url
stringlengths 14
138
| Summary
stringlengths 39
3.22k
| Text
stringlengths 230
2.44k
|
---|---|---|
/urdu/world-53316246 | برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کی زد میں آنے والے لوگ ماورائے عدالت قتل بشمول سیاسی فائدے کے لیے قتل، تشدد، بدسلوکی، جبری مشقت اور غلامی کروانے میں ملوث ہیں۔ | برطانیہ ان 49 افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے جو برطانوی حکومت کے مطابق حالیہ سالوں میں انسانی حقوق کی 'بدترین' خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ روسی وکیل سرگئی میگنیٹسکی کے سنہ 2009 میں ہونے والے قتل میں ملوث افراد کے برطانیہ میں موجود اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے جبکہ ان کے برطانیہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اور سنہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودی حکام بھی اس پابندی کی زد میں آئیں گی۔ برطانوی پارلیمان کے دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ برطانیہ 'ڈکٹیٹروں کے غنڈوں' کے خلاف ایکشن لے رہا ہے اور ان لوگوں کو روک رہا ہے جو 'خون میں لتھڑی ہوئی ناجائز دولت' کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ افراد اور ادارے جو ان پابندیوں کی فوری زد میں آئیں گے، وہ مندرجہ ذیل ہیں: ڈومینیک راب کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کی زد میں آنے والے لوگ ماورائے عدالت قتل بشمول سیاسی فائدے کے لیے قتل، تشدد، بدسلوکی، جبری مشقت اور غلامی کروانے میں ملوث ہیں۔ اس فہرست میں روس کے محکمہ داخلہ کے ایک سابق وزیر اور سعودی انٹیلیجنس سروسز کے سابق نائب سربراہ بھی شامل ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈومینیک راب کا کہنا تھا کہ اس فہرست پر 'مسلسل نظرِثانی' کی جاتی رہے گی اور حکومت 'پہلے ہی اس میں مزید افراد کے نام شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔' جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے سعودی عرب کے ساتھ برطانیہ کے تجارتی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ 'اخلاقی ذمہ داری کا معاملہ ہے' اور 'ہم انسانی حقوق کی بہیمانہ خلاف ورزی پر چشم پوشی نہیں کر سکتے۔' میگنٹسکی ماسکو میں مقیم ایک وکیل اور آڈیٹر تھے۔ انھوں نے روسی ٹیکس حکام پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے میگنٹسکی کی کلائنٹ برطانوی فرم ہرمیٹیج کیپٹل مینیجمنٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ اس کے بعد ان کی پولیس کی حراست میں ہلاکت ہوگئی۔ انھوں نے پولیس کی حراست میں 11 ماہ گزارے جس دوران انھیں کئی زخم آئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ ان پر ہونے والے تشدد کا نتیجہ تھا۔ جمال خاشقجی سعودی حکومت کے ناقد تھے اور انھیں سعودی ایجنٹس کی ایک ٹیم نے استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے کے اندر 2018 میں قتل کر دیا تھا۔ دسمبر 2019 میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس الزام میں پانچ لوگوں کو موت کی سزا اور تین دیگر کو قید کی سزا سنائی۔ مگر غیر ملکی حکومتوں اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ 'انصاف کی خلاف ورزی ہے۔' برطانیہ کے مطابق یہ دونوں جنرل من آنگ ہلینگ اور سو وین غیر قانونی قتل، تشدد، جبری مشقت اور منظم ریپ کے ذمہ دار ہیں۔ |
/urdu/world-59539553 | امریکہ تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق، لاکھوں بوڑھے امریکی ہر سال دھوکہ دہی کا شکار ہوتے ہیں، جس سے سالانہ تین بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔ ’20 برس کے کسی فرد کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 60 یا 70 کی دہائی میں کسی کے پاس متعدد سرمایہ کاری ہوسکتی ہے اور ایک گھر جس کی قیمت ان کی سرمایہ کاری سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ہے۔‘ | تین منٹ کی ویڈیو میں اس معمر شخص کی صلاحیتوں اور وژن کی تعریف کی گئی ہے۔ ویڈیو میں واضح کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی کمپنی ، گیلاگر فنانشل گروپ، اور اپنی کتاب ’جیسس کرائسٹ، منی ماسٹر‘ کے ذریعے ایک ہزار سے زائد افراد کو مالی طور پر خودمختار بنانے میں رہنمائی کی ہے۔ سکیم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ آمدنی جائز کاروباری سرگرمیوں سے آتی ہے (مثال کے طور پر مصنوعات کی فروخت یا کامیاب سرمایہ کاری) اور وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ دوسرے سرمایہ کار اس پیسے کا ذریعہ ہیں۔ کاروبار جاری رکھنے کے لیے یہ سکیمیں نئے ممبران کے ایک مستقل سلسلے پر انحصار کرتی ہیں جو ان لوگوں کو پیسے دے رہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے سرمایہ کاری کی ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر جعلسازی عیاں ہو جاتی ہے۔ گیلاگر نے اپنے اہداف سے ان کی سرمایہ کاری پر پانچ اور آٹھ فیصد سالانہ منافع کا وعدہ کر رکھا تھا تاہم ان سرمایہ کاروں کو کچھ نہ مل سکا اور ولیم گیلاگر نے زیادہ تر رقم ذاتی اور کاروباری اخراجات کے ساتھ ساتھ سابق سرمایہ کاروں کو ادا کرنے کے لیے استعمال کی۔ اگرچہ پونزی سکیموں کا نام 1920 کی دہائی کے ایک مشہور دغاباز کارلو پونزی کے نام پر رکھا گیا ہے، لیکن ایسی دھوکہ دہی والی سکیموں کا کھرا کم از کم 19ویں صدی کے وسط تک جا ملتا ہے۔ لیکن گیلاگر کے تقریباً 200 متاثرین ایک مختلف رجحان کو ظاہر کرتے ہیں: سینئیر فراڈ (معمر افراد کے ساتھ دھوکہ) ایک ایسا جرم ہے جو امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے خیال میں ہر سال اربوں ڈالر نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ولیم گیلاگر کے متاثرین میں 70 کی دہائی میں لیمفوما میں مبتلا ایک خاتون بھی شامل تھیں، جس نے پانچ لاکھ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ مقامی پولیس افسران کو بھی نشانہ بنایا۔ ’20 برس کے کسی فرد کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 60 یا 70 کی دہائی میں کسی کے پاس متعدد سرمایہ کاری ہوسکتی ہے اور ایک گھر جس کی قیمت ان کی سرمایہ کاری سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ہے۔‘ فراڈ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے کیسز کا صرف ایک حصہ رپورٹ کیا جاتا ہے اور وہ معاملات جو عدالت میں جاتے ہیں، متاثرین کو ان کی رقم واپس ملنے کا امکان نہیں ہوتا۔ دھوکہ دہی کرنے والا اکثر فنڈز آتے ہی انھیں خرچ کر دیتا ہے یا انھیں ادائیگیاں جاری رکھنے یا غیر ملکی کھاتوں میں چھپانے کی کوشش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان میں ایک 74 برس کی خاتون سوسن پپی بھی شامل تھیں، جس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اس سکینڈل میں لاکھوں ڈالر کا نقصان کیا۔ |
/urdu/world-52663116 | ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ہمارے معاشرے میں ویسے ہی سرایت کر جائے گا جیسے کہ ایڈز کی وجہ بننے والا ایچ آئی وی سرایت کر چکا ہے۔ | عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ کووڈ 19 کبھی بھی ختم نہ ہو۔ ادھر اقوامِ متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے رہا ہے اور اس کی وجہ کئی ممالک میں ذہنی امراض کے علاج پر عدم توجہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی حالات کے شعبے کے ڈائریکٹر مائیکل رائن نے کورونا کے بارے میں یہ خدشہ بات بدھ کو جنیوا میں ایک ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ 'ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس ہماری کمیونٹی میں ایک اینڈیمک بن جائے اور ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس کبھی ختم نہ ہو۔' دنیا میں مئی کے وسط تک تین لاکھ کے قریب افراد کوورنا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد 43 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر رائن کا کہنا تھا کہ 'ایچ آئی وی ختم نہیں ہوا ہے مگر ہم نے اس وائرس کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کوئی بھی یہ پیشنگوئی نہیں کر سکتا کہ کووڈ-19 کی بیماری کا خاتمہ کب ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ویکسین کے بغیر لوگوں میں اس وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت درکار سطح تک آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے رہا ہے دنیا بھر میں کوورنا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی 100 سے زیادہ کوششتیں جاری ہیں مگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ کبھی نہ بن سکے گی۔ مائیکل رائن کا کہنا تھا کہ اگر ویکسین بن بھی جاتی ہے تو وائرس پر قابو پانے کے لیے انتہائی بڑے پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب بھی دنیا میں خسرہ جیسی کئی بیماریاں ہیں جن کی ویکسین موجود ے مگر ان کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ اقوامِ متحدہ نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا فرنٹ لائن طبی عملے سے لے کر اپنی نوکریاں کھونے والوں اور یا اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم سہنے والوں سے لے کر گھروں میں قید بچوں اور طالب علموں تک، سب لوگوں کے لیے ذہنی دباؤ اور کوفت کا باعث ہے۔ جمعرات کو جاری ہونے والے ایک پالیسی بیان میں اقوامِ متحدہ نے دنیا کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے وبا سے نمٹنے کے منصوبوں میں ذہنی صحت کے علاج اور عوام کے لیے نفسیاتی امداد فراہم کرنے کے طریقے بھی شامل کریں۔ اچھی ذہنی صحت ایک پھلتے پھولتے معاشرے کے لیے ضروری ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق ان اقدامات کے بغیر وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ذہنی صحت کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔ |
/urdu/world-61302247 | اس خبر کو کیوں اور کس نے روکا؟پاکستان میں پچاس ساٹھ چینل ہیں، درجنوں اخبار، کئی ڈجیٹل پلیٹفارم اور ہزاروں نیوز ٹیوبر ہیں۔ کتنا متحرک میڈیا ہے، کتنا آزاد لیکن تعداد کی بنیاد پر نہ آزادی اور نہ ہی معیار کو جانچا جا سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں ’اگر آپ کو سمجھنا ہو کہ دراصل کنڑول کس کے ہاتھ میں ہے تو ان قوتوں کی طرف دیکھو جن پر نہ تنقید ہوتی ہے اور نہ ہی کھل کر بات۔‘ | بی بی سی اردو نے اس برس پاکستان، انڈیا، افغانستان اور بنگلہ دیش کے صحافیوں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے ملکوں میں آزادی صحافت کی صورتحال کیا ہے اور کیا میڈیا پر دباؤ معاشرے میں رائج جہوری اقدار کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ صحافی عنبر رحیم شمسی نے، جو آج کل کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبہ صحافت میں ڈائریکٹر کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اس حوالے سے اپنے خیالات اور مشاہدات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ دیکھو، پاکستان میں پچاس ساٹھ چینل ہیں، درجنوں اخبار، کئی ڈجیٹل پلیٹفارم اور ہزاروں نیوز ٹیوبر ہیں۔ کتنا متحرک میڈیا ہے، کتنا آزاد لیکن تعداد کی بنیاد پر نہ آزادی اور نہ ہی معیار کو جانچا جا سکتا ہے۔‘ اس حوالے سے برطانوی ناول نگار اور صحافی جارج آرویل کی ایک مشہور کہاوت کا حوالہ دیتے ہوئے عنبر شمسی نے کہا کہ ’اگر آپ کو سمجھنا ہو کہ دراصل کنڑول کس کے ہاتھ میں ہے تو ان قوتوں کی طرف دیکھو جن پر نہ تنقید ہوتی ہے اور نہ ہی کھل کر بات۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی ادارہ یا صحافی ریاست کی طے شدہ حدود کو پار کر لے تو ان کو قانونی کارروائیوں، گرفتاریوں، گمشدگی، یا تشدد کے ذریعے واپس حدود میں زبردستی کھینچا جاتا ہے۔ تو باقی صحافی یا میڈیا ادارے جو اپنا گھر یا کاروبار چلانا چاہتے ہیں، جو نظریاتی نہیں پھر وہ بھی دس بار سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اور حال ہی میں نو اپریل کی رات کو وزیر اعظم ہاؤس میں اس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ کیا ہوا، اس پر تو مین سٹریم میڈیا پر کھل کر بات ہی نہیں ہوئی۔ جس روز پاکستانی قوم تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے یرغمال ہوئی، اصل واقعات تو راز ہی رہے۔ اس ایک مثال سے جارج آرویل کا جملہ پھر یاد آ جاتا ہے کہ ’اس خبر کو کیوں اور کس نے روکا؟‘ وہ کہتی ہیں کہ میڈیا کی آزادی اس لیے بھی اہم ہے کہ ’اگر میڈیا آزاد نہیں تو اس ملک کا سماج بھی آزاد نہیں کیونکہ میڈیا ہی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے، ان کا حساب کتاب کرتا ہے۔‘ ’جب صحافیوں کی آواز دبائی جاتی ہے تو آپ یہ سوچیے کہ جو کمزور طبقے کے لوگوں کے حقوق ہیں، ان کی جو آزادی ہے، ان سب کا گلا گھونٹا جاتا ہے کیونکہ صحافی عام لوگوں کے ہی سوالوں کو آگے رکھتے ہیں، سرکار پر سوال اٹھاتے ہیں تاکہ سرکار صحیح ڈھنگ سے کام کرے اور صرف ایک خاص طبقے کو فائدہ نہ پہنچائے۔ |
/urdu/regional-58887858 | انڈیا میں حواتین کے حوالے سے ایک وزیر کے بیان پر تنازعے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ عورتوں کے روایتی کردار میں تبدیلی کس طرح معاشرے میں تبدیلی کا سبب بن رہی ہے اور شادی اور بچے پیدا کرنے کا فیصلہ خود عورت کا ہی ہونا چاہیے۔ | وزیر کی جانب سے جاری بیان میں لکھا گیا ہے کہ 'مغربی معاشرہ انفرادیت کو فروغ دیتا ہے جبکہ بھارتی معاشرہ اجتماعیت کے بارے میں بات کرتا ہے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون شامل ہوتا ہے اور خاندان سماجی ڈھانچے کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے، اس لیے انڈیا اور ایشیائی لوگ اپنے خاندان کے لوگوں کا زیادہ خیال رکھتے ہیں'۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ تقریر میں 'نوجوانوں کی شادی نہ کرنے اور بچے پیدا کرنے سے بچنے' کی ان کی بات سروے پر مبنی تھی۔ ان کے مطابق ’یوگو منٹ سی پی آر ملینیئل سروے‘ سے پتہ چلا ہے کہ 30 سال سے کم عمر کے لوگ شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور انیس فیصد وہ ہیں جو بچے چاہتے ہیں لیکن شادی نہیں کرنا چاہتے۔‘ اس سے قبل اتوار کو انہوں نے کہا تھا کہ ’ماڈرن انڈین خواتین کنواری رہنا چاہتی ہیں، شادی کے بعد بچے نہیں پیدا کرنا چاہتیں اور سروگیسی کے ذریعے بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ یہ ہماری سوچ میں ایک بڑی تبدیلی ہے جو اچھی نہیں ہے۔‘ سوزن کہتی ہیں کہ ’وزیرِ موصوف کا کہنا تھا کہ ذہنی مسائل اور دباؤ کے شکار مرد زیادہ ہیں تاہم ایسا اس لیے ہے کیونکہ عورتیں خود اپنے فیصلے لے رہی ہیں کیونکہ اگر ایک عورت اپنی سہولت کے مطابق کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ معاشرے اور مردوں کو ناگوار گزرتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کوئی عورت شادی کرتی ہے تو اسے بچہ کب پیدا کرنا ہے، یہ فیصلہ اس کا ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ انڈین عورت کا شادی کرنا ضروری ہے، یہ بھی غلط ہے کیونکہ یہ ایک عورت کا فیصلہ اور اس کی خواہش ہونی چاہیے'۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ماں کے کردار کو رومانوی انداز میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ دراصل بہت محنت کا کام ہے۔ ایک ہی وقت میں، تمام ذمہ داری ایک ماں پر ڈال دی جاتی ہے کیونکہ انڈین معاشرے میں مشترکہ طور پر ماں اور باپ کا ساتھ مل کر بچے کی پرورش کرنے جیسا کوئی تصور نہیں ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’انڈین معاشرے میں جہاں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے پرائے گھر، روایات، رسومات اور سسرال کی دیکھ بھال کے سبق سکھائے جاتے ہیں ایسے میں اگر عورت صدیوں سے جاری خاندانی سانچے میں ڈھلنے کے علاوہ کوئی فیصلہ کرتی ہے تو پھر اس پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔‘ |
/urdu/regional-56783454 | اسلام آباد نے افغان امن عمل میں سہولت فراہم کر کے اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس صورت میں اصولی فیصلے کی حمایت کرتا ہے جس میں ’افغانستان میں موجود سٹیک ہولڈرز کے تعاون کے ساتھ فوجی انخلا ذمہ داری سے کیا جائے گا۔‘ | امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا۔ پاکستان بھی اس پیش رفت کی باریکی سے نگرانی کر رہا ہے۔ اس فیصلے سے جن ملکوں پر سب سے زیادہ اثر پڑ سکتا ہے، ان میں پاکستان شامل ہے۔ اسلام آباد نے افغان امن عمل میں سہولت فراہم کر کے اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس صورت میں اصولی فیصلے کی حمایت کرتا ہے جس میں ’افغانستان میں موجود سٹیک ہولڈرز کے تعاون کے ساتھ فوجی انخلا ذمہ داری سے کیا جائے گا۔‘ گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان نے افغان حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھنے کے لیے طالبان کو قائل کرنے کا خاموش مگر اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسلام آباد کی مکمل حمایت کے بغیر بین الافغان مذاکرات ممکن نہ ہو پاتے۔ پاکستان کی مدد سے جولائی 2015 میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلی بار براہ راست مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے۔ پھر یہ امن عمل بیچ راستے اس وقت رک گیا جب طالبان نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کا اعلان کیا۔ اس سے طالبان میں اندرونی طور پر طاقت کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ اس وقت اسلام آباد کی کوشش ہے کہ امن کے لیے جاری کوششوں کو برقرار رکھا جائے اور مزید کامیابیاں حاصل کی جائیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ہمارے مفاد میں ہے۔ ہم افغانستان میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برداری کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔‘ ’افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر پاکستان کے بھی کچھ خدشات ہیں اور اسلام آباد چاہتا ہے کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری ان خدشات پر غور کرے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ انڈیا کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ضرورت ہے اور ملک میں موجود افغان پناہ گزین کی واپسی کے مسئلے کو بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کابل حکومت پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار اسلام آباد کو قرار دیتی ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن موجودہ امن عمل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے باوجود مکمل طور پر ملک پر اعتماد نہیں کرتا اور اب طالبان پاکستان سے اتنا قریب نہیں جتنا ایک وقت میں ہوا کرتے تھے۔ پاکستان مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔‘ |
/urdu/pakistan-49784040 | پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے کہا ہے کہ انھوں نے مذاکرات سے کبھی بھی انکار نھیں کیا کیونکہ انھیں بندوق سے نفرت ہے۔ | پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے ہونے کے باوجود ان کے ساتھ جیل میں دہشت گروں سے برا سلوک کیا گیا اور انھیں وہاں ہائی سکیورٹی زون میں رکھا گیا جہاں سے انھیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ محسن داوڑ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں انھیں سینٹرل جیل پشاور میں رکھا گیا تھا جہاں ایک روز کچھ لوگ آئے اور ان کے سامان کی تلاشی لینے لگ گئے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس چیز کی تلاشی لے رہے ہیں تو جیل کے عملے نے کہا کہ ان کے سامان میں کاغذ اور قلم تلاش کر رہے ہیں کیونکہ ان پر کاغذ اور قلم رکھنے پر بھی پابندی عائد تھی۔ انھوں نے کہا کہ پشاور جیل سے انھیں ہری پور جیل منتقل کر دیا گیا جہاں انھیں ہائی سکیورٹی زون میں رکھا گیا جو بنیادی طور پر دہشت گردوں کے لیے قائم کیا گیا ہے اور یہ زون سکیورٹی اہلکاروں اور جیل عملے کے زیر انتظام رہتا ہے۔ جب محسن داوڑ سے پوچھا گیا کہ کیا معاملات طے کرنے کے لیے جرگے نے بھی کوئی کردار ادا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب سے پی ٹی ایم کا سلسلہ شروع ہوا ہے اداروں کے ساتھ رابطوں کے لیے جرگہ جاری رہا اور انتخابات سے پہلے اسی جرگے کی وجہ سے ہی رزمک کا جلسہ ملتوی کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے مذاکرات سے کبھی بھی انکار نھیں کیا اور مذاکرات کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے دوسرا راستہ تو بندوق کا ہے جس سے انھیں نفرت ہے اور وہ آنے والی نسلوں کو عدم تشدد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ہوا ہے اور اگر ان پر ایک گولی بھی ثابت ہو جائے تو انھیں ڈی چوک پر پھانسی دی جائے کیونکہ انھیں تشدد سے نفرت ہے کیونکہ یہاں لوگوں کو تشدد نے تباہ کیا ہے اور وہ اسی تشدد کے خلاف نکلے ہیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ وہ میڈیا سے بات کر رہے ہیں اور جہاں تک مشروط ضمانت کی بات ہے اس بارے میں وہ اپنے وکلا سے مشاورت کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جہاں تک پروڈکشن آرڈر کی بات ہے تو اس خطے میں رہنے والے لوگوں کو اپنی حیثیت معلوم ہو گئی ہے اور جو لوگ بات کرتے ہیں تو ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہو جاتے ہیں۔ ’افسوس اس بات پر ہے کہ ایک پختون سپیکر بھی ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر سکا۔‘ محسن داوڑ اور علی وزیر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ان کے بیانیے میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور وہ جس طرح پہلے اپنے حقوق اور عدم تشدد کی بات کر رہے تھے اب بھی اس پر قائم ہیں۔ |
/urdu/regional-54956393 | رمیش نائڈو ناگوتھو کی ٹویٹ کو سوشل میڈیا پر جب شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انھوں نے اس ٹویٹ کو ہٹا دیا اور شام کو تیلگو زبان میں یہ ٹویٹ بھی کیا کہ 'جس آئی ٹی سیل والے کی جانب سے یہ غلطی ہوئی تھی اسے ان کے کام سے ہاتھ جوڑ کر ہٹا دیا گیا ہے۔' | اسی روز انڈیا کی وسطی ریاست آندھر پردیش میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی سیکریٹری رمیش نائڈو ناگوتھو نے گوڈسے کی تعریف کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی جس میں انھوں نے لکھا: ’آج ان کی برسی پر میں ناتھو رام گوڈسے کو احسان مندی کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ بھارت بھومی (سرزمین ہند) پر پیدا ہونے والے سچے اور عظیم ترین وطن پرستوں میں سے ایک تھے۔‘ ان کی ٹویٹ کو سوشل میڈیا پر جب شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انھوں نے اس ٹویٹ کو ہٹا دیا اور شام کو تیلگو زبان میں یہ ٹویٹ بھی کیا کہ ’جس آئی ٹی سیل والے کی جانب سے یہ غلطی ہوئی تھی اسے ان کے کام سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘ ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں کئی صارفین نے لکھا کہ جب پہلی ٹویٹ انگریزی زبان میں کی تھی تو وضاحت بھی انگریزی میں ہی ہونی چاہیے۔ ہندی زبان میں کیے جانے والے اس ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’ان لوگوں نے اپنے بیان واپس لے لیے ہیں اور معافی مانگی ہے۔ تاہم عوامی زندگی اور بی جے پی کے وقار اور نظریے کے مخالف ان بیانوں کو پارٹی نے سنجیدگی سے لیا ہے اور تینوں بیانوں کو ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ اسی زمانے میں پارلیمانی انتخابات کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس کے متعلق سخت موقف اپنایا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں، یہ نہیں پتا چل سکا۔ گذشتہ روز جہاں بڑے پیمانے پر بی جے پی رہنما کی ٹویٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں کچھ لوگ ان کی بات سے متفق نظر آئے۔ راکیش شرما نامی فلم ساز نے لکھا کہ آندھر پردیش میں بی جے پی کے سیکریٹری ایک جانب تو گوڈسے کو ’آج تک کا پیدا ہونے والا عظیم ترین محب وطن‘ کہتے ہیں اور دوسری جانب مہاتما گاندھی کو ’آزادی کی لڑائی کا عظیم ہیرو کہتے ہیں۔‘ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ یہ ’نظریاتی ذہنی خلل ہے؟ یا پھر سیاسی منافقت ہے؟‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان انتخابات میں ایسی باتیں کرنے والے لوگوں کو جواب دے دیا جائے گا۔ اور ان کی جیت کی صورت میں یہ جواب مل گیا کہ ان کے خیالات کے حامیان بہت سے ہیں۔ گذشتہ روز صحافی اور کارکن پرشانت کنوجیا نے لکھا تھا: 'آزاد ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کو 15 نومبر کو پھانسی دی گئی تھی۔ انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے مسٹر گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ گرچہ ہم سزائے موت کے حق میں نہیں ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گوڈسے پہلا دہشت گرد تھا۔' |
/urdu/world-58567882 | پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر اپنے والد کے ہاتھوں اغوا ہونے والی ایک لڑکی 14 برس کے بعد امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر اپنی ماں سے ملی ہے۔ | ماں بیٹی کی ملاقات کا منظر پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر اپنے والد کے ہاتھوں اغوا ہونے والی ایک لڑکی 14 برس کے بعد امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر اپنی ماں سے ملی ہے۔ سنہ 2007 میں جیکولین ہرنینڈس چھ سال کی عمر میں لاپتہ ہوگئی تھیں اور یہ معمہ اب تک حل نہیں ہوا تھا لیکن پھر رواں ماہ انھوں نے خود اپنی والدہ سے فیس بک پر رابطہ کیا۔ انھوں نے اپنی والدہ اینجلیکا وینسز سالگاڈو کو بتایا کہ وہ میکسیکو میں ہیں۔ اب جیکولین کی عمر 27 برس ہے۔ ماں بیٹی کی ملاقات پیر کے روز ٹیکساس میں ہوئی۔ ماں بیٹی کی یہ ملاقات ریاستی اور وفاقی سطح پر موجود بہت سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں سے ممکن ہوئی۔ ہرنینڈس کا تعلق کلرمونٹ فلوریڈا سے ہے، انھیں ان کے والد پیبلو ہرنینڈس نے مبینہ طور پر 22 دسمبر 2007 کو ان کے گھر سے اغوا کیا تھا۔ پیبلو ہرنینڈس اس وقت کہاں ہیں یہ واضح نہیں تاہم ان کے خلاف سنگین جرم کا ارتکاب کرنے پر وارنٹ جاری ہوا ہے۔ دو ستمبر کو وینسزسالگاڈو نے کلرمونٹ پولیس سے رابطہ کیا اور کہا کہ ان سے ایک لڑکی نے آن لائن رابطہ کیا ہے اور وہ ان کی بیٹی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ فلوریڈا اور ٹیکساس کی پولیس اور محکمہ داخلہ کے سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے ایک منصوبہ تیار کیا تاکہ وہ اس نوجوان لڑکی کی وینسز سالگاڈو سے ملاقات کے دوران اس کی شناخت کی تصدیق کریں۔ فیس بک پر ہونے والے رابطے میں ہرنینڈز اور وینسز سالگیڈو نے ٹیکساس میں لاریڈو کے داخلی مقام پر ملنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا۔ بہت جلد ہی دستاویزات نے ثابت کر دیا کہ وہ ان کی بیٹی ہیں۔ پیر کو جاری بیان میں کلرمونٹ پولیس کے چیف چارلس براڈ نے کہا کہ ایک مشترکہ کوشش تھی جس سے بیٹی 14 سال بعد ماں سے ملی۔ بی بی سی کی جانب سے کلرمونٹ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی فوری ردعمل نہیں مل سکا۔ |
/urdu/regional-51408831 | افغانستان میں ہلاک ہونے والے دو افراد کی شناخت پاکستانی طالبان کے سابقہ نائب سربراہ شیخ خالد حقانی اور اہم طالبان کمانڈر قاری سیف یونس کے نام سے ہوئی ہے، وہ کابل میں کیا کر رہے تھے یہ تاہم معلوم نہیں ہو سکا۔ | وہ کابل میں کیا کر رہے تھے اور انھیں کس نے قتل کیا یہ تاحال ایک راز ہے جس کے تانے بانے اس خطے میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسند گروہوں کے باہمی تعلق سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان پر پاکستان میں اہم سیاستدانوں پر ہونے والے حملوں اور سنہ 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے جس میں 150 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جن میں سے بیشتر نوعمر بچے تھے۔ گذشتہ رات پاکستانی طالبان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں دونوں افراد کی شناخت اور ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے تاہم اس حوالے سے طالبان نے بہت کم تفصیلات فراہم کی ہیں۔ شدت پسندوں کے ایک ذریعے کے مطابق یہ دونوں طالبان کی مرکزی قیادت کے حکم پر کابل میں ایک ’خفیہ ملاقات‘ کے لیے موجود تھے اور بظاہر مشرقی صوبے پکتیکا سے دارالحکومت آئے تھے تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ کس سے ملنے والے تھے۔ پاکستانی خفیہ اداروں کے ایک ذریعے کے مطابق ان افراد کی لاشیں انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کے قریبی علاقے سے ملیں۔ یہ وہ ہوٹل ہے جہاں حالیہ برسوں میں دو مہلک حملے ہو چکے ہیں۔ یہ ہلاکتیں گذشتہ ہفتے ہوئیں لیکن تحریکِ طالبان پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدا میں قیادت نے اس خبر کو چھپانے کا حکم دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق جہاں طالبان کو ان ہلاکتوں سے دھچکا پہنچا ہے وہیں وہ ان سوالات کا سامنا کرنے کو بھی تیار نہیں کہ یہ دونوں افراد کابل میں کر کیا رہے تھے۔ پاکستانی طالبان کے اہم رہنماؤں کا کابل کا سفر کرنا غیرمعمولی ہے۔ یہ گروپ افغان طالبان سے بالکل الگ ہے اور ان کے مقاصد اور حامی بھی ایک نہیں۔ افغان طالبان جہاں ملک میں امریکی قیادت میں موجود غیر ملکی افواج کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں وہیں پاکستانی طالبان کی کارروائیوں کا ہدف پاکستانی حکام اور تنصیبات ہیں۔ پاکستان پر ایک عرصے سے افغان طالبان کی پشت پناہی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغان حکومت نے جواباً پاکستانی طالبان سے تعلق استوار کیا ہے۔ شدت پسندوں کے ذرائع نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں سے منسلک مسلح افراد یا شدت پسند ان ہلاکتوں کے ذمہ دار ہوں۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ دسمبر 2018 میں قندھار میں ایک خودکش حملے میں ایک ایسے ہی بلوچ شدت پسند رہنما کو ہلاک کیا گیا تھا جو افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ پاکستانی طالبان کے ذرائع کے مطابق کابل میں ہلاک کیے جانے والے دونوں افراد کی لاشیں گروپ کے حوالے کی گئیں اور رواں ہفتے انھیں کنٹر میں ایک بڑے جنازے کے بعد سپردِ خاک کر دیا گیا۔ |
/urdu/pakistan-57606318 | ڈاکٹروں نے عثمان کاکڑ کی موت کی وجوہات کے بارے میں تاحال اپنی رائے نہیں دی اور انھوں نے اپنی رائے کو کیمیکل اور ہسٹوپیتھالوجی رپورٹ آنے تک محفوظ کر لیا ہے تاہم ان کے خاندان اور سیاسی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں۔‘ | ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میں نے ان کی دماغی حالت دیکھی جس کا ایک پیمانہ ہوتا جسے گلاسگو کوما سکیل کہتے ہیں، ’یہ تین سے 15 تک ہوتا ہے۔ تین کا مطلب ہے موت جبکہ 15 ہم جیسے نارمل انسانوں کا ہوتا ہے۔ عثمان کاکڑ کا چار تھا یعنی موت سے صرف ایک گریڈ کم۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے سیاسی قیادت اور دیگر اہم شخصیات سے رابطے تھے جنھیں انھوں نے رائے دیتے ہوئے بتایا کہ عثمان کاکڑ کے بچنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ ان کے سر کا جو ابتدائی زخم تھا اس میں موت کے 80 فیصد امکان تھا لیکن 24 گھنٹے بعد جب ان کی حالت خراب ہو گئی تو بچنے کے امکانات مزید معدوم ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ان کی پہلے جو ہسٹری دی گئی وہ مصدقہ نہیں تھی، اور (ہسپتال کے اُن) پروفیشنلز کے ذریعے دی گئی جو کہ ان کے خاندان کے رکن نہیں تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب ان کے خاندان کی طرف سے کچھ اور مؤقف سامنے آیا ہے۔ اگرچہ جناح پوسٹ گریجویٹ سینٹر میں پوسٹ مارٹم کے بعد چار صفحات پر مشتمل جو ابتدائی رپورٹ دی گئی اس میں موت کی وجوہات کے بارے میں رائے نہیں دی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متوفی کے لواحقین کی خواہش کے مطابق ان کو اپنی مرضی کے لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کے لیے مطلوبہ مواد دے دیا گیا ہے۔ عثمان کاکڑ کی تدفین کے موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماﺅں نے کہا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے بلکہ انھیں قتل کیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ اگر انھیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری دو خفیہ اداروں پر عائد ہو گی۔ خیال رہے کہ اس ویڈیو میں عثمان کاکڑ نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ایک ذاتی بات کرنا چاہتا ہوں جو میں نے چھ سال میں نہیں کی۔ ہم پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت اور اپنے نظریات سے دستبردار ہو جائیں، قوموں کی بات کرنا چھوڑ دیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرنا چھوڑ دیں اور جو غیر جمہوری قوتیں ہیں ان پر تنقید کرنا بند کر دیں۔‘ پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’فوج عثمان کاکڑ کے ہر قسم کی علاج معالجے کے لیے ان کے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھی۔ ہمارے وہ ادارے جن پر ہمارے دشمن الزام لگا رہے ہیں انھوں نے عثمان کاکڑ کے علاج معالجے کے تمام تر انتظامات کیے تھے۔‘ |
/urdu/world-58381103 | برازیل کے شہر اراکاٹوبا میں بینک لوٹنے کے بعد مسلح گینک نے یرغمالیوں کو انسانی شیلڈ کی طرح استعمال کیا۔ | برازیل کے شہر اراکاٹوبا میں بینک لوٹنے کے بعد مسلح چوروں نے وہاں سے باحفاظت نکلنے کے لیے یرغمالیوں کو اپنی گاڑی سے باندھا اور انہیں انسانی شیلڈ کی طرح استعمال کیا۔ مقامی لوگوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بینک لوٹنے والوں نے لوگوں کو اپنی گاڑیوں کی چھتوں اور بونیٹ (یعنی گاڑی کے سامنے والے حصے) پر باندھ دیا تھا۔ گزشتہ چند برسوں میں گولی چلانے اور لوگوں کو یرغمال بناکر انہیں بطور انسانی شیلڈ استعمال کرکے بینک لوٹنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ لٹیروں نے یرغمالیوں کو رہا کیا ہے یا نہیں لیکن سیکورٹی دستوں نے شہر کے مرکز کو واپس اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ مقامی وقت کے مطابق پیر کی صبح اراکاٹوبا شہر کے مرکز میں واقع ایک بینک پر مسلح گینگ کے ممبران نے حملہ کیا۔ بینک لوٹنے کے بعد ڈاکوؤں نے متعدد لوگوں کو یرغمال بنایا اور مقامی فوجی پولیس سٹیشن کو گھیر لیا۔ ریکارڈ ٹی وی نامی چینل سے وابسطہ صحافی یوری میکری نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے جس میں وہ دو کاریں دیکھی جاسکتی ہیں جس میں ڈاکو بینک لوٹنے کے بعد بھاگ رہے ہیں۔ پہلی کار میں ایک شخص کو کار کی چھت پر اور دوسرے شخص کو کار کے بونٹ پر باندھا ہوا ہے جبکہ دوسری کار میں ایک شخص کو کار کے سامنے والے حصے پر بٹھایا ہوا ہے۔ اس دوران آپ بندوق کی گولیوں کی آواز سن سکتے ہیں۔ دیگر ٹوئٹر صارفین کی جانب سے پوسٹ کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج میں متعدد کاروں کو شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جن میں بعض یرغمالیوں کو کاروں کے سامنے والے حصے پر باندھا ہوا ہے۔ ایک کار میں ایک شخص کار کی سن روف کے باہر ہاتھ اٹھائے کھڑا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ڈاکوؤں نے شہر کے بینک کو نشانہ بنایا۔ 2017 میں مجرموں نے شہر کے اہم مقامات کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، پولیس تھانوں پر حملہ کیا تھا اور پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیوں پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے سڑکوں کا راستہ روک لیا تھا۔ پورے منصوبے کے ساتھ کی جانی والی ان ڈکیتی کی وارداتوں کو برازیلی لوگ نئی ’کونگاشو’ کہتے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے ملک میں 1920 اور 1930 میں ہونے والی بڑے پیمانے پر ڈکیتیوں کے لیے کیا گیا تھا۔ اس طرح کی ایک حملے میں درجنوں مجرم شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض مسلح ہوتے ہیں اور ان کے اسلحے میں مشن گنیں بھی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ان کے پاس دھماکہ خيز مواد بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کی بیشتر ڈکیتیاں برازیل میں ہی ہوتی ہیں لیکن ایک واقعے میں برازیل سے تعلق رکھنے والے گینگ نے پڑوسی ملک پیراگوائے میں ایک بڑی ڈکیتی کی تھی۔ |
/urdu/pakistan-51640898 | لاہور کے سفاری پارک میں بدھ کی صبح ایک نوجوان کی باقیات ملی ہیں جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ اسے پارک میں موجود شیروں نے نشانہ بنایا ہے۔ | لاہور کے سفاری پارک میں بدھ کی صبح ایک نوجوان کی باقیات ملی ہیں جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ اسے پارک میں موجود شیروں نے نشانہ بنایا ہے۔ سفاری پارک لاہور کے ڈائریکٹر محمد شفقت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صبح کے وقت سفاری پارک کے عقب میں واقع گاؤں کے لوگ بلال نامی ایک نوجوان کی تلاش میں سفاری پارک پہنچے۔ ان کی مدد کے لیے جب پارک کا عملہ سفاری پارک میں موجود شیروں کو بند کرنے گیا تو ان کے پنجروں کے قریب لڑکے کی باقیات ملیں جن میں کپڑے اور ہڈیاں موجود تھیں۔ محمد شفقت کے مطابق ابھی انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ شیروں کا نشانہ بننے والا محمد بلال کس طرح اور کس وجہ سے اندر آیا اور ان کے مطابق اس بارے میں ابھی بات کرنا قبل از وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سفاری پارک میں اس وقت 39 شیر موجود ہیں اور یہ علم نہیں ہے کہ کس شیر نے اس لڑکے پر حملہ کیا۔ محمد بلال کے لواحقین کے مطابق بلال کی عمر تقریباً سترہ، اٹھارہ برس تھی۔ سفاری پارک کے قریب گاؤں کے لوگ اکثر و بیشتر وہاں گھاس کاٹنے کے لیے جاتے رہتے ہیں۔ پنجرے کے پاس سے لڑکے کی کپڑے دریافت ہوئے محمد بلال کے بارے میں کہا گیا کہ وہ شام کو گھر سے نکلے مگر واپس نہ آئے۔ ان کے گھر والوں کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے سفاری پارک کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے رات کے وقت یہ کہتے ہوئے مدد کرنے سے انکار کر دیا کہ اس وقت پارک میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لواحقین کے مطابق صبح کے وقت جب پارک میں عملے نے شیروں کو بند کرنے کے بعد بلال کی تلاش شروع کی تو انھیں اس کے کپڑے اور ہڈیاں ملیں۔ لواحقین کے مطابق اس واقعے کی پولیس میں رپورٹ بھی درج کروا دی گئی ہے جس کی پولیس نے تصدیق کی اور کہا کہ تفتیش کا آغاز ہو چکا ہے۔ |
/urdu/world-54921274 | امریکہ کے متوقع صدر جو بائیڈن نے مستقبل میں امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف کے اہم عہدے کے لیے سیاسی اور حکومتی معاملہ کا تجربہ رکھنے والے اپنے پرانے معتمد خاص ران کلین کو منتخب کیا ہے۔ | امریکہ کے متوقع صدر جو بائیڈن نے مستقبل میں امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف کے اہم عہدے کے لیے سیاسی اور حکومتی معاملہ کا تجربہ رکھنے والے اپنے پرانے معتمد خاص ران کلین کو منتخب کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کابینہ میں سیاست سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی دو درجن کے قریب خواتین اور متعدد سیاہ فام حضرات کے شامل ہونے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں اکثریت سیفد فام مرد حضرات کی تھی۔ ران کلین سے جو بائیڈن کی وابستگی بہت پرانی ہے اور ان کو ساتھ کام کرتے ہوئے کم از کم 40 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ سنہ 1980 کی دہائی میں ران کیلن جو بائیڈن کے ساتھ پہلے سینیٹ میں بطور معاون اور اس کے بعد جب جو بائیڈن سابق صدر اوباما کے دور میں نائب صدر بنے اس وقت ان کے چیف آف سٹاف کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ واشنگٹن کی پیچیدگیوں کی بھرپور سمجھ بوجھ رکھنے والے ران کلین وائٹ ہاؤس میں سابق صدر اوباما کے معاون کے علاوہ صدر نائب صدر الگور کے چیف آف سٹاف کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ امریکی ایوان صدر میں چیف آف سٹاف کا عہدہ انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ صدر کی روزانہ کی مصروفیات کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اسی ہی وجہ سے اس عہدے پر تعینات شخص کو وائٹ لاؤس کا گیٹ کیپر بھی کہا جاتا ہے۔ اس عہدے کا اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاتا ہے کہ اس پر نامزد ہونے والے شخص کو سینیٹ سے توثیق حاصل کرنا پڑتی ہے اور اس کے لیے اس کو سینیٹ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ اور مقتدر امریکی اخبارات میں جن لوگوں کے جو بائیڈن کی کابینہ میں شامل ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ان میں خواتین کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ مختلف رنگ اور نسل کے لوگوں کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔ جو بائیڈن خود بھی سنہ 2019 میں شائع ہونے والے ایک اپنے ایک مضمون میں اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکی سکولوں کے کلاس رومز اور عدالتوں کے کمروں سے لے کر وفاقی سطح پر کابینہ تک سب جگہوں پر امریکہ میں پائے جانے والے معاشرتی تنوع کی عکاسی بھر پور طریقے سے ہونی چاہیے۔ امریکی وزارتِ خارجہ یا سیکریٹری آف سٹیٹ کے لیے جن لوگوں کے نام پر اطلاعات کے مطابق غور کیا جا رہا ہے ان میں سوزن رائرس کا نام بھی شامل ہے۔ جو بائیڈن جب اپنے نائب صدر کے نام کا انتخاب کر رہے تھے تو اس وقت سوزن رائرس کا نام بھی زیر غور آیا تھا۔ سوزن رائس سابق اسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ اور امریکہ کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ |
/urdu/regional-50800134 | انڈیا کے دارالحکومت دلی میں رات گئے تک مقامی پولیس کے صدر دفتر کے باہر احتجاج ہوا جس کے بعد پولیس نے اتوار کو گرفتار کیے گئے 50 طلبہ کو رہا کر دیا ہے۔ طلبہ کی رہائی کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا ہے۔ | انڈیا کے دارالحکومت دلی میں رات گئے تک مقامی پولیس کے صدر دفتر کے باہر احتجاج ہوا جس کے بعد پولیس نے اتوار کو گرفتار کیے گئے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے 50 طلبہ کو رہا کر دیا ہے۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر سے اب احتجاج ختم کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اتوار کی شام دلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے کچھ طلبہ کو پرتشدد مظاہرے کرنے اور شہری بسوں سمیت شیگر شہری املاک کو آگ لگانے کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔ تاہم پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس اتوار کی شام جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں زبردستی داخل ہوئی اور ملک میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو نشانہ بنایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے آنسو گیس اور ڈنڈوں کا استعمال اس وقت کیا جب طلبہ نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا تھا اور املاک کو آگ لگا دی تھی۔ یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔۔ دلی کے وزیرِ اعلیٰ اروِند کیجریوال نے مظاہرین سے احتجاج کے دوران پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ اس کے بعد طلبا نے آشرم کے نزدیک دلی فرید آباد روڈ کو بند کر دیا۔ اس سے قبل جامعہ کے طلبا نے 13 دسمبر کو بھی مارچ کرنے کی کوشش کی تھی مگر پولیس نے انھیں رکاوٹیں کھڑی کر کے روک دیا تھا۔ دلی میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار مرزا اے بی بیگ کے مطابق جنوبی دلی میں آشرم اور سکھدیو وہار کے درمیان متھرا روڈ بند کر دی گئی ہے جس سے مسافروں کو اپنی منازل پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے نامہ نگار کے مطابق ’جب میں 4:30 بجے دفتر سے نکلا تو مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا پیش آنے والا ہے۔ لیکن جب متھرا روڈ پر پہنچا تو دیکھا کہ بہت ٹریفک جام ہے۔ ساری بسیں رکی ہوئی ہیں اور ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ وہاں سے گاڑیوں کو دوسری جانب رنگ روڈ پر موڑ دیا گیا جہاں سے چلتے ہوئے، اوکھلا سبزی منڈی ہوتے ہوئے جب میں جامعہ کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ سکھ دیو وہار میٹرو سٹیشن بھی بند کر دیا گیا ہے۔ نامہ نگار کے مطابق جامعہ کے طلبہ نے کہا ہے کہ وہ پر امن مظاہرے کر رہے تھے ان کا کسی قسم کے تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین نے ڈی ٹی سی بسوں کو نذر آتش کیا اور فائر ٹینڈر کو نقصان پہنچایا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر محمد سہراب نے نامہ نگار مرزا بیگ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کی کارروائی میں ایک طالبعلم کی ہلاکت ہو گئی ہے۔ پروفیسر محمد سہراب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم ریاستی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘ |
/urdu/sport-59006823 | عین ممکن ہے کہ کھیل کے میدان میں ساتھ گزارے یہ لمحات اس وقت خان صاحب کو فیصلہ کرنے میں معاون رہے ہوں جب انھیں احسان مانی اور رمیز راجہ میں سے کسی ایک کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ چننا تھا۔ | یہ الگ بات ہے کہ برائن لار کے اٹیک کی بدولت ویسٹ انڈیز نے وہ میچ بے حد آسانی سے جیت لیا تھا مگر رمیز راجہ کی اننگز سے یہ بات صاف ہو گئی کہ خان صاحب کا 220 رنز کر کے بولنگ کی بدولت جیتنے والا فارمولا اب ذرا مشکل ہو گیا تھا۔ بعد کے ایک میچ میں نیوزی لینڈ کے خالف ایک سینچری بنا کر رمیز راجہ نے اپنی افادیت ثابت کر دی تھی اور اگر مجھے صحیح یاد ہے تو وہ آخری کیچ جس نے پاکستان کو ورلڈ چیمئن بنایا وہ بھی رمیز صاحب نے ہی پکڑا تھا جبکہ بولر عمران خان خود تھے۔ عین ممکن ہے کہ کھیل کے میدان میں ساتھ گزارے یہ لمحات اس وقت خان صاحب کو فیصلہ کرنے میں معاون رہے ہوں جب انھیں احسان مانی اور رمیز راجہ میں سے کسی ایک کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ چننا تھا۔ یہ واقعہ دہرانے کی مجھے کچھ عادت سی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ایک کرکٹر جس کی کھلاڑی کی حیثیت مسلمہ ہے ہمارے ایک بہت پسندیدہ بلکہ ایک انتہائی دلربا شخصیت تھے۔ جی ہاں یہاں اشارہ اسی رائے کی کی طرف ہے جو خان صاحب نے ’وڈے تے اوریجنل راجہ‘ یعنی وسیم حسن راجہ کے بارے میں اپنی اولین کتاب میں ظاہر کی تھی۔ کپتان اس وقت سترہ، اٹھارہ کے رہے ہوں گے جب وہ حیران و پریشان تھے یہ جان کر کہ زمان پارک کہ باہر بھی کوئی اس طرح کھیل سکتا ہے جیسا انھوں نے اس راجہ کو اس وقت ایک ٹرائل کے دوران کھیلتے دیکھا۔ وہ دیو مالائی کرداروں کی تخلیق کے دن تھے۔ جہاں ہمیں خان صاحب کی پھینکی ہوئی بال کی سنسناہٹ تمام تر شور کو چیرتے ہوئے آدھا کلومیٹر دور تک سنائی دیتی تھی وہیں جب بڑے بھائی نے یونیورسٹی گراؤنڈ سے واپسی پر وہاں بیٹھ کر ایک میچ سے محظوظ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بزرگ کا تبصرہ سنایا تو ہمارا دل فوراً اس پر یقین کرنے کو چاہا۔ ان کے منظر پہ آنے کے بہت دنوں بعد جب رمیز راجہ کو پاکستان کے انیس سال سے کم کھلاڑیوں کی کپتانی کرتے دیکھا تو خیال ہوا کے شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ نوجوان ایک اور بڑے زمان خانی کرکٹنگ خان، ماجد، جہانگیر خان سے متاثرلگتا تھا۔ خاص طور پر وہ سفید فلاپی ہیٹ جو ماجد خان کی شخصیت سے مستقل طور پہ جڑ گیا تھا۔ یہ تاثر کافی دنوں تک میرے ساتھ رہا حتی کہ رمیز راجہ نے اپنے کھیل کے انداز سے اس کو بدلا۔ وسیم راجہ جو 50 اوورز کے کھیل کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جاتے تھے کئی ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کے لیے کھیلے مگر ایک روزہ کرکٹ کے چیمئن کا تاج ان کے چھوٹے بھائی اور ایک ایسے ہم عصر کے سر پہ سجا جس نے برسوں پہلے وسیم کو دیکھ کر انگلی دانتوں میں دبا لی تھی۔ |
/urdu/regional-59101492 | این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں گذشتہ سال تقریباً 1 لاکھ 53 ہزار لوگوں نے خودکشی کی، جن میں سے تقریباً 37 ہزار یومیہ اجرت والے مزدور تھے | کورونا کا ذکر آتے ہی انڈیا میں آنکھوں کے سامنے علاج کے لیے تڑپتے لوگوں، ایمبولینسز کے شور، شمشان گھاٹوں سے اٹھتے دھویں، آکسیجن سلنڈروں کے لیے بھاگ دوڑ اور ایک شہر سے دوسرے شہر پیدل جانے والے مزدوروں کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ اب نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) نے سنہ 2020 کی 'حادثاتی اموات اور خودکشی' کی رپورٹ جاری کی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2020 میں سب سے زیادہ یومیہ اجرت والے مزدوروں نے خودکشی کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان خواتین میں خودکشی کی شرح دنیا بھر میں انڈیا میں سب سے زیادہ ہے این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں گذشتہ سال تقریباً 1 لاکھ 53 ہزار لوگوں نے خودکشی کی، جن میں سے تقریباً 37 ہزار یومیہ اجرت والے مزدور تھے۔ خودکشی کرنے والوں میں تمل ناڈو کے سب سے زیادہ مزدور تھے۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تلنگانہ اور گجرات کے مزدوروں کی تعداد ہے۔ لیکن مارچ کے آخر میں انڈیا میں مکمل لاک ڈاؤن کے بعد، ہر کسی نے مزدوروں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور ہجرت کی تصویریں دیکھی تھیں۔ کچھ ریاستی حکومتوں نے دوسری ریاستوں میں کام کرنے والے اپنے لوگوں کے لیے ٹرینوں اور بسوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ مرکزی حکومت نے غریبوں میں مفت راشن تقسیم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ لیکن محنت کشوں کے مصائب، پریشانی اور فاقہ کشی کے وسیع مسائل کے سامنے یہ کوششیں ناکافی تھیں۔ انڈیا میں سنہ 2017 سے ہر سال خودکشی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا آرہا ہے۔ سنہ 2020 میں گذشتہ سال سنہ 2019 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ انڈیا میں کورونا وبا کے دوران سکول کالج بند کر دیے گئے۔ سکولوں نے آن لائن تعلیم کے انتظامات کیے تھے لیکن لیپ ٹاپ، سمارٹ فون اور انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے طلبہ سکول چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ خودکشیوں کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ امتحان میں ناکامی کی وجہ سے بہت سے طلباء نے اپنی جان بھی لے لی۔ خودکشی کے معاملے میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کے رویے میں بھی واضح فرق ہے۔ اعداد و شمار میں کسانوں کی خودکشی کا بھی ذکر ہے، جس میں مہاراشٹر سب سے آگے ہے۔ نئے زرعی قانون کے خلاف ملک کے کچھ حصوں میں کسان گذشتہ 11 ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ہر برس مہاراشٹر میں ہزاروں کسان غربت کے سبب خودکشی کر تے ہیں تاہم، رپورٹ نے کسانوں کی خودکشی کو اس تحریک سے نہیں وابستہ نہیں کیا ہے۔ اتر پردیش آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے لیکن خودکشی کے واقعات وہاں تناسب کے لحاظ سے کم ہیں۔ |
/urdu/world-53029534 | یوگینڈا کے مشہور رفیقی نامی گوریلے کو ہلاک کرنے کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں انھیں معدوم انواع کو ہلاک کرنے کے جرم میں عمر قید یا 54 لاکھ ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ | یوگینڈا کے مشہور رفیقی نامی گوریلے کو ہلاک کرنے کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں انھیں معدوم انواع کو ہلاک کرنے کے جرم میں عمر قید یا 54 لاکھ ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ تفتیش سے پتا چلا کہ ہے رفیقی کو کسی تیز دھار آلے سے ہلاک کیا گیا جس نے اس کے اندرونی اعضا تک کو چیر کر رکھ دیا تھا۔ یوگینڈا کے پہاڑوں میں صرف 1,000 پہاڑی گوریلے زندہ بچے ہیں اور رفیقی کی ہلاکت کو یوگینڈا کے محکمۂ جنگلی حیات نے زبردست دھچکا قرار دیا ہے۔ ہلاکت کے وقت رفیقی کی عمر کا اندازہ 25 برس لگایا گیا ہے اور وہ بوینڈی نیشنل پارک میں 17 پہاڑی گوریلوں کے غول کا لیڈر تھا۔ گوریلوں کا یہ جتھا انسانوں سے مانوس ہے۔ محکمۂ جنگلات سے وابستہ بشیر ہینگی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'رفیقی کی موت کے بعد یہ غول غیر مستحکم ہوگیا ہے اور اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ سربراہ کی عدم موجودگی میں خدشہ ہے کہ کوئی ایسا سلور بیک (روپہلی پشت) اس غول کا سربراہ بن جائے گا جو انسانوں سے بالکل مانوس نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ گروپ انسانوں کے قریب آنا چھوڑ دے گا جس سے ملکی سیاحت پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ڈیکس میں رہنے والا دلچسپ گوریلا ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں پہاڑی گوریلے سیاحوں میں خاصے مقبول ہیں اور یوگینڈا کا محکمہ جنگلات سیاحوں کی آنے سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔ بسیر ہینگی نے بتایا کہ رفیقی انسانوں سے بہت مانوس تھا اور سیاح اسے بہت پسند کرتے تھے۔ تفصیلات کے مطابق رفیقی یکم جون کو غائب ہوا اور اگلے روز اس کی تلاش میں پر معمور ٹیم کو اس کی لاش ملی۔ ٹیم نے قریبی گاؤں میں موجود ایک مشتبہ شخص کا سراغ لگا کر اسے شکار کے آلات سمیت گرفتار کر لیا۔ مشتبہ شخص نے اعتراف کیا کہ وہ اور تین دوسرے افراد نیشنل پارک میں چھوٹے جانوروں کا شکار کھیل رہتے تھے اور انھوں نے رفیقی کو اپنا دفاع کرتے ہوئے اس وقت ہلاک کیا جب اس نے ان پر حملہ کیا۔ ملزموں پر گذشتہ برس پاس کیے گئے جنگلی حیات کے قانون کے تحت فرد جرم عائد کرنے کی توقع ہے۔ پہاڑی گوریلوں کی اقسام ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو، روانڈا اور یوگینڈ میں محفوظ خطوں تک محدود ہیں۔ سنہ 2018 میں انسداد شکار کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بعد پہاڑی گوریلوں کو بقائے ماحول کی عالمی انجمن، آئی یو سی این، نے معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کی فہرست میں نکال دیا تھا۔ مگر آئی یو سی این نے انھیں پھر سے ان گوریلوں کو اس فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ |
/urdu/pakistan-56330215 | نیوروسرجن آصف بشیر امریکہ سے پاکستان لوٹے تاکہ ملک میں صحت کی جدید سہولیات فراہم کر سکیں۔ انھوں نے حال ہی میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہاں مرگی (اپی لپسی) کے علاج کا ایک پیچیدہ آپریشن کیا ہے۔ | نیوروسرجن آصف بشیر بھی انہی افراد میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہاں مرگی (اپی لپسی) کے علاج کا ایک پیچیدہ آپریشن کیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے اس ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’میں امریکہ میں یہ آپریشن گذشتہ کئی برسوں سے کامیابی کے ساتھ کر رہا ہوں۔۔۔ میں اور میری اہلیہ نیورو فزیش ڈاکٹر ماہ رخ بشیر وہ سب جدید ٹیکنالوجی پاکستان میں متعارف کروانے کی کوشش کررہے ہیں جو امریکہ میں استعمال ہو رہی ہے۔‘ ڈاکٹر آصف بشیر اب گذشتہ چند برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور عملی طور پر نجی و سرکاری شعبے میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس آپریشن کے لیے دو بچوں کا انتخاب کیا جس میں ایک کا تعلق خیبر پختونخوا اور دوسرے کا بلوچستان سے ہے۔ سرجن آصف کی اہلیہ ڈاکٹر ماہ رخ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان منتقلی کا فیصلہ بڑا تھا، ذاتی زندگی کے علاوہ پیشہ ورانہ مسائل بھی تھے۔ امریکہ اور پاکستان کے صحت کے نظام میں میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہاں پر کسی مریض کے علاج کے لیے پیسہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ مگر پاکستان میں مریض کے چھوٹے اور بنیادی ٹیسٹ کروانے پر بھی سوچنا پڑتا ہے کہ مریض کے لیے یہ کروانا ممکن ہے یا نہیں۔‘ ڈاکٹر ماہ رخ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان کے خاوند کو بغیر مناسب سہولیات اور ٹیکنالوجی، جان بچانے والے آپریشن کرنے میں دقت ہورہی تھی۔ ’وقت کے ساتھ ہم نے سیکھ لیا۔ ڈاکٹر آصف بشیر نے خود ہی ضروری ساز و سامان اور آلات سرجری خریدنا شروع کردیے تھے۔‘ ’ہمارے سامنے انڈیا کا ماڈل موجود ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک انڈین ڈاکٹر امریکہ سے سیکھ کر انڈیا واپس گیا تھا۔ انھوں نے وہاں پر اوپالو کے مراکز قائم کیے تھے۔ اس وقت راجیو گاندھی وہاں پر وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے ٹیکنالوجی، پلانٹس وغیرہ پر تمام ڈیوٹی ختم کردیں تھیں۔‘ پروفسیر ڈاکٹر آصف بشیر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انڈیا میں نجی شعبے نے بڑے پیمانے پر کام کیا۔ ’جب لاگت کم ہوتی ہے تو اس کے اخراجات پر کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ انڈیا میں بھی ایسا ہوا ہے۔ اب وہ دنیا میں صحت کی سیاحت کا ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔‘ پروفسیر ڈاکٹر آصف بشیر کا کہنا ہے کہ ’اب جب میں امریکہ جاتا ہوں تو مجھے میرے ساتھی ملتے ہیں۔ وہ مجھے عطیات کے چیک دیتے ہیں، رابطے کرتے ہیں۔ ان سے میں کہتا ہوں کہ واپس اپنے ملک جائیں۔ وہاں پر ان کی ضرورت ہے۔ مگر ان کے پاس مواقع دستیاب نہیں ہیں۔‘ |
/urdu/regional-53563300 | جنگی طیارے رفال کے انڈیا پہنچنے کے بعد وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ فضائیہ کی طاقت صحیح وقت پر بڑھائی گئی ہے اور اس بارے میں ان کو فکر ہونی چاہیے جو انڈیا کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ | جنگی طیارے رفال کے انڈیا پہنچنے کے بعد وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ فضائیہ کی طاقت صحیح وقت پر بڑھائی گئی ہے اور اس بارے میں ان کو فکر ہونی چاہیے جو انڈیا کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ دنیا کے جدید ترین لڑاکا جیٹس میں شمار ہونے والے فرانسیسی جنگی طیارے رفال بدھ کو انڈیا پہنچے، جہاں ان طیاروں کو ریاست ہریانہ میں واقع امبالہ کے فضائی اڈے پر انڈین فضائیہ میں شامل کیا گیا۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’رفال طیاروں اور ہتھیاروں کی وقت پر ڈلیوری کے لیے وہ فرانس کی حکومت اور دساؤ ایویئیشن کے شکر گزار ہیں۔ فرانس نے وبا کے باوجود ڈلیوری میں دیر نہیں کی۔‘ انہوں نے لکھا کہ 'اگر کسی کو اس نئی صلاحیت کے بارے میں فکر یا تنقید کرنی چاہیے تو اسے جو ہماری علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کی نیت رکھتے ہیں۔‘ اس سے قبل انڈین فضائیہ نے فضا میں 30 ہزار فٹ کی بلندی پر ان طیاروں میں ایندھن بھرنے کی تصاویر بھی شیئر کی تھیں۔اطلاعات ہیں کہ انڈیا ان جنگی طیاروں کے لیے ہیمر مزائل خریدنے کے ایک سودے کو بھی حتمی شکل دے رہا ہے۔ ان جنگی طیاروں کو انڈین فضائیہ کے پائلٹس اڑا کر انڈیا لائے ہیں۔ طیارہ ساز کمپنی دساؤ کمپنی نے انڈین فضائیہ کے پائلٹس اور انجینئرز کو اس طیارے اور اس میں نصب میزائل اور بموں کے بارے میں مکمل تربیت فراہم کی ہے۔ پیرس میں انڈین سفارتخانے کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق فرانس نے یہ جنگی طیارے مقررہ وقت کے اندر انڈین فضائیہ کے حوالے کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پہلے بیچ میں انڈیا کو دس رفال طیارے دیے گئے ہیں۔ جن میں سے پانچ آج انڈیا پہنچے ہیں جبکہ باقی پانچ انڈین فضائیہ کے پائلٹس کی تربیت کے لیے فرانس میں ہی رہیں گے۔ یہ جنگی طیارے ایک ایسے وقت میں انڈین فضائیہ میں شامل کیے جا رہے ہیں جب لداخ کی سرحد پر خونریز ٹکراؤ کے بعد انڈیا اور چین کے درمیان زبردست کشیدگی ہے۔ دفاعی ماہرین رفال جنگی طیارے کو گیم چینجر سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان طیاروں کی شمولیت سے انڈیا کو اونچے فضائی محاذوں پر حملے کرنے میں چین پر برتری حاصل ہو گئی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس طیارے میں جو میزائل اور بم نصب ہیں، ان کے ہدف پر وار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت اسے منفرد بناتی ہے۔ انڈیا کی حکومت نواز خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے ’شارٹ نوٹس کے باوجود فرانس ہمارے رفال جنگی طیاروں کے لیے ہیمر مزائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔‘ انڈین فضائیہ نے ان خبروں کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ تردید۔ |
/urdu/pakistan-61390849 | بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عبد الطیف آفریدی نے کہا کہ حکومت عمران خان کے خلاف کوئی خاص قانونی کاروائی نہیں کر سکتی۔ ان کے مطابق عمران خان کو نظر بند کرنے کا آپشن اگرچہ موجود ہے 'لیکن میرے خیال میں حکومت ایسا کچھ نہیں کرے گی۔' | واضح رہے کہ ایک سال قبل تک کوئی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ عمران خان کی موجودہ عوامی رابطہ مہم کے دوران ایسے بیانات دیے جائیں گے۔ مثلا وہ بار بار بظاہر فوجی قیادت کے نیوٹرل ہونے کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ مگر دو روز قبل ان کی ایبٹ آباد میں کی گئی تقریر نے کئی حلقوں میں خاصی بےچینی پھیلائی ہے۔ وہ اب کھل کر اور براہ راست ہو کر بات کر رہے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اب جبکہ وزیراعظم نے عمران خان کے خلاف قانونی کاروائی کا اعلان کیا ہے تو یہ قانونی کاروائی کیا ہو سکتی ہے؟ حکومت خاموش ہے لیکن قانونی ماہرین کے مطابق ایسا ہونا مشکل ہے۔ تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عبد الطیف آفریدی نے کہا کہ حکومت عمران خان کے خلاف کوئی خاص قانونی کاروائی نہیں کر سکتی۔ 'ان کو نظر بند کرنے کا ایک آپشن تو موجود ہے کہ وہ فوج کے رینک اینڈ فائل میں تقسیم پیدا کر رہے ہیں اور عوام میں نفرت پھیلائیں اور خانہ جنگی اور کشیدگی بڑھے، اس وجہ سے وہ نظربند ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی کہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس معاملے پر انتظار کرنا ہو گا۔' عبد الطیف آفریدی نے مزید کہا کہ ایسے بیانات پر کیا کاروائی کیا جا سکتی ہے 'کیونکہ یہ تو وہ الزامات ہیں جو آئے روز دونوں ہی اطراف سے سننے کو ملتے ہیں، دونوں ہی جماعتوں کے رہنما ایسی باتیں کرتے ہیں اور فوجی قیادت یا اداروں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ اتنا آسان نہیں کہ اس بات کی بنیاد پر ان کے خلاف کاروائی کی جائے یا ان کے خلاف کوئی مخصوص الزام ثابت کیا جا سکے۔' وہ کہتے ہیں کہ عمران خان یا مریم نواز جو بھی بات کررہے ہیں 'تو یہ دیکھیں کہ ملک میں آزادی اظہار رائے کا قانون موجود ہے، لوگوں کے جمع ہونے کا قانون موجود ہے تو یہ سب تو بینادی حقوق ہیں جن کا آئین تحفظ کرتا ہے۔ اس لیے ان حقوق پر تو کارروائی نہیں ہو سکتی۔' ان کے مطابق عمران خان کو نظر بند کرنے کا آپشن اگرچہ موجود ہے 'لیکن میرے خیال میں حکومت ایسا کچھ نہیں کرے گی۔' اسی بارے میں سینیئر صحافی اورتجزیہ کار فہد حسین نے بی بی سی سے بات کی اور کسی بھی قانونی کاروائی کو مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ عمران خان کےبیانات غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہیں مگر حکومت کا ایسا کوئی بھی لائحہ عمل درست نہیں ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے بہتر ہو گا کہ ایسے بیانیے کا مقابلہ سیاسی گفتگو کے ذریعے کرے نہ کہ قانونی کاروائی سے۔' |
/urdu/sport-49353929 | کرکٹ کے کھیل نے جہاں شائقین کے لیے تفریح کا سبب ہے وہیں اس کی بدولت کینسر کے مرض کے خلاف جنگ میں قابلِ ذکر کوششیں کی ہیں جس کا آغاز عمران خان نے کینسر ہسپتال کھول کر کیا۔ | اس کے علاوہ اس مہم کا مقصد ان کی وفات کا باعث بننے والے پھیپھڑوں کے کینسر کی اس قسم کے بارے میں آگاہی ہے جس کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں اور اس کے علاج سے متعلق تحقیق کے لیے امداد جمع کرنا بھی ہے۔ سٹراس کی اہلیہ کی وفات دسمبر سنہ 2017 میں 46 برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ سٹراس نے بی بی سی کے ریڈیو پروگرام ٹیسٹ میچ سپیشل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب اسی فریب میں جیتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور ہم میں سے وہ لوگ جو کینسر سے جنگ کرتے ہوئے مریضوں کے ساتھ ہوتے ہیں ہمیں اندازہ ہوتا ہے موت تو ہمارا ہر جگہ پیچھا کرتی ہے۔‘ ایسے میں انھوں نے کرکٹ کے ذریعے امداد اکھٹی کر کے پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا فلاحی کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان نے جب سنہ 1987 میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور پھر اسے واپس لیا تو اس کی ایک وجہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے امداد اکھٹی کرنا بھی تھا۔ 10 نومبر سنہ 1989 کو انڈیا کے خلاف قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ایک میچ میں انھوں نے کینسر ہسپتال کے لیے امداد اکھٹی کرنے کی ٹھانی۔ سنہ 1992 میں پاکستان کی ٹیم کی جیت کا محرک بھی شوکت خانم ہسپتال تھا۔ انگلینڈ سے ورلڈ کپ کا فائنل جیتنے کے بعد بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ یہ فتح شوکت خانم ہسپتال بنانے کے خواب کی تعمیل میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ آسٹریلوی فاسٹ بولر گلین میکگراتھ کی اہلیہ جین میکگراتھ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ آغاز میں علاج کے بعد وہ کینسر سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن انھیں اس مرض کا سامنا دوبارہ کرنا پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس دوران جین کی ’بریسٹ کیئر نرس‘ کی بدولت انھیں اور ان کے شوہر کو بہت فائدہ ہوا۔ جین نے مکگراتھ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے لیے ایک بیغام میں لکھا تھا کہ ’میری بریسٹ کیئر نرس نے مجھے جین مکگراتھ بننے کا موقع دیا جو ایک دوست، ماں اور بیوی بھی تھی صرف ایک کینسر کی مریضہ نہیں تھی۔‘ اس سسلے میں سڈنی میں کھیلے جانے والے آسٹریلیا کے پِنک ٹیسٹ کا تیسرا دن جین مکگراتھ ڈے کہلاتا ہے جس میں کھلاڑی گلابی ٹوپیاں پہنتے ہیں اور میکگراتھ فاؤنڈیشن کے لیے امداد بھی اکھٹی کرتے ہیں۔ گلین مکگراتھ نے اینڈریو سٹراس کے ساتھ بی بی سی ریڈیو کے ٹیسٹ میچ سپیشل کے میزبان جاناتھن ایگنیو کو ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ 'کھیل تمام سرحدیں پار کر لیتا ہے اور اس میں لوگوں کو اکھٹا کرنے کی صلاحیت ہے۔ میرے لیے یہ دن بہت معنی رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھیل میں کتنی طاقت ہے۔' |
/urdu/vert-fut-60136944 | دبئی میں صحرا کی حدود میں اضافہ وہاں غذا کی فراہمی کے لیے خدشے کا باعث بن رہا ہے۔ کیا وہاں کا ماحول دوست ٹیکنالوجی سیکٹر اس خطرے کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ | اس صورتحال میں متحدہ عرب امارات کے لیے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا انتہائی اہم ہو گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صحرا کو فتح کر لیا جائے، بلکہ ان کی خواہش ہے کہ وہ زمین جو صحرا کی حدور بڑھنے کے باعث ضائع ہو گئی ہے اسے دوبارہ قابل استعمال بنا لیا جائے۔ یہ عمل قدرتی طور پر بھی ہوتا ہے لیکن متحدہ عرب امارات اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں یہ عمل انسانی سرگرمیوں کے باعث ہو رہا ہے۔ زراعت میں بے تحاشہ اضافہ یا زمین کو تعمیراتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔ سنہ 2012 میں متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد ال مکتوم نے ’یو اے ای گرین گروتھ‘ کے عنوان سے ایک حکمت عملی کا اعلان کیا جس کے مقصد ایسے ماحول کا قیام اور اسے برقرار رکھنا تھا جس کی مدد سے ریاست میں طویل مدتی ترقی ممکن ہو سکے، ایسی ترقی جو کہ ماحول دوست بھی ہو۔ ’سنہ 2000 کے بعد سے دبئی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہاں ٹیکنالوجی کے سٹارٹ اپس کو مدعو کیا جا رہا ہے تاکہ دبئی اپنی معیشت کا دار و مدار تعلیم اور اختراع پر کر سکے۔‘ اس حوالے سے کئی اقدامات لیے جا چکے ہیں۔ دبئی صنعتی سٹریٹجی 2030 کے مطابق یہاں ماحول دوست مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا جائے گا اور اس کے علاوہ دبئی سے 50 کلومیٹر جنوبی میں ایک ارب واٹ پیدا کرنے والا محمد بن راشد ال مکتوم سولر پارک دنیا کے سب سے بڑے سولر پارکس میں سے ایک ہے۔ گذشتہ برس مئی میں دبئی کے حکمران نے ’فوڈ ٹیک ویلی‘ کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کا مقصد جدید طریقے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے متحدہ عرب امارات میں غذا کی پیداور میں تین گنا اضافہ کرنا تھا۔ دبئی کے فیصلہ سازوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ درختوں کی مدد سے صحرا بندی کا زبردست مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2010 میں حکمران شیخ محمد نے ’ون ملین ٹری‘ یعنی دس لاکھ درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا تھا تاکہ صحرا بندی کے عمل کو روکا جا سکے۔ لیکن اس منصوبے کی ناکامی کے باوجود ابھی بھی درختوں کو اگانا مشرق وسطیٰ میں صحرا بندی کے عمل کو روکنے کے لیے اہم حکمت عملی کے طور پر موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے اپنے ’سعودی گرین انیشی ایٹو‘ کی مد میں اگلے دس برسوں میں دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر وہ اپنی دولت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اس عمل میں کوئی جدت لا سکیں تو یہ مستقبل میں دنیا کے دیگر علاقے جو صحرا بندی سے متاثر ہیں، ان کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ |
/urdu/sport-48938101 | سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصویر میں انڈین کرکٹ ٹیم کی گروپ فوٹو میں روی شاستری کی کرسی کے نیچے شراب کی بوتل پڑی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ | انڈین کرکٹ ٹیم سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصویر میں انڈین کرکٹ ٹیم کی گروپ فوٹو میں روی شاستری کی کرسی کے نیچے شراب کی بوتل نظر آ رہی ہے۔ اس تصویر میں روی شاستری کی بائیں طرف ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی بیٹھے ہوئے ہیں اور سپنر چہل ان کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بیس ہزار سے زیادہ بار شیئر کی جانے والی اس تصویر کے ساتھ لوگوں نے تبصرے بھی کیے ہیں جن میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ ’جب ایک کوچ اپنی ٹیم کے ساتھ فوٹو کھنچوانے آتا ہے تب کیا اسے قوائد کو نہیں ماننا ہوتا ہے؟ بی سی سی آئی کو شاستری سے جواب مانگنا چاہیے۔‘ منگل کو انڈیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان شروع ہونے والا پہلا سیمی فائنل بارش کے باعث مکمل نہیں ہو پایا تھا۔ میچ روکے جانے کے بعد یہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے لگی۔ بی بی سی نے ریورس امیج سرچ کی مدد سے پتہ لگایا کہ اصل تصویر کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی ہے اور اس تصویر سے متعلق کیے جانے والے دعوے درست نہیں ہیں۔ سو سے زیادہ افراد نے بی بی سی کو یہ تصویر بھیجی اور اس کی اصلیت معلوم کرنی چاہی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی روی شاستری کی یہ تصویر 6 جولائی 2019 کو انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ہونے والے گروپ مقابلے سے پہلے کھینچی گئی تھی۔ بی سی سی آئی نے اپنے تصدیق شدہ ٹوئٹر ہینڈل سے انڈیا اور سری لنکا کے میچ سے قبل اصل تصویر ٹویٹ کی تھی جس کے ساتھ لکھا تھا ’ایک ٹیم، ایک ملک، ایک جذبہ۔‘ کسی نے روی شاستری کو ہدف بنانے کے لیے اس تصویر کو ایڈٹ کیا اور ان کی کرسی کے نیچے شراب کی بوتل رکھ دی۔ اور وہی فرضی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے لگی۔ |
/urdu/world-52448891 | دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک میں امداد بھیجنے والے جیک ما کی اپنے ملک سمیت دنیا میں بڑھتی شہرت سے پیدا ہونے والا حسد کیا چین کے قدآور سیاستدانوں کو ان کے خلاف کر دے گا؟ جیک کے متعدد حامی اور کئی مخالفین بھی سر کھجا رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو کس مشکل میں ڈال لیا ہے۔ | جیک ما کے متعدد حامی اور بہت سے مخالفین بھی سر کھجا رہے ہیں کہ انھوں نے خود کو کس مشکل میں مبتلا کر لیا ہے۔۔۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران گذشتہ ماہ چین کے سب سے رئیس شخص نے ٹوئٹر پر اپنا اکاوٴنٹ کھولا۔ تب سے لے کر اب تک ان کی ہر پوسٹ چین اور دنیا کے ہر ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے طبی امداد کے بارے میں ہے۔ تاہم جیک ما کے متعدد حامی اور بہت سے مخالفین بھی سر کھجا رہے ہیں کہ انھوں نے خود کو کس مشکل میں مبتلا کر لیا ہے۔ جن ممالک کی جیک ما مدد کر رہے ہیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ چین کے سفارتی تعلقات کو دھیان میں رکھتے ہوئے قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے اقدام سے اپنے ملک سمیت دنیا بھر میں ان کی بڑھتی شہرت سے پیدا ہونے والا حسد چین کے قدآور سیاستدانوں کو ان کے خلاف بھی کر سکتا ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق ضروری تحقیق اور چین کے سنکیانگ صوبے سے طبی عملے کے نسخوں کا 16 زبانوں میں ترجمہ کروا کر ان ممالک کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ لیکن ما کی جانب سے بھیجی جانے والی طبی اشیا سب سے زیادہ سرخیوں میں ہیں۔ ان کی کمپنی علی بابا کو ’مشرق کا ایمازان’ بھی کہا جاتا ہے۔ ما نے اس کمپنی کا آغاز 1999 میں چین کے شہر ہانگزو میں اپنے اپارٹمنٹ سے کیا تھا۔ انھوں نے 2018 میں کمپنی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خدمت خلق پر توجہ دینا چاہتے ہیں لیکن کمپنی کے بورڈ میں ان کا مستقل مقام اب بھی برقرار ہے۔ اپنی دولت اور شہرت کے دم پر وہ اس وقت چین کے سب سے طاقتور شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ما نے ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ وہ لاطینی امریکہ کے 22 ممالک کو امداد بھیج رہے ہیں۔ تاہم وہ ممالک جو تائیوان کا ساتھ دیتے ہیں اور ہونڈورس جیسے ممالک سے امداد منگوا رہے ہیں وہ ان 185 ممالک میں شامل نہیں ہیں جنھیں جیک ما نے سامان بھیجی ہے۔ لیکن سب ہی ممالک میں ما کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کامیابی کی وجہ سے ما کو ان دنوں پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور شہرت حاصل ہے۔ اب کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں چین یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ گریبورس نے کہا کہ چین اب اپنی سافٹ پاور کو اپنی سرحد کے باہر واضح کر رہا ہے، امداد کے ذریعہ، پیسوں اور ماہرین دونوں کی شکل میں۔ ڈنکن کلارک نے کہا کہ ’یہ وائرس اس وقت عالمی بحران کے طور پر سامنے ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ چین کے باقی دنیا سے تعلقات کے لیے بھی مشکل وقت ہے۔ اس وقت انھیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس دباوٴ کو کچھ کم کر سکے۔’ |
/urdu/pakistan-51141449 | برطانوی خاتون پولیس افسر کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پاکستانی نژاد برطانوی ملزم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اسلام آباد کے نواحی علاقے میں پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ مکان تلاش کر رہے تھے۔ | وزارت داخلہ نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو کہا ہے کہ وہ برطانوی خاتون پولیس افسر کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پاکستانی نژاد برطانوی شہری پیراں دتہ خان کو برطانیہ کے حوالے کرنے سے متعلق معاملات کا جائزہ لے۔ ملزم پیراں دتہ کو بدھ کے روز اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اسلام آباد کے نواحی علاقے میں پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ مکان کی تلاش میں موٹر سائیکل پر جارہے تھے۔ پراپرٹی ڈیلر ظہور الٰہی کے مطابق جب وہ پیراں دتہ کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر دکھانے لے جا رہے تھے تو اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار وہاں پر آئے اور انھیں قابو کرنے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے۔ واضح رہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے اور اُنھیں 29 جنوری کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ برطانیہ میں قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دیے جانے والے ملزم پیراں دتہ کے وکیل راؤ شہر یار کا کہنا ہے کہ ان کے موکل مصطفیٰ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ گرفتاری سے پہلے اُنھوں نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ کسی خاتون کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پیراں دتہ کا خاندان برطانیہ میں ہی مقیم ہے اور وہ پاکستان آنے کے بعد پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے۔ پولیس افسر شیرن بشنوسکی کی عمر اس وقت 38 برس تھی اور انھیں پولیس میں بھرتی ہوئے صرف نو ماہ ہوئے تھے واضح رہے کہ برطانیہ کی نیشل کرائم ایجنسی نے خاتون پولیس اہلکار کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دیے جانے والے پیراں دتہ کی گرفتاری کے لیے 20 ہزار برطانوی پاونڈ انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلوں کا کوئی معائدہ موجود نہیں ہے تاہم ماضی میں پاکستان متعدد افراد کو برطانیہ کے حوالے کرتا رہا ہے جو مختلف مقدمات میں برطانیہ میں مطلوب تھے۔ پیراں دتہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کی حوالگی کا معاملہ عدالتوں میں زیر سماعت ہونے کے بعد عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی برطانیہ کے حوالے کیا جائے گا۔ پولیس افسر شیرن بشنوسکی کی ساتھی پولیس افسر ٹریزا ملبرن کو بھی اس واقعے میں گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گئی تھیں ویسٹ یارکشائر پولیس سے تعلق رکھنے والی افسر شیرن بشنوسکی کو ایک ڈکیتی کے دوران گولی مار دی گئی تھی اور خیال کیا جا رہا ہے کہ پیراں دتہ خان مبینہ طور پر ڈکیتی کرنے والے اس گروہ کے لیڈر تھے۔ پولیس افسر شیرن بشنوسکی کی عمر اس وقت 38 برس تھی اور انھیں پولیس میں بھرتی ہوئے صرف نو ماہ ہوئے تھے۔ جس دن ان کی چھاتی میں گولی لگی اس دن ان کی چھوٹی بیٹی لیڈیا کی چوتھی سالگرہ تھی۔ ان کی ساتھی پولیس افسر ٹریزا ملبرن کو بھی اس واقعے میں گولی لگی تھی لیکن وہ بچ گئی تھیں۔ |
/urdu/pakistan-59791982 | عمران خان صاحب، ایک مناسب رفتار سے سیاسی سفر طے کر رہے تھے جو اگر اسی طرح چلتا رہتا تو آج شاید سینیٹر ہوتے یا بہت ممکن ہے کہ توبہ تائب ہو کر کہیں سکھ کی زندگی گزار رہے ہوتے مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ پڑھیے آمنہ مفتی کا کالم۔ | وہ دور یاد آیا تو یہ بھی یاد آیا کہ تب ایک رواج سا چلا تھا کہ اچھے سپورٹس مین اور اداکار ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آ جایا کرتے تھے اور اکثر چند ووٹ لے کر اور اپنی محنت کی کمائی پھونک کر منظر سے غائب ہو جایا کرتے تھے۔ اس سفر میں وہ اپنی رہی سہی عزت اور عمر بھر کی کمائی ہوئی آبرو بھی گنوا دیا کرتے تھے۔ کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود، سیاسی خیالات کی ناپختگی اور اس دور کے لوگوں کا ہماری نسل کی نسبت بہتر سیاسی بلوغ یا ان اصحاب کا کسی کی دھن پر مٹکنے سے انکار یا شاید کوئی چوتھی ہی وجہ ہو کہ یہ ستارے سیاست کے آسمان پر طلوع بھی نہ ہو سکے۔ عمران خان صاحب، ایک مناسب رفتار سے سیاسی سفر طے کر رہے تھے جو اگر اسی طرح چلتا رہتا تو آج شاید سینیٹر ہوتے یا بہت ممکن ہے کہ توبہ تائب ہو کر کہیں سکھ کی زندگی گزار رہے ہوتے مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ خان صاحب کا ستارہ جانے کس گھر میں جا نکلا کہ ہما ان کے کاندھوں پر آ بیٹھا اور زمانے کی روایات بدل گئیں۔ ہم جیسے جو حلق پھاڑ پھاڑ کے کہتے تھے کہ قحط الرجال کیا اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب ایک ایتھلیٹ ہماری قیادت کرے گا، بولتے رہ گئے اور منڈا بازی لے گیا۔ خان صاحب کے وزیر اعظم بننے اور اس سے پہلے بھی ان کے حمایتیوں میں عام سیاسی ووٹرز، سپورٹرز سے زیادہ جوش اور جذبہ تھا۔ اپنے لیڈر کی حمایت میں ان دیوانوں نے خاندانوں میں لڑائیاں کیں، پرانے احباب سے کنارہ کیا، منگنیاں تڑواییں اور گھریلو زندگی میں زہر بھر لیا۔ یہ حمایت ایک سیاسی لیڈر کی حمایت نہ تھی بلکہ یہ وہ محبت تھی جو فین اپنے من پسند ستارے سے کرتے ہیں۔ اس محبت کا کوئی مول نہیں ہوتا، یہ دیوانگی ہوتی ہے اور اس کی کوئی تاویل نہیں ہوتی۔ یہ دیوانگی اور محبت جن کا نصیب ہوتی ہے وہ خوش نصیب ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈران کا معاملہ ان ستاروں سے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ نہ ان کے ووٹر سپورٹر اتنے دیوانے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی گاتا ہے کہ ’تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے۔‘ آج عمران خان صاحب سے وابستہ اس دور کی یادوں کو دیکھ کر ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ شاید جو مقام انھیں ملا تھا وہ ان کے موجودہ مقام سے کہیں بلند تھا۔ آج جب ان کے ووٹرز بھی کترائے کترائے نظر آتے ہیں اور ان کے پرانے فینز کھسیائے کھسیائے ان سے وابستہ، گرد آلود یادگاروں کو چھپاتے پھرتے ہیں تو لگتا ہے یہ بازی وہ جیت کر بھی ہار گئے۔ |
/urdu/world-50785311 | سنہ 2019 کے برطانوی انتخابات میں 220 خواتین ممبر پارلیمان منتخب ہو چکی ہیں جبکہ سنہ 2017 میں یہ تعداد 208 تھی۔ لیبر پارٹی کے منتخب ہونے والے اراکین میں آدھی تعداد خواتین کی ہے۔ | کیا یہ فن لینڈ کا اثر ہے؟ برطانیہ میں ہونے والے سنہ 2019 کے عام انتخابات میں ریکارڈ نمبر میں خواتین ممبر پارلیمان منتخب ہوئی ہیں اور یہ ملک کی سیاست کے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔ انتخابات کے تاریخی نتائج کے بعد 220 خواتین ممبر پارلیمان منتخب ہو چکی ہیں جبکہ سنہ 2017 میں یہ تعداد 208 تھی۔ سنہ 2017 میں ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی میں 67 خواتین ممبر پارلیمان تھیں جو کہ اب بڑھ کر 87 ہو گئیں ہیں۔ یہ اضافہ 29 فیصد ہے اور اس سے پہلے کبھی کنزرویٹیو جماعت میں اس سے زیادہ خواتین ممبر پارلیمان نہیں بنیں۔ تاہم یہ ابھی بھی لیبر پارٹی سے بہت کم ہے جس کی خواتین نے 104 نشتیں جیتی ہیں، مطلب یہ کہ لیبر جماعت کی تقریباً آدھی سے زیادہ نشتیں خواتین ممبر پارلیمان کے پاس ہیں۔ جہاں برطانیہ میں خواتین کی ایک ریکارڈ تعداد پارلیمان میں آئی وہیں حیرت انگیز طور پر وہ خواتین اس ریس سے آؤٹ ہوئیں جن کے متعلق شاید سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ ہار جائیں گی۔ سب سے بڑا دھچکہ لبرل ڈیموکریٹس کو لگا جن کی رہنما جو سونسن اپنی ایسٹ ڈنبرٹن شائر کی نشست ایس این پی کی نوجوان سیاستدان ایمی کالاغان سے ہار گئیں۔ اگرچہ دونوں کے درمیان ووٹوں کا فرق صرف 149 کا ہی ہے لیکن یہ تھوڑا سا فرق ایک خلیج ثابت ہوا اور جو سونسن کو پارٹی کی لیڈرشپ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اگرچہ لبرل ڈیمو کریٹس صرف 11 نشتیں جیتے ہیں لیکن ان میں بھی خواتین ممبر پارلیمان کی تعداد 7 ہے جو کہ 77 فیصد بنتی ہے۔ اگر کوئی خاتون رہنما اپنی خوشی کی وجہ سے اس وقت واقعی 'چاند پر ہیں' تو وہ شاید سکاٹش نیشنل پارٹی یا ایس این پی کی نکولا سٹرجن ہیں، جن کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں 48 نشستیں حاصل کی ہیں جو کہ 2017 کے انتخابات سے 13 نشستیں زیادہ ہیں۔ ان کی قیادت میں پارٹی کے ووٹ شیئر میں بھی آٹھ اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایس این پی کی سب سے کم عمر سیاستدان مہیری بلیک بھی آسانی کے ساتھ اپنی پیسلی کی نشست جیت گئی ہیں۔ بلیک 2015 سے سیاست میں ہیں جب ان کی عمر صرف 20 سال اور 237 دن تھی۔ وہ برطانیہ کے دارالعوام کی تاریخ میں سب سے کم عمر ترین خاتون ممبر پارلیمان ہیں اور 1832 کے بعد مردوں اور عورتوں میں بھی سب سے کم عمر ممبر پارلیمان ہیں۔ ان سے قبل 1832 میں ولیئم ویٹورتھ فٹزولیئم تھے جو 20 سال اور 11 ماہ کی عمر میں ممبر پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ ہاؤس آف کامنز کی لائبریری کے مطابق 1918 سے لیکر 2019 کے الیکشن تک کل 494 خواتین ممبر پارلیمان دارالعوام میں منتخب ہو کر آئیں ہیں، جن میں 58 فیصد لیبر جبکہ 28 فیصد کنزرویٹیو تھیں۔ |
/urdu/regional-60705640 | انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ 9 مارچ کو پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا اور ساتھ ہی اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ | انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ 9 مارچ کو پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انڈیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’9 مارچ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوگیا تھا۔‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق میزائل پاکستانی علاقے میں گرا ہے اور اگرچہ یہ ’حادثہ انتہائی افسوسناک ہے مگر ہمیں یہ جان کر اطمینان ہوا ہے کہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘ بعد ازاں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر بابر افتخار نے ذرائع ابلاغ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انڈیا کی طرف سے بدھ کی رات ’اُڑتی ہوئی ایک تیز رفتار چیز‘ ضلع خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں گری ہے جو غالباً ایک میزائل ہے لیکن یقینی طور یہ ’ان آرمڈ‘ (جو بارود یا دھماکہ خیز مواد سے مسلح نہ ہو) تھا۔ یاد رہے کہ انڈین وزارت دفاع نے بھی اپنے بیان میں ’براہموس‘ کی نشاندہی نہیں کی ہے لیکن انڈیا کی تینوں مسلح افواج اس میزائل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ انڈین ذرائع ابلاغ نے فوجی ذرائع کا حوالہ دیا جن کا کہنا تھا کہ ’مشہور زمانہ مثال 1998 کا آپریشن ہے جو امریکہ نے افغانستان کے اندر اسامہ بن لادن کے تربیتی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا تھا۔ بحیرہ عرب سے ٹوما ہاک کروز میزائل داغے گئے تھے جنھوں نے دو گھنٹے میں گیارہ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ یہ 550 میل فی گھنٹہ (0.7 میچ) کی رفتار سے پرواز کر رہے تھے۔ یہ میزائل جس وقت ہدف پر گرے تو اس سے ایک گھنٹہ قبل اسامہ وہاں سے جا چکے تھے۔ اگر اس سے بھی زیادہ تیز رفتار میزائل ہوتا تو وہ ان کے جانے سے پہلے ان کو نشانہ بنا لیتا۔‘ انڈیا نے کتنی تعداد اور مقدار میں براہموس بنا رکھے ہیں، اس کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں لیکن چین کے ایک تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ انڈیا نے 15000 سے زائد براہموس میزائل تیار کئے ہیں جن میں سے 14000 انڈیا کی مسلح افواج کے زیِر استعمال ہیں۔ تاہم بعد ازاں عالمی میڈیا نے یہ خبریں دینا شروع کیں کہ پاکستان چین سے ہائیپر سوپر سانک میزائل خرید سکتا ہے۔ یوریشین ٹائمز نے جنوری 2022 میں خبر دی تھی کہ چین پاکستان کو سوپرسانک ہتھیاروں سے لیس کرسکتا ہے جس سے پاکستان کو انڈیا کے تازہ ہتھیاروں کی صلاحیت یعنی ’ایس۔400‘ ایئر ڈیفنس سسٹم پر بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ |
/urdu/science-55325162 | اس سائبر حملے سے متاثرہ حکومتوں اور اداروں کی سکیورٹی ٹیموں کو یہ معلوم کرنے میں برسوں کا وقت درکار ہو گا کہ ان کی کون سی ای میلز پڑھی گئیں، کون سی دستاویزات چوری ہوئیں اور کون سے پاس ورڈ کو خطرہ ہے۔ | محققین نے اس حملے کو ’سن برسٹ‘ کا نام دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سب سے بڑے سائبر حملے کو سمجھنے کے لیے کئی سال درکار ہو سکتے ہیں۔ جو بائیڈن کی صدارتی مہم میں سائبر سکیورٹی کے ماہر اور ’سپائی گلاس سکیورٹی‘ کے بانی جیکی سنگھ کا کہنا ہے کہ ’حکومتیں سیلیکون ویلی سے مقابلہ کرنے اور اپنے پیچیدہ سوفٹ ویئر تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بیرونی سپلائی چین پر انحصار کیا جاتا ہے، جو تیزی سے ہیکرز کا نشانہ بنتی جا رہی ہے۔‘ ’اگر ہیکرز کا گروپ کہیں بھی کوڈ میں تھوڑی سی ترمیم کرنے اور لوگوں سے کسی سوفٹ ویئر کو انسٹال کرانے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ حکومتوں سمیت ایسی تنظیموں تک بھی اندرونی رسائی حاصل کر رہے ہیں جن تک رسائی ممکن نہیں۔‘ تمام متاثرہ تنظیموں کی سکیورٹی ٹیمیں یہ جاننے کی کوشش میں مہینوں لگا سکتی ہیں کہ کون سی ای میلز کو پڑھا گیا، کون سی دستاویزات چوری ہوئیں یا کون سے پاس ورڈز کو خطرہ ہے۔ ممکنہ طور پر ہیکرز کے پاس ان کے ممکنہ متاثرین کی ایک چھوٹی سی تعداد سے زیادہ کی بڑی نگرانی کرنے کے لیے وقت یا وسائل نہیں تھے، جس میں سرکاری محکمے اور ان ممکنہ بڑے اہداف تھے۔ ’ذرا سوچیں کہ ملک جاسوسی کیوں کرتے ہیں۔ اس سے انھیں فائدہ ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ یہ فوجی فائدہ ہو خاص طور پر امن کے وقت میں۔ ہر طرح سے معاشی فائدہ حاصل کرنے میں انٹیلیجنس کا استعمال اس کا ایک بڑا پہلو ہے کیونکہ کئی ملک انٹیلیجنس آپریشن کرتے ہیں۔‘ ’اس کا ایک ذاتی پہلو بھی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جب امریکہ میں آفس آف پرسنل مینیجمنٹ کو ہیک کیا گیا تھا تو بہت سے سرکاری ملازمین کی نجی تفصیلات تک ممکنہ طور پر رسائی حاصل کی گئی تھی۔ یہ تفصیلات ان لوگوں کے لیے محفوظ ہیں جنھوں نے سکیورٹی کی جانچ کی اور یہ حیرت انگیز طور پر حساس ہیں۔‘ سکیورٹی کی دنیا کے بہت سے لوگوں کی طرح پروفیسر ووڈورڈ بھی کہتے ہیں کہ اس حملے میں روس کا ہاتھ ہو سکتا ہے اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ’گذشتہ برسوں میں امریکہ نے روس پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں روسی فوجی ہیکروں کے بارے میں حالیہ فرد جرم بھی شامل ہے۔ تاہم روس واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ڈرا ہوا نہیں ہے اور وہ اپنی سائبر سرگرمیوں میں سست روی کا شکار نہیں ہو گا۔ اس سے امریکہ اور روس کے مابین تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے اور مستقبل میں شدید سیاسی تنازعات پیدا ہوں گے۔‘ |
/urdu/world-52664761 | اغوا کاروں نے جنگل سے ایک انسانی ڈھانچہ نکال کر مغویوں کو دکھایا اور کہا کہ اگر ان کے باس نے تاوان دینے سے انکار کیا تو ان کا حشر بھی ایسا ہی ہو گا۔ پھر ایک روز انھوں نے سدیپ اور اس کے ساتھیوں کو اینٹوں کا ایک بلاک دکھایا اور کہا اگر انھیں تاوان نہ ملا تو وہ یہ اینٹیں ان کی ٹانگوں سے باندھ کر انھیں سمندر میں پھینک دیں گے۔ | اغوا کاروں نے جنگل سے ایک انسانی ڈھانچہ نکال کر مغویوں کو دکھایا اور کہا کہ اگر ان کے باس نے تاوان دینے سے انکار کیا تو ان کا حشر بھی ایسا ہی ہو گا۔ پھر ایک روز انھوں نے سدیپ اور اس کے ساتھیوں کو اینٹوں کا ایک بلاک دکھایا اور کہا اگر انھیں تاوان نہ ملا تو وہ یہ اینٹیں ان کی ٹانگوں سے باندھ کر انھیں سمندر میں پھینک دیں گے۔ اس دوران سدیپ کو ملیریا ہو گیا۔ بعض اوقات ان پر جنون سوار ہوتا اور وہ سوچتے کہ اگر اغوا کار انھیں مارنے آئیں گے تو وہ کم از کم تین کو تو ہلاک کر دیں گے۔ کئی دفعہ وہ ہنستے اور اپنے مورال کو بلند رکھنے کی کوشش کرتے رہتے۔ اس دوران سدیپ سوچتا کہ وہ اس صورتحال سے اپنے ساتھیوں کو کیسے نکال سکتا ہے اور اگر اس کی اپنے خاندان کے کسی فرد یا انڈین ہائی کمیشن سے بات ہو گئی وہ کیا بات کریں گے۔ ہفتوں تک قید میں رہنے کی وجہ سے سیلر بہت کمزور ہو گئے اور ان کی ہڈیاں نمایاں ہو گئیں، آنکھیں پیلی اور بعض کو پیشاب میں خون آنا شروع ہو گیا۔ جب بھی اغوا کاروں کا سردار آتا تو مغویوں کو لگتا کہ اب ان کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جیسا اس شخص کا ہوا تھا جس کا ڈھانچہ پہلے روز ہی انھیں دکھایا گیا تھا۔ یہ مغویوں کے لیے بہت نازک صورتحال تھی لیکن جب کیپٹن کرسٹاؤس کو نائجیریا میں اپنا کاروبار بند ہونے کا ڈر لگا تو اس نے اغوا کاروں سے معاملات طے کرنا شروع کیے۔ سدیپ کے خاندان کو 13 جون کو حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں اور تاوان کی رقم کی ادائیگی کے انتظامات ہو رہے ہیں۔ اسی دوران ان سیلروں کو بھی بتایا گیا کہ ان کی مصیبت اب ختم ہونے والی ہے۔ اغوا کاروں کا سرغنہ پھر مغویوں کی طرف آیا اور کہا کہ رقم لانے والا شخص تو وہیں رہے گا لیکن مغوی آزاد ہیں اور ان کے لوگ انھیں نہیں روکیں گے لیکن اگر کسی اور نے انھیں اغوا کر لیا تو وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہو گا۔ لیکن ایپیکس کمپنی کے مالک کیپٹن کرسٹاؤس نے ان انڈین سیلروں کی اغوا اور رہائی سے متعلق ایک مفصل سوال کا جواب نہیں دیا ہے۔ نہ ہی انھوں نے یہ بتایا کہ انھیں انڈین سیلروں کو تنخواہ کی مد میں رقم کی ادائیگی کرنی ہے۔ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ گھانا کے اس شہری کا کیا بنا جو تاوان کی رقم لے کر اغوا کارروں کے پاس گیا تھا۔ |
/urdu/regional-58187118 | افغانستان میں تشدد میں حالیہ اضافے اور طالبان کی جانب سے شمالی افغانستان میں متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہزاروں افراد نے وہاں سے جان بچا کر دارالحکومت کابل کا رخ کیا ہے۔ | افغانستان میں تشدد میں حالیہ اضافے اور طالبان کی جانب سے شمالی افغانستان میں متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ہزاروں افراد نے وہاں سے جان بچا کر دارالحکومت کابل کا رُخ کیا ہے۔ انھیں اپنی بنیادی ضروریات جیسا کہ ادویات، خوراک اور رہائش کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہاں آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور انھوں نے کابل میں مشکلات کو اپنے آبائی علاقوں میں ممکنہ موت پر ترجیح دی ہے۔ قندوز کے رہائشی اسد اللہ ایک پھیری والے تھے جو رواں ہفتے اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ کابل پہنچے جب طالبان نے ان کا گھر نذرِ آتش کر دیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں سڑکوں پر گھوم کر کھانے پینے کی چیزیں اور مصالحے بیچتا تھا۔ جب طالبان نے حملہ کیا تو ہم کابل آ گئے۔ اب ہمارے پاس نہ تو روٹی خریدنے کو پیسے ہیں اور نہ دوائی۔‘ رواں سال کے اوائل میں افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی فلاحی اداروں نے افغانستان میں بےگھر افراد کی تعداد میں اضافے کا انتباہ دیا ہے۔ سنہ 2012 میں افغانستان جانے والے بیشتر غیر ملکی فوجی اب ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ افغانستان میں حکومتی افواج اور طالبان کے درمیان لڑائی میں شدت آ گئی ہے۔ طالبان اب تک ملک کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے کم از کم دس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور مزید شہروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسی خبریں لوگوں کو کابل کی جانب نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں۔ تاہم واشنگٹن پوسٹ نے امریکی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ کابل بھی آنے والے تین ماہ میں طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے اقوام متحدہ نے جولائی میں کہا تھا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے دو لاکھ 70 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور یہ تعداد آنے والے دنوں میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ڈینش ریفیوجی کونسل کے مقامی سربراہ جیرڈ روویل نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمارے پاس صحت کے تحفظ کی ضروریات، جنسی تشدد، جنسی ہراسانی اور انسانی سمگلنگ کی اطلاعات ہیں۔ خاندان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے رقم کے عوض لڑکیوں اور بچیوں کی قبل از وقت شادی ایک اور مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ طویل عرصے سے ہے لیکن اب اس میں شدت آ رہی ہے۔‘ جیرڈ روویل نے مزید کہا کہ ’کابل میں بےگھر افراد کو خوراک، صفائی، پناہ گاہوں اور دیگر ضروریات کے لیے رقم کی اشد ضرورت ہے۔‘ وہ کہتے ہیں ’ہم واپس قندوز جانا چاہتے ہیں اور وہاں اپنی معمول کی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایک دن افغانستان میں امن ہو گا اور ہمارا ملک آزاد ہو گا۔‘ |
/urdu/pakistan-55883466 | چین کی سرکاری دوا ساز کپمنی کی تیارکردہ ویکسین ’سائنو فارم‘ کی پانچ لاکھ خوراکیں چین کی جانب سے پاکستان کو عطیہ کی گئی ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ملک میں ویکسین کو محفوظ رکھنے اور ترسیل کے لیے جامع حکمت عملی اور اقدامات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ | کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی پہلی کھیپ آج چین سے پاکستان پہنچ گئی ہے۔ پاکستان فضائیہ کا خصوصی طیارہ چین سے یہ ویکسین لے کر پیر کی صبح نورخان ایئربیس پہنچا، جہاں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان موجود تھے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ ’سائنوفام ویکسین کا پہلا بیچ (کھیپ) ملا ہے! اس کے لیے انتھک محنت کرنے والے ہر شخص کا شکر گزار ہوں۔‘ خیال رہے کہ اس سے قبل اتور کی صبح پاکستان فضائیہ کا خصوصی طیارہ چین سے کووِڈ 19 سے بچاؤ کی ویکسین کی پہلی کھیپ لینے روانہ ہوا تھا۔ چین کی سرکاری دوا ساز کپمنی کی تیارکردہ ویکسین سائنو فارم کی پانچ لاکھ خوراکیں چین کی جانب سے پاکستان کو عطیہ کی گئی ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے جاری کردہ بیان کے مطابق ملک میں ویکسین کے انتظام اور ترسیل کے لیے جامع حکمت عملی اور اقدامات کو پہلے ہی حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ کورونا ویکسین کی رجسٹریشن اور اس کے انتظام کی نگرانی کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی جانب سے آن لائن پورٹل نیشنل ایمونائزیشن مینجمنٹ سسٹم (این آئی ایم ایس) بنایا گیا ہے۔ ویکسین لگانے کے لیے ملک میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر متعدد ویکسین مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں جا کر کووڈ 19 سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی جا سکتی ہے۔ پہلے مرحلے میں صحت کے عملے کو ویکسین لگائی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں ساٹھ سال یا اس سے بڑی عمر کے افراد کو یہ ویکسین لگائی جائے گی۔ ویکسین کی فراہمی کے قومی ادارے (ای پی آئی) کے حکام کا کہنا ہے کہ 60 سال اور اسے بڑی عمر کے افراد کا ڈیٹا شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے نادرا سے حاصل کر لیا گیا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اٹھارہ سال اور اس سے بڑی عمر کے افراد کو ویکسین فراہم کی جائے گی۔ حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد کو ویکسین نہیں لگائی جائے گی۔ چین کی سرکاری دوا ساز کمپنی کی جانب سے بنائی گئی کورونا ویکسین سائنو فارم کو محفوظ رکھنے کے لیے دو سے آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہے۔ لہٰذا ہر ویکسین سینٹر پر ویکسین کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک خاص 'آئی ایل آر' ریفریجریٹر رکھا گیا ہے، جہاں اس ویکسین کو حفاظت سے رکھا جائے گا۔ اس ویکسین کی دو خوراکیں ہیں۔ پہلی خوراک کے 21 دن کے بعد دوسری خوراک دی جائے گی۔ سائنو فارم کورونا سے بچاؤ میں 79.35 فیصد موثر ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہیں کہ ویکسین کی دونوں خوراکیں لگائیں جائیں۔ |
/urdu/world-54655759 | روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ روس اس تنازع میں کسی ایک ملک کی حمایت نہیں کر رہا تاہم ماسکو کو اس مسئلے پر ترکی کے رویے سے اختلاف ہے کیونکہ ترکی آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔ | روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے تنازع پر حالیہ جھڑپوں کے دوران اب تک تقریباً پانچ ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ پوتن کا کہنا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے سربراہان اور عہدیداروں سے دن میں کئی مرتبہ رابطہ کرتے ہیں اور یہ کہ روس اس تنازع میں کسی ایک ملک کی حمایت نہیں کر رہا۔ صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ماسکو اس مسئلے پر ترکی سے اختلاف رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تنازع میں ترکی آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔ ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک میٹنگ میں روسی صدر نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں میں بہت سی اموات ہوئی ہیں۔ ’دونوں طرف دو، دو ہزار سے زیادہ۔۔۔ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔‘ ناگورنو قرہباخ کے خود ساختہ حکام نے آگاہ کیا تھا کہ 27 ستمبر سے اب تک 874 فوجی اور 37 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس کے 61 سویلین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اس نے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ظاہر نہیں کی۔ پوتن کا کہنا تھا کہ وہ آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشنیان اور آذربائیجان کے صدر الہام کے ساتھ ’مسلسل رابطے‘ میں ہیں اور صرف کسی ایک ملک کا ساتھ نہیں دیں گے۔ پوتن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازع پر ترکی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ترک صدر اردوغان 'شاید سخت لگتے ہیں لیکن وہ ایک لچکدار سیاستدان ہیں اور روس کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔' دونوں ملکوں کے درمیان واشنگٹن میں جمعے کو بات چیت ہونے جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے حکام اس روز امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کریں گے۔ آذربائیجان نے جمعرات کو کچھ علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاع دی اور آرمینیا پر الزام لگایا ہے کہ اس نے تین بیلسٹک میزائل حملے کیے ہیں۔ آرمینیا اس کی تردید کرتا ہے۔ آرمینیا نے بھی متعدد جگہوں پر جھڑپوں کی خبر دی۔ حکام کا کہنا ہے کہ مارٹونی نامی ایک شہر اور اس کے اردگرد کے گاؤں میں گولہ باری ہوئی ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا محور ناگورنو قرہباخ نامی علاقہ ہے۔ اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لیے 80 اور 90 کی دہائی میں خونریز جنگیں ہو چکی ہیں۔ سویت یونین کے زمانے میں ناگورنو قرہباخ ایک ایسا خطہ تھا جہاں آرمینیائی نسل کے باشندوں کی اکثریت تھی لیکن وہ آذربائیجان کے حکام کے زیرِ انتظام تھا۔ جب 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں سویت یونین اپنے خاتمے کے قریب پہنچنا شروع ہو گیا تو ناگورنو قرہباخ کی مقامی پارلیمنٹ نے اس علاقے کو آرمینیا کا حصہ بنانے کے حق میں ووٹ دے دیا۔ |
/urdu/world-55412008 | مانا سریویٹ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ اپنے کرئیر میں درجنوں جانوروں اور انسانوں کو بے ہوشی کی حالت سے واپس لانے میں مدد کی تاہم ایسا پہلی بار ہوا کہ انھیں کسی ہاتھی کی مدد کرنا پڑی۔ | تھائی لینڈ میں ایک ننھے ہاتھی کو موٹر سائیکل سے ٹکرا کر بیہوش ہو گیا تھا ایک ریسکیو اہلکار کی مدد سے ہوش میں لایا گیا۔ مانا سریویٹ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انھوں نے اپنے کیریر میں درجنوں جانوروں اور انسانوں کو بے ہوشی کی حالت سے واپس لانے میں مدد کی ہے تاہم ایسا پہلی بار ہوا کہ انھیں کسی ہاتھی کی مدد کرنا پڑی۔ ایک اندھیری سڑک کے کنارے گرے ہوئے ہاتھی کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی ویڈیو آن لائن وائرل بھی ہوئی۔ اس وڈیو میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ہاتھی کو ہوش میں لانے کے لیے اس کے ساتھ دل کی دھڑکن اور سانس کی بحالی کے لیے ہنگامی طبّی امداد کا طے شدہ طریقہ کار استعمال کر رہے تھے۔ دس منٹ کے بعد ہاتھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ یہ ہاتھی کا بچہ اپنے گروہ کے ساتھ سڑک کراس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ واقعہ مشرقی تھائی لینڈ کے صوبے چانتھا بوری میں پیش آیا۔ ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا قسطیں مواد پر جائیں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مانا کے ساتھی ریسکیو اہلکار اس موٹر سائیکل والے شخص کو طبّی امداد دے رہے ہیں جن کی موٹرسائیکل سے ہاتھی کا بچہ ٹکرایا تھا۔ موٹر سائیکل سوار بھی زخمی ہوا لیکن ان کی حالت تسلی بخش ہے۔ ریسکیو اہلکار مانا نے جن کی عمر 26 برس ہے روئٹرز کو بتایا کہ یہ حادثہ اتوار کی رات گئے پیش آیا اور اس وقت وہ ڈیوٹی پر نہیں تھے اور وہاں سے گزر رہے تھے۔ انھوں نے فون پر گفتگو میں خبر رساں ادارے کو بتایا کہ جان بچانا میری فطرت میں شامل ہے لیکن ہاتھی کو طبّی امداد دیتے ہوئے تمام وقت میں پریشان بھی تھا کیونکہ میں اس کی ماں اور ہاتھیوں کے پورے گروہ کی جانب سے اس ننھے ہاتھی کو بلائے جانے کی صدائیں سن رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہاتھی کا دل کہاں ہو سکتا ہے یہ میں نے آن لائن دیکھی ہوئی ویڈیو کی بنیاد پر اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بے سدھ پڑے اس ننھے ہاتھی نے ہلنا شروع کیا تو میں تقریباً رو دیا۔ مانا سریویٹ نے بتایا کہ جب ہاتھی کے بچے کو ہوش آ گیا تو اس امید کے ساتھ کہ حادثے کی جگہ واپس جا کر وہ اپنی ماں سے ملوا دیا جائے اسے مزید طبّی امداد کے لیے سڑک کے دوسری جانب لے جایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ وہ زیادہ چوٹوں سے بھی بچ گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ باقی ہاتھی لوٹ گئے جب ماں نے اپنے بچے کی آواز سنی۔ مانا سریویٹ کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے کسی ہاتھی کو سی پی آر یعنی دل کی دھڑکن اور سانس کی بحالی میں مدد دی |
/urdu/pakistan-53459071 | سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی دعوے کیے جا رہے ہیں کہ سواب ٹیسٹ دماغ کے لیے نقصان دہ ہیں جبکہ ان ٹیسٹنگ کٹس کے آلودہ ہونے کے بارے میں بھی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ | سوشل میڈیا پر ایسے دعوے بھی گردش کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ نقصان کا باعث بھی ہو سکتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹاگرام پر خون آلود سویب کی تصویر بہت زیادہ شیئر ہوئیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس نے دماغ کی حفاظتی تہوں کو متاثر کیا ہے۔ دماغ کی حفاظت کرنے کے لیے کئی حفاظتی تہیں ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے پہلے تو گردن ہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دماغ کئی حفاظتی جھلیوں اور سیال میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ لیورپول سکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈاکٹر ٹام ونگ فیلڈ کہتے ہیں کہ ’میں نے ہسپتال میں کام کرتے ہوئے کئی مریضوں کے سویب حاصل کیے ہیں اور میں ایک تجربے میں شامل رضاکار کے طور پر ہر ہفتے خود سے بھی سویب کے ذریعے نمونہ حاصل کرتا ہوں۔ اپنی ناک میں اتنی اوپر تک کسی چیز کا ہونا عام بات نہیں ہے۔ سویب سے آپ کو خارش یا گدگدی ہوسکتی ہے۔ آلودہ ٹیسٹنگ کٹس کے بارے میں خبروں کو گمراہ کُن طور پر ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے ٹیسٹ کروانے سے آپ کو کورونا وائرس لگ سکتا ہے۔ فیس بک پر رواں ہفتے فاکس نیوز کے میزبان ٹکر کارلسن کے مداحوں کے پیج سے ایک پوسٹ کی گئی جو تین ہزار سے زائد مرتبہ شیئر ہوئی ہے۔ اس پوسٹ میں آلودہ ٹیسٹنگ کٹس کے بارے میں ایک خبر کا لنک دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: ’آپ کو کووڈ 19 چاہیے؟ آپ کو یہ مرض ایسے ملے گا!‘ جون میں شائع ہونے والے واشنگٹن پوسٹ کے اس مکمل مضمون میں ایک وفاقی جائزے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن میں پایا گیا تھا کہ خراب ٹیسٹنگ کٹس اور لیبارٹری طریقہ کار کی وجہ سے سی ڈی سی کا ٹیسٹنگ پروگرام شروع ہونے میں تاخیر ہوئی۔ اس مضمون میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ خراب ٹیسٹنگ کٹس سے مریضوں کو وائرس لگ سکتا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے پبلک ہیلتھ انگلینڈ سے بات کی جنھوں نے کہا کہ ناک یا گلے کے اندر سے نمونہ حاصل کر کے زیادہ بہتر ٹیسٹ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ سویب کا سرا کافی پتلا ہوتا ہے اور اگر آپ اس پر صرف سانس چھوڑیں تو یہ وائرس کے ذرات شاید نہ پکڑ سکے۔ تاہم اگر آپ اسے اپنی ناک یا گلے میں داخل کریں اور اسے انفیکشن کے مقام پر گھمائیں تو زیادہ امکان ہے کہ آپ کو متعدی مواد مل سکے گا جس سے ٹیسٹ کا زیادہ درست نتیجہ آنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ جرائم پیشہ افراد سوشل میڈیا پر بھی ایسے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے لیے اشتہار دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش میں جعلی مثبت ٹیسٹ نتائج بھی فروخت کیے جا رہے ہیں جس کے ذریعے سرکاری افسران کام سے چھٹی لے سکتے ہیں۔ |
/urdu/pakistan-50946321 | پاکستانی اشتہارات دیکھ کر ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ صفائی ستھرائی کے اشتہاروں میں مرد کام کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟ جو اِکا دُکا نظر آتے ہیں وہ بھی کام کرتے نظر نہیں آتے۔ | ٹی وی ہو یا سوشل میڈیا، پاکستان کے زیادہ تر اشتہاروں میں خواتین گھر کے کام کاج کرتی نظر آئیں گی۔ ایسے اشتہارات دیکھ کر ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ صفائی ستھرائی کے اشتہاروں میں مرد کام کرتے کیوں نظر نہیں آتے؟ جو اِکا دُکا مرد نظر آتے ہیں وہ بھی اکثر گھر کے کام نہیں کر رہے ہوتے۔ اس اشتہار کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ایک بحث چھڑ گئی کہ اگر انڈیا میں سرف کے اشتہار میں مرد خواتین کا ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں تو پاکستانی اشتہارات میں ایسا کچھ کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ اس کے جواب میں شیری رحمان نے ٹویٹ کیا ’جی! اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے اشتہار دیکھ کر اس کی تردید کی۔ کھل کر کہوں تو یہ ناگوار بات ہے کہ ایک آدمی عورتوں کو نصیحت کر رہا ہے کہ کپڑے کیسے دھونے چاہییں، جیسے یہ صرف ان کی ذمہ داری ہے۔‘ اس بارے میں ایڈورٹائیزر لبینہ راج بھائی کہتی ہیں کہ ’تشہیری ایجنسیاں کچھ بدلنے کے بجائے صرف وہ دکھانا چاہتی ہیں جو معاشرے میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ چیز نہیں بکے گی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’کمپنیاں کہتی ہیں کہ اگر آپ وہ نہیں دیں گے جو ہمیں چاہیے تو ہم دوسری ایجنسی کے پاس چلے جائیں گے۔‘ لبینہ کا خیال ہے کہ ’اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت کم عورتوں کو آئیڈیا دینے کا موقع ملتا ہے۔ ہر وقت مرد ہی آئیڈیا دیتے ہیں۔ ان کے دماغ میں یہی بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ ہماری بیویاں اور مائیں یہی کرتی ہیں تو یہی سچ ہے۔‘ اشتہار کا آئیڈیا دینے کے حوالے سے ایجنسیوں کو ملنے والی تخلیقی آزادی کے بارے میں لبینہ راج بھائی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اشتہار بنوانے والی کمپنی کہتی ہے ہم پیسے دے رہے ہیں تو ہم جو چاہ رہے ہیں وہی ہونا چاہیے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا ’ہم نے کافی برانڈز کو آئیڈیا دیا ہے کہ روایتی صنفی ذمہ داریاں الٹ گئی ہیں اور مرد اب گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں لیکن برانڈ خاص تبدیلی نہیں لانا چاہتے۔‘ ’کمپنیوں کو لگتا ہے کہ ان کے گاہک مرد کو کچن میں دیکھ کر بے چین ہو جائیں گے۔ ان کو ڈر ہے کہ یہ دکھا کر وہ اپنے صارفین کھو دیں گے کہ عورتیں گھر کے کام کرنے کے علاوہ اور بہت کچھ کر سکتی ہیں۔‘ اس بارے میں لبینہ کہتی ہیں کہ ’آدمی آئیڈیا دیتے اور منظور کرتے ہیں، عورت بیچ میں ہی نہیں آتی اور بات ہمیشہ عورت کی ہی ہو رہی ہوتی ہے۔‘ ’ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں مرد طے کرتا ہے کہ عورت کو کیا چاہیے تو عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ آئیڈیا منظور کرنے کے عمل میں زیادہ حصہ لے سکیں۔‘ |
/urdu/pakistan-49913190 | پاکستان کے علاقے چونیاں میں 4 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردینے والے ملزم کی گرفتاری کے بعد بہت سی افواہیں اور مفروضے گردش کر رہے ہیں۔ ان مفروضوں سے جڑے چند ایسے ہی سوالوں کے جواب بی بی سی نے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ | پاکستان کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں فیضان سمیت 4 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ ملزم سہیل شہزادہ کی گرفتاری کے بعد بہت سے مفروضے گردش کر رہے ہیں۔ ان مفروضوں سے جوڑے چند ایسے ہی سوالوں کے جواب بی بی سی نے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان سوالات کے جوابات کے لیے ہم نے اہل علاقہ، مختلف بیانات، شواہد اور پولیس کے افسران سے گفتگو کی۔ ان جوابات کی روشنی میں جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ جون 2019 سے لے کر ستمبر 2019 کے درمیان چویناں میں چار بچے جن میں محمد عمران، فیضان، علی حسنین اور سلمان اکرم شامل ہیں، انہیں تین مہینے کے دورانیے میں چونیاں سے اغوا کیا گیا۔ جس کے بعد ان کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں قتل کر دیا گیا۔ فیضان کے قتل کے بعد چونیاں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد پولیس نے ملزم کی تلاش شروع کر دی۔ کانسٹیبل حاکم( جسے سہیل کا سراغ ملا) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم وارداتیں کرنے کے بعد چونیاں سے لاہور منتقل ہوگیا جہاں وہ ہائیکورٹ کے پاس کسی تندور پر روٹیاں لگاتا تھا‘ تاہم ملزم کا چونیاں اور لاہور میں آنا جانا رہتا تھا۔ جبکہ آر پی او شیخوپورہ سہیل تاجیک کے مطابق انہوں نے مردم شماری کے محکمے سے چونیاں کے 57 بلاکس کا ڈیٹا لیا جو کہ 60 ہزار کی آبادی کا ڈیٹا تھا۔ 57 بلاکس میں سے 25 بلاکس کو چیک کیا گیا۔ جس میں غوثیہ کالونی، رانا ٹاون اور دیر علاقے شامل تھے۔ فیضان کی والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس پہلے اپنا کام درست انداز میں کرتی تو ان کے بچے کو بچا سکتی تھی تاہم پولیس حکام کے مطابق ملزم کی شناخت کے بعد اسے چونیاں کے علاقے رانا ٹاؤن میں ملزم کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزادہ کے گرفتار ہونے کے بعد ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ ملزم کی قتل ہونے والے بچوں سے جان پہچان تھی اور وہ ان کا محلےدار تھا۔ لیکن حقائق کی تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ جان پہچان ہونے کی خبریں غلط ہیں۔ ملزم سہیل شہزادہ چونیاں میں رانا ٹاون کا رہائشی تھا۔ یہ جگہ جائے وقوعہ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ محمد عمران نامی بچہ جسے ملزم سہیل نے زیادتی کے بعد قتل کیا وہ بھی رانا ٹاؤن کا ہی رہائشی تھا۔ محمد عمران کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ شخص ہماری گلی سے دو گلیاں چھوڑ کر رہتا تھا اور ہماری اس سے کسی قسم کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔‘ |
/urdu/pakistan-57300649 | زمین نے رات تین بج کر تین منٹ پر ہلنا شروع کیا اور 45 سیکنڈز کے انتہائی مختصر دورانیے میں کوئٹہ شہر اور سول لائنز کی لگ بھگ تمام عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ 7.7 شدت کا زلزلہ پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا۔ | 7.7 شدت کا زلزلہ صرف 45 سیکنڈ میں پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا زمین نے رات تین بج کر تین منٹ پر ہلنا شروع کیا اور 45 سیکنڈز کے انتہائی مختصر دورانیے میں کوئٹہ شہر اور سول لائنز کی لگ بھگ تمام عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ 7.7 شدت کا زلزلہ پورے شہر کو نیست و نابود کر چکا تھا۔ زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں شہر کی بچی کھچی انتظامیہ اور فوج نے عمارتوں اور گھروں سے لاشیں سمیٹنے کا کام جاری رکھا مگر چار جون تک ملبے تلے دبی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن اتنا زیادہ ہو چکا تھا کہ میڈیکل افسران کے مشورے کے بعد تباہ شدہ شہر کو آئندہ 40 دن کے لیے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تاکہ گلی سڑی لاشوں کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ کم سے کم کیا جا سکے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یکم جون 1935 کی صبح سے لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع کیا گیا اور تین جون تک لگ بھگ پانچ ہزار لاشیں اٹھائی گئیں جنھیں لاریوں کے ذریعے شہر سے منتقل کیا گیا۔ مسلمان میتوں کی شہر کے جنوب میں واقع قبرستانوں میں تدفین ہوئی جبکہ ہندؤ شہریوں کی میتوں کے کریا کرم کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں عارضی شمشان گھاٹ بنائے گئے اور میتوں کو جلانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے لکڑیوں کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کیا گیا۔ یہ گھڑیال گذشتہ 86 برس سے خاموش ہے کیونکہ یہ اس المناک واقعے کا اہم گواہ ہے۔ 31 مئی 1935 کو صبح تین بج کر چار منٹ پر یہ گھڑیال اس وقت خاموش ہو گیا تھا جب زلزلے کے باعث اسے نقصان پہنچا۔ بعدازاں اسے چلانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے محفوظ کر لیا گیا کیونکہ اس پر وہ وقت محفوظ ہے جب کوئٹہ شہر پر قیامت ٹوٹی۔ انھوں نے بتایا فوجی چھاﺅنی فالٹ لائن سے کچھ فاصلے پر تھی اور یہ چھاﺅنی جس علاقے میں قائم کی گئی تھی وہ پہاڑ کے قریب تھا جہاں زمین سخت تھی جبکہ چھاﺅنی اور شہر کے درمیان حبیب نالے سمیت ایک، دو نالے اور تھے۔ 'چونکہ حبیب نالے اور دوسرے نالوں کی وجہ سے ان میں بریک آیا اسی لیے چھاﺅنی سے پہلے زلزلے کی شدت کم ہو چکی تھی۔کیا تھا"۔ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کے رپورٹ کے مطابق شہر کی پولیس اور سویلین انتظامیہ کا صفایا ہو گیا تھا۔ جی او سی نے تمام دستیاب وسائل برٹش بلوچستان میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل سر نارمن کے ڈسپوزل پر چھوڑ دیے تھے۔ تین جون تک شہری اپنی مدد آپ اور فوج کی مدد سے ملبے کے نیچے اپنے پیاروں کی لاشوں اور قیمتی سامان کو تلاش کرنے کا کام کرتے رہے مگر پھر لاشوں سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے پیش نظر بچ جانے والوں کو شہر سے نکال کر پناہ گزینوں کو ریس کورس کیمپ منتقل کیا گیا جہاں ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ |
/urdu/sport-61004278 | آسٹریلیا کے لیے یہ دورہ مجموعی طور پہ مثبت اور ثمر بار رہا کہ تین سیریز میں سے دو اپنے نام کر لیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہاں مثبت پہلو بہت سے ہیں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ بہترین بلے باز کو اب بہترین کپتان بھی بن کر دکھانا ہو گا۔ | پاکستان نے شاید ساری پلاننگ ہی بابر اور رضوان کی ساجھے داری کے گرد بُن رکھی تھی، اسی لیے مڈل آرڈر میں تجربے اور اعتماد کے فقدان کا بھی کوئی مداوا نہ سوچا گیا کہ اگر اوپر کے تین بلے باز آخر تک نہ جا پائے تو پلان بی کیا ہو گا؟ اگرچہ عثمان قادر کے آخری چند وار پاکستان کو اس میچ میں مقابلے کے لیے واپس لے آئے۔ لیکن یہ تو بہرحال حقیقت ہے کہ اس پچ کے اعتبار سے یہ مجموعہ لگ بھگ بیس رنز کم تھا اور دوسری اننگز کی بولنگ بھلے کتنی ہی تگڑی کیوں نہ ہوتی، نصف شب کی اوس زدہ کنڈیشنز میں اس مجموعے کا دفاع ناممکن تھا۔ یہ ممکن ہو بھی سکتا تھا اگر پاکستان اپنا بہترین بولنگ اٹیک کھلاتا۔ اگرچہ حارث رؤف اور شاہین آفریدی نے اپنے اپنے تئیں میچ کو دلچسپ بنائے رکھا اور محمد وسیم کی کاوش نے تو آسٹریلوی اننگز کا مومینٹم ہی توڑ کر رکھ دیا۔ لیکن حسن علی کی بولنگ فارم یہاں بھی سوالیہ نشان بنی رہی۔ اور اس سے بڑا سوالیہ نشان یہ کہ ایسی فارم کے باوجود بابر اعظم انھیں ہر میچ کھلانے پر مُصر کیوں ہیں۔ فاسٹ بولرز جب ایسی گھمبیر چوٹوں کے بعد بحال ہو کر واپس میدان میں اُترتے ہیں تو یہ مینیجمنٹ کا فرض ہوتا ہے کہ ان کا ورک لوڈ کسی قاعدے سے سنبھالا جائے اور جسم کو مناسب آرام دیا جائے تاکہ انجری پھر سے نہ پلٹ آئے۔ مصباح کی کوچنگ میں تو ہمیں واقعی یہ کاوش نظر آئی کہ حسن علی کا بوجھ بہت طریقے سے سنبھالا جا رہا تھا اور یہ واضح طور پہ بتلا بھی دیا گیا تھا کہ انھیں ہر میچ کھیلنا ضروری نہیں ہے بلکہ جتنا بھی کھیل پائیں، بہترین کھیلیں۔ مگر یہاں عجیب قصہ ہے کہ فارم اور فٹنس سے ماورا بھی، ٹیم انتظامیہ انھیں ہر ممکن موقع پر کھلانے پر بضد ہے۔ اس ضد میں نقصان ٹیم اور کھلاڑی دونوں کا ہی ہو رہا ہے مگر زیادہ بڑا نقصان یقیناً حسن علی ہی اٹھا رہے ہیں۔ شاہین آفریدی نے انیسویں اوور میں جیسے آسٹریلوی اننگز کے طوطے اڑائے، وہاں یہ کاش بہت نمایاں تھا کہ کاش پاکستان نے پندرہ بیس رنز اور بنائے ہوتے تو آخری اوور میں دفاع کرنا ایسا مشکل نہ ہوتا۔ لیکن یہ مجموعہ تھا ہی اتنا قلیل کہ یہاں دفاع ناممکن تھا۔ آسٹریلیا کے لیے یہ دورہ مجموعی طور پہ مثبت اور ثمر بار رہا کہ تین سیریز میں سے دو اپنے نام کر لیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہاں مثبت پہلو بہت سے ہیں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ بہترین بلے باز کو اب بہترین کپتان بھی بن کر دکھانا ہو گا۔ |
/urdu/vert-fut-53534115 | دنیا کا سب سے پُراسرار پہاڑی سلسلہ کسی نقشے پر نظر نہیں آتا لیکن یہ ان تین ممالک کے اس تنازعے کا مرکز بنا ہوا ہے جو قطب شمالی کے گرد سمندری علاقے پر اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ | دنیا کا سب سے پُراسرار پہاڑی سلسلہ کسی نقشے پر نظر نہیں آتا۔ زمین کے مختلف علاقوں کو سمجھنے کے لیے کئی مقبول نقشے استعمال ہوتے ہیں جس میں دنیا بظاہر ہموار دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے ایک ’میرکیٹر پروجیکشن‘ ہے مگر آپ اس پہاڑی سلسلے کو یہاں نہیں دیکھ سکتے۔ یہ پہاڑی سلسلہ زیادہ مقبول نہیں لیکن یہ تین ممالک کے اس تنازعے کا مرکز بنا ہوا ہے جو قطب شمالی کے گرد سمندری علاقے پر اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ پہاڑی سلسلہ کیسے بنا، یہ سمجھنے کے لیے چوٹی اور پہاڑی سلسلے کی وادی کا نقشہ بنانا ناکافی ہے۔ تین ملک اس بڑے علاقے کے دعویدار ہیں۔ اس کے لیے ملکوں کو شواہد حاصل کرنے ہوں گے کہ یہ ان کے ملک کا وہ حصہ ہے جو پانی میں ہے۔ اس سے مراد ہے کہ انھیں ثابت کرنا ہوگا کہ یہ سطح سمندر کوئی پہاڑی چٹان نہیں جو زیر آب ہے، ورنہ اس کا ان کے ملک کے زمینی رقبے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چٹان گرین لینڈ کا حصہ ہو لیکن اگر آپ دوسری طرف سے دیکھیں گے تو یہ روس کا تسلسل معلوم ہوگا۔ ایسے پتھر روسی جزیروں پر بھی ملے ہیں۔ نڈسن کے مطابق کینیڈا میں بھی شواہد ملے ہیں کہ یہ پہاڑی سلسلہ اس کے جزیرے کا تسلسل ہے۔ اگر تینوں ملک اسے اصول کا استعمال کرتے ہیں تو کئی علاقوں پر ایک سے زیادہ ملک تجاوز کر جائے گا۔ اس میں قطب شمالی کے اردگرد 54850 مربع ناٹیکل میل کا علاقہ شامل ہے جس کے دعویدار تینوں ملک ہیں۔ روس نے اقوام متحدہ میں اپنے مطالبے کے حوالے سے اتنی جرات نہیں دکھائی جتنی وہ دکھا سکتا تھا۔ اپنے دائر کردہ مطالبے میں روس کا علاقہ قطب شمالی کے فوراً بعد رُک جاتا ہے۔ یہ ڈنمارک اور کینیڈا کی حدود سے پہلے پہلے تک علاقے کا مطالبہ کرتا ہے۔ دوسری طرف ڈنمارک نے اپنے مطالبے میں لمانوسوو رِج کو شامل کرتے ہوئے روس کے خاص معاشی زون کو بھی شامل کرلیا ہے۔ ’قطب شمالی سے متعلق کئی داستانیں ہیں۔ ہم بچپن میں سنتے تھے کہ قطب شمالی سانتا کلاز کا گھر ہے۔ یہ دنیا سے متعلق ہماری ذہنی کیفیت ہے۔ اور یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ کبھی نہیں جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو صرف سوچ تک محدود ہے۔‘ ممکن ہے کہ مستقبل میں امریکہ بھی دعویٰ دائر کردے جس سے تصویر پھر بدل جائے۔ ناروے نے اپنے مطالبہ میں کم جگہ پر دعویٰ دائر کیا ہے اور اس نے قطبی علاقے کو شامل نہیں کیا جبکہ اس کے تجویز کردہ صرف چند علاقے ڈنمارک سے ملتے ہیں۔ اس نے بھی اپنی تجاویز اقوام متحدہ میں جمع کرادی ہیں۔ |
/urdu/world-56918564 | دنیا کی قدیم اور پائیدار ترین تہذیبوں میں سے ایک کے متعلق مصر کے ماہرین اور شائقین کے درمیان یہ ایک نہ حل ہونے والا معمہ رہا ہے اور وہ ہے مجسموں کی ٹوٹی ہوئی ناک۔ | دنیا کی قدیم اور پائیدار ترین تہذیبوں میں سے ایک کے متعلق مصر کے ماہرین اور شائقین کے درمیان ایک حل نہ ہونے والا معمہ رہا ہے۔ اور وہ معمہ ہے مجسموں کی ٹوٹی ہوئی ناک۔ پہلی نظر میں یہ عام سی بات لگتی ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے بعد ممکن ہے کہ کوئی بھی یادگار یا نوادرات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ بہت سارے قدیم مجسمے ایسے ہیں جن کی صرف ناک ہی ٹوٹی ہوئی تھی یا غائب تھی؟ اس معاملے نے بہت سے مفروضوں کو جنم دیا ہے اور اس میں ایک تلخ خیال بھی شامل ہے جو بار بار سامنے آتا رہا، حالانکہ اس کی تردید بھی کی جاتی ہے، اور وہ یہ کہ یہ یورپی استعمار پسندوں کی قدیم مصریوں کی افریقی جڑوں کو مٹانے کی کوشش تھی۔ اس کے برعکس ماہرین یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ یہ نظریہ بے بنیاد ہے کیونکہ دوسری وجوہات کے ساتھ اس کے متعلق شواہد ناکافی ہیں حالانکہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سامراج کی بہت سی وحشتوں کے باوجود یہ ان میں سے ایک نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اور کیا ہو سکتا تھا؟ اس معاملے میں اکثر مذہبی یا سماجی وجوہات کی بنیاد پر یہ اصطلاح تصاویر یا یادگاروں کی تباہی کی اہمیت کے بارے میں سماجی عقیدے کی نشاندہی کرنے کے لیے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے اور جب آپ اس بات پرغور کرتے ہیں کہ قدیم مصریوں کے لیے مجسمے قدرت اور زمینی مخلوقات کے درمیان رابطے کا مرکز بنے ہوئے تھے تو اس کا احساس زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ بلیبرگ جنھوں نے اس معاملے کی تحقیقات میوزیم کے زائرین کی جانب سے یہ سوال پوچھے جانے کے بعد شروع کی کہ ان مجسموں کی ناک ہی کیوں ٹوٹی ہوئی ہیں، یہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’مجسمہ‘ اور ’مجسمہ ساز‘ کے الفاظ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ مجسمے جاندار ہیں یا زندہ ہیں۔ وہاں لکھا تھا ’وہ افق سے اڑتا ہوا نیچے زمین کی جانب آتا ہے اور اس کی روح اپنے مندر میں اتر کر اپنے جسم میں داخل ہو جاتی ہے اس معاملے میں دیوی ایک تین جہتی شخصیت کی آمیزش کرتی ہے لیکن اسی مندر میں اس بارے میں بھی بات کی جا رہی ہے جو قدیم مصر کے سب سے اہم دیوتاؤں میں سے ایک، اوسیریس کس طرح اپنے آپ کو نجات دلانے کے لیے ضم ہو جاتا ہے۔‘ جب طوطن خامن کے والد اخناطن، جنھوں نے 1353-1336 قبل مسیح کے درمیان حکومت کی، چاہتے تھے کہ مصر کا مذہب ایک ایسے دیوتا، آطین، کے ارد گرد گھومے جو ایک شمسی دیوتا تھا۔ انھیں ایک طاقتور وجود کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تھا دیوتا امون۔ اس کا ہتھیار مجسموں کی تباہی تھا۔ |
/urdu/pakistan-61347722 | پاکستان کی وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ فرح خان کو دوبئی سے واپس لے کر آئے گی تاہم فرح کا کہنا ہے انھیں پی ٹی آئی کے خلاف ایک آسان ہدف کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ | وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ’ہم فرح گوگی کو واپس لارہے ہیں‘، تاہم فرح خان کا کہنا ہے کہ انھیں پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ ان کے شوہر احسن گجر کہتے ہیں کہ ان کے اثاثہ جات کے جو اعداد و شمار بتائے جا رہے ہیں وہ غلط ہیں ہم اتنے ارب پتی نہیں ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں احسن جمیل گجر نے یہ تصدیق تو نہیں کی کہ وہ اور ان کی اہلیہ کب پاکستان آئیں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کسی اور ملک کی شہریت نہیں پاکستان میں ہمارا کاروبار ہے اور ہمارے بچے یہاں پڑھ رہے ہیں، ہم واپس آنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت ہمیں ہراساں کر رہی ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’نیب کا پریس ریلیز قانون کی خلاف ورزی ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ ہم نے کس کو جا کر کیا جواب دینا ہے، ہم نے ابھی کوئی وکیل کی خدمات نہیں لیں، ہم کسی عدالت سے سزا یافتہ نہیں نہ ہی کہیں ہم پر کوئی کیس درج ہوا ہے۔ ہم نے بار بار کہا کہ ہم واپس آنا چاہتے ہیں ملک میں یہ ہمیں ڈرانے کے لیے حکومت بیانات دے رہی ہے۔‘ گزشتہ روز ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ `عمران نیازی بس تم نے اب گھبرانا نہیں ہے، ہم فرح گوگی کو واپس لارہے ہیں، عمران نیازی کی ہر چوری کا ریکارڈ جمع کیا جا رہا ہے۔ فرح گوگی عمران نیازی کی فرنٹ مین ہے، اس سے سچ اگلوائیں گے، کسی کو بھاگنے نہیں دیں گے۔‘ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے فرح خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں گزشتہ روز شکوہ کیا کہ ’ایک عام شہری جس نے کبھی سرکاری عہدہ نہیں رکھا اچانک غیر معمولی قومی اہمیت اختیار کیوں کر گئی؟ اس کا سادہ جواب ہے (کہ) مجھے (پی ٹی آئی کو) پھنسانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔' وہ کہتے ہیں کہ ریاست کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ فرح جنھیں عمران خان کی بے نامی کہا جا رہا ہے ان کے اثاثوں کا ان کی زمینوں کا عمران خان یا ان کی اہلیہ بشری بی بی سے کیا تعلق ہے۔ اب سوال یہ کہ کیا متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کا کوئی ایسا معاہدہ ہے جس کی بنیاد پر فرح خان یا کسی بھی اور شخص کو الزامات کی وجہ سے پاکستان کی حکومت حوالگی کی درخواست کرے۔ |
/urdu/science-54994072 | ہم حد سے زیادہ کیمیائی عمل سے گزاری گئی فیکٹریوں میں بنی اور باآسانی استعمال ہونے والی غذاؤں سے نفرت کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن کیا چند انتہائی کیمیائی عمل شده غذائیں ہمارے لیے مفید بھی ہوتی ہیں؟ | ہم حد سے زیادہ کیمیائی عمل سے گزاری گئی فیکٹریوں میں بنی اور باآسانی استعمال ہونے والی غذاؤں سے نفرت کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن کیا چند انتہائی کیمیائی عمل شده یا پروسیسڈ غذائیں ہمارے لیے مفید بھی ہوتی ہیں؟ ان کے متواتر استعمال کا موٹاپے، بلکہ قبل از وقت موت سے براہ راست تعلق بنتا ہے۔ لیکن کیا کیمیائی عمل سے گزاری گئی غذائیں ہر بار مضرِ صحت ہیں؟ اس بات کو جاننے کے لیے ہم نے ایک ماہرِ غذا اور غذائیت، رو ہنٹریس سے بات کی۔۔۔ رو ہنٹریس کہتی ہیں کہ 'اکثر غذائیں کسی نہ کسی لحاظ سے کیمیائی عمل شدہ ہوتی ہیں، مثال کے طور پر انہیں محفوظ کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ لیکن انتہائی کیمیائی عمل سے گزاری گئی (الٹرا پروسیسڈ فوڈ) کی اصطلاح ان غذاؤں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جن کے اجزا کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے جن میں کچھ سے آپ شاید آگاہ بھی نہیں ہوتے ہیں۔ اس قسم کی غذاؤں کے ساتھ آلو کے کرسپس، بسکٹ اور کیکس بھی ایسی غذائیں ہیں جنھیں کوئی بھی صحت مند غذائیں نہیں کہے گا، لیکن دیگر انتہائی کیمیائی عمل سے گزاری گئی غذاؤں کو اس طرح برا نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ سوچیں گے کہ کیا پیسٹو، سوپ کا ایک ٹِن، یا سبزی کا تیار شدہ کھانا صحت مند ہوتا ہے۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم دیگر غذاؤں کے بارے میں کہتے ہیں کہ میانہ روی ہر بات میں بہترین رستہ ہے۔ ہنٹریس کہتی ہیں کہ 'عمومی طور پر صحت مند اور متوازن غذاؤں میں ان اجزا کی کسی حد تک شمولیت قابلِ قبول ہے۔ ہم ایک تیز رفتار دنیا میں رہ رہے ہیں اور اس میں کیمیائی عمل سے گزارے بغیر محفوظ کردہ غذا کا ملنا بہت زبردست بات ہوگی، لیکن حقیقت میں ایسی غذا کا سب کے لیے دستیاب ہونا ممکن نہیں ہو گا۔' 'سفید لوبیے یا پھلیوں کی غذا میں زیادہ معیار والی پروٹین اور فائبر میں چربی بھی کم مقدار میں ہوتی ہے، یہ آپ کی دن بھر کے پھلوں اور سبزیوں کی خوراک کا پانچواں حصہ بنتی ہے۔ ان میں آئرن، زنک اور وٹامن بی جیسی معدنیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ اضافی نمک بھی شامل ہوتا ہے، لیکن اس میں کئی ایسے ڈبے بھی مل جاتے ہیں جن میں اضافی چینی بالکل نہیں ہوتی ہے۔' بجائے اس کے آپ انتہائی پروسیسڈ غذا کو اپنی روزانہ کی عادت بنائیں، اس کبھی کبھار کھانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ 'اگرچہ چربی، چینی کی زیادہ مقدار والی غذائیں اکثر و بیشتر نہیں کھانی چاہییں، مگر ان کو پھر بھی، غذا کو متوازن اور صحت مند رکھنے کے لیے کبھی کبھار استعمال کرلینا چاہیے۔' |
/urdu/pakistan-60210520 | 22 سالہ حمنہ عثمانی کا جو ایک انوکھی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی خصوصیت چہرے کے پیدائشی نشان کے ساتھ منسلک ہوتی ہے جسے پورٹ وائن برتھ مارک کہا جاتا ہے۔ | یہ کہنا ہے 22 سالہ حمنہ عثمانی کا جو ’سٹرج ویبر سنڈروم‘ میں مبتلا ہیں۔ سٹرج ویبر سنڈروم (ایس ڈبلیو ایس) ایک ایسا عارضہ ہے جس میں چہرے یا آنکھ پر لال رنگ کا پیدائشی نشان ہوتا ہے جسے پورٹ وائن سٹین یا پورٹ وائن برتھ مارک کہا جاتا ہے۔ اس مرض کے بارے میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے نیورو سرجن ڈاکٹر فہد علی خان بتاتے ہیں کہ ’انسانی جسم میں لاتعداد جین کام کر رہے ہوتے ہیں اور ہر جین پر ایک تہہ یا کوٹنگ ہوتی ہے۔ اگر اس تہہ یا کوٹنگ میں کوئی فرق آ جائے یا اس کی ساخت میں کسی بھی وجہ سے نقص پیدا ہو جائے تو اسے میوٹیشن کہا جاتا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’کیونکہ یہ بیماری جینیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوتی ہے اور اس تبدیلی کو بدلنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کا معقول علاج میسر نہیں ہے البتہ اس سے متاثرہ لوگوں کی لیزر ٹریٹمنٹ کی جاتی ہے تاکہ چہرے پر موجود نشان کا رنگ ہلکا کر دیا جائے۔‘ ڈاکٹر فہد کے مطابق اس بیماری میں انسان کو آنکھوں سے منسلک کالا موتیا جیسے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جس کا علاج سرجری ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو اس بیماری کی وجہ سے مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں جس کا علاج موجود ہے۔ جہاں ایک طرف اسی بیماری کی شرح انتہائی کم ہے، وہیں جس انسان کو یہ بیماری لاحق ہو اسے جسمانی کے ساتھ ساتھ سماجی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حمنہ عثمانی کا کہنا تھا کہ ان کے سکول کی پرنسپل نے انھیں اور اُن کے والد کو بلا کر کہا کہ اگر آپ کی بیٹی اس سکول میں پڑھنا چاہتی ہے تو انھیں نقاب کر کے آنا ہو گا کیونکہ باقی بچے اُن سے ڈر جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہی میری پہچان ہے اور اس کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں۔ جو چند لوگ مجھے جانتے ہیں وہ میرے اسی پیدائشی نشان کی وجہ سے جانتے ہیں. میں جیسی ہوں ویسی ہی بہت اچھی ہوں۔‘ وہ کہتی ہیں ’منفی تبصروں سے زیادہ پیار ملتا ہے۔ لوگ بہت تعریف کرتے ہیں۔ اور میرے بلاگز کا مقصد بھی شناخت کی قبولیت اور سماجی ہم آہنگی ہے۔ مجھے پہلے محسوس ہوتا تھا کہ شاید یہ بیماری گنتی کے چند لوگوں کو ہوتی ہے لیکن بلاگنگ کے بعد مجھے اتنے میسجز آتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔‘ حمنہ بتاتی ہیں کہ کئی لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ ’وہ اپنے چہرے کے بائیں جانب (جہاں پورٹ وائن سٹین نشان ہے) پر میک اپ کیوں نہیں کرتیں’ تو وہ جواب میں انھیں بتاتی ہیں کہ وہ ’اس نشان کو چھپانے کے لیے میک اپ نہیں کرتیں۔‘ |
/urdu/regional-51484972 | تحریک طالبان پاکستان کے اپنے ہی دھڑے کے سربراہ شہریار محسود افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں چند دنوں میں پاکستانی طالبان کے یہ تیسرے رہنما ہیں جنھیں ہلاک کیا گیا ہے۔ | تحریک طالبان پاکستان کے اپنے ہی دھڑے کے سربراہ شہریار محسود اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں چند دنوں میں پاکستانی طالبان کے یہ تیسرے رہنما ہیں جنھیں ہلاک کیا گیا ہے۔ افغان حکام نے ابھی تک اس بارے میں تصدیق نہیں کی۔ افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہریار محسود صوبہ کنڑ کے مرورہ ڈسٹرکٹ کے علاقے دڑاڑنگ میں سڑک کنارے ایک دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب شہر یار محسود وہاں سے پیدل گزر رہے تھے۔ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی کے لیے اختلاف کھل کر سامنے آگئے تھے۔ ایک جانب خالد سجنا اور دوسری جانب شہریار محسود تھے۔ شہریار محسود نے خالد سجنا کو ٹی ٹی پی کا سربراہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد دونوں گروہوں میں جھڑپیں بھی ہوئی تھیں جس میں متعدد طالبان ہلاک ہو گئے تھے۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد متعدد طالبان روپوش ہو گئے تھے اور اکثر کے بارے میں یہی اطلاع تھی کہ وہ افغانستان کے پہاڑی علاقوں جیسے کنڑ اور ننگرہار کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔ شہر یار محسود بھی تین سال سے افغانستان کے ہی انھی علاقوں میں مقیم تھے۔ گذشتہ کچھ دنوں میں افغانستان میں یہ تیسرے پاکستانی طالبان رہنما ہیں جنھیں ہلاک کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کابل میں دو افراد کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن ان کی شناخت کے بارے میں کچھ وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ تاہم بعد میں ان دونوں افراد کی شناخت خالد حقانی اور قاری سیف یونس کے نام سے کی گئی تھی۔ شیخ خالد حقانی اور قاری سیف یونس پشاوری کی ہلاکت کی تصدیق تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے کی تھی اور کہا تھا کہ شیخ خالد حقانی اپنے ساتھی کے ہمراہ 31 جنوری سے چند روز پہلے ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ افغانستان میں پاکستانی طالبان کے حوالے سے رائے منقسم ہے تاہم ایک رائے یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ شہریار محسود کے اختلافات چونکہ طالبان کے مخالف گروہ سے تھے تو ہو سکتا ہے کہ وہ انھی کا نشانہ بنے ہوں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ شہریار محسود نامعلوم افراد کے حملے کا نشانہ بنے ہوں تاہم اس بارے میں تفتیش کے بعد ہی تمام صورتحال سامنے آ سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مختلف قوتیں برسرِ پیکار ہیں اور یہ تاثر کہ اس میں پاکستانی اداروں کی مداخلت ہو سکتی ہے درست نہیں ہے۔ ’جہاں تک شہریار محسود کے قتل کی بات ہے تو اس میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مخالف دھڑے کا نشانہ بنے ہوں۔‘ |
/urdu/pakistan-60678033 | وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے درخواست کی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ایوان میں لانے میں دیر نہ کریں کیونکہ ’ملک لمبے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے‘۔ | اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے منگل کو حزب اختلاف کی طرف سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت کہیں نہیں جا رہی، یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہے، اس کے بعد 2028 تک کچھ نہیں ہوگا‘۔ مگر اتحادیوں کی طرف سے ایسے پیغامات موصول ہو رہے ہیں جو حکومت کی پریشانی میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے میڈیا کو بتایا کہ ’حکومت کے اتحادی ہیں مگر تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ہمارے آپشنز کھلے ہیں‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’نہ انھوں نے یقین دہانی مانگی ہے نہ ہم نے انھیں کوئی یقینی دہانی کرائی ہے، جو بھی فیصلہ کریں گے عوام کے مفاد میں کریں گے‘۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’عدم اعتماد کو چھوڑیں ہمیں پورے نظام پر ہی اعتماد نہیں ہے۔‘ نسیم زہرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اپوزیشن اس بار کچھ تیاری کے ساتھ سامنے آئی ہے، جس کی وجہ سے جوڑ توڑ اس وقت عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ان کے مطابق دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کی تقریروں اور اعتماد سے بھی یہ لگتا ہے کہ حکومت اس تحریک کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے۔ تاہم ان کے خیال میں یہ ایک بہت ہی سخت مقابلہ ہے، جس کے حتمی نتیجے کے بارے میں اب کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے جمعرات کو اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی کو اسلام آباد میں واقع سندھ ہاؤس میں طلب کر لیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف پہلے ہی اپنے اراکین کے ساتھ تحریک عدم اعتماد سے متعلق ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ بدھ کو ہی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سپیکر صاحب سے گزارش کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کو زیادہ لمبا نہ لٹکائیں، اس کو جلد از جلد ایوان میں لائیں کیونکہ ملک لمبے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے‘۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ’اب ہم اپوزیشن سے کسی قسم کی گفتگو کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم نے پوری کوشش کی کہ انتخابی اصلاحات اور باقی معاملات پر بات ہو لیکن اگر ان کو عزت راس ہی نہیں آتی تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘ زاہد حسین کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ق وزیرِ اعلیٰ کے طور پر پرویز الہٰی کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کرے گی اور یہ کہ پی ٹی آئی حکومت پر لٹکتی ہوئی عدم اعتماد کی تلوار دیکھ کر مسلم لیگ ق نے بھی اپنے مطالبات میں اضافہ کردیا ہے۔ ان کے مطابق حزبِ اختلاف کی جانب سے پرویز الہٰی کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کی خبروں کے بعد سے ق لیگ کی حیثیت مزید مستحکم ہوچکی ہے۔ |
/urdu/science-52370390 | چین میں ہیک ہونے والی کمپنی کے بانی نے کہا تھا کہ ہیکر نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہیکر نے بڑی مہارت سے کمپنی کے قیمتی کرپٹو کوائنز چرائے تھے۔ | ایک پراسرار ہیکر نے پہلے کرپٹو کرنسی کی مد میں دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر چوری کیے اور صرف دو روز بعد ہی انھیں خود ہی واپس بھی کر دیا۔ چین میں قائم مرکز ڈی فورس سے دو روز قبل کرپٹو کرنسی، الیکٹرانک سطح پرادائیگی کے لیے استعمال ہونے والی ڈیجیٹل کرنسی، کی مد میں ڈھائی کروڑ ڈالر مالیت کی رقم چوری ہوئی تھی۔ ہیکر نے سب سے زیادہ ایک کروڑ ڈالر مالیت کی ایتھیریم کرنسی چرائی۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ ڈالر کے دوسرے کوائنز بھی چوری کیے گئے تھے۔ ہیکر نے 40 لاکھ ڈالر کے ایسے کوائنز بھی چوری کیے جو امریکی ڈالر سے منسلک ہیں۔ اس نے دو روز بعد مختلف کرپٹو کوائنز کی شکل میں تقریباً اتنی ہی مالیت کی ڈیجیٹل رقم واپس ادا کر دی ہے۔ ڈی فورس کے بانی منڈاؤ ینگ نے ہیکرز کے حملوں کے بعد ایک پیغام میں کہا تھا کہ ہیکر نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ ان سے بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈی فورس کے بانی نے کہا تھا کہ ہیکرز نے نہ صرف ان کے صارفین کو نقصان پہنچایا بلکہ انھیں ذاتی طور پر کافی نقصان ہوا ہے۔ انھوں نے کہا ’اس حملے میں میرے اثاثے بھی چوری ہوئے ہیں۔‘ منڈاؤینگ نے اس حوالے سے مزید معلومات دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بی بی سی نے ڈی فورس سے مزید معلومات کے لیے رابطہ کیا ہے۔ اس حملے کے حوالے سے سکیورٹی کمپنی پیک شیلڈ نے ایک بلاگ میں وضاحت کی ہے کہ کیسے ایک ہیکر نے ڈی فورس کے نظام کو دھوکہ دے کر ڈھائی کروڑ ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی چوری کر لی۔ اسے آسان لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہیکر ڈی فورس کے نظام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ کرپٹو کرنسی جمع کروا رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کرپٹو کرنسی چوری کر رہے تھے۔ ڈیجیٹل کرنسی بنیادی طور پر الیکٹرانک سطح پرادائیگی یا پےمنٹ کا طریقہ کار ہے۔ اس سے آپ خریدای کر سکتے ہیں لیکن اب تک یہ مخصوص مقامات پر ہی خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس کے ذریعے آپ ویڈیو گیمز یا سوشل نیٹ ورکس پر ادائیگی کر سکتے ہیں۔ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے اور کہاں استعمال ہوتی ہے اس وقت دنیا میں لگ بھگ 5000 کرپٹو کرنسیز استعمال ہو رہی ہیں جن میں بِٹ کوائن سرفہرست ہے۔ ایک بٹ کوائن کی قیمت اس وقت 8300 ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ ماضی میں یہ 20 ہزار ڈالر کی حد تک بھی پہنچ چکی ہے۔ کرپٹوکرنسی کی کُل مارکیٹ ایک اندازے کے مطابق 230 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والے افراد کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس کی مارکیٹ 400 بلین ڈالرز سے زیادہ کی تھی۔ کریپٹو کرنسی کا کاروبار دنیا بھر میں ہو رہا ہے جس میں اب تک 5000 سے زیادہ کرنسیز آ چکی ہیں لیکن فی الحال سب سے مقبول بٹ کوائن ہے۔ |
/urdu/pakistan-57489325 | اکثر و بیشتر حکومتوں کی جانب سے سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو اپنی بہتر معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے نہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہوتی نظر آتی ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیاں؟ | پاکستانی خبرناموں میں اکثر سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان دیکھے جانے یا مارکیٹ گر جانے کی خبریں ہوتی ہیں جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر یا گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ خود اکثر و بیشتر حکومتوں کی جانب سے بھی سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو اپنی بہتر معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے نہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہوتی نظر آتی ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیاں؟ مصنفین لکھتے ہیں: 'اس تحقیق سے ان تصورات کی تصدیق ہو گئی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ سٹاک مارکیٹ پر 31 خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 برس پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے جن 22 خاندانوں کی اجارہ داری کا انکشاف کیا تھا، وہی رجحان اب بڑھ کر 31 خاندانوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بیشتر دولت بھی ان ہی کے ہاتھوں میں محدود ہے۔‘ رپورٹ میں اس صورت حال کو اشرافیہ کا ایک محدود 'کلب' قرار دیا گیا ہے کیوں کہ رپورٹ کے مطابق سٹاک مارکیٹ حقیقت میں چند بڑے سرمایہ کاروں کی گرفت میں آ چکی ہے یعنی اس میں نئے لوگوں کے لیے مواقع محدود ہو چکے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کے طریقہ کاروبار کے بارے میں ایک سوال پر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ اس پر چونکہ چند درجن بڑے بروکرز کی اجارہ داری ہوتی ہے، اس لیے یہ لوگ وقتاً فوقتاً قیمتیں بڑھا کر یا گھٹا کر بحران پیدا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے خسارے کا شکار ہو کر چھوٹے سرمایہ کاروں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اقتصادی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایک ٹاسک فورس نے اس بحران کی تحقیقات کیں جس سے معلوم ہوا کہ اس بحران کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک بروکرز پر عائد ہوتی ہے لیکن اس بحران کے ذمہ داروں کو سزا سے بچانے کے لیے رپورٹ کو دبا دیا گیا اور تقریباً ایک سال کے بعد اس کی تحقیقات ایک امریکی فرانزک کمپنی کے سپرد کر دی گئیں، لیکن اس کا دائرہ کار ہی اتنا محدود کر دیا گیا کہ وہ کسی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ بحران کے ذمہ داران صاف بچ نکلے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں اس وقت کارٹیلائیزیشن کی بات بے بنیاد ہے اور مارکیٹ کا مجموعی سرمایہ اور اس میں سرمایہ کاروں کی تعداد کے پیشِ نظر ممکن نہیں کہ چند افراد اور گروپ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلا سکیں۔ |
/urdu/pakistan-60574010 | اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین میں جنگ بندی کی قرارداد کے حوالے سے پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز کے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کی حمایت کرے۔ | پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ایک روز سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوگا جس کے دوران قرارداد منظور کی جائے گی۔ اس قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیں گے۔ اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔ 'اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔' اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ ہے جس کے نتیجے میں ماہرین اور دیگر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی حمایت میں ’اتنا آگے نکل گیا‘ کہ اسے نقصان اٹھانا پڑا۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کا ساتھ دیا۔ اور ایک بار پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی۔ اس کا اندازہ تب ہوا جب 1989 میں روسی فوج افعانستان سے شکست کھا کر نکلی تو 1990 میں پاکستان پر پریسلر امینڈمنٹ کے ذریعے فوجی امداد بند کر کے پابندی عائد کی گئی۔ اور اس پابندی کے پیچھے وجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بتایا گیا۔ ماضی کی دہائیوں کے برعکس پاکستان کی سوچ میں اب خاصی تبدیلی آئی ہے اور سفارتی حلقوں سے ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کسی دھڑے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اسی سسلسے میں وزیرِ اعظم عمران خان نے 28 فروری کو قوم سے خطاب کے دوران 24 فروری کو اپنے روس کے دورے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'میں وہاں دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کی غرض سے گیا تھا۔' |
/urdu/pakistan-50141393 | جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے دوران اداروں سے جنگ نہیں کرنا چاہتے اور ان کا احتجاج حکومت کے خلاف ہوگا۔ | ادارے غیر جانبدار رہیں، ہمارا احتجاج حکومت کے خلاف ہے: فضل الرحمان جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے دوران اداروں سے کوئی جنگ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اُن کا احتجاج حکومت کے خلاف ہوگا۔ نامہ نگار خدائے نور ناصر کے مطابق منگل کو غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں فضل الرحمان نے کہا کہ ان کا احتجاج تب تک جاری رہے گا، جب تک حکومت مستعفیٰ نہیں ہو جاتی۔ مولانا فضل الرحمان کے مطابق عوامی احتجاج ان کا آئینی اور قانونی حق ہے اور اس احتجاج میں اداروں کو غیرجانبدار رہنا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا ’ادارہ ادارہ ہوتا ہے، میری حکومت ہوگی، تب بھی ادارہ ہوگا اور میرے مخالفین کی حکومت ہوگی تب بھی ادارے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ آج ایک فرد ہے، اُس سے میرا گلہ شکوہ ہوسکتا ہے، لیکن یہ کل چلا جائے گا، کوئی اور آجائے گا‘۔ اگر مولانا فضل الرحمان دھرنا دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسے میں ان کی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم، انصار الاسلام، کے کارکنان بھی اس دھرنے کا حصہ ہوں گے ’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اُن کا احتجاج ’مارچ‘ ہے، نہ دھرنا اور نہ ہی لاک ڈاؤن۔ ’ہم ایک میدان میں کارکنوں کو تھکائیں گے نہیں، تحریک کی صورت میں مختلف میدانوں میں جائیں گے اور یہاں تک کہ جیل بھرو تحریک بھی شروع کریں گے‘۔ حکومت کی جانب سے مارچ سے قبل اُن کی گرفتاری کے بارے میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ لیڈرشپ کی گرفتاری سے تحریک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ حکومت نے وفاقی وزیر پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا ہے جو حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ’مارچ‘ پر بات چیت کریں گے۔ اگرچہ حکومتی ٹیم اور جمعیت علمائے اسلام کے وفد کے درمیان بیس اکتوبر کو طے پانے والی ملاقات ملتوی ہوئی ہے، تاہم حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کو حکومت کے ساتھ بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں مولانا فضل الرحمان نے اس کمیٹی کے بارے میں کہا کہ دھمکیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ ’تضحیک اور سنجیدگی، دھمکیاں اور مذاکرات ایک جگہ نہیں ہوسکتے‘۔ گزشتہ اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ وہ اپوزیشن کو بات چیت کے لیے دعوت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے مطالبات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوں۔ تاہم انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر حزب اختلاف بات چیت ہی نہیں کرنا چاہتی تو حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائے گی‘۔ |
/urdu/world-54770395 | قرون وسطیٰ کے یورپ میں ہزاروں افراد جن میں سے زیادہ تر خواتین تھیں کو جادوگری کے الزام میں نذر آتش کر دیا گیا۔ لیکن صدیوں بعد ان کے خاندان کے لوگ انھیں اس سے مبرا قرار دینے کو کہہ رہے ہیں۔ | قرون وسطی کے یورپ میں ہزاروں خواتین کو ’جادوگری‘ کا الزام دے کر قتل کیا گیا تھا ’میری بیوی کے ذہن میں فوراً اس بیچاری خاتون کا خیال آیا۔ لیکن ہم یہ جان کر خوفزدہ نہیں ہوئے کیونکہ ہمیں سکول کے دنوں سے علم تھا کہ ان برسوں میں یورپ میں بہت نا انصافیاں ہوئی تھیں۔‘ کرامر کا خاندان لمگو سے تین گھنٹے کی مسافت پر بریمرہاوین میں رہتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی دور کی رشتہ دار کو چاہے اب جتنا بھی وقت گزر چکا ہے اس کے باوجود انصاف ملنا چاہیے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 16ویں اور 17ویں صدی کے درمیان یورپ میں 40 ہزار سے 60 ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کرسٹین نے لوگوں کو بتانا شروع کیا کہ وہ ایک جادوگرنی ہے اور انھیں 15 لوگوں سمیت شیطان کے ساتھ ڈانس کے لیے ایک رات اٹھایا گیا۔ ان لوگوں میں چھ خواتین اور ایک لڑکی اور آٹھ مرد تھے۔ اگرچہ مردوں کو بھی جادو کے جرم میں پھانسی دی جاتی لیکن اس کا شکار ہونے والوں میں 85 فیصد سے زیادہ خواتین تھیں۔ 15 ویں صدی میں میلیس میلفیکارم نے جاوگرنیوں کی تلاش سے متعلق تحریر میں زیادہ زور خواتین کی شر انگیزی اور جنسی بھوک پر دیا اور انھیں نیکی اور اچھائی میں غیر اعتدال پسند مخلوق کے طور پر بیان کیا گیا۔ ان کی تصویر کمپیوٹر کی مدد سے ماہر ریسرچرز کی ٹیم نے دوبارہ بنائی ہے۔ اس ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر کرسٹوفر ریان کر رہے ہیں۔ مشیل ایک خاص کیس کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں جس سے انھیں بہت جھٹکا لگا۔ اورکنے کے جزائر جو کہ سکاٹ لینڈ کے شمال مشرقی ساحل کے ساتھ ہیں کی رہنے والی وہ خاتون اپنے گاؤں سے ایک ماہی گیر کے ہمراہ نکلی۔ ایک بار جب وہ ماہی گیر سمندر میں تھے کہ طوفان آ گیا۔ جرمنی میں فادر ہیگیلر کہتے ہیں کہ کچھ مقامی حکام نے بحالی کے عمل سے انکار کیا انھیں خوف تھا کہ جادوگرنیو کی کہانیاں اس جگہ کی ساکھ اور یہاں ہونے والی سیاحت کو متاثر کرے گی۔ لیکن مِس مشیل کا کہنا ہے کہ حال ہی میں غلامی کے دور کے مجسموں کو ہٹائے جانے کے لیے چلائی جانے والی مہم اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ تاریخ کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ جدید دور میں درست طریقے سے اپنی نمائندگی چاہتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کی کہانی کو کسی اور وقت میں بیچ دیا جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے ان کی قبر پر دو گھنٹے گزارے میری نگاہیں وہیں مرکوز رہیں۔ جب میں ان کی تلاش کر رہا تھا تب بھی میں ان (خوفناک) چیزوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ |
/urdu/entertainment-57321659 | نگار خانوں میں ننھا اور نازلی کے عشق اور ان کے ہولناک انجام کو آنکھوں سے دیکھنے والے اس درد ناک کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ یک طرفہ عشق تھا جو ننھا جیسے معصوم اور سادہ لوح نے نازلی سے کیا تھا۔ | اپنے عروج کے دور میں ننھا اپنی ساتھی اداکارہ نازلی سے عشق کرنے لگے تھے اور یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ دونوں شادی کر چکے ہیں ہیں تاہم نازلی نے بعد میں دعویٰ کیا تھا اُن دونوں کے مابین دوستی ضرور تھی لیکن انھوں نے نکاح نہیں کیا تھا۔ ننھا کے اہلخانہ، ان کی پہلی بیوی اور بیوی کے بھائیوں کو ننھا اور نازلی کے تعلقات پر شدید اعتراض تھا اور اس عشق کا چرچہ نگار خانوں میں زبان زد خاص و عام تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ننھا پر دھن دولت کی بارش ہو رہی تھی اور ان کا ستارہ عروج پر تھا۔ اس عرصہ میں اداکارہ نازلی ان کے قریب ہوئیں اور پھر یہ قربت، محبت اور عشق میں بدل گئی۔ ننھا کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ننھا کی زندگی میں ان کی بیوی کے علاوہ نازلی واحد دوسری عورت تھیں۔ نگار خانوں میں ننھا اور نازلی کے عشق اور ان کے ہولناک انجام کو آنکھوں سے دیکھنے والے اس درد ناک کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ یک طرفہ عشق تھا جو ننھا جیسے معصوم اور سادہ لوح نے نازلی سے کیا تھا۔ ماضی کے ایک نامور ہدایتکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کے وعدے پر بتایا کہ ننھا اور نازلی کا عشق نگار خانوں میں مشہور ہو گیا تھا اور ننھا اس عشق میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ ہدایتکار الطاف حسین نے ننھا کے ساتھ بیسیوں فلمیں کیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے آج تک یقین نہیں آتا کہ ننھا نے اس قدر درد ناک طریقے سے اپنے آپ کو ختم کر لیا۔ ننھا مرنے سے بہت ڈرتا تھا، مجھے یاد ہے کہ میں نے منگلا جھیل میں رانی بیگم اور ننھا پر گیت کس مشکل سے فلمبند کیا تھا۔ ایسا اکثر ہوتا رہا کہ اگر کوئی خطرناک سین ہوتا تو ننھا ڈرتے ہوئے اسے کرنے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔‘ الطاف حسین نے کہا کہ ’وہ محبت کا شکار ہوا۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ مالی مشکلات کا بھی شکار تھا کیونکہ اس نے اپنا زیادہ تر پیسہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے پاس بیرون ملک بینکوں میں رکھا ہوا تھا۔ بیوی اور اس کے رشتہ داروں کو جب یہ علم ہوا کہ ننھا دولت کسی اداکارہ پر خرچ کر رہا ہے تو انھوں نے اسے پیسے دینے بند کر دیے جس سے وہ معاشی دباؤ کا شکار ہوا۔‘ ’ننھا کے منھ اور ناک سے بہنے والا خون جم چکا تھا۔ ننھا کی لاش کے اوپر چادر ڈال دی گئی تھی اور پیچھے دیوار پر خون کے ساتھ دماغ کے لوتھڑے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے اس وقت بھی رپورٹ کیا تھا کہ پولیس ننھا کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے عجلت سے کام لے رہی ہے۔‘ |
/urdu/sport-60386779 | کراچی کنگز اس دفعہ پی ایس ایل میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے پہلے قلندرز کا ٹیگ بن چکا تھا۔ ایسا لگتا ہے، وسیم اکرم نے بابر اعظم اور شرجیل خان کو ہی سات بلے بازوں کے برابر سمجھ لیا تھا مگر ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کے تقاضے کچھ الگ ہیں۔ | بہت پہلے ایک پی ایس ایل میچ میں محمد سمیع نے آخری اوور میں پانچ رنز کا دفاع کیا تھا اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے ایک یادگار فتح حاصل کی تھی۔ گذشتہ شب کچھ ویسا ہی جادو وقاص مقصود نے جگایا اور ایک ڈرامائی فتح اپنی ٹیم کے نام کی۔ کوئٹہ اور پشاور کی خواہش تھی کہ کراچی اپنا ساتواں میچ جیت کر پلے آف کی دوڑ میں کچھ دلچسپی پیدا کرے۔ کراچی کنگز کے لیے بھی یہ جیت وقار کی بحالی کی صورت ہو سکتی تھی اور میچ کی آخری گیند تک کراچی واضح طور پہ جیت کی سمت گامزن بھی نظر آ رہا تھا مگر وقاص مقصود کی استعداد نے منطق کو بھی مخمصے میں ڈال دیا۔ کراچی کنگز اس دفعہ پی ایس ایل میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے پہلے قلندرز کا ٹیگ بن چکا تھا۔ ایسا لگتا ہے، وسیم اکرم نے بابر اعظم اور شرجیل خان کو ہی سات بلے بازوں کے برابر سمجھ لیا تھا مگر ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کے تقاضے کچھ الگ ہیں۔ کراچی کنگز سات میچ کھیل کر بھی اپنا بیٹنگ آرڈر ہی ترتیب نہیں دے پا رہے۔ یہ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں پہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ثانیاً قاسم اکرم کی گذشتہ شب کی اننگز کے سوا کنگز اپنے ایمرجنگ پلئیرز کا درست استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فرنچائز کرکٹ میں ٹیم بنانا بہت جوکھم کا کام ہے۔ کنگز کو اس بار نئے کپتان اور نئے کوچ کے ساتھ آنا تھا، سو گمان ہے کہ ان بڑی تقرریوں کے خلجان میں الجھی مینیجمنٹ ڈرافٹ کے وقت کچھ بنیادی غلطیاں کر گئی جن کا خمیازہ اب بھگتا جا رہا ہے۔ اُدھر، ملتان سلطانز کی فتوحات کی لڑی تو بالآخر ٹوٹ ہی گئی مگر جس شان سے سلطانز نے اس ٹورنامنٹ میں چیمپئینز والی کرکٹ کھیلی ہے، اس نے ایونٹ میں مسابقت کا معیار خاصا بلند کر چھوڑا ہے۔ اور جب بات مسابقت کی ہو، تو یہاں شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی کی داد دینا ہو گی کہ جنھوں نے قلندرز جیسی ’لافنگ سٹاک‘ ٹیم کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں اگرچہ ابھی بہت کرکٹ باقی ہے مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جہاں ایک طرف ملتان اور اسلام آباد جارحانہ سمارٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں، وہاں صرف قلندرز ہی یکسر جوش والی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک لاہور قلندرز وہ واحد ٹیم ہے جس نے ملتان سلطانز کے ناقابلِ تسخیر قلعے میں شگاف ڈالا ہے۔ اور جہاں ایک طرف اسلام آباد یونائیٹڈ نے گذشتہ شب کی فتح کے بعد کچھ سکھ کا سانس لیا ہے، وہاں اب زلمی اور کوئٹہ کے پاس بھی اردگرد دیکھنے کے آپشنز کم پڑتے جا رہے ہیں اور ٹاپ فور میں جگہ بنانے کے لیے انھیں دوسروں کی ناکامیوں سے زیادہ اپنی کامیابیوں کی دعا کرنا ہو گی۔ |
/urdu/regional-58694791 | چین میں ایک عدالت نے جنسی ہراسیمگی کا ایک مقدمہ خارج کردیا ہے۔ کیا چین میں حقوقِ نسواں کی تحریک زندہ رہ سکے گی؟ | یہ چین کے اُس مقدمے پر عدالت کے فیصلے کے اگلے دن کی بات ہے۔ چین کی عدالت نے جنسی ہراسانی کے اس اہم مقدمے میں ملک کی ایک نامور شخصیت کے خلاف عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم خاتون، ژیانزی کے حق میں فیصلہ سُنایا تھا جس کے بعد وہ چین میں ایک کمزور سی تحریک ’می ٹو‘ کی شناخت بن گئی تھیں۔ (دنیا بھر میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کو منظرِ عام پر لانے کی تحریک کو ’می ٹو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)۔ ژو جون کے ژیانزی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کے بعد یہ واقعہ اور بھی زیادہ مشہور ہوا۔ جبکہ ژیانزی نے اپنے دفاع میں ’شخصی حقوق کی خلاف ورزی‘ پر ژو جون کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ ’شخصی حقوق کی خلاف ورزی‘ کا قانون اس وقت جنسی ہراسانی کے خلاف کارروائی کے لیے ایک قریب ترین قانون ہے۔ پھر انھیں اپنے مقدمے میں قانونی سُبکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ژیانزی کے مطابق، عدالت نے ایک نئے عدالتی اصول کے نافذ ہونے کے بعد اس کیس کو جنسی ہراسانی کا مقدمہ قرار دینے کی ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ چین میں جنسی ہراسانی کے بہت کم کیس ہی عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق بہت ہی ٹھوس قسم کے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً ایسے واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ یا تصاویر ہوں، شواہد کا یہ معیار مدعی پر ثبوت مہیا کرنے کا ایک بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے۔ جنوری میں چین میں ایک نیا سول کوڈ قانون نافذ ہوا جس میں آرٹیکل 1010 شامل ہے جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص دوسرے پر مقدمہ دائر کرسکتا ہے اگر اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو، اور یہ کہ اداروں اور تنظیموں کو اس طرح کے رویے کو روکنے اور مقدمات کی تفتیش کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جب اس قانون کو پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا تو اسے ایک کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ییل لا سکول کے ریسرچ اسکالر مسٹر لونگاروینو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے یا ریپ کے الزامات لگائے انھیں حقیقی دنیا میں ایک مختلف قسم کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے چین کا قانونی نظام لوگوں کو ایک 'ملا جُلا پیغام' بھیج رہا ہے۔ حقوق نسواں کی ایک تجربہ کار فعال کارکن لو پن کا کہنا ہے کہ ’می ٹو (#MeToo) اپنی سرکشی کی وجہ سے ایک اہم تحریک ہے۔۔۔ یہ آخری چند بامعنی آوازوں میں سے ایک ہے جو اب بھی چین میں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اور تحریک دبائی نہیں جا سکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد چینی خِواتین کے اپنے تجربات پر بنی ہوئی ہے۔‘ |
/urdu/world-51516472 | یمن میں پر سر پیکار سعودی جنگی اتحاد کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ایک سعودی ٹارنیڈو لڑاکا طیارہ یمنی افواج کی یونٹس کے نزدیک ایک معاونتی مشن پر تھا۔ | یمن کے شمالی صوبے الجوف میں سعودی عرب کی اتحادی افواج سے تعلق رکھنے والا ایک طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اس اتحاد کے ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک سعودی ٹارنیڈو لڑاکا طیارہ یمنی افواج کی یونٹس کے نزدیک ایک معاونتی مشن پر تھا جب وہ ’گرا‘۔ یمن کے حوثی باغیوں نے اس طیارے کو گرانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں یہ اتحاد حوثی باغیوں کی تحریک کے خلاف سنہ 2015 سے لڑ رہا ہے۔ اس اتحاد کی جانب سے یہ مداخلت اس وقت کی گئی جب حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں موجود بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جمعے کی شب زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے اس جنگی طیارے کو گرایا۔ اتحاد کے ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک سعودی ٹارنیڈو لڑاکا طیارہ یمنی افواج کی یونٹس کے نزدیک ایک معاونتی مشن پر تھا جب وہ 'گرا'۔ سعودی عرب نے اب تک اس حملے میں ہونے والی اموات کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔ یمن سنہ 2015 سے حالتِ جنگ میں ہے۔ اُس سال حوثی باغیوں نے یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی اور ان کی کابینہ کو صنعا سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ سعودی عرب صدر ہادی کی حمایت کرتا ہے اور اس نے خطے کے دیگر ممالک سے بنے ایک اتحاد کے ذریعے باغیوں پر فضائی حملے کرتا ہے۔ یہ اتحاد تقریباً ہر روز ہی اس طرح کے حملے کرتا ہے جبکہ حوثی باغی بھی اکثر سعودی عرب میں میزائل داغتے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے دنیا کا بدترین انسانی آفت کو جنم دیا ہے اور تقریباً 80 فیصد آبادی یعنی دو اعشاریہ چار کروڑ آبادی امداد اور حفاظت کے منتظر ہیں۔ اس تنازع کے باعث اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ |
/urdu/regional-55020272 | ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے ہانگ کانگ میں منتخب اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دینے کے لیے نئے متنازع قوانین وضع کیے ہیں۔ مغربی ممالک کے ان الزامات پر چین کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ | امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے ہانگ کانگ میں منتخب اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دینے کے لیے نئے متنازع قوانین وضع کیے ہیں۔ مغربی ممالک کے ان الزامات پر چین کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان ممالک کو چین کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا،’انھیں محتاط رہنا چاہیے ورنہ ان کی آنکھیں نکال لیں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہاں پانچ یا دس ہیں۔‘ سنہ 1997 کے بعد، جب سے برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا ہے تب سے پہلی مرتبہ ایسی صورت حال ہے کہ پارلیمان میں کوئی حکومت مخالف آواز نہیں بچی ہے۔ پارلیمان کے چار ممبران کو برخاست کرنے کی کارروائی کو ہانگ کانگ کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ سمیت پانچ مغربی ممالک کے وزرا خارجہ نے چین سے اپیل کی ہے کہ وہ ان اراکین پارلیمان کو ان کے عہدوں پر بحال کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ہانگ کانگ کی خودمختاری اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے چین کے قانونی عزم کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے عوام کو اپنے رہنما کا انتخاب کرنے کے حق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ان پانچوں ممالک کو ایک ساتھ ’فائو آئز‘ یعنی پانچ آنکھیں بھی کہا جاتا ہے، جو آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ لیکن کئی برسوں سے جاری جمہوریت کے حامی اور چین مخالف احتجاجوں کے بعد جون میں چین نے قومی سلامتی کا ایک متنازع قانون نافذ کر دیا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ کی خود مختاری کمزور ہو گئی اور مظاہرین کو سزا دینا آسان ہو گیا ہے۔ اس کے مطابق ملک کے ساتھ بغاوت، غداری یا غیر ملکی طاقتوں کا ساتھ دینا جرم ہو گا۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہانگ کانگ میں استحکام لائے گا ، لیکن مغربی ممالک میں حکومتوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزادی اظہار رائے چھیننے اور احتجاج کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک صحافی کو گرفتار کر لیا گیا تھا جس نے مظاہرین پر پولیس کے تشدد کے بارے میں تفتیش کی تھی۔ صحافیوں کا الزام ہے کہ انھیں خوفزدہ کرنے کے لیے رپورٹر کے خلاف کارروائی کی گئی۔ قومی سلامتی کے اس قانون کے جواب میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کے ان لوگوں کو شہریت دینے کی بات کہی تھی جن کے پاس برطانوی شہریت اور اوورسیز پاسپورٹ ہے۔ یعنی جو لوگ 1997 سے قبل پیدا ہوئے ہیں۔ |
/urdu/entertainment-58324480 | بی بی سی نے احمد فراز کی تیرہویں برسی کے موقع پر ان کے فرزند اور کچھ قریبی ساتھیوں سے فراز کی یادوں کے حوالے سے بات چیت کی تاکہ دورِ حاضر کے قارئین کو بھی ان زندگی کی ایک جھلک مل سکے۔ | آج احمد فراز کو ہم سے بچھڑے ہوئے 13 برس بیت گئے ہیں۔ اب نہ وہ گوشہ فراز ہے اور نہ ہی وہ ہوٹل (اس کا نام اور محلِ وقوع خاصا تبدیل ہو چکا ہے) لیکن فراز کی یادیں اب بھی ان کے ساتھیوں کی دلوں میں تازہ ہیں۔ بی بی سی نے ان کی تیرہویں برسی کے موقع پر ان کے فرزند اور کچھ قریبی ساتھیوں سے فراز کی یادوں کے حوالے سے بات چیت کی تاکہ دورِ حاضر کے قارئین کو بھی ان زندگی کی ایک جھلک مل سکے۔ شبلی فراز نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دادا بھی فارسی میں شاعری کرتے تھے اور فراز کی تربیت کا آغاز چھوٹی عمر میں ان کے گھر سے ہی ہوا تھا۔ شبلی فراز کے مطابق ان کا اپنے والد سے رشتہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا۔ 'جب بچے تھے تو بہت پیار کرتے تھے، پھر ذرا بڑے ہونے کو آئے تو انھوں نے سختی بھی کی اور جب ہم برسرِ روز گار ہو گئے تو یہ رشتہ دوستی میں بدل گیا۔' شبلی فراز کے مطابق ان کے والد بےخوف اور نڈر شخص تھے۔ ’میں نے کبھی ان کو گھبرایا ہوا نہیں دیکھا۔ ان کی جو سوچ تھی، وہ جو سمجھتے تھے، وہی کرتے تھے۔ انھیں اپنے آپ پر پورا بھروسہ تھا۔ ان کو کئی جگہوں پر پریشانی بھی ہوئی، تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں لیکن وہ ثابت قدم رہے۔‘ حسن عباس رضا احمد فراز کے قریبی ساتھی تھے اور ایک جانے مانے شاعر بھی جن کا کلام ’آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے‘ کس نے نہیں سن رکھا۔ کشور ناہید نے بتایا کہ حبیب جالب کی احمد فراز سے بڑی بنتی تھی۔ ’دونوں فقرے بازی کرتے تھے۔ تاش کھیلنے بیٹھتے تو لاکھوں کروڑوں ہار جاتے اور پھر جیت بھی لیتے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے پتے بھی دیکھتے تھے۔‘ کشور ناہید بتاتی ہیں کہ ایک بار فراز کسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے تو کچھ دوست ان سے ملنے چلے گئے۔ ہوٹل پہنچ کر خواتین نے فراز سے فرمائش کی کہ کھانے کو سینڈوچ منگوا لیے جائیں۔ ’فراز نے فوراً فون اٹھایا اور کہا سینڈ بھیج دیں، وچز (یعنی چڑیلیں) یہیں موجود ہیں۔‘ شاعر اور سماجی کارکن حارث خلیق کے مطابق فراز کی شاعری میں ایک ارتقا دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے مطابق ’فراز نے اساتذہ سے بہت اکتساب کیا جس کی جھلک ان کے ہاں آپ کو جا بجا نظر آتی ہے۔ حارث کے مطابق مزاحمتی شاعری کی طرف ان کا رجحان پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے بڑھا اور وہ ایک رومانوی شاعر سے انقلابی شاعر بنے۔ ’اردو شاعری اور ترقی پسند تحریک میں رومان اور انقلاب کا امتزاج ہوا اور لوگوں نے انقلاب کو اپنے محبوب کی طرح سے دیکھنا شروع کیا۔ میرے خیال میں فراز بھی اسی روایت کے شاعر تھے۔‘ |
/urdu/regional-58625854 | جب کووڈ کی عالمی وبا کا آغاز ہوا تو سکول بند ہو گئے اور بچوں کو گھروں میں بھیج دیا گیا۔ پھر یہ طے پایہ کہ اب ان کی کلاسیں سکولوں میں نہیں بلکہ ورچوئل یا آن لائن ہوا کریں گے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ کیا ہر بچے کے پاس لیپ ٹاپ یا موبائل فونز وغیرہ دستیاب ہیں جن سے وہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ انڈیا کے ایک سکول کی ایک ٹیچر نے یہ بیڑہ خود اٹھایا۔ | یہ سب ٹھیک ہے اگر آپ جدید ترین لیپ ٹاپ خرید سکتے ہیں اور آپ کا انٹرنیٹ کنکشن اچھا ہے، لیکن وہ کیا کریں جن کے پاس یہ سہولیات نہیں ہیں؟ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انڈیا میں پندرہ لاکھ سکولوں کے بند ہونے سے چوبیس کروڑ ستر لاکھ طلبا متاثر ہوئے ہیں، اور چار میں سے صرف ایک بچے کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ دہلی میں ایک سرکاری سکول کی نائب پرنسپل کہتی ہیں کہ ’ہماری دسویں اور بارہویں جماعت میں پاس ہونے کی شرح 100 فیصد ہے، حالانکہ ہم باقاعدہ کلاسیں نہیں لے سکے اور ہم نے آن لائن سوئچ کیا۔ یہ بہت تسلی بخش ہے۔‘ جب انڈیا میں کووڈ پھیل گیا تو کالرا کو احساس ہوا کہ اب کلاسیں آن لائن ہوں گی، لیکن انھیں یہ بھی پتہ تھا کہ ان کا کوئی بھی طالب علم سمارٹ فون رکھنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ تو انھوں نے اپنے خاندان والوں اور دوستوں کا سہارا لیا اور حیرت انگیز طور پر 321 سمارٹ فونز اکٹھے کر لیے جو بعد میں انھوں نے اپنے سب سے زیادہ مستحق طلبہ کو دیے۔ گذشتہ جولائی کو جب عالمی وبا کی وجہ سے ان کا سکول بند ہوا تو کالرا کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ کلاس روم ٹیچنگ کو آن لائن ٹیچنگ میں تبدیل کرنے کی نگرانی کریں۔ کالرا نے اپنے دوسرے اساتذہ سے کہا کہ وہ ان طلبہ کی فہرست بنائیں جنھیں مدد کی ضرورت ہے۔ پھر انھوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور اپنے خاندان اور دوستوں کو مدد کے لیے پکارا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان فونز سے صرف سکول کے طالب علموں کو فائدہ ہوا تھا، ان سے ان کے بہن بھائیوں کا بھی فائدہ ہوا کیونکہ انھوں نے ان کے ساتھ بھی اپنے فونز شیئر کیے تھے۔ ’ایک مرتبہ جب ٹولز بچوں کے ہاتھ میں آ جائیں اور اگر وہ انھیں مثبت طریقے سے استعمال کریں تو پھر پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے کلاس کے باہر بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔‘ امتحان کے نتائج نے ان افراد کے شکوک و شبہات کو غلط ثابت کیا جنھیں خدشہ تھا کہ نوعمر بچوں کے فونز کا غلط استعمال کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ جو لڑکا سکول میں اول آیا وہ بھی مفت فون وصول کرنے والوں میں شامل تھا۔ روہن کمار نے امتحانات میں 90 فیصد نمبر حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے اور اب ان کی خواہش ہے کہ وہ انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیں اور بالآخر ایک ایپ ڈویلپر بنیں۔ کمار کے مالک مکان نے ان کے ساتھ اپنا وائی فائی پاس ورڈ شیئر کر رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ گھنٹوں آن لائن ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ بروقت ملنے والے تحفے نے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی ہے۔ |
/urdu/world-56825090 | امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے کیس میں جیوری نے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا ہے جس کے بعد انھیں عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ فیصلہ سامنے آتے ہی عدالت کے باہر لوگوں نے جشن منایا اور بلیک لائف میٹرز کے نعرے لگائے۔ | امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے کیس میں جیوری نے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل کا مجرم قرار دے دیا ہے جس کے بعد انھیں عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جیوری نے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو قتل سمیت تمام الزامات میں قصوروار پایا ہے۔ طبی معائنہ کار کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ڈیرک شاوین نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک گھٹنے ٹیکے تھے جس میں سے تقریباً تین منٹ بعد ہی فلائيڈ بے حرکت ہو گئے تھے۔ سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا ہے فیصلے کے بعد عدالت کے باہر جشن کا سماں تھا ، جہاں اعلان ہونے کے ساتھ ہی کئی سو افراد خوشی مناتے نظر آئے۔ فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر لوگوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نعرے لگائے۔ دریں اثنا نائب وزیر اعظم ہیریس نے قانون سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جارج فلائیڈ بل کو امریکہ میں پولیسنگ میں اصلاحات لانے کے لیے منظور کریں۔ انھوں نے کہا ، 'یہ بل جارج فلائیڈ کی میراث کا ایک حصہ ہے۔ یہ کام طویل عرصے سے التوا میں ہے۔' مینیاپولس میں گذشتہ برس 25 مئی کی شام کو پولیس کو ایک پاس کے گروسری سٹور سے فون آیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ایک شخص جارج فلائیڈ نے جعلی 20 ڈالر کے نوٹ کے ساتھ ادائیگی کی ہے۔ پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر انھیں پولیس گاڑی میں داخل کرنے کی کوشش کی جس سے وہ زمین پر گر پڑے اور انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھیں بند جگہ سے گھٹن اور گھبراہٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ کلسٹروفوبک ہیں۔ بہرحال پولیس افسر ڈیرک شاوین کے گھٹنے کے نیچے ان کی گردن نظر آئی جہاں سے جارج فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں‘ اور ’مجھے مت مارو۔‘ کاؤنٹی کے طبی معائنہ کار کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے پولیس افسر نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک گھٹنے ٹیکے تھے جس میں سے تقریباً تین منٹ بعد ہی فلائيڈ بے حرکت ہو گئے تھے۔ پولیس افسر شاوین کے اپنا گھٹنا ہٹانے سے لگ بھگ دو منٹ قبل دیگر افسران نے جارج فلائیڈ کی دائیں کلائی کو نبض کے لیے چیک کیا لیکن انھیں نبض نہیں مل سکی۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے بعد انھیں مردہ قرار دیا گیا۔ پراسیکیٹر نے جیوری سے اپیل کی کہ ’وہ اپنی عقل کا استعمال کریں۔‘ انھوں نے پولیس افسر ڈیرک شاوین کے گھٹنے کے نیچے جارج فلوئیڈ کی گردن دبانے کی ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’اپنی آنکھوں پر یقین کریں۔ آپ نے جو دیکھا وہ دیکھا۔‘ |
/urdu/world-58956871 | چین نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ اس نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا چند مہینے قبل تجربہ کیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔ | چین نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ اس نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے، آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا چند مہینے قبل تجربہ کیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔ ہائپرسانک میزائل عام میزائلوں کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتار اور سبک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا توڑ کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس خبر سے چین کی جوہری صلاحیت کے بارے میں پہلے سے پائی جانے والی تشویش میں مزید زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان نے سوموار کو ذرائع ابلاغ کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس سال جولائی میں ایک معمول کا تجربہ کیا گیا تھا جس میں مختلف قسم کی دوبارہ قابل استعمال خلائی ٹیکنالوجی کو جانچا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ 'یہ میزائیل نہیں تھا بلکہ ایک خلائی جہاز تھا۔' 'خلائی جہازوں پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنے میں اس کی بہت اہمیت تھی۔' وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بہت سے دوسرے ممالک بھی اس نوعیت کے تجربات کر چکے ہیں۔ فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہ کیا یہ رپورٹ درست نہیں ہے تو انھوں نے کہا ہاں۔ ہفتے کو شائع ہونے والی رپورٹ میں چار ذرائع کا نام ظاہر کیے بغیر حوالہ دیا گیا تھا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہائپرسانک میزائل کو گرمیوں میں داغا گیا تھا۔ یہ میزائل خلائی مدار میں چکر لگا کر زمین کی طرف آیا اور وہ اپنے ہدف سے معمولی سی دوری پر ٹکرایا۔ کئی مغربی ملکوں نے بھی چین کی طرف سے حالیہ فوجی طاقت کے مظاہروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آسٹریلیا کے دفاع، قومی سلامتی اور حکمت عملی سے متعلق پالیسی ادارے کے ڈائریکٹر مائیکل شوبرج نے کہا کہ اگر ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے تو یہ جوہری اور دوسرے ہتھیاروں میں اضافے کی روش کو ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ چین کی طرف سے میزائل داغے کے ٹھکانوں یا فضا سے جوہری ہتھیار داٰغنے یا آبدوزوں سے جوہری ہتھیار چلانے سے زیادہ خطرناک یا بڑی بات ہے۔ 'لیکن یہ کھل یا خفیہ طور پر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے رجحان کا حصہ ہے۔' ہائپرسانک میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز ہیں جو کہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بلاسٹک میزائل کی طرح ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے ایک ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ جولائی کے مہینے میں روس نے اس نوعیت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے سمندر سے یہ میزائل داغا تھا۔ |
/urdu/science-55119554 | بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چاکلیٹ اور کیلے میں ایک جتنی کیلولیز ہوتی ہیں تو لہذا دونوں کا صحت پر برابر اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ | آخری بار آپ نے یہ کب سنا تھا کہ ’گڑ زیادہ صحت بخش ہے؟‘ یا ’اگر آپ ورزش کرتے ہیں تو پروٹین شیک پینا ضروری ہے‘ یا ’اگر اپ کو سوجن ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے جسم میں یقینی طور پر گلوٹن کے لیے عدم برداشت ہے‘۔ چاکلیٹ اور کیلے کی مثال ہی لے لیتے ہیں۔ شاید دونوں میں 90 کیلوریز ہوتی ہیں لیکن ممکن ہے کہ چاکلیٹ میں فیٹس کی مقدار زیادہ ہو۔ خاص کر سیچوریٹڈ فیٹس جو کولیسٹرول بڑھا سکتے ہیں۔ موازنہ کیا جائے تو کیلے میں فائبر ہونے کی وجہ سے چینی کا جسم میں پھیلاؤ آہستہ ہوتا ہے۔ یہ چینی خون میں بتدریج بڑھتی ہے اور آپ کو زیادہ عرصے تک دوبارہ بھوک نہیں لگتی۔ کیلے میں اضافی وٹامنز اور منرلز بھی قابلِ ذکر ہے۔ شاید ہی کوئی ہوگا جسے مٹھائی ناپسند ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ ضرورت سے زیادہ چینی ہمارے لیے مضرِ صحت ہوسکتی ہے۔ تو ہم اس کے نتیجے میں ہم سمجھتے ہیں کہ چینی کے قدرتی متبادل زیادہ صحت بخش ہوتے ہیں۔ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہ 'چائے میں ریفائنڈ شوگر (سفید چینی) کی جگہ شہد ڈالتی ہیں کیونکہ یہ قدرتی ہے اور میرے لیے زیادہ بہتر ہے۔' لیکن جسم اب بھی اسے چینی ہی تصور کرتا ہے۔ کچھ مائیکرو نیوٹرینٹس سبزیوں میں نہیں ہوتے جیسے وٹامن بی 12 اور آئرن۔ یہ دونوں کسی دوسری غذا سے حاصل کیے جاسکتے ہیں جیسے ناشتے کے سیریل میں بی 12 ہوتا ہے اور گہرے سبز رنگ والی سبزیوں میں آئرن ہوتا ہے۔ تو آپ پھلیوں کے ساتھ ٹوسٹ پر کیل کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہاضمے سے متعلق کوئی مسائل نہیں ہوتے۔ یہ سمجھنا آسان ہے کہ کئی لوگوں کو دودھ یا گندم بُرے اجزا لگتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ ہر سپر مارکیٹ میں ’فری فرام پراڈکٹس‘ یعنی کسی چیز سے پاک کھانوں کی وسیع تعداد ہوتی ہے۔ انھیں ہرے رنگ کے پیکٹس میں بیچا جاتا ہے جو ’قدرتی‘ محسوس ہوتی ہے۔ ان کھانوں پر ایسی تصاویر بنی ہوتی ہیں جو ان کے زیادہ صحت مند ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ اس سے ہمیں لگتا ہے کہ وہ چیزیں جو دودھ، گلوٹن یا دودھ سے پاک ہیں یہ زیادہ صحت مند ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کے لیے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو کسی اجزا سے الرجی کا عدم برداشت ہے تو یہ ضروری ہے کہ آپ کسی ماہر صحت یا جی پی سے چیک اپ کروائیں۔ کسی آن لائن ٹیسٹ سے یہ پتا کرنا درست نہیں۔ |
/urdu/entertainment-59807674 | بالی وڈ کی نئی فلم '83' انڈیا کی سنہ 1983 میں تاریخی جیت کی کہانی بیان کرتی ہے۔ تقریباً 38 برس قبل ہونے والے ٹورنامنٹ کی کوریج کے لیے کھیلوں کے صحافی ایاز میمن نے انگلینڈ کا دورہ کیا تھا۔ اسی حوالے سے وہ اس مضمون میں انڈیا کی جیت کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ | بالی وڈ کی نئی فلم '83' انڈیا کی سنہ 1983 میں تاریخی جیت کی کہانی بیان کرتی ہے۔ تقریباً 38 برس قبل ہونے والے ٹورنامنٹ کی کوریج کے لیے کھیلوں کے صحافی ایاز میمن نے انگلینڈ کا دورہ کیا تھا۔ اسی حوالے سے وہ اس مضمون میں انڈیا کی جیت کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ سنہ 1983 میں انڈیا کو محدود اووروں کی کرکٹ کی ایک ناکام ٹیم تصور کیا جاتا تھا۔ گذشتہ دو ورلڈ کپ میں انھوں نے کُل ایک میچ جیتا اور وہ بھی مشرقی افریقہ کی ٹیم کے خلاف۔ جذبات سے عاری سٹے بازوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ماہرین اور شائقین کیا سوچ رہے ہیں۔ انڈیا کی ٹورنامنٹ میں جیت جانے پر لگائی شرطوں کا تناسب 66-1 تھا (یعنی ایک روپیہ لگایا تو شرط جیت جانے پر 66 روپے ملیں گے)، اور لگ رہا تھا کہ یہ بھی ناکافی ہے۔ انڈیا کی جیت کے امکانات اتنے کم تھے کہ لوگ تو اس پر مذاق اڑاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل لارڈز کے میدان گیا تاکہ میں کوریج کے لیے اجازت نامے حاصل کر سکوں، تو مجھے وہاں موجود حکام نے کرخت لہجے میں بتایا کہ یہ اجازت نامے صرف ان صحافیوں کے لیے ہیں جن کے ملک فائنل تک رسائی حاصل کریں گے۔ لیکن پھر اس میچ کے بعد انڈیا کے ٹورنامنٹ میں سنسنی خیز سفر کے دوران میں ہر دم ان کے ساتھ تھا۔ ٹیم نے بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کیا، اس میں ان کے کھلاڑی انجرڈ بھی ہوئے اور حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ لگ رہا تھا کہ وہ ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائیں گے لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔ لیکن میں یہاں پر دو اہم واقعات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے انڈیا یہ جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں واقعات میں انڈیا کے کپتان کپیل دیو کا ذکر ہے۔ اور یاد رہے کہ کپل دیو ٹاپ آرڈر کے بلے باز نہیں تھے۔ لیکن ان کی اس اننگز نے انڈیا کو شکست کے دہانے سے نکال کر جیت دلائی اور پھر جب انڈیا نے اپنا سلسلہ شروع کیا تو پھر فائنل تک ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ٹک سکی اور ویسٹ انڈیز کو بھی ہرانے میں ان کا کردار انتہائی اہم تھا۔ ایک نظر سے دیکھیں تو یہ بڑی سیدھی سادھی کھیلوں کی بڑی متاثر کن کہانی ہے۔ لیکن دوسری نظر سے دیکھیں تو اس ٹیم میں شامل کھلاڑی، وہ تمام بڑے مختلف نوعیت کی شخصیات کے حامل تھے اور پھر بھی ان سب نے متحد ہو کر کھیلا اور یہ جیت حاصل کی۔ آج انڈیا کرکٹ کا سپر پاور ہے اور اس منزل تک پہنچنے والے سفر کا آغاز 1983 کی جیت سے ہوا تھا۔ |
/urdu/regional-58597218 | اگرچہ میڈیا اداروں کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں مرد صحافی بھی بیروزگار ہوئے ہیں لیکن خواتین صحافی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہیں اور اُن میں سے بیشتر خواتین اب صرف گھروں تک ہی محدود ہیں۔ | اگلے ہی روز یعنی 16 اگست کو ایک طالبان اہلکار اُن کے آفس آئے اور بہشتے آرغند نے طلوع نیوز کے لیے اس اہلکار کا انٹریو کیا۔ چونکہ یہ انٹرویو آمنے سامنے بیٹھ کر کیا گیا تھا اسی لیے بہشتے سمیت کئی افغان خواتین صحافی پُراُمید تھیں کہ اب طالبان کے کنٹرول کے باوجود وہ بحیثیت صحافی افغانستان میں رہتے ہوئے کام کر سکیں گی۔ لیکن آرغند کے مطابق بعد میں اُنھیں پتہ چلا کہ بات حجاب اور پردے کی نہیں بلکہ درحقیقت اب خواتین برقعوں میں بھی صحافت نہیں کر سکیں گی۔ بہشتے کے مطابق افغان خواتین صحافی جو اس وقت کابل یا افغانستان کے دیگر شہروں میں موجود ہیں وہ فی الحال اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں اور ان میں سے اکثریت ملک سے باہر جانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ کابل میں میڈیا آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم کے مطابق کابل کے سقوط سے پہلے افغانستان میں سینکڑوں ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز فعال تھے لیکن طالبان کی آمد کے بعد سے اب تک سو سے زائد ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز بند ہو چکے ہیں۔ کابل میں موجود افغان صحافیوں کے مطابق یہ میڈیا ادارے طالبان کی جانب سے عائد کردہ سینسر شپ، صحافیوں کے خلاف پیش آئے مبینہ مار پیٹ کے واقعات اور مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوئے ہیں۔ اگرچہ میڈیا اداروں کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں مرد صحافی بھی بیروزگار ہوئے ہیں لیکن خواتین صحافی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہیں اور اُن میں سے بیشتر خواتین اب صرف گھروں تک ہی محدود ہیں۔ مریم (حفاظت کے پیش نظر نام تبدیل کیا گیا ہے) گذشتہ کئی برسوں سے کابل میں ایک ٹی وی چینل کے ساتھ کام کر رہی تھی لیکن طالبان کے آنے کے بعد اب وہ گھر پر بیٹھی ہیں اور اپنی حفاظت کے پیش نظر افغانستان سے نکلنے کے لیے راہ فرار کی تلاش میں ہیں۔ حسیبہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) ایک افغان صحافی ہیں اور وہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان سے نکلنے میں کامیاب رہی ہیں لیکن چونکہ اُن کی فیملی اب بھی دارالحکومت کابل میں ہے اسی لیے وہ اب بھی ان کی حفاظت کو لے کر خدشات کا شکار ہیں۔ ’میری ماں روز مجھے کہتی تھیں کہ اول تو صحافت کرو ہی نہ اور اگر کرنی بھی ہے تو سکرین پر نہیں آنا کیونکہ پشتون قبائلی معاشرے میں اب بھی یہ عام نہیں کہ کوئی لڑکی ٹی وی کی سکرین پر آئے کیونکہ لوگ پھر عجیب ناموں سے یاد کرتے ہیں۔‘ حسیبہ کابل پر طالبان کنٹرول کی پہلی رات یعنی پندرہ اگست کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اُس رات نہ صرف وہ بلکہ اُن کی پوری فیملی ڈر اور خوف کی وجہ سے نہیں سوئے۔ |
/urdu/pakistan-51089763 | اگر آپ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں برفباری کی خبریں سن کر وہاں جانے کی تیاری کر رہے ہیں تو جانیے کہ اس سفر کے لیے کون سی احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ | محسن کمال اور ان کا خاندان ان ہزاروں سیاحوں میں شامل تھا جنھوں نے پیر کو مری اور گلیات کے علاقوں میں شدید برفباری کی خبریں سن کر تفریح کی غرض سے ان علاقوں کا رخ کیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھوں نے نتھیا گلی جانے کے لیے ایبٹ آباد کے راستے گلیات میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ایبٹ آباد مری روڈ پر بگنوتر کے مقام پر ٹریفک میں پھنس گئے اور تین گھنٹے تک ہزاروں دیگر سیاحوں کے ساتھ پھنسے رہنے کے بعد اب وہ واپس پشاور لوٹ رہے ہیں۔ اکثر چھٹی کے دن شام گئے ان پہاڑی علاقوں کو جانے والی سڑکیں رش اور پھسلن کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں اور ہزاروں سیاح ان علاقوں اور گاڑیوں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر خالد ملک کے مطابق ملک بھر میں برف باری کا سلسلہ ابھی رکنے والا نہیں اور پیر اور منگل کو بھی پہاڑی علاقوں میں برف پڑتی رہے گی لہٰذا سیاح برفباری رکنے کا انتظار کریں اور اس کے بعد ہی مری، گلیات، سوات، گلگت بلتستان کا رخ مقامی انتظامیہ سے معلومات حاصل کر کے کریں۔ احسن حمید کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی نتھیا گلی اور دیگر مقامات پر سیاح موجود ہیں جن کے لیے دو فسیلیٹیشن سینٹر چھانگا گلی اور نتھیاگلی میں قائم ہیں۔ اس وقت پولیس کی مدد سے کوئک ریسپانس فورس قائم کر دی گئی ہے، جو ہمہ وقت سیاحوں کی مدد کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے بتایا ’کالام تک تو زیادہ مسائل نہیں ہیں مگر وہاں سے ارد گرد جانے والی تمام رابطہ سڑکیں بند ہیں۔ اس وقت کالام میں دس ہزار کے قریب سیاح پہنچ چکے ہیں تاہم ہوٹلوں میں اب بھی جگہ موجود ہے۔‘ ’سب سے اہم یہ ہے کہ سیاح اپنی گاڑی کے پہیوں پر زنجیر باندھ کر سفر کریں تاکہ گاڑی برف پر نہ پھسلے۔ اگر آپ کی گاڑی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہے تو یہ زنجیر سامنے والے پہیوں پر اور اگر بیک وہیل ڈرائیو ہے تو پچھلے پہیوں پر لگانی چاہیے۔‘ گلیات اور مری کے روٹ پر 20 برس سے ڈرائیونگ کرنے والے سردار افضل میر کا کہنا تھا کہ ’برفباری کے بعد سڑک پر سے برف ہٹا بھی دی گئی ہو تو بھی پھسلن ختم نہیں ہوتی اس لیے جب کوئی بھی سیاح اپنی گاڑی پر ایسے علاقوں کا رخ کرے تو اپنی گاڑی کو پہلے گیئر میں رکھے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ بچوں اور خاندان کے ہمراہ سفر کر رہے ہیں تو ان کی ضرورت کی تمام اشیا گاڑی میں ہر وقت موجود ہونی چاہییں۔ |
/urdu/regional-51622958 | چین کے بعد امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ہے۔ دونوں میں باہمی تجارت سنہ 2018 میں ریکارڈ 142.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ امریکہ نے انڈیا کے ساتھ سنہ 2019 میں مختلف اشیا کی 23.2 ارب ڈالر کی تجارت کی۔ | اس دورے کے حوالے سے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات کے لیے کافی اہم ہیں اور 10 ارب ڈالر سے زائد کا ایک تجارتی معاہدہ بھی طے ہو سکتا ہے۔ تاہم میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ امریکہ زیادہ بڑا تجارتی معاہدہ ابھی بچا کر رکھے گا کیونکہ امریکہ انتخابات سے قبل یا بعد میں یہ معاہدہ کرے گا۔ چین کے بعد امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ہے۔ دونوں میں باہمی تجارت سنہ 2018 میں ریکارڈ 142.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ امریکہ نے انڈیا کے ساتھ سنہ 2019 میں مختلف اشیا کی 23.2 ارب ڈالر کی تجارت کی۔ انڈیا اس کا نواں بڑا تجارتی حلیف ہے۔ دونوں ممالک میں تجارتی مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے تو امریکہ نے ای-کامرس پر عدم اتفاق کے بعد انڈیا کے لیے ایچ ون بی ویزہ کے کوٹہ کو بھی 15 فیصد کم کر دیا اور سیکشن 301 کے تحت انڈیا کی جانب سے پیدا کی جانے والی تجارتی رکاوٹوں کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ امریکہ کے مطابق یہ تجارتی رکاوٹیں محصول لگا کر یا پھر بغیر اس کے کھڑی کی جا رہی تھیں۔ 13 نومبر سنہ 2019 کو انڈیا کے وزیر برائے تجارت پیوش گوئل اور امریکی تجارتی نمائندہ رابرٹ لائٹزر نے ملاقات کی تاکہ اس کمرشل معاہدے کو شروع کیا جا سکے۔ نومبر کے آخر میں امریکہ سے ایک کمیٹی انڈیا آئی تاکہ اپنے انڈین ہم منصبوں کے ساتھ ایک مجوزہ معاہدے پر بات کر سکے۔ رواں ماہ کے اوائل میں لائٹزر نے اپنا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کیا حتکہ انڈیا نے امریکہ کے اس کی دودھ اور پولٹری کی مصنوعات تک رسائی کے لیے نئے منصوبے بھی پیش کیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں تجارت اور کاروبار کے حوالے سے اختلافات کس قدر شدید ہو چکے ہیں۔ جی ایس پی انڈیا کے لیے اہم ہے کیونکہ اس کے تحت انڈیا کی کچھ مخصوص مصنوعات امریکہ کی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری کے طور پر داخل ہوسکتی ہیں لیکن یہ فائدہ پانچ جون سنہ 2019 سے ختم ہو گیا ہے جبکہ امریکہ کی ڈیری اور طبی آلات کی صنعت کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے لگائے جانے والے تجارتی محصول کے سبب ان کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ امریکہ-انڈیا سٹریٹجک پارٹنرشپ فورم کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر مکیش آگھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ کی جانب سے محصولات میں اضافے سے جن اشیا کی تجارت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے ان میں اپلائنسز، مکینیکل اور الیکٹریکل مشینری، کیمیکلز، سٹیل اور گاڑیوں کے پرزے شامل ہیں جس کی وجہ سے انڈین برآمدات کا امریکی بازاروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔ |
/urdu/science-52023317 | برطانیہ میں میک اپ بیچنے والی ’بوٹس‘ اور ’سوپر ڈرگ‘ جیسی بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں استعمال شدہ میک اپ ٹیسٹرز کورونا کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ | برطانیہ میں میک اپ کا سامان فروخت والے سٹورز نے اپنی دکانوں میں موجود میک اپ ٹیسٹرز کو پھینکنے کا اعلان کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ ٹیسٹرز صارفین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ میک اپ کی دکانوں میں موجود ٹیسٹرز کو کوئی بھی گاہک کسی مخصوص چیز کی خریداری سے قبل اپنے اوپر استعمال کر کے دیکھ سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی ان اشیا کے ذریعے جراثیم پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ برطانیہ کے میک اپ فروخت کرنے والے چند سٹورز نے کہا ہے کہ وہ ان ٹیسٹرز کو مستقبل قریب میں اپنی دکانوں سے ہٹا دیں گے۔ کووڈ 19 کا وائرس کھانسی کے ساتھ منہ سے خارج ہونے والے ذرات کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ہونٹوں، آنکھوں یا چہرے کے کسی اور حصے پر استعمال کیا گیا ٹیسٹر کسی دوسرے گاہک کے لیے وائرس منتقل کرنے کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور پر دکانوں میں نمونے کے طور پر رکھے جانے والے ٹیسٹر آئی لائنر، لپ سٹک اور دوسری اشیا کو استعمال کرنے کے لیے کسی پر روک ٹوک نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قیمت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں میک اپ بیچنے والی ’بوٹس‘ اور ’سوپر ڈرگ‘ جیسی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ استعمال شدہ میک اپ ٹیسٹرز بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم متعدد فارمیسیز اور میک اپ بیچنے والی دوسری دکانوں میں اب بھی یہ نمونے موجود ہیں۔ حالانکہ ان دکانوں میں لوگوں کے لیے جگہ جگہ ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ اختیار کرنے کا مشورہ دینے والے پوسٹر بھی آویزاں ہیں۔ برطانیہ میں ادویات اور میک اپ بیچنے والی کمپنی بوٹس کا کہنا ہے کہ ’ہمارے گاہکوں اور یہاں کام کرنے والوں کی صحت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہم ٹیسٹرز کے استعمال سے متعلق نئی ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ دکانوں میں میک اپ کمپنیوں کے نمائندگان کی موجودگی میں ہم ٹیسٹرز کو ہٹا رہے ہیں۔‘ بوٹس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ اپنے یہاں کام کرنے والے سبھی ملازمین اور خریداری کے لیے دکان میں آنے والے سبھی صارفین کے لیے ہینڈ سینیٹائزر کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ اس کے علاوہ دکانوں میں کام کرنے والے افراد سے بھی بار بار ہاتھ دھونے کو کہا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور کمپنی سوپر ڈرگ نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے تمام سٹورز سے ٹیسٹرز ہٹا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات کے مطابق یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ٹیسٹرز دکانوں میں کب دوبارہ استعمال کیے جا سکیں گے۔ |
/urdu/world-48736817 | برطانیہ بھر میں ایسے کئی کیفے اور سپر مارکیٹس قائم ہو رہی ہیں جہاں لوگ کھانے کی قیمت اپنی مرضی کے مطابق ادا کر سکتے ہیں۔ | کٹلری کھنکھنا رہی ہے اور لوگ ناشتہ کرتے ہوئے اپنی قریبی میزوں پر موجود دیگر لوگوں کے ساتھ باتوں میں مصروف ہیں جبکہ اسکول کے بچے اپنے دوستوں کے اندر داخل ہونے پر چلّا کر ان کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ پراجیکٹ برطانیہ بھر میں شروع ہونے والے ان درجنوں کیفے میں سے ہے جو نان پرافٹ بنیادوں پر یعنی کسی نفع کے بغیر کام کرتے ہیں اور جہاں کسٹمر جو چاہیں ادا کر سکتے ہیں۔ 'چاہے آپ کو دوستوں سے ملنا ہو یا آپ صرف آرام سے ناشتہ کرنا چاہتے ہوں، آپ یہاں آ کر کچھ بھی کھا سکتے ہیں وہ بھی قیمت ادا کیے بغیر۔' وہ کہتی ہیں کہ کبھی کبھی 'ہم یہاں اس لیے آتے ہیں کیونکہ یہ ناشتے کا آسان طریقہ ہے، کبھی پیسوں کی تنگی ہوتی ہے اس لیے، اور جب ہم کچھ ادا کر سکتے ہیں تو ضرور کرتے ہیں۔' یہ کیفے اس لیے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ یہاں کسٹمر خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت اپنا ناشتہ تیار کرتے ہیں۔ وہ ایک یا دو انڈے ٹوکری میں سے اٹھا کر انڈوں کے ٹائمر کے ساتھ انہیں ایک خصوصی خانے میں رکھ دیتے ہیں۔ یہاں پر کسٹمرز کے لیے اجتماعی میزیں ہیں جن سے یہ یقینی ہو پاتا ہے کہ لوگ اجنبیوں کے ساتھ بیٹھیں اور یوں بسا اوقات لوگوں کی آپس میں گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی ایسے پراجیکٹ بمشکل کھاناخریدنے کی سکت رکھنے والے لوگوں کی مدد یا پھر ماحولیاتی وجوہات کی بناء پر قائم ہو رہے ہیں۔ کئی جگہیں سپرمارکیٹس، ریسٹورنٹس اور سپلائرز کی جانب سے عطیہ کیے گئے کھانوں کا استعمال کرتی ہیں جو کہ دوسری صورت میں ضائع ہو جاتا ہے۔ ویک فیلڈ میں قائم دی ریئل جنک فوڈ پراجیکٹ کے زیر انتظام چلنے والے کیفے 'جو آپ ادا کر سکیں' کی بنیاد پر ایسا کھانا پیش کرتے ہیں جسے پھینک دیا جانا تھا۔ 2013 میں قائم ہونے والے اس کیفے کی اب ملک بھر، بشمول گلاسگو اور مانچسٹر میں شاخیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پراجیکٹ ویک فیلڈ میں 'کائنڈنیس شیئر ہاؤس' کے نام سے دنیا کی پہلی ایسی سماجی سپر مارکیٹ چلاتا ہے جو کہ مختلف ذرائع سے پھینکے جانے کے لیے تیار کھانے حاصل کر لیتا ہے۔ یہ کیفے جولائی 2016 میں شروع ہوا تھا اور اس نے 2018 میں 3.2 ٹن کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا۔ اس بچائے گئے کھانے سے ساڑھے 18 ہزار لوگوں کو 11 ہزار کھانے فراہم کیے گئے اور انہوں نے 35 مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر علاقے کے رہنے والوں کی کم قیمت اور صحت بخش غذا تک رسائی بڑھانے کے لیے کام کیا۔ فی الوقت تو وہ خود ہی اسٹاف کو تنخواہیں دے رہے ہیں اور پراجیکٹ کی فنڈنگ کر رہے ہیں مگر انہیں امید ہے کہ ایک سال کے اندر اندر یہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔ |
/urdu/pakistan-49430568 | پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر مردان کے ہوٹل مالکان نے گوشت کے ناغے کے دن پکے ہوئے گوشت کی فروخت پر عائد پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا۔ | تاہم گوشت کے ہفتہ وار ناغے کے دنوں میں اگر آپ پشاور کے سوا خیبر پختونخوا کے کسی اور شہر چلے جائیں تو جہاں قصاب کی دکان پر گوشت نہیں ملے گا وہیں کسی ہوٹل یا ریستوران میں بھی آپ بکرے، دنبے یا گائے کے گوشت کی ڈش سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ وجہ ہے صوبے میں گوشت کے ناغے کے دنوں میں پکے ہوئے گوشت کی فروخت پر بھی عائد کی جانے والی پابندی جس پر گذشتہ کئی برس سے سختی سے عمل کیا جاتا رہا ہے۔ چند ماہ قبل تک پشاور میں بھی گوشت کے ناغے کی پابندی پر سخت عملدرآمد کی وجہ سے منگل اور بدھ کو مرغی کے گوشت کے کباب اور تکے فروخت ہوتے تھے۔ مرغی کے گوشت کے کباب زیادہ پسند نہیں کیے گئے جس وجہ سے چپلی کباب کی بیشتر دکانیں ان دو دنوں میں بند رہتی تھیں۔ تاہم پھر ڈپٹی کمشنر کے ایک حکم نامے کے بعد رواں برس کے آغاز میں یہ پابندی ختم کر دی گئی اور اب اگر آپ کسی بھی دن پشاور جائیں تو شہر کے معروف مٹن تکوں، چرسی کے تکوں اور شنواری کڑاہی سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ معروف ماہر قانون خورشید خان ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ مردان کے ہوٹل مالکان نے درخواست دی تھی کہ پکے ہوئے گوشت پر پابندی ختم کی جائے۔ خورشید خان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس سلسلے میں مردان کی انتظامیہ اور چیف سیکریٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے جواب طلب کر لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں محکمۂ خوراک کے ڈائریکٹر عبدالستار نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا میں کہیں بھی گوشت کا ناغہ نہیں ہوتا اور پاکستان میں گوشت کے ناغے کا آغاز سابق صدر ایوب کے دور میں اس وقت ہوا تھا جب مویشیوں کی قلت پیدا ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر عبدالستار کے مطابق اس وقت حکومت نے مویشیوں کی افزائش کے لیے ہفتے میں دو روز کے لیے گوشت کی خاطر جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پشاور میں معروف چپلی کباب ہوٹل کے مینیجر انور خان نے بتایا کہ انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے انھیں یہی بتایا گیا ہے کہ منگل اور بدھ کے روز گوشت کا ناغہ ہوتا ہے لیکن ہوٹلوں پر اس کی کو باقاعدہ پابندی نہیں تھی۔ ہوٹلوں پر پکا ہوا گوشت کبھی فروخت ہوتا تھا لیکن جب انتظامیہ کارروائی کرتی تھی تو ہوٹلوں کو جرمانے بھی کیے جاتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ چار پانچ سال سے یہ پابندی مستقل ہو گئی تھی جس وجہ سے ہوٹلوں پر مرغی کے گوشت کے کباب پلاؤ اور دیگر کھانے فروخت کیے جاتے تھے۔ محکمۂ خوراک کے ڈائریکٹر نے یہ بھی کہا کہ مذہبی طور پر بھی گوشت کے ناغے کی کوئی پابندی نہیں اور صرف یہودی ہفتے میں ایک روز گوشت کا ناغہ کرتے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں گوشت کی پابندی کا کہیں کوئی ذکر نہیں آتا۔ |
/urdu/media-61012948 | وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے عوام میں ان کی مقبولیت پر کیا اثر ڈالا ہے؟ | وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے عوام میں ان کی مقبولیت پر کیا اثر ڈالا ہے؟ میزبان: خالد کرامت فلمنگ: بلال احمد، محمد نبیل پروڈکشن: کاشف قمر، جاوید سومرو، فاران رفیع، عمر آفریدی، ثمرہ فاطمہ، احسن محمود |
/urdu/pakistan-49163232 | پاکستان کے شمال مشرق میں ایک ایسا مقام بھی ہے جسے سوئٹزرلینڈ کے شہری اپنے ملک جیسا کہتے ہیں لیکن اُس کا نام کم ہی پاکستانی جانتے ہیں۔ | پاکستان کے شمال مشرق میں ایک ایسا مقام بھی ہے جسے سوئٹزرلینڈ کے شہری اپنے ملک جیسا کہتے ہیں لیکن اُس کا نام کم ہی پاکستانی جانتے ہیں۔ یہ مقام وادی کُمراٹ ہے۔ اس وادی تک لوگوں کی رسائی تو محدود ہے لیکن جو بھی وہاں جاتا ہے پھر اُسے وہاں کا قدرتی حسن، پہاڑ، چشمے، دریا اور وہاں کی آب و ہوا اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ آپ کو اِس خوبصورت وادی کا سفر کروا رہے ہیں ہمارے ساتھی موسیٰ یاروی اپنی اس ڈیجیٹل ویڈیو میں۔ |
/urdu/sport-60368448 | اتوار کے دن لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں شائقین کی تعداد میں تو بہتری آئی لیکن پی ایس ایل 7 کے دونوں مقابلے، لاہور قلندرز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی بمقابلہ کراچی کنگز بلکل یکطرفہ رہے۔ | اتوار کے دن لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں شائقین کی تعداد میں تو بہتری آئی لیکن پی ایس ایل 7 کے دونوں مقابلے لاہور قلندرز بمقابلہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی بمقابلہ کراچی کنگز بلکل یکطرفہ رہے۔ لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان میچ کا ٹاس لاہور کے کپتان شاہین آفریدی نے جیت کر کوئٹہ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی اور پہلے ہی اوور میں میچ کا پانسہ بدل دیا۔ سہیل تنویر اور نور احمد نے کوئٹہ کے سکور کو سات وکٹوں کے نقصان پر 141 پر پہنچا دیا۔ لاہور کی جانب سے شاہین اور ڈیوز ویزے نے دو دو وکٹیں حاصل کیں لیکن راشد خان نے نہایت عمدہ بولنگ کی اور چار اوور میں صرف 13 رن دے کر ایک وکٹ بھی حاصل کی۔ 11ویں اوور میں کوئٹہ کی ٹیم کے بولر حسن خان کی گیند پر فخر زمان نے شاٹ مارنے کی کوشش کی تو گیند ہوا میں بلند ہوئی اور دو فیلڈرز کے درمیان گر گئی۔ کچھ بھی کوئٹہ کے حق میں نہیں جا رہا تھا۔ اسی اوور کی چوتھی گیند پر کامران غلام نے پہلا چھکا مارا جس کے بعد لاہور کے لیے ہدف ایک رن فی بال رہ گیا تھا۔ اگلے اوور کی چوتھی گیند پر حفیظ نے حسن کی گیند پر چھکا مار کر میچ کا اختتام کر دیا جو ایک کیچ بھی ہو سکتا تھا لیکن گیند فیلڈر کے ہاتھ کو چھوتی ہوئی باونڈری پار کر گئی اور لاہور نے کوئٹہ قلندرز کو آٹھ وکٹوں سے با آسانی شکست دے دی۔ کامران غلام نے ناقابل شکست 55 رن بنائے۔ ’سٹیڈیم بدل گیا، کنڈیشنز بدل گئیں، نہیں بدلی تو کراچی کنگز کی پرفارمنس نہیں بدلی۔۔۔‘ یہ کہنا تھا ایک سوشل میڈیا صارف کا جو پی ایس ایل 7 میں کراچی کنگز کی مسلسل چھٹی شکست کے بعد کراچی کے چاہنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ پشاور زلمی اور کراچی کنگز کے درمیان یہ میچ ختم تو آخری گیند پر ہوا لیکن اس کا نتیجہ بہت پہلے سے ہی نظر آ رہا تھا۔ کسی نے کراچی کنگز کی قسمت کو کوسا تو کسی نے بابر اعظم سمیت بلے بازوں کے سست رفتار رن ریٹ کو لیکن 55 رنز کی اس شکست کے بعد کراچی کنگز اور کپتان بابراعظم کو اب ٹورنامنٹ میں واپسی کے لیے کوئی معجزہ ہی درکار ہو گا۔ بابر اعظم نے میچ کا ٹاس جیت کر جب پشاور زلمی کو بیٹنگ کی دعوت دی تو غالباً ان کے ذہن میں گزشتہ روز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کا میچ ہو گا جس میں کوئٹہ کے کپتان سرفراز احمد نے 200 رنز کا ہدف باآسانی حاصل کیا۔ اس کے بعد پشاور زلمی کے بلے بازوں نے کراچی کو زیادہ موقع نہیں دیا۔ ڈیبیو کرنے والے حارث چار چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے 27 گیندوں پر 49 رن بنانے کے بعد محمد نبی کی گیند پر بولڈ ہوئے تو 10 اوور ہو چکے تھے اور 97 سکور تھا۔ |
/urdu/world-61120006 | روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ بدھ کو ایک دھماکے سے متاثر ہونے والا روسی جنگی بحری جہاز ڈوب گیا ہے۔ جبکہ یوکرین کا دعویٰ ہے کہ یہ جہاز اس کے حملے کے نتیجے میں تباہ ہوا ہے۔ | روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ بدھ کو ایک دھماکے سے متاثر ہونے والا روسی جنگی بحری جہاز ڈوب گیا ہے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ جہاز اس کے میزائلوں کے باعث ڈوبا ہے تاہم ماسکو نے کسی حملے کا ذکر نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ جہاز آگ لگنے کے باعث ڈوبا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ آگ کی وجہ سے اس پر لدا ہوا دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا جس کے بعد پورے عملے کو بحیرہ اسود میں موجود قریبی کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ پہلے تو روسی وزارتِ دفاع نے کہا تھا کہ یہ جہاز اب بھی تیر رہا ہے تاہم بعد میں انھوں نے اعلان کیا کہ یہ ڈوب گیا ہے۔ روسی وزارتِ دفاع نے بتایا 'جب اس جہاز کو کشتیوں سے کھینچ کر بندرگاہ تک لے جایا جا رہا تھا تو اس نے اپنا توازن کھو دیا کیونکہ آگ لگنے کے باعث اسلحے میں ہونے والے دھماکے سے اس کے ڈھانچے کو نقصان پہنچا تھا۔ بپھرے ہوئے سمندر کے باعث یہ ڈوب گیا۔' اس جہاز کے ڈوبنے کو امریکہ کی جانب سے 'بڑا دھچکا' قرار دیا گیا ہے تاہم امریکی حکام یہ تصدیق نہیں کر پائے کہ اس کے ڈوبنے کی وجہ یوکرین کے نیپچون میزائل ہی ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے دن یعنی 24 فروری کو موسکوا عالمی طور پر اس وقت نمایاں ہوا جب اس نے بحیرہ اسود میں موجود ایک جزیرے کی حفاظت پر مامور یوکرینی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تھا تاہم اُنھوں نے مبینہ طور پر مغلظات سے بھرے ایک ریڈیو پیغام میں اس حکم کو مسترد کر دیا تھا۔ سوویت دور میں تیار ہونے والا یہ جہاز 80 کی دہائی میں بحریہ میں شامل ہوا اور اسے پہلی بار سمندر میں یوکرین کے جنوبی شہر مائیکولائیف میں اتارا گیا تھا جسے اب روس کی سخت بمباری کا سامنا ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق موسکوا کروئزر جنگی بحری جہاز کو دراصل یوکرین میں ہی بنایا گیا تھا اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں اس نے باقاعدہ طور پر کام شروع کیا تھا۔ جب سے یوکرین کی جنگ شروع ہوئی ہے موسکوا دوسرا سب سے بڑا بحری جنگی جہاز ہے جو تباہ ہوا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حملہ کروز میزائل سے کیا گیا تو ’اس سے روسی بحری بیڑے کی جدیدیت پر سوال اٹھتے ہیں کہ کیا اس کے پاس مناسب مقدار میں اسلحہ تھا، کیا اس کے انجینیئرنگ کے کچھ مسائل تھے۔‘ رشیئن میرین سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے مائیکل پیٹرسن نے بی بی سی کو بتایا کہ موسکوا جنگی جہاز ’بحیرہ اسود میں روسی بحری طاقت کی علامت تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے موسکوا یوکرین کے لیے ایک دردِ سر تھا لیکن اب اس کی تباہی دیکھ کر ’یوکرینیوں کا حقیقی معنوں میں حوصلہ بڑھا ہو گا۔‘ |
/urdu/science-55488757 | کووڈ 19 کی ویکسین بنانے کی دوڑ جاری ہے اور چین اس سلسلے میں تیزی سے آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ چین کی دو کمپنیوں سائنوویک اور سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین دوسرے ممالک میں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔ | کووڈ 19 کی ویکسین بنانے کی دوڑ جاری ہے اور چین اس سلسلے میں تیزی سے آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ چینی حکام نے ملک میں کورونا سے بچاؤ کے لیے سرکاری دوا ساز کمپنی سائنو فارم کی تیار کردہ ویکسین کی عام عوام کو لگانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اس اقدام کی اجازت دوا ساز کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ویکسین کے عبوری اعداد و شمار کے فیز تھری ٹرائلز میں 79 فیصد افادیت کی شرح سامنے آنے کے بعد دی گئی ہے۔ جس کے بعد چین کی دو کمپنیوں سائنو ویک اور سائنو فارم کی تیار کردہ ویکسین دوسرے ممالک میں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔ سائنو فارم چین کی ایک سرکاری دوا ساز کمپنی ہے۔ یہ کمپنی کووڈ 19 سے بچاؤ کی دو ویکسین تیار کر رہی ہے۔ اس کی ویکسین بھی سائنوویک کی طرح ان ایکٹیویٹڈ ویکسین ہیں اور اسی طرح کام کرتی ہیں۔ جبکہ پاکستان نے بھی چینی کمپنی سائنو فارم سے ویکسین خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ویکسین کی خریداری کے حوالے سے تکنیکی مرحلہ مکمل نہیں ہوا اور ابھی اس کی پاکستان میں حتمی قیمت نہیں بتائی جا سکتی ہے۔ خیال رہے کہ سائنو فارم نامی چینی کمپنی کی دو ویکسینز تصدیق کے بعد استعمال میں لائی جا رہی ہیں تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہوا کہ پاکستان کونسی ویکسین خریدے گا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ابتدا میں 12 لاکھ ویکسین کی ڈوز خریدے گا جو فرنٹ لائن ورکر کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ اس سے قبل وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹر پیغام میں بتایا تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر اگر کوئی اور بین الاقوامی طور پر منظور شدہ ویکسین درآمد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں اس وقت ایک اور چینی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائلز جاری ہیں۔ سائنوویک کمپنی کے چیئرمین نے سرکاری ٹی وی سی جی ٹی این کو بتایا کہ ان کے 20 ہزار مربع میٹر پر پھیلے ہوئے پیداواری پلانٹ میں ہر سال 30 کروڑ ویکسین تیار ہوں گی۔ دوسری ویکسین کی طرح اس کی بھی دو خوراکوں کی ضرورت ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ہر سال 15 کروڑ افراد کے لیے کافی ہو گی جو چین کی آبادی کا تقریباً دسواں حصہ ہے۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں چین کی کوشش ہے کہ وہ ویکسین سفارت کاری کی دوڑ جیت جائے۔ چین کے صدر شی جن پنگ افریقہ کے لیے پہلے ہی دو ارب ڈالر کا وعدہ کر چکے ہیں۔ جبکہ لاطینی امریکہ اور کیریبیئن ممالک کو بھی ویکسین خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر کی پیشکش کی گئی ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ رقوم کن شرائط پر دی جائیں گی۔ |
/urdu/pakistan-53040672 | پاکستان میں کورونا کے بڑھتے مریضوں، حکومتی بجٹ سے لے کر ملک میں فصلوں پر ٹڈی دل کے حملوں سے متعلق اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ | پاکستان میں کورونا کے بڑھتے مریضوں، حکومتی بجٹ سے لے کر ملک میں فصلوں پر ٹڈی دل کے حملوں سے متعلق اہم واقعات کی تصویری جھلکیاں۔ پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے 12 جون کو مالی سال 2020-21 کا سالانہ بجٹ پیش کیا جو 34 کھرب 37 ارب خسارے کا بجٹ ہے۔ وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ تجاویز پیش کیں جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں 12 جون کی شب کنٹونمنٹ کے علاقے صدر میں دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم ایک شخص ہلاک جبکہ 10 زخمی ہوئے۔ مقامی تھانہ کینٹ کی پولیس کے مطابق آتش گیر مواد ایک موٹر سائیکل میں چھپایا گیا تھا اور اسے صدر میں ہاتھی چوک کے قریب بازار میں کھڑا کیا گیا تھا۔ خون عطیہ کرنے کے عالمی دن کے موقع پر تھلیسمیا کے شکار بچوں کو خون لگایا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود تھیلیسیمیا بلڈ بینک میں خون کا عطیہ کرنے والوں کی شدید کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث متاثرین اور ہلاکتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں 14 جون تک کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 39 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 2632 ہے۔ متاثرین کی تعداد میں صوبہ پنجاب سرفہرست ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کہ شہر حیدر آباد میں ڈاکٹرز اور طبی عملہ حکومت کی جانب سے کورونا وبا کے پیش نظر مناسب سہولیات اور حفاظتی کٹس مہیا نہ کرنے کے خلاف 11 جون کو احتجاج کر رہا ہے۔ پاکستان میں صوبہ سندھ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اسلام آباد کی تجارتی مرکز جی نائن کراچی کمپنی سمیت متعدد علاقوں کو سیل کر دیا ہے۔ اس تصویر میں سیکورٹی اہلکار سیکٹر جی نائن کو سیک کیے جانے کے بعد ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹڈی دل کے فصلوں پر حملے جاری ہے، جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ محکمہ قدرتی آفات نے اس کے تدارک کے لیے ملک بھر میں آپریشن کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ٹڈی دل کے حالیہ حملے صوبہ بلوچستان میں فصلوں پر جاری ہیں۔ مذکورہ تصویر میں آپ ٹڈل دل کے جھنڈ کو کوئٹہ کے نواح میں دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 13 جون کو پنجاب میں کورونا کے بڑھتے مریضوں کے بعد لاک ڈاؤن کرنے کے جائزہ اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے عوام سے حفاظتی ضابطہ کار اور عوامی مقامات پر ماسک کے استعمال پر سختی سے عمل کروانے کا کہا ہے۔ وزیر اعظم نے مکمل لاک ڈاؤن کی تجویز کو رد کیا۔ |
/urdu/vert-fut-58674383 | دنیا میں سب سے مہنگے جاندار کون سے ہیں۔ اس کے جواب آپ کے لیے حیرت انگیز ہو سکتے ہیں۔ | اگرچہ وہ بطخوں میں تو ایک ہیرے جیسی قیمت اور جگہ رکھتا ہے لیکن دنیا میں دیگر جانوروں کی بہت سی ایسی انواع ہیں جو بہت مہنگی ہیں۔ تو پھر دنیا میں سب سے مہنگا جانور کون سا ہے؟ آپ اس کو کیسے بیان کریں گے؟ بہر حال اس کا جواب کافی پیچیدہ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کا جواب تلاش کریں یہ ماننا ضروری ہے کہ جانوروں کو قیمت کے لحاظ سے درجہ بندی میں لانا شاید کچھ لوگوں کے لیے احمقانہ اور ناپسندیدہ عمل ہو۔ کیا جانوروں کو مالی لحاظ سے اہمیت دینی چاہیے؟ کیا یہ کرنا ٹھیک ہے کہ ایک جاندار کی قیمت مقرر کی جائے۔ بعدازاں ہمیں یہ علم ہو گا کہ کچھ لوگ جنگلی جانوروں کی قیمتیں مقرر کرنے کے مخالف ہیں۔ تب سے گھوڑے مہنگے بکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فیوسیچی پیگاسس کو سنہ 2000 میں 64 ملین ڈالرز میں خریدا گیا تھا تب وہ ایک بچہ تھا۔ اس نے نو میں سے چھ مقابلے جیت کر اپنے مالک کے لیے لاکھوں کمائے تھے۔ لیکن وہ اپنے نسل کو آگے بڑھانے میں اپنے مالک کی امیدوں پر پورا نہیں اترا تھا اور سنہ 2020 کے آخر میں وہ ریس سے ریٹائر ہو گیا تھا۔ اس کسی بھی جاندار کی مالیت کا حساب اس کی دنیا میں کل آبادی کے حساب سے بھی کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ اگر کینیڈا میں تقریباً 16000 برفانی ریچھ ہے تو اسے تقسیم کریں تو ایک ریچھ کی قیمت تقریباً چار لاکھ ڈالر بنتی ہے۔ تو پھر وہ ہمیں مہنگے ترین جانور کی تلاش کہاں لے جاتا ہے. یہ واضح ہے کہ اس کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ اگر آپ اس پر کام کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے سادہ طور پر مارکیٹ میں دی جانے والی قیمت کو دیکھیں تو یہ واضح ہو گا کہ گھڑ سواری کے مقابلوں کے گھوڑے اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں مگر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ معاشی طور پر اس سے بھی مہنگی قیمت کے جانور ہیں جو مارکیٹ میں بکنے کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ بس پھر سب سے زیادہ مہنگے جانوروں میں کچھ بے شک بہت ہی اہم ہیں جیسے کہ پانڈے، ہاتھی، ویلز، کتے اور گھوڑے جو مجموعی طور پر کھربوں کی مالیت کے ہیں۔ اور پھر بگ ڈیو نامی بطخ ہے۔ یقینی طور پر یہ مہنگا ترین نہیں ہے لیکن پھر بھی کلب میں جگہ کا حقدار ہے۔ کم از کم اپنے مالک گراہم ہک کے لیے۔ اگرچہ اس کی قیمت کا ٹیگ شاید اتنی اہمیت نہیں رکھتا لیکن اسے پالنے والے نے بخوشی اسے رکھا کہ وہ اور ڈیو ریٹائرمنٹ کی زندگی اکھٹے گزاریں گے۔ |
/urdu/pakistan-61434183 | لڑکوں کے اہل خانہ کے مطابق ان پر کئی روز سے تشدد کیا جارہا ہے اور تشدد کی ویڈیوز واٹس ایپ کی جارہی ہیں جن میں یہ اپنے گھر والوں سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں کہ اغوا کاروں کو مزید پیسے بھجوائیں۔ | لڑکوں کے اہل خانہ کے مطابق ان نوجوانوں پر تشدد کی ویڈیوز ان کو واٹس ایپ کی جارہی ہیں جس میں گھر والوں سے اپیل کی گئی کہ ’اغوا کاروں کو مزید پیسے بھجوائیں ورنہ یہ ہمیں جان سے مار دیں گے۔‘ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ فیملی کی طرف سے درخواست موصول ہو چکی ہے جس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے اور انسانی سمگلر، ان کے والد اور ایک ساتھی کی گرفتاری کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انھوں نے یورپ جانے کے لیے کسی ایجنٹ کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ایک دوست کی وساطت سے ان کی ملاقات نادر نامی ایک ایجنٹ سے ہوئی جس نے ان کو یورپ پہنچانے کی حامی بھری اور کئی مبینہ واقعات بھی سنائے کہ کیسے وہ لڑکوں کو پنجاب سے یورپ پہنچاتا ہے جو آج ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 20 اپریل کو کامران اور عبدالخالق گھر والوں سے ملاقات کے بعد نادر کے ساتھ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ایجنٹ نادر نے ان سے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے بطور ایڈوانس وصول کیا اور کوئٹہ کے رستے انھیں ایران لے گیا جہاں ایران اور ترکی کے بارڈر پر پہنچ کر طے شدہ معاہدے کے مطابق مزید ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے کا تقاضا کیا۔ دونوں لڑکے اپنے گھر فون کرتے ہیں جہاں ایجنٹ کے والد سمیع اللہ اور ان کے سب ایجنٹ مجیب اللہ کو رقم ادا کر دی جاتی ہے۔ رقم کی وصولی کی تصدیق ہونے کے بعد ایجنٹ انھیں ترکی کا بارڈر کراس کروانے کی دو دفعہ کوشش کرتا ہے لیکن دونوں دفعہ ناکام رہتا ہے۔ ترکی پہنچنے میں ناکامی اور سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مارپیٹ پر کامران اور عبدالخالق دل برداشتہ ہوتے ہیں اور ایجنٹ نادر کو کہتے ہیں کہ وہ انھیں واپس گوجرانوالہ لے جائے اور یہیں سے غیر قانونی راستوں سے بارڈر کراس کرنے والے لڑکوں کی نئی مشکل شروع ہو جاتی ہیں۔ شاہدہ بی بی نے بتایا کہ ’ایجنٹ نے دونوں لڑکوں کو ایران میں جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھوں فروخت کردیا اور خود غائب ہو گیا۔ اب وہ اغوا کار ان لڑکوں کو روزانہ مارتے پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھر والوں سے پیسے منگواؤ۔‘ وہ کہتی ہیں ’اغواکاروں کو ہماری زبان اور ہمیں ان کی زبان سمجھ نہیں آتی۔ ہم نے ان کو بتایا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں، آپ کو کہاں سے پیسے بھیجیں، جس پر وہ کہتے ہیں کہ اپنا مکان فروخت کرو اور پیسے بھجواؤ۔‘ کامران اور عبدالخالق کے اہلخانہ نے حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل اور وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ ’حکومت نوجوانوں کو واپس لانے میں ہماری مدد کرے۔‘ |
/urdu/pakistan-57966829 | برصغیر کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کے مطابق مینارِ پاکستان کی تعمیر کے وقت اور اس کے بعد بھی اس پر کئی قسم کے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے۔ ایک نقطہ یہ بھی سامنے آتا رہا کہ پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کی علامت صوبہ پنجاب ہی میں کیوں تعمیر کی گئی۔ | سنہ 1940 تھا اور دن 23 مارچ کا تھا۔ برصغیر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے محققین بتاتے ہیں کہ جب پہلی مرتبہ مسلمانوں کی اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک الگ خطہ بنانے کی باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تو مجمع ہزاروں کا تھا۔ اس قدر بڑا اجتماع اس سے قبل لاہور کے لوگوں نے اس مقام پر نہیں دیکھا ہو گا۔ یہ جلسہ اور اس میں الگ خطے کے لیے قرارداد اس لیے بھی ایک منفرد عمل تصور کیا جاتا ہے کہ ان دنوں پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی جو پنجاب کے اتحاد کی حامی اور برصغیر کی تقسیم کی مخالف تھی۔ ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ کس قسم کی نشانی تعمیر کی جائے۔ روایتی طور پر برصغیر پاک و ہند میں آنے والے مسلمان حکمران اپنی فتوحات کے بعد مساجد تعمیر کرتے تھے۔ کمیٹی کی طرف سے مانگی گئی تجاویز میں مسجد بھی سامنے آئی تھی تاہم اس پر اتفاق نہیں ہو پایا تھا۔ ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق زمین سے تقریباً 70 میٹر بلند مینارِ پاکستان کا طرزِ تعمیر ملک کی 'ثقافتی افراط کی علامت' تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مینارِ پاکستان کی تعمیر کے وقت اور اس کے بعد بھی اس پر کئی قسم کے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے۔ ان میں ایک نقطہ یہ بھی سامنے آتا رہا کہ پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کی علامت صوبہ پنجاب ہی میں کیوں تعمیر کی گئی؟ اور پھر اس علامت کو 23 مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرارداد ہی سے منسوب کیوں کیا گیا؟ تاہم تاریخ دان اور جامعہ پنجاب لاہور کے شعبہ تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال چاولا سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب ہی پاکستان میں اس قسم کی تاریخی علامت کی تعمیر کے لے موزوں تھا کیونکہ 'پنجاب اور لاہور نے جدوجہدِ آزادی میں بہت قربانیاں دی ہیں۔' ڈاکٹر محمد اقبال چاولا کے خیال میں مینارِ پاکستان کی تعمیر کا معاملہ بھی متنازعہ تھا نہیں، چند عناصر اسے دانستاً متنازع بناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح پنجاب اور لاہور کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ 'یہی وجہ ہے کہ مینارِ پاکستان کی تعمیر میں مغل اور وسطی ایشیائی طرز تعمیر نظر آتا ہے۔ اس سے قبل برصغیر میں جو مینار بنائے گئے تھے وہ زیادہ تر مسجدوں کے ساتھ ہوتے تھے اور ان کا طرزِ تعمیر قدرے مختلف تھا۔' مینارِ پاکستان کی تعمیر میں چار حصوں میں خام پتھر سے لے کر سنگِ مرمر کے تراشے ہوئے نفیس پتھر کا استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق 'یہ اس بات کی علامت تھی کہ پاکستان کی آزادی کی تحریک کس طرح چھوٹے پیمانے سے شروع ہوئی اور کیسے کامیابی کی طرف بڑھتی گئی۔' |
/urdu/pakistan-53676844 | گلگت بلتستان کا محکمۂ جنگلی حیات آج کل برفانی تیندوے کے ان دو بچوں کی تلاش میں ہے جن کی ماں کو ہلاک کر کے اس کی کھال فروخت کرنے کی کوشش کرنے والے دو افراد کو حال ہی میں جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ | گلگت بلتستان کا محکمۂ جنگلی حیات آج کل برفانی تیندوے کے ان دو بچوں کی تلاش میں ہے جن کی ماں کو ہلاک کر کے اس کی کھال فروخت کرنے کی کوشش کرنے والے دو افراد کو حال ہی میں جرمانے اور قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مادہ برفانی تیندوے کی ہلاکت کا واقعہ چند دن قبل پیش آیا تھا اور حکام کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں اس کے ذمہ دار دو افراد کو معدومیت کا شکار برفانی تیندوے کے غیر قانونی شکار اور اس کی کھال کے کاروبار کا الزام ثابت ہونے پر پچاس، پچاس لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جرمانہ ادا نہ کرنے پر مجرموں کو ایک سال مزید قید کی سزا بھگتنا ہو گی جبکہ دو مجرموں کو معاونت کرنے پر ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماں سے محروم ہونے والے یہ بچہ تیندوے اب کسی مدد کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ان کے مطابق محکمۂ جنگلی حیات نے ضلع نگر میں اس مقام پر جہاں مادہ تیندوے کو ہلاک کیا گیا تھا، بچوں کی تلاش کے لیے کیمپ لگا رکھا ہے مگر ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ ان کے مطابق اس کے بعد جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے کھال بیچنے والے شخص کے ماسک والی تصاویر کے خاکے تیار کروائے گئے جن کی مدد سے مجرم کی شناخت ضلع نگر کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے سلیم نامی شخص کی حیثیت سے ہوئی۔ جس کے بعد ایف سی، پولیس اور محکمہ وائلڈ لائف گلگت بلتستان کے اہلکاروں کی مدد سے چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ وہ اور اس کا ایک اور ساتھی سلاجیت کی تلاش میں پہاڑوں پر گئے تھے جہاں ایک غار میں مادہ برفانی تیندوا اپنے دو بچوں کے ساتھ موجود تھی اور انھوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور بعد میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس کی کھال اتار لی تھی۔ جبران حیدر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے تیندوے کی کھال محفوظ کرنے کے لیے ضلع ہنزہ کے ایک ٹیکسیڈرمسٹ کو دی تھی جہاں سے وہ برآمد کر لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کھال کے علاوہ مجرموں کے پاس ہلاک کی جانے والی مادہ کی تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔ جبران حیدر کا کہنا تھا کہ ’گرفتاری سے قبل مجرم سے فون پر جو سودا کیا جا رہا تھا اس میں وہ کھال کے ساڑھے تین لاکھ روپے مانگ رہا تھا اور میرے خیال میں گلگت بلتستان میں برفانی تیندوے کے کھال کی یہی قیمت ہے۔ |
/urdu/sport-51797396 | پاکستانی بیٹسمینوں کی پی ایس ایل میں کارکردگی اس لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز اور پھر ایشیا کپ کھیلنا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہوگا۔ | پاکستان سپر لیگ فائیو کے پانچ سب سے کامیاب بلے بازوں میں صرف دو پاکستانی ہیں: کامران اکمل اور شاداب خان۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ نہیں ہیں جبکہ شاداب خان کی پہچان ان کی بیٹنگ نہیں بلکہ بولنگ ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اپنی آخری تین ٹی ٹوئنٹی سیریز سری لنکا، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے خلاف کھیلی ہیں۔ ان تینوں سیریز میں کھیلنے والے پاکستانی بیٹسمین کی انٹرنیشنل کرکٹ اور پی ایس ایل میں کارکردگی کا جائزہ لیں تو صورتحال تھوڑی مایوس کن نظر آتی ہے۔ فخر زمان ایسا لگتا ہے کہ اب بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف چار ناکام اننگز کے بعد اس پی ایس ایل میں بھی وہ ایک بھی قابل ذکر اننگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ چھ اننگزمیں ان کا سب سے بہترین اسکور صرف 33 رنز ہے۔ افتخار احمد نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں 62 ناٹ آؤٹ اور 45 رنز کی دو اچھی اننگز کھیلی تھیں لیکن اس پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی طرف سے کھیلتے ہوئے چھ اننگز میں ان کا بیٹ خاموش رہا ہے اور وہ مجموعی طور پر صرف 57 رنز بناسکے ہیں۔ خوشدل شاہ کو آسٹریلیا کے دورے میں ٹی ٹوئنٹی کیپ دی گئی تھی لیکن اس پی ایس ایل میں ان کی طرف سے 43 رنز ناٹ آؤٹ کی صرف ایک اچھی اننگز دیکھنے میں آئی ہے۔ آصف علی اس لحاظ سے خوش قسمت کرکٹر ہیں کہ انھیں حالیہ برسوں میں تواتر سے مواقع ملتے رہے ہیں لیکن وہ اس لحاظ سے بدقسمت ہیں کہ ابھی تک وہ ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف پانچ میچوں میں ناکام رہنے کے بعد پی ایس ایل میں بھی وہ بجھے بجھے سے ہیں۔ ابتک چھ اننگز میں صرف 20 رنز ان کا سب سے بڑا اسکور رہا ہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وکٹ کیپر محمد رضوان پاکستانی ٹیم میں سرفراز احمد کی جگہ شامل کیے گئے ہیں لیکن پی ایس ایل میں ان کی جگہ کراچی کنگز کی ٹیم میں نہیں بن رہی ہے اور انہیں صرف ایک میچ میں کھلانے کے بعد بنچ پر بٹھادیا گیا ہے اور ان کی جگہ والٹن کو موقع دیا گیا ہے۔ محمد رضوان کی پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بھی کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے۔ آسٹریلیا کےخلاف پہلے میچ میں 31 رنز بنانے کے بعد 14، صفر اور پانچ ناٹ آؤٹ کے معمولی اسکور کسی طور بھی ان کی سلیکشن کو درست ثابت نہیں کرتے۔ پاکستانی بیٹسمینوں کی یہ کارکردگی اس لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز اور پھر ایشیا کپ کھیلنا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہوگا۔ |
/urdu/world-59023882 | کیا والدین کے لیے اپنے مذہب اور کلچر کو بچوں تک منتقل کرنے میں گڑیا کی شکل میں دستیاب نرم و گداز کھلونے کارآمد ہو سکتے ہیں؟ | کیا والدین کے لے اپنے مذہب اور کلچر کو اپنے چھوٹے بچوں تک منتقل کرنے میں گڑیا کی شکل میں دستیاب ایک نرم و گداز مورتی بھی کارآمد ہو سکتی ہے؟ گزشتہ چند برسوں سے برطانیہ اور امریکہ میں کچھ چھوٹی چھوٹی کمپنیاں دس سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے مذہبی کھلونے فروخت کر رہی ہیں۔ جیدن کی والدہ، منیشا ورسانی کہتی ہیں کہ ہنومان کی شکل والا یہ سوفٹ ٹوائے ان کے دونوں بیٹوں کو اپنے مذہب کی پہچان اور اس کے ساتھ ایک بامعنی تعلق جوڑنے میں مددگار ثابت ہوا ہے اور خود انھوں نے یہ چیزیں اپنی والدہ سے سیکھی تھیں جب وہ چھوٹی تھی اور ان کی والدہ پوجا کیا کرتی تھیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے والدین میں مقبول ہونے والے یہ مذہبی کھلونے دوسرے مذاہب کے لوگوں میں بھی اتنے ہی مقبول ہو سکتے ہیں؟ لگتا ہے کہ ہندو برادری میں دیوتا اور دیوی کی طرز پر بنائے گئے کھلونے مقبول ہو رہے ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ آج کل ایسے مذہبی کھلونے دستیاب ہیں جو زیادہ مقبول تو نہیں ہوئے لیکن ان کا مقصد بھی بچوں کو اپنے مذہب اور کلچر کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے ’دیسی ڈول کمپنی‘ نے بھی کچھ کرداروں پر مبنی کھلونے بنائے ہیں جن کا مقصد مختلف مذہبی پس منظر کے بچوں کو اسلام کے متعلق ہلکے پھلکے انداز میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ اگرچہ بحیثیت مجموعی مذہبی تصورات پر مبنی کھلونوں کو بیکار چیز سمجھ کر رد کر دینا آسان ہے، لیکن کچھ ماہرین کے خیال میں یہ کھلونے بچوں کو کسی مذہب سے جوڑنے کا ایک بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔. اگرچہ ڈاکٹر ہگنز کو مذہبی کھلونوں کے حالیہ رجحان کے بارے میں معلوم نہیں، تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بڑا زبردست خیال ہے اور اس سے آپ بچوں کو اس نرمی، اس خوبصورتی سے متعارف کر سکتے ہیں جو کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو اپنے عقیدے سے ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نرم و گداز ٹیڈی بیئر کی علامتی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ بچے اسے اپنی ذات کے ساتھ وابسطہ کر لیتے ہیں اور کسی کھلونے کے ساتھ مذہبی تعلیم کو منسلک کر دینا ایک زبردست خیال ہے۔ ’اس سے بچوں کو یہ سمجھانے میں مدد مل سکتی ہے کہ مذہب کیا ہے اور اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔` |
/urdu/pakistan-47923249 | 100 سال پہلے ٹھیک آج ہی کے دن گوجرانوالہ پر فوجی جہازوں کی جانب سے ہونے والی بمباری سے پہلے نہتے عوام کے مظاہروں پر ہوائی بمباری کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ | یوں تو ایک دشمن پر ہوائی بمباری یا آتش گیر مادہ پھینکنے کی ایک پرانی تاریخ ہے، لیکن شاید گوجرانوالہ وہ پہلا شہر قرار دیا جا سکتا ہے جہاں نہتے عوام کے مظاہروں کو کچلنے کے لیے پہلی 'ایرئیل پولیسنگ' یعنی ہوائی بمباری کا استعمال کیا گیا۔ گوجرانوالہ جو کہ اب پاکستان کے پنجاب کا ایک شہر ہے، میں 14 اپریل سنہ 1919 کی دوپہر کو لاہور والٹن کے ایئر پورٹ سے اڑنے والے تین فوجی جہازوں نے نہتے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے بمباری کی۔ اس سے پہلے ہوائی بمباری زمینی فوج کے تعاون سے دشمن کی فوج یا فوجی اہداف پر کی جاتی تھی۔ تاہم 'ایریل پولیسنگ' کے لفظ کا استعمال سب سے پہلے برطانوی سیاست دان اور اس وقت کے سیکریٹری آف سٹیٹ ائیر، ونسٹن چرچل نے کیا تھا جب سنہ 1920 میں برٹش رائل ائر فورس نے عراق میں نہتے شیعہ اور سُنّی عوام کے برطانوی قبضے کے خلاف مظاہروں کو کچلنے کے لیے فضائی بمباری کی تھی۔پھر اس بمباری کو ایک 'ایریل پولسنگ' کے حربے کے طور پر صومالیہ میں بھی استعمال کیا گیا۔ اور یہ مختلف صورتوں میں اب بھی استعمال ہو رہی ہے۔ گوجرانوالہ پر بمباری کے واقعہ کا ذکر پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں کم ہی آتا ہے۔ اس لیے اس واقعے کی تفصیلات اسی انکوائری کمیٹی سے حاصل کی گئیں ہیں۔ اس انکوائری کمیٹی میں متحدہ ہندوستان کی سنہ 1919 کی سیاسی شورشوں کا ذکر ہے لیکن یہاں صرف گوجرانوالہ پر ہوائی بمباری پر کی گئی انکوائری کے حصوں کی تلخیص بیان کی گئی ہے۔ لاہور سے تقریباً 40 میل دور تقریباً 30 ہزار افراد کے شہر گوجرانوالہ میں جلیاں والا باغ (امرتسر) کے گزشتہ روز کے قتل عام کے واقعہ کے خلاف احتجاجی ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔ پانچ اپریل 1919 کو ایک مقامی سیاسی اجلاس میں رولٹ ایکٹ کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد میں دلی کے حکمرانوں کی جانب سے رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی مظاہروں پر فائرنگ کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ مختلف شہروں میں رہنے والے فائرنگ کے ان واقعات سے متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس افسر کو گوجرانوالہ میں تو کوئی گڑبڑ نظر نہیں آئی لیکن ایک میل باہر شہر کے مغربی علاقے میں تیس چالیس افراد نظر آئے۔ اس نے ان پر مشین گن سے فائرنگ کی۔ اس کے بعد ایک اور گاؤں میں تیس یا پچاس افراد کا ہجوم نظر آیا۔ لیفٹینینٹ ڈوڈکِنز نے اس ہجوم پر ایک بم پھینکا جو ایک گھر میں گرا اور پھٹا۔ انکوائری نے تسلیم کیا کہ ان دونوں بموں سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں ہوسکا۔ |
/urdu/science-61256044 | اگر اعضا کی صلاحیت میں کمی کا مطلب دماغ کے حجم میں کمی واقع ہونا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی توانائی کا ورزش کے ذریعے بہتر استعمال ہمارے دماغ میں ٹشوز کے نقصان کی رفتار کو کم کر سکتا ہے۔ | ’صحت مند جسم میں صحت مند روح۔‘ ہم اکثر اس قول کا استعمال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جسمانی ورزش کے باعث انسان کی ذہنی صلاحیتوں پر کیا مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر اعضا کی صلاحیت میں کمی کا مطلب دماغ کے حجم میں کمی واقع ہونا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی توانائی کا ورزش کے ذریعے بہتر استعمال ہمارے دماغ میں ٹشوز کے نقصان کی رفتار کو کم کر سکتا ہے۔ اس کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کی صلاحیت بہتر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی طریقے کو پرکھنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتائج کا فوری اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس اس بارے میں پہلے سے شواہد موجود ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک جسمانی ورزش کرنے سے ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور اس سے دماغ کے کچھ حصوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ ضعیف افراد میں ہونے والی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی ورزش کے باعث دماغ کے اس حصے کا حجم کم ہونے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ ہم جب اپنے جسم کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ جیسے اس کے مختلف حصے ہیں، اور ہر عضو خود ہی کام کر رہا ہے۔ اگر ہمارے جگر میں کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس ہی پر توجہ دیتے ہیں، اور اگر ہمارے گردے میں کوئی مسئلہ ہو تو ہم اس پر توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے گردے میں مسئلہ ہوتا ہے تو اس سے دل کا عارضہ شدت اختیار کر جاتا ہے، یا جگر کے عارضے کے باعث دماغی عارضہ سیریبرل اسکیمیا ہو سکتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم کے پیچیدہ نظام کی صورتحال خاصی نازک ہوتی ہے۔ ہورمیسز کے مراحل میں پٹھے ایسا مادہ خارج کرتے ہیں جو دوسرے اعضا کو یہ اطلاع دینے کا طریقہ ہے کہ توانائی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک مائیوکینز بی ڈی این ایف کہلاتا ہے جو نیورونز کے لیے رابطہ قائم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے اور انھیں چست رکھتا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ سی مثال ہے جس کے ذریعے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ جسمانی ورزش کے ذریعے دماغ کا حجم کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب، جسمانی ورزش کے ذریعے خون کا بہاؤ بھی بہتر ہوتا ہے اور جسم کو ملنے والی آکسیجن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے دماغی صلاحیت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ براہ راست اور بالواسطہ سائنسی شواہد یہ بات واضح کرتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ورزش کرنے کے باعث دماغی صلاحیت میں کمی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ |
/urdu/pakistan-51276396 | حال ہی میں اسلام آباد سے بیسیوں کی تعداد میں نایاب جانوروں کے اعضا، ان کی کھالیں اور ان سے تیار کپڑے برآمد ہوئی ہیں مگر حکام کا دعویٰ ہے یہ غیر قانونی کاروبار کہیں زیادہ وسیع ہے۔ | پیر کو محکمہ جنگلی حیات نے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں چار مختلف گارمنٹس شاپس پر چھایے مارے جہاں سے انھوں نے تقریباً 57 قیمتی جنگلی حیات کی کھالیں اور ان سے تیار کردہ چار جیکٹیں بر آمد کی ہیں۔ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد فہیم کے مطابق اسلام آباد کے کچھ علاقوں کی گارمنٹس کی دوکانوں سے برآمد ہونے والی کھالیں اور ان سے تیار کردہ گارمنٹس، جوتوں اور پرس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالرز کے حساب سے کروڑوں پاکستانی روپے بنتی ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی قیمتیں لاکھوں میں ہیں۔ اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن کے مطابق یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ تیندوا، جنگلی بلی، ہرن اور اس کے علاوہ جتنی بھی جنگلی حیات کی کھالیں برآمد ہوئی ہیں۔ یہ جانور پاکستان میں انتہائی خطرے کے شکار ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اور اگر اس طرح جنگلی حیات کا غیر قانونی کاروبار جاری رہا تو پھر ان جنگلی حیات کے تحفظ میں مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ ان جانوروں کی صرف کھالوں کا کاروبار نہیں ہوتا بلکہ ان کے دیگر اعضاء کھالوں سے بھی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں اور ان کی قانون نافذ کرنے والی ایجسنیاں بھی اس حوالے سے حساس ہیں، مگر وہاں پر بھی یہ کاروبارکسی نہ کسی طرح چل رہا ہے۔ ’مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں پر قوانین زیادہ سخت نہیں ہیں، وہاں پر تو ہر ایرا غیر اس کاروبار میں شامل ہے۔ یہ کاروبار جرائم پیشہ عناصر کے لیے بھی آسان کام بن چکا ہے جس میں پاکستان جیسے ملک میں ان کے لیے زیادہ خطرات بھی موجود نہیں ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار پر سروے میں انکشاف ہوا کہ اگر آپ پیسے خرچ کرنے کو تیار ہوں تو کراچی کی ایمپریس مارکیٹ، لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ، پشاور کی نمک منڈی، خیبر بازار اور راولپنڈی کے کالج روڈ کے علاقوں میں ہر قسم کی جنگی حیات کے اعضاء اور کھالیں دستیاب ہیں۔ ظہیر مرزا کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ٹمبر کے کاروبار سے منسلک تھے مگر اس میں اب بہت سختی ہے اور مال پکڑا جائے تو بہت نقصان ہوتا ہے چنانچہ اب انھوں نے جنگلی حیات کے کاروبار کا آغاز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ اس گروہ کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی اور تیندوے کی مزید تین کھالوں کے بہانے اس گروہ کے مزید لوگوں کو اسلام آباد لایا جائے گا، مگر بہت زیادہ قانونی مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ جس کے بعد سعد الحسن نامی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کروایا گیا جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ |
/urdu/pakistan-61095342 | پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے پاکستان تحریک انصاف کے 123 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے ہیں۔ تاہم یہ استعفے ابھی الیکشن کمیشن کے پاس جانے ہیں جہاں سے تصدیق کے بعد ان نشستوں کو خالی قرار دیا جائے گا۔ | ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے پاکستان تحریک انصاف کے 123 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے ہیں۔ تاہم یہ استعفے فی الحال الیکشن کمیشن کے پاس نہیں بھیجے گئے ہیں جہاں سے استعفوں کی تصدیق کے بعد مستعفی ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کی نشستوں کو خالی قرار دیتے ہوئے ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔ گذشتہ روز ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کے کُل 123 اراکین کے استعفے منظور کیے ہیں جو کہ اراکین نے اپنی ‘رضامندی‘ سے دیے تھے۔ وہ اراکین جن کے استعفے منظور ہوئے ہیں ان میں 94 منتخب نمائندے تھے، 25 مخصوص نشتسوں پر جبکہ چار اقلیتی سیٹوں پر تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے پیر کے روز پارلیمنٹ میں ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے یہ استعفے منظور کر لیے تھے۔ تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عامر محمود کیانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ضابطے کے تحت انھیں استعفے جمع کرائے گئے تھے جس کے بعد انھوں نے یہ استعفے ایوان کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو جمع کرا دیے تھے جنھیں ان کے مطابق ڈپٹی سپیکر نے منظور کر لیا ہے۔ ان کے مطابق جس وقت کوئی رکن سپیکر کو آ کر کسی سیکریٹری یا ڈپٹی سیکرٹری کی موجودگی میں گواہی نہ دے کہ اس نے اپنے مرضی سے استعفیٰ دیا ہے تو اس وقت تک استعفیٰ منظور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اس وقت اپنے عہدے پر موجود ہیں اور انھیں تصدیق کا یہ عمل شروع کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا یہ پہلا معاملہ نہیں۔ اس سے پہلے سنہ 2014 میں بھی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے۔ اس وقت کے سپیکر ایاز صادق نے ان استعفوں کو منظور نہیں کیا تھا اور مستعفی ہونے والے اراکین اسمبلی کو تاکید کی تھی کہ وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنے اپنے استعفے کی تصدیق کریں۔ |
/urdu/pakistan-54759211 | پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے مگر گذشتہ چند برسوں سے اب پاکستان میں سینکڑوں کسان زیتون کی کاشت کر رہے ہیں۔ آئیے آپ کی ملاقات ایسے ہی چند کسانوں سے کراتے ہیں جو اس وقت زیتون کی مختلف اقسام کی نہ صرف کاشتکاری کرتے ہیں بلکہ وہ مارکیٹ میں اس کا تیل بھی فروخت کر رہے ہیں۔ | محمد اسرار کہتے ہیں کہ ابتدائی مشکلات کے بعد اب وہ ناصرف تیل حاصل کرتے ہیں بلکہ اس سے دیگر اشیا، جن میں مربہ، اچار، زیتون کے پتوں کا قہوہ وغیرہ شامل ہے، کو بھی تیار کر کے مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والوں سے عام طور پر ان کے رشتہ دار اور قریبی دوست مہنگی گھڑیاں، موبائل فون یا پرفیوم جیسے کسی قیمتی تحفے کی فرمائش کرتے ہیں مگر نصرت جمیل گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں اپنے دوستوں سے بار بار ایک ہی تحفے کی فرمائش کرتے آ رہے ہیں اور وہ ہے عمدہ نسل کے زیتون کے پودے کی قلم کا تحفہ۔ پاکستان میں نصرت جمیل یا محمد اسرار ہی زیتون کی کاشت کرنے والے واحد کاشتکار نہیں ہیں بلکہ اس وقت پاکستان میں سینکڑوں ایسے کسان ہیں جو اپنی گھریلو، معاشی اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زیتون کی کاشت کر رہے ہیں۔ زیادہ تر کسان جنگلی زیتون میں 'قلمکاری' سے زیتون کی پیداوار کر رہے ہیں۔ محمد اسرار اور ان کے خاندان کے افراد نہ صرف اعلیٰ معیار کے زیتون کے تیل کی پیکنگ کر رہے ہیں بلکہ زیتون کے پتوں کا قہوہ تیار کر کے اس کو مارکیٹ میں فروخت بھی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے ماضی میں پام آئل کی کاشت سے متعلق ملائیشیا کی مدد بھی کی مگر اب خود بڑی دولت اس تیل کی درآمد پر خرچ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ زیتون کی کاشت کرنے والوں ایسے آلات بھی مہیا کیے جانے چاہییں جن سے وہ زیتون کے پھل کی محفوظ طریقے سے چنائی کر سکیں کیونکہ زیتون کا پھل سائز میں چھوٹا ہوتا ہے اور اسے اس طرح چننا کے درخت اور پھل کو نقصان نہ پہنچے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طارق کے مطابق ہمارے پاس پورے ملک میں اس وقت استعمال میں نہ لائی جانے والی چار ملین ہیکٹر زمین ایسی ہے جہاں پر زیتون کے باغات لگائے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپین دنیا میں سب سے زیادہ زیتون پیدا کرتا ہے جبکہ اس کے صرف 2.6 ملین ہیکٹر زمین پر زیتون کے باغات ہیں جبکہ پاکستان میں ہمارے پاس سپین سے زیادہ زمین موجود ہے جہاں اچھی کوالٹی کا زیتون کاشت کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق بڑی پیمانے پر زیتون کی کاشت کرنے سے پہلے مرحلے میں اگر پاکستان اپنی ضرورت میں خود کفیل ہو جائے تو نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بچ جائے گا بلکہ دوسری مرحلے میں ایکسپورٹ شروع کر کے قیمتی زرمبادلہ کما بھی سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی جو منصوبے شروع ہوئے ہیں، ان سے زبردست قسم کی معاشی سرگرمی دیکھی گئی ہے۔ |
/urdu/world-54670567 | دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہونے والی ایئرلائن ایمریٹس نے دنیا میں ہوائی سفر اور آسائش کے تصور کو یکسر بدل دیا اور اس کام میں اس کی مدد کرنے والوں میں پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور اس کے پائلٹس سرِفہرست تھے۔ | یہ تاریخی پرواز دنیا کی بہترین فضائی کمپنی بننے والی ایئرلائن الامارات یا ایمریٹس کی پہلی پرواز تھی جس نے دنیا میں ہوائی سفر اور آسائش کے تصور کو یکسر بدل دیا اور اس کام میں اس کی مدد کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور اس کے پائلٹس سرفہرست تھے۔ اس خطے کی جدید اور بڑی ایئرلائنز میں سے ایک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن تھی اور مورس دناتا کی نسبت سے پی آئی اے اور پاکستان سے واقف تھے اس لیے انھوں نے کراچی کا رخ کیا۔ پی آئی اے نے اس نئی ایئرلائن کو نہ صرف تکنیکی اور انتظامی مدد فراہم کی جس کی مدد سے ایئرلائن کے تصور سے بنیاد ایک سال میں مکمل ہوئی بلکہ پروازوں کے آغاز کے لیے اپنے دو طیارے بھی لیز پر عملے سمیت فراہم کیے جبکہ دو طیارے دبئی ہی کی رائل ایئر ونگ نے اپنے استعمال شدہ بوئنگ سات سو سات طیارے فراہم کیے۔ اس پرواز کے لیے پی آئی اے نے اپنا ایئربس اے تھری ہنڈرڈ طیارہ دیا جو صرف چھ سال پرانا تھا جو 21 اکتوبر سنہ 1985 کو ایمریٹس کے حوالے کیا گیا۔ اگلے تین سال تک یہ طیارہ ایمریٹس کے پاس رہا اور اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے نے اپنا بالکل نیا طیارہ بوئنگ سیون تھری سیون تھری ہنڈرڈ جو اس نے 25 اکتوبر 1985 میں حاصل کیا تھا ایمریٹس کے حوالے کیا یہ بھی دو سال تک ایمریٹس کے زیرِ استعمال رہا۔ اس پرواز کی تیاری کے لیے ایمریٹس کے فضائی میزبانوں کی تربیت کا کام کراچی میں واقع پی آئی اے کی اکیڈمی میں کیا گیا۔ گلف کے خطے کے لیے مورس فلینگن مسیحا بن کر آیا جس نے اس خطے اور ہوا بازی کی دنیا ہی بدل کر رک دی۔ جہاں ایمریٹس نے گلف کی اجارہ داری کو توڑا وہیں اس کے سابق حصے داروں میں سے قطر، ابو ظہبی اور عمان نے اپنی اپنی ایئرلائنز شروع کیں اور یوں گلف ایئر ان کے سامنے سمٹتے سمٹتے ایک بہت ہی چھوٹی ایئرلائن بن گئی۔ یوں پی آئی اے کی مدد سے اور اس کے وسائل اور تجربے سے شروع کی جانے والی ایمریٹس نے اس کی اچھائیاں اپنائیں، انہیں بہتر انداز میں تجدید کے ساتھ پیش کیا اور بلآخر اسے اسی کے میدان میں شکست دی۔ ٹم کلارک جو ابتدائی دس افراد کی ٹیم میں شامل تھے اب ایئرلائن کے صدر ہیں، شیخ احمد بن سعید المکتوم اب بھی ایئرلائن کے سربراہ اور گروپ کے چیئرمین ہیں۔ اس دوران پی آئی اے کے درجنوں کی تعداد میں سربراہ آئے اور گئے اور ان سب کے ساتھ پالیسی بدلتی رہی۔ |
/urdu/world-57857058 | شام میں لڑنے کے لیے جانے والے تین برطانوی افراد کے سمارٹ فون تک رسائی حاصل کر کے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے صحافی مبین اظہر نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ دولت اسلامیہ گروپ میں کیوں شامل ہوئے اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔ | شام میں لڑنے کے لیے جانے والے تین برطانوی افراد کے سمارٹ فون تک رسائی حاصل کر کے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے صحافی مبین اظہر نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ گروپ میں کیوں شامل ہوئے اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔ شام میں دولت اسلامیہ کی جنگ کے بعد سنڈے ٹائمز کے لیے مشرق وسطی کے نمائندے لوئس کالاغان نے ایک مقامی مترجم کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک سمارٹ فون سے حاصل کردہ فائلوں پر مشتمل ایک ہارڈ ڈرائیو حاصل کر لی۔ ایسی زندگی کو عوام کو دکھانے کے لیے نہیں تھی، اس سمارٹ فون نے ایک منظر پیش کیا کہ برطانوی نوجوانوں کے لیے دولت اسلامیہ کا رکن ہونے کا کیا مطلب ہے۔ چوکری الخلیفی لندن کے علاقے ایجویر روڈ میں پلے بڑھے اور دولت اسلامیہ میں شامل ہونے سے پہلے وہ پرتشدد جرائم میں ملوث تھے۔ بائیس سال کی عمر میں ان کی زندگی شام میں ختم ہوگئی۔ ماہر تعلیم جیویر لیسکا کے مطابق جنھوں نے 1،500 سے زیادہ آئی ایس پروپیگنڈا ویڈیوز کا جائزہ لیا اور مطالعہ کیا وہ کہتی ہیں ’یہاں تک کہ انھوں نے ویڈیوز میں پاپ کلچر کے حوالے بھی دیے جس میں ویڈیو گیم مارٹل کومبٹ اور سا مووی فرنچائز بھی شامل ہیں۔‘ ہفتے کے بعد اُنھوں نے اپنے پیروکاروں کو قرآن کی کلاسوں اور بین الاقوامی سیاست سے متعلق اپنے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شبیہہ پیش کرنے کے لیے ایک واضح کوشش کی گئی ہے۔ اُنھوں نے اپنا نام مہدی حسن سے بدل کر ابو دجانہ رکھ دیا اور بنگلہ دیشی ورثے کا ایک برطانوی آدمی ہونے کے باوجود روایتی عرب لباس میں تصاویر پوسٹ کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ دو ایکو چیمبرز کے درمیان تھے اور یہ ان کے لیے اطلاعات کا واحد ذریعہ تھا۔ انتہاپسند گروہوں کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جو تعلقات کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر یہ جانتے ہیں کہ اگر آپ اپنے پرانے دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ بات کرتے ہیں اور آپ کے اندر اب بھی ان کے لیے جذبات موجود ہیں تو پھر آپ میں اپنا راستہ تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ پھر شام میں پہنچنے کے چھ ماہ کے بعد انھوں نے آن لائن یہ پوسٹ کیا کہ کیا کوئی جانتا ہے کہ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دینے کے لیے یو سی اے ایس پاس ورڈ کیا ہے۔ اس سے انھوں نے اس قیاس آرائی کو ہوا دی کہ ان کا آئی اس کے ساتھ گزارا وقت ختم ہونے کو ہے۔ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ سمارٹ فون میں موجود تصاویر میں سے بہت سے افراد مر چکے ہیں۔ ان کی مانند بہت سے دوسرے اییسے ہیں جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ |
/urdu/world-57902895 | روس کے حکام کے مطابق بدعنوان پولیس اہلکاروں کے ایک گینگ کے خلاف تحقیقات کے دوران ایک محل نما بنگلے پر چھاپے مارا گیا جس میں سونے کی ملمع کاری سے مزئین ٹوائلٹ اور دیگر آسائشیں پائی گئیں ہیں۔ | محل نما بنگلے میں سونے کی ملمع کاری والے غسل خانے پائے گئے روس کے حکام کے مطابق بدعنوان پولیس اہلکاروں کے ایک گینگ کے خلاف تحقیقات کے دوران ایک محل نما بنگلے پر چھاپے مارا گیا جس میں سونے کی ملمع کاری سے مزیّن ٹوائلٹ اور دیگر آسائشیں پائی گئیں ہیں۔ روسی تحقیقاتی کمیٹی (ایس کے) نے اپنی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں اس وسیع و عریض بنگلےکے بیرونی اور اندرونی مناظر دکھائے گئے۔ یہ بنگلہ ان کئی جائیدادوں میں شامل ہے جہاں اس تحقیقاتی کمیٹی کے اہلکاروں نے چھاپے مارے ہیں۔ روس کے جنوب میں سٹاروپل میں ٹریفک پولیس کے سربراہ کرنل الیکسی سیفونوو اور چھ دیگر افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔ تحقیقات کے مطابق ٹریفک پولیس نے مبینہ طور پر رشوتیں لے کر کاروباری اداروں کو جعلی پرمٹ جاری کیے۔ ان پرمٹوں کا استعمال کرتے ہوئے تعمیراتی ساز و سامان اور اجناس لے کر جانے والے ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو پولیس چوکیوں سے بغیر کسی جانچ پڑتال اور تلاشی کے گزرنے میں مدد ملتی تھی۔ جن افراد پر اس منظم جعل سازی کے الزامات لگائے گئے ہیں ان کی طرف سے ان الزامات پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ گھر پولیس کے بدعنوان افسران کے ایک گینگ کی ملکیت تھا روس کے شمالی کوہ قاف کے خطے میں پولیس بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف ایک مہم چلا رہی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے اس سلسلے میں ایسی جگہوں پر چھاپے مارے جن میں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے گھر بھی شامل ہیں جہاں سے انھوں نے بڑی مقدار میں کرنسی نوٹ اور مہنگی ترین لگژری گاڑیاں بھی اپنے قبضے میں لی ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی ایس کے روس کا ایک ریاستی ادارہ ہے جو امریکہ کے ادارے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کی خطوط پر بنایا گیا ہے۔ ایس کے کا کہنا ہے کہ سیفونوو کے گینگ نے گذشتہ کئی برسوں میں ایک کروڑ نو لاکھ روبلز یا دو لاکھ پچپن ہزار ڈالر غیر قانونی طریقوں سے اکھٹے کیے۔ سیفونوو کو جن الزامات میں گرفتار کیا گیا وہ ثابت ہو جانے کی صورت میں انھیں 15 سال قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ سیفونوو سے پہلے ٹریفک پولیس کے سربراہ الیگزینڈر ارزانوکن کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ الیگزینڈر خنسٹائن جو روس کے ایوان صدر کی ایک حامی جماعت یونائیٹڈ رشن پارٹی کے منتخب رکن ہیں ان کا کہنا ہے اس علاقے میں 35 سے زیادہ ٹریفک پولیس افسران کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا کی ایک ویب سائٹ ٹیلی گرام پر لکھا ہے کہ 'اصل میں سٹارپول میں ایک مافیا سرگرم ہے جو ہر چیز سے پیسہ بنا رہا ہے، بلیک مارکیٹ کی جعلی نمبر پلیٹوں سے کارگو پرمٹ بنانے اور ریت کی ترسیل تک۔' |
/urdu/world-60739560 | روس چھوڑنے والے لوگ صرف جارجیا تک محدود نہیں ہیں بلکہ ترکی، وسطی ایشیا اور جنوبی قفقاز جیسی جگہوں پر جا رہے ہیں۔ | یوگینی لیامین جارجیا کی پارلیمان کے باہر یوکرین جانے والے ٹرک پر کپڑوں اور کھانے کے ڈبے رکھ رہے ہیں۔ لیامین ان 25 ہزار لوگوں میں سے ایک ہیں جو یوکرین پر حملے کے بعد روس چھوڑ کر جارجیا پہنچ گئے ہیں۔ جارجیا کے بڑے شہروں میں رہنے کے لیے سستی جگہیں تلاش کرنے کے لیے روسی لوگوں کو محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے سوٹ کیس اور پالتو جانوروں کے ساتھ دارالحکومت تبلیسی کی سڑکوں پر بھٹکتے نظر آ رہے ہیں۔ روس چھوڑنے والے لوگ صرف جارجیا تک محدود نہیں ہیں۔ یورپی یونین، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے روس کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اس لیے یہ لوگ ترکی، وسطی ایشیا اور جنوبی قفقاز جیسی جگہوں پر جا رہے ہیں جہاں پروازیں ابھی تک بند نہیں ہوئی ہیں۔ بہت سے لوگ آرمینیا بھی چلے گئے ہیں۔ بیلاروس کے لوگ بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی مدد کرنے پر الیگزینڈر لوکاشینکو کی حکومت پر مغربی پابندیوں سے تنگ آ کر بیلاروس کے شہری بھی دوسرے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔ آنیا نے روس چھوڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب روس میں غداری کے حوالے سے نیا قانون آیا۔ اس کے تحت یوکرین کی حمایت کرنے والوں کے لیے 20 سال تک قید کی سزا شامل ہے اور آنیا کو لگتا ہے کہ وہ بھی اس کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ ملک چھوڑنے والے زیادہ تر لوگ تکنیکی شعبے میں کام کر رہے ہیں اور دوسرے علاقوں سے بھی اپنا کام کر سکتے ہیں۔ تبلیسی کے ایک کیفے میں ایک ویڈیو گیم ڈیولپر نے مجھے بتایا کہ وہ اور ان کے جاننے والے زیادہ تر لوگ روس کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں اور جانتے ہیں کہ اب کسی بھی مظاہرے کو سختی سے دبا دیا جائے گا۔ تاہم، ایگور جارجیا کے دارالحکومت کو چھوڑنے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں کیونکہ یہاں اُنھیں اچھا نہیں لگ رہا۔ ایگور نے شکایتی لہجے میں کہا ’اُنھیں لگتا ہے کہ ہم روس سے صرف اس لیے بھاگے ہیں کہ وہاں ایپل پے کام نہیں کر رہا۔ ہم اپنے آرام کے لیے نہیں بھاگ رہے، ہم نے وہاں اپنا سب کچھ کھو دیا، ہم پناہ گزین ہیں۔ پوتن کی ارضی سیاست نے ہماری زندگیاں برباد کر دیں۔‘ کرسٹینا کہتی ہیں، ’ہم اس لیے بھاگے ہیں کیونکہ ہم اپنی حکومتوں کا ساتھ نہیں دیتے، ہم یہاں محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں صرف ہماری شہریت کی وجہ سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مجھے اپنے ملک کا نام چھپانا پڑ رہا ہے، جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کہاں سے ہوں تو میں گھبرا جاتی ہوں۔‘ |
/urdu/regional-61267790 | ایک طرف انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا خاندانی پس منظر ڈپلومیسی اور سکالر کا ہے اور دوسری طرف بلاول بھٹو زرادری ہیں جنھیں سفارتی معاملات کا بالکل کوئی تجربہ نہیں ہے۔ | لیکن بلاول کو 19 سال میں پارٹی کا جانشین بنایا گیا اور بدھ کو 33 سال کی عمر میں وزیر خارجہ بھی بن گئے۔ انڈیا اور پاکستان کی سیاست میں سیاسی خاندانوں کا غلبہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2009 میں بلاول کو امریکہ پاکستان افغانستان سربراہی اجلاس میں پاکستانی وفد کا حصہ بنایا گیا۔ اس وقت بلاول کی عمر 21 سال تھی اور ان کے والد آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بین الاقوامی وفد کے علاوہ بلاول کو سفارتی معاملات کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ دوسری طرف انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ ایس جے شنکر کو سفارت کاری کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ چین، امریکہ اور روس جیسے بڑے ممالک میں انڈیا کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا خاندانی پس منظر بھی سفارت کاری سے وابستہ ہے۔ جے شنکر کے والد کے سبرامنیم کو انڈین سفارتکاری کا گرو کہا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں، ’بلاول عمر اور تجربے میں کمتر ہو سکتے ہیں لیکن ان کے پاس بصیرت ہے۔ وہ بہت باصلاحیت اور مہذب ہے۔ کوئی وزارت کسی ایک شخص کے ذریعے نہیں چلائی جاتی۔ اس کے پاس ایک ٹیم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اس ٹیم میں کس کو رکھتے ہیں۔‘ قیصر بنگالی کہتے ہیں،’'دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں، جہاں نوجوانوں کی کمان ہے۔ ہم نوجوان ٹیلنٹ پر شک نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں بلاول اچھا کام کریں گے۔ جہاں تک انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا تعلق ہے، وہ ایک باصلاحیت شخصیت ہیں۔ میں ان کی باتیں سنتا رہتا ہوں۔ میں نے انہیں پاکستان میں بھی سنا ہے۔ اس کے پاس بہت علم ہے۔ وہ بین الاقوامی سیاست کی گہری سمجھ رکھتے ہیں۔‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا، ’یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ بلاول ہر فیصلہ اپنے والد سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ وہ اپنے والد سے کھل کر اختلاف کرتے ہیں۔ پارٹی میں اگر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو وہ رضامندی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بلاول کی صلاحیتوں سے آپ متاثر ہوں گے۔‘ انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا خاندانی پس منظر ڈپلومیسی اور سکالر ہے۔ جے شنکر کے والد کے سبرامنیم کی انڈیا کی تمام سیاسی جماعتوں میں شہرت ہے۔ بلاول بھٹو نے 2018 میں انڈیا ٹو ڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کے وزیر اعظم کا امیج مثبت نہیں ہے۔ |
/urdu/sport-58478350 | فرانس کے اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ فٹبالر ژاں پیئر ایڈمز قریب 40 سال تک کوما کی حالت میں رہنے کے بعد 73 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ | ژاں پیئر ایڈمز جنھوں نے فرانس کے لیے 22 کامیابیاں حاصل کیں۔ فرانس کے اپنے وقت کے عالمی شہرت یافتہ فٹبالر ژاں پیئر ایڈمز قریب 40 سال تک کوما کی حالت میں رہنے کے بعد 73 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ ایڈمز کو ان کے گھٹنے کی سرجری کے لیے سنہ 1982 میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ سرجری کے لیے انھیں بے ہوش کیا گیا لیکن بے ہوش کرنے والے اینستھیزیا کی زیادہ مقدار کی غلطی کی وجہ سے وہ دوبارہ کبھی ہوش میں نہ آئے۔ افریقہ کے ملک سینیگال میں پیدا ہونے والے اس کھلاڑی نے فرانس کے شہر نیس کی ٹیم کے لیے 140 میچز کھیلے۔ اس کے علاوہ وہ پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) ٹیم کے بھی کھلاڑی رہے تھے۔ پی ایس جی نے ایک بیان میں کہا کہ ایڈمز نے ’اپنے ولولے، کرشماتی شخصیت اور کھیل کے تجربے کی وجہ سے بہت داد پائی۔‘ جبکہ نیس کی ٹیم نے ایڈمز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے مناکو کے لیے کھیلنے سے قبل سنہ 1972 سے لے کر 1976 تک فرانس کے لیے 22 کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ایڈمز نمز اولمپکس کے 84 اشتہارات میں آئے تھے۔ اس کمپنی نے ان کی موت پر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ اس موقع پر ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں کو اپنی جانب سے دلی تعزیت بھیج رہے ہیں۔' اس کے باوجود بھی ڈاکٹروں نے ان کا آپریشن کیا۔ اُس وقت اینستھیزسٹ بیک وقت آٹھ مریضوں کو بے ہوش کرنے پر مامور تھے، جن میں ایک ایڈمز بھی تھے۔ ایڈمز کی اس وقت نگہداشت ہستال کے عملے کا ایک زیر تربیت ڈاکٹر کر رہا تھا۔ اس نے بعد میں بتایا کہ ’جس وقت مجھے (اُن کی نگہداشت کے کام پر) مامور کیا گیا تھا میں اُس وقت اس کام کا اہل نہیں تھا۔‘ ایڈمز کو اس آپریشن کے پندرہ ماہ بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔ تب سے اُن کی بیوی، برناڈیٹ، نمز میں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ بی بی سی ساؤتھ افریقہ کے سپورٹس کے نامہ نگار پیئر ایڈورڈز لکھتے ہیں کہ برناڈیٹ ایڈمز ایک کمال کی نفیس خاتون ہیں، مگر مضبوط آہنی اعصاب کی مالک ہیں جنھوں نے کوما میں پڑے ہوئے اپنے شوہر کی بگڑتی حالت کے باوجود اُن کی لائف سپورٹنگ مشین بند کرنے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ ان چار دہائیوں کے دوران وہ تقریباً روزانہ ژاں پیئر ایڈمز کا خیال رکھتی تھیں، ان کے کپڑے بدلتی تھیں، ان کے لیے کھانا تیار کرتی تھیں، اور ہر تہوار یا خاص موقع پر ان کے لیے تحفے لاتی تھیں۔ وہ ان سے اس دوران باتیں کرنا کبھی نہیں بھولتی تھیں۔ ایڈورڈز لکھتے ہیں کہ 'میں سنہ 2016 میں جنوبی فرانس میں ایڈمز کے گھر گیا جہاں برناڈیٹ نے بتایا تھا کہ ہسپتال نے اس حادثے پر کبھی معافی نہیں مانگی۔ |
/urdu/world-52607724 | کچھ قصبوں اور شہروں میں سڑکوں پر جراثیم کُش دوا کا چھڑکاؤ کیا گیا اور کچھ لوگوں نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں جراثیم سے بچنے کے لیے ماسک پہنے۔ | تاہم کووڈ 19 مکمل طور پر ایک نئی بیماری ہے جو زیادہ تر بوڑھے لوگوں کو متاثر کرتی ہے جبکہ 1918 میں آنے والے انفلوئنزا نے دنیا بھر میں 20 سے 30 سال کی عمر کے افراد کو جن کے مضبوط مدافعتی نظام انھیں اپنا شکار بنایا تھا۔ لیکن موجودہ انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتوں اور منفرد لوگوں نے جو طریقہ اپنایا ہے اس میں پہلے کیے جانے والے اقدامات کی جھلک نظر آتی ہے۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے کورونا وائرس کے خلاف اپنے ابتدائی ہنگامی منصوبے کو تیار کرنے کے لیے ہسپانوی فلو کے پھیلنے کا مطالعہ کیا جس کا اہم سبق یہ ہے کہ اس بیماری کی دوسری لہر جو سنہ 1918 کے موسم خزاں میں آئی تھی وہ پہلے سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوئی۔ لیکن انھوں نے جولائی سنہ 1918 میں 'عوامی استعمال کے لیے تیار کردہ یادداشت' میں لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ بیمار ہوں تو گھر پر ہی رہیں اور بڑے اجتماعات سے پرہیز کریں لیکن حکومت نے ان کی یادداشت کو دفن کر دیا۔ سر آرتھر نے یہ دلیل پیش کی تھی اگر ان کے قواعد پر عمل کیا جاتا تو بہت سی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ تاہم انھوں نے مزید لکھا: ایسے قومی حالات ہیں جن میں سب سے بڑا فرض 'چلتے رہنا' ہے خواہ صحت اور جان کو خطرہ ہی لاحق کیوں نہ ہو۔' انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئیے مرکزی طور پر کوئی لاکڈاؤن نافذ نہیں کیا گیا تھا لیکن بعض معاملوں میں بہت سے تھیٹر، ڈانس ہال، سینما گھر اور گرجا گھر وغیرہ کچھ مہینوں تک بند کر دیے گئے تھے۔ کچھ قصبوں اور شہروں میں سڑکوں پر جراثیم کُش دوا کا چھڑکاؤ کیا گیا اور کچھ لوگوں نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں جراثیم سے بچنے کے لیے ماسک پہنے۔ صحت عامہ کے پیغامات واضح نہیں تھے اور آج ہی کی طرح جعلی خبروں اور سازشی نظریات کی کثرت تھی حالانکہ صحت مند طرز زندگی کے بارے میں عمومی سطح پر موجود لاعلمی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سنہ 1918 کے وبائی امراض سے کوئی بھی ملک نہیں بچا اگرچہ اس کے اثرات اور اپنی آبادیوں کو بچانے کے لیے حکومتی کوششیں بڑے پیمانے پر مختلف رہیں۔ امریکہ میں کچھ ریاستوں نے اپنے شہریوں کے لیے قرنطینہ نافذ کیا جس کے مشترکہ سامنے آئے جبکہ بعضے نے ماسک پہنے کو لازمی قرار دینے کی کوشش کی۔ سینما گھر، تھیٹر اور تفریح کے دیگر مقامات پورے ملک میں بند کردیئے گئے۔ نیو یارک زیادہ تر امریکی شہروں میں سب سے بہتر طور پر تیار تھا کیونکہ وہ پہلے ہی تپ دق کے خلاف 20 سالہ مہم چلا چکا تھا اور اس کے نتیجے میں وہاں اموات کی شرح بھی کم رہی۔ آج کی طرح اس وقت بھی تازہ ہوا کو انفیکشن کے پھیلاؤ کے خلاف ممکنہ تدارک کے طور پر دیکھا گیا جس سے معاشرے کو کھلا رکھنے کے لیے کچھ باشعور حل نکلے۔ |
/urdu/regional-53837808 | ڈاکٹر محمد عامر شہزاد کا کہنا ہے کہ وہ 11 اگست کو اپنے رشتے دار کے انتقال پر پاکستان کا دورہ نہیں کر سکے کیونکہ برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے وقت پر ان کے ویزے کی تجدید نہیں کی۔ | ڈاکٹر عامر شہزاد کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ساری زندگی ان کے اعصاب پر سوار رہے گا برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ برطانوی حکومت کی جانب سے وقت پر ویزے کی تجدید نہ ہونے کے باعث پاکستان میں اپنے ایک رشتہ دار کے جنازے میں شرکت نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر محمد عامر شہزاد کا کہنا ہے کہ وہ 11 اگست کو اپنے رشتے دار کے انتقال پر پاکستان کا دورہ نہیں کر سکے کیونکہ برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے ان کے ویزا کی تجدید نہیں کی تھی۔ وہ شیفیلڈ کے رائل ہالیمشائر ہسپتال میں کووڈ 19 کی وبا کے دوران کام کرنے والے سٹاف کی مدد کے لیے برطانیہ میں خصوصی ویزے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے اس معاملے پر معذرت کر لی ہے۔ تیس سالہ ڈاکٹر شہزاد کا کہنا ہے کہ انھوں نے ویزے میں توسیع کی درخواست 13 مئی کو دی تھی۔ متعدد بار محکمہ داخلہ کو ای میلز بھیجنے اور ٹیلیفون کرنے کے باوجود انھیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس کے باعث انھیں خدشہ تھا کہ وہ پاکستان جانے کے بعد واپس برطانیہ میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ ڈاکٹر شہزاد کا کہنا ہے کہ وہ دل کے دورے کے شکار ہونے والے اپنے رشتے دار کے بہت قریب تھے۔ ’میں بہت بے یار و مددگار محسوس کر رہا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ واقعہ ساری زندگی میرے اعصاب پر سوار رہے گا کیونکہ میں محکمہ داخلہ کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکا۔‘ ڈاکٹر عامر شہزاد شیفیلڈ کے رائل ہالیمشائر ہسپتال میں کووڈ 19 کی وبا کے دوران کام کر رہے تھے محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ تاخیر پاسپورٹ میں غلط معلومات اور ایک ’انتظامی غلطی‘ کی وجہ سے ہوئی جس کی وجہ سے وہ فراہم کردہ دیگر معلومات سے بھی ڈاکٹر شہزاد کو شناخت نہیں کر سکے۔ ایک ترجمان نے کہا ’جہاں ہمیں ہنگامی طور پر سفر کی وجہ بننے والے غیر معمولی حالات کے بارے میں آگاہی ہو، وہاں ہم ویزا درخواستوں کو جتنا تیز تر ہو سکے نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ ’ہمیں ڈاکٹر محمد عامر شہزاد کی جانب سے ہنگامی طور پر سفر کی ضرورت کے بارے میں 10 اگست کو پہلی اطلاع ملی، اور ہم ان کے ویزا میں توسیع پر ترجیحی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔‘ ترجمان نے کہا ’ہم اس وجہ سے ڈاکٹر شہزاد کو پہنچنے والی ذہنی پریشانی پر تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔‘ |
/urdu/regional-60203250 | انڈیا کی حکومت پر سیاسی مخالفین اور ناقدین کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیل سے 'پیگاسس اسپائی ویئر' خریدنے کے الزامات پر کھڑے ہونے والے سیاسی طوفان میں پارلیمان کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ | انڈیا کی حکومت پر سیاسی مخالفین اور ناقدین کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیل سے 'پیگاسس اسپائی ویئر' خریدنے کے الزامات پر کھڑے ہونے والے سیاسی طوفان میں پارلیمان کا اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کے خلاف یہ الزامات سالانہ بجٹ سے پہلے ہونے والے پارلیمان کے دونوں ایوان کے مشترکہ اجلاس میں اٹھائے جائیں گے اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی ہونے کی توقع ہے۔ انڈیا کی سب سے اہم ریاست اتر پردیش کے علاوہ چار ریاستوں میں ہونے والے ریاستی انتخابات سے چند دن قبل منگل کو بجٹ پیش کیا جائے گا۔ انڈیا کی سپریم کورٹ میں ایک نئی درخواست جمع کرائی گئی ہے جس میں حکومت کی طرف سے لوگوں کی جاسوسی کرنے کے الزامات کی پولیس تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ان الزامات کے سامنے آنے کی بعد اس معاملے کی تحقیقات شروع کروائی تھیں۔ اس اسرائیلی کمپنی کا کہنا تھا کہ اس 'سافٹ ویئر' بنانے کا مقصد جرائم پیش اور دہشت گرد عناصر کی تلاش میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور فوجی اداروں کی مدد کرنا تھا اور یہ ان ہی ملکوں کے اداروں کو فراہم کیا گیا تھا جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کوئی الزام نہیں تھا۔ نریندر مودی کے اسرائیل کے دورے اور اس کے بعد اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی طرف سے انڈیا کے جوابی دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے تھے۔ خاص طور پر دفاعی شعبے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت اضافہ ہوا تھا۔ نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ایک مرتبہ پھر ان الزامات کے سامنے آنے سے انڈیا میں ایک سیاسی طوفان کھڑا ہو گیا ہے اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے نریندر مودی سے اس سلسلے میں وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ راہول گاندھی نے حکومت پر ملک سے غداری کرنے کا الزام لگایا ہے جبکہ کانگریس کے رکن پارلیمان مالیکرجن کارجی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا رویہ ایسا ہے جیسے انڈیا کے دشمنوں کا ہوتا ہے۔ لیکن تازہ ترین الزامات سامنے آنے کے بعد سے نریندر مودی یا ان کے وزراء کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اپوزیشن کے سیاست دانوں نے اس معاملے پر حکومت کی 'خاموشی' پر سوال اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے قوم سے خطاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ستمبر میں، سپریم کورٹ نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے اپنے سوالات کا جواب دینے میں بار بار ناکام رہنے کے بعد الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک پینل تشکیل دیا۔ عدالت نے کہا تھا کہ حکومت نے اس کے پاس 'درخواست گزاروں کی طرف سے بنائے گئے مقدمے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چھوڑا ہے۔' |
/urdu/pakistan-55951323 | فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں کے رہائشی اور پولیس والے ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ ایک لڑکی نے کیوں پوری منصوبہ بندی سے اپنی بہترین دوست کو قتل کیا اور پھر خود کشی کر لی۔ | مقدس موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک گولی اس کی چچی کو بھی لگی جو مقدس کو بچانے کے لیے دوڑی تھیں۔ فائرنگ کرنے کے بعد نبیلہ وہاں سے نکل کر صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد تحصیل چک جھمرہ میں اپنے چچا کے گھر پہنچی، مگر چچا کے گھر اسے پناہ نہیں ملی اور وہاں سے اسے نکال دیا گیا۔ قتل کے بعد خودکشی کے اس واقع کی تحقیقات کرنے والے پولیس کے تفتیشی افسر ارشد چٹھہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر نبیلہ نے اپنی دیرینہ سہیلی کے قتل سے خود کشی تک سب منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ پولیس کے تحقیقاتی افسر کے مطابق نبیلہ اپنی سہیلی مقدس کو قتل کرنے اور پھر بعد میں خودکشی کا ارادہ کرنے کے بعد ہی چھت پھلانگ کر مقدس کے گھر میں داخل ہوئی تھی اور یہ تمام کارروائی بظاہر اس نے اکیلے ہی کی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نبیلہ نے محض مقدس سے ملنے سے روکنے پر اس قدر شدید ردِ عمل ظاہر کیا کہ اپنی بچپن کی سہیلی کو قتل کر کے خود کو بھی ختم کر لیا؟ پولیس کے لیے یہ بھی ایک معمہ ہے کہ نبیلہ نے قتل میں استعمال ہونے والے پستول کہاں سے حاصل کیے اور بظاہر ایک گھریلو لڑکی نے بیک وقت دو پستولوں سے فائرنگ کیسے کی؟ گاؤں کے چند رہائشیوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔ ایک رہائشی نے بتایا کہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ نبیلہ کی وجہ سے مقدس کی پہلے بھی منگنیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ’اس کے بعد ہی مقدس کے گھر والوں نے نبیلہ پر ان کے گھر آنے اور مقدس سے ملنے پر پابندی لگا دی تھی۔‘ گاؤں کے رہائشی کے مطابق نبیلہ اس بات سے ناخوش تو تھی لیکن مقدس کو قتل کرنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہو سکتی۔ ’نبیلہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ مقدس کی شادی کسی اور سے ہو۔ وہ کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکی تھی کہ وہ اس کی شادی کسی سے نہیں ہونے دے گی۔‘ ارشد چٹھہ کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’دونوں لڑکیوں میں بہت گہری دوستی تھی جیسی دو لڑکیوں میں ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کو ملنے سے روکنے پر وہ خوش نہیں تھیں۔' تاہم کیا یہی بات قتل کی وجہ بنی یہ مزید تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو پائے گا۔ فیصل آباد کے اس نواحی گاؤں میں لوگ اب بھی ششدر ہیں۔ پولیس افسر ارشد چٹھہ کے لیے بھی یہ اپنی نوعیت کا ایک واقعہ ہے۔ آخری مرتبہ کئی برس پہلے ان کے سامنے ایک ایسا واقع آیا تھا جس میں ایک خاتون نے اپنے والد کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کسی کو قتل کیا تھا۔ |
/urdu/regional-50471672 | پیر کو جے این یو کے طلبہ نے کیمپس سے پارلیمان تک مارچ کی کوشش کی لیکن پولیس کی کئی رکاوٹوں کو توڑنے کے باوجود وہ پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ | منگل کے روز انڈیا کی پارلیمان میں بھی جے این یو کے طلبہ پر پولیس کے لاٹھی چارج کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ تقریب جے این یو کیمپس سے باہر رکھی گئی تھی اور مظاہرہ کرنے والے طلبہ نے اس موقعے پر وہاں جا کر اپنے مطالبات بتانے کی کوشش کی لیکن انھیں وہاں جانے سے روک دیا گیا۔ 11 نومبر کو کانووکیشن کے دن والے مظاہرے کے نتیجے میں جے این یو انتظامیہ نے ڈریس کوڈ اور ہاسٹل میں آمد و رفت کے اوقات کی پابندی ہٹا لی جبکہ فیس میں غریب طلبہ کے لیے کچھ تخفیف کا بھی اعلان کیا۔ جے این یو کے وائس چانسلر نے اتوار کے روز اپنے ایک ویڈیو پیغام میں طلبہ سے ہڑتال ختم کر کے کلاسز میں واپس آنے کی اپیل کی۔ گذشتہ روز یعنی 18 نومبر کو جب پارلیمان کا سرمائی اجلاس شروع ہوا تو طلبہ نے منتخب نمائندوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے انتظامیہ سے پرامن مارچ کی اجازت مانگی لیکن انھیں اجازت نہیں مل سکی۔ دہلی پولیس نے طلبہ مارچ کو روکنے کے لیے پارلیمان تک رکاوٹیں لگانا شروع کر دیں اور تعزیرات ہند کی دفعہ 144 نافذ کر دی۔ طلبہ رکاوٹوں کو توڑ کر آگے بڑھتے رہے لیکن انھیں جگہ جگہ روکا گیا اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کیا گیا۔ ہم نے اس پورے واقعے کے بارے میں جے این یو کی طلبہ یونین کے سابق صدر این سائی بالا جی سے بات کی جو کہ آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جے این یو میں داخلے کا نظام کچھ ایسا ہے کہ وہاں دور دراز، دیہی اور معاشی و سماجی طور پر پسماندہ طبقے سے آنے والوں کو اضافی نمبر دیے جاتے ہیں، اس کے ساتھ خواتین کو مزید اضافی نمبر دیے جاتے ہیں، اس لیے وہاں کے طلبہ میں غریب طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے لکھا ’جے این یو واحد یونیورسٹی نہیں ہے جہاں فیس کم ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کی فیس بھی کم ہے لیکن جے این یو پر حملہ صرف شروعات ہے، تمام یونیورسٹیوں کی فیس میں اضافہ کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی تعلیم صرف امیروں کے لیے مختص ہو کر رہ جائے گی۔ کسانوں اور مزدوروں کے بچے یونیورسٹیوں سے نکال دیے جائیں گے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے انڈیا کی سینٹرل یونیورسٹیوں میں سالانہ فیس کے جائزے کی تصویر بھی پوسٹ کی۔ جس کے مطابق جے این یو کی موجودہ سالانہ فیس 27500 سے 32000 کے درمیان آتی ہے اور اگر تازہ اضافے کو نافذ کر دیا جاتا ہے تو یہ فیس اوسطاً 55000 سے 61000 کے درمیان ہو جائے گی۔ جے این یو کے شعبہ فارسی کے ایک استاد اخلاق احمد آہن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیچرز طلبہ کے ساتھ ہیں اور وہ اس خیال کے حامی ہیں کہ تعلیم پر خرچا کم ہونا چاہیے۔ |
/urdu/world-55527023 | مذبح خانوں میں کام کرنے والے لوگوں کی زندگی کے بارے میں عام دنیا کو بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ وہی ذبح خانہ جہاں گوشت کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور وہی گوشت جسے ہم کھاتے ہیں۔ | مذبح خانوں میں کام کرنے والے لوگوں کی زندگی کے بارے میں عام دنیا کو بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ وہی ذبح خانہ جہاں گوشت کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور وہی گوشت جسے ہم کھاتے ہیں۔ مذبح خانے یا سلاٹر ہاؤس میں کام کرنے والی ایک خاتون نے بی بی سی کو اپنے کام اور اس سے پیدا ہونے والے ذہنی اثرات کے بارے میں بتایا۔ میں نے وہاں چھ سال کام کیا جو جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کے میرے خوابوں کے بالکل برعکس تھا۔ میرا کام روزانہ تقریباً ڈھائی سو جانوروں کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھنا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں آنے والے لوگوں اور نئے ملازمین کی حفاظت ان کے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ جانوروں کو بے ہوش کرنے کے تمام طریقہ کار کے باوجود طاقتور گائے کو ذبح کرنے کے لیے مشین میں ڈالے جانے سے قبل وہ بپھر پڑیں اور قصائیوں پر حملہ کر دیا۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی۔ ابھی مجھے وہاں کام کرتے ہوئے کچھ ہی مہینے گزرے تھے اور ایک لڑکے نے تازہ تازہ ذبح کی جانے والی ایک گائے کی آنتیں نکالنے کے لیے اس کے پیٹ کو چاک کیا تھا۔ ویسے مذبح خانوں میں جذبات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کوئی بھی اپنے احساس و جذبات کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔ جس جذبے کا عام طور پر ذکر کیا جاتا تھا وہ 'کمزوری نہ دکھاؤ' کا جذبہ تھا۔ اگر میں اپنے بارے میں بات کروں تو میں بھی افسردگی کا شکار ہوئی جس کی وجہ زیادہ دیر تک کام کرنے اور موت کے ماحول میں رہنا تھا۔ جب میں نے لوگوں کو اپنے کام کے بارے میں بتایا تو کچھ لوگوں نے اس کی مکمل مخالفت کی، لیکن کچھ لوگوں نے کام کے بارے میں تجسس ظاہر کیا اور اس کے بارے میں پوچھا۔ بہر حال میں لوگوں سے اس کے متعلق بہت کم ہی باتیں کرتی لیکن پھر بھی میں انھیں یہ نہیں بتا پائی کہ اس کے مجھ پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ جن ہولناک چیزوں کو میں دیکھ رہی ہوں اس نے میری سوچنے کی صلاحیت کو کم کردیا ہے۔ مجھے عجیب و غریب خیالات آتے ہیں اور افسردگی بہت زیادہ ہے۔ میں نے اپنی ملازمت کو تبدیل کیا اور ذہنی صحت کے شعبے میں کام کرنے والی کچھ تنظیموں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ لوگوں سے ان کے احساسات کے بارے میں بات کرنا شروع کیا۔ لوگوں کو سمجھایا کہ افسردگی کی صورت میں کسی پیشہ ور سے مدد لینا کتنا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو محسوس کرتے تھے کہ انھیں علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ ملازمت چھوڑنے کے چند ماہ بعد مذبح خانے میں ساتھ کام کرنے والے میرے ایک ساتھی نے مجھ سے رابطہ کیا۔ |
/urdu/pakistan-54983704 | انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق ہراسانی کے واقعات میں ملوث افراد کی تقریریاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حکومت اور باقی دیگر سیاسی جماعتیں انسانی حقوق، حقوق نسواں اور ان کے تحفظ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔ | جب یہ بات سوشل میڈیا کی زینت بنی اور میڈیا پر رپورٹ ہوئی تو متعدد حلقوں نے اس تقرری کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کم از کم جب تک معاملہ عدالت میں ہے تب تک یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا جبکہ کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ تحریک انصاف کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ کنیز فاطمہ کے مطابق نوید اسلم کا موقف ہے کہ خاتون افسر جھوٹ بول رہی ہیں اور ان کا الزام عدالت میں ابھی ثابت نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اسے بہت پرانا جانتے ہیں اور وہ تحمل مزاج شخص ہے۔' ان کے مطابق خاتون ہونے کے ناطے ایسا نہیں ہے کہ ہر جگہ مرد کی غلطی ہے، خواتین بھی غلطی پر ہو سکتی ہیں۔‘ یہ پہلا واقعہ نہیں جب حکمران جماعت کو اس طرح کی کوئی تعیناتی منسوخ کرنی پڑی ہو۔ سنہ 2019 میں جب پی ٹی آئی کے افتخار لونڈ کو سندھ میں انسانی حقوق کا فوکل پرسن لگایا گیا تو یہ بات نکلی کہ ان پر اپنے ملازم پر تشدد کرنے کا الزام تھا جس کا مقدمہ گھوٹکی میں خان پور مہر پولیس نے مقدمہ درج کر رکھا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن اور ایچ آر سی پی کی سابق سربراہ زہرہ یوسف نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کسی ایسے شخص کو ہی عورت کے تحفظ کی ذمہ داری دے دی جائے جو خود ایسے واقعات میں ملوث ہو۔ ’ایسے لوگوں کی تقریریاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حکومت اور باقی دیگر سیاسی جماعتیں انسانی حقوق، حقوق نسواں اور ان کے تحفظ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جہاں انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو وہاں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ عہدے سیاسی کارکنوں کو اعزازی طور پر دے دیے جاتے ہیں۔ اکثر ایسے افراد کا اپنے اصل کام سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ ان کا پس منظر کیا ہے۔ ان کے مطابق ’انسانی حقوق یا حقوق نسواں کے بارے میں ہمیں ہمیشہ پارٹی مفادات اور سوچ سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے کیونکہ یہ حساس معاملات ہوتے ہیں۔ پہلے ہی ہمارے معاشرے میں ان موضوعات سے متعلق اتنے مسائل ہیں اور اگر ہم ان لوگوں کو سیاسی طور پر خوش کرنے کے لیے ایسے عہدوں پر تعینات کریں گے تو اس سے مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔‘ جو لوگ ان عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں وہ صرف اپنے علاقے میں اثر روسوخ اور طاقت کے لیے ایسے عہدے لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعیوں کو دیکھنا چاہیے کہ کسی کو سیاسی طور پر خوش کرنا بھی ہے تو کم از کم ایسے اداروں میں نہ لگائیں اور ان کا پس منظر لازمی چیک کریں۔ |
/urdu/pakistan-49455345 | ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی تازہ رپورٹ میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا تدارک ضروری قرار دیا ہے۔ | ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے 2018 میں حقوق انسانی کے حوالے سے متعلق اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا تدارک ضروری ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بلوچ ہیومن رائٹس کمیشن اور بلوچستان انسانی حقوق کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2018 میں جبری گمشدگیوں کی کم از کم 541 جزوی اطلاعات سامنے آئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک کسی کو بھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ پولیس لاپتہ افراد کے ایسے واقعات کی تحقیقات کرنے کی اہل نہیں ہے جن میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنیسیوں کے اہلکار ملوث ہوں۔ چاہے اس کی وجہ تربیت کا فقدان ہو یا اختیارات کی کمی۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں میڈیا کے پاس ان واقعات کی رپورٹنگ کا بظاہر اختیار نہ ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست اس سنگین مسئلے کے حل کا سیاسی عزم نہیں رکھتی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں نے کہا کہ کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہوتے ہیں جس کی فوری طور پر تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں غیر متناسب طور پر شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا جس کے باعث وہ ہزارہ علاقوں تک محدود ہیں۔ ان کی بازاروں اور تعلیمی اداروں تک رسائی محدود ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کے باعث ہزارہ برادری کے لوگ چونکہ اپنی سلامتی کے لیے باقی معاشرے سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اور ان کے پھلتے پھولتے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کے باعث گذشتہ برسوں کے دوران قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے پاکستان میں لاچار زندگی بسر کرنے سے آسٹریلیا میں غیر قانونی نقل مکانی کے خطرات مول لینا بہتر سمجھا۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق(این سی ایچ آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران، دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 509 ہزارہ قبیلے کے افراد مارے گئے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غذائیت کی کمی صوبے کے بچوں کی صحت کے لیے اب بھی ایک سنگین خطرہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نومبر2018 میں صوبائی وزیر صحت نے بلوچستان میں غذائی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ پر بلوچستان حکومت کا موقف جاننے کے لیے متعلقہ حکام سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے موقف نہیں دیا گیا۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہزارہ قبیلے کے افراد کی سکیورٹی کے لیے خاطرخواہ اقدامات کیے گئے ہیں جس کے باعث ماضی کے مقابلے میں ان کی ہلاکتوں میں بڑی تعداد میں کمی آئی ہے۔ |