہ ہے۔ اور اس لئے حکومت کے ذریعہ آج کا یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اور اس میں انڈسٹری کے آپ سبھی عظیم لیڈروں ، آ پ سبھی اسٹیک ہولڈرز کا بہت بڑا رول ہے۔ ساتھیو، نئی اسکریپنگ پالیسی ، ویسٹ ٹو ویلتھ -کچرے سے کنچن کے مہم کی ،سرکولر اکانومی کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ پالیسی ، ملک کے شہروں سے آلودگی کم کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ تیز رفتار ترقی کے ہمارے کمٹمینٹ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ری یوز، ری سائکل اور ری کووری کے اصولوں پر چلتے ہوئے یہ پالیسی آٹوسیکٹر میں، میٹل سیکٹر میں ملک کی آتم نربھرتا کو بھی نئی توانائی دے گی۔ اتنا ہی نہیں ، یہ پالیسی ملک میں 10 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کی نئی سرمایہ کاری لائے گی اور ہزاروں روزگار پیدا کرے گی۔ ساتھیو، آج جو پروگرام ہم نے لانچ کیا ہے، اس کی ٹائمننگ اپنے آپ میں بہت خاص ہے۔ ہم آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہونے والے ہیں۔یہاں سے ملک کے لئے آئندہ 25 سال کافی اہم ہیں۔ ان آنے والے 25 سال میں ہمارے کام کاج کے طریقہ ، ہماری روزمرہ کی زندگی ، ہماری تجارت و کاروبار میں کئی طرح کی تبدیلی آنے والی ہے۔ جس طرح ٹکنالوجی بدل رہی ہے ، ہماری لائف اسٹائل ہو یا پھر ہماری اکونمی، دونوں میں کافی تبدیلی ہوگی۔ اس تبدیلی کے بیچ ہمارے ماحولیات ، ہماری زمین ، ہمارے وسائل، ہمارے رو مٹیریل ، ان سبھی کا تحفظ بھی انتا ہی ضروری ہے۔ ٹکنالوجی کو ڈرائیو کرنے والے ریئر ارتھ میٹلس جو آج ہی ریئر ہیں، لیکن جو میٹل آج دستیاب ہیں، وہ بھی کب ریئر ہو جائیں گے ، یہ کہنا مشکل ہے۔ مسقتبل میں ہم ٹکنالوجی اور انوویشن پر تو کام کرسکتے ہیں ، لیکن جو دھرتی ماتا سے ہمیں وسائل ملتے ہیں ، وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اس لئے ، آج ایک طرف بھارت ڈیپ اوسین مشن کے توسط سے نئے امکانات تلاش کررہا ہے، تو وہیں سرکولر اکانمی کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ترقی کا ہم سسٹین یبل بنائیں، انوائرنمنٹ فرینڈلی بنائیں۔ کلائمٹ چینج کے چیلنجز، ہم آئے دن محسوس کررہے ہیں ۔ اس لئے بھارت کو اپنے مفاد میں، اپنے شہریوں کے مفاد میں بڑے قدم اٹھانے ضروری ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ گزشتہ برسوں میں توانائی کے سیکٹر میں غیر معمولی کا م ہوا ہے۔ سولر اور ونڈ پاور ہو یا پھر بایوفیول، آج بھارت دنیا میں اگلی صف کے ملکوں میں شامل ہورہا ہے۔ ویسٹ ٹو ویلتھ کی ایک بہت بڑی مہم چلائی جارہی ہے۔ اس کو سوچھتا سے بھی جوڑا گیا ہے اور آتم نربھرتا سے بھی جوڑا گیا ہے ۔بلکہ آج کل تو ہم سڑکوں کی تعمیر میں ویسٹ کا بڑی مقدار میں استعمال کررہے ہیں۔سرکاری بلڈنگ ، غریبوں کے لئے گھر کی تعمیر میں بھی ری سائکلنگ کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ ساتھیو، ایسی ہی کئی طرح کی کوششوں میں آج آٹوموبائل سیکٹر کا نام بھی جڑگیا ہے۔ اس پالیسی سے عام خاندانوں کو ہر طرح سے کافی فائدہ ہوگا۔ سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوگا کہ پرانی گاڑی کو اسکریپ کرنے پر ایک سرٹیفکیٹ ملے گا ۔ یہ سرٹیفکیٹ جس کے پاس ہوگا اسے نئی گاڑی خریدنے پر رجسٹریشن کے لئے کوئی پیسہ نہیں دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اسے روڈ ٹیکس میں بھی کچھ رعایت دی جائے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پرانی گاڑی کی میننے نینس کاسٹ ، ری پیئر کاسٹ ، فیول ایفی شیئنسی ، اس میں بھی بچت ہوگی۔ تیسرا فائدہ براہ راست زندگی سے جڑا ہے۔ پرانی گاڑیوں ، پرانی ٹکنالوجی کی وجہ سے سڑک حادثہ کا خطرہ کافی زیادہ رہتا ہے، اس سے نجات ملے گی۔چوتھا ، اس سے ہماری صحت پر آلودگی کی وجہ سے جو اثرپڑتا ہے ، اس میں بھی کمی آئے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت گاڑی صرف اس کی ایج دیکھ کر ہی اسکریپ نہیں کی جائے گی۔ گاڑیوں کا سائنٹفک طریقہ سے اتھارائزڈ اوٹومیٹیڈ ٹسٹنگ سنٹر پر فٹ نیس ٹسٹ ہوگا۔ اگر گاڑی ان فٹ ہوگی تو سائنٹفک طریقہ سے اسکریپ کیا جائے گا۔ اس کے لئے ملک بھر میں جو رجسٹرڈ وھیکل اسکریپنگ فیسلٹیز بنائی جائیں گی وہ ٹکنالوجی ڈرائون ہوں ، ٹرانسپیرنٹ ہوں، یہ بھی یقینی بنایا جائے گا۔ ساتھیو، فارمل اسکریپنگ پر کیا فائدہ ہوتا ہے ، گجرات نے تو اسے براہ را��ت محسوس کیا ہے، اور ابھی نتن جی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ گجرات کے النگ کو شپ ری سائکلنگ ہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ النگ، دنیا کی شپ ری سائکلنگ انڈسٹری میں اپنی حصہ داری تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ شپ ری سائکلنگ ہب کے اس انفراسٹکچر نے یہاں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا کئے ہیں۔ اس پورے علاقے میں انفرااسٹرکچر بھی ہے اور ہنرمند افرادی قوت بھی ہے۔ ایسے میں جہازوں کے بعد گاڑیوں کی اسکریپنگ کا بھی یہ بہت بڑا ہب بن سکتا ہے۔ ساتھیو، اسکریپنگ پالیسی سے پورے ملک میں اسکریپ سے جڑے سیکٹر کو نئی توانائی ملے گی، نیا تحفظ ملے گا خاص طور پر اسکریپنگ سے جڑے جو ہمارے مزدور ہیں جو چھوٹے کاروباری ہیں ، ان کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ اس سے مزدوروں کو محفوظ ماحول ملے گا ، منظم سیکٹر کے دوسرے ملازمین جیسے فوائد بھی ان کو مل پائیں گے۔ اتنا ہی نہیں ، اسکریپ کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری ، اتھارائزڈ اسکریپنگ سنٹرز کے لئے کلکشن ایجنٹ کا کام بھی کرسکتے ہیں۔ ساتھیو، اس پروگرام سے آٹو اور میٹل انڈسٹری کو کافی تقویت ملے گی۔ گزشتہ سال ہی ہمیں تقریباً 23 ہزار کروڑ روپئے کا اسکریپ اسٹیل امپورٹ کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ بھارت میں جو ابھی تک اسکریپنگ ہوتی ہے ، وہ پروڈکٹیو نہیں ہے۔ انرجی ری کووری نہ کے برابر ہے۔ ہائی-اسٹرینتھ اسٹیل الائیز کی پوری ویلیو نہیں نکل پاتی اور جو قیمتی میٹل ہیں ،ان کی ری کووری بھی نہیں ہوپاتی۔ اب جب ایک ایک سائنٹفک ، ٹکنالوجی پر مبنی اسکریپنگ ہوگی تو ہم ریئر ارتھ میٹل کو بھی ری کوور کرپائیں گے۔ ساتھیو، آتم نربھربھارت کو رفتار دینے کے لئے ، بھارت میں انڈسٹری کو سسٹینبل اور پروڈکٹیو بنانے کے لئے مسلسل قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ ہماری یہ پوری کوشش ہے کہ آٹو مینوفیکچرنگ سے جڑی ویلیو چین کے لئے جتنا ممکن ہو ، اتنا کم ہمیں ایمپورٹ پر انحصار کرنا پڑے۔ لیکن اس میں انڈسٹری کو بھی تھوڑی ایکسٹرا ایفورٹس کی ضرورت ہے۔ آنے والے 25 اسل کے لئے آپ کے پاس بھی آتم نربھر بھارت کا ایک واضح روڈ میپ ہونا چاہئے۔ ملک اب کلین ، کنجیشن فری اور کنوینئنٹ موبیلٹی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لئے پرانی اپروچ اور پرانی پریکٹسز کو بدلنا ہی ہوگا۔ آج بھارت ،سیفٹی اور کوالٹی کے حساب سے گلوبل اسٹینڈرڈز اپنے شہریوں کو دینے کے لئے عہدبند ہے۔ بی ایس-4 سے بی ایس-6 کی طرف سیدھے ٹرانزیشن کے پیچھے یہی سوچ ہے۔ ساتھیو، مک میں گرین اور کلین موبیلٹی کے لئے سرکار ری سرچ سے لے کر انفرااسٹرکچر تک، ہر سطح پر وسیع پیمانے پر کام کررہی ہے۔ ایتھنول ہو، ہائیڈروجن فیول ہو یا پھر الیکٹرک موبیلٹی، سرکار کی ان ترجیحات کے ساتھ انڈسٹری کی سرگرم حصہ داری بہت ضروری ہے۔ آر& ڈی سے لے کر انفرااسٹرکچرتک، انڈسٹری کو اپنی حصہ داری بڑھانی ہوگی۔ اس کے لئے جو بھی مدد آپ کو چاہئے ، وہ سرکار دینے کے لئے تیار ہے۔ یہاں سے ہمیں اپنی پارٹنر شپ کو نئے لیول پر لے جانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نیا پروگرام ، ملک کے باشندوں میں بھی اور آٹوسیکٹر میں بھی ایک توانائی پیدا کرے گا، نئی رفتار دے گا، اور نیا اعتماد بھی پیدا کرے گا۔ آج کے اس اہم موقعے کو ، میں نہیں مانتا ہوں کہ صنعتی حلقے کے لوگ جانے دیں گے۔ میں نہیں مانتا ہوں کہ پرانی گاڑیوں کو ڈھونے والے لوگ اس موقع کو جانے دیں گے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا اعتماد لے کر آیا ہوا ایک نظام ہے۔ آج گجرات میں اس پروگرام کو لانچ کیا گیا ہے، پالیسی کو لانچ کیا گیا ہے، اور گجرات کا تو ویسے بھی ، اور ہمارے ملک میں بھی سرکیولر اکونمی کا لفظ اب نیا آیا ہوگا۔ لیکن ہم لوگ تو جانتے ہیں۔ کہ اگر کپڑے پرانے ہوتے ہیں تو ہمارے گھروں میں دادی ماں اس میں سے اوڑھنے کے لئے رضائی بنادیتی ہیں۔ پھر رضائی بھی پرانی ہوجاتی ہے۔ تو اس کو بھی پھاڑ-پھوڑ کر کے کچرا-پوتا کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ری سائکلنگ کیا کہتے ہیں، سرکیولر اکنومی کیا کہتے ہیں۔ وہ بھارت کی زندگی میں نئی -نئی ہے۔ ہمیں بس سائنٹفک طریقہ سے اس کو آگے بڑھانا ہے، اور سائنٹفک طریقہ سے آگے بڑھائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ کچرے میں سے کنچن بنانے کی اس مہم میں ہر کوئی شریک ہوگا اور ہم بھی اور نئی -نئی چیزوں کی ایجاد کرنے کی سمت میں کامیاب ہوں گے۔ میں پھر ایک بار سبھی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت-بہت شکریہ۔,গুজৰাটত ইনভেষ্টৰ ছামিটত দিয়া প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B4%D9%88-%DA%A9%D8%B1%D9%85%D8%A7-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D/,نمسکار! آج میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ملک کے لاکھوں آئی ٹی آئی کے طلباء و طالبات سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ سے جڑے مختلف اداروں کے طلباء، اساتذہ، تعلیمی دنیا کی دیگر شخصیات، خواتین و حضرات! اکیسویں صدی میں آگے بڑھ رہے ہمارے ملک میں آج ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ پہلی بار آئی ٹی آئی کے 9 لاکھ سے زیادہ طلباء و طالبات کا کوشل دیکشانت سماروہ منعقد کیا گیا ہے۔ 40 لاکھ سے زیادہ اسٹوڈنٹس ہمارے ساتھ ورچوئل طریقے سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ میں آپ سبھی کو کوشل دیکشانت سماروہ کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آج سونے میں سہاگہ ہے۔ آج بھگوان وشو کرما کی جینتی بھی ہے۔ یہ کوشل دیکشانت سماروہ، اپنے ہنر سے نوتعمیر کی راہ پر آپ کا پہلا قدم، اور وشو کرما جینتی کا مقدس موقع! کتنا انوکھا اتفاق ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی یہ شروعات جتنی خوشگوار ہے، آپ کے آنے والے کل کا سفر بھی اتنا ہی تخلیقی ہوگا۔ آپ کو اور تمام ہم وطنوں کو بھگوان وشو کرما جینتی کی بھی دلی مبارکباد! ساتھیو، وشوکرما جینتی، یہ ہنرمندی کے عزم مصمم کا تہوار ہے۔ جیسے مورتی ساز کوئی مورتی بناتا ہے، لیکن جب تک اس کا عزم مصمم نہیں ہوتا، وہ مورتی بھگوان کا روپ نہیں کہلاتی۔ آج ہم سبھی کے لیے فخر کی بات ہے کہ آج وشو کرما جینتی کے دن، آپ کی ہنرمندی کا عزم مصمم ظاہر ہو رہاہے، آپ کی ہنرمندی کو قبولیت کا درجہ مل رہا ہے۔ وشو کرما جیتنی صحیح معنوں میں محنت کرنے والی شخص کی عزت افزائی ہے، محنت کشوں کا دن ہے۔ ہمارے یہاں محنت کشوں کی ہنرمندی میں ایشور کا عنصر دیکھا گیا ہے، اسے وشو کرما کی شکل میں دیکھا گیا ہے۔ یعنی آپ کے پاس آج جو ہنرمندی ہے، اسکل ہے، اس میں بھی کہیں نہ کہیں ایشور کا عنصر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پروگرام بھگوان وشو کرما کو ہماری طرف سے ایک ’کوشلانجلی‘ کی طرح ہے۔ ’کوشلانجلی‘ کہو یا ’کرمانجلی‘ کہو، وشو کرما کی جیتنی سے انوکھا دن کیا ہو سکتا ہے۔ ساتھیو، گزشتہ 8 برسوں میں ملک نے بھگوان وشو کرما سے ملنے والی حوصلہ افزائی سے متعدد نئی اسکیمیں شروع کی ہیں، ’شرم ایو جیئتے‘ کی اس ہماری روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کوشش ہے۔ آج ملک ایک بار پھر اسکل کو عزت بخش رہا ہے، اسکل ڈیولپمنٹ پر بھی اتنا ہی زور دے رہا ہے۔ اس صدی کو بھارت کی صدی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ بھارت کے نوجوان پڑھائی کے ساتھ ہی اسکل میں بھی اتنے ہی ماہر ہوں۔ اسی سوچ کے ساتھ ہماری حکومت نے نوجوانوں کی ہنرمندی کے فروغ اور نئے اداروں کی تعمیر کو اولین ترجیح دی ہے۔ ہمارے ملک میں پہلا آئی ٹی آئی، 1950 میں بنا تھا۔ اس کے بعد کی سات دہائیوں میں قریب قریب 10 ہزار آئی ٹی آئی بنے۔ ہماری حکومت کے 8 برسوں میں ملک میں قریب قریب 5 ہزار نئے آئی ٹی آئی بنائے گئے ہیں۔ گزشتہ 8 برسوں میں آئی ٹی آئی میں 4 لاکھ سے زیادہ نئی سیٹیں بھی جوڑی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں نیشنل اسکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکلز، اور ہزاروں اسکل ڈیولپمنٹ سنٹرز بھی کھولے گئے ہیں۔ اسکول کی سطح پر اسکل ڈیولپمنٹ کو فروغ دینے کے لیے حکومت، 5 ہزار سے زیادہ ہنرمندی کے مراکز بھی قائم کرنے جا رہی ہے۔ ملک میں جو نئی قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی ہے، اس میں بھی تجربہ پر مبنی تعلیم (ایکس پرئینسڈ لرننگ) کو فروغ دیا جا رہا ہے، اسکولوں میں اسکل کورس، متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ آئی ٹی آئی کے آپ سبھی اسٹوڈنٹس کے لیے حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا ہے، جس کا فائدہ آپ سبھی کو ہو رہا ہے۔ 10ویں پاس کرکے آئی ٹی آئی میں آنے والے طلباء و طالبات کو نیشنل اوپن اسکول کے توسط سے آسانی سے 12ویں پاس کا سرٹیفکیٹ بھی مل رہا ہے۔ اس سے آپ کو آگے کی پڑھائی میں اور زیادہ آسانی ہوگی۔ آپ کے لیے ایک اور اہم فیصلہ کچھ مہینے پہلے ہی لیا گیا ہے۔ اب ہماری فوج میں آئی ٹی آئی سے ٹیکینکل ٹریننگ لے کر نکلے نوجوانوں کی بھرتی کے لیے مخصوص انتظام کیا گیا ہے۔ یعنی اب آئی ٹی آئی سے نکلے نوجوانوں کو فوج میں بھی ان کو موقع ملے گا۔ ساتھیو، چوتھے صنعتی انقلاب، ’انڈسٹری 4.0‘ کے اس دور میں، بھارت کی کامیابی میں صنعتی تعلیمی اداروں- آئی ٹی آئی کا بھی بڑا رول ہے۔ بدلتے ہوئے وقت میں نیچر آف جاب بھی بدل رہا ہے۔ اس لیے، حکومت نے اس بات کا خاص دھیان رکھا ہے کہ ہماری آئی ٹی آئی میں پڑھنے والے اسٹوڈنٹس کو ہر جدید کورس کی سہولت بھی ملے۔ آج کوڈنگ سے لے کر آرٹیفیشیل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت)، روبوٹکس، 3 ڈی پرنٹنگ، ڈرون ٹیکنالوجی، ٹیلی میڈیسن سے جڑے کئی کورس آئی ٹی آئی میں شروع کیے گئے ہیں۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آج بھارت کس طرح قابل تجدید توانائی کے شعبے میں، شمسی توانائی کے شعبے میں، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے شعبے میں لیڈ لے رہا ہے۔ ہماری متعدد آئی ٹی آئی میں ان سے جڑے کورسز شروع ہونے سے آپ جیسے طلباء کو روزگار کے مواقع ملنے میں اور زیادہ آسانی ہوگی۔ ساتھیو، آج ملک میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی توسیع ہو رہی ہے، ویسے ویسے روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ جیسے آج جب ملک ہر گاؤں تک آپٹیکل فائبر پہنچا رہا ہے، لاکھوں کامن سروس سنٹر کھول رہا ہے، تو آئی ٹی آئی سے پڑھ کر نکلے طلباء و طالبات کے لیے گاؤوں میں بھی زیادہ سے زیادہ مواقع بن رہے ہیں۔ گاؤں گاؤں میں موبائل کے رپیئر کا کام ہو، کھیتی میں نئی ٹیکنالوجی سے جڑے کام ہوں، ڈرون سے فرٹیلائزر یا دوا چھڑکنے کا کام ہو، ایسے متعدد نئے طرح کے روزگار دیہی معیشت سے جڑ رہے ہیں۔ ان امکانات کو ہمارے نوجوانوں کو پورا فائدہ حاصل ہو، اس میں آئی ٹی آئی کا رول بہت اہم ہے۔ حکومت اسی سوچ کے ساتھ لگاتار آئی ٹی آئی کو اپ گریڈ کرنے کا بھی کام کر رہی ہ��، وقت کے مطابق تبدیلی کی کوشش کر رہی ہے۔ ساتھیو، اسکل ڈیولپمنٹ کے ساتھ ہی، نوجوانوں میں سافٹ اسکلز کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ آئی ٹی آئی میں اب اس پر بھی خصوصی زور دیا جا رہا ہے۔ بزنس پلان کیسے بناتے ہیں، بینکوں سے لون پانے کی کون سی اسکیمیں ہیں، کیسے ضروری فارم بھرتے ہیں، کیسے نئی کمپنی رجسٹر کرتے ہیں، اس سے جڑی جانکاریوں کو بھی آپ کے کورس کے ساتھ ہی دینے کا کام کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی انھیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت کے پاس اسکل میں کوالٹی بھی آ رہی ہے، اور ڈائیورسٹی بھی ہے۔ گزشتہ کچھ وقت میں ہمارے آئی ٹی آئی پاس آؤٹس کو ورلڈ اسکلز کمپٹیشنز میں کئی بڑے انعام ملے ہیں۔ ساتھیو، اسکل ڈیولپمنٹ سے جڑا ایک اور پہلو ہے، جس کی بات کی جانی اتنی ہی ضروری ہے۔ جب کسی نوجوان کے پاس پڑھائی کی طاقت کے ساتھ ہی اسکل کی طاقت بھی ہوتی ہے تو اس کی خود اعتمادی اپنے آپ بڑھ جاتی ہے۔ نوجوان جب اسکل کے ساتھ طاقتور ہو کر نکلتا ہے، تو اس کے من میں یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ کیسے وہ اپنا کام شروع کریں۔ ذاتی روزگار کے اس جذبے کو تعاون فراہم کرنے کے لیے، آج آپ کے پاس بنا گارنٹی لون دلانے والی مدرا یوجنا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور اسینڈ اپ انڈیا جیسی اسکیموں کی طاقت بھی ہے۔ ہدف سامنے ہے، آپ کو اُس سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ آج ملک نے آپ کا ہاتھ تھاما ہے، کل آپ کو ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ جس طرح آپ کی زندگی کے اگلے 25 سال بہت اہم ہیں، ویسے ہی ملک کے لیے بھی امرت کال کے 25 سال اتنے ہی اہم ہیں۔ آپ سبھی نوجوان، میک ان انڈیا اور ووکل فار لوکل مہم کے محرک ہیں۔ آپ بھارت کی صنعتی دنیا کی ’بیک بون‘ (ریڑھ کی ہڈی) کی طرح ہیں اور اس لیے ترقی یافتہ ہندوستان کے عہد کو پورا کرنے میں، آتم نربھر بھارت کے عہد کو پورا کرنے میں، آپ کا بہت بڑا رول ہے۔ ساتھیو، آپ کو ایک اور بات یاد رکھنی ہے۔ آج دنیا کے کئی بڑے ممالک کو اپنے خواب پورا کرنے کے لیے، اپنی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے اسکلڈ ورک فورس (ہنرمند افرادی قوت) کی ضرورت ہے۔ آپ کے لیے ملک کے ساتھ ہی، بیرونی ممالک میں بھی متعدد مواقع انتظار کر رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں، بھارت کے تئیں دنیا کا اعتماد بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کورونا کے دور میں بھی بھارت نے ثابت کیا ہے کہ اس کا اسکلڈ ورک فورس، اس کے نوجوان، کس طرح بڑی سے بڑی چنوتیوں کو حل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج چاہے ہیلتھ سروس ہو یا ہوٹل ہاسپیٹل مینجمنٹ ہو، ڈیجیٹل سالیوشنز ہوں، یا ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا شعبہ ہو، بھارت کے نوجوان اپنے اسکل کی وجہ سے، اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے ہر شعبے میں چھا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے، غیر ملکی دوروں کے دوران مجھے کتنی ہی بار الگ الگ بڑے لیڈروں نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ عمارت بھارت کے لوگوں نے بنائی ہے، یہ پروجیکٹ بھارت کے لوگوں نے پورا کیا ہے۔ آپ کو اس بھروسے کا بھی پورا فائدہ اٹھانا ہے۔ ساتھیو، آج میں آپ سے ایک اور اپیل کروں گا۔ آپ نے آج جو سیکھا ہے، وہ آپ کے مستقبل کی بنیاد ضرور بنے گا، لیکن آپ کو مستقبل کے حساب سے اپنے ہنر کو اپ گریڈ بھی کرنا ہی پڑے گا۔ اسیل یے، بات جب اسکل کی ہوتی ہے، تو آپ کا منتر ہونا چاہیے- ’اسکلنگ‘، ’ری سائیکلنگ‘ اور ’اپ اسکلنگ‘۔ آپ جس کسی بھی شعبے میں ہیں، اس میں کیا کچھ نیا ہو رہا ہے، اس پر ضرور نظر رکھیں۔ جیسے اگر کسی نے آٹو موبائل کا عام کورس کیا ہے تو اسے اب الیکٹرک وہیکل کے حساب سے خود کو ری-اسکل کرنا ہوگا۔ ایسے ہی ہر شعبے میں چیز��ں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ اس لیے آپ اپنے اسکل کو بدلتے وقت کے حساب سے اپ گریڈ کرتے رہیں، انوویٹ کرتے رہیں۔ اپنے شعبے میں کون سی نئی اسکل سیکھنے سے آپ کے کام کی طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی، یہ جاننا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے، نئی اسکل بھی ضرور سیکھیں، اور اپنے علم کو شیئر بھی کریں۔ مجھے یقین ہے، آپ اسی رفتار سے آگے بڑھیں گے، اور اپنی اسکل سے، اپنی ہنرمندی سے، نئے بھارت کے بہتر مستقبل کو سمت عطا کریں گے۔ اور ساتھیوں ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کبھی بھی اپنے آپ کو کم مت سمجھنا۔ بھارت کے روشن مستقبل کے لیے آپ کا ہنر، آپ کی صلاحیت، آپ کا عزم، آپ کی لگن ملک کی بہت بڑی پونجی ہے۔ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آج وشو کرما جینتی پر مجھے آپ جیسے نوجوانوں کے ساتھ، جن کے ہاتھ میں ہنر ہے، اسکل ہے، اور بہت بڑے خواب ہیں، ان سے بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ بھگوان وشو کرما کا آپ پر لگاتار آشیرواد بنا رہے، آپ کی اسکل مسلسل آگے بڑھتی رہے، اس میں وسعت ہوتی رہے، اسی جذبے کے ساتھ، آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ!,বিশ্বকৰ্মা জয়ন্তী উপলক্ষে আই টি আইৰ কৌশল দীক্ষান্ত সমাৰোহত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত ৰূ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%B9%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%BE%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B9%E0%A6%A3-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,نئی دہلی، 03 جنوری / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کی وزارت حکومت ہند اور گریٹر لندن اتھارٹی ایکٹ 1999،(برطانیہ)کے تحت قائم کر دہ قانونی ادارہ ٹرانسپورٹ فار لندن کے درمیان مفاہمت نامے پر دستخط اور نفاذ کو منظوری دی ہے تاکہ ہندوستان میں سرکاری ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس مفاہمت نامے سے ملک میں مجموعی طور پر سرکاری ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں اس سے ہندوستان میں اعلیٰ صلاحیت کی حامل بسوں کے استعمال کو فروغ حاصل ہوگا اور مسافروں کیلئے خدمات کو بہتر بنایا جا سکے گا۔ مزید برآں اس سے ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان باہمی روابط کو مستحکم کرنے کے علاوہ دو طرفہ تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس مفاہمت نامے سے سبھی کیلئے مربوط سرکاری ٹرانسپورٹ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں اس سے سماج کے کمزور طبقوں کے لوگوں کو معیاری سرکاری ٹرانسپورٹ نظام تک رسائی دینے میں مدد فراہم ہو گی ۔,ভাৰতৰ ৰাজহুৱা পৰিবহণ ব্যৱস্থাৰ উন্নয়নৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু ব্ৰিটেইনৰ ‘ট্ৰেন্সপৰ্ট ফৰ লণ্ডন’ৰ মাজত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-7/,عزت مآب وزیر اعظم شیخ حسینہ، دونوں وفود کے معزز اراکین، میڈیا کے ہمارے دوست، نمسکار! سب سے پہلے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ جی اور ان کے وفد کا پرتپاک خیرمقدم کرتا ہوں۔ پچھلے سال ہم نے بنگلہ دیش کی آزادی کی پچ��سویں سال گرہ، ہمارے سفارتی تعلقات کی گولڈن جوبلی اور بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی صد سالہ پیدائش کی سال گرہ ایک ساتھ منائی۔ پچھلے سال 6 دسمبر کو، ہم نے دنیا بھر میں پہلا ’میتری دیوس‘ بھی ایک ساتھ منایا۔ آج وزیر اعظم شیخ حسینہ جی کا دورہ ہماری آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ہو رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگلے 25 سالوں کے امرت کال میں ہند – بنگلہ دیش دوستی نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ دوستو، بنگلہ دیش نے وزیر اعظم شیخ حسینہ جی کی قیادت میں شاندار ترقی کی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ہمارا باہمی تعاون بھی ہر شعبے میں تیزی سے بڑھا ہے۔ آج بنگلہ دیش ہندوستان کا سب سے بڑا ترقیاتی پارٹنر اور خطے میں ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ہمارے قریبی ثقافتی اور عوام سے عوام کے تعلقات میں بھی مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ آج وزیر اعظم شیخ حسینہ جی اور میں نے تمام دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر وسیع بات چیت کی۔ ہم دونوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کووڈ کی وبا اور حالیہ عالمی پیش رفت سے سبق لیتے ہوئے ہمیں اپنی معیشتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان رابطے کی توسیع اور سرحد پر تجارتی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ساتھ، دونوں معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جڑنے، ایک دوسرے کی مدد کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ ہماری دو طرفہ تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آج بھارت بنگلہ دیش کی برآمدات کے لیے ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس ترقی کو مزید تیز کرنے کے لیے، ہم جلد ہی دو طرفہ جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر بات چیت شروع کریں گے۔ ہم نے آئی ٹی، خلائی اور جوہری توانائی جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا، جو ہماری نوجوان نسلوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلی اور سندربن جیسے مشترکہ ورثے کے تحفظ پر بھی تعاون جاری رکھیں گے۔ دوستو، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس وقت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ میتری تھرمل پاور پلانٹ کے پہلے یونٹ کی آج نقاب کشائی سے بنگلہ دیش میں سستی بجلی کی دستیابی میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان بجلی کی ترسیلی لائنوں کو جوڑنے پر بھی نتیجہ خیز مذاکرات جاری ہیں۔ دریائے روپشا پر ریلوے پل کا افتتاح کنکٹیوٹی بڑھانے کی جانب ایک قابل ذکر قدم ہے۔ یہ پل بھارت کی لائن آف کریڈٹ کے تحت، کھلنا اور مونگلا پورٹ کے درمیان بننے والی نئی ریلوے لائن کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش کے ریلوے نظام کی ترقی اور توسیع کے لیے ہر طرح کی حمایت جاری رکھے گا۔ دوستو، چون (54) دریا ایسے ہیں جو ہند- بنگلہ دیش سرحد سے گزرتے ہیں اور صدیوں سے دونوں ممالک کے لوگوں کی روزی روٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ دریا، ان کے بارے میں لوک کہانیاں، لوک گیت بھی ہمارے مشترکہ ثقافتی ورثے کے گواہ رہے ہیں۔ آج ہم نے کشیارا ندی کے پانی کی تقسیم کے ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے جنوبی آسام اور بنگلہ دیش کے سلہٹ خطے کو فائدہ ہوگا۔ میں نے اور وزیر اعظم شیخ حسینہ نے سیلاب کی روک تھام کے سلسلے میں تعاون بڑھانے پر بھی نتیجہ خیز گفتگو کی۔ ہندوستان سیلاب سے متعلقہ ڈیٹا بنگلہ دیش کے ساتھ ریئل ٹائم بنیادوں پر شیئر کر رہا ہے اور ہم نے ڈیٹا شیئرنگ کی مدت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ آج ہم نے دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خلاف تعاون پر بھی زور دیا۔ 1971 کے جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم مل کر ایسی قوتوں کا مقابلہ کریں، جو ہمارے باہمی اعتماد پر حملہ کرنا چاہتی ہیں۔ دوستو، ایک مستحکم، خوشحال اور ترقی پسند بنگلہ دیش کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو بنگ بندھو نے دیکھا تھا، ہندوستان بنگلہ دیش کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا رہے گا۔ ہماری آج کی گفتگو بھی اسی بنیادی عزم کو دہرانے کا ایک بہترین موقع تھا۔ ایک بار پھر، میں وزیر اعظم شیخ حسینہ جی اور ان کے وفد کا ہندوستان میں پرتپاک استقبال کرتا ہوں اور ان کے ہندوستان میں خوشگوار قیام کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ اظہار لاتعلقی: یہ وزیراعظم کے پریس بیان کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل ریمارکس ہندی میں دیے گئے تھے۔,বাংলাদেশৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাৰত ভ্ৰমণ উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ প্ৰেছ বিবৃতিৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%B9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C%D9%88%D9%B9-%D8%A2%D9%81-%DA%88%DB%8C%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A8-%E0%A6%AA/,نئی دہلی، 12 ستمبر 2018، مرکزی کابینہ کی میٹنگ نے جس کی صدارت وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کی، این آئی ڈی ایکٹ 2014 میں ترمیم کے لئے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی منظوری دی ہے۔ اس میں چار نئے نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ڈیزائن (این آئی ڈی) کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن ایکٹ 2014 کے دائرہ کار میں شامل یا جائے گا اور انہیں قومی اہمیت کے حامل اداروں (آئی این آئی ایس) کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ان چار نئے اداروں میں امراوتی، وجے واڑہ، آندھرا پردیش کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن، مدھیہ پردیش میں بھوپال کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن،آسام میں جورہاٹ کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اور ہریانہ میں کروکشیتر کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن شامل ہیں۔ ان اداروں کو احمد آباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن کے برابر رکھا جائے گا۔ ایکٹ میں کی جانے والی کچھ معمولی ترمیموں میں ضروری ترامیم شامل ہیں مثلاً این آئی ڈی وجے واڑہ کا نام بدل کر این آئی ڈی امراوتی کرنااور پرنسپل ڈیزائنر کو پروفیسر کے برابر درجہ دینا جیسی ضروری ترامیم شامل ہیں۔ قومی اہمیت کے حامل اداروں کے طور پر ملک کے مختلف جغرافیائی علاقوں میں نئے این آئی ڈیز قائم کرنے سے ڈیزائن کے شعبے میں انتہائی باصلاحیت افرادی قوت حاصل ہوگی جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ مواقع براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں پر پیدا ہوں گے۔ ان اداروں کے قیام کے نتیجے میں دست کاری ، ہینڈلوم، دیہی ٹکنالوجی، چھوٹی، درمیانے درجے کی اور بڑی صنعتوں کے لئے نیز صلاحیت سازی اور ادارہ جاتی تعمیر کے لئے دیرپا ڈیزائن تیار کئے جاسکیں گے۔,"সংসদত ৰাষ্ট্ৰীয় ডিজাইন প্ৰতিষ্ঠান (এনআইডি) আইন, ২০১৮ৰ সংশোধনী বিধেয়ক উত্থাপনত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%D9%86%DA%A9-%D8%AC%D8%A7%DA%AF%D8%B1%D9%86-%DA%A9%DB%8C-75%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF%D8%B1%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%88%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A7%AD%E0%A7%AB%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دہلی ،07دسمبر :وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دلی میں روزنامہ دینک ج��گرن کی 75ویں سالگرہ تقریبات کے موقع پر جاگرن فورم سے خطاب کیا۔ تاج پیلس ہوٹل میں اس موقع پر موجود معزز سامعین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دوسرے افراد کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ ہاکروں کو مبارکباد پیش کی، جو روز اخبار تقسیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہاکر ہر روز بہت سارے گھروں تک اخبار کو پہنچانے میں مدد کرتےہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دینک جاگرن نے بیداری پیدا کرنے اور ملک کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اپنے تجربہ کی بنیاد پر دینک جاگرن نے ملک اور سماج میں تبدیلی لانے سے متعلق تحریک کو مستحکم کیا ہے۔ اس پس منظر میں انہوں نے بیٹی بچاؤ۔بیٹی پڑھاؤ اور سووچھ بھارت ابھیان جیسے پہل کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ڈجیٹل انقلاب سے میڈیا، ملک کو مستحکم کرنے میں مدد کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘منیمم گورنمنٹ، میکسی مم گوورننس’’ اور ‘‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’’ نئے بھارت کے لیے بنیاد بنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج نوجوان یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ملک کے ترقیاتی عمل میں حصہ دار ہیں۔ انہوں نے یہ سوال کیا کہ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی ہمارا ملک اتنا پچھڑا ہوا کیوں ہے؟ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ہمارے عوام کے مسائل کیوں حل نہیں ہوسکتے؟ انہوں نے کہا کہ بجلی آج ان مقامات تک پہنچ رہی ہے جہاں 70 سال تک نہیں پہنچی تھی اور وہ ریاستیں جو ریلویز سے جڑی ہوئی نہیں تھیں، انہیں ریلوے کے نقشہ پر لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مدت کے دوران دیہی گھروں میں بیت الخلاء کی تعداد 38 فیصد سے بڑھ کر 95 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دیہی کنکٹی ویٹی بھی 55 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ایل پی جی کنکشن، کل گھروں کے 55 فیصد سے بڑھ کر 99 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ بجلی ،دیہی کنبوں کے 95 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ چار سال قبل یہ صرف 70 فیصد کنبوں تک پہنچی تھی۔ چار سال قبل تک صرف 50 فیصد افراد کے بینک کھاتے تھے جبکہ اب تقریباً ہر شخص کو بینکنگ خدمات تک رسائی حاصل ہے۔ 2014 میں صرف چار کروڑ افراد نے اپنا ٹیکس ریٹرن داخل کیا تھا اور آئندہ چار برسوں کے دوران تین کروڑ سے زائد افراد ٹیکس کے دائرے میں آئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دوسری چیزیں ویسی ہی کی ویسی ہیں۔ یہ تبدیلی کیسے آئی ہے؟ انہوں نے کہا کہ غریبوں اور محروم افراد کو ایک بار جب بنیادی سہولیات حاصل ہوجاتی ہیں تو وہ خود غریبی پر قابو پالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران یہ تبدیلی رونما ہوتی ہوئی دیکھی گئی ہے اور اعداد شمار اس کے ثبوت ہیں۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ حکومت عوام کی خواہشات کی تکمیل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان جس ٹکنالوجی کا استعمال کررہا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ماڈل بنتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹکنالوجی اور انسانی حساسیت کا امتزاج ‘‘ایز آف لیونگ’’ کو یقینی بنا رہا ہے۔ انہوں نے آبی راہداری اور ہوائی سفر میں ملک نے جو جست لگائی ہے، اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایل پی جی سلینڈروں کی ری فیلنگ کی مدت میں کمی آئی ہے۔ انکم ٹیکس ریفنڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کے لیے انتظار کی مدت میں بھی کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان لوگوں تک پہنچ رہی ہے، جنہیں پی ایم آواس یوجنا، اجولا، سوبھاگیہ وغیرہ اسکیموں کے فوائد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آیوشمان بھارت یوجنا کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی اسکیموں کے استفادہ کنندگان میں مزدور، کارکنان اور کسان وغیر�� شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کو بااختیار بنانے کی تحریک کو مزید آگے تک لے جایا جائے گا۔ دنیا اس ترقی کو دیکھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان نے اس بات کو یقینی بنانے بین الاقوامی برادری کے سامنے تجویز پیش کی ہے کہ معاشی مجرمین کو کہیں بھی جائے پناہ نہ ملے۔ م ن۔ش س۔م ع,দৈনিক জাগৰণৰ ৭৫সংখ্যক প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উপলক্ষে জাগৰণ ফ’ৰামত ভাষণ ৰাখে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D9%88%DB%8C%DA%88-19-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%84-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%B0-%D8%B3%DB%92-%DA%AF%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0-6/,27 اپریل 2022: نمسکار! میں سب سے پہلے تمل ناڈو کے تھنجاور میں آج پیش آئے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ میں مرنے والے شہریوں کے اہل خانہ سے تعزیت کرتا ہوں۔ متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد بھی فراہم کی جارہی ہے۔ ساتھیو، پچھلے دو سالوں میں کورونا کے سلسلے میں یہ ہماری 24 ویں میٹنگ ہے۔ کورونا کے دور میں مرکز اور ریاستوں نے جس طرح مل کر کام کیا، اس نے کورونا کے خلاف ملک کی لڑائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں تمام وزرائے اعلیٰ، ریاستی حکومتوں اور تمام کورونا واریئرز کی ستائش کرتا ہوں۔ ساتھیو، بعض ریاستوں میں سکریٹری صحت نے ابھی کورونا کے بڑھتے ہوئے معاملات کے بارے میں معلومات تفصیل سے پیش کی ہیں۔ معزز وزیر داخلہ نے بھی بہت سے اہم پہلو ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ میں سے بہت سے، وزرائے اعلیٰ نے بھی بہت سے اہم نکات سب کے سامنے پیش کیے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کورونا کا چیلنج ابھی تک مکمل طور پر ٹل نہیں سکا ہے۔ اومیکرون اور اس کی ذیلی اقسام کس طرح سنگین حالات پیدا کر سکتی ہیں، یہ ہم یورپ کے ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں بعض ممالک میں ان ذیلی اقسام کی وجہ سے کئی اضافے ہوئے ہیں۔ ہم بھارتیوں نے اپنے ملک کی صورتحال کو بہت سے ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر اور قابو میں رکھا ہے۔ ان سب کے باوجود ہمیں گزشتہ دو ہفتوں سے کچھ ریاستوں میں معاملات میں جس طرح اضافہ ہو رہا ہے اس سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ چند ماہ پہلے ہمارے پاس جو لہر آئی تھی، وہ لہر، ہم نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تمام ہم وطنوں نے اومیکرون لہر سے کامیابی سے نمٹا، خوفزدہ ہوئے بغیر اہل وطن نے مقابلہ کیا۔ ساتھیو، دو سال کے اندر اندر ملک نے صحت کے بنیادی ڈھانچے سے لے کر آکسیجن کی فراہمی تک کورونا سے متعلق ہر پہلو میں ضروری ہر چیز کو مستحکم کرنے کی سمت میں کام کیا ہے۔ تیسری لہر میں کسی بھی ریاست میں بے لگام حالات کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ہماری کوویڈ ویکسینیشن ڈرائیو نے بھی اس میں بہت مدد کی! ملک کی ہر ریاست میں، ہر ضلع میں، ہر خطے میں، چاہے وہاں کے جغرافیائی حالات کچھ بھی ہوں، ٹیکہ عوام تک پہنچ چکا ہے۔ یہ ہر بھارتی کے لیے فخر کی بات ہے کہ آج بھارت کی 96 فیصد بالغ آبادی کوکورونا ٹیکے کی پہلی خوراک مل چکی ہے۔ 15 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 85 فیصد شہریوں کو دوسری خوراک بھی لگ چکی ہے۔ ساتھیو، آپ بھی سمجھتے ہیں اور دنیا کے بیشتر ماہرین کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکہ کورونا کی روک تھام کے لیے سب سے بڑی ڈھال ہے۔ ہمارے ملک میں طویل عرصے کے بعد اسکول کھلے ہیں، کلاسیں شروع ہو چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں کورونا کے کیسز میں اضافے کی ��جہ سے کہیں نہ کہیں والدین کی تشویش بڑھ رہی ہے۔ کچھ اسکولوں میں بچوں کے متاثر ہونے کے معاملے میں بھی بعض اطلاعات ملی ہیں۔ لیکن یہ اطمینان بخش بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو ٹیکے کی ڈھال بھی مل رہی ہے۔ مارچ میں ہم نے 12 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کے لیے ویکسینیشن شروع کی۔ ابھی کل ہی 6 سے 12 سال کے بچوں کے لیے ٹیکہ کی منظوری بھی حاصل کی گئی ہے۔ جلد از جلد تمام اہل بچوں کی ویکسینیشن ہماری ترجیح ہے۔ اس کے لیے اسکولوں میں پہلے کی طرح خصوصی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہوگی۔ اساتذہ اور والدین کو اس سے آگاہ ہونا چاہیے، ہمیں اس کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ ٹیکہ سیفٹی نیٹ کو مضبوط بنانے کے لیے ملک کے تمام بالغوں کے لیے احتیاطی خوراک بھی دستیاب ہے۔ اساتذہ، والدین اور دیگر اہل افراد بھی احتیاطی خوراک لے سکتے ہیں، اس طرف بھی ہمیں انھیں آگاہ کرتے رہنا ہوگا۔ ساتھیو، تیسری لہر کے دوران ہم نے کورونا کے ہر روز تین لاکھ سے زیادہ معاملات دیکھے ہیں۔ ہماری تمام ریاستوں نے بھی ان معاملات کو سنبھالا اور باقی سماجی اقتصادی سرگرمیوں کو بھی تیز تر کیا۔ یہ توازن ہماری حکمت عملی کا حصہ بننا چاہیے۔ ہمارے سائنسدان اور ماہرین قومی اور عالمی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تجاویز پر ہمیں پیشگی، فعال اور اجتماعی نقطہ نظر کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ شروع میں انفیکشن کی روک تھام ماضی میں ہماری ترجیح تھی اور اب بھی وہی رہنی چاہیے۔ آپ سب نے جس بات کا ذکر کیا ہے، ہماری ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ کی حکمت عملی پر بھی ہم یکساں طور پر موثر طریقے سے عمل درآمد کرتے ہیں۔ آج کورونا کی صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ اسپتالوں میں داخل مریضوں میں، جو ہمارے شدید انفلوئنزا کے کیسز ہیں، ان کا 100 فیصد آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ جو بھی اس میں مثبت آتا ہے، ان کے نمونے جینوم سیکوئنسنگ کے لیے بھیجے جانے چاہئیں۔ اس سے ہم وقتاً فوقتاً مختلف اقسام کی شناخت کر سکیں گے۔ ساتھیو، ہمیں عوامی مقامات پر کوویڈ کے لیے مناسب طرز عمل کو فروغ دینا ہوگا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام میں کسی قسم کا خوف و ہراس پیدا نہ ہو۔ ساتھیو، آج کی بحث میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے جو کام کیا جارہا ہے اس پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کا کام تیز رفتاری سے جاری ہے، اسے یقینی بنایا جانا چاہیے۔ بستر، وینٹی لیٹر اور پی ایس اے آکسیجن پلانٹس جیسی سہولیات کے لحاظ سے ہم بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ لیکن یہ تمام سہولیات فعال رہیں، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا اور اس کی نگرانی بھی کی جانی چاہیے، ذمہ داری کا تعین کیا جانا چاہیے تاکہ اگر ہمیں کبھی ضرورت پڑے تو ہمیں کسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ اگر کہیں خلا ہے تو میں درخواست کروں گا کہ اس کی اعلیٰ سطح پر تصدیق کی جائے، اسے پر کرنے کی کوشش کی جائے۔ میڈیکل کالجوں، ضلعی اسپتالوں، ان سب کو ہمیں اپنے طبی بنیادی ڈھانچے کو بڑھانا ہے اور افرادی قوت کو بھی بڑھانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ باہمی تعاون اور بات چیت سے ہم بہترین طور طریقوں کو تیار کرتے رہیں گے اور کورونا کے خلاف مضبوطی سے لڑتے رہیں گے اور راستے بھی نکالیں گے۔ ساتھیو، آئین میں تعاون پر مبنی جس وفاقیت کے جذبے کا ذکر کیا گیا ہے بھارت نے کورونا کے خلاف اس طویل لڑائی میں اس سے کام لے کر بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ عالمی حالات کی وجہ سے بیرونی عوامل کے ملک کے اندرونی حالات پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، مرکز اور ریاستوں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا ہے اور ایسا کرنا پڑے گا۔ مرکز اور ریاستوں کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے ہی آج ملک میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر بہتر بنایا گیا ہے۔ لیکن دوستو، آج اس بحث میں میں ایک اور پہلو کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ آج کے عالمی حالات میں اقتصادی فیصلوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ہم آہنگی، بھارت کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ان کے درمیان ہم آہنگی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ آپ سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جنگ کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جس طرح سپلائی چین متاثر ہوئی ہے اور ایسے ماحول میں چیلنجوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بحران عالمی بحران میں بہت سے چیلنج لا رہا ہے۔ اس طرح کے بحران کے وقت تعاون پر مبنی وفاقیت، مرکز اور ریاستوں کے درمیان ہم آہنگی کے جذبے کو مزید بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ہم سب کے سامنے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا موضوع ہے۔ مرکزی حکومت نے اہل وطن پر پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمت کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی تھی۔ پچھلے ماہ نومبر کے مہینے میں یہ کم تھا۔ مرکزی حکومت نے ریاستوں پر بھی زور دیا تھا کہ وہ ٹیکسوں میں کمی کریں اور ان فوائد کو شہریوں کو منتقل کریں۔ اس کے بعد کچھ ریاستوں نے حکومت ہند کی ایما پر اپنے یہاں ٹیکس میں کمی کی لیکن کچھ ریاستوں نے اپنی ریاست کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ اس کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں اب بھی ان ریاستوں میں بہت زیادہ ہیں۔ ایک طرح سے یہ ان ریاستوں کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ پڑوسی ریاستوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ فطری طور پر ٹیکسوں میں کمی کرنے سے ریاستیں آمدنی سے محروم ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر اگر کرناٹک ٹیکسوں میں کمی نہ کرتا تو ان چھ ماہ میں اسے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کی آمدنی حاصل ہوتی۔ اگر گجرات بھی ٹیکس میں کمی نہ کرتا تو اسے 3400 کروڑ روپے سے زیادہ کی آمدنی حاصل ہوتی۔ لیکن ایسی کچھ ریاستوں نے اپنے شہریوں کی بھلائی کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں اور اپنے ویٹ ٹیکس میں کمی کی ہے تاکہ ان کے شہریوں کو تکلیف نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی پڑوسی ریاستوں گجرات اور کرناٹک نے ٹیکسوں میں کمی نہ کرکے ان چھ ماہ میں 3500 کروڑ روپے سے 5500 کروڑ روپے تک کی اضافی آمدنی حاصل کی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ویٹ کو کم کرنے کی بات ہو رہی تھی، سب نے گزارش کی تھی۔ لیکن بہت سی ریاستیں، میں یہاں کسی پر تنقید نہیں کر رہا ہوں، میں صرف آپ سے گزارش کر رہا ہوں۔ میں آپ کی ریاست کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے گزارش کر رہا ہوں۔ اب گویا چھ ماہ پہلے کچھ ریاستوں نے اس معاملے کو قبول کر لیا ہے، کچھ ریاستوں نے اسے قبول نہیں کیا ہے۔ اب مہاراشٹر، مغربی بنگال، تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کیرالہ، جھارکھنڈ جیسی بہت سی ریاستوں نے کسی وجہ سے اسے قبول نہیں کیا اور ان کی ریاست کے شہریوں کا بوجھ جاری رہا۔ میں اس بات میں نہیں جاؤں گا کہ اس عرصے کے دوران ان ریاستوں نے کتنی آمدنی حاصل کی۔ لیکن اب میری آپ سے گزارش ہے کہ ملک کے مفاد میں، آپ کو پچھلے نومبر میں جو کرنا تھا۔ یہ چھ ماہ سے تاخیر کا شکار ہے، اب بھی، آپ اپنی ریاست کے شہریوں کو ویٹ میں کمی کرکے فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ حکومت ہند کو حاصل ہونے والی آمدنی کا 42 فیصد ریاستوں کو جاتا ہے۔ میں تمام ریاستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ عالمی بحران کے اس دور میں تعاون پر مبنی وفاقیت کے جذبے پر عمل کرتے ہوئے ایک ٹیم کے طور پر مل کر کام کریں، اب میں کئی موضوعات کی باریکی میں نہیں جا رہا ہوں۔ کھادوں کی طرح آج ہم کھاد پر دنیا کے ممالک پر منحصر ہیں۔ کتنا بڑا بحران ہے۔ سبسڈی میں مسلسل کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم کسانوں پر بوجھ منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ اب جب آپ کو اس طرح کے بحران کا سامنا ہے تو میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی ریاست کو سب سے زیادہ ترجیح دیں، اپنی پڑوسی ریاست، تمام اہل وطن کے مفاد میں۔ میں ایک اور مثال دیتا ہوں۔ اب نوطمر میں جو کرنا تھا وہ نہیں کیا۔ اس لیے پچھلے چھ ماہ میں کیا ہوا ہے؟ آج چنئی میں تمل ناڈو میں پٹرول تقریباً 111 روپے فی لیٹر ہے۔ جے پور میں 118 سے زیادہ ہے۔ حیدرآباد میں 119 سے زیادہ ہے۔ کولکتہ میں 115 سے زیادہ ہے۔ ممبئی میں 120 روپے سے زیادہ ہے اور کٹوتی کرنے والوں، ممبئی کے ساتھ دیو دمن میں 102 روپے ہے۔ ممبئی میں 120، بغل میں دیو دمن میں 102۔ کولکتہ میں 115، لکھنؤ میں 105۔ حیدربار میں تقریباً 120 ، جموں میں 106 کے قریب۔ جے پور میں 118، گوہاٹی میں 105۔ گروگرام میں 105، دہرادون ہماری اتراکھنڈ کی چھوٹی ریاست 103 روپے ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں. کہ آپ نے چھ ماہ بھلے ہی اپنی آمدنی میں اضافہ کرلیا ہو۔ آپ کی ریاست کے کام آئے گی، لیکن اب آپ پورے ملک میں تعاون کیجیے، یہ آج آپ سے میری خصوصی درخواست ہے۔ ساتھیو، ایک اور موضوع جس پر میں آج اپنی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ملک میں گرمی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وقت سے پہلے بہت زیادہ گرمی بڑھ رہی ہے اور ایسے وقت میں ہم مختلف مقامات پر آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں جنگلات، اہم عمارتوں، اسپتالوں میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ وہ دن کتنے تکلیف دہ تھے جب پچھلے سال بہت سے اسپتالوں میں آگ لگ گئی تھی یہ بہت تکلیف دہ صورتحال تھی۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ ان حادثات میں بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لہٰذا میں تمام ریاستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اب سے ہمیں سکیورٹی آڈٹ کرنا چاہیے، خاص طور پر اسپتالوں کا، حفاظتی انتظامات کو مستحکم کرنا چاہیے اور اسے ترجیحی بنیادوں پر بنانا چاہیے۔ ہم اس طرح کے واقعات سے بچ سکتے ہیں، اس طرح کے واقعات کو کم سے کم کیا جانا چاہیے، ہمارے رسپانس ٹائم کو بھی کم سے کم کیا جانا چاہیے، کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے بھی میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اپنی ٹیم کو خاص طور پر اس کام پر مشغول کریں اور مکمل نگرانی کریں تاکہ ملک میں کہیں بھی کوئی حادثہ نہ ہو۔ ہمارے معصوم شہریوں کو جان نی گنوانی پڑے۔ ساتھیو، آپ سب نے وقت نکالا، اس کے لیے میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں آپ کے لیے ہمیشہ دستیاب ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی اہم تجاویز ہیں تو مجھے اچھالگے گا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں۔,ক’ভিড-১৯ পৰিস্থিতি সন্দৰ্ভত মুখ্যমন্ত্ৰীসকলৰে হোৱা আলোচনাৰ অন্তত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা সামৰণী ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7%DA%A9%DB%81%D9%86%D8%A7-%DB%81%DB%92-%DA%A9%DB%81-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A7%9F-%E0%A6%AF%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%AE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا ہے کہ آج کا دن ہمارے شہریوں کو ٹیکہ لگانے کی ہندوستان کی کوششوں کا ایک اہم دن ہے۔انہوں نے 12 سے 14 برس کی عمر والے نوعمروں اور60 برس سے زیادہ عمر والے تمام افراد پر زور دیا کہ وہ ٹیکہ لگوائیں۔ اپنی سلسلہ وار ٹوئیٹس میں، وزیراعظم نے کہا : ‘‘آج ہمارے شہریوں کی ٹیکہ کاری کے سلسلے میں کی جانے والی ہندوستانی کوششوں کا ایک اہم دن ہے۔آج سے، 12 سے14 برس تک عمر کے بچے ویکسین کے ٹیکے لگائے جانے کے اہل ہیں اور وہ تمام افراد جن کی عمر 60 برس سے زیادہ ہے احتیاطی ٹیکے لگائے جانے کے اہل ہیں۔میں ان دونوں گروپ کے افراد کو ٹیکہ لگوانے کی تاکید کرتا ہوں’’۔ ‘‘پوری دنیا کی بہتری کی فکر کے حوالے سے ہندوستان کی اخلاقیات کی پیروی کرتے ہوئے، ہم نے ویکسین میتری پروگرام کے تحت بہت سے ملکوں کے لئے ویکسینیں سپلائی کی ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان کی ٹیکہ کاری کی کوششوں میں کووڈ-19 کے خلاف عالمی جنگ کو تقویت بخشی ہے’’۔ ‘‘آج ہندوستان کے پاس اندرون ملک تیار کردہ بہت سی ویکسینیں ہیں۔ہم نے جانچ پڑتال کے ایک مناسب عمل کے بعد دیگر ویکسینوں کے لئے بھی منظوری دے دی ہے۔اس ہلاکت خیز عالمی وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم بہت اچھی طرح تیار ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ، ہمیں کووڈ عالمی وباء سے متعلق تمام احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے رہنا ہوگا’’۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কয় যে আমাৰ নাগৰিকক টিকাকৰণৰ ক্ষেত্ৰত আজি এক গুৰুত্বপূৰ্ণ দি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D9%84%DB%8C-%D8%A8%DA%86%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,نئی دہلی،18/ستمبر۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اپنے پارلیما ی حلقے بنارس میں تقریباً نوے منٹ گزارے، جس کے دوران انھوں نے اسکولی بچوں سے گفتگو بھی کی۔ وارانسی کے گاؤں نرور کے ایک پرائمری اسکول کے جوشیلے بچوں نے وزیر اعظم کی آمد پر انتہائی جوش و مسرت کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم نے بھی ان بچوں کو وشوکرما جینتی کی مبارک باد دی۔ انھوں نے کہا کہ مختلف پیشوں کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا بہت اہم بات ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جہاں اسکولی بچے ہوں وہاں لازمی ہے کہ سوال و جواب تو ہوتے ہی ہیں۔ انھوں نے بچوں سے زور دے کر کہا کہ سوال پوچھنے میں کبھی ڈرنا نہیں چاہئے، کیونکہ یہی پڑھنے اور سیکھنے کی کنجی ہے۔ وزیراعظم نے غیر منفعت بخش رضاکار تنظیم، ’’روم ٹو ریڈ‘‘ کے امداد یافتہ بچوں کے ساتھ وقت گزارا۔ بعد ازاں وزیراعظم نے وارانسی کے ڈی ایل ڈبلیو میں غریب اور سماج کے حاشئے پر پڑے طبقات کے بچوں سے بھی گفتگو کی۔ قابل ذکر ہے کہ کاشی ودیا پیٹھ ان بچوں کی امداد و معاونت کررہا ہے۔ وزیراعظم نے بچوں سے زور دے کر کہا کہ انھیں انتہائی محنت کے ساتھ پڑھنا چاہئے، لیکن اس کے ساتھ ہی کھیل کود میں بھی حصہ لینا چاہئے۔ بعد ازاں شام میں وزیراعظم نے اپنے پارلیمانی حلقے وارانسی کی سڑکوں سے ایک کار میں گزرتے ہوئے شہر کے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا۔ انھوں نے اس موقع پر کچھ منٹ کاشی وشوناتھ مندر میں ٹھہرکر پرارتھنا بھی کی۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے مندواڈیہہ ریلوے اسٹیشن کا بھی اچانک جائزہ لیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,"বাৰাণসীত শিক্ষাৰ্থীৰে বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ, মূল্যায়ন কৰিলে উন্নয়নমূলক কামৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D9%88%D8%A7%DA%88-%D8%B1%DB%81%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A4%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%DA%86%D9%88%D9%B9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-23-%D8%AA%D8%A7-25-%D9%85%D8%A6%DB%8C-2022-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A1-%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9B-%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC/,جاپان کے وزیراعظم عزت مآب جناب فیومیو کیشیدا کی دعوت پر ، وزیراعظم جناب نریندر مودی ٹوکیو میں منعقد ہونے والی کواڈ رہنماؤں کی چوٹی کانفرنس میں 24 مئی 2022 کو شرکت کریں گے۔ اس کانفرنس میں ا مریکہ کے صدر جناب جوزف آر بائڈن جونیئر اور آسٹریلیا کے وزیراعظم بھی شرکت کررہے ہیں ۔ ان رہنماؤں کی مارچ -2021 میں پہلی ورچوئل میٹنگ ، ستمبر 2021 میں واشنگٹن ڈی سی میں اصالتاً حاضری کے ساتھ چوٹی کانفرنس اور مارچ 2022 میں ورچوئل ملاقات کے بعد سے ٹوکیو میں ہونے والی یہ چوٹی کانفرنس کواڈ رہنماؤ ں کے درمیان چوتھی ملاقات ہے ۔ آنے والی کواڈ چوٹی کانفرنس رہنماؤں کے لئے ، ہند بحرالکاہل خطے میں سامنے آنے والے واقعات اورباہمی مفاد کے دورحاضر کے عالمی امور کے بارے میں اپنے خیالات کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرنے کے لئے ایک موقع فراہم کرتی ہے ۔ یہ رہنما کواڈ اور ورکنگ گروپس کے اقدامات کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کاجائزہ لیں گے ، باہمی تعاون کے نئے میدانوں کی نشاندہی کریں گے اور مستقبل میں معاونت کے لئے منصوبہ جاتی رہنمائی اور بصیرت فراہم کریں گے ۔ وزیر اعظم 24 مئی کو جاپان کے وزیر اعظم جناب فیومیو کیشیدا کے سا تھ دوطرفہ میٹنگ کریں گے۔ وزیراعظم کیشیدا کے ساتھ یہ ملاقات دونوں رہنماؤں کو ایک موقع فراہم کرے گی کہ وہ اس گفتگو کو مارچ 2022 میں منعقد ہونےو الی چودھویں ہند جاپان سالانہ چوٹی کانفرنس سے آگے لے جائیں ، جب وزیر اعظم کیشیدا نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا ۔ اپنے اس دورے کے دوران ، وزیراعظم مودی جاپانی رہنماؤں کے ساتھ کاروبار سے متعلق ایک تقریب میں شرکت کریں گے، اس کے علاوہ وہ جاپان میں ہندوستانی برادری کے ساتھ ملاقات اوران سے خطاب بھی کریں گے ۔ وزیراعظم 24 مئی 2022 کو امریکہ کے صدر جناب جوزن آر بائڈن جونیئر کے ساتھ بھی ایک دو طرفہ ملاقات کریں گے ۔ ان کی اس ملاقات سے ان کے سلسلہ ٔ گفتگو کے جاری رہنے کا ا ظہار ہوگا ، جس کا ایک حصہ 11 اپریل 2022 کو ورچوئل طریقے سے منعقد ہونے والی ایک میٹنگ بھی تھی ۔ توقع ہے کہ دونو رہنما ہند۔ امریکہ منصوبہ جاتی شراکت داری کا جائزہ لیں گے اور ستمبر 2021 میں امریکی صدر بائڈن کے ساتھ وزیراعظم کی دوطرفہ میٹنگ کےدوران ہونے والے تبادلہ خیال کے بعد کی پیشرفت پر بھی غور کیا جائے گا ۔ دونو رہنما باہمی دلچسپی کے علااقائی اور عالمی حالات و واقعات پربھی اپنے نظریات و خیالات کا تبادلہ کریں گے ۔ وزیراعظم کی آسٹریلیائی وزیراعظم کےساتھ بھی ایک دوطرفہ ملاقات کاغالب امکان ہے ، جن کے ملک میں 21 مئی 2022 کو انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں ۔ توقع ہے کہ دونوں رہنما اس ملاقات میں ہند۔آسٹریلیا جامع منصوبہ جاتی شراکت داری کاجائزہ لیں گے اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اورعالمی منظرنامے پر اپنے خیالات کا تبادلہ کریں گے ۔ ان دونوں وزرائےاعظم کے درمیان آخری دوطرفہ ملاقات ورچوئل طور پر 21 مارچ 2022 کو ہوئی تھی ، جس کے نتیجے میں 2 اپریل 2022 کو ہند ۔ آسٹریلیا اقتصادی تعاوون اور تجارت معاہدہ (ای سی ٹی اے) طے پایا تھا۔,"কোৱাড লীডাৰ্ছ ছামিটৰ বাবে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ জাপান ভ্ৰমণ(২৩-২৫ মে’, ২০২২" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%DB%8C%D9%86%DA%88-%D8%B3%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88%D9%86%DA%AF-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4/,نئی دہلی، 30جون 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج منی پورکے وزیر اعلی جناب این بیرن سنگھ سے بات کی اور ریاست میں ایک المناک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’منی پور کے وزیر اعلی جناب این بیرن جی سے بات کی اور ایک المناک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا۔ مرکز کی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ میں تمام متاثرہ افراد کی حفاظت کے لئے دعا گو ہوں۔ میرے خیالات سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ زخمیوں کو جلد صحت یابی حاصل ہو ۔‘‘,প্রধানমন্ত্রীয়ে মণিপুৰত ভূমিস্খলনৰ ফলত সৃষ্টি হোৱা পৰিস্থিতিৰ সমীক্ষা কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AF%D9%81%D8%A7%D8%B9-%D9%81%D9%84%D9%88%D8%B1%D9%86%D8%B3-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-%E0%A6%AB/,نئی دہلی۔28 اکتوبر فرانس کی وزیر دفاع محترمہ فلورنس پارلے نے آج وزیر اعظم سے ملاقات کی ۔ محترمہ پارلے نے وزیر اعظم کو باہمی دفاعی تعاون میں ہوئی پیش رفت کے بارے میں وزیر اعظم کو بتایا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دفاعی تعاون ہندوستان اور فرانس کے مابین منصوبہ جاتی شراکت کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے نیز دفاعی ڈھانچے اور مشترکہ تحقیق و ترقی کے لیے ‘میک ان انڈیا’ فریم ورک میں مزید بہتر تعاون پر زور دیا ۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی مفادات کے علاقائی اور عالمی امور پر بات چیت بھی کی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں صدر میکرون کا جلد ہی استقبال کرنے کی امید کرتا ہوں ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ ফ্ৰান্সৰ সেনা বাহিনীৰ মন্ত্ৰী শ্ৰীমতী ফ্লোৰেন্স পাৰলীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C-%D9%81%DB%8C%DA%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%B9%D8%B2%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D9%93/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے روسی فیڈریشن کے صدر عزت مآب ولادیمیر پوتن سے آج فون پر بات کی۔ دونوں لیڈروں نے یوکرین کی صورتحال، خاص طور پر خرکیف شہر کی صورتحال کے بارے میں بات کی ، جہاں بہت سے ہندوستانی طلباء پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لڑائی والے علاقوں سے بھارتی باشندوں کو بحفاظت وہاں سے نکالنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔,ৰাছিয়ান ফেডাৰেশ্যনৰ ৰাষ্ট্ৰপতি মহামান্য ভ্লাদিমিৰ পুটিনৰ সৈতে টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%86%DA%BE%D8%AA%DB%8C%D8%B3-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D8%8C-%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A6%97%E0%A6%A1%E0%A6%BC-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 14 جون 2018/وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج ریاست چھتیس گڑھ کا دورہ کیا۔ انہوں نے نیا رائے پور اسمارٹ سٹی میں مربوط کمانڈ اور کنٹرول سینٹر کا افتتاح کیا۔ وہاں انہیں کمانڈ اینڈ کنٹرول کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بتایا گیا۔ بعدازاں انہوں نے بھیلائی اسٹیل پلانٹ کے بلاسٹ فرنیس -8 کا دورہ کیا ۔ وہاں انہیں پلانٹ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بتایاگیا۔ بھیلائی میں سڑکوں کے کنارے لوگوں نےکھڑے ہوکر وزیراعظم کو مبارک باد دی۔ آخر میں ایک عوامی جلسے میں وزیراعظم نے بھیلائی اسٹیل پلانٹ کی جدید کاری اور توسیع کو ملک کے نام وقف کیا۔ انہوں نے وہاں آئی آئی ٹی بھیلا ئی کا سنگ بنیاد رکھا۔ انہوں نے بھارت نیٹ کے دوسرے مرحلے کی شروعات کی یاد میں ایک کتبے کی نقاب کشائی بھی کی۔ وزیراعظم نے جگدل پور اوررائے پور کے درمیان ایئر خدمات کا بھی افتتاح کیا۔ انہوں نے مختلف اسکیموں کے تحت استفادہ کنندگان کےدرمیان لیپ ٹاپ ، اسناد اور چیک بھی تقسیم کئے۔ سامعین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ہر طرح کے تشدد کے جواب میں ترقی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھیلائی اسٹیل پلانٹ نے ملک کی تعمیر میں کافی تعاو ن کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید کاری شدہ اور ترمیم شدہ پلانٹ، نیوانڈیا کی مضبوط بنیاد رکھنے میں معاون ہوگا۔ ان کے فوائد کے بارے میں بھی باتیں کہیں جو دوسرے ترقیاتی پروجیکٹ جن کا افتتاح ہورہا ہے ان سے آئیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران گرام سوراج ابھیان نے مثبت نتائج مرتب کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ابھیان (مشن) کو 115 توقعاتی اضلاع میں پوری شدت کے ساتھ چلایا گیا ہے ۔ جس میں سے بارہ اضلاع چھتیس گڑھ میں ہیں ۔ انہوں نے فوائد کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ جن دھن یوجنا ، مدرا یوجنا ، اوجولا یوجنا، فصل بیمہ یوجنا اور سوبھاگیہ کی وجہ سے ریاست کو فائدہ ہوا ہے۔ جناب نریندر مودی نے کہا کہ قبائلی عوام کے مفادات کے پیش نظر رکھتے ہوئے جنگل کے حقوق ایکٹ پر سختی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قبائلی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کررہی ہے اور پورے ملک میں ایکلویہ ودیالیہ قائم کئے گئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ش س ۔ ج۔,"চত্তীশগড় ভ্ৰমণ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে, নয়া ৰায়পুৰত ইণ্টিগ্ৰেটেড কমাণ্ড এণ্ড কণ্ট্ৰোল চেণ্টাৰ উদ্বোধন; আধূনিকৃত, সম্প্ৰসাৰিত ভিলাই তীখা প্ৰকল্প দেশবাসীৰ নামত উচৰ্গা" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D9%85%D9%88%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%B9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95/,نئی دہلی۔16؍نومبر۔مرکزی کابنیہ نے جس کی صدارت وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کی۔ٹیلی مواصلات اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا پس منظر رکھنے والے محکمہ ٹیلی مواصلات ( ڈی او ٹی) اور دیگر وزارتوں کے گروپ اے کے افسروں کے ٹیلی کمیونی کیشنز کنسلٹینٹس انڈیا لمٹیڈ( ٹی سی آئی ایل) میں ڈیپوٹیشن پر جانے کی منظوری دی ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشنز کنسلٹینٹس انڈیا لمٹیڈ( ٹی سی آئی ایل) کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ ٹیلی مواصلات اور اطلاعاتی ٹکنالوجی کا پس منظر رکھنے والے محکمہ ٹیلی مواصلات ( ڈی او ٹی) اور دیگر وزارتوں کےگروپ اے افسران کو 01-10-2017 سے اس تجویز کی منظوری کے درمیانی وقفہ میں( اس سے پہلے کابینہ کی منظوری کی مدت 30-09-2016 تک تھی) ڈی پی ای کے رہنما خطوط کے مطابق بشرطیکہ بورڈ سے کم سطح کےعہدے زیادہ سے زیادہ 10 فیصد ہوں، منظوری کی تاریخ سے مزید تین سال کے عرصے کے لئے ٹیلی کمیونیکیشن کنسلٹینس انڈیا لمٹیڈ ( ٹی سی آئی ایل) میں ڈیپو ٹیشن پر رکھاجاسکتا ہے۔ اور اس کے لئے فوری طور پر کام دینے کے اصول سے چھوٹ حاصل ہوگی۔ ٹیلی کمیونیکیشن کنسلٹینس انڈیا لمٹیڈ( ٹی سی آئی ایل) میں بورڈ سے کم سطح کے عہدوں میں چھوٹ کے مسئلہ سے مستقبل میں ڈی پی او ایم نمبر 18(6)/2001-GM-GL-77 مورخہ 28-12-2005 کے مطابق نپٹا جائے تاکہ اس طرح کی تجویز کو کابینہ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔,দূৰসংযোগ আৰু তথ্য প্ৰযুক্তিৰ শিক্ষাগত যোগ্যতা থকা দূৰসংযোগ বিভাগৰ প্ৰথম পৰ্যায়ৰ বিষয়া আৰু অন্যান্য মন্ত্ৰালয়ৰ সমপৰ্যায়ৰ বিষয়াক টেলিকমিউনিকেশ্যন কনছালটেণ্ট ইণ্ডিয়া লিমিটেডত ডেপুটেচনত নিযুক্তি প্ৰদানৰ বাবে কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A8-%D9%88%DB%81%D9%88%D8%A7-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A8%D8%AF%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82%D8%8C-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی زیر قیادت مرکزی کابینہ نے، آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) سے رابطہ کرنے کے لیے،ہندستان کی قومی ثقافت تازہ ترین طے شدہ شراکت (این ڈی سی) کو منظوری دے دی ہے۔ اَپ ڈیٹ شدہ این ڈی سی آب وہوا کی تبدیلی کے خطرے کے خلاف، رد عمل کو مضبوط بنانے کے حصول کے تئیں ہندوستان کے تعاون کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، جیسا کہ پیرس معاہدے کے تحت اتفاق کیا گیا ہے۔ اس طرح کی کارروائی سے ہندوستان کو کم اخراج کے فروغ کی راہوں میں بھی مدد حاصل ہوگی۔ یہ ملک کے مفادات کا تحفظ کرے گا اور یو این ایف سی سی سی کے اصول اور دفعات پر مبنی اس کے مستقبل کی ترقی کی ضروریات کا تحفظ بھی کرے گا۔ برطانیہ کے گلاسکو میں منعقدہ، آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کے فریقین کی کانفرنس(سی او پی 26) کے 26ویں اجلاس میں، ہندوستان نے پانچ امرت عناصر (پنچ امرت) پیش کرتے ہوئے آب وہوا کی اپنی کارروائیوں کو تیز کرنے کا اظہار کیا تھا۔ ہندوستان کے موجودہ این ڈی سی کی یہ تازہ کاری سی او پی 26 میں اعلان کردہ ’پنچ امرت‘ کو بہتر آب وہوا کے اہداف کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ اپ ڈیٹ 2070 تک ہندوستان کے خالص-صفر تک پہنچنے کے طویل مدتی ہدف کو بھی حاصل کرنے کی جانب ایک پیشرفت ہے۔ اس سے قبل، ہندوستان نے 2 اکتوبر 2015 کو یو این ایف سی سی سی کو اپنی مطلوبہ قومی تعین شدہ شراکت (این ڈی سی) جمع کرایا تھا۔ این ڈی سی 2015 میں آٹھ اہداف شامل تھے، ان میں سے تین،2030 تک کے مقداری اہداف ہیں، یعنی غیر فوصل ذرائع سے مجموعی برقی توانائی کی تنصیب کی صلاحیت 40 فیصد ت�� پہنچ جائے گی۔ جی ڈی پی کے اخراج کی شدت کو 2005 کی سطح کے مقابلے میں 33 سے 35 فیصد تک کم کرنا اور اضافی جنگلات اور درختوں کے احاطے کے ذریعے، 2.5 سے 3 ارب ٹن سی او 2 کے برابر اضافی کاربن کم کرنے کی تخلیق کرنا ہے۔ اپ ڈیٹ کردہ این ڈی سی کے مطابق، ہندوستان اب 2005 کی سطح سے 2030 تک اپنی جی ڈی پی کے اخراج کی شدت کو 45 فیصد تک کم کرنے اور 2030 تک غیر فوصل ایندھن پر مبنی توانائی کے وسائل سے تقریباً 50 فیصد مجموعی الیکٹرک پاور کی تنصیب کرنے کی صلاحیت کرنے کے تئیں پرعزم ہے۔ آج کی منظوری، غریبوں اور کمزوروں کو آب وہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے، پائیدار طرز زندگی اور موسمیاتی انصاف کے وزیر اعظم کے وژن کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ اپ ڈیٹ کئے گئے این ڈی سی میں کہا گیا ہے کہ ’’رعایا کا تحفظ نیز اعتدال کی اقدار پر مبنی زندگی کے ایک صحتمند اور پائیدار طریقے کو آگے بڑھانے اور اس کی مزید تشہیر کرنے کے لیے، جس میں بشمول ’ایل آئی ایف ای‘ – ’ماحولیات کے لیے طرز زندگی‘ کے لیے ایک بڑے پیمانے پر تحریک کے ذریعے ماحولیاتی مقابلہ کرنے کی کلید کے طور پر بہتر این ڈی سیز کے بارے میں فیصلہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے اقتصادی ترقی کو الگ کرنے کے لیے، اعلیٰ ترین سطح پر ہندوستان کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان کی تازہ کاری شدہ این ڈی سی ہمارے قومی حالات اور مشترکہ لیکن مختلف ذمے داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں (سی بی ڈی آر- آر سی) کے حصول پر غور کرنے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ ہندوستان کی تازہ کاری شدہ این ڈی سی کم کاربن کے اخراج کی راستے کی سمت کام کرنے کے لیے ہمارے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوششیں بھی کر رہی ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ آب وہوا کی تبدیلی میں طرز زندگی کا بہت بڑا کردار ہے، سی او پی 26 میں ہندوستان کے وزیر اعظم نے عالمی برادری کے سامنے ’واحد لفظی تحریک‘ کی تجویز پیش کی۔ یہ واحد لفظ ہے’لائف‘… ایل، آئی، ایف، ای، یعنی طرز زندگی برائے ماحولیات۔ زندگی کا وزن ایک ایسا طرز زندگی گزارنا ہے جو ہماری کرہ ارض کے مطابق ہو اوراسے ضرر نہ پہنچائے۔ ہندوستان کی تازہ ترین شدہ این ڈی سی آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ، اس شہری مربوط نقطہ نظر کو بھی حاصل کرتی ہے۔ اپ ڈیٹ کردہ این ڈی سی 2030-2021 کی مدت کے لیے ، صاف ستھری توانائی میں ہندوستان کی منتقلی کے لائحہ عمل کی نمائندگی کرتا ہے۔ اپ ڈیٹ شدہ فریم ورک، ٹیکس مراعات اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے اور قابل تجدید توانائی کو اپنانے کے لیے پیداوار سے منسلک مراعات کی اسکیم جیسی مراعات سمیت، ہندوستان کی مینوفیکچرنگ صلاحیت کو بڑھانے اور برآمدات میں اضافہ کا موقع فراہم کرے۔ یہ سبز ملازمتوں میں مجموعی طور پر اضافے کا باعث بنے گا جس میں قابل تجدید توانائی، صاف توانائی کی صنعتوں میں آٹوموٹو میں ، کم اخراج والی مصنوعات کی تیاری نیز الیکٹرک وہیکلز اور انتہائی موثر آلات، اور جدید ٹیکنالوجی گرین ہائیڈروجن کے شعبوں میں صلاحیتوں کو بڑھانے اور برآمدات میں اضافے کا موقع فراہم کرے گا۔ ہندوستان کا تازہ ترین این ڈی سی 2030-2021 کی مدت میں متعلقہ وزارتوں/ محکموں کے پروگراموں اور اسکیموں کے ذریعے نیز ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مناسب تعاون سے لاگو کیا جائے گا۔ حکومت نے موافقت اور تخفیف، دونوں پر، ہندوستان کے اقدام کو بڑھانے کے لیے بہت اسکیم اور پروگرام شروع کئے ہیں�� ان اسکیموں اور پروگراموں کے تحت پانی، زراعت، جنگلات، توانائی اور انٹرپرائز، پائیدار نقل وحرکت اور رہائش، فضلہ کا انتظام، مرغولاتی معیشت اور وسائل کی کارکردگی وغیرہ سمیت کئی شعبوں میں مناسب اقدامات شروع کئے جارہے ہیں۔ مذکورہ بالات اقدامات کے نتیجے میں، ہندوستان نےگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے، معاشی نمو کو بتریج کم کرنا جاری رکھا ہے۔ صرف ہندوستانی ریلوے کے ذریعے ہی ، 2030 تک خالص- صفر کا ہدف سالانہ 60 ملین ٹن اخراج میں کمی کا باعث بنے گا۔ اسی طرح، ہندوستان کی بڑے پیمانے پر ایل ای ڈی بلب کی مہم، سالانہ 40 ملین ٹن اخراج کو کم کر رہی ہے۔ ہندوستان کے آب وہواکی کے اقدامات اب تک بڑے پیمانے پر، گھریلو وسائل سے مالی اعانت فراہم کرتے رہے ہیں۔ البتہ، نئے اور اضافی مالی وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی یو این ایف سی سی سی اور پیرس معاہدے کے تحت ، ترقی یافتہ ممالک کے وعدوں اور ذمے داریوں میں شامل ہے۔ ہندوستان کو اس طرح کے بین الاقوامی مالی وسائل اور تکنیکی مدد میں سے بھی اپنا حصہ درکار ہوگا۔ ہندوستان کا این ڈی سی، اسے کسی بھی شعبے کی مخصوص تخفیف کی ذمے داری یا کارروائی کا پابند نہیں کرتا ہے۔ ہندوستان کا مقصد، اخراج کی مجموعی شدت کو کم کرنا اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کی توانائی کی کارکردگی کو مستحکم بنانا ہے نیز اسی کے ساتھ ساتھ معیشت کے کمزور شعبوں اور اپنے معاشرے کے طبقات کی حفاظت کرنا ہے۔,কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাই ৰাষ্ট্ৰসংঘ জলবায়ু পৰিৱৰ্তন ফ্ৰেমৱৰ্ক সন্মিলনক তথ্য প্ৰদান কৰিবলৈ ভাৰতৰ ৰাষ্ট্ৰীয় স্তৰত অদ্যাপি নিৰ্ধাৰিত অৰিহণাক মঞ্জুৰী দিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D9%88%DB%8C-%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D8%A7%DB%8C%D8%A6%D8%B1%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔19؍فروری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی کام کے آغاز کی تقریب میں شرکت کی۔ نوی ممبئی میں جواہرلعل نہرو پورٹ ٹرسٹ میں ایک تقریب میں چوتھے کنٹینر ٹرمنل کو بھی قوم کے نام وقف کیا۔ اس موقع پرحاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ عظیم شواجی مہاراج کی جینتی سے ایک روز قبل مہاراشٹر میں آئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالم کاری ہمارے دور کی ایک حقیقت ہے اور عالم کاری کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کیلئے ہمیں بہترین معیار والے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساگرمالا پروجیکٹ سے نہ صرف بندرگاہوں کی ترقی ہوگی بلکہ بندرگاہوں کے ذریعے ہونے والی ترقی بھی ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ہند ترقی کیلئے بھرپور کوشش کررہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوی ممبئی ایئرپورٹ پروجیکٹ برسوں سے التوا کا شکار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروجیکٹوں میں تاخیر سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پرگتی پہل پروجیکٹوں کی تکمیل کو اولیت دینے کے مقصد سے شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا ہوابازی کا شعبہ بہت زیادہ ترقی کررہا ہے اور ہوائی سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہوابازی کے شعبے میں معیاری بنیادی ڈھانچہ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کہا کہ مرکزی حکومت ہوابازی کی ایسی پالیسی لائی ہے جس سے اس شعبے کی کایا پلٹ ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہوابازی کے شعبے کی مضبوطی سے زیادہ اقتصادی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ کنیکٹی وٹی کے بہتر ہونے سے ہندوستان میں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔,"নৱী মুম্বাই বিমানবন্দৰৰ আধাৰশিলা অনুষ্ঠানত উপস্থিত প্ৰধানমন্ত্ৰী, চতুৰ্থ জৱাহৰলাল নেহৰু পৰ্ট ট্ৰাষ্ট কন্টেইনাৰ টাৰ্মিনেল ৰাইজৰ বাবে মুকলি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%D9%88%DA%A9-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%D9%BE%D8%B1-%D9%BE%DB%8C%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A6%A3/,نئی دہلی،07؍فروری؍2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریے کی تجویز کا جواب دیا۔ وزیر اعظم نے اپنا خطاب شروع کرنے سے پہلے لتا منگیشکر کو خراج عقیدت پیش کی۔ انہوں نے کہا ’’اپنی تقریر سے پہلے میں لتا دیدی کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا ۔ اپنی موسیقی کے ذریعے انہوں نے ہمارے ملک کو متحد کیا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے نیا عہد لینے اور قومی تعمیر کے کام کو پھر سے وقف کرنے میں موجودہ عہد کی اہمیت کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا ’’آزادی کا امرت مہوتسو یہ سوچنے کا صحیح وقت ہے کہ آنے والے سالوں میں ہندوستان عالمی قیادت کا کردار کس طرح نبھا سکتا ہے۔یہ بھی یکساں طورپر سچ ہے کہ ہندوستان نے پچھلے کچھ برسوں میں کئی ترقیاتی اقدامات کئے ہیں۔‘‘اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ کورونا کے بعد کی مدت میں ایک نیا عالمی نظام تیزی سے شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا’’یہ ایک اہم موڑ ہے کہ جہاں ہمیں ہندوستان کی حیثیت سے اس موقع کو نہیں کھونا چاہئے۔‘‘ وزیر اعظم نے سہولتوں کی فراہمی سے نئی شناخت پانے والے محروم طبقات اور غریبوں کی بدحال صورتحال کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا’’پہلے گیس کنکشن ایک اسٹیٹس سمبل تھا، اب غریب سے غریب شخص تک اس کی رسائی ہے اور اسی لئے یہ بہت مسرت انگیز بات ہے۔غریبوں کے پاس بینک کھاتوں تک رسائی ہے، ڈی بی ٹی خدمات تقسیم میں مدد کررہا ہے، یہ اہم تبدیلیاں ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی غریب شخص اپنے گھر میں بجلی کی وجہ سے خوشی محسوس کرتاہے، تو اس کی خوشی ملک کی خوشی کو توانائی فراہم کرتی ہے۔انہوں نے مفت گیس کنکشن کی وجہ سے غریب گھروں میں دھوئیں سے آزاد رسوئی کی خوشی پر بھی گفتگو کی۔ وزیر اعظم نے جمہوریت کی مناسب کام کی اہمیت کو اُجاگر کیا اور ہندوستان کی صدیوں پرانی جمہوری روایت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے زور دے کر کہا’’ہم جمہوریت میں پختہ یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ تنقید جمہوریت کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن ہر چیز کی اندھی مخالفت کبھی بھی آگے کا راستہ نہیں ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے سیاسی مقصد کے لئے وبا ء کا استعمال کرنے کی حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اُن لوگوں کو دھکا دینے کی تنقید کی جو لاک ڈاؤن پر عمل کررہے تھے۔جب گائیڈ لائنس میں یہ مشورہ دیا گیا کہ جو جہاں ہے، وہیں رہے، تب اترپردیش اور بہار میں اپنے آبائی شہروں کو لئے اُن سے ممبئی اور دہلی کو چھوڑنے کے لئے کہا گیا اور وہ ڈر گئے۔ جناب مودی نے اُن کوششو�� کی اندھی مخالفت پر بھی افسوس کا اظہار کیا ، جن کی اجتماعی طورپر حمایت کی جانی چاہئے۔ اس تناظر میں انہوں نے کہا’’اگر ہم ووکل فار لوکل کی بات کررہے ہیں تو کیا ہم مہاتماگاندھی کے خوابوں کو پورا نہیں کررہے؟ پھر حزب اختلاف کے ذریعے اس کا مذاق کیوں اڑایا جارہا تھا؟ ہم نے یوگا اور فٹ انڈیا کے بارے میں بات کی، لیکن حزب اختلاف نے اس کا مذاق اڑایا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دنیا نے ہندوستانی اقتصادی ترقی پر توجہ دیا ہے اور وہ بھی زندگی میں ایک بار آنے والی عالمی وباء کے درمیان۔ وزیر اعظم نے 100سال سال پہلے کی فلو وباء کو یاد کیا اور کہا کہ زیادہ تر موقعے بھوک کی وجہ سے ہوئی تھی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی ہندوستانی کو بھوک سے مرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس کے لئے سب سے بڑے سماجی تحفظاتی اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ حکومت نے یقینی بنایا کہ وباء کے درمیان 80 کروڑ سے زیادہ ساتھی ہندوستانیوں کو مفت راشن ملے۔یہ ہمارا عہد ہے کہ کوئی بھی ہندوستانی فاقے سے نہ رہے۔‘‘ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ غربت سے نمٹنے کا واحد مؤثر طریقہ چھوٹے کسانوں کی تشویش کا خیال رکھنا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ طویل عرصے سے چھوٹے کسانوں کو نظرا نداز کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا’’جن لوگوں نے اتنے سالوں تک ملک پر حکمرانی کی ہے اور محل نما گھروں میں رہنے کے عادی ہیں، وہ چھوٹے کسانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بولنا بھول گئے ہیں۔ہندوستان کی ترقی کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ چھوٹے کسانوں کو بااختیار بنایا جائے۔یہ چھوٹے کسان ہندوستان کی ترقی کو مضبوطی فراہم کریں گے۔‘‘ وزیر اعظم نے حکمرانی اور منصوبے کی فراہمی کے نئے نظریے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں سریونہر قومی پروجیکٹ جیسے طویل مدت سے زیر التوا پروجیکٹوں کا حوالہ دیا، جنہیں موجودہ حکومت کے ذریعے مکمل کیا گیا ہے۔انہوں نے پی ایم گتی شکتی کی مثال بھی دی ، جو بنیادی ڈھانچے کی چنوتیوں کو حل کرنے کےلئے ایک جامع نظریہ پیش کرتا ہے اور صنعتوں کے لئے رسد کے انتخاب کی ضرورت کو کم کرتاہے۔وزیر اعظم نے مناسب کنکٹی وٹی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ’’ہماری حکومت نے ایم ایس ایم ای کی تعریف بد ل دی ہے اور اس سے اس سیکٹر کو بڑی مدد ملی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے آتم نربھر بھارت کی نئی ذہنیت کے بارے میں بھی بات کی ، جسے اختراعاتی پالیسیوں کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے۔ انہوں نے نئے سیکٹر کھول کر ملک کی صلاحیت اور نوجوانوں کے استحصال پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ ہم اس بات پر قطعی یقین نہیں رکھتے کہ صرف سرکاریں ہی تمام مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ ہم ملک کے عوام ، ملک کے نوجوانوں میں اعتماد رکھتے ہیں۔اسٹارٹ-اپ سیکٹر کی ہی مثال لیں، اسٹارٹ-اپ کی تعداد بڑھی ہے اور یہ ہمارے عوام کی طاقت کو دکھاتاہے۔انہوں نے حالیہ دنوں میں معیاری یونیکار کے اضافے پر روشنی ڈالی۔وزیر اعظم نے کہا ’’ہم اپنے نوجوانوں ، دولت پیدا کرنے والوں اور صنعت کاروں کو خوفزدہ کرنے کے نظریے سے متفق نہیں ہیں۔‘‘انہوں نے کہا 2014ء سے پہلے صرف 500 اسٹارٹ-اپ تھے۔ پچھلے 7سالوں میں 60ہزار اسٹارٹ-اپ سامنے آئے ہیں اور یونیکارن کی صدی کی طرف بڑھ رہاہے۔اسٹارٹ –اپ کے معاملے میں ہندوستان تیسرے مقام پر پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میک اِن انڈیا‘کا مذاق بنانا ہندوستان کے کاروبار، ہندوستان کے نوجوان اور میڈیا کی صنعت کا مذاق بنانا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دفاعی شعبے میں خود کفیل ہونا سب سے بڑی قومی خدمت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی میں عالمی مسائل کا بہانہ بناکر افراط زر کی بات کی جاتی تھی، جبکہ ہندوستان آج مشکل عالمی تناظر کے باوجود کوئی بہانہ بنائے بغیر افراط زر سے نمٹ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’’ملک ہمارے لیے صرف اقتدار یا حکومتی نظم نہ ہوکر ایک زندہ روح ہے۔‘‘ انہوں نے پُران اور سبرامنیم بھارتی کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان کے ایک وسیع تصور پر تفصیل سے بتایا ، جہاں پورے ہندوستان کو زندہ روح کی شکل میں مانا جاتا ہے۔ انہوں نے تمل ناڈو کے لوگوں کے ذریعے سی ڈی اے جنرل وپن راوت کو دیئے گئے اعزاز کو بین ہندوستانی قومی جذبے کی مثال قرار دیا۔ وزیر اعظم نے امرت کال کے مقدس عہد میں سیاسی پارٹیوں ، شہریوں اور نوجوانوں سے مثبت جذبے سے تعاون کرنے پر اصرار کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔,লোকসভাত ৰাষ্ট্রপতিৰ ভাষণৰ প্ৰত্যুত্তৰত প্রধানমন্ত্রীৰ ধন্যবাদসূচক ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%B3%DA%A9%DA%BE%D9%88%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE-%D8%B3%DA%A9%DA%BE%D9%88-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-3/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جناب سکھویندر سنگھ سکھو کو ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لینے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لینے پر جناب سکھویندر سنگھ سکھو کو مبارکباد۔ میں ہماچل پردیش کی مزید ترقی کے لیے مرکز کی جانب سے تمام تر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کراتا ہوں۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে হিমাচল প্ৰদেশৰ মুখ্যমন্ত্ৰী হিচাপে শপত লোৱাৰ বাবে শ্ৰী সুখৱিন্দৰ সিং সুখুক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%84%D8%B2-%D9%B9%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%DA%AF%D9%84%DB%8C-%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لز ٹرس کو برطانیہ کی اگلی وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ جناب مودی نے انہیں ان کے نئے رول اور ذمہ داریوں کے لیے نیک خواہشات پیش کیں۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ “@لزٹرس کو برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد۔ یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں ہندوستان-برطانیہ جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ مزید مضبوط ہوگی۔ آپ کے نئے کردار اور ذمہ داریوں کے لیے نیک خواہشات۔"" ش ح۔ ش ت۔ج",ব্ৰিটেইনৰ পৰৱৰ্তী প্ৰধানমন্ত্ৰী হিচাপে নিৰ্বাচিত হোৱাৰ বাবে লিজ ট্ৰাছক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-2022%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے 2022کے دولت مشترکہ کھیلوں میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر اسکواش کھلاڑی سوروگھوشال کو مبارکباد دی ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ ��یا : ’’یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ سورو گھوشال کامیابی کی نئی بلندیاں چھو رہے ہیں، برمنگھم میں انہوں نے کانسے کا جو تمغہ جیتا ہے وہ بہت ہی خصوصی ہے اورانتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔ میں انہیں مبارکبادپیش کرتاہوں اوران کی کامیابی ہندوستانی نوجوانوں میں اسکواش کی مقبولیت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی‘‘۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বাৰ্মিংহাম কমনৱেলথ ২০২২ ত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে সৌৰভ ঘোষালক অভিনন্দন জনাইছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%AA%DA%BE%D9%88-%DA%A9%D9%85%D9%91%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1%D8%AA%D9%84%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A5%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بتھو کمّا کے مقدس موقع پر تلنگانہ کے لوگوں اور خاص طور سے وہاں کی ناری شکتی کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کہا؛ ’’ بتھو کمّا کے مقدس موقع پر تلنگانہ کے لوگوں اور خاص طور سے تلنگانہ کی ناری شکتی کو مبارکباد دی۔ امید کرتا ہوں کہ یہ تہوار فطرت کے ساتھ ہمارے ربط کو گہرا کرے گا اور پھولوں میں ہماری دلچسپی میں اضافہ کرے گا۔‘‘,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বাথুকাম্মা উপলক্ষে দেশবাসীক, বিশেষকৈ তেলেংগানাৰ নাৰী শক্তিক শুভেচ্ছা জনাইছ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-73-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A7%AD%E0%A7%A9-%E0%A6%A4%E0%A6%AE-%E0%A6%97%E0%A6%A3%E0%A6%A4%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے بھارت کے 73 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر عالمی رہنماؤں کی طرف سے دی جانے والی مبارک باد پر اُن کا شکریہ ادا کیا ہے۔ نیپال کے وزیراعظم کے ایک ٹوئیٹ کے جواب میں وزیراعظم نے کہا؛ ‘‘آپ کی دل کی گہرائیوں سے دی جانے والی مبارک باد کے لئے شکریہ، وزیر اعظم شیر بھادر دیوبا۔ ہماری صدیوں پرانی دوستی اور مضبوطی کے لئے ہم مل کر کام کرنا جاری رکھیں گے’’۔ بھوٹان کے پی ایم کے ایک ٹوئیٹ کے جواب میں وزیراعظم نے کہا؛ ‘‘بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد کے لئے بھوٹان کے وزیراعظم کا شکریہ۔ بھارت ،بھوٹان کے ساتھ اپنی پرانی اور انوکھی دوستی کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ بھوٹان کی سرکار اور وہاں کے لوگوں کو تاشی ڈیلیک۔ہمارے رشتے اور مضبوط ہوں’’۔ سری لنکا کے پی ایم کے ایک ٹوئیٹ کے جواب وزیراعظم نے کہا؛ ‘‘شکریہ وزیراعظم راج پکشے، یہ سال خاص ہے، کیونکہ دونوں ممالک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کے درمیان تعلقات اور مضبوط ہوں، یہی تمنا ہے’’۔ اسرائیل کے پی ایم کے ٹوئیٹ کے ایک جواب میں وزیراعظم نے کہا؛ ‘‘پی ایم نفتالی بینٹ، بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر نیک خواہشات کے لئے آپ کا شکریہ۔ مجھے پچھلے سال نومبر ہوئی ملاقات ہے، مجھے یقین ہے کہ بھارت – اسرائیل اسٹریٹجک شراکت داری مستقبل میں بھی آگے بڑھتی رہے گی’’۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح-ف ا – ق ر),ভাৰতৰ ৭৩ তম গণতন্ত্ৰ দিৱসত শুভেচ্ছা জনোৱাৰ বাবে বিশ্বৰ নেতাসকলক ধন্যবাদ জ্ঞাপন ���্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-15-%D8%B3%DB%92-18-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D8%AA%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D8%B9%D9%85%D8%B1-%DA%A9%DB%92-50-%D9%81%DB%8C%D8%B5%D8%AF-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AB-%E0%A7%A7%E0%A7%AE-%E0%A6%AC%E0%A7%9F%E0%A6%B8-%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 15 سے 18 سال تک کی عمر کے 50 فیصد سے زیادہ نوجوانوں کو ویکسین کی پہلی خوراک دئے جانے کی تعریف کی ہے۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ مانڈویہ کے ایک ٹویٹ کے جواب میں ،وزیر اعظم نے کہا ‘‘نو عمر اورنوجوان ہندوستان راستہ دکھارہا ہے۔ یہ ہمت افزاں خبر ہے ہمیں اس رفتار کو جاری رکھنا چاہئے ۔ ٹیکہ کاری کرنا اور کووڈ-19 سے متعلق اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ہم اس عالمی وبا کا مل کر مقابلہ کریں گے۔’’,১৫-১৮ বয়স সীমাৰ ভিতৰৰ যুৱপ্ৰজন্মৰ ৫০%ৰো অধিক সংখ্যকে প্ৰতিষেধকৰ প্ৰথম পালি লোৱাৰ বাবে প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%88%E0%A6%A4/,عزت مآب، مجھے ایک بار پھر آپ سے ملنے کاشرف حاصل ہوا ہے اور بہت سے معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں جب آپ آئے تھے تو کئی معاملات پر ہماری بات چیت ہوئی تھی اور اس کے بعد بھی، جیسا آپ نے کہا پہلے ہماری ٹیلی فون پر بھی بات ہوئی اور اس میں ہندوستان اور روس کے دوطرفہ معاملے میں مفصل طور پر زیر غور آئے اور دنیا کے جو مسائل ہیں اس کے بارے میں بھی ہماری بہت تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ آج پھر ایک بار ہم مل رہے ہیں اور آج بھی دنیا کے سامنے جو سب سے بڑی فکر ہے، خاص طور سے ترقی پزیر ملکوں کی فوڈ سیکورٹی کی، ایندھن سیکورٹی کی، فرٹیلائزر کی۔ ایسے جو مسائل ہیں، ہمیں ضرور کچھ نہ کچھ راستے نکالنے ہوں گے اور آپ کو بھی اس میں پہل کرنی ہوگی۔ان معاملات پر بھی آج بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔ عزت مآب، میں آپ کا اور یوکرین کا اس بات کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، کیونکہ جب شروع کے دنوں میں بحران کے دوران ہمارے ہزاروں طلباء یوکرین میں پھنسے ہوئے تھے، آپ کی اور یوکرین کی مدد سے ہم اپنے طلباء کو محفوظ طریقے سے باہر نکال سکے، ان کے گھر تک ہم پہنچاسکے اور اس کے لئے میں دونوں ملکوں کا احسان مند ہوں۔ عزت مآب، میں جانتا ہوں کہ آج کا دور جنگ کا دور نہیں ہے اور ہم نے ٹیلی فون پر بھی آپ سے کئی بار اس موضوع پر بات کی ہے کہ ڈیمو کریسی اور ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ، یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ جو دنیا کو چھوتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں امن کے راستے پر ہم کیسے بڑھ سکیں اس بارے میں ضرور آج ہمیں تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملے گا، آپ کا نکتہ نظر سمجھنے کا بھی مجھے موقع ملے گا۔ عزت مآب، ہندوستان اور روس کے تعلقات کئی گنا بڑھے ہیں ۔ ہم ان تعلقات کو اس لئے بھی اہمیت دیتے ہیں کہ ہم ایک ایسے دوست رہے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر پل ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں اور پوری دنیا بھی جانتی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ روس کا تعلق کیسا رہا ہے اور اسی لئے دینا کے دل میں بھی یہ بات ہے کہ یہ ایک اٹوٹ دوستی ہے اور ذاتی طور پر بھی میں اگر کہوں تو ایک طرح سے ہم دونوں کا سفر بھی ایک ساتھ شروع ہوا ہے ۔ میری آپ سے سب سے پہلے 2001 میں ملاقات ہوئی جب آپ ہیڈ آف گورنمنٹ تھے اور میں نے ریاستی سربراہ کے طور پر کام شروع کیا تھا۔ آج 22 سال ہوگئے ہیں اور ہماری دوستی لگاتار بڑھتی چلی جارہی ہے۔ لگاتار ہم دونوں ملک مل کر اس خطے کی بہبود کے لئے، لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کررہے ہیں،آج ایس سی او کانفرنس میں بھی آپ نے ہندوستان کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، میں اس کے لئے آپ کا بہت احسان مند ہوں۔ عزت مآب، مجھے یقین ہے کہ آج کی ہماری جو باہمی ملاقات، آج کی ہماری جو بات چیت ہوگی وہ آنے والے دنوں میں ہمارے تعلقات کو مزید گہرا کرے گی، دنیا کو جو امیدیں اور توقعات ہیں انھیں پورا کرنے میں بہت کام آئیں گی، اس کا مجھے پورا بھروسہ ہے۔ میں پھر ایک بار آج وقت نکالنے پر آپ کا احسانمند ہوں۔ اعلانِ دستبرداری۔ یہ وزیر اعظم کے کلمات کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل بیان ہندی میں دیا گیا تھا۔,ৰাছিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে দ্বিপাক্ষিক বৈঠকত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ উদ্বোধনী মন্তব্যৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%D9%86%D8%A7%D9%86%DA%A9-%D8%AF%DB%8C%D9%88-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-553/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%95-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%AB%E0%A7%A9/,"’’گربانی سے ہمیں جو سمت ملی وہ روایت، ایمان اور ترقی یافتہ ہندوستان کا وژن ہے‘‘ ’’ہر پرکاش پرو کی روشنی ملک کی رہنمائی کر رہی ہے‘‘ ’’گرو نانک دیو جی کے خیالات سے متاثر ہو کر ملک 130 کروڑ ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے‘‘ ’’آزادی کے امرت کال میں، ملک نے قوم کی شان اور روحانی تشخص پر فخر کا احساس دوبارہ جگایا ہے‘‘ ’’فرض کے اعلیٰ احساس کی حوصلہ افزائی کے لیے، ملک نے اس مرحلے کو کرتویہ کال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں شری گرو نانک دیو جی کے 553 ویں پرکاش پرو کی تقریبات میں شرکت کی اور پوجا ارچناکی۔ وزیراعظم کو شال، سروپہ اور تلوار سے نوازا گیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سب کو گروپورب اور پرکاش پرو کے مبارک موقع پر اور دیو دیپاوالی کی مبارکباد دی۔ انہوں نے گرو گوبند سنگھ جی کے 350 ویں پرکاش پرو، گرو تیگ بہادر جی کے 400 ویں پرکاش پرو اور گرو نانک دیو جی کے 550 ویں پرکاشوتسو جیسے اہم پرکاش پراو کو منانے کا موقع ملنے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’ان مبارک مواقع کی ترغیب اور برکت، نئے ہندوستان کی توانائی کو بڑھا رہی ہے… ہر پرکاش پرو کی روشنی ملک کے لیے روشنی کے منبع کے طور پر کام کر رہی ہے‘‘، انہوں نے وضاحت کی کہ پرکاش پرو کے معنی، جس کی پیروی سکھ برادری نے کی ہے، اس نے، قوم کو فرض اور لگن کا راستہ دکھایا ہے۔ وزیر اعظم نے ان مقدس مواقع پر گرو کرپا، گربانی اور لنگر کے پرساد کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ نہ صرف اندرونی سکون فراہم کرتا ہے بلکہ لگن کے ساتھ خدمت کرنے کی خواہش کو بھی برقرار رکھتا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گرو نانک دیو جی کے خیالات سے متاثر ہو کر ملک 130 کروڑ ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے جذبے کے ساتھ ��گے بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے روحانی روشن خیالی، دنیاوی خوشحالی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے گرو نانک دیو جی کی تعلیم کو یاد کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کے امرت کال میں ملک نے قوم کی شان اور روحانی تشخص پر فخر کا احساس دوبارہ جگایا ہے۔ فرض کے اعلیٰ احساس کی حوصلہ افزائی کے لیے، ملک نے اس مرحلے کو کرتویہ کال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کا امرت کال کے اس مرحلے کے دوران سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پرایاس کے ساتھ مساوات، ہم آہنگی، سماجی انصاف اور اتحاد کا کام جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’گربانی سے ہمیں جو ہدایت ملی ہے وہ روایت، ایمان کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ہندوستان کا وژن بھی ہے‘‘۔ گرو کی تعلیم کی لازوال مطابقت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ امرت کی عظمت، جو ہمارے پاس گرو گرنتھ صاحب کی شکل میں ہے، اس کی اہمیت وقت اور جغرافیہ کی حدود سے بالاتر ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب بحران بڑا ہوتا ہے تو ان کےحل کی مطابقت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں بدامنی اور عدم استحکام کے دور میں گرو صاحب کی تعلیمات اور گرو نانک دیو جی کی زندگی ایک مشعل کی طرح دنیا کو راہ دکھا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم جتنا زیادہ اپنے گرووں کے آدرشوں کو زندہ کریں گے، اتنا ہی زیادہ ہم 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے احساس کو مجسم کریں گے، ہم انسانیت کی قدروں کو اتنی ہی اہمیت دیں گے، گرو کی تعلیمات اتنی ہی بلند اور واضح ہوں گی اور ہر شخص تک پہنچیں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گرو نانک دیو جی کے آشیرواد سے ہمیں گزشتہ 8 سالوں کے دوران عظیم سکھ ورثے کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے یاتریوں کی سہولت کے لیے گوبند گھاٹ سے ہیم کنٹ صاحب تک روپ وے اور دہلی اونا وندے بھارت ایکسپریس کا سنگ بنیاد رکھنے کا ذکر کیا۔ گرو گوبند سنگھ جی اور دہلی کٹرا امرتسر ایکسپریس وے سے متعلق مقامات کی بجلی کاری سے بھی سہولت میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت اس پر 35 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوششیں سہولیات اور سیاحت کی امکانات سے بالاتر ہیں، یہ توہمارے عقیدے، سکھ ورثے، خدمت، محبت اور عقیدت کی توانائی کے بارے میں ہے۔ وزیر اعظم نے کرتارپور صاحب راہداری کھولنے، افغانستان سے گرو گرنتھ صاحب کی مقدس جلدوں کو واپس لانے اور صاحبزادوں کی عظیم قربانی کے اعزاز میں 26 دسمبر کو ویر بال دیوس کے طور پر منانے جیسے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا""تقسیم میں ہمارے پنجاب کے لوگوں کی قربانیوں کی یاد میں، ملک نے وبھاجن وبھیشیکا اسمرتی دیوس بھی شروع کیا ہے۔ ہم نے سی اے اے قانون لا کر، تقسیم سے متاثر ہندو سکھ خاندانوں کو شہریت دینے کا ایک طریقہ بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا’’مجھے پورا یقین ہے کہ گرووں کے آشیرواد سے، ہندوستان اپنی سکھ روایت کی شان کو بڑھاتا رہے گا اور ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا‘‘۔",শ্ৰী গুৰু নানক দেৱজীৰ ৫৫৩সংখ্যক প্ৰকাশ উৎসৱ উদযাপনত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰী মোদী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%DA%A9%D9%88%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D8%8C-%D8%B3%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D9%85%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A6%AC%E0%A6%BF-%E0%A6%AD/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مہاکوی بھارتیار ، سبرامنیہ بھارتی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’ میں عظیم سبرامنیہ بھارتی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ’مہاکوی بھارتیار‘ غیر معمولی شجاعت اور شاندار ذہانت کا مظہر تھے۔ ان کے پاس بھارت کی ترقی اور ہر بھارتی کو بااختیار بنانے کا ایک زبردست تصوراتی خاکہ تھا۔ ہم مختلف شعبوں میں ان کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মহাকবি ভাৰতীয়াৰ, সুব্ৰমণিয়া ভাৰতীক তেওঁৰ জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাৰে সোঁৱৰিছ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%88%DB%8C%D9%84%D9%88-%D9%86%D8%A7%DA%86%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,نئی دہلی،3 جنوری 2022 /وزیراعظم جناب نریندرمودی نے رانی ویلوناچھیار کو ان کی سالگرہ پر خراج عقید ت پیش کیا۔ ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ بہادر رانی ویلوناچھیار کی ان کی سالگرہ پر یاد کیا جائے۔ ان کی غیر معمولی بہادری آنے والی نسلوں کو تحریک دیتی رہے گی۔ ان کا نوآبادیاتی نظام سے لڑنے کا مضبوط عزم قابل تعریف تھا۔ انہوں ہماری ناری شکتی کے جذبے کو روشن کیا ہے۔,জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে ৰাণী ভেলু নাচিয়াৰক স্মৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%9F%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 19/جنوری 2022 ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور موریشس کے وزیر اعظم پروند کمار جگناتھ 20 جنوری 2022 کو موریشس میں بھارت کی مدد سے تیار کئے گئے سوشل ہاؤسنگ یونٹس پروجیکٹ کا مشترکہ طور پر ورچول طریقے سے افتتاح کریں گے۔ دونوں معززین موریشس میں بھارت کے ترقیاتی تعاون کے تحت سر انجام دیئے جارہے سول سروس کالج اور 8 میگاواٹ کے سولر پی وی فارم پروجیکٹوں کا آغاز بھی کریں گے۔ میٹرو ایکسپریس پروجیکٹ اور دیگر بنیادی ڈھانچہ جاتی پروجیکٹوں کے لئے موریشس کو بھارت کی جانب سے دیے جانے والے 190 ملین امریکی ڈالر کے لائن آف کریڈٹ (ایل او سی) سے متعلق ایک معاہدہ اور چھوٹے ترقیاتی پروجیکٹوں کے نفاذ سے متعلق مفاہمت نامہ کا بھی تبادلہ کیا جائے گا۔,যুটীয়া ভাবে প্ৰকল্পৰ উদ্বোধন আৰু মুকলি কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু মৰিচাছৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী প্ৰৱীন্দ কুমাৰ জগন্নাথ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے مہاراشٹر میں سیلسورا کے نزدیک ہوئے ایک حادثے میں جانوں کے اتلاف پراپنے گہرے رنج وغم کااظہارکیاہے ۔ وزیراعظم نے متاثرین کے لئے وزیراعظم کے قوم�� راحت فنڈ (پی ایم این آرایف ) سے امدادکابھی اعلان کیاہے ۔ سلسلے وار ٹویٹس میں وزیراعظم کے دفترنے ٹوئیٹ کیا : ‘‘مہاراشٹر میں سیلسورا کے نزدیک ایک حادثے کی وجہ سے ہوئے جانوں کے نقصان پر بہت دکھ ہواہے ۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری ہمدردیاں ، اپنے چہیتوں سے محروم ہوجانے والوں کے ساتھ ہیں ۔ میں اس حادثے میں زخمی افراد کی جلد صحت یانی کے لئے دعاگوہوں ’’:وزیراعظم وزیراعظم نریندرمودی نے اعلان کیاہے کہ سیلسورا کے نزدیک اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو پی ایم این آرایف سے دو –دولاکھ روپے کی مدد دی جائے ۔ زخمی ہونےوالے افراد کو 50000روپے دیئے جائیں گے ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মহাৰাষ্ট্ৰৰ দুৰ্ঘটনাৰ মৃতকসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%AC%D9%85%D8%A8%DB%92-%D8%AA%D8%A7%D8%B4%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82%D8%A7%D9%84-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اروناچل قانون ساز اسمبلی کے رکن جناب جمبے تاشی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ""جناب جمبے تاشی جی کے اچانک انتقال سے مجھے تکلیف پہنچی ہے ۔ وہ ایک ذہین رہنما تھے جو معاشرے کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اروناچل پردیش کی ترقی کے لیے سخت محنت کی۔ اس دکھ کی گھڑی میں میری ہمدردیاں ان کے اہل خانہ اور متعلقین کے ساتھ ہیں۔ اوم منی پدمے ہم۔ @PemaKhand""",জাম্বে তাছিৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D9%88%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%BE%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D9%81%DB%8C%D9%84%DA%88-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%A3%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%86/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گوا کے موپا بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح کیا۔ ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد نومبر 2016 میں وزیر اعظم نے ہی رکھا تھا۔ تقریباً 2,870 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے ہوائی اڈے کو پائیدار انفرا اسٹرکچر کی تھیم پر بنایا گیا ہے اور اس میں ایک سولر پاور پلانٹ، گرین بلڈنگز، رن وے پر ایل ای ڈی لائٹس، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، ری سائیکلنگ کی سہولیات کے ساتھ ساتھ جدید ترین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ او رایسی ہی دیگر سہولیات شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر، ہوائی اڈے کا پہلا مرحلہ سالانہ تقریباً 4.4 ملین مسافروں (ایم پی پی اے) کو خدمات مہیا کرائے گا، جسے 33 ایم پی پی اے کی سیچوریشن کیپیسٹی تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے موپا میں گرین فیلڈ ہوائی اڈے کے افتتاح کے لیے گوا اور ملک کے تمام شہریوں کو مبارکباد دی۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں گوا کے اپنے دوروں کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ گوا کے لوگوں نے ان کے تئیں جو محبت اور پیار دکھایا ہے اس کا بدلہ ترقی کی صورت میں سود کے ساتھ دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ جدید ہوائی اڈہ ٹرمینل احسان کا بدلہ چکا نے کی کوشش ہے۔‘‘ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ہوائی اڈے کا نام آنجہانی منوہر پاریکر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ماضی میں حکومتوں کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر پر تبص��ہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ شہریوں کی ضروریات کی بجائے ووٹ بینک اولین ترجیح رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے منصوبوں پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے گئے جن کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ نتیجتاً وہ مقامات جن کو انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کی اشد ضرورت تھی وہ نظر انداز ہی رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’گوا بین الاقوامی ہوائی اڈہ اس کی واضح مثال ہے‘‘۔ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو یاد کرتے ہوئے جس نے ابتدائی طور پر اس ہوائی اڈے کی منصوبہ بندی کی تھی، وزیر اعظم نے ان کی حکومت کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد کوششوں کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا اور یہ منصوبہ کئی سالوں تک لاوارث رہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2014 میں ایک بار جب ڈبل انجن والی حکومت منظرعام پر آئی تو ایئرپورٹ پر کام کو نئی رفتار ملی اور انہوں نے قانونی رکاوٹوں اور وبا کے باوجود 6 سال قبل سنگ بنیاد رکھا، یہ ایئرپورٹ آج کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہوائی اڈے پر سالانہ تقریباً 40 لاکھ مسافروں کو سنبھالنے کی سہولت موجود ہے جسے مستقبل میں 3.5 کروڑ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ سیاحت کے فوائد کے علاوہ، دو ہوائی اڈوں کی موجودگی نے گوا کے لیے کارگو ہب کے طور پر نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ وزیر اعظم نے نشان دہی کی کہ منوہر بین الاقوامی ہوائی اڈہ بدلے ہوئے کام کرنے کے انداز اور طرز حکمرانی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 سے پہلے، ہوائی سفر خوش حال لوگوں کے لیے ایک اشرافیہ سے متعلق معاملہ تھا۔ ہوائی سفر کے لیے عام شہری کی خواہش کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوائی اڈوں اور ہوائی سفر سے متعلق دیگر بنیادی ڈھانچے میں کم سرمایہ کاری ہوئی اور ہندوستان بڑی صلاحیت کے باوجود ہوائی سفر کے معاملے میں پیچھے رہ گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کے پہلے 70 سالوں میں ملک میں ہوائی اڈوں کی تعداد صرف 70 تھی اور ہوائی سفر بڑے شہروں تک محدود تھا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ حکومت نے 2 سطحوں پر کام کیا۔ پہلے ایئرپورٹ نیٹ ورک کو پورے ملک میں پھیلایا گیا۔ دوسرا، عام شہریوں کو اڑان اسکیم کے ذریعے ہوائی سفر کا موقع ملا۔ پچھلے 8 سالوں میں 72 ہوائی اڈے بنائے گئے ہیں جبکہ اس سے پہلے کے 70 سالوں میں یہ تعداد 70 تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں ہوائی اڈوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ مزید برآں، سال 2000 میں صرف 6 کروڑ مسافروں کے مقابلے میں 2020 میں ہوائی مسافروں کی تعداد بڑھ کر 14 کروڑ سے زیادہ ہو گئی (وبا سے پہلے)۔ اڑان اسکیم کے تحت 1 کروڑ سے زیادہ مسافروں نے پرواز کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ان اقدامات کی وجہ سے، ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی ایوی ایشن مارکیٹ بن گیا ہے‘‘۔ اڑان یوجنا کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس میں علمی دنیا کے لیے ایک کیس اسٹڈی بننے کی صلاحیت ہے۔ وزیر اعظم نے متوسط طبقے کے بدلتے ہوئے رجحان پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کم فاصلے کے لیے بھی ریلوے کی بجائے لوگ ہوائی ٹکٹ کے بارے میں تلاش و جستجو کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے ملک میں فضائی رابطے کا نیٹ ورک پھیل رہا ہے، ہوائی سفر تیزی سے نقل و حمل کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’یہ سچ ہے کہ سیاحت کسی قوم کی سافٹ پاور کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے، جب ایک قوم مضبوط ہوتی ہے، دنیا اس قوم کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اگر ہندوستان کی خوشحال تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ پوری دنیا کے لیے کشش کا مرکز ��ھا جہاں اسکالر، مسافر، تاجر، صنعت کار اور طلباء اس سرزمین کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہندوستان آتے تھے۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کو درپیش غلامی کے سیاہ وقت پر بھی افسوس کا اظہار کیا جس نے ثقافت اور روایات جوں کی توں رہنے کے باوجود اس ملک کی تصویر اور نقطہ نظر کو بدل دیا۔ وزیر اعظم نےکہا کہ ’’21ویں صدی کا ہندوستان نیا ہندوستان ہے جو عالمی پلیٹ فارم پر اپنی شناخت بنا رہا ہے، اور اس کے نتیجے میں دنیا کا نقطہ نظر تیزی سے بدل رہا ہے‘‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج کی دنیا ہندوستان کو جاننا اور اس کے طور طریقوں کو سمجھنا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سارے غیر ملکی افراد ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ہندوستان کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے گزشتہ 8 سالوں میں سفر کی آسانی کو یقینی بنانے اور ملک کے سیاحتی پروفائل کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات پیش کیں۔ انہوں نے ویزا کے عمل میں نرمی، ویزہ آن ارائیول کی بہتر سہولیات، جدید انفرا اسٹرکچر اور لاسٹ میل کنکٹیوٹی، اور اس کے ساتھ ڈیجیٹل، موبائل اور ریلوے کنکٹیوٹی کے بارے میں بات کی۔ ان اقدامات کے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ 2015 میں ہندوستان میں گھریلو سیاحوں کی تعداد 14 کروڑ تھی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 70 کروڑ ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سیاحت میں روزگار اور خود روزگار کی سب سے بڑی صلاحیت ہے۔ انھوں نے گوا میں سیاحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے اقدامات کی وضاحت کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’2014 سے ریاست میں ہائی وے پروجیکٹوں میں 10 ہزار کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ گوا میں ٹریفک کے مسئلے کو بھی حل کیا جا رہا ہے۔ کونکن ریلوے کی برق کاری سے بھی ریاست کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ کنکٹیوٹی بڑھانے کے علاوہ، حکومت کی توجہ یادگاروں کی دیکھ بھال، رابطے اور متعلقہ سہولیات کو بہتر بنا کر ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے پر بھی ہے۔ جناب مودی نے اس کوشش کی ایک مثال کے طور پر اگوڈا جیل کمپلیکس میوزیم کی ترقی کا ذکر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یادگاروں کو مزید پرکشش بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے اور خصوصی ٹرینوں کے ذریعے زیارت گاہوں اور یادگاروں کے سفر کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے گوا حکومت کی کوششوں کی بھی تعریف کی کہ وہ سماجی بنیادی ڈھانچے کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتی ہے جتنی فزیکل انفرا اسٹرکچر کو۔ وزیر اعظم نے سویم پورنا گوا ابھیان کی کامیابی کی تعریف کی جو کہ زندگی میں آسانی کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کلید ہے کہ کوئی بھی شہری سرکاری اسکیموں سے محروم نہ رہے۔ وزیر اعظم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’آج، گوا ایک 100 فیصد سیچوریشن ماڈل کی بہترین مثال بن گیا ہے‘‘۔ انہوں نے ریاست میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے سب کی حوصلہ افزائی کی۔ اس موقع پر گوا کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر پرمود ساونت، گوا کے گورنر جناب پی ایس سری دھرن پلئی، شہری ہوا بازی کے مرکزی وزیر جناب جیوترادتیہ سندھیا اور بندرگاہ، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کے مرکزی وزیر جناب شریپد یسو نائک بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پس منظر وزیراعظم کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ ملک بھر میں عالمی معیار کا انفرا اسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کی طرف ایک اور قدم میں وزیر اعظم نے گوا کے موپا بین الاقوامی ہوائی اڈ�� کا افتتاح کیا۔ ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد نومبر 2016 میں وزیر اعظم نے رکھا تھا۔ تقریباً 2,870 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہوائی اڈہ پائیدار بنیادی ڈھانچے کے تھیم پر بنایا گیا ہے اور اس میں سولر پاور پلانٹ، گرین بلڈنگز، رن وے پر ایل ای ڈی لائٹس، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، جدید ترین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ، ایسی دیگر سہولیات کے ساتھ ری سائیکلنگ کی سہولیات شامل ہیں۔ اس نے کچھ بہترین قسم کی ٹیکنالوجیز کو اپنایا ہے جیسے 3ڈی مونولیتھک پری کاسٹ عمارتیں، اسٹیبل روڈ، روبومیٹک ہولو پری کاسٹ والس، اور 5 جی ہم آہنگ آئی ٹی انفراسٹرکچر۔ ہوائی اڈے کی کچھ خصوصیات میں دنیا کے سب سے بڑے ہوائی جہازوں کو سنبھالنے کے قابل رن وے، 14 پارکنگ بے کے ساتھ ساتھ ہوائی جہازوں کے لیے نائٹ پارکنگ کی سہولت، سیلف بیگج ڈراپ کی سہولیات، جدید ترین اور آزاد فضائی نیویگیشن انفرا اسٹرکچر شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر، ہوائی اڈے کا پہلا مرحلہ سالانہ تقریباً 4.4 ملین مسافروں (ایم پی پی اے) کو خدمات دستیاب کرائے گا، جسے 33 ایم پی پی اے کی سیچوریشن کیپیسٹی تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہوائی اڈہ ریاست کی سماجی اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا اور سیاحت کی صنعت کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ یہ ایک اہم لاجسٹک مرکز کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو بہت سے ملکی اور بین الاقوامی مقامات کو براہ راست جوڑتا ہے۔ ہوائی اڈے کے لیے ملٹی ماڈل کنکٹیوٹی کا بھی منصوبہ ہے۔ عالمی معیار کا ہوائی اڈہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہوائی اڈہ مہمانوں کو گوا کا احساس اور تجربہ بھی فراہم کرے گا۔ ہوائی اڈے نے بڑے پیمانے پر ایزولیجوس ٹائلوں کا استعمال کیا ہے، جو کہ گوا میں پائے جاتے ہیں۔ فوڈ کورٹ گوا کے ایک عام کیفے کی دلکشی کو بھی ازسرنو پیش کرتا ہے۔ اس میں کیوریٹڈ فلی مارکیٹ کے لیے ایک مخصوص علاقہ بھی ہوگا، جہاں مقامی کاریگروں اور دست کاروں کو اپنے سامان کی نمائش اور مارکیٹنگ کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔",গোৱাৰ মোপাত গ্ৰীণফিল্ড আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় বিমানবন্দৰ উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%DB%81%DB%8C-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%A8%D8%AC%D9%B9-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%AB%D8%A8%D8%AA-%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%87/,نئی دہلی 23 فروری 20222 نمسکار! کابینہ کے میرے سبھی ساتھیوں، ریاستی سرکاروں کے نمائندوں، سماجی تنظیموں سے وابستہ ساتھیوں، خاص طور پر شمال مشرق کے دور دراز کے علاقوں کے ساتھیوں! خواتین اور حضرات، بجٹ کے بعد، بجٹ اعلانات کو نافذ کرنے کی سمت میں آج آپ سبھی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت اپنے آپ میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ہماری سرکار کی پالیسی اور اقدامات، اس کے بنیادی نتیجہ کا فارمولہ ہے۔ آج کا موضوع ’کوئی بھی شہری محروم نہ رہے‘ بھی اسی فارمولے سے نکلا ہے۔آزادی کے امرت کال کے لئے جو عزائم ہم نے کئے ہیں وہ سب کی کوششوں سے ہی پورے کئے جاسکتے ہیں۔ سب کا پریاس، اسی وقت ممکن ہے کہ جب سب کا وکاس (ترقی) ہوگا۔ ہر شخص، ہر طبقہ اور ہر علاقے کو وکاس (ترقی) کے سبھی فائدے ملیں گے۔ اسی لئے گزشتہ برسوں میں ہم ملک کے ہر شہری، ہر علاقے کی گنجائشوں اور طاقت کو بڑھانے کے لئے مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ ملک کے گاوؤں کو پکے گھروں، بیت الخلا، گیس، بجلی، پانی، سڑک جیسی بنیادی سہولتوں سے منسلک کرنے سے متعلق اسکیموں کا یہی مقصد ہے۔ ملک نے ان میں بہت کامیابی حاصل بھی کی ہے، لیکن اب وقت ہے ان اسکیموں کے سیچوریشن کا، ان کے سوفیصد اہداف کو حاصل کرنے کا۔ اس لئے ہمیں نئی حکمت عملی بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ نگرانی کے لئے، جوابدہی کے لئے، ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے، نئے نظام کو وضع کرنا ہوگا۔ ہمیں پوری طاقت لگانی ہوگی۔ ساتھیو، اس بجٹ میں سرکار کے ذریعہ سیچوریشن کے اس بڑے ہدف کو حاصل کرنے کی غرض سے ایک واضح روڈ میپ دیاگیا ہے۔ بجٹ میں پی ایم آواس یوجنا، گرامین سڑک یوجنا، جل جیون مشن، شمال مشرق کی کنکٹی وٹی، گاوؤں کی براڈ بینڈ کنکٹی وٹی، اس قسم کی ہر اسکیم کے لئے ضروری بندوبست کیاگیا ہے۔ یہ دیہی علاقوں، شمال مشرق کے سرحد کے علاقوں اور امنگوں والے اضلاع میں سہولتوں کی سیچوریشن کی طرف بڑھنے کی کوششوں کا بھی حصہ ہے۔ بجٹ میں جس وائبرینٹ ولیج پروگرام کا اعلان کیاگیا ہے وہ ہمارے سرحدی گاوؤں کی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔وزیر اعظم کی شمال مشرقی خطے کی ترقی سے متعلق پہل کے تحت مقررہ وقت کے اندر ترقی کی اسکیموں کے صد فیصد فوائد کو طے کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ ساتھیو، گاووں کی ترقی میں وہاں گھر اور زمین کا پراپر ڈیمارکیشن ضروری ہے۔ سوامتوا یوجنا سے اس میں کافی مدد مل رہی ہے۔ ابھی تک اسکے تحت 40 لاکھ سے زیادہ پراپرٹی کارڈ ذریعہ کئے جاچکے ہیں۔ لینڈریکارڈس کے رجسٹریشن کے لئے ایک نیشنل سسٹم اور ایک یونک لینڈ آئیڈینٹی فکیشن پن ایک بہت بڑی سہولت ہوگی۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ پر گاوں کے عام لوگوں کا انحصار کم سے کم ہو، ہمیں یہ یقینی بنانا ہے۔ لینڈریکارڈس کے ڈیجیٹائزیشن اور ڈیمارکیشن سے جڑے سالیوشن کو جدید ٹکنالوجی سے جوڑنا آج کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سبھی ریاستی حکومتیں اگر وقت مقرر کرکے کام کریں گی تو گاوں کی ترقی کو کافی زیادہ رفتار ملے گی۔ یہ ایسے ری فارمس ہیں جو گاوں میں انفرااسٹرکچر کے پروجیکٹس کی تعمیر کی رفتار کو بڑھائیں گے اور گاوں میں بزنس ایکٹیوٹی کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے۔ الگ الگ اسکیموں میں 100 فیصد ہدف کے حصول کے لئے ہمیں نئی ٹکنالوجی پر بھی فوکس کرنا ہوگا تاکہ تیزی سے پروجیکٹس بھی پورے ہوں اور کوالٹی بھی کمپرومائز نہ ہو۔ ساتھیو، اس سال کے بجٹ میں پی ایم آواس یوجنا کے لئے 48 ہزار کروڑ روپئے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔ اس سال 80 لاکھ گھربنانے جو نشانہ ہے اسے بھی مقررہ وقت پر پورا کرنے کےلئے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ آج ملک کے چھ شہروں میں افورڈیبل ہاؤسنگ کے لئے نئی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ، 6 لائٹ ہاؤس پرجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ اس طرح کی ٹکنالوجی گاؤں کے گھروں میں کیسے استعمال ہو، ہمارے ایکوسینسٹیو زونز میں ہورہی کنسٹرکشن کے لئے ہم نئی ٹکنالوجی کا استعمال کیسے کرسکتے ہیں ، ان کے سالیوشن پر ایک مثبت اور سنجیدگی سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ گاؤں میں ، پہاڑی علاقوں میں ، نارتھ ایسٹ میں سڑکوں کے مینٹیننس بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ مقامی جغرافیائی صورتحال کے مطابق طویل عرصے تک برقرار رہ سکے ، ایسے مٹیریل کی شناخت ، اس کا سالیوشن بھی بہت ضروری ہے۔ ساتھیو، جل جیون مشن کے تحت تقریباً 4 کروڑ کنکشن دینے کا ٹارگیٹ ہم نے رکھا ہے ۔ اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنی محنت اور بڑھانی ہوگی۔ میری ہر ریاست حکومت سے یہ بھی درخواست ہے کہ جو پائپ لائن بچھ رہی ہیں، جو پانی آرہا ہے، اس کی کوالٹی پر بھی ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گاوں کی سطح پر لوگوں میں ایک سینس آف آنرشپ آئے ، واٹرگورننس کو تقویت ملے ، یہ بھی اس اسکیم کا ایک ہدف ہے۔ ان سبھی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں 2024 تک ہر گھر تک نل سے جل پہنچانا ہے۔ ساتھیو، گاوں کی ڈیجیٹل کنکٹیوٹی اب محض ایک ایسپریشن نہیں ہے، بلکہ آج کی ضرورت ہے براڈ بینڈکنکٹیوٹی سے گاوں میں سہولیات ہی نہیں ملیں گی ، بلکہ یہ گاؤوں میں اسکلڈنوجوانوں کا ایک بڑا پول تیار کرنے میں بھی مدد کرے گی۔ گاؤوں میں براڈبینڈکنکٹیوٹی سے سروس سیکٹر کی توسیع جب ہوگی تو ملک کی طاقت اور زیادہ بڑھے گی۔ آپٹیکل فائبر کنکٹیوٹی میں اگر کہیں کوئی دقتیں آرہی ہیں تو ان کی پہچان اور ان کا حل ہمیں تلاش کرنا ہی ہوگا۔ جن جن گاؤں میں کام پورا ہوچکا ہے وہاں کوالٹی اور اس کے پراپر یوز کے تئیں بیداری پھیلانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ 100 فیصد پوسٹ آفس کو کور بینکنگ سسٹم میں لانے کا فیصلہ بھی ایک بڑا قدم ہے ۔ جن دھن یوجنا سے فائنانشل انکلوزن کی جو مہم ہم نے شروع کی تھی ، اس کو سیچوریشن تک پہنچانے میں اس قدم سے تقویت ملے گی۔ ساتھیو، دیہی معیشت کی ایک بڑی ماتر شکتی ہے، ہماری خواتین طاقت ور ہیں۔ فائنانشیل انکلوزن نے کنبوں میں خواتین کی معاشی فیصلوں میں زیادہ حصہ داری کو یقینی بنایا ہے۔ سیلف ہیلپ گروپوں کے توسط سے خواتین کی اس حصہ داری کو اور زیادہ وسعت دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو کیسے لے کر جائیں اس کے لئے بھی آپ کو اپنی کوششیں بڑھانی ہوں گی۔ ساتھیو! اس بجٹ میں اعلان کئے گئے سبھی پروگراموں کو ہم مقررہ وقت کے اندر کیسے پورا کر سکتے ہیں، سبھی وزارتوں، سبھی اسٹیک ہولڈرس کا کنورژن کیسے یقینی بنا سکتے ہیں، اس کو لے کر اس سیمینار میں تفصیلی گفتگو متوقع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لیونگ نو سٹیزن بی ہائنڈ (کوئی شہری پیچھے نہ رہ جائے)، کا مقصد ایسی کوششوں سے پورا ہوگا۔ میری یہ بھی گزارش ہے کہ اس طرح کے سمٹ میں ہم سرکار کی طرف سے زیادہ کچھ بولنا نہیں چاہتے ہیں، ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں ، ہم آپ کے تجربات کو جاننا چاہتے ہیں، ہم ہمارے گاؤں کی صلاحیت کیسے بڑھائیں، پہلے تو گورنرس کے نقطہ نظر سے ، آپ سوچئے کبھی، کیا کبھی گاؤں کے اندر جتنی سرکاری ایجنسیوں کا کوئی نہ کوئی رول ہوتا ہے، وہ گاؤں کی سطح پر کبھی دو چار گھنٹے ایک ساتھ بیٹھ کر کے اس گاؤں میں ساتھ مل کر کے کیا کرسکتے ہیں، گفتگو کی ہے، میں طویل عرصے تک ریاست میں وزیراعلیٰ رہ کر کے آیا ہوں، مجھے تجربہ ہے کہ یہ میری عادت نہیں ہے۔ ایک دن میں ایگریکلچر والا جائے گا، دوسرے دن میں آب پاشی والا جائے گا ، تیسرے دن صحت والا جائے گا، چوتھے دن تعلیم والا جائے گا اور ایک دوسرے کو کوئی پتہ نہیں ہوگا، اس گاؤں میں کوئی دن طے کرکے جتنی متعلقہ ایجنسی ایک ساتھ مل کر بیٹھیں، گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، گاؤں کی منتخبہ ادارے کے ساتھ بیٹھیں، بیٹھ کر کہ آج ہمارے گاؤں کے لئے پیسہ اتنا مسئلہ نہیں جتنا کہ ہماری الگ تھلگ رہنےکی عادت کو ختم کرنا، کنورژن ہونا اور اس کا فائدہ لینا۔ اب آپ سوچیں گے کہ بھائی، نیشنل ایجوکیشن پالیسی اور دیہی ترقی کا کیا لینا، اب آپ سوچئے نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں ایک موضوع ہے کہ بھائی آپ مقامی جو ہنر ہے اس سے بچوں کو متعارف کرایئے، آپ مقامی علاقوں میں ٹور کے لئے جایئے، کیا کبھی ہم سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے جو وائیبرینٹ بارڈر ولیج کی سوچ ہے، ہم اس بلاک میں جو اسکول ہے، اس کی نشان دہی کریں۔ کہیں پر آٹھویں کلاس کے بچے ، کئی پر نویں کلاس کے بچوں کا، کہیں دسویں کلاس کے بچے، دو دن کے لئے ایک رات ، وہاں قیام کرنا، جو آخری ولیج ہے، اس کا ٹور کریں، ولیج کو دیکھیں، ولیج کے پیڑ پودوں کو دیکھیں، وہاں کے لوگوں کی زندگی کو دیکھیں، وائبرنسی آنا شروع ہو جائے گی۔ تحصیل سینٹر پر رہنے والا بچہ 40-50-100 کلو میٹر جا کر آخری سرحدی ولیج جائے گا، اپنے بارڈر کو دیکھے گا، اب ہے تو وہ ایجوکیشن کا پروگرام، لیکن ہمارے وائبرنٹ بارڈر ولیج کے لئے وہ کام آسکتا ہے، تو ہم ایسے کچھ انتظامات ڈیولپ کرسکتے ہیں کیا؟ اب ہم طے کریں کہ تحصیل لیول کی جتنی مقابلہ آرائیاں ہوں گی، وہ سارے پروگرام ہم بارڈر ولیج پر کریں گے، اپنے آپ وائبرنسی آنا شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح سے ہم کبھی سو چیں کہ ہمارے گاؤں میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو کہیں نہ کہیں سرکار میں کام کرتے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو ہمارے گاؤں کے ہیں لیکن اب سرکار میں سے ریٹائر ہو کر یا تو گاؤں میں رہتے ہیں یا قریب ہی کہیں نگر میں رہتے ہیں، اگر ایسا بندو بست ہے تو کیا کبھی سرکار سے جڑے ہوئے یا سرکار کی پنشن پر، یا سرکار کی تنخواہ پر، جن کا تعلق ہے، کیا سال میں ایک بار یہ سب لوگ اکھٹے ہو سکتے ہیں گاؤں میں؟ چلو بھائی یہ میرا گاؤں ہے، میں تو چلا گیا، نوکری کر رہا ہوں، شہر چلا گیا لیکن آیئے اپن بیٹھتے ہیں، اپنے گاؤں کے لئے ہم سرکار میں رہ رہے ہیں۔ سرکار کو جانتے ہیں، بندو بست کرو، چلو مل کر کام کرتے ہیں۔ یعنی یہ ہوئی نئی حکمت عملی۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ گاؤں کا جنم دن طے کریں اور گاؤں کا جنم دن منائیں گے۔ گاؤں کے لوگ 10-15 دن منانے کے بعد گاؤں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔ گاؤں کے ساتھ یہ وابستگی گاؤں کو اتنا ہی مالا مال کرے گی جتنا یہ بجٹ سے ہوگا، اس سے بھی زیادہ ہر ایک کی کوششوں سے ہوگا۔ ہم نئی حکمت عملی کے ساتھ ہیں، اب جیسا کہ ہمارے پاس کرشی وگیان کیندر ہے، کیا ہم فیصلہ کر سکتے ہیں، بھائی ہمارے گاؤں میں دو سو کسان ہیں، آئیے اس بار 50 کسانوں کو قدرتی کھیتی کی طرف لے جائیں۔ کیا ہم کبھی سوچ سکتے ہیں؟ ہمارے یہاں موجود زرعی یونیورسٹیوں میں زیادہ تر بچے دیہی ماحول سے پڑھنے آتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان یونیورسٹیوں میں جا کر دیہی ترقی کی مکمل تصویر ان بچوں کے سامنے رکھی ہے جو چھٹیوں میں اپنے گاؤں جاتے ہیں، گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑے بھی پڑھے لکھے ہیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا، حکومت کی اسکیموں کو سمجھیں گے، اپنے گاؤں کے لیے کام کریں گے۔ یعنی کیا ہم کوئی نئی حکمت عملی سوچ سکتے ہیں؟ اور ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں پیداوار سے زیادہ نتائج پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ آج بہت پیسہ گاؤں جاتا ہے۔ اگر وہ رقم صحیح وقت پر استعمال کی جائے تو ہم گاؤں کی حالت بدل سکتے ہیں۔ گاؤں کے اندر ایک طرح سے ہمیں ولیج سیکرٹریٹ کہا جاتا ہے اور جب میں ولیج سیکرٹریٹ کہوں گا تو ہم سوچیں گے کہ کوئی عمارت ہونی چاہیے۔ سب کے بیٹھنے کے لیے چیمبر، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ چاہے آج ہم جہاں کہیں بیٹھیں گے، اتنی چھوٹی جگہ پر بیٹھیں گے، لیکن مل کر تعلیم کے لیے کچھ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ آپ نے بھی اسی طرح دیکھا ہوگا۔ حکومت ہند نے خواہش مند اضلاع کا پروگرام شروع کیا۔ ایسا شاندار تجربہ ہو رہا ہے کہ جیسے اضلاع کے درمیان مقابلہ شروع ہو گیا ہو۔ ہر ضلع یہ محسوس کر رہا ہے کہ میں اپنی ریاست میں پیچھے نہیں رہوں گا۔ بہت سے اضلاع محسوس کرتے ہیں کہ وہ قومی اوسط سے آگے نکلنا چاہتے ہیں ۔ کیا آپ اپنی تحصیل میں آٹھ یا دس پیرامیٹرز طے کریں گے؟ ان آٹھ دس پیرامیٹرز میں سے ہر تین ماہ بعد مقابلے کا نتیجہ سامنے آنا چاہیے کہ اس کام میں کون سا گاؤں آگے نکلا ہے؟ کون سا گاؤں آگے ہے؟ آج ہم کیا کرتے ہیں، بہترین گاؤں کے لیے ریاستی سطح کا ایوارڈ دیتے ہیں، بہترین گاؤں کے لیے قومی سطح کا ایوارڈ دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر گاؤں میں ہی تحصیل سطح پر پچاس ، سو،ڈیڑھ سو، دو سو دیہات ہیں تو ان کے پیرامیٹرز طے کریں، کہ یہ دس مضامین ہیں، آئیے 2022 میں ان دس مضامین کے لیے مقابلہ کریں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان دس مضامین میں کون آگے آتا ہے۔ آپ دیکھیں گے، تبدیلی شروع ہو جائے گی اور جب اسے بلاک کی سطح پر تسلیم کیا جائے گا، تبدیلی شروع ہو جائے گی اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بجٹ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آج ہمیں زمین پر نتائج اور تبدیلی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ کیا گاؤں کے اندر یہ مزاج نہیں بن سکتا کہ ہمارے گاؤں کا کوئی بچہ نقص تغذیہ کا شکار نہ ہو؟ میں کہتا ہوں کہ وہ حکومت کے بجٹ کی پرواہ نہیں کرے گا، ایک بار جب اس کے دل میں یہ بات آگئی تو گاؤں کے لوگ کسی بچے کوبد غذائیت کا شکار نہیں رہنے دیں گے۔ آج بھی ہمارے یہاں یہ رسم ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایک بھی ڈراپ آؤٹ نہیں ہوگا، آپ دیکھیں گاؤں کے لوگ اس میں شامل ہوجائیں گے۔ ہم نے یہ دیکھا ہے، گاؤں کے بہت سے لیڈر ایسے ہیں، پنچ ہیں، سرپنچ ہیں لیکن وہ کبھی گاؤں کے اسکول نہیں گئے۔ اور کب گئے تھے؟ جھنڈا سلامی کے دن گئے، باقی کبھی نہیں جاتے۔ ہم اسے عادت کیسے بنائیں؟ یہ میرا گاؤں ہے، یہ میرے گاؤں کے انتظامات ہیں، مجھے اس گاؤں میں جانا ہے اور یہ رہنمائی حکومت کی تمام اکائیوں کو دینی چاہیے۔ اگر ہم یہ رہنمائی نہیں دیتے اور ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چیک کاٹ دیا، ہم نے رقم بھیج دی، یہ ہو گیا، توتبدیلی نہیں آئے گی۔ اور جب ہم آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں اور مہاتما گاندھی کی زندگی سے متعلق کچھ باتیں ہیں تو کیا ہم ان پر عمل پیرا نہیں ہوسکتے؟ صفائی، ہندوستان کی روح گاؤں میں رہتی ہے، مہاتما گاندھی نے ایسا کہا ہے، کیا ہم اسے پورا نہیں کر سکتے؟ ساتھیوں، اگر ریاستی حکومت، مرکزی حکومت، مقامی سوراج تنظیمیں اور ہمارے تمام محکمے مل کر الگ تھلگ رہنے کی عادت کو ختم کرکے یہ کام کرنے کا فیصلہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ ہم بہترین نتائج لاسکتے ہیں۔ آزادی کے 75 سال پر ہمیں بھی ملک کو کچھ دینا چاہیے، اسی مزاج کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ آپ آج پورا دن اس بات پر بحث کرنے والے ہیں کہ گاؤں کی زندگی میں ایک ایک پائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے کیا جائے، ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں، اگر ہم یہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ کوئی شہری پیچھے نہیں رہے گا۔ ہمارا خواب پورا ہوگا۔ میں آپ سب کے لئے میری نیک خواہشات! بہت بہت شکریہ!,গ্ৰামোন্নয়ণৰ ক্ষেত্ৰত কেন্দ্ৰীয় বাজেটৰ ইতিবাচক প্ৰভাৱ সন্দৰ্ভত অনুষ্ঠিত ৱে’বিনাৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%81%D9%85%D8%A7%DA%86%D9%84-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7/,نمسکار! ہماچل پردیش دیوس کے موقع پر دیوبھومی کے تمام باشندگان کو تہہ دل سے مبارکباد۔ یہ بہت ہی اچھا اتفاق ہے کہ ملک کی آزادی کے 75ویں برس میں، ہماچل پردیش بھی اپنا 75واں یوم تاسیس منا رہا ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں، ہماچل پردیش میں ترقی کا امرت ریاست کے ہر باشندے تک مسلسل پہنچتا رہے، اس کے لیے ہم سبھی کی کوششیں جاری ہیں۔ ہماچل کے لیے اٹل جی نے کبھی لکھا تھا۔ برف ڈھکی پروت مالائیں، ندیاں، جھرنے، جنگل، کنرِیوں کا دیش، دیوتا ڈولیں پل پل! خوش قسمتی سے مجھے بھی فطرت کے بیش قیمتی تحائف، انسانی صلاحیت کی انتہا اور پتھر کو چیر کر اپنی قسمت بنانے والے ہماچل کے باشندگان کے درمیان رہنے کا، ان سے ملاقات کا موقع کئی بار حاصل ہوا ہے۔ ساتھیو، 1948 میں جب ہماچل پردیش کا قیام عمل میں آیا تھا، تب پہاڑ جیسی چنوتیاں درپیش تھیں۔ چھوٹی پہاڑی ریاست ہونے کی وجہ سے، مشکل حالات اور چنوتی بھرے جغرافیہ کے سبب امکانات کے مقابلے تشویشات زیادہ تھیں۔ لیکن ہماچل کے محنتی، ایماندار اور جفاکش لوگوں نے اس چنوتی کو مواقع میں تبدیل کر دیا۔ باغبانی، پاور سرپلس ریاست، شرح خواندگی، گاؤں گاؤں تک سڑک سہولت، گھر گھر پانی اور بجلی کی سہولت، جیسے کام اس پہاڑی ریاست کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔ گذشتہ 7۔8 برسوں سے مرکزی حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہماچل کی اہلیت کو، وہاں کی سہولتوں کو مزید بہتر بنایا جائے۔ہمارے نوجوان ساتھی ہماچل کے مقبول عام وزیر اعلیٰ جے رام جی کے ساتھ مل کر دیہی سڑکوں، شاہراہوں کو چوڑا کرنے، ریلوے نیٹ ورک کی توسیع کا جو ذمہ دوہرے انجن والی حکومت نے لیا ہے، اس کے نتائج اب نظر آنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے کنکٹیویٹی بہتر ہو رہی ہے، ویسے ویسے ہماچل کی سیاحت نئے نئے علاقوں میں داخل ہو رہی ہے۔ ہر نیا علاقہ سیاحوں کے لیے فطرت، ثقافت اور ایڈوینچر کے نئے تجربات لے کر آرہا ہے، اور مقامی باشندوں کے لیے روزگار، خودروزگار کے لامحدود مواقع کے دروازے کھول رہا ہے۔ صحتی سہولتوں کو جس طرح بہتر بنایا جا رہا ہے، اس کا نتیجہ کورونا کی تیز رفتار ٹیکہ کاری کی شکل میں ہمیں نظر آیا ہے۔ ساتھیو، ہماچل میں جتنے امکانات ہیں، ان کو مکمل طور پر سامنے لانے کے لیے اب ہمیں تیزی سے کام کرنا ہے۔ آنے والے 25 برسوں میں ہماچل کے قیام اور ملک کی آزادی کے 100 برس مکمل ہونے والے ہیں۔ یہ ہمارے لیے نئے عزائم کا امرت کال ہے۔ اس مدت میں ہمیں ہماچل کو سیاحت، اعلیٰ تعلیم، تحقیق، آئی ٹی، بایوٹکنالوجی، خوراک ڈبہ بندی اور قدرتی طریقہ کاشت جیسے شعبوں میں مزید تیز رفتاری سے آگے لے جانا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں اعلان کردہ وائبرینٹ ولیج اسکیم اور پروت مالا یوجنا سے بھی ہماچل پردیش کو بہت فائدہ حاصل ہوگا۔ یہ اسکیمیں ہماچل پردیش میں دور دراز کے علاقوں میں کنکٹیویٹی میں اضافہ کریں گی، سیاحت کو فروغ دیں گی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کریں گی۔ ہمیں ہماچل کی ہریالی میں اضافہ کرنا ہے، جنگلوں کو مزید وسعت دینا ہے۔ بیت الخلاؤں کو لے کر ہوا بہترین کام اب صفائی ستھرائی کے دیگر پیمانوں کو بھی ترغیب فراہم کرے، اس کے لیے عوامی شراکت داری میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ ساتھیو، مرکز کی فلاحی اسکیموں کو جے رام جی کی سرکار اور ان کی پوری ٹیم نے کافی توسیع دی ہے۔ خصوصاً سماجی تحفظ کے معاملے میں ہماچل میں قابل تع��یف کام ہو رہا ہے۔ ایماندار قیادت، پرامن ماحول، دیوی دیوتاؤں کا آشیرواد اور ازحد محنتی ہماچل کے لوگ، یہ سب غیر معمولی چیزیں ہیں۔ ہماچل کے پاس تیزرفتار ترقی کے لیے درکار ہر چیز موجود ہے۔ خوشحال اور مضبوط بھارت کی تعمیر کے لیے ہماچل اپنے تعاون میں مسلسل اضافہ کرتا رہے، یہی میری خواہش ہے! بہت بہت شکریہ!,হিমাচল দিৱস উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%DA%BE%D9%B9%DA%BE-%D9%BE%D9%88%D8%AC%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%A0-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%9C%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ، چھٹھ پوجا کے موقع پر قوم کو مبارکباد پیش کی ہے۔ اپنے ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’سورج دیوتا اور فطرت کی پوجا کے لیے وقف چھٹھ کے پرمسرت موقع پر تمام ہم وطنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ بھگوان بھاسکر کی جھلک اور چھٹی میّا کے آشیرواد سے ہر کسی کی زندگی ہمیشہ منور رہے، یہی خواہش ہے۔ ‘‘,ছঠ পূজা উপলক্ষে দেশবাসীক সম্ভাষণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3-%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-37/,وزیر اعظم جناب نریندرمودی نے جمہوریہ فرانس کے صدر عالیجناب امینول میخوں کےساتھ فون پر گفتگو کی ۔ دونوں رہنماؤں نے یوکرین کی موجودہ صورتحال پرتبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے یوکرین میں جاری جنگ اور بگڑتی ہوئی صورتحال ،جس سے لوگ متاثر ہورہے ہیں ، پر اپنی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم مودی نے مخاصمانہ کارروائیوں کو بند کرنے اور سفارتکاری اور مذاکرات کی میز پر لوٹنے کی بھارت کی لگاتار اپیل کو دوہرایا ۔ انہوں نے بھارت کے اس اعتماد پر زور دیا کہ تمام ملکوں کی علاقائی یکجہتی ، اقتدار اعلیٰ ، بین الاقوامی قانون اور ا قوام متحدہ کے چارٹر کے لئے احترام عصری عالمی نظا م کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وزیراعظم نے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کا خیر مقدم کیا اور سبھی لوگوں کو مفت ، بلارکاوٹ اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پردی جانے والی امداد کی رسائی اور آزادانہ نقل وحمل کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے جنگ سے دو چار علاقوں سے اپنے شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے سلسلے میں بھارت کی کوششوں کے بارے میں بھی صدر میخوں کو جانکاری دی اور متاثر ہ آبادی کے لئے دواؤں سمیت فوری راحتی سامان بھیجنے کے بارے میں بھی مطلع کیا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু ফ্ৰান্স গণৰাজ্যৰ ৰাষ্ট্ৰপতি মহামহিম ইমানুৱেল মেক্ৰনৰ মাজত টেলিফোনিক বাৰ্তালা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D9%86%D8%AF%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%BE%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%8C-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%D8%A7%DA%A9-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7-2/,نئی دہلی،5 مئی 2022/ وزیر اعظم نریندر مودی نے گندم کی فراہمی، اسٹاک اور برآمدات کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ وزیراعظم کو مسائل پر تفصیلی پریزنٹیشن دی گئی۔ انہیں فصل کی پیداوار پر مارچ-اپریل 2022 کے مہینوں میں بلند درجہ حرارت کے اثرات کے بارے میں بتایا گیا۔ گندم کی خریداری اور برآمد کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ہندوستان کی زرعی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی روشنی میں، وزیر اعظم نے ہدایت دی کہ معیار ( کوالٹی )کے اصولوں اور معیارات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں تاکہ ہندوستان غذائی اجناس اور دیگر زرعی مصنوعات کے ایک یقینی ذریعہ کے طور پر تیار ہو۔ انہوں نے عہدیداروں سے کسانوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کو یقینی بنانے کو بھی کہا۔ وزیراعظم کو موجودہ بازار بھاؤ کے بارے میں بھی مختصر طور پر بتایا گیا جو کسانوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ میٹنگ میں وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری، مشیران، کابینہ سکریٹری، محکمہ خوراک اور پی ڈی ایس اور زراعت کے سکریٹریوں نے شرکت کی۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অধ্যক্ষতাত ঘেঁহু যোগান, মজুত আৰু ৰপ্তানিৰ স্থিতিৰ পৰ্য্যালোচনা বৈঠ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%9A%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندرمودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے مرکزی حکومت کے ملازمین کے یکم جنوری ، 2022 سے واجب الادا مہنگائی بھتہ (ڈی اے ) کی ایک اضافی قسط اورپینشن یافتگان افراد کے لئے مہنگائی ریلیف (ڈی آر) کے اجراء کے لئے اپنی منظوری دے دی ہے اور اس سلسلے میں قیمتوں میں اضافے کی تلافی کی غرض سے بنیادی تنخواہ /پینشن کی موجودہ شرح 31فیصد میں 3فیصد کا اضافہ کیاگیاہے ۔ یہ اضافہ منظورشدہ فارمولے کے عین مطابق ہے جو کہ ساتویں سینٹرل پے کمیشن کی ہدایات پرمبنی ہے ۔ مہنگائی بھتے اورمہنگائی کی ریلیف ، دونوں کی وجہ سے سرکاری خزانے پرسالانہ 9544.50کروڑروپے کا مشترکہ اثرپڑے گا۔ اس اضافے سے لگ بھگ مرکزی حکومت کے47.68لاکھ ملازمین اور 68.62لاکھ پینشن یافتگان افراد کو فائدہ پہنچے گا۔,কেন্দ্ৰীয় চৰকাৰৰ কৰ্মচাৰী আৰু পেঞ্চনাৰসকলক ২০২২ৰ পহিলা জানুৱাৰীৰ পৰা অতিৰিক্ত আৰু এক কিস্তি মৰগীয়া বানচ দিয়াৰ প্ৰস্তাৱত কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰীসভাৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DB%8C%D8%B1%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D9%8F%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D9%86-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 28دسمبر / مرکزی کابینہ کو وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت اور ساؤ ٹومے اور پرنسیپی کے مابین معاہدے کے اُس فریم ورک سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ اس معاہدے کا تعلق بیرونی خلاء کو پُر امن مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور اس میں کھوج اور تلاش کے عمل میں باہمی تعاون سے ہے ۔ اس معاہدہ فریم ورک پر نئی دلّی میں 7 ستمبر ، 2018 ء کو دستخط عمل میں آئے تھے ۔ اہم نکات مذکورہ فریم ورک معاہدہ کرۂ ارض کی ریموٹ سینسنگ ، سیارچہ مواصلات ، سیارچہ نیوی گیشن ، خلائی سائنس اور بیرونی ��لاء کی تلاش اور کھوج کے شعبوں میں نئی تحقیقی سرگرمیاں چلانے اور عملی امکانات کے سلسلے میں رفتار فراہم کرے گا اور اس کو تقویت فراہم کرے گا ۔ یہ معاہدہ فریم ورک بنی نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے خلائی ٹیکنا لوجیوں کے استعمال کے شعبوں میں مشترکہ سرگرمیوں کو فروغ دینے میں معاون ہوگا ۔ اس طریقے سے دونوں ممالک کے تمام خطے اور علاقے اس سے مستفید ہوں گے ۔ اہم اثرات مذکورہ معاہدہ جاتی فریم ورک کرۂ ارض کی ریموٹ سینسنگ ، سیارچہ مواصلات ، سیارچہ نیوی گیشن ، خلائی سائنس اور بیرونی خلائی حصے کی تلاش وغیرہ کے شعبے میں نئی تحقیقی سرگرمیوں اور امکانات کے استعمال کے لئے تحقیقی امور میں مدد گار ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( م ن ۔ ع ا ),শান্তিপূৰ্ণ উদ্দেশ্যৰ বাবে মহাকাশত গৱেষণা আৰ ব্যৱহাৰৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতা বৃদ্ধিৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু ছাও টমে আৰু প্ৰিন্সিপেৰ মাজত স্বাক্ষৰিত পৰিকাঠামো চুক্তি সম্পৰ্কে অৱগত কৰিলে কেবিনেটক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B1%DB%81%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%A7%D9%86%DA%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%B9%E0%A6%A4-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A7%80-%E0%A6%9A%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D/,نئی دہلی،4جنوری/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج امپھال کا دورہ کیا۔ایک بڑے عوامی جلسے میں جناب مودی نے مورہہ میں ایک مربوط جانچ چوکی کاافتتاح کیا۔ انہوں نے دولائی تھابی بیراج پروجیکٹ، ساؤم بنگ میں ایف سی آئی اناج کے گودام اور پانی کی صفائی اور سیاحت سے متعلق دیگر پروجیکٹوں کا افتتاح کیا۔ انہوں نے 400 کلو واٹ کے ڈبل سرکٹ سلچر۔ امپھال لائن کوقوم کے نام وقف کیا۔ وزیراعظم نے کھیلوں کے پروجیکٹوں کے لئے بھی سنگ بنیاد رکھا۔ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم جناب نریندر مودی نے منی پور کے بہادر مجاہدین آزادی خصوصاً خواتین مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت منی پور میں موئی رانگ میں قائم کی گئی تھی۔ انہوں نے اس حمایت کا بھی ذکر کیا جو کہ شمال مشرق میں عوام کی طرف سے آزاد ہند فوج کو حاصل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ منی پور کونئے ہندوستان کی ترقی کی داستان میں ایک اہم رول ادا کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج کے پروگرام میں1500 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے پروجیکٹوں کا یا تو افتتاح کردیا گیا ہے یا ان کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروجیکٹ ریاست کے عوام کی زندگی کو اور زیادہ بہتر بنائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے خود گزشتہ ساڑھے چار سال میں تقریباً 30 مرتبہ شمال مشرق کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شمال مشرق میں تبدیلی آرہی ہے اور کئی دہائیوں سے رکے ہوئے پروجیکٹوں کو نافذ کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مورہہ میں مربوط جانچ چوکی سے کسٹم کلیرئنس ، غیر ملکی کرنسی کے تبادلے اور امیگریشن کلیرینس میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آج جن پروجیکٹوں کاافتتاح کیا جارہا ہے وہ ترقی کے تئیں حکومت کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دولائی تھا��ی بیراج پروجیکٹ 1987 میں شروع کیاگیا تھا لیکن اس میں 2014 کے بعد اور تیزی لائی گئی اور اب یہ مکمل ہے۔انہوں نے سیاحت سے متعلق پروجیکٹوں کا بھی ذکر کیا جن کاآج افتتاح کیاگیا ہے۔مرکزی حکومت میں پروجیکٹوں کی تکمیل کے لئے با مقصد رخ اپنانے اور مزید توانائی پیدا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے وضاحت کی کہ کس طرح وزیراعظم کے دفتر میں پرگتی نظام قائم کیا گیا ہے۔ جس سے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ رکے ہوئے پروجیکٹوں کی نگرانی کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ان پرگتی میٹنگوں میں اب تک تقریباً ب12 لاکھ کروڑ روپے کی مالیت کے رکے ہوئے پروجیکٹوں سے متعلق مسائل کو حل کیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ سوم بنگ میں ایف سی آئی اناج گودام میں کام 2016 سے شروع کیا گیا تھا اور یہ اب مکمل کرلیا گیا ہے۔انہوں نے پانی کی سپلائی کے مختلف پروجیکٹوں کے لئے اسی طرح کی مثالیں پیش کیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ مرکزی حکومت اور منی پور کی ریاستی سرکار دونوں سب کا ساتھ سب کا وکاس سوچ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ریاستی سرکار کے‘‘گوٹوہلس، گوٹو ویلجز یعنی پہاڑ وں پر جاؤ، گاؤں میں جاؤ پروگرام کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے وضاحت کی کہ کس طرح شمال مشرق میں بہتر سڑک ، ریل اور ہوائی رابطہ فراہم کیاجارہا ہے اور یہ سہولت ٹرانسپوریٹیشن کے ذریعہ تبدیلی کی مجموعی سوچ کے ساتھ فراہم کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے بہت سے شعبوں مثلاً سووچھ بھارت اور صفائی ستھرائی کے میدان میں منی پور کے ذریعہ کی گئی ترقی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے چندیل کے امنگوں سے پر ضلع کی ترقی کے بارے میں بھی ذکر کیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ منی پور خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبے میں بھی پیش پیش رہا ہے۔مکّے باز میری کوم کا ذکر کرتے ہوئے جن کا تعلق منی پور سے ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شمال مشرق کا کھیلوں میں ہندوستان کو سپر پاور بنانے میں اہم رول ہے۔انہوں نے کہا کہ ایتھلیٹس کی تربیت اور سلیکشن میں شفافیت سے بین الاقوامی کھیل مقابلوں میں ہندوستان کی جانب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔,"মোৰেত সংহত তালাচী চকী উদ্বোধন, ইম্ফলত অন্যান্য উন্নয়নমূলক প্ৰকল্প উদ্বোধন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%88-%D8%A7%DB%8C%D9%86%D8%AF%DA%BE%D9%86-2018-%D9%BE%D8%B1-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A7%88%E0%A7%B1-%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بائیو ایندھن سے متعلق قومی پالیسی -2018 میں ترامیم کو منظوری دے دی ہے۔ ‘‘بائیو ایندھن سے متعلق قومی پالیسی – 2018’’ کو وزارت پٹرولیم اور قدرتی گیس نے 4اپریل 2018 کو بائیو ایندھن سے متعلق قومی پالیسی کی جگہ مشتہر کیا تھا، جسے 2009 میں وزارت نئی اور قابل تجدید توانائی کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ بائیوایندھن کے شعبے میں رونما ہونے والی ترقیات کی وجہ سے بائیو ایندھن پیداوار میں اضافے کی غرض سے قومی بائیوایندھن تال میل کمیٹی (این بی سی سی ) کی میٹنگوں میں لیے گئے مختلف النوع فیصلوں ، قائمہ کمیٹی کی سفارشات اوریکم اپریل ،2023سے ملک بھرمیں ایتھنول آمیزپیٹرول جس میں 20فیصد تک ایتھنول کی آمیزش ہوگی ، کے چلن کو فروغ دینے کے فیصلے کی وجہ سے حیاتیاتی ایندھن سے متعلق قومی پالیسی میں ترامیم کی جاتی ہیں ۔ حیاتیاتی ایندھن سے متعلق قومی پالیسی کے سلسلے میں درج ذیل اہم ترامیم کو منظوری دی گئی ہے: 1- بایو ایندھن کی پیداوار کے لیے مزید فیڈ اسٹاک کی اجازت دینا 2- 2030سے 2025-26 ای ایس وائی تک پیٹرول میں ایتھنول کی ملاوٹ کے 20فیصد ایتھنول کی ملاوٹ کے ہدف کو آگے بڑھانا۔ 3- میک ان انڈیا پروگرام کے تحت، خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ )/ ایکسپورٹ اورینٹڈ یونٹس (ای اویوز) میں واقع اکائیوں کے ذریعے ملک میں بایو ایندھن کی پیداوار کو فروغ دینا۔ 4- این بی سی سی میں نئے اراکین کو شامل کرنا۔ 5- مخصوص معاملات میں بائیو فیول کی برآمد کی اجازت دینا، اور 6- قومی حیاتیاتی ایندھن تال میل کمیٹی کے اجلاسوں کے دوران کیے گئے فیصلوں کے مطابق پالیسی میں کچھ فقروں کو حذف کرنا/ترمیم کرنا۔ یہ تجویز دیسی ٹیکنالوجیز کی ترقی کو بھی راغب کرے گی اور ان کو فروغ دے گی جو میک ان انڈیا ڈرائیو کی راہ ہموار کرے گی اور اس طرح مزید روزگار پیدا کرے گی۔ بائیو ایندھن سے متعلق موجودہ قومی پالیسی سال 2018 کے دوران سامنے آئی۔ یہ ترمیمی تجویز میک ان انڈیا ڈرائیو کے لیے راہ ہموار کرے گی، جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ بایو ایندھن کی پیداوار کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں کمی آئے گی۔ چونکہ بائیو فیول کی تیاری کے لیے بہت سے مزید فیڈ اسٹاکس کی اجازت دی جارہی ہے، اس سے آتم نربھر بھارت کو فروغ ملے گا اور 2047 تک ہندوستان کے ‘توانائی آزاد’ بننے کے وزیر اعظم کے وژن کو تقویت ملے گی۔,‘জৈৱ-ইন্ধন সম্পৰ্কীয় ৰাষ্ট্ৰীয় নীতি-২০১৮’ৰ সংশোধনীলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86%DA%86%D9%84-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%D9%88%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%9C%E0%A6%AE%E0%A6%97%E0%A7%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دہلی،16/جولائی۔ اترپردیش کے گورنر جناب رام نائک جی، وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، ہمیشہ مسکرانا جن کی فطرت ہے، ویسے میرے ساتھی نائب وزیر اعلیٰ جناب کیشو پرساد موریہ جی، صنعتی ترقیات کے وزیر جناب ستیش مہانا جی، ریاستی حکومت میں وزیر بھائی جناب دارا سنگھ جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور بی جے پی کے ریاستی صدر جناب مہندر ناتھ پانڈے جی، پارلیمنٹ میں ہماری ساتھی بہن نیلم سونکر جی، رکن اسمبلی بھائی جناب ارون جی اور بڑی تعداد میں تشریف لائے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔ رشی منیوں کی سرزمین اور ادب کی دنیا کو متعدد اہم شخصیات دینے والی اعظم گڑھ کی اس سرزمین کو میں سلام کرتا ہوں۔ آج اترپردیش کی ترقی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ مشرقی ہندوستان میں مشرقی اترپردیش کے ایک بڑے علاقے میں ترقی کی ایک نئی گنگا بہے گی۔ یہ گنگا پوروانچل ایکسپریس وے کے طور پر آپ کو ملنے جارہی ہے اور جس کا سنگ بنیاد رکھنے کا ہمیں موقع ملا ہے۔ ساتھیو، اترپردیش کی اس طرح ترقی ہو، تیز رفتاری سے ترقی ہو، جو علاقے پسماندہ ہیں، انھیں زیادہ توانائی صرف کرکے دوسروں کے برابر لایا جائے، اس سمت میں کام کرنے کا فیصلہ اترپردیش کے عوام کا ہے، آپ کا ہے۔ ہم تو خدمت گزار کی شکل میں اس پر عمل کررہے ہیں۔ چار سال قبل اترپردیش میں بی جے پی کو بھرپور آشیرواد دے کر مرکزی حکومت میں کام کرنے کی ذمے داری دی۔ مجھے کاشی سے منتخب کیا اور گزشتہ سال آپ نے ترقی کی رفتار کو دوگنی کرنے والا تاریخی فیصلہ کیا۔ پچھلے ایک سال میں جس طرح سے یوگی آدتیہ ناتھ جی کی کمان میں کام کیا گیا ہے وہ غیرمعمولی ہے۔ بڑے بڑے مجرموں کی صورت حال کیا ہے، یہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں یوپی میں ترقی کا بہترین ماحول بنانے کی کوشش کی ہے۔ جرائم پر کنٹرول کرکے، بدعنوانی پر قدغن لگاکر یوگی جی نے بڑی سے بڑی سرمایہ کاری لانے اور چھوٹے سے چھوٹے کاروباری کے لئے تجارت کو آسان بنانے کا کام کیا ہے۔ کسان ہوں یا نوجوان ہوں، خواتین ہوں یا مظلوم، استحصال زدہ، محروم طبقات ہوں، سبھی کی ترقی کے لئے پابند عہد ہوکر یوگی جی کی حکومت آپ کی خدمت میں غرق ہے۔ پہلے کے دس برسوں میں اترپردیش کی جس طرح کی پہچان بن گئی تھی، وہ پہچان اب بدلنی شروع ہوچکی ہے۔ اب عوام کا پیسہ عوام کی بھلائی کے لئے خرچ ہورہا ہے۔ ایک ایک پائی کو ایمانداری کے ساتھ خرچ کیا جارہا ہے۔ یہ بدلا ہوا ورک کلچر اترپردیش کو نئی بلندیوں پر لے کر جائے گا۔ بھائیو اور بہنو، پوروانچل ایکسپریس وے پورے یوپی میں خاص طور پر مشرقی اترپردیش کی امیدوں اور امنگوں کو نئی بلندیاں دینے والا ہے۔ پوروانچل ایکسپریس وے پر 23 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کئے جائیں گے۔ لکھنؤ سے لے کر غازی پور کے درمیان 340 کلومیٹر کے راستے میں جتنے بھی شہر، قصبے اور گاؤں آئیں گے، وہاں کی تصویر بدلنے جارہی ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس سڑک کے بننے کے بعد دہلی سے غازی پور کی دوری بھی کئی گھنٹے کم ہوجائے گی اور وہ گھنٹوں تک لگنے والا جام، وہ برباد ہورہا پٹرول اور ڈیزل، وہ ماحولیات کو نقصان، یہ ساری باتیں ایکسپریس وے بننے کے بعد گزرے ہوئے کل کی بات بن جائے گی اور سب سے بڑی بات یہ کہ علاقے کے لوگوں کا وقت بچ جائے گا اور یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ یہاں کا کسان ہو، مویشی پالنے والا ہو، میرا بنکر بھائی ہو، مٹی کے برتنوں کا کام کرنے والا ہو، ہر کسی کی زندگی کو یہ ایکسپریس وے نئی سمت دینے والا ہے، نئی رفتار دینے والا ہے۔ اس روڈ کے بن جانے سے پوروانچل کے کسان بھائی بہنوں کا اناج، پھل، سبزی، دودھ کم وقت میں دہلی کی منڈیوں تک پہنچ پائے گا۔ ایک طرح سے صنعتی گلیارے کی شکل میں یہ پروان چڑھے گا۔ اس پورے ایکسپریس وے کے اردگرد نئی صنعت پروان چڑھے گی، مستقبل میں یہاں تعلیمی، تربیتی ادارے، صنعتی تربیتی ادارے، میڈیکل ادارے جیسے اداروں کے امکانات میں دیکھ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک اور چیز بڑھے گی اور وہ سیاحت، ٹورازم، اس علاقے میں جو ہمارے اہم پورانک مقامات، بھگوان رام سے جڑے ہوئے ہیں، ہمارے رشی منیوں سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی اب زیادہ نشر و اشاعت ہوپائے گی۔ اس سے یہاں کے نوجوانوں کو اپنے روایتی کام کاج کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی دستیاب ہوں گے۔ ساتھیو، مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آنے والے وقت میں گورکھپور کو بھی اس ایکسپریس وے سے جوڑا جائے گا۔ اس کے علاوہ بندیل کھنڈ میں بھی ایسا ہی ایکسپریس وے بنانے کا فیصلہ یہاں کی بی جے پی حکومت نے کیا ہے۔ یہ ساری کوشش اترپردیش میں کنیکٹیوٹی کو نئی سطح پر لے جائے گی۔ اکیسویں صدی میں ترقی کی بنیادی شرط ہے کنیکٹیوٹی۔ جیسے جیسے کسی بھی علاقے میں کنیٹکٹیوٹی بڑھتی ہے، وہاں پر پورا ایکو سسٹم خود ڈیولپ ہونے لگتا ہے۔ کنیکٹیوٹی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا، کاروبار کو آسان کرنا اور ملک کے کسان، غریب، محروم، استحصال زدہ، پسماندہ لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہ��۔ بھائیو اور بہنو، جب آپ کی نیت کام کرنے کی ہو اور ہدف ترقی ہو تو کام کی رفتار اپنے آپ بڑھ جاتی ہے۔ فائلوں کو پھر انتظار نہیں کرنا پڑتا کہ کسی کی سفارش لگے اور تب جا کرکے فائل بڑھے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں اترپردیش میں نیشنل ہائی وے کا نیٹ ورک تقریباً دوگنا ہوچکا ہے۔ 2014 سے پہلے جتنی لمبائی کے نیشنل ہائی وے تھے، جتنی تعداد میں نیشنل ہائی وے تھے، اب اس سے دوگنے ہوچکے ہیں۔ سوچئے آزادی کے بعد جتنا کام ہوا اتنا صرف چار سال میں بی جے پی کی حکومت نے کرکے دکھایا ہے۔ اب یہاں یوگی جی کی حکومت بننے کے بعد رفتار اور بڑھ گئی ہے۔ اترپردیش میں صرف ہائی وے ہی نہیں بلکہ واٹروے اور ایئروے پر بھی کام تیزی سے چل رہا ہے۔ گنگاجی میں بنارس سے ہلدیہ تک چلنے والے جہاز، اس پورے علاقے میں صنعتی ترقی کو اور آگے لے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہوائی کنیکٹیوٹی پر بھی خصوصی زور دیا جارہا ہے اور میں نے ہمیشہ خواب دیکھا ہے، ہوائی چپل پہننے والا بھی ہوائی جہاز میں اڑ سکے، اسے دھیان میں رکھتے ہوئے حکومت اڑان یوجنا کو تیز رفتاری سے آگے بڑھارہی ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے سے چھوٹے شہروں کو ہوائی کنیکٹیوٹی سے جوڑا جارہا ہے۔ اترپردیش کے بھی 12 ایئرپورٹ اس اسکیم کے تحت ڈیولپ کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ کشی نگر میں اور جیور میں انٹرنیشنل ہوائی اڈوں کے کام کو بھی رفتار دی گئی ہے۔ بھائیو اور بہنو، مودی ہو یا یوگی، آپ ہی لوگ ہمارا کنبہ ہیں۔ آپ کے سپنے ہمارے سپنے ہیں۔ ہم غریب اور متوسط طبقے کی امیدوں اور آرزوؤں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے جب اڑان یوجنا کے تحت کرایوں کی بات آئی تو اسے یقینی بنایا گیا کہ ایک گھنٹے تک کا سفر کرنے کے لئے ڈھائی ہزار روپئے سے زیادہ نہ خرچ کرنا پڑے۔ آج اس کی نتیجہ ہے کہ گزشتہ برس جتنے لوگوں نے ٹرین کے اے سی کوچ میں سفر کیا اس سے زیادہ لوگوں نے ہوائی جہاز میں سفر کیا۔ ساتھیو، پہلے کی سرکاروں کی پالیسیاں ایسی رہیں کہ ملک کا یہ حصہ، یہ ہمارا مشرقی ہندوستان، یہ ہمارا اترپردیش کا مشرقی اترپردیش ہمیشہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا ہے، جبکہ میں مانتا ہوں کہ مشرقی بھارت میں ملک کی ترقی کو کئی گنا تیز کرنے کی صلاحیت ہے۔ مشرقی اترپردیش میں بھی ویسی ہی صلاحیت ہے۔ یہاں کے نوجوان اب دوسری ریاستوں میں جاکر اپنا لوہا منوا سکتے ہیں تو جب انھیں یہیں پر مناسب موقع مل جائے تو یقینی طور پر وہ پورے علاقے کا کایا کلپ کرسکتے ہیں۔ ساتھیو، جب تک مشرق میں ترقی کا سورج طلوع نہیں ہوگا، تب تک نیو انڈیا کی چمک پھیکی رہے گی اور اس لئے گزشتہ چار برسوں میں پوروانچل، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، آسام، شمال مشرق، ان علاقوں میں روڈ، ریل، ایئرپورٹ سے جڑے متعدد پروجیکٹ منظور کئے گئے۔ ملک کے اس مشرقی حصے کو ایک طرح سے ترقی کا نیا گلیارہ بنانے کی سمت میں کام کیا جارہا ہے۔ یہاں پر نئے میڈیکل کالج، ایمس، بند پڑے کھاد کے کارخانوں کو کھولنے کا کام کیا جارہا ہے۔ ساتھیو، یہ جو بھی کام ہے وہ اس علاقے میں متوازن ترقی کو فروغ دیں گے۔ بغیر کسی تفریق کے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے اصول کو لے کر ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ سب کو مساوی طور پر آگے بڑھنے کا موقع ملے، سب کی متوازن ترقی ہو۔ ہماری حکومت گاؤوں کو ترقی کا مرکزی نقطہ بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ ملک کی ہر بڑی پنچایت کو آپٹیکل فائبر سے جڑنے کا کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ پنچایتوں کو اس سے جوڑا بھی جاچکا ہے۔ تقریباً تین ل��کھ کامن سروس سینٹر، گاؤوں اور غریبوں کو بااختیار بنانے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کا بہت بڑا کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤوں میں لوگوں کی صحت کی فکر کرنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ویلنیس سینٹر بھی بنائے جارہے ہیں۔ ساتھیو! پچھلے برس میں پردھان منتری آواس یوجنا اور پرانی آواس یوجناؤں کو پورا کر کے گاؤں کے غریبوں کے لئے ایک کروڑ سے زیادہ گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔ پردھان منتری گرامین سڑک یوجنا کے تحت ملک کے ہر ایک گاؤں کو جوڑنے کا کام بھی اب آخری مرحلے میں ہے۔ بھائیو اور بہنو، ملک اور گاؤں میں سوراجیہ کا یہی خواب مہاتما گاندھی نے دیکھا تھا، بابا صاحب امبیڈکر نے دیکھا تھا، پنڈت دین دیال اپادھیائے جی نے دیکھا تھا، ڈاکٹر رام منوہر لوہیا جی نے دیکھا تھا۔ یہ نئے انتظامات اور منصوبے سب کے لئے ہیں، سب کا بھلا کرنے کے لئے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے عوام اور مساوات کی باتیں کرنے والے کچھ سیاسی پارٹیوں نے بابا صاحب اور رام منوہر لوہیا جی کے نام پرصرف سیاست کرنے کا کام کیا ہے ، ساتھیو میں اعظم گڑھ کے لوگوں سے جاننا چاہتا ہوں، کیا پہلے کی سرکاروں کے وقت میں جس طرح کی ترقی یہاں پر ہوئی ہے کیا آپ تصور کر سکتے ہیں؟ کام کرنے کے ان طریقوں نے آپ کا بھلا کیا ہے؟کیا اعظم گڑھ کی اور ترقی نہیں ہونی چاہئے تھی؟ کیا جن لوگوں پر اعظم گڑھ اور اس علاقے کے لوگوں نے بھروسہ کیا انہوں نے آپ کا بھروسہ کچلنے کا کام کیا ہے کہ نہیں کیا ہے؟ سچائی یہ ہے کہ ان پارٹیوں نے جنتا اور غریب کا بھلا نہیں صرف اور صرف اپنا اور اپنے خاندان کے اراکین کا بھلا کیا ہے۔ ووٹ غریب سے مانگے، ووٹ دلت سے مانگے، ووٹ پچھڑوں سے مانگے، ان کے نام پر سرکار بنا کر اپنی تجوریاں بھر لیں اس کے سوا کچھ نہیں کیا۔ آج کل تو آپ خود دیکھ رہے ہیں جو کبھی ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے، پسند نہیں کرتے تھےوہ اب ایک ساتھ ، صبح شام جب بھی ملو تو مودی مودی مودی ۔بھائیو اور بہنو ، اپنے مفاد کے لئے یہ جتنے ضمانت پر ہیں وہ ملکر کے سبھی خاندان پر ور پارٹیاں یہ سارے لوگ ، کنبے دیکھ لیجئے ، یہ پریوار والی پارٹیاں ہیں، یہ ساری پریوار والی پارٹیاں مل کر کے اب آپ کی ترقی کو روکنے پر تُلے ہوئی ہیں۔ آپ کو بااختیار اور طاقت ور ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر غریب ، کسان ، دلت ، پچھڑے یہ اگر مضبوط ہو گئے تو ان کی دکانیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گی۔ بھائیو بہنو! ان ساری پارٹیوں کی پول تو تین طلاق پر ان کے رویوں نے کھول دی ہے۔ ایک طرف جہاں مرکزی سرکار عورتوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہے وہیں یہ ساری پارٹیاں مل کر کے عورتوں اور بالخصوص مسلم بہن بیٹیوں کی زندگی کو اور مصیبت میں ڈالنے کا کام کر رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں مسلم بہن بیٹیوں کی ہمیشہ مانگ تھی کہ تین طلاق کو بند کرایا جائے اور دنیا کے اسلامی ملکوں میں بھی تین طلاق کے رواج پر روک لگی ہوئی ہے۔ میں نے اخبار میں پڑھا کہ کانگریس پارٹی کے صدر شری مان نامدار نے یہ کہا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے ، پچھلے دو دن سے بحث چل رہی ہے ، مجھے تعجب نہیں ہو رہا ہے کیونکہ پہلے جب منموہن جی کی سرکار تھی تو خود وزیراعظم منموہن سنگھ جی نے کہہ دیا تھا کہ ملک کے قدرتی وسائل پر سب سے پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ یہ کہہ چکے تھے لیکن میں کانگریس پارٹی کے اس نامدار سے پوچھنا چاہتا ہوں آپ کی کانگریس پارٹی مسلمانوں کی پارٹی ہے ، آپ کو ٹھیک لگے ،آپ کو مبارک ،لیکن یہ تو بتای��ے کہ مسلمانوں کی پارٹی صرف مردوں کی ہے یا خواتین کی بھی ہے ؟ کیا مسلم خواتین کے لئے بھی عزت کے لئے ، احترام کے لئے ، فخر کے لئے ، ان کے حق کے لئے کوئی جگہ ہے کیا؟ پارلیمنٹ میں قانون روک کر کے بیٹھ جاتے ہیں ، ہو ہلّا کر تے ہیں، پارلیمنٹ چلنے نہیں دیتے۔ میں ان خاندان پرور پارٹیوں ، یہ مودی کو ہٹانے کے لئے میدان میں دن رات ایک کرنے ولای پارٹیوں کو کہنا چاہتا ہوں ، ابھی پارلیمنٹ شروع ہونے میں چار پانچ دن باقی ہیں۔ ذرا آپ ان طلاق کی وجہ سے متاثرہ مسلم خواتین سے ذرا ملاقات کر کے آیئے، حلالہ کی وجہ سے پریشان ان ماں –بہنو سے مل کر کے آیئے، ان سے پوچھ کر کے آیئے اور پھر پارلیمنٹ میں آپ اپنی بات بتایئے۔ بھائیو بہنو! 21 ویں صدی میں ایسی سیاسی پارٹیاں جو 18 ویں صدی میں گذارا کر رہی ہیں وہ مودی کو ہٹانے کے نعرے دے سکتی ہیں۔ ملک کا بھلا نہیں کر سکتی ہیں۔ بھائیو بہنو، جب بی جے پی سرکار نے پارلیمنٹ میں قانون لا کر کے مسلم بہن بیٹیوں کو حق دینے کی کوشش کی تو وہ اب اس میں بھی روڑے اٹکا رہے ہیں ، یہ چاہتے ہیں تین طلاق ہوتا رہے ، مسلم بہن بیٹیوں کی زندگی جہنم بنی رہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ میں ان سیاسی پارٹیوں کو سمجھانے کے لئے پوری کوشش کروں گا ان کو سمجھا کر کے اپنی مسلم بہن بیٹیوں کو حق دلانے کے لئے ان کو ساتھ لانے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ ہماری مسلم بیٹیوں کو جو تین طلاق کے سبب پریشانیاں ہو رہی ہیں اس سے نجات ملے ،۔ بھائیو بہنو! ایسے لیڈروں سے ، ایسی پارٹیوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے مفاد میں ڈوبے یہ لوگ سب کا بھلا نہیں سوچتے ، ملک اور قوم کا بھلا نہیں سوچ سکتے ، وہی دوسری طرف مرکز کی جو سرکار ہے یوپی میں جو بی جے پی کی سرکار ہےاس کے لئے ملک ہی پریوار ہے ، ملک ہی سب سے اوپر ہے، سوا سو کروڑ ملک کے باشندے ہمارے خاندان کی مانند ہیں۔ کسان ہو ، غریب ہو ، محروم ہو ، مظلوم ہو، پچھڑوں کی زندگی آسان اور خوش نما کیسے بنے اس کے لئے ہماری سرکار بھر پور کام کر رہی ہے۔ جن دھن یوجنا کے تحت اترپردیش میں لگ بھگ 5 کروڑ غریبوں کے بینک میں کھاتے کھلے۔ لکڑی کے دھوئیں سے نجات دلانے کے لئے 80 لاکھ سے زیادہ خواتین کو مفت میں گیس سلینڈر دیا گیا۔ صرف ایک روپے ماہانہ اور 90 پیسے فی دن کی پریمیئم پر ایک کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ غریبوں کو تحفظ فراہم کرایا گیا۔ اب آیوشمان بھارت کے تحت سرکار کی تیاری ہر غریب کنبے کو سال بھر میں 5 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کو یقین بنانے کی ہے۔ ابھی حال ہی میں سرکار نے کسانوں سے کیا اپنا وعدہ پورا کیا۔ سرکار کے ذریعے خریف کے 14 فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت ،ایم ایس پی میں بڑھوتری کی گئی ہے۔ دھان ہو، مکا ، جواہر ، باجرا، تور ، اڑد، مونگ ، سورج مکھی، سوابین ، تل ، ان کی امدادی قیمتوں میں 200 روپے سے لے کر کے 1800 روپے تک کی بڑھوتری کی گئی ہے۔ کئی فصلوں میں تو لاگت کا 100 فیصد یعنی دو گنا تک قیمت دینا طے کیا گیا ۔ ساتھیو! ہماری سرکار ملک کی ، ملک کے باشندوں کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے یوجنائیں بنا رہی ہے، فیصلے لے رہی ہے، ایسے فیصلے جن کا برسوں سے انتظار تھا۔ جنہیں پہلے کی سرکاریں صرف فائلوں میں گھماتی رہیں ، ان فیصلوں کو لینے کا کام بھی بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت میں این ڈی اے کی سرکار کر رہی ہے۔ آپ کی ہر ضرورت کے تئیں یہ سرکار پوری طرح حساس ہے، یہاں اس شعبے میں بنارسی ساڑی کے کاروبار سے جڑے بن کر بھائی بہن بھی تو اچھی طرح سمجھ لیں انہیں تو پچھلی سرکاروں نے بھلا دیا، ��بکہ یہ سرکار ان کے لئے جدید مشینوں ، کم سود پر قرض سے لے کر کے نئے بازار بنانے تک کاکام کر رہی ہے۔ بنارس میں تجارتی سہولتی سینٹر تو پچھلے سال ہی شروع ہو چکا ہے ۔یہ سینٹر آپ سبھی بنکر اور دست کاروں کے لئے نئی امید بن کر کر آیا ہے ۔ اس سے دست کاری اور ،ہاتھ سے بنے قالینوں کو فروغ مل رہا ہے ۔ وہیں یوگی جی کی سرکار نے ٹیکسٹائل سیکٹرکے لئے بھی نئی پالیسی بنائی ہے۔ یہاں جو بھی پیداوار ہوتا ہے اس کی تشہر و ترویج اور بازار دلانے کے لئے ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ اسکیم پر کام کیا جا رہا ہے۔ بھائیو بہنو! یہاں کی کالی مٹی کی کلا تو اپنے آپ میں انوکھی ہے۔ میں یوگی جی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دوں گا جو انہوں نے حال ہی میں جو ماٹی کلا بورڈبنانے کا فیصلہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ اس سے نہ صرف لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔بلکہ ایک آرٹ بھی زندہ رہے گا۔ ساتھیو جب عوامی مفاد اور ملک کے مفاد کو سب سے اعلیٰ مقام پر رکھا جاتا ہے ، جب غریب کی فکر کرتے ہوئے اس کی زندگی کو آسان اور خوش نما بنانے کے مقصد سے کام کیا جاتا ہے تب اس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ورنہ صرف کاغذوں میں یوجنا بنتے ہیں اور تقریروں میں نقاب کشائی ہوتے ہیں ، وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ،آپ نے اسے دیکھا ہے ۔ اترپردیش اور ملک اب اس ورک کلچر سے آگے بڑھ چکا ہے ۔ پوروانچل کے ، یوپی کے آپ سبھی بھائیو بہنو کو اس جدید ایکسپریس وے کا کام شروع ہونے پر پھر سے ایک بار بہت بہت مبارکباد کے ساتھ آ پ کے لئے متعدد نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ آپ اتنی بڑی تعدا د میں ،اتنی گرمی میں آئے، یہ عوامی سیلاب اپنے آپ میں آپ کے پیار کا مظہر ہے۔آپ آشیرواد دینے آئے۔ میں دل سے آپ کا بہت بہت شکریہ اد اکرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ م م۔ م ر(,আজমগড়ত পূর্বাঞ্চল এক্সপ্ৰেছৱেৰ আধাৰশিলা স্থাপন অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D9%86-%D8%8C-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D9%84%D9%91%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%8C%D8%AA%D8%A7-%D8%A2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%87%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%9F%E0%A7%8B%E0%A6%9C/,نئی دلّی ، 27 فروری ؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گزشتہ روز گلوری آف انڈیا کلچرل سینٹر ، نئی دلّی میں گیتا آرادھنا مہوتسو میں شرکت کی ۔ وزیر اعظم نے اسکون عقیدت مندوں کے ذریعہ تیار کردہ منفرد بھگوت گیتا کی نقاب کشائی کی ۔ 2.8 میٹر طویل اس نسخے کا وزن 800 کلو گرام ہے ۔ وزیر اعظم نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عظیم بھگوت گیتا کی نقاب کشائی کرنا در حقیقت یہ ایک شاندار موقع ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ منفرد کتاب دنیا کے لئے بھارت کی معلومات کی ایک علامت کے طور پر جانی جائے گی ۔ وزیر اعظم نے دوہرایا کہ لوک مانیہ تلک نے ’ گیتا رہیسیہ ‘ تصنیف کی تھی جب وہ جیل میں بند تھے ۔ اس میں انہوں نے ایک سہل انداز میں کرشن جی کے نشکام کرم کے پیغام واضح کیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہاتما گاندھی نے ’’ بھگوت گیتا گاندھی کے نظرئیے کے مطابق ‘‘ لکھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب کی ایک جلد انہوں نے سابق امریکی صدر براک اوبامہ کو پیش کی تھی ۔ وزیر اعظم نے اس رزمیہ کے بارے عالمی بیداری پیدا کرنے کے ضمن میں سری لا بھکتی ویدانتا پربھو پداجی کے ذریعہ کی گئی کوششوں کی ستائش کی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھگوت گیتا ہمارے لئے ہمیشہ رہنمائی کر سکتی ہے جب کہ ہم شش و پنچ میں مبتلا ہوں ۔ انہو ں نے گیتا کے مشہور قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیویہ شکتی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے ،اور ہم انسانیت کے دشمن سے نبرد آزما ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گیتا بنی نوع انساں اور قوم کی خدمت کے لئے ہمیں تحریک دیتی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارتی اقدار اور ثقافت انسانیت کو در پیش سمسیاؤ ں کے حل پیش کرتی ہے ۔ اس پس منظر میں انہوں نے یوگا اور آیور ویدکا بھی تذکرہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م ۔ ر ۔ ر۔,নতুন দিল্লীৰ ইস্কনত আয়োজিত গীতা আৰাধনা মহোৎসৱত উপস্থিত প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DB%8C%D9%88-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A8%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%88%D8%B1%DA%88-%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%87/,نئی دہلی،07 ستمبر؍ امریکہ –ہند تجارتی کونسل (یو ایس آئی بی سی ) کے بورڈ ممبروں نے آج وزیراعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ ان بورڈ ممبروں نے وزیراعظم کو اس ہفتے کے اوائل میں ممبئی میں منعقدہ انڈیا آئیڈیا فورم کے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا۔ تجارتی لیڈروں نے وزیراعظم کے سامنے ایک روڈ میپ تیار کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا تاکہ دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تجارت میں پانچ سو بلین امریکی ڈالر کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے اوروہ ہندوستا ن میں اپنی سی ایس آر سرگرمیوں کو بہتر انداز میں وسعت دے سکیں ۔ بورڈ ممبروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے حکومت ہند کے ذریعے کئے گئے متعدد اصلاحات کا ذکر کیا۔ انہوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے زبردست مواقع کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کاربرادری کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے زور دے کر کہا۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان مشترکہ قدروں کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے دونوں ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر عوامی رابطے کے لئے زور دیا۔,ইউএছআইবিচিৰ পৰিষদ সদস্যই সাক্ষাৎ কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AA%DB%8C%D8%B1%DB%81-13-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-2019-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%D9%88%D9%84%DB%81%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D9%88%DA%A9-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%AE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%A9-%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A7%E0%A7%AF%E0%A6%A4-%E0%A6%B7%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0/,نئی دہلی 15فروری۔ محترمہ اسپیکر ، میں ایوان کےسبھی ارکان کی طرف سے اور اپنی طرف سے اس سولہویں لوک سبھا کی پوری مدت کار کو اسپیکر کی شکل میں جس تحمل ،توازن کے ساتھ اور ہر پل مسکراتے رہتے ہوئے آپ نے ایوان کو چلایا ،اس کے لئے آپ بہت زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دیوی اہلیا جی کی زندگی ،ان کی تعلیم ، آپ کے دماغ پر اس کا بڑا اثر ہے اور اس سے ملی تعلیم کو ، اس سے حاصل کئے گئے نمونوں کو یہاں ثابت کرنے کے لئے آپ نے ہر پل کوشش کی ہے اور انہی نمونوں پر چلتے ہوئے کبھی دائیں طرف کے لوگوںکو تو کبھی بائیں طرف کے لوگوں کو آپ نے اس ترازوسے تو ل کرکے کبھی کوئی مشکل فیصلے بھی کئے ہیں۔ لیکن وہ اقدار کی بنیاد پر لئے گئے فیصلے ہیں ، نمونوں کی ہی بنیاد پر لئے ہوئے ہیں اور لوک سبھا کی اعلیٰ روایت کو برقرار رکھنے کے لئے وہ ہمیشہ مناسب رہیں گے ، ایسا میرا پورا یقین ہے ۔ آپ نے جس خاتون تنظیم کی شروعات کی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ نئے ارکان کے لئے یہ اپنے آپ میں بہت اچھا کام ہے۔ اس میں ڈبیٹ کو ، اس کے مشمولات کو اور اطلاعات کو اورزیادہ جامع بنانے کے لئے بہت بڑا رول ادا کیا ہے ۔ محترمہ اسپیکر ! 2014 میں ، میں بھی ان ارکان پارلیمنٹ میں سے ایک تھا جو یہاں پر پہلی بار آئے تھے۔ نہ میں اس کا جغرافیہ جانتا تھا ، نہ کس گلی سے کہاں جاتے ہیں وہ بھی پتہ نہیں تھا ۔ بالکل نیا تھا اورہرچیز کو بڑے دھیان سے دیکھتا تھا ۔یہ کیا ہے ، یہاں کیا ہے ، ایسے سب دیکھ رہا تھا۔ لیکن جب میں یہاں بیٹھا تو ایسے ہی دیکھ رہا تھا ، یہ بٹن کس چیز کے ہیں ، کیا ہیں ،سمجھنے کی کوشش کرتا تھا تو میں نے یہاں ایک پلیٹ دیکھی ۔ اس پلیٹ پر کیونکہ مجھے جانکاری ہے کہ مجھ سے پہلے 13 وزرائے اعظم نے اس جگہ پررہ کر کے اپنا فرض نبھایا ہے ۔ لیکن میں نے پلیٹ دیکھی اس میں صرف تین ہی وزرائے اعظم کے نام ہیں۔ ایسا کیوںہوا ہوگا ۔ وہ آزاد خیال کے بہت بڑے دانشور لوگ روز پیغام دیتے رہتے ہیں۔ وہ ضرور اس پر غور وفکر کریں گے اور کبھی کبھی ہماری رہنمائی کریں گے ۔ لیکن یعنی ہر چیز میرے لئے ایک نئی چیز تھی اور اسی وقت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ کام ہمارا ، تقریباََ تقریباََ تین دہائی بعد ایک مکمل اکثریت والی حکومت بنی ہے اور آزادی کے بعدپہلی بار کانگریس گوتر کی نہیں ہے ۔ ایسی مکمل اکثریت والی حکومت بنی ہے۔ کانگریس گوتر نہیں تھا۔ایسی مخلوط پہلی سرکار اٹل جی کی بنی تھی اور کانگریس گوترنہیں ہے ، ایسی مکمل اکثریت والی پہلی حکومت 2014 میں بنی اور اس 16ویں لوک سبھا میں 17 اجلاس ہوئے ۔ 8 اجلاس ایسے رہے جس میں 100فیصد سے زیادہ کام ہوا اور اوسطاََ ہم دیکھیں تو تقریباََ 85 فیصد نتائج کے ساتھ آج ہم رخصت ہورہے ہیں۔ پارلیمانی وزیر کا اپنا ایک فریضہ رہتا ہے ۔ تومر جی ابھی سنبھا ل رہے ہیں ۔ آغازمیں وینکیا جی دیکھتے تھے ۔بڑے ہی اچھے ڈھنگ سے انہوں نے نبھایا ۔اب نائب صدرعہدے پر اور ہمارے ایوان بالا کے ڈپٹی چیئر مین کے طور پر بھی ایک اہم رول ادا کررہے ہیں۔ اننت کمار جی کی کمی ہمیں ضرور محسوس ہورہی ہے ۔وہ ہنستے کھیلتے دوڑتے ہمارے ساتھی کی ، لیکن ان سب نے جو کام کیا ان کا بھی میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ سولہویں لوک سبھا اس بات کے لئے بھی ہم ہمیشہ اس پر فخر کریں گے ، کیونکہ ملک میں اتنے الیکشن ہوئے اس میں پہلی بار سب سے زیادہ خواتین ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوکر آئیں ۔ سب سے زیادہ یہ اپنے آپ میں ایک ہے ۔ اس میں بھی 44 خواتین ارکان پارلیمنٹ پہلی بار آئی تھیں ۔ یہ بھی اپنے آپ میں اور پوری مدت کار میں دیکھا ہے خواتین ارکان پارلیمنٹ کی نمائندگی ، شراکت داری اور بات چیت کی اونچائی ، ہر طرح سے ہم نے رجسٹر کرنی چاہی ۔سبھی خواتین ارکان پارلیمنٹ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ملک میں پہلی بار کابینہ میں سب سے زیادہ خاتون وزرا ہیں اور ملک میں پہلی بار سکیورٹی سے متعلق کمیٹی میں دو خاتون وزرا نمائندگی کررہی ہیں،وزیر دفاع اور وزیر خارجہ ۔ یہ بھی اپنے آپ میں اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ پہلی بار اسپیکر ایک خاتون ہے ۔ ساتھ ساتھ ہمارے رجسٹرار جنرل بھی ، ہاں ، سکریٹری جنرل بھی ۔ وہ بھی ہمارے یہاں خواتین کی شکل میں براجمان ہیں ۔ اس لئے لوک سبھا سکریٹری جنرل اور ان کی ساری ٹیم اور یہاں کے پورے احاطے کو سنبھالنے والے ہر کوئی مبارکباد کا مستحق ہے ۔ میں ان کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ ایوان میں کوئی اس کا مطلب یہ نہ سمجھے کہ میں یہاں کوئی حکومت کی حصولیابیاں بتانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں ۔ لیکن جو کام اس ایوان نے کئے ہیں ، اگر پانچ سال کی اس تفصیل کو دیکھیں اور ہم سب اس کے حصے دار ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی اس کو طاقت بڑھانے میں کام کیا ہے۔ حکومت میں رہ کر بھی اس کی مد د کی ہے اوراس لئے ایوان کے سبھی ساتھیوں کا قابل فخر تعاون رہتا ہے ۔ ہمارے لئے پچھلے چار برسوںمیں ، اس مدت کار میں ، ہم سب کے لئے خوشی کی بات ہے کہ آج ملک دنیا کی چھٹے نمبر کی معیشت بن گیا ہے ۔ اس مدت کار کا بھی یہ قابل فخر کام ہے اور ہم سبھی اس کے حصے دار ہیں۔ پالیسی سازی یہیں سے ہوئی ہے اور پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی سمت میں ہم اس دروازے پر دستک دینے کی تیاری میں ہیں ، اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ،اس کے لئے بھی اس ایوان کی سرگرمیوں کا بہت بڑا رول ہے ۔ آج بھارت کی خوداعتمادی بہت بڑھی ہے اور آگے بڑھنے کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے ، خوداعتمادی ۔ جیتنے کی طاقت ہوتی ہے خود اعتمادی، بحران سے نمٹنے میں معاون ہوتی ہے خوداعتمادی ۔ آج ملک خوداعتمادی سے لبریز ہے ۔ اس ایوان میں جس اجتماعیت کے ساتھ ، جس رفتار کے ساتھ فیصلہ کن کاموںکو آگے بڑھایا ہے ،اس اعتماد کو پیداکرنے میں اس نے بہت بڑا رول ادا کیا ہے ۔ آج دنیا کے سبھی مشہور ادارے، عالمی شہرت یافتہ ادارے ، بھارت کے روشن مستقبل کے سلسلے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک آواز میں روشن مستقبل کے سلسلے میں اپنے امکانات بتاتے رہتے ہیں اور یہ ملک کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ بھارت نے آج ڈجیٹل دنیا میں اپنی جگہ بنالی ہے ، متعدد حصولیابیاں ملی ہیں ۔ توانائی کے شعبے میں ،توانائی بچت کے شعبے میں بھارت نے ، دنیا گلوبل وارمنگ کی چرچا کررہی ہے ، ا س گلوبل وارمنگ کے زمانے میں یہ ملک ہے ،جس نے انٹر نیشنل سولر الائنس کی قیادت کی اور جس طرح سے آ ج دنیا میں پٹرولیم مصنوعات والے ملکوں کے گٹھ بندھن کی طاقت بنی ہے ، وہ دن دور نہیں ہوگا جب بھارت کے اس فیصلے کا اثر آنے والی دہائیوںمیں نظر آئے گا، اتنی ہی طاقت کے ساتھ انٹر نیشنل سولر الائنس ایک گلوبل وارمنگ کے خلاف لڑائی ، ماحولیات کے تحفظ کی فکر ، لیکن دنیا کو ایک متبادل زندگی دینے کا نظام ، یہ کرنے میں ، میں مانتا ہوں یہ مدت کار اپنا ایک بہت بڑا رول ادا کررہی ہے ۔ خلا کی دنیا میں بھارت نے اپنا مقام بنایا ہے ۔لیکن زیادہ سے زیادہ سیٹلائٹ لانچ کرنے کا کام اسی مدت کار میں دنیا کے لئے بھارت کے ایک ، ہماری طاقت تو بنا ، ایک لانچنگ پیڈ کی شکل میں آج دنیا کے لئے بھارت ایک مقام بنا ہے ۔ وہ معاشی سرگرمی کا بھی ایک مرکز بنتا چلا جارہا ہے۔ میک ان انڈیا کی سمت میں ، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بھارت آج خودکفیل ہونے کے ساتھ آگے بڑھنے کی سمت میں تیزی سے قدم اٹھا رہا ہے۔ عالمی پس منظر میں آج بھارت کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہے اور میں ، کبھی کبھی میں کہتا ہوں ، لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ بھائی مودی ہیں یا سشما جی ہیں ۔ان کی مدت کار میں دنیا میں ہماری عزت بہت بڑھ گئی ہی ۔ دنیا میں واہ واہ ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہوں گے لوگ ، لیکن سچائی جو ہے وہ اور ہے ۔جس سچائی کی بنیادی وجہ ہے مکمل اکثریت والی حکومت ۔ دنیا مکمل اکثریت والی حکومت کو تسلیم کرتی ہے ۔ 30 سال کا درمیان کا ہمارا موجودہ عہد عالمی پس منظر میں ، اس کمی کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے ۔30 سال کے بعد ،2014 میں ، کیونکہ جب اس ملک کا لیڈر جس کے پاس مکمل اکثریت ہوتی ہے ، وہ جب دنیا کے کسی بھی لیڈر سے ملتا ہے تو اس کے پاس مینڈیٹ ہے اور اس کی اپنی ایک طاقت ہے ۔اس بار میں نے پانچ سالوں میں تجربہ کیا ہے کہ دنیا میں ملک نے ایک مقام حاصل کیا ہے اور اس کا پورا پورا کریڈٹ نہ مودی کو جاتا ہے اور نہ سشما جی کو جاتا ہے ، بلکہ سواسو کروڑ ملکی باشندوں کے 2014 کے اس فیصلے کو جاتا ہے۔ اسی طرح سے اس مدت کار میں بیرونی ملکوںمیں متعدد اداروں میں بھارت کو جگہ ملی ۔ بیرونی ملکوں میں سنا گیا ۔ اب ہم دیکھیں بنگلہ دیش – اسی ایوان میں اتفاق رائے سے آراضی تنازعہ کا حل نکالا گیا ۔ یہ بہت بڑا کام کیا ہے ۔ بھارت کی تقسیم سے متنازعہ بنگلہ دیش بننے کے بعد بحران کی شکل میں چلاآیا ۔ لیکن اس کا حل بھی اسی ایوان نے نکالا ۔ اور میں سمجھتا ہو ں کہ ہماری اپنی ایک خصوصیت رہی ہے کہ ہم نے مل جل کر اس کام کو کیا اور دنیا کو اتفاق رائے کا پیغام بہت بڑی طاقت دینے والا پیغام گیا ہے اور میں اس کے لئے ایوان کا خصوصی طور پر آج دل سے شکریہ ادا کرناچاہتا ہوں ،سبھی پارٹیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی طرح سے ہماری خارجہ پالیسی کا ایک نیا پہلو ابھر کرسامنے آیا ہے ۔ دنیا میں حقوق انسانی ،انسانی اقدار ، جانے انجانے میں جیسے کسی دنیا کے کسی ایک حصے کا حق رہے ہیں ، باقی لوگوںکو تو اس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے اور ہم پر تو جیسے حقوق انسانی مخالف اور اسی طرح کی ہماری شبیہ بن گئی ہے ۔ جبکہ انسانیت اور ’’وسودھیو کٹمبکم ‘‘ کی بات کرنے والے یہی ممالک ، لیکن نہ جانے کیوں ایسی شبیہ بن گئی ۔ لیکن پچھلے 5 برسوں میں ہم دیکھیں گے -نیپال میں زلزلہ آیا ہو ، مالدیپ میں پانی کا بحران ہوا ہو ، فجی میں طوفان کی مصبیت آئی ہو ،سری لنکا میں اچانک طوفان کی مصبیت آئی ہو، بنگلہ دیش کے اندر میانما کے لوگوں کے سبب آئی ہوئی مصیبت ، مصیبت جھیلتے رہتے ہوں ، ہمارے لوگ بیرونی ملکوں میں پھنسے تھے یمن میں ، ان کو ہزاروں کی تعداد میں واپس لانے کا کام ہو یا نیپال میں 80 لوگوں کو نکال کر یہاں محفوظ طور پر بھیجا۔ انسانیت کے کام میں بھارت نے بہت بڑا رول ادا کیا ہے ۔ یوگ پوری دنیا میں ایک فخر کا موضوع بن گیا ہے ۔ دنیا میں یو این میں اب تک جتنی قرارداد پاس ہوئی ہیں ، سب سے تیز رفتار سے سب سے زیادہ حمایت سے اگر کوئی قرارداد پاس ہوئی ہے تو یوگ کے سلسلے میں ۔ یو این کے اندر با باصاحب امبیڈ کر کی سالگرہ ، مہاتما گاندھی کی سالگرہ منائی جارہی ہے۔ دنیا کے سبھی ملکوں میں باباصاحب امبیڈ کر کے سواسو سال منائے گئے ۔ مہاتما گاندھی جی کی سالگرہ منائی گئی اور گاندھی کی 150 ، کوئی تصور نہیں کرسکتا ہے کہ ’’ویشنو جن کو تینے ر ے کہئے ‘‘ جو ہم لوگوں کی رگوںمیں ہے ، آج گاندھی جی کی 150 ویں سالگرہ کے دنیا کے 150 ملکوں کے مشہور گلوکاروں نے ویشنو جن کو اس کی شکل میں گاکر کے مہاتما گاندھی کو بہت بڑا خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ یعنی ملک میں ایک سافٹ پاور کو کیسے لے جایا جاسکتا ہے اس کی ایک مثال کا آج ہم تجربہ کررہے ہیں۔ 26 جنوری کو ہم نے دیکھا ہوگا – مہاتما گاندھی کو بیچ میں رکھتے ہوئے 26 جنوری کی جھانکیاں سبھی ریاستوں نے کس طرح سے گاندھی جی کو پیش کیا یعنی 150 ویں سالگرہ ۔ ہم نے اس ایوان میں، اس مدت کار میں یوم آئین منایا ۔ ہم نے اس ایوان میں ، مدت کار میں باباصاحب کی 150 ویں سالگرہ کی خصوصی طور پر چرچا کی ، ہم نے ہی اس ایوان میں ، اس مدت کار میں یواین کے پائیدار ترقیاتی ہدف کے لئے وقت دیا اور سب نے مل کر پائیدا ر ترقیاتی ہدف کے سلسلے میں بحث کی ۔ یہ نئی روایتیں اسی مدت کار میں اسی ایوان میں آپ کی قیادت میں ممکن ہوئے ہیں اور اس لئے ایوان کے سبھی ارکان آپ کاشکریہ ادا کرتے ہیں۔ تقریباََ 219 بل پیش ہوئے اور 203 بل منظور ہوئے اور اس ایوان میں جو آج ارکان پارلیمنٹ ہیں – سولہویں لوک سبھا کے سلسلے میں ، اپنی زندگی کے سلسلے میں جب بھی کسی سے بتائیں گے ، الیکشن کے میدان میں جائیں گے تب بھی بتائیں گے اور الیکشن کے بعد جب بھی موقع ملے گا کچھ لکھنے کی عادت ہوگی سوانح حیات لکھیں گے تو ضرور لکھیں کے کہ وہ اس مدت کا ر کے رکن کے جس مدت کار میں انہوں نے دھن اور دولت بدعنوانی کے خلاف سخت قانون بنانے کا کام کیا تھا ۔ اس ملک میں ایسے قانون جو پہلے کبھی نہیں بن پاتے تھے ۔ وہ اس ایوان نے بنائے تھے ۔ اور اس کا بہت بڑا بیرون ملک میں جمع ہوئے کالے دھن کے خَلاف بہت بڑے قانون بنانے کا کام یہیں پر ہوا ۔دیوالیہ کمپنیوںسے منسلک آئی بی سی کا قانون اسی ایوان نے بنایا ۔ بے نامی املاک کے سلسلے میں قانون اسی ایوان نے بنایا ۔ معاشی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بھگوڑوں کے خلاف قانون اسی ایوان نے بنایا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان پانچ سالوں میں اس ایوان کی مدت کار میں کالے دھن اور بدعنوانی کے خلاف لڑائی لڑنے کے لئے جو قانونی نظام چاہئے ، جو قانونی حق چاہئے ، بین الاقوامی دنیا میں ہمارے قانو ن کی ایک طاقت ہونی چاہئے ۔ اس کے لئے جو کچھ بھی کرنا چاہئے ، اس کو اس ایوان میں پاس کرکے ملک کی آنے والی شتابدی کی خدمت کی ہے ۔یہی ایوان جس نے جی ایس ٹی کا بل پاس کیا اور رات کو بارہ بجے مشترکہ اجلاس بلایا اور کریڈٹ لینے کی کوشش کئے بغیر سابق وزیر خزانہ اور اس وقت کے صدر جمہوریہ ، ان کے ہاتھوںسے ہی جی ایس ٹی پاس کرکے ، تاکہ سب کو اس کا حق ملے ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ،اس میں چلے ۔ اس کی ایک نتیجہ خیزکوشش کی گئی ۔ اسی طر ح سے یہی ایوان ہے، جس نے آدھار بل کو ایک بہت بڑی قانونی طاقت دی ۔ آدھار دنیا کے لئے عجوبہ ہے ۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ اس ملک نے اتنا بڑا کا م کیا ہے ۔ دنیا اس کو جاننے کی کوشش کررہی ہے۔ اس مدت کار میں ایوان نے اس کام کو کرکے دنیا میں بہت بڑا کام کیا ہے۔ ملک آزادہوا لیکن پتہ نہیں وہ کون سی ہماری ذہنیت تھی کہ ہم انیمی پراپرٹی پر فیصلہ نہیں کرپاتے تھے ۔ بہت سخت اینمی پراپرٹی بل پاس کرکے بھارت کے 1947 کے ان زخمو ں کے خلاف جو کچھ بھی چل رہا تھا ، اس پر کام کرنے کا کام کیا ۔ اس ایوان میں سماجی انصاف کی سمت میں بھی بہت طویل عرصے تک سماج کو متاثر کرے گا۔ اعلیٰ ذات کے غریب لوگوں کے لئے ریزرویشن کا انتظام اس کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے ۔ بغیر کسی الجھن کے ، کسی کے دماغ میں اندیشہ نہ رہتے ہوئے سماج کے دبے کچلے ایک طبقے کو ، ان کی باتوںکو وزن دیا گیا اور ان کو بھروسہ دلاتے ہوئے قانون پاس کیا ۔ دونوں ایوان کی سبھی پارٹیوں کے تمام ارکان پارلیمنٹ اس کے لئے مبارکباد کے مستحق ہیں اور اس کے لئے میں سمجھتا ہو ں کہ یہ بہت بڑا کا م یہ دس فیصد ریزرویشن کا ہوا ہے ۔ اسی طرح سے او بی سی کے لئے کمیشن کی تشکیل کا معاملہ ہو یا ایس سی ،ایس ٹی ایکٹ کی جو سپریم کورٹ کے بعد غلط فہمی ہوئی ،اس کو ٹھیک کرنے کا کا م ہو ۔ زچگی فوائدبھی دنیا کے سارے ممالک بھی ا س بات کو سن کر حیران ہوتے ہیں کہ کیا بھارت نے بارہ ہفتے سے لے کر میٹرنٹی لیو 26 ہفتے کردی ہے ۔ اس بات کو آج دنیا ، بھارت کو ایک آگے کی سوچ والے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے ، یہ کام اسی ایوان نے کیا ہے ۔ ایوان قانون بناتا ہے ۔ لیکن اس بات کے لئے بھی اس مدت کار کو ملک اور دنیا یاد رکھے گی کہ جو قانون بنانے والا یہ طبقہ ، انہوں نے قانون ختم کرنے کا کابھی کام کیا ہے ۔1400سے زیادہ قانون ختم اسی ایوان کے ارکان نے کرکے ملک کو کافی اس کے جنگل جیسے قوانین بن گئے تھے ، اس میں راستے تلاش کرنے کی سمت میں ایک خوش آئند شروعات کی ہے ۔1400 قانون ختم کرنے کے بعد بھی میں کہتا ہوں کہ اچھی شروعات ہوئی ہے ، ابھی بھی کررہا ہوں، بہت باقی ہیں اور اس کے لئے ملائم سنگھ جی نے آشیرواد دےدیا ہے ۔ ایک بہت بڑا کام اور میں مانتا ہوں کہ ملک کو اس کو اچھے ڈھنگ سے جیسے پہنچنا چاہئے تھا ، ہم پہنچا نہیں پائے ہیں ۔ ہم سبھی ارکان پارلیمنٹ پر ایک کلنک ہمیشہ لگا رہتا تھا کہ ہمیں لوگ ہماری تنخواہیں طے کرتے ہیں ۔ ہمیں لوگ جو مرضی ہو اتنی بڑھ دیتے ہیں ، ہم ملک کی پرواہ نہیں کرتے اور جس دن ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھتی تھیں ۔ دنیا بھر کے تبصرے ہمارے پاس ہوتے تھے اور یہ پچھلے 50 سال سے ہورہا تھا ۔ پہلی بار سبھی ارکان پارلیمنٹ نے مل کر اس تنقید سے نجات کا راستہ تلاش کرلیا ا ور ایک ایسا آئینی نظام بنادیا کہ وہ آئینی نظام کے تحت دوسروں کا جو ہوگا ا ن کا بھی ہوجائے گا۔ اب اس کام کے شراکت دار ارکان پارلیمنٹ بذات خود نہیں ہوں گے اور انہیں بہت بڑ ی نجات مل گئی اس تنقید سے ۔ ہمارے جتیندر جی نے اچھا کھانا تو کھلایا لیکن باہر ہم تنقیدیں سنتے تھے کہ کنٹین کے اندر پیسہ بہت کم ہے اور باہر مہنگا ہے ۔ یہ ایم پی ایس ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ جتیندر جی کی کمیٹی نے میرے احساسات کو تسلیم کیا ، اسپیکر محترمہ نے بھی اعتراف کیا اورجو بہت سستے میں یہاں دیا جاتا تھا ، آپ کو تھوڑا جیب میں نقصان ہوگیا لیکن اس میں سے بھی نجات پانے کی سمت میں قدم آگے بڑھایا ہے اور مکمل طور پر پہنچنے میں بھی آنے والے دنوں میں ہمیں اچھی طاقت آکر ہم وہ بھی کرلیں گے ۔ایسا میرا یقین ہے ۔ اسی طرح سے اس ایوان کو اور بھی بہت سی باتوں کا ضرور لطف آئے گا۔ ہم کبھی کبھی سنتے تھے زلزلہ آئے گا ، لیکن پانچ سال کی مدت کار پوری ہورہی ہے ،کوئی زلزلہ نہیں آیا ہے۔ کبھی ہوائی جہاز اڑے اور بڑے بڑے لوگو ں نے ہوائی جہاز اڑائے لیکن جمہوریت اور لوک سبھا کی روایت اتنی اونچی ہے ، زلزلے کو بھی ہضم کرگئی اورکوئی ہوائی جہاز اس اونچائی پر نہیں جا پایا ۔ یہ جمہوریت کی طاقت ہے ، یہ ایوان کی طاقت ہے ، کئی بار تیکھی نوک جھونک بھی ہوئی ہے ۔ کبھی اِدھر سے ہوئی کبھی اُدھر سے ہوئی۔ کبھی کچھ ایسے لفظوں کا بھی استعمال ہوا ہوگا جو نہیں ہونا چاہئے۔ اس ایوان میں کسی بھی رکن کے ساتھ ضروری نہیں اس طرف سے ، اس طرف کے بھی ، یہ ایوان کے نیتا کی شکل میں میں ضرور مچھامی دکھم کہوں گا ۔ معافی کی درخواست کے لئے جے ہند ۔ ماحول میں مچھامی دکھم – ایک بہت بڑا پیغام دینے والا لفظ ہے ۔اس احساس کا میں اظہار کرتا ہوں ۔ ملکارجن سے ہمارا بھی تھوڑا بہت رہتا تھا ۔ اچھا ہوتا آج ان کا گلا ٹھیک ہوتا تو آج بھی فائدہ ملتا ۔ لیکن کبھی کبھی میں ان کو سن نہیں پاتا تھا۔ تو بعد میں پوری تفصیل دیکھ لیتا تھا اور یہ ضروری بھی تھا۔ میں کہوں گا جیسے کہا گیا کہ طویل مدت تک پورا وقت بیٹھنا ، اسی وقت ہم دیکھتے تھے کہ اڈوانی جی ایوان میں پورا وقت بیٹھتے تھے۔ کھڑگے جی کو دیکھ لیجئے پورا وقت یہ ہم ارکان پارلیمنٹ کے لئے سیکھنے کا موضوع ہے اور یہ بھی کم بات نہیں ہے کہ تقریباََ 50 سال ان کے ہوئے ہیں ،اس عوامی نمائندگی کے ۔ اس کے باوجود بھی عوامی نمائندگی کے ناط�� ملی ہوئی ذمہ داری کو جس اچھے انداز میں آپ نے نبھایا ہے ،میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔ میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو بہت سی چیزیں نئی جاننے کو ملیں ،جس کا کچھ مطلب ہی زندگی میں معلوم نہیں تھا ۔ پہلی بار مجھے پتہ چلا کہ گلے ملنا اور گلے پڑنا میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ یہ پہلی بار پتہ چلا، مجھے پہلی بار ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایوان میں آنکھوں سے غصہ کیا ہوتا ہے ۔ یہ آنکھوں کی گستاخیاں والا کھیل بھی پہلی بار اسی ایوان میں دیکھنے کو ملا اور بیرونی ملکوں کے میڈیا نے بھی اس کا بہت زیادہ مزہ لیا۔ پارلیمنٹ کا وقار بنائے رکھنا ہر رکن پارلیمنٹ کا فریضہ ہوتاہے اور ہم نے اس کو بھرپور بنائے رکھنے کی سب نے کوشش کی ہے ۔ اس بار ہمارے ارکان پارلیمنٹ کے ٹیلنٹ کا بھی بڑا تجربہ ہوا ہے۔ ابھی جب میں ایک دن خطاب کررہا تھا ،صدر جمہوریہ کے اوپر ایسا قہقہہ سننے کو مجھے ملتا تھا ا س ایوان میں ۔ میں ضرور یہ جو انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری والے ہیں ،ان کو اس طرح کے قہقہے کی ضروررت ہے ، ان کے لئے یوٹیوب سے اتنا دیکھنے کے لئے اجازت دے دینی چاہئے ۔ شاید اچھے اچھے فن کار بھی ایسا قہقہہ نہیں لگا پاتے ہوں گے ، جو یہاں پرسننے کو ملتا تھا ۔ مجھ جیسے ایک نئے رکن پارلیمنٹ نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ آپ سب کی مدد سے نیا ہونے کے باوجود بھی مجھے کبھی کمی محسوس ہونے نہیں دی ،آپ سب ساتھیو ں نے ۔سبھی طرف سے ،سب نے اور آپ کی قیادت نے ، آپ کی رہنمائی نے ایک پہلی اننگ کی شروعات میں میری جو مد د کی ہے ،اس کے لئے میں آپ کا بہت ممنون ہوں ۔ میں محترم ملائم سنگھ جی کا خصوصی طور پر ممنون ہوں ۔ان کی شفقت ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سب کے لئے اہمیت رکھتی ہے ۔ میں ایک بار پھر آپ کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ اس کونسل سے جڑے سبھی عملے کے لوگوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں ، جنہوں نے ارکان پارلیمنٹ کی دیکھ بھال کی ۔ کام کے لئے جو بھی ضروری انتظامات کرنے پڑتے تھے ، انہوں نےوہ کئے ۔ اور میں سبھی ارکان پارلیمنٹ کے تئیں اپنی نیک خواہشات ظاہر کرتا ہوں کہ ایک صحت مند جمہوری روایت کے لئے جب عوام کے درمیان جانے والے ہیں تو ہم صحت مند روایت کو کیسے آگے بڑھائیں ، ایک صحت مند مقابلہ کیسے کریں ۔ ا س صحت مند مقابلے کو لے کر جمہوریت کو صحت مند بنانے میں ہم اپنا رول کیسے اداکریں ۔ ان سبھی نیک خواہشات کے ساتھ میں اپنا خطاب ختم کرتا ہوں ۔ میں ایک بار پھر ایوان کے سبھی ارکان پارلیمنٹ کا دل سے شکریہ اداکرتا ہوں۔ دھنیہ واد! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ن ا ۔رم,"১৩ ফেব্ৰুৱাৰী, ২০১৯ত ষষ্ঠদশ লোকসভাৰ অন্তিম অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A8%DB%8C%DA%88%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کو مہاپری نروان دیوس پر خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ہمارے ملک کے لیے ان کی مثالی خدمات کو یاد کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘مہاپری نروان دیوس پر، میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ہماری قوم کے لیے ان کی مثالی خدمات کو یاد کرتا ہوں۔ ان کی جدوجہد نے لاکھوں لوگوں کے دل��ں میں امید کی شمع جلائی اور ہندوستان کو ایک بےحد وسیع آئین دینے کی ان کی کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔’’,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মহাপৰিনিৰ্বাণ দিৱসত ড০ বাবাচাহেব আম্বেদকাৰক শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AE%D8%B1%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%B1-%DA%A9%D9%88%D8%A2%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%B9%DB%8C%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%87-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%87/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے جی ای ایم پر خریداروں کے طور پر کوآپریٹیوز کو حصولیابی کی اجازت دینے کے مقصد سے جی ای ایم کے دائرہ اختیار میں توسیع کو منظوری دے دی ہے۔ گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس (جی ای ایم) کا آغازحکومت ہند کی کامرس و صنعت کی وزارت نے 9 اگست 2016 کو کیا تھا، جس کا مقصد سرکاری خریداروں کے لیے ایک کھلا اور شفاف حصولیابی کا پلیٹ فارم تیار کرنا تھا۔اس سلسلے میں 12 اپریل 2017 کو مرکزی کابینہ کی منظوری کے مطابق 17 مئی 2017 کو نیشنل پبلک پروکیورمنٹ پورٹل کے طور پر گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس (جی ای ایم ایس پی وی) کے نام سے ایک اسپیشل پرپز وہیکل (ایس پی وی) قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ پلیٹ فارم تمام سرکاری خریداروں: مرکزی اور ریاستی وزارتوں، محکموں، سرکاری شعبے کی صنعتوں، خود مختار اداروں، مقامی اداروں وغیرہ کے لئے کھلا ہے۔ موجودہ حکم نامے کے مطابق، جی ای ایم نجی شعبے کے خریداروں کے استعمال کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ سپلائرز (فروخت کنندگان) سرکاری یا نجی تمام شعبوں سے ہو سکتے ہیں۔ استفادہ کنندگان کی تعداد: اس پہل سے 8.54 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ کوآپریٹیو اور ان کے 27 کروڑ ارکان کو فائدہ ہوگا۔ جی ای ایم پورٹل ملک بھر میں تمام خریداروں اور فروخت کنندگان کے لیے کھلا ہے۔ تفصیلات: 1۔ عام استعمال کے لئے اشیاء اور خدمات کی آن لائن حصولیابی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک ون اسٹاپ پورٹل کے طور پر جی ای ایم کو پہلے ہی کافی حد تک تیار کیا گیا ہے۔ یہ شفاف، موثر ہے اور بڑے پیمانے کی اور تیز رفتار حصولیابی کی سہولت فراہم کراتاہے۔ 2۔ جی ای ایم پر خریداروں کے طور پر کوآپریٹو سوسائٹیوں کو رجسٹریشن کرانے کی اجازت دیے سے کوآپریٹیو کو ایک کھلے اور شفاف عمل کے ذریعے مسابقتی قیمتیں حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ 3۔پائلٹ کے طور پر جی ای ایم پر لائی جانے والے کوآپریٹیو کی تصدیق شدہ فہرست کے ساتھ ساتھ بعد میں اضافے کا فیصلہ امداد باہمی کی وزارت جی ای ایم، ایس پی وی کے مشورے سے کرے گی۔ اس سے جی ای ایم پر خریداروں کے طور پر کوآپریٹو کی لانے کی رفتار کا تعین کرتے وقت جی ای ایم سسٹم کی تکنیکی صلاحیت اور لاجسٹکس کی ضروت پر غور کئے جانے کو یقینی بنایا جائے گا۔ 4۔ جی ای ایم کوآپریٹیوز کے لیے ایک وقف شدہ آن بورڈنگ پروسیس فراہم کرائے گا اور موجودہ پورٹل پر اضافی یوزرزکو شامل کرنے کے لیے تکنیکی بنیادی ڈھانچہ فراہم کرائے گا اور ساتھ ہی دستیاب رابطہ مراکز، انفیلڈ ٹریننگ اور دیگر امدادی خدمات کے ذریعے آن بورڈنگ اور ٹرانزیکشن کے سفر کے لئے کوآپریٹیو کو مدد فراہم کرائے گا۔ 5۔ امداد باہمی کی وزارت زیادہ شفافیت، کارکردگی اور مسابقتی قیمتوں سے فائدہ اٹھانے کے مقصد سے اشیا اور خدمات کی حصولیابی کے لئے جی ای ایم پلیٹ فارم کا استعمال کے واسطے کوآپریٹو ��وسائٹیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ضروری مشاورتی نوٹ جاری کرے گی۔ 6۔ جی ای ایم پر وسیع تر فروخت کنندہ برادری کے مفادات کی حفاظت کرنے اور وقت پر ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے لیے، ادائیگی کے نظام کے طریقوں کا تعین جی ای ایم امداد باہمی کی وزارت کے مشورے سے کرے گی۔ نفاذ کی حکمت عملی اور اہداف: جی ای ایم اس سلسلے میں مناسب کارروائیاں کرے گی، جن میں جی ای ایم پورٹل پر ضروری خصوصیات اور افعال کی تخلیق، بنیادی ڈھانچے کا اپ گریڈیشن، ہیلپ ڈیسک اور تربیتی ایکو سسٹم کو مستحکم کرنا اور کوآپریٹیوز کی آن بورڈنگ شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اس کار کو انجام دینے کی رفتار اور میکانزم کا فیصلہ امداد باہمی کی وزارت کرے گی۔ اس سلسلے میں سنگ میل اور نشانوں کی تاریخوں کو امداد باہمی کی وزارت اور جی ای ایم (کامرس و صنعت کی وزارت) کے باہمی اتفاق سے طے کیا جائے گا۔ روزگار پیدا کرنے کے امکانات سمیت اس پہل اثرات: امداد باہمی کی وزارت چاہتی تھی کہ کوآپریٹو سوسائٹیوں کو جی ای ایم سے اشیا اور خدمات حصولیابی کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ عام استعمال کی اشیاء اور خدمات کی آن لائن حصولیابی کی سہولت فراہم کرانے کے لئے ایک ون اسٹاپ پورٹل کے طور پر اس کو پہلے ہی کافی حد تک تیار کیا جاچکا ہے۔ یہ شفاف، موثر ہے اور بڑے پیمانے کی اور تیز رفتار حصولیابی کی سہولت فراہم کراتاہے۔اس بات کے پیش نظر ضرورت کے مطابق اشیا اور خدمات کے خریداروں کے طور پر جی ای ایم پر رجسٹر یشن کے لئے کو آپریٹیوز سوسائٹیز کو اجازت دینے سے کوآپریٹیوز کو ایک کھلے اور شفاف عمل کے ذریعے مسابقتی قیمتیں حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ سوسائٹیوں میں چونکہ 27 کروڑ سے زیادہ ارکان ہیں، اس لیے جی ای ایم کے ذریعے حصولیابی سے عام آدمی کو معاشی طور پر فائدہ ہو گا، بلکہ اس سے کوآپریٹیو کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوگا۔ جی ای ایم نے کام کاجی ضرورتوں، تکنیکی بنیادی ڈھانچے کے بندوبست اور اس میں شامل متعدد متعلقین کے ساتھ ڈیلنگ کرنے سمیت ایک ایڈوانسڈ ایک پروکیورمنٹ پورٹل چلانے کی بھرپور تفہیم بھی پیدا کی ہے۔ یہ محسوس کیا گیا کہ ملک میں حصولیابی کا ایکو سسٹم تیار کرنے کے عمل میں حاصل ہونے والے بھرپور تجربے کو کوآپریٹیوز کے لیے بھی حصولیابی کے عمل میں کارکردگی اور شفافیت پیدا کرنے کے لیے نمایاں طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جی ای ایم کے رجسٹرڈ فروخت کنندگان کے لئے بھی ایک وسیع تر خریداروں کی بنیاد فراہم کراتے ہوئے کو آپریٹیوز کے لئے مجموعی ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ میں اضافے کی بھی توقع ہے۔ اخراجات: جبکہ جی ای ایم ایس پی وی حکم نامےمیں مجوزہ توسیع کے سلسلے میں موجودہ پلیٹ فارم اور تنظیم کے استعمال کو جاری رکھے گا لیکن اسے اضافی ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے اور اضافی تربیت اور معاون وسائل میں کچھ سرمایہ کاری کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ان اضافوں کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے، جی ای ایم کوآپریٹیو سے ایک مناسب ٹرانزیکشن فیس وصول کر سکتی ہے، جس کا تعین امداد باہمی کی وزارت کے مشورے سے کیاجائے گا۔ یہ فیس جی ای ایم کے ذریعہ دیگر سرکاری خریداروں سے وصول کئے جانے والے چارج سے زیادہ نہیں ہوگی۔اس سے جی ای ایم کے لئے آپریشنز کی خود کفیلی کو یقینی بنایا جاسکے گا اور اس لیے حکومت کے لیے کسی بڑے مالیاتی خرچ کی توقع نہیں ہے۔ پس منظر: جی ای ایم، ایس پی وی نے اپنے قیام کے بعد سے ہی اہم پیش رفت کی ہے۔ مالی سال 2018-19 سے مالی سال 2021-22 تک اس ��ی مجموعی تجارتی قیمت (جی ایم وی) میں سی اے جی آر کے ساتھ 84.5 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ پورٹل نے مالی سال 2021-22 میں جی ایم وی میں 178فیصد اضافہ کیا ہے اور محض مالی سال 2021-22 میں ہی ایک لاکھ کروڑ بھارتی روپے کے نشانے کو پار کیا ہے، جو کہ مالی سال 2020-21 تک کے مجموعی جی ایم وی سے زیادہ ہے۔ مالی سال سالانہ جی ایم وی (بھارتی روپے) گزشتہ شال کے مقابلے اضافہ 2018-19 مالی سال 16,972 کروڑ 2019-20مالی سال 22,580 کروڑ 33فیصد مالی سال 2020-21 38,280 کروڑ 70فیصد مالی سال 2021-22 106760 کروڑ 178فیصد جی ای ایم کے تینوں ستونوں یعنی شمولیت، شفافیت اور کارکردگی نے نمایاں پیش رفت دیکھی ہے۔ مجموعی لین دین کی قیمت میں ایم ایس ایم ای کا تعاون تقریباً 58فیصد ہے۔ مختلف آزاد مطالعات، بشمول ورلڈ بینک اور نیشنل اکنامک سروے 2021، سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ شرکت کرانے اور مناسب قیمت کے متبادل فراہم کرانے کی جی ای ایم کی صلاحیت کی وجہ سے خاطر خواہ بچت ہوئی ہے۔ بھارت میں کوآپریٹو تحریک نے نمایاں طور پر ترقی کی ہے اور یہ بھارت میں پسماندہ طبقات ترقیاتی ضروریات کو خصوصی طور پر زراعت، بینکنگ اور ہاؤسنگ کے شعبوں میں پورا کرنے کے لئے اہم رول ادا کررہی ہے۔ اس وقت 8.54 لاکھ رجسٹرڈ کوآپریٹیوز موجود ہیں۔ یہ کوآپریٹیوز مجموعی طور پر بڑی مقدار میں خرید و فروخت کرتی ہیں۔ اس وقت خریداروں کے طور پر کوآپریٹیوز کا رجسٹریشن جی ای ایم کے موجودہ دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھا۔",কেবিনেটে চৰকাৰী ই মাৰ্কেটপ্লেচ-বিশেষ উদ্দেশ্যৰ বাহন (GeM – SPV)ৰ কাৰ্যভাৰ সম্প্ৰসাৰণ কৰি সমবায়সমূহক ক্ৰেতা হিচাপে ক্ৰয় কৰাৰ অনুমতি দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DB%8C%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%84-%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%A4/,نئی دہلی، 6 مارچ 2018، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمارت متعین وقت سے پہلے مکمل ہوگئی ہے۔ انہوں نے اس کی تعمیر میں شامل تمام ایجنسیوں کو مبارکباد دی۔انہوں نے کہا کہ ماحول دوست گرہ۔IV درجہ بندی والی اس عمارت سے توانائی کی بچت کی جاسکے گی اور اس سے ماحولیات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ نئی عمارت سی آئی سی کے کام کاج میں بہتر تعاون اور اتحاد میں مددگار ثابت ہوگی۔ سی آئی سی کی موبائل ایپلی کیشن کی شروعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس سے شہریوں کو آسانی کے ساتھ اپیلیں داخل کرنے میں مدد ملے گی اور کمیشن کی طرف سے فراہم اطلاعات تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل ہوسکے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جمہوری اور شمولیت والی حکمرانی کے لئے شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سی آئی سی ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ادارے اعتماد پر مبنی حکمرانی کے لئے مددگار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک ‘‘بااختیار شہری’’ جمہوریت کا سب سے مضبوط ستون ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران مرکزی حکومت مختلف ذرائع سے لوگوں کو معلومات فراہم کررہی ہے اور انہیں بااختیار بنارہی ہے۔انہوں نے موجودہ ا��لاعاتی شاہراہ کے پانچ ستونوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلا ستون سوال پوچھنا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مائی گوو (MyGov) پلیٹ فارم ہے۔ دوسرا ستون تجاویز (سجھاؤ) پر کان دھرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سی پی جی آر اے ایم ایس یا سوشل میڈیا پر ملنے والی تجاویز کے سلسلے میں کھلا ذہن رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیسرا ستون بات چیت (سمواد) ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت اور شہریوں کے درمیان رابطہ قائم ہوتا ہے۔چوتھا ستون سرگرمی (سکری یتا) ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جی ایس ٹی پر عمل درآمد کے دوران شکایات اور تجاویز پر سرگرمی سے غور کیا گیا اور ان کا ازالہ کیا گیا۔ پانچواں ستون انفارمیشن یعنی سوچنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمل اور کارروائیوں کے بارے میں شہریوں کو مطلع کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بروقت اپ ڈیٹیڈ، آن لائن ڈیش بورڈ کے ذریعہ معلومات فراہم کرنے کی ایک نئی روایت شروع کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوبھاگیہ اور اجالاجیسی اسکیموں کے بارے میں معلومات دستیاب کرائی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عام طور پر چاہی گئی اطلاعات متعلقہ محکموں اور وزارتوں کے ویب پورٹل پر اپ لوڈیڈ کی جاتی ہیںَ۔ انہوں نے کہا کہ شفافیت اور شہری خدمات کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لئے ڈیجیٹل ٹکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ اسی طرح ہر پروجیکٹ کی کیفیت کی پتہ لگایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے ہفتے پرگتی کی ایک میٹنگ میں کیدارناتھ میں تعمیر نو کےکام کاج کی پیش رفت کی ایک ڈرون کیمرہ کے ذریعہ مانیٹرنگ کی گئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ پرگتی میٹنگوں نے 9 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کےپروجیکٹوں کی رفتار بڑھانے میں مدد کی ہے۔ وزیراعظم نے ڈائریکٹر جنرل آف سپلائیز اینڈ ڈسپوزل کو بند کئے جانے کی مثال پیش کی ۔ انہوں نے کہا کہ اب سرکاری خریداری گورنمٹ ای مارکیٹ یا جی ای ایم پلیٹ فارم کے ذریعہ کی جارہی ہے۔ اس سے حکومت کی خریداری میں شفافیت آرہی ہے اور بدعنوانی کے خاتمہ میں مدد مل رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نظام میں شفافیت میں اضافہ ہور ہا ہے اور حکومت پر بھروسہ بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو اپنے حقوق اور فرائض کے بارے میں بیزار ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ سی آئی سی بھی ایکٹنگ رائٹ کی اہمیت کے بارے میں عوام کو باخبر یا وضاھت کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقوق کے حصول کے لئے ف ضروری ہے کہ فرائض کو فراموش نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات اور مستقبل کے چیلنجوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہر ذمہ دار ادارے کو اپنے حقوق کےساتھ اپنے فرائض کو متوازن رکھنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,নতুন দিল্লীত কেন্দ্রীয় তথ্য আয়োগৰ নতুন ভৱন উদ্বোধন প্রধানমন্ত্রীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D8%B3%D9%B9%D8%B3-%D8%AF%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%B1%D8%A8%DA%BE%D9%86%DA%88%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%D9%88%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%86/,نئی دہلی :اکیس نومبر۔وزیراعظم، جناب نریندرمودی نے جسٹس دلویربھنڈاری کو دوبارہ بین الاقوامی کورٹ کے لئے منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ‘‘میں جسٹس دلویربھنڈاری کو بین الاقوامی کورٹ کے لئے دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ ان کا ازسرنوانتخاب ہمارے لئے باعث فخرہے ۔ وزیراعظم نے کہاہے کہ وزیرخارجہ محترمہ سشماسوراج اوروزارت خارجہ میں ان کی پوری ٹیم اورسفارتی مشنوں کو ان کے ذریعہ بھارت کو ازسرنو،بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس کے لئے منتخب کرانے کے لئے کی گئی لگاتارکوششوں کے لئے بھی مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام میں یواین جی اے کے تمام اراکین اوریواین ایس سی سے وابستہ تمام افراد کے تئیں بھی اظہارتشکرکیاہے جن کے اعتماد اور تعاون کے نتیجے میں بھارت کویہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔,আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় ন্যায়িক আদালতলৈ পুনৰ নিৰ্বাচিত হোৱাৰ বাবে ন্যায়িক দলবীৰ ভাণ্ডাৰীক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%84%D9%85%D8%AF%D8%A7%D9%86-%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%88%D8%B2%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%A6%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی وزیراعظم نیز عملہ، عوامی شکایات اور پنشنز، ایٹمی توانائی کے محکمے، خلا اور تمام اہم پالیسی امور اور کسی بھی وزیر کو نہ دیئے گئے دوسرے قلمدان وزارت کے بھی انچارج ہیں۔ کابینی وزراء 1 جناب راجناتھ سنگھ وزیرداخلہ 2 محترمہ سشما سوراج وزیرخارجہ 3 جناب ارون جیٹلی خزانہ کے وزیر ؛ اور کمپنی امور کے وزیر 4 جناب نیتن جے رام گڈ کری سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر، جہاز رانی کے وزیر اور آبی وسائل، دریائی ترقیات اور گنگا کی صفائی کے وزیر 5 جناب سریش پربھو شہری ہوا بازی کے وزیر صنعت و تجارت کے وزیر 6 جناب ڈی وی سدا نند گوڑا اعداد وشمار اور پروگراموں کے نفاذ کے وزیر کیمیکل اور فرٹیلائیزرس 7 محترمہ اوما بھارتی پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزیر 8 جناب رام ولاس پاسوان صارفین کے امور ، خوراک اور سرکاری نظام تقسیم کے وزیر 9 محترمہ مینکا سنجے گاندھی خواتین اور اطفال ترقیات کی وزیر 10 جناب روی شنکر پرشاد قانون اور انصاف کے وزیر اور الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے وزیر 11 جناب جگت پرکاش نڈا صحت اورکنبہ بہبود کے وزیر 12 جناب اننت گیتے بھاری صنعتوں اور سرکاری دائرے کار کی صنعتوں کے وزیر 13 محترمہ ہرسمرت کور بادل خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعتوں کی وزیر 14 جناب نریندر سنگھ تومر دیہی ترقی کے وزیر، پنچایتی راج کے وزیر اور کانو کے وزیر پارلیمانی امور کے وزیر 15 جناب چودھری بریندر سنگھ فولاد کے وزیر 16 جناب جوال اورام قبائلی امور کے وزیر 17 جناب رادھا موہن سنگھ زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود کے وزیر 18 جناب تھاور چند گہلوت سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے وزیر 19 محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی کپڑے کی صنعت کی وزیر 20 ڈاکٹر ہرش وردھن سائنس وٹکنالوجی کے وزیر، آراضیاتی سائنسز کے وزیر اور ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے وزیر 21 جناب پرکاش جاوڈیکر انسانی وسائل کی ترقیات کے وزیر 22 جناب دھرمیندر پردھان پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر اور ہنر مندی ترقیات و صنعت کاری کے وزیر 23 جناب پیوش گوئل وزیر ریلوے ؛ اور وزیر کوئلہ۔ 24 محترمہ نرملا سیتا رمن وزیر دفاع 25 جناب مختار عباس نقوی اقلیتی امور کے وزیر وزراء مملکت ( آزادانہ چارج) 1 جناب راؤ اندر جیت سنگھ منصوبہ بندی کی وزارت کے وزیر مملکت (آزدانہ چارج) اور کیمیاوی اشیاء اور کیمیاوی کھادوں کی وزارت میں وزیر ممل��ت 2 جناب سنتوش کمار گنگوار محنت اور روزگار کی وزارت کے وزیرمملکت( آزادانہ چارج) 3 جناب شری پد یسونائک یوروید، یوگا اور قدرتی طریقہ ہائے علاج، یونانی ،سد ھ اور ہیومیوپیتھی( آیوش ) کے وزیر مملکت( آزادانہ چارج) 4 ڈاکٹر جتیندر سنگھ شمال مشرقی خطے کی ترقی کی وزارت کے وزیرمملکت ( آزادانہ چارج) وزیراعظم کے دفتر میں وزیرمملکت، عملہ، عوامی شکایات اور پنشز کی وزارت میں وزیر مملکت،ایٹمی توانائی کے محکمہ میں وزیرمملکت اور خلاء کے محکمے میں وزیرمملکت 5 ڈاکٹر مہیش شرما تہذیب و ثقافت کے وزیرمملکت (ازادانہ چارج) اور ماحولیات، جنگلات اور آب وہوا کی تبدیلی کی وزارت میں وزیرمملکت 6 جناب گری راج سنگھ بہت چھوٹی،چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے وزیرمملکت(آزادانہ چارج) 7 جناب منوج سنہا مواصلات کے وزیرمملکت( آزدانہ چارج) اورریلوے کے وزیرمملکت 8 کرنل راج وردھن سنگھ راٹھور نوجوانوں اور کھیل کود کی امور کی وزارت کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) اطلاعات و نشریات کی وزارت کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) 9 جناب راجکمار سنگھ بجلی کی وزارت میں وزیرمملکت( آزادانہ چارج) اور نئی قابل احیاء توانائی کی وزارت میں وزیرمملکت(آزدانہ چارج) 10 جناب ہردیپ سنگھ پوری ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کے وزیرمملکت(آزادانہ چارج) 11 جناب الفونس کننتھانم سیاحت کی وزارت کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) وزراء مملکت 1 جناب وجے گوئل پارلیمانی امور کے وزیرمملکت اور اعداد وشمار اور پروگرام کے نفاذ کے وزیرمملکت 2 جناب رادھا کرشنن پی خزانہ کی وزارت میں وزیرمملکت اور جہاز رانی کی وزارت میں وزیرمملکت 3 جناب ایس ایس اہلوالیہ الیکٹرانکس اور اطلاعاتی تکنالوجی کی وزارت میں وزیر مملکت 4 جناب رمیش چنددپا جیگاجیناگی پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کی وزارت میں وزیرمملکت 5 رام داس اٹھاولے سماجی انصاف و تفویض اختیارات کے وزارت میں وزیرمملکت 6 جناب وشنو دیو سائی وزارت فولاد میں وزیرمملکت 7 جناب رام کرپال یادو دیہی ترقی کی وزارت میں وزیرمملکت 8 جناب ہنس راج گنگا رام اہیر امور داخلہ کی وزارت میں وزیرمملکت 9 جناب ہری بھائی پرتی بھائی چودھری کانو کی وزارت میں وزیرمملکت اور کوئلے کی وزارت میں وزیرمملکت 10 جناب راجن گوہین ریلوے کی وزارت میں وزیرمملکت 11 جنرل( سبکدوش) وی کے سنگھ امور خارجہ کی وزارت میں وزیرمملکت 12 جناب پرشوتم روپالا زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود کی وزارت میں وزیرمملکت اور پنچایتی راج کی وزارت وزیرمملکت 13 جناب کرشن پال سماجی انصاف و تفویض اختیارات کی وزارت میں وزیرمملکت 14 جناب جسونت سنگھ سمن بھائی بھبھور قبائلی امور کی وزارت میں وزیرمملکت 15 جناب شیو پرتاپ شکلا وزارت خزانہ میں وزیرمملکت 16 جناب اشونی کمار چوبے صحت اورکنبہ بہبود کی وزارت میں وزیرمملکت 17 جناب سندرشن بھگت قبائلی امور کی وزارت میں وزیرمملکت 18 جناب کرن ری جیجو امور داخلہ کی وزارت میں وزیرمملکت 19 ڈاکٹر وریندر کمار خواتین اور اطفال کی فروغ کی وزارت میں وزیرمملکت اور قبائلی امور کی وزارت میں وزیرمملکت 20 جناب اننت کمار ہیگڈے ہنر مندی کے فروغ اور صنعت کاری کی وزارت میں وزیرمملکت 21 سادھوی نرنجن جیوتی خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعتوں کی وزارت میں وزیرمملکت 22 جناب جینت سنہا شہری ہوابازی کی وزارت میں وزیرمملکت 23 جناب بابل سپریو بھاری صنعتوں اور سرکاری دائرہ کار کی صنعتوں کی وزارت میں وزیرمملکت 24 جناب وجے سمپلا سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت میں وزیرمملکت 25 جناب ارجن رام میگھوال پارلیمانی امور کی وزارت میں وزیرمملکت اور آبی وسائل، کی ترقیات دریا اور گنگا کی صفائی کی وزارت میں وزیرمملکت 26 جناب اجے ٹمٹا کپڑے کی صنعتوں کی وزارت میں وزیرمملکت 27 محترمہ کرشنا راج زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود کی وزارت میں وزیرمملکت 28 جناب من سکھ ایل منڈاویہ سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت میں وزیرمملکت، جہاز رانی کی وزارت میں وزیرمملکت اور کیمیاوی اشیاء اور کیمیاوی کھادوں کی وزارت میں وزیرمملکت 29 محترمہ انوپریہ پٹیل صحت اور کنبہ بہبود کی وزارت میں وزیرمملکت 30 جناب سی آر چودھری صارفین کے امور،خوراک اور سرکاری نظام تقسیم کی وزارت میں وزیرمملکت اور صنعت و تجارت کی وزارت میں وزیرمملکت 31 جناب پی پی چودھری قانون اور انصاف کی وزارت میں وزیرمملکت اور کارپوریٹ امور کی وزارت میں وزیرمملکت 32 ڈاکٹر سبھاش رام راؤ بھامرے وزارت دفاع میں وزیرمملکت 33 جناب گجیندر سنگھ شیخاوت زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود کی وزارت میں وزیرمملکت 34 ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ فروغ انسانی وسائل کی وزارت میں وزیرمملکت اور آبی وسائل ، ترقیات دریااور گنگا کی صفائی کی وزارت میں وزیرمملکت,কেন্দ্ৰীয় মন্ত্ৰী পৰিষদৰ বিভাগীয় তথ্য +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%DB%8C-7-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D9%84%DA%AF-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%AD-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%81%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%8B%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 27 جون 2022 کو جرمنی کے شہر شالز ایلماؤ میں جی-7 سربراہ اجلاس سے الگ انڈونیشیا کے صدر عالی مرتبت جناب جوکو ویدودو کے ساتھ میٹنگ کی۔ وزیر اعظم نے انڈونیشیا کی جاری جی-20 صدارت پر صدر ویدودو کو مبارکباد دی۔ بھارت کی آئندہ جی-20 کی صدارت پر بھی بات چیت ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے عالمی اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔م ع۔ع ن (),জি-৭ সন্মিলনৰ আঁৰত ইণ্ডোনেছিয়াৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰে মিলিত প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%B1%D8%B3%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%83%E0%A7%B0-3/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نےنرسوں کے عالمی دن کےموقع پر ہمارے کرہ ارض کو صحت مند بنانے میں نرسوں کے کلیدی رول کےلئے ان کی ستائش کی ۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ’’نرسیں ہمارے کرہ ارض کو صحت مند بنانے میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں ، ان کی جانفشانی اور ہمدردی مثالی ہے ۔نرسوں کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جس میں ہم اپنی تمام نرسوں کی تعریف کو دہرا تے ہیں جنہوں نے انتہائی چیلنج بھری صورتحال میں بھی غیر معمولی کام انجام دیا اور لوگوں کی زبردست خدمت کی ‘‘۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় ধাত্ৰী দিৱসত পৃথিৱীক সুস্থ ৰখাত গুৰুত্বপূৰ্ণ ভূমিকা পালন কৰা বাবে ধাত্ৰীসকলক অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D9%85%D9%88%D8%A8%D8%A7%D8%A6%D9%84-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2-%E0%A6%95%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9B/,اس تاریخی موقع پر کابینہ میں موجود میرے رفیق کار ، ملک کی صنعت کے نمائندے، دیگر معززین، خواتین و حضرات، یہ چوٹی کانفرنس عالمی ہے لیکن آواز مقامی ہے۔ یہی نہیں، آغاز بھی مقامی ہے۔ آج کا دن 21ویں صدی کے ترقی پذیر ہندوستان کی صلاحیت کو دیکھنے کے لیے، اس صلاحیت کو دیکھنے کے لیے، اسے دکھانے کے لیے ایک خاص دن ہے۔آزادی کے امرت مہوتسو کے اس تاریخی دور میں یکم اکتوبر 2022 ، یہ دن تاریخ میں درج ہونے جا رہا ہے۔ دوسرا، یہ نوراتری تہوار چل رہا ہے۔ شکتی کی پوجا کا تہوارہوتا ہے اور 21ویں صدی کی جو سب سے بڑی طاقت ہےاس طاقت کو ایک نئی بلندی پر لے جانے کا آج آغاز ہو رہا ہے۔ آج ملک کی طرف سے، ملک کی ٹیلی کام انڈسٹری کی جانب سے، 130 کروڑ ہندوستانیوں کو 5جی کی شکل میں ایک شاندار تحفہ مل رہا ہے۔ 5جی ملک کے دروازے پر دستک دینے والا ایک نیا دور لے کر آیا ہے۔ 5جی مواقع کے لامحدود آسمان کا آغاز ہے۔ میں اس کے لیے ہر ہندوستانی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھیوں، ان قابل فخر لمحات کے ساتھ ساتھ مجھےاس بات کی بھی خوشی ہے کہ 5جی متعارف کرانے میں ہمارے ساتھ گاؤں کے اسکولوں کے بچے بھی شریک ہیں، گاؤں بھی شریک ہیں، مزدور اور غریب بھی شریک ہیں۔ ابھی میں یوپی کے ایک دیہی اسکول کی بیٹی سے 5جی ہولوگرام ٹیکنالوجی کے ذریعہ روبرو ہو رہا تھا۔ جب میں 2012 کے انتخابات میں ہولوگرام کے ساتھ انتخابی مہم میں مشغول تھا تو یہ دنیا کے لیے ایک عجوبہ تھا۔ آج وہ گھر گھر پہنچ رہا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ نئی تکنیک ان کے لیے کس طرح تعلیم کے معنی بدلتی جا رہی ہیں۔ اسی طرح گجرات، مہاراشٹر اور اوڈیشہ کے گاؤں کے دور دراز کے اسکولوں تک ، 5جی کے ذریعہ، بچے کلاس روم میں اعلیٰ ماہرین کے ساتھ نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ نئے دور کی کلاس کا حصہ بننا واقعی ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ ساتھیوں، 5 جی کے بارے میں ہندوستان کی کوششوں کا ایک اور پیغام ہے۔ جدیدہندوستان، ٹیکنالوجی کے محض صارف کے طور پر نہیں رہے گا، بلکہ ہندوستان اس ٹیکنالوجی کی ترقی اور نفاذ میں بہت فعال کردار ادا کرے گا۔ مستقبل کی وائرلیس ٹیکنالوجی کو ڈیزائن کرنے میں، اس سے منسلک مینوفیکچرنگ میں ہندوستان کا بڑا رول ہوگا۔ 2جی، 3جی، 4 جی کے وقت ہندوستان ٹیکنالوجی کے لیے دوسرے ممالک پر منحصر تھا۔ لیکن 5 جی کے ساتھ، ہندوستان نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ 5جی کے ساتھ، ہندوستان پہلی بار ٹیلی کام ٹیکنالوجی میں عالمی معیار قائم کر رہا ہے۔ہندوستان قیادت کر رہا ہے۔ آج انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر شخص یہ بات سمجھ رہا ہے کہ 5 جی انٹرنیٹ کے پورے فن تعمیر کو بدل دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج 5جی ہندوستان کے نوجوانوں کے لیے ایک بہت بڑا موقع لے کر آیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارا ملک، جو ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے۔ یہ ہندوستان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے، ڈیجیٹل انڈیا مہم کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ ساتھیوں، جب ہم ڈیجیٹل انڈیا کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ صرف ایک سرکاری اسکیم ہے۔ لیکن ڈیجیٹل انڈیا صرف ایک نام نہیں ہے، یہ ملک کی ترقی کا ایک بڑا وژن ہے۔ اس وژن کا مقصد اس ٹیکنالوجی کو عام لوگوں تک پہنچانا ہ��، جو لوگوں کے لیے کام کرے اور لوگوں سے جڑ کر کام کرے۔ مجھے یاد ہے، جب موبائل سیکٹر سے متعلق اس وژن کے لیے حکمت عملی تیار کی جا رہی تھی، تو میں نے کہا تھا کہ ہمارا اپروچ ٹکڑوں میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ جامع ہونا چاہیے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس شعبے کے تمام جہتوں کا ایک ساتھ احاطہ کرے۔ لہذا ہم نے ایک ساتھ 4 ستونوں اور چار سمتوں پربیک وقت توجہ مرکوز کی۔ پہلا – ڈیوائس کی لاگت، دوسرا – ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی، تیسرا – ڈیٹا کی قیمت، چوتھا اور سب سےضروری ہے – 'ڈیجیٹل فرسٹ' کی سوچ ۔ ساتھیوں، جب ہم پہلے ستون کے بارے میں بات کرتے ہیں، ڈیوائس کی قیمت کی بات کرتے ہیں ، تو ایک بات بالکل واضح ہے۔ ڈیوائس کی قیمت اسی وقت کم ہوسکتی ہے جب ہم خود انحصار ہوں، اور آپ کو یاد ہوگا کہ بہت سے لوگوں نے میری خود انحصاری کی بات کا مذاق اڑایا تھا۔ 2014 تک، ہم تقریباً 100 فیصد موبائل فون درآمد کرتے تھے، بیرون ملک سے درآمد کرتے تھے، اس لیے ہم نےطے کیا کہ ہم اس شعبے میں خود انحصاربنیں گے ۔ ہم نے موبائل مینوفیکچرنگ یونٹوں میں اضافہ کیا۔ 2014 میں جہاں 8 سال پہلے ملک میں صرف 2 موبائل مینوفیکچرنگ یونٹ تھے، اب ان کی تعداد 200 سےزیادہ ہے۔ ہم نے ہندوستان میں موبائل فون کی پیداوار بڑھانے کے لیے مراعات دی، نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی۔ آج آپ پی ایل آئی اسکیم میں اس اسکیم کی توسیع کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کوششوں کے نتائج بہت مثبت رہے۔ آج، ہندوستان موبائل فون کی پیداوار میں دنیا میں نمبر 2 پر ہے۔ یہی نہیں کل تک ہم موبائل در آمد کرتے تھے۔ آج ہم موبائل برآمد کر رہے ہیں۔ دنیا کو بھیج رہے ہیں۔ ذرا سوچئے، 2014 میں صفر موبائل فون برآمد کرنے سے لے کر ، آج ہم ہزاروں کروڑ کے موبائل فون برآمد کرنے والے ملک بن گئے ہیں، ہم ایکسپورٹ کرنے والے ملک بن چکے ہیں۔ قدرتی طور پر، ان تمام کوششوں کا اثر آلات کی قیمت پر پڑا ہے۔ اب کم قیمت پر ہمیں زیادہ فیچر بھی ملنے لگے ہیں۔ ساتھیوں، آلات کی قیمت کے بعد دوسرا ستون جس پر ہم نے کام کیا وہ ڈیجیٹل کنیکٹوٹی ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مواصلات کے شعبے کی اصل طاقت رابطہ کاری میں ہے۔ جتنے زیادہ لوگ جڑیں گے، اس شعبے کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر ہم براڈ بینڈ کنیکٹیویٹی کی بات کریں تو 2014 میں 60 کروڑ صارفین تھے۔ آج ان کی تعداد 80 کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اگر ہم انٹرنیٹ کنیکشن کی تعداد کی بات کریں تو 2014 میں جہاں 25 کروڑ انٹرنیٹ کنکشن تھے، آج اس کی تعداد تقریباً 85 کروڑ تک پہنچ رہی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آج شہروں انٹر نیٹ صارفین کی تعداد کے مقابلے ہمارے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اور اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ 2014 میں ملک کی 100 سے کم پنچایتوں تک جہاں آپٹیکل فائبر پہنچا تھا، آج آپٹیکل فائبر ایک لاکھ 70 ہزار سےبھی زیادہ پنچایتوں تک پہنچ چکا ہے۔ اب کہاں 100، کہاں ایک لاکھ 70 ہزار۔ جس طرح حکومت نے ہر گھر میں بجلی پہنچانے کی مہم شروع کی، جس طرح ہر گھر جل ابھیان کے ذریعہ سب کو صاف پانی فراہم کرنے کے مشن پر کام کیا، جیسے اجولا اسکیم کے ذریعہ غریب سے غریب لوگوں کے گھر میں بھی گیس سلنڈر پہنچایا، جیسے ہم نے کروڑوں لوگوں کو بینک کھاتوں سے محروم کروڑوں لوگ جو بینک سے منسلک نہیں تھے۔ آزادی کے اتنے سالوں کے بعد ہندوستان کے شہریوں کو جن دھن اکاؤنٹ کے ذریعہ بینک سے جوڑدیا ۔ اسی طرح ہماری حکومت سب کے لیے انٹرنیٹ کے ہدف پر ��ام کر رہی ہے۔ ساتھیوں، ڈیجیٹل کنیکٹوٹی میں اضافے کے ساتھ ہی ، ڈیٹا کی قیمت بھی اتنی ہی اہم ہو جاتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل انڈیا کا تیسرا ستون تھا، جس پر ہم نے پوری طاقت سے کام کیا۔ ہم نے ٹیلی کام سیکٹر کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے۔ اس سے قبل ٹیلی کام سیکٹر کو وژن کی کمی اور شفافیت کے فقدان کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آپ اس بات سے واقف ہیں کہ ہم نے 4جی ٹیکنالوجی کی توسیع کے لیے کس طرح پالیسی کی حمایت کی۔ اس سے ڈیٹا کی لاگت میں زبردست کمی آئی اور ملک میں ڈیٹا انقلاب نے جنم لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان تینوں عوامل ، ڈیوائس کی قیمت، ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی اور ڈیٹا کی قیمت – اس کا ہمہ جہت اثر ہر جگہ نظر آنے لگا۔ لیکن ساتھیو، ان سب کے ساتھ ایک اور اہم بات ہوئی۔ ملک میں 'ڈیجیٹل فرسٹ' کی سوچ کو فروغ حاصل ہوا ۔ ایک وقت تھا جب بڑے بڑے اشرافیہ طبقہ کے جانکار، اس کے چند مٹھی بھر لوگ، ایوان کی کچھ تقاریر دیکھ لیں ، ہمارے قائدین کیسی کیسی تقریریں کرتے ہیں۔ وہ مذاق کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ غریب لوگوں میں قابلیت ہی نہیں ہے ، وہ ڈیجیٹل کو سمجھ نہیں سکتے، شک کرتے تھے۔ انہیں شک تھا کہ غریب لوگ ڈیجیٹل کا مطلب بھی نہیں سمجھ پائیں گے۔ لیکن مجھے ہمیشہ ملک کے عام آدمی کی سمجھ، اس کےشعور ، اس کے متجسس ذہن پر یقین رہا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے غریب ترین لوگ بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے میں آگےرہتے ہیں اور میں ایک چھوٹا سا تجربہ بتاتا ہوں۔ شاید یہ 2007-08 یا 2009-10 کا دور ہوگا، مجھے یاد نہیں ہے۔ میں گجرات میں وزیر اعلیٰ تھا لیکن ایک علاقہ ایسا تھا جہاں میں کبھی نہیں گیا اور ایک بہت ہی قبائلی علاقے میں، بہت پسماندہ، میرے سرکاری افسروں نے بھی مجھے وہاں ایک بار پروگرام کرنا ہی ہے، مجھے جانا ہے۔ تو وہ علاقہ ایسا تھا کہ کسی بڑے منصوبے کا کوئی امکان نہیں تھا، جنگل کی زمین تھی، کوئی نہ کوئی امکان تھا۔ تو آخر کار ایک ٹھنڈا مرکز، دودھ کا ٹھنڈا مرکز جس کی قیمت بھی 25 لاکھ روپے۔ میں نے کہا اگر 25 لاکھ کاہوگا، 25 ہزار کا ہوگا تو میں خود افتتاح کروں گا۔ اب لوگوں کو لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اس سے نیچےتو کرنا نہیں چاہیے۔ لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں اس گاؤں میں گیا اور جب وہاں میں ایک پبلک میٹنگ کرنے کی بھی جگہ نہ تھی تو وہاں سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا اسکول کا میدان تھا۔ وہاں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن جب چِلنگ سینٹر گئے تو میں نے دیکھا کہ قبائلی مائیں اور بہنیں دودھ بھرنے کے لیے قطار میں کھڑی تھیں ۔ تودودھ کا اپنا برتن نیچے رکھ کر، جب ہم لوگ گئے اور اس کا افتتاح کرنے کی سوچ رہے تھے تووہ موبائل سے فوٹو کھینچ رہی تھیں ۔میں حیران تھا اتنے دور دراز علاقے میں موبائل سے فوٹو کھینچ رہی ہیں تو میں ان کے پاس گیا۔ میں نے کہا اس تصویر کا کیا کرو گی؟ تو بولی ڈاؤن لوڈ کریں گے۔ مجھے یہ الفاظ سن کر واقعی حیرت ہوئی تھی کہ یہ طاقت ہمارے ملک کے گاؤں میں ہے۔ قبائلی علاقے کی غریب مائیں بہنیں جو دودھ بھرنے آئی تھیں، وہ موبائل فون سے اپنی فوٹو کھینچ رہی تھیں اور وہ جانتی تھیں کہ اس میں تو نہیں اب ڈاؤن لوڈ کروا دیں گے اور ڈاؤن لوڈ کا لفظ ان کے منہ سےنکلنا یہ ان کے سمجھنے کی طاقت اور نئی چیزیں قبول کرنے کی عادت کا ثبوت دیتی ہے۔میں کل گجرات میں تھا تو میں امبا جی تیرتھ کے لیے جا رہا تھا، راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے۔ آدھے سے زیادہ ایسے لوگ ہوں گے جو موبائل سے ویڈیو بنا رہے تھے۔ آدھے سے زیادہ یعنی ہمارے ملک کی جو یہ طاقت ہے، ہم اس طاقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور صرف ملک کے اشرافیہ طبقے کے کچھ لوگوں کو ہی ہمارے غریب بہنوں اور بھائیوں پر یقین نہیں تھا۔ آخر کار ہم 'ڈیجیٹل فرسٹ' کے نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ حکومت نے خود آگے بڑھ کر ڈیجیٹل ادائیگیوں کا راستہ آسان بنا یا۔ حکومت نے خود ایپ کے ذریعہ شہریوں پر مبنی ڈیلیوری سروس کو فروغ دیا ہے۔بات چاہے کسانوں کے بارے میں ہو یا چھوٹے دکانداروں کے بارے میں، ہم نے انہیں ایپ کے ذریعہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کا راستہ فراہم کیا ۔ اس کا نتیجہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں۔ آج ٹیکنالوجی حقیقی معنوں میں جمہوری ہوگئی ہے، یہ جمہوری ہو چکی ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہے کہ 'ڈیجیٹل فرسٹ' کے ہمارے نقطہ نظر نے کورونا عالمی وبا کے اس دور میں ملک کے لوگوں کی کتنی مدد کی ۔ جب دنیا کے بڑےبڑے ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کی مدد کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ خزانے میں روپے پڑے تھے، ڈالر تھے، پاؤنڈ تھے، سب کچھ تھا، یورو تھا اور دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ لیکن پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ہندوستان ایک کلک پر میرے ملک کے شہریوں کے اکاؤنٹ میں ہزاروں کروڑ روپے منتقل کر رہا تھا۔ یہ ڈیجیٹل انڈیا کی ہی طاقت تھی کہ جب دنیا رک گئی تھی تب بھی ہمارے بچے آن لائن کلاس لے رہے تھے، پڑھ رہے تھے۔ اسپتالوں کو ایک غیر معمولی چیلنج کا سامنا تھا لیکن ڈاکٹر ٹیلی میڈیسن کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج بھی کر رہے تھے۔ دفاتر بند تھے لیکن 'گھر سے کام' جاری تھا۔ آج ہمارے چھوٹے تاجر ہوں، چھوٹے کاروباری ہوں ، مقامی فنکارہوں ، کاریگر ہوں، ڈیجیٹل انڈیا نے سب کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے، ایک بازار دیا ہے۔ آج آپ کسی مقامی بازار کی سبزی منڈی میں جائیں اور دیکھیں،ریہڑی پٹری والا ایک چھوٹا سا دکاندار بھی آپ کو کہے گا، نقدی نہیں ہے، ’یو پی آئی‘کردیجئے ۔ میں نے درمیان میں ایک ویڈیو دیکھی، کوئی بھکاری بھی ڈیجیٹل طریقے سے ادائیگی لیتا ہے۔ شفافیت پر نظر ڈالیں، یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ جب سہولت دستیاب ہو تو سوچ کس طرح بااختیار بن جاتی ہے۔ ساتھیوں، آج ملک ٹیلی کام کے شعبے میں جو انقلاب دیکھ رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حکومت صحیح نیت سے کام کرے تو شہریوں کی نیت بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ 2جی کی نیت اور 5جی کی نیت میں یہی فرق ہے۔ دیر آئے درست آئے ۔ ہندوستان آج دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ڈیٹا بہت سستا ہے۔ پہلے ایک جی بی ڈیٹا کی قیمت 300 روپے کے قریب تھی، آج ایک جی بی ڈیٹا کی قیمت کم ہو کر صرف 10 روپے رہ گئی ہے۔ آج ہندوستان میں، ایک شخص ایک مہینے میں موبائل پر اوسطاً 14 جی بی ڈیٹا استعمال کر رہا ہے۔ 2014 میں اس 14 جی بی ڈیٹا کی قیمت تقریباً 4200 روپے ماہانہ تھی۔ آج اتنا ہی ڈیٹا ایک سو روپے، یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو روپے یا سوا سویا ڈیڑھ سو روپے میں دستیاب ہے۔ یعنی آج غریب، متوسط طبقے کا تقریباً 4 ہزار روپے کا موبائل ڈیٹا ہر ماہ اس کی جیب میں محفوظ ہو رہا ہے۔ ہماری حکومت کی اتنی ساری کوششوں سے ہندوستان میں ڈیٹا کی قیمت بہت کم ہے۔ یہ بات الگ ہے، ہر ماہ 4000 روپے بچنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، لیکن جب میں آپ کو بتا رہا ہوں تو آپ کے ذہن میں آیا کیونکہ ہم نے اس پر شور نہیں مچایا، اشتہار نہیں دیا، جھوٹے جھوٹے بڑے گپ گولے نہیں چلائی، ہم نے توجہ مرکوز کیا کہ ملک کے لوگوں کی سہولتیں بڑھیں، زندگی میں آسانی پیدا ہوئی۔ ساتھیوں، اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان پہلے تین صنعتی انقلابات سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہندوستان نہ صرف چوتھے صنعتی انقلاب سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا بلکہ اس کی قیادت بھی کرے گا اور اہل علم نے کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ ہندوستان کی دہائی نہیں، ہندوستان کی صدی ہے۔ یہ دہائی صدی نہیں ہے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ 4جی کی آمد کے بعد ہندوستان ٹیکنالوجی کی دنیا میں کس طرح چھلانگ لگا ئی ہے۔ جب ہندوستان کے شہریوں کو ٹکنالوجی میں یکساں مواقع ملیں گے تو پھر دنیا میں کوئی بھی انہیں ہرا نہیں سکتا۔ لہذا آج جب ہندوستان میں 5جی شروع کیا جا رہا ہے، تو میں بہت پر اعتمادہوں دوستوں۔ میں دور تک دیکھنے کے قابل ہوں اور وہ خواب جو ہمارے دل و دماغ میں چل رہے ہیں۔ ہم اسے اپنی آنکھوں کے سامنے سچ ہوتے دیکھیں گے۔ ہمارے بعد آنے والی نسلیں دیکھے گی کہ ایسا کام نہیں ہونے والا، ہم ہی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے والے ہیں۔ یہ ایک خوش کن اتفاق ہے کہ صرف چند ہفتے پہلے ہی ہندوستان دنیا کی 5ویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اور اس لیے ، یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک موقع ہے، جو 5جی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی اختراعات کر سکتے ہیں جو دنیا کی توجہ حاصل کر سکیں۔ یہ ہمارے کاروباری افراد کے لیے ایک موقع ہے جو 5جی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خود کو بڑھا سکتے ہیں۔ یہ ہندوستان کے عام آدمی کے لیے موقع ہے جو اس ٹیکنالوجی کا استعمال اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے، مہارت کو بڑھانے، دوبارہ مہارت حاصل کرنے، اپنے خیالات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کر سکتا ہے۔ ساتھیوں، آج کا یہ تاریخی موقع بحیثیت قوم، ہندوستان کے شہری کے طور پر ہمارے لیے ایک نئی تحریک لے کر آیا ہے۔ کیوں نہ ہم اس 5جی ٹیکنالوجی کو ہندوستان کی ترقی کو بے مثال رفتار سے تیز کرنے کے لیے استعمال کریں؟ ہم اس 5جی ٹیکنالوجی کو اپنی معیشت کو بہت تیزی سے بڑھانے کے لیے استعمال کیوں نہیں کریں ؟ ہم اس 5جی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیوں نہیں کرتے؟ ساتھیوں، ان سوالات میں ہر ہندوستانی کے لیے ایک موقع ہے، ایک چیلنج ہے، ایک خواب اور ایک عہد ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آج جو طبقہ 5جی کے اس آغاز کو سب سے زیادہ جوش و خروش سے دیکھ رہا ہے وہ میرا نوجوان ساتھی ہے، میرے ملک کی نوجوان نسل ہے۔ ہماری ٹیلی کام انڈسٹری کے لیے بھی کتنے بڑے مواقع منتظر ہیں، روزگار کے کتنے نئے مواقع پیدا ہونے والے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری صنعت، ہمارے ادارے اور ہمارے نوجوان مل کر اس سمت میں مسلسل کام کریں گے اور ابھی جب میں اس نمائش کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا جو طویل عرصے سے جاری ہے۔ میں ٹیکنالوجی کا طالب علم نہیں ہوں لیکن سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے لگا کہ میں حکومت کو مطلع کرنے والا ہوں کہ ہماری حکومت کے تمام محکمے، اس کے تمام افسران ذرا یہ دیکھیں کہ اسے کہاں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ اس کا اثر حکومت کی پالیسیوں میں بھی نظر آئے۔ میں ملک کے طلباء سے بھی گزارش کروں گا کہ یہ نمائش پانچ دن تک جاری رہے گی۔ میں خاص طور پر ٹیکنالوجی کے طلباء سے گزارش کروں گا کہ وہ آئیں، دیکھیں، سمجھیں اور دنیا کیسے بدل رہی ہے اور آپ ایک بار دیکھیں گے تو بہت سی نئی چیزیں آپ کے علم میں آئیں گی۔ آپ اس میں اضافہ کر سکتے ہیں اور میں اس ٹیلی کام سیکٹر کے لوگوں سے بھی کہنا چاہوں گا کہ مجھے خوشی ہوتی تھی، میں جس بھی سٹال پر میں گیا ، ہر شخص کہتا تھا کہ یہ دیسی ہے، یہ خود کفیل ہے، ہم نے اسے بنایا ہے۔ سب بڑے فخر سے کہتے تھے۔ مجھے خوشی ہوئی لیکن میرے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا، میں یہ سوچ رہا تھا جیسے بہت سی مختلف قسم کی کاریں آتی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا برانڈہوتا ہے۔ ہر ایک کی اپنی خاصیت بھی ہوتی ہے۔ لیکن جو اس میں سپیئر پارٹس پہنچانے والے ہوتے ہیں۔وہ ایم ایس ایم ای سیکٹر کے ہوتے ہیں اور ایک ہی ایم ایس ایم ای کی یہ فیکٹری چھ قسم کی گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس بناتی ہے، جو بھی معمولی بہتری کرتی ہے وہ دیتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج ہارڈ ویئربھی آپ نصب کر رہے ہیں ، ایسا لگا مجھے آپ کی باتوں سے ۔ کیا ایم ایس ایم ای سیکٹر کو اس کے لیے درکار ہارڈ ویئر کے چھوٹےچھوٹے پرزے بنانے کا کام دیا جانا چاہیے۔ ایک بہت بڑا ماحولیاتی نظام بنایا جائے ۔ میں خود تاجر تونہیں ہوں۔ مجھے روپیہ پیسہ سے لینا دینا نہیں ہے لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ قیمت ایک دم کم ہو جائے گی، ایک دم کم ہو جائے گی۔ ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کی یہ طاقت ہے اوروہ سپلائی آپ کو صرف اپنی انفرادیت کے ساتھ سافٹ ویئر وغیرہ کو شامل کرکے ہی اس سروس کو فراہم کرنا ہے اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو مل کر ایک نیا کام کرنا ہوگا اور تب ہی ہم اس کی قیمت کو نیچے لاسکتے ہیں ۔ بہت سے کام ہیں ہم مل کر کرتے ہی ہیں۔ تو میں اس شعبہ کے لوگوں سے بھی کہوں گا ۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جن بچوں نے اسٹارٹ اپس میں کام کیا ہے، جن نوجوانوں نے کام کیا ہے۔ اس شعبہ میں زیادہ ترانہی اسٹارٹ اپس کو آن کرکے ہنر مند بنایا گیا ہے۔ میں اسٹارٹ اپ والے ساتھیوں کو بھی کہتا ہوں کہ آپ بھی اس شعبہ میں زیادہ سے زیادہ کتنی خدمات دے سکتے ہیں۔کتنے صارف دوست نظام تیار کر سکتے ہیں۔ آخر اس کا فائدہ یہی ہے۔ لیکن میں ایک بات اور چاہوں گا۔ یہ بھی آپ کی جو ایسوسی ایشن ہے، کیا یہ مل کر کوئی تحریک چلا سکتی ہیں؟ یہ 5جی کم از کم ہندوستان کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹر میں زندگی میں کیسے کارآمد ہو سکتا ہے۔ کیا لوگوں کو تعلیم دینے والی نمائشوں کا انتظام ہو سکتا ہے؟ میں اپنے تجربے سے ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ہمارے ملک میں 24 گھنٹے بجلی کا ہونا ایک خواب تھا۔ جب میں گجرات میں تھا، میں نے جیوتی گرام یوجنا کا منصوبہ بنایا تھا اور میرا خواب تھا کہ گجرات کے ہر گھر کوہر روز چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کروں گا ۔ اب میرے تمام افسران کہتے تھے کہ شاید یہ ممکن نہیں، ہم یہ نہیں کر سکتے۔ تو میں نے ایک آسان حل بتا یاتھا۔ میں نے کہا کہ ہم ایگریکلچر فیڈر الگ کرتے ہیں، ڈومیسٹک فیڈر الگ کرتے ہیں اور پھر وہ کام کیا اور ہر ضلع کو پکڑ کر کام مکمل کرتے تھے۔ باقی جگہ پر چلتا تھا لیکن ایک کام پورا تھا۔ پھر اس ضلع کا ایک بڑا اجلاس منعقد کیا کرتا تھا۔ ڈھائی سے تین لاکھ لوگ آتے تھے کیونکہ 24 گھنٹے بجلی بڑی خوشی کا سماں تھا، وہ 2003-04-05 کا دور تھا۔ لیکن اس میں میں نے دیکھا، میں نے ملک بھر میں بجلی سے ہونے والے کام ، بجلی سے چلنے والی مشینوں کی ایک بہت بڑی نمائش لگائی تھی۔ جب لوگوں نے کیا، ورنہ لوگوں کیا لگتا ہے۔ بجلی آگئی یعنی رات کو کھانا کھاتے ہوئے بجلی مل جائے گی۔ بجلی آگئی یعنی ٹی وی دیکھنے کے کام آئے گی۔ اسے کئی طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کی تعلیم بھی ضروری تھی۔ میں یہ 2003-04-05 کی بات کر رہا ہوں اور جب وہ ساری نمائش لگائی گئی تو لوگ بتانے والے بھی سوچنے لگے کہ میں اپنے بجلی کا سامان ا��یکٹرک اس طرح لوں گا۔ کمہار بھی سوچنے لگا کہ ایسی برقی گاڑی خریدوں گا۔ ماؤں اور بہنوں نے بھی محسوس کیا کہ ہماری بجلی سے باورچی خانے میں بہت سی چیزیں آ سکتی ہیں۔ یعنی ایک بہت بڑی مارکیٹ پیدا ہو گئی ہے اور بجلی کی ایک سے زیادہ افادیت عام زندگی میں لوگوں کو 5جی کے بارے میں بھی محسوس ہو گا ہاں یار اب ویڈیو بہت تیزی سے ڈاؤن لوڈ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ ریل دیکھنا چاہتے ہیں تو زیادہ انتظار نہیں کرنا ہے۔ فون منقطع نہیں ہوتا ہے۔ ایک صاف ستھری ویڈیو کانفرنس ہو سکتی ہے۔ فون کال ہو سکتی ہے۔ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ یہ زندگی بدلنے والے نظام کی شکل میں آرہا ہے اور اس لیے میں اس صنعت کے دوستوں کی ایسو سی ایشن سے کہوں گا کہ آپ اسکول، کالج، یونیورسٹی اور ہندوستان کے ہر ضلع میں جائیں، وہاں کتنے پہلو ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ اس میں ویلیو ایڈیشن کریں گے۔ تو آپ کے لیے ایک خدمت بھی ہو جائے گی اور میں چاہوں گا کہ یہ ٹیکنالوجی زندگی میں صرف بات کرنے یا کوئی ویڈیو دیکھنے تک محدود نہ رہے۔ اسے انقلاب لانے کے لیے پوری طرح استعمال کیا جانا چاہیے اور ہمیں ایک بار 130 کروڑ لوگوں تک پہنچنا ہے، بعد میں یہ آپ تک پہنچ جائے گا، آپ دیکھ لیں، آپ کو وقت نہیں لگے گا۔ میں نے ابھی ڈرون پالیسی لائی تھی۔ آج میں بہت سے شعبوں میں دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے ڈرون سے دوائی چھڑکنے کا کام شروع کر دیا ۔ ڈرون چلانا سیکھ لیا ہے اور اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ان سسٹم کی طرف جانا چاہیے۔ اور ساتھیوں، آنے والے وقت میں، ملک ایسی ٹیکنالوجی کی مسلسل قیادت کرے گا، جو ہندوستان میں جنم لیں گی، جو ہندوستان کو عالمی لیڈر بنائے گی۔ اس یقین کے ساتھ، آپ سب کو نیک خواہشات! ایک بار پھر میں تمام ہم وطنوں کو ، شکتی پوجا کے مقدس تہوار پر، 5جی ،جو کہ طاقت کا ایک بڑا ذریعہ ہے، کے آغاز کے لیےبہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 10928,ইণ্ডিয়া ম’বাইল কংগ্ৰেছ আৰু ভাৰতত ৫জি সেৱাৰ শুভাৰম্ভ কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B5%DB%8C%D9%84-%D8%B3%DB%92%D8%8C-76%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AD%E0%A7%AC-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8/,آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر، اہل وطن کو بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت مبارک باد۔ نہ صرف ہندوستان کا ہر کونہ، بلکہ دنیا کے ہر کونے میں آج کسی نہ کسی شکل میں ہندوستانیوں کے ذریعہ یا بھارت کے تئیں انتہائی محبت رکھنے والوں کے ذریعہ، ملک کے ہر کونے میں یہ ہمارا ترنگا آن-بان- شان کے ساتھ لہرا رہا ہے۔ میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارت سے محبت کرنے والوں کو ، ہندوستانیوں کو آزادی کے اس امرت مہوتسو کی بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ آج کا یہ دن تاریخی دن ہے۔ یہ ایک اہم پڑاؤ، ایک نئی راہ، ایک نیا عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ قدم بڑھانے کا مبارک موقع ہے۔ آزادی کی جنگ میں غلامی کا پورادور جدوجہد میں گزرا ہے۔ ہندوستان کا کوئی کونہ ایسا نہیں تھا، کوئی دور ایسا نہیں تھا، جب ملک کے باشندگان نے سینکڑوں برسوں تک غلامی کے خلاف جنگ نہ کی ہو۔ زندگی نہ کھپائی ہو، مشکلات نہ جھیلیں ہو، قربانی نہ دی ہو! آج ہم سب اہل وطنوں کے لئے ایسی عظیم شخصیات کو، قربانی دینے وا��ے ہر شخص کو، زندگی نچھاور کرنے والے ہر شخص کو ،سلام کرنے کا موقع ہے۔ ان کے قرض کو قبول کرنے کا موقع ہے اور ان کو یاد کرتے ہوئے، ان کے خوابوں کو جلد از جلد پورا کرنے کا عہد لنےق کا موقع بھی ہے۔ ہم سبھی ہم وطن ،پوجیہ باپو، نتا جی سبھاش چندر بوس کے، بابا صاحب امبیڈکر ، ویر ساورکرکے، جنہوں نے اپنی زندگی فرض کی راہ پر گزاردی، فرض کا یہ راستہ ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ یہ ملک شکر گزار ہے، منگل پانڈے، تاتار ٹوپے، بھگت سنگھ، سکھ دیو،راج گرو، چندر شکھری آزاد، اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل کا؛ ہمارے ایسے متعدد انقلابی ہرنوز نے برطانوی سامراج کی بناکد ہلا کر رکھ دی تھی۔ یہ قوم شکر گزار ہے ان سرکردہ خواتین مجاہدین آزادی کا،رانی لکشمی بائی، جھلکاری بائی، درگا بھابھی، رانی گائی دنلوککا، رانی چننما، بگمم حضرت محل، وینو نایررکا؛ کہ ہندوستان کی نسائی طاقت کا، ہوتی ہے۔ ہندوستانی خواتین کی طاقت کا عزم کیا ہوتا ہے۔ ہندوستانی خواتین کس حد تک قربانی دے سکتی ہیں، ایسی بے شمار بہادر خواتین کو یاد کرتے ہوئے ہر ہندوستانی فخر کے جذبے سے سرشار ہوجاتا ہے۔ آزادی کی جنگ بھی لڑنے والے اور آزادی کے بعد ملک بنانے والے بھی ڈاکٹر راجندر پرساد جی ہوں، نہرو جی ہوں، سردار ولبھ بھائی پٹیل، شیاما پرساد مکھرجی، لال بہادر شاستری، دین دیال اپادھیائے، جے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا، آچاریہ ونوبابھاوے، نانا جی دیشمکھ، سبرامنیم بھارتی، ایسی بے شمار عظیم شخصیات کو آج خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے۔ ہم آزادی کی جنگ کی بات کرتے ہیں تو ہم ان جنگلوں میں جینے والے ہمارے آدیواسی سماج کی بھی عظمت بیان کرنا نہیں بھول سکتے ہیں۔ بھگوان برسا منڈا، سدھو کانو، الوری سیتارام راجو، گووند گرو، ایسے بے شمار نام ہیں، جنہوں نے آزادی کی تحریک کی آواز بن کر دورافتادہ جنگلوں میں بھی… میرے آدیواسی بھائی بہنوں، میری ماؤوں، میرے نوجوانوں میں مادر وطن کے لیے جینے مرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ یہ ملک کی خوش قسمتی رہی ہے کہ آزادی کی جنگ کی کئی شکلیں رہی ہیں اور اس میں ایک شکل وہ بھی تھی، جس میں نارائن گرو ہوں، سوامی وویکانند ہوں، مہرشی اروند ہوں، گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور ہوں، ایسی بے شمار عظیم شخصیات ہندوستان کے ہر کونے میں، ہر گاؤں میں بھارت کے شعور کو جگاتی رہیں۔ بھارت کو باشعور بناتی رہیں۔ امرت مہوتسو کے دوران ملک نے … پورے ایک سال سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ 2021 میں ڈانڈی یاترا سے شروعات ہوئی۔ اسمرتی دِوس کو سنوارتے ہوئے ہندوستان کے ہر ضلع میں، ہر کونے میں، ملک کے شہریوں نے آزادی کے امرت مہوتسو سے متعلق پروگرام منعقد کئے۔ شاید تاریخ میں اتنا شاندار، اتنا بڑا، لمبا، ایک ہی مقصد کا جشن منایا گیا ہو وہ شاید یہ پہلا واقعہ ہے اور ہندوستان کے ہر کونے میں ان تمام شخصیات کو یا د کرنے کی کوشش کی گئی، جن کو کسی نہ کسی وجہ سے تاریخ میں جگہ نہیں ملی یا ان کو فراموش کردیا گیا تھا۔ آج ملک نے کھوج کھوج کرکے ہر کونے میں ایسے جانبازوں کو، شخصیات کو، قربانی دینے والوں کو، سچے بہادروں کو یاد کیا، ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔ امرت مہوتسو کے دوران ان تمام شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع دسیتاب ہوا۔ کل 14 اگست کو بھارت نے تقسیم وطن کی تباہ کاری کا یادگاری دن بھی انتہائی رنج وغم کے ساتھ منایا۔ ان کروڑوں لوگوں نے بہت کچھ برداشت کیا تھا، ترنگے کی شان کے لئے برداشت کیا تھا ۔ مادر وطن کی مٹی سے محبت کی وجہ سے برد��شت کیا تھا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ ہندوستان کی محبت کے لئے نئی زندگی کی شروعات کرنے کا ان کا عزم قابل ستائش ہے، تحریک حاصل کرنے کے لائق ہے۔ آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں تو گزشتہ 75 سال میں ملک کے لئے جینے مرنے والے ، ملک کی حفاظت کرنے والے ، ملک کے عزائم کو پورا کرنے والے ، چاہے فوج کے جوان ہوں، پولیس اہلکار ہوں،حکومت میں بیٹھے ہوئے بیوروکریٹس ہوں، عوامی نمائندے ہوں، مقامی حکمرانی کے اداروں کےحکمراں – منتظم رہے ہوں، ریاستوں کے حکمراں – منتظم رہے ہوں،مرکز کے حکمراں –منتظم رہے ہوں؛75 سال میں ان سب کے تعاون کو بھی آج یادکرنے کا موقع ہے اور ملک کے کروڑوں شہریوں کو بھی ،جنہوں نے 75 سال میں کئی طرح کی مشکلات کے درمیان بھی ملک کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے سے جو ہوسکا وہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، 75 سال کا ہمارا یہ سفربہت سے نشیب وفراز سے بھرا ہوا ہے۔سکھ-دکھ کا سایہ منڈلاتا رہا ہے اور اس کے درمیان بھی ہمارے اہل وطن نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، کوشش کی ہے، ہار نہیں مانی ہے۔ عزائم کو آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔ اور اس لئے یہ بھی سچائی ہے کہ سینکڑوں برسوں کے غلامی کے دور نے ہندوستان کے من کو،ہندوستان کے باشندوں کے جذبات کو گہرے زخم دیئے ہیں، گہری چوٹیں پہنچائی تھیں، لیکن ان کے اندر ایک ضد بھی تھی ، ایک زبردست خواہش بھی تھی، ایک جنون بھی تھا، ایک جوش بھی تھا۔ اور اس کی وجہ سے محرومیوں کے درمیان بھی ،مضحکہ اڑائے جانے کے باوجود جب آزادی کی جنگ آخری مرحلے میں تھی تو ملک کو خوف زدہ کرنے کے لئے،ناامید کرنے کے لئے ، مایوس کرنے کے لئے تمام تدبیریں کی گئی تھیں، اگر آزادی آئی انگریز چلے جائیں گے تو ملک ٹوٹ جائے گا ،بکھرجائیں گے، لوگ اندر اندر لڑ کر مرجائیں گے، کچھ نہیں بچے گا، ہندوستان تاریکیوں کے دور میں چلا جائے گا، نہ جانے کیسے کیسے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن ان کو پتہ نہیں تھا یہ ہندوستان کی مٹی ہے، اس مٹی میں وہ صلاحیت ہے جو حکمرانوں سے بھی پرے صلاحیت کا ایک تاثر لے کر جیتا رہا ہے، صدیوں تک جیتا رہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے کیا کچھ نہیں جھیلا ہے، کبھی اناج کا بحران جھیلا، کبھی جنگ کے شکار ہوگئے۔ دہشت گرد ی نے ڈگر –ڈگر چیلنج پیدا کئے، بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ چھوٹی موٹی جنگ چلتی رہی، قدرتی آفات آتی رہیں، کامیابی، ناکامی، امیدی، ناامیدی نہ جانے کتنے پڑاؤ آئے ہیں، لیکن اِن پڑاؤ کے دوران بھی ہندوستان آگے بڑھتا رہا ہے۔ ہندوستان کی گوناگونیت جو دوسروں کو ہندوستان کے لئے بوجھ لگتی تھی، وہ ہندوستان کی گوناگونیت ہی ہندوستان کی انمول طاقت ہے۔ طاقت کا ایک اٹوٹ ثبوت ہے۔ دنیا کو پتہ نہیں تھا کہ ہندوستان کے پاس ایک موروثی صلاحیت ہے، ایک وراثت ہے، ایک ذہن ودماغ کے خیالات کا بندھن ہے اور وہ ہے ہندوستانی جمہوریت کی آماجگاہ ۔ مدر آف ڈیموکریسی (جمہوریت کی ماں) ہے اور جن کے ذہن میں جمہوریت ہوتی ہے وہ جب عہد کرکے چل پڑتے ہیں ، وہ صلاحیت دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کے لئے بھی بحران کا دور لے کر آتی ہے۔ یہ مدر آف ڈیموکریسی ، یہ جمہوریت کی آماجگاہ، ہمارے ہندوستان نے ثابت کردی کہ ہمارے پاس ایک انمول صلاحیت ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، 75سال کے سفر میں امیدیں، توقعات، اتار چڑھاؤ سب چیز کے بیچ میں ہر ایک کی کوشش سے ہم جہاں تک پہنچ پائے، پہنچے تھے اور 2014 میں ہم وطنوں نے مجھے ذمہ داری سونپی۔ آزادی کے بعد جنم ہوا، میں پہلا شخص تھا، جس کو لال قلعہ سے ہم وطنوں کی مدح سرائی کرنے کا موقع ملا تھا، لیکن میرے دل میں جو بھی آپ لوگوں سے سیکھا ہوں، جتنا آپ لوگوں کو جان پایا ہوں میرے ہم وطنوں، آپ کے سکھ دکھ کو سمجھ پایا ہوں، ملک کی امیدوں، توقعات کے اندر وہ کونسی روح بستی ہے، اس کو جتنا میں سمجھ پایا ہوں، اس کو لے کر میں نے اپنا پورا دور ملک کے اُن لوگوں کو امپاور یعنی بااختیار کرنے میں کھپایا۔ میرے دلت ہوں، محروم ہوں، استحصال شدہ یا متاثر لوگ ہوں، آدیواسی ہوں، خواتین ہوں، نوجوان ہوں، کسان ہوں، معذور ہوں، مشرق ہو، مغرب ہو، شمال ہو، جنوب ہو، سمندر کا ساحل ہو، ہمالیہ کی چوٹیاں ہوں، ہر کونے میں مہاتما گاندھی کا جو خواب تھا، آخری انسان کی فکر کرنے کا مہاتما گاندھی جی کی جو آرزو تھی، آخری کنارے پر بیٹھے ہوئے شخص کو صلاحیت مند بنانے کی، میں نے اپنے آپ کو اس کے لئے وقف کیا ہے اور اُن 8سال کا نتیجہ اور آزادی کی اتنی دہائیوں کا تجربہ آج 75 سال کے بعد جب امرت کال کی طرف قدم رکھ رہے ہیں، امرت کال کی یہ پہلی صبح ہے۔ میں ایک ایسی استعداد دیکھ رہا ہوں اور جس سے میں فخر سے بھر جاتا ہوں۔ ہم وطنو، میں آج ملک کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کے عوام آرزوؤں سے بھرے پڑے ہیں۔ آرزو مند سوسائٹی کسی بھی ملک کی بہت بڑی امانت ہوتی ہے اور ہمیں فخر ہے کہ آج ہندوستان کے ہر کونے میں ہر سماج کے ہر طبقے میں، ہر فرقے میں امیدیں اپنے عروج پر ہیں۔ ملک کا ہر شہری چیزیں بدلنا چاہتا ہے، بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، لیکن انتظار کرنے کو تیار نہیں ہے، اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہے، ذمہ داری سے جڑ کر کرنا چاہتا ہے۔ وہ رفتار چاہتا ہے، ترقی چاہتا ہے۔ 75 سال میں سجائے ہوئے سارے خواب اپنی ہی آنکھوں کے سامنے پورا کرنے کے لیے وہ بیتاب ہے، پرجوش ہے، بے قرار بھی ہے۔ کچھ لوگوں کو اس کی وجہ سے پریشانیاں ہوسکتی ہیں، کیونکہ جب آرزومند سوسائٹی ہوتی ہے،تب سرکاروں کو بھی تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ سرکاروں کو بھی وقت کے ساتھ دوڑنا پڑتا ہے اور مجھے یقین ہے ، چاہے مرکزی حکومت ہو، ریاستی حکومت ہو،مقامی حکومت کے ادارے ہوں، کسی بھی قسم کی انتظامیہ کیوں نہ ہو، ہر کسی کو آرزومند سوسائٹی پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔ ان کی آرزوؤں کے لیے ہم زیادہ انتظار نہیں کرسکتے۔ ہماری اس آرزومند سوسائٹی نے لمبے عرصے تک انتظار کیا ہے۔ لیکن اب وہ اپنی آنے والی نسل کو انتظار میں جینے کے لیے مجبور کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس لیے یہ امرت کال کی پہلی صبح ہمیں اس آرزومند سوسائٹی کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے بہت بڑا سنہرا موقع لے کر آئی ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو! ہم نے پچھلے دنوں دیکھا ہے، ایک دو طاقت کا ہم نے تجربہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارت میں اجتماعی شعور بیدار ہوا ہے۔ ایک اجتماعی شعور کی بیداری آزادی کی اتنی جدوجہد میں جو امرت تھا، وہ اب سنبھالا جارہا ہے، جمع ہورہا ہے۔ عزم میں تبدیل ہورہا ہے، شرمندہ تعبیر ہونے کی طرف گامزن ہے اور کامیابی کی راہ نظر آرہی ہے۔ یہ شعور، میں سمجھتا ہوں کہ شعور کی بیداری یہ ہماری سب سے بڑی امانت ہے۔ اور یہ شعور کی بیداری دیکھئے 10 اگست تک لوگوں کو پتہ تک نہیں ہوگا شاید کہ ملک کے اندر کون سی طاقت ہے۔ لیکن پچھلے تین دن سے جس طرح سے ترنگے جھنڈے کو لے کر، ترنگا کی یاترا کو لے کر ملک چل پڑا ہے۔بڑےبڑے سوشلسٹ، سوشل سائنس کے ایکسپرٹ وہ بھ�� شاید تصور نہیں کرسکتے کہ میرے باطن میں،میرے ملک کے اندر کتنی بڑی صلاحیت ہے، ایک ترنگے جھنڈے نے دکھا دیا ہے۔ یہ شعور کی بیداری کا لمحہ ہے۔ یہ لوگ سمجھ نہیں پائے ہیں۔ جب ملک جنتاکرفیو کےلیے ہندوستان کا ہر کونہ نکل پڑتا ہے، تب اسے شعور کا احساس ہوتا ہے۔ جب ملک تالی، تھالی بجا کر کورونا وائرس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑ ا ہوجاتا ہے تب شعور کا احساس ہوتا ہے۔ جب دیپ جلا کر کورونا واریئر س کو مبارکباد دینے کےلیے ملک نکل پڑتا ہے، تب اس شعور کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا کورونا کے دور میں ویکسین لینا یا نہ لینا، ویکسین کام کی ہے یا نہیں ہے، اس الجھن میں جی رہی تھی، اس وقت میرے ملک کے گاؤں کے غریب بھی 200 کروڑ ڈوز دنیا کو چونکا دینے والا کام کرکے دکھا دیتے ہیں۔ یہی شعور ہے، یہی صلاحیت ہے، اسی صلاحیت نے آج ملک کو نئی طاقت دی ہے۔ میرے پیارے بھائیو بہنو، اس ایک اہم صلاحیت کو میں دیکھ رہا ہوں، جیسے آرزومند سوسائٹی، جیسے شعور کی بیداری، ویسے ہی آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد پوری دنیا کا بھارت کی طرف دیکھنے کا نظریہ بدل چکا ہے۔ دنیا ہندوستان کی جانب فخر سے دیکھ رہی ہے۔ امید سے دیکھ رہی ہے۔ مسائل کاحل ہندستان کی سرزمین پردنیا تلاش کرنے لگی ہے۔ دوستوں، دنیا کا یہ بدلاؤ ، دنیا کی سوچ میں یہ تبدیلی 75 سال کے ہمارے تجربے کے سفر کا نتیجہ ہے۔ ہم جس طرح اپنے عہد کو لے کر چل پڑے ہیں، دنیا اسے دیکھ رہی ہے اور آخر کار دنیا بھی امیدیں لے کر جی رہی ہے۔ امیدیں پوری کرنے کی صلاحیت کہاں موجود ہے وہ اسے نظر آنے لگی ہے۔ میں اسے سہ رخی طاقت کی شکل میں دیکھتا ہوں ۔تین صلاحیتوں کے طو ر پر دیکھتا ہوں اور یہ تین طاقتیں ہیں؛ امنگوں کی ، نشاط ثانیہ کی اور دنیا کی امیدوں کی اورا سے پورا کرنا ہم جانتے ہیں ۔ دوستو ، آج دنیا میں ایک یقین پیدا ہونے میں میرے ہم وطنوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنوں نے کئی دہائیوں کے تجربے کے بعد ، مستحکم حکومت کی اہمیت کیا ہوتی ہے،سیاسی استحکام کی اہمیت کیا ہوتی ہے،سیاسی استحکام دنیا میں کس طرح کی قوت دیکھاسکتا ہے۔ پالیسیوں میں کیسی صلاحیت ہوتی ہے ، ان پالیسیوں پر دنیا کا کیسا بھروسہ بنتا ہے، یہ بھارت نے دکھایا ہے اور دنیا بھی اسے سمجھ رہی ہے۔ اور اب جب سیاسی استحکام ہو، پالیسیوں میں ترقی پسندی ہو،فیصلوں میں تیزی ہو، ہر جا ظہور ہو، عالمگیر پیمانے پراعتماد ہو،تو ترقی کے لئے ہرکوئی شراکت دار بنتا ہے،ہم،سب کا ساتھ ، سب کا وکاس، کا منتر لے کر چلے تھے،لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہم وطنوں نے سب کا وشواس اور سب کے پریاس سے اس میں اور رنگ بھر دیئے ہیں؛ اورا س لئے ہم نے دیکھا ہے، ہماری اجتماعی قوت کو، ہماری اجتماعی صلاحیت کو ہم نے دیکھا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو جس طرح سے منایا گیا جس طرح سے ہر ضلع میں 75 امرت سرور بنانے کی مہم چل رہی ہے،گاؤں گاؤں کے لوگ جڑ رہے ہیں،خدمت کررہے ہیں،اپنی کوششوں سے اپنے گاؤ ں میں آبی تحفظ بڑی مہم چلا رہے ہیں اور اس لئے ،بھائیو بہنو، چاہے سوچھتا کی مہم ہو، چاہے غریبوں کی بہبود کا کام ہو، ملک آج پوری قوت سے آگے بڑھ رہا ہے۔لیکن بھائیو بہنو، ہم لوگ آزادی کی امرت کال میں ہمارے 75 سال کے سفر کو، اس کی بڑائیاں بیان کرتے رہیں گے،اپنی ہی پیٹھ تھپتھپا تے رہیں گے ،تو ہمارے خواب کہیں دور چلے جائیں گے اور اس لئے 75 سال کی مدت کتنی ہی شاندار رہی ہو، کتنی ہی بحرانوں والی رہی ہو، کتنے ہی چیلنجوں والی رہی ہو، کتنے ہی خواب ادھورے نظ�� آتے ہوں، اس کے باوجودبھی جب آج ہم امرت کال میں داخل ہورہےہیں، اگلے 25 سال ہمارے ملک کے لئے انتہائی اہم ہے اور اس لئے جب میں آج میرے سامنے لال قلعہ سے 130 کروڑ ہم وطنوں کی صلاحیتوں کو یادکرتاہوں ، ان کے خوابوں کو دیکھتا ہوں، ان کے عہد بستگی کا احساس کرتا ہوں، تو ساتھیوں مجھے لگتا ہے کہ آنے والے 25 سال کے لئے ہمیں اپنے پانچ عہد پر اپنی قوت کو مرکوز کرنا ہوگا، اپنے عہدوں کو مرکوز کرنا ہوگا، اپنی صلاحیتوں کو مرکوز کرنا ہوگا اور ہمیں ان پانچ عہد کو لے کر ، 2047 کو جب آزادی کے سو سال ہوں گے، آزادی کے دیوانوں کے سارے خواب پورے کرنے کی ذمہ داری اٹھاکر چلنا ہوگا۔ جب میں پانچ عہد کی بات کرتا ہوں، تو پہلا عہد ، اب ملک بڑے عہد لے کر ہی چلے گا ، بہت بڑے عہد لے کر چلنا ہوگا۔ اور وہ بڑا عزم ہے ترقی یافتہ ہندوستان ،اب اس سے کچھ کم نہیں ہونا چاہئے۔ بڑا عزم دوسری زندگی ہے کسی بھی کونے میں ہمارے من کے اندر ، ہماری عادتوں کے اندر غلامی کا ذرا سابھی حصہ اگر ابھی بھی کوئی ہے تو اس کو کسی بھی حالت میں بچنے نہیں دینا ہے۔اب صدفیصد، صد فیصد سینکڑوں سال کی غلامی نے جہاں ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، ہمیں، ہمارے جذبات کو باندھ کر کے رکھا ہوا ہے، ہماری سوچ میں خرابیاں پیدا کرکے رکھی ہیں، ہمیں غلامی کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی کہیں نظرآتی ہے، ہمارے اندر نظر آتی ہے، ہمارے آس-پاس نظر آتی ہے، ہمیں اس سے نجات پانی ہی ہوگی۔ یہ ہماری زندگی کی دوسری طاقت ہے۔ زندگی کی تیسری طاقت ہمیں اپنی وراثت پر فخر ہونا چاہئے، ہماری وراثت کے تئیں کیونکہ یہی وراثت ہے جس نے کبھی ہندوستان کو سنہرا دور دیا تھا ۔ اور یہی وراثت ہے جو وقت کے مطابق تبدیلی لانے کا مزاج رکھتی ہے۔ یہی وراثت ہے جو غیرضروری چیزوں کو چھوڑتی رہی ہے، روز نئی چیزوں کو قبول کرتی رہی ہے۔ اور اس لئے اس وراثت کے تئیں ہمیں فخر ہونا چاہئے۔ زندگی کی چوتھی طاقت وہ بھی اتنی ہی اہم ہے اور وہ ہے اتحاد اور یکجہتی ۔130 کروڑ اہل وطن میں اتحاد، نہ کوئی اپنا نہ کوئی پرایا، اتحاد کی طاقت، ’ ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے خوابوں کے لئے ہماری زندگی کی چوتھی طاقت ہے۔ اور پانچویں طاقت ہے شہریوں کا فرض کا عہد، زندگی کی پانچویں طاقت ہے، شہریوں کا فرض، جس سے وزیراعظم بھی باہر نہیں ہوتا، وزیراعلیٰ بھی باہر نہیں ہوتا، وہ بھی شہری ہے۔ شہریوں کا فرض یہ ہمارے آنے والے 25 سال کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے بہت ہی بڑی تحریک دینے والی طاقت ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، جب خواب بڑے ہوتے ہیں، جب عزائم بڑے ہوتے ہیں تو کوششیں بھی بہت بڑی ہوتی ہیں۔ طاقت بھی بہت زیادہ حاصل ہوجاتی ہے۔ اب کوئی تصور کرسکتا ہے کہ ملک اس 42-40 کے دور کو یاد کیجئے، ملک اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں جھاڑو تھی، کسی نے تکلی اٹھائی تھی، کسی نے ریٹیا لیا تھا،کسی نے ستیہ گرہ کا راستہ اختیار کیا تھا، کسی نے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تھا، کسی نے دورانقلاب کی بہادری کا راستہ اختیار کیا تھا۔ لیکن عزم بڑا تھا ’آزادی‘ اور طاقت دیکھئے بڑا عزم تھا تو آزادی لے کر رہے۔ ہم آزاد ہو گئے ۔ اگر عزم چھوٹا ہوتا ، محدود ہوتا تو شاید آج بھی جدوجہد کرنے کے دن چل رہے ہوتے، لیکن عزم بڑا تھا تو ، ہم نے حاصل بھی کیا۔ میرے پیارے ہم وطنو، اب آج جب امرت کال کی پہلی صبح ہے، تو ہمیں ان 25 سال میں ترقی یافتہ ہندوستان بناکر رہنا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اور بیس ، بائیس ، پچیس برس کے میرے نوجوان، میرے م��ک کے میرے سامنے ہیں، میرے ملک کے نوجوانوں جب ملک آزادی کے 100 سال منائے گا۔ تب آپ 50-55 کے ہوئے ہوں گے، مطلب آپ کی زندگی کا یہ سنہری دور، آپ کی عمر کے یہ 25-30 سال ہندوستان کے خوابوں کو پورا کرنے کا دور ہے۔ آپ عہد کر کے میرے ساتھ چل پڑیئے ساتھیو، ترنگے جھنڈے کا حلف کر کے چل پڑیئے، ہم سب پوری طاقت سے لگ جائیں۔ عظیم عہد، میراملک ترقی یافتہ ملک ہوگا، ڈولپڈ کنٹری ہوگا، وکاس کے ہر پرےامٹرو مںل ہم بشریت کو اورصحت مندی کو فروغ دیں گے، ہمارے مرکز مںو انسان ہوں گے،ہمارے مرکز مںٹ انسان کی امدبیں اور خواہشں ہوں گی۔ ہم جانتے ہںن، جب بھارت بڑے عہد کرتا ہے تو کرکے بھی دکھا تا ہے۔ جب میں نے یہاں صفائی ستھرائی کی بات کی تھی، اپنے پہلے خطاب میں، ملک چل پڑا تھا، جس سے جہاں ہو سکا، صفائی ستھرائی کی جانب آگے بڑھا اور گندگی کے تئیں نفرت ایک رویہ بنتا گیا۔ یہی تو ملک ہے، جس نے ، جس کو کر کے دکھایا اور کر بھی رہا ہے، آگے بھی کر رہا ہے؛ یہی تو ملک ہے، جس نے ویکسی نیشن، دنیا تکلیف میں تھی، 200 کروڑ کا نشانہ پا ر کرلیا ہے، مقررہ مدت میں کرلیا ہے، پرانے سارے ریکارڈ توڑ کر کے کر لیا ہے، یہ ملک کر سکتا ہے، ہم نے طے کیا تھا، ملک کو کھاڑی کے تیل پر ہم گزارا کرتے ہیں،جھاڑی کے تیل کی جانب کیسے بڑھیں، 10 فیصد ایتھنول بلینڈنگ کا خواب بڑا لگتا تھا۔ قدیم تاریخ بتاتی تھی ممکن نہیں ہے، لیکن وقت سے پہلے 10 فیصد ایتھنول بلینڈنگ کر کے ملک نے اس خواب کو پورا کردیا ہے۔ بھائیو- بہنو، ڈھائی کروڑ لوگوں کو اتنے کم وقت میں بجلی کے کنکشن پہنچانا، چھوٹا کام نہیں تھا، دیش نے کر کے دکھایا ہے۔ لاکھوں خاندانوں کے گھر میں ‘نل سے جل’ پہنچانے کا کام آج ملک تیز رفتاری سے کر رہا ہے۔ کھلے میں رفع حاجت کرنے سے چھٹکارا ، ہندوستان کے اندر آج ممکن ہو پایا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، تجربہ کہتا ہے کہ ایک بار ہم سب عہد لے کر چل پڑے، تو ہم طے شدہ اہداف کو پار کر سکتے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کا ہدف ہو، ملک میں نئے میڈیکل کالج بنانے کا ارادہ ہو، ڈاکٹروں کی تیاری کروانی ہو، ہر شعبے میں پہلے سے رفتار بہت بڑی ہے اور اس لئے میں کہتا ہوں، اب آنے والے 25 سال بڑے عہد کے ہوں، یہی ہماری زندگی، یہی ہمارا عہد بھی ہونا چاہئے۔ دوسری بات میں نے کہی ہے ، اس زندگی کی طاقت کا میں نے ذکر کیا ہے کہ غلامی کی ذہنیت ، ملک کی سوچ ، سوچیئے بھائیو، تب تک دنیا ہمیں سرٹیفکٹ بانٹتی رہے گی؟ کب تک دنیا کے سرٹیفکٹ پر ہم گزارا کریں گے؟ کیا ہم اپنا معیار نہیں بنائیں گے ، کیا 130 کروڑ کا دیش اپنے معیاروں کو پار کرنے کے لئے کاوشیں نہیں کرسکتا ہے۔ ہمیں کسی بھی حالت میں اوروں کے جیسا دیکھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جیسے ہیں ویسے، لیکن وقار کے ساتھ کھڑے ہوں گے، یہ ہمارا مزاج ہونا چاہئے۔ ہمیں غلامی سے آزادی چاہئے۔ ہمارے من کے اندر دور دور 7 سمندر کے نیچے بھی غلامی کا نشان نہیں بچے رہنا چاہئےساتھیوں۔ اور میں امید سے دیکھتا ہوں ، جس طرح سے نئی قومی تعلیمی پالیسی بنی ہے، جس غور وفکر کے ساتھ بنی ہے، لوگوں کے خاہلات کے بہاؤ کو مرتب کرتے ہوئے بنی ہے اور ہندوستان کی سرزمنش سے منسلک تعلیکے پالیں بنی ہے، رسکس ہماری سرزمین کے میلے ہیں ۔ ہم نے جس ہنر پر زور دیا ہے، یہ ایک اییک طاقت ہے، جو ہمںک غلامی سے آزاد ہونے کی طاقت دے گی۔ ہم نے دیکھا ہے کبھی کبھی تو ہمارا ٹیلنٹ امیدوں کے رشتوں میں بندھ جاتا ہے، یہ غلامی کی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ ہمیں ہماراے دیش کی ہر زبان پر فخر ہونا چاہئے۔ ہمیں زبان آتی ہو یا نہ آتی ہو، لیکن میرے دیش کی زبان ہے، میرے بزرگوں نے دنیا کی دی ہوئی یہ زبان ہے۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے۔ میرے ساتھیوں، آج ڈیجیٹل انڈیا کی شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسٹاٹ اپ دیکھ رہے ہیں۔ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ ٹیلنٹ ہے جو ٹیئر-2، ٹیئر-3 سٹی میں کسی گاؤں غریب کے کنبہ میں بسے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ ہمارے نوجوان ہیں جو آج نئی نئی کھوج کے ساتھ دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ غلامی کی ذہنیت کو ہمیں مسترد کرنا پڑے گا۔ اپنی صلاحیت پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ دوسری ایک بات جو میں نے کہی ہے ، تیسری میری زندگی کی طاقت کی بات ہے وہ ہے ہماری وراثت پر۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے۔ جب ہم اپنی سرزمیں سے جڑیں گے، جب ہم اپنی سرزمیں سے جڑیں گے تبھی تو اونچا اڑیں گے اور جب ہم اونچا اڑیں گے تو ہم دنیا کو بھی حل دے پائیں گے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب ہم اپنی چیزوں پر فخر کرتے ہیں، آج دنیا ہالیسٹک ہیلتھ کیئر(مجموعی حفظان صحت) کی گفتگو کررہی ہے لیکن جب مجموعی حفظان صحت کی گفتگو کرتی ہے تو اس کی نظر بھارت کے یوگ پر جاتی ہے۔ بھارت کے آیوروید پر جاتی ہے۔ بھارت کی جامع طرز زندگی پر جاتی ہے۔ یہ ہماری وراثت ہے، جو ہم دنیا کو دے رہے ہیں۔ دنیا آج اس سے بہت متاثر ہورہی ہے۔ اب ہماری طاقت دیکھئے، ہم وہ لوگ ہیں جو فطرت کے ساتھ جینا جانتے ہیں۔ فطرت کے ساتھ لگاؤ رکھنا جانتے ہیں۔ آج دنیا کوماحولیات کی جس پریشانی کا سامنا ہے، ہمارے پاس وہ وارثت ہے ، عالمی تمازت کے مسائل کے حل کا راستہ ہم لوگوں کے پاس ہے۔ ہمارے آبا واجداد نے دیا ہوا ہے، جب ہم طرز زندگی کی بات کرتے ہیں، ماحول دوست کے طرز زندگی کی بات کرتے ہیں، ہم لائف مشن کی بات کرتے ہیں تو دنیا کی توجہ ہماری طرف مبذول ہوتی ہے، ہمارے پاس یہ صلاحیت ہے۔ ہمارا بڑا دھان، موٹا دھان، ملیٹ (جوار باجرہ)، ہمارے یہاں تو گھر گھر کی چیز رہی ہے۔ یہ ہماری وراثت ہے، ہمارے چھوٹے کسانوں کی محنت سے چھوٹی چھوٹی زمین کے ٹکرے میں پھلنے پھولنے والی ہماری دھان آج دنیا بین الاقوامی سطح پر جوار باجرے کا سال منانے کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ مطلب ہماری وراثت کو اب دنیا، ہم اس پر فخر کرنا سیکھیں۔ ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔ ہمارے کنبے کے اقدار دنیا کو سماجی تناؤ کی جب گفتگو ہورہی ہے، ذاتی تناؤ کی چرچا ہوتی ہے تو لوگوں کو یوگ نظر آتا ہے۔ اجتماعی طور پر تناؤ کی بات ہوتی ہے تب ہندوستان کا خاندانی بندوبست اور نظام نظر آتا ہے۔ مشترکہ خاندان کی ایک پونجی صدیوں سے ہماری ماؤں، بہنوں کی قربانی کے سبب خاندان نام کا جو بندوبست فروغ پایا ہے، یہ ہماری وراثت ہے۔ اِس وراثت پر ہم فخر کیسے کریں، ہم تو وہ لوگ ہیں، جو زندگی میں بھی شیو دیکھتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو انسان میں بھگوان دیکھتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو خاتون کو دیوی کہتے ہیں، ہم وہ لوگ ہیں جو پودے میں پرماتما دیکھتے ہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جو ندی کو ماں مانتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ہر کنکر میں شنکر دیکھتے ہیں۔ یہ ہماری صلاحیت ہے، ہر ندی میں ماں کی شکل دیکھتے ہیں۔ ماحولیات کا اتنا پھیلاؤ اور وسعت یہ ہمارا فخر جب دنیا کے سامنے خود فخر کریں گے تو دنیا کرے گی۔ بھائیو، بہنو، ہم وہ لوگ ہیں جس نے دنیا کو واسو دیو کٹم بکم کا منتر دیا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو دنیا کو کہتے ہیں ایکن سدوپرا بہودھا ودنتی۔ آج جوکشمکش اور رسہ کشی کادور چل رہا ہے، تجھ سے بڑا میں ہوں، یہ جو تناؤ کی وجہ بنی ہوئی ہے، دنیا کو ’ایکم سدوپرابہودھا ودنتی‘ کا پیغام دینے والی وراثت ہمارے پاس ہے۔ جو کہتے ہیں سچائی ایک ہے، جانکار لوگ اس کو الگ الگ طریقے سے کہتے ہیں۔ یہ امتیاز ہمارا ہے،ہم لوگ ہیں،جوکہتے ہیں’یت پنڈے تت برہمانڈے‘، کتنی بڑی سوچ ہے، جو کائنات میں ہے، وہ ہر جاندار میں ہے، ’یت پنڈے تت برہمانڈے‘، یہ کہنے والے ہم لوگ ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جس نے دنیا کی فلاح دیکھی ہے، ہم عالمی فلاح و بہبود سے عوامی فلاح وبہبود کے راہی رہے ہیں۔ عوامی فلاح وبہبود سے عالمی فلاح وبہبود کی راہ پر چلنے والے ہم لوگ جب دنیا کا تصور کرتے ہیں، تب کہتے ہیں ’سروے بھونتو سکھینہ‘۔ ’سروے سنتو نرامیاہ‘ ۔ سب کی راحت کی بات کرکے آروگیہ کی بات کرنا یہ ہماری وراثت ہے اور اس لیے ہم نے بڑی شان کے ساتھ ہماری اس وراثت پر فخر کرنا سیکھا، یہ ہماری روح کی طاقت ہے، جو ہمارے 25 سال کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح سے میرے پیارے ہم وطنو۔ ایک اور اہم موضوع ہے اتحاد، یکجہتی۔ اتنے بڑے ملک کے تنوع کو ہمیں سیلیبریٹ کرنا ہے، اتنے مسلک اور روایات یہ ہماری آن بان شان ہے۔ کوئی نیچا نہیں، کوئی اونچا نہیں ہے، سب برابر ہیں۔ کوئی میرا نہیں، کوئی پرایا نہیں، سب اپنے ہیں۔ یہ جذبہ اتحاد کے لیے بہت ضروری ہے۔ گھر میں بھی اتحاد کی بنیاد تبھی رکھی جاتی ہے، جب بیٹا بیٹی ایک برابر ہوں۔ اگر بیٹا بیٹی ایک برابر نہیں ہوں گے تو اتحاد کے منتر کو پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ صنفی برابری ہمارے اتحاد میں پہلی شرط ہے، جب ہم اتحاد کی بات کرتے ہیں، اگر ہمارے یہاں ایک ہی پیمانہ ہو، ایک ہی پیرامیٹر ہو، جس پیرامیٹر کو ہم کہیں، ’انڈیا فرسٹ‘ میں جو بھی کچھ کررہا ہوں، جو بھی سوچ رہا ہوں، جو بھی بول رہا ہوں، ’انڈیا فرسٹ‘ کے موافق ہے۔ اتحاد کا راستہ کھل جائے گا دوست۔ ہمیں اتحاد سے باندھنے کا وہ منتر ہے، ہمیں اس کو پکڑنا ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ ہم سماج کے اندر اونچ نیچ کی تفریق سے، میرے تیرے کی تفریق سے … ہم سب کے پجاری بنیں۔ شرمیوجیتےکہتے ہیں، ہم محنت کش کی عزت کرتے ہیں، یہی ہمار ا کردار ہونا چاہیے۔ لیکن بھائیو بہنو، میں لال قلعہ سے اپنا ایک درد بیان کرنا چاہتاہوں، یہ درد میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ شاید یہ لال قلعہ کا موضوع نہیں ہوسکتا۔لیکن میرے اندر کا درد میں کہاں کہوں گا۔ ملک کے شہریوں کےسامنے نہیں کہوں گا تو کہاں کہوں گا اور وہ ہے کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے اندر ایک ایسی خرابی آئی ہے، ہماری بول چال میں ، ہمارے برتاؤ میں، ہمارے کچھ الفاظ میں،ہم خواتین کی بے عزتی کرتے ہیں۔ کیا ہم برتاؤ سے، اخلاقیات سے، روزمرہ کی زندگی میں خواتین کو بے عزت کرنے والی حرکتوں سے، آزادی کا عہدلے سکتے ہیں۔ خواتین کا وقار ملک کے خواب کو پورا کرنے میں بہت بڑا سرمایہ بننے والا ہے۔ یہ صلاحیت میں دیکھ رہا ہوں اور اس لیے میں اس بات کی اپیل کرتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو! میں پانچویں عزم کی بات کرتا ہوں اور وہ پانچواں عزم ہے شہریوں کی ذمہ داری۔ دنیا میں جن جن ملکوں نے ترقی کی ہے، جن جن ممالک نے کچھ حاصل کیا ہے، ذاتی زندگی میں بھی جس نے حاصل کیا ہے، کچھ باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ایک سائشتہ زندگی، دوسرا ذمہ داری کا احساس۔ آدمی کی زندگی کی کامیابی ہو، سماج کی ہو، فیملی کی ہو، قوم کی ہو۔ یہ بنیادی راستہ ہے، یہ بنیادی قوت ارادی ہے۔ دنیا میں جن جن ملکوں نے ترقی کی ہے، جن جن ملکوں نے کچھ حاصل کیا ہے، انفرادی زندگی میں بھی جس نے حاصل کیا ہے، کچھ باتیں اُبھر کر کے سامنے آتی ہیں۔ ایک نظم وضبط کی زندگی، دوسر ا فرض کے تئیں لگن، فرد کی زندگی کی کامیابی ہو، معاشرے کی ہو، خاندان کی ہو،قوم کی ہو، یہ بنیادی راستہ ہے۔ یہ بنیاد طور پر روحانی طاقت ہے اور اس لئے ہمیں فرض پر زور دینا ہی ہوگا۔ یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ بجلی 24 گھنٹے پہنچانے کے لئے کام کریں، لیکن یہ شہری کا فرض ہے کہ جتنی زیادہ یونٹ بجلی بچا سکتے ہیں، بچائیں۔ ہر کھیت میں پانی پہنچانا سرکار کی ذمہ داری ہے، سرکار کی کوشش ہے، لیکن ‘پرڈروپ مور کروپ’ پانی بچاتے ہوئے آگے بڑھنا، میرے ہر کھیت سے آواز اٹھنی چاہئے۔ کیمیکل سے پاک کھیتی، نامیاتی فارمنگ، قدرتی کھیتی، یہ ہمارا فرض ہے۔ ساتھیو، چاہے پولیس ہو، یا عوام ہو، حکمراں ہو، یا منتظم ہو، یہ شہری فرض سے کوئی اچھوتا نہیں ہو سکتا۔ ہر کوئی اگر شہریت کے فرضوں کو نبھائے گا تو مجھے یقین ہے کہ ہم مطلوبہ ہدف کو حاصل کرنے میں وقت سے پہلے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج مہارشی اربندو کی یوم پیدائش بھی ہے۔میں اُس عظیم شخصیت کے چرنوں میں نمن کرتا ہوں۔ لیکن ہمیں اس عظیم شخص کو یاد کرنا ہوگا، جنہوں نے کہا تھا کہ ‘سودیسی سے سوراج’ سوراج سے سُراج۔ یہ ان کا منتر ہے، ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک دنیا کی طرف لوگوں پر منحصر رہیں گے۔ کیا ہمارے ملک کو اناج کی ضرورت ہو، ہم آؤٹ سورس کر سکتے ہیں کیا۔ جب دیش نے طے کرلیا ہے کہ ہمارا پیٹ ہم خود بھریں گے، دیش نے کر کے دکھایا ، یا نہیں دکھایا، ایک بار عہد کرتے ہیں، تو ہوتا ہے ۔اور اس لئے خود کفیل ہندوستان یہ ہر شہری کا، ہر سرکار کا ، سماج کی ہر اکائی کا، یہ فرض بن جاتا ہے۔ یہ خود کفیل بھارت یہ سرکاری ایجنڈا، سرکاری کام کاج نہیں ہے۔ یہ سماج کی عوامی مہم ہے، جسے ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ میرے ساتھیو، آج جب ہم نے یہ بات سنی، آزادی کے 75 سال کے بعد جس آواز کو سننے کے لئے ہمارے کان ترس رہے تھے، 75 سال کے بعد وہ آواز سنائی دی ہے۔ 75 سال کے بعد لال قلعہ پر سے ترنگے کو سلامی دینے کا کام میڈ ان انڈیا توپ نے کیا ہے۔ کون ہندوستانی ہوگا، جس کو یہ بات، یہ آواز اسے نئی ترغیب، طاقت نہیں دے گی۔ اور اس لئے میرے پیارے بھائی بہنو، میں آج ، میرے دیش کی فوج کے جوانوں کا دل سے استقبال کرنا چاہتا ہوں۔ میری خود کفالت کی بات کو منظم شکل میں، جس جرأت کے ساتھ میری فوج کے جوانوں نے فوج کے ہیروز نے جس ذمہ داری کےساتھ کندھے پر اٹھایا ہے ۔ میں اُن کو جتنا سلوٹ کروں ،اتنا کم ہے دوستوں۔ ان کو آج میں سلام کرتا ہوں، کیونکہ فوج کا جوان موت کو مٹھی میں لے کر چلتا ہے۔ موت اور زندگی کے بیچ میں کوئی فاصلہ ہی نہیں ہوتا ہے، اور تب بیچ میں وہ ڈٹ کر کے کھڑا ہوتا ہے۔ اور وہ میری فوج کا جوان طے کر کے کہ ہم 300 ایسی چیزیں اب لسٹ کرتے ہیں، جو ہم ودیس نہیں لائیں گے۔ ہمارے دیش کا یہ عہد چھوٹا نہیں ہے۔ مجھے اس عزم میں ہندوستان کے ’آتم نربھر‘ بھارت کا روشن مستقبل نظرآرہا ہے، وہ بیج میں دیکھ رہا ہوں جو ان خوابوں کو برگد کے درخت میں تبدیل کرنے والے ہیں۔ Sal کروڑ ہم وطنوں کی یہ ٹیم انڈیا ایک ٹیم کے روپ میں آگے بڑھ کر کے سارے خوابوں کو پورا کرے گی۔ اس پورے یقین کے ساتھ میرے ساتھ بولئے۔ جے ہند! جے ہند! جے ہند! بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم، بہت بہت مبارک باد,৭৬ সংখ্যক স্বাধীনতা দিৱস উপলক্ষে লালকিল্লাৰ দূৰ্গৰ পৰা ৰাষ্ট্ৰবাসী��� উদ্দেশ্যি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%DA%88%DB%8C%D8%B4%DB%81-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D8%AA%DA%A9%D9%84-%D8%AF%D9%88%D8%B3-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A6%A1%E0%A6%BC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%89/,نئیدہلی۔ یکم اپریل2018؛ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اڈیشہ کے قیام کے دن کے موقع پر عوام کو مبارکباد دی۔ اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا، ’’ملک کو اڈیشہ کی عظیم ثقافت اور ورثہ پر فخر ہے۔ ریاست کے لوگوں نے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی انجام دے کر ملک کی ترقی کے راہ میں ایک ناقابل یقین نشان چھوڑا ہے۔ بھگوان جگناتھ ہمیشہ ہمیں آشرواد دیتے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ اڈیشہ کے لوگ آنے والے دنوں میں ترقی کی بلندی کو چھو لیں گے۔‘‘,ওড়িশাৰ প্ৰতিষ্ঠা দিনত উৎকল দিৱস উপলক্ষে ওড়িশাবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-17-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%B3%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B/,Posted On: 15 OCT 2022 12:56PM by PIB Delhi وزیر اعظم جناب نریندر مودی نئی دہلی میں واقع انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں 17 اکتوبر کو صبح تقریباً 11:30 بجے ، دو روزہ پروگرام ’’پی ایم کسان سمان سمیلن 2022‘‘ کا افتتاح کریں گے۔ یہ تقریب ملک بھر کے 13500 سے زائد کاشتکاروں اور تقریباً 1500 زرعی اسٹارٹ اپ اداروں کو قریب لائے گی۔ مختلف اداروں سے وابستہ ایک کروڑ سے زائد کاشتکار ورچووَل طریقہ سے اس تقریب میں شرکت کریں گے۔ اس تقریب میں محققین، پالیسی ساز اور دیگر وابستگان بھی شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم کیمیکلز اور فرٹیلائزرس کی وزارت کے تحت 600 پردھان منتری کسان سمرُدھی کیندروں (پی ایم کے ایس کے ) کا افتتاح کریں گے۔ اس اسکیم کے تحت، ملک میں کھادوں کی خوردہ دوکانوں کو مرحلہ وار طریقہ سے پی ایم کے ایس کے میں تبدیل کیا جائے گا۔ پی ایم کے ایس کے کاشتکاروں کی متعدد ضرورتوں کو پورا کریں گے اور زراعت سے متعلق اشیاء (کھاد، بیج ،آلات) فراہم کرائیں گے؛ مٹی، بیج اور کھادوں کی جانچ سے متعلق سہولتیں فراہم کرائیں گے، کاشتکاروں کے درمیان بیداری پیدا کریں گے؛ مختلف سرکاری اسکیموں کے بارے میں معلوما ت فراہم کرائیں گے اور بلاک/ضلعی سطح کی دوکانوں پر خوردہ فروشوں کی باقاعدہ صلاحیت سازی کو یقینی بنائیں گے۔ 3.3 لاکھ سے زائد خوردہ کھاد کی دوکانوں کو پی ایم کے ایس کے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ وضع کیا گیا ہے۔ تقریب کے دوران، وزیر اعظم ’بھارتیہ جن اُوروَرَک پری یوجنا- ایک ملک ایک کھاد‘ کا آغاز کریں گے۔ اس اسکیم کے تحت، وزیر اعظم بھارت یوریا بیگس جاری کریں گے، جو کمپنیوں کو واحد برانڈ ’’بھارت‘‘ نام سے کھادوں کی مارکیٹنگ میں مدد فراہم کریں گے۔ تقریب کے دوران، کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے تئیں وزیر اعظم کی مسلسل عہد بندگی کے عین مطابق، وزیر اعظم راست فائدہ منتقلی کے توسط سےپردھان منتری کسان سمان ندھی (پی ایم-کسان) کے تحت 16000 کروڑ روپئے کی رقم کی 12ویں قسط جاری کریں گے۔ اس اسکیم کے تحت، مستحق کاشتکار کنبوں کو 2000 روپئے کی تین مسا��ی قسطوں میں سالانہ 6000 روپئے کے بقدر کا فائدہ بہم پہنچایا جاتا ہے۔ اب تک، مستحق کاشتکار کنبوں کو پی ایم – کسان کے تحت 2 لاکھ کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے فوائد حاصل ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم زرعی اسٹارٹ اپ اجتماع اور نمائش کا بھی افتتاح کریں گے۔ تقریباً 300 اسٹارٹ اپ ادارے کامل زراعت، فصل کی کٹائی کے بعد اور اضافی قدر وقیمت سے متعلق حل، متعلقہ زراعت، کچرے سے دولت، چھوٹے کاشتکاروں کو مشینوں کے ذریعہ کاشتکاری کے لیے راغب کرنا، سپلائی چین انتظام کاری، زرعی لاجسٹکس، وغیرہ سے متعلق اپنی اختراع کا مظاہرہ کریں گے۔یہ پلیٹ فارم اسٹارٹ اپ اداروں کو کاشتکاروں، ایف پی اوز، زرعی ماہرین، کارپوریٹس وغیرہ سے ملاقات و بات چیت کا موقع فراہم کرے گا۔ اسٹارٹ اپ ادارے اپنے تجربات ساجھا کر سکیں گے اور تکنیکی سیشنوں کے دوران دیگر شراکت داروں سے بات چیت کرسکیں گے۔ تقریب کے دوران، وزیر اعظم کھاد سے متعلق ایک ای-میگزین ’انڈین ایج‘ کا آغاز کریں گے۔ یہ رسالہ کھادوں کے تعلق سے گھریلو اور بین الاقوامی منظرنامہ کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا، اس کے علاوہ اس رسالہ میں حالیہ پیش رفت، قیمتوں سے متعلق رجحانات کا جائزہ، دستیابی اور کھپت، کاشتکاروں کی کامیابی کی داستانیں، وغیرہ جیسے موضوعات بھی شامل ہوں گے۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৭ অক্টোবৰত প্ৰধানমন্ত্ৰী কিষাণ সন্মান সন্মিলন, ২০২২ ৰ উদ্বোধন কৰি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%B1-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%D8%A7%DB%81%D9%84%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%9A/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سی آر پی ایف کے یوم تاسیس کے موقع پر تما م سی آ ر پی ایف اہلکاروں اور ان کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کی ۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ‘‘ تمام سی آر پی ایف اہلکارو ں اور ان کے اہل خانہ کو یوم تاسیس کی مبارکباد۔اس فورس نے اپنے مصمم حوصلے اور نمایاں خدمات سے اپنے لئے ممتاز مقا م حاصل کیا ہے۔ چاہے سکیورٹی سے متعلق چیلنج ہوں یا انسانی چیلنج ، ان کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سی آر پی ایف کا رول قابل تعریف رہا ہے۔’’,প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উপলক্ষে চিআৰপিএফ জোৱানসকলক শুভেচ্ছা জনালে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C-%D8%A7%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%AB%E0%A6%B2%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%87%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 30 جولائی 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سی بی ایس ای امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والے بارہویں درجے کے طلباء کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ننھے دوست کے طور پر مخاطب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے انہیں روشن، پرمسرت اور صحت مند مستقبل کے لئے دعائیں دیں۔ ٹوئیٹس کے ایک سلسلے کے تحت، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’میرے ننھے دوستوں کو مبارکباد جنہوں نے سی بی ایس ای کے بارہویں درجے کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ روشن، پرمسرت اور صحت مند مستقبل کے لئے نیک خواہشات۔ جو یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ مزید محنت کر سکتے تھے یا اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے تھے، ان کے لئے میں کہنا چاہتا ہوں، اپنے تجربے سے سیکھیں اور اپنے وقار کو برقرار رکھیں۔ ایک روشن اور مواقع سے بھرا مستقبل کا آپ کا منتظر ہے۔ آپ میں سے ہر ایک میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ میری نیک خواہشات ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس سال درجہ بارہویں کے امتحانات میں حصہ لینے والے بیچ نے یہ کارکردگی غیر معمولی صورتحال کے دوران پیش کی ہے۔ تعلیمی دنیا نے گذشتہ برس کے دوران متعدد تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔ پھر بھی، انہوں نے نئے طور طریقوں کو اپناکر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ پیش کیا۔ مجھے ان پر فخر ہے۔‘‘,সফলতাৰে চিবিএছইৰ পৰীক্ষাত উত্তীৰ্ণ হোৱা দ্বাদশ শ্ৰেণীৰ ছাত্ৰ-ছাত্ৰীসকলক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন জ্ঞাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%93%D8%B1%DA%A9%DB%8C%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%84-%D8%B3%D8%B1%D9%88%DB%92-%D8%A2-%D9%81-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%9C/,نئی دہلی،13 جولائی 2018؍ میں سب سے پہلے آپ سب کو اس شاندار عمارت کے لئے اور جدید ترین بھون کے لئے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ جس ادارے کی عمر 150 سال ہوگئی ہے ، یعنی یہ ادارہ اپنے آپ میں آثار قدیمہ کا موضوع بن گیا ہے اور 150 سال میں کیسے کیسے کہاں سے نکلی ہوگی ، کہاں پہنچی ہوگی، کیسی پھیلی ہوگی، کیا کچھ پایا ہوگا، کیا کچھ پنپا ہوگا، یعنی اپنے آپ میں 150 سال ایک ادارے کی زندگی میں بہت بڑا وقت ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا ہوں کہ اے ایس آئی کے پاس اپنے 150 سال کی مدت کار کی بھی کوئی تاریخ ہے کہ نہیں۔ آثار قدیمہ کا یہ کام بھی کرنے جیسے ہوگا اگرنہیں ہے تو ہوگا۔ بہت اچھی بات ہے۔ کئی لوگوں میں اس ذمہ داری کو سنبھالا ہوگا ،کس تصور سے شروع ہوا ہوگا، کیسے کیسے اس کی توسیع ہوئی ہوگی۔ ٹکنالوجی اس میں کیسے کیسے داخل ہوئی ہوگی، ایسی بہت سے باتیں ہوں گی اور اے ایس آئی کے ذریعہ کئے گئے کام ، اس وقت کے سماج پر کیا اثرات مرتب کئے ہوں گے اس نے دنیا کے اس خطے کے لوگوں کو کس طرح راغب کیا ہوگا۔ آج بھی دنیا میں ہمارے ملک کی یا اثار قدیمہ کی چیزیں ہیں۔ دنیا کو جو اندازہ ہے اس میں سے حقیقتوں پر لے جانے کے لئے بہت سی اشیا ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ جیسے جیسے سائنس کی ترقی ہوئی اسپیس ٹیکنالوجی آئی، جو پرانے تصورات تھے ، انسانی زندگی کے تعلق سے اور جس کو لے کر سختی سے تحریک چلتی تھی ، دو دہارائیں چلتی تھیں، تاریخ کی دنیا میں ان کو تباہ کردینے کا کام ٹکنالوجی نے کیا۔ سرسوتی کے وجود کو قبول نہ کرنا یہ بھی ایک طبقہ تھا۔ لیکن اسپیس ٹکنالوجی راستے دکھا رہی ہے کہ نہیں جی، ایسا نہیں تھا۔ یہ تصوراتی نہیں تھا۔ آریہ باہر سے آئے ، نہیں آئے ، دنیا بھر میں تنازع رہا اور کچھ لوگ اس کے جیسے پسندیدہ موضوعات کو لے کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ بڑا طبقہ ہے لیکن جیسے ٹکنالوجی کی مدد سے آثار قدیمہ کے شعبے میں کام ہوا تو ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوا جو ایک نئی چرچہ لے کر آیا ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ یہ پرانے مخطوطات یا کچھ پرانی یا کچھ پتھر یہ بیکار دنیا نہیں ہے۔ یہاں کا ہر پتھر بولتا ہے ۔ آثار قدیمہ سے جڑے ہوئے ہر کاغذ کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے ۔ آثار قدیمہ سے نکلی ہوئی ہر چیز میں انسان محنت ، ریاضت، سپنوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پیوست ہوتا۔ اس لئے آثارقدیمہ میں جو لوگ ہیں ایسے ویران زمین میں کام شروع کرتے ہیں ، کئی برسوں تک دنیا کا دھیان نہیں جاتا ہے۔ جس طرح ایک سائنٹسٹ اپنے موضوع کو لے کر اپنی لے میں ڈوبا رہتا ہے ، اب دنیا کے سامنے جب جاتا ہے تو چمتکار کی شکل میں نظر آتا ہے۔ آثار قدیمہ کے میدان میں کام کرنے والا ایک شخص بھی ویران جنگلوں میں ، پہاڑ میں، کہیں پتھروں کے بیچ میں اپنے آپ کو کھو کر رہتا ہے اور دس دس بیس بیس سال وہ تھک جاتا ہے۔ پتہ تک نہیں ہوتا ۔ اور اچانک جب وہ کچھ نئی چیز دنیا کے سامنے اپنا تحقیقی مقالہ لے کر آتا ہے تو اس طرف دنیا کا دھیان جاتا ہے کہ کیا ہے۔ اس لئے ہمارے یہاں چندی گڑھ کے پاس ایک چھوٹا سا ٹیلہ، لوگوں کے لئے وہ ٹیلہ ہی تھا، لیکن فرانس کے کچھ اور یہاں کے کچھ لوگ اور عمرانیات کو جاننے والے لوگ، آثار قدیمہ کے لوگ لگ گئے اور انہوں نے کھوج کرکے یہ نکالا کہ دنیا کا سب سے پرانا ، لاکھوں سال پرانے جاندار کے باقیات اس ٹیلے میں دسیتاب ہیں۔ فرانس کے صدر جب یہاں آئے تو انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ مجھے وہاں جانا ہے جہاں میرے ملک کے لوگوں نے کچھ کام کیا ہے۔ اور میں ان کو لے کر گیا تھا۔ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ یہ چیزیں امیدوں سے پرے جانے کے لئے ہیں۔ نئے طریقے سے سوچنے کے لئے آثار قدیمہ کا ایک ماہر اس میدان میں کام کرنے والا شخص ایک بہت بڑا بدلاؤ لے کر آتا ہے۔ تاریخ کو کبھی کبھی چنوتی دینے کی طاقت ا س پتھر سے پیدا ہوجاتی ہے جو شاید شروع میں کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کبھی کبھی ہم ان چیزوں سے اتنے متعارف ہوتے ہیں ، اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی اس کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ دنیا میں جس کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے وہ اس کو بہت سمیٹ کر رکھتا ہے بھائی مجھے برابر یاد ہے میں ایک بار امریکہ حکومت کی دعوت پر ایک وفد میں امریکہ گیا تھا تو سفر کے دوران پوچھا گیا کہ کہاں جانا چاہیں گے ، کیا دیکھنا چاہیں گے کیا جاننا چاہیں گے ، وغیرہ ۔ سب بھرواتے ہیں ، تو میں نے لکھا تھا کہ وہاں چھوٹے سے گاؤں کا اسپتال کیا ہوتا ہے وہ مجھے دیکھنا ہے۔ چھوٹے سے گاؤں کا اسکول کیا ہوتا ہے وہ دیکھنا ہے۔ اور میں نے یہ لکھا تھا کہ آپ کی جو سب سے پرانی چیز ہو جس پر آپ فخر کرتے ہیں ایسی جگہ پر مجھے لے جایئے۔ جب مجھے وہ لوگ لے گئے تو وہ شاید پنی سلوانیہ ریاست میں لے گئے تھے ۔ وہ ایک بڑا کھنڈ تھا ۔ وہ مجھے دکھایا گیا اور بڑے فخر سے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ چارسو سال پرانا ہے۔ ان کے لئے یہ بہت پرانا اور فخر کا باعث تھا۔ ہمارے یہاں کوئی دو ہزار ، پانچ ہزار سال کے بعد اچھا اچھا ہوگا۔ یعنی یہ جو ہمارا کٹ آف ہے اس نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے۔ ملک آزاد ہونے کے بعد اس من اور مزاج سے باہر آنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایک ایسی سوچ نے ہندستان کو جکڑ کر رکھا ہے جو ہمارے پرانے فخر کو غلام مانتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہمیں جب تک ان وراثت بھر اپنی اس ثقافتی ورثے پر فخر نہیں ہوگا تو اس ثقافتی ورثے کو سنبھال کر رکھنا اور سنوارنے کا من بھی نہیں بنتا ہے۔ اسی چیز کو سنوارنے کا من تب ہوتا ہے جب فخر ہوتا ہے۔ ورنہ وہ ایسا ہی ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ میں جب چھوٹا تھا تومیری ایک خوش قسمتی رہی میں اس گاؤں میں پیدا ہوا ہوں جس کی رہائش کی یہ تاریخ ہے کہ صدیوں سے مسلسل انسانی نظام ترقی کررہا ہے اور ہیووین سانگ نے بھی لکھا تھا کہ وہاں بھکشوؤں کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی ، اور وہ ساری چیزیں وہاں ہیں لیکن ہمارے گاؤ ں میں جب ہم پڑھتے تھے تو ایک ٹیچر تھے وہ ہم کو سمجھاتے تھے کہ آپ کہیں بھی جاتے ہیں ،کوئی بھی پتھر جس پر کوئی نہ کوئی کام ہوا ہے ، ایسا دکھتا ہے تواسے اکٹھا کر کے اسکول کے کونے میں ڈال دیجئے۔ ایسا لاکر چھوڑ دیجئے۔ ہم بچوں کی عادت ہوگئی تھی کہیں ایسی چیز نظر آتی تھی ، جس پر ، پتھر پر دو لفظ بھی نظر آتے ، تو اٹھا کر لاتے تھے۔ اور اس کونے میں ڈال دیتے تھے، خیر اب تو مجھے معلوم نہیں بعد میں اس کا کیا ہوا لیکن بچوں میں اس کی عادت لگ گئی تھی۔ تب مجھے سمجھ آیا تھا کہ جو دیکھنے والا پتھر ہے جس کا کوئی ہم ایسے روڈ پر پڑا ہوا اس کی بھی کتنی قیمت ہوتی ہے۔ ایک استاد کی بیداری تھی جس نے یہ سنسکار دیئے۔ اور تب سے لے کر کے من کے بیک گراؤنڈ میں یہ چیزیں پڑی ہوئی ہیں اور ہم اس کو کرتے رہے ہیں۔ مجھے برابر یاد ہے ایک احمد آباد میں ڈاکٹر ہری بھائی گودھانی رہتے تھے وہ تو میڈیکل پریکٹشنر تھے اسی ایک عادت کے سبب جب میں نے ان کے بارے میں سنا تھا تو میں ان سے ملنے گیا تھا انہوں نے کہا کہ دیکھئے بھائی میں نے اپنی زندگی کی 20 فیایٹ کار ، تو اس وقت فیاٹ کار ہوا کرتی تھی، یہ نئی نئی گاڑیاں تو ہوتی نہیں تھیں میں نے 20 گاڑیاں تباہ کردی ہیں۔ بولے میں سنیچر اتوار اپنی فیاٹ کار لے کر کے چل پڑتا ہوا اور جنگلوں میں جاتا ہوں، پتھروں کے بیچ چلا جاتا ہوں کچے راستے ہوتے ہیں ایک سال سے زیادہ میری گاڑی چلتی نہیں ہے ، میں مانتا ہوں کہ ایک انفرادی شخص کا اتنا بڑا ذخیرہ شاید ہی بہت کم لوگوں کے پاس ہوگا میں نے اس وقت جو دیکھا تھا ا تنا ان کے پاس ذخیرہ تھا آثار قدیمہ کا ۔ خود تو وہ میڈیکل پروفیشنل تھے اور مجھے انہوں نے کچھ سلائیڈیں دکھائیں میری عمر بہت چھوٹی تھی ، لیکن تجسس تھا ، اس میں انہوں نے مجھے ایک پتھر کا تراشا ہوا ٹکڑا دکھایا جس میں ایک حاملہ عورت تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ شاید وہ 800 سال پرانا ہے ۔ حاملہ عورت کا سرجری کیا ہوا ایک سائیڈ کٹ کرکے اس کا پیٹ دکھایا گیا تھا ۔ چمڑی کے کتنے لیئر تھے وہ پتھر پر تراشا ہوا تھا، پیٹ میں جنین کس شکل میں سویا ہوا تھا وہ پتھر سے تراشا ہوا تھا۔ مجھے کوئی بتارہا تھا کہ میڈیکل سائنس نے یہ دریافت کچھ ہی صدیوں پہلے کی ہے۔ یہ ہمارے ایک مجسمہ ساز تقریباً 8 سو سال پہلے جو ہے پتھر میں جوچیزیں تراشی تھیں۔ بعد کے سائنس اس کو ثابت کردیا کہ ہاں چمڑی کے اتنے پرت ہوتے ہیں۔ بچہ ماں کے پیٹ میں اس طرح سے ہوتا ہے۔ اب ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں گیان کتنے نیچے تک پہنچا ہوگا اور کس طرح سے کام ہو یہ سلائیڈ انہوں نے مجھے دکھائی تھی۔ یعنی ہمارے پاس ایسی وراثت ہے اس کا مطلب اس زمانے میں کوئی نہ کوئی تو گیان ہوگا ورنہ ان کو کیسے معلوم ہوتا کہ چمڑی کے اتنے پرت ہوتے ہیں اور وہ پتھر پر کیسے تراشا ہوتا۔ مطلب وہاں سے سائنس ہمارا کتنا پرا ہوگا۔ اس کا گیان ہمیں دستیاب ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک اچھی بات ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو بھی لوگ دنیا میں ان چیزوں میں دلچپسی رکھتے ہیں وہاں پر عوامی شراکت داری اور عوامی تعاون ان شعبوں میں بہت ہوتا ہے۔ آپ دنیا میں کسی بھی یادگار میں جائیے ، سبکدوش لوگ سیوا بھا ؤ سے یونیوفارم پہن کر وہاں آتے ہیں، گائیڈ کی شکل میں کام کرتے ہیں، لے جاتے ہیں ، دکھاتے ہیں ، سنبھالتے ہیں، سماج اٹھاتا ہے یہ ذمہ داری ۔ ہمارے ملک میں ہم نے جو سینئر سیٹنز ہیں ان کی ایسی کلب بناکرکے ہم اس چیز کو کیسے پرکولیٹ کریں۔ سماج کی حصہ داری سے ہمارے یادگار کو بچانے کا کام اچھا ہوگا، بہ نسبت یہ کہ سرکار کا کوئی ملازم کھڑا ہوجائے اور ہوگا۔ طریقہ وہی ہوتا ہے۔ کوئی کتنا ہی چوکیدار ہوگا باغ کو نہیں سنبھال سکتا۔لیکن وہاں آنے والے شہری طے کریں کہ اس باغ کا ایک پودا بھی ٹوٹنے نہیں دینا ہے۔ ہوگا اس باغ کو صدیوں تک کچھ نہیں ہوتا ہے، عوامی حصے داری کی ایک طاقت ہوتی ہے اور اس لئے ہم اگر ہماری سماجی زندگی میں ان چیزوں کو ادارہ جاتی کریں، لوگوں کو جو اس طرح کی خدمات دیتے ہیں ان کو مدعو کریں اپنے آپ میں بہت بڑا کام ہوگا۔ ہمارے یہاں کارپوریٹ دنیا ہے جس کی مدد لی جاسکتی ہے۔ان کے ملازموں کو کہہ سکتے ہیں کہ بھائی اگر آپ کو خدمت قیمت سے دس گھنٹے ، پندرہ گھنٹے کام کرنا ہے مہینے میں یہ یادگار ہے اس کو سنبھالنے میں آئیے، میدان میں آیئے، دھیرے دھیرے ان چیزوں کی قیمت بنتی ہے۔ دوسرا ایک شعبہ ہے جس پر مجھے سوچنے کی محسوس ہوتی ہے۔ مان لیجئے ہم طے کریں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف اے ایس وائی والے کریں۔ سیاحتی محکمہ جڑ سکتا ہے، ثقافتی محکمہ جڑ سکتاہے۔ حکومت کے اور محکمے بھی جڑ سکتے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کے محکمے جڑ سکتے ہیں۔ لیکن مان لیجئے ہم طے کریں کہ ہم ملک میں 100 شہر پکڑیں۔100 شہر جو یادگار کے نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہے۔ سیاحت کے شعبے سے بہت اچھے مقامات ہیں، اور اس شہر کے بچوں کے جو سیلبس ہوتے ہیں ان کو ان کے شہر کے سلیبس میں پڑھائی میں اس شہر کا آرکیالوجیکل مضمون پڑھایاجائے، اس شہر کی تاریخ پڑھائی جائے تو جاکر کے نسل در نسل جس شہر میں وہ ہوا ہے ۔ اگرآگرہ کے بچے کے نصاب میں تاج محل کی پوری کہانی ہوگی تو پھر کبھی ڈیلوژن ڈائیورزن نہیں آئے گا۔ وہ نسل در نسل تیار ہوتے جائیں گے اسی صلاحیت کے ساتھ۔ دوسرا ادارہ جاتی طورپر ایسے 100 شہر میں ، مان لیجئے ہم اسی کے شہر کا آن لائن سرٹیفکیٹ کورس شروع کرسکتے ہیں کیا اور اس میں جو ہوتا ہے تاکہ ان کو پتہ چلے ایک ایک باریکی۔ سال یاد ہوگا اور پھر ہم دی بیسٹ کوالٹی ٹورسٹ گائیڈ تیار کرسکتے ہیں۔ میں نے کبھی ایک بار ٹی وی چینل والوں سے بات چیت کی تھی تب تو میں وزیر اعظم نہیں تھا۔ میں ان سے ایک بار بات کی ، میں نے کہا بھائی یہ ٹیلنٹ ہنٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ گانے والے بچے ، ناچنے والے بچے اور بہت ہی اچھا پرفارم کرتے ہیں۔ ملک کے بچوں میں ایک ایسا ٹیلنٹ ہے وہ ٹی وی کے ذریعے ہم کو پتہ چلنے لگے گا۔ میں نے کہا کہ بیسٹ گائیڈ اس کی ٹیلنٹ کمپٹیشن کرسکتے ہیں کیا؟ اور اس کو کہا جائے کہ وہ اسکرین پر جس شہر کا وہ گائیڈ کی شکل میں کام کرنا چاہتا ہے وہ لاکر کے دکھائے۔ گائیڈ کے وہ اپنے اچھے سے کسٹیوم پہن کر آئے۔ زبانوں کو سیکھیں اور کوئی کیسے ٹورسٹ گائیڈ کی شکل میں دنیا کو دکھائے، کمپٹیشن کیا جائے ، اس سے فائدہ ہوگا۔ یہ تو ہندوستان کی سیاحت کو بھی فروغ دے گا، تشہیر ہوگی ، دھیرے دھیرے گائیڈ نام کے لوگ تیار ہوں گےا ور بغیر گائیڈ کے ان چیزوں کو چلانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جب ذہن میں بھر جاتا ہے اس کے پیچھے یہ تاریخ ہے تو اس کے تئیں ایک لگاؤ ہوتاہے۔ آپ کو کوئی کمرے میں بند کر دے اور کوئی آدمی کمرے میں بند ہو اور کمرے کے دروازے پر ایک چھوٹا سا سراخ کیا جائے اور اندر سے کوئی ہاتھ باہر نکالے اور ایک لمبی قطار لگائی جائے اور سب کو کہا جائے کہ ان کو شیک ہینڈ کیجئے۔ کون انسان ہے پتہ نہیں ہے۔ سراخ کیا ہے ہاتھ لٹکا ہوا ہے آپ جا رہے ہیں تو ایسا ہی لگے گا جیسے یہاں پر ڈیڈ باڈی کو ہاتھ لگاکر چلے جارہے ہیں، لیکن جب آپ کو بتایا جائے کہ ارے بھئ یہ تو سچن تیندولکر کا ہاتھ ��ے تو آپ چھوڑیں گے ہی نہیں۔ یعنی جب جانکاری ہوتی ہے تو اپنا پن کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ان چیزوں کی یادگار کی جانکاری ہونا بہت ضروری ہے۔ میں ایک بار کچھ کے سامنے ریگستان میں ڈیولپ کرنا چاہتا تھا۔ اب ریگستان میں سیاحتی ڈیولپ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے تو شروع میں میں نے وہاں کے بچوں کو ٹرینڈ کیا۔ گائیڈ کی شکل میں اور ان کو سکھایا کہ نمک کیسے بنتا ہے، لوگوں کو سکھانا ہے۔ ریگستان میں نمک کیا ہوتا ہے اور آپ حیران ہوں گے ۔ جی آٹھویں، نویں کلاس کے بچے، بچیاں اتنے بہترین طریقے سے کسی کو بھی سمجھا پاتے ہیں کہ علاقہ کیسا ہے، یہاں پر کس طرح سے نمک کی کھیتی ہوتی ہے، پروسیس کیا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے کون آئے تھے۔ کسی انگریز نے آکر کے کیسے …….تو بہت اچھے ڈھنگ سے سمجھاتے تھے۔ لوگوں کو اس میں مزا آنے لگا۔ ان بچوں کو روزگار مل گیا۔ میں تو حیران ہوں جی، ٹیکنالوجی بدل گئی ہے۔ معاف کرنا آپ لوگ مجھے، میں کچھ باتیں بتاؤں گا، برا مت مانیے آپ لوگ۔ دنیا کیسے چل رہی ہے جی آج اسپیس ٹیکنالوجی سے ہزاروں میل اوپر سے دہلی کی کس گلی میں کون سا اسکوٹر پارک کیا ہوا ہے اس کا نمبر کیا ہے وہ فوٹو لے سکتے ہیں آپ۔ لیکن یادگار میں بورڈ پر لکھا ہے کہ یہاں فوٹو کھینچنا منع ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے جی، ٹیکنالوجی بدل چکی ہے۔ میں نے ایک بار جو ہمارے یہاں سردار سروور ڈیم بن رہا تھا۔ اس ٹائم پر لوگ آنا چاہتے تھے ۔ کبھی کبھی اوور فلو ہوتا ہے لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہاں پر بڑے بڑے بورڈ لگے تھے۔ تصویر کھینچنا منع ہے وغیرہ وغیرہ تو میں الٹا کیا میں وزیر اعلیٰ تھا تو کرسکتا تھا، میں نے کہا کہ یہاں جو فوٹو اچھا کھینچے گا اس کو انعام دیا جائے گا اور شرط یہ تھی کہ وہ فوٹو اپلوڈ کرنی ہوگی اپنی ویب سائٹ پر۔ آپ حیران ہوں گے لوگوں کی حصہ داری س لوگ فوٹو کھینچنے لگے۔ لوگ فوٹو اپنا آن لائن ڈالنے لگے اور پھر میں نے کہا کہ یہاں اب ٹکٹ رہے گا۔ جو بھی ڈیم دیکھنے کے لئے آئے اس کو ٹکٹ لگے گا اور ٹکٹ میں رجسٹریشن ہوگا۔ پھر میں نے کہا جب پانچ لاکھ ہوں گے تو ڈجیٹل میں پانچ لاکھواں جس کا نمبر ہوگا اس کو اعزا زدیا جائے گا اور میرے لیے حیرانی تھی کہ جب پانچ لاکھواں نمبر تھا تو کشمیر کے بارہ مولہ کا ایک جوڑا پانچ لاکھواں ہوا تھا۔ تب پتہ چلا کہ کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس کو ہم نے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ تو یہ جو پرانے، وہاں بھی میں نے دیکھا کہ ہمارے کچھ بچوں کو تیار کیا آٹھویں دسویں کے تھے ۔ میں نے کہا کہ گائیڈ کے ناطے کام کرو ، پھر یہ ڈیم بننا کب شروع ہوا، کیسے اجاز ت ملی، کتنے سیمنٹ کا استعمال ہوا، کتنا لوہا ہوا، کتنا پانی اکٹھا ہوگا، کتنے اچھے طریقے سے قبائلی بچے ہیں۔کتنے اچھے طریقے سے وہ گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں کم از کم 100 شہروں میں جو بھی ہم طے کریں۔ ویسے اس طرح کی نئی نسل کو ہم تیار کریں،جو گائیڈ کے پیشے کے لیے دھیر دھیرے آگے آئیں۔ جن کی انگلیوں پر تاریخ پنپتی ہوں، تاریخ ٹھہر گئی ہو جن کی انگلیوں پر ۔ ایسا اگر ہم کر پاتے ہیں تو آپ دیکھئے کہ دیکھتے دیکھتے ہی یہ بھار ت کے جو عظیم وراثت ہے دنیا کے لئے عجوبہ ہے اور ہمیں دنیا کو مزید کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آباء و اجداد چھوڑ کر گئے ہیں، صر ف اس کو دکھانا ہے۔ ہندوستان کی سیاحت کو کوئی روک نہیں سکتا اور ہم ایسی اولاد تو نہیں ہیں کہ ہم اپنے آباء اجداد کے کاموں کو بھلادیں۔ یہ ہم لوگوں کا فریضہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کی جو وراثت ہے اس کو ہم دنیا کے سامنے پیش کریں۔ بڑے فخر کے ساتھ پیش کریں۔ بڑی شان سے پیش کریں اور دنیا کو اس عظیم تاریخی ورثے کو چھونے کا من کرجائے ، اس کی پوجا کرنے کی خواہش ہوجائے۔ ہم اس یقین کے ساتھ چل پڑیں ۔ اس جذبے کے ساتھ ساتھ میں بہت بہت نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ م ن۔ م ع۔۔ن ا۔ن ع۔ ج,ভাৰতীয় প্ৰত্নতাত্ত্বিক জৰীপ বিভাগ নতুন ভৱন উদ্বোধন উপলক্ষে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%88%DB%8C%D9%86%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A4-%E0%A7%AC-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%A8-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%86%E0%A6%87-%E0%A6%B2%E0%A7%87/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پنگالی وینکیا کے یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا : ’’ میں عظیم پنگالی وینکیا کے یوم پیدائش پرانہیں خراج عقیدت پیش کرتاہوں۔ ہماری قوم ، ہمیں ترنگا عطا کرنے کی غرض سے ان کی کوششوں کی ہمیشہ ا حسان مند رہے گی، ہم پرارتھنا کرتے ہیں کہ ترنگے سے قوت اور ترغیب حاصل کرتے ہوئے ہم قومی ترقی کے لئے کام کرتے رہیں۔,জুলাইত ৬ বিলিয়ন ইউপিআই লেনদেনৰ প্ৰশংসা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AF%DB%8C%D9%86%DA%A9-%D8%AC%D8%A7%DA%AF%D8%B1%D9%86-%DA%A9%DB%8C-75-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF%D8%B1%DB%81-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%88%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A7%AD%E0%A7%AB%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D-2/,یہاں موجود سبھی سینئر سامعین، خواتین و حضرات۔ سب سے پہلے میں دینک جاگرن کے ہر قاری کو، اخبار کی اشاعت اور اخبار کو گھر گھر تک پہنچانے کے کام سے منسلک ہر شخص کو، خاص طور پر ہاکر برادران کو، آپ کی ادارتی ٹیم کو جشن الماسی پر بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں، اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ گزشتہ 75 برسوں سے آپ مسلسل ملک کے کروڑوں لوگوں کو اطلاعات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ملک کی تعمیر نو میں دینک جاگرن نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ ملک کو بیدار کرنے میں آپ اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔ بھارت چھوڑو تحریک کے پس منظر میں جو کام آپ نے شروع کیا، وہ آج نئے بھارت کی نئی امیدوں، نئے عزائم کو آگے بڑھانے میں تعاون کر رہا ہے۔ میں دینک جاگرن پڑھنے والوں میں سے ایک ہون۔ شایدآغاز وہیں سے ہوتا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ دہائیوں میں دینک جاگرن نے ملک اور سماج میں تبدیلی لانے کی مہم کو طاقت بخشی ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں آپ کے گروپ اور ملک کے تمام میڈیا اداروں نے ملک کی تعمیر کے مضبوط ستون کے طور پر اپنے فریضے کو بخوبی انجام دیا ہے۔ چاہے وہ بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاو مہم ہو، چاہے سوچھ بھارت مہم ہو۔ یہ اگر عوامی تحریک بنے ہیں تو اس میں میڈیا کا بھی ایک مثبت کردار رہا ہے۔ دینک جاگرن بھی اس میں اپنی مؤثر شراکت دینے کے لئے ہمیشہ آگے رہا ہے۔ حال میں ہی ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ، مجھے آپ سب سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا۔ تب مجھے بتایا گیا تھا کہ سوچھتا کے لئے کس طرح آپ سبھی پوری لگن سے کام کر رہے ہیں۔ ساتھیوں، سماج میں میڈیا کا یہ رول آنے والے وقت میں اور بھی اہم ہونے والا ہے۔ آج ڈیجیٹل انقلاب نے میڈیا کو، اخب��رات کو مزید وسعت دی ہے اور میرا خیال ہے کہ نیا میڈیا نیا بھارت کی بنیاد کو اور طاقت دے گا۔ ساتھیو! نئے ہندوستان کی جب بھی ہم بات کرتے ہیں تو کم از کم حکومت، زیادہ سے زیادہ حکمرانی اور سب کا ساتھ سب کا وكاس اس كے اصل ہیں اور اسی کو لے کر ہم بات کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسے نظام کی بات کرتے ہیں جو عوامی شراکت داری سے منصوبے کی تعمیر بھی ہو اور عوامی شراکت داری سے ہی ان پر عمل بھی ہو۔ اسی سوچ کو ہم نے گزشتہ چار برسوں سے آگے بڑھایا ہے۔ مرکزی حکومت کے کئی منصوبوں کو عوام اپنی ذمہ داری سمجھ کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ حکومت، سروکار اور امداد باہمی ، یہ احساس ملک میں مضبوط ہوا ہے۔ ملک کا نوجوان آج ترقی میں خود کو حصے دار ماننے لگا ہے۔ سرکاری اسکیموں کو اپنے پن کے نظریئے سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اس کو لگنے لگا ہے کہ اس کی آواز سنی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اور سسٹم پر یقین آج بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ یقین تب پیدا ہوتا ہے جب حکومت طے شدہ ہدف حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شفافیت کے ساتھ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ساتھیوں، جاگرن فورم میں آپ متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔ بہت سے سوال اٹھائے جائیں گے، بہت سے جواب بھی تلاش کئے جائیں گے۔ ایک سوال آپ کے منچ پر میں بھی اٹھا رہا ہوں اور سوال میرا ہے لیکن اس کے ساتھ پورے ملک کے جذبات وابستہ ہیں۔ آپ بھی اکثر سوچتے ہوں گے، حیرت میں پڑتے ہوں گے کہ آخر ہمارا ملک پسماندہ کیوں رہ گیا۔ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد۔۔ یہ کسک آپ کے دماغ میں بھی ہوگی کہ ہم كيوں پیچھے رہ گئے۔ ہمارے پاس بہت بڑی زرخیز زمین ہے، ہمارے نوجوان بہت باصلاحیت اور محنتی بھی ہیں، ہمارے پاس قدرتی وسائل کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارا ملک آگے کیوں نہیں بڑھ پایا۔ كيا وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ملک بھی جن کی تعداد بہت کم ہے، جن کے پاس قدرتی دولت بھی تقریباً نہ کے برابر ہے۔ ایسے ملک بھی بہت کم وقت میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے عوام کی صلاحیت ہے کہ ہمارا چندریان چاند تک پہنچ گیا۔ ہم نے بہت کم خرچ میں منگل مشن مکمل کیا۔ لیکن كيا وجہ ہے کہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے گاؤں تک سڑک بھی نہیں پہنچی ہے۔ ساتھیو! ہندوستانیوں کی اختراعات سے دنیا جگمگا رہی ہے۔ لیکن كيا وجہ رہی ہے کہ کروڑوں ہندوستانیوں کو بجلی بھی نہیں مل پاتی تھی، آخر ہمارے ملک کے لوگ چھ دہائی سے زیادہ وقت تک بنیادی سہولتوں کے لئے بھی کیوں ترستے رہے۔ بڑے بڑے لوگ اقتدار میں آئے، بڑے بڑے خوشحال لوگ بھی اقتدار میں آئے اور چلے بھی گئے۔ لیکن دہائیوں تک جو لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل سے برسرپیکار تھے، ان کے مسائل حل نہیں ہو سکے۔ ساتھیو! منزلوں کی کمی نہیں تھی ، کمی نیت کی تھی، پیسوں کی کمی نہیں تھی ، جذبے کی کمی تھی ، حل کی کمی نہیں تھی ، ہمدردی کی کمی تھی، قوت کی کمی نہیں تھی بلکہ کمی تھی کام کرنے کی ثقافت کی۔ بہت آسانی سے کچھ لوگ کبیر داس جی کے اس دوحے کو بگاڑ کر کے مذاق بنا دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’ کل کرے سو آج کر ،آج کرے سو اب ‘لیکن سوچیئے اگر یہ جذبہ ہمارے کام کرنے کی تہذیب میں دہائیوں پہلے آ گیا ہوتا تو آج ملک کی کیا تصویر ہوتی ۔ ساتھیو! حال ہی میں میں ایلیفینٹا تک تک پانی کے اندر بچھے کیبل کے ذریعے بجلی پہنچانے کا ایک ویڈیو بہت وائرل ہو رہا تھا ۔ میری بھی نظر پڑی ، امید ہے آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ تصور کیجیئے کہ ممبئی سے تھوڑی ہی دور پر بسے لوگوں کو کیسا لگتا ہوگا جب وہ خود اندھیرے میں رات دن گذارتے ہوئے ممبئی کی چکا چوند کو دیکھتے ہوں ۔ اس اندھیرے میں 70 سال گذار دینے کا تصور کر کے دیکھئے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے ایک شخص نے خط لکھ کر دھیان دلایا ، اس نے خط اس لئے کہا کیونکہ میگھالیہ پہلی بار ٹرین سے جڑ گیا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے اقتدار میں آنے سے پہلے میگھالیہ ، میزور اور تریپورہ بھارت کے ریل کے نقشے میں نہیں تھے، سوچیئے کس نے کس طرح ان ریاستوں کے لوگوں کی زندگی پر اثر ڈالا ہوگا۔ ساتھیو ! پہلے ملک کس سمت میں ،کس رفتار سے چل رہا تھا اور آج کس سمت میں اور کس تیزی کے ساتھ،کس رفتار سے آگے جا رہا ہے ۔یہ میرے میڈیا کے ساتھیوں کے لئے مطالعہ کرنے اور غور و خوض کرنے کا موضوع بھی ہوتا ہے۔ کب کریں گے وہ ہم نہیں جانتے ہیں ۔سوچیئے آخر کیوں آزادی کے 67 سا ل تک صرف 38 فیصد دیہی گھروں میں ہی بیت الخلاء بنے اور کیسے ۔۔۔۔۔صرف چار سال میں ۔۔۔۔۔۔ سڑک رابطوں کو بڑھا کر 90فیصد سے زیادہ بستیوں ، گاؤں ، ٹولوں تک پہنچا دیا گیا ۔آخر سوچیئے ۔۔۔۔ کیوں آزادی کے 67 سال بعد تک صرف 55 فیصد گھروں میں ہی گیس کا کنکشن تھا۔ اور اب کیسے صرف چار سال میں گیس کنکشن کا دائرہ 90 فیصد گھروں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ سوچیئے ۔۔۔۔ آخر کیوں ۔ آزادی کے 67 سال تک صرف 70 فیصڈ دیہی خاندانوں تک بجلی کی سہولت پہنچی تھی ۔اب کیسے ۔۔۔۔ گذرے چار سالوں میں 95 فیصد دیہی گھروں تک بجلی پہنچ گئی ہے ۔ ساتھیو ! اس طرح سے سوال پوچھتے پوچھتے گھنٹوں نکل سکتے ہیں۔ نظام میں نا مکمل سے مکمل کی طرف بڑھتے ہمارے ملک نے پچھلے چار ، ساڑھے چار سالوں میں جو ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے۔ ساتھیو ! سوچیئے۔۔۔۔ آخر کیوں ۔آزادی کے 67 سال تک ملک کے صرف 50 فیصد کنبوں کے پاس ہی بینک کھاتے تھے۔ایسا کیسے ہوا کہ آج ملک کے لگ بھگ ہر کنبے کا بینک سے ناطہ جڑ گیا ہے ۔ سوچیئے ۔۔۔۔۔ کہ آخر ایسا کیا تھا کہ آزادی کے 67 سال تک بہ مشکل چار کروڑ شہری ہی انکم ٹیکس ریٹرن بھر رہے تھے۔ سواسو کروڑ کا دیش۔۔۔۔۔۔۔ چار کروڑ، صرف چار سال میں ہی تین کروڑ نئے شہری انکم ٹیکس کے نیٹ ورک سے جڑ گئے ہیں ۔ سوچیئے۔۔۔ کہ آخر کیوں ایسا تھا کہ جب تک جی ایس ٹی لاگو نہیں ہوا تھا ، ہمارے ملک میں بلواسطہ ٹیکس نظام سے 66 لاکھ آدمی ہی رجسٹرڈ تھے اور اب جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد 54 لاکھ نئے لوگوں نے رجسٹر کروایا۔ ساتھیو! آخر پہلے کی سرکاریں ایسا کیوں نہیں کر سکیں اور اب جو ہو رہا ہے وہ کیسے ہو رہا ہے۔ لوگ وہی ہیں افسر شاہی وہی ہیں ، ادارے بھی وہی ہیں ، فائل کے جانے کا راستہ بھی وہی ہے ، ٹیبل، کرسی ، قلم وہ سب کچھ وہی ہے پھر بھی یہ بدلاؤ کیوں آیا۔ اس بات کا یہ ثبوت ہے کہ ملک بدل سکتا ہے۔ اور میں آپ کو یہ بھی یقین دلانا چاہتا ہوں کہ جو بھی بدلاؤ آیا ہے ، جو بھی تبدیلی آ رہی ہے ، تیزی آئی ہے، وہ تب تک نہیں آتی جب تک بالکل زمینی سطح پر جا کر فیصلے نہیں کئے جاتے ، ان پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ آپ تصور کیجئے ۔۔۔ اگر ملک کے شہریوں کو دہائیوں پہلے ہی لازمی ضروریات فراہم کی گئی ہوتی تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہوتا ۔ ملک کے شہریوں کے لئے یہ سب کرنا میرے لئے خوش قسمتی کی بات ہے۔ لیکن یہ اتنی ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ ملک کو اس کے لئے اسنے برسوں تک ترسنا پڑا۔ ساتھیو! جب ہمارے ملک کے غریب ،کمزور اور محروم لوگوں کو تمام بنیادی سہولتیں میسر ہو جائیں گی ۔۔۔۔۔ انہیں بیت الخلاء ، بجلی ، بینک اکاونٹ ، گیس کنیکشن ، تعلیم ، بیماری جیسے چیزوں کی فکر سے آزادی مل جائے گی تو پھر میرے ملک کے غریب خود ہی اپنی غریبی کو شکست دے دیں گے ۔ یہ میرا یقین ہے ۔ وہ غریبی سے باہر نکل آئیں گے اور ملک بھی غریبی سے باہر نکل آئے گا،گذرے چار برسوں میں آپ اس تبدیلی کو ہوتے ہوئے دیکھ بھی رہے ہیں۔ اعدادو شمار اس کی گواہی دے رہی ہے لیکن یہ سب پہلے نہیں ہوا اور پہلے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ غریبی کم ہو جائے گی تو غریبی ہٹاؤ کا نعرہ کیسے دے پائیں گے۔ پہلے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ جب بنیادی سہولیات سب کو مل جائیں گی تو ووٹ بینک کی سیاست کیسے ہوگی، استحصال کیسے ہوگا۔ بھائیو اور بہنو! آج جب ہم ملک کے صد فیصد لوگوں کو قریب قریب سبھی ضروری سہولتیں دینے کی قریب پہنچ گئے ہیں تو ہندوستان دوسرے دور میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہے۔ ہم کروڑوں بھارتیوں کی امیدوں، آرزؤ ں کو پورا کرنے کے قریب ہیں۔ آج ہم نیو انڈیا کے عہد سے سدھی کے سفر کی جانب گامزن ہیں۔ اس سفر میں جس طرح ٹکنالوجی کا استعمال بھارت کررہا ہے، وہ دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے لیے بھی ایک ماڈل بن رہا ہے۔ ساتھیو! آج ہندوستان میں کنکٹی ویٹی سے لے کر کمیونیکیشن تک، کمپٹیشن سے لے کر سہولتوں تک زندگی کے ہر پہلو کو تکنیک سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ تکنیک اور انسانی ہمدردیوں کی طاقت سے آسان زندگی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ہمارے انتظامات تیزی سے نئی دنیا کی ضرورتوں کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ شمسی توانائیوں، حیاتیاتی ایندھنوں اس پر جدید ترین انتظامات کئے جارہے ہیں۔ ملک میں آج اکیسویں صدی کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے نیکسٹ جنریشن بنیادی ڈھانچہ تیار ہورہا ہے۔ہائی وے ہو، ریلوے ہو، ایئروے ہو، واٹر وے ہو،چوطرفہ کام کیا جارہا ہے۔حال میں آپ نے دیکھا کس طرح وارانسی اور کولکاتا کے درمیان واٹر وے کی نئی سہولت ہوگئی ہے۔ اسی طرح ملک میں بنی بغیر انجن ڈرائیور والی ٹرین، ٹرین 18 اور اس کا ٹرائل تو آپ کے اخباروں میں شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ ہوائی سفر کی صورت تو یہ ہوگئی ہے کہ آج اے سی ڈبوں میں چلنے والے مسافروں سے زیادہ لوگ اب ہوائی ہوائی جہاز میں اڑنے لگے ہیں۔ یہ اس لیے ہورہا ہے، کیونکہ سرکار چھوٹے چھوٹے شہروں کو ٹیئر2شہروں، ٹیئر3 شہروں کو بھی اڑان یوجنا سے جوڑ رہی ہے۔ نئے ایئرپورٹ اور ایئرروٹ کو ترقی دے رہی ہے۔ انتظامات میں ہر طرف بدلاؤ کیسے آرہا ہے، اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ایل پی جی سلینڈر ریفل کے لیے پہلے کئی دن لگ جاتے تھے، اب صرف ایک دو دن میں ہی ملنا شروع ہوگیا ہے۔ پہلے انکم ٹیکس ری فنڈ ملنے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ یہ بھی اب کچھ ہفتوں میں ہونے لگا ہے۔ پاسپورٹ بنوانا بھی پہلے مہینوں کا کام تھا اب وہی کام ایک دو ہفتے میں ہوجاتا ہے۔ بجلی، پانی کا کنکشن اب آسانی سے ملنے لگا ہے۔ سرکار کی زیادہ تر خدمات اب آن لائن دستیاب ہیں، موبائل فون پر ہیں۔اس کے پیچھے کا ایک ہی جذبہ ہے کہ عام آدمی کو انتظامات سے الجھنا نہ پڑے، جوجھنا نہ پڑے، قطار نہ لگے، بدعنوانی کے امکانات کم ہوں اور روزمرہ کی پریشانی سے نجات ملے۔ ساتھیو! سرکار نہ صرف خدمات کو گھر گھر تک پہنچانے کے لیے عہد بستہ ہے بلکہ اسکیموں کا فائدہ ضرورت مندوں تک ضرور پہنچے، اس کے لیے بھی سرکار سنجیدہ کوشش کررہی ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مل رہے گھروں، اجولا یوجنا کے تحت مل رہے گیس کے کنکشن ہوں، سوبھاگیہ یوجنا کے تحت بجلی کا کنکشن ہوں، بیت الخلا کی سہولت ہو، ایسی تمام اسکیموں کے مستفدین تک سرکار خود جارہی ہے۔ ان کی پہچان کررہی ہے، انہیں ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تحریک دے رہی ہے۔ ملک کے 50 کروڑ سے زائد غریبوں کی صحت کو تحفظ فراہم کرنے والی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) یعنی آیوشمان بھارت یوجنا تو ویلفیئر اور فیئرپلے کا بہترین نمونہ ہے۔ ڈجیٹل تکنیک آٹومیشن اور انسانی فائدے کی چیزوں کو کیسے عام لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیوشمان بھارت میں دکھتا ہے۔ اس اسکیم کے مستفدین کی پہچان پہلے کی گئی، پھر ان کی جانکاری کو، ڈیٹا کو تکنیک کے توسط سے جوڑا گیا اور پھر گولڈن کارڈ جاری کئے جارہے ہیں۔ گولڈن کارڈ اور آیوشمان دوست یعنی تکنیک اور انسانی فائدے کی چیزوں کے سنگم سے غریب کو سرکاری اسکیم کا فائدہ بالکل مفت مل رہا ہے۔ ساتھیو! ابھی اس اسکیم کو سو دن بھی نہیں ہوئے ہیں۔ صرف تین مہینے سے بھی کم وقت گزرا ہے اور اب تک ملک کے ساڑھے چار لاکھ غریب اس سے فائدہ اٹھا چکے ہیں یا ابھی اسپتال میں اپنا علاج کرارہے ہیں۔ حاملہ خواتین کی سرجری سے لے کر کینسر جیسی خطرناک بیماریوں تک کا علاج آیوشمان بھارت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس ہال میں بیٹھے ہوئے، اس چکاچوند سے دور رہ رہے دیگر لوگوں کے بارے میں سوچئے کہ یہ لوگ کون ہیں۔ یہ محنت کش ہیں، یہ کام گار ہیں، کسان ہیں، کھیت اور کارخانے میں مزدوری کرنے والے لوگ ہیں، ٹھیلا چلانے والے، رکشا چلانے والے لوگ ہیں، کپڑے سلنے کا کام کرنے والے لوگ ہیں، کپڑے دھو کر زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں، گاؤں اور شہروں کے وہ لوگ جو مہلک بیماری کا علاج صرف اس لیے ٹالتے رہتے تھے، کیونکہ ان کے سامنے ایک بہت بڑا سوال ہمیشہ رہتا تھا۔ اپنی دوا پر خرچ کریں یا کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی پر خرچ کریں، اپنی دوا پر خرچ کریں یا بچوں کی پڑھائی پر خرچ کریں۔ غریبوں کو اس سوال کا جواب آیوشمان بھارت یوجنا کے طور پر مل چکا ہے۔ ساتھیو! غریب کو بااختیار بنانے کا یہ کام صرف یہیں تک محدود رہنے والا نہیں ہے۔ اس کو آنے والے وقت میں توسیع کرنی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بچولیوں کو تکنیک کے ذریعے ہٹایا جائے۔ پیداوار کرنے والے افراد اور صارفین کو جتنا ممکن ہو اتنا ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ بدعنوانی چاہے کسی بھی سطح پر ہو ہماری نیتی واضح بھی ہے اور سخت بھی ہے۔ اس سیکٹر میں کی جارہی ان کوششوں کو دنیا بھی دیکھ رہی ہے اور اس لیے بھارت کو امکانات اور مواقع کا ملک بتایا جارہا ہے۔ ساتھیو! جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں ارجنٹینا میں جی۔20 کا اجلاس ہوا، اس اجلاس میں آئے رہنماؤں سے میری بات چیت ہوئی، ہم نے اپنی باتیں بھی دنیا کی طاقتور معیشتوں کے درمیان رکھی، جو اقتصادی جرائم کرنے والے ہیں، بھگوڑے ہیں، ان کو دنیا میں کہیں بھی محفوظ پناہ گاہ نہ ملے، اس کے لیے ہندوستان نے کچھ تجاویزبین الاقوامی برادری کے درمیان رکھے۔ مجھے یہ اعتماد ہے کہ ہماری یہ مہم آج نہیں تو کل، کبھی نہ کبھی رنگ لائے گی۔ ساتھیو! اس اعتماد کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کی بات کو دنیا سن رہی ہے۔ سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہمارے دنیا کی تمام ملکوں سے رشتے بے حد دوستانہ ہوگئے ہیں۔ اس کے نتائج آپ سبھی اور پورا ملک بھی دیکھ رہا ہے۔ تجربہ بھی کررہا ہے۔ ابھی تین چار دن پہلے ہی اس کا ایک اور نمونہ آپ نے دیکھا ہے۔ یہ سب ممکن ہورہا ہےہماری خوداعتمادی کے سبب۔ ہمارے ملک کی خوداعتمادی کے سبب۔ ساتھیو! آج بڑے اہداف، کڑے اور بڑے فیصلوں کے لیے اگر ہمت سرکار کرپاتی ہے تو اس کے پیچھے ایک مضبوط سرکار ہے۔ مکمل اکثریت سے منتخب سرکار ہے۔ ان نیو انڈیا کے لیے سرکار کا فوکس جامع وسائل، سنسکار، روایت، تہذیب اور سلامتی پر ہے۔ترقی کی 5 دھارا جو ترقی کی گنگا کو آگے بڑھائے گی ۔یہ ترقی کی 5 دھارا بچوں کی پڑھائی، نوجوانوں کو کمائی، بزرگوں کو دوائی، کسانوں کو سینچائی اور جن جن کی سنوائی ہے۔ یہ پانچ دھارائیں اسی کو مرکز میں رکھتے ہوئے سرکار ترقی کی گنگا کو آگے بڑھا رہی ہے۔ نئے بھارت کے نئے سپنوں کو حقیقت بنانے میں دینک جاگرن کی، پورے میڈیا جگت کی بھی ایک اہم کردار رہنے والا ہے۔ سسٹم سے سوال کرنا یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کا حق بھی ہے۔ میڈیا کے مشورے اور آپ کی تنقیدوں کا تو میں ہمیشہ استقبال کرتا رہا ہوں۔ اپنی آزادی کو بنائے رکھتے ہوئے، اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھتے ہوئے دینک جاگرن گروپ ملک کی تعمیر کے لیے منظم کام کرتا رہے گا۔ اسی امید، اسی بھروسے کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ سبھی کو 75 برس پورے کرنے کے لیے پھر سے مبارکباد اور روشن مستقبل کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,দৈনিক জাগৰণৰ ৭৫সংখ্যক প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উপলক্ষে জাগৰণ ফ’ৰামত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ লিখিত ৰূপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%81%D9%85-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%96/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ناگالینڈ کےعوام کو ان ترقیاتی کاموں کے لیے مبارکباد دی ہے جو رابطہ کاری ، تعلیم، سیاحت اور توانائی جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیو ریو کے ایک ٹویٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’ناگالینڈ کی میری بہنوں اور بھائیوں کو ان ترقیاتی کاموں کے لیے مبارکباد جو رابطہ کاری ، تعلیم، سیاحت اور توانائی جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ این ڈی اے حکومت ناگالینڈ کے متحرک لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 210,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মুখ্য খণ্ডসমূহত উন্নয়নমূলক কামৰ বাবে নাগালেণ্ডৰ জনসাধাৰণক অভিনন্দন জনায +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DB%8C%DB%947-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DB%81%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%AD-%E0%A6%B6%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%86/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ارجنٹینا کے صدر عزت مآب جناب البرٹوفرنانڈیز سے 26 جون 2022 کو میونخ میں جی -7 سربراہ کانفرنس کے شا نہ بشانہ ملاقات کی ۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی دوطرفہ ملاقات تھی۔ ا نہوں نے 2019 میں قائم شدہ دوطرفہ منصوبہ جاتی شراکت داری پر عمل درآمد میں پیش رفت کا جائزہ لیا۔اس ملاقات میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ، جن میں تجارت اور سرمایہ کاری، جنوب – جنوب تعاون ، خاص طور پر ادویہ سازی کے شعبے میں ، ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کارروائی ، قابل تجدید توانائی، نیو کلیائی طریقہ علاج، برقی نقل وحرکت، دفاعی تعاون، زراعت اور غذائی تحفظ، روایتی طریقہ علاج، ثقافتی تعاون اوراس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں کے درمیان تال میل شامل ہیں ۔ دونوں فریقوں نے ان تمام شعبہ جات میں دوطرفہ رابطہ کاری کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔,জি-৭ শীৰ্ষ সন্মিলনৰ সময়ত আৰ্জেণ্টিনাৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%91/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل عالی جناب انٹونیو گٹریس کے ساتھ ایک باہمی میٹنگ میں شرکت کی اور بعد میں گجرات میں کیوڑیا کے ایکتانگر میں مجسمہ اتحاد میں مشن لائف کا آغاز کیا۔ وزیراعظم اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جناب انٹونیو گٹریس نے مجسمہ اتحاد پر گلہائے عقیدت بھی نذر کئے۔ اقوام متحدہ کے تمام خطوں کی نمائندگی کرنے والے11 ملکو ں کے سربراہان کی طرف سے مشن لائف کے آغاز پر مبارک بادی کے ویڈیو پیغامات بھی نشر کئےگئے۔ اس موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے بتایا کہ ہندستان،سکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس کے لئے ایک دوسرا گھر ہے اور انہوں نے اپنی نوجوانی کے دنوں میں کئی مرتبہ ہندستان کا سفر کیا تھا۔انہوں نےمزید کہا کہ ہندستان میں گوا کی ریاست کے ساتھ جناب گٹریس کا آبائی تعلق ہے۔ وزیراعظم نےہندستان کا دورہ کرنے کےلئےجناب گٹریس کا شکریہ ادا کیا اور اس دورے کو ایک اہم موقع قراردیا۔ وزیراعظم نے ا س بات کو اجاگر کیا کہ گجرات میں ان کا خیر مقدم کرنا ایسا ہے جیسا کہ کنبے کے کسی فرد کا خیر مقدم کیا گیا ہو۔ وزیراعظم نے اس حمایت پر خوشی کا اظہار کیا جو مشن لائف پہل شروع کئےجانے پر حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے اس شاندار موقع پر مبار ک باد کےپیغامات بھیجنے کے لئے تمام ملکوں کے سربراہوں کاشکریہ ادا کیا۔ آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنےمیں اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے جناب مودی نےکہا کہ مشن لائف کا آغازمجسمہ اتحاد کےقریب ہورہی ہے جہاں سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسی عظیم اور قابل فخر شخصیت کا قدآور مجسمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑامجسمہ طے گئےاہداف کے حصول میں تحریک کا وسیلہ بنے گا۔ وزیراعظم نے کہاکہ جب معیارات غیر معمولی ہوتے ہیں تو ریکارڈ بھی بڑے بنتے ہیں۔ گجرات میں مشن لائف کےآغاز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گجرات ملک کی ایک ایسی پہلی ریاست ہے جس نے قابل تجدید توانائی اور موسمیاتی تحفظ کی سمت میں اقدامات شروع کئے ہیں۔ چاہے نہر پرشمسی پینل نصب کرنے کا معاملہ ہویا ریاست کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کے لئےپانی کے تحفظ کے پروجیکٹ شروع کرنے کا معاملہ ہو، گجرات ہمیشہ ایک لیڈر اور پرانی روش کو توڑنےوالی ریاست کے طور پرہمیشہ آگے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس عام تصور کی طرف اشارہ کیا کہ موسمیاتی تبدیلی صرف پالیسی سازوں کی غوروفکر کا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اس تمام اہم مسئلے کو صرف حکومت یا بین الاقوامی تنظیموں پر چھوڑ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے گردونواح میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں اور گزشتہ چند دہائیوں میں غیر متوقع آفات کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس ��ے یہ بات پوری طرح واضح ہو رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف پالیسی سازی سے بالاتر ہے اور لوگ خود اس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ انہیں ایک فرد، خاندان اور کمیونٹی کے طور پر ماحولیات میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ وزیر اعظم نے اظہار خیال کی کہ”مشن لائف کا منتر ‘ماحول کے لیے طرز زندگی’ ہے۔ مشن لائف کے فوائد پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ اس دھرتی کے تحفظ کے لیے لوگوں کی صلاحیتوں کو یکجا کرتا ہے، اور انہیں اس کا بہتر طریقے سے استعمال کرنا سکھاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشن لائف موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کو عوامی بناتا ہے، جس میں ہر کوئی اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ ڈال سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “مشن لائف ہمیں وہ سب کرنے کی ترغیب دیتا ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں ماحول کے تحفظ کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ مشن لائف ای کا تصور یہ ہے کہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر ماحولیات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے”۔ انہوں نے بجلی کے بلوں کو کم کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ہندوستان میں ایل ای ڈی بلب کو اپنانے کی مثال دی۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ “اس سے بڑے پیمانے پر بچت اور ماحولیاتی فوائد حاصل ہوئے اور یہ ایک مستقل فائدہ ہے”۔ اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ گجرات مہاتما گاندھی کی جائے پیدائش ہے، وزیر اعظم نے کہا “وہ ان مفکرین میں سے ایک تھے جنہوں نے بہت پہلے ماحولیاتی تحفظ اور فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کی اہمیت کو سمجھا تھا۔ انہوں نے ٹرسٹی شپ کا تصور تیار کیا۔ مشن لائف ہم سب کو ماحولیات کا ٹرسٹی بناتا ہے۔ ٹرسٹی وہ ہوتا ہے جو وسائل کے اندھا دھند استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک ٹرسٹی پروان چڑھانے والے کے طور پر کام کرتا ہے نہ کہ استحصال کرنے والے کے طور پر”۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ مشن لائف پی 3 ماڈل یعنی پرو پلینیٹ پیو پل کے جذبے کو تقویت دیتا ہے۔ مشن لائف، زمین کے لوگوں کو کرہ ارض کے دوست لوگوں کے طور پر متحد کرتا ہے، ان سب کو اپنے خیالات میں یکجا کرتا ہے۔ یہ ‘ کرہ ارض کے طرز زندگی، کرہ ارض کے لیے اور کرہ ارض کے ذریعے’ کے بنیادی اصولوں پر کام کرتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہی مستقبل کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ہندوستان میں ہزاروں سالوں سے فطرت کی پوجا کرنے کی روایت رہی ہے۔ ویدوں میں فطرت کے عناصر جیسے پانی، زمین، زمین، آگ اور پانی کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اتھرو وید کا حوالہ دیا اور پڑھا، ’’ماتا بھومیہ پوتروہم پرتھیویہ‘‘ یعنی زمین ہماری ماں ہے اور ہم اس کے بچے ہیں۔ وزیر اعظم نے ‘تخفیف، دوبارہ استعمال اور ری سائیکل’ کے تصور اور سرکلر اکانومی پر روشنی ڈالی اور ذکر کیا کہ یہ ہزاروں سالوں سے ہندوستانیوں کے طرز زندگی کا حصہ رہا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں کی بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس طرح کے رواج عام ہیں جو ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “مشن لائف فطرت کے تحفظ سے متعلق ہر طرز زندگی کا احاطہ کرے گا، جسے ہمارے آباؤ اجداد نے اپنایا، اور اسے آج ہمارے طرز زندگی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے” ۔ ہندوستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔ آج، وزیر اعظم نے بتایا، “ہندوستان میں سالانہ فی کس کاربن اخراج صرف 1.5 ٹن ہے، جبکہ عالمی اوسط 4 ٹن سالانہ ہے۔” اس کے باوجود، بھارت موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے آگے آکرکام کر رہا ہے۔ جناب مودی نے اجولا یوجنا، ہر ضلع میں 75 ’امرت سروور‘ جیسے اقدامات اور دولت کے ضیاع پر بے مثال زور دینے کے بارے میں بات کی۔ آج ہندوستان کے پاس قابل تجدید توانائی کی دنیا میں چوتھی سب سے بڑی صلاحیت ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا “آج ہم ہوا کی توانائی میں چوتھے اور شمسی توانائی میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ پچھلے 7-8 سالوں میں ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں تقریباً 290 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے مقررہ تاریخ سے 9 سال قبل غیر قدرتی ایندھن کے ذرائع سے بجلی کی 40 فیصد صلاحیت حاصل کرنے کا ہدف بھی حاصل کر لیا ہے۔ ہم نے پٹرول میں 10 فیصد ایتھنول ملاوٹ کا ہدف بھی حاصل کر لیا تھا اور وہ بھی آخری تاریخ سے 5 ماہ پہلے۔ نیشنل ہائیڈروجن مشن کے ذریعے، ہندوستان ماحول دوست توانائی کے ذریعہ کی طرف بڑھا ہے۔ اس سے ہندوستان اور دنیا کے بہت سے ممالک کو خالص صفر کاربن کے اخراج کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی” ۔ ہندوستان اس بات کی بہترین مثال بن گیا ہے کہ کس طرح ترقی اور فطرت ساتھ ساتھ چل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ ہندوستان بھی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے، ہمارے جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور جنگلی حیات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ون سن، ون ورلڈ، ون گرڈ کی عالمی مہم پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان اب اس طرح کے اہداف کے تئیں اپنے عزم کو مضبوط کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید بڑھانا چاہتا ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا ” قدرتی آفات سے بچاؤ کرنےوالے بنیادی ڈھانچے کے لئے اتحاد کی تشکیل کی قیادت کرتے ہوئے، ہندوستان نے ماحولیاتی تحفظ کے تئیں اپنے تصور کو دنیا تک پہنچایا ہے۔ مشن لائیف ای اس سلسلے کا اگلا قدم ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے اس حقیقت کاذکرکیا کہ جب بھی ہندوستان اور اقوام متحدہ نے مل کر کام کیا ہے، دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے نئے طریقے تلاش کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا، “ہندوستان نے یوگا کے عالمی دن کی تجویز پیش کی تھی، جس کی اقوام متحدہ نے حمایت کی تھی۔ آج یہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ جوار کے بین الاقوامی سال کی مثال دیتے ہوئے جس میں اقوام متحدہ کے لیے گہرا تعاون ملا، وزیر اعظم نے اظہار خیال کیا کہ ہندوستان دنیا کو اپنے روایتی اور ماحول دوست، موٹے اناج سے جوڑنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے سال جوار کا عالمی سال پوری دنیا میں زیر بحث آئے گا۔ انہوں نے مزید کہا، “مشن لائف اسے دنیا کے کونے کونے، ہر ملک تک لے جانے میں کامیاب ہو گا۔” وزیر اعظم نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا “ہمیں اس منتر کو یاد رکھنا ہے – پراکرتی رکشتی رکشتا، یعنی جو لوگ فطرت کی حفاظت کرتے ہیں، فطرت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے مشن لائف کی پیروی کرتے ہوئے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کریں گے” ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، ایچ ای مسٹر انتونیو گٹیرس نے کہا کہ ہمارے کرہ ارض کے لیے ان خطرناک اوقات میں، ہمیں تمام لوگو ں کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کے لیے طرز زندگی – لائف اقدام ضروری اور امید افزا سچائیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ہم سب، افراد اور کمیونٹیز، اپنے سیارے اور اپنے اجتماعی مستقبل کی حفاظت کے اقدامات کا حصہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہونا چاہیے۔ بالآخر، زیادہ کھپت آب و ہوا کی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کو ہونے وا لے نقصان اور آلودگی کی سیارے کی تہری ہنگامی صورتحال کی بنیادی وجہ ہے۔ ہم اپنے طرز زندگی کو سہارا دینے کے لیے 1.6 سیارے زمین کے برابر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ زبردست تجاوززبردست عدم مساوات کی وجہ سے اور زیادہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ لائف تحریک کے اقدامات پوری دنیا میں پھیل جائیں گے۔ انہوں نے کہا “میں اس عزم سے بے حد حوصلہ افزائی پاتا ہوں جو ہندوستان نے ماحولیاتی طور پر صحیح پالیسیوں کو آگے بڑھانے اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کو نمایاں طور پر بڑھانے کے لئے بین الاقوامی سولر الائنس کی قیادت کرتے ہوئے کیا ہے ،…. ہمیں قابل تجدید انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے اور میں اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ہندوستان کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں۔ مصر میں آئندہ ہونے والے سی او پی 27 کے بارے میں بات کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ کانفرنس پیرس معاہدے کے تمام ذمہ داروں پر اعتماد کو ظاہر کرنے اور کارروائی کو تیز کرنے کا ایک اہم سیاسی موقع پیش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، “آب و ہوا کے اثرات اور اس کی بڑی معیشت کے خطرے کے ساتھ، بھارت ایک اہم پل کا کردار ادا کر سکتا ہے”۔ مہاتما گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے، مسٹر گوٹیرس نے کہا، “دنیا کے پاس ہر ایک کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی وسائل ہیں لیکن ہر کسی کی لالچ کو پورا کرنے کے لئے نہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں زمینی وسائل کے ساتھ حکمت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے معیشتوں اور طرز زندگی کو تبدیل کرنے کا عہد کیا تاکہ ہم زمین کے وسائل کو منصفانہ طور پر بانٹ سکیں اور صرف وہی لیں جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ انہوں نے ہر ایک پر زور دیا کہ وہ ہندوستان پر بھروسہ کریں کیونکہ اس نے جی 20 کی صدارت سنبھالی ہے تاکہ اس کی تاریخ، اس کی ثقافت اور اس کی روایت کے مطابق پائیداری کے ایک نئے دور کے آغاز میں مدد ملے۔ دیگرافراد کے علاوہ ،گجرات کے چیف منسٹر جناب بھوپیندر پٹیل، مرکزی وزیر خارجہ جناب سبھرامنیم جے شنکر اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل عزت مآب مسٹر انتونیو گوٹیرس بھی اس موقع بھی موجود تھے۔ پس منظر مشن لائیف ای کا مقصد پائیداری کی طرف ہمارے اجتماعی نقطہ نظر کو منتقل کرنے کے لیے تین جہتی حکمت عملی پر عمل کرنا ہے۔ سب سے پہلے افراد کو ان کی روزمرہ کی زندگی میں آسان لیکن موثر ماحول دوست اصولوں پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا (مطالبہ)؛ دوسرا صنعتوں اور منڈیوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ بدلتی ہوئی طلب (سپلائی) کے سلسلے میں تیزی سے اقدام کرسکیں اور؛ تیسرا یہ ہے کہ حکومت اور صنعتی پالیسی پر اثر انداز ہوا جائے تاکہ پائیدار کھپت اور پیداوار (پالیسی) دونوں کی حمایت کی جا سکے۔,প্রধানমন্ত্রীয়ে গুজৰাটৰ কেভাডিয়াত একতা নগৰত স্ট্যাচু অফ ইউনিটিত মিছন লাইফৰ সূচনা কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%AC%DB%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%A6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی آج گجرات میں 51 شکتی پیٹھوں میں سے ایک امباجی مندر گئے اور وہاں درشن اور پوجا ارچنا کی۔ اس سے پہلے امباجی میں مختلف ترقیاتی اسکیموں کو وقف کرنے سے متعلق ایک تقریب میں وزیر اعظ�� نے نوراتری کی مقدس مدت کے دوران امباجی آنے کا موقع حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم گجرات کے 2 روزہ دورے پر ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),গুজৰাটৰ অম্বাজী মন্দিৰ দৰ্শন আৰু পূজা অৰ্পন প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A2%D9%88%D8%A7%D8%B3-%DB%8C%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D8%AA-%D9%85%D8%AA%D9%88%D8%B3%D8%B7-%D8%A2%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%B8-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%BE/,نئی دہلی، 16 نومبر 2017، مرکزی کابینہ نے ،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں، پردھان منتری آواس یوجنا (شہری) کے تحت متوسط آمدنی گروپ (ایم آئی جی) مکانات کے سلسلے میں، قرض سے وابستہ سبسڈی اسکیم (جی ایل ایس ایس) کے تحت ایسے مکانات کو فرش کے رقبے میں اضافے کا مستحق قرار دیئے جانے کو اپنی منظوری دی ہے، جن کے لئے سبسڈی میں رعایت فراہم کی جاتی ہے۔ اس اسکیم کے دائرے اور احاطے کو مزید وسیع کرنے کے لئے کابینہ نے درج ذیل امور کو بھی منظوری دی ہے۔ ایم آئی جی زمرہ۔1 سی ایل ایس ایس کے سلسلے میں کارپٹ ایریا کو موجودہ 90 مربع میٹر سے بڑھاکر 120 مربع میٹر کردیا گیا ہے اور ایم آئی جی ۔2 زمرہ سی ایل ایس ایس کے لئے کارپٹ ایریا کو موجودہ 110 مربع میٹر سے بڑھاکر 150 مربع میٹر کردیا گیا ہے۔ مذکورہ تبدیلی کو یکم جنوری 2017 سے یعنی ایم آئی جی کے لئے سی ایل ایس ایس کے نفاذ کے تاریخ سے نفاذ العمل قراردیا گیا ہے۔ سی ایل ایس ایس برائے ایم آئی جی، ایک ایسا قدم ہے جس سے شہری علاقوں میں رہائشی اکائیوں کی قلت سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ متوسط آمدنی والے گروپوں ، رعایتی سبسڈی اسکیم کے فوائد حاصل کرنے کے سلسلے میں بھی یہ ایک اہم اور منفرد قدم ثابت ہوگا۔ سی ایل ایس ایس برائے ایم آئی جی دو آمدنی گروپوں پر احاطہ کرتا ہے یعنی اس کے تحت ایم آئی جی یعنی 600001 سے 1200000 (ایم آئی جی۔1) اور 1200001 سے 1800000 (ایم آئی جی۔2) سالانہ بنیادوں پر احاطہ کے تحت آتے ہیں۔ ایم آئی جی ۔1 کے تحت 9 لاکھ روپے تک کے قرض کے لئے 4 فیصد سود سبسڈی فراہم کی گئی ہے جبکہ ایم آئی جی۔2 کے لئے 12لاکھ روپے تک کے قرض پر 3 فیصد کی سود سبسڈی کا نظم کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں سود سبسڈی کا تعین زیادہ سے زیادہ 20 برسوں کی قرض کی مدت کے لئے 9 فیصد این پی وی کی بنیاد پر یا اصل مدت کو جو بھی کم ہوگی، شمار کیا جائے گا ۔ 9 اور 12 لاکھ روپے تک کے ہاؤسنگ قرض، غیر سبسڈی والی شرحوں پر فراہم کرائے جائیں گے۔ سی ایل ایس ایس برائے ایم آئی جی فی الحال 31 مارچ 2019 تک کے لئے نافذ العمل ہے۔ اثرات 120 مربع میٹر اور 150 مربع میٹر کی حد ایک واجبی اضافہ ہے اور اس سے بازار پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کی ایم آئی جی زمرہ زیادہ تر دو طرح کی آمدنی والے زمروں پر احاطہ کرتا ہے جو اسکیم کے تحت شامل ہیں۔ کارپٹ ایریا میں اضافے سے ایم آئی زمرے کے افراد کو ڈیولپروں کے پروجیکٹوں میں زیادہ متبادل حاصل ہوں گے۔ کارپٹ ایریا میں اضافے سے واجبی ہاؤسنگ قیمت والے تیار فلیٹوں کی فروخت کو بڑھاوا ملے گا۔ پس منظر ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت پردھان منتری آواس یوجنا (شہری) کے تحت یکم جنوری 2017 سے قرض سے وابستہ سبسڈی اسکیم برائے مڈل انکم گروپ (سی ایل ایس ایس فار ایم آئی جی) پر عمل پیرا ہے۔محترم وزیراعظم نے 31 دسمبر 2016 کو قوم سے اپنے خطاب کے دوران ہاؤسنگ لون کے سلسلے میں قرض لینے والے غربا کے لئے فوائد میں اضافے کا ذکر کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ متوسط آمدنی والے گروپ یعنی ایم آئی جی زمرے کے لئے نئی سود پر مبنی سبسڈی اسکیم کا بھی اعلان کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ن ا۔ (16-11-17),প্রধানমন্ত্রী আৱাস যোজনাত মধ্যবিত্ত শ্ৰেণীৰ বাবে ক্রেডিট লিংকযুক্ত ৰাজসাহাৰ্য আঁচনিৰ অধীনত সুদৰ ৰাজসাহাৰ্যযোগ্য ঘৰৰ কার্পেট এলেকা বৃদ্ধিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-%D9%88%DB%8C%DA%A9%D8%B3%DB%8C%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86-%D9%85%DB%81%D9%85-%DA%A9%D8%A7-150-%DA%A9%D8%B1%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1-%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%A3-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A7%A7%E0%A7%AB/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کووڈ ویکسینیشن مہم کا 150 کروڑ کا سنگ میل عبور کرنے پر ہم وطنوں کو مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان ان تمام لوگوں کا شکر گزار ہے جو ہماری ویکسینیشن مہم کو کامیاب بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سلسلے وار ٹوئیٹس میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ”ویکسینیشن کے محاذ پر ایک قابل ذکر دن! 150 کروڑ کا سنگ میل عبور کرنے پر ہم وطنوں کو مبارک باد۔ ہماری ویکسینیشن مہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بہت سی جانیں بچائی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، آئیے ہم کووڈ-19 سے متعلق تمام پروٹوکول کی بھی پیروی کرتے رہیں۔ ہندوستان ان تمام لوگوں کا شکر گزار ہے جو ہماری ویکسینیشن مہم کو کامیاب بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنے ڈاکٹروں، سائنسدانوں، اختراع پسندوں اور صحت نگہداشت کے کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو لوگوں کو ویکسین لگا رہے ہیں۔ میں ان تمام اہل افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے شاٹس حاصل کریں۔ آئیے ایک ساتھ مل کر کووڈ-19 کا مقابلہ کریں۔“,ক’ভিড টিকাকৰণ অভিযানৰ ১৫০ কোটিৰ মাইলৰ খুঁটি অতিক্ৰমৰ বাবে নাগৰিকসকলক অভিনন্দন জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A6%A8%E0%A7%81/,نئی دہلی، 29جنوری 2022: سبھی اسرائیلی دوستوں کو بھارت کی جانب سے نمسکار اور شالوم۔ آج کا دن ہمارے تعلقات میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ 30 سال قبل، آج ہی کے دن، ہمارے درمیان سفارتی تعلقات مکمل طو رپر قائم ہوئے تھے۔ دونوں ممالک کے مابین ایک نئے باب آغاز ہوا تھا۔ بھلے ہی یہ باب نیا تھا، تاہم ہمارے دونوں ممالک کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہمارے لوگوں کے درمیان صدیوں سے گہرا ناطہ رہا ہے۔ جیسا کہ بھارت کی بنیادی فطرت ہے، سینکروں برسوں سے ہماری یہودی برادری بھارتی سماج میں بغیر کسی تفریق کے، ایک خوشگوار ماحول میں رہی ہے، اور پروان چڑھی ہے۔ اس نے ہمارے ترقی کے سفر میں اہم تعاون بھی دیا ہے۔ آج جب دنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایسے میں بھارت۔اسرائیل تعلقات کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اور آپسی تعاون کے لیے نئے نصیب العین طے کرنے کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہو سکتا ہے–جب بھارت اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے، جب اسرائیل اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ آئندہ برس منائے گا اور جب دونوں ممالک اپنے سفارتی تعلقات کی 30ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ 30 برس کے اس اہم موڑ پر، میں آپ سبھی کو پھر سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بھارت۔اسرائیل دوستی آئندہ دہائیوں میں آپسی تعاون کے نئے ریکارڈ قائم کرتی رہے گی۔ شکریہ، تودا رَبّا۔,ভাৰত আৰু ইজৰাইলৰ মাজত আনুষ্ঠানিক কূটনৈতিক সম্পৰ্ক স্থাপনৰ ৩০ বছৰ সম্পন্ন হোৱা সন্দৰ্ভত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বিবৃত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D8%BA%D8%B2%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D9%85%DB%8C-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BF-%E0%A6%B9%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%B0-%E0%A6%85%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%87-%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A7%B1/,نئی دہلی۔25 نومبر 2017؛ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان میں تغزیہ کی کمی کو روکنے یا اسے کم کرنے سے متعلق کی گئی کوششوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ اس اعلیٰ سطحی جائزہ میٹنگ میں وزیراعظم کے دفتر، نیتی آیوگ کے حکام اور دیگر وزرا نے شرکت کی۔ تغزیہ کی کمی کی موجودہ صورتحال، نشو و نما میں حائل رکاوٹ اور اس سے متعلق مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ دیگر ترقی پذیر ممالک میں تغزیہ کے سلسلے میں کئے گئے اقدامات کا بھی مذکورہ میٹنگ میں جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے نشو نما ، تغزیہ میں کمی ، پیدائش کے وقت وزن میں کمی اور خون میں کمی کے مسائل کو دور کرنےکے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس کے نتائج 2022 جو کہ 75 ویں یوم آزادی ہے، تک ظاہر ہونے چاہئیں۔ اس ضمن میں تغزیہ سے متعلق پیش رفت کی صحیح وقت پر نگرانی کے بارے میں، بالخصوص سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اضلاع کے بارے میں بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اعلیٰ حکام نے بار بار زور دے کر کہا کہ مرکزی حکومت سوچھ بھارت ابھیان، مشن اندردھنوش، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اور پردھان منتری مترو وندنا یوجنا کے تغزیہ پر مثبت اثرات ہوئے ہیں، اس سلسلے میں وزیراعظم نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے اسکیموں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی درخواست کی جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تغزیہ کے نتائج پر اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تغزیہ کی اہمیت کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ انہوں نے اس بیداری کو پیدا کرنے کے لیے غیررسمی ذرائع کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔,অপুষ্টি হ্ৰাসৰ অৰ্থে লোৱা পদক্ষেপৰ পৰ্যালোচনা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%DB%8C%D9%88%DA%AF%DA%BE%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%AA%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A7%D9%93%D8%B4%D8%B1%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%93/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%8E%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97-%E0%A6%86%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 16 دسمبر ،2021 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دیوگھر کے ستسنگ آشرم کے آچاریہ دیو اشوک رنجن چکربورتی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘دیوگھر کے ستسنگ آشرم کے آچاریہ دیو اشوک رنجن چکربورتی کو معاشرے کے لیے ان کی بے لوث خدمات کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ تعلیم،حفظان صحت ، سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کے لیے پر��وش تھے۔ اس المناک گھڑی میں، میرے خیالات ان کے تمام عقیدت مندوں کے ساتھ ہیں۔اوم شانتی۔’’ <><><><><> ش ح–ا م–ج,দেওঘৰস্থিত সৎসংগ আশ্ৰমৰ আচাৰ্যদেৱ অশোক ৰঞ্জন চক্ৰৱৰ্তীৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF%DB%81-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%AF%E0%A6%BC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بالی میں منعقدہ جی-20 سربراہ اجلاس کے شانہ بہ شانہ برطانیہ کے وزیر اعظم محترم رشی سونک کے ساتھ ملاقات کی۔ یہ دونوں قائدین کے درمیان پہلی میٹنگ تھی۔ وزیر اعظم نے وزیر اعظم سونک کو عہد سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی۔ دونوں قائدین نے تفصیلی بھارت – برطانیہ جامع کلیدی شراکت داری کے لیے روڈ میپ کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں قائدین نے جی20 اور دولت مشترکہ سمیت باہمی اور کثیر جہتی فورموں میں ساتھ مل کر کام کرنے کی خصوصی اہمیت کی ستائش کی۔ اس ملاقات کے دوران آپسی تعاون کے اہم شعبوں جیسے کاروبار، نقل و حرکت، دفاع اور سلامتی پر تبادلہ خیالات کیےگئے۔,বালিত জি-২০ সন্মিলনৰ সময়ত ব্ৰিটেইন যুক্তৰাজ্যৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%B5%D9%86%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%D8%A7%D8%B1-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%B1%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%A8%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%81%E0%A6%B2/,نئی دہلی، 12 فروری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مشہور صنعت کار جناب راہل بجاج کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’جناب راہل بجاج جی کو تجارت و صنعت کی دنیا میں ان کے غیر معمولی تعاون کے لیے یاد کیا جائے گا۔ کاروبار کے علاوہ، وہ کمیونٹی خدمات کو لے کر پرجوش تھے اور ایک خوش گفتار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی رحلت پر غمگین ہو۔ ان کے کنبہ اور دوستوں کے تئیں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اوم شانتی ‘‘,বিশিষ্ট উদ্যোগপতি ৰাহুল বাজাজৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%81%D9%84%D9%BE%D8%A7%D8%A6%D9%86-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-52/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج فلپائن کے صدر عزت مآب فرڈینینڈ مارکوس جونیئر کے ساتھ فون پر بات کی۔ وزیر اعظم نے کو فلپائن کے 17ویں صدر طور پر منتخب ہونے پر عزت مآب مارکوس جونیئر کو مبارکباد پیش کی۔ دونوں لیڈروں نے دو طرفہ تعلقات کے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا اور حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں تیز رفتار اضافے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی اور اس کے ہند-بحرالکاہل وژن کے سلسلے میں فلپائن کے اہم رول کا ذکر کیا اور دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر کو فلپائن ک�� ترقی کے لیے ان کے منصوبوں اور پروجیکٹوں کے معاملے ہندوستان کے مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু ফিলিপাইনছৰ মহামহিম ৰাষ্ট্ৰপতি ফাৰ্ডিনাণ্ড মাৰ্কোছ জুনিয়ৰৰ মাজত টেলিফোনৰে বাৰ্তালা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%AA-%D9%86%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%88%E0%A6%B7%E0%A7%80-%E0%A6%A4%E0%A6%A5%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%80/,نئی دہلی:16؍اپریل2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے انسان دوست اور انسانیت نواز بلقیس ایدھی کے انتقال پر دُکھ کا اظہار کیا۔ جناب مودی نے کہا کہ انسانیت کے کاموں کے تئیں ان کے زندگی بھر کے وقف نے دنیا بھر کے لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’بلقیس ایدھی کے انتقال پر میں اپنی سچی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ انسانی کاموں کے لئے اُن کے زندگی بھر کے وقف نے دنیا بھر کے لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ہندوستان میں بھی لوگ انہیں پیار سے یاد کرتے ہیں۔ میں ان کی روح کی سکون کے لئے دعاکرتا ہوں۔‘‘,জনহিতৈষী তথা মানৱতাবাদী বিলকিছ এধীৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A8%D9%88%D8%B3-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D8%B3%DB%8C%D9%86%D9%B9%D8%B1-%D9%81%D8%A7%D8%B1-%D8%A8%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%9B-%E0%A6%8F%E0%A6%A8-%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%9B-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AB/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے ایس این بوس نیشنل سینٹر فار بیسک سائنسز (ایس این بی این سی بی ایس)، کولکاتا، بھارت اور لائبنیز-انسٹی ٹیوٹ فر فیسٹ کورپر- اور ویرکسٹوف فورس چُنگ ڈریسڈین ای وی (آئی ایف ڈبلیو ڈریسڈ ای وی)، ڈریسڈین، جرمنی کے درمیان مفاہمت نامہ کو منظوری دی ہے، جس کا مقصد نئی مقناطیسی اور ٹوپولوجیکل کوانٹم میٹریلز کے شعبے میں سائنسی تعاون کرنا ہے۔ کوانٹم میٹریلز پر تحقیق نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے، کیوں کہ ان کی صلاحیت پر مستقبل کی کوانٹم ٹیکنالوجی کی ترقی منحصر ہے۔ اس جوائنٹ وینچر کا مقصد بھارت-جرمن تعاون کو فروغ دینا، موقع فراہم کرنا اور مقناطیسی اور ٹوپولوجیکل کوانٹم میٹریلز کے شعبے میں علم کے فروغ کو آسان بنانا ہے۔ تعاون میں خاص طور سے تجرباتی اور حسابی وسائل کو شیئر کرنا، تکنیکی اور پیشہ ور تعاون کا لین دین اور امدادی تحقیق کے لیے فیکلٹی، محققین کا لین دین کرنا وغیرہ شامل ہوں گے۔ باہمی، بہترین طور طریقے، باہمی فائدے اور مسلسل بات چیت کے ذریعے امکانی علم کی بنیاد کی تعمیر کی امید ہے۔ ایس این بی این سی بی ایس کے بارے میں: ایس این بوس نیشنل سینٹر فار بیسک سائنسز (ایس این بی این سی بی ایس) ایک خود مختار تحقیقی ادارہ ہے، جس کا قیام 1986 میں ایک رجسٹرڈ سوسائٹی کے طور پر محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی، حکومت ہند کے تحت عمل میں آیا تھا۔ اس مرکز کو پروفیسر ایس این بوس کی زندگی اور تخلیقات کو عزت بخشنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو تھیوریٹیکل فزکس میں ایک عظیم شخص تھے اور جنہوں نے کوانٹم میکینکس اور کوانٹم اسٹیٹسکٹس کے فروغ میں کچھ بنیادی نظ��یاتی تعاون دیے ہیں۔ ان برسوں میں، مرکز بنیادی سائنس میں تحقیق و ترقی کے ایک اہم ادارہ کے طور پر ابھرا ہے، خاص طور پر فزکس اور متعلقہ موضوعات کے شعبے میں، جن میں تجربے، اصول اور شمار کی طاقت کو اپلائی کیا جاتا ہے۔ سینٹر سائنس و ٹیکنالوجی کے اس اہم شعبے میں جدید ٹریننگ اور آپسی رابطہ کا ایک اہم مرکز بھی ہے۔ سینٹر ایک رہائشی پروگرام فراہم کرتا ہے، جس میں آگے پی ایچ ڈی کی جاتی ہے اور اس میں ایک مضبوط وزیٹر اینڈ لنکیج پروگرام بھی ہوتا ہے۔ آئی ایف ڈبلیو کے بارے میں: آئی ایف ڈبلیو ایک غیر یونیورسٹی تحقیقی ادارہ ہے اور لائبنیز ایسوسی ایشن کا رکن ہے۔ آئی ایف ڈبلیو ڈریسڈین جدید میٹریل سائنس سے متعلق ہے اور نئے میٹریل اور مصنوعات کی تکنیکی ترقی کے ساتھ فزکس، کیمسٹری اور میٹریل سائنس میں دریافتی تحقیق کراتا ہے۔ آئی ایف ڈبلیو میں تحقیقاتی پروگرام عملی مواد پر مرکوز ہیں، جو ایپلی کیشن کے کئی شعبوں میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں: سپر کنڈکٹنگ اور مقناطیسی میٹریل، پتلے فلم کا نظام اور نینو اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ کرسٹلائن اور امورفس میٹریل۔ ادارہ کا مشن نوجوان سائنسدانوں کو فروغ دینا اور تکنیکی ملازمین کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ صنعتی کمپنیوں کو ادارہ کی آر اینڈ ڈی معلومات اور تجربات وغیرہ کی سپلائی کرنا ہے۔,"এছ. এন. বোছ নেচনেল চেণ্টাৰ ফৰ বেছিক চাইন্সেছ (চাম্বুংক), কলকাতা, ভাৰত আৰু লাইবনিজ-ইনষ্টিটিউট ফাৰ ফেষ্টকোৰ্পাৰ- উণ্ড ৱৰ্কষ্টাফফাৰফুৰ্চন ড্ৰেছডেন ই. ভি. (আই.এফ.ইউ. ড্ৰেছডেন ই.ভি.), ড্ৰেছডেন, জাৰ্মানীৰ মাজত স্বাক্ষৰিত মেগনেটিক আৰু ট’প’লজিকেল কোৱাণ্টাম মেটেৰিয়েল বুজাবুজি চুক্তিলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%8C-%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-43/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 11 اپریل، 2022 کو امریکی صدر جوسف آر بائیڈن کے ساتھ ورچوئل طریقے سے میٹنگ کریں گے۔ دونوں لیڈران اس وقت جاری دو طرفہ تعاون کا جائزہ لیں گے اور جنوبی ایشیا، ہند-بحرالکاہل خطہ کی حالیہ پیش رفتوں اور باہمی مفاد کے عالمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ورچوئل میٹنگ دونوں فریقین کو دو طرفہ جامع عالمی اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید مضبوط کرنے کے مقصد سے مسلسل اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کو جاری رکھنے کا موقع عطا کرے گی۔ دونوں لیڈران کی ورچوئل میٹنگ سے پہلے چوتھا ہند-امریکہ 2+2 وزارتی ڈائیلاگ ہوگا، جس کی قیادت ہندوستان کی طرف سے رکشا منتری جناب راجناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور ان کے امریکی ہم منصب، وزیر دفاع لائڈ آسٹن اور وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کریں گے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী আৰু আমেৰিকা যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ ৰাষ্ট্ৰপতি জোছেফ আৰ বাইডেনৰ মাজত ভাৰ্চুৱেল বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%DA%A9%D8%B3%DA%88-%DA%88%D8%A8%D9%84%D8%B2-%D9%B9%DB%8C%D8%A8%D9%84-%D9%B9%DB%8C%D9%86%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%B2-%E0%A6%9F%E0%A7%87/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم دولت مشترکہ کھیل 2022 کےمکسڈ ڈبلز ٹیبل ٹینس مقابلے میں سونے کا تمغےجیتنے پر شرتھ کمل اور سریجا اکولا کی ستائش کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘ایک ساتھ کھیلنے اور جیتنے کا اپنا مزا ہے۔ @sharathkamal1 اور سریجا اکولا نے شاندار ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا ہے اور ٹیبل ٹینس مکسڈ ڈبلز مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتا ہے۔ میں ان کے شاندار حوصلے اور عزم کی تعریف کرتا ہوں۔شرتھ سی ڈبلیو جی کے سبھی مقابلوں کے فائنل میں پہنچے ہیں اورا نہوں نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے’’,প্রধানমন্ত্রীয়ে টেবোল টেনিছৰ মিক্সড ডাবলছ প্ৰতিদ্বন্দ্বিতাত সোণৰ পদক জয় কৰাত শৰথ কমল আৰু শ্ৰীজা অকুলাৰ ধৈৰ্য তথা দৃঢ়তাৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%DB%8C%D9%86%D9%B9%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DB%8C%D9%B9-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%A9%D9%84%DB%8C%D9%88-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%A8/,گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، مختلف ریاستی حکومتوں کے وزراء، اسٹارٹ اپس کی دنیا سے تعلق رکھنے والے تمام ساتھی، طالب علم دوست، دیگر معززین، خواتین و حضرات، میں اس اہم تقریب ’سینٹر- اسٹیٹ سائنس کانکلیو‘ میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔آج کے نئے بھارت میں ’سب کا پریاس‘ کے جس جذبے کو لے کر ہم چل رہے ہیں یہ پروگرام اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ ساتھیو، اکیسویں صدی کے ہندوستان کی ترقی میں سائنس اس توانائی کی طرح ہے، جس میں ہر خطے، ہر ریاست کی ترقی کو تیز کرنے کی صلاحیت ہے۔ آج جب ہندوستان چوتھے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے، ہندوستان کی سائنس اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ایسے میں پالیسی سازوں اور حکومت و انتظامیہ سے وابستہ افراد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ احمد آباد کے سائنس سٹی میں ہونے والا یہ منتھن یعنی غور و خوض آپ کو ایک نئی تحریک دے گا، آپ کو سائنس کی حوصلہ افزائی کے لیے جوش و خروش سے بھر دے گا۔ ساتھیو، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے – گیانم وگیان سہیتم یت گیاتوا موکشیتے اشوبھات۔ یعنی جب علم کو سائنس کے ساتھ ملایا جاتا ہے، جب ہم علم اور سائنس سے آشنا ہوتے ہیں تو دنیا کے تمام مسائل اور پریشانیوں سے آزادی کا راستہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ حل کی، سالیوشن کی، ایوولیوشن کی اور انوویشن کی بنیاد سائنس ہی ہے۔ اسی ترغیب کے ساتھ آج کا نیا ہندوستان، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان کے ساتھ ساتھ جئے انوسندھان کی پکار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو، ماضی کا ایک اہم پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ تاریخ کا وہ سبق، مرکز اور ریاست دونوں کے لئے، مستقبل کی راہ طے کرنے میں بہت معاون ہوگا۔ اگر ہم پچھلی صدی کی ابتدائی دہائیوں کو یاد کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کس طرح تباہی اور المیے کے دور سے گزر رہی تھی۔ لیکن اس وقت بھی مشرق ہو یا مغرب، ہر جگہ سائنسدان اپنی عظیم دریافت میں مصروف تھے۔ مغرب میں آئنسٹائن، فرمی، میکس پلانک، نیلس بور، ٹیسلا جیسے کئی سائنسدان اپنے تجربات سے دنیا کو حیران کر رہے تھے۔ اسی عرصے میں سی وی رمن، جگدیش چندر بوس، ستیندر ناتھ بوس، میگھناد ساہا، ایس چندر شیکھر جیسے ان گنت سائنسدان اپنی نئی دریافتوں کے ساتھ آگے آرہے تھے۔ ان تمام سائنسدانوں نے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے راستے کھولے ہیں۔ لیکن مشرق اور مغرب میں ایک بڑا فرق یہ تھا کہ ہم نے اپنے سائنسدانوں کے کام کو اتنا سلبریٹ نہیں کیا جتنا کیا جانا چاہیے تھا۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے ایک بڑے حصے میں سائنس کے حوالے سے بے حسی پیدا ہوگئی۔ ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ جب ہم فن کو سلبریٹ کرتے ہیں، تو ہم مزید نئے فنکاروں کو ترغیب بھی دیتے ہیں، پیدا بھی کرتے ہیں۔ جب ہم کھیل کو سلبریٹ کرتے ہیں تو ہم نئے کھلاڑیوں کو راغب بھی کرتے ہیں اور نئے کھلاڑی کو پیدا بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اپنے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں تو سائنس ہمارے معاشرے کا فطری حصہ بن جاتی ہے، ثقافت کا حصہ بن جاتی ہے۔ تو آج میری پہلی گزارش یہ ہے، آپ تمام ریاستوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں، ان کی تعریف کریں، ان کی مدح سرائی کریں۔ قدم قدم پر ہمارے ملک کے سائنسدان بھی اپنی دریافت سے ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں۔ آپ سوچیں، آج اگر ہندوستان کورونا کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے، 200 کروڑ سے زیادہ ویکسین کی خوراکیں لگانے میں کامیاب ہو گیا ہے، تو اس کے پیچھے ہمارے سائنسدانوں کی کتنی بڑی طاقت ہے۔ اسی طرح آج ہندوستان کے سائنسدان ہر میدان میں کمال کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے سائنسدانوں کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ملک میں سائنس کی طرف رجحان اس امرت کال میں ہماری بہت مدد کرے گا۔ ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ ہماری حکومت سائنس پر مبنی ترقی کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ 2014 سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے آج ہندوستان گلوبل انوویشن انڈیکس میں چھیالیسویں نمبر پر ہے، جب کہ 2015 میں ہندوستان 81ویں نمبر پر تھا۔ ہم اتنے کم وقت میں 81 سے 46 پر آ گئے ہیں، لیکن یہاں رکنا نہیں ہے، ہمیں ابھی اور اوپر جانا ہے۔ آج ہندوستان میں ریکارڈ تعداد میں پیٹنٹ ہورہے ہیں، نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آج سائنس کے میدان سے بہت سارے اسٹارٹ اپ اس کانکلیو میں ہمارے یہاں آئے ہیں۔ ملک میں اسٹارٹ اپ کی لہر بتا رہی ہے کہ تبدیلی کتنی تیزی سے آرہی ہے۔ ساتھیو، سائنس ٹیکنالوجی اور اختراع آج کی نوجوان نسل کے ڈی این اے میں ہے۔ وہ بہت تیزی سے ٹیکنالوجی کو ایڈاپٹ کرلیتی ہے۔ ہمیں اپنی پوری قوت سے اس نوجوان نسل کا ساتھ دینا ہے۔ آج کے نئے ہندوستان میں نوجوان نسل کے لیے تحقیق اور اختراع کے میدان میں نئے شعبے بن رہے ہیں، نئے شعبے کھل رہے ہیں۔ خلائی مشن ہو، ڈیپ اوشین مشن ہو، نیشنل سپر کمپیوٹنگ مشن ہو، سیمی کنڈکٹر مشن ہو، مشن ہائیڈروجن ہو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، ایسے بہت سے مشنوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس بات پر بھی خصوصی زور دیا گیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم طالب علم کو اس کی مادری زبان میں فراہم کی جا سکے۔ ساتھیو، ہندوستان کو تحقیق اور اختراع کا عالمی مرکز بنانے کے لیے ہم سب کو اس امرت کال میں کئی محاذوں پر مل کر کام کرنا ہے۔ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی تحقیق کو مقامی سطح تک لے جانا ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ریاست اپنے مقامی مسائل کے مطابق مقامی حل نکالنے کے لیے جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرے۔ اب جیسے تعمیرات کی ہی مثال لے لیں۔ ہمالیہ کے علاقوں میں جو ٹیکنالوجی موزوں ہے ضروری نہیں کہ مغربی گھاٹ میں بھی وہ اتنی ہی موثر ہو۔ صحراؤں کے اپنے چیلنجز ہیں اور ساحلی علاقوں کے اپنے مسائل ہیں۔ اسی لیے آج ہم سستی رہائش کے لیے لائٹ ہاؤس پروجیکٹوں پر کام کر رہے ہیں، جن میں بہت سی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہیں، ان کو آزمایا جا رہا ہے۔ اسی طرح، ہم موسمیاتی نقطہ نظر سے لچکدار فصلوں کے تعلق سے جتنے زیادہ مقامی ہوں گے، ہم اتنا ہی بہتر حل دے سکیں گے۔ سرکلر اکانومی میں سائنس بھی ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے، ہمارے شہروں سے نکلنے والا جو ویسٹ پروڈکٹ ہے، اس کی ریسائیکلنگ میں، سرکلر ایکونومی میں بھی سائنس کا بڑا کردار ہے۔ ایسے ہر چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ریاست سائنس، اختراع اور ٹیکنالوجی سے متعلق ایک جدید پالیسی بنائے اور اس پر عمل درآمد کرے۔ ساتھیو، بحیثیت حکومت ہمیں اپنے سائنسدانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کوآپریٹ اور کولیبریٹ کرنا ہوگا، اسی سے ملک میں سائنسی جدیدیت کی فضا مزید بہتر ہوگی۔ اختراعات کی حوصلہ افزائی کے لیے ریاستی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ سائنسی اداروں کی تشکیل اور طریقہ کار کو آسان بنانے پر زور دینا چاہیے۔ ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اختراعی لیب کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔ آج کل ہائپر اسپیشلائزیشن کا دور چل رہا ہے۔ ریاستوں میں بین الاقوامی سطح کی اسپیشلسٹ لیباریٹریز قائم ہو رہی ہیں، اس کی ضرورت بھی بہت ہے۔ اس میں ہماری حکومت مرکزی سطح پر، قومی اداروں کی مہارت کی سطح پر ہر طرح سے مدد کے لیے تیار ہے۔ اسکولوں میں جدید سائنس لیب کے ساتھ ساتھ ہمیں اٹل ٹنکرنگ لیب بنانے کی مہم کو بھی تیز کرنا ہے۔ ساتھیو، ریاستوں میں قومی سطح کے کئی سائنسی ادارے ہیں، قومی لیبارٹریز بھی ہیں۔ ریاستوں کو ان کی صلاحیت اور مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اپنے سائنس سے متعلق اداروں کو بھی سائلوس کی حالت سے نکالنا ہوگا۔ ریاست کی صلاحیتوں اور وسائل کے بہتر استعمال کے لیے تمام سائنسی اداروں کا بہترین استعمال یکساں ضروری ہے۔ آپ کو اپنی ریاست میں ایسے پروگراموں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا چاہیے، جو ہم سب کو نچلی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں آگے لے جائیں۔ لیکن اس میں بھی ہمیں ایک بات ذہن میں رکھنی ہوگی۔ اب جیسے کئی ریاستوں میں سائنس فیسٹول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے اسکول اس میں حصہ نہیں لیتے۔ ہمیں اس مقصد پر کام کرنا چاہیے، زیادہ سے زیادہ اسکولوں کو سائنس فیسٹول کا حصہ بنانا چاہیے۔ آپ تمام وزراء کو میرا مشورہ ہے کہ اپنی ریاست کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے ’سائنس نصاب‘ پر بھی گہری نظر رکھیں۔ دوسری ریاستوں میں جو بھی اچھا ہے، آپ اسے اپنے یہاں دوہرا سکتے ہیں۔ ملک میں سائنس کو فروغ دینے کے لیے ہر ریاست میں سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تعمیر یکساں ضروری ہے۔ ساتھیو، ہندوستان کا تحقیقی اور اختراعی ماحولیاتی نظام، دنیا میں بہترین ہو، امرت کال میں ہمیں اس کے لیے پوری ایمان داری کے ساتھ لگنا ہوگا۔ اس سمت میں یہ کانکلیو بامعنی اور بروقت حل کے ساتھ سامنے آئے گا، انہی نیک تمناؤں کے ساتھ آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے اس منتھن سے سائنس کی ترقی میں نئی جہتیں شامل ہوں گی، نئی عزائم جڑیں گے اور ہم سب مل کر آنے والے دنوں میں اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، اس موقع کو کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس انتہائی قیمتی 25 سال ہیں۔ یہ 25 سال ہندوستان کو دنیا میں ایک نئی شناخت، نئی طاقت، نئی صلاحیت کے ساتھ کھڑا کریں گے۔ اور اس لئے ساتھیو، آپ کا یہ وقت صحیح معنوں میں آپ کی ریاست کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک طاقت دینے والا بننا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس منتھن سے وہ امرت نکال کرکے جائیں گے جو امرت آپ کی اپنی اپنی ریاست میں متعدد ریسرچ کے ساتھ ملک کی ترقی سے جڑے گا۔ بہت بہت مبارکباد! بہت بہت شکریہ!,কেন্দ্ৰ-ৰাজ্য বিজ্ঞান সন্মিলনৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%8C%D9%86%D8%B3%D8%B1-%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%96%E0%A6%A8-%E0%A6%95/,نئی دہلی، 28 اپریل، 2022/وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ڈبرو گڑھ میں آج ایک تقریب میں آسام میں چھ کینسر اسپتالوں کو ملک کے لیے وقف کیا۔ یہ کینسر اسپتال ڈبرو گڑھ ، کوکرا جھاڑ، بار پیٹا، دارانگ، تیز پور، لکھیم پور اور جورہاٹ میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ ڈبرو گڑھ اسپتال کو وزیراعظم نے آج سویرے نئے اسپتال کی عمارت کے دورے کے دوران ملک کے لیے وقف کیا۔ وزیراعظم نے ڈبرو گڑھ ، نل باڑی، گول پاڑہ، ناگاؤں ، شیو ساگر، تن سکیہ اور گولا گھاٹ پر سات کینسر اسپتالوں کا سنگ بنیاد رکھا جو پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے میں تعمیر کیے جائیں گے۔ آسام کے گورنر جناب جگدیش مکھی آسام کے وزیراعلیٰ جناب ہمنت وسوا سرمامرکزی وزیر جناب سروانند سونووال ، جناب رامیشور تیلی ، بھارت کے سابق چیف جسٹس اور راجیہ سبھا کے رکن جناب رنجن گگوئی اور معروف صنعت کار جناب رتن ٹاٹا بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس موسم کے تہواروں کے جذبے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا اور آسام کے عظیم بیٹے اور بیٹیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آسام میں کینسر اسپتالوں سے جنہیں آج ملک کے لیے وقف کیا گیا ہے اور جن کے لیے آج سنگ بنیاد رکھے گئے ہیں شمال مشرق اور جنوبی ایشیا میں حفظان صحت کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ کینسر نہ صرف آسام میں ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ یہ پورے شمال مشرق میں بھی ایک بڑ ا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے غریب ترین اوسط درجے کے کنبے اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ کینسر کے علاج کے لیے کچھ برس پہلے تک مریضوں کو بڑے شہروں میں جانا ہوتا تھا جس کی وجہ سے غریبوں اور اوسط درجے کے کنبوں پر مالی بوجھ پڑتا تھا۔ وزیراعظم نے آسام کے وزیراعلیٰ جناب سرما اور مرکزی وزیر جناب سونووال اور ٹاٹا ٹرسٹ کی تعریف کی کہ انہوں نے آسام میں طویل عرصے سے زیر التوا اس پریشانی کو حل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ اس سال کے بجٹ میں 1500 کروڑ روپے کی شمال مشرق کے لیے وزیراعظم کی ترقیاتی پہل کی اسکیم رکھی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت بھی کینسر کا علاج ایک خصوصی میدان ہےاور یہی سہولت گواہاٹی کے لیے بھی تجویز کی گئی ہے۔ حفظان صحت کے شعبے کے لیے حکومت کے ویژن کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے سواستھ کے سپت رشی کے بارے میں بات چیت کی۔ حکومت کی کوشش یہ ہے کہ بیماری خود نہیں پنپتی لہذا ہماری حکومت نے پرہیز سے متعلق حفظان صحت پر کافی زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوگا ، تندرستی سے متعلق پروگرام اس مقصد کے لیے جاری ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر بیماری ابھرتی ہے تو اس کا پتا جلد لگ جانا چاہیے۔ اس کے لیے لاکھوں نئے جانچ مرکز پورے ملک میں تعمیرکیے جا رہے ہیں۔ تیسری توجہ اس بات پر ہے کہ لوگوں کو ان کے گھروں کے پاس ہی بہتر فرسٹ ایڈ سہولیات مہیا ہو جائیں۔ اس کے لیے بنیادی صحت مراکز کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ چوتھی کوشش یہ ہے کہ غریبوں کا علاج بہترین اسپتالوں میں مفت کیا جائے اس کے لیے آیوشمان بھارت جیسی اسکیموں کے تحت پانچ لاکھ روپے تک کا مفت علاج حکومت ہند کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ ہماری پانچویں توجہ یہ ہے کہ اچھے علاج کے لیے بڑے شہروں پر کم سے کم انحصار کیا جائے۔ اس کے لیے ہماری حکومت حفظان صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے پر اتنا سرمایہ لگا رہی ہے جتنا پہلے کبھی نہیں لگایا گیا۔ وزیراعظم نے وضاحت کی کہ 2014 سے پہلے ملک میں محض 7 ایمز تھے ان میں سے دلی میں ایک کو چھوڑ کر کسی میں بھی ایم بی بی ایس کورس یا او پی ڈی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ان میں سے کچھ نامکمل تھے۔ ہم نے ان سبھی کی اصلاح کی اور ملک میں 16 نئے ایمز کا اعلان کیا۔ ایمز گواہاٹی بھی ان میں سے ایک ہے۔ ویژن کا چھٹا نکتہ یہ ہے کہ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت ڈاکٹروں کی تعداد میں کمی کو دور کر رہی ہے۔ پچھلے سات برسوں میں ایم بی بی ایس اور پی جی کے لیے 70 ہزار سے زیادہ نئی سیٹیں تشکیل دی گئی ہیں۔ ہماری حکومت پانچ لاکھ سےزیادہ آیوش ڈاکٹروں کو بھی وہی سہولیات دے رہی ہے جو ایلوپیتھک ڈاکٹروں کو دی جا رہی ہے۔ حکومت کی ساتویں توجہ اس بات پر ہے کہ صحت خدمات کو ڈیجیٹائز کیا جائے۔ حکومت کی کوشش علاج کے لیے لمبی قطاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ تاکہ علاج کے نام پر درپیش پریشانیوں سے نجات حاصل ہو۔ جناب مودی نے یہ بھی کہا کہ اس کے لیے بہت سی اسکیموں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم مودی نے زور دے کر کہا کہ کوشش یہ ہے کہ پورے ملک کے شہریوں کو مرکزی حکومت کی اسکیم کے یہ فوائد ملک میں کسی بھی جگہ مل سکیں اور اس کے لیے کوئی پابندی نہ ہو۔ اس جذبے سے ملک کو تقویت ملی ہے یہاں تک کہ 100 سال میں ایک بار آنے والی سب سے بڑی وبا کے دوران بھی اس چیلنج سے نمٹنے میں تقویت ملی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کینسر کے علاج پر آنے والا بڑا خرچ لوگوں کے ذہن میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ خواتین خاص طور پر اس کے علاج سے گریز کرتی ہیں ۔ جیساکہ اس کی وجہ سے کنبے کو قرض میں ڈوب جانا پڑتا ہے۔ حکومت بہت سی دواؤں کی قیمت کو آدھا کر کے کینسر کی دواؤں کو کم خرچ بنا رہی ہے جس سے مریضوں کے کم سے کم ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوتی ہے۔ جن اوشدھی کیندروں میں 900 سے زیادہ دوائیں کم قیمت پر دستیاب کرائی گئی ہیں۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت بہت سے مستفیدین ایسے ہیں جو کینسر کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آیوشمان بھارت اور تندرستی مراکز کینسر کے کیسز کی جلد تشخیص کو یقینی بنا رہے ہیں۔ 15 کروڑ سے زیادہ عوام آسام میں اور ملک کے دیگر علاقوں میں تندرستی مراکز میں کینسر کی جانچ کرا راہے ہیں۔ وزیراعظم نے آسام سرکار کو سراہا کہ اس نے ریاست میں طبی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم ہر ایک ضلعے میں ایک میڈکل کالج پر کام کرنے کا قومی عزم کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے حکومت کے اس عزم کو دوہرایا کہ آسام میں آکسیجن سے لے کر وینٹیلیٹرز تک سبھی سہولتوں کو یقینی بنایا جائے گا۔ جناب مودی نے ہر ایک سے کہا کہ وہ ٹیکہ ضرور لگوائے جیساکہ حکومت نے بچوں کے ٹیکہ کاری اور بالغوں کے لیے احتیاطی ٹیکہ کاری کو منظوری دے کر ٹیکہ کاری کے کام میں توسیع دے دی ہے۔ مرکزی اور آسام حکومتیں چائے کے باغات میں کام کرنے والے لاکھوں کنبوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ مفت راشن سے لے کر ہر گھر جل یوجنا کے تحت سہولیات دستیاب کرانے تک آسام سرکار بہت تیزی سے چائے کے باغات میں کام کرنے والے کنبوں تک پہنچ رہی ہے۔ وزیراعظم نے عوام کی بہبود کی بدلی ہوئی نشانیوں کا ذکر کیا۔ آج عوامی بہبود کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اس سے پہلے کچھ سبسڈیز کو عوامی بہبود سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ بنیادی ڈھانچے اور کنکٹیویٹی کے پروجیکٹوں کو بہبود سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا تھا ۔ جبکہ اس وقت جب کنکٹیویٹی نہیں تھی سرکاری خدمات کی فراہمی بہت مشکل تھی اب ملک پچھلی صدی کے تصورات کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ آسام میں سڑکیں ، ریل اور فضائی نیٹ ورک میں قابل دید توسیع ہوئی ہے ۔ غریبوں ، نوجوانوں، خواتین، بچوں ، محروم طبقے اور قبائلی برادریوں کے لیے نئے موقعے پیدا ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ہم آسام کی ترقی کو تیز رفتار بنا رہے ہیں اور ملک میں سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس اور سب کا پریاس کا جذبہ پیدا کر رہے ہیں۔ آسام کینسر کیئر فاؤنڈیشن ، جو آسام سرکار اور ٹاٹا ٹرسٹ کا ایک مشترکہ پروجیکٹ ہے اس کے تحت جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا کم خرچ کینسر کی دیکھ بھال کا نیٹ ورک تعمیر کیا جا رہا ہے جس کے تحت پوری ریاست میں کینسر کی دیکھ بھال کے 17 اسپتال قائم کیے جائیں گے۔ پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے تحت 10 اسپتالوں میں سے 7 اسپتالوں کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے، جبکہ تین اسپتال تعمیر کے مختلف مرحلوں میں ہے۔ پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے کے تحت 7 نئے کینسر اسپتالوں کی تعمیر کی جائے گی۔ src=”https://platform.twitter.com/widgets.js” charset=”″> ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সাতখন কৰ্কট ৰোগ চিকিৎসালয় দেশবাসীলৈ উৎসৰ্গা কৰে আৰু সমগ্ৰ অসমত সাতখন নতুন কৰ্কট চিকিৎসালয়ৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A7%DB%8C%D9%88%DA%AF%DB%8C-%D8%A2%DA%88%DB%8C-%D9%B9%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A7%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%80-%E0%A6%85%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%AA-%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج یہاں جی ایم سی بالایوگی آڈی ٹوریم میں نائب صدر جمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈوں کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے جناب وینکیا نائیڈوں کی ہمیشہ فعال رہنے اور روابط قائم رکھنے کی خوبی کا ذکر کیا، جوکہ ایک ایسی خوبی ہے جس نے انہیں عوامی زندگی کی سرگرمیوں سے مربوط رہنے میں ہمیشہ مدد فراہم کی۔ جناب مودی نے وینکیا نائیڈو کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کو یاد کیا۔انہوں نے کہا کہ واجپئی حکومت میں جب جناب ن��ئیڈو کو بطور وزیر منتخب کیا جانا تھا ، اس وقت انہوں نے دیہی ترقیات کی وزارت کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے اس وزارت کو ازحد اہمیت دیتے ہوئے کام کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جناب نائیڈو نے دیہی ترقیات کے ساتھ ساتھ شہری ترقیات ، دونوں وزارتوں کی ذمہ داری سنبھالی۔ وزیر اعظم نے نائب صدر جمہوریہ کے راجیہ سبھا کے اولین رکن ہونے، راجیہ سبھا کے چیئرمین ہونے اور نائب صدر جمہوریہ ہونے کے ان کے خصوصی امتیاز کا بھی ذکر کیا۔یہ اور اس کے علاوہ پارلیمانی امور کے وزیر کے طور پر حاصل ہوئے تجربے نے انہیں بڑی مہارت اور آسانی کے ساتھ ایوان کی کاروائی انجام دینے میں مدد فراہم کی۔ وزیر اعظم نے ایوان، اراکین اور کمیٹیوں کی اہلیت میں اضافہ کے لیے جناب نائیڈو کی کوششوں کی بھی ستائش کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہمیں ان توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو وہ تمام پارلیمانوں سے وابستہ رکھتے ہیں۔ وقت کی انتظام کاری سے متعلق جناب نائیڈو کے نظم و ضبط کی ستائش کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ کیسے کورونا سے متعلق پابندیوں کے دوران ، نائب صدرجمہوریہ نے ’ٹیلی یاترا‘ کا اہتمام کیا تھا، جس کے تحت انہوں نے ان لوگوں سے فون پر بات چیت کی تھی جن سے وہ اپنی طویل عوامی زندگی کے دوران رابطے میں آئے تھے، انہوں نے اس مشکل دور میں ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ اسی طرح وہ وبائی مرض کے دوران تمام رکن پارلیمنٹ کے ساتھ بھی رابطہ میں رہے۔ وزیر اعظم نے وہ واقعہ بھی یاد کیا جب بہار کے دورے کے دوران، جناب نائیڈو کے ہیلی کاپٹر کو مجبوری کے تحت لینڈ کیا گیا تھا اور ایک کاشتکار نے ان کی مدد کی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جناب نائیڈو نے آج تک اس کاشتکار سے رابطہ قائم رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ امید ظاہر کی کہ وہ مستقبل میں طویل عرصے تک اسی لگن اور حکمت و دانائی کے ساتھ عوامی زندگی میں لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔ جناب نائیڈو کے ذریعہ مادری زبان کو دی جانے والی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بھاشینی- زبانوں کا قومی عوامی ڈجیٹل پلیٹ فارم کا ذکر کیا، جس کا مقصد آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور دیگر ابھرتی ہوئی تکنالوجیوں کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کے لیے خدمات اور مصنوعات تیار کرنا ہے۔ انہوں نے دونوں ایوانوں کے اراکین سے اس پر ایک نظر ڈالنے کی اپیل کی۔ انہوں نے راجیہ سبھا کے اسپیکر اور ڈپٹی چیئرمین سے ایسے نئے الفاظ، جو مباحثوں کی وجہ سے مادری زبان میں ابھر کر سامنے آئے ہیں، کو جمع کرنے اور ملک کی زبانوں کو مالامال بنانے کے لیے انہیں شامل کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اچھے الفاظ کے کلکشن کو جاری کرنے کی سالانہ روایت کا آغاز کرکے، ہم مادری زبان سے وینکیا جی کی محبت کی میراث کو آگے بڑھائیں گے۔,বালাযোগী অডিটৰিয়ামত উপ ৰাষ্ট্ৰপতি শ্ৰী এম ভেংকায়া নাইডুৰ বিদায় অনুষ্ঠানত প্রধানমন্ত্রী উপস্থিত থাক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%B3%D9%81%D9%88%D8%B1%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%DA%86%D9%B9%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%A9%D9%86%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A6%A8%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A7%B0%E0%A6%95-%E0%A6%AB%E0%A6%9A%E0%A6%AB%E0%A7%87%E0%A6%9F-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%8F%E0%A6%AE%E0%A6%85%E0%A6%AA/,نئی دہلی۔28فروری/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں منعقدہ کابینہ کمیٹی کی میٹنگ میں فارسفیٹ اور ایم او پی کی کانکنی اور یونی فکیشن سے متعلق ��فاہمتی دستاویز اور اردن میں فارسفوریک ایسڈ / ڈی اے پی / این پی کے کھادکی صدفیصد نکاسی کے لئے طویل مدتی معاہدے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ مفاہمتی دستاویز سے ملک میں خام مال اور تیارپی اینڈ کے کھاد کی ضرورتوں کی تکمیل اور واجب قیمتوں پر ان کی لگاتار فراہمی یقینی ہوگی۔,খনি আৰু ৰক ফচফেট আৰু এমঅ’পি খননৰ প্ৰচেষ্টা আৰু জৰ্ডানত ফছফৰিক এচিড/ডিএপি/এনপিকে সাৰৰ উৎপাদন সম্পৰ্কীয় সুবিধা প্ৰসাৰৰ বাবে ভাৰত আৰু জৰ্ডানৰ মাজত প্ৰস্তাৱিত বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A8%D8%AD%D8%B1-%D8%A7%D9%84%DA%A9%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%AE%D8%B7%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%86%DA%88%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%B6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 30 مئی / بھارت کے وزیراعظم کے 30-29 مئی 2018 کے جمہوریہ انڈونیشیا کے دورےکے دوران، انڈونیشیا کے صدر عالیجناب جوکو وڈوڈو اور جناب نریندرمودی نے بھارت-بحرالکاہل خطے میں بحری تعاون کے مشترکہ خاکے پر تبادلہ خیالات کئے۔ 12دسمبر 2016 کو ،صدر جوکو وی کے ہندوستان کے سرکاری دورے کے دوران دونوں ملکوں کے مشترکہ بیان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ، اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کہ بھارت اور انڈونیشیا دونوں بحری ہمسائے ہیں اور دونوں ملکوں میں بحری نقل و حمل ہوتا ہے ، دونوں کے تعلقات سمندر کے راستے جلا پانے والے روابط اور تہذیبی ربط و ضبط کے مرہون منت رہے ہیں اور دونوں ملک اپنے طور پر اور پوری دنیا کے سامنے بحری ماحولیات کو اس خطے میں بالیدہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند رہےہیں، اپنے بحری تعاون کو مستحکم بنانے کے متمنی دونوں ملک جو امن واستحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور بھارت-بحرالکاہل خطے میں مضبوط اقتصادی نمو اور خوشحالی لانے کے خواست گار ہیں ، اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ 7500 کلو میٹر کی کوسٹ لائن یعنی ساحلی علاقے کے ساتھ 1380 جزائر اور دو ملین مربع کلو میٹر سے زائد کے خصوصی اقتصادی زون کا حامل بھارت ، بھارت –بحرالکاہل خطے میں مرکزی حیثیت کا حامل ملک ہے ۔ دوسری طرف انڈونیشیا دنیا میں سب سے وسیع تعداد میں جزیروں کا حامل ملک ہے اور اس کے ساحلی علاقے کی طوالت 108000 کلومیٹر کے قریب ہے ، یہاں 17504 جزائر ہیں اور مجموعی بحری علاقہ 6400000 ہزار مربع کلو میٹر کا ہے ،جس میں خصوصی اقتصادی زون بھی شامل ہیں ۔ یہی وہ بنیاد ہے جو بحرہ ہند اور بحر الکاہل کو باہم مربوط کرتی ہے ۔ دونوں سمندر ایک مشترکہ بحری خطے کی نمائندگی کرتے ہیں جو عالمی بحری تجارت اور صنعت کے لئے از حد اہمیت کا حامل ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قانونی تقاضوں اور فرائض پر عمل کرتے ہوئے 1982 کے اقوام متحدہ کے بحری قانون سے متعلق کنونشن (یو این سی ایل او ایس ) اور جنوب مشرقی ایشیا میں دوستی اور تعاون سے متعلق 1976 کے معاہدے (ٹی اے سی ) پر عمل کرتےہوئے ، آزاد ، کھلی ، شفاف، قوائد و ضوابط پر مبنی ، پر امن ، خوشحال اور شمولیت پر مبنی بھارت- بحرالکاہل خطے کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے ، جہاں خود مختاری اور علاقائی اتحاد قائم رہ سکے ، بین الاقوامی قانون خصوصا ً یو این سی ایل او ایس کا احترام ، جہاز رانی کی آزادی اور ایک دوسرے کے ملک پر پرواز کرنے کا حق ، ہماری ترقیات اور کھلی ہ��ئی ، آزاد ، منصفانہ اور باہمی طور پر مفید تجارت اور سرمایہ کار کے نظام کا احترام کیا جائے ، اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ بحری سلامتی اور تحفظ کو امن استحکام اور ہماگیر اقتصادی نمو کے لئے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور بھارت – بحرالکاہل خطے میں بحری تقاضوں کو فروغ دینا ضروری ہے جیسا کہ یو این سی ایل او ایس میں متذکرہ ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی قوانین کا لحاظ بھی رکھنا ضروری ہے ، اس امر کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی دوستانہ تعلقات جن میں جامع کلیدی ، شراکت داری شامل ہے اور باہمی سلامتی گفت و شنید، سہ فریقی گفت و شنید، افزوں دفاعی تعاون معاہدہ اور بیرونی خلا کا پر امن مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی غرض سے کھوج کے سلسلے میں تعاون سے متعلق معاہدے اور اس کے فریم ورک کی گنجائش ہو، انڈونیشا اور بھارت کے ذریعے بحر ہند رِم ایسو سی ایشن (آئی آر او) میں انڈونیشیا اوربھارت کے ذریعے سابق قائدین کے طور پر جو کردار ادا کیا گیا ہے اُس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جس کا مقصد ایک زیادہ پر امن مستحکم اور خوشحال بحر ہند خطے کی تشکیل افزو ں تعاو ن کے ذریعے کرنا شامل ہے اور جس کا ذکر جکارتہ کنکورڈ اور منصوبہ عمل میں آئی او آر اے کے نتیجے میں قائم ہوئی قیادت اور منعقد ہوئی چوٹی ملاقات جو مارچ 2017 میں منعقد ہوئی تھی اور جس کا تعلق آئی آر او کی 20 ویں سالگرہ سے ہے ، اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کھلے سمندر اور آزادانہ نقل و حمل کی سہولت جو یو این سی ایل او ایس کے ضابطے کے تحت آتی ہو وہ تمام صورتحال اس خطے کے امن استحکام اور خوشحالی کے لئے لازم ہے اور بین الاقوامی برادری کے لئے اہمیت کی حامل بھی ہے، بھارت- بحرالکاہل خطے میں انسانوں کی کالا بازاری ، ہتھیاروں ، منشیات اور پیسے کی کالا بازاری ، غیر قانونی اور خفیہ طریقے سے ماہی گیری اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت سمیت ابھرتے ہوئے بحری سلامتی سے متعلق چنوتیوں اور دیگر معاملات کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے ، اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ ہمارے مجموعی مفادات ایک خوشحال بھارت – بحرالکاہل خطے میں صرف اس صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں جب ہم عالمی پیمانے پر تسلیم شدہ بین الاقوامی قوائد و ضوابط پر مبنی علاقائی خوشحالی بڑھانے کے لئے رابطہ کاری کو فروغ دیں ، اچھی حکمرانی ، قانون کی بالا دستی ، کھلے پن ، شفافیت ، مساوات اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام اور علاقائی اتحاد اپنی جگہ مسلم حقیقتیں ہیں اور اس سلسلے میں آسیان – بھارت بحری نقل و حمل معاہدے کے تحت تیز رفتاری سے فیصلے لینے کی ضرورت ہے، بھارت کی ‘ایکٹ ایسٹ پالیسی ’اور اس خطے میں سبھی کے لئے نمو اور سلامتی (ایس اے جی اے آر ) اور اس خطے میں ایسے ہی دیگر عناصر کی تلاش اور انڈونیشیا کی پالیسی اور انڈونیشیا کا عالمی بحری نقطہ ارتکاز پر مبنی تصور ساتھ ہی ساتھ آسیان کی مرکزیت اور اتحاد کی اہمیت کا اعادہ ، اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ نیل گوں انقلاب کی اہمیت ، شمولیت اور ہمہ گیر اقتصادی نمو پر مبنی ایک ذریعہ کے طور پر ہے جس سے اس خطے کی ترقی ممکن ہو سکتی ہے، مذکورہ بالا تمام امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ بھارت – بحرالکاہل خطے میں بحری تعاون کو اس انداز سے بروئے کار لایا جانا چاہئے کہ تمام تر دستیاب مواقع کا بھر پورفائدہ اٹھایا جا سکے تاکہ درپیش چنوتیوں کاایک ساتھ جامع کلیدی شراکت دار کے طور پر سامنا کیا جا سکے، اس ��ے مطابق درج ذیل معاملات پر اتفاق ہوا۔ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری تعاون میں اضافہ : زیادہ سے زیادہ مقدار اور تعداد میں سازو سامان ، خدمات ، سرمایہ کار ی اور ٹیکنالوجی کا دونوں ممالک کے مابین لین دین اور اس خطے میں اس طرح کی سرگرمیوں کا بڑھاوا دینا تاکہ اقتصادی ترقی و ہمہ گیری کو فروغ حاصل ہو سکے۔ بحری وسائل کو ہمہ گیر پیمانے پر فروغ دینا : اس کے تحت سائنس پر مبنی انتظامات اور بحری زندہ وسائل کو فروغ دینے کی بات شامل ہے ۔ اس میں موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزمائی اور ماحولیات اور قدرتی وسائل کا تحفظ بھی شامل ہے۔ ڈزاسٹر رسک مینجمنٹ یعنی قدرتی آفات کے نتیجے میں حالات سے نمٹنے کے انتظامات کے معاملے میں تعاون کو بڑھاوا دینا: قدرتی آفات ارض و سماں سے متعلق آفات کی صورت میں خطرات سے نمٹنے کے لئے اس خطے میں مستعدی کو بڑھاوا دینا۔ خصوصا ان آفات سے متاثرہ افراد کی امداد کے نظام کو مضبوط کرنا ۔ سیاحت اور ثقافتی تبادلوں کو بڑھاوا دینا: علاقائی اقتصادی نمو کو فروغ دینے کے لئے عوام سے عوام کے مابین روابط کو بڑھاوا دینا ۔ کمیونٹی پر مبنی ہمہ گیر ترقیات کی حوصلہ افزائی اور سیاحت اور معیشت حیوانات پر مبنی سیاحت کو فروغ دینا ۔ بحری سلامتی اور تحفظ کو فروغ دینا: بھارت- بحرالکاہل خطے میں موجودہ سلامتی ڈھانچے کو مستحکم بنانا جیسا کہ آسیان کی قیادت والے میکنزم میں ذکر ہے، ایک کھلا ، شمولیت پر مبنی اور شفاف تعاون کا ماحول سازگار بنانا جس کا مقصد اس خطے میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے سلامتی کو یقینی بنانا ہو ، موجودہ بحری تعاون کو مستحکم بنانا اور اس تعاون میں 2002 میں دونوں ممالک کی بحریاؤں کے مابین تال میل پر مبنی گشت کو فروغ دینا اور باقاعدہ اور سلسلہ وار باہمی بحری مشقوں کا آغاز وغیرہ شامل ہیں ۔ تعلیمی، سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی تعاون کو مستحکم بنانا: بھارتی خلائی تحقیق ادارے (اسرو) اور نیشنل انسٹی ٹیو ٹ آف ایروناٹکس اینڈ اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن آف ریپبلک آف انڈونیشیا (ایل اے پی اے این ) کے مابین بیرونی خلا سے کرہ ارض کی ماحول کی نگرانی اور پورے کرہ ارض کی ریموٹ سینسنگ کے عمل کو فروغ دینے کے لئے دونوں اداروں کے مابین تعاون کو بڑھاوا دینا ۔ تحقیقی صلاحیت کو جلا بخشنا اور تحقیق و ترقیات سے متعلق ادارو ں کے مابین بحری ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ماہرین تعلیم کا تبادلہ بھی اس کے تحت شامل ہے۔,ভাৰত মহাসাগৰ আৰু প্রশান্ত মহাসাগৰীয় অঞ্চলত ইণ্ডোনেছিয়া আৰু ভাৰতৰ সামুদ্রিক প্রতিৰক্ষা সহযোগিতাৰ ক্ষেত্রত দৃষ্টিভংগী অভিন্ন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B1%D9%84%DA%88-%D9%B9%D9%88%D8%A7%D8%A6%D9%84%DB%8C%D9%B9-%DA%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B6%E0%A7%8C%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%9F-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE/,"نئی دہلی۔19 نومبر وزیراعظم نریندر مودی نے ورلڈ ٹوائلیٹ ڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا : ‘‘ہم ملک بھر میں حفظان صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے پابند عہد ہیں۔میں ان تمام لوگوں اور اداروں کو مبارکباد دیتا ہوں جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مزید ٹوائلیٹ کی تعمیر کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کی قابل قدر خدمات سوَچھ بھارت مشن کی رفتار تیز کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔ ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ ر��۔ م ج۔ ت ح( (19.11.2017, Time: 08:33)",বিশ্ব শৌচালয় দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%B1%D9%88%D8%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%B9%DA%A9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%99%E0%A7%8D%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج کرناٹک کے بنگلورو میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کیا۔ قبل ازیں وزیر اعظم نے ودھان سودھا میں سنت شاعر سری کنک داس اور مہارشی والمیکی کے مجسموں پر گلہائے عقیدت پیش کئے۔ انہوں نے کے ایس آر ریلوے اسٹیشن پر وندے بھارت ایکسپریس اور بھارت گورو کاشی درشن ٹرین کو ہری جھنڈی بھی دکھائی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے بنگلورو کے کیمپے گوڑا بین اقوامی ہوائی اڈے کے ٹرمینل 2 کا افتتاح کیا اور سری ناداپربھو کیمپے گوڑا کے 108 فٹ لمبے کانسے کے مجسمے کی نقاب کشائی کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات کی خوشی ظاہر کی کہ وہ کرناٹک کی دو عظیم شخصیات کی جینتی کے موقع پر کرناٹک میں موجود ہیں۔ انہوں نے سنت کنک داس اور اوناکے اوبوّا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج کرناٹک کو پہلی ’میڈ ان انڈیا‘ وندے بھارت ٹرین ملی ہے جو چنئی، نئی صنعتوں کی راجدھانی بنگلورو اور تاریخی شہر میسور کو جوڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ آج بھارت گورو کاشی درشن ٹرین بھی، جو کرناٹک کے لوگوں کے لئے اجودھیا، کاشی اور پریاگ راج درشن کو قابل بنائے گی، شروع کی گئی‘‘ ہے۔ بنگلورو میں کیمپے گوڑا بین اقوامی ہوائی اڈے کے ٹرمینل 2 کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جو بنیادی ڈھانچہ کل دکھایا گیا تھا، تصویریں اس سے زیادہ خوبصورت اور شاندار ہیں۔ وزیر اعظم نے ناداپربھو کیمپے گوڑا کے یادگار مجسمے پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ مستقبل کے بنگلورو اور ہندوستان کی تعمیر کے لئے ایک تحریک کے طور پر کام کرے گا۔ اسٹارٹ اپس کی دنیا میں ہندوستان کی شناخت پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بنگلورو اس شناخت کو واضح کرنے میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ جناب مودی نے تبصرہ کیا کہ ’’بنگلوروہندوستان کے اسٹارٹ اپ جذبے کی نمائندگی کرتا ہے اور یہی جذبہ ملک کو باقی دنیا سے الگ کرتا ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پروگرام بنگلورو کے نوجوانوں کے جذبے کا ترجمان ہے۔ وندے بھارت صرف ایک ٹرین نہیں ہے بلکہ یہ نئے ہندوستان کی نئی شناخت ہے۔ ’’وندے بھارت ایکسپریس ایک علامت ہے کہ ہندوستان نے اب جمود کے دنوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم انڈین ریلوے کی مکمل تبدیلی کے مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔ 400 سے زیادہ وندے بھارت ٹرینیں اور وسٹا ڈوم کوچز انڈیا ریلوے کی نئی شناخت بن رہی ہیں۔ مال بردار راہداریوں سے مال کی نقل و حمل کی رفتار میں اضافہ ہوگا اور وقت کی بچت ہوگی۔ ریپڈ براڈ گیج کی تبدیلی نئے علاقوں کو ریلوے کے نقشے پر لا رہی ہے۔ریلوے اسٹیشنوں کی جدید کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سر ایم ویشوریا ٹرمینل، بنگلورو ریلوے اسٹیشن مسافروں کو بہت زیادہ بہتر تجربہ فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کرناٹک سمیت دیگر اسٹیشنوں کی تازہ کاری کا کام بھی شروع کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے ترقی یافتہ ہندوستان کے وژن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہروں کے درمیان رابطہ ایک اہم رول ادا کرے گا اور یہ وقت ک�� ضرورت بھی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کیمیپی گوڑا ہوائی اڈے کا نیا ٹرمینل 2 کنیکٹیوٹی کو فروغ دینے کے لئے نئی سہولتوں اور خدمات کا اضافہ کرے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جہاں تک ہوائی سفر کا تعلق ہے تو ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی منڈیوں میں سے ایک ہے اور ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ 2014 سے پہلے ملک میں صرف 70 ہوائی اڈے تھے لیکن آج یہ تعداد دگنی ہو کر 140 سے زائد ہو گئی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ ’’ہوائی اڈے کاروبار کی توسیع کے لئے ایک نیا سرگرم میدان بنا رہے ہیں جبکہ ملک کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ کرناٹک ان بھروسے اور امنگوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے جو پوری دنیا نے ہندوستان کے تئیں دکھائے ہیں۔ وزیر اعظم نے سب کی توجہ کرناٹک میں 4 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی طرف مبذول کرائی جو اس وقت کی گئی تھی جب دنیا کووڈ کے عالمی وبا سے نبرد آزما تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’گزشتہ سال کرناٹک ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں راہ میں پیش پیش رہی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ سرمایہ کاری صرف آئی ٹی سیکٹر تک محدود نہیں ہے بلکہ بائیو ٹیکنالوجی سے لے کر دفاع تک وسیع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی ہوائی جہاز اور خلائی جہاز کی صنعت میں کرناٹک کا 25 فیصد حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہندوستان کے دفاع کے لئے بنائے جانے والے تقریباً 70 فیصد طیارے اور ہیلی کاپٹر کرناٹک میں تیار کئے جاتے ہیں۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ کرناٹک میں فارچیون 500 کی فہرست سے 400 سے زیادہ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ریاست میں اتنی زبردست ترقی کا سہرا کرناٹک کی ڈبل انجن حکومت کے سر باندھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’گورننس ہو یا فزیکل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی ہندوستان بالکل مختلف سطح پر کام کر رہا ہے‘‘۔ بھیم یو پی آئی اور میڈ ان انڈیا 5 جی ٹیکنالوجی کی مثالیں دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بنگلورو کے پیشہ ور افراد ہیں جنہوں نے دور کے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ ایسی مثبت تبدیلیاں 2014 سے پہلے تصور سے بالا تر تھیں کیونکہ پچھلی حکومت کا سوچنے کا طریقہ پرانا تھا۔ وزیر اعظم نے اظہار خیال جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’پچھلی حکومتیں رفتار کو عیش و عشرت اور اسکیل کو خطرہ سمجھتی تھیں ۔ ہماری حکومت نے اس رجحان کو بدل دیا ہے‘‘۔ ہم رفتار کو آرزو اور پیمانے کو ہندوستان کی طاقت سمجھتے ہیں۔ پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے تمام محکموں اور ایجنسیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں کی ہیں اور اس کے نتیجے میں مختلف ایجنسیوں کو ڈیٹا کی پندرہ سو سے زیادہ تہیں دستیاب ہو رہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس پلیٹ فارم کی مدد سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی کئی وزارتیں اور درجنوں محکمے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج، ہندوستان بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کی پائپ لائن میں 110 لاکھ کروڑ روپے کے مقصد کے رُخ پر کام کر رہا ہے۔ ملٹی موڈل انفراسٹرکچر پر زور دیا جاتا ہے تاکہ ٹرانسپورٹ کا ہر ذریعہ دوسرے کی مدد کرے‘‘۔ نیشنل لاجسٹک پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس سے ملک میں نقل و حمل کی لاگت کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور اس میں جدت بھی آئے گی۔ سماجی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ملک میں غریبوں کے لئے 3.4 کروڑ پکے گھر، کرناٹک میں 8 لاکھ 7کروڑ گھرانوں کو پائپ کے ذریعہ پانی کا کنکشن ملا، کرناٹک میں 30 لاکھ 4کروڑ مریضوں نے آیوشمان بھارت کے تحت مفت علاج کرایا، کرناٹک میں 30 لاکھ۔ ملک کے 10 کروڑ سے زیادہ کسانوں کے اکاؤنٹ میں 2.5 لاکھ روپے ٹرانسفر، کرناٹک میں 55 لاکھ کسانوں کے اکاؤنٹ میں 11 ہزار کروڑ روپے ٹرانسفر چالیس (40)لاکھ خوانچہ فروشوں کو سوانیدھی کے تحت مدد ملی، کرناٹک میں یہ تعداد 2 لاکھ ملک کی وراثت پر ناز کے بارے میں لال قلعے سے اپنی تقریر کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری وراثت ثقافتی اور روحانی دونوں نوعیت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت گوروریل عقیدت اور روحانیت والے مقامات کو جوڑ رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو مستحکم بھی کررہی ہے۔ انھوں نے مطلع کیا کہ اب تک ملک کے مختلف حصوں میں اس طرح کے 9 سفر ہوچکے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ شرڈی مندر ہو، شری رامائن یاترا، دویا کاشی یاترا، اس طرح کی سب ریل گاڑیاں مسافروں کو ایک خوشگوار سفر کا تجربہ دیتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کرناٹک سے کاشی ایودھیا اور پریاگ راج تک کا سفر، جو آج شروع ہورہا ہے، کرناٹک کے عوام کو کاشی اور ایودھیا کے سفر میں آسانی فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم نے موٹے اناجوں کی جانب تمام لوگوں کی توجہ مبذول کی جو کنک داس جی نے قائم کی تھی ان کی تصنیف رام دھنیہ چرت کو اجاگر کرتے ہوئے وزیرا عظم نے کہا کہ اس میں سماجی مساوات کے پیغام کو عام کرنے میں کرناٹک کے سب سے پسندیدہ موٹے اناج راگی کی مثال دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ بنگلورو کی ترقی اسی طرح سے ہونی چاہئے جیسے کہ ناتھ پربھو کیمپے گوڈا نے خواب دیکھا تھا۔ اس شہر کا سٹلمنٹ یہاں کےعوام کے لئے کیمپے گوڈا کی بڑی دین ہے۔ وزیراعظم نے بنگلورو کے عوام کی آسانی کے لئے صدیوں پہلے کامرس اور کلچر کے بارے میں بے نظیر تفصیلات پیش کیں۔ انھوں نے کہا کہ بنگلورو کے عوام اب بھی ان کے ویژن سے مستفید ہورہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر چہ آج کاروبار میں کایا پلٹ ہوچکی ہے۔ ’پیٹا‘(بنگلورو کا ایک علاقہ) اب بھی شہر کا اہم ترین تجارتی مرکز ہے۔ ناتھ پربھو کیمپے گوڈا جی نے بنگلورو کی ثقافت کو مالا مال بنانے میں جو کردار ادا کیا اس کو سراہتے ہوئے وزیر اعظم نے گوی گنگا دھریشور مندر اور بساون گوڈی علاقے میں مندر کی مثال دی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ذریعہ کیمپے گوڈا جی نے بنگلورو کے ثقافتی شعور کو ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کردیا ہے۔ اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بنگلورو ایک بین الاقوامی شہر ہے اور ہمیں اس کو جدید بنیادی ڈھانچے سے اور بھی چمکانا ہے۔ جبکہ ساتھ میں اس کی وراثت کو باقی رکھنا ہے اور یہ کام سب کا پریاس سے ممکن ہوسکے گا۔ کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسوراج بومئی کرناٹک کے گورنر جناب تھاور چند گہلوت ، کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ جناب بی ایس یدی یورپّا ، مرکزی وزراء جناب پرہلاد جوشی اور جناب اشونی وشنو، مرکزی وزیر مملکت محترمہ شوبھا کرندالجے ، جناب بھگونت کھوبا، پارلیمنٹ ارکان جناب بی این باچے گوڑا، سوامی نرملا نند ناتھ ، سوامی جی اور کرناٹک کی حکومت کے وزراء اس موقع پر موجود تھے۔,কর্ণাটকৰ বেঙ্গালুৰুত জনসমাৱেশত প্রধানমন্ত্রীৰ ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%84%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,"کرناٹک کے گورنر جناب تھاور چند جی گہلوت، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی، مرکزی کابینہ میں شامل میرے ساتھی، کرناٹک حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور ایم ایل اے، اور بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! بھارت کی سمندری طاقت کے لیے آج کا دن بہت بڑا ہے۔ ملک کی فوجی سلامتی ہو یا قوم کی اقتصادی سلامتی، بھارت آج بڑے مواقع دیکھ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کوچی میں بھارت کے پہلے مقامی طیارہ بردار بحری جہاز کی لانچنگ نے ہر بھارتی کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ اور اب یہاں منگلور میں 3 ہزار 700 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح، سنگ بنیاد اور بھومی پوجن کیا گیا ہے۔ تاریخی منگلور بندرگاہ کی صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ریفائنری اور ہمارے ماہی گیروں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کئی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ میں آپ سب کو، کرناٹک کے لوگوں کو ان پروجیکٹوں کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ ان پروجیکٹوں سے کرناٹک میں کاروبار اور صنعت کو طاقت ملے گی۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو مزید تقویت ملے گی۔ کرناٹک کے کسانوں اور ماہی گیروں کی مصنوعات کے لیے بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچنا آسان ہو جائے گا، جو خصوصی طور پر ایک ضلع ایک پروڈکٹ کے تحت تیار کیے جا رہے ہیں۔ ساتھیو، اس بار یوم آزادی پر، میں نے لال قلعہ سے جن پانچ عزائم کے بارے میں بات کی ہے، ان میں سے پہلا ایک ترقی یافتہ بھارت کی تخلیق ہے۔ ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لیے ملک کے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں میک ان انڈیا کو بڑھانا بہت ضروری ہے۔ ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہماری برآمدات بڑھیں، دنیا میں ہماری مصنوعات لاگت کے لحاظ سے مسابقتی ہوں۔ یہ سستے اور آسان لاجسٹکس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ملک کے بنیادی ڈھانچے پر پچھلے 8 سالوں سے بے مثال کام ہو رہا ہے۔ آج ملک کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جہاں کسی بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹ پر کام نہ ہو رہا ہو۔ سرحدی ریاستوں کے روڈ انفراسٹرکچر کو بھارت مالا سے مضبوط کیا جا رہا ہے، جبکہ ساحلی انفراسٹرکچر کو ساگر مالا سے قوت مل رہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، گذشتہ برسوں کے دوران، ملک نے بندرگاہ پر مبنی ترقی کو، ترقی کا ایک اہم منتر بنا یا ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بھارت کی بندرگاہوں کی صلاحیت صرف 8 سالوں میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ یعنی سال 2014 تک ہمارے یہاں جتنی پورٹ کی گنجائش بنائی گئی تھی، گذشتہ 8 سالوں میں اتنی ہی تعداد میں ان میں نئی گنجائش شامل کی گئی ہے۔ منگلور پورٹ میں ٹیکنالوجی سے متعلق جو نئی سہولیات شامل کی گئی ہیں اس سے اس کی صلاحیت اور کارکردگی دونوں میں اضافہ ہوگا۔ آج، گیس اور سیال کارگو کے ذخیرہ سے متعلق چار پروجیکٹ، جن کا یہاں سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، کرناٹک اور ملک کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہونے والے ہیں۔ اس سے خوردنی تیل، ایل پی جی گیس، بٹومین کی درآمدی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔ ساتھیو، امرت کال میں، بھارت سبز ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ سبز ترقی اور سبز ملازمتیں، یہ نئے مواقع ہیں۔ آج یہاں ریفائنری میں شامل کی گئی نئی سہولیات بھی ہماری ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔ آج ہماری ریفائنری کا انحصار دریا کے پانی پر ہے۔ ڈی سیلینیشن پلانٹ سے ریفائنری کا دریائی پانی پر انحصار کم ہو جائے گا۔ بھائیو اور بہنو، پچھلے 8 سالوں میں جس طرح سے ملک نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دی ہے اس سے کرناٹک کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ کرناٹک ساگر مالا اسکیم سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والوں میں سے ایک ہے۔ کرناٹک میں، صرف نیشنل ہائی وے کے علاقے میں، پچھلے 8 سالوں میں، تقریباً 70 ہزار کروڑ کے پروجیکٹوں پر کام ہوا ہے۔ یہی نہیں، ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹ پائپ لائن میں ہیں۔ بنگلور-چنئی ایکسپریس وے، بنگلور-میسور روڈ ہائی وے کی چھ لیننگ، بنگلور کو پونے سے جوڑنے والا گرین فیلڈ کوریڈور، بنگلور سیٹلائٹ رنگ روڈ، اس طرح کے بہت سے پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ ریلوے میں تو کرناٹک کے بجٹ میں 2014 سے پہلے کے مقابلے میں 4 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ریلوے لائنوں کو چوڑا کرنے کا کام گزشتہ 8 سالوں میں 4 گنا سے زیادہ رفتار سے ہوا ہے۔ کرناٹک میں ریلوے لائنوں کی برق کاری کا ایک بڑا حصہ پچھلے 8 سالوں میں مکمل کیا گیا ہے۔ ساتھیو، آج کا بھارت جدید انفراسٹرکچر کی ترقی پر بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے، کیونکہ یہ ترقی بھارت کی تعمیر کا راستہ ہے۔ جدید انفرااسٹرکچر کی تعمیر سے سہولیات میں اضافے کے ساتھ بڑے پیمانے پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ امرت کال میں ہماری بڑے عزائم کی تکمیل کا بھی یہی طریقہ ہے۔ بھائیو اور بہنو، ملک کی تیز رفتار ترقی کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ملک کے عوام کی توانائی صحیح سمت لگے ۔ جب عوام کی توانائی بنیادی سہولیات جٹانےمیں لگی ہو تو اس سے ملک کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔ پکے گھر، بیت الخلا، صاف پانی، بجلی اور دھوئیں سے پاک کچن آج کے دور میں باوقار زندگی گزارنے کے لیے فطری ضرورتیں ہیں۔ ہماری ڈبل انجن والی حکومت ان سہولیات پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہی ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں ملک میں غریبوں کے لیے تین کروڑ سے زیادہ گھر بنائے گئے ہیں۔ کرناٹک میں بھی غریبوں کے لیے 8 لاکھ سے زیادہ پکے مکانات کو منظوری دی گئی ہے۔ ہزاروں متوسط طبقے کے خاندانوں کو اپنے گھر بنانے کے لیے کروڑوں روپے کی مدد بھی دی گئی ہے۔ جل جیون مشن کے تحت صرف تین سالوں میں ملک کے 6 کروڑ سے زیادہ گھرانوں کو پائپ سے پانی فراہم کیا گیا ہے۔ پہلی بار، کرناٹک میں 30 لاکھ سے زیادہ دیہی گھرانوں تک پائپ سے پانی پہنچا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری بہنیں، بیٹیاں ان سہولیات سے سب سے زیادہ مستفید ہورہی ہیں۔ ساتھیو، غریبوں کی بہت بڑی ضرورت ہے، علاج کی سستی سہولیات اور سماجی تحفظ۔ جب غریب مشکل میں ہوتا ہے تو پورا خاندان اور بعض اوقات آنے والی نسلیں بھی مشکل میں پڑ جاتی ہیں۔ آیوشمان بھارت یوجنا نے غریبوں کو اس پریشانی سے نجات دلائی ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ملک کے تقریباً 4 کروڑ غریب لوگوں کا اسپتال میں داخل ہونے کے دوران مفت علاج ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے غریبوں کے تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ کرناٹک کے 30 لاکھ سے زیادہ غریب مریضوں کو بھی آیوشمان بھارت کا فائدہ ملا ہے اور انہوں نے 4000 کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت بھی کی ہے۔ بھائیو اور بہنو، آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک ہمارا یہ حال رہا ہے کہ ترقی کا فائدہ صرف وسائل سے مالامال لوگوں کو ہی ملا ہے۔ پہلی بار ،جو لوگ معاشی طور پر کمزور تھے انہیں ترقی کے ثمرات سے جوڑا گیا ہے۔ ہماری حکومت بھی ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جنہیں مالی طور پر چھوٹا سمجھ کر بھ��ا دیا گیا۔ چھوٹے کسان ہوں، چھوٹے تاجر ہوں، ماہی گیر ہوں، ریہڑی پٹری ،ٹھیلے والے ہوں، ایسے کروڑوں لوگوں کو پہلی بار ملک کی ترقی کا فائدہ ملنا شروع ہواہے، وہ ترقی کے دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت ملک کے 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کے بینک کھاتوں میں تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے منتقل کیے گئے ہیں۔ کرناٹک کے 55 لاکھ سے زیادہ چھوٹے کسانوں کو تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے ملے ہیں۔ پی ایم سواندھی کے تحت ملک کے 35 لاکھ اسٹریٹ وینڈرز کو مالی مدد ملی ہے۔ کرناٹک کے تقریباً 2 لاکھ اسٹریٹ وینڈرز نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مدرا یوجنا کے ذریعے ملک بھر میں چھوٹے کاروباریوں کو 20 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض دیا گیا ہے۔ کرناٹک کے لاکھوں چھوٹے کاروباریوں کو بھی تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے کا بینک قرض دیا گیا ہے۔ ساتھیو، ڈبل انجن کی حکومت ساحلی پٹی میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں، بندرگاہوں کے آس پاس کے دیہاتوں اور ہمارے ماہی گیروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی کوششیں کر رہی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں کے ماہی پروری سے جڑے ساتھیوں کو کسان کریڈٹ کارڈ دیے گئے تھے۔ گہرے سمندر میں ماہی گیری کے لیے ضروری کشتیاں، جدید جہاز بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور روزی روٹی میں اضافےکے لیے پہلی بار ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں، چاہے وہ پی ایم متسیہ سمپدا یوجنا کے تحت سبسڈی ہو یا ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت۔ آج کولائی میں ماہی گیری کی بندرگاہ کا بھومی پوجن بھی کیا گیا ہے۔ سالہا سال سے ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہمارے بھائی بہن اس کا مطالبہ کررہے تھے۔ جب یہ تیار ہو جائے گا تو ماہی گیروں کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس منصوبے سے سیکڑوں ماہی گیر خاندانوں کو مدد ملے گی، کئی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ ساتھیو، ڈبل انجن والی حکومت ملک کے عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ ملک کے عوام کی خواہش ہماری حکومت کے لیے عوام کے حکم کی طرح ہے۔ یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ بھارت میں عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ ہونا چاہئے۔ آج ملک کے کونے کونے میں جدید انفرااسٹرکچر بنایا جا رہا ہے۔ یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ شہر میٹرو کے ذریعے منسلک ہوں۔ ہماری حکومت کی کوششوں کی وجہ سے پچھلے آٹھ سالوں میں میٹرو سٹیز کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے عوام کی خواہش ہے کہ انہیں ہوائی پرواز کی سہولت آسانی سے ملے۔ اڑان اسکیم کے تحت اب تک ایک کروڑ سے زیادہ مسافر ہوائی جہازوں میں سفر کر چکے ہیں۔ یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ بھارت میں صاف ستھری معیشت ہو۔ آج ڈیجیٹل ادائیگی ایک تاریخی سطح پر ہے اور بھیم – یوپی آئی جیسی ہماری اختراعات دنیا کی توجہ مبذول کر رہی ہیں۔ آج ملک کے لوگ تیز رفتار انٹرنیٹ چاہتے ہیں، سستا انٹرنیٹ چاہتے ہیں، ملک کے کونے کونے میں انٹرنیٹ چاہتے ہیں۔ آج تقریباً 6 لاکھ کلومیٹر آپٹیکل فائبر بچھا کر گرام پنچایتوں کو جوڑا جا رہا ہے۔ 5جی کی سہولت اس میدان میں ایک نیا انقلاب لانے جا رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کرناٹک کی ڈبل انجن حکومت بھی تیز رفتاری سے لوگوں کی ضرورتوں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ساتھیو، بھارت کے پاس ساڑھے سات ہزار کلومیٹر سے زیادہ کوسٹل لائن ہے۔ ہمیں ملک کی اس صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔ یہاں کا کراولی ساحل اور مغربی گھاٹ بھی اپنی سیاحت کے لیے بہت مشہور ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ نیو منگلور پورٹ ہر کروز سیزن میں اوسطاً 25,000 سیاحوں کو ہینڈل کرتا ہے۔ اس میں غیر ملکیوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ یعنی امکانات بہت زیادہ ہیں اور جیسے جیسے بھارت میں متوسط طبقے کی طاقت بڑھ رہی ہے بھارت میں کروز ٹورزم کے امکانات زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ جب سیاحت بڑھتی ہے تو اس سے ہماری کاٹیج انڈسٹریز، ہمارے کاریگروں، گاؤں کی صنعتوں، ریہڑی پٹری والےبھائیوں اور بہنوں، آٹو رکشہ ڈرائیوروں، ٹیکسی ڈرائیوروں، جیسے معاشرے کے چھوٹے طبقات کو سیاحت سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نیو منگلور پورٹ کروز ٹورزم کو فروغ دینے کے لیے مسلسل نئی سہولیات کا اضافہ کر رہا ہے۔ ساتھیو، جب کورونا بحران شروع ہوا تو میں نے تباہی کو موقع/آپدا کو اوسر میں بدلنے کی بات کی۔ آج ملک نے اس تباہی کو موقع میں بدل کر دکھایا ہے۔ جی ڈی پی کے جو اعداد و شمار کچھ دن پہلے آئے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ بھارت نے کورونا کے دور میں جو پالیسیاں بنائیں، جو فیصلے لیے گئے، وہ بہت اہم تھے۔ پچھلے سال، بہت ساری عالمی رکاوٹوں کے باوجود، بھارت نے کل 670 بلین ڈالر یعنی 50 لاکھ کروڑ روپے کی برآمد کی۔ ہر چیلنج پر قابو پاتے ہوئے بھارت نے 418 بلین ڈالر یعنی 31 لاکھ کروڑ روپے کی تجارتی برآمدات کا نیا ریکارڈ بنایا۔ آج ملک کے گروتھ انجن سے جڑا ہر شعبہ پوری صلاحیت سے چل پڑا ہے۔ سروس سیکٹر بھی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پی ایل آئی اسکیموں کا اثر مینوفیکچرنگ سیکٹر پر نظر آنے لگا ہے۔ موبائل فون سمیت الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کا پورا شعبہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ 3 سال میں کھلونوں کی درآمد میں جتنی کمی آئی ہے، برآمدات میں تقریباً اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کا براہ راست فائدہ ملک کے ساحلی علاقوں کو ہو رہا ہے، جو بھارتی سامان کی برآمد کے لیے اپنے وسائل مہیا کراتے ہیں، جن میں منگلورو جیسی بڑی بندرگاہیں شامل ہیں۔ ساتھیو، حکومت کی کوششوں سے ملک میں ساحلی ٹریفک میں بھی گزشتہ برسوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کی مختلف بندرگاہوں پر سہولیات اور وسائل میں اضافے کی وجہ سے اب ساحلی نقل و حرکت آسان ہو گئی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بندرگاہوں کا رابطہ بہتر ہو، اس میں تیزی لائی جائے۔ لہذا، پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے تحت، ریلوے اور سڑکوں کے ڈھائی سو سے زیادہ پروجیکٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو بغیر کسی رکاوٹ کے بندرگاہ کنیکٹوٹی میں مدد کریں گے۔ بھائیو اور بہنو، اپنی بہادری اور تجارت کے لیے معروف ، یہ ساحلی خطہ شاندار صلاحیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ بھارت کے بہت سے کاروباری لوگ یہاں رہتے ہیں۔ بھارت کے بہت سے خوبصورت جزیرے اور پہاڑیاں کرناٹک ہی میں ہیں۔ بھارت کے بہت سے مشہور مندر اور زیارت گاہیں یہاں واقع ہیں۔ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، میں رانی ابکا اور رانی چینہ بھیرا دیوی کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ بھارت کی سرزمین، بھارت کے کاروبار کو غلامی سے بچانے کے لیے ان کی جدوجہد بے مثال تھی۔ آج برآمدات کے میدان میں آگے بڑھ رہے بھارت کیلئے یہ بہادر خواتین ایک عظیم ترغیب ہیں۔ کرناٹک کے لوگوں نے، ہمارے نوجوان ساتھیوں نے جس طرح ہر گھر ترنگا مہم کو کامیاب بنایا، یہ بھی اسی بھرپور روایت کی توسیع ہے۔ کرناٹک کے کراولی علاقے میں آکر، میں ہمیشہ حب الوطنی، قومی عزم کی اس توانائی سے متاثر ہوتا ہوں۔ دعا ہے کہ منگلورو میں نظر آنے والی یہ توانائی اسی طرح کی ترقی کی راہیں روشن کرتی رہے، اس خواہش کے ساتھ، میں ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میرے ساتھ اونچی آواز میں بولئے – بھارت ماتا کی – جئے! بھارت ماتا کی – جئے! بھارت ماتا کی – جئے! بہت بہت شکریہ!",মাংগালোৰত উন্নয়নমূলক প্ৰকল্প আৰম্ভ কৰাৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ লিখিত পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9-%D8%A7%D9%88%D8%A8%D9%88%D9%91%D8%A7-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%87-%E0%A6%93%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%95-%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%93%E0%A6%81%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی ،11نومبر:وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے عظیم کنّڑ خانون جانباز اونیک اوبوّا کو ان کی جینتی کے خصوصی موقع پر سرخم کیاہے اورشاندار خراج عقیدت پیش کیاہے ۔جناب مودی نے کہاکہ اونیک اوبوّا سے ہمیں ہماری ناری شکتی کی علامت کے طورپر ترغیب حاصل ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا: ‘‘ میں جرأت منداونیک اوبوّا کی جینتی کے خصوصی موع پرسرخم کرتاہوں ۔ ہم میں سے کوئی بھی کبھی بھی اس بے خوفی اورہمت کو نہیں بھول سکتا جس جرأت سے انوں نے اپنے عوام اور ثقافت کے تحفظ کی غرض سے زبردست لڑائی لڑی تھی۔ ان سے ہمیں ہماری ‘‘ناری شکتی ’’ کی ایک علامت کے طورپر ترغیب حاصل ہوتی ہے ۔ “ವೀರವನಿತೆ ಒನಕೆ ಓಬವ್ವ ಜಯಂತಿಯ ವಿಶೇಷ ಸಂದರ್ಭದಲ್ಲಿ ಅವರಿಗೆ ನಮನ ಸಲ್ಲಿಸುತ್ತೇನೆ. ತನ್ನ ಜನರು ಮತ್ತು ಸಂಸ್ಕೃತಿಯನ್ನು ರಕ್ಷಿಸಲು ಅವರು ತೋರಿದ ಧೈರ್ಯವನ್ನು ಎಂದಿಗೂ ಯಾರೊಬ್ಬರೂ ಮರೆಯಲು ಸಾಧ್ಯವಿಲ್ಲ. ಅವರು ನಮ್ಮ ನಾರಿ ಶಕ್ತಿಯ ಪ್ರತೀಕವಾಗಿ ನಮಗೆ ಸ್ಫೂರ್ತಿ ನೀಡುತ್ತಾರೆ.”,ওনাকে ওবাভাক তেওঁৰ জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%A7%D9%84-2022-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%B3-%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D8%AC%D9%84%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7%D8%AD%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%9B-%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%AE%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8/,عالی جناب، برکس تجارتی برادری کے رہنمایان، نمسکار! برکس کا قیام اس یقین کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا یہ گروپ عالمی ترقی کے انجن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ آج پوری دنیا کی توجہ کووڈ کے بعد کی بحالی پر مرکوز ہے۔ ایسے برکس ممالک کا کردار ایک بار پھر انتہائی اہم رہے گا۔ دوستو، عالمی وبا سے پیدا شدہ اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لئے ہم نے ہندوستان میں اصلاح، بہتر کار کردگی اور تبدیلی کا نسخہ اپنایا۔ اور اس لحاظ سے ہندوستانی معیشت کی کارکردگی نتائج سے ظاہر ہے۔ اس سال ہم 7.5 فیصد ترقی کی امید کر رہے ہیں، جو ہمیں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی ایک بڑی معیشت میں تبدیلی کرتی ہے۔ ابھرتے ہوئے نئے ہندوستان میں ہر شعبے میں انقلاب آفریں تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں۔ آج میں آپ کی توجہ 4 اہم پہلوؤں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اول یہ کہ یکنالوجی کی قیادت والی ترقی ہندوستان کے موجودہ اقتصادی بحالی کا ایک اہم ستون ہے۔ ہم ہر شعبے میں جدت طرازی کی تائید کر رہے ہیں۔ ہم نے خلاء، سمندری وسائل کے پائیدار استعمال، غیر مضر ہائیڈروجن، ماحول دوست توانائی ، ڈرونز، جیو –اسپیشیئل ڈاٹا وغیرہ جیسے کئی شعبوں میں اختراعی دوستانہ پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ آج ہندوستان اختراعی حوالےسے دنیاکے بہترین ماحولیاتی نظاموں میں سےایک ہے، جو ہندوستان میں نئی صنعتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہندوستان میں 70 ہزار سے زیادہ نئی صنعتوں میں 100 سے زیادہ اہم اور بڑی صنعتیں ہیں۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوئم یہ کہ عالمی وبا کے دوران بھی ہندوستان نے کاروبار کو آسان بنانے کی بہت سی کوششوں کو جاری رکھا تھا۔ کاروبار پر ضابطوں کی تعمیر کا بوجھ کم کرنے کے لئے ہزاروں قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں۔ حکومت کی پالیسیوں اور طریقۂ کار کومزید شفاف بنانے اور مستقل مزاجی لانے کے لئے بڑے پیمانے پرکام کا سلسلہ جاری ہے۔ سوئم یہ کہ ہندوستان میں بنیادی ساختیاتی ڈھانچے کو بھی بڑے پیمانے پر بہتر بنایا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ ا س کے لئے ہندوستان نے نیشنل ماسٹر پلان تیار کیا ہے۔ ہماری نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن کے تحت 1.5 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے امکانات موجود ہیں۔ چوتھا یہ کہ جس طرح کا ڈیجیٹل انقلاب آج ہندوستان میں برپا ہے، اس کا عالمی سطح پر کبھی نظارہ نہیں کیا گیا تھا۔ ہندوستانی ڈیجیٹل معیشت کی قدر 2025 تک ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ڈیجیٹل شعبے کی ترقی نے افرادی قوت میں خواتین کی حصہ داری کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہمارے آئی ٹی سیکٹر میں کام کرنے والے 4.4 ملین پیشہ وروں میں تقریباً 36 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی پر مبنی مالیاتی ہمہ جہتی کا سب سے زیادہ فائدہ بھی ملک کے دیہی علاقوں کی خواتین کو پہنچا ہے۔ برکس ویمن بزنس الائنس ہندوستان میں انقلاب برپا کرنے والی اس تبدیلی کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اس طرح ہم اختراعی کوششوں کی قیادت میں اقتصادی بحالی پر مفید بات چیت کر سکتے ہیں۔ میں یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ برکس تجارتی مجلس ہماری نئی صنعتوں کے درمیان باقاعدہ تبادلے کے لئے ایک پلیٹ فارم تیار کر سکتا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ برکس تجارتی مجلس میں ہونے والی آج کی یہ بات چیت نہایت سودمند رہے گی۔ میں آپ سب کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ شکریہ!,ব্ৰিকছ ব্যৱসায় মঞ্চ ২০২২ৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%AA%DB%8C%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%AF%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D8%B6%D8%A7%D9%81%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A4%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%9B-%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8B%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 12 ستمبر 2018، مرکزی کابینہ کی میٹنگ نے جس کی صدارت وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کی،تیل اور گیس کی اندرون ملک پیداوار کو بڑھانے کے لئے ہائیڈرو کاربن کے موجودہ ذخیروں کی وصولی میں بہتری کی غرض سے تیل اور گیس کے لئے اضافہ شدہ وصولی (ا ی آر)/ بہتر وصولی (آئی آر) / غیر روایتی ہائیڈرو کاربن (یو ایچ سی) کی پیداوار کے طریقوں اور تکنیکوں کے سلسلے میں پالیسی فریم ورک کی منظوری دی ہے۔ ای آر نے تیل کی اضافہ شدہ وصولی (ای او آر) اور گیس کی اضافہ شدہ وصولی (ای جی آر) غیر روایتی ہائیڈرو کاربن ( یو ایچ سی) کی پیداوار کے طریقوں میں شیل تیل اور گیس کی پیداوار، ٹائٹ تیل اور گیس کی پیداوار، تیل شیل سے پیداوارگیس ہائیڈریٹس اور بھاری تیل شامل ہیں۔ اس پالیسی ک�� اسٹریٹجک مقصد تعلیمی اور ریسرچ اداروں، صنعتی اور تعلیمی تال میل کے ذریعہ ایک امدادی ماحولیاتی نظام قائم کرنا ہے اور یہ بھی مقصد ہے کہ تلاش اور پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لئے کنٹریکٹوں سے کام لیا جائے کہ وہ ای آر/آئی آر/ی ایچ سی طریقے/ تکنیکیں استعمال کریں۔ اس پالیسی کا اطلاق تمام ٹھیکے والے علاقوں اور نامزد میدانوں میں ہوگا۔ امید ہے کہ اس پالیسی سے نئی سرمایہ کاری پیدا ہوگی۔ اقتصادی سرگرمیوں کو رفتار حاصل ہوگی اور روزگار مزید مواقع فراہم ہوں گے۔ اس پالیسی سے نئی اختراعی نوعیت کی اور اہم ٹکنالوجی استعمال ہوسکے گی اور موجودہ شعبوں کی پیداوار میں اضافے کے لئے ٹکنالوجیکل تعاون حاصل ہوسکے گا۔ پالیسی میں ہر فیلڈ کا اس کے ای آر امکان کے لئے باقاعدہ جائزہ لینا ، ای آر تکنیکوں کا مناسب استعمال اور ای آر پروجیکٹوں میں آنے والی لاگت کو کم کرنا شامل ہوگا۔ فیلڈز کا نامزد کردہ جائزہ لینا لازمی ہوگا، جنہیں حکومت موڈیفائی کرے گی اور ای آر پروجیکٹ پر تجارتی بنیاد پر کام شروع کرنے سے پہلے جائزہ لینا اس پالیسی کی اہم خصوصیات میں شامل ہے۔اضافہ شدہ وصولی (ای آر) کمیٹی، جو پٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت ، ہائیڈرو کاربنس کے ڈائرکٹوریٹ جنرل (ڈی جی ایچ) اور دیگر ماہرین پر مشتمل ہوگی، پالیسی کا جائزہ لے گی اور اس پر عمل درآمد کرے گی۔ یہ پالیسی اس کی نوٹی فکیشن کی تاریخ سے 10 سال کے لئے موثر ہوگی۔البتہ مالی ترغیبات ای آر / یو ایچ سی پروجیکٹوں کی پیداوار شروع ہونے کی تاریخ سے 120 مہینوں کے لئے فراہم رہیں گے۔,তেল আৰু গেছ উত্তোলনত উন্নত পদ্ধতি ব্যৱহাৰত উৎসাহিত কৰিবলৈ নীতিগত পৰিকাঠামোত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%82%D9%88%D8%AA-%D8%8C-%D9%85%D9%86%D9%82%D9%88%D9%84%DB%81-%D8%A7%D8%AB%D8%A7%D8%AB%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A7%88%E0%A6%9C%E0%A7%8D/,مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں درج ذیل امور کو اپنی منظوری دے دی ہے : 1۔ سی ڈی سی کے موجودہ 13 ملازمین کے لیے سی ایس آئی آر میں 13 فاضل اسامیوں کی فراہمی کے ذریعہ گنجائش نکالی جائے گی۔ 2۔ انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر واقع نئی دہلی میں سی ڈی سی جس قدر مقام پر احاطہ کیے ہوئے، وہ پورا حصہ انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر کو واپس سونپ دیا جائے گا اور یہ منتقلی ازسر نو تخصیص پر وصول کی گئی رقم کی بنیا دپر ہوگی اور از سر نو تخصیص کو بھارت کے کنسولی ڈیٹڈ فنڈ میں جمع کرا دیا جائے گا۔ 3۔ انضمام کے بعد، سی ڈی سی کے تمام تر منقولہ اثاثے اور واجبات سی ایس آئی آر کی تحویل میں منتقل ہو جائیں گے۔ اہم اثرات: دونوں سوسائیٹوں کے انضمام سے نہ صرف یہ کہ محکمہ میں تنظیم کی سرعت پیدا ہوگی بلکہ یہ قدم وزیر اعظم کے کم از کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ حکمرانی کے اصول کے عین مطابق بھی ہوگا۔ سی ایس آئی آر کو تعلیم کے شعبہ میں مشاورت، تکنالوجیوں کی برآمدات وغیرہ کے شعبے میں سی ڈی ایس کے تجربہ کار عملے سے فائدہ حاصل ہوگا۔ توقع کی جاتی ہےکہ اس انضمام سے سی ایس آئی آر کی ضروریات میں قدرو قیمت کے لحاظ سے درج ذیل اضافے بھی ہوں گے۔ پروجیکٹوں کا تکنیکی ۔ تجارتی احتساب اور جائزہ لیا جاسکے گا۔ اس شعبہ میں سی ایس آئی آر کی جانب سے استعمال شدہ تکنالوجیوں کے سماجی ۔ اقتصادی اثرات کا تجزیہ بھی ممکن ہو سکے گا۔ شراکت داروں کی ضروریات/یا منڈی مستعدی کے لحاظ سے ضروریات کی تکمیل کے لیے سی ایس آئی آر کی تکنالوجیوں کا ترجمہ اور سی ایس آئی آر کی تکنالوجیوں پر مبنی پروٹوٹائپ وضع کرنے کے لیے تفصیلی ڈیزائن اور انجینئرنگ کا خاکہ تیار کرنے کے لیے معقول مشیروں کا انتخاب۔ کاروباری ترقیاتی سرگرمیاں پس منظر: سی ایس آئی آر اور سی ڈی سی سائنس اور تکنالوجی کی وزارت کے تحت سائنٹفک اور صنعتی تحقیق کے محکمہ (ڈی ایس آئی آر) کی دو علیحدہ خودمختار باڈیز (اے بی ایس) ہیں۔ سی ایس آئی آر کا قیام 1942 میں بھارت کی اقتصادی نمو اور انسانی بہبود کی غرض سے سائنٹفک اور صنعتی تحقیق کے ایک قومی تحقیق و ترقیاتی ادارے کے طور پر سوسائیٹیوں کو درج رجسٹر کرنے سے متعلق 1860 کے ایکٹ XXI کے تحت عمل میں آیا تھا۔ سی ڈی ایس کا قیام ملک میں مشاورتی ہنرمندیوں اور صلاحیتوں کے فروغ کو وضع کرنے اور مستحکم بنانے کی غرض سے ڈی ایس آئی آر کی مدد سے بطور سوسائٹی 1986 میں عمل میں آیا تھا۔ سی ڈی سی کو 13 اکتوبر 2004 کو مرکزی کابینہ کی طرف سے ڈی ایس آئی آر کے ایک خودمختار ادارے کے طور پر منظوری دی گئی تھی۔ سی ڈی سی کے میمورنڈم اور آرٹیکلس آف ایسو سی ایشن کو 16 جنوری 2008 کو جاری کیا گیا تھا۔ سی ڈی سی انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر واقع نئی دہلی میں 1000 مربع اسکوائر میٹر رقبہ پر واقع ہے۔ تعمیر شدہ رقبہ 1990۔03۔08 کو ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کی جانب سے پٹے پر مختص کیا گیا تھا۔ مستقل ملازمین کی مجموعی تعداد 13 ہے ۔ 14ویں مالی کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر ، نیتی آیوگ نے مختلف النوع سرکاری محکموں کے تحت خودمختار اداروں کے سلسلے میں ایک جائزہ مکمل کیا تھا۔ ڈی ایس آئی آر کے تحت دو اے بی ایس یعنی سی ایس آئی آر اور سی ڈی سی کے سلسلے میں جو جائزہ لیا گیا تھا وہ ڈی ایس آئی آر کے ذریعہ لیا گیا تھا اور یہ جائزہ نیتی آیوگ کی نظرثانی کمیٹی کی 18ویں میٹنگ کے تحت 10ویں اور 13ویں مرحلے میں لیا گیا تھا۔ جائزہ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ سی ڈی ایس کا انضمام سی ایس آئی آر کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے واضح مضمرات موجود ہیں۔ کمیٹی نے اپنی اے بی رپورٹ میں مزید کہا تھا کہ اس کے نتیجہ میں ڈی ایس آئی آر سوسائیٹیوں کے رجسٹریشن ایکٹ 1860 (ایس آر اے) کے تحت ایک اے بی بن جائے گی ۔ ان سفارشات کی بنیاد پر انضمام کے طور طریقوں کی سفارش کرنے کے لیے مشاورتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ سوسائیٹیوں کے رجسٹر یشن ایکٹ 1860 کی دفعہ 12 کے تحت ضروری ضوابط کے مطابق عمل کیا گیا ۔ سی ڈی ایس کی گورننگ کونسل اور سی ایس آئی آر کی گورننگ باڈی دونوں نے سی ایس آئی آر کے ساتھ سی ڈی سی کے انضمام کو اپنی منظوری دے دی تھی۔,"কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটে বৈজ্ঞানিক আৰু ঔদ্যোগিক গৱেষণা বিভাগৰ (ডিএছআইআৰ) অধীনত বৈজ্ঞানিক আৰু ঔদ্যোগিক গৱেষণা পৰিষদৰ (চিএছআইআৰ) সৈতে পৰামৰ্শ বিকাশ কেন্দ্ৰৰ কৰ্মচাৰীসকলক একত্ৰিত কৰিবলৈ অনুমোদন জনাইছে, যাৰ ভিতৰত আছে স্থাৱৰ সম্পদ আৰু দায়বদ্ধত" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/72%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%81%D8%B5/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%B0-2/,میرے پیارے ہم وطنو! آزادی کے مبار ک تیوہار کی آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ۔ آج ملک خود اعتماد ی سے بھرا ہوا ہے۔ خوابوں کو عزم کی شکل دینے کے ساتھ ہی انتہائی درجے کی محنت کرکے ملک نئی بلندیوں سے گذر رہا ہے ۔ آج کا طلوع آفتاب ایک نئے شعور ، نئی امنگ ، نئے جوش ، نئے ولولے اورنئی توانائی کی نوید لے کر آیا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارے ملک میں 12 سال میں ایک بار نیل کورنجی کا پھول کھلتا ہے ۔ اس سال جنوب میں واقع نیل گری کی پہاڑیوں پر یہ ہمارا نیل کورنجی کا پھول گویا ترنگے پرچم کے اشوک چکر کی طرح ملک کی آزادی کے تہوار میں لہلہا رہا ہے ۔ میرے پیارے ہم وطنو ، آزادی کا یہ تہوار ہم تب منارہے ہیں، جب اتراکھنڈ، ہماچل پردیش ، منی پور ، تلنگانہ ، آندھراپردیش جیسی ریاستوں کی ہماری بیٹیوں نے سات سمندر پار کیا اور ساتوں سمندر کو ترنگے رنگ سے رنگ کر وہ ہمارے درمیان واپس لوٹ آئیں ۔ ایوریسٹ کو کئی بار فتح کیا گیا ، ہمارے متعدد بہادروں نے ، ہماری متعدد بیٹیوں نے ایوریسٹ پر جاکر ترنگا لہرایا ہے ، لیکن اس آزادی کے تیوہار کے موقع پر میں اس بات کو یاد کروں گا کہ ہمارے دور دراز کے جنگلوں میں جینے والے ننھے منے آدی واسی بچوں نے اس بار ایوریسٹ پر ترنگا جھنڈا لہراکر ، ترنگے جھنڈے کی شان میں مزید اضافہ کیا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو ، ابھی ابھی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اجلاس مکمل ہوئے ہیں اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایوان کی کارروائی بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ چلی اور ایک طرح سے پارلیمنٹ کا یہ اجلاس پوری طرح سے سماجی انصاف کے لئے وقف تھا۔ دلت ہوں ، مصیبت زدہ ہوں، استحصال زدہ ہوں ، محروم ہوں، خواتین ہوں ان سب کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہماری پارلیمنٹ نے حساسیت اور بیدار مغزی کے ساتھ سماجی انصاف کو مزید طاقتور بنایا۔ او بی سی سی کمیشن کو آئینی درجہ دینے کا مطالبہ کئی برسوں سے ہورہا تھا۔ اس بار پارلیمنٹ نے اس کمیشن کو آئینی درجہ دے کر کے ، اسے ایک آئینی شکل دے کر کے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کی کوشش کی ہے۔ ہم آج اس وقت آزاد ی کا تیوہار منارہے ہیں جب ہمارے ملک میں ایسی خبروں نے نیا شعور پیدا کیا ہے۔ ہر بھارتی شہری دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ رہتا ہو ، آج اس بات پر فخر کررہا ہے کہ ہندوستان نے دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کی حیثیت حاصل کرلی ہے، ایسے مثبت ماحول میں مثبت واقعات کے سلسلے کے درمیان آج ہم آزادی کا تیوہار منا رہےہی۔ملک کو آزادی دلانے کے لئے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی قیادت میں اپنے نصب العین کے لئے وفد لوگوں نےاپنی زندگی کھپادی، جوانی جیلوں میں گزار دی۔ کئی انقلابی عظیم شخصیات نےپھانسی کےتختے پر لٹک کر ملک کی آزادی کے لئے پھانسی کےپھندے کو چوم لیا۔ میں آج اپنے ہم وطنو کی طرف سے آزادی کےان بہادر مجاہدوں کو دل کی گہرائیوں سے سرنگوں ہوکر سلام کرتا ہوں۔ جس ترنگے پرچم کی آن بان شان ہمیں جینے ۔جوجھنے اور مرنے مٹنے کا حوصلہ دیتی ہے، اس ترنگے کی شان کے لئے ملک کی فوج کے جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے دیتے ہیں۔ ہمارے نیم فوجی دستے پوری زندگی کھپا دیتے ہیں۔ ہماری پولیس فورس کے جوان عام انسانی زندگی کی حفاظت کےلئے رات دن ملک کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ میں فوج کےسبھی جوانوں کو، نیم فوجی دستوں کے جوانوں کو، پولیس کے جوانوں کو، ان کی عظیم خدمات کےلئے، ان کی قربانی اور ایثار، ا ن کی شجاعت و جواں مردی کے لئے آج ترنگے جھنڈے کی شہادت میں لال قلعے کی فصیل سے سو سو ب��ر سلام کرتا ہوں اور بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ان دنوں ملک کے مختلف گوشوں سے اچھی خبریں آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیلاب کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ زبردست بارش اور سیلاب کی وجہ سے جن کنبوں کو اپنے عزیزوں سے محروم ہونا پڑا ہے، جنہیں مصیبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں، ان سب کےتئیں ملک پوری طاقت کے ساتھ ا ن کی مدد کےلئے کھڑا ہے اور جنہوں نے اپنوں کو کھویا ہے، میں ان کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔میرے عزیز ہم وطنو، اگلی بیساکھی پر ہمارے جلیاں والا باغ قتل عام کے 100 برس پورے ہورہے ہیں۔ ملک کے عام لوگوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے کس طرح اپنی جانوں کی بازی لگادی تھی اور ظلم کی کتنی سرحدیں پار کی تھیں۔ جلیاں والا باغ ہمارے ملک کے ان بہادروں کی قربانی اور ایثار کا ہمیں حوصلہ دیتا ہے۔ میں ان سبھی بہادروں کو دل کی گہرائیوں سے بصد احترام سر جھکاکر سلام کرتا ہوں۔ میرے عزیز ہم وطنو! ہمیں یہ آزادی ایسے ہی آسانی سےحاصل نہیں ہوئی ہے۔ آنجہانی باپو کی قیادت میں متعدد عظیم شخصیات نے، متعدد بہادروں نے انقلابیوں کی قیادت میں لاتعداد نوجوانوں نے، ستیہ گرہ کی دنیا میں رہنے والوں نے، اپنی جوانی جیلوں میں کاٹ دی، ملک کو آزادی دلائی لیکن آزادی کی اس جد وجہد میں خوابوں کو بھی سنجویا گیا ہے ۔ ہندوستان کے عظیم الشان تصور کو بھی اپنے دل میں نقش کیا ہے اور آزادی کے متعدد برسوں پہلے تامل ناڈو کے قومی شاعر سبرامنیم بھارتی نے اپنے خوابوں کو الفاظ میں پرویا تھا اور انہوں نے کہا تھا’’ایلاروم امرنلائی ایڈومنن مروئی انڈیا الیگیری کو الیکم انڈیا اولاگیری کُو الیکم‘‘(एलारूम अमरनिलीइ एडुमनन मुरूयई India अलिगिरी कु अलिकुम India ऊलागिरी कु अलिकुम ) اور انہوں نے لکھا تھا۔ ایلاروم امر نیلئی ایڈومنن مرایئی انڈیا اَلی گیری کو اَلی کم انڈیا کولی گیری کو اَلی کم یعنی کہ بھارت ، انہوں نے آزادی کے بعد کیا خواب دیکھا تھا؟ سبرامنیم بھارتی نے کہا تھا کہ بھارت پوری دنیا کو ہر طرح کی رکاوٹوں سے آزادی حاصل کرنے کا راستہ دکھائے گا۔ میرے پیارے ہم وطنو! ان عظیم شخصیات کے خوابوں کی تکمیل کے لئے ، ان مجاہدین آزادی کی امیدوں کو پورا کرنے کے لئے ، ملک کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو مکمل کرنے کے لئے آزادی کے بعد بابا صاحب امبیڈکر جی کی قیادت میں بھارت نے ایک جامع آئین کی تشکیل کی۔ یہ ہمارا جامع آئین ایک نئے بھارت کی تعمیر کا عہد لے کر آیا ہے۔ ہمارے لئے کچھ ذمہ داریاں لے کر آیا ہے، ہمارے خوابوں کی تکمیل کے لئے سماج کے ہر طبقہ کو ،بھارت کے سبھی لوگوں کو یکساں طور پر آگے لے جانے کے لئے مواقع ملیں، اس کے لئے ہمارا آئین ہماری رہنمائی کرتا رہا ہے۔ میرے پیارے بھائیوں بہنو! ہمارا آئین کہتا ہے کہ بھارت کے ترنگے جھنڈے سے ہمیں ترغیب ملتی ہے۔ غریبوں کو انصاف ملے، سبھی کو ، عوام الناس کو آگے بڑھنے کا موقع ملے، ہمارے نچلے متوسط طبقہ، متوسط طبقہ، اعلیٰ متوسط طبقے کے لوگوں کو آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، ان کی ترقی میں کوئی سرکاری رکاوٹ نہ آئے، سماجی نظام ان کے خوابوں کو دبوچ نہ لے، ان کو زیادہ سے زیادہ موقع ملے، وہ جتنا آگے بڑھنا چاہئں اس کے لئے ہم ایک ماحول بنائیں۔ ہمارے بزرگ ہوں، ہمارے دویانگ ہوں، ہماری خواتین ہوں، ہمارے دلت، متاثرین، ہمارے جنگلوں میں زندگی گزارنے والے قبائلی بھائی بہن ہوں، ہر کسی کو ان کی امیدوں اور توقعات کے مطابق آگے بڑھنے کا موق�� ملے۔ ایک خود کفیل بھارت ہو، ایک باصلاحیت بھارت ہو، ترقی کی مسلسل رفتار کو بنائے رکھنے والا، مسلسل نئی اونچائیوں کو عبور کرنے والا بھارت ہو، دنیا میں بھارت کی شبیہ ہو، اور اتنا ہی نہیں ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہندوستان کا بول بالا بھی ہو، ایسا ہندوستان بنانے کے لئے ہم چاہتے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو! میں نے پہلے بھی ٹیم انڈیا کا تصور آپ کے سامنے رکھا ہے۔ جب سوا سو کروڑ ہم وطنوں کی شراکت داری ہوتی ہے، ہر کوئی ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ہمارے ساتھ جڑتا ہے۔ سوا سو کروڑ خواب ، سواسو کروڑ عزم ، سواسو کروڑ لیاقت، جب طے شدہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے صحیح سمت میں چل پڑتے ہیں، تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ میرے پیارے بھائیوں بہنو! میں آج بڑے احترام کے ساتھ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ 2014 میں اس ملک کے سواسو کروڑ باشندے صرف حکومت بناکر رکے نہیں تھے۔ 2014 میں ملک کے باشندے صرف حکومت بناکر کے رکے نہیں تھے بلکہ وہ ملک بنانے کے لئے بھی مصروف عمل ہیں، مصروف عمل بھی تھے اور مصروف عمل رہیں گے بھی۔ میں سمجھتاہوں کہ یہی تو ہمارے ملک کی طاقت ہے۔ سواسو کروڑ ملک کے باشندے اور ہندوستان کے 6 لاکھ سے زائد گاؤں آج ملک کی طاقت ہیں۔ آج جناب اروند کا یوم پیدائش ہے۔ جناب اروند نے بہت صحیح بات کہی تھی۔ جناب اروند نے کہا تھا قوم کیا ہے، ہماری مادر وطن کیا ہے، یہ کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں ہے، نہ ہی یہ صرف خطاب ہے، نہ ہی یہ کوئی کورا تصور ہے۔ قوم ایک وسیع قوت ہے جو بے شمارچھوٹی چھوٹی اکائیوں کی متحدتوانائی کو مجسم شکل دیتی ہے ۔ جناب اروند کا یہ تصور ہی آج ملک کے ہرشہری کو ، ملک کو ، آگے لے جانے میں ،جوڑرہاہے ۔لیکن ہم آگے جارہے ہیں تووہ پتہ تب تک نہیں چلتاہے جب تک ہم کہاں سے چلے تھے ، اس پراگرنظرنہ ڈالیں ، کہاں سے ہم نے سفرکا آغاز کیاتھا ، اگراس کی جانب نہیں دیکھیں گے توکہاں گئے ہیں ، کتنا گئے ہیں ، اس کا شاید اندازہ نہیں آئیگا ۔ اوراس لئے 2013میں ہماراملک جس رفتارسے چل رہاتھا ، زندگی کے ہرشعبے میں 2013کی رفتارتھی ۔ اس 2013کی رفتارکو اگرہم بنیاد تسلیم کرکے سوچیں اورگذشتہ چارسال میں جوکام ہوئے ہیں ، ان کاموں کا اگرہم محاسبہ کریں توآپ کو حیرت ہوگی کہ ملک کی رفتارکیاہے ، گتی کیاہے ، ترقی کیسے پروان چڑھ رہی ہے ۔ بیت الخلاؤں کو ہی لے لیں ، اگربیت الخلأ بنانے میں 2013کی جو رفتارتھی ، اسی رفتارسے چلتے توشاید کتنے دہے گذرجاتے ۔ بیت الخلأ صد فی صد پوراکرنے میں ۔ اگرہم گاؤں میں بجلی پہنچانے کی بات کو کہیں ، اگر2013کی بنیاد پرسوچیں توگاؤں میں بجلی پہنچانے کے لئے شاید ایک دودہائیاں اورلگ جاتیں ۔ اگرہم 2013کی رفتارسے دیکھیں تو ایل پی جی گیس کنکشن غریب کو ، غریب ماں کو دھوئیں سے مبرابنانے والاچولھا ، اگر2013کی رفتارسے چلے ہوتے تواس کام کو پوراکرنے میں شاید 100سال بھی کم پڑجاتے ، اگر2013کی رفتارسے چلے ہوتے تو ، اگرہم 13کی رفتارسے آپٹیکل فائیبرنیٹ ورک کرتے رہتے ، آپٹیکل فائیبرلگانے کا کام کرتے تو شاید پیڑھیاں نکل جاتیں ، اس رفتارسے آپٹیکل فائیبرہندوستان کے گاوؤں میں پہنچانے کے لئے۔ یہ رفتار، یہ چال ، یہ ترقی یہ ہدف اس کے حصول کے لئے ہم آگے بڑھیں گے ۔ بھائیو۔بہنو، ملک کی توقعات بہت ہیں ، ملک کی ضروریات بہت ہیں ، اور ان کی تکمیل کرنا ، حکومت ہو، سماج ہو، مرکزی حکومت ہو ، ریاستی حکومت ہو، سب کومل جل کرکوشش کرنا، یہ لگاتارضروری ہوتاہے اوراسی کا نتیجہ ہے ، آج ملک میں کیسا بدلاؤ آیاہے ۔ ملک ��ہی ہے ، زمین وہی ہے ، ہوائیں وہی ہیں ، آسمان وہی ہے ، سمند روہی ہے ، سرکاری دفتروہی ہیں ، فائلیں وہی ہیں ، فیصلہ لینے کے عمل کے ذمہ داران بھی وہی ہیں لیکن چار سال میں ملک تبدیلی محسوس کررہا ہے ۔ ملک ایک نئی بیداری ، نئی امنگ ، نئے عزم ، نئی کامیابی ، نئی کوشش اس کوآگے بڑھا رہا ہے اور تبھی تو آج ملک دوگنی شاہراہیں بنارہا ہے تو ملک چار گنا گاوؤں میں نئے گھر بنارہا ہے۔ اناج کی پیداوار کررہا ہے۔ ملک آج ریکارڈ ایک اور موبائل فون کی مینو فیکچرنگ بھی کررہا ہے ۔ ملک میں آج ریکارڈ ٹریکٹر فروخت ہورہے ہیں۔ گاؤں کا کسان ٹریکٹر ، ریکارڈ ٹریکٹر کی خریداری ہورہی ہے تو دوسری جانب ملک میں آج آزاد ی کے بعد سب سے زیادہ ہوائی جہاز خریدنے کا بھی کام ہورہا ہے۔ ملک آج اسکولوں میں ٹوائلیٹ بنانے پر بھی کام کررہا ہے تو ملک آج نئے آئی آئی ایم ، نئے آئی آئی ٹی ، نئے آئی آئی ایم ایس قائم کررہا ہے۔ ملک آج چھوٹے چھوٹے مقامات پر نئے ہنر مندی کے فروغ کےمشن کو آگے بڑھاکر کے نئے نئے مرکز کھول رہا ہے تو ہمارے ٹائر-2 ، ٹائر -3 شہروں میں اسٹارٹ اپ کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے، بہار آئی ہوئی ہے ۔ بھائیو بہنو! آج گاؤں گاؤں تک ڈیجیٹل انڈیا کولے کر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ایک حساس حکومت ایک طرف تو ڈیجیٹل ہندستان بنانے کے لئے کام کررہی ہے دوسری طرف میرے جو دیویانگ بھائی بہنیں ہیں، ان کے لئے ‘عام اشارے ’ ان کی لغات تیار کرنے کا کام بھی اتنی ہی لگن کے ساتھ آج ہمارا ملک کررہا ہے۔ ہمارے ملک کا کسان ان دنوں جدیدیت سائنسی رجحان کی طرف جانے کے لئے مائیکرو آبپاشی ، ڈرپ آبپاشی، اسپرنکل اس پر کام کررہا ہے۔ تو دوسری طرف 99 پرانے رکے ہوئے آبپاشی کے بڑے بڑے پروجیکٹ بھی چلا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی فوج جہاں کہیں قدرتی آفات ہو پہنچ جاتی ہے۔ مصیبت میں پھنسے ہوئے انسان کی حفاظت کے لئے ہماری فوج رحم ، محبت، ہمدردی کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔ لیکن وہی فوج جب عزم لے کر چل پڑتی ہے تو سرجیکل اسٹرائیک کرکے دشمنوں کے دانت کھٹے کرکے آجاتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی ترقی کا کینوس کتنا بڑا ہے ۔ ایک کنارہ دیکھئے ، دوسرا کنارہ دیکھئے ، ملک پورے بڑے کینوس پر آج نئی امنگ اور نئے جوش کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ میں گجرات سے آیا ہوں۔ گجرات میں ایک کہاوت ہے ، ‘نشان چوک معاف لیکن نہیں معاف نیچو نشان’ ہدف بڑے ہونے چاہئیں ، خواب بڑے ہونے چاہئیں، اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے، جواب دینا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اہداف بڑے نہیں ہوں گے ، اہداف دور کے نہیں ہوں گے،پھر فیصلے بھی نہیں ہوتے ہیں، ترقی کا سفر بھی اٹک جاتا ہے اور اس لئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بڑے اہداف لے کر کے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی سمت میں کوشش کریں اور جب اہداف ڈھل مل ہوتے ہیںِ ، حوصلے بلند نہیں ہوتے ہیں، تو سماج ، زندگی کے ضروری فیصلے بھی برسوں تک اٹکے پڑے رہتے ہیں ۔ ایم ایس پی دیکھ لیجئے اس ملک کے ماہرین اقتصادیات مطالبہ کررہے تھے ، کسان تنظیمیں مطالبہ کررہی تھیں، کسان مطالبہ کررہا تھا ، سیاسی پارٹیاں مطالبہ کررہی تھیں کہ کسانوں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی ملنا چاہئے۔ برسوں سے بات چل رہی تھی ، فائلیں چلتی تھیں ، اٹکتی تھیں ، لٹکتی تھیں، پھٹکتی تھیں، لیکن ہم نے فیصلہ لیا ۔ ہمت کے ساتھ فیصلہ لیا کہ میرے ملک کے کسانوں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی دیا جائے گا۔ جی ایس ٹی ، کون متفق نہیں تھا، سب چاہتے تھے جی ایس ٹی، لیکن فیصلے نہیں ہوپاتے تھے، فیص��ے لینے میں میرا اپنا فائدہ ، نقصان ، سیاست، الیکشن ، انہیں چیزوں کا دباؤ رہتا تھا ۔ آج میرے ملک کے چھوٹے چھوٹے تاجروں کی مدد سے ا ن کے کھلے پن کی وجہ سے نئے پن کو تسلیم کرنے کے ان کے مزاج کی وجہ سے آج ملک نے جی ایس ٹی نافذ کردیا۔ تاجروں میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا۔ میں ملک کی تاجر برادری ، چھوٹی چھوٹی صنعت کرنے والی برادری نے جی ایس ٹی کے ساتھ شروع میں دشواریاں آنے کے باوجود بھی اس کو گلے سے لگایا، تسلیم کیا ۔ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ہمارے ملک کے بینکنگ کے شعبے کو طاقتو ر بنانے کے لئے قرض کی ادائیگی میں معذوری کا قانون ہو، دیوالیہ پن کا قانون ہو ، کس نے روکا تھا پہلے؟ اس کے لئے طاقت لگتی ہے، دم لگتا ہے،اعتماد لگتا ہے اور عوام کے تئیں مکمل عہد بستگی ہوتی ہے، تب فیصلہ ہوتا ہے۔ بے نامی جائداد کا قانون کیوں نہیں لگتا تھا، جب حوصلے بلند ہوتے ہیں ، تو ملک کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، تو بے نامی جائداد کے قانون بھی نافذ ہوتے ہیں۔ میرے ملک کی فوج کے جوان تین تین، چار چار دہائیوں سے ایک عہدہ ایک پنشن کے لئے مانگ کررہے تھے۔ وہ ڈسپلن میں رہنے کی وجہ سے مظاہرے نہیں کرتے تھے، لیکن آواز سنارہے تھے، کوئی نہیں سنتا تھا۔ کسی کو تو فیصلہ کرنا تھا، آپ نے ہمیں اس فیصلے کی ذمہ داری دی، ہم نے اسے پورا کردیا۔ میرے پیارے بھائیو بہنو! ہم سخت فیصلے لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ، کیونکہ ملک کا مفاد ہمارے لئے سب سے اوپر ہے۔ پارٹی مفاد کے لئے کام کرنے والے لوگ ہم نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہم عہد کرکے چل پڑے ہیں۔ میرے پیارے بھائیو بہنو! ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ آج عالمی معیشت کے اس دور میں پوری دنیا بھارت کی ہر بات کو دیکھ رہی ہے، امید اور توقع کے ساتھ دیکھ رہی ہے، اور اس لئے بھارت کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ، بڑے چیزوں پر بھی دنیا بڑی گہرائی کے ساتھ نظر رکھتی ہے۔ آپ یاد کریئے کہ 2014 سے پہلے دنیا کی معروف ادارے ، دنیا کے معزز ماہرین معاشیات ، دنیا میں جن کی بات کو سند سمجھا جاتا ہے، ایسے لوگ کبھی ہمارے ملک کے لئے کیا کہا کرتے تھے، وہ بھی ایک زمانہ تھا جب دنیا سے آواز اٹھتی تھی، دانشوروں کی طرف سے آواز اٹھتی تھی کہ ہندوستان کی معیشت خطرات سے پُر ہے۔ ان کو رِسک دکھائی دیتا تھا، لیکن آج وہی لوگ ، وہی ادارے ، وہی لوگ بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اصلاحات کی رفتار (ریفارم مومنٹم) ، بنیادی (فنڈامنٹل) کو مضبوطی دے رہی ہیں، کیسی تبدیلی آئی ہے؟ ایک وقت تھا ، گھر میں یا گھر کے باہر دنیا ایک ہی کہتی ہے لال فیتہ شاہی (ریڈ ٹیپ) کی بات کرتی تھی، لیکن آج سرخ قالین (ریڈ کارپیٹ) کی بات ہورہی ہے۔ کاروبار میں آسانی کے زمرے میں ہم سو تک پہنچ گئے۔ آج پوری دنیا اسے فخر سے دیکھتا ہے۔ وہ بھی دن تھا جب دنیا کا ماننا تھا کہ بھارت یعنی پالیسی انجماد ، بھارت یعنی اصلاحات میں تاخیر، وہ بات ہم سنتے تھے، آج بھی اخبار نکال کر دیکھو گے تو دکھائی دے گا، لیکن آج دنیا میں ایک بات آرہی ہے کہ اصلاحات ، کارکردگی، تبدیلی (ریفارم، پرفارم، ٹرانسفارم) ، ایک کے بعد ایک پالیسی سے متعلق معینہ مدت میں فیصلوں کا سلسلہ۔ وہ بھی ایک وقت جب دنیا بھارت کو پانچ کمزوروں میں گنتی تھی۔ دنیا کو تشویش تھی کہ دنیا کو ڈبونے میں بھارت بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ کمزور پانچ (فریجائل-5) میں ہماری گنتی ہورہی تھی لیکن آج دنیا کہہ رہی ہے کہ بھارت ملٹی ٹریلین ڈالر کے انوسٹمنٹ (سرمایہ کاری) کا ڈسٹی نیشن (مقام) بن گیا ہے، وہیں سے آواز بدل گئی ہے۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو! دنیا بھارت کے ساتھ جڑنے پر بات کرتے وقت ، ہمارے بنیادی ڈھانچے پر تبادلہ خیال کرتے وقت، کبھی بجلی جانے سے بلیک آؤٹ ہوگیا، ان دونوں کو یاد کرتی تھی ، کبھی رکاوٹوں (بائل نیک) کی بات کرتی تھی، لیکن وہی دنیا ، وہی لوگ ، وہی دنیا کی رہنمائی کرنے والے لوگ، ان دنوں کہہ رہے ہیں کہ سویا ہوا ہاتھی، بھارت کے لئے کہہ رہے ہیں، سویا ہوا ہاتھی اب جاگ چکا ہے، چل پڑا ہے، سوئے ہوئے ہاتھی نے اپنی دوڑ شروع کردی ہے اور دنیا کے ماہرین معاشیات کہہ رہے ہیں، بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں ، آنے والی تین دہائیوں تک، 30 سال تک دنیا کی معیشت کی قوت کو بھارت رفتار دینے والا ہے۔ بھارت دنیا کی ترقی کا ایک نیا وسیلہ بننے والا ہے۔ ایسا اعتماد آج بھارت کے لئے پیدا ہوا ہے۔ آج بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارت کی ساکھ بڑھی ہے۔پالیسی سازی کرنے والی جن چھوٹی موٹی تنظیموں میں آج ہندوستان کو جگہ ملی ہے، وہاں ہندوستان کی بات سنی جارہی ہے۔ ہندوستان اسے سمت دینےاور قیادت کرنے میں اپنا اہم رول ادا کررہا ہے۔دنیا کے پلیٹ فارموں پر ہم نے اپنی آواز بلند کی ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو! کئی برسوں سے جن اداروں میں ہمیں رکنیت کا انتظار تھا ، آج ملک کو دنیا کے بے شمار اداروں میں جگہ ملی ہے۔ آج بھارت ماحولیات کے تئیں فکر مند، گلوبل وارمنگ کے تئیں پریشانی کا اظہار کرنے والے لوگوں کے لئے بھارت امید کی ایک کرن بنا ہے۔ آج بھارت انٹرنیشنل سولر الائنس کی پوری دنیا میں قیادت کررہا ہے۔آج کوئی بھی ہندوستانی دنیا میں کہیں پر بھی قدم رکھتا ہے تو دنیا کا ہر ملک اس کا خیر مقدم کرنے کے لئے مشتاق رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی ہے ہندوستان کو دیکھ کر ۔ ہندوستان کے پاسپورٹ کی طاقت بڑھ گئی ہے اور ہر ہندوستانی میں خود اعتمادی سے ، ایک نئی توانائی، نئی امنگ کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوا ہے۔ میرے ہم وطنو!دنیا میں کہیں پر بھی اگر میرا ہندوستانی بحران میں ہے تو آج اسے بھروسہ ہے کہ میرا ملک میرے پیچھے کھڑا ہوگا، میرا ملک بحران کے وقت میں میرے ساتھ آجائے گا اور تاریخ گواہ ہے گزشتہ دنوں کے متعدد واقعات کا۔ جس کی وجوہات ہم دیکھ رہے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو! دنیا میں بھی ہندوستان کی طرف دیکھنے کا نظریہ جیسے بدلا ہے ویسے ہی ہندوستان میں جب کبھی شمال مشرق کی بات ہوتی تھی تو کیا خبریں آتی تھیں، وہ خبریں جن سے ایسا لگتا تھا کہ بہتر ہو اگر ایسی خبریں نہ آئیں۔ لیکن آج میرے بھائیو اور بہنو شمال مشرق ایک طرح سے ان خبروں کو لے کر آرہا ہے جو ملک کو بھی ترغیب دے رہی ہیں۔ آج کھیل کے میدان میں دیکھئے ہمارے شمال مشرق کی دمک نظر آرہی ہے۔ میرے پیارے بھائیو بہنو!آج شمال مشرق کی خبرآرہی ہے کہ آخری گاؤں میں بجلی پہنچ گئی ہے اور رات بھر گاؤں ناچتا رہا۔آج شمال مشرق سے یہ خبریں آرہی ہیں۔ آج شمال مشرق میں شاہراہیں، ریلویز، ایئرویز، واٹرویز اور انفارمیشن ویز(I-وے) اس کی خبریں آرہی ہیں۔ آج بجلی کی ٹرانسمیشن لائن لگانے کا بہت تیزی سے کام شمال مشرق میں چل رہا ہے۔ آج ہمارے شمال مشرق کے نوجوان وہاں بی پی او کھول رہے ہیں۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے نئے بن رہے ہیں۔ آج ہمارا شمال مشرق نامیاتی زراعت کا مرکز بن رہا ہے۔ آج ہمارا شمال مشرق ، اسپورٹس یونیورسٹی کی میزبانی کررہا ہے۔ بھائیو بہنو! ایک وقت تھا جب شمال مشرق کو لگتا تھا کہ دلّی بہت دور ہے۔ ہم نے چار سال کے اندر اندر دلّی کو شمال مشرق کے دروازے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بھائیو بہنو!آج ہمارے ملک میں 65 فیصد آبادی 35 سال کی عمر کی ہے۔ہم ملک کے جوانوں پر فخر کررہے ہیں۔ ملک کی نوجوان نسل پر فخر کررہے ہیں۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے آج اقتصادیات کے سارے پیمانوں کو تبدیل کردیا ہے۔ ترقی کے سارے پیمانوں میں ایک نیا رنگ بھر دیاہے۔ کبھی بڑے شہروں کی بات ہواکرتی تھی۔ آج ہمارا ملک ٹائر- 2، ٹائر-3 سٹی کی باتیں کررہا ہے، کبھی گاؤں کے اندر جاکر جدید زراعت میں لگے ہوئے نوجوانوں کی بات کررہا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے روزگار کی نوعیت کو پوری طرح بدل دیا ہے۔ اسٹارٹ اَپ ہو، بی پی او ہو، ای-کامرس ہو، موبلٹی کا شعبہ ہو، ایسے نئے شعبوں کو آج میرے ملک کا نوجوان اپنے سینے سے لگاکر نئی بلندیوں پر لے جانے میں مصروف ہے۔ میرے پیارے بھائیو بہنو، 13 کروڑ کو مُدرا لون، بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ 13 کروڑ اور اس میں بھی چار کروڑ وہ لوگ ہیں، وہ نوجوان ہیں، جنہوں نے زندگی میں پہلی بار کہیں سے لون لیا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کےاپنے روزگار کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بدلے ہوئے ماحول کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ آج میرے ہندوستان کے گاوؤں میں ڈیجیٹل انڈیا کے خواب کو آگے لے جانے کے لئے، ہندوستان کے آدھے سے زیادہ تین لاکھ گاوؤں میں کامن سروس سینٹر میرے ملک کے نوجوان بیٹے بیٹیاں چلا رہے ہیں اور ہر گاؤں کو،ہر شہری کو پلک جھپکتےہی دنیا کے ساتھ جوڑنے کے انفارمیشن ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ میرے بھائیو بہنو آج میرے ملک میں انفراسٹرکچر نے نئے روپ لے لئے ہیں۔ ریل کی رفتار ہو، روڈ کی رفتارہو، آئی وے ہو، ہائی وے ہو،نئے ہوائی اڈے ہوں، ایک طرح سے ہمارا ملک بہت تیز رفتاری کے آگے بڑھ رہا ہے۔ میرے بھائیو بہنو ہمارے ملک کے سائنس دانوں نے بھی ملک کا نام روشن کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، خواہ دنیا کے حوالے سے ہو یا ہندوستان کی ضرورت کے حوالے سے، کون سا ہندوستانی یہ دیکھ کر فخر نہیں کے کرے گا کہ ہمارے ملک کے سائنس دانوں نے ایک ساتھ 100 سے زائد سیٹلائٹ خلا میں بھیج کر پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔یہ اہلیت ہمارے سائنس دانوں کی ہے۔ ہمارے سائنس دانوں کی جواں مردی تھی کہ منگل یان کی کامیابی اور وہ بھی پہلی ہی کوشش میں کامیابی۔مریخ کے مدار میں ہمارا داخلہ، وہاں تک پہنچنا یہ اپنے آپ میں ہمارے سائنسدانوں کی کامیابی تھی۔ آئندہ کچھ ہی دنوں میں ہمارے ان سائنسدانوں کی بنیاد، تصور اور سوچ کے نتیجے میں ناوک کو آنے والے کچھ ہی دنوں میں ہم ’’لانچ‘‘ کرنے جارہےہیں۔ ملک کے ماہی گیروں کو، عام شہریوں کو ناوک کے ذریعہ سمتوں کی رہنمائی کا بہت بڑا کام ہم پورا کرنے جارہے ہیں۔ میرے پیارے ہم وطنو، آج اس لال قلعے کی فصیل سے میں اپنے ہم وطنو کو ایک خوشخبری سنانا چاہتا ہوں، ہمارا ملک خلا کی دنیا میں مسلسل ترقی کرتا آرہا ہے۔ لیکن ہم نے ایک خواب دیکھا ہے، ہمارے سائنسدانوں نے خواب دیکھا ہے۔ ہمارے ملک نے عہد کیا ہے کہ 2022 میں جب آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر اس یا اس سے پہلے آزادی کے 75 سال منائیں گے تب اس وقت مادر وطن کا کوئی بھی بیٹا یا بیٹی ہاتھ میں ترنگا پرچم لیکر خلا کا سفر کرسکیں گے۔ آزادی کے 75 سال سے پورے ہونے سے پہلے ہمیں اس خواب کو پور اکرنا ہے۔منگل یان کی کامیابی سے لیکر اب تک ہندوستان کے سائنس دانوں نے اپنی طاقت کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں اب ہم سیٹلائٹ پر انسان کو لیکر خلا میں سفر کرسکیں گے اور یہ سیٹلائٹ جب خلا میں جائے گا ہندوستانی شہری کو لیکر خلا میں جائے گا، اس وقت ہندوستانی سائنس دانوں کے ذریعہ دیکھا ہوا ہندوستانی کی جواں مردی کا خواب پورا ہوگا، اس وقت ہم دنیا کے چوتھے ایسا ملک بن جائیں گے جس نے انسان کو لیکر خلا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔ بھائیو بہنو میں ملک کے سائنس دانوں کو ملک کے ٹیکنیشینس کو میں اس عظیم کامیابی کے لئے دل کی گہرائیوں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔بھائیو بہنو ، ہمارا ملک آج اناج کے ذخائر سے پُر ہے۔ اناج کی اس قدر پیداوار کےلئے میں ملک کے کسانوں کو، کھیت مزدوروں کو، زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے ہمارے کسانوں کو ملک میں زرعی انقلاب کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کےلئے دل سے بہت بہت مبارکبا دیتا ہوں۔ لیکن بھائیو- بہنو! اب وقت بدل چکا ہے۔ ہمارے کسان کو بھی، ہمارے زرعی بازار کو بھی عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ عالمی بازار کا سامنا کرنا ہوتاہے۔آبادی بڑھتی جاتی ہو، زمین کم ہوتی جارہی ہو، تب ہماری زراعت کو جدیدبنانا، سائنسی بنانا، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر آگے لے جانا یہ وقت کی مانگ ہے۔ اس لئے آج ہم زراعت کے شعبوں میں جدت پیدا کرنے کے لئے ، تبدیلی لانے کے لئے پوری توجہ دے رہے ہیں۔ ہم نے سپنا دیکھا ہے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا۔ آزادی کے 75 سال ہوں، کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کرنے کا سپنا دیکھاہے۔ کئی لوگوں کو اس پر شک وشبہات ہوتے ہیں، یہ بات بے حد فطری ہے۔ جن کو شبہات ہوتے ہیں، یہ فطری ہے، لیکن ہم ہدف کو لے کر چل رہے ہیں اور ہم مکھن پر لکیر بنانے کی عادت والے نہیں ہیں، ہم پتھر پر لکیر بنانے کے مزاج والے لوگ ہیں۔مکھن پر لکیر تو کوئی بھی بنا لیتا ہے، پتھر پر لکیر بنانے کے لئے پسینہ بہانا پڑتا ہے، پالیسی بنانی پڑتی ہے، جی جان سے جٹنا پڑتا ہے۔ اس لئے آزادی کے 75 سال مکمل ہوں گے تب تک ملک کے کسانوں کو ساتھ لے کر زراعت میں جدت لاکر زراعت کے فلک کو چوڑا کرکے ہم آج چلنا چاہتے ہیں۔ بیج سے لے کر بازار تک ہم ویلیو ایڈیشن کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جدت طرازی کرنا چاہتے ہیں اور کئی نئی فصلیں بھی ا ب ریکارڈ پیداوار کرنے سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ اپنے آپ میں پہلی بار ہم ملک میں زرعی برآمداتی پالیسی کے سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، تاکہ ہم اور ہمارے ملک کا کسان بھی عالمی بازار کے اندر مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہے۔ آج نیا زرعی انقلاب ، نامیاتی کاشتکاری، بلو ریوولیشن، سوئیٹ ریوولیشن،سولر فارمنگ، یہ نئے دائرے کھل چکے ہیں۔ اس کو لے کر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں مچھلی کی پیداوار کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور دیکھتےہی دیکھتے اول مقام پر بھی پہنچنے والا ہے۔ آج شہد کا ایکسپورٹ دگنا ہوگیا ہے۔آج گنا کسانوں کے لئے خوشی کی بات ہوگی کہ ہمارے ایتھنول کی پیداوار تین گنا ہوگئی ہے۔یعنی ایک طرح سے دیہی معیشت میں جتنی اہمیت زراعت کا ہے، اتنی ہی اور کاروباروں کا بھی ہے، اس لئے ہم خواتین خود امدادی گروپ کے ذریعے اربوں کھربوں روپیوں کے ذریعے گاؤں کے جو وسائل ہیں، گاؤں کی جو طاقت ہے اس کو بھی ہم آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور اس سمت میں ہم پوری کوشش کررہے ہیں۔ کھادی- باپو کا نام اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آزادی سے لے کر اب تک جتنی کھادی فروخت کرنے کی روایت تھی، میں آج نہایت ہی سادگی سے کہنا چاہتاہوں، کھادی کی فروخت پہلے سے دوگنی ہوگئ ہے۔ غر��ب لوگوں کے ہاتھ میں روزی روٹی پہنچی ہے۔ میرے بھائیو- بہنو!سولر فارمنگ، میرے ملک کا کسان اب سولر فارمنگ کی جانب بھی زور دینے لگا ہے۔ کاشت کاری کے علاوہ وہ سولر فارمنگ سے بھی بجلی فروخت کرکے بھی کمائی کرسکتا ہے۔ ہمارا ہتھ کرگھا چلانے والا شخص ہمارے ہینڈلوم کی دنیا کے لوگ یہ بھی روزی روٹی کمانے لگے ہیں۔ میرے پیارے بھائیو- بہنو! ہمارے ملک میں اقتصادی ترقی ہو، معاشی بڑھوتری ہو، لیکن ان سب کے باوجود بھی انسان کا وقار ، یہ سب سے اعلیٰ درجے پر ہوتاہے۔ انسان کے وقار کے بغیر ملک متوازن طریقے سے نہ جی سکتا ہے، نہ چل سکتا ہے اور نہ ہی بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے انسان کا وقار ، انسان کی عزت، ہمیں ان یوجناؤں کو لے کر آگے بڑھنا چاہئے تاکہ وہ عزت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں، فخر سے زندگی جی سکیں۔ پالیساں ایسی ہوں ، نیت ایسی ہو کہ اس کے سبب عام آدمی، غریب سے غریب آدمی بھی اپنے آپ کو برابری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع دیکھتاہو۔ اور اس لئے اُجولا یوجنا ہو، ہم نے غریب کے گھر میں گی پہنچانے کا کام کیا ہے۔ سوبھاگیہ یوجنا ہو، غریب کے گھر میں بجلی پہنچانے کا کام کیا ہے۔ شرمیؤ جیتے یعنی محنت کی جیت پر زور دیتے ہوئے ہم آگے بڑھنے کی سمت میں کام کررہے ہیں۔ کل ہی ہم نے عزت مآب صدر جمہوریہ کا خطاب سنا۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے گرام سوراج ابھیان کا ذکر کیا۔ جب بھی حکومت کی باتیں آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ پالیسیاں تو بنتی ہیں لیکن وہ پالیسیاں دور دراز رہ علاقوں میں رہ رہے لوگوں تک نہیں پہنچیں ۔ کل صدر جمہوریہ نے بڑے اچھے طریقے سے ذکر کیا کہ کس طرح سے توقعاتی اضلاع کے 65 ہزار گاؤں میں دلی سے چلے ہوئے منصوبے کو غریب کے گھرتک ، پسماندہ گاؤں تک کیسے پہنچایا گیا ہے۔ پیارے ہم وطنو 2014 میں اسی لال قلعے کی فصیل سے جب میں نے سووچھتا کی بات کی تھی تو کچھ لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا تھا، تمسخر کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ارے حکومت کے پاس بہت سارے کام ہیں، یہ سووچھتا جیسے کام میں اپنی توانائی کیوں خرچ کررہی ہے۔ لیکن بھائیو بہنو پچھلے دنوں ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں سووچھتا ابھیان کی وجہ سے تین لاکھ بچے مرنے سے بچ گئے ہیں۔ کون ہندوستانی ہوگا جس کو سووچھتا میں شراکت دار بن کرکے ان تین لاکھ بچوں کی زندگی بچانے کا ثواب پانے کا موقع نہ ملا ہو۔ غریب کے تین لاکھ بچوں کی زندگی بچانا کتنی بڑی انسانیت کا کام ہے۔ عالمی ادارے اس کا اعتراف کررہے ہیں۔ بھائیو بہنو، اگلا سال مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم پیدائش کا سال ہے۔ لائق احترام باپو نے اپنی زندگی میں آزادی سے بھی زیادہ اہمیت سووچھتا کو بھی دی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ آزادی ملی ستیہ گرہیوں سے، سووچھتا ملے گی سووچھ گرہیوں سے۔ گاندھی جی نے ستیہ گرہی تیار کئے تھے اور گاندھی جی کی ترغیب نے سووچھ گرہی تیار کئے ہیں اور آنے والا 150 واں یوم پیدائش جب ہم منائیں گے تب یہ ملک قابل احترام باپو کو سووچھ بھارت کی شکل میں یہ ہمارے سیکڑوں سووچھ گرہی لائق احترام باپو کو کاریانجلی نذر کریں گے اور ایک طرح سے جن خوابوں کو لیکر ہم چلے ہیں، ان خوابوں کو ہم پورا کریں گے۔ میرے بھائیو بہنو، یہ صحیح ہے کہ سووچھتا نے تین لاکھ لوگوں کی زندگی بچائی ہے۔ لیکن متوسط طبقے کا کتنا ہی خوشحال کنبہ کیوں ہو، اچھی خاصی آمدنی رکھنے والا شخص کیوں نہ ہو، غریب کیوں نہ ہو ایک بار گھر میں بیماری آجائے تو صرف شخص نہیں بلکہ پورا کنبہ ہی بیمار ہوجاتا ہے۔ کبھی نسل در نسل بیماری کے چکر میں پھنس جاتا ہے۔ ملک کے غریب سے غریب شخص کو، عام آدمی کو علاج کی سہولت ملے، سنگین بیماریوں کے لئے اور بڑے اسپتالوں میں عام آدمی کو بھی علاج کی سہولت ملے، مفت میں ملے اور اس کے لئے حکومت ہند نے پردھان منتری جن آروگیہ ابھیان شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پردھان منتری جن آروگیہ ابھیان کے تحت آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت اس ملک کے دس کروڑ کنبے، یہ ابتدا ہے، آنے والے دنوں میں نچلے متوسط طبقے، متوسط طبقے اعلی متوسط طبقے کو بھی اس کا فائدہ ملنے والا ہے۔ اس لئے دس کروڑ کنبوں کو یعنی تقریباً 50 کروڑ شہری، ہر کنبے کو پانچ لاکھ روپے سالانہ ہیلتھ ایشورینس دینے کا منصوبہ ہے۔ یہ ہم اس ملک کو دینے والے ہیں، یہ ٹکنالوجی والانظام ہے،شفافیت پر زور ہو، کسی عام آدمی کو یہ موقع حاصل کرنے میں پریشانی نہ ہو، رکاوٹ نہ ہو، اس میں ٹکنالوجی انٹروینشن بہت اہم ہے۔ اس کے لئے ٹکنالوجی کے ٹول بنے ہیں۔ آج 15 اگست سے آنے والے چار، پانچ، چھ ہفتوں میں ملک کے الگ الگ گوشے میں اس ٹکنالوجی کی جانچ کا عمل شروع ہورہا ہے اور فل پروف بنانے کی سمت میں کوشش چل رہی ہے اور پھر اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے 25 ستمبر پنڈت دین دیال اپادھیائے کے یوم پیدائش پر پورےملک میں یہ پردھان منتری جن آروگیہ ابھیان لانچ کردیا جائے گااور اس کا نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ ملک کے غریب شخص کو اب بیماری کی مصیبت سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑے گا۔ اس کو ساہوکار سے پیسہ سود پر نہیں لینا پڑے گا۔ اس کا کنبہ تبا ہ نہیں ہوجائےگا اور ملک میں متوسط طبقے کے خاندانوں کے لئے، معالجے کے شعبے میں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ٹائر -2 ، ٹائر -3 شہروں میں نئےاسپتال بنیں گے۔ بہت بڑی تعدا د میں میڈیکل اسٹاف لگے گا ۔ روزگار کے بہت سار ے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ بھائیو بہنو، کوئی غریب ، غریبی میں جینا نہیں چاہتا ہے، کوئی غریب غریبی میں مرنا نہیں چاہتا ہے۔ کوئی غریب اپنے بچوں کو وراثت میں غریبی دے کر جانا نہیں چاہتا۔ وہ چھٹ پٹا رہا ہوتا ہے کہ زندگی بھر غریبی سے باہر نکلنےکے لئے اور ا س بحران سے باہر آنے کے لئے غریب کو مضبوط بنانا یہی اس کا علاج ہے ، یہی تدبیر ہے۔ ہم نے گزشتہ چار برسوں میں غریب کو بااختیار بنانے پر زور دیا ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ غریب بااختیا ر بنے اور حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارےنے بہت اچھی رپورٹ جاری کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ دو برس میں بھارت میں 5 کروڑ غریب، خط افلاس سے باہر آگئے ہیں۔ بھائی بہنو، جب غریب کو بااختیاربنانے کا کام کرتے ہیں اور جب میں آیوشمان بھارت کی بات کرتا تھا ، دس کروڑ کنبوں یعنی پچاس کروڑ لوگوں کی ، تو بہت کم لوگوں کو اندازہ ہوگاکہ اتنی بڑی اسکیم ہے ۔ اگر میں امریکہ ، کناڈا اور میکسیکو کی آبادی ملا لوں تو تقریباً اتنے مستفدین آیوشمان بھارت اسکیم کے ہیں۔ اگر میں پورے یورپ کی آبادی لے لوں، تقریباً اتنی ہی آبادی ہندستان میں اس آیوشمان بھارت کے مسفتدین کی بننے والی ہے بھائی بہنو، غریب کو بااختیار بنانے کے لئے ہم نے متعدد اسکیمیں بنائی ہیں۔ اسکیمیں تو بنتی ہیں لیکن بچولیئے ، کٹکی کمپنی اس میں سے ملائی کھالیتے ہیں۔ غریب کو حق ملتا نہیں۔ خزانے سے پیسہ جاتا ہے ، اسکیمیں کاغذ پر نظر آتی ہیں ، ملک لٹتا چلا جاتا ہے۔ سرکاریں آنکھیں مونڈ کے بیٹھ نہیں سکتیں اور میں تو قطعی نہیں بیٹھ سکتا ۔ اور اسی لئے بھائیوں بہنو، ہمارے نظام میں آئی خرابیوں کو دور کرکے ملک کے عام انسانوں کے دل میں اعتماد پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی ریاستیں ہوں ، مرکز ہو، بلدیاتی ادارے ہوں، ہم سب کو مل کر کرنی ہو گی اور اسے آگے بڑھانا ہوگا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جب سے ہم اس صفائی مہم میں لگے ہیں ، سوراخ بند کرنے میں لگے ہیں ، کوئی اجولا یوجنا کا استفادہ کنندہ ہوتا تھا ، کوئی اسکالر شپ کا استفادہ کنندہ ہوتا تھا ، کوئی پنشن کا استفاد ہ کنندہ ہوتا تھا، فوائد حاصل ہوتے تھے لیکن چھ کروڑ لوگ ایسے تھے جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے جن کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن ان کے نام سے پیسے جارہے تھے۔ ان چھ کروڑ ناموں کو نکالنا کتنا بڑا اور مشکل کام ہوگا۔ کتنے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہوگی ،جوانسان پیدا نہ ہوا ، جو انسان دھرتی پر نہیں ہے ، ایسے ہی فرضی نام لکھ کر کے روپے مار لئے جاتے تھے۔اس سرکار نے اسے روکا ہے۔ بدعنوانی، کالا دھن، یہ سارے کاروبار روکنے کی سمت میں ہم نے قدم اٹھائے ہیں۔ بھائیو -بہنو! اور اس کا نتیجہ کیا آیا ہے؟ تقریباً 90 ہرار کروڑ روپے ، یہ چھوٹی رقم نہیں ہے ، 90 ہزار کروڑ روپئے جو غلط لوگوں کے ہاتھ میں غلط طریقے سے، غلط کارناموں کی وجہ سے چلے جاتے تھے، وہ آج ملک کی تجوری میں بچے ہیں ، جو ملک کے عام انسان کی بھلائی کے لئے کام آرہے ہیں۔ بھائیو- بہنو! یہ ہوتا کیوں ہے؟ یہ ملک ، غریبوں کے وقار کے لئے کام کرنے والا ملک ہے۔ ہمارے ملک کا غریب باعزت طریقے سے زندگی گزارے، اس کے لئے کام کرنے والا ہے، لیکن یہ بچولئے کیا کرتے تھے؟ آپ کو پتہ ہوگا کہ بازار میں گیہوں کی قیمت 24-25 روپے ہے، جبکہ راشن کارڈ پر سرکار وہ گیہوں 24-25 روپے میں خرید کر صرف دو روپے میں غریب تک پہنچاتی ہے۔ چاول کی بازار میں قیمت 30-32 روپے ہے لیکن غریب کو چاول ملے، اس لئے سرکار 30-32 روپے میں خرید کر تین روپے میں راشن کارڈ والے غریب تک پہنچاتی ہے۔ یعنی کہ ایک کلو گیہوں کوئی چوری کرلے، غلط فرضی نام سے ، تو اس کو تو 20-25 روپے ایسے ہی مل جاتے ہیں۔ ایک کلو چاول مار لیں تو اس کو 30-35 روپے ایسے ہی مل جاتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ فرضی ناموں کا کاروبار چلتا تھا اور جب غریب راشن کارڈ لے کر دکان پر جاتا تھا، وہ کہتا تھا راشن ختم ہوگیا، راشن وہاں سے نکل کر دوسری دوکان پر چلا جاتا تھا اور وہ دو روپے سے ملنے والا راشن ،میرے غریب کو 20 روپے ، 25 روپے میں خریدنا پڑتا تھا، اس کا حق چھین لیا جاتا تھا، بھائیو بہنوں۔ اور اس لئے اس فرضی کاروبار کواب بند کیا ہے اور اسے روکا ہے۔ بھائیو -بہنو! ہمارے ملک کے ایک ایک غریبوں کو دو روپے میں ، تین روپے میں کھانا ملتا ہے، سرکار اس کے لئے بڑا معاشی خرچ کررہی ہے۔ لیکن اس کا سہرا سرکار کو نہیں جاتا ہے اور میں آج خاص طور سے میرے ملک کے ایماندار ٹیکس دہندگان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دوپہر کو آپ کھانا کھاتے ہوں، پل بھر کے لئے کنبے کے ساتھ بیٹھ کر کے میری بات کو یاد کرنا، میں آج ایماندار ٹیکس دہندگان کے دل کو چھونا چاہتا ہوں۔ ان کے من مندر میں نمن کرنے میں جارہا ہوں۔ میرے ہم وطنو! جو ایماندار ٹیکس دہندہ ہے، جو ٹیکس دیتا ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو ایماندار شخص ٹیکس دیتا ہے، ان پیسوں سے یہ اسکیمیں چلتی ہیں۔ ان منصوبوں کاثواب اگر کسی کو ملتا ہے تو سرکار کو نہیں ، میرے ایماندار ٹیکس دہندگان کو ملتا ہے، ٹیکس پیئر کو ملتا ہے اور اس لئے جب آپ کھانا کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں تو آپ یقین کیجئے ، آپ کے ٹیکس دینے کے ایماندارانہ عمل کا نتیجہ ہے کہ جب آپ کھانا کھارہے ہیں، اسی وقت تین غریب خاندان بھی کھانا کھارہے ہیں، جس کا ثواب ایماندار ٹیکس دینے والے کو ملتا ہے اور غریب کا پیٹ بھرتا ہے۔ دوستو! ملک میں ٹیکس نہ دینے کا ماحول بنایا جارہا ہے لیکن جب ٹیکس دہندگان کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے ٹیکس سے ، بھلے ہی وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہو، ایئر کنڈیشن کمرے میں بیٹھا ہو، لیکن اس کے ٹیکس سے اسی وقت تین غریب کنبے اپنا پیٹ بھررہے ہیں۔ اس سے بڑا زندگی کا اطمینان کیا ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ دل کے لئے ثواب کیا ہوسکتا ہے۔ بھائیو-بہنو! آج ملک ایمانداری کا اُتسو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور ایمانداری کا اُتسو لے کر چل رہا ہے۔ ملک میں 2013 تک ، یعنی پچھلے 70 سال کی ہماری سرگرمیوں کا نتیجہ تھا کہ ملک میں ڈائریکٹ ٹیکس دینے والے چار کروڑ لوگ تھے، لیکن بھائیو-بہنو! آج یہ تعداد قریب قریب دوگنی ہوکر پونے سات کروڑ ہوگئی ہے۔کہاں تین ، ساڑھے تین ، پونے چار کروڑ اور کہاں پونے سات کروڑ، یہ ایمانداری کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ملک ایمانداری کی طرف چل پڑا ہے۔ اس کی مثال ہے۔ 70 سال میں ہمارے ملک میں جتنے باالواسطہ ٹیکس میں صنعت کار جڑے تھے وہ 70 سال میں 70 لاکھ کی تعداد تک پہنچے ہیں۔ 70 سال میں 70 لاکھ لیکن صرف جی ایس ٹی آنے کے بعد پچھلے ایک سال میں یہ 70 لاکھ کی تعداد ایک کروڑ 16 لاکھ تک پہنچ گئی۔ بھائیو اور بہنو! میرے ملک کا ہر شخص آج ایمانداری کے جشن میں آگے آرہا ہے۔ جو بھی آگے رہے ہیں میں ان کو سلام کرتا ہوں۔ جو آگے آنا چاہتے ہیں میں ان کو یقین دلانا چاہتا ہوں ، اب ملک پریشانیوں سے آزاد ، فخر کے ساتھ ٹیکس دہندہ کی زندگی بنانے کیلئے پابند عہد ہے۔ میں ٹیکس دہندگان کو یقین دلانا چاہتا ہوں آپ ملک کو بنانے میں تعاون کررہے ہیں۔ آپ کی پریشانیاں ہماری پریشانیاں ہیں ، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، کیوں کہ آپ کے تعاون سے ہمیں ملک کو آگے بڑھانا ہے اور اس لئے بھائیو – بہنو، ہم کالا دھن بدعنوانی کو معاف نہیں کریں گے۔ کتنی ہی آفتیں کیوں نہ آئیں، اس راستے کو تو میں چھوڑنے والا نہیں ہوں میرے ہم وطنو، کیوں کہ ملک کو دیمک کی طرح انہیں بیماریوں نے تباہ کرکے رکھا ہوا ہے۔ اور اس لئے ہم نے ، آپ نے دیکھا ہوگا ، اب دلی کے گلیاروں میں اقتدار کے دلاّل نظر نہیں آتے۔ اگر دلّی میں کہیں گونج سنائی دیتی ہے تو پاور کی گونج سنائی دیتی ہے۔ میرے پیارے بھائیو -بہنو، یہ وقت بدل چکا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کے کہتے تھے ارے سرکار وہ پالیسی بدل دوں گا، ڈھیکنا کردوں گا، فلانا کردوں گا، ان کی ساری دوکانیں بند ہوگئی ہیں، دروازے بند ہوگئے ہیں۔ بھائیو – بہنو، کنبہ پروری کو ہم نے ختم کردیا ہے۔ میرے پرائے کی روایتوں کو ہم نے ختم کردیا ہے۔ رشوت لینے والوں پر سخت کارروائی ہورہی ہے۔ تقریباً تین لاکھ یہ تعداد کم نہیں ہے، تین لاکھ مشتبہ کمپنیوں پر تالے لگ چکے ہیں، ان کے ڈائرکٹروں پر پابندیاں لگادی گئی ہیں بھائیو – بہنو۔ اور آج ہم نے طریقہ عمل کو شفاف بنانے کیلئے آن لائن طریقہ کار شروع کیا ہے۔ ہم نے آئی ٹی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہے کہ آج ماحولیات ۔ ایک وقت تھا کہ ماحولیات کی منظوری یعنی بدعنوانی کے پہاڑ پر چڑھتے جانا تب جاکر کے ملتی تھی۔ بھائیو- بہنو ہم نے اس کو شفاف بنادیا ہے، آن لائن کردیا ہے، کوئی بھی شخص اس کو دیکھ سکتا ہے اور ہندوستان کے وسائل کا صحیح استعمال ہو اس پر ہم کام کرسکتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، آج ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج سپریم کورٹ میں تین خاتون جج بیٹھی ہوئی ہیں۔ کوئی بھی ہندوستان کی خاتون اس پر فخر کرسکتی ہے کہ ہندوستان کے سپریم کورٹ میں آج تین خاتون عزت مآب جج ہمارے ملک کو انصاف فراہم کرارہی ہیں۔ بھائیو ۔ بہنو، مجھے فخر ہے کہ آزادی کے بعد یہ پہلی کابینہ ہے جس میں سب سے زیادہ خواتین کو جگہ ملی ہے۔ بھائیو- بہنو، میں آج اس اسٹیج سے میری کچھ بیٹیاں ہیں، میری بہادر بیٹیوں کو ایک خوشخبری دینا چاہتا ہوں، ہندوستانی مسلح افواج میں شارٹ سروس کمیشن کے ذریعے خاتون افسروں کو ان کے ہم منصب مرد افسروں کی طرح سلیکشن کے شفاف عمل کے ذریعے مستقل کمیشن کا آج میں اعلان کرتا ہوں ، جو ہماری لاکھوں بیٹیاں آج یونیفارم کی زندگی جی رہی ہیں ، ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں، ان کے لئے آج میں یہ تحفہ دے رہا ہوں، لال قلعے کی فصیل سے دے رہا ہوں، ملک کی خواتین اور طاقتور ہندوستان کی تعمیر میں کندھے سے کندھے ملاکرکے چل رہی ہیں۔ ہماری ماں بہنوں کا فخر، ان کاتعاون ، ان کی صلاحیت آج ملک محسوس کررہا ہے۔ کھیت سے لے کر کھیل کے میدان تک ہماری خواتین ہندوستان کا ترنگا جھنڈا بلند کررہی ہیں ۔ سرپنج سے لے کر پارلیمنٹ تک ہمارے ملک کی خواتین ملک کی ترقی کے لئے اپنا تعاون دے رہی ہیں۔ اسکول سے لے کر فوج تک ہمارے ملک کی خواتین آج کندھے سے کندھا ملاکر آگے بڑھ رہی ہیں لیکن جب اتنی بڑی تعداد میں ہماری خواتین اپنے کارناموں سے آگے بڑھ رہی ہوں تو کبھی کبھی وکرتیاں بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ خواتین کی قوت کو چیلنج دینے والی راکششی قوتیں بھی کبھی کبھی ابھر کر آجاتی ہیں۔ عصمت دری تکلیف دہ ہے لیکن عصمت دری کی شکار اس بیٹی کو جتنی اذیت ہوتی ہے اس سے لاکھوں گنا تکلیف اہل وطن کو ، ملک کو ، عوام کو ، ہر ایک کو ہونی چاہئے۔ بھائیو- بہنو ، اس راکششی ذہنیت سے سماج کو آزاد کرانا ہوگا۔ ملک کو آزاد کرانا ہوگا ، قانون اپنا کام کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش میں پانچ دن کے اندر کٹنی میں عصمت دری کرنے والوں کا مقدمہ پانچ دن چلا اور پانچ دن میں پھانسی کی سز ا سنادی گئی ۔ اسی طرح راجستھان میں بھی کچھ ہی دنوں میں عصمت دری کرنے والوں کے مقدمات چلے اور ان کو پھانسی کی سزا سنائی دی گئی ہے۔ آج ان پھانسیوں کی خبریں جتنی زیادہ مشتہر ہوں گی ، ان راکششی ذہنیت کے لوگوں میں خوف پیدا ہوگا۔ ہمیں ان خبروں کو مشتہر کرنا چاہئے ۔ اب پھانسی پر لٹکنا یقینی ہورہا ہے۔ یہ بات اب لوگوں کو معلوم ہوجانی چاہئے اور راکششی رجحان اور ذہنیت کے لوگوں کو خوف ہونا چاہئے۔ ہمیں اس ذہنیت پر چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فکر پر چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کجروی پر چوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھائیو بہنو ، یہی سوچ ، یہی کجروی ناقابل معافی جرائم کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے لئے قانون کی حکمرانی سپریم ہے۔ اس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں دیا جاسکتا ہے اور خاندانوں میں بھی ، اسکولوں میں کالجوں میں، ذرائع ابلاغ میں ہمارے بچوں کی ہماری نئی نسل پھول جیسے نادان بچوں کی پرورش ایسے ہو تاکہ اس کی رگوں میں تہذیب ہو۔ خواتین کا احترام کرنے کا احساس اس کے دلوں دماغ میں ہو ، خواتین کا احترام زندگی جینے کا صحیح طریقہ ہوتا ہے۔ خواتین کا وقار جینے کا صحیح راستہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں اب خاندانوں میں بھی یہ سنسکار دینے ہوں گے ۔ بھائیو بہنو، میری مسلم خواتین اور بہنو ں کو میں آج اس لا ل قلعہ سے یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ تین طلاق کے غلط چلن نے ہمارے ملک کی مسلم بیٹیوں کی زندگی کو تباہ کرکے رکھا ہوا ہے اور جن کو طلاق نہیں ملی ہے وہ بھی اس دباؤ میں گذارا کررہی ہیں۔ اس اجلاس میں بھی ہم نے پارلیمنٹ میں قانون لاکر کے ہماری ان خواتین کو غلط رواجوں سے آزادی دلانے کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اسے منظور نہیں ہونے دیتے ہیں۔ لیکن میں میرے ملک کی ان مظلوم ماوؤں اور بہنوں کو ، مسلم بیٹیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ انصاف کے لئے ، ان کے حق کے لئے کام کرنے میں کچھ بھی کمی نہیں رکھوں گا اور میں آپ کی امیدوں اور امنگوں کی تکمیل کرکے رہوں گا۔ میرے پیارے ہم وطنو، فوج ہو ، نیم فوجی دستے ہوں ، ہمارے پولیس دستے ہوں، ہماری خفیہ ایجنسی ہو ، ان کے اتحاد میں ملک میں داخلی سلامتی کو ایک بہت بڑی طاقت دی ہے ۔ داخلی سلامتی کا احساس پیدا کیا ہے۔ ایک امن کے ماحول کو ، ان کی اس قربانی ، ضبط و تحمل اور سخت محنت کے سبب ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ بھائیو۔ بہنو، آئے دن شمال مشرق سے پرتشدد واقعات کی خبریں آتی تھیں، علیحدگی پسند ی کی خبریں آتی تھیں، بم، بندوق اور پستول کے واقعات سنائی دیتے تھے۔ لیکن آج ایک آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ جو تین تین، چار چار دہائی سے نافذ تھا، آج مجھے خوشی ہے کہ ہمارے سکیورٹی دستوں کی کوششوں کی وجہ سے، ریاستی حکومتوں کی سرگرمی کی وجہ سے ، مرکز اور ریاست کے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے، عام آدمی کو جوڑنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج کئی سالوں کے بعد دو ریاستیں تریپورہ اور میگھالیہ پوری طرح آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ سے مبرا ہوگئی ہیں۔ اروناچل پردیش کے بھی کئی اضلاع اس سے مبرا ہوگئے ہیں۔ گنے چنے ضلعوں میں یہ صورتحال ابھی باقی ہے۔بائیں بازو کی انتہاپسندی، ماؤ واد ملک کو خون سے آلودہ کررہا ہے۔آئے دن تشدد کی واردات انجام دینا، بھاگ جانا، جنگلوں میں چھپ جانا لیکن مسلسل ہمارے سکیورٹی دستوں کی کوششوں کی وجہ سے، ترقی کے نئے نئے منصوبوں کی وجہ سے ، عام آدمی کو جوڑنے کی کوشش کی وجہ سے، بائیں بازو کی جو انتہاپسندی 126 اضلاع میں موت کے سائے میں جینے کے لئے مجبور کررہی تھی، آج وہ کم ہوکر تقریباً 90 اضلاع تک محدود ہوگئی ہے اور وہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بھائیو۔ بہنو، جموں و کشمیر، اٹل بہاری واجپئی جی نے ہمیں راستہ دکھایا ہے اور وہی راستہ صحیح ہے۔اسی راستے پر ہم چلنا چاہتے ہیں۔ واجپئی جی نے کہا تھا ، انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت ۔ان تین بنیادی موضوعات کو لیکر ہم کشمیر کی ترقی کے لئے، خواہ لداخ ہو، خواہ جموں ہو یا سری نگروادی ہو، متوازن ترقی ہو، یکساں ترقی ہو، وہاں کے عام آدمی کی توقعات پوری ہوں، بنیادی ڈھانچے کو مضبوطی ملے اور ساتھ ساتھ ہر کس و ناکس کو گلے کر چلے، اسی جذبے کے ساتھ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم گولی اور گالی کے راستے پر نہیں، گلے لگاکر اپنے کشمیر کے حب الوطنی سے جینے والوں کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ بھائیو۔ بہنو، سنچائی کے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور ایمس کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔ ڈل جھیل کی تعمیر نو اور احیاء کا کام بھی ہم چلا رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جموں کشمیر کے گاؤں کا ہر انسان مجھ سے ایک سال سے مطالبہ کررہا تھا، وہاں کے پنچ مجھ سے سینکڑوں کی تعداد میں آکر ملتے تھے اور وہ مطالبہ کررہے تھے جموں کشمیر میں ہمیں پنچایتوں کے مقامی بلدیات کے الیکشن دیجئے۔ کسی نہ کسی وجہ سے وہ رکا ہوا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ آنے والے کچھ ہی مہینوں میں جموں کشمیر میں گاؤں کے لوگوں کو اپنا حق جتانے کا موقع ملے گا۔ اپنا خود کا نظام قائم کرنے کا موقع ملے گا۔ اب تو بھارتی حکومت سے اتنی بڑی مقدار میں وہ پیسے براہ راست گاؤں کے پاس جاتے ہیں تو گاؤں کو آگے بڑھانے کے لئے وہاں کے منتخب پنچ کے پاس طاقت آئے گی۔ اس لئے مستقبل قریب میں پنچایتوں کے الیکشن ہوں، مقامی بلدیاتی انتخابات ہوں، اسی سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھائیو۔ بہنو، ہمیں ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ ہمارا منتر رہا ہے، سب کا ساتھ سب کا وکاس، کوئی بھید بھاؤ نہیں، کوئی میرا تیرا نہیں، کوئی اپنا پرایا نہیں، کوئی بھائی بھتیجہ واد نہیں، سب کا ساتھ یعنی سب کا ساتھ۔ اور اس لئے ہم ایسے ہدف طے کرکے چلتے ہیں اور آج میں پھر ایک بار اس ترنگے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوکر لال قلعے کی فصیل سے سینکڑوں ہم وطنو کے روبروان عزائم کو دہرانا چاہتا ہوں، ان عزائم کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں جس کے لئے ہم اپنے آپ کو کھپا دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہر بھارتی کے پاس اپنا گھر ہو، ہاؤسنگ فار آل۔ ہر گھر میں بجلی کنکشن ہو، پاور فار آل۔ ہر بھارتی کو دھوئیں سے نجات ملے رسوئی میں اور اس لئے کُوکنگ گیس فار آل۔ ہر بھارتی کو ضرورت کے مطابق پانی ملے اور اس لئے ، واٹر فار آل۔ ہر بھارتی کو بیت الخلا ملےاور اس لئے سینیٹیشن فار آل ، ہر ہندوستانی کو ہنر مندی ملے اور اس لئے اِسکل فار آل ، ہر ہندوستانی اچھی اور سستی صحت خدمات ملیں، اس لئے ہیلتھ فار آل ، ہر ہندوستانی تحفظ ملے ، تحفظ کا بیمہ ، سکیورٹی کور ملے اور اس لئے انشورنس فار آل ، ہر ہندوستانی کو انٹرنیٹ خدمات ملیں اور اسلئے کنکٹی ویٹی فار آل، اس منتر کو لے کر ہم ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ میرے پیارے بھائیو-بہنو! لوگ میرے لئے بھی کئی باتیں کرتے ہیں، لیکن جو کچھ بھی کہا جاتا ہو، میں آج کھلے عام کچھ چیزوں کو تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ میں بے صبر ہوں، کیونکہ کئی ملک ہم سے آگے نکل چکے ہیں، میں بے صبر ہوں، میرے ملک کو ان سب ملکوں سے بھی آگے لے جانے کے لئے بے چین ہوں، میں بے چین ہوں میرے پیارے ہم وطنو! میں بے صبر بھی ہوں، میں بے چین بھی ہوں۔ میں بے چین ہوں ہمارے ملک کے بچوں کے فروغ میں، تغذیہ کی کمی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، ایک بہت بڑا بوٹل نیک بنا ہوا ہے، مجھے میرے ملک کو تغذیہ کی کمی سے پاک کرانا ہے اس لئے میں بے چین ہوں۔ میرے ہم وطنو! میں بے چین ہوں تاکہ غریب تک ، مناسب صحت خدمات میسر ہوں، اس کے لئے میں بے چین ہوں تاکہ میرے ملک کا عام شخص بھی بیماری سے لڑ سکے، بھڑ سکے۔ بھائیو-بہنو! میں بے چین بھی ہوں، بے صبر بھی ہوں۔ میں بے صبر ہوں تاکہ اپنے شہری کو معیاری زندگی اور آسان زندگی جینے کا موقع فراہم ہو، اس میں بھی سدھار آئے۔ میرے پیارے ہم وطنو! میں بے چین بھی ہوں، بے صبر ہوں میں ،کیونکہ چوتھا صنعتی انقلاب ہے جو علم کی بنیاد پر چلنے والا چوتھا صنعتی انقلاب ہے، اس چوتھے صنعتی انقلاب کی قیادت آئی ٹی جس کی انگلیوں پر ہے، میر ا ملک اس کی رہنمائی کرے، اس کے لئے میں بے چین ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو! میں کچھ کرنے کے لئے بے چین ہوں ، کیونکہ چاہتاہوں کہ ملک اپنی صلاحیت اور وسائل کا پورا پورا فائدہ اٹھائے اور دنیا میں فخر کے ساتھ ہم آگے بڑھیں۔ میرے پیارے ہم وطنو! جو ہم آج ہیں، کل اس سے بھی آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ٹھہراؤ منظور نہیں ہے، ہمیں رکنا منظور نہیں ہے اور جھکنا تو ہماری فطرت میں نہیں ہے۔ یہ ملک نہ رُکے گا، نہ جھکے گا، یہ ملک نہ تھکے گا، ہمیں نئی بلندیوں پر آگے چلنا ہے، روز افزوں ترقی کرتے ہوئے چلنا ہے۔ بھائیو-بہنو! وید سے حال تک دنیا کی قدیم ترین وراثت سے مالا مال ہیں۔ ہم پر اس وراثت کا آشیرواد ہے۔ اس وراثت کی بدولت ہم میں خود اعتمادی ہے، اس کو لے کر ہم مستقبل میں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور میرے پیارے ہم وطنو! ہم صرف مستقبل دیکھنے تک رہنا نہیں چاہتے ہیں لیکن مستقبل کے اس عروج پر بھی پہنچنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کے عروج کا خواب لے کر ہم چلنا چاہتے ہیں اور اس لئے میرے پیارے ہم وطنو! میں آپ کو ایک نئی امید، ایک نئی اُمنگ، ایک نیا اعتماد دلاتا ہوں، ملک اسی سے چلتا ہے، دیش اسی سے بدلتا ہے اور اس لئے میرے پیارے ہم وطنو! اپنے من میں ایک لکش لئے اپنے من میں ایک لکش لئے منزل اپنی پرتیکش لئے اپنے من میں ایک لکش لئے منزل اپنی پرتیکش لئے ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں، ہم بدل رہے ہیں تصویریں، یہ نو یُگ ہے، یہ نو یُگ ہے یہ نو بھارت ہے، یہ نو یُگ ہے، یہ نو بھارت ہے، ‘‘خود لکھیں گے اپنی تقدیر، ہم بدل رہے ہیں تصویر، خود لکھیں گے اپنی تقدیر، یہ نو یُگ ہے، نو بھارت ہے، ہم نکل پڑے ہیں، ہم نکل پڑے ہیں پرن کرکے، ہم نکل پڑے ہیں پرن کرکے، اپنا تن من ارپن کرکے، اپنا تن من ارپن کرکے، ضد ہے، ضد ہے، ضد ہے، ایک سوریہ اُگانا ہے، ضد ہے ایک سوریہ اُگانا ہے، امبر سے اونچا جانا ہے، امبر سے اونچا جانا ہے، ایک بھارت نیا بنانا ہے، ایک بھارت نیا بنانا ہے۔’’ میرے پیارے ہم وطنو، پھر ایک بار آزادی کے اس مقدس تہوار پر آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے آئیے جئے ہند کے منتر کے ساتھ اونچی آواز میں میرے ساتھ بولیں گے، جئے ہند، جئے ہند، جئے ہند، جئے ہند، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے، وندے ماترم ، وندے ماترم ،وندے ماترم ، وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( م ن ۔م ع۔و۔ م م۔ ن ا۔ س ش۔ ع آ۔ ا گ۔ ع ن۔ ن ا۔ ج ۔ ن ع۔ ق ف۔ (,লালকিল্লাৰ আবেষ্টনীৰ পৰা ৭২সংখ্যক স্বাধীনতা দিৱস উপলক্ষে দেশবাসীক উদ্দেশ্যি প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে আগবঢ়োৱা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%DA%AF%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B0%D8%B1%DB%8C%D8%B9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%A4%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8-2/,نئی دہلی،22؍نومبر،وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سرگرم حکمرانی اور بروقت نفاذ کے لئے آئی سی ٹی پر مبنی کثیر ماڈل والے پلیٹ فارم پرگتی (پی آر اے جی اے ٹی آئی) کے ذریعے اپنی 23ویں گفتگو کی صدارت کی۔ اس سے پہلے پرگتی کی 22 میٹنگوں میں کل 9.31لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری والے 200 پروجیکٹوں کا مجموعی جائزہ لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 17 شعبوں میں عوامی شکایتوں کے ازالے کا بھی جائزہ لیا گیا ۔ آج اپنی 23ویں میٹنگ میں وزیراعظم نے صارفین سے متعلق شکایتوں سے نمٹنے اور ان کے ازالے کے تئیں پیش رفت کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم کو صارفین کی شکایات کے تیز تر اور مؤثر ازالے کو یقینی بنانے کیلئے کی گئی کارروائی کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ بڑی تعداد میں شکایتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے انتظامیہ کے بندوبست میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس سے صارفین کو فائدہ حاصل ہوسکے۔ وزیراعظم نے اتراکھنڈ، اڈیشہ، مغربی بنگال، کرناٹک، تمل ناڈو، کیرالہ، ناگالینڈ، آسام، مہاراشٹر، تلنگانہ اور آندھراپردیش سمیت کئی ریاستوں میں پھیلے ریلوے، سڑک، بجلی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کے 9 پروجیکٹوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔ ان پروجیکٹوں کی مجموعی لاگت 30 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے پردھان منتری کھنج شیتر کلیان یوجنا (پی ایم کے کے کے وائی) کے نفاذ میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ منرل فاؤنڈیشن (ڈی ایم ایف) کو مختص کئے گئے فنڈ کو ان اضلاع کو فی الحال درپیش مسائل کو حل کرنے، ترقیاتی معاملوں یا خسارے میں بڑی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام بہت دھیان کے ساتھ کیا جانا چاہئے تاکہ آزادی کے 75ویں سال، 2022 تک ہر ممکن حد تک مثبت نتائج حاصل کئے جاسکیں۔,প্ৰগতিৰ জৰিয়তে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তালাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%AA-%DA%86%DA%BE%D8%AA%D8%B1%D9%BE%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4-%E0%A6%9B%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے شری منت چھتر پتی شیواجی جی راجے بھوسلے جی کے انتقال پر گہرے رنج وغم کااظہار کیا ہے ۔ جناب مودی نے کہا کہ وہ ایک زبردست اورہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے عوام کی زبردست خدمت کی اوران کے لئے انتھک کام کیا۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ’’شری منت چھترپتی شیواجی راجے بھوسلے جی کے انتقال پر افسوس ہوا ہے، وہ ایک محترک اورکثیر جہتی شخصیت سے جنہوں نے لوگوں کی زبردست خدمت کی ۔ انہوں نے ستارہ کی ترقی کے لئے زبردست کام کیا اور ستارہ کی ترقی میں ان کااہم تعاون ہے ۔ ان کے کنبے، دوستوں اور چاہنےوالوں کو خراج عقیدت پیش کرتاہوں ۔ ا وم شانتی‘‘۔,শ্ৰীমন্ত ছত্ৰপতি শিৱাজীৰাজ ভোছালে জীৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ কৰিছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D9%86-%D9%88%DB%8C%D9%84%D8%AA%DA%BE-%DA%AF%DB%8C%D9%85%D8%B2-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DB%8C%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کامن ویلتھ گیمز 2022 میں پیرا پاور لفٹنگ مردوں کے ہیوی ویٹ مقابلے میں طلائی تمغہ جیتنے پر سدھیر کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘سدھیر کی طرف سے سی ڈبلیو جی 2022 کے پیرا اسپورٹس میڈل کی گنتی کا ایک شاندار آغاز! انہوں نے ایک باوقار گولڈ جیتا اور ایک بار پھر اپنی لگن اور عزم کا مظاہرہ کیا۔ وہ مسلسل میدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہےہیں۔ مستقبل میں ان کی تمام کوششوں کے لیے انہیں مبارکباد اور نیک خواہشات۔ ’’,কমনৱেল্থ গেমছৰ পেৰা ভাৰোত্তোলনত পুৰুষৰ হেভীৱেট শাখাত স্বৰ্ণ পদক জয় কৰাৰ বাবে সুধীৰক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%B0-%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دولت مشترکہ کھیل 2022 میں خواتین کے جیولین تھرو میں کانسی کا تمغہ جیتنے پر انو رانی کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’انو رانی بہترین ایتھلیٹ ہیں۔ انہوں نے زبردست لچک اور اعلیٰ ترین مہارت کا مظاہرہ کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے جیولن میں کانسی کا تمغہ جیتا ہے۔ ان کے لئے بہت بہت مبارک باد۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہے گی۔ #Cheer4India ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,২০২২ বৰ্ষৰ কমনৱেল্থ গেমছত মহিলাৰ জেভেলিন থ্ৰ’ত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে অন্নু ৰাণীক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE/,نئی دہلی، 11 جولائی / یور ایکسی لینسی جناب صدر مون ، یہاں موجود سبھی نمائندے ، میڈیا اور ساتھیو ، صدر مون کے ہندوستان کے پہلے سرکاری دورے پر اُن کا خیر مقدم کرنا ، میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے ۔ تقریباً ایک سال پہلے میں پہلی بار جی 20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر صدر مون سے ہیمبرگ میں ملا تھا ۔ اس وقت میں نے انہیں ہندوستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی ۔ آج پوری دنیا کوریائی جزیرہ نما میں ہونے والے واقعات کو بہت قریب سے دیکھ رہی ہے ۔ ایسے میں انہوں نے اپنی مصروفیت کے دوران ہندوستان کا دورہ کرنے کا وقت نکالا ہے اور اسی لئے میں اُن کا خاص طور پر خیر مقدم کرتا ہوں ۔ دوستو ، شاید کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ہندوستان اور کوریا کا تعلق ایک طرح سے خاندانی تعلق ہے ۔ صدیوں پہلے ایودھیا کی ایک راجکماری پرنسز سوری رتنا کی شادی کوریا کے راجا سے ہوئی تھی ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج بھی کوریا میں لاکھوں لوگ اپنے آپ کو اُن کی نسل سے مانتے ہیں ۔ ماضی قریب میں بھی ہندوستان اور کوریا کے تعلقات مضبوط رہے ہیں ۔ کوریا میں جنگ کے زمانے میں ہندوستان کی پیراشوٹ فیلڈ ایمبولینس یونٹ کے کام کی تعریف آج بھی ہوتی ہے ۔ دوستو ، جمہوریۂ کوریا کی اقتصادی اور سماجی ترقی دنیا میں اپنے آپ میں ایک انوکھی مثال ہے ۔ کوریا کے لوگوں نے دکھا دیا ہے کہ اگر کوئی ملک کسی مشترکہ ویژن اور مقصد کے حصول کا عہد کر لے تو ناممکن لگنے والا نشانہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ کوریا کی یہ ترقی ہندوستان کے لئے بھی فیضان کا باعث ہے اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ کوریا کی کمپنیوں نے ہندوستان میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے بلکہ ہمارے میک اِن انڈیا مشن سے جڑ کر ہندوستان میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے ہیں ۔ کوریائی کمپنیوں نے معیار کے تئیں اپنی عہد بندی کے ذریعے کوریائی مصنوعات کے لئے ہندوستان کے گھر گھر میں اپنی شناخت قائم کر لی ہے ۔ دوستو ، آج کی ہماری بات چیت میں ہم نے نہ صرف اپنے آپسی تعلقات کا جائزہ لیا ہے بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر بھی تفصیل سے تبالۂ خیال کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ انفرادی طور پر ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی اور جمہوریۂ کوریا کی نیو سدرن ��سٹریٹیجی میں بے حد مماثلت ہے اور میں صدر مون کے اس خیال کا تہہ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں کہ ہندوستان اور جمہوریہ کوریا کے تعلقات اُن کی نیو سدرن اسٹریٹیجی کی ایک مثال ہیں ۔ ہماری بات چیت کے نتیجے میں ایک ویژن اسٹیٹ منٹ جاری کیا جا رہا ہے ۔ ہمارا فوکس اپنی اسپیشل اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کو مضبوط کرنے پر ہے ۔ اس رلیشن شپ کی بنیاد ہمارے اقتصادی اور کاروباری تعلقات ہیں ۔ آج کچھ دیر بعد ہم دونوں ملکوں کے سی ای اوز سے ملیں گے ۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ لنکس کو اور مضبوط کرنے کے لئے ہمیں ان سے اچھے مشورے حاصل ہوں گے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اپنے کمپریہینسیو اکنامک پارٹنر شپ ایگریمنٹ کو اَپ گریڈ کرنے کی سمت میں آج اَرلی ہارویسٹ پیکیج کی شکل میں ایک ٹھوس قدم اٹھایا ہے ۔ اپنے تعلقات کے مستقبل اور دنیا میں ہونے والی ریپڈ ٹیکنا لوجی چینجز کو دیکھتے ہوئے ہم نے ساتھ مل کر اننویشن کو اپریشن سینٹر کے قیام اور فیوچر اسٹریٹیجی گروپ کے قیام کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ دوستو ، کوریائی جزیرۂ نما کے امن کو فروغ دینے کا اُسے ٹریک پر رکھنے کا اور اس میں ترقی کا پورا سہرہ صدر مون کے سر ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ جو مثبت ماحول پیدا ہوا ہے ، وہ صدر مون کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ اس ترقی کے لئے میں صدر مون کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔ آج کی ہماری بات چیت میں ، میں نے انہیں بتایا کہ شمال مشرق اور جنوبی ایشیا کے پلوری فریشن لنکس ہندوستان کے لئے بھی فکر کا باعث ہیں اور اس لئے امن کی اس کوشش کی کامیابی میں ہندوستان بھی ایک اسٹیک ہولڈر ہے ۔ کشیدگی کم کرنے میں ، جو بھی مدد ہو سکے گی ، ہم یقیناً کریں گے اور اس لئے ہم نے اپنے مشورے اور بات چیت کی رفتار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اونچی سطح کے 2 + 2 ڈائیلاگ اور وزارتی سطح کا جوائنٹ کمیشن کی اگلی میٹنگیں اس سلسلے میں کافی اہم ہوں گی ۔ دوستو ، میں ایک بار پھر صدر مون ، اُن کی اہلیہ اور وفد کے سبھی ارکان کا ہندوستان میں پرتپاک خیر مقدم کرتا ہوں ۔ مستقبل میں امن کے سلسلے میں اُن کی سبھی کوششوں میں کامیاب کے لئے میں اپنی طرف سے اور سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی طرف سے بہترین خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ آپ سے پھر ملنے کا خواہشمند بہت بہت شکریہ ( م ن ۔ ح ا ۔ ع ا ),দক্ষিণ কোৰিয়াৰ ভাৰত ভ্ৰমণ কালত যুটীয়া সংবাদমেলত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ প্ৰেছ বিবৃতি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%DA%88%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A7%87%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,نئی دہلی۔03مئی وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ڈنمارک کے وزیر اعظم محترمہ میٹ فریڈرکسن کے ساتھ دو طرفہ میٹنگ کی۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں نے بالمشافہ ملاقات کی جس کے بعد وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی۔ دونوں وزرائے اعظم نے ہندوستان-ڈنمارک گرین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی پیشرفت کا جائزہ لیا۔ بات چیت میں قابل تجدید توانائی، خاص طور پر ساحل سمندر پر ہوائی چکی سے تیار کی جانے والی بجلی اور گرین ہائیڈروجن کے ساتھ ساتھ مہارت کی ترقی، صحت، جہاز رانی، پانی اور آرکٹک سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کا احاطہ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کے اہم پروگراموں میں ڈنمارک کی کمپنیوں کے مثبت تعاون کی ستائش کی۔ وزیر اعظم فریڈرکسن نے ڈنمارک میں ہندوستانی کمپنیوں کے مثبت کردار کو اجاگر کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے مابین عوامی رابطے کو وسعت دینے کی تعریف کی، اور نقل مکانی اور نقل و حرکت کی شراکت داری سے متعلق مشترکہ اعلامیہ کا خیرمقدم کیا۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وفود کی سطح کی بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان منظور کیا گیا جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ طے پانے والے معاہدوں کی فہرست یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (,ডেনমাৰ্কৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠকৰ প্ৰেছ বিজ্ঞপ্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-87-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%D8%A7%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%96%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%9A%E0%A7%80-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%A4-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج فون پر دلائی لامہ کو ان کی 87 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی ہے۔انہوں نے دلائی لامہ کی طویل عمر اور اچھی صحت کے لئے بھی دعا کی۔ وزیر اعظم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ: ’’آج فون پر عزت مآب @دلائی لامہ کو ان کی 87 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی ۔ ہم ان کی طویل عمر اور اچھی صحت کے لئے دعا گو ہیں۔‘‘,খাৰচী পূজাৰ শুভাৰম্ভণিত ৰাইজক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%86%D9%90-%D8%B2%DB%8C%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,نئی دہلی، یکم نومبر 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جاپان میں ایوانِ زیریں میں فتح حاصل کرنے پر عزت مآب فومیو کیشیدا کو مبارکباد پیش کی۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’جاپان میں ایوانِ زیریں میں فتح حاصل کرنے کے لئے @ کیشیدا 230 کو دلی مبارکباد۔ انڈو۔پیسفک خطے میں اور اس سے بھی آگے، ہماری خصوصی کلیدی حکمت عملی اور عالمی شراکت داری اور امن و سلامتی کو مزید مستحکم بنانے کے لئے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے پرجوش ہوں۔‘‘,জাপানৰ নিম্ন সদনৰ নিৰ্বাচনত বিজয় সাব্যস্ত কৰা মহামহিম ফুমিঅ কিশ্বিডাক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D8%B6%D9%84%D8%B9%DB%8C-%D9%BE%D9%86%DA%86%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%B8-2/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ، گزشتہ روز گجرات سے ضلعی پنچایت کے ارکان کے ساتھ ملاقات کی اور ان کے ساتھ دیہی ترقی نیز معاشرتی پیش رفت کے لئے جل شکتی کو آگے بڑھانے سے متعلق معاملات پر ،تفصیل کے ساتھ بات چیت کی ۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا: ‘‘ گزشتہ روز گجرات سے ضلعی پنچایت کے ارکان کے ساتھ ایک بہت عمدہ میٹنگ ہوئی ۔ ہم نے دیہی ترقی اور معاشرتی پیش رفت کے لئے جل شکتی کو آگے بڑھانے سے متعلق معاملات پرتفصیل کے ساتھ بات چیت کی۔’’,গুজৰাটৰ জিলা পঞ্চায়তৰ সদস্যসকলৰ�� মিলিত প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D9%88%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%AF-%DA%A9%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%86%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87/,"گوا کے گورنر جناب پی ایس سریدھرن پلئی جی،یہاں کے ہر دلعزیز نوجوان وزیر اعلی ویدھ پرمود ساونت جی، مرکزی وزراء سربانند سونووال جی، شری پد نائک جی، ڈاکٹر مہندر بھائی مونجاپاراجی، جناب شیکھرجی، دیگر معززین، ورلڈ آیوروید کانگریس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے آئے آیوش کے شعبے کے اسکالرز اور ماہرین، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات! میں گوا کی خوبصورت سرزمین پر عالمی آیوروید کانگریس کے لیے ہندوستان اور بیرون ملک سے جمع ہوئے آپ تمام دوستوں کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔ عالمی آیوروید کانگریس کی کامیابی کے لیے میں آپ سب کو تہہ دل سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔عالمی آیوروید کانگریس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہندوستان کی آزادی کے امرت کال کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ اپنے علم و سائنس اور ثقافتی تجربے کے ذریعہ دنیا کی فلاح و بہبود کا عزم امرت کال کا ایک بڑا ہدف ہے۔ اور، آیوروید اس کے لیے ایک مضبوط اور موثر ذریعہ ہے۔ ہندوستان اس سال جی 20گروپ کی صدارت اور میزبانی بھی کر رہا ہے۔ ہم نےجی 20 چوٹی کانفرنس کا تھیم بھی رکھا ہے – ""ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل""! آپ سب عالمی آیوروید کانگریس کے اس پروگرام میں ایسےہی موضوعات پر گفتگو کریں گے اور پوری دنیا کی صحت کے لیے صلاح و مشورہ کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ دنیا کے 30 سے زیادہ ممالک نے آیوروید کو روایتی ادویات کے نظام کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ہمیں مل کر اسے زیادہ سے زیادہ ممالک میں لے جانا ہے، آیوروید کو شناخت دلانی ہے۔ ساتھیوں، آج مجھے یہاں آیوش سے متعلق تین اداروں کوقوم کے نام وقف کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مجھے یقین ہے، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید-گوا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونیانی میڈیسن-غازی آباد، اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہومیوپیتھی-دہلی، یہ تینوں آیوش حفظان صحت کے نظام کو ایک نئی رفتار دیں گے۔ ساتھیوں، آیوروید ایک ایسی سائنس ہے، جس کا فلسفہ، جس کا نصب العین ہے- ’سروے بھونتو سکھینہ، سرو سنتو نرمایہ‘۔ یعنی ، سب کی خوشی، سب کی صحت۔ جب کوئی بیماری ہو جائے تو اس کا علاج کرنا کوئی مجبوری نہیں بلکہ زندگی بیماریوں سے پاک ہونی چاہیے۔ عام تصور یہ ہے کہ اگر کوئی ظاہری بیماری نہیں ہے تو ہم صحت مند ہیں ۔ لیکن، آیوروید کےنظریے سے ، صحت مند ہونے کی تعریف بہت وسیع ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آیوروید کہتا ہے – سمدوش سماگنیش،سمدھاتو مل کریا۔ پرسن آتمندریہ منہ، سوستھ ایتی ابھیدھیتے۔ یعنی جس کا جسم متوازن ہے، تمام سرگرمیاں متوازن ہیں، اورذہن خوش ہے، وہ صحت مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیوروید علاج سے بالاتر ہو کر تندرستی کے بارے میں بات کرتا ہے، تندرستی کو فروغ دیتا ہے۔ دنیا بھی اب تمام تبدیلیوں اور رجحانات سے نکل کر زندگی کے اس قدیم فلسفے کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور مجھے بہت خوشی ہے کہ ہندوستان میں اس حوالے سےپہلے ہی کام شروع ہو چکا ہے۔ جب میں گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر کام کرتا تھا، ہم نے اسی وقت سے ہی آیوروید کو فروغ دینے کے لیے بہت سی کوششیں شروع کی تھیں۔ ہم نے آیوروید سے متعلق اداروں کو فروغ دیا، گجرات آیوروید یونیورسٹی کو جدید بنانے کے لیے کام کیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج جام نگر میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کی جانب سے روایتی ادویات کے لیے دنیا کا پہلا اور واحد عالمی مرکز قائم کیا ہے۔ ملک میں بھی ہم نے حکومت میں آیوش کی الگ وزارت قائم کی، جس کی وجہ سے آیوروید کے لیے جوش اور اعتماد میں اضافہ ہوا۔ آج ایمس کے ہی خطوط پرآل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید بھی کھل رہے ہیں۔ اسی سال گلوبل آیوش انوویشن اینڈ انویسٹمنٹ سمٹ کا بھی کامیابی سے انعقاد کیا گیا ہے جس میں ڈبلیو ایچ او نے بھی ہندوستان کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ بین الاقوامی یوگا ڈے کو بھی اب پوری دنیا صحت اور تندرستی کے عالمی تہوار کے طور پر مناتی ہے۔ یعنی جس یوگا اور آیوروید کو پہلے نظر انداز کیا جاتا تھا، وہ آج پوری انسانیت کے لیے ایک نئی امید بن گیا ہے۔ ساتھیوں، آیوروید سے متعلق ایک اور پہلو بھی ہے جس کا ذکر میں ورلڈ آیوروید کانگریس میں ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ آنے والی صدیوں میں آیوروید کے روشن مستقبل کے لیے یہ اتنا ہی ضروری ہے۔ ساتھیوں، آیوروید کے حوالے سے عالمی اتفاق رائے، آسانی اور قبولیت میں اتنا وقت لگا کیونکہ جدید سائنس میں ثبوت کو بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پاس آیوروید کا نتیجہ بھی تھا اور اثر بھی، لیکن ثبوت کے لحاظ سے ہم پیچھے رہ گئے تھے۔ اور اس لیے، آج ہمارے لیے 'ڈیٹا بیسڈ ایویڈینس' کی دستاویزات تیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں طویل عرصے تک مسلسل کام کرنا ہوگا۔ ہماراجو طبی ڈیٹا، تحقیق ہے، جرائدہیں، ہمیں ان سب کو ایک ساتھ لانا ہوگا اور ہر دعوے کی جدید سائنسی طریقہ کار پر تصدیق کرنی ہوگی۔ ہندوستان میں گزشتہ سالوں میں اس سمت میں بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے۔ ہم نے ثبوت پر مبنی تحقیقی ڈیٹا کے لیے آیوش ریسرچ پورٹل بھی بنایا ہے۔ اس پر اب تک تقریباً 40 ہزار تحقیقی مطالعات کا ڈیٹا دستیاب ہے۔ یہاں تک کہ کورونا کے دوران بھی ، ہمارے پاس آیوش سے متعلق تقریباً 150 مخصوص تحقیقی مطالعات ہوئے ہیں۔ اس تجربے کو آگے بڑھاتے ہوئے، اب ہم 'نیشنل آیوش ریسرچ کنسورشیم' بنانے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں ہندوستان میں، ایمس میں سنٹر فار انٹیگریٹڈ میڈیسن جیسے اداروں میں بھی یوگا اور آیوروید سے متعلق کئی اہم تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں سے نکلے آیوروید اور یوگا سے متعلق تحقیقی مقالےممتاز بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں، جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی اور نیورولوجی جرنل جیسے معزز جرائد میں بہت سے تحقیقی مقالے شائع ہوئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ورلڈ آیوروید کانگریس کے تمام شرکاء آئیں، تعاون کریں اور آیوروید کو عالمی وقار دلانے کے لیے ہندوستان کے ساتھ تعاون کریں۔ بھائیوں اور بہنوں، آیوروید کی ایسی ہی ایک اور خاصیت ہے، جس پر بہت کم بحث کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آیوروید صرف علاج کے لیے ہے، لیکن اس کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ آیوروید ہمیں زندگی جینے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اگر میں آپ کو جدید اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے سمجھانا چاہتا ہوں تو میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ آپ دنیا کی بہترین کمپنی سے بہترین کار خریدتے ہیں۔ اس کار کے ساتھ اس کی کتابچہ بھی آتی ہے۔ اس میں کون سا ایندھن ڈالنا ہے، اسے کب اور کیسے سروسینگ کرانا ہے، اس کی دیکھ بھال کیسے کرنی ہے، ہمیں یہ ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ڈیزل انجن والی گاڑی میں پٹرول ڈال دیا تو گڑبڑ یقینی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کمپیوٹر چلا رہے ہیں تو اس میں اس کے تمام ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کو ٹھیک سے کام کرنا چاہیے۔ ہم اپنی مشینوں کا خیال تو رکھتے ہیں لیکن اپنے جسم پر توجہ نہیں دیتے کہ کیسا کھاناہے، کیا کھاناہے ، کیسا معمول ہے، کیا نہیں کرنا چاہیے۔ آیوروید ہمیں سکھاتا ہے کہ ہارڈ ویئر سافٹ ویئر کی طرح ہی جسم اور دماغ کو ایک ساتھ صحت مند ہونا چاہیے، ان میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر، آج مناسب نیند میڈیکل سائنس کے لیے ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مہارشی چرک جیسے استاد اس پر صدیوں پہلے تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ یہی آیوروید کی خوبی ہے۔ ساتھیوں، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے- 'سوستیام پرمارتھ سادھنم'۔ یعنی صحت ہی معنی اور ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہ منتر ہماری ذاتی زندگی کے لیے جتنا معنی خیز ہے، معیشت کے نقطہ نظر سے بھی اتنا ہی موزوں ہے۔ آج آیوش کے شعبہ میں لامحدود نئے امکانات جنم لے رہے ہیں۔ آیورویدک جڑی بوٹیوں کی کاشت ہو، آیوش ادویات کی تیاری اور سپلائی ہو، ڈیجیٹل خدمات ہوں، آیوش اسٹارٹ اپس کے لیے ان میں بہت گنجائش ہے۔ بھائیوں بہنوں، آیوش انڈسٹری کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اس میں ہر ایک کے لیے مختلف قسم کے مواقع دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر، آج ہندوستان میں آیوش کے میدان میں، تقریباً 40 ہزار ایم ایس ایم ای ، چھوٹے پیمانے کی صنعتیں بہت سے مختلف پیداوار پیش کر رہی ہیں، بہت سے مختلف اقدامات کر رہی ہیں۔ ان سے مقامی معیشت کو کافی تقویت مل رہی ہے۔ آٹھ سال پہلے، ملک میں آیوش کی صنعت صرف 20,000 کروڑ روپے کے قریب تھی۔ آج آیوش انڈسٹری تقریباً 1.5 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ رہی ہے۔ یعنی 8-7 سالوں میں تقریباً 7 گنا شرح نمو۔ آپ تصور کر سکتے ہیں، آیوش اپنے آپ میں ایک بڑی صنعت، ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ آنے والے وقت میں عالمی منڈی میں اس میں مزیدوسعت ہونی لازمی ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ عالمی جڑی بوٹیوں کی ادویات اور مسالوں کی مارکیٹ تقریباً 120 بلین ڈالر یعنی تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ روایتی ادویات کا یہ شعبہ مسلسل پھیل رہا ہے اور ہمیں اس کے تمام امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دیہی معیشت کے لیے، ہمارے کسانوں کے لیے زراعت کا ایک بالکل نیا شعبہ کھل رہا ہے، جس میں انھیں بہت اچھی قیمت مل سکتی ہے۔ اس میں نوجوانوں کے لیے ہزاروں لاکھوں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ ساتھیوں، آیوروید کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ایک اور بڑا پہلو آیوروید اور یوگا کی سیاحت بھی ہے۔ گوا جیسی ریاست میں، جو سیاحت کا مرکز ہے، آیوروید اور نیچروپیتھی کو فروغ دے کر سیاحت کے شعبے کو ایک نئی بلندی دی جا سکتی ہے۔ گوا کا آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید اس سمت میں ایک اہم شروعات ثابت ہو سکتا ہے۔ ساتھیوں، آج ہندوستان نے دنیا کے سامنے 'ایک زمین، ایک صحت،مستقبل کا ایک وژن بھی پیش کیا ہے۔ 'ایک زمین، ایک صحت' کا مطلب ہے صحت کے لیے ایک عالمگیروژن ۔ خواہ پانی میں رہنے والے جانور ہوں، جنگلی جانور ہوں، انسان ہوں یا پودے، ان کی صحت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ انہیں تنہائی میں دیکھنے کے بجائے، ہمیں انہیں مکمل طور پر دیکھنا ہوگا۔ آیوروید کا یہ جامع نظریہ ہندوستان کی روایت اور طرز زندگی کا ایک حصہ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ گوا میں منعقد ہونے والی اس عالمی آیوروید کانگریس میں اس طرح کے تمام پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی جائے۔ ہم سب مل کر آیوروید اور آیوش کو مجموعی طور پر کیسے آگے لے جا سکتے ہیں، اس کا ایک لائحہ عمل ��یار کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سمت میں آپ کی کوششیں ضرور کارگر ثابت ہوں گی۔ اس یقین کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ اور آیوش اور آیوروید کو بہت سی نیک خواہشات۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 13654",গোৱাত নৱম বিশ্ব আয়ুৰ্বেদ কংগ্ৰেছৰ সামৰণি অধিৱেশনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D9%88%D8%B1%D8%A8%D8%A7%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%AC/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں کستوربا گاندھی مارگ اور افریقہ اوینیو پر دفاعی دفاتر کے احاطوں کا افتتاح کیا۔ انہوں نے افریقہ اوینیو دفاعی دفتر احاطہ کا دورہ بھی کیا اور بری ، بحری ،فضائی افواج اور سویلین عہدیداروں سے بات چیت بھی کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ احاطوں کے ا ٓج کے افتتاح میں بھارت نے ہندوستان کی آزادی کے 75 ویں سال میں ایک نئے بھارت کی ضرورتوں اورامنگوں کے مطابق ملک کی راجدھانی کو فروغ دینے میں ایک اور قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کو اجاگرکیا کہ ایک طویل عرصے سے دفاع سے متعلق کام کاج ان کچے مکانوں سے کیا جارہا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران تعمیر کئے گئے تھے، اورجنہیں گھوڑوں کے اسطبل اور فوجی بیرکوں سے متعلق ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس نئے دفاعی دفتر احاطے سے ہماری دفاعی افواج کے کام کاج کو آسان اور موثر کن بنانے کی کوششوں کو استحکام حاصل ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہاکہ کے جی مارگ اور افریقہ اوینیو مقامات پر ان جدید دفاتر کی تعمیر سے ملک کی سیکورٹی سے متعلق سبھی کاموں کو موثر کن طور پر کرنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔ راجدھانی میں جدید دفاعی ا نکلیو کی تعمیر کی سمت میں یہ ایک بڑا قدم ہے۔ انہوں نے آتم نربھر بھارت کی علامتوں کے طور پر احاطوں میں بھارتی فنکاروں کے ذریعہ دستکاری کے جاذب نظر نمونوں کو شامل کرنے کی تعریف کی۔انہوں نے کہاکہ یہ احاطے د ہلی اور ماحولیات کا تحفظ انجام دیتے ہوئے‘‘ہماری متنوع ثقافت کی جدید شکل کی عکاسی کرتے ہیں’’۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم راجدھانی کی بات کرتے ہیں تو یہ محض ایک شہر نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کی راجدھانی اس ملک کی سوچ،عزم مصمم، قوت اور کلچر کی ایک علامت ہوتی ہے ۔بھارت ایک جمہوری اقدار کوفروغ دینے والا ملک ہے ،لہذا بھارت کی راجدھانی اس طرح کی ہونی چاہئے جس میں ہمارے شہریوں اور عوام کو مرکزی مقام حاصل ہو۔ وزیراعظم نے حکومت کی توجہ مرکوز کرنے میں جدید بنیادی ڈھانچے کے رول کی اہمیت پر زور دیا تاکہ رہن سہن اور کاروبار میں آسانی پیدا ہوسکے۔ وزیراعظم نے کہاکہ سینٹرل وسٹا کی تعمیر کا اسی طرز فکر پر کام چل رہا ہے۔ راجدھانی کی امنگوں کے مطابق نئی تعمیرات کی کوششوں کو گنواتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ عوامی نمائندوں کی رہائش گاہیں، باباصاحب امبیڈکر کی یادگار کا تحفظ کئے جانے کی کوششیں ،کئی بھونوں، ہمارے شہیدوں کی یاد گاروں جیسی نئی تعمیرات ہماری راجدھانی کی شان و شوکت بڑھا رہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ دفاعی دفتر ا حاطے کا کام جو24 مہینے میں مکمل ہونا تھا وہ محض 12 مہینے کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرلیا گیا ہے۔ ایسا اس کے باوجود ہوا جب ملک کو کورونا سے پیدا شدہ حالات میں مزدوری سے متعلق دیگر سبھی چیلنجز کابھی سامنا تھا۔ کورونا کی مدت کے دوران اس پروجیکٹ میں ہزاروں ورکروں کو روزگارحاصل ہوا۔ وزیراعظم نے اس کا سہرا حکومت کے کام کرنے میں ایک نئی سوچ اور موقف اپنائے جانے کو دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ جب پالیسیاں اور ارادے واضح ہوں، قوت ارادی مضبوط ہو اور ایماندارانہ کوششیں ہوں تو ہر چیز ممکن ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ یہ دفاعی دفاتر احاطے حکومت کے کام کرنے کےتبدیل شدہ موقف اور سوچ کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت کے مختلف محکموں میں دستیاب اراضی کا بہترین اور مناسب استعمال اس طرح کی ایک ترجیح ہے۔ اس کی مثال پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے مطلع کیا کہ دفاعی دفاتر کے یہ احاطے 13ایکڑ اراضی میں تعمیر کئے جائیں گے جبکہ اس سے پہلے اس طرح کے احاطوں کے لئے پانچ گنا زیادہ اراضی کا استعمال کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ اگلے 25 سالوں میں جو ‘‘ آزادی کا امرت کال’’ ہوگا، اس طرح کی کوششوں سے حکومت کے کام کرنے اور اس کے موثر کن ہونے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے یہ بات کہتے ہوئے اپنی تقریر ختم کی کہ ایک کامن سینٹرل سکریٹریٹ کی دستیابی سے کانفرنس ہال اور میٹرو وغیرہ کو جوڑنے والی آسان کنکٹویٹی سے راجدھانی کو عوام دوست بنانے میں بہت مدد ملے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ش ر ۔ ف ر,প্রধানমন্ত্রীয়ে কস্তুৰবা গান্ধী মার্গ আৰু আফ্রিকা এভিনিউত প্রতিৰক্ষা দপ্তৰৰ অফিচ কমপ্লেক্সৰ উদ্বোধন কৰিছ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A6%A3%E0%A6%A4%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,معزز حضرات نمسکار مجھے اس سربراہی کانفرنس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی نمائندگی کرنے پر فخر محسوس ہورہاہے۔ جمہوری روح ہماری تہذیبی اقدار کا لازمی جزو ہے۔ تقریباً 2500 سال پہلے ہندوستان میں لچھاوی اور شاکیہ جیسی منتخب جمہوری شہری ریاستیں پروان چڑھیں۔ یہی جمہوری جذبہ 10ویں صدی کے ‘‘اترمیرور’’ کے نوشتہ میں نظر آتا ہے جس نے جمہوری شراکت کے اصولوں کو ضابطے کی شکل دی ۔ اسی جمہوری جذبے اور اخلاق نے قدیم ہندوستان کو سب سے زیادہ خوشحال بنا دیا تھا۔ صدیوں کی نوآبادیاتی حکمرانی ہندوستانی عوام کے جمہوری جذبے کو دبا نہیں سکی۔یہی جذبہ تھا جو ایک بار پھر ہندوستان کی آزادی کی شکل میں مکمل طور پر سامنے آیا اور اسی نے گزشتہ 75 سالوں میں جمہوری قوم کی تعمیر میں ایک بے مثال داستان رقم کی۔ یہ کہانی ، تمام شعبوں میں بے مثال سماجی و اقتصادی شمولیت کی کہانی ہے۔ یہ ایک ناقابل تصور پیمانے پر صحت، تعلیم اور انسانی بہبود میں مسلسل بہتری کی کہانی ہے۔ ہندوستان کی کہانی دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ وہ جمہوریت کی ترسیل کر سکتی ہے، وہ جمہوریت کی ترسیل کر چکی ہے، اور وہ جمہوریت ترسیل کرتی رہے گی۔ معزز حضرات کثیر الجماعتی انتخابات، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا جیسی ساختی خصوصیات جمہوریت کے ہاتھ پاؤں ہیں۔ تاہم جمہوریت کی بنیادی طاقت وہ جذبہ اور اخلاق ہے جو ہمارے شہریوں اور ہمارے معاشروں میں موجود ہے۔ جمہوریت صرف عوام کی، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے نہیں بلکہ عوام کے ساتھ، عوام کے اندر بھی ہوتی ہے۔ معزز حضرات دنیا کے مختلف حصوں میں جمہوری ترقی کے مختلف راستوں پر عمل کیا گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب کو اپنے جمہوری طریقوں اور نظام کو مسلسل بہتر بنانے کی ضرورت ہے اسی کے ساتھ ساتھ، ہم سب کو مسلسل شمولیت، شفافیت، انسانی وقار، شکایات کے مناسب ترین ازالے اور طاقت کی غیر ارتکازیت کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں، آج کا اجتماع جمہوریتوں کے درمیان تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بروقت پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ ہندوستان کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں اور اختراعی ڈیجیٹل اقدامات کے ذریعہ حکمرانی کے تمام شعبوں میں شفافیت کو بڑھانے میں اپنی مہارت کا دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے میں خوشی ہوگی۔ ہمیں سوشل میڈیا اور کرپٹو کرنسیوں جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے لیے مشترکہ طور پر عالمی معیارات کو تشکیل دینا چاہیے، تاکہ ان کا استعمال جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے کیا جائے، نہ کہ اسے کمزور کرنے کے لیے۔ معزز حضرات مل کر کام کرنے سے جمہوریت ہمارے شہریوں کی امنگوں پر پورا اتر سکتی ہے اور انسانیت کے جمہوری جذبے کا جشن منا سکتی ہے۔ ہندوستان اس مقدس کوشش میں ساتھی جمہوری ممالک کے ساتھ شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ شکریہ بہت بہت شکریہ.,গণতন্ত্ৰ সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ ৰাষ্ট্ৰীয় বিবৃত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%DA%AF%D8%B1%D9%86%D8%AA%DA%BE-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%97%E0%A7%81-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شری گرو گرنتھ صاحب جی کے پرکاش پورب کے پر مسرت موقع پر سب کو، خاص کر سکھ کمیونٹی کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’آج، شری گرو گرنتھ صاحب جی کے پرکاش پورب کے پرمسرت موقع پر سب کو، خاص کر سکھ کمیونٹی کو مبارکباد۔ شری گرو گرنتھ صاحب جی کی مقدس تعلیمات لاکھوں لوگوں کو طاقت بخشتی ہیں اور ہمارے معاشرہ کو مزید منصفانہ، شمولیتی اور ہمدرد بناتی ہیں۔‘‘,প্রধানমন্ত্রীয়ে শ্ৰী গুৰু গ্ৰন্থ সাহিব জীৰ প্ৰকাশ পৰ্বৰ পৱিত্ৰ উপলক্ষে অভিনন্দন জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D8%A2%D8%B1%D8%A2%D8%B1-%D8%A2%D8%A6%DB%8C%D8%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%88%DB%8C%D8%B1%D9%81%D9%84%D9%BE%D8%A7%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A6%86%E0%A6%87-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%87/,نئی دہلی،13؍ نومبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج فلپائن کے شہر لاس بنوس میں واقع انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آر آئی) کا دورہ کیا۔ آئی آر آر آئی ایک مؤقر تحقیقی ادارہ ہے، جو رائس (چاول) سائنس، چاول کی کھیتی کرنے والے کسانوں اور اس کے صارفین کی صحت اور فلاح و بہبود کے کام میں بہتری اور آنے والی نسلوں کیلئے چاول کی کھیتی کیلئے درکار ماحول کا تحفظ کرکے غریبی اور بھکمری میں کمی لانے کے تئیں وقف ہے۔ وزیراعظم نے ایک تصویری نمائش کا معائنہ بھی کیا، جس میں سیلاب کی صورتحال کو برداشت کرجانے والی چاول کی اقسام، خشک سالی کو برداشت کرجانے والی چاول کے اقسام ، کھارے پن کو برداشت کرجانے والی چاول کے اقسام اور خواتین پر مشتمل زرعی امداد باہمی کی تنظیموں کے ساتھ آئی آر آر آئی کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ وزیراعظم نے غرقابی کی صورتحال کو برداشت کرجانے والے چاول کے اقسام سے متعلق ایک نئے پلاٹ میں علامتی طورپر زمین کی کھدائی بھی کی۔ انہوں نے شری نریندر مودی ریزی لیئنٹ رائس فیلڈ لیباریٹری کے افتتاح سے متعلق ایک تختی کی بھی نقاب کشائی کی۔ انہوں نے ہندوستانی چاول کی دو قسموں کے بیج بھی آئی آر آر آئی کے جین بینک کے سپرد کئے۔ دورے کے دوران وزیراعظم نے آئی آر آر آئی میں کام کرنے والے متعدد ہندوستانی سائنسدانوں کے ساتھ تبادلۂ خیال بھی کیا۔ وزیراعظم نے منیلا میں وا قع مہاویر فلپائن فاؤنڈیشن کا بھی دور ہ کیا۔ یہ ہندوستان اور فلپائن کے درمیان طویل عرصے سے جاری، انسانی بنیادوں پر باہمی تعاون کا پروگرام ہے، جسے منیلا کے بھارت نژاد میئرڈاکٹر رامو ن بگات سنگ نے قائم کیا تھا۔یہ فاؤنڈیشن ، مہاویر وِکلانگ سہایتا سمیتی کے اشتراک سےعضو بریدہ (وہ شخص جس کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا ہو)ضرورت مند افراد کیلئے جے پور فوٹ لگانےے میں نمایاں کردار ادا کرتا آیا ہے۔ وزیراعظم نے جے پور فوٹ سے مستفید ہونے والے لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی کی۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (13.11.2017) م ن۔ م م ۔ک ا,"আইআৰআৰআই, মহাবীৰ ফিলিপাইনছ ফাউণ্ডেছন পৰিদৰ্শন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%88%D8%AC%D8%A7-%DA%AF%DB%81%D9%84%D9%88%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-50-%DA%A9%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%A6-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%93%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے برمنگھم میں منعقدہ 2022 کے دولت مشترکہ کھیلوں میں خواتین کی 50 کلوگرام ریسلنگ میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر پوجا گہلوت کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’پوجا گہلوت کو کشتی میں کانسے کا تمغہ جیتنے پر مبارکباد۔ اس نے پوری بہادری سے مقابلہ کیا اور کھیلوں کے ذریعہ غیر معمولی تکنیکی برتری کا مظاہرہ کیا۔ اس کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات۔ #Cheer4India‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( 8812,মহিলাৰ ৫০ কিলোগ্ৰাম ওজনৰ শাখাত কুস্তি প্ৰতিযোগিতাত ব্ৰঞ্জৰ পদক জয় কৰাৰ বাবে পূজা গেহলটক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%88%D9%88%DB%8C%DA%88-19%D8%8C-%D8%A7%D9%88%D9%85%DB%8C%DA%A9%D8%B1%D9%88%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%D9%84%DA%A9-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج کوویڈ-19 اور نئے ویرئینٹ آف کنسرن (وی او سی)، اومیکرون، کوویڈ 19 کی روک تھام اور انتظام کے لیے صحت عامہ کے رسپانس کے اقدامات، ادویات، آکسیجن سلنڈروں اور کنسٹنٹریٹرز، وینٹی لیٹرز، پی ایس اے پلانٹس، آئی سی یو/آکسیجن سپورٹڈ بستروں، انسانی وسائل، آئی ٹی مداخلتوں اور ٹیکہ کاری کی صورت حال سمیت صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ افسران نے وزیر اعظم کو عالمی سطح پر نئے ویرئینٹ کی وجہ سے ابھرتے ہوئے منظر نامے کے بارے میں آگاہ کیا جس میں ان ممالک میں اضافے کا جائزہ لیا گیا جن میں ٹیکہ کاری کی زیادہ کوریج اور اومیکرون ویرئینٹ کی موجودگی ہے۔ وزیر اعظم کو اومیکرون کے تناظر میں عالمی صحت تنظیم کی سفارش کردہ تکنیکی تفصیلات اور ترجیحی اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ملک میں کوویڈ 19 اور اومیکرون کی صورت حال کا مختصر پریزنٹیشن پیش کی گئی جس میں ان ریاستوں جہاں زیادہ تعداد میں معاملات کی اطلاع دی گئی، وہ اضلاع جہاں زیادہ مثبتیت کی اطلاع دی گئی اور زیادہ تعداد والے کلسٹرز کی تفصیلات وزیر اعظم کو پیش کی گئیں۔ ملک میں رپورٹ ہونے والے اومیکرون کے معاملات کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں جن میں سفری تاریخ، ٹیکہ کاری کی صورت حال اور شفایاب ہونے والوں صورت حال شامل تھی۔ وزیر اعظم کو 25 نومبر 2021 سے اب تک کیے گئے مختلف اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا گیا جب مرکزی وزارت صحت کی پہلی ایڈوائزری ریاستوں کو بھیجی گئی تھی۔ بین الاقوامی مسافروں کے لیے نظر ثانی شدہ ٹریول ایڈوائزری، کوویڈ-19 پبلک ہیلتھ رسپانس اقدامات پر ریاستوں /مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ میٹنگوں کا جائزہ، ٹیکہ کاری بڑھانے، آکسیجن سپلائی آلات کی تنصیب وغیرہ کے بارے میں وزیر اعظم کو آگاہ کیا گیا۔ اہل کاروں کی پریزنٹیشن کے بعد وزیر اعظم نے انھیں ہدایت کی کہ وہ ہر سطح پر اعلی سطحی نگرانی اور چوکسی برقرار رکھیں۔ انھوں نے مرکز کو ہدایت کی کہ وہ ریاستوں کے ساتھ قریبی ہم آہنگی سے کام کرے تاکہ 'پوری حکومت' کے اپروچ کے تحت روک تھام اور انتظام کے صحت عامہ کے اقدامات کی ان کی کوششوں میں مدد کی جاسکے۔ وزیر اعظم نے اہل کاروں کو ہدایت کی کہ وبا کے خلاف فعال، مرکوز، تعاون اور شراکت پر مبنی جنگ کے لیے ہمارے مستقبل کے تمام اقدامات مرکز کی حکمت عملی کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔ نئے ویریئنٹ کے پیش نظر ہمیں چوکس اور محتاط رہنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ وبا کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور کوویڈ کے محفوظ طرز عمل کی مسلسل پاس داری کی ضرورت آج بھی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ وزیر اعظم نے اہل کاروں کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ضلعی سطح سے شروع کرکے ریاستوں میں صحت کے نظام کو مضبوط بنایا جائے تاکہ نئے ویریئنٹ سے پیدا ہونے والے کسی بھی چیلنج سے نمٹا جاسکے۔ انھوں نے افسران سے کہا کہ ریاستوں کے لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ آکسیجن کی فراہمی کے آلات نصب اور مکمل طور پر فعال ہوں۔ انھوں نے ان کو ہدایت کی کہ وہ ریاستوں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر کام کریں اور انسانی وسائل کی تربیت اور صلاحیت سازی، ایمبولینسوں کی بروقت دستیابی، ادارہ جاتی قرنطینہ کے لیے کوویڈ سہولیات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاستوں کی تیاری اور گھر پر علیحدگی میں رہنے والوں کی موثر نگرانی سمیت صحت کے بنیادی ڈھانچے کے مختلف اجزا کی تیاریوں کی صورت حال کا جائزہ لیں۔ انھوں نے اہل کاروں کو ٹیلی میڈیسن اور ٹیلی مشاورت کے لیے آئی ٹی ٹولز کے موثر استعمال کی بھی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ابھرتے ہوئے کلسٹروں اور ہاٹ سپاٹس کی نگرانی جاری رہنی چاہیے۔ انھوں نے فوری طریقے سے آئی این ایس اے سی او جی لیبز کو جینوم سیکوئنسنگ کے لیے اچھی تعداد میں مثبت نمونے بھیجنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے بروقت روک تھام اور علاج کے لیے معاملات کی فوری شناخت کو یقینی بنانے کے لیے جانچ میں تیزی لانے کی بھی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ٹرانسمیشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے موثر رابطہ ٹریسنگ پر بھی توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ وزیر اعظم نے اہل کاروں کو ہدایت کی کہ مرکزی حکومت کو کم ٹیکہ کاری، بڑھتے ہوئے معاملات، صحت کے ناکافی بنیادی ڈھانچے والی ریاستوں میں ٹیمیں بھیجنی چاہئیں تاکہ صورت حال کو بہتر بنانے میں ان کی مدد کی جاسکے۔ وزیر اعظم کو ملک بھر میں ٹیکہ کاری میں پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔ انھیں بتایا گیا کہ اہل آبادی کا 88 فیصد سے زائد حصےکوویڈ19 ویکسین کی پہلی خوراک دے دی گئی ہے جب کہ 60 فیصد سے زائد اہل آبادی کو دوسری خوراک مل چکی ہے۔ اہل کاروں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ لوگوں کو متحرک کرنے اور ٹیکہ لگانے کے لیے 'ہر گھر دستک 'ویکسی نیشن مہم لوگوں کو کوویڈ 19 ویکسین لینے کی ترغیب دینے میں کام یاب رہی ہے اور ویکسین کوریج کو بڑھانے میں حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ریاستوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اہل آبادی کو کوویڈ 19 کے مکمل طور پر ٹیکے لگائے جائیں اور ہدف کو سیچوریشن موڈ میں پورا کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس میٹنگ میں کابینہ سکریٹری ڈاکٹر وی کے پال، ممبر (صحت) نیتی آیوگ، اے کے بھلا، ہوم سکریٹری، جناب راجیش بھوشن، سکریٹری (ایم او ایچ ایف ڈبلیو)، سکریٹری (فارماسیوٹیکلز)، ڈاکٹر راجیش گوکھلے، سکریٹری (بائیو ٹکنالوجی)، ڈاکٹر بلرام بھارگو، ڈی جی آئی سی ایم آر، جناب ویدیا راجیش کوٹیکا، سکریٹری (آیوش)، جناب درگا شنکر مشرا، سکریٹری (شہری ترقی)، ایس ایچ آر ایس شرما کے سی ای او این ایچ اے، پروفیسر کے وجے راگھون (بھارت سرکار کے پرنسپل سائنسی مشیر) نیز دیگر سینئر اہل کاروں نے شرکت کی۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে সমগ্ৰ দেশৰ স্বাস্থ্য ব্যৱস্থাৰ বাবে কোভিড-১৯, অ’মাইক্ৰন আৰু প্ৰস্তুতিৰ পৰ্যালোচনা কৰিবলৈ এক উচ্চ পৰ্যায়ৰ বৈঠকত সভাপতিত্ব কৰে" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%88-%D8%A8%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%88%D9%86-%D8%B3%DB%92-%D8%B3%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1%DB%8C-%D8%B7%D9%88%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%98%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A3%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایان سمندری طوفان کی وجہ سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور تباہی پر امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے دلی تعزیت اور دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ سمندری طوفان ایان کی وجہ سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور تباہی پر ایٹ پوٹس ایٹ جوبائیڈن (,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ঘূৰ্ণীবতাহ ইয়ানৰ কাৰণে হোৱা জনজীৱনৰ ক্ষতিৰ বাবে ৰাষ্ট্ৰপতি জো বাইডেনৰ প্ৰতি সমবেদনা ব্যক্ত কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%B3%D9%B9%D9%85-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%85%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D8%A7%DB%81%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%B8%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%85%D8%AF%D8%A7%D8%AF%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%A4-%E0%A6%86%E0%A7%B1%E0%A6%95/,نئی دہلی ،یکم ؍مارچ :مرکزی کابینہ نے وزیراعظم، جناب نریندرمودی کی سربراہی میں بھارت اوراُردن کے مابین کسٹم معاملات سے متعلق باہمی انتظامی امداد کے ایک معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے اس پردستخط کئے جانے کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ اس معاہدے سے کسٹم سے متعلق جرائم کی تفتیش اورروک تھام سے متعلق مفید اطلاعات کی دستیابی میں مدد ملے گی۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ معاہدہ تجارت کو فروغ دیگااور دونوں ممالک کے مابین تجارت کے سازوسامان کی موثر کلیئرنس کا راستہ ہموار کریگا۔ پس منظر یہ معاہدہ دونوں ممالک کے کسٹم حکام کے مابین اطلاعات اور خفیہ اطلاعات ساجھا کرنے کے لئے ایک قانونی فریم ورک فراہم کریگااور کسٹم قوانین کے معقول اطلاق میں بھی مد د دیگا۔ کسٹم جرائم کی روک تھام اور تفتیش ممکن ہوسکے گی اورقانونی تجارت کا راستہ ہموارہوگا۔ اس معاہدے کے مسودے کو دونوں ممالک کے کسٹم حکام کی رضامندی سے حتمی شکل دی جاچکی ہے ۔مسودہ معاہدے کے تحت بھارت کی کسٹم سے متعلق تشویش اور ضروریات خصوصاًکسٹم کی مالیت کے صحیح صحیح تعین سے متعلق اطلاعات کے تبادلے کے شعبے میں جوتشویشات ہیں،انھیں حل کرنے ، محصولاتی درجہ بندی اور ، دونوں ممالک کے مابین جن اشیأ کی تجارت ہوتی ہے ان کی ارتقأ اوران پرعائد ہونے والے محصولات سے متعلق تشویشات کو بھی مدنظررکھاگیاہے ۔ (م ن ۔ ع آ۔820101.03.),ভাৰত আৰু জৰ্দানৰ মাজত আৱকাৰী ক্ষেত্ৰত পাৰস্পৰিক প্ৰশাসনিক সহযোগিতাৰ বাবে বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%D9%86%D8%AF%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D8%B3%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC/,نئی دلّی ، 19 اپریل؍ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لندن ، برطانیہ عظمی میں منعقدہ بھارت کی بات سب کے ساتھ پروگرام میں دنیا بھر کے شرکاء کے ساتھ بات چیت کی ۔ انہوں نے پروگرام کے شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیئے ۔ شرکاء سے ملاقات کے دوران بات چیت کے اقتباسات درج ذیل ہیں : ۔ ریلوے اسٹیشن میری زندگی کا سنہری صفحہ جس نے مجھے جینا اور جوجھنا سکھایا ۔ ریلوے اسٹیشن میں جو شخصیت تھی ، وہ نریندر مودی کی تھی ۔ لندن کے رائل پیلیس میں جو شخص ہے وہ 125 کروڑ ہندوستانیوں کا خادم ہے ۔ میری ریلوے اسٹیشن کی زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھایا ۔ یہ میری ذاتی زندگی سے متعلق تھی ۔ جب آپ کہتے ہیں رائل پیلیس ، اس کا تعلق مجھ سے نہیں ہے ، اس کا تعلق 125 کروڑ ہندوستانی عوام سے ہے ۔ بے صبری کوئی بری چیز نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص سائیکل رکھتا ہے، تواسکوٹر کی امید کرتا ہے ، اگر ایک شخص اسکوٹر رکھتا ہے ، تو کار کا خواہش مند ہے ۔ خواہش مند ہونا فطری بات ہے ۔ ہندوستان کی خواہشات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس لمحے تسلی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے ،تو پھر زندگی آگے نہیں بڑھتی ۔ ہر عمر ،ہر دور میں کچھ نہ کچھ نیا پانے کو رفتار دیتا ہے ۔ جذبہ ہونا سب سے ضروری ہے ۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ آج سوا سو کروڑ لوگوں کے دل میں ایک امنگ ، امید اور عہد کا جذبہ ہے ۔ اور لوگ مجھ سے امید کر رہے ہیں ۔ میں تاریخ کی کتابوں میں درج ہونے کا مقصد لے کر پیدا نہیں ہوا تھا ، میں آپ سب لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مودی کو نہیں ہمارے ملک کو یاد رکھیں ۔ میں آپ جیسا ہی ہوں ، ایک عام ہندوستانی شہری ۔ ہاں ، لوگوں نے ہم سے زیادہ توقعات وابستہ کر لی ہیں ، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں ۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ جب وہ کچھ کہیں گے تو حکومت اسے سنے گی اور کرے گی ۔ لوگوں کی مجھ سے امیدیں اس لئے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ ہم کر کے ضرور دکھائیں گے ۔ بے صبری میرے لئے توانائی ہے ،اور جب آپ سرو جن ہتائے سرو جن سُکھائے کے عزم کو لے کر چلتے ہیں تو نا ا��یدی کی بات ہی نہیں اٹھتی ۔ تب اور اب میں زمین آسمان کا فرق کیونکہ جب پالیسی واضح ہو ، نیت صاف ہو ، اور ارادے نیک ہوں تو اسی انتظام کے ساتھ آپ امید کے مطابق نتائج لے سکتے ہیں ۔ جدو جہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی نے کچھ بہت مختلف کیا ۔ انہوں نے آزادی کی جدو جہد کو ایک عظیم تحریک میں تبدیل کر دیا ۔ انہوں نے ہر شخص کو بتایا کہ جو کچھ بھی آپ کر رہے ہیں ، وہ بھارت کی آزادی میں تعاون دے گا ۔ آج وقت کی مانگ ہے کہ ترقی کو ایک جامع تحریک بنایا جائے ۔ شرکت پر مبنی جمہوریت اچھی حکمرانی کو ممکن بناتی ہے ۔ جمہوریت ، کوئی کانٹریکٹ معاہدہ نہیں ، یہ شراکت داری کا کام ، عوام کی طاقت بہت ہوتی ہے اور ان پرکتنا بھروسہ ہوگا ، اس کے نتائج دیکھنے کو ملیں گے ۔ بھارت کے ماضی کی تاریخ کی جانب دیکھیں ۔ بھارت نے کبھی کسی دیگر علاقے کی خواہش نہیں کی ۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران حصہ نہیں تھا ، تاہم ہماری فوجوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا ۔ یہ بڑی قربانیاں تھیں ۔ اقوام متحدہ کی قیام امن قائم کرنے والی فوجوں میں ہمارے کردار کو ملاحظہ فرمائیے ۔ ہم امن میں یقین رکھتے ہیں ۔ لیکن ہم دہشت گردی برآمد کرنے والوں کو برداشت نہیں کریں گے ۔ ہم انہیں اسی زبان میں جواب دیں گے جووہ سمجھتے ہیں ۔ دہشت گردی کبھی بھی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ جو لوگ دہشت گردی کو برآمد کرتے ہیں ، میں ان سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بھارت بدل گیا ہے اور ان کی یہ حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی ۔ مجھے غریبی کو سمجھنے کے لئے کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ،میں غربت میں رہاہوں ۔ میں جانتاہوں غریبی کیا ہوتی ہے اور سماج کے پسماندہ طبقے کا فرد ہونا کیا ہوتا ۔ ہے ۔میں غریبوں ،حاشیہ سے نیچے رہنے والے اور کم تر لوگوں کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں ۔ 18000 گاؤوں میں بجلی نہیں تھی ۔ بے شمار خواتین کو بیت الخلاء کی سہولت حاصل نہیں تھی ۔ ہماری قوم کے یہ حقائق مجھے سونے نہیں دیتے تھے ۔ میں نے بھارت کے غریب لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا پکا ارادہ کر لیا تھا ۔ میں ایک عام شہری کی طرح ہی ہوں ۔ اورعام لوگوں کی طرح ہی میرا ماضی ہے ۔ میرا سرمایہ ہے ، سخت محنت ، کسوٹی ، اورسوا سو کروڑ لوگوں کا پیار ۔ میں نے ہم وطنوں کو بھروسہ دلایا تھا کہ میں غلطیاں کر سکتا ہوں لیکن غلط ارادے سے کوئی کام نہیں کروں گا ۔ ہمارے پاس لاکھوں مسائل ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس کروڑوں لوگ بھی ہیں جو انہیں حل کر سکتے ہیں ۔ ملک میں دیکھ بھال مرکز ہو یا حفظان صحت ، ہم ہرہندوستانی کی صحت کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ ایک چیز جو میں لندن میں کرنا چاہتا تھا ، وہ ہے بھگوان بسویشور کو خراج عقیدت پیش کرنا ۔ بھگوان بسویشور نے جمہوریت کے لئے اپنی زندگی صرف کردی اور سماج کو جوڑنے کا غیر معمولی کام کیا ۔ جمہوریت ، سماجی بیداری اورخواتین کو با اختیار بنانے کے لئے کی گئی بھگوان بسویشورکی کوششیں ہمارے لئے باعث تحریک ہیں ۔ ہم ایک ایسا ایکو سسٹم بنا رہے ہیں جہاں سبھی کے لئے مواقع ہوں ۔ آج ہم کسان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں خواہ وہ 2022 تک زراعت سے ہونے والی آمدنی کو دوگناکرنا ہو یایوریا کی آسانی فراہمی ہو یا یوریا پر نیم کی تہہ چڑھانا ہو ، ہم ایک طے شدہ مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ خواہ کوئی پیرامیٹرہو ، ملک کے لئے اچھا کرنے میں ہم نے کوئی کمی نہیں رکھی ہے ۔ بھارت کے 125 کروڑ لوگ میرا کنبہ ہیں ۔ آج ہم مصنوعی انٹیلی جنس کے دور میں جی رہے ہیں ۔ اورہم ٹکنالو جی سے ��لگ نہیں رہ سکتے ۔ بھارت کے وزیر اعظم کو اسرائیل جانے سے کس نے روکا ۔ ہاں ، میں اسرائیل جاؤں گا اور یہاں تک کہ میں فلسطین بھی جاؤں گا ۔ میں پھر سعودی عرب کے ساتھ تعاون کروں گا اوربھارت کی توانائی کی ضروریات کے لئے میں ایرن کے ساتھ بھی بات کروں گا ۔ بھارت آنکھ جھکا کر یا آنکھ اٹھا کر نہیں بلکہ آنکھ ملا کر بات کرنے میں یقین کرتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس حکومت کی تنقید کی جائے ، تنقید سے جمہوریت مضبوط ہو تی ہے ۔ میری پریشانی تنقید کے خلاف نہیں ہے ۔ تنقید کرنے کے لئے تحقیق ہونی چاہئیے اورمعقول حقائق ہونا چاہئیے ، افسوس کی بات ہے کہ اب ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ اب ہوتایہ ہے کہ الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ تاریخ میں نام درج کرانا میرا مقصد نہیں ہے ، میں اسی طرح ہوں جیسے میرے سواسو کروڑ ہم وطن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔,লণ্ডনত অনুষ্ঠিত ভাৰত কী বাত সবকে সাথ অনুষ্ঠানত সমগ্ৰ বিশ্বৰ অংশগ্ৰহণকাৰীসকলৰ সৈতে হোৱা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মত বিনিময়ৰ কিয়দংশ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%B3%D8%A7%DA%91%DA%BE-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%86%DB%8C%D9%85%D8%A7-%DA%A9%DB%92%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3-%D9%85%D9%88%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%B1%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آساڑھ پورنیما کے مقدس موقع پر لوگوں کو مبارکباددی ہے۔ جناب نریندر مودی نے بھگوان بدھ کی عظیم تعلیمات کا بھی ذکر کیا وزاراعظم نے ٹوئیٹ کیا : ‘‘آساڑھ پورنیما کے مقدس موقع پر مبارکباد! ہم بھگوان بدھ کی عظیم تعلیمات کو یادکرتے ہیں اور ایک منصفانہ اور ہمدردانہ معاشرے کے ،اُن کے بصیرت افروز وژن کو حقیقت کی شکل دینے سے متعلق اپنے عز م کا اعادہ کرتے ہیں۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে পৱিত্ৰ আহাৰ পূৰ্ণিমা উপলক্ষে ভগৱান বুদ্ধৰ মহৎ শিক্ষাৰ কথা স্মৰণ কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-18-%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%88%D9%B9-%D9%82%D8%B1%D8%B6-%DA%A9%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%82-%E0%A6%9B%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 18 نومبر 2021 کو دوپہر 12 بجے نئی دہلی کے اشوک ہوٹل میں ’’بلارکاوٹ قرض کی ترسیل اور اقتصادی ترقی کے لئے تال میل کا قیام‘‘ پر کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس کانفرنس کا انعقاد 17 اور 18 نومبر 2021 کو وزارت خزانہ کے مالی خدمات کے محکمے کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ اس میں وزارتوں، بینکوں ، مالی اداروں اور صنعت کے نمائندے شرکت کریں گے۔ اس موقع پر مرکزی وزیر خزانہ بھی موجود ہوں گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔و ا۔ ق ر 12991U-,১৮নৱেম্বৰত ‘ক্ৰীয়েটিং ছাইনাৰ্জিছ ফৰ ছীমলেছ ক্ৰেডিট ফ্ল’ এণ্ড ইক’নমিক গ্ৰ’থ’ সম্পৰ্কীয় সন্মিলন সম্বোধন কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%DB%8C%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-5/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے رشی سونک سے ب��ت کی اور برطانیہ کا وزیر اعظم بننے پر انہیں مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے ٹوئٹ کیا؛ ’’آج @RishiSunak سے بات کرکے خوشی ہوئی۔ انہیں برطانیہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ ہم اپنی جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔ ہم نے جامع اور متوازن ایف ٹی اے کو جلد حتمی شکل دینے کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔‘‘,ব্ৰিটেইনৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী হিচাপে দায়িত্ব লোৱাৰ সন্দৰ্ভত ঋষি সুনাকৰ সৈতে বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B6%D9%88%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%A2%D9%84-%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80/,ہیلو. ملک کے وزرائے آب کی پہلی آل انڈیا کانفرنس اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ آج ہندوستان پانی کی حفاظت پر بے مثال کام کر رہا ہے اور بے مثال سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ ہمارے آئینی نظام میں پانی کا موضوع ریاستوں کے کنٹرول میں آتا ہے۔ پانی کے تحفظ کے لیے ریاستوں کی کوششیں ملک کے اجتماعی اہداف کو حاصل کرنے میںبڑے پیمانے پر مدد گار ثابت ہوں گی۔ اس لیے ‘واٹر ویژن ایٹ 2047’ امرت کے اگلے 25سالوں کے سفر کی ایک اہم جہت ہے۔ ساتھیوں، اس کانفرنس میں ‘پوری حکومت’ اور‘ ملک’ کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو کا ہونا بہت فطری اور ضروری ہے۔‘پوری حکومت’ کا ایک پہلو یہ ہے کہ تمام حکومتوں کو ایک نظام کی طرح ایک نامیاتی ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ ریاستوں میں بھی مختلف وزارتیں ہونی چاہئیں جیسے پانی کی وزارت، وزارت آبپاشی، وزارت زراعت، وزارت دیہی ترقی، محکمہ مویشی پروری۔ اسی طرح شہری ترقی کی وزارت، اسی طرح ڈیزاسٹر مینجمنٹ۔ یعنی مسلسل رابطہ اور مکالمہ اور سب کے درمیان واضح اور صریح وژن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر محکموں کے پاس ایک دوسرے سے متعلق معلومات ہیں، ان کے پاس مکمل ڈیٹا ہے تو ان کی منصوبہ بندی میں بھی مدد کی جائے گی۔ ساتھیوں، ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کامیابی صرف حکومت کی کوششوں سے نہیں ملتی۔ حکومت میں رہنے والوں کو اس سوچ سے باہر آنا ہوگا کہ صرف ان کی کوششوں کے متوقع نتائج برآمد ہوں گے۔ اس لیے ہمیں پانی کے تحفظ سے متعلق مہم میں عوام، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنا ہوگا۔ عوامی شرکت کا ایک اور پہلو بھی ہے اور اسے سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عوامی شرکت کا مطلب تمام ذمہ داری عوام پر ڈالنا ہےاور عوامی شرکت کو فروغ دینے سے حکومت کی ذمہ داری کم ہوجاتی ہے۔ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ اس سے حکومت کی ذمہ داری کم نہیں ہوتی ہے۔عوام کی شرکت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عوام کو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس مہم میں کتنی محنت کی جا رہی ہے، کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ اس کے بہت سارے پہلو ہیں۔ جب عوام کسی مہم سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کام کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی قوت و صلاحیت معلوم ہوتی ہے، اس کا پیمانہ معلوم ہوتا ہے، یہ معلوم ہوتاہے کہ کتنے وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جب لوگ یہ سب دیکھتے ہیں اور اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر یہ منصوبہ ہو یا مہم، اس کے ساتھ اپنے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اور اسی شدید وابستگی کا جو احساس ہوتا ہے وہی دراصل کا��یابی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ سوچھ بھارت ابھیان کتنی بڑی مثال ہے۔ جب لوگ سوچھ بھارت ابھیان میں شامل ہوئے تو عوام میں ایک شعور اور بیداری آئی۔ گندگی کو دور کرنے کے لیے جو وسائل اکٹھے کرنے پڑے، مختلف واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر، بیت الخلاء کی تعمیر، ایسے بہت سے کام حکومت نے کیے ہیں۔ لیکن اس مہم کی کامیابی اس وقت یقینی ہوئی جب عوام میں، ہر شہری کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کوڑا ادھر اُدھر نہیں پھینکنا چاہیے، کوڑا جمع نہیں ہونا چاہیے۔ شہریوں میں گندگی سے نفرت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ اب ہمیں پانی کے تحفظ کے لیے عوام کے ذہنوں میں عوامی شرکت کا یہ خیال ابھارنا ہوگا۔ اس کے لیے ہم عوام میں جتنی بیداری کریں گے اتنا ہی زیادہ اثر پیدا ہوگا۔ جیسا کہ ہم ‘ پانی کے معاملات سے آگاہی فیسٹیول’ کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر منعقد ہونے والے میلوں میں پانی کی آگہی سے متعلق بہت سی تقریبات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر نئی نسل کو اس موضوع سے روشناس کرانے کے لیے ہمیں نصاب سے لے کر اسکولوں میں سرگرمیوں تک کے اختراعی طریقے سوچنا ہوں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور تعمیر کئے جارہےہیں۔ آپ نے اپنی ریاست میں بھی اس میں بہت کام کیا ہے۔ اتنے کم وقت میں 25 ہزار امرت کی جھیلیں بھی بن چکی ہیں۔ یہ پانی کے تحفظ کی سمت میں پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی منفرد مہم ہے اور عوامی شرکت داری اس کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ لوگ پہل کر رہے ہیں، لوگ اس میں شرکت کے لئے آگے آ رہے ہیں۔ ان کی حفاظت ہونی چاہیے، لوگوں کو ان کے ساتھ رابطے میں لانا چاہیے، ہمیں اس سمت میں مسلسل کوششیں بڑھانا ہوں گی۔ ساتھیوں، ہمیں حکومتی پالیسیوں اور افسر شاہی کے طریقہ کار سے نکل کر پانی سے متعلق مسائل کو پالیسی کی سطح پر بھی حل کرنا ہوگا۔ ہمیں مسائل کی نشاندہی کرنے اور حل تلاش کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، صنعت اور خاص طور پر اسٹارٹ اپس کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ جیو سینسنگ اور جیو میپنگ جیسی ٹیکنالوجیز اس سمت میں ہماری بہت مدد کر سکتی ہیں۔ ساتھیوں، جل جیون مشن’ ہر گھر کو پانی فراہم کرنے کے لیے آپ کی ریاست کا ایک بڑا ترقیاتی پیمانہ ہے۔ کئی ریاستوں نے اس میں اچھا کام کیا ہے، کئی ریاستیں اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایک بار جب یہ نظام قائم ہو جائے تو پھر ان کی دیکھ بھال بھی اتنی ہی اچھی طرح سے ہوتی رہے۔ گرام پنچایتوں کو جل جیون مشن کی قیادت کرنی چاہئے، اور کام مکمل ہونے کے بعد، انہیں یہ بھی تصدیق کرنی چاہئے کہ کافی اور صاف پانی دستیاب ہو چکا ہے۔ ہر گرام پنچایت آن لائن ماہانہ یا سہ ماہی رپورٹ بھی پیش کر سکتی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اس کے گاؤں کے کتنے گھروں کو نل کا پانی مل رہا ہے۔ پانی کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً پانی کی جانچ کا نظام بھی وضع کیا جائے۔ ساتھیوں، ہم سب جانتے ہیں کہ صنعت اور زراعت دو ایسے شعبے ہیں جن میں قدرتی طور پر بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ان دونوں شعبوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان ایک خصوصی مہم چلانی چاہیے تاکہ انہیں پانی کی حفاظت سے آگاہ کیا جا سکے۔ فصلوں میں تنوع پانی کی دستیابی کی بنیاد پر کیا جائے، قدرتی کاشتکاری کی جائے، قدرتی کاشتکاری کو فروغ دیا جائے۔ بہت سی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ جہاں قدرتی کاشتکاری کی جاتی ہے، قدرتی کھیتی باڑی ہو رہی ہے، وہاں پانی کے تحفظ پر بھی مثبت اثر دیکھا گیا ہے۔ ساتھیوں، پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے تحت تمام ریاستوں میں کام تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔ اس کے تحت کم سے کم پانی سے زیادہ سے زیادہ فصل مہم شروع کی گئی۔ اس اسکیم کے تحت اب تک ملک میں 70 لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زمین کو چھوٹے پیمانے کی سینچائی پروگرام کے تحت لایا جا چکا ہے۔ تمام ریاستوں کو چھوٹے پیمانے کی سنیچائی پروگرام کو مسلسل فروغ دینا چاہیے۔ پانی کے تحفظ کے لیے یہ بہت اہم منصوبہ ہے۔ اب براہ راست نہر کی جگہ پائپ لائن پر مبنی نئی اسکیمیں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ اس پروگرام کو ابھی مزید آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ ساتھیوں، آبی تحفظ کے لئے مرکز نے اٹل بھوجل سنرکشن اسکیم کی شروعات کی ہے۔یہ ایک حساس مہم ہے اوراسے اتنی ہی حساسیت سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔آبی بندوبست کے لئے تیار کی گئی اتھارٹی سختی سے اس سمت میں کام کرے، یہ بھی لازمی ہے۔ زمینی پانی کی بھرائی کے لئے تمام اضلاع میں بڑے پیمانے پر واٹر شیڈ کے انتظام کی سخت ضرورت ہے ۔ میری خواہش ہے کہ منریگا میں سب سے زیادہ کام پانی کے لئے ہونا چاہئے ۔ پہاڑی خطوںمیں اسپرنگ شیڈ کو زندہ رکھنے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے،اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔آبی تحفظ کے لئے ریاست میں جنگلاتی رقبوں کو بڑھانا بہت ضروری ہے ۔ اس کے لئے وزارت ماحولیات اور آبی وزارت ساتھ مل کر کام کریں ۔مسلسل پانی پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ پانی کے سبھی مقامی ذرائع کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ گرام پنچایتیں اپنے لئے اگلے پانچ سال کے لئے عملی منصوبہ تیار کریں اور پانی پر خصوصی توجہ دیں ۔ اس عملی منصوبے میں پانی کی فراہمی سے لے کر صاف صفائی اور کوڑا کرکٹ کے بندوبست تک کا روڈ میپ ہو۔ کس گاؤں میں کتنا پانی ضروری ہے اور اس کے لئے کیا کام ہوسکتا ہے ، اس کی بنیاد پر کچھ ریاستوں میں پنچایت سطح پر واٹر بجٹ تیار کیا گیا ہے۔اسے بھی دوسری ریاستوں کے ذریعہ اپنا یا جاسکتا ہے۔ حالیہ برسوںمیں ہم نے دیکھا ہے کہ کیچ دی رین (بارش کو اکٹھا کرنے کا عمل ) مہم نے لوگوں میں پانی جمع کرنے کی رغبت پیدا کی ہے لیکن کامیابی کے لئے مزیداقدامات کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی مہم ریاستی حکومت کی روز مرہ کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہونا چاہئے ۔ ریاستی حکومت کی سالانہ مہم کا ضروری حصہ بننا چاہئے اور اس طرح کی مہم کے لئے بارش کا انتظار کرنے کے بجائے بارش سے قبل ہی تمام منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ساتھیوں، اس بجٹ میں حکومت نے سرکلر اکنامی پر بہت زور دیا ہے ۔آبی تحفظ کے شعبے میں سرکلر اکنامی کا اہم کردار ہے ۔ جب صاف کئے گئے پانی کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، تازہ پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے تو اس سے پورے ماحولیاتی نظام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔اس لئے پانی کو سوتنے اور پانی کی ری سائکلنگ بہت ضروری ہے ۔ ریاستوں کے ذریعہ صاف کئے گئے پانی کے استعمال میں اضافے کی اسکیم سے بڑی تبدیلی آئی ہے اور اس میں ویسٹ میں سے بیسٹ آمدنی بھی ہوتی ہے ۔آپ کو مقامی ضروریات کی میپنگ کرنی ہوگی اور اسی نہج پر اسکیمیں تیار کرنی ہوں گی۔ انہوں نے آگے کہا کہ ہمارے دریا ، ہمارے آبی ادارے پورے آبی ماحولیاتی نظا م کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں۔ہمارا کوئی بھی دریا یا آبی ادارہ باہری چیزوں سے آلودہ نہ ہو ،اس کے لئے ہمیں ہرریاست میں کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے بندوبست اور سیویج ٹریٹمنٹ کا نیٹ ورک تیار کرنا ہوگا۔صاف کئے گئے پانی کا دوبارہ استعمال ،اس کے لئے بھی موثر بندوبس�� پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ نمامی گنگے مشن کو ٹمپلیٹ بناکر بقیہ ریاستیں بھی اپنے یہاں کےدریاؤں کے تحفظ اور اس کے احیاء کے لئے اس طرح کی مہمیں شروع کرسکتی ہیں۔ ساتھیوں، پانی پر ایک دوسرے کا تعاون اور آپسی تال میل پر توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت تیزی سے ہماری آبادی شہرکاری کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ جس طرح سے شہری ترقی ہورہی ہے ،اسی طرح ہمیں پانی پر بھی سوچنا ہوگا۔ سیویج کے بندوبست پر بھی غور کرنا ہوگا۔ شہروں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے ، اس رفتار سے ہمیں مزیدترقی کرنی ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ اس اجلاس میں ہرشخص اپنے تجربات کومشترک کرے گا جو بہت ہی کارآمد ثابت ہوں گے۔ایک عہد کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے ۔ہرریاست اپنے شہریوں کی سہولیات کے لئے پانی کے تئیں ترجیحی طورپر کام کرے گی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس واٹر کانفرنس کے لئے بڑی امیدوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد! شکریہ۔,পানীৰ সন্দৰ্ভত সৰ্বভাৰতীয় ৰাজ্যিক মন্ত্ৰীসকলৰ বাৰ্ষিক সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভিডিঅ’ বাৰ্তাৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C%D8%B4%DB%81-%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%B3%DB%8C%D9%81%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A6%95-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,نئی دہلی، 7 مارچ / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں پیشہ ورانہ سیفٹی اور صحت (او ایس ایچ ) کےشعبہ میں تعاون کے سلسلہ میں بھارت اور جرمنی کے درمیان مفاہمتی عرضداشت (ایم او یو) کو کابینہ کی منظوری دے دی ہے۔ ایم او یو کی 13 نومبر 2018 کو تجدیدہوئی تھی۔ فوائد: اس شعبے میں تعاون سے اب تک معاشی سرگرمیوں کے مختلف شعبے پیشہ ورانہ سیفٹی اور صحت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق جدید تربیتی ٹکنیک اپنانے میں مدد ملی ہے۔ ایم او یو کے تحت جرمن سوشل ایکسیڈینٹ انشورنس (ڈی جی یو وی)، بین الاقوامی سوشل سیکورٹی ایسوسی ایشن (آئی ایس ایس اے) ، او ایس ایچ کے چیلنجوں خصوصاً تعمیراتی اور مینوفیکچرنگ شعبے میں ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے معلومات لایا ہے۔ ا س سے کثیر تعداد میں افرادی قوت کا ان کی سیفٹی اور صحت کی حالت کو بہتر بناکر نیز ان کا پیشہ وارانہ حادثات اور امراض سے بچا کر کافی فائدہ ہوا ہے۔ اس تعاون کے نتیجے میں ڈائریکٹوریٹ جنرل فیکٹر ایڈوائس سروس اینڈ لیبر انسٹی ٹیوٹ (ڈی جی ایف اے ایس ایل آئی) کی صلاحیت سازی ہوئی ہے اور او ایچ ایس اے کے شعبے میں وزارت محنت سے متعلق دفاتر اور تکنیکی شعبے نیز کی چیف انسپکٹر آف فیکٹری آفیسرس (سی آئی ایف ) کی صلاحیت بہتر ہوگی۔ ابھرتے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے معائنہ کا نظام مستحکم ہوگا، او ایس ایچ کے شبعے میں اعلی تحقیق کے لئے تجربے گاہوں کا اپگریڈیشن ہوگا ، او ایس ایچ کے بیان وضع ہوں گے اور ہندستانی ورک فورس کی حالت کو بنانے کے لئے سیفٹی کا کلچر پیدا ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن ۔ش س ۔ ج۔,বৃত্তিমূলক নিৰাপত্তা আৰু স্বাস্থ্যজনিত ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ লক্ষ্যৰে ভাৰত আৰু জাৰ্মানীৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-16%D8%A7%D9%88%D8%B1-17-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D8%AF%DA%BE%D8%B1%D9%85-%D8%B4%D8%A7%D9%84%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AC-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A7%A7/,وزیراعظم جناب نریندرمودی 16اور17جون ،2022کوہماچل پردیش کے شہردھرم شالہ میں ایچ پی سی اے اسٹیڈیم میں چیف سکریٹریوں کی پہلی قومی کانفرنس کی صدارت کریں گے ۔ یہ کانفرنس مرکز اورریاستی سرکاروں کے مابین ساجھیداری کو مزید مستحکم بنانے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگی ۔ چیف سکریٹریوں کی قومی کانفرنس 15سے 17جون 2022تک منعقد ہوگی ۔ اس کانفرنس میں مرکزی حکومت ، سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی نمائندگی کرنے والے 200سے زیادہ افراد اس کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔ اس کانفرنس میں ، جو تین دن تک جاری رہے گی ، ریاستوں کے ساتھ ساجھیداری میں تیز تراور پائیداراقتصادی ترقی پرتوجہ مرکوز کی جائے گی ۔ ٹیم انڈیا کے طورپرکام کرتے ہوئے ، یہ کانفرنس ، استقامت کے ساتھ زیادہ ترقی ، روزگارکے مواقع پیداکرنے ، تعلیم ، رہن سہن میں آسانی اورزراعت کے شعبے میں آتم نربھرتا یعنی خودکفالت پیداکرنے کی غرض سے تال میل پرمبنی اقدام کرنے کے مقصد سے راہ ہموارکرے گی ۔ اس کانفرنس میں ایک یکساں ترقیاتی ایجنڈہ کے ارتقاء اورنفاذ اورعام آدمی کی امنگوں کو پوراکرنے کی غرض سے مل کر اقدامات کرنے سے متعلق ایک خاکہ تیارکرنے پرزوردیاجائے گا۔ اس کانفرنس کے لئے ایجنڈہ کے تصورکو ، چھ مہینے پرمحیط تبادلہ خیال کے 100سے زیادہ دور کے بعد حتمی شکل دی گئی ہے ۔ کانفرنس میں تفصیلی غوروخوض کی غرض سے درج ذیل میں موضوعات کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ قومی تعلیمی پالیسی پرعمل درآمد ، 2- شہری حکمرانی ، اور 3-فصلوں میں تنوع اور تلہن ، دالوں اور دیگرزرعی اشیاء میں خود کفالت حاصل کرنا۔ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت ، اسکول اوراعلیٰ تعلیم ، دونوں کے بارے میں تفصیلی اوروسیع تبادلہ ء خیال کیاجائے گا۔ ان تینوں موضوعات کے تحت ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے بہترین طورطریقے باہمی جانکاری کی غرض سے کانفرنس میں پیش کئے جائیں گے ۔خواہش مند اضلاع سے متعلق پروگرام کے بارے میں ایک اجلاس منعقد ہوگا ، جس میں مخصوص اضلاع میں نوجوان کلکٹروں کے ذریعہ پیش، ڈیٹا پرمبنی حکمرانی سمیت ، کامیاب کیس مطالعات کے ساتھ ، اب تک کی گئی حصولیابیوں کے بارے میں غوروخوض کیاجائے گا ۔ اس کے علاوہ ‘‘آزادی کا امرت مہوتسو:2047کے لئے نقش راہ ’’ اور عمل آوری یاتعمیل کے بوجھ میں کمی کرنے اورکاروبار کرنے میں آسانی پیداکرنے کی غرض سے چھوٹے موٹے جرائم کوناقابل تعزیرقراردیئےجانے ، اسکیموں کو مکمل طورپر نافذ کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطرمرکز اورریاستوں کے مابین اشتراک اورتال میل اور معاشرے کے ہرشخص تک خدمات کی فراہمی ، پی ایم گتی شکتی کے ذریعہ بھارت کے بنیادی ڈھانچہ کی کایاپلٹ کرنے اوراس میں یکسر تبدیلی لانے اورصلاحیت سازی :آئی جی اوٹی کا نفاذ – مشن کرم یوگی کے موضوعات پرچاراضافی موضوعاتی اجلاس کے انعقاد کی غرض سے ایک خصوصی نشست منعقد ہوگی ۔ اس کانفرنس کے نتائج اور اس میں کئے گئے فیصلوں پربعدازاں ، نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی میٹنگ میں غوروخوض کیاجائےگا۔ جہاں سبھی ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام علاقوں کے وزرائے اعلیٰ اورمنتظمین صاحبان موجود ہوں گے ، تاکہ اعل��ٰ ترین سطحوں پرایک وسیع تراتفاق رائے کے ساتھ منصوبہ عمل کو حتمی شکل دی جاسکے ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৬ আৰু ১৭ জুনত ধৰ্মশালাত মুখ্য সচিবৰ প্ৰথমখন ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনৰ অধ্যক্ষতা কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%D8%B5%D8%AD%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D8%B4%D9%86-%D8%A7%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے زیر صدارت مرکزی کابینہ کو مالی برس 2020-21 کے دوران این ایچ ایم کے تحت ایم ایم آر، آئی ایم آر، یو5ایم آر اور ٹی ایف آر میں بڑی تیزی سے ہوئی تخفیف سمیت مختلف نوعیت کی پیش رفتوں کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ کابینہ نے ٹی بی، ملیریا، کالا اجار، ڈینگو، تپ دق، جذام، وائرل ہیپٹائٹس جیسے امراض سے متعلق مختلف پروگراموں میں ہوئی پیش رفت پر بھی بات چیت کی۔ لاگت: 27989.00 کروڑ (مرکزی حصہ داری) مستفیدین کی تعداد: این ایچ ایم کو مکمل آبادی کو مستفید کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے؛ اس کے تحت سماج کے کمزور طبقات پر خصوصی طور سے توجہ دیتے ہوئے صحت عامہ سے متعلق سہولتی مراکز میں جانے والے تمام لوگوں کو خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ نکات کے لحاظ سے تفصیلات: کابینہ نے کووِڈ۔19 کی جلد از جلد روک تھام، پتہ لگانے اور انتظامکاری کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے صحتی نظام کی تیاری میں تیزی لانے کی غرض سے ایمرجنسی رسپانس اینڈ ہیلتھ سسٹم پری پیئرڈنیس پیکج (ای سی آر پی) کے مرحلہ-1 کے لیے نفاذکاری ایجنسی کے طور پر این ایچ ایم کے اہم کردار کو نوٹ کیا۔ ای سی آر پی-1 دراصل مرکزی حکومت کی جانب سے صد فیصد امداد یافتہ پیکج ہے اور 31 مارچ 2021 تک کی مدت کے لیے ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو 8147.28 کروڑ روپئے کے بقدر کی رقم مختص کی گئی تھی۔ اس پیکج کے تحت مختلف اقدامات کو قومی صحتی مشن کے فریم ورک کا استعمال کرکے نافذ کیا گیا تھا، جس نے صحتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے دستیاب وسائل میں اضافہ کیا۔ اس پیکج کا مقصد کووِڈ۔19 کے پھیلنے کی رفتار میں تخفیف لانا اور مستقبل میں اس کی روک تھام اور ٹھوس تیاری کرنے کے لیے قومی اور ریاستی صحتی نظام کے لیے ضروری مدد فراہم کرنا اور اسے مضبوط بنانا تھا۔ نفاذسے متعلق حکمت عملی اور اہداف: نفاذ سے متعلق حکمت عملی: قومی صحتی مشن کے تحت صحت و کنبہ بہبود کی وزارت کی نفاذ سے متعلق حکمت عملی کا مقصد ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو مالی اور تکنیکی تعاون فراہم کرنا ہے، تاکہ آبادی کے نادار اور کمزور طبقات کو ضلع ہسپتالوں تک رسائی حاصل ہوسکے اور قابل استطاعت، جوابدہ اور مؤثر صحتی خدمات حاصل ہو سکیں۔اس کا مقصد دیہی علاقوں میں بہتر صحتی بنیادی ڈھانچہ، انسانی وسائل میں توسیع اور خدمات کی بہتر انداز میں بہم رسانی کے توسط سے دیہی صحتی خدمات میں کمی کو دور کرنا ہے۔ اس میں وسائل کو آپس میں جوڑنے اور اس کے مؤثر استعمال کے لیے ضروری سرگرمیوں کو آسان بنانے، کمی کو دور کرنے اور علاقہ کے آس پاس بہتری کے لیے ضلعی سطح پر پروگرام کو لامرکزی شکل دینے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ 2025 تک این ایچ ایم کے تحت اہداف: ایم ایم آر کو 113 سے گھٹا کر 90 کرنا۔ آئی ایم آر کو 32سے گھٹاکر 23 تک کرنا۔ یو5ایم آر کو 36 سے گھٹاکر 23 تک لانا۔ ٹی ایف آر کو 2.1 تک برقرار رکھنا۔ تمام اضلاع میں جذام کے پھیلاؤ کو ہر 10000 کی آبادی پر ایک سے نیچے لانا اور ان کے معاملات کو گھٹاکر صفر تک لانا۔ ہر 1000 کی آبادی پر ملیریا کے سالانہ معاملات ایک سے نیچے لانا۔ متعدی امراض، غیر متعدی امراض، چوٹ اور ابھرتے ہوئے امراض سے شرح اموات اور مرض کو روکنا اور کم کرنا۔ مجموعی حفظانِ صحت صرفہ پر گھریلو اخراجات کو کم کرنا۔ 2025 تک ملک سے ٹی بی کی وبا کو ختم کرنا۔ روزگار بہم رسانی کے مضمرات سمیت دیگر اہم اثرات: 2020-21 میں این ایچ ایم کے نفاذ سے 2.71 لاکھ اضافی انسانی وسائل وابستہ ہیں، جس میں جی ڈی ایم او، اسپیشلسٹ، اے این ایم، اسٹاف نرس، آیوش ڈاکٹر، پیرامیڈکس، آیوش پیرا میڈکس، پروگرام مینجمنٹ اسٹاف اور پبلک ہیلتھ منیجر شامل ہیں۔ 2020-21 کے دوران این ایچ ایم کے نفاذ سے صحت عامہ سے متعلق نظام مزید مضبوط ہوا ہے۔ ا س سے بھارت کووِڈ۔19 کے تعلق سے ایمرجنسی رسپانس اینڈ ہیلتھ سسٹمز پری پیئرڈنیس پیکج (ای سی آر پی) شروع کرکے کووِڈ۔19 وبائی مرض سے نمٹنے میں مؤثر اور اہل بنا ہے۔ بھارت میں یو5ایم آر 2013 کے 49 سے گھٹ کر 2018 میں 36 ہوگیا ہے اور 2013-2018 کے دوران یو5ایم آر میں تخفیف کی فیصد سالانہ شرح 1990-2012 کے دوران 3.9 فیصد سے بڑھ کر 6.0 فیصد ہوگئی ہے۔ ایس آر ایس 2020 کے مطابق یو5ایم آر مزید گھٹ کر 32 ہوگیا ہے۔ بھارت کی زچگی کے دوران شرح اموات(ایم ایم آر) 1990 میں 556 فی ایک لاکھ زندہ پیدائش سے 443 پوائنٹس گرکر 2016-18 میں 113 ہوگئی ۔ 1990 کے بعد سے ایم ایم آر میں 80 فیصد کی تخفیف رونما ہوئی ہے، جو 45 فیصد کی عالمی تخفیف سے زائد ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں، زچگی کے دوران شرح اموات (ایم ایم آر) 2011-13 (ایس آر ایس) میں 167 سے گھٹ کر 2016-18 (ایس آر ایس) میں 113 ہوگئی ۔ ایس آر ایس 2017-19 کے مطابق ایم ایم آر مزید گھٹ کر 103 ہو گئی ۔ آئی ایم آر 1990 میں 80 سے گھٹ کر سال 2018 میں 32 ہوگئی۔ گذشہ پانچ برسوں کے دوران یعنی 2013 سے 2018 کے دوران آئی ایم آر میں تخفیف کی فیصد سالانہ مرکب شرح 1990-2012 کی 2.9 فیصد سے بڑھ کر 4.4 فیصد ہوگئی ہے۔ ایس آر ایس 2020 کے مطابق آئی ایم آر اور کم ہوکر 28 ہو گئی ۔ نمونہ رجسٹریشن نظام (ایس آر ایس) کے مطابق، بھارت میں ٹی ایف آر 2013 میں 2.3 سے گھٹ کر سال 2018 میں 2.2 ہو گئی۔ قومی کنبہ صحتی سروے -4 (این ایف ایچ ایس-4، 2015-16) نے بھی 2.2 کا ٹی ایف آر درج کیا۔ 2013-2018 کے دوران ٹی ایف آر میں تخفیف کی فیصد سالانہ مرکب شرح 0.89 فیصد کے طور پر دیکھی گئی ہے۔ موجودہ وقت میں 36 میں سے 28 ریاستوں /مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے شرح پیدائش کی مطلوبہ متبادل سطح (2.1) حاصل کر لی ہے۔ ایس آر ایس 2020 کے مطابق ایس آر ایس کو مزید گھٹاکر 2.0 کر دیا گیا ہے۔ سال 2020 میں ملیریا کے معاملات اور اموات میں بالترتیب 46.28 فیصد اور 18.18 فیصد کی تخفیف رونما ہوئی۔ ہر 100000 کی آبادی پر ٹی بی کے معاملات 2012 کے 234 سے گھٹ کر 2019 میں 193 رہ گئے ہیں۔ بھارت میں ہر 100000 کی آبادی پر ٹی بی کی وجہ سے شرح اموات 2012 کی 42 سے گھٹ کر 2019 میں 33 رہ گئی۔ کالا اجار (کے اے) مقامی بلاکوں کا فیصد، فی 10000 آبادی پر ایک سے کم کے معاملات کے خاتمہ کے ہدف کو حاصل کرتے ہوئے، 2014 کے 74.2 فیصد سے بڑھ کر 2020-21 میں 97.5 فیصد ہو گیا۔ کیس فیٹیلٹی ریٹ (سی ایف آر) کو ایک فیصد سے کم بنائے رکھنے کا قومی ہدف حاصل کیا گیا تھا۔ 2020 میں، ڈینگو کی وجہ سے شرح اموات 0.01 فیصد پر قائم رہی، جیسا کہ 2019 میں تھی۔ اسکیم کی تفصیلات اور پیش رفت: 2020-21 کے دوران این ایچ ایم کے تحت ہوئی پیش رفت اس طرح ہے: 31 مارچ 2021 تک 105147 آیوشمان بھارت صحت اور چاق و چوبند رہنے کے مراکز کو منظوریاں دی گئیں۔ جیسا کہ ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ آیوشمان بھارت – صحت اور چاق و چوبند رہنے کے مراکز کے پورٹل پر بتایا گیا، 31 مارچ 2022 تک 110000 کے مجموعی ہدف کے مقابلے میں 117440 صحت اور چاق و چوبند رہنے کے مراکز شروع کیے جا چکے تھے۔ 31 مارچ 2021 کے آخر تک غیر متعدی امراض (این سی ڈی) کے سلسلے میں مجموعی طور پر 534771 آشا کارکنان، 124732 کثیر مقاصد کارکنان (ایم پی ڈبلیو-ایف) / معاون نرس مڈ وائف (اے این ایم)، 26033 اسٹاف نرس اور 26633 پرائمری صحتی مراکز (پی ایچ سی) کے طبی افسران کو تربیت فراہم کی گئی۔ این آر ایچ ایم / این ایچ ایم کے آغاز کے بعد سے زچگی کےدوران شرح اموات (ایم ایم آر) میں پانچ برس سے کم کی عمر میں شرح اموات (یو5ایم آر) اور آئی ایم آر میں تیزی سے تخفیف رونما ہوئی ہے۔ تخفیف کی اس موجودہ شرح کو دیکھیں تو بھارت کو طے کیے گئے سال یعنی 2030 سے بہت پہلے ہی اپنے ایس ڈی جی ہدف (ایم ایم آر-70، یو5ایم آر-25) حاصل لینا چاہئے۔ تیز ترین مشن اندرادھنش 3.0 کا اہتمام ، فروری 2021 سے مارچ 2021 تک کیا گیا تھا، جس میں 29 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مجموعی طور پر 250 اضلاع کی شناخت کی گئی تھی۔ تمام ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں روٹاوائرس ویکسین کی تقریباً 6.58 کروڑ خوراکیں دی گئیں۔ بہار، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، اترپردیش اور ہریانہ جیسی 6 ریاستوں میں نیوموکوکل کنجوگیٹڈ ویکسین (پی سی وی) کی تقریباً 204.06 لاکھ خوراکیں دی گئیں۔ بجٹی اعلان 2021-22 کے مطابق، آفاقی قوت مدافعت پروگرام (یو آئی پی) کے تحت پی سی وی کو ملک بھر میں بڑھایا گیا ہے۔ تقریباً 3.5 کروڑ بالغان کو بالغ جاپانی انسیفیلائیٹس ویکسین کا ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ اسے آسام، اترپردیش اور مغربی بنگال جیسی تین ریاستوں کے 35 مقامی اضلاع میں لگایا گیا ۔ پردھان منتری سرکشت ماتروتو ابھیان (پی ایم ایس ایم اے) کے تحت تمام ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 18400 سے زائد صحتی مراکز پر 31.49 لاکھ اے این سی جانچیں کی گئیں۔ لکشیہ: 202 لیبر روم اور 141 میٹرنٹی آپریشن تھیئٹر اب ریاستی لکشیہ سند یافتہ ہیں اور 64 لیبر روم اور 47 میٹرنٹی آپریشن تھیئٹر قومی ’لکشیہ‘ سند یافتہ ہیں۔ ملک میں کولڈ چین نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کولڈ چین سے متعلق ساز و سامان یعنی 1041 آئی ایل آر (بڑے)، 5158 آئی ایل آر (چھوٹے)، 1532 ڈی ایف (بڑے)، 2674 کولڈ باکس (بڑے)، 3700 کولڈ باکس (چھوٹے)، 66584 ویکسین کیرئیر اور 31003 آئس پیک کی سپلائی ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو کی گئی۔ 2020-21 کے دوران مجموعی طور پر 13066 آشا کارکنان کا انتخاب کیا گیا جس سے 31 مارچ 2021 تک ملک بھر میں آشا کارکنان کی مجمودی تعداد 10.69 لاکھ ہوگئی۔ قومی ایمبولینس خدمات (این اے ایس): مارچ 2021 تک 35 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں یہ سہولت ہے کہ لوگ ایمبولینس کو کال کرنے کے لیے 108 یا 102 ڈائل کر سکتے ہیں۔ 2020-21 میں 735 اضافی ایمرجنسی رسپانس سروس گاڑیاں جوڑی گئیں۔ 2020-21 کے دوران 30 اضافی موبائل میڈیکل یونٹ (ایم ایم یو) جوڑی گئیں۔ 24×7 خدمات اور فرسٹ ریفرل سہولتیں: 2020-21 کے دوران ایف آر یو کو مصروف عمل بنانے کے طور پر 1140 سہولتوں کو جوڑا گیا۔ کایاکلپ: اس یوجنا کے تحت 2020-21 میں 10717 صحت عامہ کے مراکز کو کایاکلپ ایوارڈس حاصل ہوئے۔ ملیریا: 2020 میں درج کیے گئے ملیریا کے معاملات اور اموات کی مجموعی تعداد بالترتیب: 181831 اور 63 تھی، جبکہ 2014 میں 1102205 معاملات اور 561 اموات درج کی گئیں۔ 2014 کی اسی مدت کے مقابل�� میں ملیریا کےمعاملات میں 83.50 فیصد اور اموات میں 88.77 فیصد اموات کی تخفیف درج کی گئی ۔ کالا-اجار : ہر 10000 کی آبادی پر ایک سے کم معاملات کے خاتمہ کے ہدف کو حاصل کرتے ہوئے کالا اجار (کے اے) مقامی بلاکوں کی فیصد 2014 میں 74.2 فیصد سے بڑھ کر 2020-21 میں 97.5 فیصد ہوگئی۔ لمفیٹک فلیریاسیس: 2020-21 میں 272 ایل ایف مقامی اضلاع میں سے 98 اضلاع نے ٹرانسمشن اسیسمنٹ سروے -1(ٹی اے ایس-1) کو کامیابی کے ساتھ پاس کر لیا اور ایم ڈی اے کو روک دیا اور یہ اضلاع اب پوسٹ ایم ڈی اے نگرانی میں ہیں۔ ڈینگو کی بات کریں تو قومی ہدف کیس شرح اموات (سی ایف آر) ایک فیصد سے کم بنائے رکھنا تھا۔ یہ ہدف حاصل کیا گیا کیونکہ 2014 میں شرح اموات 0.3 فیصد اور 2015 سے 2018 کے دوران سی ایف آر 0.2 فیصد پر قائم رہا۔ اس کے علاوہ 2020 میں یہ 2019 کی طرح 0.1 فیصد پر قائم رہا ہے۔ قومی تپ دق خاتمہ پروگرام (این ٹی ای پی): ملک بھر میں ضلع کی سطح پر مجموعی طور پر 1285 کارٹرج پر مبنی نیوکلک ایسڈ ایمپلی فکیشن ٹیسٹ (سی بی این اے اے ٹی) مشینیں اور 2206 ٹرونیٹ مشینیں چالو ہیں۔ 2020 میں 29.85 لاکھ مولی کیولر ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ 2017 کے دوران 7.48 لاکھ ٹیسٹ کے مقابلے یہ 4 گنا بڑھوتری ہے۔ تمام ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں چھوٹی ایم ڈی آر-ٹی بی غذائی علاج (پرہیز) اور بیڈاکیولائن /ڈیلامنائڈ (نئی ادویہ) پر مبنی غذائی علاج شروع کیا گیا ہے۔ 2020 میں 30605 ایم ڈی آر/آرآر-ٹی بی مریضوں کا چھوٹا ایم ڈی آر – ٹی بی غذائی علاج شروع کیا گیا ہے۔ 10489 ڈی آر – ٹی بی مریضوں کو پورے ملک میں نئی دوا پر مشتمل ریجی مین (بیڈاکیولائن-10، 140 اور ڈیلامنائڈ-349) دی گئی ہے۔ این ایچ ایم کے تحت پی پی پی موڈ میں سبھی ضلع ہسپتالوں میں ڈائلیسس سہولتوں میں تعاون کے لیے 2016 میں پردھان منتری قومی ڈائلیسس پروگرام (پی ایم این ڈی پی) شروع کیا گیا تھا۔ مالی برس 2020-21 کے دوران 5781 مشینوں کو لگا کر 35 ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 505 اضلاع میں 910 ڈائلیسس مراکز میں پی ایم این ڈی پی نافذ کیا گیا ہے۔ 2020-21 کے دوران مجموعی طور پر 3.59 لاکھ مریضوں نے ڈائلیسس خدمات کا فائدہ اٹھایا اور 35.82 لاکھ ہیمو ڈائلیسس سیشنوں کا اہتمام کیا گیا۔ پس منظر: قومی دیہی مشن 2005 میں دیہی آبادی، خصوصاً کمزور طبقات کو ضلع ہسپتالوں (ڈی ایچ) کی سطح تک قابل رسائی، قابل استطاعت اور معیاری حفظانِ صحت فراہم کرانے کے لیے صحت عامہ کے نظام کی تشکیل کے مقصد سے شروع کیا گیا تھا۔ 2012 میں، قومی شہری صحتی مشن (این یو ایچ ایم) کا تصور پیش کیا گیا تھا اور این آر ایچ ایم کو دو ذیلی مشنوں این آر ایچ ایم اور این یو ایچ ایم کے ساتھ جوڑ کر قومی صحتی مشن (این ایچ ایم) کے طور پر نیا نام دیا گیا تھا۔ کابینہ نے 21 مارچ 2018 کو منعقدہ میٹنگ میں قومی صحتی مشن کو یکم اپریل 2017 سے 31 مارچ 2020 تک جاری رکھنے کو منظوری دی تھی۔ وزارت خزانہ، لاگت کے محکمہ نے آفس میمورنڈم نمبر 42(02/پی ایف – I2022 کے توسط سے قومی صحتی مشن کو یکم اپریل 2021 سے 31 مارچ 2026 تک یا اگلے جائزے تک ، جو بھی پہلے ہو، جاری رکھنے کی اجازت دی ہے، جو اخراجات کی مالیاتی کمیٹی (ای ایف سی) کی سفارشات اور مالی حدود وغیرہ سے مشروط ہیں۔ این ایچ ایم فریم ورک کے لیے کابینہ کی منظوری آگے طے کرتی ہے کہ ان تفویض کردہ اختیارات کا استعمال شرط کے مطابق ہوگا کہ این (آر) ایچ ایم کے بارے میں ایک پروگریس رپورٹ، مالی معیارات میں انحراف، جاری اسکیموں میں ترامیم اور نئی اسکیموں کی تفصیلات کو سالانہ بنیاد پر معلومات کے لیے کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے۔,ৰাষ্ট্ৰীয় স্বাস্থ্য মিচন(এনএইচএম)২০২০-২১ৰ অধীনত অগ্ৰগতিৰ সন্দৰ্ভত অৱগত কৰিলে কেন্দ্ৰীয় কেবিনেট +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%91%DB%8C%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%9C%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%8F%E0%A6%95/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اتحاد کے مجسمے پر سردار پٹیل کو خراج عقیدت پیش کیا اور راشٹریہ ایکتا دیوس سے متعلق تقریبات میں شرکت کی۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں، وزیر اعظم نے کل موربی میں ہونے والے حادثے کے متاثرین کے لیے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ کیوڑیہ میں ہیں، لیکن ان کا دل موربی کے حادثے کے متاثرین سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف غم سے لبریز دل ہے تو دوسری طرف عمل اور ادائے فرض کا راستہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ فرض اور ذمہ داری کا راستہ ہے جس نے انہیں راشٹریہ ایکتا دیوس میں یہاں تک پہنچایا ہے۔ وزیر اعظم نے کل کے حادثے میں جانیں گنوانے والے تمام افراد کے تئیں گہری تعزیت کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ حکومت متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ ریاستی حکومت بچاؤ کے کام میں لگی ہوئی ہے اور مرکزی حکومت ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ فوج اور فضائیہ کی ٹیموں کے علاوہ این ڈی آر ایف کی ٹیمیں بچاؤ کارروائیاں انجام دینے کے لئے تعینات کی گئی ہیں جبکہ زخمیوں کا علاج کرنے والے اسپتالوں کو بھی مدد فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بچاؤ کاموں کو انجام دینے کے لیے موربی پہنچے اور انہوں نے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ وزیراعظم نے ملک کے عوام کو یقین دلایا کہ امدادی کارروائیوں میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔ اس سانحے کی روشنی میں تقریب کا ثقافتی پروگرام والا حصہ منسوخ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم نے 2022 میں ایکتا دیوس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ وہ سال ہے جب ہم نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کیے ہیں اور ہم نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔‘‘وزیراعظم نے کہا کہ اتحاد ہر مرحلے پر ضروری ہے چاہے وہ خاندان ہو، معاشرہ ہو یا قوم۔ انہوں نے کہا کہ یہ احساس پورے ملک میں ہر جگہ 75,000 ایکتا دوڑ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ، انہوں نے کہا کہ ""پورا ملک سردار پٹیل کے پختہ عزم سے تحریک لے رہا ہے۔ ہر شہری ملک کے اتحاد اور ’پنچ پران‘ پر عمل کرنے کا عہد کررہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا، ""اس صورتحال کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ہماری آزادی کی جدوجہد کی قیادت سردار پٹیل جیسے لیڈروں نے نہ کی ہو تی۔ اگر 550 سے زیادہ شاہی ریاستوں کو ضم نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا؟ وزیر اعظم نے پوچھا ""کیا ہوتا"" انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہماری ریاستیں مادر ہند کے لئے قربانی اور یقین کا گہرا احساس نہ دکھاتیں۔ اس ناممکن کام کو سردار پٹیل نے مکمل کیا۔ "" وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ’’سردار پٹیل کی جینتی اور ایکتا دیوس ہمارے لیے کیلنڈر کی محض تاریخیں نہیں ہیں، یہ ہندوستان کی ثقافتی طاقت کا اظہار کرنے والی عظیم تقریبات ہیں۔ ہندوستان کے لیے اتحاد کبھی بھی مجبوری نہیں تھی، یہ ہمیشہ ہمارے ملک کی خصوصیت رہی ہے۔ اتحاد ہماری انفرادیت رہا ہے‘‘، ۔ انہوں نے کہا کہ کل موربی جیسی آفت میں پورا ملک ایک بن کر آگے آتا ہے اور ملک کے ہر حصے سے لوگ دعائیں اور مدد کرتے ہیں۔ وبائی مرض کے دوران، یہ اتحاد دوا، راشن اور ویکسین میں تعاون کے لیے ’تالی تھالی‘ کے جذباتی اتحاد میں پوری طرح سے ظاہر تھا۔ کھیلوں کی کامیابیوں اور تہواروں کے دوران اور جب ہماری سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور ہمارے فوجی ان کی حفاظت کرتے ہیں تو انہی جذبات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ سب ہندوستان کے اتحاد کی گہرائی کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اتحاد صدیوں سے حملہ آوروں کے لیے ایک کانٹا تھا اور انہوں نے تقسیم کا بیج بو کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کی، تاہم ان کے عزائم کو اتحاد کے امرت نے ناکام بنا دیا جو ہمارے شعور میں رواں دواں تھا۔ انہوں نے سبھی سے کہا کہ وہ چوکس رہیں کیونکہ ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی سے حسد کرنے والی طاقتیں ابھی بھی سرگرم ہیں اور ذات پات، علاقہ، زبان کی بنیاد پر تقسیم کو ہوا دینے کی کوششیں جاری ہیں اور اور تاریخ کو تقسیم کرنے والے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے غلامانہ ذہنیت، خود غرضی، خوشامد، اقربا پروری، لالچ اور بدعنوانی کے خلاف بھی خبردار کیا جو ملک کو تقسیم اور کمزور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ""ہمیں اتحاد کے امرت سے تفرقہ بازی کے زہر کا مقابلہ کرنا ہے""۔ وزیر اعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ""ایکتا دیوس کے موقع پر، میں سردار صاحب کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داری کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ"" انہوں نے کہا کہ قومی اتحاد کو مضبوط کرنا شہریوں کی ذمہ داری ہے اور یہ تب ہی ہو گا جب ملک کا ہر شہری احساس ذمہ داری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار ہو جائے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ’’اس احساس ذمہ داری کے ساتھ، سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ایک حقیقت بن جائے گا اور ہندوستان ترقی کی راہ پر آگے بڑھے گا‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیاں بلا تفریق ملک کے ہر فرد تک پہنچ رہی ہیں۔ مثالیں دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اروناچل پردیش کے سیانگ کے لوگوں کو اتنی ہی آسانی سے مفت ویکسین دستیاب کرائی جاتی ہے جس طرح سورت، گجرات کے لوگوں کو۔ ایمس جیسے طبی ادارے اب نہ صرف گورکھپور بلکہ بلاس پور، دربھنگہ، گوہاٹی، راجکوٹ اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی مل سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دفاعی راہداریوں کا ترقیاتی کام نہ صرف تمل ناڈو بلکہ اتر پردیش میں بھی زوروں پر ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا ذکر کیا کہ اگرچہ مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن ملک کے آخری سرے پر موجود شخص کو رابطے میں لاتے ہوئے سرکاری اسکیمیں ہندوستان کے ہر حصے تک پہنچ رہی ہیں۔ اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ کس طرح ہمارے ملک میں لاکھوں لوگوں نے بنیادی ضروریات حاصل کرنے کے لئے دہائیوں تک انتظار کیا، وزیر اعظم نے کہا، ""بنیادی ڈھانچے کے درمیان خامیاں جتنی کم ہوں گی ، اتحاد اتنا ہی مضبوط ہوگا"" ۔انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہندوستان سوفیصد سہولیات کی فراہمی کے اصول پر کام کر رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر اسکیم کا فائدہ ہر مستفید تک پہنچے۔ وزیر اعظم نے سب کے لیے مکان، سب کے لیے ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی، سب کے لیے صاف ستھرا کھانا پکانے کا نظام اور سب کے لیے بجلی جیسی اسکیموں کی مثالیں دیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 100 فیصدشہریوں تک پہنچنے ��ا مشن صرف اسی طرح کی سہولیات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مشن مشترکہ اہداف، متحدہ ترقی اور متحدہ کوششوں کے مشترکہ مقصد پر زور دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ زندگی کی بنیادی ضروریات ملک اور آئین پر عام آدمی کے اعتماد کا ذریعہ بن رہی ہیں اور عام آدمی کے اعتماد کے لیے ایک وسیلے کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ یہ سردار پٹیل کے ہندوستان کا وژن ہے، وزیر اعظم نے کہا، ""ہر ہندوستانی کو یکساں مواقع حاصل ہوں گے، اور برابری کا احساس عام ہوگا۔ آج ملک اس وژن کو پورا ہوتے دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہ پچھلے 8 برسوں میں ملک نے ہر اس طبقے کو ترجیح دی ہے جسے کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا تھا، وزیر اعظم نے کہا کہ ملک نے قبائلیوں کے فخر کو یاد رکھنے کے لیے قبائلی فخر کا دن منانے کی روایت شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے بتایا کہ ملک کی کئی ریاستوں میں قبائلی عجائب گھر بنائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ہم وطنوں سے مانگڑھ دھام اور جمبوگھوڑا کی تاریخ جاننے کی اپیل کی اور کہا کہ آزادی غیر ملکی حملہ آوروں کے ذریعہ کئے گئے بہت سے قتل عام کے بعد حاصل کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’تبھی ہم آزادی کی قدر اور یکجہتی کی قدر کو سمجھ سکیں گے۔‘‘ وزیر اعظم نے ریمارکس دیے کہ ایکتا نگر ہندوستان کے ایک ماڈل شہر کے طور پر ترقی کر رہا ہے جو نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں بے مثال ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ عوام اور شہر کا اتحاد ہے جو عوامی شراکت کی طاقت سے ترقی کر رہا ہے جبکہ اسے نہ صرف ایک عظیم الشان بلکہ روحانی نقطہ نظر دیا گیا ہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ""اسٹیچو آف یونٹی کی شکل میں دنیا کے سب سے بڑے مجسمے کے لیے تحریک ہمارے درمیان ہے"" ۔ ایکتا نگر کے ترقیاتی ماڈل پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ شہر کی بات اس وقت ہوگی جب لوگ ماحول دوست ماڈل کے بارے میں بات کریں گے، ملک کو روشن کرنے والے ایل ای ڈی کے ساتھ بجلی بچانے والا ماڈل، شمسی توانائی پر چلنے والے صاف ٹرانسپورٹ سسٹم کا ماڈل۔ طاقت، اور جانوروں اور پرندوں کی مختلف انواع کے تحفظ کا ایک ماڈل۔ وزیر اعظم نے گزرے ہوئے اس کل کو یاد کیا جب انہیں یہاں میاواکی فاریسٹ اور میز گارڈن کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایکتا مال، ایکتا نرسری، تنوع میں اتحاد کو ظاہر کرنے والا عالمی جنگل، ایکتا فیری، ایکتا ریلوے اسٹیشن اور یہ تمام اقدامات قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے ایک تحریک ہیں۔ خطاب کے اختتام پر وزیراعظم نے آزادی کے بعد ملک کے اتحاد میں سردار صاحب کے کردار پر روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ صدیوں تک اقتدار پر فائز رہنے والے شاہی خاندانوں نے سردار پٹیل کی کوششوں سے ملک کے اتحاد کے لیے ایک نئے نظام کے لیے اپنے حقوق کی قربانی دی۔ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک اس شراکت کو نظر انداز کیا گیا۔ وزیراعظم نے الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر کااختتام کیا کہ ’’اب ایکتا نگر میں ان شاہی خاندانوں کی قربانیوں کے لیے وقف ایک میوزیم بنایا جائے گا۔ یہ ملک کے اتحاد کے لیے قربانی کی روایت کو نئی نسلوں تک پہنچا دے گا‘‘ ۔ پس منظر وزیر اعظم کے وژن کی رہنمائی میں، 2014 میں قوم کی یکجہتی، سالمیت اور سلامتی کو برقرار رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے ہماری لگن کو تقویت دینے کے لیے 31 اکتوبر کو راشٹریہ ایکتا دیوس کے طور پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے سٹیٹس آف یونٹی، کیوڑیہ میں راشٹریہ ایکتا دیوس کی تقریبات میں شرکت کی۔ تقریبات میں راشٹریہ ایکتا دیوس پریڈ کا مشاہدہ کیا گیا، جس میں بی ایس ایف اور پانچ ریاستی پولیس فورس کے دستے شامل تھے، ایک ایک شمالی زون (ہریانہ)، مغربی زون (مدھیہ پردیش)، جنوبی زون (تلنگانہ)، مشرقی زون (اڈیشہ) اور شمال مشرقی زون (تریپورہ)۔ دستوں کے علاوہ دولت مشترکہ کھیل 2022 کے چھ پولیس اسپورٹس میڈل جیتنے والے بھی پریڈ میں حصہ لیں گے۔ .",কেৱাড়িয়াত ৰাষ্ট্ৰীয় একতা দিৱস উদযাপনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অংশগ্ৰহ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81%D9%94-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%8C-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A7%B0/,نمبر شمار مفاہمتی عرضداشت / معاہدات / سمجھوتے تفصیلات اے ۔ دفاعی اور کلیدی 1. جاپان بحری از خود دفاعی افواج اور بھارتی بحریہ کے مابین عمیق تعاون کے لئے انتظامات کا نفاذ بھارتی بحریہ اور جاپان کی بحری از خود دفاعی فورس کے مابین بحریہ دائرۂ اختیار بیداری کے شعبے میں اطلاعات کے باہم تبادلے کے لئے افزوں تعاون بی ۔ ڈجیٹل اور نئی ٹیکنا لوجیاں 2. الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنا لوجی اور معیشت ، تجارت و صنعت کی وزارت کے مابین جاپان – بھارت ڈجیٹل شراکت داری جاپان کی سوسائٹی 5.0 اور بھارت کے فلیگ شپ پروگرام مثلاً ‘‘ ڈجیٹل انڈیا ’’ ، ‘‘ اسمارٹ سٹی ’’ اور ‘‘ اسٹارٹ اَپ انڈیا ’’ جیسے پروگراموں میں مماثلتوں اور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نکات کو بروئے کار لانے کے لئے ، جن کا تعلق آئندہ دور کی ٹیکنا لوجیوں مثلاً مصنوعی انٹلی جنس ، انٹرنیٹ آف تھِنگس وغیرہ سے ہے ۔ 3. نیتی آیوگ اور معیشت ، تجارت و صنعت کی وزارت ( ایم ای ٹی آئی ) ، جاپان کے مابین آرٹی فیشل انٹلی جنس سے متعلق اسٹیٹ منٹ آف انٹنٹ مصنوعی انٹلی جنس کو ترقی دینے اور اس شعبے میں تعاون کی غرض سے ٹیکنا لوجیوں کی حوصلہ افزائی سی ۔ حفظان صحت اور چاق و چوبند رہنا 4. جمہوریہ ہند کی وزارت صحت اور کنبہ بہبود اور حکومت جاپان کے تحت حفظانِ صحت ، محنت اور بہبود پالیسی کے دفتر ، کابینہ سکریٹریٹ کے مابین ایم او سی ، جس کا تعلق حفظان صحت اور چاق و چوبند رہنے سے ہے ۔ ایک ایسے میکنزم کی شناخت ، جو بھارت اور جاپان کے مابین اشتراک کے مضمراتی شعبوں کی شناخت کر سکے اور جس کا تعلق بنیادی حفظان صحت ، غیر متعدی امراض کی روک تھام ، زچہ اور بچہ صحتی خدمات ، صفائی ستھرائی ، حفظان صحت کے اصول ، تغذیہ اور معمر افراد کی نگہداشت سے ہو ۔ 5. جمہوریہ ہند کی وزارت آیوش اور حکومتِ جاپان کی کناگاوا پروفیکچورل کے مابین حفظانِ صحت اور چاق و چوبند رہنے کے سلسلے میں ایم او سی جمہوریہ ہند کی وزارت آیوش اور حکومتِ جاپان کی کناگاوا پروفیکچورل کے مابین حفظانِ صحت اور چاق و چوبند رہنے کے سلسلے میں ایم او سی 6. فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ اتھارٹی آف انڈیا ( ایف ایس ایس اے آئی ) اور جاپان کی وزارت صحت ، محنت و بہبود کے خوراک سلامتی کمیشن کے مابین خوراک سلامتی سے متعلق مفاہمتی عرضداشت بھارت اور جاپان کی ایجنسیوں کے مابین خوراک سلامتی کے شعبے میں تعاون کے اضافے کے لئے ڈی ۔ خوراک سے متعلق ویلیو چین اور زرعی شعبے 7. خوراک ڈبہ بند�� اور صنعتوں کی وزارت اور وزارت زراعت ، جنگلات اور ماہی پروری ، جاپان کے مابین خوراک ڈبہ بندی صنعت کے شعبے میں ایم او سی اس کا مقصد یہ ہے کہ معقول شراکت داروں کی شراکت کے ساتھ بھارت کی خوراک ڈبہ بندی صنعت کو ترقی دی جائے ۔ ان میں مقامی حکومتیں ، نجی کمپنیاں وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ 8. زراعت اور ماہی پروری کے شعبے میں بھارت نے جاپان کے ذریعے سرمایہ کاری کے پروگرام کو فروغ دینا اور وزارت زراعت اور کاشت کاروں کی فلاح و بہبود ، بھارت اور جاپان کی وزارت زراعت اور جنگلات و ماہی پروری کے مابین تعاون زرعی ویلیو چین اور ماہی پروری کی ترقی کو فروغ ، اس میں آبی جانوروں کی پرورش بھی شامل ہے اور اس کے لئے جاپانی کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے گا ۔ 9. مہاراشٹر میں ، مہاراشٹر کی ریاستی حکومت اور جاپان کی وزارت زراعت اور جنگل بانی و ماہی پروری کے مابین فوڈ ویلیو چین وضع کرنے کے لئے ایم او سی ریاست مہاراشٹر میں فوڈ ویلیو چین کے شعبے میں جاپانی کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے لئے زمین ہموار کرنا 10. اتر پردیش میں جاپان کی وزارت زراعت ، جنگل بانی اور ماہی پروری اور اتر پردیش کی ریاستی حکومت کے مابین فوڈ ویلیو چین کی ترقی کے لئے مفاہمتی عرضداشت ریاست اتر پردیش میں فوڈ ویلیو چین کے شعبے میں جاپانی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لئے زمین ہموار کرنا ای ۔ اقتصادیات 11. ایکسپورٹ کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن آف انڈیا اور نیکسی جاپان کے مابین مفاہمتی عرضداشت بھارت اور جاپان کے مابین تجارت و سرمایہ کاری کو مہمیز کرنے اور تیسرے ممالک میں جاری پروجیکٹوں کے سلسلے میں باہمی تعاون کو مستحکم بنانے کا عمل ایف ۔ پوسٹل 12. حکومتِ ہند کی وزارت مواصلات اور حکومتِ جاپان کی داخلی امور اور مواصلات کی وزارت کے مابین ڈاک کے شعبے میں ایم او سی وزارت مواصلات اور داخلی امور کی وزارت و مواصلات کے مابین ڈاک خدمات گفت و شنید کے قیام کے سلسلے میں ڈاک کے شعبے میں تعاون کو مستحکم بنانا جی ۔ اایس اینڈ ٹی ، تعلیمی تبادلے اور ماحولیات 13. سائنٹفک اور صنعتی تحقیق کی کونسل ( سی ایس آئی آر ) ، بھارت اور جاپان کی ہیروشیما یونیورسٹی کے مابین تحقیقی شراکت داری کی غرض سے مفاہمتی عرضداشت الیکٹرانکس ، سینسروں ، ہائی اسپیڈ ویژن ، روبوٹکس ، جدید ترین مینوفیکچرنگ ، جس میں میکاٹرونکس ، ماحولیاتی تحقیق، انٹلی جنس نقل و حمل وغیرہ بھی شامل ہیں ، جیسے شعبوں میں تحقیقی شراکت داری کو فروغ 14. سائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونس ( سی ایس آئی آر ) ، بھارت اور جدید ترین سائنس اور ٹیکنا لوجی کے تحقیقی مرکز ( آر سی اے ایس ٹی ) ، یونیورسٹی آف ٹوکیو ، جاپان کے مابین تحقیقی شراکت داری کے لئے مفاہمتی عرضداشت قابل احیا توانائی ، الیکٹرانکس ، جس میں روبوٹکس ، آئی او ٹی ، جدید ترین ساز و سامان بھی شامل ہیں ، جیسے شعبوں میں تحقیقی شراکت داری کو فروغ دینا 15. سائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونس ( سی ایس آئی آر ) ، بھارت اور انسٹی ٹیوٹ آٖ اختراعی تحقیق ، ٹوکیو ، انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی ( ٹی آئی ٹی ) ، جاپان کے مابین بین شعبہ جاتی شعبوں میں مشترکہ تحقیق ، جن کا تعلق صنعتی تحقیق سے ہو ، سے متعلق معاہدہ سائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونس ( سی ایس آئی آر ) ، بھارت اور اختراعاتی تحقیق کے ادارے ، ٹوکیو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی ( ٹی آئی ٹی ) کے مابین جدید ترین ساز و سامان ، بایو سائنس اور اطلاعاتی ٹیکنا لوجیوں کے سلسلے میں تحقیقی شراکت داریوں کا قیام 16. حکومت ہند کی وزارت مواصلات کے تحت ڈاک کے شعبے میں ایم او سی ، جو جاپان کی داخلی امور او ر مواصلات کی وزارت ، حکومت جاپان کے مابین ہو گی ۔ وزارت مواصلات اور داخلی امور اور مواصلات کی وزارت کے مابین ڈاک خدمات ڈائیلاگ کے قیام کے ذریعے ڈاک کے شعبے میں تعاون کو مستحکم کرنا 17. بھارت اور جاپان کے مابین ماحولیات تعاون کے شعبے میں ایم او سی بھارت اور جاپان کے مابین ماحولیات کے تحفظ اور اصلاح کے لئے افزوں تعاون کو فروغ 18. نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فارماسیو ٹیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ( این آئی پی ای آر ) ، بھارت اور جاپان کی شیزوکا یونیورسٹی کے مابین تعلیمی اور تحقیقی تبادلوں سے متعلق مفاہمتی عرضداشت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فارماسیو ٹیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ( این آئی پی ای آر ) اور ایس اے ایس ناگر اور شیزوکا یونیورسٹی کے مابین تعلیمی روابط کو فروغ 19. بھارت – جاپان گلوبل اسٹارٹ اپ کے سلسلے میں ناگا ساکی یونیورسٹی اور آئی آئی آئی ٹی ڈی ایم کانچی پورم ، بھارت کے مابین مزید تعاون کو فروغ دینے کے لئے مفاہمتی عرضداشت بھارت – جاپان عالمی اسٹارٹ اَپ کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنا لوجی اور وسائل انسانی کو فروغ 20. بھارت کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی حیدر آباد اور جاپان کی ہیروشیما یونیورسٹی کے مابین تعلیمی اور علمی تبادلے کے لئے مفاہمتی عرضداشت دونوں اداروں کے مابین مشترکہ تحقیق کو فروغ اور طلبا کا باہم تبادلہ 21. بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی ، حیدر آباد اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ انڈسٹریل سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی کے مابین مفاہمتی عرضداشت دونوں اداروں کے مابین مشترکہ تحقیق کو فروغ اور طلبا کا تبادلہ 22. ( معاہدہ ) بارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی ، کانپور اور فیکلٹی ، گریجویٹ اسکول اور اسکول آف انجینئرنگ ، گریجویٹ اسکول آف انفارمیشن سائنس اور ٹیکنا لوجی ، گریجویٹ اسکول آف کیمیکل سائنسز اینڈ انجینئرنگ ، ہوکاڈو یونیورسٹی ( ایم او یو ) مفاہمتی عرضداشت ، جس کا تعلق آئی آئی ٹی کانپور اور مذکورہ اداروں کے مابین طلبا کے تبادلے سے ہے ۔ مشترکہ تحقیق کو فروغ ، طلبا اور اساتذہ کا دونوں اداروں کے مابین تبادلہ ایچ ۔ کھیل کود 23. اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا ( ایس اے آئی ) بھارت اور یونیورسٹی آف سکووا ، جاپان کے مابین مفاہمتی عرضداشت ، جس کا تعلق تعلیمی تبادلوں اور کھیل کود کے شعبے میں تعاون سے ہے ۔ کھیل کود ترقیات کے شعبے میں تعاون کو مستحکم بنانا اور عمدگی کا حصول ، مشترکہ پروگراموں کے ذریعے آئی ۔ قرض معاہدات سے متعلق نوٹس کا تبادلہ 24. ممبئی – احمد آباد ہائی اسپیڈ ریل ( II ) 25. امایم – امترو مرحلہ – III کی مرمت اور جدید کاری ، ہائیڈو الیکٹرک پاور اسٹیشن 26. دلّی ماس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم پروجیکٹ ( مرحلہ ۔ III ) 27. شمال مشرقی سڑک نیٹ ورک کنکٹی وٹی اصلاحی پروجیکٹ ( مرحلہ ۔ III ) (I) 28. تری پورہ میں ہمہ گیر طاس جنگلاتی انتظام سے متعلق پروجیکٹ (مرحلہ۔III) جی ٹو بی / بی 2 بی معاہدات 29. کے اے جی او ایم ای کمپنی لمیٹیڈ ، جاپان اور خوراک ڈبہ بندی کی وزارت ، حکومت ہند کے مابین مفاہمتی عرضداشت 30. اسٹیٹ بینک آف انڈیا ( ایس بی آئی) اور ایس بی آئی پیمنٹ سروسز پرائیویٹ لمیٹیڈ اور ہٹاچی پیمنٹ سروس پرائیوٹ لمیٹیڈ کے مابین مشترکہ کاروباری معاہدہ 31. نسان اسٹیل انڈسٹری کمپنی لمیٹیڈ جاپان اور خوراک ڈبہ بندی کی وزارت حکومت ہند ، بھارت کے مابین مفاہمتی عرضداشت 32. جاپان کی 57 کمپنیوں کی جانب سے نجی شعبے کے سرمایہ کاری پروجیکٹوں سے متعلق تجاویز کے سلسلے میں اجازت نامے اور تصدیق نامے تاکہ بھارت میں سرمایہ کاری کا راستہ ہموار ہو سکے ۔ 15 بھارتی کمپنیاں جاپان میں سرمایہ لگائیں گی ، جن میں حکومت ہند اور جاپان دونوں کا تعاون شامل ہو گا ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ জাপান ভ্ৰমণৰ সময়ত ভাৰত আৰু জাপানৰ মাজত সম্পন্ন হোৱা ঘোষণা/চুক্তিৰ তালিকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%A8%D9%86%DA%A9%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86%DA%86%D9%84-%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%B2-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9B%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے بارہ بنکی میں پوروانچل ایکسپریس وے پر ایک سڑک حادثے میں ہونے والے جانی نقصان پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زخمیوں کے جلد شفایاب ہونے کے لئے دعا کی اور کہا کہ مقامی انتظامیہ ہر ممکن مدد فراہم کر راہی ہے۔ وزیراعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ؛ ‘‘بارہ بنکی میں پوروانچل ایکسپریس وے پر ہونے والا حادثہ بہت افسوسناک ہے۔ اس میں جن لوگوں نے اپنوں کو کھویا ہے، ان کے لئے میں گہرے رنج وغم کا اظہار کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی تمام زخمیوں کے جلد صحت یاب ہونے کی خواہش کرتا ہوں۔ ریاستی حکومت کی دیکھ ریکھ میں مقامی انتظامیہ ہر ممکن مدد کے کام میں لگی ہوئی ہے۔’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- ا گ- ق ر),পূৰ্বাঞ্চল এক্সপ্ৰেছৱেত সংঘটিত পথ দুৰ্ঘটনাত নিহতসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%85-%D9%88%D8%B7%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%88%DB%8C%D8%B1-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE-3/,"نئی دہلی۔ 14 اپریل وزیر اعظم جناب نریندر مودی نےتمام ہم طنوں کو مہاویر جینتی کی مبارکبادپیش کی ہے۔ جناب مودی نے بھگوان مہاویر کی عظیم تعلیمات، خاص طور پر امن، ہمدردی اور بھائی چارے کو یاد کیا ۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ""مہاویر جینتی کے پرمسرت موقع پر مبارکباد۔ بھگوان مہاویر کی لازوال تعلیمات اور جانداروں کے تئیں ہمدردی پران کا زور ایک منصفانہ اور ہمدرد معاشرے کی تعمیر میں معاون ہو سکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ بھگوان مہاویر کے آشیرواد سے ہمارے معاشرے میں امن اور بھائی چارے کے جذبے کو مزید فروغ ملے۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে জনসাধাৰণক মহাবীৰ জয়ন্তীৰ শুভেচ্ছা জনা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%DB%8C-%D9%88%D8%B4%D9%88%D9%86%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج وارانسی میں کاشی وشوناتھ دھام کا افتتاح کیا۔ انہوں نے کاشی کے اندر کال بھیرو مندر اور کاشی وشوناتھ دھام میں پوجا ارچنا کی۔ انہوں نے گنگا ندی میں مقدس ڈُبکی بھی لگائی۔ ’نگر کوتوال‘ (کال بھیرو جی) کے چرنوں (پیروں) میں پرنام کے ساتھ اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے آشیرواد کے بغیر کچھ بھی خاص نہیں ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے ملک کے عوام کے لیے بھگوان کا آشیرواد لیا۔ وزیر اعظم نے پرانوں (مقدس کتابوں) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی کوئی کاشی میں داخل ہوتا ہے، تمام بندھوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ’’بھگوان وشویشور کا آشیرواد، ایک لافانی طاقت یہاں آتے ہی ہماری ’انتر آتما‘ (روح) کو بیدار کر دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وشوناتھ دھام کا یہ مکمل احاطہ صرف ایک عالیشان عمارت ہی نہیں ہے۔یہ ہمارے بھارت کے سناتن کلچر کی نشانی ہے۔ یہ ہماری روحانی آتما کی نشانی ہے۔ یہ بھارت کی قدامت، روایات، بھارت کی توانائی اور حرکیات کی نشانی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’آپ یہاں جب آئیں گے تو صرف ’آستھا‘ (عقیدت) کے ہی درشن (نظارہ) نہیں کریں گے۔ آپ کو یہاں اپنے ماضی کی عظمت کا احساس بھی ہوگا۔ کیسے قدامت اور جدیدیت ایک ساتھ زندہ ہو رہی ہیں۔ کیسے دورِ قدیم کے حوصلے مستقبل کو سمت عطا کر رہے ہیں۔ وشوناتھ دھام کے احاطہ میں ہم اس کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے اس مندر کا رقبہ صرف 3000 مربع فٹ تھا جسے بڑھا کر اب تقریباً 5 لاکھ مربع فٹ کر دیا گیا ہے۔ اب 75000-50000 عقیدت اس مندر اور مندر کے احاطہ میں آ سکتے ہیں۔ یعنی، پہلے ماں گنگا کا درشن اور اسنان، اور وہاں سے سیدھے وشوناتھ دھام۔ کاشی کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ کاشی غیر مفتوح ہے اور بھگوان شیو کی سرکار کے تحت ہے۔ انہوں نے اس عالیشان احاطہ کی تعمیر کرنے والے ہر ایک کاریگرکا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے یہاں کے کام میں کورونا کو بھی حائل نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے ان کاریگروں سے ملاقات کی اور انہیں اعزاز سے نوازا۔ جناب مودی نے دھام کی تعمیر کرنے والے کاریگروں کے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی کھایا۔ وزیر اعظم نے کاریگروں، تعمیر سے جڑے لوگوں، انتظامیہ اور ان کنبوں کی تعریف کی جن کے یہاں مکان ہوا کرتے تھے۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ہی، انہوں نے یوپی کی حکومت، وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی مبارکباد دی، جنہوں نے کاشی وشوناتھ دھام پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حملہ آوروں نے اس شہر پر حملہ کیا، اسے تباہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ شہر اورنگ زیب کے مظالم اور اس کی دہشت کی تاریخ کا گواہ ہے، جس نے تلوار کے دم پر تہذیب کو بدلنے کی کوشش کی، جس نے ثقافت کو شدت پسندی سے کچلنے کی کوشش کی۔ لیکن اس دیش کی مٹی باقی دنیا سے کچھ الگ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہاں اگر اورنگ زیب آتا ہے تو شیواجی بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سالار مسعود ادھر بڑھتا ہے تو راجا سہیل دیو جیسے جانباز سپاہی اسے بھارت کے اتحادکی طاقت کا احساس کرا دیتے ہیں۔ اور برطانوی دور میں بھی، کاشی کے لوگ جانتے ہیں کہ ہیسٹنگز کا کیا حشر ہوا تھا۔ وزیر اعظم نے کاشی کی عظمت اور اہمیت کا ذکر کرنا جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ کاشی صرف الفاظ کا ہی موضوع نہیں ہے، بلکہ احساسات کی تخلیق ہے۔ کاشی وہ ہے – جہاں بیداری ہی زندگی ہے؛ کاشی وہ ہے – جہاں موت بھی ایک جشن ہے؛ کاشی وہ ہے – جہاں سچ ہی کلچر ہے؛ کاشی وہ ہے جہاں محبت ہی روایت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بنارس وہ شہر ہے جہاں سے جگد گرو شنکراچاریہ کو شری ڈوم راجا کے تقدس سے حوصلہ ملا اور انہوں نے ملک کو اتحاد کے دھاگے سے باندھنے کا عہدہ لیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھگوان شنکر سے حوصلہ پا کر گوسوامی تلسی داس جی نے رام چرت مانس جیسی آفاقی تخلیق کی۔ وزیر اعظم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہیں کی سرزمین، سارناتھ میں میں بھگوان بدھ کا علم دنیا کے اوپر منکشف ہوا۔ معاشرہ کی بہتری کے لیے، کبیرداس جیسے سادھو یہاں نمودار ہوئے۔ سماج کو جوڑنے کی ضرورت تھی تو یہی کاشی سنت ریداس کی بھکتی کی طاقت کا مرکز بنا وزیر اعظم نے کہا کہ کاشی عدم تشدد اور ریاضت کی علامت، چار جین تیرتھنکروں کی سرزمین ہے۔ راجا ہریش چندر کی فرماں برداری سے لے کر ولبھا چاریہ، رامانند جی کے علم تک، چیتنیہ مہا پربھو، سمرتھ گرو رام داس سے لے کر سوامی وویکانند، مدن موہن مالویہ تک، کتنے ہی گروؤں، آچاریوں کا تعلق کاشی کی مقدس سرزمین سے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چھتر پتی شیوا جی مہاراج کے قدم یہاں پڑے۔ رانی لکشمی بائی سے لے کر چندر شیکھر آزاد تک، کاشی کتنے ہی جانباز لڑاکوں کی ’کرم بھومی‘ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتیندو ہریش چندر، جے شنکر پرساد، منشی پریم چند، پنڈت روی شنکر، اور بسم اللہ خاں جیسی صلاحیتیں بھی اسی عظیم شہر کی دین تھیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کاشی وشوناتھ دھام کا افتتاح بھارت کو ایک فیصلہ کن سمت عطا کرے گا اور ایک روشن مستقبل کی جانب لے کر جائے گا۔ یہ احاطہ ہماری صلاحیت اور ہماری ذمہ داری کا گواہ ہے۔ اگر سوچ لیا جائے، ٹھان لیا جائے، تو ناممکن کچھ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’ہندوستانیوں کے بازوؤں میں وہ طاقت ہے جو اس چیز کو بھی سچ کر دیتی ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تپ (ریاضت) جانتے ہیں، تپسیا جانتے ہیں، ملک کے لیے دن رات کھپنا جانتے ہیں۔ چنوتی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، ہم ہندوستانی مل کر اسے شکست دے سکتے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی وراثت کو آج پھر سجو رہے ہیں۔ یہاں کاشی میں، ماں انّ پورنہ خود رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ماں انّ پورنہ کا مجسمہ، جو کاشی سے چوری ہو گیا تھا، اسے ایک صدی کے انتظار کے بعد اب دوبارہ نصب کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے لیے، عام لوگ ایشور کا ہی روپ ہیں اور ہر ایک ہندوستانی بھگوان کی ہی جز ہے۔ اسی لیے انہوں نے ملک کے عوام سے تین چیزیں مانگیں – صفائی، تخلیق اور آتم نربھر بھارت کے لیے مسلسل کوشش۔ وزیر اعظم نے صاف ستھرائی کو زندگی کا ایک طریقہ بتایا اور لوگوں سے اس میں شریک ہونے کی اپیل کی، خاص کر نمامی گنگے مشن میں جڑنے کی اپیل کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ غلامی کے لمبے دور نے ہمارا حوصلہ اس طرح سے توڑ دیا تھا کہ ہم اپنی ہی تخلیق پر اعتماد کھو بیٹھے۔ آج ہزاروں سال پرانی اس کاشی سے، میں ملک کے ہر شہری سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ پورے اعتماد سے تخلیق کریں، اختراع کریں، اسے اختراعی طریقے سے کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تیسرا عہدہ جو ہمیں آج لینا ہے، وہ یہ ہے کہ آتم نربھر بھارت کے لیے ہم اپنی کوششوں کو تیز کر دیں۔ وزیر اعظم نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہم ’امرت کال‘ میں ہیں، آزادی کے 75ویں سال میں ہیں۔ جب بھارت سو سال کی آزادی کا جشن منائے گا، تب کا بھارت کیسا ہوگا، اس کے لیے ہمیں ابھی سے کام کرنا ہوگا۔,বাৰানসীত ‘শ্ৰী কাশী বিশ্বনাথ ধাম’ উদ্বোধন কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%D9%85%D8%B3%D9%B9%DB%8C%DA%A9-%DA%AF%D8%B1%DA%88-%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1%DA%A9%D9%86%DA%A9%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C%D9%84%D8%A6%DB%92-%D9%85%D9%81%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%95-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B9%E0%A6%95-%E0%A6%97%E0%A7%8D/,نئی دہلی،12۔اپریل ،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بمسٹیک(بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) گرڈ انٹرایکشن کےقیام کے لئے مفاہمت نامے پر دستخط کئےجانے کی وزارت توانائی کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ اس پر مستقبل قریب میں ہی نیپال میں ہونے والے بمسٹیک وزرائے توانائی کی تیسری میٹنگ کےدوران بمسٹیک کے رکن ممالک کےدرمیان دستخط کئےجائیں گے۔ م ن ۔م م ۔ ک ا,বিমষ্টেক ৰাষ্ট্রসমূহক গ্রিডৰ জৰিয়তে আন্তঃসংযোগ স্থাপনৰ লক্ষ্যৰে বুজাবুজি চুক্তি আৰু আনুষ্ঠানিক স্বীকৃতিৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DA%88%D9%88%D8%AF%D8%B1%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%8E%D9%88-%D8%A7%D8%A8%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%A6%E0%A7%8B%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج وڈودرا میں گورَو ابھیان میں شرکت کی۔ انہوں نے 21000 کروڑ روپئے کے بقدر کے ترقیاتی پروجیکٹوں کا آغاز کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر مستفیدین، وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل ، مرکزی اور ریاستی وزراء، عوامی نمائندگان اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔ شروعات میں وزیر اعظم نے کہا کہ آج، ان کے لیے، ماترو وندنا (ماں کی عبادت) کا دن ہے۔ انہوں نے اپنے دن کا آغاز اپنی والدہ کا آشیرواد لے کر کیا جو آج اپنے 100ویں برس میں داخل ہوئی ہیں۔ اس کے بعد، انہوں نے پاواگڑھ ہل میں واقع شری کالیکا ماتا کے نوتعمیر شدہ مندر کا افتتاح کیا، جہاں انہوں نے ملک کے لیے عبادت کی اور ملک کی خدمت کرنے اور امرت کال میں ملک کے لیے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دیوی سے طاقت مانگی۔ بعد ازاں انہوں نے اس موقع پر موجود بڑی ’ماترو شکتی‘ کے آگے سر عقیدت خم کیا۔ آج کے پروگرام میں 21000 کروڑ روپئے کے بقدر پروجیکٹوں کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پروجیکٹس گجرات کی ترقی کے توسط سے بھارت کے ترقی کے تصور کو تقویت بہم پہنچائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ زچگی کی صحت، ناداروں کے لیے مکانات، کنکٹیویٹی اور اعلیٰ تعلیم جیسے شعبوں میں یہ زبردست سرمایہ کاری گجرات کی صنعتی ترقی کو قوت عطا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ، ان پروجیکٹوں میں سے متعدد پروجیکٹوں کا تعلق، صحت، تغذیہ اور خواتین کی اختیارکاری سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ڈبل انجن والی حکومت کی کوششوں کو ماں کالیکا کے آشیرواد سے ایک نیا سہارا ملا ہے۔ مجمع میں موجود متعدد جانے پہچانے چہروں کو پہچانتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’خواتین کی تیز رفتار ترقی اور ان کی اختیارکاری 21ویں صدی کے بھارت کی تیز رفتار ترقی کے لیے مساوی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔آج بھارت خواتین کی ضرورتوں اور اُمنگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کر رہا ہے اور فیصلے لے رہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ تمام شعبوں میں خواتین کے لیے مواقع فراہم کرائے گئے ہیں اور حکومت نے ان کے دورانیہ حیات کے ہر مرحلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے خواتین کی اختیار کاری کے لیے اسکیمیں وضع کی ہیں۔ ’’وڈودرا ماترو شکتی کے جشن کے لیے ایک موزوں شہر ہے کیونکہ یہ ایک ماں کی طرح سنسکار دینے والا شہر ہے۔ وڈودرا سنسکاروں کا شہر ہے۔ یہ شہر یہاں آنے والوں کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے، ان کی خوشیوں او ر غم میں ان کا ساتھ دیتا ہے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ اس شہر نے سوامی وویکانند، مہارشی اروِند، وِنوبا بھاوے اور باباصاحب امبیڈکرجیسی شخصیات کو ترغیب فراہم کی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2014 میں انہیں وڈودرا اور کاشی وشوناتھ دونوں سے آشیرواد حاصل ہوا۔ انہوں نے زچگی اور خواتین کی صحت کی اہمیت کا ذکر کیا۔ ماں کی صحت نہ صرف اس کے لیے ، بلکہ پورے کنبے خصوصاً بچے کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دو دہائی قبل جب گجرات نے مجھے خدمت کا موقع دیا، اس وقت یہاں سوئے تغذیہ ایک بہت بڑی چنوتی تھی۔ تب سے ہم نے اس سمت میں ایک کے بعد ایک کام کرنے شروع کیے، جس کے اچھے نتائج آج نظر آرہے ہیں۔‘‘وزیر اعظم نے قبائلی علاقوں میں سکل سیل بیماری سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ماہ ستمبر کو ’پوشن ماہ‘ یعنی تغذیہ کے مہینے کے طور پر منانے کا فیصلہ گجرات میں خواتین کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ تغذیہ کے علاوہ، حکومت نے سووَچھ بھارت اور اُجوَلا جیسی اسکیموں کے ذریعہ خواتین کو سازگار ماحول فراہم کرانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا، ’’ہم نے فیصلہ سازی میں مزید مواقع فراہم کیے ہیں تاکہ گجرات میں خواتین کو ہر سطح پر ترقی دی جا سکے۔ خواتین کی انتظام کاری صلاحیت کو سمجھتے ہوئے، بہنوں کو گاؤں سے متعلق متعدد پروجیکٹوں میں قائدانہ کردار دیے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کنبے کی مالی فیصلہ سازی میں خواتین کے لیے مرکزی کردار کو یقینی بنانے کے سلسلے میں عہد بستگی کا بھی اعادہ کیا۔ جن دھن یوجنا کھاتے، مدرا یوجنا اور سواروزگار یوجنا اس کاز کے لیے تعاون فراہم کر رہی ہیں۔ جناب مودی نے شہری ناداروں اور متوسط طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ شہری نادار کنبوں کو پہلے ہی 7.5 لاکھ مکانات فراہم کرائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 4.5 لاکھ متوسط کنبوں کو مکانات کی تعمیر میں مدد حاصل ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مناسب کرایہ اور سواندھی جیسی اسکیمیں دیہی ناداروں اور متوسط طبقات کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہبودی اقدامات کے علاوہ ریاست کی صنعتی اور بنیادی ڈھانچہ ترقی کے لیے بھی کام جاری ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گجرات میں سیاحت کی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات وڈودرا کو بہت سے فوائد بہم پہنچائیں گے۔ پاواگڑھ اور کیوڑیا کو سیاحتی مراکز کے طور پر ترقی دی جا چکی ہے۔ وڈودرا ریلوے اور ہوابازی بنیادی ڈھانچہ شعبوں میں زبردست بہتری ملاحظہ کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسی طرح، مرکزی یونیورسٹی، ریل یونیورسٹی، برسا منڈا قبائلی یونیورسٹی تعلیمی شعبے میں نئی توانائی لا رہی ہیں۔ پروگراموں کی تفصیلات: وزیر اعظم نے 16000 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف ریلوے پروجیکٹوں کو وقف کیا اور ان کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان میں دیگر پروجیکٹوں کے علاوہ کلی طور پر وقف مال بھاڑا گلیارے کے 357 کلو میٹر طویل نئے پالن پور۔مدار سیکشن کو وقف کرنا؛ 166 کلو میٹر طویل احمدآباد۔بوٹاڈ سیکشن کی گیج تبدیلی؛ 81 کلو میٹر طویل پالن پور۔میٹھا سیکشن کی برق کاری بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے ریلوے کے شعبے میں دیگر پہل قدمیوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے علاوہ سورت، اُدھنا، سومناتھ اور ساب��متی اسٹیشنوں کی ازسرنو تجدیدکاری کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ یہ پروجیکٹس خطے میں لاجسٹکس لاگت میں تخفیف لانے کے علاوہ صنعتی اور زرعی شعبے کو تقویت بہم بھی پہنچائیں گے۔ یہ پروجیکٹس خطے میں کنکٹیویٹی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مسافرین کی سہولتوں میں بھی اضافہ کریں گے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت، وزیر اعظم کے ذریعہ مجموعی طور پر 1.38 لاکھ مکانات کو وقف کیا جائے گا، جن میں تقریباً 1800 کروڑ روپئے کے بقدر کے مکانات شہری علاقوں میں اور 1530 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مکانات دیہی علاقوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ، 310 کروڑ روپئے کی لاگت کے تقریباً 3000 مکانات کا کھت مہورت بھی کیا گیا۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے کھیڑا، آنند، وڈودرا، چھوٹا ادے پور اور پنچ محل میں 680 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف ترقیاتی کاموں کو وقف کیا اور ان کا سنگ بنیاد رکھا، جن کا مقصد خطے میں لوگوں کی زندگی میں مزید آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ وزیر اعظم نے گجرات کے دبھوئی تعلقہ کے کنڈھیلا گاؤں میں گجرات سینٹرل یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ وڈودرا شہر سے تقریباً 20 کلو میٹر کی دوری پر واقع یہ یونیورسٹی تقریباً 425 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر کی جائے گی اور 2500 سے زائد طلبا کی اعلیٰ تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرے گی۔ زچہ اور بچہ کی صحت میں بہتری پر توجہ دینے کے مقصد سے، وزیر اعظم نے ’مکھیہ منتری ماترو شکتی یوجنا‘ کا آغاز کیا، جس کے لیے 800 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا جائے گا۔ اس اسکیم کے تحت، حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو آنگن واڑی مراکز سے ہر مہینے 2 کلو گرام چنا ، ایک کلو گرام تور کی دال اور ایک کلو گرام خوردنی تیل بلا قیمت فراہم کرایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے ’پوشن سُدھا یوجنا‘ کے لیے تقریباً 120 کروڑ روپئے بھی تقسیم کیے۔ اس اسکیم کو اب ریاست میں تمام قبائلی مستفیدین تک توسیع دی جا رہی ہے۔ قبائلی اضلاع کی حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو آئرن اور کیلشیم کی ادویہ فراہم کرانے اور تغذیہ کے بارے میں تعلیم دینے کے کامیاب تجربہ کے بعد یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বদোদৰাৰ গুজৰাট গৌৰৱ অভিযানত অংশগ্ৰহণ কৰে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%92-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80%E0%A6%AA%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD-2/,عالی جناب، میرے دوست صدر صالح، دونوں وفود کے ارکان میڈیا کے نمائندگان، نمسکار! سب سے پہلے، میں اپنے دوست صدر صالح اور ان کے وفد کا بھارت میں خیرمقدم کرنا چاہتا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں بھارت اور مالدیپ کے دوستانہ تعلقات میں ایک نئی قوت آئی ہے، ہماری قربتیں بڑھی ہیں۔ وبا کے سبب درپیش چیلنجوں کے باوجود ہمارا تعاون ایک وسیع شراکت داری کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ دوستو، میں نے آج صدر صالح کے ساتھ وسیع پیمانے پر بات چیت کی۔ ہم نے اپنے دوطرفہ تعاون کی تمام جہتوں کا جائزہ لیا اور اہم علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے گریٹر مالے کنیکٹیوٹی پروجیکٹ کے آغاز کا خیرمقدم کیا تھا۔ یہ مالدیپ میں بنیادی ڈھانچے کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا۔ ہم نے آج گریٹر مالے میں 4000 سوشل ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر کے منصوبوں کا بھی جائزہ لیا۔ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم مزید 2000 سوشل ہاؤسنگ یونٹس کے لیے بھی مالی امداد فراہم کریں گے۔ ہم نے 100 ملین ڈالر کی اضافی لائن آف کریڈٹ فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، تاکہ تمام منصوبوں کو مقررہ مدت میں مکمل کیا جا سکے۔ دوستو، بحر ہند میں بین الاقوامی جرائم، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کا خطرہ سنگین ہے۔ اور اس لیے دفاع اور سلامتی کے میدان میں بھارت اور مالدیپ کے درمیان قریبی رابطہ اور تال میل پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ ہم نے ان تمام مشترکہ چیلنجوں کے خلاف اپنا تعاون بڑھایا ہے۔ اس میں مالدیپ کے سیکورٹی اہلکاروں کے لیے صلاحیت سازی اور تربیتی معاونت بھی شامل ہے۔ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت مالدیپ کی سیکورٹی فورس کے لیے 24 گاڑیاں اور ایک بحری کشتی فراہم کرے گا۔ ہم مالدیپ کے 61 جزائر میں پولیس سہولیات کی تعمیر میں بھی تعاون کریں گے۔ دوستو، مالدیپ کی حکومت نے 2030 تک خالص صفر کاربن (نیٹ زیرو کاربن) کے اخراج کا ہدف مقرر کیا ہے۔ میں اس عزم کے لیے صدر صالح کو مبارکباد دیتا ہوں، اور یہ یقین بھی دلاتا ہوں کہ بھارت اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مالدیپ کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔ بھارت نے بین الاقوامی سطح پر وَن ورلڈ، وَن سَن، وَن گرڈ کی پہل کی ہے اور اس کے تحت ہم مالدیپ کے ساتھ مل کر مؤثر قدم اٹھا سکتے ہیں۔ دوستو، آج بھارت – مالدیپ کی شراکت داری نہ صرف دونوں ملکوں کے شہریوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے، بلکہ خطے کے لیے امن، استحکام اور خوشحالی کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔ مالدیپ کی کسی بھی ضرورت یا بحران میں بھارت پہلا جواب دہندہ (رسپانڈر) رہا ہے اور رہے گا۔ میں صدر صالح اور ان کے وفد کو بھارت کے خوشگوار دورے کے تئیں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ (ڈس کلیمر – یہ وزیر اعظم کے ریمارکس کا قریب قریب ترجمہ ہے۔ اصل ریمارکس ہندی میں دیے گئے تھے۔),মালদ্বীপৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰত ভ্ৰমণৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীয়ে প্ৰদান কৰা প্ৰেছ বিবৃত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%85-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B5-%D8%B7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%B1-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9B%E0%A7%80-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A6%95%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%95%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اشادھی بج کے اہم موقع پر تمام لوگوں اور خاص طور پر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تحرک پذیر کچھی برادری کو مبارک باد دی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا۔ ‘‘ اشادھی بج کے پرمسرت موقع پر تمام لوگوں اور خاص طور پر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تحرک پذیر کچھی برادری کو مبارک باد دیتا ہوں، امید ہے کہ آنے والے سال میں یہ ہر کسی کی زندگی میں امن ، مسرت اور اچھی صحت لے کر آئے گا۔’’,কচ্ছী সমাজকে প্ৰমুখ্য কৰি আটাইকে আষাঢ়ী বীজৰ শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D9%81-%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D9%81%DB%8C-%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%B4-%D8%AA%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6-%E0%A6%A4/,نئی دلّی ،19 فروری، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے معروف صحافی رویش تیواری کے انتقال پر گہ��ے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’رویش تیواری کو تقدیر نے بہت جلد چھین لیا۔ صحافت کی دنیا میں ایک روشن کیرئیر کا اختتام ہوگیا۔ ان کی رپورٹس کو پڑھ کر خوشی محسوس ہوتی تھی اور وقتاً فوقتاً میری ان سے بات چیت بھی ہوتی تھی۔ وہ صاحب بشارت اور شائستہ مزاج کے شخص تھے۔ ان کے اہل خانہ اور ان کے دوستوں سے میری تعزیت۔ اوم شانتی‘‘,প্ৰখ্যাত সাংবাদিক ৰবিশ তিৱাৰীৰ বিয়োগত শোক প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%B4%DB%8C-%D8%AA%D9%85%D9%84-%D8%B3%D9%86%DA%AF%D9%85%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%84%DB%92-%DA%A9%D8%B1-%D8%B4%DB%81%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%A8%D8%B5%D8%B1%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%B6%E0%A7%80-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%AE-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے، گذشتہ روز اُن ہی کے ذریعہ شروع کیے گئے کاشی تمل سنگمم پروگرام پر شہریوں کے ردعمل کا جواب دیا ۔ تمل ناڈو اور کاشی، جو کہ ملک میں علم کے دو ازحد اہم اور قدیم مراکز ہیں، کے درمیان صدیوں پرانے روابط کو از سر نو تلاشنے اور مضبوط کرنے کے لیے کی گئی اس اختراعی پہل قدمی کو لے شہریوں نے پرجوش انداز میں ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کاشی اور تمل ناڈو کی عظیم ثقافت پر عوام کے نظریات کو تسلیم کرتے ہوئے جواب دیا پروگرام کی کوالٹی کے لیے عوام کی جانب سے ستائش۔ اور تمل زبان و ثقافت کی عالمی پیمانے پر مقبولیت اور عظمت کی بھی ستائش کی گئی۔,কাশী তামিল সংগম সন্দৰ্ভত নাগৰিকৰ প্ৰতিক্ৰিয়াৰ সঁহাৰি জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C%D9%86-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DA%86%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D9%81%DB%81%D8%B1%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%AE-%E0%A6%85%E0%A6%A8/,نئی دہلی/ 25 اپریل۔مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں آئینی حکم (سی۔ او) 114 بتاریخ 12 فروری1981 کو رد کرتے ہوئے آئین ہند کی پانچویں فہرست کے تحت راجستھان کے معاملے میں درج فہرست علاقوں کے ا علان اور نئے آئینی حکم کی اشاعت کو منظوری دی ہے۔ نئے آئینی حکم کی اشاعت سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ راجستھان کے درج فہرست قبائل کو آئین ہند کی پانچویں فہرست کے تحت دستیاب تحفظ سے متعلق اقدامات کا فائدہ ملے۔ حکومت راجستھان نے آئین ہند کی پانچویں فہرست کے تحت راجستھان ریاست میں درج فہرست علاقوں کی توسیع کے لئے درخواست کی ہے۔ استفادہ کنندگان: آئین ہند کی پانچویں فہرست کے تحت دستیاب تحفظ سے متعلق اقدامات سے راجستھان کے بانس واڑا، ڈونگر پور، پرتاپ گڑھ میں اور اودے پور، راج سمند، چتوڑ گڑھ، پالی اور سروہی اضلاع کے جزوی علاقوں میں رہنے والے درج فہرست قبائل کوفائدہ ملے گا۔ تین مکمل اضلاع یعنی بانس واڑا، ڈونگر پور، پرتاپ گڑھ، 9 مکمل تحصیلوں، ایک مکمل بلاک اور 46 مکمل گرام پنچایتوں جن میں راجستھان کے اودے پور، راج سمند، چتوڑ گڑھ، پالی اور سروہی اضلاع کے 227 گاؤ ں شامل ہیں، پر مشتمل علاقے کو راجستھان ریاست میں درج فہرست علاقوں میں شامل کیا جائے گا۔ درج فہرست علاقو ں کے ا علان کے سلسلے میں کوئی اضافی فنڈ مختص کئے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ تیز رفتار ترقی کو عملی جامہ پہنائے جانے ک�� لئے درج فہرست علاقوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے مقصد سےمرکزی اور ریاستی حکومت کی موجودہ اسکیموں میں قبائلی ذیلی منصوبے کا (جس کا نام بدل کراب قبائلی ذیلی اسکیم کردیا گیا)حصہ ہوگا۔ پس منظر: آئینی ہند کی پانچویں فہرست]دفعہ 244(1)[ کے پیرا گراف6(1) کے مطابق‘‘درج فہرست علاقوں’’ سے مراد ایسے علاقوں سے ہے جنہیں صدرجمہوریہ کے حکم کے مطابق درج فہرست علاقے قرار دیا گیا ہے۔آئین کی پانچویں فہرست کے پیرا گراف 6(2) کے ضابطوں کے مطابق صدرجمہوریہ کسی بھی وقت ریاست کے گورنر کے مشورے سے کسی بھی ریاست میں کسی درج فہرست علاقے کے رقبے میں اضافہ کرسکتے ہیں اور کسی بھی ریاست یا ریاستوں کے معاملے میں متعلقہ ریاست کے گورنر کے مشورے سے اس پیرا گراف کے تحت دیئے گئے کسی بھی حکم یا احکامات کو رد کرسکتے ہیں اور درج فہرست علاقوں کے سلسلے میں علاقوں کی تشریح کے لئے نئے احکامات جاری کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے سال 1950 میں درج فہرست علاقوں کو نوٹیفائی کیا گیا تھا۔اس کے بعد 1981 میں راجستھان ریاست کے لئے درج فہرست علاقوں کے مخصوص اعلان سے متعلق آئینی احکامات جاری کئے گئے تھے۔سال 2011 کی مرد م شماری کی مطابق درج فہرست قبائل کی آبادی میں تبدیلی آنے اور نئے اضلاع تیار ہونے / قائم کئے جانے کی وجہ سے حکومت راجستھان نے راجستھان ریاست میں درج فہرست علاقوں کی توسیع کے لئے درخواست کی ہے۔,ভাৰতীয় সংবিধানৰ পঞ্চম অনুসূচীৰ অধীনত ৰাজস্থানৰ একাংশ এলেকা অনুসূচিত শ্ৰেণীৰ লোকৰ অধ্যূষিত স্থান হিচাপে ঘোষণা কৰিবলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92%D8%AA%D9%84%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%86%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A4/,وزیراعظم جناب نریندرمودی نے تلنگانہ کے یوم تاسیس کے موقع پر ریاست کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے ۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم جناب نریندرمودی نے کہا: ‘‘تلنگانہ کے یوم تاسیس کے موقع پر ریاست کی بہنوں اوربھائیوں کو مبارکباد ۔ تلنگانہ کے عوام ، سخت محنت اور قومی ترقی کے تئیں اپنی بے مثال وابستگی کے لئے معروف ہیں ۔ریاست کی تہذیب وثقافت دنیا بھرمیں معروف ہے ۔ میں تلنگانہ کے عوام کی خیروعافیت کے لئے دعاگوہوں ۔,প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উপলক্ষে তেলেংগানাৰ জনসাধাৰণক শুভেচ্ছা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%81%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 17ستمبر، 2022/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مدھیہ پردیش کے شیو پور علاقے میں کراہل کے مقام پر منعقدہ اپنی مدد آپ گروپ سمیلن میں شرکت کی۔ اس موقعے پر وزیراعظم نے خاص طور پر کمزور چار قبائلی گروپوں پی وی ٹی جی کے ہنر مندی کے مرکزوں کا بھی افتتاح کیا۔ یہ مراکز پی ایم کوشل وکاس یوجنا کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے بینک قرضے کی منظوری کے خطوط بھی ایس ایچ جی ارکان کو سونپے اور جل جیون مشن کے تحت کٹس بھی ان کے حوالے کیں۔ تقریباً ایک لاکھ خواتین جو ایس ایچ جی کی ارکان ہیں اس موقعے پر موجود تھیں اور تقریباً 43 لاکھ خواتین ایسی تھیں جن کا تعلق مختلف مرکزوں سے ہے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر وقت اجازت دے تو وہ اپنی والدہ سے آشرواد لینے کی کوشش کریں۔ آج اگرچہ وہ اپنی والدہ سے ملنے کے لیے نہیں جا سکے، انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کو اس بات پر بہت خوشی ہوگی کہ وہ لاکھوں قبائلی ماؤں سے آشرواد لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی بیٹیاں اور مائیں میرے رکشا کووچ (حفاظتی ڈھال) ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وشوکرما جینتی پر اپنی مدد آپ گروپوں کی ایک بڑی کانفرنس اپنے اندر ایک بہت خاص بات ہے ۔ انہوں نے وشوکرما پوجا کے موقعے پر مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے 75 سال بعد بھارت میں چیتوں کےواپس آنے پر فخر اور خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے یاد کیا ’’یہاں آنے سے پہلے مجھے کنو نیشنل پارک میں چیتوں کو چھوڑنے کا موقع فراہم ہوا۔‘‘ انہوں نے درخواست کی اور ان کا استقبال چیتوں کے لیے گرم جوشی کے ساتھ کیا گیا۔ جنہیں انہوں نے ایک معزز مہمان کہا ہے۔ اور جو اعزاز اس جگہ سے ہر ایک کی طرف سے ملا ہے۔ انہوں نے خطے کے عوام سے کہا’’چیتوں کو آپ کےحوالے کیا گیا ہے کیونکہ آپ پر یقین ہے۔ مجھے اعتماد ہے کہ آپ ہر طرح کے منفی حالات کا سامنا کریں گی اور چیتوں کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہونے دیں گی۔ اسی لیے آج میں ان آٹھ چیتوں کی ذمہ داری آپ کو دینے آیا ہوں۔ ‘‘آج ایس ایچ جی کی طرف سے 10 لاکھ پودے لگاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس سے بھارت کی ماحولیاتی تحفظات کی کوششوں کو نئی توانائی ملے گی۔ بھارت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی نمائندگی کو اجاگر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ خواتین کی طاقت پچھلی صدی کے بھارت اور اس صدی کے نئے بھارت کے درمیان فرق ظاہر کرنے والا عنصر ہے۔ انہوں نےکہا ’’آج کے نئے بھارت میں خواتین کی طاقت کا جھنڈا پنچایت بھون سے لے کر راشٹرپتی بھون تک لہرا رہا ہے۔‘‘ جناب مودی نے یہ بھی کہاکہ حالیہ پنچایت انتخابات میں 17 ہزار خواتین کو پنچایت اداروں میں چنا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑی تبدیلی کی نشانی ہے۔ وزیر اعظم نے جدوجہد آزادی اور ملک کی سکیورٹی میں خواتین کےتعاون کو یاد کیا۔ انہوں نے حالیہ ہر ترنگا مہم میں خواتین اور ایس ایچ جی کے رول اور کورونا عرصے کے دوران ان کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مدد آپ گروپ ، قوم کی مدد کرنے والے گروپ بن گئے ہیں۔ وزیراعظم نے رائے زنی کی کہ کسی بھی شعبے کی کامیابی کا تعلق خواتین کی نمائندگی میں براہ راست اضافے سے ہے۔ اس طرز کی ایک اچھی مثال سوچھ بھارت ابھیان کی کامیابی ہے جو خواتین کی قیادت والی پہل ہے۔ اسی طرح 7 کروڑ گھروں کو پچھلے تین سال میں پائپ کے ذریعے پانی کے کنکشن ملیں گی اور ان میں سے 40 لاکھ کنبے مدھیہ پردیش کے ہیں۔ وزیرعظم نے اس کامیابی کا سہرا بھارت کے خواتین کو دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے آٹھ سال میں حکومت نے اپنی مدد آپ گروپوں کو بااختیار بنانے کے بہت سے اقدام کیے ہیں۔ جناب مودی نے کہا ’’آج ملک بھر کی 8 کروڑ سے زیادہ بہنیں اس مہم سے وابستہ ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ ہر دیہی کنبے سے ایک بہن اس مہم میں حصہ لیں۔ ‘‘ ایک ضلع ایک چیز کی پہل پر روشی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہر ضلعے سے مقامی چیزوں کو بڑی مارکٹ میں لے جانے کی ایک کوشش ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ حکومت دیہی معیشت میں خاتون چھوٹے کاروباریوں کے لیے نئے امکانات پیدا کرنے کے لیے لگاتار کام کر رہی ہے۔ انہوں نےبتایا کہ اپنی مدد آپ گروپوں نے ان مارکیٹوں میں 500 کروڑ روپے مالیت کی اشیا فروخت کی ہیں جو خاص طور پر ان کی اشیا کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ پی ایم ون دھن یوجنا اور پی ایم کوشل وکاس یوجنا کے فائدےبھی خواتین کو پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے جی ای ایم پورٹل پر ایس ایچ جی کی مصنوعات کے لیے سرس اسپیس کے بارےمیں بتایا۔ وزیراعظم نے اجاگر کیا کہ بھارت نے اقوام متحدہ پہنچ کر 2023 کو موٹے اناج کا سال قرار دینے کے لیے زبردست کوششیں کی ہیں، جسے بین الاقوامی سطح پر منایا جانا چاہیے۔ وزیراعظم نے یہ بھی یاد کیا کہ ستمبر کا مہینہ ملک میں غذائیت کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ وہ یقین دلاتےہیں کہ موٹے اناج سے تیار کیا گیا کم سے کم ایک کھانا ، بیرون ملک سے آنےوال شخصیتوں کے کھانے کی فہرست کا حصہ ہونا چاہیے۔ 2014 سے حکومت کی کوششوں کو یاد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک نے خواتین کے وقار میں اضافہ کرنے اور روزانہ انہیں درپیش چیلنجوں کو حل کرنے کی جانب لگاتار کام کیا ہے۔ جناب مودی نے یاد کیا کہ کس طرح خواتین نے بیت الخلاء کے موجود نہ ہونے سے متعلق انتہائی پریشانیوں اور رسوئی میں لکڑیوں سے اٹھنے والےدھنویں کی پریشانی کا سامنا کیا ہے۔وزیراعظم نے خوشی کا اظہار کیا کہ ملک میں 11 کروڑ سے زیادہ بیت الخلاء کی تعمیر کر کے ، 9 کروڑ سے زیادہ کنبوں کو گیس کنکشن فراہم کر کے اور بھارت کے دور سے دور علاقوں میں کروڑوں کنبوں کو نل کا پانی فراہم کر کے ان کی زندگیوں میں کس طرح آسانی پیدا کی گئی ہے، انہوں نے بتایا کہ ماترو وندنا یوجنا کے تحت 11000 کروڑ روپے حاملہ خواتین کے کھاتوں میں راست منتقل کیے گئے۔ مدھیہ پردیش میں ماؤوں کو اس اسکیم کے تحت 1300 کروڑ روپے بھی دیئے گئے۔ انہوں نے گھریلو سطح پر مالی فیصلے کرنے میں خواتین کے بڑھتے ہوئے رول کا بھی ذکر کیا۔ جن دھن بینک کھاتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کا ایک بڑا وسیلہ بن گیا ہے۔ وزیراعظم نےیہ بھی یاد کیا کہ کورونا مدت کے دوران جن دھن بینک کھاتوں کی طاقت کی اس کی وجہ سے حکومت خواتین کے بینک کھاتوں میں حفاظت کے ساتھ پیسہ راست منتقل کر سکی۔ انہوں نے کہا ’’آج ان خواتین کے نام ا گھروں سے منسلک ہے جو پی ایم آواس یوجنا کے تحت انہیں حاصل ہوئے ہیں۔ ہماری حکومت نے ملک میں دو کروڑ سے زیادہ خواتین کو مکان مالک ہونے کا اہل بنایا ہے۔ مدرا اسکیم کے تحت ابھی تک 19 لاکھ کروڑ روپے کے قرضے ملک بھر میں چھوٹے کاروباریوں اور کاروباریوں کو دیئے گئے ہیں۔ اس پیسے کا تقریباً 70 فیصد حصہ خاتون چھوٹے کاروباریوں کو ملا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت کی ایسی کوششوں کی وجہ سے گھروں کے معاشی فیصلوں میں خواتین کےرول میں آج اضافہ ہو رہا ہے۔ ‘‘ وزیراعظم نے رائے دی ، ’’خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنائے جانے سے سماج میں بھی مساوات پیدا ہوتی ہے ۔ ‘‘ اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ بھارت کی بیٹیاں کس طرح سینک اسکولوں میں اب اندراج کرا رہی ہیں، پولیس کمانڈو بن رہی ہیں اور فوج میں شامل ہو رہی ہیں۔ وزیراعظم نے ان کے لیے بند دروازوے کھولنے اور نئے امکانات پید اکرنے کا سہرا حکومت کو دیا۔ پچھلےآٹھ سال میں ہر میدان میں قابل ذکر تبدیلیوں کی طرف ہر ایک کی توجہ مبذول کراتے ہوئے وزیراعظم نے ہر ایک کو بتانے میں فخر کا اظہار کیا کہ پورےمل�� میں پولیس فورس میں خواتین کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ کر دو لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نےیہ بات بھی اجاگر کی کہ ہماری 35 ہزار سے زیادہ بیٹیاں مرکزی دستوں کا حصہ ہیں اور ملک کےدشمنوں سےلڑ رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ’’یہ تعداد 8 سال پہلےکی تعداد سے تقریباً دو گنی ہے۔ ‘‘ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ مجھے آپ کی طاقت پر پورا یقین ہے۔سب کے پریاس کے ساتھ ہم ایک بہتر سماج اور ایک مضبوط ملک بنانے میں یقیناً کامیاب ہوں گے۔ مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل ، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ جناب شیو راج سنگھ چوہان، مرکزی وزراء جناب نریندر سنگھ تومر ، جناب جیوترآدتیہ سندھیہ اور ڈاکٹر وریندر کمار اور مرکزی وزرائے مملک جناب فگن سنگھ کلستے اور جناب پرہلاد پٹیل بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ پس منظر اس سمیلن میں خواتین کے اپنی مدد آپ گروپ (ایس ایچ جی) کی ہزاروں ارکان / سماجی وسیلے کے افراد نے شرکت کی جنہیں دین دیال انتودیہ یوجنا – قومی دیہی گزر بسر مشن (ڈی اے وائی – این آر ایل ایم) کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے۔ پروگرام کے دوران وزیرعظم نے پی ایم کوشل وکاس یوجنا کے تحت خاص ور پر چار کمزور قبائلی گروپوں پی وی ٹی جی کے ہنر مندی کے مرکزوں کا بھی افتتاح کیا۔ ڈی اے وائی – این آر ایل ایم کا مقصد دیہی غریب گھروں کو مرحلے وار طریقے سے ایس ایچ جی میں بدلنا اور انہیں اپنی گزر بسر کو متنوع بنانے میں اور اپنی آمدنی اور معیار زندگی کو بہتر بنانے میں طویل مدتی مدد فراہم کرنا یہ مشن گھریلو تشدد ، خواتین کی تعلیم اور دیگر صنفی معاملات ، تغذیے ، صفائی ستھرائی اور صحت جیسے معالات پر رویہ جاتی تبدیلی کی بات چیت کے ذریعے خواتین کے ایس ایچ جی ارکان کو بااختیار بنانے کی جانب بھی کام کر رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔ 17.09.2022,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মধ্যপ্ৰদেশৰ কাৰাহালত মহিলাৰ আত্মসহায়ক গোটৰ সন্মিলনত ভাষণ দিয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%92-%D8%B1%DB%8C%D9%88%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مدھیہ پردیش کے ریوا میں ہوئے سڑک حادثہ میں لوگوں کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس حادثہ میں مرنے والے ہر فرد کے اہل خانہ کو دو لاکھ روپے اور زخمیوں کو 50 ہزار روپے کے معاوضہ کا اعلان بھی کیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کی نگرانی میں مقامی انتظامیہ متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئٹ کیا؛ ’’مدھیہ پردیش کے ریوا میں نیشنل ہائی وے پر ہوا حادثہ دل دہلا دینے والا ہے۔ اس میں جنہوں نے اپنوں کو کھویا ہے، ان کے تئیں میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی تمام زخمیوں کے جلد صحت یاب ہونے کی دعا کرتا ہوں۔ ریاستی حکومت کی نگرانی میں مقامی انتظامیہ متاثرین کی ہر ممکن مدد میں لگی ہوئی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے مدھیہ پردیش میں ہوئے اندوہناک بس حادثہ میں ہر ایک متوفی کے اہل خانہ کو پی ایم این آر ایف کی طرف سے 2 لاکھ روپے کے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔ زخمیوں کو 50 ہزار روپے دیے جائیں گے۔,মধ্য প্ৰদেশৰ ৰেৱাত সংঘটিত পথ দুৰ্ঘটনাত নিহতসকলৰ প্ৰতি প্ৰ��ানমন্ত্ৰীৰ শোক প্ৰকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%86%DB%8C%D9%81-%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%D9%82%D9%88-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B8%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پہلے دہلی میں چیف سکریٹریوں کی دوسری قومی کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے ہندوستان کے جی 20 کی صدارت حاصل کرنے، دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے، نئے اسٹارٹ اپس کے تیزی سے رجسٹریشن، خلائی شعبے میں نجی سرمایہ کاری کی شروعات، نیشنل لاجسٹک پالیسی کا آغاز، نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن کی منظوری وغیرہ جیسی مختلف مثالیں دیتے ہوئے جون 2022 میں پچھلی کانفرنس کے بعد سے ملک کی طرف سے حاصل کیے گئے ترقیاتی سنگ میلوں کا ذکر کیا ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں اور مرکز کو مل کر کام کرنا چاہئے اور ترقی کی رفتار کو تیز کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے ملک بنیادی ڈھانچے، سرمایہ کاری، اختراع اور شمولیت کے چار ستونوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا ہندوستان پر اعتماد کر رہی ہے اور ہمیں ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو عالمی سپلائی چین میں استحکام لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک اس کا پورا فائدہ صرف اسی صورت میں اٹھا سکے گا جب ریاستیں قیادت کریں، معیار پر توجہ مرکوز رکھیں اور انڈیا- فرسٹ کے نقطہ نظر کے ساتھ فیصلے کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستوں کوترقی کے لئے موافق حکمرانی، کاروبار کرنے میں آسانی، زندگی گزارنے کی آسانی اور مضبوط انفراسٹرکچر کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے۔ خواہش مند بلاک پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے خواہش مند ضلع پروگرام کے تحت ملک کے مختلف خواہش مند اضلاع میں حاصل کی گئی کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواہش مند ضلع ماڈل کو اب خواہش مند بلاک پروگرام کی شکل میں بلاک سطح تک لے جانا چاہیے۔ انہوں نے میٹنگ میں موجود افسروں سے کہا کہ وہ اپنی اپنی ریاستوں میں خواہش مند بلاک پروگرام کو نافذ کریں۔ ایم ایس ایم ایز پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ریاستوں کو ایم ایس ایم ایز کو باضابطہ بنانے کے لیے فعال طور پر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان ایم ایس ایم ایز کو عالمی سطح پر مسابقتی بنانے کے لیے ہمیں فنانس، ٹیکنالوجی، مارکیٹ اور ہنر مندی تک رسائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید ایم ایس ایم ایزکو جی ای ایم پورٹل پر لانے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایم ایس ایم ایز کو عالمی چیمپئن اور عالمی ویلیو چین کا حصہ بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایم ایس ایم ایز کی ترقی میں کلسٹر اپروچ کی کامیابی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ مخصوص مقامی مصنوعات کو ’ایک ضلع ایک پروڈکٹ‘ کی کوشش سے جوڑ کر فروغ دینے اور ان کے لیے جی آئی ٹیگ رجسٹریشن حاصل کرنے کے واسطے ایم ایس ایم ای کلسٹرز اور سیلف ہیلپ گروپس کے رابطےکے امکان کا پتہ لگایا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ووکل فار لوکل کی اپیل کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کو اپنی بہترین مقامی مصنوعات کی شناخت کرنی چاہئے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح کا درجہ دلانے میں مدد کرنی چاہئے۔ انہوں نے اس موقع پر اسٹیچو آف یونٹی میں ایکتا مال کی مثال بھی دی۔ وزیر اعظم نے حد سے زیادہ ضابطوں اور پابندیوں کے اس بوجھ کو یاد کیا، جس کا پہلے ملک کو سامنا کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے ان اصلاحات کےبارے میں بتایا جو مرکزی اور ریاستی سطحوں پر ہزاروں ضابطوں تعمیل کو ختم کرنے کے لیے کی گئیں۔ انہوں نے پرانے قوانین کو ختم کئے جانے کی ضرورت کا بھی ذکر کیا، جن میں سے کچھ آزادی کے بعد سے برقرار ہیں۔ اس بات پر بحث کرتے ہوئے کہ کس طرح مختلف سرکاری محکمے ایک جیسے دستاویزات مانگتے رہتے ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ آج وقت کی ضرورت ہے کہ سیلف سرٹیفیکیشن، ڈیمڈ اپروولز اور فارم کی معیار کاری کی طرف بڑھا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک کس طرح مادی اور سماجی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی سمت کام کر رہا ہے اور پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے ڈیٹا کی حفاظت اور ضروری خدمات کی مسلسل فراہمی کے لیے محفوظ ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کی اہمیت کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کو ایک مضبوط سائبر سیکورٹی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سرمایہ کاری مستقبل کے لئے انشورنس کی طرح ہے۔ سائبر سیکیورٹی آڈٹ مینجمنٹ اور کرائسس مینجمنٹ پلانز تیار کرنے سے متعلق پہلوؤں پر بھی انہوں نے تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے ملک کے ساحلی علاقوں کی ترقی پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا وسیع خصوصی اقتصادی زون وسائل سے آراستہ ہے اور ملک کے لیے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ سرکلر اکانومی کے بارے میں بیداری بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے مشن لائف (ماحول کے مطابق طرز زندگی) اور اس کو آگے بڑھانے میں ریاستیں جو اہم رول ادا کر سکتی ہیں، اس پر روشنی ڈالی ۔ یہ بتاتے ہوئے کہ ہندوستان کی پہل پر، اقوام متحدہ نے 2023 کو ملیٹس کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ ملیٹس محض اسمارٹ فوڈ ہی نہیں ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے اور یہ مستقبل میں پائیدار خوراک بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کو ملیٹس کے پروڈکس سے متعلق تحقیق پر کام کرنا چاہیے جیسے کہ پروسیسنگ، پیکیجنگ، مارکیٹنگ، برانڈنگ وغیرہ اور ملیٹس کے پروڈکٹس کی مجموعی ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے ملک بھر کے نمایاں عوامی مقامات اور ریاستی حکومت کے دفاتر میں ’ملٹ کیفے‘‘ کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ریاستوں میں منعقد ہونے والی جی 20 میٹنگوں میں ملیٹس کی نمائش کی جا سکتی ہے۔ ریاستوں میں جی 20 میٹنگوں سے متعلق تیاریوں کے لیے، وزیر اعظم نے عام شہریوں کو شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ’سٹیزن کنیکٹ‘ کے حصول کے لیے تخلیقی سولیوشن کام میں لائے جانے چاہئیں۔ انہوں نے جی 20 سے متعلق تیاریوں کے لیے ایک وقف ٹیم کے قیام کا بھی مشورہ دیا۔ وزیر اعظم نے ریاستوں کو منشیات، بین الاقوامی جرائم، دہشت گردی اور غیر ملکی سرزمین سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کےبارے میں بھی خبردار کیا۔ وزیر اعظم نے بیوروکریسی کی صلاحیت کو بڑھانے اور مشن کرمیوگی کے آغاز کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کو اپنے تربیتی ڈھانچے کا بھی جائزہ لینا چاہئے اور صلاحیت سازی کے پروگرام شروع کرنے چاہئں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چیف سیکرٹریوں کی اس کانفرنس کے انعقا�� کے لیے مختلف سطحوں پر تقریباً 4000 افسران نے کام کیا ہے جس کے لیے ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد کا م کے گھنٹے لگائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کو اب زمینی سطح پر بھی نظر آنا چاہیے، اور ریاستوں سے کہا کہ وہ کانفرنس سے ملنے والی تجاویز کی بنیاد پر ایکشن پلان تیار کریں اور ان پر عمل درآمد کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیتی آیوگ کو اس سلسلے میں ریاستوں کے درمیان ایک صحت مند مسابقت بھی کرانی چاہیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,মুখ্য সচিবসকলৰ দ্বিতীয় ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DB%8C%DA%A9%D9%85-%D8%A7%DA%A9%D8%AA%D9%88%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%885-%D8%AC%DB%8C-%D8%AE%D8%AF%D9%85%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D8%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7-%E0%A6%85%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A7%AB%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A6%B8%E0%A7%87%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%B6%E0%A7%81%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,"ایک نئے تکنیکی دور کا آغاز کرتے ہوئے، وزیر اعظم جناب نریندر مودی یکم اکتوبر کو صبح 10 بجے پرگتی میدان، نئی دہلی میں 5 جی خدمات کا آغاز کریں گے۔ 5 جی ٹیکنالوجی ہموار کوریج، اعلیٰ ڈیٹا کی شرح، کم سے کم اخفا ، اور انتہائی قابل اعتماد مواصلات فراہم کرے گی۔ اس سے توانائی کی کارکردگی، سپیکٹرم کی کارکردگی اور نیٹ ورک کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم انڈین موبائل کانگریس (آئی ایم سی) کے چھٹے ایڈیشن کا بھی افتتاح کریں گے۔ آئی ایم سی 2022 کا انعقاد یکم سے 4 اکتوبر تک ""نیو ڈیجیٹل یونیورس"" کے تھیم کے ساتھ ہونا ہے۔ یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپنانے اور پھیلنے سے پیدا ہونے والے منفرد مواقع پر تبادلہ خیال اور نمائش کے لیے سرکردہ مفکرین، کاروباری افراد، اختراع کاروں اور سرکاری اہلکاروں کو یکجا کرے گا۔",১ অক্টোবৰত ৫জি সেৱা শুভাৰম্ভ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%85%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%DA%A9%DB%8C-%D9%84%D9%88%DA%A9%D9%84-%D8%A7%DB%8C%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں آج مرکزی کابینہ نے مالی سال 22-2021 کے بقیہ حصہ کے دوران اور مالی سال 26-2025 تک، جب 15ویں مالیاتی کمیشن کی میعاد ختم ہوگی، ممبران پارلیمنٹ کی لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم (ایم پی لیڈ) کی بحالی اور اسے جاری رکھنے اپنی منظوری دے دی۔ اسکیم کی تفصیلات: ایم پی لیڈ سنٹرل سیکٹر کی اسکیم ہے جس کی فنڈنگ مکمل طور پر حکومت ہند کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد ممبران پارلیمنٹ کو ترقیاتی نوعیت کے کاموں کی تجویز فراہم کرنے کے قابل بنانا ہے، جس کے تحت خاص کر ان کے حلقہ انتخاب میں پینے کے پانی، ابتدائی تعلیم، صحت عامہ، صاف صفائی اور سڑک وغیرہ کے شعبوں میں مستحکم کمیونٹی کے اثاثوں کی تعمیر پر زور دینا ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ اپنے حلقہ انتخاب کے لیے سالانہ 5 کروڑ روپے کے ایم پی لیڈ فنڈ کے مستحق ہیں، جسے ایم پی لیڈ کے رہنما خطوط کو پورا کرنے کی شرط پر 2.5 کروڑ روپے کی دو قسطوں میں جاری کیا جاتا ہے۔ معاشرہ میں صحت اور کووڈ 19 کے برے اثرات کا انتظام کرنے کے لیے، کابینہ نے 6 اپریل، 2020 کو منعقد اپنی میٹنگ میں مالی سال 21-2021 اور 22-2021 کے دوران ایم پی لیڈ کو بروئے کار نہ لانے اور اس فنڈ کو کووڈ 19 وبائی مرض کے اثرات کا انتظام کرنے کے ��یے وزارت خزانہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب چونکہ ملک اقتصادی بازیافت کی راہ پر گامزن ہے اور یہ اسکیم پائیدار کمیونٹی کے اثاثے کی تعمیر کے لیے مفید بنی ہوئی، معاشرہ کی مقامی طور پر ضروری سمجھی جانے والی امیدوں کو پورا کرنے میں، ہنرمندی کی تعمیر میں اور ملک بھر میں نوکریاں پیدا کرنے میں، اسی لیے یہ آتم نربھر بھارت کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد گار ہے۔ اسی لیے، مرکزی کابینہ نے اب مالی سال 22-2021 کے باقی حصے کے دوران ممبران پارلیمنٹ کی لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم (ایم پی لیڈ) کو بحال کرنے اور ایم پی لیڈ کو 26-2025 تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جب 15ویں مالیاتی کمیشن کی میعاد ختم ہو جائے گی۔ وزارت مالی سال 22-2021 کی بقیہ مدت کے لیے ایم پی لیڈ 2 کروڑ روپے فی رکن پارلیمنٹ کے حساب سے ایک قسط میں اور مالی سال 23-2022 سے 26-2025 تک کی مدت کے دوران 5.00 کروڑ روپے سالانہ فی رکن پارلیمنٹ کے حساب سے ہر ایک کے لیے 2.5 کروڑ روپے کی قسط جاری کرے گی۔ جب سے یہ اسکیم شروع ہوئی ہے تب سے اب تک 54171.09 کروڑ کے مالی اخراجات سے کل 1986206 کام/پروجیکٹ مکمل کیے جا چکے ہیں۔ مالی اخراجات: مالی سال 22-2021 کے بقیہ حصے اور 26-2025 تک ایم پی لیڈ کی بحالی اور اسے جاری رکھنے پر کل 17417.00 کروڑ روپے خرچ ہوں گے جن کی جدول کے حساب سے تفصیل نیچے دی گئی ہے: مالی سال 2021-22 2022-23 2023-24 2024-25 2025-26 کل رقم مالی اخراجات (کروڑ روپے میں) 1583.5 3965.00 3958.50 3955.00 3955.0 17417.00 نفاذ کی حکمت عملی اور اہداف: ایم پی لیڈ کی نگرانی رہنما خطوط کے ایک مجموعہ کے ذریعے کی جاتی ہے، جس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی کی جاتی ہے۔ ایم پی لیڈ کے تحت کارروائی تب شروع ہوتی ہے جب رکن پارلیمنٹ نوڈل ڈسٹرکٹ اتھارٹی کو کاموں کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ متعلقہ نوڈل ڈسٹرکٹ رکن پارلیمنٹ کے ذریعے تجویز کردہ اہل کاموں کے نفاذ اور اسکیم کے تحت انجام دیے گئے انفرادی کاموں اور ان پر خرچ کیے گئے پیسے کی تفصیلات درج کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اثرات: ایم پی لیڈ کو بحال اور جاری کرنے سے معاشرہ کے ان ترقیاتی پروجیکٹوں / کاموں کو دوبارہ شروع کرنے میں مدد ملے گی جنہیں ایم پی لیڈ کے تحت فنڈ کی کمی کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ یہ مقامی برادری کی امیدوں اور ترقیاتی تقاضوں کو پورا کرنے اور پائیدار اثاثوں کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کر دے گا، جو کہ ایم پی لیڈ کا بنیادی مقصد ہے۔ اس سے مقامی معیشت کے احیا میں بھی مدد ملے گی۔ پس منظر: ایم پی لیڈ سنٹرل سیکٹر کی اسکیم ہے جس کی فنڈنگ مکمل طور پر حکومت ہند کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد ممبران پارلیمنٹ کو ترقیاتی نوعیت کے کاموں کی تجویز فراہم کرنے کے قابل بنانا ہے، جس کے تحت خاص کر ان کے حلقہ انتخاب میں پینے کے پانی، ابتدائی تعلیم، صحت عامہ، صاف صفائی اور سڑک وغیرہ کے شعبوں میں مستحکم کمیونٹی کے اثاثوں کی تعمیر پر زور دینا ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ اپنے حلقہ انتخاب کے لیے سالانہ 5 کروڑ روپے کے ایم پی لیڈ فنڈ کے مستحق ہیں، جسے ایم پی لیڈ کے رہنما خطوط کو پورا کرنے کی شرط پر 2.5 کروڑ روپے کی دو قسطوں میں جاری کیا جاتا ہے۔ وزارت نے 2021 میں ملک بھر کے 216 ضلعوں میں ایم پی لیڈ کے تحت کیے گئے کاموں کا فریق ثالث سے تجزیہ کروایا تھا۔ اس تجزیاتی رپورٹ میں ایم پی لیڈ کو جاری رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔,‘সাংসদৰ স্থানীয় এলেকা উন্নয়ণ আঁচনি’(এমপিএলএডিএছ)ৰ পুনৰ ৰূপায়ণ আৰু বিস্তাৰিতকৰণৰ প্ৰস্তাৱলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-17-%D8%A7%D9%88%D8%B1-18-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AD-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 17 اور 18 جون کو گجرات کا دورہ کریں گے۔ 18 جون کی صبح تقریباً 9:15 بجے، وزیر اعظم پاواگڑھ میں شری کالیکا ماتا کے از سر نو تعمیر شدہ مندر کا دورہ کریں گے اور اس کا افتتاح کریں گے۔ بعد ازاں موصوف تقریباً 11:30 بجے وراثت ون کا دورہ کریں گے۔ اس کے بعد تقریباً 12:30 بجے، وہ وڈودرا میں گجرات گورَو ابھیان میں شرکت کریں گے، جہاں وہ 21000 کروڑ روپئے کے بقدر کے پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ گجرات گورَو ابھیان حکومت کی مختلف اسکیموں کے مستفیدین وڈودرا میں گجرات گورَو ابھیان میں شرکت کریں گے۔ وزیر اعظم 16000 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف ریلوے پروجیکٹوں کو وقف کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان میں کلی طور پر وقف مال بھاڑا گلیارے کے 357 کلو میٹر طویل نیو پالن پور ۔ مدار سیکشن کو قوم کے نام وقف کرنا ؛ 166 کلومیٹر طویل احمدآباد–بوٹاڈ سیکشن کی گیج تبدیلی؛ 81 کلو میٹر طویل پالن پور ۔میٹھا سیکشن کی برق کاری؛ وغیرہ شامل ہیں۔ وزیر اعظم ریلوے کے شعبہ میں دیگر پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ سورت، اُدھنا، سومناتھ اور سابرمتی اسٹیشنوں کی نوتجدیدکاری کے کاموں کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ان پروجیکٹوں سے اشیاء کی نقل و حمل پر ہونے والی لاگت میں تخفیف واقع ہوگی اور خطے میں صنعتی و زرعی شعبے کو تقویت حاصل ہوگی۔ان پروجیکٹوں سے خطے میں کنکٹیویٹی میں بہتری رونما ہوگی اور مسافرین کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت، وزیر اعظم کے ذریعہ مجموعی طور پر 1.38 لاکھ مکانات وقف کیے جائیں گے، جن میں شہری علاقوں میں تقریباً 1800 کروڑ روپئے کے بقدر کے مکانات اور دیہی علاقوں میں 1530 کروڑ روپئے کے بقدر کے مکانات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، 310 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے تقریباً 3000 مکانات کا کھت مہورت بھی کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے دوران وزیر اعظم کھیڑا، آنند، وڈودرا، چھوٹا ادے پور اور پنچ محل میں 680 کروڑ روپئے سے زائد کے بقدر کے مختلف ترقیاتی کاموں کو وقف کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ ان پروگراموں کا مقصد خطے میں زندگی بسر کرنا مزید آسان بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم گجرات کے دبھوئی تعلقہ کے کنڈیلا گاؤں میں گجرات سینٹرل یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ یہ وڈودرا شہر سے تقریباً 20 کلو میٹر دور واقع ہے۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر تقریباً 425 کروڑ روپئے کی لاگت سے کی جائے گی اور یہ 2500 سے زائد طلبا کی اعلیٰ تعلیمی ضرورتوں کو پورے کرے گی۔ ماں اور بچے کی صحت میں بہتری پر توجہ دینے کے لیے وزیر اعظم ’مکھیہ منتری ماترو شکتی یوجنا‘ کی شروعات کریں گے۔ اس پر 800 کروڑ روپئے خرچ ہوں گے۔ اس اسکیم کے تحت آنگن واڑی مراکز سے حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو ہر مہینے 2 کلو چنا، ایک کلو ارہر کی دال اور ایک کلو خوردنی تیل بلاقیمت فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم ’پوشن سُدھا یوجنا‘ کے لیے تقریباً 120 کروڑ روپئے بھی تقسیم کریں گے، جسے اب ریاست کے تمام قبائلی مستفیدین کو بھی فراہم کرایا جا رہا ہے۔ قبائلی اضلاع کی حاملہ اور دودھ ��لانے والی ماؤں کو آئرن اور کیلشیم کی گولیاں دستیاب کرانے اور غذائیت کے بارے تعلیم دینے کے تجربہ کی کامیابی کے بعد یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم، شری کالیکا ماتا کے مندر میں وزیر اعظم پاواگڑھ پہاڑی پر واقع شری کالیکا ماتا کے نوتعمیر شدہ مندر کا افتتاح کریں گے۔ یہ علاقے کے قدیم ترین مندروں میں سے ایک ہے اور بڑی تعداد میں زائرین کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ مندر کی تعمیر نو کا کام دو مرحلوں میں کیا گیا۔ اس کے پہلے مرحلے کا افتتاح وزیر اعظم نے اس سال اپریل میں کیا تھا۔ وہیں، اس پروگرام میں دوسرے مرحلے کے تحت نوتعمیر شدہ جس حصہ کا افتتاح کیا جانا ہے، اس کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نے 2017 میں رکھا تھا۔ اس میں تین سطحوں پر مندر کی بنیاد اور عمارت کی توسیع، اور اسٹریٹ لائٹس، سی سی ٹی وی نظام وغیرہ جیسی سہولتوں کی تنصیب شامل ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৭ আৰু ১৮ জুনত গুজৰাট ভ্ৰমণ কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D8%B1%DA%86%D9%88%D9%84-%D8%B3%D9%85%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%87%E0%A6%89%E0%A6%8F%E0%A6%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE/,نئی دہلی، 18/فروری 2022 ۔ قابل احترام وزیر اعظم جناب نریندر مودی اور ابوظہبی کے ولی عہد عالی جناب شیخ محمد بن زائد النھیان نے آج ایک ورچول سمٹ کی۔ دونوں رہنماؤں نے سبھی شعبوں میں دو فریقی تعلقات میں مسلسل پیش رفت پر گہرے اطمینان کا اظہار کیا۔ قابل احترام وزیر اعظم اور عالی جناب ولی عہد نے ایک مشترکہ ویژن اسٹیٹمنٹ ’’ایڈوانسنگ دی انڈیا اینڈ یو اے ای کمپریہنسیو اسٹریٹیجک پارٹنرشپ: نیو فرنٹیئرس، نیو مائل اسٹون‘‘ جاری کیا۔ اس اسٹیٹمنٹ (بیان) میں بھارت اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مستقبل پر مرکوز شراکت داری کا ایک لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے اور توجہ والے شعبوں اور نتائج کی نشان دہی کی گئی ہے۔ مشترکہ مقصد معیشت، توانائی، موسمیاتی کارروائی، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، ہنرمندی و تعلیم، غذائی تحفظ، حفظان صحت، دفاع و سلامتی سمیت مختلف شعبوں میں نئی تجارت، سرمایہ کاری اور اختراعاتی محرکات کو فروغ دینا ہے۔ ورچول سمٹ کا ایک نمایاں پہلو دونوں رہنماؤں کی ورچول موجودگی میں صنعت و تجارت کے وزیر جناب پیوش گوئل اور متحدہ عرب امارات کے وزیر معیشت عالی جناب عبداللہ بن طوق المری کے ذریعے انڈیا – یو اے ای کمپریہنسیو اکونومک پارٹنرشپ ایگریمنٹ (سی ای پی اے) پر دستخط کرنا اور اس کا تبادلہ کرنا تھا۔ اس معاہدے سے بھارت اور متحدہ عرب امارات کی تجارت کو قابل ذکر فائدہ ہوگا، جس میں بازار تک وسیع رسائی اور ٹیرف میں کمی شامل ہیں۔ توقع ہے کہ سی ای پی اے سے دو فریقی تجارت میں اضافہ ہوگا اور یہ آئندہ پانچ برسوں میں موجودہ 60 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 100 بلین امریکی ڈالر تک جاپہنچے گی۔ دونوں لیڈروں نے بھارت کی آزادی کی 75ویں سال گرہ اور متحدہ عرب امارات کے قیام کے 50ویں سال کے موقع پر مشترکہ یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا۔ بھارت اور متحدہ عرب امارات کے اداروں کے درمیان دو دستخط شدہ مفاہمت ناموں کا بھی سربراہ اجلاس کے دوران اعلان کیا گیا۔ یہ مفاہمت نامے ہیں ، اے پی ای ڈی اے اور ڈی پی ورلڈ اینڈ الظھرہ کے درمیان فوڈ سکیورٹی کوریڈور انیشی ایٹو کے متعلق مفاہمت نامہ اور انڈیاز گفٹ سٹی اور ابوظہبی گلوبل مارکیٹ کے مابین ما��ی پروجیکٹوں و خدمات میں تعاون سے متعلق مفاہمت نامہ۔ دو دیگر مفاہمت ناموں پر بھی دونوں فریقوں کے مابین اتفاق ہوا، جن میں سے ایک کلائمیٹ ایکشن کے معاملے میں تعاون اور دوسرا تعلیم سے متعلق ہے۔ وزیر اعظم نے کووڈ کی وبا کے دوران بھارتی برادری کا خیال رکھنے کے لئے ابوظہبی کے عالی جناب ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے ان کو بھارت کا جلد از جلد دورہ کرنے کی بھی دعوت دی۔,ভাৰত-ইউএই ভাৰ্চুৱেল সন্মিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%A7%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%A7%DA%BA-%D8%B3%DA%A9%D9%86%D8%AF-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نوراتری کے پانچویں دن عقیدت مندوں کے لیے ماں سکند ماتا کا آشیرواد طلب کیا ہے اور لوگوں کے ساتھ دیوی کی دعائیں (ستوتی) پڑھیں۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا : ""नमामि स्कन्दमातरं स्कन्धधारिणीम्। समग्रतत्त्वसागरामपारपारगहराम्॥ نوراتری کے پانچویں دن دیوی سکند ماتا کی پوجا کرنے کا دستور ہے۔ ماں سکند ماتا ہر ایک کی زندگی میں نئی توانائی دیں۔ اہل وطن کی طرف سے ان کو سلام عقیدت!",নৱৰাত্ৰিত মা স্কন্দমাতাৰ আশীৰ্বাদ বিচাৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF%D8%B1%DB%81-%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D8%B9%DB%8C%D8%B4%D8%AA%D8%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%A6/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اپنی سالگرہ معیشت، سماج اور ماحولیات کا احاطہ کرنے والے پروگراموں میں شرکت کرتے ہوئے گزاری۔ انہوں نے نیک خواہشات اور محبت کے اظہار کے لیے شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کیا: ’’میں ملنے والے پیار سے بہت خوش ہوں۔ میں ہر ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری سالگرہ پر مجھے مبارکباد پیش کی ۔ یہ نیک خواہشات مجھے مزید محنت کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔ میں ان تمام لوگوں کی ستائش کرتا ہوں جنہوں نے اس دن کو مختلف کمیونٹی سروس اقدامات کے لیے وقف کیا ہے۔ ان کا عزم قابل تحسین ہے۔‘‘ ’’میں نے یہ دن اپنی معیشت ، معاشرے اور ماحول کا احاطہ کرنے والے پروگراموں میں شریک ہوکر گزارا ۔ مجھے یقین ہے کہ جب ہم ان شعبوں پر اجتماعی طور پر کام کریں گے تو ہم پائیدار اور جامع ترقی کے اپنے ہدف کو پورا کریں گے۔ ہم آنے والے وقتوں میں مزید محنت کرتے رہیں گے۔‘‘ کئی بین الاقوامی رہنماؤں نے وزیر اعظم کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی۔ ڈومینیکا کے وزیر اعظم عزت مآب روزویلٹ ا سکرٹ کی مبارکباد کا وزیر اعظم نے جواب دیا : ’’ سالگرہ کی نیک خواہشات کے لیے آپ کا شکریہ وزیر اعظم @ SkerritR۔‘‘ نیپال کےوزیر اعظم عزت مآب شیر بہادر دیوبا کو وزیر اعظم نے کہا ’’وزیراعظم @SherBDe,"ধানমন্ত্ৰীয়ে নিজৰ জন্মদিন অৰ্থব্যৱস্থা, সমাজ আৰু পৰিৱেশৰ সৈতে জড়িত কাৰ্যক্ৰমত ভাগ লৈ পালন কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D8%AC%DB%8C-2022-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-51-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8%E0%A6%A4-%E0%A7%AB%E0%A7%A7-%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%B2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کامن ویلتھ گیمز 2022 میں مردوں کی 51 کلوگرام باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتنے پر امت پنگھل کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کرکے کہا؛ با صلاحیت امت پنگھل کی بدولت ہمارے تمغوں کی تعداد میں ایک با وقار اضافہ ہوا ہے۔ وہ ہمارے سب سے زیادہ قابل تعریف اور ہنر مند باکسروں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے سب سے زیادہ مہارت دکھائی ہے۔ میں انھیں گولڈ میڈل جیتنے پر مبارکباد دیتا ہوں اور مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ #Cheer4India“,কমনৱেলথ গেমছ ২০২২ত ৫১ কিলোগ্ৰাম পুৰুষৰ বক্সিংত স্বৰ্ণ পদক জয় কৰাৰ বাবে অমিত পাংঘালক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%A7%DA%BA-%D8%AF%D8%B1%DA%AF%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%DA%86%D9%88%D8%AA%DA%BE%DB%92-%D8%B1%D9%88%D9%BE-%D9%85%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%9A%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5-%E0%A7%B0%E0%A7%82%E0%A6%AA-%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نوراتری کے دوران عقیدت مندوں کے لیے ماں درگا کے چوتھے روپ ماں کشمنڈا کا آشیرواد طلب کیا ہے۔ جناب مودی نے دیوی کی دعائیں (ستوتی) بھی پڑھیں ۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘آج، نوراتری پر، ماں درگا کے چوتھے روپ کو بہت بہت سلام! ماں کشمندا کے آشیرواد سے، سب کی زندگی خوشحالی اور خوشیوں سے بھری ہو، یہی تمنا ہے…’’,মা দুৰ্গাৰ চতুৰ্থ ৰূপ মা কুষ্মাণ্ডাক প্ৰণাম প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%B9%D9%84%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%D8%B1%D9%88%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D9%88-%DB%81%DB%8C%DA%88-%DA%A9%D9%88%D8%A7%D8%B1%D9%B9%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%8F%E0%A6%AB-%E0%A6%8F-%E0%A6%85/,"وزیر اعظم نےملٹس کے بین الاقوامی سال 2023 کے آغاز پر اقوام متحدہ اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کو مبارکباد دی اور ملٹس کے بین الاقوامی سال کو منانے میں ان کی حمایت کے لیے رکن ممالک کی ستائش کی۔ یہ بتاتے ہوئے کہ ملٹس انسانوں کے ذریعہ اگائی جانے والی ابتدائی فصلوں میں سے ایک ہیں اور یہ غذائی اجزا کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں، وزیر اعظم نے اسے مستقبل کی خوراک کا انتخاب بنانے پر زور دیا۔ غذائی تحفظ کے چیلنجوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے صدی میں ایک بار آنے والے وبائی مرض اور دنیا بھر میں پیدا ہونے والے بحران کا ذکر کیا۔ انھوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ آب و ہوا کی تبدیلی کس طرح خوراک کی دستیابی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ملٹس سے متعلق ایک عالمی تحریک غذائی تحفظ کی سمت میں ایک اہم قدم ہے، وزیر اعظم نے بتایا کہ ملٹ اگانا آسان، آب و ہوا میں لچکدار اور خشک سالی کے خلاف مزاحم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملٹ متوازن غذائیت کا ایک بھرپور ذریعہ ہے، جو کاشت کاری کے قدرتی طریقوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اسے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا، ""ملٹ صارفین، کاشتکار اور آب و ہوا کے لیے اچھا ہے۔ زمین اور کھانے کی میز پر تنوع کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ اگر زراعت مونو کلچر بن جاتی ہے تو ہماری صحت متاثر ہوتی ہے اور یہ بات اجاگر کی کہ ملٹ زرعی اور غذائی تنوع کو بڑھانے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ اپنے پیغام کے اختتام پر وزیر اعظم نے 'ملٹ ذہن' پیدا کرنے کے لیے بیداری پیدا کرنے پر زور دیا اور اداروں اور افراد کے زبردست کردار پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ادارہ جاتی میکانزم ملٹس کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے اور پالیسی اقدامات کے ذریعے اسے منافع بخش بنا سکتا ہے، لیکن افراد ملٹس کو اپنی غذا کا حصہ بنا کر صحت کے بارے میں شعور اور سیارہدوست انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا دیا گیا پیغام حسب ذیل ہے: میں اقوام متحدہ اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کو ملٹس کے بین الاقوامی سال 2023 کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ان مختلف رکن ممالک کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے ملٹس کا بین الاقوامی سال منانے کی ہماری تجویز کی حمایت کی۔ ملٹ انسانوں کے ذریعہ اگائی جانے والی ابتدائی فصلوں میں سے ایک ہونے کی ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ وہ ماضی میں غذا کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔ لیکن وقت کی ضرورت یہ ہے کہ انھیں مستقبل کے لیے کھانے کا انتخاب بنایا جائے! ایک صدی میں ایک بار آنے والا وبائی مرض اور اس کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال نے یہ ثابت کیا ہے کہ غذائی تحفظ اب بھی سیارے کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی خوراک کی دستیابی کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ ایسے وقت میں، ملٹ سے متعلق ایک عالمی تحریک ایک اہم پہل ہے، کیونکہ وہ اگانے میں آسان، آب و ہوا کے اعتبار سے لچکدار اور خشک سالی سے مزاحمت رکھتے ہیں۔ ملٹ صارفین، کاشتکار اور آب و ہوا کے لیے اچھا ہے. وہ صارفین کے لیے متوازن غذائیت کا ایک متمول ذریعہ ہیں۔ وہ کاشتکاروں اور ہمارے ماحول کو فائدہ پہنچاتے ہیں کیونکہ انھیں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کاشتکاری کے قدرتی طریقوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ زمین پر اور ہماری کھانے کی میزوں پر تنوع کی ضرورت ہے۔ اگر زراعت مونو کلچر بن جاتی ہے، تو یہ ہماری صحت اور ہماری زمینوں کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ملٹ زرعی اور غذائی تنوع کو بڑھانے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ 'ملٹ ذہن' سازی کرنے کے لیے بیداری بڑھانا اس تحریک کا ایک اہم حصہ ہے۔ ادارے اور افراد دونوں زبردست اثر ڈال سکتے ہیں۔ اگرچہ ادارہ جاتی میکانزم ملٹس کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے اور پالیسی اقدامات کے ذریعے اسے منافع بخش بنا سکتا ہے، لیکن افراد ملٹس کو اپنی غذا کا حصہ بنا کر صحت کے بارے میں شعور اور سیارہ دوست انتخاب کرسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ملٹس کا بین الاقوامی سال 2023 ایک محفوظ، پائیدار اور صحت مند مستقبل کی طرف ایک عوامی تحریک کا آغاز کرے گا۔ پس منظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 2023 کو 'ملٹ کا بین الاقوامی سال' قرار دیا ہے۔ یہ وزیر اعظم ہی کا وژن اور پہل ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو دنیا بھر کے 70 سے زیادہ ممالک کی حمایت سے منظورکیا گیا۔ اس سے دنیا بھر میں پائیدار زراعت میں ملٹ کے اہم کردار اور اسمارٹ اور سپر فوڈ کے طور پر اس کے فوائد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ بھارت 170 لاکھ ٹن سے زیادہ کی پیداوار کے ساتھ ملٹ کا عالمی مرکز بننے کے لیے تیار ہے جو ایشیا میں پیدا ہونے والے ملٹس کا 80 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔ ان اناج کے ابتدائی ثبوت سندھ کی تہذیب میں پائے گئے ہیں اور یہ کھانے کے لیے اگائے جانے والے پہلے پودوں میں سے ایک تھا۔ یہ تقریباً 131 ممالک میں اگایا جاتا ہے اور ایشیا اور افریقہ میں تقریباً 60 کروڑ لوگوں کے لیے روایتی کھانا ہے۔ حکومت ہند نے آئی وائی او ایم، 2023 کو عوامی تحریک بنانے کے لیے منانے کا اعلان کیا ہے تاکہ بھارتی ملٹ، ترکیبیں اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو عالمی سطح پر قبول کیا جاسکے۔ 'ملٹ کا بین الاقوامی سال' عالمی پیداوار میں اضافے، موثر پروسیسنگ اور کھپت کو یقینی بنانے، فصلوں کی گردشوں کے بہتر استعمال کو فروغ دینے اور غذائی نظام میں بہتر رابطے کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ملٹس کو فوڈ باسکٹ کے ایک اہم جزو کے طور پر فروغ دیا جاسکے۔ ایف اے او نے ایک مختصر پیغام میں کہا کہ ایف اے او کی میزبانی میں بین الاقوامی سال ملٹس (آئی وائی ایم) 2023 کی افتتاحی تقریب کا مقصد ایف اے او کے ممبران اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے اور ملٹس کی پائیدار کاشت اور کھپت کو فروغ دینے کے فوائد کو اجاگر کرکے آئی وائی ایم 2023 کے لیے بیداری اور رفتار پیدا کرنا ہے۔",ইটালীৰ ৰোমত অৱস্থিত এফ এ অ’ৰ মুখ্য কাৰ্যালয়ত আয়োজিত ‘ইণ্টাৰনেচনেল ইয়েৰ অৱ মিলেট’ৰমুকলি অনুষ্ঠানৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰী বাৰ্ত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B8-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے جاپان کے وزیراعظم عزت مآب جناب فومیو کشیدا کے ساتھ آج دوطرفہ میٹنگ کی۔ وزیراعظم کشیدا نے وزیراعظم مودی کے لیےضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر نیزعلاقائی اور عالمی امور پر دوطرفہ رشتے کو فروغ دینے سے متعلق نتیجہ خیز تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی سیکیورٹی اور دفاعی تعاون بشمول دفاعی مینوفیکچرنگ کے شعبے کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اگلی 2+2 خارجہ اور دفاعی وزارتی میٹنگ جلد از جلد جاپان میں منعقد ہو سکتی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات کو سراہا۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں فریقوں کو اگلے پانچ سالوں میں جاپان سے بھارت کو 5 ٹریلین ین کی سرکاری اور نجی سرمایہ کاری اور فنانسنگ کے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے گتی شکتی پہل کے ذریعے کاروبار کرنے میں آسانی، لاجسٹکس کو بہتر بنانے کے لیے حکومت ہند کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی اور وزیر اعظم کشیدا پر زور دیا کہ وہ ہندوستان میں جاپانی کمپنیوں کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی حمایت کریں۔ اس طرح کی سرمایہ کاری لچکدار سپلائی چین بنانے میں مدد کرے گی اور باہمی طور پر فائدہ مند ہوگی۔ اس تناظر میں، وزیر اعظم مودی نے اس بات کی تعریف کی کہ جاپانی کمپنیاں ہندوستان میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہی ہیں اور 24 جاپانی کمپنیوں نے مختلف پی ایل آئی اسکیموں کے تحت کامیابی کے ساتھ درخواست دی تھی ۔ دونوں رہنماؤں نے ممبئی-احمد آباد ہائی اسپیڈ ریل (ایم اے ایچ ایس آر) پروجیکٹ کے نفاذ میں پیش رفت کا ذکر کیا اور اس پروجیکٹ کے لیے تیسری قسط کے دستاویزات پر دستخط کا خیرمقدم کیا۔ دونوں رہنماؤں نے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیک��الوجیز کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس سلسلے میں دونوں فریقوں کے نجی شعبوں کے درمیان اگلی نسل کی کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کی ترقی کے لیے زیادہ تعاون کی حوصلہ افزائی پر اتفاق کیا۔ انہوں نے اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ 5 جی ،5 جی سے آگے اور سیمی کنڈکٹرز میں تعاون کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں وزرائے اعظم نے گرین ہائیڈروجن سمیت صاف ستھری توانائی کے شعبے میں تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر بھی اتفاق کیا اور اس سلسلے میں مزید کاروبار سے کاروباری تعاون کی حوصلہ افزائی کی۔ دونوں رہنماؤں نے عوام سے عوام کے روابط کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ وزیر اعظم کشیدا نے کہا کہ اس طرح کے روابط کو دو طرفہ تعلقات کی ریڑھ کی ہڈی بننا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مخصوص ہنر مند کارکنوں (ایس ایس ڈبلیو) پروگرام کے نفاذ میں پیش رفت کا جائزہ لیا ۔اور اس پروگرام کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیر اعظم مودی نے کوویکسین اور کوویشیلڈ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کے حامل بھارتی مسافروں کے لئے جاپان میں قرنطینہ کے بغیر داخلے کی سہولت فراہم کرنے کے مقصد سے سفری بندشوں کو مزید آسان بنانے کا معاملہ اٹھایا ۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بھارت-جاپان ایکٹ ایسٹ فورم بھارت کے شمال مشرقی خطے کی ترقی کو ترجیح دینے میں کارآمد ہے، اور وہ مختلف پروجیکٹوں کے جلد نفاذ کے منتظر ہیں جن کی نشاندہی دونوں فریقین نے سالانہ چوٹی کانفرنس کے دوران کی تھی۔ دونوں رہنماؤں نے حالیہ عالمی اور علاقائی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے ہند-بحرالکاہل کے بارے میں اپنے اپنے نقطہ نظر میں ہم آہنگی کا ذکر کیا اور ایک آزاد، کھلے اور جامع بھارت-بحرالکاہل خطے کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ اس تناظر میں، انہوں نے کواڈ کے عصری اور تعمیری ایجنڈے جیسے ویکسین، اسکالرشپس، اہم ٹیکنالوجیز اور بنیادی ڈھانچے میں پیش رفت کا خیرمقدم کیا۔ وزیر اعظم مودی نے اس دورے کے دوران ان کی اور ان کے وفد کے اراکین کے ساتھ گرمجوشی اور مہمان نوازی کے لئے وزیر اعظم کشیدا کا شکریہ ادا کیا ۔وزیراعظم کشیدا نے وزیراعظم مودی کو اگلی سالانہ دو طرفہ چوٹی کانفرنس کے لیے جاپان کا دورہ کرنے کی دعوت دی، جسے انہوں نےبخوشی قبول کرلیا۔,জাপানৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীৰ বৈঠ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%8F%D9%86-%D8%B3%D8%A8%DA%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%B8%E0%A6%B9-%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%B2/,نئی دلّی ،12 مارچ، 2022/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مہاتما گاندھی اور ان سبھی عظیم شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، جنھوں نے ناانصافی کے خلاف احتجاج اور ہمارے ملک کے عزت و وقار کا تحفظ کرنے کے لئے ڈانڈی مارچ کیا تھا۔ وزیراعظم نے اپنی سال 2019 کی اُس تقریر کو بھی شئیر کیا ، جو انھوں نے قومی نمک ستیہ گرہ میموریل کو قوم کے نام وقف کئے جانے کے موقع کی تھی۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے: ’’گاندھی جی اور اُن سبھی عظیم شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، جنھوں نے ناانصافی کے خلاف احتجاج اور قوم کی عزت و وقار کے تحفظ کے لئے ڈانڈی مارچ کیا تھا۔ سال 2019 کی اپنی اُس تقریر کو شئیر کررہا ہوں ، جوڈانڈی میں قومی نمک ستیہ گرہ میموریل کو قوم کے نام وقف کئے جانے کے موقع پر کی تھی۔,মহাত্মা গান্ধীসহ দাণ্ডিলৈ যাত্ৰা কৰা প্ৰতিগৰাকী মহান ব্যক্তিক শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF-%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%82-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%9F/,نئی دہلی، 12 ستمبر 2018/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ کو بھارت اور برونئی دارالسلام کے درمیان سیار چے اورسیارچہ بردارگاڑیوں کے لئے ٹیلی میٹری ٹریکنگ اور ٹیلی کمانڈ اسٹیشن چلانے میں امداد باہمی اور خلائی تحقیق ، سائنس اور اس پر عمل درآمد کے شعبے میں امداد باہمی سے متعلق ہوئے مفاہمت نامے سے مطلع کیاگیا۔ 19 جولائی 2018 کو نئی دہلی میں اس مفاہمت نامے پر دستخط کئے گئے تھے۔ فوائد:۔ اس مفاہمت نامے سے بھارت اپنی سیارچہ بردار گاڑی اور سیارچہ مشن کی مدد کے لئے مستقل طور پر اپنے گراؤنڈ اسٹیشن کو چلانے ، اس کی دیکھ ریکھ کرنے اور مضبوط بنانے کا اہل ہوسکے گا۔ اس سے بھارت کو خلائی ٹکنالوجی پر عمل درآمد سے متعلق برونئی دارالسلام کے افسران اور طلبا کی تربیت کے ذریعہ خلائی سرگرمیوں میں اپنے تجربے اور مہارت کو بانٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس مفاہمت نامے کے ذریعہ برونئی دارالسلام کے ساتھ امداد باہمی کے نتیجے میں بھارت کی سیارچہ بردار گاڑی اور سیارچہ مشن میں تعاون کے لئے بھارت کو اپنے گراؤنڈ اسٹیشن کو چلانے ، اس کی رکھ رکھاؤ اور اس کو مضبوطی دینے میں مدد ملے گی۔ اس طرح ملک کے تمام سیکشن اور خطے اس سے مستفید ہوں گے۔ اس مفاہمت نامے سے گراؤنڈ اسٹیشن چلانے اور خلائی ٹکنالوجی پر عمل درآمد سے متعلق ٹریننگ میں نئی تحقیقی سرگرمیوں کو دریافت کرنے کے عمل میں تیزی آئے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ن ا ۔ ج۔,"টেলিমেট্ৰি ট্ৰেকিং আৰু টেলিকমাণ্ড ষ্টেচনৰ বাবে উপগ্ৰহ আৰু উৎক্ষেপণ যানৰ লগতে মহাকাশ গৱেষণা, বিজ্ঞান আৰু ইয়াৰ প্ৰয়োগৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ বাবে ভাৰত আৰু ব্ৰুনেই ডাৰুছেলামৰ মাজত সহযোগিতা বৃদ্ধিৰ লক্ষ্যৰে স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তিত কেবিনেটৰ অনুমোদন" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%84%DB%8C%DB%81%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D8%AF%D8%AF-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%AC%DB%8C%DA%A9%D9%B9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%86%DA%AF-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%B9%E0%A6%A4-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%89%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%B2%E0%A6%95/,نئی دہلی؍4 ؍فروری ؍یہاں آنے سے پہلے کسی نے مجھے کہا کہ لیہہ میں تو بہت ٹھنڈ ہے۔ صفر سے کہیں نیچے درجۂ حرارت ہے۔ اتنی سردی میں آپ سب یہاں آئے، سچ مچ میں جذبات سے مغلوب ہوں اور سب کو سلام کرتا ہوں۔ ایئرپورٹ سے اترنے کے بعد بہت بڑی بڑی عمر کی مائیں ایئر پورٹ کے باہر آشرواد دینے کے لئے آئی تھیں، اتنے منفی ڈگری درجۂ حرارت میں وہ کھلے میں کھڑی تھیں۔ میں بھی کار سے اترکر ان کو سلام کرنے کے لئے نیچے چلا گیا۔ اس سے طبیعت میں ہلچل پیدا ہو گئی کہ یہ پیار ، آشرواد، یہ ماؤں کی محبت اور وہ بھی اتنے نا موافق صورتحال میں ۔ قدرت ساتھ نہ دیتی ہو، تب ایک نئی توانائی ملتی ہے، نئی طاقت ملتی ہے۔ آپ لوگوں کے اس اپنا پن، اس محبت کو دیکھ کر مجھے جو تھوڑی بہت ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی، اب اس کا بھی اتنا احساس نہیں ہو رہا ہے۔ اسٹیج پر تشریف فرما جموں و کشمیر کے گورنر جناب ستیہ پال ملک جی، کابینہ کے میرے رفیق اور اسی جموں و کشمیر کی دھرتی کی سنتان ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی ، جموں و کشمیر قانون ساز کونسل کے چیئرمین جناب حاجی عنایت علی جی، لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل لیہہ کے چیئرمین جناب جیٹینم دیال جی، لداخ ، خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کارگل کے چیئرمین جناب فیروز احمد جی، قانون ساز کونسل کے رکن جناب چیرنگ ڈوریجے اور یہاں موجود میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔ لداخ بہادروں کی سرزمین ہے۔ چاہے 1947ہو یا 1962 کی جنگ یا پھر کارگل کی لڑائی، یہاں کے بہادر فوجیوں نے لیہہ اور کارگل کے جانباز لوگوں نے ملک کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔ اتنی خوبصورت پہاڑیوں سے مزین لداخ مختلف ندیوں کا منبع بھی ہے اور صحیح معنوں میں ہم سبھی کے لئے خدا کا تحفہ ہے۔ 10-9مہینے میں مجھے پھر ایک بار آپ کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ آپ جن مشکل حالات میں رہتے ہیں، ہر دشواری کو چیلنج دیتے ہیں، وہ میرے لئے بہت بڑی ترغیب ہوتی ہے کہ آپ سبھی کے لئے اور ڈَٹ کر کام کرنا ہے، جو پیار آپ مجھے دیتے ہیں، مجھے سودسمیت ترقیاتی کام کر کے اس کو لوٹانا ہے۔ مجھے یہ احساس ہے کہ موسم آپ سبھی کے لئےمشکلیں لے کر آتا ہے۔بجلی کا مسئلہ ہوتا ہے، پانی کی دقت آتی ہے، بیماری کی صورت میں پریشانی ہوتی ہے، جانوروں کے لئے چارے کا انتظام کرنا پڑتا ہے ، دور دور تک بھٹکنا پڑا ہے۔ مجھے یہاں پر موقع ملا ہے آپ کے درمیان رہنے کا۔پہلےجب میں اپنی پارٹی کی تنظیم کا کام کرتا تھا، تو طویل عرصے تک آپ لوگوں کے درمیان رہا۔میں نے یہاں پر رہتےہوئے خوددیکھاہے ، لوگوں کو مشکلوں کا سامنا کرتے ہوئے دیکھاہے۔ ساتھیو! انہیں پریشانیوں کو دور کرنے کےلئے مرکزی حکومت پوری طرح پابند عہد ہے اور اس لئے میں خود بار بار لیہہ ، لداخ اور جموں و کشمیر آتا رہتا ہوں۔ پچھلی بار بجلی سے جڑے متعدد پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد اور افتتاح کیا تھا، تو آج بھی آپ کی زندگی کو آسان بنانے والے تقریباً تین ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹوں ، تین ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح، سنگ بنیاد اور نقاب کشائی ابھی ابھی آپ نے دیکھا، کی گئی ہے۔ دراج ہائبرو الیکٹریکل پروجیکٹ سے لیہہ اور کارگل کے متعدد گاؤوں کو خاطر خواہ اور سستی بجلی دستیاب ہو پائے گی، وہیں سرینگر اُلِّستن دراج کارگل ٹرانسمیشن ریک ہے، تو مجھے ہی اس کے سنگ بنیاد کا موقع ملا تھا اور آج اس کا افتتاح کرنے کی خوش بختی بھی مجھے ملی ہے۔ 2ہزار کروڑ سے زیادہ کے اس پروجیکٹ سے اب لیہہ-لداخ کی بجلی کا مسئلہ کم ہونے والا ہے۔ ساتھیو ! ہماری حکومت کے کام کرنے کا طریقہ ہی یہی ہے۔ لٹکانے اور بھٹکانے کے پرانے کلچر کو اب ملک پیچھے چھوڑ چکا ہے اور آنے والے 5سال میں مجھے یہ لٹکانے اور بھٹکانے کی روایت کو ملک بدر کر دینا ہے۔ جس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے، پوری طاقت لگائی جاتی ہے کہ اس کا کام وقت پر پورا ہو۔ بھائیو اور بہنو! آج جن پروجیکٹوں کی نقاب کشائی، افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان سے بجلی کے ساتھ ساتھ لیہہ-لداخ کی ملک اور دنیا کے دوسرے شہروں سے کنکٹی ویٹی سدھرے گی، سیاحت کو فروغ ملے گا، روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور یہاں کے نوجوانوں کو پڑھائی کے لئے یہیں پر بہتر سہولتیں بھی ملیں گی۔ یہاں کا موسم اتنا خوبصورت ہے کہ اگر ہم یہاں عمدہ قسم کے تعلیمی ادارے قائم کر دیں، تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہندوستان کے کونے کونے سے نوجوان لیہہ-لداخ میں آ کر پڑھائی کرنا پسند کریں گے اور ہمیں ایسے خواب دیکھنے چاہئیں اور میرے دماغ میں ایسے خواب موجود ہیں۔ ساتھیو! ہم سبھی کے لئے قابل احترام عظیم کُشک بکولا رمپوچی جی نے اپنی پوری زندگی ایک سپنے کے لئے کھپا دی تھی۔ لیہہ-لداخ کو سریشٹھ بھارت سے کنکٹ کرنا اور ملک کے اتحاد اور سالمیت کے جذبےکو مضبوط کرنا ہی رمپوجی کا سب سے بڑا سپنا تھا۔مرکزی حکومت متعدد ایسے خوابوں کو حقیقت کی شکل دینے کےلئے یہاں کنکٹی ویٹی کو ایک نئی توسیع دے رہی ہے۔ لیہہ-لداخ کو ریل اور ہوائی راستے سے جوڑنے والے 2 پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ اس خطے کوپہلی بار ملک کے ریل نقشے سے جوڑنے والی ریلوے لائن اور کُشک بکولا رمپوچی ہوائی اڈے کی نئی اور جدید ٹرمنل بلڈنگ دونوں ہی یہاں ترقی کو مزید رفتار دینے والے ثابت ہوں گے۔ ساتھیو! تین دہائی پہلے یہاں جو عمارت تعمیر کی گئی تھی، وقت کے ساتھ اس کو جدیدیت سے جوڑنے، اس میں نئی سہولتوں کو فروغ دینے کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سوچا گیا۔ آج نئی ٹرمنل عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اور بہت جلد ہی ا س کی نقاب کشائی بھی کی جائے گی۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جس کا سنگ بنیاد پہلے کیاتھا، اس کی نقاب کشائی آج کر رہا ہوں، آج جس کا سنگ بنیاد رکھ رہا ہوں، آپ کے آشرواد سے اس کی نقاب کشائی کرنے کے لئے میں ہی آؤں گا۔ یہ ٹرمنل جدید ترین سہولتیں دستیاب کرانے کے ساتھ ساتھ اب زیادہ مسافروں کو سنبھالنے کا اہل بن سکے گا۔ اسی طرح بلاسپور، منالی، لیہہ ریل لائن پر شروعاتی سروے ہو چکا ہے۔ کئی مقامات پر کام شروع بھی ہو چکا ہے۔ جب یہ ریل لائن تیار ہو جائے گی، تب دلی سے لیہ کی دوری بہت کم ہو جائے گی۔ سردیوں میں تو یہاں کی پوری سڑکیں، باقی بھارت سے کٹ جاتی ہیں۔ یہ ریل لائن کافی حد تک مسئلے کو دور کرے گی۔ ساتھیو! کسی بھی خطے میں جب کنکٹی ویٹی اچھی ہونے لگتی ہے، تو وہاں کے لوگوں کی زندگی تو آسان ہوتی ہی ہے، کمائی کے ذرائع بھی بڑھتے ہیں۔ سیاحت کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ لیہہ-لداخ کا علاقہ تو روحانیت، فن، ثقافت، قدرت کی خوبصورتی اورایڈوینچر اسپورٹس کے لئے دنیا کا ایک اہم مقام ہے۔ یہاں سیاحت کی ترقی کےلئے ایک اور قدم حکومت نے اٹھایا ہے۔ آج یہاں 5 نئے ٹریکنگ روٹ کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے ان روٹس پر پروٹیکٹیڈ ایریا پرمٹ کی ویلیڈیٹی بھی سات دن سے بڑھا کر 15 دن کر دی ہے۔ اس سے یہاں آنے والے سیاح سکون سے پورا وقت لے کر اپنے دورے کا لطف لے پائیں گے اور یہاں کے نوجوانوں کو زیادہ روزگار مل پائے گا۔ ساتھیو! مجھے بتایا گیا ہے کہ اس بار 3 لاکھ سے زیادہ سیاح لیہہ آئے ہیں اور تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے کارگل کا دورہ کیا ہے۔ ایک طرح سے دیکھیں، تو کشمیر میں جتنے سیاح ابھی آئے ہیں، اس کا نصف اسی خطے میں آئے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب لیہہ-لداخ کی سیاحت نئی بلندیاں حاصل کرے گی۔ بھائیو اور بہنو! مرکزی حکومت ملک بھر میں ترقی کی پنچ دھارا یعنی بچوں کو پڑھائی، نوجوانوں کو کمائی، بزرگوں کودوائی، کسانوں کو سینچائی اور جَن جَن کی سنوائی، اس کو یقینی بنانے میں جُٹی ہوئی ہے۔ یہ لیہہ-لداخ اور کارگل میں بھی ان سبھی سہولیات کو مضبوط کرنے کی کوشش چل رہی ہے۔ لداخ میں کُل آبادی کا 40 فیصد حصہ نوجوان ��لبہ ہیں۔ آپ سبھی کی طویل عرصے سے یہاں یونیورسٹی کا مطالبہ رہا ہے۔آج آپ کا یہ مطالبہ بھی پورا ہو اہے اور اس کےلئے بھی آپ سبھی کواو ر خاص طور پر میرے نوجوان ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔آج اس کلسٹر یونیورسٹی کو لانچ کیا گیا ہے۔ اس میں نُبرا، لیہہ اور جَسکا کارگل میں چل رہے ڈگری کالجوں کے وسائل کا استعمال کیا جائے گا۔طلبہ کی سہولت کے لئے لیہہ اور کارگل میں بھی اس کے انتظامی دفاتر ہوں گے۔ ساتھیو! لیہہ-لداخ ملک کے ان حصوں میں ہے،جہاں درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے میرے بھائی بہنو ں کی آبادی بڑی تعاد میں ہے۔ 2 دن پہلے مرکزی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے، اس میں ایس سی، ایس ٹی کی ترقی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ درج فہرست قبائل کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ میں تقریباً 30 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ دلتوں کی ترقی کے لئے تقریباً 35 فیصد سے زیادہ کا الاٹمنٹ بجٹ میں اس بار کیا گیا ہے۔ بجٹ میں درج فہرست قبائل کی فلاح و بہبود کے لئے ، جو گیارہ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا التزام کیا گیا ہے، اس سے اب تعلیم، صحت اور دوسری سہولتوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔ بھائیو اور بہنوں! مرکزی حکومت ملک کے ہر اس شہری کو ترقی کے قومی دھارے سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، جنہیں کچھ اسباب سے ترقی کا پورا فائدہ نہیں مل پایا ہے۔ اس بجٹ میں حکومت نے خانہ بدوش برادری کے لئے بھی ایک بہت بڑا فیصلہ کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے طرز زندگی کی وجہ سے ، کئ بار موسم کی وجہ سے ایک ہی مقام پر ٹِک کر نہیں رہ پاتے۔ ایسے میں ان لوگوں تک حکومت کی اسکیموں کا فائدہ پہنچانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ اب ان لوگوں کے لئے حکومت نے ویلفیئر ڈیولپمنٹ بورڈ بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ حکومت جن ترقیاتی کاموں کو لے کر آگے چل رہی ہے، ان ترقیاتی کاموں کا فائدہ ان خاندانوں تک جنہیں آزادی کے 70سال بعد بھی نہیں پہنچ پایا ہے، انہیں تیزی سےپہنچےاور یہ لوگ کون ہیں۔۔۔سنپیرا، بنجارا اور جو بیل گاڑی میں گھومنے والے لوہار ہوتے ہیں، ایسے بالکل خانہ بدوش لوگ ہوتے ہیں۔ گڈریا ہوتے، کہیں رکتے ہی نہیں، اپنے مویشی کو لے کر چلتے ہی رہتے ہیں، اپنی جگہ پر آتے آتے دو سال لگ جاتے ہیں۔ ایسے کنبوں کی فکر کرنا ، اس بارے میں ایک بہت بڑا فیصلہ ہم نے کیا ہے۔ ساتھیو! اس کے علاوہ بجٹ میں ملک کے کسانوں کے لئے بھی تاریخی اعلان حکومت نے کیا ہے۔ وزیراعظم کسان سمان ندھی، جسے مختصراً پی ایم کسان کہتے ہیں، نام کی اس اسکیم کا فائدہ لیہہ-لداخ کے متعدد کسان کنبوں کو بھی ہونے والا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے، جن کسانوں کے پاس 5 ایکڑ سے کم زمین ہے اور یہاں تو قریب قریب سبھی ایسے ہی ہیں۔ سب 5ایکڑ سے کم زمین والے۔۔۔ان کے بینک کھاتے میں سیدھے چھ ہزار روپے ہر سال دلی۔۔۔۔مرکزی حکومت کی طرف سے سیدھے ان کے بینک کھاتے میں جمع ہو جائے گا۔یہ دو دو ہزار کی تین قسطوں میں آ پ کو ملیں گے۔ سیزن کے حساب سے طے کیا ہے۔ اس کی پہلی قسط میری کوشش ہے کہ بہت ہی جلد پہنچ جائے اور اس لئے میں نے ملک کی سبھی ریاستی حکومتوں کو اس بارے میں رہنما ہدایات آج ہی بھیجنے والا ہوں۔ اطلاع بھیج دی ہے کہ آپ کے یہاں کسان ۔۔۔ان کی فہرست، ان کا آدھار نمبر فوراً بھیج دیجئے تاکہ پیسے ان کے کھاتے میں جمع ہو جائیں اور ایسا نہیں کی بھائی باتیں کرنا، وعدے کرنا، پھر نیڑے کرنا۔۔۔جی نہیں مجھے نافذ کرنا ہے اور سب ریاستوں کی مشینری جتنی سرگرم ہوگی، اتنا تیزی سے فائدہ ہونے والا ہے۔ اس لئے یہاں کے آلو، مٹر ، گوبھی، اس کی پیداوار کرنے والے کسانوں کو حوصلہ افزائی ملنے والی ہے اور یہاں کی گوبھی کے لئے تو مجھے برابر یاد ہے۔ میں تنظیم میں کام کرتا تھا، تو دلی سے آتا تھا، دلی واپس جاتا تھا، تو جو کارکن میری جان پہچان کے تھے، وہ مجھ سے ایک ہی گزارش کرتے تھے کہ صاحب لگیج کا جو بھی خرچ ہوگا ہم دے دیں گے، ایک گوبھی اٹھا کر لےآنا اور میں یہاں سے کافی سبزی لے جاتا تھا۔ ان خاندانوں کو بڑا اچھا لگتا تھا، یہ سبزی کھانے کا اور اس نئی اسکیم کے لئے میں سچ بتاتا ہوں ، کسانوں کے لئے انوکھی اسکیم ہے۔ ان کو ایک بہت بڑی طاقت دینے والی ہے اور جو دلی میں ایئر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھتے ہیں ناان کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہے۔ دشوار گزار پہاڑوں میں، ریگستان میں، پسماندہ علاقوں میں، غریب کسان جو ہیں نا، اس کے لئے 6ہزار روپیہ کتنی بڑی بات ہوتی ہے۔ یہ ایئر کنڈیشنر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو پتہ تک نہیں ہوتا ہے۔ ان کو سمجھ ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس نئی اسکیم کے لئے میں آپ سبھی کو ، ملک بھر کے کسانوں کو دل کی گہرائی سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو! لیہہ، لداخ، کارگل بھارت کی چوٹی ہے۔ ہمارا سر ہے، ماں بھارتی کا یہ تاج ہمارا فخر ہے، گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے یہ خطہ ترقی کی ہماری ترجیحات کا مرکز رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل قانون میں ترمیم کی گئی ہے اور کونسل کو خرچ سے متعلق معاملات میں اب زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اب خطے کی ترقی کے لئے آنے والے پیسے یہاں کی خودمختار پالیسی ہی جاری کرتی ہے۔ کونسل کے اختیارات کے دائرے اور فیصلے لینے کی طاقت کو بھی بڑھایا گیا ہے۔ اس سےیہاں کے اہم موضوعات کو زیادہ تیزی سے اور زیادہ حساسیت کے ساتھ سلجھایا جا سکتا ہے۔ اب آپ کو اپنی ضرورتوں کے لئے بار بار سرینگر اور جموں نہیں جانا پڑے گا۔ زیادہ تر کام یہیں لیہہ اور لداخ میں ہی پورے ہو جائیں گے۔ ساتھیو! مرکزی حکومت سب کا ساتھ-سب کا وکاس کے بنیادی اصول پر کام کر رہی ہے۔ ملک کا کوئی بھی شخص ، کوئی بھی کونہ ترقی سےاچھوتانہ رہے، اس کےلئے ہی سب کا ساتھ-سب کا وکاس کا اصول لے کر ہم گزشتہ ساڑھے چار سال سے مسلسل دن رات کوشش کر رہے ہیں۔ میں یہاں کے لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ لیہہ، لداخ، کارگل کی ترقی کے لئے کوئی کور کسر باقی نہیں چھوڑی جائے گی۔ مرکزی حکومت ابھی ہمارے دوست نے کافی لمبی فہرست پڑھ لی، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ، میں ان کی باریکیوں میں نہیں جاتا ہوں، لیکن میں یہاں سب سے واقف ہوں اور میرا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔ میں ایک ایسا وزیراعظم ہوں، جو ہندوستان کے ہر کونے میں بھٹک کر آیا ہو۔ اس لئے مجھے چیزوں کا کافی اندازہ ہے۔ باریکیاں افسروں سے جان لیتا ہوں، لیکن مجھے تجربہ ہوتاہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مرکزی حکومت آپ کی امیدوں اور آرزوؤں کا پورا احترام کرتی ہے اور آج یہ سنگ بنیاد اور رونمائی کا پروگرام اسی کی ایک کڑی ہے۔ ایک بارپھر زندگی کو آسان بنانے والے سبھی پروجیکٹوں کے لئے آپ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ سردی کے اس موسم میں بھی آپ دوردورسے مجھے آشرواد دینے کےلئے آئے، بھاری تعداد میں پہنچے، اس کے لئے بھی میں آپ سب کا بہت بہت شکر گزار ہوں۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولیئے۔۔۔ بھارت ماتا کی۔۔۔۔جے بھارت ماتا کی۔۔۔۔جے بھارت ماتا کی۔۔۔۔جے بہت بہت شکریہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ م م ۔ ک ا۔,লেহত বিভিন্ন উন্নয়নমূলক প্ৰকল্পৰ আধাৰশিলা স্��াপন আৰু উচৰ্গা অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D9%85%D8%AF-%D9%BE%D9%86%DA%86-%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%D9%BE%DB%8C%D9%B9%DA%BE%D8%A7%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AE%E0%A6%A6-%E0%A6%AA%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%AA%E0%A7%80%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%B6%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شریمد پنچ کھنڈ پیٹھا دھیشور آچاریہ دھرمیندر کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’سماج اور ملک کی خدمت کے لیے وقف شریمد پنچ کھنڈ پیٹھا دھیشور آچاریہ دھرمیندر جی کی رحلت پر ازحد غمزدہ ہوں۔ ان کا رخصت ہونا مذہبی اور روحانی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ایشور انہیں اپنے شری چرنوںمیں جگہ دے۔ اوم شانتی‘‘,শ্ৰীমদ পঞ্চখণ্ড পীঠাধীশ্বৰ আচাৰ্য্য ধৰ্মেন্দ্ৰৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%BE%D8%A7%D9%84%D9%88%D9%86%D8%AC%DB%8C-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%8B%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A7%9F/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مشہور و معروف صنعت کار جناب پالونجی مستری کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا : ‘‘جناب پالونجی مستری کے انتقال سے صدمے میں ہوں۔ انہوں نے صنعت اور کاروبار کی دنیا میں بیش بہا تعاون پیش کیا۔ ان کے اہل خانہ ، دوستوں اور بے شمار بہی خواہوں کے تئیں میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ بھگوان ان کی آتما کو شانتی دے۔’’,পাল্লোঞ্জী মিষ্ট্ৰীৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%A7%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%85%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%83%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A6%A8%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A6%A4%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 18/مارچ 2022 ۔ ماتری بھومی کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب ایم وی شرے یمس کمار جی، ماتری بھومی کی پوری ٹیم اور قارئین، ممتاز مہمان، نمسکارم! ماتری بھومی کی صدی تقریبات کے تناظر میں منعقدہ اس پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مجھے بیحد خوشی ہورہی ہے۔ اس موقع پر اخبار سے وابستہ سبھی لوگوں کو میری طرف سے مبارکباد۔ میں ان لوگوں کے تعاون کو بھی یاد کرنا چاہتا ہوں جو پہلے اس میڈیا ہاؤس میں کام کرچکے ہیں۔ جناب کے پی کیسو مینن، کے اے دامودر مینن، کیرالہ کے گاندھی جناب کے کیلپن اور کرور نیلکنٹن نمبودریپاد جیسی بلند قامت شخصیات ماتری بھومی سے جڑی رہی ہیں۔ میں ایم پی وریندر کمار کا ذکر کرنا چاہوں گا، جن کے دور میں ماتری بھومی نے تیزی سے ترقی کی۔ ہم ایمرجنسی کے دوران بھارت کی جمہوری قدروں کو برقرار رکھنے کی ان کی کوششوں کو کبھی نہیں فراموش کرپائیں گے۔ وہ ایک عظیم مقرر، عالم اور ماحولیات کے تئیں گہرا لگاؤ رکھنے والے شخص تھے۔ دوستو، مہاتما گاندھی کے آئیڈیلس سے تحریک پاکر ماتری بھومی کا جنم بھارت کی جدوجہد آزادی کو مضبوط کرنے کے لئے ہوا تھا۔ ماتری بھومی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف ملک کے لوگوں کو متحد کرنے کے لئے پورے بھارت میں شروع کئے گئے اخبارات اور رسالوں کی قابل فخر روایت کا ایک اہم جزو ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو متعدد عظیم شخصیات کسی نہ کسی اخبار سے جڑی رہی ہیں۔ لوک مانیہ تلک نے کیسری اور مہرٹا کو آگے بڑھایا۔ گوپال کرشنا گوکھلے ہتواد سے منسلک رہے۔ پربدھ بھارت کا تعلق سوامی وویکانند سے تھا۔ جب ہم مہاتما گاندھی کو یاد کرتے ہیں تو ہم ینگ انڈیا، نوجیون اور ہریجن میں ان کے کاموں کو بھی یاد کرتے ہیں۔ شیام جی کرشن ورما نے دی انڈین سوشیولوجسٹک کی ادارت کی۔ میں نے ابھی کچھ مثالیں پیش کی ہیں، لیکن یہ فہرست لامحدود ہے۔ دوستو، اگر بھارت کی جدوجہد آزادی کے دوران ماتری بھومی کی شروعات ہوئی تو صدی تقریبات ایسے وقت میں ہورہی ہیں جب بھارت آزادی کا امرت مہوتسو منارہا ہے۔ سوراج کے لئے جدوجہد آزادی کے دوران ہمیں اپنی زندگی قربان کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حالانکہ یہ امرت کال ہمیں ایک مضبوط، ترقی یافتہ اور شمولیت پر مبنی بھارت کی تعمیر کی سمت میں کام کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اچھی پالیسیاں بنانا ایک پہلو ہے، لیکن پالیسیوں کو کامیاب بنانے کے لئے اور یہ یقینی بنانے کی خاطر کہ بڑے پیمانے پر تبدیلی ہو، سماج کے سبھی شعبوں کی سرگرم حصے داری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں میڈیا ایک اہم رول نبھاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں میں نے دیکھا ہے کہ میڈیا کا کیسے مثبت اثر کیسے پڑتا ہے۔ سوچھ بھارت مشن کی مثال جگ ظاہر ہے۔ ہر میڈیا ہاؤس نے اس مشن کو پوری تندہی کے ساتھ لیا۔ اسی طرح، یوگ، فٹنس اور بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کو مقبول بنانے میں میڈیا نے بہت حوصلہ افزا رول ادا کیا ہے۔ یہ سیاست اور سیاسی جماعتوں کے میدان سے باہر کے موضوعات ہیں۔ یہ آنے والے برسوں میں ایک بہتر ملک کی تعمیر کے لئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جو آزادی کا امرت مہوتسو کو دھیان میں رکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ ان دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ جدوجہد آزادی کے کم معروف واقعات اور گمنام مجاہدین آزادی کا ذکر کررہے ہیں۔ اسے آگے بڑھانے میں میڈیا ایک بڑا وسیلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ہر قصبے یا گاؤں میں جدوجہد آزادی سے جڑی جگہیں ہیں۔ ان کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے۔ ہم ان مقامات کو نمایاں کرسکتے ہیں اور لوگوں کی وہاں جانے کے لئے حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ کیا ہم غیر میڈیا پس منظر سے آنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں اور انھیں اپنی تحریری صلاحیت کا اظہار کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرسکتے ہیں۔ بھارت کی ایک سب سے بڑی طاقت ہماری رنگا رنگی ہے۔ کیا ہم میڈیا کے توسط سے دیگر زبانوں کے اہم الفاظ کو مقبول بنانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ دوستو، آج کے دور میں دنیا کو بھارت سے کئی امیدیں ہیں، جب کووڈ-19 کی وبا نے بھارت میں دستک دی، تو یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ بھارت بہتر طریقے سے بندوبست نہیں کرپائے گا۔ بھارت کے عوام نے ان ناقدین کو غلط ثابت کردیا۔ ہم نے گزشتہ دو برسوں کا استعمال اپنے سماج کی صحت اور اپنی معیشت کی صحت میں بہتری لانے کے لئے کیا۔ دو سال تک 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن ملا۔ 180 کروڑ ٹیکوں کی خوراک دی جاچکی ہے۔ ایسے وقت میں جب کئی ملک ویکسین کے تعلق سے جھجک سے نکل نہیں پارہے ہیں، بھارت کے لوگوں نے انھیں راستہ دکھایا ہے۔ بھارت سے ہونہار نوجوانوں کی صلاحیت سے لیس ہمارا ملک خود کفالت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس اصول کا مرکزی نکتہ بھارت کو ایک ایسی اقتص��دی قوت بنانا ہے جو گھریلو اور عالمی ضرورتوں کی تکمیل کرسکے۔ غیر معمولی اصلاحات کی گئی ہیں جن سے اقتصادی ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔ مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے مختلف شعبوں میں پیداوار سے وابستہ حوصلہ افزائی والی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ بھارت کا اسٹارٹ اپ ایکو- سسٹم اتنا تیز کبھی نہیں رہا۔ ٹیئر-2، ٹیئر-3 قصبوں اور گاؤں کے نوجوان بہترین کام کررہے ہیں۔ آج بھارت تکنیکی ترقی میں دنیا میں پیش پیش ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں ہی یوپی آئی لین دین کی تعداد میں 70 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔یہ مثبت تبدیلی کو اپنانے کے لئے ہمارے لوگوں کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ دوستو، ہم اگلی نسل کے بنیادی ڈھانچے کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ نیشنل انفرااسٹرکچر پائپ لائن پر 110 لاکھ کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ پی ایم گتی شکتی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور حکمرانی کو زیادہ سبک رو بنانے جارہی ہے۔ ہم یہ یقینی بنانے کے لئے تندہی سے کام کررہے ہیں کہ بھارت کے ہر گاؤں میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی ہو۔ ہماری کوششوں کا رہنما اصول یہ یقینی بنانا ہے کہ آنے والی نسلوں کو حال کے مقابلے میں بہتر طرز زندگی ملے۔ دوستو، برسوں پہلے جب مہاتما گاندھی نے ماتری بھومی کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے کہا تھا جس میں اقتباس پیش کررہا ہوں: ’ماتری بھومی ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا ہے۔ ایسا بھارت کے کچھ ہی اخبار کرسکتے ہیں۔ اس لئے بھارت کے اخبارات میں ماتری بھومی کا ایک خاص مقام ہے۔‘ مجھے یقین ہے کہ ماتری بھومی اخبار باپو کے ان الفاظ پر کھرا اترنے کے لئے کام کرتا رہے گا۔ میں ایک بار پھر ماتری بھومی کو اس کی صدی تقریبات کے لئے مبارک باد دیتا ہوں اور قارئین کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ شکریہ، جے ہند نمسکارم,মাতৃভূমিৰ উদ্বোধনী শতবাৰ্ষিকী বৰ্ষ উদযাপনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ পাঠৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%DA%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%DB%81-%D8%B3%D8%A7%D8%B2-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%98%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AD%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A4%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%8D/,23 اکتوبر 2021، نئی دہلی: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج لوک کلیان مارگ پر گھریلو ٹیکہ ساز کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ٹیکہ ساز اداروں کی کوششوں کی تعریف کی، جس کے نتیجے میں ملک نے 100 کروڑ ٹیکہ کاری کا سنگ میل عبور کیا، اور کہا کہ انھوں نے بھارت کی کامیابی کی اس کہانی میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے عالمی وبا کے دوران ان کی محنت اور ان کے ذریعے دیے گئے اعتماد کی ستائش کی۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ ملک کو گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران سیکھے گئے بہترین طریقوں کو ادارہ جاتی بنانے کی ضرورت ہے، انھوں نے مزید کہا کہ یہ عالمی معیارات کے مطابق ہمارے طریقوں میں تبدیلی کرنے کا موقع ہے۔ انھوں نے کہا کہ پوری دنیا ٹیکہ کاری مہم کی کامیابی کے پس منظر میں بھارت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ٹیکہ بنانے والوں کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ہم مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔ دیسی ٹیکہ ساز اداروں نے ٹیکے کی تیاری کے لیے مسلسل رہنمائی اور مدد فراہم کرنے پر وزیر اعظم کے وژن اور متحرک قیادت کو سراہا۔ انھوں نے ستائش کرتے ہوئے کہا کہ حکوم�� اور صنعت کے درمیان ایسا تعاون و اشتراک پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، اور اس کوشش کے دوران انضباطی اصلاحات، آسان طریقہ کار ، بروقت منظوریاں اور حکومت کی مددگار اور تعاون دینے والی نوعیت تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ملک پرانے اصولوں پر عمل پیرا ہوتا تو کافی تاخیر ہوجاتی، اور ہم ٹیکہ کاری کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو ہم نے اب تک حاصل کی ہے۔ جناب ادار پونا والا نے حکومت کی طرف سے لائی گئی انضباطی اصلاحات کی ستائش کی۔ جناب سائرس پونا والا نے عالمی وبا کے دوران وزیر اعظم کی قیادت کی تعریف کی۔ ڈاکٹر کرشنا ایلا نے کوویکسین اور اس کی تیاری کے دوران مسلسل تعاون اور حوصلہ افزائی کے لیے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔ جناب پنکج پٹیل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈی این اے پر مبنی ٹیکہ کے بارے میں بات کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔ محترمہ مہیما داتلہ نے وزیر اعظم کے وژن کی تعریف کی جس کی وجہ سے ملک کو ٹیکہ کاری کے اس سنگ میل تک پہنچنے میں مدد ملی۔ ڈاکٹر سنجے سنگھ نے ٹیکے کی تیاری کے میدان میں جدت طرازی اور بیک ورڈ انٹیگریشن کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کی۔ جناب ستیش ریڈی نے اس کوشش میں حکومت اور صنعت کے درمیان اشتراک و تعاون کو سراہا۔ اس گفت و شنید میں جناب سائرس پونا والا اور جناب ادار پونا والا، سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے شرکت کی؛ نیز ڈاکٹر کرشنا ایلا اور محترمہ سوچترا ایلا، بھارت بائیوٹیک انٹرنیشنل لمیٹڈ مسٹر پنکج پٹیل اور ڈاکٹر شیرویل پٹیل، زیڈس کیڈیلا؛ محترمہ مہیما داتلا اور جناب نریندر مانٹیلا، بائیولوجیکل ای لمیٹڈ؛ ڈاکٹر سنجے سنگھ اور جناب ستیش رام لال مہتا، جینووا بائیو فارماسیوٹیکل لمیٹڈ، جناب ستیش ریڈی اور جناب دیپک سپرا، ڈاکٹر ریڈی لیب اور ڈاکٹر راجیش جین اور جناب ہرشیت جین، پناسیا بائیوٹیک لمیٹڈ، صحت کے مرکزی وزیر اور کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرس کے مرکزی وزیر مملکت بھی اس گفت و شنید کے دوران موجود تھے۔,ঘৰুৱা ভেকছিন প্ৰস্তুতকৰ্তাসকলৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মত-বিনিম +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D9%86%DB%8C-%D9%B9%D9%88%D9%BE%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%DB%81%D9%85-%DA%A9%DB%92-%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%9F%E0%A7%81%E0%A6%AA%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%A8%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ایئر فورس وائیوز ویلفیئر ایسو سی ایشن (اے ایف ڈبلیو ڈبلیو اے) کی کوششوں کی ستائش کی جس نے ملک بھر میں موجود تمام سنگنیوں کی مدد سے اونی ٹوپی بنانے کی ایک زبردست مہم کا اہتمام کیا۔ اس کا مقصد اِن ٹوپیوں کو سماج کے کم مراعات یافتہ لوگوں کے درمیان تقسیم کرنا ہے۔ سنگنیوں کے ذریعہ مجموعی طور پر 41541 ٹوپیاں تیار کی گئیں۔ بھارتی فضائیہ کے ذریعہ کیے گئے ٹوئیٹ کے جواب میں وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’قابل تعریف کوشش۔‘‘,উলৰ টুপী বনোৱা অভিযানৰ বাবে বায়ু সেনা পত্নী কল্যাণ সংস্থাক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-9%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%A8%DB%81-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%AA%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%87-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%95-%E0%A6%B2%E0%A7%88-%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A6%AE-%E0%A6%B6/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی ��ے پریکشا پر چرچا 2023 پر کیندریہ ودیالیہ، امبالہ کینٹ کی 9ویں جماعت کی طالبہ محترمہ ایشیتا کی پینٹنگ کی تعریف کی ہے۔ وزیر اعظم نے کے وی سنگاتن کے ایک ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کیا: ""بہت خوب! تصویروں کے ذریعے امتحان کے وقت طالب علموں کی دنچریا (روز مرہ معمولات )کی بہترین پیشکش۔""",পৰীক্ষা পে চৰ্চাক লৈ নৱম শ্ৰেণীৰ ছাত্ৰী ঈশিতাই অংকন কৰা পেইন্টিঙক প্ৰশংসা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%81%D8%BA%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B2%D9%84%D8%B2%D9%84%DB%92-%D8%B3%DB%92-%DB%81%D9%88%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AB%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A7%82%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%A4-%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے افغانستان میں زلزلے سے ہونے والے جانی نقصان پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا ”آج افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کی خبر سے گہرا دکھ ہوا۔ قیمتی جانوں کے ضیاع پر میں دل کی گہرائی سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ ہندوستان اس مشکل وقت میں افغانستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے اور جلد از جلد تمام ممکنہ آفات سے متعلق امدادی سامان فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔“,আফগানিস্তানত ভূমিকম্পত প্ৰাণ হেৰুৱাসকলৰ প্ৰতি শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92%D8%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%AA%D9%86%D9%88%D8%B9-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%AD%D9%81%D8%B8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A7%88%E0%A7%B1-%E0%A6%AC%E0%A7%88%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور نیپال کے درمیان جنگلات، وائلڈ لائف ، ماحولیات، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور آب وہوا کی تبدیلی کے شعبے میں باہمی تعاون بشمول راہداریوں کی بحالی اور علاقوں کو آپس میں جوڑنے نیز معلومات اور بہتر طریقوں کو دونوں ملکوں کے درمیان مشترک کرنے اور باہمی اشتراک وتعاون کو مستحکم کرنے کے مقصد سے نیپال حکومت کے ساتھ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے بارے میں مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کی ماحولیات، جنگلات اور آب وہوا کی تبدیلی کی وزارت کی تجویز کو منظوری دے دی ہے ۔ اس مفاہمت نامے سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگلات، وائلڈ لائف ، ماحولیات، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور آب وہوا کی تبدیلی کے شعبوں بشمول راہداریوں کی بحالی اور علاقوں کو آپس میں جوڑنے نیز معلومات اور بہتر طریقوں کو مشترک کرنے کے لئے باہمی اشتراک وتعاون کو فروغ دینے میں مدد فراہم ہوگی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح- م ع- ق ر),জৈৱ বৈচিত্ৰ্য সংৰক্ষণৰ ক্ষেত্ৰত ভাৰত আৰু নেপালৰ মাজত বুজাবুজিৰ চুক্তি স্বাক্ষৰ কৰাত কেবিনেটৰ অনুমোদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%DB%8C%DA%A9%D9%85-%D8%A7%D9%88-%D8%B1-2-%D8%B3%D8%AA%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7-%E0%A7%A8-%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی 1-2 ستمبر کو کرناٹک اور کیرالہ کا دورہ کریں گے۔ یکم ستمبر کو شام 6 بجے، وزیر اعظم، کوچین ہوائی اڈے کے قریب کلاڈی گاؤں میں آدی شنکراچاریہ کی مقدس جائے پیدائش سری آدی شنکرا جنم بھومی چھیترام کا دورہ کریں گے۔ 2 ستمبر کو صبح 9:30 بجے، وزیر اعظم کوچی میں کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ میں ہی تیار کئے گئے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کو سمندرمیں اگاریں گے۔ اس کے بعد 1:30 بجے، وزیر اعظم منگلورو میں تقریباً 3800 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم کوچی میں وزیر اعظم نریندر مودی آتم نربھرتا خصوصا کلیدی شعبوں کی سخت طرف داری کرتے رہے ہیں ۔ دفاعی شعبے میں خود انحصاری کی طرف ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتے ہوئے، وزیر اعظم ملک کی ٹکنالوجی سے تیار کئے گئے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کوسمندر میں اتاریں گے۔ اسے ہندوستانی بحریہ کی ان ہاؤس وار شپ ڈیزائن بیورو (ڈبلیو ڈی بی) کے ذریعہ ڈیزائن کیا گیا اور کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ نے اسے تیار کیا ہے ،جو بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی وزارت کے تحت ایک سرکاری سیکٹر شپ یارڈ ہے، وکرانت کو جدید ترین آٹومیشن خصوصیات کے ساتھ بنایا گیا ہے اور ہندوستان کی سمندری تاریخ میں بنایا گیا یہ سب سے بڑا طیارہ بردار جہازہے۔ ملک کی ٹکنالوجی سے تیار کردہ طیارہ بردرار جہازآئی این ایس وکرانت کو اس کے نامور پیشرو کے نام پر رکھا گیا ہے، جس نے 1971 کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس طیارہ بردار جہاز میں بڑی تعداد میں دیسی آلات اور مشینری ہے، جنہیں ملک کے بڑے صنعتی گھرانوں کے ساتھ ساتھ 100 سے زیادہ بہت چھوٹی، چھوٹی اوراوسط درجے کی صنعتوں (ایم ایس ایم ایز) کے ذریعہ سپلائی کیا گیا ہے۔ وکرانت کوسمندرمیں اتارے جانے کے ساتھ ہی، ہندوستان کے پاس اب دو آپریشنل طیارہ بردار جہاز ہوجائیں گے، جو ملک کی بحری سلامتی کو یقینی بنائیں گے اورملک کی بحری سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ اس تقریب کے دوران، وزیر اعظم نوآبادیاتی ماضی سے انحراف کرتے ہوئے ہندوستان کی مالامال بحری وراثت کے لیے نئے بحری نشان کی نقاب کشائی بھی کریں گے۔ وزیراعظم منگلورو میں وزیر اعظم نریندر مودی منگلورو میں تقریباً 3800 کروڑ روپے مالیت کے میکانائزیشن اور صنعت کاری کے منصوبوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیر اعظم نیو منگلور پورٹ اتھارٹی کی جانب سے انجام دیئے گئے کنٹینرز اور دیگر کارگو ہینڈلنگ کے لئے برتھ نمبر 14 کی میکانائزیشن کے لئے 280 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹ کا افتتاح کریں گے۔میکانائز ٹرمینل تقریبا صلاحیت بڑھائے گا اور ٹرن آراؤنڈ ٹائم کم کرے گا، پری برتھنگ کی تاخیر میں کمی کرے گا اور بندرگاہ میں رہنے کے وقت میں تقریباً 35 فیصد کمی کرے گا، اس طرح کاروباری ماحول کو فروغ ملے گا۔ منصوبے کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے، اس طرح ہینڈلنگ کی صلاحیت میں 4.2 ایم ٹی پی اے کا اضافہ ہو گیا ہے، جو 2025 تک 6ایم ٹی پی اے سے زیادہ ہو جائے گا۔ وزیر اعظم تقریباً 1000 کروڑ روپے کی مالیت کے پانچ پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے، جنہیں بندرگاہ کے ذریعے شروع کیا گیا ہے۔ جدید ترین کرائیوجینک ایل پی جی اسٹوریج ٹینک ٹرمینل سے لیس مربوط ایل پی جی اور بلک لیکوئڈ پی او ایل سہولت انتہائی موثر طریقے سے 45,000 ٹن کے فل لوڈ و ی ایل جی سی (بہت بڑے گیس کیریئر) کو اتارنے کے قابل ہوگی۔ یہ سہولت خطے میں پردھان منتری اجول یوجنا کو تقویت دے گی اور ملک میں ایل پی جی درآمد کرنے والی سب سے بڑی بندرگاہ کے طور پر بندرگاہ کی حیثیت کو بڑھائے گا۔ وزیراعظم اسٹوریج ٹینک اور خوردنی تیل کی ریفائنری کی تعمیر، بٹومین اسٹوریج اور اس سے منسلک سہولیات کی تعمیر اور بٹومن اور خوردنی تیل ذخیرہ کرنے اور متعلقہ سہولیات کی تعمیر کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ منصوبے بٹومین اور خوردنی تیل کے برتنوں کے ٹرناراؤنڈ ٹائم کو بہتر بنائیں گے اور تجارت کے لیے مجموعی طور پر مال برداری کی لاگت کو کم کریں گے۔ وزیر اعظم کلائی میں فشنگ ہاربر کی ترقی کےلئےسنگ بنیاد بھی رکھیں گے، جس سے مچھلیوں کو محفوظ طریقے سے نمٹنے میں مدد ملے گی اور عالمی منڈی میں بہتر قیمتیں مل سکیں گی۔ یہ کام ساگر مالا پروگرام کی نگرانی کے تحت شروع کیا جائے گا، اور اس کے نتیجے میں ماہی گیر برادری کو اہم سماجی و اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ وزیر اعظم منگلور ریفائنری اینڈ پیٹرو کیمیکلز لمیٹڈ کے ذریعہ شروع کیے گئے دو پروجیکٹوں یعنی بی ایس VI اپ گریڈیشن پروجیکٹ اور سی واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کا بھی افتتاح کریں گے۔بی ایس VI اپ گریڈیشن پروجیکٹ، جس کی مالیت تقریباً 1830 کروڑ روپے ہے، انتہائی خالص ماحول دوست بی ایسVI گریڈ کے ایندھن (سلفر مواد کے ساتھ 10 پی پی ایم سے کم) کی تیاری میں سہولت فراہم کرے گی۔ سی واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ، لگ بھگ 680 کروڑروپے کی لاگت سے قائم کیا گیا ہے۔جو تازہ پانی پر انحصار کو کم کرنے اور سال بھر ہائیڈرو کاربن اور پیٹرو کیمیکل کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد گارثابت ہوگا ۔ 30 ملین لیٹر یومیہ (ایم ایل ڈی ) کی صلاحیت کے ساتھ، پلانٹ ریفائنری کے عمل کے لیے درکار سمندری پانی کو پانی میں تبدیل کرتا ہے۔",১-২ ছেপ্টেম্বৰত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কেৰালা আৰু কৰ্ণাটক ভ্ৰমণ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D9%88-%D8%B1%D9%88%D8%B2-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%9C-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87-%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%AA/,نئی دلّی ، 22 مارچ ؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نو روز کے موقع پر قوم کو مبارک باد پیش کی ہے ۔ اپنے پیغام میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’’ نو روز مبارک ہو ! امن اور خوش حالی سے بھر پور سال کے لئے دعا کرتا ہوں ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ہے کہ ہر شخص خوش اور اچھی صحت سے ہم کنار ہو ۔ ‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م ۔ ر ۔ ر۔ .,নৱৰোজ উপলক্ষে দেশবাসীক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%85%D8%A7%D8%BA%DB%8C-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%81%D8%AA%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%9B/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج دماغی تحقیق کے مرکز کا افتتاح کیا اور آئی آئی ایس سی بنگلورو میں باگچی پارتھا سارتھی ملٹی اسپیشلٹی اسپتال کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’@ آئی آئی ایس سی بنگلورومیں دماغی تحقیق کے مرکز کا افتتاح کرتے ہوئے خوشی ہوئی۔ خوشی اس لیے زیادہ ہے کہ مجھے اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یہ مرکز دماغ سے متعلق امراض کا انتظام کیسے کیا جائے پر تحقیق میں سب سے آگے ہوگا ۔‘‘ ’’ایک ایسے وقت میں جب ہر قوم کو صحت کی دیکھ بھال کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے، باگچی پارتھا سارتھی ملٹی اسپیشلٹی ا��پتال جیسی کوششیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں، یہ صحت کی دیکھ بھال کی صلاحیتوں کو مضبوط کرے گا اور اس شعبے میں اہم تحقیق کی حوصلہ افزائی کرے گا۔‘‘ مرکز برائے دماغی تحقیق کو اپنی نوعیت کی ایک تحقیقی سہولت کے طور پر تیار کیا گیا ہے اور عمر سے متعلقہ دماغی عوارض کو سنبھالنے کے لیے صحت عامہ کی اقدام کے ثبوت فراہم کرنے کے لیے اہم تحقیق کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ آئی آئی ایس سی بنگلورو کے کیمپس میں 832 بستروں پر مشتمل باگچی پارتھاسارتھی ملٹی اسپیشلٹی اسپتال تیار کیا جائے گا اور اس باوقار ادارے میں سائنس، انجینئرنگ اور طب کو مربوط کرنے میں مدد کرے گا۔ یہ ملک میں کلینکل ریسرچ کو بڑا فروغ دے گا اور اختراعی حل تلاش کرنے کی سمت کام کرے گا جو ملک میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে আইআইএছচি বেংগালুৰুত চেণ্টাৰ ফৰ ব্ৰেইন ৰিচাৰ্চ উদ্বোধন কৰে আৰু বাগচী পাৰ্থসাৰথী মাল্টিস্পেচিয়েলিটি হাস্পতালৰ আধাৰশিলা স্থাপন কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%D9%88-%DA%A9%D9%86%D8%A8%DB%81-%D8%A8%DB%81%D8%A8%D9%88%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%95%E0%A6%B2/,نئی دہلی، 26 فروری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے صحت و کنبہ بہبود کی وزارت کے مابعد مرکزی بجٹ ویبنار کا آغاز کیا۔ یہ وزیر اعظم کے ذریعہ خطاب کیے گئے مابعد بجٹ ویبناروں کے سلسلہ کا پانچواں ویبنار ہے۔ اس موقع پر مرکزی وزراء، سرکاری اور نجی شعبہ کے حفظان صحت پیشہ واران، اور نیم طبی، نرسنگ، صحتی انتظام کاری، تکنالوجی اور تحقیق کے شعبہ کے پیشہ واران بھی موجود تھے۔ شروعات میں، وزیر اعظم مودی نے دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے لیے صحتی شعبہ کو مبارکباد پیش کی، جس نے بھارت کے حفظانِ صحت نظام کی مشن پر مرتکز فطرت اور اثر انگیزی کو قائم کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بجٹ صحتی شعبہ میں اصلاحات متعارف کرانے اور اسے تبدیل کرنے کے لیے ان کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیارکیا گیا ہے، جو گذشتہ 7 برسوں کے دوران انجام دی گئی ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے اپنے حفظانِ صحت نظام میں ایک جامع نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔ آج ہماری توجہ محض صحت پر ہی نہیں بلکہ چاق و چوبند رہنے پر بھی مساوی طور پر مرتکز ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے صحتی شعبہ کو جامع اور مبنی بر شمولیت بنانے سے متعلق کوششوں کو اجاگر کرنے والے تین عناصر کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ پہلا عنصر ہے، جدید طبی سائنس سے متعلق بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل کی توسیع ۔ دوسرا عنصر ہے، آیوش جیسے روایتی بھارتی طبی نظام میں تحقیق کو فروغ اور حفظانِ صحت نظام میں فعال شمولیت۔ اور تیسرا عنصر ہے، جدید اور مستقبل کی تکنالوجی کے ذریعہ ملک کے ہر ایک شہری اور ہر خطہ کے لیے قابل استطاعت حفظانِ صحت خدمات فراہم کرانا۔ انہوں نے مزید کہا کہ، ’’ہماری کوشش اہم حفظانِ صحت خدمات کو بلاک کی سطح پر، ضلعی سطح پر، اور مواضعات کے قریب فراہم کرانا ہے۔ اس بنیادی ڈھانچہ کو برقرار رکھنے اور وقتاً فوقتاً اس کی تجدید کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نجی شعبہ اور دیگر شعبوں کو مزید توانائی کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔‘‘ وزیر اعظم نے مطلع کیا کہ بنیادی حفظانِ صحت نیٹ ورک کو مضبوط بنانے کے لیے ، صحت اور چاق و چوبند رہنے سے متعلق 1.5 لاکھ مراکز کی ترقی کے لیے بہت تیزی کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔ اب تک 85000 سے زائد مراکز حسب معمول چیک اپ، ٹیکہ کاری اور جانچ سے متعلق خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں، ذہنی حفظانِ صحت سے متعلق سہولت کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ طبی انسانی وسائل میں اضافہ کو لے کر، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’چونکہ حفظانِ صحت خدمات سے متعلق مطالبہ میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے ہم باہنر صحتی پیشہ واران بھی تیار کر رہے ہیں۔ اس لیے، گذشتہ برس کے مقابلے ، صحتی تعلیم اور حفظانِ صحت سے متعلق انسانی وسائل کی ترقی کے لیے بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے حفظانِ صحت برادری سے ایک معینہ مدت کے اندر، تکنالوجی کی مدد سے ان اصلاحات کو آگے لاجانے کے لیے کام کرنے کی اپیل کی اور اس سلسلے میں طبی تعلیم کے معیار کو بہتر بناتے ہوئے اسے مزید مبنی بر شمولیت اور قابل استطاعت بنانے پر زور دیا۔ طبی شعبہ میں جدید اور مستقبل کی تکنالوجی کے عنصر پر بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی نے کووِن جیسے پلیٹ فارموں کی تعریف کی جنہوں نے ڈجیٹل صحتی حل سے متعلق دنیا میں بھارت کو شہرت دلائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، اسی طرح آیوشمان بھارت ڈجیٹل صحتی مشن صارف اور حفظانِ صحت فراہم کار کے درمیان آسان انٹرفیس فراہم کرتا ہے۔ آیوشمان بھارت ڈجیٹل صحتی مشن کے فوائد کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا، ’’اس کے ساتھ ہی، ملک میں معالجاتی خدمات حاصل کرنا اور فراہم کرانا دونوں ہی کام آسان ہو جائیں گے۔ صرف یہ ہی نہیں، یہ مشن بھارت کے معیاری اور قابل استطاعت حفظانِ صحت نظام تک عالمی رسائی میں بھی مدد فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم نے وبائی مرض کے دوران دور دراز علاقوں تک حفظانِ صحت اور ٹیلی میڈیسن خدمات جیسی تکنالوجیوں کے مثبت کردار کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے شہری اور دیہی بھارت کے درمیان حفظانِ صحت رسائی سے متعلق تفریق کو کم کرنے میں ان تکنالوجیوں کے کردار کو اجاگر کیا۔ آئندہ 5 جی نیٹ ورک اور ہر گاؤں کے لیے آپٹیکل فائبر نیٹ ورک پروجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے نجی شعبہ سے اپنی شراکت داری میں اضافہ کرنے کے لیے آگے آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے طبی مقاصد کے لیے ڈرون تکنالوجی کو فروغ دینے پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے عالمی سطح پر آیوش کی بڑھتی قبولیت کا ذکرکیا اور اس حقیقت پر فخر کا اظہار کیا کہ عالمی صحتی تنظیم بھارت میں روایتی ادویہ کا اپنا واحد عالمی مرکز قائم کرنے جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، ’’اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے اپنے اور دنیا کے لیے آیوش کے بہتر حل پیش کریں۔‘‘,স্বাস্থ্য আৰু পৰিয়াল কল্যাণ মন্ত্ৰালয়ৰ বাজেট পৰৱৰ্তী ৱেবিনাৰ উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%AA%DA%BE%DA%A9-%D8%B1%D9%82%D8%A7%D8%B5-%D9%BE%D9%86%DA%88%D8%AA-%D8%A8%D8%B1%D8%AC%D9%88-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%AC%E0%A6%A6%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80-%E0%A6%95%E0%A6%A5%E0%A6%95-%E0%A6%A8%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%AA/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مشہور کتھک رقاص پنڈت برجو مہاراج کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا انتقال پوری فن کی دنی�� کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ""پنڈت برجو مہاراج جی کے انتقال سے گہرا دکھ پہنچا ہے، انہوں نے ہندوستانی رقص کو پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت دلائی ہے۔ ان کا انتقال پوری فن کی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ غم کی اس گھڑی میں ان کے اہل خانہ اور مداحوں سے میری گہری تعزیت ہے۔"" اوم شانتی!""",কিংবদন্তী কথক নৃত্যশিল্পী পণ্ডিত বিৰজু মহাৰাজৰ মৃত্যুত শোক প্ৰকাশ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%B2%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AE%E0%A6%B9/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج اسرائیلی وزیر اعظم، ہز ایکسی لینسی نفتالی بینیٹ سے ٹیلی فون پر بات کی۔ وزیر اعظم نے ہز ایکسی لینسی بینیٹ کو کووڈ-19 میں مبتلا ہونے کے بعد جلد صحت یاب ہونے کی دعائیں دیں۔ انہوں نے اسرائیل میں حالیہ دنوں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں جانوں کے زیاں پر تعزیت کا بھی اظہار کیا۔ دونوں لیڈروں نے یوکرین کی صورتحال سمیت حالیہ جغرافیائی و سیاسی پیش رفت پر تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے جاری دو طرفہ تعاون سے متعلق پہل کا بھی جائزہ لیا۔ وزیر اعظم نے آئندہ کی کسی قریبی تاریخ میں ہز ایکسی لینسی بینیٹ کا ہندوستان میں خیر مقدم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔,ইজৰাইলৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী মহামহিম নাফটালি বেনেটৰে টেলিফোনিক বাৰ্তালাপ প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-23-%D8%B3%D8%AA%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%A9-%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 23 ستمبر، 2022 کو صبح 10:30 بجے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گجرات کے ایکتا نگر میں منعقد ہونے والی وزرائے ماحولیات کی قومی کانفرنس کا افتتاح کریں گے۔ اس موقع پر وہ وہاں پر موجود مجمع سے خطاب بھی کریں گے۔ یہ کانفرنس، تعاون پر مبنی وفاقیت کے جذبے کو آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان مزید ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بلائی جا رہی ہے تاکہ کثیر جہتی طریقے اپناتے ہوئے پلاسٹک سے متعلق آلودگی کو ختم کرنے، لائف یعنی ماحولیات سے متعلق طرز زندگی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے جیسے موضوعات کے بارے میں بہتر پالیسیاں بنائی جا سکیں۔ یہ کانفرنس تباہ شدہ زمین کی بحالی اور جنگلی حیات کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے جنگلات کے رقبہ میں اضافہ پر بھی توجہ مرکوز کرے گی۔ 23 اور 24 ستمبر کو منعقد ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس کے چھ موضوعاتی اجلاس ہوں گے، جس میں لائف، ماحولیاتی تبدیلی سے مقابلہ (اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی اثرات سے موافقت کے لیے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ریاستی ایکشن پلان کو اپ ڈیٹ کرنا)؛ پریویش (مربوط گرین کلیئرنس کے لیے سنگل ونڈو سسٹم)؛ جنگلات کا انتظام؛ آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول؛ جنگلی حیات کا انتظام؛ پلاسٹک اور کچرے کا انتظام جیسے موضوعات کا احاطہ کیا جائے گا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২৩ ছেপ্টেম্বৰত উদ্বোধন কৰিব ৰাজ্যসমূহৰ পৰিৱেশ দপ্তৰৰ মন্ত্ৰীসকলৰ ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিল +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%D9%86%D9%88%D8%A8%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A6%A3-%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A7%B0/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ، رامسر سائٹس کی فہرست میں مزید 2 ویٹ لینڈس ،گجرات میں خجادیہ وائلڈ لائف سینگچری اور اترپردیش میں بخیرہ وائلڈ سائف سنیگچری ، کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ماحولیات ،جنگلات اور تبدیلی آب وہو ا کے مرکزی وزیر بھوپیندر یادو کے ایک ٹویٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا : ‘‘ انتہائی شاندار خبر ! جنوبی ایشیا میں، ہندوستان میں رامسر سائٹس کا سب سے بڑا نیٹ ورک کا ہونا نباتات اور حیوانات کو تحفظ دینے اورفطرت کے ساتھ ہم آہنگی زندگی گزارنے کے لئے ہمارے شہریوں کے عہد کا اظہارکرتا ہے۔’’,দক্ষিণ এছিয়াৰ সৰ্বাধিক ৰামসাৰ অঞ্চল ভাৰতত থকাৰ বাবে সন্তোষ প্রকাশ কৰিছে প্রধানমন্ত্রীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A6/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A6%89%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%8B%E0%A6%A7%E0%A6%A8/,نئی دہلی، 11 جولائی 2018/ وزیراعظم جناب نریندر مودی کل 12 جولائی 2018 کو نئی دہلی میں تلک مارگ پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے صدر دفتر کی نئی عمارت کا افتتاح کریں گے۔ نئی عمارت میں بہت سے جدید سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ اس میں کم خرچ، بجلی اور برسات کے پانی کو جمع کرنے کا انتطام ہے۔ اس عمارت میں ایک سینٹرل آکیالوجیکل لائبریری بھی ہوگی جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کتابیں اور رسالے رکھے جائیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ج ۔ ج۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে উদ্বোধন কৰিব নতুন দিল্লীত ভাৰতীয় প্ৰত্নতাত্ত্বিক জৰীপ বিভাগৰ মুখ্য কাৰ্যালয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%DB%8C%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%D9%B9%DB%8C%D8%AC-%D8%A7%D9%93%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%A1%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%9C-%E0%A6%86%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%AC%E0%A6%BF/,نئی دہلی،02 فروری 2018؍وزیر اعظم جناب نریندر مودی کل گوہاٹی میں ایڈوانٹیج آسام-عالمی سرمایہ کاروں کی چوٹی کانفرنس 2018 کے افتتاح اجلاس سے خطاب کریں گے۔ دوروزہ چوٹی کانفرنس سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی اب تک کی سب سے بڑی کانفرنس ہوگی، جو آسام حکومت کی پہل پر منعقد کی جائے گی۔ اس چوٹی کانفرنس کا مقصد جغرافیائی اور حکمت عملی پر مبنی فائدوں کو اجاگر کرنا ہے، جس کی پیشکش آسام کے سرمایہ کاروں کو کی گئی ہے۔اس کانفرنس میں مینوفیکچرنگ صلاحیت اوران مواقعوں کو بھی اجاگر کیا جائے گا، جس کی پیشکش جنوب اور جنوب مشرقی ایشیاء میں بڑھتی ہوئی میعشت کے لئے برآمد پرمبنی مینوفیکچرنگ اور خدمات کے لحاظ سے ریاست کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس چوٹی کانفرنس میں ریاست میں سرمایہ کاری کے مواقع کو بھی اجاگر کیا جائے گااور بجلی، زراعت، ڈبہ بند خوراک ، آئی ٹی،آئی ٹی ای ایس اور آبی ٹرانسپورٹ ،ساحلی ٹاؤن شپس ، پلاسٹک، پیٹرو کیمکل، دوا سازی، میڈیکل آلات، ہینڈلوم ، ٹیکسٹائل ، دست کاری، سیاحت، مہمان نوازی، شہری ہوابازی اور پیٹرولیم و قدرتی گیس پر توجہ دی جائے گی۔ م ن۔ح ا۔ن ع,এডভান্টেজ আছাম – বিশ্ব বিনিয়োগকাৰী সন্মিলন ২০১৮ ৰ উদ্বোধনী অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰিব ভাষণ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%A7%D9%86-%DA%AF%DA%91%DA%BE-%D8%AF%DA%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%AE-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%97%E0%A7%8C%E0%A7%B0%E0%A7%B1-%E0%A6%97%E0%A6%BE%E0%A6%A5%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ایک عوامی پروگرام ’مان گڑھ دھام کی گورو گاتھا‘ میں شرکت کی اور جدوجہد آزادی کے گمنام قبائلی ہیروز اور شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مقام پر پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نے دھونی درشن کیا اور گووند گرو کی مورتی پر پھول چڑھائے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مان گڑھ کی مقدس سرزمین پر موجود ہونا ہمیشہ متاثر کن ہے جو ہمارے قبائلی بہادروں کی تپسیا، قربانی، بہادری اور قربانی کی علامت ہے۔انہوں نے کہا ‘‘مان گڑھ راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور گجرات کے لوگوں کا مشترکہ ورثہ ہے’’، ۔ وزیر اعظم نے گووند گرو کو خراج عقیدت پیش کیا جن کی برسی 30 اکتوبر کو منائی گئی۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر، وزیر اعظم نے مان گڑھ کے علاقے کی خدمات کو یاد کیا جو گجرات کا حصہ ہے اور بتایا کہ گووند گرو نے اپنی زندگی کے آخری سال یہاں گزارے، اور ان کی توانائی اور علم آج بھی اس سرزمین کی مٹی میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے یاد کیا کہ وہ پورا علاقہ جو پہلے بنجر زمین تھا جب انہوں نے وان مہوتسو کے پلیٹ فارم کے ذریعے سب سے اپیل کی تو ہریالی سے بدل گیا ۔ وزیر اعظم نے مہم کے لیے بے لوث کام کرنے پر قبائلی برادری کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس ترقی کے نتیجے میں نہ صرف مقامی لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی بلکہ اس سے گووند گرو کی تعلیمات کی تبلیغ بھی ہوئی۔ وزیر اعظم نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ‘‘گووند گرو جیسے عظیم آزادی پسند جنگجو ہندوستان کی روایت اور نظریات کے نمائندے تھے’ گووند گرو نے اپنا خاندان کھو دیا لیکن کبھی دل نہیں ہارا اور ہر قبائلی کو اپنا خاندان بنا لیا۔ وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ اگر گووند گرو نے قبائلی برادری کے حقوق کے لیے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی تو ، انھوں نے اپنی برادری کی برائیوں کے خلاف بھی مہم چلائی کیونکہ وہ ایک سماجی مصلح، روحانی پیشوا، ایک سنت اور رہنما تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کا فکری اور فلسفیانہ پہلو اتنا ہی متحرک تھا جتنا ان کی ہمت اور سماجی سرگرمی۔ مان گڑھ میں 17 نومبر 1913 کے قتل عام کو یاد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ریمارکس دیے کہ یہ ہندوستان میں برطانوی راج کے انتہائی ظلم کی مثال ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ ایک طرف ہمارے ہاں معصوم قبائلی تھے جو آزادی کے خواہاں تھے تو دوسری طرف برطانوی نوآبادیاتی حکمران تھے جنہوں نے مان گڑھ کی پہاڑیوں کو گھیرے میں لے کر ایک ہزار پانچ سو سے زائد بے گناہ مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کا دن کی روشنی میں کا قتل عام کیا۔ بدقسمتی کی وجہ سے جدوجہد آزادی کا اتنا اہم ��ور اثر انگیز واقعہ تاریخ کی کتابوں میں جگہ نہیں پا سکا۔ وزیر اعظم نے کہا، ‘‘اس آزادی کے امرت مہوتسو میں، ہندوستان اس خلا کو پر کر رہا ہے اور دہائیوں پہلے کی گئی غلطیوں کو درست کر رہا ہے۔’’ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ""ہندوستان کا ماضی، تاریخ، حال اور ہندوستان کا مستقبل قبائلی برادری کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوگا۔ ہماری جدوجہد آزادی کی کہانی کا ہر صفحہ قبائلی بہادری سے بھرا ہوا ہے’’۔ وزیر اعظم نے شاندار جدوجہد کو یاد کیا جو 1780 کی دہائی کے اوائل میں ہیں جب سنتھل سنگرام تلکا مانجھی کی قیادت میں لڑی گئی تھی۔ انہوں نے 1832-1830 کا ذکر کیا جب ملک نے بدھو بھگت کی قیادت میں لارکا آندولن دیکھا۔ 1855 میں سدھو کانہو کرانتی نے قوم کو توانائی بخشی۔ بھگوان برسا منڈا نے اپنی توانائی اور حب الوطنی سے سب کو متاثر کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ‘‘آپ کو صدیوں پہلے غلامی کے آغاز سے لے کر 20 ویں صدی تک کوئی ایسا دور نہیں ملے گا جب قبائلی برادری نے آزادی کے شعلے کو جلا نہیں رکھا تھا’’۔ انہوں نے آندھرا پردیش میں الوری سیتارام راجو کا ذکر کیا۔ راجستھان میں اس سے پہلے بھی آدیواسی سماج مہارانا پرتاپ کے ساتھ کھڑا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم قبائلی برادری اور ان کی قربانیوں کے مقروض ہیں۔ اس سماج نے فطرت، ماحول، ثقافت اور روایات میں ہندوستان کے کردار کو محفوظ رکھا ہے۔ آج وقت آگیا ہے کہ قوم ان کی خدمت کرکے ان کا شکریہ ادا کرے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ 15 نومبر کو ملک بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش پر جن جاتیہ گورو دیوس منانے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘’جن جاتیہ گورو دیواس جدوجہد آزادی میں قبائلیوں کی تاریخ کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی ایک کوشش ہے’’۔ جناب مودی نے بتایا کیا کہ قبائلی سماج کی تاریخ کو عوام تک لے جانے کے لیے پورے ملک میں قبائلی آزادی کے جنگجوؤں کے لیے وقف خصوصی عجائب گھر بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عظیم الشان میراث اب فکری عمل کا حصہ بنے گی اور نوجوان نسلوں کے لیے تحریک پیدا کرے گی۔ وزیر اعظم نے ملک میں قبائلی معاشرے کے کردار کو بڑھانے کے لیے ایک فدا کارانہ جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ ملک راجستھان اور گجرات سے لے کر شمال مشرق اور اڑیسہ تک ملک کے تمام حصوں میں متنوع قبائلی سماج کی خدمت کے لیے واضح پالیسیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ون بندھو کلیان یوجنا کے ذریعے قبائلی آبادی کو پانی اور بجلی کے کنکشن، تعلیم اور صحت کی خدمات اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے آگے چل کر کہا ‘‘آج ملک میں جنگلات کا احاطہ بھی بڑھ رہا ہے اور وسائل کی حفاظت کی جا رہی ہےاس کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں کو بھی ڈیجیٹل انڈیا سے جوڑا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ایکلویہ رہائشی اسکولوں کا بھی ذکر کیا جو روایتی ہنر کے ساتھ قبائلی نوجوانوں کو جدید تعلیم کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی بتایا کہ وہ گووند گرو جی کے نام سے منسوب یونیورسٹی کے عظیم الشان انتظامی کیمپس کا افتتاح کرنے کے لیے جمبوگھوڈا جائیں گے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا ذکر کہ کل شام ہی انہوں نے احمد آباد-اُدے پور براڈ گیج لائن پر ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ انہوں نے راجستھان کے لوگوں کے لیے 300 کلومیٹر لائن کے پروگرام کی اہمیت پر زور دیا کیونکہ یہ گجرات کے بہت سے قبائلی علاقوں کو راجستھان کے قبائلی ��لاقوں سے جوڑے گا اور ان علاقوں میں صنعتی ترقی اور روزگار کو فروغ دے گا۔ مان گڑھ دھام کی مجموعی ترقی کے بارے میں ہونے والے تبادلہ خیال پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے مان گڑھ دھام کی عظیم الشان توسیع کی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی چار ریاستی حکومتوں سے درخواست کی کہ وہ مل کر کام کریں اور ایک روڈ میپ تیار کرنے کے بارے میں تفصیلی بات چیت کریں تاکہ گووند گرو جی کی اس یادگاری جگہ کو دنیا کے نقشے پر جگہ مل سکے۔ وزیر اعظم نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا ‘‘مجھے یقین ہے کہ مانگڑھ دھام کی ترقی اس علاقے کو نئی نسل کے لیے ایک تحریک کی جگہ بنائے گی’’ ۔ دیگر لوگوں کے علاوہ ،گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل، راجستھان کے وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ چوہان، مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، ثقافت کے مرکزی وزیر مملکت جناب ارجن رام میگھوال، اس موقع پر دیہی ترقی کے مرکزی وزیر مملکت جناب فگن سنگھ کلستے، ممبران پارلیمنٹ، ایم ایل اے بھی موجود تھے۔ پس منظر آزادی کا امرت مہوتسو کے ایک حصے کے طور پر، حکومت نے جدوجہد آزادی کے گمنام قبائلی ہیروز کی یاد منانے کے لیے کئی اقدامات شروع کیے ہیں۔ ان میں 15 نومبر (آبائی آزادی کے جنگجو برسا منڈا کی یوم پیدائش) کو ‘‘جن جاتیہ گورو دیوس’’ قرار دینا، ملک بھر میں قبائلی عجائب گھر قائم کرنا وغیرہ شامل ہیں تاکہ معاشرے میں قبائلی لوگوں کی شراکت کو تسلیم کیا جا سکے اور جدوجہد آزادی میں ان کی قربانیوں کے بارے میں بیداری بڑھائی جا سکے۔ اس سمت میں ایک اور قدم کے طور پر ، وزیر اعظم نے مان گڑھ ہل، بانسواڑہ، راجستھان میں ایک عوامی پروگرام – ‘مان گڑھ دھام کی گورو گاتھا’ میں شرکت کی، جس میں آزادی کی جدوجہد کے گمنام قبائلی ہیروز اور شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے بھیل آزادی پسند شری گووند گرو کو خراج عقیدت پیش کیا اور بھیل آدیواسیوں اور علاقے کی دیگر قبائلی آبادیوں کے ایک اجتماع سے بھی خطاب کیا۔ مان گڑھ پہاڑی راجستھان، گجرات اور مدھیہ پردیش کے بھیل برادری اور دیگر قبائل کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران جہاں بھیلوں اور دیگر قبائل نے انگریزوں کے ساتھ طویل کشمکش میں مصروف تھے، 1.5 لاکھ سے زیادہ بھیلوں نے 17 نومبر 1913 کو مانگڑھ پہاڑی پر جناب گووند گرو کی قیادت میں ریلی نکالی۔ انگریزوں نے اس اجتماع پر گولیاں چلائیں، جس کے نتیجے میں مانگڑھ قتل عام ہوا جہاں تقریباً 1500 قبائلی شہید ہوئے۔",‘মংগৰ ধাম কী গৌৰৱ গাথা’ৰ ৰাজহুৱা অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%DA%A9%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%B9%DB%8C%D8%B2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%80-%E0%A6%8F%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B8%E0%A6%9A%E0%A7%87%E0%A6%9E%E0%A7%8D%E0%A6%9C/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے آج ہندوستان کے سکیورٹیز اور ایکسچینج بورڈ (سیبی) اور مالیاتی ریگولیٹری کمیشن، منگولیا (ایف آر سی) کے درمیان دو طرفہ مفاہمت نامہ (ایم او یو) پر دستخط کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ بڑے اثرات: ایف آر سی، سیبی کی طرح بین الاقوامی تنظی�� برائے سکیورٹیز کمیشن کے کثیر رخی ایم او یو (آئی او ایس سی او ایم ایم او یو) کا شریک کار دستخط کنندہ ہے۔ حالانکہ، آئی او ایس سی او ایم ایم او یو کے دائرے میں تکنیکی تعاون کا التزام نہیں ہے۔ مجوزہ دو طرفہ مفاہمت نامہ، سکیورٹیز سے متعلق قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے اطلاعات کے لین دین کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں تعاون دینے کے علاوہ، ایک تکنیکی معاون پروگرام کے تشکیل میں بھی تعاون فراہم کرے گا۔ تکنیکی تعاون کے پروگرام سے عہدیداروں کو پونجی بازار، صلاحیت سازی کی سرگرمیوں اور ملازمین کے تربیتی پروگراموں سے جڑے معاملوں پر صلاح و مشورہ کے ذریعے فائدہ ہوگا۔ پس منظر: ہندوستان کا سکیورٹیز اور ایکسچینج بورڈ (سیبی) کا قیام سکیورٹیز اور ایکسچینج بورڈ قانون، 1992 کے تحت ہندوستان میں سکیورٹیز کے بازاروں کو باضابطہ بنانے کے لیے عمل میں آیا تھا۔ سیبی کا مقصد سرمایہ کاروں کے مفاد کی حفاظت کرنا اور ہندوستان میں سکیورٹیز کے بازاروں کے فروغ کو باضابطہ کرنا اور بڑھاوا دینا ہے۔ سیبی قانون، 2002 کی دفعہ 11 کی ذیلی دفعہ (2) کے تحت سیکشن (آئی بی)؛ سیبی کو بورڈ کے مساوی کام کرنے والی دیگر اتھارٹیز، خواہ وہ ہندوستان میں ہوں یا ملک سے باہر، سے سکیورٹیز کے قوانین سے متعلق خلاف ورزیوں کی روک تھام کرنے یا جانچ کرنے سے متعلق معاملوں میں معلومات مانگنے یا معلومات فراہم کرنے کا اختیار دیتا ہے، جو دیگر قوانین کے التزامات کے ماتحت ہے۔ ہندوستان سے باہر کسی بھی اتھارٹی کو کوئی بھی معلومات پیش کرنے کے لیے، سیبی مرکزی حکومت کی پیشگی منظوری سے ایسی اتھارٹیز کے ساتھ ایک نظام کا معاہدہ یا فہم تیار کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں، ایف آر سی نے سیبی سے باہمی تعاون اور تکنیکی تعاون کے لیے ایک دو طرفہ مفاہمت نامہ پر دستخط کرنے کی درخواست کی ہے۔ اب تک، سیبی نے دیگر ممالک کے پونجی بازار ریگولیٹروں کے ساتھ 27 دو طرفہ مفاہمت ناموں پر دستخط کیے ہیں۔ سال 2006 میں قائم کردہ، مالیاتی ریگولیٹری کمیشن (ایف آر سی) ایک پارلیمانی اتھارٹی ہے، جس پر بیمہ اور سکیورٹیز بازار اور خورد مالیاتی شعبہ کے شراکت داروں سمیت غیر بینک والے شعبوں کی نگرانی اور ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری ہے۔ ایف آر سی مستحکم اور مضبوط مالیاتی بازار فراہم کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ کمیشن غیر بینک والے مالیاتی اداروں، بیمہ کمپنیوں اور درمیانی اداروں، سکیورٹیز فرم اور بچت اور کریڈیٹ کوآپریٹوز پر اپنے اختیارات کا استعمال کرتا ہے۔ ساتھ ہی، یہ انفرادی مالیاتی بازار کے صارفین (سکیورٹیز ہولڈرز، گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاروں، اور بیمہ پالیسی ہولڈرز) کے حقوق کو یقینی بناتا ہے اور مالیاتی گڑبڑیوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔,ছিকিউৰিটী এণ্ড এক্সচেঞ্জ বোৰ্ড অফ ইণ্ডিয়া আৰু মংগোলীয়াৰ বিত্তীয় নিয়ামক আয়োগৰ মাজত দ্বিপাক্ষিক বুজাবুজি চুক্তি স্বাক্ষৰৰ প্ৰস্তাৱত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%AE%DB%8C%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لوگوں کو 28 اگست 2022 کو صبح 11 بجے من کی بات کے آنے والے ایپی سوڈ کے لیے خیالات اور معلومات کا اشتراک کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔ خیالات کو نمو، مائی گو، ایپ پر شیئر کیا جا سکتا ہے، یا پیغام ریکارڈ کرنے کے لیے 1800-11-7800 نمبر ڈائل کیا جا سکتا ہے۔ مائی گو دعوت نامے کو شیئر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘28 اگست کو آنے والے# من کی بات پروگرام کے لیے خیالات اور آراء کے منتظر ہیں۔ نمو یا مائی گو ایپ پر لکھیں۔ یا متبادل کے طور پر، 1800-11-7800 ڈائل کرکے پیغام ریکارڈ کریں’’۔ https://www.mygov.in/gro “,মন কী বাতৰ বাবে জনসাধাৰণক নিজৰ চিন্তা-ধাৰাৰে অংশগ্ৰহণ কৰিবলৈ আহ্বান প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DB%92-246%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%BE-%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A7%A8%E0%A7%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 246 ویں یوم آزادی کے موقع پر صدر جو بائیڈن، نائب صدر کملا ہیرس اور امریکہ کے عوام کو اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 246 ویں یوم آزادی پر، POT,আমেৰিকা যুক্তৰাষ্ট্ৰৰ ২৪৬ সংখ্যক স্বাধীনতা দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%8F%D9%85%D9%86%DA%AF%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%BE%D8%B1%DB%92-%D8%A7%D8%B6%D9%84%D8%A7%D8%B9-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%80-%E0%A6%9C%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AE%E0%A7%B0/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے صحت، غذائیت، تعلیم اور برآمدات جیسے پیمانوں پر امنگوں سے بھرے اضلاع پروگرام کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا ہے کہ؛ ""مختلف پیمانوں پر خواہ خواہ وہ صحت، غذائیت، تعلیم یا برآمدات سے متعلق ہوں – اُمنگوں سے بھرے اضلاع کی کامیابی – خوش کن ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اُمنگوں سے بھرے اضلاع پروگرام کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آیا ہے۔",আকাংক্ষী জিলা কাৰ্যক্ৰমৰ সাফল্যৰ পিচত আনন্দ প্ৰাকাশিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%81%DB%8C%D9%84%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%BE%D9%B9%D8%B1-%D8%AD%D8%A7%D8%AF%D8%AB%DB%81-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D9%86%D8%B1%D9%84-%D8%A8/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A6%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A7%87%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے تمل ناڈو میں ہوئے ہیلی کاپٹر حادثہ میں جنرل بپن راوت، ان کی اہلیہ اور مسلح افواج کے دیگر اہلکاروں کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ سلسلہ وار ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ’’تمل ناڈو میں ہوئے ہیلی کاپٹر حادثہ میں جنرل بپن راوت، ان کی اہلیہ اور مسلح افواج کے دیگر اہلکاروں کی موت پر میں کافی رنجیدہ ہوں۔ انہوں نے پوری تندہی سے ہندوستان کی خدمت کی۔ میرے خیالات سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ جنرل بپن راوت ایک بہترین سپاہی تھے۔ ایک سچے محب وطن کے طور پر انہوں نے ہماری مسلح افواج اور سیکورٹی کے آلات کو جدید بنانے میں بہت تعاون کیا۔ اسٹریٹیجک معاملات پر ان کی بصیرت اور نقطہ نظر غیرمعمولی تھے۔ ان کے انتقال سے مجھے گہر�� صدمہ پہنچا ہے۔ اوم شانتی۔ ہندوستان کے پہلے سی ڈی ایس کے طور پر، جنرل راوت نے دفاعی اصلاحات سمیت ہماری مسلح افواج سے متعلق متنوع پہلوؤں پر کام کیا۔ وہ اپنے ساتھ فوج میں خدمات انجام دینے کا بھرپور تجربہ لے کر آئے۔ ہندوستان ان کی غیر معمولی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔‘‘,"হেলিকপ্টাৰ দুৰ্ঘটনাত জেনেৰেল বিপিন ৰাৱাট, তেওঁৰ পত্নী আৰু সশস্ত্ৰ বাহিনীৰ আন লোকসকলৰ মৃত্যুত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D8%A6%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%81-%DA%A9%DB%92-%D9%BE%DA%86%D8%A7%D8%B3%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%B3%DB%8C%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%86%E0%A6%87%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%8F%E0%A6%AB%E0%A7%B0-%E0%A7%AB%E0%A7%A6%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4-2/,نئیدہلی11 مارچ ۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے، سی آئی ایس ایف کے پچاسویں یوم تاسیس کی تقریب میں ،جو تقریر کی تھی ،اس کا متن حسب ذیل ہے : ملک کے اثاثے اور وقار کی حفاظت او رسلامتی کرنے والے سی آئی ایس ایف کےسبھی ساتھی یہاں موجود سبھی بہادر کنبوں اورخواتین وحضرات: گولڈن جوبلی کے اس اہم پڑاؤ پر پہنچنے کے لئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد ! ایک تنظیم ہونے کی حیثیت سے آپ نے جو 50 برس مکمل کئے ہیں ، وہ انتہائی کامیاب اور لائق ستائش ہیں۔ اس کا م کو یہاں تک پہنچانے کے لئے آْج سی آئی ایس ایف کے نظام میںشامل ہیں، ان کی خدمات تو ہیں ہی ،ساتھ ہی 50 برس کی مدت میں جن جن محترم شخصیات نے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں ، اس تنظیم کی قیادت کی ہے ، اس ادارے کو مسلسل نئی بلندیوں پر لے جانے کا کام کیا ہے ،اس سے جڑے انسانی وسائل کے فروغ کی بھرپور کوشش کی ہے ۔اس کے نتیجے میں آج ہم جب یہ 50سالہ تقریب منارہے ہیں ،تو وہ تمام حضرات بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ، جنہوں نے گزشتہ 50 برس کے دوران اس ادارے کو آگے بڑھانے کی خدمات انجام دی ہیں ۔ان میں سے کچھ حضرات تو یہاں موجود بھی ہیں ، میں ان کی ستائش کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں ۔ ملک کے اس عظیم ترین ادارے کو اس قدر بلندیوں پر لے جانے لئے وہ واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بھائیو اور بہنو! آپ کی یہ کامیابی اس لئے اور اہم ہوجاتی ہے کہ جب پڑوس کا ملک دشمن ہو،لڑائی لڑنے کی اس کی اہلیت نہ ہو اور لڑائی لڑنے کی طرح طرح کی سازشوں کو وہاں سے پناہ ملتی ہو ،طاقت ملتی ہو ،دہشت گردی کا یہ گھناؤنا چہرہ الگ الگ طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے ، اس وقت ایسے مشکل بھرے چیلنج کے دوران ملک کی حفاظت ،ملک کے وسائل کی حفاظت اور سلامتی ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔ابھی کچھ دیر پہلے جب یہا ں پریڈ ہورہی تھی تو میں وہ توانائی اور اس عزم کا احساس کررہا تھا، جو آج تمام آسائشوں سے آراستہ اس عظیم ملک ہندوستان کی تعمیر کے لئے ضروری ہے ۔ پریڈ کے اس شاندار مظاہرے کے لئے میں پریڈ کمانڈر ،پریڈ میں شامل سبھی جوانوں اورافسران کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔آج یہاں متعددساتھیوں کو ان کی مثالی خدمات کے اعتراف میں میڈل سے بھی نوازا گیا ہے ،اس کے لئے آپ کو مبارکباد! علاوہ ازیں یوم جمہوریت کے موقع پر اعلان کئے جانے والے پولیس میڈل اور لائف سیور میڈل حاصل کرنے والوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں ۔ سی آئی ایس ایف میں شامل آپ سبھی لوگوں نے ملک اوراس کے اثاثوں کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔نئے ہندوستان کے نئے اور جدید نظاموں کو محفوظ کرنے کے لئے اور ملک کی امیدوںاور عزائم کو طاقتور بنانے کے لئے آپ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ سلامتی اور تحفظ کے متعدد نظام ہیں ۔ا ن کی تشکیل ، ان کا میکانزم اور اسٹرکچر ، انگریزوں کے زمانے سے ہمیں رواثت میں ملے ہیں تاہم وقتاََ فوقتا ََ ان میں تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں لیکن بہت کم ادارے ایسے ہیں جو ضرورت کے مطابق آزادی کے بعد وجود میں آئے تھے ۔ایک طرح سے وہ آزادہندوستان کی پیدائش ہیں ، آزاد ہندوستان کی سوچ کی پیدائش ہیں ، آزاد ہندوستان کے خوابوں کو پورا کرنے کے عمل کی پیدائش ہیں، ان میں سی آئی ایس ایف ایک بہت ہی اہم ادارہ ہے ۔ اس لئے اس کا قیام ،اس کی پروری ،اس کی ترقی اور اس کی توسیع ۔ یہ ساری باتیں رفتہ رفتہ ایک طرح سے پروگریسیو انفولڈ منٹ کی شکل میں جن جن لوگوں نے اس کی قیادت کی ہے،اسے آگے بڑھایا ہے ۔ یہ گولڈن جوبلی سال میں سب سے بڑے افتخار کی بات ہے ۔ ایسا ادارہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ ، کیبنیٹ میں بیٹھ کر ایک فائل کو منظور کردیں ،ایسا نہیں ہوتا ،50 سال تک ہزاروں لوگوں نے اس کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھ کر اسے فروغ دیا ہے تب جاکر ہی ایسا ادارہ بنتا ہے جو ملک کے لئے اعتماد اور بھروسے کی بہت بڑی طاقت بن جاتا ہے ،اس لئے آپ کو جتنی بھی مبارکباد دو ں کم ہے ۔ راجیش رنجن جی کہہ رہے تھے کہ ہمارے لئے یہ بات انتہائی خوشگوار اور حیرت ناک ہے کہ وزیر اعظم ہمارے پروگرام میں آئے ، لیکن میرا دل کہتا ہے کہ اگر میں اس پروگرام میں نہ آتا تو بہت کچھ سے محروم رہ جاتا ۔ 50سال کی ریاضت کم نہیں ہوتی ، بہت بڑی تپسیا ہوتی ہے اور ایک آدھ واقعہ یعنی 365 دن آنکھیں کھلی رکھ کر دماغ کو ہوشیاررکھتے ہوئے پیروںاورجسم کو بھی مسلسل آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے تک تیار رکھ کر سیکڑوں حادثات اور خطرناک سانحات سے ملک کو بچایا ہو اور اگر کوئی ایک آٓدھ واقعہ ایسا ہوجائے جو اس سارے کئے دھرے پر پانی پھیردے ۔ ایسے سخت دباؤ کے حالات میں آپ کو کام کرنا پڑتا ہے ۔ یہ آسان کام نہیں ہے ۔ میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کیونکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے ہمیں بھی حفاظتی خدمات فراہم کرائی جاتی ہیں۔ لیکن کسی بھی شخص کو حفاظتی خدمات فراہم کرانا بہت مشکل کام نہیں ہوتا ۔ایک شخص کی حفاظت کرنا اور اس کی حفاطت کا انتظام کرنا ،مشکل کام نہیں ہے لیکن ایک ادارے کی حفاظت کرنا ، جہاں 30 لاکھ لوگ آتے جاتے ہوں ، جہاں 8 لاکھ لوگ آتے جاتے ہوں ، جہاں ہر چہرہ نیا ہو ،ہر ایک کا طریقہ الگ ہو ، ان کےسامنے اس ادارے کی حفاظت کرنا شاید کتنے ہی بڑی اہم شخصیات کی حفاظت سے لاکھو ں گنا مشکل کام ہے ،جو آپ لوگ کررہے ہیں۔آپ اس ادارے کی دیواروںکو سنبھالتے ہیں ، ایسا نہیں کہ آپ اس کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں بلکہ آپ لوگ ہندوستان کے سفر ترقی کی حفاظت کررہے ہیں ۔ آپ ہندوستان کے سفر ترقی کو ایک نیا بھروسہ دے رہے ہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ آپ لوگوں کی سروس میں اگر کوئی سب سے بڑی دشوار گزار مصیبت ہے تو میرے جیسے لوگ ہیں ، میری برادری کے لوگ ہیں ، جو اپنے آپ کو بڑا شہنشا ہ مانتے ہیں ۔ بڑا وی آئی پی مانتے ہیں ، ہوائی اڈے پر اگر آپ کا جوان ان کو روک کر پوچھ لیتا ہے تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے ، غصہ کرنے لگتے ہیں۔آپ ہاتھ پیر جوڑ کر سمجھاتے ہیں کہ صاحب میں یہ میرا فرض ہے ۔ میری ڈیوٹی ہے ۔لیکن اس کا تو پتہ نہیں ۔ یہ وی آئی پی کلچر ہوتا ہے ۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ میں پارٹی کا کام کرتا تھا تو پورے ملک میں آنا جانا رہتا تھا ۔ ایک بار ہمارے سنیئر لیڈر بھی ہمارے ساتھ تھے ۔ ہمارے ملک میں کچھ ہوائی اڈے ایسے بھی ہیں جہاں سکیورٹی کی وجہ سے ڈبل چیک ہوتا ہے ۔ جیسے سری نگر ہے ۔ پہلے گواہاٹی ہوا کرتا تھا۔ آجکل ہے کہ نہیں ہے لیکن پہلے ہوا کرتا تھا یعنی ایسا ہوائی اڈہ جہاں سکیورٹی کی وجہ سے ڈبل چیک ہوا کرتے تھے۔میرے ساتھ جو میرے سینئیر نیتا تھے ، ان کا چہرہ بھی جانا پہچانا تھا لیکن جو جوان ائیر پورٹ پر کھڑا تھا وہ ان کو پہچان نہیں پایا ۔وہ ان کوروک کر اپنی ڈرل کے مطابق چیک کرتا رہا جیسے جیسے وہ چیک کرتا رہا ان کا پارہ گرم ہوتا رہا ۔اپنی سیٹ پربیٹھنے کے بعد بھی ان کا پارہ کم نہیں ہوپایا ۔ مجھ سے بھی بات نہیں کررہے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ان کی سائیکلوجی کیا ہے ۔ ہمیں جب اگلی جگہ جاناتھا تو میں نے کہا کہ آپ آگے نہ چلیں میرے پچھلے چلئے میں پہلے چیکنگ کرواتا ہوں ۔ میں گیا جہاں آپ کا جوان کھڑا تھا ۔ میں نے اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے کہا کہ چلو بھائی آرتی اتارو ۔ اس نے کہا کہ میں تو آپ کو جانتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ پہچانتے ہو تو کیا ہوا ۔ آرتی نہیں اتاروگے تو میں نہیں جاؤں گا۔ آپ لوگ جو یہ میٹل ڈٹیکٹر گھماتے ہو تو آپ آپنے دل میں کیا رکھتے ہو، جب چیکنگ ہورہی ہوتی ہے ۔ تو آپ یہ سوچیں کہ آرتی اتاررہے ہیں۔ فخر کیجئے ان حفاظت کرنے والے جوانوں کے ساتھ تعاون کیجئے ۔ یہ وی آئی پی کلچر سلامتی کے لئے کبھی سب سے بڑا بحران پیدا کردیتا ہے اور اسی لئے آج میں اس جگہ پر یہ کہنے کی ہمت کرتا ہوں کیونکہ میں خود ڈسپلن کو فالو کرنے والا انسان رہا ہوں ۔ لیکن میرا ڈسپلن کبھی میرے درمیان نہیں آتا ۔ یہ ہم سب شہریوں کا فرض ہوتا ہے ۔آج آپ ڈیڑھ لاکھ لوگ ہیں لیکن اگر 15 لاکھ بھی ہوجائیں لیکن جب شہر ی ڈسپلن میں نہیں رہتے ، آپ سے تعاون نہیں کرتے تو آپ کا کام اور مشکل ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اس گولڈن جوبلی ائیر میں ہم شہریوں کو کیسے تربیت دیں ، شہریوں کو اتنے بڑے نظام کے بارے میں کیسے سمجھائیں یہ بہت ضروری ہے اس لئے جب میں پڑیڈ کا معائنہ کررہا تھا ت میرے دل میں بھی کچھ خیالات آرہےتھے کہ آج آپ کے ساتھ کیا بات کروں گا تو مجھے خیال آیا کہ ائیر پورٹ پر ، میٹرو اسٹیشن پر ہم ایک ڈجیٹل میوزیم بنائیں جو اسکرین پر مسلسل چلتا رہے ،جس میں بتایا جائے کہ سی آئی ایس ایف کی پیدائش کیسے ہوئی ، اس کا فروغ اور توسیع کیسے ہوئی ، وہ کس طرح خدمت کررہا ہے ۔شہریوں سے اسے کیا امید ہے ۔ میٹرو میں جانے والے 30 لاکھ لوگ کبھی نہ کبھی تو دیکھیں گے ۔ ان کی سمجھ میں آئے گا کہ یہ 24 گھنٹے کام کرنے والے لوگ ہیں ۔ذرا ان کی عزت کیجئے ، ان کا احترام کیجئے ، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والے لوگ ہیں ، ان کو تربیت دینا بہت ضروری ہے ۔شہریوں کو جس قدر تربیت دی جائے گی،سلامتی دستوں کی طاقت اتنی ہی بڑھے گی۔اس کام میں، میں آپ کو پورا تعاون دیتا رہوں گا۔ سی آئی ایس ایف میں دیگر حفاظتی دستوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ یہ بیٹیا ں ملک کی طاقت کو ایک نئی شکل دے رہی ہیں ۔اسی لئے میں اس شعبے میں آنے کے لئے ان کو مبارکباددیتا ہوں ۔ ان کے ماں باپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔اس ماں کو مبارکباد دیتا ہوں جس نے بیٹی کو یونیفارم پہناکر ملک کے سفر ترقی کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ یہ بیٹیاں لاکھ لاکھ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ ساتھیو، حفاظت اور خدمت کے جس جذبے سے آپ آگے بڑھ رہے ہیں وہ بہت اہم ہے ۔ اس نئے ہندوستان کے لئے جو نیا انفراسٹرکچر تیار کیا جارہا ہے پورٹ بن رہے ہیں ائیر پورٹ بن رہے ہیں میٹرو کی توسیع ہورہی ہے بڑی بڑی صنعتیں قائم کی جارہی ہیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری آپ سبھی پر ہے ڈیڑھ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل یہ مضبوط طاقت آج اہالیان وطن کو ہندوستان کو اور دنیا بھر کے شہریوں کو محفوظ فضا دستیاب کرانے میں میں مصروف ہیں ۔ ساتھیو ! ائیر پورٹ اور میٹرو میں مکمل تحفظ کااحساس ہر شہری ہو ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی نیک نیتی اور لگن سے ہی ممکن ہے ۔ آپ کی مستعدی سے ، آپ عوام کے اعتبار سے ، ابھی تو ائیر پورٹ ہو یا پھر میٹرو سیوا ۔ اس کی زبردست توسیع ہورہی ہے ۔دونو ں میدانوں میں ہم دنیا میں اس طرح کی خدمت دینے والا سب سے بڑا ملک بننے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ساتھیو ! مجھے بھی متعدد بار میٹرومیں سفر کرنے کا موقع ملا ہے میں دیکھتا ہوں کہ آپ سب کتنی محنت کرتے ہیں کس طرح آپ کو پہروں مسلسل ہر شخص پر ہر سامان پر نظر جمائے رکھنی پڑتی ہے۔ عام شخص جو اس طرح میٹرو یا ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے ، اس ک آپ کی محنت دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اکثر کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ آپ کا کام بس اتنا ہے ۔ کوئی آیا اور اس کو چھوڑ دیا ، آپ کا کام بس اتنا ہے ۔ملک کو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سی آئی ایس ایف کا ہر محافظ جوان صرف چیکنگ کے کام سے نہیں جڑا ہے بلکہ حفاظت کے ہر پہلو بلکہ تمام انسانی احساسات کا شراکتدار ہے ۔ ساتھیو! قدرتی آفات کی صورت میں بھی آپ کی خدمات لائق ستائش رہی ہیں۔ پچھلے برس کیرل میں آنے والے بھیانک سیلاب میں آپ میں سے متعددساتھیو نے راحت کا قابل ذکر کام کیا ۔ بچاؤ کے کام میں دن رات ایک کرکے ہزاروں لوگوں کی زندگی بچانے میں مدد کی ۔ ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جب انسانیت پر مصیبت آئی ہے تب سی آئی ایس ایف نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی ہے ۔ نیپال اور ہیتی میں زلزلے کے بعد آپ کی خدمات کی ستائش بین الاقوامی سطح پر ہوئی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ سفر کے دوران کنبے سے بچھڑے لوگوں کو ،بچوںکو ، ان کے کنبے سے ملانے یا پھر ان کو صحیح جگہ تک پہنچانے کا کام آپ سبھی نیک نیتی کے ساتھ کررہے ہیں۔ اسی طرح بیٹیوں کو محفوظ فضا فراہم کرانے کے لئے بھی آپ کی کوششیں انتہائی لائق ستائش ہیں۔ انہی سب باتوں سے آپ کو ملک وقوم کا اتنا بڑا اعتماد حاصل ہوا ہے ۔ ساتھیو! آج کے اس موقع پر جب ہم اس اہم پڑاؤ پر پہنچے ہیں تو ہمیں اپنے ان ساتھیوں کو بھی یاد کرنا چاہئے جو اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے ملک کی حفاظت کے لئے عظیم ترین قربانیاں دی ہیں۔ ملک کی حفاظت کے لئے شہید ہوگئے ہیں۔دہشت گرد ی اورتشدد کو بڑھاوادینے والی طاقتوں سے اپنے ملک کو ، اپنی بیش قیمت وراثت کو ، اپنی املاک کو بچانے کے لئے عظیم ترین قربانیاں دی ہیں۔ سی آئی ایس ایف ہو سی آر پی ایف سمیت دوسرے مسلح دستے ہوں ،آپ کی نیک نیتی اور لگن اور آپ کی قربانی سے ہی آج ہم نئے بھارت کا سپنا دیکھ پارہے ہیں اب تک پولیس فورس کے 4000 سے زائد شہیدوں سمیت پولیس کے 35000سے زائد ساتھیوں نے اپنی عظیم قربانیاں دی ہیں میں ان سبھی شہیدوںکو گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں۔ لیکن میں حفاظتی دستوں سے وابستہ ان لوگوں سے کہنا چاہوں گا کہ میں دل سے اور جذباتی طور سے محسوس کرتا ہوں کہ خاکی وردی میں ملبوس جو یہ لوگ ہیں ، ان کی محنت کو ملک میں جتنی عزت واحترام ملنا چاہئے وہ ان کو نہیں ملا ہے ۔عام لوگوں نے ان کی خدمات کا اتنا اعتراف نہیں کیا ہے جس کے وہ مستحق رہے ہیں ۔اسلئے آزادی کے بعد پہلی بار لال قلعہ پر ایسا وزیر اعظم آیا جس نے 35000 سے زائد شہید پولیس جوانوںکی شہادت کی وکالت کی ۔ میں نے یہ اس لئے کیا کہ عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا ، ان کے دل میں تو ، کانسٹیبل نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ،اسی کی بنیاد پر پورے نظام کی قدروقیمت کا تعین کیا جاتاہے ۔ ہم جتنا افتخابر بڑھائیں گے ، اپنےحفاظتی دستوں کا جتنا وقار بڑھائیں گے ، جتنا ان کا اقبال بلند کریں گے ، یہ ملک کے لئے بہت ضروری ہے اور اسی کا ایک ہے حصہ یہ پولیس میموریل ۔میں چاہتا ہوں کہ اسکول کے ہربچے کو کبھی نہ کبھی وہاں جانا چاہئے تاکہ وہ یہ تو دیکھ سکے کہ ہمارے لئے مرنے والے لوگ کون ہیں ۔ ہمیں اسی سلسلے میں مسلسل کوششیں کرنی ہیں ، ان کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ جب میں یہاں کھلی جیپ سے جارہا تھا ، مجھے تین نسلوں کے درشن کرنے کا موقع ملا ۔ یہاں آپ کے کنبوں کی تین تین نسلیں موجود ہیں ۔ بزرگ بھی ہیں اور محنت کش بزرگ بھی موجودہیں۔ آج اس موقع پر یہاں موجود ہیں کچھ پرانے ریٹائرڈ لوگ بھی ، مجھے ان کے بھی درشن کرنے کا موقع ملا ۔ میں سبھی کنبے والوں کو بصد احترام سلام کرتا ہوں کیونکہ ان کنبوں کی قربانی اور ایثار ، ڈیوٹی پر لگے لوگوں کو کام کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ ساتھیو ! گرمی ہو سردی ہو برسات ہو آپ اپنے مورچے پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ملک کے لئے ہولی دیپا ولی اور عید ہوتی ہے تمام تہوار ہوتے ہیں لیکن آپ سبھی کے لئے آپ کی ڈیوٹی ہی تہوار بن جاتی ہے ہمارے مسلح دستوں کے جوانوں کا کنبہ بھی تودوسروں کی طرح ہوتا ہے اس کے بھی خواب ہیں اس کے عزائم ہیں اس کی تشاویش ہیں خدشات ہوتے ہیں لیکن ملک کی حفاظت کا جذبہ دل میں آجاتا ہے تو وہ ہر مشکل پر جیت حاصل کرلیتا ہے ۔ جب کسی معصوم کے ذریعہ ترنگے میں لپٹے اپنے باپ کو سلامی دینے کی تصویریں سامنے آتی ہیں ، جب کوئی بہادر بیٹی اپنے ساتھے کے جانے کے دکھ کے آنسووں کو پی کر ! ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,চিআইএছএফৰ ৫০সংখ্যক প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উদযাপন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D9%86%DA%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF-%D9%88%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%AD/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%A8%E0%A6%97%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%B6/,گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب بھوپندر یادو جی، جناب اشونی چوبے جی، ریاستوں سے تشریف لائے تمام معزز وزراء، مرکزی اور ریاستی حکومت کے تمام اہلکار، دیگر معززین، خواتین و حضرات! آپ سبھی کا اس قومی کانفرنس میں اور خاص کر ایکتا نگر میں استقبال ہے، خیر مقدم ہے۔ ایکتا نگر میں یہ قومی کانفرنس اپنے آپ میں، میں اہم ما نتا ہوں۔ اگر ہم جنگل کی بات کریں، ہماری آدیواسی بھائی بہنوں کی بات کریں، ہم وائلڈ لائف کی بات کریں، ہم آبی تحفظ کی بات کریں، ہم ٹورزم کی بات کریں، ہم قدرت اور ماحولیات اور ترقی، اس طرح سے ایکتا نگر اس کا جو ہولسٹک ڈیولپمنٹ ہوا ہے، وہ اپنے آپ میں یہ پیغام دیتا ہے، اعتماد پیدا کرتا ہے کہ جنگل اور ماحولیات کے شعبے کے لیے آج ایکتا نگر ایک تیرتھ علاقہ بن گیا ہے۔ آپ بھی اسی علاقے سے جڑے ہوئے وزیر اور افسر آئے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ایکتا نگر میں جتنا بھی وقت آپ گزاریں، ان باریکیوں کو ضرور آبزرو کریں، جس میں ماحولیات کے تئیں، ہمارے آدیواسی سماج کے تئیں، ہمارے وائلڈ لائف کے تئیں کتنی حساسیت کے ساتھ کام کیا گیا ہے، تعمیراتی کام ہوا ہے اور مستقبل میں ملک کے متعدد کونے میں جنگل و ماحولیات کا تحفظ کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر تیز رفتار سے آگے بڑھ سکتے ہیں، اس کا بہت کچھ دیکھنے سمجھنے کو یہاں ملے گا۔ ساتھیوں، ہم ایک ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب بھارت اگلے 25 برسوں کے امرت کال کے لیے نئے ہدف طے کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے، آپ کی کوششوں سے ماحولیات کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی اور بھارت کی ترقی بھی اتنی ہی رفتار سے ہوگی۔ ساتھیوں، آج کا نیا بھارت، نئی سوچ، نئے اپروچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج بھارت تیزی سے ترقی کرتی معیشت بھی ہے، اور مسلسل اپنی ایکولوجی کو بھی مضبوط کر رہا ہے۔ ہمارے فاریسٹ کور میں اضافہ ہوا ہے اور ویٹ لینڈز کا دائرہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے دنیا کو دکھایا ہے کہ قابل تجدید توانائی کے معاملے میں ہماری اسپیڈ اور ہمارا اسکیل شاید ہی کوئی اس کو میچ کر سکتا ہے۔ انٹرنیشنل سولر الائنس ہو، کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلئنٹ انفراسٹرکچر ہو، یا پھر لائف موومنٹ، بڑی چنوتیوں سے نمٹنے کے لیے بھارت آج دنیا کو قیادت فراہم کر رہا ہے۔ اپنے کمٹمنٹ کو پورا کرنے کے ہمارے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے ہی دنیا آج بھارت کے ساتھ جڑ بھی رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں شیروں، باگھوں، ہاتھیوں، ایک سینگ کے گینڈوں اور تیندوؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جیسے ابھی بھوپندر بھائی بتا رہے تھے، کچھ دن پہلے مدھیہ پردیش میں چیتا کی گھر واپسی سے ایک نیا جوش لوٹا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کی رگوں میں، جانداروں کے تئیں رحم اور قدرت سے محبت کے آداب کیسے ہیں، وہ چیتا کے استقبال میں ملک جس طرح سے جھوم اٹھا تھا۔ ہندوستان کے ہر کونے میں ایسا لگ رہا تھا، جیسا ان کے اپنے گھر میں کوئی عزیز مہمان آیا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی ایک طاقت ہے۔ قدرت کے ساتھ توازن قائم کرنے کی جو یہ کوشش ہے اسے ہم لگاتار جاری رکھیں۔ آنے والی نسلوں کو بھی اخلاقیات کا درس دیتے رہیں۔ اسی عزم کے ساتھ بھارت نے 2070 یعنی ابھی ہمارے پاس تقریباً 5 دہائیاں ہیں، نیٹ زیرو کا ٹارگٹ رکھا ہے۔ اب ملک کا فوکس گرین گروتھ پر ہے اور جب گرین گروتھ کی بات کرتے ہیں، تو گرین جابس کے لیے بھی بہت سے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان سبھی اہداف کے حصول کے لیے، ہر ریاست کی وزارت ماحولیات کا رول بہت بڑا ہے۔ ساتھیوں، وزارت ماحولیات، چاہے جس کسی ریاست میں ہو یا مرکز میں ہو، ان کی ذمہ داریوں کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ اسے محدود دائرے میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ہمارے نظام میں ایک سوچ یہ حاوی ہوتی چلی گئی کہ وزارت ماحولیات کا رول، ریگولیٹر کے طور پر زیادہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں، وزارت ماحولیات کا کام، ریگولیٹر سے بھی زیادہ، ماحولیات کو ترغیب دینے کا ہے۔ ہر وہ کام، جس سے ماحولیات کی حفاظت ہو رہی ہو، اس میں آپ کی وزارت کا رول بہت بڑا ہے۔ اب جیسے سرکولر اکنامی کا موضوع ہے۔ سرکولر اکنامی ہماری روایت کا حصہ رہی ہے۔ بھارت کے لوگوں کو سرکولر اکنامی سکھانی پڑے، ایسا نہیں ہے۔ ہم کبھی قدرت کا استحصال کرنے والے نہیں رہے، ہمیشہ قدرت کو تقویت پہنچاتے رہے ہیں۔ ہم جب چھوٹے تھے تب ہم کو بتایا جاتا تھا کہ مہاتما گاندھی جب پچھلی صدی کے شروع میں سابرمتی آشرم ��یں رہتے تھے اور اس زمانے میں تو سابرمتی ندی لبالب بھری رہتی تھی، بھرپور پانی رہتا تھا۔ اس کے باوجود بھی، اگر کسی کو گاندھی جی نے دیکھ لیا کہ پانی کو برباد کر رہا ہے تو گاندھی جی اسے ٹوکے بنا رہتے نہیں تھے۔ اتنا پانی سامنے ہوتا تھا پھر بھی پانی برباد نہیں ہونے دیتے تھے۔ آج کتنے ہی گھروں میں آپ میں سے شاید ہر کسی کو پتہ ہوگا، ہر ایک کے گھر میں ہوگا، کئی گھر ایسے ہیں کپڑے ہوں، اخبار ہوں اور بھی چھوٹی موٹی چیزیں ہوں، ہر چیز کو ہمارے یہاں ری یوز کیا جاتا ہے، ری سائیکل کیا جاتا ہے اور جب تک وہ پوری طرح ختم نہ ہو جائے تب تک ہم استعمال کرتے رہتے ہیں، اپنی فیملی کی وہ تہذیب ہے۔ اور یہ کوئی کنجوسی نہیں ہے، یہ قدرت کے تئیں بیداری ہے، حساسیت ہے۔ یہ کوئی کنجوسی کے سبب لوگ ایک ہی چیز دس بار استعمال کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ سبھی ہمارے جو وزرائے ماحولیات آج آئے ہیں، میں ان سے گزارش کروں گا کہ آپ بھی اپنی ریاستوں میں سرکولر اکنامی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔ اگر اسکول میں بھی بچوں کو کہا جائے کہ بھائی آپ اپنے گھر میں سرکولر اکنامی کے نظریہ سے کیا ہو رہا ہے، ذرا ڈھونڈ کے لے آؤ، ہر بچہ ڈھونڈ کے لے آئے گا۔ شعور آئے گا کس کو سرکولر اکنامی کہتے ہیں اور اس سے ٹھوس کچرے کے انتظام اور سنگل یوز پلاسٹک سے آزادی کی ہماری مہم کو بھی طاقت ملے گی۔ اس کے لیے ہمیں پنچایتوں، مقامی اداروں، سیلف ہیلپ گروپس وہاں سے لے کر ایم ایس ایم ای تک کو آمادہ کرنا چاہیے۔ ان کو سمت دینی چاہیے، ان کو گائڈ لائن دینی چاہیے۔ ساتھیوں، سرکولر اکنامی کو رفتار دینے کے لیے اب پچھلے سال ہماری سرکار نے، اپنی بھارت سرکار نے ویہکل اسکریپنگ پالیسی بھی لاگو کی ہے۔ اب کیا ریاستوں میں یہ ویہکل اسکریپنگ پالیسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی روڈ میپ بنا کیا۔ اس کے لیے جو پرائیویٹ پارٹیوں کا انویسٹمنٹ چاہیے، ان کو زمین چاہیے تاکہ اسکریپنگ کو نافذ کرنے میں کام آئے۔ اسی طرح سے جیسے میں نے حکومت ہند کو اطلاع دی کہ اسکریپنگ پالیسی کو ہمیں بہت رفتار عطا کرنی ہے تو ہمیں پہلے حکومت ہند کے جتنے ویہکل ہیں، جو اپنی عمر پار کر چکے ہیں، جو کلومیٹر پار کر چکے ہیں، ان کو اسکریپنگ میں سب سے پہلے لاؤ تاکہ صنعت چالو ہو جائے۔ کیا ریاستوں میں بھی وزارت ماحولیات اپنی ریاست کو سینسی ٹائز کریں کہ بھائی آپ کی ریاست میں جتنے بھی ویہکل ہوں گے، اس کو اسکریپنگ پالیسی میں سب سے پہلے ہم شروع کر لیں۔ اسکریپنگ کرنے والوں کو بلا لیں اور پھر اس کے سبب نئی گاڑیاں بھی آئیں گی۔ ایندھن بھی بچے گا، ایک طرح سے ہم بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں، لیکن پالیسی اگر حکومت ہند نے بنائی، پڑی رہی ہے تو نتیجہ نہیں آئے گا۔ دیکھئے، تمام وزارت ماحولیات کو ملک کی بائیو فیول پالیسی پر بھی تیز رفتار سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھئے، بائیو فیول میں ہم کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر ریاستوں کا بھی یہ پروگرام بن جائے، ریاست طے کرے کہ ہماری ریاست کے جتنے ویہکل ہیں، اس میں ہم سب سے زیادہ بائیو فیول بلینڈنگ کرکے ہی ویہکل چلائیں گے۔ ملک میں کمپٹیشن کا ماحول بنے گا۔ دیکھئے، وزارت ماحولیات کو اس پالیسی کو اپنانا ہوگا، اسے گراؤنڈ پر مضبوطی سے لے جانا ہوگا۔ آج کل ملک ایتھنال بلینڈنگ میں نئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ اگر ریاستیں بھی اس کے ساتھ جڑ جائیں تو ہم کتنی تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ میرا تو مشورہ یہ بھی ہوگا کہ ہم ایتھنال کی پیداوار اور ایتھنال بلینڈنگ ریاستوں کے درمیان میں مقابلہ آرائی ہو۔ سال میں ایک بار ان کو سرٹیفائیڈ کیا جائے کہ کون ریاست… اور اسی دوران ہمارے کسانوں کو بہت مدد ملے گی۔ کھیت کا جو ویسٹ ہے وہ بھی انکم دینا شروع کر دے گا۔ ہمیں اس صحت مند مقابلہ آرائی کو فروغ دینا ہے۔ یہ تندرست مقابلہ آرائی ریاستوں کے درمیان، شہروں کے درمیان ہوتی رہنی چاہیے۔ دیکھئے گا، اس سے ماحولیات کےت حفظ کے ہمارے عزم کو عوامی حصہ داری کی طاقت مل جائے گی اور جو چیز آج ہمیں رکاوٹ لگتی ہے وہ ہمارے لیے نئے افق کو پار کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن جائے گا۔ اب دیکھئے، ہم سب نے تجربہ کیا ہے کہ ایل ای ڈی بلب بجلی بچاتا ہے۔ کاربن ایمیشن بچاتا ہے، پیسے بچاتا ہے۔ کیا ہماری وزارت ماحولیات، ہماری ریاست کی بجلی کی وزارت، ہماری ریاست کی وزارت شہری امور لگاتار بیٹھ کرکے مانیٹر کرے کہ بھائی ایل ای ڈی بلب ہر اسٹریٹ لائٹ پر لگا ہے کہ نہیں لگا ہے، ہر سرکاری دفتروں میں ایل ای ڈی بلب لگا ہے کہ نہیں لگا ہے۔ ایل ای ڈی کا ایک جو سارا موومنٹ چلا ہے جو اتنی بچت کرتا ہے، پیسے بچاتا ہے، ماحولیات کی بھی خدمت کرتا ہے۔ آپ اس کو لیڈ کر سکتے ہیں۔ آپ کا ڈپارٹمنٹ لیڈ کر سکتا ہے۔ اسی طرح سے ہمیں ہمارے وسائل کو بھی بچانا ہے۔ اب پانی ہے، ہر کوئی کہتا ہے کہ پانی کو بچانا ایک بہت بڑا کام ہے۔ ابھی جو ہم نے آزادی کا امرت مہوتسو میں 75 امرت سروور بنانے کے لیے کہا ہے، کیا وزارت ماحولیات محکمہ جنگلات اس کو لیڈ کر رہا ہے کیا۔ آبی تحفظ کو تقویت دے رہا ہے کیا۔ اسی طرح سے وزارت ماحولیات اور وزارت زراعت مل کر کے وہ ڈرپ اِرّی گیشن ٹپک سینچائی مائکرو اِرّی گیشن اُس پر زور دے رہا ہے کیا۔ یعنی وزارت ماحولیات ایسی ہے کہ جو ہر وزارت کو سمت دے سکتی ہے، رفتار دے سکتی ہے، حوصلہ دے سکتی ہے اور نتائج لے سکتی ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی جن ریاستوں میں پانی کی بہتات تھی، گراؤنڈ واٹر اوپر رہتا تھا وہاں آج پانی کے لیے بہت بڑی جنگ کرنی پڑ رہی ہے۔ پانی کی قلت ہے، 1200-1000 فٹ نیچے جانا پڑ رہا ہے۔ ساتھیوں، یہ چنوتی صرف پانی سے جڑے محکموں کی نہیں ہے بلکہ ماحولیات کو بھی اسے اتنی ہی بڑی چنوتی سمجھنا چاہیے۔ آج کل آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے ہر ضلع میں جیسا میں نے آپ کو کہا امرت سروور کی مہم چل رہی ہے، اب امرت سروور واٹر سیکورٹی کے ساتھ ہی انوائرمنٹ سیکورٹی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح سے اِن دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے کسانوں میں کیمیکل فری کھیتی، نیچرل فارمنگ اب یوں تو لگتا ہے کہ ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ کا ہے لیکن اگر ہماری وزارت ماحولیات جڑ جائے تو اس کو ایک نئی طاقت مل جائے گی۔ قدرتی کھیتی، یہ بھی ماحولیات کی حفاظت کا کام کرتی ہے۔ یہ ہماری دھرتی ماتا کی حفاظت کرنا، یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بدلتے ہوئے وقت میں وزارت ماحولیات کے ذریعے شرکت اور انٹیگریٹیڈ اپروچ لے کر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ جب وزارت ماحولیات کا سوچنے کا نظریہ بدلے گا، اہداف طے ہوں گے، راہ متعین ہو جائے گی، مجھے پورا یقین ہے ساتھیوں، قدرت کا بھی اتنا ہی بھلا ہوگا۔ ساتھیوں، ماحولیات کی حفاظت کا ایک اور پہلو، عوامی بیداری، عوامی حصہ داری، عوامی حمایت، یہ بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی صرف محکمہ اطلاعات یا محکمہ تعلیم کا کام نہیں ہے۔ جیسے آپ سبھی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک میں جو ہماری نئی قومی تعلیمی پالیسی اب واقعی میں آپ کے لیے بھی مفید ہے اور آپ کے ڈپارٹمنٹ کے لیے بھی، اس میں ایک موضوع ہے ایکسپرئینسڈ بیسڈ لرننگ پر، اس پر زور دیا گیا ہے۔ اب یہ ایکسپرئینسڈ بیسڈ لرننگ کیا وزارت ماحولیات نے محکمہ تعلیم کے ساتھ بات کی کہ بھائی آپ اسکول میں بچوں کو پیڑ پودوں کے بارے میں ذرا پڑھانا ہے تو ان کو ذرا باغوںمیں لے جائیے۔ گاؤں کے باہر جو پیڑ پودے ہیں، وہاں لے جائیے، پیڑ پودوں سے متعارف کروائیے۔ اب یہ وزارت تعلیم اور وزارت ماحولیات مل کر کام کریں۔ تو اُن بچوں میں ماحولیات کے تئیں فطری بیداری آئے گی اور اس سے بچوں میں جانداروں کے تنوع کے تئیں زیادہ بیداری آئے گی اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے ان کے دل و دماغ میں وہ ایسے بیج بو سکتے ہیں جو آنے والے وقت میں ماحولیات کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑے سپاہی بن جائیں گے۔ اسی طرح اب جو بچے ہمارے سمندری ساحل پر ہیں، یا ندی کے کنارے ہیں، وہاں بچوں کو یہ پانی کی اہمیت، سمندر کا ایکو سسٹم کیا ہوتا ہے، ندی کا ایکو سسٹم کیا ہوتا ہے، وہاں لے جا کر ان کو سکھایا جائے۔ مچھلی کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ مچھلی بھی کس طرح سے ماحولیات کی حفاظت کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ ساری باتیں ان بچوں کو لے کرکے ان کو سمجھائیں گے، کام تو محکمہ تعلیم کا ہوگا، لیکن محکمہ ماحولیات کے لوگ آپ دیکھئے پوری نئی نسل تیار ہو جائے گی۔ ہم نے اپنے بچوں کو آنے والی نسلوں کو ماحولیات کے تئیں بیدار بھی کرنا ہے، انہیں حساس بھی بنانا ہے۔ ریاستوں کی وزارت ماحولیات کو اس سے جڑی مہم شروع کرنی چاہیے۔ منصوبے بنانے ہوں گے۔ اب جیسے کسی اسکول میں پھل کا ایک درخت ہے، تو بچے اس کی بائیو گرافی لکھ سکتے ہیں، درخت کی زندگی کے بارے میں لکھیں۔ کسی ادویاتی پودے کی خوبیوں کے بارے میں بھی بچوں سے مضمون لکھوایا جا سکتا ہے، بچوں میں مقابلے کروائے جا سکتے ہیں۔ ہماری ریاستوں کی یونیورسٹیز اور لیباریٹریز کو بھی جے انوسندھان کے منتر پر چلتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ سے جڑے انوویشن کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ ماحولیات کے تحفظ میں ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال بھی زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے۔ جیسے جو جنگلاتی مقام ہیں، جنگل ہیں، ان میں جنگلوں کی حالت کا مسلسل مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ہم اسپیس ٹیکنالوجی سے لگاتار اپنے جنگلوں کی مانیٹرنگ کر سکتے ہیں۔ تبدیلی آئی تو فوراً مارک کر سکتے ہیں، اصلاح کر سکتے ہیں۔ ساتھیوں، ماحولیات سے جڑا ایک اور اہم موضوع ہے، فاریسٹ فائر کا بھی۔ جنگلوں میں آگ بڑھ رہی ہے اور بھارت جیسے ملک کے لیے اگر ایک بار آگ پھیل گئی تو ہمارے پاس اتنے وسائل بھی کہاں ہیں کہ ہم جدید ٹیکنالوجی سے آگ بجھا پائیں گے۔ دنیا کے خوشحال ممالک کو آپ نے دیکھا ہوگا ٹی وی پر، چاہے مغربی امریکہ، کناڈا، آسٹریلیا ہو، پچھلے دنوں یہاں جو فاریسٹ فائر ہوا، جو جنگلوں میں آ گ لگی۔ کتنی تباہی ہوئی، جنگلی جانوروں کی بے بسی، یہاں تک کہ عوامی زندگی کو بھی متاثر کر دیا۔ اس کی راکھ کی وجہ سے میلوں تک لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا۔ وائلڈ فائر کی وجہ سے گلوبل ایمیشن میں بھارت کی حصہ داری بہت کم ہے جی، صفر ہو لیکن پھر بھی ہمیں ابھی سے بیدار ہونا ہوگا۔ ابھی سے ہمارا منصوبہ ہونا چاہیے۔ ہر ریاست میں فاریسٹ فائر فائٹنگ میکانزم مضبوط ہو، وہ ٹیکنالوجی ڈریون ہو، یہ بہت ضروری ہے۔ اسی طرح سے ہم سب کو معلوم ہے کہ آخر آگ لگنے کی وجہ کیا ہوتی ہے، جو سوکھے پتے جنگلوں میں پڑتے ہیں، ان کا ڈھیر ہوتا ہے اور ایک دو چھوٹی سی غلطی دیکھتے ہی دیکھتے پورے جنگل کو آگ پکڑ لیتی ہے۔ لیکن اب یہ جنگلوں میں جو ویسٹ پڑتا ہ�� نا، پتیاں پڑتی ہیں، گھر کے اندر جب سارا جنگل زمین پر سب پتیاں نظر آتی ہیں، آج کل اس کا بھی سرکولر اکنامی میں استعمال ہوتا ہے۔ آج کل اس میں سے کھاد بھی بنتا ہے۔ آج کل اس میں سے کوئلہ بنایا جاتا ہے۔ مشین ہوتے ہیں چھوٹے چھوٹے مشین لگا کر کے اس میں سے کوئلہ بنایا جا سکتا ہے، وہ کوئلہ کارخانوں میں کام آ سکتا ہے۔ مطلب ہمارا جنگل بھی بچ سکتا ہے اور ہماری توانائی بھی بچ سکتی ہے۔ کہنے کا میرا مطلب ہے کہ ہمیں اس میں بھی فاریسٹ فائر کے لیے ہماری بیداری، وہاں کے لوگوں کے لیے بھی انکم کا ذریعہ، جو لوگ جنگل میں رہتے ہیں جیسے ہمارا وَن دھن پر بڑا زور ہے، اسی طرح سے اس کو بھی ایک دھن (دولت) مان کر کے ہینڈل کیا جائے۔ تو ہم جنگلوں کی آگ کو بچا سکتے ہیں۔ ہمارے فاریسٹ گارڈ کو بھی اب نئے سرے سے ٹریننگ دینے کی بہت ضرورت ہے جی۔ ہیومن رسورس ڈیولپمنٹ کے نئے پہلوؤں کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ پرانے زمانے کے جو بیٹ گارڈ ہوتے ہیں، اتنے سے بات بننے والی نہیں ہے۔ ساتھیوں، میں آپ سبھی سے ایک اور اہم نکتے کی بھی چرچہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جدید انفراسٹرکچر کے بغیر، ملک کی ترقی، ملک کے شہریوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ انوائرمنٹ کلیئرنس کے نام پر ملک میں جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کو کیسے اُلجھایا جاتا تھا۔ آپ جس جگہ پر بیٹھے ہیں نا یہ ایکتا نگر میں، یہ ہماری آنکھیں کھولنے والی مثال ہے۔ کیسے اربن نکسلیوں نے ، ترقی کے مخالفین نے ، اس اتنے بڑے پروجیکٹ کو، سردار سروور ڈیم کو روک کے رکھا تھا۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی ساتھیوں، یہ جو سردار سروور ڈیم ایکتا نگر میں آپ بیٹھے ہیں نا، اتنا بڑا آبی ذخیرہ دیکھا ہوگا آپ نے، اس کا سنگ بنیاد ملک آزاد ہونے کے فوراً بعد رکھا گیا تھا، سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بہت بڑا رول نبھایا تھا۔ پنڈت نہرو نے سنگ بنیاد رکھا تھا، لیکن سارے اربن نکسل میدان میں آ گئے، دنیا کے لوگ آ گئے۔ کافی پرچار کیا ایسا یہ ماحولیات مخالف ہے، یہ ہی مہم چلائی اور بار بار اس کو روکا گیا۔ جو کام کی شروعات نہرو جی نے کی تھی، وہ کام پورا ہوا میرے آنے کے بعد۔ بتائیے، کتنا ملک کا پیسہ برباد ہو گیا۔ اور آج وہی ایکتا نگر ماحولیات کا تیرتھ علاقہ بن گیا۔ مطلب کتنا جھوٹ چلایا تھا، اور یہ اربن نکسل، آج بھی خاموش نہیں ہیں، آج بھی ان کے کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان کے جھوٹ پکڑے گئے، وہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کو اب سیاسی حمایت مل جاتی ہے کچھ لوگوں کی۔ ساتھیوں، بھارت کی ترقی کو روکنے کے لیے کئی گلوبل انسٹی ٹیوشن بھی، کئی فاؤنڈیشنز بھی ایسے بڑے پسند آنے والے موضوع پکڑ کرکے طوفان کھڑا کر دیتے ہیں اور یہ ہمارے اربن نکسل اس کو ماتھے پر لے کر کے ناچتے رہتے ہیں اور ہمارے یہاں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی کمپرومائز نہ کرتے ہوئے بھی متوازن طور پر غور و فکر کرکے ہمیں ایسے لوگوں کی سازشوں کو جو ورلڈ بینک تک کو متاثر کر دیتے ہیں بڑی سے بڑی عدلیہ کو بھی متاثر کر دیتے ہیں۔ اتنا آپ پرچار کر دیتے ہیں، چیزیں اٹک جاتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ان تمام موضوعات پر ایک ہولسٹک اپروچ اپنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ ساتھیوں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ بے وجہ ماحولیات کا نام لے کر ایز آف لیونگ اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کریں۔ کیسے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، میں مثال پیش کرتا ہوں۔ گجرات میں پانی کا بحران ہمیشہ رہتا ہے، دس سال میں سا ت سال قحط کے دن رہتے تھے۔ تو ہم نے چیک ڈیم کی بڑی مہم چلائی۔ ہم چاہتے تھے کہ فاریسٹ میں بھی پانی کا انتظام ہو، تو ہم فاریسٹ میں پانی کی جو ڈھلان ہوتی ہے، اس پر جو چھوٹے چھوٹے یعنی ڈائننگ ٹیبل جتنے چھوٹے چھوٹے تالاب بنانا، بہت چھوٹے تالاب، 10 فٹ لمبے ہوں، 3 فٹ چوڑے ہوں، 2 فٹ گہرے ہوں۔ اور اس کے پورے لیئر بناتے جانا۔ ایسا ہم نے سوچا۔ آپ حیران ہوں گے، فاریسٹ منسٹری نے منع کر دیا۔ ارے میں نے کہا بھائی یہ پانی ہوگا، تبھی تو تمہارا فاریسٹ بچے گا۔ آخرکار میں نے ان کو کہا اچھا فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کو ہی پیسے دیتا ہوں، آپ چیک ڈیم بنائیے، پانی بچائیے اور جنگلوں کو طاقت دیجئے۔ تب جا کرکے بڑی مشکل سے میں وہ کام کر پایا تھا۔ مطلب ہم انوائرمنٹ کے نام پر فاریسٹ پر بھی اگر پانی کا انتظام نہیں کریں گے تو کام کیسے چلے گا۔ ساتھیوں، ہمیں یاد رکھنا ہے کہ جتنی تیزی سے انوائرمنٹ کلیئرنس ملے گی، اتنی ہی تیز ترقی بھی ہوگی۔ اور کمپرومائز کیے بغیر یہ ہو سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے، آپ تمام ریاستوں کے لوگ بیٹھے ہیں، آج کی تاریخ میں انوائمرمینٹل کلیئرنس کے 6 ہزار سے زیادہ کام آپ کی وزارتوں میں پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح فاریسٹ کلیئرنس کی بھی قریب قریب 6500 پروجیکٹ ان کی ایپلی کیشن آپ کی میزوں پر لٹکی پڑی ہے۔ کیا ساتھیوں آج کے جدید دور میں، اچھا وہ بھی تین مہینے کے بعد کلیئرنس ملے گا، تو وجہ کچھ اور ہے۔ ہمیں بالکل کوئی پیرامیٹر طے کرنا چاہیے، غیر جانبدار ہو کر کرنا چاہیے اور ماحولیات کی حفاظت کرتے ہوئے کلیئرنس دینے میں تیزی لانی چاہیے۔ ہمیں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں پینڈنسی کی وجہ سے ہمارے پروجیکٹ سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ خرچ بھی بڑھ جاتا ہے، مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ پینڈنسی کم سے کم ہو اور جینوئن کیس میں ہی پینڈنسی ہو، تیزی سے کلیئرنس ملے، اسے لے کر ہمیں ایک ورک انوائرمنٹ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ جو انوائرمنٹ کی حفاظت کی ہم بات کرتے ہیں نا، ورک انوائرمنٹ بھی بدلنا پڑے گا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جس پروجیکٹ کو لمبے عرصے سے انوائرمینٹل کلیئرنس نہیں مل رہی ہے، فاریسٹ کلیئرنس نہیں مل رہی ہے، تو میں نے دیکھا ہے کہ ریاستی حکومتیں مجھے چٹھیاں لکھتی ہیں، کبھی بھارت سرکار کے ڈپارٹمنٹ مجھے چٹھیاں لکھتے ہیں کہ فلاں ریاست میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی ریاست والا کہتا ہے بھارت سرکار میں اٹکا ہوا ہے۔ میں ایسے پروجیکٹ کو رفتار کے اندر لاتا ہوں اور میں حیران ہوں جیسے ہی وہ رفتار میں آ جاتا ہے فوراً ہی ریاستوں میں بھی، مرکز میں بھی کلیئرنس شروع ہو جاتا ہے۔ مطلب انوائرمنٹ کا ایشو ہو تو کلیئرنس نہیں ہوتا۔ تو کوئی نہ کوئی ایسی باتیں ہیں، ڈھیلاپن ہے، ورک کلچر ایسا ہے جس کی وجہ سے ہماری یہ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ اور اس لیے میں آپ سے اپیل کروں گا کہ ہم سب نے مل کر کے چاہے مرکز ہو یا ریاست ہو یا مقامی انتظامیہ ہو، یہ ڈپارٹمنٹ ہو، وہ ڈپارٹمنٹ ہو، مل کر کام کریں گے تو ایسی کوئی رکاوٹیں نہیں آئیں گی۔ اب آپ دیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ پریویش پورٹل آپ سب نے دیکھا ہوگا، پریویش پورٹل ماحولیات سے جڑے سبھی طرح کے کلیئرنس کے لیے سنگل ونڈو ذریعہ بنا ہے۔ یہ شفاف بھی ہے اور اس سے منظوری کے لیے ہونے والی بھاگ دوڑ بھی کم ہو رہی ہے۔ 8 سال پہلے تک انوائرمینٹل کلیئرنس میں جہاں 600 سے زیادہ دن لگ جاتے تھے، یاد ر��ھو دوستوں، پہلے 600 دن سے زیادہ وقت لگ جاتا تھا کلیئرنس میں۔ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے اس سے زیادہ اچھے طریقے سے سائنسی طریقے سے کام ہوتا ہے اور صرف 75 دن کے اندر کام پورا ہو جاتا ہے۔ ماحولیات سے متعلق منظوری دینے میں ہم ضابطوں کا بھی دھیان رکھتے ہیں اور اس علاقے کے لوگوں کی ترقی کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی یہ اکنامی اور ایکولوجی دونوں کے لیے وِن وِن سیچوئیشن ہوتی ہے۔ آپ کو میں ایک اور مثال دیتا ہوں۔ ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی مرکزی حکومت نے دہلی میں پرگتی میدان ٹنل کو ملک کو وقف کیا ہے۔ اس ٹنل کی وجہ سے دہلی کے لوگوں کی جام میں پھنسنے کی پریشانی کم ہوئی ہے۔ پرگتی میدان ٹنل ہر سال 55 لاکھ لیٹر سے زیادہ ایندھن بچانے میں بھی مدد کرے گی۔ اب یہ ماحولیات کی بھی حفاظت ہے، اس سے ہر سال قریب قریب 13 ہزار ٹن کاربن ایمیشن کم ہوگا۔ ایکسپرٹس کہتے ہیں کہ اتنے کاربن ایمیشن کو کم کرنے کے لیے ہمیں 6 لاکھ سے زیادہ درختوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی ڈیولپمنٹ کے اس کام نے ماحولیات کی بھی مدد کی۔ یعنی فلائی اوور ہوں، سڑکیں ہوں، ایکسپریس وے ہوں، ریلوے کے پروجیکٹس ہوں، ان کی تعمیر کاربن ایمیشن کم کرنے میں اتنی ہی مدد کرتی ہے۔ کلیئرنس کے وقت، ہمیں اس اینگل کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے۔ ساتھیوں، پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان اس کے لاگو ہونے کے بعد سے، انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس میں تال میل بہت بڑھا ہے اور ریاستیں بھی اس سے بہت خوش ہیں، ریاستیں بہت بڑھ چڑھ کر اس کے فائدے اٹھا رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے پروجیکٹس میں بھی تیزی آئی ہے۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان، ماحولیات کے تحفظ میں بھی مثالی طور پر مدد کر رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب بھی ریاست میں کسی انفراسٹرکچر کی تعمیر ہو، اب یہ ہمیں کلائمیٹ کے سبب جو مسائل آ رہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ایسے مسائل میں ٹکا رہے، ویسا انفراسٹرکچر بنانا پڑے گا، ڈیزاسٹر ریزی لئینٹ ہو۔ ہمیں کلائمیٹ سے جڑی چنوتیوں کا سامنا کرتے ہوئے، معیشت کے ہر ابھرتے ہوئے سیکٹر کا صحیح استعمال کرنا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت، دونوں کو مل کر گرین انڈسٹریئل اکنامی کی طرف بڑھنا ہے۔ ساتھیوں، مجھے یقین ہے، ان 2 دنوں میں آپ ماحولیاتی تحفظ کی بھارت کی کوششوں کو مزید مضبوط کریں گے۔ وزارت ماحولیات، صرف ریگولیٹری ہی نہیں بلکہ لوگوں کو معاشی طور پر با اختیار بنانے اور روزگار کے نئے وسائل پیدا کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایکتا نگر میں آپ کو سیکھنے کے لیے، دیکھنے کے لیے بہت کچھ ملے گا۔ گجرات کے کروڑوں لوگوں کو، راجستھان کے کروڑوں لوگوں کو، مہاراشٹر کے کروڑوں لوگوں کو، مدھیہ پردیش کے لوگوں کو بجلی کے سبب ایک سردار سروور ڈیم نے چار ریاستوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے، مثبت اثر پیدا کیا۔ راجستھان کے ریگستان تک پانی پہنچا ہے، کچھّ کے ریگستان تک پانی پہنچا ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے۔ مدھیہ پردیش کو بجلی مل رہی ہے۔ سردار صاحب کی اتنا بڑا مجسمہ ہمیں اتحاد کے عزم پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ایکولوجی اور اکنامی کیسے ساتھ ساتھ ترقی کر سکتے ہیں، کیسے انوائرمنٹ بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے اور امپلائمنٹ کے نئے مواقع بھی تیار کیے جا سکتے ہیں، کیسے بائیو ڈائیورسٹی، ایکو ٹورزم بڑھانے کا اتنا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے، کیسے ہمارے جنگلاتی وسائل، ہمارے آدیواسی بھائی بہنوں کے وسائل میں اضافہ کر سکتے ہیں، ان ساری باتوں کا جواب، تمام سوالات کا حل، کیوڈیا میں، ایکتا نگر میں آپ سب کو ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ ایکتا نگر ڈکلریشن، آزادی کے امرت کال کے لیے بہتر حل لے کر آئے گا، اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو مبارکباد۔ اور ساتھیوں، میں حکومت ہند کی وزارت کے تمام عہدیداروں کو، معزز وزیر کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے پروگرام کا تصور کیا۔ میری آپ سے اپیل ہے جو لکچرز ہوں گے، جو بحثیں ہوں گی اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت آپ دو دن جو ساتھ رہیں گے نا، ایک دوسرے کے تجربات کو جانیں گے، ہر ریاست نے کچھ نہ کچھ اپنے تجربے کیے ہوں گے، اچھے پہل کی ہوگی۔ جب اپنے ساتھیوں سے، دیگر ریاستوں سے آپ کا تعارف بڑھے گا، ان سے باتیں کروگے تو آپ کو بھی نئے نئے آئڈیاز ملیں گے، آپ کو بھی نئی نئی باتیں اوروں کو بتانے کا موقع ملے گا۔ یعنی یہ ایک دو دن آپ میں ایک بہت بڑے حوصلے کا باعث بن جائیں گے۔ آپ خود ہی ایک دوسرے کے لیے حوصلہ بنیں گے۔ آپ کے ساتھی آپ کا حوصلہ بنیں گے۔ اس ماحول کو لے کر یہ دو روزہ منتھن ملک کی ترقی کے لیے، ماحولیات کی حفاظت کے لیے اور آنے والی نسل کو ماحولیات کے تئیں حساس بنانے کے لیے صحیح سمت لے کر کے، صحیح متبادل لے کر کے ایک متعینہ روڈ میپ لے کر کے ہم سب چلیں گے، اسی امید کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ۔,গুজৰাটৰ একতা নগৰত পৰিবেশ মন্ত্ৰীসকলৰ ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D9%84%D9%81-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%DB%8C%D9%85%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A8-%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%81%E0%A6%9A%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8/,نئی دہلی،21اپریل؍2022 وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے مختلف سرکاری اسکیموں سے مستفید ہونے والے قبائلیوں کے ساتھ اپنی گفتگو پر مبنی ایک ویڈیو کو شیئر کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹوئٹ کیا: ’’مجھے مختلف سرکاری اسکیموں سے مستفید ہونے والے قبائلی لوگوں کے ساتھ گفتگو کرکے بے حد مسرت ہوئی۔گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ان کی گزر بسر میں آسانی کو مزید فروغ دیا گیا ہے۔ اس ویدیو کو دیکھیں۔‘‘,বিভিন্ন চৰকাৰী আঁচনিৰ জনজাতীয় হিতাধিকাৰীসকলৰ সৈতে বাৰ্তালাপৰ এটা ভিডিঅ’ শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%84-%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%82%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B4%DA%A9%DB%8C%D9%84-%D9%86%D9%88-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%82%E0%A6%AC-%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A6%A6-%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%B0-%E0%A6%97%E0%A6%A0%E0%A6%A8%E0%A6%A4/,نئی دہلی ،14جون : کابینہ نے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کی قیادت میں شمال مشرقی خطے کی ترقیات کی وزارت ( ڈونر) کی اس تجویز کو اپنی منظوری دے دی ہے ، جس کے تحت وزیرداخلہ کو شمال مشرقی کونسل ( این ای سی ) ۔جوتمام تر8شمال مشرقی ریاستوں کے گورنرحضرات اوروزرائے اعلیٰ کی رکنیت پرمشتمل ایک قانونی باڈی ہے ، کو بہ لحاظ عہدہ چیئرمین مقررکئے جانے کو ، اپنی منظوری دے دی ہے ۔کابینہ نے اس امرکو بھی منظوری دی ہے کہ وزیرمملکت ( آزادانہ چارج ) وزارت ڈونر، اس کونسل کے نائب چیئرمین کے طورپرخدمات انجام دیں گے ۔ اثرات این ای سی ریاستی اور مرکزی ایجنسیوں کے توسط سے مختلف پروجیکٹوں کا نفاذ کرتی ہے ۔ نئے انتظامات کے تحت جس میں وزیرداخلہ اس کے چیئرمین اور ڈونرکے وزیر، نائب چیئرمین ہوں گے ، این ای سی اورتمام ترشمال مشرقی ریاستوں کے تمام ترگورنرحضرات اوروزرائے اعلیٰ بطوررکن شامل ہوں گے ، یہ تمام شخصیات ایک ایسا فورم فراہم کریں گی،جس میں بین ریاستی معاملات کو زیادہ جامع طریقے سے زیربحث لایاجاسکے گا اورمستقبل میں مشترکہ طریقہ کاراختیارکیاجاسکے گا۔ این ای سی اب ایسے بین ریاستی معاملات مثلا ًمنشیات کی تجارت ، ہتھیاروں اورگولی بارود کی اسمگلنگ کی روک تھام ، سرحدی تنازعات وغیرہ کے معاملے میں بھی مختلف زونل کونسلوں کے ذریعہ زیربحث لائے جانے والے امور کو بھی اپنی نگرانی میں لے سکے گی ۔ این ای سی کی تشکیل نو کے نتیجے میں یہ باڈی شمال مشرقی خطے کے لئے مزید موثر حیثیت سے کام کرسکے گی ۔ یہ کونسل وقتافوقتا پروجیکٹ میں شامل مختلف اسکیموں اورپروجیکٹوں پرنظرثانی کا عمل بھی انجام دے سکے گی ، ان پروجیکٹوں وغیرہ کے سلسلے میں ریاستوں کے مابین تال میل موثر اقدامات کی سفارش بھی کرسکے گی ۔ یہ کونسل ایسے اختیارات کی حامل ہوگی جواسے مرکزی حکومت کی جانب سے تفویض کئے جائیں ۔ پس منظر این آئی سی کا قیام شمال مشرقی کونسل ایکٹ ، 1971کے تحت کیا گیاتھا ۔ اس کاقیام متوازن اور مربوط ترقی کو یقینی بنانے اور ریاستوں کے ساتھ تال میل میں مدد دینے کے لئے سرکردہ ادارے کے طورپر کیا گیا تھا ۔ 2002کی ترمیم کے بعداین ای سی کو شمال مشرقی علاقے کے لئے علاقائی منصوبہ بندی ادارے کی شکل میں کام کرنے کا اختیار دیاگیاہے اور این ای سی اس علاقے کے لئے علاقائی اسکیم بناتے وقت دو یا زیادہ ریاستوں کو فائدہ پہنچانے والی اسکیموں او ر پروجیکٹوں کو ترجیح دیگی ۔ کونسل سکم کے معاملے میں خصوصی پروجیکٹ اوراسکیمیں وضع کریگی ۔,উত্তৰ-পূব পৰিষদ পুনৰ গঠনত কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88-%DA%A9%D8%A7%D9%86%D9%81%D8%B1%D9%86%D8%B3%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D9%88%D8%B3%D8%B7-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%85-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بھارت کی جی -20 صدارت کے لوگو، تھیم اور ویب سائٹ کی رونمائی کی۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ یکم دسمبر سے بھارت جی-20 سربراہ اجلاس کی صدارت کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جی-20 بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے لیے ایک بڑا فورم ہے جو عالمی جی ڈی پی کے تقریباً 85 فیصد حصے، عالمی تجارت کے 75 فیصد سے زائدحصے ، اور دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے ایک اہم موقع قرار دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو کے سال کے دوران جی 20 کی صدارت ہر بھارتی کے لیے باعث فخر ہے۔ وزیر اعظم نے جی – 20 اور متعلقہ تقریبات کے بارے میں بڑھتی دلچسپی اور سرگرمیوں پر مسرت کا اظہار کیا۔ جی-20 لوگو کی رونمائی کے سلسلے میں شہریوں کے تعاون کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کو لوگو کے تعلق سے ہزاروں خلاقانہ مشورے موصول ہوئے۔ وزیر اعظم نے عوام کے تعاون کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ مشورے عالمی تقریب کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ جی-20 کا لوگو محض ایک لوگو نہیں ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایک پیغام ��ے، ایک احساس ہے جو بھارت کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک ایسا عزم ہے جو ’واسودھیو کٹمب کم‘ کے تصور کے ذریعہ ہماری فکر میں بسا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی-20کے لوگو سے عالمی بھائی چارے کا نظریہ ظاہر ہو رہا ہے۔‘‘ لوگو میں موجود کمل کا پھول بھارت کے قدیم ورثہ، یقین اور خیالات کی علامت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اَدویت کا فلسفہ تمام مخلوقات کی وحدت پر زور دیتا ہے اور یہ فلسفہ آج کے تنازعات کو حل کرنے کا ایک وسیلہ ثابت ہوگا۔ یہ لوگو اور تھیم بھارت کی جانب سے متعدد اہم پیغامات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ’’بھارت جی – 20 کے توسط سے، جنگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے بدھ کے پیغام، تشدد کے معاملے میں مہاتما گاندی کے ذریعہ پیش کیے گئے حل پر نئی روشنی ڈال رہا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کو جی-20 کی صدارت بحران اور افراتفری کے دور میں حاصل ہو رہی ہے ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دنیا صدی میں ایک مرتبہ رونما ہونے والے عالمی وبائی مرض کے بعد پیداہونے والے اثرات ، تنازعات اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے نبردآزما ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جی-20 کے لوگو میں موجود کمل کا پھول ایسے دگرگوں حالات میں امید کی ایک علامت ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کے سخت بحران میں پھنسے ہونے کے باوجود، ہم ابھی بھی اسے ایک بہتر مقام بنانے کے لیے ترقی کر سکتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ علم اور خوشحالی کی دیویاں کمل کے پھول پر بیٹھی ہیں۔ وزیر اعظم نے جی-20 کے لوگو میں کمل کے پھول کے اوپر دکھائی گئی دنیا کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ساجھا علم ہمیں مشکل حالات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جبکہ ساجھا خوشحالی ہمیں آخری میل تک پہنچنے کی اہلیت عطا کرتی ہے۔ انہوں نے کمل کی سات پنکھڑیوں کی اہمیت کی وضاحت کی جو سات براعظموں اور سات عالمگیر موسیقی کے سُروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’جب موسیقی کے ساتوں سُر آپس میں ملتے ہیں، تو یہ مکمل ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔‘‘ جناب مودی نے کہا کہ جی-20 کا مقصد گوناگونیت کا احترام کرتے ہوئے دنیا میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ سربراہ اجلاس محض ایک سفارتی میٹنگ نہیں ہے۔ بھارت اسے ایک نئی ذمہ داری اور ملک کے تئیں دنیا کے اعتماد کے طور پر قبول کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، ’’آج، بھارت کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کو لے کر ایک زبردست تجسس پایا جاتا ہے۔ آج ایک نئی روشنی میں بھارت کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ ہماری حالیہ کامیابیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے اور ہمارے مستقبل کو لے کر غیر معمولی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں۔‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ایسے ماحول میں شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان توقعات سے آگے جاکر دنیا کو بھارت کی صلاحیتوں ، فلسفے، سماجی اور دانشورانہ قوت سے آگاہ کریں۔‘‘ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ہمیں سب کو متحد کرکے دنیا کے تئیں ان کی ذمہ داری کے لیے ان میں جوش پیدا کرنا چاہئے۔‘‘ جناب مودی نے کہا کہ آج اس مقام پر پہنچنے کے لیے بھارت نے ہزاروں برسوں کا سفر طے کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے خوشحالی کی بلندیوں کے ساتھ ساتھ عالمی تاریخ کا سیاہ ترین دور بھی دیکھا ہے۔ بھارت متعدد حملہ آوروں اور ان کے ظلم کی تاریخ کے ساتھ یہاں تک پہنچا ہے۔ وہ تجربات آج بھارت کی ترقی کے سفر میں سب سے بڑی قوت ہیں۔ آزادی کے بعد ہم نے سرفہرست مقام پر پہنچنے کے لیے اپنے بڑے سفر کی شروعات صفر سے کی تھی۔ اس میں گذشتہ 75 برسوں کے دوران تمام تر حکومتوں کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ تمام حکومتوں اور شہریوں نے مل کر اپنے اپنے طریقوں سے بھارت کو آگے لے جانے کی کوشش کی۔ آج ہمیں اس جذبہ کے ساتھ ، ایک نئی توانائی کے ساتھ پوری دنیا کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے بھارت کی ثقافت کا ایک اہم سبق اجاگر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب ہم اپنی ترقی کے لیے کوشش کرتے ہیں، تو عالمی ترقی کو بھی ذہن میں رکھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بھارتی تہذیب کے جمہوری ورثہ پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا، ’’بھارت دنیا کی ایک مالامال اور زندہ جمہوریت ہے۔ ہمارے پاس جمہوریت کی ماں کی شکل میں اقدار اور پرفخر روایت ہے۔ بھارت میں جتنی انفرادیت ہے اتنی ہی گوناگونیت بھی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ، ’’جمہوریت، تنوع، دیسی نقطہ نظر، مبنی بر شمولیت فکر، مقامی طرز حیات اور عالمی افکار ، دنیا ان ہی نظریات میں اپنی چنوتیوں کے حل دیکھ رہی ہے۔‘‘ جمہوریت کے علاوہ، وزیر اعظم نے ہمہ گیر ترقی کے میدان میں بھارت کی کوششوں کو بھی پیش کیا۔ وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ، ’’ہمیں ہمہ گیر ترقی کو محض حکومتوں کے نظام کا حصہ ہونے کی بجائے انفرادی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے ۔ ماحولیات ہمارے لیے ایک عالمی موضوع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نجی ذمہ داری بھی ہے۔‘‘ انہوں نے آیوروید کے تعاون کو اجاگر کیا اور یوگ اور موٹے اناج کو لے کر عالمی جوش و جذبے کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کی متعدد حصولیابیوں کو دنیا کے دیگر ممالک کے ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ترقی، شمولیت، بدعنوانی کے خاتمہ، کاروبار کرنا آسان بنانے اور زندگی بسر کرنے کے عمل میں بہتری ، یہ تمام تر حصولیابیاں متعدد ممالک کے ذریعہ بطور نمونہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔ وزیر اعظم نے جن دھن کھاتے کے توسط سے خواتین پر مبنی ترقی اور مالی شمولیت اور بھارتی خواتین کی اختیارکاری کو بھی اجاگر کیا، جو کہ جی-20 صدارت کے موقع کے ذریعہ دنیا تک پہنچیں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ خواہ جی 7 ہو یا جی 77، یا یو این جی اے، دنیا اجتماعی قیادت کی جانب امیدبھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کی جی 20 کی صدارت ایک نئی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ بھارت جہاں ایک ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات بنائے رکھتا ہے تو دوسری جانب ترقی پذیر ممالک کے نظریات کو سمجھتا اور ان کا اظہار بھی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، ’’اسی بنیاد پر ہم ’عالمی جنوب‘ کے اپنے اُن تمام تر دوستوں کے ساتھ ہماری جی – 20 صدارت کا خاکہ تیار کریں گے، جو دہائیوں سے ترقی کے راستے پر بھارت کے ہم سفر رہے ہیں۔‘‘وزیر اعظم نے بھارت کی اس کوشش کو اجاگر کیا کہ کوئی پہلی یا تیسری دنیا نہیں ، بلکہ ایک دنیا ہونی چاہئے۔ ایک بہتر مستقبل کے لیے پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے مشترکہ مقصد اور بھارت کی تصوریت کو آگے لے جاتے ہوئے، وزیر اعظم نے ’ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ‘ کی مثال پیش کی جو کہ قابل احیاء توانائی اور ایک کرۂ ارض، ایک صحت کی عالمی صحتی مہم میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک نعرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی-20 کا منتر ہے ’ایک کرۂ ارض، ایک کنبہ، ایک مستقبل‘۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’بھارت کے ان ہی خیالات و اقدار نے دنیا کی فلاح و بہبود کا راستہ ہموار کیا ہے۔‘‘ ��نہو نے کہا کہ، ’’مجھے یقین ہے کہ یہ تقریب نہ صرف بھارت کے لیے یادگار ثابت ہوگی بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ کے طور پر مستقبل میں اس کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔‘‘ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جی -20 محض مرکزی حکومت کی ایک تقریب نہیں ہے، وزیر اعظم مودی نے ریاستی حکومتوں اور تمام سیاسی جماعتوں سے اس کوشش میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ تقریب بھارتیوں کے ذریعہ منعقد کی جاتی ہے اور جی-20 ’مہمان خدا ہے‘ کی ہماری روایت کی ایک جھلک پیش کرنے کا ہمارے لیے ایک زبردست موقع ہے۔ انہوں نے مطلع کیا کہ جی-20 سے متعلق تقریبات محض دہلی اور چند مقامات تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ ملک کے ہر کونے میں پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ جناب مودی نے کہا، ’’ہماری ہر ایک ریاست کا اپنا ایک کردار، ورثہ، ثقافت، خوبصورتی ، احساس اور میزبانی کا منفرد انداز ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے راجستھان، گجرات، کیرلا، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، تمل ناڈو، اترپردیش، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کی مثالیں پیش کیں اور کہا کہ میزبانی اور تنوع ہی دنیا کو حیرت زدہ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے مطلع کیا کہ وہ بھارت کی جی-20 صدارت کا رسمی اعلان کرنے کے لیے آئندہ ہفتہ انڈونیشیا جائیں گے۔ انہوں نے بھارت کی تمام ریاستوں اور ریاستی حکومتوں سے اس سلسلے میں اپنے کراد کو آگے بڑھانے کے لیے حتی الامکان کوشش کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ، ’’ملک کے تمام شہریوں اور دانشوروں کو اس تقریب کا حصہ بننے کے لیے آگے آنا چاہئے۔‘‘ بھارت دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے کردار میں کیسے اضافہ کر سکتا ہے، اس سلسلے میں انہوں نے سبھی سے، حال ہی میں لانچ کی گئی جی-20 ویب سائٹ پر اپنے سجھاؤ اور نظریات ساجھا کرنے کی اپیل کی۔ ’’اس سے جی-20 جیسی تقریب کی کامیابی کو نئی بلندیاں حاصل ہوں گی۔‘‘انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ، ’’مجھے یقین ہے کہ یہ تقریب نہ صرف بھارت کے لیے یادگار ثابت ہوگی بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ کے طور پر مستقبل میں اس کا تجزیہ کیا جائے گا۔‘‘ پس منظر: وزیر اعظم کی تصوریت سے رہنمائی حاصل کرکے، بھارت کی خارجہ پالیسی عالمی سطح پر قائدانہ کردارادا کرنے کے لیے تغیر سے ہمکنار ہو رہی ہے۔ اس سمت میں ایک اہم قدم کے طور پر، بھارت یکم دسمبر 2022 کو جی-20 کی صدارت اختیار کرے گا۔ جی-20 کی صدارت بین الاقوامی اہمیت کے حامل مسائل پر عالمی ایجنڈے کے تئیں تعاون فراہم کرنے کے لیے بھارت کو ایک موقع فراہم کرتی ہے۔ ہماری جی-20 صدارت کا لوگو، تھیم اور ویب سائٹ دنیا کے لیے بھارت کے پیغام اور اہم ترجیحات کی عکاسی کریں گے۔ جی-20 بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے لیے ایک بڑا فورم ہے جو عالمی جی ڈی پی کے تقریباً 85 فیصد حصے، عالمی تجارت کے 75 فیصد سے زائدحصے ، اور دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔جی-20 کی صدارت کے دوران، بھارت بھر میں مختلف مقامات پر 32 مختلف شعبوں میں تقریباً 200 میٹنگوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ آئندہ برس منعقد ہونے والا جی-20 سربراہ اجلاس بھارت کی میزبانی میں منعقد کیے جانے والے اہم ترین بین الاقوامی اجتماعات میں سے ایک ہوگا۔ جی-20 انڈیا ویب سائٹ پر جانے کے لیے https://www.g20.in/en/ پر کلک کریں۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ভিডিঅ’ কনফাৰেঞ্চৰ জৰিয়তে ভাৰতৰ জি-২০ অধ্যক্ষতাৰ ল’গ’, থীম আৰু ৱেবছাইট উন্মোচন কৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%86%D9%85%D9%86%D9%B9-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D9%86%DA%88%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%DA%A9%D9%88%D9%84%D8%8C-%D8%AC%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A6%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%A3%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، جنگ، اروناچل پردیش کے اچھے رکھ رکھاؤ پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو کے ایک ٹویٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’بہت اچھا لگتا ہے! اس سکول کے طلباء اور اساتذہ کو مبارکباد‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,সুন্দৰ ৰক্ষণাবেক্ষণৰ বাবে অৰুণাচলৰ ‘জং চৰকাৰী মাধ্যমিক বিদ্যালয়’লৈ অভিনন্দন জনাইছে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%8C-%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D8%A7%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%AE-%E0%A6%AC%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%A5-%E0%A6%A6/,نئی دہلی، 28 نومبر 2021: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ندیا، مغربی بنگال میں سڑک حادثے میں اپنی جان گنوانے والے ہر ایک فرد کے قریبی رشتہ دار کو، وزیر اعظم کے قومی راحت فنڈ (پی ایم این آر ایف) سے 2 لاکھ روپئے کے بقدر کی امدادی رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ زخمی ہونے ولے افراد کو 50000 روپئے دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے ٹوئیٹ کیا؛ ’’وزیر اعظم نے ندیا، مغربی بنگال میں سڑک حادثے میں اپنی جان گنوانے والے ہر ایک فرد کے قریبی رشتہ دار کو، پی ایم این آر ایف، سے 2 لاکھ روپئے کے بقدر امدادی رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ زخمی ہونے ولے افراد کو 50000 روپئے دیے جائیں گے۔ ‘‘,পশ্চিম বংগৰ নাদিয়াত পথ দুৰ্ঘটনাত নিহতসকলৰ আত্মীয়লৈ পিএমএনআৰএফৰপৰা অনুদান ঘোষণা প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%B9%D8%B1-%D9%86%D9%88%D8%A6%DB%8C%DA%88%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%82%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A1%E0%A6%BE%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گریٹر نوئیڈا کے انڈیا ایکسپو سینٹر اور مارٹ میں منعقدہ بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن عالمی ڈیری اجلاس (آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس) 2022 کا افتتاح کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ڈیری کےشعبہ سے تعلق رکھنے والے دنیا کی تمام معزز شخصیات آج بھارت میں جمع ہوئی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ عالمی ڈیری اجلاس خیالات کے تبادلے کا ایک بہترین ذریعہ بننے جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیری سیکٹر کی صلاحیت نہ صرف دیہی معیشت کو تقویت دیتی ہے بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔ وزیر اعظم نے بھارت کے ثقافتی منظر نامے میں ‘پشو دھن’ اور دودھ سے متعلق کاروبار کی مرکزیت کو اجاگر کیا۔اس سے بھارت کے ڈیری سیکٹر کو بہت سی منفرد خصوصیات حاصل ہوئی ہیں۔وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دنیا بھرکے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس بھارت میں ڈیری سیکٹر کوچلانے والے ملک کے چھوٹے کسان ہے ۔بھارت کا ڈیری سیکٹر ‘‘بڑے پیمانے پر پیداوار’’ سے زیادہ ‘‘عوام کے ذریعہ پیداوار’’ کی خصوص��ت کا حامل ہے ۔ ایک، دو یا تین مویشی رکھنے والے ان چھوٹے کسانوں کی کوششوں کی بنیاد پر بھارت سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ شعبہ ملک میں 8 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ بھارت کے ڈیری نظام کی دوسری منفرد خصوصیت کی وضاحت کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو کا اتنا بڑا نیٹ ورک ہےکہ پوری دنیا میں اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔جناب مودی نے کہا کہ یہ ڈیری کوآپریٹیوس ملک کے دو لاکھ سے زیادہ گاؤوں میں تقریباً دو کروڑ کسانوں سے دن میں دو بار دودھ اکٹھا کرتے ہیں اور اسے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس حقیقت کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کرائی کہ اس سارے عمل میں کوئی بچولیا نہیں ہے اور صارفین سے جو رقم وصول کی جاتی ہے اس کا 70 فیصد سے زیادہ براہ راست کسانوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ‘‘پوری دنیا میں کسی اور ملک میں یہ تناسب نہیں ہے’’۔انہوں نے ڈیری سیکٹر میں ادائیگی کے ڈیجیٹل نظام کی کارکردگی پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس میں دیگر ممالک کو سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ وزیر اعظم کے مطابق ایک اور منفرد خصوصیت دیسی نسلیں ہیں جو بہت سے منفی حالات کا سامنا کر سکتی ہیں۔انہوں نے گجرات کے کچھ علاقے کی مضبوط بھینس کی نسل بنی بھینس کی مثال دی۔ انہوں نے بھینسوں کی دیگر نسلوں جیسے مرہ، مہسانہ، جعفرآبادی، نیلی راوی، اور پنڈھرپوری کے بارے میں بھی بات کی اور ادھرگائے کی نسلوں میں انہوں نے گر، ساہیوال، راٹھی، کنکریج، تھرپارکر اور ہریانہ کا ذکر کیا۔ ایک اور منفرد خصوصیت کے طور پر، وزیر اعظم نے ڈیری سیکٹر میں خواتین کی طاقت کو اجاگر کیا، وزیر اعظم نے اس بات کو نمایاں کیاکہ بھارت کے ڈیری سیکٹر میں افرادی قوت میں خواتین کی نمائندگی 70 فیصدہے۔‘‘خواتین ہی بھارت کے ڈیری سیکٹر کی حقیقی قائد ہیں‘‘، انہوں نے مزید کہا،‘‘صرف یہی نہیں، بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو س کی ایک تہائی سے زیادہ ممبران خواتین ہیں۔’’ انہوں نے کہا کہ ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کا ڈیری سیکٹر گیہوں اور چاول کی مشترکہ قیمت سے زیادہ ہے۔اور ان سب کو بھارت کی خواتین کی طاقت چلارہی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت نے 2014 سے بھارت کے ڈیری سیکٹر کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ اس س ے دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جس سے کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ‘‘بھارت میں 2014 میں دودھ کی پیداوار جو146 ملین ٹن تھی اب یہ بڑھ کر 210 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ یعنی اس میں تقریباً 44 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘‘بھارت کی دودھ کی پیداوار عالمی شرح نمو کے 2 فیصد کے مقابلے 6 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے’’۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت متوازی ڈیری ماحولیاتی نظام تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جہاں پیداوار بڑھانے پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ شعبوں کے چیلنجوں سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔ کسانوں کے لیے اضافی آمدنی، غریبوں کو بااختیار بنانا، سوچھتا، کیمیکل سے پاک کھیتی، صاف توانائی اور مویشیوں کی دیکھ بھال، اس ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے سے باہمی طور پر منسلک ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مویشی پروری اور ڈیری کو دیہات میں سبز اور پائیدار ترقی کے ایک طاقتوروسیلے کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ راشٹریہ گوکل مشن، گوبردھن ی��جنا، ڈیری سیکٹر کا ڈیجیٹلائزیشن اور مویشیوں کی یونیورسل ٹیکہ کاری جیسی اسکیمیں اور سنگل یوز پلاسٹک پر پابندی جیسے اقدامات اسی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔ جدید ٹکنا لوجی کے استعمال پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ڈیری جانوروں کا سب سے بڑا ڈیٹا بسس تیا رکر رہا ہے اور ڈیری سکٹر سے وابستہ ہر جانور کو نشان زد کای جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا۔”ہم جانوروں کی بائو مٹرےک شناخت کر رہے ہںی۔ ہم نے اس کا نام رکھا ہے ۔پشو آدھار”۔ جناب مودی نے ایف پی ایز اور خواتنا کے سلف ہلپا گروپس اور اسٹارٹ اپس جسے بڑھتے ہوئے کاروباری ڈھانچوں پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں حالہپ دنوں مںت 1000 سے زیادہ اسٹارٹ اپ سامنے آئے ہںن۔ انہوں نے گوبردھن یوجنا مںک ہونے والی پشرڈفت کے بارے مںک بھی بات کی اور کہا کہ اس کا مقصد ایی صورتحال تک پہنچنا ہے جہاں ڈیری پلانٹ گوبر سے اپنی بجلی خود تاکر کریں۔ اس کے نتجےہ مں پیدا ہونے والی کھاد سے کاشتکاروں کو بھی مدد ملے گی۔ کھیا باڑی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ موییہ پروری اور کھیسر باڑی مں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے اور یک فصلی کاشتکاری ہی اس مسئلے کا واحد حل نہںت ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آج ہندوستان مقامی نسلوں اور ہائبرڈ دونوں نسلوں پر یکساں توجہ دے رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے موسماوتی تبدیوکہں سے ہونے والے نقصان کے خطرے کو بھی کم کاس جاسکے گا۔ وزیر اعظم نے ایک اور بڑے مسئلے پر توجہ دی جو کسانوں کی آمدنی کو متاثر کر رہی ہے اور یہ مسئلہ جانوروں کی بماےریاں ہںا۔ انھوں نے مزید کہا‘‘جب جانور بماار ہوتا ہے تو اس سے کسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے، اس کی آمدنی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے جانور کی کارکردگی، اس کے دودھ اور دیگر متعلقہ مصنوعات کے معاےر پر بھی اثر پڑتا ہے’’، وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اس سمت مںے، ہندوستان جانوروں کی عالمی ویکسینیشن کی سمت کام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘ ہم نے عزم کار ہے کہ 2025 تک، ہم 100فیصد جانوروں کو پاؤں اور منہ کی بماوری اور بروسلو سس کے خلاف وینسا دیں گے۔ ہم اس دہائی کے آخر تک ان بمارریوں سے مکمل طور پر آزاد ہونے کا ہدف رکھتے ہں ”، وزیر اعظم نے اس رائے کااظہار کیا کہ ماضی قریب مں۔ لمپی نامی بما ری کی وجہ سے ہندوستان کی بہت سی ریاستوں مں مویو جں کا نقصان ہوا ہے اور سب کو ینم دلایا کہ مرکزی حکومت مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اپنی سطح پر پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ‘‘ہمارے سائنسدانوں نے جلد کی بما ری کے لےک دییا وینسپ بھی تا ر کی ہے۔’’ وزیر اعظم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وبا کو قابو مںر رکھنے کے لےن جانوروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی کوششںک کی جا رہی ہںر، چاہے وہ جانوروں کی ویکسینیشن ہو یا کوئی اور جدید ٹکنا لوجی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان اپنے شراکت دار ممالک سے سکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈیری کے شعبے مںن تعاون کرنے کے لےا ہمشہی خواہش مندہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ‘‘ہندوستان نے اپنے فوڈ سیٹ ک کے معاےرات پر تز ی سے کام کاپ ہے’’۔ خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کان کہ ہندوستان ایک ڈیٹلڈ نظام پر کام کر رہا ہے جو مویو ں کے شعبے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی تمام سرگرمیوں کااحاطہ کرے گا۔ یہ اس شعبے کو بہتر بنانے کے لےی درکار درست معلومات فراہم کرے گا۔ اس چوٹی کانف��نس مںم اس کام کو سامنے رکھا جائے گا جو اس طرح کی بہت سی ٹکنا لوجزف کے حوالے سے دناا بھر مںا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے تمام حاضرین پر زور دیا کہ وہ اس شعبے سے متعلق مہارت کو شئرج کرنے کے طریقے تجویز کریں۔وزیر اعظم نے اپنی بات کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ ‘‘مںن ڈیری انڈسٹری کے عالمی رہنماؤں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہندوستان مں ڈیری سکٹر کو بااختاکر بنانے کی مہم مں شامل ہوں۔ مں بنھ الاقوامی ڈیری فڈ ریشن کو ان کے بہترین کام اور شراکت کے لےا بھی سراہتا ہوں’’۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتہ ناتھ، ماہی پروری، حواانات اور ڈیری کے مرکزی وزیر جناب پرشوتم روپالا، ماہی پروری، حوھانات اور ڈیری کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر ایل مروگن، زراعت اور فوڈ پروسسنگ کے مرکزی وزیر مملکت، اس موقع پر شری سنجو کمار بالا،ن، ممبران پارلمنٹ ، سریندر سنگھ نگر اور ڈاکٹر مہشہ شرما، انٹرنشنلر ڈیری فڈسریشن کے صدر، شری پی برازیل، اور انٹرنشنل ڈیری فڈےریشن کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ کر ولنن ایمنڈ اس موقع پر موجود تھے۔ 75 لاکھ کسانوں کو ٹکنا لوجی کے ذریعے اس تقریب سے جوڑا گیا ۔ پس منظر چارروزہ 2022 ، جس کا انعقاد 12 سے 15 ستمبر تک ہوا، عالمی اور ہندوستانی ڈیری اسٹکک ہولڈرز کا ایک اجتماع ہے جس مںا صنعت کے رہنما، ماہرین، کسان اور پالیا پلانرز شامل ہں جو 'غذائت اور معاش کے لےد ڈیری' کے موضوع پر توجہ مرکوزکر رہے ہں ۔ آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس 2022 مں2 50 ممالک سے تقریباً 1500 شرکاء کی شرکت متوقع ہے۔ اس طرح کی آخری چوٹی کانفرنس تقریباً نصف صدی قبل 1974 مںس ہندوستان مںن منعقد ہوئی تھی۔ ہندوستانی ڈیری انڈسٹری اس اعتبار سے منفرد ہے کومنکہ یہ ایک کوآپریٹو ماڈل پر مبنی ہے جو چھوٹے اور معمولی ڈیری کسانوں، خاص طور پر خواتنت کو بااختامر بناتی ہے۔ وزیر اعظم کے ویژن کے تحت حکومت نے ڈیری سکٹر کی بہتری کے لےک متعدد اقدامات کےس ہں جس کے نتجے مںد پچھلے آٹھ سالوں مںح دودھ کی پد۔اوار مںو 44 فصدع سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی ڈیری انڈسٹری کی کاما بی کی کہانی، جو دودھ کی عالمی پیداوار کا تقریباً 23 فصدے حصہ رکھتی ہے، تقریباً 210 ملنپ ٹن سالانہ پد ا کرتی ہے، اور 8 کروڑ سے زیادہ ڈیری فارمرز کو بااختایر بناتی ہے، کو آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس 2022 مںڈ دکھایا جائے گا۔ سربراہی اجلاس ہندوستانی ڈیری کو بھی مدد فراہم کرے گا۔ اس چوٹی کانفرنس سے کسانوں کو عالمی بہترین طریقوں سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔,"গ্ৰেটাৰ নয়ডাত অনুষ্ঠিত আন্তঃৰাষ্ট্ৰীয় দুগ্ধ ফেডাৰেশ্যনৰ বিশ্ব দুগ্ধ সন্মিলন, ২০২২ উদ্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-19-%D8%AC%D9%88%D9%86-%DA%A9%D9%88-%D9%BE%D8%B1%DA%AF%D8%AA%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%86%D9%B9%DB%8C%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A7%E0%A7%AF-%E0%A6%9C%E0%A7%81%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%AE%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A7%81%E0%A6%B8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 19 جون2022 کو صبح 10 بج کر 30 منٹ پر پرگتی میدان انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ کوریڈور پروجیکٹ کی اہم سرنگ اور 5 انڈر پاس قوم کے نام وقف کریں گے۔اس موقع پر وہ مجمع سے خطاب بھی کریں گے ۔ انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ کوریڈور پروجیکٹ پرگتی میدان از سر نو ترقی کے پروجیکٹ کا اہم حصہ ہے ۔ انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ کوریڈور پروجیکٹ 920 کروڑ سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیاگیا ہے اور پورا فنڈ مرکزی حکومت نے فراہم کیا ہے۔اس کا مقصد پرگتی میدان میں تعمیر کئے جارہے نئے عالمی معیار کے نمائش اور کنونشن سینٹر تک کسی روک ٹوک کے بغیر اور آسان طریقے سے رسائی ہے۔اس کے ذریعہ پرگتی میدان میں منعقد ہونے والے پروگراموں میں نمائش کنندہ اور لوگوں کی آسان شرکت کے لئے سہولت فراہم کرنا ہے۔ تاہم اس پروجیکٹ کے اثرات پرگتی میدان کے علاوہ بھی ہیں کیونکہ یہ کسی روک ٹوک کے بغیر گاڑیوں کی آمدو رفت کو یقینی بنائے گا اور اس سے بڑے پیمانے پر آنے جانے والوں کے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی ۔یہ شہری بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی کے ذریعہ لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے حکومت کے وژن کا حصہ ہے۔ اصل سرنگ پرگتی میدان سے گزرتے ہوئے پرانا قلعہ روڈ سے ہوتے ہوئے رنگ روڈ کو انڈیا گیٹ سے جوڑتی ہے ۔6لین کی ڈیوائڈ ڈ سرنگ کے کئی مقصد ہیں جن میں پرگتی میدان کے بیسمنٹ میں بڑی پارکنگ تک رسائی شامل ہے۔سرنگ کا ایک انوکھا عنصر یہ ہے کہ اصل سرنگ کے نیچے ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی دو سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں تاکہ پارکنگ لاٹ کے دونوں طرف سے ٹریفک کے آمد ورفت میں سہولت فراہم کی جاسکے۔ٹریفک آمد و رفت کو سہل بنانے کے لئے یہ سرنگ جدید ترین عالمی معیار کے سہولیات سے آراستہ ہےجس میں اسمارٹ فائر مینجمنٹ ،جدید وینٹیلیشن ،خود کار نکاسی ،ڈیجیٹلی کنٹرول سی سی ٹی وی اور پبلک اناؤنسمنٹ سسٹم شامل ہیں۔یہ سرنگ جس کا طویل عرصہ سے انتظار تھا بھیروں مارگ کے لئے ایک متبادل روٹ فراہم کرےگی ،جو کہ اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کررہی ہے اور توقع ہے کہ بھیروں مارگ پر ٹریفک کے بوجھ کو نصف سے زیادہ کم کردے گی۔ سرنگ کے ساتھ ساتھ ،6 انڈرپاس ہوں گے -4متھرا روڈ پر ،ایک بھیروں مارگ پر اور ایک رنگ روڈ اور بھیروں مارگ چوراہے پر ۔,১৯ জুনত প্ৰগতি ময়দান সুসংহত যোগাযোগ কৰিডৰ প্ৰকল্প দেশবাসীৰ প্ৰতি উৎসৰ্গা কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84-%D9%81%D9%84%D9%85-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%B1%DA%88%D8%B2-%D8%B3%DB%92-%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B2%DB%92-%D8%AC%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC-%E0%A6%9A%E0%A6%B2%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%81%E0%A6%9F/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازے جانے والے تمام لوگوں کو مبارکباد دی۔ مرکزی وزیر جناب انوراگ سنگھ ٹھاکر کے ایک ٹویٹ کے جواب میں، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ’’ان تمام لوگوں کو مبارک باد جنہیں نیشنل فلم ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ یہ اعزاز ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تفریح، فن اور ثقافت کی دنیا کے لئے ان کی خدمات کا ایک موزوں اعتراف ہے‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,ৰাষ্ট্ৰীয় চলচ্চিত্ৰ বঁটা গ্ৰহণ কৰা সকলোকে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দন জ্ঞাপ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D8%AF%DB%81%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D9%B9%D8%B1%D9%BE%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%D9%88%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%A8-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A7%8D%E0%A6%B2%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF-2/,نئی دہلی،26فروری؍ عزت مآب صدر جمہوریہ ،یہاں موجود سبھی معززین اور آج جن کو اعزاز حاصل ہوا ہے ،وہ سبھی سماج کے لئے وقف محترم شخصیات ۔میں سب سے پہلے معذرت خواہ ہوں کیونکہ پروگرام تھوڑی تاخیر سے شروع ہوا کیونکہ میں کسی اور کام میں مصروف ہو گیا جس کی وجہ سے مجھے ہی آنے میں دیر ہوئی۔ میں اس کے لئے آپ سب سے معذرت خواہ ہوں ۔ آج گاندھی امن پرائز سےجن افراد اور تنظیموں کو نوازا گیا ہے ، ایک طرح سے یہ سال اہم بھی ہے کیونکہ قابل احترام باپو کی 150ویں جینتی ملک اور دنیا منا رہی ہے اور قابل احترام باپو زندگی بھر جن باتوں کو لے کر جیئے، جس کو انہوں نے اپنی زندگی میں اتارا اور جسے سماجی زندگی میں رائج کرنے کی جنہوں نے مسلسل کوشش کی ، ایسے ہی کاموں کو لے کرکے جو تنظیم وقف ہے ، جو افراد وقف ہیں ، وہ اس اعزاز کے لئے پسند کئے جاتے ہیں۔ کنیا کماری کا وویکا نند کیندر ہو ، ایکل ودیالیہ ہو ، یہ سماج زندگی کے آخری سرے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی تعلیم و تہذیب کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سماج کے لئے جذبۂ خود سپردگی سے کام کرنے والا بہت بڑا سلسلہ انہوں نے تعمیر کیا ہے۔ آج اس اعزاز کے موقع پر میں انکا بہت بہت خیر مقدم کرتا ہوں۔ جب گاندھی جی سے پوچھا گیا تھا تو ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ سوراج اور سووچھتا دونوں میں سے مجھے کوئی ایک چیز پسند کرنی ہو تو میں سووچھتا کوپسند کروں گا اور قابل احترام باپو کے اس خواب کی تکمیل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں جو بھی سووچھتا کے لئے ، بیت الخلاء کے لئے اپنے آپ کو کھپا دیتا ہے وہ ہم سب کے لئے انتہائی قابل احترام ہے۔ اور اسی بات کو آگے بڑھانے کےلئے سلبھ شوچالیہ جس طرح سے کام کر رہا ہے ، ان کا بھی آج خیر مقدم کرنے کا موقع ملا ہے۔ اکشے پاتر کے توسط سے ملک کے لڑکوں کو مڈ ڈے میل ملے ۔حکومت کی یہ سبھی ریاستوں میں چلنے والی سرگرمی ہے۔ اس کو پروفیشنلزم ،ایک ٹچ دینے کی کوشش اکشے پاتر نے کی ہے اور مجھے کچھ ہی وقت پہلے ورندا ون میں جا کر تین ارب ویں تھالی پروسنے کی خوش بختی حاصل ہوئی۔ بھارت سرکار کی سوء تغذیہ کے خلاف ایک بہت وسیع منصوبے کے ساتھ ایک مشن کی شکل میں کام کر رہی ہے۔ کیونکہ ہندوستان کا بچپن صحت مند ہوگا تو ہندوستان بھی صحت مند رہے گا۔ اور اسی جذبے کو لے کر کے ان کوششوں میں عوامی شراکت داری بہت ضروری ہوتی ہے۔ حکومت کی کوششوں میں جب عوامی شراکت داری جڑتی ہے تب اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے ۔ مہاتما گاندھی کی زندگی کی کامیابی میں سب سے بڑی بات جو تھی ، آزادی کے لئے مر –مٹنے والی روایت کبھی اس ملک میں بند نہیں ہوئی۔ جتنے سال غلامی رہی، اتنے سال انقلابی بھی ملتے رہے۔ یہ اس ملک کی خصوصیت ہے، لیکن گاندھی جی نے آزادی کو عوامی تحریک بنا دیا تھا۔ سماج کے لئے کوئی بھی کام کروں گا تو اس سے آزادی آئے گی، یہ جذبہ پیدا کیا تھا۔ عوامی شراکت داری ، آزادی کے زمانے میں ، آزادی کی لڑائی کے زمانے میں جتنا اہم تھی اتنی ہی خوشحال اور سکھی بھارت کے لئے اتنی ہی ضروری ہے۔ وہ بھی گاندھی کا دکھایا ہوا راستہ ہے کہ عوامی شراکت داری اور عوامی تحریک کے ساتھ ہم قابل احترام باپو کے خواب کی تکمیل کرتے ہوئے گاندھی جی کی 150ویں سالگرہ اور 2022 میں آزادی کے 75 سال اس کے لئے ہم عہد کر کے آگے بڑھیں ۔ قابل احترام باپو ایک عالمی انسان تھے ۔ آزادی کی تحریک میں اتنی مصروفیت کے باوجود بھی وہ ہفتے میں ایک دن جذام کے مریضوں کی خدمت میں لگاتے تھے ۔کوڑھ کے مریضوں کے لئے وقت دیتے تھے ۔ خود کرتے تھےتاکہ سماج میں جو ذہنیت بنی ہوئی تھی اس کو بدلا جا سکے۔ سسکاوا جی تقریباً چار دہائیوں سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ کوٹھ کے خلاف ایک عوامی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ سماجی میں اب اس کو قبولیت بھی حاصل ہونے لگی ہے۔ ایسے متعدد لوگ ہیں جنہوں نے جذام کے سبب سماج سے جنہیں الگ کر دیا گیا تھا ، ان کی تکلیف کو سمجھا اور ان کو قومی دھارے میں لانےکی کوشش کی ۔لہذا ان سبھی کوششوں کا احترام کرنا ہے۔ قابل احترام باپو کو ایک سچا خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش ہے۔ جب ہم گاندھی جی کی 150 ویں جینتی منا رہے ہیں تو یہ عالمی انسان ، اس شکل میں دنیا ان کو جانیں اور خوشی کی بات ہے کہ اس بار قابل احترام باپو کا پسندیدہ بھجن ’ویشنو جن تو تینے کہئے ‘ دنیا کے تقریباً 150 ملکوں کے لوگوں نے ، وہاں کے فنکاروں نے جو ہندوستان کی کوئی زبان نہیں جانتے ہیں، انہوں نے اسی ڈھنگ سے ’ویشنو جن تو تینے کہئے ‘ ، یہ بھجن گایا اور 150 ملکوں کے گلوکاروں نے’ویشنو جن ‘ گایا ہے۔ یوٹیو ب پر آپ اگر جائیں گے تو اتنا بڑا…… یعنی بھارت کی پہچان کیسے بن رہی ہے ، کیسے بڑھ رہی ہے ، بھارت کی قبولیت میں کیسے اضافہ ہو رہا ہے اور گاندھی کے آدرش آج انسانی فلاح و بہبود کے لئے کتنے مفید ہیں ، یہ دنیا ماننے لگی ہے۔ اس کے لئے اب ہندوستان کے ہر بچے کےلئے ، ہر شہری کے لئے اس سے بڑے فخر کی کیا بات ہو سکتی ہے۔ پھر ایک بار میں سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ، قابل احترام باپو کے قدموں میں سر جھکاتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ!,নতুন দিল্লীৰ ৰাষ্ট্ৰপতি ভৱনত ‘গান্ধী শান্তি বঁটা’ প্ৰদান অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%88%D9%86%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%93%E0%A6%A8%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اونم کے موقع پر سب کو، خاص طور پر کیرالہ اور دنیا بھر میں پھیلے ملیالی کمیونٹی کے لوگوں کو مبارکباد دی ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا: “سب کو اونم کی مبارکباد، خاص طور پر دنیا بھر میں پھیلے کیرالہ اور ملیالی کمیونٹی کے لوگوں کو۔ یہ تہوار مادر فطرت کے اہم کردار اور ہمارے محنتی کسانوں کی اہمیت کی تصدیق کرتا ہے۔دعا ہے کہ اونم ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی کے جذبے کو بھی آگے بڑھائے۔”,ওনামত জনসাধাৰণক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-11-12-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%86-%DA%A9%D9%88-%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%8F%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A6%B6-%E0%A6%96%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AD%E0%A7%B0-%E0%A6%B6%E0%A7%81/,"وزیر اعظم جناب نریندر مودی 12-11 مارچ، 2022 کو گجرات کا دورہ کریں گے۔ 11 مارچ کو شام 4 بجے کے قریب وزیر اعظم گجرات پنچایت مہاسمیلن میں شرکت کریں گے اور اجتماع سے خطاب کریں گے۔ وزیر اعظم 12 مارچ کو صبح 11 بجے راشٹریہ رکھشا یونیورسٹی (آرآریو) کی عمارت کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ وہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے آر آر یو کے پہلے کنووکیشن سے خطاب بھی کریں گے۔ شام تقریباً 6:30 بجے، وزیر اعظم 11ویں کھیل مہاکمبھ کے آغاز کا اعلان کریں گے اور اس موقع پر خطاب کریں گے۔ گجرات میں تین درجاتی پنچایتی راج ڈھانچہ ہے، جس میں 33 ضلع پنچایتیں، 248 تعلقہ پنچایتیں اور 14,500 گرام پنچایتیں ہیں۔ ’���گجرات پنچایت مہا سمیلن: آپنو گام، آپنو گورو‘‘ ریاست میں تینوں پنچایتی راج اداروں کے ایک لاکھ سے زیادہ نمائندے کی شرکت کریں گے۔ راشٹریہ رکھشا یونیورسٹی (آرآریو) پولیسنگ، فوجداری انصاف اور اصلاحی انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ معیار کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ حکومت نے رکشا شکتی یونیورسٹی کو اپ گریڈ کر کے راشٹریہ رکھشا یونیورسٹی کے نام سے ایک قومی پولیس یونیورسٹی قائم کی جسے 2010 میں حکومت گجرات نے قائم کیا تھا۔ یونیورسٹی، جو کہ قومی اہمیت کا حامل ایک ادارہ ہے، نے یکم اکتوبر 2020 سے اپنا کام شروع کیا۔ یونیورسٹی صنعت سے علم اور وسائل کا فائدہ اٹھا کر نجی شعبے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے گی اور پولیس اور سیکورٹی سے متعلق مختلف شعبوں میں سنٹرز آف ایکسیلنس بھی قائم کرے گی۔ آرآر یوپولیسنگ اور داخلی سلامتی کے مختلف شعبوں میں ڈپلومہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی سطح تک تعلیمی پروگرام پیش کرتی ہے جیسے پولیس سائنس اور مینجمنٹ ، فوجداری قانون اور انصاف، سائبر سائیکولوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکیورٹی، جرائم کی تحقیقات، اسٹریٹجک لینگویجز، داخلی دفاع اور حکمت عملی، فزیکل ایجوکیشن اور کھیل، ساحلی اور سمندری سلامتی۔ فی الحال، 18 ریاستوں کے 822 طلباء ان پروگراموں میں داخلہ لیے ہوئے ہیں۔ گجرات میں 2010 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب نریندر مودی کی صاحب بصیرت قیادت میں 16 کھیلوں اور 13 لاکھ شرکاء کے ساتھ شروع ہوا کھیل مہاکمبھ آج 36 جنرل کھیلوں اور 26 پیرا کھیلوں کا احاطہ کرتا ہے۔ 45 لاکھ سے زیادہ کھلاڑیوں نے 11ویں کھیل مہاکمبھ کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے۔ کھیل مہاکمبھ نے گجرات میں کھیلوں کے ماحولیاتی نظام میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس میں عمر کی کوئی بندش نہیں ہے ، اور پوری ریاست سے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ایک ماہ تک مختلف مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ روایتی کھیلوں جیسے کبڈی، کھو کھو، رسہ کشی ، یوگ آسن ، ملاکھمبھ اور جدید کھیلوں جیسے آرٹسٹک اسکیٹنگ، ٹینس اور تلواربازی کا انوکھا سنگم ہے۔ اس نےزمینی سطح پر کھیلوں میں نوآموزکھلاڑیوں کی نشاندہی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے گجرات میں پیرا اسپورٹس بھی زور دیا ہے۔",‘একাদশ খেল মহাকুম্ভ’ৰ শুভাৰম্ভ ঘোষণা কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%88%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-23-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DA%A9%D8%AB%DB%8C%D8%B1-%D8%B1%D8%AE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%A9-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A7%87/,نئی دہلی،21دسمبر، 2021/وزیراعظم کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے حلقے وارانسی کی ترقی اور معاشی پیش رفت کے لیے کام کریں۔ اس سمت آگے بڑھتے ہوئے وزیراعظم جناب نریندر مودی وارانسی کا دورہ کریں گے اور 23 دسمبر 2021 کو دوپہر تقریباً 1 بجے کثیر رخی ترقیاتی اقدامات کا آغاز کریں گے۔ وزیر اعظم وارانسی کے کرکھیاؤں میں یو پی کے ریاستی صنعتی ترقی کے اتھارٹی کے فوڈ پارک میں بانس ڈیری سنکل کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ 30 ایکڑ رقبے میں یہ ڈیری تقریباً 475 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی جائے گی اور اِس میں پانچ لاکھ لیٹر دودھ کی روزہ ڈبہ بند کیے جانے کی سہولت ہوگی۔ اس سے دیہی معیشت کو تقویت حاصل ہوگی اور کسانوں کے لیے نئے موقعے پیدا کرتے ہ��ئے خطے میں انہیں مدد ملے گی۔ وزیراعظم تقریباً 35 کروڑ روپے کا بونس بانس ڈیری سے وابستہ 1.7 لاکھ سے زیادہ دودھ کی پیداوار کرنے والے کے بینک کھاتوں میں منتقل کریں گے۔ وزیراعظم ، دودھ کی پیداوار سے متعلق کو آپریٹیو یونین پلانٹ، رام نگر وارانسی کے لیے بایو گیس پر مبنی ، بجلی بنانے والے پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یہ دودھ کی پیداوار سے متعلق کو آپریٹیو یونین پلانٹ کو توانائی کے سلسلے میں خود کفیل بنانے کا ایک اہم قدم ہے۔ وزیراعظم ایک پورٹل اور لوگو کا بھی آغاز کریں گے جو دودھ کی پیداوار کی تجزیاتی اسکیم کے لیے مخصوص ہوگا۔ یہ پورٹل اور لوگو بھارتی معیارات کے بیورو نے ڈیری کے قومی ترقیاتی بورڈ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ یہ لوگو جس میں بی آئی ایس اور این ڈی ڈی بی دونوں کے لوگو موجود ہیں اور کوالٹی کا ایک نشان ہے اس سے ڈیری کے شعبے کے لیے سرٹیفکیٹ دیئے جانے کا عمل آسان ہو جائے گا اور عوام کو ڈیری مصنوعات کی کوالٹی کی یقین دہانی ہوگی۔ زمین کی ملکیت کے مسائل کو زمینی سطح پر کم کرنے کی ایک اور کوشش کے طور پر وزیر اعظم پنچایت راج کی مرکزی وزارت کی سوامتو اسکیم کے تحت دیہی رہائشی حقو ق کے ریکارڈ گھرونی کو ورچوئل وسیلے سے تقسیم کریں گے۔ جس میں اتر پردیش کے 20 لاکھ سے زیادہ مکینوں کو شامل کیا جائے گا۔ اس پروگرام میں وزیراعظم وارانسی میں 870 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے 22 ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے اور سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم وارانسی میں کثیر رخی شہری ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے ۔ ان میں پرانے کاشی وارڈوں کی تجدید کے چھ پروجیکٹس ، ایک پارکنگ ، بینیا باغ میں ایک سرفیس پارک، دو تالابوں کی تزیین کاری ، رمنا گاؤں میں گندے پانی کو صاف کرنے کا ایک پلانٹ اور اسمارٹ سٹی مشن کے تحت 720 جگہوں پر جدید ترین نگرانی کیمرے لگانے کا کام شامل ہے۔ وزیراعظم تعلیم کے شعبے میں جن پروجیکٹوں کا افتتاح کریں گے ان میں اساتذہ کی تعلیم کی مرکزی وزارت کا بین یونیورسٹی مرکز بھی شامل ہیں جو تقریبا ً 107 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے اور اعلیٰ تبتی مطالعات کے مرکزی اداروں نے اساتذہ کی تعلیم کا ایک مرکز شامل ہے۔ وزیر اعظم اس کے علاوہ بی ایچ یو میں رہائشی فلیٹ اورعملے کے کوارٹرز، آئی ٹی آئی کروندی کا افتتاح کریں گے۔ صحت کے شعبے میں وزیر اعظم ، ڈاکٹروں کے ہاسٹل ، نرسوں کے ہاسٹل اور شیلٹر ہوم پر مشتمل پروجیکٹ کا بھی افتتاح کریں گے جس پر 130 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ یہ پروجیکٹ مہانما پنڈت مدن موہن مالویہ کینسر سینٹر میں قائم کیا جائے گا جو بھدراسی میں 50 بستروں والے مربوط آیوش اسپتال کا افتتاح کریں گے۔ وہ آیوش مشن کے تحت تحصیل پنڈرا میں 49 کروڑ روپے کی لاگت والے سرکاری ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ وزیراعظم سڑک کے شعبے میں 4 سے 6 لین والی دو سڑکوں کا بھی سنگ بنیاد رکھیں گے جس میں ان سڑکوں کو چوڑا کیا جائے گا۔ یہ پروجیکٹ پریاگ راج اور بھدوہی سڑکوں کے لیے ہے۔ اس سے وارانسی کی کنٹیویٹی میں بہتری آئے گی اور یہ شہر کے ٹریفک کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک قدم ہوگا۔ اس مقدس شہر کے سیاحتی امکانات کو فروغ دیتے ہوئے وزیراعظم شری گرو روی داس جی مندر ، سنت گوردھن وارانسی سے متعلق سیاحت کے ترقیاتی پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کا بھی افتتاح کریں گے۔ وزیراعظم کے ہاتھوں جن دیگر پروجیکٹوں کا افتتاح ہوگا ان میں چاول سے متعلق تحقیق کا بین الاقوامی ادارہ ، جنوب ایشیائی خطے کا مرکز وارانسی ، پایک پور گاؤں میں علاقائی حوالہ جاتی معیارات سے متعلق ایک لیباریٹری اور تحصیل پنڈرا میں ایک ایڈوکیٹ بلڈنگ شامل ہے۔ ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২৩ ডিচেম্বৰত বাৰাণসীত কেইবাটাও উন্নয়নমূলক পদক্ষেপ আৰম্ভ কৰি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DB%8C%D9%88%DA%AF%DB%8C-%D8%A2%D8%AF%D8%AA%DB%8C%DB%81-%D9%86%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A6%AA%E0%A6%A4-%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%B9%E0%A6%A3-%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A6%BE-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%97%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%AF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے وزراء کی کونسل کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور وزراء کے عہدے کا حلف لینے کے لیے مبارکباد دی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کی متعدد حصولیابیوں کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلیٰ کی قیادت میں، ریاست ترقی کے نئے باب رقم کرے گی۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا: ’’اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے پر @myogiadityanath جی اور ان کی کابینہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ پچھلے پانچ سالوں میں ریاست کے ترقیاتی سفر نے کئی اہم منزلیں طے کی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں ریاست عوامی خواہشات کو پورا کرتے ہوئے ترقی کا ایک اور نیا باب رقم کرے گی۔‘‘,শপত গ্ৰহণ কৰা যোগী আদিত্যনাথ আৰু তেওঁৰ মন্ত্ৰীমণ্ডললৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%DA%BE%DB%8C%D8%A7-%D8%AF%D9%88%D8%AC-%D9%BE%D8%B1-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%83%E0%A6%A6%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,نئی دلّی ،06 نومبر، 2021/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نےبھیا دوج کے موقع پر عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا۔ सभी देशवासियों को भाई दूज की ढेरों शुभकामनाएं। ’’تمام اہل وطن کو بھیا دوج کی ڈھیروں نیک خواہشات۔ بھیا دوج کے پر مسرت موقع پر سبھی کو نیک خواہشات‘‘,ভ্রাতৃদ্বিতীয়া উপলক্ষে জনসাধাৰণক শুভেচ্ছা জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AF%D9%88%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%B4%D8%AA%D8%B1%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DA%BE%DB%8C%D9%84%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%95%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%B1%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%A5-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%AE%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%A6%E0%A6%95-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A7%80-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نئیدہلی۔ 08 اپریل 2018؛ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے دولت مشترکہ کھیلوں میں میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں کو مبارکباد دی ہے۔ ویٹ لفٹنگ مقابلے میں میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں رگالا وینکٹ راہل کے گولڈ میڈل جیتنے پر فخر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ویٹ لفٹر کی غیرمعمولی کامیابیاں مزید نوجوانوں میں ویٹ لفٹنگ کے تئیں دلچسپی پیدا کریں گی۔ خواتین کے 69 کلوگرام کے ویٹ لفٹنگ مقابلے میں گولڈ میڈل جیتنے والی کھلاڑی پونم یادو کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ویٹ لفٹنگ میں پونم یادو کا شوق اور سچی لگن قابل تحسین ہیں۔ نشانے بازوں کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے نشانے باز 2018 کے دولت مشترکہ کھیلوں کے نشانے بازی کے مقابلوں میں مخصوص حیثیت حاصل کر رہے ہیں۔ منو بھاسکر کی غیرمعمولی پیش رفت مسلسل جاری ہے اور انہوں نے خواتین کے 10 میٹر کے ایئر پسٹل مقابلے میں گولڈ میڈل جیت کر ملک و قوم کو سرخرو کیا ہے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ خواتین کے 10 میٹر کے ایئر پسٹل مقابلے میں حنا سدھو کے گولڈ میڈل جیتنے پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے وزیراعظم نے حنا سدھو کو مبارکباد اور ان کی مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات پیش کیں۔ یاد رہے کہ ہونہار اور باصلاحیت نشانے باز روی کمار نے مردوں کے دس میٹر کے ایئر رائفلز نشانے بازی کے مقابلے میں برونز میڈل جیتا ہے۔ وزیراعظم نے روی کمار کی اس کامیابی پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ روی کمار کی اس کامیابی پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ اس جواں سال نشانے باز نے کھیل کود کے شعبے کی زبردست خدمت کی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (م ن ۔ رض۔ م ج۔ ت ح(,কমনৱেলথ গেমছত পদক জয়ী ভাৰতীয় খেলুৱৈসকলক অভিনন্দন প্রধানমন্ত্রীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%B9%DA%A9%D9%88%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%A7%D8%AA%D9%88%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DA%88%DB%8C-%D9%BE%DB%8C-%D9%85%D9%84%D9%B9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A7%B0-%E0%A6%86%E0%A6%9F%E0%A6%95%E0%A7%8B%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,بھارت ماتا کی – جے بھارت ماتا کی – جے گجرات کے مقبول وزیراعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل جی، گجرات بھارتی جنتا پارٹی کے صدر سی آر پاٹل ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، پروشوتم روپالا جی، منسکھ مانڈویہ جی، ڈاکٹر مہندر مونجپارا جی، ہمارے سینئر لیڈر جناب وجو بھائی والا جی، جناب وجے روپانی جی ، پٹیل سیوا سماج ٹرسٹ کے سبھی ٹرسٹی، سبھی داتا، بڑی تعداد میں ہمیں آشرواد دینے کے لئے یہاں موجود قابل احترام سنتوں، گجرات حکومت کے دیگر وزراء، ایم پیز، ایم ایل اے، اور یہاں اتنی گرمی کے باوجود بھی اٹکوٹ میں بڑی تعداد میں آشرواد دینے کے لئے آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو، مجھے خوشی ہے کہ آج یہاں ماتوشری کے ڈی پی ملٹی -اسپیشلٹی استال کاافتتاح ہوا ہے۔ یہ اسپتال سوراشٹر میں صحت کی خدمات کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔ جب حکومت کی کوششوں میں عوام کی محنت شامل ہو جاتی ہے تو خدمت کرنے کی ہماری طاقت بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ راجکوٹ میں بنا یہ جدیداسپتال اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ بھائیو اور بہنو، مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت ملک کی خدمت کے 8 سال مکمل کر رہی ہے۔ آپ سبھی نے مجھے آٹھ سال پہلے رخصت کیا تھا، لیکن آپ کی محبت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آج جب میں گجرات کی سرزمین پر آیا ہوں تو میں اپنا سر جھکاکر گجرات کے تمام شہریوں کا احترام کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے جو سنسکار دیئے ، آپ نے جو مجھے تعلیم دی ، آپ نے جو مجھے سماج کے لئے کیسے جینا چاہئے ، یہ جو سب باتیں سکھائیں اسی کی بدولت گزشتہ آٹھ سال مادروطن کی خدمت میں میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ آپ ہی کے سنسکار ہیں ، اس مٹی کے سنسکار ہیں ، پوجیہ باپو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی اس مقدس سرزمین کے سنسکار ہے کہ آٹھ سال میں غلطی سے بھی ایسا کچھ نہیں ہونے دیا ہے ، نہ کچھ کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ کو یا ملک کے کسی شہری کو اپنا سر جھکانا پڑے۔ ان برسوں میں ہم نے غریب کی خدمت ، بہتر حکمرانی اور غریبوں کی بہبود کو اولین ترجیح دی ہے۔ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس ، سب کا پریاس ، اس منتر پر چلتے ہوئے ہم نے ملک کی ترقی کو نئی رفتار دی ہے۔ ان 8 برسوں میں ہم نے پوجیہ باپو اور سردار پٹیل کے خوابوں کا بھارت بنانے کے لئے ایمانداری سے کوشش کی ہے۔ پوجیہ باپو ایک ایسا بھارت چاہتے تھے جو ہر غریب ، دلت، محروم ، مظلوم ، ہمارے آدیواسی بھائی بہن ، ہماری مائیں ، بہنیں ان سب کو بااختیار بنائے۔ جہاں سوچھتا اور صحت طرز زندگی کا حصہ بنے۔ جس کا معاشی نظام ملک کے وسائل سے ہی چلے۔ ساتھیو، تین کروڑ سے زیادہ غریبوں کو پکے مکان، 10 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو کھلے میں رفع حاجت سے نجات، 9 کروڑ سے زیادہ غریب بہنوں کو دھوئیں سےنجات، ڈھائی کروڑ سے زیادہ غریب خاندانوں کو بجلی کنکشن، 6 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو نل سے جل ، 50 کروڑ سے زیادہ بھارتیوں کو 5 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں میرے بھائیو اور بہنو۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں، بلکہ غریب کے وقار کو یقینی بنانے کے ہمارے عزم کا ثبوت ہیں، ثبوت ساتھیو۔ بھائیو اور بہنو، غریبوں کی سرکار ہوتی ہے تو کیسے اس کی خدمت کرتی ہے ، کیسے اسے بااختیار بنانے کے لیے کام کرتی ہے، یہ آج پورا ملک دیکھ رہا ہے۔ 100 سال کے سب سے بڑے بحران میں، کورونا وبا کی اس گھڑی میں بھی، ملک نے یہ لگاتار محسوس کیا ہے۔ وبا شروع ہوئی تو غریبوں کے سامنے کھانے پینے کا مسئلہ پیدا ہوا ، تو ہم نے ملک کے اناج کے ذخیرے ملک کے عوام کے لیے کھول دیے۔ہماری ماؤں بہنوں کو عزت سے جینے کے لئے جن دھن بینک کھاتے میں راست پیسے جمع کیے، کسانوں اور مزدوروں کے بینک کھاتے میں پیسے جمع کیے، ہم نے مفت گیس سلنڈر کا بھی بندوبست کیا تاکہ غریبوں کی رسوئی چلتی رہے، اس کے گھر کا چولہا کبھی بجھ نہ پائے۔ جب علاج کا چیلنج بڑھا تو ، ہم نے ٹیسٹ سے لے کر ٹریٹمنٹ تک کی سہولت کو غریب کے لئے آسان بنادیا۔ جب ویکسین آئی تو، ہم نے یہ یقینی بنایا کہ ہر بھارتی کو ویکسین لگے،مفت لگے ۔ آپ سب کو ویکسین لگی ہے نہ ؟ ٹیکہ کاری ہوگئی ہے نہ ؟کسی کو بھی ایک پائی بھی ادا نہیں کرنی پڑی ہے۔ ؟ ایک روپئے بھی خرچ کرنا پڑا ہے آپ کو ؟ بھائیو اور بہنو، ایک طرف کورونا کی یہ مشکل گھڑی ، عالمی وبا اور آج ، آج کل تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ جنگ بھی جاری ہے۔ ٹی وی پر نصف وقت جنگ کی خبریں ہر کسی کو تشویش میں مبتلا کرتی ہیں۔ ان حالات میں بھی ہم نے مسلسل کوشش کی کہ ہمارے غریب بھائی بہن کو ، ہمارے مڈل کلاس کو ، متوسط طبقے کے بھائی بہنوں کو مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اب ہماری حکومت سہولیات کو 100 فیصد شہریوں تک پہنچانے کے لئے مہم چلا رہی ہے۔ جو جس بات کا حقدار ہے ، اسے اس کا حق ملنا چاہئے۔ جب ہر شہری تک سہولیات پہنچانے کا نشانہ ہوتا ہے تو امتیازی سلوک بھی ختم ہوتا ہے، بدعنوانی کی گنجائش بھی نہیں ہوتی، نہ بھائی بھتیجاواد رہتا ہے ، نہ ذات پات کا فرق رہتا ہے۔ اس لئے ہماری حکومت بنیادی سہولیات سے جڑی اسکیموں کو سیچوریشن تک 100 فیصد پہنچانے میں دل و جان سے مصروف ہے۔ ریاستی حکومتوں کو بھی ہم مسلسل اس کام کے لئے حوصلہ افزائی کررہے ہیں، تعاون کررہے ہیں۔ ہماری یہ کوشش ملک کے غریبوں کو ، ملک کے متوسط طبقے کو بااختیار بنائے گی۔ ان کی زندگی مزید سہل بنائے گی۔ اور آج جب یہاں جسدن میں پہلا سپر اسپیشلٹی اسپتال اور اٹکوٹ میں ، میں یہاں آیا اور استپال دیکھنے جانے کا موقع ملا ، تمام داتاؤں اور ٹرسٹیوں سے ملنے کا موقع ملا ۔ اور ٹرسٹیوں ن�� مجھے کہا صاحب، پیچھے مڑ کر دیکھنا مت، یہاں کوئی بھی آئے گا، وہ واپس نہیں جائے گا۔ یہ ٹرسٹی کے الفاظ اور ان کا جذبہ اور ایک جدید اسپتال اپنے گھرآنگن ۔ میں بھرت بھائی بوگھرا کو ، پٹیل سیوا سماج کے سبھی ساتھیو کا جتنا شکریہ ادا کروں اتنا کم ہے۔ پٹیل سیوا سماج نے لگن کے جذبے سے آج جو بڑا کام کیا ہے ، اس کے لئے آپ سبھی شکریہ کے حقدار ہیں اور اس میں سے تحریک لے کر آپ سب سماج کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عام طور پر کوئی فیکٹری کا افتتاح کرنے گیا ہو، کوئی بس اسٹیشن کا افتتاح کرنے گیا ہو، ریلوے اسٹیشن کا افتتاح کرنے گیا ہو تو اپنے من سے کہتے ہیں کہ بھائی آپ کا سب کام خوب آگے بڑھے، لوگ کوشش کریں، فیکٹری میں پروڈکشن اچھا ہو۔ لیکن اب اسپتال کے لئے کیا کہیں ، بتائیے۔ اب میں ایسا تو نہیں کہہ سکتا کہ اسپتال بھرا رہے۔ اس لئے میں نے افتتاح تو کیا ہے، لیکن ہم سماج میں ایسا صحت کا ماحول بنائیں ، کہ اسپتال خالی کے خالی رہیں۔ کسی کو آنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اور جو سب صحت مند ہوں تو کبھی بھی کسی کو آنا ہی نہیں پڑے گا۔ اور جب آنے کی ضرروت پڑے تو ، پہلے سے بھی زیادہ صحت مند ہو کر اپنے گھر جائیں۔ ایسا کام اس اسپتال میں ہونے والا ہے۔ آج گجرات میں آروگیہ کے شعبے میں جو پیش رفت ہوئی ہے ، جو انفراسٹرکچر تیار ہوا ہے، جس سطح پر کام ہورہا ہے، بھوپندر بھائی اور ان کی پوری ٹیم کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اور اس کا فائدہ گجرات کے کونے کونے میں عام سے عام فرد کو ملنے والا ہے۔ آج ہمارا یہ راجکوٹ تو ایسی جگہ ہے، کہ آس پاس کے تین چارضلعوں کو لگے کہ یہ ہمارے پاس ہی ۔ بس یہ نکلے تو آدھا یا ایک گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہی ہو کہ اپنے یہاں راجکوٹ میں گجرات کو جو ایمس ملا ہے، اس کا کام راجکوٹ میں تیزی سے چل رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں جام نگر آیا تھا، اور جام نگر میں دنیا کا ٹریڈیشنل میڈیسن سنٹر ، ڈبلیو ایچ او کے ذریعہ اپنے جام نگر میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ ایک طرف جام نگر میں آیوروید اور دوسری طرف میرے راجکوٹ میں ایمس ، اور اٹکوٹ میں۔ ہاں باپو آپ کی تو شان بڑھ گئی ۔مترو، دو دہائی قبل مجھے آپ کی خدمت کرنے کا موقع آپ نے مجھے دیا ۔ 2001 میں تب اپنے گجرات میں صرف اور صرف 9 میڈیکل کالج تھے۔ یہ سب آپ لوگ یاد رکھتے ہو کہ بھول جاتے ہو؟ یہ نئی نسل کو بتانا۔ نہیں تو ان کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ کیا حال تھا۔ صرف 9 میڈیکل کالج اور ڈاکٹر بننے کی کتنے لوگوں کی خواہش ہوتی تھی۔ تب محض 1100 سیٹیں تھیں جس میں ڈاکٹر بننے کے لئے پریکٹس کرسکے۔ اتنا بڑا گجرات 2001 میں پہلے محض 1100 سیٹیں۔ اور آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ آج سرکاری اور پرائیویٹ کالج مل کر 30 میڈیکل کالج صرف گجرات میں ہیں۔ اور اتنا ہی نہیں گجرات میں بھی ، اور ملک میں بھی ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج بنانے کا ارادہ ہے۔ ایم بی بی ایس اور پی جی کی میڈیکل سیٹیں، ایک زمانے میں 1100، اور آج 8000 سیٹیں ہیں 8000 ۔ بھائیو-بہنو، اس میں بھی ہم نے جرات مندانہ کام کیا ہے۔ آپ لوگ بتائیں غریب ماں-باپ کے بچے کو ڈاکٹر بننے کی خواہش ہو یا نہ ہو؟ ذرا کہیے تو پتہ چلے ، ہو یا نہ ہو؟ آپ ان سے لیکن انہیں پہلے پوچھے کہ، آپ انگریزی میڈیم پڑھے ہو یا گجراتی میڈیم میں۔ اگر انگریزی میں پڑھے ہو تو ڈاکٹر بننے کے دروازے کھلیں گے۔ اگر آپ گجراتی میڈیم سے پڑھے ہو تو ڈاکٹر بننے کے سارے راستے بند ۔ اب یہ ناانصافی ہے کہ نہیں، ناانصافی ہے کہ نہیں بھائی؟ ہم نے ضابطوں کو بدلا اور فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر بننا ہو، یا انجینئر بننا ہو تو مادری زبان میں بھی پریکٹس کرسکتے ہیں۔ اور لوگوں کی خدمت کی جاسکے۔ مترو، ڈبل انجن کی سرکار، ڈبل فائدہ تو ہوگا ہی نہ، ہوگا کی نہیں ہوگا ؟ اور اپنے گجرات والوں کو سمجھانا پڑے گا کہ ، ماما کے گھر بھوجن کرنے گئے ہو، اور پروسنے والی اپنی ماں ہو، تو اس کا مطلب سمجھنا پڑے گا؟ یہ ڈبل انجن کی سرکار نے گجرات کی ترقی کو نئی بلندی پر پہنچانے کا کام کیا ہے۔ ترقی کے سامنے آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کیا ہے۔ اور تیزرفتار سے ترقی کا فائدہ گجرات کو مل رہا ہے۔ 2014 کے پہلے گجرات میں ایسے بہت سے پروجیکٹ تھے، کہ دہلی میں ایسی حکومت تھی، یہاں سے پروجیکٹ جائیں تو ان کو پروجیکٹ نہیں دکھتا تھا۔ ان کو اندر مودی ہی نظرآتا تھا۔ اور ایسا دماغ خراب ہوجاتا تھا کہ فوراً ہی کینسل – ریجیکٹ۔ تمام کاموں میں تالے لگا دیئے تھے۔ اتنی ساری بے حسی، اپنی ماتا نرمدا، آپ سوچئے یہ لوگ نرمدا میا کو روک کر بیٹھے تھے۔ یہ سردار سرور ڈیم بنانے کے لئے ہمیں اپواس کرنا پڑا تھا۔ یاد ہے نہ ؟ یا د ہے نہ ساتھیو ؟ اور یہ اپواس رنگ لایا اور سردار سروور ڈیم بن گیا۔ سونی یوجنا بن گئی۔ اور نرمدا میا نے کچھ- کاٹھیاواڑ کی سرزمین پر آکر ہماری زندگی کو روشن بنایا۔ یہ کام ہوتا ہے ہمارے یہاں۔ اور اب تو سردار سروور، سردار ولبھ بھائی پٹیل، پوری دنیا میں سب سے بڑا اسٹیچو، پوری دنیا میں سردار صاحب کا نام گونج رہا ہے۔ اور لوگ جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ، اپنے گجرات میں اتنا بڑا کام، اتنی جلدی۔ یہی تو گجرات کی طاقت ہے بھائی۔ انفراسٹرکچر کی تیزترقی کا فائدہ گجرات کو ملا ہے۔ غیرمعمولی رفتار سے، غیرمعمولی اسکیل پر آج گجرات میں انفراسٹرکچر کا کام آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا فائدہ گجرات کے تمام توسیع شدہ علاقوں کو ملا ہے۔ ایک زمانہ تھا ، کہ صنعت کا نام ہو تو صرف اور صرف بڑودہ سے واپی۔ نیشنل ہائی وے سے جائیں ، تو ان کے آس پاس سب کارخانے دکھیں۔ یہیں اپنی صنعتی ترقی تھی۔ آج آپ گجرات کی کسی بھی سمت میں جائیں چھوٹی بڑی صنعت، کارخانے تیز رفتار سے چل رہے ہیں۔ اپنی راجکوٹ کی انجینئرنگ صنعت بڑی بڑی گاڑیاں کہیں بھی بنتی ہوں، گاڑی چھوٹی بنتی ہو یا بڑی بنتی ہو، لیکن اس کا چھوٹے سے چھوٹا پرزہ آپ کے راجکوٹ سے جاتا ہے۔ آپ سوچئے، احمدآباد-ممبئی بلیٹ ٹرین ، ہائی اسپیڈ ٹرین کا تیزرفتار سے کام چل رہا ہے۔ ویسٹرن ڈیڈکیٹیڈ کوریڈور ممبئی سے دہلی تک، اور اس میں لاجسٹک کے بندوبست کا کام تیزرفتار سے چل رہا ہے۔ ان سب کا فائدہ گجرات کا ہائی وے جب چوڑا ہو، ڈبل ٹرپل چھ لائن، اور یہ سب گجرات کی بندرگاہوں کی طاقت بڑھانے میں مدد کرے گا۔ ایر-کنکٹویٹی ، آج گجرات میں غیرمعمولی توسیع دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اور رو-رو فیری سروس ، مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تب اخباروں میں پڑھتے کہ یہ رو-رو فیری سروس کیا ہے ؟ میں وزیراعلیٰ بنا تب میں نے پوچھا کہ بھائی یہ ہے کیا ؟ کس کونے میں ہے ؟بچپن سے سنتے آرہے تھے، آج رو-رو فیری سروس شروع ہوگئی ہے۔ اور یہ لوگ 350-300 کلومیٹر کے بدلے ، سورت سے کاٹھیاواڑ آنا ہو تو آٹھ گھنٹے بچاکر گنتی کے وقت میں ہم پہنچ جاتے ہیں۔ ترقی کیسے ہوتی ہے، یہ آج ہم نے دیکھا ہے۔ ایم ایس ایم ای گجرات کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔ پورے سوراشٹر کے اندر ایک زمانہ تھا، نمک کے سوائے کوئی صنعت نہیں تھی، کاٹھیاواڑ خالی ہورہا تھا، روزی روٹی کم��نے کے لئے کچھ – کاٹھیاواڑ کے لوگوں کو ہندوستان کے کونے -کونے میں بھٹکنا پڑتا تھا لیکن آج ہندوستان کے لوگوں کو کچھ-کاٹھیاواڑ آنے کا من ہوتا ہے۔ بندرگاہ دھم دھما رہے ہیں، یہ گجرات کی شبیہ بدلی ہے مترو۔ اپنے موربی کے ٹائلس کی صنعت دنیا میں ڈنکا بجارہی ہے۔ ہمارے جام نگر کے براس کی صنعت ، دنیا میں اس کی پہنچ بڑھی ہے۔ اب تو فارما انڈسٹری، دوا کی کمپنیوں، ایک زمانے میں سریندر نگر کے پاس دوا کی کمپنی آئیں اس کے لئے گجرات کی سرکار اتنے سارے آفر دیتی تھی۔ لیکن کچھ ہوہی نہیں رہا تھا۔ آج دوا کی بڑی بڑی کمپنیاں گجرات اور سوراشٹر کی سرزمین پرمضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہیں بھائی۔ کئی توسیع ایسی ہیں جس میں گجرات تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ بھائیو-بہنو گجرات کی صنعت کی ترقی کا جو کوئی فائدہ ہو، اس میں ون ڈسٹرکٹ – ون پروڈکٹ کی مہم پورے ملک میں چلی ہے۔ اور سوراشٹر کی پہچان بھی ہے۔ اور وہ ہمارے کاٹھیاواڑ کی پہچان، ہمارے کچھ کی پہچان، ہمارے گجرات کی پہچان، بہادر سوبھاؤ، خمیر جیون، پانی کے فقدان کے بیچ میں بھی زندگی جینے والا گجرات کا شہری آج کھیتی کے شعبے میں بھی اپنا ڈنکا بجارہا ہے۔ یہی گجرات کی طاقت ہے بھائیو، اور طاقت کو ترقی کے راستے پر لے جانے کے لئے، سرکار دہلی میں بیٹھی ہو یا سرکار گاندھی نگر میں بیٹھی ہو، ہم چاروں سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں بھائیو۔ آج جب آروگیہ کی اتنی ساری سہولیات بڑھ رہی ہیں ،تب میری طرف سے اس توسیع کے سبھی شہریوں کو مبارک باد دیتاہوں.آپ یقین رکھیئے گا، ابھی بھوپیندربھائی کہہ رہے تھے ،پی ایم جے اے وائی یوجنا ،آیوشمان یوجنا دنیا کی بڑی سے بڑی یوجنا اپنے یہاں چل رہی ہے ۔امریکہ کی کل آبادی سے بھی زیادہ لوگ ، اس کا فائدہ اٹھائیں ایسی یوجنا اپنے یہاں چل رہی ہے ۔یوروپ کے ملکوں کی آبادی سے بھی زیادہ لوگ فائدہ اٹھائیں ،ایسی یوجنا بھارت میں چل رہی ہے ۔50کروڑ لوگوں کو آیوشمان کارڈ کے ذریعہ خطرناک سے خطرناک بیماری ہو،پانچ لاکھ روپئے تک کی بیماری کا خرچ سرکار اٹھاتی ہے ،بھائیو-بہنوسرکار۔ بھائیو، غریبی اور غریب کی پریشانی ، یہ مجھے کتاب میں پڑھنا نہیں پڑا، ٹی وی کے پردے پر نہیں دیکھنا پڑا، مجھے پتہ ہے کہ غریبی میں زندگی کیسے جی جاتی ہے۔ آج بھی اپنے سماج میں ماتا-بہنوں کو بیماری ہو، تکلیف ہوتی تو بھی خاندان میں کسی کو کہتی نہیں ہیں، تکلیف برداشت کرتی ہیں، اور گھر کا کام کرتی ہیں، اور اگر گھر میں کوئی بیمار ہو تو اس کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ خود کو ہونے والے درد کی بات ماتا-بہنیں کسی کو کہتی نہیں۔ اور جب بڑھ جائے تو بھگوان سے پرارتھنا کرتی ہیں ، کہ مجھے اٹھا لو۔ میری وجہ سے میرے بچے دکھی ہورہے ہیں۔ بیٹا-بیٹی کو پتہ چلے تو ، کہیں ماں ہم کوئی اچھے اسپتال میں جاکر علاج کراتے ہیں۔ تب ماں کہتی ہے، بھائی اتنا سارا قرضہ ہوجائے گا، اور اب مجھے کتنا جینا ہے۔ اور تم لوگ قرض میں ڈوب جاؤگے، تمہاری نسل پوری ڈوب جائے گی، بھگوان نے جتنے دن دیئے ہیں، اتنے دن جیؤں گی۔ ہمیں اسپتال نہیں جانا۔ ہمیں قرضہ لے کر دوا نہیں کرانا۔ ہمارے ملک کی ماتا-بہنیں پیسے کی وجہ سے علاج نہیں کراتی تھیں۔ بیٹا قرضہ میں نہ ڈوب جائے اس وجہ سے اسپتال نہیں جاتی تھیں۔ آج ان ماتاؤں کے لئے دہلی میں ایک بیٹا بیٹھا ہے، ماتاؤں کو دکھ نہ ہو، ان کو آپریشن کی ضرورت ہو، پیسے کی وجہ سے آپریشن رکے نہیں، اس کے لئے آیوش یوجنا چلائی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ اس اسپتال میں بھی ، آیوشمان کارڈ لے کر آنے والے شخص کو سرکار کی یوجنا کا پوار فائدہ ملنے کا بندوبست کیاگیا ہے ۔ اور اس وجہ سے کسی کو اپنی جیب میں سے روپئے دے کر علاج کرانا پڑے ایسا دن نہیں آئے گا۔ آپ سوچئے جن اوشدھی کیندر، متوسط طبقے کے خاندان ہو، فکسڈ انکم ہو، اور پریوار میں ایک بزرگ کو مانو کی ذیابیطس کی بیماری ہو، تو اسے مہینے میں 1500-1200 کی دوا کرانی پڑتی ہے۔ اسے روز انجیکشن لینا پڑے یا پھر گولی کھانی پڑے ۔ اور اتنی مہنگی دوا، عام متوسط طبقہ کا کیا ہو، اپنے ہندوستان کے کونے کونے میں جن اوشدھی کیندر کھولے گئے ہیں اور جو دوا کے مہینے میں 2000 کا خرچ ہوتا ہو ، وہ دوا 100 روپئے ملے، اور کسی کو بھی دوا کے بغیر دکھی نہ ہونا پڑے۔ اس لئے ہندوستان میں سینکڑوں کی تعداد میں جن اوشدھی کیندر چلائے جارہے ہیں۔ اور جس کی وجہ سے عام آدمی سستے میں دوا لے کر خود کے جسم کو آرام دینے کے لئے کوئی بھی نئے بوجھ کے بغیر بندوبست کو سنبھال سکتا ہے۔ بھائیو-بہنو سوچھتا، پانی، ماحول یہ سب چیزیں صحت کے لئے ضروری ہیں ۔ یوگ کا بین الاقوامی دن صحت کے لئے ہم چلا رہے ہیں۔ میری آپ سبھی سےگزارش ہے ، آپ سب کی اچھی صحت رہے، تندرست رہو، اپنے گجرات کا ایک ایک بچہ صحت یاب رہے، اپنے گجرات کا مستقبل تندرست رہے، اس کے سنکلپ کے ساتھ آج اس مبارک موقع پر سماج کے سبھی لوگوں کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں۔ داتاؤں کو مبارکباد دیتا ہوں، ان داتا کی ماتاؤں کو مبارکباد دیتا ہوں، جس نے ایسی اولادوں کو، ایسے سنسکار دے کر بڑا کیا ۔ جنہوں نے سماج کے لئے اتنا بڑا کام کیا ہے۔ ان سب کو مبارکباد دے کر آپ سب کو پرنام کرکے، آپ لوگوں نے اتنا پیار دیا، لاکھوں کی تعداد میں اتنی گرمی میں آپ کا یہاں آنا، یہی آشرواد میری سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی میرا دھن ہے۔ ہزاروں بہنیں اپنی کاٹھیاواڑی روایت کے طور پر کلش سر پر رکھ کر دھوپ میں کھڑے رہ کر مجھے آشرواد دے رہی تھیں۔ اپنی ماتاؤں-بہنو، سرو سماج کی بہنیں اپنے گھر میں کوئی موقع ہو اس طرح مجھے آشرواد دیا ہے۔ میں ان تمام ماتاؤں-بہنوں کو پرنام کرتا ہوں۔ ان کے آشرواد کے مطابق بھارت کی اور گجرات کی خدمت کرتا رہوں۔ یہ آپ کا آشرواد رہے۔ بہت -بہت شکریہ۔ بھارت ماتا کی – جے بھارت ماتا کی – جے بہت بہت شکریہ !,গুজৰাটৰ আটকোটত মাতুশ্ৰী কে.ডি.পি. মাল্টিস্পেচিয়েলিটি হস্পিটেল উদ্বোধনৰ সময়ত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে দিয়া ভাষণৰ পূৰ্ণ পা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D9%88%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%DA%AF%D9%88%D8%A7-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8B%E0%A7%B1%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-%E0%A6%89%E0%A6%AA%E0%A6%B2%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87/,"نئی دہلی۔ 19 دسمبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے گوا میں 'یوم آزادی گوا' کے موقع پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔ وزیر اعظم نے تقریب میں مجاہدی آزادی اور 'آپریشن وجے' میں شامل ہونے والے فوجیوں کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کیا، جن میں فورٹ اگوڈا جیل میوزیم کی تزئین و آرائش، گوا میڈیکل کالج میں سپر اسپیشلٹی بلاک، نیو ساؤتھ گوا ڈسٹرکٹ ہسپتال، موپا ہوائی اڈے پر ایوی ایشن اسکل ڈیولپمنٹ سینٹر اور ڈابولم-نویلیم، مارگاؤ میں گیس سے موصل سب اسٹیشن شامل ہیں۔ انہوں نے گوا میں بار کونسل آف انڈیا ٹرسٹ کی انڈیا ��نٹرنیشنل یونیورسٹی آف لیگل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گوا کی سرزمین، گوا کی ہوا، گوا کا سمندر، قدرت کے شاندار تحفے سے نوازا گیا ہے۔ اور آج سب کا، گوا کے لوگوں کا یہ جوش، گوا کی آزادی کے فخر میں اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں آزاد میدان میں شہید میموریل میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد انہوں نے میرامار میں سیل پریڈ اور فلائی پاسٹ کا بھی معائنہ کیا ۔ انہوں نے ملک کی جانب سے ’آپریشن وجے‘ کے ہیروز اور سابق فوجیوں کو اعزاز دینے پر بھی خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے متعدد مواقع فراہم کرنے اور بہت سارے حیرت انگیز تجربات کے لیے متحرک گوا کے جذبے کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گوا اس وقت پرتگالی تسلط میں آیا جب ہندوستان کا بیشتر حصہ مغلوں کے زیر تسلط تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے کئی نشیب و فراز دیکھے ۔ جناب مودی نے بتایا کہ صدیوں تک اقتدار کے اتھل پتھل کے باوجود بھی نہ تو گوا اپنی ہندوستانیت کو بھولا ہے اور نہ ہی باقی ہندوستان نے گوا کو فراموش کیا ہے۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے۔ گوا کے لوگوں نے بھی آزادی اور سوراج کی تحریکوں کو سست نہیں پڑنے دیا۔ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک آزادی کے شعلے کو روشن رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان صرف ایک سیاسی طاقت نہیں ہے۔ ہندوستان انسانیت کے مفادات کے تحفظ کا ایک نظریہ اور ایک خاندان ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ایک جذبہ ہے جہاں قوم 'خود' سے بالاتر ہے اور سب سے مقدم ہے۔ جہاں صرف ایک ہی منتر ہو – قوم پہلے، جہاں صرف ایک ہی عزم ہے – ایک بھارت، شریشٹھ بھارت۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پورے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں ایک خلش تھی کیونکہ ملک کا ایک حصہ ابھی بھی آزاد نہیں ہوا تھا اور کچھ ہم وطنوں کو آزادی نہیں ملی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر سردار پٹیل چند سال اور زندہ رہتے تو گوا کو آزادی کے لیے اتنا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ وزیراعظم نے جدوجہد کے ہیروز کو سلام پیش کیا ۔ گوا مکتی ویموچن سمیتی کے ستیہ گرہ میں شامل 31 ستیہ گرہیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ انہوں نے سبھی سے زور دے کر کہا کہ وہ ان قربانیوں اور پنجاب کے ویر کرنیل سنگھ بینی پال جیسے ہیروز کے بارے میں سوچیں۔ وزیر اعظم نے کہا، ""گوا کی جدوجہدآزادی کی تاریخ صرف ہندوستان کے عزم کی علامت نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کی زندہ دستاویز ہے""۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل اٹلی اور ویٹیکن سٹی کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ وہاں گئے تھے تو انہیں پوپ فرانسس سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ ہندوستان کے بارے میں پوپ کا رویہ بھی اتنا ہی زبردست تھا۔ وزیر اعظم نے پوپ کو ہندوستان آنے کی اپنی دعوت کے بارے میں بھی بتایا ۔ ان کی دعوت پر پوپ فرانسس کے ردعمل کو جناب مودی نے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس نے کہا تھا ""یہ آپ کا مجھے دیا گیا سب سے بڑا تحفہ ہے""۔ وزیر اعظم نے اس رد عمل کو ہندوستان کے تنوع، ہماری روشن جمہوریت کے تئیں پوپ کی محبت کے طور پر اجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے سینٹ ملکہ کیتیون کے مقدس آثار کو جارجیا کی حکومت کے حوالے کرنے کے بارے میں بھی بات کی۔ حکمرانی میں گوا کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گوا کی قدرتی خوبصورتی ہمیشہ سے اس کی پہچان رہی ہے لیکن اب یہاں کی حکومت گوا کی ایک اور شناخت کو مستحکم کر رہی ہے۔ ریاست کی نئی پہچان یہ ہے کہ وہ حکمرانی کے ہر کام میں سب سے آگے ہے۔ دوسری جگہوں پر، جب کام شروع ہوتا ہے، یا کام میں پیش رفت ہوتی ہے، گوا اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے گوا کی شاندار مثال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست نے کھلے میں رفع حاجت سے پاک بنانے، ٹیکہ کاری، ’ہر گھر جل‘، پیدائش اور اموات کے اندراج اور لوگوں کے لیے زندگی کی آسانی کو بڑھانے اور دیگر اسکیموں کے نفاذ میں مثال پیش کی ہے۔ انہوں نے سویم پورنا گوا ابھیان کی کارکردگی کی ستائش کی۔ انہوں نے ریاست کی حکمرانی میں کامیابی کے لیے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے ریاست میں سیاحت کے فروغ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے حال ہی میں ختم ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا کے کامیابی سے انعقاد کے لیے ریاست کی ستائش کی۔ وزیر اعظم نے آنجہانی جناب منوہر پاریکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ، ""جب میں گوا کی ان کامیابیوں کو دیکھتا ہوں، اس نئی شناخت کو تقویت ملتی ہے، تو مجھے اپنے دوست منوہر پاریکر جی کی بھی یاد آتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف گوا کو ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ گوا کی صلاحیت کو بھی وسعت دی۔ کوئی اپنی ریاست، اپنے عوام سے آخری سانس تک کیسے سرشار رہ سکتا ہے؟ ہم نے اسے ان کی زندگی میں دیکھا""۔ انہوں نے کہا کہ قوم نے منوہر پاریکر میں گوا کے لوگوں کی ایمانداری، ہنر اور تندہی کا عکس دیکھاتھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",গোৱা মুক্তি দিৱস উপলক্ষে আয়োজিত অনুষ্ঠানত অংশগ্ৰহণ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%82%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%95%E0%A7%8B-%E0%A6%B8%E0%A6%B9/,نئیدہلی۔20؍فروری۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ کمیٹی نے ریلوے کے شعبے کے مختلف میدانوں میں طویل مدتی تعاون اور شراکت داری کو فروغ دینے کیلئے بھارت اور مراقش کے ریلوے کے قومی دفتر (او این سی ایف) کےد رمیان تعاون کے معاہدے کو اثرمعکوس کے ساتھ منظوری دی ہے۔ تعاون کے اس معاہدے سے مندرجہ ذیل میدانوں میں تکنیکی تعاون ملے گا۔ الف۔ تربیت اور عملے کا فروغ ب۔ مہارت کے مشن ،تجربے اور عملے کا تبادلہ اور ج۔ ماہرین کے تبادلے سمیت باہمی تکنیکی مدد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,ৰে’ল খণ্ডত ভাৰত-মৰক্কো সহযোগিতা চুক্তিৰ প্ৰতি কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%A7%D9%85%D8%A8%DB%8C%DA%88%DA%A9%D8%B1%DA%A9%DB%92-%D9%85%DB%81%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C-%D9%86%D8%B1%D9%88%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A7%B1-%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%87%E0%A6%A6%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%B9%E0%A6%BE/,نئی دہلی ،6 دسمبر: وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر کے مہاپری نروان دیوس کے موقع پر انھیں خراج عقیدت پیش کیاہے ۔اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ،میں ڈاکٹرباباصاحب امبیڈکر کو ،ان کے مہاپری نروان دیوس کے موقع پرخراج عقیدت پیش کرتاہوں ۔ وزیراعظم نے کہاہے کہ جب مجھے ممبئی میں چیتہ بھومی میں عبادت کرنے کاموقع ملا تومیں نے اپنے آپ کو ازحدخوش قسمت محسوس کیا۔ اس موقع پر لی گئی کچھ تصاویر شیئرکرناچاہتاہوں ۔ https://twitter.com/narendramodi/stat,বাবাচাহেৱ আম্বেদকাৰৰ মহানিৰ্বাণ দিৱসত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাঞ্জলি +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7-%DA%AF%DB%8C%D9%B9-%D9%BE%D8%B1-%D9%86%DB%8C%D8%AA%D8%A7-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%DB%81%D9%88%D9%84%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%AC%D8%B3%D9%85%DB%92-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE-%E0%A6%97%E0%A7%87%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%B9%E0%A6%B2/,نئی دہلی،23 جنوری 2022/ اس تاریخی پروگرام میں موجود وزراء کی کونسل کے میرے ساتھی جناب امت شاہ ، جناب ہردیپ سنگھ پوری جی، کابینہ کے دیگر ممبران، آئی این اے کے تمام ٹرسٹی، این ڈی ایم اے کے تمام ،جیوری ممبرس، این ڈی آر ایف، کوسٹ گارڈز اورآئی ایم ڈی کے ڈائریکٹر جنرلز ، آفات انتظامی ایوارڈز کے تمام فاتحین ساتھی، دیگر تمام معزز شخصیات، بھائیو اور بہنو! بھارت ماں کے بہادر بیٹے، نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں یوم پیدائش پر پورے ملک کی جانب سے میں آج نمن کرتا ہوں۔ یہ دن تاریخی ہے، وقت کا یہ حصہ بھی تاریخی ہےا ور یہ مقام ،جہاں ہم سبھی جمع ہوئے ہیں وہ بھی تاریخی ہے۔ ہندستان کے جمہوریہ کے علامت ہمارےٹیلنٹ پاس میں ہے، ہماری سرگرمیاں اور عوامی ایمانداری کی علامت متعدد عمارتیں بھی ہمارے ساتھ پاس میں نظر آرہی ہیں ، ہمارے بہادر شہیدوں اور ملک کو وقف وار میموریل بھی پاس ہے۔ ان سب کے سائے میں آج ہم انڈیا گیٹ پر امرت مہوتسو منارہے ہیں اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کو باعزت خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔نیتاجی سبھاش، جنہوں نے ہمیں آزادی اور خودمختار ہندستان کا یقین دلایا تھا، جنہوں نے بڑے فخر کے ساتھ، خود اعتمادی کے ساتھ ، بڑے حوصلہ کے ساتھ انگریزی حکمرانی کے سامنے کہا تھا’’ میں آزادی کی بھیک نہیں لوں گا، میں اسے حاصل کروں گا‘‘ْْ ۔ جنہوں نے ہندستان کی سرزمین پر پہلی آزادحکومت کو قائم کیا تھا، ہمارے ان نیتا جی کا شاندار مجسمہ آج ڈیجیٹل شکل میں انڈیا گیٹ کے نزدیک قائم ہورہا ہے۔ جلد ہی اس ہولوگرام مجسمے کے مقام پر گرینائیٹ کا عظیم مجسمہ بھی لگے گا۔ یہ مجسمہ آزادی کے عظیم ہیرو کو احسان مند ملک کی خراج عقیدت ہے۔ نیتا جی سبھاش چندر کی یہ مورتی ہمارے جمہوری اداروں کو ،ہماری نسلوں کو، وطن کے فرض کا احساس کرائیں گی، آنے والی نسلوں کو ، موجودہ نسلوں کو مسلسل ترغیب دیتی رہیں گی۔ ساتھیو! گزشتہ سال سے ملک میں نیتا جی کی سالگرہ کویوم پراکرم کے طور پر منانا شروع کیاہے۔ آج یوم پراکرم کےموقع پر سبھا ش چندر بوس آفات انتظام ایوراڈ بھی دیئے گئےہیں۔ نیتاجی کی زندگی سے ترغیب لیتے ہوئے ان ایوارڈز کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ سال 2019 سے 2022 تک اسوقت کے تمام فاتحین، تمام افراد، تمام تنظیموں کو جنہیں آج عزت افزائی کا موقع ملا ہے، ان سب کو بھی میں بہت بہت مبارک دیتا ہوں۔ ساتھیو! ہمارے ملک میں آفات کے انتظام کو لے کر جس طرح کا رویہ رہا تھا، اس پر ایک کہاوت بہت درست بیٹھتی ہے۔جب پیاس لگی تو کنواں کھودنا۔ اور جیسے میں کاشی علاقے سے آتا ہوں وہاں تو ایک اور بھی کہاوت ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ’بھوج گھڑی کوہڑا روکے‘۔ْ یعنی جب کھانے کا وقت آگیا توکوہڑے کی سبزی اگانے لگنا، یعنی جب آفت سر پر آجاتی تھی تو اس سے بچنےکی تدابیر کھوجی جاتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں ، ایک اور حیران کرنے والا نظام تھا۔ جس کے با��ے میں کم ہی لوگوں کو پتہ ہے۔ ہمارےملک میں بارش تک آفت کا موزوں ، ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ (زرعی محکمہ) کے پاس رہتا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سیلاب، ژالہ باری،انتہائی بارش ایسی جو صورتحال پیدا ہوتی تھیں اس سے نمٹنےکا ذمہ اس کا تعلق وزارت زراعت سے آتا تھا۔ ملک میں جب آفات کا انتظامایسا ہی چلتا رہتا تھا ۔ لیکن 2001 میں گجرات میں زلزلہ آنے کے بعد جو کچھ ہوا ملک کس نئے سرے سے سوچنے کے لئے مجبور کیا۔اب اس نے آفات انتظام کے معنی بدل دیئے۔ ہم نے تمام محکموں اور وزارتوں کو راحت اور بچاؤ کے کام میں جھونک دیا۔اس وقت کےجو تجربات تھے، ان سے سیکھتے ہوئے ہی 2003 میں گجرات اسٹیٹ ڈیزاسٹر منجمنٹ ایکٹ بنایا گیا۔ آفت سے نمٹنے کے لئے گجرات اس طرح کا قانون بنانے والی ملک کی پہلی ریاست بنی۔ بعد میں مرکزی حکومت نے، گجرات کے قانون سے سبق لیتے ہوئے 2005 میں پورے ملک کے لئےایسا ہی ڈیزاسٹر منجمنٹ ایکٹ بنایا۔ اس قانون کے بعد ہی نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی اور اس کے قیام کا راستہ ہموار ہوا۔ اسی قانون نے کورونا کے خلاف لڑائی میں بھی ملک کی بہت مدد کی۔ ساتھیو! ڈیزاسٹر منجمنٹ کو موثر بنانے کے لئے 2014 کے بعد سےہماری حکومت نے قومی سطح پر چوطرفہ کام کئے ہیں۔ ہم نے ریلیف، ریکسیو، ری ہیبلی ٹیشن پرزور دینے کے ساتھ ہی ریفارم پر بھی زور دیا ہے۔ ہم نے این ڈی آر ایف کو مضبوط کی، اس کی جدید کاری کی، ملک بھر میں اس کی توسیع کی۔ اسپیس ٹکنالوجی سے لے کر پلاننگ منجمنٹ بیسٹ پوسیبل پریکٹیس کو اپنایا۔ ہمارے این ڈی آر ایف کےساتھی، اور حفاظتی دستوں کے جوان اپنی جان کی بازی لگاکر ایک ایک زندگی کو بچاتے ہیں۔ اس لئے آ ج یہ گھڑی جان کی بازی لگانے والے ، دوسروں کی زندگی بچانے والے خود کی زندگی کو داؤں پر لگانے والے چاہے وہ این ڈی آر ایف کے لوگ ہوں ،چاہے ایس ڈی آر ایف کے لوگ ہیں، ہمارے حفاظتی دستے کےساتھ ہوں،یہ سب کے سب ان کے تئیں آج احسان مند ی ظاہر کرنے کا، ان کو سلیوٹ کرنے کا یہ وقت ہے۔ ساتھیو! اگر ہم اپنے نظاموں کو مضبوط کرتے چلیں ، تو آفات سے نمٹنے کی صلاحیت دنوں دن بڑھتی چلی جاتی ہے۔میں اسی کورونا دور کے ایک دو سال کی بات کروں تو اس وبا کے درمیان بھی ملک کے سامنے کئی آفات آکرکھڑی ہوگئیں۔ ایک طرف کورونا سے تو لڑائی لڑ ہی رہےتھے، متعدد مقامات پر زلزلے آئے ، کتنے ہی علاقوں میں سیلاب آیا ، مغربی بنگال سمیت مشرقی ساحلی پر طوفان آئے،گوا، مہاراشٹر، گجرات، مغربی ساحلوں پر طوفان آئے، پہلے ایک ایک طوفان میں سیکڑوں لوگوں کی موت ہوجاتی تھی، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ ملک نے ہر چیلنج کا جواب اسی طرح سے دیا، اسی وجہ سے ان آفات میں ہم زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے۔ آج بڑی بڑی بین الاقوامی ایجنسیاں ہندستان کی اس صلاحیت کی تعریف کررہی ہیں۔ آج ملک میں ایک ایسا اینڈ ٹو اینڈ سائیلکلون سسٹم ہے جس میں مرکز ، ریاست، مقامی ا نتظامیہ، تمام ایجنسیاں ایک ساتھ ملکر کام کرتی ہیں۔ سیلاب، قحط سالی، طوفان ، ان سبھی آفات کے لئے وارننگ سسٹم میں سدھار کیا گیا ہے۔ ڈیزاسٹر رسک اینالسس کے لئے ایڈوانس ٹولز بنائے گئےہیں ، ریاستوں کی مدد سے الگ الگ علاقوں کے لئے ڈیزاسٹر رسک میپ بنائے گئے ہیں۔ اس کا فائدہ تمام ریاستوں کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل رہا ہے۔ اور سب سے اہم ، ڈیزاسٹر منجمنٹ ، آفات انتظام آج ملک میں عوامی حصے داری اور عوامی اعتمادکا موضوع بن گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے ک��’ آفات متر‘ جیسی اسکیم سے نوجوان آگے آرہے ہیں۔ آفت متر کے طور پر ذمہ داریاں اٹھار رہے ہیں۔ یعنی عوامی حصہ داری بڑھ رہی ہے۔ کہیں کوئی آفت آتی ہے تو لوگ وکٹمس نہیں رہتے ، وہ والینڑیئر س بن کر آفت کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ یعنی آفات انتظام اب ایک سرکاری کام نہیں ہے ، بلکہ یہ ’سب کا پریاس‘ کا ایک ماڈل بن گیا ہے۔ اور ساتھیو! جب میں سب کی کوشش کی بات کرتا ہوں تو اس میں ہر شعبے میں ہورہی کوشش ایک ہولسٹک اپروچ بھی شامل ہے۔آفات انتظام کو ترجیح دیتے ہوئے ہم نے اپنے ایجوکیشن سسٹم میں بھی متعدد تبدیلیاں کی ہیں۔ جو سول انجیئنرنگ کے کورس ہوتےہیں ، آرکیٹیچر سے جڑے کورس ہوتےہیں، اس کے نصاب میں ڈیزاسٹر منجمنٹ کو جوڑا، انفراسٹکچر کی ساخت کیسی ہے، اس پر موضوع کو جوڑنا، یہ سارے کام کوشش طلب ہیں۔ حکومت نے ڈیم فیلیور کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ڈیم سیفٹی قانون بھی بنایا ہے۔ ساتھیو! دنیا میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو اس میں لوگوں کی دکھ بھری موت کی بات ہوتی ہے، کہ اتنے لوگوں کی موت ہوگئی ، اتنے لوگوں کو ہٹایا گیا، مالی نقصان بھی بہت ہوتا ہے، اس کی بھی بات چیت کی جاتی ہے۔ لیکن آفت میں جو انفراسکرکچر کا نقصان ہوتاہے، وہ تصور سے دور ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ آج کے وقت میں انفراسٹرکچر کی تعمیر ایسی ہونی چاہئے جو آفات میں بھی ٹک سکے، اس کا سامنا کرسکے۔ ہندستان آج ملک میں بھی تیزی سے کام کررہا ہے، جن علاقوں میں زلزلہ، سیلاب یا طوفانوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے، وہاں پر پی ایم آواس یوجنا کے تحت بن رہے گھروں میں بھی اس کا دھیان رکھا جاتاہے،۔ اتراکھنڈ میں جو چار دھام عظیم پروجیکٹ کا م چل رہا ہے، اس میں بھی آفات کے نظام کا دھیان رکھا گیا ہے۔ اترپردیش میں بھی جو نئے ایکسپریس وے بن رہے ہیں، ان میں بھی آفات سے جڑی باریکیاں کو ترجیح دی گئی ہے۔ آفات کی صورت میں یہ ایکسپریس وے ، جہاز اتارنے کے کام آسکیں، اس کا بھی حل کیا گیا ہے۔ یہی نئے ہندستا ن کا وژن ہے، نئے ہندستان کا سوچنے کا طریقہ ہے۔ ساتھیو! ساتھیو! ڈیزاسٹر ریزیلینٹ انفرانسٹرکچر کی اسی سوچ کے ساتھ دنیا کو بھی ایک بہت بڑی تنظیم کا خیال دیاہے، تحفہ دیا ہے۔ یہ تنظیم ہیں، سی ڈی آر آئی –کولیشن فارڈیزاسٹر ریزیلیٹ انفراسٹرکچر۔ ہندستان کی اس پہل میں برطانیہ ہمارا اہم ساتھی بنا ہے اور آج دنیا کے 35 ملک اس سے جڑ چکے ہیں۔ دنیا کے الگ الگ ملکوں کے درمیان فوجوں کے درمیان ہم نے ان جوائنٹ ملٹری ایکسرسائز بہت دیکھی ہے۔ پرانی روایات ہیں ، اس کی بات چیت بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہندستان نے پہلی مرتبہ ڈیزاسٹر منجمنٹ کے لئے جوائنٹ ڈرل کی روایت شروع کی ہے۔ کئی ممالک میں مشکل وقت میں ڈیزاسٹر منجمنٹ سے جڑی ایجنسیوں نے اپنی خدمات دی ہیں۔ انسانیت کے تئیں اپنے فرض کو نبھایا ہے جب نیپال میں زلزلہ آیا ، اتنی بڑی تباہی مچی تو ہندستاننے ایک دوست کی طرح اس دکھ کو باٹنے کے لئے ذرا بھی دیری نہیں کی تھی۔ ہمارے این ڈی آر ایف کے جوان وہاں فوری پہنچ گئے تھے۔ ڈیزاسٹر منجمنٹ کا ہندستان کا تجربہ صرف ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے آپ سبھی کو یاد ہوگا 2017میں ہندستان نے ساؤتھ ایشیا جیو اسٹیشنری کمیونی کیشن سٹیلائٹ کولانچ کیا ، موسم اور مواصلات کے شعبے میں اس کا فائدہ ہمارے جنوب ایشیا کے دوست ممالک کو مل رہا ہے۔ ساتھیو! حالات کیسے بھی ہوں اگر ہم میں حوصلہ ہے تو ہم آفات کو موقع میں بدل سکتےہیں یہی پیغام نیتا جی نے ہمیں آزادی ک�� لڑائی کے دوران دیا تھا۔ نیتا جی کہتے تھےکبھی بھی آزاد ہندستان کے خواب کا یقین نہیں مت کرنا۔ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ہندستان کو جھنجھوڑ سکے۔ آج ہمارے سامنے آزاد ہندستان کے خوابوں کو پورا کرنے کا ہدف ہے۔ ہمارے سامنے آزادی کے ان 100ویں سال سے پہلے، 2047 سے پہلے نئے ہندستان کی تعمیر کا ہدف ہے۔ اور نیتا جی ملک پر جو اعتماد تھا، جو جذبات نیتا جی کے دل میں ابھرتے تھے اور ان کے ہی ان جذبات کے سبب میں کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہےجو ہندستان کو اس ہدف تک پہنچنے سے روک سکے۔ ہماری کامیابیاں ، ہماری عظم کی طاقت کا ثبوت ہے۔ لیکن یہ سفر ابھی لمبا ہے۔ ہمیں ابھی کئی چوٹیاں اور پار کرنی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے ، ہمیں ملک کی تاریخ کا ہزاروں سال کے سفر میں اس سے وضع دینے والے تپسیا، قربانی، اور بلدیانوں سے واقف رہیں۔ بھائیو اور بہنو! آزادی کا امرت مہوتسو کا عزم ہے کہ ہندستان اپنی پہنچان اور ترغیبات کو دوبارہ زندگی دے۔ یہ بدقسمت رہی کہ آزادی کے بعد ملک کی ثقافت اور اقدار کےساتھ ہی متعدد عظیم شخصیات کے تعاون کو مٹانے کا کام کیا گیا۔ آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں اہل وطن کی تپسیا شامل تھی لیکن ان کی تاریخ کو بھی محدود کرنے کی کوشش ہوئی۔ لیکن آج آزادی کی دہائیوں کے بعد ملک ان غلطیوں کو ڈنکے کی چوٹ پر سدھار رہا ہے۔ آپ دیکھئے ، بابا صاحب امبیڈکر سے جڑے پنچ تیرتھوں کو ملک ان کے وقار کے مطابق فروغ دے رہا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی آج پوری دنیا میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے شہرت کی تیرتھ بن گئی ہے۔ بھگوان برسا منڈا کی جینتی کو قبائلی فخر کے دن کے طور پر منانے کی شروعات بھی ہم سب نے کردی ہے۔ نیتاجی کی زندگی سے جڑی ہر وراثت کو بھی ملک پورے فخر سے سنجو رہا ہے۔ نیتا کے ذریعہ انڈومان میں ترنگا لہرانے کی 75ویں سالگرہ پر انڈومان کے ایک جزیرے کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ابھی دسمبر میں ہی ، انڈومان میں ایک خصوصی ’سنکلپ اسمارک‘ نیتاجی سبھا چندر بوس کے لئے وقف کی گئی ہے۔یہ یادگار نیتاجی کے ساتھ انڈین نیشنل آرمی کے ان جوانوں کے لئے بھی ایک خراج عقیدت ہے، جنہوں نے آزادی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے گزشتہ سال آج کے ہی دن مجھے کولکتہ میں نیتاجی کے آبائی گاؤں بھی جانے کا موقع ملا تھا۔ جس طرح سے وہ کولکتہ سے نکلے تھے ، جس کمرےمیں وہ بیٹھ کر پڑھتے تھے، ان کی گھر کی سیڑھیاں ، ان کے گھر کی دیواریں، ان کا دیدار کرنا، وہ تجربہ بیان کرنے سے پرے ہے۔ ساتھیو! میں21 اکتوبر 2018 کا وہ ودن بھی نہیں بھول سکتا جب آزاد ہند حکومت کے 75 سال پورے ہوئے تھے، لال قلعہ میں ہوئی خصوصی تقریب میں میں نے آزاد ہند فوج کی کیپ پہن کر ترنگا پھیرایا تھا۔ وہ لمحہ عجیب و غریب ہے۔ وہ لمحہ بھولانہیں جاسکتاہے۔ مجھے خوشی ہے کہ لال قلعہ میں ہی آزاد ہند فوج سے جڑی ایک یاد گار پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ 2019 میں 26 جنوری کی پریڈ میں آزاد ہند فوج کے سابق سپائیوں کو دیکھ کر دل جتنا خوش ہوا وہ بھی میری انمول یادیں ہیں۔ اوراسےبھی میں اپنی خوش قسمتی مانتاہوں کہ ہماری حکومت کو نیتاجی سے جڑے فائلوں کو منظر عام پر لانے کا موقع ملا ہے۔ ساتھیو! نیتا جی سبھاش کچھ ٹھان لیتے تھے تو پھر انہیں کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ ہمیں نیتاجی کے ’کین ڈو، ول ڈو‘ اسپرٹ سے ترغیب لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے ۔ وہ یہ جانتے تھے ، ہندستان میں نیشنلزم نے ایسی تخلیقی طاقت کو بھر دیا ہے جو صدیوں سے لوگوں کے اندر سوئی پڑی تھی۔ ہمیں نیشلزم بھی زندہ رکھنا ہے۔ ہمیں تخلیق بھی کرنا ہے اور ملک کے شعور کو بیدار بھی رکھنا ہے۔ مجھے اعتماد ہےکہ ہم مل کر بھارت کو نیتاجی سبھاش کے خوابوں کا بھارت بنانے میں کامیاب ہوں گے ۔ آپ تمام لوگوں کو ایک مرتبہ پھر پرکرم دوس کی بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں اور میں آج این ڈی آر ایف ، ایس ڈی آر ایف کے لوگوں پر بھی خصوصی طور پرمبارک باد دیتا ہوں۔ کیونکہ بہت چھوٹے عرصے میں انہوں نے اپنی پہنچان بنالی ہے۔ آج کہیں پر بھی آفت آتی ہو یا آفت سے متعلق امکانات کی خبریں ہوں ، سائیکلون جیسی اور جب این ڈی آر ایف کے جوان یونی فارم میں نظرآتے ہیں عام انسان کو بھروسہ ہوجاتا ہے کہ اب مدد پہنچ گئی ہے۔ اتنے کم وقت میں کسی تنظیم اور اس یونیوفارم کی پہنچان بننا یعنی جیسے ہمارے ملک میں کوئی تکلیف ہو، اور فوج کےجوان آجائیں تو عام آدمی کو سکون ہوجاتا ہے۔ ویسے ہی آج این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کے جوانوں میں اپنے جذبے سے کرکے دکھایا ہے۔ میں پراکرم دیوس پر نیتا جی کو یاد کرتےہوئے میں این ڈی آر ایف کے جوانوں کو ایس ڈی آر ایف کےجوانوں کو انہوں نے جس کام کو جس درد مندی اور حساسیت کے ساتھ اٹھایا ہے ۔ بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں اس آفات انتظام کے کام میں اس شعبےمیں کام کرنے والے متعدد لوگوںنے اپنی زندگی قربان کردی ہے۔ میں آج ایک ایسے جوانوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے کسی کی زندگی کو بچانے کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگادی تھی ایسے سب لوگوں کو میں عزت کے ساتھ نمن کرتے ہوئے میں آپ سب کو بھی آج پراکرم دیوس کے بےحد بے حد نیک خواہشات دیتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، بہت بہت شکریہ ! ش ح۔ ش ت۔ج,ইণ্ডিয়া গেটত নেতাজীৰ হল’গ্ৰাম প্ৰতিমূৰ্তি উন্মোচন কৰি প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সম্বোধনৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%88%D8%B1%D8%A8%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AA%D9%85%D8%A7-%DA%AF%D8%A7%D9%86%D8%AF%DA%BE%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8B%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پوربندر میں مہاتما گاندھی کے گھر سے حاصل ہونے والی معلومات کے بارے میں ایک مضمون کا اشتراک کیا۔ ’مودی اچیو‘ کے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ”کیا آپ سب جانتے ہیں، پوربندر میں مہاتما گاندھی کا گھر پانی کے تحفظ کا ایک بہت بڑا سبق دیتا ہے۔ آپ اس کو پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ https://www.narendramodi.in/what-gandhi-ji-s-home-in-porbandar-teaches-“,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ‘পোৰবন্দৰত মহাত্মা গান্ধীৰ ঘৰৰ পৰা শিকা শিক্ষা’ শীৰ্ষক এটা প্ৰবন্ধ শ্বেয়াৰ কৰিছে +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%D8%B3%DB%92%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%89%E0%A6%9A%E0%A7%8D%E0%A6%9A-%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0/,نئی دہلی، 10 نومبر 2017،وزیراعظم جناب نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے اعلی تعلیمی اداروں سےمتعلق داخلہ امتحانات منعقد کرانے کی غرض سے انڈین سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ ، 1960 کے تحت ایک خودمختار اور خود کفیل اولین ٹیسٹنگ آرگنائزیشن کے طور پر نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے ) کے ایک سوسائٹی کی حیثیت سے قیام کو منظوری دی ہے۔ خصوصیات: یہ ایجنسی (این ٹی اے) ابتدائی طور پر وہ داخلہ امتحانات منعقد کرائے گی جو امتحانات فی الحال سی بی ایس ای کے ذریعہ کرائے جارہے ہیں۔ این ٹی اے کےمکمل طور پر قیام کے بعد یہ ایجنسی دیگر امتحانات بھی بتدریج منعقد کرائے گی۔ داخلہ امتحانات آن لائن منعقد کرائے جائیں گے اور ایک سال میں کم از کم دو مرتبہ امتحانات ہوں گے۔ اس سے امیدواروں کو اپنی بہتری کارگردی کا مظاہرہ کرنے کا مناسب موقع مل سکے گا۔ دیہی طلبا کی ضروریات کے مدنظر ایجنسی سب ڈسٹرکٹ /ضلع سطح پر مراکز قائم کرے گی اور جہاں تک ممکن ہوسکے گا طلبا کو ٹریننگ دینے والے افراد مہیا کرائے گی۔ ایم ایچ آر ڈی کے تقرر کردہ ممتاز ماہر تعلیم این ٹی اے کی صدارت کریں گے۔ سی ای او حکومت کے تقرر کردہ ڈائریکٹر جنرل ہوں گے۔ اداروں کے ارکان پر مشتمل بورڈآف گورنرس ہوگا۔ این ٹی اے کو پہلی بار 25 کروڑ روپے کی مالی امداد حکومت ہند کی طرف سے دی جائے گی تاکہ وہ پہلے سال میں اپنا کام کاج شروع کریں۔ اس کے بعد مالیاتی طور پر یہ خودکفیل ہوجائے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ن۔ ن ا ۔ ج۔,উচ্চ শিক্ষা প্ৰতিষ্ঠানৰ প্ৰৱেশ পৰীক্ষা পৰিচালনাৰ বাবে নেশ্যনেল টেষ্টিং এজেন্সী গঠনত কেন্দ্ৰীয় কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85%D8%8C-29-%D9%85%D8%A7%D8%B1%DA%86-%DA%A9%D9%88-%D9%85%D8%AF%DA%BE%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A7%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A6%A4-%E0%A7%A8%E0%A7%AF-%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9A%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی، 29 مارچ کو ، دوپہر ساڑھے بارہ بجے ، ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ،مدھیہ پردیش میں پردھان منتری آواس یوجنا- گرامین کے تقریبا 5 لاکھ 21 ہزار مستفیدین کے ‘گرہ پرویشم’ میں شرکت کریں گے۔ وزیراعظم اس موقع پر اجتماع سے خطاب بھی کریں گے۔ یہ وزیراعظم کی مسلسل جہت رہی ہے کہ ملک کے ہر ضرورت مند خاندان کو تمام بنیادی ضروریات کے ساتھ ایک پکا مکان فراہم کیا جائے ۔ یہ اس سمت میں ایک اور واضح قدم ہے۔ اس تقریب میں روایتی تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی، جو پورے مدھیہ پردیش میں نئے مکانات میں شنکھ، چراغ، پھولوں اور رنگولیوں کے ساتھ منعقد ہوگی۔ مدھیہ پردیش میں پی ایم اے وائی – جی کے نفاذ سے مختلف منفرد اور اختراعی اقدامات سامنے آر ہے ہیں، جن میں راکھ سے بنی ہوئی اینٹوں کا استعمال کرنے کے لئے ، خواتین راج مستری سمیت ہزاروں راج مستریوں کی تربیت کرنا، خواتین کے ذاتی مدد کے گروپوں (ایس ایچ جیز) کو تعمیراتی مواد کے لئے قرضے اور بہتر عمل آوری کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے اور پروجیکٹوں کی نگرانی فراہم کر کے، با اختیار بنانا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح-اع – ق ر) (28-03-2022),মধ্য প্ৰদেশত ২৯ মাৰ্চত অনুষ্ঠিতব্য ‘পিএমএওৱাই-জি আঁচনি’ৰ ৫ লাখৰো অধিক হিতাধিকাৰীৰ ‘গৃহ প্ৰৱেশম অনুষ্ঠান’ত অংশগ্ৰহণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%B3%D9%86%D8%AF-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D9%BE%D8%B1%DB%81%D9%84%D8%A7%D8%AF-%D8%AC%DB%8C-%D9%BE%D9%B9%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%8C-115-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%AE%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80/,بیچراجی کا مطلب ہے، دیوی بہوچرا کا مقدس زیارت گاہ۔ بیچراجی کی پاک سرزمین نے بہت سے بیٹے، سماجی کارکن اور محب وطن پیدا کیے ہیں۔ اس مٹی کے ایک ایسے ہی بیٹے، آزادی پسند اور سماجی کارکن جناب پرہلاد جی ہرگوونداس پٹیل کی 115 ویں یوم پیدائش کے موقع پر، ہمیں ان کی خوبیوں کو یاد کرنے کا موقع ملا ہے اور وہ بھی نوراتری کے مقدس تہوار کے موقع پر اور ماں بہوچرا کی موجودگی میں۔ اور جیسا کہ ہم ہندوستانی ‘آزادی کا امرت مہوتسو’ منا رہے ہیں، پرہلاد بھائی جیسے محب وطن کی یاد منانا میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے۔ پرہلاد بھائی اصل میں سیتا پور گاؤں سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بیچراجی آکر آباد ہو گئے تھے۔ پرہلاد جی پوری ریاست میں سیٹھ لاٹی والا کے نام سے مشہور ہو چکے تھے۔ گویا وہ اس حالت میں کرشن کے ‘سانوالیا سیٹھ’ کے روپ میں آئے تھے اور انہوں نے دل کھول کر سماج کی خدمت کی تھی۔ بہت سے نوجوانوں کی طرح پرہلاد بھائی بھی جدوجہد آزادی کے دوران، گاندھی جی کے زیر اثر تحریک آزادی میں سرگرم ہو گئے تھے۔ وہ سابرمتی اور یرواڈا جیل میں بھی قید بھی رہےتھے۔ اس کے والد کا انتقال ایسی ہی ایک قید کے دوران ہوا تھا، لیکن انہوں نے برطانوی حکومت کو معافی نامہ لکھنے اور پیرول پر رہا ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کے والدین کی تدفین اس کے عمزاد نے کی تھی۔ اس طرح قوم کے مفاد کو خاندان سے بالاتر رکھتے ہوئے وہ ‘قوم سب سے پہلے’ کے تصور پر قائم رہے۔ آزادی کی جنگ میں وہ کچھ زیر زمین سرگرمیوں میں بھی ملوث تھا اور بیچراجی میں کئی جنگجوؤں کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔ آزادی کے بعد انہوں نے سردار صاحب کی ہدایت پر، ملک کی چھوٹی ریاستوں کے انضمام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور دساڈا، ونود اور زین آباد جیسی ریاستوں کو ہندوستان سے ملحق کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک کی تاریخ کی کتابوں میں ایسے محب وطن لوگوں کا ذکر مشکل ہی سے ملتا ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پرہلاد بھائی جیسے آزادی پسندوں کی بہادری کی داستان نئی نسل کو سنائی جائے جو اس سے ترغیب حاصل کر سکتی ہے۔ آزادی کی جدوجہد ختم ہونے کے بعد بھی، آزاد ہندوستان میں انہوں نے آرام نہیں کیا۔ وہ سماجی کاموں میں مصروف رہے۔ 1951 میں، وہ ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک میں شامل ہو گئے تھے اور اپنی زیر ملکیت کی 200 بیگھہ زمین عطیہ کر دی تھی۔ یہ ایک ‘بھومی پتر’ کی طرف سے کئی بے زمین لوگوں کے مفاد میں اٹھایا گیا ایک بڑا قدم تھا۔ 1962 میں ریاست بمبئی سے الگ ہونے کے بعد، گجرات کے پہلے الیکشن میں وہ چناسما سیٹ سے لڑے تھے اور عوامی نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی آواز بھی بن گئے تھے۔ انہوں نے پوری ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے، میں اس وقت سنگھ کے لیے کام کرتا تھا اور اس کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑتا تھااور جب بھی لوگ بیچراجی جانا چاہتے تھے، ان کے لیے ایسا لگتا تھا جیسے پرہلاد بھائی کی لاٹھی ہی عوامی فلاح و بہبود کی جگہ بن گئی ہو۔ پرہلاد بھائی، جنہوں نے امانت داری کے جذبے سے کام کیا، گجرات کی مہاجن روایت کی ایک کڑی تھے اور پرہلاد بھائی کی بات کریں تو آج کا واقعہ ان کی اہلیہ کاشی با کے ذکر کے بغیر ادھورا رہے گا۔ کاشی با نہ صرف ایک مثالی گھریلو خاتون تھیں بلکہ کستوربا کی طرح انہوں نے بھی شہری فرائض انجام دیے تھے اور اپنے شوہر کو بھرپور تعاون فراہم کیا تھا۔ ان کی پوری زندگی، کام کی روایت، ان حالات میں کام کرنے کی خواہش اور ہر چھوٹی موٹی چیز کوجدوجہد آزادی کی انمول دستاویز سمجھنے میں گزری ہے۔ ان کے کام اور سماجی شراکت داری کو دستاویزی شکل دی جانی چاہیے تاکہ یہ آج کی نسل کو نئی معلومات فراہم کرے۔ اور اس طرح، وہ آنے والی نسل کے لیے ایک تحریک بنیں گے۔ اپنی زندگی میں وہ عوامی خدمت میں پیش پیش رہے لیکن اپنی وفات کے بعد بھی انہوں نے آنکھیں عطیہ کرنے کا عزم کیا۔ ذرا سوچئے، انہوں نے آنکھیں عطیہ کرنے کا فیصلہ ان دنوں بھی لیا جب آنکھوں کے عطیہ کے بارے میں کوئی شعورموجود نہیں تھا۔ یہ قرارداد کتنی عظیم اور متاثر کن تھی! گجرات کی تمام یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ ریاست کے کونے کونے سے ایسے عظیم انسانوں کو تلاش کریں اور ان کی گمنام زندگی، گمنام کہانیوں کو مرتب کریں اور انہیں کتاب کی شکل میں شائع کریں۔ یہ تب ہی ہے جب آزادی کا امرت مہوتسو اپنے حقیقی معنی کو برقرار رکھے گا۔ شری پرہلاد بھائی حب الوطنی، جذبہ عقیدت، فرض اور خدمت کے تروینی سنگم کی طرح تھے۔ آج، ان کی لگن کے بارے میں سوچیں اور نئے ہندوستان کی تعمیر اور مزید ترقی کی سمت میں تحریک حاصل کریں۔ یہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خراج عقیدت ہو گا۔ میں احترام کے ساتھ پرہلاد بھائی اور ان کے بہترین کام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اور ماں بہوچرا کی موجودگی میں، میں ماں بہوچرا اور ماں بھارتی کی خدمت کرنے والوں کی تعظیم میں جھک کر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ بھارت ماتا کی جئے! جئے جئے گڑوی گجرات! ڈس کلیمر: یہ وزیراعظم کی تقریر کا تخمینی ترجمہ ہے۔ اصل تقریر گجراتی میں کی گئی ہے۔,স্বাধীনতা সংগ্ৰামী শ্ৰী প্ৰহ্লাদজী পেটেলৰ ১১৫সংখ্যক জন্ম বাৰ্ষিকী উপলক্ষে গুজৰাটৰ বেচাৰাজীত আয়োজিত এক অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বাৰ্তাৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%84%DB%8C-%D8%AA%DA%BE%DB%8C%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B4-%D9%BE/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BF-%E0%A6%A5%E0%A7%87%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بہادر پلی تھیور کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ‘‘میں بہادر پلی تھیور کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کی بہادری اور پختہ عزم بے شمار لوگوں کو تحریک دیتا ہے۔ وہ سامراج کے خلاف مزاحمت میں سب سے آگے تھے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے لیے لڑتے رہے۔’’ “மாவீரன் பூலித்தேவருக்கு அவரது பிறந்த நாளில் நாளில் வணக்கங்களை செலுத்துகிறேன். அவரது வீரமும் உறுதிப்பாடும் எண்ணற்றோருக்கு ஊக்கமளித்து ஊக்கமளித்து வருகிறது. முன்னணியில் அந்நிய அந்நிய ஏகாதிபத்தியத்தை எதிர்த்து எதிர்த்து போரிட்டவர்.,পুলি থেভাৰৰ জন্ম জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন কৰে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%AD%DA%A9%D9%85%DB%81-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%D9%88-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%9C%E0%A7%8D%E0%A6%9E%E0%A6%BE%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AF%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%BF-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%89%E0%A6%A6-3/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ کو حکومت ہند کے محکمہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور جمہوریہ سنگاپور کی حکومت کی وزارت برائے تجارت و صنعت کے درمیان سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کے شعبوں میں باہمی تعاون سے متعلق مفاہمت کے ایک اقرار نامے (ایم او یو) سے آگاہ کیا گیا۔ مفاہمت کے اقرار نامے (ایم او یو) پر فروری 2022 میں دستخط کئے گئے تھے۔ یہ مفاہمت نامہ ایک طریقہ کار فراہم کرے گا اور ایکو سسٹم تشکیل دے گا اور اس میں مدد فراہم کرے گا جو دونوں ممالک میں اختراع اور صنعت کاری کو فروغ دے گا جس کے نتیجے میں باہمی تعاون کے ذریعے نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد ہوگی، افرادی قوت کی تربیت کی جائے گی اور آئی پی جنریٹ کی جائے گی۔ اس تعاون کے تحت عمل میں لائی جانے والی سرگرمیوں کے ذریعے علم اور ٹیکنالوجی کی نئی ترقی آتم نربھر بھارت کو تحریک فراہم کرے گی۔ مفاہمت نامہ (ایم او یو) ایک طریقہ کار فراہم کرے گا اور ایک ایکو نظام کی تشکیل میں مدد کرے گا جو دونوں ممالک میں اختراع اور صنعت کاری کو فروغ دے گا جس کے نتیجے میں باہمی تعاون کے ذریعے نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد ہوگی، افرادی قوت کی تربیت کی جائے گی اور آئی پی جنریٹ کی جائے گی۔ اس مفاہمت نامے میں جن سرگرمیوں کا تصور کیا گیا ہے ان میں مصنوعات کی ترقی اور ٹیکنالوجی کا باہمی تبادلہ شامل ہے، جس سے نئے کاروباری ادارے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کے مشترکہ دلچسپی کے شعبوں میں بھارت اور سنگاپور کے درمیان باہمی اشتراک و تعاون کی حوصلہ افزائی، ترقی اور سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس کے تحت باہمی دلچسپی کے کسی بھی شعبے میں تعاون کو ترجیح دی جائے گی جو تحقیق، اختراع اور تکنیکی ترقی میں پیش رفت کرسکے بشمول: زراعت اور فوڈ سائنس اور ٹیکنالوجی؛ اعلی درجے کی مینوفیکچرنگ اور انجینئرنگ؛ آلودگی سے پاک معیشت، توانائی، پانی، آب و ہوا اور قدرتی وسائل؛ ڈیٹا سائنس، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز؛ اعلی درجے کا مواد اور صحت اور بایو ٹیکنالوجی۔ علاوہ ازیں اس میں مشترکہ دلچسپی کے دیگر شعبوں کو باہمی رضامندی سے شامل کیا جائے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔م ع۔ع ن (),"বিজ্ঞান, প্ৰযুক্তি আৰু উদ্ভাৱনৰ ক্ষেত্ৰত সহযোগিতাৰ লক্ষ্যৰে ভাৰতৰ বিজ্ঞান আৰু প্ৰযুক্তি বিভাগ আৰু ছিংগাপুৰৰ বাণিজ্য আৰু উদ্যোগ মন্ত্ৰালয়ৰ মাজত স্বাক্ষৰিত বুজাবুজি চুক্তি (এমঅ’ইউ)ত কেবিনেটৰ অনুমোদ" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%DB%8C%D9%84-%D9%88%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-54-%D9%85%D8%B4%D9%86-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%8F%E0%A6%9B%E0%A6%8F%E0%A6%B2%E0%A6%AD%E0%A6%BF-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A7%AB%E0%A7%AA-%E0%A6%85%E0%A6%AD%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A7%B0/,نئی دلی، 26نومبر، 2022/ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پی ایس ایل وی سی 54 مشن کو کامیاب طریقے سے خلاء میں بھیجے جانے پر اسرو اور این ایس آئی ایل کو مبارکباد دی ہے۔ جناب مودی نے اس لانچ میں شامل تمام کمپنیوں کو بھی مبارکباد دی ہے۔ ٹویٹس کی ایک سیریز میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ’’پی ایس ایل وی سی 54 مشن کے کامیاب لانچ پر @ اسرو اور این ایس آئی ایل کو مبارکباد۔ ای او ایس – 06 سیٹلا��ٹ ہمارے سمندری وسائل کے بہتر استعمال میں مدد کرے گا۔‘‘ ’’بھارتی کمپنیوں @ پیکسل اسپیس اور @ دھروا اسپیس کی جانب سے 3 سیٹلائٹس کا لانچ ایک نئے دور کے آغاز کی خوشخبری سناتا ہے، جہاں خلائی ٹیکنالوجی میں بھارتی صلاحیت کو مکمل طور پر اظہار کیا جا سکتا ہے۔ تمام کمپنیوں اور اس لانچ میں شامل تمام لوگوں کو مبارکباد۔‘‘ ۔۔۔ ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔,‘পিএছএলভি চি৫৪’ অভিযানৰ সফল উত্ক্ষেপনৰ বাবে ‘ইছৰো’ আৰু ‘এনএছআইএল’-লৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ অভিনন্দ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D8%B1%DA%A9%D9%86-%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D9%84%DB%8C%D9%85%D9%86%D9%B9-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%B3%DB%8C-%D8%AC/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B8%E0%A6%A6-%E0%A6%9A%E0%A6%BF-%E0%A6%9C%E0%A6%82%E0%A6%97%E0%A6%BE-%E0%A7%B0%E0%A7%87/,نئی دہلی، 05 فروری 2022: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سابق رکن پارلیمنٹ جناب سی جنگا ریڈی کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ’’جناب سی جنگا ریڈی گارو نے عوامی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ وہ جن سنگھ اور بی جے پی کو کامیابی کی نئی بلندیوں تک لے جانے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ تھے۔انہوں نے متعد لوگوں کے دلوں اور اذہان میں جگہ بنائی۔ انہوں نے متعدد کاریہ کرتاؤں کو بھی ترغیب فراہم کی۔ ان کی رحلت پر ازحد غمگین ہوں۔ جناب سی جنگا ریڈی پارٹی کی ترقی کے سفر کے ازحد اہم دور میں بی جے پی کی ایک اثرانگیز آواز تھے۔ ان کے بیٹے سے بات کی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ اوم شانتی۔‘‘,প্ৰাক্তন সাংসদ চি জংগা ৰেড্ডীৰ বিয়োগত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শো +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%86%DB%8C%D9%88%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D8%AF%DB%81%D8%B4%D8%AA-%DA%AF%D8%B1%D8%AF-%D8%AD%D9%85%D9%84%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%B0/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%89%E0%A7%9F%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95-%E0%A6%9A%E0%A6%BF%E0%A6%9F%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%98%E0%A6%9F%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D/,نئی دہلی،01۔نومبر ۔وزیر اعظم نریندرمودی نے امریکہ کے شہر نیویارک میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا :’’ میں نیویارک شہر میں ہوئے دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتاہوں ۔ میری تما م تر ہمدردیاں اس حملے کے مہلوکین کے کنبوں کے ساتھ ہیں اور زخمیوں کے جلد شفایاب ہونے کی دعا کرتا ہوں ۔‘‘,নিউয়ৰ্ক চিটীত সংঘটিত সন্ত্ৰাসবাদী আক্ৰমণৰ ঘটনাক প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ গৰিহণা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%DB%8C%D9%88-%D9%85%DB%8C%DA%88%DB%8C%DA%A9%D9%84-%D8%B1%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%DA%86-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D8%A6%D8%B1-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A7%9F%E0%A7%8B%E0%A6%AE%E0%A7%87%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A6%B2-%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%9B%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%9B-%E0%A6%95%E0%A7%87%E0%A7%B0%E0%A6%BF/,نئی دہلی،27؍مارچ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے بایو میڈیکل ریسرچ کریئر پروگرام (بی آر سی پی) ، اور ویلکم ٹرسٹ (ڈبلیو ٹی)؍ ڈی بی ٹی انڈیا الائنس کو اس کی شروعاتی 10 سالہ مدت (09-2008 سے 19-2018) سے آگے، 5 سال کے ایک نئے مرحلے (20-2019 سے 24-2023) تک توسیع کرنے اور اسے جاری رکھنے کےلئے اپنی منظوری دے دی ہے۔ محکمۂ بایو ٹیکنالوجی (ڈی بی ٹی) کے ساتھ ڈبلیو ٹی کے اقرار کی دو مرتبہ توسیع ہوئی ہے ۔ اس پروگرام کے کُل مالی اخراجات 1092 کروڑ روپے ہوں گے، جس میں ڈی بی ٹی اور ��بلیو ٹی کا تعاون بالترتیب 728 کروڑ روپے اور 364 کروڑ روپے ہوگا۔ 1:1بنیاد پر شراکت داری میں 10سال سے زیادہ کی فنڈنگ کے تحت اس پروگرام نے ملک میں جدید ترین بایو میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں اعلیٰ ترین عالمی اسٹینڈرس کی تعمیر اور صلاحیت و ہنرمندی کے اپنے مقاصد کو پورا کیا ہے، جس سے اہم سماجی کامیابیوں اور صلاحیتوں نیز سائنسی پس منظر میں سماجی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملی ہے۔ بی آر سی پی نے بیرون ممالک میں کام کر رہے اعلیٰ معیار کے ہندوستانی سائنسدانوں کو ملک واپس لوٹنے کے لئے ترغیب دی ہے اور بھارت کے اندر ہی مختلف جغرافیائی مقامات پر ان اداروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے، جہاں عالمی درجے کے بایو میڈیکل ریسرچ ادارے ہیں۔ اس توسیعی مرحلے میں یہ پروگرام صلاحیت و ہنرمندی کے فروغ کے ساتھ ہندوستان میں کلینکل ریسرچ کو مضبوط کرنے اور صحت سے متعلق اہم چیلنجوں کو نمٹانے کو جاری رکھے گا۔ حکومت ہند کے لئے بڑھی ہوئی حصہ داری کے ساتھ اِن ریٹرنس کو لانے کے لئے پروگرام کو جاری رکھنا اہم ہے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ ش ت ۔ک ا,বায়োমেডিকেল ৰিছাৰ্ছ কেৰিয়াৰ প্ৰ’গ্ৰামৰ ম্যাদ আৰু পাঁচ বছৰ বৃদ্ধিৰ প্ৰস্তাৱলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%A8%D8%B1-%D8%AA%DB%8C%D8%B1%D8%AA%DA%BE%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7-%D8%A2%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%B0-%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A6%B2%E0%A6%A4-%E0%A6%85%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BF%E0%A6%A4/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نوراتری کے مبارک موقع پر گبر تیرتھل میں مہا آرتی میں شرکت کی۔ جناب مودی نے امباجی مندر میں بھی درشن اور پوجا کی، جو گجرات کے 51 شکتی پیٹھوں میں سے ایک ہے اور گبر تیرتھل کے قریب ہی واقع ہے۔ مہا آرتی، مندر کے آچاریوں نے کی تھی اور لیزر لائٹس کی مدد سے ماؤنٹ آبو کی پہاڑیوں پر ماں درگا کی ایک بڑی تصویر پروجیکٹ کی گئی۔ وزیر اعظم نے سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے مندر کے منتظمین سے بھی بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ماں درگا کی پوجا کرنے کے بعد اپنے دو روزہ گجرات دورے کا اختتام کیا۔ وزیر اعظم کے ساتھ گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل اور ریلوے کے مرکزی وزیر جناب اشونی ویشنو سمیت دیگر معززین نے بھی شرکت کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,‘গব্বৰ তীৰ্থল’ত অনুষ্ঠিত ‘মহা আৰতি’ত উপস্থিত থাকে প্ৰধানমন্ত্ৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-87-%D9%88%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%DB%8C%D9%BE%DB%8C%D8%B3%D9%88%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AD-%E0%A7%A6%E0%A7%A9-%E0%A7%A8%E0%A7%A6%E0%A7%A8%E0%A7%A8-%E0%A6%A4%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A6%96%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE/,میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے ، جس پر ہم سب کو فخر ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بھارت نے گزشتہ ہفتے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپئے کا برآمدات کا ہدف حاصل کیا ہے۔ پہلی بار سننے میں لگتا ہے کہ یہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ معیشت سے زیادہ بھارت کی صلاحیت، بھارت کی اہلیت سے متعلق معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی برآمدات کبھی 100 بلین ، کبھی 150 بلین ، کبھی 200 بلین تک ہوا کرتی تھی ، اب آج بھارت 400 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں بنی چیزوں کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپلائی چین روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ ملک اس وقت بڑے قدم اٹھاتا ہے ، جب عز م خوابوں سے بھی بڑے ہوں۔ جب ان عزم کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایمانداری سے کوشش کی جاتی ہے تو وہ عزم پورے بھی ہوتے ہیں اور آپ دیکھیئے ، کسی شخص کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جب کسی کا عزم، اس کی کوشش ، اس کے خوابوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں تو کامیابی ، اُس کے پاس خود چل کر آتی ہے۔ ساتھیو ، ملک کے کونے کونے سے نئی اشیاء نئی اشیا بیرونی ممالک جا رہی ہیں ۔ آسام کے ہیلا کانڈی کی چمڑے کی مصنوعات ہوں یا عثمان آباد کی ہینڈلوم کی مصنوعات، بیجاپور کے پھل اور سبزیاں ہوں یا چندولی کے کالے چاول، سب کی برآمدات بڑھ رہی ہے ۔ اب، آپ کو دوبئی میں لداخ کی دنیا کی مشہور خوبانی بھی ملے گی اور سعودی عرب میں، آپ کو تمل ناڈو سے بھیجے گئے کیلے ملیں گے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نئی مصنوعات نئے ممالک کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماچل، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والے باجرے (موٹے اناج) کی پہلی کھیپ ڈنمارک کو برآمد کی گئی۔ آندھرا پردیش کے کرشنا اور چتور اضلاع سے بنگن پلیّ اور سورن رِکھا آم جنوبی کوریا کو برآمد کئے گئے ۔ تری پورہ سے تازہ کٹہل ہوائی جہاز کے ذریعے لندن برآمد کئے گئے اور پہلی بار ناگالینڈ کی راجہ مرچ لندن بھیجی گئی ۔ اسی طرح بھالیا گیہوں کی پہلی کھیپ گجرات سے کینیا اور سری لنکا کو برآمد کی گئی یعنی اب اگر آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو میڈ ان انڈیا مصنوعات پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آئیں گی۔ ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے اور یہ فہرست جتنی لمبی ہوگی، میک ان انڈیا کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اتنی ہی بھارت کی وسیع صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد ہیں – ہمارے کسان، ہمارے کاریگر، ہمارے بُنکر، ہمارے انجینئر ، ہمارے چھوٹے کاروباری، ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر، بہت سے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہ سب اس کی حقیقی طاقت ہیں۔ ان کی محنت کی بدولت 400 بلین ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتی عوام کی یہ طاقت اب دنیا کے کونے کونے میں نئی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب ایک ایک ہندوستانی لوکل کے ووکل ہوتا ہے ، تب لوکل کو گلوبل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ۔ آئیے لوکل کو گلوبل بنائیں اور اپنی مصنوعات کی ساکھ کو اور بڑھائیں ۔ ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کو یہ جان کر اچھا لگے گا کہ گھریلو سطح پر بھی ہمارے چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کامیابی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج ہمارے چھوٹے کاروباری افراد گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم کے ذریعے سرکاری خریداری میں بڑا تعاون کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی چیزیں خریدی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 1.25 لاکھ چھوٹے کاروباریوں، چھوٹے دکانداروں نے اپنا سامان براہ راست حکومت کو فروخت کیا ہے۔ ایک وقت تھا ، جب صرف بڑی کمپنیاں ہی حکومت کو سامان فروخت کر سکتی تھیں لیکن اب ملک بدل رہا ہے، پرانے نظام بھی بدل رہے ہیں۔ اب چھوٹے دکاندار بھی جی ای ایم پورٹل پر حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتے ہیں ۔ یہی تو نیا بھارت ہے۔ وہ نہ صرف بڑے خواب دیکھتا ہے بلکہ اس مقصد تک پہنچنے کی ہمت بھی دکھاتا ہے، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا۔ اس حوصلے کے بل پر ہم سبھی بھارتی مل کر آتم نربھر بھارت کا خواب ضرور پورا کریں گے۔ میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے بابا شیوانند جی کو حال ہی میں منعقد پدم اعزاز کی تقریب میں ضرور دیکھا ہوگا۔ 126 سال کے بزرگ کی پھرتی دیکھ کر میری طرح ہر کوئی حیران رہ گیا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ پلک جھپکتے ہی وہ نندی مدرا میں پرنام کرنے لگے ۔ میں نے بھی بابا شیوانند جی بار بار جھک کر پرنام کیا ۔ 126 سال کی عمر اور بابا شیوانند جی کی فٹنس دونوں آج ملک میں بحث کا موضوع ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے کمنٹ دیکھے کہ بابا شیوانند اپنی عمر سے چار گنا کم عمر کے لوگوں بھی زیادہ فٹ ہیں۔ واقعی، بابا شیوانند کی زندگی ہم سب کے لئے ایک تحریک ہے۔ میں ان کی لمبی عمر کی دعا کرتا ہوں۔ ان میں یوگ کے تئیں ایک جذبہ ہے اور وہ بہت ہیلتھی لائف اسٹائل جیتے ہیں ۔ जीवेम शरदः शतम्। ہماری ثقافت میں ہر ایک کو سو سال کی صحت مند زندگی کی دعا دی جاتی ہے۔ ہم 7 اپریل کو ’ صحت کا عالمی دن ‘ منائیں گے۔ آج پوری دنیا میں صحت سے متعلق بھارت کے موقف پر چاہے وہ یوگا ہو یا آیوروید ، اس کے تئیں رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ گزشتہ ہفتے قطر میں یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ، جس میں 114 ممالک کے شہریوں نے حصہ لے کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی طرح آیوش انڈسٹری کا بازار بھی لگاتار بڑھ رہا ہے۔ 6 سال پہلے آیوروید سے متعلق ادویات کا بازار تقریباً 22 ہزار کروڑ کا تھا۔ آج آیوش مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں بھی آیوش کشش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔ ساتھیو ، میں نے صحت کے شعبے کے دوسرے اسٹارٹ اپس پر پہلے بھی کئی بار بات کی ہے لیکن اس بار میں آپ سے خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس پر بات کروں گا۔ ایک اسٹارٹ ہے ، کپیوا ! ۔ اس کے نام میں ہی اس کا مطلب پوشیدہ ہے ۔ اس میں ’ کا ‘ کا مطلب ہے – کف ، ’ پی ‘ کا مطلب ہے – پت اور ’ وا ‘ کا مطلب ہے – ’ وات ‘ ۔ یہ اسٹارٹ اپ ہماری روایات کے مطابق صحت مند کھانے کی عادات پر مبنی ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ، نیروگ اسٹریٹ بھی ہے ، آیوروید حفظان صحت نظام میں ایک انوکھا تصور ہے ۔ اس کا ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم دنیا بھر کے آیوروید ڈاکٹروں کو براہ راست لوگوں سے جوڑتا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ پریکٹیشنرز اس سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح، صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کا ایک اسٹارٹ اپ اَتریا اننو ویشن ہے ، جو مجموعی تندرستی کے شعبے میں کام کر رہا ہے ۔ ایکسوریل نے نہ صرف اشوگندھا کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی پیداوار کے عمل پر بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کَیور ویدا نے جدید جڑی بوٹیوں کی تحقیق اور روایتی علم کو ملا کر مکمل زندگی کے لئے غذائی سپلیمنٹس بنائے ہیں۔ ساتھیو ، میں نے ابھی تک صرف چند نام گنوائے ہیں، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوان صنعت کاروں اور بھارت میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی علامت ہے۔ میری صحت کے شعبے کے اسٹارٹ اپس اور خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی ایک درخواست ہے۔ آپ جو بھی پورٹل آن لائن بناتے ہیں، جو بھی مواد بناتے ہیں، اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ تمام زبانوں میں بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں انگریزی نہ تو اتنی بولی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی معلومات کی تشہیر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے آیوش اسٹارٹ اپ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے ساتھ جلد ہی پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔ ساتھیو ، صحت کا براہ راست تعلق صفائی سے ہے۔ ’من کی بات‘ میں ہم ہمیشہ صفائی کے حامیوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی سووچھ گرہی ہیں – چندرکشور پاٹل جی ۔ وہ مہاراشٹر کے ناسک میں رہتے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے چندرکشور جی کا عزم بہت پختہ ہے۔ وہ گوداوری دریا کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور لوگوں کو لگاتار دریا میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی ایسا کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اُسے فوراً منع کرتے ہیں ۔ چندرکشور جی اپنا کافی وقت اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ شام تک ان کے پاس ایسی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جسے لوگ دریا میں پھینکنے کے لئے لائے ہوتے ہیں۔ چندرکشور جی کی یہ کوشش بیداری میں بھی اضافہ کرتی ہے اور تحریک بھی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک اور سووچھ گرہی ہیں – اڑیسہ میں پوری کے راہل مہارانا۔ راہل ہر اتوار کو صبح سویرے پوری میں مقدس مقامات پر جاتے ہیں اور وہاں پلاسٹک کے کچرے کو صاف کرتے ہیں۔ وہ اب تک سینکڑوں کلو پلاسٹک کا کچرا اور گندگی صاف کر چکے ہیں۔ پوری کے راہل ہوں یا ناسک کے چندرکشور، یہ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ شہری ہونے کے ناطے ہم اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چاہے وہ صفائی ہو، غذائیت ہو یا ویکسینیشن، ان سب کوششوں سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ میرے پیارے ہم وطنو، آئیے بات کرتے ہیں ، کیرالہ کے موپٹم سری نارائنن جی کی ۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے ، جس کا نام ہے – ’ پوٹس فار واٹر آف لائف ‘۔آپ جب اِس پروجیکٹ کے بارے میں جانیں گے تو سوچیں گے کہ یہ کیا کمال کام ہے ۔ ساتھیو ، موپٹم سری نارائنن جی مٹی کے برتن تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ گرمیوں میں جانوروں اور پرندوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گرمیوں میں وہ خود بھی جانوروں اور پرندوں کی یہ پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ مٹی کے برتن خود ہی بانٹنا شروع کردوں تاکہ دوسروں کا کام صرف ان برتنوں میں پانی بھرنا ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ نارائنن جی کی طرف سے تقسیم کئے گئے برتنوں کی تعداد ایک لاکھ کو پار کرنے جا رہی ہے۔ اپنی مہم میں وہ گاندھی جی کے قائم کردہ سابرمتی آشرم کو ایک لاکھواں برتن عطیہ کریں گے۔ آج جب گرمیوں کے موسم نے دستک دی ہے، نارائنن جی کا یہ کام یقیناً ہم سب کو متاثر کرے گا اور ہم اس گرمی میں اپنے دوست جانوروں اور پرندوں کے لئے پانی کا بھی بندوبست کریں گے۔ ساتھیو ، میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی اپیل کروں گا کہ ہم اپنے عزائم کو پھر سے دوہرائیں ۔ پانی کے ہر قطرے کو بچانے کے لئے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ ، ہمیں پانی کی ری سائیکلنگ پر برابر زور دیتے رہنا چاہیئے ۔ گھر میں استعمال ہونے والا پانی گملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، باغبانی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے ضرور دوبارہ استعمال کرنا چاہیئے ۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے گھر میں اس طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ رحیم داس جی صدیوں پہلے کسی مقصد کے لئے کہہ گئے تھے کہ ’رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سون‘۔ اور پانی بچانے کے اس کام میں مجھے بچوں سے بہت امید ہے ۔ سووچھتا کو جیسے بچوں نے ایک مہم بنایا ہے ، ویسے ہی وہ واٹر واریئر بن کر پانی بچانے میں مدد کر سکتے ہیں ۔ ساتھیو ، ہمارے ملک میں پانی کا تحفظ، آبی ذرائع کا تحفظ، صدیوں سے معاشرے کی فطرت کا حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگوں نے پانی کے تحفظ کو زندگی کا مشن بنا لیا ہے ، جیسے چنئی کے ایک ساتھی ہیں ، ارون کرشنامورتی جی! ارون جی اپنے علاقے میں تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 150 سے زائد تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ساتھی روہن کالے ہیں۔ روہن پیشے کے لحاظ سے ایچ آر پروفیشنل ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے سینکڑوں اسٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے پرانے کنوؤں کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے کنویں سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارے ورثے کا حصہ ہیں۔ سکندرآباد میں بنسی لال-پیٹ کنواں ایک ایسا ہی اسٹیپ ویل ہے ۔ برسوں کی نظر اندازی کی وجہ سے یہ اسٹیپ ویل مٹی اور کچرے سے ڈھک گیا تھا لیکن اب اس اسٹیپ ویل کو بحال کرنے کی مہم عوامی شرکت کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔ ساتھیو ، میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں ، جہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ گجرات میں ان سٹیپ ویلوں کو واؤ کہتے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست میں واؤ کا بڑا رول رہا ہے۔ ان کنوؤں یا باولیوں کے تحفظ کے لئے ’ جل مندر یوجنا ‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پورے گجرات میں کئی باولیوں کو بحال کیا گیا ہے ۔ اس سے ان علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں بھی کافی مدد ملی ہے ۔ آپ مقامی سطح پر بھی اسی طرح کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اگر چیک ڈیم بنانے ہوں تو بارش کے پانی کی ہار ویسٹنگ ہونی چاہیئے ۔ اس میں انفرادی کوشش بھی اہم ہے اور اجتماعی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ جیسے آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے ملک کے ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ کچھ پرانے سرووروں کو سدھارا جا سکتا ہے، کچھ نئے سروور بنائے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کریں گے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات کئی زبانوں، کئی بولیوں میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ مائی گوو پر آڈیو میسیج بھی بھیجتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت، ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہمارا طرز زندگی، کھانے پینے کا تنوع ، یہ تمام تنوع ہماری بڑی طاقت ہیں۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، یہ تنوع بھارت کو متحد رکھتے ہے، جو ایک بھارت شریشٹھ بھارت بناتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے تاریخی مقامات اور اساطیر دونوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب آپ سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ’’مادھو پور میلہ‘‘ ہے۔ من کی بات کے سامعین کو یہ جاننا بہت دلچسپ لگے گا کہ مادھو پور میلہ کہاں منعقد ہوتا ہے، کیوں منعقد ہوتا ہے، اس کا بھارت کے تنوع سے کیا تعلق ہے۔ ساتھیو ، مادھو پور میلہ گجرات کے پوربندر میں سمندر کے پاس مادھو پور گاؤں میں لگتا ہے لیکن اس کا بھارت کے مغربی کنارے سے بھی ناطا جڑا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب بھی ایک اساطیری کہانی سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھگوان کرشن کی شادی شمال مشرق کی ایک شہزادی رکمنی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی پوربندر کے مادھو پور میں ہوئی تھی اور اسی شادی کی علامت کے طور پر آج بھی وہاں مادھو پور میلہ لگتا ہے۔ مشرق اور مغرب کا یہ گہرا رشتہ ہمارا ورثہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب لوگوں کی کوششوں سے مادھو پور میلے میں نئی چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی والوں کو گھراتی کہا جاتا ہے اور اس میلے میں اب شمال مشرق سے بہت گھراتی بھی آنے لگے ہیں۔ ایک ہفتہ تک چلنے والے مادھو پور میلے میں شمال مشرق کی تمام ریاستوں سے فنکار پہنچتے ہیں، ہنڈی کرافٹ ( دستکاری ) سے جڑے فنکار جرٹے ہیں اور اس میلے کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک بھارت کے مشرق اور مغربی کی ثقافت کا یہ ملن ، یہ مادھو پور میلہ، ایک بھارت – شریسٹھا بھارت کی بہت خوبصورت مثال بن رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس میلے کو بارے میں پڑھیں اور معلومات حاصل کریں ۔ میرے پیارے ہم وطنو، ملک میں آزادی کا امرت مہوتسو ، اب عوامی شرکت کی نئی مثال بن رہا ہے۔ چند روز قبل 23 مارچ کو شہید دِوس پر ملک کے الگ الگ کونوں میں الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک میں اپنے آزادی کے ہیرو اور ہیرئنوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اسی دن مجھے کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں پَبلوبی بھارت گیلری کے افتتاح کا بھی موقع ملا۔ بھارت کے بہادر انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد گیلری ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ اسے دیکھنے ضرور جائیں ۔ ساتھیو ، اپریل کے مہینے میں ہم دو عظیم ہستیوں کا یوم پیدائش بھی منائیں گے۔ ان دونوں نے بھارتی سماج پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ عظیم ہستیاں مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ مہاتما پھولے کا یوم پیدائش 11 اپریل کو ہے اور ہم 14 اپریل کو بابا صاحب کا یوم پیدائش منائیں گے۔ ان دونوں عظیم انسانوں نے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ مہاتما پھولے نے ، اس دور میں بیٹیوں کے لئے اسکول کھولے، بچیوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے پانی کے بحران سے نجات کے لئے بڑی مہم بھی چلائیں ۔ ساتھیو ، مہاتما پھولے کے اس ذکر میں ساوتری بائی پھولے جی کا ذکر بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے بہت سے سماجی اداروں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ایک استاد اور سماجی مصلح کے طور پر انہوں نے معاشرے کو بیدار بھی کیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ دونوں ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج قائم کیا ۔ عوام کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے کاموں میں ہم مہاتما پھولے کا اثر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے، بابا صاحب امبیڈکر کی زندگی سے تحریک لیتے ہوئے، میں تمام والدین اور سرپرستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں۔ بیٹیوں کا اسکول میں داخلے بڑھانے کے لئے کچھ دن پہلے ہی کنیا شکشا پرویش اتسو بھی شروع کیا گیا ہے، جن بیٹیوں کی کسی وجہ سے پڑھائی چھوٹ گئی ہے، انہیں اسکول واپس لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ساتھیو ، یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمیں بابا صاحب سے جڑے پنچ تیرتھ کے لئے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مہو میں ان کی پیدائش کا مقام ہو، ممبئی میں چیتیا بھومی ہو، لندن میں ان کا گھر ہو، ناگپور کی ابتدائی سرزمین ہو، یا دلّی میں بابا صاحب کا مہا پری نروان اِستھل ، مجھے سبھی مقامات پر ، سبھی تیرتھوں پر جانے کا موقع ملا ہے ۔ میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے اپیل کروں گا کہ وہ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے جڑے مقامات کو دیکھنے کے لئے ضرور جائیں ۔ آپ کو وہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔ میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ میں ، اس مرتبہ بھی ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ اگلے مہینے بہت سے تہوار آرہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہی نوراترے ہیں ۔ نو راترے میں ، ہم وَرت – اُپواس ، شکتی کی پوجا کرتے ہیں یعنی ہماری روایتیں ہمیں خوشیاں منانا بھی سکھاتی ہیں اور تحمل اور ریاض کا درس بھی دیتی ہیں ۔ تحمل اور استقامت بھی ہمارے لئے ایک تہوار ہے، اس لئے نوراترے ہمیشہ ہم سب کے لئے بہت خاص رہے ہیں ۔ نوراترے کے پہلے ہی دن گڈی پروا کا تہوار بھی ہے۔ اپریل میں ہی ایسٹر بھی آتا ہے اور رمضان کے مقدس دن بھی شروع ہو رہے ہیں۔ آیئے ، ہم سب کو ساتھ لے کر اپنے تہوار منائیں ، بھارت کے تنوع کو مضبوط کریں ، سب کی یہی آرزو ہے ۔ اس بار ’ من کی بات ‘ میں اتنا ہی ۔ اگلے مہینے آپ سے نئے موضوعات کے ساتھ پھر ملاقات ہو گی ۔ بہت بہت شکریہ ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ),২৭.০৩.২০২২ তাৰিখে ‘মন কী বাত’ৰ ৮৭তম খণ্ডত প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে প্ৰদান কৰা ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%85%D8%B6%D9%85%D9%88%D9%86-%D8%B3%D8%A7%D8%AC%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%AC%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%86%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0-%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%AE%E0%A6%B9/,"وزیراعظم، جناب نریندرمودی نے نموایپ کے وکاس یاترا سیکشن کا ایک مضمون ساجھا کیاہے ، جس میں اس بارے میں ایک جھلک پیش کی گئی ہے کہ بھارت کس طرح ان عظیم شخصیات کو یاد کررہاہے ،جنھوں نے ہمارے ملک کی تعمیر کی تھی ۔ وزیراعظم نے ایک ٹوئیٹ کیا : ‘‘اس سال ہم اپنے مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے موقع پر آزادی کا امرت مہوتسومنارہے ہیں ۔ نموایپ کی وکاس یاترا سیکشن پریہ مضمون آپ کو اس بارے میں ایک جھلک پیش کرتاہے کہ بھارت ، کس طرح ان عظیم شخصیات کو یادکررہاہے ، جنھوں نے ہمارے ملک کی تعمیر کی تھی۔#8YearsOfPreservingCulture""",আমাৰ ৰাষ্ট্ৰ নিৰ্মাতা মহান ব্যক্তিসকলক ভাৰতে স্মৰণৰ পন্থা সম্পৰ্কে এটি লেখা শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%B5%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%AA%DB%81%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A6%AC-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%A5%E0%A7%8D%E0%A6%AF-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8%E0%A6%A4-%E0%A6%A6%E0%A7%87/,"وزیراعظم جناب نریندر مودی نے عالمی یوم صحت کے موقع پر تہنیتی پیغام دیا ہے اور ہر شخص کی اچھی صحت اور بہتری کے لئے دعاکی ہے ۔ انہوں نے صحت کے شعبے سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کےساتھ اپنی ممنونیت کااظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ آیوشمان بھارت اور پی ایم جن اوشدھی اسکیمیں ہمارے اہل وطن کے لئے اچھے معیار اور کفایتی طبی نگہداشت کو یقینی بنانے میں ایک محوری کردار ادا کررہی ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ گزشتہ 8 برسوں کے دوران ، طبی تعلیم کے شعبے میں تیز رفتار تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں ،بہت سے نئےمیڈیکل کالج بنائے گئے ہیں ۔ ا نہوں نے اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی حکومت علاج معالجے کی تعلیم کو مقامی زبانوں میں مہیا کرانے کی کوششیں کررہی ہے ،جو بے شمار نوجوانوں کی امنگوں کو پرپرواز عطا کریں گی۔ مسلسل ٹویٹس میں ، وزیراعظم نے کہا: ""आरोग्यं परमं भाग्यं स्वास्थ्यं सर्वार्थसाधनम्॥ ’’عالمی یوم صحت پر مبارکباد۔دعا ہے کہ ہر شخص کو خدا اچھی صحت اورخوشحالی کی نعمت سے نوازے۔ آج کا دن صحت کے شعبے سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کے ساتھ اظہارممنونیت کرنے کا دن ہے ۔یہ ان کی زبردست محنت ہی ہے جس نے ہمارے کرہ ارض کو محفوظ رکھاہے ‘‘۔ ’’بھارتی حکومت ہندوستان کے طبی بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے کے لئے انتھک کوششیں کررہی ہے ۔خاص توجہ تمام اہل وطن کے لئے اچھے معیار والی اورکفایتی طبی نگہداشت کی فراہمی کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے ۔ یہ ہر ہندوستانی کے لئے فخر کی بات ہے کہ طبی نگہداشت سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی اسکیم یعنی آیوشمان بھارت ہمارے ملک میں ہے ‘‘۔ ’’ مجھے پی ایم جن اوشدھی جیسے منصوبوں سے استفادہ کرنےوالے افراد سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے ۔ کفایتی علاج معالجے کی فراہمی پر ہماری توجہ مرکوز ہونے سے غریب طبقے اوراوسط طبقے کے افرادکے لئے بڑے پیمانے پر روپئے کی بچت کو یقینی بنایا ہے ۔ اسی کے سا تھ ساتھ مجموعی فلاح و بہبود کو مزید فروغ دینے کے لئے ہم اپنے آیوش نیٹ ورک کو مضبوط سے مضبوط تر کررہے ہیں ‘‘۔ ’’ گزشتہ 8 برسوں کے دوران، طبی تعلیم کے شعبے میں تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ کچھ نئے میڈیکل کالجز قائم کئے گئے ہیں ۔ بھارتی حکومت علاج معالجے کی تعلیم کو مقامی زبانوں میں مہیا کرانے کی کوششیں کررہی ہے،جو بے شمار نوجوانوں کی امنگوں کو پرپرواز عطا کریں گی‘‘۔","বিশ্ব স্বাস্থ্য দিৱসত দেশবাসীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা, সকলোৰে সুস্বাস্থ্য আৰু সুস্থতাৰ বাবেও প্ৰাৰ্থনা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%DB%8C%D8%B4%D9%84%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%B5%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%88%D8%B1%DB%81-%DB%81%D9%86%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%87%E0%A6%9B%E0%A7%87%E0%A6%B2%E0%A6%9B%E0%A7%B0-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AA%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0/,نمبر شمار مفاہمت نامہ/ معاہدہ ہندوستانی فریق سیشلس کی طرف سے دستخظ کرنے والی شخصیت 1 بلدیاتی اداروں، تعلیمی اور پیشہ وارانہ اداروں کے توسط سے چھوٹے ترقیاتی پروجیکٹوں کے نفاذ کے لئے ہندوستان کی طرف سے امدادی گرانٹ کے سلسلے میں جمہوریہ ہند کی حکومت اور جمہوریہ سیشلس کے درمیان مفاہمت نامہ امور خارجہ کی وزیرمملکت جناب ایم جے اکبر بساوٹوں، بنیادی ڈھانچہ اور زمینی نقل وحمل کی وزیر محترمہ پامیلا چارلیٹ 2 پنجاجی سٹی کارپوریشن(میونسپل کارپوریشن) اور جمہوریہ سیشلس کے سٹی آف وکٹوریہ کے درمیان دوستی اور امداد باہمی کے قیام کے لئےٹویننگ معاہدہ امور خارجہ کی وزیرمملکت جناب ایم جے اکبر بساوٹوں، بنیادی ڈھانچہ اور زمینی نقل وحمل کی وزیر محترمہ پامیلا چارلیٹ 3 سائبر سیکوریٹی کے شعبے میں تعاون کے لئے جمہوریہ ہند کی الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت کام کرنے والی انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم(سی ای آر ٹی۔ ان) اور جمہوریہ سیشلس کے درمیان جمہوریہ سیشلس کے اطلاعاتی ٹیکنالوجی محکمہ کے درمیان مفاہمت نامہ امور خارجہ کی وزیرمملکت جناب ایم جے اکبر ماہی پروری اور زراعت کے وزیر جناب چارلس بیسٹین 4 سال 2018-2022 کے لئے جمہوریہ ہند حکومت اور جمہوریہ سیشلس کی حکومت کے درمیان ثق��فتی لین دین پروگرام امور خارجہ کی وزیرمملکت جناب ایم جے اکبر بساوٹوں، بنیادی ڈھانچہ اور زمینی نقل وحمل کی وزیر محترمہ پامیلا چارلیٹ 5 ہندوستانی بحریہ اور جمہوریہ سیشلس کے نیشنل انفورمیشن شیئرنگ اینڈ کوآرڈیننشن سینٹر کے درمیان وائٹ شپنگ انفورمیشن کے اشتراک سے متعلق تکنیکی معاہدہ۔ امور خارجہ کی وزیرمملکت جناب ایم جے اکبر ماہی پروری اور زراعت کے وزیر جناب چارلس بیسٹین 6 جمہوریہ ہند کی امور داخلہ کی وزارت کے فورین سروس انسٹی ٹیوٹ اور جمہوریہ سیشلس کے محکمہ خارجی امور کے درمیان مفاہمت نامہ۔ فورین سروس انسٹی ٹیوٹ کے ڈین جناب جے ایس مکل امبیسڈر بیری فورم، خارجی امور کے سیکریٹری آف اسٹیٹ,ছেইছেলছৰ ৰাষ্ট্ৰপতিৰ ভাৰতৰ ৰাজ্যিক ভ্ৰমণৰ সময়ত ভাৰত আৰু ছেইছেলছৰ মাজত সম্পন্ন হোৱা বুজাবুজিৰ চুক্তিৰ তালিকা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%81%D9%84%D9%BE%D8%A7%D8%A6%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A6%87%E0%A6%A8%E0%A6%9B%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A7%9F-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%82%E0%A6%A6%E0%A6%BE%E0%A7%9F/,نئی دہلی؍13نومبر2017،وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے فلپائن کی راجدھانی منیلا میں آج ہندوستانی برادری کے لوگوں سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آسیان خطہ ہندوستان کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے آسیان خطے کے ساتھ ہندوستان کے طویل باہمی وراثت اور جذباتی رشتے کا ذکر کیا۔ انہوں نے خاص طورپر بدھ اور رامائن کا ذکیا۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے میں ہندوستانی نژاد لوگوں نے اس وراثت کو قائم رکھنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان نے کبھی بھی کسی دوسرے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی قربانی کا ذکیا ، جنہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران دوردراز کے علاقوں میں اپنی جانیں نچھاور کیں تھیں۔ ہندوستان کا حال بھی یکساں طورپر روشن اور تابناک ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے چاہئے کہ 21ویں صدی ہندوستان کی صدی ہو، جسے ایشیاء کی صدی بھی کہا جاتاہے۔ وزیر اعظم نے غریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے کئے گئے جن دھن یوجنا اور اجوولا یوجنا جیسے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے سبسڈی کو آدھار سے جوڑنے سے حاصل ہوئے فوائد کا بھی ذکر کیا۔ م ن۔ح ا۔ن ع (13-11-17),ফিলিপাইনছত ভাৰতীয় সমূদায়ক সম্বোধন প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%B3-%DA%88%D8%A8%D9%84%DB%8C%D9%88-%D9%B9%D9%84%D8%B1%D8%B3%D9%86-%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A6%BE%E0%A7%8E-2/,نئی دہلی،25 اکتوبر/ امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے آج دوپہر بعد وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی ۔ اپنے موجودہ منصب میں بھارت کا اولین دورہ کرنے والے امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کا وزیر اعظم نے خیر مقدم کیا ۔ وزیر اعظم نے اس برس جون کے مہینے میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کلیدی باہمی شراکت داری میں ترقی کے مستحکم رجحان کے ساتھ مثبت اور دور رس فوائد کی حامل گفتگو ہوئی تھی ۔ وزیر اعظم نے ، وزیر ��ارجہ ٹلرسن کے اظہار کردہ اس عہد کا ذکر کیا ، جس میں انہوں نے باہمی شراکت داری کے مواد ، رفتار اور گنجائش میں تیزی لانے اور انہیں مضبوط کرنے کی سمت میں مزید اقدامات کئے جانے کی بات کہی ہے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت اور امریکہ کی مضبوط شراکت داری سے نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کا باہمی فائدہ ہو گا بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام اور خوشحالی کے تناظر میں اس کا مثبت اثر بھی پڑے گا ۔ صدر ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیا پالیسی کے تناظر میں وزیر اعظم نے افغانستان میں امن و استحکام لانے کے ساتھ دہشت گردی ، دہشت گردوں کے انفرا اسٹرکچر ، محفوظ مقامات اور دہشت گردی کی امداد کے خاتمے سے متعلق مشترکہ مقاصد کا ذکر کیا ۔ اس سلسلے میں وزیر خارجہ ٹلرسن نے وزیر اعظم کے ساتھ خطے میں اپنے حالیہ اسفار پر تبادلۂ خیال کیا ۔ دونوں لیڈران نے دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نمٹنے اور علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دینے کے لئے موثر امداد باہمی کو تیز کرنے پر بات چیت کی ۔ اس سے پہلے دن میں ، امریکی وزیر خارجہ نے ، وزیر خارجہ سشما سوراج اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی تھی ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীক সাক্ষাৎ মাৰ্কিন ৰাষ্ট্ৰীয় সচিব ৰেক্স ডব্লিউ. টিলাৰছনৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-24-%D8%A7%DA%AF%D8%B3%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%DB%81%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%A8%E0%A7%AA-%E0%A6%86%E0%A6%97%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%BF%E0%A7%9F%E0%A6%BE%E0%A6%A3%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA%E0%A6%BE/,وزیراعظم جناب نریندر مودی 24 اگست 2022 کو ہریانہ اور پنجاب کا دورہ کریں گے۔ اس دن وزیراعظم، صحت سے متعلق دو اہم پہل قدمیوں کا افتتاح کریں گے اور انہیں قوم کے نام وقف کریں گے۔ دن میں گیارہ بجے کے قریب، وزیراعظم، ہریانہ میں فرید آباد کے مقام پر امرتا اسپتال کا افتتاح کریں گے۔ اس کے بعد وزیراعظم موہالی جائیں گے اور سہ پہر دو بج کر پندرہ منٹ کے قریب صاحبزادہ اجیت سنگھ نگر ضلع (موہالی) میں نیو چنڈی گڑھ میں ‘مُلّن پور’ کے مقام پر ‘‘ہومی بھا بھا کینسر اسپتال اور تحقیقی مرکز’’ کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ وزیراعظم ہریانہ میں وزیراعظم فرید آباد میں امرتا اسپتال کا افتتاح کریں گے، جس کے سبب قومی راجدھانی خطے (این سی آر) میں جدید ترین طبی بنیادی ڈھانچہ کی دستیابی کو فروغ حاصل ہوگا۔ ماتا امرتا نندا مائی کے زیر اہتمام یہ سُپر اسپیشلٹی اسپتال، 2600 بستروں سے آراستہ ہوگا۔ اس اسپتال سے، جو تقریبا 6000 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، فرید آباد اور پورے این سی آر خطے کے لوگوں کو حفظان صحت کی جدید ترین سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ وزیراعظم پنجاب میں پنجاب اور پڑوسی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے باشندوں کو کینسر کے عالمی معیار کا علاج معالجہ فراہم کرانے کی کوشش کے طور پر، وزیراعظم جناب نریندر مودی، صاحبزادہ اجیت سنگھ نگر ضلع (موہالی) میں نیو چنڈی گڑھ میں ‘مُلن پور’ کے مقام پر ‘ہومی بھا بھا کینسر اسپتال اور تحقیقی مرکز’ کو قوم کے نام وقف کریں گے۔ اس اسپتال کو ٹاٹا میموریل سینٹر نے 660 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تعمیر کیا ہے اور یہ حکومت ہند کے ایٹمی توانائی کے محکمے کے تحت ایک امداد یافتہ ادارہ ہے۔ یہ کینسر اسپتال 300 بستروں سے آراستہ ہے اور یہ سبھی قسم کے کینسر کا علاج کرنے کی غرض سے جدید تری�� سہولتوں سے لیس ہے۔ یہ اسپتال ، خطے میں کینسر کے علاج معالجہ کے ایک مرکز کے طور پر کام کرے گا، جبکہ سنگرور کے مقام پر 100 بستروں والا اسپتال اس کے معاون ذیلی اسپتال کے طور پر کام کرے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰ (ش ح- ع م – ق ر),২৪ আগষ্টত হাৰিয়াণা আৰু পাঞ্জাৱ ভ্ৰমণ কৰিব প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C-%D9%88%D9%81%D8%A7%D9%82-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81-%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%A8-%D8%B3%D8%B1%DA%AF%D8%A6%DB%8C-%D9%84%D8%A7%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%A8%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%A8-42/,روسی وفاق کے وزیر خارجہ جناب سرگئی لاوروف نے آج وزیر اعظم جناب نریندر مودی سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ لاوروف نے وزیراعظم کو جاری امن مذاکرات سمیت یوکرین کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے تشدد کو جلد سے جلد روکنے کی اپنی اپیل کو دہرایا اور یہ پیغام دیا کہ بھارت امن کی کوششوں میں کسی بھی طرح کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے دسمبر 2021 میں منعقدہ ہند۔روس دو طرفہ سربراہ کانفرنس کے دوران کئے گئے فیصلوں کی پیش رفت کے بارے میں بھی وزیر اعظم کو اپ ڈیٹ کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্ৰী নৰেন্দ্ৰ মোদীক সাক্ষাৎ ৰাছিয়ান ফেডাৰেশ্যনৰ বৈদেশিক মন্ত্ৰী মহামহিম সেৰ্গেই লাভৰভৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%82%D8%B1%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4/,نئی دہلی۔25 فروری میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار آج کی ابتدا میں ہی ‘من کی بات’ ایک فون کال سے ہی کرتے ہیں۔ (فون) معزز وزیر اعظم، میں کومل ترپاٹھی میرٹھ سے بول رہی ہوں ۔ 28 تاریخ کو قومی سائنس کا دن ہے … ہندوستان کی ترقی اور اس کی شرح ترقی مکمل طور پر سائنس سے جڑی ہے۔ جتنا ہی ہم اس میں تحقیق اور اختراعات کریں گے اتنا ہی ہم لوگ آگے بڑھیں گے اور خوشحال ہوں گے۔ ۔۔ کیا آپ ہمارے نوجوانوں کہ اختراعات کرنے کے لیے کچھ ایسے الفاظ کہہ سکتے ہیں جس سے کہ وہ سائنسی طریقے سع اپنی سوچ کو آگے بڑھائیں اور ہمارے ملک کو بھی آگے بڑھا .. شکریہ! آپ کے فون کال کے لئے بہت بہت شکریہ. سائنس کے بارے میں بہت سے سوالات میرے نوجوان ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا ہے۔ کچھ نہ کچھ لکھتےرہتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سمندر کا رنگ نیلے رنگ کا نظر آتا ہے ، لیکن ہم اپنے روزانہ کی زندگی کے تجربات سے جانتے ہیں کہ پانی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ندی ہو سمندر ہے، پانی رنگین کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ سوال 1920 کے دہائی میں ایک نوجوان کے ذہن میں آیا تھا۔ اسی سوال نے جدید ہندوستان کے عظیم سائنسدان کو جنم دیا۔ جب ہم سائنس کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے، بھارت – رتن سر سی وی رمن کا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔ انہیں لائٹ اسکیٹرنگ یعنی روشنی کے پھیلاؤ سے متعلق امتیازی خدمات انجام دینے کے لیے نوبل انعام فراہم کیا گیا تھا۔ ان کی ایک دریافت ‘‘رمن ایفکٹ’’ کے نام سے مشہور ہے ۔ ہم ہر سال 28 فروری کو ‘نیشنل سائنس ڈے’ مناتے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اسی دن انہوں نے روشنی کی منتقلی کا اصول تلاش کی تھی۔ جس کے لئے انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس ملک نے سائنس کے میدان میں بہت سے عظیم سائنسدانوں کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف، عظیم ریاضی داں بھاسکر، برہم گپت اور آریہ بھٹ کی روایت رہی ہے تو دوسری علم طب کے شعبے میں سوشروت اور چرک ہمارے قابل فخر ہیں ۔ سر جگدیش چندر بوس اور ہر گووند کھرانہ سے لے کر ستیندر ناتھ بوس جیسے سائنس داں ، یہ ہندوستان کے لیے قابل فخر ہیں ۔ ستیندر ناتھ بوس کے نام پر تو مشہور پارٹیکل ‘بوسون’ رکھا گیا ۔ حال ہی میں مجھے ممبئی میں ایک پروگرام میں شامل ہونے کا موقع ملا ۔ وادھوانی انسٹی ٹیوٹ فار آرٹیفشیل انٹلی جینس کے افتتاح کے موقع پر۔ سائنس کے شعبہ میں جو چمتکار ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں جاننا بڑا دلچسپ تھا ۔ مصنوعی انٹلی جینس کے ذریعہ روبوٹس، بوٹس اور مخصوص کام کرنے والی مشینیں بنانے میں مدد ملتی ہے ۔ آجکل مشینیں سیلف لرننگ سے اپنے آپ کے انٹلی جینس کو اور اسمارٹ بناتی جاتی ہیں ۔ اس ٹکنالوجی کا استعمال غریبوں، محروموں یا حاجت مندوں کی زندگی بہتر بنانے کے کام آسکتے ہیں ۔ مصنوعی انٹلی جینس کے اس پروگرام میں میں نے سائنس دانوں سے درخواست کی کہ معذور بھائیوں اور بہنوں کی زندگی خوشگوار بنانے کے لیے کس طرح سے مصنوعی انٹلی جینس سے مدد مل سکتی ہے؟ کیا ہم مصنوعی انٹلی جینس کے ذریعہ قدرتی آفات کے بارے میں بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں ؟ کسانوں کو فصلوں کی پیداوار کو لے کر کوئی تعاون کر سکتے ہیں؟ کیا مصنوعی انٹلی جینس صحت کی خدمات تک رسائی کو آسان بنانے اور جدید طریقے سے امراض کے علاج میں معاون ہو سکتے ہیں ؟ گزشتہ دنوں، اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مجھے گجرات کے احمدآباد میں ‘آئی کریئٹ ’ کے افتتاح کے لئے جانے کا موقع ملا تھا۔ وہاں، ایک نوجوان نے ایک ایسا ڈیجیٹل آلہ تیار کیا ہے جس میں اگر کوئی بات نہیں کرسکتا تو اس آلہ کے ذریعہ اپنی بات کو لکھتے ہی وہ آواز میں تبدیل ہوجاتا ہے اور آپ اسی طرح بات کر سکتے ہیں جیسے کہ ایک بات کرسکنے والے شخص کے ساتھ آپ کرتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم مصنوعی انٹیلی جنس کا استعمال ایسے کئی طریقوں میں کرسکتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی قدر غیر جانبدار ہوتی ہے۔ ان میں قدر و قیمت خود بخود نہیں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ویسے ہی کام کرے گی جیسے ہم چاہیں گے۔ لیکن یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم مشین سے کیا کام لینا چاہتے ہیں ۔ یہاں انسانی مقاصد اہم ہوجاتے ہیں ۔ سائنس کا انسانی پہلو فلاح و بہبود کے لیے ، انسانی زندگی کی بلند ترین اونچائیوں کو چھونے کے لیے استعمال ہے۔ لائٹ بلب کے موجد تھومس الوا ایڈیسن اپنے تجربات میں کئی بار ناکام رہے ہیں۔ ایک بار جب ان سے پوچھا گیا تو، انہوں نے جواب دیا – “میں نے لائٹ بلب نہیں بنانے کے دس ہزار طریقے تلاش کیے ہیں ’’، یعنی ایڈیسن نے اپنی ناکامیوں کو بھی اپنی طاقت بنا لیا ۔ اتفاق سے خوش قسمتی ہے کہ آج میں مہارشی اربندو کی کرم بھومی اوروویلے میں ہوں ۔ ایک انقلابی کے روپ میں انہوں نے برطانوی حکومت کو چیلنج کیا، ان کے خلاف لڑائی لڑی، ان کی حکومت پر سوال اٹھائے ۔ اسی طرح انہوں نے ایک عظیم رشی کے روپ میں، زندگی کے ہر پہلو کے سامنے سوال رکھا ۔ جواب تلاش کر کے انسانی زندگی کو راہ دکھائی ۔ سچائی کو جاننے کے لیے بار بار سوال پوچھنے کا احساس اہم ہے۔ سائنسی دریافت کے پیچھے کی اصل ترغیب بھی تو یہی ہے۔ تب تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کیوں ، کیا اور کیسے جیسے س��الوں کا جواب نہ مل جائے ۔ قومی سائنس ڈے کے موقع پر ہمارے سائنس داں سائنس سے جڑے سبھی لوگوں کو میں مبارکباد دیتا ہوں۔ ہماری نوجوان نسل سچائی اور سائنس کی تلاش کے لیے ترغیب حاصل کریں ، سائنس کی مدد سے سماج کی خدمت کرنے کے لیے محرک ہوں ، اس کے لیے میری جانب سے بہت بہت مبارکباد ۔ دوستوں ، بحران کے وقت حفاظت، آفات ان سبھی موضوع پر مجھے بہت بار بہت کچھ پیغام آتے رہتے ہیں، لوگ مجھے کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ پنے سے شریمان رویندر سنگھ نے نریندر مودی موبائل اَیپ پر اپنے کمینٹ میں پیشہ ورانہ تحفظ پر بات کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں کارخانے اور تعمیری مقامات پر تحفظ کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے ۔ آئندہ مارچ کو ہندوستان کا قومی تحفظ ڈے ہے تو وزیر اعظم اپنے ‘من کی بات’ پروگرام میں تحفظ پر بات کریں تاکہ لوگوں میں تحفظ کو لے کر بیداری پیدا ہو۔ جب ہم عوامی تحفظ کی بات کرتے ہیں تو دو چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو آفات کے وقت ضروری ہوتی ہے ، آفات کے دوران تحفظ اور دوسری وہ ہےجس کی روز مرہ کی زندگی ضرورت پڑتی ہے یعنی تحفظ روز مرہ کی زندگی میں۔ اگر ہم روز مرہ کی زندگی میں تحفظ کو لے کر بیدار نہیں ہیں ، اسے حاصل نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر آفات کے دوران اسے پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم سب بہت بار راستوں پر لکھے ہوئے بورڈ پڑھتے ہیں ۔ اس میں لکھا ہوتا ہے : ‘‘دھیان ہٹا ، حادثہ ہوا۔’’ ‘‘ایک بھول کرے نقصان، چھینے خوشیاں اور مسکان’’، ‘‘اتنی جلدی نہ دنیا چھوڑو ، حفاظت سے اب ناطہ جوڑو’’ حفاظت سے نہ کرو کوئی مستی ، ورنہ زندگی ہوگی سستی’’ اس سے آگے ان جملوں کا ہماری زندگی میں کبھی کبھی کوئی استعمال ہی نہیں ہوتا ہے ۔ قدرتی آفات کو اگر چھوڑ دیں تو زیادہ تر حادثات ہماری کوئی نہ کوئی غلطی کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں ۔ اگر ہم بیدار رہیں ضروری قوانین پر عملدر آمد کریں تو ہم اپنی زندگی کی حفاظت تو کر ہی سکتے ہیں لیکن بہت بڑے حادثوں سے بھی ہم سماج کو بچا سکتے ہیں ۔ کبھی کبھی ہم نے دیکھا ہے کہ کام کی جگہ پر تحفظ کو لے کر بہت کچھ لکھے ہوتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں تو کہیں اس پر عمل در آمد نظر نہیں آتا ہے ۔ میری تو درخواست ہے کہ مہانگر پالیکا ، نگر پالیکا جن کے پاس فائر بریگیڈ ہوتے ہیں انہیں ہفتے میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار الگ الگ اسکولوں میں جا کر اسکول کے بچوں کے سامنے موک ڈریل کرنا چاہیے ۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ۔ فائر بریگیڈ کو بھی ہوشیار رہنے کی عادت رہتی ہے اور نئی نسل کو اس کی تعلیم بھی ملتی ہے اور اس کے لیے نہ کوئی الگ سے خرچ ہوتا ہے ۔ ایک طرح سے تعلیم کا ہی ایک سلسلہ بن جاتا ہے اور میں ہمیشہ اس بات کی اپیل کرتا رہتا ہوں ۔ جہاں تک سانحوں کی بات ہے ، قدرتی آفات کی بات ہے تو ہندوستان جغرافیائی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے تنوع سے بھر پور ملک ہے ۔ اس ملک میں نہ کوئی قدرتی اور انسانوں کے باعث آفات جیسے کیمیاوی اور ٹکنالوجی سے متعلق حادثوں کو جھیلا ہے ۔ آج نیشنل ڈس آسٹر مینجمنٹ اتھاریٹی یعنی این ڈی ایم اے ملک میں آفات سے نمٹنے میں قیادت کر رہا ہے ۔ زلزلہ ہو ، سمندری طوفان ہو ، زمین کھسکنے جیسی آفات کو بچاؤ آپریشن ہو ، این ڈی ایم اے فورا پہنچتا ہے ۔ انہوں نے رہنما خطوط جاری کیے ہیں ، ساتھ ساتھ وہ صلاحیت ساز کے لیے لگا تار تربیت کے کام بھی کرتے رہتے ہیں ۔ سیلاب ، سمندری طوفانی کے خطرے میں ہونے والے ضلعوں میں رضاکاروں کی ٹریننگ کے لیے بھی ‘‘آفات ��وست’’ نام کی پہل کی گئی ہے ۔ ٹریننگ اور بیداری کا بہت اہم رول ہے ۔ آج سے دو تین سال پہلے لو لگنے سے ہر سال ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا دیتے تھے ۔ اس کے بعد این ڈی ایم اے نے گرمی کی لہر سے نمٹنے کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کیا ، لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی ۔ محکمہ موسمیات نے درست پیش گوئی کی ۔ سب کی شراکت داری سے ایک اچھا نتیجہ سامنے آیا۔ 2017 میں لو سے ہونے والی اموات کی تعداد غیر متوقع طور پر کم ہو کر تقریبا 220 ہوگئی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم تحفظ کو ترجیح دیتے ہیں ، ہم تحفظ حاصل کر سکتے ہیں ۔ سماج میں اس طرح سے کام کرنے والے بے شمار لوگ ہوں ، سماجی تنظیمیں ہوں ، بیدار شہری ہوں – میں ان سب کی ستائش کرنا چاہتا ہوں جو کہیں بھی آفت آئے منٹوں میں راحت اور بچاؤ کام میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ اور ایسے گمنا ہیرو کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ ہماری فائر اور بچاؤ خدمات ، نیشنل ڈس آسٹر ریسپونس فورسز، مسلح افواج، نیم فوجی دستے یہ بھی بحران کے وقت پہنچنے والے جیالے بہادر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ این سی سی، اسکاؤٹ جیسے ادارے بھی ان کاموں کو آجکل کر بھی رہے ہیں ، ٹریننگ بھی دے رہے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہم نے ایک کوشش یہ بھی شروع کی ہے کہ جیسے دنیا کے ملکوں میں مشترکہ فوجی مشق ہوتے ہیں تو کیوں نہ دنیا کے ممالک آفات سے نمٹنے کے لیے بھی مشترکہ مشق کریں ۔ ہندوستان نے اس کی قیادت کی ہے ۔ بی آئی ایم ایس ٹی ای سی ، بنگلہ دیش ، ہندوستان ، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ بھوٹان اور نیپال ، ان ملکوں کی مشترکہ ڈس آسٹر مینجمنٹ ایکسر سائز بھی کی گئی ، یہ اپنے آپ میں ایک پہلا اور بڑا انسانی تجربہ تھا ۔ ہمیں ایک خطرات کے تئیں بیدار سماج بننا ہوگا ۔ اپنی تہذیب میں ہمیں اقدار کی حفاظت ، اقدار کے تحفظ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن ہمیں اقدار کے تحفظ ، تحفظ کے اقدار کو بھی سمجھنا ہوگا ۔ ہمیں اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا ۔ ہم نے اپنی عام زندگی میں دیکھا ہے کہ ہم سینکڑوں بار ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ہوائی جہاز کے اندر ایر ہوسٹس شروعات میں تحفظ سے متعلق اطلاعات دیتی ہیں ۔ ہم سب نو سو بار انہیں سنا ہوگا لیکن آج ہمیں کوئی ہوائی جہاز میں لے جا کر کھڑا کرے اور پوچھے کہ کون سی چیز کہاں ہے ؟ لائف جیکٹ کہاں ہے ؟ کیسے استعمال کرنا چاہیے ؟ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں ، ہم میں کوئی نہیں بتا پائے گا ۔ مطلب یہ ہوا کہ کیا جانکاری دینے کا انتظام تھا ؟ تھا ۔ براہ راست اس طرف نظر کر کے دیکھنے کے لیے امکان تھا ؟ تھا ۔ لیکن ہم نے کیا نہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم عادت سے بیدار نہیں ہیں اور اس لیے ہمارے کان ، ہوائی جہاز میں بیٹھنے کے بعد سنتے تو ہیں لیکن ‘یہ اطلاعات میرے لیے ہیں ’ ایسا ہم میں سے کسی کو لگتا ہی نہیں ہے ۔ ویسا ہی زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارا تجربہ ہے ۔ ہم یہ نہ سوچیں کہ سیفٹی کسی اور کے لیے ہے ، اگر ہم سب اپنی سیفٹی کے لیے بیدار ہوجائیں تو سماج کی سیفٹی کا احساس بھی مخفی ہوتا ہے ۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، اس بار بجٹ میں ‘صاف بھارت’ کے تحت گاؤں کے لئے بایو گیس کے ذریعے waste to wealth اور waste to energy بنانے پر زور دیا گیا۔ اس کے لئے پہل کی گئی اور اسے نام دیا گیا ‘GOBAR-Dhan’ – Galvanizing Organic Bio-Agro Reso مارچ کو پورا ملک ہولی کا تہوار جوش و خروش سے منائے گا۔ ہولی میں جتنی اہمیت رنگوں کی ہے اتنی ہی اہمیت ‘ہولیکا دہن’ کی بھی ہے کیونکہ یہ دن برائیوں کا آگ میں جلا کر خاکستر کرنے کا دن ہے۔ ہولی دلوں کی ساری کدورت بھول کر ایک ساتھ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک بننے کا پرمسرت موقع ہے اور پیار ، اتحاد نیز بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ آپ سبھی ہم وطنوں کو ہولی کے رنگ کے جشن کی بہت بہت مبارکباد، رنگ سے بھری مبارکباد۔ یہ ہمارے ہم وطنوں کی زندگی میں رنگ برنگی خوشیوں سے بھرا رہے ، یہی نیک خواہشات۔ میرے پیارے ہم وطنوں ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,"প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ মন কী বাতৰ অসমীয়া অনুবাদ (খণ্ড-৪১, ২৫ ফেব্ৰুৱাৰী ২০১৮)" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%82%D8%B7%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%B1%D8%8C-%DB%81%D8%B2-%DB%81%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%86%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے قطر کے سربراہ مملکت، ہز ہائی نیس امیر تمیم بن حمد الثانی سے بات کی ہے اور دیوالی کی مبارکباد کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ جناب مودی نے قطر میں کامیاب فیفا ورلڈ کپ کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں کہا؛ ’’قطر کے ہز ہائی نیس امیر @TamimBinHamad سے بات کرکے خوشی ہوئی۔ دیوالی کی مبارکباد کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا، اور قطر میں کامیاب @FIFAWorldC سال کاجشن مشترکہ طور پر منانے پر اتفاق کیا۔‘‘,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে কাটাৰৰ আমীৰ মহামহিম আমীৰ তামিম বিন হামাদ আল থানিৰে কথা পাত +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%86%D8%B9%D9%82%D8%AF%DB%81-%D8%AC%DB%8C-20-%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%BF-%E0%A7%A8%E0%A7%A6-%E0%A6%B8%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%A8%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بالی میں منعقدہ جی-20 سربراہ ملاقات کے شانہ بہ شانہ آج سنگاپور کے وزیر اعظم عزت مآب جناب لی سین لونگ سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے گذشتہ برس روم میں منعقدہ جی-20 سربراہ اجلاس کے شانہ بہ شانہ وزیر اعظم لی کے ساتھ ہوئی ملاقات کو یاد کیا۔ دونوں وزرائے اعظم نے بھارت اور سنگاپور کے درمیان مضبوط کلیدی ساجھے داری اور نئی دہلی میں ستمبر 2022 کو منعقدہ بھارت – سنگاپور وزارتی سطح کی گول میز کانفرنس کے افتتاحی سیشن سمیت باقاعدہ منعقد ہونے والی اعلیٰ سطح کی وزارت اور تنظیمی بات چیت پر غور کیا۔ دونوں قائدین نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری روابط، خصوصاً فن ٹیک، قابل احیاء توانائی، ہنرمندی ترقیات، صحت اور ادویہ جیسے شعبوں کو توسیع دینے کے سلسلے میں اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم جناب مودی نے سنگاپور کو سبز معیشت، بنیادی ڈھانچہ اور ڈجیٹلائزیشن سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور بھارت کے قومی بنیادی ڈھانچہ پائپ لائن، اثاثہ جات کو سرمایہ کی شکل دینے سے متعلق منصوبے اور گتی شکتی منصوبے سے مستفید ہونے کے لیے مدعو کیا۔ دونوں قائدین نے حالیہ عالمی اور علاقائی واقعات پر تبادلہ خیالات کیے۔ وزیر اعظم مودی نے بھارت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی اور 2021-2024 کے دوران آسیان-بھارت تعلقات میں بطور کوآرڈی نیٹر سنگاپور کے کردار کی ستائش کی۔ دونوں قائدین نے بھارت-آسیان کثیر جہتی تعاون میں مزید اضافہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے مستقبل کے لیے وزیر اعظم لی کو نیک خواہشات پیش کیں اور انہیں آئندہ برس جی-20 سربراہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے بھارت آنے کے لیے مدعو کیا۔,বালিত জি-২০ সন্মিলনত সমান্তৰালভাৱে ছিংগাপুৰৰ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ সৈতে প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ বৈঠক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%DB%8C%D9%81-%D9%84%D9%85%D9%BE%DA%A9%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%81%D8%AA%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AB%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BF%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A6%BF%E0%A6%95%E0%A6%A4-%E0%A6%B8%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A6%B7%E0%A7%8D/,نئی دہلی، 17/مئی 2022 ۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے حال ہی میں ختم ہوئے ڈیف لمپکس میں اب تک کی بہترین کارکردگی کے لیے بھارتی دستے کو مبارکباد دی ہے۔ وہ 21 تاریخ کو وزیراعظم کی رہائش گاہ پر دستے کی میزبانی کریں گے۔ وزیر اعظم نے ٹوئیٹ کیا: ’’حال ہی میں ختم ہوئے ڈیف لمپکس میں اب تک کی بہترین کارکردگی کے لیے بھارتی دستے کو مبارک باد! ہمارے دستے کا ہر کھلاڑی ہمارے ساتھی شہریوں کے لیے ایک تحریک ہے۔ میں 21 تاریخ کی صبح اپنی رہائش گاہ پر پورے دستے کی میزبانی کروں گا۔‘‘,ডিফিলিম্পিকত সৰ্বশ্ৰেষ্ঠ প্ৰদৰ্শনৰ বাবে ভাৰতীয় দলক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%84%DB%81%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%A8%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%97%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B9-%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%8D%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%95/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گرمی کی لہر کے بندوبست اور مانسون کی تیاریوں سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیا۔ میٹنگ کے دوران، آئی ایم ڈی اور این ڈی ایم اے نے ملک بھر میں مارچ-مئی 2022 میں زیادہ درجہ حرارت برقرار رہنے کے بارے میں بتایا۔ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ریاست، ضلع اور شہر کی سطح پر معیاری ردعمل کے طور پر ہیٹ ایکشن پلان تیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ جنوب مغربی مانسون کی تیاریوں کے بارے میں، تمام ریاستوں کو ’سیلاب کی تیاری کے منصوبے‘ تیار کرنے اور مناسب تیاری کے اقدامات کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ این ڈی آر ایف کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ ریاستوں میں اپنی تعیناتی کا منصوبہ تیار کرے۔ کمیونٹیز کی حساسیت کے لیے سوشل میڈیا کے فعال استعمال کو وسیع پیمانے پر اپنانا ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں گرمی کی لہر یا آتشزدگی کے واقعات سے ہونے والی اموات سے بچنے کے لیے تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے کسی بھی واقعے کے لیے ہمارا ردعمل کا وقت کم سے کم ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر مستقبل طور پر اسپتال کے فائر سیفٹی آڈٹ کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے آگ کے خطرات کے خلاف ملک کے متنوع جنگلاتی ماحولیاتی نظام میں جنگلات کے خطرے کو کافی حد تک کم کرنے، ممکنہ آگ کا بروقت پتہ لگانے اور فائر فائٹنگ کے لیے جنگلات کے عملے اور اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے اور آتش زدگی کے واقعات کے بعد بحالی کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت کا ذکر کیا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ آئندہ مانسون کے پیش نظر پینے کے پانی کے معیار کی نگرانی کے انتظامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آلودگی اور اس کے نت��جے میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔ میٹنگ میں مرکزی اور ریاستی ایجنسیوں کے درمیان موثر تال میل کی ضرورت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ گرمی کی لہر اور آنے والے مانسون کے پیش نظر کسی بھی واقعے کے لیے تمام نظاموں کی تیاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ میٹنگ میں وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری، وزیر اعظم کے مشیر، کابینہ سکریٹری، وزارت داخلہ، صحت، جل شکتی کے سکریٹریز، ممبر این ڈی ایم اے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور ہندوستانی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) کے ڈی جیز اور ڈی جی، این ڈی آر ایف شرکت کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ ۔ن ا۔,‘গ্ৰীষ্ম প্ৰবাহ’ সম্পৰ্কীয় পৰিস্থিতিৰ প্ৰবন্ধন তথা বাৰিষাৰ প্ৰস্তুতি পৰ্যালোচনা কৰাৰ বাবে এক উচ্চ পৰ্যায়ৰ সভাত অধ্যক্ষতা কৰিলে প্ৰধানমন্ত্ৰীয় +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%86%DA%88%D8%AA-%D8%AC%D9%88%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%86%DB%81%D8%B1%D9%88-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%B0%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B2-%E0%A6%A8%E0%A7%87%E0%A6%B9%E0%A7%B0%E0%A7%81%E0%A7%B0-%E0%A6%9C/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا: ‘‘ہمارے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جی کو ان کے یوم پیدائش پر، خراج عقیدت۔ ہم اپنے ملک کے لیے ان کے تعاون کو بھی یاد کرتے ہیں۔’’,পণ্ডিত জৱাহৰলাল নেহৰুৰ জন্মবার্ষিকীত প্রধানমন্ত্রীৰ শ্রদ্ধা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%AF%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%8F%E0%A6%95-%E0%A6%90%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B9%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%A6/,وزیراعظم نے کل آئی این ایس وکرانت پر سوار ہونے پر فخر کے احساس کو محسوس کیا، اسے مشترک کیا ہے۔ وزیراعظم جناب جناب نریندر مودی نے فخر کے اس احساس کا اظہار کیا ہے جسے انھوں نےکل آئی این ایس وکرانت پر سوار ہونے پرمحسوس کیا۔ انھوں نے اس کا ایک ویڈیو بھی مشترک کیا ۔ ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: ’’بھارت کا ایک تاریخی دن! کل میں جب آئی این ایس وکرانت پر سوار تھا، فخر کے اس احساس کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔‘‘,“ভাৰতৰ বাবে এক ঐতিহাসিক দিন! +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%DA%AF%D8%AC%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D9%88%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D9%88%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%92-108-%D9%81%D9%B9-%D9%85%D8%AC%D8%B3%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A6%BF-%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A6%9C%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%9F%E0%A6%A4-%E0%A6%B9%E0%A6%A8%E0%A7%81%E0%A6%AE%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%9C%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A7%A7/,نمسکار! مہامنڈلیشور کنکیشوری دیوی جی اور رام کتھا تقریب سے وابستہ تمام معززین، گجرات کے اس مقدس آشرم میں موجود تمام سنت، مہنت، مہامنڈلیشور، ایچ سی نندا ٹرسٹ کے اراکین، دیگر علما اور عقیدت مند، خواتین و حضرات! ہنومان جینتی کے پر مسرت موقع پر آپ سب کو اور تمام ہم وطنوں کو بہت سی نیک خواہشات! اس پر مسرت موقع پر ہنومان جی کی اس عظیم الشان مورتی کا آج موربی میں افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ہنومان کے بھکتوں، ملک اور دنیا بھر کے رام بھکتوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو! ساتھیوں، رام چرت مانس میں کہا گیا ہے کہ بنو ہری کرپا ملہن نہیں سنتا، یعنی خدا کے فضل کے بغیر سنتوں کا دیدار نایاب ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں مجھے ماں امباجی، امیہ ماتا دھام، ماں اناپورنا دھام کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اب آج مجھے موربی میں ہنومان جی کے اس کام سے وابستہ ہونے کے لیے سنتوں کی جماعت کا حصہ بننے کا موقع ملا ہے۔ بھائیو اور بہنوں، مجھے بتایا گیا ہے کہ ہنومان جی کی ایسی 108 فٹ اونچی مورتی ملک کے 4 مختلف حصوں میں لگائی جا رہی ہے۔ ہم پچھلے کئی سالوں سے شملہ میں اس طرح کا ایک عظیم مجسمہ دیکھ رہے ہیں۔ آج یہ دوسرا مجسمہ موربی میں نصب کیا گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ جنوب میں رامیشورم اور مغربی بنگال میں دو دیگر مورتیوں کو نصب کرنے کا کام جاری ہے۔ ساتھیوں، یہ نہ صرف ہنومان جی کی مورتیوں کو قائم کرنے کی قرارداد ہے بلکہ یہ ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے عزم کا ایک حصہ بھی ہے۔ ہنومان جی ہر کسی کو اپنی عقیدت، اپنی خدمت سے جوڑتے ہیں۔ ہر کسی کو ہنومان جی سے ترغیب ملتی ہے۔ ہنومان وہ طاقت اور قوت ہے جس نے جنگل میں رہنے والے تمام انواع اور جنگل کے بھائیوں کو عزت اور احترام کا حق دیا۔ اسی لیے ہنومان جی ایک بھارت، شریسٹھا بھارت کا بھی ایک اہم کردار ہیں۔ بھائیو اور بہنوں، اسی طرح رام کتھا کا انعقاد بھی ملک کے مختلف حصوں میں لگاتار کیا جاتا ہے۔ زبان اور بولی کوئی بھی ہو، لیکن رام کتھا کی روح سب کو متحد کرتی ہے، بھگوان کی عقیدت سے یکجا کرتی ہے۔ یہ ہندوستانی عقیدے کی طاقت ہے، ہماری روحانیت، ہماری ثقافت، ہماری روایت ہے۔ اس نے مختلف حصوں، مختلف طبقوں کو متحد کیا، غلامی کے مشکل وقت میں بھی آزادی کے قومی عزم کے لیے متحدہ کوششوں کو تقویت دی۔ ہزاروں سالوں سے بدلتے ہوئے حالات کے باوجود ہماری تہذیب، ہماری ثقافت نے ہندوستان کے قائم رہنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ بھائیو اور بہنوں، ہمارا ایمان، ہماری ثقافت کا دھارا ہم آہنگی کا ہے، شمولیت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برائی پر اچھائی کو قائم کرنے کی بات آئی تو بھگوان رام نے قابل ہونے کے باوجود، خود سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود، سب کو ساتھ لے کر چلنے، سب کو متحد کرنے، سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو جوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی مدد لے کر اور چھوٹوں بڑوں سب کو شامل کرکے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اور یہ سب کا تعاون، سب کی کوشش ہے۔ یہ سب مل کر، سب کی کوشش کا بہترین ثبوت بھگوان رام کی یہ زندگی کی لیلا بھی ہے، جس کا ہنومان جی بہت اہم حصہ رہے ہیں۔ سب کی کوششوں کے اس جذبے سے ہمیں آزادی کا امرت روشن کرنا ہے، قومی عزم کی تکمیل کے لیے متحرک ہونا ہے۔ اور آج جب آپ سب کو موربی میں کیشونند باپو جی کی تپو بھومی میں درشن کرنے کا موقع ملا۔ پھر سوراشٹر میں ہم نے دن میں تقریباً 25 بار سنا ہوگا کہ ہمارے سوراشٹر کی یہ سرزمین سنتوں کی سرزمین ہے، سورا کی سرزمین ہے، یہ سنتوں، سورا اور داتا کی سرزمین ہے، ہمارے کاٹھیاواڑ، گجرات کی اور ایک طرح سے ہمارے ہندوستان کی ایک شناخت بھی ہے۔ میرے لیے کھوکھرا ہنومان دھام ایک نجی گھر جیسی جگہ ہے۔ اس کے ساتھ میرا رشتہ مرم اور کرم کا رہا ہے۔ برسوں پہلے جب بھی موربی آنا ہوتا تھا، یہاں پروگرام ہوتے تھے اور شام کو میرا دل کرتا تھا، چلو ہنومان دھام چلتے ہیں۔ پوجیا باپو کے ساتھ چند منٹ گزارتے ہیں، ان کے ہاتھ سے کچھ پرساد لیتے ہیں۔ اور جب ماچھو ڈیم کا ح��دثہ ہوا تو یہ ہنومان دھام کئی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ اور اس کی وجہ سے میرا باپو کے ساتھ قدرتی طور پر گہرا تعلق پیدا ہو گیا۔ اور ان دنوں جب لوگ ہر جگہ خدمت کے جذبے کے ساتھ آتے تھے تو یہ تمام مقامات مراکز بن گئے۔ جہاں سے موربی کی مدد کا کام گھر گھر کیا جاتا تھا۔ ایک عام رضاکار ہونے کے ناطے مجھے ایک طویل عرصے تک آپ کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ہے اور اس غمناک لمحے میں آپ کے لیے جو کچھ کیا جا رہا تھا اس میں شامل ہوں۔ اور اُس زمانے میں جو بات چیت محترم باپو کے ساتھ ہوا کرتی تھی، باپو کہا کرتے تھے کہ موربی کو عظیم الشان بنانا خدا کی مرضی ہے اور اب ہمیں رکنے کی ضرورت نہیں، سب کو لگ جانا ہے۔ باپو کم بولتے تھے، لیکن روحانی نقطہ نظر سے بھی سادہ زبان میں دل کو چھو لینے والی بات کرنا محترم باپو کا خاصہ تھا۔ اس کے بعد بھی مجھے کئی بار ان کا دیدار نصیب ہوا۔ اور جب بھج-کچھ میں زلزلہ آیا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے موربی کے حادثے سے جو سبق سیکھا تھا کہ ایسی صورت حال میں کیسے کام کیا جائے، جو تجربہ ان کے پاس تھا، وہ زلزلے کے دوران کام کرنے میں کارآمد ثابت ہوا۔ اور اسی لیے میں اس پاک دھرتی کا بے حد مقروض ہوں، کیونکہ جب بھی مجھے عظیم خدمت کرنے کا موقع ملا، تب بھی موربی کے لوگ مجھے اسی جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اور جیسے زلزلے کے بعد کچھ کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے، موربی نے بھی ایسی آفت کو موقع میں بدلنے کی طاقت کے بارے میں گجراتیوں کو بتایا ہے۔ آج اگر آپ چینی مٹی کی پیداوار، ٹائل بنانے، گھڑیاں بنانے کے کام کو دیکھیں تو موربی بھی ایسی صنعتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ورنہ ماچھو ڈیم کے آس پاس اینٹوں کے بھٹے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ بڑی چمنی اور اینٹوں کا بھٹا، آج موربی آن، بان اور شان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور میں پہلے بھی کہتا تھا کہ ایک طرف موربی، دوسری طرف راجکوٹ اور تیسری طرف جام نگر۔ جام نگر کی پیتل کی صنعت، راجکوٹ کی انجینئرنگ انڈسٹری اور موربی کی گھڑی کی صنعت کو سرامک انڈسٹری کہتے ہیں، اگر ہم ان تینوں کی مثلث کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہاں ایک نئے منی جاپان کا احساس ہو رہا ہے۔ اور میں آج یہ چیز دیکھ رہا ہوں کہ سوراشٹر کے اندر آتے ہی ایک ایسی مثلث پیدا ہو گئی ہے اور اب اس کے پیچھے کھڑا کچھ بھی شریک ہو گیا ہے۔ ہم اسے جتنا زیادہ استعمال کریں گے، اور موربی میں جس طرح سے انفراسٹرکچر تیار ہوا ہے، یہ بنیادی طور پر سب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے موربی، جام نگر، راجکوٹ اور اس طرح کچھ۔ ایک طرح سے چھوٹی صنعتوں سے چلنے والے ایک قابل مرکز کے طور پر ابھرا ہے، یہاں تک کہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کر رہا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے موربی نے ایک بڑے شہر کی شکل اختیار کرنا شروع کر دی اور موربی نے اپنی الگ پہچان بنا لی۔ اور آج موربی کی مصنوعات دنیا کے کئی ممالک تک پہنچ رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے موربی کا ایک الگ تاثر پیدا ہوا اور یہ تاثر جو سنتوں، مہنتوں، مہاتماؤں نے زمین پر کسی نہ کسی طرح کیا، اس وقت بھی جب ان کی عام زندگی تھی، انھوں نے تپسیا کی، ہمیں سمت دی اور یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔ اور جہاں بھی آپ اپنا گجرات دیکھیں وہاں چندہ دینے والوں کی کمی نہیں، اگر آپ کسی نیک کام کے لیے نکلیں تو آپ کو چندہ دینے والوں کی ایک لمبی لائن نظر آتی ہے۔ اور ایک طرح سے مقابلہ ہے۔ اور آج کاٹھیاواڑ ایک طرح سے یاترا کا مرکز بن گیا ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کوئی ضلع نہیں ہ�� جہاں ایک مہینے میں ہزاروں لوگ باہر سے نہ آتے ہوں۔ اور اگر ہم حساب لگائیں تو سفر کو اس طرح سے کہیں کہ سیاحت، اس نے کاٹھیا واڑ کی ایک نئی طاقت پیدا کی ہے۔ میرا ساحل بھی گونجنے لگا ہے، کل مجھے شمال مشرق کے بھائیوں، شمال مشرقی ریاستوں کے بھائیوں، سکم، تریپورہ، منی پور کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ یہ سب کچھ دن پہلے گجرات آئے تھے، اور بیٹی کی شادی کے سامان میں شراکت دار بنے تھے، سبھی شری کرشن اور رکمنی کی شادی میں رکمنی کی طرف سے آئے تھے۔ اور یہ واقعہ اپنے آپ میں طاقت پیدا کرتا ہے، پورا شمال مشرق مادھو پور کے میلے میں جھوم اٹھا، اس سرزمین پر جس پر بھگوان کرشن کی شادی ہوئی تھی، جس نے مشرق اور مغرب کی شاندار اتحاد کی مثال دی تھی۔ اور وہاں سے آنے والے لوگوں کی دستکاری کی فروخت نے شمال مشرق کے لیے اندرونِ خانہ ایک بڑا ذریعہ پیدا کر دیا ہے۔ اور اب مجھے لگتا ہے کہ یہ مادھو پور میلہ مشرقی ہندوستان میں گجرات سے زیادہ مشہور ہوگا۔ جیسے جیسے معاشی سرگرمیاں بڑھیں، انہوں نے کچھ کے رن میں رن اتسو کا اہتمام کیا، اور اب جو بھی رن اتسو جانا چاہتا ہے اسے موربی کے راستے جانا پڑتا ہے۔ یعنی موربی کو چلتے پھرتے اس کے فوائد ملتے ہیں، موربی کی شاہراہ کے ارد گرد کئی ہوٹل بنائے گئے ہیں۔ کچھ میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے پھر موربی کو بھی اس کا فائدہ ہوا اور جب ترقی ہوتی ہے اور اس طرح بنیادی ترقی ہوتی ہے تو وہ طویل المدتی خوشی کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ مدتوں تک سسٹم کا حصہ بنتا ہے، اور اب ہم نے گرنار میں ایک روپے وے بنایا ہے، آج وہ بزرگ بھی جنہوں نے زندگی میں خواب دیکھے ہیں، گرنار نہیں جا سکے، مشکل چڑھائی کی وجہ سے، اب روپ وے بنا ہے، پھر مجھ سے کہا جاتا ہے کہ 80 سے 90 سال کے لوگ بھی اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں، برکت پاتے ہیں۔ اب بہت سے ذرائع پیدا ہوئے ہیں، روزگار دستیاب ہے، اور ہندوستان کی طاقت اتنی ہے کہ ہم بغیر کسی قرض کے ہندوستان کی سیاحت کو ترقی دے سکتے ہیں۔ اسے صحیح معنوں میں پھیلائیں، اور اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ تمام زیارت گاہوں میں ایسی صفائی ہو، کہ وہاں سے لوگوں کو صفائی اختیار کرنے کا درس دیا جائے۔ ورنہ پہلے تو ہم جانتے ہیں کہ مندر میں پرساد کی وجہ سے اتنی پریشانی ہوتی ہے اور اب میں نے دیکھا ہے کہ مندر میں پرساد پیکنگ میں بھی دستیاب ہے۔ اور جب میں نے کہا کہ پلاسٹک کا استعمال نہ کریں، تو اب مندروں میں پلاسٹک میں پرساد نہیں دیا جاتا، جس میں گجرات کے مندر زیادہ مقدار میں پلاسٹک میں پرساد نہیں دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج جیسا کہ اس کے مندر اور سنتوں، مہنتوں میں تبدیلی آتی ہے، ان کے جذبے بدلتے ہیں، اور وہ اس جذبے کے مطابق خدمت کرنے کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔ اور تبدیلیاں لاتے رہیں، یہ ہم سب کا کام ہے کہ اس سے کچھ سیکھیں، اسے اپنی زندگی میں لاگو کریں، اور اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں۔ یہ آزادی کے امرت تہوار کا وقت ہے، ملک کی آزادی کے لیے بہت سے عظیم انسانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 1857 سے پہلے آزادی کا پورا پس منظر تیار کیا گیا تھا، روحانی شعور کی فضا پیدا کی گئی تھی۔ اس ملک کے سنتوں، مہنتوں، باباؤں، عقیدت مندوں، آچاریوں نے اور جس بھکتی دور کا آغاز ہوا، اس بھکتی دور نے ہندوستان کے شعور کو جلا بخشی۔ اور اسی سے تحریک آزادی کو ایک نئی طاقت ملی، اس میں سنتوں کی طاقت ہے، ثقافتی ورثہ ہے، جس نے ہمیشہ ع��ام کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے۔ اس لیے ہنومان جی کو یاد کرنے کا مطلب ہی خدمت ہے۔ ہنومان جی نے یہی سکھایا ہے، ہنومان جی کی عقیدت خدمت کی شکل میں تھی۔ ہنومان جی کی عقیدت ہتھیار ڈالنے کی شکل میں تھی۔ ہنومان جی نے کبھی بھی محض رسمی عقیدت نہیں کی، ہنومان جی اپنے آپ کو مٹا کر، ہمت اور طاقت رکھتے ہوئے خود خدمت کی بلندیوں کو بڑھاتے رہے۔ آج بھی جب ہم آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہمارے اندر خدمت کا جذبہ جتنا مضبوط ہوگا، انسان دوستی کا جذبہ جتنا زیادہ ہوگا، اتنا ہی معاشرہ زندگی کو جوڑنے والا بنے گا۔ یہ قوم زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتی جائے گی اور آج ہندوستان کو ایسا ہونا چاہیے، یہ ہر گز نہیں چلے گا، اور اب ہم جاگتے رہیں یا سوتے رہیں لیکن آگے بڑھے بغیر نجات نہیں۔ آج جب میں سنتوں کے درمیان بیٹھا ہوں، تو ہمیں لوگوں کو نہیں سکھانا چاہیے، لوکل کے لیے ووکل بنو، یہ بات مسلسل کہنی چاہیے یا نہیں؟ اپنے ملک کی بنی ہوئی، اپنے لوگوں کی بنائی ہوئی، اپنی محنت سے تیار کی ہوئی چیزیں گھر میں استعمال کریں، ایسا ماحول بن جائے گا، آپ سوچیں کتنے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ باہر سے لانا اچھا لگتا ہے، 19-20 کا فرق ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ ہندوستان کے لوگوں نے بنایا ہے، ہندوستان کے پیسے سے بنتا ہے، اگر اس میں ہندوستان کے پسینے کی خوشبو آتی ہے، تو پھر اس کا فخر اور اس کی خوشی الگ ہے۔ اور اس پر زور دیا کہ وہ ہندوستان میں بنی ہوئی چیزیں خریدیں جہاں اس کے سنت اور مہنت جاتے ہیں۔ تب بھی ہندوستان کے اندر روزی روٹی کا کوئی مسئلہ نہیں آنا چاہیے، ایسا دن آنا چاہیے اور جب ہم ہنومان جی کی تعریف کریں کہ ہنومان جی نے یہ کیا، انھوں نے وہ کیا۔ لیکن ہنومان جی نے جو کہا، وہ ہماری زندگی کے اندر موجود ہے۔ ہنومان جی ہمیشہ کہتے ہیں- ”سو سب تب پرتاپ رگھورائی، ناتھ نہ کچھ موری پربھوتائی“، یعنی اس نے ہمیشہ اپنی ہر کامیابی کا سہرا بھگوان رام کو دیا، اس نے کبھی نہیں کہا کہ یہ میری وجہ سے ہوا۔ جو کچھ بھی ہوا ہے بھگوان رام کی وجہ سے ہوا ہے۔ آج بھی، ہندوستان جہاں تک پہنچ گیا ہے، آگے جہاں بھی جانا چاہتا ہے، ایک ہی راستہ ہے، ہم سب ہندوستان کے شہری… اور وہ ہے طاقت۔ میرے لیے میرے 130 کروڑ ہم وطن رام کا روپ ہیں۔ ان کے عزم کے ساتھ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کی برکت سے ملک ترقی کر رہا ہے۔ آئیے اس جذبے کے ساتھ چلتے ہیں، اسی جذبے کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سب کو اس مبارک موقع پر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں ہنومان جی کے قدموں میں جھکتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!,মৰবি গুজৰাটত হনুমানজীৰ ১০৮ ফুট ওখ মূৰ্তি উন্মোচন অনুষ্ঠানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%82%D8%AF%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%B4%D8%AA-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D9%82%D9%88%D9%85%DB%8C-%DA%A9%D9%86%DA%A9%D9%84%DB%8C%D9%88-%D9%85%DB%8C/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%95-%E0%A6%95%E0%A7%83%E0%A6%B7%E0%A6%BF%E0%A7%B0-%E0%A6%93%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%B7/,"نئی دہلی، 16 دسمبر 2021: نمسکار۔ گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی، وزیر داخلہ و وزیر تعاون جناب امت بھائی شاہ، زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر جی، گجرات کے وزیر اعلی بھوپندر بھائی پٹیل جی، اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، دیگر تمام معززین، میرے کسان بھائیو اور بہنو، ملک کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں جڑے میرے کسان بھائی بہن، ملک کے زراعت کے شعبے سے جڑے افراد۔ آج کھیتی باڑی کے لیے ایک بہت اہم دن ہے۔ میں نے ملک بھر کے کسان ساتھیوں پر زور دیا تھا کہ وہ قدرتی کاشت کاری کے قومی کنکلیو میں شامل ہوں۔ اور جیسا کہ وزیر زراعت تومر جی نے ابھی بتایا ہے کہ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 8 کروڑ کسان ٹکنالوجی کے ذریعے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میں تمام کسان بھائیوں اور بہنوں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آچاریہ دیوورت جی کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آج ایک طالب علم کی طرح بہت غور سے ان کی بات سن رہا تھا۔ میں خود کسان نہیں ہوں، لیکن بہت آسانی سے سمجھ پا رہا تھا کہ قدرتی زراعت کے لیے کیا ضروری ہے، کیا کرنا ہے، بہت آسان الفاظ میں انھوں نے سمجھایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آج کی یہ رہ نمائی، اور میں جان بوجھ کر آج سارا وقت ان کی بات سننے بیٹھا تھا، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ انھوں نے جو کام یابیاں حاصل کی ہیں انھوں نے اس تجربے کو کام یابی سے آگے بڑھایا ہے۔ ہمارے ملک کے کسان اپنے فائدے کے اس نکتے کو کبھی کم نہیں سمجھیں گے، اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔ ساتھیو، یہ کنکلیو گجرات میں ہو رہا ہے لیکن اس کا دائرہ کار، اس کااثر پورےبھارت، بھارت کے ہر کسان کے لیے ہے۔ فوڈ پروسیسنگ ہو، قدرتی کاشت کاری ہو، یہ مضامین اکیسویں صدی میں بھارتی زراعت کو دوبارہ زندہ کرنے میں بہت مدد گار ہوں گے۔ اس کنکلیو کے دوران ہزاروں کروڑ روپے کے معاہدوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ان پر پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ یہاں ایتھنول، نامیاتی کاشت کاری اور فوڈ پروسیسنگ میں دکھائے گئے جوش و خروش نظر آیا ہے، نئے امکانات نظر آئے ہیں۔ میں اس بات سے بھی مطمئن ہوں کہ گجرات میں ٹکنالوجی اور قدرتی کاشت کاری میں ہم نے جو تجربات کیے وہ پورے ملک کی رہ نمائی کر رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت جی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے خود تجربے کے ذریعے ملک کے کسانوں کو قدرتی کاشت کاری کے بارے میں اتنے آسان الفاظ میں بہت تفصیل سے سمجھایا ہے۔ ساتھیو، آزادی کے امروت مہوتسو میں آج ماضی کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تجربات سے سبق سیکھنے اور نئے طریقے تخلیق کرنے کا بھی وقت ہے۔ آزادی کے بعد کی دہائیوں میں ملک میں جس طرح کاشتکاری ہوئی ہم سب نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اب آزادی کے 100 ویں سال تک ہمارا سفر، آنے والے 25 برسوں کا سفر، اپنی کاشت کاری کو نئی ضرورتوں، نئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے کا ہے۔ گذشتہ 6-7 برسوں میں کاشتکار کی آمدنی بیج سےمارکیٹ تک بڑھانے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مٹی کی جانچ سے لے کر سیکڑوں نئے بیج تیار کرنے تک، پی ایم کسان سمان ندھی سے لے کر ایم ایس پی کی لاگت کو 1.5 گنا کرنے تک، آبپاشی کے مضبوط نیٹ ورک سے لے کر کسان ریل تک، کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اور تومر جی نے بھی اپنی تقریر میں اس بارے میں کچھ ذکر کیا ہے۔ کسانوں کو مسلسل آمدنی کے متعدد متبادل ذرائع جیسے مویشی پالنے، شہد کی مکھی پالنے، ماہی گیری اور شمسی توانائی، کاشت کاری کے ساتھ بائیو فیول جیسے متعدد متابدلوں سے کسانوں کی اضافی آمدنی کے ذرائع کو جوڑا جا رہا ہے۔ دیہات میں ذخیرہ اندوزی، کولڈ چین اور فوڈ پروسیسنگ کو مستحکم کرنے کے لیے لاکھوں کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ یہ تمام کوششیں کسان کو وسائل دے رہی ہیں جس سے کسان کو اپنی پسند کا اختیار مل رہا ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ ہما��ا ایک اہم سوال ہے۔ جب مٹی جواب دے جائے گی تب کیا ہوگا؟ جب موسم ان کے ساتھ نہیں ہوگا تب کیا ہوگا؟ جب دھرتی ماں کے پیٹ میں پانی محدود ہوجائےگا ؟ آج دنیا بھر میں کاشتکاری کو ان چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سبز انقلاب میں کیمیکلز اور کھادوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ ہمیں اس کے اختیارات کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ پر کام کرتے رہنا ہوگا۔ ہمیں کاشتکاری میں استعمال ہونے والی بڑی مقدار میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد درآمد کرنی ہوگی۔ باہر سے دنیا کے ممالک سے اربوں اور کھربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے کاشت کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتاہے، کسان کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور غریبوں کا باورچی خانہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ کسانوں اور تمام ہم وطنوں کی صحت سے بھی متعلق ہے۔ اس لیے چوکس رہنے، باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ ساتھیو، گجراتی میں ایک کہاوت ہے، ""ہر گھر میں بولا جاتا ہے، ""پانی آوے تے پہیلا پال باندھے"" یعنی پانی آنے سے پہلے باندھ باندھو، یہ ہمارے یہاں ہر فرد کہتا ہے … اس کا مطلب یہ ہے کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے۔ پہلے کاشتکاری سے متعلق مسائل خراب ہونے سے پہلے بڑے اقدامات اٹھانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ ہمیں اپنی کاشت کاری کو کیمسٹری لیب سے ہٹا نا ہوگا اور اسے قدرت کی لیبارٹری سے جوڑنا ہوگا۔ جب میں فطرت کی تجربہ گاہ کے بارے میں بات کرتا ہوں تو یہ مکمل طور پر سائنس پر مبنی ہوتا ہے۔ آچاریہ دیوورت جی نے ابھی تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ ہم نے ایک چھوٹی سی فلم میں بھی دیکھا ہے۔ اور اپنی کتاب ملنے کے بعد بھی وہ یوٹیوب پر آچاریہ دیوورت جی کے نام سے اپنی تقریریں پائیں گے۔ کھاد، فرٹیلائزر، جو طاقت ہے وہ بیج وہ عناصر فطرت میں بھی موجود ہیں۔ ہمیں صرف بیکٹیریا کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے جو زمین میں اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیسی گائے بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوبر ہو، گائے کا پیشاب ہو، اس سے آپ کو ایک ایسا محلول بنانے میں مدد مل سکتی ہے جو فصل کی حفاظت کرے گا اور زرخیزی میں بھی اضافہ کرے گا۔ بیج سے لے کر مٹی تک، آپ ہر چیز کا قدرتی علاج کر سکتے ہیں۔ اس کاشت میں نہ تو کھاد اور نہ ہی کیڑے مار ادویات خرچ ہوں گی۔ یہ آبپاشی کی ضرورت کو بھی کم کرتا ہے اور سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ خواہ کم پانی والی زمین ہو یا زیادہ پانی والی زمین، قدرتی کاشت کاری کسانوں کو سال میں بہت سی فصلیں لینے کے قابل بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں گندم، دھان اور دالیں یا کھیت سے جو بھی کچرا نکلتا ہے، جو بھوسا نکلتا ہے، اس کا بھی صحیح استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کم لاگت، زیادہ منافع۔ یہ قدرتی کاشت کاری ہے۔ ساتھیو، آج دنیا جتنی جدید ہوتی جا رہی ہے اتنی ہی وہ 'بیک ٹو بیسک' کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کا بنیادی مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے اپنی جڑوں سے جڑنا! اس بات کو آپ سب کسان ساتھیوں سے بہتر کون سمجھتا ہے؟ ہم جڑوں کو جتنا زیادہ سیراب کریں گے، پودا اتنا ہی زیادہ ترقی کرے گا۔ بھارت ایک زرعی ملک ہے۔ کھیتی باڑی کے ارد گرد ہی ہمارے معاشرے نے ترقی کی ہے، روایات کو پروان چڑھایا گیا ہےاور تہوار بنائے گئے ہیں۔ یہاں کسان ساتھی ملک کے کونے کونے سے وابستہ ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ کے علاقےمیں کوئی ایسی چیز ہے جو ہماری کھیتی باڑی اور فصلوں سے متاثر نہ ہو؟ زراعت کے بارے میں ہمارا علم کتنا مالا مال رہا ہوگا جب ہماری تہذیب ہی نے کاشت کاری کے ساتھ ترقی کی ہے؟ ہماری سائنس کتنی مستحکم رہی ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ بھائیو اور بہنو، آج جب دنیا نامیاتی کی بات کرتی ہے، قدرتی کی بات کرتی ہے تو اس کی جڑیں بھارت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ساتھیو، زراعت سے وابستہ بہت سے دانش ور ہیں جنہوں نے اس موضوع پر وسیع تحقیق کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اپنی زراعت پر رگ وید اور اتھرو وید سے لے کر اپنے پرانوں تک، کرشی پراشر اور کاشیہ پی کرشی سوکت جیسے قدیم گرنتھوں اور جنوب میں تمل ناڈو کے سنت تھروولور جی سے لے کر شمال میں کسان شاعر گھاگھ تک کتنی باریک بینی سے تحقیق کی ہے۔ جیسا کہ ایک شلوک ہے: गोहितः क्षेत्रगामी च, कालज्ञो बीज–तत्परः। वितन्द्रः सर्व शस्याढ्यः, कृषको न अवसीदति॥ یعنی ایک کسان جو گائے کے ریوڑ، مویشی کے مفادات جانتا ہے، موسم کے بارے میں جانتا ہے، بیجوں کے بارے میں جانتا ہے، اور سستی نہیں کرتا، ایسا کسان کبھی پریشان، غریب نہیں ہوسکتا۔ یہ شلوک قدرتی کاشت کاری کا فارمولا بھی ہے اور قدرتی کاشت کاری کی طاقت کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ اس میں مذکور تمام وسائل قدرتی طور پر دستیاب ہیں۔ اسی طرح مٹی کو کھاد کیسے دی جائے، کس فصل پر پانی کب لگانا ہے، پانی کیسے بچانا ہے، کتنے فارمولے دیے گئے ہیں۔ ایک اور بڑا مقبول شلوک یہ ہے: नैरुत्यार्थं हि धान्यानां जलं भाद्रे विमोचयेत्। मूल मात्रन्तु संस्थाप्य कारयेज्जज–मोक्षणम्॥ یعنی فصل کو بیماری سے بچانے کے لیے بھادوں کے مہینے میں پانی نکال دیا جائے۔ پانی صرف جڑوں کے لیے میدان میں رہنا چاہیے۔ اسی طرح شاعر گھاگھ نے بھی لکھا ہے: گیہوں باہیں، چنا دلائے دھان گاہیں، مکا نرائے اوکھ کسائے یعنی خوب بانہ کرنے سے گہیوں کھونٹنے سے چنا، بار بار پانی ملنے دھان، نرانے سے مکا اور پانی میں چھوڑ کر بعد میں گنا بونے سے اس کی فصل اچھی ہوتی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تقریباً دو ہزار سال پہلےتمل ناڈو میں سنت تھروولور جی نے کاشتکاری سے متعلق بہت سے فارمولے بھی دیے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا: तोड़ि–पुड़ुडी कछ्चा उणक्किन, पिड़िथेरुवुम वेंडाद् सालप पडुम ساتھیو، زراعت کے بارے میں ہمارے قدیم علم کو دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن جدید دور میں بھی اسے تراشنے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں ہمیں نئے سرے سے قدیم علم کو جدید سائنسی فریم میں ڈھالنا ہوگا۔ ہمارے آئی سی اے آر، کرشی وگیان کیندر، زرعی یونیورسٹیوں جیسے ادارےاس سمت میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمیں معلومات کو صرف تحقیقی مقالات اور نظریات تک محدودرکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں اسے عملی کام یابی میں تبدیل کرنا ہوگا۔ لیب سے لینڈ تک کا یہ ہمارا سفر ہو جائے گا۔ اس کا آغاز ہمارے ادارے بھی کر سکتے ہیں۔ آپ یہ عزم کرسکتے ہیں کہ آپ قدرتی کاشت کاری کو زیادہ سے زیادہ کسانوں تک لے جائیں گے۔ جب آپ یہ ظاہر کریں گے کہ کام یابی کے ساتھ یہ ممکن ہے تو عام آدمی بھی جلد از جلد اس سے وابستہ ہو جائے گا۔ ساتھیو، نئی تعلیم کے ساتھ ہمیں ان غلطیوں کو بھلانا بھی پڑے گا جو ہمارے کاشت کاری کے طریقے میں در آئی ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کھیت میں آگ لگانے سے زمین اپنی زرخیزی کھو بیٹھتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مٹی کو تپایا جاتا ہے تو وہ اینٹ کی شکل لے لیتی ہے، اور اینٹ اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ عمارت کی شکل لے لیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں فصلوں کے باقیات جلانے کی روایت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب مٹی جلتی ہے تو وہ اینٹ بن جاتی ہے، پھر بھی ہم مٹی جلاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ وہم بھی ہے کہ کیمیکل کے بغیر فصل اچھی نہیں ہوگی۔ جب کہ سچ بالکل برعکس ہے۔ پہلے کیمیکل نہیں تھے، لیکن فصل اچھی ہوتی تھی۔ انسانیت کے ارتقا کی تاریخ اس کا ثبوت ہے۔ تمام تر چیلنجوں کے باوجود زرعی دور میں انسانیت تیز ترین رفتار سے پروان چڑھی ہے۔ کیوں کہ اس وقت قدرتی کاشت کاری صحیح طریقے سے کی جاتی تھی، لوگ مسلسل سیکھتے تھے۔ آج صنعتی دور میں ہمارے پاس ٹکنالوجی کی طاقت ہے، ہمارے پاس کتنے وسائل ہیں، موسم بھی معلوم ہے! اب ہم کسان مل کر ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ جب دنیا گلوبل وارمنگ کے بارے میں پریشان ہو تو بھارت کا کسان اپنے روایتی علم کے ذریعے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے اقدامات کر سکتا ہے۔ ہم مل کر کچھ کر سکتے ہیں۔ بھائیو اور بہنو، قدرتی کاشت کاری سے سب سے زیادہ فائدہ جس کا ہوگا وہ ہیں ہمارے ملک کے 80 فیصد چھوٹے کسان۔ چھوٹے کسان جن کے پاس 2 ہیکٹر سے کم زمین ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کسان کیمیائی کھادوں پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ اگر وہ قدرتی کاشت کاری کی طرف رجوع کریں گے تو ان کی حالت بہتر ہوگی۔ بھائیو اور بہنو، قدرتی کاشت کاری کے بارے میں گاندھی جی کا نکتہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے جہاں شوشن ہوگا، وہاں پوشن نہیں ہوگا۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ مٹی کو الٹنا پلٹنا بھول جانا،کھیت کی گڑائی کو بھول جانا ایک طرح سے اپنے آپ کو بھولنے کے مترادف ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ گذشتہ چند برسوں میں ملک کی بہت سی ریاستوں میں اس میں بہتری آئی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہزاروں کسانوں نے قدرتی کاشت کاری کو اپنایا ہے۔ ان میں سے بہت سے اسٹارٹ اپ اور نوجوان ہیں۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے شروع کی گئی روایتی کرشی وکاس یوجنا سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ کسانوں کو تربیت بھی دی جارہی ہے اور اس کاشت کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کی جارہی ہے۔ بھائیو اور بہنو، جن ریاستوں میں لاکھوں کسان قدرتی کاشت کاری سے جڑ چکے ہیں ان کے کسانوں کے تجربات حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے بہت پہلے گجرات میں قدرتی کاشت کاری کے لیے کوششیں شروع کی تھیں۔ آج گجرات کے بہت سے حصوں میں اس کے مثبت اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہماچل پردیش بھی تیزی سے اس قدرتی کاشت کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ آج میں ملک کی ہر ریاستی حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ قدرتی کاشت کاری کو عوامی تحریک بنانے کے لیے آگے آئے۔ ہر پنچایت کے کم از کم ایک گاؤں کو اس امروت مہوتسو میں قدرتی کاشت کاری سے وابستہ ہونا چاہیے۔ اور میں کسان بھائیوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اگر آپ کے پاس 2 ایکڑ زمین یا 5 ایکڑ زمین ہے تو اسے پوری زمین پر استعمال کریں۔ آپ خود اس کا تھوڑا سا تجربہ کریں۔ آئیےاس کا ایک چھوٹا سا حصہ لیتے ہیں، آدھا کھیت لیتے ہیں، ایک چوتھائی کھیت لیتے ہیں، ایک حصے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر فائدہ نظر آئے تو تھوڑا سی توسیع کریں۔ ایک یا دو سال میں، آپ آہستہ آہستہ پورے کھیت کی طرف بڑھیں گے۔ دائرہ کار کو بڑھاتے رہیں گے۔ میں سرمایہ کاری کے تمام شراکت داروں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی مصنوعات پر پروسیسنگ میں نامیاتی اور قدرتی کاشت کاری میں بھاری سرمایہ کاری کریں۔ اس کے لیے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر کی مارکیٹ ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ ہمیں آنے والے امکانات کے لیے آج کام کرنا ہوگا۔ ساتھیو، اس امروت کال میں ہمیں بھارت کو دنیا کے لیے غذائی تحفظ اور فطرت کی ہم آہنگی کا بہترین حل دینا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ اجلاس میں میں نے دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ماحولیات کے لیے طرز زندگی برائے ماحولیات، یعنی لائف کو ایک عالمی مشن بنائے۔ اس کی قیادت اکیسویں صدی میں بھارت کرنے والا ہے، بھارت کا کسان کرنے والا ہے۔ لہٰذا آئیے آزادی کے امرت مہوتسو میں ماں بھارتی کی دھرتی کو کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات سے آزاد کرانے کا عزم کریں۔ دنیا کو صحت مند زمین، صحت مند زندگی کا راستہ دکھائیں۔ آج ملک نے خود کفیل بھارت کا خواب دیکھا ہے۔ خود کفیل بھارت اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب اس کی زراعت خود کفیل ہو جائے، ہر کسان خود کفیل ہو جائے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم غیر فطری کھاد اور ادویات کے بجائے گوبر دھن سے، قدرتی عناصر کے ساتھ ماں بھارتی کی مٹی کو زرخیز بنائیں گے۔ ملک کا ہر باشندہ، ہر شے کے مفاد میں، ہر جاندار کے مفاد میں قدرتی کاشتکاری کو ہم عوامی تحریک بنائیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کو، ان کی پوری ٹیم کو، اس پہل کے لیے، پورے گجرات میں اس کو عوامی تحریک کی شکل دینے کے لیے، آج پورے ملک کے کسانوں کو جوڑنے کے لیے میں متعلقہ تمام لوگوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکريہ!",প্ৰাকৃতিক কৃষিৰ ওপৰত ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবা +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%8521-%D8%A7%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88-%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%82%D9%84%D8%B9%DB%81-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D8%B1%D9%88-%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A7%9F%E0%A7%87-%E0%A7%A8%E0%A7%A7-%E0%A6%8F%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BF/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی 21 اپریل 2022 کو رات 9:15 بجے کے قریب نئی دہلی کے لال قلعہ میں سری گرو تیغ بہادر جی کے 400 ویں پرکاش پرو کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔ وہ اجتماع سے خطاب کریں گے اور اس موقع پر ایک یادگاری سکہ اور ڈاک ٹکٹ بھی جاری کریں گے۔ یہ پروگرام حکومت ہند کے ذریعہ دہلی سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے تعاون سے منعقد کیا جارہا ہے۔ دو روزہ پروگرام (20 اور 21 اپریل) کے دوران، ملک کے مختلف حصوں سے راگی اور بچے ‘شبد کیرتن’ میں شرکت کریں گے۔ گرو تیغ بہادر جی کی زندگی کی عکاسی کرنے والا ایک عظیم الشان لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ سکھوں کے روایتی مارشل آرٹ ‘گٹکا’ کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ یہ پروگرام سکھوں کے نویں گرو، گرو تیغ بہادر جی کی تعلیمات کو اجاگر کرنے پر مرکوز ہے، جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں مذہب اور انسانی اقدار، نظریات اور اصولوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کی۔ انہیں مغل حکمران اورنگ زیب کے حکم پر کشمیری پنڈتوں کی مذہبی آزادی کی حمایت کرنے پر پھانسی دی گئی۔ ان کی برسی ہر سال 24 نومبر کو شہیدی دیوس کے طور پر منائی جاتی ہے۔ دہلی میں گردوارہ سیس گنج صاحب اور گردوارہ رکاب گنج ان کی مقدس قربانی سے وابستہ ہیں۔ ان کی میراث قوم کے لیے عظیم اتحاد کے ایک محرک کا کام کرتی ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২১ এপ্ৰিলত লাল কিলাত শ্ৰী গুৰু তেগ বাহাদুৰ জীৰ ৪০০তম প্ৰকাশ পৰ্ব সমাৰোহত ভাগ ল’ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D8%B3%D8%B1%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B7%D9%88%D8%B1%D9%BE%D8%B1%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%92-20%D8%B3%D8%A7%D9%84/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9A%E0%A7%B0%E0%A6%95%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A6%AC%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%AA%E0%A7%87-%E0%A6%AA%E0%A7%8D/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سربراہ حکومت کے طور پر آج 20 سال مکمل کرلئے ۔ اس موقع پر مائی گوو انڈیا (My GovIndia) سیوا سمرپن کوئزمقابلہ کا اہتمام کررہی ہے۔ وزیراعظم کے دفتر نے ٹویٹ کیا ہے : ‘‘ وزیر اعظم نریندر مودی نے آج یعنی 7 اکتوبر کو سربراہ حکومت کے طور پر 20سال مکمل کرلئے ہیں۔ وہ اکثر خودکو ایک ایسا ‘ پردھان سیوک ’ قراردیتے ہیں ، جو ‘ آتم نربھر بھارت ’ کے لئے کام کررہا ہے۔ان 20 برسوں میں قوم کی تعمیر کے مختلف پہلوؤں پر @mygovindia پرمنعقد کی جانے والی کوئزمیں حصہ لیں: https://t.co/nEYpBCltGN’’,চৰকাৰৰ মুৰব্বী হিচাপে প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ২০বছৰ সম্পূৰ্ণ কৰা উপলক্ষে মাইগভ কুই +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D8%AD%D8%AA%D8%B1%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%86%D8%AF-4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A6%A8-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-10/,"نئی دہلی، 31 اکتوبر 2021: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کو ان کی برسی پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا: ""سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کو ان کی برسی پر خراج عقیدت پیش ہے۔"" (ش ح۔ ع ا۔ ع ر)",প্ৰাক্তন প্ৰধানমন্ত্ৰী ইন্দিৰা গান্ধীৰ মৃত্যু বাৰ্ষিকীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি অৰ্পন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%B3-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%D8%B1%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B7%D9%84%D8%A8%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%B8%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہماچل پردیش کے بلاس پور میں وزیر اعظم کے خطاب میں دو طلباء کے تخلیقی آرٹ ورکس شیئر کئے ہیں۔ وزیر اعظم نے تخلیقی پورٹریٹس پر طلباء کا شکریہ ادا کیا۔ ایک صحافی ڈاکٹر اشونی شرما کے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ’’تخلیقی… شکریہ امنگ اور پونم‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ش ح۔ا گ۔ن ا۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে বিলাসপুৰ ৰেলীত শিক্ষাৰ্থীসকলৰ সৃষ্টিশীল শিল্পকৰ্মৰ প্ৰশংসা কৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%E2%80%8F-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%AC%D9%B9-%D8%A7%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B4-%D8%B1%D9%81/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A6%B0%E0%A7%80%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8C%E0%A7%B0%E0%A7%8B%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%A4%E0%A7%8D/,نئی دہلی،‏ 09 مارچ 2022: ‏ ‏آج وزیر اعظم نے ڈی آئی پی اے ایم کے بجٹ سے متعلق اعلانات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ویبینار سے خطاب کیا۔ اس تقریب سے بجٹ سے متعلق 11 ویبینارز کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا جن سے وزیر اعظم نے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نے اعلیٰ تعلیم، دیہی ترقی، زراعت، دفاع، صحت، ڈی پی آئی آئی ٹی، پی ایس اے، ایم این آر ای، ڈی ای اے اور ڈی آئی پی اے ایم کی وزارتوں/شعبوں سے متعلق بجٹ ویبیناروں میں شرکت کی۔ مرکزی بجٹ 2022 میں ملک کی ��عاشی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کو آگے بڑھانے کے لیے متعدد اعلانات کیے گئے ہیں‏‏۔ ‏‏ یہ ویبینار بجٹ کی رفتار کو برقرار رکھنے اور اس کے نفاذ میں تمام اسٹیک ہولڈروں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے مقصد سے منعقد کیے گئے تھے۔ ان ویبیناروں میں دفاع، ڈیجیٹل تعلیم اور متحرک ہنر مندی، جامع اور مساوی صحت کی دیکھ بھال، میک ان انڈیا اور پُر امنگ معیشت کے لیے مالی اعانت وغیرہ جیسے متنوع موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔ ‏ ‏ویبیناروں کو منعقد کرنے کا بنیادی مقصد بجٹ کے لیے اہم اسٹیک ہولڈروں کے درمیان ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا تھا۔ اس مشق سے وزارتوں اور محکموں کو نیا مالی سال شروع ہوتے ہی زمین پر پہنچنے میں بھی مدد ملے گی اور بروقت نفاذ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ مختلف اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ‏‏ ‏‏مشاورت سے ان کی عملی/ عالمی مہارت اور تجربہ اور خامی کی شناخت کرنے میں مدد ملتی ہے۔ بجٹ کی یکم فروری تک منتقلی اور ویبیناروں میں یہ تعامل ریاستی حکومتوں کو ترجیحات کی بہتر صورت حال جاننے اور اس طرح اپنے بجٹ کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ‏ ‏ ایک اندازے کے مطابق ویبینارز میں تقریباً 40 ہزار اسٹیک ہولڈروں نے شرکت کی جس میں کاروباری افراد، ایم ایس ایم ایز، برآمد کنندگان، عالمی سرمایہ کار، مرکزی و ریاستی حکومتوں کے نمائندے، نیز اسٹارٹ اپس کی دنیا کے نوجوان شامل تھے۔ ہر ویبینار کے دوران جامع پینل مباحثے اور تھیم پر مبنی بریک آؤٹ سیشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان ویبیناروں کے دوران حکومت کو بڑی تعداد میں قیمتی تجاویز موصول ہوئی ہیں جن سے بجٹ اعلانات پر موثر عمل درآمد میں مزید مدد ملے گی۔‏,প্রধানমন্ত্রীৰ পৌৰোহিত্যত ১১খন ৱেবিনাৰৰ মাধ্যমত কেন্দ্রীয় বাজেটত কৰা ঘোষণাসমূহ বাস্তবায়নৰ বিষয়ে আলোচনা আৰু চৰ্চ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%BE%D9%86%DA%88%D8%AA-%D9%85%D8%AF%D9%86-%D9%85%D9%88%DB%81%D9%86-%D9%85%D8%A7%D9%84%D9%88%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%AE-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%AA%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%A4-%E0%A6%AE%E0%A6%A6%E0%A6%A8-%E0%A6%AE/,"نئی دلّی ،25 دسمبر،2021/ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے پنڈت دن موہن مالویہ کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اپنے ایک ٹوئیٹ میں وزیراعظم نے کہا: عظیم مجاہد آزادی ، ماہر تعلیم اور سماجی مصلح عزت مآب پنڈت مدن موہن مالویہ جی کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت‘‘ ""महान स्वतंत्रता सेनानी, शिक्षाविद् और समाज सुधारक महामना पंडित मदन मोहन मालवीय जी को उनकी जयंती पर कोटि-कोटि नमन।""",জন্ম জয়ন্তীত পণ্ডিত মদন মোহন মালবীয়লৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শ্ৰদ্ধাৰ্ঘ্ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A8%D9%86%DA%AF%D9%84%DB%81-%D8%AF%DB%8C%D8%B4-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%85%D8%AD%D8%AA/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%82%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A6%E0%A7%87%E0%A6%B6%E0%A7%B0/,نئی دہلی۔18ستمبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی اور بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ دو پروجیکٹوں کے سنگ بنیاد کی تقریب کے لئے مشترکہ طور پر ای۔ لوح کی رہنمائی کی۔اس عمل کے دوران وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج اور پیٹرولیم نیز قدرتی گیس کے وزیر جناب دھرمیندر پردھان بھی موجود تھے۔ ان پروجیکٹوں میں(الف) ہند۔ بنگلہ دیش دوستی پائپ لائن(ب) ڈھاکہ۔ تونگی۔ جے دیبپور ریلوے پروجیکٹ شامل ہیں۔ اس موقع پر تقریب میں وزیراعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو دنیا کے لئے ایک مثال قرار دیا۔ انہو ں نے کہا کہ دونوں ملک پڑوسی ہے، جغرافیائی اور خاندانی جذبات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ پائپ لائن سے نہ صرف بنگلہ دیش کی معیشت کو مزید توانائی حاصل ہوگی بلکہ دونوں ملکوں کے رشتے بھی مستحکم ہوں گے۔انہوں نے اس بات کا یقین ظاہر کیا ہے کہ مجوزہ پروجیکٹ سے بنگلہ دیش میں قومی اور شہری ٹرانسپورٹ کو مستحکم کرنے کے عمل میں تعاون حاصل ہوگا۔ وزیراعظم کی تقریب کا متن حسب ذیل ہیں: بنگلہ دیش کی وزیراعظم عزت مآب شیح حسینہ جی، بھارت اور بنگلہ دیش کے وزراء، اور اس براہ راست ٹیلی کاسٹ سے جڑے سبھی ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ساتھیوں نمسکار! کچھ ہی دنوں کے فرق کے دوران ہماری یہ دوسری ویڈیو کانفرنس ہے۔ ہمارے رابطے کی آسانی کی وجہ ٹکنالوجی نہیں ہے اس کے بس پشت بھارت۔ بنگلہ دیش رشتوں بلارکاوٹ پیش رفت ہے۔ جغرافیائی طور سے ہم پڑوسی ملک ہے لیکن جذباتی طور پر ہم ایک خاندان ہے۔ ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ دینا، ایک دوسرے کی ترقی میں ہاتھ بٹانا، یہ ہماری خاندانی قدروں کی ہی دین ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ہمارے تعاون نے دنیا کو دکھایا ہے کہ اگر دو پڑوسی ممالک عزم کرلیں تو کیا کچھ نہیں کیاجاسکتا۔خواہ دہائیوں پرانے سرحدی تنازعے ہو یا ترقی میں تعاون کے پروجیکٹ ہو ،ا ن تمام محاذ پر غیر معمولی رفتار سے ترقی کررہے ہیں۔ اس ترقی کا سہرا عزت مآب میں آپ کے شاندار قیادت کو دیتا ہوں اور اس کے لئے آپ کادل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دوستو! آج جس ہند۔ بنگلہ دیش دوستی پائپ لائن پر کام شروع ہوا ہے وہ ترقی کے لئے باہمی تعاون کی کہانیوں میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے توانائی، ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔مجھے امید ہے یہ پائپ لائن بنگلہ دیش کی اولوالعزم ہے۔ ترقی کے ہدف کو حاصل کرنے میں معاون ہوگی۔خاص طور پر بنگلہ دیش کے شمالی حصے میں یہ پائپ لائن سستی قیمت پر توانائی مہیا کرائے گی۔بنگلہ دیش کی معیشت کے ساتھ ہمارے رشتوں کو بھی یہ پائپ لائن توانائی فراہم کرے گی۔حالانکہ پائپ لائن ہندوستان کی گرانٹ فائنانسنگ سے بنائی جارہی ہے لیکن ہمارے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ کام مکمل ہونے پر اسے حکومت بنگلہ دیش اور وہاں کے عوام کے نام وقف کردیا جائے گا۔ اسی طرح آج ہم نے جس ریلوے پروجیکٹ پر کام شروع کیا ہے وہ نہ صرف ڈھاکہ کے عوام کو روڈ ٹریفک سے راحت دے گا بلکہ مال بھارے سے مالیہ میں بھی اضافہ ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ اس ریلوے پروجیکٹ سے بنگلہ دیش کے قومی اور شہری ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے کی مہم میں بھی مدد ملے گی۔ عزت مآب ! آپ کا وژن ہے کہ ہمارے درمیان 1965 کے قبل کی کنکٹی ویٹی بحال ہو۔ اس سے ہمیں ترغیب حاصل ہوتی ہے۔مجھے خوشی ہے کہ ڈھاکہ۔ ٹونکی۔ جے دیب پور جیسے پروجیکٹ ہماری کنکٹی ویٹی کو اکیسویں صدی کی ضرورتوں کے مطابق شکل دے رہے ہیں۔ محض10 دنوں میں ہم نے ویڈیو کانفرنسنگ کی وساطت سے پانچ پروجیکٹوں کا افتتاح کیا ہے یہ رفتار، یہ شدت آپ کے مستحکم اور آپ کی بہتر قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی عوام کے روشن مستقبل کے لئے ہم اسی جذبے کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔ عزت مآب اپنی باتیں ختم کرنے سے قبل میں آپ سے 28 ستمبر کو آپ کی یوم پیدائش کے لئے دلی مبارک باد پیش کرناچاہتا ہوں۔ ہندوستان میں ہم سبھی لوگ آپ کی طویل العمری، صحت اور کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ بنگلہ دیش کی ترقی کے سفر میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی دوستی کے لئے آپ کی رہنمائی جاری رہے گی۔ شکریہ,"প্ৰধানমন্ত্ৰী, বাংলাদেশৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী শ্বেইখ হাছিনাৰ যুটীয়াভাৱে দুটা প্ৰকল্পৰ ভূমি পূজন অনুষ্ঠানৰ ই-ফলক মুকলি" +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%B9%DB%8C%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AC%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B7%D8%A7%D9%82%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9F%E0%A7%87%E0%A6%95-%E0%A6%AA%E0%A6%BE%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A1-%E0%A6%87%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A6%BE%E0%A7%B0-%E0%A7%AE-%E0%A6%AC/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ان اقدامات کی تفصیلات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح 8 برسوں میں ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے استعمال نے معیشت کے ہر شعبے میں بہتری کے رُخ پر کایا پلٹ کی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے ویب سائٹ نریندر مودی ڈاٹ اِن سے کئی مضامین شیئر کئے ہیں اور مائی گو پر سلسلہ وار ٹوئیٹ کئے ہیں۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا: ‘‘ ٹیکنالوجی کا مطلب ہے زیادہ شفافیت، ٹیکنالوجی کا مطلب ہےزندگی کی آسانیوں میں اضافہ، گزشتہ 8 برسوں میں ٹیکنالوجی کی زبردست پیش رفت آپ کو خوشی سے بھر دے گی’’۔ ‘‘ہندوستان ٹیکنالوجی اور اختراع کو گورننس اور غریبوں کے لئے استعمال کرنے میں قائدانہ مقام پر ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں ہم نے معیشت کے ہر شعبے کو بہتری کے رُخ پر تبدیل کیا ہے۔ چند بڑی اصلاحات اور اقدامات کی تفصیل یہاں دستیاب ہے’’۔,‘টেক পাৱাৰড ইণ্ডিয়াৰ ৮ বছৰ’ ৰ সবিশেষ শ্বেয়াৰ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%BE%D8%B1%D8%AF%DA%BE%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%AA%D8%B1%DB%8C-%D8%A7%D9%93%D9%88%D8%A7%D8%B3-%DB%8C%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7-%DB%94%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%92/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%86%E0%A7%B1%E0%A6%BE%E0%A6%B8-%E0%A6%AF%E0%A7%8B%E0%A6%9C%E0%A6%A8%E0%A6%BE/,نئی دہلی ،6جون : میرے پیارے بھائیواور اوربہنو ،نمسکار، میر ی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ الگ الگ اسکیموں سے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلیاں رونماہوئی ہیں ۔ ان تجربوں کو سیدھے ان ہی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے میں جانتاہوں اوراس لئے میں اکثر ایسے مستفیضین سے سیدھے ملاقات کرنے کی کوشش کرتاہوں ۔ صحیح ہو یاغلط ہو ، اچھا ہو خراب ہو ، دقتیں آئی ہوں ، سہولتیں ملی ہوں ۔ ان سب کے بارے میں سیدھے آپ جیسے لوگوں سے جاننا بہت ہی اہم ہے ۔ حکومت میں افسران کے ذریعہ جو رپورٹ تیارہوتی ہے ۔ اس کی اپنی اہمیت ہے ہی لیکن براہ راست جینے سے فائدہ ملا اورجن لوگوں کو فائدہ ملا۔ ان سے جب بات چیت کرکے نئی چیز سنا جیسے اُجولا یوجنا ، گیس کنکشن ۔ میں اس اُجولا کے لئے کافی باتیں کرتاتھا ۔ لیکن جب میں اُجولامستفیضین سے ملا تو انھوں نے مزیداربتائی میرے کو بات ، انھوں نے کہاہمار اپانی بچ گیا، میں نے کہا پانی کیسے بچ گیا ؟توپہلے بولے لکڑی کے چولھے سے کھاناپکاتے تھے توسارے برتن کالے ہوجاتے تھے اوردن میں چارچارباربرتن صاف کرنے میں بہت پانی لگتاہے ۔ اب گیس کا چولہا آگیا توہمیں وہ ک��نا نہیں پڑ رہاہے ۔ اب یہ بات میں نہیں مانتاہوں کہ میں ان سے بات کرتاتومجھے سمجھ آتی ، ایسی بہت سی باتیں ہیں ۔ جب میں خود بات کرتاہوں اور اسی سلسلے میں آج مجھے پردھان منتری یوجنا کے مستفیضین ہیں یا وہ لوگ جن کے سامنے گھرتیارہورہاہے ۔ گھربنانے میں جڑے ہیں ۔ جن کو کچھ ہی مدت میں گھرملنا طے ہے ۔ ایسے سب لوگوں سے روبرو ہونے کا، ان سے بات چیت کرنے کاایک موقع ملاہے ۔ آپ جانتے ہیں ہرشخص کے دل میں ایک خواہش ہمیشہ رہتی ہے کہ میراخود کااپنا گھرہو ، غریب سے غریب کو بھی لگتاہے کہ بھائی میرا اپنا گھرہو۔ بھلے چھوٹاہی کیوں نہ ہواوراپنا گھرہونے کا جو خوشگواراحساس ہوتاہے ۔ وہ ۔۔جسے گھرملا ہے وہی جانتا ہے اورکوئی نہیں جانتا۔ اورمیں جو آپ کوٹی وی کے وسیلے سے دیکھ رہاہوں ۔ تکنالوجی کے وسیلے سے دیکھ رہاہوں ۔ آپ کے چہرے پرجوخوشی ہے ، ایک اطمینان کا جذبہ ہے ۔ زندگی جینے کی ایک نئی امنگ پیداہوئی ہے ۔ یہ میں دیکھ رہاہوں ۔ اورجب میں آپ کا جوش اورامنگ اپنی آنکھوں سے دیکھتاہوں تو میراجوش اورامنگ بھی دس گنابڑھ جاتاہے ۔ پھرمیرا بھی دل کرتاہے اورزیادہ کام کروں ۔ آپ کے لئے اورمحنت کروں ۔ کیونکہ آپ کےچہرے کی خوشی مجھے ملتی ہے اوروہ میری خوشی کی وجہ ہے ۔ کسی بھی آواس یوجنا کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کو سرچھپانے کی فقط جگہ مل دینی ہے ۔ آواس کا مطلب گھر سے ہے صرف چاردیواری اورچھت سے نہیں ہے ۔ گھریعنی و ہ جگہ ۔۔جہاں زندگی جینے کے لائق ہو، تمام سہولتیں مہیاہوں ۔ جس میں کنبے کی خوشیاں ہوں ۔ جس میں کنبے کے ہرفرد کے خواب جڑے ہوئے ہوں ۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے اصل میں یہی جذبہ ہے ۔ اپنا گھرہرکسی کا خواب ہوتاہے ۔ غریب سے غریب شخص کے دل میں بھی یہ خواہش رہتی ہے کہ اس کے پاس اپنا پکا مکان ہولیکن آزادی کے اتنے برس بعد بھی غریب کی خواہش ادھوری ہی ہے ۔ اس حکومت نے عہد کیا اورطے کیا کہ 2022، جب ہماری آزادی کے 75سال ہوجائیں گے کچھ ہم ایسے موقع ہوتے ہیں کہ جب سب کو دوڑنے کا من کرجاتاہے ۔ چلوبھائی آزادی کے 75سال ہوئے ہیں چلو کچھ کام کریں ، زیادہ کریں ، اچھاکریں ، سب لوگوں کی بھلائی کریں ۔ ہم نے بھی کوشش کی ہے کہ 2022آزادی کے 75سال ہمیں پانچ سال جو بھی وقت ملا ہے ۔ دوڑنے کی ہمت آجائے ، کام کرنے کی ہمت آجائے ۔ اوراس نے ایک خواب لیاہے 2022آزادی کے 75سال ہندوستان کے ہرکنبے کے پاس غریب سے غریب ہو ، گاوں ہو شہرہو، جھگی ۔جھونپڑی میں رہتاہو، فٹ پاتھ پررہتاہو، کہیں پررہتاہو۔ اس کنبے کے پاس اپنا پکا مکان ہو، اورصرف گھرہی نہیں ، اس میں بجلی ہو ، نل ہو، نل میں پانی ہو، گیس کا چولہا ہو ، خوش قسمتی سے بجلی ہو، بیت الخلاہو، یعنی ایک طرح سے اس کولگنا چاہیئے کہ ہاں اب زندگی جینے کے لائق بن گئی ہے ۔ اب کچھ اورکرکے آگے بڑھنے کے راستے بنے ، غریب سے غریب آدمی کو بھی صرف محنت کے لئے ہی جگہ نہ ملے بلکہ مان سمان اور کنبہ کی شان بڑھانے کا بھی موقع ملے ۔( ہاوسنگ فارآل )سب کے لئے مکان یہ ہمارا خواب بھی ہے اورعہد بھی ہے ۔ مطلب آپ کا خواب ، میرا خواب ، آپ کا خواب ملک کی سرکار کا خواب کروڑوں لوگوں کے وسیع ملک میں یہ عہد پور ا کرنا معمولی کام نہیں ہے ۔چنوتی بہت بڑی ہے ، مشکل ہے ۔ اورآزادی کے اتنے سالوں کا تجربہ کہتا ہے کہ یہ سب ممکن ہی نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ غریب کی زندگی ہے ۔ بغیرگھررہنے والوں کی زندگی ہے ۔ جس نے مجھے یہ فیصلہ کرنے کی ہمت دی ہے ۔ آپ کی محبت نے ، آپ کے لئے می��ے دل میں جو لگاوہے اس کی وجہ سے اتنا بڑا فیصلہ لیاہے ۔ اب فیصلہ پوراکرنے میں سرکاری مشینری ، بلکہ لوگ بھی مدد میں ہیں ۔ کام ہورہاہے ۔ لیکن یہ تب ہوتاہے ، صرف قوت ارادی سے تھوڑے ہی ہوجاتاہے ۔ اس کے لئے منصوبہ چاہیئے ، اس کے لئے رفتارچاہیئے ۔ عوام کا بھروسہ اور حمایت چاہیئے ۔ عوام کے لئے وقف کرنے کا جذبہ چاہیئے ۔ اس چنوتی سے نمٹنے کے لئے پہلے کی سرکاروں کے کام کاج ہیں ۔ کیسے کام ہوتاتھا، کیسے شروع کرتے تھے ۔ کہاں جاکر پہنچتے تھے ، سب آپ لوگ جانتے ہیں ۔ میں سمجھتاہوں کہ آج اس میں بہت بڑا بدلاو آیاہے ۔ آج ہم نے کہیں مندروں ، فرقوں کے نام پر، کہیں جھگی جھونپڑی کے نام پر مکان بنانا ، کام شروع کیا ، لیکن بڑھتی آبادی کے نام پریہ کوششیں ناکافی ہی ثابت ہوئیں ۔ بعد میں یہ یوجنا لوگوں کے نام پربننے لگی ، خاندانوں کے نام پربننے لگی ۔ فطری طورپران کا مقصد عام انسان کو گھردینے کے بجائے سیاسی مفاد حاصل کرنے کا زیادہ ہوگیاتھا۔ بچولیوں کی بہت بڑی فوج بن گئی تھی اورٹھیکیدارجب مالاما ل چلتاتھا۔ ہم نے ایک الگ Approachکے ساتھ اس چنوتی پرکام کیا۔ ٹکڑوں میں سوچنے کے بجائے مشن موڈمیں کام کرنے کا عہد لے لیا۔ ہم نے طے کیا ہے کہ 2022تک دیہی علاقے میں تین کروڑاور شہری علاقوں میں ایک کروڑ گھروں کو تعمیر کریں گے ۔ جب ارادہ اتنا بڑا ہو تو فطری ہے کہ اس ارادہ کوپوراکرنے کے لئے بجٹ بھی بڑا چاہیئے ۔ ایک وقت تھا جب بجٹ تخصیص کے مطابق نصب العین مقررکیا جاتا تھا۔لیکن اب ہم پہلے نصب العین طے کرتے ہیں ۔ ملک کوکس کی پہلے ضرورت ہے ، کتنی ضرورت ہے ، اس کی بنیاد نصب العین طے کرتے ہیں ۔ پھراس کے مطابق بجٹ مقررکرتے ہیں ۔ اسی کانتیجہ ہے کہ شہری علاقوں میں اگربات کروں توہمارے پہلے جو سرکارتھی وہ غریبوں کے نام پرہی کھیل کھیلتی رہتی تھی ۔ یوپی اے سرکارنے دس برسوں میں جتنے مکانوں کی تعمیر کومنظوری بھی نہیں دی پچھلے چاربرسوں میں ہم نے اس کا تقریبا چارگنا زیادہ سینکشن کیاہے ۔ یوپی اے سرکار کے دس سال میں کل ساڑھے 13لاکھ مکان سینکشن کئے گئے تھے جب کہ ہماری سرکارکے تحت پچھلے چارسال میں 47لاکھ یعنی قریب قریب 47لاکھ ، ایک طرح سے 50لاکھ کے پار پہنچنے کے زائد مکان ہم نے سینکشن کردیئے ہیں ۔ ان میں سے 7لاکھ گھرنئی ٹکنالوجی سے بنائے جارہے ہیں ۔ اب ہاوسنگ میں نئی تکنالوجی کوبدل دینے کے لئے گلوبل ہاوسنگ تکنالوجی چیلنج یہ شروع کررہے ہیں ۔ تاکہ کم لاگت والی رہائش کی جدیدتکنالوجی کا استعمال ہوسکے ۔ اسی طرح اگرگاوں کی بات کریں توپچھلی سرکارکے آخری چارسال میں گاوں کے اندرپورے ہندوستان میں قریب قریب ساڑھے 25لاکھ گھروں کی تعمیر کی گئی تھی ۔ وہیں ہماری سرکارنے پچھے چاربرس میں ایک کروڑسے زائد گھروں کی تعمیر کی ہے ۔ یعنی سواتین سوفیصد سے بھی زائد اضافہ ۔ پہلے مکان بنانے کے لئے 18مہینے کا وقت طے تھا۔ لیکن ہم نے اس کوگھٹاکر اس کواہم سمجھتے ہوئے ، رفتار تیز کرتے ہوئے 18مہینوں کا کام 12مہینوں میں پوراکرنے کا عہد کرکے ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک برس سے بھی کم وقت میں گھربن کرتیارہورہاہے ، آج گھرو ں کی تعمیر میں تیزی آرہی ہے ، اوریہ دیکھئے کیسے آرہی ہے ۔ صرف اینٹ اورپتھرتیز رفتارسے ہم ڈال دیں توگھربن جاتاہے ایسا نہیں ہے ۔ اس کے لئے سبھی سطحوں پرمنصوبہ بندطریقے سے ٹھوس قدم اٹھائے جاتے ہیں ۔ اسکیل ہی نہیں ، سائز کولے کربھی تبدیلی کی گئی ہے ۔ گاوں میں پہلے گھربنانے کے لئے کم از کم رقبہ 20مربع میٹرتھا جب کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت اب ہم لوگوں نے آکرکے اسے 20مربع میٹرکی جگہ 25مربع میٹرکردیا ہے ۔ آپ کو لگ رہاہوگا کہ اس 5مربع میٹرکا ہی فرق لے کر جگہ بڑھ جانے سے کیاہوگا۔ سب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ ایک الگ صاف ستھراباورچی خانہ اب اس میں جڑگیا۔ گاوں میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت پہلے 70-75ہزارروپے کی مدد دی جاتی تھی ۔ جسے اب ہم نے بڑھا کر سوالاکھ روپے کردیاہے ۔آج مستفیضین کومنریگا سے 90-95 دنوں کا محنتانہ مزدوری کے لئے بھی اس کے کھاتے میں جمع ہوتاہے ۔ اس کے علاوہ آج بیت الخلا بنانے کے لئے 12ہزارروپے الگ سے دیئے جارہے ہیں ۔ پہلے دیکھنے کو ملتاتھا کہ بچولیوں کے نیتاؤں کے گھرتو بن جاتے تھے ۔ لیکن غریب کا گھرنہیں بنتاتھا ۔ غریبوں کے پیسوں میں کوئی سیندھ نہ مارے ، اسے کوئی اورنہ لے جائے اس کے لئے ہم نے پکا انتظام کیاہے ۔ آج ڈی بی ٹی سیدھے فائدہ منتقلی کے ذرائع سے بچولیے ختم ہوئے ۔ اورمستفیضین کوسبسیڈی اورامدادی رقم سیدھے ان کے کھاتے میں جارہی ہے ۔ پہلے جن دھن اکاؤنٹ کھولا اب روپیہ بھیجنا شروع کیا۔ پردھان منتری آواس یوجنا پروگرام کی ترقی کی مانیٹرنگ کے لئے یہ جو گھربن رہے ہیں ، جو آواس بن رہے ہیں ۔ ان کی جیو ٹریکنگ کا نظام وضع کیاہے ۔ تاکہ شفافیت بنی رہے ۔ ان کاموں کو DISHAپورٹل سے بھی جوڑا گیاہے ۔ جہاں یہ دیکھا جاسکتاہے کہ آپ مانیٹرکرسکتے ہیں ۔ میں میرے آفس سے مانیٹرکرسکتاہوں کہ کتنا کام ہوا ہے کہاں کہاں ہواہے ۔ اس کی پوری تفصیل میں میرے دفترمیں بیٹھ کر کے بھی دیکھ سکتا ہوں۔ یوپی اے کے دور میں مستفیضین کا انتخاب جو پرانے سیاسی رہنماو ں نے تیارکی ہوئی بی پی ایل فہرست سے کیاجاتا تھا لیکن آج ہم لوگوں نے سماجی اقتصادی کمیونٹی مردم شماری کے ذرائع سے کرناشروع کیا اس کی وجہ سے پہلے جو چھوٹ جاتے تھے ۔ اب ان کوبھی ہم نے جوڑ دیاہے ۔ اور اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جوڑ کرکے ان کو فائدہ ملاہے ۔ ہرعلاقے ، ہرطبقے کے لوگوں کو اس کا فائدہ مل رہاہے ۔ گھرصرف ضرورتوں سے نہیں ، گھرعزت سے بھی جڑاہوتاہے ،شان سے جڑا ہوتاہے ۔ اور ایک بار اپنا گھربن جاتاہے ۔ تو گھرکے ہرفرد کی سوچ بھی بدلتی ہے ۔ آگے بڑھنے کا نیا حوصلہ پیداہوتاہے ۔ ہما ری کوشش ہے کہ ہر کنبے کی اس ضرورت کو پوراکرنا اور اس کی شان کو بڑھانا اوراس لئے پردھان منتری آواس یوجناکا فوکس خاص طورسے سماج کے کمزورطبقوں اورخواتین پرہی ہم نے مرکوز کیاہے ۔ آدی واسی ہوں ، دلت ہوں ،پسماندہ ہوں ، ایس سی ، ایس ٹی ، اوبی سی ، اقلیتی اورہمارے معذور بھائی بہن ان کو ہم ترجیح دے رہے ہیں ۔ اس طرح منصوبہ بند طریقے سے بڑے پیمانے پر کی جارہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج تیزی سے گھروں کی تعمیر ہورہی ہے ۔ ہم زمین سے جڑے لوگ ہیں ۔ عام آدمی کے مسائل کو، ان کی تکالیف کوہم بخوبی جانتے ہیں ،سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں کی ضرورتوں کو دھیان میں رکھ کرکے کام کررہے ہیں ۔سرکاروں میں ایسا چلتاآیاہے ۔ کہ ہریوجنا الگ الگ کام کرتی ہے ۔ پہلا وزارتوں کے درمیان ، دومحکموں کے درمیان ، دومنصوبوں کے درمیان تال میل ہی نہیں ہوتا۔ پردھان منتری آواس یوجنا میں مختلف سرکاری منصوبوں کو ایک ساتھ لایاگیاہے ، جو ڑا گیاہے ۔ تعمیر اورروزگارکے لئے اسے منریگا سے جوڑا گیا۔ گھرمیں بیت الخلا ، بجلی ، پانی اورایل پی جی گیس کی سہولت ہو اس کا دھیان الگ سے رکھا گیا۔ گھرمیں بیت الخلا ہو اس کے لئے صاف بھارت مشن سے جوڑا گیا۔ گھرمیں بجلی کی سہولت ہو اس کے لئے پنڈت دین دیال اپادھیائے گرام جیوتی یوجنا اور سوبھاگیہ یوجنا کو اس کے ساتھ منسلک کردیاگیا۔ پانی کی سہولت کے لئے اسے دیہی پینے کے پانی پروگرام سے جوڑا گیا۔ ایل پی جی کا نظام ہو اس کے لئے اجول یوجنا کواس سے جوڑاگیا۔ یہ آواس یوجنا صرف ایک گھرتک محدود نہیں ہے ۔ بلکہ یہ بااختیاربنانے کا بھی ذریعہ ہے ۔ شہروں میں جن کو مکان کا فائدہ ملا ہے ، ان میں70فیصد خواتین کے نام پرہے ۔ آج جب پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھربن رہے ہیں تو اس سے روزگارکے مواقع بھی پیداہورہے ہیں ۔ مقامی سطح پر اینٹ ، ریت ، سیمنٹ سے لے کر ہرطرح کے تعمیراتی سازوسامان کی تجارت بڑھ رہی ہے ۔ مقامی مزدوروں ، کاریگروں کو بھی کام مل رہاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گاوؤں میں کوالٹی کے مطابق کام کے لئے سرکارنے ایک لاکھ راج مستریو ںکو تربیت دینے کا کام شروع کیاہے ۔ میسن کا اورآپ کویہ جان کرکے بھی خوشی ہوگی کہ اور کئی ریاستوں میں راج مستری کی طرح رانی مستریوں کو بھی تربیت یافتہ کیاجارہاہے ۔ یہ خواتین کو بااختیاربنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے ۔ شہری علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس یوجنا کے تحت شامل کرنے کے لئے سرکارنے چارماڈل پرکام کیا ۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت شہری علاقوں میں مستفیضین کو گھربنانے یا اس کو وسعت دینے کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کی امداد کی جارہی ہے ۔ لنک سبسیڈی اسکیم کے تحت گھربنانے کے لئے دئے گئے لون پرسود میں 3 سے 6فیصد کی سبسیڈی دی جارہی ہے ۔ علاقہ میں ازسرنوترقی کے لئے حکومت فی خانہ ایک لاکھ روپے کی امداد فراہم کررہی ہے ۔ یاپبلک سیکٹرکے ساتھ شراکت میں کفایتی آواس ، Affordable hoctلاگو کیا۔ اس قانون سے شفافیت آنے کے ساتھ ساتھ خریدار کو ان کا حق مل رہاہے ۔ اوربلڈرس بھی خریدارسے کسی بھی طرح کا دھوکا کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ آج ملک میں ایسی کئی مثالیں ہیں جن کے امیدوں اورآرزوؤں کو اس یوجنا نے پنکھ لگائے ہیں ۔ گھرہونے سے خوشحالی اورتحفظ تو بڑھتاہی ہے اورصحت بھی اچھی رہتی ہے ۔ اپنا گھرہونا سب کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ، پہلے بھی ہوتی تھی ، لیکن بدقسمتی کی بات تھی کہ پہلے یہ سب سے آخرمیں پوری ہوتی تھی ۔ اورکبھی کبھی ادھوری ہی رہ جاتی تھی ۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ہم سب ہمیشہ سنتے آئے ہیں ۔ ایک زندگی بیت جاتی ہے اپنا گھربنانے میں ۔ سنی ہے یہ کہاوت ، پوری زندگی بیت جاتی ہے اپنا گھربنانے میں ۔ پراب کی سرکاردوسری ہے ۔ اب کہاوت بھی بدل رہی ہے ، ملک بدل رہاہے کہاوت بھی بدل رہی ہے ۔ اور کہاوت کو بدلنے کا وقت آگیا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے جب ہمارے اندر سے آواز اٹھے گی کہ جب زندگی بیتتی ہے اپنے ہی آشیانے میں ۔ میں مانتا ہوں کہ جب اتنا بڑا نظام ہے تو ابھی بھی کچھ لوگ جن کی پرانی عادتیں بدلی نہیں ہوں گی ۔ اوراس لئے میری آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ اس یوجنا کے تحت کسی بھی طرح کافائدہ پہونچانے کے لئے اگرآپ سے کوئی پیسہ یا کوئی غیرضروری مانگ کررہاہو۔ تو آپ بے ہچک اس کی شکایت کریں ۔ اس کے لئے آپ کلیکٹر یا منسٹر کے پاس اپنی شکایت درج کرواسکتے ہیں ۔ میں نے پہلے بھی کہاہے کہ بھارت کے خواب اور آرزوئیں اتنے بھر سے پوری نہیں ہوتیں ۔ ہم نے ایک مضبوط زمین تیارکی ہے ۔ اورہمارے سامنے ایک وسیع آسمان ہے ۔ سب کے لئے گھر، سب کے لئے بجلی ، سب کے لئے بینک ، سب کے لئے بیمہ ، سب کے لئے گیس کنکشن ، یہ اس نیو انڈیا کی تکمیل کی تصویرہوگی۔ جدیدسہولتوں سے جڑے گاوؤں اور سماج کی جانب ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اوراس لئے کتنی بڑی تعداد میں بھائیواور بہنوں سے مجھے موقع ملا ہے بات کرنے کا ۔ ایک چھوٹا ساویڈیو میں آپ کو دکھاناچاہتاہوں ۔ اس کے بعد میں آپ کو بھی سننا چاہتاہوں ۔,প্ৰধানমন্ত্ৰী আৱাস যোজনাৰ হিতাধিকাৰীসকলক উদ্দেশ্যি প্ৰদান কৰা প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ ভাষণৰ অসমীয়া অনুবাদ (০৫.০৬.২০১৮) +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1-%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%93%D8%B3%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D9%85/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%85%E0%A6%B8%E0%A6%AE%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BF%E0%A6%B6%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%9F-%E0%A6%B2%E0%A7%87%E0%A6%96%E0%A6%95-%E0%A6%85%E0%A6%A4%E0%A7%81%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%A8/,وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آسامی زبان کے مشہور مصنف جناب اتلانندگوسوامی کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کیا ہے کہ : ’’انہیں مشہور مصنف جناب اتلانند گوسوامی جی کے انتقال پر افسوس ہے ، انہیں ان کے کام کی وجہ سے کافی سراہنا ملی ہے اور ان کی حساسیت اور تنوع کے لئے ان کی کافی تعریف کی جاتی ہے۔ انہوں نے انگریزی میں آسامی ادب کو مقبول بنانے کے لئے کافی جد وجہد کی ۔ میں ان کے انتقال پر ان کے کنبے کے افراد اور ان کے مداحوں سے تعزیت کااظہار کرتا ہوں‘‘۔,অসমৰ বিশিষ্ট লেখক অতুলানন্দ গোস্বামীৰ দেহাৱসানত প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শোক +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%84%DB%8C%DB%92-%D8%AE%DB%8C%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-2/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A8-%E0%A6%95%E0%A6%BF-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A4%E0%A7%B0-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%AC%E0%A7%87-%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A3%E0%A6%BE-%E0%A6%86%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AA/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 25 ستمبر 2022 کو صبح 11 بجے من کی بات کے آنے والے ایپی سوڈ کے لیے لوگوں کو اپنے خیالات اور معلومات کا اشتراک کرنے کی دعوت دی ہے۔ خیالات کا اشتراک MyGov، Namo ایپ پر کیا جا سکتا ہے، یا پیغام ریکارڈ کرنے کے لیے 1800-11-7800 نمبر ڈائل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص 1922 پر مس کال کر سکتا ہے اور ایس ایم ایس میں موصول ہونے والے لنک پر عمل کر کے براہ راست وزیر اعظم کو اپنی تجاویز پیش کر سکتا ہے۔ MyGov دعوت نامہ کا اشتراک کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا؛ ”#من کی بات ہندوستان بھر میں متنوع معلومات اور متاثر کن اجتماعی کوششوں سے مالا مال ہے جس نے ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، میں اس ماہ 25 تاریخ کو ہونے والے ایپی سوڈ کے لیے آپ کی رائے حاصل کرنے کا منتظر ہوں۔“ https://www.mygov.in/gro,মন কি বাতৰ বাবে ধাৰণা আৰু পৰামৰ্শ আমন্ত্ৰণ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-16-%D8%AF%D8%B3%D9%85%D8%A8%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%D8%B2%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D9%88%D8%B1%D8%A7%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%DA%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A7%A7%E0%A7%AC-%E0%A6%A1%E0%A6%BF%E0%A6%9A-2/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی زراعت اور خوراک کی ڈبہ بندی کے موضوع پر 16 دسمبر 2021 کو صبح 11 بجے گجرات کے آنند میں منعقد ہونے والی قومی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے خطاب کریں گے۔ اس کانفرنس میں قدرتی کاشتکاری پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ کسانوں کو، قدرتی طریقے سے کی جانے والی کاشتک��ری کے فوائد سے متعلق تمام ضروری معلومات فراہم کرائی جائیں گی۔ حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وزیراعظم کے وژن کے مطابق کام کر رہی ہے۔ یہ پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنانے کے لیے پابند عہد ہے، تاکہ کسان اپنی زرعی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ زراعت کی تصویر بدلنے اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے حکومت نے کئی قدم اٹھائے ہیں۔ نظام کی پائیداری، لاگت میں کمی، بازار تک رسائی اور کسانوں کو بہتر قیمتیں فراہم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ صفر بجٹ والی قدرتی کاشتکاری ایک امید افزا طریقہ ہے جس سے خریدی جانے والی ان پٹ پر کسانوں کا انحصار کم ہوگا، اور کھیت پر مبنی روایتی ٹیکنالوجیز پر بھروسہ کرتے ہوئے زراعت کی لاگت کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور اس کے نتیجہ میں مٹی کی صحت میں بہتری آئے گی۔ دیسی گائے، اس کا گوبر اور پیشاب کھیت پر کئی قسم کی کھاد وغیرہ بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور مٹی کو ضروری غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ دیگر روایتی طریقے جیسے کہ پانی کی بہت کم دستیابی کی حالت میں بھی مٹی کو بائیو ماس سے یا مٹی کو سال بھر گھاس اور پتوں وغیرہ سے ڈھانپنے سے اس کی پیداواری صلاحیت میں پائیداری آتی ہے، اور اس طریقہ کو اپنانے کے پہلے سال سے ہی فائدہ حاصل ہونے لگتا ہے۔ اسی قسم کی حکمت عملیوں پر زور دینے اور ملک بھر کے کسانوں تک پیغام پہنچانے کے لیے، حکومت گجرات زراعت اور خوراک کی ڈبہ بندی پر قومی کانفرنس منعقد کرنے جا رہی ہے، جس میں قدرتی کاشتکاری پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس تین روزہ کانفرنس کا انعقاد 14 سے 16 دسمبر، 2021 تک کیا جائے گا۔ اس میں5000 سے زیادہ کسان شرکت کریں گے، جو ذاتی طور پر کانفرنس میں موجود رہیں گے، اس کے علاوہ بہت سے دیگر کسان سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آئی سی اے آر، ریاستوں کے کرشی وگیان کیندر اور اے ٹی ایم اے (ایگریکلچرل ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی) نیٹ ورک کے ذریعے لائیو جڑیں گے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে ১৬ ডিচেম্বৰত কৃষি আৰু খাদ্য প্ৰক্ৰিয়াকৰণৰ ওপৰত ৰাষ্ট্ৰীয় সন্মিলনৰ সময়ত কৃষকসকলক সম্বোধন কৰিব +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%A8%D8%B3%D9%88-%D8%AC%DB%8C%D9%86%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%AC%DA%AF%D8%AF%DA%AF%D8%B1%D9%88-%D8%A8%D8%B3%D9%88%DB%8C%D8%B4/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A6%AC-%E0%A6%9C%E0%A7%9F%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%80%E0%A6%A4-%E0%A6%9C%E0%A6%97%E0%A6%A4%E0%A6%97%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%81-%E0%A6%AC%E0%A6%B8%E0%A6%AC%E0%A7%87/,"نئی دہلی۔ 03 مئی وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بسو جینتی کے مقدس موقع پر جگد گرو بسویشور کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیر اعظم نے 2020 کی اپنی تقریر بھی شیئر کی جس میں انہوں نے جگد گرو بسویشور کے بارے میں بات کی تھی۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا: ""بسو جینتی کے مقدس موقع پر جگدگورو بسویشور کو خراج عقیدت۔ ان کے خیالات اور نظریات دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو توانائی دیتے ہیں۔ 2020 کی اپنی ایک تقریر شیئر کر رہا ہوں جس میں میں نے جگد گرو بسویشورا کے بارے میں بات کی تھی۔"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا (",বসব জয়ন্তীত জগতগুৰু বসবেশ্বৰলৈ শ্ৰদ্ধাৰ্ঘ্য প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%D8%B1%DB%8C%D9%86%D8%AF%D8%B1%D9%85%D9%88%D8%AF%DB%8C-%D9%86%DB%92-75%D9%88%DB%8C%DA%BA-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%93%D8%B2%D8%A7%D8%AF/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A7%AD%E0%A7%AB-%E0%A6%B8%E0%A6%82%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%95-%E0%A6%B8%E0%A7%8D%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%A7%E0%A7%80%E0%A6%A8%E0%A6%A4%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8/,نئی دہلی، 15؍اگست:وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر عالمی رہنماؤں کی جانب سے نیک خواہشات اورتہنیتی پیغامات پیش کئے جانے پر شکریہ اداکیا۔ بھوٹان کے وزیراعظم کے ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم ، نریندرمودی نے کہاکہ یوم آزادی پرپرخلوص مبارکباد کے لئے @ lyoncheen پی ایم بھوٹان ، آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ سبھی بھارتی بھوٹان کے ساتھ ہماری منفرداورقابل بھروسہ دوستانہ رشتوں کی قدرکرتے ہیں ۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم نے کہا؛ میرے دوست @اسکاٹ موریسن ایم پی آپ کی نیک خواہشات کا بہت بہت شکریہ ۔ بھارت بھی آسٹریلیا کےساتھ اپنی بڑھتی ہوئی درخشاں شراکت دوری کو عزیز رکھتاہے جو مشترکہ قدروں اورعوام سے عوام کے درمیان قریبی رشتوں پرمبنی ہیں ۔ سری لنکا کے وزیراعظم مہیندراراجہ پکسا کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ میں وزیراعظم راجہ پکسا کا نیک خواہشتات کے لئے شکرگذارہوں ۔ بھارت اورسری لنکا کے صدیوں پرانے ثقافتی /روحانی اورتہذیبی رابطے میں جو ہماری خصوصی دوستی کو بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔@ PresRajapaksa نیپال کےوزیراعظم شیربہادردیوبا کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم ، جناب نریندرمودی نےکہا، ان کی مبارکباد اور نیک خواہشات کے لئے میں ان کا شکریہ اداکرتاہوں ، بھارت اورنیپال ثقافتی ، لسانی /مذہبی اورکنبے کے رابطوں سے منسلک ہیں ۔ Sher B Deumar اسرایئل کے وزیراعظم نفتالی بیننٹ کے ایک ٹویٹ کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ ، عزت مآب وزیراعظم @ naftali bennet آپ کی نیک خواہشات کے لئے شکریہ ۔ میں دونوں حکومتوں اورعوام کے درمیان رشتوں کو مستحکم کرنے کے لئے مل کرکام کرنے کا متمنی ہوں اور بھارت اسرائیل اسٹرٹیجک شراکت داری کے بنیاد کو مستحکم کرنے کا بھی متمنی ہوں ۔,৭৫ সংখ্যক স্বাধীনতা দিৱস উপলক্ষে শুভেচ্ছা জ্ঞাপনৰ বাবে বিশ্ব নেতাসকলক ধন্যবাদ প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%DA%88%D8%AC%DB%8C%D9%B9%D9%84-%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%AF%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D8%A7/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A7%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80%E0%A6%AF%E0%A6%BC%E0%A7%87-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%95%E0%A6%B2%E0%A6%BF-%E0%A6%95/,نئی دہلی30؍اگست-2021 :وزیراعظم نریند ر مودی نے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ ایک شخصی اور مقصد کے لئے وقف ڈجیٹل ادائیگی کے طریق کار ای –روپی کا آغاز کیا۔ای-روپی ڈجیٹل ادائیگی کے لئے نقد رقم کے استعمال کے بغیراور کسی کے بھی رابطے میں آئےبغیر استعمال کیا جانے والا ایک ذریعہ ہے۔ اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ای –روپی واؤچر ملک میں ڈجیٹل لین دین میں ڈی بی ٹی کواور زیادہ موثر بنانے میں ایک بڑا کردار ادا کرنے جارہا ہے اور اس سے ڈجیٹل حکمرانی کو ایک نیا زاویہ ملے گا۔اس سے ہر کسی کو نشان زد ،شفاف اور سقم سے مبرا بہم رسانی میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ای –روپی اس بات کی ایک علامت ہے کہ بھارت کس طرح لوگوں کی زندگیوں اور ٹکنالوجی کو جوڑکر ترقی کررہا ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ مستقبل کے لئے موزوں یہ اصلاحی پہل ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ملک آزادی کے 75سال مکمل ہونے کے موقع پر ‘‘ امرت مہوتسو ’’ منا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کے علاوہ بھی اگرکوئی تنظیم ،کسی شخص کے علاج معالجہ ،تعلیم اور دیگرکسی بھی کا م کے لئے اس کی مدد کرنا چاہتی ہے تو وہ اسے نقد رقم ادا کرنے کے بجائے ای –روپی واؤچردے سکے گی۔اس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گاکہ تنظیم کے دی گئی رقم کو اسی کام کے لئے استعمال کیا جاسکے گا،جس کا م کے لئے وہ رقم دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ای –روپی ایک شخص کے ساتھ مقصد کے لئے وقف طریق کا ر ہے ۔ای –روپی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ رقم کو اسی مقصد کے لئے کوئی بھی مدد یا کوئی بھی فائدہ فراہم کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ ایک ایسا بھی وقت تھا جب ٹکنالوجی کو امیر لوگوں کے استعمال کی چیزسمجھا جاتا تھااور بھارت جیسے غریب ملک میںٹکنالوجی کےلئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔انہو ں نے اس وقت کو یاد کیا کہ جب اس حکومت نے ٹکنالوجی کا ایک مشن کے طورپر استعمال کیا تھا توسیاسی لیڈروں اور بعض قسم کے ماہرین نے اس پرسوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج ملک نے ان لوگوں کی سوچ کو بھی درکنارکردیا ہے اور انہیں غلط ثابت کردیا ہے۔ آج ملک کی سوچ مختلف ہے۔یہ ایک نئی سوچ ہے ۔آج ہم ٹکنالوجی کو غربیو ں کی مدد اور ان کی ترقی کے ایک وسیلے کے طور پردیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اس بات کو اجاگر کیا کہ کس طرح ٹکنالوجی لین دین میںشفافیت اور ایمانداری لارہی ہے اور کس طرح نئے نئے مواقع پیدا کرکے اور انہیں غریب افرادکودستیاب کرارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آج کے اس منفرد وسیلے تک پہنچنے کے مقصدسے جے اے ایم سسٹم تخلیق کرکے ،جس سے کہ موبائل اور آدھار کو منسلک کیا گیا ، گزشتہ کئی سالوں میں اس کی بنیادکی تیاری کی گئی تھی۔ جے اے ایم کے فائدے لوگوں تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہم لاک ڈاؤن مدت کے دوران ضرورتمندلوگوں کی مدد کرسکے ۔جبکہ دوسرے ممالک اپنے عوام کی مدد کرنے کے لئے جدوجہدکررہے تھے۔جناب نریندر مودی نے ا س بات کو اجاگرکیا کہ بھارت میں فوائد کی براہ راست منتقلی ڈی بی ٹی کے ذریعہ 17 لاکھ 50000 کروڑسے زیادہ روپے لوگوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست منتقل کئے گئے ہیں۔300سے زیادہ اسکیموں میں ڈی بی ٹی استعمال ہورہا ہے۔90 کروڑسے زیادہ بھارتی افراد کو رسوئی گیس ، ایل پی جی ، راشن ، طبی علاج ومعالجہ ، وظیفہ ، پنشن یا اجرتوں کی ادائیگی جیسے شعبوں کے ذریعہ کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت ایک لاکھ 35000 کروڑروپے براہ راست کسانو ں کے کھاتوں میں منتقل کئے گئے ہیں۔اس طریقے سے گیہوں کی سرکاری خرید کے لئے 85000 کروڑروپے کی بھی ادائیگی کی گئی ۔ انہوں نے کہا : ‘‘ اس سب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ایک لاکھ 78000 کروڑروپےغلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئے ہیں۔’’ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اس بات کو نمایاں کیا کہ بھارت میں ڈجیٹل لین دین کے عمل میں پیش رفت کی بدولت غریب افراد ، محروم افراد ،چھوٹے کاروباری افراد،کسان اورقبائلی آبادی کو بااختیار بنایا جاسکا ہے اور اس بات کو جولائی کے مہینے میں کئے گئے 6 لاکھ کروڑروپے تک کے 300 کروڑیو پی آئی لین دین سے محسوس کیا جاسکتا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت دنیا کو یہ ثابت کررہا ہے کہ ہم ٹکنالوجی کو استعمال کرنے او ر اسے حسب منشا ء بنانے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب جدت طرازی اور خدمات کی بہم رسانی میں ٹکنالوجی کے استعمال کی بات ہوتو بھارت ، دنیا کے بڑے ملکوں کے ساتھ ساتھ عالمی قیادت فراہم کرنے صلاحیت کا حامل ��لک ہے وزیراعظم نے کہا کہ پی ایم سواندھی یوجناکی بدولت ملک کے چھوٹے قصبوں اور بڑے شہروں میں 23 لاکھ سے زیادہ خوانچہ فروشوں کی مدد کی گئی ہے۔عالمی وبا کی اس مدت کے دوران لگ بھگ 2300 کروڑروپے انہیں ادا کئے گئے۔ وزیراعظم جناب نریندرمودی نے کہا کہ دنیا، بھارت میں ڈجیٹل بنیادی ڈھانچہ اور ڈجیٹل لین دین کے لئے گزشتہ چھ سات برسوں میں کئے گئے کام کے اثرات کا اعتراف کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خاص طور پر بھارت میں ،فِن ٹیک کی ایک زبردست بنیاد تیارکی گئی ہے، جو کہ ترقی یافتہ ملکوں تک میں موجود نہیں ہے۔,প্ৰধানমন্ত্ৰীয়ে মুকলি কৰিলে ডিজিটেল পৰিশোধ সমাধান ‘ই-ৰূপী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%B4%D8%B1%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D9%B9%DA%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B1%DB%92-%DA%A9%D9%88-%D8%A7%D9%86/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%B6%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%AC%E0%A6%BE%E0%A6%B2%E0%A6%BE%E0%A6%9A%E0%A6%BE%E0%A6%B9%E0%A7%87%E0%A6%AC-%E0%A6%A0%E0%A6%BE%E0%A6%95%E0%A7%B0%E0%A7%87%E0%A7%B0-%E0%A6%9C%E0%A6%A8/,نئی دہلی:23 جنوری،2022۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے شری بالا صاحب ٹھاکرے کو ان کی جینتی (یوم پیدائش) پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم نے کہا؛ ‘‘میں شری بالاصاحب ٹھاکرے کو ان کی جینتی پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انہیں ہمیشہ ایک غیرمعمولی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے’’۔ ———————– ش ح۔م ع۔ ع ن,শ্ৰী বালাচাহেব ঠাকৰেৰ জন্ম জয়ন্তীত শ্ৰদ্ধাঞ্জলি জ্ঞাপন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D9%85%D9%86%DB%8C-%D9%BE%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%B0-%DA%A9%DB%92-%D8%B7%D9%88/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AE%E0%A6%A3%E0%A6%BF%E0%A6%AA%E0%A7%81%E0%A7%B0%E0%A7%B0-%E0%A6%AE%E0%A7%81%E0%A6%96%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A7%8D%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A7%80-%E0%A6%B9%E0%A6%BF%E0%A6%9A/,وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے منی پور کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لینے پر جناب این بیرن سنگھ کو مبارکباد پیش کی۔ ایک ٹویٹ میں، وزیر اعظم نے کہا؛ ”جناب @NBirenSingh جی کو منی پور کے وزیر اعلی کے طور پر حلف لینے پر مبارکباد۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی ٹیم اور وہ منی پور کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائیں گے اور پچھلے پانچ سالوں میں کیے گئے اچھے کام کو جاری رکھیں گے۔“,মণিপুৰৰ মুখ্যমন্ত্ৰী হিচাপে শপত গ্ৰহণ কৰা শ্ৰী এন. বীৰেন সিঙক অভিনন্দন প্ৰধানমন্ত্ৰী +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%A8%DB%8C%D9%86%DB%81-%D9%86%DB%92-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%AD%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%D9%86%D8%AF%D9%88%D8%B3/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%AA%E0%A7%B0%E0%A7%8D%E0%A6%AF%E0%A6%9F%E0%A6%A8%E0%A6%95%E0%A7%8D%E0%A6%B7%E0%A7%87%E0%A6%A4%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%AD%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%A4-%E0%A6%95%E0%A7%8D/,نئی دہلی،27؍مارچ۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے سیاحت کےشعبے میں ہندوستان اور کروشیا کے درمیان مفاہمت نامے کو سابقہ تاریخ سےاپنی منظوری دی ہے۔ اس مفاہمت نامے سے دونوں ملکوں کو سیاحت کے شعبے میں باہمی اشتراک و تعاون بڑھانے کے لئے ادارہ جاتی میکانزم تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ اس مفاہمت نامے پر 26 مارچ 2019 کو صدر جمہوریہ ہند کے کروشیا کے دورے کے دوران دستخط کئے گئے تھے۔ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔ م ع ۔ک ا,পৰ্যটনক্ষেত্ৰত ভাৰত – ক্ৰোৱেছিয়াৰ মাজত সম্পন্ন বুজাবুজি চুক্তিলৈ কেবিনেটৰ অনুমোদন +https://www.pmindia.gov.in/ur/news_updates/%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%D9%86%DB%92-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88-%DA%A9%DB%92-%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D9%88-%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%AA%D8%B4%DA%A9/,https://www.pmindia.gov.in/asm/news_updates/%E0%A6%9D%E0%A6%BE%E0%A7%B0%E0%A6%96%E0%A6%A3%E0%A7%8D%E0%A6%A1%E0%A7%B0-%E0%A6%AA%E0%A7%8D%E0%A7%B0%E0%A6%A4%E0%A6%BF%E0%A6%B7%E0%A7%8D%E0%A6%A0%E0%A6%BE-%E0%A6%A6%E0%A6%BF%E0%A7%B1%E0%A6%B8-2/,نئیدہلی۔15نومبر ۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جھارکھنڈ کے عوام کو یوم تشکیل جھارکھنڈ کی سالانہ یادگار کے موقع پر یوم تشکیل ریاست کی مبارکباد دی ہے۔ جناب نریندر مودی نے اپنی مبارکباد کے پیغام میں کہا : “झारखंड के लोगों को राज्य के स्थापना दिवस की हार्दिक शुभकामनाएं। ’’ جھارکھنڈ کے عوام کو ان کی ریاست کے یوم تشکیل پر مبارکباد ! بھگوان برسا منڈا کے آشیر واد سے خدا کرے کہ یہ ریاست آئندہ برسوں میں ترقی اور شان وشوکت کی نئی بلندیاں سر کرے !‘‘ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ م ن ۔س ش ۔رم,ঝাৰখণ্ডৰ প্ৰতিষ্ঠা দিৱস উপলক্ষে ৰাজ্যবাসীলৈ প্ৰধানমন্ত্ৰীৰ শুভেচ্ছা