text
stringlengths 0
57
|
---|
فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق |
پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری |
خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہرِ الٰہی |
ہو صاحبِ غیرت تو ہے تمہیدِ امیری |
افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ |
اے بندۀ مومن تو بشیری، تو نذیری |
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جُدائی |
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی |
جو فقر ہُوا تلخیِ دوراں کا گِلہ مند |
اُس فقر میں باقی ہے ابھی بُوئے گدائی |
اس دور میں بھی مردِ خُدا کو ہے میَسّر |
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی |
در معرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت |
اے بندۀ مومن تو کجائی، تو کجائی |
خورشید سرا پردۀ مشرق سے نکل کر |
پہنا مرے کُہسار کو ملبوسِ حنائی |
آگ اس کی پھُونک دیتی ہے برنا و پیر کو |
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں |
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی |
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگِیں |
تُو اپنی سرنوِشت اب اپنے قلم سے لِکھ |
خالی رکھی ہے خامۀ حق نے تری جبیں |
یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں |
ہِمّت ہو پَرکُشا تو حقیقت میں کچھ نہیں |
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں |
زیرِ پَر آگیا تو یہی آسماں، زمیں |
یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سُوری نے |
کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری |
عزیز ہے انھیں نامِ وزیری و محسود |
ابھی یہ خِلعتِ افغانیت سے ہیں عاری |
ہزار پارہ ہے کُہسار کی مسلمانی |
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بُتوں کا زُنّاری |
وہی حرم ہے، وہی اعتبارِ لات و منات |
خُدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری |
نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانے |
نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں |
فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن |
قدم اُٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں |
کھُلے ہیں سب کے لیے غَربیوں کے میخانے |
عُلومِ تازہ کی سرمستیاں گُناہ نہیں |
اسی سُرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تری |
ترے بدن میں اگر سوزِ ’لاالٰہ‘ نہیں |
سُنیں گے میری صداخانزادگانِ کبیر؟ |
گِلیم پوش ہوں مَیں صاحبِ کُلاہ نہیں |
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نِگہبانی |
یا بندۀ صحرائی یا مردِ کُہستانی |
دنیا میں مُحاسب ہے تہذیبِ فُسوں گر کا |
ہے اس کی فقیری میں سرمایۀ سُلطانی |
یہ حُسن و لطافت کیوں؟ وہ قُوّت و شوکت کیوں |
بُلبل چمَنِستانی، شہباز بیابانی |
اے شیخ بہت اچھّی مکتب کی فضا، لیکن |
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی |
صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا |
تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی |
مری شاخِ امَل کا ہے ثمر کیا |
فراغت دے اسے کارِ جہاں سے |
دِگرگُوں عالمِ شام وسحر کر |
غریبی میںہُوں محسودِ ا میری |
خِرد کی تنگ دامانی سے فریاد |
کہا اقبال ؔنے شیخِ حرم سے |
کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد |
حدیثِ بندۀ مومن دِل آویز |
تمیزِ خارو گُل سے آشکارا |
نہ کر ذکرِ فراق وآشنائی |
تِرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے |
خِرد د یکھے اگردل کی نگہ سے |
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر |
مُلّازادہ ضیغم ؔلولابی کشمیری کا بیا ض |
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہُوا سیماب |
موت ہے اک سخت تر جس کاغلامی ہے نام |
آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر |
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہُو |
دُرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہیں |
رِندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات |
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیّری |
سمجھا لہُو کی بُوند اگرتُو اسے تو خیر |
کھُلا جب چمن میں کُتب خانۀ گُل |
آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ |
تمام عارف وعامی خودی سے بیگانہ |
دِگرگُوں جہاںان کے زور عمل سے |
نشاںیہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا |
چہ کافرانہ قمارِ حیات می بازی |
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ |
حاجت نہیں اے خطّۀ گُل شرح وبیاں کی |
خود آگاہی نے سِکھلادی ہے جس کو تن فراموشی |
آں عزم بلند آور آں سوزِ جگرآور |
غریبِ شہرہوں میں، سُن تو لے مری فریاد |
اِبلیس |
یہ عناصِر کا پُرانا کھیل، یہ دُنیائے دُوں |
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّاؤں کا خوں |
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز |
جس نے اس کا نام رکھّا تھا جہانِ کاف و نوں |
میں نے دِکھلایا فرنگی کو مُلوکیّت کا خواب |