text
stringlengths
0
57
سیاسی پیشوا
اُمید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی
جہاں میں ہے صفَتِ عنکبوت ان کی کمند
خوشا وہ قافلہ، جس کے امیر کی ہے متاع
تخیّلِ ملکوتی و جذبہ ہائے بلند
نفسیاتِ غلامی
سخت باریک ہیں اَمراضِ اُمَم کے اسباب
کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی
دینِ شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۀ رُوباہی
ہو اگر قُوّتِ فرعون کی در پردہ مُرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کِلیم اللّٰہی
غلاموں کی نماز
کہا مجاہدِ تُرکی نے مجھ سے بعدِ نماز
طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام
وہ سادہ مردِ مجاہد، وہ مومنِ آزاد
خبر نہ تھی اُسے کیا چیز ہے نمازِ غلام
ہزار کام ہیں مردانِ حُر کو دُنیا میں
انھی کے ذوقِ عمل سے ہیں اُمتّوں کے نظام
بدن غلام کا سوزِ عمل سے ہے محروم
کہ ہے مروُر غلاموں کے روز و شب پہ حرام
طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجبّ ہے
ورائے سجدہ غریبوں کو اَور کیا ہے کام
خدا نصیب کرے ہِند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے مِلّت کی زندگی کا پیام
فلسطِینی عر ب سے
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۀ یَہود میں ہے
سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے
مشرق و مغرب
یہاں مَرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مَرض کا سبب ہے نظامِ جمہُوری
نہ مشرق اس سے بَری ہے، نہ مغرب اس سے بَری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رَنجوری
نفسیاتِ حاکمی
یہ مِہر ہے بے مہریِ صّیاد کا پردہ
آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری
رکھنے لگا مُرجھائے ہوئے پھُول قفَس میں
شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری
محراب گُل افغان
میرے کُہستاں تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اَب و جدَ کی خاک
روزِ ازل سے ہے تو منزلِ شاہین و چرغ
لالہ و گُل سے تہی، نغمۀ بُلبل سے پاک
تیرے خَم و پیچ میں میری بہشتِ بریں
خاک تِری عنبریں، آب ترا تاب ناک
باز نہ ہوگا کبھی بندۀ کبک و حمام
حِفظِ بدن کے لیے رُوح کو کردوں ہلاک
اے مرے فقرِ غیور فیصلہ تیرا ہے کیا
خِلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک
حقیقتِ ازَلی ہے رقابتِ اقوام
نگاہِ پِیرِ فلک میں نہ میں عزیز، نہ تُو
خودی میں ڈُوب، زمانے سے نا اُمید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفُو
رہے گا تُو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں ’لَاشَرِیکَ لَہٗ‘
تِری دُعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تُو بدل جائے
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے
وہی شراب، وہی ہاے و ہُو رہے باقی
طریقِ ساقی و رسمِ کدُو بدل جائے
تری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے
کیا چرخِ کج رو، کیا مہر، کیا ماہ
سب راہرو ہیں واماندۀ راہ
کڑکا سکندر بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے اے مرگِ ناگاہ
نادر نے لُوٹی دِلّی کی دولت
اک ضربِ شمشیر، افسانہ کوتاہ
افغان باقی، کُہسار باقی
اَلْحُکْمُ لِلّٰہ اَلْمُلْکُ لِلّٰہ
حاجت سے مجبور مردانِ آزاد
کرتی ہے حاجت شیروں کو رُوباہ
محرم خودی سے جس دم ہُوا فقر
تُو بھی شہنشاہ، مَیں بھی شہنشاہ
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھُونڈی سُلطاں کی درگاہ
یہ مَدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارَو
اس عیشِ فراواں میں ہے ہر لحظہ غمِ نَو
وہ عِلم نہیں، زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جوَ
ناداں اَدب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے
اسبابِ ہُنر کے لیے لازم ہے تگ و دَو
فِطرت کے نوامیِس پہ غالب ہے ہُنر مند
شام اس کی ہے مانندِ سَحر صاحبِ پرتَو
وہ صاحبِ فن چاہے تو فَن کی بَرکت سے
ٹپکے بدنِ مہر سے شبنم کی طرح ضَو