text
stringlengths 0
57
|
---|
الحذَر آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر |
حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں |
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے |
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں |
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف |
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں |
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب |
پادشاہوں کی نہیں، اﷲ کی ہے یہ زمیں |
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب |
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں |
ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے |
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے |
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات |
ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات |
ابن مریم مر گیا یا زندۀ جاوید ہے |
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟ |
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے |
یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟ |
ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم |
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟ |
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں |
یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟ |
تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے |
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات |
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام |
چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات |
ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر |
جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات |
ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں |
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات |
مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے |
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے |
بُڈھّے بلوچ کی نِصیحت بیٹے کو |
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا |
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا |
جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل |
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا |
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں |
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا |
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر |
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا |
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر |
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا |
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص |
کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا |
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت |
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا |
دنیا کو ہے پھر معرکۀ رُوح و بدن پیش |
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا |
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا |
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا |
تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا |
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا |
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے |
’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را‘ |
تصویر و مُصوّر |
تصویر |
کہا تصویر نے تصویر گر سے |
نمائش ہے مری تیرے ہُنر سے |
ولیکن کس قدر نا مُنصفی ہے |
کہ تُو پوشیدہ ہو میری نظر سے |
مُصوّر |
گراں ہے چشمِ بینا دیدہ وَر پر |
جہاں بینی سے کیا گُزری شرَر پر |
نظر، درد و غم و سوز و تب و تاب |
تُو اے ناداں، قناعت کر خبر پر |
تصویر |
خبر، عقل و خِرد کی ناتوانی |
نظر، دل کی حیاتِ جاودانی |
نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز |
سزاوارِ حدیثِ ’لن ترانی‘ |
مُصوّر |
تو ہے میرے کمالاتِ ہُنر سے |
نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے |
مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط |
کہ تُو پِنہاں نہ ہو اپنی نظر سے |
عالمِ بَرزخ |
مُردہ اپنی قبر سے |
کیا شے ہے، کس امروز کا فردا ہے قیامت |
اے میرے شبستاںِ کُہن کیا ہے قیامت؟ |
قبر |
اے مُردۀ صد سالہ تجھے کیا نہیں معلوم؟ |
ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت |
مُردہ |
جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت |
اُس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں مَیں |
ہر چند کہ ہوں مُردۀ صد سالہ ولیکن |
ظُلمت کدۀ خاک سے بیزار نہیں مَیں |
ہو رُوح پھر اک بار سوارِ بدنِ زار |
ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں |
صدائے غیب |
نے نصیبِ مار و کژدُم، نے نصیبِ دام و دَد |
ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگِ ابَد |
بانگِ اسرافیل اُن کو زندہ کر سکتی نہیں |
رُوح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسَد |
مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام |
گرچہ ہر ذی رُوح کی منزل ہے آغوشِ لَحد |
قبر |
آہ، ظالم تُو جہاں میں بندۀ محکوم تھا |