text
stringlengths 0
57
|
---|
جمہُوریت
|
اس راز کو اک مردِ٭ فرنگی نے کِیا فاش
|
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
|
جمہُوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
|
بُندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
|
استاں دال
|
یورپ اور سُوریا
|
فرنگیوں کو عطا خاکِ سُوریا نے کِیا
|
نبّیِ عِفّت و غم خواری و کم آزاری
|
صِلہ فرنگ سے آیا ہے سُوریا کے لیے
|
مَے و قِمار و ہجومِ زنانِ بازاری
|
مسولینی
|
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جُرم
|
بے محل بِگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
|
مَیں پھٹکتا ہُوں تو چھَلنی کو بُرا لگتا ہے کیوں
|
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار تُو چھَلنی، مَیں چھاج
|
میرے سودائے مُلوکیّت کو ٹھُکراتے ہو تم
|
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زُجاج؟
|
یہ عجائب شعبدے کس کی مُلوکیّت کے ہیں
|
راجدھانی ہے، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج
|
آلِ سِیزر چوبِ نَے کی آبیاری میں رہے
|
اور تم دُنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج
|
تم نے لُوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
|
تم نے لُوٹی کِشتِ دہقاں، تم نے لُوٹے تخت و تاج
|
پردۀ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
|
کل رَوا رکھّی تھی تم نے، مَیں رَوا رکھتا ہوں آج
|
معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
|
بیچارہ کسی تاج کا تابِندہ نگیں ہے
|
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
|
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
|
جاں بھی گِرَوِ غیر، بدن بھی گِرَوِ غیر
|
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
|
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو
|
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے
|
اِنتداب
|
کہاں فرشتۀ تہذیب کی ضرورت ہے
|
نہیں زمانۀ حاضر کو اس میں دُشواری
|
جہاں قِمار نہیں، زن تُنک لباس نہیں
|
جہاں حرام بتاتے ہیں شغلِ مے خواری
|
بدن میں گرچہ ہے اک رُوحِ ناشکیب و عمیق
|
طریقۀ اَب و جد سے نہیں ہے بیزاری
|
جَسوُر و زیرک و پُردم ہے بچّۀ بدوی
|
نہیں ہے فیضِ مکاتب کا چشمۀ جاری
|
نظروَرانِ فرنگی کا ہے یہی فتویٰ
|
وہ سرزمیں مَدنیّت سے ہے ابھی عاری
|
لادِین سیاست
|
جو بات حق ہو، وہ مجھ سے چھُپی نہیں رہتی
|
خدا نے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر
|
مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لا دِیں
|
کنیزِ اہرمن و دُوں نہاد و مُردہ ضمیر
|
ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد
|
فرنگیوں کی سیاست ہے دیوِ بے زنجیر
|
متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی
|
تو ہیں ہراولِ لشکر کلِیسیا کے سفیر
|
دامِ تہذیب
|
اقبالؔ کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
|
ہر ملّتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
|
یہ پِیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
|
بجلی کے چراغوں سے منوّر کیے افکار
|
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
|
تدبیر سے کھُلتا نہیں یہ عُقدۀ دشوار
|
تُرکانِ ’جفا پیشہ‘ کے پنجے سے نکل کر
|
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
|
نصیحت
|
اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسَر سے
|
منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر
|
بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم
|
ََبَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۀ شیر
|
سِینے میں رہے رازِ ملُوکانہ تو بہتر
|
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
|
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
|
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر
|
تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
|
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر
|
ایک بحری قزاّق اور سکندر
|
سکندر
|
صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری
|
کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی
|
قزّاق
|
سکندر حیف، تُو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے
|
گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رُسوائی؟
|
ترا پیشہ ہے سفّاکی، مرا پیشہ ہے سفّاکی
|
کہ ہم قزاّق ہیں دونوں، تو مَیدانی، میں دریائی
|
جمعِیّتِ اقوام
|
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
|
ڈر ہے خَبرِ بد نہ مرے مُنہ سے نکل جائے
|
تقدیر تو مبُرم نظر آتی ہے ولیکن
|
پِیرانِ کلیسا کی دُعا یہ ہے کہ ٹل جائے
|
ممکن ہے کہ یہ داشتۀ پِیرکِ افرنگ
|
اِبلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
|
شام و فلسطین
|
رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
|
پُر ہے مٔے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا
|
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
|
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
|
مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور
|
قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا
|
Subsets and Splits
No community queries yet
The top public SQL queries from the community will appear here once available.